Pages

Friday, 1 May 2015

Al Risala | May 2015 (الرسالہ،مئی)

4

-امانت کیا ہے

5

- قرآن، سنت ، اجتہاد

9

- دعا ایک دریافت

10

- دعوتی سیاحت

11

- مدعو داعی کے دروازے پر

12

- انسان کی تخلیق

13

- ایک قابل تقلیدمثال

14

- ہر آدمی ایک کیس ہے

15

- ہدایت کا راز

16

- حُب ّعاجلہ

17

- علم اسماء

18

- امتحان کی حکمت

19

- انسان کی کمزوری

20

- تخلیق کا مقصد

21

- تنکیس کا عمل

22

- دولت پرستی

23

- مغربی تہذیب، مؤید تہذیب

26

- انسان کی بے اختیاری

28

- جنت کی خصوصیت

29

- خبر، معرفت

30

- لا محدود امکانات

31

- مغفرت کی اصل توبہ

32

- معرفت کی تکمیل

33

- موت کا پیغام

34

- منافقانہ کلام

35

- مسلمان خیر ِ امت

36

- مسلسل فکری ارتقا

37

- تقدیر اور تدبیر

39

- شکر اور ناشکری

40

- نیا دور

41

- شعورِ مقصدیت

42

- گھر کا ماحول

43

- ادب، بے ادبی

44

- توسیع، استحکام

45

- امیدکی دنیا

46

- زندگی کی تعمیر

47

- خبر نامہ اسلامی مرکز


امانت کیا ہے

قرآن میں انسان کی تخلیق کے بارے میں ایک بیان آیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنْسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا لِیُعَذِّبَ اللَّہُ الْمُنَافِقِینَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِکِینَ وَالْمُشْرِکَاتِ وَیَتُوبَ اللَّہُ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا (33:72-73) یعنی اللہ نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوںاور مشرک عورتوں کو سزا دے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول کرے۔ اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
امانت (trust) سے کیا مراد ہے۔ اس سے مراد اللہ کی ایک ذاتی صفت (attribute) ہے۔ یہ صفت تخلیق (creation) ہے۔ تخلیق کی صفت اللہ نے مخلوقات میں سے کسی اور مخلوق کو نہیں دی، صرف انسان کوتخلیق کی یہ صفت محدود طور پر دی گئی ہے۔انسان کو محدود طور پر تخلیق کی یہ صفت دی گئی ہے، لیکن اس کو قدرت کی صفت نہیں دی گئی۔
اسی صفتِ تخلیق کی بنا پر انسان ایسے کام کرتا ہے، جس کا کرنا کسی اور مخلوق کے بس میں نہیں۔ مثلا، پلان (منصوبہ) بنانا، حکومت قائم کرنا، فطرت کے مخفی راز کو دریافت کرنا، ٹکنالوجی کے ذریعے نئی نئی چیزیں تیار کرنا، وہ چیز وجود میں لانا جس کو تہذیب (civilization) کہا جاتا ہے،وغیرہ۔اس امانت کے ساتھ چوں کہ لازمی طور پرمواخذہ (accountability) کا تصور شامل تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر امانت کو درست طور پر استعمال کیا گیا تو ابدی جنت ہے، اور اگر اس کو درست طور پر استعمال نہ کیا جائے تو ابدی جہنم ۔ یہ ایک نازک معاملہ تھا، اس لیےبقیہ کائنات اس کو لینے کی ہمت نہ کر سکے،مگر انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایڈونچرسٹ (adventurist) تھا، اس لیے اس نے اس امانت کو قبول کر لیا۔
واپس اوپر جائیں

قرآن، سنت ، اجتہاد

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دور آخر کی ایک حدیث ہے۔ آپ نے اپنے معاصر اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے اپنی امت کو ایک آخری سبق دیا۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنة نبیہِ (مؤطا امام مالک: 1874) یعنی میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، تم ہر گز گمراہ نہ ہوگے جب تک تم اس کو پکڑے رہوگے، وہ ہیں اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول کی سنت۔
یہ حدیث دین میں قرآن و سنت کی اہمیت کو بتاتی ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت صرف قرآن و سنت کے لفظی مفہوم کو پکڑے رہے، اور وہ گمراہی سے بچ جائے گی۔فطرت کے قانون کے مطابق احوال و ظروف ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں، اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں قرآن و سنت کی عصری تطبیق (contemporary application)کو دریافت کیا جائے، اور قرآن و سنت کی اسپرٹ کے مطابق نئے حالات میںاپنی اسلامی زندگی کی تشکیل کی جائے۔
اس دینی تقاضے کو ایک حدیث میں اجتہاد کہا گیا ہے۔اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: إن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم لما أراد أن یبعث معاذا إلى الیمن قال: کیف تقضی إذا عرض لک قضاء؟، قال: أقضی بکتاب اللہ، قال: فإن لم تجد فی کتاب اللہ؟، قال: فبسنة رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، قال: فإن لم تجد فی سنة رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، ولا فی کتاب اللہ؟ قال: أجتہد رأیی، ولا آلو فضرب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم صدرہ، وقال: الحمد للہ الذی وفق رسول، رسول اللہ لما یُرْضِی رسولَ اللہ (ابو داؤد : 3592) یعنی رسول اللہ ﷺ نے جب ارادہ کیا کہ معاذ بن جبل کو(بحیثیت عامل ) یمن بھیجیںتو آپ نے ان سے فرمایا: تمہارے سامنے جب کوئی معاملہ آئے گا تو اس کا فیصلہ کس طرح کروگے؟ انھوں نے کہا کہ میں اللہ کی کتاب سے اس کا فیصلہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ کی کتاب میں اس کا حکم نہ پاؤ؟ انھوں نے کہا تو میں اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ کے رسول کی سنت میں اس کا حکم نہ پاؤ، اور نہ اللہ کی کتاب میں؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں اپنی رائے سے اجتہادکروں گا، اورمیں اس میں کمی نہیں کروں گا۔تو رسول اللہ نے ان کے سینےپر ہاتھ مارا، اور فرمایاکہ اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول کے فرستادہ کو اس چیز کی توفیق دی جس چیز سے اللہ کا رسول راضی ہے۔
امت کے تمام علماء نے ہر دور میں دین میں اجتہاد کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے، مگر عملاً پچھلے ادوار میں یہ ہوا کہ علماء نے اجتہاد کے اصول کو صرف جزئیاتی مسائل تک محدود رکھا ، کلیاتی مسائل میں وہ اجتہاد کے اصول کا انطباق نہ کر سکے۔
مثلا قرأت فاتحہ خلف الامام پر فقہی بحثیں، آمین بالسر اور آمین بالجہر پر فقہی بحثیں، رمضان میں تراویح کی رکعت پر فقہی بحثیں، وغیرہ۔ اس قسم کی تمام بحثیں، جزئیاتی بحثیں ہیں۔ مگر علماء نے ان جزئیاتی بحثوںکو اتنی زیادہ اہمیت دی، گویا کہ یہی اجتہاد کے اصل موضوعات ہیں۔
اسلام کے ظہور کے بعدعملا تقریبا ہزار سال تک وہی روایتی دور (traditional period)قائم تھا جس دور میں کہ اسلام آیا تھا۔ اس لیے اس ہزار سالہ دور میںعلما کے اس موقف سے مسلم سماج میں کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ لوگوں کی دینی زندگی بدستور چلتی رہی۔
لیکن انیسویں صدی عیسوی میں انسانی تاریخ میں ایک بڑا ظاہرہ پیدا ہوا، جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔یہ ظاہرہ اکیسویں صدی میں اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔جدید تہذیب نے ہر اعتبار سے زندگی کے نقشے کو بدل دیا ہے۔ اب ضرورت تھی کہ کلیاتی مسائل کی سبت سے اجتہاد کے اصول کو استعمال کیا جائے، اور نئے حالات میں اسلام کی تطبیقِ نو (reapplication)کو تلاش کیا جائے۔مگر علماء اس اجتہاد میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ دین کے جزئیاتی مسائل میں اجتہاد کے اصول کی تطبیق جانتے تھے، مگر دین کے کلیاتی مسائل میں اجتہاد کی تطبیق سے وہ کامل طور پر بے خبر تھے۔اجتہاد کے معاملے میں علماء کی اس ناکامی نے امتِ مسلمہ کو عملاً ایک ڈائریکشن لیس (directionless) امت بنادیا ہے۔
اس معاملے میں کوتاہی کی سب سے بڑی مثال وہ ہے جو جدید تہذیب کی نوعیت کو دریافت کرنے میں ہوئی۔انیسویں صدی اور بیسویں صدی کا زمانہ جدید تہذیب کے ظہور کا زمانہ ہے۔ جدید تہذیب کے بعد زندگی کے معاملات میںجو تبدیلیاں ہوئیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے جزئیاتی نہیں تھیں، بلکہ کلیاتی تھیں۔اس نوعیت کی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے علماء ذہنی اعتبار سے تیار نہ تھے۔ چنانچہ ساری دنیا کے علماء نے ردعمل (reaction) کے تحت منفی موقف اختیار کر لیا۔ تمام دنیا کے علماء نے متفقہ طور پر یہ اعلان کردیا کہ جدید تہذیب اسلام دشمن تہذیب ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارا موقف نفرت اور تشدد کا ہونا چاہئے، نہ کہ امن اور مصالحت (compromise)کا۔
امت کی تاریخ میں یہ بلاشبہ سب سے بڑی اجتہادی غلطی تھی۔اس غلطی کے نتائج امت کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہوئے۔ اس کی بنا پر یہ ہوا کہ جدید تہذیب کے مقابلے میں امت اپنا مثبت موقف (positive stand)دریافت نہ کر سکی۔وہ صرف رد عمل کی نفسیات کے تحت مغربی تہذیب اور مغربی اقوام کے خلاف منفی سرگرمیوں میں مبتلا رہی۔ اس منفی موقف کا نقصان جدید تہذیب کو تو نہیں پہنچا، البتہ امت جدید دور میں ایک پس ماندہ امت (backward community) بن کر رہ گئی۔
اب امت اپنے اس موقف کے آخری دور میں ہے۔ یہ دور مایوسی (frustration) کا دور ہے۔ چنانچہ مایوسانہ نفسیات کی بنا پر پوری امت یا تو شکایت اور احتجاج میں مبتلا ہے، یابے نتیجہ قسم کے گن کلچر اورخود کش بمباری (suicide bombing) میں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ جدید تہذیب اسلام کے لیے دشمن تہذیب نہیں تھی، بلکہ وہ ایک مؤید تہذیب (supporting civilization)تھی۔ اسلام میں کوئی نقصان کئے بغیر وہ اسلام کے لیے نئے وسیع تر مواقع کھول رہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید تہذیب کا ظہور اس پیغمبرانہ پیشن گوئی کی تصدیق تھی جو کہ صحیح البخاری اور دوسری کتابوں میں آئی ہے۔ اس روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اللہ اس دین کی تائید فاجر (secular)لوگوں کے ذریعہ بھی کرے گا (صحیح البخاری : 3062)۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں 6ہجری میں حدیبیہ کا معاہدہ پیش آیا۔ اس کے بعد یہ آیت اتری: إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا ؀ لِیَغْفِرَ لَکَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا ؀ وَیَنْصُرَکَ اللَّہُ نَصْرًا عَزِیزًا ؀ (48:1-3)یعنی بے شک ہم نے تم کو کھلی فتح دے دی، تاکہ اللہ تمہاری اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کردے، اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کردے، اور تم کو سیدھا راستہ دکھائے، اور تم کو زبردست مدد عطا کرے۔
قرآن کی اس آیت میں فتح مبین (clear victory)اور نصر عزیز (mighty help) وقتی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ ابدی معنی میں ہے۔ اسلام کے حق میں اللہ کی اس نصرت خاص کا ظہور فوری طور پر یہ ہوا کہ اس معاہدہ کے جلد ہی بعد مکہ فتح ہوگیا، اور پھر اسلام سارے عرب میں پھیل گیا۔ یہ گویا موعود فتح مبین کا پہلا مرحلہ (first phase) تھا۔
اس فتح کا دوسرا مرحلہ (second phase)ایک عمل (process) کی صورت میں تاریخ میں جاری ہوا۔ اس عمل نے تاریخ انسانی میں پہلی بار فتح کو مقامی معاملے کےبجائے ایک عالمی واقعہ بنادیا۔ اللہ کی یہی وہ نصرت خاص ہے، جو جدید تہذیب کی صورت میں اسلام کے حق میں ظاہر ہوئی۔ اس تہذیب کے لیڈر چونکہ سیکولر لوگ تھے، اس لیے علمائے اسلام اس کی حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔ حالانکہ حدیثِ رسول میں پیشگی طور پرامت کو اس سے باخبر کردیا گیا تھا۔
اس دور کے مسلم علما قرآن و سنت پر زور دیتے رہے، بطور خود انھوں نے سمجھا کہ وہ صراطِ مستقیم پر ہیں، حالانکہ اجتہاد کو عملاً حذف کرنے کی بنا پروہ صراطِ مستقیم سے ہٹ چکے تھے۔ اس معاملے کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ زمانے کے علماء ایک غلط آبسیشن (obsession) کا شکار ہو گئے۔ وہ ایک نئے قسم کی ڈائکاٹمس تھنکنگ (dichotomous thinking)کے ٹریپ (trap) میں مبتلا ہوگئے۔وہ تیسرے آپشن (third option)کو استعمال کرنے سے قاصر رہے۔ یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تمام مسائل کا اصل سبب ہے۔ ان مسائل کا حل تیسرے آپشن کو استعمال کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعا ایک دریافت

دنیا کی زندگی میں ایک انسان کو جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ بظاہر اس کی اپنی کوششوں سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر یہ صرف اس کا ظاہری پہلو ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ہر ملی ہوئی چیز خدا کا یک طرفہ عطیہ ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے تاکہ خدا کا ایک بندہ شعوری طور پر اس حقیقت کو دریافت کرے اور پھر دل کی گہرائیوں کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ — خدایا، تونے دنیا کی نعمتوں کو مجھے یک طرفہ عنایت کے طور پر دے دیا، اسی طرح تو آخرت کی نعمتوں کو بھی مجھے یک طرفہ عنایت کے طور پر دے دے۔ اس معاملہ میں مَیں نے تیرے ساتھ یہی گمان کیا ہے، اور میں امید رکھتا ہوں کہ تو میرے اس گمان کو آخرت میں پورا فرمائے گا، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں آیا ہے: أنا عند ظن عبدی بی، فلیظن بی ما شاء (مسند احمد: 16016)۔
انسان کو اس کے خالق نے احسنِ تقویم (95:4) اور صورتِ احسن (40:64)کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یہ واقعہ انسان کے لیے ایک دعا کا پوائنٹ آف ریفرنس ہے۔ وہ اگر اپنی اس تخلیقی نوعیت کو دریافت کرے تو وہ پکار اٹھےگا کہ خدایا، تو نے مجھے اپنی بہترین آرٹ(finest art) کے طور پر پیدا کیا، کو ئی آرٹسٹ اپنے بہترین آرٹ کو آگ میں نہیں ڈال سکتا، کیا تو اس کو گوارا کرے گا کہ تیرا پیدا کیا ہوابہترین آرٹ آگ میں ڈال دیا جائے۔
اگر آدمی اپنی تخلیق کو دریافت کرے، اور اپنی تخلیق کے حوالے سے وہ خالق کو یاد کرے تو اس کی زبان سے دعا کے ایسے الفاظ نکلنے لگیں گے، جو خالق کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والے ہوں۔یہی وہ دعا ہے جس کو حدیث میں اسم اعظم کے ساتھ دعا کرنا بتایا گیا ہے- اور جو دعا اسم اعظم کے ساتھ کی جائے، اس کے متعلق رسولِ خدا نے یہ خبر دی ہے کہ وہ ضرور مقبول ہوتی ہے (ابن ماجہ: 1494-1495)۔ اسم اعظم کے ساتھ دعا، دراصل کیفیت اعظم کے ساتھ دعا کا نام ہے، اور جو دعا کیفیت اعظم کے ساتھ کی جائے اس کی قبولیت میں کوئی شبہہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی سیاحت

مومن کی ایک صفت قرآن میں سیاحت (9:112) بتائی گئی ہے۔ قرآن کے مطابق سیاحت کی یہ صفت مومن مردوں میں بھی ہوتی ہے، اور مومن عورتوں میں بھی (66:5)۔ سیاحت کا لغوی مطلب ہے چلنا پھرنا (to travel)۔ سیاحت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔تاجر تجارتی مقصد کے لیے سفر کرتا ہے، سیاح گھومنے پھرنے کے لیے سفر کرتا ہے، طالب علم حصولِ علم کے لیے سفرکرتا ہے، وغیرہ۔
مومن کا سفر، دعوت کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی سفر کرکے مدعو کے پاس جانا، اور اس کو اللہ کا پیغام پہنچانا۔ مومن کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اس نے جس سچائی کو جانا ہے، اس سچائی سےوہ دوسرے انسانوںکو باخبر کرے۔ اسی عمل کا نام دعوت الی اللہ ہے۔ یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ ایک شخص جس دین کو نجات کی حیثیت سے اختیار کرے ، اس کو وہ دوسرے انسانوں تک پہنچانے کا حریص ہو۔ وہ چاہے کہ جس صراطِ مستقیم کو اس نے دریافت کیا ہے، اس میں وہ دوسرے انسانوں کو شریک کرے۔ ایمان کا یہی وہ تقاضا ہے جس کو دعوت کہا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک مومن جو سفرکرے، وہ دعوتی سیاحت ہے۔
الرسالہ مشن ایک دعوتی مشن ہے۔ الرسالہ مشن سے وابستہ مردوں اور عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری ذمے داریوں کی طرح دعوتی سیاحت کو اپنی زندگی میں شامل کریں۔ ہرریاست کے لوگ مختلف شہروں اور قصبوں میں جائیں، وہاں لوگوں سے ملیں، وہ ان کو بتائیں کہ دعوت کے کام کو کس طرح منظم انداز میں کرنا چاہئے۔ وہ ہر جگہ ہفتہ وار اجتماع یا ماہانہ اجتماع کا نظام بنائیں۔ وہ ہرجگہ لائبریری قائم کرنے کی کوشش کریں۔ وہ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ دعوتی لٹریچر کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں۔ وہ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ قرآن مشن میں زیادہ سے زیادہ اپنا تعاون پیش کریں۔دعوتی سفر کو نہایت سادہ ہونا چاہئے، سیاسی باتوں اور کمیونل باتوں سے اس کو مکمل طور پر خالی ہونا چاہئے۔
واپس اوپر جائیں

مدعو داعی کے دروازے پر

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے عرب ممالک کا سفر کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ عرب ملکوں میں مجھے ایک انوکھا ظاہرہ دکھائی دیا۔ اور وہ ہے سیاحوں کی کثرت سے آمد۔عرب ملکوں میں کثرت سے تاریخی عمارتیں ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر شہروں میں شاندار مسجدیں بنائی گئی ہیں۔ ان عمارتوں کو دیکھنے کے لیے روزانہ بڑی تعداد میں بیرونی سیاح (tourists) وہاں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ عرب ملکوں کے انتظامی اور اقتصادی دفاترمیں زیادہ تربیرونی لوگ کام کرتے ہیں۔ اس طرح عرب ممالک میںبیرونی ملکوں کے لوگ کثرت سے آباد ہیں۔ یہ لوگ روزانہ ہوائی جہازوں سے آتے ہیں۔کوئی بھی شخص ان کو ہر جگہ دیکھ سکتا ہے۔
یہ رپورٹ سن کر میں نے کہا کہ دعوت الی اللہ کے ذہن سے دیکھیے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مدعو خود داعی کے دروازے پر پہنچ رہا ہے۔ اور خاموش زبان میں یہ کہہ رہا ہے کہ تمھارے پاس اللہ کی جو کتاب ہے، اس کو ہمیں پڑھنے کے لیے دو۔
لیکن عرب ممالک کے لوگوں میں دعوت کا ذہن موجود نہیں۔ اس بنا پر ان کے اندر یہ شوق نہیں کہ ان غیر مسلم لوگوں کوان کی قابلِ فہم زبان میں قرآن کےترجمے دیں، وہ ان کو اسلام کا پرامن پیغام پہنچائیں، وہ ان کے اوپر اپنی اس ذمہ داری کو ادا کریں جو امتِ مسلمہ کی حیثیت سے اللہ نے ان کے اوپر عائد کی ہے، یعنی شہادت علی الناس (2:143)۔ یعنی اللہ کے پیغام کو لوگوں تک مؤثر انداز میں پہنچانا۔ اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) سے لوگوں کو آگاہ کرنا۔ لوگوں کو بتانا کہ آخرت میں وہ اللہ کے سامنے حاضر کیے جائیں گے، اور وہاں ان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
رسول اللہ کا مشن، دعوت کا مشن تھا۔ قرآن ایک دعوتی کتاب ہے۔ امت مسلمہ ایک داعی امت ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں دعوت الی اللہ کا شعور موجود نہیں۔ آج کرنے کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر دعوت کا شعور زندہ کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق

مغل دور کے شاعر ذوق دہلوی نے کہا تھا:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
یہ ایک شاعرانہ تخیل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ نے کائنات پیدا کی۔ اس کا ایک حصہ مادی دنیا (physical world)تھا۔ مادی دنیا خالق کے مقابلے میں کامل سرینڈر (total surrender) کا کیس تھی۔اس کے بعد کائنات میں فرشتے تھے۔جو گویا معرفت (realization) کا کیس تھے۔مگر اس کے باوجود کائنات میں ایک خانہ خالی تھا۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے انسان کو بنایا گیا۔
انسان ایک انوکھی مخلوق ہے، جو خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) پر کھڑا ہوتا ہے۔اس مقصد کے لیے انسان کو اعلیٰ درجے کا دماغ دیا گیا۔ اس کو کامل آزادی دی گئی۔ اس کو یہ موقع دیا گیا کہ کامل آزادی کے ماحول میں وہ اپنی عقل کو استعمال کرے۔ وہ خود اپنے فکری عمل کے ذریعے خالق کو دریافت کرے۔ وہ کسی جبر (compulsion) کے بغیرخود اپنے شعور کے تحت یہ گواہی دے کہ خدایا میں نے تجھ کو دریافت کیا۔ کامل اختیار رکھتے ہوئے، میں تیرا اعتراف کرتا ہوں۔ تجھ کو قادرِ مطلق مانتے ہوئے، یہ اعتراف کرتا ہوں کہ تیرے مقابلے میں، مَیں عاجزِ مطلق ہوں۔میرا وجود اور جوکچھ میرے پاس ہے، وہ سب تیرا عطیہ ہے، وہ میری اپنی تخلیق نہیں۔
انسان کی یہی امتیازی صفت ہے۔ وہ خود دریافت کردہ حقیقت کا کیس ہے۔یہ انوکھا واقعہ اس وقت ممکن ہوتا ہے، جب کہ انسان اپنے عقلی امکان کو درست طور پر استعمال کرے۔ وہ ہر قسم کے بھٹکاؤ (distraction) سے اپنے آپ کو بچائے۔وہ انا (ego)رکھتے ہوئے، اپنے آپ کو بے انا (egoless) بنا لے۔ وہ منفی آئٹم کے جنگل میں، اپنے آپ کو مثبت سوچ (positive thinking) پر قائم رکھے۔ یہی وہ انسان ہے جس کے لیے جنت کی معیاری دنیا بنائی گئی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک قابل تقلیدمثال

مولانا حافظ سید عبدالکبیر عمری، جامعہ دارالسلام، عمرآباد (تامل ناڈو) میں شیخ التفسیر تھے۔ 90 سال سے زیادہ عمر پانے کے بعد انھوں نے 3 مارچ 2015کو وفات پائی۔ ان کی صحت آخر وقت تک اچھی رہی۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ کی اچھی صحت کا راز کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا: سادہ کھانا، سادہ زندگی۔ یہ تندرستی کا ایک فطری اصول ہے۔ جو شخص اس پر عمل کرے، وہ یقینا اپنی پوری زندگی میں صحت مند رہے گا۔
ایک مرتبہ مدرسے کی انتظامیہ اور طلبہ کے درمیان کسی وجہ سے نزاع ہوگیا۔ مولانا کو جب معلوم ہوا تو انھوں نے انتظامیہ سے کہا کہ طلبہ کو فریق مت بناؤ ، رفیق بناؤ۔ معاملہ حل ہو جائے گا۔ انتظامیہ نے اس مشورے پر عمل کیا،اورمسئلہ آسانی کے ساتھ حل ہوگیا۔ یہ فارمولا بلاشبہ ایک درست فارمولا ہے۔ وہ نہ صرف مدرسے کے معاملات کے لیے مفید ہے، بلکہ وہ تمام اختلافی معاملات کے لیے یکساں طور پرمفید ہے۔ خواہ وہ معاملہ خاندانی زندگی کا ہو یا سماجی زندگی کا۔
ایک مرتبہ وہ کلاس میں تفسیر کی کتاب بیضاوی کا درس دینے کے لیے آئے۔ وہ دیر تک خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے۔ طلبہ نے پریشان ہوکر سوال کیا کہ مولانا طبیعت تو ناساز نہیں ہے۔ مولانا نے آبدیدہ ہوکر جواب دیا کہ آج میں مطالعہ کے بغیر آیا ہوں۔ طلبہ نے سوال کیا کہ مولانا آپ تو 50 سال سے زیادہ عرصے سے بیضاوی کا درس دے رہے ہیں، پھر بھی کیا آپ کو مطالعے کی ضرورت ہے۔ مولانا نے جواب دیا کہ ہر دن مطالعہ کرنے کی وجہ سےمَیں آپ لوگوں کو کچھ نئی بات دے پاتا ہوں، آج آپ کو دینے کے لیے میرے پاس کوئی نئی بات نہیں۔ کل خدا کے یہاں اس بات پر میری پکڑ ہوگی تو میں کیا جواب دوں گا۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگے۔ یہی اچھے استاد کا معیار ہے۔ جس استاد کے اندر یہ اسپرٹ موجود ہو، وہ بلاشبہ اچھا استاد ہے۔ جس ادارے کو ایسے استاد حاصل ہوں، وہ ایک خوش قسمت ادارہ ہے۔ ایسے ادارے میں تعلیم پاکر جو نوجوان نکلیں، وہ یقینا اپنی زندگی میں کامیاب رہیں گے۔
واپس اوپر جائیں

ہر آدمی ایک کیس ہے

اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ جب کسی سےاپنی پسند کی بات سنتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہوجاتے ہیں، اور اگر وہ اس سے اپنی پسند کے خلاف کوئی بات سنتے ہیں تو وہ اس کے بارے میں بُری رائے قائم کرلیتے ہیں۔ یہ طریقہ آدابِ ملاقات کے خلاف ہے۔ملاقات کا مقصد ایک انسانی مطالعہ ہے، نہ کہ لوگوں کے بارے میں اچھی رائے یا بُری رائے قائم کرنا۔
ہر انسان ایک کامل انسان ہے۔ وہ اپنی ذات میں پوری نوعِ انسانی کا نمائندہ ہے۔ ہر عورت اور مرد کا رد عمل گویا پوری انسانیت کا رد عمل ہے۔ ہر انسان کا مطالعہ گویا پوری انسانیت کا مطالعہ ہے۔ ایک انسان کو جان لینا گویا پوری نوعِ انسانی کو جان لینا ہے۔
اس اعتبار سے ہر انسان گویاانسانیت کی ایک لائبریری ہے۔ اگر آپ کے اندر غیر جانبدارانہ سوچ ہے، اگر آپ تعصب سے خالی ہو کر انسان کا مطالعہ کرسکتے ہیں تو ہر انسان آپ کے لیے پوری انسانیت کے مطالعے کا ذریعہ بن جائے گا۔ آپ ایک انسان کو دریافت کر کے تمام انسانوں کو دریافت کر لیں گے، حتی کہ آپ کا محدود خاندان وسیع تر معنوں میں انسانیت کی لائبریری بن جائے گا۔
ہر انسان کبھی خوش ہوتا ہے، کبھی غمگین ہوتا ہے، کبھی وہ مثبت ردعمل کا اظہار کرتا ہے اور کبھی منفی ردعمل کا اظہار۔ اسی طرح وعدہ پورا کرنا اور وعدہ پورا نہ کرنا، شکایت کو درگزر کرنا اور درگزر نہ کرنا، دیانت داری کے ساتھ معاملہ کرنااور بددیانیتی کے ساتھ معاملہ کرنا،صدق بیانی کرنا اور کذب بیانی کرنا، مدلل اختلاف کرنا اور الزام تراشی کرنا،قابلِ پیشن گوئی کردار کا حامل ہونا اور ناقابلِ پیشن گوئی کردار کا نمونہ بن جا نا، وغیرہ۔ اس طرح کا ہر معاملہ بظاہر ایک انسان کی طرف سے پیش آتا ہے، لیکن وسیع تر معنوں میں وہ تمام انسانوں کے سلوک کو بتاتا ہے۔اگرآپ کے اندر گہرا مطالعہ کرنے کی صلاحیت ہو تو آپ ایک فرد میں تمام افراد کو دیکھ لیں گے، آپ ایک خاندان کے اندر پوری انسانیت کے معاملےکو دریافت کرلیں گے۔ بشرطیکہ آپ کے اندر بصیرت (wisdom)کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔
واپس اوپر جائیں

ہدایت کا راز

دنیا میں کوئی شخص صحیح راستے پر چلتا ہے، اور کوئی شخص صحیح راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ اس فرق کا راز کیا ہے۔یہ حقیقت قرآن کی ایک آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے- وہ آیت یہ ہے: وَلَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ ۭوَلَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَّہُمْ مُّعْرِضُوْنَ ( 8:23) یعنی اگر ان میں کسی بھلائی کا علم اللہ کو ہوتا تو وہ ضرور انھیں سننے کی توفیق دیتا اور اگر اب وہ انھیں سنوادے تو وہ ضرور روگردانی کریں گے بےرخی کرتے ہوئے۔اس سے معلوم ہوا کہ ہدایت کا پانا اللہ کی مدد سے ہوتا ہے۔ اللہ جس انسان کے اندر خیر دیکھتا ہے، وہ اس کو ہدایت کی توفیق دیتا ہے۔ یعنی اس کی زندگی کو اس طرح مینیج (manage) کرتا ہے کہ وہ صحیح راستے کو پالے، اورفکر و عمل کے اعتبار سے وہ اس راستے پرقائم ہوجائے۔
خیر (virtue) سے کیا مراد ہے، اس کا جواب ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: من تواضع للہ درجة رفعہ اللہ درجة، حتى یجعلہ فی علیین، ومن تکبر على اللہ درجة، وضعہ اللہ درجة، حتى یجعلہ فی أسفل السافلین (مسند احمد: 11724) یعنی جو شخص اللہ کے لیے ایک درجہ تواضع کرتا ہے، اللہ اس کو ایک درجہ بلند کر دیتا ہے، یہاں تک کہ اس کو علیین میں شامل کر دیتا ہے، اور جو شخص اللہ پر ایک درجہ تکبر کرتا ہے، اللہ اس کو ایک درجہ پست کر دیتا ہے، یہاں تک کہ اس کو اسفل السافلین میں پہنچادیتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی ہدایت اس کو ملتی ہے جس کے اندرتواضع (modesty) کی صفت موجود ہو۔ اور وہ شخص اللہ کی ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے، جس کے اندر کبر (arrogance) کا مزاج پایا جائے۔یہی ہدایت اور گمراہی کا خلاصہ ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی خود اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے۔ اللہ اپنے علمِ کامل کے ذریعے اس حقیقت کو جان لیتا ہے۔ پھر وہ تواضع کی صفت والے انسان کو مینیج کرتے ہوئے ہدایت کی منزل تک پہنچادیتا ہے، اور جس شخص کے اندر کِبر موجود ہو، اللہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ بھٹک کر منزل سے دور ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حُب ّعاجلہ

قرآن میں انسان کے ایک مزاج کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ ہَؤُلَاءِ یُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ (76:27) یعنی یہ لوگ جلدی ملنے والی چیز کو چاہتے ہیں:
Those people aspire for immediate gains.
حب عاجلہ کا مزاج پہلے بھی انسان کے اندر تھا، مگر اب وہ اتنا زیادہ عام ہوچکا ہے کہ شاید اس میںکوئی استثنا باقی نہیں رہا۔ اعلان یا اعلان کے بغیر ہر ایک کا نشانہ یہ ہے کہ ابھی اور اسی وقت (right here, right now) ۔ اس نظریہ کے ماننے والوں کا کہنا یہ ہے کہ اگر اب نہیں تو کب:
If not now, when?
جولوگ ایسا کہتے ہیں، وہ یقینا سوچے بغیر ایسا کہہ رہے ہیں۔ کیوں کہ حقیقت کے اعتبار سے اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آج حاصل کر لو، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج بھی کیوں ہمارا مطلوب حاصل نہیں ہوتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر پیدا ہونے والے انسان نے یہ چاہا کہ وہ اس دنیا میں اپنی خواہش (desire) کو پورا کرے، مگر عملا صرف یہ ہوا کہ ہر آدمی اپنی خواہش کوپورا کئے بغیر اس دنیا سے چلا گیا۔
پوری تاریخ میںکوئی بھی انسان ایسا نہیں جو اس معاملے میں استثناء (exception) کی حیثیت رکھتا ہو۔ ایسی حالت میں اصل سوال یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں، اس کو آج ہم حاصل کر لیں، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں، وہ آج کی زندگی میں کیوں حاصل نہیں ہوتا۔اس سوال پر غور کیا جائے تو آدمی اس نتیجے تک پہنچے گا کہ خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan ) کے مطابق ہمارا مطلوب آج کی دنیا میں حاصل ہونے والا نہیں۔
انسان تمام مخلوقات میں استثنائی طور پر کل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ یہ فطرت کی زبان میں انسان کے سوال کا جواب ہے۔ فطرت کا یہ تقاضا بتاتا ہے کہ انسان کا مطلوب کَل کے دورِ حیات میں ملنے والا ہے، آج کے دورِ حیات میں اس کا ملنا فطرت کے قانون کے مطابق مقدر ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

علم اسماء

قرآن کی سورہ البقرۃ میں تخلیقِ انسانی کا ذکر کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّہَا (2:32)یعنی اللہ نے آدم کو تمام اسماء سکھادیے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں علم اسماء سے مراد علم معرفت ہے۔اللہ کے تعلیم کردہ اسماء کو معلوم واقعہ بناناانسان کا اصل امتیاز ہے، اور اسی کا دوسرا نام معرفت ہے۔
انسان کی تخلیق کا ایک خصوصی پہلو یہ ہے کہ انسان کو فطری طور پرلامحدود پوٹنشل (potential) کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے اس پوٹنشل کو ایکچول (actual) بنائے۔یہ صفت نہ ستاروں اور سیاروں میں ہے، اور نہ درختوں اور حیوانات میں۔ یہ انسان کی ایک نادر خصوصیت ہے، جو ساری کائنات میں صرف انسان کو حاصل ہے۔یہ صرف انسان ہے جو اپنے آپ کو سیلف میڈ مین (self-made man) بناتاہے۔
اپنے فطری امکانات کو واقعہ بنانے کے بعد کسی انسان کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، اسی کو قرآن میں مزکیٰ شخصیت (91:9)کہا گیا ہے۔شخصیت کی تعمیر کبھی معتدل حالات میں نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے ساتھ مختلف قسم کے ناخوشگوار حالات پیش آئیں۔ اسی بنا پر انسان کو ضعیف پیدا کیا گیا ہے (4:28)۔ ضعیف ہونے کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ یہ مشکل حالات انسان کے لیے تجربہ (experience) بن جاتے ہیں۔ اگر انسان قوی (strong) ہوتا تو وہ پتھر کی مانند ہوتا۔اس کے ساتھ ناخوش گوار حالات پیش آتے، لیکن وہ اس کے لیے تجربہ نہ بنتے، جیسا کہ لوہے اور پتھر کے ساتھ ہوتا ہے۔
اپنے پوٹنشل کو ایکچول بنانے میں تجربات کا نہایت بنیادی رول ہے۔ کوئی بھی دوسری چیز انسان کے لیے تجربہ کا بدل نہیں بن سکتی۔ اس تجربے ساتھ جب تدبر شامل ہوجائےتو اسی کا نتیجہ معرفت ہوتا ہے۔ یہی وہ کورس ہے جس سے گزر کر وہ شخصیت بنتی ہے، جس کو عارف کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عارف انسان ہی انسان ہے- جو انسان عارف نہیں، وہ انسان بھی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

امتحان کی حکمت

قرآن کی سورہ البقرۃ میں انسانی تخلیق کی حکمت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ، الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ، أُولَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُون( 2:155-157) یعنی ہم تم کو ضرور آزمائیں گے کچھ ڈر سے اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اورثمرات کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی عنایتیں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں۔قرآن کی اس آیت میں دراصل انسان کے بارے میں اللہ کے منصوبہ کو بتایا گیا ہے۔اس منصوبہ کے تحت انسان کو یہاں مکمل آزادی دی گئی ہے۔اس بنا پر انسان کبھی اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ اس طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان خود اپنے غلط استعمالِ آزادی کی بنا پر اس کا انجام بھگتتا ہے، اور کبھی دوسروں کے غلط استعمالِ آزادی کی بنا پر۔دنیا میں جتنی ناموافق باتیں پائی جاتی ہیں، وہ سب اسی انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ موجودہ دنیا میں تمام مصیبتوں (sufferings) کی نوعیت یہی ہے۔
صبر کرنے والا وہ ہے جواس طرح کی صورتِ حال میں درست رسپانس (right response) دے۔صبر یہی درست رسپانس ہے۔ اس معاملے میں صبر کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ پیش آئے، اس کو آدمی منفی طور پر نہ لے بلکہ اس کو مثبت رسپانس (positive response ) میں کنورٹ کرے۔ غیر صابر آدمی پیش آمدہ واقعات کو انسان کی طرف منسوب کر کےمنفی رد عمل میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، صابر آدمی اس قسم کے واقعات کو منصوبۂ الٰہی کا نتیجہ سمجھے گا، اور ہر واقعے میں ربانی غذا دریافت کرتا رہے گا۔ صبر کی روش اختیار کرنے والے ہدایت یاب ہیں، اور بے صبری کی روش اختیار کرنے والے غیر ہدایت یاب۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی کمزوری

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ابلیس تخلیق کی ابتدا ہی میں انسان کے خلاف ہوگیا۔ اس نے چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ: میں تھوڑے لوگوں کے سوا اس کی پوری نسل کو گمراہ کر دوںگا (17:62)۔ قرآن کی دوسری آیت کے مطابق ابلیس نے اللہ سے کہا : وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِینَ (7:17) یعنی تو بیش تر انسانوں کو شکر کرنے والا نہ پائے گا۔
ابلیس کو اتنے حتمی انداز میں اس قسم کا اعلان کرنے کی ہمت کیسے ہوئی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سبب یہ واقعہ تھا کہ آدم کو پیدائش کے بعد جنت میں رکھا گیا۔ آدم سے کہا گیا کہ پوری جنت تمہارے لیے ہے مگر تم ایک درخت سے دور رہنا،تم اس کا پھل نہ کھانا۔ مگر آدم اپنے آپ کو روک نہ سکے، اور جا کر اس ممنوعہ درخت (forbidden tree)کا پھل کھا لیا۔
یہ تجربہ بتارہا تھا کہ انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے کل (whole)کو چاہے گا، وہ جزء (part) پر قانع نہ ہوگا۔ اس تجربے کی بنا پر ابلیس نے یہ منصوبہ بنایا کہ وہ انسان کے اس مزاج کو استعمال (exploit) کرے گا۔وہ لوگوں کو جزء پر قانع نہ ہونے دے گا، وہ انسان کو اکسائے گا کہ وہ کُل سے کم ملنے پر راضی نہ ہو۔ اس طرح وہ پوری نسل انسانی کو گمراہی میں ڈال دے گا۔تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان اور غیر مسلمان دونوں اسی فریب کا شکار ہو گئے، سب کے سب حقیقی شکر سے محروم ہو کر رہ گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کا نظام آزمائش (test)کے اصول پر قائم ہے۔ اس بنا پر یہاں ہر فرد اور ہر قوم کو سب کچھ نہیں ملتا، بلکہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ ملتا ہے اور کچھ نہیں ملتا۔ یہ معاملہ فرد کے ساتھ بھی ہے، اور قوم کے ساتھ بھی۔ لیکن فرد اور قوم دونوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ملے ہوئے پر راضی نہیں ہوتے، بلکہ نہ ملے ہوئے کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، انفرادی دائرے میں بھی اور اجتماعی دائرے میں بھی۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ فرد اور قوم دونوں ناشکری میں جیتے ہیں، وہ شکر کرنے والے نہیں بنتے— یہی پوری انسانی تاریخ کا خلاصہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

تخلیق کا مقصد

انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے- اس کو قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بتایا گیاہے:وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ (51:56)۔ قرآن کی اس آیت میں لیعبدون کی تفسیر لیعرفون (تفسیر القرطبی) سے کی گئی ہے۔ اس کےمطابق آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن اور انس کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) کی بنیاد پروہ اللہ کے عابد بنیں۔ کائنات کی بقیہ مخلوقات تسخیر کے تحت اللہ کی عابد بنی ہوئی ہیں۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے اپنے خالق کو دریافت کرے، اور پھر اس کا عابد بن جائے۔
اللہ کا عابد بننا کیا ہے- اللہ کا عابد بننا یہ ہے کہ انسان اپنے خالق کو اس کی صفات کمال کے ساتھ اس طرح دریافت کرے کہ خالق ہی اس کا واحد کنسرن (sole concern) بن جائے۔ اللہ کو واحد کنسرن بنانا کو ئی قانون کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ تمام تر معرفت (realization) کا معاملہ ہے۔ ایک انسان جب تدبر اور تفکر کے ذریعہ اپنے رب کو دریافت کرتا ہے تو اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر ایسا ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین اس کا معبود بن جاتا ہے، اللہ کی دریافت اس کے لیے ایک ماسٹر اسٹروک (masterstroke)بن جاتی ہے، جو اس کی پوری زندگی کو اس طرح ہلادے کہ اس کے فکر و عمل کا کوئی پہلو اس سے محفوظ نہ رہے۔
عابد ِ عارف کی تائید کے لیے خالق نے یہ انتظام کیا ہے کہ معرفت کا ڈیٹا (data) آیاتِ فطرت (signs of nature)کی صورت میں ساری کائنات میں پھیلا دیا ہے۔ انسان سے مطلوب ہے کہ وہ اپنی خداداد عقل کو استعمال کر کےاپنی شخصیت کی تعمیر کرے۔جو آدمی اس طریقہ پر عمل کرے گا، وہ اللہ کی توفیق سے ضرور کامیابی کے مرحلے تک پہنچ جائے گا۔معرفت کے اس سفر میں کامیابی کی یہ لازمی شرط ہے کہ آدمی پوری طرح سنجیدہ (sincere) ہو۔جو آدمی اس شرط کو پورا کرے، وہ ضرور اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

تنکیس کا عمل

قرآن میں زندگی کی ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَمَنْ نُعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ أَفَلَا یَعْقِلُونَ (36:68)یعنی اور ہم جس کو زیادہ عمر دیتے ہیں ، اس کو اس کی خلقت میں پیچھے لوٹا دیتے ہیں ، تو کیا وہ سمجھتے نہیں ۔تنکیس کا لفظی مطلب ہے پیچھے لوٹانا (to invert)۔
عضویاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کو پیدائشی طور پر جو جسم دیا گیا ہے، وہ ایک انوکھے قسم کا جسم ہے۔ انسانی جسم کے اندر 78 آرگن (organs)ہوتے ہیں۔یہ آرگن مسلسل طور پر بے حد کوآرڈینیشن (coordination)کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔ یہ عمل جسم کے اندر خودکار نظام (automatic system) کے تحت ہوتا ہے۔اسی فطری نظام کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی کاجسم مسلسل طور پر کام کرتا رہے۔
مگر ہر آدمی پیدا ہونے کے بعد بچپن اور جوانی کے مراحل سے گزرتے ہوئے آخرکار بڑھاپے کی عمر تک پہنچتا ہے۔بڑھاپے کی عمر میں یہ آرگن رفتہ رفتہ انسان کا ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں، کوئی جزئی طور پر، کوئی کلی طور پر۔یہی وہ واپسی کا عمل ہے جو انسان کو بوڑھا اور آخرکار ناکارہ بنادیتا ہے۔
اس عمل کو قرآن میں تنکیس کہا گیا ہے۔ یعنی دیے ہوئے اعضا کو واپس لینا۔واپسی کا یہ عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ ایک طاقت ور خالق ہے، وہ پہلےیہ اعضا انسان کو دیتا ہے، اور پھر اپنی مرضی کے مطابق ان کو واپس لے لیتا ہے۔یہ ایک حتمی عمل ہے، جس کو کوئی روکنے والا نہیں۔
انسانی جسم کے اندرہونے والایہ واقعہ اپنے اندر ایک عظیم سبق رکھتا ہے۔آدمی اگر اس عمل پر غور کرے تو وہ بیک وقت دو حقیقتوں کو دریافت کرے گا۔ایک طرف یہ حقیقت کہ یہاں ایک قادرِ مطلق (All Powerful) خدا ہے، اور دوسری طرف یہ حقیقت کہ وہ خود ایک عاجز مطلق (all powerless) مخلوق ہے۔ دینے والا دے تو اس کو ملے گا، اگر دینے والا نہ دےتو اس کو کچھ ملنے والا نہیں۔ یہی وہ دریافت ہے جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔یہ دریافت انسان کو انسان بناتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

دولت پرستی

کلچر کے اعتبار سے دنیا میں بہت سے مذہب پائے جاتے ہیں۔ لیکن نظریاتی حقیقت کے اعتبار سے آج کی دنیا کا مذہب صرف ایک ہے، اور وہ دولت پرستی (money worship)ہے۔ آج تقریبا ہر انسان کا مقصد حیات یہ بن گیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرے۔ آج ہر عورت اور مرد کا واحد کنسرن (sole concern) دولت کا حصول ہے۔اس معاملے میں بظاہر مذہبی انسان اور غیرمذہبی انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
موجودہ زمانے میںسائنسی تحقیقات کے بعد دنیا میں ترقی (development) کا ایک نیا دور آیا ۔مادی ضرورت کی بے شمار نئی چیزیںایجاد ہوئیں۔ اس بعد اس کا کمرشلائزیشن ہوا۔بے شمار نئے نئے آئٹم بازار میں فروخت ہونے لگے۔یہ دیکھ کر ہر آدمی یہ محسوس کرنے لگا کہ اگر میرے پاس پیسہ ہو تو میںہر چیز کو خرید سکتا ہوں، خواہ وہ سوئی اور پنسل ہو یا کار اور ہوائی جہاز۔موجودہ زمانے میں ٹی وی اور اشتہارات نے اس کلچر میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔
یہی کمرشل کلچر ہے، جس کے نتیجے میں ساری دنیا میں منی کلچر (money culture) آگیا۔ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا حریص بن گیا۔ یوپی کا ایک کامیاب وکیل دہلی آیا، وہ دہلی کی ایک پوش کالونی میں ایک گھر لینا چاہتا تھا۔ کسی نے اس سے کہا کہ تم اتنی زیادہ مہنگی کالونی میں کیوں گھر لینا چاہتے ہو۔ اس نے جواب دیا:
I don't want my Mercedes to be parked next to a Santro car.
یعنی میں نہیں چاہتا کہ میری قیمتی کار کسی سستی کار کے پاس کھڑی ہو۔ مذکورہ آدمی کا یہ جملہ آج کے انسان کے مزاج کو بتاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ مزاج ہر عورت اور مرد کے اندر پایا جاتا ہے- کسی کے اندر کم اور کسی کے اندر زیادہ، کوئی اپنی زبان سے اس کا اظہار کردیتا ہے اور کوئی اپنی زبان سے اس کا اظہار نہیں کرتا۔
واپس اوپر جائیں

مغربی تہذیب، مؤید تہذیب

بیسویں صدی کے نصف اول میں کمیونزم کا عروج ہوا۔ اس زمانے میں کمیونسٹ لوگوں نے یہ نظریہ بنایا: جو ہمارا ساتھی نہیں، وہ ہمارا دشمن ہے۔مگر یہ ثنویت (dichotomy) غلط تھی۔ فطرت کے قانون کے مطابق صحیح بات یہ ہے کہ جو ہمارا ساتھی نہیں، وہ ہمارا امکانی موید (potential supporter) ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم علما اور مسلم رہنما بھی اسی غیرفطری سوچ کا شکار ہو گئے۔ حدیث کے مطابق وہ بصیر زمانہ (صحیح ابن حبان: 361) ثابت نہ ہو سکے۔
اس بے خبری کی بنا پر انھوں نے یہ رائے قائم کرلی کہ مغربی تہذیب ، اسلام دشمن تہذیب ہے۔ حالاںکہ البخاری کی ایک روایت (3062) کے مطابق وہ اسلام مؤید تہذیب (supporting civilization) تھی۔
دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں مولانا شبلی نعمانی نے ایک نظم لکھی، جس کا ایک شعر یہ تھا:
کہاں تک لوگے ہم سے انتقامِ فتح ایوبی دکھاؤگے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب تک
آسٹریا کے نومسلم لیوپولڈ اسد نے اپنی کتاب Islam at the Crossroads میں لکھا ہے کہ مسیحی یورپ کے لیے اسلام کے خلاف تعصب ان کا پشتینی روگ بن چکا ہے۔
Their prejudice against Islam is simply an atavistic instinct
شامی عالم الشیخ عبد الرحمٰن حسن حبنکہ المیدانی نے عربی زبان میں سلسلۃ اعداء الاسلام کے تحت کئی کتابیں لکھی ہیں، ان میں سے ایک کتاب یہ ہے: اجنحۃ المکرالثلاثۃ و خوافیھا (التبشیر، الاستشراق، الاستعمار)۔ اس کتاب میں انھوں نے عالمی سطح پرکام کرنے والی تین مسلم مخالف سازشوں کا ذکر کیا ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کردینا چاہتی ہیں۔ وہ تین سازشیں یہ ہیں، تبشیر (Christian Mission) استشراق (Orientalism)، استعمار (Colonialism)۔
یہ باتیں بلاشبہ اندھے پن کی حد تک بے خبری کی باتیں ہیں۔ اصل حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اللہ تعالی نے حالات میں ایسی انقلابی تبدیلیاں کی ہیں ، جس کے نتیجہ میں پورا دور عملاً اسلام کی تائید (support)کا دور بن گیا ہے۔ قدیم زمانے میں جو مساوات (equation) تھی ، وہ حامیانِ حق اور مخالفین حق کے درمیان تھی۔ اب جدید تبدیلیوں کے بعد ایک نئی مساوات (equation) قائم ہوئی ہے، اور وہ ہے حامیان حق اور مؤیدین حق کی مساوات۔
موجودہ زمانے میں جو نئے ظاہرے پیدا ہوئے ہیں، وہ سب کے سب مؤیدین اسلام (supporters of Islam) ہیں ، نہ کہ مخالفِین اسلام— مغربی تہذیب، جمہوریت، کھلاپن (openness)، فکری آزادی، مذہبی ناطرف داری، اقوام متحدہ، سائنسی دریافتیں، صنعتی انقلاب، جدید سیاحت (modern tourism)، کانفرنس کلچر، لائبریری کا ادارہ، وغیرہ۔ سب کے سب اسلام کے لیے عظیم تائیدی مواقع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بشرطیکہ اہل ایمان ان مواقع کو سمجھیں، اور ان کو پرامن منصوبہ (peaceful planning) کے تحت استعمال کریں۔
موجودہ زمانے کے مسلمان ان حقیقتوں سے کیوں بے خبر ہوگئے۔ اس کا سبب ایک بدعت ہے، اور وہ ہے شخصیتوں کو بڑے بڑے لقب (title)دینا۔ جب آپ کسی شخصیت کو بڑا لقب دے دیں تو اس کے بعد سوچنے کا عمل (thinking process) رک جاتا ہے۔ القاب کلچر سے پہلے آدمی کے مائنڈ میں ہمیشہ کاما ہوتا ہے، القاب کلچر کے بعد اس میں فل اسٹاپ لگ جا تا ہے۔
ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ کسی کو ملک الاملاک نہ کہو، یعنی شہنشاہ (emperor) کا لقب نہ دو (صحیح البخاری:6202 )۔ شہنشاہ (emperor) صرف سیاسی لقب کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ لقب کلچر کے معنی میں ہے، یعنی لوگوں کو بڑے بڑے القاب نہ دو۔ افرادکو بڑے بڑے لقب (title) دینا، فکری اعتبار سے ایک ہلاکت خیز طریقہ ہے۔ کسی کو بڑا لقب دینے کے بعد شعوری یا غیر شعوری طور یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس شخص کی بات کو حرف آخر (final word) سمجھ لیتے ہیں۔ یہ ذہن لوگوں کے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) کا خاتمہ کردیتا ہے- اس کے بعد فکری ارتقا کا دروازہ مکمل طور پر بند ہوجاتا ہے۔ یہی بعد کے زمانے میں امت مسلمہ کا حال ہوا۔
مثلا امت میں بعد کے زمانےمیں یہ ہوا کہ ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کا لقب دے دیا گیا، فقہائے اربعہ کو مجتہد ِمطلق کہا جانے لگا- اسی طرح موجودہ زمانے میں حسن البنا کو امام کا لقب دینا، شاہ ولی اللہ کو قائم الزمان قرار دینا، اقبال کو دانائے راز سمجھنا، وغیرہ ۔ لقب دینے کا یہ طریقہ یقینی طور پر ایک بدعت تھا، اور حدیث کے مطابق بدعت سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس لقب کلچر کا یہ نتیجہ ہوا کہ امت سے تخلیقی فکر (creative thinking) کا خاتمہ ہوگیا۔ اس فکری حادثہ کا سب سے برا ظاہرہ یہ تھا کہ موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب اسلام کے لیے عظیم تائید (great support) بن کر ابھری تھی، مگر اپنی ذہنی جمود (intellectual stagnation)کی بنا پر مسلمان اس سے کامل طور پر بے خبر رہے۔ جس مغربی تہذیب کو محسن سمجھ کر اس کا استقبال کرنا تھا، اور اس کے پیدا کردہ مواقع (opportunities)کو اسلام کے حق میں استعمال کرنا تھا، اس کو اپنا دشمن سمجھ کر اس سے غیرضروری طور پر لڑنے لگے۔ اس کے نتیجے میں مزید تباہی کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہوا۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی بے اختیاری

برٹش سائنس داں سر جیمز جینز نے اپنی کتاب پر اسرار کائنات (The Mysterious Universe) میں انسان اور کائنات کے تعلق کے بارےمیں لکھا ہے— ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے بنائی نہیںگئی تھی:
It appears that man has strayed in a world which was not made for him.
مگر زیادہ صحیح بات یہ ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جس کو اس نے خود نہیں بنایا، اور نہ وہ اس دنیا کو کنٹرول کرنے والا ہے۔
It appears that man has strayed in a world which was not made by him, and nor is he its controller.
اس دنیا میں انسان کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ انسان اپنے آپ کو اس دنیا میں ایک زندہ وجود کی حیثیت سے پاتا ہے۔ لیکن یہ وجود ایک عطیہ ہے، اس نے خود اپنے آپ کو وجود نہیں بخشا۔ انسان کو صحت مند جسم چاہئے۔ صحت مند جسم ہوتو وہ بھرپور زندگی گزارتا ہے، لیکن صحت مند جسم اس کے اپنے بس میں نہیں۔ انسان کو وہ تمام چیزیں چاہئیں جن کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ہوتو انسان کامیاب زندگی گزارےگا، لیکن اس سسٹم کو قائم کرنا اس کے اپنے بس میں نہیں۔
انسان کو موافق موسم درکار ہے۔ موافق موسم ہوتو انسان امن و عافیت کے ساتھ زندگی گزارے گا، لیکن موافق موسم کو قائم کرنا انسان کے اختیار میں نہیں۔ انسان اپنی خواہش کے مطابق ابدی زندگی چاہتا ہے، لیکن ہر انسان جو پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے، وہ ایک مقرر وقت پر مر جاتا ہے۔ یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ اپنے آپ پر موت کو وارد ہونے سے روک دے۔ انسان مکمل طور پر ایک ضرورت مند ہستی ہے، لیکن اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وہ مکمل طور پر ایک خارجی طاقت کا محتاج ہے۔
انسانی زندگی کا یہ پہلو بے حد قابلِ غور ہے۔ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے کامل معنوں میں ایک صاحبِ احتیاج مخلوق ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت کو خود پورا کرنے پر قادر نہیں۔ انسان کی زندگی کے یہ دو متضاد پہلو (two contradictory aspects) انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے اس معاملے کی حقیقت کو دریافت کرے، اور اس دریافت کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کا نقشہ بنائے۔
انسان کا تجربہ اس کو بتاتا ہے کہ اس دنیا میں وہ صرف ایک پانے والا (taker) ہے، اور دوسری طرف کوئی ہے جو صرف دینے والا (giver) ہے۔ یہ نسبت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی حقیقت کے بارے میں سوچے، وہ اپنی زندگی کو حقیقت واقعہ کے مطابق بنائے۔ وہ اپنے آپ کو اس مقام پر رکھے جہاں وہ حقیقتاً ہے، اور دوسری ہستی کے لیے اس مقام کا اعتراف کرے جس کا وہ حق دار ہے۔
مختصر الفاظ میں یہ کہ انسان اگر سنجیدگی کے ساتھ اپنے معاملے پر ہر غور کرے گا تو وہ پائے گا کہ وہ خود اس دنیا میں عبد کے مقام پر ہے، اور دوسری ہستی معبود کے مقام پر۔ یہی دریافت انسان کی کامیابی کا اصل راز ہے۔ جو انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اس حقیقت کو دریافت کرلے، وہی انسان، انسان ہے۔ اس کے لیے تمام ابدی کامیابیاں مقدر ہیں۔ اس کے برعکس، جو شخص اس حقیقت کی دریافت میں ناکام رہے، وہ انسان کی صورت میں ایک حیوان ہے۔ اس کے لیے اس دنیا میں ابدی خسران (eternal loss) کے سوا اور کچھ نہیں۔
جو شخص اس حقیقت کو دریافت کرلے، وہ فطری طور پر وہ رسپانس (response) دے گا، جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میںا ٓیاہے: الحمد للہ رب العالمین (الفاتحہ)، یعنی اس بر تر ہستی کا شکر جو سارے عالم کا رب ہے، جو انسان کی تمام کمیوں کی تلافی کرنے والا ہے۔ یہ اعتراف انسان کے اندر وہ انقلاب پیدا کرے گاجب کہ اس کے اندر اپنے رب کے لیے حبّ شدید اور خشیت شدید پیدا ہوجائے۔ یہی وہ فرد ہے جس کو قرآن میںمومن کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی خصوصیت

جنت کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبی سعید الخدری قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:والذی نفس محمد بیدہ، لأحدہم أہدى بمنزلہ فی الجنة منہ بمنزلہ کان فی الدنیا۔ (صحیح البخاری: 6535) یعنی اس ہستی کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، جنت کا ایک شخص جنت میں اپنے گھر کو اس سے زیادہ پہچانے گا، جتنا وہ دنیا میں اپنے گھر کو پہچانتا تھا۔
دنیا میں ہر آدمی اپنا ایک مادی مسکن (physical abode) بناتا ہے، جس میں وہ موت سے قبل کے دورِ حیات میں رہتا ہے۔ موت کے بعد کے دورِ حیات میں ایک مومن اپنے اس گھر میں رہے گا، جو اس نےاپنے اسپریچول مسکن (spiritual abode)کے طور پر بنایا تھا۔
اصل یہ ہے کہ ایک سچا مومن دنیا کی زندگی میں ہر لمحہ ایک اسپریچول لائف (spiritual life) گزارتا ہے۔حقیقتِ حیات کی معرفت ، اپنے خالق سے محبت، خدا کی کتاب کا مطالعہ، رسول اور اصحابِ رسول کی زندگیوں سے سبق لینا، تخلیق میں تدبر اور تفکر، دنیا ئے معانی (world of meanings)میں ہر لمحہ اس کی دریافتیں۔یہ سب چیزیں ایک مومن کی زندگی میں ہر لمحہ ایک اعلی قسم کی ذہنی سرگرمی (intellectual activities) کے طور پر جاری رہتی ہیں۔ ان سرگرمیوں کے دوران ہر مومن اپنا ایک ربانی گھر یا اسپریچول مسکن (spiritual abode) بناتا ہے۔
یہ ربانی گھر دنیا کی زندگی میں ایک ناقابلِ مشاہدہ حقیقت کے طور پر موجود رہتا ہے۔ آخرت میں وہ ایک قابلِ مشاہدہ حقیقت کے طور پر ظاہر ہو جائے گا۔ آخرت میں بننے والی ابدی جنت میں ایک مومن اپنے اس تعمیر کردہ ربانی گھر میں رہے گا۔دنیا میں وہ اس کو فکر کی سطح پر ایک ناقابل مشاہدہ واقعہ کے طور پر جانتا تھا، آخرت میں وہ اس کو مادی سطح پر ایک قابل مشاہدہ واقعہ کی حیثیت سے معلوم کر لے گا، اور فرشتوں کی رہنمائی میں وہ اپنے اِس ابدی گھر میں داخل ہو جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

خبر، معرفت

اسلام میں تدبر اور تفکر (contemplation) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ حتی کہ تدبر کوافضل عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ تدبر سے یقین بڑھتا ہے۔ تدبر سے یہ ہوتا ہے کہ سنی یا پڑھی ہوئی بات خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality) بن جاتی ہے۔
قرآن و حدیث میں جو باتیں بتائی گئی ہیں، ان کی حیثیت گویا خبر کی ہے۔یہ خبر مبنی بر وحی ہے۔ اس خبر سے ہم کو صحیح نقطۂ آغاز (right starting point) ملتا ہے۔ پھر انسان اپنی عقل کو استعمال کر کے اس خبر میں اپنی طرف سے شعوری اضافہ کرتا ہے۔ وہ اس کی گہرائیوں تک پہنچتا ہے۔ وہ اس کی تطبیقی معنویت (applied meaning) کو معلوم کرتا ہے۔ وہ خبر کو عقلی فریم ورک (rational framework) میں ڈھالتا ہے۔ اس طرح خبر اس کے لیے صرف خارجی نوعیت کی خبر نہیں رہتی، بلکہ وہ اس کے لیے داخلی اعتبار سے خود دریافت کردہ معرفت بن جاتی ہے۔
اسی حقیقت کو قرآن میں ازدیادِ ایمان (48:4)کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ایمان پر ایمان کا اضافہ۔اس اضافہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور رسول کی بات کو سن کر اس پر غور کرنا، جو چیز ابتداء ً ایک خبر تھی اس کواپنے لیے خود دریافت کردہ سچائی بنالینا۔ آج کل کی زبان میں اس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ تدبر، ایمان کو ایمان پلس بنا دیتا ہے۔
خبر کو معرفت بنانا اسلام میں عین مطلوب ہے۔ اسی سے تمام ایمانی ترقیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اس سے آدمی کے اندر یقین آتا ہے۔ اس کے اندر صحیح تفکیر (right thinking) پیدا ہوتی ہے۔ اس سے انسان کو وہ خیر کثیر حاصل ہوتا ہے، جس کو قرآن میں حکمت (wisdom) کہا گیا ہے۔ اس سے آدمی اس قابل بن جاتا ہے کہ وہ چیزوں کو نوراللہ (اللہ کی روشنی) میں دیکھے،اور اپنے ایمان و اسلام کو کمال کے درجے میں پہنچادے۔یہی وہ افرادہیں جو آخرت میں جنت الفردوس کے مستحق قرار پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

لا محدود امکانات

قرآن کی سورہ ق میں اہل جنت کا ذکر ہے- اس سلسلے میں قرآن کا ایک بیان یہ ہے: لَہُمْ مَا یَشَاءُونَ فِیہَا وَلَدَیْنَا مَزِیدٌ (50:35) یعنی وہاں ان کے لیے وہ سب ہوگا جو وہ چاہیں۔ اور ہمارے پاس مزید ہے۔
قرآن کی اس آیت میں مزید (more) کا لفظ آیا ہے۔اس مزید کی کوئی حد نہیں- جس طرح اللہ رب العالمین کے کمالات کی کوئی حد نہیں ، اسی طرح اس کے عنایات کی بھی کوئی حد نہیں ہو سکتی۔ مثلاً اگر کچھ لوگ اپنے عمل سے بر تر استحقاق پیدا کریں تو ان کو انعام بھی یقینا بر تر سطح پر دیا جائے گا۔
قرآن میں اہل جنت کے چار گروہوں کا ذکر ہے۔اس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69) یعنی اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ قرآن کی اس آیت میں اہل جنت کے چار گروہوں کاذکر ہے، لیکن مذکورہ آیت کے مطابق اس میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے، یعنی چار گروہوں کے علاوہ ایک پانچویں گروہ کا اضافہ۔ یہ پانچواں گروہ تخلیقی اہل ایمان کا گروہ ہو سکتا ہے:
Paradise of creative believers
یہ وہ خصوصی اہل ایمان ہیں وہ جو خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) پر کھڑے ہوں، جو ذاتی منصوبہ (self-programming) کے تحت دعوت الی اللہ کا کام کریں، جو تخلیقی مواقع (self-created opportunities) کے مطابق خدا کے مشن کو انجام دیں، جو مقتصد کے مقام پر نہ ٹھہریں، بلکہ السابقون کا درجہ حاصل کریں۔ یہ اس قابل ہوں گے کہ وہ آخرت میں جنتِ مزید کے مستحق قرار پائیں ۔
واپس اوپر جائیں

مغفرت کی اصل توبہ

انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں وہ جنت میں داخلہ پائے۔جنت اس کے لیے ہےجس کو اللہ کی مغفرت حاصل ہو۔ مغفرت کے بغیر کوئی انسان جنت میں داخلہ نہیں پا سکتا۔قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مغفرت کی اصل توبہ ہے۔ اور حقیقی توبہ وہ ہے جو توبۂ نصوح (66:8)ہو۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے خالق نے اس کو آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے۔ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جس دنیا میں انسان کو آباد کیا گیا ہے، وہ ایک آزمائش (test) کی دنیا ہے۔اس بنا پربار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے ۔ اس کو مذہب کی اصطلاح میں گناہ (sin) کہا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان خطا کے ارتکاب سے بچ نہیں سکتا، اس لیے کو ئی انسان آئیڈیل معنوں میںصالح العمل بھی نہیں بن سکتا۔
ایسی حالت میں کسی انسان کے لیے جنت کے حصول کی شرط کیا ہے۔ وہ شرط صرف ایک ہے، اور وہ اللہ کی مغفرت (forgiveness)ہے۔جنت کسی بھی انسان کو اپنے عمل کی قیمت کے طور پر نہیں ملے گی، بلکہ اللہ کے انعام کے طور پر ملے گی۔جنت عطیۂ خداوندی کا معاملہ ہے، جنت استحقاقِ انسانی کا معاملہ نہیں۔
ایک حدیثِ رسول میں اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: قال رسول اللہ : لن یدخل أحدا عملہ الجنة، قالوا: ولا أنت یا رسول اللہ؟ قال: لا، ولا أنا، إلا أن یتغمدنی اللہ بفضل ورحمة (صحیح البخاری: 5673)رسول اللہ نے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کو ہر گز اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، کیا آپ بھی، فرمایا: ہاں، میں بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ مجھ کو اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانک لے۔انسان کا ہر عمل ایک محدود عمل ہے، اور جنت ایک لامحدود نعمت، اور کوئی بھی محدود چیز لا محدود کی قیمت نہیں بن سکتی۔
واپس اوپر جائیں

معرفت کی تکمیل

قرآن میں زندگی کی ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَہُمْ یَصْطَرِخُونَ فِیہَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِی کُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَا یَتَذَکَّرُ فِیہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَاءَکُمُ النَّذِیرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ نَصِیرٍ (35:37) اور وہ لوگ اس میں چلائیں گے اے ہمارے رب، ہم کو نکال لے۔ ہم نیک عمل کریں گے ، اس سے مختلف جو ہم کیا کرتے تھے۔ کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ لیتا۔ اور تمھارے پاس ڈرانے والا آیا۔ اب چکھو کہ ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ۔
انسان ایک طاقت ور مخلوق کی حیثیت سے پیدا ہوتا ہے، پھر دھیرے دھیرے وہ بوڑھا ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ مر جاتا ہے۔بڑھاپے کی عمر میں انسان کے اندر ہر قسم کی کمزوری آجاتی ہے۔ انسان کو جوانی کی عمر میں جو قوت (energy) ملی ہوتی ہے، وہ بڑھاپے کی عمر میں اس سے چھن جاتی ہے۔ اس تجربے میں ایک عظیم حکمت چھپی ہوئی ہے۔ اس تجربے کا مقصد یہ ہے کہ انسان یہ جانے کہ جوانی کی عمر میں میرے اندر جو طاقت تھی، وہ میری ذاتی ملکیت (personal property) نہیں تھی۔بلکہ وہ ایک خدائی عطیہ (divine gift) تھی۔ اگر وہ میری ذاتی ملکیت ہوتی تو وہ ہمیشہ میرے ساتھ باقی رہتی۔بلکہ کوئی دینے والا ہے، جس نے پہلے مجھ کو یہ نعمت دی تھی، اور اب اس نے یہ نعمت مجھ سے چھین لی۔بڑھاپے کی عمر ایک تجربہ ہے۔ یہ تجربہ اس لیے ہے کہ انسان اپنے بارے میں اس حقیقت کو دریافت کرے۔ اس حقیقت کی دریافت گویا معرفت کی تکمیل ہے۔ جو آدمی بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر بھی اس حقیقت سے بے خبر رہے، اس سے زیادہ محروم انسان اور کوئی نہیں۔بڑھاپے کا یہ تجربہ ہر بوڑھے انسان کے لیے مقدر ہے۔ البتہ جو انسان دعاؤں میں جیتا ہو، اس کے لیے بڑھاپے کی مشقت کو سہل بنادیا جاتا ہے۔ تاکہ اس کے لیے بڑھاپے کا دَور مصیبت کا دور نہ رہے، بلکہ وہ معرفت کا دَور بن جائے۔ زندگی ایک تجربہ ہے، انسان کو چاہئے کہ وہ ہر تجربے سے مثبت سبق حاصل کرے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا پیغام

قرآن کی تین سورتوں میں یہ آیت آئی ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (3:185) ہرشخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے :
Every human being is bound to taste death
قرآن کا یہ بیان پوری انسانی تاریخ میں ایک واقعہ ثابت ہواہے۔ دولت، طاقت، سیاسی اقتدار، کوئی بھی چیز انسان کو موت سے بچانےوالی نہ بن سکی۔ ہر پیدا ہونے والا انسان ایک مقرر مدت کے بعد لازمی طور پر مرجاتا ہے۔ موت سے بچنا کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہ ہوسکا۔
اگر ایسا ہوتا کہ انسان اتفاقاً پیداہو اور اتفاقاً مرجائے تو کچھ لوگ مرتے، اور کچھ لوگ لمبی مدت تک زندہ رہتے۔لیکن موت کے معاملے میں کسی فرد کا استثنا نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ موت کا معاملہ کوئی اتفاقی معاملہ نہیں ، بلکہ وہ فطرت کی منصوبہ بندی (planning) کا معاملہ ہے۔یہ خالق کا سوچا سمجھا فیصلہ ہے ، وہ بے سبب ہونے والا کوئی واقعہ نہیں۔
موت کا ایک تخلیقی منصوبہ ہونا، مزید یہ ثابت کرتا ہے کہ زندگی اور موت ایک بامقصد ظاہرہ ہے۔ اور جب یہ مان لیا جائے کہ زندگی اور موت کے پیچھے ایک تخلیقی مقصد ہے تو اس کے بعد لازم ہوجاتا ہے کہ انسان اس مقصد کو دریافت کرے، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔اسی میں انسان کی کامیابی چھپی ہوئی ہے۔
موت کا واقعہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا کی تعمیر انسان کا نشانہ نہیں ہو سکتا۔ انسان کا نشانہ صرف وہ چیز ہوسکتی ہے جس میں زندگی اور موت دونوں کی توجیہہ موجود ہو،جس میں زندگی بھی بامعنی نظر آئے اور موت بھی بامعنی۔پیغمبرِ اسلام نے فرمایا : أَکْثِرُوا ذِکْرَ ہَادِمِ اللَّذَّاتِ ، یَعْنِی الْمَوْت (ابن ماجہ: حدیث نمبر 4258) یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو، جو کہ لذات کو ڈھادینے والی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لذاتِ حیات کی بنیاد پر اپنا منصوبہ نہ بناؤ،بلکہ حقائقِ موت کی بنیاد پر اپنا منصوبہ بناؤ۔
واپس اوپر جائیں

منافقانہ کلام

قرآن کی سورہ نساء میں یہود مدینہ کے حوالے سےایک اسلوبِ کلام کا ذکران الفاظ میںکیا گیاہے: وَرَاعِنَا لَیًّا بِأَلْسِنَتِہِمْ(4:46)۔ قرآن کی اس آیت میں یہود کا لفظ قریبی حوالہ (ready reference) کے طور پر ہے۔یہ دراصل ایک انسانی صفت ہے، نہ کہ صرف یہودِ مدینہ کی صفت۔
لیّ لسان کا مطلب ہےتوڑ مروڑ کر بولنا۔عوامی زبان میں اس کو کہتے ہیں گھما پھرا کر بات کہنا۔ انگریزی زبان میںاس کو ٹوسٹ (twist) کر کے بولنا کہا جاتا ہے:
To speak by twisting the words
لیّ لسان یا ٹوسٹ کرکے بولنے کا یہ معاملہ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ تاکہ بظاہر بات بھی کہہ دی جائے لیکن اصل حقیقت چھپی رہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اخبار پر یہ الزام لگایا کہ اس نے حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا:
The newspaper was accused of twisting the facts.
لیّ لسان کی یہ صفت دراصل کمزور شخصیت (weak personality) کی علامت ہے۔ جس کو مذہب کی زبان میں منافقت (hypocrisy) کہا جاتا ہے۔ لیّ لسان کی زبان میں کلام کرنے کا اسلوب کیوں پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نفسیاتی سبب اپنے آپ کو درست سمجھنا (self-righteousness)ہے۔ یہ ایک عام انسانی مزاج ہے کہ وہ اپنے آپ کو اچھا سمجھے، اور غلطی کا الزام دوسرے کے اوپر ڈالتا رہے۔ اسی مزاج کی بنا پر ایسا ہوتا ہےکہ آدمی بات کو اس طرح پیش کرتا ہے جس میںاس کی اپنی ذات صحیح نظر آئے، اور غلطی کی ذمے داری دوسروںکے اوپر چلی جائے۔یہ اسلوبِ کلام پہلے شعوری طور پر آتا ہے، پھر دھیرے دھیرے وہ آدمی کے لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ پہلے جو بات اس نے سوچ کر کہی تھی ، اب وہ عادت کے طور پر کہنے لگتا ہے۔یہ عادت اتنی زیادہ عام ہوجاتی ہے کہ آدمی غیر ضروری طور پر بھی لیّ لسان کے اسلوب میں بولنے لگتا ہے۔یہ منافقت ہے، اور منافقت سے زیادہ بری کوئی چیز انسان کےلیےنہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسلمان خیر ِ امت

امت مسلمہ کو خیر امت کہا گیا ہے۔ یہ خیر باعتبار واقعہ نہیں ہے، بلکہ باعتبارِ امکان ہے۔ اقراری مومن ہونے کی بنا پر مسلمانوں کے اندر خیرکا ایک امکان چھپا ہوا ہے۔ اس امکان کو استعمال کرکے امت کو حقیقی معنوں میں خیر امت بنایا جاسکتا ہے۔
وہ امکان یہ ہے کہ داعی اور امت کے درمیان ایک متفقہ بنیاد (accepted common ground) موجود ہے۔ وہ یہ کہ امت اپنے عقیدہ کے اعتبار سے قرآن کو مستند کلام (authentic word) سمجھتی ہے۔ جو بات قرآن کے حوالے سے کہی جائے، امت اپنے عقیدہ کے اعتبار سے اپنے کو مجبور پائے گی کہ وہ اس کو بطور حقیقت تسلیم کرے اور اس کا اتباع کرے۔
مثال کے طور پر اگر آپ امت کے افراد سے یہ کہیں کہ تم قرآن کو خدا کی کتاب مانتے ہو، اس کی پہلی آیت ہے: الحمد للہ رب العالمین (1:1) ۔ اس آیت کو تم روزانہ بار بار اپنی نمازوں میں دہراتے ہو۔ اس کا تقاضا ہے کہ تم حمد اسپرٹ کو اپنی زندگی میں شامل کرو۔ اگر تم حمد اسپرٹ کو اپنی زندگی میں شامل نہ کرو اور اس کو صرف زبان سے دہراؤ تو قرآن کی تعلیمات کے مطابق یہ اندیشہ ہے کہ تم کو اللہ کی عدالت میں منافق قرار دیا جائے۔
قرآن کی آیت دراصل ایک حقیقت کا اعلان ہے۔ وہ یہ کہ اس عالم کے رب نے دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ آدمی ہر وقت اس پر شکر کا رسپانس (response) دیتا رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی سوچ کی اس طرح تربیت کرو کہ تمھاری زندگی کا ہر تجربہ اور تمھارے آس پاس کا ہر واقعہ تمھارے ذہن میں شکر کا آئٹم بن جائے- تم تھرلنگ (thrilling) شکر میں جینے والے بن جاؤ۔ حمداسپرٹ میں جینا مسلم کی نسبت سے بھی مطلوب ہے، اور غیر مسلم کی نسبت سے بھی۔اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص انسان کا شکر نہ کرے وہ اللہ کا شکر نہیں کرے گا ( من لم یشکر الناس، لم یشکر اللہ عز وجل) مسند احمد: 7504
واپس اوپر جائیں

مسلسل فکری ارتقا

قرآن میں فطرت کے ایک قانون کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: فَأَثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِکَیْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَا أَصَابَکُمْ (3:153)۔ یعنی پھر اللہ نے تم کو غم پر غم دیا تاکہ تم رنجیدہ نہ ہو اس چیز پر جو تم سے کھوئی گئی ہے، اور نہ اس مصیبت پر جو تم پر پڑے۔
ایک غم کے بعد دوسرے غم میں مبتلا کرنے کی حکمت کیا ہے۔وہ یہ ہے کہ جب ایک غم پر کچھ مدت گزرجاتی ہے تو آدمی اس کا خوگر (used to) ہوجاتاہے۔اس طرح وہ غم اس کے لیےفکری مہمیز کی حیثیت سے باقی نہیں رہتا۔ اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ انسان کے اوپر ایک صدمہ کے بعد دوسرا صدمہ ڈالا جائے تاکہ اس کی فکر مسلسل طور پر زندہ (alive)رہے۔ اس کے اندر فکری ارتقا (intellectual development) کا عمل نان اسٹاپ طور پر جاری رہے۔
انسان لامحدود پوٹنشل (potential) کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اس پوٹنشل کو ان فولڈ (unfold)کرنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اس پر صدمہ (shock)کے تجربات گزریں۔ یہ صدمہ بار بار پیش آنا چاہئے، ورنہ انسانی فطرت کے مطابق اس کی تاثیر خبط ہو جائے گی۔صدمہ خود کوئی فکری واقعہ نہیں۔ صدمہ کا رول صرف یہ ہے کہ وہ آدمی کو شاک (shock)پہنچائے۔ اس صدمہ کے اثر سے اپنے آپ یہ ہوتا ہے کہ اس کے پوٹنشل، خود فطرت کے قانون کے تحت اَن فولڈ ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ویسا ہی واقعہ ہے جیسے سیب کے اوپر دباؤ ڈالنے سے اس کا رس نکلنے لگتا ہے، اور اس وقت تک جاری رہتا ہےجب تک دباؤ کا عمل جاری رہے۔ دباؤ کا عمل ختم ہوجائے تو سیب سے رس کا نکلنا بھی بند ہو جائےگا۔
کسی انسان کے لیے سب سے بڑی ضرورت شخصیت کا ارتقا (personality development) ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق شخصیت کا ارتقا ہمیشہ دباؤ (problems and challenges)) کے حالات میں ہوتا ہے، یہ انسان کی ایک فطری ضرورت ہے کہ وہ ہمیشہ دباؤ کے حالات میں رہے تاکہ اس کی شخصیت کا ارتقا غیر منقطع (non-stop)طور پر جاری رہے۔
واپس اوپر جائیں

تقدیر اور تدبیر

Destiny and Free Will
انسان آزاد ہے یا مجبور۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ففٹی ففٹی کا معاملہ ہے۔ انسان ایک اعتبار سے آزاد ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ مجبور ہے۔ اپنی روز مرہ کی زندگی میں ہر عورت اور مرد آزادانہ طور پر اپنا کام کرتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ بار بار محسوس کرتے ہیں کہ ان کی ذات کے باہر بھی کچھ طاقتیں ہیں جن کو نظر انداز کر کے وہ اس دنیا میں اپنا کام نہیں کر سکتے۔
یہ دو طرفہ تقاضے کیا ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ایک ہے خود انسان کی شخصیت، اور دوسری چیز ہے وہ حالات جن کے درمیان کسی آدمی کو اپنا کام کرنا پڑتا ہے۔ اِن حالات کو فطرت کا قائم کیا ہوا انفراسٹرکچر (infrastructure) کہا جاسکتا ہے۔ جہاں تک انسان کی ذات کا تعلق ہے وہ پوری طرح آزاد ہے۔ انسان کو اختیار ہے کہ وہ جس طرح چاہے سوچے، وہ جو بات چاہے بولے، جس رخ پر چاہے اپنی زندگی کا سفر شروع کرے۔ اس اعتبار سے انسان مکمل طور پر آزاد ہے۔
دوسری چیز وہ ہے جس کو انفراسٹرکچر کہا جاسکتا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر مکمل طور پر فطرت کا قائم کیا ہوا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر دنیا میں اپنے آپ قائم ہے۔ انسان کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ اس انفراسٹرکچر کو بدل ڈالے یا اس کو نظر انداز کر کے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
مثال کے طور پر ایک انسان زمین پر چلتا ہے۔ یہ چلنا انسان کی اپنی آزادی کا معاملہ ہے۔ لیکن اس چلنے کے لئے ضرورت ہے کہ آدمی کے قدموں کے نیچے ایک زمین ہو ۔ اس زمین کے اندر قوتِ کشش ہو، اور پھر انسان کے اوپر ہوا کا دباؤ ہو، وغیرہ۔ یہ چیزیں خارجی انفراسٹرکچر کی حیثیت رکھتی ہیں، اور اس خارجی انفراسٹرکچر کے بغیر چلنے کا عمل ممکن نہیں، نہ کسی عورت کے لئے اور نہ کسی مرد کے لئے۔ یہی معاملہ دوسری ان تمام چیزوں کا ہے جن کے درمیان انسان اپنا عمل کرتا ہے۔
اسی طرح انسان سانس لیتا ہے۔ سانس لینا یا نہ لینا انسان کے اپنے اختیار کی بات ہے۔ لیکن درست طور پر سانس لینے کے لئے ضروری ہے کہ باہر کی دنیا میں آکسیجن کی سپلائی کا نظام موجود ہو۔ آکسیجن کی مسلسل سپلائی کے بغیر کوئی آدمی سانس نہیں لے سکتا۔ جب کہ سانس کے بغیر انسان کے لئے اس دنیا میں زندہ رہنا ممکن نہیں۔
یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان دو طرفہ تقاضوں کے درمیان ہے۔ ایک اعتبار سے وہ آزاد ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ مجبور ہے۔ اپنے ارادے کے استعمال کے اعتبار سے وہ پوری طرح آزاد ہے۔ لیکن اس اعتبار سے وہ مجبور ہے کہ اپنے ارادے کا آزادانہ استعمال وہ خالق کے مقرر کیے ہوئے انفراسٹرکچر کے بغیر نہیں کر سکتا۔جبر و اختیار کی اس درمیانی صورتِ حال کو علم العقائد میں وَسَطِیّہ کہا جاتا ہے۔ یہی وسطیہ کا نظریہ اس معاملے میں صحیح نظریہ ہے۔
تقدیر اور تدبیر کی بحث بہت پرانی ہے۔ قدیم فلاسفہ نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے، اور بعد کے زمانے میں بھی اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ مگر اس موضوع پر لوگوں نے جوکچھ لکھا ہے اس کو پڑھ کر قاری کو کنفیوزن کے سوا کچھ اور نہیں ملتا۔ آدمی اس مسئلے کا واضح جواب چاہتا ہے۔ لیکن اس کو موجودہ لٹریچر میں اس کا واضح جواب نہیں ملتا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ عام طور پر کسی ایک پہلو کی طرف جھک جاتے ہیں۔ وہ سارے معاملے کو بھلا کر تقدیر کا مسئلہ سمجھ لیتے ہیں یا تدبیر کا۔ مگر اصل حقیقت کے اعتبار سے یہ یک طرفہ سوچ درست نہیں۔ یہ لوگ جب اس معاملے کو تقدیر کا مسئلہ بتا کر اس کی وضاحت کرتے ہیں تو قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ تدبیر کا پہلو اس میں نظر انداز ہوگیا ہے۔ اسی طرح جو لوگ تدبیر کو اصل قرار دے کر اس پر بحث کرتے ہیں تو قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ اس میں تقدیر کے پہلو کی رعایت موجود نہیں۔ یہی چیز ہے جو قاری کے لیے کنفیوزن کا سبب بن جاتی ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ مسئلہ تقدیر اور تدبیر دونوں کے درمیان کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ دونوں پہلوؤں کو لے کر غور کریں تو کنفیوزن ختم ہوجائے گا۔ اور آپ اس مسئلے کے بارے میں یقینی جواب تک پہنچ جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

شکر اور ناشکری

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک غزوہ پیش آیا جس کو غزوۂ حنین کہا جاتا ہے- اس غزوہ میں کافی بھیڑ بکری غنیمت کی صورت میں حاصل ہوئیں- رسول اللہ نے غنیمت کا سامان مہاجرین میں تقسیم کردیا اور انصار کو کچھ نہیں دیا(ولم یعط الانصار شیئا)۔ اس واقعہ کو لے کر کچھ انصار کے درمیان شکایت پیداہوئی- اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےانصار کے لوگوں کو جمع کرکے ایک تقریر کی- آپ نے فرمایا کہ اے انصار، کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکری لے جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے گھروں کو لے جاؤ ( أترضون أن یذہب الناس بالشاة والبعیر، وتذہبون بالنبی إلى رحالکم)صحیح البخاری: 4330 -
اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ تھا کہ دوسروں کو اگر میں نے بھیڑ بکری دی ہے تو تم کو تو میں نے خود اپنے آپ کو دے دیا ہے-
یہ انسان کی عام کمزوری ہے کہ وہ اپنے ملے ہوئے کو نہیں دیکھ پاتا اور دوسرے کو جو کچھ ملے وہ اس کو بہت زیادہ نظر آتا ہے- فطرت کے قانون کے مطابق ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ملی ہوئی چیز بظاہر زیادہ ہوتی ہے، اور نہ ملی ہوئی چیز بظاہر کم- ایسی حالت میں مذکورہ قسم کا مزاج بے حد خطرناک ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کے اندر سے شکر کا جذبہ نکل جائے گا، وہ ناشکری میں جینے لگے گا- اور یہ نقصان بلاشبہہ تمام نقصانات سے زیادہ ہے- جو چیز آدمی کے اندر ناشکری پیدا کرے اس کے غلط ہونے میں کوئی شک نہیں-
دین میں سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا شکر گزار بندہ بنے۔ اس کے صبح و شام شکر کی نفسیات میں بسر ہوتے ہوں۔ لیکن ضروری ہے کہ آدمی اس معاملے میں اپنے شکر کی حفاظت کرے۔ شکر کی حفاظت کرنے سے شکر باقی رہے گا، اور حفاظت نہ کرنے سے شکر کا احساس آدمی کے اندر سے رخصت ہوجائے گا۔ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے ، جب کہ آدمی ہر لمحہ اپنا نگراں بنا رہے۔
واپس اوپر جائیں

نیا دور

لمبے تاریخی عمل (historical process)کے نتیجے میںدنیا کے اندر ایک نیا دور آیا ہے۔ بیسویں صدی میں یہ دور اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے، اور اب اکیسویں صدی میں اس کا سفر جاری ہے۔ اس دور کا ایک انقلابی نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس نے تاریخ میں پہلی بار مساوات (equation) کو بدل دیا ہے۔ پچھلے ہزاروں سال سے دنیا میں جو مساوات قائم تھی ، وہ پرو مذہب اور اینٹی مذہب کی مساوات تھی۔اب دنیا میں ایک نئی مساوات قائم ہوئی ہے، جو پرو مذہب اور موافقِ مذہب کے اصول پر قائم ہے۔
مساوات (equation)کی یہ تبدیلی ایک عالمی اصول (universal norm)کا نتیجہ ہے۔ وہ یہ کہ نئے زمانہ نے قوموں کے اتفاق رائےسے یہ کیا کہ پرامن اختلاف رائے(peaceful dissent)کو انسان کا مطلق حق (absolute right) قرار دے دیا ۔اس عالمی اصول کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی کو مطلق طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے کو یا اپنے نقطۂ نظر کو دنیا میں کہیں بھی بلا روک ٹوک پیش کرے۔دنیا میں کوئی بھی اس کو اس عمل سے روکنے والانہیں۔وہ ہر اجتماعی ادارہ کو اپنے نظریہ کی تبلیغ کے لیے استعمال کرے، مثلا کانفرنس ، سیمینار، ورک شاپ، ایگزبیشن، ایر پورٹ، لائبریری، پارک،وغیرہ- جہاں کہیں بھی چند انسان ہیں، وہاں اس کو ناقابلِ تنسیخ حق حاصل ہےکہ وہ جس بات کو سچ سمجھتا ہے، اس کو وہ لوگوں کے سامنے پیش کرے۔
اظہارِ رائے کے اس مطلق حق کی صرف ایک ہی شرط ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی کبھی دوسروں کے لیے جارح (aggressor) نہ بنے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کی پرامن دعوت اسی طرح ہر انسان کا حق ہے، جس طرح ہوا میں سانس لینا، یا سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھانا۔ یہ ایک انوکھی نعمت ہے جو موجودہ زمانے میں حق کے داعیوں کو حاصل ہوئی ہے۔موجودہ زمانے میں جولوگ اسلام کے نام پر تشدد کلچر چلارہے ہیں، وہ صرف اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ دور جدید کے اس پہلوسے کامل طور پر بے خبر ہیں۔ اگر وہ دورِ جدید کو جانتے تو وہ یہ کہتے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم گن سمندروں میں ڈال دیں، اوربم کے بجائے قرآن اور اسلامی کتابوں کو لے کر ساری دنیا میں پھیل جائیں۔
واپس اوپر جائیں

شعورِ مقصدیت

ایک ریسرچ کے مطابق بتایا گیا ہے کہ مضبوط شعورِ مقصدیت (strong sense of purpose) کسی آدمی کے لیے بہتر صحت کا راز ہے۔ جو آدمی مضبوط شعورِ مقصدیت کا حامل ہو، وہ دل کی بیماریوں سے محفوظ رہے گا۔وہ ٹینشن کا شکار نہیں ہوگا۔ اسی طرح وہ دوسرے جسمانی عوارض سے بچا رہے گا۔
اصولی طور پر یہ بات درست ہے۔ لیکن اس مسئلے کا براہ راست تعلق اس بات سے ہے کہ آدمی نے کس چیز کو اپنا مقصد بنایا ہے۔ اگر اس نے مادی یا دنیوی چیزوں کے حصول کو اپنا مقصد بنایا ہے تو اس کو یہ فائدہ صرف جزئی طور پر حاصل ہوگا۔ اپنی زندگی کے آغاز میں وہ مضبوط شعورِ مقصدیت کا حامل ہوگا، لیکن زندگی کے آخر میں وہ مایوسی کا شکار ہوجائے گا۔
مضبوط شعورِ مقصدیت کے اصول کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ آدمی خدا اور جنت کو اپنا مقصد بنائے۔ایسا آدمی کبھی مایوسی کا شکار نہ ہوگا۔وہ ہمیشہ یقین کی حالت میں زندہ رہے گا۔ابدی طور پر مضبوط شعورِ مقصدیت کا سر چشمہ صرف اللہ رب العالمین ہے:
Living life with a strong sense of purpose may lower your risk for early death, heart attack or stroke, a new study has claimed. The analysis defined purpose in life as a sense of meaning and direction, and a feeling that life is worth living. Previous research has linked purpose to psychological health and well-being, but the new analysis found that a high sense of purpose is associated with a 23% reduction in death from all causes and a 19% reduced risk of heart attack, stroke, or the need for coronary artery bypass surgery (CABG) or a cardiac stenting procedure. (The Times of India , Delhi : March 09, 2015)
واپس اوپر جائیں

گھر کا ماحول

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ بتایا کہ ان کا معمول ہے کہ وہ روزانہ صبح کو اپنے گھر والوں کو ایک جگہ بٹھاتے ہیں، اور کسی دینی کتاب کا ایک حصہ پڑھ کر ان کوسناتے ہیں۔مجھے بہت سے لوگوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اس طریقے کو اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرکے وہ اپنا دینی فریضہ ادا کررہے ہیں۔یہ طریقہ بلاشبہ انسان کے بارے میں کمتر اندازہ کی حیثیت رکھتا ہے۔انسان اس طرح کی رسمی باتوں سے اپنا ذہن نہیں بدلتا۔
لیکن اس طرح گھر والوں کو دینی کتاب پڑھ کر سنانا اصل ذمہ داری کا صرف نصف ثانی ہے۔ اصل ذمے داری کی نسبت سے نصف اول یہ ہے کہ گھر کے اندر موافقِ دین ماحول بنایا جائے۔اگر گھر کے اندر موافق ماحول نہ ہوتو اس طرح کتاب پڑھ کر سنانے سے مطلوب نتیجہ حاصل نہ ہوگا۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے گھر میں پوری طرح دنیادارانہ ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر دوسروں کے خلاف شکایت کی باتیں ہوتی ہیں۔ گھر کے اندر منفی خبروں کا چرچا رہتا ہے۔ گھر کے اندر انسانی خیرخواہی کی باتیں نہیں ہوتیں۔بلکہ اپنے لوگوں کو اپنا ، اور دوسرے لوگوں کو غیر سمجھنے کا ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر جن باتوں کا چرچا ہوتا ہے، وہ ہیں —کھانا کپڑا، روپیہ پیسہ،بزنس اور جاب، وغیرہ۔
گھر میں دینی کتاب پڑھ کر سنانا بلاشبہ ایک اچھا کام ہے۔ لیکن اس کو موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ گھر کے اندر اس کے موافق ماحول موجود ہو۔ کتاب پڑھنے سے پہلے، اور کتاب پڑھنے کے بعد گھر کے اندر وہی ماحول ہو جو کتاب میں بتایا گیا ہے۔ کسی گھر کو دین دار گھر بنانا اسی وقت ممکن ہے، جب کہ اس کو پوری سنجیدگی کے ساتھ انجام دیا جائے۔
گھر کا ماحول موافقِ دین بنائے بغیر گھر کے اندر دینی کتاب پڑھ کر سنانا گویا ہاتھی کے دم میں پتنگ باندھنا ہے۔ اس طرح کے کسی عمل سے گھر کے سرپرستوں کی ذمے داری ادا نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں

ادب، بے ادبی

قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جو بات کہو قولِ کریم کے ساتھ کہو (17:23)۔ قولِ کریم کا مطلب باادب انداز (gentle speech ) ہے۔انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ بات کو برا نہیں مانتا، البتہ وہ بے ادبی کو برا مانتا ہے۔اگر باادب انداز میں بات کہی جائے تو ہر عورت اور مرد بات کو سن لیں گے، وہ اس پر ناراض نہیں ہوں گے۔آدمی خواہ بات کو مانے یا نہ مانے لیکن وہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ اس سے جو بات کہی جائے، اس میں اخلاقی آداب کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ فلاں بات کہو اور فلاں بات نہ کہو۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جس بات کو تم واقعۃً درست سمجھتے ہو ، اس کو تم دوسروں سے کہہ سکتے ہو۔ البتہ بات کو کہنے کا انداز اخلاقی اعتبار سے مناسب ہونا چاہئے۔جو انداز اخلاقی اعتبار سے نا مناسب ہو، اس میں بات کہناآدابِ نصیحت کے خلاف ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے جب پیغمبر موسیٰ کو حکم دیا کہ تم اپنے زمانے کے بادشاہ فرعون کے پاس جاؤ اور اس کو توحید کا پیغام پہنچاؤ تو اس وقت موسی کو یہ ہدایت بھی دی گئی : فَقُولَا لَہُ قَوْلًا لَیِّنًا لَعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَى ( 20:44) یعنی پس اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔فرعون معلوم طور پر ایک سرکش بادشاہ تھا۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب خواہ سرکش ہو یا غیر سرکش ، خواہ وہ عادل ہو یا وہ ظالم ہو، ہر حال میں اس سے نرم گفتاری کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔گفتگو میں ہمیشہ یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ جو بات کہی جائے، وہ دلیل کے ساتھ کہی جائے۔ عیب زنی اور الزام تراشی کا انداز ہر گز اختیار نہ کیا جائے۔باادب طرزِ کلام کا یہ اصول خاندانی زندگی میں بھی ضروری ہے، اور عمومی طور پر سماجی زندگی میں بھی۔بات کو اگر بے ادبی کے انداز میں کہا جائے تو انسان کے اندر جوابی نفسیات جاگ پڑتی ہے، اور گفتگو کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ آدمی کو ہمیشہ ایسا کرنا چاہئے کہ ایسے انداز میں اپنی بات کہے جو مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی ہو، جو اس کو سوچنے پر مجبور کر دے۔اسی اسلوب کو قرآن میں ناصحانہ اسلوب یاخیرخواہانہ اسلوب کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

توسیع، استحکام

کسی مشن کے ہمیشہ دو تقاضے ہوتے ہیں۔ ایک، اس کا استحکام (consolidation)، اور دوسرا، اس کی توسیع (expansion)۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اسلامی مشن کا جو طریقہ معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ استحکام پر براہِ راست فوکس دیا جائے۔ مشن جب اپنی جگہ پر مستحکم ہوجائے تو اس کے بعد لازمی طور پر اس کی توسیع کا عمل (process) شروع ہوجاتا ہے۔
مشن کےاستحکام کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرکزی مقام پر افراد پر عمل کرکےایک ٹیم بنائی جائے۔ پھر اس ٹیم کے ذریعے مشن دوسرے علاقوں میں پھیلے۔مشن اگر ایک مرکزی مقام پر مستحکم ہوجائے تو اس کے بعد مشن کی توسیع اپنے آپ ہوتی ہے۔اس کے برعکس اگر توسیع پر زیادہ دھیان دیا جائےتو دونوں ہی کام مؤثر طور پر انجام نہ پائیں گے۔
استحکام کا کام ہمیشہ کسی مقام کو مرکزی حیثیت دے کر انجام پاتا ہے۔جب کہ توسیع کے معاملے میں یہ ہوتا ہے کہ زیادہ بڑے رقبے میں پھیلاؤ کو اہمیت دی جانے لگتی ہے۔استحکام کے نتیجے میں افراد بنتے ہیں، اور توسیع کے طریقے میں عمومی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ مشن میں دونوں چیزوں کی اہمیت ہے۔لیکن مشن میں استحکام کو پہلی ترجیح حاصل ہے۔
مشن کا معاملہ درخت جیسا معاملہ ہے۔ درخت یہ کرتا ہے کہ پہلے وہ اپنے مقام پر اپنی جڑیں پھیلاتا ہے، جب اس کی جڑیں مقامی طور پر جم جاتی ہیں تو درخت مستحکم انداز میں بڑھنا شروع ہوتا ہے۔ تو اس میںشاخیں اور پتیاں نکلتی ہیں، یہاں تک کہ وہ ایک بڑا درخت بن جاتا ہے۔مشن پہلے اپنے قریبی دائرے میں اپنی جڑیں مستحکم کرتا ہے۔ اس طرح مشن اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے قریبی مقام پر خود اپنی طاقت سے کھڑا ہو جائے۔ جب مشن کو اس طرح مرکزی استحکام حاصل ہو جائے تو اس کے بعد فطری قانون کے مطابق چاروں طرف اس کا پھیلاؤ شروع ہوجاتا، یہی وہ بات ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے: أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ (14:24)
واپس اوپر جائیں

امیدکی دنیا

برٹش سائنس داں نیوٹن کو جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔نیوٹن 1643 میں پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش سے تین مہینے پہلے اس کے باپ کا انتقال ہوچکا تھا۔ بعد کو اس کی ماںدوسری شادی کرکے اپنے نئے شوہر کے پاس چلی گئی۔ اس طرح نیوٹن بچپن ہی میں والدین کی محبت سےعملا محروم ہوگیا۔نیوٹن کے ایک سوانح نگار نے اس کی بابت یہ الفاظ لکھے ہیں:
Basically treated as an orphan, Isaac did not have a happy childhood.
اپنے حالات کی بنا پر نیوٹن کے لیے اس کی خارجی دنیا اس کی دلچسپی کا مرکز نہ بن سکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ذہن کی دنیا میں رہنے لگا۔وہ بہت زیادہ سوچنے والا انسان بن گیا۔وہ ہر وقت کائنات کی حقیقت کے بارے میں غور کرنے لگا۔
بچپن کے زمانے میں نیوٹن کی اس حالت کو دیکھ کرلوگ یہ کہنے لگے کہ نیوٹن ایک کھویا ہوا (woolgatherer) انسان ہے۔بعد کو معلوم ہوا کہ نیوٹن کھویا ہوا انسان نہ تھا، بلکہ اس کے حالات نے اس کو ایک ہمہ وقت سوچنے والا انسان بنادیا تھا۔ اس طرح وہ اس قابل ہوگیاکہ وہ اپنے ذہنی امکان (intellectual potential)کو زیادہ سے زیادہ استعمال کر سکے۔ وہ اپنے دائمی تدبر کی بنا پر کائنات کی ان حقیقتوں کو دریافت کر لے جو اس سے پہلے انسان کے لیے لا معلوم حقیقتیں بنی ہوئی تھیں۔
یہ نیوٹن کی کہانی نہیں ہے، بلکہ یہ نیوٹن کے واقعے کی صورت میں فطرت کی کہانی ہے۔ یہ واقعہ بتارہا ہے کہ انسان کے ساتھ جو تجربہ گزرتا ہے، خواہ بظاہر وہ ایک منفی تجربہ ہو لیکن اس کے اندر ہمیشہ ایک مثبت پہلو موجود ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ دنیا میں ہر مائنس پوائنٹ کے ساتھ ہمیشہ ایک پلس پوائنٹ موجود ہو۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنے اس پلس پوائنٹ کو دریافت کرے، اور اس کو استعمال کرکے وہ ترقی کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا امید کی دنیا ہے، نہ کہ ناامیدی کی دنیا۔اس حقیقت کو جاننا بلاشبہ کسی انسان کے لیےسب سے بڑی دانش مندی ہے۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کی تعمیر

ہر انسان جو اس دنیا میں آتا ہے، وہ خالق کی طرف سے ایک منفرد صلاحیت (unique quality) لے کر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہر انسان ایک غیر معمولی دماغ (mind)لے کر آتا ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہو تا ہے کہ وہ اپنے دماغ کو استعمال کرکے اپنی صلاحیت کو دریافت کرے، اور دانش مندانہ پلاننگ کے تحت اپنے پوٹنشل (potential)کو واقعہ (actual) بنائے۔ہر آدمی کامیابی کے ساتھ اس کو انجام دے سکتا ہے، بشرطیکہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے ذہن کو استعمال کرے۔
اس معاملہ کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو تائیدی نظام (supporting system)کہا جا سکتا ہے۔ فطرت کے مطابق یہ ہونا چاہئے کہ سماج کا نظام مکمل طور پر میرٹ (merit)کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔ مبنی بر میرٹ سماج (merit based society)کے اندر فطری طور پر ایک موافق عمل قائم ہو جاتاہے، جس کو آٹو میٹک چینلائزیشن (automatic channelization) کہا جاسکتا ہے۔ اس عمل (process)کے دوران اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ ہر آدمی آخر کار اپنی اس استثنائی خصوصیت کو دریافت کر لیتا ہے، جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا تھا۔
اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر اس بات کا طاقت ور محرک پا یا جاتا ہے کہ وہ اپنے سماج میں امتیازی درجہ حاصل کرے۔ یہ داخلی اسپرٹ اپنا کام کرتی ہے۔ آدمی نے اگر غلط چائس (choice) لے لیا ہے تو وہ اس کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنے چائس کو بدلے، اور اس چائس کو لے جس میں وہ اکسل (excel)کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس داخلی اسپرٹ کے ساتھ سماج کے اندر مبنی بر میرٹ نظام شامل ہو جائے تو اس کے بعد لازمی طور پر ایسا ہو تا ہے کہ ہر آدمی اپنے اس خصوصی رول کو پا لیتا ہے، جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا تھا —یہی زندگی کی تعمیرکافطری طریقہ ہے۔ کسی خود ساختہ طریقے سے اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا، خواہ بظاہر وہ کتنا ہی زیادہ خوش نما معلوم ہوتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 233

1- سویڈش ریسرچ اسکالر مسٹر متھیاس (Mattias Dahlkvist) نے صدر اسلامی مرکز کا مفصل انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا، اسلام کی سیاسی تعبیر، اور موجودہ مسلمان ۔ یہ انٹرویو دسمبر 2015کی 6اور 9 تاریخ کو ہوا۔ مسٹر متھیاس سویڈن کی امیاس یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں، اور اس سے پہلے بھی صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لے چکے ہیں۔
2- ملک کے مختلف حصوں میں بک فیرلگے، مثلا الٰہ آباد، کولکاتا، چنئی، حیدرآباد، بنگلور، دہلی وغیرہ۔ ان تمام بک فئر میںسی پی ایس کے علاقائی چیپٹرس نےاپنا اسٹال لگایا تھا۔ مسلم اور نان مسلم دونوں قارئین کا رسپانس بہت ہی اچھا رہا۔ ٹی وی چینل، مثلاً زی سلام، ای ٹی وی اردو، دور درشن، وغیرہ نے اسٹال پر آکر انٹرویو لیا۔ ایک وزیٹر نے یہ کہا کہ میں بہت دنوں سے قرآن کی تلاش میں تھا، ایک نے کہا کہ میں قرآن پڑھنا چاہتا ہوں، ایک نے کہا کہ سب کو قرآن پڑھنا چاہئے، وغیرہ۔
3- سینٹر فار پیس بنگلور نے26-28دسمبر 2014 کو ایک ورکشاپ منعقد کیا تھا۔ جس میں بنگلورکے سی پی ایس مشن کے تحت کام کرنے والے داعیوں نے حصہ لیا۔ اس ورکشاپ کا موضوع تھا، Peace and Positivity۔تمام شریک ہونے والوں نے اس کو اپنے لیے فائدہ مند بتایا۔
4- روشنی آئی بینک (eye bank) سہارن پور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اشوک جین نے 28 دسمبر 2014 کو ایک پروگرام آرگنائز کیا تھا۔ پروگرام کے آخر میں شریک ہونے والے تمام سرجن اورہاسپٹل میں موجودتمام مریضوں کو ہندی ترجمۂ قرآن اور سی پی ایس کا دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ یہ لٹریچر سی پی ایس کے سہارن پور چیپٹر نے مہیا کیا تھا۔
5- کوالالمپور، ملیشیا میں صبا اسلامک میڈیا نےاسٹریٹ دعوہ کا کام شروع کیا ہے۔ ملیشیا کے سابق وزیراعظم ماثر محمد نے 8 جنوری 2015 کواس پروگرام کا افتتاح کیا۔ اس پروگرام کا ماٹو یہ ہے: One Soul One Quran۔ اس پروگرام کے تحت صدر اسلامی مرکز کا انگلش ترجمۂ قرآن ملیشیا آنے والے ٹورسٹوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ اور تقریبا 80 یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس اس دعوتی کام میں حصہ لیں گے۔
6- 9 جنوری 2015 کو جرمنی کے ایک ڈیلی گیشن کو صدر اسلامی مرکز نے خطاب کیا۔ اس کے علاوہ سی پی ایس دہلی کے ممبران نے بھی خطاب کیا۔ خطاب کے موضوعات تھے، اسلام اور امن، جہاد، اسلام میں عورت، سماجی زندگی، وغیرہ۔ آخر میں سوال و جواب بھی ہوا۔ وفد کے تمام اراکین کو قرآن کا جرمن ترجمہ اور دیگر جرمن کتابیں دی گئیں۔
7- 25-26جنوری2015 کو ممبئی ٹیم نے کولکاتا کا دعوتی دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد مشن کے کام کو آگے بڑھانا اور دوسرے علاقوں میں مشن کے تحت کام کر رہے لوگوں کو اس طرح کے دعوتی دورے کی ترغیب دینا تھا۔ اس دعوتی و تربیتی پروگرام میں ممبئی ٹیم، کولکاتا ٹیم، ہاوڑہ ٹیم، دارجلنگ ٹیم، بہار ٹیم اورتامل ناڈوٹیم کے نمائندے شریک ہوئے تھے۔
8- 22 فروری 2015 کو سہارن پور جن منچ اور سی پی ایس سہارن پور نے مل کر انٹر کالج کے طلبہ کے لیے ایک مقابلہ کا پروگرام منعقد کیا تھا۔ جس میں اول نمبر آنے والے 150طلبہ کو صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن دیاگیا۔
9- 23 فروری 2015 کو سی پی ایس چنئی کی ایک ٹیم نے سیکریڈ ہارٹ کالج، چنئی کے ایم اے (فلسفہ) کے طلبہ کے سامنے اسلام اورسی پی ایس مشن کے موضوع پر لکچر دیا۔ تمام سامعین نے اس کو بہت پسند کیا۔
10- 25فروری 2015 کو سی پی ایس کی چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم نے آئی آئی ٹی دہلی میں ’’اسلام : مذہبِ امن‘‘ کے موضوع پر ایک پاور پائنٹ پرزنٹیشن دیا۔ لکچر کے بعد سوال و جواب ہوا۔پروگرام کے آخر میں قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر تمام سامعین کو بطور گفٹ دیا گیا، جسے تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ذیل میں ایک طالبہ کا تاثر نقل کیا جارہا ہے جو اس نے لکچر سننے کے بعد دیا ہے:
I never realized how important was the area in which the Centre for Peace and Spirituality was working till the time I attended the talk. After listening to the talk, it seemed as if Islam is one of the most sacred and peaceful religions of the world. It becomes difficult to accept the fact that people who indulge in violence call themselves followers of this religion. I really appreciate the work being done by CPS and its efforts in making people more humane in their approach towards fellow human beings. I was touched by the content of the talk and look forward to learning more in the area. (Shilpa Gahlot, IIT Delhi)
11- بڑی خوشی کی بات ہے کہ صدر اسلامی مرکز کی کتاب امن عالم کا انگریزی ترجمہ ہوچکا ہے۔ انگریزی ورزن کا نام ہے: Islam and World Peace۔ اس کے علاوہ ایک کتابچہ، اسلامی جہاد شائع ہوچکا ہے۔
12- جرمنی کے ایک پبلشر نے صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کو شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے، یہاں ان کا پیغام نقل کیا جارہا ہے:
I am enthused with Maulana’s books, and I think it is a great pity that they have not been translated into the German language yet. That is a service I would like to render. I would be glad if you could support me in my endeavor to introduce the books of this outstanding scholar to the German-speaking audience. I am sure the people in Germany would derive much benefit from them. May Allah reward the Maulana abundantly. )Mohammed Ardouz, Iqra Publications, Koln, Germany)
13- ذیل میں کچھ دعوتی تاثرات نقل کیے جارہے ہیں:
— میں ایک گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے کام کررہی تھی- ۱۹۹۲سے الرسالہ کی قاری ہوں جس زمانہ میں ،میں الرسالہ سے متعارف ہوئی اس زمانہ میں میں بہت ہی زیادہ اسٹریس (stress)اور گھریلو مسائل سے گزررہی تھی۔ اگر میں اس زمانہ میں الرسالہ سے متعارف نہ ہوتی اور مجھے صبر والی تعلیمات اور اس کا صحیح explanationنہ ملاہوتا تو میں نفسیاتی طور مکمل ٹوٹ گئی ہوتی ،میں اور میری فیملی مکمل طور سے بکھر کر رہ جاتی۔ الرسالہ نے مجھے اللہ سے جوڑا ،میرے اندر صبر ،قناعت ،توکل، شکر جیسی صفات پیدا کیا ،حالات کا تجزیہ کرکے اس کی مناسبت سے اس کا صحیح رسپانس دینے کی صلاحیت پیدا کی ۔الرسالہ کے بعد ہی میرے اندر قرآن کے معانی کو جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے اپنی لڑکی کی شادی میں قرآن کا ڈسٹریبیوشن بھی کیا ،اور مسلسل قرآن ساتھ میں رکھتی ہوں تاکی کوئی بھی دعوتی موقعہ ہاتھ سے نہ جائے ۔ریٹائر منٹ کے بعد میرا قرآن سے تعلق مزید بڑھ گیا ہے،ابcpsکی اکٹیو ممبر کی حیثیت سے کام کرنا چاہتی ہوں۔ میری دعا ہے کہ اللہ مجھے القرآن مشن کا ایک حصہ بنا دے ،اور اسلام کے پیغام امن کو عام کرنے کی توفیق بخشے (آمین) رحمت النساء،بنگلور
— انڈیا کے ایک بڑےمسلم ادارے نے الرسالہ کے تئیں پسندید گی کا ااظہار کرتے ہوئے یہ خط لکھا ہے:
محترم جناب ایڈیٹر صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ کا مجلہ ـالرسالہ اپنی تمام تر خصوصیتوں اور عمدہ طباعت کے ساتھ ادارے کی لائبریری کو پابندی سے موصول ہو رہا ہے۔ یہ مجلہ علمی و تحقیقی اور حسن انتخاب کے لحاظ سے طلبہ و اساتذہ کے لئے یکساں طور پر مفید ہے۔ اللہ آپ کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ محترم، اس مجلہ سے کم و بیش چار ہزار طلبہ و طالبات، اساتذہ و معلمات استفادہ کرتے رہے ہیں، اور عوام وخواص کی ایک بڑی تعداد نے بھی اس کو کافی پسند کیا ہے۔والسلام۔
— Feedback from a reader of the Spirit of Islam: The January 2015 issue of the Spirit of Islam carried valuable information for readers. I liked the article ‘Starting from Scratch’. The words, “Poverty is not deprivation, rather it is a challenge. Deprivation is a great motivator for achievement’’, are indeed noteworthy. Kindly spread ahimsa, love and affection through your journal. The write-up Get Rid of Depression will be useful to many. Promotion of global peace is the need of the hour. Albeit the title of your magazine, the articles are of universal significance. I wish you all the best on the occasion of the beginning of your third year with this issue. I congratulate the editorial committee for the efforts they take to publish the magazine. (S. Balasubramanian, Tamil Nadu)
— I give the Quran and What is Islam booklet to many non-Muslims such as doctors, professors and other people. I always put some books on Islam in my bag when I am going to school or somewhere away from home.This way I am able to give books to many people including new friends I meet. (Adama Ceesay, Taiwan)
واپس اوپر جائیں

Wednesday, 1 April 2015

Al Risala | April 2015 (الرسالہ،اپریل)

4

-قرآنی انقلاب

7

- نورِ الہی کا اتمام

8

- امن کا دور

11

- جہاد بالقرآن، جہاد بالسیف

13

- اجتماعی نظام، اصلاح افراد

15

- فہم قرآن

18

- تفسیر قرآن کا ایک اصول

20

- قرآن کا ایک پہلو

22

- ذمہ داری بقدر استطاعت

23

- انسان کا مقصد

24

- تبدیلی کے دودور

26

- قرآن کا تصورِ تاریخ

28

- قرآنی طریق ِ کار

29

- انسانیت کی منزل جنت

30

- خلافت ارضی

31

- انسان کا امتحان

32

- اسلام کی تعلیمات

33

- ایک قرآنی اسلوب

34

- قوّام کا اصول

35

- عدل کا مسئلہ

36

- کلمۂ سَوا کا اصول

37

- کائناتی شخصیت

38

- نظریہ، تاریخ

39

- اسلام کے دو پہلو

41

- عالمی نشانۂ دعوت

42

- صبر کی اہمیت

43

- جنتی کام

45

- قرآن اور مثلِ قرآن

47

- دنیا ، آخرت

48

- آیت امانت


قرآنی انقلاب

قرآن سادہ معنوں میں ایک مذہبی کتاب نہیں- قرآن کے نزول کا مقصد یہ تھا کہ تاریخ میں ایک بڑا انقلاب لایا جائے- اسی بات کو قرآن میں لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ( 9:33) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے- یہ انقلاب اچانک نہیں آسکتا تھا- اس کی صورت صرف یہ تھی کہ تاریخ میں ایک طاقت ور عمل (strong process) جاری کیا جائے- اس عمل کو اس طرح جاری رکھنا تھا کہ انسانی آزادی بھی باقی رہے، اور یہ عمل بھی تاریخ میں سفر کرتے ہوئے اپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچ جائے- اللہ کے منصوبے کے تحت یہ عمل ساتویںصدی عیسوی کے نصف اول میں شروع ہوا، اور بیسویں صدی میں وہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا- موجودہ زمانے میں جس ظاہرہ کو عام طور پر مغربی تہذیب کہاجاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسی عمل کی تکمیل کا دوسرا نام ہے- اِس لحاظ سے اس تہذیب کو زیادہ درست طورپر خدائی تہذیب (Divine Civilization) کہنا چاہئے۔
نظام فطرت
خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق انسان کو موجودہ زمین (planet earth) پر ابتلا (test) کے لیے پیدا کیا گیا ہے- اس مقصد کے لیے انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے- فرشتوں کی نگرانی میں یہ دیکھا جارہاہے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کررہاہے، اور کون شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کررہا ہے- اِسی ریکارڈ کے مطابق ہر فرد کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا-مگر انسانوں کی اکثریت نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا- اس غلط استعمال کی سب سے زیادہ نامطلوب صورت یہ تھی کہ کچھ انسانوں نے پوری دنیا میںاجارہ داری (monopoly) کا نظام قائم کردیا— سیاسی اجارہ داری، اقتصادی اجارہ داری، مذہبی اجارہ داری، خاندانی اجارہ داری، وغیرہ- اجارہ داری کے اس نظام کی بنا پر انسانی آزادی کا وہ ماحول باقی نہ رہا جو مطلوب امتحان کے لئے ضروری تھا- اللہ تعالی نے یہ چاہا کہ اجارہ داری کے اس نظام کو ختم کرکے دنیا میں فطری آزادی کا ماحول واپس لایا جائے- قرآن کے ذریعہ یہی انقلاب مطلوب تھا، جس کو ایک لفظ میں ختمِ اجارہ داری (de-monopolization) کہاجاسکتا ہے-
سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ
یہ غیر فطری نظام اصلاً سیاسی اجارہ داری کے زور پر قائم تھا- اس لیے یہ مطلوب تھا کہ تاریخ میں ایک ایسا عمل جاری کیا جائے، جس کے نتیجہ میں سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ ہوجائے، اور نتیجتاً دوسری تمام اجارہ داریاں بھی ختم ہوجائیں- تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام کے ذریعہ یہ عمل شروع ہوا- اس عمل کے دوران سب سے پہلے عرب میں قبائلی اجارہ داری (tribal monopoly) کا دور ختم کیا گیا- اس کے بعد اصحابِ رسول کے ذریعے ساسانی سلطنت اور رومی سلطنت کا خاتمہ کیاگیا-یہ دنیا سے سیاسی اجارہ داری ختم کرنے کا آغاز تھا- اس کے بعد جب مسلمان زمین کے مختلف حصوں میں پھیلے تو انھوں نے مختلف مقامات پر قائم شدہ چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کو ختم کرکے ہمیشہ کے لیے سیاسی اجارہ داری کے دور کا خاتمہ کردیا-
تاہم مسلمان اس تاریخی عمل میں صرف بقدر نصف اپنا حصہ ادا کرسکے- سابقہ شاکلہ (previous mindset) کے تحت، مسلمانوں نے یہ کیا کہ خلافت کے نام سے دوبارہ خاندانی نظامِ حکومت (dynasty) کو قائم کردیا- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان مطلوب عمل میں صرف جزئی کردار ادا کرسکے-
کروسیڈس کا دور
بارھویں اور تیرھویں صدی میں مسلم حکومتوں اور مسیحی حکومتوں کے درمیان جنگ پیش آئی- اس جنگ میں بظاہر مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی، لیکن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے کروسیڈس کا یہ واقعہ، مذکورہ تاریخی عمل میں ایک شفٹ (shift)کا ذریعہ بن گیا- اس کے بعد یورپ میں ایک نیا عمل شروع ہوا، جس کو بعض مورخین نے روحانی کروسیڈس (spiritual crusades) کا نام دیا ہے، یعنی غیر سیاسی کروسیڈس- کروسیڈس سے پہلے مذکورہ عمل مسلم اقوام کے ذریعہ جاری ہوا- مسلمان اس عمل کو سیاسی سطح پر انجام دے رہے تھے- مگر یہ عمل اپنے مطلوب خاتمہ تک نہیں پہنچا- اس کے بعد اللہ تعالی کو یہ منظور ہوا کہ اس عمل کی ذمہ داری مغربی اقوام کو سونپی جائے- چنانچہ ایسا ہی ہوا، اور مغربی اقوام نے مذکورہ عمل کو اس کی آخری حد تک پہنچایا- اس کے بعد یہ ہوا کہ تدریجی طورپر وہ دور ختم ہوگیا جس کو اوپر ہم نے اجارہ داری کا دور کہا ہے-
شفٹ کا یہ واقعہ خدائی منصوبے کے تحت ہوا- چنانچہ حدیث میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کیاگیا ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (البخاری: 3062) یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد فاجر (secular) انسان کے ذریعہ کرے گا- ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: لیؤیدن اللہ ہذا الدین بقوم لاخلاق لھم (صحیح ابن حبان: 4517) یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد ایسی قوم کے ذریعہ کرے گا، جن کا (دین میں) کوئی حصہ نہ ہوگا- ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ لیؤید ہذا الدین برجال ما ہم من أھلہ (مجمع الزوائد: 9567) یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا جو اہل (دین) میں سے نہ ہوں گے- اس حدیث میں بظاہر غیرمسلم اقوام سے مراد مغربی اقوام ہیں-
کروسیڈس کی لڑائیوں میں مغربی قوموں کو ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) ہوئی- یہ شکست خدائی منصوبے کے مطابق تھی- اس شکست نے ایک نیا جبر (compulsion) پیدا کیا- مغربی قومیں اس زمانے میں مسلم قوموں کی حریف بن گئی تھیں، لیکن کروسیڈس کی لمبی لڑائی میں شکست کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ مغربی قومیں فوجی میدان میں لڑ کر مسلمانوں پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتیں- اس صورت حال نے مغربی قوموں کو مجبور کیا کہ وہ غیر فوجی میدان میں اپنا عمل جاری کریں- یہی وہ عمل ہے جس کو نشأة ثانیہ (Renaissance)کہاجاتا ہے- مغربی یورپ میں یہ عمل چودھویں صدی عیسوی سے لے کر سولھویں صدی عیسوی تک جاری رہا- یہی وہ دور ہے جس زمانے میں یورپ میں پرنٹنگ پریس ایجاد کیاگیا-اس کے بعد یورپ میں مزید ترقیاں ہوئیں، یہاں تک کہ وہ ترقی یافتہ زمانہ آیا جس کو مغربی تہذیب (western civilization) کہاجاتا ہے- یہ تہذیب پوری انسانی تاریخ کا ایک اعتبار سے نقطۂ عروج ہے- مغربی تہذیب کے زمانے میں وہ تمام واقعات پیش آئے جو قرآنی اسکیم کے تحت مطلوب تھے- اس لیے زیادہ درست طورپر اس کو خدائی تہذیب (Divine Civilization) کہنا چاہئے- مغربی تہذیب نے یہ کیا کہ اجارہ داری کے دور کو ختم کردیا، اس طرح انسانی آزادی کا وہ مطلوب ماحول پیدا ہوگیا جو خدا کے نقشۂ تخلیق کے مطابق درکار تھا-
واپس اوپر جائیں

نورِ الہی کا اتمام

قرآن میں مستقبل کے ایک واقعہ کا ذکر ہے، اس کو اتمام نور ( 61:8) کہاگیا ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے نزول یا اسلام کے ظہور سے جو کچھ مطلوب تھا، وہ فوراً حاصل ہونے والا نہ تھا-اس کے لیے ضروری تھاکہ تاریخ میں ایک لمبا عمل (long process) جاری ہو، اور پھر اس کی تکمیل پر تمام مطلوب چیزیں کلی طورپر حاصل ہوجائیں-
یہ مطلوب نشانہ کب پورا ہوا- غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں جو انقلاب آیا، وہ اس معاملے کا آغاز تھا- اس انقلاب نے تاریخ میں ایک عمل (process)جاری کیا- ہزار سال سے زیادہ مدت تک یہ طاقت ور عمل مختلف صورتوں میں تاریخ میں جاری رہا- یہاں تک کہ آخری طورپر بیسویں صدی عیسوی میں یہ تمام چیزیں کامل طورپر حاصل ہوئیں-اس عمل میں مختلف اقوام عالم نے حصہ لیا- کسی نے شعوری طورپر اور کسی نے غیر شعوری طورپر، کسی نے دینی جذبہ کے تحت اور کسی نے سیکولر جذبہ کے تحت، کوئی براہِ راست طورپر اس تاریخی عمل کا حصہ بنا اور کوئی بالواسطہ طورپر اس تاریخی عمل کا حصہ بنا-
قرآن کی مذکورہ آیت میں نور الہی سے مراد کوئی پراسرار چیز نہیں ہے- اس سے مراد ہدایت انسان کی وہ تحریک ہے، جو اللہ کی خصوصی نصرت سے شروع ہوئی ، اور انسانی آزادی، اور اسباب وعلل کو باقی رکھتے ہوئے مسلسل طورپر جاری رہی- اس عمل کی تکمیل اس طرح نہیں ہوسکتی تھی، جس طرح روشن سورج نکلتا ہے- سورج کا سفر خلا (space) میں جاری ہوتاہے، جب کہ دعوتِ توحید کا مشن انسانوں کے درمیان جاری ہوتا ہے- اس فرق کی رعایت کے ساتھ ہدایت الہی کا مشن تاریخ میں جاری ہوا اور مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے اپنی تکمیل تک پہنچا- بیسویں صدی اس عمل کی تکمیل کی صدی تھی- اب دعوت کے تمام مطلوب مواقع کھل چکے ہیں- اہلِ ایمان کو چاہئےکہ وہ ان مواقع کو پہچانیں، اور بھر پور طور پر ان کو استعمال کریں-
واپس اوپر جائیں

امن کا دور

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: عن خباب بن الأرت شکونا إلى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، وھو متوسد بردة لہ فی ظل الکعبة، فقلنا: ألا تستنصر لنا، ألا تدعولنا؟ فقال: قد کان من قبلکم، یؤخذ الرجل فیُحفَر لہ فی الأرض، فیُجعَل فیہا، فیُجَاء بالمنشار فیُوضَع على رأسہ فیُجعَل على نصفین، ویُمشَط بأمشاط الحدید ما دون لحمہ وعظمہ، فما یصدہ ذلک عن دینہ- واللہ لیُتَمنَّ ہذا الأمر، حتى یسیرَ الراکبُ من صنعاء إلى حضر موت، لا یخاف إلا اللہ والذئب على غنمہ، ولکنکم تستعجلون (صحیح البخاری: 6943)
یعنی حضرت خباب کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی-اور اس وقت آپ کعبہ کے سائے میں اپنی ایک چادر کا تکیہ لگائے ہوئے لیٹے تھے- ہم نے کہا کہ کیا آپ ہمارے لیے مدد نہیں مانگتے، کیا آپ ہمارے لیے دعانہیں کرتے- آپ نے فرمایا: تم سے پہلے جو لوگ تھے ان کا حال یہ تھاکہ ایک شخص کو پکڑا جاتا، پھر اس کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا، پھر اس کو اس میں گاڑ دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا، پھر اس کو آدمی کے سر پر رکھا جاتا، پھر آرا چلا کر اس آدمی کے جسم کے دو ٹکڑے کردئے جاتے- لوہے کی کنگھی سے، اس میں کنگھی کی جاتی یہاں تک کہ وہ اس کے گوشت اور ہڈی تک پہنچ جاتا، مگر یہ چیز آدمی کو اس کے دین سے نہ روکتی- قسم اللہ کی، اللہ اِس امر کو ضرور پورا کرکے رہے گا، یہاں تک کہ یہ حال ہوگا کہ ایک مسافر صنعاء سے حضرموت تک جائے گا، اور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہ ہوگا- اور اس کو اپنی بکریوں پر صرف بھیڑیے کا ڈر ہوگا، مگر تم لوگ جلدی کررہے ہو-
اس حدیث میں دراصل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے ایک اہم پہلو کو بتایا گیا ہے- پیغمبر اسلام کے مشن کا ایک پہلو یہ تھا کہ اس دنیا میں ایسا انقلاب لایا جائے، جس کے نتیجے میں دنیا میں مذہبی امن قائم ہوجائے- ہزاروں سال سے جاری شدہ مذہبی تشدد (religious persecution) کا مکمل خاتمہ ہوجائے- تاہم آپ کے مشن کا یہ نتیجہ ایک تدریجی عمل کے ذریعہ مستقبل میں ظاہر ہونے والا تھا، نہ کہ فوری طور پر خود زمانۂ رسول میں-
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ عمل شروع ہوا- پہلے قبائلی سطح پر مذہبی تشدد کا خاتمہ ہوا- اس کے بعد ایک تدریجی عمل کے ذریعہ حکومتی سطح پر اس کا عملاً خاتمہ ہوگیا- یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں اقوام متحدہ (UNO) قائم ہوئی- اس کے تحت دنیا کی تمام قوموں کے نمائندوں نے بین اقوامی طورپر یہ عہد کیا کہ ان کے ملکوں میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے خلاف تشدد نہیں کیاجائے گا-
تشدد (violence) ایک ایسا معاملہ ہے جو ہمیشہ دو فریقوں کے درمیان ہوتا ہے، تشدد کرنے والا اور تشدد کا شکار ہونے والا- قدیم زمانے میں مذہب ، حکومت کا ایک شعبہ سمجھا جاتا تھا- یہ سمجھا جاتا تھاکہ جائز مذہب وہی ہے جو سرکاری مذہب (official religion) ہو- کوئی شخص سرکاری مذہب کے سوا کوئی اور مذہب اختیار کرے تو یہ ایک ایسا جرم تھا، جو حکومت سے بغاوت کے ہم معنی تھا- یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں اس شخص کو تشدد کا شکار ہونا پڑتا تھا،جو حکومت کے اختیار کردہ مذہب کے سوا کسی اور مذہب کو اپنا مذہب بنائے-
قدیم زمانے میں ساری دنیا میں خاندانی حکومتوں کا نظام قائم تھا- یہ لوگ اپنی حکومت کے استحکام کے لیے، کسی اختلاف کو برداشت نہیں کرتے تھے- یہ صورت حال اللہ کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے خلاف تھی-
اللہ کی منشا یہ ہے کہ مذہب کے معاملے میں ہر انسان کو آزادی حاصل ہو، تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ کس نے صحیح طریقہ اختیار کیا اور کس نے غلط طریقہ اختیار کیا- اس لیے رسول اور رسول کے ماننے والوں کو یہ حکم دیاگیا کہ تم لوگ مذہبی تشدد پر مبنی اس نظام کو ختم کردو ( 8:39)، تاکہ انسانوں کے درمیان وہ حالت فطری قائم ہوجائے جو خالق کو مطلوب ہے-
مذکورہ حدیث میں اسی منصوبۂ خداوندی کا ذکر کیا گیا ہے- اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے فیصلہ کے مطابق، حتمی طورپر یہ ہونے والا ہے کہ دنیا میں مذہبی آزادی (religious freedom) آئے، اور مذہبی تشدد کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے-
مذہبی آزادی کا یہ دور بیسویں صدی میں پوری طرح آگیا- اب مذہب کے معاملے میں کسی کے اوپر کوئی جبر نہیں- اب تشدد کا معاملہ صرف اس شخص یا گروہ کے ساتھ پیش آئے گا، جو اپنی طرف سے غیر ضروری تشدد کرکے فریق ثانی کو جوابی تشدد کا موقع دے- تشدد کرنے والے کو بہر حال جوابی تشدد کا شکار ہونا پڑے گا، خواہ اس نے اپنا تشدد مذہب کے نام پر کیا ہو یا مذہب کے سوا کسی اور نام پر-
واپس اوپر جائیں

جہاد بالقرآن، جہاد بالسیف

اسلام میں جہاد کے عمل کو خصوصی درجہ حاصل ہے- جہاد کا مطلب لڑائی نہیں ہے، جہاد کا لفظی مطلب بھرپور کوشش (utmost struggle)ہے- کوئی شخص ایک مقصد کے حصول میں اپنی ساری کوشش صرف کردے تو اسی کا نام جہاد ہے- قرآن کے مطابق، جہاد کی دو بڑی صورتیں ہیں، جہاد بالقرآن اور جہاد بالسیف-جہاد بالقرآن کا ذکر قرآن میں اس طرح آیا ہے: وَجَاہِدْہُمْ بِہِ جِہَاداً کَبِیْراً (25:52) یعنی اور قرآن کے ذریعہ ان سے جہاد کرو، بڑا جہاد - قرآن کے ذریعہ جہاد کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ قرآن کے پیغام کو لوگوں کے درمیان نظریاتی طورپر پھیلایا جائے، یعنی پرامن طورپر دعوتی کام (peaceful dawah work) انجام دینا- اسلام کا اصل مشن دعوت الی اللہ ہے- یہ ایک پر امن پیغام رسانی کا عمل ہے، جو ہمیشہ اور ہر حال میں جاری رہنے والا ہے-
جہاد بالسیف کو قرآن میں قتال (war) کہاگیا ہے ،اور اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:وَقَٰتِلُوہُمْ حَتَّىٰ لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ ٱلدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ ۚ فَإِنِ ٱنتَہَوْا۟ فَإِنَّ ٱللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ. (8:39) یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے- اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے- پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ ان کے عمل کو دیکھنے والا ہے- اِس آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قتال کا یہ عمل کوئی مستقل عمل نہیں - وہ ایک محدود عمل ہے، جو صرف ختم فتنہ تک جاری رہے گا- فتنہ ختم ہوجائے تو یہ قتال بھی ختم ہوجائے گا-
ایک حدیث کی وضاحت
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: الجہاد ماض إلى یوم القیامة، مذ بعث اللہ محمدا صلى اللّہ علیہ وسلم إلى آخر عصابة من المسلمین، لا ینقض ذلک جور جائر، ولا عدل عادل (المعجم الأوسط للطبرانی، رقم الحدیث: 4775) یعنی جہاد جاری رہے گا قیامت تک، اس وقت سے جب کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا، مسلمانوں کی آخری جماعت تک- اس کو نہ ظالم کا ظلم روکے گا اور نہ عادل کا عدل-
حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جہاد سے مراد جہاد بالقرآن ہے نہ کہ جہاد بالسیف- حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ جہاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی شروع ہوجائے گا- یہ کون سا جہاد تھا جو کہ پیغمبراسلام کی بعثت کے بعد شروع ہوا- جیسا کہ معلوم ہے، بعثت کے بعد پیغمبر اسلام تیرہ سال تک مکہ میں رہے- اس دوران آپ نے کوئی جہاد بالسیف نہیں کیا- آپ نے جوکچھ کیا، وہ صرف یہ تھا کہ آپ اہلِ مکہ کے درمیان پرامن طورپر قرآن کا پیغام پھیلاتے رہے-دوسری بات یہ کہ حدیث میں بتایا گیاہے کہ عادل حاکم کا زمانہ ہو تب بھی جہاد کا یہ عمل جاری رہے گا- ظاہر ہے کہ اس سے مراد جہاد بالسیف نہیں ہوسکتا، کیوں کہ عادل حاکم کے خلاف جہاد ایک فساد کا عمل ہوگا نہ کہ جہاد کا- اس سے مراد لازمی طور پر جہاد بالقرآن ہے، یعنی پرامن دعوتی عمل- پرامن دعوتی عمل ایک ایسا کام ہے، جس کا تعلق ظالم حکمراں یا عادل حکمراں سے نہیں ہے- دعوتی عمل کا مقصد ہے ہر پیدا ہونے والے عورت اور مرد تک اللہ کا پیغام پہنچانا- یہ مکمل طورپر ایک پرامن عمل ہے جو ہر دور میں بلا انقطاع جاری رہے گا-
جہاد کا لفظی مطلب کوشش کرنا (to strive) ہے- اصلاً جہاد کا لفظ پرامن کوشش کے لئے بولا جاتا ہے- مثلاً حدیث میں آیا ہے: المجاہد من جاہد نفسہ فی طاعة اللہ (مسند احمد، رقم الحدیث: 23958)-یعنی جہاد کرنے والا وہ ہے جو اپنے نفس سے اللہ کی اطاعت میں جہاد کرے-اس روایت کے مطابق جہاد ایک ایسا عمل ہے جو خود اپنے نفس کے خلاف ہوتا ہے- ظاہر ہے کہ اپنے نفس کے خلاف جو جہاد کیا جائے گا وہ صرف پرامن جہاد ہوگا، یعنی اپنے نفس کا محاسبہ کرنا، اپنی خواہشوں کو کنٹرول کرنا-حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں جہاد کا لفظ دعوت الی اللہ کے لئے آیا ہے، یعنی دعوتی مشن کے لئے پرامن جدوجہد- دعوتی مشن ایک مستقل مشن ہے- وہ مختلف انداز میں اور مختلف طریقوں سے ہر دور میں جاری رہتا ہے- مثلاً دنیا کی ہر زبان میں قرآن کے ترجموں کی اشاعت، ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق اسلامی لٹریچر تیار کرکے اس کو پھیلانا، دعوت کی عالمی اشاعت کے لئے پروگرام بنانا، موجودہ زمانے میں الیکٹرانک طریقوں کو اسلام کا پیغام پھیلانے کے لئے استعمال کرنا، وغیرہ-
واپس اوپر جائیں

اجتماعی نظام، اصلاح افراد

اسلام میں اجتماعی نظام کا اصول الگ ہے، اور افراد کی اصلاح کا اصول الگ- یہی طریقہ خالق کے قائم کردہ فطری نظام کے مطابق ہے- اگر ان دونوں پہلوؤں کو ایک کردیا جائے تو دونوں میں سے کسی کی اصلاح کا حق ادا نہیں ہوگا- جب کہ دونوں پہلوؤں کا نظم الگ کرنے کی صورت میں دونوں کا حق ادا کرنا ممکن ہوجاتا ہے-
اصل یہ ہے کہ فرد کی اصلاح کا معاملہ آخرت سے جڑا ہوا ہے- آخرت میں ہر فرد سے اس کے ذاتی عمل کی بنیاد پر الگ الگ معاملہ کیا جائے گا- اس لیے اسلامی نقشے میں فرد کے معاملے کو اس کے ذاتی فیصلے پر منحصر قرار دیا گیا ہے- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ : وَقُلِ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّکُمْ ۖ فَمَن شَآءَ فَلْیُؤْمِن وَمَن شَآءَ فَلْیَکْفُرْ(18:29)- اس کا مطلب یہ ہے کہ فرد (individual) کے معاملے میں اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ پرامن انداز میں حق کی وضاحت کی جاتی رہے- دلائل کے ذریعہ حق کو لوگوں کے لیے قابل قبول اور قابل فہم (understandable) بنایا جاتا رہے- یہ فرد کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ اس کو قبول کرتا ہے یا وہ اس کا انکار کردیتا ہے-
جہاں تک مجتمع (society) کی بات ہے، اس کا اصول قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَأَمْرُھُمْ شُوْرَیٰ بَیْنَہُمْ (42:38) یعنی اور ان کا نظام شوریٰ پر ہے- قرآن کی اس آیت کا ترجمہ اگر انگریزی زبان میں کیا جائے تو وہ یہ ہوگا:
And whose affairs are decided by mutual consultation.
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے مطابق سماج کا نظام شوریٰ پر مبنی ہونا چاہئے، اسی طریقہ پر جس کو موجودہ زمانے میں جمہوریت (democracy) کہاجاتا ہے- یعنی اجتماعی معاملات میں سماج کے افراد سے مشورہ کیا جائے، اور پھر یا تو اتفاق رائے کی بنیاد پر یا کثرت رائے کی بنیاد پر اجتماعی معاملات کا فیصلہ کیا جائے- یہی جمہوریت کی روح ہے، اور یہی شوریٰ کا مقصود بھی-
اصل یہ ہے کہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، اس دنیا میں ہر انسان کو آزادی حاصل ہے- یہ آزادی اتنی زیادہ حتمی ہے کہ اس کو منسوخ (abolish)کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں- اس لئے سماجی نظم کے معاملے میں صرف عملیت (pragmatism) کا طریقہ چل سکتاہے، معیار (idealism) کا طریقہ سماج کے معاملے میں قابل عمل نہیں- اگر سماج کے معاملے میں آئیڈیلزم کو چلایا جائے تو نتیجہ کے اعتبار سے اس کا انجام بدنظمی (anarchy) ہوگا، نہ کہ آئیڈیلزم-
اس معاملے کا قابل عمل حل یہ ہے کہ سماج کے معاملے میں جمہوریت کا طریقہ اختیار کیا جائے، یعنی مقرر مدت پر آزادانہ اور منصفانہ الیکشن (free and fair election) ہو، اور پھر منتخب افراد کے ذریعہ محدود مدت کے لیے ایک سماجی نظم قائم کیا جائے- یہ نظم سماج یا عوام کی رضامندی کی بنیاد پر مقرر مدت (term) تک چلایا جائے گا، نہ کہ کسی معیاری اصول کی بنیاد پر- مقرر مدت پوری ہونے پر دوبارہ الیکشن ہو، اور منتخب افراد دوبارہ محدود مدت کے لیے نظم کو سنبھالے- اجتماعی نظم کے معاملے میں یہی صورت قابل عمل ہے، اور یہی صورت خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ہے-
افراد کے معاملے میں جو کچھ مطلوب ہے، اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّىٰہَا. فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَىٰہَا. قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّىٰہَا. وَقَدْ خَابَ مَن دَسّٰہَا.(91:7-10) اور نفس انسانی اور جیسا کہ اس کو ٹھیک کیا، پس اس کو سمجھ دی اس کی بدی اور نیکی کی- کامیاب ہوا جس نے اس کو پاک کیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو آلودہ کیا-
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیقی نقشہ کے مطابق، فرد کی اصلاح، ہر شخص کا اپناذاتی معاملہ ہے -ہر شخص کو خود یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی فطرت کو زندہ کرے، اور خالق کے مطلوب نقشے کے مطابق، اپنی شخصیت کی تعمیر کرے- اسی شخصیت کو قرآن میں مزکیّٰ شخصیت (purified personality) کہا گیا ہے- یہ مزکیّٰ شخص ایک خود تعمیر کردہ انسان (self-made man) ہوتا ہے- یہی وہ انسان ہے، جس پر دنیا کی زندگی میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اور یہی وہ انسان ہے جس کو آخرت میں جنت کے ابدی باغوں میں داخل کیا جائے گا-
واپس اوپر جائیں

فہم قرآن

فہم قرآن کی کلید (key) کیاہے، اس کے بارے میں اہلِ علم نے کئی باتیں لکھی ہیں- مثلاً کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن فہمی کے لئے پندرہ علوم کا جاننا ضروری ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن فہمی کے لئے سب سے زیادہ اہمیت شان نزول کی روایات کی ہے- کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ سب سے اچھا طریقہ تفسیر، تفسیر القرآن بالقرآن ہے- کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ قرآن فہمی کے لئے سب سے زیادہ اہمیت نظم (order)کی ہے، نظم بین الآیات، نظم بین السور- ان کے نزدیک نظم قرآن کو جاننا ہی قرآن فہمی کی اصل کلید (master key)ہے-
مگر ان میں سے ہر بات صرف جزئی طورپر درست ہے، نہ کہ کلی طورپر- اصل یہ ہے کہ قرآن فہمی کی دو سطحیں (levels) ہیں- ایک ہے قرآن، اوردوسری چیزہے تطبیقی قرآن (applied Quran)- قرآن فہمی کی پہلی سطح یہ ہے کہ بوقت نزول، قرآن کے معاصرین کے لئے اس کا مفہوم کیا تھا- قرآن فہمی کی دوسری سطح یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے بدلے ہوئے حالات میں قرآن کی تطبیقی معنویت (applied meaning) کیا ہے-
قرآن فہمی کی مذکورہ تمام شرطیں صرف سطحِ اول کے اعتبار سے قرآن کے فہم (understanding) میں مددگار ہوسکتی ہیں- مگر جہاں تک قرآن فہمی کی دوسری سطح کا معاملہ ہے، یعنی عصر حاضر کی نسبت سے قرآن کی تطبیقی معنویت، اس اعتبار سے تمام شرطیں بالکل ناکافی ہیں- سطحِ اول کے اعتبار سے قرآن کو جاننے کا فائدہ صرف یہ ہےکہ آدمی کے لئے قرآن تاریخی اعتبار سے ایک قابل فہم کتاب بن جائے- مگر جہاں تک عصر حاضر کی بات ہے، اس اعتبار سے آج کے انسان کو قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں ملے گی- وہ عقیدہ کی حد تک قرآن کو مانے گا، لیکن زمانے کی نسبت سے قرآن کو اپنے لئے ایک زندہ رہنما (living guide) بنانا اس کے لئے ممکن نہ ہوگا- حالاںکہ قرآن کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ ابدی طور پرہر انسان کے لئے ایک رہنما کتاب ہے-
اس معاملے کی ایک مثال قرآن کی سورہ یوسف ہے- اس قصہ کو اللہ تعالی نے احسن القصص (best story)کہاہے- اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس سورہ میں کوئی غیر معمولی بات بتائی گئی ہے-
عربی زبان اور دوسری زبانوں میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں، ان میں سورہ یوسف کے بارے میں کافی بحث موجود ہے- لیکن یوسف کا قصہ احسن القصص کیوں ہے، اس پر کسی تفسیر میں کوئی واضح رہنمائی نہیں ملتی- عقل کا تقاضا ہےکہ جب یوسف کا قصہ احسن القصص ہے تو اس کا احسن ہونا صرف گزرے ہوئے ماضی کے اعتبار سے نہیں ہوسکتا، ضروری ہے کہ زمانہ حاضر کے اعتبار سے اس میں کوئی احسن رہنمائی موجود ہو-
اس پہلو سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورہ میں احسن القصص کا لفظ حقیقتاً احسن منہج (best method) کے معنی میں ہے، یعنی طریقہ کار کا بہترین نمونہ- حضرت یوسف کا قصہ قرآن اور بائبل دونوں میں آیا ہے- دونوں کے مطالعے سے جو تصویر بنتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف کے زمانے میں مصر میں بادشاہت کا نظام تھا- اس زمانے میں زراعت کسی حکومت کا سب سے بڑا شعبہ ہوتا تھا- اس وقت کا مصری بادشاہ اس پر راضی ہوگیا کہ پولیٹکل اتھاریٹی کے اعتبار سے وہ تخت پر رہے، اور حکومت کا نظام حضرت یوسف کے سپرد کردے- قرآن میں یہ بات اس طرح کہی گئی ہے کہ مصر میں دین ملک (law of the land) بدستور بادشاہ کا ہو، اور خزائن ارض (ملک مصر کا زرعی نظام) حضرت یوسف کے ہاتھ میں رہے- اس معاملے کو بائبل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے:
فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا-
Only in regard to the throne will I be greater than you. (Genesis: 41/40)
حضرت یوسف کا زمانہ ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے- اس زمانے کا مصری بادشاہ اس پر راضی ہوگیا کہ قانونی اعتبار سے پولیٹکل اتھاریٹی (political authority) کا درجہ اس کو حاصل ہو، اور نان پولیٹکل (non-political) دائرے میں زمین کا انتظام حضرت یوسف کے ہاتھ میںرہے- یہ گویا پولیٹکل سیٹلمنٹ (political settlement) کا ایک معاملہ تھا،جس میں تخت پر تو بادشاہ بیٹھا ہوا تھا، لیکن جہاں تک ملکی انتظام کا معاملہ ہے، وہ عملاً حضرت یوسف کے ہاتھ میں دے دیا گیا (12:56) -
حضرت یوسف کو مصر میں یہ مواقع ایک بادشاہ کے ذاتی مزاج کی بنا پر شخصی طورپر حاصل ہوئے تھے- اب تطبیقی تفسیر کے اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ زمانے میں یہ مواقع خود زمانی تبدیلی کی بنا پر تمام اہل ایمان کو عمومی طورپر حاصل ہوگئے ہیں- جدید جمہوری تصور کے مطابق کوئی حاکم (ruler) صرف چند سال کے لئے ہوتا ہے- موجودہ زمانے میں حکومت کی حیثیت اصولاً انتظام (administration) کے ادارے کی ہوتی ہے- انتظامی دائرے کے باہر کے تمام شعبے بشمول مذہبی تبلیغ، آزاد شعبے کی حیثیت رکھتے ہیں- ہر فرد کو حق ہے کہ وہ تمام غیر حکومتی شعبوں میں جس طرح چاہے عمل کرے، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے پرامن طریقہ (peaceful method) اختیار کرے، وہ کسی کے خلاف ٹکراؤ کا معاملہ نہ کرے، نہ عام شہری کے خلاف اور نہ حکومت کے خلاف-
گویا کہ زمانی تبدیلی کے نتیجے میں اب احسن القصص کی حیثیت ایک عالمی اصول کی ہوگئی ہے- یہ اس سورہ کی تطبیقی تفسیر ہے- اس تفسیر کی روشنی میں سورہ یوسف آج کے انسان کے لئے ایک رہنما سورہ بن جاتی ہے- یہی طریقہ پورے قرآن کے لئے مطلوب ہے- اس طرح قرآن آج کے انسان کے لئے ایک رہنما کتاب بن جاتا ہے جب کہ مذکورہ تفسیری اصولوں کی روشنی میں قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو قرآن ماضی کی ایک گزری ہوئی کہانی کی مانند نظر آئے گا-
واپس اوپر جائیں

تفسیر قرآن کا ایک اصول

قرآن میں اہلِ ایمان کے دو گروہوں کا ذکر ہے- ایک وہ جن کے لیے مُستَضْعفین (4:97) کا لفظ آیا ہے، یعنی کمزور (the weak)- ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن میں کہاگیا ہے کہ وہ ہجرت کرکے دوسرے پرامن مقامات پر چلے جائیں- اہلِ ایمان کا دوسرا گروہ وہ ہے، جو صاحب قوت ہو- ایسے لوگوں کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ تم ائمہ کفر ( 9:12) سے جنگ کرو، اور ان کے اوپر غلبہ حاصل کرو-
امام ابن تیمیہ (وفات: 728ھ) نے ان آیتوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو مسلمان کمزور حالت میں ہوں، وہ صبر اور صفح کے اصول پر عمل کریں- اور دوسرا مسلم گروہ ، جو صاحب قوت ہو اس کو چاہئے کہ وہ قتال کرکے مخالفین کو زیر کرے (الصارم المسلول: 2/412-414)- یہی تقریباً تمام مسلم علماء کا مسلک ہے- عام طورپر مسلمان اسی طرز فکر کو اسلامی طرز فکر سمجھتے ہیں- مگر یہ طرز فکر اسلامی بصیرت کے مطابق نہیں- یہ طرز فکر آج ایک غیر متعلق طرز فکر بن چکا ہے-
ضعیف اور قوی کے الفاظ مطلق (absolute) الفاظ نہیں- ان کا تعین ہمیشہ حالات کی نسبت سے ہوتا ہے- قدیم زمانے میں جو حالات تھے، ان کے تحت ضعیف اور قوی کی یہ تقسیم بنی تھی- نئے حالات میں یہ تقسیم ختم ہوچکی ہے- اب نہ کوئی ضعیف ہے اور نہ کوئی قوی- اب ہر آدمی خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، یکساں طورپر آزاد انسان کی حیثیت رکھتا ہے- موجودہ زمانہ حقوق انسان (human rights)کا زمانہ ہے، اب نئے حالات نے قدیم طرز کی تفریق ختم کردی ہے-
قدیم زمانہ بادشاہت (kingship) کا زمانہ تھا- قدیم سیاسی نظام کے تحت انسانوں کی تقسیم حاکم (ruler)اور محکوم (ruled)کی صورت میں کی جاتی تھی- اب نئے حالات میں جمہوری تصور کے تحت ہر انسان کو اپنے عمل کی مکمل آزادی حاصل ہے، بشرطیکہ وہ پرامن رہے، اور کسی دوسرے فرد یا گروہ پر تشدد نہ کرے- قدیم زمانہ اگر محکومی کا زمانہ تھا، تو موجودہ زمانہ آزادی کا زمانہ ہے- قدیم زمانے میں حاکم کے حکم کی خلاف ورزی جرم تھی، موجودہ زمانے میں امن کے اصول کی خلاف ورزی اور تشدد کی حیثیت جرم کی ہے-
قرآن میں قتال کا جو حکم دیاگیا تھا، وہ کوئی ابدی حکم نہیں تھا- اس کا مقصد کسی وقتی نظام کا خاتمہ نہ تھا، بلکہ اس کا مقصد اس عمومی دور کا خاتمہ تھا، جس کے تحت لوگوں کو عمل کی آزادی حاصل نہ تھی- جب لوگوں کو عمل کی آزادی حاصل ہوجائے تو قتال کا حکم بھی ایک غیر متعلق (irrelevant) حکم بن جائے گا-
یہی وہ بات ہے، جو قرآن کی اِس آیت میں کہی گئی ہے: وَقَٰتِلُوہُمْ حَتَّىٰ لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ ٱلدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ ۚ فَإِنِ ٱنتَہَوْا۟ فَإِنَّ ٱللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ.(8:39) یعنی اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے- پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ ان کے عمل کو دیکھنے والا ہے-
قرآن کی اس آیت میں فتنہ سے مراد قدیم زمانے کا وہ دور حکمرانی ہے، جس کو مطلق العنان حکومت (despotism) کہاجاتا ہے- یہ نظام خدا کی اسکیم کے خلاف تھا- یہ نظام چونکہ فوجی طاقت کے زور پر قائم تھا، اس لئے اس کو فوجی طاقت ہی سے ختم کیا جاسکتا تھا- چنانچہ حکم دیا گیا کہ اس نظام کو بذریعہ قتال ختم کردو- آیت میں ویکون الدین کلہ للہ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں حالت فطری قائم ہوجائے، مصنوعی رکاوٹ کا خاتمہ ہوجائے، اور انسان کھلے ماحول میں آزادی کے ساتھ اپنا عمل کرسکے- لمبے تاریخی عمل کے بعد، یہ مطلوب نظام اب ساری دنیا میں عملاً قائم ہوچکا ہے-
اگر آدمی تشدد (violence) کا ارتکاب نہ کرے تو وہ کہیں بھی ضعیف نہیں، اس کے لئے کہیں رکاوٹ نہیں- یہ دور جدید کا تقاضا ہے- نیا دور آزادی کا دور ہے، اور تشدد آزادی کا نقیض (opposite) ہے- ایک شخص یا گروہ کا تشدد، دوسرے شخص یا گروہ کی آزادی کو منسوخ (abolish) کرنے کے ہم معنی ہے- جس طرح توحید کے کلچر میں شرک امر ممنوع بن جاتا ہے، اسی طرح آزادی کے کلچر میں تشدد کی حیثیت ایک امر ممنوع کی ہے- تشدد کے سوا کوئی اور چیز نہیں جو موجودہ دورِ آزادی میں انسان کو اس کی آزادی سے محروم کرنے والی ہو-
واپس اوپر جائیں

قرآن کا ایک پہلو

قرآن کی آیتوں میں کچھ آیتیںوہ ہیں جن کا تعلق حال سے ہے، اور کچھ آیتیں وہ ہیں جن کا تعلق مستقبل سے ہے- مثلاً قرآن میں یہ حکم ہے کہ: فَآمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ (7:158) یعنی پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر- یہ آیت جس وقت اتری، اسی وقت وہ اپنے پورے مفہوم کے اعتبار سے مطلوب تھی- اسی طرح مثلاً قرآن میں یہ آیت آئی ہے کہ: وَاَقِمِ الصَّلاَةَ لِذِکْرِیْ (20:14) یعنی اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو- قرآن کی یہ آیت جس وقت اتری اسی وقت وہ اپنے پورے مفہوم کے اعتبار سے مطلوب تھی- اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَإذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا (6:152) یعنی اور جب بولو تو انصاف کی بات بولو- یہ آیت بھی جس وقت اتری، اسی وقت وہ اپنے پورے مفہوم کے اعتبار سے مطلوب تھی-
قرآن میں اس طرح کی کثیر آیتیں ہیں، جو باعتبار حال (present)مطلوب تھیں- یعنی جس وقت یہ آیتیں اتریں، اسی وقت اہلِ ایمان کے لیے ضروری ہوگیا کہ ان آیتوں میں جو احکام دئے گئے ہیں ان کی وہ بلا تاخیر تعمیل کریں- جو آدمی ان آیتوں کو سننے کے بعد، اُن کی تعمیل نہ کرے، اس کے لئے اندیشہ تھا کہ وہ اللہ کے نزدیک خارج از اسلام قرار پائے-
ان کے علاوہ قرآن میں کچھ اور آیتیں ہیں جن کا تعلق مستقبل (future)سے تھا- یعنی بوقت نزول ان کی حیثیت پیشین گوئی کی تھی، اور ان آیتوں کا تحقق نزول کے بعد آنے والے دور میں ہونے والا تھا- اس طرح کی آیتیں دو قسم کی ہیں- ایک وہ جن میںصراحتاً مستقبل کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے، اور دوسری آیتیں وہ ہیں، جن میں بظاہر مستقبل کا صیغہ نہیں ہے، لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ظہور صرف مستقبل میں ہونے والا تھا-
مستقبل کی آیتیں
پہلی قسم کی آیتوں میں سے ایک آیت یہ ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ( 41:53)یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی- یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے- قرآن کی اس آیت میں واضح طور پر مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیاہے- یعنی اس میں ایک ایسے واقعے کا ذکر ہے، جو قرآن کے نزول کے بعد آنے والے زمانے میں ظاہر ہونے والا تھا-
اسی طرح قرآن میں حضرت موسی کے زمانے کے فرعون مصر کے تذکرے کے تحت یہ آیت آئی ہے: فَٱلْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ ءَایَةً ۚ وَإِنَّ کَثِیرًا مِّنَ ٱلنَّاسِ عَنْ ءَایَٰتِنَا لَغَٰفِلُونَ.(10:92)یعنی پس آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے، اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں- قرآن کی اس آیت میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ اگر چہ نزول قرآن سے پہلے مصر میں پیش آچکا تھا، لیکن عملاً وہ لوگوں کے لئے ایک غیر معلوم واقعہ تھا- کیونکہ معاصر تاریخ میں اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہ تھا- اس لحاظ سے آیت کے اس مصداق کی حیثیت ایک پیشین گوئی کی تھی، جو بعد کو ظاہر ہونے والی تھی-
واپس اوپر جائیں

ذمہ داری بقدر استطاعت

خدا کے دین میں ذمہ داری بقدر استطاعت کا اصول ہے- استطاعت سے زیادہ کا مکلف بنانا اللہ کا طریقہ نہیں- یہ اصول فرد (individual) کے لئے بھی ہے، اور اجتماع (society)کے لئے بھی- حوالے کے لئے ملاحظہ ہو، قرآن کی آیت 2:286 اور 64:16-
فرد اور اجتماع کا معاملہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے- جہاں تک فرد کا تعلق ہے، اس کے ذاتی معاملات پر اس کو پورا اختیار ہوتا ہے- ایک فرد کے لئے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے لئے جس چیز کو درست سمجھے، اس کو مکمل طور پر اختیار کرے- ایک فرد اپنی ذات کے معاملے میں معیار پسندی (idealism) کو اپنا طریقہ بنا سکتا ہے-
اجتماع کا معاملہ اس کے برعکس ہے- اجتماعی یا سماجی معاملہ ہمیشہ کئی لوگوں کے درمیان ہوتا ہے- سماج کے معاملے میں وہی طریقہ چل سکتا ہے، جس پر سب کا اتفاق ہو- اس کے برعکس کوئی طریقہ اگر خارجی طور پر کسی کی طرف سے سماج کے اوپر نافذ کیا جائے تو لازماً لوگوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوجائے گا- ایسے موقع پر سماج کے اندر پہلے اختلاف آئے گا، پھر ٹکراؤ آئے گا، پھر نفرتیں بڑھیں گی، اور پھر آخر میں تشدد (violence) کی نوبت آجائے گی- گویا مطلوب چیز تو حاصل نہ ہوگی، البتہ اس کا برعکس نتیجہ فساد کی صورت میں سامنے آجائے گا- اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ دونوں کے تقاضے کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے- فرد کے لئے معیار کا اصول ہو، اور اجتماع کے لئے قابل عمل کا اصول- اس فارمولے کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
Idealism at the individual level, pragmatism at the social level.
مثلاً عدل (justice)کی بات کہنا ہر آدمی کے اپنے اختیار کی چیز ہے- اس کے برعکس عدل کا نظام قائم کرنا پورے سماج کا معاملہ ہے- پہلی چیز فرد کے ذاتی اختیار پر منحصر ہے، اور دوسری چیز سماج کے مجموعی اختیار پر-
واپس اوپر جائیں

انسان کا مقصد

انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے، وہ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتاہے:وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ( 51:56) اور میں نے جن اور انسان کو صرف اس لیے پیدا کیاہے کہ وہ میری عبادت کریں- عبد اللہ ابن عباس کے شاگرد مجاہد تابعی (وفات: 104ھ) نے إلا لیعبدون کی شرح ان الفاظ میں کی ہے: إلا لیعرفونی (تفسیر القرطبی) یعنی تاکہ وہ میری معرفت حاصل کریں-
یہاں معرفت سے مراد دریافت (discovery) ہے- انسان کو اللہ نے غیر معمولی ذہن (mind) کے ساتھ پیدا کیا ہے- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے ذہن کو استعمال کرے،وہ تمام متعلق پہلوؤں پر غور کرے، اس طرح اپنے ذاتی غوروفکر (contemplation) کے ذریعہ وہ سچائی کی دریافت تک پہنچے، وہ دنیا میںخود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered truth) پر کھڑاہو- یعنی ایک ایسی دنیا جہاں ہر چیز مجبورانہ اطاعت پر قائم ہے، وہاں انسان اپنے ارتقا یافتہ ذہن کے تحت اختیارانہ اطاعت کا ثبوت دے-
خود دریافت کردہ سچائی کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں- یہ کسی آدمی کو اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچائے، وہ اپنے اندر focused thinking پیدا کرے، وہ پورے معنوں میں متلاشی انسان(seeker person) بن جائے- اس طرح جب ایک شخص اپنے آپ کو اپنے پورے وجود کے ساتھ، مطالعہ اور تدبر میں لگا دیتاہے تو اس کے بعد اللہ کی خصوصی مدد اس کو حاصل ہوتی ہے، وہ اللہ کا ایک مخلَص (chosen) بندہ بن جاتا ہے- اس پر اللہ کے انسپریشن (inspiration) کا نزول ہونے لگتا ہے- ان تمام تجربات اور مطالعات کے درمیان اس کے اندر ایک عارفانہ شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے- وہ ایک ایسا انسان بن جاتا ہے، جس نے اللہ کی مدد سے خود سچائی کو دریافت کیا، اللہ کی مدد سے وہ اپنے آزادانہ اختیار کے تحت اللہ کا تابع بنا- یہی وہ افراد ہیں جو تخلیق کا اصل مقصود ہیں-
واپس اوپر جائیں

تبدیلی کے دودور

قرآن کی سورہ التوبہ میں ایک منصوبۂ الٰہی کا ذکر ان الفاظ میں کیاگیا ہے: إِنَّ ٱللَّہَ ٱشْتَرَىٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِینَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَٰلَہُم بِأَنَّ لَہُمُ ٱلْجَنَّةَ ۚ یُقَٰتِلُونَ فِى سَبِیلِ ٱللَّہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِى ٱلتَّوْرَىٰةِ وَٱلْإِنجِیلِ وَٱلْقُرْءَانِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَہْدِہِ مِنَ ٱللَّہِ ۚ فَٱسْتَبْشِرُوا۟ بِبَیْعِکُمُ ٱلَّذِى بَایَعْتُم بِہِ ۚ وَذَٰلِکَ ہُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِیمُ. (9:111) یعنی بلاشبہ اﷲ نے مومنوں سے ان کی جان اور ان کے مال کو خرید لیا ہے جنت کے بدلے۔ وہ اﷲ کی راہ میں لڑتے ہیں ۔ پھروہ قتل کرتے اور قتل کئے جاتے ہیں ۔ یہ اﷲ کے ذمہ ایک سچا وعدہ ہے، تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں ۔ اور اﷲ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے۔ پس تم خوش ہوجاؤ اس معاملہ پر جو تم نے اﷲ سے کیا ہے۔ اور یہی ہے سب سے بڑی کامیابی-
قرآن کی اس آیت میں جس معاملے کا ذکر ہے، اس کو الفوز العظیم (supreme achievement) کہاگیا ہے- مزید یہ کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا ذکر اس سے پہلے تورات اور انجیل میں بھی آچکا ہے- فَیَقتلون ویُقتلون کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہاں جس معاملے کا ذکر ہے، وہ ایک بہت بڑا منصوبۂ الٰہی (divine plan) ہے- یہ ایک ایسی مہم تھی جس کے لئے ضروری تھا کہ اہل ایمان اس کے لئے آخری ممکن قربانی دے دیں- اس کے بعد ہی ایسا ہوسکتا تھا کہ یہ خدائی منصوبہ تکمیل تک پہنچے اور اس منصوبہ میں اپنا حصہ اداکرنے والوں کو جنت کے اعلیٰ درجا ت میں جگہ ملے-
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس منصوبہ الہٰی کے دو مرحلے (phases)تھے- ایک مرحلہ وہ تھا، جس کی تکمیل اصحاب رسول کے زمانے میں، ساتویں صدی عیسوی میں ہوئی، اور دوسرا مرحلہ وہ ہے، جس کے لیے یہ مقدر تھاکہ وہ بعد کے زمانے میں انجام پائے- آیت کا اسلوب بتاتا ہے کہ اس سے مراد ایک بہت بڑا منصوبہ ہونا چاہئے-
قرآن کی دوسری آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں تاریخ کے ایک عظیم انقلاب کا بیان ہے، یعنی مخالفِ اسلام دور کو ختم کرنا اور موافقِ اسلام دور کو لانا- پیغمبر اسلام سے پہلے تاریخ کا جو دور گزرا ہے، اس میں بہت سے پیغمبر آئے، لیکن ہر پیغمبر کو غیر معمولی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا- اس لیے ان پیغمبروں کا مشن صرف دعوت کے مرحلے تک رہا، وہ انقلاب کے مرحلے تک نہیں پہنچا- اس کا سبب یہ تھا کہ قدیم دور ایک مخالف اسلام دور تھا- یہ دور سیاسی طاقت کے زور پر قائم تھا، ضروری تھا کہ اس دور کو ختم کیا جائے- مگر اس دور کو ختم کرنا جان ومال کی عظیم قربانی کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا، اصحاب رسول نے یہی کارنامہ انجام دیا-
جب اصحابِ رسول کی قربانیوں سے مخالفِ اسلام دور ختم ہوا تو اس کے بعدفطری طور پر یہ ہوا کہ انسانی تاریخ میں ایک نیا عمل (process)جاری ہوگیا- یہ ایک نہایت گہرا عمل تھا-اس عمل کی انجام دہی میں اہل ایمان کے علاوہ غیر اہل ایمان (سیکولر اقوام) بھی شریک ہوئے- اس عمل کی تکمیل مغرب میں ہوئی- پہلے مرحلے میں مخالفِ اسلام دور کا خاتمہ کیا گیا تھا- دوسرے دور میں تمام موافقِ اسلام مواقع کھل گئے-
پہلے دور کو قرآن میں ختم فتنہ(8:39)کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے- دوسرے مرحلے میں پیش آنے والے واقعے کو مواقع کا انفجار(opportunity explosion) کہاجاسکتا ہے- پہلے مرحلے کا کام اصحاب رسول نے مکمل طورپر انجام دیا، اور اس بنا پر وہ جنت کے مستحق قرار پائے- دوسرے دور میں کرنے کا کام یہ ہے کہ پیش آمدہ مواقع کو دریافت کرکے ان کو دعوت حق کے لیے بھرپور طورپر استعمال کیا جائے-
اصحابِ رسول نے اس معاملہ میں منصوبۂ الہی کے پہلے مرحلہ کو ظہور میں لانے کے لیے اپنا حق ادا کیا، اور فوزِ عظیم کے مستحق قرار پائے- اب جو لوگ پیدا شدہ مواقع کو بھر پور استعمال کرکے دوسرے مرحلے کا کام انجام دیں گے، یعنی پیغام حق کی عالمی تبلیغ ، وہ دوبارہ فوز عظیم کے مستحق قرار پائیں گے، جس طرح دور اول کے لوگ فوز عظیم کے مستحق قرا ر پائے ـتھے-
واپس اوپر جائیں

قرآن کا تصورِ تاریخ

قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور لوگوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے- اور زمین ساری اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹے ہوں گے اس کے دائیں ہاتھ میں- وہ پاک اور برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ( 39:67)- اس آیت کی تفسیرمیں ایک روایت ہے جو حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: یقبض اللہ الأرض ویطوی السماوات بیمینہ ثم یقول: أنا الملک، أین ملوک الأرض (صحیح البخاری: 4812)، یعنی اللہ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا، اور آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا پھر کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں زمین میں بادشاہی کرنے والے-
قرآن کی اس آیت میں اللہ کی قدر نہ کرنے کا مطلب اللہ کے نقشۂ تخلیق کا کمتر اندازہ (underestimation) کرنا ہے، اور شرک کا مطلب ہے اللہ کے نقشۂ تخلیق کے سوا کسی خود ساختہ نقشے کو اپنی زندگی کے لئے اپنانا- حدیث رسول مزید یہ بتاتی ہے کہ اس دار الامتحان میں یہ صورت عملاً قیامت تک جاری رہے گی، یہاںتک کہ قیامت میں اللہ ظاہر ہوجائے گا، اور اعلان کرے گا کہ اصل مطلوب تو یہ تھا کہ زندگی کو خالق کے نقشۂ تخلیق پر چلایا جائے، مگر خود ساختہ حکمرانوں (self-styled rulers)نے زمین پر اپنی مرضی کو جاری کردیا- یہ آیت اور حدیث کسی سیاسی معنی میں نہیں ہے، اس کا مطلب صرف یہ ہےکہ اللہ نے زمین کو دار الامتحان (testing ground) کے طور پر بنایا ہے- اللہ کی مرضی یہ تھی کہ زمین پر آزادی کا ماحول قائم رہے تاکہ ہر انسان کی جانچ ممکن ہوسکے- اور یہ واضح ہوسکے کہ کس شخص نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا، اور کس شخص نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا-
ہزاروں سال تک بادشاہوں نے انسان کو مذہبی آزادی (religious freedom)سے محروم کررکھا تھا- اس کے بعد حالات میں تبدیلی ہوئی، یہاں تک کہ ساتویں صدی عیسوی میں رسول اور اصحاب رسول کو یہ موقع ملا کہ وہ بادشاہی نظام کا خاتمہ کردیں، اور انسان کے لئے مذہبی آزادی کا دروازہ کھول دیں- اب انسانی تاریخ اسی دور آزادی سے گزر رہی ہے-
قرآن وحدیث کے اس بیان پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ اللہ رب العالمین ہے جو انسانی تاریخ کو مینیج (manage)کررہا ہے- یہ خدائی مینجمنٹ اس مصلحت کے تحت ہورہا ہے کہ دنیا کا اصل کیریکٹر، اس کا دار الامتحان (testing ground) ہونا قیامت تک باقی رہے، اور آزادانہ عمل کے تحت ہر فرد کا ریکارڈ تیار ہوسکے-
اللہ رب العالمین کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کے مطابق انسان تاریخ کا منیجر (master of history) نہیں ہے- انسان صرف اپنی ذات کا منیجر ہے- انسان کو یہ نہیں کرنا ہے کہ وہ تاریخ کا کنٹرولر(controller of history)بننے کی کوشش کرے- انسان کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ اپنی ذات پر کنٹرول کرے، وہ اپنے آپ کو توحید اور عدل (justice) پر قائم کرے- یہی الدین ہے اور اسی کی ذاتی پیروی کا نام اقامت دین ہے-
قدیم زمانے میں بادشاہوں نے تاریخ کا منیجر بننے کی کوشش کی- یہ اللہ کے نقشہ تخلیق کے خلاف تھا، اس لئے اللہ نے ہمیشہ کے لئے بادشاہی نظام کا خاتمہ کردیا- موجودہ زمانہ آزادی اور جمہوریت کا زمانہ ہے، یہ زمانہ خود اللہ کے نقشۂ تخلیق کے تحت وجود میں آیا ہے- اس نظام کے تحت ہر عورت اور ہرمرد کو یہ موقع ہے کہ وہ آزادانہ طورپر جو چاہے کرے، اور اپنے قول وعمل کے مطابق وہ اللہ کے یہاں اپنا درجہ متعین کرے-موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے اللہ کے اس نقشہ تخلیق کو نہیں سمجھا- انھوں نے اللہ کے دین کی خود ساختہ تعبیر (self-styled interpretation) کے تحت اپنا یہ منصب فرض کرلیا کہ وہ ساری دنیا میں اپنی حکومت قائم کریں- یہ گویا دوبارہ تاریخ کا منیجر (manager of history) بننے کی کوشش ہے- یہ بلاشبہہ اللہ کی اسکیم کے خلاف ہے- اللہ کسی کو یہ موقع دینے والا نہیں کہ وہ تاریخ کا منیجر بن جائے- مسلمانوں کی ذمہ داری خود اپنے آپ کو اللہ کے تابع بنانا ہے، نہ کہ انسانی تاریخ کا منیجربننا- یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے کا خود ساختہ جہاد مکمل طورپر ناکام ہورہا ہے- مسلمانوں کا خود ساختہ جہاد ان کو تاریخ کا منیجر تو نہ بنا سکا، البتہ وہ خود ایک تباہ شدہ قوم بن کر رہ گئے-
واپس اوپر جائیں

قرآنی طریق ِ کار

قرآن نے جس طرح انسانی زندگی کی ایک آئڈیالوجی دی ہے، اسی طرح قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس آئڈیا لوجی کے مطابق زندگی گزارنے کا درست طریقہ کیا ہے- اگر آدمی قرآن کا نام لے، لیکن وہ طریق کار کے معاملے میں قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی نہ کرے تو محض قرآن کا نام لینے کی بنا پر اس کا کیس قرآن کا کیس نہیں بن جائے گا-طریق کار کے معاملے میں قرآن میں اصولی ہدایات موجود ہیں، اس کے علاوہ قرآن میں پیغمبروں کاجو تذکرہ ہے وہ گویا قرآنی طریق کار کا عملی ماڈل ہے- آدمی کو چاہئے کہ وہ اس معاملے میں کھلے ذہن کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرے- وہ ایک طرف قرآن سے طریق کار کا اصول دریافت کرے، اور دوسری طرف پیغمبروں کے حالات سے اس کا عملی نمونہ بھی دریافت کرے- خدا کی اس دنیا میں کسی انسان کے لیے کامیابی کا یہی واحد طریقہ ہے-
اس سلسلے میں قرآن کی ایک رہنما آیت یہ ہے: وَلَا تُطِعِ ٱلْکَـٰفِرِینَ وَٱلْمُنَـٰفِقِینَ وَدَعْ أَذَاہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَى اللَّـہِ ۚ وَکَفَىٰ بِاللَّـہِ وَکِیلًا (33:48) اور تم منکروں اور منافقوں کی بات نہ مانو اور ان کے ستانے کو نظر انداز کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو- اور اللہ بھروسہ کے لیے کافی ہے- قرآن کی اس آیت سے یہ اصول ملتا ہےکہ اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ فریق ثانی کی ایذاؤں پر ہر گز دھیان نہ دیں، اور کامل یکسوئی کے ساتھ اپنا مثبت مشن جاری رکھیں- اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کو لازماً اللہ کی مدد حاصل ہوگی- وہ اپنی کوتاہیوں کے باوجود اپنے مشن کو پورا کرنے میں کامیاب رہیں گے-
اس معاملے کی ایک مثال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا وہ واقعہ ہے جس کو صلح حدیبیہ کہاجاتا ہے- صلح حدیبیہ کا واقعہ 6 ھ میں پیش آیا- اس واقعے کا مختصر ذکر قرآن کی سورہ نمبر 48 میں کیا گیاہے اور اس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں ملتی ہے- اس واقعے سے زندگی کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اجتماعی زندگی میں امن (peace) صرف یک طرفہ شرطوں کو ماننے سے قائم ہوتا ہے، دوطرفہ شرطوں (bilateral conditions)کی بنیاد پر کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا- یہی فطرت کا اصول ہے-
واپس اوپر جائیں

انسانیت کی منزل جنت

قرآن کی سورہ فاطر میں بتایا گیاہے کہ اہلِ جنت جب جنت میں داخل ہوجائیں گے، اور وہاں کی نعمتوں کو دیکھیں گے تو ان کی زبان سے نکلے گا: وَقَالُوا۟ ٱلْحَمْدُ لِلَّہِ ٱلَّذِىٓ أَذْہَبَ عَنَّا ٱلْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَکُورٌ(35:34) یعنی اور وہ کہیں گے، شکر ہے اﷲ کاجس نے ہم سے غم کو دور کردیا، بے شک ہمارا رب معاف کرنے والا، قدر کرنے والا ہے-
And they will say, All praise belongs to God who has removed grief from us. Surely, our Lord is Most Forgiving, Most Appreciating.
جنت کی یہ انوکھی صفت ہوگی کہ وہاں ہر قسم کے غم کا خاتمہ ہو جائے گا- موجودہ دنیا اگر دارالحَزن تھی تو جنت ایک ایسی دنیا ہوگی جو خالی از حزن (sorrow-free world) ہوگی- جنت میں نہ کوئی نفسیاتی غم ہوگا، اور نہ کوئی مادی غم-
قرآن کے مطابق موجودہ دنیا میں انسان کو ضرورت کی تمام چیزیں حاصل ہیں (14:34)- لیکن ایک چیز ایسی ہے جو موجودہ دنیا میں اس کے لازمی جز کی حیثیت سے شامل ہے، اور وہ غم (حزن) ہے-
موجودہ دنیا میں آدمی خواہ کچھ بھی حاصل کرلے لیکن کسی نہ کسی اعتبار سے اس میں غم کا پہلو شامل رہتا ہے— جسمانی تکلیف، نفسیاتی پریشانی، کھونے کا اندیشہ، حادثہ، بیماری، تکان(boredom) ، تشنۂ تکمیل خواہش (unfulfilled desire)، بڑھاپا، موت، مستقبل کا اندیشہ، ملی ہوئی چیزوں کا امپرفکٹ (imperfect) ہونا، عدم یقین (uncertainty)، آدمی کی محدودیت(limitations)، نتیجہ پر کنٹرول نہ ہونا، دوسروں کا خوف، تردد (tension) ، وغیرہ-
جنت میں حزن کا نہ ہونا، ان تمام باتوں کو بتا رہا ہے، اور جو مقام ابدی طورپر حزن سے اس طرح خالی ہو، وہ بلا شبہہ انسان کی منزل ہے، اس سے کم کوئی چیز انسان کی منزل نہیںہوسکتی-
واپس اوپر جائیں

خلافت ارضی

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر خلیفہ بنایا ہے: إِنِّى جَاعِلٌ فِى ٱلْأَرْضِ خَلِیفَةً (2:30) - اس سے مراد نہ خدا کا خلیفہ ہونا ہے، اور نہ اسلامی خلیفہ ہونا- اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر با اختیار مخلوق کی حیثیت سے آباد کیا ہے- یہ اختیارانہ حیثیت نہ فرشتوں کو حاصل ہے، اور نہ سورج اور چاند کو-
قرآن کی دوسری متعلق آیتوں کو لے کر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو استثنائی ذہن دیاگیا اور پھر اس کو آزادی عطا کی گئی- اس کا مقصد یہ تھاکہ انسان اپنے ذہن کو استعمال کرے، اور پھر وہ خود دریافت کردہ معرفت پر کھڑا ہو- مخلوقات سے اصل چیز جو مطلوب ہے، وہ حمد ہے- پوری کائنات اللہ رب العالمین کی مجبورانہ حمد کررہی ہے- مگر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے، آزادانہ طورپر خدائی سچائی کو دریافت کرے، اور کسی جبر کے بغیر اس پر کھڑا ہو- یہی خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) وہ چیز ہے جو انسان کو ابدی جنت میں داخلے کا مستحق بناتی ہے-
اس حقیقت کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: عن عبد اللہ ابن عمرو قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: ما من شئ اکرم على اللہ یوم القیامة من ابن آدم- قیل یا رسول اللہ، ولا الملائکة؟ قال: ولا الملائکة؛ إن الملائکة مجبورون بمنزلة الشمس والقمر (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث: 14509) یعنی حضرت عبد اللہ ابن عمرو بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے افضل درجہ انسان کا ہوگا، کہاگیا کہ اے اللہ کے رسول، کیا فرشتوں سے بھی؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں، فرشتوں سے بھی، کیونکہ فرشتے سورج اور چاند کی مانند مجبور ہیں— حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ کا لفظ کسی عہدہ کو نہیں بتاتا، بلکہ وہ صرف نوعیتِ حمد کو بتاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

انسان کا امتحان

قرآن میں ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کے اندر وہ اعلی معرفت پیدا ہونی چاہئے، جب کہ وہ کہہ سکے: اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ( 1:1) -دوسری طرف قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ( 90:4)، یعنی انسان کو اس کے خالق نے مشقت(hardship)میں پیدا کیا ہے- ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کاامتحان یہ ہے کہ وہ مشقت کے حالات میں حمد کی اسپرٹ کے ساتھ جئے- وہ منفی حالات میں مثبت سوچ (positive thinking) کے ساتھ زندگی گزارے-یہ بظاہر متضاد صورت حال (contradictory situation) ہے- پھر اس متضاد صورت حال کی حکمت کیا ہے-
اصل یہ ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے لامحدود صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے- انسان کے دماغ میں لامحدود امکانات چھپے ہوئےہیں- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے پوٹینشل (potential) کو ایکچول (actual)میں تبدیل کرے، وہ اپنے لاشعور میں چھپے ہوئے امکانات کو بیدار کرے، اس کو اپنے شعو رکا حصہ بنائے- یہ کام معتدل حالات میں نہیں ہوسکتا، وہ صرف چیلنج کے حالات میں ہوسکتا ہے- دنیا کی مشقتیں انسان کے لئے اسی چیلنج کا سبب بنتی ہیں-
چیلنج انسان کے دماغ کو زلزلے سے دوچار کرتا ہے، چیلنج انسان کے ذہن میں وہ ہلچل پیدا کرتا ہے جس کو نفسیات کی زبان میں ذہنی طوفان (brainstorming) کہاجاتا ہے- یہی وہ زلزلہ خیز حالات ہیں جو انسان کے اندر چھپے ہوئے امکانات کو بروئے کار لاتے ہیں- دنیا کے پرمشقت حالات انسان کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ ذہنی ارتقا کے مراحل سے گزرے، وہ اعلی معرفت کے ساتھ الحمد للہ رب العالمینکہہ سکے- دنیا میں پرمشقت حالات کاہونا، انسان کے لئے ایک عظیم رحمت ہے- اس کے بغیر انسان کے اندر ذہنی بیداری اور روحانی ارتقا (spiritual development)ممکن نہ ہوتا-
واپس اوپر جائیں

اسلام کی تعلیمات

اسلام کی کچھ تعلیمات وہ ہیں جو علی الاطلاق (absolute sense) طورپر مطلوب ہیں- اور دوسری تعلیمات وہ ہیں جن کا حکم حالات کی نسبت سے متعین ہوتاہے- مثلاً عبادت وہ عمل ہے، جو ہر فرد سے مطلق طورپر مطلوب ہے- اس کے برعکس سیاست کا تعلق حالات سے ہے، جیسے حالات ویسا سیاسی حکم-
عبادت کا اصول حدیث کے الفاظ میں یہ ہے : صلوا کما رأیتمونی أصلی (البخاری، رقم الحدیث: 6008) یعنی نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو- اس کے مقابلہ میں سیاست کا تعلق حالات سے ہے- اس معاملہ میں اسلام کی تعلیم یہ ہے: وَأمْرُھُمْ شُوْرَى بَیْنَہُمْ ( 42:38) یعنی اور ان کا نظام شوری پر ہے- اس سے معلوم ہوا کہ سیاست کے معاملہ میں کوئی مطلق ماڈل نہیں، وہ تمام تر اجتماعی حالات پر موقوف ہے-
عبادت ایک انفرادی معاملہ ہے- وہ ایک ذاتی پیروی کی چیز ہے- اس لئے یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی عبادت کے معاملے میں ذاتی طورپر جس طریقے کو معیاری طریقہ سمجھے، اس کو اپنی ذاتی زندگی میں اختیار کرلے، لیکن سیاست کا معاملہ ایک اجتماعی معاملہ ہے- سیاست کے معاملے میں وہی طریقہ عملاً چل سکتا ہے، جس پر تمام لوگ راضی ہوں- ایک شخص یا ایک گروہ اگر ایسا کرے کہ وہ سیاست کے معاملہ میں اپنے پسندیدہ ماڈل کو نافذ (implement) کرنے لگے تو اس سے لازماً ٹکراؤ ہوگا، اور باعتبار نتیجہ اصلاح کے بجائے فساد پھیل جائے گا-
اس مسئلے کا قابل عمل حل یہ ہے کہ سیاست کے معاملے کوشوری (اجتماعی مشورہ) کا معاملہ قرار دیاجائے- شورائی نظام کو موجودہ زمانے میں جمہوری نظام کی حیثیت سے قبول عام حاصل ہوگیا ہے- اس لئے اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ بھی اس مقبول عام جمہوری طریقے کو مانیں اور اس کے مطابق سیاسی نظام کی تشکیل کریں-
واپس اوپر جائیں

ایک قرآنی اسلوب

قرآن کا ایک اسلوب یہ ہے کہ ایک خصوصی حوالہ (particular reference)کے ذریعہ عمومی اصول (general principle)کو بیان کرنا- اس کی ایک مثال قرآن کی سورہ آل عمران کی ایک آیت میں اس طرح ملتی ہے: ٱلَّذِینَ قَالَ لَہُمُ ٱلنَّاسُ إِنَّ ٱلنَّاسَ قَدْ جَمَعُوا۟ لَکُمْ فَٱخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیْمَانًا وَقَالُوا۟ حَسْبُنَا ٱللَّہُ وَنِعْمَ ٱلْوَکِیلُ(3:173) یعنیجن سے لوگوں نے کہا کہ دشمن نے تمہارے خلاف بڑی طاقت جمع کر لی ہے اس سے ڈرو ،لیکن اس چیز نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بولے کہ اﷲ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔
اس آیت پر غور کرنے سے ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے- وہ یہ کہ جب انسان کے اندر زندہ ایمان (living faith) موجود ہو تو ہر انسانی خطرہ اس کے یقین میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے- خطرہ کی حالت اس کے لئے ایک مثبت کمپلشن (compulsion) کی صورت پیدا کرتی ہے- جب وہ محسوس کرتاہے کہ انسان کی رسی اس سے چھوٹ رہی ہے تو اس کا ایمان مزید بیدار ہوجاتا ہے، اور وہ اللہ کی رسی کو اور شدت کے ساتھ پکڑ لیتاہے- اس طرح ہر محرومی اس کے لئے ایک نئی یافت کا سبب بن جاتی ہے-
خشیت انسانی کے موقع پر یقین خداوندی میں اضافہ ہونا، ایک داخلی عمل (internal process) کے ذریعہ ہوتاہے- خشیت انسانی کا پیش آنا، اس کے اندر ایک ذہنی دھماکہ پیدا کرتاہے- اب اگر اس کے اندر زندہ ایمان موجود نہ ہو تو وہ مایوسی کا شکار ہوجائے گا، وہ پست ہمت بن کر رہ جائے گا-
اس کے برعکس، اگر اس کے اندر زندہ ایمان موجود ہو تو ہر انسانی خشیت کا واقعہ اس کو ایمانی غذا عطا کرے گا- اللہ کی طرف رجوع ہونے کی بنا پر اس کے یقین میں اضافہ ہوجائے گا- وہ مزید استقامت کے ساتھ اللہ کے دین پر قائم ہوجائے گا- ہر بحران اس کی شخصیت میں ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا-
واپس اوپر جائیں

قوّام کا اصول

قرآن کی سورہ النساء میں یہ آیت آئی ہے: اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ (4:34) یعنی مرد عورتوں کے اوپر قوام ہیں- قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ حکم کے اسلوب میں نہیں ہے بلکہ وہ خبر کے اسلوب میں ہے- یعنی اس آیت میں یہ حکم نہیں دیاگیا ہے کہ مردوں کو عورتوں کے اوپر قوام بناؤ، بلکہ یہ کہاگیا ہے کہ بطور واقعہ مرد عورت کے اوپر قوام ہیں-
قرآن کی اس آیت میں خطاب کا رخ عورت کی طرف نہیں ہے بلکہ مرد کی طرف ہے- یعنی مرد کو اپنے اندر وہ صفت پیدا کرنا چاہئے کہ عورت خود اپنے فیصلے سے مرد کو گھر میںقوام کا درجہ دے دے- اسلوب کے اعتبار سے اس معاملے میں اصل ذمے داری مرد کی ہے، نہ کہ عورت کی-
اصل یہ ہے کہ فطری طور پر عورت کے اندر ایک احساس موجود ہوتاہے، جس کو عدم تحفظ کا احساس (sense of insecurity)کہا جاسکتاہے- یہ ایک فطری احساس ہے جو کہ انسان اور حیوان دونوں کے اندر یکساں طورپر پایا جاتا ہے- یہ کسی خارجی حکم کا معاملہ نہیں ہے بلکہ وہ خود پیدائشی فطرت کا معاملہ ہے-مرد اگر ایسا کرے کہ وہ اپنی رفیقۂ حیات کے ساتھ محبت کا تعلق رکھے، وہ اس کے مزاج کی رعایت کرے، وہ اس کے نسوانی تقاضے کو پورا کرے، وہ اپنے قول وعمل سے اس بات کا ثبوت دے کہ عورت نے ایک شوہر کی صورت میں اس انسان کو پالیا ہے جو اس کے عدم تحفظ کے احساس کا قابل اعتماد جواب ہے تو کسی جبر یا کسی مطالبہ کے بغیر ایسا ہوگا کہ عورت عملاً اپنے شوہر کو اپنی زندگی میں قوام کا درجہ دے دے گی-یہ معاملہ قوامیّت یا غیر قوامیت کا نہیں ہے، بلکہ وہ یہ ہے کہ گھر کے نظام کو معتدل طورپر کس طرح چلایا جائے تاکہ وہ فائدے حاصل ہوں، جو خاندانی نظام کے تحت خالق کو مطلوب ہیں- خاندان سماج کی اکائی (unit) ہے، خاندان کے درست ہونے سے پورا سماج درست ہوتا ہے- خاندان کو درست حالت پر قائم رکھنے کے لئے قوّام کا اصول اسی طرح اہم ہے جس طرح کسی کمپنی کو درست طورپر چلانے کے لئے باس (boss)کا اصول-
واپس اوپر جائیں

عدل کا مسئلہ

قرآن میں عدل کا مادہ 28 بار استعمال ہوا ہے-اس کے علاوہ عدل کے ہم معنی الفاظ بھی قرآن کی آیتوں میں بار بار استعمال ہوئے ہیں- اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں عدل (justice) کی اہمیت بہت زیادہ ہے- مگر اسلوب کے اعتبار سے قرآن کی آیتوں میں ایک فرق پایا جاتا ہے- زیادہ مقامات پر قرآن میں عدل کا لفظ لازم کے صیغے (intransitive form) میں استعمال ہوا ہے- مثلاً وَإذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا (6:152) یعنی جب بولو تو انصاف کی بات بولو- عام حالات میں عدل کا تقاضا یہی ہے- عام حالات میں ہر انسان سے یہی مطلوب ہے کہ وہ انصاف کی بات کہے، وہ لوگوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرے- مومن پر یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ عملاً ایک منصفانہ حکومت قائم کرے- اس کی اصل ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں منصفانہ روش اختیار کرے-
دوسرا استعمال وہ ہے جہاں قرآن میں عدل کا حکم متعدی کے صیغہ (transitive form) میں آیا ہے، یعنی عدل کا نظام قائم کرنا- اس کی ایک مثال وہ ہے جو حضرت داؤد کے ذیل میں آئی ہے: یَا دَاؤُدُ إِنَّا جَعَلْنَٰکَ خَلِیفَةً فِى ٱلْأَرْضِ فَٱحْکُم بَیْنَ ٱلنَّاسِ بِٱلْحَقِّ(38:26) یعنی اے داؤد،ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ (حاکم ) بنایا ہے تو لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو- قرآن کی اس آیت میں حق کا لفظ عدل وقسط کے معنی میں آیا ہے- اس سے معلوم ہوا کہ حاکم (ruler) کا فرض ہےکہ وہ عدل کو عملاً نافذ کرے- وہ دوسروں کو عدل وقسط کا پابند بنائے-
اسلام کے مطابق انسان کی ذمے داری بقدر استطاعت (2:286) ہے- عام انسان جس کو اقتدار حاصل نہیں ہے، اس کی ذمے داری یہ ہے کہ اپنے دائرہ عمل میں ہمیشہ وہ انصاف کی روش اختیار کرے- لیکن جس شخص کو اللہ اقتدار کامالک بنائے، اس کو ذاتی انصاف پسندی کے علاوہ یہ بھی کرنا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے بقدر انصاف کا نظام قائم کرے- بقدر امکان وہ لوگوں کو عدل کا پابند بنائے-
واپس اوپر جائیں

کلمۂ سَوا کا اصول

قرآن کی سورہ آل عمرانمیں اجتماعی زندگی کے اصول کو ان الفاظ میں بتایا گیاہے: قُلْ یَٰٓأَہْلَ ٱلْکِتَٰبِ تَعَالَوْا۟ إِلَىٰ کَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا ٱللَّہَ(3:64) یعنی کہو اے اہلِ کتاب، آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساںہے کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔
کلمہ سوا کا مطلب کامن ٹرم (common term)یا کامن گراؤنڈ (common ground) ہے- یہ بات جو قرآن میں کہی گئی ہے، وہ اجتماعی زندگی کا ایک عمومی اصول ہے- اجتماعی زندگی میں جب کوئی کام کرنا ہو تو اس کے آغاز کا درست طریقہ یہ ہے کہ طرفین کے درمیان کامن گراؤنڈ کو تلاش کیا جائے، اور اُس کے حوالے سے اپنا کام شروع کیا جائے- یہ طریقہ قابل عمل بھی ہے، اور باعتبار نتیجہ زیادہ مؤثر بھی-
کامن گراؤنڈ کی کوئی محدود فہرست نہیں- جن لوگوں کے درمیان یا جس زمانے میں کام کرنا مطلوب ہو، اس کے مطابق دیکھا جائے گا کہ وہ کیا چیز ہے جو اس وقت کے حالات میں طرفین کے درمیان کامن گراؤنڈ کی حیثیت رکھتی ہے- کامن گراؤنڈ کا تعین کسی نظریاتی ماڈل کی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ عملی حالات کی بنیاد پر اس کا تعین کیا جائے گا، ورنہ وہ مؤثر نہ ہوسکے گا-
مثلاً، قدیم زمانے میں ایک مذہبی نظریہ طرفین کے درمیان کامن گراؤنڈ بن سکتا تھا- موجودہ زمانہ سیکولرزم کا زمانہ ہے- اب مؤثر عمل کے لئے ضروری ہوگاکہ طرفین کے درمیان کوئی سیکولر نوعیت کا کامن گراؤنڈ تلاش کیا جائے- ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ اندیشہ ہےکہ کیا جانے والا عمل مؤثر نہ ہو، وہ فریق ثانی کی نسبت سے بے نتیجہ ہو کر رہ جائے- کامن گراؤنڈ کی ضرورت صرف آغاز کار کے لئے ہے- آغاز کے بعد بقیہ چیزیں تدریجی طورپر خود بخود اس کا حصہ بنتی چلی جائیں گی- کامن گراؤنڈ کا تعلق پرکٹیکل وزڈم (practical wisdom) سے ہے، نہ کہ مطلق معنوں میں آئیڈیالوجی سے-
واپس اوپر جائیں

کائناتی شخصیت

قرآن میں فرعون مصر کا ذکر ہے، جس کو اللہ نے اس کی سرکشی کی بنا پر تباہ کردیا تھا- اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ ٱلسَّمَآءُ وَٱلْأَرْضُ وَمَا کَانُوا۟ مُنظَرِینَ (44:29) یعنی پس نہ ان پر آسمان رویا اور نہ زمین، اور نہ ان کو مہلت دی گئی۔قرآن کی اس آیت میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جن کے مرنے پر آسمان وزمین نہیں روتے- دوسری طرف اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کی موت پر آسمان وزمین روتے ہیں- اِس دوسرے پہلو کا ذکر حدیث میں ان الفاظ میں آیا ہے: مامن انسان إلا لہ بابان فی السماء یصعد عملہ فیہ، وینزل رزقہ، فإذا مات العبد المؤمن بکیا علیہ (حلیة الأولیاء: 3/53) یعنی ہر انسان کے لئے آسمان میں دو دروازے ہوتے ہیں، ایک دروازے کے ذریعہ اس کا عمل اوپر جاتا ہے، اور دوسرے دروازے کے ذریعہ اس کا رزق نازل ہوتا ہے، جب بندۂ مومن پر موت آتی ہے تو دونوں اس کے لئے روتے ہیں-
اس حدیثِ رسول میں تمثیل کے اسلوب میں ایک عظیم حقیقت کو بتایا گیاہے- وہ یہ کہ ایک سچا مومن ایک کائناتی شخصیت کا حامل ہوتا ہے- وہ تدبر اور تفکر کے ذریعے مسلسل طور پر اللہ کی طرف سے معرفت کا رزق حاصل کرتا رہتا ہے، وہ خدا کی تخلیق میں غور وفکر کرکے مسلسل طورپر ربانی رزق حاصل کرتا رہتا ہے- اس اعتبار سے وہ گویا پوری کائنات کے لئے ایک مطلوب شخص بن جاتا ہے، کیونکہ کائنات اسی لئے پیدا کی گئی ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ اس پر غور کرکے اس سے حق کی معرفت حاصل کرے-
حقیقت یہ ہے کہ مومن کی ایک فزیکل شخصیت (physical personality) ہوتی ہے، اور دوسری اس کی فکری شخصیت (intellectual personality) - مومن کی فزیکل شخصیت اس کے جسم تک محدود ہوتی ہے، لیکن اس کی فکری شخصیت پوری کائنات تک پھیلی ہوئی ہے- فکر کی سطح پر بننے والی شخصیت ہی وہ کائناتی شخصیت ہے، جس کے کھونے پر زمین وآسمان پر وہ کیفیت گزرتی ہے، جس کو یہاں رونے سے تعبیر کیاگیا ہے-
واپس اوپر جائیں

نظریہ، تاریخ

کسی مشن کاایک حصہ وہ ہے، جس کو نظریہ (ideology)کہا جاتا ہے، اور دوسری چیز وہ ہے جس کو عملی تدبیر (strategy) کہا جاتاہے-بنیادی نظریہ کی حیثیت ابدی اصول کی ہوتی ہے- اس کے برعکس، عملی تدبیر ہمیشہ حالات کے اعتبار سے اختیار کی جاتی ہے- یہ دونوں چیزیں ہر مشن میں ہوتی ہیں، خواہ وہ کوئی مذہبی مشن ہو یا کوئی سیکولر مشن-
مثلاً، مہاتما گاندھی کا مشن ایک سیکولر مشن تھا، ان کی آئیڈیا لوجی تمام تر اہنسا (nonviolence) پر مبنی تھی- اس کے مطابق انھوں نے اپنی پوری تحریک چلائی- اسی کے ساتھ وقت کے عملی تقاضے کے تحت انھوں نے ایک طریقہ اختیار کیا، جس کو سول نافرمانی (civil disobedience) کہا جاتا ہے- ان کی امن کی آئیڈیالوجی، ان کے مشن کا مستقل حصہ تھی- لیکن سول نافرمانی کی حیثیت ایک وقتی تدبیر کی تھی، جو حالات کی نسبت سے مطلوب تھی- حالات جب بدلے تو سول نافرمانی کا طریقہ ایک غیر متعلق (irrelevant) طریقہ بن گیا-
یہی معاملہ اسلام کا بھی ہے- اسلام کی آئیڈیالوجی توحید کی آئیڈیالوجی ہے، یہ مکمل طورپر ایک پرامن آئیڈیالوجی ہے- نظریۂ توحید کی حیثیت اسلام میں ابدی نظریہ کی ہے- اس میں کبھی کوئی تبدیلی آنے والی نہیں-اسی کے ساتھ اسلام کے دو ر اول کی تاریخ بتاتی ہے کہ اشاعت توحید کے پرامن مشن کے ساتھ عرب میں غزوات بھی پیش آئے، یعنی فریق ثانی کے ساتھ جنگ- مگر یہ غزوات (قتال) اسلام کی تاریخ میں عملی تدبیر کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ آئیڈیالوجی کا مستقل حصہ نہیں- قرآن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں قسم کی تعلیمات کو الگ کرکے دیکھا جائے- توحید کی آیتوں کو اسلام کی ابدی آئیڈیالوجی کا حصہ سمجھاجائے، اور قتال کی آیتوں کو حالات کی نسبت سے پیش آنے والی وقتی تدبیر کا حصہ- موجودہ زمانے میں عالمی حالات مکمل طور پر بدل گئے ہیں، پہلے اگر دورِ قتال تھا تو اب دورِ امن ہے- ایسی حالت میں قتال کو اب عملاً اسلام کی وقتی تاریخ کا حصہ سمجھا جائے گا، نہ کہ اسلام کے ابدی مشن کا حصہ-
واپس اوپر جائیں

اسلام کے دو پہلو

اسلام کے علمی مطالعے کے لئے ضروری ہےکہ اس کی آئیڈیالوجی کو اور اس کی تاریخ کو الگ کرکے دیکھا جائے- کیوں کہ اسلام کی آئیڈیالوجی ابدی ہے، لیکن اس کی تاریخ میں فطری طورپر ایسے اجزا شامل ہیں جو وقتی حالات کی نسبت سے اسلام کی تاریخ کاجز بنے تھے- حالات بدلنے کے بعد ان اجزاء کی حیثیت صرف گزرے ہوئے ماضی کی وقتی تاریخ کی ہے، آئیڈیالوجی کی طرح اس کی حیثیت ابدی نہیں-
اسلام کی آئیڈیالوجی، توحید الٰہ (oneness of God) کی ابدی حقیقت پر مبنی ہے- لیکن ساتویں صدی کے نصف اول میں جب اسلام کا ظہور ہوا، اس وقت دنیا میں شرک کا غلبہ تھا- مزید یہ کہ اس زمانے میں ساری دنیا میں بادشاہت (kingship) کا نظام قائم تھا- اس زمانے کے بادشاہوں نے شرک کو سرکاری مذہب (official religion) کی حیثیت دے دی تھی- اس بنا پر اس زمانے کا نظام عملاً مشرکانہ بادشاہت کا نظام بن گیا تھا- یہ نظام مذہبِ توحید کے لئے ایک جارحانہ مسئلہ (violent problem) کی حیثیت اختیار کئے ہوئے تھا-
اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے تمام تر ایک پر امن مشن ہے، لیکن مذکورہ حالات کی بنا پر فطری طورپر ایسا ہوا کہ فریق ثانی کی طرف سے متشددانہ مخالفت شروع ہوگئی- پہلے قبائلی سردار (Tribal Chief) کی طرف سے، اور اس کے بعد اس وقت کے قائم شدہ ایمپائر (ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر کی طرف سے)-اس جنگ میں مشرکانہ اقتدار کی حیثیت جارح کی تھی، اور اسلام کی حیثیت مدافع کی تھی- یہ جنگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شروع ہوئی اور خلیفہ ثانی عمرفاروق (وفات: 23ھ /644ء) کے زمانے میں اصولاً ختم ہوگئی- مسلح مزاحمت (armed struggle) کی یہ مدت تقریباً 25 سال ہے- اللہ کی خصوصی نصرت کے تحت اس مختصر مدت میں مشرکانہ اقتدار کا زور ٹوٹ گیا- اب یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کا اصل مشن، پر امن دعوتِ توحید مزاحمت کے خطرے کے بغیر جاری کیا جائے اور قیامت تک اس کو جاری رکھا جائے-
وقت کے مشرکانہ اقتدار سے اسلام کی مسلح مزاحمت (armed struggle) کا تعلق وقتی حالات سے تھا، وہ اسلام کی آئیڈیالوجی کا ابدی حصہ نہ تھا- مگر بعد کے زمانے میں حضرت عثمان کی شہادت (35 ھ656/ء) کے وقت امت میں ایسا بحران (crisis)پیدا ہوا کہ لوگ آئیڈیالوجی اور تاریخ کے اس فرق کو بھول گئے، اور بحرانی حالات کے تحت لوگوں کے درمیان دوبارہ جنگ شروع ہوگئی، جب کہ اللہ کے منصوبے کے مطابق اب جنگ کا زمانہ ختم ہوچکا تھا، اور وہ وقت آگیا تھا کہ معتدل حالات میں توحید کی پرامن دعوت کو شروع کیا جائے، اور اس کو قیامت تک جاری رکھا جائے-
بعد کے زمانے میں وہ لڑائی پیش آئی، جس کو تاریخ میں فتنۂ ابن الزبیر کہا جاتاہے- اس وقت صحابیٔ رسول حضرت عبد اللہ ابن عمر (وفات: 73ھ) مدینہ میں موجود تھے، مگر وہ لڑائی میں شریک نہیں تھے، کچھ لوگ حضرت عبد اللہ ابن عمر سے ملے- انھوں نے قتالِ فتنہ کی آیت ( 8:39) کا حوالہ دے کر کہا کہ قرآن میں حکم دیاگیا ہے کہ فتنہ کو ختم کرنے کے لئے جنگ کرو، پھر آپ کیوں ہماری جنگ میںشریک نہیں ہیں- حضرت عبد اللہ ابن عمر نے جواب دیا: قاتلنا حتى لم تکن فتنة، وکان الدین للہ، وأنتم تریدون أن تقاتلوا حتى تکون فتنة، ویکون الدین لغیر اللہ (صحیح البخاری: 4513) یعنی ہم نے جنگ کی یہاںتک کہ فتنہ ختم ہوگیا، اور دین اللہ کے لئے ہوگیا، اور تم چاہتے ہو کہ تم لڑو یہاں تک کہ فتنہ دوبارہ آجائے، اور دین غیر خداکے لئے ہوجائے-
حضرت عبد اللہ ابن عمر کے اس قول پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اللہ کے حکم کے تحت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو جنگ شروع ہوئی، وہ ایک وقتی مقصد کے لئے تھی- یہ مقصد حضرت عمرفاروق کے زمانۂ خلافت میں حاصل ہوگیا- اب اہلِ ایمان کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی نئے عنوان کے حوالے سے دوبارہ جنگ شروع کردیں- اب انھیں صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی پوری طاقت اسلام کے پرامن دعوتی مشن میں لگادیں- اگر کوئی شخص یا گروہ دوبارہ جنگ چھیڑنے کی کوشش کرے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ پر امن تدبیر کے ذریعہ جنگ کو روک دیں، تاکہ پرامن دعوت کا کام بلاوقفہ جاری رہے-
واپس اوپر جائیں

عالمی نشانۂ دعوت

قرآن کی سورہ الفرقان میں یہ آیت آئی ہے: تَبَارَکَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِہِۦ لِیَکُونَ لِلْعَٰلَمِینَ نَذِیرًا(25:1) یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لئے آگاہ کرنے والا ہو۔
اس آیت کے مطابق یہ مطلوب تھا کہ قرآن کا پیغام دنیا بھر کے تمام انسانوں تک پہنچے- مگر ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں ، جب کہ قرآن اترا، ایسا ہونا ممکن نہ تھا- کیوں کہ عالمی پیغام رسانی کے لیے جو وسائل درکار تھے، وہ وسائل بوقت نزول قرآن موجود نہ تھے- حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں نشانۂ دعوت کا ذکر تھا، جہاں تک تکمیل دعوت کی بات ہے، وہ مستقبل میں پورا ہونے والا تھا- قرآن کی مذکورہ آیت کا یہ پہلو ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے-
پیغمبر اسلام کی ایک پیشین گوئی حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آئی ہے: لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد: 23814) زمین کی پشت پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہ ہوگا، مگر اللہ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کردے گا-
کرۂ ارض کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں کلمہ اسلام کا داخل ہونا کوئی سیاسی نشانہ نہ تھا، یہ ایک پرامن دعوتی نشانہ تھا- ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تو اس وقت وہ وسائل عملاً موجود نہ تھے جو اس عالمی نشانے کی تکمیل کے لئے ضروری تھے- یہ عالمی وسائل صرف موجودہ زمانے میں دستیاب ہوئے ہیں جب کہ پرنٹنگ پریس اور ماڈرن کمیونی کیشن کا زمانہ آیا-
مذکورہ قرآنی آیت اپنے انطباق کے اعتبار سے پوری امت مسلمہ کو آواز دے رہی ہے- موجودہ امت کے لئے اس کا تقاضا ہے کہ وقت کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے قرآن کے پیغام کو سارے اہلِ عالم تک پہنچا دے-
واپس اوپر جائیں

صبر کی اہمیت

قرآن میں صبر کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے- ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: إِنَّمَا یُوَفَّى ٱلصَّٰبِرُونَ أَجْرَہُم بِغَیْرِ حِسَابٍ (39:10) یعنی بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔صبر کی اتنی زیادہ اہمیت اس لئے ہے کہ صبر (patience) آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ مثبت اعمال کرسکے، جو غیر معمولی اجر کا باعث بنتے ہیں-
اصل یہ ہے کہ اسلام میں ساری اہمیت تعمیر شخصیت کی ہے، جس کو قرآن میں تزکیہ (20:76) کہاگیا ہے- موجودہ دنیا امتحان (test)کی دنیا ہے- یہاں مسلسل طورپر دوسروں کی طرف سے ایسے حالات پیش آتے رہتے ہیں، جو آدمی کو گوارا نہیں ہوتے، جو آدمی کے اندر نفرت، غصہ، اشتعال اور منفی سوچ جیسی کیفیات پیدا کردیتے ہیں- اس قسم کی منفی کیفیات آدمی کو مسلسل طورپر ڈسٹریکٹ (distract) کرتی رہتی ہیں- وہ آدمی کی توجہ کو صحیح رخ سے ہٹا کر غلط رخ کی طرف کردیتی ہیں-
یہ ایک تباہ کن صورت حال ہے- مگر یہ ناموافق صورتِ حال فطرت کے نظام کا ایک لازمی حصہ ہے- کوئی آدمی اس ناخوش گوار صورت حال کا خاتمہ کرنے پر قادر نہیں- ایسی حالت میں اس کے مضر انجام سے اپنے کو بچانے کی صورت صرف یہ ہے کہ آدمی ہر ایسے ناخوش گوار موقعے پر صبر کا طریقہ اختیار کرے-
صبر کی یہ اہمیت تدبیر کے اعتبار سے ہے- صبر کی یہ اہمیت اس لئے ہے کہ وہ آدمی کو رد عمل سے بچاتا ہے، اور رد عمل (reaction) ہر قسم کی برائیوں کی جڑ ہے- ہر برائی ابتداء ً کسی ناخوشگوار واقعہ کے خلاف رد عمل سے پیدا ہوتی ہے، اور پھر بڑھ کر وہ بگاڑ (breakdown) کی آخری حد تک پہنچ جاتی ہے- صبر آدمی کو رد عمل سے بچاتا ہے، اور جو شخص اپنے آپ کو رد عمل سے بچالے، وہ گویا تمام برائیوں سے محفوظ ہوگیا-
واپس اوپر جائیں

جنتی کام

قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کا مستحق امیدوار (deserving candidate) بننے کی تین خاص شرطیں ہیں- دنیا میں جو شخص ان شرطوں کو پورا کرے گا، اس کو آخرت کی ابدی جنت میں داخلہ ملے گا- وہ تین شرطیں یہ ہیں:
1- جنت میں داخلہ کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی خالق (Creator) کی گہری معرفت حاصل کرے- وہ تخلیق (creation)میں غور وفکر کرکے مسلسل طورپر اپنی معرفت کو بڑھاتا رہے، یہاں تک کہ اس کے اندر ایک ایسی ربانی شخصیت پیدا ہوجائے جو ہر لمحہ الحمد للہ (praise belongs to God) کی اسپرٹ میں جینے لگے- جو لوگ دنیا میں اپنے اندر اس قسم کی شخصیت بنائیں، انھیں کو آخرت میں یہ موقع ملے گا کہ وہ دوبارہ جنت کے معیاری ماحول میں الحمد للہ (39:75) کہنے کی توفیق پائیں-
2- جنت میں داخلے کا مستحق بننے کی دوسری شرط وہ ہے جو انسانوں کی نسبت سے مطلوب ہے- اس شرط کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: إِلَّا مَنْ أَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (26:89) یعنی مگر وہ جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے- قلب سلیم کا مطلب پاک دل (sound heart) ہے- قلب سلیم کا مطلب دوسرے الفاظ میں وہی ہے جس کو ربانی شخصیت کہاجاتا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ آدمی جب پیدا ہوتاہے تو وہ تخلیقی اعتبار سے قلب سلیم کے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے- ہر عورت اور ہر مرد فطرت پرپیدا ہوتے ہیں، اور فطرت پر پیداہونے کا نام ہی قلب سلیم کے تحتپیداہونا ہے- مگر موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے- یہاں کے تمام حالات امتحان کی مصلحت کے ساتھ بنے ہیں- اس لئے یہاں ہمیشہ ہر قسم کے منفی ومثبت دونوں قسم کے اسباب موجود رہتے ہیں- اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں پیدا ہوتے ہی آدمی کی کنڈیشننگ (conditioning) شروع ہوجاتی ہے- پیدا ہونے کے وقت آدمی مسٹر نیچر ہوتاہے، لیکن اس کے بعد دھیرے دھیرے وہ مسٹرکنڈیشنڈ (Mr. Conditioned) بن جاتا ہے-
اس بنا پر قلب سلیم والا آدمی وہ ہے جو بڑا ہونے کے بعد دوبارہ اپنے آپ کو اس ابتدائی فطرت پر قائم کرے، جس پر پیداکرنے والے نے اس کو پیدا کیا تھا- یعنی وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning)کرے- وہ اپنی سوچ، اپنے مزاج اور اپنی عادات کے اعتبار سے اپنے اندر اس مثبت شخصیت (positive personality) کی تعمیر کرے، جو جنت کے معاشرے کا ممبر بننے کے لئے ضروری ہے-
جنت کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ جنت میں ہر طرف امن کا ماحول ہوگا- یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جنت کو دار السلام (Home of Peace)کہاگیا ہے- جنت میں ہر طرف صدق گفتاری (54:55) کا ماحول ہوگا- جنت میں نہ کوئی لغو (nuisance) گفتگو کرنے والا ہوگا، اور نہ گناہ کی بات کرنے والا (56:25)- موجودہ دنیا ان صفات کی تربیت کا مقام ہے، جو افراد موجودہ دنیا میں اپنے اندر یہ صفات پیدا کریں، وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے معیاری معاشرے کے ممبر بنائے جائیں گے-
3- جنت کے استحقاق کی تیسری شرط یہ ہے کہ آدمی کو اسی دنیا میں جنت کا تعارف ( 47:6) حاصل ہوجائے- یہ حال اس انسان کا ہوتاہے، جو موجودہ دنیا میں اپنے ذہن کو اتنا ترقی یافتہ بنائے کہ اس کو شعوری طورپر جنت کی دریافت ہوجائے، وہ فطرت کے مناظر (natural scenes)کے اندر جنت کی جھلک (glimpse) دیکھنے لگے، وہ درختوں کی ہریالی میں جنت کے حسن کو دریافت کرلے، وہ چڑیوں کے چہچہے میں جنت کا نغمہ سننے لگے، وہ دریا میں شفاف پانی کو بہتے ہوئے دیکھے تو وہ جنت کی نہروں کو یادکرنے لگے-
جنت میں داخلے کا فیصلہ ہر عورت اور ہر مرد کے ذاتی کردار کی بنیاد پر ہوگا- جس فرد نے دنیا کی زندگی میں اپنے اندر مذکورہ قسم کے اوصاف کو پیداکیا ہوگا، وہی آخرت میں اس کا مستحق قرار پائے گا کہ اس کو جنت میں داخلہ ملے- جنت کسی آدمی کو اس کی ذاتی خصوصیت (merit) کی بنیاد پر ملے گی، کسی اور مفروضہ کی بنیاد پر کسی شخص کو ہرگز جنت ملنے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں

قرآن اور مثلِ قرآن

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: ألاإنی أوتیت الکتاب ومثلہ معہ (أبوداؤد: 4604) یعنی سن لو کہ مجھے کتاب (قرآن) دیاگیا ہے اور اسی کے ساتھ اس کا مثل- ایک اور روایت ان الفاظ میں آئی ہے : إنی اوتیت الکتاب ومایعدلہ (صحیح ابن حبان: 12)یعنی مجھے کتاب دی گئی اور وہ جو اس کے برابر ہے-
اس حدیث میں مثلِ قرآن سے مراد قرآن کی تبیین ہے- یہ تبیین، احادیث رسول کی صورت میں مدون ہوکر کتابوں میں موجود ہے- مثلِ قرآن سے مراد وحی غیر متلو ہے، جن کو عام طورپر حدیث کہاجاتاہے- گویا قرآن، قرآن ہے، اور حدیث مثلِ قرآن-
مثلِ قرآن کے الفاظ پر مزید غور کیجئے تو کہا جاسکتا ہے کہ مثلِ قرآن سے مراد تطبیقی قرآن (applied Quran) ہے- قرآن کی صورت میں پیغمبر اسلام کو دین کی اصولی تعلیمات دے دی گئی، لیکن ہمیشہ اجتہاد کی ضرورت رہتی ہے- یعنی روز مرہ کے حالات میں قرآن کی تعلیمات کی موافق حالات تطبیق تلاش کرنا- یہ تطبیق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ خاص نہیں ہے- وہ قیامت تک اہلِ علم کے درمیان جاری رہے گی- تاہم اہل علم کی تطبیق کی حیثیت زمانی ہوگی، نہ کہ ابدی - اگر قرآن کے ساتھ مثلِ قرآن (تطبیق) موجود نہ ہو توقرآن ہر دور کے لوگوں کے لئے رہنما کتاب نہیں بن سکتا-
مثال کے طورپر قرآن میں ایک اجتماعی اصول ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوْرَی بَیْنَھُمْ ( 42:38) یعنی اور ان کا نظام شورى پر ہے- قرآن کی اس آیت کی تبیین پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں کی ہے: کما تکونون کذلک یؤمّر علیکم (مشکاة المصابیح: 3717) یعنی اجتماعی زندگی کا امیر خود مجتمع کے مشورے سے طے ہوگا- موجودہ زمانے میںاس تطبیق کی مزید توسیع کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اجتماعی نظم کا فیصلہ جمہوریت (democracy) کے اصول پر بذریعہ انتخاب (election) کیاجائے گا-
اسی طرح ایک اور مثال یہ ہے کہ قرآن میں تیاری کا حکم دیتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَااسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ (8:60) یعنی اور ان کے لئے جس قدر تم سے ہوسکے تیار رکھو قوت- اس آیت میں قوت سے کیا مراد ہے- اس سلسلہ میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: ألا إن القوة الرمی، ألا إن القوة الرمی، ألا إن القوة الرمی(صحیح مسلم: 1917) یعنی سن لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، سن لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، سن لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے-
مذکورہ حدیث تطبیق کی ایک مثال ہے- اس میں اعداد قوت کی قرآنی تعلیم کو ساتویں صدی عیسوی کے حالات کے اعتبار سے بیان کیاگیا ہے- موجودہ زمانے میں حالات بدل چکے ہیں، اب نئے حالات کے لحاظ سے اعداد قوت کا مطلب ہوگا، اعداد علم- یعنی علم اور سائنس کے اعتبار سے اپنے آپ کو قوی بنانا- آج کی قوت تیر اندازی نہیں ہے، بلکہ وہ علوم ہیں جن کو سائنسی علوم کہاجاتاہے-
قرآن کی یہ تطبیق بھی ایک سنت رسول ہے، جو علمائے اسلام کے لئے ہر دور میں قابل اتباع ہے- ہر زمانے میں قوت کا معیار اور موثر کام کرنے کے طریقے بدلتے رہتے ہیں- قدیم قبائلی کلچر (tribal culture) میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ جنگ کے ذریعہ دبدبہ قائم ہوتا ہے- مگر موجودہ زمانے میں نئے وسائل کے تحت یہ ممکن ہوگیا ہے کہ پر امن طریقہ (peaceful method) کے ذریعہ دبدبہ قائم کیا جائے-یہی معاملہ ادبی اسلوب (idiom)کا ہے- اس اعتبار سے بھی موجودہ زمانے میں نئے نئے اسلوب رائج ہوئےہیں- تطبیق کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قرآن کی تعلیمات کو آج کے اسلوب میں بیان کیا جائے- مثلاً قرآن میں نقل وحرکت کے ذریعہ دعوت کو سیاحت کہاگیاہے- آج کے اسلوب میں اس کو دعوہ اِن ایکشن (dawah in action) کہاجاسکتا ہے- قرآن اپنے مشن کے اعتبار سے ہمیشہ ایک رہے گا، لیکن اپنی تطبیق (application) کے اعتبار سے اس میں اضافے ہوتے رہیں گے- جیساکہ حدیث میں آیا ہے: لا تنقضی عجائبہ (الترمذی: 2906) یعنی قرآن کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے-
واپس اوپر جائیں

دنیا ، آخرت

انسان پیدائش سے پہلے غیر موجود تھا، پھر اللہ نے اس کو پیداکرکے وجود ( 19:9) بخشا- انسان جب پیدا ہو کر سیارۂ ارض (planet earth) پر آتا ہے تو معجزاتی طورپر وہ پاتا ہے کہ یہاں اس کے لئے ضرورت کی ہر چیز موجود ہے- اسی واقعے کو قرآن میںان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَأَتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوْہُ ( 14:34) یعنی اور اس نے تم کو ہر چیز میں سے دیا جو تم نے مانگا-
تخلیق کے بعد یہ انسان کے اوپر خدا کی دوسری رحمت ہے- یہ انوکھی بات ہے کہ انسان کو پیدا ہوتے ہی فی الفور ایک ایسی دنیا مل جاتی ہے، جہاں اس کے لئے تمام سامان حیات پیشگی طورپر موجود ہیں- گویا کہ خالق ہر پیداہونے والے انسان سے یہ کہہ رہاہے کہ اے میرے بندے، جاؤ اور میری دنیا میں آزادانہ طورپر رہو- وہاں تمھارے لئے تمھاری ضرورت (need) کی تمام چیزیں وافر مقدار میں بلا قیمت موجود ہیں- یہی معاملہ مزید اضافے کے ساتھ آخرت کا ہے- آخرت کے دورِ حیات میں انسان کے لئے جو معیاری جنت بنائی گئی ہےاس کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِىٓ أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ(41:31) یعنی اور تمھارے لیے وہاں ہر چیز ہے جس کو تمھارا دل چاہے اور تمھارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے-
یہ انسان کے لئےناقابلِ قیاس حد تک ایک عجیب رحمت کا معاملہ ہے-یعنی ایک ابدی نوعیت کی معیاری دنیا- گویا خالق انسان سے یہ کہہ رہا ہے کہ اے میرے بندے، آخرت کے ابدی دور حیات میں تمھارے رب نے تمھارے لئے ایک ایسی آئڈیل دنیا تیار کررکھی ہے، جہاں تمھاری طلب (demand) اور تمھاری اشتہا (desire) کے مطابق تم کو ہر چیز ملے گی- جہاں تمھارے لئے کامل فُل فِل مینٹ (total fulfillment)کا انتظام ہے- ایک ایسی دنیا جو پوری طرح حَزَن (sorrow) سے خالی ہوگی- موجودہ دنیا کا سامان حیات ہر پیداہونے والے انسان کے لئے ہے، لیکن آخرت کی جنت صرف اس انسان کے لئے ہوگی، جو اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کرے-
واپس اوپر جائیں

آیت امانت

قرآن کی سورہ الاحزاب کی دو آیتوں میں تخلیق آدم کی نوعیت کو بیان کیاگیا ہے- ان کا ترجمہ یہ ہے: ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔تاکہ اﷲ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزادے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے۔ اور اﷲ بخشنے والا ،مہربان ہے(33:72-73) ۔
قرآن کی اس آیت میں آدم (انسان)کی منفرد نوعیت کو بتایا گیا ہے- کائنات کی بقیہ تمام چیزوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو کوئی اختیار حاصل نہیں- اللہ کو یہ مطلوب ہوا کہ وہ ایک صاحبِ اختیار مخلوق پیدا کرے- اس منصوبے کے تحت اللہ نے انسان کو پیدا کیا- مذکورہ آیت میں امانت سے مراد اختیار (freedom of choice) ہے- اس منصوبے کے تحت انسان کو جو صلاحیتیں دی گئیں، ان کا فطری نتیجہ یہ تھا کہ انسان ایڈونچرسٹ (adventurist) بن گیا- یہی وہ حقیقت ہے، جس کو ظلوم وجہول کے الفاظ سے تعبیر کیا گیاہے-
انسان کو امانت کی نعمت دینا، انسان کے لئے عظیم رحمت کا معاملہ تھا-اس امانت (اختیار) کو پاکر یہ اندیشہ تھا کہ انسان بگاڑ کا شکار ہوجائے، مگر یہی وہ احوال ہیں جن کے اندر وہ مطلوب انسان بنتا ہے، جس کو قرآن میں مومن کہاگیا ہے- لیکن انسان فرشتہ نہیں، انسان لازمی طورپر غلطی کرتا ہے، تاہم انسان کی عظمت یہ ہے کہ وہ ہر غلطی کے بعد ندامت (repentance) میں مبتلا ہوتا ہے- وہ توبہ کرتا ہے، یعنی وہ یوٹرن لیتاہے- توبہ کے معاملے میں اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انسان سے توبہ کو قبول فرمائےگا- مزید یہ کہ غلطی کرنا اور پھر توبہ کرنا کوئی سادہ بات نہیں- یہ ایک ذہنی عمل (intellectual process) ہے۔ اس کے دوران انسان کی شخصیت اعلی ترقی کے مدارج طے کرتی ہے، اور آخر کار جنت میں داخلے کا مستحق بن جاتی ہے-
واپس اوپر جائیں