Pages

Friday, 2 September 2016

Al Risala | September 2016 (الرسالہ،ستمبر)

4

-عید الاضحی

5

- ایمان کی درستگی

6

- اہل جنت کی صفت

7

- اللہ کی رحمت

8

- اتباع رسول

9

- پوشیدہ جنت

10

- خدا کا عقیدہ

11

- ذہنی ارتقاء

12

- دورِ آخر کی اصلاح

13

- دین کا تسلسل

14

- حکمت کا سرا

15

- اسلام کی معرفت

16

- انسان کی تلاش

19

- ترجمۂ قرآن کی اشاعت

20

- دعویٰ کی زبان

21

- خیر کا قانون

22

- سکنڈ چانس

23

- دعوت کا معیار

24

- پر امن دعوت

25

- اسلام کا عالمی پیغام

26

- بے آمیز دعوت کی ذمہ داری

28

- حالات کی زبان

29

- خدائی منصوبہ

30

- اختلاف ایک رحمت

31

- پرسکون زندگی کا راز

32

- سنی ہوئی بات کی تحقیق

33

- سازش کا نظریہ

44

- سازش بے اثر

35

- باہمی تعاون کا نظام

36

- عورت اور مرد کا فرق

37

- مثبت سوچ کی ضرورت

38

- مادر وطن

39

- موت کا شعوری ادراک نہیں

40

- کائناتی نشانیاں

41

- فیصلہ تک پہنچنا

42

- نئی منصوبہ بندی

43

- مبنی بر معرفت کلام

44

- انتظار کیجیے

45

- حکمت

46

- ہر صورتِ حال بہتر

47

- ٹکنالوجی کا کمال

48

- سوال و جواب


عید الاضحی

عید الاضحی حضرت اسماعیل بن ابراہیم کی قربانی کی یادگار ہے۔ اس قربانی کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِینُ ۔ وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ۔ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْآخِرِینَ (37:106-108)۔یعنی یقیناً یہ ایک کھلی ہوئی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی کے عوض اس کو چھڑا لیا۔ اور ہم نے اس پر پچھلوں میں ایک گروہ کو چھوڑا۔
قرآن کی اس آیت میں چھڑانے سے مراد وہی واقعہ ہے جو عملا پیش آیا۔ یعنی حضرت اسماعیل کو جسمانی ذبح کے بجائے، اس بات کے لیے قبول کرلیا گیا کہ وہ توحید کے مشن میں ڈیزرٹ تھراپی (desert therapy)کے کورس سے اپنے آپ کو گزاریں، اور اس کے بعد ایک نئی نسل تیار کریں۔ یہ منصوبۂ الٰہی بلاشبہ ایک عظیم امتحان کا معاملہ تھا۔ ہر سال جو عید الاضحی منائی جاتی ہے ، وہ اس لیے ہے کہ بعد کے اہل ایمان اس دن یہ عہد کریں کہ وہ آئندہ اس قربانی کو جاری رکھیں گے۔ تاکہ توحید کا مشن ابراہیمی پیٹرن پر قیامت تک جاری رہے۔
بعد کے زمانے میں اس پیٹرن کو دہرانے کا معاملہ باعتبار صورت نہیں ہوگا، بلکہ باعتبارِ حقیقت ہوگا۔ مثلا موجودہ زمانے میں تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد خاندانی تعمیر میں کام آئے۔ لیکن حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیم کا نمونہ بتاتا ہے کہ ہر خاندان اپنے نوجوانوں کو اس مقصد کے لیے تیار کرے کہ وہ توحید کا مشن اپنے زمانے کے حالات میں ہمیشہ جاری رکھیں۔ یہ منصوبہ ہر حال میں جاری رکھنا ہے، خواہ اس کے لیے جو بھی قربانی ادا کرنا پڑے۔ عید الاضحی کا دن تیوہار کا دن نہیں ہے، بلکہ وہ مذکورہ معنوں میں عہد کا ایک دن ہے۔
قربانی کی حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ تم دو، تاکہ جو کچھ تمھارے باہر ہےوہ تم کو مل سکے۔ قربانی اس بات کا سبق ہے کہ اگر تم کچھ پانا چاہتے ہو تو کھونے کا حوصلہ پیدا کرو۔
واپس اوپر جائیں

ایمان کی درستگی

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن أنس بن مالک قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم :لایستقیم إیمان عبد حتى یستقیم قلبہ (مسند احمد، حدیث نمبر13048)۔ انس بن مالک سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس کا قلب درست نہ ہو۔
اس حدیث میں قلب سے مراد دل (heart) نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد عقل (reason) ہے۔کسی آدمی کو ایمان اس وقت حاصل ہوجاتا ہے، جب کہ وہ کلمۂ توحید کا اقرار کرے۔ مگر ایمان کی درستگی ، بالفاظ دیگر ایمان کی تکمیل صرف اس وقت ہوسکتی ہے، جب کہ آدمی اپنے ایمان کو اس طرح ترقی دے کہ وہ اس کی عقل کو پوری طرح مطمئن کرنے والا ایمان بن جائے۔ایمان صرف کلمہ کی ادائیگی والا ایمان نہ رہے، بلکہ وہ اس کے تفکیری عمل (thinking process) میں پوری طرح شامل ہوجائے۔
ایمان جب فکری عمل کا حصہ بن جائے تو وہ انسان کی پوری شخصیت کی تعمیر کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایسے آدمی کا زاویۂ نظر (angle of vision) بدل جاتا ہے۔ اس کی سوچ ، خدا رخی سوچ (God-oriented thinking)بن جاتی ہے۔ دینی اصطلاح میں اس معاملے کو تزکیہ کہا جاتا ہے۔ تزکیہ دراصل ذہنی ارتقا کا دوسرا نام ہے۔
انسان کی شخصیت اس کی سوچ کے تابع ہوتی ہے۔ سوچ کا تعلق آدمی کی پوری زندگی سے ہوتا ہے۔ جب ایمان سوچ پر مبنی ایمان بن جائے تو آدمی اسی سوچ کے مطابق ہر چیز کا تجزیہ کرتا ہے۔ وہ اسی کے مطابق، کسی چیز کو رد اور کسی چیز کو قبول کرتا ہے۔ وہ اسی کے مطابق اپنی زندگی کا سفر طے کرتا ہے۔ اس کے صبح و شام اسی کے مطابق گزرنے لگتے ہیں۔ اس کی پوری زندگی اسی کے تابع بن جاتی ہے۔ آپ اپنی سوچ کو درست کیجیے، اور آپ کی پوری زندگی درست ہوجائے گی۔
واپس اوپر جائیں

اہل جنت کی صفت

پیغمبر اسلام کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:عن أبی ہریرة، عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم، قال:یدخل الجنة أقوام، أفئدتہم مثل أفئدة الطیر(صحیح مسلم، حدیث نمبر2840) یعنی جنت میں ایسے لوگ داخل ہوں گے، جن کے دل چڑیوں کے دل کے مانند ہوں گے۔
چڑیا کی مثال یہاں بہت بامعنی ہے۔ اس کی تشریح قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے جس میں اہل جنت کے بارے میں بتایا گیا ہے :وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِہِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِینَ (15:47)۔یعنی اور ان کے سینوں کی کدورتیں ہم نکال دیں گے، سب بھائی بھائی کی طرح رہیں گے، تختوں پر آمنے سامنے۔
چڑیا اللہ کی انوکھی مخلوق ہے۔چڑیا ایک ایسی مخلوق ہے جس کا دل مکمل طور پر حسد اور بغض سے خالی ہوتا ہے۔ چڑیا کا دل منفی جذبات سے پاک ہوتا ہے۔ چڑیا نفرت اور حسد جیسے جذبات سے نا آشنا ہوتی ہے۔ چڑیا کا دل ردعمل (reaction) کی نفسیات سےناآشنا ہوتا ہے۔اس اعتبار سے چڑیا اہل جنت کی مثال بن گئی ہے۔ اہل جنت اپنے ذہنی اور روحانی ارتقا کی بنا پر ایسے انسان ہوں گے جو ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہوں۔ ان کی نظر میں ہر جنتی انسان ان کے حقیقی بھائی کی مانند ہوگا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں داخلے کی شرط کیا ہے۔ جنت ایک ایسی معیاری سوسائٹی ہوگی۔ جہاں صرف وہ لوگ داخلہ پائیں گے، جنھوں نے دنیا کی زندگی میں یہ ثبوت دیا تھا کہ وہ جنتی معاشرہ کی اعلی شرطوں پر پورا اتررہے ہیں۔ وہ اپنی سوچ اور اپنے عمل کے اعتبار سے مثبت انسان ہیں۔ وہ اس اعلی سوسائٹی میں رہنے کے قابل ہیں جو تاریخ کے ان منتخب افراد کی سوسائٹی ہوگی جن کو نبی، اور صادق، اورصالح اور، حق کی گواہی دینے والے (النساء69 :)کہا گیا ہے۔جنت کسی مرد یا عورت کو ذاتی صفت کی بنا پر ملے گی، نہ کہ کسی اور کی سفارش کی بنا پر۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی رحمت

قرآن میں اللہ کی صفت کو بتاتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:کَتَبَ عَلَى نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ (6:12) یعنی اللہ نے اپنے اوپر رحمت کو لکھ دیاہے۔ یعنی اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ جو بھی معاملہ کرے گا وہ اعلی رحمت کے مطابق ہوگا۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ کبھی اور کسی معاملہ میں رحمت کے خلاف معاملہ نہیں کرے گا۔اس رحمت کو خود اختیار کردہ اخلاقیات (self-imposed ethics) کہاجاسکتا ہے۔ اس خود اختیار کردہ اخلاقیات کو قرآن میں امانت (الاحزاب: 72) کہاگیا ہے۔ یعنی اللہ نےانسان کو پیداکرکے اس دنیامیں رکھااور اس کو کامل آزادی دے دی۔ یہ کامل آزادی ایک انتہائی انوکھا اختیار ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ کامل آزادی کے باوجود اپنی آزادی کو ڈسپلن (discipline) کے اندر استعمال کرے۔قرآن میں اس کی ایک حکمت اس طرح بیان کی گئی ہے: اگر تم صبرکرو اور تقوی اختیار کرو تو ان کی سازش تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی(آل عمران120 :)۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اگر تمھارے اندر صبر اور تقوی ہوتو تمہارے خلاف لوگوں کی سازش کا خاتمہ ہوجائے گا۔ بلکہ صرف یہ فرمایا کہ اگر تمھارے اندر صبر اور تقوی ہو تو لوگوں کی سازش تمھارے لئے ضرر رساں (harmful) نہیں بنے گی، وہ تمھارے لئے غیر موثر ہوجائے گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ فطرت کے قانون کےمطابق سازش کا وجود کبھی ختم نہ ہوگا ۔البتہ دانشمندانہ روش کے ذریعہ دوسروں کی سازش کو اپنے لئے بے اثر بنایا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر آپ کو یہ شکایت ہے کہ پولیس آپ کے خلاف ہے اور وہ آپ پر گولی چلاتی ہے تو اس معاملہ کا مطالعہ کیجئے۔ گہرے مطالعہ کے ذریعہ آپ دریافت کریں گے کہ پولیس کبھی ایسا نہیں کرتی کہ وہ خود سے آپ کے اوپر گولی چلائے۔ ہمیشہ ایسا ہوگا کہ آپ بے صبر ہو کر پولیس کو پتھر ماریں گے اس کے بعد پولیس جوابی کارروائی کے طورپر آپ کے اوپر گولی چلائے گی۔ اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ آپ بے صبر ہو کر پولیس کو پتھر نہ ماریں۔اس کے بعد یقیناًپولیس آپ پر گولی بھی نہیں چلائے گی۔
واپس اوپر جائیں

اتباع رسول

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:فوالذی نفسی بیدہ، لا یؤمن أحدکم حتى أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ وزاد فی روایۃ:والناس أجمعین(صحیح البخاری، حدیث نمبر14-15) یعنی اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتایہاں تک کہ میں اس کے لیے سب سے زیادہ محبوب بن جاؤں،اس کے والد سے اور اس کی اولاد سے۔ ایک اور روایت میں اضافہ ہے:اور تمام انسانوں سے ۔
اس حدیث میں محبت رسول سے مراد کیا ہے۔ اس کی وضاحت قرآن کی ایک آیت سے ہوتی ہے۔ وہ آیت یہ ہے:قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ (3:31)۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت رسول سے مراد اتباع رسول ہے۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں محبتِ رسول کا لفظ رسول کے مشن کے معنی میں آیا ہے۔ یعنی توحید کا مشن جو پیغمبر کی رہنمائی میں چل رہا تھا، اس سے اہل ایمان کو جذباتی تعلق (emotional attachment)ہونا چاہیے، ورنہ وہ آخری وقت تک اس پر قائم نہیں رہ سکتا۔
پیغمبرِ اسلام نے یہ بات مدینہ میں اس وقت فرمائی تھی، جب کہ بیرونی حملہ کی بنا پرجنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کچھ لوگ ، اپنے والدین، اپنے اولاد، اپنے رشتے داروں، اور اپنے خاندان، اورمال، اور تجارت،جائدادسےمحبت کی بنا پر یہ چاہنے لگے تھے کہ ان کو جنگ میں شرکت نہ کرنا پڑے۔ان حالات میں سورہ التوبہ کی آیت نمبر 24 نازل ہوئی۔ اور پیغمبراسلام نے وہ بات فرمائی جو مذکورہ حدیث میں موجود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مومن کے اندر ذاتی محبت اللہ سے ہونی چاہیے(البقرۃ165 :)۔ رسول سے اہل ایمان کی محبت مقصدی محبت ہوتی ہے، نہ کہ ذاتی محبت۔ یہ حقیقت ایک حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے:أحبوا اللہ لما یغذوکم من نعمہ وأحبونی بحب اللہ(سنن الترمذی، حدیث نمبر3789 :)۔
واپس اوپر جائیں

پوشیدہ جنت

قرآن میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ دنیا میں جو لوگ ایمان والی زندگی گزاریں، ان کے لیے آخرت کی زندگی میں جنت کا انعام ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ۔(32:17) تو کسی کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں کے لیے ان کے اعمال کے صلہ میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔
قرآن کی اس آیت میںاُخفی لہم کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ اس کا لفظی مطلب ہےان کے لیے چھپا کر رکھنا (kept hidden for them)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت مستقبل میں بنائی جانے والی دنیا نہیں ہے، بلکہ آج ہی بنائی ہوئی موجود ہے۔ جس طرح ہماری زمین (planet earth) ایک بالفعل موجود دنیا ہے، اسی طرح جنت ایک ایسی دنیا ہے جو بالفعل موجود ہے۔
سیارۂ ارض کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ شمسی نظام (solar system) کا ایک سیارہ ہے، جو ہمارے لیے بذریعہ دوربین (telescope) قابلِ مشاہدہ ہے۔ لیکن جنت اس طرح ہمارے لیے قابل مشاہدہ نہیں۔ کسی بھی دوربین کے ذریعہ ہم جنت کو دیکھ نہیں سکتے۔ البتہ سائنسی دریافت نے ہمارے لیے ایک قیاس کا موقع فراہم کیا ہے۔ سائنسی دریافت یہ کہتی ہے کہ اسپیس کا بڑا حصہ ڈارک میٹر (dark matter) کی صورت میں ہے۔ یعنی وہ اسپیس میں موجود ہے، لیکن ہم اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔ اب جنت پر یقین کرنے کے لیے یہ قیاس قائم کیا جاسکتا ہے کہ جنت کی دنیا غالباً ڈارک میٹر کے درمیان اسپیس میں کسی مقام پر چھپی ہوئی موجود ہو۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز جوڑے کی شکل میں پیدا کی گئی ہے۔ اس میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہماری زمین کا بھی ایک جوڑا (pair) ہے۔ اسی سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ دوسری دنیا موجودہ زمین کی تکمیل ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی بھی انسان کی آرزوئیں پوری نہیں ہوتیں۔ یہاں کسی بھی انسان کو اس کی خواہش کے اعتبار سے فُل فِل منٹ (fulfilment) نہیں ملتا۔ یہ صورتِ حال اس بات کا قرینہ ہے کہ یہی دوسری دنیا شاید وہ دنیا ہے جس کو ابدی جنت کا نام دیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا عقیدہ

ایک تحقیقاتی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ ہم پیدائشی طور پر خدا میں عقیدہ رکھنے والی مخلوق ہیں۔ (we are born believers) انسان کی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک برتر ہستی کا تصور اس کے اندر فطری طور پر موجودہے۔ یہ تصور اتنا قوی ہے کہ کوئی بھی تربیت اس کو ختم نہیں کرسکتی۔ اس حقیقت کو نفسیات کے ایک عالم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
Belief in God is hardwired in our brain
یہ تحقیق ٹائمس آن لائن میں چھپی ہے، جس کو نئی دہلی کے اخبار ٹائمس آف انڈیا، نے اپنے شمارہ 8 ستمبر 2009 نے نقل کیا ہے۔مگر ماہرین کی رپورٹ میں غلط طور پر انسان کی اس خصوصیت کو نظریہ ارتقا سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ انسان کے ذہن کی یہ پروگرامنگ بذریعہ ارتقا ہوئی ہے، تاکہ اپنے اس عقیدہ کی بنا پر انسان جہد للبقا ءکے عمل میں زیادہ بہتر مواقع پاسکے:
Human beings are programmed by evolution to believe in God, because it gives them a better chance of survival.
یہ سرتاسر ایک غیر منطقی بات ہے۔ تحقیق سے جو بات ثابت ہوئی ہے وہ یہ کہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر فوق الطبیعی عقیدہ (supernatural belief)موجود ہوتا ہے۔ کوئی مرد یا عورت اس سے خالی نہیں۔ مگر یہ بات سر تاسر غیر ثابت شدہ ہے کہ یہ عقیدہ کسی مفروضہ ارتقا (evolution) کے ذریعے انسان کے اندر خود بخود پیدا ہوا ہے۔
موجودہ زمانے میں مختلف شعبوں میں علمی تحقیقات کی گئی ہیں۔ ہر شعبے کے تحقیقاتی نتائج اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ انسان پیدائشی طور پر ایک بر تر ہستی کا عقیدہ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ذہن ہر انسان کو کسی نہ کسی پہلو سے مذہبی بنا دیتا ہے۔ حتی کہ جو لوگ بظاہر ملحد (atheist) سمجھے جاتے ہیں، ان کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں بھی یہ تصور موجود ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی ارتقاء

قرآن کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو توبہ کہا گیا ہے۔ حدیث کے الفاظ میں توبہ کی اصل حقیقت ندامت (repentance) ہے(مسند احمد، حدیث نمبر3568:)۔ توبہ کرنے والے کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فَأُولَئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ (25:70)۔ یعنی اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا۔
اس کے مطابق ، توبہ ایک ایسی چیز ہے جس سے سیٔہ (برائی) حسنہ (نیکی) میں بدل جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو سچے ایمان والے ہوں ،وہ جب غلطی کرتے ہیں تو اس کے بعد ان کے اندر شدید ندامت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ندامت ان کے لیے ایک ذہنی صدمہ (intellectual shock) بن جاتی ہے۔ ان کے ذہن میں ایک شدید ہل چل پیدا ہوتی ہے۔ اس ذہنی ہل چل کے ذریعے ان کے اندر ایک تخلیقیت (creativity) جاگتی ہے۔ ان کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری ہوجاتا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق ، اس عمل (process) کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے— غلطی، اس کے بعد ندامت، اور پھر نتیجۃً ذہنی ارتقا:
Mistake + repentance = intellectual development
اجتماعی زندگی میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کی بات دوسرے شخص کے اندر غصہ پیدا کرتی ہے۔ اس وقت انسان دو امکان (options)کے درمیان رہتا ہے۔ یا وہ فرشتے کی آواز کو سنے اور اس کی پیروی کرے، یا وہ شیطان کی آواز کو سنے اور اس کے پیچھے چلنے لگے۔ فرشتے کی آواز سننے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر محاسبہ (introspection) کا عمل جاگتا ہے۔ وہ اپنے اوپر نظر ثانی کرنے لگتا ہے۔ اس طرح آدمی کے اندر خود احتسابی کا عمل جاگتا ہے، جو باعتبارِ نتیجہ ذہنی ارتقا کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کو وہ حقیقتیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں، جو اس سے پہلے اس کے لیے لامعلوم بنی ہوئی تھیں۔ اس کے مقابلے میں جو شخص رد عمل کا شکار ہوجائے، اس کا وہ حال ہوگا جو قرآن کی اس آیت میں بیان ہوا ہے (الاعراف 202 :)۔
واپس اوپر جائیں

دورِ آخر کی اصلاح

مالک ابن انس(وفات179ھ) تبع تابعی اپنے شیخ وہب ابن کیسان (وفات 127ھ) تابعی کے بارے میں بتاتے ہیں : کان وہب بن کیسان یقعد إلینا، ثم لا یقوم أبدا حتى یقول لنا إنہ لا یصلح آخر ہذہ الأمة إلا ما أصلح أولہا(مسند الموطا للجوہری، حدیث نمبر783 :)یعنی وہب ابن کیسان ہماری مجلس میں آتے ، تو اٹھنے سے پہلے ہمیشہ یہ بات کہتے، بے شک اس امت کے آخر کی بھی اسی سے اصلاح ہوگی جس نے اس کے اول کی اصلاح کی تھی۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصول ابتداء ً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بتایا، پھر صحابہ سے یہ بات تابعین کو ملی ، پھر تابعین سے یہ بات تبع تابعین تک پہنچی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اصول کی صداقت میں کوئی شک نہیں۔
اب غور کیجیے کہ امت مسلمہ کا اول کیا تھا، اور اس کا آخر کیا ۔ امت مسلمہ کا اول دور وہ تھا جب کہ اس کے اندر قرآن پڑھا اور پڑھایا جاتا تھا۔ حدیث اور سنت کا چرچا تھا۔ صحابہ اور تابعین کی مجلسیں جگہ جگہ قائم تھیں۔ یہ تھا امت کا دورِ اول۔ اس دور کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ امت کا وہ آئڈیل دور ہے جب کہ اسلام اپنی اصل حالت پر قائم تھا۔
اس کے بعد وہ دور آیا جب کہ امت کے اندر ایک اور چیزکا اضافہ ہوا۔ اور وہ بعد کو بننے والی تاریخ تھی۔ اس تاریخ میں وہ تمام اجزاء موجود تھے، جو کسی قوم کی تاریخ میں شامل ہوتے ہیں۔ اس میں سیاسی اقتدار تھا، جنگ تھی، قومی تصورات تھے، فاتح اور مفتوح (ruler and ruled)کے مساوات (equation)،ہمسایہ قوموں سے تعلقات، وغیرہ۔
اس معاملےکو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دورِ اول مبنی بر دعوت دور تھا۔ اور بعد کا دور مبنی بر سیاست دور بن گیا۔ پہلے دور میں اہل ایمان اصولی اسلام پر قائم تھے، بعد کے دور میں وہ ایک قومی مذہب پر قائم ہوگیے۔ یہی اس معاملے کا خلاصہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

دین کا تسلسل

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:یحمل ہذا العلم من کل خلف عدولہ، ینفون عنہ تحریف الغالین، وانتحال المبطلین، وتأویل الجاہلین (شرح مشکل الآثار، حدیث نمبر3884:)۔ یعنی اس علم کے حامل ہر نسل میں اس کے عادل لوگ ہوں گے، جو غلو کرنے والوں کی تحریف سے اس کو محفوظ رکھیں گے،اہل باطل کے انحراف سے اس کو پاک رکھیں گے، اور کم علم لوگوں کی غلط تاویلات سے اس کوبچائیں گے۔
اس حدیث رسول میں امت کے اہل علم کی ایک ذمہ داری بتائی گئی ہے۔ ہر دور میں امت کے اہل علم کا یہ فریضہ ہوگا کہ وہ گہرے مطالعہ کے ذریعہ غلوپسندوں (extremists)کی غلطیوں کو دریافت کریں ، اور انتہاپسندانہ تصور دین کے مقابلے میں صحیح تصور دین کو پیش کریں۔ وہ دین سے انحراف کو جانیں ، اور منحرفانہ تشریح کے بجائے درست تشریح لوگوں کو دوبارہ بتائیں۔ وہ کم علم لوگوں کی قرآن و سنت کی غلط تاویل کو بولیں، اور درست تاویل کو دوبارہ قائم کریں۔
پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و سنت پر مبنی جو دین امت کو دیا، اس کا متن تو محفوظ ہے۔ اور ہمیشہ محفوظ رہے گا، لیکن امت کی بعد کی نسلوں میں جو لوگ امت کا حصہ بنیں گے، وہ اپنے قدیم مائنڈ سیٹ (mindset) اور زمانی افکار کی بنا پر اصل دین سے انحراف میں مبتلا ہوجائیں گے۔ وہ بظاہر قرآن و سنت کا نام لیں گے۔ لیکن ان کی باتوں میں غیر اہل دین کا فکر شامل ہوجائےگا۔ اس لیے ہر دور میں ضرورت ہوگی کہ امت کے اندر ایسے صالح اہل علم پیدا ہوں جو اسلام کو دوبارہ اس کی اصل صورت میں زندہ کرتے رہیں۔یہ حدیث رسول اس عمل کو بتاتی ہے، جس کے ذریعے امت میں دین کے صحیح تصور کا تسلسل قائم رہے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت عملی اعتبار سے ہر گمراہی سے بچی رہے گی۔ یہ بات فکری اور نظریاتی اعتبار سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اسلام کا متن (text) محفوظ ہےاسی طرح اسلام کا درست تصور بھی ہمیشہ محفوظ رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

حکمت کا سرا

عبد اللہ ابن مسعود کے بارے میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:أنہ کان یقول فی خطبتہ :خیر الزاد التقوى ورأس الحکمة مخافة اللہ عز وجل (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 728:) یعنی وہ اپنے خطبے میں کہا کرتے تھے: سب سے بہتر زاد راہ تقویٰ ہے، اور حکمت کا سرا اللہ عزوجل کا خوف ہے۔
حکمت (wisdom) کا تعلق خوف خدا سے کیا ہے۔ وہ باعتبار نتیجہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ خوف خدا آدمی کو انسانِ حقیقی (man cut to size) بناتا ہے۔ جو انسان ایسا انسان بن جائے اس کے اندر فطری طور پر تواضع (modesty) پیدا ہوتی ہے۔ اور تواضع ہر قسم کی خوبیوں کا سر چشمہ ہے۔ تواضع آدمی کوپورے معنوں میں حقیقت پسند بنادیتی ہے۔اور جو آدمی حقیقت پسند ہو، وہ اس کا تحمل نہیں کر سکتا کہ غیر دانش مندانہ طریقہ اختیار کرے۔ دانائی (wisdom) اس صلاحیت کانام ہے کہ آدمی کسی معاملے میں غیر متعلق کو الگ کرکے متعلق کو دریافت کرسکے:
Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.
آدمی کے اندر اگر تواضع نہ ہو تو وہ غیر ذمہ دارانہ انداز میں فیصلہ کرے گا۔ لیکن جس آدمی کے اندر تواضع ہو ، وہ انتہائی سنجیدہ ہوجائے گا۔ وہ اس کا تحمل نہ کرسکے گا کہ متعلق اور غیر متعلق یا نتیجہ خیز اور بے نتیجہ یا قابلِ عمل اور ناقابلِ عمل کے فرق کو ملحوظ نہ رکھے۔ وہ جذباتی انداز میں سوچے، اور اندھا دھند طریقہ پر فیصلہ کرے۔ خوفِ خدا سے خالی انسان، غیر ذمہ دار انسان ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر خوفِ خدا ہو وہ انتہائی حد تک ذمہ دار انسان بن جا ئے گا۔ یہ احساسِ ذمہ داری اس کو ایک دانش مند انسان بنادے گی۔اس بنا پر اللہ سے ڈرنے والا انسان ایک دانش مند انسان ہوتا ہے۔
صاحب حکمت وہ ہے جو چیزوں کے بارے میں ایز اٹ از (as it is) انداز میں سوچ سکے، وہ کسی ملاوٹ کے بغیر چیزوں کے بارے میں بے لاگ رائے قائم کرے۔ یہی انسان حکمت والا انسان ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کی معرفت

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبی ہریرة، قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:بدأ الإسلام غریبا، وسیعود کما بدأ غریبا، فطوبى للغرباء(صحیح مسلم، حدیث نمبر232:- [145])۔یعنی اسلام جب شروع ہوا تو وہ اجنبی تھا۔ اور دوبارہ وہ اجنبی ہوجائے گا، تو مبارک باد ہے اجنبی لوگوں کے لئے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ مسلمان اپنے دورِ زوال میں پہنچ جائیں۔ اس حقیقت کو حدیث میں مختلف طریقہ سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک حدیث رسول کے الفاظ یہ : یوشک أن یأتی على الناس زمان لا یبقى من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقى من القرآن إلا رسمہ، مساجدہم عامرة وہی خراب من الہدى(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر1763:) ۔یعنی قریب ہے کہ لوگوں پر وہ زمانہ آئے جب کہ اسلام کا صرف نام باقی رہے، اورقرآن کا صرف رسم الخط باقی رہے، اس وقت ان کی مسجدیں بظاہر بھری ہوں گی، لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گی۔
کسی امت پر عروج کے بعد زوال کا آنا، قانونِ فطرت کے تحت ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ اس واقعہ میں ایک بڑی رحمت ہے - یہ لوگوں کو یہ موقع دینا ہے کہ وہ دوبارہ دورِ اول والےایمان کا تجربہ کریں۔ وہ دوبارہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) پر کھڑے ہوں۔ اس بات کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ وقت وہ ہوتا ہے جب کہ ایک طرف یہ کرنا ہے کہ لوگوں کے لیےاسلام کو ان کی دریافت (discovery) بنایا جائے، اور دوسری طرف داخلی اعتبار سے یہ کرنا ہے کہ لوگوں کے لیے اسلام کو دریافت نو (re-discovery) بنایا جائے۔اسلام کی اصل بنیاد معرفت پر ہے۔ معرفت کے بغیر اسلام ایک ظاہری ڈھانچہ بن جائے گا۔ جس کی کوئی قیمت اللہ کے نزدیک نہ ہوگی۔ معرفت سے مراد داخلی اسپرٹ(spirit) ہے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی تلاش

قرآن (سورۃ العصر)کے مطابق، تاریخ گواہ ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے۔ یعنی انسان ہمیشہ احساسِ محرومی (sense of loss) میں جیتا ہے۔ اس معاملے میں کسی انسان کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔ منکرینِ خدااس واقعے کو منفی معنی میں لیتے ہیں۔ وہ اس کوپرابلم آف ایوِل (problem of evil)کہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی قادرِ مطلق خدا ہے تو موجودہ دنیا میں اس قسم کی برائیاں (evils) کیوں۔
یہ زاویۂ نظر (angle of vision) میں فرق کا معاملہ ہے۔ یہ لوگ انسانی تاریخ کو اپنے خود ساختہ زاویۂ نظر (self-styled angle of vision) سے دیکھتے ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ اس واقعے کو خالق کے اپنے تخلیقی نقشہ (creation plan)کی روشنی میں دیکھا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی دنیا کی یہ صورتِ حال کوئی مسئلہ نہیں ، بلکہ وہ انسان کے لیے خالق کی ایک رحمت (blessing) ہے۔
اصل یہ ہے کہ خالق کے نقشے کے مطابق، موجودہ دنیا انسان کی عارضی قیام گاہ ہے۔ انسان کی اصل اور ابدی قیام گاہ آخرت ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو فل فِل مینٹ (fulfilment) نہ ملے۔ یہ گویا جبر (compulsion) میں ڈال کر انسان کے اندر یہ سوچ پیدا کرنا ہے کہ وہ موجودہ دنیا کو اپنی منزلِ مقصود نہ سمجھے بلکہ اپنی خواہش (desire) کی تکمیل کے لیے وہ ہمیشہ ایک متبادل (alternative)کی تلاش میں رہے۔ اور بطور نتیجہ اخروی جنت کو اپنا منزلِ مقصود بنائے۔
یثرب کی مثال
یہی واقعہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یثرب (مدینہ) کی طرف ہجرت کی صورت میں پیش آیا۔ پیغمبر اسلام نے اپنا مشن 610 عیسوی میں مکہ میں شروع کیا۔ مکہ میں آپ کو موافق حالات نہیں ملے۔چناں چہ تیرہ سال بعد آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ آپ کی ہجرت سے پانچ سال قبل یثرب (مدینہ) میںوہ جنگ ہوئی جس کو عرب کی تاریخ میں یومِ بُعاث کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں مدینہ کے دونوں عرب قبائل، اوس اور خزرج کے بڑے بڑے سردار مارے گیے۔
اس جنگ کے بعد اہل مدینہ میں ایک نئی سوچ پیدا ہوئی۔ وہ اپنے لیے ایک متبادل (alternative) کے متلاشی بن گیے۔ انھوں نے سنجیدگی کے ساتھ محسوس کیا کہ ہمارا قبائلی کلچر ہمارے لیے مسئلہ ہے۔ ہمیں ایک اور کلچر کی ضرورت ہے جس کے تحت ہم ایک ایسا فارمولا پالیں، جو ہم کو پرامن طور پر رہنے کے قابل بنائے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو حضرت عائشہ نے ان الفاظ میں بیان کیا : کان یوم بعاث، یوما قدمہ اللہ لرسولہ صلى اللہ علیہ وسلم(صحیح البخاری، حدیث نمبر3777:) ۔ یعنی جنگ بعاث کے بعد اہل مدینہ میں ایک نیا ذہن پیدا ہوا ۔ وہ پیغمبر اسلام کی دعوت کو اپنے لیے بہترین متبادل سمجھ کر اس کو قبول کرنے کےلیے تیارہوگیے۔ چناں چہ جب 622 ء میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق خاص ابوبکر صدیق کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوئے تو اہل مدینہ نے یہ کہہ کر استقبال کیا: اُدخلا آمنَین مطاعَین (مسند احمد ، حدیث نمبر12234)۔ یعنی آپ دونوں مدینہ میں داخل ہوں امن کے ساتھ ، ہم آپ دونوں کی اطاعت قبول کرتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ عملاً ایسا ہی ہوا۔ پر امن اسلام جس کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے تھے، وہ اہل مدینہ کے لیے واقعۃً ایک متبادل (alternative) بن گیا۔ اس کے بعد اہل مدینہ نے وہ عظیم کا م انجام دیا، جس کی بنا پر وہ انصاراللہ (اللہ کے مددگار) کہے گیے۔
پاکستان کی مثال
پاکستان 1947 میں بنا۔ اس کی منزل اس کے اپنے اعلان کے مطابق یہ تھی: پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ۔ مگر عملاً اس کا نتیجہ برعکس صورت میں نکلا۔ ساٹھ سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود لوگوں کی نظر میں پاکستان ایک ناکام ریاست (failed state) ہے۔ پاکستان کے شہری یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ خود اپنے ملک میں امن کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔
پاکستان کو بڑے بڑے لیڈر ملے— محمد اقبال، محمد علی جناح، سید ابو الاعلیٰ مودودی، شبیر احمد عثمانی، وغیرہ۔ پاکستان کے لوگوں نے اپنے ان رہنماؤں کا مکمل ساتھ دیا۔ مگر طوفانی سرگرمیوں کے باوجود نتیجہ کے اعتبار سے پاکستانیوں کو کچھ نہیں ملا۔ پاکستان بڑی بڑی امیدوں کے ساتھ بنا تھا۔ لیکن نتیجہ دیکھ کر پاکستانیوں کی اکثریت کو اپنے ملک سے مایوسی ہوئی۔ وہ اپنا ملک چھوڑ کر باہر جانے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستانی ڈائسپورا (diaspora) کی تعداد تقریبا اسی لاکھ ہے:
According to the Pakistani Government, there are around 8 million Pakistani people living abroad.
اگر پاکستان کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت پاکستان کا تمام باشعور طبقہ ایک متبادل (alternative) کی تلاش میں ہے۔ وہ ایک ایسے متبادل کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، جو ان کو امن اور ترقی کا راستہ دکھائے، جو اپنے ملک کے بارے میں ان کے خوابوں کی تکمیل بن سکے۔
اس معاملے پر اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کے سابق صدر جنرل محمد ایوب خاں (وفات 1974 :) نے اس معاملے میں پاکستانی رہنماؤ ں کو ایک نہایت درست اور حقیقت پسندانہ مشورہ دیا تھا۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودوی سے کہا تھا کہ وہ پولیٹکل ایکٹوزم (political activism) کا طریقہ چھوڑ دیں۔ وہ اس کے برعکس، ایجوکیشنل ایکٹوزم (educational activism)کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ پاکستان کو جدید معیار کا ایک تعلیم یافتہ معاشرہ بنائیں۔ یہ ایک دانش مندانہ مشورہ تھا۔ کیوں کہ کوئی بھی ترقی ہمیشہ ایک تیار معاشرہ (prepared society) میں ہوتی ہے۔ اور موجودہ زمانے میں تیار معاشرہ بنانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ قوم کو اعلی معیار کی جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ اس ابتدائی تیاری کے بغیر کوئی بھی تعمیری کام کسی ملک میں نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں اسی چیز کا فقدان ہے، اور پاکستانیوں کا ضمیر اسی مفقودچیز کی تلاش میں ہے۔
واپس اوپر جائیں

ترجمۂ قرآن کی اشاعت

قرآن ایک الہامی کتاب (revealed book) ہے۔ قرآن واحد مستند آسمانی صحیفہ ہے۔ قرآن خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کو جاننے کا واحد ذریعہ ہے۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کو پڑھنا، ہر آدمی کی لازمی ذمہ داری ہے۔ جو شخص قرآن کو پڑھے بغیر مرجائے، وہ گویابے خبری کی زندگی جیا اور بے خبری کی موت مرگیا۔
قرآن کی اہمیت کا تقاضا تھا کہ اس کی حفاظت کا کامل اہتمام کیا جائے۔ امت نے قرآن کی حفاظت کا یہ کام بلا شبہ آخری حد تک انجام دیا ہے۔ اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے، وہ اللہ کا بھیجا ہوا وہی قرآن ہےجو فرشتہ جبریل کے ذریعے لفظی طور پر اتارا گیا، اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لفظی طور پر اخذ کرکے امت کو دیا ۔
یہ قرآن کے عربی متن کی حفاظت کا معاملہ ہے۔ مگر جہاں تک قرآن کے معانی کی اشاعت کا تعلق ہے، وہ ایک ایسا کام ہے جس کو کرنا ابھی باقی ہے۔ عربی متن بلاشبہ محفوظ ہے، اور وہ پرنٹنگ پریس کے زمانے میں بے شمار تعداد میں چھپ کر ہر گھر اور ہر ادارے میں پہنچ چکا ہے۔ لیکن دنیا کی بڑی آبادی ابھی اس سے بے خبر ہے کہ قرآن میں اس کو جو پیغام دیا گیا ہے، وہ پیغام کیا ہے۔
قرآن کے مطابق، اللہ کی یہ سنت ہے کہ اس کا پیغام ہر قوم کو اس کی اپنی زبان میں پہنچے(ابراہیم4:)۔ مگر قرآن کے معاملے میں ابھی تک یہ کام مکمل صورت میں نہیں ہوا ہے۔امت کی یہ لازمی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کی ہر زندہ زبان میں قرآن کا قابلِ فہم ترجمہ تیارکرے، او ر پیس فل طریقۂ کار کے ذریعے اس کو لوگوں تک پہنچائے۔ جو لوگ اس ذمہ داری کو انجام دیں، وہ بلاشبہ اللہ کی اس نصرت کے مستحق قرار پائیں گے جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں کیا گیا ہے: وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ ۔(22:40) اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے۔حقیقت یہ ہے کہ آج اس سے بڑا کوئی اور کام نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعویٰ کی زبان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے موقع پر کہا تھا : انا النبی لا کذب (صحیح البخاری، حدیث نمبر2864)۔ یعنی میں نبی ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ یہ محض دعوی کی زبان نہیں تھی، بلکہ وہ ایک حقیقت واقعہ کا اعلان تھا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہےجس کا ذکر قرآن (المنافقون1 :)میں موجود ہے۔ اسی طرح جبریل فرشتہ نے ظاہر ہو کر براہ راست طور پر کہا تھا:یا محمد أبشر! فإنک نبی ہذہ الأمة (سیرۃ ابن کثیر، بیروت، 1976، 1/407)۔ یعنی اے محمد ، بشارت ہو، کیوں کہ تم بلاشبہ اس امت کے نبی ہو۔
مگر کسی غیر نبی کو دین کے معاملے میں اس طرح دعوی کی زبان بولنا جائز نہیں۔ کوئی اور شخص نہیں کہہ سکتا کہ میں مہدی ہوں، میں مسیح موعود ہوں، میں مجدد ہوں، وغیرہ۔ حتی کہ کسی شخص کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ کہے کہ میری توبہ، توبہ نصوح ہے، میرا حج، حج مبرور ہے، میں ایک نجات یافتہ انسان ہوں، وغیرہ۔اس قسم کے کلام کا حق صرف اللہ رب العالمین کو ہے۔ کوئی شخص اس قسم کی بات کہے تو وہ بلاشبہ ایک ایسی بات ہوگی، جس کا حق اللہ نے کسی کو نہیں دیا۔
دین کے بارے میں اس طرح کا کلام صرف اللہ عالم الغیب کے لیے سزاوار ہے، اور یہ واقعہ دنیا میں بھی ہونے والا نہیں، یہ صرف آخرت میںہوگا ، جب کہ اللہ رب العالمین اپنے علم کے مطابق، ہر عورت اور مرد کے لیےیہ اعلان کرے گا کہ اس کا درجہ دین میں کیا تھا، اور آخرت میں اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانے والا ہے۔
اس طرح کے دینی معاملے میں خواب یا کشف کا بھی ہرگزکوئی اعتبار نہیں۔ اگر کوئی شخص اس قسم کاکوئی خواب دیکھے یا کسی دوسرے شخص کو اس کے بارے اس نوعیت کا کوئی خواب نظر آئے تو وہ بھی خواب دیکھنے والے کا ایک شخصی معاملہ ہوگا، ایسا خواب ہرگز دوسرو ں کے لیے کوئی حجت نہیں۔ دین کی بنیاد وحی الٰہی پر ہے،نہ کہ کسی انسان کے قول پر۔
واپس اوپر جائیں

خیر کا قانون

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین، وإنما أنا قاسم واللہ یعطی (صحیح البخاری، حدیث نمبر71) یعنی اللہ جس کے لیے خیر کا ارادہ کرتا ہے، وہ اس کو دین کا فہم عطا کردیتا ہے۔ میرا کا م تقسیم کرنا ہے، اور دینے والا صرف خدا ہے۔اس حدیثِ رسول میں خیر کے عطیے کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ یہ کوئی پر اسرار بات نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ فطرت کے معلوم قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ دین کی گہری سمجھ بلاشبہ بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ نعمت صرف اس انسان کو ملتی ہے جو اس کا استحقاق پیدا کرے۔
دین میں گہری سمجھ کسی کو بلاشبہ اللہ کی توفیق سے ملتی ہے، لیکن اس توفیق کی ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ آدمی اپنے آپ کو وعایہ (container) بنائے۔ وہ اپنے ذہن کی اس طرح تربیت کرے کہ وہ چیزوں کو اس کے صحیح رخ سے لے، وہ چیزوں کو غلط رخ سے لینے والا نہ بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم ایک نعمت ہے جو ہر لمحہ خدا کی طرف سے انسانوں کے اوپر آتی رہتی ہے، لیکن اس نعمت کو وہی انسان اخذ کرپاتا ہے، جس نے پہلے سے اپنے آپ کو اخذ کرنے والا بنایا ہو۔
یہ وہ انسان ہے جو لوگوں کے درمیان اس طرح رہے کہ وہ لوگوں کی باتوں سے کوئی برا اثر نہ لے، وہ منفی تجربات کے باوجود اپنے مثبت مزاج کو باقی رکھے۔ اخلاقی برائیاں ہمیشہ سماجی تعلقات کے دوران پیدا ہوتی ہیں۔ سماجی تعلقات کے دوران کوئی انسان اپنے مثبت ذہن کی بنا پر گہری فہم تک پہنچ جاتا ہے، اور کوئی شخص اپنے منفی ذہن کی بناپرحقیقت کے فہم سے دور ہوجاتا ہے۔
خیرکا عطیہ ہمیشہ اللہ کی طرف سے آتا ہے، لیکن اخذ کی صلاحیت وہ چیز ہے جس کوانسان خود اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔ جس انسان نے اپنے اندر اخذ کی صلاحیت پیدا کرلی، اس کو ضرور اللہ کی طرف سے خیر کی نعمت ملے گی، اور جس انسان نے اپنے اندر مطلوب صلاحیت پیدا نہیں کی ، اس کو کبھی خیر کی نعمت ملنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سکنڈ چانس

مغفرت کے بارے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بے شک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔ یہ بات ایک اور آیت میں ان الفاظ میں آئی ہے:فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّہَ یَتُوبُ عَلَیْہِ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ(5:39)۔ پھر جس نے اپنے ظلم کے بعد توبہ کی اور اصلاح کرلی تو اللہ بے شک اس پر توجہ کرے گا۔ اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
اس طرح کی آیتوں میں جو بات کہی گئی ہے۔ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل کے دو درجے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی عمل صالح کرے اور وہ ذَنب (sin)سے بچا ہوا ہو۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی ایمان قبول کرکے اسلامی زندگی گزارے، لیکن اسی کے ساتھ وہ کبھی ذَنب میں بھی مبتلا ہوجائے۔ پہلاآدمی وہ ہے جس نے فرسٹ چانس (first chance) کو اَوِیل کیا۔
دوسری قسم کے مومن کا کیس سکنڈ چانس (second chance) کو اویل (avail) کرنے کا کیس ہے۔ اور یہ توبہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ یعنی آدمی ایمان کے باوجودکبھی گناہ میں مبتلا ہوجائے۔ پھر اس کو انتباہ ہو، وہ توبہ کرے، اور ندامت (repentance) کے احساس کے ساتھ اللہ سے معافی مانگے۔ یہ دوسرا شخص بھی اللہ کی رحمت میں اپنا حصہ پائے گا۔ اس کا کیس اللہ کے قانون کے مطابق، سکنڈ چانس کو اَوِیل کرنے کا کیس ہوگا۔
اللہ کے قانون کے مطابق، توبہ خود بھی ایک عمل صالح ہے۔ توبہ یہ ہےکہ گناہ کرنے کے بعد آدمی اللہ کی طرف رجوع کرے، اس کے اندر ندامت کا جذبہ پیدا ہو، غلطی اس کے احساس کو جگائے، وہ نئی اسپرٹ کے ساتھ اللہ کی طرف دوڑ پڑے، اس کا مردہ ایمان دوبارہ زندہ ایمان بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کا معیار

موجودہ زمانےمیں اسلام کی دعوت اور اشاعت کے لیے کافی کام ہورہا ہے۔ لیکن ایک میدان ابھی تک باقی ہے، اور وہ ہے:
To present Islam at the modern intellectual level
یعنی آج کے فکری مستوی پر اسلام کوقابل فہم ( understandable) بنانا۔ دعوت کا کام میرے نزدیک صرف تبلیغ کاکام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ مدعو کے لیے اسلام کو قابل فہم (understandable) بنایا جائے۔ اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ اسلام کو اس اسلوب میں پیش کیا جائے، جو مدعو کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ دعوت کے بارے میںاسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا(النساء 63:)۔یعنی اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔
یہ کام وقت کا سب سے بڑا کام ہے۔ مگر اس کام کو موثر طور پر کرنے کے لیے ایک قربانی درکار ہے۔ وہ یہ کہ داعی کوالٹی (quality) کو کام سمجھے ، نہ کہ کوانٹٹی (quantity) کو۔ اگر آپ جدید دور کے چند آدمی کو اسلام کی سچائی پر مطمئن کرسکیں تو بلاشبہ یہ آپ کے لیے بہت بڑا rewardable کام ہوگا۔
دعوت کا معیار قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ مدعو کے پاس اس کے بعد کوئی حجت یا عذر باقی نہ رہے(النساء163:)۔ دعوت کا یہ معیار بتاتا ہے کہ دعوت کو مدعو کے فکری مستویٰ کے مطابق کیا جانا چاہیے۔ اس کے بغیر جو دعوتی کام کیا جائے وہ مدعو کے لیے حجت نہیں بن سکتا۔ مثلا ًآپ قرآن کو ساری قوموں کے درمیان ڈسٹری بیوٹ کریں ، لیکن یہ قرآن صرف عربی زبان میں ہو تو وہ مدعو کے لیے حجت نہیں بن سکتا۔ حجت کے درجے کا دعوتی کام وہی ہے جو مدعو کی قابل فہم زبان میں ہو۔ زبان کے اعتبار سے بھی اور اسلوب (idiom)کے اعتبار سے بھی۔
واپس اوپر جائیں

پر امن دعوت

مورخ ابن اثیر نےاپنی کتاب میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ابن ابی طالب کو یمن بھیجا۔ اس سے پہلے آپ نے خالد بن ولید کو ان کے درمیان بھیجا تھا تاکہ وہ ان کو اسلام کی طرف بلائیں، مگر انھوں نے آپ کی دعوت پر لبیک نہیں کہا۔ اس کے بعد آپ نے علی ابن ابی طالب کو بھیجا۔ اور ان کو یہ ہدایت دی کہ وہ اہل یمن کو خالد اور ان کے ساتھی کے نقصان کا تاوان اداکریں(وأمرہ أن یعقل خالدا ومن شاء من أصحابہ)۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔پھر انھوں  نے اہل یمن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد قبیلۂ ہمدان کے تمام لوگوں نے ایک ہی دن میںاسلام قبول کرلیا۔ انھوں نے یہ واقعہ لکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ اہل ہمدان پر سلامتی ہو۔ایسا آپ نے تین بار کہا۔ پھراسی طرح دیگر اہل یمن نے اسلام قبول کرلیا۔اس واقعے کی خبرانھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھ کر بھیجی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر کے طور پر اللہ تعالی کو سجدہ کیا۔ (الکامل فی التاریخ، جلد2، صفحہ300، بیروت ، 1979)
خالد بن الولید عسکری مزاج کے آدمی تھے۔ اپنے اس مزاج کی بنا پر انھوں نے اہل یمن کے ساتھ سختی کا معاملہ کیا۔ رسول اللہ نے اس رویہ کو درست نہیں قرار دیا۔ بلکہ اس کی تلافی کا انتظام فرمایا۔ تلافی کے معاملے کا مثبت اثر ہوا۔ اہل یمن کا دل نرم ہوگیا۔ انھوں نے پہلے اسلام کو قبول نہیں کیا تھا۔ لیکن اب انھوں نے اسلام کی قبولیت کا اعلان کردیا۔
دعوت الی اللہ کا کام ایک ایسا کام ہے جو ہمیشہ نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس کو پرامن انداز میں انجام دیا جائے، اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے، مدعو کی طرف سے اگر کوئی ناموافق رویہ سامنے آئے تو مدعو کے ساتھ یک طرفہ نرمی کا معاملہ کیا جائے،مدعو کے مقابلے میں ہمیشہ مثبت رویہ اختیار کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کا عالمی پیغام

قرآن کی پہلی آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ رب العالمین(الفاتحہ1:) ہے۔ یعنی اللہ یکساں طور پر تمام انسانوں کا رب ہے۔ وہ صرف مسلم قوم کا رب نہیں۔ قرآن کو آپ پڑھیں تو آپ کو ملے گا کہ قرآن کا خطاب ایک عالمی خطاب ہے۔ چناں چہ قرآن میں آپ کو ملے گا کہ أیہا الناس، أیہاالإنسان ، یا بنی آدم جیسے الفاظ استعمال کیے گیے ہیں۔
کسی امت میں یہ نفسیات اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ اس کے اندر اسلام کا تصور گھٹ کر قومی مذہب کا تصور بن جائے۔ اس وقت امت کے اندر یہ ذہن بن جاتا ہے کہ ہم مسلم ہیں ، اور بقیہ لوگ کافر ہیں۔ اس وقت حق وباطل کا معیار یہ بن جاتا ہے کہ آدمی قومی اعتبار سے کس گروہ سے وابستہ ہے۔ ایک گروہ سے وابستگی دین دار ہونے کی علامت ہوتی ہے، اور دوسرے گروہ سے وابستگی بے دینی کی علامت۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کہ دین ایک قومی کلچر بن جائے، نہ کہ خداوند عالم کا بھیجا ہوا دین۔
جب کسی قوم پر زوال کا یہ وقت آتا ہے تو اس وقت سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اسلام کا آفاقی تصور ختم ہوجاتا ہے۔ اب لوگوں کے اندر یہ جذبہ نہیں ہوتا کہ وہ اسلام کو تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ بلکہ اس وقت لوگوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ بن جاتے ہیں۔ ہر گروہ اپنے تصورِدین کی حفاظت میں لگ جاتا ہے۔ ہر گروہ اپنے گروہی مسلک کو حق سمجھتا ہے۔ اس طرح مذہبی تعصب کی وہ برائی پیدا ہوتی ہے جس کے بعد لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان دین کا نام موجود ہوتا ہے، لیکن دین کی حقیقت غائب ہوجاتی ہے۔
جب زوال کا یہ دور آتا ہے تو ظاہری چیزوں کی دھوم بڑھ جاتی ہے۔ لوگ ظاہری چیزوں کی دھوم دیکھ کر سمجھنے لگتے ہیں کہ دین زندہ ہے۔ حالاں کہ اسپرٹ کے اعتبار سے دین کا کوئی وجود نہیں ہوتا، جب کہ اسپرٹ ہی دین کی اصل حقیقت ہے۔
واپس اوپر جائیں

بے آمیز دعوت کی ذمہ داری

روایات میں آیا ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ کو غم کی حالت میں دیکھا تو انھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، آپ پربڑھاپے کے آثار نظر آنے لگے (قد شبت) ۔ آپ نے فرمایا : شیبتی ہود واخواتہا (البحر الزخار، حدیث نمبر 92:)۔ اس حدیث پر اور دوسری متعلق روایات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کا یہ غم نبوت کی دعوتی ذمہ داری کی بنا پر تھا۔
دعوت کی ذمہ داری خدائی پیغام رسانی کی ذمہ داری ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ یہ کام کامل حد تک بے آمیز طریقہ سے کیا جائے۔ اس میں کسی بھی قسم کے قومی یا مادی یا سیاسی پہلو کی آمیزش نہ کی جائے۔ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری کا یہی وہ پہلو ہے جس نےرسول اللہ کو اتنا غم گین بنا دیا کہ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ آپ قبل از وقت بوڑھے ہوگئے ہیں۔
دعوتی ذمہ داری کے اس پہلو کا ذکر قرآن میں مختلف انداز سے آیا ہے۔ یہاں اس سلسلے میں قرآن کے دو حصوں کا ترجمہ نقل کیا جاتا ہے:
1۔ پس تم جمے رہو جیسا کہ تم کو حکم ہوا ہے اور وہ بھی جنھوں نے تمھارے ساتھ توبہ کی ہے اور حد سے نہ بڑھو بیشک وہ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو۔اور ان کی طرف نہ جھکو جنھوں نے ظلم کیا، ورنہ تم کو آگ پکڑ لے گی اور اللہ کے سوا تمھارا کوئی مدد گار نہیں، پھر تم کہیں مدد نہ پائو گے۔ (11:112-13)
2۔ اور قریب تھا کہ یہ لوگ فتنہ میں ڈال کر تم کو اس سے ہٹادیں جو ہم نے تم پر وحی کی ہے، تاکہ تم اس کے سوا ہماری طرف غلط بات منسوب کرو اور تب وہ تم کو اپنا دوست بنالیتے۔ اور اگر ہم نے تم کو جمائے نہ رکھا ہوتا تو قریب تھا کہ تم ان کی طرف کچھ جھک پڑو۔ پھر ہم تم کو زندگی اور موت دونوں کا دہرا (عذاب) چکھاتے۔ اس کے بعد تم ہمارے مقابلہ میں اپنا کوئی مدد گار نہ پاتے۔ (17:73-75)
قرآن وحدیث کے متعلق حوالوں پر غور کرنے کے بعد یہ بات واضح طورپر سمجھ میں آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبل از بڑھاپے کا سبب صرف ایک تھا۔ اور وہ یہ احساس تھا کہ دعوت الی اللہ کا کام اللہ رب العالمین کی نمائندگی کا کام ہے۔ اس کام کا لازمی تقاضا ہے کہ اس کو آخری حد تک بے آمیزحالت کے ساتھ انجام دیا جائے، کوئی دوسرا پہلو اس میں ہرگز شامل نہ کیا جائے۔
سورہ ہود کی آیات میں رسول اللہ کے ساتھ دیگر اہلِ ایمان کو بھی شامل کیا گیا ہے اور دونوں کے لیے یکساں طورپر یہ وارننگ ہے کہ: وَلَا تَرْکَنُوا إِلَى الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ (11:13)۔ اس اسلوب سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ یہاں جس معاملے کا ذکر ہے، وہ ایک ایسی ذمہ داری کا معاملہ ہے جو پیغمبر اور پیغمبر کی امت سے یکساں طورپر مطلوب ہے۔ کیوں کہ پیغمبر آخر الزماں کے بعد دعوت کا کام موقوف نہیں ہوتا، بلکہ امت وسط (البقرة143:) کے ذریعہ قیامت تک مسلسل طورپر جاری رہنے والا ہے۔
اصل یہ ہے کہ داعی اپنا دعوتی کام کسی خالی جزیرے میں نہیں کرتا، بلکہ وہ اس کام کو عوام کے درمیان انجام دیتا ہے۔ اس بنا پر دعوت کے عمل کے دوران مختلف قسم کے تقاضے باربار سامنے آتے ہیں۔مثلاً قومی تقاضا،گر وہی تقاضا ، مادی تقاضا، سیاسی تقاضا، وغیرہ۔ اس قسم کے تقاضے بار بار یہ دعوت دیتے ہیں کہ داعی ان کی رعایت کرے۔ تاکہ دعوت کا کام بلا رکاوٹ انجام دیا جاسکے۔ لیکن اللہ کی منشا یہ ہوتی ہے کہ خدائی تقاضے کے سوا کسی بھی تقاضے کا کوئی اعتبار نہ کیا جائے، بلکہ تمام تر خدائی تقاضے کو اہمیت دیتے ہوئے دعوت کا کام اپنی خالص اور بے آمیز صورت میں جاری رکھا جائے۔ دعوت إلی اللہ کی یہ شرط دعوت کے کام کو ایک ایسا گراں بار کام بنادیتی ہے کہ داعی سے اس کا سکون چھن جائے اور وہ لوگوں کو قبل از وقت بوڑھا نظر آنے لگے۔دعوت کا کام ایک خالص حق کا کام ہے۔ اس معاملے میں خدائی تقاضا (divine consideration)کے سوا کسی اور تقاضے (consideration)کی رعایت جائز نہیں۔ دعوت کے کام کو بظاہر انسان انجام دیتا ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے دعوت کا کام ایک خدائی کام ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ دعوت کے کام کو انتہائی حد تک پوری ذمہ داری کے ساتھ انجام دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

حالات کی زبان

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ (2:186) ۔ یعنی اور جب میرے بندے تم سے میری بابت پوچھیں تو میں نزدیک ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے، تو چاہئے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے رب سے الفاظ کی زبان میں سوال کرتا ہے، لیکن اس کا رب اس کا جواب حالات کی زبان میں دیتا ہے۔ ان حالات کو الفاظ کی زبان دینا خود انسان کا اپنا کام ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خالص مومنانہ ذہن کے ساتھ حالات کا مطالعہ کرے۔ اس کو یقینا اپنے سوال کا خدائی جواب مل جائے گا، کبھی فوراً اور کبھی دیر میں۔
سنت اللہ کے مطابق، اللہ کا جواب کسی غیر پیغمبر پر لفظوں میں نہیں آتا۔ بلکہ وہ حالات کی زبان میں آتا ہے۔ کبھی خود اپنے حالات کے ذریعے، کبھی دوسروں کے حالات کے ذریعے۔ یہ جواب انسان کو کان سے سنائی نہیں دیتا، البتہ عقل کے استعمال کے ذریعے وہ اس کو جان لیتا ہے۔ اللہ کے اس طریقہ میں انسان کے لیے بہت بڑی رحمت ہے۔ اگر اللہ کا جواب الفاظ کی صورت میں آئے تو وہ انسان کے لیے سخت مواخذے کا ذریعہ بن جائے گا۔ حالات کی زبان میں آنے کی بنا پر وہ انسان کے لیے اجتہاد کا مسئلہ ہوتا ہے ۔ انسان کے لیے یہ گنجائش ہوتی ہے کہ اگر وہ اس کو سمجھنے میں غلطی کرے تو اس کا معاملہ اجتہادی خطا کا معاملہ بن جائے۔
اللہ کا جو جواب انسان کے پاس اس طرح آتا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ آدمی متعصبانہ فکر (biased thinking) سے پاک ہو۔ وہ کھلے ذہن کے ساتھ چیزوں کو دیکھے، اور کھلے طور پران کے بارے میں اپنی رائے بنائے۔
واپس اوپر جائیں

خدائی منصوبہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن میں تم سے پہلے کے حالات کا ذکر ہے اور اس میں تمہارے بعد کے حالات کا بیان ہے ( سنن الترمذی، حدیث نمبر2906)۔قرآن میں ماضی اور مستقبل کا حوالہ کس لئے ہے۔ وہ اس لئے ہے تاکہ اہلِ ایمان تاریخ کے بارےمیں خدا کےمنصوبہ (scheme of things) کو سمجھیں اور اس کے مطابق اپنے عمل کی درست منصوبہ بندی (right planning) کریں۔ یہی سب سے بڑی حکمت (wisdom) ہے۔ اور یہ حکمت تدبر (غور وفکر) کے ذریعہ سمجھ میں آتی ہے۔ قرآن اور تاریخ میں غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ نے پہلے اپنے پیغمبر پر ہدایت نازل فرمائی۔ اس کے بعد تاریخ میں ایک عمل (process) شروع ہوا۔ پہلے قرآن کو محفوظ کیاگیا۔ اسی کے ساتھ حدیث اورعلوم اسلامی کی تدوین ہوئی۔ یہ کام کئی سو سال تک مسلم اقتدار کےتحت جاری رہا۔ یہاں تک کہ قرآن اور قرآنی علوم پوری طرح محفوظ ہوگئے۔ ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں کا دینی نظام غیر سیاسی دائرہ میں قائم ہوگیا۔
ظہور اسلام کے تقریباً ہزار سال بعد سیکولر تہذیب کے ذریعہ تائید دین کا دور شروع ہوا۔ اس عمل کے دوران دنیا میں ایک موافق اسلام دور آیا۔ اس دور میں ہر قسم کے وہ فکری اور عملی مواقع دستیاب ہوگئے جو اسلام کے عالمی دعوتی مشن کی تکمیل کے لئے ضروری تھے۔ بیسویں صدی میں یہ منصوبہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ اب دنیا میں نظری اور عملی دونوں اعتبار سے کامل طورپر وہ مواقع پیدا ہوچکے ہیں جو اسلام کو اس نشانہ کی تکمیل کے لئے ضروری تھے جن کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیاگیا ہے: تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا(25:1) ۔اب اکیسویں صدی میں خدائی منصوبہ کے مطابق اہلِ ایمان کو صرف ایک کام کرنا ہے۔ اور وہ ہے خدا کی کتاب کو دنیا کی ہر زبان میں ساری قوموں تک پہنچانا۔اس کے لیے تمام کھلے مواقع (opportunities)کو پرامن طور پر استعمال کرنا۔ اسی عمل پر مسلمانوں کی تمام کامیابیوں کا انحصار ہے۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف ایک رحمت

ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:اختلاف أمتی رحمة (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر39)۔ یعنی میری امت کا اختلاف ایک رحمت ہے۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف سمجھی جاتی ہے۔ لیکن معنی کے اعتبار سے وہ قوی ہے۔ اس حدیث میں ایک فطری حقیقت کو بتایا گیا ہے۔
اختلاف (difference)کسی گروہ کا مسئلہ نہیں، اختلاف ایک فطری امر ہے۔ انسانوں کے درمیان ہمیشہ اختلافات ہوتے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے بھی اور سیکولر اعتبار سے بھی۔ کوئی سماج کبھی رائے کے اختلاف سے خالی نہیں ہوتا۔
رائے کے اختلاف کو اگر فطری درجہ میں رکھا جائے تو وہ لوگوں کے لیے ایک رحمت (blessing) ثابت ہوگا۔ صحیح یہ ہے کہ اختلاف پیش آنے پر تحمل کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اختلاف کو ڈسکشن کا موضوع بنایا جائے۔ ایسا کرنے سے اختلاف لوگوں کے اندر ذہنی ارتقا (intellectual development)کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس سے لوگوں کی تخلیقیت (creativity)میں اضافہ ہوگا۔درست طور پر کہا جاتا ہے کہ جہاں لوگ ایک ہی انداز میں سوچیں، وہاں لوگوں کے اندر بلند فکری نہیں ہوگی:
Where everyone thinks alike, no one thinks very much
رائے کا اختلاف ہر زمانے میں امت کے اندر موجود رہا ہے۔ رائے کا اختلاف مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب کہ کوئی گروہ اختلاف میں غلو کا طریقہ اختیار کرے۔غلو کے بغیر اختلاف ایک رحمت ہے۔ جب کہ غلو کے ساتھ اختلاف ایک فتنہ بن جاتا ہے۔ مثلاامت میں ہمیشہ عقائد کے معاملے میں اختلاف پایا جاتا رہا، اسی طرح فقہی مسائل میں بھی ہمیشہ اختلاف رہا ہے۔ یہ اختلاف کبھی مسئلہ نہیں بنا۔ البتہ بعض اوقات جب کسی گروہ نے اختلاف کو غلو کے درجے تک پہنچایا تو اختلاف مسئلہ بن گیا۔
واپس اوپر جائیں

پرسکون زندگی کا راز

پرسکون زندگی کا راز کم پر راضی ہونا ہے نہ کہ زیادہ کی تلاش میں رہنا۔ کم کی حد ہے لیکن زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ اس لئے ایسا ہوتا ہے کہ کم پر راضی ہونے والے کو پرسکون زندگی مل سکتی ہے لیکن زیادہ کی تلاش کرنے والا کبھی پرسکون زندگی حاصل نہیں کرسکتا۔مذہب کی اصطلاح میں کم پر راضی ہونے کا نام ’’قناعت ہے اور زیادہ کی تلاش میں رہنے کا نام ’’حرص ‘‘۔ ان ہی دو لفظوں میں زندگی کی پوری کہانی چھپی ہوئی ہے۔
جو آدمی اس حقیقت کو جان لے وہی عارف ہے اور جو آدمی اس حقیقت سے بے خبر رہے وہی وہ انسان ہے جس کو اس دنیا میں معرفت حاصل نہیں ہوئی۔پر سکون زندگی در اصل اعتراف حقیقت (acceptance of reality) کا دوسرا نام ہے۔ آپ حالات کے اعتبار سے جن حقائق کے درمیان ہیں، اگر آپ ان حقائق (realities) کو جانیں اور ان کے مطابق اپنے عمل کا نقشہ بنائیں تو یقیناً آپ کامیاب رہیں گے۔ اس کے برعکس، اگر آپ صرف اپنی خواہشوں کو جانتے ہوں ، اگر آپ کو صرف اپنی تمناؤ ں کا علم ہو تو آپ حقائق سے بے خبر ہوجائیں گے۔ ایسی حالت میں آپ کی منصوبہ بندی مبنی بر حقیقت منصبوبہ بندی نہ ہوگی۔ ایسی منصوبہ بندی کا لازمی نتیجہ صرف ناکامی ہے۔
اگر آپ کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ نہ ہو اور اس بنا پر آپ ایسے راستے پر چل پڑیں جو حقیقتِ واقعہ کے خلاف ہو تو اس کے بعد دوسری غلطی ہر گز مت کیجیے۔ یعنی اپنی ناکامی کا الزام دوسرے پر ڈال کر کسی مفروضہ دشمن کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان بلند کرنا۔ زندگی میں ہمیشہ نیا منصوبہ بنانا ممکن ہوتا ہے۔ لیکن نیا منصوبہ صرف وہ لوگ بنا سکتے ہیں جو شکایت اور احتجاج کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی ہوں۔ اگر آپ زندگی میں ناکام رہیں تو ہمیشہ اس کا سبب اپنے اندر تلاش کیجیے۔ کسی تاخیر کے بغیر یہ اعتراف کیجیے کہ آپ نے غلطی کی ہے۔ غلطی کا اعتراف نئی کامیابی کا دروازہ کھولتا ہے۔ اور اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرنا، آدمی کو اس رسک (risk) میں مبتلا کردیتا ہے کہ وہ کبھی کامیابی سے دوچار نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

سنی ہوئی بات کی تحقیق

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:کفى بالمرء کذبا أن یحدّث بکل ما سمع (صحیح مسلم، حدیث نمبر 5)یعنی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ جس بات کو سنے ، اس کو وہ اسی طرح لوگوں سےبیان کرنے لگے۔ اس حدیثِ رسول میں بات کےغیر مطلوب طریقے کو بیان کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بات کا مطلوب طریقہ کیا ہے۔
یہ مطلوب طریقہ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 49 میں یہ اصول اس طرح بیان کیا گیاہے:یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَاءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ (الحجرات6 :) قرآن کی اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ بات کو سننے کے بعد اس کو اسی طرح بیان نہ کیا جائے، بلکہ پہلے اس کی تبیین کی جائے۔ تبیین کا مطلب مکمل تحقیق (strict inquiry) ہے۔ بات کو سن کر اسی طرح لوگوںسےبیان کرنا، جھوٹےآدمی کی پہچان ہے، اور بات کو سننے کے بعد ، اس کی تحقیق (strict inquiry) کرنا، سچے آدمی کی پہچان ہے۔
انسان کی سب سے بڑی صفت سنجیدگی (sincerity)ہے۔ جس صفت کو مذہبی زبان میں تقوی کہا جاتا ہے، اسی صفت کا دوسرا نام سنجیدگی ہے۔ ایک سنجیدہ انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کسی بات کو سنے تو وہ بلا تحقیق اس کو بیان کرنے لگے۔ سنجیدہ انسان کے اندر جو مزاج بنتا ہے، وہ مزاج اس طرح بات کرنے میں ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ بات آدمی کی پہچان ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالے جو اس کی پہچان کو بگاڑنے والی ہو۔
اگر کہی ہوئی بات ایک اچھی بات ہوتو اس کو بلا تحقیق دہرانے میں کوئی ہرج نہیں ۔ لیکن اگر کہی ہوئی بات ایک ایسی بات ہے جو کسی شخص کی تصویر (image) کو مشتبہ کرنے والی ہےتو ایسی بات کو تحقیق کے بغیر ہر گز بیان نہیں کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

سازش کا نظریہ

آج کل مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے متفقہ طور پر ایک ہی بات بول رہے ہیں ۔ وہ یہ کہ غیر مسلم قومیں مسلمانوں کی دشمن بن گئی ہیں، ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ یہ باتیں اتنی زیادہ کہی جارہی ہیں کہ ان کو سننا اور پڑھنا میرے جیسے انسان کے لیے ایک سزا کے برابر ہے۔ اس لیے کہ قرآن و حدیث کے مطالعہ کے مطابق ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ باتیں کسی سازشی قوم کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ خود مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے کی بے دانشی کو ثابت کرتی ہیں۔
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہیں:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا (3:120)۔ قرآن کی یہ آیت مسلمانوں کو خطاب کررہی ہے۔ اور یہ بتاتی ہے کہ دوسروں کی سازش تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی، بلکہ خود اپنی کمزوری تم کو نقصان پہنچائے گی۔ ایسی حالت میں اغیار کی سازش کا نظریہ صرف اس بات کاثبوت ہے کہ لکھنے اور بولنے والا شخص قرآن سے مکمل طور پر بے خبر ہے۔ قرآن کے مطابق، اللہ نے ابلیس اور اس کی قوم کو پوری چھوٹ دی ہے کہ وہ انسان کے خلاف جو کچھ کرنا چاہے، آزادی کے ساتھ کرے۔ مثلاً ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور ان میں سے جس پر تیرا بس چلے، تو اپنی آواز سے ان کا قدم اکھاڑ دے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا اور ان کے مال اور اولاد میں ان کا ساجھی بن جا اور ان سے وعدہ کر۔ اور شیطان کا وعدہ ایک دھوکہ کے سوا اور کچھ نہیں۔بے شک جو عباد اللہ ہیں ان پر تیراسلطان نہیں چلے گا اور تیرا رب کار سازی کے لئے کافی ہے (17:64-65)۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، مسلمانوں کے لیے اصل کام دوسروں کے خلاف شکایت کرنا نہیں ہے، بلکہ خود اپنے آپ کو عباد اللہ بنانا ہے۔ مسلمانوں کے جو لکھنے اور بولنے والے لوگ ہیں، ان سب کو یہ چاہیے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ عبادا للہ کی شرطیں کیا ہیں، اور مسلمانوں کو ان شرطوں کے مطابق عبادا للہ بنائیں۔
واپس اوپر جائیں

سازش بے اثر

عام طور پر لوگ سازش کے خلاف شکایت کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سازش کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ اس کے خلاف احتجاج(protest) کیا جائے، اس کے خلاف جوابی کارروائی کی جائے۔مگر قرآن میں سازش کے مسئلے کا جو حل بتایا گیا ہے، وہ اس قسم کا رد عمل (reaction) نہیں ہے، بلکہ وہ صرف پرامن تدبیر ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا (3:120)۔یعنی اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو ان کی کوئی مخالفانہ تدبیر تم کو نقصان نہ پہنچا سکے گی۔
کید (evil scheme)کیا ہے۔ وہ دراصل کسی انسان یا قوم کا اپنی آزادی کا غلط استعمال (misuse) کرنا ہے۔ آزادی انسان کو خالق کی طرف سے دی گئی ہے۔ یہ انسان کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط استعمال کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص یا قوم آپ کے نزدیک اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے تو آپ اس سے اس کی آزادی کو چھین نہیں سکتے۔ اس لیے آپ کے لیے صرف ایک موقع ہے۔ وہ یہ کہ حالات سے ٹکراؤ کرنے کے بجائے حالات کو پر امن طور پر مینج (manage)کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے سوا ہر کوشش بے فائدہ ہے۔ وہ کسی کو اس کے مطلوب انجام تک پہنچانے والی نہیں ۔
سازش یا مخالفانہ تدبیر کو آپ اپنی جوابی تدبیر سے غیر موثر بناسکتے ہیں۔ مگر اس کو ختم کرنا آپ کے لیے کسی حال میں ممکن نہیں۔ اس دنیا میں ہر ایک کو اپنا امتحان دیناہے ۔ یہ امتحان صرف آزادانہ ماحول میں ہوسکتا ہے۔ یہ معاملہ کسی قوم کا معاملہ نہیں ، بلکہ وہ براہ راست خالقِ کائنات کا معاملہ ہے۔ اور کون ہے جو خالق کائنات کے مقرر کیے ہوئے کورس کا خاتمہ کرسکے۔یہ اعلان کرنا کہ فلاں قوم ہماری دشمن ہے، فلاں قوم ہمارے خلاف سازش کررہی ہے، فلاں قوم اسلاموفوبیا میں مبتلا ہے، یہ سب بے حقیقت الفاظ میں۔
واپس اوپر جائیں

باہمی تعاون کا نظام

قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: مستقبل میں ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یہ حق ہے۔ اور کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے۔ (41:53)
قرآن کی اس آیت میں سنریہمکا لفظ ہے۔ اس میں متکلم کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔یعنی ہم دکھائیں گے۔ لیکن یہ اسلوب کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے کچھ بندوں کو کھڑا کرے گا، وہ زمین و آسمان میں تحقیق کریں گے۔ پھر وہ تحقیق کے ذریعے ایسی علمی حقیقتیں دریافت کریں گے جوعقلی بنیاد (rational ground) پر اسلام کی صداقت کو ثابت شدہ بنانے والے ہوں۔
فطرت کے قانون کے مطابق زندگی کا نظام باہمی وابستگی (interdependence) یا باہمی تعاون کے اصول پر قائم ہے۔ اس دنیا میںدینی واقعات بھی اسی اصول پرظاہر ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اللہ اس دین کی تائید فاجر انسان (سیکولر انسان) کے ذریعے بھی کرے گا۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)جس واقعہ کو قرآن میں متکلم کے صیغہ میں بیان کیا گیا تھا، اس کو حدیث میں غائب کے صیغہ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے تفہیمِ قرآن میں حدیث کا رول معلوم ہوتا ہے۔ حدیث قرآن کے اجمال کو مفصل کرتی ہے۔ حدیث قرآن کے اصولی بیان کو تعین کی زبان میں واضح کرتی ہے۔ تمام ترقیاں ، خواہ وہ دینی ہوں یا سیکولر، وہ ہمیشہ اسی باہمی وابستگی کے اصول پر انجام پاتی ہیں۔ مثلاً اسلام نے جمہوریت کا آغاز کیا لیکن اس کی تکمیل فرانس میں ہوئی۔ اسلام نے مذہبی رکاوٹوں کو ختم کرنے کا آغاز کیا لیکن اس کی تکمیل جدید تہذیب کے ذریعے ہوئی۔ اسلام نے انسانی غلامی کے خاتمے کا آغاز کیا لیکن اس کی تکمیل امریکا میں ہوئی۔ اسلام نے سائنسی دور کا آغاز کیا لیکن اس کی تکمیل مغربی دنیا میں ہوئی، وغیرہ۔ آغاز کے بعد تکمیل کا یہ کام تاریخی عمل (historical process)کے ذریعے انجام تک پہنچا۔
واپس اوپر جائیں

عورت اور مرد کا فرق

ایک روایت صحیح البخاری، صحیح مسلم،سنن ابوداود، سنن الترمذی، اور مسند احمد وغیرہ کتب حدیث میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: ما رأیت من ناقصات عقل ودین أذہب للب الرجل الحازم من إحداکن۔ (حدیث نمبر304) ۔یعنی میں نے نہیں دیکھا کہ عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود ایک عورت عقل والے مرد کی عقل پر غالب آجائے۔عورت کے بارے میں ناقص کا لفظ قرآن میں کہیں نہیں آیا ہے۔ اس لیے اس حدیث کا لفظی معنی نہیں لیا جائے گا بلکہ اس کی تاویل کی جائے گی۔ اصل یہ ہے کہ اس حدیث میں ناقص ، کم ہونے کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ فرق (different) کے معنی میں ہے۔
اصل یہ ہے کہ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، عورت اور مرد دونوں کے درمیان تخلیقی فرق رکھا گیا ہے۔ مگر یہ فرق رتبہ کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ رول کے اعتبار سے ہے۔ کیوں کہ سماج میں عورت اور مرد کا رول تخلیقی نقشے کے مطابق ایک درجے میں الگ الگ ہے۔ اس لیے دونوں کے درمیان ان کے رول کے مطابق فرق رکھا گیا ہے۔
اسلام کی تعلیم کےمطابق، عورت اور مرد کے درمیان رتبہ (status) کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں، دونوں یکساں طور پر آدم کی اولاد ہیں۔ لیکن سماج میں ہمیشہ مختلف قسم کے کام ہوتے ہیں۔ سماج کا ہر کام نہ ہر مرد کرسکتا ہے، اور نہ ہر عورت۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر عورت یا ہر مرد کو اس کی صلاحیت یا استعداد کے اعتبار سے کام دیا جائے۔ اس طرح ہر کام معیاری درجے میں انجام پائے گا۔ اس کے برعکس، اگر ہر عورت اور ہر مرد کو ایک ہی کام میں لگا دیا جائے تو کوئی بھی کام اعلی صورت میں انجام نہیں دیا جاسکتا ۔ اس بنا پر اسلام میں عورت اور مرد کے درمیان تقسیم کار کے اصول کو اختیار کیا گیا ہے، نہ کہ یکسانیت کار کے اصول کو۔تاریخ کے ہر دور میں عملاً عورت اور مرد کے درمیان یہ اصول اختیار کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مثبت سوچ کی ضرورت

ایک مسلم رائٹر کا مضمون نظر سے گزرا۔ یہ مضمون انڈیا کے مسلم مسائل کے بارے میں ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیںکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمان اس ملک میں امتیاز کا سامنا کررہے ہیں،ملازمتوں میں اور داخلوں میں، نیز فرقہ وارانہ تشدد کے وقت:
There is no denying that Muslims face discrimination in jobs and admissions and also communal violence.
عام طور پر مسلمانوںکا لکھنے اور بولنے والا طبقہ اسی قسم کی بات لکھتا اور بولتا ہے۔ لیکن ایسے لوگ مسلمانوں کی خدمت نہیں کررہے ہیں۔ ان کی یہ باتیں باعتبار نتیجہ حوصلہ شکنی کی باتیں ہیں۔ جب کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر صورتِ حال میں ہمیشہ ایسی بات کہی جائے جو حوصلہ افزائی کے ہم معنی ہو۔
امتیاز (discrimination) کیا ہے۔ وہ ایک فطری صورتِ حال کو منفی اصطلاح میں بیان کرنا ہے۔ ہمارے لکھنے اور بولنے والے جس چیز کو امتیاز کہتے ہیں، وہ دراصل چیلنج کی صورتِ حال ہے۔ یہ دنیا کا قانون ہے کہ یہاں ہمیشہ اجتماعی زندگی میںچیلنج اور مسابقت کی صورتِ حال قائم رہتی ہے۔ اس کی بنا پر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں اور کچھ لوگ پیچھے ہوجاتے ہیں۔مگر یہ ایک وقتی صورتِ حال ہے، وہ مستقل طور پر قائم رہنے والی نہیں۔
انسان کبھی اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ فطرت کا ایک ابدی قانون ہے۔ اس بنا پر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ پیچھے رہ جانے والوں کے اندر داعیہ (incentive) جاگتا ہے۔ وہ عام حالات کے مقابلے میں زیادہ کوشش کرنے لگتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے والا پیچھے ہوجاتا ہے، اور پیچھے رہ جانے والا آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہ عمل ہر سماج میں اور ہمیشہ جاری رہتا ہے۔یہ فطرت کا ایک قانون ہے، اورکوئی بھی اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ فطرت کے قانون کو بدل دے۔مثال کے طور اس ملک میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور ڈاکٹر عبد الکلام جب پیدا ہوئے تو وہ ایک پچھڑے ہوئے انسان تھے، مگر بعد کے زمانے میںلوگوں نے دیکھا کہ وہ دونوں افراد اگلی صف میں جگہ حاصل کرچکے تھے۔
واپس اوپر جائیں

مادر وطن

ایک صاحب نے سوال کیا کہ انڈیا کو مادرِ وطن کہنا جائز ہے یا ناجائز۔ میں نے کہا کہ مادرِ وطن کو جائز- ناجائز کی اصطلاح میں بیان کرنا اس کو غیر ضروری طور پر شرعی مسئلہ بنانا ہے۔ یہ انتہاپسندی (extremism) ہے کہ ہر چیز کو جائز- ناجائز کا مسئلہ بنایا جائے۔ اس مزاج کو شریعت میں غلو کہا گیا ہے۔ اور قرآن و سنت میں غلو کی ممانعت کی گئی ہے۔
ایک شخص (وابصۃالاسدی) رسول اللہ کے پاس آئے۔ وہ بہت سا سوال کرنا چاہتے تھے۔ رسول اللہ نے ان کے تمام سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ استفتِ قلبک (مسند احمد، حدیث نمبر18006)۔ یعنی اپنے دل سے فتویٰ پوچھو۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ہر بات کو شرعی مسئلہ نہ بنائو۔ بلکہ اپنی فطرت کی آواز کی پیروی کرو۔ جو لوگ انڈیا کو مادرِ وطن کہتے ہیں۔ وہ اس معنی میں نہیں کہتے کہ وہ اسی جغرافیہ کے بطن سے پیدا ہوکر نکلے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ استعارہ (metaphor)کی زبان ہے۔ اصل یہ ہے کہ مادر وطن سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے الفاظ میں مسقط الراس، مقامِ پیدائش (home land)، برتھ پلیس (birth place) ، وغیرہ کہا جاتا ہے۔
اگر بالفرض کچھ لوگ مادر وطن کا لفظ اس معنی میں بولیں کہ وہ وطن کے پیٹ سے اسی طرح پیدا ہوئے ہیں، جس طرح کوئی شخص ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ تو یہ ان کا اپنا معاملہ ہوگا نہ کہ آپ کا معاملہ۔ آپ مادرِ وطن کا لفظ اپنے مفہوم میں بولیے۔ دوسرے لوگوں کو چھوڑ دیجیے کہ وہ کس معنی میں اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی زندگی کی ایک حکمت ہے کہ کسی بات کو اس کی منطقی حد (logical end) تک نہ پہنچایا جائے۔ بلکہ اس کو معروف مفہوم کے اعتبار سے لیا جائے۔
مادر وطن (بھارت ماتا) کی اصطلاح انیسویں صدی کے آخری زمانے میں شروع کی گئی۔ یہ آزادی کی تحریک چلانے والے لیڈروں نے سیاسی مقصد کے تحت استعمال کیا تھا۔ اس اصطلاح کا کوئی مذہبی پس منظر نہیں۔
واپس اوپر جائیں

موت کا شعوری ادراک نہیں

لوگوں کو موت کا علم ہے، لیکن انھیں موت کا شعوری ادراک نہیں۔ وہ موت کو جانتے ہیں ، لیکن انھوں نے یقین کے درجے میں موت کو دریافت نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایسی زندگی گزاررہے ہیں جیسے کہ موت ان کے لیے آنے والی نہیں۔ موت کسی انسان کی زندگی کا سب سے زیادہ بھیانک واقعہ ہے۔ لوگ اگر شعوری طور پر اس حقیقت کو جانیں تو ان کی ساری توجہ موت کی طرف ہوجائے گی۔ موت سے پہلے کی زندگی ان کے لیے صرف ایک ذمے داری بن جائے گی، اور موت کے بعد کا معاملہ ان کے لیےسب سے زیادہ اہم معاملہ بن جائے گا۔
موت کے معاملے میں اس عمومی غفلت کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کے ساتھ ہر لمحہ طرح طرح کے حالات پیش آتے ہیں۔ یہ حالات انسان کو ہر لمحہ اپنی طرف مشغول کیے رہتے ہیں۔ اس کی زندگی ایک ڈسٹریکٹید (distracted) زندگی بن جاتی ہے۔ اس بنا پر انسان کو یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ موت کے بارے میں سوچے۔ موت کے بارے میں سوچنا صرف اس انسان کے لیے ممکن ہے جو اپنے آپ کو ڈسٹرکشن سے بچائے۔ چوں کہ انسان ایسا نہیں کرتا اس لیے موت کے بارے میں اس کی غفلت بھی ختم نہیں ہوتی۔ موت کے بارے میں انسان کی غفلت صرف اس وقت ختم ہوتی ہے جب اس کے سامنے موت کا فرشتہ آکر کھڑا ہوجائے، موت کے فرشتے کے سوا کوئی اور چیز اس کو دکھائی نہ دے۔انسان کی یہی مشغول زندگی اس کے لیے موت کو صرف ایک دور کی خبر بنادیتی ہے، موت اس کی زندگی میں یقین کا درجہ حاصل نہیں کرتی۔ ہر آدمی موت سے اس طرح دوچار ہوتا ہے کہ وہ اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیںہوتا۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن کو کچھ دیر کے لیے مشغولیت سے خالی کرے۔ وہ یکسوئی کے ساتھ موت کو یاد کرے۔ موت کے بارے میں جو آیتیں یا حدیثیں آئی ہیں، ان کا مطالعہ کرے۔ اس کے سوا کوئی اور چیز نہیں جو انسان کو موت کے بارے میں حقیقت شناس بنا سکے۔
واپس اوپر جائیں

کائناتی نشانیاں

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز میں کوئی آیت (نشانی) ہوتی ہے۔اہل عقل کو چاہیے کہ وہ ان نشانیوں سے سبق لے۔ نشانیوں سے سبق لینا یہی تزکیہ یا شخصیت کی تعمیر کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ مثلا آپ ایک باغ میں ہیں، وہاں شہد کی ایک مکھی آتی ہے۔ وہ پھولوں پر بیٹھتی ہے۔ وہ خاموشی کے ساتھ پھولوں کا نکٹر (nectar) لیتی ہے اور پھر وہ اڑجاتی ہے۔
اس واقعے میں بہت بڑی نشانی ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ نشانی خود پھول کا جزء ہے۔ یعنی جس طرح پھول کے اندر رنگ اور مہک ہے، اسی طرح اس کے اندر نشانی بھی اس کے ایک لازمی حصے کے طور پر موجود ہے۔ یہ نشانی انسان کے ذہن کے اندر ہوتی ہے ،نہ کہ پھول کے اندر۔ آپ کے اندر اگر سوچنےکی صلاحیت ہے تو آپ سوچ کر اس نشانی کو اخذ کریں گے۔ اور اگر آپ کے اند رسوچنے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ نشانی بھی آپ کے لیے ایک غیر موجود چیز بن جائے گی۔
اگر آپ کا ذہن ایک تیار ذہن (prepared mind) ہو۔ اور مکھی کو دیکھ کر آپ سوچنا شروع کردیں تو آپ مکھی کے حوالے سے اپنے لیےایک عظیم حقیقت کو دریافت کریں گے۔ وہ یہ کہ جس طرح پھولوں میں نکٹر ہوتا ہے، اسی طرح دنیا کی چیزوں میں نصیحت کا کوئی نہ کوئی پہلو چھپا ہوتا ہے۔ نصیحت کا یہ پہلو مادی اعتبار سے چیزوں کا جزء نہیں ہوتا۔ لیکن آپ اپنے عقل کو استعمال کرکے اس کو دریافت کرسکتے ہیں۔ مثلا شہد کی مکھی جب باغ میں آئی تو اس وقت باغ میں بہت سی چیزیں موجود تھیں— گھاس ، مٹی، لکڑی ، کانٹا ، کیڑے مکوڑے ،وغیرہ۔ لیکن مکھی نے ان تمام چیزوں کو یکسر نظر انداز کیا۔ اس نے صرف ایک کام کیا۔ وہ تھا نکٹر کو لینا اور پھروہاں سے اڑجانا۔ اگر آپ غور کریں تو اس میں آپ کے لیے نصیحت ہے۔وہ یہ کہ زندگی میں بہت سے منفی پہلو ہوتے ہیں، تم کو چاہیے کہ منفی پہلو کو نظر انداز کرو، اور مثبت پہلو کو لے کر اپنی زندگی کی تعمیر کرو۔
واپس اوپر جائیں

فیصلہ تک پہنچنا

زندگی کے بیشتر معاملات انسان کے لیے پوری طرح کلیر (clear) نہیں ہوتے۔ اکثر حالات میںا نسان ففٹی ففٹی کے درمیان ہوتا ہے۔ یعنی ففٹی پرسنٹ ہاں ، اور ففٹی پرسنٹ نہیں۔ ایسے حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہو جو اس کی اس بے یقینی کی حالت کو ختم کرے، اور اس کو یقین کے ساتھ فیصلہ تک پہنچنے کا راستہ دکھائے۔ ایک دانش مند اور تجربہ کار (advisor) کا یہی رول ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس قسم کا مشیر نرمی کی زبان نہیں بولتا، بلکہ وہ شدت اور تاکید کی زبان بولتا ہے۔ دانش مند مشیر اگر نرمی کی زبان بولے تو زیر مشورہ آدمی جہاں پہلے تھا، وہیں بدستور باقی رہے گا۔ لیکن دانش مند مشیر جب زور و تاکید کے ساتھ ایک بات کہتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زیرِ مشورہ شخص کا ذہن ہل جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں ففٹی ففٹی کی جو مساوات (equation) تھی وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ بے یقینیت (uncertainty) کی حالت 49 پرسنٹ ہوجاتی ہے۔ اور یقینیت کی حالت 51 پرسنٹ۔
زندگی کے اسی مسئلے کی بنا پر ہر زمانے میں گرو یا مرشد کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں اس کے لیے ایکسپرٹ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ کسی کو گرو یا مرشد بنانا عملی ضرورت کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص دوسروں کے مقابلے میں افضل حیثیت رکھتا ہے۔ یہ معاملہ عملی ضرورت کی بنا پر ہے ، نہ کہ تقدس یا افضلیت کی بنا پر۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر سماج میں بعض افراد اپنے تجربہ یا اپنے علم کی بنا پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اہل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ فطری طور پر اپنے سماج میں ممتاز حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ اگر لوگ حسد کے جذبے سے خالی ہوں تو بآسانی ایسا ہوگا کہ ایسے افراد گرو یا مرشد کا درجہ حاصل کرلیں گے۔ حسد کا جذبہ اعتراف (acknowledgement) کی راہ میں مانع بن جاتا ہے۔ اس لیے اس معاملہ میں اصل ضرورت یہ ہے کہ لوگوں کو حسد کے جذبے سے پاک بنایا جائے۔
واپس اوپر جائیں

نئی منصوبہ بندی

نئی منصوبہ بندی (re-planning) ہمیشہ یک طرفہ بنیاد (unilateral base)پر کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے نئی منصوبہ بندی عملاً ایک قربانی (sacrifice) کا عمل بن جاتا ہے۔ نئی منصوبہ بندی کے لیے انسان کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ ردّ عمل (reaction) سے اپنے آپ کو بچائے۔ وہ کسی چیز کو وقار (prestige) کا مسئلہ نہ بنائے۔ وہ پیچھے ہٹنے کو اسی طرح قبول کرے جس طرح وہ اقدام کو قبول کئے ہوئے تھا۔ وہ کامل طورپر غیر جانب دارانہ انداز سے سوچے اور حقیقتِ واقعہ کی بنیاد پر ایک فیصلہ لے۔ وہ ہار اور جیت کی نفسیات سے اوپر اٹھ کر اپنی راہِ عمل متعین کرے۔ یہی نئی منصوبہ بندی ہے اور اس قسم کی منصوبہ بندی قربانی کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔پیغمبر اسلام کے زمانے میں حدیبیہ پالیسی اسی قسم کی ایک نئی منصوبہ بندی تھی۔ مگر مسلمان بعد کے زمانے میں اپنے رسول کے اس اسوہ کو بھول گئے۔حدیبیہ پالیسی کا مقصد یہ تھا کہ نئے حالات کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنانا۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں اہل ایمان کو نئے حالات سے سابقہ پیش آیا۔ اب ضرورت تھی کہ اپنی جدو جہد کو زیادہ موثر اور نتیجہ خیز بنانے کےلیے نیا نقشہ کار بنایا جائے۔
نیا نقشہ کار بنانے کے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ صورت حال کو خالص غیر جذباتی انداز میں دیکھا جائے۔’’دشمن‘‘ اور’’سازش‘‘ جیسی اصطلاحات کو ترک کرکے از سر نو غور کیا جائے۔ اور تمام لوگوں کو انسان سمجھ کر ان سے معاملہ کیا جائے۔ اس قسم کا غیر متعصبانہ ذہن نئی منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے۔ پیغمبر اسلام اگر ہجرت کے بعد یہ اعلان کرتے کہ مکہ والے ہمارے دشمن ہیں تو آپ وہ اعلیٰ منصوبہ نہ بناسکتے جس کو قرآن میں فتح مبین کہا گیا ہے۔جو لوگ دشمنی اور سازش کی اصطلاح میں سوچیں ، وہ اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ ان کا ذہن ماضی کے حالات میں اٹکا ہوا ہے۔ ایسے لوگ نئے امکانات کو سمجھنے میں ناکام رہیں گے۔ اس بنا پر وہ وقت کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بھی نہ بنا سکیں گے۔جو لوگ حالات کےمطابق درست منصوبہ بندی نہ کرسکیں، ان کے حصے میں صرف بے فائدہ شکایت آئے گی، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مبنی بر معرفت کلام

انسانی کلام کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان جس موضوع پر کلام کرے، اس کی پوری معرفت اس کو حاصل ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ معرفت کے بغیر آدمی لکھنا اور بولنا شروع کردے۔ پہلی صورت میں انسان کے کلام میں وضوح (clarity) ہوگی۔ اس کے برعکس، دوسری صورت میں انسان کا کلام وضوح (clarity) سے خالی ہوگا، اس کا کلام کنفیوژن کا کلام ہوگا۔
مثلا اگر آپ ایک عمارت میں ہیں۔ یہ عمارت ایک عبادت خانہ کی عمارت ہے۔ اب اگر آپ کو یہ معرفت حاصل ہو کہ یہ بلڈنگ عبادت خانہ ہے۔ تو اس کے بارے میں آپ کا کلام ایک واضح کلام ہوگا۔ اس کے برعکس، اگر آپ اس بلڈنگ کو کچھ اور سمجھ لیںتو اس کے بارے میں آپ کا کلام کنفیوژن سے بھرا ہواکلام بن جائے گا۔
آپ کو اگر تقریر یا تحریر کے میدان میں کوئی رول ادا کرنا ہے تو آپ کو چاہیے کہ سب سے پہلے متعین موضوع کا گہرا مطالعہ کریں۔ اس موضوع کے بارے میں اتنی معلومات حاصل کریں کہ آپ معرفت کے درجے میں اس موضوع کو سمجھنے لگیں۔ معرفت کے بغیر کلام کرناصرف وقت ضائع کرنا ہے، اپنا بھی اور دوسروں کا بھی۔ کیوں کہ ایسی صورت میں آپ موضوع کا حق ادا کرنے سے قاصر رہیں گے۔ اور سننے یا پڑھنے والوں کو کوئی فکری غذا دینے میں ناکام رہیں گے۔
معرفت کیا چیز ہے۔ وہ اس مشہور قصے سے معلوم ہوتی ہے، جو سات آدمی اور ہاتھی کے عنوان سے مشہور ہے۔اس قصےمیں سات اندھے آدمیوں نے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ ہاتھی کیا ہے۔ ان میں سے ہر شخص یہ بتانے میں ناکام رہا تھا کہ ہاتھی واقعۃًکیا چیز ہے۔ یہی انجام اس مقرر یا محرر کا ہوگا جو معرفت کے بغیر بولنا اور لکھنا شروع کردے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ پہلے بولنے اور لکھنے کی شرط کو پورا کرے۔ اس کے بعد وہ بولنا یا لکھنا شروع کرے۔ اس معاملے میں شرط پورا کرنا یہی ہے کہ معرفت کے درجے میں موضوع پر درک حاصل کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

انتظار کیجیے

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ دس سال پہلے میں آپ سے ملا تھا۔ اس وقت میں ایک مسئلے سے دوچار تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اس کو کس طرح حل کروں۔ میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے کہا: مسئلے کو انتظار کے خانے میں ڈال دیجیے۔ میں نے آپ کے اس مشورہ کو پکڑلیا۔ اور آج میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرا نہ صرف مسئلہ حل ہوا، بلکہ اس کے بعد میرے لیے ترقی کا نیا دروازہ کھل گیا۔
اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب ان کی زندگی میں کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو وہ فوراً ردعمل (reaction) کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ردعمل کی نفسیات کے تحت وہ منفی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، البتہ وہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتو اپنے آپ کو ردعمل کی نفسیات سے بچائیے۔ پختگی (maturity) کا ثبوت دیتے ہوئے صرف یہ کیجیے کہ معاملے کو انتظار کے خانے میں ڈال دیجیے۔
اصل یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق ، حالات کبھی یکساں نہیں رہتے۔ آدمی اگر جلد بازی میں حالات کو نہ بگاڑے تو عین ممکن ہے کہ حالات کا رخ اس کے موافق ہوجائے اور جو مسئلہ پہلےناقابلِ حل بناہوا تھا، وہ خود حالات کی تبدیلی کے نتیجے میں آسانی کے ساتھ حل ہوجائے۔
جس چیز کو زمانہ کہا جاتا ہے، وہ دراصل انسانی تاریخ ہے۔ انسانی تاریخ نہ کسی کی دوست ہے اور نہ کسی کی دشمن۔ انسانی تاریخ فطرت کی شاہراہ پر چل رہی ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ تاریخ کے سفر کو سمجھے، اور اس کےمطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔ اگر کسی کے اندر اس معاملے میں گہری بصیرت نہ ہو تو اس کے لیے دوسرا آپشن (option) یہ ہے کہ وہ اللہ کی مدد کا طالب بنتے ہوئےاپنے آپ کو حالات کے رخ پر ڈال دے۔ وہ ہرگز ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کرے۔یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

حکمت

حکمت، دانائی اور وزڈم (wisdom) تینوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ وزڈم مسلمہ طور پر سب سے بڑی انسانی صفت ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ وزڈم کی کوئی واضح تعریف (definition) ڈکشنری میں موجود نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وزڈم کوئی انڈیپنڈنٹ آئٹم نہیں۔ وزڈم دراصل پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کا دوسرا نام ہے۔ وزڈم دراصل اِس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی کسی مسئلہ کے متعلق اور غیر متعلق پہلو کو سمجھے اور غیر متعلق کو الگ کرکے متعلق کو دریافت کرسکے:
Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.
اس بات کو ایک مفکر نے اس طرح بیان کیا ہے — دانش مند انسان وہ ہے جو چیزوں کے اضافی پہلو کو جانے:
A wise man is one who knows the relative aspect of things.
عام طورپر لوگ چیزوں کو صحیح اور غلط کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔ ان کو جو چیز صحیح (right) نظر آئے اس کو لینا چاہتے ہیں اور جو بظاہر غلط (wrong) دکھائی دے اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ وزڈم نہیں ہے۔ وزڈم یہ ہے کہ آدمی چیزوں کو بہ اعتبار نتیجہ دیکھے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں آدمی کے لئے انتخاب اکثر گڈ (good)اور بیڈ (bad)کے درمیان نہیں ہوتا بلکہ کم برائی (lesser evil) اور بڑی برائی (greater evil) کے درمیان ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں دانش مندی یہ ہے کہ آدمی زیادہ بڑی برائی کے مقابلے میں کم برائی کا انتخاب کرے، اسی کا نام وزڈم ہے۔
معلومات اور وزڈم ایک چیز نہیں۔ اگر کسی انسان کے پاس بہت زیادہ معلومات ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ وزڈم یا حکمت کا بھی مالک ہے۔ معلومات کا تعلق حافظہ (memory) سے ہے۔ جس آدمی کا حافظہ اچھا ہو، اس کی یادداشت میں بہت زیادہ باتیں محفوظ رہتی ہیں۔ لیکن وزڈم کا زیادہ تعلق قوت تجزیہ (power of analysis) سے ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہر صورتِ حال بہتر

مشہور صحابیٔ رسول حضرت علی بن ابی طالب کا قول ہے: الخیر فیما وقع۔ یعنی جو ہوگیا، وہی بہتر ہے۔
Whatever happened, happened for the good.
حضرت علی کا یہ قول فطرت کے قانو ن کو بتاتا ہے۔وہ یہ کہ دنیا میں مواقع کی تعداد بے شمار ہے۔ اگر ایک موقع کھوجائے تو آدمی کے اندر محرومی کا احساس نہیں ہونا چاہیے۔ اس کو یہ امید کرنا چاہیے کہ ایک موقع کھونے کے بعد جلد ہی اس کو دوسرا موقع مل جائے گا، اس طرح اس کی زندگی کا سفر رکے بغیر جاری رہے گا۔
یہ صرف ایک قول نہیں ہے بلکہ فطرت کا ایک عام قانون ہے۔ یہ مومن و غیر مومن سب کے لیے ہے۔ اگر آدمی اس حقیقت کو دھیان میں رکھے تو وہ کبھی مایوس نہیں ہوگا۔ وہ ہر ناکامی کو وقتی سمجھے گا۔ ہر ناکامی کے بعد وہ ا پنی کوشش کو جاری رکھے گا، یہاں تک کہ وہ کامیاب ہوجائے گا۔ یہ بات کوئی پراسرار بات نہیں۔ یہ فطرت کا ایک معلوم قانون ہے۔
خالق نے دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں مواقع (opportunities) اتنے زیادہ ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ کچھ مواقع ایسے ہیں، جو بظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ اور زیادہ مواقع ایسے ہیں، جو موجود رہتے ہیں لیکن وہ ظاہری طور پر دکھائی نہیں دیتے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ پر امید رہے۔ وہ ناموافق حالات میں بھی مواقع کی تلاش جاری رکھے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر یہ استعداد پیدا کرے کہ وہ مواقع کو اپنے حق میں استعمال کرسکے، مواقع جس ہنر (skill) کا تقاضا کریں، وہ ہنر اپنے اندر پیدا کریں۔
مواقع کو وہی لوگ کامیابی کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں، جن کے اندر مواقع کو استعمال کرنے کے لیے ضروری لیاقت موجود ہو۔ لیاقت کے بغیر مواقع کا کامیاب استعمال ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ٹکنالوجی کا کمال

ماہنامہ الرسالہ 1976 میں جاری ہوا۔ یہ غالبا دنیا کا واحد ماہنامہ ہے جو صرف ایک شخص کی تحریروں پر نکلتا ہے۔ ایک شخص کی زبان ، اور ایک شخص کے فکر (thought) کے سوا کسی دوسرے کا کوئی ڈائرکٹ کنٹری بیوشن اس میں نہیں ہوتا۔
کچھ سالوں سے مَیں الرسالہ کے مضامین اپنے ہاتھ سے نہیں لکھتا ،بلکہ میں الرسالہ کے مضامین کوڈکٹیٹ (dictate) کرتا ہوں۔ پہلے یہ تھا کہ کوئی صاحب اس کو ہاتھ سے لکھتے، پھر اس کو کاتب کے حوالے کیا جاتا، پھر تصحیح مراحل سے گزر کو وہ مطبوعہ الرسالہ کی صورت میںلوگوں کے سامنے آتا۔
لیکن اب جدید ٹکنالوجی نے اس معاملے کوبہت آسان بنادیا ہے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ میں مضمون کے الفاظ بولتاہوں اور کوئی صاحب فوراً کے فوراً اس کو ٹائپ کرتے ہیں۔ اس درمیان میں کسی ریفرنس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ بھی ٹائپ کرنے والے صاحب فوراً کے فوراً کمپیوٹرمیں موجود ڈیجیٹل لائبریری یا انٹرنیٹ سے نکال دیتے ہیں، اور اس کو مضمون میں اسی وقت شامل کردیا جاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں ٹکنالوجی اللہ تعالی کی عجیب نعمت ہے۔ مذکورہ بات اس نعمت کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں، جب کہ ٹکنالوجی کی مدد سے الرسالہ مشن کو عالمی سطح پر چلایا جارہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے مادہ (matter) کو حکم دے دیا ہے کہ تم انسان کی ہدایت پرچلو۔ انسان کی ہدایت پر اس کی آواز کو یہاں سے وہاں پہنچاؤ۔ اس کی ہدایت پر اس کے تمام معاملات کو انجام دو۔ میری پیدائش 1925 میں ہوئی۔ اس لحاظ سے مجھے ذاتی طور پر یہ تجربہ ہے کہ قدیم زمانے میں کیا تھا اور موجودہ زمانے میں کیا ہے۔ اس بنا پر میرے لیے موجودہ زمانے کی ہر چیز شکر کا آئٹم بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال

ایک حدیث ہے: اللہم إنی أسألک علما نافعا ورزقا طیبا وعملا متقبلا(مسند احمد، حدیث نمبر 26602) میرا سوال یہ ہے کہ علم نافع اور غیر نافع کا معیار کیا ہے؟ (حافظ سید اقبال احمد عمری)
جواب
نافع ہونے کا دو معیار ہے۔ دنیا کے اعتبار سے نافع ہونا، اور آخرت کے اعتبار سے نافع ہونا۔ مگر زیادہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد معروف معنوں میں علم دنیااور علم دین نہیں ہے۔ بلکہ اس کا خطاب خود صاحب علم سے ہے۔ کسی علم کا نافع یا غیر نافع ہونا ، اس پر منحصر ہےکہ صاحب علم اس کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ گویا نافعیت کا معیار علم کا استعمال ہے، نہ کہ خود علم۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا علم بھی غیر نافع بن جاتا ہے کہ اگر اس کو دنیوی مفاد کے لیے استعمال کیا جائے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں: من تعلم علما مما یبتغى بہ وجہ اللہ عز وجل لا یتعلمہ إلا لیصیب بہ عرضا من الدنیا، لم یجد عرف الجنة یوم القیامة یعنی ریحہا (سنن ابوداوود، حدیث نمبر3664) یعنی جس نے ایسا علم سیکھاجس سے اللہ کی رضا حاصل کی جاتی ہے، مگر اس نے یہ علم صرف دنیا حاصل کرنے کے لیے سیکھا تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔ اصل یہ ہے کہ ہر علم ایک کار آمد علم ہے۔ اس کا استعمال اس کو اچھا یا برا بناتا ہے۔اس لحاظ سے اصل اہمیت استعمال کی ہے ، نہ کہ علم کے قسم کی۔اسی حقیقت کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: انما الاعمال بالنیات (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1)یعنی عمل کا دار ومدار نیت پر ہے۔ آخرت کی نیت سے حاصل کیا ہوا علم نافع ہے، اور دنیاکی نیت سے حاصل کیا ہوا علم غیرنافع ہے۔
واپس اوپر جائیں

Tuesday, 2 August 2016

Al Risala | August 2016 (الرسالہ،اگست)

4

-اللہ کے بندے

5

- خدا کی رہنمائی

6

- محبت کا جذبہ

7

- نفس کا شر کیا ہے

8

- اعلاء کلمۃ الاسلام

26

- حکیمانہ تربیت

28

- تاریخ کا نیا دور

29

- ایک اجتماعی اصول

30

- مومن کی صفات

31

- ماحی کا مطلب

32

- مشن اور تاریخ

34

- فرشتوں پر عقیدہ

35

- دعوتی مشن

36

- دعوت عام، اصلاح امت

37

- پیغامِ کشمیر

38

- حق کی پکار

39

- موت کی یاد

40

- دنیا اور آخرت

41

- ڈرو اس سے جو وقت ہےآنے والا

42

- کلام کا فتنہ

43

- دینی مدارس

44

- اینگر انرجی کا استعمال

45

- سوال و جواب

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


اللہ کے بندے

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عن ابن عباس، رضی اللہ عنہما، قال:قال رجل: یا رسول اللہ، من أولیاء اللہ؟ قال:الذین إذا رؤوا ذکر اللہ (مسند البزار، حدیث نمبر5034)۔ یعنی ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اے اللہ کے رسول، اولیاء اللہ کون ہے، آپ نے فرمایا: وہ لوگ جن کو دیکھا جائے تو اللہ کی یاد آئے۔
اس حدیث رسول میں’’ وہ لوگ جن کو دیکھا جائے‘‘ ـکا مطلب ہے، جب تم ان سے ملو۔ اصل یہ ہے کہ ایک ربانی انسان جب سچائی کو دریافت کرتا ہے، اور وہ اللہ کے خوف و محبت میں جینے والا بن جاتا ہے تو اس کے اندر سنجیدگی کا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی ہر بات میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر اللہ کا ذکر ہوتا ہے۔ وہ ہر معاملے کو اللہ کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی، عام انسان سے مختلف زندگی بن جاتی ہے۔ اس کی باتوں میں اللہ کا رنگ پیداہوجاتا ہے۔ وہ جو کچھ کہتا ہے، اس میں سننے والوں کے لیے رزق رب موجود ہوتا ہے۔ غیر متعلق باتیں اس کی زبان سے نہیں نکلتیں۔ بلکہ وہ جو کچھ کہتا ہے وہ تعلق باللہ کے زیر اثر ہوتا ہے۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس بیٹھنے والوں کو اس سے ایسی چیزیں ملنے لگتی ہیں جو دوسروں سے نہیں ملتی۔
محمد بن إسماعیل بن صلاح نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے یہ کہا ہے: ویحتمل أن المراد أنہم یذکّرون العباد باللہ تعالى(التَّنویر شرح الجامع الصغیرِ، الریاض، 2011، جلد 2، صفحہ 588)۔ یعنی احتمال یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ وہ لوگوں کو تذکیر کرتے ہیں، لوگوں کو اللہ کی یاد دلاتے ہیں۔ اس شرح کے مطابق، جو واقعہ پیش آتا ہے، وہ صرف رویت کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ تذکیر کا نتیجہ ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ کوئی پر اسرار بات نہیں ہے، بلکہ وہ ایک معلوم صفت ہے جو فطری اسباب کے تحت کسی کے اندر پیدا ہوجاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی رہنمائی

ایک حدیث رسول میں ایک دعا ان الفاظ میںآئی ہے: اللہم اہدنی وسدّدنی (صحیح مسلم، حدیث نمبر2725)۔ یعنی اے اللہ ، مجھ کو ہدایت دے اور مجھ کو راہ راست کی طرف رہنمائی فرما۔اس دعا میں اھدنی کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت فرما۔ اس کے بعد دعا میں دوسرا لفظ سدّدنی ہے۔ یعنی مجھ کو راہ راست کی طرف رہنمائی (show the right way) فرما۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صراط مستقیم کی ہدایت کے بعد بھی انسان کو ایک خدائی توفیق کی ضرورت ہے۔ اسی کو یہاں سدّدنی کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ ہے ڈسٹرکشن (distraction) سے بچنا۔ یہ وہی بات ہے جس کو قرآن میں اتباع سبل (الانعام 153) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی شاہراہ سے اپنے سفر کا آغاز کرے، اس کے بعد وہ درمیان میں چھوٹے چھوٹے غیر متعلق راستوں کی طرف مڑ جائے۔ یہاں تک کہ چلتے چلتے وہ اصل شاہراہ سے دور ہو جائے۔
انسان کی ایک گمراہی یہ ہے کہ وہ ہدایت کی صراطِ مستقیم کو اختیار نہ کرسکے۔ انسان کی دوسری گمراہی یہ ہے کہ وہ آغاز میں شاہراہ سے اپنے سفر کو شروع کرے۔ لیکن درمیان میں اس کو شاہراہ کے دائیں یا بائیں ایسی چیزیں ملیں جو اس کے سفر کے رخ کو بدل دیں، وہ شاہراہ سے ہٹ کر چھوٹے چھوٹے غیر متعلق راستوں میں چل پڑے۔ یہ دونوں قسم کا انسان بھٹکا ہوا انسان ہے۔ پہلا انسان اگر سفر کے آغاز میں بھٹکا ہوا تھا، تو دوسرا انسان سفر کے درمیان میں بھٹک کر راہ سے بے راہ ہوگیا۔جس طرح مادی سفر کے لیے ایک شاہراہ ہوتی ہے، اوراسی کے ساتھ شاہراہ کے دونوں طرف چھوٹے راستے بھی۔ اسی طرح سچائی کے سفر کی بھی ایک شاہراہ ہے، اسی کے ساتھ شاہراہ کے دونوں طرف چھوٹے راستے بھی۔ جو آدمی سچائی کی شاہراہ پر چلتا رہے، وہ مطلوب منزل پر پہنچے گا۔اس کے برعکس، جو آدمی چھوٹے راستوں کو اختیار کرے، وہ اپنی منزل سے بھٹک جائے گا۔ اس گمراہی سے بچنے کی صورت صرف یہ ہے کہ آدمی ہمیشہ اللہ سے بھٹکاؤ سے بچنے کی توفیق مانگتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

محبت کا جذبہ

انسان کے اندر محبت کا جذبہ فطری طور پر پایا جاتا ہے، وہ نہایت گہرائی کے ساتھ ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ محبت کے جذبے کو اگر خدا کے لیے خالص کیا جائے تو وہ توحید ہے، اور اگر ایسا ہو کہ محبت کا کوئی اور آبجکٹ (object of love) بن جائے تو وہ غلط ہے، اور اسی کا نام شرک ہے۔
قرآن میں اہل ایمان کی ایک صفت ان الفاظ میں بتائی گئی ہے:وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ (2:165)۔ اور جو اہلِ ایمان ہیں ، وہ سب سے زیادہ اﷲ سے محبت رکھنے والے ہیں۔ حُب شدید کا مطلب اسٹرانگ افکشن (strong affection) ہے۔ اس قسم کا اسٹرانگ افکشن صرف اللہ رب العالمین سے ہونا چاہیے۔
انسان کے لیے سچائی سے انحراف کا سب سے بڑا سبب ڈسٹریکشن (distraction) ہوتا ہے۔ اس معاملے میں محبت کا رول سب سے زیادہ اہم ہے۔ کسی انسان کو اگر اللہ کے سوا کسی اورسے حُب شدید ہو جائے تو وہ انحراف یا ڈسٹریکشن کی ایک صورت ہو گی۔ اور اس قسم کا انحراف یا ڈسٹریکشن کسی انسان کے لیے بے حد سنگین ہے۔ وہ انسان کو راہ راست سے ہٹا دیتا ہے۔
آدمی کو جس سے حُب شدید ہو اسی کے لحاظ سے اس کی اخلاقیات بنتی ہیں۔ اسی کے لحاظ سے اس کی سوچ بنتی ہے۔ اسی کے لحاظ سے اس کی گفتگو کا انداز متعین ہوتا ہے۔ اسی کے لحاظ سے اس کے معاملات تشکیل پاتے ہیں۔ اسی کے لحاظ سے اس کی زندگی کا رخ متعین ہوتا ہے۔
ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ اس کا جائزہ لیتا رہے کہ اس کے حُب شدید کا جذبہ کس کے لیے ہے۔ اگر اس کے اندر حُب شدید کا جذبہ اللہ کے لیے ہے، تو اس کو شکر کرنا چاہے۔ اور اگر اس کے اندرحُب شدید کا جذبہ اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ہو تو آدمی کو چاہیے کہ وہ اس کی تصحیح کرے۔ اس معاملے میں وہ اپنی اصلاح کرے۔وہ کوشش کرے کہ موت سے پہلےوہ سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اللہ سے محبت کرنے والا بن جائے۔ اس معاملے میں کوئی انسان تاخیر کا تحمل نہیں کرسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

نفس کا شر کیا ہے

ایک حدیث رسول میں ایک دعا ان الفاظ میں آئی ہے: اللہم ألہمنی رشدی، وأعذنی من شر نفسی(سنن الترمذی، حدیث نمبر3483)۔ یعنی اے اللہ، مجھ کو صحیح راستے کی ہدایت دے، اور مجھ کو میرے نفس کے شر سے بچا۔رُشد کے معنی ہیں راہ راست، یا ہدایت کا راستہ۔ یعنی وہ راستہ جس پر چل کر انسان کو دنیا اور آخرت کی فلاح حاصل ہوتی ہے۔
یہ راستہ قرآن و سنت میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے۔ ہدایت کے راستے کو جاننا اور اس پر عمل کرنا، انسان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ پھر وہ کیا چیز ہے جس کو یہاں نفس کا شر بتایا گیا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی سچائی کو جانے لیکن غلط تاویل کرکے اس کی صورت کو بدل دے۔
غلط تاویل ہمیشہ نفس کے شر کی وجہ سے ہوتی ہے۔ غلط تاویل کی گنجائش بہت زیادہ ہے ۔ یہاں تک کہ ایک واضح حکم کو بھی غلط تاویل کے ذریعے کچھ سے کچھ کیا جاسکتا ہے۔مثلا قرآن میں آیا ہے کہ نماز قائم کرو۔اگر انسان کے اندر شر نہ ہو تو وہ نہایت آسانی کے ساتھ اس کا مطلب سمجھ سکتا ہے، لیکن اگراس کے اندر شر ہو، یعنی اس کی نیت درست نہ ہو تو وہ عجیب و غریب تاویل کرکے اس کا مفہوم کچھ سے کچھ بنادے گا۔ مثلا اقامت صلاۃ کا مطلب ہے اقامت نظام، اقامت صلاۃ کا مطلب ہے سماج میں سدھار لانا، اقامت صلاۃ کا مطلب وہی چیز ہے جس کو اس زمانے میں سوشل سروس کہا جاتا ہے، وغیرہ۔
نفس کے شر سے بچنا آدمی کا اپنا کام ہے۔ صرف دعا کے الفاظ بولنے سے آدمی نفس کے شر سے بچ نہیں سکتا ہے۔اصل یہ ہے کہ اس معاملے میں پچاس فیصد آدمی کا اپنا کام ہے، اور بقیہ پچاس فیصد دعا کا کام ہے۔ اس معاملے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی صدق نیت کے ساتھ راہ راست کو دریافت کرے۔ اس کے اندر اس پر عمل کرنے کا سچا جذبہ موجود ہو۔ پھر وہ اللہ سے اس پر استقامت کی دعا کرے۔وہ اللہ سے اس بات کی مدد مانگے کہ شیطان اس پر حاوی نہ ہوجائے۔ وہ شیطان کی تزئین اور اس کے وسوسہ کو پہچانے، اور اپنے آپ کو اس سے بچائے۔
واپس اوپر جائیں

اعلاء کلمۃ الاسلام

بن لادن جیسے لوگ اور القاعدہ جیسی تحریکوں کو جو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے، وہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کے پیچھے وہ عمومی مسلم سائیکی (psyche)ہے جو موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اتنی زیادہ پھیلی ہوئی ہے کہ شاید کوئی مسلمان بھی اس سے خالی نہیں۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ بن لادن کو تمام مسلمانوں کی عالمی سپورٹ حاصل ہوئی۔ اسی بنا پر ایسا ہوا کہ وہ اسلام کے نام پر اتنی زیادہ جرأت کے ساتھ اپنی تخریبی کارروائیاں جاری کر سکے۔ اگر بن لادن جیسے کو یہ اعتماد حاصل نہ ہو کہ پوری مسلم ملّت ان کے ساتھ ہے تو وہ اتنے زیادہ بے حوصلہ ہو جائیں گے کہ کسی دشمن کی گولی کے بغیر اپنے آپ ہی ان کا خاتمہ ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ بن لادن کے ظاہرہ کو سمجھنے کے لیے دور جدید کے مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا۔ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان ایک عمومی احساس شکست میں جی رہے تھے۔ قرآن و حدیث میں وہ پڑھتے تھے کہ اسلام خدا ئے برتر کا دین ہے اور اسی کو حق ہے کہ وہ دنیا میں غالب ہو کر رہے۔ حدیث میں آیا ہے: الاسلام یعلو ولا یُعلیٰ(سنن الدار قطنی، حدیث نمبر3620)۔ آج کا مسلم مائنڈ یک طرفہ طور پر یہ سمجھتا ہے کہ اسلام غلبے کا دین ہے۔ اسی کے ساتھ ہر مسلمان اس احساس میں جی رہا ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام مغلوب ہو کر رہ گیا ہے۔
اس عمومی نفسیات کے دوران جب مسلمانوں نے دیکھا کہ بن لادن ان کے مفروضے کے مطابق اسلام کے سب سے بڑے دشمن کو چیلنج کر رہا ہے۔ حتی کہ انہوں نے دیکھا کہ11 ستمبر 2001 کو بن لادن نے’’اسلام دشمن ملک‘‘کے مینار عظمت کو ڈھا دیا تو انہوں نے سمجھ لیا کہ بن لادن ہی ان کاوہ مطلوب شخص ہے جس کو خدا نے اسلام کے کلمے کو دوبارہ بلند کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ چناںچہ وہ خوش ہو کر اس کے ساتھ ہوگئے اور اس کو ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے لگے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ بے بنیاد خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں۔ بن لادن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ایسا ہے کہ بن لادن ازم کے ذریعے اسلام کا کلمہ بلند ہوجائے گا۔
اس معاملے میں مسلمانوں کی غلطی کا آغاز اٹھارویں صدی سے ہوتا ہے۔ اسلام کے آغاز کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک کم وبیش دنیا کے بڑے حصے پر مسلمانوں کی سلطنت قائم رہی۔ اس زمانے میں مسلمان واحد سپر پاور کی حیثیت رکھتے تھے۔ پھر نشاۃ ثانیہ کے بعد مغربی قوموں کا عروج ہوااور مسلمانوں کی تمام سلطنتیں ختم ہو گئیں۔ مثلاً اسپین میں دولت غرناطہ، ترکی میں عثمانی خلافت، انڈیا میں مغل سلطنت وغیرہ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلم ملکوں کو سیاسی آزادی ملی مگر یہ آزادی دوبارہ اقتصادی غلامی کے ہم معنی بن گئی۔
دور جدید میں مسلم سلطنتوں کا خاتمہ مسلمانوں کی اس غلط فکری کا آغاز تھا۔اس کا بھیانک Culminationبن لادن جیسے لوگوںکی صورت میں ظاہر ہوا۔ مسلم رہنمائوں نے مسلمانوں کے سیاسی زوال کو اسلام کے کلمے کے زوال کے ہم معنی سمجھ لیا۔ حالانکہ دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہ تھا۔
دور جدید میں مسلم سلطنتوں کا زوال دراصل کچھ مسلم حکمراں خاندانوں (dynasties)کا زوال تھا۔ وہ ہر گز اسلام کا زوال نہ تھا۔ دور جدید میں اسلام کا زوال دراصل نظریۂ اسلام کا زوال ہے۔ یہ واقعہ بلا شبہہ مغربی تہذیب کے عروج کے بعد پیش آیا۔ تاہم اس کا کوئی تعلق مسلم سیاست کے زوال سے نہ تھا۔ اگر اس کا تعلق مسلم سیاست کے زوال سے ہوتا تو اب تک وہ ختم ہو چکا ہوتا۔ کیوں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد دوبارہ مسلمانوں کی آزاد سلطنتیں قائم ہوگئیں۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی 57آزاد سلطنتیں ہیں، مگر وہ اسلام کے نظریاتی زوال کے عمل کو روک نہ سکیں۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کےنظریاتی زوال کا سبب اس سے زیادہ گہرا ہے جو کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کا سبب بنا۔ اس معاملے کو درست طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں پچھلی تاریخ کی ایک تصویر سامنے رکھنی ہوگی۔ اسی کے بعد ہی اس معاملے کی نوعیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
اسلام کا آغاز 610 عیسوی میں ہوا۔ اسلام توحید کا مذہب تھا۔ جب کہ اُس وقت تقریباً ساری دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ مشرکانہ کلچر ہر ملک میں چھایا ہوا تھا، جس کو وقت کے حکمرانوں کی سیاسی سپورٹ حاصل تھی۔ اُس وقت اسلام کا مقابلہ توحید ورسس شرک کی حیثیت رکھتا تھا۔ دور اول کے مسلمانوں نے شرک کے مقابلے میں ہر قسم کی قربانیاں دیں۔ یہاں تک کے شرک کا دَور عملاً ختم ہو گیااور توحید کا دَور شروع ہوگیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ دور تقریباً ایک ہزار سال تک چلتا رہا۔ دوبارہ ایسا نہیں ہوا کہ شرک طاقتور ہوکر مذہبِ توحید کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے۔ مگر قرونِ وسطیٰ میں مغرب کا وہ انقلاب، جس کو نشاۃ ثانیہ کہا جاتا ہے، ایک نئے طاقت ور حریف کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اس کا واضح آغاز سولھویں صدی میں ہوا ۔ اور چند صدیوں کے عمل کے بعد اس نے انتہائی طاقت ور حیثیت حاصل کرلی۔
اسلام کا یہ نیا طاقت ور حریف وہ تھا جس کو ایک لفظ میں سائنٹفک الحاد کہا جا سکتا ہے۔ سائنس علمِ فطرت کی حیثیت سے نہ مذہبی تھی اور نہ غیر مذہبی۔ مگر جدید سائنسی دَور میں یورپ میں ایسے مفکرین اٹھے جنہوں نے سائنس کی دریافتوں کو بطور خود الحاد کے حق میں استعمال کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے یہ اعلان کردیا کہ جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ تمام مذاہب، بشمول اسلام، صرف توہم پرستی کی پیداوار تھے۔ اس موضوع پر پچھلے دوسو سالوں میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب کا ٹائٹل اس نوعیت کی تمام کتابوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ ٹائٹل تھا:
God is dead
سائنٹفک الحاد نہایت تیزی سے پھیلا۔ یہاں تک کہ وہ علم کے تمام شعبوں پر چھا گیا۔ اس سائنٹفک الحاد نے بظاہر جدید دلائل کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ خدا کا کوئی وجود نہیں، وحی کی کوئی حقیقت نہیں، کوئی کتاب مقدس کتاب نہیں، جنت اور جہنم سب محض فرضی کہانیاں ہیں۔
اس جدید فکر کا آغاز سرآئزک نیوٹن (وفات1727) سے ہوا۔ پھر ایک کے بعد ایک ایسے سائنس داں پیدا ہوئے جن کی تحقیقات جدید الحاد کو تقویت دیتی رہیں۔ اگر چہ ان سائنس دانوں میں سے کوئی بھی سائنس دان معروف معنوں میں، منکرِ خدا یا منکرِ مذہب نہیں تھا، مگر ان کی تحقیقات نے بالواسطہ طور پر جو فکر پیدا کیا وہ یہی تھا۔
مثال کے طور پر نیوٹن اور دوسرے سائنس دانوں نے یہ دکھایا کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ایک پرنسپل آف کازیشن کام کر رہا ہے۔ قدیم تو ہماتی زمانے میں انسان نیچر کو پُراسرار سمجھتا تھا۔ فطرت کے ہر واقعے کے بارے میں وہ یہ گمان کرتا تھا کہ جو ہوا ہے وہ پُراسرار طور پر ہو گیا ہے۔ مگر سائنس نے جب واقعات کے پیچھے اس کا ایک مادّی سبب دریافت کیا تو شعوری یا غیرشعوری طور پر یہ مان لیا گیا کہ ان کا خالق خدا نہیں ہے بلکہ کچھ اسباب ہیں جو واقعات کی تخلیق کر رہے ہیں۔ چناںچہ جدید ملحد مفکرین کی طرف سے یہ دعویٰ کردیا گیا :
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
یہ الحاد جو علم کے زور پر اٹھا، یہی وہ چیز تھی جس کے بعد وہ صورتِ حال پیدا ہو گئی جس کو کلمۂ اسلام کی مغلوبیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عام طور پر لوگ خدا کے وجود پَر شک کرنے لگے۔ مذہب کی صداقت ان کے نزدیک مشتبہ ہو گئی۔ اسلام ان کو دَور علم سے پہلے کا مذہب دکھائی دینے لگا۔
یہ ایک coincidenceتھاکہ جس زمانے میں مسلم سلطنتوں کو زوال ہوا تقریباً اسی زمانے میں اسلام کی نظریاتی صداقت کو بھی مشتبہہ سمجھا جانے لگا۔ تاہم یہ ایک زمانی اتفاق تھا، ورنہ ایسا ہرگز نہ تھا کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کی بنا پر اسلام کا نظریاتی زوال پیش آگیا ہو۔ مگر اس دَور کے تقریباً تمام مسلم مفکرین اس غلط فہمی کا شکار رہے۔ انہوں نے معاملے کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیے بغیر یہ سمجھ لیا کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ اسلام کو نظریاتی زوال پیش آرہا ہے۔ اس غلط اندازے کی بنا پَر انہوں نے ساری دنیا میں سیاسی جہاد شروع کردیا۔ مسلم ملکوں اور غیر مسلم ملکوں دونوں جگہ پر کوشش کی جانے لگی کہ مسلمان کے سیاسی اقتدار کا دَور دوبارہ واپس لایا جائے۔ ان کا مشترک طورپر یہ خیال تھا کہ جب تک ایسا نہ ہو، اسلام کا کلمہ دوبارہ غالب نہ ہو سکے گا۔ حالاں کہ کلمۂ اسلام کے غلبے سے مراد حق کا نظریاتی غلبہ تھا، جب کہ مسلم اقتدار کا مطلب صرف یہ تھا کہ ایک کمیونٹی یا ایک خاندان کی سیاسی حکومت قائم ہو جائے۔
مگر یہ سوچ سر تا سر بے بنیاد ہے، اور اس کے بے بنیاد ہونے کے لیے یہ ثبوت کافی ہے کہ دو سو سالہ سیاسی جہاد کے باوجود کلمۂ اسلام کا غلبہ ممکن نہ ہو سکا۔ میسور کے سلطان ٹیپو (وفات1799) سے لے کر فلسطین کے یاسر عرفات (وفات 2004) تک دو سو سال کا طویل زمانہ ہے۔ اس مدت میں مسلمانوںنے اپنے خیال کے مطابق غلبۂ اسلام کے لیے اپنے جان و مال کی اتنی زیادہ قربانیاں دی ہیں جو پچھلے چودہ سو سال کی مجموعی قربانیوں سے بھی زیادہ ہیں، مگر یہ ساری قربانیاں سر تا سر بے سود ہو گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کو یہ فائدہ ملا کہ ان کی پچاس سے زیادہ آزاد سلطنتیں بن گئیں، مگر جہاں تک غلبۂ اسلام کا سوال ہے وہ بدستور ایک بے تعبیر خواب بنا ہوا ہے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام کی مغلوبیت کا معاملہ، اسلام کی نظریاتی مغلوبیت کا معاملہ ہے۔ یہ مغلوبیت اس لیے پیش آئی کہ اسلام کو موجودہ زمانے کی علمی اور نظر یاتی تائید حاصل نہ ہو سکی۔ اب دوبارہ یہ غلبہ صرف اس وقت حاصل ہو سکتا ہے جب کہ زمانۂ جدید کے معیار کے لحاظ سے وقت کی علمی اور نظریاتی تائید اسلام کے حق میں فراہم کی جائے۔
اسلام کے ابتدائی ظہور کے بعد اسلام کو جو غلبہ حاصل ہوا، وہ بھی حقیقتاً مسلمانوں کے سیاسی غلبے کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ بھی اسلام کے نظریاتی غلبہ کا نتیجہ تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خلافتِ عباسیہِ کے دَور میں مسلمانوں نے اس زمانے کے علوم کا مطالعہ کیا۔ اس زمانے تک علمِ انسانی نے جو لٹریچر تیار کیا تھا، ان کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا، اور پھر بہت بڑے پیمانے پر اُن کا جائزہ لیا گیا۔ ان علوم کی تعلیم کے لیے تاریخ کے سب سے بڑے ادارے قائم کیے گیے۔ اسی کی ایک علامتی مثال یہ ہے کہ راجر بیکن (وفات1292) جس نے انگلینڈ میں سب سے پہلی یونیورسٹی (کیمبرج یونیورسٹی) قائم کی، وہ قُرطبہ کی مسلم یونیورسٹی کا پڑھا ہوا تھا۔
یہ ایک لمبی تاریخ ہے اور اس پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر پروفیسر ہٹی کی کتاب ہسٹری آف دی عربس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس دَور کے مسلمانوں نے اپنے زمانے کے علوم پڑھ کر اسلام کی علمی تشریح کی اور اسلام کی علمی بالا دستی کو دلائل کی زبان میں ثابت کیا۔ حتی کہ اہلِ علم کے لیے اسلام کا نظریہ ایک ایسا نظریہ بن گیا جو پوری طرح ایک علمی مسلّمہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسلام کو ماننا علم کو ماننا تھا، اور اسلام کا انکار کرنا، علم کا انکار کرنا تھا۔
قدیم زمانے میں جن علوم کو ترقی حاصل ہوئی وہ زیادہ تر فلسفیانہ حیثیت رکھتے تھے۔ ان علوم کی بنیاد قدیم یونانی منطق پر قائم تھی۔ جس کو قیاسی منطق (syllogism)کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں نے اس یونانی منطق کو استعمال کر کے اس کو بھر پور طور پر اسلام کا مؤید بنا دیا۔ یہاں تک کہ خالص علمی طور پر کسی کے لیے یہ گنجایش باقی نہ رہی کہ وہ علمی بنیاد پر اسلام کی صداقت کا انکار کرسکے۔
مگر موجودہ زمانے میں جدید سائنس کے ظہور کے بعد پوری صورتِ حال بالکل بدل گئی۔ جدید سائنس نے قدیم سیاسی منطق کو ڈھا دیا۔ اب ایک نئی منطق ظہور میںآئی، جس کو سائنسی منطق (scientific logic)کہا جاتا ہے۔ قدیم یونانی منطق قیاسات پر قائم تھی، اس کے مقابلے میں جدید سائنسی منطق حقائق پر قائم ہوتی ہے۔ اس فرق نے قدیم دَور کو ختم کردیا۔ اسی کے ساتھ وہ دَوربھی ختم ہوگیا جو اسلامی نظریات کے لیے علمی بنیاد بنا ہوا تھا۔ گویا کہ کلمۂ اسلام کی مغلوبیت کا سبب اس کے حق میں نظریاتی بنیاد(base)کا خاتمہ تھا، نہ کہ کسی سیاسی بنیاد کا خاتمہ۔
دَور جدید میں جب یہ علمی انقلاب آیا تو ضرورت تھی کہ مسلمانوں میں دوبارہ وہی علمی سرگرمیاں جاری ہوں جو عباسی خلافت کے دَور میں جاری ہوئی تھیں۔ اب ضرورت تھی کہ مسلم علماء جدید افکارکو پڑھ کر ان کو گہرائی کے ساتھ سمجھیں اور اسلام کی نظریاتی بنیاد کو ازسرِنو جدید علمی مسلَّمات پر قائم کریں، جیسا کہ دورِ قدیم کے مسلم علماء نے اپنے زمانے میں کیا تھا۔ مگر بَر وقت ایسا نہ ہو سکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اِس زمانے کے تقریباً تمام علماء نظریاتی اسلام اور مسلم اقتدار کو الگ کر کے نہ دیکھ سکے:
They failed to differentiate between Muslim rule and Islamic ideology.
اسی بے خبری کی بنا پر انہوں نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام کو نظریاتی زوال پیش آگیا۔ چناںچہ وہ مغربی قوموں کے خلاف سیاسی لڑائی میں مشغول ہو گیے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک یہی قومیں مسلمانوںکے سیاسی زوال کا سبب تھیں۔ مگر یہ ایک بھیانک قسم کا غلط اندازہ تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے ایک شخص جو تعلیم حاصل نہ کرنے کی وجہ سے جاہل رہ گیا ہو، اس کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے جسمانی طاقت کا انجکشن دیاجانے لگے۔ حالاں کہ یہ معلوم ہے کہ کوئی شخص صرف جسمانی تندرستی کی بنا پر تعلیم یافتہ نہیں بن سکتا۔
اس معاملے میں مزید غلطی یہ ہوئی کہ مغربی قوموں سے سیاسی نفرت کی وجہ سے مسلم علماء اور رہنما مغرب کی زبان اور مغرب کی سائنس سے بھی نفرت کرنے لگے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ان کی نسلیں مغربی تعلیم سے دور رہیں تاکہ ان کا ایمان اور اسلام محفوظ رہے۔ حالاں کہ یہ معاملہ سادہ طور پر تحفظِ اسلام کا مسئلہ نہ تھا بلکہ وہ اسلام کو دوبارہ نئی علمی بنیاد فراہم کرنے کا مسئلہ تھا۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ دہرا غلط اندازہ تھا۔ جس نے مسلمانوں کو اس شعور سے محروم کردیا کہ وہ دوبارہ اسلام کے لیے مضـبوط علمی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کر سکیں۔
اسلام عین اسی عالمی قانون کا ایک مظہر ہے، جس کے تحت ساری کائنات چل رہی ہے۔ اسلام فطرت کا دین ہے۔ اس لیے اسلام اسی طرح ہمیشہ زندہ رہتا ہے جس طرح سورج ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ کوئی بدلی وقتی طورپرروشن سورج کو ڈھانپ سکتی ہے۔ لیکن بدلی کے ہٹتے ہی دوبارہ سورج کا روشن چہرہ اسی طرح سامنے آجاتا ہے جس طرح وہ پہلے تھا۔
سورج کے چہرے سے بدلی کے چھٹنے کا یہ واقعہ خود سائنس میں، اس کے بعد کے دَور میں، پیش آنا شروع ہو گیا تھا۔ اس اعتبار سے سائنس کے دو دَور ہیں۔ایک دَور البرٹ آئن سٹائن (وفات1955) سے پہلے کا ہے اور دوسرا، البرٹ آئن سٹائن کے بعدکا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نیوٹن سے لے کر آئن سٹائن تک سائنس کی تحقیق اُس دنیا تک محدود تھی جس کو عالمِ کبیر (macroworld)کہا جاتا ہے۔اس زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ دنیا کی تمام چیزیں اپنے آخری تجزیے میں ایٹم کا مجموعہ ہیں۔ اور ایٹم ایک ایسی چیز ہے جس کو تَولا اور ناپا جا سکتا ہے۔
اس بنا پر اُ س دَور میں یہ نظریہ بنا کہ حقیقی وجود صرف اسی چیز کا ہے جو توَلی اور ناپی جا سکے۔ جو چیز تَول اور ناپ میں نہ آئے اس کا کوئی حقیقی وجود بھی نہیں۔
مگر آئن سٹائن کے زمانے میں ایک انقلابی واقعہ پیش آیا۔ اس زمانے میں یہ ہوا کہ انسانی علم میکرو ورلڈ (macroworld)سے گزر کر مائکرو ورلڈ (microworld)تک پہنچ گیا۔ اب معلوم ہوا کہ ایٹم ہماری دنیا کا آخری ذرہ نہیں۔ خود ایٹم بھی ایک مجموعہ ہے، جو الکٹران اور پروٹان کے ملنے سے بنا ہے۔ مگر تحقیق نے بتایا کہ الکٹران، ایٹم کی طرح کوئی مادّی ذرّہ نہیں، بلکہ الکٹران غیر مرئی لہروں (waves)کا نام ہے۔ ان لہروں کو دیکھا نہیں جاسکتا۔ ان کے بارے میں صرف یہ ممکن ہے کہ بالواسطہ اثرات کے ذریعے اُن کے وجود کے بارے میں کچھ اندازسے قائم کیے جاسکیں۔
ایٹم کا لہروں میں تبدیل ہو جانا، سائنس میں ایک بے حد اہم واقعہ تھا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ استنباط (inference)کو ایک ٹھوس علمی بنیاد حاصل ہوگئی۔ اب یہ مان لیا گیا :
Inferential argument is as valid as direct argument.
منطق میں اس تبدیلی نے سائنس کی دنیا میں انقلاب پیدا کردیا۔ آئن سٹائن سے پہلے تک یہ کہا جاتا تھا کہ مذہب میں صرف سکنڈری آرگمنٹ (secondary argument)ممکن ہے۔ مذہب میں پرائمری آرگمنٹ (primary argument)ممکن نہیں۔ چوں کہ مذہب یا اسلام کے عقائد پر تمام استدلالات استنباطی نوعیت کے ہوتے ہیں، اور مذکورہ تقسیم میں استنباط ایک سکنڈری استدلال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے مذہب کو ان علوم میں شامل کر لیا گیا تھا جن کو (speculative)سائنسیز کہا جاتا ہے۔
مگر ایٹم کے ٹوٹنے کے بعد جب منطق میں تبدیلی آئی اور استنباطی استدلال کو عین سائنسی استدلال کا درجہ مل گیا تو اس کے بعد مذہب یا اسلام کی علمی بنیاد میں بھی تبدیلی آگئی۔ اب مذہبی یا استنباطی استدلال کے طریقے کو پرائمری استدلال کا درجہ حاصل ہو گیا، جب کہ اس سے پہلے اس کو صرف سکنڈری استدلال کا درجہ ملا ہوا تھا۔
اب خود علمِ انسانی میں نئے واقعات پیش آنے لگے۔ مثال کے طور پَر سائنس کے دورِ اوّل کے ذہن کو لے کر برطانیہ کے جولین ہکسلے (وفات1975) نے ایک کتاب لکھی، جس میں دکھایا گیا تھا کہ اب انسان کو خداکی ضرورت نہیں، اب انسان خود ہی اپنا سب کچھ بَن سکتا ہے۔ اس کتاب کا ٹائٹل یہ تھا:
Man Stands Alone
اس کے بعد امریکا کے ڈاکٹر کریسی ماریسن (وفات: 1951) نے ایک اور کتاب چھاپی، جس میں سائنسی حقائق کی روشنی میں دکھایا گیا تھا کہ انسان صرف مخلوق ہے، وہ خدا کا درجہ نہیں لے سکتا۔ اس دوسری کتاب کا ٹائٹل یہ تھا:
Man does not Stand Alone
اس طرح برٹرینڈر سل (وفات1975) نے اپنی کتاب Why I am not a Christian میں لکھا کہ آرگمینٹ فرام ڈزائن(argument from design) خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ایک سائنٹفک استدلال ہے۔ مگر ڈارونزم نے اس استدلال کو ڈیسٹرائے کردیا ہے۔ اس کے جواب میں پروفیسر لون Arnold Henry Moore Lunn)، وفات1974ء) نے ایک کتاب لکھی، جس کا نام تھاThe Revolt Against Reason ۔اِس کتاب میں دکھایا گیا تھا کہ ڈارونزم خود ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے۔ پھر وہ آرگمینٹ فرام ڈزائن کے ثابت شدہ نظریے کو کیسے ڈیسٹرائے کر سکتا ہے۔
علمِ انسانی میں اس تبدیلی کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ اب مذہب اور سائنس کی دوری ختم ہو رہی ہے۔ دونوں ہی علم کے یکساں پہلو ہیں۔ سائنس کے اس دوسرے دَور میں بہت سے اعلیٰ ذہن اُبھرے ، جنہوں نے جدید حقائق کو لے کر بتایا کہ مذہبی صداقتیں اتنی ہی حقیقی ہیں، جتنا کہ مادّی صداقتیں۔
قدیم نیو ٹینین دَور کو پہلا دھکّا اس وقت لگا جب کہ یہ ثابت ہوا کہ روشنی کے بارے میں نیوٹن کی مادی تعبیر (corpuscular theory of light) درست نہ تھی۔ نیوٹن کے نظریے کی غلطی پہلی بار اس وقت ظاہر ہوئی جب علماء نے روشنی کی مادّی تشریح کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش انہیں ایتھر (ether)کے عقیدے تک لے گئی، جو بالکل مجہول اور غیر ثابت شدہ عنصر تھا۔ کچھ نسلوں تک یہ عجیب و غریب عقیدہ چلتا رہا۔ روشنی کی مادّی تعبیر ثابت کرنے کے لیے زبردست کوششیں کی گئیں۔
لیکن میکسویل(Maxwell)کے تجربات کی اشاعت کے بعد یہ مشکل ناقابل عبور نظر آنے لگی۔ کیوں کہ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ روشنی ایک برقی مقناطیسی مظہر (electromagnetic phenomenon) ہے۔ یہ خلا بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ دن آیا جب علمائے سائنس پر واضح ہوا کہ نیوٹن کے نظریات میں کوئی چیز مقدس نہیں۔ بہت دنوں کے تذبذب اور بجلی کو مادی (mechanical)ثابت کرنے کی آخری کوششوں کے بعد بالآخر بجلی کو ناقابل تحویل عناصر (irreducible elements)کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔
یہ بظاہر ایک سادہ سی بات ہے۔ مگر در حقیقت یہ بہت معنی خیز فیصلہ ہے۔ نیوٹن کے تصور میں ہم کو سب کچھ اچھی طرح معلوم تھا۔ اس کے مطابق ایک جسم کی کمیت اس کی مقدار مادہ تھی، طاقت کا مسئلہ حرکت سے سمجھ میں آجاتا تھا، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح یقین کرلیا گیا تھا کہ ہم اس فطرت کو جانتے ہیں جس کے متعلق ہم کلام کر رہے ہیں۔ مگر بجلی کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس کی فطرت (nature)ایسی ہے جس کے متعلق ہم کچھ نہیں جان سکتے۔ اس کو معلوم اصطلاحوں میں تعبیر کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں۔ وہ سب کچھ جو ہم بجلی کے متعلق جانتے ہیں وہ صرف وہ طریقہ ہے جس سے وہ ہمارے پیمائشی آلات کو متاثر کرتی ہے— اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات کس قدر اہم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے وجود (entity)کو طبیعیات میں تسلیم کر لیا گیا جس کے متعلق ہم اس کے ریاضیاتی ڈھانچے کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔
اس کے بعد اس نہج پر اس قسم کے اور بھی وجود تسلیم کئے گئے۔ اور یہ مان لیا گیا کہ یہ لامعلوم ہستیاں بھی سائنسی نظریات کے بنانے میں وہی حصہ ادا کرتی ہیں جو قدیم معلوم مادہ ادا کرتا تھا۔ یہ حقیقت قرار پا گیا کہ جہاں تک علم طبیعات کا تعلق ہے، ہم کسی چیز کے اصلی وجود کو نہیں جان سکتے۔ بلکہ صرف اس کے ریاضیاتی ڈھانچے(mathematical structure)کو جاننے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اب اعلیٰ ترین سطح پریہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ہمارا یہ خیال کہ ہم اشیاء کو ان کی آخری صورت میں دیکھ سکتے ہیں، محض فریب تھا۔ نہ صرف یہ کہ ہم نے دیکھا نہیں ہے بلکہ ہم اسے دیکھ بھی نہیں سکتے۔
پروفیسر اڈنگٹن (Eddington)کے نزدیک ریاضیاتی ڈھانچہ کا علم ہی وہ واحد علم ہے جو طبیعیاتی سائنس ہمیں دے سکتی ہے۔
’’جمالیاتی، اخلاقی اور روحانی پہلوئوں سے قطع نظر، کمیت مادہ، جوہر، وسعت اور مدت وغیرہ، جو خالص طبیعیات کے دائرے کی چیزیں سمجھی جاتی ہیں، ان کی کیفیت کو جاننا بھی ہمارے لئے ویسا ہی مشکل ہوگیا ہے جیسے غیر مادی چیزوں کی حقیقت کو جاننا۔ موجودہ طبیعیات اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں سے براہ راست واقف ہوسکے۔ ان کی حقیقت ادراک سے باہر ہے۔ ہم ذہنی خاکوں کی مدد سے اندازہ کرتے ہیں۔ مگر ذہن کا کوئی عکس ایک ایسی چیز کی بعینہ نقل نہیں ہو سکتا جو خود ذہن کے اندر موجود نہ ہو۔ اس طرح اپنے حقیقی طریق مطالعہ کے اعتبار سے طبیعیات ان خارج ازادراک خصوصیتوں کا مطالعہ نہیں کرتی بلکہ وہ صرف مطالعہ برآلہ (Pointer-reading) ہے جو ہمارے علم میں آتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یہ مطالعہ عمل کائنات کی بعض خصوصیات کو منعکس کرتا ہے، مگر ہماری اصل معلومات آلاتی مطالعہ سے متعلق ہیں نہ کہ وہ خصوصیات کے بارے میں ہیں۔ آلاتی مطالعہ کو اشیاء کی حقیقی خصوصیات سے وہی نسبت ہے جو ٹیلی فون نمبر کو اس شخص سے جس کا وہ فون نمبر ہے‘‘۔
The Domain of Physical Science - Essay in Science Religion and Reality
یہ واقعہ کہ سائنس صرف ڈھانچہ کی معلومات تک محدود ہے، بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت ابھی پورے طور پر معلوم شدہ نہیں ہے۔ اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے احساسات یا خدا سے اتصال کا عارفانہ تجربہ اپنا کوئی خارجی جواب (objective counterpart)نہیں رکھتا۔ یہ قطعی ممکن ہے کہ ایسا کوئی جواب خارج میں موجود ہو۔ ہمارے مذہبی اور جمالیاتی احساسات اب محض مظاہر فریب(illusory phenomenon)نہیں کہے جاسکتے جیسا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا۔ نئی سائنسی دنیا میں مذہبی عارف بھی ایک حقیقت کے طور پر رہ سکتا ہے۔
The Limitations of Science (pp. 138-42)
سائنٹفک فلاسفہ نے اس قسم کی تشریحات شروع کردی ہیں۔ مارٹن وائٹ (Morton White) کے الفاظ میں—بیسویں صدی میں فلسفیانہ ذہن رکھنے والے سائنس دانوں نے ایک نئی جنگ (Crusade)کا آغاز کردیا ہے۔ جس میں وہائٹ ہیڈ،ایڈنگٹن اور جینز کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔‘‘(The Age of Analysis, [pp. 84]) ان علماء کا فکر صریح طور پر کائنات کی مادی تعبیر کی نفی کرتا ہے۔ مگر ان کی اصل خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے خود جدید طبیعیات اور ریاضیات کے نتائج کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے بارے میں وہی الفاظ صحیح ہیں جو مارٹن وائٹ نے وائٹ ہیڈ کے متعلق لکھتے ہیںکہ وہ ایک بلند ہمت مفکر ہے جس نے مادہ پرستی کے شیروں کو عین ان کے بھٹ میں للکارا ہے۔
He is a heroic thinker who tries to beard the lions of intellectualism, materialism and positivism in their own bristling den.
انگریز ماہر ریاضیات اور فلسفی الفرڈنارتھ وائٹ ہیڈ (وفات1947) کے نزدیک جدید معلومات یہ ثابت کرتی ہیں کہ فطرت بے روح مادہ نہیں، بلکہ زندہ فطرت ہے۔
Nature is Alive (p. 84)
انگریز ماہر فلکیات سرآرتھر اڈنگٹن (وفات1944) نے موجودہ سائنس کے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کائنات کا مادہ ایک شئے ذہنی ہے :
The stuff of the world is mind-stuff. (p.146)
ریاضیاتی طبیعیات کا انگریز عالم سر جیمز جینز (وفات1946) جدید تحقیقات کی تعبیر ان الفاظ میں کرتا ہے کہ کائنات، مادی کائنات نہیں بلکہ تصوراتی کائنات ہے:
The universe is a universe of thought. (p. 134)
یہ انتہائی مستند سائنس دانوں کے خیالات ہیں جن کا خلاصہ جے ڈبلیو این سولیون کے الفاظ میں یہ ہےکہ کائنات کی آخری ماہیت ذہن ہے{ FR 1537 } :
The ultimate nature of the universe is mental. (p. 145)
یہ ایک عظیم تبدیلی ہے جو پچھلی نصف صدی کے دوران میں سائنس کے اندر ہوئی ہے۔ اس تبدیلی کا اہم ترین پہلو، جے .ڈبلیو.این. سولیون کے الفاظ میں یہ نہیں ہے کہ تمدنی ترقی کے لئے زیادہ طاقت حاصل ہو گئی ہے۔ بلکہ یہ تبدیلی وہ ہے جو اس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادوں (Metaphysical Foundation)میں واقع ہوتی ہے۔
The Limitations of Science, (pp. 138-50)
برطانیہ کے مشہور ماہر فلکیات اور ریاضی داں سرجیمز جینز (Sir James Jeans)کی کتاب ’’پراسرار کائنات‘‘ غالباً اس پہلو سے موجودہ زمانے کا سب سے زیادہ قیمتی مواد ہے۔ اس کتاب میں موصوف خالص سائنسی بحث کے ذریعہ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں :
’’جدید طبیعیات کی روشنی میں کائنات مادی تشریح (material representation) کو قبول نہیں کرتی۔ اور اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ اب وہ محض ایک ذہنی تصور (mental concept)ہوکر رہ گئی ہے۔‘‘
The Mysterious Universe, 1948 (p. 123)
جینز کے الفاظ میں:
If the universe is a universe of thought, then its creation must have been an act of thought. (pp. 133-34)
یعنی جب کائنات ایک تصوراتی کائنات ہے تو اس کی تخلیق بھی ایک تصوراتی عمل سے ہونی چاہئے۔ وہ کہتا ہے کہ مادہ کو امواج برق سے تعبیر کرنے کا جدید نظریہ انسانی تخیل کے لئے بالکل ناقابل ادراک ہے۔ چناںچہ کہا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ لہریں محض امکان کی لہریں (waves of probability)ہوں جن کا کوئی وجود نہ ہو— یہ اور اس طرح کے دوسرے وجود سے سر جیمز جینز اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ کائنات کی حقیقت مادہ نہیں، بلکہ تصور ہے۔ یہ تصور کہاں واقع ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک عظیم کائناتی ریاضی داں (mathematical thinker)کے ذہن میں ہے۔ کیونکہ اس کا ڈھانچہ، جو ہمارے علم میں آتا ہے، وہ مکمل طور پرریاضیاتی ڈھانچہ ہے۔ یہاں میں اس کا ایک اقتباس نقل کروں گا:
’’ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ علم کا دریا پچھلے چند سالوں میں ایک نئے رخ پر مڑا ہے۔ تیس سال پہلے ہم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم ایک ایسی حقیقت کے سامنے ہیں جو اپنی نوعیت میں مشینی (mechanical) قسم کی ہے۔ ایسا نظرآتا تھا کہ کائنات ایٹموں کے ایک ایسے بے ترتیب انبار پر مشتمل ہے جو اتفاقی طور پر اکھٹا ہوگئے ہیں اور جن کا کام یہ ہے کہ بےمقصد اور اندھی طاقتوں کے عمل کے تحت، جو کوئی شعور نہیں رکھتیں، کچھ زمانے کے لئے بے معنی رقص کریں جس کے ختم ہونے پر محض ایک مردہ کائنات باقی رہ جائے۔ اس خالص میکانکی دنیا میں، مذکورہ بالا اندھی طاقتوں کے عمل کے دوران میں، زندگی محض اتفاق سے وجود میں آگئی۔ کائنات کا ایک بہت ہی چھوٹا گوشہ یا امکان کے طورپر اس طرح کے کئی گوشے کچھ عرصے کے لئے اتفاقی طور پر ذی شعور ہو گئے ہیں اور یہ بھی ایک بے روح دنیا کو چھوڑ کر بالآخر ایک روز ختم ہو جائیں گے۔ آج ایسے قوی دلائل موجود ہیں جو طبیعی سائنس کو یہ ماننے پر مجبور کرتے ہیں کہ علم کا دریا ایک غیر مشینی حقیقت (non-mechanical reality)کی طرف چلا جارہا ہے۔ کائنات ایک بہت بڑی مشین کے بجائے ایک بہت بڑے خیال(great thought)سے زیادہ مشابہ معلوم ہوتی ہے۔ ذہن (mind) اتفاقاً محض اجنبی کی حیثیت سے اس مادی دنیا میں وارد نہیں ہوگیا ہے۔ اب ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ رہے ہیں کہ ذہن کا عالم مادی کے خالق اور حکمراں کی حیثیت سے استقبال کریں۔ یہ ذہن بلاشبہہ ہمارے شخصی ذہن کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ ایسا ذہن ہے جس نے مادی ایٹم سے انسانی دماغ کی تخلیق کی۔ اور یہ سب کچھ ایک اسکیم کی شکل میں پہلے سے اس کے ذہن میں موجود تھا۔ جدید علم ہم کو مجبور کرتا ہے کہ ہم دنیا کے بارے میں اپنے خیالات پر نظرثانی کریں جو ہم نے جلدی میں قائم کر لئے تھے—— ہم نے دریافت کر لیا ہے کہ کائنات ایک منصوبہ ساز یا حکمراں (designing or controlling power)کی شہادت دے رہی ہے جو ہمارے شخصی ذہن سے بہت کچھ مشابہ ہے۔ جذبات و احساسات کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس طرز پر سوچنے کے اعتبار سے جس کو ہم ریاضیاتی ذہن (Mathematical Mind)کے الفاظ میں ادا کر سکتے ہیں۔‘‘
The Mysterious Universe. (pp. 136-38)
بیسویں صدی کے نصف اوّل میں مذکورہ کام جو ہو رہا تھا، اس کو ایک لفظ میں، spiritualization of scienceکہا جا سکتا ہے۔ یہ کام اس وقت اعلیٰ ترین سائنسی دماغ کر رہے تھے۔ مثلاً وائٹ ہیڈ، سرآرتھراڈنگٹن اور سر جیمز جینز، وغیرہ۔ مگر بیسویں صدی کے نصف آخر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے اعلیٰ دماغ دوبارہ اِس علمی تحریک کو نہ مل سکے، جس کو ہم نے اسپریچولائزیشن آف سائنس کا نام دیا ہے۔
اس کا سبب غالباً عالمی سماج میں وہ نیا ظاہرہ تھا جس کو کنزیومر ازم کہا جاتا ہے۔ کنزیومرازم کی غیر معمولی مقبولیت نے صرف ان چیزوںکو اہمیت دے دی جو مارکٹ ایبل تھیں۔مذکورہ عمل تھیورٹیکل سائنس سے تعلق رکھتا تھا۔ اور تھیوریٹکل سائنس میں کمرشیل ویلو زیادہ نہیں ہوتی۔ اس لیے تمام اعلیٰ دماغ ٹکنکل سائنس کے شعبوں میں کام کرنے لگے۔ کیوں کے تمام بڑے بڑے اقتصادی فائدے سائنس کے ٹکنکل شعبوں سے متعلق ہو گئے تھے۔ اس طرح تھیوریٹکل سائنس میں ریسرچ کا کام اپنی آخری تکمیل تک پہونچنے سے پہلے رُک گیا۔ اب ضرورت تھی کے بڑے بڑے مذہبی دماغ اس کام میں لگیں اور اس کو اس کی آخری تکمیل تک پہونچائیں۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ مذہبی حلقے میں اعلیٰ دماغ موجود تھے۔ مگر وہ اِس اصل کام کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ گیے۔
جدید تہذیب کے ظہور کے بعد اہلِ مذاہب کے لیے یہ نیا مسئلہ پید ا ہوگیا تھا کہ لوگ جدید تعلیم اور جدید افکار سے متاثر ہو کر مذہب کے روایتی عقیدے پر شک کرنے لگے تھے۔ چناںچہ تمام بڑے بڑے مذہبی دماغ اس کے دفاع میں لگ گیے۔ ہندوئوں میں اس زمانے میں بڑے بڑے دماغ پیدا ہوئے مثلاً ڈاکٹر رادھا کرشنن (وفات1975 ) وغیرہ۔ مگر یہ لوگ ہندو مذہب کی میتھالوجی کے حق میں بطور خود ریشنل پروف فراہم کرنے میں مصروف ہوگیے۔ اسی طرح عیسائیوں میں بڑے بڑے دماغ پیدا ہوئے۔ مثلاً ڈاکٹربلی گراہم، وغیرہ۔ ان لوگوں نے بھی یہی کیا کہ عیسائیت کے روایتی عقائد، تثلیث اور کفاّرہ وغیرہ کو بطور خود عقلی بنیاد فراہم کرنے میں مصروف ہو گیے۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کے یہاں بھی اسی زمانے میں بڑے بڑے دماغ پیداہوئے مثلاً سید جمال الدین افغانی، وغیرہ۔مگر مسلم اہلِ دماغ ایک اور غلطی میں مبتلا ہو گیے۔ عین اسی زمانے میں یہ ہوا کہ مسلمانوں کو سیاسی زوال پیش آگیا۔ چناںچہ مسلمانوں کے تمام اعلیٰ دماغ پولٹکل محاذ پر مصروف ہو گیے۔ کچھ افراد نے پولٹکل لڑائی کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ کچھ اور افراد نے اسلام کو پولٹکل انٹرپریٹیشن دینے کو سب سے بڑا کام سمجھ لیا۔ اس طرح یہ ہوا کہ مسلم اہلِ دماغ سیاست کے جنگل میں کھو گیے۔ وہ مذکورہ عمل کو آگے بڑھانے میں ناکام رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں سب سے بڑا کام اعلائے کلمۂ اسلام کا ہے۔ مگر اس کام کے لیے نہ تو مسلّح جہاد کی ضرورت ہے اور نہ اسلام کوپولٹکل ثابت کرنے سے اسلام میں کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے، اور نہ بن لادن جیسے لوگ اسی معاملے میں کوئی پازیٹیو رول ادا کرسکتے ہیں۔ اس قسم کی تدبیروں کے غلط ہونے کے لیے یہی کافی ثبوت ہے کہ دوسو سال تک مسلمانوں کی کئی جنریشن ان راہوں میں قربانی دیتی رہی مگر اصل مطلوب مقصد ایک فیصد بھی حاصل نہ ہو سکا۔
اِس پہلو سے موجودہ زمانے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام نے اپنے حق میں انسانی علم کی بنیاد کھودی ہے۔ یہ علمی بنیاد دوبارہ اس طرح فراہم ہو سکتی ہے کہ اُس عمل کو آخری تکمیل تک پہنچایا جائے، جس کو ہم نے اسپریچویلائزیشن آف سائنس کہا ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے اعلیٰ دماغ اس کام میں اپنے آپ کو وقف کریں آج مسلمانوں کو بن لادن جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ ضرورت ہے کہ ان کے اندر وائٹ ہیڈ، آرتھراڈ نگٹن اور جیمز جینز جیسے افراد پیدا ہوں۔ بن لادن جیسے لوگ صرف تخریب کا کام کر سکتے ہیں، جب کہ آج اصل ضرورت یہ ہے کہ مثبت تعمیر کا کام کیا جائے۔ خاص طور پَر علمی اور سائنسی تعمیر۔
قرآن میں یہ خبردی گئی ہے کہ خدا نے انسان کو دنیا کی تمام چیزوں کا علم دے دیا ( وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّہَا)البقرۃ،آیت30۔ انسانی برین کے بارے میں جدید دریافت گویا اس آیت کی تفسیر ہے۔ جدید دریافت بتاتی ہے کہ ہر انسانی برین میںبے شمارپارٹکلس ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک سو میلین، بلین بلین سے زیادہ پارٹکل۔ یہ کوئی سَینڈ پارٹکل کے مانند نہیں، بلکہ وہ انفارمیشن پارٹکل ہیں۔ ان پارٹکل کے ذریعے گویا خدا نے ہر قسم کی معلومات کو انسانی دماغ میں فیڈ کردیا ہے۔ ان پارٹکل میں فزکل معلومات بھی ہیں اور اسپریچول معلومات بھی۔
موجودہ زمانے میں سائنس دانوں نے کائنات کو دریافت کر کے بے شمار چیزیں بنائی ہیں۔ یہ دریافتیں در اصل دریافتیں نہیں ہیں بلکہ وہ انسانی دماغ میں پہلے سے موجود انھیں انفارمیشن پارٹکلس کی اَن فولڈنگ ہیں۔ اس طرح انسان نے بہت بڑی مقدار میں اپنے دماغ میں فیڈ کی ہوئی فزیکل معلومات کو ان فولڈ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
مگر جہاں تک دماغ میں فیڈ کی ہوئی اسپریچول انفارمیشن کا تعلق ہے اس کا بڑا حصہ ابھی تک اَن فولڈ نہ ہوسکا۔دماغ میں فیڈ کی ہوئی اسپریچول انفارمیشن کو اَن فولڈ کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم اہلِ دماغ کو یہی کام کرنا ہے۔ یہی وہ کام ہے جس کو انجام دینے پر اعلائے کلمۂ اسلام کا دروازہ ان کے لیے کھُلے گا۔
***************************************
اپنا گھر ، ٹسٹ گھر
اس دنیا میں آدمی ایک گھر بناتا ہے اور اس کو وہ ’’اپنا گھر‘‘ کہتا ہے۔وہ اپنے نام پر اس کا نام رکھتا ہے۔یہی معاملہ تمام چیزوں کا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر گھر، ٹسٹ ہاوس ہے۔ اس دنیا میں ہر کار، ٹسٹ کار ہے۔اس دنیا میں ہر پراپرٹی، ٹسٹ پراپرٹی ہے۔اس دنیا میں ہر اولاد، ٹسٹ اولاد ہے۔اس دنیا کی تمام چیزیں ٹسٹ کا سامان ہیں۔مگر آدمی اس سب سے بڑی حقیقت کو بھولا ہوا رہتا ہے،یہاں تک کہ اچانک موت آتی ہے اور وہ تمام چیزوں کو چھوڑ کر بالکل تنہا اگلے مرحلہ حیات میں داخل ہو جاتا ہے۔اس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کو میں اپنی چیز سمجھتا تھا،وہ خدا کی طرف سے امتحان کے لیے وقتی طور پر ملی ہوئی تھیں۔پچھلا دور حیات ختم ہوتے ہی وہ سب کی سب مجھ سے چھین لی گئیں۔اب مجھے ایک ایسی دنیا میں رہنا ہے جہاں مجھے مکمل طور پر محرومی کی حالت میں زندگی گزارنا ہے۔اس سے مستثنی صرف وہ لوگ ہوں گے جن کو ان کے حسن عمل کے نتیجے میں دوبارہ تمام چیزیں بطور انعام دے دی جائیں گی۔
واپس اوپر جائیں

حکیمانہ تربیت

انسان کی زندگی میں ابتدائی تقریباً دس سال کو حیاتیاتی اعتبار سے تیاری کا دور (formative period) کہا جاتا ہے۔ اس ابتدائی دورِ حیات میں انسان کی شخصیت کا بڑا حصہ عملا ً بن کر تیار ہوجاتا ہے۔ انسان کی زندگی میںیہ ابتدائی مدت، تربیت کے نقطۂ نظر سے بہت زیادہ اہم ہے۔
پیغمبر اسلام نے اس تربیتی مقصد کے لیے اپنی زندگی میں دو اشخاص کو خصوصی طور پر چنا۔ ایک، علی ابن ابی طالب اور دوسرے، عائشہ بنت ابی بکر۔ دونوں کو آپ نے یہ موقع دیا کہ وہ کم عمری میں آپ کی صحبت میں رہ کر تربیت پائیں، اور وہ چیز حاصل کریں جس کو قرآن(البقرۃ129) میں حکمتِ رسول (prophetic wisdom)کہا گیا ہے۔
حکیمانہ تربیت کا یہ مقصد صرف کم عمری میں حاصل کیا جاسکتا تھا۔ آپ نے علی ابن ابی طالب کو اپنی صحبت میں رکھنے کا یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ آپ کم عمری میں ان کےکفیل بن گیے۔عائشہ ایک خاتون تھیں، اس لیے ان کے لیے یہ طریقہ قابلِ عمل نہ تھا۔ چناں چہ آپ نے عائشہ بنت ابی بکر سے کم عمری میں نکاح کرلیا۔ روایات کے مطابق،یہ نکاح اس وقت ہوا جب کہ عائشہ کی عمر چھ سال تھی، اوررخصتی اس وقت ہوئی جب کہ ان کی عمر نو سال ہو چکی تھی (صحیح البخاری، حدیث نمبر5188) ۔
کچھ لوگوں نے عائشہ کی عمرِ نکاح کے بارے میں تاویل کا طریقہ اختیار کیا ہے ۔ مگر یہ ایک غیر ضروری کوشش ہے۔یہ زاویۂ نظرکے فرق کا معاملہ ہے۔ یہ لوگ اس واقعہ کو نکاح کے زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ تیاری کی مدت (formative period) میں پیغمبرانہ تربیت کا معاملہ ہے۔
نتیجہ اس توجیہہ کی تصدیق کرتا ہے۔ چناں چہ یہ بات علماء کے درمیان ایک ثابت شدہ حقیقت سمجھی جاتی ہے ، یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ علی اور عائشہ، دونوں بصیرت اور تفقہ کے اعتبار سے تمام صحابہ میں امتیازی درجہ رکھتے ہیں۔
رسول سے استفادے کی ایک صورت یہ تھی کہ آپ کے اقوال کو محفوظ کرلیا جائے ، اور اس کو لوگوں سے بیان کیا جائے۔ اس معاملہ میں ابو ہریرہ امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسری صورت یہ تھی کہ رسول اللہ کی باتوں کو سن کر اور آپ کے عمل کو دیکھ کر حقائق کا استنباط کیا جائے۔ یہ دوسرا فائدہ صرف متواتر صحبت کے ذریعے حاصل ہوسکتا تھا۔ اس دوسرے مقصد کے لیے علی ابن ابی طالب اور عائشہ بنت ابی بکر کا کم عمری میں انتخاب کیا گیا۔
مثال کے طور پر علی ابن طالب کا ایک قول ان الفاظ میں آیا ہے:قیمة کل امرئ ما یحسن (جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث نمبر 608-9)۔یہ بات ان الفاظ میں کسی حدیث رسول میں نہیں آئی ہے۔ یہ رسول کی صحبت سے مستنبط کی ہوئی ایک حکمت ہے۔ اس بات کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ کسی انسان کی قدر و قیمت اس اعتبار سے متعین ہوتی ہے کہ وہ اپنے کام کو کتنے امتیاز کے ساتھ انجام دیتا ہے :
The value of a person lies in his excellence .
یہی معاملہ عائشہ بنت ابی بکر کا ہے۔ حضرت عائشہ کے استنباطات مشہور ہیں۔ یہ تمام استنباطات اعلیٰ حکمت کا نمونہ ہیں۔ وہ رسول اللہ کی صحبت سے اخذ کی ہوئی حکمت کی باتیں ہیں۔ مثلا حضرت عائشہ کا یہ حکیمانہ قول :ما خیر النبی صلى اللہ علیہ وسلم بین أمرین إلا اختار أیسرہما(صحیح البخاری، حدیث نمبر6786)۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ آسان تر کا انتخاب کرتے تھے:
Whenever the Prophet had to choose between the two, he always opted for the easier of the two.
رسول اللہ سے سنی ہوئی باتوں کو حدیث کہا جاتا ہے۔ علی اور عائشہ کا امتیاز استنباط کے پہلو سے ہے۔ انھوں نے رسول اللہ کی صحبت میں رہ کر حکمت کی باتیں اخذ کیں۔ اور ان کو اپنی زبان میں بیان کیا۔ کم عمری میںان دونوںصاحبان کے لیے صحبت رسول بہت مفید تھی۔ اس صحبت نے ان کے اندر اخذ (grasp) کی طاقت کو بہت بڑھا دیا۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کا نیا دور

اسلام ساتویں صدی عیسوی میں آیا۔ اہل اسلام کی جدو جہد کے نتیجے میں اب دنیا میں ایک انقلاب آچکا ہے۔ روایات میں اس انقلاب کی پیشین گوئی موجود ہے۔ایک روایت کے مطابق پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا ہجرة بعد الفتح (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2783)۔ اس حدیث میں ہجرت اور فتح کے الفاظ صرف وقتی معنی میں نہیں ہیں ، بلکہ وہ دور (age) کے معنی میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آئے گا، اب ساتویں صدی کے ماڈل پر کام نہیں ہوگا۔ یعنی اب دعوت ، ہجرت، جہاد کا ماڈل عملاًغیر متعلق ہوگیا ہے۔ اب وہ حالات بدل چکے ہیں جس میں ہجرت اور قتال پیش آیاتھا۔ اب صرف زمانے کی رعایت کے مطابق دعوت الی اللہ کا پرامن کام کرنا ہوگا۔ بقیہ نتائج اپنے آپ حاصل ہوتے رہیں گے۔
اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ کسریٰ ہلاک ہوگیا اب کوئی کسریٰ نہیں، اور قیصر ہلاک ہوگیا اب کوئی قیصر نہیں(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3120)۔ اس میں بھی کسریٰ اور قیصر کے الفاظ علامتی طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شہنشاہیت کا دور (age of imperialism) ختم ہوگیا۔ اب دنیا میں دوبارہ شہنشاہیت کا دور آنے والا نہیں۔
اس حدیثِ رسول میں پیشین گوئی کی زبان میں ایک تاریخی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام کے بعد دنیا سے بادشاہت اور شہنشاہیت کا دور ختم ہوجائے گا۔ قدیم زمانے میں بادشاہی نظام اور شہنشاہی نظام کی بنا پردینی تحریک کو حکومتی نظام کی طرف سے ایذا رسانی (persecution) کا معاملہ پیش آتا تھا۔ اب دینی تحریک کے لیے ایسا معاملہ پیش آنے والا نہیں۔ اب دینی تحریک کی منصوبہ بندی خالص غیر سیاسی بنیاد پر ہوگی۔ اب دینی تحریک کو شروع سے آخر تک امن کے حالات میں کام کرنے کا موقع ملے گا، نہ کہ تشدد کے حالات میں۔ اب قیامت تک کسی تحریک کے لیے تشدد کے حا لات پیش آنے والے نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک اجتماعی اصول

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عن عبادة بن الصامت الانصاری، بایعنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم على السمع والطاعة، فی منشطنا ومکرہنا، ... وأثرة علینا، وأن لا ننازع الأمر أہلہ(صحیح البخاری،حدیث نمبر7056)۔ یعنی ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی سمع و طاعت پر، پسند پر بھی اور ناپسند پر بھی، اور اس پر کہ دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دی جائے، اور اس پر کہ ہم صاحب امر سے نزاع نہ کریں۔
اس حدیث میں جس معاملے کا ذکر ہے، اس کا تعلق صرف رسول اور صرف اصحابِ رسول سے نہیں ہے۔ وہ ایک عام اجتماعی اصول ہے جس کی پابندی ہر دور میں ضروری ہے۔ کیو ں کہ اس طرح کا معاملہ ہمیشہ اور ہر اجتماع میں پیش آتا ہے۔ مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانے میں انصار اور مہاجرین کے درمیان کوئی فرق نہ تھا۔ مگر جب رسول اللہ کی وفات کے بعد خلافت کا دور آیا تو اس اصول کو اختیار کیا گیا کہ الائمۃ من قریش (مقدمہ ابن خلدون،بیروت، 1988، صفحہ 242)۔یعنی خلافت کے معاملےمیں انصار کے اوپر مہاجرین کو ترجیح دینا۔
یہ جوہوا، یہ بر بنائے ضرورت تھا، نہ کہ بر بنائے فضیلت۔ اسی طرح موجودہ زمانے میں اگر کوئی تحریک کتابت اور لیتھو پرنٹنگ کے زمانے میں شروع ہو تو روایتی لوگ تمام کاموں کو انجام دیں گے۔ لیکن تحریک آگے بڑھ کر جب کمپیوٹر اور جدید ٹکنالوجی کے دور میں داخل ہوجائے تو حالات کا تقاضا ہوگا کہ وہ لوگ کام کو سنبھال لیں جولوگ اپنی تعلیم و تربیت کے اعتبار سے کمپیوٹر اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال کو جانتے ہیں۔ ایسا واقعہ ترجیح (preference) کی بنا پر نہیںہوگا، بلکہ وہ مکمل طور پر ضرورت کی بنا پر ہوگا۔ اس حدیثِ رسول میںاجتماعی اخلاقیات کا ایک اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ جب ایسا کوئی معاملہ پیش آئے، جو بظاہر ترجیح (preference) کادکھائی دیتا ہو تو اس کو دل کی آمادگی کے ساتھ قبول (accept)کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

مومن کی صفات

قرآن کے مطابق، مومن کی بنیادی صفات دو ہیں-اللہ سے حُبّ شدید (2:165) اور اللہ سے خشیت شدید (9:18)۔ مومن کی دوسری تمام صفات انھیں دو صفتوں کے مختلف پہلو ہیں۔ کوئی انسان جب اللہ رب العالمین کو دریافت کرتا ہے تو اس کے اندر فطری طور پر یہ دو اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ دونوں صفتیں جب گہرائی کے ساتھ زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں تو اس سے وہ شخصیت بنتی ہے جس کو مومن کی شخصیت کہا جاتا ہے۔
ایک انسان جب اللہ کی عظیم نعمتوں (great blessings) کا شعور حاصل کرتا ہے تو اس کے نتیجے کے طور پر اس کے اندر وہ صفت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں اللہ سے حُبّ شدید کہا گیا ہے۔ اسی طرح انسان جب اپنے عجز اور اپنی عبدیت کو شعوری طور پر دریافت کرتا ہے تو اس سے وہ صفت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں خشیت شدید یا خوفِ شدید کہا گیا ہے۔
ایمان کی یہ دونوں صفات دراصل معرفت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ معرفت جتنی اعلی درجے کی ہوگی، اتنی ہی اعلی درجے کی صفات آدمی کے اندر پیدا ہوں گی۔ انسان کے اند رکوئی بھی صفت ایک علاحدہ ضمیمہ کے طور پر پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ داخلی شعور کا ایک خارجی اظہار ہوتا ہے۔ ہر ایمانی صفت کے پیچھے گہرے معنوں میں تدبر اور تفکر موجود رہتا ہے۔
ایمانی معرفت کوئی قانونی بات نہیں۔ کسی کو قانونی احکام بتانے سے اس کے اندر معرفت پیدا نہیں ہوگی۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی کو پہلے مطالعہ کرنے والااور غور وفکر کرنے والا بنایا جائے۔ جب ایسا ہوگا تو اس کے بعد کسی انسان کے اندر وہ اعلی صفت پیدا ہوگی جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔
یہی سچے مومن کو پہچاننے کا واحد معیار ہے۔ یہ معیار جس انسان کے اندر پایا جائے، وہی انسان سچا مومن ہے۔ اور جس انسان کے اندر یہ دونوں صفات نہ پائی جائیں، وہ اللہ کے نزدیک سچا مومن نہیں ، خواہ ظاہر پسند انسانوں کو وہ کتنا ہی بڑا آدمی دکھائی دیتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

ماحی کا مطلب

ایک حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مشن بتایا ہے ، اس کا ایک جزء یہ ہے: أنا الماحی الذی یمحو اللہ بی الکفر(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3532)۔ یعنی میں مٹانے والا ہوں، اللہ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا۔ اس حدیث میں ماحی کا لفظ آیا ہے۔ ماحی کا لفظی مطلب ہے مٹانے والا۔ یہاں مٹانے کا لفظ کسی فوجی معنی میں نہیں ہے بلکہ وہ تمام تر نظریاتی معنی میں ہے۔ یعنی کفر جس نظریاتی بنیاد (ideological base)پر کھڑا ہے، اس نظریاتی بنیاد کودلائل کے ذریعے بے وزن بنادینا۔ کفر کے عقیدے کو اس کی نظریاتی اساس سے محروم کردینا۔ اس معاملے کا کوئی تعلق جنگ و قتال سے نہیں ہے۔
کفر ایک عقیدہ ہے جو انسان کے دماغ میں بطور ایک فکر کے موجود ہوتا ہے۔ فکر کو جنگ کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ بلکہ فکر کو صرف جوابی فکرکے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی کوششوں سے عرب میں ایک انقلابی عمل (revolutionary process) جاری ہوا، جو نہایت موثر طور پر پوری تاریخ میں چلتا رہا۔ جیسا کہ حدیث ( البخاری، حدیث نمبر 3062)میں آیاہے۔ اس انقلابی عمل میں سیکولر لوگوںکی تائید بھی ضرور حاصل ہوگی۔ یہاں تک کہ یہ انقلابی عمل اپنی آخری حد تک پہنچ جائے ۔
موجودہ زمانے میں جس چیز کو ماڈرن سویلائزیشن کہا جاتا ہے، وہ اسی انقلابی عمل کی تکمیل ہے۔ اب اکیسویں صدی میں ’’کفر‘‘ اپنی نظریاتی طاقت کو کھوچکا ہے۔ آج کی دنیا میں انسان کو مکمل معنوں میںمذہبی آزادی حاصل ہے۔ اب وسائل پر کسی کی اجارہ داری (monopoly)نہیں ہے۔ اب تمام مواقع (opportunities) ہر ایک کےلیے کھلے ہوئے ہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں رہا کہ وہ اپنے نظریے کو جبراً دوسروں کے اوپرنافذ کرے۔ اب دلیل کی طاقت تمام تر دین حق کو حاصل ہوچکی ہے۔ قدیم زمانے میں ایک اللہ کی عبادت پر بھی روک (العلق: 9-10) تھی۔ آج ایک اللہ کے دین کی اشاعت و تبلیغ کے لیے دنیا کے تمام دروازے پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مشن اور تاریخ

پیغمبرِ اسلام کا ایک مشن تھا۔ اس مشن کو ایک لفظ میں توحید کی آئڈیالوجی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی انسان کو اس کے خدا سے متعارف کرنا۔ خالق اور مخلوق کے درمیان وہ تعلق قائم کرنا جو حقیقتِ واقعہ کی نسبت سے مطلوب ہے۔یہی توحید ہے، اور کسی انسان کی ابدی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اس توحید پر قائم کرے، وہ ایک سچا موحد بن جائے۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا۔ 632 عیسوی میں مدینہ میں آپ کی وفات ہوگئی۔ 23 سا ل کی اس پوری مدت میں آپ مسلسل طور پر اپنے مشن کی اشاعت میں مشغول رہے۔ 23 سال کی اس مدت میں جو واقعات پیش آئے، وہ پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ توحید کی حیثیت نظریہ کی ہے، اور تاریخ کی حیثیت حالات کی نسبت سے پیش آنے والے واقعات کی۔
جو شخص پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئڈیالوجی اور تاریخ کے اس فرق کو بخوبی طور پر جانے۔ اس فرق کو ملحوظ کیے بغیر جو شخص پیغمبر ِ اسلام کی سیرت کا مطالعہ کرے، وہ یقیناً غلط فہمی کا شکار ہوجائے گا۔ وہ بطورِ خود پیغمبر ِ اسلام کی ایک موضوعی تصویر (objective picture) بنائے گا، مگر یہ تصویر پیغمبر اسلام کی حقیقی تصویر نہ ہوگی، وہ غلط فہمی پر مبنی ایک تصویر ہوگی۔
مثال کے طور پر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر ِ اسلام کی زندگی کے تین دور ہیں'-دعوت، ہجرت ، جہاد۔ ان تین ادوار کے مجموعے سے جو نقشہ بنے، وہ پیغمبر ِ اسلام کی زندگی کا مکمل نقشہ ہے۔ مگر یہ تعبیر درست نہیں۔ کیوں کہ دعوت پیغمبر ِ اسلام کی زندگی کا اصل حصہ (real part) ہے، ہجرت اور جہاد (بمعنی قتال) پیغمبرِ اسلام کی زندگی کا صرف اضافی حصہ (relative part)ہے۔ یعنی دعوت کا عمل آپ کے حقیقی مشن کی نسبت سے آپ کی زندگی کا حصہ تھا۔ جب کہ ہجرت اور جہاد(بمعنی قتال) زمانی تاریخ کی نسبت سے آپ کی زندگی کا حصہ بنا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ اگر زمانی حالات مختلف ہوتے تو دعوت آپ کی زندگی میں ضرور شامل رہتی، لیکن ہجرت اور جہاد (بمعنی قتال) آپ کی زندگی میں شامل نہ ہوتے۔
ساتویں صدی عیسوی میں جب پیغمبر ِ اسلام نے توحید کا مشن شروع کیا تو اس وقت عرب میں قبائلی دور (tribal age) پایا جاتا تھا۔ آج ساری دنیا میں تہذیب (civilization) کا دور آچکا ہے۔ آج اگر کوئی شخص پیغمبر ِ ِاسلام کے مشن کا احیاء (revival) کرےتو پرامن دعوت کا حصہ تو ضرور اس کی تحریک میں موجود ہوگا۔ لیکن آج نہ قدیم طرز کی ہجرت کی ضرورت ہے اور نہ جنگ و قتال کی۔ آج دورِ تہذیب میں زمانی حالات ہر اعتبار سے بدل چکے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص آج کے حالات میں یہ کرے کہ وہ ہجرت اور قتال کے طریقے کو سنت رسول سمجھ کر دہرانے لگے تو یقینا وہ غلطی کرے گا۔ وہ سنت رسول کے نام پر سنت رسول سے انحراف کا مرتکب بن جائے گا۔
کرنے کا اصل کام
بیسویں صدی کے نصف اول میں بیشتر مسلم ممالک مغربی طاقتوں کے زیر اقتدار تھے ، خواہ براہ راست طور پر یا بالواسطہ طور پر ۔ اس کے بعد آزادی کی تحریکیں چلیں ۔ آج یہ تمام مسلم ممالک سیاسی طور پر آزاد ہیں ۔ ان ملکوں کی تعداد تقریبا 60 تک پہنچ چکی ہے ۔ گنتی کے اعتبار سے اقوام متحدہ کے ممبروں میں سب سے زیادہ تعداد مسلم ملکوں کی ہے ۔ اس کے باوجود عالمی سیاسی نقشہ پر مسلمانوں کا کوئی وزن نہیں ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں سیاسی اقتدار ہی سب کچھ ہوا کرتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں سیاسی اقتدار کی حیثیت ثانوی بن گئی ہے ۔ اب تعلیم اور سائنس اور ٹکنالوجی اور اقتصادیات کی اہمیت ہے ... اس لئے آج کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی مسلم نسلوں کو ان غیر سیاسی شعبوں میں آگے بڑھایا جائے۔
واپس اوپر جائیں

فرشتوں پر عقیدہ

ایک شخص جب اسلام کو قبول کرتا ہے تو وہ کچھ عقائد کا اقرار کرتا ہے۔ ان میں سے ایک عقیدہ فرشتوں (angels) کا عقیدہ ہے۔ فرشتوں پر عقیدہ رکھنا، مذہب اسلام کا ایک لازمی حصہ ہے۔ یہ فرشتے اللہ کے حکم سے ساری دنیا کا نظام چلارہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میںآئی ہے: ما فیہا موضع أربع أصابع إلا وملک واضع جبہتہ ساجداً للہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2312)۔یعنی کائنات میں چار انگل جگہ بھی ایسی نہیں ہے جہاں ایک فرشتہ اپنی پیشانی کو جھکائے ہوئےاللہ کے لیے سجدہ کی حالت میں نہیں ۔
بعض روایات میں ساجداًللہ کے بجائے یمجّد اللہ (شرح السنۃ للبغوی، حدیث نمبر4172)کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی اللہ کی تمجید کرتے ہیں۔ حدیث میں سجدہ یا تمجید کا مطلب معروف سجدہ یا تمجید نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے احکام کی کامل تعمیل میں لگا ہونا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کے انتظام میں ا تنے زیادہ فرشتے لگے ہوئے ہیں کہ کائنات ان کی تعداد سے بھر گئی ہے۔
کائنات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر لمحہ ایک عمل جاری ہے۔ زمین اور بقیہ کائنات میں مسلسل طور پر انتہائی اعلی درجے کی سرگرمیاں موجود ہیں۔ موجودہ زمانےمیں اکثر سائنسدانوں کا یہ ماننا ہے کہ کائنات کے اندر ذہین ڈیزائن (intelligent design) پائی جاتی ہے۔ یہ ذہین ڈیزائن صرف موجود نہیں ہے، بلکہ وہ ہر لمحہ متحرک ہے۔ ہرلمحہ اس کے اندر بامعنی سرگرمیاں جاری ہیں۔ کہکشاؤں کی گردش، شمسی نظام، زمین کے اوپرلائف سپورٹ سسٹم ، وغیرہ ۔ ایسااس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ کچھ غیرمعمولی طاقتوںکا اس کے اوپر کنٹرول ہو۔ وہ نہایت آئڈیل انداز میں اس کا انتظام کرنے میں مشغول ہوں۔ کائنات میں یہ بے خطا انتظام گویا خاموش زبان میں اعلان کررہا ہے کہ اس کے کچھ انتظام کار ہیں۔ یہ انتظام کارخالق کے حکم سے اس کا معیاری انتظام کرنے میں مشغول ہیں ۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی مشن

قرآن میں پیغمبروں کامشن بتاتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:إِنَّا أَخْلَصْنَاہُمْ بِخَالِصَةٍ ذِکْرَى الدَّارِ (38:46)۔ہم نے ان کو ایک خاص مشن ، آخرت کی یاد دہانی کے لیے چن لیا تھا۔ اس آیت میں پیغمبر کے حوالے سے داعی کا کردار بتایا گیا ہے۔ چننے کا یہ معاملہ داعی کی اہلیت کی بنا پر ہوتا ہے۔ جب ایک شخص اپنے آپ کو دعوتی مشن کا اہل ثابت کرتا ہے تو اللہ کی طرف سے اس کو مشن کے لیے منتخب کرلیا جاتا ہے۔ منتخب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو خصوصی طور پر اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے تاکہ وہ دعوت کے مشن کو درست طور پر انجام دے سکے۔
خدا کا خاص کام کیا ہے جس کے لیے وہ انسانوں میں سے اپنے پیغمبر چنتا ہے۔ وہ ہے آخرت کے گھر کی یاد دہانی۔ پیغمبروں کا خاص مشن ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ انسانوں کو اس حقیقت سے باخبر کریں کہ انسان کی اصل منزل آخرت ہے۔ اور انسان کو اسی کی تیاری کرنا چاہیے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور اس دنیا میں سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اس کو اس سنگین مسئلہ سے آگاہ کیا جائے۔
پوری تاریخ میں انسان اس سوال پر سوچتا رہا ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ انسان اپنی پیدا ئش کے اعتبار سے فل فل مینٹ سیکینگ انیمل (fulfilment-seeking animal) ہے۔ لیکن اس دنیا میں کسی بھی شخص کو پورے معنوں میں فل فلمینٹ نہیں ملتا۔ انسان اس زمین پر پیدا ہوتا ہے۔ وہ ساری عمر تکمیلِ آرزو (fulfilment)کے لیے کوشش کرتا ہے۔ لیکن آخر کار وہ اپنی آرزووں کی تکمیل کے بغیر حسرت کی موت مرجاتا ہے۔
داعی کا مشن اسی سوال کا جواب ہے۔ داعی انسان کو یہ بتاتا ہے کہ تمھاری زندگی کے دو دور ہیں: قبل از موت دور، اور بعد از موت دور۔ جو چیز تم قبل از موت دور میں تلاش کررہے ہو، وہ بعد از موت دور میں رکھی گئی ہے۔موجودہ دورِ حیات تیاری کا مرحلہ ہے، نہ کہ پانے کا مرحلہ۔
واپس اوپر جائیں

دعوت عام، اصلاح امت

جس طرح صلاۃ اور زکاۃ دین کے دو الگ الگ شعبے ہیں، اسی طرح دعوت اور اصلاح دین کے دو الگ الگ شعبے ہیں۔ اگر دعوت عام اور اصلاح امت ، دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے تو دونوں میں سے کسی کا بھی تقاضا پورا نہیںہوگا۔ جس طرح صلاۃ اور زکاۃ دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے تو نہ صلاۃ کا تقاضا پورا ہوگا اور نہ زکاۃ کا۔
اصلاح امت دراصل امت کی ایک داخلی ضرورت ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، امت کے اندر ہمیشہ زوال کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ امت کی ہر نسل میں احیاء (revival) کا عمل جاری رہے، امت کی ہر نسل میں دین کی اسپرٹ کو دوبارہ زندہ کیا جاتا رہے۔ یہ امت کے علماء کا ایک مستقل فریضہ ہے۔ لومۃ لائم (المائدہ54)کا اندیشہ کیے بغیر اس فریضے کو مسلسل طور پر جاری رکھنا ضروری ہے۔
دعوت الی اللہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں انذار و تبشیر (النساء165) کہا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر قوم اور ہر انسانی گروہ کو مسلسل طور پر یہ بتانا کہ ان کے پیدا کرنے والے نے ان کو کس لیے پیدا کیا ہے۔ خالق کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ ابدی کامیابی کیا ہے، اور ابدی خسران کیا ہے ۔ یہ دین کی عمومی پیغام رسانی کا کام ہے۔
دعوت کے دو خاص تقاضا ہیں۔ اس کو قرآن میں ناصح اور امین (الاعراف68) کے الفاظ میں بیا ن کیا گیا ہے۔ یعنی مدعو کے ساتھ کامل خیر خواہی اور دعوت کے معاملے میں پوری دیانت داری۔ اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ دعوت کو مدعو کی قابلِ فہم زبان میں بیان کیا جائے۔ دعوت کو ایسے اسلوب میں بیان کیا جائے جو مدعو کے ذہن کو ایڈریس کرے۔ دعوت محض اعلان (announcement) کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ مدعو کے ساتھ کامل رعایت کا نام ہے۔ داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ یک طرفہ حسنِ تعلق کی روش اختیار کرے۔ تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان اعتدال کی فضا باقی رہے۔
واپس اوپر جائیں

پیغامِ کشمیر

مسٹر حمید اللہ حمید، اور ان کے ساتھیوں کی کوشش سے جو کشمیر میں انٹرنیشنل پیس سینٹر بنا ہے، اس کے افتتاحی پروگرام کے تحت آپ لوگ یہاں اکٹھا ہوئے ہیں۔ میں آپ لوگوں کے لیے اور آپ کے مشن کے لیے دعا کرتا ہوں۔ اللہ آپ کو کامیابی عطا فرمائے۔
مسلمانوں کا مشن یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کا پیغام پہنچائیں۔ اس اعتبار سے کشمیر کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کیوں کہ کشمیر کی حیثیت ایک ٹورسٹ اسٹیٹ کی ہے۔ یہاں مسلمانوں کے ساتھ بڑی تعداد میں دوسری قوموں کے لوگ موجود ہیں۔ ہر دن بڑی تعداد میں ٹورسٹ یہاں آتے ہیں۔ یہ سب لوگ آپ کے لیے ایک ذمہ داری ہیں۔ آپ کو یہ کرنا ہے کہ ان سب لوگوں کو اللہ کا پیغام کسی ملاوٹ کے بغیرپہنچائیں۔
آپ میں سے ہر شخص اپنے اندر انسان فرینڈلی بیہیویر (human-friendly behaviour) پیدا کرے۔ انسانوں کی خیر خواہی کے بغیر دعوت کا کام انجام نہیں دیاجا سکتا۔میں آپ کو دعوت کے لیے ایک ٹو پوائنٹ فارمولا (two-point formula) دیتا ہوں۔ آ پ کو یہ کرنا ہے کہ غیر مسلموں کے لیے اسلام کو ان کی ڈسکوری بنائیں، اور مسلمانوں کے لیے اسلام کو ان کی ری ڈسکوری بنائیں۔کیوں کہ غیر مسلم اگر اسلام سے بے خبر ہیں تو مسلمان اسلام کے معاملے میں غافل ہو گیے ہیں۔
کشمیر کو سیب کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ سیب کی تاریخ یاد دلاتی ہے کہ کس طرح نیوٹن نے سیب کے گرنے کو لے کر نیچر کا ایک قانون دریافت کیا۔ سیب کا واقعہ اہل کشمیر کو یاد دلاتا ہے کہ وہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کریں کہ وہ سیب کے خالق کو دریافت کریں، اور اس کے پیغام کو ساری دنیا میں پھیلادیں۔کشمیر کے لوگ امیر کبیر شاہ ہمدان کو اپنا بڑا مانتے ہیں۔ امیر کبیر نے کشمیر میں دعوت کے کام کا آغاز کیا تھا۔ اب کشمیریوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ دعوت کے کام کو اس کے اتمام (culmination) تک پہنچائیں۔
واپس اوپر جائیں

حق کی پکار

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت حق کی ذمہ داری سونپی گئی تو آپ نے مکہ کے باشندوں کو صفا پہاڑی کے پاس جمع کیا اور فرمایا کہ اے لوگو، جس طرح تم سوتے ہو اسی طرح تم مروگے۔ اور جس طرح تم جاگتےہو اسی طرح تم دوبارہ اٹھائے جاؤگے۔ اس کے بعد یا تو ابدی جنت ہے یا ابدی جہنم۔ یہ سن کر ابو لہب نے کہا، تمھارا برا ہو، کیا تم نے ہم کو اسی لئے بلایا تھا (تبا لک، ما جمعتنا إلا لہذا)۔ صحیح البخاری، حدیث نمبر 4971۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ کے سردار بن کر مدینہ میں داخل ہوئے تو اس وقت بھی آپ نے اسی قسم کی تقریر فرمائی۔ اس وقت بھی آپ کے پاس کہنے کی جو سب سے بڑی بات تھی وہ یہ تھی کہ اے لوگو، اپنے آپ کو آگ کے عذاب سے بچاؤ، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ کیوں نہ ہو (اتقوا النار ولو بشق تمرة)۔ صحیح البخاری، حدیث نمبر 1417۔
اسلامی مرکز کا مقصد اسی پیغمبرانہ دعوت کو زندہ کرنا ہے۔ لوگ مسائل زندگی کے لئے اٹھتےہیں۔ ہم مسائل موت کے لئےاٹھے ہیں۔ کیا کوئی ہے جو اس مشن میں ہمارا ساتھ دے۔ لوگوں کو جنگ اور فساد کے شعلے دکھائی دیتےہیں۔ کیا کوئی ہے جس کو جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلے دکھائی دیتےہوں تاکہ وہ ہمارا ساتھ دے کر دنیا والوں کو جہنم کے شعلوں سے ڈرائے۔لوگوں کو شہروں کی رونقیں دکھائی دیتی ہیں۔ ہم ان انسانوں کی تلاش میں نکلے ہیں جن کو قبرستان کے ویرانے دکھائی دیں۔ ایسے انسانوں سے دنیا پٹی ہوئی ہے جن کو یہ محرومی بیتاب کئےہوئے ہے کہ ان کو کسی ادارہ میں داخلہ نہیں ملا۔ ہم کو وہ انسان درکار ہیں جن کو یہ غم بدحواس کردے کہ کہیں وہ جنت کے داخلہ سے محروم نہ ہوجائیں۔ لوگ دنیا کی بربادی کا ماتم کررہے ہیں۔ ہم ان انسانوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو آخرت کی بربادی کے اندیشے میں دیوانے ہوچکےہوں۔خداکی دنیا میں آج سب کچھ ہو رہا ہے ۔ مگر وہی ایک کام نہیں ہو رہا ہے جو خدا کو سب سے زیادہ مطلوب ہے۔ یعنی آنے والے ہولناک دن سے لوگوں کو آگاہ کرنا۔ اگر انسان اس پکار کے لئے نہ اٹھیں تو اسرافیل کا صور اسے پکارے گا۔ مگر آہ، وہ وقت جاگنے کا نہیں ہوگا۔ وہ ہلاکت کا اعلان ہوگا نہ کہ آگاہی کا الارم۔(الرسالہ، جنوری 1984)
واپس اوپر جائیں

موت کی یاد

موت کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: أکثروا ذکر ہادم اللذات، یعنی الموت (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4258)یعنی موت کو یاد کرو جو لذتوں کو ڈھادینے والی ہے۔ موت ایک قسم کا شخصی زلزلہ ہے۔ جس طرح زلزلے کے مقابلے میں آدمی کو کوئی اختیار نہیں ہوتا، اسی طرح موت ایک ایسا یک طرفہ حملہ ہے جس کے مقابلے میں انسان کو مطلق کوئی اختیار نہیں ۔ موت خود اپنے فیصلے کے تحت آتی ہے ، آدمی کو لازماً اس کو اختیار کرنا پڑتا ہے، خواہ وہ اس کو چاہے یا نہ چاہے۔
سروے کے مطابق، آدمی کی اوسط عمر تقریباً ستر سال ہے۔ مزید یہ کہ کسی انسان کو یہ نہیں معلوم کہ کب اس کا آخری وقت آجائے گا۔ یہ احساس آدمی کے لیے ہر دنیوی لذت کو بے لذت بنا دیتا ہے۔ مال، سیاسی اقتدار، شہرت، وغیرہ ہرچیز اس کو بے معنی معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس کی زندگی ایک ایسے انتظار کے ہم معنی بن جاتی ہے جس کے متعلق اس کو کچھ بھی نہیں معلوم کہ اس کا انتظار کس حد پر جا کر ختم ہوگا، وہ آج کہاں ہے اور کل وہ کس مقام پر ہوگا۔
یہ معاملہ معروف لذتوں تک محدود نہیں رہتا۔ بلکہ وہ ہر لذت تک پہنچ جاتا ہے۔ مثلا انسان کا یہ مزاج ہے کہ اگر اس کو کسی سے اختلاف پیدا ہوجائے تووہ اس کی کردار کشی (character assassination) کر کے خوش ہوتا ہے۔ اس کی تصویر (image)کو بگاڑنا اس کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ برے انداز میں اس کا چرچا کرنا اس کو اچھا معلوم ہونے لگتا ہے، خواہ اس کی بات اپنی حقیقت کے اعتبار سے بے بنیاد کیوں نہ ہو۔ یہ سب اسی لیے ہوتا ہے کہ وہ موت سے غافل ہے۔ اگر اس کو موت کا زندہ یقین ہو تو وہ اس قسم کی منفی باتوں سے رک جائے گا۔ کیوں کہ وہ سوچے گا کہ موت آتے ہی اس کی منفی باتیں اتنا زیادہ بے وزن ہوجائیں گی کہ کوئی اس کو سننے والا بھی نہ ہوگا۔ حتی کہ اس کے اپنے الفاظ بھی اس کا اپنا ساتھ چھوڑ دیں گے۔
واپس اوپر جائیں

دنیا اور آخرت

انسان موجودہ دنیا میں پیدا ہوتاہے۔ یہاں وہ اپنے صبح وشام گزارتا ہے۔ مختلف تجربات کے دوران یہاں اس کی زندگی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ان تجربات کے ذریعہ شعوری یا غیر شعوری طورپر انسان کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ یہی موجودہ دنیا حقیقی دنیا (real world) ہے۔ اس کے مقابلہ میں اس کو محسوس ہوتاہے کہ آخرت کی دنیا تصوراتی دنیا(imaginary world) ہے۔دونوں دنیاؤں کے درمیان بظاہر اس فرق کی بنا پر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا تفکیری عمل (thinking process) موجودہ دنیا کی سطح پر جاری ہوجاتاہے۔ اس کی سوچ اور اس کی منصوبہ بندی میں عملاً آخرت کا کوئی مقام باقی نہیں رہتا۔
یہ انسان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وسیع تر انجام کے اعتبار سے صحیح یہ ہے کہ انسان کے اندر آخرت رخی سوچ (Akhirat-oriented thinking)بنے، نہ کہ دنیا رخی سوچ۔انسان کو اس معاملہ میں بے راہ روی سے بچانے کے لئے فطرت نے یہ انتظام کیا ہے کہ موجودہ دنیا کو مسائل کی دنیا (دار الکبد) بنا دیا۔ یہ مسائل انسان کے لئے اسپیڈ بریکر (speed breaker) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ مسائل اس لئے ہیں کہ انسان موجودہ دنیا کو حقیقی دنیا نہ سمجھے بلکہ آخرت کے اعتبار سےاپنی زندگی کی تعمیر کرے۔نفسیات کے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ انسان کی امتیازی صفت یہ ہے کہ اس کے اندر تصوراتی فکر (conceptual thinking) پائی جاتی ہے۔ یہی وہ صفت ہے جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے۔ یہ تخلیقی صفت بتاتی ہے کہ انسان سے کیا مطلوب ہے۔ وہ مطلوب یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کا مقصد تصوراتی فکر کے ذریعے بنائے۔
موجودہ دنیا ایک دکھائی دینے والی دنیا ہے۔ اس کے مقابلے میں آخرت ایک نہ دکھائی دینے والی دنیا۔ اس واقعہ کے مطابق، یہ عین درست بات ہے کہ انسان موجودہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کی دنیا کو اپنا مقصود بنائے۔ انسان تصوراتی فکر کی صفت رکھتا ہے، اس لیے اس کی زندگی کا مقصد بھی تصوراتی اعتبار سے قابلِ دریافت ہونا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

ڈرو اس سے جو وقت ہےآنے والا

دنیا کی زندگی امتحان (test) کی زندگی ہے۔ یہاں کوئی بھی قانون یا کوئی بھی عدالت انسان کو مجبور نہیں کر سکتی کہ وہ ہمیشہ درست رویہ پر قائم رہے۔ انسان کو درست رویہ پر قائم کرنے والی چیز صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ آدمی کے دل میں یہ احساس بیٹھ جائے کہ وہ کسی بھی حال میں اللہ رب العالمین کی پکڑ سے بچنے والا نہیں ہے۔ اللہ رب العالمین کے مقابلے میں اس کے پا س چھپنے کی کوئی جگہ نہیں۔ اس کے پاس کوئی بھی ایسی تدبیر نہیں جو اس کے اور اللہ رب العالمین کے درمیان پردہ بن جائے۔ وہ اللہ رب العالمین کے مقابلےمیں مکمل طور پر بے بس ہے۔
یہ سوچ اگر حقیقی معنوں میں کسی انسان کے اندر پیدا ہوجائے تو اس کی پوری شخصیت کے اندر ایک انقلاب آجائے گا۔ اس کی روز و شب کی سرگرمیاں بدل جائیں گی، اس کی سوچ کا انداز بدل جائے گا، اس کا زاویۂ نظر بدل جائے گا، اس کے رائے قائم کرنے کا انداز بدل جائے گا، خیر و شر کے بارے میں اس کا تصور بدل جائے گا، اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی بن جائے گی، اس کی پوری سوچ پر آخرت کی جوابدہی کا تصور چھاجائے گا، وغیرہ۔
اس انقلاب کو قرآن و سنت میں تزکیہ کہا گیا ہے۔ اس مبنی بر تزکیہ سوچ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے اندر ایک نئی شخصیت بننا شروع ہوجائے گی، ایک ایسی شخصیت جس کے اندر اللہ سے محبت ہو، اللہ سے خوف ہو۔ موت سے قبل کی دنیا کے بجائے موت کے بعد کی دنیا کی تعمیر اس کا سب سے بڑا کنسرن بن جائے گا۔ اس سوچ کا سب سے بڑا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے اندر سے فکری جمود (intellectual stagnation) کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس کے بجائے اس کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) بیدار ہوجائے گی۔ اس کی ہر صبح نئی صبح ہوگی، اس کا ہر دن نیا دن ہوگا۔ پوری کائنات اس کے لیے فکری غذا بن جائے گی۔ اس کو ایسا محسوس ہوگا، جیسے کہ اس کو فرشتوں کی صحبت حاصل ہوگئی ہے۔
واپس اوپر جائیں

کلام کا فتنہ

تجربہ بتاتا ہے کہ کچھ لوگ بظاہر حکمت کی بات کہتے ہیں، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ان کی بات ایک غیر حکیمانہ بات ہوتی ہے۔ایسے لوگ بے حد خطرناک ہوتے ہیں۔وہ خوبصورت الفاظ میں ایک ایسی بات کہتے ہیں جو بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ غلط ہوتی ہے۔جو لوگ تجزیہ کی صلاحیت نہیں رکھتے، وہ ایسےلوگوں کی باتوں کو سن کر غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مجھے ایک بار ایک سیمینار میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں مختلف مذاہب کے لوگ بلائے گیے تھے۔ مجھے اسلام پر بولنا تھا۔ مجمع کی رعایت سے میں نے اسلام کی بعض تعلیمات کا ذکر کیا۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان وہاں موجود تھے۔ان کا نظریہ تھا کہ ’’اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات‘‘ ہے۔ پروگرام کے بعد انھوں نے میری تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: آ پ نے اسلام کواس کی ٹوٹیلیٹی (totality) میں پیش نہیں کیا۔
میں نے کہا کہ اسلام ایک دعوتی مشن ہے۔ دعوتی کلام میں بات کو ٹوٹیلیٹی (totality) کے اسلوب میں پیش نہیں کیا جاتا، بلکہ ہمیشہ اس کو سامع (audience) کی نسبت سے پیش کیا جاتا ہے۔ داعی کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے اسلوب میں کلام کرے جو سامع کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔قرآن میں اس اسلوب کو کلمہ ٔسوا(آل عمران: 64) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
گفتگو کا معیار یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی بات کو خوبصورت الفاظ میں بیان کردے۔ گفتگو کا معیار یہ ہے کہ آدمی جو بات کہے،وہ تجزیہ (rational analysis)کے معیار پر درست ثابت ہو۔ خوبصورت الفاظ اکثر دھوکے میں ڈالنے والے ہوتے ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ خوبصورت الفاظ میں کی گئی تقریر اور تحریر کو صرف سن کر یا پڑھ کر نہ مان لے، بلکہ وہ اس پر غور کرے۔وہ اس کو ہر پہلو سے جانچے۔اہل علم سے اس پر تبادلۂ خیال (discussion) کرے۔ اس کے بعد وہ اس کے بارے میں اپنی رائے بنائے۔
واپس اوپر جائیں

دینی مدارس

ایک صاحب جو خود دینی مدرسہ کے تعلیم یافتہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ دینی مدارس میں علم نبوت تو ہے، مگر وہاں نور نبوت نہیں ۔ میں نے کہا کہ کوئی دینی مدرسہ آپ کو صرف علم دین دے سکتا ہے۔ وہ چیز جس کو آپ نورِ نبوت کہتے ہیں، وہ معرفت کی چیز ہے۔ اور معرفت ایک ایسا علم ہے جو خود اپنی دریافت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ کوئی نصاب یا کوئی دینی ادارہ آپ کو معرفت نہیں دے سکتا۔
میں نے کہا کہ موجودہ دینی مدارس کی اصل کمی وہ نہیں ہے جو آپ سمجھتے ہیں۔ بلکہ اصل کمی یہ ہے کہ ان مدارس میں کھلا پن (openness) موجود نہیں ہے۔ اس بنا پر طلبہ کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) اور معرفت یا آپ کے الفاظ میں نورِ نبوت پیدا نہیں ہوتی۔ معرفت تخلیقی فکر کا نتیجہ ہے۔ بند ماحول میں کبھی وہ چیز نہیں پیدا ہوسکتی جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔
مدرسے کے نصاب کے ذریعے ایک طالب علم متون (texts) کو پڑھتا ہے۔ مگر کھلاپن (openness) طالب علم کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ نصاب کی کتابوں کے باہر جو علمی ذخیرہ ہے، اس سے بھی فائدہ اٹھائے۔ وہ اپنے اندر علمی گہرائی پیدا کرے۔ وہ وسعت نظر کا حامل بنے۔ وہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرے کہ مدرسے کی حدود سے باہر جو وسیع تر دنیا ہے، اس سے واقفیت حاصل کرے۔ وہ کتابوں کے دائرے سے باہر انسانوں کے دائرے میں داخل ہوجائے۔
یہ ضروری ہے کہ طالب علم اپنے موضوع کے متون سے واقف ہو۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور بڑی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ طالب علم اپنے زمانے کو جانے۔وہ زندگی کے وسیع تر دائرے سے باخبر ہو۔ یہ چیز صرف خارجی مطالعہ سے حاصل ہوسکتی ہے۔ خارجی مطالعہ سے مراد صرف کتابی مطالعہ نہیں ہے، بلکہ دیگر اہل علم سے تبادلۂ خیال کے ذریعے اپنے ذہنی افق کو وسیع کرنا بھی اس میں شامل ہے۔یعنی دینی موضوعات کے علاوہ سیکولر موضوعات سے بقدر ضرورت آشنا ہونا۔
واپس اوپر جائیں

اینگر انرجی کا استعمال

ایک صاحب نے کہا کہ میں بنیادی طور پر ایک امن پسند انسان ہوں۔ لیکن مجھ کو لوگوں کی غلط باتوں پر سخت غصہ آجاتا ہے۔ اس وقت میں مشتعل ہو کر ایسی باتیں کرنے لگتا ہوں جو میرے عام مزاج کے خلاف ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں اپنی اس عادت پر کس طرح قابو پاؤں۔
میں نے کہا کہ جو آدمی آپ کو مشتعل کرتا ہے، یا آپ کو غصہ دلاتا ہے، وہ آپ کا محسن (benefactor) ہے۔ کیوں کہ جب کوئی شخص آپ کو غصہ دلاتا ہے اور آپ غصہ ہوجاتے ہیں۔ اس وقت آپ کا مائنڈ طاقت ور انرجی ریلیز کرتا ہے۔ اس کومیں اینگر انرجی (anger energy)کہتا ہوں۔غصہ کے علاوہ کسی اور سبب سے یہ انرجی ریلیز نہیں ہوتی۔ غصہ کے وقت آپ کے اندر ایک نئی طاقت جاگ اٹھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اینگر انرجی کے وقت آدمی جتنا اسٹرانگ ہوجا تا ہے، اتنا اسٹرانگ وہ کبھی کسی تجربے کے وقت نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو اینگر انرجی آپ کا بہت بڑا اثاثہ ہے۔ عام طور پر لوگ اینگر انرجی کو منفی معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اگر اینگر انرجی کو تعمیر کے مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو اینگر انرجی کی طاقت سے آپ ایک ایسا کام کرسکتے ہیں، جو آپ اِس کے بغیر نہیں کرسکتے تھے۔
آدمی کے اندر جب اینگر انرجی بھڑکتی ہے تو وہ کچھ دیر کے لیے مین نہیں رہتا بلکہ سوپر مین بن جاتا ہے۔ اس کے اندر ایک نئی طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے اندر ایک نیا عزم (determination) جاگ اٹھتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ نئی طاقت کے ساتھ اپنا کام کرسکے۔ اینگر کا لمحہ آدمی کے اندر چھپی ہوئی بالقوہ (potential)طاقت کو بالفعل (actual) طاقت میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو غصہ زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کا مصداق ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی غصہ کے وقت اپنے آپ کو بھڑکنے سے بچائے، وہ اپنے آپ کو اعتدال کی حالت پر قائم رکھے۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
جناب مولانا صاحب یہ میرا تیسرا خط ہے۔ میں نے پچھلے خطوط میں آپ سے عرض کیا تھا کہ میرے واسطے دعا فرمائیں کہ میری دعا خدائے تعالی کے دربار میں قبول ہو۔
میری دعا سو فیصد فطری اور ہر طرح سے واجب اور قابلِ قبول ہے۔ اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ میرے واسطے آپ خدا کے دربار میں دعا گو ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی دعا سے میری سب مشکلات دور ہوں گی۔ میری یہ دعا اِسی دنیا میں قبول ہو اور آخرت کے لئے اس کو نہ رکھا جائے۔ میں دنیا میں ہی اس کا ثمرہ دیکھنا چاہتا ہوں۔
آپ خدا تعالی سے دعا فرمائیں کہ وہ میری مدد کرے اور جلد از جلد میرے سامنے نتیجے ظاہر ہوں۔ میں ہمیشہ آپ کا شکر گزار رہوں گا اور دعا قبول ہونے کی صورت میں دین کی ہر تعلیم پر عمل کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔( عمر رفیق، سری نگر)
جواب
آپ کی یہ دعا آدابِ دعا کے مطابق نہیں۔ دعا حقیقتاً ایک شخصی عمل ہے۔ یہ تصوردرست نہیں کہ آدمی کسی اور سے اپنے لیے دعا کرنے کے لیے کہے۔ اسلام میں دعا کرنا ہے، اسلام میںدعا کروانا نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دعا کو مشروط دعا نہیں ہونا چاہیے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اللہ سے یہ کہے کہ خدایا، میرے یہ مسائل ہیں، تو میرے لیے وہ فیصلہ فرماجس میں میری دنیا اور آخرت کے لیے خیر ہو۔
انتظار بھی حل ہے
مختلف زبانوں میں جو مثلیں مشہور ہیں وہ دراصل لمبے انسانی تجربات کے بعد بنی ہیں ۔ ان میں سے ہر مثل کامیابی کا ایک یقینی فارمولہ ہے اس طرح کی ایک انگریزی کہاوت یہ ہے-انتظار کرو اور دیکھو:
Wait and see
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 244

1۔ 4 مئی 2016 کو ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ، حیدرآبادمیں اسلامک سمر کیمپ کا افتتاح کیا گیا۔ اس موقع پر حیدرآباد ٹیم کے مولانا فیاض الدین عمری اور مولانا عبدالسلام عمری کو افتتاحی جلسہ میں تلاوت قرآن اور تلاوت کی ہوئی آیتوں کے ترجمہ و تشریح کے لیےمدعو کیا گیا تھا۔ ان دونوں نے مذکورہ پروگرام میں شرکت کی اورسامعین کو قرآن کی تلاوت اور اس کا پیغام سنایا۔
2۔ 9مئی 2016 کو ناگپور و کامٹی الرسالہ مشن ٹیم کے ممبران محمد عرفان رشیدی صاحب اور ساجد احمد خان صاحب نے وروڑ، ضلع امراوتی کا دورہ کیا ۔ شہر کی جامع مسجد میں الرسالہ قارئین سے ملاقات ہوئی – اس پروگرام میں تقریباً 15 افراد جمع ہوئے جس میں مفتی زاہد خان صاحب سابق ہیڈ ماسٹر، سید میر رستم صاحب سابق پرنسپل اوروروڑ مسلم لائبریری کے ممبران کے علاوہ شہر کے دیگر ذمہ دار افراد نے بھی شرکت کی ۔ میٹنگ میں دعوت الی اللہ کی اہمیت اور اس کام کو کس طرح انجام دیا جائے اس موضوع پر بات ہوئی ۔ اس موقع پر مولانا وحید الدین خان صاحب کا ناگپور ٹیم کے نام ریکارڈیڈ پیغام بھی سنا یا گیا ۔ وروڑ کے ساتھیوں کو انگریزی، مراٹھی، ہندی قرآن اور دعوہ لٹریچر بھی دیے گئے ۔ لوگوں نے اسے خوشی سے قبول کیا اور دعوہ ورک کرنے کا عزم کیا ۔
3۔ الرسالہ مشن سے وابستہ ڈاکٹر سفینہ تبسم بہت دنوں سے اجمیر میں دعوتی کام کررہی ہیں۔ وہ درگاہ خواجہ معین الدین چشتی، مقامی ہسپتال، اور سی آر پی ایف کیمپ وغیرہ مقامات پر قرآن تقسیم کرتی ہیں۔ 11 مئی 2016 کو انھوں نے اپنے والد ڈاکٹر اسلم (سی پی ایس سہارنپور)کے ساتھ مل کر اجمیر کے مشہور ہسپتال، متل ہاسپٹل کے سرجن اور دیگر ڈاکٹروں کوہندی اور انگریزی ترجمہ قرآن اور دی ایج آف پیس پیش کیا۔ تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ اس کو قبول کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر سمن، اور مسٹر مشاہد بھی موجود تھے۔
4۔ 14-16 مئی 2016 کے درمیان کشمیر کے بارہ مولا میں کک باکسنگ چمپین شپ کا انعقاد کیا گیا ۔ یہ پروگرام انڈین آرمی کے گڈویل پروگرام کے تحت منعقد کیا گیا تھا۔ اس موقع پر کشمیر کی دعوہ ٹیم نے پروگرام میں موجود لوگوں کے درمیان ترجمہ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا ۔ جن لوگوں نے قرآن لیا ان میں کرنل این ایس بیولی (N S Bevli)، کمانڈنگ آفیسر اور سکریٹری آرمی گڈویل اسکول، تنگمارگ بھی شامل ہیں۔
5۔ ترکی سے ملی خبروں کے مطابق، ترکی کی سب سے بڑی مسجد سلیمانیہ میں گڈورڈ بکس کا چھپا ہوا ترجمہ قرآن بڑی تعداد میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس مسجد میں ایک دن کے اندر تقریبا دس ہزار سیاح آتے ہیں، جن کے درمیان مسجد میں موجود دعوہ سینٹر دعوہ لٹریچر تقسیم کرتا ہے۔
6۔ خواجہ کلیم الدین صاحب امریکا کی خبر کے مطابق، صدر اسلامی مرکز کی کتاب، قیامت کا الارم کا پرتگیزی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اس وقت نظر ثانی کا کام چل رہا ہے۔
7۔ کشمیر ٹیم جگہ جگہ دعوتی کام کر رہی ہے۔ مثلا 4 مئی کو ایک ٹیم نے مشہور ٹورسٹ ریزورٹ گلمرگ میں سیاحوں کے درمیان ترجمہ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔
8 ۔مسٹر حمید اللہ حمید کی سربراہی میں کشمیر ٹیم نے بیروہ میں ایک دعوہ سینٹر قائم کیا ہے۔ اس سینٹر کا افتتاحی جلسہ 5 جون 2016 کو کیا گیا، جس میں کشمیر کے دعاۃ شریک ہوئے۔ دہلی ٹیم کی طرف سے مسٹر رجت ملہوترا اور مز نغمہ صدیقی نے پروگرام میں حصہ لیا۔ اس جلسہ میں صدر اسلامی مرکز کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔ یہ پیغام اس شمارہ میں شامل ہے۔ ذیل میں مبارک باد کا ایک اور پیغام درج کیا جارہا ہے:
Dear Friend Hamidullah Hamid, Heartiest congratulations and best wishes to you and your entire team on the occasion of the inauguration of International Centre for Peace at Apna Ghar, Beerwa on 5 June 2016. The Centre is dedicated for the development of peace and spirituality. (Pramil Kr Bharat, National Convener, Tyagarchana Shanti Mission(
9۔ فیس بک اور دیگر ویب سائٹس پر موجود صدر اسلامی مرکز کی تقاریر اور آرٹیکلس وغیرہ ، پڑھنے کے بعد قارئین اپنے تاثر کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ذیل میں ان میں سے کچھ نقل کیے جاتے ہیں:
l •••• ••آپ کی باتیںبڑی حوصلہ افزا ، حقیقت پر مبنی اور پر امید ہیں۔ اس ناامیدی کے دور میں ایسی فضا قائم کرنا از حد ضروری ہے۔اللہ خوب جزا دے۔(حمزہ نعمانی، سعودی عرب)
l •جنوری 2016 کا الرسالہ بہت عمدہ ہے، اور داعی کی تربیت کے لیے ایک انمول خزانہ ہے۔ میرے خیال میں اسلامی مشن کے ہر ایک داعی کو اپنے اندر وہ تمام اوصاف ڈیولپ کرنےہوں گے جن کا آپ نے تذکرہ کیا ہے۔بہت بہت شکریہ۔ اللہ تعالی آپ کو دنیا و آخرت میں عظیم بھلائی عطا فرمائے۔ (طاہر سعید، پنجاب، پاکستان)
l اللہ اکبر، اتنی خوبصورتی، ایک چیز کو سمجھانے میں آج تک نہیں دیکھی۔ (عمران خان، اسلام آباد)
l میں الرسالہ کو پچیس سال سےپڑھتا ہوں۔بہت اچھا اور ایک نئی سوچ و فکر کا یہ ماہنامہ ہے۔ ملت اسلامیہ کو صبر و تحمل سے کام لینے کی دعوت دیتا ہے۔ اس میگزین کو اپنے مطالعہ میں ضرور رکھنا چاہیے۔ (مولانا اظہار حسن ندوی، مقیم حال قطر)۔
l I am a great admirer of Maulana Wahiduddin (b. 1925). Although he had a Muslim religious education, he was always secular, and preached brotherhood between all communities. He is truly a great man. I have met him on a few occasions. In 1992, when the atmosphere was highly charged throughout India due to the Babri Mosque incident, he felt the necessity to convince people of the need to restore peace and amity between the two communities, so that the country might once again tread the path of peace. To fulfill this end, he went on a 15-day Shanti Yatra (peace march) through Maharashtra along with Acharya Muni Sushil Kumar and Swami Chidanand, addressing large groups of people at 35 different places on the way from Mumbai to Nagpur. This Shanti Yatra contributed greatly to the return of peace in the country. It is because of his advocacy of peace on the subcontinent and throughout the world and his espousal of the cause of communal harmony that he is respected by all communities and in every circle of society. Invited to meetings by all religious groups and communities within India and abroad, Maulana Wahiduddin Khan is, in effect, India’s ambassador of communal amity, spreading the universal message of peace, love and harmony. Directly addressing individuals, he has been re-engineering minds in order to develop positive citizens of the world – who can live together peacefully – so that the culture of peace and brotherhood may spread at a universal level. Over decades, he has prepared
واپس اوپر جائیں