Pages

Monday, 1 June 2015

Al Risala | June 2015 (الرسالہ،جون)

4

-فطرت کا ایک قانون

5

- شیطان کا وسوسہ

6

- ایک سنت ِ رسول

7

- معرفت ایک تخلیقی عمل

8

- دعوت حق کے دو دَور

9

- مطلوب رہنمائی

10

- حقیقت پسندانہ پالیسی کا کرشمہ

13

- دورِ مواصلات

14

- دعوت فرضِ عین یا فرضِ کفایہ

15

- شہادت امتِ مسلمہ کا مشن

31

- قرآن کتاب ِتدبر

34

- گلوبل کمیونی کیشن کا دَور

35

- قرآن کی حفاظت

38

- امت کا زوال

39

- نسخ کیا ہے

40

- عورت اور مرد کا تعلق

41

- دفاع یا دعوت

42

- قرآن وسنت

43

- بدترازحیوان

44

- علم کا سفر

45

- موت کے دروازے پر

46

- شکایت، اعتراف

47

- حقیقت پسندانہ سوچ

48

- خبر نامہ اسلامی مرکز


فطرت کا ایک قانون

قرآن کی سورہ البقرة میں فطرت کا ایک قانون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاللہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ(2:249) یعنی کتنے ہی چھوٹے گروہ، اللہ کے اذن سے بڑے گروہ پر غالب آتے ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے-
اذن کے لفظی معنی اجازت کے ہوتے ہیں- یہ لفظ یہاں کسی پُراسرار معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ فطرت کے قانون (law of nature) کے معنی میں ہے- فطرت کا یہ قانون کیا ہے- فطرت کا یہ قانون وہی ہے جس کو صبر کے لفظ میں بیان کیاگیا ہے- یہاں صبر کا مطلب یہ ہےکہ اگر اقلیتی گروہ منفی ردّ عمل میں مبتلا نہ ہو تو وہ اِس قابل ہوتاہے کہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعہ اپنے سے بڑے گروہ پر سبقت لے جائے-اصل یہ ہے کہ جب کوئی گروہ اقلیت (minority)میں ہوتا ہے تو اُس کو اکثریتی گروہ (majority)کی طرف سے مسلسل چیلنج کا سامنا پیش آتاہے- یہ صورت حال، اقلیتی گروہ کو تخلیقی گروہ (creative group) بنادیتی ہے- اِس طرح اُس کاشعور جاگتا ہے- وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ عمل کے نئے نئے میدان تلاش کرے- وہ اپنے ذرائع کو زیادہ بہتر طورپر استعمال کرے- وہ اپنے آپ کو اور زیادہ تیار کرسکے- وہ اپنے عمل کی زیادہ دور رس منصوبہ بندی (planning) کرے۔ اِس طرح اُس کا اقلیت میںہونا اُس کے لیے زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کا سبب بن جاتا ہے- وہ اکثریت سے زیادہ محنت کرنے لگتا ہے- اور آخر کار اکثریت سے زیادہ ترقی حاصل کرلیتا ہے- یہ اکثریت اور اقلیت کا مسئلہ نہیں، یہ فطرت کا ایک قانون ہے جو ہمیشہ اور ہر زمانے میں جاری رہتاہے- دوقوموں کے درمیان بھی، اور ایک قوم کے اندر داخلی طورپر بھی، حتی کہ دو افراد کے درمیان بھی- اس کا تقاضا ہے کہ آدمی کسی بھی صورت حال میں منفی سوچ میں مبتلا نہ ہو- وہ ہمیشہ صرف ایک کام کرے- فطرت کے قانون کو دریافت کرنا، اور اس کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنانا، یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے- دوسرا ہر طریقہ صرف تباہی میں اضافہ کرنے والا ہے، نہ کہ کامیابی تک پہنچانے والا-
واپس اوپر جائیں

شیطان کا وسوسہ

قرآن کی سورہ حم السجدہ میں اہلِ ایمان کو حکم دیاگیا ہے کہ وہ اپنے حسن سلوک کے ذریعہ اپنے دشمن کو اپنا دوست بنائیں-اس کے فوراً بعد یہ الفاظ آئے ہیں: وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ ط اِنَّہُ ہَوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(41:36) یعنی اگر شیطان تمھارے دل میں کچھ وسوسہ ڈالے تو تم اللہ کی پناہ مانگو- بے شک وہ سننے والا، جاننے والا ہے-
اِس سیاق (context)میں، وسوسہ شیطان کا مطلب صاف طورپر یہ ہے کہ دشمن کے ساتھ جب حسن سلوک کرنے کا معاملہ پیش آئے اور تمھارا دل کسی شک میں پڑے یا کوئی تم کو فرضی اندیشہ بتا کر اس راہ سے ہٹانا چاہے، اس وقت تم اِس قسم کے خیال کو شیطان کا وسوسہ سمجھو اور شیطان کو اپنے سے دور بھگا کر اس معاملے میں اسلام کے اصول پر قائم رہو- اِس سیاقِ کلام میں، وسوسۂ شیطان کا مطلب ہے — دشمن کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے طریقے پر شبہہ ڈالنا-
مثال کے طورپر اگر ایسا ہو کہ کسی کو یہ طریقہ بتایا جائے کہ تم جس کو اپنا دشمن سمجھتے ہو، اس کی دشمنی سے بچنے کا قرآنی طریقہ یہ ہے کہ تم اپنے دشمن کے ساتھ اچھا سلوک کرو- اس کے بعد اگر وہ شخص یہ کہے کہ ایسا کرنے سے دشمن اور زیادہ جری ہوجائے گا، وہ ہمارے خلاف اور بھی زیادہ دشمنی کرے گا تو ایسا کرنا یقینی طورپر شیطان کا وسوسہ ہے- ایسا بول عقل کا بول نہیں ہے، بلکہ شیطان کا بول ہے- جو لوگ ایسا کہیں وہ اس کا ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ شیطان کے فریب میں آگئے ہیں-
برے سلوک کے جواب میں اچھا سلوک کرنا محض ایک اخلاقی بات نہیں- وہ فطرت کے قانون کے مطابق ایک کارگر تدبیر ہے- یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب اس کے ساتھ جوابی طریقہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ یک طرفہ طورپر حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے تو اس کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے، وہ ندامت میں مبتلا ہوکر اپنی اصلاح آپ کرلیتا ہے-
واپس اوپر جائیں

ایک سنت ِ رسول

قال ابن عمر لعائشة: أخبرینا بأعجب شیء رأیتہ من رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فبکت وقالت: کلّ أمرہ کان عجباً (الترغیب والترہیب: 666) یعنی عبد اللہ ابن عمر نے عائشہ سے کہا کہ مجھ کو یہ بتائیے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے عجیب چیز کیا دیکھی- یہ سن کر وہ رو پڑیں، اور کہا کہ آپ کی ہر بات عجیب ہوتی تھی- عجیب یہاںاپنے لفظی معنی میں نہیں ہے بلکہ ایک اعلی ذہنی صفت کے معنی میں ہے- وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات میں ایک نیا پن ہوتا تھا، آپ کی ہر بات تعجب خیز حد تک رواجی فکر سے مختلف ہوتی تھی-
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تخلیقی فکر (creative thinking)کا معاملہ تھا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کامل درجے میں تخلیقی ذہن (creative mind) کی صفت رکھتے تھے- آپ کی اس صفت نے آپ کو اس قابل بنا دیا تھا کہ آپ چیزوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھ سکیں- آپ چیزوں میں نئے پہلو کی نشاندہی کریں- آپ چیزوں کو نئے زاویے سے دیکھیں، اور دوسروں کو اسے بتائیں-
یہ تخلیقی فکر دراصل تدبر اور تفکر کا نتیجہ ہوتا ہے- آپ کی صفات کے بارے میں ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: کان ہو طویل الصمت دائم الفکر متواتر الأحزان (تاریخ دمشق لابن عساکر: 3/337)یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک خاموش رہتے تھے، آپ ہمیشہ غوروفکر میں رہتے تھے، آپ مسلسل طورپر غم کی کیفیت میں ہوتے تھے-
اس روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت معلوم ہوتی ہے، یعنی مسلسل طورپر غور وفکر (contemplation)کی حالت میں رہنا- غوروفکر کا یہ معاملہ صرف خصائص نبوی کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ رسول اللہ کی ایک قابلِ تقلید سنت کا معاملہ ہے- اس غور وفکر سے آدمی کے اندر گہرائی آتی ہے- یہ فکری گہرائی آدمی کے اندر وہ صفت پیدا کرتی ہے، جس کو تخلیقی فکر کہاجاتا ہے- ایسا آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ چیزوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ دریافت کرے، وہ چیزوں کے نئے پہلو سے لوگوں کو باخبر کرے-
واپس اوپر جائیں

معرفت ایک تخلیقی عمل

دین میں سب سے زیادہ اہمیت معرفتِ الٰہی (realization of God) کی ہے- معرفت کوئی جامد چیز نہیں- معرفت مسلسل طورپر ایک اضافہ پذیر چیز ہے- اس کو قرآن میں ازدیادِ ایمان (8:2) کہا گیا ہے- اس اضافہ پذیر معرفت کو حاصل کرنے کا ذریعہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) موجود ہو- اس کا جذبہ معرفت اتنا بڑھا ہوا ہو کہ ہر چیز سے اس کو معرفت کی غذا ملتی رہے-
آل انڈیا ریڈیو پر ہر گھنٹہ خبریں آتی ہیں- درمیان میں دوسرے پروگرام بھی آتے رہتے ہیں- ایک دن میں نے ریڈیو کھولا تو ایک گانے والا ایک گیت گارہا تھا، اس گیت کی ایک لائن یہ تھی:
برباد میں یہاں ہوں، آباد تو کہاں ہے
یہ الفاظ سن کر میرا دل تڑپ اٹھا- مجھے ایسا محسوس ہوا، جیسے انسان درد کی حالت میں ہے اور وہ اپنے رب کو پکار رہا ہے- انسان اپنے خالق سے کہہ رہا ہے کہ تو نے پیدا کرکے مجھے ایک ایسی دنیا میں ڈال دیا جو میرا ہیبی ٹیٹ (habitat)نہ تھا- اس دنیا میں درخت کو اس کا ہیبی ٹیٹ ملا ہوا ہے، مچھلی کو اس کا ہیبی ٹیٹ ملا ہوا ہے، حیوانات کو ان کا ہیبی ٹیٹ ملا ہوا ہے- چنانچہ بقیہ دنیا میں احساس محرومی کا کوئی وجود نہیں-محرومی کا احساس صرف انسان کا تجربہ ہے- انسان کو پیدا ہونے کے بعد مسلسل طورپر احساس محرومی (sense of unfulfillment) میں جینا پڑتا ہے- وہ ذہنی سکون سے محروم رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اسی حال میں مرجاتاہے-
یہ سوچتے ہوئے مجھے قرآن کی سورہ التین یاد آئی- اس سورہ پر غور کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوا جیسے خدا انسان سے یہ کہہ رہا ہے کہ اے انسان، تیری یہ حالت اس لئے ہے کہ تو نے میرے کریشن پلان (creation plan)کو نہیں سمجھا- اگر تو میرے تخلیقی منصوبے کو دریافت کرتا تو تو یہ جان لیتا کہ میں نے تیرے لئے ایک اجر غیر ممنون (unending reward) تیار کررکھا ہے- اس دریافت کے بعد تو یہ کرتا کہ اپنی ساری توجہ اپنے آپ کو اس انعام کا مستحق بنانے میں لگا دیتا-
واپس اوپر جائیں

دعوت حق کے دو دَور

حضرت ابراہیم ایک پیغمبر تھے- ان کا زمانہ ساڑھے چار ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے- ان کی ایک دعا وہ ہے جو انھوں نے تعمیر کعبہ کے وقت قدیم مکہ میں کی تھی- قرآن کے مطابق ان کے الفاظ یہ تھے: رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّکَ(2:128) یعنی اے ہمارے رب، ہم کو اپنا فرماں بردار بنا اور ہماری نسل میں سے اپنی ایک فرماں بردار امت اٹھا-
اس ابراہیمی دعا کا ذکر بائبل میں اس طرح آیا ہے — (اور خداوند نے کہا) ابراہام سے یقیناً ایک بڑی اور زبردست قوم پیدا ہوگی اور زمین کی سب قومیں اس کے وسیلے سے برکت پائیں گی:
(And the Lord said) since Abraham shall surely become a great and mighty nation, and all the nations of the earth shall be blessed in him. (Genesis 18: 18)
تاریخی پس منظر کو شامل کرکے غور کیا جائے تو اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر ابراہیم تک بہت سے پیغمبر آئے تاکہ وہ امر حق کا اعلان کریں، لیکن اس پوری مدت میں یہ خدائی مشن ایک انفرادی مشن بن کر رہ گیا- اب اللہ کو یہ مطلوب ہوا کہ امت (team) کی سطح پر اس کو انجام دیا جائے- حضرت ابراہیم کے زمانے میں ایک عمل (process) شروع ہوا- اس کے بعد ابراہیم اور اسماعیل اور ہاجرہ کی قربانیوں سے ایک نسل (بنو اسماعیل) تیار ہوئی، جس کے اندر ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں محمد بن عبد اللہ پیدا ہوئے- ان کی دعوتی کوشش سے بنو اسماعیل میں ایک مطلوب ٹیم بنی، جس کو ایک حدیث میں العصابة (مسند احمد: 221) کہاگیاہے- اس العصابہ نے اپنے زمانے کے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے توحید کی بنیاد پر ایک انقلاب برپا کیا-
یہ روایتی دور (traditional age) کی بات تھی- اب سائنسی دور (scientific age) کے تحت نئے دعوتی مواقع پیدا ہوئے ہیں- اب دوبارہ ایک العصابہ کی ضرورت ہے جو جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے نئے دور میں امرِ حق کا اظہار کرے-
واپس اوپر جائیں

مطلوب رہنمائی

سچا رہنما کون ہے، امت ِ موسیٰ کے حوالے سے قرآن میں اس کا جواب ان الفاظ میں دیاگیا ہے: وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَىِٕمَّةً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ (32:24) اور ہم نے ان میں امام بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، جب کہ انھوں نے صبر کیا- اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے-قرآن کی اِس آیت میں ائمہ سے مراد مذہبی رہنما ہیں- یہاں یہ سوال ہےکہ قرآن میں ان کے لیے جعلنا کا لفظ کیوں آیا، یعنی اللہ کی طرف سے تقرری (appointment)- جیسا کہ معلوم ہے، اللہ کی طرف سے تقرری صرف پیغمبر کی ہوتی ہے- پھر غیر نبی امام کو اللہ کی طرف کیوں منسوب کیاگیا- اس سے مراد براہ راست تقرری نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد بالواسطہ تقرری ہے-
اس بالواسطہ تقرری کا درجہ ان لوگوں کو ملتاہے، جو صبر کا ثبوت دیں- اصل یہ ہے کہ رہنما دو قسم کے ہوتے ہیں- ایک وہ ہیں جو حالات کے رد عمل کے تحت (out of reaction) رہنمائی کے لیے کھڑے ہوجائیں- دوسری قسم ان لوگوں کی ہے، جو صابرانہ منصوبہ بندی (patient planning)کے تحت رہنمائی کے لیے اٹھیں- یہ دوسری قسم کے لوگ اللہ کے نزدیک درست رہنما ہیں، ان کو اللہ کی طرف سے قبولیت (acceptance)حاصل ہوتی ہے- یہی وجہ ہے کہ ایسے رہنماؤں کے معاملہ کو اللہ کی طرف منسوب کیاگیا- امت کی رہنمائی کا معاملہ اصولی طورپر نظریہ کا معاملہ ہے، اور عملی طور پر وہ حالات کا معاملہ ہے۔ حالات کا رخ انسان کی آزادی اور مسابقت (competition) سے تعلق رکھتا ہے- خارجی حالات کبھی اہلِ اسلام کے موافق نہیں ہوتے- حقیقت یہ ہے کہ رہنمائی نام ہے، ناموافق حالات میں اپنے لیے موافق راستہ تلاش کرنا-ایسی حالت میں رہنما ہمیشہ دوانتخاب (options) کے درمیان ہوتا ہے- ایک یہ کہ حالات کے خلاف رد عمل (reaction) کرتےہوئے کچھ جوابی سرگرمی شروع کردینا - ایسے لوگ اللہ کے نزدیک غیر مطلوب رہنما ہیں، وہ کبھی اللہ کے نزدیک ربانی امام کا درجہ نہیں پاسکتے- دوسرے رہنما وہ ہیں جو صابرانہ منصوبہ بندی کے تحت اپنے عمل کا تعین کریں- یہی وہ لوگ ہیںجو اللہ کے نزدیک ربانی امام کا درجہ پائیں گے-
واپس اوپر جائیں

حقیقت پسندانہ پالیسی کا کرشمہ

لی کوان یئو (Lee Kuan Yew) سنگاپور کے فاؤنڈر پرائم منسٹر تھے۔ وہ 91 سال کی عمر میں 23 مارچ 2015کو سنگاپور میں وفات پاگیے۔سنگاپور پہلے جغرافی اعتبار سے ملیشیا کا ایک سرحدی حصہ تھا۔ 1965 میں وہ ایک علاحدہ ملک (separate state)بنا۔ مسٹر لی سنگاپور کے پہلے پرائم منسٹر بنائے گیےتھے۔اُس وقت سنگاپور ایک غیر ترقی یافتہ ملک تھا، اور وسائل سے محروم بھی۔ مگر مسٹر لی نے سنگاپور کو صرف پہلی جنریشن میں اول درجے کا ترقی یافتہ ملک بنادیا۔
آج سنگاپور میں ہر طرف ڈیولپمنٹ کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔سنگاپور کے ایک تعلیم یافتہ باشندے نے ایک اخباری رپورٹرسے بات چیت کے دوران کہا کہ جو لوگ یہاں مسٹر لی کی یادگار (monument) دیکھنا چاہتے ہیں، سنگاپور کے لوگ فخر کے ساتھ ان سے کہیں گے کہ اپنے چاروں طرف دیکھو، سنگاپور کا ہر گوشہ مسٹر لی کی روشن یادگار ہے۔
“To those who seek Lee Kuan Yew’s monument, Singaporeans can reply proudly: Look around you.” (The Times of India, Delhi, March 30, 2015, p.16(
سنگاپور کی ترقی جدید تاریخ کا ایک معلوم واقعہ ہے۔ مگر اس ترقی کو عام طور پر لوگ ایک شخص کا کارنامہ بتاتے ہیں، یعنی سنگاپور کے پہلے وزیراعظم کا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی بڑا کارنامہ ایک انسان کا شخصی کارنامہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک انسان کی اختیار کردہ درست پالیسی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مسٹرلی ایک اعلی تعلیم یافتہ شخص تھے۔انھوں نے اپنے مطالعے کے ذریعے ممکن (possible) اور ناممکن (impossible) کے فرق کو جانا۔ انھوں نےاس حقیقت کو دریافت کیا کہ سنگاپور کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی نیشنل پالیسی کو مثبت بنیادوں پر قائم کرے۔ سنگاپور نہ ملیشیا سے ٹکراؤ کرے، نہ وسائل کے مفقود ہونے کی شکایت کرے۔ نہ یہ کرے کہ کسی سازش (conspiracy) کودریافت کرکے اپنے مفروضہ دشمن کے ظلم کاتحریری اور تقریری پروپیگنڈہ کرے۔
مسٹر لی نے اس قسم کی کسی منفی سوچ کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا۔ انھوں نے صرف یہ کیا کہ سنگاپور کے دستیاب وسائل (available resource )کو دانش مندانہ پلاننگ کے ذریعے ڈیولپ کرنا شروع کیا۔ انھوں نے کسی غیر حاصل شدہ کو حاصل کرنے پر ایک دن بھی ضائع نہیں کیا۔ انھوں نے صرف حاصل شدہ کی بنیاد پر اپنا منصوبہ بنایا نہ کہ غیر حاصل شدہ کی بنیاد پر۔
اس پالیسی کا نام مثبت پالیسی ہے۔ یہی مثبت پالیسی تھی جس نے مسٹر لی کو یہ موقع دیا کہ وہ مختصر مدت میں ڈیولپمنٹ کا ایک ایسا کارنامہ انجام دیں، جس کی مثال کسی اور ملک میں مشکل سے ملےگی۔
یہ دنیا فطرت کے قانون کے مطابق چل رہی ہے۔ خواہ فرد کا معاملہ ہو یا قوم کا معاملہ، ہر ایک کے لیے ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ فطرت کے اس ابدی قانون کودریافت کرے اور اس کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔ جس طرح اس دنیا کا خالق خدا ہے، اسی طرح دنیا کا نظام بھی خالق کے منصوبے کے مطابق چل رہا ہے۔ اس دنیا کے بارے میں خالق کا مقرر کردہ قانون یہ ہےکہ فطری طور پر جو مواقع آدمی کو حاصل ہیں، ان کودریافت کرکے انھیں ترقی دینا، نہ کہ غیر حاصل شدہ مواقع کے لیے بے فائدہ پروٹسٹ کرنا۔
سنگاپور نسبتاً ایک چھوٹا جزیرہ ہے،اس کی حیثیت صرف ایک سٹی اسٹیٹ کی ہے۔ اس اعتبار سے سنگاپور کا بظاہر سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ سنگاپور کا رقبہ بڑھایا جائے۔ لیکن سنگاپور کے دانش مند لیڈر نے اس حقیقت کو جانا کہ موجودہ زمانہ نئے امکانات کا زمانہ ہے۔موجودہ زمانے میں اگر آپ کے پاس محدود رقبۂ زمین ہے تو آپ ملٹی اسٹوری بلڈنگ کے ذریعے عمودی توسیع (vertical growth) کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس صرف ایک مقامی آفس ہے تو آپ ماڈرن کمیونی کیشن کے ذریعے اس کی پہنچ کو سارے عالم تک وسیع کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس اپنے ملک میں تجارت کے مواقع کم ہیں تو آپ سی پورٹ اور ایرپورٹ کے ذریعے اپنی تجارت کو عالمی دائرے میں پھیلاسکتے ہیں، وغیرہ ۔ سنگاپور کے دانش مند لیڈر نے نئے امکانات کو دریافت کیا اور ان کو بھر پور طور پر استعمال کیا ،اوردنیا نے دیکھا کہ محدود مدت کے اندر سنگاپور ایک اعلیٰ ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔
اسی کے ساتھ دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو اس حقیقت سے بے خبر ہونے کی بنا پر صرف یہ کررہے ہیں کہ انھوں نے دوسری قوموں کو اپنا دشمن فرض کر رکھا ہے۔ وہ اپنی طاقت دوسری قوموں سے لڑنے میں ضائع کررہے ہیں۔ وہ دوسروں سے صرف نفرت کرتے ہیں۔ حالاں کہ اگر وہ نئے امکانات کوجانتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ نئے حالات نے دوسروں کو ان کا مددگار بنادیا ہے۔وہ دوسروں کا سپورٹ لے کر اپنے آپ کو اعلی ترقی کے منازل تک پہنچاسکتے ہیں۔
فطرت کے قانون کے مطابق اس دنیا میں ترقی کا راز یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے مفروضہ ظالموں کو دریافت کریں، آپ یہ دریافت کریں کہ آپ کے خلاف کیا کیا سازشیں ہورہی ہیں ۔ اس قسم کی دریافتیں صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے نہ فطرت کے قانون کو جانا، اور نہ زمانے کے مواقع (opportunities) کو سمجھا۔ آپ خدا شناسی سے بھی محروم ہیں، اور انسان شناسی سے بھی۔ مگر اس دنیا کے لیے اس کے خالق کا قانون یہ ہے کہ جو حقائق (realities) سے باخبر ہو ، وہ کامیابی کی تاریخ بنائے، اور جو شخص یا قوم حقائق سے بے خبر ہو وہ دنیا میں صرف شکایت اور احتجاج کرنے والاایک محروم گروہ بن کر رہ جائے ۔
واپس اوپر جائیں

دورِ مواصلات

قرآن کی سورہ بنی اسرائیل میں ایک آیت آئی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (17:70) یعنی ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی، اور سواری دی اس کو خشکی اور دریا میں-
تمام حیوان اپنے پیروں کے ذریعہ سفر کرتے ہیں، چڑیا کا سفر اپنے پرکے ذریعہ ہوتا ہے- یہ انسان کی ایک امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ خارجی سواری کے ذریعہ اپنا سفر کرسکتا ہے- موجودہ زمانے میں جدید مواصلات (modern communication) کی ایجاد نے سواری (transportation) کے تصور کو بہت بڑھادیا ہے- آج کے انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ جسمانی حمل ونقل (physical transportation)سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرے اور اِسی کے ساتھ افکار کے حمل ونقل (transportation of ideas)کو بھی نہایت سرعتِ رفتار سے انجام دے سکے-
قرآن کی مذکورہ آیت میں براہِ راست طورپر صرف حیوانی مواصلات کا ذکر ہے، مگر بالواسطہ طورپر اس میں ہر قسم کے مواصلات بشمول مواصلات بذریعہ ٹکنالوجی کا اشارہ موجود ہے- آدمی اگر اس آیت کو اس کے توسیعی مفہوم (extended meaning) کے ساتھ پڑھے تو یہ آیت اس کے لیے کائناتی معرفت کا ذریعہ بن جائے گی- اِس آیت میں وہ اللہ کی کائناتی نعمت کو دریافت کرے گا- یہ ایک آیت اس کے لیے بلین ٹریلین سے بھی زیادہ معانی کا خزانہ بن جائے گی-
قرآن معروف معنوں میں کوئی معلوماتی کتاب نہیں- لیکن قرآن کے اندر وہ تمام معلومات موجود ہیں جن کا تعلق معرفت سے ہے- یہ معلومات زیادہ تر اشارات کی صورت میں ہیں- ان آیتوں پر غور کرکے ان کے اندر چھپے ہوئے معانی کی دریافت کی جاسکتی ہے- یہی تدبر اور تفکر وہ چیز ہے جس سے معرفت میں اضافہ ہوتاہے- یہی وہ چیزہے جو آدمی کے ایمان کو یقین کے درجے تک پہنچا دیتی ہے- یہی وجہ ہے کہ قرآن میں تدبر کو نصیحت کا ذریعہ بتایا گیا ہے (38:29)-
واپس اوپر جائیں

دعوت فرضِ عین یا فرضِ کفایہ

عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام فرضِ کفایہ ہے، وہ فرضِ عین نہیں، یعنی اگر کچھ لوگ دعوت کا کام انجام دیں تو بقیہ لوگوں سے اُس کی فرضیت ساقط ہوجائے گی- یہ تصور یقینی طورپر ایک بے بنیاد تصور ہے-
جہاں تک فرضِ عین کا تعلق ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں- فرضِ عین وہ ہے جس کی ادائیگی ہر فرد کے لیے ضروری ہے اور جس کی ادائیگی کے بغیر کسی انسان کی اخروی نجات ممکن نہیں- مثلاً نماز فرض عین ہے اور متفقہ طورپر ترکِ نماز سے آدمی کی نجات یقینی طورپر مشتبہ ہوجاتی ہے- یہی معاملہ دعوت الی اللہ کا ہے-
دعوت الی اللہ کیا ہے، وہ دراصل ’’ختم نبوت‘‘ کے عقیدے کا جز ہے- جب ایک صاحبِ ایمان یہ اقرار کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تھے تو اس کے بعد اُس کے اوپر یہ لازم آجاتا ہے کہ وہ خاتم النبیین کے بعد آپ کے پیغام کو بعد کی نسلوں میں جاری رکھے- نبوت بلا شبہہ ختم ہوگئی، لیکن کارِ نبوت بدستور جاری ہے- دعوت الی اللہ کا مقصد اِس کارِ نبوت کو مسلسل نسل درنسل جاری رکھنا ہے- اس لیے دعوت الی اللہ کا کام ایک مسلسل کام ہے نہ کہ کوئی وقتی کام-
دعوت فرض عین ہے یا فرض کفایہ کاسوال اس وقت ہوتا ہے، جب کہ دعوت کو محض اعلانِ غیر کے معنی میں لیا جائے - مگر حقیقت یہ ہے کہ دعوت ایک شخصی عبادت ہے- دعوت کا نہایت گہرا تعلق انسان کی ذاتی تربیت اور ذاتی طورپر تعمیر شخصیت سے ہے- حقیقت یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام کیے بغیر کسی مومن کی مومنانہ شخصیت کی تکمیل نہیں ہوتی، کسی مومن کے اندر وہ اعلیٰ شخصیت نہیں بنتی جو آخرت کے اعتبار سے مطلوب ہے- داعی ایک اعتبار سے دوسروں کو سچائی کا پیغام پہنچاتا ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ خود اپنے آپ کو سچائی پر کھڑا کرتا ہے- وہ اپنے آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ آخرت میں اس کو مقعد ِصدق (seat of truth) پر جگہ پانے کا اعزاز حاصل ہو-
واپس اوپر جائیں

شہادت امتِ مسلمہ کا مشن

شہادت ایک عظیم عمل ہے۔ جو لوگ شہادت کا عمل انجام دیں ، ان کے لیے اللہ کے یہاں عظیم درجات ہیں۔ ان کو جنت کے اعلیٰ درجات میں جگہ ملے گی۔ شہادت کیاہے۔شہادت عین وہی چیز ہے جس کو دعوت کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ کے پیغام کو پرامن طور پر اللہ کے بندوں تک پہنچانا۔ زندگی کی حقیقت (reality of life) سے انسان کو اُس کی قابلِ فہم زبان میں باخبر کرنا ۔ شہادت یا دعوت کا مقصد یہ ہے کہ جس شخص کے اندر طلب ہو وہ اللہ کے نقشۂ تخلیق کو جان لے۔ اور جس کے اندر طلب نہ ہو اس پر اللہ کی حجت قائم ہوجائے، اس کو یہ موقع نہ رہے کہ وہ آخرت کے دن یہ کہہ سکے کہ ہم کو یہ خبر ہی نہ تھی کہ خالق کا مطلوب ہمارے بارے میں کیا تھا۔ شہادت یا دعوتی مشن کو قرآن میں مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، مثلاً تبلیغ (5:67) یاانذار و تبشیر (4:165)، وغیرہ۔
شہادت کا لفظی مطلب گواہی دینا (to witness) ہے۔ شہادت اور دعوت دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے لیکن شہادت کے لفظ میں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی دعوت کے کام کو اس طرح کامل صورت میں انجام دینا کہ آدمی کا پورا وجود دعوت کا مکمل اظہار بن جائے۔
یہی شہادت ہے۔ شہادت کا یہ تصور قرآن میں اجنبی (alien)ہے کہ شہادت کے دو درجے ہیں— قولی شہادت اور عملی شہادت۔ یعنی تقریر اور تحریر سے شہادت کی ذمے داری ادا کرنا کافی نہیں۔ ضرورت ہے کہ مکمل نظام قائم کرکے لوگوں کے سامنے اس کا عملی مظاہرہ کیا جائے۔ یہ نظامی تصورِ شہادت نہ قرآن میں کہیں مذکور ہے، اور نہ پیغمبروں میں سے کسی پیغمبر نے اس کو انجام دیا، حتیٰ کہ پیغمبر آخر الزماں نے بھی نہیں۔
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم شاہد (33:45) تھے ۔آپ نے بلاشبہ کامل معنوں میں شہادتِ حق کا کام انجام دیا۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا کہ مکمل نظام کا عملی مظاہرہ کرکے شہادت کا فریضہ انجام دیں، نہ مکی دور میں نہ مدنی دور میں۔ حقیقت یہ ہے کہ شہادت کا یہ کام ، ایک ایسا کام ہے جس کو ـ’’ قول‘‘ کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ داعی کامل معنوں میں ناصح اور امین (7:68) ہو۔ یعنی مدعو کی نسبت سے کامل خیرخواہ(well-wisher)، اور اللہ کی نسبت سے کامل امانت دار (honest)۔
شہادت کا تصور
قرآن میں شہادت کا لفظ مختلف مشتقات کی صورت میں 160 بار آیا ہے۔ہر جگہ وہ گواہی (witness) کے معنی میں ہے۔ قرآن میں شہادت کا لفظ مختلف نسبت کے ساتھ استعمال ہوا ہے، لیکن ہر بار وہ اسی گواہی کے مفہوم میں آیا ہے، کسی اور مفہوم میں نہیں۔
قرآن کے مطابق ، پیغمبر کا منصب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اوپر اللہ کا گواہ بنے۔ وہ پر امن فکری جدوجہد کے ذریعے لوگوں کو بتائے کہ اللہ نے ان کو کس لیے پیدا کیا ہے۔ اور آخرت میں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے۔ ہر پیغمبر کا مشترک مقصد یہی تھا، اور ہر پیغمبر نے شہادت کے اس عمل کو مکمل طور پر غیر سیاسی انداز میں انجام دیا۔
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا لیکن کارِنبوت بدستور باقی ہے۔ خاتم النبیین کے بعد تمام انسانی نسلوں کے لیے بھی یہی مطلوب ہے کہ ان کو پیغمبر کی نیابت میں اللہ کا پیغام بدستور پہنچایا جائے، اور قیامت تک پہنچایا جاتا رہے۔ یہ کام بعد کے زمانے میں امتِ محمدی کو انجام دینا ہے۔ یہ گویا نبی کے بعد نبی کے کارِ شہادت کا تسلسل ہے۔ اس عمل کی درست ادائیگی کی شرط یہ ہے کہ اس کو امانت اور خیرخواہی (7:68) کی اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا جائے۔
امانت یہ ہے کہ اصل پیغامِ خداوندی میں کسی اور چیز کی ملاوٹ نہ کی جائے۔ اور نصح یہ ہے کہ اس کام کویک طرفہ خیرخواہی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ تاکہ مخاطب کے لیے انکار کا کوئی معقول سبب باقی نہ رہے۔
امتِ وسط
امتِ محمدی کی اس ذمے داری کو قرآن کی سورہ نمبر 2میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا (البقرۃ:143)۔ یعنی اس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا:
Thus We have made you a middle nation, so that you may act as witnesses for mankind, and the Messenger may be a witness for you.
امت ِ وسط کا مطلب بیچ کی امت (middle ummah) ہے۔ یعنی امتِ محمدی کی حیثیت خاتم النبیین اور بعد کی انسانی نسلوں کے درمیان بیچ کے نمائندہ کی ہے۔ اللہ کے دین کو خاتم النبیین سے لینا اور اس کو بعد کی نسلوں تک کسی اجرت کی امید کے بغیر قیامت تک پہنچاتے رہنا۔ اس پہنچانے کا مطلب صرف اعلان (announcement) نہیں ہے۔ بلکہ ضروری ہے کہ اس کو قول بلیغ (4:63) کی زبان میں پہنچایا جائے۔ یعنی ایسے اسلوب میں جو لوگوں کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔
قرآن کی اس تعلیم کے مطابق موجودہ دنیا ہمیشہ کے لیے دارالدعوۃ ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کے مطابق نبوت محمدی اور دوسرے انسانوں کے درمیان جو نسبت ہے وہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ امت کی حیثیت شاہد کی ہے، اور دوسرے انسانوں کی حیثیت مشہود(85:3)کی ۔ اس نسبت کو دوسرے الفاظ میں داعی اور مدعو کی نسبت کہا جاسکتا ہے۔
امت محمدی کی اس دعوتی ذمے داری کو حدیث میں ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے: المؤمنون شہداء اللہ فی الأرض (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2642)۔ یعنی اہل ایمان زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔ شہادت کا یہ کام خالص پیغمبرانہ طریقے پر انجام دینا ہے۔ یہ ایک خدائی کام ہے جس میں کسی سیاسی یا قومی یا مادی مقصد کو شامل کرنا ہرگز جائز نہیں۔ اس کام میں کسی اور مقصد کو شامل کیا جائے تو وہ قرآن کے الفاظ میں رکون ہوگا جو انسان کو اللہ کے یہاں سخت مواخذہ کا مستحق بنا دیتا ہے۔وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ ۙ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(11:113) یعنی ان کی طرف نہ جھکو جنھوں نے ظلم کیاورنہ تم کو آگ پکڑ لے گی اور اللہ کے سوا تمھارا کوئی مددگار نہیں، پھر تم کہیں مدد نہ پاؤگے-
دعوت قولِ بلیغ کی زبان میں
شہادت یا دعوت کا یہ کام ایک ابدی قسم کا پیغمبرانہ مشن ہے۔ اس کو ہر زمانے میں مسلسل طور پر انجام دینا ہے۔ اس مشن کا اصل پیغام تو ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔ لیکن زمانی تبدیلیوں کے اعتبار سے اس کی ادائیگی میں فرق ہوتا رہے گا۔ شہادت یا دعوت کے اس عمل کی ادائیگی کو موثر بنانے کے لیے اس طرح انجام دینا ہوگا کہ وہ ہرزمانے کے ذہن کو ایڈریس کرسکے۔ اس زمانی رعایت کے بغیر حجت کی شرط پوری نہیں ہوسکتی، جو کہ اس کام کی حسن ادائیگی کی لازمی شرط ہے۔
دعوت دورِ تعقل میں
دعوت یا شہادت کا یہ پیغمبرانہ مشن سفر کرتے ہوئے، اب پندرھویں صدی ہجری (اکیسویں صدی عیسوی ) میں داخل ہوچکا ہے۔ موجودہ زمانہ کو دورِ تعقل (age of reason) کہا جاتا ہے۔ اب ضروری ہے کہ جدید ذہن (modern mind) کی نسبت سے اس کو عقلی طور پر مدلل صورت میں پیش کیا جائے۔ اس کے بغیر مطلوب معیار پر اس کام کی انجام دہی نہیں ہوسکتی۔
شہادتِ اعظم
بعد کے دور میں شہادت کا یہ دعوتی عمل عالمی سطح پر مزید اضافے کے ساتھ انجام پائے گا۔ اس دعوتی واقعے کو حدیث میں شہادت اعظم کہا گیا ہے۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دور آئے گا جب کہ شہادت علی الناس یا دعوت الی اللہ کے اس کام کو حجت (reason) کی سطح پر انجام دینا ضروری ہوگا۔ اس وقت امت کے جو افراد وقت کے استدلالی معیار پر اس دعوتی کام کو انجام دیں گے، وہ اللہ کے یہاں بہت بڑے درجے کے مستحق قرار پائیں گے۔ اس دور میں اللہ کے جو بندے اس کام کو اس کے مطلوب معیار پر انجام دیں گے، ان کے لیے حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: ہذا أعظم الناس شہادةً عند رب العالمین (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938)۔ یعنی یہ اللہ رب العالمین کے نزدیک لوگوں کے اوپر سب سے بڑی شہادت (دعوت) ہوگی۔
شہادت کے تصور میں تبدیلی
اسلام کے ابتدائی دور میں شہادت کا یہی تصور تھا جو اوپر بیان کیا گیا۔ اس زمانے میں شہادت کا لفظ گواہی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جہاں تک اللہ کے راستے میں جان دینے کا معاملہ ہے، اس کے لیے معروف لغوی لفظ قتل استعمال ہوتا تھا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمْوَاتٌ (2:154)۔ یعنی اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں ان کو مردہ مت کہو-اس آیت کے مطابق ، اللہ کے راستے میں جان دینے والے کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا۔
ایسے شخص کا اجر اللہ کے یہاں بلاشبہ بہت بڑا ہے۔ لیکن انسانی زبان میں اس کا ذکر ہوگا تو اس کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہجرت کے تیسرے سال غزوۂ احد پیش آیا۔
اس جنگ میں صحابہ میں سے ستر آدمی مارے گیے۔ صحیح البخاری میں اس کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے: أنس بن مالک أنہ قال: قُتِل منہم یوم أحُد سبعون (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4078)۔ یعنی حضرت انس کہتے ہیں کہ احد کے دن اصحابِ رسول میں سے ستر آدمی قتل ہوئے۔
رسول اللہ کے بعد صحابہ اور تابعین کا زمانہ اسلام میں مستند زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس زمانے میں یہی طریقہ رائج تھا۔ بعد کے زمانے میں دھیرے دھیرے ایسا ہوا کہ جس طرح دوسری تعلیمات میں تبدیلی آئی، اسی طرح شہادت کی اصطلاح میں بھی تبدیلی آئی۔ یہاں تک کہ دھیرے دھیرے یہ حال ہوا کہ شہادت بمعنی دعوت کا تصور امت کے ذہن سے حذف ہوگیا۔ اس کے بجائے، شہادت اور شہید کا لفظ جانی قربانی (martyrdom) کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔
بعد کے زمانے میں یہ رواج عام ہوگیا کہ اس قسم کے افراد کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ شامل کیا جانے لگا۔مثلا حسن البنا شہید، سیدقطب شہید، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، وغیرہ۔ اصحابِ رسول میں بہت سے لوگوں کے ساتھ جانی قربانی کا یہ واقعہ پیش آیا لیکن کسی کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ شامل نہیں کیا گیا۔ مثلا َ عمر بن الخطاب شہید، عثمان بن عفان شہید، علی ابن ابی طالب شہید، سعد بن معاذ شہید، وغیرہ۔ صحابہ کا نام ہمیشہ ان کے آبائی نام کے ساتھ لکھا اور بولا گیا، نہ کہ شہید کے اضافے کے ساتھ۔ جیسا کہ بعد کے زمانے میں رائج ہوا۔ چناں چہ محدث البخاری نے اپنی کتاب میں اس نوعیت کی کچھ روایات کے اوپریہ باب قائم کیا ہے: باب لا یقول فلان شہید (کتاب الجہاد والسیر)
یہ سادہ بات نہیں ہے بلکہ اسلام کے ایک اہم اصول پر مبنی ہے۔ وہ یہ کہ لوگوں کو ان کے آبائی نام کے ساتھ پکارا جائے: اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَاۗىِٕہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ (33:5)یعنی ان کو ان کی آبائی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔ نام کے ساتھ شہید یا اس طریقے کے دوسرے الفاظ کا اضافہ کرنا،اشخاص کے بارے میں غیر واقعی ذہن بنانے والا عمل ہے۔ یہ طریقہ اسلامی آداب کے مطابق نہیں۔
شہادت اور شہید کے معاملے میں یہ غیر اسلامی طریقہ موجودہ زمانے میں اپنی آخری حد پر پہنچ گیا۔موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان تشدد کا جو طریقہ رائج ہوا، اس کا اصل سبب یہی ہے۔ جو لوگ اس متشددانہ عمل میں ہلاک ہوتے ہیں، ان کو بطور خود شہید اور شہداء کا ٹائٹل دیا جاتا ہے۔ اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مرنے کے بعد فوراً جنت میں داخل ہو گیے۔
یہ معاملہ اپنی عمومی صورت میں نوآبادیات (colonialism) کے دور میں رائج ہوا۔ اس دور میں مغربی قوموں نے مسلم علاقوں پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اس کے بعداس دور کے مسلم مقررین اور محررین کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندرعام طور پر ان کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوگیا۔ یہ ردعمل پہلے نفرت کی شکل میں جاری ہوا۔ اس کے بعدبتدریج اس نے تشدد کی صورت اختیار کر لی۔
اس متشددانہ عمل کو مقدس بنانے کے لیے کہا گیا کہ جو لوگ اس مقابلے میں مارے جائیں، وہ شہید ہوں گے، اور بلا حساب کتاب فورا جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ یہ بلاشبہ ایک خود ساختہ مسئلہ تھا، جس کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری قوموں کے خلاف اس منفی ردعمل کی آخری تباہ کن صورت وہ ہے جو موجودہ زمانے میں خودکش بمباری (suicide bombing) کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ اس خودکش بمباری کو مقدس بنانے کے لیے کچھ علماء کی طرف سے غلط طور پراس کو استشہاد (طلبِ شہادت) کا ٹائٹل دے دیا گیا۔
اب حال یہ ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں شہادت کے نام پر اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ لیکن شہادت کا اصل کام ، دعوت الی اللہ کو انجام دینے کی تڑپ کسی کے اندر نہیں، نہ مسلم علماء کے اندر، نہ مسلم عوام کے اندر۔ شہادت کے اس خودساختہ تصور کے تحت وہ جن لوگوں پر حملے کرتے ہیں، وہ ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور مدعو کو ہلاک کرنا اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں۔
سنتِ یہود کی پیروی
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ امتِ محمدی بعد کے زمانے میں ضرور یہود کی کامل اتباع کرے گی: لتتبعُنَّ سَنَنَ من کان قبلَکم ، شبرًا بشبرٍ وذراعًا بذراعٍ ، حتى لو دخلوا جُحْرَ ضبٍّ تبعتُمُوہم. قلنا : یا رسولَ اللہِ ، الیہودُ والنصارى ؟ قال : فمَنْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر7320)۔ یہ سادہ طورپریہودکی اتباع کا مسئلہ نہیں ہے۔
یہ دراصل ایک قانونِ فطرت کا معاملہ ہے، جس کو قرآن میں طول امدکے نتیجے میں قساوت کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ ۭ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ (57:16) یعنی لمبی مدت گزرنے کی بنا پر بعد کی نسلوں میں زوال آنا، اور زوال کی بنا پر ان کے اندر مختلف قسم کے بگاڑ کا پیدا ہوجانا۔
سنتِ یہود کی پیروی کی سب سے زیادہ سنگین صورت وہ ہے جو شہادت (witness) کے معاملے میں واقع ہوئی۔ یہود کو اللہ نے اپنے دین کا گواہ (witness) بنایا تھا۔ اس کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں آیا ہے: خداوند فرماتا ہے تم میرے گواہ ہو، اور میرے خادم بھی جسے میں نے منتخب کیا تاکہ تم جانو اور مجھ پر ایمان لاؤ، اور سمجھو کہ میں وہی ہوں۔ مجھ سے پہلے کوئی خدا نہ ہوا اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا (یسعیاہ، 43:10)
You are My witnesses, declares the Lord, and My servant whom I have chosen, so that you may know and believe Me and understand that I am He. Before Me no god was formed, nor will there be one after Me. (Isaiah 43:10)
یہود پربعد کے زمانے میں جب زوال آیا تو انھوں نے خدا کے دین کی گواہی کی اس ذمے داری کو عملاً چھوڑدیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر ان کے اندر قومی ذہن پیدا ہوگیا۔ ان کے اندر وہ نفسیات پیدا ہوگئی جس کو یہود کی تاریخ میں یہودی احساسِ برتری (Jewish supremacism)کہا جاتا ہے۔
چناں چہ ان کی دلچسپی تمام تر اپنی قوم تک محدود ہوگئی ، وہ دوسرے انسانوں کے خیرخواہ نہ رہے۔ بلکہ دوسروں کو عمومی طور پر انھوں نے اپنا دشمن سمجھ لیا۔کیوں کہ وہ قوم یہود کی خود ساختہ برتری کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس بنا پر انھوں نے دینِ خداوندی کی گواہی کے کام کو چھوڑدیا، او ر اس کے بجائے دوسرے قومی کاموں میں مشغول ہوگیے۔ مگر اسی کے ساتھ خود پسندی (self-righteousness)کے جذبہ کی بنا پر یہ ظاہر کرتے رہے کہ وہ اب بھی اپنے پیغمبر موسیٰ کے بتائے ہوئے دین پر قائم ہیں۔
یہود کے اس معاملے کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: وَإِذْ أَخَذَ اللَّہُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُونَہُ فَنَبَذُوہُ وَرَاءَ ظُہُورِہِمْ وَاشْتَرَوْا بِہِ ثَمَنًا قَلِیلًا فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ ۝ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَیُحِبُّونَ أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ۝(3:187-88)-
ترجمہ: جب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم خدا کی کتاب کو پوری طرح لوگوں کے لیے ظاہر کرو گے اور اس کو نہیں چھپاؤ گے۔ مگر انھوں نے اس کو پس پشت ڈال دیا اور اس کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالا۔ کیسی بری چیز ہے جس کو وہ خرید رہے ہیں ۔ جو لوگ اپنے اس عمل پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام انھوں نے نہیں کئے اس پر ان کی تعریف ہو، ان کو عذاب سے بَری نہ سمجھو۔ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
دورِ جدید کے مسلمانوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ اس معاملے میںکامل طور پر یہود کے متبع بن چکے ہیں۔ انھوں نے دعوت الی اللہ کے کام کو عملاً چھوڑ دیا ہے۔ اس کے بجائے وہ دوسرے قومی کام انجام دے رہے ہیں، لیکن ان کاموں کو وہ غلط طور پر دعوت کا کام بتاتے ہیں۔ انھوں نے شہادت کے تصور کو بدل کر جانی قربانی (martyrdom) کے معنی میںلے لیا۔ وہ قومی سیاست (communal politics) میں مشغول ہیں۔ اس خودساختہ عمل میں جب ان کے کچھ لوگ مارے جاتے ہیں تو وہ ان کو بطور خود شہید اور شہداء کا ٹائٹل دے کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دعوت اور شہادت کا مطلوب کام انجام دے رہے ہیں۔
انسان کوئی کام نفسیاتی محرک کے تحت کرتا ہے۔ دعوت الی اللہ کا کام کرنے کے لیےدوسروں کے ساتھ خیرخواہی کی اسپرٹ ضروری ہے۔ مگر دورِ زوال میں مسلم برتری (Muslim supremacism) کا ذہن جو مسلمانوں میں آیا اس کے نتیجے میں وہ دوسری قوموں کو کم تر اور اپنا حریف سمجھنے لگے۔ اس نفسیات کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری قوموں کے لیے خیرخواہی کا جذبہ ان کے اندر باقی نہ رہا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان عام طور پر اسی قومی نفسیات کے شکار ہیں۔
یہی سب سے بڑی وجہ ہے، جس نے ان سے دعوت الی اللہ کا جذبہ چھین لیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان بظاہراپنی سرگرمیوں کو’’نظامِ مصطفیٰ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔لیکن وہ جوکچھ کررہے ہیں، اس کا نظامِ مصطفیٰ سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ طریقہ عین اسی طریقے کی اتباع ہے جس کو قرآن میں زوال یافتہ یہود کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ یعنی یُحِبُّونَ أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا(3:188)- قرآن کے یہ الفاظ موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر پوری طرح صادق آرہے ہیں۔ وہ اپنی قومی سرگرمیوں پر دعوت اور شہادت کا ٹائٹل لینا چاہتے ہیں۔ مگر اللہ کے قانون کے مطابق ایسا کبھی ہونے والانہیں۔ اس قسم کی روش بلاشبہ قابلِ مواخذہ ہے نہ کہ قابلِ انعام۔
خود کش حملہ
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندران کی زوال یافتہ قومی نفسیات کے تحت ایک ایسا ظاہرہ پیدا ہوا ہے جو غالباً تحلیلِ حرام (یسمّونہا بغیر اسمہا فیستحلونہا:سنن الدارمی،حدیث نمبر2145) کی سنگین ترین صورت ہے، اور وہ ہے خودکش بمباری (suicide bombing)۔ یعنی مفروضہ دشمن کو ہلاک کرنے کے لیے اپنے آپ کو بم سے اڑا دینا۔
یہ طریقہ بلاشبہ نص شرعی کے مطابق ایک حرام فعل ہے۔ کچھ علماء نےبطورِ خود، خود کش بمباری کے اس فعل کو استشہاد (طلبِ شہادت) کہہ کر جائز قرار دیا ہے۔ مگر اس قسم کا استدلال گناہ پر سرکشی کا اضافہ ہے۔ اس قسم کا کوئی بھی خود ساختہ فتویٰ خودکش بمباری جیسے صراحتاً ناجائز فعل کو جائز قرار نہیں دے سکتا۔
ایک حدیث اس معاملے میں قطعی حکم کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے، مثلا صحیح البخاری (حدیث نمبر3062)، صحیح مسلم (حدیث نمبر 112)، مسندامام احمد (حدیث نمبر8090) ، وغیرہ۔ ان مختلف روایتوں کے الفاظ تقریباً یکساں ہیں۔روایت کے مطابق، صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے۔ ہمارے ساتھ ایک شخص تھا جو ایمان لاچکا تھا۔ اس کا نام قزمان تھا۔ جنگ ہوئی تو یہ شخص شدید طور پر لڑا۔ لوگ اس کی بہادری کی تعریف کرنے لگے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کہا کہ وہ اہل جہنم میں سے ہے(إنّہ من أہل النّارِ)۔ لوگوں کو آپ کے اس قول پر یقین نہیں ہوا۔ آپ نے کہا کہ جاکر اس کی تحقیق کرو۔ جب لوگوں نے اس کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جنگ میں وہ شدید طور پر زخمی ہوگیا تھا۔پھر زخموں کی تاب نہ لاکر اس نے اپنے آپ کو خود اپنے ہتھیار سے ہلاک کرلیا( فقَتل نفْسہ)۔ اس کے بعد آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایاکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں خودکشی مطلق حرام کی حیثیت رکھتی ہے۔حتی کہ کوئی شخص بظاہر پیغمبر کا ساتھی ہو، اور وہ غزوہ میں لڑ کر بہادری دکھائے لیکن آخر میں وہ اپنے آپ کو خود اپنے ہتھیار سے مارکر اپنا خاتمہ کرلے تب بھی اس خودکشی کی بنا پر اس کی موت، حرام موت قرار پائے گی۔ کسی بھی عذرکی بنا پر اس کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اگر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے، اور وہ لڑتے ہوئے مارے جائیں تو یہ جائز ہے۔ لیکن قصداً اپنے جسم کے ساتھ بم باندھنا، اور مفروضہ دشمنوں کے درمیان جاکر بم کا دھماکا کر دینا، جس میں وہ آدمی خود بھی مرے، اور دوسرے بھی مارے جائیں۔ یہ طریقہ صراحتاً خود کشی کا طریقہ ہے، اور وہ یقینی طور پراسلام میں ناجائز ہے۔ اہل ایمان کے لیے حملے کے خلاف جنگ کرنا جائز ہے۔ اور اگر وہ مقابلہ کرنے کی حیثیت میں نہ ہوں تو اس کے بعد ان کے لیے کرنے کا جو کام ہے، وہ صبر ہے، نہ کہ خود کش حملہ۔ مگراس معاملے میں موجودہ مسلمانوں کا آبسیشن (obsession) اتنا بڑھا ہوا ہے کہ کوئی اس پر سوچنے کے لیے تیار نہیں۔
بے فائدہ جنگ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبی ہریرة، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: والذی نفسی بیدہ لا تذہب الدنیا، حتى یأتی على الناس یوم لا یدری القاتل فیم قَتَل، ولا المقتول فیم قُتِل۔ فقیل: کیف یکون ذلک؟ قال: الہرج، القاتل والمقتول فی النار(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2908) ۔ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، دنیا ختم نہیں ہوگی ، یہاں تک کہ لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا، جب کہ قاتل یہ نہیں جانے گا کہ اس نے کیوں قتل کیا، اور مقتول یہ نہیں جانے گا کہ اس کو کیوں قتل کیا گیا۔کہا گیا کہ ایسا کیوں کر ہوگا۔آپ نے فرمایا کہ ایسا ہرج (بے معنی قتل وقتال)کے زمانے میں ہوگا۔ قاتل اور مقتول دونوں آگ میں جائیں گے۔
ہرج کا مطلب شارحین حدیث نےبتایا ہے :شدۃ القتل و کثرتہ (عمدۃ القاری،جلد نمبر7،صفحہ نمبر58)۔یعنی قتل و قتال کی شدت اور کثرت۔اس قسم کے مجنونانہ قتل وقتال کی صورت کسی گروہ میں کب پیش آتی ہے ۔جب وہ گروہ قوم پرستی میں دوسروں کے خلاف اندھی دشمنی تک پہنچ جائے۔ یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال ہے۔ ان کے اندر آخری حد تک یہ ذہن پیدا ہوگیا ہے کہ انھوں نےقومی حمایت میں دوسروں کو اپنا ابدی دشمن سمجھ لیا ہے۔ وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دوسری قومیں ان کے خلاف ہر وقت سازش میں مصروف رہتی ہیں۔ اس خود ساختہ سوچ کی بنا پردوسری قوموں کے خلاف ان کے دل میں جنون کی حد تک نفرت اور تشدد کا جذبہ پیدا ہوگیا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر تشدد (violence) کا جو انتہاپسندانہ ظاہرہ دکھائی دیتا ہے، وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ وہ نہ صرف دوسری قوموں کے خلاف نفرت میں مبتلا ہوگئے ہیں،بلکہ خود ان مسلمانوں کے خلاف بھی ، جن کے بارے میں وہ یہ فرض کرلیں کہ وہ ان کے دشمنوں کے حامی ہیں۔
موجودہ زمانے میں یہ حال ہے کہ مسلمانوں کے مختلف ٹیررسٹ (terrorist) گروپ بن گیے ہیں۔ وہ مختلف مقامات پر قتل و قتال کا ہنگامہ جاری کیے ہوئے ہیں،حتی کہ اسکول کے بچوں، مسجد کے نمازیوں، اور قبرستان کے سوگوار افراد پر بھی۔ قتل و قتال کا یہ اَن جسٹیفائڈ (unjustified) ہنگامہ اتنا زیادہ ہے، جیسے کہ ان لوگوںنے قتال برائے قتال کو خود ایک مطلوب کام سمجھ لیا ہے۔ خواہ اس کے لیے ان کے پاس کوئی معقول سبب (justified reason)موجود نہ ہو۔
مسئلہ کا حل
امت مسلمہ کے اندر یہ جو سخت نامحمود صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے، اس کا حل صرف یہ ہے کہ ان کو صحیح آئڈیالوجی دی جائے۔ یہ لوگ اسلام کے بارے میں غلط آئڈیالوجی کے شکار ہیں۔ اس کی اصلاح صرف اس طرح ہوسکتی ہے کہ ان کو قرآن و حدیث کی بنیاد پر درست آئڈیالوجی سے واقف کرایا جائے۔اس سے کم درجے کی کوئی چیز اس صورتِ حال کی اصلاح کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔
مثلاً ان لوگوں کو اس فطری حقیقت سے باخبر کرنا جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ۝ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ۝ وَإِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ۝ (41:34-36)۔ اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں ، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہو گیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں ، اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو بڑا نصیب والا ہے۔ اور اگر شیطان تمھارے دل میں کچھ وسوسہ ڈالے تو اللہ کی پناہ مانگو۔ بےشک وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، انسانوں کے درمیان جو تفریق ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ ہمارے دوست ہیں اور کچھ لوگ ہمارے دشمن ۔ بلکہ صحیح تفریق یہ ہے کہ کچھ لوگ ہمارے واقعی دوست (actual friends) ہیں، اور کچھ لوگ ہمارے امکانی دوست (potential friends)۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔
اس کے مطابق اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنا دشمن نہ سمجھیں، بلکہ بلاتفریق ہر ایک کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں— یہی دعوہ اسپرٹ ہے، اور اسی کا نام دعوت الی اللہ ہے۔
اسی طرح ان لوگوں کو قرآن کی وہ آیت یاددلاناہے، جس میں قتل کی برائی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الْأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا (5:32)۔جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اس نے سارے انسانوں کو بچا لیا۔
اسی طرح ان لوگوں کو یہ بتانا کہ مسلمان کا مسلمان کو مارنا قرآن کے مطابق ایک جہنمی فعل ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا وَغَضِبَ اللَّہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیمًا (4:93)۔ اور جو شخص کسی مومن کو جان کر قتل کرے تو اس کی سزاجہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
پیغمبر ِ اسلام کی آخری وصیت
آج شدید ضرورت ہے کہ پیغمبر اسلام کے اس انتباہ کو تمام دنیا کے مسلمانوں کو یاد دلایا جائے جو آپ نے اپنے آخری زمانے میں حجۃ الوداع کے موقع پردیا تھا۔ صحیح البخاری کی روایت کے مطابق اس کے الفاظ یہ ہیں: عن ابن عباس رضی اللہ عنہما، أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم خطب الناس یوم النحر فقال: یا أیہا الناس أی یوم ہذا؟، قالوا: یوم حرام، قال: فأی بلد ہذا؟، قالوا: بلد حرام، قال: فأی شہر ہذا؟، قالوا: شہر حرام ، قال: فإن دماءکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام، کحرمة یومکم ہذا، فی بلدکم ہذا، فی شہرکم ہذا، فأعادہا مرارا، ثم رفع رأسہ فقال: اللہم ہل بلغت، اللہم ہل بلغت - قال ابن عباس رضی اللہ عنہما: فوالذی نفسی بیدہ، إنہا لوصیتہ إلى أمتہ، فلیبلغ الشاہد الغائب، لا ترجعوا بعدی کفارا، یضرب بعضکم رقاب بعض (صحیح البخاری، حدیث نمبر1739)۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا۔ آپ نے کہا کہ اے لوگو، آج کون سا د ن ہے- لوگوں نے کہا کہ یہ یومِ حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ یہ کون سا شہر ہے- لوگوں نے کہا کہ یہ شہر حرام ہے۔پھر آپ نے فرمایا کہ یہ کون سا مہینہ ہے- لوگوں نے کہا کہ یہ حرام کا مہینہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ سن لو کہ تمھارا خون، تمھارے مال ، اور تمھاری عزت تمھارے اوپر حرام ہے، جیسا کہ آج کا دن حرام کا دن ہے، اور تمھارے اس شہر میں، اور تمھارے اس مہینے میں۔ آپ نے یہ کلمات بار بار فرمائے۔ پھر آپ نے سر اٹھایا، اور فرمایا کہ اے اللہ کیا میں نے پہنچادیا، اے اللہ، کیا میں نے پہنچادیا ۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، بے شک یہ آپ کی وصیت ہے اپنی امت کے لیے، پس جو حاضر ہے وہ ان کو پہنچادے جو حاضر نہیں ہے، ( پھرابن عباس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ذکر کیا) تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہوجا نا کہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔
امت کے لیے کرنے کا کام
موجودہ زمانے میں امت مسلمہ عام طور پر منفی ذہن میںمبتلا ہوگئی ہے۔ یہ صرف ان کی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پرہے۔ اپنی منفی سوچ کے تحت وہ دوسری قوموں کو اپنے دشمن کے روپ میں دیکھنے لگے ہیں۔ کچھ لوگوں کے اندر یہ مزاج سوچ کی حدتک ہے، اور کچھ لوگ اپنی اس سوچ کے تحت قتل و قتال میں مشغول ہیں۔ یہ بلاشبہ وہی خطرناک علامت ہے، جس کی طرف احادیث میں پیشگی طور پر باخبر کیا گیا تھا۔
آج فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ امت مسلمہ کے افراد اپنے اندر مثبت ذہن (positive thinking) پیدا کریں۔ وہ دوسری قوموں کو دشمن سمجھنے کا مزاج کلی طور پر ختم کردیں۔ آج ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو یہ حقیقت یاد دلائی جائے کہ ان کی حیثیت ایک قوم کی نہیں ہے، بلکہ ایک اصولی گروہ کی ہے۔ ان کا مشن صرف ایک ہے، اور وہ پرامن دعوت الی اللہ ہے۔ اس کام کو انھیںیک طرفہ خیرخواہی کے تحت انجام دینا ہے۔ اگر دوسرے لوگ ان کے خیال کے مطابق ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کریں تب بھی انھیں اس قسم کی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئےیک طرفہ طور پر لوگوں کا خیرخواہ بننا ہے، اور ان کو اللہ کا وہ پیغام پہنچا نا ہے جو ان کے پاس قرآن و سنت کی صورت میں محفوظ ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی دوسرا عمل ان کو آخرت کی پکڑ سے بچانے والا نہیں۔
اسلام کے نام پر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے درمیان جو متشددانہ سرگرمیاں جاری ہوئیں، ان پر اب ایک صدی سے زیادہ مدت گزرچکی ہے۔ لیکن ان کی یہ سرگرمیاں ہر محاذ پر نتیجے کے اعتبار سے ناکام ہوگئیں۔ وہ مسلمانوں کے حق میں کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive)ثابت ہوئیں۔ ان متشددانہ سرگرمیوں کا یہ منفی انجام بتاتا ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کو اللہ کی مدد حاصل نہیں۔ اگر اس معاملے میںان کو اللہ کی مدد ملتی تو وہ ضرور کامیاب ہوتے۔ اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی سرگرمیوں پر نظر ثانی کریں۔ وہ تشدد کا طریقہ یک لخت چھوڑ دیں، اورپر امن دعوتی عمل (peaceful dawah work) میں مصروف ہوجائیں۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جو مسلمانوں کو اللہ کی رحمت کا مستحق بنا سکتا ہے۔ (یہ مضمون کتابچہ کی شکل میں بھی شائع ہوچکا ہے)
واپس اوپر جائیں

قرآن کتاب ِتدبر

قرآن کی سورہ ص کی ایک آیت یہ ہے: کِتَٰبٌ أَنزَلْنَٰہُ إِلَیْکَ مُبَٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوٓا۟ ءَایَٰتِہِۦ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُوا ٱلْأَلْبَٰبِ.(38:29) یعنی یہ ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اِس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں-
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی باتوں کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے، جو قرآن کا مطالعہ تدبر کے ساتھ کرے- صرف لفظی تلاوت کے ذریعہ قرآن کا حق ادا نہیں ہوسکتا- مزید یہ کہ تدبر کے لیے تیارذہن (prepared mind) درکار ہے-
جو شخص قرآن کو سمجھنا چاہتا ہے، اس کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ایک تیار ذہن بنائے- اس کے بعد ہی وہ قرآن کو حقیقی طورپر سمجھ سکے گا- اپنے آپ کو تیار ذہن بنانے کے لیے جو شرطیں درکار ہیں، ان میں سے ایک ضروری شرط تقویٰ( 2:282) ہے- متقی انسان ایک سنجیدہ (sincere) انسان ہوتا ہے-سنجیدگی کے بغیر کوئی شخص قرآن کو سمجھ نہیں سکتا-
قرآن میں عقل کے مترادف کم سے کم چھ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں— عقل، فؤاد، لب، قلب، حجر، نُہیٰ- ان کے سوا قرآن میں اور بہت سے الفاظ ہیں، جو بالواسطہ طورپر عقل سے تعلق رکھتے ہیں- مثلاً سمع اور بصر وغیرہ- حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی تمام آیتیں عقل پر مبنی ہیں،کچھ آیتیں براہِ راست طورپر اور کچھ آیتیں بالواسطہ طورپر-
مثلاً إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَٰبِ ( 13:19) اور إِنَّ فِى ذَٰلِکَ لَآیَٰتٍ لِّأُو۟لِى ٱلنُّہَىٰ. (20:54)جیسی آیتوں میں براہِ راست طورپر عقل کا حوالہ دیا گیا ہے- اس طرح کی آیتیں قرآن میں کثرت سے ہیں- اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ اگر تم قرآن کو یا قرآن کے پیغام سمجھنا چاہتے ہو تو اپنی عقل (reason) کو استعمال کرو- عقل کے استعمال کے بغیر تم قرآنی آیتوں کے حقیقی مفہوم تک نہیں پہنچ سکتے-
جہاں تک عقل کے بالواسطہ حوالے کی بات ہے، اس سے پورا قرآن بھرا ہوا ہے- مثلاً قرآن کی پہلی آیت یہ ہے: اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (1:1)- اس آیت میں کہاگیا ہے کہ اس اللہ کی حمد کرو جو سارے عالم کا رب (Lord) ہے- اس سے واضح ہے کہ کوئی شخص اللہ کی حقیقی حمد، اسی وقت کرسکتا ہے، جب کہ اس نے اللہ کو رب العالمین کی حیثیت سے دریافت کیا ہو- اس قسم کی دریافت کسی آدمی کو صرف عقل کے استعمال کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہے-
اسی طرح قرآن کی آخری سورہ یہ ہے کہ انسان اور جن کے وسوسہ کے شر سے اپنے آپ کو بچاؤ (الناس)- یہاں ظاہر ہے کہ وسوسہ ایک غیر محسوس چیز ہے- وسوسہ کو چھوکر یا دیکھ کرنہیں جانا جاسکتا، وسوسہ کے شر کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے عقل کو استعمال کرکے وسوسہ کو دریافت کرے- اِس طرح قرآن کی یہ آیت عقل کے بالواسطہ حوالے کی ایک مثال ہے-
یہی معاملہ قرآن کی تمام آیتوں کا ہے- مثلاً قرآن میں مومن کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں (2:3)- غیب پر ایمان صرف اس شخص کو حاصل ہوسکتا ہے، جو غیبی حقیقتوں کو یقین کے درجے میں دریافت کرے، اور یہ بات صرف عقلی غوروفکر کے ذریعہ ممکن ہے- اسی طرح، مثلاً قرآن میںحج کے حکم کے ذیل میں یہ الفاظ آئے ہیں: فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَاجِدَالَ فِی الْحَجِّ ( 2:197)-
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حج تو ایک عبادت کا فعل ہے، اس کا جدال سے کیا تعلق- اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کی عبادت کے دوران بہت سے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں- ساتھ رہنے کی بنا پر فطری طورپر آپس میں اختلافات(differences) پیدا ہوتے ہیں- اس لیے حاجی کو چاہئے کہ وہ اختلاف پر صبر کرے، وہ اس کو جدال تک پہنچنے نہ دے- آیت کا یہ پہلو بھی عقل کے استعمال سے معلوم ہوتا ہے-
اسی طرح قرآن کی ایک سورہ میں معاہدۂ حدیبیہ کا صراحتاً ذکر کیے بغیر یہ آیت آئی ہے: إنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِیْنًا ( 48:1)- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاہدہ حدیبیہ میں تو فریقِ ثانی سے یک طرفہ شرطوں پر صلح کر کے رسول اور اصحاب رسول مدینہ واپس آگئے تھے، پھر اس کا فتح مبین سے کیا تعلق- آیت کا یہ گہرا مفہوم صرف اس وقت معلوم ہوتا ہے، جب کہ آدمی آیت پر تاریخ کی روشنی میں غوروتدبر کرے، اور یہ عقل کے استعمال کے بغیر نہیں ہوسکتا، وغیرہ-
قرآن میں کل ایک سو چودہ (114) سورتیں ہیں- اگر ان تمام سورتوں کو پڑھا جائے تو ان میں کہیں بھی قانون کی زبان نہیں ملے گی، بلکہ دعوت اور تذکیر کی زبان ملے گی، اور دعوت اور تذکیر کے معاملے کو درست طورپر صرف اس وقت سمجھا جاسکتا ہے، جب کہ اس کو عقل کا استعمال کرکے جاننے کی کوشش کی جائے-
قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن معروف معنوں میں کوئی فقہی کتاب یا قانون کتاب نہیں ہے- قرآن میں کہیں بھی وہ اسلوب استعمال نہیں کیا گیا ہے جو فقہ کی کتابوں یا قانونی کی کتابوں میں اختیار کیا جاتا ہے- قرآن کے اسلوب کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن وزڈم کی کتاب (book of wisdom) ہے-
واپس اوپر جائیں

گلوبل کمیونی کیشن کا دَور

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے چار ہزار سال پہلے جب کعبہ کی تعمیر کی تو اللہ تعالی نے یہ حکم دیا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمھارے پاس آئیں گے پیروں پر چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر جو کہ دور دراز راستوں سے آئیںگے ( 22:27) اس سلسلے میں ایک روایت آئی ہے- اس کے مطابق حضرت ابراہیم نے کہا کہ یا رب کیف أبلّغ الناس وصوتی لا ینفذہم فقال نادِ وعلینا البلاغ (تفسیر ابن کثیر: 3/216) یعنی اے میرے رب، میں اپنی آواز لوگوں تک کیسے پہنچاؤں گا، اور میری آواز ان تک پہنچنے والی نہیں ہے- اللہ نے فرمایا کہ تم پکارو، پہنچانا ہمارے ذمہ ہے-
کعبہ کی تعمیر مکمل کرنے کے بعد حضرت ابراہیم نے آواز دی- لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ان کی آواز باہر کے لوگوں تک نہیں پہنچی- پھر اس کا مطلب کیا ہے-یہ بات حال کی خبر کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ مستقبل کے امکان کے معنی میں ہے-اس روایت میں دراصل اللہ کے ایک منصوبے (divine plan)کو بتایا گیا ہے- وہ یہ کہ حضرت ابراہیم اور پھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انسانی تاریخ میں ایک عمل (process)جاری ہوگا- اس عمل کی تکمیل پر یہ واقعہ ہوگا کہ اللہ کا ایک بندہ مکہ میں یا کسی دوسرے مقام پر اللہ کی بات کہے گا اور اس کی بات بطور واقعہ ہر جگہ پہنچ جائے گی- یہ دور تاریخ میں آیا- اسی دور کو ابلاغ کا دور (age of communication) کہاجاتاہے- حضرت ابراہیم اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالی کی خصوصی مدد سے، ایسے حالات پیداہوئے جن کے نتیجے میں انسان نے نئی نئی دریافتیں کیں اور آخر کار وہ دور وجود میں آگیا جس کو کمیونیکیشن کا دور کہا جاتا ہے- حضرت ابراہیم کے زمانے میں صرف یہ ممکن ہوتا تھاکہ انسان اپنی زبان سے بولے اور اس کے قریب میں جو لوگ ہیں، اس کی آواز کو سنیں، لیکن اب ٹیکنالوجی کے ذریعہ یہ ممکن ہوگیا ہے کہ انسان ایک مقام پر بولے اور عین اسی وقت پورے گلوب پر بسے ہوئے لوگ اس کی آواز بھی سنیں اور اس کی تصویر بھی دیکھیں- یہ نیا دور اللہ کی توفیق سے وجود میں آیا اور اس کا اصل تقاضا یہ ہے کہ اس کو خدائی مشن کے لیے استعمال کیا جائے-
واپس اوپر جائیں

قرآن کی حفاظت

قرآن کی کچھ آیتیں وہ ہیں جن کو احکام کی آیتیں کہاجاتا ہے- قرآن کی آیتوں کا دوسرا حصہ وہ ہے، جن کو حکمت (wisdom)کی آیات کہنا درست ہوگا- یہ حکمت کسی پر اسرار چیز کا نام نہیں ہے- اس سے مراد فطری حکمت (natural wisdom) ہے، یعنی حکمت کے وہ اصول جن پر دنیا کا نظام قائم ہے، اور جن کی پیروی کرکے کوئی انسان، اس دنیا میں کامیاب زندگی کی تعمیر کرسکتا ہے-
قرآن واحد محفوظ الہامی کتاب ہے- اس حقیقت کا اظہار قرآن میں پیشگی طورپر ان الفاظ میں کیا گیا تھا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (15:9) یعنی یہ یاد دہانی (کتاب) ہم نے اتاری ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں-
قرآن کی حفاظت کا یہ کام ثابت شدہ تاریخ کے مطابق چار ادوار (periods) میں انجام پایا- پہلے دور میں یہ کام زیادہ تر حفظ (memorization) کے ذریعہ ہوا- دوسرے دور میں حفاظت ِ قرآن کا یہ کام تحریر (writing) کے ذریعہ انجام پایا- لوگوں نے بڑی تعداد میں یہ کیا کہ حفظ قرآن کے ساتھ وہ جزئی یا کلی طورپر قرآن لکھتے رہے- کتابت کا یہ کام قدیم زمانے کی دستیاب چیزوں پر ہوتا رہا جن میں قدیم طرز کا کاغذ (قرطاس) بھی شامل ہے- اس کے بعد پرنٹنگ پریس کا زمانہ آیا-
انیسویں صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس ساری دنیا میں عام ہوگیا- اس کے بعد قرآن مطابع میں چھاپا جانے لگا- اس کے مجلد نسخے بڑی تعداد میں تیار کیے گئے- یہ مطبوعہ نسخے ہر جگہ پھیل گئے- اس کے بعد ٹکنالوجی کا زمانہ آیا، اور اب انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون پر پورا قرآن، تحریر اور آواز دونوں صورتوں میں محفوظ ہوچکا ہے-
ساتویں صدی عیسوی میں جب قرآن اترا، اس وقت پورے ملک عرب کی زبان عربی تھی- لیکن دوسری زبانوں کی طرح عربی زبان کا بھی یہ حال تھا کہ مختلف علاقوں کے عرب قبیلے مختلف لہجے میں عربی بولتے تھے- اس بنا پر ایسا ہوا کہ اسلام جب پورے عرب میں پھیل گیا تو ہرایک کا قرآن باعتبار متن ایک ہی قرآن تھا، لیکن قرآن کو پڑھنے کا لہجہ سب کا ایک نہ تھا- اس وقت لوگوں کی سہولت کے لیے یہ کہا گیا کہ قرآن سات لہجوں میں اترا ہے- اس کا مطلب یہ نہیں کہ باعتبار نزول قرآن کے سات لہجے تھے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے اپنے لہجے کے اعتبار سے قرآن کے پڑھنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں، یہ ایک عملی بات تھی نہ کہ کوئی نظری بات-
قرآن کے متن (text)کی حفاظت کے لیے صحابہ نے آخری انتہائی طریقہ اختیار کیا- مثلاً خلیفہ اول حضرت ابوبکر کے حکم سے زید بن ثابت انصاری نے قرآن کو کاغذ پر لکھ کر اس کا مصحف تیار کیا جس کو رَبعہ کہاجاتا تھا- یہ کام انھوں نے ڈبل چیکنگ سسٹم (double checking system) کے اصول پر کیا، یعنی لکھے ہوئے کو حفظ سے چیک کرنا، اور حفظ کو لکھے ہوئے سے چیک کرنا- اس طرح جو کاغذی نسخہ (ربعہ) تیار ہوا اس کو خلیفہ اول کے حکم سے رسول اللہ کی زوجہ حفصہ کے گھر پر رکھ دیا گیا-
ایک مصحف (رَبعہ) کی صورت میں لکھے جانے سے پہلے لوگوں کے پاس قرآن کے اجزا مختلف چیزوں پر لکھے ہوئے موجود تھے- مستند مصحف تیار ہونے کے بعد خلیفہ اول کے حکم سے اور تمام صحابہ کی رائے سے یہ کیاگیا کہ ان تمام مختلف اجزا کو جلا دیاگیا-حرق مصحف کا یہی واقعہ دوسری بار خلیفہ ثالث حضرت عثمان کے زمانہ میں پیش آیا- اس مدت میں لوگوں نے بطور خود جزئی یا کلی طورپر مصاحف لکھ لیے تھے-
ان مصاحف میں ان کے قبائل کی قرأت کا اسلوب شامل ہوگیا تھا- حضرت عثمان نے یہ کیا کہ زید بن ثابت انصاری کی قیادت میں صحابہ کی ایک کمیٹی بنائی- پھر انھوں نے حضرت حفصہ کے پاس جومصحف صدیقی محفوظ تھا اس کو منگوایا، اور صحابہ سے کہا کہ اس کی نقلیں تیار کرو- اس طرح مصحف صدیقی کی سات نقلیں تیار کی گئیں- پھر خلیفہ کے حکم سے ان نقلوں کو مدینہ اور دوسرے شہروں کی مسجدوں میں رکھوا دیا گیا- اس کے بعد حضرت عثمان نے مزید اہتمام یہ کیا کہ لوگوں نے بطور خود قرآن کے جو تحریری نسخے تیار کیے ـتھے، ان کو جمع کروایا اور پھر صحابہ کے اتفاق رائے سے ان تمام مصاحف کو جلا دیاگیا- یہ کام بہت جرأت کا طالب تھا-
لیکن حضرت عثمان نے صحابہ کی رائے سے یہ جرأت مندانہ اقدام کیا- بعد کو جب خلیفہ ثالث کے خلاف کچھ شورش پسندوں نے ہنگامہ کیا، یہاں تک کہ ان کو قتل کردیاگیا، اس وقت شورش پسندوں نے خلیفہ ثالث کو بدنام کرنے کے لیے جو باتیں کہی تھیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ انھوں نے خلیفہ ثالث کو حرّاق المصاحف قرار دیا تھا، یعنی قرآن کو جلانے والا- (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، خطبة الکتاب، ص: 54)
قرآن کی تاریخ اور اس کی تدوین پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں- یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ قرآن اگر چہ قدیم زمانہ میں اترا، لیکن اس کی حفاظت کے لیے تمام ممکن اقدام کیا گیا، حتی کہ سیکولر محققین نے بھی کھلے طور پر اس کا اعتراف کیا ہے-
واپس اوپر جائیں

امت کا زوال

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- سنن ابی داؤدکے الفاظ یہ ہیں: إنَّ أوَّلَ ما دخلَ النَّقصُ علَى بَنی إسرائیلَ کانَ الرَّجلُ یَلقى الرَّجلَ فیقولُ یا ہذا اتَّقِ اللَّہَ ودَع ما تصنَعُ فإنَّہُ لا یحلُّ لَکَ ثمَّ یَلقاہُ منَ الغَدِ فلا یمنعُہُ ذلِکَ أن یَکونَ أکیلَہُ وشریبَہُ وقعیدَہُ فلمَّا فعلوا ذلِکَ ضربَ اللَّہُ قلوبَ بعضِہِم ببعضٍ ثمَّ قالَ لُعِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ إلى قولِہِ فَاسِقُونَ ثمَّ قالَ کلَّا واللَّہِ لتأمُرُنَّ بالمعروفِ ولتَنہَوُنَّ عنِ المنکَرِ ولتأخُذُنَّ علَى یدَیِ الظَّالمِ ولتَأطرُنَّہُ علَى الحقِّ أطرًا ولتقصرُنَّہُ علَى الحقِّ قصرًا(ابو داؤد: 4336)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعودکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کے اندر جو پہلا نقص آیا، وہ یہ تھا کہ ان کا ایک شخص اپنی قوم کے دوسرے شخص سے ملتا اور اُس سے کہتا کہ اے شخص، خدا سے ڈر اور جو کچھ تم کررہے ہو، اس کو چھوڑ دو، کیوں کہ ایسا کرنا تمھارے لیے جائز نہیں- پھر وہ اگلے دن اُس شخص سے ملتا(اور وہ دیکھتا کہ وہ اپنی روش سے باز نہیں آیا ہے)- مگر یہ چیز اُس کو اِس سے نہ روکتی کہ وہ اس کے ساتھ کھانے اور پینے اور بیٹھنے میں اس کا شریک بنے- جب انھوں نے ایسا کیا تو اللہ نے ایک کے دل کو دوسرے کے دل جیسا کردیا- پھر آپ نے سورہ المائدة (سورہ نمبر 5)کی آیت78 تا 81 پڑھی-پھر آپ نے فرمایا: خدا کی قسم، تم ضرور لوگوں کو معروف کا حکم دوگے، اور تم ضرور لوگوں کو منکر سے روکو گے، اور تم ضرور ظالم کا ہاتھ پکڑو گے اور تم اس کو ضرور حق کی طرف موڑ دوگے-
یہ حدیث اصلاً یہود کی شکایت کے طورپر نہیں ہے، بلکہ وہ امت مسلمہ کی نصیحت کے طورپر ہے- اس حدیث میں امتوں کے بارے میں ایک تاریخی قانون کو بتایا گیاہے، اور وہ یہ کہ جب امت کی بعد کی نسلوں میں زوال آتا ہے تو ان کا کیا حال ہوتاہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی زوال کے ظاہرے کی نشاندہی فرمائی ہے، اور امت کے رہنماؤں کو بتایا ہے کہ اس وقت انھیں کیا کرنا چاہئے- غور کیجئے تو یہ حدیث مسلمانوں کے آج کے حالات پر پوری طرح منطبق ہوتی ہے-
واپس اوپر جائیں

نسخ کیا ہے

قرآن کی سورہ البقرة کی ایک آیت یہ ہے: مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر(2:106) یعنی ہم جس آیت کو منسوخ کرتے ہیںیا بھلا دیتے ہیں، اس سے بہتر یا اس کے مثل دوسری لاتے ہیں- کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے-
قرآن کی اِس آیت میں نسخ سے مراد الغاء (to abolish) نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد ہٹانا (replacement) ہے- آیت میں اس عمل کو بظاہر اللہ کی طرف منسوب کیا گیاہے، لیکن یہ اسلوب کی بات ہے- اس سے مراد حقیقتاً اجتہاد کا عمل ہے، جس کو متقی اہل علم انجام دیتے ہیں- خیر سے مراد اچھا (better)نہیں ہے بلکہ اس سے مراد انسانی حالات کے اعتبار سے زیادہ قابلِ تطبیق (more applicable) ہونا ہے-
قرآن کے مطابق، اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی (33:23)- مگر انسان ایک آزاد مخلوق ہے، اس بنا پر انسان کے حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں- حالات کی اس تبدیلی کی بنا پر ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ کے کسی حکم کو مطابقِ حالات بنانے کے لیے اس کو ری ڈیفائن (redefine)کیا جائے یا حالات کے مطابق اس کی نئی تفسیر (re-interpretation) کیا جائے- یہی وہ فطری ضرورت ہے جس کو قرآن کی اس آیت میںنسخ سے تعبیر کیا گیا ہے-
اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن کی کچھ آیتوں میںاہل ایمان کو قتال (war) کا حکم دیا گیا ہے- یہ حکم توحید کی طرح ابدی حکمکے معنی میں نہ تھا، بلکہ حالات کی نسبت سے مطلوب تھا- اب حالات مکمل طورپر بدل گئے ہیں- قدیم دور اگر جنگ کا دور تھا تو اب دنیا میں امن کا دور آچکا ہے، اب اسلام کے مقصود کو حاصل کرنے کے لیے جنگ کی ضرورت نہیں- اس لیے اب قتال کی آیت کی تشریح نو (re-interpretation) کی جائے گی، اور یہ نئی تشریح بلا شبہہ قرآن کے مطابق قرار پائے گی-
واپس اوپر جائیں

عورت اور مرد کا تعلق

جدید دور میں ایک نظریہ بہت زیادہ عام ہے، وہ ہے صنفی مساوات (gender equality) کا نظریہ- اس نظریہ کو دور جدید کی بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے- مگر یہ نظریہ ایک غیر فطری نظریہ ہے- فطرت کے قانون کے مطابق، عورت اور مرد کے درمیان فرق پایا جاتا ہے- پیدائشی طورپر ہر عورت مس ڈِفرنٹ (Ms. Different) ہے، اور ہر مرد مسٹرڈِفرنٹ (Mr. Different) -
عورت اور مرد کے درمیان یہ فرق ایک گہری حکمت پر مبنی ہے- اس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ دونوں اپنے اپنے اعتبار سے ایک دوسرے کے مشیر (adviser) بنیں-حقیقت یہ ہے کہ فطر ت کے نظام کے مطابق صنفی حصے داری (gender partnership) کا نظریہ زیادہ درست نظریہ ہے، نہ کہ صنفی برابری کا نظریہ-انسان کی زندگی مسائل (problems)کا مجموعہ ہے- یہ مسائل ہمیشہ مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں- اس لیے بار بار یہ ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کے دو ساتھیوں میں دو مختلف صفات ہوں تاکہ ہر مسئلہ کو منیج (manage)کیا جاسکے- ہر ایک اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق مسائل حیات کے حل میں اپنا اپنا حصہ اداکرسکے- ایک شریک حیات ایک اعتبار سے اپنا حصہ اداکرے، اور دوسرا شریک حیات دوسرے اعتبار سے:
There must be a partner who can deal with the problem differently.
فطرت کے نظام میں یکسانیت (uniformity)موجود نہیں، اس لیے اگر عورت اور مرد کےتعلق کو یکسانیت کے اصول پر قائم کیا جائے تو ہمیشہ جھگڑا ہوتا رہے گا- ہر ایک ذمے داری کو دوسرے فریق کے اوپر ڈالے گا، اور پھر نزاع کبھی ختم نہ ہوگا- اس کے برعکس، صنفی حصے داری کے اصول کو اختیار کرنے کی وجہ سے بلا اعلان تقسیم کار (division of labour) کا طریقہ رائج ہوجائے گا- دونوں خود اپنے فطری تقاضے (natural urge) کے تحت اپنے اپنے دائرے میں مصروف کار رہیں گے- ایک دوسرے سے الجھنے کا طریقہ ختم ہوجائے گا- اور ایک دوسرےسے معاونت کا طریقہ رائج ہوجائے گا-
واپس اوپر جائیں

دفاع یا دعوت

سرولیم میور(William Muir)ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انگریز تھا، جو برٹش حکومت کے دور میں غیر منقسم ہندستان کی ایک ریاست کا گورنر مقرر ہوا- سرولیم میور نے ایک کتاب لکھی، جس کا نام ’’لائف آف محمد‘‘(The Life of Mahomet)تھا- یہ انگریزی کتاب 1866 میں چار جلدوں میں شائع ہوئی-
علماء کے نزدیک یہ کتاب اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ’’زہر‘‘ پھیلانے والی کتاب تھی- لوگ مصنف کو دشمن اسلام قرار دے کر اس کے سخت خلاف ہوگئے- سرسید احمد خاں کو اس پر غصہ آیا، انھوں نے اس کتاب کا اردو ترجمہ کروایا، پھر اس کے خلاف اردو زبان میں ایک کتاب لکھی، جو خطبات احمدیہ کے نام سے شائع ہوئی-
اس طرح کے کام کو دفاع اسلام کا عنوان دے کر بہت اہم کام سمجھاجاتا ہے، مگر یہ طریقہ سنت کے مطابق نہیں- سنت ِ رسول کے مطابق اصل کرنے کاکام دعوت اسلام ہے، نہ کہ دفاع اسلام- یعنی مصنف کے لئے دعا کرنا، اس سے مل کر اس کی غلط فہمیوں کو دور کرنا- اس موضوع پر مثبت انداز میں تعارفی کتاب تیار کرکے چھاپنا- انگریزوں میں اور دوسرے لوگوں میں پر امن دعوتی مشن جاری کرنا- سنت رسول کے مطابق یہی کرنے کا اصل کام ہے- مگر یہ اصل کام نہ سرسید احمد خاں نے کیا، اور نہ علماء نے-
سنت ِ رسول کے مطابق اسلام کا اصل مشن یہ نہیںہےکہ مفروضہ دشمنان اسلام کے خلاف مناظرانہ انداز میں تقریریں کی جائیں، جوابی انداز میں کتابیں شائع کی جائیں، یہ سب رد عمل (reaction) کے طریقے ہیں، اور رد عمل اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں- اس قسم کے حامیان اسلام کو نتیجہ (result) کے اعتبار سے غور کرنا چاہئے، یعنی انھیں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ ان کی جوابی کوششوں کا مثبت نتیجہ کیا ہوا، باعتبار نتیجہ اس سے اسلام کو فروغ ہوا یا نفرت کو فروغ ہوا-
واپس اوپر جائیں

قرآن وسنت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دور آخر کی ایک حدیث ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال: ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنة نبیہ (مؤطا امام مالک: 1874) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھارے درمیان دوچیزیں چھوڑی ہیں، تم ہر گز گمراہ نہ ہوگے، جب تک تم ان دونوں چیزوں کو پکڑے رہوگے، وہ دو چیزیں ہیں: اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت-یہ حدیث اس معیار (criterion)کو بتاتی ہے جس کی روشنی میں بعد کے زمانے کے مسلمانوں کو جانچ کر یہ معلوم کیا جاسکے کہ وہ صراط مستقیم پر قائم ہیں یا وہ اس سے ہٹ گئےہیں- اس معاملے کا یہی واحد معیار ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا معیار اس معاملے میں درست نہیں-اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے درمیان پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference)قرآن وسنت ہو تو وہ ہدایت پر ہیں، اور جب ان کے درمیان پوائنٹ آف ریفرنس کچھ اور ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ہدایت پر قائم نہیں-
جب مسلمانوں کی کتابیں قرآن وسنت پر مبنی ہوں، جب ان کی مجلسوں میں قرآن وسنت کا چرچا ہو، جب وہ ہر معاملے میں قرآن وسنت سے رہنمائی لیتے ہوں، جب ان کا یہ حال ہو کہ وہ قرآن وسنت کے نام پر بولیں اور قرآن وسنت کے نام پر چپ ہوجائیں، تب سمجھنا چاہئے کہ وہ ہدایت پر ہیں اور جب ایسا نہ ہو تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہدایت سے بھٹک گیےہیں-تاہم قرآن وسنت سے ہٹنے کی ایک اور صورت ہے، جو قرآن وسنت کا نام لینے کے باوجود باقی رہتی ہے، اوریہ وہی ہے جس کو حدیث میں تفسیر بالرائے کہاگیا ہے- تفسیر بالرائے کا مطلب ہے قرآن وسنت کی غلط تعبیر (misinterpretation) - غلط تعبیر وتشریح کا یہ امکان ہمیشہ باقی رہےگا- انسان کو اس دنیا میں کامل آزادی دی گئی ہے- انسان جس طرح دوسری باتوں کے لیے آزاد ہے، اسی طرح وہ قرآن وحدیث کی غلط تشریح کے لیے بھی آزاد ہے، اس برائی سے بچنے کی شرط صرف ایک ہے، اور وہ تقوی ہے- تقوی انسان کو اس سے بچاتا ہے کہ و ہ قرآن وحدیث کی خودساختہ تشریح کرے-
واپس اوپر جائیں

بدترازحیوان

قرآن کی سورہ الانفال میں ایک غیر مطلوب انسانی کردار کا ذکر ہے- آیت کے الفاظ یہ ہیں: اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ (8:22) قرآن کی اس آیت سے مراد کوئی مخصوص قوم نہیں ہے- اس سے مراد وہ افراد ہیں جو اس صفت کا مصداق ہوں- قرآن کی ایک اور آیت کے مطابق اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا یہ حال ہو : ان کے پاس عقل ہے جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں- وہ ایسے ہیں جیسے حیوان، بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ، یہی لوگ غافل ہیں (8:179)-حق کے مقابلے میں اس منفی روش کا سبب، عام طورپر بالقصد انکار نہیںہوتا بلکہ اس کا سبب غفلت یا بے توجہی (negligence)ہوتا ہے- جب حق کی بات بتائی جائے تو ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ میں گم ہونے کی بنا پر اس کی طرف زیادہ دھیان نہیں دیتے، وہ نہ اس کو توجہ کے ساتھ سنتے ہیں، اور نہ اہمیت کے ساتھ اس پر غور کرتے ہیں- وہ اس سے بے اعتنائی برت کر اس کو نظر انداز کردیتے ہیں- قرآن کے الفاظ میں وہ ایسے بن جاتے ہیں جیسے کہ انھوں نے سنا ہی نہیں ( 45:8)-
اصل یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات کے لحاظ سے بطور خود کسی چیز کو اہم سمجھ لیتا ہے، اور کسی چیز کو غیراہم، وہ کسی چیز کو قابل غور سمجھتا ہے، اور اس کی نظر میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو قابل غور ہی نہیں- جن لوگوں کا یہ مزاج ہو ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے باہر کسی بات کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ اس پر غور کریں- وہ اپنے سے باہر کسی بات کے بارے میں ایسی روش اختیار کرتے ہیں جیسے کہ انھوں نے اس کو سنا ہی نہیں- ان کے پاس عقل ہوتی ہے لیکن وہ اپنی عقل کو کہیں اور مشغول کئے ہوئے ہوتے ہیں- وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ وہ کسی نئی چیز کو اہمیت دیں، اور اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں، ایسے لوگ حیوان کی مانند ہیں، کیونکہ حیوان بھی یہی کرتا ہے کہ اپنی مانوس چیزوں کے سوا کسی اور چیز کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس پر دھیان دے اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرے-
واپس اوپر جائیں

علم کا سفر

قرآن خدا کی کتاب کی حیثیت سے ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں اترا- اس وقت ساری دنیا میں توہم پرستی کا کلچر رائج تھا- قرآن کے بعد علمی دریافتوں کا سلسلہ شروع ہوا- یہ دور بیسویں صدی عیسوی میں اپنی تکمیل تک پہنچا- قرآن کی صداقت کا یہ علمی ثبوت ہے کہ بعد کی علمی تحقیقات قرآن کی باتوں کی تصدیق بنتی چلی گئیں- اس سلسلہ میں برٹش سائنسداں سرجیمس جینز کا ایک اقتباس یہاں نقل کیا جاتا ہے:
The stream of knowledge is heading towards a non-mechanical reality;kthe universe begins to look more like a great thought than like a great machine. (The Mysterious Universe, James Jeans, p. 137)
یہ بات برٹش سائنسداںنے 1930 میں کہی تھی- اس کے بعد کی تمام دریافتیں اس بات کی تصدیق بنتی چلی گئیں کہ حقیقت کا جو تصور قرآن میں دیاگیا ہے، وہی درست تصور ہے- اس درمیان سائنسی دریافتوں کے ذریعہ ملحدانہ تصورات رد ہوتے چلے گئے- اور موحدانہ تصورات ثابت شدہ بنتے چلے گئے-
مثلاً قدیم ملحدین یہ سمجھتے تھے کہ کائنات ابدی ہے، وہ جیسی آج ہے ویسی ہی وہ ابد سے چلی آرہی ہے، اس لیے کائنات کو خالق کی کوئی ضرورت نہیں- مگر بعد کی سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ کائنات کا ایک آغاز ہے- 13 بلین سال پہلے بگ بینگ (Big Bang) کی صورت میں کائنات کا آغاز ہوا-
اسی طرح قدیم ملحدین مانتے تھے کہ کائنات میں کوئی نظم نہیں،مگر موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ کائنات میںایک ذہین ڈیزائن (intelligent design) ہے- حقیقت یہ ہے کہ سائنس کی تمام دریافتیں مذہب توحید کی تصدیق کرتی ہیں، خواہ براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر-
واپس اوپر جائیں

موت کے دروازے پر

آدمی سمجھتا ہے کہ وہ زندگی میں جی رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد موت کے دروازے پر کھڑا ہوا ہے- جب موت کا کوئی وقت مقرر نہیں تو ہر لمحہ موت کا لمحہ ہے- انسان کا ہر اگلا قدم موت کی طرف جانے والاقدم ہے- زندگی ہر انسان کے لیے صرف آج کا تجربہ ہے، کل کا تجربہ نہیں- ہر آدمی کے لیے آج کا دن زندگی کا دن ہے اور کل کا دن موت کا دن-
موت معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا کی طرف سفر کا نام ہے- آدمی روزانہ سفر کرتا ہے- کبھی چھوٹا سفر اور کبھی بڑا سفر، کبھی ملک کے اندرسفر اور کبھی ملک کے باہرسفر- یہ تمام اسفار ایک معلوم مقام سے چل کر دوسرے معلوم مقام تک جانے کے ہم معنی ہوتے ہیں-اس قسم کے سفروں سے آدمی اتنا زیادہ مانوس ہوچکا ہے کہ وہ اس کو کوئی سنگین چیز نہیں سمجھتا-
لیکن موت کے سفر کا معاملہ اس سے مختلف ہے- موت کے سفر میں ایسا ہوتاہے کہ آدمی ایک معلوم دنیا سے نکل کر دوسری نامعلوم دنیا کی طرف جاتا ہے- یہ بلاشبہہ ہر آدمی کے لیے ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے- مگر آدمی اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے اس کی سنگینی کو محسوس نہیں کرتا- وہ دنیا میں جن اسفار کا تجربہ کرتا ہے، ان سے وہ اتنا مانوس ہوجاتا ہے کہ وہ گہرے شعور کے تحت، موت کے سفر جیسے سفر کا ادراک نہیں کر پاتا - اسی بنا پر ہر آدمی کے لیے موت ایک دور کی خبر بنی ہوئی ہے، وہ اس کے لیے قریب کا کوئی واقعہ نہیں-
آدمی اپنے مزاج کی بنا پر ہمیشہ کنڈیشننگ کے تحت سوچتا ہے- یہی انسان کی بے حسی کا سب سے بڑا سبب ہے- موت کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنی کنڈیشننگ کو توڑے، وہ اپنے مانوس ذہن سے باہر آکر موت کے بارے میں سوچے، وہ اپنے شعور کو کامل طورپر بیدار کرے- اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ آدمی موت کی حقیقت کو سمجھے، جو بلاشبہہ ہر انسان کا سب سے زیادہ سنگین معاملہ ہے-
واپس اوپر جائیں

شکایت، اعتراف

نفسیات کے اعتبار سے کسی انسان کے لئے سب سے زیادہ آسان کام دوسروں کی شکایت (complaint) ہے، اور سب سے زیادہ مشکل کام دوسروں کا اعتراف (acknowledgment) ہے-یہ بات انسان کی نسبت سے ہے- لیکن جہاں تک فطرت کے قانون کا تعلق ہے، فطرت کے قانون کے مطابق دوسروں کی شکایت کرنے کا ذہن انسان کے اندر اعلی شخصیت کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے- اس کے برعکس، دوسروں کا اعتراف کرنے کا ذہن انسان کے اندر اعلیٰ شخصیت کی تعمیر میں سب سے زیادہ معاون عنصر کی حیثیت رکھتا ہے-
کیوں ایسا ہے کہ دوسروں کی شکایت نہایت آسان ہے اور دوسروں کا اعتراف بے حد مشکل- اس کا سبب یہ ہے کہ شکایت کا مطلب دوسروں کی نفی(negation) ہے، اور اعتراف کا مطلب خود اپنی نفی ہے- جب آدمی کسی دوسرے کی شکایت کرتاہے تو اس کو ایسا کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ دوسرا شخص براہے اور میں اچھا ہوں- اس کے برعکس، دوسرے کا اعتراف کرنے کا مطلب یہ ہوتاہے کہ میں اچھا نہیں ہوں بلکہ دوسرا شخص اچھا ہے-
آدمی کی سب سے بڑی کمزوری خودی ہے- شکایت کرتے ہوئے آدمی کو اپنی خود ی کے جذبے کی تسکین حاصل ہوتی ہے- اس کے برعکس، دوسرے کا اعتراف کرتےہوئے آدمی کی خودی کو ٹھیس پہنچتی ہے- یہی فرق ہے جس کی بنا پر لوگوں کے لیے شکایت کرنا سب سے زیادہ آسان کام بن گیا ہے، اور اعتراف کرنا سب سے زیادہ مشکل کام-
حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں آدمی کے لئے امتحان کے پرچے ہیں- شکایت کا موقع بھی امتحان ہے، اور اعتراف کا موقع بھی امتحان- جس آدمی کا یہ حال ہو کہ وہ دوسروں کی شکایت تو کرے مگر وہ دوسروں کا کھلا اعتراف نہ کرے، ایسا آدمی آزمائش میں ناکام ہوگیا- ایسا آدمی اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں بن سکتا-
واپس اوپر جائیں

حقیقت پسندانہ سوچ

دنیا میں جو برائیاں (evils) ہیںان سب کا سبب صرف ایک ہے- اور وہ ہے لوگوں میں اَیز اِٹ از تھنکنگ (as it is thinking) نہ ہونا- غصہ، نفرت، انتقام، عدم برداشت، تشدد وغیرہ سب کی اصل جڑ یہی ہے- ایز اٹ از تھنکنگ کا مطلب ہے مبنی بر حقیقت سوچ-
غور کیا جائے تو یہی وہ چیز ہے جس کو شیطان کا کلچر (satanic culture) کہاگیا ہے- شیطان یا ابلیس جنوں کا سردار تھا- پیدائش آدم کے وقت اس نے یہ اعتراض اٹھایا کہ خدا نے انسان کو خلیفة الارض بنادیا اور جنات کو کچھ نہیں دیا- یہ انتخابی طرز فکر کی پہلی مثال تھی- جنّ کو جو اختیارات دیے گئے تھے اس کے لحاظ سے گویا وہ خلیفة الکون تھا- مگر ابلیس نے یہ کیا کہ جو کچھ اس کو ملا ہوا تھا، اس کا اعتراف نہیں کیا، اور جو کچھ انسان کو دیاگیا تھا اسی کا ذکر یک طرفہ طورپر کیا- اسی یک طرفہ طرز فکر سے ساری برائیاں پیداہوئیں- ابلیس کا یہی کلچر آج تک ساری دنیا میں جاری ہے-
سارے انسانوں کی مشترک برائی بتانا ہو تو وہ صرف ایک ہوگی- اوروہ انتخابی سوچ (selective thinking) ہے- ہر عورت اور مرد یہ کرتے ہیں کہ اپنے بارے میں ایک ڈھنگ سے سوچتے ہیں، اور دوسرے کے بارے میں دوسرے ڈھنگ سے- اپنے آپ کو ایک معیار سے جانچتے ہیں، اور دوسرے کو دوسرے معیار سے- اپنی پسند کو لوگوں کا ذکر کرنا ہو تو وہ ان کی صرف اچھائیاں بیان کریں گے، اور اگر ان لوگوں کا ذکر کرنا ہو جو انھیں پسند نہیں ہیں تو ان کی صرف برائیاں بیان کریں گے- ایک قوم کے بارے میں وہ منفی رپورٹنگ (negative reporting) کریں گے، اور دوسری قوم کے بارے میں صرف مثبت رپورٹنگ (positive reporting)- ایک گروہ ان کو ظالم نظر آئے گا اور دوسرا گروہ مظلوم دکھائی دے گا- ایک کے لئے ان کے دل میں صرف نفرت ہوگی، اور دوسرے کے لئے صرف محبت — یہی وہ چیز ہے جس نے لوگوں کو حقیقت پسندانہ سوچ (realistic approach) سے محروم کردیا ہے-
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 234

1- ترجمۂ کتب:
— اب گڈورڈ بکس سے قرآن کا ترجمہ اسپینش، فرنچ اور اٹالین زبان میں شائع ہوچکا ہے۔ چائنیز زبان میں ترجمہ کا کام ہو رہاہے۔
— صدر اسلامی مرکز کی انگریزی کتاب The Prophet of Peace کا ترجمہ انڈونیشی زبان میں ہوچکا ہے۔
— غیر مسلموں کو اسلام سےمتعارف کرانے والی صدر اسلامی مرکز کی ایک بہترین انگریزی کتاب What is Islam کو ان زبانوں میں ٹرانسلیٹ کیا جاچکا ہے، فرنچ، جرمن، اسپینش، اور فلپائن کے اکثریت کی زبان تغالوگ (Tagalog)، وغیرہ۔
— پیغمبر ِ اسلام کی دعوتی زندگی پر مشتمل صدر اسلامی مرکز کی کتاب مطالعہ سیرت کا سندھی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ جناب یوسف سندھی نے سی پی ایس پاکستان کے تعاون سےیہ ترجمہ کیا ہے۔
2- دعوتی سرگرمیاں:
— دعوت کا ایک اہم مقام بک فیر ہے۔ اس لیے الرسالہ مشن سے وابستگی رکھنے والےداعی نیشنل اور انٹرنیشنل پیمانے پر منعقد ہونے والے بک فیر میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوںجن انٹرنیشنل بک فیر میں شرکت کی گئی، وہ یہ ہیں:شارجہ انٹرنیشنل بک فیر(5-15 نومبر2014) ،کراچی بک فیر(18-22دسمبر 2014 )،مسقط انٹرنیشنل بک فیر (27فروری تا 7مارچ 2015)، لاہور بک فیر (5-9 فروری 2015)،بنکاک انٹرنیشنل بک فیر (27مارچ تا 6اپریل 2015)۔انڈیا کے اندر جیسے دہلی ورلڈ بک فیر(14-22 فروری 2015)، علی گڑھ بک فیر، وغیرہ۔ ان تمام جگہوں پر لوگوں نے قرآن اور الرسالہ مشن کی دعوتی کتابوں کو کافی شوق سے حاصل کیا۔
— سہارن پور کے کمپنی گارڈن میں 14 مارچ 2015 کو ایک سرکاری پروگرام ہوا۔ پروگرام میں شریک ہونے والےتمام اعلی سرکاری افسران کو سی پی ایس سہارن پور کی جانب سے ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر کا ایک ایک سیٹ دیا گیا۔
— بہار کے دلسنگھ سرائے (سمستی پور) میں 1 مارچ 2015 کو ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔ جس میں بہار سی پی ایس ٹیم کے جناب دانیال صاحب نے اسلام اور امن کے موضوع پر لکچر دیا۔ تقریر کے بعد تمام حاضرین کو ہندی ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
— ممبئی ٹیم نے 14-15 مارچ 2015 کو بیڑ مہاراشٹر کا دو روزہ دعوتی دورہ کیا۔ یہ دورہ بہت ہی کامیاب رہا۔ ایک ہندو ڈاکٹر نے اس پیس مشن کو دیکھ کر کہا کہ آپ لوگوں کے آنے سے پہلے میں مسلمانوں کی انتہاپسندانہ حالت کو دیکھ کر بالکل مایوس ہوچکا تھا۔ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ ایسے انتہاپسند لوگ پہلے غیرمسلموں کو قتل کریں گے، پھر آپس میں ایک دوسرے کو ماریں گے۔ آپ کے آنے سے میرے لیے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے، میں بہت خوش ہوں۔
— سی پی ایس کولکاتا نے 21-22 مارچ 2015 کو آسنسول اور کلٹی کا دعوتی دورہ کیا۔ یہ پروگرام الرسالہ کے قارئین سے ملاقات کے لیےتھا۔ اس دورہ سے تحریک پاکر دونوں جگہوں میں مقامی ٹیم کا قیام عمل میں آیا۔
— ڈاکٹر راجیش سروادنیا فاؤنڈر آف وویکانندا یوتھ کنکٹ (ممبئی) نے26 مارچ 2015 کو صدر اسلامی مرکز کی اسپریچولٹی پر ایک ویڈیو اسپیچ ریکارڈ کی- دوران تقریر صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں انڈیا اسپریچول سپر پاور بن کر ابھرے گا، نوجوانوں کو اس کے لیے کوشش کرنی چاہئے-
— سی پی ایس انٹرنیشنل دہلی کے زیراہتمام 2 اپریل 2015 کو انڈیا انٹرنیشنل سینٹر دہلی میں گلوبل چیپٹرس میٹ رکھی گئی تھی۔ اس پروگرام کا افتتاح صدر اسلامی مرکز نے کیا۔ اس میں تین کتابوں کا رسم اجرا کیاگیا۔ یہ کتابیں ہیں: اسلام اینڈ ورلڈ پیس (انگریزی ترجمہ امن عالم)، اسلامی جہاد(کتابچہ) اور شہادت: امت مسلمہ کا مشن (کتابچہ)۔ اس کے علاوہ ملک وبیرون ملک کے نمائندوں نے اپنے اپنے مقامات پر ہونے والی دعوتی سرگرمیوں اور تجربات سے لوگوں کو باخبر کیانیز مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال ہوا۔
3- الرسالہ مشن کے متعلق تاثرات :
— مالدیپ اسلامی افیرس کے ڈپٹی وزیر محمدقباد ابوبکر 17 مارچ 2015 کو گڈ ورڈ بکس، چنئی میں آئے اور الرسالہ مشن کی آئڈیالوجی پر تبادلۂ خیال کیا۔ دوران گفتگو انھوں نے یہ کہا کہ نوجوانی کے دنوں میں مجھے جماعت اسلامی کی باتیں اچھی لگتی تھیں، لیکن اب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ الرسالہ مشن کی آئڈیالوجی ہی فطری آئڈیالوجی ہے۔
— I have been distributing Maulana’s book, Khandani Zindagi among some women since the past two years. It has become very popular. Recently, I received a message from one of the women, who requested me to send more of Maulana’s books, including Tabir ki Ghalati and The Secret of a Successful Family Life.
واپس اوپر جائیں

Friday, 1 May 2015

Al Risala | May 2015 (الرسالہ،مئی)

4

-امانت کیا ہے

5

- قرآن، سنت ، اجتہاد

9

- دعا ایک دریافت

10

- دعوتی سیاحت

11

- مدعو داعی کے دروازے پر

12

- انسان کی تخلیق

13

- ایک قابل تقلیدمثال

14

- ہر آدمی ایک کیس ہے

15

- ہدایت کا راز

16

- حُب ّعاجلہ

17

- علم اسماء

18

- امتحان کی حکمت

19

- انسان کی کمزوری

20

- تخلیق کا مقصد

21

- تنکیس کا عمل

22

- دولت پرستی

23

- مغربی تہذیب، مؤید تہذیب

26

- انسان کی بے اختیاری

28

- جنت کی خصوصیت

29

- خبر، معرفت

30

- لا محدود امکانات

31

- مغفرت کی اصل توبہ

32

- معرفت کی تکمیل

33

- موت کا پیغام

34

- منافقانہ کلام

35

- مسلمان خیر ِ امت

36

- مسلسل فکری ارتقا

37

- تقدیر اور تدبیر

39

- شکر اور ناشکری

40

- نیا دور

41

- شعورِ مقصدیت

42

- گھر کا ماحول

43

- ادب، بے ادبی

44

- توسیع، استحکام

45

- امیدکی دنیا

46

- زندگی کی تعمیر

47

- خبر نامہ اسلامی مرکز


امانت کیا ہے

قرآن میں انسان کی تخلیق کے بارے میں ایک بیان آیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنْسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا لِیُعَذِّبَ اللَّہُ الْمُنَافِقِینَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِکِینَ وَالْمُشْرِکَاتِ وَیَتُوبَ اللَّہُ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا (33:72-73) یعنی اللہ نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوںاور مشرک عورتوں کو سزا دے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول کرے۔ اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
امانت (trust) سے کیا مراد ہے۔ اس سے مراد اللہ کی ایک ذاتی صفت (attribute) ہے۔ یہ صفت تخلیق (creation) ہے۔ تخلیق کی صفت اللہ نے مخلوقات میں سے کسی اور مخلوق کو نہیں دی، صرف انسان کوتخلیق کی یہ صفت محدود طور پر دی گئی ہے۔انسان کو محدود طور پر تخلیق کی یہ صفت دی گئی ہے، لیکن اس کو قدرت کی صفت نہیں دی گئی۔
اسی صفتِ تخلیق کی بنا پر انسان ایسے کام کرتا ہے، جس کا کرنا کسی اور مخلوق کے بس میں نہیں۔ مثلا، پلان (منصوبہ) بنانا، حکومت قائم کرنا، فطرت کے مخفی راز کو دریافت کرنا، ٹکنالوجی کے ذریعے نئی نئی چیزیں تیار کرنا، وہ چیز وجود میں لانا جس کو تہذیب (civilization) کہا جاتا ہے،وغیرہ۔اس امانت کے ساتھ چوں کہ لازمی طور پرمواخذہ (accountability) کا تصور شامل تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر امانت کو درست طور پر استعمال کیا گیا تو ابدی جنت ہے، اور اگر اس کو درست طور پر استعمال نہ کیا جائے تو ابدی جہنم ۔ یہ ایک نازک معاملہ تھا، اس لیےبقیہ کائنات اس کو لینے کی ہمت نہ کر سکے،مگر انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایڈونچرسٹ (adventurist) تھا، اس لیے اس نے اس امانت کو قبول کر لیا۔
واپس اوپر جائیں

قرآن، سنت ، اجتہاد

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دور آخر کی ایک حدیث ہے۔ آپ نے اپنے معاصر اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے اپنی امت کو ایک آخری سبق دیا۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنة نبیہِ (مؤطا امام مالک: 1874) یعنی میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، تم ہر گز گمراہ نہ ہوگے جب تک تم اس کو پکڑے رہوگے، وہ ہیں اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول کی سنت۔
یہ حدیث دین میں قرآن و سنت کی اہمیت کو بتاتی ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت صرف قرآن و سنت کے لفظی مفہوم کو پکڑے رہے، اور وہ گمراہی سے بچ جائے گی۔فطرت کے قانون کے مطابق احوال و ظروف ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں، اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں قرآن و سنت کی عصری تطبیق (contemporary application)کو دریافت کیا جائے، اور قرآن و سنت کی اسپرٹ کے مطابق نئے حالات میںاپنی اسلامی زندگی کی تشکیل کی جائے۔
اس دینی تقاضے کو ایک حدیث میں اجتہاد کہا گیا ہے۔اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: إن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم لما أراد أن یبعث معاذا إلى الیمن قال: کیف تقضی إذا عرض لک قضاء؟، قال: أقضی بکتاب اللہ، قال: فإن لم تجد فی کتاب اللہ؟، قال: فبسنة رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، قال: فإن لم تجد فی سنة رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، ولا فی کتاب اللہ؟ قال: أجتہد رأیی، ولا آلو فضرب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم صدرہ، وقال: الحمد للہ الذی وفق رسول، رسول اللہ لما یُرْضِی رسولَ اللہ (ابو داؤد : 3592) یعنی رسول اللہ ﷺ نے جب ارادہ کیا کہ معاذ بن جبل کو(بحیثیت عامل ) یمن بھیجیںتو آپ نے ان سے فرمایا: تمہارے سامنے جب کوئی معاملہ آئے گا تو اس کا فیصلہ کس طرح کروگے؟ انھوں نے کہا کہ میں اللہ کی کتاب سے اس کا فیصلہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ کی کتاب میں اس کا حکم نہ پاؤ؟ انھوں نے کہا تو میں اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ کے رسول کی سنت میں اس کا حکم نہ پاؤ، اور نہ اللہ کی کتاب میں؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں اپنی رائے سے اجتہادکروں گا، اورمیں اس میں کمی نہیں کروں گا۔تو رسول اللہ نے ان کے سینےپر ہاتھ مارا، اور فرمایاکہ اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول کے فرستادہ کو اس چیز کی توفیق دی جس چیز سے اللہ کا رسول راضی ہے۔
امت کے تمام علماء نے ہر دور میں دین میں اجتہاد کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے، مگر عملاً پچھلے ادوار میں یہ ہوا کہ علماء نے اجتہاد کے اصول کو صرف جزئیاتی مسائل تک محدود رکھا ، کلیاتی مسائل میں وہ اجتہاد کے اصول کا انطباق نہ کر سکے۔
مثلا قرأت فاتحہ خلف الامام پر فقہی بحثیں، آمین بالسر اور آمین بالجہر پر فقہی بحثیں، رمضان میں تراویح کی رکعت پر فقہی بحثیں، وغیرہ۔ اس قسم کی تمام بحثیں، جزئیاتی بحثیں ہیں۔ مگر علماء نے ان جزئیاتی بحثوںکو اتنی زیادہ اہمیت دی، گویا کہ یہی اجتہاد کے اصل موضوعات ہیں۔
اسلام کے ظہور کے بعدعملا تقریبا ہزار سال تک وہی روایتی دور (traditional period)قائم تھا جس دور میں کہ اسلام آیا تھا۔ اس لیے اس ہزار سالہ دور میںعلما کے اس موقف سے مسلم سماج میں کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ لوگوں کی دینی زندگی بدستور چلتی رہی۔
لیکن انیسویں صدی عیسوی میں انسانی تاریخ میں ایک بڑا ظاہرہ پیدا ہوا، جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔یہ ظاہرہ اکیسویں صدی میں اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔جدید تہذیب نے ہر اعتبار سے زندگی کے نقشے کو بدل دیا ہے۔ اب ضرورت تھی کہ کلیاتی مسائل کی سبت سے اجتہاد کے اصول کو استعمال کیا جائے، اور نئے حالات میں اسلام کی تطبیقِ نو (reapplication)کو تلاش کیا جائے۔مگر علماء اس اجتہاد میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ دین کے جزئیاتی مسائل میں اجتہاد کے اصول کی تطبیق جانتے تھے، مگر دین کے کلیاتی مسائل میں اجتہاد کی تطبیق سے وہ کامل طور پر بے خبر تھے۔اجتہاد کے معاملے میں علماء کی اس ناکامی نے امتِ مسلمہ کو عملاً ایک ڈائریکشن لیس (directionless) امت بنادیا ہے۔
اس معاملے میں کوتاہی کی سب سے بڑی مثال وہ ہے جو جدید تہذیب کی نوعیت کو دریافت کرنے میں ہوئی۔انیسویں صدی اور بیسویں صدی کا زمانہ جدید تہذیب کے ظہور کا زمانہ ہے۔ جدید تہذیب کے بعد زندگی کے معاملات میںجو تبدیلیاں ہوئیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے جزئیاتی نہیں تھیں، بلکہ کلیاتی تھیں۔اس نوعیت کی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے علماء ذہنی اعتبار سے تیار نہ تھے۔ چنانچہ ساری دنیا کے علماء نے ردعمل (reaction) کے تحت منفی موقف اختیار کر لیا۔ تمام دنیا کے علماء نے متفقہ طور پر یہ اعلان کردیا کہ جدید تہذیب اسلام دشمن تہذیب ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارا موقف نفرت اور تشدد کا ہونا چاہئے، نہ کہ امن اور مصالحت (compromise)کا۔
امت کی تاریخ میں یہ بلاشبہ سب سے بڑی اجتہادی غلطی تھی۔اس غلطی کے نتائج امت کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہوئے۔ اس کی بنا پر یہ ہوا کہ جدید تہذیب کے مقابلے میں امت اپنا مثبت موقف (positive stand)دریافت نہ کر سکی۔وہ صرف رد عمل کی نفسیات کے تحت مغربی تہذیب اور مغربی اقوام کے خلاف منفی سرگرمیوں میں مبتلا رہی۔ اس منفی موقف کا نقصان جدید تہذیب کو تو نہیں پہنچا، البتہ امت جدید دور میں ایک پس ماندہ امت (backward community) بن کر رہ گئی۔
اب امت اپنے اس موقف کے آخری دور میں ہے۔ یہ دور مایوسی (frustration) کا دور ہے۔ چنانچہ مایوسانہ نفسیات کی بنا پر پوری امت یا تو شکایت اور احتجاج میں مبتلا ہے، یابے نتیجہ قسم کے گن کلچر اورخود کش بمباری (suicide bombing) میں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ جدید تہذیب اسلام کے لیے دشمن تہذیب نہیں تھی، بلکہ وہ ایک مؤید تہذیب (supporting civilization)تھی۔ اسلام میں کوئی نقصان کئے بغیر وہ اسلام کے لیے نئے وسیع تر مواقع کھول رہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید تہذیب کا ظہور اس پیغمبرانہ پیشن گوئی کی تصدیق تھی جو کہ صحیح البخاری اور دوسری کتابوں میں آئی ہے۔ اس روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اللہ اس دین کی تائید فاجر (secular)لوگوں کے ذریعہ بھی کرے گا (صحیح البخاری : 3062)۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں 6ہجری میں حدیبیہ کا معاہدہ پیش آیا۔ اس کے بعد یہ آیت اتری: إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا ؀ لِیَغْفِرَ لَکَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا ؀ وَیَنْصُرَکَ اللَّہُ نَصْرًا عَزِیزًا ؀ (48:1-3)یعنی بے شک ہم نے تم کو کھلی فتح دے دی، تاکہ اللہ تمہاری اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کردے، اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کردے، اور تم کو سیدھا راستہ دکھائے، اور تم کو زبردست مدد عطا کرے۔
قرآن کی اس آیت میں فتح مبین (clear victory)اور نصر عزیز (mighty help) وقتی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ ابدی معنی میں ہے۔ اسلام کے حق میں اللہ کی اس نصرت خاص کا ظہور فوری طور پر یہ ہوا کہ اس معاہدہ کے جلد ہی بعد مکہ فتح ہوگیا، اور پھر اسلام سارے عرب میں پھیل گیا۔ یہ گویا موعود فتح مبین کا پہلا مرحلہ (first phase) تھا۔
اس فتح کا دوسرا مرحلہ (second phase)ایک عمل (process) کی صورت میں تاریخ میں جاری ہوا۔ اس عمل نے تاریخ انسانی میں پہلی بار فتح کو مقامی معاملے کےبجائے ایک عالمی واقعہ بنادیا۔ اللہ کی یہی وہ نصرت خاص ہے، جو جدید تہذیب کی صورت میں اسلام کے حق میں ظاہر ہوئی۔ اس تہذیب کے لیڈر چونکہ سیکولر لوگ تھے، اس لیے علمائے اسلام اس کی حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔ حالانکہ حدیثِ رسول میں پیشگی طور پرامت کو اس سے باخبر کردیا گیا تھا۔
اس دور کے مسلم علما قرآن و سنت پر زور دیتے رہے، بطور خود انھوں نے سمجھا کہ وہ صراطِ مستقیم پر ہیں، حالانکہ اجتہاد کو عملاً حذف کرنے کی بنا پروہ صراطِ مستقیم سے ہٹ چکے تھے۔ اس معاملے کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ زمانے کے علماء ایک غلط آبسیشن (obsession) کا شکار ہو گئے۔ وہ ایک نئے قسم کی ڈائکاٹمس تھنکنگ (dichotomous thinking)کے ٹریپ (trap) میں مبتلا ہوگئے۔وہ تیسرے آپشن (third option)کو استعمال کرنے سے قاصر رہے۔ یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تمام مسائل کا اصل سبب ہے۔ ان مسائل کا حل تیسرے آپشن کو استعمال کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعا ایک دریافت

دنیا کی زندگی میں ایک انسان کو جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ بظاہر اس کی اپنی کوششوں سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر یہ صرف اس کا ظاہری پہلو ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ہر ملی ہوئی چیز خدا کا یک طرفہ عطیہ ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے تاکہ خدا کا ایک بندہ شعوری طور پر اس حقیقت کو دریافت کرے اور پھر دل کی گہرائیوں کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ — خدایا، تونے دنیا کی نعمتوں کو مجھے یک طرفہ عنایت کے طور پر دے دیا، اسی طرح تو آخرت کی نعمتوں کو بھی مجھے یک طرفہ عنایت کے طور پر دے دے۔ اس معاملہ میں مَیں نے تیرے ساتھ یہی گمان کیا ہے، اور میں امید رکھتا ہوں کہ تو میرے اس گمان کو آخرت میں پورا فرمائے گا، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں آیا ہے: أنا عند ظن عبدی بی، فلیظن بی ما شاء (مسند احمد: 16016)۔
انسان کو اس کے خالق نے احسنِ تقویم (95:4) اور صورتِ احسن (40:64)کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یہ واقعہ انسان کے لیے ایک دعا کا پوائنٹ آف ریفرنس ہے۔ وہ اگر اپنی اس تخلیقی نوعیت کو دریافت کرے تو وہ پکار اٹھےگا کہ خدایا، تو نے مجھے اپنی بہترین آرٹ(finest art) کے طور پر پیدا کیا، کو ئی آرٹسٹ اپنے بہترین آرٹ کو آگ میں نہیں ڈال سکتا، کیا تو اس کو گوارا کرے گا کہ تیرا پیدا کیا ہوابہترین آرٹ آگ میں ڈال دیا جائے۔
اگر آدمی اپنی تخلیق کو دریافت کرے، اور اپنی تخلیق کے حوالے سے وہ خالق کو یاد کرے تو اس کی زبان سے دعا کے ایسے الفاظ نکلنے لگیں گے، جو خالق کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والے ہوں۔یہی وہ دعا ہے جس کو حدیث میں اسم اعظم کے ساتھ دعا کرنا بتایا گیا ہے- اور جو دعا اسم اعظم کے ساتھ کی جائے، اس کے متعلق رسولِ خدا نے یہ خبر دی ہے کہ وہ ضرور مقبول ہوتی ہے (ابن ماجہ: 1494-1495)۔ اسم اعظم کے ساتھ دعا، دراصل کیفیت اعظم کے ساتھ دعا کا نام ہے، اور جو دعا کیفیت اعظم کے ساتھ کی جائے اس کی قبولیت میں کوئی شبہہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی سیاحت

مومن کی ایک صفت قرآن میں سیاحت (9:112) بتائی گئی ہے۔ قرآن کے مطابق سیاحت کی یہ صفت مومن مردوں میں بھی ہوتی ہے، اور مومن عورتوں میں بھی (66:5)۔ سیاحت کا لغوی مطلب ہے چلنا پھرنا (to travel)۔ سیاحت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔تاجر تجارتی مقصد کے لیے سفر کرتا ہے، سیاح گھومنے پھرنے کے لیے سفر کرتا ہے، طالب علم حصولِ علم کے لیے سفرکرتا ہے، وغیرہ۔
مومن کا سفر، دعوت کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی سفر کرکے مدعو کے پاس جانا، اور اس کو اللہ کا پیغام پہنچانا۔ مومن کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اس نے جس سچائی کو جانا ہے، اس سچائی سےوہ دوسرے انسانوںکو باخبر کرے۔ اسی عمل کا نام دعوت الی اللہ ہے۔ یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ ایک شخص جس دین کو نجات کی حیثیت سے اختیار کرے ، اس کو وہ دوسرے انسانوں تک پہنچانے کا حریص ہو۔ وہ چاہے کہ جس صراطِ مستقیم کو اس نے دریافت کیا ہے، اس میں وہ دوسرے انسانوں کو شریک کرے۔ ایمان کا یہی وہ تقاضا ہے جس کو دعوت کہا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک مومن جو سفرکرے، وہ دعوتی سیاحت ہے۔
الرسالہ مشن ایک دعوتی مشن ہے۔ الرسالہ مشن سے وابستہ مردوں اور عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری ذمے داریوں کی طرح دعوتی سیاحت کو اپنی زندگی میں شامل کریں۔ ہرریاست کے لوگ مختلف شہروں اور قصبوں میں جائیں، وہاں لوگوں سے ملیں، وہ ان کو بتائیں کہ دعوت کے کام کو کس طرح منظم انداز میں کرنا چاہئے۔ وہ ہر جگہ ہفتہ وار اجتماع یا ماہانہ اجتماع کا نظام بنائیں۔ وہ ہرجگہ لائبریری قائم کرنے کی کوشش کریں۔ وہ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ دعوتی لٹریچر کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں۔ وہ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ قرآن مشن میں زیادہ سے زیادہ اپنا تعاون پیش کریں۔دعوتی سفر کو نہایت سادہ ہونا چاہئے، سیاسی باتوں اور کمیونل باتوں سے اس کو مکمل طور پر خالی ہونا چاہئے۔
واپس اوپر جائیں

مدعو داعی کے دروازے پر

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے عرب ممالک کا سفر کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ عرب ملکوں میں مجھے ایک انوکھا ظاہرہ دکھائی دیا۔ اور وہ ہے سیاحوں کی کثرت سے آمد۔عرب ملکوں میں کثرت سے تاریخی عمارتیں ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر شہروں میں شاندار مسجدیں بنائی گئی ہیں۔ ان عمارتوں کو دیکھنے کے لیے روزانہ بڑی تعداد میں بیرونی سیاح (tourists) وہاں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ عرب ملکوں کے انتظامی اور اقتصادی دفاترمیں زیادہ تربیرونی لوگ کام کرتے ہیں۔ اس طرح عرب ممالک میںبیرونی ملکوں کے لوگ کثرت سے آباد ہیں۔ یہ لوگ روزانہ ہوائی جہازوں سے آتے ہیں۔کوئی بھی شخص ان کو ہر جگہ دیکھ سکتا ہے۔
یہ رپورٹ سن کر میں نے کہا کہ دعوت الی اللہ کے ذہن سے دیکھیے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مدعو خود داعی کے دروازے پر پہنچ رہا ہے۔ اور خاموش زبان میں یہ کہہ رہا ہے کہ تمھارے پاس اللہ کی جو کتاب ہے، اس کو ہمیں پڑھنے کے لیے دو۔
لیکن عرب ممالک کے لوگوں میں دعوت کا ذہن موجود نہیں۔ اس بنا پر ان کے اندر یہ شوق نہیں کہ ان غیر مسلم لوگوں کوان کی قابلِ فہم زبان میں قرآن کےترجمے دیں، وہ ان کو اسلام کا پرامن پیغام پہنچائیں، وہ ان کے اوپر اپنی اس ذمہ داری کو ادا کریں جو امتِ مسلمہ کی حیثیت سے اللہ نے ان کے اوپر عائد کی ہے، یعنی شہادت علی الناس (2:143)۔ یعنی اللہ کے پیغام کو لوگوں تک مؤثر انداز میں پہنچانا۔ اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) سے لوگوں کو آگاہ کرنا۔ لوگوں کو بتانا کہ آخرت میں وہ اللہ کے سامنے حاضر کیے جائیں گے، اور وہاں ان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
رسول اللہ کا مشن، دعوت کا مشن تھا۔ قرآن ایک دعوتی کتاب ہے۔ امت مسلمہ ایک داعی امت ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں دعوت الی اللہ کا شعور موجود نہیں۔ آج کرنے کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر دعوت کا شعور زندہ کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق

مغل دور کے شاعر ذوق دہلوی نے کہا تھا:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
یہ ایک شاعرانہ تخیل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ نے کائنات پیدا کی۔ اس کا ایک حصہ مادی دنیا (physical world)تھا۔ مادی دنیا خالق کے مقابلے میں کامل سرینڈر (total surrender) کا کیس تھی۔اس کے بعد کائنات میں فرشتے تھے۔جو گویا معرفت (realization) کا کیس تھے۔مگر اس کے باوجود کائنات میں ایک خانہ خالی تھا۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے انسان کو بنایا گیا۔
انسان ایک انوکھی مخلوق ہے، جو خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) پر کھڑا ہوتا ہے۔اس مقصد کے لیے انسان کو اعلیٰ درجے کا دماغ دیا گیا۔ اس کو کامل آزادی دی گئی۔ اس کو یہ موقع دیا گیا کہ کامل آزادی کے ماحول میں وہ اپنی عقل کو استعمال کرے۔ وہ خود اپنے فکری عمل کے ذریعے خالق کو دریافت کرے۔ وہ کسی جبر (compulsion) کے بغیرخود اپنے شعور کے تحت یہ گواہی دے کہ خدایا میں نے تجھ کو دریافت کیا۔ کامل اختیار رکھتے ہوئے، میں تیرا اعتراف کرتا ہوں۔ تجھ کو قادرِ مطلق مانتے ہوئے، یہ اعتراف کرتا ہوں کہ تیرے مقابلے میں، مَیں عاجزِ مطلق ہوں۔میرا وجود اور جوکچھ میرے پاس ہے، وہ سب تیرا عطیہ ہے، وہ میری اپنی تخلیق نہیں۔
انسان کی یہی امتیازی صفت ہے۔ وہ خود دریافت کردہ حقیقت کا کیس ہے۔یہ انوکھا واقعہ اس وقت ممکن ہوتا ہے، جب کہ انسان اپنے عقلی امکان کو درست طور پر استعمال کرے۔ وہ ہر قسم کے بھٹکاؤ (distraction) سے اپنے آپ کو بچائے۔وہ انا (ego)رکھتے ہوئے، اپنے آپ کو بے انا (egoless) بنا لے۔ وہ منفی آئٹم کے جنگل میں، اپنے آپ کو مثبت سوچ (positive thinking) پر قائم رکھے۔ یہی وہ انسان ہے جس کے لیے جنت کی معیاری دنیا بنائی گئی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک قابل تقلیدمثال

مولانا حافظ سید عبدالکبیر عمری، جامعہ دارالسلام، عمرآباد (تامل ناڈو) میں شیخ التفسیر تھے۔ 90 سال سے زیادہ عمر پانے کے بعد انھوں نے 3 مارچ 2015کو وفات پائی۔ ان کی صحت آخر وقت تک اچھی رہی۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ کی اچھی صحت کا راز کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا: سادہ کھانا، سادہ زندگی۔ یہ تندرستی کا ایک فطری اصول ہے۔ جو شخص اس پر عمل کرے، وہ یقینا اپنی پوری زندگی میں صحت مند رہے گا۔
ایک مرتبہ مدرسے کی انتظامیہ اور طلبہ کے درمیان کسی وجہ سے نزاع ہوگیا۔ مولانا کو جب معلوم ہوا تو انھوں نے انتظامیہ سے کہا کہ طلبہ کو فریق مت بناؤ ، رفیق بناؤ۔ معاملہ حل ہو جائے گا۔ انتظامیہ نے اس مشورے پر عمل کیا،اورمسئلہ آسانی کے ساتھ حل ہوگیا۔ یہ فارمولا بلاشبہ ایک درست فارمولا ہے۔ وہ نہ صرف مدرسے کے معاملات کے لیے مفید ہے، بلکہ وہ تمام اختلافی معاملات کے لیے یکساں طور پرمفید ہے۔ خواہ وہ معاملہ خاندانی زندگی کا ہو یا سماجی زندگی کا۔
ایک مرتبہ وہ کلاس میں تفسیر کی کتاب بیضاوی کا درس دینے کے لیے آئے۔ وہ دیر تک خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے۔ طلبہ نے پریشان ہوکر سوال کیا کہ مولانا طبیعت تو ناساز نہیں ہے۔ مولانا نے آبدیدہ ہوکر جواب دیا کہ آج میں مطالعہ کے بغیر آیا ہوں۔ طلبہ نے سوال کیا کہ مولانا آپ تو 50 سال سے زیادہ عرصے سے بیضاوی کا درس دے رہے ہیں، پھر بھی کیا آپ کو مطالعے کی ضرورت ہے۔ مولانا نے جواب دیا کہ ہر دن مطالعہ کرنے کی وجہ سےمَیں آپ لوگوں کو کچھ نئی بات دے پاتا ہوں، آج آپ کو دینے کے لیے میرے پاس کوئی نئی بات نہیں۔ کل خدا کے یہاں اس بات پر میری پکڑ ہوگی تو میں کیا جواب دوں گا۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگے۔ یہی اچھے استاد کا معیار ہے۔ جس استاد کے اندر یہ اسپرٹ موجود ہو، وہ بلاشبہ اچھا استاد ہے۔ جس ادارے کو ایسے استاد حاصل ہوں، وہ ایک خوش قسمت ادارہ ہے۔ ایسے ادارے میں تعلیم پاکر جو نوجوان نکلیں، وہ یقینا اپنی زندگی میں کامیاب رہیں گے۔
واپس اوپر جائیں

ہر آدمی ایک کیس ہے

اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ جب کسی سےاپنی پسند کی بات سنتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہوجاتے ہیں، اور اگر وہ اس سے اپنی پسند کے خلاف کوئی بات سنتے ہیں تو وہ اس کے بارے میں بُری رائے قائم کرلیتے ہیں۔ یہ طریقہ آدابِ ملاقات کے خلاف ہے۔ملاقات کا مقصد ایک انسانی مطالعہ ہے، نہ کہ لوگوں کے بارے میں اچھی رائے یا بُری رائے قائم کرنا۔
ہر انسان ایک کامل انسان ہے۔ وہ اپنی ذات میں پوری نوعِ انسانی کا نمائندہ ہے۔ ہر عورت اور مرد کا رد عمل گویا پوری انسانیت کا رد عمل ہے۔ ہر انسان کا مطالعہ گویا پوری انسانیت کا مطالعہ ہے۔ ایک انسان کو جان لینا گویا پوری نوعِ انسانی کو جان لینا ہے۔
اس اعتبار سے ہر انسان گویاانسانیت کی ایک لائبریری ہے۔ اگر آپ کے اندر غیر جانبدارانہ سوچ ہے، اگر آپ تعصب سے خالی ہو کر انسان کا مطالعہ کرسکتے ہیں تو ہر انسان آپ کے لیے پوری انسانیت کے مطالعے کا ذریعہ بن جائے گا۔ آپ ایک انسان کو دریافت کر کے تمام انسانوں کو دریافت کر لیں گے، حتی کہ آپ کا محدود خاندان وسیع تر معنوں میں انسانیت کی لائبریری بن جائے گا۔
ہر انسان کبھی خوش ہوتا ہے، کبھی غمگین ہوتا ہے، کبھی وہ مثبت ردعمل کا اظہار کرتا ہے اور کبھی منفی ردعمل کا اظہار۔ اسی طرح وعدہ پورا کرنا اور وعدہ پورا نہ کرنا، شکایت کو درگزر کرنا اور درگزر نہ کرنا، دیانت داری کے ساتھ معاملہ کرنااور بددیانیتی کے ساتھ معاملہ کرنا،صدق بیانی کرنا اور کذب بیانی کرنا، مدلل اختلاف کرنا اور الزام تراشی کرنا،قابلِ پیشن گوئی کردار کا حامل ہونا اور ناقابلِ پیشن گوئی کردار کا نمونہ بن جا نا، وغیرہ۔ اس طرح کا ہر معاملہ بظاہر ایک انسان کی طرف سے پیش آتا ہے، لیکن وسیع تر معنوں میں وہ تمام انسانوں کے سلوک کو بتاتا ہے۔اگرآپ کے اندر گہرا مطالعہ کرنے کی صلاحیت ہو تو آپ ایک فرد میں تمام افراد کو دیکھ لیں گے، آپ ایک خاندان کے اندر پوری انسانیت کے معاملےکو دریافت کرلیں گے۔ بشرطیکہ آپ کے اندر بصیرت (wisdom)کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔
واپس اوپر جائیں

ہدایت کا راز

دنیا میں کوئی شخص صحیح راستے پر چلتا ہے، اور کوئی شخص صحیح راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ اس فرق کا راز کیا ہے۔یہ حقیقت قرآن کی ایک آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے- وہ آیت یہ ہے: وَلَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ ۭوَلَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَّہُمْ مُّعْرِضُوْنَ ( 8:23) یعنی اگر ان میں کسی بھلائی کا علم اللہ کو ہوتا تو وہ ضرور انھیں سننے کی توفیق دیتا اور اگر اب وہ انھیں سنوادے تو وہ ضرور روگردانی کریں گے بےرخی کرتے ہوئے۔اس سے معلوم ہوا کہ ہدایت کا پانا اللہ کی مدد سے ہوتا ہے۔ اللہ جس انسان کے اندر خیر دیکھتا ہے، وہ اس کو ہدایت کی توفیق دیتا ہے۔ یعنی اس کی زندگی کو اس طرح مینیج (manage) کرتا ہے کہ وہ صحیح راستے کو پالے، اورفکر و عمل کے اعتبار سے وہ اس راستے پرقائم ہوجائے۔
خیر (virtue) سے کیا مراد ہے، اس کا جواب ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: من تواضع للہ درجة رفعہ اللہ درجة، حتى یجعلہ فی علیین، ومن تکبر على اللہ درجة، وضعہ اللہ درجة، حتى یجعلہ فی أسفل السافلین (مسند احمد: 11724) یعنی جو شخص اللہ کے لیے ایک درجہ تواضع کرتا ہے، اللہ اس کو ایک درجہ بلند کر دیتا ہے، یہاں تک کہ اس کو علیین میں شامل کر دیتا ہے، اور جو شخص اللہ پر ایک درجہ تکبر کرتا ہے، اللہ اس کو ایک درجہ پست کر دیتا ہے، یہاں تک کہ اس کو اسفل السافلین میں پہنچادیتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی ہدایت اس کو ملتی ہے جس کے اندرتواضع (modesty) کی صفت موجود ہو۔ اور وہ شخص اللہ کی ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے، جس کے اندر کبر (arrogance) کا مزاج پایا جائے۔یہی ہدایت اور گمراہی کا خلاصہ ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی خود اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے۔ اللہ اپنے علمِ کامل کے ذریعے اس حقیقت کو جان لیتا ہے۔ پھر وہ تواضع کی صفت والے انسان کو مینیج کرتے ہوئے ہدایت کی منزل تک پہنچادیتا ہے، اور جس شخص کے اندر کِبر موجود ہو، اللہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ بھٹک کر منزل سے دور ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حُب ّعاجلہ

قرآن میں انسان کے ایک مزاج کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ ہَؤُلَاءِ یُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ (76:27) یعنی یہ لوگ جلدی ملنے والی چیز کو چاہتے ہیں:
Those people aspire for immediate gains.
حب عاجلہ کا مزاج پہلے بھی انسان کے اندر تھا، مگر اب وہ اتنا زیادہ عام ہوچکا ہے کہ شاید اس میںکوئی استثنا باقی نہیں رہا۔ اعلان یا اعلان کے بغیر ہر ایک کا نشانہ یہ ہے کہ ابھی اور اسی وقت (right here, right now) ۔ اس نظریہ کے ماننے والوں کا کہنا یہ ہے کہ اگر اب نہیں تو کب:
If not now, when?
جولوگ ایسا کہتے ہیں، وہ یقینا سوچے بغیر ایسا کہہ رہے ہیں۔ کیوں کہ حقیقت کے اعتبار سے اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آج حاصل کر لو، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج بھی کیوں ہمارا مطلوب حاصل نہیں ہوتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر پیدا ہونے والے انسان نے یہ چاہا کہ وہ اس دنیا میں اپنی خواہش (desire) کو پورا کرے، مگر عملا صرف یہ ہوا کہ ہر آدمی اپنی خواہش کوپورا کئے بغیر اس دنیا سے چلا گیا۔
پوری تاریخ میںکوئی بھی انسان ایسا نہیں جو اس معاملے میں استثناء (exception) کی حیثیت رکھتا ہو۔ ایسی حالت میں اصل سوال یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں، اس کو آج ہم حاصل کر لیں، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں، وہ آج کی زندگی میں کیوں حاصل نہیں ہوتا۔اس سوال پر غور کیا جائے تو آدمی اس نتیجے تک پہنچے گا کہ خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan ) کے مطابق ہمارا مطلوب آج کی دنیا میں حاصل ہونے والا نہیں۔
انسان تمام مخلوقات میں استثنائی طور پر کل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ یہ فطرت کی زبان میں انسان کے سوال کا جواب ہے۔ فطرت کا یہ تقاضا بتاتا ہے کہ انسان کا مطلوب کَل کے دورِ حیات میں ملنے والا ہے، آج کے دورِ حیات میں اس کا ملنا فطرت کے قانون کے مطابق مقدر ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

علم اسماء

قرآن کی سورہ البقرۃ میں تخلیقِ انسانی کا ذکر کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّہَا (2:32)یعنی اللہ نے آدم کو تمام اسماء سکھادیے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں علم اسماء سے مراد علم معرفت ہے۔اللہ کے تعلیم کردہ اسماء کو معلوم واقعہ بناناانسان کا اصل امتیاز ہے، اور اسی کا دوسرا نام معرفت ہے۔
انسان کی تخلیق کا ایک خصوصی پہلو یہ ہے کہ انسان کو فطری طور پرلامحدود پوٹنشل (potential) کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے اس پوٹنشل کو ایکچول (actual) بنائے۔یہ صفت نہ ستاروں اور سیاروں میں ہے، اور نہ درختوں اور حیوانات میں۔ یہ انسان کی ایک نادر خصوصیت ہے، جو ساری کائنات میں صرف انسان کو حاصل ہے۔یہ صرف انسان ہے جو اپنے آپ کو سیلف میڈ مین (self-made man) بناتاہے۔
اپنے فطری امکانات کو واقعہ بنانے کے بعد کسی انسان کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، اسی کو قرآن میں مزکیٰ شخصیت (91:9)کہا گیا ہے۔شخصیت کی تعمیر کبھی معتدل حالات میں نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے ساتھ مختلف قسم کے ناخوشگوار حالات پیش آئیں۔ اسی بنا پر انسان کو ضعیف پیدا کیا گیا ہے (4:28)۔ ضعیف ہونے کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ یہ مشکل حالات انسان کے لیے تجربہ (experience) بن جاتے ہیں۔ اگر انسان قوی (strong) ہوتا تو وہ پتھر کی مانند ہوتا۔اس کے ساتھ ناخوش گوار حالات پیش آتے، لیکن وہ اس کے لیے تجربہ نہ بنتے، جیسا کہ لوہے اور پتھر کے ساتھ ہوتا ہے۔
اپنے پوٹنشل کو ایکچول بنانے میں تجربات کا نہایت بنیادی رول ہے۔ کوئی بھی دوسری چیز انسان کے لیے تجربہ کا بدل نہیں بن سکتی۔ اس تجربے ساتھ جب تدبر شامل ہوجائےتو اسی کا نتیجہ معرفت ہوتا ہے۔ یہی وہ کورس ہے جس سے گزر کر وہ شخصیت بنتی ہے، جس کو عارف کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عارف انسان ہی انسان ہے- جو انسان عارف نہیں، وہ انسان بھی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

امتحان کی حکمت

قرآن کی سورہ البقرۃ میں انسانی تخلیق کی حکمت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ، الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ، أُولَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُون( 2:155-157) یعنی ہم تم کو ضرور آزمائیں گے کچھ ڈر سے اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اورثمرات کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی عنایتیں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں۔قرآن کی اس آیت میں دراصل انسان کے بارے میں اللہ کے منصوبہ کو بتایا گیا ہے۔اس منصوبہ کے تحت انسان کو یہاں مکمل آزادی دی گئی ہے۔اس بنا پر انسان کبھی اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ اس طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان خود اپنے غلط استعمالِ آزادی کی بنا پر اس کا انجام بھگتتا ہے، اور کبھی دوسروں کے غلط استعمالِ آزادی کی بنا پر۔دنیا میں جتنی ناموافق باتیں پائی جاتی ہیں، وہ سب اسی انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ موجودہ دنیا میں تمام مصیبتوں (sufferings) کی نوعیت یہی ہے۔
صبر کرنے والا وہ ہے جواس طرح کی صورتِ حال میں درست رسپانس (right response) دے۔صبر یہی درست رسپانس ہے۔ اس معاملے میں صبر کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ پیش آئے، اس کو آدمی منفی طور پر نہ لے بلکہ اس کو مثبت رسپانس (positive response ) میں کنورٹ کرے۔ غیر صابر آدمی پیش آمدہ واقعات کو انسان کی طرف منسوب کر کےمنفی رد عمل میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، صابر آدمی اس قسم کے واقعات کو منصوبۂ الٰہی کا نتیجہ سمجھے گا، اور ہر واقعے میں ربانی غذا دریافت کرتا رہے گا۔ صبر کی روش اختیار کرنے والے ہدایت یاب ہیں، اور بے صبری کی روش اختیار کرنے والے غیر ہدایت یاب۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی کمزوری

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ابلیس تخلیق کی ابتدا ہی میں انسان کے خلاف ہوگیا۔ اس نے چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ: میں تھوڑے لوگوں کے سوا اس کی پوری نسل کو گمراہ کر دوںگا (17:62)۔ قرآن کی دوسری آیت کے مطابق ابلیس نے اللہ سے کہا : وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِینَ (7:17) یعنی تو بیش تر انسانوں کو شکر کرنے والا نہ پائے گا۔
ابلیس کو اتنے حتمی انداز میں اس قسم کا اعلان کرنے کی ہمت کیسے ہوئی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سبب یہ واقعہ تھا کہ آدم کو پیدائش کے بعد جنت میں رکھا گیا۔ آدم سے کہا گیا کہ پوری جنت تمہارے لیے ہے مگر تم ایک درخت سے دور رہنا،تم اس کا پھل نہ کھانا۔ مگر آدم اپنے آپ کو روک نہ سکے، اور جا کر اس ممنوعہ درخت (forbidden tree)کا پھل کھا لیا۔
یہ تجربہ بتارہا تھا کہ انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے کل (whole)کو چاہے گا، وہ جزء (part) پر قانع نہ ہوگا۔ اس تجربے کی بنا پر ابلیس نے یہ منصوبہ بنایا کہ وہ انسان کے اس مزاج کو استعمال (exploit) کرے گا۔وہ لوگوں کو جزء پر قانع نہ ہونے دے گا، وہ انسان کو اکسائے گا کہ وہ کُل سے کم ملنے پر راضی نہ ہو۔ اس طرح وہ پوری نسل انسانی کو گمراہی میں ڈال دے گا۔تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان اور غیر مسلمان دونوں اسی فریب کا شکار ہو گئے، سب کے سب حقیقی شکر سے محروم ہو کر رہ گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کا نظام آزمائش (test)کے اصول پر قائم ہے۔ اس بنا پر یہاں ہر فرد اور ہر قوم کو سب کچھ نہیں ملتا، بلکہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ ملتا ہے اور کچھ نہیں ملتا۔ یہ معاملہ فرد کے ساتھ بھی ہے، اور قوم کے ساتھ بھی۔ لیکن فرد اور قوم دونوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ملے ہوئے پر راضی نہیں ہوتے، بلکہ نہ ملے ہوئے کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، انفرادی دائرے میں بھی اور اجتماعی دائرے میں بھی۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ فرد اور قوم دونوں ناشکری میں جیتے ہیں، وہ شکر کرنے والے نہیں بنتے— یہی پوری انسانی تاریخ کا خلاصہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

تخلیق کا مقصد

انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے- اس کو قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بتایا گیاہے:وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ (51:56)۔ قرآن کی اس آیت میں لیعبدون کی تفسیر لیعرفون (تفسیر القرطبی) سے کی گئی ہے۔ اس کےمطابق آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن اور انس کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) کی بنیاد پروہ اللہ کے عابد بنیں۔ کائنات کی بقیہ مخلوقات تسخیر کے تحت اللہ کی عابد بنی ہوئی ہیں۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے اپنے خالق کو دریافت کرے، اور پھر اس کا عابد بن جائے۔
اللہ کا عابد بننا کیا ہے- اللہ کا عابد بننا یہ ہے کہ انسان اپنے خالق کو اس کی صفات کمال کے ساتھ اس طرح دریافت کرے کہ خالق ہی اس کا واحد کنسرن (sole concern) بن جائے۔ اللہ کو واحد کنسرن بنانا کو ئی قانون کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ تمام تر معرفت (realization) کا معاملہ ہے۔ ایک انسان جب تدبر اور تفکر کے ذریعہ اپنے رب کو دریافت کرتا ہے تو اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر ایسا ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین اس کا معبود بن جاتا ہے، اللہ کی دریافت اس کے لیے ایک ماسٹر اسٹروک (masterstroke)بن جاتی ہے، جو اس کی پوری زندگی کو اس طرح ہلادے کہ اس کے فکر و عمل کا کوئی پہلو اس سے محفوظ نہ رہے۔
عابد ِ عارف کی تائید کے لیے خالق نے یہ انتظام کیا ہے کہ معرفت کا ڈیٹا (data) آیاتِ فطرت (signs of nature)کی صورت میں ساری کائنات میں پھیلا دیا ہے۔ انسان سے مطلوب ہے کہ وہ اپنی خداداد عقل کو استعمال کر کےاپنی شخصیت کی تعمیر کرے۔جو آدمی اس طریقہ پر عمل کرے گا، وہ اللہ کی توفیق سے ضرور کامیابی کے مرحلے تک پہنچ جائے گا۔معرفت کے اس سفر میں کامیابی کی یہ لازمی شرط ہے کہ آدمی پوری طرح سنجیدہ (sincere) ہو۔جو آدمی اس شرط کو پورا کرے، وہ ضرور اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

تنکیس کا عمل

قرآن میں زندگی کی ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَمَنْ نُعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ أَفَلَا یَعْقِلُونَ (36:68)یعنی اور ہم جس کو زیادہ عمر دیتے ہیں ، اس کو اس کی خلقت میں پیچھے لوٹا دیتے ہیں ، تو کیا وہ سمجھتے نہیں ۔تنکیس کا لفظی مطلب ہے پیچھے لوٹانا (to invert)۔
عضویاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کو پیدائشی طور پر جو جسم دیا گیا ہے، وہ ایک انوکھے قسم کا جسم ہے۔ انسانی جسم کے اندر 78 آرگن (organs)ہوتے ہیں۔یہ آرگن مسلسل طور پر بے حد کوآرڈینیشن (coordination)کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔ یہ عمل جسم کے اندر خودکار نظام (automatic system) کے تحت ہوتا ہے۔اسی فطری نظام کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی کاجسم مسلسل طور پر کام کرتا رہے۔
مگر ہر آدمی پیدا ہونے کے بعد بچپن اور جوانی کے مراحل سے گزرتے ہوئے آخرکار بڑھاپے کی عمر تک پہنچتا ہے۔بڑھاپے کی عمر میں یہ آرگن رفتہ رفتہ انسان کا ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں، کوئی جزئی طور پر، کوئی کلی طور پر۔یہی وہ واپسی کا عمل ہے جو انسان کو بوڑھا اور آخرکار ناکارہ بنادیتا ہے۔
اس عمل کو قرآن میں تنکیس کہا گیا ہے۔ یعنی دیے ہوئے اعضا کو واپس لینا۔واپسی کا یہ عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ ایک طاقت ور خالق ہے، وہ پہلےیہ اعضا انسان کو دیتا ہے، اور پھر اپنی مرضی کے مطابق ان کو واپس لے لیتا ہے۔یہ ایک حتمی عمل ہے، جس کو کوئی روکنے والا نہیں۔
انسانی جسم کے اندرہونے والایہ واقعہ اپنے اندر ایک عظیم سبق رکھتا ہے۔آدمی اگر اس عمل پر غور کرے تو وہ بیک وقت دو حقیقتوں کو دریافت کرے گا۔ایک طرف یہ حقیقت کہ یہاں ایک قادرِ مطلق (All Powerful) خدا ہے، اور دوسری طرف یہ حقیقت کہ وہ خود ایک عاجز مطلق (all powerless) مخلوق ہے۔ دینے والا دے تو اس کو ملے گا، اگر دینے والا نہ دےتو اس کو کچھ ملنے والا نہیں۔ یہی وہ دریافت ہے جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔یہ دریافت انسان کو انسان بناتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

دولت پرستی

کلچر کے اعتبار سے دنیا میں بہت سے مذہب پائے جاتے ہیں۔ لیکن نظریاتی حقیقت کے اعتبار سے آج کی دنیا کا مذہب صرف ایک ہے، اور وہ دولت پرستی (money worship)ہے۔ آج تقریبا ہر انسان کا مقصد حیات یہ بن گیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرے۔ آج ہر عورت اور مرد کا واحد کنسرن (sole concern) دولت کا حصول ہے۔اس معاملے میں بظاہر مذہبی انسان اور غیرمذہبی انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
موجودہ زمانے میںسائنسی تحقیقات کے بعد دنیا میں ترقی (development) کا ایک نیا دور آیا ۔مادی ضرورت کی بے شمار نئی چیزیںایجاد ہوئیں۔ اس بعد اس کا کمرشلائزیشن ہوا۔بے شمار نئے نئے آئٹم بازار میں فروخت ہونے لگے۔یہ دیکھ کر ہر آدمی یہ محسوس کرنے لگا کہ اگر میرے پاس پیسہ ہو تو میںہر چیز کو خرید سکتا ہوں، خواہ وہ سوئی اور پنسل ہو یا کار اور ہوائی جہاز۔موجودہ زمانے میں ٹی وی اور اشتہارات نے اس کلچر میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔
یہی کمرشل کلچر ہے، جس کے نتیجے میں ساری دنیا میں منی کلچر (money culture) آگیا۔ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا حریص بن گیا۔ یوپی کا ایک کامیاب وکیل دہلی آیا، وہ دہلی کی ایک پوش کالونی میں ایک گھر لینا چاہتا تھا۔ کسی نے اس سے کہا کہ تم اتنی زیادہ مہنگی کالونی میں کیوں گھر لینا چاہتے ہو۔ اس نے جواب دیا:
I don't want my Mercedes to be parked next to a Santro car.
یعنی میں نہیں چاہتا کہ میری قیمتی کار کسی سستی کار کے پاس کھڑی ہو۔ مذکورہ آدمی کا یہ جملہ آج کے انسان کے مزاج کو بتاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ مزاج ہر عورت اور مرد کے اندر پایا جاتا ہے- کسی کے اندر کم اور کسی کے اندر زیادہ، کوئی اپنی زبان سے اس کا اظہار کردیتا ہے اور کوئی اپنی زبان سے اس کا اظہار نہیں کرتا۔
واپس اوپر جائیں

مغربی تہذیب، مؤید تہذیب

بیسویں صدی کے نصف اول میں کمیونزم کا عروج ہوا۔ اس زمانے میں کمیونسٹ لوگوں نے یہ نظریہ بنایا: جو ہمارا ساتھی نہیں، وہ ہمارا دشمن ہے۔مگر یہ ثنویت (dichotomy) غلط تھی۔ فطرت کے قانون کے مطابق صحیح بات یہ ہے کہ جو ہمارا ساتھی نہیں، وہ ہمارا امکانی موید (potential supporter) ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم علما اور مسلم رہنما بھی اسی غیرفطری سوچ کا شکار ہو گئے۔ حدیث کے مطابق وہ بصیر زمانہ (صحیح ابن حبان: 361) ثابت نہ ہو سکے۔
اس بے خبری کی بنا پر انھوں نے یہ رائے قائم کرلی کہ مغربی تہذیب ، اسلام دشمن تہذیب ہے۔ حالاںکہ البخاری کی ایک روایت (3062) کے مطابق وہ اسلام مؤید تہذیب (supporting civilization) تھی۔
دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں مولانا شبلی نعمانی نے ایک نظم لکھی، جس کا ایک شعر یہ تھا:
کہاں تک لوگے ہم سے انتقامِ فتح ایوبی دکھاؤگے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب تک
آسٹریا کے نومسلم لیوپولڈ اسد نے اپنی کتاب Islam at the Crossroads میں لکھا ہے کہ مسیحی یورپ کے لیے اسلام کے خلاف تعصب ان کا پشتینی روگ بن چکا ہے۔
Their prejudice against Islam is simply an atavistic instinct
شامی عالم الشیخ عبد الرحمٰن حسن حبنکہ المیدانی نے عربی زبان میں سلسلۃ اعداء الاسلام کے تحت کئی کتابیں لکھی ہیں، ان میں سے ایک کتاب یہ ہے: اجنحۃ المکرالثلاثۃ و خوافیھا (التبشیر، الاستشراق، الاستعمار)۔ اس کتاب میں انھوں نے عالمی سطح پرکام کرنے والی تین مسلم مخالف سازشوں کا ذکر کیا ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کردینا چاہتی ہیں۔ وہ تین سازشیں یہ ہیں، تبشیر (Christian Mission) استشراق (Orientalism)، استعمار (Colonialism)۔
یہ باتیں بلاشبہ اندھے پن کی حد تک بے خبری کی باتیں ہیں۔ اصل حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اللہ تعالی نے حالات میں ایسی انقلابی تبدیلیاں کی ہیں ، جس کے نتیجہ میں پورا دور عملاً اسلام کی تائید (support)کا دور بن گیا ہے۔ قدیم زمانے میں جو مساوات (equation) تھی ، وہ حامیانِ حق اور مخالفین حق کے درمیان تھی۔ اب جدید تبدیلیوں کے بعد ایک نئی مساوات (equation) قائم ہوئی ہے، اور وہ ہے حامیان حق اور مؤیدین حق کی مساوات۔
موجودہ زمانے میں جو نئے ظاہرے پیدا ہوئے ہیں، وہ سب کے سب مؤیدین اسلام (supporters of Islam) ہیں ، نہ کہ مخالفِین اسلام— مغربی تہذیب، جمہوریت، کھلاپن (openness)، فکری آزادی، مذہبی ناطرف داری، اقوام متحدہ، سائنسی دریافتیں، صنعتی انقلاب، جدید سیاحت (modern tourism)، کانفرنس کلچر، لائبریری کا ادارہ، وغیرہ۔ سب کے سب اسلام کے لیے عظیم تائیدی مواقع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بشرطیکہ اہل ایمان ان مواقع کو سمجھیں، اور ان کو پرامن منصوبہ (peaceful planning) کے تحت استعمال کریں۔
موجودہ زمانے کے مسلمان ان حقیقتوں سے کیوں بے خبر ہوگئے۔ اس کا سبب ایک بدعت ہے، اور وہ ہے شخصیتوں کو بڑے بڑے لقب (title)دینا۔ جب آپ کسی شخصیت کو بڑا لقب دے دیں تو اس کے بعد سوچنے کا عمل (thinking process) رک جاتا ہے۔ القاب کلچر سے پہلے آدمی کے مائنڈ میں ہمیشہ کاما ہوتا ہے، القاب کلچر کے بعد اس میں فل اسٹاپ لگ جا تا ہے۔
ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ کسی کو ملک الاملاک نہ کہو، یعنی شہنشاہ (emperor) کا لقب نہ دو (صحیح البخاری:6202 )۔ شہنشاہ (emperor) صرف سیاسی لقب کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ لقب کلچر کے معنی میں ہے، یعنی لوگوں کو بڑے بڑے القاب نہ دو۔ افرادکو بڑے بڑے لقب (title) دینا، فکری اعتبار سے ایک ہلاکت خیز طریقہ ہے۔ کسی کو بڑا لقب دینے کے بعد شعوری یا غیر شعوری طور یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس شخص کی بات کو حرف آخر (final word) سمجھ لیتے ہیں۔ یہ ذہن لوگوں کے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) کا خاتمہ کردیتا ہے- اس کے بعد فکری ارتقا کا دروازہ مکمل طور پر بند ہوجاتا ہے۔ یہی بعد کے زمانے میں امت مسلمہ کا حال ہوا۔
مثلا امت میں بعد کے زمانےمیں یہ ہوا کہ ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کا لقب دے دیا گیا، فقہائے اربعہ کو مجتہد ِمطلق کہا جانے لگا- اسی طرح موجودہ زمانے میں حسن البنا کو امام کا لقب دینا، شاہ ولی اللہ کو قائم الزمان قرار دینا، اقبال کو دانائے راز سمجھنا، وغیرہ ۔ لقب دینے کا یہ طریقہ یقینی طور پر ایک بدعت تھا، اور حدیث کے مطابق بدعت سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس لقب کلچر کا یہ نتیجہ ہوا کہ امت سے تخلیقی فکر (creative thinking) کا خاتمہ ہوگیا۔ اس فکری حادثہ کا سب سے برا ظاہرہ یہ تھا کہ موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب اسلام کے لیے عظیم تائید (great support) بن کر ابھری تھی، مگر اپنی ذہنی جمود (intellectual stagnation)کی بنا پر مسلمان اس سے کامل طور پر بے خبر رہے۔ جس مغربی تہذیب کو محسن سمجھ کر اس کا استقبال کرنا تھا، اور اس کے پیدا کردہ مواقع (opportunities)کو اسلام کے حق میں استعمال کرنا تھا، اس کو اپنا دشمن سمجھ کر اس سے غیرضروری طور پر لڑنے لگے۔ اس کے نتیجے میں مزید تباہی کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہوا۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی بے اختیاری

برٹش سائنس داں سر جیمز جینز نے اپنی کتاب پر اسرار کائنات (The Mysterious Universe) میں انسان اور کائنات کے تعلق کے بارےمیں لکھا ہے— ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے بنائی نہیںگئی تھی:
It appears that man has strayed in a world which was not made for him.
مگر زیادہ صحیح بات یہ ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جس کو اس نے خود نہیں بنایا، اور نہ وہ اس دنیا کو کنٹرول کرنے والا ہے۔
It appears that man has strayed in a world which was not made by him, and nor is he its controller.
اس دنیا میں انسان کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ انسان اپنے آپ کو اس دنیا میں ایک زندہ وجود کی حیثیت سے پاتا ہے۔ لیکن یہ وجود ایک عطیہ ہے، اس نے خود اپنے آپ کو وجود نہیں بخشا۔ انسان کو صحت مند جسم چاہئے۔ صحت مند جسم ہوتو وہ بھرپور زندگی گزارتا ہے، لیکن صحت مند جسم اس کے اپنے بس میں نہیں۔ انسان کو وہ تمام چیزیں چاہئیں جن کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ہوتو انسان کامیاب زندگی گزارےگا، لیکن اس سسٹم کو قائم کرنا اس کے اپنے بس میں نہیں۔
انسان کو موافق موسم درکار ہے۔ موافق موسم ہوتو انسان امن و عافیت کے ساتھ زندگی گزارے گا، لیکن موافق موسم کو قائم کرنا انسان کے اختیار میں نہیں۔ انسان اپنی خواہش کے مطابق ابدی زندگی چاہتا ہے، لیکن ہر انسان جو پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے، وہ ایک مقرر وقت پر مر جاتا ہے۔ یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ اپنے آپ پر موت کو وارد ہونے سے روک دے۔ انسان مکمل طور پر ایک ضرورت مند ہستی ہے، لیکن اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وہ مکمل طور پر ایک خارجی طاقت کا محتاج ہے۔
انسانی زندگی کا یہ پہلو بے حد قابلِ غور ہے۔ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے کامل معنوں میں ایک صاحبِ احتیاج مخلوق ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت کو خود پورا کرنے پر قادر نہیں۔ انسان کی زندگی کے یہ دو متضاد پہلو (two contradictory aspects) انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے اس معاملے کی حقیقت کو دریافت کرے، اور اس دریافت کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کا نقشہ بنائے۔
انسان کا تجربہ اس کو بتاتا ہے کہ اس دنیا میں وہ صرف ایک پانے والا (taker) ہے، اور دوسری طرف کوئی ہے جو صرف دینے والا (giver) ہے۔ یہ نسبت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی حقیقت کے بارے میں سوچے، وہ اپنی زندگی کو حقیقت واقعہ کے مطابق بنائے۔ وہ اپنے آپ کو اس مقام پر رکھے جہاں وہ حقیقتاً ہے، اور دوسری ہستی کے لیے اس مقام کا اعتراف کرے جس کا وہ حق دار ہے۔
مختصر الفاظ میں یہ کہ انسان اگر سنجیدگی کے ساتھ اپنے معاملے پر ہر غور کرے گا تو وہ پائے گا کہ وہ خود اس دنیا میں عبد کے مقام پر ہے، اور دوسری ہستی معبود کے مقام پر۔ یہی دریافت انسان کی کامیابی کا اصل راز ہے۔ جو انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اس حقیقت کو دریافت کرلے، وہی انسان، انسان ہے۔ اس کے لیے تمام ابدی کامیابیاں مقدر ہیں۔ اس کے برعکس، جو شخص اس حقیقت کی دریافت میں ناکام رہے، وہ انسان کی صورت میں ایک حیوان ہے۔ اس کے لیے اس دنیا میں ابدی خسران (eternal loss) کے سوا اور کچھ نہیں۔
جو شخص اس حقیقت کو دریافت کرلے، وہ فطری طور پر وہ رسپانس (response) دے گا، جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میںا ٓیاہے: الحمد للہ رب العالمین (الفاتحہ)، یعنی اس بر تر ہستی کا شکر جو سارے عالم کا رب ہے، جو انسان کی تمام کمیوں کی تلافی کرنے والا ہے۔ یہ اعتراف انسان کے اندر وہ انقلاب پیدا کرے گاجب کہ اس کے اندر اپنے رب کے لیے حبّ شدید اور خشیت شدید پیدا ہوجائے۔ یہی وہ فرد ہے جس کو قرآن میںمومن کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی خصوصیت

جنت کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبی سعید الخدری قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:والذی نفس محمد بیدہ، لأحدہم أہدى بمنزلہ فی الجنة منہ بمنزلہ کان فی الدنیا۔ (صحیح البخاری: 6535) یعنی اس ہستی کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، جنت کا ایک شخص جنت میں اپنے گھر کو اس سے زیادہ پہچانے گا، جتنا وہ دنیا میں اپنے گھر کو پہچانتا تھا۔
دنیا میں ہر آدمی اپنا ایک مادی مسکن (physical abode) بناتا ہے، جس میں وہ موت سے قبل کے دورِ حیات میں رہتا ہے۔ موت کے بعد کے دورِ حیات میں ایک مومن اپنے اس گھر میں رہے گا، جو اس نےاپنے اسپریچول مسکن (spiritual abode)کے طور پر بنایا تھا۔
اصل یہ ہے کہ ایک سچا مومن دنیا کی زندگی میں ہر لمحہ ایک اسپریچول لائف (spiritual life) گزارتا ہے۔حقیقتِ حیات کی معرفت ، اپنے خالق سے محبت، خدا کی کتاب کا مطالعہ، رسول اور اصحابِ رسول کی زندگیوں سے سبق لینا، تخلیق میں تدبر اور تفکر، دنیا ئے معانی (world of meanings)میں ہر لمحہ اس کی دریافتیں۔یہ سب چیزیں ایک مومن کی زندگی میں ہر لمحہ ایک اعلی قسم کی ذہنی سرگرمی (intellectual activities) کے طور پر جاری رہتی ہیں۔ ان سرگرمیوں کے دوران ہر مومن اپنا ایک ربانی گھر یا اسپریچول مسکن (spiritual abode) بناتا ہے۔
یہ ربانی گھر دنیا کی زندگی میں ایک ناقابلِ مشاہدہ حقیقت کے طور پر موجود رہتا ہے۔ آخرت میں وہ ایک قابلِ مشاہدہ حقیقت کے طور پر ظاہر ہو جائے گا۔ آخرت میں بننے والی ابدی جنت میں ایک مومن اپنے اس تعمیر کردہ ربانی گھر میں رہے گا۔دنیا میں وہ اس کو فکر کی سطح پر ایک ناقابل مشاہدہ واقعہ کے طور پر جانتا تھا، آخرت میں وہ اس کو مادی سطح پر ایک قابل مشاہدہ واقعہ کی حیثیت سے معلوم کر لے گا، اور فرشتوں کی رہنمائی میں وہ اپنے اِس ابدی گھر میں داخل ہو جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

خبر، معرفت

اسلام میں تدبر اور تفکر (contemplation) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ حتی کہ تدبر کوافضل عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ تدبر سے یقین بڑھتا ہے۔ تدبر سے یہ ہوتا ہے کہ سنی یا پڑھی ہوئی بات خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality) بن جاتی ہے۔
قرآن و حدیث میں جو باتیں بتائی گئی ہیں، ان کی حیثیت گویا خبر کی ہے۔یہ خبر مبنی بر وحی ہے۔ اس خبر سے ہم کو صحیح نقطۂ آغاز (right starting point) ملتا ہے۔ پھر انسان اپنی عقل کو استعمال کر کے اس خبر میں اپنی طرف سے شعوری اضافہ کرتا ہے۔ وہ اس کی گہرائیوں تک پہنچتا ہے۔ وہ اس کی تطبیقی معنویت (applied meaning) کو معلوم کرتا ہے۔ وہ خبر کو عقلی فریم ورک (rational framework) میں ڈھالتا ہے۔ اس طرح خبر اس کے لیے صرف خارجی نوعیت کی خبر نہیں رہتی، بلکہ وہ اس کے لیے داخلی اعتبار سے خود دریافت کردہ معرفت بن جاتی ہے۔
اسی حقیقت کو قرآن میں ازدیادِ ایمان (48:4)کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ایمان پر ایمان کا اضافہ۔اس اضافہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور رسول کی بات کو سن کر اس پر غور کرنا، جو چیز ابتداء ً ایک خبر تھی اس کواپنے لیے خود دریافت کردہ سچائی بنالینا۔ آج کل کی زبان میں اس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ تدبر، ایمان کو ایمان پلس بنا دیتا ہے۔
خبر کو معرفت بنانا اسلام میں عین مطلوب ہے۔ اسی سے تمام ایمانی ترقیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اس سے آدمی کے اندر یقین آتا ہے۔ اس کے اندر صحیح تفکیر (right thinking) پیدا ہوتی ہے۔ اس سے انسان کو وہ خیر کثیر حاصل ہوتا ہے، جس کو قرآن میں حکمت (wisdom) کہا گیا ہے۔ اس سے آدمی اس قابل بن جاتا ہے کہ وہ چیزوں کو نوراللہ (اللہ کی روشنی) میں دیکھے،اور اپنے ایمان و اسلام کو کمال کے درجے میں پہنچادے۔یہی وہ افرادہیں جو آخرت میں جنت الفردوس کے مستحق قرار پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

لا محدود امکانات

قرآن کی سورہ ق میں اہل جنت کا ذکر ہے- اس سلسلے میں قرآن کا ایک بیان یہ ہے: لَہُمْ مَا یَشَاءُونَ فِیہَا وَلَدَیْنَا مَزِیدٌ (50:35) یعنی وہاں ان کے لیے وہ سب ہوگا جو وہ چاہیں۔ اور ہمارے پاس مزید ہے۔
قرآن کی اس آیت میں مزید (more) کا لفظ آیا ہے۔اس مزید کی کوئی حد نہیں- جس طرح اللہ رب العالمین کے کمالات کی کوئی حد نہیں ، اسی طرح اس کے عنایات کی بھی کوئی حد نہیں ہو سکتی۔ مثلاً اگر کچھ لوگ اپنے عمل سے بر تر استحقاق پیدا کریں تو ان کو انعام بھی یقینا بر تر سطح پر دیا جائے گا۔
قرآن میں اہل جنت کے چار گروہوں کا ذکر ہے۔اس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69) یعنی اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ قرآن کی اس آیت میں اہل جنت کے چار گروہوں کاذکر ہے، لیکن مذکورہ آیت کے مطابق اس میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے، یعنی چار گروہوں کے علاوہ ایک پانچویں گروہ کا اضافہ۔ یہ پانچواں گروہ تخلیقی اہل ایمان کا گروہ ہو سکتا ہے:
Paradise of creative believers
یہ وہ خصوصی اہل ایمان ہیں وہ جو خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) پر کھڑے ہوں، جو ذاتی منصوبہ (self-programming) کے تحت دعوت الی اللہ کا کام کریں، جو تخلیقی مواقع (self-created opportunities) کے مطابق خدا کے مشن کو انجام دیں، جو مقتصد کے مقام پر نہ ٹھہریں، بلکہ السابقون کا درجہ حاصل کریں۔ یہ اس قابل ہوں گے کہ وہ آخرت میں جنتِ مزید کے مستحق قرار پائیں ۔
واپس اوپر جائیں

مغفرت کی اصل توبہ

انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں وہ جنت میں داخلہ پائے۔جنت اس کے لیے ہےجس کو اللہ کی مغفرت حاصل ہو۔ مغفرت کے بغیر کوئی انسان جنت میں داخلہ نہیں پا سکتا۔قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مغفرت کی اصل توبہ ہے۔ اور حقیقی توبہ وہ ہے جو توبۂ نصوح (66:8)ہو۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے خالق نے اس کو آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے۔ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جس دنیا میں انسان کو آباد کیا گیا ہے، وہ ایک آزمائش (test) کی دنیا ہے۔اس بنا پربار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے ۔ اس کو مذہب کی اصطلاح میں گناہ (sin) کہا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان خطا کے ارتکاب سے بچ نہیں سکتا، اس لیے کو ئی انسان آئیڈیل معنوں میںصالح العمل بھی نہیں بن سکتا۔
ایسی حالت میں کسی انسان کے لیے جنت کے حصول کی شرط کیا ہے۔ وہ شرط صرف ایک ہے، اور وہ اللہ کی مغفرت (forgiveness)ہے۔جنت کسی بھی انسان کو اپنے عمل کی قیمت کے طور پر نہیں ملے گی، بلکہ اللہ کے انعام کے طور پر ملے گی۔جنت عطیۂ خداوندی کا معاملہ ہے، جنت استحقاقِ انسانی کا معاملہ نہیں۔
ایک حدیثِ رسول میں اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: قال رسول اللہ : لن یدخل أحدا عملہ الجنة، قالوا: ولا أنت یا رسول اللہ؟ قال: لا، ولا أنا، إلا أن یتغمدنی اللہ بفضل ورحمة (صحیح البخاری: 5673)رسول اللہ نے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کو ہر گز اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، کیا آپ بھی، فرمایا: ہاں، میں بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ مجھ کو اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانک لے۔انسان کا ہر عمل ایک محدود عمل ہے، اور جنت ایک لامحدود نعمت، اور کوئی بھی محدود چیز لا محدود کی قیمت نہیں بن سکتی۔
واپس اوپر جائیں

معرفت کی تکمیل

قرآن میں زندگی کی ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَہُمْ یَصْطَرِخُونَ فِیہَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِی کُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَا یَتَذَکَّرُ فِیہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَاءَکُمُ النَّذِیرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ نَصِیرٍ (35:37) اور وہ لوگ اس میں چلائیں گے اے ہمارے رب، ہم کو نکال لے۔ ہم نیک عمل کریں گے ، اس سے مختلف جو ہم کیا کرتے تھے۔ کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ لیتا۔ اور تمھارے پاس ڈرانے والا آیا۔ اب چکھو کہ ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ۔
انسان ایک طاقت ور مخلوق کی حیثیت سے پیدا ہوتا ہے، پھر دھیرے دھیرے وہ بوڑھا ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ مر جاتا ہے۔بڑھاپے کی عمر میں انسان کے اندر ہر قسم کی کمزوری آجاتی ہے۔ انسان کو جوانی کی عمر میں جو قوت (energy) ملی ہوتی ہے، وہ بڑھاپے کی عمر میں اس سے چھن جاتی ہے۔ اس تجربے میں ایک عظیم حکمت چھپی ہوئی ہے۔ اس تجربے کا مقصد یہ ہے کہ انسان یہ جانے کہ جوانی کی عمر میں میرے اندر جو طاقت تھی، وہ میری ذاتی ملکیت (personal property) نہیں تھی۔بلکہ وہ ایک خدائی عطیہ (divine gift) تھی۔ اگر وہ میری ذاتی ملکیت ہوتی تو وہ ہمیشہ میرے ساتھ باقی رہتی۔بلکہ کوئی دینے والا ہے، جس نے پہلے مجھ کو یہ نعمت دی تھی، اور اب اس نے یہ نعمت مجھ سے چھین لی۔بڑھاپے کی عمر ایک تجربہ ہے۔ یہ تجربہ اس لیے ہے کہ انسان اپنے بارے میں اس حقیقت کو دریافت کرے۔ اس حقیقت کی دریافت گویا معرفت کی تکمیل ہے۔ جو آدمی بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر بھی اس حقیقت سے بے خبر رہے، اس سے زیادہ محروم انسان اور کوئی نہیں۔بڑھاپے کا یہ تجربہ ہر بوڑھے انسان کے لیے مقدر ہے۔ البتہ جو انسان دعاؤں میں جیتا ہو، اس کے لیے بڑھاپے کی مشقت کو سہل بنادیا جاتا ہے۔ تاکہ اس کے لیے بڑھاپے کا دَور مصیبت کا دور نہ رہے، بلکہ وہ معرفت کا دَور بن جائے۔ زندگی ایک تجربہ ہے، انسان کو چاہئے کہ وہ ہر تجربے سے مثبت سبق حاصل کرے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا پیغام

قرآن کی تین سورتوں میں یہ آیت آئی ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (3:185) ہرشخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے :
Every human being is bound to taste death
قرآن کا یہ بیان پوری انسانی تاریخ میں ایک واقعہ ثابت ہواہے۔ دولت، طاقت، سیاسی اقتدار، کوئی بھی چیز انسان کو موت سے بچانےوالی نہ بن سکی۔ ہر پیدا ہونے والا انسان ایک مقرر مدت کے بعد لازمی طور پر مرجاتا ہے۔ موت سے بچنا کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہ ہوسکا۔
اگر ایسا ہوتا کہ انسان اتفاقاً پیداہو اور اتفاقاً مرجائے تو کچھ لوگ مرتے، اور کچھ لوگ لمبی مدت تک زندہ رہتے۔لیکن موت کے معاملے میں کسی فرد کا استثنا نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ موت کا معاملہ کوئی اتفاقی معاملہ نہیں ، بلکہ وہ فطرت کی منصوبہ بندی (planning) کا معاملہ ہے۔یہ خالق کا سوچا سمجھا فیصلہ ہے ، وہ بے سبب ہونے والا کوئی واقعہ نہیں۔
موت کا ایک تخلیقی منصوبہ ہونا، مزید یہ ثابت کرتا ہے کہ زندگی اور موت ایک بامقصد ظاہرہ ہے۔ اور جب یہ مان لیا جائے کہ زندگی اور موت کے پیچھے ایک تخلیقی مقصد ہے تو اس کے بعد لازم ہوجاتا ہے کہ انسان اس مقصد کو دریافت کرے، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔اسی میں انسان کی کامیابی چھپی ہوئی ہے۔
موت کا واقعہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا کی تعمیر انسان کا نشانہ نہیں ہو سکتا۔ انسان کا نشانہ صرف وہ چیز ہوسکتی ہے جس میں زندگی اور موت دونوں کی توجیہہ موجود ہو،جس میں زندگی بھی بامعنی نظر آئے اور موت بھی بامعنی۔پیغمبرِ اسلام نے فرمایا : أَکْثِرُوا ذِکْرَ ہَادِمِ اللَّذَّاتِ ، یَعْنِی الْمَوْت (ابن ماجہ: حدیث نمبر 4258) یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو، جو کہ لذات کو ڈھادینے والی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لذاتِ حیات کی بنیاد پر اپنا منصوبہ نہ بناؤ،بلکہ حقائقِ موت کی بنیاد پر اپنا منصوبہ بناؤ۔
واپس اوپر جائیں

منافقانہ کلام

قرآن کی سورہ نساء میں یہود مدینہ کے حوالے سےایک اسلوبِ کلام کا ذکران الفاظ میںکیا گیاہے: وَرَاعِنَا لَیًّا بِأَلْسِنَتِہِمْ(4:46)۔ قرآن کی اس آیت میں یہود کا لفظ قریبی حوالہ (ready reference) کے طور پر ہے۔یہ دراصل ایک انسانی صفت ہے، نہ کہ صرف یہودِ مدینہ کی صفت۔
لیّ لسان کا مطلب ہےتوڑ مروڑ کر بولنا۔عوامی زبان میں اس کو کہتے ہیں گھما پھرا کر بات کہنا۔ انگریزی زبان میںاس کو ٹوسٹ (twist) کر کے بولنا کہا جاتا ہے:
To speak by twisting the words
لیّ لسان یا ٹوسٹ کرکے بولنے کا یہ معاملہ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ تاکہ بظاہر بات بھی کہہ دی جائے لیکن اصل حقیقت چھپی رہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اخبار پر یہ الزام لگایا کہ اس نے حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا:
The newspaper was accused of twisting the facts.
لیّ لسان کی یہ صفت دراصل کمزور شخصیت (weak personality) کی علامت ہے۔ جس کو مذہب کی زبان میں منافقت (hypocrisy) کہا جاتا ہے۔ لیّ لسان کی زبان میں کلام کرنے کا اسلوب کیوں پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نفسیاتی سبب اپنے آپ کو درست سمجھنا (self-righteousness)ہے۔ یہ ایک عام انسانی مزاج ہے کہ وہ اپنے آپ کو اچھا سمجھے، اور غلطی کا الزام دوسرے کے اوپر ڈالتا رہے۔ اسی مزاج کی بنا پر ایسا ہوتا ہےکہ آدمی بات کو اس طرح پیش کرتا ہے جس میںاس کی اپنی ذات صحیح نظر آئے، اور غلطی کی ذمے داری دوسروںکے اوپر چلی جائے۔یہ اسلوبِ کلام پہلے شعوری طور پر آتا ہے، پھر دھیرے دھیرے وہ آدمی کے لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ پہلے جو بات اس نے سوچ کر کہی تھی ، اب وہ عادت کے طور پر کہنے لگتا ہے۔یہ عادت اتنی زیادہ عام ہوجاتی ہے کہ آدمی غیر ضروری طور پر بھی لیّ لسان کے اسلوب میں بولنے لگتا ہے۔یہ منافقت ہے، اور منافقت سے زیادہ بری کوئی چیز انسان کےلیےنہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسلمان خیر ِ امت

امت مسلمہ کو خیر امت کہا گیا ہے۔ یہ خیر باعتبار واقعہ نہیں ہے، بلکہ باعتبارِ امکان ہے۔ اقراری مومن ہونے کی بنا پر مسلمانوں کے اندر خیرکا ایک امکان چھپا ہوا ہے۔ اس امکان کو استعمال کرکے امت کو حقیقی معنوں میں خیر امت بنایا جاسکتا ہے۔
وہ امکان یہ ہے کہ داعی اور امت کے درمیان ایک متفقہ بنیاد (accepted common ground) موجود ہے۔ وہ یہ کہ امت اپنے عقیدہ کے اعتبار سے قرآن کو مستند کلام (authentic word) سمجھتی ہے۔ جو بات قرآن کے حوالے سے کہی جائے، امت اپنے عقیدہ کے اعتبار سے اپنے کو مجبور پائے گی کہ وہ اس کو بطور حقیقت تسلیم کرے اور اس کا اتباع کرے۔
مثال کے طور پر اگر آپ امت کے افراد سے یہ کہیں کہ تم قرآن کو خدا کی کتاب مانتے ہو، اس کی پہلی آیت ہے: الحمد للہ رب العالمین (1:1) ۔ اس آیت کو تم روزانہ بار بار اپنی نمازوں میں دہراتے ہو۔ اس کا تقاضا ہے کہ تم حمد اسپرٹ کو اپنی زندگی میں شامل کرو۔ اگر تم حمد اسپرٹ کو اپنی زندگی میں شامل نہ کرو اور اس کو صرف زبان سے دہراؤ تو قرآن کی تعلیمات کے مطابق یہ اندیشہ ہے کہ تم کو اللہ کی عدالت میں منافق قرار دیا جائے۔
قرآن کی آیت دراصل ایک حقیقت کا اعلان ہے۔ وہ یہ کہ اس عالم کے رب نے دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ آدمی ہر وقت اس پر شکر کا رسپانس (response) دیتا رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی سوچ کی اس طرح تربیت کرو کہ تمھاری زندگی کا ہر تجربہ اور تمھارے آس پاس کا ہر واقعہ تمھارے ذہن میں شکر کا آئٹم بن جائے- تم تھرلنگ (thrilling) شکر میں جینے والے بن جاؤ۔ حمداسپرٹ میں جینا مسلم کی نسبت سے بھی مطلوب ہے، اور غیر مسلم کی نسبت سے بھی۔اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص انسان کا شکر نہ کرے وہ اللہ کا شکر نہیں کرے گا ( من لم یشکر الناس، لم یشکر اللہ عز وجل) مسند احمد: 7504
واپس اوپر جائیں

مسلسل فکری ارتقا

قرآن میں فطرت کے ایک قانون کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: فَأَثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِکَیْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَا أَصَابَکُمْ (3:153)۔ یعنی پھر اللہ نے تم کو غم پر غم دیا تاکہ تم رنجیدہ نہ ہو اس چیز پر جو تم سے کھوئی گئی ہے، اور نہ اس مصیبت پر جو تم پر پڑے۔
ایک غم کے بعد دوسرے غم میں مبتلا کرنے کی حکمت کیا ہے۔وہ یہ ہے کہ جب ایک غم پر کچھ مدت گزرجاتی ہے تو آدمی اس کا خوگر (used to) ہوجاتاہے۔اس طرح وہ غم اس کے لیےفکری مہمیز کی حیثیت سے باقی نہیں رہتا۔ اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ انسان کے اوپر ایک صدمہ کے بعد دوسرا صدمہ ڈالا جائے تاکہ اس کی فکر مسلسل طور پر زندہ (alive)رہے۔ اس کے اندر فکری ارتقا (intellectual development) کا عمل نان اسٹاپ طور پر جاری رہے۔
انسان لامحدود پوٹنشل (potential) کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اس پوٹنشل کو ان فولڈ (unfold)کرنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اس پر صدمہ (shock)کے تجربات گزریں۔ یہ صدمہ بار بار پیش آنا چاہئے، ورنہ انسانی فطرت کے مطابق اس کی تاثیر خبط ہو جائے گی۔صدمہ خود کوئی فکری واقعہ نہیں۔ صدمہ کا رول صرف یہ ہے کہ وہ آدمی کو شاک (shock)پہنچائے۔ اس صدمہ کے اثر سے اپنے آپ یہ ہوتا ہے کہ اس کے پوٹنشل، خود فطرت کے قانون کے تحت اَن فولڈ ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ویسا ہی واقعہ ہے جیسے سیب کے اوپر دباؤ ڈالنے سے اس کا رس نکلنے لگتا ہے، اور اس وقت تک جاری رہتا ہےجب تک دباؤ کا عمل جاری رہے۔ دباؤ کا عمل ختم ہوجائے تو سیب سے رس کا نکلنا بھی بند ہو جائےگا۔
کسی انسان کے لیے سب سے بڑی ضرورت شخصیت کا ارتقا (personality development) ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق شخصیت کا ارتقا ہمیشہ دباؤ (problems and challenges)) کے حالات میں ہوتا ہے، یہ انسان کی ایک فطری ضرورت ہے کہ وہ ہمیشہ دباؤ کے حالات میں رہے تاکہ اس کی شخصیت کا ارتقا غیر منقطع (non-stop)طور پر جاری رہے۔
واپس اوپر جائیں

تقدیر اور تدبیر

Destiny and Free Will
انسان آزاد ہے یا مجبور۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ففٹی ففٹی کا معاملہ ہے۔ انسان ایک اعتبار سے آزاد ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ مجبور ہے۔ اپنی روز مرہ کی زندگی میں ہر عورت اور مرد آزادانہ طور پر اپنا کام کرتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ بار بار محسوس کرتے ہیں کہ ان کی ذات کے باہر بھی کچھ طاقتیں ہیں جن کو نظر انداز کر کے وہ اس دنیا میں اپنا کام نہیں کر سکتے۔
یہ دو طرفہ تقاضے کیا ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ایک ہے خود انسان کی شخصیت، اور دوسری چیز ہے وہ حالات جن کے درمیان کسی آدمی کو اپنا کام کرنا پڑتا ہے۔ اِن حالات کو فطرت کا قائم کیا ہوا انفراسٹرکچر (infrastructure) کہا جاسکتا ہے۔ جہاں تک انسان کی ذات کا تعلق ہے وہ پوری طرح آزاد ہے۔ انسان کو اختیار ہے کہ وہ جس طرح چاہے سوچے، وہ جو بات چاہے بولے، جس رخ پر چاہے اپنی زندگی کا سفر شروع کرے۔ اس اعتبار سے انسان مکمل طور پر آزاد ہے۔
دوسری چیز وہ ہے جس کو انفراسٹرکچر کہا جاسکتا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر مکمل طور پر فطرت کا قائم کیا ہوا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر دنیا میں اپنے آپ قائم ہے۔ انسان کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ اس انفراسٹرکچر کو بدل ڈالے یا اس کو نظر انداز کر کے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
مثال کے طور پر ایک انسان زمین پر چلتا ہے۔ یہ چلنا انسان کی اپنی آزادی کا معاملہ ہے۔ لیکن اس چلنے کے لئے ضرورت ہے کہ آدمی کے قدموں کے نیچے ایک زمین ہو ۔ اس زمین کے اندر قوتِ کشش ہو، اور پھر انسان کے اوپر ہوا کا دباؤ ہو، وغیرہ۔ یہ چیزیں خارجی انفراسٹرکچر کی حیثیت رکھتی ہیں، اور اس خارجی انفراسٹرکچر کے بغیر چلنے کا عمل ممکن نہیں، نہ کسی عورت کے لئے اور نہ کسی مرد کے لئے۔ یہی معاملہ دوسری ان تمام چیزوں کا ہے جن کے درمیان انسان اپنا عمل کرتا ہے۔
اسی طرح انسان سانس لیتا ہے۔ سانس لینا یا نہ لینا انسان کے اپنے اختیار کی بات ہے۔ لیکن درست طور پر سانس لینے کے لئے ضروری ہے کہ باہر کی دنیا میں آکسیجن کی سپلائی کا نظام موجود ہو۔ آکسیجن کی مسلسل سپلائی کے بغیر کوئی آدمی سانس نہیں لے سکتا۔ جب کہ سانس کے بغیر انسان کے لئے اس دنیا میں زندہ رہنا ممکن نہیں۔
یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان دو طرفہ تقاضوں کے درمیان ہے۔ ایک اعتبار سے وہ آزاد ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ مجبور ہے۔ اپنے ارادے کے استعمال کے اعتبار سے وہ پوری طرح آزاد ہے۔ لیکن اس اعتبار سے وہ مجبور ہے کہ اپنے ارادے کا آزادانہ استعمال وہ خالق کے مقرر کیے ہوئے انفراسٹرکچر کے بغیر نہیں کر سکتا۔جبر و اختیار کی اس درمیانی صورتِ حال کو علم العقائد میں وَسَطِیّہ کہا جاتا ہے۔ یہی وسطیہ کا نظریہ اس معاملے میں صحیح نظریہ ہے۔
تقدیر اور تدبیر کی بحث بہت پرانی ہے۔ قدیم فلاسفہ نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے، اور بعد کے زمانے میں بھی اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ مگر اس موضوع پر لوگوں نے جوکچھ لکھا ہے اس کو پڑھ کر قاری کو کنفیوزن کے سوا کچھ اور نہیں ملتا۔ آدمی اس مسئلے کا واضح جواب چاہتا ہے۔ لیکن اس کو موجودہ لٹریچر میں اس کا واضح جواب نہیں ملتا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ عام طور پر کسی ایک پہلو کی طرف جھک جاتے ہیں۔ وہ سارے معاملے کو بھلا کر تقدیر کا مسئلہ سمجھ لیتے ہیں یا تدبیر کا۔ مگر اصل حقیقت کے اعتبار سے یہ یک طرفہ سوچ درست نہیں۔ یہ لوگ جب اس معاملے کو تقدیر کا مسئلہ بتا کر اس کی وضاحت کرتے ہیں تو قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ تدبیر کا پہلو اس میں نظر انداز ہوگیا ہے۔ اسی طرح جو لوگ تدبیر کو اصل قرار دے کر اس پر بحث کرتے ہیں تو قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ اس میں تقدیر کے پہلو کی رعایت موجود نہیں۔ یہی چیز ہے جو قاری کے لیے کنفیوزن کا سبب بن جاتی ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ مسئلہ تقدیر اور تدبیر دونوں کے درمیان کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ دونوں پہلوؤں کو لے کر غور کریں تو کنفیوزن ختم ہوجائے گا۔ اور آپ اس مسئلے کے بارے میں یقینی جواب تک پہنچ جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

شکر اور ناشکری

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک غزوہ پیش آیا جس کو غزوۂ حنین کہا جاتا ہے- اس غزوہ میں کافی بھیڑ بکری غنیمت کی صورت میں حاصل ہوئیں- رسول اللہ نے غنیمت کا سامان مہاجرین میں تقسیم کردیا اور انصار کو کچھ نہیں دیا(ولم یعط الانصار شیئا)۔ اس واقعہ کو لے کر کچھ انصار کے درمیان شکایت پیداہوئی- اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےانصار کے لوگوں کو جمع کرکے ایک تقریر کی- آپ نے فرمایا کہ اے انصار، کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکری لے جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے گھروں کو لے جاؤ ( أترضون أن یذہب الناس بالشاة والبعیر، وتذہبون بالنبی إلى رحالکم)صحیح البخاری: 4330 -
اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ تھا کہ دوسروں کو اگر میں نے بھیڑ بکری دی ہے تو تم کو تو میں نے خود اپنے آپ کو دے دیا ہے-
یہ انسان کی عام کمزوری ہے کہ وہ اپنے ملے ہوئے کو نہیں دیکھ پاتا اور دوسرے کو جو کچھ ملے وہ اس کو بہت زیادہ نظر آتا ہے- فطرت کے قانون کے مطابق ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ملی ہوئی چیز بظاہر زیادہ ہوتی ہے، اور نہ ملی ہوئی چیز بظاہر کم- ایسی حالت میں مذکورہ قسم کا مزاج بے حد خطرناک ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کے اندر سے شکر کا جذبہ نکل جائے گا، وہ ناشکری میں جینے لگے گا- اور یہ نقصان بلاشبہہ تمام نقصانات سے زیادہ ہے- جو چیز آدمی کے اندر ناشکری پیدا کرے اس کے غلط ہونے میں کوئی شک نہیں-
دین میں سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا شکر گزار بندہ بنے۔ اس کے صبح و شام شکر کی نفسیات میں بسر ہوتے ہوں۔ لیکن ضروری ہے کہ آدمی اس معاملے میں اپنے شکر کی حفاظت کرے۔ شکر کی حفاظت کرنے سے شکر باقی رہے گا، اور حفاظت نہ کرنے سے شکر کا احساس آدمی کے اندر سے رخصت ہوجائے گا۔ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے ، جب کہ آدمی ہر لمحہ اپنا نگراں بنا رہے۔
واپس اوپر جائیں

نیا دور

لمبے تاریخی عمل (historical process)کے نتیجے میںدنیا کے اندر ایک نیا دور آیا ہے۔ بیسویں صدی میں یہ دور اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے، اور اب اکیسویں صدی میں اس کا سفر جاری ہے۔ اس دور کا ایک انقلابی نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس نے تاریخ میں پہلی بار مساوات (equation) کو بدل دیا ہے۔ پچھلے ہزاروں سال سے دنیا میں جو مساوات قائم تھی ، وہ پرو مذہب اور اینٹی مذہب کی مساوات تھی۔اب دنیا میں ایک نئی مساوات قائم ہوئی ہے، جو پرو مذہب اور موافقِ مذہب کے اصول پر قائم ہے۔
مساوات (equation)کی یہ تبدیلی ایک عالمی اصول (universal norm)کا نتیجہ ہے۔ وہ یہ کہ نئے زمانہ نے قوموں کے اتفاق رائےسے یہ کیا کہ پرامن اختلاف رائے(peaceful dissent)کو انسان کا مطلق حق (absolute right) قرار دے دیا ۔اس عالمی اصول کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی کو مطلق طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے کو یا اپنے نقطۂ نظر کو دنیا میں کہیں بھی بلا روک ٹوک پیش کرے۔دنیا میں کوئی بھی اس کو اس عمل سے روکنے والانہیں۔وہ ہر اجتماعی ادارہ کو اپنے نظریہ کی تبلیغ کے لیے استعمال کرے، مثلا کانفرنس ، سیمینار، ورک شاپ، ایگزبیشن، ایر پورٹ، لائبریری، پارک،وغیرہ- جہاں کہیں بھی چند انسان ہیں، وہاں اس کو ناقابلِ تنسیخ حق حاصل ہےکہ وہ جس بات کو سچ سمجھتا ہے، اس کو وہ لوگوں کے سامنے پیش کرے۔
اظہارِ رائے کے اس مطلق حق کی صرف ایک ہی شرط ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی کبھی دوسروں کے لیے جارح (aggressor) نہ بنے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کی پرامن دعوت اسی طرح ہر انسان کا حق ہے، جس طرح ہوا میں سانس لینا، یا سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھانا۔ یہ ایک انوکھی نعمت ہے جو موجودہ زمانے میں حق کے داعیوں کو حاصل ہوئی ہے۔موجودہ زمانے میں جولوگ اسلام کے نام پر تشدد کلچر چلارہے ہیں، وہ صرف اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ دور جدید کے اس پہلوسے کامل طور پر بے خبر ہیں۔ اگر وہ دورِ جدید کو جانتے تو وہ یہ کہتے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم گن سمندروں میں ڈال دیں، اوربم کے بجائے قرآن اور اسلامی کتابوں کو لے کر ساری دنیا میں پھیل جائیں۔
واپس اوپر جائیں

شعورِ مقصدیت

ایک ریسرچ کے مطابق بتایا گیا ہے کہ مضبوط شعورِ مقصدیت (strong sense of purpose) کسی آدمی کے لیے بہتر صحت کا راز ہے۔ جو آدمی مضبوط شعورِ مقصدیت کا حامل ہو، وہ دل کی بیماریوں سے محفوظ رہے گا۔وہ ٹینشن کا شکار نہیں ہوگا۔ اسی طرح وہ دوسرے جسمانی عوارض سے بچا رہے گا۔
اصولی طور پر یہ بات درست ہے۔ لیکن اس مسئلے کا براہ راست تعلق اس بات سے ہے کہ آدمی نے کس چیز کو اپنا مقصد بنایا ہے۔ اگر اس نے مادی یا دنیوی چیزوں کے حصول کو اپنا مقصد بنایا ہے تو اس کو یہ فائدہ صرف جزئی طور پر حاصل ہوگا۔ اپنی زندگی کے آغاز میں وہ مضبوط شعورِ مقصدیت کا حامل ہوگا، لیکن زندگی کے آخر میں وہ مایوسی کا شکار ہوجائے گا۔
مضبوط شعورِ مقصدیت کے اصول کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ آدمی خدا اور جنت کو اپنا مقصد بنائے۔ایسا آدمی کبھی مایوسی کا شکار نہ ہوگا۔وہ ہمیشہ یقین کی حالت میں زندہ رہے گا۔ابدی طور پر مضبوط شعورِ مقصدیت کا سر چشمہ صرف اللہ رب العالمین ہے:
Living life with a strong sense of purpose may lower your risk for early death, heart attack or stroke, a new study has claimed. The analysis defined purpose in life as a sense of meaning and direction, and a feeling that life is worth living. Previous research has linked purpose to psychological health and well-being, but the new analysis found that a high sense of purpose is associated with a 23% reduction in death from all causes and a 19% reduced risk of heart attack, stroke, or the need for coronary artery bypass surgery (CABG) or a cardiac stenting procedure. (The Times of India , Delhi : March 09, 2015)
واپس اوپر جائیں

گھر کا ماحول

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ بتایا کہ ان کا معمول ہے کہ وہ روزانہ صبح کو اپنے گھر والوں کو ایک جگہ بٹھاتے ہیں، اور کسی دینی کتاب کا ایک حصہ پڑھ کر ان کوسناتے ہیں۔مجھے بہت سے لوگوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اس طریقے کو اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرکے وہ اپنا دینی فریضہ ادا کررہے ہیں۔یہ طریقہ بلاشبہ انسان کے بارے میں کمتر اندازہ کی حیثیت رکھتا ہے۔انسان اس طرح کی رسمی باتوں سے اپنا ذہن نہیں بدلتا۔
لیکن اس طرح گھر والوں کو دینی کتاب پڑھ کر سنانا اصل ذمہ داری کا صرف نصف ثانی ہے۔ اصل ذمے داری کی نسبت سے نصف اول یہ ہے کہ گھر کے اندر موافقِ دین ماحول بنایا جائے۔اگر گھر کے اندر موافق ماحول نہ ہوتو اس طرح کتاب پڑھ کر سنانے سے مطلوب نتیجہ حاصل نہ ہوگا۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے گھر میں پوری طرح دنیادارانہ ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر دوسروں کے خلاف شکایت کی باتیں ہوتی ہیں۔ گھر کے اندر منفی خبروں کا چرچا رہتا ہے۔ گھر کے اندر انسانی خیرخواہی کی باتیں نہیں ہوتیں۔بلکہ اپنے لوگوں کو اپنا ، اور دوسرے لوگوں کو غیر سمجھنے کا ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر جن باتوں کا چرچا ہوتا ہے، وہ ہیں —کھانا کپڑا، روپیہ پیسہ،بزنس اور جاب، وغیرہ۔
گھر میں دینی کتاب پڑھ کر سنانا بلاشبہ ایک اچھا کام ہے۔ لیکن اس کو موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ گھر کے اندر اس کے موافق ماحول موجود ہو۔ کتاب پڑھنے سے پہلے، اور کتاب پڑھنے کے بعد گھر کے اندر وہی ماحول ہو جو کتاب میں بتایا گیا ہے۔ کسی گھر کو دین دار گھر بنانا اسی وقت ممکن ہے، جب کہ اس کو پوری سنجیدگی کے ساتھ انجام دیا جائے۔
گھر کا ماحول موافقِ دین بنائے بغیر گھر کے اندر دینی کتاب پڑھ کر سنانا گویا ہاتھی کے دم میں پتنگ باندھنا ہے۔ اس طرح کے کسی عمل سے گھر کے سرپرستوں کی ذمے داری ادا نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں

ادب، بے ادبی

قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جو بات کہو قولِ کریم کے ساتھ کہو (17:23)۔ قولِ کریم کا مطلب باادب انداز (gentle speech ) ہے۔انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ بات کو برا نہیں مانتا، البتہ وہ بے ادبی کو برا مانتا ہے۔اگر باادب انداز میں بات کہی جائے تو ہر عورت اور مرد بات کو سن لیں گے، وہ اس پر ناراض نہیں ہوں گے۔آدمی خواہ بات کو مانے یا نہ مانے لیکن وہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ اس سے جو بات کہی جائے، اس میں اخلاقی آداب کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ فلاں بات کہو اور فلاں بات نہ کہو۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جس بات کو تم واقعۃً درست سمجھتے ہو ، اس کو تم دوسروں سے کہہ سکتے ہو۔ البتہ بات کو کہنے کا انداز اخلاقی اعتبار سے مناسب ہونا چاہئے۔جو انداز اخلاقی اعتبار سے نا مناسب ہو، اس میں بات کہناآدابِ نصیحت کے خلاف ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے جب پیغمبر موسیٰ کو حکم دیا کہ تم اپنے زمانے کے بادشاہ فرعون کے پاس جاؤ اور اس کو توحید کا پیغام پہنچاؤ تو اس وقت موسی کو یہ ہدایت بھی دی گئی : فَقُولَا لَہُ قَوْلًا لَیِّنًا لَعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَى ( 20:44) یعنی پس اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔فرعون معلوم طور پر ایک سرکش بادشاہ تھا۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب خواہ سرکش ہو یا غیر سرکش ، خواہ وہ عادل ہو یا وہ ظالم ہو، ہر حال میں اس سے نرم گفتاری کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔گفتگو میں ہمیشہ یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ جو بات کہی جائے، وہ دلیل کے ساتھ کہی جائے۔ عیب زنی اور الزام تراشی کا انداز ہر گز اختیار نہ کیا جائے۔باادب طرزِ کلام کا یہ اصول خاندانی زندگی میں بھی ضروری ہے، اور عمومی طور پر سماجی زندگی میں بھی۔بات کو اگر بے ادبی کے انداز میں کہا جائے تو انسان کے اندر جوابی نفسیات جاگ پڑتی ہے، اور گفتگو کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ آدمی کو ہمیشہ ایسا کرنا چاہئے کہ ایسے انداز میں اپنی بات کہے جو مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی ہو، جو اس کو سوچنے پر مجبور کر دے۔اسی اسلوب کو قرآن میں ناصحانہ اسلوب یاخیرخواہانہ اسلوب کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

توسیع، استحکام

کسی مشن کے ہمیشہ دو تقاضے ہوتے ہیں۔ ایک، اس کا استحکام (consolidation)، اور دوسرا، اس کی توسیع (expansion)۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اسلامی مشن کا جو طریقہ معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ استحکام پر براہِ راست فوکس دیا جائے۔ مشن جب اپنی جگہ پر مستحکم ہوجائے تو اس کے بعد لازمی طور پر اس کی توسیع کا عمل (process) شروع ہوجاتا ہے۔
مشن کےاستحکام کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرکزی مقام پر افراد پر عمل کرکےایک ٹیم بنائی جائے۔ پھر اس ٹیم کے ذریعے مشن دوسرے علاقوں میں پھیلے۔مشن اگر ایک مرکزی مقام پر مستحکم ہوجائے تو اس کے بعد مشن کی توسیع اپنے آپ ہوتی ہے۔اس کے برعکس اگر توسیع پر زیادہ دھیان دیا جائےتو دونوں ہی کام مؤثر طور پر انجام نہ پائیں گے۔
استحکام کا کام ہمیشہ کسی مقام کو مرکزی حیثیت دے کر انجام پاتا ہے۔جب کہ توسیع کے معاملے میں یہ ہوتا ہے کہ زیادہ بڑے رقبے میں پھیلاؤ کو اہمیت دی جانے لگتی ہے۔استحکام کے نتیجے میں افراد بنتے ہیں، اور توسیع کے طریقے میں عمومی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ مشن میں دونوں چیزوں کی اہمیت ہے۔لیکن مشن میں استحکام کو پہلی ترجیح حاصل ہے۔
مشن کا معاملہ درخت جیسا معاملہ ہے۔ درخت یہ کرتا ہے کہ پہلے وہ اپنے مقام پر اپنی جڑیں پھیلاتا ہے، جب اس کی جڑیں مقامی طور پر جم جاتی ہیں تو درخت مستحکم انداز میں بڑھنا شروع ہوتا ہے۔ تو اس میںشاخیں اور پتیاں نکلتی ہیں، یہاں تک کہ وہ ایک بڑا درخت بن جاتا ہے۔مشن پہلے اپنے قریبی دائرے میں اپنی جڑیں مستحکم کرتا ہے۔ اس طرح مشن اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے قریبی مقام پر خود اپنی طاقت سے کھڑا ہو جائے۔ جب مشن کو اس طرح مرکزی استحکام حاصل ہو جائے تو اس کے بعد فطری قانون کے مطابق چاروں طرف اس کا پھیلاؤ شروع ہوجاتا، یہی وہ بات ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے: أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ (14:24)
واپس اوپر جائیں

امیدکی دنیا

برٹش سائنس داں نیوٹن کو جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔نیوٹن 1643 میں پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش سے تین مہینے پہلے اس کے باپ کا انتقال ہوچکا تھا۔ بعد کو اس کی ماںدوسری شادی کرکے اپنے نئے شوہر کے پاس چلی گئی۔ اس طرح نیوٹن بچپن ہی میں والدین کی محبت سےعملا محروم ہوگیا۔نیوٹن کے ایک سوانح نگار نے اس کی بابت یہ الفاظ لکھے ہیں:
Basically treated as an orphan, Isaac did not have a happy childhood.
اپنے حالات کی بنا پر نیوٹن کے لیے اس کی خارجی دنیا اس کی دلچسپی کا مرکز نہ بن سکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ذہن کی دنیا میں رہنے لگا۔وہ بہت زیادہ سوچنے والا انسان بن گیا۔وہ ہر وقت کائنات کی حقیقت کے بارے میں غور کرنے لگا۔
بچپن کے زمانے میں نیوٹن کی اس حالت کو دیکھ کرلوگ یہ کہنے لگے کہ نیوٹن ایک کھویا ہوا (woolgatherer) انسان ہے۔بعد کو معلوم ہوا کہ نیوٹن کھویا ہوا انسان نہ تھا، بلکہ اس کے حالات نے اس کو ایک ہمہ وقت سوچنے والا انسان بنادیا تھا۔ اس طرح وہ اس قابل ہوگیاکہ وہ اپنے ذہنی امکان (intellectual potential)کو زیادہ سے زیادہ استعمال کر سکے۔ وہ اپنے دائمی تدبر کی بنا پر کائنات کی ان حقیقتوں کو دریافت کر لے جو اس سے پہلے انسان کے لیے لا معلوم حقیقتیں بنی ہوئی تھیں۔
یہ نیوٹن کی کہانی نہیں ہے، بلکہ یہ نیوٹن کے واقعے کی صورت میں فطرت کی کہانی ہے۔ یہ واقعہ بتارہا ہے کہ انسان کے ساتھ جو تجربہ گزرتا ہے، خواہ بظاہر وہ ایک منفی تجربہ ہو لیکن اس کے اندر ہمیشہ ایک مثبت پہلو موجود ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ دنیا میں ہر مائنس پوائنٹ کے ساتھ ہمیشہ ایک پلس پوائنٹ موجود ہو۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنے اس پلس پوائنٹ کو دریافت کرے، اور اس کو استعمال کرکے وہ ترقی کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا امید کی دنیا ہے، نہ کہ ناامیدی کی دنیا۔اس حقیقت کو جاننا بلاشبہ کسی انسان کے لیےسب سے بڑی دانش مندی ہے۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کی تعمیر

ہر انسان جو اس دنیا میں آتا ہے، وہ خالق کی طرف سے ایک منفرد صلاحیت (unique quality) لے کر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہر انسان ایک غیر معمولی دماغ (mind)لے کر آتا ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہو تا ہے کہ وہ اپنے دماغ کو استعمال کرکے اپنی صلاحیت کو دریافت کرے، اور دانش مندانہ پلاننگ کے تحت اپنے پوٹنشل (potential)کو واقعہ (actual) بنائے۔ہر آدمی کامیابی کے ساتھ اس کو انجام دے سکتا ہے، بشرطیکہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے ذہن کو استعمال کرے۔
اس معاملہ کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو تائیدی نظام (supporting system)کہا جا سکتا ہے۔ فطرت کے مطابق یہ ہونا چاہئے کہ سماج کا نظام مکمل طور پر میرٹ (merit)کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔ مبنی بر میرٹ سماج (merit based society)کے اندر فطری طور پر ایک موافق عمل قائم ہو جاتاہے، جس کو آٹو میٹک چینلائزیشن (automatic channelization) کہا جاسکتا ہے۔ اس عمل (process)کے دوران اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ ہر آدمی آخر کار اپنی اس استثنائی خصوصیت کو دریافت کر لیتا ہے، جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا تھا۔
اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر اس بات کا طاقت ور محرک پا یا جاتا ہے کہ وہ اپنے سماج میں امتیازی درجہ حاصل کرے۔ یہ داخلی اسپرٹ اپنا کام کرتی ہے۔ آدمی نے اگر غلط چائس (choice) لے لیا ہے تو وہ اس کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنے چائس کو بدلے، اور اس چائس کو لے جس میں وہ اکسل (excel)کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس داخلی اسپرٹ کے ساتھ سماج کے اندر مبنی بر میرٹ نظام شامل ہو جائے تو اس کے بعد لازمی طور پر ایسا ہو تا ہے کہ ہر آدمی اپنے اس خصوصی رول کو پا لیتا ہے، جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا تھا —یہی زندگی کی تعمیرکافطری طریقہ ہے۔ کسی خود ساختہ طریقے سے اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا، خواہ بظاہر وہ کتنا ہی زیادہ خوش نما معلوم ہوتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 233

1- سویڈش ریسرچ اسکالر مسٹر متھیاس (Mattias Dahlkvist) نے صدر اسلامی مرکز کا مفصل انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا، اسلام کی سیاسی تعبیر، اور موجودہ مسلمان ۔ یہ انٹرویو دسمبر 2015کی 6اور 9 تاریخ کو ہوا۔ مسٹر متھیاس سویڈن کی امیاس یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں، اور اس سے پہلے بھی صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لے چکے ہیں۔
2- ملک کے مختلف حصوں میں بک فیرلگے، مثلا الٰہ آباد، کولکاتا، چنئی، حیدرآباد، بنگلور، دہلی وغیرہ۔ ان تمام بک فئر میںسی پی ایس کے علاقائی چیپٹرس نےاپنا اسٹال لگایا تھا۔ مسلم اور نان مسلم دونوں قارئین کا رسپانس بہت ہی اچھا رہا۔ ٹی وی چینل، مثلاً زی سلام، ای ٹی وی اردو، دور درشن، وغیرہ نے اسٹال پر آکر انٹرویو لیا۔ ایک وزیٹر نے یہ کہا کہ میں بہت دنوں سے قرآن کی تلاش میں تھا، ایک نے کہا کہ میں قرآن پڑھنا چاہتا ہوں، ایک نے کہا کہ سب کو قرآن پڑھنا چاہئے، وغیرہ۔
3- سینٹر فار پیس بنگلور نے26-28دسمبر 2014 کو ایک ورکشاپ منعقد کیا تھا۔ جس میں بنگلورکے سی پی ایس مشن کے تحت کام کرنے والے داعیوں نے حصہ لیا۔ اس ورکشاپ کا موضوع تھا، Peace and Positivity۔تمام شریک ہونے والوں نے اس کو اپنے لیے فائدہ مند بتایا۔
4- روشنی آئی بینک (eye bank) سہارن پور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اشوک جین نے 28 دسمبر 2014 کو ایک پروگرام آرگنائز کیا تھا۔ پروگرام کے آخر میں شریک ہونے والے تمام سرجن اورہاسپٹل میں موجودتمام مریضوں کو ہندی ترجمۂ قرآن اور سی پی ایس کا دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ یہ لٹریچر سی پی ایس کے سہارن پور چیپٹر نے مہیا کیا تھا۔
5- کوالالمپور، ملیشیا میں صبا اسلامک میڈیا نےاسٹریٹ دعوہ کا کام شروع کیا ہے۔ ملیشیا کے سابق وزیراعظم ماثر محمد نے 8 جنوری 2015 کواس پروگرام کا افتتاح کیا۔ اس پروگرام کا ماٹو یہ ہے: One Soul One Quran۔ اس پروگرام کے تحت صدر اسلامی مرکز کا انگلش ترجمۂ قرآن ملیشیا آنے والے ٹورسٹوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ اور تقریبا 80 یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس اس دعوتی کام میں حصہ لیں گے۔
6- 9 جنوری 2015 کو جرمنی کے ایک ڈیلی گیشن کو صدر اسلامی مرکز نے خطاب کیا۔ اس کے علاوہ سی پی ایس دہلی کے ممبران نے بھی خطاب کیا۔ خطاب کے موضوعات تھے، اسلام اور امن، جہاد، اسلام میں عورت، سماجی زندگی، وغیرہ۔ آخر میں سوال و جواب بھی ہوا۔ وفد کے تمام اراکین کو قرآن کا جرمن ترجمہ اور دیگر جرمن کتابیں دی گئیں۔
7- 25-26جنوری2015 کو ممبئی ٹیم نے کولکاتا کا دعوتی دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد مشن کے کام کو آگے بڑھانا اور دوسرے علاقوں میں مشن کے تحت کام کر رہے لوگوں کو اس طرح کے دعوتی دورے کی ترغیب دینا تھا۔ اس دعوتی و تربیتی پروگرام میں ممبئی ٹیم، کولکاتا ٹیم، ہاوڑہ ٹیم، دارجلنگ ٹیم، بہار ٹیم اورتامل ناڈوٹیم کے نمائندے شریک ہوئے تھے۔
8- 22 فروری 2015 کو سہارن پور جن منچ اور سی پی ایس سہارن پور نے مل کر انٹر کالج کے طلبہ کے لیے ایک مقابلہ کا پروگرام منعقد کیا تھا۔ جس میں اول نمبر آنے والے 150طلبہ کو صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن دیاگیا۔
9- 23 فروری 2015 کو سی پی ایس چنئی کی ایک ٹیم نے سیکریڈ ہارٹ کالج، چنئی کے ایم اے (فلسفہ) کے طلبہ کے سامنے اسلام اورسی پی ایس مشن کے موضوع پر لکچر دیا۔ تمام سامعین نے اس کو بہت پسند کیا۔
10- 25فروری 2015 کو سی پی ایس کی چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم نے آئی آئی ٹی دہلی میں ’’اسلام : مذہبِ امن‘‘ کے موضوع پر ایک پاور پائنٹ پرزنٹیشن دیا۔ لکچر کے بعد سوال و جواب ہوا۔پروگرام کے آخر میں قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر تمام سامعین کو بطور گفٹ دیا گیا، جسے تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ذیل میں ایک طالبہ کا تاثر نقل کیا جارہا ہے جو اس نے لکچر سننے کے بعد دیا ہے:
I never realized how important was the area in which the Centre for Peace and Spirituality was working till the time I attended the talk. After listening to the talk, it seemed as if Islam is one of the most sacred and peaceful religions of the world. It becomes difficult to accept the fact that people who indulge in violence call themselves followers of this religion. I really appreciate the work being done by CPS and its efforts in making people more humane in their approach towards fellow human beings. I was touched by the content of the talk and look forward to learning more in the area. (Shilpa Gahlot, IIT Delhi)
11- بڑی خوشی کی بات ہے کہ صدر اسلامی مرکز کی کتاب امن عالم کا انگریزی ترجمہ ہوچکا ہے۔ انگریزی ورزن کا نام ہے: Islam and World Peace۔ اس کے علاوہ ایک کتابچہ، اسلامی جہاد شائع ہوچکا ہے۔
12- جرمنی کے ایک پبلشر نے صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کو شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے، یہاں ان کا پیغام نقل کیا جارہا ہے:
I am enthused with Maulana’s books, and I think it is a great pity that they have not been translated into the German language yet. That is a service I would like to render. I would be glad if you could support me in my endeavor to introduce the books of this outstanding scholar to the German-speaking audience. I am sure the people in Germany would derive much benefit from them. May Allah reward the Maulana abundantly. )Mohammed Ardouz, Iqra Publications, Koln, Germany)
13- ذیل میں کچھ دعوتی تاثرات نقل کیے جارہے ہیں:
— میں ایک گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے کام کررہی تھی- ۱۹۹۲سے الرسالہ کی قاری ہوں جس زمانہ میں ،میں الرسالہ سے متعارف ہوئی اس زمانہ میں میں بہت ہی زیادہ اسٹریس (stress)اور گھریلو مسائل سے گزررہی تھی۔ اگر میں اس زمانہ میں الرسالہ سے متعارف نہ ہوتی اور مجھے صبر والی تعلیمات اور اس کا صحیح explanationنہ ملاہوتا تو میں نفسیاتی طور مکمل ٹوٹ گئی ہوتی ،میں اور میری فیملی مکمل طور سے بکھر کر رہ جاتی۔ الرسالہ نے مجھے اللہ سے جوڑا ،میرے اندر صبر ،قناعت ،توکل، شکر جیسی صفات پیدا کیا ،حالات کا تجزیہ کرکے اس کی مناسبت سے اس کا صحیح رسپانس دینے کی صلاحیت پیدا کی ۔الرسالہ کے بعد ہی میرے اندر قرآن کے معانی کو جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے اپنی لڑکی کی شادی میں قرآن کا ڈسٹریبیوشن بھی کیا ،اور مسلسل قرآن ساتھ میں رکھتی ہوں تاکی کوئی بھی دعوتی موقعہ ہاتھ سے نہ جائے ۔ریٹائر منٹ کے بعد میرا قرآن سے تعلق مزید بڑھ گیا ہے،ابcpsکی اکٹیو ممبر کی حیثیت سے کام کرنا چاہتی ہوں۔ میری دعا ہے کہ اللہ مجھے القرآن مشن کا ایک حصہ بنا دے ،اور اسلام کے پیغام امن کو عام کرنے کی توفیق بخشے (آمین) رحمت النساء،بنگلور
— انڈیا کے ایک بڑےمسلم ادارے نے الرسالہ کے تئیں پسندید گی کا ااظہار کرتے ہوئے یہ خط لکھا ہے:
محترم جناب ایڈیٹر صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ کا مجلہ ـالرسالہ اپنی تمام تر خصوصیتوں اور عمدہ طباعت کے ساتھ ادارے کی لائبریری کو پابندی سے موصول ہو رہا ہے۔ یہ مجلہ علمی و تحقیقی اور حسن انتخاب کے لحاظ سے طلبہ و اساتذہ کے لئے یکساں طور پر مفید ہے۔ اللہ آپ کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ محترم، اس مجلہ سے کم و بیش چار ہزار طلبہ و طالبات، اساتذہ و معلمات استفادہ کرتے رہے ہیں، اور عوام وخواص کی ایک بڑی تعداد نے بھی اس کو کافی پسند کیا ہے۔والسلام۔
— Feedback from a reader of the Spirit of Islam: The January 2015 issue of the Spirit of Islam carried valuable information for readers. I liked the article ‘Starting from Scratch’. The words, “Poverty is not deprivation, rather it is a challenge. Deprivation is a great motivator for achievement’’, are indeed noteworthy. Kindly spread ahimsa, love and affection through your journal. The write-up Get Rid of Depression will be useful to many. Promotion of global peace is the need of the hour. Albeit the title of your magazine, the articles are of universal significance. I wish you all the best on the occasion of the beginning of your third year with this issue. I congratulate the editorial committee for the efforts they take to publish the magazine. (S. Balasubramanian, Tamil Nadu)
— I give the Quran and What is Islam booklet to many non-Muslims such as doctors, professors and other people. I always put some books on Islam in my bag when I am going to school or somewhere away from home.This way I am able to give books to many people including new friends I meet. (Adama Ceesay, Taiwan)
واپس اوپر جائیں