Pages

Saturday, 2 July 2016

Al Risala | July 2016 (الرسالہ،جولائی)

4

-روزہ اور قرآن

5

- شبِ قدر کس کے لیے

6

- افضل انسان

7

- امانت کیا ہے

8

- مغفرتِ خداوندی

9

- مشیر کی اہمیت

10

- مقصد شریعت

11

- قرآن ایمپائر

12

- نصرت کا قانون

13

- بیماری کا مثبت پہلو

15

- شیطان سے بچیے

16

- اذیت پر صبر

17

- جامع نصیحت

18

- زوال کی علامت

19

- فتووں کی شریعت

20

- داعی کا اخلاق

21

- غلطی کے بعد

22

- اصل مسئلہ

23

- نفس کا شر کیا ہے

24

- والرُجز فاہجر

25

- مثبت روش کا نتیجہ

26

- مشتعل نہ ہونے کا کرشمہ

28

- مواقع کا استعمال

29

- بڑوں کی صحبت

31

- آخری گیت

32

- منافق کا کردار

33

- خوشی کا حصول

34

- پختگی کیا ہے

35

- میرٹ کلچر، تعلقات کلچر، تزکیہ کلچر

36

- امن کا مسئلہ

37

- جنگ کوئی انتخاب نہیں

38

- سماجی تعلقات

39

- شادی کا مسئلہ

40

- غیر ادیب کی ادبی تخلیق

41

- ریزرویشن کے بغیر

42

- معکوس پبلسٹی

43

- سوال وجواب

45

- خبرنامہ اسلامی مرکز


روزہ اور قرآن

قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اس کو رمضان کے مہینے میں اُتارا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ قرآن کا مہینہ ہے۔ چنانچہ امت میں قدیم زمانے سے یہ رواج ہے کہ رمضان کے مہینے میں قرآن کو بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ قرآن کایہ مطالعہ اگر سمجھ کر کیا جائے تو اس سے غیر معمولی دینی فائدہ حاصل ہوگا۔رمضان میں قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے۔ رمضان میں رات کے وقت تراویح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ یہ گویاحالت قیام میں قرآن کا اجتماعی مطالعہ ہے۔نیز اعتکاف اس لیے ہے کہ رمضان کے مہینے میں آدمی کچھ دن ایسے گزارے ، جب کہ وہ زیادہ سے زیادہ قرآن کے مطالعے میں مشغول رہے۔
ایک شخص روزہ رکھ کر قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ اس دوران وہ اس آیت تک پہنچتاہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ( 2:187)۔ اس آیت سے وہ دریافت کرتا ہے کہ رمضان شہر القرآن (قرآن کا مہینہ) ہے۔ پھر وہ قرآن کی تلاوت کے دوران یہ آیت پڑھتا ہے: کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ( 38:29)۔ اس آیت سے وہ یہ معلوم کرتاہے کہ قرآن اس لئے آیا ہے کہ لوگ اس پر تدبر (غوروفکر) کریں۔ اس دریافت کے بعد وہ یہ طے کرتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں وہ قرآن کا مطالعہ کرے گا اور رمضان کے مہینہ میں کم ازکم ایک بار ضرور وہ قرآن کو سمجھ کر پڑھے گا۔
روزہ قرآن کے مطالعے کی تحریک ہے۔روزہ آدمی کو قرآن سے وابستہ کرتا ہے۔ روزہ آدمی کو اس مقصد کے لیے یکسو کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ قرآ ن کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ روزہ دارگویا اپنے آپ کو قرآن کے مطالعے کے لیے فارغ کرتا ہے۔ روزہ کے مہینے میں آدمی کے اندر جو نفسیات بنتی ہے، وہ قرآن فہمی کے لیے خصوصی طور پر مفید ہے۔اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ روزہ کا مہینہ آدمی کو قرآن سے قریب کرنے کا مہینہ ہے۔ ر`وزے کامقصد یہ ہے کہ آدمی تقوی کی اسپرٹ کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرے۔
واپس اوپر جائیں

شب قدر کس کے لیے

شب قدر (لیلۃ القدر) رمضان کے مہینے کی آخری عشرے میں کسی طاق رات کو آتی ہے۔ شب قدر کو پانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ رمضان کی جس رات کو آئے ، وہ اپنے آپ روزے دار کو حاصل جائے۔بلکہ اس کے لیے تیاری ضروری ہے۔ شب قدرکی برکت صرف اس انسان کو ملے گی جو تیار شخصیت کے ساتھ اس میں داخل ہو۔
شب قدر کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر 97میں آیا ہے۔ اس سورہ کا ایک جزء یہ ہے تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ مِنْ کُلِّ أَمْر، سَلَامٌ (القدر5-6 )۔ فرشتے اور روح اس رات میں اپنے رب کی اجازت سے اُترتے ہیں ،ہر حکم لے کر۔وہ رات سراسر امن ہے۔
On that night, the angels and the Spirit come down by the permission of their Lord with His decrees for all matters, ; it is all peace.
قرآن کی اس آیت کے مطابق ، شب قدر امن کی رات (night of peace) ہے۔ شب قدر کے بارے میں قرآن کے الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ تیار شخصیت (prepared personality) کون ہے جس کو فطرت کے قانون کے مطابق اس رات کی برکتوں میں حصہ ملے گا۔
یہ شخصیت پر امن شخصیت (peaceful personality) ہے۔ یعنی وہ شخصیت جس کو حقیقت کی دریافت اس طرح ہوئی ہو کہ وہ پورے معنوں میں مثبت سوچ (positive thinking) والاانسان بن گیا ہو۔ اس کی معرفت نے اس کے اندر خلق عظیم (القلم4 )کی صفت پیدا کردی ہو۔ اس کے نتیجے میں اس کا حال یہ ہوجائے کہ اس کے دل میں دوسروں کے لیے محبت اور خیر خواہی کے سوا کچھ نہ ہو۔ وہ تشدد پسند انسان کے بجائے امن پسند انسان بن گیا ہو۔ وہ ردعمل (reaction) کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی ہو۔ یہی وہ انسان ہے جس کو شب قدر کی برکتیں حاصل ہوں گی۔
واپس اوپر جائیں

افضل انسان

ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: قیل لرسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أی الناس أفضل؟ قال کل مخموم القلب، صدوق اللسان ، قالوا صدوق اللسان، نعرفہ، فما مخموم القلب؟ قال ہو التقی النقی، لا إثم فیہ، ولا بغی، ولا غل، ولا حسد(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4216)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں افضل انسان کون ہے، آپ نے جواب دیا: وہ انسان جو مخموم القلب ہو، اور صدوق اللسان ہو۔ لوگوں نے کہا کہ صدوق اللسان (سچ بولنے والا) ہم جانتے ہیں، پس مخموم القلب کیا ہے۔ آپ نے جواب دیا: یہ وہ انسان ہے جس کے اندر تقوی ہو، جوپاکباز ہو، جس کے اندر گناہ گاری نہ ہو، جس کے اندر سرکشی نہ ہو، جس کے اندر کینہ نہ ہو، جس کے اندر حسد نہ ہو۔ مخموم القلب کون ہے، اس کو اگر بدلے ہوئے الفاظ میں بتایا جائے تو وہ مثبت انسان (positive person) ہوگا۔ یعنی مخموم القلب انسان وہ ہے جو منفی سوچ (negative thinking)سے خالی ہو، جو مخالف حالات کے درمیان مثبت سوچ کے ساتھ جینے والا انسان ہو۔ جس کے دل میں ہر ایک کے لیے صرف مثبت جذبات پائے جاتے ہوں۔
ایسا انسان اپنے سماج کا بے مسئلہ انسان ہوگا۔ یہی وہ انسان ہے جو دعوت الی اللہ کے کام کے لیے اہل انسان ہے۔ اس کے دل میں ہر ایک کے لیے خیر خواہی ہوگی۔ اور خیر خواہی (well-wishing) کی صفت کے بغیر کوئی شخص دعوت الی اللہ کا کام انجام نہیں دے سکتا ۔ داعی صرف وہ انسان بن سکتا ہے جو انسان دوست (human-friendly) انسان ہو۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مدعو کی طرف سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی ناخوشگوار بات پیش آتی ہے جو داعی کو منفی انسان بنادے۔ اس لیے داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ یک طرفہ اخلاقیات کا حامل ہو، وہ رد عمل کی نفسیات سے پوری طرح پاک ہو۔ اس کے دل میں ہر ایک کے لیے ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہوں۔ جو انسان اس قسم کی مثبت شخصیت کا حامل نہ ہو، وہ کبھی دعوت الی اللہ کا کام مطلوب انداز میں انجام نہیں دے سکتا۔
واپس اوپر جائیں

امانت کیا ہے

خدا کے نقشۂ تخلیق کےمطابق ، انسان امانت الٰہی کا امین ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کا بیان یہ ہے ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزادے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول کرے۔ اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے(33:72-73)۔
امانت کا لفظی مطلب ٹرسٹ (trust) ہے۔ انسان کو جو امتیازی صفات دی گئی ہیں، وہ اس کے پاس بطور امانت ہیں۔حدیث میں آیا ہے خلق اللہ آدم على صورتہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر6227)۔ یعنی اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ جو صفتیں (attributes) خالق کے اندر کمال کے درجے میں پائی جاتی ہیں ، وہ انسان کو شمّہ (iota) کے بقدر عطا کی گئی ہیں۔
ان صفات کے ساتھ انسان کوکامل اختیار دیا گیا ہے۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی اس آزادی کا غلط استعمال نہ کرے۔ بلکہ اس کو جائز حدود کے اندر استعمال کرے۔ جائز حدود کے اندر آزادی کو استعمال کرنے والے کے لیے ابدی زندگی میں جنت کا انعام ہے۔ اور جو شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے، اس کے لیے جہنم کی سزا ہے۔
اس سلسلہ ٔبیان کا آخری حصہ یہ ہے: وَیَتُوبَ اللَّہُ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ مطلوب عمل سے مراد معیاری عمل نہیں ہے۔ انسان اپنی بشری کمزوری کی بنا پر ضرور غلطیاں کرے گا۔ اس لیے نجاتِ آخرت کا معیار غلطی سے پاک ہونا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ غلطی کرنے کے بعدانسان کے اندر ندامت (repentance) کا شدید جذبہ پیدا ہو۔ وہ دوبارہ اللہ کی طرف رجوع کرے۔ وہ اپنی غلطی کا سچا اعتراف کرکے اللہ سے معافی کا طالب ہو۔یہی وہ انسان ہے جس کو ابدی جنت میں داخلہ ملے گا۔
واپس اوپر جائیں

مغفرتِ خداوندی

سورہ الزمر کی ایک آیت ہے، جس کے بارے میں صحابی عبد اللہ ابن عمر نے کہا : ہذہ أرجى آیة فی القرآن (تفسیر القرطبی )۔ یعنی یہ قرآن کی سب سے زیادہ پر امید آیت ہے۔ قرآن کی وہ آیت یہ ہے: قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بے شک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
اپنے آپ پر زیادتی ( to commit excesses against one’s own soul) ایک عام لفظ ہے۔ اس میں ہر قسم کی غلطیاں شامل ہیں۔ حدیث میں آیا ہے : کل بنی آدم خطاء (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4251)۔ مگر اسی کے ساتھ انسان کے اندر ضمیر (conscience) ہے۔ انسان اپنی خواہش کے تحت غلطی کرتا ہے، لیکن اس کے بعد اس کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ اور اس کو شدت کے ساتھ ملامت کرتا ہے کہ اب تمھارا انجام کیا ہوگا۔
یہ احساسِ خطا اکثر آدمی کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہے۔ مگر یہ آیت بتاتی ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ غلطی کے ارتکاب کے بعد مایوسی کے بجائےاللہ کے سامنے مغفرت کا طالب بنے۔وہ زیادہ سے زیادہ دعا کرے، اور اللہ کی طرف زیادہ سے زیادہ رجوع کرے۔
طلبِ مغفرت کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک نفسیاتی طوفان کا معاملہ ہے۔ طلبِ مغفرت آدمی کی روحانیت کو جگاتی ہے۔ طلبِ مغفرت سے آدمی کی معرفت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر شخصیت کے ارتقاء (personality development) کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ یہ عمل (process) اگر بھر پور طور پر جاری رہے تو اس کا نتیجہ قرآن کے الفاظ میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے سیئات حسنات میں بدل جاتے ہیں(الفرقان70)۔
واپس اوپر جائیں

مشیر کی اہمیت

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:إذا أراد اللہ بالأمیر خیرا جعل لہ وزیر صدق، إن نسی ذکرہ، وإن ذکر أعانہ، وإذا أراد اللہ بہ غیر ذلک جعل لہ وزیر سوء، إن نسی لم یذکرہ، وإن ذکر لم یعنہ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر2932)یعنی اللہ جب کسی حاکم کے ساتھ خیر چاہتا ہے تو اس کو ایک سچا وزیر دے دیتا ہے، اگر حاکم بھولے تو وہ اس کو یاد دلائے، اور جب وہ یاد دلائے تو وہ اس کی مدد کرے۔ اور جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ اس سے مختلف معاملہ کرتا ہے تو وہ اس کو ایک برا وزیر دے دیتا ہے، اگر حاکم بھولے تو وہ اس کو یاد نہ دلائے، اور اگر وہ یاد دلائے تو وہ اس کی مدد نہ کرے۔
اس حدیث میں حاکم اور وزیر کی مثال کے ذریعے مشیر کی اہمیت کو بتایاگیا ہے۔ ہر انسان کے ساتھ رسمی یا غیر رسمی طور پر کچھ دوست اور مشیر ہوتے ہیں۔ یہ مشیر اگر سچے ہیں تو وہ ہمیشہ خیر خواہی والا مشورہ دیں گے، اور اگر مشیر سچے نہیں ہیں تو وہ ایسے مشورہ دیں گے جن سے آدمی کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں۔ لیکن یہ معاملہ یک طرفہ نہیں ہے، بلکہ دو طرفہ ہے۔ دوست یا مشیر کا سچا ہونا یا سچا نہ ہونا ، اس کا تعلق پچاس فیصد خود آدمی سے ہے۔ آدمی اگر خوشامد پسند ہو تو اس کے ارد گرد جھوٹے دوست اور جھوٹے مشیر جمع ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس، اگر آدمی حقیقت پسند ہو تو اس کے دوست اور مشیر بھی سنجیدہ اور حقیقت پسند ہوں گے۔
آدمی کی یہ ضرورت ہے کہ اس کے پاس سچے دوست اور سچے مشیر ہوں۔ ایسے لوگ آدمی کی طاقت ہیں۔ وہ اس کو خیر کا مشورہ دیں گے، شر سے بچائیں گے۔لیکن یہ آدمی کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کے لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس معاملے میں وہ نہایت باشعور ہو تاکہ اس کے اردگرد صرف خیر پسند افراد اکٹھا ہوں۔اس معاملے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ آدمی کے اندر تنقید کو سننے کا مزاج ہو، وہ انسان کی قدر کرنا جانتا ہو۔ وہ خوشامد سے خوش ہونے والا، اور تنقید کو برا ماننے والا نہ ہو۔ جس آدمی کے اندر یہ صفت ہو، اس کے گرد یقینا اچھے لوگ جمع ہوں گے۔
واپس اوپر جائیں

مقصد شریعت

اسلام کا مقتضی صرف دو ہے۔ داخلی طور پر یہ کہ ہر مسلم تقویٰ کی زندگی اختیار کرے۔ خارجی طور پراہل اسلام کا مشن، دعوت الی اللہ ہے۔ یعنی اللہ کے پیغامِ رحمت کو پر امن انداز میں تمام انسانوں تک پہنچانا۔ اس معاملے میں سیاسی اقتدار کا اصل رول سماج میں موافق حالات قائم کرنا ہے۔ اور امت کے افراد اور امت کے اداروں کا رول یہ ہے کہ وہ پر امن منصوبہ بندی کے ذریعے ساری دنیا میں دعوت و اشاعت کا وہ کام انجام دیں جو پیغمبروں نے اپنے زمانے میں انجام دیا تھا۔
دین کے اس تصور کی روشنی میں جو نقشہ بنتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ہر مومن اپنے آپ کو دین حق سے باخبر کرے۔ اس بات کو حدیث میں ان الفاظ میں بیا ن کیاگیا ہے: طلب العلم فریضة على کل مسلم (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 224) ۔یعنی ہر مومن کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو دینی اعتبار سے ایک تیار ذہن (prepared mind)بنائے۔ جہاں تک سیاسی اقتدار کا تعلق ہے، اس کا کام شریعت کی تنفیذ (enforcement of Shariah) نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ جو اہل ایمان شریعتِ اسلامی کے پیرو (follower) بننا چاہتے ہیں، ان کے لیے موافق حالات فراہم کرنا۔ تاکہ وہ کسی غیر ضروری رکاوٹ کے بغیر دین کے تقاضوں کو پورا کرسکیں۔
قرآن وحدیث سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر حکومت کی تخت پر غیر مسلم حکمراں ہو ۔اور وہ مذکورہ معنوں میں اہل اسلام کے لیے موید (supporter) بن سکتا ہو تو غیر مسلم حکمراں بھی اہل ایمان کے لیے قابلِ قبول ہوگا۔ اسی اصول کے تحت یوسف علیہ السلام نے اپنے زمانے کے غیرمسلم حکمراں کو قبول کیا تھا۔ اور اسی اصول کے مطابق مکی دور میں کچھ صحابہ نے حبش کے غیر مسلم حکمراں کو قبول کیا تھا۔ جب کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ پرمکہ سے ہجرت کرکے حبش گیےاور وہاںدس سال سے زیادہ عرصے تک مقیم رہے۔موجودہ زمانے کی سیکولر حکومت بھی عین اسی تصور کے مطابق ہے۔اس لیے موجودہ زمانے کی سیکولر حکومت بھی مسلمانوں کے لیےقابلِ قبول ہونا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن ایمپائر

قدیم زمانہ مواقع (opportunities) کی موناپلی (monopoly) کا زمانہ تھا۔ اس لیے قدیم زمانے میں صرف ایک ہی قسم کا ایمپائر بن سکتا تھا۔ اور وہ پولیٹکل ایمپائر تھا۔ قدیم زمانے میں جتنے ایمپائر بنے وہ سب کے سب سیاسی ایمپائر تھے۔ موجودہ زمانہ خاتمۂ اجارہ داری (de-monopolization) کا زمانہ ہے۔ اس سےسارے مواقع ہر ایک کے لیے کھل گیے۔ اس بنا پر یہ ممکن ہو گیا کہ کوئی بھی شخص یا گروپ خالص پرامن طریقۂ کار کے ذریعے اپنا ایمپائر کھڑا کر سکے۔
اس نئے امکان کو ابھی تک زیادہ تر سیکولر لوگوں نے استعمال کیا ہے۔ نئے مواقع سے فائدہ اٹھاکر انھوں نے اپنے اپنے ایمپائر بنا لیے ہیں۔ مثلا ایجوکیشنل ایمپائر، انڈسٹریل ایمپائر، انسٹی ٹیوشنل ایمپائر (institutional empire)، وغیرہ۔
مگر مذہب کےمعاملے میں اس امکان کو استعمال کرنے کا میدان ابھی تک خالی ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مذہب کے میدان میں اس امکان کو استعمال کرنے کا سب سے بڑا میدان یہ ہے کہ قرآن ایمپائر بنایا جائے۔ امکان (potential) کے اعتبار سے قرآن ایمپائر آج بھی موجود ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اس امکان کو عمل کی صورت میں کھڑا کیا جائے۔
پولیٹکل ایمپائر کے لیے ضرورت ہوتی تھی کہ بہت سے ملکوں میں ایک بادشاہ کی حکومت قائم ہو۔ مگر موجودہ زمانے میں قرآن ایمپائر بنانے کے لیے کسی بڑے زمینی رقبے کی ضرورت نہیں، آج چھوٹے زمینی رقبہ میں بھی قرآن ایمپائر بنایا جاسکتا ہے۔
موجودہ زمانے میں کمیونی کیشن (communication) اور دوسرے عالمی وسائل نے ٹکنالوجی کو ہر دوسری چیز کا بدل بنادیا ہے۔ ا ٓج یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ایک چھوٹے مرکز کو جدید وسائل کے استعمال سے عالمی سطح کا قرآن ایمپائر بنادیا جائے۔ قرآن کا مختلف زبان میں ترجمہ خود اتنا بڑا کام ہے کہ اس کی بنیاد پر ایک اعلی درجے کا قرآن ایمپائر کھڑا کیا جاسکے۔
واپس اوپر جائیں

نصرت کا قانون

سورہ یوسف قرآن کی 12 ویں سورہ ہے۔ پوری سورہ میں حضرت یوسف کا قصہ بیان ہوا ہے۔ سورہ کے خاتمہ پر قرآن میں دو آیتیں آئی ہیں۔ ان کا ترجمہ یہ ہے: یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہوگئے اور وہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا تو ان کو ہماری مدد آ پہنچی۔ پس نجات ملی جس کو ہم نے چاہا اور مجرم لوگوں سے ہمارا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا۔ ان کے قصوں میں سمجھ دار لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے۔ یہ کوئی گھڑی ہوئی بات نہیں، بلکہ تصدیق ہے اس چیز کی جو اس سے پہلے موجود ہے اور تفصیل ہے ہر چیز کی۔ اور ہدایت اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے۔
حضرت یوسف اللہ کے ایک پیغمبر تھے لیکن ان کے ساتھ بہت انوکھے واقعات پیش آئے۔ وہ ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کی معاش تھی بکریاں پالنا، ان کو چرانا اور ان کے دودھ پر گزارا کرنا۔ پھر ان کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا کہ خود ان کے بھائیوں نےان کو ایک اندھے کنویں میں ڈال دیا۔ وہ کنویں میں کچھ دن بے یارومددگار پڑے رہے۔ پھر ایک قافلہ نے ان کو کنویں سے نکالا اور مصرلے جاکر وہاں کے بازار میںان کو بیچ دیا۔ اس کے بعد وہ غلام بن کر ایک گھر میں رہے۔ وہاں ان پر ایک الزام لگایا گیا۔ پھر وہ جیل میں ڈال دئے گئے جس میں وہ کئی سال تک رہے۔ ان تمام سخت مراحل کے بعد وہ وقت آیا جب کہ ان پر اللہ کی نصرت آئی۔
حضرت یوسف کو کبھی جنگ وقتال کا مرحلہ پیش نہیں آیا۔ ان پر جو سختیاں گزریں وہ سب غیر جنگی حالات میں گزریں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سورہ کے آخر میں نصرت سے پہلے جن سخت حالات کا ذکر ہے ان کا تعلق جنگ وقتال سے نہیں ہے بلکہ عام حالات میں پیش آنے والے واقعات سے ہے۔ یہ واقعات ہر سچے انسان کی زندگی میں مختلف صورتوں میں پیش آتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے۔یہ دراصل اس لئےہے کہ انسان اللہ کی نصرت کا آخذ (recipient) بنے۔مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آدمی کا کیس سچائی کا کیس ہے تو اس کو ضرور اللہ کی مدد آتی ہے۔ خواہ وہ مایوسی کی سطح پر پہنچنے کے بعد آئے۔
واپس اوپر جائیں

بیماری کا مثبت پہلو

بیماری بظاہر ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن گہرائی کے ساتھ غور کیاجائے تو بیماری میں بھی ایک عظیم مثبت پہلو موجود ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کرنے کے لیے اس کے گھر جاتے تو آپ بیمار سے کہتے: لا بأسَ، طَہور إن شاء اللہ۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5656)۔ یعنی کوئی حرج نہیں، یہ پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔
محدث ابن حجر نے اس حدیث کی بابت لکھا ہے :إن شاءاللہ یدل على أن قولہ طہور، دعاء لا خبر۔ یعنی یہاںان شاء اللہ کا لفظ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ کا یہ قول خبر نہیں ہے بلکہ وہ دعاء ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کا یہ قول دعاء کی صورت میں ایک خبر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیمار کے اندر مثبت سوچ پیدا ہو، بیماری کے باوجود وہ مایوس نہ ہو۔ اس دعاءمیں انسان کے لیے تسکین کا ایک پہلو موجود ہے۔ اس لیے کہ بیماری کے بعد اکثر انسان کو شفا حاصل ہوتی ہے (26:80)۔ اس طرح بیماری کے واقعےمیں یہ سبق پایا جاتا ہے کہ اس دنیا کا نظام بازیابی (recovery)کے اصول پر بنا ہے۔ یہاں کا اصول یہ ہے کہ کسی درخت کی ایک شاخ ٹوٹ جائے تو وہاں دوبارہ ایک نئی شاخ نکل آئے۔ انسان کو کوئی بیماری لاحق ہو تو اس کے بعد قانونِ فطرت کے مطابق وہ دوبارہ صحت مند ہو جائے۔اس طرح اس دنیا میں کسی چیز کو کھونے کے بعد اس کو پانا (regaining of something lost) کا معاملہ ہے۔
نقصان کے بعد تلافی یا بازیابی کا یہ اصول ہر قسم کے نقصان پر صادق آتا ہے، مالی نقصان ، سیاسی نقصان، وغیرہ۔ اس بنا پر انسان کے لیے اس دنیا میں کسی بھی حال میں شکایت کا موقع نہیں (no place for complaint)۔ انسان کے لیے اس قانون کی اہمیت بہت زیادہ تھی ، اس لیے انسان کے لیے اس معاملے کو بیماری یا حادثہ وغیرہ کی صورت میں ذاتی تجربہ (personal experience) کی حیثیت دے دی گئی۔
تلافی مافات کے اس اصول کا تعلق جس طرح فرد کے لیے ہے، اسی طرح وہ قوم کے لیے بھی ہے۔ ایک قوم زوال کا شکار ہونے کے بعد دوبارہ زندہ ہوسکتی ہے۔ ایک تہذیب ختم ہوجائے تو اس کے بعد دوبارہ اس کا احیاء (revival) کیا جاسکتا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ آدمی بیماری میں مبتلا ہو،پھر وہ عیادت کرنے والوں کے سامنے اس کا شکوہ نہ کرے تواس کے لیے جنت لکھ دی جاتی ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر8801)
عیادت کرنے والوں سے شکایت نہ کرنے پر جنت ملنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو آدمی شکایت نہ کرے تو اس کو اپنے آپ جنت حاصل ہو جائےگی ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر شکایتی نفسیات سے گہری سوچ پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس کے مطابق اس کے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس کو جنت کا مستحق قرار دیا جائے۔
کسی نقصان پراس کی تلافی کا اصول ایک اہم فطری اصول ہے۔ مستحق شخص کو یہ تلافی لازماً حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو چیز کھوئی گئی ہے وہی چیز اس کو دوبارہ مل جائے۔ یہ تلافی اکثر کسی متبادل صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس متبادل تلافی کو پہچانے۔ مثلا یہ ہوسکتا ہے کہ اس کا نقصان تو مالی نوعیت کا ہو، لیکن تلافی کے طور پر اس کو جو چیز ملے وہ نفسیاتی ہو۔ یعنی سبق کی صورت میں یا ذہنی ارتقا کی صورت میں، یا روحانی ترقی کی صورت میں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ نقصان تو دنیا میں ہو لیکن اس کی تلافی آخرت میں کی جائے۔
انسان کا تمام معاملہ سوچ پر مبنی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کبھی ردعمل (reaction) کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو۔ بلکہ جب بھی کوئی ناخوشگوار صورتِ حال پیش آئے تو وہ معتدل ذہن کے ساتھ اس پر غور کرے۔ وہ منفی واقعہ میں مثبت واقعہ کو دریافت کرنے کی کو شش کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کو قانونِ فطرت کی تائید حاصل ہوگی۔ وہ منفی واقعہ میں مثبت پہلو کو دریافت کرلے گا۔ اور اس طرح وہ اپنے آپ کو مایوسی سے بچانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مایوسی ایک غیر فطری چیز ہے، وہ کوئی فطری چیز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

شیطان سے بچیے

شیطان کس طرح انسان کو بہکاتا ہے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی معمولی بات کو زیادہ بڑھا چڑھا کر انسان کو دکھانا۔ نظر انداز کرنے والی بات کو اس طرح سنگین صورت میں پیش کرنا کہ انسان کو غصہ آجائے، اور وہ ایسا کام کرنے لگے جو اس کو نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی ایک مثال خلیفۂ دوم عمر بن خطاب کا واقعہ ہے۔ عمر بن خطاب بلاشبہ ایک عادل خلیفہ تھے۔ لیکن مدینہ کے ایک شخص ابولولوفیروز کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک معمولی واقعہ تھا، مگر شیطان نے ابولولو کو اتنا زیادہ بھڑکایا کہ اس نے سازش کرکے عمر بن خطاب کو قتل کردیا۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں بے حد چوکنا رہے۔ جب بھی کوئی منفی بات اس کے ذہن میں آئے تو وہ اس کو شیطان کی بات سمجھے ۔وہ ایسی بات کو فوراً اپنے ذہن سے نکال دے۔ وہ اس بات کا تجزیہ کرکے اس کو اپنے ذہن میں غیر موثر بنادے۔
ہر عورت اور مرد کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اتنا ہوش مند بنے کہ شیطان اس کو بہکانا چاہے لیکن وہ اس کو بہکانے میں کامیاب نہ ہو۔ اس معاملے میںقرآن کی ایک متعلق آیت کا ترجمہ یہ ہے: جو لوگ ڈر رکھتے ہیں جب کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انھیں چھو جاتا ہے تو وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور پھر اسی وقت ان کو سوجھ آ جاتی ہے۔(الاعراف201)
موجودہ دنیا میں کوئی شخص، نفس اور شیطان کے حملوں سے خالی نہیں رہ سکتا۔ ایسے موقع پر جو چیز آدمی کو بچاتی ہے وہ صرف اللہ کا ڈر ہے۔ اللہ کا ڈر آدمی کو بے حد حساس بنادیتا ہے۔ یہی حساسیت موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کی سب سے بڑی ڈھال ہے۔ جب بھی آدمی کے اندر کوئی غلط خیال آتا ہے یا کسی قسم کی منفی نفسیات ابھرتی ہے تو اس کی حساسیت فورا اس کو بتادیتی ہے کہ وہ پھسل گیا ہے۔ ایک لمحہ کی غفلت کے بعد اس کی آنکھ کھل جاتی ہے، اور وہ اللہ سے معافی مانگتے ہوئے دوبارہ اپنے کو درست کرلیتا ہے— حساسیت آدمی کی سب سے بڑی محافظ ہے، جب کہ بے حسی آدمی کو شیطان کے مقابلے میں غیر محفوظ بنادیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اذیت پر صبر

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں:عن ابن عمر، عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم :’’ المؤمن الذی یخالط الناس، ویصبر على أذاہم، أعظم أجرا من الذی لا یخالطہم، ولا یصبر على أذاہم‘‘۔ قال :حجاج :’’خیر من الذی لا یخالطہم‘‘ (حدیث نمبر 5022)۔ یعنی عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ مومن جو لوگوں سے مخالطت کرتا ہے، اور ان کی اذیت پر صبر کرتا ہے، وہ اجر میں اس سے زیادہ ہے جو مخالطت نہیں کرتا، اور لوگوں کی اذیت پر صبر نہیں کرتا۔ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں، وہ بہتر ہے ان سے جو لوگوں سےمخالطت نہ کرے۔
مخالطت کا مطلب ملنا جلنا (social intercourse) ہے۔ جو شخص اپنے آپ میں جینے والا ہو، اس کو لوگوں کی طرف سے کوئی اذیت نہیں پیش آئے گی۔ لیکن جو شخص لوگوں کے درمیان رہے، لوگوں کے ساتھ اس کا انٹر ایکشن ہوتا ہو، لوگوں کے ساتھ اس کے معاملات پیش آئیں، ایسے آدمی کو فطری طور پر دوسروں کی طرف سے چھوٹی یا بڑی اذیت پیش آئے گی۔ تنہائی کی زندگی گزارنے والے کے مقابلے میں مخالطت کی زندگی گزارنے والا افضل کیوں ہوتا ہے۔
اس کا سبب فطرت کا ایک اصول ہے۔ فطری نظام کے تحت ہر آدمی بے پناہ صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ صلاحیتیں اس کے اندر بالقوۃ (potential) کے طور پر ہوتی ہیں۔ اس بالقوۃ کو بالفعل (actual) بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان کو شاک کا تجربہ پیش آئے۔ فطرت کا نظام شاکنگ ٹریٹمنٹ (shocking treatment) کے اصول پر قائم ہے۔ جو آدمی شاک کو سہے، اس کے فطری امکانات ان فولڈ (unfold) ہوتے رہتے ہیں، اس کا ذہنی ارتقا (intellectual development) ہوتا رہے گا۔ اس کے برعکس، جو شخص صدمہ (shock) کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو، تو اس کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری نہیں ہوگا۔ وہ جیسا پیدا ہوا تھا، ویسے ہی مرجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

جامع نصیحت

ایک صاحب نے کہاکہ آپ مجھ کو ایک جامع نصیحت کیجیے، جس کا تعلق دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح سے ہو۔ میں نے کہا کہ قرآن کی روشنی میں میرا جواب یہ ہے کہ صبر کا طریقہ اختیار کیجیے۔ اور پھر آپ اللہ کی توفیق سے دنیا میں بھی کامیاب ہوں گے اور آخرت میں بھی۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک مستقل خدائی گائڈ موجود ہے۔ یہ انسان کا ضمیر (conscience) ہے ۔ انسان کا ضمیر ایک بے خطا رہنما ہے۔ وہ ہمیشہ انسان کو صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ انسان کے اندر مختلف قسم کی خواہشیں ( desires) ہیں۔ قرآن میں ضمیر کو نفس لوامہ کہا گیا ہے، اور خواہشوں کو نفس امارہ۔
انسان کا ضمیر ہر موقعہ پر اس کو صحیح رہنمائی دیتا ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی خواہشیں انسان کو اپنی طرف کھیچنے لگتی ہیں۔ اس طرح ضمیر اورخواہش کے درمیا ن ایک ٹکراؤپیدا ہوجاتا ہے۔ اس ٹکراؤ میں اکثر خواہش غالب آتی ہے اور انسان ضمیر کی آواز کو نظر انداز کرکے خواہش کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ یہ واقعہ دنیا کے معاملات میں بھی پیش آتا ہے اور آخرت کے معاملات میں بھی۔
اس نازک وقت میں جو چیز انسان کے کام آتی ہے، وہ صبر ہے۔ انسان اگر صبر کا ثبوت دے تو وہ اپنی خواہشات پر کنٹرول کرے گا۔ اس طرح وہ اس میں کامیاب ہوجائے گا کہ وہ صراطِ مستقیم سے انحراف ( deviate)نہ کرے۔ اور ضمیر کی آواز پر چلتے ہوئے ، اپنا سفر صحیح سمت میں جاری رکھے۔یہاں تک کہ وہ کامیابی کی منزل تک پہنچ جائے۔اسی لیے قرآن میں بتایا گیا ہے کہ صبر پر انسان کو سب سے زیادہ انعام دیاجاتا ہے(الزمر10 )۔
عملی اعتبار سے زندگی میں سلبی صفت کی اہمیت ایجابی صفت سے بھی زیادہ ہے۔ جو آدمی صرف کرنا جانے اور رکنا نہ جانے، وہ کبھی اپنی زندگی میں اعلیٰ کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ زندگی کا معاملہ موٹر کارکے معاملہ جیسا ہے۔ موٹر کار میں اگر بریک نہ ہوتو خواہ موٹر کار کتنی ہی اچھی ہو، وہ منزل پر نہیں پہنچ سکتی۔موٹر کار میں جو اہمیت بریک کی ہے،وہی اہمیت زندگی میں صبر کی ہے۔
واپس اوپر جائیں

زوال کی علامت

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: لَتُنْقَضَنَّ عُرى الإسلام عُروة عروة، فکلما انتقضت عروة تَشبّث الناس بالتی تلیہا، وأولہن نقضا الْحُکْمُ وآخرہن الصلاة۔ (مسند احمد، حدیث نمبر22160) یعنی اسلام کی کڑیاں ایک ایک کرکے توڑ دی جائیں گی۔ جب بھی کوئی ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ اس کے بعد والی کڑی سے چمٹ جائیں گے، اور ان کڑیوں میں سے پہلی کڑی جو ٹوٹے گی وہ حُکم ہوگا، اور آخری کڑی جو ٹوٹے گی وہ نماز ہوگی۔
اس حدیث میںایک تمثیل کے ذریعے امت کے زوال کی حالت بتائی گئی ہے۔ زوال کا آغاز حُکم کے خاتمے سے ہوتا ہے۔ حُکم کا مطلب حکمت (wisdom) ہے۔ یہاں حکمت کا لفظ عام معنی میں نہیں بلکہ دینی معنی میں ہے۔ یعنی امت کے افراد میں حکمتِ دنیا تو باقی رہتی ہے لیکن حکمتِ دینی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ نماز سے مراد ، نماز کی صورت (form)نہیں بلکہ نماز کی اسپرٹ ہے۔ زوال کے زمانے میں لوگ بظاہر نماز کا اہتمام تو کرتے ہیں لیکن عملاًوہ فارم کی نماز ہوتی ہے نہ کہ اسپرٹ کی نماز۔
حکم اور صلاۃ دونوں کے خاتمے کا سبب ایک ہوتا ہے۔ اور وہ ہے دین کی حقیقت گم ہوجانا، اور اس کا صرف کلچر کی سطح پر باقی رہنا۔ حکم سے مراد دین کی سمجھ ہے۔زوال کے زمانے میں یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا تعلق زیادہ سے زیادہ اپنے دنیوی معاملات سے ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فطری طور پر یہ ہوتا ہے دین کے بارے میں لوگوں کی حساسیت پہلے کم ہوتی ہے اور پھر ختم ہوجاتی ہے۔ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے دنیوی معاملات میں مشغول رہتے ہیں۔ اس مشغولیت کے بنا پر عملا یہ ہوتا ہے کہ دین کی حساسیت صرف وہ لوگ زندہ رکھ پاتے ہیں جو عملی مشغولیت کے باوجود فکری طور پر بیدار ہوں اوربالقصد سوچ کی سطح پر دین کی اسپرٹ کو باقی رکھیں۔ اس کے برعکس اگر ایسا نہ ہوتواس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر سے دین کی سمجھ ختم ہوجاتی ہے، اور لوگ بے روح فارم کو دین سمجھ لیتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

فتووں کی شریعت

پرنٹنگ پریس 1440 ءمیں ایجاد ہوا۔ ا س کا موجد جرمنی کا گوٹن برگ (Johannes Gutenberg) ہے۔ مسلم دنیا میں پرنٹنگ پریس زیادہ دیر میں عام ہوا۔ 1727ء میں ترکی میں ابراہیم متفرقہ نے پرنٹنگ پریس قائم کیا۔پریس کا قیام کوئی معمولی واقعہ نہ تھا..... (مگراس وقت کے) بااقتدار علماء نے اسے ــ’’بدعت‘‘ تصور کیا، شیخ الاسلام نے فتوی دیا کہ (اس پر) مذہبی کتابوں کا چھاپنا شرعاً ممنوع ہے۔ (اشخاص و افکار، ضیاء الحسن فاروقی، ص 16-17،این سی پی یو ایل، نئی دہلی، 2011)۔
حرمت کے فتووں کا رواج اصحابِ رسول کے زمانے میں موجود نہ تھا۔ بعد کے زمانے میں جب امت میں زوال آیا تو علماء تقلید کی روش پر قائم ہوچکے تھے۔ وہ ہر نئی چیز کو توحش کی نظر سے دیکھنے لگے۔ وہ ہر نئی چیز کو شریعت کے خلاف سمجھنے لگے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ حرمت کے فتووں کا رواج عام ہوا۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
’’حرمت کی شریعت‘‘ کے اس رواج کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب زمانے سے بے خبری (unawareness) ہے۔ بعد کے زمانے میں علماء اپنے وقت کی علمی ترقیوں سے بے خبر ہوگیے۔ اس بنا پر وہ ہر نئی چیز کو غلط سمجھنے لگے۔ اگر یہ علماء جدید حالات سے واقف ہوں، اگر وہ وقت کے علمی معیار پر نئے مسائل کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں تو وہ نئے حالات کا مطالعہ کریں گے۔ وہ علمی انداز میں اس کا تجزیہ کریں گے۔ اور پھر وقت کی علمی سطح پر اس کی نوعیت کو بیان کریں گے۔ وہ تکفیر کی زبان استعمال کرنے کے بجائےعلمی تجزیہ کی زبان استعمال کریں گے۔ بلکہ وہ نئے پیدا شدہ حالات کو اپنے ذہنی ارتقا کے لیے فکری خوراک بنا لیں گے۔ مگر بد قسمتی سے بعد کے زمانے کے مسلم علماء اس اہلیت کا ثبوت نہ دے سکے۔ ہر چیز جو ان کی سمجھ میں نہیں آئی، اس پر وہ منفی ردعمل کا اظہار کرنے لگے۔ یہ ذہنی جمود کی حالت ہے۔ اور ذہنی جمود کی حالت اسلام میں مطلوب نہیں۔
واپس اوپر جائیں

داعی کا اخلاق

مشہور صحابی انس بن مالک کی ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے :شج النبی صلى اللہ علیہ وسلم یوم أحد، فقال:’’کیف یفلح قوم شجوا نبیہم؟‘‘. فنزلت:لیس لک من الأمر شیء۔(صحیح مسلم حدیث نمبر1791)۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ غزوۂ احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگیے۔ اس وقت آپ نے فرمایا: وہ قوم کیسے فلاح پائے گی، جو اپنے نبی کو زخمی کرے۔ اس پر قرآن میں یہ آیت اتری ، تم کو اس معاملےمیں کوئی دخل نہیں ۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہےکہ داعی کا اخلاق کیا ہونا چاہیے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ یکطرفہ اخلاقیات کا طریقہ اختیار کرے۔ یعنی مدعو کے سلوک پر کوئی شکایت نہ کرنا۔ شکایت اور احتجاج سے پوری طرح اوپر اٹھ جانا، ہر حال میں ردعمل کی نفسیات سے کامل طور پر پاک ہونا۔
داعی اپنے مدعو کا مکمل طور پر خیر خواہ ہوتا ہے۔ یہی خیر خواہی کی اسپرٹ داعی کے اندر وہ اخلاقیات پیدا کرتی ہے جو داعی کو کامل طور پر ایک بے شکایت انسان بنا دیتی ہے۔ داعی کے اندر یک طرفہ اخلاقیات کی یہ صفت لازمی طور پر ضروری ہے۔ داعی اگر اس کردار کا حامل نہ ہو تو وہ کبھی دعوت الی اللہ کا کام نہیں کرسکتا۔
دعوت سے مراد دعوت الی اللہ ہے۔ داعی اپنا دعوتی کام اللہ کے لیے کرتا ہے۔ وہ اپنے عمل کے لیے اللہ سے اجر کی امید رکھتا ہے۔ مدعو کا رویہ خواہ کچھ ہو، داعی ہر تجربے کو اللہ کی نسبت سے دیکھتا ہے۔ داعی کے اندر اگر ردعمل کا مزاج پیدا ہوجائے ، وہ اپنے مدعو سے ٹکراؤ شروع کردے تو اس کی دعوت ، وہ دعوت نہ ہوگی جو اللہ کو مطلوب ہے۔ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ دعوت کے ذریعے انسان کے اوپر حجت تمام ہو۔ اس کو یہ کہنے کا موقع باقی نہ رہے کہ ہم بے خبر تھے۔ داعی کے اندر یکطرفہ اخلاقیات کا مقصد یہ ہے کہ مدعو کے لیے کسی قسم کا عذر باقی نہ رہے،مدعو کے ساتھ آخرت میں جو معاملہ کیا جائے وہ ہر اعتبار سے ایک جائز معاملہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

غلطی کے بعد

غلطی کرنے کے بعد اکثر لوگ دوسری غلطی یہ کرتے ہیں کہ غلطی کی صفائی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ غلطی کرنے کے بعد یہ دریافت کیا جائے کہ غلطی کیوں ہوئی۔ غلطی کی صفائی پیش کرنے والے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ جہاں وہ پہلے تھا، وہیں وہ بعد کو بھی باقی رہتا ہے۔ اس کے برعکس، غلطی کا سبب دریافت کرنے والے کو یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی غلطی کو دوبارہ دہرانے سے بچ جاتا ہے۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :عن أنس، قال :قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: کل بنی آدم خطاء، وخیر الخطائین التوابون (ابن ماجہ، حدیث نمبر 4251)۔ یعنی ہر انسان غلطی کرنے والا ہے، اور سب سے اچھا غلطی کرنے والا وہ ہے جو غلطی کے بعد توبہ کرے۔
اصل یہ ہے کہ کسی انسان کے پاس کلی علم نہیں۔ اس بنا پر انسان ہمیشہ غلط رائے قائم کرتا ہے۔ اس کے منصوبہ میں ہمیشہ غلطیاں ہوتی ہیں۔ انسان کی خوبی یہ نہیں ہے کہ وہ کبھی غلطی نہ کرے۔ انسان کی خوبی یہ ہے کہ کسی وجہ سےغلطی کرنے کے بعد جب اس پر اپنی غلطی ظاہر ہوجائے تو وہ فوراً رجوع کرے، وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ، اپنے عمل کو مطابقِ حقیقت بنائے۔ وہ کھلے طور پر اعتراف کرے کہ اس سے پہلے اس سے غلطی ہوگئی تھی۔ اب وہ اپنی رائے کو بدلتا ہے، اور زیادہ درست انداز میں اپنے کام کا نقشہ بناتا ہے۔
جو آدمی اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے، اس کی قیمت اس کو یہ دینی پڑے گی کہ وہ بدستور اپنی غلط روش پر قائم رہے۔ اس طرح وہ ایک طرف یقین سے محروم ہوجائے گا۔ کیوں کہ ایک بات کو درست نہ سمجھتے ہوئے وہ اس پر قائم رہے گا۔ دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ اس کا عمل نتیجہ خیز ثابت نہ ہوگا، اس کا منصوبہ مطلوب نتیجے تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

اصل مسئلہ

موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ کوئی خارجی سازش نہیں۔ ا ن کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ دورِ حاضر سے بے خبر ہوگیے ہیں۔ مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ دورِ حاضر ان کے لیے مسائل کا دور (age of problems)ہے۔ مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ موجودہ زمانہ مسلمانوں کے لیے مواقع کا زمانہ (age of opportunities)ہے۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وعلى العاقل أن یکون بصیرًا بزمانہ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر361)۔ یعنی دانش مند کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے سے با خبر ہو۔ آدمی جب اپنے زمانے سے باخبر ہو تو وہ اپنے عمل کی صحیح منصوبہ بندی کرے گا۔ او ر اگر وہ زمانے سے بے خبر ہوجائے تو اس کی سوچ بھی غلط ہوجائے گی، اور اس کی منصوبہ بندی بھی غلط۔
اکثر تعلیم یافتہ مسلمانوں کا خیال ہے کہ امریکا اسلام دشمن ہے۔ اس نظریہ کو عام طور پر اسلاموفوبیا (Islamophobia)کہا جاتا ہے۔ مگر یہ بات مکمل طور پر بے بنیاد ہے۔ کوئی بھی شخص امریکا کا سفر کرے، تو وہ پائے گا کہ وہاں کے مسلمان خوب ترقی کر رہے ہیں۔ وہاں بڑی تعداد میں مسجدیں اور اسلامی سینٹر قائم ہیں۔ مذہبی اعتبار سے وہاں مسلمانوں کو کوئی بھی رکاوٹ نہیں۔ اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ خود مسلمان امریکو فوبیا (Americophobia) میں مبتلا ہیں، نہ کہ امریکا اسلامو فوبیا میں۔
موجودہ زمانے کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اس میں متعصبانہ فکر کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ جدید دور کا کلچر تمام تر ایک ہی اصول پر قائم ہے۔ اور وہ ہے مسابقت (competition)۔ مغربی دنیا کا فارمولا ایک لفظ میں یہ ہےcompete or perish
مسلمان اپنی روایتی سوچ کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب ان کے خلاف سازش کرتا ہے، مغرب میں ان کے خلاف تعصب کیا جاتا ہے۔ یہ سب باتیں بالکل بے بنیاد ہیں۔ مسلمان صرف ایک کام کریں۔ وہ یہ ہے کہ وہ جدید تعلیم میں امتیازی درجہ حاصل کریں۔ اس کے بعد ان کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

نفس کا شر کیا ہے

ایک حدیث رسول میں ایک دعا ان الفاظ میں آئی ہے: اللہم ألہمنی رشدی، وأعذنی من شر نفسی(سنن الترمذی، حدیث نمبر3483)۔ یعنی اے اللہ، مجھ کو صحیح راستے کی ہدایت دے، اور مجھ کو میرے نفس کے شر سے بچا۔رُشد کے معنی ہیں راہ راست، یا ہدایت کا راستہ۔ یعنی وہ راستہ جس پر چل کر انسان کو دنیا اور آخرت کی فلاح حاصل ہوتی ہے۔
یہ راستہ قرآن و سنت میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے۔ ہدایت کے راستے کو جاننا اور اس پر عمل کرنا، انسان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ پھر وہ کیا چیز ہے جس کو یہاں نفس کا شر بتایا گیا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی سچائی کو جانے لیکن غلط تاویل کرکے اس کی صورت کو بدل دے۔
غلط تاویل ہمیشہ نفس کے شر کی وجہ سے ہوتی ہے۔ غلط تاویل کی گنجائش بہت زیادہ ہے ۔ یہاں تک کہ ایک واضح حکم کو بھی غلط تاویل کے ذریعے کچھ سے کچھ کیا جاسکتا ہے۔مثلا قرآن میں آیا ہے کہ نماز قائم کرو۔اگر انسان کے اندر شر نہ ہو تو وہ نہایت آسانی کے ساتھ اس کا مطلب سمجھ سکتا ہے، لیکن اگراس کے اندر شر ہو، یعنی اس کی نیت درست نہ ہو تو وہ عجیب و غریب تاویل کرکے اس کا مفہوم کچھ سے کچھ بنادے گا۔ مثلا اقامت صلاۃ کا مطلب ہے اقامت نظام، اقامت صلاۃ کا مطلب ہے سماج میں سدھار لانا، اقامت صلاۃ کا مطلب وہی چیز ہے جس کو اس زمانے میں سوشل سروس کہا جاتا ہے، وغیرہ۔ نفس کے شر سے بچنا آدمی کا اپنا کام ہے۔ صرف دعا کے الفاظ بولنے سے آدمی نفس کے شر سے بچ نہیں سکتا ہے۔اصل یہ ہے کہ اس معاملے میں پچاس فیصد آدمی کا اپنا کام ہے، اور بقیہ پچاس فیصد دعا کا کام ہے۔ اس معاملے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی صدق نیت کے ساتھ راہ راست کو دریافت کرے۔ اس کے اندر اس پر عمل کرنے کا سچا جذبہ موجود ہو۔ پھر وہ اللہ سے اس پر استقامت کی دعا کرے۔وہ اللہ سے اس بات کی مدد مانگے کہ شیطان اس پر حاوی نہ ہوجائے۔ وہ شیطان کی تزئین اور اس کے وسوسہ کو پہچانے، اور اپنے آپ کو اس سے بچائے۔
واپس اوپر جائیں

والرُجز فاہجر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید کا مشن تھا۔ آپ نے اپنا مشن 610 عیسوی میں قدیم مکہ میں شروع کیا۔ اس وقت ابتدائی دور میں آپ کے لیے قرآن میں جو ہدایات نازل ہوئیں، ان میں سے ایک یہ تھی: وَالرُّجْزَ فَاہْجُر (74:5)۔ یعنی رُجز کو چھوڑ دو۔ رجز کا لفظی مطلب گندگی (dirt) ہے۔ یہ لفظ یہاں آپ کے ذاتی کردار کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ دعوت کےطریقہ کار کے اعتبار سے ہے۔
قدیم مکہ میں رُجز کو چھوڑنے کا مطلب کیا تھا۔ اس کو پیغمبر اسلام کی عملی سیرت کی روشنی میں متعین کیا جائے تو وہ یہ ہوگا— مکہ میں اگر چہ تمھارے لیے ناموافق حالات ہیں، مگر تم اس معاملے میں حکیمانہ طریقہ اختیار کرو، اور چیزوں کو غلط زاویۂ نظر (wrong angle) سے دیکھنا چھوڑ دو۔
اس معاملے کی ایک مثال سورہ نمبر 94 میں ان الفاظ میں ملتی ہے: وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (الانشراح4:)۔ یعنی تمھارے مشن کے خلاف لوگ پروپیگنڈہ کررہے ہیں،لیکن تم اس پروپیگنڈے کو پبلسٹی (publicity) کے معنی میں لو۔ اور اس کو اپنے دعوتی مشن کے لیے ایک موقع (opportunity) کے طور پر استعمال کرو۔
اس معاملے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ قدیم مکہ میںلوگوں نے مقدس کعبہ کے اندر تقریباً تین سو ساٹھ بت رکھ دیے تھے۔ یہ بظاہر ایک اشتعال انگیز بات تھی۔ لیکن پیغمبر اسلام اس پر مشتعل نہیں ہوئے۔ آپ نے وقتی طور پر اس کو نظر انداز کیا۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ کعبہ میں بتوں کی موجودگی کی بنا پر وہاں ہر روز مشرکین کا جو اجتماع ہوتا تھا، اس کو اپنے لیے بطور آڈینس (audience) استعمال کیا۔ آپ خاموشی کے ساتھ وہاں جاتے اور لوگوں کو قرآن سناتے۔ روایات میں اس واقعے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وعرض علیہم الإسلام، وتلا علیہم القرآن(سیرت ابن ھشام، مصر 1955، 1/428)۔
واپس اوپر جائیں

مثبت روش کا نتیجہ

اسلام کی ایک تعلیم قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیم (41:34)۔اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں ،تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہو گیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔قرآن کی اس آیت میں عام اجتماعی زندگی میں حسنِ اخلاق (good behaviour)کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ حسن اخلاق بلاشبہ ایک اہم اسلامی قدر (Islamic value) ہے۔ لیکن قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ عداوت کی نسبت سے ہے، نہ کہ نارمل تعلقات کی نسبت سے۔
اسلام ایک مشن ہے، پرامن دعوتی مشن۔ باعتبارِ حقیقت یہ مشن پوری طرح پرامن اور غیر سیاسی مشن ہے۔ لیکن کسی ماحول میں جب اس مشن کے لیے کام کیا جائے تو کچھ لوگ نظریاتی بنیاد پر اس کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ اس طرح داعی اور مدعو کے درمیان عملاً نزاع (controversy)کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے موقعے پر مدعو کی طرف سے داعی کی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ قرآنی تعلیم اسی طرح کی نزاعی صورتِ حال کے بارے میں ہے۔
اس طرح کی صورتِ حال میں داعی کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہرگز اپنے کلام میں منفی رد عمل (negative reaction) کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ بلکہ وہ یک طرفہ طور پر مثبت رسپانس (positive response)کی روش پر قائم رہیں۔ داعی اگر اپنے آپ کو منفی ردعمل سے بچائے، مکمل طور پر دونوں کے درمیان اعتدال کی فضا قائم رہے، تو فطرت اپنا کام کرے گی۔ فطری پراسس کے تحت مدعو کی نفسیات بدلنا شروع ہو جائے گی، یہاں تک کہ یہ واقعہ پیش آئے گا کہ جو شخص بظاہر مخالف نظر آرہا تھا، وہ داعی کا حامی اور موافق بن جائے گا۔ منفی ردعمل مدعو کی ایگو (ego) کو بھڑکاتا ہے، مثبت رسپانس اس کو معتدل بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مشتعل نہ ہونے کا کرشمہ

کسی بات کا جواب اگر مشتعل ہوکر دیا جائے تو اس کا نتیجہ منفی صورت میں نکلتا ہے۔ اور اگر آدمی سخت بات سنے مگر وہ اپنے اعتدال کو نہ کھوئے، بلکہ اشتعال کے بغیر جواب دے تو نتیجہ معجزاتی طور پر موافق صورت میں نکلے گا۔اس کا سبب یہ ہے کہ اشتعال انگیز جواب سے سننے والے کی انا بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ غیر ضروری طور پر دشمن بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر معتدل انداز میں جواب دیا جائے تو سننے والے کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ اور گفتگو فطری انداز میں ہونے لگتی ہے۔ پیدائشی طور پر ہر آدمی آپ کا دوست ہے۔ اس کے بعد آپ کا رویہ یا تو اس کی دوستی کو باقی رکھتا ہے یا اس کو دشمن بنا دیتا ہے۔ اس نوعیت کی ایک تاریخی مثال یہاں نقل کی جاتی ہے۔
تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاری قبائل (Mongols)نے عباسی سلطنت پر حملہ کر دیا۔ انھوں نے سمرقند سے لے کر حلب تک مسلم سلطنت پر قبضہ کرلیا۔ اس کے کچھ سال بعد یہ معجزاتی واقعہ ہوا کہ تاتاری قبائل کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔ اسلام کے دشمن اسلام کے خادم بن گیے۔
اس تاریخی واقعہ پر پروفیسر ٹی ڈوبلیو آرنلڈ(Thomas Walker Arnold,
[1864-1930])نے ریسرچ کی ہے۔ ان کی کتاب دی پریچنگ آف اسلام (The Preaching of Islam) کے باب ‘Spread of Islam among the Mongols’ کے تحت اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔
اس زمانے میں تاتاری لوگ مسلمانوں کو سخت حقیر سمجھنے لگے تھے۔ اس دور کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک دن تاتاری شہزادہ تغلق تیمور خاں نے ایک ایرانی مسلمان، شیخ جمال الدین کو دیکھا۔ اس نے نفرت کے ساتھ کہا کہ تم اچھے یا میرا کتا اچھا۔ شیخ جمال الدین نے اس کو سن کر معتدل انداز میں جواب دیا، اگر میرا خاتمہ ایمان پر ہوا تو میں اچھا۔ اور اگر میرا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا تو تمھارا کتا اچھا۔یہ جواب سن کر شہزادہ کا غصہ ختم ہوگیا۔ اور اس نے شیخ کے ساتھ اچھا برتاؤ شروع کردیا۔ پروفیسر آرنلڈ نے اس واقعہ کواپنی کتاب میں ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
Tūqluq Timūr Khān (1347-1363), is said to have owed his conversion to a holy man from Bukhārā, by the name Shaykh Jamāl al-Dīn. This Shaykh, in company with a number of travellers, had unwittingly trespassed on the game-preserves of the prince, who ordered them to be bound hand and foot and brought before him. In reply to his angry question, how they had dared interfere with his hunting, the Shaykh pleaded that they were strangers and were quite unaware that they were trespassing on forbidden ground. Learning that they were Persians, the prince said that a dog was worth more than a Persian. “Yes,” replied the Shaykh, “if we had not the true faith, we should indeed be worse than the dogs.” Struck with his reply, the Khan ordered this bold Persian to be brought before him on his return from hunting, and taking him aside asked him to explain what he meant by these words and what was “faith”. The Shaykh then set before him the doctrines of Islam with such fervour and zeal that the heart of the Khān that before had been hard as a stone was melted like wax, and so terrible a picture did the holy man draw of the state of unbelief, that the prince was convinced of the blindness of his own errors, but said, “Were I now to make profession of the faith of Islam, I should not be able to lead my subjects into the true path. But bear with me a little and when I have entered into the possession of the kingdom of my forefathers, come to me again.” (London, 1913, p. 235)
شیخ جمال الدین سے ملاقات کے بعد کچھ اور واقعات پیش آئے یہاں تک کہ تغلق تیمور خاں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد اس نے حکمت کے ساتھ لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتایا۔ یہاں تک کہ تاتاریوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔ شیخ جمال الدین کا مشتعل جواب تاریخ کو دوسرا رخ دے دیتا۔ لیکن ان کے معتدل جواب نے تاریخ کو صحیح رخ پر ڈال دیا۔
واپس اوپر جائیں

مواقع کا استعمال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بعد تیرہ سال تک مکہ میں رہے۔ اس کے بعد آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ مدینہ کے لوگوں نے بہت جلد آپ کو اپنا قائد تسلیم کرلیا۔ اس کا راز یہ تھا کہ آپ کی ہجرت سے تقریبا پانچ سال پہلے مدینہ (یثرب) کے دو قبائل ، اوس اور خزرج کے درمیان جنگ ہوئی۔ جو جنگ بعاث کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ میں دونوں قبیلوں کے بڑے بڑےسردار مارے گئے۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہ کی ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: کان یوم بعاث، یوما قَدمہ اللہ لرسولہ(صحیح البخاری، حدیث نمبر3777) ۔ یعنی آپ کی ہجرت سے پہلے جنگ بعاث کا ہونا، یہ اللہ کی طرف سے آپ کی ایک مدد تھی۔
اس جملہ کی شرح کرتے ہوئےشارحین نے لکھا ہے : لو کان صنادیدہم أحیاء لما انقادوا لرسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم حبا للریاسة (عمدۃ القاری للعینی، بیروت، 17/64۔ الکواکب الدراری فی شرح صحیح البخاری للکرمانی، بیروت ، 1981، 15/139)۔یعنی اگر ان کے بڑے بڑے سردار اس وقت زندہ ہوتے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرگز اطاعت نہ کرتے، اپنی سرداری کی محبت میں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورتِ حال کو سمجھا، اور نہایت حکمت کے ساتھ اس کو استعمال کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف سرداروں کا ماراجانا کافی نہ تھا، بلکہ یہ بھی ضروری تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچنے کے بعد نہایت حکمت کا طریقہ اختیار فرمائیں۔ تاکہ کوئی نیا مسئلہ پیدا نہ ہوجائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اہل ایمان کے لیے موافق حالات ہمیشہ پیدا ہوتے ہیں۔ مگر صرف حالات کا پیدا ہونا کافی نہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم قائدین ان حالات کو سمجھیں، اور پیدا شدہ مواقع کو حکمت کے ساتھ استعمال (avail) کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکیمانہ طریقہ بھی اہل ایمان کے لیے ایک سنت کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بڑوں کی صحبت

ایک نوجوان انڈیا میں پیدا ہوئے۔ انڈیا میں انھوں نے تعلیم حاصل کی۔ تعلیم میں ان کو اعلیٰ درجے کی ڈگری ملی۔ پھر وہ یوروپ چلے گیے۔ اب وہ یوروپ کے ایک ترقی یافتہ شہر میں آرام و آسائش کی زندگی گزارہے ہیں۔ اس نوجوان کی بہن ابھی انڈیا میں رہتی ہے۔ بھائی سے ٹیلیفون پر بہن کی بات ہوئی۔ بہن نے بے تکلفی کے انداز میں کہا کہ تم انڈیا واپس آجاؤ۔ یہ سن کر بھائی نے جواب دیا— کیا میں پاگل ہوں۔
مذکورہ بھائی ابھی جوانی کی عمر میں ہیں۔ یورپ کے شہر میں وہ اچھی صحت کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کو ابھی زندگی کے گہرے مسائل کا تجربہ نہیں۔ اگر وہ جانتے کہ ان کی جوانی اور صحت ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں۔ دوسرے انسانوں کی طرح وہ بھی ایک دن بوڑھے اور ضعیف ہوجائیںگے۔ اس کے بعد زندگی ان کے لیے اسی طرح ایک بوجھ (burden) بن جائے گی جس طرح دوسرے بوڑھے مردوں اور عورتوں کے لیے بن جاتی ہے تو وہ اس قسم کا جواب نہ دیتے۔ اس واقعے کو سن کر مجھے ایک حدیث رسول زیادہ واضح طور پر سمجھ میں آئی۔اس حدیث کے الفاظ یہ ہیںعن ابن عباس أن النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال:البرَکة مع أکابرکم (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر559)۔ یعنی برکت تمھارے اکابر کے ساتھ ہے۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں الخیر مع أکابرکم (مجمع الزوائد و منبع الفوائد، حدیث نمبر12618)۔ یعنی خیر تمھارے اکابر کے ساتھ ہے۔
اس حدیث میں اکابر کا لفظ پر اسرار بزرگی کے معنی میں نہیں ۔ بلکہ یہ لفظ زندگی کی ایک فطری حقیقت کو بتاتا ہے۔ اکابر کا لفظ یہاں معمر اشخاص (seniors) کے معنی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ افراد جو صحیح زندگی گزاریں اور پھر وہ زیادہ عمر تک پہنچ جائیں۔ تو فطری طور پر وہ زیادہ اہل دانش (man of wisdom) بن جاتے ہیں۔ ان کی باتیں سننے والے اور ان کے ساتھ بیٹھنے والے کو ان سے حکمت و دانائی کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
معمر (senior) آدمی کو چند اضافی مواقع مل جاتے ہیں۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ زیادہ مدت تک علم سیکھے، وہ زیادہ مدت تک زندگی کا تجربہ حاصل کرے۔ اسی کے ساتھ بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے کی بنا پر اس کو زندگی کے شدائد (difficulties) کو جھیلنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندر سنجیدگی اور تواضع (modesty) آجاتی ہے۔ یہ صفت اس کو زندگی کے ایسے پہلووں سے آگاہ کرتی ہے جس سے جوان لوگ بالکل بے خبر رہتے ہیں۔
معمر (senior) انسان اگر فطری زندگی گزارے تو اپنی عمر کے آخری حصے میں اس کے اندر ایسی دانش (wisdom)پیدا ہوجاتی ہے جو جوانی کے عمر میں آدمی کے اندر نہیں ہوتی۔ وہ ایسی بصیرت افروز باتیں کرنے لگتا ہے جس سے کم عمر انسانوں کی باتیں خالی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے انسان کی باتوں میں زیادہ خیر اور زیادہ برکت (نفع بخشی) شامل ہوجاتی ہے۔
آدمی جب پیدا ہوتا ہے اور پھر بچپن سے جوانی کی عمر تک پہنچتا ہے توپہلے مرحلۂ حیات میں اس کو بجلی جیسی توانائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے اندر عزم ہوتا ہے۔ وہ حوصلہ مندانہ انداز میں زندگی کی سرگرمیوں میں شریک ہوتا ہے۔ یہ حالات اس کے اندر ایک پراعتماد شخصیت بنا دیتے ہیں۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں سب کچھ ہوں۔ میں جو چاہوں کرسکتا ہوں۔ میں اپنی مرضی کے مطابق اپنے لیے ایک زندگی کی تعمیر کرسکتاہوں۔
مگر دھیرے دھیرے اس کی عمر بڑھتی ہے۔ وہ ایجنگ (ageing)کے دور میں داخل ہوجاتا ہے۔ اب وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں میں پہلے جیسی طاقت نہیں رہی۔ اس کا حافظہ اس طرح کام نہیں کرتا جس طرح وہ پہلے کام کرتا تھا۔ اس کا دماغ ، اور اس کی آنکھ ، اور اس کے کان ، اور دوسرے اعضا اگرچہ بظاہر پہلے کی طرح ہیں، لیکن ہر ایک میں کمزوری آچکی ہے۔
یہ وہ دور ہوتا ہے جب کہ انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرنے لگتی ہے۔ وہ ایک حقیقت شناس انسان بن جاتا ہے۔ پہلے اگر وہ بے احتیاطی کے فیصلےکرتا تھا تو اب وہ اپنے فیصلوں میں زیادہ محتاط بن جاتا ہے۔ یہی وہ دورِ حیات ہے جس کی طرف مذکورہ حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

آخری گیت

رتن سنگھ (پیدائش 1927) اردو کے ایک مشہور ادیب ہیں۔ ایک گفتگو کے دوران ان کے انٹرویور ڈاکٹرریحانہ سلطانہ نے ان سے پوچھا، آپ اپنی نمائندہ کہانی کس کہانی کو مانتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا، نمائندہ کہانی تو ابھی مجھے لکھنی ہے۔ کب سرسوتی مہربان ہوجائے، کہہ نہیں سکتا۔ (ماہنامہ اردو دنیا، دہلی، اکتوبر2015، صفحہ 9) نوبیل انعام یافتہ رابندر ٹیگور نے اپنی کتاب گیتانجلی میںاپنے بارے میں لکھا ہے : ساری عمر بینا کے تاروں کو سلجھانے میں بیت گئی، جو انتم گیت میں گانا چاہتا تھا، وہ میں نہ گاسکا۔
یہ احساس تقریبا ہر ادیب اور صاحبِ قلم کے یہاں پایا جاتا ہے۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان پیدائشی طور پر آئڈلسٹ (idealist) ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے آئڈیل کو لفظوں میں ڈھال سکے، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کا سبب ایک فطری تضاد ہے جس سے ہر انسان زندگی میں دوچار رہتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ فطرت سے وہ خود تومعیار پسند مزاج لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن اپنے خیال کےاظہار کے لیے اس کے پاس جو الفاظ ہوتے ہیں، وہ معیار سے کمتر ہوتے ہیں۔ اس تضاد کی بنا پر ہر باذوق انسان کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ عملاً ایک تشنگی میں جیتا ہے، اور آخرکار اسی تشنگی میں مرجاتا ہے ۔
انسان کی اس تشنگی کے پورا ہونے کا مقام صرف جنت ہے۔ یہ تشنگی اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ انسان اس پر سنجیدگی کے ساتھ سوچے، جو آدمی حقیقی معنوں میں متلاشی (seeker) بن کر اس پر غور کرے گا، وہ ضرور اس کا جواب پالے گا۔ اور پھر اس کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس چیز کو اپنی تلاش کی منزل بنائے— انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے جنت کا طالب ہے۔ انسان طالب ہے، اور جنت اس کا مطلوب۔ انسان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو جانے، اور اس کو اپنا منزل مقصود بنائے۔
واپس اوپر جائیں

منافق کا کردار

منافقت (hypocrisy) ایک عام انسانی کردار ہے۔ منافقت یہ ہے کہ آدمی کے اندر دہرا معیار (duplicity) کا انداز پایا جاتا ہو۔ ایسا آدمی دو چہرے والا (double-faced) آدمی ہوتا ہے۔ و ہ گفتگو میں اپنے آپ کو جیسا ظاہر کرتا ہے، اندر سے وہ ویسا نہیں ہوتا ۔ ایسے لوگوں کو حضرت مسیح نے ’’سفیدی پھری ہوئی قبروں‘‘ سے تشبیہہ دی ہے۔ یعنی اندر سے تو وہ تاریک کردار کا آدمی ہے مگر باہر سے وہ اپنے آپ کو صاف ستھرا بنائے ہوئے ہے۔
عربی زبان میں کہا جاتا ہے کہ ’نافق الیربوع ‘ یعنی جنگلی چوہا سوراخ میں داخل ہوگیا۔ یہ ایک چھوٹا چوہا ہے جو اپنے آپ کو بل میں چھپائے رہتا ہے۔ یہی حال منافق انسان کا ہے۔ وہ اپنی شخصیت کو مصنوعی الفاظ بول کر چھپائے رہتا ہے۔ حالاں کہ اس کی اصل شخصیت اس کے بول سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔
منافق انسان دنیوی پہلو سے بھی ناقابل اعتبار ہوتا ہے، اور دینی پہلو سے بھی ناقابل اعتبار۔ ایسا آدمی اگر چہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح چھپائے رکھے لیکن دوسرے انسان کہیں نہ کہیں اس کو پہچان لیتے ہیں۔ اس کے بعد لوگوں کی نظروں میں اس کا اعتبار ختم ہوجاتا ہے۔
منافق انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک قابل پیشین گوئی کردار (predictable character)کا حامل نہیں ہوتا۔ایسے انسان کے اوپر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ زبان سے کچھ اور بولتا ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ کچھ اور ہوتا ہے۔ وہ اپنی گفتگو میں بظاہر اچھا نظر آتا ہے لیکن اپنے حقیقی کردار کے اعتبار سے وہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ منافق آدمی حیوان سے بھی کم تر درجے کا آدمی ہے۔ اس لیے کہ حیوان اپنے کردار کو چھپاتا نہیں، جب کہ منافق ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کا اصل کردار لوگوں کی نظروں سے چھپارہے۔
واپس اوپر جائیں

خوشی کا حصول

خوشی ہر آدمی چاہتا ہے۔ لیکن مطلوب خوشی کسی کو نہیں ملتی۔ چنانچہ خوشی عملا ایک ناقابل حصول چیز بنی ہوئی ہے۔ برٹش فلسفی برٹرینڈ رسل نے خوشی (happiness)کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں وہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں خوشی کسی کے لیے قابلِ حصول نہیں۔ اس معاملے میں اسلام نے ایک فطری فارمولا اختیار کیا ہے۔قرآن میں بتایا گیا ہے اطمینانِ قلب انسان کو صرف اللہ کی یاد (الرعد28 )سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی قرآن میں دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا گیا ہے، مادی لذت (physical pleasure) اور ذہنی اطمینان (intellectual satisfaction)۔ اللہ کے نقشۂ تخلیق کے مطابق ، مادی لذت کامل معنوں میں صرف جنت میں ملے گی۔ اس دنیا میں جو چیز مل سکتی ہے، وہ ہے ذہنی اطمینان۔اور وہ بلاشبہ ہر انسان کے لیے قابلِ حصول ہے۔
ذہنی اطمینان یہ ہے کہ آدمی صورتِ حال کی معقول توجیہہ دریافت کرسکے۔ مثلا آپ ٹرین پکڑنے کے لیے اسٹیشن گیے۔ آپ اسٹیشن پر ٹرین کے مقرر وقت کے مطابق جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ ٹرین دو گھنٹہ لیٹ ہے۔ اگر آپ کو لیٹ ہونے کا سبب معلوم نہ ہوتو آپ پریشان ہوجائیں گے۔ لیکن اگر آپ کو معلوم ہوجائے کہ ٹرین کے لیٹ ہونے کا واقعی سبب کیا ہے۔ تو آپ مطمئن ہوجائیں گے اور ذہنی سکون کے ساتھ ٹرین کی آمد کا انتظار کریں گے۔
خالق نےموجودہ دنیا کو امتحان کے لیے پیدا کیا ہے اور آخرت کو انعام کے لیے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں مادی لذت کسی کو پورے معنوں میں نہیں مل سکتی۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ آدمی صورتِ حال کی توجیہہ کرکے ذہنی اطمینان حاصل کر لے۔ اسلام کے مطابق خوشی کا فارمولا یہی ہے۔ مادی لذت کے معاملے میں آپ یہ کیجیے کہ ملے ہوئے پر قناعت کیجیے۔ اور نہ ملے ہوئے کو آخرت کے خانے میں ڈال دیجیے۔ اس طرح آپ کا ذہن آزاد ہوجائے گااور واقعات کی صحیح توجیہہ کر کے آپ ذہنی اطمینان حاصل کر لیں گے۔ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق خوشی کے حصول کا یہی قابلِ عمل فارمولا ہے۔
واپس اوپر جائیں

پختگی کیا ہے

امریکی خاتون جرنلسٹ این لینڈرس(Esther Pauline, alias Ann Landers ) 1918 میں پیدا ہوئیں، 2002 میں ان کی وفات ہوئی۔ انھوں نے درست طور پر کہا ہے — پختگی اس صلاحیت کا نام ہے کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ پر امن طور پر رہ سکیں جن کوآپ بدل نہیں سکتے:
Maturity is the ability to live in peace with those whom we cannot change.
یہ بلاشبہ ایک دانش مندی کی بات ہے۔ اس بات کو مزید معنوی اضافہ کے ساتھ اس طرح کہا جاسکتا ہے— پختگی اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی اپنے منصوبہ کو ان حالات کے مطابق دوبارہ بنا سکے، جن کو وہ بدل نہیں سکتا:
Maturity is the ability to reset your plan according to the situation you cannot change.
اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنے عمل کے لیے ایک منصوبہ (plan) بناتا ہے۔ مگر تجربے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس کا منصوبہ اصولی طور پر بظاہر درست ہونے کے باوجودعملی اعتبار سے ورکیبل (workable) نہ تھا۔
اس تجربے کے بعد آدمی دوبارہ اپنے مقصد کے لیے نیا منصوبہ بناتا ہے، ایسا منصوبہ جو حالات کے مطابق، زیادہ قابل عمل ہو۔ تجربے کی روشنی میں دوبارہ سوچنا اور اور زیادہ قابل عمل انداز میں اپنا منصوبہ بنانا بلاشبہ دانشمندی ہے۔
کامیاب منصوبہ کے لیے صرف یہی کافی نہیں کہ وہ منصوبہ بنانے والے کے نزدیک درست منصوبہ ہو۔ اسی کے ساتھ لازمی طور پر ضروری ہے کہ وہ حالات کے مطابق، ورکیبل (workable) بھی ہو۔ تجربے کے بعدآدمی کو جب محسوس ہو کہ اس کا منصوبہ قابلِ عمل نہ تھا تو اس کو فوراً اپنے منصوبہ پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

میرٹ کلچر، تعلقات کلچر، تزکیہ کلچر

ترقی یافتہ قومیں (developed nations) میں میرٹ کلچر (merit culture) رائج ہے۔ غیر ترقی یافتہ قوموں (underdeveloped nations) میں تعلقات کلچر کواہم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ربانی معاشرہ وہ ہے جہاں تزکیہ کلچر پایا جائے۔ میرٹ کلچر کے ماحول میں ساری اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ کوئی شخص کتنا زیادہ لائق (competent) ہے۔ ایسے ماحول میں لائق آدمی کو جگہ ملتی ہے، اور جو شخص لائق نہ ہو، اس کو رد کردیا جاتا ہے۔
جس معاشرہ میں تعلقات کلچر کا رواج ہو، وہاں یہ حال ہوتا ہے کہ ہر آدمی ذمہ داروں سے تعلق (contact) بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس کو اپنی ذاتی استعداد بڑھانے کی فکر نہیں ہوتی، البتہ وہ رات دن اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ ذمہ داروں سے خوب تعلق قائم کرے۔ اس کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ تعلقات سے کام بنتے ہیں ، نہ کہ ذاتی استعداد سے۔
ربانی معاشرہ ان دونوں سے مختلف ہوتا ہے۔ ربانی معاشرہ میں ہر ایک کا کنسرن (concern) تزکیہ ہوتا ہے۔ یعنی اپنی اصلاح، اپنے آپ کو اس قابل بنانا کہ وہ اللہ کی عنایتوں کا مستحق قرار پائے، اپنے اندر وہ شخصیت بنانا جس کو شریعت میں مزکیّ شخصیت کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ شخصیت جس کو آخرت میں جنت میں داخلہ کے لیے منتخب کیا جائے۔
دوسرے معاشروں میں لوگوں کی توجہ کا مرکز انسان ہوتے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو انسان کی نسبت سے لائق بنانا یا انسان کی نسبت سے اپنے آپ کو قابل قبول بنانا۔ اس کے برعکس، ربانی معاشرہ میں انسان کی توجہ کا مرکز تمام تر صرف اللہ ہوتا ہے۔ ایسے معاشرہ میں انسان اپنے آپ کو اس نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، جس نظر سے اس کا رب اس کو دیکھے گا۔ ایسے معاشرہ میں انسان اپنی کامیابی کو آخرت کے اعتبار سے جانچتا ہے، نہ کہ دنیا کے اعتبار سے۔ ایسے معاشرہ میں انسان کا تصور یہ ہوتا ہے کہ کامیاب انسان وہ ہے جس کو جنت میں داخلہ ملے، اور ناکام انسان وہ ہے جو جنت میں داخلہ سے محروم ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

امن کا مسئلہ

امن (peace) کا مسئلہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، وہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ اس دنیا کے پیدا کرنے والے نے دنیا کا نظام فطرت کے قانون کے تحت بنایا ہے۔ ہر معاملے کا ایک فطری قانون ہے۔ جو آدمی اس فطری قانون کا اتباع کرے گا، وہ کامیاب ہوگا۔ اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرےگا، وہ ناکام ہوکر رہ جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ دنیا کے خالق نے ہر انسان کو آزادی عطا کی ہے۔ ہر انسان پوری طرح آزاد ہے کہ وہ جو چاہے کرے، اور جو چاہے نہ کرے۔ اس بنا پر ہر سماج میں امکانی طور پر ٹکراؤ کا ماحول قائم ہوجاتا ہے۔ ایک شخص کی آزادی دوسرے شخص کی آزادی سے ٹکراتی ہے۔ یہی وہ صورتِ حال ہے جو ہر سماج میں نفرت اور تشدد کا ماحول پیدا کردیتی ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ کوئی شخص اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ لوگوں سے ان کی آزادی چھین لے۔ ایسی حالت میں کسی سماج میں امن صرف اس وقت قائم ہوسکتا ہے، جب کہ لوگ ایسا فارمولادریافت کریں، جس میں آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، امن قائم ہوجائے۔ یہ فارمولاصرف ایک ہے۔اور وہ ہے اصولِ اعراض (principle of avoidance)۔ یعنی ٹکراؤ سے ہٹ کرکے اپنا سفر طے کرنا۔
اعراض کا اصول ایک کائناتی اصول ہے۔ کائنات اسی اصول پر قائم ہے۔ کائنات میں بے شمار ستارے اور سیارے ہیں۔ ہر ایک مسلسل طور پر خلا میں حرکت کررہاہے۔ مگر ان کے درمیان کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر ستارہ اور سیارہ اصول اعراض کے مطابق، اپنے اپنے مدار (orbit)پر گردش کر رہا ہے۔ یہی اصول انسانوں کو بھی اپنی چوائس سےاختیار کرنا ہے۔ اس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں جس کے ذریعے انسانی دنیا میں امن قائم ہوسکے۔ امن کا معاملہ مذہبی عقیدہ کا معاملہ نہیں ، بلکہ وہ فطرت کا معاملہ ہے۔ امن ہر ایک کی ضرورت ہے، خواہ وہ مذہبی انسان ہو یا سیکولر انسان۔
واپس اوپر جائیں

جنگ کوئی انتخاب نہیں

امریکا کی قیادت میں صدام حسین کے خلاف عرا ق کی جنگ ہوئی۔ یہ جنگ 2003 سے 2009 تک جاری رہی۔ اس جنگ میں بظاہر امریکا کو جیت ہوئی۔ لیکن اس کے بعد اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (ISIS) کی صورت میں ایک شدید تر مسئلہ پیدا ہوگیا۔ سابق برطانی وزیر اعظم ٹونی بلیر جو اس جنگ میں بطور حلیف شریک تھے، انھوں نے اس جنگ کو ایک غلطی قرار دیا ہے :
Iraq war contributed to rise of IS: Britain’s former PM Tony Blair has apologised for mistake made over the Iraq war and said there were '“elements of truth” to claims that the 2003 US-led invasion was the principle cause of the rise of IS. (The Times of India, New Delhi, October 26, 2015, p.22)
اس معاملے میںزیادہ صحیح بات یہ ہے کہ عراق وار انتخاب کی غلطی کا ایک کیس تھا۔ اس جنگ میں امریکا اور برطانیہ کے چار ہزار سے زیادہ فوجی مارے گیے۔ اس جنگ کا خرچ تقریبا تین ٹریلین ڈالر تھا۔ لیکن نتیجہ برعکس صورت میں نکلا، خلیج کا مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ شدید ہوگیا۔
اصل یہ ہے کہ جنگ کی نفسیات کے مطابق ، جنگ کا خاتمہ اس طرح نہیں ہوتا کہ ایک فریق دوسرے فریق کو ہرادے۔ عملا یہ ہوتا ہے کہ ہارا ہوا فریق اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا، بلکہ اس کے اندر انتقام (revenge) کی نفسیات جاگ اٹھتی ہے۔ منفی ردعمل کا یہ جذبہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ اگر اس کے اندر جوابی جنگ کی طاقت نہ ہو تو وہ خود کش بمباری (suicide bombing) کا طریقہ اختیار کر لیتا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو ہلاک کر کے فریقِ ثانی کو نقصان پہنچانا۔ جنگ کوئی انتخاب (choice) نہیں۔ صحیح انتخاب یہ ہے کہ جنگی صورتِ حال کو پر امن طور پر مینج کرنے کی کوشش کی جائے۔اپنے آپ کو مثبت بنیادوں پر اتنا طاقت ور بنایا جائے کہ خود مثبت تعمیر فتح کے لیے کافی ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

سماجی تعلقات

قرآن میں انسانی زندگی کے ایک پہلو کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِہْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا (25:54)اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا۔ پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا۔ اور تمھارا رب بڑی قدرت والا ہے۔
انسان کو سماجی حیوان (social animal) کہا جاتا ہے۔ حیوانوں کے اندر سماجی تعلقات نہیں ہوتے۔ جب کہ انسانوں کے درمیان سماجی تعلقات ہوتے ہیں۔ یہ سماجی تعلقات دو طریقہ سے قائم ہوتے ہیں۔ ایک ، خونی رشتہ (blood relationship)کے ذریعے، اور دوسرے، ازدواجی تعلقات (wedlock) کے ذریعے۔ یہ دونوں چیزیں فطری طور پر انسان کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ انسان کی اسی فطرت کی بنا پر سماج (society) بنتا ہے، اور اسی کی ترقی سے تہذیب وجود میں آتی ہے۔ انسانوں کے درمیان اگر سماج نہ ہو تو تہذیب کا وجود بھی نہ ہوگا۔
انسان کو اللہ تعالی نے جن امتیازی اوصاف کے ساتھ پیدا کیا ہے، ان میں سے ایک اہم صفت وہ ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیا ن کی گئی ہے۔ انسان کے اندر فطری طور پر رشتے کے مذکورہ اسباب موجود نہ ہوں تو انسانوں کے درمیان سماج نہیں بنے گا۔ اور اگر سماج نہ بنے تو انسانوں کے اندر اجتماعیت وجود میں نہ آئے گی۔ انسان بھی اسی طرح جنگلوں میں رہے گا، جس طرح حیوانات جنگلوں میں رہتے ہیں۔
جنگل میں حیوانات رہتے ہیں لیکن ان کے درمیان سماجی نوعیت کا کوئی نظام نہیں ہوتا۔ سماجی تعلقات صرف انسان کی صفت ہے۔ سماجی تعلقات کی بے حد اہمیت ہے۔ اسی سماجی تعلقات کی وجہ سے انسانی زندگی کی تمام ترقیاں ہوتی ہیں۔ حتی کہ تہذیب اسی سماجی زندگی کا ایک اعلی اظہار ہے۔ سماجی تعلقات نہ ہوں تو انسانی زندگی بھی حیوانی زندگی بن کر رہ جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

شادی کا مسئلہ

ایک صاحب نے اپنی پسند کی ایک خاتون سے شادی کی۔ شادی کے کچھ دنوں بعد ان سے میری ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ شادی سے پہلے مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرا ہوائی جہاز فضا میں اڑ رہا ہے۔ مگر شادی کے بعد ایسا معلوم ہواجیسےکہ میرا جہاز کریش (crash) ہوگیا، اور میں جہاز کے ساتھ زمین پر گرپڑا ۔
یہ ایک شخص کی بات نہیں۔ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کے معاملے میں اکثر لوگوں کا احساس کم و بیش یہی ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عورت اپنے مزاج کے اعتبار سے جذباتی ہوتی ہے۔ بچپن سے شادی کی عمر تک وہ اپنے خونی رشتوں کے درمیان رہتی ہے۔ اس بنا پر اس کو اپنے خونی رشتوں سے خصوصی لگاؤ ہوجاتا ہے۔ جب کہ شادی کے بعد اس کو اپنے سسرالی رشتوں (in laws) کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔عورت ، شعوری یا غیر شعوری طور پر، اپنے آپ کو اس فرق کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کرپاتی۔ اس سے طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اور شادی عملاً، پرابلم میرج (problem marriage) بن جاتی ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ سسرالی رشتوں اور غیر سسرالی رشتوں کا فرق ختم ہو۔ یہ ایک فطری فرق ہے جو ہمیشہ باقی رہے گا۔ اس مسئلے کا عملی حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ آدمی شعوری طور پر یہ جان لے کہ وہ ایک فطری مسئلہ سے دوچار ہے۔ جس کووہ ختم نہیں کرسکتا۔ آدمی اگر شعوری طور پر اس بات کو جان لے تو اس کے اندر ایڈجسمنٹ (adjustment)کا مزاج پیدا ہوگا۔ اس کے اندر یہ سوچ بیدا رہوجائے گی— جس مسئلے کو میں بدل نہیں سکتا اس کو مجھے نبھانا چاہیے، اس کے ساتھ مجھے ایڈجسٹ کرکے رہنا چاہیے۔اس فرق کا ایک مثبت پہلو ہے۔ یہ فرق آدمی کو ذہنی جمود (intellectual stagnation)سے بچاتا ہے۔ اس بنا پر آدمی کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل رکے بغیر جاری رہتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

غیر ادیب کی ادبی تخلیق

ایک طالب علم نے ادب کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ۔ اس نے اپنی یہ کتاب ایک اسکالر کو یہ کہہ کر پیش کی کہ یہ میری پہلی تخلیق ہے ۔ اسکالر نے کتاب دیکھ کر کہاکہ یہ ایک غیر ادیب کی ادبی تخلیق ہے۔اسی طرح ایک شخص نے ایک غیر علمی کتاب لکھی اور اس کو شائع کیا۔ ایک عالم نے کتاب دیکھنے کے بعد تعجب سے کہا: ایک غیر مصنف نے تصنیف تیار کی ہے۔
یہ کلچر غیر ترقی یافتہ ملکوں میںبہت عام ہے۔ یہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک غیر امام، امام بن جاتا ہے۔ ایک غیر لیڈر، لیڈر بن جاتا ہے۔ ایک غیر عالم، عالم بن جاتا ہے۔ ایک غیر ڈاکٹر، ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ ایک غیر مصنف، مصنف بن جاتا ہے۔ ایک غیر صحافی، صحافی بن جاتا ہے، وغیرہ۔ اس قسم کی صورتِ حال کو دیکھ کر ان ملکوں میں ایک مثل عام ہے— نیم حکیم خطرۂ جان، نیم ملا خطرۂ ایمان۔
میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں۔ مجھے آپ کی کتابیں بہت پسند ہیں۔ میں بھی اسی طرح کی کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے اس سلسلے میں مشورہ دیجیے۔ میں نے کہا :آپ بیس سال عربی کتابیں پڑھیے۔ بیس سال انگریزی کتابیں پڑھیے۔ بیس سال لکھنے کی مشق کیجیے۔ اس کے بعد آپ کو لکھنا آجائے گا۔
کسی کام کو اچھی طرح انجام دینے کے لیے لمبی مدت تک تیاری کرناضروری ہوتا ہے۔ بغیر لمبی مدت کی تیاری کے کوئی شخص قابلِ ذکر کام انجام نہیں دے سکتا۔اس حقیقت کوالطاف حسین حالی نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیش عشق رکھی ہے آج لذتِ زخم جگر کہاں
علی ابن ابی طالب کا ایک قول ہے قیمۃ کل امرء ما یحسن(جامع بیان العلم، حدیث نمبر608)۔ زندگی کااصول یہ ہے کہ آدمی یہ دریافت کرے کہ وہ کس کام کو زیادہ بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے، اسی کو وہ انجام دے۔ کم تر درجے کا کام انجام دینا صرف وقت کا ضیاع ہے، اس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ریزرویشن کے بغیر

ایک صاحب نے کہا کہ انڈیا میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن بہت ضروری ہے۔ ریزرویشن کے بغیر وہ اس ملک میں ترقی نہیں کرسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ انڈیا ہو یا کوئی دوسرا ملک، ہر جگہ فطرت کا ایک ہی اٹل قانون ہے۔ اس قانون کے مطابق، ریزرویشن کسی کمیونٹی کے لیے ترقی کا ذریعہ نہیں۔
ریزرویشن، برعکس طور پر، ترقی میں رکاوٹ ہے۔ ریزرویشن آدمی کے اندر کامپٹیشن کی اسپرٹ ختم کردیتا ہے۔ ریزرویشن کے ذریعے کسی کو کوئی معمولی فائدہ تو مل سکتا ہے۔ لیکن ریزرویشن کے ذریعے بڑی ترقی نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ کسی کو فیور نہ دیں تو آپ اس کو زیادہ بڑی چیز دیتے ہیں۔ اور وہ محنت کا محرک (incentive) ہے۔
فیور نہ ملنے کی وجہ آدمی کےاندریہ سوچ جاگتی ہے کہ مجھے کسی کی مہربانی سے کچھ ملنے والا نہیں۔ اس بنا پر میرے لیے ایک ہی صورت ہے۔ وہ یہ کہ محنت کرکے میں میرٹ (merit) میں آنے کی کوشش کروں۔ یہ سوچ اس کے اندر محنت کے حق میں ایک کمپلشن (compulsion)پیدا کرتی ہے۔ اس کی سوئی ہوئی طاقتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ پہلے اگر وہ مین (man)تھا تو اب وہ سوپر مین (superman)بن جاتا ہے۔ اور آخر کار بڑی کامیابی تک پہنچ جاتا ہے۔
محنت کے ذریعے آگے بڑھنے والے انسان کے اندر اور بھی کئی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے اندر خود اعتمادی (self-confidence) پیدا ہوتی ہے۔ اس کے اندر حقیقت پسندی (realistic approach)آتی ہے۔ اس کے اندر شکایت کی نفسیات ختم ہوجاتی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے اچھی مثال قائم کرتا ہے۔ وہ وقت اور مال دونوں کے استعمال کے معاملے میں سخت محتاط ہوجاتا ہے۔ وہ سماج کا ایک دینے والا(giver) ممبر بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

معکوس پبلسٹی

عبداللہ اینڈ کمپنی لمیٹیڈ ایک سگریٹ ساز کمپنی تھی جو 1902 میں لندن میں قائم ہوئی۔ وہ سگار اور سگریٹ بناتی تھی۔ اس کمپنی کا ایک سگریٹ جس کا نام عبد اللہ تھا، بہت مقبول ہوا۔ اس مقبولیت کا راز یہ ہے کہ کمپنی کے کچھ آدمی مشہور برٹش رائٹر جارج برنارڈ شا (George Bernard Shaw) (وفات1950) کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ ہماری سگریٹ کے بارے میں کچھ لکھ دیجئے۔ برنارڈ شا نے کہا: میں اسموکنگ کے خلاف ہوں، میں کیسے اس کے بارے میں لکھوں۔ کمپنی والوں نے کہا کہ آپ یہی بات لکھ دیجئے۔ برنارڈ شا غصہ ہوگیا۔ اس نے غصے میں ایک کاغذ اٹھایا اور اس پر یہ الفاظ لکھ دیئے:
“Don't smoke, even Abdulla”,
کمپنی والوں نے برنارڈ شا کے الفاظ اخبار میں چھاپ دیئے۔ جب لوگوں نے برنارڈ شا کا یہ ریمارک پڑھا تو عبداللہ سگریٹ کے بارے میں ان کا شوق بڑھ گیا۔ سگریٹ کی دکانوں پر عبد اللہ سگریٹ خریدنے والوں کی بھیڑ لگ گئی۔ یہاں تک کہ عبد اللہ سگریٹ اس زمانے کا سب سے زیادہ بکنے والا سگریٹ بن گیا، کمپنی والوں نے اس سے بہت پیسہ کمایا۔
اگر بولنا الٹا نتیجہ پیدا کرنے والا ہو تو آدمی کو چاہئے کہ وہ چپ رہے۔ کبھی خاموشی کے ذریعے وہ مقصد زیادہ بہتر طور پر حاصل کیا جاسکتا ہے جس مقصد کو انسان بول کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کیوں کہ اصل چیز نتیجہ ہے نہ کہ بولنا۔
اس دنیا میں جس طرح بولنا ضروری ہے، اسی طرح چپ رہنا بھی ضروری ہے۔ یہ آدمی کی دانش مندی کا امتحان ہے کہ وہ یہ جانے کہ کب اس کو بولنا ہے اور کب اس کو بولنے سے رک جانا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ حالات کا جائزہ لے ، وہ نتیجہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔ عمل وہی درست ہے جو نتیجہ خیز ہو۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
غیبت اور تنقید میں کیا فرق ہے، اس کی وضاحت فرمائیں ۔(شہنواز ظفر، دہلی)
جواب
غیبت کا حکم قرآن کی سورہ الحجرات آیت نمبر 12 میں آیا ہے۔ اسی طرح غیبت کے بارے میں ایک مشہور حدیث  ہے۔ یہ حدیث صحیح مسلم حدیث نمبر 2589 کے تحت موجود ہے۔ علماء نے اس پر کافی لکھا ہے۔ آپ اس کے بارے قرآن کی تفسیروں اور حدیث کی شرحوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
غیبت کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے: آدمی کسی شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جو اگر اسے معلوم ہو تو اس کو ناگوار گزرے۔ یہ غیبت کی درست تعریف ہے۔ لیکن تنقید (criticism) کا معاملہ اس سے الگ ہے۔ غیبت اور تنقید کو ہم معنی سمجھنا صحیح نہیں۔
غیبت کی اصل پیٹھ کے پیچھے برائی کرنا (backbiting) ہے۔ یہ بلاشبہ ایک اخلاقی برائی ہے۔ اور قرآن و حدیث میں جس چیز کو برا بتایا گیا ہے وہ یہی غیر اخلاقی عادت ہے۔ کسی کی برائی اگر اس کے سامنے کی جائے تو اس آدمی کو موقع ہوتا ہے کہ وہ اس کی وضاحت کرے۔ آدمی کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کرنا اس لیے غلط ہے کہ اس کی وضاحت کرنے کے لیے وہ وہاں موجود نہیں ہوتا۔
غیبت ایک اخلاقی برائی ہے۔ اس کے مقابلے میں تنقید ایک علمی ضرورت ہے۔ اس اعتبار سے تنقید کا زیادہ درست لفظ تجزیہ (analysis) ہے ۔ تجزیہ ایک ایسی علمی ضرورت ہے جس کے بغیر علم کا ارتقاء نہیں ہوسکتا۔ تنقید کو غیبت کے ہم معنی سمجھنا اور اس پر پابندی لگانا علمی ترقی اور ذہنی ڈیولپمنٹ (intellectual development) کو ختم کردیتا ہے۔ اس کے بعد جو چیز باقی رہتی ہے، وہ ذہنی جمود (intellectual stagnation) ہے۔علمی تنقید کا تعلق کسی شخص کی ذاتی برائی بیان کرنا نہیں ہوتا۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ معلوم حقائق (known facts) کی بنیاد پر کسی کے نقطہ نظر کا صحت و سقم بیان کرنا۔
شخصی برائی اور علمی تجزیہ کے درمیان یہ فرق ہے کہ شخصی برائی کا صحیح یا غلط ہونا صرف وہی آدمی جان سکتا ہے جس کی ذات کے بارے میں برائی کی گئی ہو۔ اس کی ذات کے باہر ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا جس سے یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس کی ذات کے بارے میں جو کچھ کہاگیا ہے وہ درست ہے یانہیں۔ اسی لیے شخصی برائی (غیبت) کی یہ لازمی شرط ہے کہ اس کو جب بیان کیا جائے تو وہاں خود وہ شخص موجود ہو جس کی ذات کے بارے میں برائی بیان کی گئی ہے۔
تجزیاتی تنقید (critical analysis) کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔تجزیاتی تنقید ہمیشہ معلوم حقائق (known facts)کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں ہمیشہ خارجی ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ اس لیے ریکارڈ سے تقابل کرکے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ تنقید کرنے والے کی تنقید درست تھی یا غلط۔
مثلا اگر آپ کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ منافق ہے۔ تو یہ قول ایک سبجکٹیو (subjective) قول ہوگا۔ اس قول کی تحقیق کرنے کے لیے کوئی خارجی مواد نہیں ملے گا۔ اس لیے اس طرح کے بیان کے لیے ضروری ہے کہ متعلق شخص وہاں موجود ہو تاکہ وہ ایسے کسی قول کی خود سے وضاحت کرسکے۔ اس کے برعکس، اگر آپ کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ اس نے اپنی فلاں مطبوعہ کتاب میں فلاں واقعہ کی تعریف غلط لکھی ہے، توہر شخص کو یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ اس مطبوعہ کتاب کو حاصل کرے اور تاریخی ریکارڈ سے تقابل کرکے اس بیان کا صحیح یا غلط ہونا معلوم کرے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی شخص کی ذات کے بارے میں تنقیص ناجائز ہے۔ اور کسی شخص کی بات کا علمی تجزیہ کرنا عین جائز ہے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 243

1۔ ابھی حا ل میں صدر اسلامی مرکز کے ترجمہ قرآن کو فرنچ زبان میں گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے شائع کیا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں تک زیادہ سے زیادہ قرآن کو پہنچانا ہے۔اس فرنچ ترجمہ کومز شہناز بنبیکٹا نے صدر اسلامی مرکز کے ترجمہ قرآن (انگلش) سے تیار کیا ہے۔ وہ پیرس (فرانس) میں رہتی ہیں۔
2۔ ندوة المجاہدین (کیرلا) کے اسٹیٹ جنرل سکریٹری جناب صلاح الدین مدنی نے صدر اسلامی مرکز کے امن کے موضوع پر منتخب انگریزی مضامین کو ملیالم زبان میں“Samathanathintey Samskaram” یعنی ’کلچر آف پیس‘ کے نام سے ریلیز کیا۔اس موقع پر سیاسی پارٹی کے لیڈران بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ مسٹر شبیر علی ، چیپٹر ہیڈ کیرالا ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کے پیس مشن کا تعارف کرایا اور تمام شرکاء کے درمیان ملیالم زبان میں دعوتی لٹریچر تقسیم کیا گیا۔
3۔ 21فروری 2016 کو سری فورٹ آڈیٹوریم (نئی دہلی) میں واک آف ہوپ (Walk of Hope) کی طرف سے ایک پروگرام منعقد ہوا۔ یہ این جی او امن وبھائی چارہ کے لیے کام کرتی ہے۔اس میں صدر اسلامی مرکز نے خطاب کیا۔اس کے علاوہ سی پی ایس دہلی کے ممبران نے پروگرام میں شریک ہونے والوں کے درمیان دعوہ لٹریچر تقسیم کیا ۔
4۔ 26فر وری 2016 کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر، لودھی روڈ، نئی دہلی میں 'اسپریچول وزڈم اینڈ ہولسٹک ورلڈ آرڈر ' کے عنوان سے ایک کانفرس کا انعقاد ہوا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز نے بین مذاہب تعلقات کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس پروگرام کی خاص بات یہ رہی کہ آرگنائزر نے خود سے صدر اسلامی مرکز کے ترجمۂ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر کو لوگوں کے درمیان تقسیم کیا، نیز پروگرام کے مقام پر ایک کارنر میں دعوتی لٹریچر رکھنے کا موقع دیا۔ تمام لوگوں نے خوش دلی سے ترجمہ قرآن اور سپورٹنگ لٹریچرس حاصل کیا۔
5۔ 28 فروری 2016کو اٹلی کے ایک وفد نے مسٹر ماریو کونتی(Mario Conti) کی قیادت میں صدر اسلامی مرکز سے ان کی رہائش گاہ، نظام الدین ویسٹ ، نئی دہلی میں ملاقات کی۔ اس موقع پر صدر اسلامی مرکز نے مختلف موضوعات پر گفتگو کی ۔ اس کے بعد ان کو دعوہ لٹریچرگفٹ کیاگیا۔اس موقع پر ثانی اثنین خاں کی انگریزی کتاب ’’مائی فرسٹ قرآن اسٹوری بک‘‘ کے اٹالین زبان میں ترجمے کا اجرا بھی کیا گیا۔ واضح رہے کہ یہ گروپ اس سے پہلے بھی صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کرچکا ہے۔
6۔ گڈ ورڈ بکس (Goodword Books)نے مختلف انٹرنیشنل بک فیر میں شرکت کی ۔ جیسےمسقط بک فئیر، عمان، چائنا بک فیر، دبئی بک فیسٹیول وغیرہ۔ ان تمام بک فیئر میں آنے والے لوگوں کے درمیان ترجمہ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا گیا۔
7۔ کشمیر میں بڑے پیمانے پر دعوتی کام کیا جارہا ہے۔ حال ہی میںشمالی کشمیر میں تعینات فوجیوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے 400 ترجمہ قرآن بھیجے گئےاور 100 ترجمہ قرآن ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے ججوں اور وکلاء کے لئے بھیجے گئے۔اس کے علاوہ ہوٹلوں کے ذریعہ سیاحوں کے درمیان بڑے پیمانے پر دعوتی کام کیا جارہا ہے۔ جناب عبد السلام حمید نجار (منیجرہوٹل دار السلام، سری نگر) ہوٹل میں آنے والے لوگوں کو ترجمہ قرآن پیش کرتے ہیں۔ اور 100 کاپیاں پنجاب ہوٹل (سری نگر) میں سیاحوں کے لئے رکھی گئی ہیں۔نیز سری نگر کے دیگر ہوٹلوں میں بھی انگلش ترجمہ قرآن سیاحوں کے لئے رکھےگئے۔ واضح ہو کہ کشمیر میں آنے والے سیاحوں کی اکثریت یورپ کی ہوتی ہے۔ جن کے درمیان یہ کام کشمیر ٹیم کے تعاون سے انجام دیا جارہا ہے۔(مسٹر حمید اللہ حمید، کشمیر)۔
8۔ 27 مارچ 2016 کو انگلش میگزین لائف پازیٹیو نئی دہلی کی طرف سے انڈیا ہیبٹیٹ سنٹر (نئی دہلی) میں ایک پروگرام کا انعقاد ہوا۔یہ پروگرام میگزین کے بیسویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقد کیا گیا تھا۔اس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر کرن سنگھ (ایم پی، راجیہ سبھا) بھی اسٹیج پر موجود تھے۔اس پروگرام میں صدر اسلامی مرکز نے حاضرین سے خطاب کیا۔ دوران پروگرام سی پی ایس ممبران نے لوگوں میں دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔
9۔ صدر اسلامی مرکز نے 20مارچ 2016 کے اپنے سنڈے خطاب میں اسوہ رسول پر خطاب کیا۔ اس خطاب کا پس منظر یہ تھا کہ لاہور میں سی پی ایس پاکستان نے ایک سینٹر کا افتتاح کیا ہے۔ اس مناسبت سےسی پی ایس پاکستان سے تعلق رکھنے والے تقریباً 50 ممبران مختلف علاقوں سے لاہور میں اکٹھا ہوئے تھے۔ انھوں نے اجتماعی طور پر صدر اسلامی مرکز کا خطاب سنا اور سی پی ایس کے پیغام کو پاکستانی عوام تک پہنچانے کے عہد کی تجدید کی۔
10۔ پاکستان سے موصول ہونے والی ایک اور خبرکے مطابق، 23مارچ 2016 کو سی پی ایس راولپنڈی (پاکستان) کی خواتین کا ہفتہ وار اجتماع ہوا۔اس اجتماع میں مس شبانہ ادیب نے تذکیر القرآن سے سورہ شعراء کی آخری آیات کی تفسیربتائی۔ حدیث کے بعد الرسالہ مارچ 2016 کے مضمون ’’شخصیت کی تعمیر‘‘ اور واٹس ایپ 919999944119)+)سے موصول ہونے والے لکچر ’’لیک آف تھنکنگ‘‘ (Lack of Thinking)پر ڈسکشن ہوا۔ اس کے بعد صدر اسلامی مرکز کی کتاب ’’اسلام ایک تعارف‘‘ سےایک چیپٹر پڑھ کر سنایا گیا۔ آخر میں دعا کے بعد یہ پروگرام ختم ہوا۔
11۔ 31مارچ 2016 ، سی پی ایس راولپنڈی کی ممبر شبانہ ادیب نے رزلٹ ڈے پر مقامی اسکول میں الرسالہ اور مولانا کی دیگر کتابیں اساتذہ ، والدین اور مہمانان خصوصی میں تقسیم کیں۔تمام لوگوں نے ان کوشکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
12۔ 20 مارچ 2016 کو انڈیا ہیبٹٹ سنٹر میں پنگوئن انڈیااور اسپرنگ فیور کے اشتراک سے ایک لٹریری فیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر سی پی ایس دہلی کی ایک ٹیم نے ترجمہ قرآن اور دعوہ لٹریچر لوگوں کے درمیان تقسیم کیا۔ شرکاء نے نہایت خوشی اور جذبہ تشکر کے ساتھ اس کو قبول کیا۔قرآن حاصل کرنے کے لئے لوگوں میں اتنا زیادہ شوق تھا کہ پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی پورا اسٹاک ختم ہوگیا ۔ ایک خاتون نے اپنےتبصرہ میں کہا کہ خدا مجھ سے چاہتا ہے کہ میں اس کو پڑھوں۔ایک صاحب نے کہا کہ آپ کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس کو پہنچانا ہے۔یہ الفاظ جہاں مثبت اور حوصلہ بخش پیغام دے رہے ہیں وہیں ہماری ذمہ داریوں کومزید بڑھا رہے ہیں۔
13۔ 3اپریل 2016 کو صدر اسلامی مرکز نے C-29 نظام الدین ویسٹ میں’’مولانا وحید الدین خاں پیس فاؤنڈیشن ‘‘ کا افتتاح کیا۔ اس فاؤنڈیشن کا مقصد سیکولر دنیا میں اسلام کا مثبت تعارف کرانا ہے۔اس موقعے پر صدر اسلامی مرکز نے دعوت کی اہمیت پر ایک تقریر کی۔ اس تقریر کو سی پی ایس کی ویب سائٹ پر پوڈکاسٹ (Podcast) کے تحت سنا جاسکتا ہے۔ اس خطاب کو سن کر مس شبینہ مہتاب نے اپنے گہرے تاثر کا اظہار اس طرح کیا آپ کا ہر ہر لفظ اتنا زیادہ متاثر کرتا ہے کہ وہ سیدھا دل و دماغ میں اتر جاتا ہے۔ آپ کا خطاب سننے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارا پہلا اور آخری کام دعوتی عمل ہے۔
14۔ 7 اپریل 2016مسٹر اشوک تیاگی (جنرل سکریٹری، انٹرنیشنل چیمبرآف میڈیا اینڈ انٹرٹینمینٹ انڈسٹری) نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔اور روحانیت اور امن پر تبادلہ خیال کیا۔ آخر میں ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ دیا گیا۔ موصوف نے شکریہ کے ساتھ اسے قبول کیا۔
15۔ 17-13 اپریل 2016 کے درمیان سی پی ایس ممبئی اور حیدرآباد ٹیم اور تامل ناڈو ٹیم نے چنئی میں دعوۃ میٹ کا انعقاد کیا۔اس کا مقصد دعوتی مواقع کو استعمال کرنا اور دعوہ ورک کو اپنے چیپٹر کے اندر تحریک دینا اور داعی ہنٹگ تھا۔ چنئی میں مختلف پروگرام اور لوگوں سے ملاقات کے علاوہ ، میٹ کے شرکاء نے تامل ناڈو کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ مثلا کوئمبتور، آمبور وشارم، وانمباڑی، اور عمر آباد۔اس میں الرسالہ کے قارئین، علماء اور مسلم و غیرمسلم قائدین سے ملاقات کی گئی، اور اسلام کے پرامن مشن کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔
16۔ 16 اپریل 2016 کو سی پی ایس سہارن پور کی ٹیم نے ڈاکٹر اسلم خان کی قیادت میں واگھہ بارڈر کا دورہ کیا۔ اس کا مقصد دونوں قوموں کے درمیان امن کے پیغام کو پہنچانا تھا۔ بارڈر پر موجود انڈیا کے افسران نے سی پی ایس ٹیم کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ ٹیم نے ہند-پاک بارڈر پر دعوت کا کام کیا۔ اور بارڈر انچارج جناب ہرمندر سنگھ کے ساتھ انٹرایکشن کیا۔
ذیل میں کچھ تاثرات دیے جارہے ہیں
l میں نے ایک صاحب کو انگلش ترجمہ قرآن گفٹ کیا۔ وہ چند سکنڈ میری طرف دیکھتے رہے پھرانھوں نے کہا کہ میں نے سعودی عرب میں 5سال سے زیادہ کام کیا ہے۔ وہاں پر کسی نے مجھ کو قرآن کی ایک بھی کاپی نہیں دی تاکہ میں اس کو سمجھ سکوں۔ انھوں نے کچھ مزید نسخے مانگے تاکہ وہ انھیں اپنے احباب کو دے سکیں۔ وہ اب بھی میرے رابطے میں ہیں۔(نغمہ صدیقی، نئی دہلی)
l آپ کی کتابوں نے میری پوری زندگی کو بدل دیا ہے۔ اللہ آپ کو آخرت میں نوازے۔(جاوید اقبال، ویسٹ بنگال)
l سی پی ایس کی طرف سے پوری دنیا میں مسلم اور غیر مسلم حضرات کو ترجمہ قرآن پوسٹ کے ذریعے ارسال کیا جاتا ہے۔ ترجمہ قرآن کی کاپی موصول ہونے کے بعد ایک صاحب نے اپنے گہرے تاثر اور شکریہ کا پیغام ان الفاظ میں بھیجا ہے
Dear Team CPS, I am very pleased to see that this copy of the Holy Book has been delivered to me via post. It is a great pleasure for me to have this wonderful book. And the best thing is that it has translation along with it. Now I can easily understand the Holy Quran without any difficulties. May God bless you for such a wonderful job you are doing. Thank you. (Abdul Muizz)
l امریکا میں خواجہ کلیم الدین صاحب نے ایک جیل میں انگلش ترجمہ قرآن بھیجا تھا ۔ اس پر درج ذیل ای میل موصول ہوئی:
May Allah reward you for sending copies of the Quran! It is a great help in dawah. (Khalil Abdul Khabir, Chaplain, Onondaga Correctional Facility, New York)
l بنگلور ٹیم نے کرشچن انٹرفیتھ کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ اس پر بنگلور ٹیم کو شکریہ کا درج ذیل خط موصول ہوا:
Dear Madam Fathima Sarah, Thank you so much for your presentation at our Indian Theological Meeting. You have presented a very refreshing and inspiring vision of Islam with much clarity and conviction. All our participants appreciated your presentation. Ultimately, what God wants from us is to live as authentic humans and relate with one another as humans and bring glory to God. May God bless you for all your good works! (Fr Jacob Parappally, 27 April 2016, 39th Annual Meet and Conference, Bangalore)
واپس اوپر جائیں

Thursday, 2 June 2016

Al Risala | June 2016 (الرسالہ،جون)

4

-خدا کا تجربہ

5

- جنّتی شخصیت

6

- سب سے زیادہ خطرناک

7

- بیمار ی سے تطہیر

8

- مصیبت بھی رحمت ہے

9

- نصیحت پذیری

10

- ہر حال میں خیر

11

- تواضع ایک عظیم عبادت

12

- اختیارِ اَیسر— ایک سنّت

16

- تشدد کا سبب عدم قناعت

17

- اعتدال کا طریقہ

18

- ارتقا کے تین درجے

22

- سب سے بڑی خوشی

23

- مومن کی صفت

24

- عمل کا مدار نیت پر ہے

25

- ہر چیز پرچۂ امتحان

26

- گھرایک تربیت گاہ

28

- سب سے بڑی نعمت

29

- ایک حدیث

30

- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

32

- دوطرفہ معاملہ

33

- بولنے پر کنٹرول

34

- اکرام یا تکلف

35

- دوسرے کے لیے دعاء

36

- اعلیٰ عبادت

38

- دنیا کی حقیقت

39

- تحفہ کلچر

40

- سجدۂ قربت

41

- انسان ایک استثنائی مخلوق

42

- بعد کے زمانے کا فتنہ

43

- ضرورت، یا خواہش پرستی

44

- دولت پرستی کا فتنہ

45

- عجلت پسندی

46

- اولاد پرستی کا فتنہ

47

- رعایت ایک سنتِ رسول

48

- سنّت کیا ہے


خدا کا تجربہ

صحیح مسلم میںایک حدیث نقل ہوئی ہے اس کا ایک حصہ یہ ہے:
ان اللہ عزو جلّ یقول یوم القیٰمۃ یابن آدم مرضت فلم تعدنی قال یا رب کیف اعودک وانت ربُّ العٰلمین قال ماعلمت انّ عبدی فلانا مرض فلم تعدہ اَما علمتَ انّک لو عدتہ لوجدتنی عندہ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب فضل عیادۃ المریض 16/126)یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا اے ابن آدم، میں بیمار ہوا مگر تم نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے رب ،میںکس طرح تیری عیادت کرتا جب کہ تو سارے عالم کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا، کیا تم نے نہیں جانا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا مگر تم نے اس کی عیادت نہ کی۔ کیا تم نے نہیں جانا کہ تم اگر اس کی عیادت کرتے تو یقینا تم مجھ کو اس کے پاس پاتے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی آدمی خالص رضائے الٰہی کے لئے ایک کام کرتا ہے تو کام کے درمیان اس پر ایسی کیفیات گزرتی ہیں جب کہ وہ لقاء رب کا تجربہ کرتا ہے۔ اس وقت اس کا یہ حال ہوتا ہے گویا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔
مریض کی ایک عیادت وہ ہے جس میں رضاء الٰہی کا جذبہ شامل نہ ہو۔ جس کو آدمی نمائش کے لئے یا کسی فائدہ کے لئے کرے۔ ایسی عیادت صرف دنیوی مقصد کے لیے ہوتی ہے۔ وہ آدمی کے اندر ربّانی کیفیات پیدا نہیں کرتی۔دوسری عیادت وہ ہے جب کہ خدا کا ایک بندہ کسی انسان کی بیماری کو سن کر تڑپ اٹھتا ہے۔ اس کو خدا کا یہ حکم یاد آتا ہے کہ تم دوسرے انسانوں پر رحم کرو میں قیامت کے دن تمہارے اوپر رحم کروں گا۔ وہ خالص رضاء الٰہی کے جذبہ کے تحت مریض کی طرف روانہ ہوتاہے اور مریض کے حق میں دعائیں کرتا ہوا اس کے پاس پہنچتا ہے۔
بندۂ مومن خدا کا تجربہ دنیا میں بھی کرتا ہے اور آخرت میں بھی۔ فرق یہ ہے کہ دنیا میں یہ تجربہ بالواسطہ انداز میں ہوتا ہے اور آخرت میں وہ زیادہ مکمل صورت میں براہ راست انداز میںہوگا۔
واپس اوپر جائیں

جنّتی شخصیت

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یدخل الجنّۃ أقوامٌ أفئدتہم مثل أفئدۃِ الطّیر(صحیح مسلم، کتاب الجنۃ؛ مسند احمد، جلد2، صفحہ331) یعنی جنت میںایسے لوگ جائیں گے جن کے دل چڑیوں کے دل کی مانند ہوں۔
چڑیا ایک حیوان ہے، مگر چڑیا کے اندر ایک ایسی استثنائی صفت ہوتی ہے جو کسی دوسرے حیوان میں نہیں، وہ یہ کہ چڑیا نفرت اور انتقام (revenge)کے جذبات سے خالی ہوتی ہے۔ تمام دوسرے جانور دفاعی طورپر حملہ کرنے کا مزاج رکھتے ہیں، لیکن چڑیا اِس مزاج سے مکمل طورپر خالی ہوتی ہے۔ آپ چڑیا کو دیکھئے تو وہ اپنی شکل ہی سے معصومیت کا پیکر دکھائی دے گی۔ اِس لیے کبوتر (pigeon) کو امن کی علامت (symbol of peace) قرار دیا گیا ہے۔
حدیث کے مطابق، یہی جنّتی صفت اُس انسان سے مطلوب ہے جو جنت کا طالب ہو۔ جنتی انسان وہ ہے جو ہر قسم کے منفی جذبات سے مکمل طورپر خالی ہو، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ چڑیا کے اندر یہ مثبت صفت جبلّت (instinct) کے طورپر ہوتی ہے اور جنتی انسان کے اندر یہ مثبت صفت آزادانہ شعور کے تحت۔
جنّتی انسان وہ ہے جو اپنی تربیت کرکے اپنے آپ کو ایسا بنائے کہ اس کا دل نفرت اور انتقام جیسی چیزوں سے مکمل طورپر خالی ہوجائے، جو غصے کو پی جانے والا ہو، جو منفی ردّ عمل کا مزاج نہ رکھتا ہو، جو نفرت کے باوجود محبت کرنے والا انسان ہو، جو کسی امید کے بغیر لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، جو لوگوں کے درمیان اِس طرح رہے، جیسے کہ سب لوگ اُس کے بھائی اور بہن ہیں، جو شیطان سے بھاگے اور فرشتوں کو اپنا ہم نشین بنائے، جو شکایتوں کو صبر کے خانے میں ڈال دے، جو دوسروں کا حق ادا کرے اور اپنا حق خدا سے مانگے— یہی وہ اعلیٰ صفات ہیں جو کسی انسان کو جنت میں داخلے کا مستحق بنائیں گی۔
واپس اوپر جائیں

سب سے زیادہ خطرناک

حدیث میں آیا ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یدخُل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر (صحیح مسلم، حدیث نمبر147 ) یعنی وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی کبر ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت سے محرومی کا اندیشہ سب سے زیادہ اس انسان کے لیے ہے جو کبریا ذاتی بڑائی کے احساس میں مبتلا ہو۔ جس کے اندر وہ برائی ہو جس کو انانیت (arrogance) کہا جاتاہے۔
اس معاملہ کا سب سے زیادہ نازک پہلو یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر کبر ہو تو اس کو خود یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ میں کبر کی برائی میں مبتلا ہوں۔ ایک شخص نماز اور روزہ کو ترک کردے یا وہ زکوٰۃ نہ دے اور حج نہ کرے تو اس کو پوری طرح معلوم رہتا ہے کہ میں فلاں عبادت ادا نہیں کر رہا ہوں۔ کوئی شخص شراب پئے یا خنزیر کا گوشت کھائے تب بھی وہ اپنے اس گناہ سے باخبر رہتا ہے۔ حتی کہ اگر کوئی شخص شرک و بت پرستی میں مبتلا ہو تب بھی وہ جانتا ہے کہ میں کون سا گناہ کررہا ہوں۔ لیکن کبر ایک ایسا گناہ ہے جس کا احساس آدمی کو خود نہیں ہوتا ۔
پھر کوئی شخص کبر کے گناہ سے کس طرح بچے۔ اس کا سب سے زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے لگے۔ کبر کی برائی سے آدمی اگر چہ خود تو بے خبر ہوتا ہے مگر دوسرے لوگ اس کو اچھی طرح جان لیتے ہیں۔ دوسرے لوگ پہلے ہی تجربہ میں سمجھ لیـتے ہیں کہ فلاں شخص کبر کی نفسیات میں مبتلا ہے۔ اس لئے جو آدمی جنت سے محرومی کا رِسک نہ لینا چاہتا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی اس برائی کو جاننے کے لئے دوسروں کو ذریعہ بنائے۔ جب کوئی دوسرا شخص اس کو بتائے کہ تمہارے اندر کبر کی برائی ہے تو وہ اس کو سنجیدگی کے ساتھ سنے اور غیر جانب دارانہ انداز سے اپنے اوپر نظر ثانی کرے۔ وہ دوسرے آدمی کی بات کو ٹھیک اسی طرح لے جس طرح وہ اپنے چہرہ پر لگے ہوئے دھبہ کے بارے میں آئینہ کی اطلاع کو کسی ناگواری کے بغیر قبول کرلیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بیمار ی سے تطہیر

حدیث میں آیا ہے کہ مدینہ میں ایک شخص بیمار ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی عیادت کے لیے اُس کے گھر گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے کہا کہ: لا بأس، طہور إن شاء اللہ (صحیح البخاری، کتاب المرضٰی، باب ما یقال للمریض) یعنی کوئی حرج نہیں، انشاء اللہ یہ پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو پُر اسرار طورپر اس کے گناہ دھل جاتے ہیں، وہ خود بخود ایک پاکیزہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ در اصل ایک معلوم شعوری واقعہ ہے جو ایک سچے مومن کے ساتھ پیش آتا ہے۔کوئی آدمی اگر بیمار نہ ہو، اُس کا جسم مکمل طورپر ایک صحت مند جسم ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر فخر و ناز کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اُس کے سینہ میں دردمندانہ احساسات کی پرورش نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ ایک بے حس انسان بن کر رہ جاتا ہے۔
لیکن جب ایک مومن بیماری میںمبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے عجز کو دریافت کرتاہے۔ اُس کے اندر دردمندی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے بندہ ہونے کی حقیقت کا تجربہ کرتا ہے۔
اس طرح بیماری اُس کو دوسری چیزوں سے دور کرکے اللہ سے قریب کردیتی ہے۔ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ وہ اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اُس کے دل سے دعائیں اور التجائیں نکلنے لگتی ہیں۔ بیماری اُس کے لیے اللہ سے قربت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
بیماری بظاہر ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اگر صحیح اسلامی ذہن ہو تو جسمانی بیماری آدمی کے لیے روحانی صحت کا ذریعہ بن جائے گی۔اس دنیا میںاصل اہمیت ذہنی بیداری کی ہے۔ بیدارذہن ہی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ واقعات سے سبق لے۔ اور ذہن کو بیدار کرنے والی سب سے بڑی چیز اس دنیا میںصرف ایک ہے، اور وہ مشکل حالات ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مصیبت بھی رحمت ہے

ایک روایت صحیح البخاری (کتاب الجہاد) سنن ابی داؤد (کتاب الجہاد) اور مسند امام احمد میںآئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: عجب اللہ من قوم یدخلون الجنۃ فی السلاسل (حدیث نمبر3010 )یعنی اللہ ان پر متعجب ہوتا ہے جو جنت میں زنجیروں میں (بندھے ہوئے) داخل ہوں گے۔ بعض دیگر روایتوں میں یقادون اور یساقون کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی وہ کھینچتے ہوئے اور ہانکتے ہوئے لے جائے جائیں گے۔
اس حدیث میں کچھ اہل ایمان کے ساتھ جس معاملہ کا ذکر ہے وہ آخرت میں پیش آنے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ آخرت سے پہلے اسی دنیا میں پیش آنے والا معاملہ ہے۔ یہاں زنجیر کا لفظ دراصل مجبور کن حالات (compulsive situation) کی تعبیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ ایسے مجبورانہ حالات پیش آئیں گے کہ اُن کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہے گا کہ وہ خدا پرستی اور آخرت پسندی کی زندگی اختیار کریں اور اس طرح گویا بندھے بندھے جنت میں پہنچ جائیں۔
یہ خوش قسمتی اُن افراد کے حصہ میں آئے گی جن کے دل میں اخلاص اور حسن نیت کی چنگاری موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے دل میں اس قسم کی استعداد دیکھے گا اُن کی قدر افزائی اس طرح کرے گا کہ اُن کے لیے ایسے حالات پیدا کردے گا جو اُنہیں طوعاً و کرہاً خدا پرستانہ اعمال کی طرف لے جانے والے ہوں۔مصیبت کا جنتی زنجیر بن جانا اُس شخص کے حصہ میںآتا ہے جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ مصیبت کے وقت اللہ کی طرف رجوع کرے۔ مصیبت جس کے دل کو اس طرح نرم کرے کہ وہ اللہ کی یاد کرنے والا بن جائے۔
مصیبت اگر لوگوں کے اندر فریاد اورشکایت کا ذہن بنائے تو مصیبت صرف تباہی ہے۔اور اگر مصیبت لوگوں کے اندر محاسبۂ خویش کاذہن پیدا کرے تو وہ اُن کے لیے رحمت کا سبب بن جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

نصیحت پذیری

کسی انسان کو جب حق کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کی سوچ ایمانی سوچ بن جاتی ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ انسان بن جاتا ہے۔ اسی ایمانی سنجیدگی کا ایک پہلو وہ ہے جس کو نصیحت پذیری کہا جاسکتا ہے۔ قرآن میں اس کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً تذکّر (الزمر ۹) اعتبار (المؤمنون ۲۱) توسم (الحجر ۷۵) ، وغیرہ۔اسی طرح حدیث میں بھی اسی قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ مثلاً وصمتی فکرا ونظری عبرۃً (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر1159 ) یعنی میری خاموشی سوچ کی خاموشی ہواور میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو۔
ایمان یا حق کی معرفت بھی بذات خود اسی نوعیت کی ایک چیز ہے۔ ایمانی معرفت کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مخلوقات پر غور کرکے خالق کو دریافت کرے۔ وہ دیکھنے والی دنیا کے اندر غیب کی دنیا کو پالے۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ آیات(خارجی نشانیوں) کے ذریعہ داخلی حقیقتوں کو جان لے۔وہ بصارت کے ساتھ بصیرت کی استعداد حاصل کرلے۔
تدبر و تفکر مومن کا عام مزاج ہوتا ہے۔ اُس کا یہ مزاج ہمیشہ اور ہر جگہ قائم رہتا ہے۔ یہ مزاج اُس کو دائمی طورپر اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیتا ہے۔ وہ ہر دن ایسی باتیں دریافت کرتا رہتا ہے جو اُس کے ایمان ویقین میںاضافہ کرنے والی ہوں۔ دوسرے لوگ ظواہر میںصرف ظواہر کو دیکھتے ہیں، مگر مومن اپنے اس مزاج کی بنا پر ظواہر میں حقائق کو دریافت کرلیتا ہے۔ تدبر اور تفکر کے اس عمل کے لیے کسی تنہائی یا مخصوص مقام کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل مومن کے دماغ میں ہر لمحہ جاری رہتا ہے ، حتیٰ کہ دنیا کے بھرے ہوئے ہنگاموں میں بھی وہ اُس سے منقطع نہیں ہوتا۔
نصیحت پذیری مومن کی روحانی خوراک ہے۔ مومن کے لیے مادی غذا اگر جسمانی تقویت کا ذریعہ ہے تو عبرت و نصیحت اُس کے لیے روحانی غذا کی حیثیت رکھتی ہے۔مادی غذا کے بغیر جسم صحت مند نہیں رہ سکتا،اسی طرح فکری غذا کے بغیر روحانیت کا ارتقاء ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ہر حال میں خیر

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عجباً لامر المؤمن! إنّ امرہ کلہ لہ خیر، ولیس ذلک لأحد الا للمؤمن، إن أصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ، وإن أصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ، (صحیح مسلم، کتاب الزہد) یعنی مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اُس کے لیے اُس کے ہر معاملہ میں بھلائی ہے۔ اور یہ مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں۔ اگر اُس کو کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے پھر وہ خوشی اُس کے لیے بھلائی بن جاتی ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے پھر وہ تکلیف اس کے لیے بھلائی بن جاتی ہے۔
غیر مومنانہ روش یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو خوشی ملے تو وہ اُس پر فخر کرے۔ اور اگر اُس کو تکلیف پہنچے تو وہ مایوسی کا شکار ہوجائے۔ یہ دونوں حالتیں یکساں طور پر بُرائی کی حالتیں ہیں۔ اس کے برعکس مومنانہ روش یہ ہے کہ آدمی کو خوشی ملے تو اُس کا سینہ شکر کے جذبہ سے بھر جائے۔ اور اگر اُس کو تکلیف کا تجربہ ہو تو وہ اُس کو اللہ کا فیصلہ سمجھ کر اُ س پر راضی رہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف قرآن میں اس طرح تنبیہ کی گئی ہے: پس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اُس کا رب اُس کو آزماتا ہے اور اُس کو عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو عزت دی۔ اور جب وہ اُس کو آزماتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتاہے تو وہ کہتاہے کہ میرے رب نے مجھ کو ذلیل کردیا۔ (الفجر15-16 )
موجودہ دنیا میں اصل اہمیت یہ نہیں ہے کہ آدمی نے بظاہر کس حال میں زندگی گزاری، اچھے حال میں یا بُرے حال میں۔ اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ آدمی جس حال میں بھی ہو اُس سے وہ تعلق باللہ کی غذا لے سکے۔ زندگی کا ہر تجربہ اُس کو اللہ سے قریب کرنے والا ثابت ہو۔ اُس کی روح ہر صورتِ حال سے ربّانی غذا لیتی رہے۔ کائنات کے ہر مشاہدہ میں وہ اللہ کا جلوہ دیکھ سکے۔ زندگی کا ہر خوش گوار تجربہ اُس کو اللہ کی رحمت کی یاد دلائے، اور زندگی کا ہر تلخ تجربہ اُس کے لیے تقویٰ کا سبب بنتا رہے۔ ناکامی بھی اُس کو خدا کی یاد دلائے اور کامیابی بھی اُس کو خدا سے قریب کردے۔
واپس اوپر جائیں

تواضع ایک عظیم عبادت

حدیث میں آیا ہے کہ:کلّ بن آدم خطّاء، وخیر الخطّائین التّوابون (الترمذی، کتاب القیامۃ)۔ یعنی ہرانسان خطاکار ہے، اور سب سے اچھا خطاکار وہ ہے جو خطا کے بعد توبہ کرے۔ اعترافِ خطا، ایک عظیم عبادتی عمل ہے۔ یہ اعترافِ خطا، خدا کے مقابلے میں بھی ہوتا ہے اور انسان کے مقابلے میں بھی۔ جب خدا کے مقابلے میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے تو اُس کو توبہ کہا جاتا ہے، ا ور یہی عمل جب انسان کے مقابلے میں کیا جائے تو اُس کا نام اعترافِ خطا ہے۔
اصحابِ رسول کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ توبہ کرنے والے اور اعتراف کرنے والے تھے، حتیٰ کہ بہت سے ایسے واقعات ہیں جب کہ ایک صحابی نے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوئی، مجھ کو معاف کرو۔ حالاں کہ خالص قانونی اعتبار سے اُس کو دیکھا جائے تو وہاں صحابی نے ایسی کوئی غلطی نہیںکی تھی۔
ایسا کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ یہ کہنا کہ میں غلطی پر تھا، دراصل اپنی تواضع کو ایسٹیبلش (establish)کرناہے۔ اسلامی عقیدے کے مطابق، ہر انسان کے پاس ہر وقت خدا کے فرشتے موجود رہتے ہیں، جو اُس کے ہر قول و عمل کا ریکارڈ تیار کرتے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں یہ بالکل فطری بات ہے کہ ایک سچا مومن اِس بات کا حریص ہو کہ فرشتے اپنے ریکارڈ میں اُس کو ایک متواضع انسان کی حیثیت سے درج کریں، نہ کہ ایک سرکش انسان کی حیثیت سے۔
یہ جذبہ ایک فطری جذبہ ہے۔ ہر مومن کے اندر وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر موجود رہتا ہے۔ اِس بنا پر مومن طبعاً اِس کو پسند نہیں کرتا کہ وہ فرشتوں کی نظر میں ایک سرکش انسان دکھائی دے۔ کسی معاملے میں خواہ بظاہر اُس کی غلطی نہ ہو، تب بھی اُس کا متواضعانہ مزاج اُس کی زبان سے اِس طرح ظاہر ہوتا رہتا ہے کہ وہ بار بار یہ کہہ دیتا ہے کہ میں غلطی پر تھا۔ غلطی کا اعتراف نہ کرنے سے سرکشی کے جذبات کو تسکین ملتی ہے۔ اس کے برعکس، غلطی کا اعتراف مومن کی متواضعانہ نفسیات کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ بے اعترافی اگرسرکش انسان کی غذا ہے تو اعتراف اُس مومن کی غذا ہے جو اپنے آپ کو ہمہ تن خدا کے آگے جھکائے ہوئے ہو۔
واپس اوپر جائیں

اختیارِ اَیسر— ایک سنّت

حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے۔ یہ روایت صحیح البخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد، الترمذی، المؤطا اور مسند احمد میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ آئی ہے۔ اِس روایت میں حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی پالیسی بیان کی ہے۔ صحیح البخاری میں یہ روایت تین ابواب کے تحت نقل ہوئی ہے (کتاب المناقب:باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم؛ کتاب الأدب:باب مالا یُستحیا من الحقّ للتفقّہ فی الدّین؛ کتاب الحدود:باب إقامۃ الحدود، والإنتقام لحرمات اللہ) اِس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ماخُیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلاّ اختار أیسرہما۔ یعنی جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو امر میں سے ایک امر کا انتخاب کرناہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب فرماتے۔
یہ حدیث بے حد اہم ہے۔ اِس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جنرل پالیسی کو بیان کیاگیا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ محدثین نے اِس کی زیادہ تشریح نہیں کی۔ ابنِ حجر کی فتح الباری کو حدیث کا انسائکلوپیڈیا سمجھا جاتا ہے۔ ابنِ حجر نے اِس حدیث کو تین ابواب کے تحت نقل کیا ہے، لیکن انھوں نے اِس حدیث کی کوئی واضح تشریح نہیں کی۔ انھوں نے صرف یہ لکھا ہے کہ اِس ’تخییر‘ کا تعلق، اُمورِ دنیا سے ہے، مگر انھوں نے امورِدنیا کی کوئی متعین عملی مثال نہیں دی(فتح الباری، جلد 12، صفحہ 88 )۔
یہ ایک معلوم بات ہے کہ ہر اصول کا ایک عملی انطباق ہوتا ہے۔ مثلاً اسپریچویلٹی کے عملی انطباق کو اپلائڈ اسپریچویلٹی (applied spirituality) کہاجاتاہے۔ اِسی طرح سائنس کے عملی انطباق کو اپلائڈ سائنس (applied science) کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح حضرت عائشہ کے بیان کردہ پرنسپل کا ایک اپلائڈ پرنسپل (applied principle) ہے، لیکن اِس اپلائڈ پرنسپل کی مثالیں کسی بھی شارحِ حدیث کے یہاں نہیں ملتیں۔ میرے علم کے مطابق، اسلام کی پوری تاریخ میں کسی بھی عالم اور مصنف نے حضرت عائشہ کے اِس بیان کردہ اصول کے عملی انطباق کو وضاحت اور تعین کے ساتھ بیان نہیں کیا۔
اسلامی لٹریچرکا یہ خلا، بلا شبہہ ایک عظیم حادثے سے کم نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن میں نماز کے بارے میں یہ حکم دیاگیا ہے کہ : أقیموا الصلوٰۃ ( البقرۃ43) یعنی نماز قائم کرو۔ یہ نماز کے بارے میں اصولی حکم ہے۔ اِس کے بعد یہ سوال تھا کہ اِس اصول کا عملی انطباق کیا ہے۔ علما نے احادیث کا مطالعہ کرکے نماز کی عملی صورت، یا اپلائڈ صلوٰۃ (applied Salah) کے بارے میں بڑی تعداد میںکتابیں لکھیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت کو غیر مشتبہ طورپر یہ معلوم ہوگیا کہ نماز کا عملی فارم کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو لوگ حکمِ نماز کو توجانتے، لیکن اُس کی عملی صورت سے بے خبر ہونے کی بناپروہ نماز کی باقاعدہ ادائیگی سے محروم رہ جاتے۔حضرت عائشہ کی مذکورہ روایت کے بارے میں بھی یہی چیز درکار تھی۔یہاں بھی ضرورت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی پالیسی کو بتاتے ہوئے اُس کے عملی انطباق کو بھی بتایا جاتا، یعنی یہ بتایا جاتا کہ رسول اللہ نے اپنی تیئس سالہ پیغمبرانہ زندگی میں کس طرح اِس اصول کو عملی طورپر اختیار فرمایا۔ بد قسمتی سے اِس دوسرے معاملے میں یہ کام نہ ہوسکا۔ چنانچہ اب یہ صورتِ حال ہے کہ حضرت عائشہ کی یہ قیمتی روایت، حدیث کی کتابوں میں موجود ہے، لیکن امت اُس کے عملی انطباق سے بالکل بے خبر ہے۔ خاص طورپر جدید دور میں امت کی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب سنتِ رسول سے لوگوں کی یہی بے خبری ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم، ابدی طورپر خدا کے دین کا عملی نمونہ ہیں۔ دوسری تمام چیزوں کی طرح، جہاد بھی وہی جہاد ہے جس کا نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں ملے۔ جہاد کاجو نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں موجود نہ ہو، وہ یقینی طورپر جہاد نہیںہے بلکہ وہ کوئی اور چیز ہے، خواہ اُس کو اسلامی جہاد کا نام دے دیا جائے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدوّ، واسئلوا اللہ العافیۃ (صحیح البخاری، کتاب الجہاد) یعنی تم دشمن سے مڈ بھیڑ کی تمنّا نہ کرو، بلکہ خدا سے عافیت مانگو:
Don't wish for confrontation with your enemy, instead ask for peace from God.
جیسا کہ عرض کیا گیا،حضرت عائشہ نے پیغمبر اسلام کی جنرل پالیسی کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: ما خُیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلاّ اختارَ أیسرہما، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک امر کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب فرماتے:
Whenever the Prophet had to choose between the two, he always opted for the easier of the two.
اس قسم کی احادیث کے ساتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کو دیکھا جائے اور پھر اِس معاملے کی تشریح کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ اسلام میں مسلّح جہاد، یا قتال صرف ایک غیر مطلوب انتخاب (undesirable option) ہے، وہ ہر گز کوئی مطلوب انتخاب (desirable option) نہیں۔ پیغمبراسلام کی زندگی کے واقعات واضح طورپر اِس نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں توحید کے مشن کا آغاز کیا۔ اُس وقت مکہ شرک کا مرکز بنا ہوا تھا۔ چنانچہ وہاں کے مشرک سردار آپ کے دشمن بن گیے، پھر بھی آپ کا مشن پھیلتا رہا اور لوگ آپ کے ساتھی بنتے رہے۔ اِس طرح تیرہ سال گزر گیے۔ اب مکہ کے مخالفین نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آپ کو مارڈالیں۔
یہ 622 عیسوی کا واقعہ ہے۔ اُس وقت آپ کو دو میں سے ایک کے انتخاب کا موقع تھا۔ ایک یہ کہ مکہ کے سرداروں کے حربی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے، اُن سے مسلّح مقابلہ کریں۔ اُس وقت تک مکہ اور اطرافِ مکہ میں کئی سو افراد آپ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھی بن چکے تھے، اِس لحاظ سے آپ کے لیے یہ انتخاب بظاہر ایک ممکن انتخاب تھا۔
آپ کے لیے دوسرا انتخاب یہ تھا کہ آپ مسلح ٹکراؤ سے اعراض کریں، خواہ اِس مقصد کے لیے آپ کو مکہ سے ہجرت کرنا پڑے، یعنی آپ پُر امن طورپر مکہ کو چھوڑ کر باہر چلے جائیں، آپ نے یہی دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ آپ نے مسلح ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ دیا اور پُرامن ہجرت کا طریقہ اختیار کرکے آپ مدینہ چلے گیے۔ اگر چہ ظاہر پسندوں کی نظر میں یہ کوئی باعزت طریقہ نہ تھا۔ چنانچہ سیکولر مؤرخین نے اِس واقعے کو ہجرت کے بجائے فرار (flight) کا نام دیا ہے۔
اِسی طرح کا ایک واقعہ وہ ہے جس کو صلحِ حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ چھوڑ کر مدینہ آگیے تو آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ دعوتِ توحید کا کام زیادہ بڑے پیمانے پر انجام دے سکیں۔ یہ بات مکہ کے سرداروں کو پسند نہیں آئی۔ انھوںنے آپ کے خلاف باقاعدہ حملہ شروع کردیا۔ اُس وقت آپ نے مکہ کے سرداروں سے گفت و شنید (negotiation) کا سلسلہ شروع کیا۔ اِس گفت و شنید کا مقصد یہ تھا کہ آپ اور مکہ والوں کے درمیان امن کا سمجھوتہ ہوجائے۔ یہ گفتگو، حدیبیہ کے مقام پر دو ہفتے تک جاری رہی۔
اِس گفت وشنید کے دوران یہ واضح ہوا کہ فریقِ ثانی اپنی یک طرفہ شرطوں پر اصرار کررہا ہے۔ وہ لوگ اِس معاملے میں کسی بھی طرح جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ آخر کار، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سردارانِ قریش کی یک طرفہ شرطوں کو مان لیا، تاکہ دونوں فریقوں کے درمیان امن قائم ہوسکے۔ اِس طرح صلحِ حدیبیہ کا واقعہ انجام پایا، جو گویا آپ کے اور فریقِ ثانی کے درمیان دس سال کا ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا۔ اِس واقعے کے ذریعے پیغمبر اسلام نے امت کو یہ نمونہ دیا کہ مسلح ٹکراؤ کا انتخاب کسی بھی حال میں نہیں لینا ہے، کوئی بھی قیمت دے کر ہر حال میں امن کو قائم رکھنا ہے— اسلام میں امن کی حیثیت عموم کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف استثنا ء کی۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتابیں— مطالعۂ سیرت، اور امنِ عالم، وغیرہ)
***************************************
کانٹے سے بچنے کی تدبیر یہ ہےکہ آدمی کانٹے سے نہ الجھے ۔وہ کانٹے کے مقام سے کترا کر آگے بڑھ جائے
واپس اوپر جائیں

تشدد کا سبب عدم قناعت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: قد افلح من أسلم ورزق کفافاً وقنعہ اللہ بما آتاہ (صحیح مسلم،حدیث نمبر1054؛ سنن الترمذی، حدیث نمبر2348 ) یعنی وہ شخص کامیاب ہوا جواسلام لایا اور جس کو بقدر ضرورت رزق ملا اور وہ اُس پر قانع ہوگیا جواللہ نے اُس کو دیا۔
اس حدیث میں قناعت کا ذکر ہے۔ قناعت کی نفسیات اگر کسی کے اندرپوری طرح پیدا ہوجائے تو وہ اُس کو مکمل طورپر امن پسند بنادے گی۔ اس کے برعکس جن لوگوں کے اندر قناعت کی نفسیات نہ ہو وہ اپنی حالت پر غیر مطمئن رہیں گے اور آخر کار جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو کرمتشددانہ کارروائی شروع کردیں گے تاکہ جس چیزکو وہ پُر امن طورپر حاصل نہ کرسکے اُس کو وہ تشدد کی طاقت سے حاصل کرلیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قناعت سے امن کا مزاج پیدا ہوتا ہے اور عدم قناعت سے تشدد کامزاج۔
قناعت کا جذبہ آدمی کے اندر یہ نفسیات پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک پایا ہوا انسان ہے۔ اور جو آدمی اپنے آپ کو پایا ہواانسان سمجھے وہ کبھی جھنجھلاہٹ اور تشدد کا شکار نہیں ہوسکتا۔
اس کے برعکس معاملہ اس انسان کا ہے جو عدم قناعت کی نفسیات میںمبتلا ہو۔وہ ہمیشہ احساس محرومی کا شکار رہے گا۔ اُس کا یہ احساس اُس کو مسلسل اُکسائے گا کہ جو کچھ اُس نے نہیں پایا اُس کو وہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر اُس نے دیکھا کہ وہ اپنی نہ پائی ہوئی چیز کو پر امن طریقہ سے حاصل نہیںکرسکتا تو وہ تشدد کے طریقوں کو استعمال کرکے اُس کو حاصل کرنا چاہے گا۔
وہ اُن تمام لوگوں کو اپنا دشمن سمجھ لے گا جن کووہ اپنے خیال کے مطابق، اپنی خواہش کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ وہ اُن لوگوں سے نفرت کرے گا۔ وہ اُن لوگوں کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار جمع کرے گا۔ حالانکہ یہ سب نتیجہ ہوگا اس بات کا کہ وہ خدا کے دیے ہوئے پر راضی نہ ہوسکا، وہ قناعت کے بجائے عدم قناعت کا شکار ہوگیا۔
واپس اوپر جائیں

اعتدال کا طریقہ

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کو چاہئے کہ تم توسط و اعتدال کا طریقہ اختیار کرو (قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:علیکم القصد) مسند احمد 4/406۔
قصد یا توسط و اعتدال کا تعلق کسی ایک معاملے سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ مثلاً جب آدمی چلے تو وہ اعتدال کے ساتھ چلے۔ بولے تو وہ اعتدال کے انداز میں بولے۔ عبادات میںوہ اعتدال کا طریقہ اختیار کرے۔ انفاق اوراعانت میںبھی وہ معتدل رویہ اختیار کرے، وغیرہ۔ اسی طرح جب کسی سے اختلاف ہوجائے تو اختلاف میں بھی فریقین کو چاہئے کہ اعتدال پر قائم رہیں۔ وہ اختلاف کے وقت اعتدال کی حد سے باہر نہ چلے جائیں۔
مثلاً جب دو آدمیوں میں کسی معاملہ میںاختلاف ہوتو اولاً ان کو ایسا کرنا چاہئے کہ وہ سنجیدہ گفت وشنید کے ذریعہ اپنے اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اس طرح اختلاف ختم ہوجائے تو بہت اچھا ہے اور اگر اختلاف ختم نہ ہو تو انہیں اختلاف کے باوجود اتحاد کے اصول پر عمل کرنا چاہئے۔ ان کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے سے یہ کہہ دیںکہ آؤ ہم اس پر اتفاق کرلیں کہ ہمارے درمیان اختلاف ہے:
Let's agree to disagree.
قصد واعتدال متانت اور وقار کی روش کا دوسرا نام ہے۔ یہ کسی آدمی کے سنجیدہ مزاج ہونے کی ایک علامت ہے۔ جو آدمی اپنے قول و فعل میںاعتدال پر قائم ہو وہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ جذباتیت سے پاک ہے۔ وہ جب بولتا ہے تو سوچ کر بولتا ہے اور جب کرتا ہے تو وہ سوچ سمجھ کر کرتا ہے، وہ سطحیت پسندی سے پاک ہے۔ اس کا کردار اس کی عقل کے تابع ہے نہ کہ اس کے جذبات کے تابع۔
واپس اوپر جائیں

ارتقا کے تین درجے

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ مسند امام احمد کے الفاظ یہ ہیں— حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: النّاس مَعادِن، کمعادن الفِضّۃ والذّہب، خِیارُہم فی الجاہلیۃ خیارُہم فی الاسلام إذا فقہوا (مسند احمد، جلد 2 ،صفحہ539) یعنی انسان دھات کی مانند ہیں، جیسے سونے اور چاندی کی دھات۔ جاہلیت میںجو بہتر ہیں، وہی اسلام میں بھی بہتر ہیں، جب کہ وہ اپنے اندر سمجھ پیدا کریں۔
اِس حدیث میں انسان کے فکری ارتقا کے مراحل کو بتایا گیا ہے۔ ایک درجۂ فکری وہ ہے جس پر انسان پیدا ہوتا ہے۔ دوسرا درجۂ فکری وہ ہے جو انسان خود اپنی کوششوں سے بناتا ہے۔ تیسرا درجہ معرفت کا درجہ ہے۔ معرفت کے درجے میں پہنچ کر انسان اپنے ارتقا کی آخری منزل کو پالیتا ہے، یعنی وہ درجہ جس کا دوسرا نام اسلام ہے۔
اِس اعتبار سے انسان کی مثال دھات (metal) جیسی ہے۔ لوہا زمین سے نکلتا ہے۔ ابتدائی حالت میں وہ خام لوہا (ore) ہوتا ہے۔ اِس کے بعد اُس کو پگھلا کر صاف کیا جاتا ہے۔ اب وہ ترقی پاکر اسٹیل بن جاتاہے۔ اِس کے بعد وہ مزید صنعتی مراحل سے گزرتا ہے، یہاں تک کہ وہ باقاعدہ مشین کی صورت اختیار کرلیتا ہے— یعنی پہلے مرحلے میں خام لوہا، دوسرے مرحلے میںاسٹیل، اور تیسرے اور آخری مرحلے میں مشین۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو گویا کہ وہ فطرت کی کان (mine) سے نکل کر باہر کی دنیا میںآتا ہے۔ اِس کے بعد وہ بڑا ہوتا ہے اور اپنی سوچ کو عمل میں لاتا ہے۔ وہ تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتا ہے۔ اِس طرح پختگی کی عمر میں پہنچ کر وہ ایک باقاعدہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ انسانی وجود کا درمیانی مرحلہ ہے۔ اِس کے بعد اگر وہ اپنی عقل کو صحیح رخ پر استعمال کرے تو وہ معرفتِ حق کے درجے میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جب کہ کوئی پیدا ہونے والا، کمالِ انسانیت کے مرحلے میں پہنچ کر عارف باللہ کا مقام حاصل کرلیتاہے۔ اِن تین ارتقائی مراحل کو حسب ذیل صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے:
1۔ پیدائشی شخصیت (born personality)
2۔ تیار شدہ شخصیت (developed personality)
3۔ عارفانہ شخصیت (realized personality)
پیدائشی شخصیت، خدا کی دی ہوئی شخصیت ہوتی ہے۔ پیدائشی شخصیت کے اعتبار سے ہر آدمی یکساں ہوتاہے۔ صلاحیت کے اعتبار سے اگر چہ ایک انسان اور دوسرے انسان میںہمیشہ فرق ہوتا ہے، لیکن اِس فطری فرق کے باوجود تمام انسان اِمکانی استعداد (potential capacity) کے اعتبار سے یکساں حیثیت کے مالک ہوتے ہیں۔
اِسی بات کو ایک حدیث میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: المؤمن القوّی خیرٌ و أحبُّ إلی اللہ من المؤمن الضّعیف، وفی کلٍّ خیر۔ احرِص علیٰ ما ینفعک واستعن باللہ ولا تعجز۔ وإن أصابک شیٔ فلا تقُل:لَوأنّی فعلتُ کان کذا وکذا، ولٰکن قُل:قدّر اللہ وماشاء فعل۔ فإنّ ’’لَو‘‘ تفتح عملَ الشیطان (صحیح مسلم، کتاب القدر؛ ابنِ ماجہ، مقدّمہ؛ مسنداحمد، جلد 2، صفحہ 370 )۔یعنی قوی مومن، اللہ کے نزدیک ضعیف مومن سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے، اور ہر ایک میں خیر ہے۔ جوچیز تمھارے لیے نافع ہو، اس کے تم حریص بنو اور اللہ سے مدد چاہو اور عاجز نہ ہو۔ اور اگر تمھارے خلاف کوئی بات پیش آئے تو یہ نہ کہو کہ کاش، میں نے ایسااور ایسا کیاہوتا۔ بلکہ یہ کہو کہ یہ خدا کا تقدیری منصوبہ تھا، اسی نے جوچاہا کیا۔ کیوں کہ ’’اگر‘‘ کہنا شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے۔
اِس حدیث میں مومن سے مراد انسان ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان اگر اپنے اندر ایک اعتبار سے کمی محسوس کرے تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ دوسرے اعتبار سے اُس کے اندر کوئی اور صفت زیادہ ہوگی۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیت کو دریافت کرے اور حوصلہ مندانہ انداز میں اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ جدوجہد ِ حیات کے دوران اگر اس کو کوئی نقصان پہنچے تو اُس کو یقین کرنا چاہیے کہ اِس منفی تجربے میں بھی کوئی مثبت فائدہ شامل ہوگا۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر منفی تجربے سے مثبت سبق لے، وہ کسی بھی حال میں پست ہمتی کا شکار نہ ہو۔
اس طرح آدمی اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنا محاسبہ کرکے اپنی کنڈیشننگ کو دور کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اپنے اندر ایسی شخصیت کی پرورش کرتا رہتا ہے جس کے اندر قبولِ حق کی صلاحیت موجود ہو، جس کے اندر وہ صلاحیت ہو جس کو پیغمبر کی ایک دعا میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: اللّہم أرنا الحقَّ حقّا، وارْزُقنَا اتِّباعہ، وأرِنا الباطل باطلاً، وفقنا لاجتِنابَہ، وأرِنا الأشیاءَ کما ہِیَ(دیکھئے تفسیر ابن کثیر1/571،تفسیر الرازی1/119) یعنی اے اللہ، تو مجھے حق کو حق کے روپ میں دکھا، اور اس کی پیروی کی توفیق دے۔ اور اے اللہ، تو مجھے باطل کو باطل کے روپ میں دکھا، اور تو مجھے اُس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ اور اے اللہ، تو مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسا کہ وہ ہیں۔
یہی وہ انسان ہے جس کو ہم نے اوپر کی تقسیم میں تیار شدہ شخصیت (developed personality) کا نام دیا ہے۔ وہی آدمی دانش مند آدمی ہے جو اپنے اندر اِس قسم کی شخصیت کی تعمیر کرے۔ جہاں تک فطری وجود کی بات ہے، ہر انسان کو فطری وجود کا عطیہ خالق کی طرف سے یکساں طورپر ملتا ہے، لیکن اُس کے بعد اپنے آپ کو ایک تیار شدہ شخصیت بنانا، یہ ہر انسان کا خود اپنا عمل ہے۔ ٹھیک اُسی طرح جیسے خام لوہا فطرت کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے، لیکن اِس خام لوہے کو اسٹیل اور مشین میں تبدیل کرنے کا عمل انسانی کارخانے میںانجام پاتا ہے۔
اِسی خود تیاری (self-preparation)کے عمل پر اگلے ارتقائی مرحلے کا انحصار ہے۔ جولوگ خود شناس بنیں، جو لوگ اپنا بے لاگ محاسبہ کرتے رہیں، جو لوگ اپنی کمیوں کو ڈھونڈ کر اپنی ڈی کنڈیشننگ کریں، جو لوگ ہر قیمت کو ادا کرتے ہوئے اپنے ’’خام لوہے‘‘ کو ’’اسٹیل‘‘ بنانے کا کام کریں، جن لوگوں کا یہ حال ہو کہ وہ انانیت اور کبر اور لالچ اور حسد اور غصہ اور انتقام جیسے منفی جذبات کا کبھی شکار نہ بنیں، جو کہ شخصیت کی تعمیر میں ایک مہلک رکاوٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جو لوگ مسلسل طورپر اپنے اوپر تزکیہ کا عمل جاری کیے ہوئے ہوں، وہی لوگ ہیں جو خدا کی توفیق سے حق کو دریافت کرتے ہیں اور اس کو پوری آمادگی کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں۔
تزکیہ کے لفظی معنٰی ہیں، پاک کرنا(purification) ۔ یہ ہر آدمی کی لازمی ضرورت ہے۔ یہ ہر آدمی کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے ماحول سے اثر قبول کرتا رہتا ہے، جس کو کنڈیشننگ (conditioning) کہاجاتا ہے۔ اپنے جذبات اور خواہشات کے تحت، اس کی کچھ عادتیں بن جاتی ہیں۔ اپنے مفادات اور مصالح کے زیر اثر، شعوری یا غیر شعوری طورپر، اس کا اپنا ایک مزاج بن جاتا ہے۔ یہ تمام چیزیں آدمی کی روحانی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔اِن رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے آدمی کو خود اپنا نگراں (guard) بننا پڑتا ہے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی غلطیوں کو نکالتا ہے۔ وہ ایک بے رحمانہ اصلاح (merciless deconditioning) کا عمل اپنے اوپر جاری کرتا ہے۔ یہ تزکیہ کی لازمی شرط ہے۔ اِس کے بغیر کسی کا حقیقی تزکیہ نہیں ہوسکتا— بے رحمانہ ذاتی اصلاح کے بغیر تزکیہ نہیں، اور تزکیہ کے بغیر جنت نہیں۔
جو لوگ اپنے آپ کو مذکورہ مراحل سے گزاریں اور اپنی تیاری کے نتیجے میں سچائی کو پالیں، اُنھیں کو قرآن میں النفس المطمٔنۃ (الفجر27 ) کہاگیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے تخلیقی نقشے پر راضی ہوئے، جنھوں نے اپنے آپ کو اِس نقشے پر ڈھال کر اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خداکی رضا مندی پائیں گے اور خدا کے فضل سے جنت کے ابدی باغوں میں بسائے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی خوشی

ایک روایت صحیحین میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: عن أبی سعید قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم إن اللہ تعالیٰ یقول لأہل الجنۃ:یا أہل الجنّۃ، فیقولون:لبّیک ربّنا وسعدیک، والخیر فی یدیک۔ فیقول:ہل رضیتم۔ فیقولون:وما لنا لا نرضی یار بّ، وقد أعطیتنا ما لم تعط أحداً من خلقک۔ فیقول:ألا أعطیکم أفضل من ذلک۔ فیقولون:یا ربّ، وأیّ شییٔ أفضل من ذلک۔ فیقول:أحلُّ علیکم رضوانی فلا أسخط علیکم بعدہ أبداً (حدیث نمبر7518 )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ جنت سے کہے گا کہ اے اہلِ جنت، وہ کہیں گے اے ہمارے رب، لبیک وسعدیک والخیر فی یدیک۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا تم راضی ہو۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب، ہم کیوں نہ راضی ہوں، حالاں کہ تو نے ہم کو وہ چیز عطا فرمائی جو مخلوقات میں سے کسی دوسرے کو نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا میں تم کو اس سے بھی زیادہ افضل چیز نہ دوں۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب، وہ کیا چیز ہے جو اس سے افضل ہے۔ اللہ فرمائے گا، میں تمھارے لیے اپنی رضا کو واجب کرتاہوں، اِس کے بعد اب میں کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔
جنت بلا شبہہ تمام نعمتوں کا مجموعہ ہے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کی تمام خواہشیں اور تمنائیں کامل درجے میں پوری ہوںگی۔ جو لوگ جنت میں داخل ہوں گے، وہ یہ محسوس کریں گے کہ اُنھیں تمام مسرتیں اپنی حقیقی صورت میں حاصل ہوگئیں ہیں۔ لیکن امکانی طورپر ایک اندیشہ اُن کے لیے پھر بھی موجود رہے گا، وہ یہ کہ جنت ان کو اللہ کے عطیہ کے طور پر ملی ہے، وہ خود اُس کے خالق نہیں ہیں۔ اللہ اگر چاہے تو جنت کو اُن سے چھین بھی سکتا ہے۔ مذکورہ حدیث اِسی اندیشے کا جواب ہے۔جب خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ابدی رضا کا اعلان کردیا جائے گا تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ جنت اب ہمیشہ کے لیے ان کی قیام گاہ بن چکی ہے، وہ ان سے کبھی چھینی جانے والی نہیں۔ یہ بلاشبہہ سب سے بڑی خوشی ہوگی جو اہلِ جنت کو حاصل ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

مومن کی صفت

مومن کی مثال ایسے نرم پودے کی سی ہے جس کے پتے سایہ دار ہوتے ہیں۔ جس سمت سے بھی ہوا چلتی ہے وہ اس کو جھکا دیتی ہے۔ جب ہوا رکتی ہے تو وہ سیدھا ہوجاتا ہے۔ یہی حال مومن کا ہے جو مسلسل آزمائشوں کے بار سے دبا رہتا ہے۔ اور کافر کی مثال سخت درخت (ٹھنٹھ) کی طرح ہے جو بے حس و حرکت ایک حالت میں کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ اسے جب چاہتا ہے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر7466 )
اس حدیث میں پودے کی مثال کے ذریعہ مومن کی اس صفت کو بتایا گیاہے جس کو تواضع کہا جاتا ہے۔ تواضع مومن کی ایک صفت ہے۔ جس انسان کے اندر ایمانی کیفیت ہوگی اس کے اندر تواضع بھی ضرور ہوگی۔ یہ دونوں چیزیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیںہوسکتیں۔مومن کے اندر سوکھی لکڑی کی طرح اکڑ نہیں ہوتی بلکہ نرم پودے کی طرح لچک ہوتی ہے۔ اس سے کوئی کوتاہی ہوجائے تو فوراً ہی وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیتا ہے۔ کسی سے معاملہ پڑے تو وہ ہمیشہ اس کے ساتھ نرم روی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ کسی سے نزاع پیش آجائے تو وہ یکطرفہ طورپر مصالحت کے لیے تیار رہتا ہے۔ حقوق کے جھگڑے میں وہ اپنا حق بھی دوسرے کو دینے پر راضی ہوجاتا ہے تاکہ معاملہ شدت کے مرحلہ تک نہ پہنچے۔
ایک انسان جب دوسرے انسان کے ساتھ شدت کا معاملہ کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کو اپنے جیسے ایک انسان کا معاملہ سمجھتا ہے۔ یہی نفسیات آدمی کو شدید بناتی ہے۔ مگر مومن اس کے برعکس ہر معاملہ کو خدا کا معاملہ سمجھتا ہے۔ یہ نفسیات اس کے اندر شدت کا خاتمہ کردیتی ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے مقابلہ میں بڑا ہوسکتا ہے مگر خدا کے مقابلہ میں کوئی بھی انسان نہ بڑا ہے اور نہ طاقتور۔ اسی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ انسان اور انسان کا معاملہ ہو تو ان میں سے کوئی چھوٹا نظر آتا ہے اور کوئی بڑا۔ مگر جب انسان اور خدا کا معاملہ ہو تو تمام انسان یکساں حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اب بڑا صرف ایک خدا ہوتاہے اور بقیہ تمام انسان اس کے مقابلہ میں چھوٹے۔
واپس اوپر جائیں

عمل کا مدار نیت پر ہے

صحیح البخاری کی پہلی روایت ان الفاظ میں آئی ہے: عن عمر بن الخطاب قال:سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول:إنما الأعمال بالنیات، وإنما لکل امرئٍ ما نویٰ:فمن کانت ہجرتہ إلی دنیایصیبہا أو امرأۃٍ ینکحہا فہجرتہ إلی ما ہاجر إلیہ۔یعنی حضرت عمر فاروق نے کہا کہ میںنے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمل کا مدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے، پس جس کی ہجرت دنیا کو پانے کے لیے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہو تو اُس کی ہجرت اُسی کے لیے ہے جس کی طرف اُس نے ہجرت کی۔
نیت کے معنی قصد اور ارادہ (intention) کے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خدا کسی کے ظاہری عمل کو نہیںدیکھتا بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ آدمی نے جو عمل کیا ہے اُس کو اُس نے کس ارادے کے تحت کیا ہے۔ کسی کے عمل کی قیمت خدا کے یہاں اس کے داخلی ارادے کے اعتبار سے ہوگی، نہ کہ اُس کے ظاہرکے اعتبار سے۔
اصل یہ ہے کہ ہر عمل کی ایک داخلی اسپرٹ ہوتی ہے، اور ایک اُس کی ظاہری صورت۔ اسلام میں اصل اعتبار داخلی اسپرٹ کا ہے، نہ کہ ظاہری فارم کا۔ داخلی اسپرٹ کے بغیر ظاہری فارم بے قیمت ہے، خواہ بظاہر وہ کتنا ہی مکمل دکھائی دیتا ہو۔ خدا کے یہاں وہی عمل قبول کیا جائے گا جس کے اندر اسلام کی مطلوب اسپرٹ موجود ہو، خواہ دیکھنے والوں کو بظاہر وہ عظیم نہ دکھائی دیتا ہو۔
داخلی اسپرٹ یہ ہے کہ آدمی کا عمل قلبی جذبے کے تحت صادر ہوا ہو۔ کوئی آدمی اُس کے عمل کو دیکھنے والا نہ ہو تب بھی وہ اس عمل میںمشغول ہو۔ کسی قسم کا مادی فائدہ نہ ملنے والا ہو تب بھی وہ اپنا عمل کرتا رہے۔ یہ وہ عمل ہے جو آدمی کی داخلی شخصیت کا خارجی اظہار ہو۔ جس میںاُس کی اندرونی شخصیت بے تابانہ طورپر ظاہر ہوگئی ہو۔ جس کا محرّک صرف خدا کا خوف اور محبت ہو، کوئی بھی دوسرا محرک اُس کے عمل میں نہ پایا جاتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

ہر چیز پرچۂ امتحان

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: أنّ ماأصابک لم یکن لیُخطئک، وأنّ ما أخطأک لم یکن لیصیبک(مسند احمد، حدیث نمبر21589 ) یعنی جو تم کو ملا، وہ تم سے کھویا جانے والا نہ تھا۔ اور جو کچھ تم سے کھویا گیا،وہ تم کو ملنے والا ہی نہ تھا۔
اِس حدیثِ رسول پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی آدمی کو جو کچھ ملتا ہے، وہ نہ اتفاقاً ملتا ہے اور نہ بطور انعام۔ موجودہ دنیا میں کسی آدمی کو جو کچھ ملتا ہے، وہ صرف پرچۂ امتحان کے طورپر ملتا ہے۔ خدا کے فیصلے کے تحت، ہر عورت اور مرد کو کچھ چیزیں دی جاتی ہیں، تاکہ اُن چیزوں میںآزما کر دیکھا جائے کہ آدمی کا رویّہ کیسا تھا۔ خدا کبھی کوئی چیز دے کر امتحان لیتا ہے کہ آدمی نے اُس پرشکر کیا، یا اُس کو پاکر وہ گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا۔ اِسی طرح کوئی چیز چھین کر خدا آدمی کا امتحان لیتا ہے کہ اُس سے محروم ہو کر اُس نے صبر کیا، یا وہ شکایت کی نفسیات میں مبتلا ہوگیا۔
یہ خدا کا تخلیقی نقشہ (creation plan) ہے۔ ایسی حالت میں آدمی کی نظر اِس پر نہیںہونی چاہیے کہ اُس نے کیا پایا اور اُس سے کیا چھینا گیا۔ اِس کے بجائے اُس کو اپنا سارا دھیان اِس پر لگانا چاہیے کہ اُس کو جن حالات میں رکھ کر خدا نے اُس کا امتحان لینا چاہا تھا، اُس میں اُس نے مطلوب رسپانس (response) دیا، یا وہ مطلوب رسپانس دینے میں ناکام ہوگیا۔
یہ زندگی کا مثبت تصور ہے۔ یہ زندگی کا مثبت فارمولا ہے۔ جس آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا ہوجائے، وہ کبھی ٹنشن میں مبتلا نہیں ہوگا۔ وہ کسی بھی حال میں مایوسی یا تلخی کا شکار نہیں ہوگا۔ کوئی تجربہ اُس کو زندگی کی تعمیری شاہ راہ سے ہٹانے والا ثابت نہ ہوگا۔ وہ کبھی فکری انتشار کا شکار نہ ہوگا۔ اُس کی زندگی میں کبھی یہ حادثہ پیش نہیں آئے گا کہ اُس کی زندگی حالات کے بھنور میں پھنس کر رہ جائے اور وہ آخری منزل تک نہ پہنچے۔
واپس اوپر جائیں

گھرایک تربیت گاہ

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیرکم خیرکم لأہلہ و أنا خیرکم لأہلی(ابن ماجہ کتاب النکاح، الدارمی کتاب النکاح) یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جواپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میںتم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔
گھر کسی سماج کا ایک ابتدائی یونٹ ہے۔جوکچھ زیادہ بڑے پیمانہ پر پورے سماج میں پیش آتا ہے وہی گھر کے اندر چھوٹے پیمانہ پر پیش آتا ہے۔ آدمی کے اچھے یا برے ہونے کافیصلہ باہمی تعلقات کے درمیان ہوتاہے۔ ہر گھر گویا انہی تجربات کا ایک چھوٹا ادارہ ہے اور ہر سماج انہی تجربات کا ایک بڑا ادارہ ۔
ہر عورت یا مرد جب اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں تو اُن کو کبھی خوش گوار تجربہ پیش آتا ہے اور کبھی ناخوشگوار تجربہ، کسی معاملہ میں اُن کے اندر نفرت کے جذبات بھڑکتے ہیں اور کبھی محبت کے جذبات، کبھی وہ خوشی سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی ناخوشی سے، کبھی اُن کی انا کو تسکین ملتی ہے اور کبھی اُن کی اَنا پر چوٹ لگتی ہے، کبھی وہ اعتراف کی صورت حال میں ہوتے ہیں اور کبھی بے اعترافی کی صورت حال میں، کبھی حقوق کی ادائیگی کا موقع ہوتاہے اور کبھی حقوق کے انکار کا موقع، وغیرہ۔
گھر کے اندرپیش آنے والی یہ مختلف حالتیں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اپنی تیاری کے مواقع ہیں۔ جو لوگ ایسا کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے شعور ایمان کو زندہ رکھیں، وہ اپنا احتساب کرتے ہوئے زندگی گذاریں، اُن کو ہمیشہ آخرت کی پکڑ کا احساس لگا ہوا ہو۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی مذکورہ بالا قسم کا کوئی موقع اُن کے سامنے آئے گا تو وہ متنبہ ہوجائیں گے اور صحیح اسلامی روش کو اختیار کریں گے۔
جو عورت اور مرد اپنے گھر کے اندر اس قسم کی ہوش مندانہ زندگی گذاریں، اُن کے لیے اُن کا گھر ایک تربیت گاہ بن جائے گا۔ اُن کے گھر کا ماحول اُنہیں ہر صبح و شام تیار کرتا رہے گا۔ اُن کی یہ زندگی اُن کے لیے اس بات کی ضمانت بن جائے گی کہ جب وہ گھر کے باہر سماجی زندگی میںآئیں تو وہ سماج کے اندر بھی اُسی طرح ایک حق پرست انسان ثابت ہوں جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر حق پرست انسان ثابت ہوئے تھے۔
ایک آدمی جواپنے گھر کے اندر لڑتا جھگڑتا ہو وہ اسی طرزِ زندگی کا عادی بن جائے گا۔ جب وہ اپنے گھر سے باہر آئے گا تو یہاں بھی وہ لوگوں سے لڑنے جھگڑنے لگے گا۔ اپنے آفس میں، اپنے کاروبار میں ، روز مرہ کی زندگی میںوہ دوسروں کے ساتھ بھی اُسی طرح غیر معتدل انداز میں رہے گا جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر غیر معتدل انداز میں رہ رہا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اُس کے گھر کے معاملات بھی بگڑ جائیں گے اور اُس کے باہر کے معاملات بھی۔
اسی طرح کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنے گھر کے اندر تو غیر مہذب انداز میں رہتے ہیں لیکن جب وہ باہر آتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ اُن کا رویّہ تہذیب اور شائستگی کا رویّہ بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کی نظر میں اچھے بنے رہیں۔ مگر یہ ایک منافقت ہے، اور اللہ کو منافقت پسند نہیں۔
کسی مسلمان پر جو دینی ذمہ داری ہے وہ صرف اس طرح ادا نہیں ہوجاتی کہ وہ مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھ لے، رمضان کے روزے رکھ لے اور مکہ جاکر حج کرلے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ لوگوں کے ساتھ اُس کا اخلاق اچھا ہو۔ انسانوں کے ساتھ سلوک میںوہ خدائی احکام کی پابندی کرتاہو، لوگوں کے درمیان وہ اس احساس کے ساتھ رہے کہ اُس کو اپنے ہر قول اور ہر فعل کاجواب خدا کو دینا ہے۔
موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ ایک طرح کی زندگی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور دوسری طرح کی زندگی اُس کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔زندگی کی اس امتحانی نوعیت کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے بھی ہے اور گھر کے باہر کے معاملات سے بھی۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی نعمت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر متاع الدنیا، المرأۃ الصّالحۃ (صحیح مسلم، کتاب الرضاع؛ نسائی، کتاب النکاح ) یعنی دنیا کی چیزوں میں سے سب سے اچھی چیز صالح عورت ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت جو پیدا ہوتی ہے، وہ اپنے فطری امکان (potential) کے اعتبار سے کسی مرد کے لیے سب سے اچھی متاعِ حیات ہے۔ لیکن اِس امکان کو واقعہ (actual) بنانا مرد کا کام ہے۔ جس طرح خام لوہا (ore) فطرت کا عطیہ ہوتا ہے، لیکن خام لوہے کو اسٹیل بنا نا، انسان کا اپنا کام ہے۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔
مرد کی پہلی ذمے داری یہ ہے کہ وہ عورت کا قدر داں بنے۔ وہ عورت کے اندر چھپے ہوئے جوہر کو پہچانے۔ وہ عورت کے حسنِ باطن کو دریافت کرے۔ عورت کی شکل میں ہر مرد کو ایک اعلیٰ فطری امکان ملتا ہے۔ اب یہ خود مرد کے اوپر ہے کہ وہ اِس واقعے کو امکان بنائے، یا وہ اس کو ضائع کردے۔
اِس عمل کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ جو عورت کسی آدمی کو بیوی کے طورپر ملی ہے، وہ اس کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا عطیہ سمجھے۔ جب وہ اپنی بیوی کو خدا کا براہِ راست عطیہ سمجھے گا تو فطری طورپر وہ اس کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے گا اور یہ یقین کرے گا کہ خدا کا انتخاب غلط نہیں ہوسکتا۔ خدا کا انتخاب جس طرح دوسرے تمام عالمی معاملات میں درست ہوتاہے، اسی طرح یہاں بھی وہ درست ہے۔ مرد کے اندر جب یہ ذہن بنے گا تو اس کے بعد وہ عمل اپنے آپ شروع ہوجائے گا جو عورت کے امکان کو واقعہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اپنی بیوی کو خدا کا عطیہ سمجھنے کے بعد اس کے ساتھ معاملہ کرنے کو وہ اپنے لیے عبادت سمجھے گا۔ وہ ہرممکن قیمت ادا کرتے ہوئے یہ کوشش کرے گا کہ اس کی بیوی حقیقی معنوںمیں اس کے لیے دنیا کی سب سے اچھی متاعِ حیات بن جائے۔
ہر آدمی چاہتاہے کہ اس کو اچھی بیوی ملے۔لیکن اچھی بیوی کسی کو ریڈی میڈ سامان کی طرح نہیں ملتی۔ شوہر کو یہ کام خود کرنا پڑتا ہے۔ اِس عمل کی کامیابی کے لیے مرد کے اندر دو صفات کا ہونا ضروری ہے— سچی ہمدردی اور صبر و تحمل۔
واپس اوپر جائیں

ایک حدیث

اِزدواجی رشتے کے بارے میں ایک جامع نصیحت حدیثِ رسول میںآئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یفرکُ مؤمنٌ مومنۃً، إن کرِہ منہا خُلقاً، رضی منہا اٰخر (صحیح مسلم، کتاب الرّضاع، باب الوصیۃ بالنساء) یعنی کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے بغض نہ رکھے۔ اگر عورت کی ایک خصلت اُس کو ناپسند ہو تو اُس کے اندر کوئی دوسری خصلت موجود ہوگی جو اس کو پسندآئے۔
اصل یہ ہے کہ کسی عورت یا مرد کے اندر ساری اچھی صفات پائی نہیں جاتیں۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ کسی کے اندر ایک صفت موجود ہوتی ہے تو اس کے اندر دوسری صفت موجود نہیں ہوتی۔ مثلاً عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ ایک عورت یا مرد اگر ظاہری دل کَشی کے اعتبار سے زیادہ ہوں تو وہ داخلی خصوصیات کے اعتبار سے کم ہوں گے۔ اور اگر کسی میں داخلی خصوصیات زیادہ ہوں تو اس کے اندر خارجی صفات کم پائی جائیں گی۔
انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ کسی کے منفی پہلو کو زیادہ دیکھتا ہے، اُس کے مثبت پہلو اکثر اس کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک تباہ کُن مزاج ہے۔ اِسی مزاج کی وجہ سے رشتوں میں بگاڑ پیداہوتا ہے۔ اِس کے بجائے اگر ایسا کیا جائے کہ مثبت پہلو پر دھیان دیاجائے اور منفی پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو تعلقات خود بخود خوش گوار ہوجائیں گے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ہر مرد کو اُس کی بیوی بہترین رفیقِ حیات دکھائی دے گی اور ہر عورت کو اُس کا شوہر بہترین رفیقِ زندگی نظر آئے گا۔
خدا نے کسی عورت یا مرد کو کم تر پیدا نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد اپنے آپ میں باعتبار تخلیق کامل ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے اپنے فہم کا قصور ہے کہ ہم کسی کو کم اور کسی کو زیادہ سمجھ لیتے ہیں۔ عورت اور مرد اگر اِس حقیقت کو جان لیں تو ان کی زندگی شکر کی زندگی بن جائے، شکایت یا محرومی کا احساس ان کے اندر باقی نہ رہے اور پھر وہ زیادہ بہتر طورپر زندگی کی تعمیر کے قابل ہوجائیں۔
واپس اوپر جائیں

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

آج کل مسلمان مختلف مقامات پر متشددانہ کارروائی میں مبتلا ہیں۔ جب اُن کو اِس سے روکا جائے، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو وہی کررہے ہیں جس کا حکم ہم کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ اِس سلسلے میں وہ اُس حدیثِ رسول کو پیش کرتے ہیں جس میںاہلِ ایمان کو تغییر ِ منکَر کا حکم دیاگیا ہے۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں مَن رأی منکم منکراً فلْیغیّرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان (صحیح مسلم، کتاب الإیمان) یعنی تم میں سے جو شخص کسی منکر کو دیکھے، تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، اور اگر وہ اِس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنی زبان سے، اور اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنے دل سے، اور یہ سب سے زیادہ کمزور ایمان ہے۔دوسری روایت میں اِس حدیث کا پہلا ٹکڑا اِن الفاظ میں آیا ہے:مَن رأی منکراً فاستطاع أن یغیّرہ بیدہ فلیغیّرہ بیدہ (سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم) یعنی جو شخص کسی منکر کو دیکھے، تو اگر وہ استطاعت رکھتا ہو تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ روایت کے بقیہ الفاظ مشترک ہیں۔
اِس حدیث کو عام طورپر تشدد کے جواز میں پیش کیا جاتاہے، حالاں کہ حدیث میں اِس کا ذکر نہیں ہے۔ اِس حدیث میں منکر کو عملاً بدل دینے، یا عملاً بدل دینے کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں اس کے خلاف بولنے کا ذکر کیاگیا ہے، نہ کہ منکر کو دیکھ کر لوگوں کے اوپر تشدد کرنے کا، یا خود کُش بم باری (suicide bombing) کا۔ اِس حدیث سے متشددانہ کارروائیوں کا جواز ہر گز نہیں نکلتا۔
اِس روایت میں منکر کی تغییر کا لفظ آیا ہے۔ تغییر کے معنی عربی زبان میں بدل دینے (replacement) کے ہیں، یعنی منکَر کی حالت کو بدل کر غیر منکر کی حالت قائم کرنا۔ اِس حدیث میںاصلاحِ حال کا حکم ہے، نہ کہ تخریب اور فساد کا۔
عربی زبان کے مشہور لغت ’لسان العرب‘ میں تغییر کا مفہوم اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے— غیّرہ:حوّلہ وبدّلہ کأنہ جعلہ غیر ما کان (5/40) اس کی تغییر کی، یعنی اس کو بدل دیا۔ گویا کہ اس کو ایسا بنا دیا جیسا کہ وہ پہلے نہ تھا۔ امام راغب الاصفہانی (وفات1108)نے اپنی کتاب ’المفردات فی غریب القرآن‘ میں اِس لفظ کی تشریح اِس طرح کی ہے:یقال غیّرتُ داری إذا بنیتہا بناءً غیر الّذی کان۔ کہاجاتا ہے کہ میں نے اپنے گھر کی تغییر کی، یعنی جب تم اس کی تعمیر کو بدل کر دوسری طرح اس کی تعمیر کرو (صفحہ 368 )۔
موجودہ زمانے میں جگہ جگہ جہاد کے نام پر تشدد کے واقعات ہورہے ہیں۔یہ ’’مقدس تشدد‘‘ مسلم رہنماؤں کی قیادت میں انجام پارہا ہے۔ اِس فعل میںتقریباً تمام امت شریک ہے۔ اِس لیے کہ جو لوگ براہِ راست اس میں شریک نہیں ہیں، وہ اس کے بارے میں خاموش ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے، اُن کی یہ خاموشی بالواسطہ شرکت کا درجہ رکھتی ہے۔ اِس لیے اسلامی اصول کے مطابق، پوری امت کو اِس عمل میں شریک مانا جائے گا، کچھ لوگوں کو براہِ راست طورپر، اور بقیہ لوگوں کو بالواسطہ طورپر۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اِس متشددانہ عمل کا کوئی بھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے۔ اِس عمل کا ہر جگہ صرف ایک ہی نتیجہ نکل رہا ہے، اور وہ تخریب ہے، نہ کہ تعمیر۔ ایسی حالت میں بلا شبہہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ متشددانہ کارروائیاں اور جو کچھ ہوں، لیکن وہ تغییر ِ منکر کا عمل ہر گز نہیں۔ تغییر ِ منکر یہ ہے کہ آدمی ناپسندیدہ صورت ِ حال کو بدل کر اس کی جگہ پسندیدہ صورتِ حال قائم کرے۔ اِس کے برعکس، ایک ایسی کوشش جو کاؤنٹر پروڈکٹیو (counterproductive) ثابت ہو، وہ یقینی طورپر تخریب اور فساد ہے، نہ کہ کوئی مطلوب اسلامی عمل۔
کسی غیر مطلوب صورتِ حال کو دیکھ کر اس کے خلاف منفی رد عمل ظاہر کرنا، صرف فساد کا ایک عمل ہے، وہ تغییر منکر نہیں۔ تغییر منکر مکمل طورپر ایک مثبت عمل ہے۔ وہ حالات کی اصلاح کے لیے کیا جاتا ہے، نہ کہ حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے۔ اصلاحِ حال کا طریقہ یہ ہے کہ غیر متاثر ذہن کے ساتھ حالات کا مطالعہ کیا جائے اور پھر تعمیری منصوبہ بندی کے ذریعے صورتِ حال کو درست کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو لوگ اِس کے خلاف کریں، وہ بلاشبہہ مفسد ہیں، نہ کہ مصلح۔
واپس اوپر جائیں

دوطرفہ معاملہ

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایرمی رجلٌ رجلاً بالفسق ولا یرمیہ بالکفر إلاّ ارتدّت علیہ، إن لم یکن صاحبہ کذٰلک (مسند احمد، جلد 5 ، صفحہ 181) یعنی جب بھی ایک آدمی دوسرے آدمی پر کافر یا فاسق ہونے کا الزام لگاتا ہے، تو ضرور یہ الزام خود قائل کی طرف لوٹ آتا ہے، اگر دوسرا آدمی ویسا نہ ہو۔یہ کوئی پُر اسرار بات نہیں۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے جس کو خدا نے اِس دنیا میں قائم کررکھا ہے۔ اِس قانون کو موجودہ زمانے میں بوم رَینگ (boomerang) کا قانون کہاجاتا ہے۔یعنی کسی چیز کو آپ جس قوت سے دوسرے کی طرف پھینکیں، اُسی قوت سے وہ آپ کی طرف لوٹ کر آئے گی:
It is the law of the boomerang — the harder and faster you throw it, the faster and more violently it comes back.
جب کوئی آدمی کسی کو بُرا کہتا ہے، یا اس کو فاسق یا کافر بتا تا ہے تو وہ اس کو اپنے داخلی احساس کے تحت صرف ایک یک طرفہ معاملہ سمجھتا ہے، یعنی ایک ایسی بات جس کا تعلق خود اس کی اپنی ذات سے نہیں ہے، بلکہ صرف دوسرے شخص کی ذات سے ہے۔ مگر یہ ایک خطرناک بھول ہے۔ کیوںکہ اگر دوسرا آدمی ویسا نہیں ہے جیسا آپ نے اس کو بتایا ہے، تو آپ کا کہا ہوا خود آپ کی طرف لوٹ آئے گا۔ جو الزام آپ دوسرے شخص کو دے رہے تھے، آپ خود اس کے مجرم بن جائیں گے۔
اب اگر یہ دیکھا جائے کہ فسق یا کفر کا تعلق انسان کے دل سے ہے، اور دل کا حال صرف خدا جانتا ہے تو ہر وہ شخص جو خدا سے ڈرتا ہو، اس کا حال یہ ہوجائے گا کہ اِس قسم کی زبان استعمال کرنے سے وہ آخری حد تک بچے گا۔ وہ اگر کسی شخص کے اندر کوئی برائی دیکھ رہا ہے تو وہ خیر خواہانہ انداز میں اس کو نصیحت کرے گا۔ وہ ہر گز ایسا نہیں کرے گا کہ وہ اس کے بارے میں فاسق اور کافر جیسی زبان بولنے لگے۔ وہ کسی شخص کے فسق اور کفر کو خدا کے اوپر چھوڑ دے گا، اوراپنی ذمے داری صرف یہ سمجھے گا کہ وہ نصیحت اور تلقین کے ذریعے دوسرے انسان کی اصلاح کی کوشش کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

بولنے پر کنٹرول

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِسراء کے سفر میں جزاوسزا کے معاملے کو تمثیل کے روپ میں دکھایا گیا۔ اُن میں سے ایک تمثیلی واقعہ یہ تھا: مرّ بثور عظیم یخرج من ثقب صغیر یرید أن یرجع فلا یستطیع۔ قال:ہذا الرجل یتکلم بالکلمۃ فیندم فیرید أن یردہا فلا یستطیع۔ (رواہ الطبرانی والبزّار، بحوالہ فتح الباری، جلد 7، صفحہ 63، باب حدیث الإسراء) یعنی معراج کے دوران رسول اللہ ایک عظیم الجثہ بیل کے پاس سے گزرے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ ایک چھوٹے سوراخ سے نکلتا ہے، پھروہ چاہتا ہے کہ وہ واپس جائے، مگر وہ واپس نہیں جاسکتا۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ اُس انسان کی مثال ہے جو ایک بات کہتا ہے، پھر اس پر شرمندہ ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی بات کو واپس لے لے، مگر وہ اس کو واپس لینے پر قادر نہیںہوتا۔
یہ اُس انسان کی مثال ہے جو غیر ذمے دارانہ طورپر کسی کے خلاف ایک منفی بات کہہ دیتا ہے، پھر وہ دیکھتا ہے کہ اس کی منفی بات سے ایک بڑا فتنہ پیدا ہوگیا ہے۔ اب وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی بات کو واپس لے، مگر وہ اس پر قادر نہیں ہوتا۔ اس کی منفی بات ایک فتنے کو جگا دیتی ہے۔ وہ ایک ایسے فتنے کا باعث بن جاتی ہے جس کو کہنے والے نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
اِس حدیث کا مدعا یہ ہے کہ آدمی کو بولنے کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ اگر آدمی کوئی مثبت بات بولے تو اس میں کسی فتنے کا اندیشہ نہیں ہے۔
لیکن منفی بات کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ منفی بات ہمیشہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور پھیلنے کے وقت اس میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ابتدا میں وہ بظاہر ایک چھوٹی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن لوگوں کے درمیان پھیلنے کے بعد وہ نہایت سنگین صورتِ حال اختیار کر لیتی ہے، یہاں تک کہ آخر کار اس کے نتیجے میں نفرت اور تشدد کا جنگل اگ آتا ہے۔ ایسی حالت میں آدمی کے اوپر فرض ہے کہ وہ نتیجہ (result)سے پہلے سوچے، وہ بولنے سے پہلے اس کے نتیجے پر غور کرے۔
واپس اوپر جائیں

اکرام یا تکلف

موجودہ زمانے میں یہ عام رواج ہے کہ لوگ اپنے مہمان کے کھانے پینے کے لیے غیر معمولی اہتمام کرتے ہیں اور اُس پر بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر اُن سے کہا جائے کہ یہ اسراف ہے اور وہ اپنے وقت اور مال کا ضیاع ہے، تووہ کہیں گے کہ یہ تو شریعت کی تعلیم ہے۔ شریعت میں ’اکرامِ ضیف‘ کا حکم دیا گیا ہے، اِس لیے ہم ایسا کرتے ہیں۔
مگر یہ سرتا سر ایک بے بنیاد بات ہے۔ شریعت میں جس اکرامِ ضیف کا حکم ہے، وہ صرف بقدرِ ضرورت ہے، نہ کہ بقدرِ تکلف۔ یہ صحیح ہے کہ حدیث میںاکرامِ ضیف کی تعلیم دی گئی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو، اُس کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے (مَن کان یؤمن باللہ والیوم الآخرفلْیکرم ضیفہ)صحیح البخاری، حدیث نمبر6018 ۔ مگر اکرام کا مطلب ہر گز تکلف نہیں۔ اکرام سادہ معنوں میں ایک انسانی اور اخلاقی نوعیت کی چیز ہے، نہ کہ کوئی نمائش اور تکلف کی چیز۔
مہمان کے لیے اکرام کے نام پر تکلف کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ چناں چہ حضرت سلمان کہتے ہیں کہ : نہیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن نتکلف للضّیف (الجامع الصغیر ، جلد 2 ، صفحہ 1159 ) یعنی رسول اللہ نے ہم کو اِس بات سے منع فرمایا کہ ہم مہمان کے لیے تکلف کریں۔ اِسی طرح، ایک اورروایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أناوأتقیاءُ أمّتی بُرآء من التکلف ( کشف الخفاء، جلد 1، صفحہ 236) یعنی میں اور میری امت کے متقی لوگ تکلف سے بہت زیادہ دور رہنے والے ہیں۔
نفسیاتی اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مہمان کی آمد کے موقع پر جوتکلف کیا جاتا ہے، وہ حقیقۃً لوگوں کے نزدیک، خود اپنے اکرام کی ایک صورت ہوتی ہے، نہ کہ مہمان کے اکرام کی صورت۔ حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر تقویٰ کی صفت موجود ہو، وہ کبھی تکلف جیسی نمائشی چیز کا تحمل نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں

دوسرے کے لیے دعاء

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: دعوۃ المرء المسلم لأخیہ بظہر الغیب مستجابۃ، عند رأسہ ملک موکَّل، کلّما دعا لأخیہ بخیر، قال الملک الموکّل بہ آمین ولک بمثل (کتاب الذکر والدعاء، باب فضل الدعاء للمسلمین بظہر الغیب) یعنی آدمی جب اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اُس کے لیے دعاء کرتا ہے تو ایسی دعاء قبول ہوتی ہے۔ اس کے پاس ایک فرشتہ موجود رہتا ہے۔ جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے خیر کی دعاء کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تمھاری دعاء قبول ہو اور اسی کے مثل تمھارے لیے بھی۔
دوسرے کی غیر موجودگی میں اس کی بھلائی کے لیے دعا کرنا ، ہمیشہ انسانی خیر خواہی کے جذبے سے ہوتا ہے۔ انسان کے لیے سچی خیر خواہی ایک عظیم عبادت ہے۔
جب بھی کسی آدمی کے اندر دوسرے انسان کے لیے سچی خیر خواہی کاجذبہ ابھرے اور وہ اُس انسان کی غیر موجودگی میں اس کے لیے اللہ سے دعاء کرے، تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ ایسی دعا کبھی ضائع نہیں جاتی۔
لیکن کوئی بھی دعاء سنت اللہ کو منسوخ کرنے والی نہیں بن سکتی۔ دعاء کی قبولیت ہمیشہ سنت اللہ کے مطابق ہوتی ہے۔ جہاں تک دعاء کرنے والے کی ذات کا تعلق ہے، اس کو اپنے جذبۂ خیر خواہی کی بنا پر ضرور ثواب ملے گا۔لیکن جس شخص کے لیے دعاء کی گئی ہے، اُس کے لیے دعاء کی قبولیت اِس پر منحصر ہے کہ وہ شخص واقعۃً خود اپنے اندر اِس کا کتنا زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔
اللہ کی سنت کے مطابق ایسا نہیں ہوسکتا کہ دوسرا شخص خود اپنی ذات میں قبولیت کا استحقاق نہ رکھتا ہو، اِس کے باوجود اس کو دعاء کا فائدہ حاصل ہوجائے۔ کسی کے لیے دعاء کرنا بلاشبہہ ایک عبادت ہے۔ لیکن کسی کے حق میں دعاء کا قبول ہونا خالص ایک خدائی معاملہ ہے۔ یہ صرف اللہ کو معلوم ہے کہ ذاتی استحقاق کے اعتبار سے کون اِس کا اہل ہے اور کون اِس کا اہل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ عبادت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المؤمن الذی یخالط الناس ویصبر علی اذاہم أعظم اجراً من الذی لا یخالطہم ولا یصبر علی أذاہم (ابن ماجہ کتاب الفتن، الترمذی کتاب القیامۃ، مسند احمد 2؍43) یعنی وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ اختلاط کرتا ہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرتا ہے اس کا اجراس مومن سے زیادہ بڑا ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ اختلاط نہیں کرتا اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہیں کرتا۔
اس حدیث میں اِختلاط(interaction) سے مراد سادہ طورپر صرف اختلاط نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ اختلاط ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کی طرف سے ایذاء کا تجربہ پیش آئے۔ اختلاط اپنے آپ میں ایذاء کا سبب نہیں ہے۔ اگر آپ لوگوں سے اس طرح ملیں کہ لوگوں سے میٹھے انداز میں بولیں، لوگوں کے ساتھ سمجھوتے کا طریقہ اختیار کریں، آپ لوگوں سے تفریحی باتیں کریں، آپ اپنے کلام میں وہ باتیں بولیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں کی نظر میں ہر دِل عزیز بن جائیں گے۔ پھر آپ کو لوگوں کی طرف سے صرف اچھے سلوک کا تجربہ پیش آئے گا۔
مثلاً اگر آپ دو قوموں کے جھگڑے میںاپنی قوم کی ہر حال میں وکالت کریں اور دوسری قوم کو ہر حال میںبُرا بتائیں تو یقینی طورپر آپ کی قوم آپ کو اپنا ہیرو بنا لے گی۔ اگر آپ لوگوں کو ایسی باتیں بتائیں جس میں ان کو اپنے فخر پسند مزاج کی غذا ملتی ہو تو کوئی آپ کو کیوں ستائے گا۔ اگر آپ لوگوں کو ایسی کہانیاں سُنائیں جن میں انہیں سَستی قیمت پر جنت مل رہی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپ کو ستانے کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ لوگوں کے اقتصادی مطالبات، ان کی قومی شکایتیں، ان کے سیاسی موقف کو درست مان کر اگر آپ وہ بولی بولیں جس میں انہیں اپنا موقف درست نظر آتا ہو تو کوئی شخص بھی آپ کو ستانے والا نہیں ملے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں اختلاط سے مراد مُجرَّد اختلاط نہیں ہے۔ بلکہ اِس سے مراد وہ اختلاط ہے جس میں آپ وہ باتیں کہیں جو لوگوں کے مزاج کے خلاف ہو۔ جس میں ان کے موقف کو غلط ٹھہرایا گیا ہو۔ جس میں انہیں ان کی غلطیوں پر سرزنش کی گئی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں اختلاط سے مراد وہ اختلاط ہے جس میں آپ لوگوں کے غلط رویّے کی نشاندہی کرکے ان پَر تنقید کریں، جس میں آپ لوگوں سے ان کی روش میں تبدیلی کا مطالبہ کریں، آپ لوگوں سے ایسی باتیں کہیں جس میں لوگوں کو اپنا وجود غلط نظر آنے لگے۔
اِس دوسری صورت میں ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کی طرف سے آپ کو ایذا رسانی کا تجربہ ہوتا ہے۔ لوگ آپ کی تنقیدی باتوں پر بھڑک کر آپ کے مخالف بن جاتے ہیں۔ لوگ اپنے آپ کو جائز ٹھہرانے کے لیے آپ کی کردار کُشی کرنے لگتے ہیں۔ ایسا شخص لوگوں کے لیے ان کو برہنہ (expose) کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
لوگوں کی طرف سے ایذا رسانی کا یہ تجربہ خاص طور پر اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ آپ شریعت کے اُس حکم پر عمل کریں جس کو ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکَر‘‘کہاگیا ہے، یعنی لوگوںکو معروف کا حکم کرنا اور اُن کو منکر سے روکنا۔ اس عمل میں لازماً ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو لوگوں کا احتساب کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے اوپر تنقید کرنے کی صورتیں پیش آتی ہیں۔ لوگ جن برائیوں میں مبتلا ہیں اُن پر اُنہیں ٹوکنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر لوگ جہاد کے نام پر تشدد کررہے ہوں تو ان کی مذمت کرنی پڑتی ہے۔ اگر اکابر کے نام پر اُنہوں نے غلط کو صحیح بنا رکھا ہو تو اُس کا تجزیہ کرکے بتانا پڑتا ہے کہ حقیقی معنوں میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ اگر وہ اپنے قومی مفاد کے لیے دین کا استحصال کررہے ہوں تو اُس کے خلاف کھل کر بولنا پڑتا ہے کہ حقیقی معنوں میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ اختلاط کی یہی وہ صورتیں ہیں جو اختلاط کو ایذا رسانی کے ہم معنٰی بنادیتی ہیں۔مزید یہ کہ داعی جب مَدعو قوم کے ساتھ دعوتی اختلاط کرتا ہے تو اُس وقت داعی کو مَدعو قوم کی بہت سی نارَوا چیزوں اور رسومات کو گوارا کرنا پڑتا ہے، جو اُس کے لیے اجنبی اور نادرست ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں داعی کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ مگر دعوتی کام کی یہ لازمی قیمت ہے۔ اِس کے بغیر دعوتی عمل ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دنیا کی حقیقت

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الدنیا ملعونۃٌ، ملعونٌ ما فیہا إلاّ ذکر اللہ، وما والاہ، وعالماً ومتعلما (ابن ماجہ، کتاب الزّہد؛ الترمذی، کتاب الزہد) یعنی دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا کے اندر ہے، وہ سب ملعون ہے، سواذکراللہ کے اور وہ چیز جو اُس کے قریب ہو، اور عالم اور طالبِ علم۔
دنیا اور ذکر اللہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ یادِ الٰہی کے لیے دنیا کو پوائنٹ آف ریفرنس بنا لینا، یہی وہ چیز ہے جس کو اِس حدیث میں ذکر اللہ کہاگیا ہے۔ اگر یہ یاد اللہ کے نام کے ساتھ ہو تووہ براہِ راست ذکر ہے۔ اور اگر نام کے بغیر اللہ کو یاد کیا جائے تو وہ بالواسطہ ذکر۔ اِسی طرح، وہ عالم اور وہ طالبِ علم خدا کے نزدیک مطلوب عالم اور طالبِ علم ہیں جو اپنے علم کو ذکر ِ الٰہی کا ذریعہ بنائیں۔
دنیا یا دنیا کی چیزوں کا خالق بھی اللہ ہے۔ اِس لیے دنیا فی نفسہ ملعون نہیں ہوسکتی۔ یہ دراصل دنیا کا استعمال ہے جو اس کو ملعون یا غیر ملعون بناتا ہے۔ جو شخص دنیا کو پاکر خدا کو بھول جائے، اس کے لیے دنیا ملعون کا درجہ رکھتی ہے۔ اور جس شخص کے لیے دنیا کو پانا یادِ الٰہی کا ذریعہ بن جائے، اُس کے لیے دنیا رحمت اور سعادت کی چیز ثابت ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا آزمائش (test) کے لیے بنائی گئی ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں آزمائشی پرچے (test papers) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ پرچے اِس لیے ہیں، تاکہ ناکام ہونے والوں اور کامیاب ہونے والوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے۔
جس شخص نے دنیا کی چیزوں سے یادِ خداوندی کی غذا لی وہ اِس آزمائش میں کامیاب ہوا۔ اِس کے برعکس، جس آدمی کے لیے دنیا کی چیزیں خالق سے دوری اور فراموشی کا سبب بن گئیں، وہی وہ انسان ہے جو آزمائش میں ناکام ہوگیا۔ اِس طرح، دنیا بہ اعتبارِ استعمال، کسی کے لیے ذریعۂ لعنت ہے اور کسی کے لیے ذریعۂ رحمت۔
واپس اوپر جائیں

تحفہ کلچر

ایک بیرونی سفر میں میری ملاقات کویت کے ایک عرب پروفیسر سے ہوئی۔ ان کے ہوٹل کے کمرہ میں ہم دونوں نے نماز پڑھی۔ اس وقت وہ ایک رسٹ واچ پہنے ہوئے تھے۔ انھوںنے بیزاری کے ساتھ گھڑی کو اتارا اور اس کو میز پر رکھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ گھڑی ٹھیک کام نہیں کرتی، وہ چلتے چلتے رک جاتی ہے۔ میںنے پوچھا تو انھوںنے بتایا کہ یہ تحفہ کی گھڑی ہے۔ میںنے مزید پوچھا تو انھوںنے کہا کہ ابھی حال میں کسی نے ان کویہ گھڑی تحفہ میں دی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا کویت میں بھی تحفہ دینے والوں کا یہی مزاج ہے۔ انھوںنے کہا کہ تحفہ کے معاملے میں ہر جگہ کے لوگوں کا مزاج ایک ہی ہے، یعنی ایسی چیز دینا جو کار آمد ہونے سے زیادہ نمائشی ہو۔
تحفہ کے بارے میں یہ شکایت میں نے بہت سے لوگوں سے سنی ہے۔ میں ذاتی طورپر اس قسم کے تحفہ کو ایک گناہ کا فعل سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ ایسا تحفہ تبذیر (فضول خرچی) کے ہم معنی ہے۔ اور تبذیر کو قرآن میں ایک شیطانی عمل کہاگیا ہے (الاسراء27 )۔ اس قسم کے نمائشی تحفہ میں صرف مال ضائع ہوتا ہے، ایسا تحفہ کسی حقیقی ضرورت کو پورا نہیں کرتا۔
حدیث میں آیا ہے کہتہادوا تحابّوا (الأدب المفرد للبخاری، حدیث نمبر594 ) یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دو، اس سے آپس میں محبت بڑھے گی۔ اِس حدیث کے مطابق، صحیح ہدیہ وہ ہے جو آپس میں سچی محبت بڑھائے۔ جو ہدیہ محبت پیدا کرنے کے بجائے آپس میں کدورت پیدا کرے، جس سے ایک دوسرے کے بارے میں رائے خراب ہوجائے، ایسا ہدیہ بلاشبہہ ہدیہ کی ضد ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی ہدیہ۔
تحفہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک، نمائشی تحفہ اور دوسرے، حقیقی ضرورت کا تحفہ۔ عام طورپر لوگ نمائشی تحفہ دیتے ہیں۔ ایسے تحفہ میں پیسہ تو خرچ ہوجاتا ہے، لیکن وہ تحفہ کسی آدمی کے لیے کار آمد ثابت نہیں ہوتا۔ اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی یا تو حقیقی تحفہ دے، یا وہ سرے سے کوئی تحفہ نہ دے۔ نمائشی تحفہ دینا ہر گز سنتِ رسول کی پیروی نہیں ہے۔ نمائشی تحفہ دینا صرف ایک جرم ہے، نہ کہ کوئی اچھا کام۔
واپس اوپر جائیں

سجدۂ قربت

قرآن کی سورہ نمبر 96 میں ارشاد ہوا ہے: واسجد واقترب(العلق19 ) یعنی سجدہ کرو اور قریب ہو جاؤ۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أقرب ما یکون العبد من ربّہ وہو ساجد، فأکثروا الدعاء(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ) یعنی بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ وہ سجدے میں ہوتا ہے، اِس لیے تم سجدے کی حالت میں زیادہ سے زیادہ دعا کرو۔ قربتِ خداوندی کا یہ معاملہ صرف شکلِ سجدہ پر نہیں ہے، بلکہ روحِ سجدہ پر ہے۔ ایک واقعہ اِس معاملے کی وضاحت کرتا ہے۔
بنگلور کا واقعہ ہے۔ ایک ہندو نوجوان کی بعض عادتوں سے اُس کا باپ سخت ناراض ہوگیا۔ اُس نے اپنے بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔ ایک عرصے تک وہ اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ آخر کار، اس کی ملاقات ڈاکٹراحمد سلطان (وفات1999 ) سے ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمھارا باپ تم کو دوبارہ قبول کرلے تو اس کی صرف ایک صورت ہے۔ تم خاموشی سے اپنے گھر جاؤ، اوروہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹاؤ۔ جب دروازہ کھلے اور تمھارا باپ تمھارے سامنے آئے تو تم فوراً ہی باپ کے پیروں پر گر پڑو، اور کہو کہ باپ، مجھ سے غلطی ہوئی، مجھ کو معاف کردے۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا۔ جب لڑکا روتے ہوئے اپنے باپ کے پیروں پر گر پڑا تو باپ بھی رونے لگا۔ اس نے اپنے بیٹے کو اٹھا کر سینے سے لگالیا اور اس کو معاف کرکے دوبارہ اپنے گھر میں داخل کرلیا۔
سجدہ بلاتشبیہہ اِسی قسم کی ایک حالت ہے۔ سجدہ کوئی رسمی فعل نہیں ۔ حقیقی سجدہ یہ ہے کہ ایک بندہ شدتِ احساس سے بے چین ہوجائے اور بے تابانہ طور پر وہ اپنا سر زمین پر رکھ دے۔ ایسا سجدہ گویا کہ اپنے رب کے قدموں میں سررکھنے کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔ ایسا سجدہ تسلیم ورضا کی آخری صورت ہے۔ جب کوئی بندہ اِس طرح اپنے آپ کو آخری حد تک خدا کے آگے سرینڈر(surrender) کردے تو خدا کی رحمت کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اس کو معاف فرما کر اُسے اپنی رحمتوں کے سایے میں لے لے۔
واپس اوپر جائیں

انسان ایک استثنائی مخلوق

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔ اِس کے مطابق، آپ نے فرمایا: خلق اللہ آدم علیٰ صورتہ (صحیح البخاری، کتاب الإستئذان؛ صحیح مسلم، کتاب البر، کتاب الجنۃ؛مسند احمد، جلد 2 ،صفحہ 244) یعنی اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جسمانی شکل وصورت کے اعتبار سے، انسان خدا کے مانند ہے۔ یہاں ’’صورت‘‘ سے مراد صفات (attributes) ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو محدود طورپر وہ صفات عطا فرمائی ہیں جو اللہ کی ذات میں اپنے کمال درجے میںموجود ہیں۔
انسان پوری کائنات میں ایک استثنائی مخلوق ہے۔ انسان ایک زندہ وجود ہے۔ انسان وہ واحد مخلوق ہے جس کو ایک جامع شخصیت (personality) عطا ہوئی ہے۔ انسان سوچتا ہے، انسان دیکھتا ہے، انسان سنتا ہے، انسان منصوبہ بند عمل کرتا ہے، انسان اپنے حواس خمسہ کے ذریعہ چیزوں سے انجوائے کرسکتاہے۔ اِس قسم کی استثنائی خصوصیات ہیں جو پوری کائنات میں صرف انسان کا حصہ ہیں۔
انسان کو یہ استثنائی عطیات اِس لیے دیے گئے ہیں کہ وہ استثنائی عمل کا ثبوت دے۔ یہ استثنائی عمل خالق کی شعوری معرفت ہے۔ اِس طرح خداوند ِ ذوالجلال نے انسان کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ معرفت کے درجے میں خدا کو دریافت کرے۔ وہ غیب کی حالت میں خدا کو دیکھے۔ وہ اختیار رکھتے ہوئے اپنے آپ کو خدا کے آگے بے اختیار کرلے۔ مجبوری کے بغیر وہ اپنے آپ کو خدا کے آگے سرینڈر کردے۔ وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اپنا ذہنی ارتقا کرے، وہ ذاتی دریافت کے درجے میں سچائی کو پائے۔ وہ سجدۂ معرفت کی سطح پر خدا کے آگے جھک جائے۔ وہ پورے عالمِ فطرت کو اپنی روحانی غذا بنالے۔ وہ اپنی شخصیت کا ارتقا اِس طرح کرے کہ وہ خداوند ِ ذو الجلال کے پڑوس میں جگہ پانے کا مستحق بن جائے— جوآدمی اپنے اندر اِس قسم کی شخصیت (personality) نہ بناسکے، وہ صرف انسان نما حیوان ہے، اس کی کوئی قیمت خدا کے یہاں نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بعد کے زمانے کا فتنہ

حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیخرج قومٌ فی آخر الزّمان ، أحداث الأسنان، سُفہاء الأحلام، یقولون من خیر قول البَریَّۃ۔ یقرؤن القرآن، لایجاوز إیمانہم حناجرہم، یمرقون من الدین کما یمرق السہم من الرّمیۃ (صحیح البخاری، کتاب استتابۃ المرتدین، باب قتل الخوارج)یعنی آخری زمانے میں کچھ لوگ نکلیں گے، کم عمر والے، کم عقل والے۔ بظاہر وہ اچھی باتیں کریں گے۔وہ قرآن کو پڑھیںگے، مگرایمان اُن کے حلق سے تجاوز نہ کرے گا۔ وہ دین سے اِس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جس طرح تیر شکار کے اوپر سے نکل جاتا ہے۔اِس حدیث میںایک چیز مابین السطور (between the lines) ہے۔ اس کو شامل کرنے کے بعد ہی یہ حدیث پوری طرح سمجھی جاسکتی ہے، وہ مابین السطور یہ ہے کہ آئندہ ایسے حالات پیدا ہوں گے جو لوگوں کو یہ موقع دیں گے وہ علم اور تجربہ کی کمی کے باوجود نمایاں ہوجائیںگے، وہ لوگوں کے درمیان بڑے بڑے درجے حاصل کرلیں گے۔
موجودہ زمانہ وہی زمانہ ہے جس کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی تھی۔موجودہ زمانے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بعد کو پیدا ہونے والے حالات سے کیا مراد ہے۔ وہ ہے میڈیا، اسٹیج، آزادی، جمہوریت، دولت کی فراوانی، مظاہرہ کی سیاست ، مسلمانوں کی عظیم اکثریت، وغیرہ۔آج صاف نظر آتا ہے کہ اِن نئی چیزوں نے کس طرح لوگوں کو یہ موقع دے دیا ہے کہ وہ بے صلاحیت ہونے کے باوجود خوش نما الفاظ بول کر لوگوں کے درمیان اونچا مقام پالیں ، جو داخلی اعتبار سے سطحی ہونے کے باوجود ظاہری نمائش کے ذریعے عوامی مقبولیت حاصل کرلیں، جو قرآن کی روح سے خالی ہونے کے باوجود محض اپنی خوش الحانی کے ذریعے شہرت حاصل کرلیں، جو خدا کے خوف اور آخرت سے غافل ہونے کے باوجود عوامی تقریریں کرکے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیں۔ یہ سب صنعتی دور میں پیدا ہونے والے نئے مواقع کی بناپر پیش آئے گا۔ افراد ہمیشہ حالات سے پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ حالات کے بغیر۔
واپس اوپر جائیں

ضرورت، یا خواہش پرستی

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنّ من السَّرَف أن تأکل کلَّ ما اشتہیت (ابن ماجۃ، کتاب الأطعمۃ) یعنی یہ اسراف ہے کہ تم ہر وہ چیز کھاؤ جس کے کھانے کو تمھارا دل چاہے۔ یہی بات حضرت عمر فاروق نے اِن الفاظ میں کہی: کفیٰ بالْمرء سرفاً أن یأکل کلَّ ما اشتہاہ(کنزل العمال، حدیث نمبر35919)۔ یعنی آدمی کے مُسرف ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر وہ چیز کھائے جس کے کھانے کو اس کا دل چاہے۔
سرف اور اسراف کے لفظی معنیٰ — فضول خرچی (waste) کے ہیں، یعنی اپنے مال کو ایسی چیزمیں خرچ کرنا جو آدمی کے لیے ضروری نہ ہو، وہ اس کی صرف ایک خواہش (desire) ہو، نہ کہ اس کی حقیقی ضرورت (need)۔
ہر آدمی دو چیزوں کے درمیان ہوتا ہے— ضرورت ، اور خواہش۔اپنے مال کو ضرورت کے بقدر خرچ کرنا، بلاشبہہ ایک جائز فعل ہے۔ لیکن خواہش کی تکمیل کے لیے اپنے مال کو خرچ کرنا، ایک ایسا فعل ہے جس کے لیے انسان کو آخرت کی عدالت میں جواب دینا پڑے گا۔
اِس معاملے میں مومنانہ طریقہ یہ ہے کہ جب بھی آدمی کے سامنے ایساکوئی تقاضا پیش آئے جس میں مال کو خرچ کرنا ہو، تو وہ سنجیدگی کے ساتھ سوچے کہ یہ تقاضا اس کی حقیقی ضرورت کے لیے ہے، یا صرف اس کی خواہش کی بنا پر۔ اگر وہ تقاضا اس کی حقیقی ضرورت کی بنا پر ہو، تو وہ اس میں اپنا مال خرچ کرے۔ لیکن اگر اس کو محسوس ہو کہ یہ اس کی ضرورت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ صرف اس کی خواہش کا معاملہ ہے، تو وہ فوراً اُس سے رک جائے اور ایسی کسی مد میں اپنا مال خرچ نہ کرے۔ اِس معاملے میں آدمی کو ہر دن اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر ایک دن کے لیے بھی اُس نے اس جائزے میں کوتاہی کی، تو اس کے بعد وہ اسراف کے ڈھلوان (slope) پر جا پڑے گا اور پھر اس پر پھسلتا ہی چلا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اس کی آخری حد پر پہنچ جائے۔ اس کے بعد درمیان میں رکنا، یا واپس لوٹنا ، اس کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

دولت پرستی کا فتنہ

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لکلّ أمّۃ فتنۃ، وفتنۃ أمّتی المال (مسند احمد، جلد 4 ، صفحہ 160 ) یعنی ہر امت کا ایک فتنہ تھا، اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ مال تو ہر زمانے میں انسان کے لیے فتنہ بنا رہا ہے، پھر اس کو خاص طورپر امتِ محمدی کا فتنہ کیوں کہاگیا۔ یہ خصوصیت شدت کی بنا پر ہے۔ مال کی حیثیت بلاشبہہ ہر زمانے میں فتنے کی رہی ہے، لیکن پیغمبر اسلام کی امت کا زمانہ صنعتی دور (industrial age) تک وسیع تھا۔ اِسی مستقبل کے اعتبار سے آپ نے یہ انتباہ (warning) فرمایا۔
مال کی اہمیت خرید و فروخت کے سامان کے اعتبار سے ہے۔ جدید صنعتی دور سے پہلے خرید و فروخت کے آئٹم بہت کم ہوتے تھے، اِس لیے اُس زمانے میں مال کی اہمیت بھی نسبتاً کم تھی۔ لیکن جدید صنعتی دور کے بعد خرید وفروخت کے سامانوں (consumer goods)کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اِسی کے ساتھ سامانوں کی چمک دمک میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔ اِس صورتِ حال نے مال کو جدید صنعتی دور میں سب سے بڑا فتنہ بنادیا ۔
قدیم زمانے میں سادہ طورپر مال کی محبت کا مسئلہ تھا، لیکن موجودہ زمانے میں مال نے پرستش کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ اب انسان کی ساری زندگی دولت رُخی (money-oriented) بن گئی ہے۔ اب مال کی کشش نے لوگوں کا یہ حال کیا ہے کہ مال ہر ایک کے لیے اس کا سب سے بڑا کنسرن (supreme concern) بناہوا ہے۔
ہر آدمی اپنے تمام وقت اور اپنی ساری توانائی کو زیادہ سے زیادہ مال کے حصول میں لگائے ہوئے ہے۔ اب مال نے عملاً ہر ایک کے لیے معبود کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مال کی محبت کے فتنے سے بچا سکے۔ وہ مال کو ثانوی درجے میں رکھے، اور دین کے تقاضوں کو اپنی زندگی میںاوّلین حیثیت دے۔
واپس اوپر جائیں

عجلت پسندی

قرآن کی سورہ نمبر 21 میں ارشاد ہوا ہے: خُلق الإنسان من عجل(الأنبیاء37 ) یعنی انسان پیدائشی طورپر عجلت پسند ہے۔ ایک حدیثِ رسول میں بتایا گیا ہے کہ: التأنّی من اللہ، والعجلۃ من الشیطان(التّرمذی، کتاب البرّوالصلۃ) یعنی بُردباری اللہ کی طرف سے ہے اور عجلت شیطان کی طرف سے۔انسانی فکر اور انسانی عمل دونوں کے لیے دو طریقے ہوتے ہیں— ایک ہے عجلت کا انداز، اور دوسرا ہے بردباری کا انداز:
To proceed hurriedly; to proceed unhurriedly
اصل یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک صفت وہ رکھی گئی ہے جس کو حساسیت (sensitivity) کہاجاتا ہے۔ یہ حساسیت ایک استثنائی نوعیت کی قیمتی صفت ہے۔ لیکن ہر دوسری صفت کی طرح، اِس صفت کا بھی پلس پوائنٹ (plus point) اور مائنس پوائنٹ(minus point) ہے۔ اِس صفت کا پلس پوائنٹ مثال کے طورپر حیا ہے۔ اِسی طرح، عجلت اِس صفت کا ایک مائنس پوائنٹ ہے۔ یہ دراصل حساسیت ہے جس کی وجہ سے آدمی عجلت پسند بن جاتا ہے۔
حساسیت، خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اگر حساسیت نہ ہو تو آدمی حیوان کے مانند ہوجائے گا۔ بُرائی کو برائی سمجھنے کا مزاج اس کے اندر سے ختم ہوجائے گا۔ عجلت کا مزاج اِسی حساسیت کا ایک منفی نتیجہ ہے۔ آدمی کسی چیز سے متاثر ہوتا ہے اور فوری طورپر ایک رائے بنا لیتا ہے، یا فوری طورپر وہ کوئی اقدام کردیتا ہے۔ فکر یا عمل میںاِس قسم کا عاجلانہ انداز اِسی حساسیت کا ایک غیر مطلوب اظہار ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے عجلت پسندی کے مزاج کو عقل کے تابع بنائے۔ وہ ایسا کرے کہ بولنے اور کرنے سے پہلے سوچے۔ وہ سوچنے کے بعد کوئی بات کہے اور سوچنے کے بعد کوئی عمل کرے۔ عجلت پسندی کو قابو میں رکھنے کا یہی واحد طریقہ ہے— عجلت پسندی کا مزاج تو ختم نہیں ہوسکتا، البتہ عقل کے تابع رکھ کر اس کو مفید بنایا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اولاد پرستی کا فتنہ

ایک حدیثِ رسول میں بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ گھاٹے میں وہ شخص ہے جو دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھودے (أذہب آخرتہ بدنیا غیرہ، ابن ماجہ، کتاب الفتن)۔ یہ حدیث موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ اُن لوگوں پر چسپاں (apply) ہوتی ہے جو صاحبِ اولاد ہیں۔ موجودہ زمانے میں صاحبِ اولاد لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر ایک کے لیے اس کی اولاد اُس کا سب سے بڑا کنسرن (supreme concern) بنی ہوئی ہے۔ ہر ایک کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے میں مصروف ہے، اور خود اپنی آخرت کی خاطر کوئی حقیقی کام کرنے کے لیے آدمی کے پاس وقت ہی نہیں۔
موجودہ زمانے میں ہر آدمی اِس حقیقت کو بھول گیا ہے کہ اس کی اولاد اُس کے لیے صرف امتحان کا پرچہ (الأنفال28 ) ہے۔ اولاد اس کو اِس لیے نہیں ملی ہے کہ وہ بس اپنی اولاد کو خوش کرتا رہے، وہ اپنی اولاد کی دنیوی کامیابی کے لیے اپنی ساری توانائی لگادے۔
موجودہ زمانے میں بہت سے لوگ ہیں جو بظاہر مذہبی وضع قطع بنائے رہتے ہیں اور رسمی معنوں میں صوم و صلاۃ کی پابندی بھی کرتے ہیں، لیکن عملاً وہ اپنا سارا وقت اور اپنی بہترین صلاحیت صرف دنیا کمانے میں لگائے رہتے ہیں، صرف اِس لیے کہ جب وہ مریں تو اپنی اولاد کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ سامانِ دنیا چھوڑ کر جائیں۔
مگر ایسے لوگ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ خدا کو دینے کے لیے اُن کے پاس صرف کچھ ظاہری رسوم ہیں اور جہاں تک حقیقی زندگی کا تعلق ہے، اس کو انھوں نے صرف اپنی اولاد کے لیے وقف کررکھا ہے۔ یہ خدا پرستی نہیں ہے، بلکہ وہ حدیث کے الفاظ میں اولاد پرستی ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اولاد پرستی کا طریقہ کسی کو خدا پرستی کا کریڈٹ نہیں دے سکتا۔ خدا پرستی، زندگی کا ضمیمہ (appendix) نہیں، حقیقی خدا پرستی وہ ہے جو انسان کی پوری زندگی کا اِحاطہ کیے ہوئے ہو۔
واپس اوپر جائیں

رعایت ایک سنتِ رسول

حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: یَسِّروا ولا تعسِّرُوا، وبشِّروا ولاتُنَفِّرُوا (صحیح البخاری، کتاب العلم) یعنی تم لوگوں کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرو،تم لوگوں کے ساتھ سختی کا معاملہ نہ کرو۔ تم لوگوں کو خوش خبری دو، تم لوگوں کو متنفر نہ کرو۔
اِس حدیثِ رسول میں دراصل انسانی رعایت کی تعلیم دی گئی ہے۔ حدیثوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ ہے کہ انسان کے ساتھ آخری حد تک رعایت کا معاملہ کیا جائے۔قول یا عمل ، کسی میں بھی شدت کا انداز اختیار نہ کیا جائے۔اِس رعایت کا مطلب لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑنا نہیں ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اصلاح کے عمل کے لیے صحیح نقطۂ آغاز (starting point)اختیار کیا جائے۔ اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اعمال کے ظاہری پہلوؤں کے بارے میں رعایت کا معاملہ کیا جائے اور زیادہ زور اور تاکید اعمال کے داخلی پہلوؤں پر دیا جائے۔ کیوںکہ ظواہر کی اصلاح سے داخلی اصلاح نہیںہوتی، بلکہ اِس کے برعکس، داخلی اصلاح سے ظواہر کی اصلاح ہوتی ہے۔
رعایت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو دین پر عمل کرنا، زیادہ مشکل نہیںمعلوم ہوتا ۔ وہ متوحش ہوئے بغیر دینی اعمال کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے آدمی کے داخل کی اصلاح ہوتی ہے، پھر دھیرے دھیرے اس کے ظواہر بھی دین کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ رعایت دراصل حکیمانہ طریقِ کار کا دوسرا نام ہے، اور یہ ایک واقعہ ہے کہ حقیقی اصلاح ہمیشہ حکیمانہ طریقِ کار کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ غیر حکیمانہ طریقِ کار کے ذریعے۔مُصلح کا طریقہ ہمیشہ رعایت کا ہونا چاہیے۔ مصلح کا سارا زور اِس پر ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے اندر جذبۂ عمل پیدا کرے۔ عمل کا جذبہ پیدا ہوتے ہی آدمی وہ کام خود کرنے لگتا ہے جس کو شدت پسند مصلح ناکام طورپر انجام دینا چاہتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سنّت کیا ہے

حضرت انس بن مالک کی ایک روایت الدارمی میں اِن الفاظ میں آئی ہے: إذا وُضع الطّعام فاخلعوا نِعالکم، فإنہ أروح لأقدامکم (سُنن الدَّارمی، کتاب الأطعمۃ؛ مشکاۃ المصابیح، حدیث نمبر4240 )۔ یعنی جب کھانا رکھا جائے تو تم اپنے جوتے اتار دو، کیوں کہ ایسا کرنے میں تمھارے پاؤں کے لیے راحت ہے۔
اِس حدیث میں کھانے کے وقت جوتا اتارنے کی مصلحت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ تمھارے لیے زیادہ پُر راحت طریقہ ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ کھانے کے وقت جوتا اتارنا، کوئی مطلق نوعیت کی سنت نہیں، اس کا مقصد صرف راحت ہے۔ یہی معاملہ اُن تمام ’’سنتوں‘‘ کا ہے جن میں آدابِ حیات کو بتایا گیا ہے۔ آدابِ حیات کے بارے میں کوئی طریقہ مطلق طورپر اچھا، یا بُرا نہیں ہوتا، بلکہ اُس کا تعلق تمام تر راحت سے ہوتا ہے۔ جس وقت جس طریقے میں انسان کے لیے راحت ہو، وہی طریقہ سنت کا طریقہ قرار پائے گا۔مثال کے طورپر آپ کو کار میں بیٹھنا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، کار میں دائیں اور بائیں دونوں طرف دروازے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کار میں اُس کے دائیں طرف کے دروازے سے بیٹھ رہے ہوں، تو سہولت یہ ہوگی کہ آپ پہلے اپنا بایاں پاؤں کار میں داخل کریں۔ اِسی طرح اگر آپ کار کے بائیں دروازے سے اس میں بیٹھ رہے ہوں، تو آپ کے لیے سہولت یہ ہوگی کہ آپ پہلے اپنا دایاں پاؤں کار میں داخل کریں۔ اس کے برعکس طریقہ اختیار کرنا، آپ کے لیے غیر ضروری مشقت کا باعث ہوگا۔ ٹھیک یہی معاملہ کار سے اترنے کا بھی ہے۔
ایسی حالت میں اگر کوئی شخص کار میں بیٹھنے کی سنت یہ بتائے کہ اُس میں داخل ہوتے ہوئے ہرحال میں اپنا دایاں پاؤں کارکے اندر داخل کرو، اور اترتـے ہوئے ہر حال میں اپنا بایاں پاؤں اس کے اندر سے نکالو، تو ایسا کرنا راحت کے بجائے زحمت کا باعث بن جائے گا۔ جب کہ آدابِ زندگی کے بارے میں سنت ہمیشہ راحت پر مبنی ہوتی ہے، نہ کہ غیرضروری مشقت پر۔
واپس اوپر جائیں