Pages

Wednesday, 1 November 2017

Al Risala | November 2017 (الرسالہ،نومبر)

4

-سفرنامہ کلچر

5

- ساری زمین مسجد

6

- امن کا معاملہ

7

- اللہ کی معرفت

8

- اللہ کی توفیق

9

- دوڑو جنت کی طرف

10

- داعی کی اسپرٹ

11

- رُجز سے اعراض

12

- سجدہ دورِ آخر میں

13

- دل کی بیماری

14

- دین ایک ، شریعت مختلف

15

- اکڑ کی چال

16

- مومن کی صفت

17

- شتم رسول

18

- عقل کا فقدان

19

- درجات کی بلندی

20

- اختلاف کے باوجود اعتراف

21

- دعوت اور ظلم

22

- روشن ہدایت

24

- حقیقی اہمیت

25

- سماجی آداب

26

- دین میں عقل کا استعمال

28

- مدح، تنقید

31

- القاب کلچر

32

- الأئمۃ المضلون

34

- نصیحت پذیری

35

- کامیاب زندگی

36

- زوال کیا ہے

37

- عورت کا درجہ

38

- اسلامی انقلاب میں عمومی تائید

39

- بزدلی یا حکمت

40

- عمل معیار ہے

41

- بیمار ی سے تطہیر

42

- شدت پسندی نہیں

44

- تشدد کا سبب عدم قناعت

45

- سگریٹ نوشی کی عادت

46

- صلاحیت کا اندازہ

47

- خبرنامہ اسلامی مرکز


سفرنامہ کلچر

مسلمانوں کے جرائد میں اکثر سفرنامے کا کالم ہوتا ہے۔ اس کالم میں کوئی شخص اپنے سفر کے واقعات کو بیان کرتا ہے۔ سفرنامے کا یہ کالم قارئین کے لیے ایک دلچسپی کا صفحہ ہوتا ہے۔ وہ شوق کے ساتھ اس کو پڑھتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات جریدے کے اُس صفحے کو سب سے پہلے پڑھتے ہیں، جس میں کوئی سفرنامہ شائع ہوا ہو۔
مگر عجیب بات ہے کہ یہ سفرنامے تقریبا ًسب کے سب قرآن کی اس آیت کے مصداق ہوتے ہیں:وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ (12:105)۔ یعنی آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان کا گزر ہوتا ہے اور وہ ان پر دھیان نہیں کرتے۔
آیات سے اعراض کا مطلب یہ ہے کہ سفر کے دوران مسافر کو مختلف قسم کے مشاہدات اور تجربات پیش آتے ہیں۔ ان مشاہدات اور تجربات میں کوئی نہ کوئی سبق کا پہلو ہوتا ہے۔ اس میں کوئی نہ کوئی نشانی ہوتی ہے، جو خدا اور آخرت کو یاد دلاتی ہے۔ کوئی نہ کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو مسافر کے اندر دینی تڑپ جگادے۔ مگر یہ سفرنامے اس قسم کے آئٹم سے تقریباً خالی ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں قرآن کی ایک اور متعلق آیت یہ ہے:قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّہُ یُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّہَ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ(29:20)۔ یعنی کہو کہ زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کہ اللہ نے کس طرح خلق کو شروع کیا، پھر وہ اس کو دوبارہ اٹھائے گا۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ’’چلو پھرو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب زمین میں تمھارا چلنا پھرنا ہو تو تم سفر کے دوران فطرت کےمناظر سے سبق لو۔تم تاریخ کے واقعات سے عبرت حاصل کرو۔ سفر مومن کے لیے اس کی دینی زندگی کا امتداد (extension) ہے۔ حقیقی سفرنامہ وہ ہے جو قاری کے لیے سبق نامہ بن جائے، نہ کہ صرف آمد ورفت نامہ۔
واپس اوپر جائیں

ساری زمین مسجد

مسجد کے حوالے سے ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:جعلت الأرض کلہا لی ولأمتی مسجدا وطہورا (مسند احمد، حدیث نمبر22137)۔ یعنی پوری زمین میرے لیے اور میری امت کے لیے مسجد اور پاکی بنادی گئی ۔
اس حدیث میں مسجد کا لفظ علامتی معنی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد تاریخ میں ایک ایسا دور آنے والا ہے جو کہ کامل مذہبی آزادی کا دور ہوگا۔ اہل ایمان آزاد ہوں گے کہ وہ زمین کے جس حصے میں چاہیں دینی سرگرمی جاری کرسکیں ، خواہ وہ عبادت کی سرگرمی ہو یا دعوت کی سرگرمی۔
موجودہ دور میں پیغمبر اسلام کی یہ پیشین گوئی پوری طرح واقعہ بن چکی ہے۔ آج کی دنیا میں اہل ایمان ہر دینی سرگرمی کے لیے آزاد ہیں۔ اب صرف ایک سرگرمی ممنوع ہے، اور وہ ہے مذہب کے نام پر تشدد۔تشدد کی بڑی صورت جنگ ہے، اور تشدد کی چھوٹی صورت یہ ہے کہ آپ دوسروں کے لیے مسئلہ (problem) بن جائیں۔
ساری زمین مسجد ہوجائے گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ ساری زمین اور زمین پر بسنے والے تمام لوگ عملاً دین کے موافق (supporter) بن جائیں گے۔ دنیا کی تمام قومیں یا تو دین کی مؤید (supporter) بن جائیں گی، یا کم ازکم ناطرف دار (indifferent)۔ اکیسویں صدی عملاًاسی قسم کی صدی ہے۔ موجودہ زمانے میں جو لوگ نفرت اور تشدد میں جی رہے ہیں، وہ اس بات کا اعلان کرر ہے ہیں کہ وہ ہر اعتبار سے بے خبر ہیں، حالاتِ زمانہ سے بھی اور خود اپنے پیغمبر کی بتائی ہوئی باتوں سے بھی۔
حدیث میں مسجد کے علاوہ دوسرا لفظ طَہور (پاکی) آیا ہے۔ پاکی کا ایک مطلب یہ ہے کہ دنیا پوری کی پوری بطور اصول پر امن دنیا (peaceful world) بن جائے گی۔ اس وقت امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہوگی، اور تشدد کی حیثیت صرف استثنا ء(exception) کی۔
واپس اوپر جائیں

امن کا معاملہ

دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ہر چیز آپ کو پوٹنشل (potential) کی صورت میں ملتی ہے۔ آپ کویہ کرنا پڑتا ہے کہ آپ اس پوٹنشل کو دریافت کریں، اور پوٹنشل کو ذاتی عمل سے اپنے لیے اکچول (actual)بنائیں۔ مثلا درخت کا پھل آپ کو خود سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ آپ کویہ کرنا پڑتا ہے کہ زرخیر زمین (soil) میں ایک پودا لگائیں۔ اس کی نگہداشت کرتے ہوئےاس کو اگانا شروع کریں۔ اس طرح وہ وقت آتا ہے، جب کہ درخت ایک مکمل درخت بن جائے، اور اپنا پھل آپ کو دینا شروع کرے۔
یہی معاملہ امن کا بھی ہے۔ آج ہم ایج آف پیس میں جی رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امن ایک زندہ امکان کے طور پر ہر جگہ موجود ہوچکا ہے۔اب آپ کا کام یہ ہے کہ امن کو اسپرٹ آف دی ایج کی حیثیت سے دریافت کریں، اور پھر اس کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کر کے کامیابی حاصل کریں۔ کامیابی کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے، آئڈیالوجی اور میتھڈ۔ قدیم زمانے میں انسان کے پاس اگر آئڈیالوجی موجود ہو تب بھی کامیابی کا حصول سخت مشکل ہوتا تھا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ قدیم زمانے میں صرف پرتشدد طریقہ کار (violent method) ہی قابل حصول تھا۔ پر امن طریقہ کار قدیم زمانے میں قابل عمل ہی نہ تھا۔ موجودہ زمانے میں امن ہر انسان کا ایک حق (right) بن چکا ہے۔ اگر آدمی اپنی طرف سے کسی کو تشدد کا جواز (justification) فراہم نہ کرے تو یقینی طور پر وہ تشدد سے محفوظ رہ سکتا ہے۔آدمی صرف پرامن طریقہ کار کے ذریعہ ہی اپنے مقصد کو پوری طرح حاصل کرسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ آدمی ’’آبیل مجھے مار‘‘کی غلطی نہ کرے۔ اگر انسان ایسا کرسکے تو بلاشبہ وہ امن کو اپنے لیے یقینی بناسکتا ہے۔ دوسرے لفظوںمیں یہ کہ آدمی اگر اپنے آپ کو اشتعال انگیزی (provocation) سے بچائےتو یقینی طور پر وہ دوسروں کے ظلم سے محفوظ رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی معرفت

اللہ نے انسان کو پیدا کیا۔ اسی کے ساتھ خالق نے یہ کیا کہ انسان کے جسم میں ہر سیل (cell) کے اندر اپنا شعور پیوست کردیا۔ سائنسی دریافت نے بتایا ہے کہ انسان کے جسم میں کئی ٹریلین (37.2 trillion) سیل موجود ہیں۔ بالقوۃ طور پر ہر سیل کے اندر خالق کی معرفت موجود ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو اللہ کی معرفت حاصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر بے شمار سطح پر اللہ کا شعور جاگ اٹھے۔ انسان کے اندر معرفت رب کی ایک کائنات وجود میں آجائے۔
انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے۔ سیل کی تخلیق کو لے کر سوچا جائے تو معرفت حاصل کرنے کا مطلب ہے—  انسانی شخصیت کے اندر موجود امکان کو واقعہ بنانا۔ یہ معرفت پوٹنشیل (potential) کے طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ تدبر اور غور و فکر کے ذریعے وہ اس پوٹنشیل کو ایکچول (actual) بنائے۔ وہ اپنے بالقوۃ عارف ہونے کو دریافت کرے، اور فکری جدوجہد کے ذریعہ اس بالقوۃ کو بالفعل بنا لے۔
اللہ کی معرفت، خالق کائنات کی معرفت ہے۔ خالق کائنات کی معرفت سارے علوم کا خزانہ ہے۔ جس کو خالق کی معرفت حاصل ہوگئی، اس کو تمام چیزوں کی معرفت حاصل ہوگئی۔ جس کو خالق کی معرفت حاصل نہیں ہوئی، وہ علوم کے سرچشمہ سے بے بہرہ رہے گا۔
ایک عالم نے مدارس کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: علوم کے سرے پکڑیے۔ یہ ایک مبہم بات ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ خالق کی معرفت حاصل کیجیے، اور پھر آپ تمام علوم کے عارف بن جائیں گے۔ اس کے بعد تمام علوم کے سرے آپ کی پکڑ میں آجائیں گے۔ آپ کو وہ فرقان مل جائے گا، جو آپ کے اندر صحیح اور غلط کی تمیز پیدا کردے گا۔اسی حقیقت کو قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (2:282)۔ یعنی اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی توفیق

اسلام کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو توفیق اِلٰہی کہا جاتا ہے۔ یعنی انسان اس دنیا میں جب بھی کوئی کام کرتا ہے تو وہ اللہ کی توفیق سے کرتا ہے۔ یعنی اللہ جب کسی انسان کے اندر استعداد دیکھتا ہے تو وہ اس کو توفیق عطا کرتا ہے۔ پھر وہ اللہ کی توفیق سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ اگر اقلیت میں ہوں تب بھی وہ اپنی خصوصی منصوبہ بندی سے کامیاب ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے حالات ان کے ذہن کے بند دروازے کھولتے ہیں۔ وہ اپنے غیر معمولی حالات میں بھی ایسی بات دریافت کرلیتے ہیں جو لوگ عام حالات میں دریافت نہیں کرپاتے۔
انسان کو اس دنیا میں کامل آزادی ملی ہے۔ وہ جس طرح چاہے عمل کرے، جس طرح چاہے نہ کرے۔ لیکن جس دنیا میں انسان کو عمل کرنا ہے، وہ دنیا اللہ کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ انسان کے باہر کی پوری دنیا کامل طور پر اللہ کی تخلیق ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان جب کچھ کرنا چاہے تو خارجی دنیا اس کے ساتھ مساعدت(support) کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان اگرچہ اپنے عمل کے لیے آزاد ہے، لیکن وہ کوئی عمل اس وقت کرپاتا ہے، جب کہ اللہ کا نظام اس کے ساتھ مساعدت کرے۔ اسی لیے انسان کو ہمیشہ اللہ سے مدد کی دعا کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اس دنیا میں وہ کوئی کام اسی وقت کرسکتا ہے، جب کہ اس کو اللہ کی مدد ملتی رہے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو تمثیل کی زبان میں حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:إن قلوب بنی آدم کلہا بین إصبعین من أصابع الرحمن، کقلب واحد، یصرفہ حیث یشاء۔ ثم قال :اللہم مصرف القلوب صرف قلوبنا على طاعتک (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2654)۔ یعنی تمام اولاد آدم کا دل خدائےرحمان کی انگلیوں میں سے دو انگلی کے درمیان ہے، ایک دل کی طرح، وہ جیسے چاہتا ہے اس میںتصرف کرتا ہے۔ پھرآپ نےدعا کی: اے دلوں میں تصرف کرنے والے، ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر ۔اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اللہ سے دعا کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

دوڑو جنت کی طرف

کسی انسان کو اگر سچائی کی معرفت ہو جائے، تو وہ بہت زیادہ اس بات کا طالب بن جائے گاکہ اس کا خالق اس سے راضی ہوجائے، اور وہ اس کو ابدی جنت میں داخل کرے۔ اس حقیقت کو قرآن میں مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے کی ایک آیت یہ ہے: وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ (3:133)۔ یعنی اور دوڑو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ تیار کی گئی ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے۔
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے ، وہ بطور نتیجہ ہر اس انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے جو سچائی کا متلاشی ہو۔ پھر وہ اللہ رب العالمین کو دریافت (discovery)کے درجے میں پائے۔ جو اللہ کے تخلیقی نقشہ (creation plan of God) کی دریافت کے نتیجے میں یہ جان لے کہ اس تخلیقی منصوبے کے مطابق انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ دنیا میں جنتی شخصیت کو بنائے، اور موت کے بعد آنے والی دنیا میں ابدی جنت میں داخل کیا جائے۔
اللہ کو دریافت کرنا(discovery)در اصل قادر مطلق کے مقابلے میں عاجز مطلق کی دریافت ہے۔ کوئی آدمی اپنے اور اللہ کے مقابلے میں اس نسبت کو دریافت کرے، وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اس بات کا خواہش مند بن جائے گا کہ اللہ اس سے راضی ہوجائے۔ وہ کسی حال میں اس کو اپنی رحمت سے محروم نہ کرے۔ اسی کا نام مغفرت ہے۔ اسی طرح جس شخص کو جنت کی دریافت ہوجائے ، وہ دل و جان سے اس کا حریص بن جائے گا کہ اس کا خالق اس کو ابدی جنت میں داخل کرے۔ اللہ کسی حال میں اس کو جنت سے محروم نہ کرے۔ جنت کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ آدمی آخری حد تک جنت کا حریص بن جائے ۔ وہ کسی حال میں جنت کی یاد سے غفلت میں مبتلا نہ ہو۔ وہ جنت کو ہر حال میں اپنا آخری مقصود بنا لے۔
واپس اوپر جائیں

داعی کی اسپرٹ

سورہ الانعام ایک مکی سورہ ہے۔ مکی دور میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت مکہ کے لوگ مشرکانہ مذہب پر تھے، اور پیغمبر اسلام کا مذہب توحید پر مبنی تھا۔ اس بنا پر وہ لوگ آپ کے دشمن بن گئے۔ ان حالات میں قرآن کی یہ آیت اتری:قُلْ أَغَیْرَ اللَّہِ أَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ قُلْ إِنِّی أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ (6:14)۔ یعنی کہو، کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو مددگار بناؤں جو کہ وجود میں لانے والا ہے آسمانوں اور زمین کا۔ اور وہ سب کو کھلاتا ہے اور اس کو کوئی نہیں کھلاتا۔ کہو مجھ کو حکم ملا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا بنوں۔
قرآن کی یہ آیت مین آف مشن (man of mission) کی اسپرٹ کو بتارہی ہے۔ مین آف مشن کی اسپرٹ ہوتی ہے، آئی ول ڈو اٹ (I will do it)۔ دوسرے لفظو ںمیں اس آیت کا مطلب تھا— کوئی توحید پر نہ چلے تو میں اس پر چلوں گا، کوئی توحید کو نہ اپنائے تو میں اس کو اپناؤں گا، کوئی توحید پرست نہ بنے تو میں اکیلا توحید پرست بنوں گا، کوئی اس مشن کے لیے نہ اٹھے تو میں اس کے لیے اٹھوں گا۔
داعی اس انسان کا نام ہے جو نتیجہ کو نہ دیکھے، بلکہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو دیکھے۔ جو اس اسپرٹ کے ساتھ کام کرے کہ دنیا میں میرا کوئی حق نہیں، یہاں میری صرف ذمہ داریاں ہی ذمہ داریاں ہیں۔ داعی اس انسان کا نام ہے جس کو اپنے عمل کا نتیجہ ملے تب بھی وہ سرگرم رہے، اور اگر اس کو اپنے عمل کا نتیجہ نہ ملے تب بھی اس کی سرگرمیاں اسی اسپرٹ کے ساتھ جاری رہیں۔
داعی کی کامیابی یہ ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے۔ داعی کی کامیابی یہ ہے کہ اس کے دل سے انسان کی خیرخواہی کبھی ختم نہ ہو۔ داعی کاسفر دنیا سے شروع ہوتا ہے، اور وہ صرف وہاں ختم ہوتا ہے، جہاں سے آخرت کی ابدی دنیا شروع ہوجاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

رُجز سے اعراض

مکہ کے ابتدائی دور میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ حکم اترا کہ لوگوں کے درمیان انذار کا کام کرو۔ اس سلسلے میں ایک مزید حکم دیا گیا : وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)۔ یعنی رجز کو چھوڑ دو۔ رجز کو چھوڑ نے کا مطلب یہ ہے کہ رجز سے اعراض کرتے ہوئے اپنے مشن کا کام مثبت طور پر جاری رکھو۔
رجز کا لفظی مطلب ہے گندگی(dirt)۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رکاوٹ والی چیزوں سے نہ الجھتے ہوئے اپنا کام جاری رکھو۔اتھارٹی (authority) سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے اپنا مشن ممکن حدود میں پر امن طور پر جاری رکھو، بے نتیجہ عمل سے دور رہتے ہوئے نتیجہ خیز سرگرمیوں میں اپنی کوشش صرف کرو۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ جب کسی مقصد کے لیے اٹھتے ہیں تو سب سے پہلے رکاوٹوں سے لڑنا شروع کردیتے ہیں۔وہ اتھاریٹی سے ٹکراؤ کو اپنے عمل کا آغاز سمجھ لیتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کی طاقتیں ضائع ہوتی ہیں۔ نفرت اور تشدد بڑھتا ہے۔ منفی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں، لیکن مثبت سرگرمیوں کو فروغ پانے کا موقع نہیں ملتا۔ جو ملنے والی چیز ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی، البتہ جو چیز ملنے والی نہیں، اس پر ساری طاقت خرچ کردی جاتی ہے۔ یہ بلاشبہ غیر حکیمانہ طریقہ ہے۔ لیکن پوری تاریخ میں لوگ اسی طریقے پر عمل کرتے رہے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ ہر صورت حال میں مواقع (opportunities) موجود رہتے ہیں۔ مواقع کو استعمال کرکے فوراً ہی نتیجہ خیز عمل شروع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن غیر دانش مندانہ سوچ کی بنا پر لوگوں کا دھیان فوراً مسائل (problems) کی طرف چلاجاتا ہے۔ اس معاملے میں قرآن نے ایک ایسی رہنمائی دی جو سرتا سر دانش مندی پر قائم ہے۔ یعنی مسائل اور مواقع کو ایک دوسرے سے ڈی لنک (delink) کرنا، مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے مواقع کو استعمال کرنا:
ignore the problem, avail the opportunity
واپس اوپر جائیں

سجدہ دورِ آخر میں

آخری زمانے کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشین گوئی حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے:لا تقوم الساعة حتى تکون السجدة الواحدة خیرا من الدنیا وما فیہا(موارد الظمآن، حدیث نمبر1888)۔یعنی قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک یہ حال نہ ہوجائے کہ ایک سجدہ دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتربن جائے۔
اس حدیث میں سجدہ اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ حقیقی سجدہ کے معنی میں ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ آخری زمانے میں مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوں گی، جب کہ وہ ہدایت سے خالی ہوں گی(شعب الایمان، حدیث نمبر 1763)۔اس لیے مذکورہ حدیث میں سجدہ لفظی معنی میں نہیں ہوسکتا، بلکہ یہاں سجدہ کا لفظ اپنے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہے۔
حقیقی سجدہ وہ ہے، جو سجدہ کی اسپرٹ سے بھراہوا ہو۔ اس میں آدمی اپنے آپ کو خدا کے قریب محسوس کرنے لگے۔ آخری زمانے میں لوگ اس قسم کے سجدہ سے محروم ہوجائیں گے۔ اس کا سبب یہ ہوگا کہ اس وقت لوگوں کا سب سے بڑا کنسرن سجدہ نہیں رہے گا، بلکہ مادی انٹرسٹ ان کا سب سے بڑا کنسرن بن جائے گا، وہ رسمی طور پر بظاہر سجدہ کریں گے، لیکن ان کا دل اللہ کے علاوہ کہیں اور اٹکا ہوا ہوگا۔ بظاہر زمین پر وہ اپنا سر رکھیں گے، لیکن ان کے دل میں نہ اللہ کی محبت ہوگی، اور نہ اللہ کا خوف ہوگا۔
یہ زمانہ عظیم فتنے کا زمانہ ہوگا۔ ایسی حالت میں سچا سجدہ صرف اس شخص کو حاصل ہوگا جو اپنی سوچ کے اعتبار سے اپنے آپ کو زمانے سے اوپر اٹھائے۔ جو بھلانے والی چیزوں سے الگ ہوکر اللہ کو یاد کرسکے۔ جو دجالی تزئینات کا پردہ پھاڑ کر اللہ کو دریافت کرے۔ جو اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ اس کا سجدہ رسمی سجدہ نہ ہو، بلکہ وہ ایک عارفانہ سجدہ بن جائے۔ ایسے حالات میں جو شخص سچا سجدہ کرے، اس کا سجدہ بلاشبہ اس کے لیے سب سے بڑے خیر کا سبب بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

دل کی بیماری

قرآن میں ایک نفسیاتی حقیقت کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا ہے: فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللَّہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ (2:10)۔ یعنی ان کے دلوں میں روگ ہے تو اللہ نے ان کے روگ کو بڑھا دیا۔ اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ کہتے تھے۔ اس آیت میں قلبی مرض سے مراد نفاق ہے۔ نفاق کوئی پراسرار چیز نہیں۔ وہ فطرت کا ایک ظاہرہ ہے، جو ہمیشہ اور ہر امت میں پیدا ہوتا ہے۔ نفاق کسی مخصوص قوم کی اجارہ داری نہیں۔
اصل یہ ہےکہ کسی امت کی پہلی نسل اخلاص پر کھڑی ہوتی ہے، لیکن امت کی بعد کی نسلوں میں دھیرے دھیرے اخلاص کمزور یا ختم ہوجاتا ہے۔ اب امت کے لیے ان کا دین تاریخی بڑائی (historical glory) کی چیز بن جاتا ہے۔ وہ دین کو اپنے لیے فخر کا عنوان بنا لیتے ہیں۔ امت کے افراد کی یہ نفسیات اس میں مانع ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرے۔ وہ اپنی قلبی کمزوری کو خوبصورت الفاظ کے ذریعہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی حالت کا نام نفاق ہے۔
نفاق کا اصل مفہوم چھپانا ہے۔ اسی لیے سرنگ کو نفَق کہتے ہیں۔ یہ لفظ جنگلی چوہے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، جو خطرہ کے وقت اپنے آپ کو بل میں چھپالیتا ہے۔ انسان کی نسبت سے جب یہ لفظ بولا جائے تواس سے مراد دہرا کردار (double standard) ہے۔ یعنی ایسا انسان جو حقیقت کے اعتبار سے دین سے دور ہوگیا ہو، لیکن خوبصورت الفاظ کے ذریعہ اپنے آپ کو دیندار بتائے۔ دوسرے الفاظ میں حقیقت کے فقدان کی تلافی خوبصورت الفاظ کے ذریعہ کرنا۔ منافقت کا مزاج کسی انسان کے اندر کیوں پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ اس کے اندر اسلام کی اسپرٹ باقی نہ ہو، لیکن ظاہری نوعیت کے کچھ عمل کا اظہار کرکے وہ اس بات کی کوشش کرے کہ وہ پورے معنوں میں اسلام پر قائم ہے۔
واپس اوپر جائیں

دین ایک ، شریعت مختلف

اللہ رب العالمین نے انسان کی ہدایت کے لیے ہرزمانے میں پیغمبر بھیجے۔ایک روایت کے مطابق، ان پیغمبروں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ان تمام انبیاء کا دین ایک تھا، البتہ ان کی شریعتیں مختلف تھیں۔ اس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَةً وَمِنْہَاجًا (5:48)۔ یعنی ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک طریقہ ٹھہرایا۔
تمام پیغمبروں کا دین ایک تھا، اوروہ دین، دینِ توحید تھا (الشوریٰ 13:)۔یہاں دین سے مراد دینِ توحید ہے۔ یعنی مبنی بر توحید آئڈیا لوجی۔ توحید کی حیثیت ایک ابدی نظریہ (eternal ideology) کی ہے۔ یہ دین کا وہ پہلو ہے جو صلۃ العبد بربہ سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی بندہ اور خدا کے درمیان تعلق کا معاملہ۔ یہ ہمیشہ ایک رہا ہے، اور ہمیشہ ایک رہے گا۔
جہاں تک شریعت کا معاملہ ہے، تو وہ بندہ اور دوسرے انسانوں کے درمیان تعلق سے قائم ہوتا ہے۔ بندہ اور بندہ کے معاملے میں تعلق کی نوعیت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ مثلا کبھی حاکم اور محکوم کا رشتہ، اور کبھی انسان اورانسان کا رشتہ، وغیرہ۔ اس لیے اس دوسرے معاملے میں قانون کا ڈھانچہ ہمیشہ ایک نہیں ہوسکتا، وہ حالات کے اعتبار سے بدلتا رہے گا۔
مختلف انبیاء کے درمیان شرائع کا اختلاف اسی بنیاد پر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پچھلے زمانے میں انبیاء کے درمیان شریعت کا اختلاف ہوتا تھا، اور اب پیغمبر آخرالزماں کے زمانے میں شریعت ہمیشہ ایک رہے گی۔ یعنی ساتویں صدی عیسوی سے لے کر قیامت تک۔اصل یہ ہے کہ پیغمبر آخرالزماں کے زمانے میں بھی شریعت کا معاملہ وہی رہے گا، جو اس سے پہلے پچھلے انبیاء کے زمانے میں تھا۔ پیغمبر آخر الزماں کے زمانے میں بھی جب حالات بدلیں گے تو ضرورت ہوگی کہ اجتہاد کرکے شریعت محمدی کی نئی تطبیق (new application) دریافت کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

اکڑ کی چال

قرآن میں ایک نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے: وَلَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا (17:37)۔ یعنی زمین میں اکڑ کر نہ چلو۔ تم زمین کو پھاڑ نہیں سکتے اور نہ تم پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکتے ہو۔ اس آیت میں مشی (چلنا) صرف چلنے کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق پورے طریقۂ زندگی سے ہے۔یہاں چال سے مراد انسان کا پورا اخلاقی رویہ ہے۔انسان کے اندر ایک صفت ہے۔ یہ صفت انسان کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ ہے اور یہی انسان کا سب سے بڑا مائنس پوائنٹ ہے۔ یہ صفت وہی ہے جس کو انا (ego) کہا جاتا ہے۔ ایک لفظ میں، اس صفت کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ آدمی کے اندر تواضع (modesty)پائی جائے۔ اس صفت کا مائنس پوائنٹ یہ ہے کہ آدمی کے اندر فخر (pride) کا جذبہ پیدا ہوجائے۔
ابلیس نے انسان سے اپنا تقابل کرتے ہوئے کہا تھا: أَنَا خَیْرٌ مِنْہُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَہُ مِنْ طِینٍ (7:12)۔ یعنی میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھ کو آگ سے بنایا ہے اور آدم کو مٹی سے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس غلط تقابل (wrong comparison)کا شکار ہوا۔ اپنے خیال کے مطابق، اس کو اپنا پلس پوائنٹ نظر آیا، اور آدم کا مائنس پوائنٹ دکھائی دیا۔
یہی انسان کی عام غلطی ہے۔ انسان اپنے خیال کے مطابق، ہمیشہ غلط تقابل کا شکار ہوتا ہے۔ وہ اپنے پلس پوائنٹ کو دیکھتا ہے، اور دوسرے کے مائنس پوائنٹ کو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسرےکو کم، اور اپنے کو زیادہ سمجھ لیتا ہے۔ اس تقابل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غیر واقعی طور پر اپنے کو بڑا اور دوسرے کو چھوٹا سمجھ لیتا ہے۔ اور پھر اس کے اندر فخر اور غرور کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ آدمی کے اندر وہی صفت غائب ہوجاتی ہے جو انسان کی اصل صفت ہے، اور وہ ہے تواضع (modesty)۔ کوئی چیز اپنے انجام کے اعتبار سے پہچانی جاتی ہے۔ جو طرز فکر آدمی کے اندر تواضع پیدا کرے، وہ صحیح طرز فکر ہے، اور جو طرز فکر آدمی کے اندر برتری کا جذبہ پیدا کرے، وہ بلاشبہ غلط طرز فکر ہے۔
واپس اوپر جائیں

مومن کی صفت

مومن کی مثال ایسے نرم پودے کی سی ہے جس کے پتے سایہ دار ہوتے ہیں۔ جس سمت سے بھی ہوا چلتی ہے وہ اس کو جھکا دیتی ہے۔ جب ہوا رکتی ہے تو وہ سیدھا ہوجاتا ہے۔ یہی حال مومن کا ہے جو مسلسل آزمائشوں کے بار سے دبا رہتا ہے۔ اور کافر کی مثال سخت درخت (ٹھنٹھ) کی طرح ہے، جو ایک حالت میں کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ اسے جب چاہتا ہے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5644)
اس حدیث میں پودے کی مثال کے ذریعہ مومن کی صفت تواضع کو بتایا گیاہے ۔ تواضع مومن کی ایک خاص صفت ہے۔ جس انسان کے اندر ایمانی کیفیت ہوگی، اس کے اندر تواضع بھی ضرور ہوگی۔ یہ دونوں چیزیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیںہوسکتیں۔مومن کے اندر سوکھی لکڑی کی طرح اکڑ نہیں ہوتی بلکہ نرم پودے کی طرح لچک ہوتی ہے۔ اس سے کوئی کوتاہی ہوجائے تو فوراً ہی وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیتا ہے۔ کسی سے معاملہ پڑے تو وہ ہمیشہ اس کے ساتھ نرم روی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ نزاع کے موقع پر وہ یک طرفہ طورپر مصالحت کے لیے تیار رہتا ہے۔ حقوق کے جھگڑے میں وہ اپنا حق دوسرے کو دینے پر راضی ہوجاتا ہے تاکہ معاملہ شدت کے مرحلہ تک نہ پہنچے۔
ایک انسان جب دوسرے انسان کے ساتھ شدت کا معاملہ کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کو اپنے جیسے ایک انسان کا معاملہ سمجھتا ہے۔ یہی نفسیات آدمی کو شدید بناتی ہے۔ مگر مومن اس کے برعکس ہر معاملہ کو خدا کا معاملہ سمجھتا ہے۔ یہ نفسیات اس کے اندر شدت کا خاتمہ کردیتی ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے مقابلہ میں بڑا ہوسکتا ہے مگر خدا کے مقابلہ میں کوئی بھی انسان نہ بڑا ہے اور نہ طاقتور۔ اسی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ انسان اور انسان کا معاملہ ہو تو ان میں سے کوئی چھوٹا نظر آتا ہے اور کوئی بڑا۔ مگر جب انسان اور خدا کا معاملہ ہو تو تمام انسان یکساں حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اب بڑا صرف ایک خدا ہوتاہے اور بقیہ تمام انسان اس کے مقابلہ میں چھوٹے۔
واپس اوپر جائیں

شتم رسول

شتم رسول (blasphemy) کا تصور اسلام میں اجنبی ہے۔ قرآن اور حدیث میں کہیں بھی اس کا حکم موجود نہیں۔ بعد کے دور میں کچھ علماء نے بطور خود یہ تصور وضع کیا، اور اس کو اسلام کا قانونی حصہ بنا دیا۔ پیغمبر اسلا م کو دعوت الی اللہ کا حکم دیا گیا تھا، یعنی خدا کے پیغام سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ قرآن میں پیغمبرکے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَکِّرٌ۔ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ (88:21-22)۔ یعنی تم یاد دہانی کرو، تم صرف یاددہانی کرنے والے ہو، تم لوگوں کے اوپر داروغہ نہیں ہو۔یہی ذمہ داری امت محمدی کی ہے۔زندگی کے اسلامی نقشہ میں اس تصور کے لیے کوئی جگہ نہیں کہ جو شخص مفروضہ شتم کا ارتکاب کرے، اس کو مارڈالو۔ شتم کی اصل حقیقت اختلاف ِ رائے (difference of opinion) ہے۔
انسانی آزادی کی بنا پر دنیا میں اختلاف رائے کا معاملہ پیش آتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ شخص جس کو مسلمان بطور خود شاتم کہتے ہیں، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اختلافی رائے رکھنے کا کیس ہے، نہ کہ شتم کا کیس۔ ایسے انسان کو دلیل کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر کوئی شخص آپ کو مختلف رائے رکھنے والا ملے تو آپ کو اس سے پیس فل ڈسکشن کا حق ہے، نہ کہ اس کو مارنے کا حق۔ ایسا انسان مجرم (criminal) نہیں ہے۔وہ خدا کی دی ہوئی آزادی کے غلط استعمال (misuse of freedom) کا کیس ہے۔ جو لوگ ایسے انسان کو قتل کرنے کا اعلان کریں، وہ خود غلط کار ہیں، نہ کہ مفروضہ شاتم ۔
امت محمدی کا مشن پر امن مشن ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے تو یہ اللہ رب العالمین کے دائرےکا کیس ہے، وہ کسی انسان کے دائرےکا کیس نہیں۔ جو لوگ ایسے انسان کو شاتم رسول کہہ کر اس کو قتل کرنا چاہیں، وہ خود انسانی دائرے سے نکل کر اللہ کے دائرے میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں، نہ کہ مفروضہ شاتم رسول ۔
واپس اوپر جائیں

عقل کا فقدان

امت کے بعد کے دور کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشین گوئی ان الفاظ میں آئی ہے: ذکر رسول اللہ ہرجا بین یدی الساعة حتى یقتل الرجل جارہ وأخاہ وابن عمہ، قالوا:ومعنا عقولنا یومئذ؟ قال:تنزع عقول أکثر أہل ذلک الزمان، ویُخَلَّف لہا ہیماء من الناس، یحسب أحدہم أنہ على شیء ولیس على شیء(الفتن لنعیم ابن حماد، قاہرۃ، 1412ھ ، حدیث نمبر115)۔ یعنی رسول اللہ نے قیامت سے پہلے پیش آنے والے ہرج (فتنہ) کا ذکر کیا،(اور کہا کہ ) یہاں تک کہ آدمی قتل کرے گا اپنے پڑوسی کو، اور اپنے بھائی ، اور اپنےچچاکے بیٹے کو۔ لوگوں نے پوچھا : کیا ان دنوں ہمارے پاس عقل ہوگی۔ آپ نے کہا:اس زمانے میں اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی، اور دیوانوں کے مانند لوگ بچیں گے۔ان میں سے کوئی شخص یہ سمجھے گا کہ وہ کسی چیز پر ہے، حالاں کہ وہ کسی چیز پر نہ ہوگا۔
اس حدیث پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ امت کے دورِ زوال میں یہ ظاہرہ اس بنا پر پیدا ہوگا کہ امت مسلمہ اپنے پہلے دور میں سیاسی عروج پر پہنچ جائے گی۔ اس کے بعد قانونِ فطرت کے تحت اس کا اقتدار اس سے چھن جائے گا، دوسری قومیں اس کی جگہ غلبہ کا مقام حاصل کر لیں گی۔ اس دور میں امت کے اندر وہ ظاہرہ پیدا ہو گا جس کو عظمت رفتہ کا جنون (paranoia) کہا جاتا ہے۔ یہ احساس امت کے افرادکے اندر سخت قسم کی انتقامی دیوانگی پیدا کردے گا۔ امت کے افراد دوسری قوموں سے نفرت کرنے لگیں گے۔ وہ ہر ایک کو اپنا دشمن سمجھ لیں گے۔ وہ انتقامی نفسیات کے تحت چاہیں گے کہ اپنے مفروضہ دشمنوں کو مٹا ڈالیں۔یہاں تک کہ وہ خود اپنے لوگوں کے دشمن ہوجائیں گے۔ کیوں کہ وہ ان کو یہ سمجھنے لگیں گے کہ وہ ان کے دشمنوں کے ایجنٹ ہیں۔ یہ امت کے لیے عقل کے فقدان کا وقت ہوگا۔ وہ ایسے کام کریں گے جن کا تعلق عقل و دانش سے نہ ہوگا۔لیکن وہ بطور خود یہ سمجھیں گے کہ وہ عقل پربھی ہیں ، اور اسلام پر بھی ۔
واپس اوپر جائیں

درجات کی بلندی

قرآن میں ایک نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے:یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا قِیلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوا فِی الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا یَفْسَحِ اللَّہُ لَکُمْ وَإِذَا قِیلَ انْشُزُوا فَانْشُزُوا یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَالَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ (58:11)۔ یعنی اے ایمان والو، جب تم کو کہا جائے کہ مجلسوں میں کھل کر بیٹھو تو تم کھل کر بیٹھو، اللہ تم کو کشادگی دے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو تم اٹھ جاؤ۔ تم میں سے جو لوگ ایمان والے ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے، اللہ ان کے درجے بلند کرے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔
اجتماعی زندگی میں اکثر ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جو بظاہر معمولی ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ اس پر افنڈ (offend) ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ میرے ساتھ امتیازی سلوک (discrimination) کا معاملہ کیا گیا، میرے اوپر تنقید کی گئی۔ میرے کام کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ مجھے نیچادکھانے کے لیے میرے خلاف سازش کی گئی۔ میں ترقی کا مستحق ہوں، لیکن لوگ مجھ کو ترقی دینا نہیں چاہتے۔ میں نے کام زیادہ کیا تھا، لیکن مجھے اس کا معاوضہ کم ملا۔ لوگ میرے حاسد بن گئے ہیں، اس لیے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا، ان کو گوارا نہیں۔ جس درجے کا میں مستحق تھا، وہ درجہ مجھے نہیں دیا گیا، وغیرہ۔
اس قسم کی باتیں ہمیشہ غلط فہمی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جن لوگوں کے اندر سوچنے کی صلاحیت نہ ہو، وہ لوگ اس قسم کی باتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ لیکن جن کے اندر دانش مندی (wisdom) پائی جاتی ہے، وہ اس قسم کی تمام باتوں کو یا تو نظر انداز کردیتے ہیں، یا ان کا مثبت انداز میں تجزیہ کرکے اپنے آپ کو بگاڑ سے بچالیتے ہیں۔جو لوگ اس طرح کے مواقع پر اپنے آپ کو منفی تاثر سے بچائیں، وہ اللہ کی خصوصی نصرت کے مستحق بن جاتے ہیں، اس کے بعد ان کے اندر مزید فکری ترقی ہوتی ہے، جو ان کے درجات کو بڑھانے والی ثابت ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف کے باوجود اعتراف

صحابہ ان لوگوںکو کہا جاتا ہے، جنھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست تربیت پائی ہو۔ صحابہ کا ہر قول اور ہر عمل پیغمبر اسلام کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ صحابہ پیغمبر انہ اخلاقیات کا توسیعی نمونہ (extended example) تھے۔
صحابہ کے دو گروہ تھے — انصار اور مہاجرین۔ مہاجر صحابہ میں سے دو کے نام یہ ہیں: سعد بن ابی وقاص (وفات55ھ)، خالد بن الولید(وفات 21ھ)۔ ان دونوں کے تعلق سے ایک روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ روایت یہ ہے: کان بین خالد بن الولید، وبین سعد کلام، قال:فتناول رجل خالدا عند سعد، قال:فقال سعد:مہ، فإن ما بیننا لم یبلغ دیننا(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر 25535)۔ یعنی خالد بن الولید اور سعد کے درمیان (کسی نزاعی معاملے پر)تکرار ہوگئی۔راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد ایک شخص نے سعد سے خالد کی برائی بیان کی۔ تو سعد نے کہا: دور ہو، ہم دونوں کے درمیان جو معاملہ ہے، وہ ہمارے دین تک نہیں پہنچے گا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دو صحابی ، سعد بن ابی وقاص او ر خالد بن الولید کے درمیان کوئی ذاتی نزاع پیداہوگئی۔ کسی معاملے پر بات کرتے ہوئے دونوں کے درمیان تکرار ہوگئی۔ اس بات کو لے کر ایک شخص نے سعد بن ابی وقاص سے خالد بن الولید کی برائی بیان کی۔ لیکن سعد ایک اعلیٰ اخلاق والے آدمی تھے۔ انھوں نے فوراً کہا کہ ہمارے اور خالد کے درمیان جو اختلاف ہے، وہ ایک ذاتی نوعیت کا اختلاف ہے۔ اس اختلاف کو ہم ذاتی حد تک رکھیں گے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس کی بنا پر ہم ایک دوسرے کو دین کے اعتبار سے برا سمجھنے لگیں۔ اجتماعی زندگی میں باہمی نزاع کا پیدا ہونا، ایک عام بات ہے، لیکن اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ ذاتی معاملے کو دین سے الگ رکھیں۔ ذاتی شکایت کو وہ ایک دوسرے کے دین تک نہ لے جائیں۔ذاتی اختلاف کے باوجود وہ دینی اعتبار سے ایک دوسرےکے اعتراف میں کمی نہ آنے دیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوت اور ظلم

بہت سے مسلمان ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کو غیر مسلموں میں دعوت کا کام کرنا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم یہ دیکھیں کہ مسلمانوں کے خلاف ظلم ہورہاہے۔ تو ہمیں ظلم کے خلاف لڑائی بھی کرنی ہے۔ ہم کو دونوں کام کرنا ہے، ہم کو دعوت کا کام بھی کرنا ہے، اور اسی کے ساتھ ہم کو ظلم کے خلاف لڑنا بھی ہے— یہ قرآن کی زبان نہیں ہے، بلکہ وہ قومی لیڈر کی زبان ہے۔ قرآن کے مطابق، دعوت کا کام کرنےکی پہلی شرط یہ ہےکہ داعی اپنے مدعو کا ناصح (خیرخواہ) بنے۔ اگر خیر خواہی نہیں تو دعوت بھی نہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّکَ (22:67)۔ پس اس معاملہ میں وہ تم سے ہرگز نزاع نہ کریں۔ اور تم اپنے رب کی طرف بلاؤ۔
وہ تم سے ہرگز نزاع نہ کریں، یہ ایک عربی اسلوب ہے۔ عربی میں کہا جاتا ہے کہ لایضربنک زید۔ اس جملہ کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ زید ہرگز تم کو نہ مارے۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ زید کو ہرگز مارنے کا موقع نہ دو۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق داعی کو ظلم کے مقابلے میں صبر کرنا ہے، نہ کہ لڑائی کرنا ۔ داعی کو اپنے مدعو سے کسی حال میں لڑنا نہیں ہے۔ اگر چہ بظاہر یہ دکھائی دے کہ مدعو ظلم کررہا ہے تب بھی داعی کو چاہیے کہ وہ ظلم کو مینج (manage) کرے، نہ کہ ظلم کے نام پر مدعو سے لڑائی کرے۔
دعوت الی اللہ کا کام ایک خالص اخروی کام ہے۔ اس کام کو قرآن میں انذار و تبشیر کا کام کہا گیا ہے۔ دعوت کا کام یہ ہے کہ انسان کو یہ بتایا جائے کہ اللہ رب العالمین کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) کیا ہے۔ انسان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے متقی انسان کی حیثیت سے ڈیولپ کرےکہ آخرت میں اس کو ابدی جنت میں داخلہ دیا جائے۔ دعوت ایک ایسا کام ہے، جو غیر قومی بھی ہے، اور غیر سیاسی بھی۔ اسلام میں صرف دفاعی جنگ ہے۔ دفاعی جنگ حاکم کا معاملہ ہے۔ داعی کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

روشن ہدایت

دینِ اسلام ہر اعتبار سے ایک واضح دین ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قد ترکتکم على البیضاء لیلہا کنہارہا، لا یزیغ عنہا بعدی إلا ہالک (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر43)۔ یعنی میں تمھارے پاس ایک روشن دین چھوڑ رہا ہوں، اس کی راتیں بھی اس کے دن کی طرح ہیں، میرے بعد کوئی اس سےدور نہیں ہوگا سوائے اس آدمی کے جو ہلاک ہونے والا ہے۔
یہاں یہ سوال ہے کہ جب دین اتنا واضح ہے تو اس میں اختلافات کیوں۔ قرآن کی تفسیر میں اختلاف، حدیث کی شرح میں اختلاف ، فقہی مسائل میں اختلاف، وغیرہ۔ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ لیکن آپ کے بعد نماز کے مسائل میں اتنے اختلافات ہوئے کہ مسلمانوں کے درمیان کئی مستقل فقہی اسکول بن گئے، وغیرہ۔
یہ اختلاف ایک مطلوب اختلاف ہے۔ یہ اختلاف اس لیے ہے تاکہ لوگ اس پر تدبر کریں۔لوگ خود اپنے ذہن کو استعمال کریں۔ یہاں تک کہ ہر شخص دین کو ری ڈسکور (rediscover) کرے، ہر آدمی خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑا ہو۔
نجران کے کچھ حق کے متلاشی لوگ مدینہ آئے تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچائی کو دریافت کریں۔ یہ قصہ قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ (5:83) ۔ یعنی اور جب انھوں نے اس کلام کو سنا جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کی معرفت حاصل کر لی۔
آیت میں و اذا سمعوا کے بعد بظاہر علموا (انھوں نے جان لیا )آنا چاہیے تھا۔ مگر یہاں عرفوا کا لفظ آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سننے کے بعد ابتدائی طور پر انھوں نے سچائی کو صرف جانا تھا۔ مگر اپنی طرف سے تدبر کا اضافہ کرکے انھوں نے اپنے جاننے کو معرفت (self-discovery) بنایا۔ ایسا اس لیے ہوا تاکہ وہ خود دریافت کردہ معرفت پر کھڑے ہونے کی سعادت حاصل کر سکیں۔
انسا ن کو اس کے خالق نے صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا (91:8)۔ انسان کے آس پاس جو دنیا ہے جس کو قرآن مجید میں زمین و آسمان کے الفاظ میں تعبیر کیا گیا ہے۔ اس میںایسی آیات (signs) ہیں جو خاموش زبان میں سچائی کا اعلان کررہے ہیں۔ تاریخ کے تمام واقعات دین خداوندی کے صداقت کے گواہ ہیں۔ نیز یہ کہ پیغمبر کے ذریعہ قرآن و سنت کی صورت میں ہدایت کا پورا سامان انسان کے لیے مہیا کردیا گیا ہے، وغیرہ۔
اس کے باوجود قانون فطرت کے مطابق، دنیا کی تمام چیزوں کے ساتھ ہمیشہ ایک شبہ کا عنصر (element of doubt) موجود رہتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَکًا لَقُضِیَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُونَ۔ وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَا یَلْبِسُونَ (7:8-9)یعنی اور وہ کہتے ہیں کہ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتا را گیا۔ اور اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے تو معاملہ کا فیصلہ ہوجاتا، پھر انھیں کوئی مہلت نہ ملتی۔ اور اگر ہم کسی فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجتے تو اس کو بھی آدمی بناتے اور ان کو اسی شبہ میں ڈال دیتے جس میں وہ اب پڑے ہوئے ہیں۔
سچائی کی ہدایت اگرچہ انسان کو اللہ رب العالمین کی طرف سے دی گئی ہے۔ لیکن اللہ کو یہ منظور ہے کہ وہ اپنے ہدایت یاب بندوں کو اس بات کا کریڈٹ دے کہ انھوں نے اپنی عقل کو استعمال کرکے ذاتی طور پر سچائی کو دریافت کیا۔ اختلافات کے جنگل میں وہ خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑے ہوں۔ یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے انسان کے لیے ایک مزید عنایت کا معاملہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

حقیقی اہمیت

پیغمبر اسلام کے طریقہ کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ کی نظر ہمیشہ حقائق پر ہوتی تھی،نہ کہ ظواہر پر۔ ظواہر میں اگر بے خبری کی بنا پر کوئی فرق ہوجائے تو اس کو آپ ناقابل لحاظ سمجھتے تھے۔ البتہ حقیقی اہمیت والی باتوں کے بارے میں آپ کا رویہ ہمیشہ بہت سخت ہوتا تھا۔
پیغمبر اسلام کے آخری حج کا ایک واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں میںتھوڑے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ آیا ہے۔ یہ آپ کی زندگی کا آخری سال تھا۔ آپ حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد منیٰ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگ آپ کے پاس آتے اور حج کے مسائل دریافت کرتے۔ کوئی کہتا کہ مجھے مسئلہ معلوم نہ تھا چنانچہ میںنے ذبح کرنے سے پہلے بال منڈوا لیا۔ کوئی کہتاکہ میںنے رمی سے پہلے نحر (قربانی) کرلی، وغیرہ۔ آپ ہر ایک سے کہتے کہ کرلو، کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح بار بارلوگ آتے رہے اور تقدیم اور تاخیر کی بابت سوال کرتے رہے۔ آپ ہر ایک سے یہی کہتے کہ کر لو، کوئی حرج نہیں(افعل ولاحرج) صحیح البخاری، حدیث نمبر 83۔
ابو داؤد کی روایت میں مزید ان الفا ظ کا اضافہ ہے: کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں۔ حرج تواس شخص کے لیے ہے جو ایک مسلمان کو بے عزت کرے۔ ایسا ہی شخص ظالم ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس نے حرج کیا اور ہلاک ہوا۔ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2015)۔ دین میں اصل اہمیت معانی کی ہے، نہ کہ ظواہر کی۔ ایک شخص ظاہری چیزوں کا زبردست اہتمام کرے مگر معنوی پہلو کے معاملہ میں وہ غافل ہو تو ایسا شخص اسلام کی نظر میں بے قیمت ہوجائے گا۔
اللہ ہمیشہ آدمی کی نیت کو دیکھتا ہے۔ نیت اگر اچھی ہے تو ظاہری چیزوں میںکمی یا فرق کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگر آدمی کی نیت اچھی نہ ہو تو اللہ کی نظر میں اُس کی کوئی قیمت نہیں، خواہ اُس نے ظواہر کے معاملہ میں کتنا ہی زیادہ اہتمام کررکھا ہو۔ ظاہری خوش نمائی سے انسان فریب میں آسکتا ہے مگر ظاہری خوش نمائی کی خدا کے نزدیک کوئی وقعت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سماجی آداب

ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک صحابی، وابصہ الاسدی پیغمبر اسلام کے پاس آئے۔ وہ نیکی اور بدی کے تمام سوالات آپ سے پوچھنا چاہتے تھے(لا أدع شیئا من البر والإثم إلا سألتہ عنہ)۔ رسول اللہ نے ان کے سوالات کا جواب نہیں دیا، بلکہ یہ فرمایا: یا وابصة استفت قلبک، واستفت نفسک ’’ ثلاث مرات‘‘، البر ما اطمأنت إلیہ النفس، والإثم ما حاک فی النفس، وتردد فی الصدر، وإن أفتاک الناس وأفتَوک(مسند احمد، حدیث نمبر 18006)۔ یعنی اے وابصہ ، اپنے دل سے فتویٰ پوچھو، اور اپنے جی سے فتویٰ پوچھو (یہ بات آپ نے تین بار کہی، اس کے بعد فرمایا) نیکی وہ ہے جس پر تمھارا دل مطمئن ہو، اور بدی وہ ہے جو تمھارے دل میں کھٹکے۔ اور تمھارے دل میں تردد پیدا ہو۔ چاہے لوگ کچھ بھی فتویٰ دیتے ہوں۔
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر آدمی ہر معاملے میں اپنا مفتی خود بن جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرمسئلے کو شرعی مسئلہ نہ بناؤ۔ کھلی ممنوعات کے سوا جو چیزیں ہیں، ان میں کامن سنس (common sense) پر عمل کرو۔
مثلا انڈیا میں ملاقات کے وقت پاؤں چھونے کا رواج ہے۔ یہ عمل کوئی مذہبی عمل نہیں ہے، بلکہ وہ بطور احترام (as a mark of respect) ہوتا ہے۔ ملاقات کے وقت احترام کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلا سر کو یا ہاتھ کو بوسہ (kiss) کرنا، یا رکوع کی مانند جھک جانا، وغیرہ۔ جس طرح سے یہ علامتی طریقے جائز ہیں، اسی طرح علامتی طور پر پاؤں کا چھونا بھی جائز ہے۔
قرآن کے مطابق، حضرت یوسف کے بھائیوں نے حضرت یوسف کے سامنے بوقت ملاقات ایک فعل کیا تھا، جس کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:وَخَرُّوا لَہُ سُجَّدًا (12:100)۔ اس آیت میں معروف سجدہ مراد نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد بطور تعظیم جھک جانا ہے۔ اس کا تعلق آداب حیات سے ہے، نہ کہ شرعی عبادت سے۔
واپس اوپر جائیں

دین میں عقل کا استعمال

دین میں عقل کا استعمال بلاشبہ عین درست ہے۔ خود قرآن میں لُبّ (عقل) کے استعمال کی ترغیب دی گئی ہے(ص 29:)۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی یونانی کلامیات کے ماڈل پر اسلام کو جانچنے کی کوشش کرے۔ جیسا کہ الرازی (وفات311:ھ) اور الجوینی (وفات478:ھ) جیسے لوگوں نے کیا۔ قدیم زمانے میںمسلم متکلمین نے دین میں عقل کو استعمال کیا تو اس پر علماء نے سخت نکیر کی۔ مثلاً امام مالک ابن انس، اور امام ابویوسف نے کہا تھا : من طلب الدین بالکلام تزندق (ذم الکلام وأہلہ للہروی ، المدینة المنورة، 1998، 5/71 & 202)۔ یعنی جس نے دین کو کلام کے ذریعہ حاصل کرنا چاہا، وہ زندیق ہوگیا۔ یہ قول بجائے خود بلاشبہ درست ہے۔ لیکن وہ خود عقل کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ عقل کے ایک غلط استعمال کے اعتبار سے ہے، جوکہ حقیقت میں لفظی موشگافی تھا، نہ کہ حقیقی معنوں میں عقل ۔ حقیقت یہ ہےکہ عقل کا ارتقا صحیح معنوں میں اس وقت سے ہوا، جب کہ دنیا میں عقلی سائنس (scientific reasoning)وجود میں آئی۔
د ین میں عقل کے استعمال کا مطلب ہے کہ دینی مسائل کے معاملے میں عقلی اطمینان (البقرۃ260:) حاصل کرنا۔ تاکہ انسان جب اس دنیا سے جائے تو قلب سلیم (الشعراء 89:) کے ساتھ جائے۔ اس کی ایک مثال قرآن کی ایک آیت ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: تو بہ، جس کو قبول کرنا اللہ کے ذمہ ہے، وہ ان لوگوں کی ہے جو بری حرکت نادانی سے کر بیٹھتے ہیں، پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ وہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول کرتا ہے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے (4:17)۔
قرآن کی اس آیت میں توبۂ قریب (speedy repentance)کا لفظ کیوں آیا ہے۔اس کا جواب علم النفس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ کے تین حصے ہیں۔ شعور (conscious mind)، تحت شعور (sub conscious mind)، لا شعور (unconscious mind)۔ یہ فرق انسان کی فطری ساخت کے مطابق ہے۔ جب آدمی غلطی کرتا ہے تو ابتداءاً غلطی کا شعور اس کے زندہ حافظہ (living memory)میں ہوتا ہے۔ اس وقت آدمی اگر اپنا محاسبہ (introspection)کرے تو ابتدائی مرحلہ میں آدمی اپنی غلطی کو شدت کے ساتھ محسوس کرے گا، اور جلد ہی وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرلے گا۔
لیکن اگر آدمی محاسبہ میں دیر کرے۔ تو اس کے بعد غلطی کا احساس اس کے زندہ شعور سے گزرکر اس کے دماغ کے اس حصہ میں چلاجائے گا، جس کو تحت شعور کہا جاتاہے۔ اب غلطی کے بارے میں اس کے اندرحساسیت بہت کم ہوجاتی ہے۔ آدمی نے اگر اب بھی اپنا محاسبہ نہیںکیا تواس کے بعد تیسرا درجہ یہ آتا ہے کہ غلطی کا احساس آدمی کےلاشعور میں چلاجاتا ہے۔ اس تیسرے درجے کو پہنچنے کے بعد آدمی کے اندر غلطی کے بارے میںکامل غفلت کا دور آجاتا ہے۔ اسی کو قرآن میں طول امد سے قساوت کاپیدا ہونا بتایا گیا ہے (الحدید16:)۔ اسی نفسیاتی تجزیے کا دوسرا نام دین کے معاملے میں عقل کا استعمال کرنا ہے۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک اور آیت قرآنی کا مطالعہ کیجیے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان والو، تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اوپر مت کرو اور نہ اس کو اس طرح آواز دے کر پکارو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو (49:2)۔
اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ صرف پیغمبر کی فضیلت یا پیغمبر کے معاملے میں ادب کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ اصلاً وہ دین خداوندی کے اعتبار سے ہے۔ حبطِ اعمال کا یہ واقعہ پیغمبر کی مجلس میں بھی پیش آسکتا ہے، اور پیغمبر کی مجلس کے باہر بھی۔ اصل یہ ہے کہ جب دین خداوندی کی کوئی بات ہو تو انسان کو چاہیے کہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ وہ اس کوسنے۔ اگر وہ اس کو ایک غیر اہم بات کی طرح سنے گا تو دھیرے دھیرے وہ اس معاملے میں قساوت کا شکار ہوجائے گا، اور پھر بے شعوری کے اس درجے پر پہنچ جائے گا، جب کہ اس کے لیے اپنی اصلاح کرنا ہی ممکن نہ رہے گا۔ ایسے آدمی کا یہ انجام اس لیے ہوگا کہ اس نے قانون فطرت کے مطابق پہلے مرحلہ میں اپنا محاسبہ نہیںکیا۔
واپس اوپر جائیں

مدح، تنقید

احادیث میںکثرت سے یہ تلقین کی گئی ہے کہ تم کسی کی مدح نہ کرو۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : إذا رأیتم المداحین، فاحثوا فی وجوہہم التراب(صحیح مسلم، حدیث نمبر 3002) یعنی جب تم مدح کرنے والوں کو دیکھو تو اُن کے منہ پر مٹی ڈال دو۔ اسی طرح ایک روایت میںآیا ہے:سمع النبی صلى اللہ علیہ وسلم رجلا یثنی على رجل ویطریہ فی مدحہ، فقال:أہلکتم أو قطعتم ظہر الرجل (صحیح بخاری، حدیث نمبر 2663)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا کہ ایک شخص دوسرے شخص کی تعریف کررہا ہے اور اُس کی تعریف میں وہ مبالغہ کررہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا یا یہ فرمایا کہ تم نے اُس کی کمر توڑ دی۔
اسی طرح خلیفۂ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارہ میںایک روایت میں آیا ہے کہ اُنہوں نے کہا: المدح الذبح (الادب المفرد، حدیث نمبر 336)۔یعنی مدح کرنا آدمی کو ذبح کرنا ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر نے ایک شخص کو دوسرے شخص کی تعریف کرتے ہوئے سُنا تو اُنہوں نے کہا: عقرت الرجل عقرک اللہ (الأدب المفرد، حدیث نمبر335) یعنی تم نے اُس شخص کو ذبح کردیا، اللہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی کرے۔
حدیث اور آثارکی کتابوںمیں اس طرح کی بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ مدح کا طریقہ دینی مزاج کے خلاف ہے۔ بعض اوقات اعتراف واقعہ یا اورکسی مصلحت سے کسی کی تعریف کی جاسکتی ہے۔ مگر عمومی طورپر اسلام میںاُس چیز کو سخت نا پسند کیا گیا ہے جس کو مدح خوانی یا قصیدہ گوئی کہا جاتاہے۔ اس قسم کی تعریف مادح کے لیے مصلحت پرستی ہے اورممدوح کے لیے اُس کو عُجب کی غذا دینا ہے۔ اس لیے یہ فعل مادح اورممدوح دونوں کے لیے ہلاکت خیز ہے۔
تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ احادیث میں تعریف کی مذمت تو کی گئی ہے مگر تنقید کی مذمت نہیں کی گئی ۔ غالباً کوئی بھی صحیح حدیث ایسی نہیں جس میںتنقید کے فعل کو اُس طرح مطلق طورپر مذموم قرار دیا گیا ہو جس طرح مدح کو مذموم قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس تنقید کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ مثلاً بہت سی حدیثوں میں لسان کے ذریعہ نہی عن المنکر کا حکم آیا ہے اوراُس کوایمان کی لازمی علامت بتایا گیاہے۔ اسی طرح حدیث میں بتایا گیا ہے کہ سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا ایک افضل جہاد ہے، وغیرہ۔
ظاہر ہے کہ اس قسم کا کام تنقید ہی کی زبان میںہوگا، نہ کہ تعریف کی زبان میں۔ جب بھی ایک شخص کسی برائی کو دیکھے، خواہ برائی کرنے والا کوئی عام آدمی ہو یا خاص آدمی، اور پھر وہ اُس کے خلاف لسانی جہاد کرے تو یہ لسانی جہاد عین وہی فعل ہوگا جس کو تنقید کہا جاتاہے۔ نقد یا تنقید در اصل لسانی جہاد کا ہی دوسرا نام ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ شریعت میں مدح اور تنقید کے درمیان یہ فرق کیوں کیا گیا ہے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ مدح ایک اخلاقی برائی ہے جب کہ تنقید ایک اعلیٰ درجہ کی علمی اور اخلاقی خوبی ہے۔ کسی معاشرہ میں مدح کا رواج پورے معاشرہ کو منافقت کامعاشرہ بنادیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جس سماج میںتنقید اور اختلاف کو سننے کا مزاج ہو وہ معاشرہ ذہنی اور فکری ترقی کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔
تنقید ایک مسلسل احتساب کا عمل ہے۔ تنقید زندہ معاشرہ کی علامت ہے۔ کسی معاشرہ میں تنقید کا عمل نہ ہونا یا تنقید کو بُرا سمجھنا صرف اُس وقت ہوتا ہے جب کہ معاشرہ زوال کا شکار ہوگیا ہو۔ وہ زندگی کی حرارت کھو بیٹھا ہو۔ کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے کی صلاحیت اُس کے اندر باقی نہ رہی ہو۔ تنقید کی حیثیت ایک علمی اور فکری چیلنج کی ہے۔ چیلنج ہر قسم کی ترقی کی واحد ضمانت ہے۔ جس معاشرہ میںچیلنج نہ ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح جو معاشرہ تنقید سے محروم ہوجائے وہ علمی اور فکری ترقی سے بھی محروم ہوجائے گا۔
اس معاملہ کی تفصیل میںنے اپنی کتاب دین انسانیت کے باب ’’حریت فکر‘‘ میں بیان کی ہے اور اسلام کے دور اول کی مثالوں سے اُس کو واضح کیا ہے۔ تاہم تنقید اور تنقیص میں بہت زیادہ فرق ہے۔ یہاںتک کہ یہ کہنا درست ہوگا کہ تنقید مکمل طورپر جائز ہے اور تنقیص مکمل طورپر ناجائز ۔ تنقید بلاشبہ ایک مطلوب چیز ہے اور تنقیص بلا شبہ ایک غیر مطلوب چیز۔
تنقید در اصل علمی اختلاف کا دوسرا نام ہے۔ حقائق و واقعات کی روشنی میںخالص موضوعی انداز میںکسی معاملہ کا تجزیہ کرنا وہ چیز ہے جس کو تنقید کہا جاتا ہے۔ تنقید خواہ بظاہر کسی شخص کے افکار و آراء کے حوالہ سے ہو، مگراپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ معاملہ کی اصولی وضاحت ہوتی ہے۔ اُس میں غلط اور صحیح کے درمیان تقابل ہوتا ہے، نہ کہ ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان۔
اس کے برعکس، تنقیص ایک شخصی عیب جوئی ہے۔ تنقیص کرنے والے کے سامنے اصلاً کسی امرِحق کی وضاحت نہیں ہوتی بلکہ ایک شخص کی تذلیل اورتحقیر ہوتی ہے جس کو اُس نے کسی وجہ سے اپنا مخالف سمجھ لیا ہے۔ تنقیص صرف ایک غیر اخلاقی فعل ہے، وہ کسی درجہ میں بھی کوئی علمی واقعہ نہیں۔ تنقید کا عمل اگر علمی اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے تو تنقیص کا عمل کسی شخص کے خلاف ذاتی سبّ وشتم کی بنیاد پر۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
تبیین حق سے مراد دعوت اعظم ہے۔ یعنی اعلیٰ ترین سطح پر دعوت حق کی ادائیگی۔ یہ وہی بات ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور ان کے انفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو قرآن میں آفاق و انفس کی آیات کے ذریعےحق کی اعلیٰ تبیین کہا گیا ہے، اور حدیث میں اس کو شہادت اعظم کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

القاب کلچر

انسان فطری طور پر عظمت پسند ہے۔ اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اگر انسان کے پاس حقیقی عظمت نہ ہو تو وہ عظمت کے الفاظ بول کر اپنے اس جذبے کی تسکین حاصل کرتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں، جن کے اندر القاب کلچر ترقی کرتا ہے۔ مثلا ً اپنی پسند کے افراد کو بڑے بڑے القاب دینا۔ جیسے گریٹ لیڈر، گریٹ تھنکر، گریٹ مائنڈ، وغیرہ۔
اس قسم کا القاب کلچر اسلام میں پسند نہیں کیا گیا ہے۔ چناں چہ صحابہ ہمیشہ سادہ الفاظ بولتے تھے۔ بڑے الفاظ کے ساتھ کسی کا ذکر کرنا، ان کے یہاں رائج نہ تھا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ القاب ہمیشہ مبالغہ آمیز ہوتے ہیں۔ اسلام کی اسپرٹ یہ ہے کہ آدمی کو اس کی واقعی حیثیت کے مطابق پکارا جائے۔ مثلاً حضرت عمر نے اپنے لیے امیر المومنین کا لقب اختیارکیا۔ کیوں کہ بطور واقعہ وہ امیرالمومنین ہی تھے۔ ان الفاظ میں کسی قسم کا مبالغہ شامل نہ تھا۔ اس کے برعکس، شخصی سلطنت کے زمانے میں حکمرانوں کو شاہنشاہ جیسے الفاظ بولنا، یعنی بادشاہوں کا بادشاہ، وغیرہ۔ یہ لفظ ایک مبالغہ کا لفظ ہے۔کوئی بھی شخص حقیقت میں بادشاہوں کا بادشاہ نہیں ہوتا۔ لیکن ایسے الفاظ بول کر فرضی طور پر یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔
مگر اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے اندر القاب کلچر رائج ہوجائے، ان کے اندر لازماً ایک چیز ختم ہوجاتی ہے۔ وہ ہے حقیقت پسندانہ سوچ (realistic thinking)،یا اَیز اِٹ اِز سوچ (as it is thinking) ۔ اسی کو سائنٹفک ٹمپر (scientific temper)کہا جاتا ہے۔ القاب کلچر حقیقت پسندانہ سوچ کا قاتل ہے۔اسی حقیقت کو ایک حدیث میں دعا کے الفاظ کے طور پر اس طرح کہا گیا ہے، اے اللہ مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا، جیسا کہ وہ ہیں(اللہم ارنا الاشیاء کما ھی)۔ القاب کلچر غیر حقیقت پسندانہ مزاج پیدا کرتا ہے۔ جو لوگ اس مزاج کا شکار ہوجائیں، وہ کبھی کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔
واپس اوپر جائیں

الأئمۃالمضلون

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے۔ اس روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أن أخوف ما أخاف علیکم الأئمة المضلون(مسند احمد ، حدیث نمبر 27485)۔ یعنی میں اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے لیڈر ہیں۔
اس حدیث میں بعد کو آنے والے جس زمانہ کاذکر ہے اُس سے مراد غالباً صنعتی انقلاب کا زمانہ ہے۔ یہ واقعہ بعد کے زمانہ میں ظہور میں آنے والا تھا۔ جب کہ امت مسلمہ واحد حامل دین کی حیثیت سے دنیا میں باقی رہے گی۔ اس لیے آپ نے اس معاملہ کو اپنی امت کی طرف منسوب فرمایا۔ واضح ہوکہ دوسری روایتوں میں علیکم کے بجائے علی امتی (مسند احمد، حدیث نمبر21297) کے الفاظ آئے ہیں۔ قدیم زمانہ بادشاہت کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں گمراہ کن لیڈر کے ظہور کے مواقع موجود نہ تھے۔ موجودہ زمانہ میں آزادی، کمیونی کیشن، میڈیا اور لاؤڈ اسپیکر و اسٹیج نے ایسے مواقع پیدا کئے جن میں گمراہ کرنے والے لیڈر ابھریں اور پوری امت کو صراط مستقیم سے بھٹکا دیں۔
یہ جدید قیادتی مواقع ایسے وقت میں ظہور میںآئیں گے جب کہ امت طول أمد کے نتیجہ میں زوال کا شکار ہوچکی ہوگی۔ ایسی حالت میں کرنے کا اصل کام یہ ہوگا کہ جدید مواقع کو استعمال کرکے امت کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر یہ ایک بے حد مشکل کام ہوگا۔ اس کے مقابلہ میں آسان کام یہ ہوگا کہ امت کی زوال یافتہ نفسیات کو استعمال کرکے اس کے اوپر اپنی قیادت کی بنیاد رکھ دی جائے۔ یعنی امت جہاں ہے وہیں سے اس کا سفر شروع کردیا جائے۔
یہ گمراہ کرنے والے لیڈر یہی دوسرا کام کریں گے۔ وہ امت کو فضائل کی پر اسرار کہانیاں سنا کر خوش فہمی میں مبتلا کریں گے۔ وہ ماضی کے تاریخی کارنامے بتا کر انہیں فخر کی غذا دیں گے۔ وہ سیاسی تقریریں کرکے ان کے جوش کو ابھاریں گے۔ وہ ادب اور خطابت کے الفاظ میں انہیں گم کریں گے۔ وہ امت کی پسماندگی کا الزام دوسروں کو دے کر جھوٹی نزاع کھڑی کریں گے۔ بائبل کے الفاظ میں، وہ امت کو لوریاں سنائیں گے اور اس طرح وہ امت کو اس کے زوال پر اور پختہ کردیں گے، نہ یہ کہ اس کو زوال کی حالت سے نکالیں۔
یہ وہی طریقہ ہے جس کو استحصال (exploitation) کہا جاتا ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ آغاز سے سفر کرنا انہیں ایک بے حد لمبا سفر معلوم ہوگا، وہ اس قسم کی قربانی کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ اس لیے وہ آغاز سے سفر کرنے کے بجائے اختتام سے اپنے سفر کی چھلانگ لگادیں گے ، اور پھر خود بھی ہلاک ہوںگے اوراپنی قوم کو بھی ہلاک کریں گے۔
گمراہ کرنے والا لیڈر ہمیشہ یہ کرتا ہے کہ وہ ایسی باتیں بولتا ہے جو لوگوں کو پسند ہو۔ وہ لوگوں کے اندر چھپے ہوئے منفی جذبات کو بھڑکاتا ہے۔ وہ لوگوں کی جھوٹی شکایتوں کو سچا بنا کر دکھاتا ہے۔ اس طرح وہ لوگوں کواپنی طرف کھینچتا ہے۔ اُس کی زبان سے اپنی دل پسند بولی سن کر لوگ اُس کے گرداکٹھا ہوجاتے ہیں۔
گمراہ لیڈر ہمیشہ یہی کرتے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر لوگوں سے یہ کہا جائے کہ تم اپنی اصلاح کرو تو بہت کم لوگ ہوں گے جو اُس پکار کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ اس لیے گمراہ لیڈر یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کی داخلی کمزوریوں کی بناپر پیش آنے والی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ اپنی قوم کو بے قصور بتاتے ہیں اور دوسری قوم کو قصور وار۔ یہ چیز اُن کو اپنی قوم کے اندر مقبول بنادیتی ہے۔
جدید صنعتی دور میںنئے ذرائع کی بنا پر اس قسم کے لیڈروں کے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ ہر زمانہ سے زیادہ بڑے پیمانہ پر لوگوں کو گمراہ کر سکیں۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ قوم کے لوگ آج ہر زمانہ سے زیادہ محتاط رہیں تاکہ وہ گمراہ کرنے والے لیڈروں کی گمراہی کا شکار نہ ہوسکیں۔ یہ صورت حال صرف لیڈر کے ہی لیے خطرناک نہیںہے بلکہ وہ خود قوم کے لیے بھی ایک عظیم خطرہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

نصیحت پذیری

کسی انسان کو جب حق کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کی سوچ ایمانی سوچ بن جاتی ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ انسان بن جاتا ہے۔ اسی ایمانی سنجیدگی کا ایک پہلو وہ ہے جس کو نصیحت پذیری کہا جاسکتا ہے۔ قرآن میں اس کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً تذکّر (الزمر9:) اعتبار (المؤمنون21:) توسم (الحجر 75:) ، وغیرہ۔اسی طرح حدیث میں بھی اسی قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ مثلاً وصمتی فکراً ونظری عبرةً (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر1159) یعنی میری خاموشی سوچ کی خاموشی ہو،اور میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو۔
ایمان یا حق کی معرفت بھی بذات خود اسی نوعیت کی ایک چیز ہے۔ ایمانی معرفت کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مخلوقات پر غور کرکے خالق کو دریافت کرے۔ وہ دیکھنے والی دنیا کے اندر غیب کی دنیا کو پالے۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ آیات(خارجی نشانیوں) کے ذریعہ داخلی حقیقتوں کو جان لے۔وہ بصارت کے ساتھ بصیرت کی استعداد حاصل کرلے۔
تدبر و تفکر مومن کا عام مزاج ہوتا ہے۔ اُس کا یہ مزاج ہمیشہ اور ہر جگہ قائم رہتا ہے۔ یہ مزاج اُس کو دائمی طورپر اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیتا ہے۔ وہ ہر دن ایسی باتیں دریافت کرتا رہتا ہے جو اُس کے ایمان ویقین میںاضافہ کرنے والی ہوں۔ دوسرے لوگ صرف ظواہر کو دیکھتے ہیں، مگر مومن اپنے اس مزاج کی بنا پر ظواہر میں حقائق کو دریافت کرلیتا ہے۔ تدبر اور تفکر کے اس عمل کے لیے کسی تنہائی یا مخصوص مقام کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل مومن کے دماغ میں ہر لمحہ جاری رہتا ہے ، حتیٰ کہ دنیا کے بھرے ہوئے ہنگاموں میں بھی وہ اُس سے منقطع نہیں ہوتا۔
نصیحت پذیری مومن کی روحانی خوراک ہے۔ مومن کے لیے مادی غذا اگر جسمانی تقویت کا ذریعہ ہے تو عبرت و نصیحت اُس کے لیے روحانی غذا کی حیثیت رکھتی ہے۔مادی غذا کے بغیر جسم صحت مند نہیں رہ سکتا،اسی طرح فکری غذا کے بغیر روحانیت کا ارتقاء ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے کہا کہ آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس کے ساتھ میں جیوں، اور وہ لمبی نہ ہو کہ میں اسے بھول جاؤں۔ آپ نے کہا: لا تغضب(مسند احمد، حدیث نمبر 23468) یعنی تم غصہ نہ کرو۔ یہ موجودہ دنیا میں کامیاب زندگی حاصل کرنے کا سب سے زیادہ یقینی اصول ہے۔ ایک فرد کے لئے بھی اور پوری قوم کے لیے بھی۔
غصہ کیا ہے۔ غصہ در اصل ناپسندیدہ صورتِ حال کا منفی ردعمل (negative reaction) ہے۔ موجودہ دنیا میں مختلف اسباب سے ہر لمحہ کسی نہ کسی ناپسندیدہ صورت حال سے سابقہ پیش آتا ہے۔ کبھی کوئی ایسی بات پیش آجاتی ہے جس سے آپ کی انا(ego) بھڑک اٹھتی ہے۔ کبھی کسی کی ایک روش سے آپ کے اندر انتقام کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کبھی مفاد کا ٹکراؤ آپ کے اندر مخالفانہ جذبات کو جگا دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی سے آپ کی امیدیں پوری نہیں ہوتیں اور آپ کے اندر اس کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ یہی سب وہ چیزیں ہیں جن کو انسانی زبان میں غصہ کہا جاتاہے۔یہ غصہ آدمی کے لیے بے حد مہلک ہے۔ وہ آدمی سے اس کی سوچنے کی صلاحیت کو چھین لیتا ہے۔ وہ آدمی کو اس قابل نہیں رکھتا کہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ وہ اس کو تعمیر کے بجائے تخریب کے راستہ پر ڈال دیتا ہے۔ آدمی دوسرے کے خلاف غصہ کرتا ہے، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ہمیشہ آدمی کے اپنے نقصان کا باعث بنتا ہے۔
موجودہ دنیا آزمائش کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو اُس کو مشتعل کردیں، جو اُس کے اندر منفی نفسیات کو جگا دیں۔ اس صورت حال کو بدلنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میںکامیاب زندگی کی تعمیر کا طریقہ صرف یہ ہے کہ آدمی صبر وتحمل کی روش اختیار کرے۔ وہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہونے کا آرٹ سیکھ لے۔ وہ اُن حالات کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے رہ سکے جن کو بدلنے کی قدرت اُس کو حاصل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

زوال کیا ہے

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہود ونصاریٰ کو جو آسمانی تعلیم دی گئی تھی اس کا بڑاحصہ انہوں نے بھلا دیا :وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِہِ…،فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِہِ… (5:13-14)۔اس بھلانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہود و نصاریٰ نے کوئی کانفرنس کرکے اس میں باقاعدہ یہ طے کیاہو کہ آج سے ہم فلاں چند باتیں یادر رکھیں گے اور بقیہ باتوں کو بھلا دیں گے۔ ایسا کبھی نہیںہوتا۔ اس قسم کا بھولنا ہمیشہ تاریخی اور نفسیاتی اسباب کے تحت ہوتا ہے۔ تاریخی طورپر دھیرے دھیرے یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ کچھ چیزیں لوگوں کے زندہ حافظے میں باقی رہتی ہیں، اور دوسری چیزیں ان کے زندہ حافظہ سے نکل جاتی ہیں۔ کچھ چیزوں کی اہمیت انہیں یاد رہتی ہے، اور کچھ چیزوں کی اہمیت سے وہ بے خبر ہوجاتے ہیں۔
حدیث میں ہے کہ یہود و نصاری نے بگاڑ پیدا ہونے کے بعدجوکچھ کیا وہی سب مسلمان بھی بعد کے زمانے میں کریں گے (لتتبعن سنن من کان قبلکم)صحیح البخاری، حدیث نمبر7320۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدی پر بھی ایسا وقت آسکتا ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ لوگ دین کے ایک حصہ سے واقف ہوں اور انہیں دین کے دوسرے حصے کی خبر نہ رہے۔ دین کے بعض حصوں کی ان کے یہاں دھوم ہو اور دوسرے زیادہ بڑے حصہ کو انہوں نے اس طرح چھوڑ رکھا ہو، جیسے کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ یہ بھی اس دین کا حصہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے ذریعہ ان کے پاس بھیجا تھا۔کسی قوم پر جب بھی یہ حالت آتی ہے تو وہ مزاج میں بگاڑ کی بنا پر آتی ہے۔
سب سے پہلے قوموں کا مزاج بگڑتا ہے، پھر اس کے نتیجہ کے طورپر ان کا اخلاق و کردار بھی بدلتا چلا جاتا ہے۔مثلاً مختلف اسباب کے تحت ظواہر کو روح کا بدل سمجھ لینا ۔ اب ایسا ہوتا ہے کہ دین کی ا صل روح کو جاننے اور اپنانے کی فکر نہیں ہوتی بلکہ اس کے خارجی مظاہر ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے۔یہ زوال کی علامت ہے اور یہ زوال ہر امت کے ساتھ بہر حال پیش آتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عورت کا درجہ

اسلام میں عورت کادرجہ کیا ہے، اس کا اندازہ ایک حدیث سے ہوتا ہے۔ امام بخاری نے حضرت عبد اللہ ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے: حضرت بریرہ کے شوہر ایک غلام تھے جن کا نام مغیث تھا۔ گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ مغیث اپنی بیوی کے پیچھے چل رہے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عباس کیا تم کو اس پر تعجب نہیں کہ مغیث کو کتنی زیادہ محبت ہے بریرہ سے اور بریرہ کو کتنا زیادہ بغض ہے مغیث سے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ تم مغیث کی طرف رجوع کرلو۔ بریرہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا آپ مجھے اس کا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایاکہ میں صرف سفارش کررہاہوں۔ بریرہ نے جواب دیا: تو مجھے اس کی ضرورت نہیں (لا حاجة لی فیہ) صحیح البخاری، حدیث نمبر 5283۔
بریرہ نے اپنے شوہر مغیث سے تفریق کرالی تھی۔ رسو ل اللہ نے بریرہ کو مشورہ دیا کہ تم رجوع کرلو، اور مغیث کے ساتھ زندگی گزارو، مگر بریرہ نے آپ کے اس مشورہ کو قبول نہیں کیا، اور مغیث سے رجوع پر راضی نہیں ہوئیں۔اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت کو کتنی زیادہ آزادی حاصل ہے۔ اس حدیث کے مطابق، عورت نہ صرف مرد کے برابر ہے بلکہ اس کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ خود پیغمبر اگر وحی کی بنیاد پر کوئی مطالبہ کرے تو وہ اس کو ماننے پر مجبور ہے، لیکن پیغمبر کے ذاتی مشورہ کو ماننا اس کے لیے ضروری نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں اس اعتبار سے عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ جو حقوق و فرائض مرد کے ہیں وہ حقوق و فرائض عورت کے بھی ہیں۔ اگر کوئی فرق ہے تووہ فطری سبب کی بنا پر ہے، نہ کہ دونوں جنسوں میں تفریق کی بناپر۔ اس قسم کا فطری فرق جس طرح عورت اور مرد کے درمیان ہے، اسی طرح وہ خود مرداور مرد کے درمیان بھی ہمیشہ موجود رہتاہے۔ یہ فطرت کامعاملہ ہے، نہ کہ فرق کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی انقلاب میں عمومی تائید

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ایک واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔ ایک غزوہ (جنگ) میںایک شخص نے حصہ لیا اور زبردست جنگی کارنامہ انجام دے کر جنگ کو جیتنے میںمدد دی۔ لیکن جنگ کے آخرمیںپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلمنے اعلان فرمایا کہ یہ شخص اہل جنت میں سے نہیں ہے بلکہ اہل نار میں سے ہے۔ جن لوگوں نے اس جنگ میں اس کے بہادرانہ کارنامے دیکھے تھے، انہیں آپ کے اس ارشاد پر تعجب ہوا۔ مگر جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس آدمی نے بہادرانہ قتال تو ضرور کیا تھا مگر آخر میں اس نے خود اپنی تلوار سے اپنے کو ہلاک کر لیا۔ گویا کہ اس کا معاملہ خود کشی کا معاملہ تھا، نہ کہ شہادت کا معاملہ۔
اس واقعہ کے بعد پیغمبر اسلام نے حضرت بلال سے کہا کہ اے بلال اٹھو اور یہ اعلان کردو کہ جنت میں صرف وہی شخص جائے گا جو مؤمن ہواوراللہ بے شک اس دین کی مدد فاجر آدمی سے بھی کرے گا (لا یدخل الجنة إلا مؤمن، إن اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر) صحیح البخاری، حدیث نمبر 4203۔ اس حدیث سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام نے انسانی زندگی میں جو ہمہ گیر انقلاب برپا کرنا چاہا تھا، اس کا آغاز اگرچہ مخلص اہل ایمان کریں گے مگر اس کی آخری تکمیل نسل در نسل کے تاریخی عمل کے ذریعہ ہوگی۔ اس تاریخی عمل میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی مؤثر طورپر اپنا کردار ادا کریں گے۔ پیغمبر اسلام کایہ ارشاد آپ کے بعد کی تاریخ میں مسلسل واقعہ بنتا رہا ہے۔ مثال کے طورپر قرآن میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ آئندہ آفاق و انفس میںایسی حقیقتیں ظاہر ہوں گی جو اسلام کی صداقت کو خالص علمی سطح پر ثابت شدہ بنا دیں (حم السجدہ 53:)۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی تحقیق کے بعد جو دریافتیں ہوئی ہیں، انہوں نے اس پیشین گوئی کو حرف بحرف ایک ثابت شدہ حقیقت بنا دیا ہے۔ یہ جدید دریافتیں غیر مسلم قوموں کے ذریعہ ظہور میں آئی ہیں۔ مسلم افرادکا حصہ ان میں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
واپس اوپر جائیں

بزدلی یا حکمت

میرا تجربہ ہے کہ جب لوگوں کے سامنے صبر کے اصول کو بتایا جائے تو وہ اس کو گوسفندی کا اصول یا بزدلی کا اصول سمجھ لیتے ہیں۔ اس قسم کا رد عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے لوگوں میں صحیح طور پر نہ عقلی غور و فکر کاارتقا ہوا، اور نہ اسلامی غور و فکر کا۔ یہ لوگ ایسے رہنماؤں سے متاثر ہوئے ہیں، جو خطابت اور شاعری، اور انشا پردازی کی زبان میں لکھتے اور بولتے ہیں، اور لوگ تجزیہ (analysis) سے بے خبر ہونے کی بنا پر ان کو درست مان لیتے ہیں۔
سوچنے کا آغاز یہاں سے ہونا چاہیے کہ قرآن میں اتنا زیادہ کیوں صبر (patience)کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ ہرشخص کو اپنے قول و فعل کے لیے پوری آزادی حاصل ہے۔ وہ چاہے تو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے، اور چاہے تو اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے۔ یہ خالق کی عطا کردہ آزادی ہے۔ اس لیے کوئی بھی شخص اس آزادی کو منسوخ نہیں کرسکتا۔
اب انسان کے لیے صرف دو میں سے ایک کا آپشن ہے۔ یا تو وہ ناموافق حالات سے ٹکراؤ کے بجائے ان کوپرامن اندازمیں مینج کرنے کا طریقہ اختیار کرے، اور اس طرح کسی مزید نقصان سے بچتے ہوئے ممکن دائرے میں اپنا مقصد حاصل کرے، یا ابدی طور پر لوگوں سے لڑتا رہے، اور زندگی میں کبھی کوئی بامعنی مقصد حاصل نہ کرسکے۔
صبر بزدلی نہیں، وہ ایک دانشمندانہ اصول ہے۔ صبر کا مطلب ہے کہ ناموافق صورت حال پیدا ہونے کے بعد آدمی ٹکراؤ کو اوائڈ کرے۔ وہbuying time کی حکمت کو استعمال کرتے ہوئے، اپنے عمل کی پرامن منصوبہ بندی کرے۔ وہ فطرت کے اس اصول کوجانے کہ اس کے لیے کیا چیز قابل حصول ہے، اور کیا چیز قابل حصول نہیں۔ کون سا طریقہ اس کو بے مقصد تباہی تک لے جاتا ہے، اور کون سا طریقہ بامقصد جد و جہد کی طرف۔صبر در اصل دانش مندانہ منصوبہ بندی کا نام ہے۔
واپس اوپر جائیں

عمل معیار ہے

بہت پہلے میں نے ایک مضمون پڑھا تھا۔ اس کے لکھنے والے سجاد حیدر یلدرم (وفات 1943:)تھے۔اس مضمون کا عنوان تھا، مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ۔ بعد کے تجربات کے ذریعہ میں نے یہ اضافہ کیا کہ مجھے میرے رشتہ داروں سے بچاؤ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ رشتہ داروں سے اخلاقی تعلق رکھنا چاہیے۔ ایسے تعلق سے بچنا چاہیے جس میں کوئی مادی انٹرسٹ شامل ہو۔
حضرت عمر فاروق سے ایک شخص نے کسی کی تعریف کی۔ حضرت عمر نے پوچھا کہ کیا ان سے تمھارا کوئی معاملہ پیش آیا ہے۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ حضرت عمر نے کہا کہ پھر تمھاری رائے کا کوئی اعتبار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے بارے میں رائے اس وقت قائم کرنا چاہیے جب کہ اس کے ساتھ کوئی عملی تجربہ پیش آیا ہو۔ عملی تجربہ کے بغیر رائے قائم کرنے کا کوئی اعتبارنہیں۔
ایک تابعی کا قول ہے: أدرکت الناس وہم لا یعجبون بالقول ، قال مالک:یرید بذلک العمل ،إنما ینظر إلى عملہ ولا ینظر إلى قولہ (الجامع فی الحدیث لابن وہب، حدیث نمبر406)۔ یعنی میں نے ایسے لوگوں (صحابہ) کو پایا ہے جو باتوں سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔امام مالک کہتے ہیں کہ اس سے مراد عمل ہے۔ یعنی انسان کے عمل کو دیکھا جائے گا، نہ کہ اس کے قول کو ۔
یہ بہت زیادہ حکمت کی بات ہے۔ ایسے انسان دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں، جو وہی کریں، جو انھوں نے کہا ہے، اور وہی کہیں، جو ان کو کرنا ہے۔ اس لیے کسی آدمی کے بارے میں رائے اس وقت قائم کرنا چاہیے جب کہ اس سے کوئی معا ملاتی تجربہ پیش آیا ہو۔ انسان کو اس کے قول سے پہچاننا، بہت بڑی بھول ہے۔ انسان کو صرف اس کے عمل سے پہچاننا چاہیے۔ اس معاملے میں رشتہ دار کا کوئی استثنا نہیں، بلکہ رشتہ دار سے معاملہ کرتے ہوئے اور بھی زیادہ احتیاط کرنا چاہیے۔ کیوں کہ آدمی اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے اکثر حسن ظن کی بنا پر غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بیمار ی سے تطہیر

حدیث میں آیا ہے کہ مدینہ میں ایک شخص بیمار ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی عیادت کے لیے اُس کے گھر گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے کہا :لا بأس طہور إن شاء اللہ (صحیح البخاری،حدیث نمبر 5662)۔ یعنی کوئی حرج نہیں، ان شاء اللہ یہ پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے کہا: کفارة وطہور (مسند احمد، حدیث نمبر 13616)۔ یعنی یہ کفارہ اور پاکی ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو پُر اسرار طورپر اس کے گناہ دھل جاتے ہیں، وہ خود بخود ایک پاکیزہ انسان بن جاتا ہے۔ بلکہ یہ ایک معلوم شعوری واقعہ ہے جو ایک سچے مومن کے ساتھ پیش آتا ہے۔کوئی آدمی اگر بیمار نہ ہو، اُس کا جسم مکمل طورپر ایک صحت مند جسم ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر فخر و ناز کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اُس کے سینہ میں دردمندانہ احساسات کی پرورش نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ ایک بے حس انسان بن کر رہ جاتا ہے۔لیکن جب ایک مومن بیماری میںمبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے عجز کو دریافت کرتاہے۔ اُس کے اندر دردمندی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے بندہ ہونے کی حقیقت کا تجربہ کرتا ہے۔
اس طرح بیماری اُس کو دوسری چیزوں سے دور کرکے اللہ سے قریب کردیتی ہے۔ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ وہ اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اُس کے دل سے دعائیں اور التجائیں نکلنے لگتی ہیں۔ بیماری اُس کے لیے اللہ سے قربت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔بیماری بظاہر ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اگر صحیح اسلامی ذہن ہو تو جسمانی بیماری آدمی کے لیے روحانی صحت کا ذریعہ بن جائے گی۔اس دنیا میںاصل اہمیت ذہنی بیداری کی ہے۔ بیدارذہن ہی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ واقعات سے سبق لے۔ اور ذہن کو بیدار کرنے والی سب سے بڑی چیز اس دنیا میںصرف ایک ہے، اور وہ مشکل حالات ہیں۔
واپس اوپر جائیں

شدت پسندی نہیں

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لا تشددوا على أنفسکم فیشدد علیکم، فإن قوما شددوا على أنفسہم فشدد اللہ علیہم، فتلک بقایاہم فی الصوامع والدیار (سنن أبی داؤد، حدیث نمبر4904)۔یعنی تم اپنے آپ پرسختی نہ کرو ورنہ تمہارے اوپر سختی کی جائے گی۔ کیوں کہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی تو اللّٰہ نے بھی ان پر سختی کی۔ تو انہی لوگوں کے باقیات ہیں گرجوں میں اور خانقاہوں میں۔ اس حدیث میں تشدد سے مرادمحدود طور پر صرف مذہبی تشدد یا انتہا پسندانہ رہبانیت نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق انسانی زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ جس معاملہ میں بھی اعتدال کا طریقہ چھوڑ کر شدت کا طریقہ اختیار کیا جائے گا وہ سب اس حدیث کے حکم میں شامل ہوگا۔
اعتقادی شدت پسندی یہ ہے کہ جزئی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کی تکفیر اور تفسیق کی جانے لگے۔ اسی طرح عبادتی شدت پسندی یہ ہے کہ فروعی مسالک کی بنیاد پر الگ الگ مسجدیں بنائی جائیں ،اور اس کو امت میں تفریق کی حدتک پہنچادیا جائے۔ اسی طرح معاملاتی شدت پسندی یہ ہے کہ رخصت کوکم تر سمجھ کر ہر معاملہ کو عزیمت کا سوال بنا دیا جائے۔شدت پسندآدمی اپنے آپ میں جیتا ہے۔ وہ صرف اپنی امنگوں کو جانتا ہے۔ اس بنا پر اس کی حیثیت اس انسان جیسی ہو جاتی ہے جو سڑک کو خالی سمجھ کر اس کے اوپر اپنی گاڑی دوڑانے لگے۔ ایسا آدمی کبھی کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس دنیا میں کامیابی کا راز اعتدال پسندی ہے، نہ کہ شدت پسندی۔ شدت پسندی گویا خدا کے تخلیقی نقشہ کے خلاف جینے کی کوشش کرنا ہے، اوراعتدال پسندی خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کرنا۔شدت پسندی اپنی ذات کے اعتبار سے تواضع کے خلاف ہے، اور دوسروں کے اعتبار سے رعایتِ انسانی کے خلاف۔ اور یہ دونوں چیزیں بلاشبہ اسلام میں مطلوب نہیں۔
شدت پسندی اللہ کو پسند نہیں۔ جو لوگ شدت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اُن کا انجام یہ ہوتا ہے کہ متشددانہ طریقہ اُن کی روایات میںشامل ہو کر اُن کے دین کا جزء بن جاتا ہے۔ اس طرح اُن کی بعد کی نسلیں مجبور ہو جاتی ہیں کہ وہ اُن کی پیروی کریں۔ کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اُن کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ معیار سے کم تر درجہ کی دین داری اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اس شدت پسندی کا تعلق محدود طورپر صرف رہبانیت سے نہیں ہے بلکہ اُس کاتعلق ہر دینی شعبہ سے ہے۔ مثلاً قومی اور سیاسی حقوق کی جدوجہد کے لیے دو ممکن طریقے ہیں۔ ایک پُر امن جدوجہد، اور دوسری پُر تشدد جد وجہد۔ اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ پُرامن اور غیر متشددانہ طریقۂ کار کے ذریعہ اپنے مقصد کے حصول کی جدوجہدکی جائے۔ اس کے برعکس، اگر متشددانہ طریقۂ کار کا انداز اختیار کیا جائے تو اس کےبیک وقت دو نقصان ہوں گے۔ ایک یہ کہ قوم کو غیر ضروری سختیاں برداشت کرنی پڑیں گی۔ دوسرے یہ کہ جب ایک بار متشددانہ طریقۂ کار کی روایت قائم ہوجائے گی تو اُسی کو جدوجہد کے اعلیٰ معیار کی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ متشددانہ طریقۂ کار کو بے نتیجہ سمجھتے ہوئے بھی لوگ اس پر قائم رہیں گے۔ کیوں کہ اس سے ہٹنے کے بعد لوگوں کو محسوس ہوگا کہ انہوں نے خود دین کے مطلوب معیار کو چھوڑ دیا ۔ اُنہوں نے عزیمت کے بجائے رخصت کا راستہ اختیار کرلیا۔ اُنہوں نے اقدام کے بجائے پسپائی کو اپنا طریقہ بنالیا۔
شدت پسندی ہی کی ایک صورت وہ ہے جس کو انتہاپسندی (extremism) کہا جاتا ہے۔ انتہا پسندی یہ ہے کہ آدمی حقائق اورامکانات کو نظر انداز کرکے اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ وہ عقل کے بجائے اپنے جذبات کی رہنمائی میں چلنے لگے۔ وہ دور اندیشی کے بجائے عجلت پسندی کی روش اختیار کر لے۔ وہ تدریج کے بجائے چھلانگ کے ذریعہ اپنا سفر طے کرنا چاہے۔ ایساآدمی یہ کرتا ہے کہ وہ شوق کو اپنے آگے رکھ دیتا ہے اور دور اندیشی کو اپنے پیچھے۔ وہ بھول جاتاہے کہ ہر ایک کی ایک حد ہے، خواہ وہ کوئی فرد ہو یا کوئی گروہ۔ حد کو نظرانداز کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص جلتے ہوئے انگارے کی گرمی کا اندازہ کرنے کے لیے اُس کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔ یا پتھر کو توڑنے کے لیے اپنے سر کو ہتھوڑا بنا لے۔ اس قسم کا ہر فعل حد سے تجاوز کرنا ہے۔ اور حد سے تجاوز کرنے والے لوگ اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
واپس اوپر جائیں

تشدد کا سبب عدم قناعت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: قد افلح من أسلم ورزق کفافاً وقنعہ اللہ بما آتاہ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1054) یعنی وہ شخص کامیاب ہوا جواسلام لایا اور جس کو بقدر ضرورت رزق ملا اور وہ اُس پر قانع ہوگیا جواللہ نے اُس کو دیا۔
اس حدیث میں قناعت کا ذکر ہے۔ قناعت کی نفسیات اگر کسی کے اندرپوری طرح پیدا ہوجائے تو وہ اُس کو مکمل طورپر امن پسند بنادے گی۔ اس کے برعکس، جن لوگوں کے اندر قناعت کی نفسیات نہ ہو وہ اپنی حالت پر غیر مطمئن رہیں گے، اور آخر کار جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو کرمتشددانہ کارروائی شروع کردیں گے تاکہ جس چیزکو وہ پُر امن طورپر حاصل نہ کرسکے، اُس کو وہ تشدد کی طاقت سے حاصل کرلیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قناعت سے امن کا مزاج پیدا ہوتا ہے، اور عدم قناعت سے تشدد کامزاج۔ قناعت کا جذبہ آدمی کے اندر یہ نفسیات پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک پایا ہوا انسان ہے۔ اور جو آدمی اپنے آپ کو پایا ہواانسان سمجھے، وہ کبھی جھنجھلاہٹ اور تشدد کا شکار نہیں ہوسکتا۔
اس کے برعکس معاملہ اس انسان کا ہے جو عدم قناعت کی نفسیات میںمبتلا ہو۔وہ ہمیشہ احساس محرومی کا شکار رہے گا۔ اُس کا یہ احساس اُس کو مسلسل اُکسائے گا کہ جو کچھ اُس نے نہیں پایا اُس کو وہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر اُس نے دیکھا کہ وہ اپنی نہ پائی ہوئی چیز کو پر امن طریقہ سے حاصل نہیںکرسکتا تو وہ تشدد کے طریقوں کو استعمال کرکے اُس کو حاصل کرنا چاہے گا۔
وہ اُن تمام لوگوں کو اپنا دشمن سمجھ لے گا جن کووہ اپنے خیال کے مطابق، اپنی خواہش کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ وہ اُن لوگوں سے نفرت کرے گا۔ وہ اُن لوگوں کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار جمع کرے گا۔ حالانکہ یہ سب نتیجہ ہوگا اس بات کا کہ وہ خدا کے دیے ہوئے پر راضی نہ ہوسکا، وہ قناعت کے بجائے عدم قناعت کا شکار ہوگیا۔
واپس اوپر جائیں

سگریٹ نوشی کی عادت

پاکستان کے سابق فوجی حکمراں جنرل ایوب خان (1907-1974)کو سگریٹ نوشی کی عادت تھی۔ روز صبح ان کا بٹلر سگریٹ کی پیکٹ ٹرے میں رکھ کران کے بیڈ روم میں پہنچادیتا، اور وہ اپنے صبح کا آغاز سگریٹ سے کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے۔وہاں ان کا بنگالی بٹلر ایک دن ان کو صبح کے وقت سگریٹ دینا بھول گیا۔ یہ دیکھ کر جنرل ایوب خاںکو شدید غصہ آیا۔ وہ اس بنگالی بٹلر کوسختی سےڈاٹنے لگے۔ جب جنرل ایوب خان خاموش ہوئے تو بنگالی بٹلر نے انھیں ادب سے کہا کہ کمانڈر میں قوت برداشت ہونی چاہیے تاکہ وہ فوج کو چلائے ۔ آپ کے عدم برداشت سے مجھے پاکستانی فوج اور اس ملک کا مستقل خراب دکھائی دے رہاہے۔ بٹلر کی بات ایوب خان کے دل پر لگی، انھوں نے اسی وقت سگریٹ پیناچھوڑدیا، اس کے بعدپھر کبھی سگریٹ نہیں پیا۔ (ماہنامہ انذار، مئی 2017، صفحہ 28)
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سگریٹ پینے کی عادت ہوجائے تو اس کو چھوڑنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر تاریخ میں اس طرح کے واقعات ہیں کہ ایک شخص جو سگریٹ نوشی کا عادی تھا، اس کو کسی موقعہ پر سخت جھٹکا لگا، اور پھر اسی وقت اس نے سگریٹ پینا چھوڑ دیا، اور پھر کبھی نہیں پیا۔ اس طرح کی عادتیں یا تو فوراً چھوٹتی ہیں، یا کبھی نہیں چھوٹتی ۔
تجربہ ہے کہ کوئی عادت تدریجی طور پر نہیں چھوٹتی ہے۔ وہ اچانک فیصلہ کے تحت چھوٹتی ہے۔ جو لوگ کسی عادت کو تدریجی طور پر چھوڑنا چاہیں، وہ اپنی عادت کو کبھی چھوڑ نہیں پاتے۔ کیوں کہ تدریجی طریقے میں طاقت ور ارادہ (strong will power) کبھی پیدا نہیں ہوتا۔ طاقتور ارادہ ہمیشہ کسی سخت جھٹکے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ طاقتور ارادہ اچانک پیدا ہوتا ہے، نہ کہ تدریجی طور پر۔ آپ کوکوئی بڑا کام کرنا ہے تو طاقتور ارادہ پیدا کیجیے، اس کے بعد بڑا کام کرنا آپ کے لیے آسان ہوجائے گا۔ یہی اس معاملے میں واحد طریقۂ کار ہے۔
واپس اوپر جائیں

صلاحیت کا اندازہ

یہ دیکھا گیا ہے کہ آدمی اکثر اپنے آپ کو اس سے زیادہ سمجھتا ہے، جتنا کہ دوسرے لوگ اس کو سمجھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی کے اندر صلاحیت ابتدائی طور پر بالقوۃ (potential) طور پر ہوتی ہے، وہ صلاحیت واقعہ اس وقت بنتی ہے، جب کہ کوئی شخص اپنے اس بالقوۃ کوبالفعل (actual) بنا لے۔
عام طور پر لوگ شعوری یا غیر شعوری طور پراس فرق کو نہیں سمجھتے۔ وہ اپنا اندازہ اپنی فطری صلاحیت کے اعتبار سے کرتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ کسی کی صلاحیت دوسروں کے لیے صرف اس وقت واقعہ بنتی ہے، جب کہ وہ آدمی اپنی اس صلاحیت کو واقعہ کی شکل دے دے۔صلاحیت ابتدائی طور پر ایک داخلی چیز ہے، جو ظاہری طور پر دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے آدمی خود تو اس کو محسوس کرسکتا ہے۔ لیکن دوسرے لوگوں کے لیے وہ ایک نامعلوم حقیقت بنی رہے گی۔
لوگوں کا یہ مزاج ان کو دوسروں کے بارے میں منفی بنا دیتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لوگ اس کا اعتراف نہیں کررہے ہیں۔ جو چیز بے خبری کی بنا پر ہوتی ہے، اس کو وہ حسد پر محمول کرلیتے ہیں۔
یہ روش ایک مہلک روش ہے۔ اس معاملے میں آدمی کے لیے دو آپشن (option)ہوتا ہے۔ یا تو وہ لوگوں کے اعتراف اور بے اعترافی سے بے نیاز ہوجائے۔ وہ اس کی پرواہ نہ کرے کہ لوگ اس کو کیا مقام دے رہے ہیں۔ اور اگر وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کو لوگوں کے درمیان وہ مقام ملے جس کا وہ اپنے آپ کو مستحق سمجھتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی نظر میں اپنے آپ کو اس کے مطابق بنا ئے۔
یہ حقیقت ہے کہ لوگ کسی انسان کو اس کی داخلی صفت کے اعتبار سے نہیں دیکھتے۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ خارجی اعتبار سے وہ کیسا ہے۔ خارج کے اعتبار سے آپ جیسے ہوں گے، وہی درجہ آپ کو دوسروں کی نظر میں ملے گا۔ نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 255

■ مسٹر مارسیا ہارمنسین (Marcia Hermansen) شکاگو کی لوئلا یونیورسٹی (Loyola University) میں تھیولوجی کی پروفیسر ہیں۔ انھوں نے 9 مارچ 2017 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) میں ایک لکچر دیا۔ اس لکچرکا عنوان تھا— Muslim Theological Approaches to Nonviolence ۔ اس خطاب میں انھوں نے عدم تشدد اور امن کے میدان میں صدر اسلامی مرکز کے کنٹری بیوشن کا بطور خاص اعتراف کیا۔
■ 4 اپریل 2017 کی شام کو امریکا کے مسٹر کیلی کرسپ (Kelly Crisp) صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آئے۔ مسٹر کیلی اس سے پہلے صدر اسلامی مزکر کی کتابیں پڑھ چکے ہیں۔ دورانِ گفتگو انھوں نے کہا کہ آپ کی کتابیں پڑھنے سے روحانی ارتقا حاصل ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ آج سے میں چھوٹی سے چھوٹی چیزوں سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔
■ 4 اپریل 2017 کو سی پی ایس (ناگپور ٹیم) کے ممبر جناب ساجد احمد صاحب نے ایس ایس ہائی اسکول اور جونیئر کالج موربا (مہاراشٹر) کا دورہ کیا۔ دورہ کا مقصد پرنسپل اور اسٹاف ممبران میں قرآن اور دعوہ لٹریچرتقسیم کرنا تھا۔ ان میں اکثریت مراٹھی جاننے والوں کی تھی، لہذا ان کو مراٹھی زبان میں قرآن اور دعوہ لٹریچر دیئےگئے۔انھوں نے اس کو بخوشی قبول کیا اورشکریہ ادا کیا۔
■ یونیورسٹی آف نوٹرےڈیم(امریکا) اور انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ ریلیجس تھاٹ (نئی دہلی) کے اشتراک سے دینی مدارس کے فضلا کے لیے ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد مدارس کے ان فضلاء کے اندر جدیدعلمی شعور پیدا کرنا ہے۔اس پروگرام کودہلی میں ڈاکٹر وارث مظہری (لکچرار، اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہـ،نئی دہلی) لیڈ کررہے ہیں۔ 8 اپریل 2017 کو ان حضرات نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی اور ان سے استفادہ کیا۔ آخر میں ان سبھی حضرات کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔
■ 8 اپریل 2017 کو سی پی ایس (ممبئی ) کے ممبران دہلی تشریف لائے۔ ان کی دہلی آمد کا مقصد صدر اسلامی مرکز سے استفادہ کرنا، اور اپنے دعوتی تجربات کو شیئر کرنا تھا۔ اس سلسلے میں ان کی ایک میٹنگ سی پی ایس کی دہلی ٹیم سے ہوئی، جس میں آئندہ کے دعوتی لائحہ عمل کے بارےمیں تبادلہ خیال ہوا، اور کچھ اہم فیصلے لیے گئے۔
■ 9 اپریل 2017 کو پیس آڈیٹوریم (سہارنپور)میں ڈاکٹر ہانیمان ڈے (Dr. Hahnemann’s Day) کے موقع پر ایک تقریب کا انعقاد عمل میں آیا۔ تقریب کے بعد یوپی اور پنجاب سے آئے ہوئے معزز مہمانوں کوسی پی ایس سہارن پور کی جانب سے بطور تالیف پیس ایوارڈ اور بطور دعوت صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔
■ 11 اپریل 2017 کو ودیا ساگر یونیورسٹی(مدنا پور ،مغربی بنگال) نے بنگال کے عظٰیم اسکالرپنڈت ایشور چندر ودیاساگر کی کتاب کے نئے ایڈیشن کے اجراء کی تقریب کا اہتمام کیا ۔ اس پروگرام میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر رنجن چکرورتی شریک تھے۔ اس کے علاوہ اسپیکر کی حیثیت سے جو لوگ شریک ہوئے وہ ہیں، پروفیسر ارون ناگ (ایڈیٹر ، ودیا ساگر رچناسامگرا) اور مسٹر سیباجی پرتیم بسو (پروفیسر آف پولیٹکل سائنس، ودیاساگر یونیورسٹی) ۔ سی پی ایس (کولکاتا )کی متحرک خواتین ممبر،محترمہ شبینہ علی اور شبانہ خاتون نے پروگرام میں شرکت کی۔ انھوں نےوہاںپر موجود تمام اہم شخصیات سے تبادلۂ خیال کیا، اور ان کو دعوتی لٹریچر تحفے میں دیا۔تمام لوگوں نےاس اسپریچول گفٹ کو خوشی اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ یہ تقریب کولکاتا کے مشہور وکٹوریہ میموریل ہال میں منعقد کی گئی تھی۔
■ 12 اپریل 2017 کو جمیل احمد ملک صاحب کے صاحبزادے کے ولیمہ کا اہتمام چوپرا لان (ناگپور) میں کیا گیا۔ اس تقریب میں اہم شخصیات مدعو تھیں۔ سی پی ایس (ناگپور ٹیم) کو اس تقریب میں ترجمہ قرآن(مراٹھی، ہندی انگلش اور اردو) اور صدر اسلامی مرکز کے دعوہ لٹریچر کو مہمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کی دعوت ملی۔سی پی ایس ٹیم نے مہمانوں کے درمیان ترجمۂ قرآن اور دعوہ لٹریچر بطور تحفہ تقسیم کیا۔
■ 12 اپریل 2017 کو شہاب الدین احمد صاحب (سینئر ممبر،سی پی ایس ، کولکاتا اور سابق ڈپٹی کمشنرآف کمرشیل ٹیکس، حکومت بنگال) نے عالمی یوم صحت کے موقع پرشہر کے مشہور ڈاکٹر اور معزز شخصیات کو صدر اسلامی مرکز کے دعوتی لٹریچربطور تحفہ پیش کیا۔ ان تمام لوگوں نے خوشی اور شکریہ کےساتھ یہ اسپریچول گفٹ قبول کیا۔ ان شخصیات میں ڈاکٹر بشوروپ رائے چودھری ذیابیطس کے علاج، اور ڈائٹ کے لیے عالمی شہرت یافتہ ہیں۔ اس کے علاوہ جناب شہاب الدین صاحب نے اسی دن مسٹر بجالی گھوش ([Bijalee Ghosh] سابق اے ڈی ایم و اسپیشل سکریٹری) کو قرآن اور صدر اسلامی مرکز کی کتابیں ہدیہ میں دیں۔ یہ مسٹر بجالی گھوش کا بحیثیت ہیرنگ آفیسر (hearing officer) ریٹائرمنٹ کا موقع تھا۔ موصوف نے شکریہ کے ساتھ اسپریچو ل گفٹ قبول کیا۔
■ 14 اپریل 2017 کو چنئی میموریل سنٹر میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی یومِ پیدائش کی تقریب کا انعقاد ہوا۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے ایک کثیر مذہبی مقدس کتاب کی تلاوت کا اہتمام کیا گیا جس میںمختلف مذاہب ، مثلا ہندو ازم، مسیحیت، بدھ ازم، اور اسلام کے دینی رہنماؤں کو مدعو کیاگیا تھا۔ سی پی ایس چنئی کی طرف سے مولانااسرارالحسن عمری صاحب نے قرآن کی تلاوت کی۔ پروگرام کے بعد شرکاء کے درمیان ترجمہ قرآن تقسیم کیے گئے۔ شرکاء میں بڑی تعداد اعلى افسران کی تھی۔
■ اپریل 2017 میں چائنا کی نائب صدر لیو یانڈونگ (Liu Yandong)نے ترکی کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران 19 اپریل 2017 کو وہ استانبول کی تاریخی بلو مسجد (Sultan Ahmet)کو دیکھنے کے لیے گیے۔مسجد کے امام صاحب نے اس موقع پر ان کو چائنیز ترجمۂ قرآن تحفہ میں پیش کیا۔ یہ وہی ترجمۂ قرآن ہےجس کو گڈ ورڈ بکس، دہلی نے شائع کیا ہے۔ واضح ہو کہ ترکی کی دو مسجدوں میں آنے والے سیاحوں کے درمیان گڈ ورڈ بکس سے چھپے ہوئے قرآن کے تراجم تقسیم کیے جاتےہیں۔ ایک ہے بلو مسجد، اور دوسری ،رستم پاشا مسجد (Rüstem Paşa Mosque) ۔
■ 19 اپریل 2017 کو جماعت اسلامی ( چنئی) نے صحافیوں اور مصنفوں کے لیے ایک گٹ ٹو گیدر کا اہتمام کیا۔ سی پی ایس(چنئی) نے اس میٹنگ میں شرکت کی، اور لوگوں سے تبادلۂ خیال کیا، اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔
■ 23 اپریل 2017 کو سو سال پرانے انگریزی اخبار ’دی ہندو’ نے اپنے بک ڈے کے موقع پر ایک تقریب ’رائٹرس ورسس ریڈرس میٹس‘ کا اہتمام کیا۔ یہ تقریب اخبار کے ہیڈ کواٹر چنئی میں منعقد ہوئی۔ چنئی سی پی ایس ٹیم نے اس میں شرکت کی اور اخبار کے ایڈیٹوریل ٹیم سے تبادلۂ خیال کیا۔ بعد میں اس پوری گفتگوکو دی ہندو نے ڈنائونسنگ مسلم اکسٹریمزم ('Denouncing Muslim Extremism') کے عنوان سے شائع کیا۔
■ یکم مئی 2017 کو زی ٹی کی طرف سے فائیو اسٹار ہوٹل نور محل (کرنال، ہریانہ) میں ایوارڈ تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں زی ٹی وی کی جانب سے ڈاکٹر محمداسلم خان(سی پی ایس ، سہارن پور) کو اسپریچوالٹی اور ہیلتھ سیکٹر میں ان کی حصہ داری کے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ تقریب کے بعد شرکاء کے درمیان سی پی ایس سہارن پور کی جانب سےترجمۂ قرآن و دعوہ لٹریچر تقسیم کیا گیا۔
■ 2 مئی 2017 کو وائس آف امریکا کے لئے مسٹر ارباب علی نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کا موضوع ایکسٹریمزم (Extremism) تھا۔ یہ انٹرویو آن لائن لیا گیاتھا۔
■ انٹرفیتھ کانفرنس فار پیس کے عنوان سے ایک سیمینار 6مئی 2014 کو کراچی، پاکستان، میں منعقد ہوا تھا، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اسکالروں نے حصہ لیا۔ جیسےکناڈا سے ڈاکٹر تموتھی پال (Timothy Paul)، امریکا سے ڈاکٹر مائک گوش (Mike Ghouse)، اورانڈیا سے صدر اسلامی مرکزنے خطاب کیا۔ صدر اسلامی مزکر کا خطاب بذریعہ انٹرنیٹ ہوا۔اس پروگرام کے کنوینر تھے، ڈاکٹر یعقوب علی شاہ۔ یہ پروگرام فیس بک پر لائیو کاسٹ کیا گیا تھا، جس کو دنیا کے مختلف حصوں میں دیکھا اور پسند کیا گیا۔
■ سی پی ایس کی مقامی ٹیمیں اپنے طور پر آپس میں ملتی جلتی رہتی ہیں، تاکہ مشن کے کام کو بڑھایا جاسکے۔اس سلسلے میں 5 مئی 2017 کوسی پی ایس حیدرآباد ٹیم نے کرنول ٹیم کے ساتھ ایک میٹنگ کی۔اس میں دونوں ٹیموں نے اپنے دعوتی تجربات شیئر کیے، اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں ایک دوسرے سے صلاح ومشورہ کیا۔
■ کولمبیا یونیورسٹی ، امریکا کا ایک پروگرام ہے، جس کے تحت مختلف زبانیں سکھائی جاتی ہیں۔ سکھائی جانے والی زبانوں میں اردو بھی شامل ہے۔ اس پروگرام کا ایک حصہ یہ ہے کہ اہل زبان سے مختلف موضوعات پرویڈیو انٹرویو لے کر ان کو سیکھنے والے طلبا کو دکھایا جائے تاکہ وہ اہل زبان کی طرح زبان کو استعمال کرنا سیکھ سکیں۔ اس کے تحت عید الفطر اور شب برأت کے موضوع پر ایک ڈاکومینٹری فلم بنائی گئی ہے، جو ان طلبا کو دکھائی جائے گی۔ اس کے لیے 11 مئی 2017 کی شام کو صدر اسلامی مرکز اور سی پی ایس چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم اورمولانا فرہاد احمد سےاردو زبان میں ویڈیو انٹرویولیا گیا۔ آخر میں انٹرویورمسٹر عامر اور ان کی ٹیم کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سٹ دیا گیا۔
■ مسٹر سترتھا سہارا(Sutirtha Sahara)فری لانس صحافی ہیں، اوربی بی سی، ڈچ ٹی وی اینڈ ریڈیو، دی گارجین، نیوزڈیلی(News Daily) کے لیے لکھتے ہیں۔ انھوں نے 12 مئی 2017 کو تین طلاق کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو کے بعد ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ دیا گیا۔
■ گڈورڈ بکس (دہلی) کو نیدر لینڈ کے ایمسٹرڈم ایرپورٹ کے قریب کے ایک ہوٹل سےایک ای میل موصول ہوا ہے،جو دعوہ ورک کرنے واولوں کے لیےبہت ہی حوصلہ افزا ہے ، نیز دعوت کے امکان کو بتاتا ہے۔ ای میل کے مطابق، ہوٹل انتظامیہ کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنے ہوٹل کے ہر کمرے میں مہمانوں کے لئے قرآن کی کاپی رکھیں۔ ای میل کے الفاظ یہ ہیں:
Good day, I would like to put in every single room a Quran for our guests. If there is any chance we can get them for free. We have 148 rooms in our hotel in Netherland (Holland). Kind regards (CHARITH PERERA, Housekeeping Manager, Courtyard by Marriott Amsterdam Airport)
■ 18 مئی 2017 کو ہندی اخبار، امر اجالا کے اسپیشل کرسپنڈنٹ گنجن کمار نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا. دوران انٹرویو جو باتیں ہوئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ کوئی گورنمنٹ آپ کے لیے کچھ نہیں کرسکتی ہے۔ آپ کو خود آگے بڑھ کر اپنے لیے کرنا ہوگا۔ خاص طورپر تعلیم کے شعبے میں توجہ دینی ہوگی۔انٹرویو کے بعد ان کو قرآن اور دوسری کتابیں دی گئیں۔
■ سی پی ایس چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم نے 19 مئی 2017 کو پیس اینڈ اسپریچوالٹی کے موضوع پردی انڈین ہائٹ اسکول(The Indian Heights School)، دوارکا، نئی دہلی، کے اسٹودنٹس کے سامنے خطاب کیا۔ اس پروگرام کا انعقاد ساؤتھ کورین این جی او، انٹرنیشنل پیس یوتھ گروپ، ایچ ڈبلیو پی ایل، ریلیجن اینڈ پیس (HWPL, Religion and Peace) نے کیا تھا۔
واپس اوپر جائیں

Sunday, 1 October 2017

Al Risala | October 2017 (الرسالہ،اکتوبر)

4

-حج کی اجتماعی اہمیت

9

- ہجر جمیل

19

- با مقصد انسان کا کردار

22

- اجتہاد کیا ہے

26

- اسلام —امن و رحمت کا مذہب

28

- لائن آف ایکشن کا مسئلہ

31

- دہشت گردی کیا ہے

33

- غلط فہمی

35

- فطری شناخت

37

- صحبت کا فلسفہ

38

- بے بنیاد شکایت

40

- سکون کا سرچشمہ

42

- ذہنی سکون

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


حج کی اجتماعی اہمیت

حج اسلام کی ایک نہایت اہم سالانہ عبادت ہے۔ وہ قمری کلنڈر کے آخری ماہ ذو الحجہ میں ادا کیا جاتاہے۔ حج کی عبادت کے مراسم بیت اللہ (مکہ) میں یا اس کے آس پاس کے مقامات پر ادا کیے جاتے ہیں جو عرب میں واقع ہے۔ اس عبادت کو تمام عبادت کا جامع کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس میںہر قسم کے عبادتی پہلو پائے جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک اجتماعی پہلو بھی ہے۔ حج کی عبادت میں اجتماعیت کا پہلو بہت نمایاں طو پر موجود ہے۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا (1984) میں حج کی تفصیل دیتے ہوئے یہ جملہ لکھاگیا ہے:
About 2,000,000 persons perform the Hajj each year, and the rite serves as a unifying force in Islam by bringing followers of diverse background together in religious celebration. (V.IV, p. 844)
تقریباً دو ملین آدمی ہر سال حج کرتے ہیں اور یہ عبادت مختلف ملکوں کے مسلمانوں کو ایک مذہبی تقریب میں یکجا کر کے اسلام میں اتحادی طاقت کا کام کرتی ہے۔
قرآن میں حج کا حکم دیتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں: وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا(2:125)۔ یعنی خدا نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے مثابہ بنایا اور اس کو امن کی جگہ بنا دیا۔ مثابہ کے معنٰی عربی زبان میں تقریباً وہی ہیں جس کو آج کل کی زبان میں مرکز کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہوں۔ جس کی طرف سب لوگ رجوع کریں، جو سب کا مشترک مرجع اور شیرازہ ہو۔
حج کی عبادت کے لیے ساری دنیا کے مسلمان آتے ہیں۔ ان کی تعداد سالانہ تقریباً 2 ملین ہوجاتی ہے۔ حج کے موسم میں مکہ اور اس کے آس پاس ہر طرف آدمی ہی آدمی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ ان کے حلیے الگ الگ ہوتے ہیں۔ مگر یہاں آنے کے بعد سب کی سوچ ایک ہوجاتی ہے۔ سب ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ حج کے دوران وہ ان کی تمام توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ اس طرح حج ایک ایسی عبادت بن جاتا ہے جو اپنے تمام اعمال اور تقریبات کے ساتھ انسان کو اجتماعیت اور مرکزیت کا سبق دے رہا ہے۔
حج کی تاریخ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی زندگی سے وابستہ ہے۔ یہ دونوں ہستیاں وہ ہیں جن کو نہ صرف مسلمان خدا کا پیغمبر مانتے ہیں بلکہ دوسرے بڑے مذاہب کے لوگ بھی ان کو عظیم پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح حج کے عمل کو تاریخی طور پر تقدس اور عظمت کا وہ درجہ مل گیا ہے جو دنیا میں کسی دوسرے عمل کو حاصل نہیں۔
حضرت ابراہیم قدیم عراق میں پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیل ان کے صاحبزادے تھے۔ اس وقت عراق ایک شاندار تمدن کا ملک تھا۔ آزر حضرت ابراہیم کے والد اور حضرت اسماعیل کے دادا تھے۔ ان کو عراق کے سرکاری نظام میں اعلیٰ عہد یدار کی حیثیت حاصل تھی۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے لیے عراق میں شاندار ترقی کے اعلیٰ مواقع کھلے ہوئے تھے۔ مگر عراق کے مشرکانہ نظام سے وہ موافقت نہ کرسکے۔ ایک خدا کی پرستش کی خاطر انہوں نے اس علاقہ کو چھوڑ دیا جو کئی خداؤں کی پرستش کا مرکز بنا ہوا تھا۔ وہ عراق کے سرسبز ملک کو چھوڑ کر عرب کے خشک صحرا میں چلے گئے جہاں کی سنسان دنیا میں خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہ تھی۔ یہاں انہوں نے ایک خدا کے گھر کی تعمیر کی۔
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے اس عمل کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کئی خداؤں کو اپنا مرجع بنانے کے بجائے ایک خدا کو اپنا مرجع بنایا۔ اور اس مقصد کے لیے بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کی جو خدائے واحد کی عبادت کا عالمی مرکز ہے۔ یہی مرکز توحید حج کے مراسم کی ادائیگی کا مرکز بھی ہے۔
حج کی عبادت میں جو مراسم ادا کیے جاتے ہیں ان کے بعض پہلوؤں کو دیکھیے۔ حج کے دوران حاجی سب سے زیادہ جو کلمہ بولتا ہے وہ یہ ہے:
لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، إن الحمد والنعمة لک والملک، لا شریک لک ۔ ( حاضر ہوں خدایا، میں حاضر ہوں۔ حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ تعریف اور نعمت تیرے ہی لیے ہے، اور بادشاہی بھی، تیرا کوئی شریک نہیں۔)
حاجی کی زبان سے بار بار یہ الفاظ کہلوا کر تمام لوگوں کے اندر یہ نفسیات پیدا کی جاتی ہے کہ بڑائی صرف ایک اللہ کی ہے۔ اس کے سوا جتنی بڑائیاں ہیں سب اس لیے ہیں کہ وہ سب اسی ایک عظیم تر بڑائی میں گم ہو جائیں۔ یہ احساس اجتماعیت کا سب سے بڑا راز ہے۔ اجتماعیت اور اتحاد ہمیشہ وہاں نہیں ہوتا جہاں ہر آدمی اپنے کو بڑا سمجھ لے۔ اس کے برعکس جہاں تمام لوگ کسی ایک کے حق میں اپنی انفرادی بڑائی سے دست بردار ہو جائیں وہاں اتحاد اور اجتماعیت کے سوا کوئی اور چیز پائی نہیں جاتی ۔ بے اتحادی بڑائیوں کی تقسیم کا نام ہے اور اتحاد بڑائیوں کی وحدت کا۔
اسی طرح حج کا ایک اہم رکن طواف ہے۔ دنیا بھر کے لوگ جو حج کے موسم میں مکہ میں جمع ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا عملی اقرار ہے کہ آدمی اپنی کوششوں کا مرکز و محور صرف ایک نقطہ کو بنائے گا۔ وہ ایک ہی دائرہ میں حرکت کرے گا۔ یہ عین وہی مرکزیت ہے جو مادی سطح پر نظامِ شمسی میں نظر آتی ہے۔ نظام شمسی کے تمام سیارے ایک ہی سورج کو مرکزی نقطہ بنا کر اس کے گرد گھومتے ہیں۔ اسی طرح حج یہ سبق دیتا ہے کہ انسان ایک خدا کو اپنا مرجع بنا کر اس کے دائرے میں گھومے۔
اس کے بعد حاجی صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے۔ وہ صفا سے مروہ کی طرف جاتا ہے اور پھر مروہ سے صفا کی طرف لوٹتا ہے۔ اس طرح وہ سات چکر لگاتا ہے۔ یہ عمل کی زبان میں اس بات کا سبق ہے کہ آدمی کی دوڑ دھوپ ایک حد کے اندر بندھی ہوئی ہونی چاہیے۔ اگر آدمی کی دوڑ دھوپ کی کوئی حد نہ ہو تو کوئی ایک طرف بھاگ کر نکل جائے گا اور کوئی دوسری طرف۔ مگر جہاں دوڑ دھوپ کی حد بندی کر دی گئی ہو وہاں ہر آدمی بندھا رہتا ہے۔ وہ بار بار وہیں لوٹ کر آتا ہے جہاں اس کے دوسرے بھائی اپنی سرگرمیاں جاری کیے ہوں۔
یہی حج کے دوسرے تمام مراسم کا حال ہے۔ حج کے تمام مراسم مختلف پہلوؤں سے ایک ہی نشانہ پر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی ربانی مقناطیس ہے جو ’’لوہے‘‘ کے تمام ٹکڑوں کو ایک نقطہ پر کھینچتے چلا جارہا ہے۔
مختلف ملکوں کے یہ لوگ جب مقامِ حج کے قریب پہنچتے ہیں تو سب کے سب اپنا قومی لباس اتار دیتے ہیں اور سب کے سب ایک ہی مشترک لباس پہن لیتے ہیں جس کو احرام کہا جاتا ہے۔ احرام باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ بغیر سلی ہوئی ایک سفید چادر نیچے تہمد کی طرح پہن لی جائے اور اسی طرح ایک سفید چادر اوپر سے جسم پر ڈال لی جائے۔ اس طرح لاکھوں انسان ایک ہی وضع اور ایک ہی رنگ کے لباس میں ملبوس ہو جاتے ہیں۔
یہ سارے لوگ مختلف مراسم ادا کرتے ہوئے بالآخر عرفات کے وسیع میدان میں اکھٹا ہوتے ہیں۔ اس وقت ایک عجیب منظر ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے انسانوں کے تمام فرق اچانک مٹ گیے ہوں۔ انسان اپنے تمام اختلافات کو کھو کر خدائی وحدت میں گم ہوگیے ہیں۔ تمام انسان ایک ہوگیے ہیں جیسے ان کا خدا ایک ہے۔
عرفات کے وسیع میدان میں جب احرام باندھے ہوئے تمام حاجی جمع ہوتے ہیں اس وقت کسی بلندی سے دیکھا جائے تو ایسا نظر آئے گا کہ زبان، رنگ، حیثیت، جنسیت کے فرق کے باوجود سب کے سب انسان بالکل ایک ہوگیے ہیں۔ اس وقت مختلف قومیتیں ایک ہی بڑی قومیت میں ضم ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حج اجتماعیت کا اتنا بڑا مظاہرہ ہے کہ اس کی کوئی دوسری مثال غالباً دنیا میں کہیں اور نہیں ملے گی۔
کعبہ مسلمانوں کا قبلۂ عبادت ہے۔ مسلمان ہر روز پانچ وقت اس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ گویا ساری دنیا کے مسلمانوں کا عبادتی قبلہ ایک ہی ہے۔ عام حالت میں وہ ایک تصوراتی حقیقت ہوتا ہے۔ مگر حج کے دنوں میں مکہ پہنچ کر وہ ایک آنکھوں دیکھی حقیقت بن جاتا ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان یہاں پہنچ کر جب اس کی طرف رُخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں تو محسوس طورپر دکھائی دینے لگتا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا مشترک قبلہ ایک ہی ہے۔
کعبہ ایک چوکور قسم کی عمارت ہے۔ اس عمارت کے چاروں طرف گول دائرہ میں سارے لوگ گھومـتے ہیں جس کو طواف کہا جاتا ہے۔ وہ صف بہ صف ہو کر اس کے گرد گول دائرہ میںلوگوں کو ایک ہونے اور مل کر کام کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ وہ ایک آواز پر حرکت کرنے کا عملی مظاہرہ ہیں۔
ایکتا کے اس عظیم تربیتی نظام ہی کا یہ بھی ایک ظاہری پہلو ہے کہ تمام لوگوں سے ان کے انفرادی لباس اُتروا کر سب کو ایک ہی سادہ لباس پہنا دیا جاتا ہے۔ یہاں بادشاہ اور رعایا کا فرق مٹ جاتا ہے۔ یہاں مشرقی لباس اور مغربی لباس کے امتیازات فضا میں گم ہو جاتے ہیں۔ احرام کے مشترک لباس میں تمام لوگ اس طرح نظر آتے ہیں جیسے کہ تمام لوگوں کی صرف ایک حیثیت ہے۔ تمام لوگ صرف ایک خدا کے بندے ہیں۔ اس کے سوا کسی کوکوئی اور حیثیت حاصل نہیں۔
حج کے مقرر ہ مراسم اگرچہ مکہ میں ختم ہو جاتے ہیں مگر بیشتر حاجی حج سے فارغ ہو کر مدینہ بھی جاتے ہیں۔ مدینہ کا قدیم نام یثرب تھا۔ مگر پیغمبر اسلام نے اپنی زندگی کے آخری زمانہ میں اس کو اپنا مرکز بنایا۔ اس وقت سے اس کا نام مدینۃ النبی (نبی کا شہر) پڑ گیا۔ مدینہ اسی کااختصار ہے۔ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی مسجد ہے۔ یہاں آپ کی قبر ہے۔ یہاں آپ کی پیغمبرانہ زندگی کے نشانات بکھرے ہوئے ہیں۔
ان حالات میں حاجی جب مدینہ پہنچتے ہیں تو یہ ان کے لیے مزید اتحاد اور اجتماعیت کا عظیم سبق بن جاتا ہے۔ یہاں کی مسجد نبوی میں وہ اس یاد کو تازہ کرتے ہیں کہ ان کا رہنما صرف ایک ہے۔ وہ یہاں سے یہ احساس لے کر لوٹتے ہیں کہ ان کے اندر خواہ کتنے ہی جغرافی اور قومی فرق پائے جاتے ہوں، انہیں ایک ہی پیغمبر کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا ہے۔ انہیں ایک مقدس ہستی کو اپنی زندگی کا رہنما بنانا ہے۔ وہ خواہ کتنے ہی زیادہ اور کتنے ہی مختلف ہوں، مگر ان کا خدا بھی ایک ہے اور ان کا پیغمبر بھی ایک۔
واپس اوپر جائیں

ہجر جمیل

قرآن کی سورہ المزمل میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے:وَاصْبِرْ عَلَى مَا یَقُولُونَ وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیلًا(73:10)۔اُردو مترجمین نے اس آیت کے جو ترجمے کیے ہیں اُن میں سے چند یہاں نقل کیے جاتے ہیں:
1۔ اور سہتا رہ جو کہتے رہیں اور چھوڑ اُن کو بھلی طرح کا چھوڑنا (شاہ عبد القادر)
2۔ اور یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں اُن پر صبر کرو اور خوبصورتی کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ۔ (اشرف علی تھانوی)
3۔ اور سہتا رہ جوکچھ وہ کہتے رہیں اور چھوڑ دے اُن کو بھلی طرح کا چھوڑنا۔
(محمود حسن دیوبندی)
4۔ اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اُس پر صبر کر اور اُن کو خوبصورتی سے نظر انداز کر۔
(امین احسن اصلاحی)
5۔ اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کیجئے اور خوبصورتی کے ساتھ ان سے علیحدگی اختیار کیجئے ۔ (عاشق الٰہی)
6۔ اور ان باتوں پر صبر کیے رہیے جو یہ لوگ کہتے ہیں، اور ان سے خوبصورتی کے ساتھ الگ ہوجائیے۔ (عبد الماجد دریابادی)
7۔ اور اے پیغمبر آپ صبر کریں ان باتوں پر جو مخالفین کہتے ہیں اور آپ خوش اسلوبی کے ساتھ ان سے کنارہ کش ہوجائیں۔ (صوفی عبد الحمید سواتی)
اس آیت کاانگریزی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو وہ اس طرح ہوگا:
Endure patiently whatever they say, and avoid them in a decent manner.
قرآن کی یہ آیت مکی دور میں اُتری۔ اُس وقت مکہ میں مشرکین کا غلبہ تھا۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ رسول اوراصحاب رسول نے اُن کے آبائی دین سے انحراف کیا ہے۔ اس بنا پر وہ لوگ رسول اور اصحاب رسول کو ستانے لگے۔ اُنہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہر قسم کی تکلیفیں پہنچائیں۔ اس ماحول میں قرآن کی یہ آیت اُتری۔ اس میں خدا کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ تم لوگ صبر کرو اور ہجرجمیل کا طریقہ اختیار کرو۔
ہجر جمیل کے لفظی معنیٰ ہیںــــ خوبصورتی کے ساتھ چھوڑنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ستانے والوں کے ساتھ حسن اعراض کا طریقہ اختیار کرو۔ ان کے معاملہ میں تمہارا طریقہ منفی رد عمل کا طریقہ نہیں ہوناچاہیے بلکہ مثبت رد عمل کا طریقہ ہونا چاہیے۔ تم کو چاہیےکہ اُن کے معاملہ میں در گزر کرو، اور اُن کے برے انداز کے مقابلہ میں تم اُن کے ساتھ اچھا انداز اختیار کرو۔
مفسرین نے عام طورپر یہ لکھا ہے کہ صبر اور ہجر جمیل کا یہ حکم آیات قتال کے نزول کے بعد منسوخ ہوگیا ۔مگر یہ ایک غلط تفسیر ہے۔ ہجر جمیل (حسن اعراض) کوئی مجبوری کا فعل نہیں ہے، یہ اہل ایمان کا ایک مثبت رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن منفی رد عمل کا تحمل نہیں کرسکتا۔ شکایت کی نفسیات شکر کے جذبہ کی قاتل ہے اس لیے مومن یک طرفہ طورپر شکایت کے جذبات کو ختم کرتا ہے تاکہ اُس کے اندر شکر کا جذبہ مجروح نہ ہونے پائے۔ اسی طرح نفرت کی نفسیات محبت کے جذبہ کی قاتل ہے اس لیے مومن نفرت کی نفسیات کواپنے اندر پنپنے نہیں دیتا تاکہ اُس کے اندر محبتِ الٰہی کا جذبہ پوری طرح باقی رہے۔ اس کام کو کبھی سختی سے کرنا پڑتا ہے اور کبھی حسن تدبیر سے۔
ہجر جمیل (حسن اعراض) بظاہر دوسرے کے مقابلہ میں ہوتا ہے مگر اُس کا تعلق خود اپنی ذات سے ہے۔ مومن آخری حد تک یہ چاہتا ہے کہ اُس کے اندر اعلیٰ اسلامی احساس ہمیشہ زندہ رہے۔ کسی بھی حال میں اُس کے اندر کمی (erosion) نہ ہونے پائے۔
قرآن کے مطابق، اللہ نے کسی انسان کے اندر دو دل نہیں بنائے۔(الاحزاب 4:) یعنی انسان کے دل میں بیک وقت دو متضاد نفسیات پرورش نہیں پاسکتیں۔ جو دل انسان سے نفرت کرے، عین اُسی وقت وہ خدا سے محبت نہیں کرسکتا۔ جس دل کے اندر انسانوں کے بارے میں شکایات بھری ہوئی ہوں وہ دل کبھی خدا کے شکر سے سرشار نہیں ہوسکتا۔ جس آدمی کا سینہ انتقامی نفسیات کا جنگل بنا ہوا ہو، وہ خدا سے طلبِ عفو کی لذت کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ جو انسان ظلم کی یادوں میں جی رہا ہو، وہ خدائے رحمٰن ورحیم کی یادوں کا تجربہ نہیں کرسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ صبر اور حسن اعراض مومن کے لیے ایک خود حفاظتی تدبیر ہے۔ یہ اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے کہ اُس کے سینے میں غیر مومنانہ نفسیات کی پرورش ہونے لگے۔ اس لیے جب بھی ایسا کوئی موقع پیش آتا ہے تو مومن کہہ اُٹھتا ہے کہ میںاس قسم کی منفی سوچ کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہاںاس معاملہ کی مزید وضاحت کے لیے رسو ل اور اصحاب رسول کی زندگی سے حسن اعراض کی کچھ عملی مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
1۔ ابن اسحق کی روایت ہے کہ قدیم مکہ کے قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتے تھے اور سبّ وشتم کرتے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے آپ کا نام محمد کے بجائے مذمّم رکھ دیا تھا۔ محمد کا مطلب ہے، تعریف کیا ہوا۔اس کے بجائے وہ آپ کو مذمّم (مذمت کیا ہوا) کہتے تھے۔ روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: ألا تعجبون لما یصرف اللہ عنی من أذى قریش، یسبون ویہجون مذمما، وأنا محمد (سیرت ابن ہشام 1/356)۔ یعنی کیا تم کو تعجب نہیں کہ اللہ نے مجھے قریش کی اذیت سے کس طرح بچا لیا، وہ سبّ وشتم کرتے ہیںاور مذمم کہہ کر ہجو کرتے ہیں، حالانکہ میں محمد ہوں۔
پیغمبر اسلام کے اس قول کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ مثلاً قریش اگر یہ کہیں کہ ’’مذمّم مجنون ہے‘‘ تو رسول اللہ اس کا بُرا اثر نہ لیتے ہوئے یہ کہہ دیں گے کہ تمہاری یہ بات اُس کے اوپر پڑے گی جس کا نام مذمّم ہو،میرا نام تو محمد ہے۔ یہ حسن اعراض کی ایک لطیف مثال ہے۔ اس طرح مومن اپنے آپ کواس نقصان سے بچاتا ہے کہ کسی کی بدگوئی اُس کے اندر منفی نفسیات پیدا کرنے کا سبب بن جائے۔ مومن کا قول یہ ہوتا ہے کہ میں منفی جذبات کا تحمل نہیں کرسکتا۔
اس طرح کے حسن اعراض کی ایک دلچسپ مثال ڈاکٹر ذاکر حسین (1897-1969) کے یہاں پائی جاتی ہے۔ ایک بار وہ دہلی کی ایک سڑک پر اپنی گاڑی چلا رہے تھے، اتفاق سے اُن کی گاڑی ایک اور شخص کی گاڑی سے معمولی طور پر ٹکرا گئی۔ اُن کی گاڑی میں رگڑ(dent) آگیا۔ اُس آدمی نے ابھی نئی گاڑی لی تھی۔ وہ گاڑی روک کر اُترا۔ ذاکر صاحب بھی اپنی گاڑی روک کر اُتر گئے۔ اُس آدمی نے ذاکر صاحب کی طرف غصہ سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ایڈیٹ(idiot) ۔ اس انگریزی لفظ کے معنیٰ ہوتے ہیں، احمق۔ ذاکر صاحب نے جوابی غصہ نہیں دکھایا۔ اُنہوں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے نرمی سے کہا:
Sir, I am not Mr. Idiot, I am Zakir Husain.
جناب، میں مسٹر ایڈیٹ نہیں ہوں۔ میں ذاکر حسین ہوں۔ یہ سُن کر اُس آدمی کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ ساری(sorry) کہہ کر وہ خاموشی کے ساتھ اپنی گاڑی پر بیٹھا اور آگے کے لیے روانہ ہوگیا۔
2۔ ہجرت کے بعد حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔ مکہ کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اورآپ کے صحابہ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اُس وقت حدیبیہ کے مقام پر دونوں فریقوں کے درمیان ایک معاہدۂ امن تیار کیا گیا ۔ اس معاہدہ کے وقت قریش نے ضد کا مظاہرہ بھی کیا اور تشدد کا مظاہرہ بھی۔ اُنہوں نے اصرار کیا کہ اُن کی یک طرفہ شرطوں پر معاہدہ کیا جائے۔ اصحاب رسول کواس سے بے حد تکلیف ہوئی۔ اس طرح کی شرطوں پر معاہدہ کرنا اُن کو بظاہر ایک ذلت کا معاہدہ معلوم ہوتا تھا۔ اُس وقت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ: لا تدعونی قریش الیوم إلى خطة یسألوننی فیہا صلة الرحم إلا أعطیتہم إیاہا (سیرت ابن ہشام، 2/310)۔ یعنی قریش آج جو خاکہ بھی پیش کریں گے، بشرطیکہ اُس میں صلہ رحمی کو ملحوظ رکھا گیا ہو ، میں ضرور اُس پر راضی ہوجاؤں گا۔دشمن کی یک طرفہ شرطوں کو ماننا ایک سخت ناگوار معاملہ تھا۔ مگر آپ نے مذکورہ بات کہہ کر اس ناگوارکو ایک خوش گوار معاملہ بنا لیا۔
پیغمبر اسلام کا یہ قول ہجر جمیل کی ایک حکیمانہ مثال ہے۔قدیم عربوں کے نزدیک صلہ رحمی بہت بڑی انسانی قدر سمجھی جاتی تھی۔ اور قطع رحمی کو وہ بہت بُرا سمجھتے تھے۔ اس لیے اس کا سوال ہی نہ تھا کہ وہ معاہدہ کے لیے ایسا خاکہ پیش کریں جس میں قطع رحم کی دفعہ رکھی گئی ہو۔ باعتبار حقیقت رسول اللہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ میں ہر قیمت پر قریش سے صلح کر لوں گا۔ اس بات کو کہنے کے باعزت طریقہ کے طورپر آپ نے فرمایا کہ میں قریش کی طرف سے صُلح کے ہر خاکہ کو منظور کرلوں گا بشرطیکہ اُس میں قطع رحم نہ پایا جاتا ہو ۔ حالانکہ پیشگی طورپر یہ معلوم تھا کہ وہ قطع رحم کی شرط کبھی نہیں رکھیں گے۔
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو جلد ہی یہاں کے باشندوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔ اُس وقت مدینہ میںایک شخص تھا جس کا نام عبد اللہ بن اُبی تھا۔ وہ اپنے زمانہ کا ایک بڑا لیڈر تھا۔ وہ بھی اگر چہ اپنے قبیلہ والوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوگیا مگر اُس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حسد کا جذبہ تھا جس کی وجہ سے وہ اکثر آپ کے خلاف شر انگیز باتیں کیا کرتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ کا ذکر مدینہ کے ایک مسلمان اُسید بن حضیر سے کیا۔ اُنہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: یا رسول اللہ، ارفق بہ، فو اللہ لقد جاءنا اللہ بک، وإن قومہ لینظمون لہ الخرز لیتوجوہ، فإنہ لیرى أنک قد استلبتہ ملکا (سیرت ابن ہشام، 2/292) یعنی اے خدا کے رسول، اُس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیجئے، خدا کی قسم، اللہ آپ کو ہمارے پاس لے آیا اور اُس کی قوم کے لوگ اُس کے لیےجواہر کا تاج تیار کررہے تھے تاکہ وہ اُس کوبادشاہ بنائیں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ آپ نے اُس کا مقام اُس سے چھین لیا ہے۔
یہ حسن اعراض کی ایک حکیمانہ مثال ہے۔ ایک صورت یہ تھی کہ عبداللہ بن اُبی کی شر انگیزی کا جواب سختی کے ساتھ دیا جاتا۔ صحابی نے گویا اپنے جواب میں یہ بتایا کہ اس معاملہ میں سختی کی ضرورت نہیں۔ حسن اعراض ہی اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔
4۔ اوپر ہجرجمیل کی وہ مثالیں ہیں جو سطور میں ہوتی ہیں۔ اب ایک بین السطور کی مثال لیجئے۔ جب کسی معاملہ میں ہجر جمیل کا طریقہ اختیار کیا جائے تو اُس میںایک اور بات پوشیدہ ہوتی ہے جو اگر چہ زبان سے بولی نہیںجاتی مگر وہ حقیقی مطلوب کے طورپر اس میں شامل رہتی ہے۔ اس کی ایک مثال حدیبیہ کا معاہدہ ہے۔
حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہفتہ قیام فرمایا۔ اس دوران قریش نے مختلف قسم کی زیادتیاں کیں۔ مثلاً ایک صحابی کو تنہا پاکر اُنہیں تیرمار کر ہلاک کردیا۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کر رہے تھے، اتنے میں قریش کے کچھ لوگ آئے اور آپ پر تیر برسانے لگے۔ اس طرح کی اشتعال انگیز صورت حال کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے دس سال کا امن معاہدہ کر لیا۔
اس معاہدہ کی دفعات حضرت عمر پر سخت ناگوار تھیں۔ وہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا: یا أبابکر ألیس برسول اللہ؟ قال:بلى، قال:أو لسنا بالمسلمین؟ قال:بلى، قال:أو لیسوا بالمشرکین؟ قال:بلى، قال:فعلام نعطى الدنیة فی دیننا؟۔ (سیرت ابن ہشام، 2/317)۔ یعنی اے ابوبکر، کیا محمد اللہ کے رسول نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ کیا ہم مسلمان نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ کیا وہ مشرک نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ پھر ہم اپنے دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں۔ روایات کے مطابق، حضرت عمر نے یہی بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہی۔
یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی زیادتیوں کے باوجود اُن کی یک طرفہ شرطوں پر دس سال کا جو امن معاہدہ کیا تھا، وہ ایک نہایت اہم اسلامی مصلحت کی بنا پر تھا۔ اور وہ مصلحت یہ تھی کہ دشمن سے معاہدہ ٔامن کرکے معتدل حالات پیدا کیے جائیں تاکہ اسلامی دعوت کا عمل مؤثر طورپر جاری ہوسکے۔ مگر یہ نصیحت نہ امن معاہدہ کے اندر لکھی گئی اور نہ حضرت عمر اور دوسرے صحابہ کی شدید ناگواری کے باوجود آپ نے حدیبیہ کے مقام پر اس کا اعلان کیا۔
یہ ہجر جمیل (حسن اعراض) کا دوسرا پہلو ہے۔ یہ دوسرا پہلو ہمیشہ مخفی حالت میں ہوتا ہے۔ اس پہلو کو لفظوں میں پانا ممکن نہیں۔ اگر اُس کو لفظوں میں لکھا یا بولا جائے تو اُس کی ساری معنویت ختم ہوجائے گی۔
ایسی حالت میں لوگوں کے لیے صرف دو میں سے ایک رویّہ درست ہے۔ یا تو وہ اتنا زیادہ ہوش مند ہوں کہ سطور کے اندر بین السطور کو پڑھ لیں۔ وہ اعلان کے بغیر اُس کی اہمیت کو دریافت کر لیں۔ جن لوگوں کے اندر اتنی ہوش مندی نہیں ہے اُن کے لئے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی بصیرت پر اعتماد کریں۔ وہ صرف اعتماد اور حسن ظن کی بنا پر یہ عقیدہ رکھیں کہ اُن کے رہنما نے جو بات کہی ہے اُس کے پیچھے ضرور کوئی گہری مصلحت ہوگی۔ ہمارا کام اپنے رہنما کی اتباع کرنا ہے، نہ کہ اُس کی دیانت داری (integrity) پر شک کرنا۔
5۔ صُلح حدیبیہ بظاہر ایک ایسی صُلح تھی جو دشمن کے مقابلہ میں دب کر کی گئی۔ مگر اس کے اندر ایک غیر اعلان شدہ مقصد چھپا ہوا تھااور وہ تھا–——ٹکراؤ کو اَوائڈ کرکے اپنے لیے وقفۂ تعمیر حاصل کرنا۔ اگر یہ بات معاہدہ کے متن میں لکھ دی جاتی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان اُسی وقت اس کا اعلان کر دیتے تو صلح کے مقاصد سرے سے فوت ہوجاتے۔ اس قسم کے مقاصد ہمیشہ اعلان کے بغیر ہوتے ہیں، نہ کہ اعلان کے ساتھ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ یہاں تک کہ بعد کو جب اس کا عملی نتیجہ ظاہر ہوگیا، اُس وقت لوگوں نے جانا کہ اس صلح کے اندر کتنی بڑی مصلحت چھپی ہوئی تھی۔
یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت ابو بکر صدیق نے بعد کے زمانہ میں ان الفاظ میں بیان کی: ما کان فتح فی الإسلام أعظم من فتح الحدیبیة، ولکن الناس یومئذ قصر رأیہم عما کان بین محمد وربہ، والعباد یعجلون، واللہ تبارک وتعالى لا یعجل کعجلة العباد حتى تبلغ الأمور ما أراد اللہ (مغازی الواقدی، 2/610)۔ یعنی اسلام میں حدیبیہ کی فتح سب سے بڑی فتح تھی۔ لیکن معاہدہ کے دن لوگوں کو اس بات میں رائے قائم کرنے میں کوتاہی ہوئی جو محمد اورآپ کے رب کے درمیان تھا۔ انسان عجلت پسند ہے اور اللہ انسانوں کی طرح عجلت نہیںکرتا۔ یہاں تک کہ معاملہ وہاں تک پہنچ جائے جو اللہ چاہتاہے۔
6۔ ہجر جمیل (حسن اعراض) سادہ طور پر محض ایک بچاؤ کی تدبیر نہیں، بلکہ وہ بامقصد انسان کی سوچی سمجھی ایک مستقل اخلاقی روش ہے۔ با مقصد انسان کے سامنے ایک متعین منزل ہوتی ہے، جہاں پہنچنا اُس کا سب سے بڑا کنسرن (concern) ہوتا ہے۔ اس لیے وہ راستہ کے ہر اُلجھاؤ سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے تاکہ وہ کسی رُکاوٹ کے بغیر اپنی آخری منزل تک پہنچ سکے۔
جیسا کہ معلوم ہے، قدیم مکہ کے لوگوں نے پیغمبر اسلام کو بہت زیادہ ستایا تھا۔ آپ پر اورآپ کے ساتھیوں پر اتنا زیادہ تشدد کیا کہ آپ کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکہ چھوڑ دینا پڑا۔ اس ترک وطن کے بعد بھی وہ آپ کے خلاف مسلسل جارحیت کرتے رہے۔
آخر کار وہ وقت آیا جب کہ پیغمبر اسلام، اللہ کی مدد سے مکہ کے فاتح بن گئے۔ اب وقت تھا کہ ماضی کے ظلم کی اُنہیں سزا دی جائے۔ عام رواج کے مطابق، اُن کو قتل کردینا عین جائز تھا۔ مگر پیغمبراسلام نے اُن لوگوں کے ساـتھ ہجر جمیل کی روش اختیار کی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب قریش کے یہ مجرمین آپ کے سامنے حاضر ہوئے تو آپ نے اُن سے پوچھا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا۔ اُنہوں نے کہا کہ: اخ کریم و ابن اخ کریم۔ (آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں)۔
پیغمبر اسلام نے اس کے بعد فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ میں تمہارے بارے میں وہی کہوں گا جو پیغمبر یوسف نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا۔ یعنی لاتثریب علیکم الیوم(12:96) آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں۔ یہ کہہ کر آپ نے فرمایا کہ : جاؤ تم سب لوگ آزاد ہو۔ اس طرح آپ نے اُن تمام لوگوں کو آزادکردیا جو اس سے پہلے آپ کے خلاف کھلے دشمن بنے ہوئے تھے۔ (دیکھیے، السنن الکبریٰ للبیہقی، 9/199، حدیث نمبر 18275-76)
پیغمبر اسلام کا یہ عمل ایک بامقصد انسان کے عمل کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ پیغمبر اسلام کا مقصد یہ تھا کہ آپ بیت اللہ کو بتوں سے پاک کریں۔ مکہ کے لوگوں کو شرک سے نکال کر اُنہیں خدائے واحد کاپرستار بنائیں۔ اپنے دشمن انسان کو دوست انسان میں تبدیل کرکے توحید کی بنیاد پر وہ انقلاب لائیں جس کے لیے آپ کو مبعوث کیا گیا تھا۔
پیغمبر اسلام کے یک طرفہ حسن سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکّہ کے یہ تمام لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔ راوی کہتے ہیں: فخرجوا کانما نشروا من القبور، فدخلوا فی الإسلام۔ یعنی پھر وہ لوگ وہاں سے اس طرح نکلے جیسے کہ وہ قبروں سے نکلے ہوں اور وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ (دیکھیے، السنن الکبریٰ للبیہقی، 9/199، حدیث نمبر 18275-76)
پیغمبر اسلام اگر اس کے برعکس اُن دشمنوں سے اُن کی ظالمانہ روش کا انتقام لیتے تو اس کے بعد یہ ہوتا کہ وہاں انتقام در انتقام کا دور چل پڑتا۔ ایک انتقام کے بعد دوسرا انتقام شروع ہوجاتا اور پھر حالات ایسا منفی رُخ اختیار کرلیتے کہ سارا تعمیری منصوبہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔
غیر فطری رد عمل
جب کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اُس کے مقابلہ میں آدمی کی روش کی دو مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک جذباتی رد عمل کا طریقہ، اور دوسرا غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ۔ جذباتی رد عمل عین وہی چیز ہے جس کو میڈیکل اصطلاح میں الرجی (allergy) کہا جاتا ہے۔ الرجی کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ الرجی نام ہے معتدل حالات میں غیر معتدل رد عمل کا۔
Abnormal reaction to normal things.
مثلاً اپنے خلاف تنقید کو سُن کر غصہ ہونا، اس قسم کی ایک الرجی ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کی کسی بات پر تنقید کرتا ہے تو اُس کا معتدل اور فطری رد عمل یہ ہے کہ آپ کھلے ذہن کے ساتھ اُس کو سنیں اور کھلے ذہن کے ساتھ اُس پر غور کریں۔ اگر تنقید غلط ہے تو آپ کوچاہیے کہ آپ دلیل کے ساتھ اُس کا جواب دیں اور اگر تنقید درست ہے تو سیدھی طرح اُس کو مان لیں۔ اس کے برعکس تنقید کو سُن کر بگڑ جانا تنقید کا غیر معتدل اور غیر فطری انداز میں جواب دینا ہے۔ پہلی صورت مریضانہ ذہنیت کا ثبوت ہے اور دوسری صورت صحت مند ذہنیت کا ثبوت۔
اسی طرح مخالفانہ نعرہ کو سُن کر مشتعل ہو جانا، توہین کے کسی معاملہ پر بھڑک اُٹھنا، اپنے راستہ میں کوئی رکاوٹ دیکھ کر بگڑ جانا، اپنی سوچ کے خلاف سوچ کو برداشت نہ کرسکنا، یہ سب جذباتی ردِعمل کی صورتیں ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ دوسروں کے خلاف نفرت اور تشدد میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ زندگی کے مثبت اور تعمیری رخ کا تجربہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
اس کے برعکس دوسرا طریقہ غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ ہے۔ اسی کو قرآن میں ہجر جمیل کہا گیا ہے۔ یعنی جب اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات پیش آئے تو مشتعل نہ ہو کر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ اس پر غور کرنا، اور سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت معتدل انداز میں اس کا جواب دینا۔اس معتدل جواب کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ سادہ طورپر بس اُس کو نظر انداز کردیا جائے۔ یعنی وہی رویہ جس کو عام زبان میں اس طرح بیان کیا جاتا ہے——کتے بھونکتے رہتے ہیں اور ہاتھی چلتا رہتا ہے۔
اسی طرح کبھی ہجر جمیل کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مخالف گروہ کی بدعملی کا جواب خوش عملی سے دیا جائے۔ اس کے پست اخلاق کے مقابلہ میں بر تر اخلاق کا طریقہ اختیار کرکے اس کو مغلوب کر لیا جائے۔ اسی طرح کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوسکتا ہے کہ دباؤ کی سیاست (pressure tactics) کا طریقہ اختیار کرکے اس کو خاموش ہونے پر مجبور کر دیا جائے۔
ہجر جمیل کی کوئی ایک لگی بندھی صورت نہیں۔ حالات کے اعتبار سے اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ تاہم جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ سوچے سمجھے منصوبہ کی بنیاد پر ہوگی ، نہ کہ بلا سوچے سمجھے رد عمل کی حیثیت سے۔ اس کا بنیادی مقصد اعراض کرنا ہوگا، نہ کہ اُلجھ جانا۔ وہ ہمیشہ امن کے اصول پر ہوگی، نہ کہ تشدد کے اصول پر۔ اس کے پیچھے کبھی بھی نفرت اور انتقام کا جذبہ نہیں ہوگا بلکہ صرف یہ جذبہ ہوگا کہ کسی نہ کسی طرح حسن تدبیر کے ذریعہ معاملہ کو ٹال دیا جائے تاکہ زندگی کی گاڑی معمول کے مطابق اپنے مطلوب رُخ پر چلنے لگے۔
ہجر جمیل کا نشانہ خارجی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ آدمی کی خود اپنی ذات ہوتی ہے۔ ہجر جمیل کا نشانہ یہ نہیں ہوتا کہ خود مسئلہ کا خاتمہ کردیا جائے۔ اُس کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ کو اپنے خلاف مسئلہ بننے سے روک دیاجائے۔
واپس اوپر جائیں

با مقصد انسان کا کردار

صہیب بن سنان الرومی اُن اصحابِ رسول میں سے ہیں جنہوں نے دور اوّل میں اسلام قبول کیا۔ اُن کی پیدائش موصل میں ہوئی۔ اُنہوں نے مدینہ میں ۳۸ھ میں وفات پائی۔ بوقت وفات اُن کی عمر تقریباً ستّر سال تھی۔ اُن سے تین سو سات حدیثیں مروی ہیں۔ اُن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أنا سابق العرب، وصہیب سابق الروم(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7288)۔
صہیب رومی کا تذکرہ تاریخ اسلام کی اکثر کتابوں میں آیا ہے۔ مثلاً طبقات ابن سعد، تاریخ ابن عساکر، وغیرہ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیب رومی ایک اونچے خاندان کے فرد تھے۔ پھر وہ مکہ میں تجارت کرنے لگے۔ انہوں نے تجارت میں کافی دولت کمائی (کان صھیب قد ربح مالا وفیرا من تجارتہ)۔ سیر اعلام النبلاء، 3/210۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے مدینہ کے لیے ہجرت فرمائی تو صہیب رومی نے بھی ہجرت کا فیصلہ کیا۔ روایات بتاتی ہیں کہ اُن کی ہجرت کی خبر لوگوں کو ہوگئی۔ چنانچہ قریش کے کچھ نوجوان اُن کے پاس آئے۔ اُنہوں نے کہا کہ تم نے اپنا یہ مال مکہ میں حاصل کیا ہے۔ اس کو لے کر ہم تم کومدینہ نہیں جانے دیں گے۔ صہیب رومی نے کہا کہ اگر میں تم کو اپنا مال دے دوں تو کیا تم مجھ کو جانے دوگے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ اس کے بعد صہیب رومی نے اپنا سارا مال اُن کے حوالہ کردیا(فجعل لہم مالہ أجمع)۔ الطبقات الکبریٰ لابن سعد، 3/227۔
اپنا مال قریش کے حوالہ کرکے صہیب رومی مدینہ کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ مدینہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ کو مکہ کا پورا واقعہ بتایا۔ اُس کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا أبا یحیٰ ربح البیع(أے ابو یحیٰ، تمہاری تجارت کامیاب رہی۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: ربح صھیب، ربح صھیب(صہیب کی تجارت کامیاب رہی، صہیب کی تجارت کامیاب رہی) البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر، 3/173-4۔
حضرت صہیب رومی کا یہ واقعہ جس کی تصدیق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، بے حد اہم ہے۔ اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ بامقصد انسان کا کردار کیا ہونا چاہیے۔ اس کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مقصد کے علاوہ ہر دوسری چیز کو ثانوی (سیکنڈری) درجہ پر رکھے۔ وہ اپنے مقصد کو بچانے کی خاطر ہر دوسری چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار رہے۔
مذکورہ واقعہ پر غور کیجئے۔ حضرت صہیب رومی کے سامنے ایک صورت یہ تھی کہ وہ یہ سوچیں کہ یہ مال میں نے اپنی محنت سے کمایا ہے۔ وہ میرا ایک جائز حق ہے۔ مجھے اپنے حق سے محرومی کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے ہر حال میں اپنے مال کو اپنے قبضہ میں رکھنا چاہیے، خواہ اُس کے لیے مجھے ظالموں سے لڑائی لڑنی پڑے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ یہ سوچیں کہ مدینہ دعوت ِ اسلامی کا مرکز بن رہا ہے۔ وہاں پہنچ کر مجھے اس دعوتی مہم میں شریک ہونا ہے۔ اسلام کے اس قافلہ کے ساتھ مل کر مجھے چاہیے کہ میںاس تاریخی مہم کو اُس کی تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کروں۔
صہیب رومی نے محسوس کیا کہ یہ کم بہتر اور زیادہ بہتر کے درمیان انتخاب کا معاملہ ہے۔ اگر میں مال کے لیے ٹکراؤ کروں تو یہ کوئی عقلمندی نہ ہوگی۔ یہ مال کی خاطر مقصد کو قربان کرنے کے ہم معنٰی ہوگا۔ چنانچہ اُنہوں نے مقصد کو بچانے کی خاطر مال کو قربان کر دیا اور اُس سے دست بردار ہو کر مدینہ چلے گئے۔
اس طرح کے معاملات میں سوچنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے منطقی انصاف کا طریقہ، اور دوسرا ہے عملی حل کا طریقہ۔ منطقی انصاف کا مطلب یہ ہے کہ خالص فنّی اعتبار سے صحیح اور غلط کو معلوم کیا جائے، جیسا کہ قانونی عدالت میں ہوتا ہے۔ اور دوسرا ہے عملی حل(practical solution) ۔ عملی حل کا مطلب یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے صحیح اور غلط کی بحث میں نہ پڑا جائے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ عملی حالات کے اعتبارسے مسئلہ کا مثبت حل کیا ہے۔ پہلا طریقہ عام انسان کا طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ بامقصد انسان کا طریقہ۔
عام انسان کو صرف یہ معلوم رہتا ہے کہ قانون کے مطابق، اُس کا حق کیا ہے۔ اس کے برعکس بامقصد انسان قانونی حق اور منطقی انصاف سے بلند ہو کر یہ سوچتا ہے کہ میرے لیے اپنے مقصد اعلیٰ کو حاصل کرنے کا مفید طریقہ کیا ہے۔ سوچ میں اس فرق کی بنا پر، عام انسان لوگوں کے ساتھ زر اور زمین کا جھگڑا کرتا رہتا ہے، کیونکہ اس کے سوا اُس کا اورکوئی نشانۂ حیات نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس بامقصد انسان کا نظریہ، حضرت مسیح کے الفاظ میں یہ ہوتا ہے کہ، کوئی تمہارا کرتا لینا چاہے تو اُس کو اپنا چُغہ بھی دے دو۔ یعنی دنیوی چیزوں کے معاملہ میں نزاع پیدا ہو تو فوراً یک طرفہ قربانی کے ذریعہ اُس نزاع کو ختم کردو، تاکہ مقصد کی طرف تمہارا سفر کسی خلل کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہے۔
اس طرح کے نزاعی معاملات میں عام انسان کا قول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا حق کیوں چھوڑیں، ہم انصاف سے دست بردار کیوں ہوں۔ مگر بامقصد انسان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ دنیوی حق کو لینے کی کوشش میں وہ ربّانی حق سے محروم ہوجائے گا۔ دنیوی انصاف کو حاصل کرنے کی لڑائی میں وہ آخرت کے انصاف کی میزان میں اپنے آپ کو بے قیمت کر لے گا۔ سوچنے کا یہی فرق دونوں کے عمل میں فرق پیدا کردیتا ہے۔ ایک، دنیا کی خاطر آخرت کو گنوا دیتا ہے، اور دوسرا، آخرت کی خاطر دنیا کو۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
سوئزرلینڈ یورپ کے تقریبًا درمیان میں ہے اس کے چاروں طرف فرانس، جرمنی، اٹلی اور آسٹریا واقع ہیں۔ وہ افغانستان کی طرح ایک محصور ملک (landlocked country) ہے۔ مگر سوئزرلینڈ دو رجدید کا ایک اعلٰی ترقی یافتہ ملک ہے جہاں ہر طرف امن اور خوشحالی کا دور دورہ ہے۔ جب کہ افغانستان برعکس طورپر ایک ایسا تباہ ملک بنا ہوا ہے جہاں خود افغانیوں کے لئے اتنی کم کشش ہے کہ وہ پہلی فرصت میں بھاگ کر دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں۔اس فرق کا راز ایک لفظ میں استحکام (stability) ہے، اورسماجی اور سیاسی استحکام کوئی اتفاقی واقعہ نہیں۔ وہ شعوری ایڈجسٹمنٹ کے ذریعہ حاصل ہونے والا ایک واقعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

اجتہاد کیا ہے

اجتہاد کے لفظی معنیٰ ہیں بھر پور کوشش کرنا۔ شریعت میں یہ لفظ اس فکری کوشش کے لئے بولا جاتا ہے جب کہ نئے حالات کے اندر قرآن و سنت کی روشنی میں دین کا از سر نو انطباق (re-application) معلوم کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ اجتہاد احکام کے استنباط کے سلسلہ میں ایک اہم اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالات اور زمانہ کی تبدیلی سے بار بار ایسی صورتیں پیش آتی ہیں جب کہ دین کی اصل روح کو برقرار رکھتے ہوئے نئے حالات میں ان کا ازسرِنو انطباق تلاش کیا جائے۔
اجتہاد کا یہ عمل اسلام کی تاریخ میں مسلسل جاری رہا ہے، پیغمبر کی زندگی میں بھی اور پیغمبر کی وفات کے بعد بھی ۔ مگر اسلام کی بعد کی صدیوں میں ایسا ہوا کہ بعض اسباب سے اجتہاد کا یہ عمل زیادہ تر جزئی مسائل تک محدود ہو کر رہ گیا۔ کُلّی یا بنیادی نوعیت کے مسائل میں اجتہاد کا یہ عمل حقیقی طورپر جاری ہی نہ ہوسکا۔
اس معاملہ کی ایک مثال وہ ہے جو قرآن کی آیت:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلّہ (8:39)سے تعلق رکھتی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ کی حکومت قائم ہوئی۔ انہوں نے دمشق کو اپنا دار السلطنت بنایا۔ اس زمانہ میں عبد اللہ بن زبیر (وفات 73ھ) نے حجاز میں اپنی علیٰحدہ خلافت قائم کر لی۔ یہ خلافت نو سال تک باقی رہی۔ بنوامیہ کے گورنر الحجاج سے ان کا ٹکراؤ ہوا۔ اس ٹکراؤ کے وقت ان کے قریبی افراد نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ وہ تنہا لڑتے ہوئے حجاج کی فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔
اس واقعہ کو اسلام کی تاریخ میں فتنہ ٔ ابن الزبیر کہا جاتا ہے۔ جس زمانہ میں یہ جنگ ہورہی تھی، عبد اللہ بن عمر (وفات 73ھ) موجود تھے۔ مگر وہ اس جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ ابن الزبیر کے کچھ حامی ان کے پاس گئے اور انہیں عار دلاتے ہوئے کہا کہ آپ اس جنگ میں شامل ہو کر کیوں نہیں لڑتے۔ جب کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے— وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ۔ عبداللہ بن عمر نے جوا ب دیا کہ جو کام کرنا تھا وہ ہم نے کر دیا، یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوگیا(قد فعلنا على عہد رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم إذ کان الإسلام قلیلا، فکان الرجل یفتن فی دینہ إما یقتلونہ وإما یوثقونہ، حتى کثر الإسلام فلم تکن فتنة)۔صحیح البخاری، حدیث نمبر 4650۔عبد اللہ بن عمر کا یہ قول میرے نزدیک کلیاتی امور میںاجتہاد کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابی ٔ رسول نے اپنی مجتہدانہ بصیرت سے سمجھا کہ مذکورہ آیت میں جو حکم دیا گیا وہ قتال برائے استیصال فتنہ تھا، نہ کہ قتال برائے قتال۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب فتنہ ختم ہوگیا تو قتال بھی ختم ہوگیا۔ اب وہ محنت ان مواقع دعوت کو استعمال کرنے کے لیے کی جائے گی جو کہ فتنہ کے خاتمہ کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔
عبد اللہ بن عمر کے اس قول کی مزید تفصیل عمر بن عبد العزیز کے ایک قو ل سے معلوم ہوتی ہے۔ خلیفہ عمر بن عبد العزیز مدینہ میں عبد اللہ بن عمر کی وفات سے 12 سال پہلے 61ھ میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنے دور حکومت میں خراسان کے گورنر الجراح بن عبد اللہ الحکمیکو لکھاتھا: إن اللہ إنما بعث محمدا صلى اللہ علیہ وسلم داعیا، ولم یبعثہ جابیا (اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف داعی بنا کر بھیجا تھا،اللہ نے آپ کو ٹیکس وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا)۔ البدایۃ و النہایۃ 9/213۔اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مشن دعوت تھا، وہ قتال کے لئے یا زمین پر قبضہ کر کے اُس پر حکومت قائم کرنے کے لئے نہیں بھیجے گئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے دعوت کے راستہ کی رکاوٹیں ختم کر دیں تو اس کے بعد آپ کا اور آپ کے اصحاب کا کام یہ ہوگیا کہ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچائیں۔
یہ اجتہاد کی وہ مثالیں ہیں جو ایک جلیل القدر صحابی اور ایک جلیل القدر تابعی نے دور اول میں قائم کیں۔ مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کی تاریخ میں ان کا یہ اجتہاد عملاً رائج نہ ہوسکا۔ مسلمانوں کی بعد کی نسلیں بدستور جنگ و قتال میں مشغول رہیں، اور آج تک مشغول ہیں۔ وہ حقیقی طورپر دعوت کے میدان میں سرگرم نہ ہوسکیں۔ اگر چہ بعد کی صدیوں میں بھی اسلام مسلسل پھیلتا رہا ہے۔ مگر وہ زیادہ تر اپنی فطری کشش کے زور پرپھیلا ہے، نہ کہ داعیوں اور مبلغوں کی کسی منظم کوشش کے زور پر۔
اصل یہ ہے کہ ضرورت تھی کہ صحابی اور تابعی کے مذکورہ قول کی بنیاد پر ایک مکمل نظریہ تشکیل دیا جائے۔ اس کو ایک آئیڈیا لاجیکل سسٹم کے طورپر جامع انداز میں مرتب کیا جائے۔ مگر بعد کے مسلم علماء یہ کام نہ کرسکے۔ اور بعد کے لوگوں کی یہی کوتاہی اس کا سبب بن گئی کہ بعد کی تاریخ کا سفردعوت کے رخ پر جاری ہونے کے بجائے قتال کے رُخ پر جاری ہوگیا جو بدستور آج تک قائم ہے۔
اس معاملہ کی وضاحت کے لئے ایک متوازی مثال لیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:کما تکونون یولى أو یؤمر علیکم (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 577) ۔یعنی جیسے تم ہوگے، ویسے ہی تمہارے حکمراں ہوں گے۔ اس حدیث میں ایک عظیم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ قدیم زمانہ میں سیاست کا مرکز بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ اس قول میں اس جمہوری اصول کی طرف رہنمائی دی گئی جس میں سیاست کامرکز عوام ہوں۔ قدیم سیاسی نظام کی بابت عربی میں یہ مقولہ تھا:الناس علی دین ملوکھم۔ مذکورہ قول رسول میں اس مقولہ کو گویا بدل کر اس طرح کر دیا گیا:الملوک علی دین الناس۔
اس معاملہ کا ایک پہلو یہ تھا کہ تاریخ کو بادشاہ رُخی ہونے کے بجائے عوام رُخی ہونا چاہیے۔ قدیم زمانہ میںتاریخ بادشاہ نامہ ہوا کرتی تھی۔ بادشاہوں کے واقعات کو قلمبند کرنے کا نام تاریخ تھا۔ مذکورہ قولِ رسول میں یہ رہنمائی تھی کہ تاریخ کو وسیع تر معنوں میں پوری انسانیت کے احوال پر مبنی ہونا چاہیے، نہ کہ صرف حاکم کے احوال پر۔قولِ رسول میں مذکورہ اشاراتی رہنمائی کے باوجود بعد کی کئی صدیوں تک تاریخ نویسی کا یہ طریقہ عملاً جاری نہ ہوسکا۔ حتیٰ کہ اُس دور میں اسلام کی جو تاریخیں لکھی گئیں وہ بھی قدیم طریقہ کے مطابق، زیادہ تر سیاسی احوال تک محدود رہیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ مذکورہ مجتہدانہ اصول کی بنیاد پر تاریخ نویسی کا ایک مکمل فلسفہ تیار نہ کیا جاسکا۔
یہ کام پہلی بار ابن خلدون (وفات 808ھ) نے کیا۔ ابن خلدون نے اپنے مشہور مقدمہ میں تاریخ نویسی کے جدید اصول کو ایک مکمل فلسفہ کی شکل میںمرتب کیا۔ اس کی یہ کتاب اتنی اہم تھی کہ دنیا کی تمام بڑی بڑی زبانوں میں اس کے ترجمے کیےگئے۔ اس کتاب نے عالمی ذہن پر زبردست اثر ڈالا۔ یہاں تک کہ اس کے بعد تاریخ نویسی کا قدیم اسلوب ختم ہوگیا اور جدید اسلوب ساری دنیا میں رائج ہوا۔ابن خلدون نے جس طرح تاریخ نویسی کے معاملہ میںمذکورہ قولِ رسول کو ایک جامع نظام فکر کی صورت میں مرتب کیا۔ ضرورت تھی کہ اُسی طرح دعوت کے معاملہ کو بھی ایک جامع نظام فکر کی صورت میں مرتب کیاجائے۔ مگر اس کام کے لئے اجتہاد کلی کی صلاحیت درکار تھی، جب کہ ہمارے علماء اجتہاد کو جزئی مسائل تک محدود کیےہوئے تھے۔ یہی واحد وجہ ہے جس کی بنا پر ایسا ہوا کہ دعوت کی بنیاد پر جامع نظامِ فکر تشکیل نہ دیا جاسکا۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا جو فکر ہے، اس کی ایک نمائندگی الاخوان المسلمون کے ذریعہ ہوتی ہے۔ الاخوان المسلمون 1920 میں مصر میں قائم کی گئی۔ اس کے ابتدائی لیڈر حسن البناء اور سیدقطب، وغیرہ تھے۔ اس کو غیر معمولی پھیلاؤ حاصل ہوا۔الاخوان المسلمون نے اپنے عقیدہ و عمل کے لیے جو نعرہ اختیار کیا وہ یہ تھا:الإسلام دیننا و الجہاد منہجنا (اسلام ہمارا دین ہے اور جہاد ہمارا طریقِ عمل ہے)۔لیکن مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ حالات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت اخوانی لیڈروں کو یہ جاننا چاہیے تھا کہ ان کے لئے زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز طریقہ وہ ہے جو مبنی بر أمن ہو ، نہ کہ مبنی بر تشدد۔ اس لحاظ سے زیادہ صحیح بات یہ تھی کہ وہ یہ اعلان کریں :الإسلام دیننا والدعوۃ منہجنا (اسلام ہمارا دین ہے اور دعوت ہمارا طریقِ عمل ہے)۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ مگر ان کی تمام قربانیاں حبطِ اعمال کا شکار ہوگئیں۔ ان کا وہ حال ہوا جس کو ایک اسرائیلی پیغمبر نے ان الفاظ میں بتایا تھا: تم نے بہت سابویا پر تھوڑا کاٹا۔ تم کھاتے ہو پر آسودہ نہیں ہوتے۔ تم پیتے ہو پر پیاس نہیں بجھتی۔ تم کپڑے پہنتے ہو پر گرم نہیں ہوتے اور مزدور اپنی مزدوری سوراخ دار تھیلی میں جمع کرتا ہے۔ (بائبل، حجی،1:6)
واپس اوپر جائیں

اسلام —امن و رحمت کا مذہب

موجودہ زمانہ میں مسلم دنیا میںایک گروہ ابھرا ہے جس کو مجاہد یا مجاہدین کہا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ان کو مسلم ہیرو کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان مجاہدین کاتعلق نہ جہاد سے ہے اور نہ اسلام سے۔حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: المجاھد من جاھد نفسہ فی طاعۃ اللہ (مسند احمد، حدیث نمبر 23967)۔ یعنی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی فرمانبرداری کے لیے خود اپنے نفس سے جہاد کرے۔ مگر یہ مجاہد لوگ بالکل الٹا کررہے ہیں۔وہ دوسروں کے خلاف تشدد کی کارروائی کرتے ہیں یہاںتک کہ جہاںانہیں کھلے طورپر تشدد کا موقع نہیں ملتا وہاں وہ خودکش بمباری کرکے دوسروں کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ نام نہاد مجاہد سڑکوں اور راستوں پر landmine بچھا دیتے ہیں اورجب گزرنے والے وہاں سے گزرتے ہیں تو اچانک دھماکہ ہوتا ہے جس میں کتنے ہی مسافر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ وہ جلسہ گاہ اور تھیٹر ہال میں بم مار کر لوگوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ وہ بے قصور لوگوں کو یرغمال بنا کر سینکڑوں خاندانوں کو سوگوار کر دیتے ہیں۔ وہ بے قصور لوگوں کو مارنے میں یہاں تک جری ہوتے ہیں کہ اس معاملہ میںوہ مسلمان اور غیر مسلمان کافرق بھی نہیں کرتے۔ وہ کسی آبادی یا کسی بھی مجمع یا بلڈنگ میں دھماکہ کرکے ہزاروں لوگوں کو بے قصور مارڈالتے ہیں۔ یہ لوگ اتنے نادان ہیں کہ اس قسم کادھماکہ کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس سے خدا کو خوش کررہے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے اس فعل سے صرف شیطان کو خوش کر رہے ہوتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق، جنگ یا تشدد کسی بھی حال میںجائز نہیں ہے۔ کسی بھی شخص یاگروہ کے لیے ہر گز جائز نہیں کہ وہ بطور خود ایک نظریہ بنائے اور اُس خود ساختہ نظریہ کی بنیاد پر اپنے آپ کو درست سمجھتے ہوئے کسی کے خلاف تشدد شروع کردے۔
اسلام میں جنگ اور تشدد کے لیے بہت شدید قسم کی شرائط مقرر کی گئی ہیں۔ مثلاً جارحیت کے خلاف ایک جائز جنگ میں بھی صرف مقاتل (combatant) پر حملہ کیا جاسکتا ہے، غیر مقاتل (non-combatant) پر حملہ کرنا کسی بھی عذر کی بنا پر جائز نہیں(البقرۃ 190:) ۔ کسی انسان کو قتل کرنا اسلام کے نزدیک انتہائی حد تک ناروا فعل ہے۔
یہاں اس سلسلہ میں قرآن کی دو آیتیں نقل کی جاتی ہیں جس سے اس معاملہ کی شدت کا اندازہ ہوگا۔ پہلی آیت کا تعلق عام انسان سے ہے۔اس آیت کاترجمہ یہ ہے: اسی سبب ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جوشخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے آدمیوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اُس نے سارے آدمیوں کو بچا لیا۔ (5:32)۔
دوسری آیت مومن کے قتل کے بارے میں ہے۔ اُس کا ترجمہ یہ ہے: اور جو شخص کسی مسلمان کو جان کر قتل کرے تو اُس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اُس کے لیے بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔ (4:93)۔ قرآن کی یہ دو آیتیں وہ ہیں جن میں قتل کی بُرائی کو بیان کیا گیا ہے۔ جہاں تک قتل سے کم درجہ کے تشدد کی بات ہے، وہ بھی اسلام میں اتنا زیادہ نامحمود ہے کہ جو لوگ اُس میں ملوّث ہوں اور اُس سے توبہ نہ کریں تو اُن کا ایمان اور اسلام ہی مشتبہ ہوجائے گا۔
اس سلسلہ میں ایک حدیث رسول یہاں نقل کی جاتی ہے۔ اُس کا ترجمہ یہ ہے: خدا کی قسم، وہ مومن نہیں ہے۔ خدا کی قسم، وہ مومن نہیں ہے۔ خدا کی قسم، وہ مومن نہیں ہے، جس کی بری حرکتوں سے اُس کا پڑوسی امن میں نہ ہو (مسند احمد، حدیث نمبر 27162) ۔ خلاصہ یہ کہ اسلام میں صرف ایک ہی جنگ جائز ہے اور وہ کھلی جارحیت کے خلاف حکومت کے تحت دفاعی جنگ ہے۔ کوئی اور جنگ، مثلاً جارحانہ جنگ، بلا عنوان جنگ، کی اسلام میںاجازت نہیں۔ اس طرح وہ جنگیں بھی اسلام میں جائز نہیں ہیں جن کو پراکسی وار اور گوریلا وار کہا جاتا ہے۔اسلام مکمل معنوں میںامن اور رحمت کا مذہب ہے۔ کسی کے خلاف تشدد کرنا اسلام میںقطعاً جائز نہیں۔ کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ ایک خود ساختہ عذر تراشے اور اُس کے نام پر لوگوں کے خلاف تشدد شروع کردے۔
واپس اوپر جائیں

لائن آف ایکشن کا مسئلہ

1947 میں جب ہندستان آزاد ہوا تو اس کے بعدتمام مسلمانوں کے سامنے یہ سوال تھا کہ نئے ہندستان میں مسلمانوں کے لئے لائن آف ایکشن کیا ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک اس موضوع پر ہزاروں تحریریں سامنے آئیں اور ہزاروں جلسے کیےگئے۔ مگر آج بھی لوگ یہی پوچھتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے راہِ عمل یا لائن آف ایکشن کیا ہونا چاہیے۔
میرے نزدیک یہ مسئلہ لائن آف ایکشن کی غیر موجودگی کا نہیں ہے، بلکہ لائن آف ایکشن کے موجود ہوتے ہوئے اس کو عملاً قبول نہ کرنے کا ہے۔ مسلمانوں کے سامنے بار بار مختلف جماعتوں اور رہنماؤں کی طرف سے اپنے اپنے انداز میں اس سوا ل کا جواب دیا گیا ہے مگر آج تک کسی بھی جوا ب کو مسلمانوں میں عمومی قبولیت کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے 1948 میں لکھنؤ میں مشہور مسلم کنونشن کیا۔ اس موقع پر مولانا آزاد نے جو تقریر کی تھی، وہ آج بھی چھپی ہوئی موجود ہے۔ اپنی اس تقریر میں انہوں نے مسلمانان ہند کے سامنے یہ لائحہ عمل پیش کیا کہ وہ مسلم لیگ کو ختم کر دیں ،اور نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرلیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہندستان کے مسلمان فرقہ وارانہ بنیاد پر اپنی ملی پالیسی نہ بنائیں،بلکہ اپنی پالیسی مشترک قومی بنیاد پر بنائیں۔ نمائندگی کے اعتبار سے لکھنؤ کا یہ آل انڈیا مسلم کنونشن نہایت کامیاب تھا۔ مگر اس کے بعد ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان مولانا آزاد کے مشورہ کو اپنی ملی پالیسی کے طورپر اختیار کرلیں۔ ان کی ولولہ انگیز تقریر فضا میں تحلیل ہو کر رہ گئی۔
اسی طرح نہایت دھوم کے ساتھ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (1964) بنی ۔ ملک کے تقریباً تمام مسلم رہنما اس کے پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئے۔ مگر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیںنکلا۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے متفقہ طورپر ایک مسلم منشور تیار کرکے شائع کیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہندستان کے مسلمان اس ملک میں خیر امت کا کردار ادا کریں۔ مگر اس عنوان پر مسلمان عملاً متحرک نہ ہوسکے۔ یہاں تک کہ خود مسلم مجلس مشاورت بے اثر ہوکر رہ گئی۔
یہی معاملہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (1972) کا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بانی قائدین کے زمانہ میں متفقہ طورپر تعمیر ملت اور اصلاح معاشرہ کی تجویز پاس کی۔ اس پر کافی حد تک وہ کام بھی ہوا جس کو پیپر ورک کہا جاتا ہے۔ مگر یہ لائحہ عمل بھی مسلمانوں کے درمیان عملی قبولیت حاصل نہ کر سکا۔
اس طرح کچھ مسلم قائدین نے 1951میںوہ تحریک شروع کی جو پیام انسانیت کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان خود انسانی اقدار کو اپنائیں اور برادران وطن کو انسانی اقدار کی پیروی کی دعوت دیں۔ مگر جلسوں کی وقتی دھوم دھام کے علاوہ اس کا بھی کوئی عملی نتیجہ نہیں نکلا۔ انسانی اقدار کی پیروی کی فضا نہ مسلمانوں میں قائم ہوسکی اور نہ غیر مسلموں میں۔
اسی طرح 1900 میں بابری مسجد کے نام پر جلسہ اور جلوس اور ریلی کے زبردست ہنگامے شروع ہوئے۔ یہ سلسلہ پورے ملک میں جاری ہوگیا۔ اس تحریک کے مسلم لیڈروں نے یہ نعرہ دیا کہ مسلمان لاکھوں کی تعداد میں مارچ کرکے اجودھیا پہنچیں اور حملہ آور وںکے مقابلہ میں بابری مسجد کی حفاظت کریں۔ مگر اس مقصد کے لئے نہ چھوٹا مارچ ہوا اور نہ بڑا مارچ۔ یہاں تک کہ ’’حملہ آور‘‘ کسی مزاحمت کے بغیر 6 دسمبر 1992 کو اجودھیا میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے بابری مسجد کے ڈھانچہ کو توڑ کر اس کی جگہ ایک عارضی رام مندر (makeshift temple) تعمیر کر دیا۔
اسی طرح کچھ ممتاز مسلم لیڈروں نے یہ لائحہ عمل دیا کہ مسلمان اس ملک میں باعزت زندگی اس طرح حاصل کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی ووٹ کی طاقت کو اینٹی مسلم پارٹیوں کو ہرانے کے لئے استعمال کریں۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک اردو شاعر کا یہ شعر سنایا:
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے اگر کانٹوں میںہو خوئے حریری
ہر بار جب اسمبلی اور پارلیمنٹ کا الیکشن ہوتا ہے تو وہ وقت آتا ہے جب کہ مسلمان اس لائحۂ عمل کو اختیار کرکے مفروضہ اینٹی مسلم پارٹیوں کو ہرائیں اور مفروضہ پرومسلم پارٹیوں کو جتائیں۔ مگر ہر بار صرف یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ اپنے عدم اتحاد کی بنا پر منتشر ہوجاتا ہے۔ مذکورہ سیاسی مقصد حاصل کرنے کے بجائے مسلمان صرف یہ کرتے ہیں کہ وہ ہر الیکشن کے موقع پرتقسیم ہو کرووٹ کی طاقت کو ضائع کردیتے ہیں۔ الیکشن ان کے ووٹوں کا ایک سیاسی قبرستان بن کر رہ جاتا ہے۔
یہی معاملہ جمعیۃ علماء ہند کا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے تقریباً ہر موقع پر یہ لائحہ عمل پیش کیا ہے کہ مسلمان ایسا طریقِ کار نہ اختیار کریں جس میں ہندو اور مسلم کے درمیان ٹکراؤ کی فضا بنے۔ اس کے بجائے وہ خاموش تدبیر اور تعمیری اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے اپنا مسئلہ حل کریں۔ مگر ہر بار یہی ہوا ہے کہ مسلمان جمعیۃ علماء ہند کے بتائے ہوئے اس لائحہ عمل کو اختیار نہیں کر پاتے۔ گویا لائحہ عمل موجود ہے مگر لائحہ عمل کی قبولیت اور پیروی موجود نہیں۔
اس فہرست میں کسی قدر فرق کے ساتھ خود الرسالہ مشن کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ الرسالہ مشن کے تحت مسلمانوں کے سامنے نہایت واضح اور مدلّل انداز میں 1976 سے یہ لائحہ عمل پیش کیا جارہا ہے کہ مسلمان کا اصلی اور ابدی مشن دعوت ہے۔ اس ملک میں مسلمان اور برادران وطن کا تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی طرف سے مقرر کیےہوئے اپنے اس فریضہ کو پہچانیں۔ وہ دعوت کے آداب اور دعوت کی حکمتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس ملک میں دین حق کی پر امن پیغام رسانی کا کام انجام دیں۔ مگر رُبع صدی سے زیادہ مدت تک مسلسل جدوجہد کے باوجود ابھی تک مسلمانوں کی صرف ایک محدود تعداد ہی نے اس راہ عمل کوعملاً اختیار کیا ہے۔
یہ طویل تجربہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ راہ عمل کی غیر موجودگی نہیںہے بلکہ جذبۂ قبولیت کی غیر موجودگی ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے درمیان حقیقی کام کا آغاز صرف یہ نہیں ہوسکتا کہ تقریر یا تحریر کی صورت میں ایک راہِ عمل یا لائن آف ایکشن کا اعلان کردیا جائے۔ موجودہ حالات میں اس کے لیے شعوری تعمیر اور ذہنی بیداری کی ایک مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ پہلے شعوری اعتبار سے لوگوں میںمادّۂ قبولیت پیدا کیجئے، اُس کے بعد ہی راہِ عمل کے اعلان کا کوئی مفید عملی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے، اس کے بغیر ہر گز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دہشت گردی کیا ہے

آج کل آتنک واد یا دہشت گردی (terrorism) کا بہت زیادہ چرچا ہے۔ تقریباً ہر ملک میں اس موضوع پر لکھا اور بولا جارہا ہے۔ مگر میرے علم کے مطابق، ابھی تک اس کی کوئی واضح تعریف سامنے نہ آسکی۔ لوگ آتنک واد کی مذمت کرتے ہیں، مگر وہ بتا نہیں پاتے کہ آتنک واد متعین طور پر ہے کیا۔
راقم الحروف نے اس سوال کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، غیر حکومتی تنظیموں کا ہتھیار اُٹھانا آتنک واد ہے:
Armed struggle by non-governmental organizations.
اسلام آزادی کا حق تسلیم کرتا ہے۔ قومی یا سیاسی مقصد کے لیے پُرامن تحریک چلانے کا حق کسی بھی شخص یا جماعت کو حاصل ہے۔ یہ حق اُس کو اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک وہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر جارحیت کا ارتکاب نہ کرے۔ اسلام میں ہتھیار کا استعمال یا کسی حقیقی ضرورت کے تحت مسلّح عمل کا حق صرف باقاعدہ طور پر قائم شدہ حکومت کوحاصل ہے۔ غیرحکومتی تنظیموں (NGOs) کو کسی بھی عذر کی بنا پر ہتھیار اٹھانے کا حق حاصل نہیں ۔
مجرم کو سزا دینا، حملہ آور کے مقابلہ میںدفاع کرنا، اس طرح کے امور جو بین اقوامی اُصول کے مطابق، کسی قائم شدہ حکومت کو مسلّح کارروائی کا حق دیتے ہیں۔ یہی خود اسلام کا اصول بھی ہے۔ اس اُصول کی روشنی میں ٹیررزم کی تعریف یہ ہے — ٹیررزم اُس مسلح کارروائی کا نام ہے جو کسی غیرحکومتی تنظیم نے کی ہو۔ یہ غیر حکومتی تنظیم خواہ کوئی بھی عذر پیش کرے ، وہ ہر حال میں ناقابلِ قبول ہوگا۔ ایک غیر حکومتی تنظیم اگر یہ محسوس کرتی ہے کہ ملک میں کوئی بے انصافی ہوئی ہے یا حقوق کی پامالی کا کوئی واقعہ پیش آیا ہے تو اُس کو صرف یہ حق ہے کہ وہ پُر امن جدوجہد کے دائرہ میں رہـتے ہوئے اپنی کوشش کو جاری کرے۔ وہ کسی بھی حال میں اور کسی بھی عذر کی بنا پر تشدد کا طریقہ نہ اختیار کرے۔
کوئی فرد یا کوئی غیر حکومتی تنظیم اگر یہ کہے کہ ہم تو پُر امن عمل چاہتے ہیں مگر فریقِ ثانی پُر امن عمل کے ذریعہ ہمیں ہمارا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ ایسی حالت میں ہم کیا کریں۔ جواب یہ ہے کہ اس معاملہ کی ذمہ داری حکومت پر ہے، نہ کہ غیر حکومتی تنظیم پر۔ اگر کسی کا یہ احساس ہو کہ حکومت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی ہے تب بھی اُس کے لیے جائز نہیں کہ وہ حکومت کا کام خود کرنے لگے۔ ایسی حالت میں بھی اُس کے لیے صرف دو میں سے ایک راستہ کا انتخاب ہے—صبر یا پُر امن جدوجہد۔ یعنی یا تو پُر امن عمل کرنا، یا سِرے سے کوئی عمل ہی نہ کرنا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی دہشت گردی یا حکومتی تشدد کا حکم کیا ہے۔ یعنی حکومت اگر غیر مطلوب تشدد کا وہی کام کرے جو کوئی غیر حکومتی تنظیم کرتی ہے تو ایسی حالت میں اُس کا حکم کیا ہوگا۔ جواب یہ ہے کہ حکومتی تشدد حکومت کے لیے اپنے حق کا بے جا استعمال ہے، جب کہ غیر حکومتی تنظیم کے لیے تشدد ایک ایسا فعل ہے جس کو کرنے کا اُسے کوئی حق ہی نہیں۔ اور یہ واضح ہے کہ حق کے بغیر کسی فعل کو کرنا اور حکماً حق رکھتے ہوئے اُس کا بے جا استعمال(misuse) کرنا، دونوں ایک دوسرے سے نوعی طورپر مختلف ہیں۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر غیر حکومتی تنظیم تشدد کرتی ہے تو اُس سے اُس کا جواز پوچھے بغیر تشدد سے باز رہنے کا حکم دیا جائے گا۔ اس کے برعکس اگر کوئی باقاعدہ حکومت بے جا تشدد کرتی ہے تو اُس سے کہا جائے گا کہ تم کو چاہیے کہ اپنے حاصل شدہ حق کا صرف جائز استعمال کرو۔ حق کا ناجائز استعمال کرکے حکومت بھی اپنے آپ کو اُسی طرح مجرم بنالیتی ہے جس طرح کوئی غیر حکومتی تنظیم۔
مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھئے کہ کوئی باضابطہ سرجن اگر جسم کے غلط حصہ پر نشتر چلائے تو وہ اپنے حق کا بے جا استعمال کرنے کا مجرم ہوگا۔ ایک تربیت یافتہ سرجن کو صحیح مقام پر نشتر چلانے کا حق تو ضرور ہے مگر غلط مقام پر نشتر چلانے کا اُس کو کوئی حق نہیں۔ اس کے برعکس اگر ایک غیر سرجن کسی انسان کے جسم پر نشتر چلانے لگے تو اُس کا ایسا کرنا ہر حال میں غلط ہوگا کیونکہ ایک غیر سرجن کو نہ بظاہر درست مقام پر نشتر چلانے کا حق ہے اور نہ غلط مقام پر۔
واپس اوپر جائیں

غلط فہمی

یہ 13 مارچ 2002 کا واقعہ ہے۔ نئی دہلی کے کیٹ آفس (CAT office)میں ڈاکٹرشمس الآفاق صاحب اپنے کام سے گئے ہوئے تھے۔ وہاں حسب معمول دوسرے بہت سے لوگ تھے۔ ایک آدمی ان کے سامنے تھا۔ ڈاکٹر صاحب آگے جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس آدمی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کیا کہ مجھے راستہ دے دو۔ آفس میں اپنے کام سے فارغ ہوکر جب وہ نکلے تو گیٹ کے باہر دو آدمی کھڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک وہی شخص تھا جس کی پیٹھ پر ڈاکٹر صاحب نے ہاتھ رکھا تھا۔ اور دوسرا اس کا ساتھی تھا۔ دونوں صورت سے جاٹ معلوم ہوتے تھے۔
مذکورہ آدمی نے جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کو دیکھا وہ اچانک بگڑ گیا۔ وہ نہایت اشتعال انگیز لہجہ میں ان کو برا بھلا کہنے لگا۔ حتیٰ کہ اس نے کہا کہ راجند ر، تم کیا سمجھتے ہو، میں تم کو گولی مار دوں گا۔ ڈاکٹرشمس الآفاق صاحب اعراض کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اب تک بالکل خاموش تھے۔ جب اس آدمی نے راجندر کا نام لیا تو انہوں نے فوراً محسوس کیا کہ یہ غلط فہمی کا معاملہ ہے۔ ابھی وہ چپ ہی تھے کہ ان کے ساتھی مسٹر اشوک کمار نے کہا کہ بھائی، تم کو غلط فہمی ہوئی ہے، یہ تو ڈاکٹر شمس الآفاق ہیں۔ اور یہ فلاں سرکاری محکمہ میں افسر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ اس آدمی کو یقین نہیں آیا۔ شاید اس کے مفروضہ راجندر کی صورت ڈاکٹر صاحب سے کچھ ملتی جلتی تھی۔ اس کی طلب پر ڈاکٹر صاحب نے اپنی جیب سے اپنا آئڈنٹٹی کارڈ نکالا اور اس آدمی کو دکھایا۔ آئڈنٹٹی کارڈ کو دیکھتے ہی وہ ایسا ہوگیا جیسے پھولے ہوئے غبارہ کی ہوا اچانک نکل گئی ہو۔اور پھر وہ سر جھکا کر خاموشی کے ساتھ چلا گیا۔
اس واقعہ میں بہت بڑا سبق ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کے خلاف بُرا برتاؤ کرے تو فوراً اس کو اپنا دشمن نہ سمجھ لیجئے۔ عین ممکن ہے کہ اس کے برے برتاؤ کا سبب اس کی غلط فہمی ہو۔ اگر آپ صبر و اعراض کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اس سے نرمی کا معاملہ کریںتو عین ممکن ہے کہ آپ کی صحیح تصویر کو جاننے کے بعد اس کا رویہ بالکل بدل جائے۔ گولی مارنے کی بات کرنے والا آدمی آپ کو پھول کی پیش کش کرنے لگے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ بے صبری کا انداز آدمی کے نفس امارہ کو جگاتا ہے۔ اس کے برعکس صبر کا انداز اس کے نفس لوّامہ کو جگا دیتا ہے۔ نفس امّارہ کا جاگنا آدمی کوآپ کا دشمن بنا دیتا ہے، اور نفس لوّامہ کا جاگنا آدمی کو آپ کا دوست بنا دیتا ہے۔انسانی زندگی میں غلط فہمی پیدا ہونا ایک عام بات ہے۔ کسی بھی شخص کو کسی بھی شخص کے خلاف غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس لئے غلط فہمی پیدا ہونا بذاتِ خود کوئی جرم نہیں۔ جرم یہ ہے کہ غلط فہمی پیدا ہونے کے بعد وہ درست رویہ اختیار نہ کرے۔
اگر کسی شخص کو کسی کے خلاف غلط فہمی پیدا ہوجائے تو صرف غلط فہمی کی بنیاد پر اسے مان نہیں لینا چاہیے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ معاملہ کی تحقیق کرے۔ تحقیق کے بعد اگر وہ بات غلط ثابت ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ اس کو مکمل طورپر اپنے دل سے نکال دے۔ غلط فہمی کی تحقیق سے پہلے اس کا چرچا کرنا سخت گناہ ہے۔ ایک آدمی کسی کے بارے میں تحقیق کے بغیر بھلی بات تو کہہ سکتاہے مگر تحقیق کے بغیر بری بات کہنا سر تا سر حرام ہے۔ ایسی روش پر اللہ کے یہاں سخت پکڑ کا اندیشہ ہے۔
خدا کا پسندیدہ معاشرہ وہ ہے جس میں لوگوں کے باہمی تعلقات حسن ظن کی بنیاد پر قائم ہوں۔ کسی کے بارے میں کوئی بری بات معلوم ہو تو تحقیق کے بغیر ہی اس کو رد کر دیا جائے۔ اس قسم کی باتیں براہِ راست طور پر آخرت سے تعلق رکھتی ہیں۔حدیث میں آیا ہے کہ جو آدمی لوگوں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے، خدا آخرت میںاس کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے گا۔ دوسروں کے ساتھ بہتر سلوک کرنا ایک قسم کی عملی دعا ہے۔ ایسا آدمی گویا یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ خدایا، میںنے تیرے بندوں کے ساتھ بہتر معاملہ کیا، تو بھی میرے ساتھ بہتر معاملہ فرما، دنیا میںبھی اور آخرت میں بھی۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
چُپ رہنا مکمل معنوں میں ایک ذہنی عمل ہے البتہ جس آدمی کا ذہن جتنا زیادہ بیدار ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کا چپ رہنا با معنی ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

فطری شناخت

بے پردگی اور باپردگی دونوں اپنی حقیقت کے اعتبار سے علامتی الفاظ ہیں۔ باپردگی اس بات کی علامت ہے کہ عورت اپنی نسائیت کو محفوظ رکھتے ہوئے دنیا میں زندگی گزارے۔ اس کے برعکس،بے پردگی اس بات کی علامت ہے کہ عورت اپنی نسائیت کو کھودے، وہ اپنی فطری شناخت کو مٹا کر ایک قسم کی مصنوعی زندگی گذارنے لگے۔
حدیث کی کتابوں میںایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: أنہ لعن المتشبہات من النساء بالرجال، والمتشبہین من الرجال بالنساء(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4097)۔ یعنی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کی مشابہت کریں۔ اسی طرح آپ نے اُن مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی مشابہت کریں۔ یہ وہی چیز ہے جس کو شناخت (identity) کہا جاتا ہے، مرد اگر اپنی فطری وضع کو چھوڑ کر عورت کی مانند بن جائے اور عورت اگر اپنی فطری وضع کو چھوڑ کر مرد کی طرح بن جائے تو یہ دونوں ہی اللہ کے یہاں سخت مبغوض ہیں۔ اللہ نے جس کو حیسی وضع کے ساتھ بنایا ہے وہی اُس کی فطری پہچان ہے۔ مرد اور عورت دونوں کو چاہیے کہ وہ اس فطری وضع کو کسی حال میں نہ چھوڑ یں۔ وہ فطرت کی وضع پر قائم رہتے ہوئے زندگی گذاریں۔
باپردگی کسی عورت کے لیے اس بات کی علامت ہے کہ وہ اپنی فطری نسائی قدروں کو محفوظ کیے ہوئے ہے۔ وہ قدریں یہ ہیںـــسنجیدگی، پاکدامنی، اصول پسندی، شرافت ،حساسیت، فرائض کی اہمیت، بامقصدیت، وغیرہ۔ اس کے مقابلہ میں بے پردگی اس بات کی علامت ہے کہ عورت اپنی نسائی قدروں کی حفاظت میں ناکام رہی ہے۔ وہ کھوئی ہوئی قدریں یہ ہیں— غیر سنجیدگی ، اخلاقی بے قیدی، عدم شرافت، بے حسی، فرائض حیات سے بے رغبتی اور بے مقصدیت، وغیرہ۔
پردہ کا مطلب معروف معنوں میں، محض ’’برقعہ‘‘ یا سرپر اسکارف باندھنا نہیں ہے۔ پردہ کسی عورت کے بااصول ہونے کی ایک پہچان ہے۔ ایسی عورت اپنی نسائی شناخت کے ساتھ دوسروں کو بتاتی ہے کہ وہ ایک بامقصد خاتون ہے۔ وہ واجبات حیات کو ہر قیمت پر ادا کرنے والی ہے۔
اصولی اور معیاری اعتبار سے اسلام میں عورت اور مرد کا مقام عمل (workplace) الگ الگ ہے۔ یعنی اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح باہر کام کریں۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ باپردہ ہوں اور اُن کا مقام عمل مردوں سے الگ ہو۔
تاہم حالات کے مطابق، اگر یہ ممکن نہ ہو کہ عورت مردوں سے مکمل طورپر الگ رہ کر کام کرے تو معاشی اور سماجی ضرورت کے تحت اس شرط میں رخصت دی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ ضروری تقاضہ کی بنا پر مقامِ عمل تو پوری طرح الگ نہ ہو مگر پھر بھی یہ ضروری ہوگا کہ عورت باپردہ ہونے کی شرط کو نہ چھوڑے۔ وہ اپنی نسائی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے مشترک مقامات عمل پر اپنا کام کرے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
سجدہ اظہار عبودیت کا آخری ماڈل (final model) ہے۔ اس دنیا میں اللہ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے آخری ماڈل پر ہے۔ چیونٹی، شیر، دریا، پہاڑ، درخت، انسان، غرض ہر چیز، حتی کہ گھاس بھی اپنے آخری ماڈل پر ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا آرٹسٹ بھی کسی چیز کا کوئی اور ماڈل تیار نہ کرسکا۔ اس دنیا کی ہر چیز اتنی مکمل ہے کہ اس کے آگے تکمیل کا کوئی اور درجہ پانا انسانی عقل کے لئے ممکن نہیں۔
یہی معاملہ اسلامی عبادت کا ہے جو اللہ نے انسان کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم جزء سجدہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ واسجد واقترب (96:19)۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سجدہ انسانی عبودیت کے اظہار کا آخری ماڈل ہے، اس کے آگے کوئی اور ماڈل قابل تصور نہیں۔ اس لئے وہ موجودہ دنیا میں قربتِ الٰہی کا بھی آخری لمحہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

صحبت کا فلسفہ

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اصحاب رسول کو اسلام میں جو امتیازی درجہ ملا وہ صحبت رسول کی بنا پر تھا۔ یہ بات بجائے خود صحیح ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحبت کوئی پُر اسرار (mysterious) چیز ہے، اور اُس کی پُر اسرار تاثیر کے نتیجہ میں اصحاب رسول کو یہ فائدہ حاصل ہوا۔ یہ نظریہ درست نہیں۔ کیوں کہ اس نظریہ میںاس واقعہ کی توجیہہ موجود نہیں کہ مدینہ کے سیکڑوں دوسرے لوگ جو بظاہر ایمان لائے اور پیغمبر کی صحبت میں بار بار بیٹھے، مگر وہ آپ کی صحبت سے فیض حاصل نہ کرسکے اور اسلام کی تاریخ میں منافق کہلائے گئے۔اصل یہ ہے کہ اعلیٰ ایمان حاصل کرنے کا ذریعہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے ذہنی ارتقا۔ ایمان قبول کرنے کے بعد آدمی کے اندر معرفت کے رُخ پر ایک تفکیری عمل (thinking process) جاری ہوتا ہے۔ یہ تفکیری عمل ہی در اصل اعلیٰ ایمانی درجہ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔پیغمبر کی صحبت میں در اصل یہی تفکیری عمل جاری رہتا تھا۔
لوگ آپ کی باتوں کو سنتے، وہ آپ کی باتوں کو اپنے ذہن میں اس طرح جگہ دیتے کہ وہ اُن کے ذہن میں ہلچل پیدا کردیتا۔ اس طرح اُن کے اندر تفکیرکا عمل مسلسل ہر صبح و شام جاری رہتا۔ رسول اللہ کی صحبت اس تفکیری عمل کا ذریعہ تھی، اس لیے اُس کو صحبت رسول سے منسوب کردیا گیا۔تاہم پیغمبر کی باتیں سننا کافی نہیں۔ پیغمبر کی باتیں صرف اُس انسان کے لیے مفید بنیں گی جو ریسیپٹیو(receptive) ہو، جو یکسو ہو کر سُنے، اورپھر نفسیاتی پیچیدگی سے اوپر اٹھ کر اُس کو قبول کرسکے۔ صحابہ میں یہ قبولیت موجود تھی اس لیے اُن کو صحبت رسول کا فائدہ حاصل ہوا۔ منافقین کے اندر یہ قبولیت موجود نہ ـتھی اس لیے وہ صحبت رسول کے باوجود اُس کا فائدہ نہ پاسکے۔یہی معاملہ بعد کے دور کے علماء اور بزرگوں کا ہے۔ اُن میں سے کسی کی صحبت میں پُر اسرار تاثیر نہیں۔ یہ معاملہ تمام تر صحبت میں بیٹھنے والوں کی اپنی استعداد پر منحصر ہے۔ جن افراد کے اندر مادّہ قبولیت ہوگا وہ صحبت کا فائدہ حاصل کرسکیں گے۔ اور جن افراد کے اندر قبولیت کا مادہ نہ ہوگا وہ فائدہ سے محروم رہیں گے۔
واپس اوپر جائیں

بے بنیاد شکایت

ہندستان کے ایک مسلمان تاجر ہیں۔ پہلے وہ الرسالہ کے باقاعدہ قاری تھے۔ پھر ایک مسئلہ پر اُن کو شکایت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمیشہ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں اور ہندوؤں کے خلاف کبھی نہیں لکھتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہندوؤں کے ایجنٹ ہیں۔ آپ کو ہندوؤں کی طرف سے اس کام کے لئے پیسہ ملتا ہے کہ آپ ہندو— مسلم معاملات میں مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔ اس قسم کی بات کہہ کر اُنہوں نے الرسالہ کی خریداری بند کردی۔ اُنہوں نے نہ صرف الرسالہ کا مطالعہ چھوڑ دیا بلکہ وہ اس کے مخالف بن گئے۔
کئی سال بعد 16 اپریل 2002ء کو دہلی میں اُن سے ملاقات ہوئی۔ میںنے کوئی اختلافی بات کیے بغیر اُن سے کہا کہ آپ اپنی زندگی کا کوئی خاص تجربہ بتائیے۔ اُنہوں نے کہا کہ میرا تجربہ یہ ہے کہ مسلمان دنیا کے سب سے زیادہ غیر سنجیدہ لوگ ہیں۔ اُن کے الفاظ میں ، مسلمان لفظ کا اگر انگلش ترجمہ کیا جائے تو وہ اِن سینسیر(insincere) ہوگا۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ اسی ذاتی تجربہ کی بنیاد پر اُنہوں نے اب اپنا پارٹنر ایک ہندو کو بنایا ہے۔ ہندو کی پارٹنر شپ میںان کا کاروبار کافی ترقی کررہا ہے۔
مگر عبرت انگیز بات ہے کہ مذکورہ مسلم تاجر نے نجی ملاقات میں تو یہ بات کہی لیکن وہ اس بات کو اسٹیج پر کہنے کے لیے تیار نہ تھے۔ نیز اُنہوں نے الرسالہ کی نسبت سے اپنی پچھلی غلطی کا اعتراف بھی نہیں کیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ کا یہی دہرا معیار موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کے جو صاحب فہم اور صاحبِ علم افراد ہیں وہ اپنی نجی گفتگو میں ہمیشہ اس قسم کی بات کرتے ہیں مگر وہ پبلک میں اُسے کہنے کے لیے تیار نہیں ۔ اس دہرا معیار کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنا معاملہ تو ہوشیاری کے ساتھ درست کیےرہتے ہیں مگر مسلم عوام کو ذہنی گمراہی میں ڈال کر اُنہیں اُس کا انجام بھگتنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
اس قسم کے لوگ اپنا ذاتی مسئلہ تو ہوشیاری کے ساتھ درست کر لیتے ہیں، مگر وہ عوام کو بدستور بے شعوری کی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔ تاکہ وہ اُس کی بھاری قیمت ادا کرتے رہیں، اور کبھی ترقی نہ کرسکیں۔ ترقی کے لیے صحیح طریقہ غیر جانبدارانہ انداز میں نصیحت کا طریقہ ہے۔ مگر مسلمانوں میں کوئی غیر جانبدارانہ نصیحت کی بولی بولنے کے لیے تیار نہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات کو میں 1947 سے مسلسل دیکھتا رہا ہوں۔ میرا تجربہ ہے کہ مسلمان اپنے مسئلہ کاحل قرآن میںنہیں ڈھونڈتے، وہ دوسروں کی باتیں سُن کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ اسلام اُن کی زندگی کا صرف ایک رسمی حصہ ہے۔ اسلام اُن کا قومی کلچر ہے، وہ اُن کا دین نہیں۔ موجودہ مسلمانوں کی اجتماعی سوچ اور اُن کی ملّی پالیسی قرآن سے ماخوذ نہیں۔
اپوزیشن پارٹیوں کے بیانات، ہیومن رائٹس اور کمیشن کی رپورٹیں، تعلیم یافتہ طبقہ کا اظہار خیال، یہی مسلمانوں کی ذہن سازی کے ذریعے ہیں۔ اُن کا مشترک طریقہ یہ ہے کہ وہ حالات کو قانون اور منطق کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ جب بھی اُنہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی تو خُدا نے اس آگ کو بجھا دیا (المائدۃ 64:)۔
اس اعتبار سے دیکھئے تو دوسروں کا طریقہ آگ بھڑکانے والوں کا ہے ۔جب کہ قرآن کے مطابق، مسلمانوں کا طریقہ آگ بجھانے کا ہونا چاہیے، نہ کہ ایسا طریقہ اختیار کرنا جو آگ کو مزید بھڑکانے کا سبب بن جائے— اس طرح کے معاملات میں قرآن کا طریقہ اصلاحِ خویش کے اصول پر قائم ہے، اور دوسروں کا طریقہ احتساب غیر کے اصول پر۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی نعمتوں کو دیکھ کر آخرت کی نعمتوں کو یاد کرے۔ مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ قرآن کے مطابق، دنیا میں گم ہو کر آخرت کو بھول گئے ہیں (الدھر 27:)۔
واپس اوپر جائیں

سکون کا سرچشمہ

انڈیا کے سابق وزیر خارجہ مسٹر نٹور سنگھ (پیدائش 1931) اپنے وسیع مطالعہ کے لیے مشہور ہیں۔ اُن کے ساتھ ایک شدید خاندانی حادثہ ہوا۔ اُن کی جوان بیٹی ریتو، اور جوان بہو نتاشا صرف ایک مہینہ کے وقفہ سے حادثہ کا شکار ہو کر مرگئیں۔ اس کے فوراً بعد کانگریس کی صدر مسز سونیا گاندھی اُن کی تعزیت کے لیے نئی دہلی میں اُن کے گھر گئیں۔ اُس وقت مسٹر نٹور سنگھ اپنے کمرۂ مطالعہ (study room) میں تھے۔ یہاں انہوں نے دنیا بھر کی دس ہزار منتخب کتابیں اکٹھا کی ہیں۔ مسٹر نٹور سنگھ نے اُن کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسز سونیا گاندھی سے کہا کہ ان کتابوں میں دنیا بھر کی حکمت موجود ہے۔ صدیوں کی حکمت کا خلاصہ یہاں پایا جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بھی ایسی کتاب موجود نہیں جس کو پڑھ کر میںاپنے آپ کو تسکین دے سکوں:
Here you have the wisdom of the world, wisdom of the ages in concentrated form, but there is not a book I could pick up to console myself. (Hindustan Times, New Delhi, June 2, 2002, p. 14)
مسٹر نٹور سنگھ کیوں اپنے کمرۂ مطالعہ میں وہ کتابیں نہ پاسکے جو اُنہیں مذکورہ حادثۂ موت کے موقع پر تسکین دے سکے۔ اس کا جواب خود اس انٹرویو کے اندر موجود ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مسٹر نٹور سنگھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں مذہب میں یقین نہیں رکھتا، البتہ میں روحانیت کو مانتا ہوں۔
I don't believe in religiosity. I believe in spritualism.
مذہب کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، اور روحانیت کا فکری نظام خود انسان کے اپنے تصور پر۔ خدا کے عقیدہ سے الگ ہو کر روحانیت کا جو تصور ہے وہ اس مفروضہ پر قائم ہے کہ انسان کے اندر امکانی طورپر سب کچھ چھپا ہوا ہے، اس لیے تم اپنی داخلی دنیا میں دھیان لگاؤ، اور وہاں تم کو سب کچھ مل جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کو جو کچھ پانا ہے وہ خود اپنے آپ سے پانا ہے۔ یہ ایک خیالی نظریہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جو انسان مسئلہ کا شکار ہو وہ خود ہی اپنے مسئلہ کا حل کیسے بنے گا۔
مذہب جس کی نمائندگی اسلام کرتا ہے، اُس کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ مذہبِ اسلام کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، یعنی وہ ذات جو قادر مطلق ہے اور جس نے انسان کو قرآن کی صورت میں کامل رہنمائی عطا فرمائی ہے۔
قرآن میں مذکورہ قسم کے مسئلہ کا حل واضح طورپر ملتا ہے۔ اس سلسلہ کا ایک براہ ِ راست حوالہ یہ ہے— اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اورجانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ او ر ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو جن کا حال یہ ہے کہ جب اُن کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ (البقرہ155-156:)
اس قرآنی تصور کے مطابق، ہر انسان جو دنیا میں آتا ہے وہ صرف اس لیے آتا ہے کہ وہ ایک مقرر مدت پوری کرنے کے بعد یہاں سے چلا جائے۔ گویا انسان کی موت ایک ایسا واقعہ ہے جو بہرحال ہونے والا تھا، اور وہ اپنے ٹھیک وقت پر ہوگیا۔ اس اعتبار سے موت ایک فطری حقیقت ہے، ایک ایسی فطری حقیقت جس کی تبدیلی پر انسان قادر نہیں۔یہ عقیدہ انسان کے اندر اعترافِ حقیقت کا ذہن پیدا کرتا ہے، اور حقیقت کا اعتراف اپنے آپ انسان کو وہ چیز دے دیتا ہے جس کو مسٹر نٹور سنگھ نے تسلّی (console) سے تعبیر کیا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
انسانوں میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ایک بار اختلاف کردیں تو اس کے بعد وہ اس پر اس طرح جم جائیں کہ وہ اپنے اختلاف کو کبھی ختم نہ کریں۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو اختلاف کے ساتھ اعتراف کرنا بھی جانتے ہوں۔ جن کے اختلاف کی ایک حد ہو، ایک حد کے بعد وہ اپنا اختلاف ختم کردیں اور دل میں کوئی شکایت رکھے بغیر فریق ثانی کے ساتھ متحد ہوجائیں۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی سکون

موجودہ زمانہ کا شاید سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج کسی بھی انسان کو ذہنی سکون حاصل نہیں۔ تقریباً ہر آدمی ذہنی تناؤ اور فکری الجھن میں مبتلا ہے۔ خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خواہ وہ سامان والا ہو یا بے سروسامان۔ کچھ سال پہلے بنگلور کے ایک کمپیوٹر انجینئر کو اس کی ایک ایجاد پر امریکہ کی ایک کمپنی کی طرف سے 750 ملین ڈالر اچانک مل گئے۔ مگر اس غیر معمولی دولت نے اس کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کردیا۔ یہاں تک کہ صرف ایک سال کے اندر اس کا یہ حال ہوا کہ اس کی نیند ختم ہوگئی اور رات کے وقت وہ نیند کی گولیاں کھا کر سونے لگا۔ موجودہ دنیا کے بیشتر لوگوں کا حال کم وبیش یہی ہے، خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے۔
اس مسئلہ کا عام طور پر دو حل بتایا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ زیادہ سے زیادہ دولت کماؤ تاکہ زیادہ سے زیادہ راحت کے سامان حاصل کرسکو۔ مگر تجربہ واضح طورپر اس کی تردید کرتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے بے شمار دولت کمائی اور راحت اور آرام کے تمام سامان اپنے پاس اکٹھا کرلئے۔ مگر ان سب کے باوجود وہ سکون اور چین سے محروم رہے یہاں تک کہ مرکر اس دنیا سے چلے گئے۔
اصل یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے معیار پسند(perfectionist)ہے۔ جب کہ موجودہ دنیا ہر اعتبار سے غیر معیاری(imperfect) ہے۔اس صورت حال نے انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان ایک تضاد پیدا کردیا ہے۔ اسی تضاد کا یہ نتیجہ ہے کہ کوئی انسان ہر قسم کے دنیوی سامان کو حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ دنیا کی ہر چیز اس کو اپنے ذہنی معیار سے کم تر معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے وہ ان کو پاکر بھی مطمئن نہیںہوتا۔بظاہر راحت کے سامان کے درمیان بھی وہ ہمیشہ ایک قسم کے غیر شعوری عدم اطمینان میں مبتلا رہتا ہے۔ فطرت کا یہ قانون ثابت کرتا ہے کہ دنیوی راحت کے سامانوں میں ذہنی سکون تلاش کرنا ایک ایسا بے سود عمل ہے جو کبھی کار آمد بننے والا ہی نہیں۔
دوسرا حل وہ ہے جو خاص طور سے یوگا کے مبلغین کی طرف سے بتایا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے ملک کے اندر اور ملک کے باہر بہت سے میڈیٹیشن سینٹر قائم کیےہیں۔ یہاںدھیان اور میڈیٹیشن کے ذریعہ لوگوں کو ذہنی سکون کی تربیت دی جاتی ہے۔ اُن کا طریقہ یہ ہے کہ مخصوص مراقبہ کے ذریعہ انسانی ذہن میں سوچ کے عمل کو معطّل کر دیا جائے تاکہ وہ پریشانی کو شعوری طور پر محسوس کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ مگر اس قسم کا ذہنی سکون حقیقتاً ذہنی تخدیر(mental anesthesia) کے ہم معنٰی ہے۔ یہ انسان کی اعلیٰ فکر ی صلاحیت کو کند کرکے اس کو بے حس حیوان کی سطح پر پہنچا دینا ہے۔ اس قسم کا ذہنی سکون، اگر بالفرض حاصل بھی ہو جائے تب بھی وہ یقینی طور پر غیر مطلوب چیز ہے۔ کیوں کہ جو چیز انسان کی اعلیٰ فکر ی صلاحیت کو دبا دے۔ وہ گویا انسان کو کوما(coma) کی حالت میں پہنچانا ہے۔ ایسا ذہنی سکون انسانی موت ہے ،نہ کہ انسانی زندگی۔
میڈیٹیشن(meditation) کا یہ طریقہ فطرت کے نظام کی تردید ہے۔ فطرت نے انسان کو جو سب سے اعلیٰ چیز دی ہے وہ اس کا دماغ (mind) ہے ۔ فطرت کے نقشے کے مطابق، دماغ کے لئے پریشانیوں کا پیش آنا کوئی برائی کی بات نہیں۔ یہ دراصل زحمت میں رحمت(blessing in disguise) ہے۔ فطرت نے انسان کی ذہنی ترقی کے لئے شاک ٹریٹمنٹ کا طریقہ رکھا ہے۔ ایسی حالت میں شاک ٹریٹمنٹ کے عمل کو ختم کرنا انسان کی ذہنی ترقی کے دروازہ کو بند کرنا ہے۔ اس اعتبار سے یہ طریقہ فطرت کے نظام کے خلاف ہے اور جو چیز فطرت کے نظام کے خلاف ہو وہ اپنے آپ قابل رد ہوجاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ذہنی پریشانی(mental tension) کے مسئلہ کا حل ذہنی پریشانی کو ختم کرنا نہیںہے بلکہ اس کو مینج (manage) کرنا ہے۔ فکری تدبیر کے ذریعہ اس کو اس طرح غیرمؤثر کر دینا ہے کہ وہ عملاً تو انسان کے لئے پیش آئے، مگر وہ انسان کے ذہنی سکون کو برہم (disturb) نہ کرسکے۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے ایک مثال لیجئے۔ دہلی میں ایک 30 سالہ نوجوان ہیں جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر ہیں۔ ان کو وہاں 75 ہزار روپیہ مہینہ ملتا ہے، اور دوسری سہولتیں حاصل ہیں۔ مگر چونکہ ان کمپنیوں میں ہائر اینڈ فائر کا اصول ہے، اس لئے وہ ہمیشہ ذہنی پریشانی میں مبتلا رہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہمیشہ سروس سے محرومی کا اندیشہ(fear of losing one’s job) ستاتا رہتا ہے، نہ دن کو سکون رہتا ہے اور نہ رات کو۔ میںنے انہیں سمجھایا اور کہا کہ میں آپ کو ایک فارمولا دیتا ہوں، اگر آپ اس کو پکڑ لیں تو آپ کا ذہنی سکون کبھی برہم ہونے والا نہیں — ایک شخص آپ کا روز گار چھین سکتا ہے مگر وہ کبھی آپ کی قسمت کو آپ سے چھین نہیں سکتا:
One can take away your job. But no one has the power
to take away your destiny.
مذکورہ نوجوان نے اس فارمولا کو پکڑ لیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ دوبارہ ملے، اور انہوں نے کہا کہ اب مجھے پوری طرح ذہنی سکون حاصل ہوگیا ہے۔ اب میں اطمینان کے ساتھ سوتا ہوں، اور اطمینان کے ساتھ دن گزارتا ہوں۔ اسی طرح ہر آدمی اپنی ذہنی پریشانی کو مینج کرکے اس کو ڈیفیوز (defuse)کر سکتا ہے۔ وہ ذہنی پریشانیوں کے باوجود ذہنی سکون کی زندگی حاصل کرسکتا ہے، بغیر اس کے کہ وہ اپنی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہوا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کا دماغ اتھاہ صلاحیتوں کا خزانہ ہے۔ تمام ذہنی پریشانیوں کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال نہ کرسکنا۔ اسی طرح تمام ذہنی پریشانیوں کا حل بھی صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروقت استعمال کرلینا۔
ایک بڑے شہر کے ایک تاجر ہیں۔ اُنہوں نے ایک سامان(production) تیار کیا۔ اس میں انہوں نے پچاس لاکھ روپئے لگا دئیے۔ سامان جب تیار ہوا تو اس کے بعد اچانک مارکیٹ میں اس کا دام بہت گر گیا۔ مجبوراً اُنہیں اپنے سامان کو گودام میں رکھ دینا پڑا۔ اس حادثہ کا اُن پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ وہ بیمار پڑ گئے۔ ان کا بلڈ پریشر بڑھ گیا۔ راتوں کی نیند غائب ہوگئی۔ وہ اعصابی کمزوری کا شکار ہوگئے۔
اُن سے میری ملاقات ہوئی تو میںنے انہیں سمجھایا۔ میں نے کہا کہ آپ اس معاملہ کو صرف حال(present) کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔ آپ اپنی اس سوچ کو بدلیے اور معاملہ کو مستقبل(future) کے اعتبار سے دیکھنا شروع کر دیجیے۔ آپ سادہ طورپر صرف اتنا کیجیے کہ اس معاملہ کو انتظار کے خانہ میں ڈال دیجیے۔ انہوں نے میری نصیحت پکڑ لی۔ اس کے تقریبا دو سال بعد اُن کا خط آیا جس میں انہوں نے خوشی کے ساتھ لکھا تھا کہ میرا تمام سامان نفع کے ساتھ فروخت ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز کا انحصار سوچنے کے طریقہ پر ہے۔ اگر آپ ایک طریقہ سے سوچیں تو آپ کا ذہن ایک ڈھنگ کا بنے گا اور اگر آپ دوسرے طریقہ سے سوچیں توآپ کا ذہن دوسرے ڈھنگ پر کام کرنے لگے گا۔ اس طرح ہر مایوسی کو اعتماد میں بدلا جاسکتا ہے اور ہر پست ہمتی کو بلند ہمتی میں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
قرآن میں پیغمبر کو حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے: وَجَاہِدْہُمْ بِہِ جِہَادًا کَبِیرًا (25:52)۔ یعنی تم ان کے ساتھ قرآن کے ذریعہ جہاد کبیرکرو۔ ظاہر ہے کہ جہاد کبیر کے لئے قوت کبیردرکار ہے۔ آپ کسی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم پنسل کے ذریعہ بڑی لڑائی کرو۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کی نظر میں قرآن خود ایک بڑی طاقت ہے۔ گویا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ بڑا جہاد کرو بڑی طاقت کے ذریعہ جیسا کہ قرآن ہے:
Do great jihad with the great power that is the Quran.
اس سے مزید یہ نکلتاہے کہ نظریہ کی طاقت تمام طاقتوں سے زیادہ بڑی طاقت ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو قرآن کے ذریعہ جہاد کبیرکا حکم دینے کا کوئی مطلب نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ نظریاتی طاقت سیاسی طاقت سے بہت زیادہ بڑی ہے:
Ideological power is greater than political power.
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 254

■ مسٹرساجد انور (ممبئی) سی پی ایس کے ایک بہت فعال ممبر ہیں۔ ان کی دعوت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ مختلف لوگوں کو سی پی ایس ویب سائٹ (www.cpsglobal.org)کے سبسکرپشن پیج سے منسلک کردیتے ہیں۔ یا سی پی ایس کے واٹس ایپ نمبر (9999944119)سے متصل کردیتے ہیں۔اس طرح ان کو سی پی ایس سے وزڈم کی باتیں ملتی رہتی ہیں، جو ان کے لیے رہنمائی کا کام کرتی ہیں۔ ذیل میں ایک تاثر دیا جارہا ہے، جو ان کے ایک دوست نے ان کو لکھا ہے:
Hello Sajid ji, hope you and your family are doing well. Nowadays I am missing your earlier regular Blogs from Maulana Wahiduddin Khan about a movement based on love, not hate. Are you still getting them regularly?? If so, please share with me. (A Shyamala Murtha, GAIL [India] Limited)
■ صدر اسلامی مرکز کے سوال و جواب پر مبنی مضامین اب سوال و جواب کی مشہور شوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ کورا (Quora) پر آنا شروع ہوگئے ہیں (لنک اس خبر نامہ کے آخر میں موجود ہے)۔ اس سلسلہ میںایک تاثر دیا جارہا ہے، جو مسٹر وجئےراج کامت نےکورا پر لکھا ہے:
Absolute joy to see you on Quora, sir! I have been a fan of yours ever since I read your article on the sacred space in The Times of India. Really need more voices of reason and patience on this site, when it comes to providing perspectives on Islam, peace, identity, wars, etc. Big welcome! I have reported your joining on the Quora Indian writers’ forum. Will try my best to socialize your answers as much as possible. (Vijayraj Kamat, speaker, author and life coach)
ثکیرالا میں مسٹر شبیر علی، الرسالہ مشن کو پھیلا رہے ہیں۔ انھوں ایک صاحب کو ملیالم زبان میں ملیالم ترجمۂ قرآن اور کچھ دعوتی لٹریچر بھیجا تھا۔ اس کا تاثرخود مسٹر شبیر علی کےالفاظ میں درج ذیل ہے:
We have received several responses from Keralites after reading the Malayalam translation of Maulana’s What is Islam. Today I received this message from a young educated person: Thank you, I’m really pleased to receive and read this insightful book. It is a small book with comprehensive knowledge about Islam, spirituality and its practice. The presentation, structure of paragraphs and progress of subjects itself prove the scholarly achievements and spirituality of Great Maulana. I guess you have translated this book. Insha Allah, I will get few of these to gift to some of my friends who I believe will benefit from it. Reading this book was a joy and I believe it has increased my faith. I have got 21 Quran translations and am successfully passing on to those who deserve it with prudence. (Shabeer Ali, Kozhikode)
■ آج کے دور میں ہر سنجیدہ انسان قرآن کو پڑھنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک امریکن عیسائی نن کا تاثر ذیل میںدیا گیا ہے، جو اس بات کے لیے کافی ہے کہ دعوت کا کام ہر پیمانے پر ہونا چاہیے:
I am a Catholic nun and want to study the Quran to understand what Muslim people are truly taught. I firmly believe that violence never brings peace. Thank you for your consideration. Peace and Allah’s Blessings upon your work for peace. (Mary Fisher, Blanco, New Mexico, USA)
■ امریکا میں دعوت کا کام تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ خواجہ کلیم الدین صاحب (موبائل 617-960-7156) امریکا اور کناڈا میں سی پی ایس مشن کے تحت دعوتی کام کو پھیلا رہے ہیں۔اس سلسلے میں امریکا سے خواجہ کلیم الدین صاحب لکھتے ہیں:
1. The demand for the Quran has increased manifold with the change of political climate here. Two people, one brother from Florida and one sister from Mississippi, who had requested free Quran online are now working to spread the message of God on their own in their respective areas among their friends and families . (Khaja Kaleemuddin, Pennsylvania, USA)
2. Thank you very much for the beautiful books brother Khaja! I have added these books to my personal library to read and study them. The extra copies, I will distribute to my family! I have distributed about 9 packages of Maulana's books to my coworkers, neighbours, and to several other people in my neighborhood! It’s been a wonderful experience and opportunity spreading the message of God’s creation plan with people! I really enjoy my dawah work, and I acknowledge that I am growing and improving in my faith, spirituality, and building a stronger, closer relationship with God! Presently, I’m in the process of connecting with clinics, hospitals, and community centers to conduct my dawah work by distributing Maulana Wahiduddin Khan’s books! (Yvette Francine Gray, Greenville, Mississippi, USA)
■ ذیل کا تاثر خواجہ کلیم الدین صاحب (امریکا )نے بھیجا ہے، جو ان کو قرآن ملنے پر مس مارلی نےلکھا تھا:
Good morning, I received my package this past Saturday and wanted to thank you very much. The Quran is so beautiful and I didn't expect to be blessed with all the other books. Thank you so much and may Allah bless you! (Marieli Agosto, Texas)
■ دعوت کی راہ میں خدا کی مدد کیسے آتی ہے، اس سلسلے میںدرج ذیل واقعہ کو دیکھیے۔یہ واقعہ مس سیما جلال کے ساتھ پیش آیا جو کہ ڈاکٹر نغمہ صدیقی کی بہن ہیں۔ واضح رہے کہ یہ پوری فیملی اپنے جان اور مال اور وقت سے سی پی ایس کا دعوتی مشن آگے بڑھانے میں لگی ہوئی ہے۔
I went to visit a friend, who had recently lost her husband. She is an elderly lady, in her late sixties. There were other ladies there. Each was trying to give their advice on how to cope with grief. In the discussion, they started mentioning their respective gurus. I also spoke about CPS and Maulana—that he has written books on spirituality and his articles regularly come in the Speaking Tree. At this, my friend replied that she had a book, which was published recently, containing various articles from the Speaking Tree. While she was speaking, I started going through the book to find Maulana’s article. She was saying that we take life for granted. Before she could finish the sentence, I opened a page in the book. This had Maulana’s article titled ‘Taking Life for Granted’. Both of us were amazed. She said: "What just happened was very strange, and she was deeply touched.'' I then gave her the pamphlet The Reality of Life. I had been trying to find an opportunity to give it to her, and through this incident God made it easy. (Seema Jalal, Dubai)
■ مس سیما جلال نے یہ دوسرا تاثر بھی لکھا ہے:
Dear Seema, Allah bless you for gifting to me the precious book titled Quranic Wisdom by Maulana Wahiduddin Khan. Being a slow reader in order to absorb what I am reading, I have read half of the book and have decided to gift this book to known people who have even a little inclination to read for development of their positive spirituality and for my selfish reason of spreading Quranic wisdom in the simplest narrative reflected in our daily life and thereby earn the blessings of Allah. Allah in his kindness provided to me the opportunity to read innumerable commentaries and interpretation of the Quran, listen to the learned and discuss with the knowledgeable in the Quran, Hadith and Islamic jurisprudence mostly from the Middle East and I continue to learn from such reading, listening and interaction. However, the aspect or the theme of the Quran associated with spirituality is a discovery and applicable to daily life. This I intend to share with others through the book. In the age of Whatsapp, the span of attention in reading is limited and perhaps Maulana, in his wisdom, wrote each chapter such that it can be read in ten minutes, which should be acceptable to Whatsapp addicts. I advise you to first make your family read the book and advise to whoever you gift the book to read maximum for thirty minutes or minimum ten minutes daily. May Allah shower His blessings on you and your family and guide all to attain positive spirituality. (Hayat Yar Khan)
■ صدر اسلامی مرکز کی ایک نئی انگریزی کتاب شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب صدراسلامی مرکز کے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ایک صاحب، مسٹر جیوا بہت متاثر ہوئے ، اور اس کا تامل زبان میں ترجمہ کردیا۔ درج ذیل تاثر سی پی ایس ( تامل ناڈو)کی ٹیم نے دیا ہے، جن کو مسٹر جیوا نے اس سلسلے میں انوائٹ کیا تھا:
As you know, Non-Violence and Peace-Building in Islam has been penned by Maulana few months ago. Its book review appeared in the ‘Sarvodhya’ magazine. After reading that, one Dr. Jeeva called us from Erode, one of the cities of Tamil Nadu. He immediately contacted us to have a copy of the book. We supplied him the book and he was quite impressed with it. We were unaware that he himself later translated this entire book into Tamil and posted the manuscript at our Chennai CPS address. We were very impressed and sought his appointment. By that time, we learned that he is a Gandhian activist and a well-known philanthropist. He has written and translated more than 100 books and devoted his life to setting up hospitals for poor as co-operative societies. CPS members Syed Iqbal Umeri, Khateeb Asrarul Hasan and Faiz Qadiri met Dr. Jeeva at his residence. He welcomed us. He has introduced CPS to many top personalities and writers of Tamil Nadu. He translated Maulana’s book on non-violence within 10 days. We are about to publish the book shortly.
■ الرسالہ جولائی 2017 ری پلاننگ کے موضوع پر ایک اسپیشل نمبر تھا، جس کے ذریعہ صدر اسلامی مرکز نے مسلمانوں کو یہ رہنمائی دی کہ آج کے دور میں ان کو اپنی منصوبہ بندی کو تبدیل کرنا چاہیے۔ الرسالہ کے اس اسپیشل نمبر کو پڑھنے کے بعداندور کے مسٹر شکیل احمد نے درج ذیل تاثر دیاہے:
Al-Risala of July 2017 is the most refined and eye opening issue for one and all. Jazak Allah Maulana for guiding us in the right direction. How intelligently you have collected and placed all respective historical events one after another to enlighten us in respect of current burning issues of Muslim world! When I finished reading it, I cried: “Alas! May God endow our so-called Muslim leaders with the importance of re-planning. They must take a U-turn in all current burning issues.” I felt a thrill within me. I wanted to become a source of forwarding a copy of this issue and distribute it as free gift to all Muslims in my city of Indore, as a free gift. Once again I thank Maulana from the core of my heart for his precious writings and enlightenment and pray to God Almighty to bless him with a long life and good health! (Shakeel Ahmed, Indore)
■ دعوتی دورہ:ممبئی ٹیم تسلسل کے ساتھ دعوتی سفر کررہی ہے۔ اس سلسلے میں ان کا آنے والا دعوتی سفر سہارنپور، یوپی کا ہوگا۔ یہ دعوۃ میٹ 20-21اکتوبر 2017 کو منعقد ہوگا۔اس دعوہ میٹ میں شرکت کےخواہش مند حضرات اس نمبررابطہ قائم کرسکتے ہیں: ڈاکٹر محمد اسلم خان، 9997153735۔
■ صدر اسلامی مرکز کے انگریزی مضامین اور سوال و جواب کے لیے وزٹ کیجیے:
www.cpsglobal.org
www.alquranmission.org
www.spiritofislam.co.in/spiritnew
www.facebook.com/cpsinternational
www.facebook.com/maulanawkhan
www.quora.com/profile/Maulana-Wahiduddin-Khan-1
https://www.soulveda.com/viewauthor.php?uid=64
http://www.speakingtree.in/maulana-wahiduddin-khan
■ ترجمۂ قرآن حاصل کریں: سی پی ایس انٹرنیشنل اور گڈ ورڈ بکس سےترجمۂ قرآن (free of cost) دیا جاتا ہے۔ خواہش مند حضرات درج ذیل لنک پر جاکر فارم پر کرسکتے ہیں۔ ان کو بذریعہ پوسٹ قرآن بھیج دیا جائے گا
واپس اوپر جائیں