Pages

Wednesday, 1 February 2017

Alrisala February 2017 (الرسالہ فروری)

1

-استقامت کیاہے

2

- ایک سنتِّ رسول

3

- پیغمبر کا نمونہ

4

- امت کا دورِ زوال

5

- والرُجز فاھجر

6

- تاریخ کا سفر

7

- قرآن فہمی

8

- قرآن و سنت کے عجائب

9

- تکرار کی حقیقت

10

- تخلیقی ایمان

11

- اتمام نور

12

- آدم سے مسیح تک

13

- قرآن، کتاب ہدایت

14

- قرآن کا اسلوب

15

- عافیت کی دعا

16

- سزائے قتل

17

- خدا سے ہم کلامی

18

- موقع ومحل کی اہمیت

19

- سکنڈری چوائس

20

- امیج کا مسئلہ

21

- ذہنی تربیت

22

- عدم اطمینان

23

- ایک اجتماعی مسئلہ

24

- غصہ کیوں آتاہے

25

- سوال و جواب

26

- خبر نامہ اسلامی مرکز


استقامت کیاہے

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:قل ربی اللہ ثم استقم (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2410)۔ یعنی کہو کہ اللہ میرا رب ہے اور اس پر جم جاؤ۔ استقامت کا مطلب ہے جم جانا (to stick) ۔ اس کا مطلب ہے ہر حال میں ربانی روش پر قائم رہنا کسی حال میں اپنے قول سے نہ ہٹنا۔ اللہ کو اس طرح رب بنانا کہ وہی انسان کا اصل کنسرن بن جائے۔اصل یہ ہے کہ اللہ کو رب بنانے کی دو صورتیں ہیں۔ایک یہ کہ زبان سے یہ کہہ دینا کہ میںنے اللہ کو اپنا رب بنایا۔ اس کے بعد اس طرح زندگی گزارنا کہ آدمی کا عمل الگ ہو اور اس کا زبانی اقرار الگ۔ ایسے آدمی کا ایمان اللہ کے یہاں معتبر نہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اس طرح اپنا رب بنائے کہ وہی اس کی زندگی کا مشن بن جائے۔ وہ اس کے مطابق سوچے۔ اس کے صبح وشام اس کے مطابق گزریں۔ وہ اسی کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔ وہ اسی کا عامل اور اس کا داعی بن جائے۔ وہ اپنے آپ کو پوری طرح اس میں شامل (involve) کردے۔ یہی دوسری قسم کا انسان وہ ہے کہ جو اللہ کو اپنا رب بنانے کے بعد اس پر قائم ہوجائے۔
استقامت ایک فطری حقیقت ہے۔ ہر انسان اپنی دنیا کے معاملے میں استقامت کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ دنیا میں جو شخص اپنے معاملے میں استقامت کا طریقہ اختیار کرے، وہ کامیاب ہوتا ہے۔ اور جو شخص دنیا میں استقامت کا طریقہ اختیار نہ کرے، وہ ناکام ہوکر رہ جاتا ہے۔
استقامت کا یہی طریقہ آخرت کے معاملے میں بھی مومن کو اختیار کرنا ہے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے ایمانی شعور کو اتنا زیادہ بیدار کرےکہ اس کے ایمان کے ساتھ استقامت کا پہلو شامل ہوجائے۔ ایمان اگر شعوری اقرار ہے تو استقامت ایک شعوری عمل ہے۔ ایمان اور استقامت ، دونوں کے لیے شعوری بیداری لازمی طور پر ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک سنتِّ رسول

سن چھ ہجری میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم فریق مخالف سے امن کا معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ طویل گفت و شنید کے بعد جب معاہدے کی دفعات طے ہوگئیں، اور اس کو کاغذ پرلکھا جانےلگا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کو لکھواتے ہوئے کہا: اکتب یا علی، ہذا ما صالح علیہ محمد رسول اللہ ۔
فریق ثانی کے لیڈر نے فوراً اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو رسول اللہ نہیں مانتے۔ آپ محمد رسول اللہ کے بجائے محمد بن عبد اللہ لکھیے، جو کہ ہمارے اور آپ کے درمیان مشترک ہے۔آپ نے بلابحث کہا: امح یا علی، اللہم إنک تعلم أنی رسولک،امح یا علی واکتب، ہذا ما صالح علیہ محمد بن عبد اللہ(مسند احمد، حدیث نمبر3187)۔یعنی اے علی، اس کو مٹادو۔ اے اللہ ، تو جانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں۔ اے علی، مٹادو اور لکھو، یہ وہ (دفعات) ہیں جن پر محمد بن عبد اللہ نے صلح کیا۔ اس کے بعد صلح کا معاہدہ طے پاگیا۔ اور آپ اپنے اصحاب کے ہمراہ مدینہ واپس آگیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معاملہ بلاشبہ اللہ کی رہنمائی کے مطابق تھا۔ اللہ کی رہنمائی کے بغیر آپ ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ سورہ الفتح میں اس کی بابت یہ الفاظ آئے ہیں: وَیَہْدِیَکَ صراطًا مُسْتَقِیمًا (48:2)۔ آپ کا یہ عمل بلاشبہ صراطِ مستقیم کا ایک جزء تھا۔ اس لحاظ سے یہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک ابدی اصول ہے۔ جس طرح دور اول میں اس اصول کو اختیار کرنے کے نیتجے میں فتح مبین (الفتح1:) حاصل ہوئی۔ اسی طرح بعد کے زمانے میں بھی فتح مبین کو حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا طریقہ مسلمانوں کو فتح مبین تک پہنچانے والا نہیں۔
منصوبہ بندی کایہ طریقہ ہمیشہ دنیا میں باقی رہتا ہے۔ مثلا موجودہ زمانے میں اہل ایمان یہ چاہتے ہیں کہ ان کو یہ آزادی ہو کہ وہ قرآن کا پیغام ساری دنیا میں کھلے طور پر پہنچائیں۔ لیکن بار بار ایک رکاوٹ پیش آتی ہے۔ وہ یہ کہ آج کا انسان ، اظہار رائے کی آزادی (freedom of expression) کو انسان کا ایک مطلق حق (absolute right)سمجھتا ہے، اور اس کو وہ استعمال کرنا چاہتا ہے۔ حق کے اس استعمال کا دائرہ کبھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ پیغمبر اسلام کے بارے میں آزادانہ اظہارِ خیال کرتا ہے، اور اس کو اپنا ناقابلِ تنسیخ حق سمجھتا ہے۔ مسلمان اس طرح کے واقعات پر مشتعل ہوجاتے ہیں۔ وہ اس کو شتمِ رسول (blasphemy) قرار دے کر چاہتے ہیں کہ شاتم کو قتل کردیں۔ آج کے لوگوں کے لیے مسلمانوں کی یہ روش قابل قبول نہیں۔ چناں چہ اس پر سخت نزاع شروع ہوجاتی ہے، اور دعوتِ اسلام کا کام جیو پرڈائز (jeopardize) ہوجاتا ہے۔
شتم رسول (blasphemy) پر ہنگامہ کرنا یا شاتم کو قتل کرنے کی کوشش کرنا، اصولاً اسلام کےخلاف ہے۔ قرآن کی کسی آیت یا رسول کے کسی قول میں یہ حکم موجود نہیں۔ تاہم بالفرض اگر کسی کا اصرار ہو کہ یہ اسلام کا ایک حکم ہے تب بھی ضروری ہے کہ مسلمان اس طرح کے واقعے پر مشتعل ہونا مکمل طور پر چھوڑدیں۔ تاکہ دعوتِ اسلام کا کام کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
رسول کا رسول ہونا بلاشبہ اسلام کا ایک مسلمہ عقیدہ ہے۔ پھر بھی رسول اور اصحابِ رسول نے رسول اللہ کے لفظ کو کا غذ سے مٹادیا۔ اسی سنت پر مسلمانوں کو بھی عمل کرنا ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنی روش کو بدل دیں تاکہ اسلام کا پر امن مشن کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہے۔ اسی روش کا نام حکمت (wisdom) ہے۔ حکمت اسلام کا ایک لازمی اصول ہے۔ حکمت کے بغیراسلام کا مشن کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رہ سکتا۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر کا نمونہ

قرآن کی سورہ نمبر 6 میں ایک ساتھ 18 نبیوں کا ذکر ہوا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہے: أُولَئِکَ الَّذِینَ ہَدَى اللَّہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ (الانعام90:)۔ یعنی یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی، پس تم بھی ان کے طریقہ پر چلو۔
قرآن کی اس آیت میں ھدی سےمراد اصلاً عقیدہ نہیں ہے، بلکہ طریقہ کار (method) ہے۔ اللہ کی طرف سے جو پیغمبر دنیا میں آئے، وہ سب یکساں طور پر عقیدہ توحید کے داعی تھے۔ مگر طریقہ کار کا تعلق حالات سے ہوتا ہے۔ اس لیے طریقہ کا ر کے معاملے میں وہ مختلف تھے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی نبی سے جو طریقہ کا ر ثابت ہو، وہ یکساں طور پر خدائی طریقہ ہے۔ کسی پیغمبر نے اپنے زمانے میں حالات کے اعتبار سے جو طریقہ کار اختیار کیا۔ اگر اسی قسم کے حالات دوبارہ تاریخ میں پیدا ہوں تو دوبارہ وہی طریقہ قابل اختیار ہوجائے گا۔
مثال کے طور پر اسرائیلی پیغمبر حضرت موسیٰ کو لیجیے۔ ان کا زمانہ تیرھویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ وہ قدیم مصر میں آئے۔ اس وقت وہاں فرعون (Pharaoh) کی حکومت تھی۔ حضرت موسیٰ اللہ کے حکم سے فرعون کے دربار میں گئے۔ وہاں انھوں نے بادشاہ کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی۔ بادشاہ ان کی بات سن کر غصہ ہوگیا۔ اور کہا کہ میں تم کو قتل کردوں گا(غافر26:) ۔لیکن پھر فرعون اس پر راضی ہوگیا کہ فوجی میدان کے بجائے، وہ پر امن مقابلے کے میدان میں حضرت موسی کا جواب دے۔
حضرت موسی نے فوراً اس تجویز کو مان لیا۔ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ میں تو تمھارا مقابلہ تلوار کے میدان (battlefield) میں کروں گا۔ چناں چہ دونوں فریق کے درمیان یہ مقابلہ پر امن میدان میں ہوا۔ حضرت موسی اس مقابلہ میں پوری طرح کامیاب رہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لیے پرامن میدان میں عمل کرنے کا موقع پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں اگر وہ پر امن میدان کو چھوڑ کر تشدد کے میدان میں اپنا عمل شروع کریں تو یہ پیغمبر کے نمونے کے سراسر خلاف ہوگا۔
حضرت موسی کے زمانے میں فرعو ن نے یہ کیا تھا کہ وہ پیغمبر کا مقابلہ فوجی میدان کے بجائے پیس فل میدان میں کرے۔اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس مقابلے میں حضرت موسی کو مکمل کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کی تصویر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے: فَإِذَا ہِیَ تَلْقَفُ مَا یَأْفِکُونَ ( 7:117) ۔
موجودہ زمانے میں اس نوعیت کا واقعہ زیادہ بڑے پیمانے پر پیش آیا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ زمانے میں اقوامِ متحدہ (UNO) نے تمام قوموں کے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ قومی تعلقات میں اب جنگ مکمل طور پر ایک متروک طریقہ (abandoned method) ہے۔ اب تمام قومی نزاعات کا فیصلہ صرف پرامن گفت وشنید (peaceful negotiation) کے ذریعے کیا جائے گا۔ معاملے کے کسی فریق کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ جنگ کے ذریعے تصفیہ کرنے کی کوشش کرے۔
ایسی حالت میں موجودہ زمانے کے اہل ایمان پر فرض کے درجے میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ جنگ کا طریقہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں۔ وہ ہرمعاملے کو پر امن گفت و شنید کے ذریعے طے کرنے کی کوشش کریں۔
موجودہ زمانے کے جو مسلمان جنگ کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ ایسا ہی ہےجیسے حضرت موسی کے سامنے امن کا طریقہ کھلا ہوا تھا۔ مگر اس کو چھوڑ کر وہ یہ کہتے کہ میں تو تلوار کے ذریعے فرعون اور اس کے گروہ کا مقابلہ کروں گا۔ اگر حضرت موسی ایسا کرتے تو ان کو اللہ کی مدد حاصل نہ ہوتی۔ کیوں کہ اللہ کی مدد اللہ کے طریقے کو اختیار کرنے پر آتی ہے، کسی اور طریقے پر نہیں۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی کوششیں مسلسل طور پر ناکام ہورہی ہیں۔ اس کا سبب یہی ہے کہ انھوں نے اپنی کوشش کے لیے اللہ کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ اس لیے وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوگیے۔ اگر مسلمان کامیابی چاہتے ہیں تو ان کو تشدد کا طریقہ چھوڑ کر امن کا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

امت کا دورِ زوال

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: یوشک أن یأتی على الناس زمان لا یبقى من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقى من القرآن إلا رسمہ، مساجدہم عامرة وہی خراب من الہدى، علماؤہم شر من تحت أدیم السماء من عندہم تخرج الفتنة وفیہم تعود۔ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر1763)۔ یعنی قریب ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے جب کہ اسلام میں سے اس کا صرف نام باقی رہے ، اور قرآن میں سے صرف اس کا نشان باقی رہے ۔ ان کی مسجدیں آباد ہوں گی لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے سب سے بری مخلوق ہوں گے، ان سے فتنہ نکلے گا، اور انھیں کی طرف فتنہ لوٹے گا۔
یہ حدیث رسول اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے۔ امت کے بعد کے دور کے بارے میں اس حدیث میں جو خبر دی گئی ہے، وہ اس وقت کی بات ہے جب کہ امت قانونِ فطرت کے مطابق زوال کا شکار ہوجائے گی۔ اس زمانے میں دین کا صرف فارم باقی رہے گا، اسپرٹ کے اعتبار سے امت کے افراد بالکل خالی ہو جائیں گے۔ اس زمانے کے علماء غلط فتوے دیں گے، اور غلط تقریریں کریں گے۔ اس کے نتیجے میں جو فساد برپا ہوگا ، اس کا شکار پہلے عوام ہوں گے اور اس کے بعد خود علماء اس کی زد میں آجائیں گے۔
علماء کے غلط فتووں اور غلط تقریروں سے جو چیزیں پیدا ہوں گی۔ ان میں سے ایک شدت پسندی (غلو) ہوگا۔ یہ غلو پہلے اعتقادی شدت کی شکل میں پیدا ہوگا۔ پھر بڑھتے بڑھتے امت کے افراد آپس میں لڑنے لگیں گے۔ یہ آپس کی لڑائی مزید بڑھے گی۔ یہاں تک کہ خود علماء اس کی زد میں آجائیں گے۔اس وقت علماء جاگیں گے۔ مگر برائی اتنی بڑھ چکی ہوگی کہ ان کا جاگنا ، نہ ان کے کچھ کام آئے گا، اور نہ دوسروں کو اس سے کچھ فائدہ حاصل ہوگا۔ یہ زوال ہر قوم پر آتا ہے۔ اس میں کسی قوم کا کوئی استثناء نہیں۔
واپس اوپر جائیں

والرُجز فاہجر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید کا مشن تھا۔ آپ نے اپنا مشن 610 عیسوی میں قدیم مکہ میں شروع کیا۔ اس وقت ابتدائی دور میں آپ کے لیے قرآن میں جو ہدایات نازل ہوئیں، ان میں سے ایک یہ تھی: وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)۔ یعنی رُجز کو چھوڑ دو۔ رجز کا لفظی مطلب گندگی (dirt) ہے۔ یہ لفظ یہاں آپ کے ذاتی کردار کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ دعوت کےطریقہ کار کے اعتبار سے ہے۔
قدیم مکہ میں رُجز کو چھوڑنے کا مطلب کیا تھا۔ اس کو پیغمبر اسلام کی عملی سیرت کی روشنی میں متعین کیا جائے تو وہ یہ ہوگا— مکہ میں اگر چہ تمھارے لیے ناموافق حالات ہیں، مگر تم اس معاملے میں حکیمانہ طریقہ اختیار کرو، اور چیزوں کو غلط زاویۂ نظر (wrong angle) سے دیکھنا چھوڑ دو۔
اس معاملے کی ایک مثال سورالانشراح میں ان الفاظ میں ملتی ہے: وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (94:4)۔ یعنی تمھارے مشن کے خلاف لوگ پروپیگنڈہ کررہے ہیں،لیکن تم اس پروپیگنڈے کو پبلسٹی (publicity)کے معنی میں لو، اور اس کو اپنے دعوتی مشن کے لیے ایک موقع (opportunity) کے طور پر استعمال کرو۔
اس معاملے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ قدیم مکہ میںلوگوں نے مقدس کعبہ کے اندر تقریباً تین سو ساٹھ بت رکھ دیے تھے۔ یہ بظاہر ایک اشتعال انگیز بات تھی۔ لیکن پیغمبر اسلام اس پر مشتعل نہیں ہوئے۔ آپ نے وقتی طور پر اس کو نظر انداز کیا۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ کعبہ میں بتوں کی موجودگی کی بنا پر وہاں ہر روز مشرکین کا جو اجتماع ہوتا تھا، اس کو اپنے لیے بطور آڈینس (audience)استعمال کیا۔ آپ خاموشی کے ساتھ وہاں جاتے اور لوگوں کو قرآن سناتے۔ روایات میں اس واقعے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وعرض علیہم الإسلام، وتلا علیہم القرآن(سیرت ابن ہشام، مصر 1955، 1/428)۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کا سفر

کائنات اور انسان کی صورت میں جو عظیم دنیا ہمارے سامنے ہے، وہ بلاشبہ ایک خدائی منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے۔ اور خدائی منصوبے کے مطابق، اس کا ایک بامعنی انجام ہونا مقدر ہے۔ یہ بلاشبہ سنجیدہ مطالعے کا ایک موضوع ہے۔ اس کا تعلق ہر فرد سے بھی ہےاور پوری انسانی تاریخ سے بھی۔ اس معاملے میں متعلق لٹریچر (relevant literature)کے گہرے مطالعے سے جو تصویر بنتی ہے، اس کو یہاں درج کیا جاتا ہے۔
علمی مطالعہ کے مطابق، اللہ رب العالمین نے موجودہ کائنات کا آغاز تقریباً تیرہ بلین سال پہلے کیا۔ اس مدت میں منصوبہ بند اندازمیں تدریجی (gradually) طور پر پوری کائنات وجود میں آئی ۔ اس مدت کو توسیعی تقسیم (broad division)کے مطابق چھ بڑے ادوار (periods) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1 - اس سلسلے میں معلوم طور پر، پہلا واقعہ جو اس کائنات میں پیش آیا، وہ یہ تھا کہ خالق نے تقریبا 13 بلین سال پہلے خلا (space) میں ایک عظیم دھماکہ مینج (manage) کیا۔ اس دھماکہ کو انگلش عالم فلکیات (astronomer) فریڈ ہائل (Fred Hoyle)نے 1949 میں بگ بینگ (Big Bang) نام دیا ۔یہ بگ بینگ اب سائنسی طور پر ایک ثابت شدہ واقعہ (established fact)بن چکا ہے۔ اس دھماکہ سے موجودہ کائنات کا آغاز ہوا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا (21:30) ۔یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں باہم ملے ہوئے تھے ، پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔
اس کا مطلب سائنسی معلومات کی روشنی میں یہ ہے کہ ابتدا میں ایک عظیم گولا(super atom) تھا، جس کے اندر کائنات کے تمام پارٹیکل موجود تھے۔ اس دھماکے کے بعد بگ بینگ کے پارٹیکل (particles)وسیع خلا میں تیزی سے پھیل گیے۔ اور پھر ایک حکیمانہ منصوبہ کے تحت مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ان ذرات(particles) کے مجموعے سےموجودہ کائنات وجود میں آئی۔
2 - مذکورہ تدریجی عمل کا دوسرا بڑا واقعہ وہ ہے جس کو سولر بینگ (Solar Bang) کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد لمبے عمل (process)کے تحت شمسی نظام اپنے تمام سیاروں (planets) کے ساتھ وجود میں آیا۔ اس کائناتی واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ (21:33)۔ یعنی اور وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند بنائے۔ سب ایک ایک مدار (orbit)میں تیر رہے ہیں۔
یہ شمسی نظام ایک عظیم کہکشاں (galaxy) کے ایک کنارے پر قائم کیا گیا ہے، جس کو ملکی وے (Milky Way) کہا جاتا ہے۔ اس طرح شمسی نظام کو کائنات میں ایک محفوظ علاقہ (area) مل گیا۔اس حقیقت کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں کیا گیاہے: فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ، وَإِنَّہُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِیمٌ (56:75-76) ۔یعنی میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے مواقع کی۔ اور اگر تم جانو تو بیشک یہ بہت بڑی قسم ہے ۔یہاں مواقع سے مراد محل وقوع ہے۔ اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ شمسی نظام کو نہایت بامعنی طور پرعظیم ملکی وے کے ایک کنارے پر قائم کیا گیا ہے۔ اس محل وقوع کی بنا پر شمسی نظام کو ایک محفوظ علاقہ (safe area) مل گیا ، جو انسان جیسی مخلوق کی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے۔
3 - کائنات میں تیسرا واقعہ وہ ہے جس کو واٹر بینگ (water bang) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی سیارۂ ارض کا ٹھنڈا ہونا اور پھر زمین کے اوپر پانی کے ذخائر کا وجود میں آنا، اور پھر پانی کی وجہ سے ہر قسم کی زندگیوں کا پیدا ہونا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ (21:30)۔یعنی اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔تمام زندہ چیزوں کے وجود کا بڑا حصہ پانی ہوتا ہے۔ جہاں تک انسان کا تعلق ہے ،انسان کا جسم تقریبا 60 پرسنٹ پانی پر مشتمل ہے۔
Water is of major importance to all living things, ; in some organisms, up to 90% of their body weight comes from water. Up to 60% of the human adult body is water.
4 - چوتھا بڑا واقعہ جو زمین پر پیش آیا وہ دنیائے نباتات کا وجود میں آنا تھا۔ اس کو پلانٹ بینگ کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد زمین جو پہلے خشک کرہ کی مانند تھی، اب سر سبز سیارہ (Green Planet) کی صورت اختیار کرگئی۔اس واقعہ کا اشارہ قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَأَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصراتِ مَاءً ثَجَّاجًا ، لِنُخْرِجَ بِہِ حَبًّا وَنَبَاتًا، وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا(78:14-16)یعنی اور ہم نے پانی بھرے بادلوں سے موسلا دھار پانی برسایا۔ تاکہ ہم اس کے ذریعہ سے اگائیں غلہ اور سبزی۔ اور گھنے باغ۔
5 - اس سلسلہ کا پانچواں دور وہ ہے جب کہ زمین پر مختلف قسم کی جاندار چیزیں وجود میں آئیں، کیڑے مکوڑوں سے لے کر ہاتھی اور شیر تک۔ تخلیق کے اس پانچویں فیز (phase)کو انیمل بینگ (animal bang) کہا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں مختلف قسم کے بیشمار جاندار اشیاء (species) پیدا ہوئیں، جن کی واقعی تعداد اب تک نامعلوم ہے:
Eight million seven hundred thousand is the latest estimated total number of species on Earth and the most precise calculation ever offered, according to a study co-authored by a researcher with the United Nations Environment Programme (UNEP). Around 6.5 million species are found on land and 2.2 million (about 25 percent of the total) dwell in the ocean depths. The report also shows that 86% of all species on land and 91% of those in the seas have yet to be discovered, described or catalogued.
6 - اس سلسلہ میں چھٹا بینگ وہ تھا جس کو ہیومن بینگ (Human Bang) کہا جاسکتا ہے۔ اس آخری دور میں انسان کو پیدا کیا گیا ، اور نسل درنسل پھیلتا ہوااس زمین (planet earth)پر آباد ہو گیا۔ بظاہر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تقریبا 13 بلین سال کے دوران تمام تخلیقی واقعات منصوبہ بند انداز میں پیش آئے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ آخر کار انسان کو پیدا کرکے اس کو زمین پر آباد کیا جائے۔ اور پھر انسان کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی آزادانہ کوشش سے اس چیز کو وجود میں لائے جس کو تہذیب (civilization) کہا جاتا ہے۔تہذیب گویا محدود معنی میںکلمات اللہ (31:27, 18:109) کی جزئی اَن فولڈنگ (unfolding)تھی۔ فطرت کے اس طریقِ عمل کا یہ نتیجہ تھا کہ انسان کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنی عقل کو اعلیٰ ارتقائی درجہ (high level of development) تک پہنچا سکے۔
موجودہ کائنات کے دو حصے ہیں، انسانی دنیا (human world)اور دوسرے غیر انسانی دنیا(non-human world) ۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر انسانی دنیا خارجی طور پر مینج کی جانے والی دنیا (externally managed world) ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی دنیا خود مینج کی جانے والی دنیا (self-managed world) ہے۔ اب تاریخ ایک ایسےاعلی ترقی یافتہ دور (super developed world)کی طرف جارہی ہے جہاں ماضی کے ریکارڈ کے مطابق غیر مطلوب انسانوں کو چھانٹ دیا جائے، اور مطلوب انسانوں کو الگ کرکے یہ موقع دیا جائے کہ وہ آئیڈیل ورلڈ میں ابدی راحت کی زندگی گزاریں۔یہی وہ واقعہ ہے جس کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں آیاہے — صادقین زمین کے وارث ہوں، اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے:
The righteous will inherit the land, and dwell in it permanently. (Psalm: 37:29)
بائبل میں مذکور اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ (21:105)۔یعنی اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
یہ دنیا پوری تاریخ بشری کے منتخب انسانوں کا معاشرہ ہوگا۔ یہ منتخب افراد دراصل دورِ ماضی کے تربیت یافتہ افراد (trained individuals)ہوں گے۔ یہاںپوری تاریخ کے منتخب افراد (selected people of history) کو یہ موقع ہوگا کہ وہ اعلیٰ فکری سرگرمیوں (high level of intellectual activities) کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ اس اعلی معاشرہ (high society)کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی یہ اہل جنت ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ اس اگلے دورِ حیات کو قرآن میں جنت (Paradise)کا نام دیا گیا ہے۔
انسان کائنات کا ہیرو ہے۔ اپنی تخلیقی صلاحیت کے اعتبار سے انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ لیکن انسان موجودہ دنیا میں صرف محدود مدت کے لیے رہتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کی اوریج (average) عمر تقریبا 70 سال ہے۔ ابدیت کا طالب انسان عملا ابدیت کو پانے سے محروم رہتا ہے۔ مگر انسان کے لیے یہ محرومی کی بات نہیں۔ ایسا خالق کے تخلیقی پلان کی بنا پر ہوتا ہے، نہ کہ انسان کی اپنی خواہش کی بنا پر۔ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، انسان کو اس دنیا میں صرف محدود مدت تک کے لیے رہنا ہے۔ اس کے بعد انسا ن کو اس کے ہیبیٹاٹ (habitat)میں پہنچادیا جاتا ہے، جہاں اس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی پسند کی دنیا میں ابدی طور پر رہے۔
یہاں انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ خالق کے پلان کو جانے اور اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرے۔ انسان کو پیدا کرنے والا خدا ہے۔ لیکن اپنے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرنا مکمل طور پر انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر اس پرسنالٹی کو ڈیولپ کرے جس کی وجہ سےوہ اگلی دنیا میں بننے والی پیراڈائزکے لیےمستحق امیدوار(deserving candidate) قرار پائے۔
اس تخلیقی مقصد کی بنا پر ایسا ہوا کہ خالق نے پوری کائنات کو کسٹم میڈ کائنات (custom-made universe) بنایا۔ اس واقعہ کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِنْہُ (45:13)۔ یعنی خدا نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے۔آیت میں جمیعا منہ کے لفظ کا مطلب یہ ہے کہ تسخیر کا یہ معاملہ اتفاقی طور پر نہیں ہوا، بلکہ وہ خالق کے باقاعدہ منصوبہ (well-considered plan) کے تحت ہوا ہے۔
انسان اس پوری کائنات میں ایک خصوصی تخلیق کی حیثیت رکھتا ہے۔انسان کو اس کے خالق نے دماغ (mind) دیا، جو کسی بھی دوسری مخلوق کو عطا نہیں ہوا۔ انسا ن کو اس کے خالق نے لامحدود صلاحیتیں دی ہیں۔ مزید یہ کہ انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو امانت الٰہی (الاحزاب 72:) سے سرفراز کیا گیا۔ انسان واحد مخلوق ہے جس کو کامل آزادی (total freedom) دی گئی ہے۔ انسان کے لیے یہ مقدر کیا گیا ہے کہ اگر وہ آزادی پاکر اس کا غلط استعمال (misuse) نہ کرے، بلکہ آزادی کو وسیع تر تخلیقی نقشہ (Creation plan of God)کےمطابق استعمال کرے تو اس کے لیے ابدی جنت (eternal Paradise) کا انعام (reward)ہے۔
مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے سوا جو دوسری مخلوقات ہیں، مادیات، نباتات، حیوانات، وہ سب کی سب فطرت کے قانون (law of nature) کے ماتحت ہیں۔ حتی کہ حیوانات بھی مکمل طور پر اپنی مقرر کردہ جبلت (instinct) کے تحت کام کرتے ہیں۔ یہ صرف انسان ہے جو اس معاملے میں استثناء (exception) کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کو یہ موقع ہے کہ وہ اپنے ذاتی ارادے کے تحت سوچے اورکامل آزادی کے ساتھ اپنی زندگی کا نقشہ بنائے۔
اس میں شک نہیں کہ انسان مکمل طور پر ایک آزاد مخلوق ہے۔ لیکن یہ آزادی صرف ذاتی عمل کے اعتبار سے ہے۔ یعنی انسان آزاد ہے کہ وہ وسیع تر نقشۂ تخلیق کے مطابق عمل کرے یا اس کا باغی بن جائے۔ لیکن جہاں تک عمل کے نتیجہ کا تعلق ہے، اس پر انسان کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ یہاں خالق نے مقدرکیا ہے کہ انسان اگر خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق عمل کرے تو اس کے لیے ابدی جنت ہے۔ اور اگر وہ خالق کے تخلیقی نقشہ کی خلاف ورزی کرے تو اس کے لیے ابدی جہنم ہے۔
رب العالمین کے اس تخلیقی نقشہ کو قرآن میں اشارات کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلا قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مادی کائنات کی تخلیق کے بعد انسان کو پیدا کیا گیا ، اور اس کو زمین پر خلیفہ (البقرۃ30:) کی حیثیت سے آباد کیا گیا۔خلیفہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو انسانی زبان میں انچارج کہا جاتا ہے۔فرشتے خدا کے حکم کے مطابق، کائنات کا نظام اس طرح چلا رہے ہیں کہ ہمیشہ انسان کے لیے وہ ایک موافق دنیا بنی رہے۔ اس کے بعد انسان نے جب نیچر کے خفیہ رازوں کو دریافت کرنا شروع کیا اور ٹکنالوجی پر مبنی تہذیب کی تشکیل کی تو اس معاملے میں بھی انسان کو مسلسل طور پر فرشتوں کی مدد حاصل رہی۔ اس کا اشارہ پیغمبر نوح کی کشتی سازی کے ذکر میں اس طرح کیا گیا ہے:وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا (11:37)۔اس سے مستنبط ہوتا ہے کہ یہی واقعہ جدیدتہذیب (modern civilization) کی تشکیل کے معاملہ میں پیش آرہا ہے۔ گویا خالق نے انسان سے یہ کہہ دیا کہ اصنع الحضارۃ باعیننا و وحینا۔ یعنی تہذیب بناؤ ہماری آنکھوں کے سامنے، اور ہماری وحی کے مطابق۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر سائنسی دریافتیں کسی نہ کسی اتفاق (chance)کے ذریعہ وجود میں آئیں۔تفصیل کے لیے وکی پیڈیا پر یہ مضمون دیکھا جاسکتا ہے:
"Role of Chance in Scientific Discoveries".
یہ اتفاقات محض اتفاقات نہیں ہیں ، بلکہ وہ فرشتوں کے تعاون کی مثالیں ہیں، جو غیر مرئی مدد کے طور پر سائنسدانوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ اس قسم کے اتفاق کے لیے ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، جس کو سرنڈیپیٹی (Serendipity?) کہا جاتا ہے:
Serendipity is a happy and unexpected event that apparently occurs due to chance and often appears when we are searching for something else. Serendipity...happens in our daily lives and has been responsible for many innovations and important advances in science and technology.
تاریخ انسانی کے دوسرے دور میں ایک نئی دنیا بنائی جائے گی۔ یہ دنیا، اسی زمین و آسمان کے اندر ہوگی۔ لیکن اس وقت زمین و آسمان ایک بدلے ہوئے زمین و آسمان ہوں گے(ابراہیم48:)۔ اسی بدلی ہوئی کائنات میں جنت واقع ہوگی۔ اس جنت کا کیمپس اتنا بڑا ہوگا جتنے بڑے موجودہ زمین و آسمان (آل عمران 143:)ہیں۔ اس اعلی جنت کا انتظام دوبارہ فرشتے کریں گے۔ انسان کے لیے اس جنت میں ہر قسم کی مطلوب چیزیں موجود رہیں گی(فصلت31:) ۔ جنت کی یہی وہ معیاری دنیا ہے جو منتخب لوگوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ بائبل میں ان کے لیے صادقین (righteous) کا لفظ آیا ہے، اور قرآن میں اسی کا ہم معنی صالحین کا لفظ استعمال ہواہے۔ یہاں وہ اعلی معرفت کے مطابق زندگی گزاریں گے۔
انسان کےساتھ تخلیق کا یہ معاملہ بیحد نازک معاملہ تھا۔ یہاں ضروری تھا کہ انسان کو صحیح رہنمائی (right guidance) ملے، جو انسان کو خالق کے تخلیقی نقشہ سے باخبر کرے۔ اور یہ بتائے کہ انسان کے لیے اپنی آزادی کو استعمال کرنے کا درست لائحہ عمل کیا ہے۔
انسان کی یہی ضرورت ہے جس کو پورا کرنے کے لیے اللہ نے انبیاء (prophets) بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ انبیاء مکمل طور پر انسان تھے۔ البتہ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ خالق نے تقریبا 40 سال کی عمر تک ان کا جائزہ لینےکے بعد یہ پایا کہ وہ کارِ نبوت کی انجام دہی کے لیے ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے لائق (competent) فرد ہیں۔ اس طرح ہر نبی کی انفرادی خصوصیت کی بنا پر اس کا انتخاب کیا گیا۔ اور فرشتہ جبرئیل کے ذریعہ خالق نے ان کو اپنی رہنمائی، وحی (revelation) کے ذریعہ بھیجی، اور ان پر کتاب نازل کی تاکہ وہ خالق کے نمائندہ (representative) کی حیثیت سے انسان کو درست رہنمائی (right guidance) دیں۔ اور پھر انسان ان کی رہنمائی کے مقابلے میں جو رسپانس (response) دے ، اس کے ریکارڈ کو دیکھ کر ہر انسان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔
اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (4:165)۔ یعنی اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت باقی نہ رہے۔
انذار و تبشیر کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پیغمبروں کا مشن خالص اخروی مشن تھا۔ ان کے مشن کا فوکس ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ انسان کے لیے وہ کون سا رویہ ہے جو اس کو ابدی جنت تک پہنچانے والا ہے، اور وہ کون سا رویہ ہے جو اس کو اس خطرے (risk) میں ڈالتا ہے کہ اگلے دورِ حیات میں اس کو ابدی طورپر جہنم والوں کے ساتھ شامل کیا جائے۔
پیغمبروں کے ذریعے انسان کو جو رہنمائی ملی، اصولی طور پر اس کا خلاصہ دو چیزیں تھیں:
(1) نظریۂ توحید (Ideology of Tawheed)
(2) طریقِ کار (Method)
پیغمبرانہ طریقِ کار ایک لفظ میں غیر نزاعی طریق کار (non-confrontational method)ہے۔نظریہ اور طریق کار کے اعتبار سے یہی دو چیزیں پیغمبروں کے ذریعے انسان کو دی گئیں۔
پہلے انسان (آدم) سے لے کر محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر انسان کی طرف آئے۔ انھوں نے انسا ن کو بتایا کہ یہ زمین تمھارے لیے ابدی قیام گاہ (eternal habitat) نہیں ہے، بلکہ یہ تمھارے لیے ایک عارضی قیام گاہ (temporary abode) ہے۔ یہاں تمھیں یہ موقع دیا گیا ہے کہ تم اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق (deserving candidate) بناؤ، اور تاریخِ انسانی کے خاتمہ پر جنت کی شکل میں اپنے مطلوب ابدی ہیبیٹاٹ (habitat) میں جگہ پاؤ۔ ساتویں صدی عیسوی میں محمد عربی کے ظہور کے بعد انبیاء کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ مگر خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان پھر بھی پیدا ہوکر زمین پر آباد ہورہے تھے۔ اب یہ سوال تھا کہ بعد کو پیدا ہونے والے انسانوں تک خدائی رہنمائی کی نمائندگی کون کرے۔
ساتویں صدی عیسوی میں ختم نبوت سے پہلے خدا کی طرف سے اس رہنمائی کی ذمہ داری پیغمبروں نے ادا کی۔ اس اعتبار سے تمام پیغمبر امت وسط (middle ummah)کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے ایک طرف اللہ رب العالمین تھا اور ان کے دوسری طرف تمام انسان۔ انھوں نے اس رہنمائی کو اللہ سے لیا اور پورے معنوں میں ناصح اور امین (الاعراف68:) بن کر اس کو انسانوں تک پہنچایا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 632 عیسوی میں مدینہ میں ہوئی۔ آپ اللہ کے آخری رسول تھے۔ آپ نے اپنے بعد ہدایت کے دو مستند ذریعے (authentic sources) چھوڑے، ایک قرآن اور دوسرا سنت رسول۔ اب کوئی پیغمبر دنیا میں آنے والا نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک پیغمبر کے مشن کی بات ہے، وہ بدستور جاری ہے۔پہلے انبیاء کی حیثیت امت وسط کی ہوتی تھی، اب پیغمبر آخرالزماں کے متبعین کی حیثیت امت وسط کی ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا (2:143) ۔ یعنی اور اس طرح ہم نے تم کو امت وسط بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔
امت وسط کا مطلب بیچ کی امت (middle community) ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین سب کے سب امت محمدی ہیں۔ ان کی حیثیت دوبارہ امت وسط کی ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ پیغمبر، خدا اور انسان کے درمیان امت وسط ہوتے تھے۔ اب پیغمبر آخرالزمان کے متبعین ، محمد بن عبد اللہ اور اقوام عالم کے درمیان امت وسط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیغمبر آخرالزمان کی رہنمائی کو جاننےکا ذریعہ قرآن اور سنت رسول ہے۔ امت کو یہ کرنا ہے کہ خالص موضوعی (objective) انداز میں وہ قرآن اور سنت رسول کا مطالعہ کرے، اوراس کی تعلیمات کو کسی آمیزش کے بغیر پر امن انداز میں ہر دور کے انسانوں تک پہنچاتی رہے۔ یہ کام اس کو تمام اقوام کی قابل فہم زبان میں کرنا ہے۔جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ (14:4)۔ اس کی پرکٹیکل صورت یہ ہے کہ قرآن کے تراجم تیار کرکے ان کو ساری دنیا میں پھیلایا جائے۔ یہاں تک کہ حدیث (مسند احمد، حدیث نمبر23814)کے مطابق، وہ ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں پہنچ جائے۔ یہی امت محمدی کا ابدی مشن ہے۔
خلاصہ یہ کہ امت محمدی کی حیثیت سے مسلمانوں کا ایک ہی مشن ہے۔ اور وہ ہے دعوت الی اللہ۔دعوت کا یہ پر امن کام مکمل طور پر غیر سیاسی (non-political) اور غیر قومی (non-communal) انداز میں کرنا ہے۔مزید یہ کہ اس کام کو اس اصول کے تحت انجام دینا چاہیے جس کو قرآن میں تالیف قلب (التوبۃ60:) کہا گیا ہے۔ تالیف قلب ایک ابدی اصول ہے۔ وہ کبھی اور کسی حال میں منسوخ ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

قرآن فہمی

قرآن فہمی کےبارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔
قرآن کی اس آیت میں عقل والے سے مراد ڈگری والے(degree holders) نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کو صرف وہی لوگ سمجھیں گے جو معروف معنوں میں اسکالر ہوں یا جنھوں نے تعلیمی اداروں سے ڈگری حاصل کی ہو۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ قرآن کو اس کے گہرے مفہوم کے اعتبار سے صرف وہ لوگ سمجھتے ہیں جو سنجیدہ ہوں، جو قرآن کی آیتوں پر غور کریں، اور جو اپنی خداداد عقل کو استعمال کرکے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہی لوگ ہیں جو قرآن کے گہرے معانی تک پہنچیں گے، اور قرآن کے پیغام کو سمجھ کر اس سے نصیحت حاصل کریں گے۔
قرآن فطرت کی زبان میں ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: بَلْ ہُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِی صُدُورِ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ (29:49) ۔یعنی بلکہ یہ کھلی ہوئی آیتیں ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جن کو علم عطا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر سنجیدہ ہو، وہ اپنی عقلِ فطرت کو زندہ رکھے، وہ تعصب سے پاک ہو کر قرآن کی آیتوں پر غور کرے،اس کے اندر قبولیت (acceptance) کا مزاج ہو تو یقینا وہ قرآن کی روح تک پہنچ جائے گا، وہ قرآنی آیتوں کے گہرے معانی کو دریافت کرلے گا۔قرآن کی ایک اور آیت میں تقویٰ کو علم کا ذریعہ (البقرۃ 282:)بتایا گیا ہے۔ یہاں متقی سے مراد وہ انسان ہےجو حقیقی معنوں میں سچائی کا متلاشی (seeker) ہو۔ جس کے ایمان نے اس کو نفسیاتی پیچیدگی سے پاک روح (complex-free soul) بنادیا ہو۔ جس کے لیے سچائی، اس کا سب سے بڑا کنسرن (concern) بنا ہوا ہو۔
واپس اوپر جائیں

قرآن و سنت کے عجائب

حدیث کی کتابوں میں قرآن کے فضائل کے بارے میں ایک روایت نقل کی گئی ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:لا تنقضی عجائبہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2906)۔ یعنی قرآن کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے۔ اس حدیث میں عجائب کا لفظ کسی پر اسرار معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس معنی میں ہے کہ ہر صورتِ حال کے لیے قرآن میں ہمیشہ رہنمائی موجود رہے گی۔ یہی بات سنت ِرسول کے لیے بھی درست ہے۔ گویا اس حدیث کا پورا مفہوم یہ ہے : لاتنقضی عجائب القرآن و السنۃ ( قرآن و سنت کے عجائبات کبھی ختم نہ ہوں گے)۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق، دنیا کے حالات ہمیشہ بدلتے رہیں گے۔ لیکن اہل علم کے لیے ہمیشہ یہ ممکن رہے گا کہ قرآن و سنت کی نئی تطبیقات (new applications) دریافت کرکے ہر صورتِ حال پر قرآن و حدیث کی تعلیمات کو منطبق کریں۔ وہ ہر بدلے ہوئے حالات میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں۔
یہ مزید رہنمائی اجتہاد کے ذریعے حاصل ہوگی۔ یعنی امت کے اہل علم ہر بار اجتہادی ذہن کے ساتھ غور و فکر کریں گے اور ہر بدلے ہوئے حالات میں قرآن کا انطباق (application) دریافت کرلیں گے۔ اس طرح امت کبھی ربانی رہنمائی سے خالی نہیں ہوگی۔اجتہاد یقینی طور پر اس مسئلے کا حل ہے۔ لیکن اجتہاد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ہے تقلیدی ذہن کے ساتھ اجتہاد کرنا، اور دوسرا ہےتخلیقی ذہن کے ساتھ اجتہاد کرنا۔ تقلیدی ذہن کے ساتھ اجتہاد کا فائدہ محدود رہےگا۔ اجتہاد کا پورا فائدہ امت کو صرف اس وقت ملے گا جب کہ تخلیقی ذہن کے ساتھ اجتہاد کیا جائے۔
تخلیقی ذہن کے ساتھ اجتہاد یہ ہے کہ مجتہد کو ایک طرف قرآن و سنت کا علم ہو اور دوسری طرف وہ، حدیث کے مطابق ، بصیرتِ زمانہ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر361) کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ خالی الذہن ہو کر زمانے کے حالات سے واقفیت حاصل کرے۔
واپس اوپر جائیں

تکرار کی حقیقت

قرآن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں مضامین کی تکرار ہے۔ اس موضوع پر بہت زیادہ کتابیں اور مضامین لکھے گیے۔مثلا ایک مضمون یہ ہے: التکرار فی القرآن الکریم أنواعہ وفوائدہ۔ یہ مقالہ ایک عرب عالم محمد صالح المنجد کا لکھا ہواہے، اور وہ انٹر نیٹ پر موجود ہے۔
مکررات القرآن کے بارے میں ابن تیمیہ نے لکھاہے: ولیس فی القرآن تکرار محض ، بل لابد من فوائد فی کل خطاب ۔ ( مجموع الفتاوى، 1995، مدینہ منورہ،14/408 )۔یعنی قرآن میں جو مکررات ہیں وہ تکرار محض نہیں، بلکہ ہمیشہ ہر تکرار میں کوئی فائدہ مطلوب ہوتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ الفاظ اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے محدود ہوتے ہیں، لیکن اپنی معنویت کے اعتبار سے کوئی لفظ محدود نہیں ہوتا۔ جب بھی کسی حقیقت کا بیان کیا جائے گا تو الفاظ میں اس کا بیان ہوگا، لیکن معنی کے اعتبار سے اس کے پہلو بہت زیادہ ہوسکتے ہیں۔ ظاہری الفاظ کے اعتبار سے خواہ کوئی بیان محدود نوعیت کا ہو۔ لیکن اپنے معنی کے اعتبار سے وہ متعدد پہلو کا حامل ہوگا۔ یہ متعدد پہلو ہمیشہ تدبر اور غور وفکر سے معلوم ہوتے ہیں۔اس معاملے کی وضاحت قرآن کی ایک آیت سے ہوتی ہے: وَکَذَلِکَ أَنْزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا وَصَرَّفْنَا فِیہِ مِنَ الْوَعِیدِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ أَوْ یُحْدِثُ لَہُمْ ذِکْرًا ۔(20:113) یعنی اور اسی طرح ہم نے عربی کا قرآن اتارا ہے اور اس میں ہم نے طرح طرح سے وعید بیان کی ہے تاکہ لوگ ڈریں یا وہ ان کے دل میں کوئی سوچ ڈال دے۔
قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن میں کوئی بات مکرر بیان کی جائے تو اس کا پہلا مقصد یاد دہانی ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی بھولی ہوئی بات کو دوبارہ یاد کرے، اور اس میں سبق کا جو پہلو ہے وہ اس کو اپنے ذہن میں تازہ کرے۔ تکرار کا دوسرا مقصد وہ ہے جس کو قرآن کی اس آٰیت میں احداثِ ذکر کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی کے اندر سنجیدگی ہوگی تو وہ اس میں تدبر کرے گا، اس تدبر کے نتیجے میں یہ ہوگا کہ وہ اصل بات کے مزید پہلووں کو دریافت کرے گا۔ کیوں کہ الفاظ خواہ محدود ہوں لیکن باتیں اپنے معنی کے اعتبار سے کبھی محدود نہیں ہوتیں۔ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ بات کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ آدمی جب اپنی عقل کو استعمال کرکے اس پر غور کرتا ہے تو بات کے دوسرے بہت سے پہلو اس پر کُھلتے ہیں، اور اس طرح اس کا ذہنی ارتقا ہوتا رہتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب بھی کسی بات کو مکرر بیان کیا جائے تو اس کے ایک حصے کی تکرار ضروری ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس کے بغیر بیک گراؤنڈ سامنے نہیں آتا۔ مگر اس کا دوسرا حصہ غیر مکرر ہوتا ہے۔ اس غیر مکرر حصے میں کوئی نیا پہلو موجود ہوتا ہے جو تدبر یا غور و فکر کے ذریعے سمجھ میں آتا ہے۔
کسی بات کے نئے پہلو کی نشاندہی کرنا ہو تب بھی بیک گراؤنڈ کو بتانے کے لیے اس بات کے کچھ اجزا ء کو ہمیشہ دہرانا پڑتا ہے۔ قاری کو چاہیے کہ وہ دہرائی جانے والی بات کو بیک گراؤنڈ کے معنی میں لے، اور غور کرکے یہ دریافت کرے کہ تکرار کا اصل مقصد کیا ہے۔ یہ بامعنی کلام کا ضروری اسلوب ہے۔ جو لوگ اس اسلوب کو تکرار کہیں، وہ کلام کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے ذہن کو ارتقا یافتہ ذہن بنانے میں ناکام ثابت ہوں گے۔ اس دنیا میں تکرار محض کوئی چیز نہیں۔ سارا معاملہ یہ ہے کہ قاری اپنے ذہن کو حرکت میں لائے، وہ ہمیشہ غور وفکر سے کام لے۔ غور و فکر کے ذریعے وہ کلام کے پوشیدہ پہلوؤں کو دریافت کرے گا۔ اور پھر وہ جانے گا کہ وہ جس چیز کو تکرار کہہ رہا تھا، وہ خود اس کے فہم کا قصور تھا۔
مثال کے طور پر اگر صبح کا وقت ہے اور کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آج بھی دوبارہ اپنے وقت پر صبح کا سورج طلوع ہوگیا۔ تو بظاہر یہ ایک تکرار کی بات ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ مخاطب کو یہ دعوت دینا ہے کہ طلوعِ آفتاب کے ظاہرہ پر غور کرو۔ تم کو اس میں نئے نئے پہلو سامنے آئیں گے۔ تم نظامِ فطرت کے نئے نئے پہلو ؤںکو دریافت کروگے۔اس طرح تمہارا غور و فکر تمہارے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ کلام میں تکرار قاری کو اس پراز سر نو غور وفکر کی دعوت دیتی ہے۔ وہ صرف تکرار کا معاملہ نہیں۔مثلا قرآن میں ابلیس اور آدم کا قصہ سات بار بیان ہوا ہے، لیکن غور کیا جائے تو اس میں ستر سے بھی زیادہ پہلو سمجھ میں آئیں گے۔
واپس اوپر جائیں

تخلیقی ایمان

ایک روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: کنا نصلی یوما وراء رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فلما رفع رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم رأسہ من الرکعة وقال: ’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ قال رجل وراءہ:ربنا لک الحمد، حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ، فلما انصرف رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال:’’من المتکلم آنفا؟‘‘ قال الرجل:أنا یا رسول اللہ، فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:’’ لقد رأیت بضعة وثلاثین ملکا یبتدرونہا أیہم یکتبہا أولا ‘‘ (مسند احمد، حدیث نمبر18996) ۔یعنی رفاعہ بن رافع کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب رکوع کے بعد اپنا سر اٹھایا، اور یہ کہا : سمع اللہ لمن حمدہ۔ ایک آدمی جو آپ کے پیچھے کھڑا تھا، اس نے کہا:ربنا لک الحمد، حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ۔ رسول اللہ نے جب (سلام کے بعد ) منھ پھیرا تو کہا، ابھی کس نے وہ بات کہی تھی، اس آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول، مَیںنے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نےدیکھا کہ 30 سے زیادہ فرشتے دوڑے اس کی طرف ، تاکہ کون پہلے اس کو لکھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جو نماز سکھائی تھی، اس میں رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد مقتدی کو ربنا لک الحمد کہنے کی تعلیم دی تھی۔ لیکن مذکورہ صحابی نے اس کلمہ پر اضافہ کرکے اس طرح کہا: ربنا لک الحمد ، حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ۔فرشتوں کو یہ طریقہ اتنا زیادہ پسند آیا کہ وہ اس کو لکھنے کے لیے بڑی تعدا د میں دوڑ پڑے۔ فرشتوں کا یہ عمل اضافہ شدہ کلمات کی افضلیت کی بنا پر نہ تھا۔ بلکہ صحابی کے تخلیقی اضافہ (creative addition)کی بنا پر تھا۔
اس سے ایک سنت صحابہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی مومن دعا اور ذکر کے مسنون کلمات پر تخلیقی اضافہ کرسکے تو یہ اس کے لیے ایک عظیم عمل ہوگا۔ جس کو لکھنے کے لیے فرشتے بڑی تعداد میں دوڑ پڑیں۔اس قسم کا اضافہ کوئی سادہ بات نہیں۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کہنے والے کے اندر تخلیقی ایمان موجود ہے۔
اس قسم کے اضافے کی ایک مثال وہ ہے جو غزوۂ خندق( 5 ہجری) سے معلوم ہوتی ہے۔ اس وقت مدینہ کے حالات بہت سخت تھے۔ قرآن میں اس کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ(33:7)۔اس وقت کچھ صحابہ نے پریشانی کا اظہار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صبر کی تلقین کی اور دعائیہ انداز میں فرمایا:اللہم لا عیشَ إلا عیشُ الآخرہ، فاغفر للأنصار والمہاجرہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر1805)۔ یعنی اے اللہ، زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔
اس حدیث کو پڑھنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ اس کو ایک کتابی روایت کے طور پر پڑھ لیں۔ اور اس سے ایک تاریخی واقعے کے بارے میں واقفیت حاصل کریں۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس واقعے کو پڑھتے ہوئے آپ کا زندہ ایمان آپ کے اندر ایک فکری بھونچال پیدا کردے۔ آپ کا حال یہ ہو کہ اس حدیث کو پڑھتے ہوئے آپ کے دل میں ہیجان پیدا ہوجائے۔ اور پھر شدت تاثر کے تحت آپ کی زبان پر یہ الفاظ آجائیں:اللہم لا فوزَ الا فوزُ الآخرۃ... یعنی اے اللہ، کامیابی تو صرف آخرت کی کامیابی ہے۔ اگر آپ ایسا کریں تو یہ آپ کے لیے اسی قسم کا ایک عمل ہوگا جس کو لکھنے کےلیے فرشتے دوڑ پڑیں۔
دعا اور ذکر کے جو ماثور کلمات ہیں، ان کو دہرانے کا بلاشبہ ثواب ہے۔ لیکن اگر آدمی کے اندر زندہ ایمان ہو، اس کا ذہن بیدار ہو، اس کے صبح و شام یادِ خداوندی میں گزرتے ہوں تو اس کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی اس قسم کا کوئی تجربہ پیش آئے تو وہ اس کے جذبات میں تموج پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس کا تیار ذہن اس کے بارے میں مزید سوچنے لگے گا۔ اس کا تیار ذہن اس کے اندر مزید فکری اضافہ کرے گا۔ یہ اضافہ آدمی کی ایمانی زندگی کا ثبوت ہے۔ اور یہ ایمانی زندگی اتنی قیمتی ہے کہ جب وہ ظاہر ہوتی ہے تو فرشتے اس کو ریکارڈ کرنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ یہی وہ ایمان ہے جس کو یہاں تخلیقی ایمان کا نام دیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اتمام نور

قرآن کی دو آیتوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نور کا اتمام ضرور کرے گا (التوبہ 32:، الصف 8:)۔یہاں نور سے مراد معرفت ہے۔ یعنی اللہ ایسے حالات پیدا کرے گا کہ اعلیٰ معرفت کا حصول انسان کے لیے ممکن ہوجائے گا۔
معرفت الٰہی بلاشبہ دین میں سب سے بڑا مقصود ہے۔معرفت کے لیے ہمیشہ فریم ورک درکار ہوتا ہے۔ جیسا فریم ورک، ویسی معرفت۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ قدیم زمانے میں معرفت کے موضوع پر غور و فکر کے لیے صرف روایتی فریم ورک (traditional framework) دستیاب تھا۔ یہ فریم ورک بلاشبہ مفید تھا۔ لیکن وہ رب العالمین کی کامل معرفت کے لیے کارآمد نہ تھا۔ اللہ نے حالات میں تبدیلی کرکے انسان کو ایسے فریم ورک تک پہنچایا جو معرفت کے حصول میں تکمیل کا کام کرے۔ یہ تکمیلی فریم ورک وہی ہے، جس کو موجودہ زمانے میں سائنٹفک فریم ورک کہا جاتا ہے۔
مثلاً پانی فطرت کا ایک ظاہرہ ہے۔ پانی پر غور و فکر کرکے انسان معرفت الٰہی تک پہنچتا ہے۔ قدیم زمانے میں روایتی فریم ورک کے تحت آدمی صرف پانی کے ظاہری پہلوؤں کو لے کر سوچ پاتا تھا۔ اس طرح انسان پانی کی نعمت کو جانتا تھا، لیکن پانی کے اندر جو عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں، ان سے وہ بے خبر تھا۔موجودہ زمانے میں پانی کے سائنسی مطالعے سے اس کے بارے میں سمندری معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ دو گیسوں کے ملنے سے پانی کا بننا۔ بارش کے بعد پانی کا سمندروں میں جمع ہونا۔ سمندری پانی میں پریزرویٹو (preservative)کے طور پر نمک کا شامل ہونا۔ پھر سورج کی گرمی سے پانی کا بھاپ میں تبدیل ہونا۔ پھر فضا میں جاکر اس کا بادل کی صورت اختیار کرنا۔پھر زمین کی کشش سے بادل کا بارش کی صورت میں زمین پر برسنا ،وغیرہ۔ ان معلومات نے پانی کے بارے میں ایک عظیم سانٹفک فریم ورک انسان کو دیا ہے، جس پر غور کرنے سے معرفت خداوندی میں بے پناہ حد تک اضافہ ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

آدم سے مسیح تک

دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے ان سب کا مقصد اللہ تعالی کی وحدانیت کا پیغام دینا تھا۔ مگر لوگوں نے عام طور پران کے ساتھ برا سلوک کیا۔ حضرت عیسی کو کوئی ساتھی نہ ملا۔لوگ ان کے قتل کے درپےہوگئے۔ حضرت لوط نے اپنی بستی کو چھوڑا تو ان کے ساتھ ان کی صرف دو بیٹیاں تھیں۔ حضرت نوح کے ساتھ ان کی کشتی کا قافلہ توریت کے بیان کے مطابق صرف آٹھ افراد پر مشتمل تھا۔حضرت ابراہیم جب اپنے وطن عراق سے نکلے تو اُن کے ساتھ اُن کی بیوی سارہ تھیں اور ان کے بھتیجے لوط۔ بعد کو اس قافلہ میں ان کے دو بیٹے اسماعیل اور اسحاق شامل ہوئے۔ حضرت مسیح کو ساری کوششوں کے باوجود صرف 12 آدمی ملے۔ وہ بھی، بائبل کے بیان کے مطابق، آخر وقت میں آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ بیشتر انبیاء کا حال یہی رہا، کوئی تنہا رہ گیا اور کسی کو چند ساتھ دینے والے ملے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5705)۔ قرآن کی یہ آیت اس پوری تاریخ پر ایک تبصرہ ہے: افسوس ہے بندوں کے حال پر جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا تو انھوں نے اس کی ہنسی اڑائی (یس30:)۔
لوگوں کے اس سلوک کی بنا پر ایسا ہوا کہ قدیم زمانے میں انبیاء کی کوئی تاریخ نہ بن سکی۔ ہر نبی نے عملاً اپنے پیغمبرانہ رول کو ادا کیا۔ لیکن مدون تاریخ (recorded history) میں ان نبیوں کا اندراج نہ ہوسکا۔آخر میں اللہ تعالی نے پیغمبر اسلام کو پیدا کیا۔ اللہ تعالی نے تاریخ میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ پیغمبر اسلام کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبرانہ مشن کو مدون تاریخ کا ایک حصہ بنا دیں۔ اسی حقیقت کو فرانسیسی مستشرق رینان (Ernest Renan)نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے — اسلام تاریخ کی مکمل روشنی میں وجود میں آیاIslam was born in the full light of history:
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حیثیت تاریخ میں اس طرح ثبت ہوئی کہ عمومی طور پر اہل علم نے اس کا اعتراف کیا۔ آپ کی تاریخی حیثیت پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ان میں سے ایک کتاب وہ ہے جو دی ہنڈریڈ(The 100) کے نام سےامریکا سے شائع ہوئی۔
واپس اوپر جائیں

قرآن، کتاب ہدایت

انسان اس دنیا میںپیداہوتا ہے، اور زندگی گزارکر ایک دن مرجاتاہے۔ سروے کے مطابق موجودہ دنیا میں انسان کی اوسط عمر تقریباً 70 سال ہے۔ انسان کی سب سے زیادہ اہم ضرورت یہ ہے کہ اس کو بتایا جائے کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اس کا حال کیا ہے اور اس کا مستقبل کیاہے۔ موت سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ کس عمل پر انسان کی کامیابی کا انحصار ہے۔
قرآن اسی حقیقت کو بتانے کے لئے اترا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ خالق کا تخلیقی نقشہ انسان کے بارے میں کیا ہے۔ قرآن واحد کتاب ہے جس کا موضوع تخلیقی منصوبہ ہے۔ قرآن انسان کو وہ ضروری معلومات دیتا ہے جس کی روشنی میںانسان اپنی زندگی کا صحیح منصوبہ (right planning) بنا سکے۔ ایسی حالت میں حاملین قرآن کی یہ لازمی ڈیوٹی ہے کہ وہ قرآن کو دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ اور یہ پہنچانا لوگوں کی قابلِ فہم زبان (understandable language) میں ہو،تا کہ وہ اس کو سمجھیں اور قرآن کو ایک رہنما کتاب (guide book) بنا سکیں۔
قرآن کے نزول کو تقریباً ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ اس مدت میں حاملین قرآن نے قرآن کے متن کی حفاظت کے لئے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ مختلف قوموں کے درمیان جو مطلوب کام ہے وہ ابھی تک عملاًنہ ہوسکا۔قرآن کے متن کی حفاظت پر توبہت زیادہ کام ہواہے، لیکن قرآن کی معنوی اشاعت کا کام ابھی مستقبل کا انتظار کررہا ہے۔ اس معاملہ میں مسیحی لوگوں نے حاملین قرآن کے لئے راستہ دکھادیا۔ مسیحی لوگوں نے بائبل کے ترجمے دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں تیار کئے ہیں، اور ان کو عمومی طور پر پھیلادیا۔ یہی کام حاملین قرآن کو قرآن کے لئے کرنا ہے۔
اگر اس کام کو قرآن کی معنوی اشاعت کہا جائے تو بلاشبہ وہ پوری امت پر فرض ہے۔ فرض کفایہ نہیں ، بلکہ فرض عین ہے۔ موجودہ زمانے میں اس کام کے تمام ضروری وسائل پوری طرح موجود ہوچکے ہیں۔اب صرف یہ باقی ہے کہ ان وسائل کو قرآن کے پیغام کی اشاعت کے لیے استعمال کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا اسلوب

قرآن کا اسلوب تبیین کا اسلوب ہے، قرآن کا اسلوب تحقیق کا اسلوب نہیں ۔قرآن کا طریقہ حقیقت کو بیان کرنے (statement of fact) کا طریقہ ہے، قرآن میں عقلی تجزیہ (rational analysis) کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ قرآن کے اس اسلوب کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں ۔
عام کتاب کی طرح قرآن میں یہ اسلوب نہیں ہے کہ ہر بات لفظوں میں لکھ دی گئی ہو کہ اس کو پڑھ کر جان لیا جائے۔ بلکہ قرآن میں اساسیات (basics) کو بیان کردیا گیا ہے۔ اب یہ قاری کا کام ہے کہ وہ غور و فکر کرکے اس کی تفصیل (detail) معلوم کرے۔قرآن میں یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا گیا کہ آدمی خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑا ہو۔ قرآن ایک رہنما کتاب ہے، نہ کہ معلومات کی کتاب۔ اس طرح جب کوئی شخص مطالعہ اور غور و فکر کے ذریعے سچائی کو دریافت کرتا ہے تو سچائی پر اس کو اتھاہ یقین حاصل ہوتا ہے۔ پھر یہ یقین اس کی زندگی میں عمل کی صورت اختیار کرتا ہے۔ وہ اس کی سوچ ، اس کی گفتگو، اس کی عملی سرگرمیوں پر چھا جاتا ہے۔
قرآن کا یہ اسلوب اس کے قاری کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا کرتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ذہنی ارتقا کا اعلی درجہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر تخلیقی فکر پیدا ہوجائے۔ تخلیقی فکر آدمی کو ذہنی جمود (intellectual stagnation) سے بچانے والی ہے۔وہ آدمی کے لیے اس کے سفر حیات کو ایک زندہ سفر بنا دیتی ہے۔ ایسا آدمی ہر لمحہ اپنے لیے ذہنی غذا (intellectual food) حاصل کرتا رہتا ہے۔ اس طرح اس کی ذہنی زندگی کبھی اور کسی حال میں ختم نہیں ہوتی۔
واپس اوپر جائیں

عافیت کی دعا

عافیت سے متعلق کئی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت یہ ہے: عن ابن عمر، قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:من فُتِح لہ منکم باب الدعاء فُتِحت لہ أبواب الرحمة، وما سُئِل اللہُ شیئا یعنی أحب إلیہ من أن یسأل العافیة(سنن الترمذی، حدیث نمبر3548)۔ عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کےلیے دعا کے دروازے کھولے گئے اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے عافیت مانگنا ہر چیز مانگنے سے زیادہ محبوب ہے ۔
اس دنیا میں انسان کو اگرچہ اختیار دیا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاملات میں انسان کا دخل ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ رب العالمین کا دخل ننانوے فیصد سے بھی زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے لیے اللہ سے دعا کرنا بہت زیادہ اہم ہے۔ جس انسان کو یہ حقیقت دریافت ہوگئی، اور وہ اس پر قائم ہوگیا، وہ بلاشبہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں آجائے گا۔
اس دنیا میں انسان کے لیے پہلی رحمت کی چیز ایمان ہے۔ یعنی حقیقت حیات کی دریافت۔ اس کے بعد جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، وہ عافیت ہے۔ عافیت سے مراد وہی چیز ہے جس کو عام طور پر اچھی صحت (good health) کہا جاتا ہے۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک کمزور مخلوق ہے۔ صحت و عافیت میں معمولی خلل انسان کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ جس انسان کو صحت و عافیت حاصل نہ ہو وہ کوئی بھی کام صحیح شکل میں نہیں کرسکتا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ سے بہت زیادہ دعا کرے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو درست طور پر ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔مگر یاد کیے ہوئے عربی الفاظ کو دہرانے کا نام دعا نہیں ہے، سچی دعا وہ ہے جو معرفت کی دعا ہو۔ جو دل کی گہرائیوں سے نکلے، نہ کہ لفظی تکرار کے طور پر۔ایسی دعا بلاشبہ اللہ تک پہنچتی ہے، اور وہ اللہ کے یہاں قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

سزائے قتل

مسلم علماء اور فقہاء کا یہ ماننا ہے کہ شتم رسول کی سزا قتل ہے(یقتل حداً)۔ یہی معاملہ ان کے نزدیک ارتداد کا بھی ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ ارتداد یا شتم رسول کی سزا قتل ہے۔ اس سلسلہ میں جو حوالے دیے جاتے ہیں ، وہ بلاشبہ نہایت ضعیف ہیں۔(ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب شتم رسول کی سزا۔ نیز حکمت اسلام کا باب، مرتد اور ارتداد)۔
تاہم بالفرض اگر کسی کے نزدیک شتم رسول یا ارتدادکی سزا قتل ہو تب بھی کوئی جرم عدالتی کارروائی سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔ علماء اور فقہاء جب یہ لکھتے ہیں کہ یقتل حد اً تو اس کے ساتھ انھیں یہ اضافہ کرنا چاہیے کہ بعد المحاکمہ یعنی عدالتی کارروائی (judicial proceedings) کے بعد، نہ کہ اس کے بغیر۔ یہ حکم اتنا عام ہے کہ اس معاملے میں کوئی بھی جرم مستثنیٰ نہیں بن سکتا۔
انسان کو قتل کرنا، انسان کے لیے آخری سزا کے برابر ہے۔ اس کےبعد انسان کچھ کرنے کے لیے موجود نہیں رہتا۔ اس لیےقتل کےمعاملے میںاہل اسلام کو بے حد حساس ہونا چاہیے۔ کسی کو قتل صرف اس وقت کیا جاسکتا ہے، جب کہ اس کے لیے نص صریح موجود ہو، جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو۔ مزید یہ کہ قتل کا فیصلہ ایک با اختیار جج کرسکتا ہے۔ کوئی اور شخص یا گروہ کسی کو قتل کرنےکا ہرگز مجاز نہیں۔قتل کا حکم لگانے سے پہلے لوگوں کو چاہیے کہ وہ قرآن کی اس آیت کو باربار پڑھیں:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الْأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا (5:32) ۔ یعنی جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اس نے سارے انسانوں کو بچا لیا۔
واپس اوپر جائیں

خدا سے ہم کلامی

ایک حدیثِ رسول میں مومن کی صفت بتانے کے لئے یہ الفاظ آئےہیں: یناجی ربہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 405)۔ یعنی مومن اللہ رب العالمین سے سرگوشی کرتا ہے ۔ اس کو ہمیشہ اللہ سے ہم کلامی کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔
A believer is always in contact with God
غیر مومن کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ اپنے دوست سے سرگوشی کرتا رہتاہے (یناجی صدیقہ)۔ لیکن مومن وہ ہے جو معرفت کےدرجہ میں اللہ کو دریافت کرے۔ اپنی ربانی سوچ کی بنا پر اس کو اللہ سے قربت کا تجربہ ہونے لگے۔ وہ محسوس کرنے لگے کہ میں اللہ کے پاس ہوں یا اللہ میرے پاس ہے۔ جب کسی شخص کو یہ ربانی تجربہ ہوتا ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتاہے کہ وہ اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے۔ وہ سرگوشی (whisper) کی زبان میں اللہ سے ہم کلام ہوجاتا ہے۔ اس کو اللہ کی طرف سے انسپریشن (inspiration) ملنے لگتا ہے۔ اس کو ایسا محسوس ہونے لگتاہے کہ وہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت میں پہنچ گیا ہے۔ وہ انسانوں کے درمیان رہتےہوئے اللہ کا پڑوسی بن گیا ہے۔
اس حدیث میں بندہ اور رب کے درمیان جس مناجات کا ذکر ہے، اس کی تصدیق قرآن سے بھی ہوتی ہے۔قرآن میں یہ آیت آئی ہے: وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (2:186)۔
بندے کی پکار کا اللہ تک پہنچنا انھیں الفاظ میں ہوتا ہے جن الفاظ میں بندے نے اپنے رب کو پکارا ہے۔ بندہ جب پکارتا تو اس کا رب اس کو اسی وقت حقیقی طور پر سن لیتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اللہ کا جواب کس طرح انسان تک پہنچتا ہے۔یہ الفاظ کے اعتبار سے نہیں ہوتا بلکہ وجدان (intuition)کی سطح پر کیفیت (feeling)کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اس کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن لفظوں میں اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔
واپس اوپر جائیں

موقع ومحل کی اہمیت

قرآن میں ایک طرف یہ کہا گیاہے کہ اشداء على الکفار (48:29) ۔ دوسری طرف قرآن میں آیا ہے :فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّہِ لِنْتَ لَہُمْ ( 3:159)۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام میں کبھی شدت مطلوب ہوتی ہے اور کبھی نرمی۔ یہ شدت اور نرمی کافر اور مسلم کے اعتبار سے نہیں بلکہ موقع ومحل کے اعتبار سےاختیار کی جاتی ہے۔ اس فرق کا سبب حکمت کلام ہے۔ اس کا تعلق اصلاً متکلم سے نہیں ہے، بلکہ سامع (audience) سے ہے۔
اصل یہ ہے کہ لوگوں میں علم وفہم کے اعتبار سے فرق ہوتاہے (یوسف 76:)۔ اسی بنا پر کلام میں بھی فرق مطلوب ہوجاتا ہے۔ کلام میں شدت بھی اتنا ہی مطلوب ہے جتنا کہ کلام میں نرمی۔ مگر اس کا انحصار سامع کی قبولیت (acceptance) سے ہے۔ اگر سامع کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ بات کو بات کے لحاظ سے دیکھے نہ کہ اسلوب کے لحاظ سے۔ ایسے شخص کے لئے ہیمرنگ کی زبان (language of hammering) زیادہ مفید ہوگی۔ اس کے برعکس جس آدمی کے اندر شدت کو برداشت کرنے کا مادہ نہ ہو اس سے نرمی کے انداز میں بات کہی جائے گی۔
یہ اصول اجتماعی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے بے حد اہم ہے۔ ایک شخص اگر اکیلا ہو تو اس قسم کا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن اجتماعی زندگی کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ طرح طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہر ایک سے یکساں قسم کا برتاؤ نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ یہ دیکھنا پڑے گا کہ کوئی شخص کس چیز کا تحمل کرسکتاہے، اور کس چیز کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہ فرق حکمت پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ امتیاز پر۔ جو شخص صرف نرمی کا تحمل کرسکتا ہو، اس کے ساتھ سختی کرنا، اس پر ظلم کرنا ہے۔ اس کے برعکس، جو شخص نرمی اور سختی سے اوپر اٹھ کر بات کو حقیقتِ واقعہ کے اعتبار سے دیکھے ، اس کے ساتھ نرمی کا طریقہ اختیار کرنا ، اس کے اوپر ظلم کرنا ہے۔ اس کو ایک ایسے خیر سے محروم کرنا ہے، جس کا وہ پہلے سے انتظار کر رہا تھا۔ اسی کا نام حکمت ہے۔
واپس اوپر جائیں

سکنڈری چوائس

اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ ابتدائی ربع صدی تک اسلام میں اصولی خلافت قائم رہی ۔اس کے بعد خاندانی خلافت (dynasty-based khilafat) قائم ہوگئی، جو آخر وقت تک چلتی رہی۔ یہ کوئی برائی (evil) کی بات نہیں ہے بلکہ وہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کی بات ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق زندگی کا ایک اصول یہ ہے کہ جب پہلا انتخاب (first choice) ممکن نہ ہو تو سکنڈری چوائس (secondary choice) پر راضی ہوجاؤ۔
خاندانی خلافت کا کم از کم یہ فائدہ حاصل ہوا کہ اسلام کی بعد کی تاریخ میں استحکام (stability)کا قیام ممکن ہوگیا۔ اس استحکام کی بناپر بعد کے زمانہ میں اسلام کا ڈھانچہ مسلسل طورپر باقی رہا۔ عبادت کانظام، اسلامی تعلیم کا نظام، اسلام پر مبنی معاشرہ کم از کم فارم کے درجہ میں قائم رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ علماء اسلام، خاندانی خلافت کے نظام پر راضی ہوگئے۔ اگر وہ اصولی خلافت پر اصرار کرتے تو اسلام کی تاریخ میں استحکام (stability) موجود نہ رہتا۔
سکنڈری چوائس زندگی کا ایک اہم اصول ہے۔زندگی میں اکثر لوگ اپنے معاملات میں فرسٹ چوائس کو لینا چاہتے ہیں، مگر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو نہ فرسٹ چائس ملتا ہے ، نہ سکنڈ چوائس۔ زیادہ بہتر پانے کی کوشش میں کم بہتر بھی ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
سکنڈری چوائس لینا، اپنی حقیقت کے اعتبار سے کوئی کمی کی بات نہیں۔ یہ صرف آغاز (beginning) کی بات ہے۔ اس دنیا میں عقل مندی یہ ہے کہ آدمی ممکن حالت سے اپنے عمل کا آغاز کرے۔ اگر وہ دانش مند منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرے گا تو یقینا وہ اعلی کامیابی تک پہنچ جائے گا۔ فرسٹ چوائس اور سکنڈری چوائس صرف آغازِ کار کی بات ہے، وہ انجام کار کا معاملہ نہیں۔ اس راز کو جاننا بلاشبہ زندگی کا اہم ترین اصول ہے۔ جو لوگ اس راز کو نہ جانیں، وہ اپنے آپ کو غیر ضروری مسائل میں مبتلا کرلیتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

امیج کا مسئلہ

ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے ایک مضمون شائع کیا تھا: ٹاسک اہیڈ(Task Ahead) ۔ یہ مضمون زیادہ واضح نہ تھا۔ مگر آج کے لحاظ سے سوچا جائے تو آج کرنے کا سب سے بڑا کام اسلام کی امیج بلڈنگ (image building)ہے۔ موجودہ زمانہ میں مختلف اسباب سے اسلام کی امیج یہ بن گئی ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔ آج سب سے بڑا کام یہ ہےکہ اس تصویر کو بدلا جائے اور عالمی سطح پر یہ اعلان کیا جائے کہ اسلام پورے معنوں میں ایک مذہبِ امن ہے، نہ کہ مذہب ِتشدد۔ تصویر(image) کا مسئلہ بہت سنگین مسئلہ ہے۔ اگر کسی کی امیج بگڑ جائے تو لوگ اس کے بارے میں منفی ہوجاتے ہیں۔ اور جب لوگ کسی کے بارے میں منفی ہوجائیں تو وہ اس کے بارے مثبت ذہن کے تحت نہیں سوچتے۔ وہ اس کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ معاملے کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کریں، اور پھر ذاتی مطالعے کی بنیاد پر اس کے بارے میں مبنی بر حقیقت رائے قائم کریں۔
اس عوامی نفسیات کی بنا پر اس مسئلے کو مدعو کے اوپر نہیں ڈالا جاسکتا۔ حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ داعی اس معاملے کی ذمے داری خود قبول کرے۔اس طرح کے معاملے میں صرف تردید یا مذمت کافی نہیں۔ مثلا عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس معاملے کی ذمے داری میڈیا پر آتی ہے۔ مگر یہ کہنا کافی نہیں۔ ضرورت ہے کہ خالص غیر جانب دارانہ انداز میں اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے، اور پھر مثبت ذہن کے تحت اس کی تلافی کی کوشش کی جائے۔
اس معاملے میں دوسروں کو ذمے دار قرار دینا ایک بے فائدہ کام ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دوسرے لوگ خود اپنی رائے نہیں بدلیں گے۔ داعی کو یک طرفہ طور پر یہ کوشش کرنا ہوگا کہ وہ درست منصوبہ بندی کے ذریعے امیج بلڈنگ (image building) کی مہم شروع کرے۔ وہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے ، خود اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائے۔یہی اس معاملے میں واحد نتیجہ خیز طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی تربیت

ذہن سازی ایک اہم ترین کام ہے۔ لیکن ذہن سازی کبھییہ کرو، وہ نہ کرو(dos and don'ts) کی زبان میں نہیں ہوتی۔ ذہن سازی کا آغاز سب سے پہلے یہاں سے ہوتاہے کہ آدمی کے اندر فکری عمل (intellectual process)جاری کیا جائے۔
فکری عمل جاری کرنا مربی کا کام ہے اور فکری عمل کو آخری حد تک پہنچانا زیر تربیت فرد کا کام ہے۔یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ لِّکَیْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ(57:23) ۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کی زندگی میں غم کے واقعات دراصل ذہنی صدمہ (intellectual shock) کے لئے ہوتےہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتاہے کہ آدمی کے ذہن میں ہلچل پیداکی جائے۔ اس کے ذہن میں سوچ کا عمل (process) جاری ہو۔ آدمی کی تخلیقیت میںاضافہ ہو یہاں تک کہ وہ خود اپنی سوچ کے تحت ایک حقیقت تک پہنچے۔ آدمی کا مزاج یہ ہے کہ وہ ذاتی تجربہ سے سیکھتا ہے نہ کہ صرف بتا دینے سے۔
ذہنی تربیت ایک دو طرفہ عمل ہے۔ اس کے نصف حصے کا تعلق مربی سے ہے، اوربقیہ نصف حصے کا تعلق اس سے جس کی تربیت مقصود ہے۔دو طرفہ ارادہ اور دو طرفہ کوشش کے بغیر تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔
مربی کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے خود اپنے آپ کو تیار کرے، وہ زیر تربیت فرد یا افراد کے کیس کو گہرائی کے ساتھ سمجھے۔ ضروری مطالعے کے بعد وہ تربیت کی مبنی بر حقیقت منصوبہ بندی کرے۔ تربیت کے معاملے میں مربی کا صرف عالم ہونا کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ لازمی طور پر ضروری ہے کہ مربی زیرتربیت افراد کا مکمل خیر خواہ ہو۔ تربیت نام ہے تین چیزوں کے مجموعے کا— علم، حکمت اور خیر خواہی۔
واپس اوپر جائیں

عدم اطمینان

ایک شخص نے ان بڑے بڑے اسکالرس پر ریسرچ کیا ہے، جو اپنی کسی بڑی دریافت کی بنا پر نوبل پرائز کے لیے منتخب ہوئے۔ اس نے لکھا ہے کہ میں نے یہ پایا کہ ان اسکالرس میں ایک چیز مشترک تھی۔ وہ تھی عدم قناعت (discontentment) ۔وہ علم کے بارے میں کسی حد پر نہیں رکتے تھے۔ اس لیے ان کی ترقی مسلسل جاری رہی۔
بڑے بڑے اہل علم کی جو عدم قناعت علم کے بارے میں ہوتی ہے، وہی عدم قناعت مومن کے اندرمعرفت کے بارے میں ہوتی ہے۔ مومن آخر دم تک معرفت خداوندی کے معاملے میں غیرقانع رہتا ہے۔ اس لیے اس کی معرفت برابر بڑھتی رہتی ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔
اہل ایمان کے بارے میں یہی وہ حقیقت ہے، جو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:عن أبی سعید الخدری، عن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال: لن یشبع المؤمن من خیر یسمعہ حتى یکون منتہاہ الجنة(سنن الترمذی، حدیث نمبر2686)۔ یعنی ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مؤمن خیر کی باتیں سننے سے کبھی سیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کی انتہاء جنت پر ہوتی ہے۔ مسند شہاب القضاعی کی روایت (نمبر897) میں خیر اور مومن کے بجائے علم اورعالم کا لفظ آیا ہے۔؃
اصل یہ ہے کہ انسان کی نسبت سے دین کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے معرفت کا پہلو، اور دوسرا ہے دینداری کا فارم ۔ فارم ہمیشہ معلوم ہوتا ہے۔ کچھ افعال انجام دینے کے بعد اس کی حد آجاتی ہے، اور جب کسی چیز کی حد آجائے تو ایسے انسان کے اندر عدم اطمینان کی کیفیت پائی نہیں جائے گی، وہ جو کچھ کررہا ہے، وہ اس پر قانع ہوجائے گا۔
مگر معرفت لامتناہی چیز ہے۔ آدمی کتنا ہی زیادہ معرفت حاصل کرلے،اس کے اندر مزید حصول کا جذبہ کبھی ختم نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

ایک اجتماعی مسئلہ

منفی ذہن (negative mind) ہر عورت اور مرد کے اندر اپنے آپ موجود رہتاہے۔ لیکن مثبت ذہن (positive mind) آدمی کو سوچ کر بنانا پڑتا ہے۔ عام طور پر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ سوچ کر اپنا ذہن نہیں بناتے۔ اس لئے ہر ایک منفی سوچ میں مبتلا رہتاہے۔ یہی وجہ ہےکہ عام طورپر لوگ دوسروں کے بارے میں بہت جلد مخالفانہ رائے قائم کرلیتے ہیں۔ وہ اکثر دوسرے شخص کے منفی پہلو کو لے کر اس کے بارےمیں رائے بناتے ہیں۔ وہ آدمی کے مثبت پہلو کو لے کر رائے نہیں بناتے۔ حالانکہ اگر وہ سوچیں تو وہ پائیں گے کہ ہر ایک کے اندر منفی پہلو کے ساتھ مثبت پہلو بھی موجود رہتاہے۔
اجتماعی زندگی (collective life)کو بہتر بنانے کے لئے سب سے زیادہ اہم اصول یہ ہے کہ آپ دوسرے شخص کے منفی پہلو کو نظر انداز کریں اور مثبت پہلو کو لے کر اس کے بارےمیں رائے بنائیں۔انسانوں کے درمیان حقیقی اتحاد کا یہی واحد اصول ہے۔ کسی سماج میں اتحاد اس لیے نہیں پیدا ہوسکتا کہ لوگ ایسے بن جائیں کہ کسی کو کسی سے شکایت نہ رہے۔ اس قسم کا اتحاد فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ اس لیے وہ عملا بننے والا بھی نہیں۔
اتحاد کا واحد اصول اختلاف کے باوجود متحد ہونا ہے۔ اتحاد ہمیشہ اختلاف کو نظر انداز کرنے سے آتا ہے، نہ کہ اختلاف کو ختم کرنے سے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، زندگی کا نظام تنوع (diversity) پر قائم ہے، نہ کہ یکسانیت (uniformity) پر۔ لوگوں میں یکسانیت پیدا کرکے ان کے درمیان اتحاد قائم کرنے کا فارمولا، ایک ناممکن فارمولا ہے۔ خواہ سیکولر دائرہ ہو یا مذہب کا دائرہ، ہر جگہ اختلاف کو برداشت کرنے سے اتحاد آئے گا، نہ کہ لوگوں میں یکسانیت لانے سے جو کہ کبھی وقوع میں آنے والا ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

غصہ کیوں آتاہے

غصہ ایک عام برائی ہے۔ اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب ان کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوتی ہے تو وہ غصہ ہوجاتے ہیں۔ غصہ ہمیشہ شکایت سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ نفرت کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہ نفرت مزید بڑھ کر عناد (enmity) کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس کے بعد وہ یہ کرتاہے کہ جس آدمی پر اس کوغصہ آیا اس کو ہر اعتبار سے وہ نیچا دکھانے کی کوشش کرتاہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ یہ چاہنے لگتا ہے کہ کسی طرح یہ ثابت ہو کہ وہ غصہ کرنے میں درست تھا۔غصہ کی اصل جڑ انانیت (ego) ہے۔ اکثر ایساہوتا ہے کہ لوگ اپنی بے شعوری کی بنا پر اپنے اندر وہ صفت پیدا نہیں کرپاتے جس کو آرٹ آف ایگو مینجمنٹ(art of ego management) کہاجاتا ہے۔ جو آدمی اس آرٹ کو جانے وہ اپنی ذہنی بیداری (intellectual awakening) کی بنا پر اس قابل ہوگا کہ وہ اپنے ایگو کو اپنے عقل کے تابع رکھے نہ کہ خود ایگو (ego)کے تابع ہوجائے۔
غصہ فطرت کا ایک ظاہرہ ہے۔ ہر آدمی کے اندر فطری طور پر غصہ کے جذبات موجود ہوتے ہیں۔ لیکن غصہ کی ایک صورت محمود ہے، اور دوسری صورت غیر محمود۔آدمی کو چاہیے کہ وہ اس فرق کو سمجھے۔ کیوں کہ غصہ کی محمود صور ت جائز ہے، جب کہ غصہ کی غیر محمود صورت ایک گناہ ہے۔
غصہ کی غیر محمود صورت وہ ہے جو غرور (arrogance) کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی اپنے کو بڑا، اور دوسرے کو چھوٹا سمجھنا۔ اس بنا پر اپنے خلاف بات سن کر بھڑک اٹھنا۔ اس قسم کا غصہ کبر کی علامت ہے۔ اور کبر بلاشبہ ایک گناہ ہے۔محمود غصہ وہ ہے جو اصول پسندی کی بنا پر کسی کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ جب ایک آدمی اصول پسند (man of principle) ہو تو وہ اصول کے معاملے میں حساس (sensitive)ہوجائے گا۔ اس بنا پر وہ خلاف اصول بات کو برداشت نہیں کرپاتا۔وہ شدید انداز میں اس کے خلاف نکیر کرنا چاہتا ہے۔ وہ بظاہر غصہ ہوتا ہے لیکن حقیقۃ وہ شدت اظہار ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
کیا غیرمسلموں میں دعوت کی ذمہ داری ہر ہر مسلمان پر اُسی طرح عائد ہوتی ہے جس طرح پیغمبر پر عائد تھی؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔ (عباد افضل، الہ آباد، یوپی)
جواب
آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ غیرمسلموں میں دعوت کی ذمہ داری ہر ہر مسلمان پر اُسی طرح عائد ہوتی ہے جس طرح پیغمبر پر عائد تھی۔ دعوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے پیدا ہونے والے انسانوں کو یہ بتانا ہے کہ پیدا کرنے والے نے ان کو کس لیے پیدا کیا ، اور آخر کار ان کا خالق اس سے کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ اس عمل کو قرآن میں انذار و تبشیر کہا گیا ہے۔ پیدا ہونے والے انسان چوں کہ قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے، اس لیے انذار و تبشیر کا عمل بھی قیامت تک جاری رہے گا۔
اس معاملہ میں پیغمبر کی حیثیت نمونہ (model) کی ہے۔ پیغمبر نے اپنے زمانے میں انذار و تبشیر کا جو کام کیا، وہ ایک اعتبار سے اپنی ذمے داری کی ادائیگی کے طور پر تھا، اور دوسرے اعتبار سے وہ تمام اہل ایمان کےلیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ حدیث میں آیا ہے: صلوا کما رأیتمونی أصلی(صحیح البخاری، حدیث نمبر631)۔ توسیعی معنی کے اعتبار سے حدیث میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تم انذار و تبشیر کا کام اس طرح کرو جس طرح تم مجھ کو کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔
قرآن حدیث میں یہ حکم بار بار آیا ہے ۔ مثلا قرآن میں ہے کہ امت محمدی کی حیثیت امت وسط (البقرۃ143:)کی ہے۔ یعنی بیچ کی امت۔ اُس کا کام یہ ہے کہ وہ سچائی کا علم پیغمبر سے حاصل کرے، اور پھر اس کو بعد کے زمانے میں تمام قوموں تک پہنچاتی رہے۔ اسی اعتبار سے اہل ایمان کے بارے میں یہ حدیث آئی ہے : المؤمنون شہداء اللہ فی الأرض (صحیح البخاری، حدیث نمبر2642)۔ یعنی مومن زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔ اس بات کو قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : تاکہ میں تم کو اس قرآن کے ذریعہ انذار کروں، اور جس کو پہنچے ( وہ بھی قیامت تک انذار کا کام کرتا رہے)۔الانعام: 19
سوال
میں ماہ نامہ الرسالہ پچھلے دس برسوں سے مطالعہ کر رہاہوں۔ مجھے اس مشن نے بہت اندر تک متاثر کیا ہے، اور مجھے بالکل بدل دیا۔ ایک مرتبہ میں نے آپ سے ملاقات اور انٹر ایکشن کیا تھا۔ اس وقت آپ نے مجھ سے الرسالہ کے متعلق فیڈ بیک مانگا تھا۔لیکن میں اس وقت کچھ بول نہ پایا تھا۔ اب اس خط کے ذریعہ میں اسے لکھ رہا ہوں کہ میرے اندر الرسالہ کی وجہ سےکیا کیا تبدیلیاںآئی ہیں۔ میری پیدائش 1989 میں ہوئی۔ نو سے پندرہ برس کی عمر تک میں نے گھر سے دور رہ کر مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد کالج سے گریجویشن اور ایم اے کیا۔ الرسالہ مشن سے جو فائدہ ہوا، ان میں سے چند یہ ہیں۔(1)پہلا فائدہ جو الرسالہ نے دیا، وہ ہے اسلام کی روح سے متعارف کرانا۔ میں ایک تعلیم یافتہ گھر میں پیدا ہوا، دینی ماحول میں رہا، مدرسے میں وقت بِتایا، مگر دین کو دریافت نہ کرپایا تھا۔ دین کے نام پر جو چیز پایا تھا وہ ہے منفی ذہن، شکایتیں، مسلک پرستی، اور قوم پرستی، وغیرہ۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ صبر و شکر جیسی فنڈا منٹل چیز بھی مَیں نہیں جان پایا تھا۔ یہ ماہ نامہ الرسالہ نے مجھے سکھایا۔ماہ نامہ الرسالہ کی بات کو تحقیق کرنے کے لیے میں نے پورے قرآن کو پڑھا، اور ہزاروں احادیث پڑھی، تب جاکر مجھے یقین کے درجے میں صحیح اسلام حاصل ہوا۔ (2)دوسرا زبردست فائدہ یہ ہوا کہ میں نے دین کی سیاسی تعبیر کے انحراف کو سمجھا، اور نام نہاد مجاہد بن کر اپنی زندگی کو ہلاکت میں نہ ڈالا۔ ورنہ بچپن ہی سے مجھےجہاد کو اس طرح بتایا گیا تھا کہ گویاوہی اسلام کا اصل مشن ہے، اور وہی مسلمانوں اور اسلام کے مسئلہ کا حل ہے۔ (3) تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ آج آپ کی تعلیمات کی وجہ سے میں یقین (conviction) میں جیتا ہوں۔ جب میں مدرسہ سے نکلا تھا، نئے زمانے کی تبدیلیوں کو دیکھتا تھا، سمجھ نہیں پاتا تھا کہ سچائی کیا ہے۔ دل میں خدا، رسول اور آخرت کا یقین تو تھا، مگر ماڈرن ایج سے مَیں انھیں ریلیٹ (relate) نہیں کر پاتا تھا۔ اس کی وجہ سے میں کنفیوزن اور اسٹریس میں جیتا تھا۔ اس طرح میں نے پانچ برس تک گزارا۔ بڑی مشکل کا دور تھا یہ۔ کیوں کہ میں ہر تھاٹ اور ہر ڈسپلن کو پڑھتا ، مگر اس میں یقین نہیں پاتا تھا۔ لیکن خدا کے فضل سے میں نے ماہ نامہ الرسالہ کے ذریعہ ماڈرن ایج کو اسلام کے ریفرنس میں صحیح طور پر پالیا۔ مجھے اندھیرے سے اجالا ملا۔ مندرجہ بالا تبدیلیاں صرف علاماتی تبدیلیاں ہیں۔ ورنہ الرسالہ نے تو مجھے پوری طرح بدل دیا، سب کچھ بدل دیا۔ آئندہ ان شاء اللہ میں اپنا وقت اور پونجی دین کے کام میں صرف کروں گا۔ دعا کیجیے کہ میں دعوت کے کام کو اپنا مشن بناپاؤں، خدا مجھےمعاف کرے، میرا تزکیہ کرے، اور مجھے جنت نصیب کرے۔ آخر میںشہادت دیتا ہوں کہ آپ نے صحیح معنوں میں دین کا احیا کیا ہے۔ اللہ آپ کی اس عظیم ترین کوشش کو قبول کرے، اور آپ کو اس کا اعلیٰ ترین صلہ دے۔ آمین۔ (محمد اظہر مبارک، بھاگل پور)
جواب
میرا تجربہ ہے کہ صرف فارمل تعلیم ، علم کے حصول کے لیے کافی نہیں۔ خواہ وہ سیکولر تعلیم ہو یا دینی مدرسے کی تعلیم۔ فارمل تعلیم جو اداروں میں ہوتی ہے،اس میں آدمی کسی دوسرے کی بتائی ہوئی باتوں کا علم حاصل کرتا ہے۔ مگر علم کا خزانہ اس سے بہت زیادہ ہے، جتنا کہ کسی بتانے والے نے آپ کو بتایا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی فارمل ایجوکیشن کے بعد خود مطالعہ کرے۔ خود مطالعے سے آدمی ، خود دریافت کردہ علم کو حاصل کرے گا۔ اور خود دریافت کردہ علم ہی سے آدمی کو حقیقی معرفت حاصل ہوتی ہے۔
ایجوکیشن کی دو قسمیں ہیں، فارمل ایجوکیشن اورانفارمل ایجوکیشن۔ الرسالہ مشن کی حیثیت انفارمل ایجوکیشن کی ہے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ فارمل ایجوکیشن پائے ہوئے لوگوں کو انفارمل ایجوکیشن مہیا کی جائے، تاکہ ان کی علمی کمی پوری ہو۔ دونوں طریقوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ دونوں تعلیمی طریقے ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حصہ (complementary part) کی حیثیت رکھتے ہیں۔دونوں طریقوں کو ایک دوسرے سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔مثلا مدرسے کی تعلیم سے اگر دین کا روایتی علم حاصل ہوتا ہے تو انفارمل ایجوکیشن کے ذریعہ آدمی دور جدید سے واقفیت حاصل کرتا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ کسی انسان کے لیے دونوں ہی ضروری ہے۔
سوال
الرسالہ کے ایک شمارہ میں ہے کہ آپ نے ا یک صاحب کونصیحت کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ایک آدمی آپ کی جاب لے سکتا ہے، مگر کوئی آپ کی تقدیر نہیں چھین سکتا۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔ (ڈاکٹر روشن کمار، گجرات)
جواب
جاب کا تعلق کسی کمپنی سے ہوتا ہے۔ کمپنی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے کسی کو جاب دے، اور جب چاہیے کسی کی جاب ختم کردے۔ کمپنی کا یہ حق معاشیات کی دنیا میں ایک مسلّم حق سمجھا جاتا ہے۔اس معاملے میں ہر کمپنی کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ خود اپنی صوابدید کے مطابق جو چاہے فیصلہ کرے، اور جو فیصلہ نہ چاہے نہ کرے۔
لیکن تقدیر کا تعلق وسیع تر دنیا سے ہے۔ تقدیر کی دنیا خالق کی پیدا کی ہوئی دنیا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق تقدیر کی اس دنیا میں مواقع (opportunities) اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ۔ فطرت کی دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص آپ سے ایک موقع چھین لے تب بھی وہاں دوسرے مواقع موجود رہتے ہیں ۔ کوئی ادارہ اپنے دیے ہوئے موقع کو واپس لے سکتا ہے۔ لیکن فطرت کی دنیامیں جو مواقع ہیں ، ان کو منسوخ کرنا کسی شخص یا ادارے کے لیے ممکن نہیں۔
لیکن یہ دوسرے مواقع اپنے آپ کسی کو نہیں ملتے۔ جس طرح کوئی آدمی جب ایک موقع حاصل کرتا ہے تو وہ اس کو اس وقت ملتا ہے ، جب کہ اس نے اپنے آپ کو اس کے حسب حال تیار کیا ہو۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اگر ایک موقع اس سے چھن جائے تو وہ کسی دوسرے موقع کو دریافت کرے، اور اس کے مطابق اپنے آپ کو دوبارہ تیار کرے۔ جو آدمی ایسا کرے گا، اس کو کبھی کسی کمپنی یا کسی ادارے سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 248

دعوتی سیاحت: سی پی ایس انٹرنیشنل کے چیرمین جناب ثانی اثنین خان نے اکتوبر 2016 میں فرانکفرٹ، جرمنی میں منعقد ہونے والے بک فیر میں شرکت کی اور مختلف لوگوں کے درمیان دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔ اس کے بعد فن لینڈ، سویڈن،ناروے،انگلینڈاور ترکی کا دورہ کیا۔ یہاں انھوں نے مختلف اسلامی آرگنائزیشن کے ذمہ داروں سے ملاقات کی، اور دعوتی کام کو آگے بڑھانے پر تبادلۂ خیال کیا۔ اسکنڈے نیوین ممالک میں ایک بڑی ضرورت محسوس کی کئی کہ مقامی زبان میں پاکٹ سائز ترجمہ قرآن موجود نہیں ہے۔ ان تمام لوگوں نے موجودہ انگریزی ترجمہ قرآن کو دیکھ کر یہ کہا کہ آپ ہمیں اس سائز کا ترجمہ قرآن مقامی زبان میں چھاپ کردیں، تو ہمارے لیے دعوت کا کام آسان ہوگا۔ اس کے علاوہ دوسرے دعوہ لٹریچر کو بھی بہت پسند کیا اور کہا کہ ہم لوگ ان کو دعوتی کام کے لیے ضرور استعمال کریں گے۔ انگلینڈ میں دیگر لوگوں کے علاوہ مشہور نومسلم داعی عبد الرحیم گرین کی آرگنائزیشن کےذمہ داران سے ملاقات کی۔ انھوں نے دعوتی کام میں تعاون کا یقین دلایا۔ نیز ترکی کا سفر بھی کافی امید افزا رہا۔
سیلف پروگرامر: 26اکتوبر تا 6 نومبر کو کولکاتا میں سی پی ایس کی ایک دعوہ میٹ ہوئی۔ اس میں کولکاتا ٹیم کے علاوہ تامل ناڈو سے حافظ سید اقبال احمد عمری، حیدر آباد سے حافظ فیاض الدین عمری ، جمشید پور سے ایاز احمد اور سلیم اختر وغیرہ شریک ہوئے۔ نیز آخری دو دنوں کے لیےسی پی ایس انٹرنیشنل، دہلی کی چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم بھی شریک ہوئیں۔ اس دعوہ میٹ کے تحت ایک اہم کام یہ ہوا کہ نارتھ ایسٹ میں دعوتی مواقع کا جائزہ لینے کے لیے ان لوگو ں نے آسام کا دورہ کیا اور مختلف لوگوں سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ مغربی بنگال کے مختلف مدارس ، اسلامی آرگنائزیشن اورنان مسلم تنظیم کے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ نیز کولکاتا یونیورسٹی میں منعقدہ سمینار میں لوگوں کے درمیان دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔ اس سمینار کا ذکر آگے آرہا ہے۔
ایج آف دعوہ: کلکتہ یونیورسٹی (کولکاتا)نے 4 نومبر 2016 کو امن اور ہارمَنی کے موضوع ہر ایک سیمینار منعقد کیا تھا۔ اس میں سی پی ایس انٹرنیشنل، دہلی کی چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم نے اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے Intercultural Prospects for Global Harmony and Peace کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس کے علاوہ بشپ کالج، کولکاتا میں خدا کا منصوبہ تخلیق (The Creation Plan of God ) کے عنوان سے ایک لکچر دیا۔یہ دورہ بطور خاص کولکاتا ٹیم کی دعوت پر ہوا تھا۔ اس لیے اس دورے میں انھوں نے مقامی سی پی ایس ٹیم سے دعوتی مواقع اور مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔اس موقع پر انھوں نے بنگلہ زبان میں صدر اسلامی مرکز کےترجمہ شدہ لیف لیٹس کا اجراء بھی کیا۔
مدعو آپ کے دروازے پر 31: اکتوبر 2016 کو پتنجلی یوگاپیٹھ (بابا رام دیو،یونیورسٹی) کے ایک نمائندہ وفد نے پیس ہال (سہارن پور) کا دورہ کیا۔ انھوں نے اسپریچول سیشن میں شرکت کی، اوروفد کی ممبر کماری ارچنا موریا نے سامعین سے خطاب کیا۔ آخر میں تمام مہمان اورشرکاء کے درمیان ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچرتقسیم کیاگیا۔
سماجی مہم، دعوت کا باب 5: نومبر 2016 کو سی پی ایس دہلی کی ایک ٹیم نےتغلق آباد بایوڈائیورسٹی پارک میں منعقدہ شجرکاری مہم میں حصہ لیا۔ یہ مہم ٹائمس آف انڈیا گروپ کی جانب سے آرگنائز کی گئی تھی۔ آرگنائزر نے سی پی ایس ٹیم کا شکریہ ادا کیا، اور آئندہ بھی شرکت کی امید ظاہر کی۔ سی پی ایس ٹیم کی جانب سے جن لوگوں نے اس مہم میں حصہ لیا، وہ یہ ہیں: ڈاکٹر اقبال پردھان ، مسٹر دانیال، جناب وسیم، اور نور محمدصاحبان، وغیرہ۔
مشن اسپرٹ: ناگپور و کامٹی الرسالہ ٹیم کی ماہانہ میٹنگ بروز اتوار، مورخہ 6 نومبر 2016، محمد عرفان رشیدی صاحب کے مکان پر ہوئی ۔ میٹنگ میں شریک ممبران کو مطلع کیا گیا کہ بھوپال CPS ٹیم کے ایک رکن یونس لٹیانی صاحب 13 نومبر کو ایک نکاح کی تقریب میں شرکت کے لئے کامٹی آرہے ہیں ۔ اس موقع پر وہ شرکاء نکاح کے درمیان قرآن مجید اور دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کریں گے ۔ طے پایا کہ انشاء اللہ ناگپور و کامٹی ٹیم کے ممبران اس دعوتی کام میں موصوف کا بھرپور تعاون کریں گے ۔ مزید طے پایا کہ امراوتی کا دعوتی سفر کیا جائے اور اس سلسلے میں ممبئی ٹیم سے رابطہ قائم کر کے پروگرام طے کیا جائے –۔
مدعو انتظار میں 8: نومبر 2016 کو سی پی ایس کے ممبران نے ودیا جیوتی کالج آف تھیولوجی، دہلی کے طلباء کو خطاب کیا۔ انھوں نے قرآن کی تعلیمات، اور پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسلام کے ساتھ دوسرے عالمی مذاہب پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پروگرام کے بعد سوال وجواب کا سیشن ہوا۔ آخر میں تمام لوگوں کے درمیان قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیے گیے۔سی پی ایس دہلی کے جن ممبران نے اس پروگرام میں بطور اسپیکر شرکت کی وہ یہ ہیں: مسٹر رجت ملہوترا، مس ماریہ خان، مس نغمہ صدیقی، مس صوفیہ خان اور مولانا فرہاد احمد ۔
جدید کتاب: صدر اسلامی مرکز نے 8 نومبر 2016 کو اپنی نئی کتاب ’لیڈنگ اے اسپریچول لائف‘ (انگلش) کا اجراء کیا۔ یہ کتاب صدر اسلامی مرکز کےان مضامین کا مجموعہ ہے جو انگریزی اخبارٹائمس آف انڈیا میں شائع ہوئے ہیں۔یہ کتاب گڈورڈ بکس سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
17نومبر 2016 کو صدر اسلامی مرکز نے اپنی انگریزی کتاب ’واٹ از اسلام‘ کے مراٹھی ایڈیشن کا اجراء کیا۔ اس کامراٹھی ایڈیشن سی پی ایس کی پونے (مہاراشٹرا) ٹیم نے تیار کیا ہے۔ اس کا ترجمہ عبد الحمید صاحب نے کیا ہے۔ اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے الرسالہ کسٹمر سروس سے رابطہ قائم کریں۔
خدائی پیغام گھر گھر: جزیرہ فجی سے موصول اطلاع کے مطابق فجی کےایک علاقہ میں صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ لوگوں نے بڑے شوق سے اس کو حاصل کیا۔ بلکہ مزید ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچر کا کا مطالبہ کیا۔ اس سلسلے میں وہاں سے ایک میسیج موصول ہوا ہے جو نیچے دیا جارہا ہے:
The pamphlets and the Quran copies were all finished, people want to know about Islam in Fiji. Please support us to convey the message of Islam in Fiji.
دعوہ بیداری: یروشلم میں بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ ان کی زیارت کا ایک مقام مسجد اقصی بھی ہے۔ یہاں کچھ فلسطینی نوجوان پر امن انداز میں سیاحوں کے درمیان قرآن تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے لیے ایک خوش آئند بات یہ ہوئی ہے کہ مسجد اقصى کی انتظامیہ نے دعوتی کام کی افادیت کو محسوس کیا، اور مسجد اقصی کےبیسمنٹ میں ایک بڑی جگہ ترجمہ قرآن کے لیے مختص کردی ہے، تا کہ قرآن کے اسٹاک میں آسانی ہو،اور دعوتی کام کرنے والےوہاں آنے والے سیاحوں کے درمیان ان کو آسانی سے تقسیم کرسکیں۔ یہاں صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن اور دیگر دعوہ لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے۔ صدر اسلامی مرکز کی مشہور دعوتی کتاب واٹ از اسلام (انگریزی) بھی ہبرو زبان میں چھپ چکی ہے۔ اس کو ایک یہودی اسکالر نے ترجمہ کیا اور چھپوایاہے۔
آپ کے تاثرات : مس دِوّیا ارورہ نے صدر اسلامی مرکز کے مضمون Is Trump Islamophobic : کو اسپیکنگ ٹری ویب سائٹ (www.speakingtree.in)پر پڑھا، اور بہت پسند کیا۔یہ مضمون امریکا کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر لکھا گیا تھا۔ اس کو سی پی ایس ویب سائٹ پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ مس ودیا نےاپنا تاثر جن الفاظ میں لکھا ہے ، وہ یہ ہیں:
Amazing article! I really appreciate the factual information Maulana has given besides the Quran's preaching. Unfortunately people get influenced and have such negative thoughts. Hope things settle down.
■ One of the Israili tourists, who was roaming around in Chennai unexpectedly visited our showroom today. When I offered him a copy of 'The Quran' translation, he told that he had got a copy from Haifa (Jerusalem) by one of the 'Goodword Dayees'. The tourist was surprised to know that the same kind of 'Dayee' now addressed him very far away from his native town. So 'CPS mission' is succeeding to train all of its associated dayees to become well-wishers of mankind, irrespective of their nationality, colour, creed, religion, and race. (Kollu Nadeem Ahmed, Chennai)
واپس اوپر جائیں

Sunday, 1 January 2017

Alrisala January 2017 (الرسالہ جنوری)

7

-تخلیق کی منزل

14

-پیغمبر اسلام کا رول

18

-اخوان رسول

20

-ماکان و ما یکون

22

-دورِ تائید

26

-قتال، جہاد

29

-معاونِ اسلام تہذیب

32

-قرآن اور عصر جدید

40

-سیاسی اقتدار کی نوعیت

42

-عہد اسلام

44

-انسانیت انتظار میں

45

-مسلمان اور دور حاضر

46

-اجتہاد کا فقدان

48

-حکمت کی آفاقیت

49

- ایک خط

50

- ایک انٹرویو کا خلاصہ


تخلیق کی منزل

تخلیق کی منزل (goal of creation) کیا ہے۔ یعنی پیدا کرنے والے نے کیوں موجودہ دنیا کو پیدا کیا۔ اس تخلیقی عمل کا مقصد کیا ہے، اور یہ تخلیقی سفر آخر کار کہاں تک پہنچنے والا ہے۔ قرآن اور انسانی تاریخ کے مطالعے سے اس کا جو جواب معلوم ہوتا ہے، اس کو یہاں درج کیا جارہا ہے۔
اس سوال کا جواب مختصر طور پر یہ ہے کہ تخلیق کا مرکزی کردار انسان ہے، اور تخلیق کی منزل جنت (Paradise) ہے۔جو کہ انسان کے لیے معیاری دنیا (ideal world) ہے۔آغاز سے اختتام تک یہ ایک لمبا سفر ہے، جو مختلف مراحل سے گزرتا ہے، اور آخر کار وہ ابدی جنت تک پہنچتا ہے۔ آخری دور کے بارے میں قرآن میں یہ بتایا گیا ہے:یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَیْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ (14:48)۔ یعنی جس دن یہ زمین ایک اور زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی۔ اس تبدل (change) کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا کو بدل کر وہ دنیا بنائی جائے گی، جس کو قرآن میں آخرت کی دنیا کہا گیا ہے۔
یہ دوسری دنیا ایک معیاری دنیا ہوگی۔ موجودہ دنیا میں صالح اور غیر صالح، دونوں ملی جلی حالت میں آباد ہیں۔ اسی کے نتیجے میںیہاں ہمیشہ وہ غیر مطلوب صورتِ حال پیدا ہوتی ہے، جس کو منفی طور پر پرابلم آف ایول (problem of evil) کہا جاتا ہے۔اگلی دنیا میں دونوں قسم کے انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے گا۔اس کے بعد زمین ایک اور زمین کی صورت میں ہمیشہ کے لیے قائم ہوجائے گی۔
اس واقعہ کو زبور اور قرآن، دونوں میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ (21:105) ۔ موجودہ زبور میںیہ حوالہ ان الفاظ میں موجود ہے: بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے— شریروں کی نسل کاٹ ڈالی جائے گی۔صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے :
For evildoers shall be cut off: but those that wait upon the Lord, they shall inherit the earth....the seed of the wicked shall be cut off. The righteous shall inherit the land, and dwell therein forever. (Psalms, 37:9 & 28-29)
یہ وارثین ساری نسل انسانی کے صالح افراد ہوں گے، جن میں امت محمدی کے صالح افراد بھی شامل ہیں۔
تخلیق کے ادوار
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے کائنات کو چھ ادوار (periods)کی صورت میں بنایا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں سات بار آیا ہے۔ ان آیتوں میں سے ایک آیت یہ ہے: اللَّہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ(32:4)۔ یعنی اللہ ہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو ان کے درمیان ہے، چھ دنوں میں۔
ان آیات میں چھ ایام سے مراد چھ ادوار (six periods) ہیں۔ دور کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کو بیک وقت دفعۃً پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ ان کو اسباب و علل (cause and effect) کی صورت میں پیدا کیا گیا۔ تخلیق کی یہ صورت اس لیے اختیار کی گئی تاکہ انسان اپنی عقل کی روشنی میں ان کا مطالعہ کرسکے، اور تخلیق کی حکمت کو اپنے لیے ذہنی تشکیل کا سامان بنا سکے۔
انسانی علوم کے ذریعہ کائنات کا جو مطالعہ کیا گیا ہے،ان کو لے کر اگر ان چھ ادوار کو متعین کیا جائے تو وہ یہ ہوگا:
(1) بگ بینگ (big bang)
(2) لٹل بینگ (little bang) یا سولر بینگ (solar bang)
(3) واٹر بینگ (water bang)
(4) پلانٹ بینگ (plant bang)
(5) انیمل بینگ (animal bang)
(6) ہیومن بینگ (human bang)
یہ تاریخ کے چھ معلوم ادوار ہیں۔ سائنسی اندازے کے مطابق چھ ادوار کی یہ مدت تقریبا تیرہ بلین سال ہے۔اس مدت میں موجودہ کائنات عدم سے وجودمیں آئی، اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئےاپنی موجودہ صورت میں بن کر تیار ہوئی۔ اس کے بعد انسان کی جو تاریخ بنی، اور جس طرح وہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اپنا سفر طے کررہی ہے، اس کا مختصر بیان یہاں درج کیا جاتا ہے۔
صراط مستقیم
خالق کی مقرر کردہ ایک صراط مستقیم (right path) ہے، جو اس بات کی ضامن ہے کہ اس پر چلنے والا انسان اپنی مطلوب منزل پر ضرور پہنچے ۔ پیغمبروں کے ذریعہ اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ خالق نے مسلسل طور پر ایسا کیا کہ انسان کے پاس اپنے پیغمبر بھیجے، اور ان کے ذریعہ اپنی کتاب ہدایت بھیجی۔ اس کامقصد یہ تھا کہ انسان درست راستہ (right track) پر چلتا رہے، وہ اس سے بے راہ (derail) نہ ہونے پائے۔
ساتویں صدی عیسوی میں اللہ رب العالمین نے خاتم النبیین کو بھیجا۔ آپ نے اور آپ کے اصحاب نے غیر معمولی جد و جہد کے ذریعہ ایک ایسا انقلاب برپا کیا، جس کے ذریعہ بعد کے زمانے میں ایک تاریخی عمل (historical process) جاری ہوگیا۔ اس تاریخی عمل نے وہ مواقع کھولے، جن کے ذریعہ دنیا میں تہذیبی انقلاب (civilizational revolution) آیا۔
مادی تہذیب
موجودہ زمانے میں ہم اپنے آپ کوجس تہذیب کے دور میں پاتے ہیں اس تہذیب کو عام طور پرمغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک مادی تہذیب (material civilization) ہے۔ یہ مادی تہذیب خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق ایک مقدرتہذیب تھی۔ اس مادی تہذیب کا پیشگی حوالہ قرآن کی اس آیت میں ملتا ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ ُ (41:53)۔یعنی مستقبل میں ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ اور کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے۔
یہاں آیات سے مراد وہ قوانین فطرت ہیں جو تخلیقی طور پر اس دنیا میں ہمیشہ سے موجود تھے۔ ’’ہم نشانیاں دکھائیں گے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کچھ انسانوں کو توفیق دے گا کہ وہ فطرت کے مخفی قوانین (hidden laws of nature) کو دریافت کریں، اور اس طرح دین خداوندی کی تائید (support) کے لیے ایک عقلی بنیاد (rational base)فراہم ہو۔ اس تہذیب نے انسانی دنیا اور مادی دنیا میں چھپی ہوئی جن حقیقتوں کو دریافت کیا ہے، وہ دین خداوندی کی حقانیت کی تصدیق کرنے والی ہیں۔
موجودہ دنیا میں انسان کو آباد کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ معرفت (realisation) کا سفر کرے، اور اپنی شخصیت کو اعلی ارتقاء کے درجے تک پہنچائے۔ اس تہذیب نے انسان کے لیے غور و فکر کا ایک نیا فریم ورک (framework) دیا۔ اس نے غورو فکر کے لیے انسان کو نئی معلومات (data) دیا۔ اس نے انسان کو نئے وسائل (resources) دیے۔ یہ تمام چیزیں اس لیے ہیں کہ انسان اپنے سفر معرفت کو زیادہ کامیابی کے ساتھ جاری رکھ سکے، اور اپنے آپ کو ایک سیلف میڈ مین (self-made man) کی حیثیت سے ڈیولپ کرے۔
مخلوق کامل
انسان کو ایک مکمل مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کو بے شمار صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ مگر یہ صلاحیتیں اس کو بالقوۃ(potential) کی صورت میں دی گئی ہیں۔ ان بالقوۃ صلاحیتوں کو بالفعل (actual) میں بروئے کار لانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے آپ کو خود تعمیر کردہ انسان (self-made man) کی صورت میں ڈیولپ (develop)کرے۔ سیلف ڈیولپمنٹ (self development)کے اس عمل (process) میں انسان کومعلوماتی تائید کی ضرورت تھی۔ مادی تہذیب نے فطرت (nature)کی حقیقتوں کو دریافت کرکے انسان کو یہی تائید (support) فراہم کی ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے اندر جو متشددانہ سرگرمیاں جاری ہیں، وہ غیر متعلق سرگرمیاں ہیں۔ یہ گویادرمیانی جدو جہد کے دور کو تکمیل کے دور میں دوبارہ غیر ضروری طور پر زندہ کرنا ہے۔ موجودہ دور سے پہلےدو فریق ہوا کرتے تھے، دوست اور دشمن۔ لیکن اب یہ ثنائیت (dichotomy) بدل چکی ہے۔ اب دنیا میں صرف دوست اور موید (friend and supporter)موجود ہیں۔اب اہل اسلام کا کام تکمیل کے مثبت مواقع کو اویل (avail) کرنا ہے، نہ کہ دور جدو جہد کے واقعات کا غیر ضروری طور پر اعادہ(repeat) کرنا، جس سے مسائل میں اضافہ کرنے کے سوا کچھ اور ملنے والا نہیں۔
روحانی سماج
تخلیق کا اصل مقصود انسان ہے۔ تخلیقی عمل کے دوران جو چیزیں وجود میں آئیں، وہ سب صرف اس لیے تھیں کہ انسان اپنے سفر معرفت کو کامیابی کے ساتھ طے کرسکے۔ اس پورے عمل (process) کے ذریعہ جو آخری چیز مطلوب ہے، وہ یہ کہ ایک اعلی درجے کا روحانی سماج (spiritual society) بنے، جو اُس معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہو جس کو جنت (Paradise) کہا گیا ہے۔جنت ایک پر فکٹ دنیا (perfect world) ہے، جو ان انسانوں کی آباد کاری کے لیے بنائی گئی ہے جو اپنے آپ کو اس کا اہل (competent) ثابت کریں۔
دنیا میں انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ وہ آزاد ہے کہ اپنے آپ کو جیسا چاہے، ویسا بنائے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں اعلی معیار کا روحانی سماج نہیں بن سکتا۔ یہاں صرف اعلی معیار کے روحانی افراد بن سکتے ہیں۔ تخلیقی منصوبے کے مطابق جو بات ہونے والی ہے، وہ یہ کہ پوری انسانی تاریخ کے خاتمے پر اعلی درجے کے روحانی افراد کو منتخب کرکے انھیں ابدی جنت میں بسنے کا موقع دیا جائے،اور باقی لوگوں کو چھانٹ کر ان سے الگ کردیا جائے۔
اس اعلیٰ درجے کے روحانی سماج میں کون لوگ شامل ہوں گے، ان کا ذکر قرآن میں چار گروہ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔
اس اعلیٰ سماج کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ حسن رفاقت کا سماج ہوگا۔ وہاں کوئی انسان دوسرے انسان کے لیے کوئی مسئلہ (nuisance) پیدا نہیں کرے گا۔ ہر انسان دوسرے انسان کا بہترین ساتھی ہوگا۔ ہر انسان قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل ہوگا۔ ہر انسان دوسرے انسان کا سچارفیق ہوگا، کوئی انسان دوسرے انسان کا حریف نہ ہوگا۔ ہر انسان اعلی اخلاقی اقدار (high moral values) کا حامل ہوگا۔ ہرانسان کامل درجے میں سچائی اور دیانتداری (honesty) کی صفات سے متصف ہوگا، وغیرہ۔
اس تخلیق کے مطابق جو تصویر بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ نے چاہا کہ وہ اعلی درجے کی ایک دنیا بنائے۔ اسی اعلی درجے کی دنیا کا نام جنت (Paradise) ہے۔ اس تخلیق کا نقشہ اس اعتبار سے بنایا گیا جو اعلیٰ درجے کے مطلوب انسان کو وجود میں لانے میں مددگار ہوسکے۔ چوں کہ یہ انسان وہ تھے جو سیلف میڈ مین (self-made man) کے معیار پر پورے اترے۔ اس لیے اس تخلیقی منصوبہ کے مکمل ہونے میں تقریبا تیرہ بلین سال لگے۔ اس تخلیقی مدت کو اس طرح بنایا گیا کہ انسان اپنی عقل (reason) کو استعمال کرکےان کو اپنی تعمیر شخصیت کے لیے استعمال کرسکے۔
دعوت، اکیسویں صدی میں
خالق کی تخلیقی اسکیم (creation plan) ہمیشہ سے ثابت شدہ حقیقت تھی۔ لیکن بیسویں صدی کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آیا ہے۔ جب کہ نظری حقیقتیں، مادی حقائق کی روشنی میں قابل فہم (understandable) بن گئیں۔ مثلا غیب پر ایمان قدیم زمانے میں ایک عقیدہ کی بات تھی۔ موجودہ زمانے میں کوانٹم فزکس (quantum physics) کی دریافت کے بعد یہ صرف نظری بات نہ رہی، بلکہ پرابیبیلٹی (probability) کے درجے میں تقریباً قابل یقین حقیقت بن گئی۔ پرابیبلٹی جدید سائنس کا ایک اہم اصول ہے۔ کہا جاتا ہے:
probabilty is less than certainty but it is more than perhaps
موجودہ زمانے میں جن چیزوں کو سائنسی حقیقت (scientific fact) کہا جاتا ہے، ان سب کا معاملہ یہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک پرابیبیلٹی کے درجے میںمسلمہ حقیقت بنی ہیں، نہ کہ مشاہدہ کے درجے میں۔ یہی معاملہ مذہبی عقائد یاتصورات کا ہے۔ اِس زمانے میں مذہبی تصورات اسی تسلیم شدہ درجے میں ثابت شدہ بن چکے ہیں، جس درجے میں مسلّمہ سائنسی حقائق ۔
فائنل رول
تخلیقی نقشہ کے مطابق، تاریخِ انسانی میں ایک فائنل رول مقدر ہے۔ یعنی آخرت کے ظہور سے پہلے حقیقت کا ایک آخری اعلان۔ یہ آخری اعلان خدا کی توفیق سے ایک ایسا گروہ انجام دے گا، جو پورے تاریخی پراسس کی آخری پیداوار ہو، جو تخلیقی ارتقا کے آخر میں وجود میں آیاہو، جس پر پوری تاریخ منتہی ہوئی ہو،جو ماضی اور حال کے تمام تاریخی ڈیولپمنٹ (historical development) کا مثبت شعور رکھتا ہو۔
یہ گروہ وہ ہوگا جو کتاب تاریخ کے آخری پیراگراف کو لکھے گا۔ جو اپنے آفاقی شعور کی بنا پر اِس قابل ہوگا کہ انسانیت کے لیے حجت بن جائے۔ جو تمام مواقع (opportunities) کو مثبت طور پراستعمال کرے۔اور پھر خدائی سچائی کا وہ عالمی اعلان کرے، جس کے بعد کوئی انسان بےخبری کا عذر پیش نہ کرسکے۔یہی وہ حقیقت ہے جس کو حدیث میں عالمی ادخال کلمہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر، ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد، حدیث نمبر 23814)
واپس اوپر جائیں

پیغمبر اسلام کا رول

پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے بارے میں قرآن میں یہ آیت آئی ہے:مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّہِ وَرِضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِی وُجُوہِہِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْإِنْجِیلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِہِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْہُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِیمًا (49:29)۔ محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ منکروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں۔ تم ان کو رکوع میں اور سجدہ میں دیکھو گے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی کی طلب میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی نشانی ان کے چہروں پر ہے سجدہ کے اثر سے، ان کی یہ مثال تورات میں ہے۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے کھیتی، اس نے اپنا انکھوا نکالا، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ اور موٹا ہوا، پھر اپنے تنے پر کھڑا ہوگیا، وہ کسانوں کو بھلا لگتا ہے تاکہ ان سے منکروں کو جلائے۔ ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا، اللہ نے ان سے معافی کا اور بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔
اس آیت میں اصحاب رسول کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ منکروں پر شدید ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ منکروں پر سخت گیر ہوتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ منکروں کا اثر قبول نہیں کرتے۔ یعنی وہ مضبوط سیرت (strong character) کے لوگ ہیں۔ ان کی یہ صفت ان کو اس کمزوری سے بچاتی ہے جس کو قرآن میں مضاہاۃ (التوبۃ30:) کہا گیا ہے۔ یعنی اپنے دین کے معاملے میں خارجی کلچر کا اثر قبول کرلینا۔
پھر اصحاب رسول کی یہ صفت بیان کی کہ وہ آپس میں مہربان ہیں۔ یہ اخلاقی برتاؤکی بات نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد ان کا طاقت ور باہمی اتحاد ہے۔ وہ کسی اختلاف کو شکایت (complaint) کامعاملہ نہیں بناتے، بلکہ اس کو نظر انداز کرکے ، اپنے متحدہ جد و جہد کو پوری طرح باقی رکھتے ہیں۔ کوئی ناموافق بات کبھی ان کے باہمی اتحاد کو توڑنے والی نہیں بنتی۔
اس کے بعد تراھم الخ کا جملہ ہے۔ یہ جملہ ان کی داخلی ربانی حالت کو بتاتا ہے۔ ان کا یہ ربانی مزاج اس بات کا ضامن ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کی رضا والے راستے پر قائم رہیں۔ ان کی داخلی اسپرٹ کبھی کمزور نہ ہونے پائے۔ اصحاب رسول کی صفت پیشگی طورپر تورات میں بتادی گئی تھی۔موجودہ تورات میں اس کے لیے دس ہزار قدوسیوں (ten thousand saints) کا لفظ موجود ہے (استثناء33:2:) ۔
انجیل کی تمثیل میں اصحاب رسول کا ایک مزید رول یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تاریخ میں ایک زرع یا بیج (seed)ڈالنےکا کام کریں گے، جو آخر کار بڑھ کر ایک مکمل درخت بن جائے گا۔ یہاں تمثیل کی زبان میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اصحاب رسول اپنی غیر معمولی جدو جہد کے ذریعے انسانی زندگی میں ایک تاریخی عمل (historical process) جاری کریں گے، جو آخر کار ایک عظیم انقلاب تک پہنچے گا۔ اس انقلاب کے دو خاص پہلو تھے۔ان دونوں پہلووں کو قرآن میں اختصار کی زبان میں بتایا گیا ہے۔
صحابہ اور تابعین کے اس رول کو قرآن کی درج ذیل آیت کامطالعہ کرکے سمجھا جاسکتا ہے: الَّذِینَ إِنْ مَکَّنَّاہُمْ فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّکَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (22:41)۔ یعنی یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں قدرت دیں تو نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں، نیک کام کرنے کا حکم دیں برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
قرآن کی اس آیت میں تمکین فی الارض سے مراد سیاسی استحکام (political stability)  ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صحابہ اور تابعین کی جماعت کو جب پولیٹکل استحکام ملا تو اس کو انھوں نے انھیں مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ مقاصد تین تھے— عبادت، زکوٰۃ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ یہاں ان تینوں سے مراد انفرادی عمل نہیں ہے، بلکہ اجتماعی زندگی میں ان کا نظام قائم کرنا ہے۔
عبادت سے مراد مسجد کا نظام اور حج کا نظام قائم کرنا ہے۔ نیز اس میں دینی تعلیم کا نظام بھی توسیعاً شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی استحکام کو انھوں نے کسی سیاسی نشانہ (political goal) کے لیے استعمال نہیں کیا، بلکہ اہل ایمان کی دینی زندگی کو منظم صورت میں قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس تنظیم میں زکوۃ کا نظام بھی شامل ہے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے مراد کوئی سیاسی نظام نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دین کے تقاضوں کو منظم انداز (organised way) میں انجام دینا۔ مثلا قرآن کو محفوظ کرنا، حدیث کی جمع و تدوین، اسلامی فقہ کو مرتب کرنا، اور دوسرے ان غیر سیاسی کاموں کو انجام دینا، جس کے نتیجےمیں بعد کے زمانے میں امت مسلمہ کا ایک منظم دینی ڈھانچہ قائم ہوا۔ اور جو اب تک کسی نہ کسی صورت میں عملا موجود ہے۔
قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اجر عظیم ( great reward) سے مرادثوابِ عظیم نہیں ہے، بلکہ نتیجہ عظیم ہے، جو بعد کی تاریخ میں پیش آیا۔اس عظیم نتیجہ کو قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔
صحابہ اور تابعین کی کوششوں سے اسلام کا مکمل اظہار ہوا۔ لیکن یہ اظہار روایتی دور (traditional age) کے اعتبار سے تھا۔ اسلام کا ایک اور اظہار ابھی باقی تھا۔ اور وہ تھا عقلی فریم ورک (rational framework) کے مطابق، اسلام کا اظہار۔ اس مقصد کے لیے تاریخ میں ایک نیا انقلاب لانا ضروری تھا۔ یہ انقلاب وہی ہے جو بعد کے دور میں سائنٹفک انقلاب (scientific revolution) کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یعنی فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کو دریافت کرنا۔اور اس کے مطابق، تاریخ میں ایک نیا دور لانا۔ یہ دور عملا وہی ہے جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔
اس دوسرے دور کا آغاز مسلمانوں نے اپنے دور میں کیا، لیکن اس کی تکمیل بعد کے زمانے میں مغربی قوموں کے ذریعے انجام پائی۔ اس انقلاب کا پراسس مسلم عہد میں شروع ہوا، لیکن اس کی تکمیل بعد کے زمانے میں جدید تہذیب (modern civilization) کی صورت میں دنیا کے سامنے آئی۔
دوسری قوموں کے ذریعے اس کام کا انجام پانا، احادیث رسول میں پیشگی طور پر بتا دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں حدیث کی کتابوں میں جو روایات آئی ہیں، ان میں سے ایک روایت یہ ہے: إن اللہ عز وجل لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر56)۔ یعنی اللہ اس دین کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا، جو اہل اسلام میں سے نہ ہوں گے۔ جدید تہذیب جس کو مغربی تہذیب کہا جاتا ہے، وہ حقائقِ فطرت کے انکشاف پر مبنی ہے۔ قرآن کی زبان میں اس کو آفاقی تہذیب (فصلت53:) کہا جاسکتا ہے۔ اس تہذیب میں اگر بعض غیر مطلوب اجزاء شامل ہیں، تو وہ براہ راست طور پر تہذیب کا حصہ نہیں ہیں، بلکہ وہ مغربی کلچر کا حصہ ہیں۔ مثلا برہنگی (nudity) وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

اصحابِ رسول، اخوان رسول

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: وددت أنا قد رأینا إخواننا قالوا:أولسنا إخوانک یا رسول اللہ قال:أنتم أصحابی وإخواننا الذین لم یأتوا بعد (حدیث نمبر249)۔یعنی میری خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں، لوگوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں۔ آپ نے کہا تم میرے اصحاب ہو اور ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔
اصحاب رسول سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر اہل ایمان ہیں۔ اور اخوان رسول سے مراد آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں، جو بعد کے زمانے میں ظاہر ہوں گے۔ اصحاب رسول اور اخوان رسول میںسے کوئی افضل یا غیر اٖفضل نہیں ہے۔ دونوں عملاً یکساں درجے کے لوگ ہیں۔ اسلام میں درجہ کا تعلق زمانے سے نہیں ہے، بلکہ تقویٰ سے ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّہِ أَتْقَاکُم (49:13)۔ یعنی بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ صاحب تقویٰ ہے۔
اس حدیث کی تشریح ایک اور حدیث سے ہوتی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عن عبد اللہ بن عمرو؛ أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال:مثل أمتی کمثل المطر؛ لا یدرى أولہ خیر أم آخرہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14649)۔عبد اللہ ابن عمرو روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی مثال بارش جیسی ہے، نہیں معلوم کہ اس کا اول زیادہ بہتر ہے، یا اس کا آخر۔
اس حدیث رسول میں تمثیل کی زبان میں ایک تاریخی واقعہ کو بتایا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن اظہار دین کا مشن تھا۔ اس مشن کے دو دور تھے۔ پہلا دور یہ تھا کہ اسلامی مشن کے راستے میں رکاوٹوں کو ختم کرکے مواقع (opportunities) کے دروازوں کو کھولنا، اور دوسرا دور یہ تھا کہ پیدا شدہ مواقع کو استعمال (avail) کرکے اسلام کا عالمی اظہار کرنا۔ پہلے دور کو حدیث میں تمثیل کی زبان میں اول المطر (first period of rain) کہا گیا ہے۔ اور دوسرے دور کو آخر المطر (second period of rain) کہا گیا ہے۔
صحابہ اور تابعین کے زمانے میں قدیم زمانے کی رکاوٹوں کا خاتمہ کیا گیا۔ مثلا شرک کے غلبہ کو ختم کرنا، بادشاہی نظام کو ختم کرنا، تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کرنا جس کے نتیجے میں وہ واقعہ پیش آئے جس کو قرآن میں تبیین حق (فصلت: 53) کہا گیا ہے۔اسلامی مشن کے اس عالمی اظہار کو حدیث میں مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلا یہ روایت : لیبلغن ہذا الأمر ما بلغ اللیل والنہار، ولا یترک اللہ بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ ہذا الدین (مسند احمد، حدیث نمبر 16957 )۔ یعنی یہ امر (دین) ضرور پہنچے گا وہاں تک جہاں تک دن اور رات پہنچتے ہیں۔ اللہ نہیں چھوڑے گا، مگر یہ کہ ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں اس دین کو داخل کردے۔
اظہار دین کا یہ عالمی مشن تاریخ کا سب سے بڑا عالمی مشن تھا۔ اس لیے اللہ نے اس مشن کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے تاریخ میں ایسے حالات پیدا کیے جب کہ غیر اہل دین بھی اس کے موید بن جائیں۔ اللہ رب العالمین کے اس فیصلہ کو حدیث رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: بے شک اللہ عز و جل اسلام کی تائید ضرور ان لوگوں کے ذریعہ کرے گاجو اہل اسلام نہ ہوں گے (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔
اکیسویں صدی عیسوی میں یہ تاریخی عمل (historical process) اپنے نکتہ انتہا (culmination) تک پہنچ چکا ہے۔ اب تمام مواقع آخری حد تک کھل چکے ہیں۔ اب اہل اسلام کا ایک ہی مشن ہے، اور وہ ہے اللہ کے پیغام (قرآن ) کو پورے روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کی قابل فہم زبان میں پہنچانا۔ اگر اہل اسلام کسی اور غیر متعلق کام میں اپنے آپ کو مشغول کرتے ہیں تو یہ مشغولیت ان کے لیے اس رُجز (المدثر5:) میں ملوث ہونے کے ہم معنی ہوگی جس کو ترک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ماکان و ما یکون

ایک حدیثِ رسول سنن الترمذی اور دوسری کتب حدیث میں آئی ہے۔ احکام القرآن لابن العربی میں اس کو ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے: أول ما خلق اللہ القلم، فقال لہ:اکتب، فکتب ما کان وما یکون إلى یوم الساعة، فہو عندہ فی الذکر فوق عرشہ(احکام القرآن، بیروت، 2003،جلد4، صفحہ420 )۔یعنی اللہ نے پہلی چیز جو پیدا کی ، وہ قلم تھی۔ پھر اللہ نے اس سے کہا کہ لکھ۔ تو اس نے لکھا وہ سب کچھ جو ہوا، یا جو ہوگا قیامت تک۔ پس وہ اللہ کے پاس ذکر میں ہے، اللہ کے عرش کے اوپر۔
اس حدیث میں ’’ماکان وما یکون‘‘ سے مراد کون سے واقعات ہیں۔ تاریخ کے تمام واقعات یا منتخب واقعات۔ تاہم اہل ایمان کے لیے اصل اہمیت ان واقعات کی ہے جو توحید کے مشن سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس نوعیت کے واقعات کو جاننا اہل توحید کے لیے ضروری ہے۔ تاکہ ان کی رعایت کرتے ہوئےوہ اپنے دعوتی مشن کی صحیح منصوبہ بندی کرسکیں۔ جیسا کہ ایک حدیث رسول میں آیا ہے: وعلی العاقل ان یکون بصیرا بزمانہ(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔دانش مند آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اعتبار سے انسانی تاریخ کے دو دَور ہیں۔ایک وہ جب کہ دنیا دو قسم کے لوگوں میں بٹی ہوئی تھی— مومن اور کافر یا بلیور (believer)اور نان بلیور (non-believer)۔ مگر بعد کے زمانے میں تاریخ میں جو انقلاب آئے گا۔ اس کے بعد یہ تقسیم ختم ہوجائے گی۔ اب دنیا جن دو قسم کے لوگوں میں تقسیم ہوگی، وہ ہوں گے مومن (believer)اور موید (supporter)۔ بعد کے زمانے میں اس تبدیلی کا ذکر حدیث میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: إن اللہ عز وجل لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔ اللہ عز وجل اسلام کی تائیدضرور ایسے لوگوں سے کرے گا، جو اسلام کا حصہ نہ ہوں گے۔
بعد کے زمانے میں ہونے والی اس تبدیلی کا مطلب یہ ہوگا کہ عملا اب جنگ کے دور کا خاتمہ ہوگیا۔ بعد کے اس دور میں بھی اگر اہل ایمان جہاد کے نام پر جنگ کا سلسلہ جاری رکھیں ، تو یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے دین کے مویدین سے جنگ کے ہم معنی ہوگا۔
یہی مطلب ہے اس آیت کا جس میں کہا گیا ہے کہ دین سب اللہ کے لیے ہوجائے گا(الانفال39:)۔ یعنی ایک ایسی دنیا جس میں مومن اور کافر کی تقسیم ختم ہوجائےگی۔ اس کے برعکس، دنیا میں مومن (believer) اورموید (supporter) کی تقسیم قائم ہوجائے گی۔

ایک جلد میں موجود انسائیکلوپیڈیا میں سے ایک وہ ہے جس کا نام ہے:
Pears'’ Cyclopaedia , London
اس انسائیکلوپیڈیا میں مانوتھیزم کے آگے لکھا ہوا ہے کہ توحید اس اصول کا نام ہے کہ یہاں صرف ایک خدا کا وجود ہے۔ خاص توحیدی مذہب عیسائیت ہے:
MONOTHEISM, the doctrine that there exists but one God. The Chief monotheistic religion is Christianity.
یہ انسائیکلوپیڈیا کا وہ اڈیشن ہے جو 1948 میں چھپا تھا۔ پہلے مغربی دنیا میں جو لٹریچر تیار ہوا، اس میں اسی طرح اسلام کو حذف کردیا گیا تھا۔ اپنی اصل کے اعتبار سے بلاشبہ تمام مذاہب توحید کے مذاہب تھے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آج خالص توحیدی مذہب اسلام ہے۔ کیوں کہ دوسرے مذہب اپنی ابتدائی حالت میں باقی نہیں رہے ہیں۔
مغربی علماء نے اب اپنی اس روش پر نظر ثانی شروع کردی ہے۔ چناں چہ 1977 میں شائع ہونے والی ایک انسائیکلوپیڈیاCollins Concise Encyclopedia:میں اس سلسلہ میں لکھا گیا ہےکہ توحید اس عقیدہ کا نام ہے کہ یہاں صرف ایک خدا ہے، جیسا کہ یہودیت اور عیسائیت اور اسلام میں مانا جاتا ہے:
MONOTHEISM, belief that there is only one God, as in Judaism, Christianity, and Islam.
(ڈائری، 1985)
واپس اوپر جائیں

دورِ تائید

قرآن میں ایک حکم پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں دیا گیا ہے: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہ (8:39)۔ یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں قتال کا لفظ معروف جنگ کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ انتہائی جد و جہد (utmost struggle) کے معنی میں ہے۔ چوں کہ آپ کی زندگی میں عملا جو کچھ پیش آیا وہ یہی تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام نے اپنی پوری زندگی میںکبھی کوئی کامل جنگ (full-fledged war) نہیں کی۔ آپ کے مخالف گروپ نے کئی بار آپ پر حملہ کرکے آپ کو جنگ میں الجھانے کی کوشش کی۔ مگر آپ نے ہمیشہ یہ کیا کہ خصوصی تدبیر کے ذریعہ یا تو جنگ کو عملا ًہونے نہیں دیا، یا اس کو جنگ کے بجائے جھڑپ (skirmish) بنا دیا۔ اس معاملے میں آپ کی زندگی مذکورہ قرآنی آیت کی عملی تفسیر ہے۔
آپ کی تاریخ بتاتی ہے کہ مکہ میں آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا، لیکن آپ نے مکہ سے ہجرت کرکےقتل و قتال کو عملا ناممکن بنا دیا۔ غزوۂ احزاب کے موقع پرآپ کے مخالفین نے بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کیا۔ مگر آپ نے اپنے اور فریق مخالف کے درمیان خندق کی صورت میں ایک حاجز (buffer) قائم کردیا۔ حدیبیہ کے موقع پر فریقِ ثانی نے جنگ کی صورت پیدا کردی، لیکن آپ نے یک طرفہ صلح کرکے جنگ کو ہونے سے روک دیا۔ فتح مکہ کے موقع پر جنگ یقینی تھی، لیکن آپ نے خصوصی تدبیر کے ذریعہ اس کو پر امن مارچ (peaceful march) میں بدل دیا، وغیرہ۔
دورِ تائید کا آغاز
قدیم زمانے میں جنگ بہت عام تھی۔ قبائل کے درمیان جنگ، بادشاہوں کے درمیان جنگ، وغیرہ۔ لوگ مسائل کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ جانتے تھے— جنگ کا طریقہ ۔ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو اس معاملے میں ایک صراطِ مستقیم (الفتح 2:) کی طرف رہنمائی کی ۔ یعنی جنگی ٹکراؤ کے بجائے پر امن تدبیر (peaceful management)کے ذریعے مسائل کو حل کرنا۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے اس تدبیر کو اتنے بڑے پیمانے پر استعمال کیا کہ تاریخ میں نیا دور آگیا۔ یعنی ٹکراؤ کے بجائے تائید کا دور ۔ اس مقصد کے لیے ساتویں صدی عیسوی میں ایک منصوبہ بند عمل کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں انسانی تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری ہوا۔ یہ عمل (پراسس) انیسویں صدی میں اپنی تکمیل (culmination) تک پہنچ گیا۔ اس تکمیلی مرحلہ کو ایک لفظ میں جدید تہذیب (modern civilization) کہا جا سکتا ہے۔ جدید تہذیب اسلام کے لیے ایک تائیدی تہذیب (supporting civilization) ہے۔
اس دورِ تائید کو قرآن میں لِیُظْہِرَہُ عَلَى الدِّینِ کُلِّہِ (9:33) کے الفاظ میں بیان کیا گیا تھا۔ یعنی دین سے تعلق رکھنے والے تمام اسباب دینِ خداوندی کے موافق ہو جائیں۔ دینِ خداوندی اور دین انسانی میں ٹکراؤ کی صورت عملا ختم ہوجائے۔یہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم منصوبہ تھا۔ اللہ نے ایسے حالات پیدا کیے کہ اہل ایمان کی جماعت کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اس میں موید (supporter) بن گیے۔ یہ پیشین گوئی زیادہ واضح الفاظ میں حدیث کی مختلف کتابوںمیں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ آئی ہے:
1۔ إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (۔ صحیح البخاری ،حدیث نمبر3062)۔
2 ۔ إن اللہ عز وجل لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر56)۔
 3۔ إن اللہ سیؤید ہذا الدین بأقوام لا خلاق لہم (مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔
4۔  لیؤیدنّ اللہ ہذا الدین بقوم لا خلاق لہم (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر4517)۔
ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ مستقبل میں ضرور ایسا ہوگا کہ اللہ تعالی اس دین کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا جو اہل دین میں سے نہ ہوں گے۔وہ اس کام کو ڈیو لپمنٹ (development) کے نام سے انجام دیں گے۔ لیکن عملاً ان کی پیدا کردہ دنیا تائیدی معنوں میں پرو اسلام (pro-Islam) بن جائے گی۔
موجودہ زمانےمیں یہ واقعہ کامل طور پر انجام پاچکا ہے۔ وہ چیز جس کو مسلمان عام طور پر اسلامو فوبیا (Islamophobia) کہتے ہیں۔ وہ دراصل پرو اسلام ظاہرہ (pro-Islam phenomenon) ہے۔ لیکن مسلمان اپنی بے خبری کی بنا پر ایک مثبت واقعے کو منفی واقعے کے طور پر لیے ہوئے ہیں۔ اس منفی طرز فکر نے مسلمانوں کو بیک وقت دو نقصان پہنچایاہے۔ ایک یہ کہ وہ دورِ حاضر میں بے جگہ کمیونٹی (displaced)بن گیے۔ اور دوسرے یہ کہ وہ جدید مواقع (modern opportunities) کو اسلام کے حق میں استعمال کرنے میں عملا ناکام رہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مغربی قومیں براہ راست معنوں میں اسلام کے حق میں تائیدی رول انجام دے رہی ہے۔ ایسا ہونا غیر فطری ہے۔ اس قسم کا تائیدی رول کبھی کوئی کمیونٹی کسی دوسری کمیونٹی کے لیے انجام نہیں دیتی۔اصل یہ ہے کہ ’’غیر اہل دین‘‘کا یہ تائیدی رول براہ راست طور پر نہیں، بلکہ بالواسطہ طور پر انجام پایا ہے۔
موجودہ زمانے میں صنعتی انقلاب (industrial revolution) ہوا۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں ایک نیا ظاہرہ وجود میں آیا جس کو کثیر پیداوار (mass production)کا ظاہرہ کہا جاتا ہے۔ نئے صنعتی نظام کے تحت چیزیں اتنی بڑی مقدار میں تیار ہونے لگیں ، جن کی کھپت مقامی طور پر ناممکن تھی۔ اس کے نتیجے میں مارکیٹ کا نیا تصور پیدا ہوا۔ چیزوں کو کمرشیل نظریے کے تحت تیار کیا جانے لگا۔ اس کے نتیجے میں تاریخ میں ایک نیا انقلاب آیا، جو قدیم زمانے میں موجود نہ تھا۔ قدیم زمانے میں ایک مراعات یافتہ طبقہ (privileged class) موجود ہوتا تھا۔ مثلا بادشاہ اور لینڈ لارڈ، وغیرہ۔ صرف یہی لوگ بڑی چیزوں کو حاصل کرسکتے تھے۔ موجودہ زمانے میں جو کمرشیل انقلاب آیا، اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ ہر چیز ہر ایک کے لیے (everything for everyone)کا کلچر رائج ہوگیا۔اب ہر چیز ہر ایک کے دسترس میں ہوگئی۔ یہ چیز پہلے کبھی دنیامیں موجود نہ تھی۔
مثلا پہلے زمانے میں کوئی بڑی سواری صرف بادشاہ کے لیے ممکن تھی۔ اب ہر آدمی کار اور ہوائی جہاز استعمال کررہا ہے۔ پہلے زمانےمیں پیغام رساں کبوتر (homing pigeon)کسی بہت بڑے آدمی کے لیے قابل استعمال ہوا کرتی تھی۔ مگر آج ہم ایج آف کمیونی کیشن کے زمانے میں ہیں۔ اب ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ ٹکنالوجی کا استعمال کرکےپیغام رسانی کا بڑے سے بڑا مقصد حاصل کرسکے، وغیرہ، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں یہ واقعہ بہت بڑے پیمانے پر انجام پایا۔ یہ گویا مواقع کے انفجار (opportunity explosion) کا زمانہ ہے۔اب ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ جدید مواقع کو استعمال کرکے بڑے سے بڑا کام انجام دے سکے۔ یہی امکان پوری طرح اہل ایمان کے لیے کھلا ہوا ہے۔ عمومی طور پر پیدا ہونے والا یہ امکان تاریخ کا بالکل نیا ظاہرہ ہے۔یہ نیا ظاہرہ گویاتائید کلچر ہے۔

کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے اپنے لڑکے شہزادہ سلیم کی شادی میں اس کو چار سو ہاتھی کا تحفہ دیا تھا۔ یہ چار سو ہاتھی دوہد (گجرات) کے گھنے جنگلوں سے حاصل کیے گیے تھے۔ مگر آج گجرات کے اس علاقہ میں نہ کہیں گھنے جنگل نظر آتے ہیں، اور نہ ہاتھی۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمانہ کس طرح بدلتا رہتا ہے۔ ایک جگہ جہاں آج’’جنگل‘‘ نظر آتا ہے، وہاں کل ’’میدان‘‘ نظر آنے لگتا ہے۔ جہاں آج ہاتھیوں کے غول گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، وہاں جب کل کا سورج نکلتا ہے ہے تو دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ وہاں انسان چل پھر رہے ہیں۔
زمانہ کے اس بدلتے ہوئے روپ میں بے شمار نشانیاں ہیں۔ مگر نشانیوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، جو ان کی گہرائیوں میں جھانکنے کی بصیرت رکھتے ہوں۔ (ڈائری، 1985)
واپس اوپر جائیں

قتال، جہاد

قتال اور جہاد کا حکم اسلام میں کیا ہے۔ اس معاملے میں فقہاءاسلام کا مسلک سعودی عالم محمد بن ابراہیم التویجری نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاد کی دو قسمیں ہیں، جہاد اور قتال۔ جہادسے مراد جہاد دعوت ہے اور وہ حسن لذاتہ ہے۔ اس کے مقابلے میں قتال حسن لغیرہ ہے۔ اس کا مقصدلڑ کر فتنہ کو ختم کرنا ہے۔کیوں کہ اس سے دعوت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ (دیکھیے:موسوعة الفقہ الإسلامی، محمد بن إبراہیم التویجری، بیت الافکار الدولیہ، 2009، جلد 5 صفحہ450)۔
اس کا مطلب یہ ہےکہ اسلام میں قتال کا حکم ایک موقت (temporary) حکم ہے اور جہاد کا حکم ایک مستقل حکم۔ قتال فتنہ کو ختم کرنے کے لیے ہے (البقرۃ193: ، الانفال39:)۔ جب فتنہ ختم ہوجائےتو قتال کا حکم بھی موقوف ہوجائے گا۔ اس کے مقابلے میں جہاد برائے دعوت قرآن (الفرقان52:)ہے۔جہاد برائے قرآن یا برائے دعوت الی اللہ ہمیشہ جاری رہے گا۔یہی پر امن دعوت تمام انبیاء کا مشن تھا۔ یہ کبھی موقوف ہونے والا نہیں۔
قرآن کے مطابق، پیغمبر کا کام انذار و تبشیر (النساء165:) تھا۔ یعنی پرا من انداز میں دعوت توحید کا کام انجام دینا۔ یہی کام پیغمبر کے بعد پیغمبر کی امت کا ہے۔ یہ ایک پرامن دعوتی جدو جہد ہے جو قیامت تک کسی توقف کے بغیر جاری رہے گی۔ قیامت کے سوا کوئی بھی دوسری چیز اس کو ختم کرنے والی نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کرکے زمین پر آباد کیا، اور اس کے بعد داعیان توحید کو کھڑا کیا جو ہمیشہ پرامن انداز میںانسان کو اس کا مقصد حیات (purpose of creation) بتاتے رہے۔ مگر بعد کے زمانے میں یہ ہوا کہ دنیا میں جبر (despotism)کا نظام قائم ہوگیا۔ خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق یہ مطلوب ہے کہ انسان کے لیے مذہب کے معاملہ میں ہمیشہ آپشن (options) کھلے رہیں۔ لیکن جبر کے تحت یہ آزادی دنیا میں باقی نہ رہی۔ انسان کو پابند کردیا گیا کہ وہ حکمراں کے عقیدہ (belief) کو مانے، ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اس صورتِ حال کی بنا پر دنیا سے مذہبی آزادی کا خاتمہ ہوگیااور ساری دنیا میں مذہبی جبر (religious persecution) کا دور قائم ہوگیا۔ یہ صورتِ حال خالق کے تخلیقی نقشہ کے خلاف تھی۔ اس لیے پیغمبر آخر الزماں کے ذریعہ قرآن میں یہ حکم دیا گیا : وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہ(8:39)۔ یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے۔
قرآن کی اس آیت میں فتنہ سے مراد قدیم مذہبی جبر کا نظام ہے، جو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق نہ تھا۔ قرآن نے اپنے پیرؤوں کو یہ حکم دیا کہ ہزاروں سال سے قائم شدہ اس مذہبی جبر کے نظام کو ہر حال میں ختم کردو، خواہ اس کے لیے تم کو جنگ کرنا پڑے۔ اس جنگ کا نشانہ صرف ایک تھا۔ اور وہ یہ کہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق عقیدہ (belief) کے معاملے میں انسان کے لیے تمام آپشن (options) کھل جائیں۔ اس معاملے میں انسان کے لیے کوئی جبر باقی نہ رہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے ذریعہ یہ آپریشن (operation) شروع ہوا اور انہیں کے زمانہ میں اس آپریشن کا بڑا حصہ انجام پا گیا۔ پہلے قبائلی نظام (tribal system) ختم ہوا۔ اس کے بعد وقت کے دو بڑے ایمپائر ، ساسانی سلطنت (Sassanid Empire) اور بازنطینی سلطنت (Byzantine Empire) کا خاتمہ ہوگیا، جو کہ اس زمانہ میں سیاسی جبر کے نظام کے دو بڑے مرکز بنے ہوئے تھے۔
اس کے بعد تاریخ میں ایک انقلابی عمل (revolutionary process) شروع ہوا۔ یہ عمل مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے مسلسل طور پر تاریخ میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ 1789 میں وہ واقعہ پیش آیا جس کو انقلاب فرانس (French Revolution) کہا جاتا ہے۔ انقلاب فرانس گویا ختم فتنہ کے عمل (process)کا نقطۂ انتہا (culmination) تھا۔ اب قتال کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب اہل توحید کو صرف پرامن دعوت کا کام کرنا ہے۔
مسلمانوں کی بعد کی تاریخ میں اس معاملے میں ایک فکری تبدیلی پیدا ہوگئی۔ وہ یہ کہ عمومی طور پر قتال و جہاد کو ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ یہ بلاشبہ ایک فکری انحراف تھا۔ اس فکری انحراف کی بنا پر یہ نقصان واقع ہوا کہ قتال ایک مستقل عمل کے طورپر مسلمانوں کے درمیان جاری ہوگیا۔ اور دعوت الی اللہ جو اصل مقصود تھا، وہ عملا پس پشت پڑگیا۔ مسلمانوں کے درمیان انحراف کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسان کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بظاہر اگر کچھ لوگ تم کو اپنے دشمن نظر آئیں تو اپنے حسن اخلاق سے ان کو اپنا دوست بناؤ (فصلت: 34)۔مگر بعد کے زمانے میں جب قتال کو جہاد کے معنی میں استعمال کیا جانےلگا تو صورت حال بدل گئی۔ اب مسلمانوں میں ہم اور وہ (we and they) کا تفریقی کلچر فروغ پانے لگا۔ اب مسلمانوں میں ایک نئی تفریق وجود میں آئی۔ اس تفریق کے تحت، کچھ لوگ اپنے تھے اور کچھ غیر تھے، کچھ مومن تھے اور کچھ کافر، کچھ دوست تھے اور کچھ دشمن۔ اس تفریق کی بنا پر مسلمانوں میں عدم برداشت (intolerance) کا کلچر پیدا ہوا۔ یہ کلچر بڑھتے بڑھتے جنگ اور خودکش بمباری (suicide bombing) تک پہنچ گیا۔
مسلمانوں کے درمیان یہ صورت حال، بلاشبہ ایک مہلک صورت حال ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان اجتماعی توبہ (النور 31:)کریں۔ وہ پرتشددقتال کے کلچر کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور پرامن دعوت کے کلچر کو پوری طرح اختیار کرلیں۔ اس اجتماعی توبہ میں مسلمانوں کے لیے دنیا کی فلاح بھی ہے اور آخرت کی فلاح بھی۔
واپس اوپر جائیں

معاونِ اسلام تہذیب

قدیم یونانی تہذیب سے لے کر جدید مغربی تہذیب (western civilization) تک تقریباً 100 سو تہذیبیں دنیا میں پائی گئی ہیں۔ مگر جدید مغربی تہذیب ایک منفرد تہذیب ہے۔ بقیہ تمام تہذیبیں سیاسی انقلاب کے تحت وجود میں آئیں۔ جب کہ جدید مغربی تہذیب استثنائی طور پر سائنسی انقلاب (scientific revolution) کے تحت وجود میں آئی۔ قدیم تہذیبوں کے بانی سیاسی حکمراں ہوا کرتےتھے۔ مگر جدید مغربی تہذیب کو وجود میں لانے والے وہ لوگ ہیں، جن کو سائنسداں (scientists) کہا جاتا ہے۔
تہذیب کی تاریخ میں اسلامی تہذیب یا مسلم تہذیب کا نام بھی آتا ہے۔ مگر باعتبارِ حقیقت یہ درست نہیں۔جس چیز کو اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلامی تہذیب نہ تھی، بلکہ وہ قدیم یونانی یا رومی تہذیب کی توسیع (expansion) تھی:
What is called Islamic civilization was in fact a modified version of Greco-Roman civilization
تہذیب (civilization) کےلیے موجودہ عرب دنیا میں حضارۃ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن اسلام کے دونوں مصادر (sources)، قرآن اور حدیث اس لفظ سے خالی ہیں۔ قرآن و سنت میں اسلامی حضارۃ (civilization) کا تصور موجود نہیں۔ علمائے متقدمین کی کتابوں میں سے کوئی کتاب اسلامی حضارۃ کے موضوع پر پائی نہیں جاتی۔ اس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلامی حضارۃ ایک مبتدعانہ تصور ہے ۔اس اصطلاح کا ماخذ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مضاہاۃ (التوبۃ30:) کہا گیا ہے۔
اس موضوع پر مزید غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اسلامی تہذیب کا تصور موجود نہیں ہے۔ البتہ اسلام میں اسلام کی موید تہذیب (supporting civilization) کا تصور موجود ہے۔ یہ تصور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک قول سے اخذ ہوتا ہے۔ یہ روایت حدیث کی کتابوں میں مختلف الفاظ میں موجود ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ سیؤید ہذا الدین بأقوام لا خلاق لہم (حدیث نمبر 20454)۔یعنی مستقبل میں ضرور ایسا ہوگا کہ اللہ تعالی اس دین کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا جن کا (دین میں ) حصہ نہ ہو گا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات ایک پیشین گوئی (prediction) تھی۔ یہ پیشین گوئی آپ نے ساتویں صدی عیسوی میں کی۔ اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں، جب کہ اس پیشین گوئی کو چودہ سوسال سے زیادہ گزرچکے ہیں۔ یہ لمبی مدت یہ یقین کرنے کے لیے کافی ہے کہ اب یہ پیغمبرانہ پیشین گوئی یقینی طور پر پوری ہوچکی۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم اس کو دریافت کریں۔ اور اس کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنائیں۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر کی مذکورہ پیشین گوئی اب پوری طرح واقعہ بن چکی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اگر اس سے بے خبر ہیں تو اس کا سبب صرف تسمیہ (nomenclature) کا فرق ہے۔ یعنی پیشین گوئی ساتویں صدی عیسوی کی زبان میں کی گئی، اب وہ آج کی زبان میں ہمارے سامنے ظاہر ہوئی ہے۔ زبان کے اس فرق کو اگر سمجھ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو چیز مستقبل (future)کا واقعہ معلوم ہوتی تھی، وہ اب حال (present) کا واقعہ بن چکی ہے۔ یہاں اس سلسلے میں چند مثالیں نقل کی جاتی ہیں، جس سے یہ بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔
رسول اللہ کے زمانے میں جو قرآن اترا ، اس کی ایک آیت یہ تھی: وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَبِّکَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِکَ وَلَا أَکْبَرَ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِینٍ (10:61)۔ یعنی اور تیرے رب سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز غائب نہیں، نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ بڑی، مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔ ساتویں صدی میں جب یہ آیت اتری اس وقت انسان جانتا تھا کہ اس دنیا میں سب سے چھوٹی چیز ذرہ ہے۔ مگر 1911میںبرٹش سائنٹسٹ ارنسٹ ردر فورڈ (Ernest Rutherford) کی دریافت سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں ذرہ سے بھی چھوٹی ایک چیز موجود ہے، جو اب سب ایٹمک پارٹکل (sub-atomic particle) کے نام سے عالمی طور پر معلوم ہوچکی ہے۔
تائید کا معاملہ
اسلامی تہذیب اور مؤید اسلام تہذیب کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ اس کا تعلق براہ راست طور پر آدمی کے مزاج سے ہے۔ اسلامی تہذیب کا تصور قدیم زمانہ میں موجود نہ تھا۔ یہ صرف موجودہ زمانہ میں ابھرا ہے۔ بظاہر یہ مسلم فخر کا ایک معاملہ تھا۔ مگر عملاً وہ غلط فکر کا معاملہ بن گیا۔ موجودہ زمانہ میں ایک بہت بڑا واقعہ ہوا جو مسلمان کے لیے نہایت مفید معاملہ تھا۔ یہ واقعہ مغربی تہذیب کا معاملہ تھا۔ مغربی تہذیب مسلمانوں کے لیے حدیث کی زبان میں مؤید دین تہذیب تھی۔ وہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم موقع (great opportunity) تھا جس کو استعمال کرکے مسلمان جدید معیار کے مطابق زیادہ مؤثر انداز میں اسلام کی اشاعت کا کام کرسکتے تھے۔ مگر اسلامی تہذیب کے نام پر فخر پسندی کا مزاج مسلمانوں پر اس طرح چھا گیاکہ وہ اس حقیقت کو دریافت ہی نہ کرسکےکہ مغربی تہذیب ان کے دین کے لیے تائید کا درجہ رکھتی ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی غیر حقیقت پسندانہ سوچ کی وجہ سے مغربی تہذیب کو اسلام دشمن تہذیب سمجھ لیا گیا۔ جب کہ باعتبارِ حقیقت وہ ایک مرید اسلام تہذیب تھی۔ اس غلط فکر کا نقصان اتنا بڑا ہے کہ شاید پوری مسلم تاریخ میں اتنے بڑے نقصان کا کوئی دوسرا واقعہ نہیں۔
مغربی تہذیب نے تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کے لیے نئے مواقع کھولے تھے۔ ان میں سب سے بڑا موقع یہ تھا کہ وہ اسلام کی عالمی دعوت کے ناتمام (unfinished) منصوبہ کو تکمیل تک پہنچاسکیں۔ اور حدیث کے الفاظ میں اللہ کے کلام کو زمین پر آباد چھوٹے اور بڑے گھر میں داخل کردیں ۔ مگر مسلمان اپنی غلط فکری کی وجہ سے جدید مواقع کو اپنے دین کے حق میں استعمال نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن اور عصر جدید

قرآن ساتویں صدی کے ربع اول میں اترا۔ قرآن کا مقصد انسانیت کی اصلاح تھا۔ اپنے زمانے کے اعتبار سے قرآن میں جن مختلف گروہوں کوایڈریس کیا گیا ہے، وہ عملاً 4 قسم کے گروہ ہیں— یہود، عیسائی، مشرک اور کافر۔ اگر کوئی شخص قرآن کو پڑھے تو وہ پائے گا کہ یہ چاروں گروہ قرآن کی دعوت کے بارے میں منفی (negative) ذہن رکھتےہیں۔ چناں چہ قرآن میں ان کے اوپر سخت تنقید کی گئی ہے۔ حتی کہ بعض اوقات ان کے سخت رد عمل کی بنا پر جنگ کی نوبت آگئی۔
بعد کے زمانے کے مسلمان جب قرآن کو پڑھتے ہیں تو وہ قرآن میں ان چاروں گروہوںکا ذکر پاتے ہیں۔ کیوں کہ چاروں گروہوں کے بارے میں ان کے عصری رویہ کی بنا پر سخت تبصرے کیے گیے ہیں۔ قرآن کے یہ سخت تبصرے زمانی سبب (age factor) کی بنا پر ہیں۔ لیکن مسلمان غیر شعوری طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ طبقات آج بھی باقی ہیں، اور ان کے بارے میں آج بھی ان کا وہی سخت رویہ ہونا چاہیے، جو رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں تھا۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ تمام دنیا کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ وہ تمام قوموں کے خلاف لڑائی چھیڑے ہوئے ہیں۔ کبھی passive sense میں اور کبھی active senseمیں۔ وہ یہود کو مغضوب قوم سمجھتے ہیں، نصاریٰ کو ضالَ قوم سمجھتے ہیں، وہ مفروضہ کافروں کو جہنمی سمجھتے ہیں، اور اس طرح مشرکوں کو اعتقادی معنوں میں سراسر باطل سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہی مزاج (mindset) ہے جس نے ان کو ساری دنیا کا مخالف بنادیا ہے۔ ان کا نشانہ یہ بن گیا ہے کہ تمام قوموں سے لڑ کر ان کو مغلوب کرنا ہےاور ساری دنیا میں اسلام کا سیاسی اقتدار قائم کرنا ہے۔
مسلمانوں کی یہ سوچ تمام تر ان کی غلط فکری کا نتیجہ ہے۔ ساتویں صدی میں عرب یا اطراف عرب میں جو قومیں موجود تھیں، وہ سب بہت پہلے ختم ہوچکیں۔ اب ان کے نام سے جو قومیں دنیا میں موجود ہیں، وہ خواہ نام کے اعتبار سے قدیم ہوں، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ جدید ہیں۔
جدید دور ایک اعتبار سے ڈی کنڈیشننگ کا دور (age of deconditioning) ہے۔ جدید دور میں نئے افکار خاص طور پر سیکولر ایجوکیشن نے مکمل طور پر لوگوں کے ذہنوں کو بدل دیا ہے۔ آج کا یہودی مختلف یہودی ہے، آج کا عیسائی مختلف عیسائی ہے۔ اس طرح آج کے مشرک مختلف قسم کے مشرک ہیں۔ یہ قومیں اب اتنا زیادہ بدل چکی ہیں کہ ان کو وہی سمجھ سکتا ہے، جس نے انھیں دوبارہ دریافت (rediscover) کیا ہو۔
قدیم زمانہ کے اعتبار سے یہ لوگ 4 مختلف قوم تھے۔ لیکن جدید زمانہ کے اعتبار سے یہ سب ایک ہی قوم ہیں۔ سب پر ایک ہی لفظ منطبق ہوتا ہے، اور وہ ہے جدید انسانـ۔ قدیم زمانہ کے انسان کے برعکس جدید دور کے انسان کے اندر اصولی طور پر کٹرپن اور تعصب ختم ہوچکا ہے۔ قدیم زمانے میں ساری دنیا میں ہم اور وہ (we and they) کا تصور (concept) رائج تھا۔ اب آج کی دنیا میں عمومی طور پرہم اور ہم (we and we) کا conceptرائج ہوچکا ہے۔
اس صورت حال نے قدیم مساوات (equation)کا خاتمہ کردیا ہے۔ قدیم زمانہ میں دوست اور دشمن (friend and enemy) کا تصور پھیلا ہوا تھا۔ اب یہ ثنویت (dichotomy) ختم ہوچکی ہے۔ آج دنیا میں جس مساوات کا غلبہ ہے، وہ دوست اور مؤید (supporter)کا ہے۔آج کی دنیا میں کوئی کسی کا دشمن نہیں۔ آج کی دنیا میں کوئی شخص یا تو آپ کا دوست ہوگا اور اگر دوست نہ ہو تو وہ آپ کا مؤید ہوگا۔ گویا جس دور کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی تھی، وہ اب واقعہ بن چکی ہے۔
ان روایتوں میں مستقبل کے جس واقعہ کو دین کی نسبت سے بیان کیا گیا ہے، وہ حقیقۃً ساری انسانیت کی نسبت سے ہے۔یعنی مستقبل میں ایک ایسا زمانہ آئے گا، جب کہ دشمنی کا دور اصولی طور پر ختم ہوجائے گا۔ دور کے تقاضے کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کے دوست ہوں گے۔ اور اگر دوست نہ ہوں گے تو وہ امکانی طور پر ایک دوسرے کے مؤید بن جائیں گے۔
اسلام سے پہلے ہزاروں سال سے دنیا میں جو کلچر رائج تھا، وہ یہ تھا ——جو میرا دوست نہیں، وہ میرا دشمن ہے۔قدیم زمانہ زراعت (agriculture)اور کنگ شپ (kingship) کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں ہر ایک کا انٹرسٹ الگ ہوتا تھا۔ گویا کہ وہ زمانہage of differing interest کا زمانہ تھا۔ اُس زمانہ میں باہمی تعلقات کا کلچر وجود میں نہیں آیا تھا۔ لوگ یا تو اپنے اپنے ذاتی دائرے میں رہتے تھے، یا میدان جنگ ( battlefield)میں ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ گویا کہ اُس زمانہ میں جو رائج ثنائیت (dichotomy)تھی، وہ دوست اور دشمن کی ڈائیکاٹومی تھی۔ یہ ثنائی کلچر مستقل طور پر دشمنی اور جنگ کا سبب بنا ہوا تھا۔ اِس ثنائی کلچر کی بنا پر دین حق کی اشاعت عملاً ناممکن بن گئی تھی۔ قدیم زمانہ میں جو مذہبی جبر (religious persecution)رائج ہوا،اس کا سبب یہی تھا۔
اللہ تعالی کا منصوبہ یہ تھا کہ اس ثنائیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ (8:39)۔ ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ اس آیت میں خدا کی جس اسکیم کا اعلان کیا گیا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ساری دنیا میں حکومتِ الٰہیہ (kingdom of God) قائم کی جائے۔اس آیت میں سیاسی نظریہ کو نہیں بتایا گیا تھا، بلکہ اس میں ایک انسانی نظریہ کو بتایا گیا تھا۔ اور وہ یہ کہ دنیا میں ایک عالمی اصول (universal norm) کے طور پر دوست اور دشمن کی ثنائیت (dichotomy)ختم ہوجائے، اور ایک اور ثنائیت رائج ہوجائے۔ یعنی دوست اور مؤید کی ثنائیت۔یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اللہ بے شک اس دین کی مدد ایسے اقوام کے ذریعہ کرے گا، جو اہل ایمان میں سے نہ ہوں گے۔
یہ نظام تائید (order of mutual support) دنیا میں کس طرح آئے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نظام عملاً جمہوریت (democracy) اور صنعتی تہذیب (industrial civilization) کے ذریعہ دنیا میں آچکا ہے۔ اس سیاسی اور صنعتی نظام کے بعد دنیا میں جو دور آیا ہے، وہ تمام تر باہمی مفاد (mutual interest) پر قائم ہے۔ پچھلے زمانہ میں باہمی مفاد کی حیثیت عمومی کلچرکی نہ تھی۔ موجودہ زمانے میں باہمی مفاد زیادہ ضروری ہوچکا ہے ۔ اس کے بغیر نہ جمہوری سیاست دنیا میں چلائی جاسکتی ہے، اور نہ صنعتی تہذیب قائم کی جاسکتی ہے۔
باہمی مفاد کے اس کلچر نے اب اُس چیز کو لوگوں کے لیے ایک مجبوری (compulsion) کا معاملہ بنا دیا ہے، جس کو پہلے صرف اخلاقی چیز سمجھا جاتا تھا۔ آج کی دنیا میں انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ دوسروں کو اپنا دشمن قرار دے۔ ایسا کرنے کی صورت میں نہ جمہوری سیاست چل سکتی ہے، اور نہ صنعتی تہذیب وجود میں آسکتی ہے۔
زمانہ کی اس تبدیلی کی وجہ سے یہ ہوا کہ قدیم طرز کی یہ ثنائیت ایک ناممکن چیز بن گئی۔ اس اضطرار (compulsion) کی بنا پر دور جدید میں ایک نئی ثنائیت قائم ہوگئی۔ یہ نئی ثنائیت دوست اور مؤید (supporter) کے اصول پر قائم ہے، نہ کہ قدیم زمانہ کی دوست اور دشمنی کی ثنائیت پر۔
موجودہ زمانہ کے جو مسلمان دوسری قوموں کو اپنا حریف یا دشمن سمجھ کر ان سے نفرت کرتے ہیں یا ان سے متشددانہ لڑائی کررہے ہیں، وہ مؤید کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ وہ اپنے قدیم ذہن کی بنا پر یہ سوچتے ہیں کہ آج بھی دنیا میں وہی یہود ،وہی نصاریٰ، وہی کافراور وہی مشرک ہیں، جو پہلے تھے۔ حالاں کہ اب اصولی طور پر ان تمام گروہوں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ آج یہ تمام گروہ ایک عمومی کلچر کا حصہ بن کر ایک نئے قسم کے گروہ بن گیے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا مؤید گروہ (supporter) بن گیے ہیں۔ آج ایک انسان کی شناخت (identity)مذہب پرمبنی نہیں ہے، بلکہ تائیدی کلچر پر مبنی ہے۔
وہ تائیدی دور جس کی پیشین گوئی قرآن و حدیث میں کی گئی تھی، وہ اب پچھلے ہزار سالہ تاریخی عمل (historical process) کے ذریعہ دنیا میں عملاً قائم ہوچکا ہے۔ اب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مکمل طور پر نفرت اور تشدد کا خاتمہ کردیں۔ جس طرح دوسرے لوگ اپنے سیاسی مفاد یااقتصادی مفاد کو باہمی تعلقات (mutual interest) کے ذریعہ حاصل کررہے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے ملی منصوبہ کو باہمی تعلقات (mutual interest) پر قائم کرنا چاہیے، نہ کہ باہمی ٹکراؤ کی بنیاد پر۔
قدیم تاریخ میں انسانوں کے درمیان جو ناپسندیدہ صورتِ حال قائم تھی، ا س کے حل کے لیے تین انتخاب (option) ممکن تھے۔ ایک یہ کہ صورت حال کو بدستور اپنی حالت پر باقی رکھا جائے۔ اس انتخاب میں اصل مسئلہ بدستور باقی رہتا تھا، اور انسان کو وہ آزادی ملنے والی نہیں تھی، جو خدائی اسکیم (scheme of things) کے مطابق مطلوب تھی۔ یعنی آزادی کے ساتھ اپنے پسندیدہ مذہب یا فکر کو اختیار کرنا۔
دوسرا انتخاب یہ تھا کہ لڑکر اس صورت حال کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، مگر یہ انتخاب بھی غیر مفید تھا۔ کیوں کہ انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے، وہ سرے سے قابل عمل ہی نہ تھا۔
تیسرا انتخاب وہ ہے جس کو اختیار کیا گیا، یعنی انسانی تعلقات میں ایسا کلچر رائج کیا گیا، جس میں امن ہر ایک کی ضرورت بن گئی۔ ہر ایک کے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ وہ دوسرے کی رعایت (concession) کرتے ہوئے، اپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش کرے، نہ کہ دوسروں سے ٹکراؤ کے ذریعہ۔ یہی وہ حکمت ہے، جو خالق نے اس معاملہ میں اختیار کی۔
ان تفصیلات کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن میں اس سلسلہ میں جو بات کہی گئی ہے، وہ معاصر زمانہ کی رعایت سے تھی، وہ ابدی نہ تھی۔ قرآن کی تعلیمات کے دو حصے ہیں۔ ایک آئڈیالوجی (ideology)، اور دوسرا ہے طریقہ کار (method)۔آئڈیا لوجی کا جو حصہ ہے، ناقابل تبدیلی ہے۔ وہ جیسا پہلے تھا، ویسے ہی اب بھی رہے گا۔ لیکن جہاں تک متھڈ کی بات ہے، اس کا تعلق زمانی اسباب (age factor) سے ہے۔ خالق نے زمانی اسباب کے معاملہ میں تاریخ کو اس طرح مینج (manage) کیا کہ انسان کی آزادی بھی باقی رہے، اور مسئلہ بھی انسانی زندگی کے کسی پہلو کو نظر انداز کیے بغیر حل ہوجائے۔
قدیم زمانہ میں زندگی کا جو نظام رائج تھا، اس میں صرف دو چیزوں کی اہمیت ہوتی تھی: زراعت (agriculture) اور بادشاہت (kingship)۔زرعی زمین کا مالک لینڈ لارڈ ہوتا تھا۔ زمین کے معاملہ میں وہی سب کچھ ہوتا تھا۔ اس طرح حکومت کے معاملہ میں ساری حیثیت بادشاہ کی ہوتی تھی۔ اس نظام کے تحت قدیم زمانہ میں ساری دنیا میں یک طرفہ مفاد (unilateral interest) کا طریقہ رائج تھا۔ اس لیے ہزاروں سال کے درمیان ساری دنیا میں یہی طریقہ رائج تھا۔
مسلم عہد میں آٹھویں صدی عیسوی میں ساسانی سلطنت (Sassanid Empire) اور بازنطینی سلطنت(Byzantine Empire) کو توڑدیا گیا۔ اس کے بعد انسانی زندگی میں ایک نیا تاریخی عمل (historical process) شروع ہوا۔ یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتا رہا۔یہاں تک کہ 17ویں صدی میں مغربی یورپ میں اس کی تکمیل ہوئی۔اس کے بعد انسانی زندگی میں ایک نیا دور آگیا۔ یہ نیا دور باہمی مفاد کے اصول پر قائم تھا۔ اب دنیا کا نظام مشترک مفاد(common interest) کے اصول پر چلنے لگا۔ جب کہ اس سے پہلے وہ غیر مشترک مفاد (unilateral interest) کے اصول پر چل رہا تھا۔ اس نئے دور میں دوبڑے انقلابات آئے۔ ایک، جمہوریت (democracy) اوردوسرا، صنعتی تہذیب (industrial civilization)۔
اس صورت حال نے پچھلی مساواتوں (equations) کو یکسر بدل دیا۔ اب دنیا میں نئی ثنائیت (dichotomy) وجود میں آئی، تمام انسانی مفادات دو طرفہ بنیاد پر قائم ہوگیے۔ ٹیچر کا مفاد اسٹوڈنٹ سے، اور اسٹوڈنٹ کا مفاد ٹیچر سے۔ بزنس مین کا مفاد کسٹمرسے، اور کسٹمرس کا مفاد بزنس مین سے، پولیٹکل لیڈروں کا مفاد ووٹرس سے اور ووٹرس کا مفاد پولیٹکل لیڈرس سے، وغیرہ۔ اس طرح دنیا میں پہلی بار وہ دور عمومی طور پر رائج ہوا جس کو حدیث میں تائید کا دور (age of mutual support) کہا گیا ہے۔
اس نئے دور کی پیشین گوئی قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
یہ تاریخ میں خدائی مینجمنٹ (divine management) کا معاملہ تھا۔ قدیم زمانے میں انسانی زندگی دوست اور دشمنی کی ثنائیت (dichotomy) پر قائم تھی۔ تاریخ میں اس نئے انقلاب کے بعد انسانی زندگی میں ایک اور ڈائیکاٹومی قائم ہوئی، جس میں دشمنی کا تصور حذف ہوچکا تھا۔ صرف دو فریق باقی تھے۔ اور وہ تھے، دوست اور موید (supporter)۔
قرآن میں رسول اور اصحاب رسول کو یہ حکم دیا گیا تھا : وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ (8:39)۔ یعنی ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے۔ اس آیت کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ساری دنیا میں حکومتِ الٰہیہ قائم ہوجائے، بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ انسانی زندگی میں مخاصمانہ تعلقات (relationship based on rivalry) کے بجائے مویدانہ تعلقات (relationship based on support) پر قائم ہوجائے۔ دنیا سے مذہبی استبداد ختم ہوجائے۔
آج دنیا ایک گلوبل ولیج (global village) بن چکی ہے۔ تیز رفتار کمیونی کیشن نے تمام رکاوٹیں دور کردی ہیں۔ ایک ملک کے دوسرے ملک سے مفادات وابستہ ہوگیے ہیں۔ کسی ملک میں کوئی چیز دستیاب ہے، کسی ملک میں کوئی دوسری چیز دستیاب ہے۔ اس طرح آپسی لین دین بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ امپورٹ ایکسپورٹ بہت بڑے پیمانہ پر ہورہا ہے۔ ایسا پہلے کبھی تاریخ میں نہیں تھا۔ اس نئے سیناریو (scenario) میں تمام rivalries ختم ہوچکی ہیں۔ اب صرف دوست اور دوست کا equation ہے۔ دوست اور دشمن کا equation ختم ہوچکا ہے۔
اس گلوبل ولیج کی ایک علامت موجودہ زمانہ میں ہوائی سفر (air travel) ہے۔ قدیم بحری اور بری سفر کے برعکس ہوائی جہاز تمام ملکوں کے اوپر پرواز کرتا ہے، خواہ وہ اپنا ملک ہو یا غیر کا ملک ہو۔ اس کے نتیجہ میں انسانوں کی بنائی ہوئی تمام سرحدیں اپنے آپ ٹوٹ گئیں۔ اب عملاً ہر انسان تمام دنیا کا شہری ہے۔ جبکہ قدیم زمانہ میں کوئی انسان صرف اپنے ملک کا شہری ہوتا تھا۔
ایجوکیشن، جاب، سیاحت، تجارت، وغیرہ کے لیے لوگ بڑی تعداد میں ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے ہیں۔ ان ممالک میں ان کو ہر طرح کی آزادی ملی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مذہب سے لوگوں کو آگاکریں، اس کی بھی آزادی ہے۔ اس نظر سے ہم دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ آج ساری دنیا ہماری دنیا ہے۔ وہ ساری حد بندیاں ٹوٹ چکی ہیں، جو قدیم دور کا خاصہ تھیں۔ آپ باہر جاکر تعلیم حاصل کریں، بزنس کریں، اپنے مذہب کی پریکٹس کریں، اپنے مذہب کی تبلیغ کریں۔ صرف لاء اینڈ آرڈر کے لیے پرابلم بننے کی اجازت نہیں ۔ آپ پرامن (peaceful) رہ کر ہر ملک میں وہ کام کرسکتے ہیں، جو آپ اپنے ملک میں کرسکتے ہیں۔
یہ نیا دور جو تاریخ میں خدائی انتظام (divine management) کے تحت دنیا میں آیا ہے، وہ عین دینِ خداوندی کے حق میں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ اس حقیقت کو سمجھے۔ وہ ہر قسم کی منفی کارروائیوں کو مکمل طور پر چھوڑ دے۔ کیوں کہ امت مسلمہ کی منفی کارروائیاں محرومی (deprivation) کے اصول پر قائم تھیں۔ اب امت مسلمہ کو اپنی منصوبہ بندی کو مکمل طو رپر یافت (gain) کے اصول پر قائم کرنا ہے۔ اب امت مسلمہ کے لیے مایوسی کا دور ختم ہوگیا ہے۔ اب امت مسلمہ کو کامل امید کی بنیاد پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرنا ہے۔ یہ منصوبہ بندی تمام تر دعوت کے اصول پر قائم ہونی چاہیے، جس کا بنیادی نشانہ ہو قرآن کی عالمی اشاعت۔

واپس اوپر جائیں

سیاسی اقتدار کی نوعیت

اسلام میں سیاسی اقتدار کی اہمیت صرف ایک اعتبار سے ہے، اور وہ ہے پولیٹکل استحکام (political stability)۔ اسی کو قرآن میں تمکین فی الارض (22:41) کہا گیا ہے۔ اسلام میں سیاسی اقتدار کا اصل مقصد عادلانہ نظام یا قوانین کا نفاذ نہیں ہے،بلکہ سماج میں استحکام قائم کرنا ہے۔ جب استحکام ہوگا تو لوگوں کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنے اپنے دائرے میں دینی کام کریں۔ مثلاً مسجد کی صورت میں اقامتِ صلاۃ کا نظام، مدرسے کی صورت میں دینی تعلیم کا نظام، حج کی صورت میں مسلمانوں میں اجتماعیت کا نظام ، دعوت کی صورت میں اسلام کی اشاعت کا نظام، وغیرہ۔
یہی وجہ ہے کہ دورِ اول میں جب خلافت کی جگہ خاندانی نظام (dynasty) قائم ہوگیا تو صحابہ ، تابعین، تبع تابعین سے لے کر بعد کے علماء تک عملاًامت کے تمام افراد نے خاندانی نظام حکومت کو قبول کرلیا۔ کیوں کہ اس کے ذریعے سے سماج میں استحکام کا ماحول قائم ہوگیا تھا۔ اس استحکام کی بنا پر اہل ایمان کو موقع ملا کہ وہ دین کے تمام تقاضےپر امن انداز میں پورے کرسکیں۔ مثلاًقرآن کی حفاظت، حدیث کی جمع و تدوین، فقہ کا ارتقاء، مساجد و مدارس کا نظام، عمرہ اور حج کا نظام،اسلامی علوم کی تدوین،وغیرہ۔ یہ سارے کا م پر امن ماحول میں ہزار سال تک جاری رہے۔
بیسویں صدی میں مسلمانوں کے اندر بہت سی تحریکیں اٹھیں۔ ان تمام تحریکوں کااصل نشانہ پولیٹکل اقتدار تھا۔ سب کا کیس ظاہری فرق کے باوجود ایک ہی تھا، اور وہ ہے سیاسی رخ (political orientation) ۔ ان سب کا انجام مشترک طور پر ایک ہی ہوا، اپنے نشانہ کو حاصل کرنے میں ناکامی۔اللہ کی سنت یہ نہیں ہے کہ جو لوگ اسلام کے نشانے کو لے کر اٹھیں، وہ اپنے نشانے کو پورا کرنے میں ناکام رہیں۔ نشانہ پورا نہ ہونے کا معاملہ کسی غیر کی سازش کا نتیجہ نہ تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان بانیان تحریک نے منصوبۂ الٰہی کو نہیں سمجھا، اور خود ساختہ نشانہ لے کر اٹھ گیے۔ ایسی تحریک کے لیے یہی مقدر ہے کہ وہ اپنے نشانے کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔ یہ تحریکیں بظاہر اب بھی موجود ہیں تو ان سب پر یہ مثال صادق آتی ہے: تاڑ سے گرا اور کھجور میں اٹکا۔ ان تمام تحریکوں نے یہی کیا کہ انھوں نے اپنے نشانے کی غلطی کا اعلان نہیں کیا۔ البتہ سابق نام کے ساتھ اپنے نئے کام کو جاری رکھا۔ یہ طریقہ دو عملی کا طریقہ ہے، اور دو عملی اسلام میں بلاشبہ غیر مطلوب ہے۔
اس دور کے مسلم بانیانِ تحریک کے ساتھ بظاہر ایک ہی معاملہ پیش آیا۔ ان لوگوں کا فکر پچھلے ہزار سال کے سیاسی حالات میں بنا تھا۔ پچھلے ہزار سال کے دورا ن دنیا میں ہر جگہ پولیٹکل ماڈل کا رواج تھا۔ اس سے ان بانیانِ تحریک کے اندر پولیٹکل مائنڈ سیٹ بنا۔ انھوں نے اپنے اس پولیٹکل مائنڈ سیٹ کو درست سمجھ کر اس کے مطابق تحریک شروع کردی۔ مگر یہ خلاف زمانہ حرکت (anachronism) کا معاملہ تھا۔ اب قدیم دور کا پولیٹکل ماڈل ختم ہوچکا تھا، نئے دور میںصرف ایک ہی ماڈل قابلِ عمل ہے، اور وہ ہے غیرسیاسی (non-political) ماڈل۔ قدیم زمانہ بادشاہت کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانہ جمہوریت (democracy) اور سیکولرزم کا زمانہ ہے۔ سیکولرزم کا مطلب ہے مذہبی ناطرف داری، اور ڈیموکریسی کا مطلب ہے ہر ایک کے لیے مکمل آزادی، ہر ایک کو مواقع کے استعمال کا یکساں حق۔ اس انقلاب سے پہلے مواقع پر صرف بادشاہ کی اجارہ داری (monopoly) ہوا کرتی تھی۔ اب یہ اجارہ داری ختم ہوچکی ہے۔ اب نئے حالات میں تمام مواقع تمام انسانوں کے لیے یکساں طور پر قابلِ استعمال ہوچکے ہیں۔ اب صرف ایک ہی چیز کی پابندی ہے، اور وہ ہے تشدد (violence)۔ دورِ جدید کے مسلم بانیان تحریک نے بظاہر اس راز کو نہیں سمجھا، وہ غیر ضروری طور پر اُس چیز کے لیے لڑتے رہے، جو عملا ان کوحاصل ہو چکی تھی۔
حدیث کے مطابق، بعد کے زمانے میں اسلام کا داعی بادشاہ کی طرح (کالملوک على الأسِرّة) سفر کرے گا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2799) ۔یہاں مثل بادشاہ سفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو مواقع قدیم زمانے میں بادشاہوں کے لیے خاص سمجھے جاتے ہیں، وہ مواقع عام داعیان اسلام کو حاصل ہو جائیں گے۔ رکاوٹ کے بغیروہ ساری دنیا میں اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیےآزاد ہوں گے۔
واپس اوپر جائیں

عہد اسلام

قرآن و حدیث میں اسلام کے مستقبل کے بارے میں ایسی پیشین گوئیاں (predictions) موجود ہیں، جو بتاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو زمانے آنے والا ہے، وہ اسلام کا زمانہ ہوگا۔ مثلا ایک روایت یہ ہے: صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ سے شکایت کی، اس وقت آپ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر کو تکیہ بنائے ہوئے لیٹےتھے۔ ہم نے کہا کہ کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد نہیں مانگتے، کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا، تم سے پہلے جو لوگ تھے، ان کا یہ حال تھا کہ آدمی کو پکڑا جاتا، اس کے لیے زمین میں گڈھا کھودا جاتا، پھر اس کو اس میں ڈال دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا تھا اور اس کے سر پر چلایا جاتا تھا، اور اس کو دو ٹکرے کردیا جاتا تھا، اور(کبھی ایسا ہوتا کہ کسی آدمی کے جسم پر)لوہے کی کنگھی کی جاتی ، یہاں تک کہ وہ اس کے گوشت سے بڑ ھ کر اس کی ہڈی تک پہنچ جاتی تھی۔ مگر یہ چیز اس کو اس کےدین سے روکنے والی نہیں بنتی تھی۔
پھر آپ نے فرمایا:واللہ لیتمن ہذا الأمر، حتى یسیر الراکب من صنعاء إلى حضرموت، لا یخاف إلا اللہ، والذئب على غنمہ، ولکنکم تستعجلون۔یعنی خدا کی قسم یہ امر تکمیل تک پہنچے گا، یہاں ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا، اور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہیں ہوگا، اوراپنی بکریوں پر بھیڑیے کا،مگر تم لوگ جلدی کررہے ہو۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر6943)۔
یہ قول رسول ایک پیشین گوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کی تاریخ میں جو اہل دین پر ظلم کیا جاتا تھا ، وہ اسلام کے بعد کی تاریخ میں اللہ کی مدد سے ختم ہوجائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قبل از اسلام کا دور، اگر مخالف اسلام دور تھا تو بعد از اسلام کا دور، موافق اسلام کا دور ہوگا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ اسلام کے بعد کے زمانے میں یہ دور آیا۔ اب اس پیشین گوئی پر تقریبا ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ یقینی ہے کہ یہ دور تاریخ میں آچکا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اہل اسلام اس دور کی آمد سے بے خبر ہیں۔
اس عظیم بے خبری کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب،حدیث کے مطابق یہ ہے کہ بعد کے زمانے کے اکثر لوگوں سے ان کی عقلیں چھن جائیں گی (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3959)۔اس بنا پر وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ وہ کسی واقعہ کا صحیح تجزیہ کرکے اس کی حقیقت کو دریافت کریں۔ عقل کیا ہے۔ عقل اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی غیر متعلق کو الگ کرکے متعلق کو جان سکے:
Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.
ایک مثال سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ مصرکے سید قطب مزید تعلیم کے لیے امریکا گیے۔ وہاں وہ تین سال رہے۔ انھوں نے امریکا کے بارے ایک کتاب لکھی۔ کتاب کا عربی نام یہ ہے، امریکا التی رایت:
The America I have seen
یہ کتاب امریکا کی منفی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آدمی وہی رائے قائم کرے گاجو عام طور پر امریکا کے بارے میں عربوں کی رائے ہے۔ عرب عام طور پر امریکاکے بارے میں اپنی رائے، اس الفاظ میں بیان کرتے ہیں: امریکا عدو الاسلام رقم واحد (امریکا اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے)۔ اس منفی رائے کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ امریکا کو ایک غیرمتعلق پہلو سے دیکھتے ہیں۔ جو لوگ امریکا کو اسرائیل کے زاویہ سے دیکھتے ہیں، وہ امریکا کو اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں۔ اور جو لوگ امریکا کو اس کے کلچر کے اعتبار سے دیکھتے ہیں، وہ لوگ امریکاکو اباحیت (permissiveness )کا ملک سمجھتے ہیں۔ مگر یہ دونوں پہلو امریکا کے غیر متعلق پہلو ہیں۔ اس کا متعلق پہلو یہ ہے کہ امریکا میں سائنسی تحقیق (scientific research) کاسب سے زیادہ کام ہوا ہے۔ غیر متعلق پہلو سے دیکھنے میں امریکا ایک برا ملک نظر آتا ہے، لیکن اگر متعلق پہلو سے دیکھا جائے تو امریکا انسانیت کا محسن ملک نظر آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

انسانیت انتظار میں

20 نومبر 2016کو ہمارے ایک ساتھی دہلی ایرپورٹ پر اترے۔ یہاں انھوں نے دیکھا کہ ایک جگہ کچھ ماڈرن قسم کےنوجوان لڑکے اور لڑکیاں کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے ساتھی کے بیگ میں انگریزی ترجمۂ قرآن موجود تھا۔ وہ ان کے قریب گیے، اور ایک نوجوان کو انگریزی ترجمہ ٔ قرآن یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ آپ کے لیے گفٹ ہے۔ نوجوان نے اس کو دیکھا کہ تو وہ خوشی کے ساتھ کہہ اٹھا: واؤ! (wow!)۔ دوسرے نوجوانوں کو جب معلوم ہوا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم کو بھی واؤ! (wow!) کہنے کا موقع دیجیے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم قرآن کو پڑھیں اور یہ جانیں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔
یہ واقعہ علامتی طور پر ایک نمائندہ واقعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سارے انسان ، مرد اور عورت دونوں اپنی فطرت کے زور پر اس تلاش میں ہیں کہ وہ جانیں کہ اس دنیا کا خالق کون ہے۔ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ہمارے لیے اس دنیا میں زندگی کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ خدا نے اپنی کتاب میں ہمیں کیا پیغام دیا ہے۔ یہ شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر ہر مرد اور ہر عورت کے دل کی آواز ہے۔یہ صورت حال کی ایک پکار ہے۔ یہ پکار ان تمام لوگوں کو مخاطب کررہی ہے، جو قرآن کے حامل ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ قرآن کو دنیا کی تمام قوموں کی زبانوں میں ترجمہ کرکے شائع کریں، اور اس کو لوگوں تک پہنچائیں، تاکہ لوگ اپنی قابل فہم زبان (understandable language) میں پڑھ کر جان سکیں کہ قرآن میں ان کے لیے کیا پیغام ہے۔
ضرورت ہے کہ ہر شخص اپنے ساتھ ترجمۂ قرآن کے چھپےہوئے نسخے رکھے، اور جب بھی کسی مرد یا عورت سے ملاقات ہو تو اس کو وہ ایک اسپریچول گفٹ کے طور پر پیش کرے۔ یہ حاملین قرآن کے لیے اپنی ذمہ داری کو اداکرنے کی ایک ایسی صورت ہے جو ہر ایک کے لیے پوری طرح قابل عمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو تمام انسانوںتک پہنچانا، ہر مسلمان کے لیے ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے بغیر وہ اللہ کے سامنے بری الذمہ قرار نہیں پاسکتے۔
واپس اوپر جائیں

مسلمان اور دور حاضر

آج کل کے علماء جب مسلمانوں کے ’’جدید مسائل‘‘ پر لکھتے اور بولتے ہیں تو وہ عام طور پر قدیم فقہاء کے فتاویٰ کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ قدیم فقہی جزئیات کو ڈھونڈ کر نکالتے ہیں۔ وہ ابن تیمیہ اور دوسرے ائمہ کے حوالے دیتے ہیں۔اس قسم کے حوالے بلاشبہ درست نہیں۔ قدیم فقہا کا ذہن مسلم حکمرانی کے دور میں بنا تھا، ان حضرات کے فتاویٰ آج کے حالات میں قابل انطباق (applicable) نہیں۔
قدیم فقہا ء کا ذہن اپنے زمانی حالات کی بنا پر اس طرح بنا تھا کہ وہ ایک طبقہ کو حاکم اور دوسرے طبقہ کو محکوم سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ایک علاقہ کی حیثیت بلاد الکفار کی تھی ، اور دوسرے علاقہ کی حیثیت بلاد المسلمین کی۔ وہ اپنے اس ذہن کی بنا پر دنیا کو دارالاسلام اور دار الکفر کی اصطلاحوں میں تقسیم کیے ہوئےتھے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ جب کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو ہمارے علماء انھیں اصطلاحات یا اسی فریم ورک (framework)میں اپنا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس معاملہ میں قدیم علماء کے حوالے پیش کرتے ہیں۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ان جوابات کے باوجود اصل مسئلہ بدستور باقی رہتا ہے۔ وہ نہ مسلمانوں کے ذہن کو مطمئن کرپاتا، اور نہ اصل مسئلے کو حل کرتا۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ اب زمانہ یک سر بدل چکا ہے۔ اب سیکولرزم اور جمہوریت کا زمانہ ہے۔ قدیم طرز کی تقسیم اب قابل عمل نہیں رہی۔ آج کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ جمہوری انداز میں سوچیں، وہ سیکولر انداز میں اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔ اب اگر بدستور انھوں نے مسلم اور غیر مسلم کے لیے قدیم انداز کی تقسیم کو جاری رکھا تو آج کی دنیا میں ان کی فکر غیرمتعلق (irrelevant) ہوجائے گی۔ آج کے زمانے کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آج کے ذہن کے مطابق ساری دنیا دار الانسان ہے۔ ذاتی عقیدہ اور عبادت کے سوامسلمانوں کو ہر معاملہ میں آفاقی ذہن کے ساتھ رہنا ہوگا، ورنہ وہ لوگوں کی نظر میں آج کے زمانے کے لیے مس فٹ (misfit) قرار پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

اجتہاد کا فقدان

امت کےدور زوال کے بارے میں ایک حدیث یہ ہے:تنزع عقول أکثر ذلک الزمان، ویخلف لہ ہباء من الناس لا عقول لہم(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3959)۔ یعنی اُس زمانہ کے اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی اور ذروں کی طرح لوگ باقی رہ جائیں گے، جن کے پاس عقلیں نہ ہوں گی۔
عقل (reason)تو فطرت کا ایک عطیہ ہے۔ عقل کے معاملے میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ ابتدائی نسلوں میں عقل رہے، اور بعد کی نسلوں میں وہ چھن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل کا چھننا، عضویاتی معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ سمجھ (understanding) کے معنی میں ہے۔ یعنی عقل تو موجود ہوگی، لیکن سمجھداری موجود نہ ہو گی۔ مزید غور وفکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی نسلوں میں اجتہادی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔ اس لیے وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ حالات کے مطابق شریعت کی تطبیق نو (reapplication) کرکے اپنے حالات کے اعتبار سے اس کی پیروی کریں۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صلاحیت اجتہاد کا خاتمہ کلی طور پر نہ ہوگا۔ وہ اس معنی میں ہوگا کہ جہاں مجبوری (compulsion) کی صورت حال ہو، وہاں تو وہ اجتہاد پر عمل کریں گے۔ لیکن جہان مجبوری کی صورت حال نہ ہوگی ، وہاں وہ اپنے روایتی ذہن پر قائم رہیں گے، اور اجتہاد نہ کرسکیں گے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن میں حج کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَى کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ (22:27)۔ یعنی اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔ پیروں پر چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر دور دراز راستوں سے آئیں گے۔
اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاجیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مقامات سے اونٹ پر سفر کرکے مکہ پہنچیں۔ قدیم زمانے میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں جب مشینی سواری کا دور آیا تو اب کوئی حاجی ایسا نہیں کرتا کہ وہ اب بھی سواری کے لیے اونٹ کا استعمال کرے، اور اس طرح مقامات حج تک پہنچے۔ بلکہ اب تمام حاجی یہی کرتے ہیں کہ دور کے مقامات سے وہ ہوائی جہاز پر سفر کرتے ہیں، اور قریب کے مقامات سے کاروں اور بسوں پر۔ حالاں کہ اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا کہ علما نے جمع ہو کر یہ فتوی دیا ہو کہ اب زمانہ بدل گیا۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حیوانی سواری کے بجائے، مشینی سواری پر سفر کرکے مقام حج تک پہنچیں۔
واقعات بتاتے ہیں کہ زمانے کی حالات میں اور بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔ تاہم امت کے عوام یا علما اس معاملے میں ایسا نہ کرسکے کہ وہ اجتہاد کریں اور قدیم طریقے کو چھوڑ کر نئے طریقے پر عمل کریں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جدو جہد کا طریقہ بدل گیا ہے۔ قدیم زمانے میں کسی مقصد کے حصول کے لیے متشددانہ جدو جہد (violent struggle) کا طریقہ رائج تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں کہ اب متشددانہ جدو جہد کا طریقہ غیر موثر بن گیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ پر امن جدو جہد (peaceful struggle) کے ذریعہ ہر قسم کے مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ ایسی حالت میں اجتہاد کا تقاضا تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان تشدد کے طریقے کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور امن کے طریقے کو پوری طرح اختیار کر لیں۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمان ایسا نہ کرسکے۔
حالاں کہ اس معاملے میں حدیث رسول میں پیشگی طور پر رہنمائی موجود تھی۔ حضرت عائشہ، رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بتاتی ہیں : ما خیر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بین أمرین، أحدہما أیسر من الآخر، إلا اختار أیسرہما (صحیح مسلم، حدیث نمبر2327)۔ یعنی آپ کو جب بھی دو کاموں میں ایک اختیار کرنا ہوتا، جن میں سے ایک دوسرے سے آسان ہوتا، تو آپ ان دونوں میں سے آسان کام کو اختیار فرماتے۔ یہ ظاہر ہے کہ متشددانہ طریقہ کار کے مقابلے میں پر امن طریقہ کار آسان ہے۔ ایسی حالت میں حدیث رسول کے مطابق مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ متشددانہ طریقہ کار کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے صرف پر امن طریقہ کار پر عمل کریں۔ مگر اجتہاد کے فقدان کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمان ایسا نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

حکمت کی آفاقیت

ایک حدیث رسول سنن الترمذی، سنن ابن ماجہ ،وغیرہ کتب حدیث میں آئی ہے۔ مسند الشہاب القضاعی کے الفاظ یہ ہیں: الحکمة ضالة المؤمن، حیثما وجد المؤمن ضالتہ فلیجمعہا إلیہ (حدیث نمبر146)۔یعنی حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے، جہاں بھی مومن اپنے گمشدہ مال کو پائے، وہ اس کو اپنے پاس اکٹھا کرلے۔
حکمت (wisdom) کی بات کیوں مومن کا حق ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر حکمت ایک ربانی عطیہ ہے۔ اور جو چیز ربانی عطیہ (divine gift) ہو، وہ کسی کی اجارہ داری (monopoly) نہیںہوسکتی۔ ہر ربانی عطیہ ایک آفاقی نعمت ہے۔ اور آفاقی نعمت میں ہر انسان کا مشترک حصہ ہوتا ہے۔ حکمت سے مراد مادی تخلیقات بھی ہیں، اور حکمت و بصیرت کی باتیں بھی۔ جس طرح سورج اور پانی خالق کا آفاقی عطیہ ہے، اسی طرح قانون فطرت (law of nature) میں تحقیق سے حاصل ہونے والی حقیقتیں بھی آفاقی نعمتیں ہیں۔ وہ ہر انسان کا حصہ ہیں، مومن کابھی اور غیرمومن کا بھی۔ عطیات الٰہی میں تفریق یقینا جائز نہیں۔
عطیات الٰہی کے بارے میں یہ آفاقی نظریہ ایک انقلابی نظریہ ہے۔ وہ انسان کی سوچ کو مکمل طور پر بدل دیتا ہے۔مثال کے طور پر وہ محققین جنھوں نے اپنی زندگیاں وقف کرکے فطرت کے قوانین کو دریافت کیا، وہ شخصیتیں بھی پوری انسانیت کا حصہ ہیں۔ اس طرح یہ نظریہ آدمی کے اندر ایک یونیورسل آؤٹ لک (universal outlook) پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد متعصبانہ طرز فکر کی جڑ کٹ جاتی ہے، دوست اور دشمن کی تفریق ختم ہوجاتی ہے، ہر انسان کو دوسرا انسان اپنا دوست نظر آنےلگتا ہے۔ یہ نظریہ نفرت کاقاتل ہے۔ وہ عالمی محبت کو فروغ دینے والا ہے۔
اس حدیث میں حکمت سے مراد صرف حکمت دین نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد ہر وہ حکمت ہے، جو درست اور مفید ہو، جو حقیقت واقعہ کے مطابق ہو۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم جناب اقبال لودھیا صاحب، السلام علیکم و رحمۃ اللہ
محمدرفیق لودھیا صاحب کے بارے میں خبر ملی۔ بہت صدمہ ہوا۔ اللہ تعالی مرحوم کو اپنی رحمتوں سے نوازے، اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور پس ماندگان کے لیے ہر قسم کی مدد فرمائے۔ میں آپ سب کے لیے اور پورے خاندان کے لیے بہترین دعا کرتا ہوں۔
آپ کے والد ، نور محمد لودھیا صاحب سے میرے بہت اچھے تعلقات تھے۔ نیو یارک کے سفر میں ان کے گھر پر جاکر مَیں ان سے ملا تھا۔ وہ جب انڈیا آتے تو مجھ سے ضرور ملتے۔ یہی محمدرفیق لودھیا صاحب کا بھی معمول تھا۔ اس بنا پر آپ کی فیملی سے میرے ذاتی تعلقات ہوگیے تھے۔ میں برابر محمد رفیق لودھیا صاحب کی صحت کے لیے دعا کرتاتھا۔ لیکن اللہ علیم و خبیر انسان کے لیے جس چیز کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے، اس کے لیے اسی کا فیصلہ فرماتا ہے۔ مجھ کو اور آپ کو یہی یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ نے جو فیصلہ فرمایا ، اس میں ضرور کوئی حکمت ہوگی، اور اسی کے اندر بہتری ہوگی۔ آپ اپنی فیملی کے تمام افراد سے میرا سلام کہیں، اور میرا یہ پیغام سب کو پہنچادیں۔ اس طرح کے معاملات میں واحد صحیح طریقہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے اللہ کے فیصلہ پر راضی رہنا، اور یہ امید رکھنا کہ اللہ نے جو فیصلہ فرمایا ہے، اس میں یقیناً ہمارے لیے بہتری ہوگی۔
یہاں میں آپ کو قرآن کی ایک متعلق آیت یاددلانا چاہتا ہوں، جو ان الفاظ میں آئی ہے:وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِإِیمَانٍ أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَا أَلَتْنَاہُمْ مِنْ عَمَلِہِمْ مِنْ شَیْء (52:21)۔ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ان کی راہ پر ایمان کے ساتھ چلی، ان کے ساتھ ہم ان کی اولاد کو بھی اکٹھا کریں گے، اور ہم ان کے عمل میں کوئی کمی نہیں کریں گے۔قرآن کی اس آیت میں آپ حضرات کے لیے پر امید نصیحت ہے، آپ حضرات اپنے والد اور اپنے بھائی کے بہترین طریقے پر قائم رہیں۔ یہ آپ کے لیے دنیا اور آخرت میں اللہ کی طرف سے کامیابی کی یقینی بشارت ہے۔
میں آپ کے لیے اور آپ کے تمام اہل خاندان کے لیے دعا کرتا ہوں، اور امید رکھتا ہوں کہ قرآن کی یہ آیت آپ کے لیے اور آپ کی فیملی کے لیے ایک رہنما آیت ثابت ہوگی۔ اللہ تعالی آپ کے لیے اور آپ کی فیملی کے لیے ہر قسم کے خیر کا فیصلہ فرمائے۔
نئی دہلی، 22نومبر 2016 دعاگو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

ایک انٹرویو کا خلاصہ

■ دعوت اسلامی کا مطلب میرے نزدیک دعوت الی اللہ ہے۔موجودہ زمانے میں دعوت الی اللہ کو جو چیلنج درپیش ہے، وہ میرے نزدیک الحادی فکر کا غلبہ ہے۔ اس لیے دعوت اسلامی کی راہ ہموار کرنے کے لیے سب سے پہلے ضرورت یہ ہے کہ دنیا سے الحادی فکر کا غلبہ ختم کیا جائے۔
قدیم زمانہ میں مادی مظاہر کو خدا قرار دے کر انسان نے خدا کو چھوڑ دیا تھا۔ موجودہ زمانہ میں مادی مظاہر کے پیچھے کام کرنے والے سلسلہ اسباب کو خدا قرار دے دیا گیا ہے، اور اسی کا نام الحاد ہے۔ جب تک اس فکری ڈھانچہ کو توڑا نہ جائے کوئی دوسرا کام نہیں کیا جاسکتا۔
■ موجودہ زمانہ کے داعیوں کا اصل مسئلہ وہ ہے جو داخلی ہے۔ وہ ابھی تک دعوت اور قومیت کو اور اسی طرح دعوت اور سیاست کو الگ الگ نہیں کرسکے ہیں۔ جس دن وہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے میں کامیاب ہوں گے، اسی دن ان کے مسائل کے خاتمہ کا آغاز ہوجائے گا۔
■ صحافت یقیناَ اسلامی دعوت کےلیے نہایت اہم ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ مسلمان ابھی تک صرف قومی صحافت کو جانتے ہیں، وہ عالمی صحافت کے میدان میں داخل نہیں ہوئے۔ عالمی صحافت کے لیے موضوعیت (objectivity)لازمی طور پر ضروری ہے۔
■ جدید علمی انکشافات کو تفسیر قرآن میں استعمال کرنا میرے نزدیک عین درست ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ معیارِ اصلی قرآن ہو، نہ کہ جدید انکشافات۔ یعنی جدید انکشافات کو قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے، نہ کہ قرآن کو جدید انکشافات کی روشنی میں۔
■ علمی نظریات کے بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دورِ اول میں جب قرآن نے کہا کہ زمین و آسمان کی نشانیوں پر غور کرو تو انسان نے اپنی اس وقت کی معلومات کی روشنی میں زمین و آسمان پر غور کیا۔ آج بھی یہی ہوگا کہ انسان اپنی موجودہ معلومات کی روشنی میں آیاتِ کون پر غور کرے گا۔ اس کی وجہ سے نہ پہلے کوئی اعتقادی خرابی پیدا ہوئی، اور نہ آج ہوسکتی ہے۔
واپس اوپر جائیں