Pages

Saturday, 3 March 2018

Al Risala | April 2018 (الرسالہ،اپریل)

4

-مقالید السماوات والارض

5

- احسن العمل کا انتخاب

6

- ابدی جنت

7

- اللہ کا ذکر

8

- قرآن فہمی کا معیار

9

- پر امید آیات و احادیث

10

- اللہ سے امید

11

- آخرت کا مضمون

12

- ہر ایک کے لیے خیر

13

- انسان اور کائنات

14

- غیر حقیقت پسندانہ منصوبہ

15

- اہل مغرب کا کنٹری بیوشن

16

- اجماع کی حقیقت

17

- اجتہاد کیا ہے

18

- منسوخ، موقوف

19

- انٹلکچول ٹریپ

20

- ملت ابراہیم

21

- خدا کا وجود

22

- کامیاب منصوبہ بندی

23

- قیام لیل

24

- جہاد کا حکم

25

- دعوت کا اسلوب

26

- خلاق علیم

28

- مسجد کا مسئلہ

29

- آج کا نوجوان

30

- خوف کی نفسیات

31

- سیاسی کنڈیشننگ میں جینا

32

- مشکل حالات

33

- ختم نبوت کا عقیدہ

34

- بڑھاپا رمائنڈر کا زمانہ

35

- غیر متحقق بات کا چرچا

36

- اپنے خلاف

37

- منفی تجربہ

38

- لرننگ اسپرٹ

39

- اسٹیج کا فتنہ

40

- کام کی قیمت

41

- کامیاب شادی

42

- مس ایڈونچرزم

43

- سوال و جواب

45

- خبر نامہ


مقالید السماوات والارض

قرآن میں اللہ رب العالمین کی قدرت کو مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں:لَہُ مَقَالِیدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَاءُ وَیَقْدِرُ إِنَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (42:12)۔ یعنی اسی کے اختیار میں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں۔ وہ جس کے لیے چاہتا ہے زیادہ روزی دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے کم کردیتا ہے۔ بیشک وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔
اس بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ پوری کائنات کا سوئچ بورڈ اللہ رب العالمین کے پاس ہے۔ وہ جس سوئچ کو چاہے آن کرے، اور جس سوئچ کو چاہے آف کردے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ رب العالمین پر بھروسہ کرے۔ وہ مانگے تو اللہ رب العالمین سے مانگے۔ وہ امید رکھے تو صرف اللہ رب العالمین سے امید رکھے۔ اس معاملے میں اس کا یقین اتنا بڑھا ہوا ہو کہ وہ اللہ رب العالمین سے کبھی اور کسی حال میں مایوسی کا شکار نہ ہو۔ یہ یقین کسی انسان کے اندر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ اللہ رب العالمین کو شعور کی سطح پر دریافت کرلے۔
ایک اور مقام پر اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَلِلَّہِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَکِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَا یَفْقَہُونَ (63:7)۔ یعنی اور آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں لیکن منافقین نہیں سمجھتے۔
اس آیت میں منافقین سے مراد کوئی فرقہ نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں، جو زبان سے اللہ کا اقرار تو کریں ، مگر اللہ پر ان کا اقرار دریافت (discovery) کے درجے تک نہ پہنچا ہو۔ اس بنا پر ان کا اقرار یقین کی کیفیت سے خالی ہو۔ وہ لپ سروس (lip service) کے درجے میں اللہ کو مانتے ہوں، لیکن اللہ کا عقیدہ ان کی شخصیت سازی میں موثر عامل کی حیثیت سے شامل نہ ہوا ہو۔ وہ اللہ کو مانیں ، مگر اللہ ان کے لیے یقین کا سرمایہ نہ بنا ہو۔
واپس اوپر جائیں

احسن العمل کا انتخاب

قرآن میں تخلیق کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ احسن العمل (best in conduct) افرا د کا انتخاب (selection) کیا جائے (الملک، 2:67)۔ اللہ رب العالمین کا یہ منصوبہ ہے کہ پوری تاریخ بشری سے ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے جو اپنے کیریکٹر کے اعتبار سے بہترین لوگ ہوں۔ اس تخلیقی نقشہ کے مطابق، دنیا میںمختلف قسم کے حالات پیش آتے ہیں۔ ان حالات کے درمیان ان افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے، جو احسن العمل ہوں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ پوری تاریخ کے بہترین انسانوںکو چن کر ان کا ایک اعلیٰ معاشرہ بنایا جائے۔ اسی اعلیٰ معاشرہ کا نام جنت (Paradise) ہے۔
منتخب افراد پر مبنی اس معاشرہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔
قرآن کے الفاظ میں جنت حسن رفاقت کا ایک اعلیٰ معاشرہ ہے۔ اس معاشرے کے افراد کی صفت کیا ہوگی۔ اس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ اس کی امتیازی صفت یہ ہوگی کہ جنت دارالسلام (the home of peace) ہوگا(الانعام، 6:127)۔وہاں کے ہر فرد کے دل میں دوسروں کے لیے امن اور خیر خواہی کا جذبہ ہو گا (الحشر، 59:10) ۔ وہاں کسی فرد کے ذریعہ دوسرے فرد کو زحمت (nuisance) کا تجربہ نہ ہوگا(الواقعۃ، 56:25-26)۔ وہاں ہر شخص مثبت سوچ (positive thinking) کا حامل ہوگا (یونس، 10:10)، وغیرہ۔
ان کی یہ اعلیٰ صفت آخرت کی تربیت کا نتیجہ نہ ہوگی۔ بلکہ خود دنیا کی زندگی میں وہ اسی اصول پر سیلف میڈ مین بن چکے ہوں گے۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میںاسی اصول کی پیروی کرکےخود انضباطی زندگی (self-disciplined life) کا ثبوت دے چکے ہوں گے۔
واپس اوپر جائیں

ابدی جنت

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت کا انعام غیر ممنون انعام (endless reward) ہوگا۔ اس سلسلے میں قرآن میں چار جگہ اجر غیر ممنون کے الفاظ آئے ہیں۔ایک جگہ یہ حقیقت مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان ہوئی ہے:وَأَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الْجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیہَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّکَ عَطَاءً غَیْرَ مَجْذُوذٍ (11:108)۔ یعنی اور جو لوگ خوش بخت ہیں۔ وہ جنت میں ہوں گے، وہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں، مگر جو تیرا رب چاہے، ایک عطیہ جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
جنت کا غیر منقطع ہونا واضح ہے۔ کیوں کہ جنت رب العالمین کا عطیہ ہے، اور خدائے لامحدود کا عطیہ کبھی محدود نہیں ہوسکتا۔ یہ رب العالمین کی شان کے خلاف ہے کہ وہ کسی کو محدود عطیہ دے۔ محدود عطیے کا تصور اللہ رب العالمین کے کمتر اندازہ (underestimation) کے ہم معنی ہے، اور ایسا کبھی ہونے والا نہیں۔ اب سوال انسان کا ہے ۔ کیا یہ لامحدودیت جو اللہ کی نسبت سے ہے، وہ انسان کی نسبت سے بھی باقی رہے گی۔ اس کا جوابـ" ہاں" ہے، جو خدا کی طرف سے انھیں بطور عطیہ ملے گا۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت کو جنت میں داخلہ مل جائے گا تو وہ کہیں گے: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (35:34)۔ یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے رنج کو ختم کردیا۔
اہل جنت کی طرف سے اظہارحمد ، یہ وقتی کلمہ نہیں ہے۔ یہ ابدی احساس حمد کی بات ہے۔ اہل جنت کی طرف سے احساس حمد ، بلاشبہ ایک تخلیقی احساس (creative feeling) کی بات ہے۔ یہ کریٹیو احساس انھوں نے دنیا کی زندگی میں حاصل کیا ہوگا۔ یہ کریٹیو احساسِ حمد جو جنت کے پانے سے پہلے بذریعہ معرفت اہل جنت کے اندر پرورش پائے گا، وہ اتنا طاقت ور ہوگا کہ وہ جنت کا ابدی عطیہ پانے کے بعد بھی برابر ایک اضافہ پذیرتجربہ کی حیثیت سے جاری رہے گا۔ جنت جس طرح ابدی ہوگی، اسی طرح جنت کے پانے پر احساسِ حمد بھی یقینی طور پر ابدی ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کا ذکر

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:ألا أنبئکم بخیر أعمالکم، وأزکاہا عند ملیککم، وأرفعہا فی درجاتکم وخیر لکم من إنفاق الذہب والورق، وخیر لکم من أن تلقوا عدوکم فتضربوا أعناقہم ویضربوا أعناقکم؟ قالوا:بلى. قال:ذکر اللہ تعالى(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3377)۔ یعنی کیا میں تمھیں سب سے بہتر اعمال کے بارے میں نہ بتاؤں۔ وہ تمہارے بادشاہ کے نزدیک بہت پاکیزہ ہے، وہ تمہارے درجات کے لیے سب سے بلند ہے،اوروہ تمہارے لیے بہتر ہے سونا اور چاندی خرچ کرنے سے اور وہ اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے دشمنوں سے ملو : تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں ؟ صحابہ نے کہا کہ کیوں نہیں؟ آپ نے کہا: اللہ کا ذکر۔
یہاں ذکر ُاللہ سے مراد اللہ کا لفظی ورد نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد اللہ کی شعوری یاد (intellectual remembrance) ہے۔ یہ یاد شعوری یانان اسٹاپ (non-stop) انداز میں ہر وقت مطلوب ہے۔ یہ شعوری یاد کسی قسم کے روٹین کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اعلیٰ حقیقت کی دریافت کے نتیجے میں ذہن انسانی میں خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک زندہ اور تخلیقی سوچ ہے۔ جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بےمقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا (3:190-91)۔ یہ اعلیٰ ذکر کسی انسان کے اندر اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ وہ گہرے غور و فکر کے ذریعہ اللہ رب العالمین کو دریافت کرے۔ یہ دریافت اتنی کامل ہوکہ وہ سوچ پر غالب آجائے، اس کی شخصیت اسی دریافت میں ڈھل جائے۔ وہ اس کے صبح و شام کا ناگزیر اثاثہ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن فہمی کا معیار

لوگوں نے قرآن فہمی کا خود ساختہ طور پر ایک غلط معیار بنا رکھا ہے۔ وہ قرآن فہمی اس کو سمجھتے ہیں کہ اس میں الفاظ کی تحقیق ہو۔فنی تجزیہ کیا گیا ہو۔ اس کے اندر شخصیتوں کے حوالے درج ہوں۔ قرآن کی آیتوں کی تفسیر شان نزول کے حوالے سے کی گئی ہو، اس میں قرآن کی آیتوں کا ربط (order)بیان کیا گیا ہو،وغیرہ۔
مگر یہ سب قرآن فہمی کے خود ساختہ معیار ہیں۔ اس طرح کے بظاہر تحقیقی مضمون میں قاری کو سب کچھ ملتا ہے لیکن وہی چیز نہیں ملتی جو قرآن و سنت کا مقصد اصلی ہے۔ جس کو قرآن میں ذکریٰ اور تذکر جیسے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح کی فنی تشریح و تفسیر کے بارے میں انور شاہ کشمیری نے، ایک حدیث کی شرح کے ذیل میں کہاہے: لم یتحصَّل عندنا منہ شیءٌ غیر حلِّ الألفاظ(فیض الباری علی صحیح البخاری، 1/230)۔یعنی ہمیں اس سے حل الفاظ کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔
قرآن و حدیث کو پڑھنے کا اصل فائدہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر خدا کا خوف پیدا ہو۔ اس کو اس میں اللہ سے محبت کی غذا ملے۔ اس کو اللہ و رسول کے کلام میں حکمت (wisdom) کی دریافت ہونے لگے۔ اس کے لیے قرآن و سنت کا مطالعہ اللہ سے ملاقات کے ہم معنی بن جائے۔ وہ قرآن و سنت کو پڑھے تو اس کو محسوس ہو کہ وہ عالم آخرت میں اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ اللہ اور رسول کا کلام پڑھنے سے اس کے اندر محاسبہ (introspection) کا جذبہ پیدا ہو۔ اس کے لیے قرآن و سنت کا مطالعہ جنت اور جہنم کے تعارف کے ہم معنی بن جائے۔
قرآن و حدیث کے مطالعے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کچھ فنی نکات کا حل آپ کو مل جائے۔ بلکہ قرآن و حدیث کے مطالعے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے اندر فکری بھونچال پیدا ہو۔ آپ کے اندر اسپریچول اسٹارمنگ آئے۔ آپ کا ذہن نان کریٹو سے کریٹیو (creative)بن جائے۔ قرآن و حدیث کا صحیح مطالعہ وہ ہے جو آپ کو سجدہ قربت (العلق،19:96) کا تجربہ کرادے۔
واپس اوپر جائیں

پر امید آیات و احادیث

امام سیوطی (وفات 911:ھ) نے لکھا ہے کہ قرآن میں امیدافزا آیتوں کی تعداد دس سے کچھ زیادہ ہے (الاتقان فی علوم القرآن، 4/149) ۔ان میں سے ایک آیت یہ ہے: قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
اسی طرح احادیث میں بھی اس قسم کے پرامید اقوال آئے ہیں۔ ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: لما خلق اللہ الخلق، کتب کتابا، فہو عندہ فوق العرش:إن رحمتی سبقت غضبی (مسند احمد، حدیث نمبر 7528)، و فی روایۃ : إن رحمتی غلبت غضبی (مسند احمد، حدیث نمبر8127)۔ یعنی جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب اس کے پاس عرش کے اوپر ہے: بیشک میری رحمت میرے غضب سے آگے ہے۔ ایک اور روایت میں ہے: بیشک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔
قرآن کی مذکورہ آیت ایک بے حد پرامید آیت ہے۔ اسی طرح حدیث بھی ایک بہت پرامید حدیث ہے۔ دونوں میں جو مشترک بات ہے، وہ یہ ہے کہ اس امید کی بنیاد رحمت ہے۔ اللہ رب العالمین کی صفات میں ایک صفت اس کا رحیم و کریم ہونا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ ہمیشہ رحمت کا معاملہ فرماتا ہے۔ اللہ رب العالمین کی یہ صفت بندے کے لیے بلاشبہ سب سے زیادہ پر امید صفت ہے۔ اللہ رب العالمین کا رحیم وکریم ہونا، اس کے بندوںکو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ ایسے الفاظ میں اپنے رب کو پکاریں، جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والے ہوں۔ اگر بندہ ایسی دعا کرے تو وہ گویا اسم اعظم کے ساتھ اپنے رب کو پکارتا ہے، اور جو آدمی اسم اعظم کے ساتھ اپنے رب کو پکارے تو اللہ رب العالمین اس کی پکار کو ضرور قبول فرماتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ سے امید

انسان کی تخلیق کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: خلق اللہ آدم على صورتہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227) ۔ یعنی اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اس حدیث میں آدم سے مراد انسان ہے، اور صورت (image)کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر اس مثبت (positive) صفات کا ایک شمہ (very little part)رکھ دیا گیا ہے، جو اللہ رب العالمین کے اندر کامل معنوں میں موجود ہے، مثلاً رحم و شفقت ۔
یہ حدیث رسول ایک امید (hope) کی حدیث ہے۔ یہ حدیث آپ کو موقع دیتی ہے کہ آپ اللہ سے امید قائم کریں ۔ وہ یہ کہ اللہ نے جب انسان کے اندر رحمت کا یہ جذبہ رکھا ہے کہ غصہ آنے پر وہ کسی کو معاف کردے توخود اللہ کے اندر یہ صفت یقیناً بے حساب گنا زیادہ درجے میں ہوگی۔ اس لیے انسان کو کبھی اللہ کے عطیے کےبارے میں مایوسی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔
یہ سوچتے ہوئے مجھے ایک واقعہ یاد آیا، جس کو میں نے خود ذاتی طور پر دیکھا ہے۔ یہ برٹش انڈیا کا واقعہ ہے۔ اس وقت میں نوجوانی کی عمر میں تھا، اور اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک زمیندار (landlord) نے گاؤں کے ایک دلت کو اپنے گھر پر بلایا ۔ دلت نے زمیندار کا ایک کام نہیں کیا تھا، اس لیے وہ اس پر غصہ تھا۔ اس نے دلت کو اپنے سامنے بٹھایا، اور اس کو اس کی غلطی یاد دلائی، اور ڈنڈا ہاتھ میں لے کر کہا کہ آج میں تم کو ماروں گا۔ دلت اپنی پیٹھ کھو ل کر بیٹھ گیا، اور کہا :بابو ،لَے مارا (لیجیے، صاحب، ماریے)۔ یہ سن کر زمیندار کے ہاتھ سے ڈنڈا چھوٹ کر گر پڑا۔ اس نے دلت سے کہا کہ جاؤ، میں نے معاف کیا۔ یہ کہہ کر زمیندار اپنے گھر کے اندر چلا گیا۔ اس واقعہ کے بعد میں نے سوچا کہ زمیندار کے اندر یہ صفت خالق کی دی ہوئی تھی۔ اس لیے خالق کے اندر یہ صفت یقیناً اور بھی زیادہ ہوگی۔ خالق یقیناً مجھے معاف کردےگا، اگر میں اس کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دوں۔ (21 جنوری 2018)
واپس اوپر جائیں

آخرت کا مضمون

ایک آدمی قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرے، وہ صحابہ کے حالات کو پڑھے۔ اگر وہ سنجیدہ ہے تو عین ممکن ہے کہ اس کی سوچ آخرت رخی سوچ بن جائے۔ وہ آخرت کے مضمون پر لکھنا اور بولنا شروع کردے۔ لیکن عین ممکن ہے کہ اب بھی اس کا لکھنا آخرت نویسی کے ہم معنی ہو۔ فنی اعتبار سے صحیح ہونے کے باوجود اس کے لکھنے اور بولنے میں آخرت کا گہرا ادراک شامل نہ ہو۔
لیکن آدمی اگر لمبی عمر پائے۔ اس پر بیماری اور حادثات کے حالات گزریں، یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہوجائے۔ اس پر بڑھاپے کے حالات گزریں۔ وہ عجز اور کمزوری کے حالات سے دوچار ہو۔ اگر ایسا ہو تو اس کا آخرت کا علم آخرت کا گہرا احساس بن جائے گا۔ پہلے اگر وہ آخرت کے اوپر لکھتا تھا تو اب وہ آخرت میں جینے والا بن جائے گا۔
جو آدمی اپنی عمر کے لحاظ سے آخرت میں جینے کے دور میں پہنچ جائے ، اس کے لیے آخرت ایک ایسا موضوع بن جائے گا، جس کا وہ ذاتی طور پر تجربہ کر رہا ہے۔ پہلے اگر وہ آخرت کو پڑھتا تھا، تو اب وہ آخرت کو دیکھنے والا بن جائے گا۔ پہلے اگر وہ آخرت پر معلومات دیا کرتا تھا تو اب وہ ایسا انسان بن جائے گا، جو گویا کہ آخرت کا ذاتی تجربہ کررہا ہے۔ پہلے اگر وہ آخرت نویسی کرتا تھا ، تو اب وہ آخرت کے موضوع پر تجربہ نویسی کے مرحلہ میں پہنچ جائے گا۔
ایسا آدمی بہت قیمتی ہوتا ہے۔ دوسروں کو چاہیے کہ وہ اس کی قدر کو پہچانیں۔ وہ اس کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ اس کے تجربے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ کسی کی تحریر و تقریر سےآپ کو معلومات مل سکتی ہیں، لیکن تجربہ کار سے جو چیز ملتی ہے، وہ اس سے زیادہ ہوتی ہے۔یعنی آخرت والا بن جانا۔تاہم تجربہ کا دور اسی آدمی کے لیے مفید ہوسکتا ہے جو بڑھاپے سے پہلے آخرت کو جاننے والا ہو۔وہ قرآن و حدیث کے ذریعہ آخرت کا علم حاصل کرنے کے بعد آخرت میں جینے کی کوشش کرنے والا بن چکا ہو۔
واپس اوپر جائیں

ہر ایک کے لیے خیر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبی ہریرة، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:المؤمن القوی، خیر وأحب إلى اللہ من المؤمن الضعیف، وفی کل خیر (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2664)۔ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک بہتر اور زیادہ محبوب ہے کمزور مومن سے، اور بھلائی ہر ایک کے لیے ہے۔ ایک شخص اگر پیدائشی طور پر طاقت ور ہو تو اس کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات کو خود اپنی طاقت سے درست کرلے۔ لیکن جو انسان پیدائشی طور پر کمزور ہو، وہ بظاہر اس قابل نہیں ہوتا کہ اپنے معاملات کو خود اپنی طاقت سے درست کرسکے۔ لیکن خیر دونوں کے لیے ہے۔ ایک کےلیے اپنی ذاتی طاقت کی بنیاد پر ، اور دوسرے کے لیے اللہ کی مدد کی بنیاد پر۔
جو آدمی ضعیف ہو، وہ اگر منفی نفسیات میں مبتلا نہ ہو تو اس کے اندر اللہ کی یاد جاگ اٹھتی ہے۔ وہ اللہ سے مدد کا طالب بن جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ ہوتا ہے کہ اللہ اس کی مدد پر آجاتا ہے۔ جب کمزور انسان یہ کہتا ہے کہ خدایا، تونے مجھ کو کمزور پیدا کیا، اب تجھ ہی کو یہ کرنا ہے کہ تو میری کمزوری کی تلافی کرے۔ اس قسم کی دعا اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والی ہوتی ہے۔ اللہ ایسے انسان کی طرف مزید اضافے کے ساتھ متوجہ ہوجاتا ہے۔
جو انسان اپنے آپ کو طاقت ور پائے، اس کے اندر اپنے آپ پر بھروسہ کی نفسیات پیداہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس، جو آدمی اپنے آپ کوکمزور پائے۔ اس کے اندر اللہ سے طلب کی نفسیات جاگ اٹھتی ہے۔ وہ دعا کرنے لگتا ہے کہ خدایا، تونے مجھے ضعیف پیدا کیا ہے۔ اب تو ہی میرے ضعف کی تلافی فرما۔ اس طرح کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، اور بندۂ ضعیف اللہ کی مدد سے وہ کام کرلیتا ہے جو اکثر حالات میں بندہ قوی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ مگر اس کی ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ بندۂ ضعیف کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پائی جاتی ہو۔
واپس اوپر جائیں

انسان اور کائنات

انسان موجودہ دنیا میں پیدائش کی بنیاد پر داخل ہوتا ہے۔ ہر پیدا ہونے والا، ماں کے پیٹ سے نکل کر موجودہ دنیا میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ کسی انسان کے لیے اس دنیا میں پہلا داخلہ ہے۔ یہ داخلہ ہر انسان کو محض پیدائش کی بنیاد پر مل جاتا ہے۔ مگر یہ داخلہ عارضی داخلہ ہے۔ موت کے بعد انسان دوبارہ خدا کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔
دنیا میں پہلا داخلہ عارضی داخلہ تھا، لیکن دوسرا داخلہ مستقل داخلہ ہے۔ پہلا داخلہ کسی کو پیدائش کی بنیاد پر اپنے آپ مل جاتا ہے۔ لیکن دوسرے داخلے کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ دوسرا داخلہ کسی انسان کو صرف استحقاق (merit) کی بنیاد پر ملے گا۔ پہلے دور حیات کی حیثیت یہ ہےکہ وہ استحقاق ثابت کرنے کا دور ہے۔ پہلے دورِ حیات میں انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرے کہ وہ خدا کی دنیا میں مستقل قیام کا واقعی حقدار ہے۔ اس دوسرے داخلے کے بارے میں قرآن کی چند آیتیں یہ ہیں:
یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَى مِنْکُمْ خَافِیَةٌ ۔ فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ فَیَقُولُ ہَاؤُمُ اقْرَءُوا کِتَابِیَہْ ۔ إِنِّی ظَنَنْتُ أَنِّی مُلَاقٍ حِسَابِیَہْ۔ فَہُوَ فِی عِیشَةٍ رَاضِیَةٍ۔ فِی جَنَّةٍ عَالِیَةٍ۔ قُطُوفُہَا دَانِیَةٌ ۔ کُلُوا وَاشْرَبُوا ہَنِیئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِی الْأَیَّامِ الْخَالِیَة (69:18-24) ۔ یعنی اس دن تم پیش کیے جاؤ گے۔ تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہ ہوگی۔ پس جس شخص کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا کہ لو میرا اعمال نامہ پڑھو۔ میں نے گمان رکھا تھا کہ مجھ کو میرا حساب پیش آنے والا ہے۔ پس وہ ایک پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔ اونچے باغ میں۔ اس کے پھل جھکے پڑ رہے ہوں گے۔ کھاؤ اور پیو، خوشی کے ساتھ ، ان اعمال کے بدلے میں جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے — خدا کی دنیا میں پہلے داخلہ کے ساتھ مصیبت شامل تھی (البلد،90:4)۔اس کے برعکس، یہدوسرا داخلہ تمام تر ھنیئًا (pleasure) کا داخلہ ہوگا۔پہلا داخلہ امتحان کے لیے تھا، اور دوسرا داخلہ انعام کے لیے ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

غیر حقیقت پسندانہ منصوبہ

قرآن میں ایک فطری حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: تمھاری امانی سے کچھ نہیں ہوگا (النساء123:)۔ امانی کا مطلب ہے بے بنیاد آرزوئیں (false desires) ۔ یہ بات قرآن میں مذہبی معنی میں آئی ہے۔ مگر یہی بات سیکولر معنی میں بھی درست ہے۔ یعنی دنیاوی معاملات میں غیر حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی (unrealistic planning) کا طریقہ اختیار کرنا۔موجودہ دنیا حقائق کی دنیا ہے۔ یہاں امانی کی بنیاد پر جو منصوبہ بنایا جائے، وہ نتیجہ کے اعتبار سےہمیشہ ناکام رہے گا۔
ایسے موقع پر لوگ عام طور پر اپنی ناکامی کا الزام دوسروں کے اوپر ڈالتے ہیں۔ مگر ایسا رد عمل ناکامی پر نادانی کا اضافہ ہے۔ اس دنیا میں ہر ناکامی خود اپنی غیر حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کی بنا پر ہوتی ہے۔ اس لیے جب بھی آدمی کو اس قسم کا تجربہ ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ دوسری غلطی نہ کرے۔ وہ دوسروں کی شکایت کرنے کے بجائے خود اپنی غلطی کو دریافت کرے، اور مبنی بر حقیقت منصوبہ بندی کے ذریعہ دوبارہ اپنے کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے۔
غیر حقیقت پسندانہ منصوبہ ہمیشہ دو سبب سے ہوتا ہے، یا غلط نشانہ (goal) کی وجہ سے ، یا غلط تدبیر کی وجہ سے۔ غلط نشانہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ایسی چیز کو نشانہ بنائے جو باعتبار حالات اس کے لیے قابل حصول (achievable) ہی نہ ہو، مثلاً عالمی حکومت ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس نے بھی اپنے لیے عالمی گورنمنٹ کا نشانہ اختیارکیا، وہ ہمیشہ ناکام رہا۔ دوسری چیز، غلط تدبیر ہے۔ مثلاً اس دنیا میں ہمیشہ کوئی کامیابی پر امن طریقہ کار کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، متشددانہ طریقہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں جو شخص بھی متشددانہ طریقہ اختیار کرے گا، خواہ بطور خود وہ اس کو کتنا ہی درست سمجھتا ہو، وہ لازمی طور پر ناکامی سے دوچار ہوگا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کبھی امانی کی بنیاد پر کوئی منصوبہ نہ بنائے، نہ انفرادی سطح پر اور نہ قومی سطح پر۔ جو شخص بھی ایسا کرے گا، وہ لازماً ناکام ہوگا، خواہ اس نے بطور خود اس کے لیے کتنے ہی زیادہ خوبصورت الفاظ وضع کیے ہوں۔
واپس اوپر جائیں

اہل مغرب کا کنٹری بیوشن

ایک سروے میں یہ پوچھا گیا کہ دور جدید کی سب سے اہم ایجاد کیا ہے ۔ ایک مغربی انسان نے اس کے جواب میں کہا کہ سائفن (siphon) ۔ سائفن اس ٹکنیک کا نام ہے جو واش روم میں کوئی نیا مسئلہ پیدا کیے بغیر اس کی گندگی کو پوری طرح صاف کردیتا ہے:
Siphon: a tube used to convey liquid upwards from a reservoir and then down to a lower level of its own accord. Once the liquid has been forced into the tube, typically by suction or immersion, flow continues unaided.
سائفن صفائی کی ایک سادہ ٹکنیک ہے۔ لیکن پوری تاریخ میں کوئی حیوان اس کو دریافت نہ کرسکا۔ دور جدید میں جب عقل کا آزادانہ استعمال شروع ہوا تو انسان نے دور بین اور خوردبین سے لے کر سائفن تک بے شمار چیزیں دریافت کیں۔ ماڈرن تہذیب کو وجود میں لانے کا کام تقریباً تمام تر اہل مغرب نے انجام دیا ہے۔ اس معاملے پر غور کرتے ہوئے راقم الحروف نے یہ سمجھا ہے کہ اس معاملے میں اللہ تعالی نے تقسیم کار کا اصول اختیار فرمایا ہے۔ یعنی دین حق کی اشاعت کا کام اہل اسلام کی ذمہ داری قرار دیا، اور اہل مغرب کو اس معاملے میں، حدیث کے الفاظ میں تائید کا رول عطا فرمایا(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔
دین خداوندی کی اشاعت کے معاملے میں اہل اسلام کا رول براہ راست رول ہے،اور اہل مغرب کا رول بالواسطہ رول۔ مگر بعض اسباب سے مسلمانوںنے اہل مغرب کو اپنا دشمن سمجھ لیا، اور ان کے خلاف مسلح یا غیر مسلح جنگ چھیڑ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین کی دعوت و اشاعت کا کام انجام پانے سے رہ گیا۔ دین کی دعوت و اشاعت کے لیے جن مادی چیزوں کی ضرورت تھی، ان سب کو اہل مغرب نے جدید صنعت اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ فراہم کیا۔ اب اہل اسلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہل مغرب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان ذرائع کو دین خداوندی کی تائید کے لیے استعمال کریں۔
واپس اوپر جائیں

اجماع کی حقیقت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں فرمایا تھا:ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بہما:کتاب اللہ وسنة نبیہ(موطا امام مالک، حدیث نمبر 2618)۔ یعنی میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑرہا ہوں، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔ اس قولِ رسول سے یہ ثابت ہوا کہ مصدر شریعت صرف دوہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس تعداد میں اضافہ کرکے ان کو تین یا چار بنالے۔
صحابہ اور تابعین کے زمانے میں دین کے بارے میں یہی تصور پایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں یہی دو چیزیں مصادر شریعت کی حیثیت رکھتی تھیں۔ لیکن عباسی خلافت کے زمانے میں فقہاء کا دور آیا۔ اس وقت یہ مان لیا گیا کہ قرآن و سنت کے علاوہ ایک اور مصدر شریعت بھی ہے، اور وہ مسلم علماء کا اجماع ہے۔فقہاء کے اس اضافے کو عام طور پر مسلمانوں کے درمیان تسلیم کرلیا گیا۔علماء کے اجماع کو مصدر شریعت کا درجہ دینا، کلی طور پر غلط نہ تھا۔ تاہم اس اجماع کی حیثیت صرف وقتی معنی میں تھی، نہ کہ ابدی معنی میں۔ یعنی اگر مسلمانوں کے درمیان ایک مسئلہ پیدا ہو، اس پر کوئی واضح حکم پہلے سے موجود نہ ہو تو وہ علماءکی مجلس میں زیر بحث آئے گا۔ اس مباحثے کے بعد اگر علما ءکے اتفاق رائے سے ایک بات طے ہوجائے تو اس کو اجماع امت کہا جاسکتا ہے۔ لیکن شریعت کے ابدی مصدر کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک پیش آمدہ مسئلہ میں وقتی اعتبار سےشریعت کےعملی موقف کو متعین کرنے کے لیے۔
یہ پیش آمدہ مسئلے کا ایک وقتی حل ہے، وہ شریعت اسلامی کا ابدی حصہ نہیں۔ پیش آمدہ مسئلےمیں اس قسم کے’’اجماع یا اتفاق رائے‘‘ کو وقتی معنی میں قابل اتباع سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ گنجائش یقیناً باقی رہے گی کہ بعد کو نئے حالات میں علماء کوئی نیا فیصلہ دیں ۔ اس معاملے میں علماء کسی’’سابق اجماع‘‘کے پابند نہ ہوں گے۔گویا کہ اس قسم کا اجماع پیش آمدہ مسئلہ کو حل کرنے کی ایک وقتی تدبیر ہے ، نہ یہ کہ اس کوہمیشہ کے لیے شریعت کا ایک مستقل مصدر (source)مان لیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

اجتہاد کیا ہے

اجتہاد کا لفظی مطلب ہےپوری کوشش کرنا (to strive)۔ اجتہاد کا لفظ حدیث کی دو روایتوں میں آیا ہے۔ان دونوں حدیثوں میں اجتہاد کا مطلب ہے، کسی معاملہ میں امر شرعی معلوم کرنے کی کوشش کرنا۔ قرآن میں اس کے ہم معنی لفظ استنباط (النساء83:)آیا ہے۔ اس کا مطلب ہے، نتیجہ اخذ کرنا (to infer)۔
اجتہاد یا استنباط کی کوئی لازمی شرط (condition)نہیں ہے۔ ہر آدمی اجتہاد اور استنباط کا عمل کرسکتا ہے۔ اس کی شرط صرف یہ ہے کہ کسی اجتہاد یا استنباط کو مطلق نہ سمجھا جائے، بلکہ اس کو نظر ثانی کا موضوع (subject to re-examination) سمجھا جائے۔ حدیث میں آیا ہے : إذا حکم الحاکم فاجتہد ثم أصاب فلہ أجران، وإذا حکم فاجتہد ثم أخطأ فلہ أجر(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7352)۔ یعنی جب کوئی حاکم فیصلہ دے اور وہ اجتہاد کرے اور اس کا وہ حکم درست ہو تو اس کو دوہرا اجر ملے گااور اگر اس نے کوئی ایسا حکم دیا جس میں اس نے اجتہاد کیا لیکن وہ خطا کر گیا تو اس کو ایک اجر ملے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا اجتہاد مطلق اجتہاد نہیں ہے۔ ہر شخص کا اجتہاد نظر ثانی کا موضوع (subject to re-examination) ہے۔اجتہاد کے حق ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد پر کسی کے اجتہاد کو جانچا نہیں جائے گا۔ بلکہ اس اعتبار سے جانچا جائے گا کہ بحث و تحقیق کے بعد اس کا اجتہاد درست ثابت ہوا ہےیا وہ ایک غلط اجتہاد تھا۔ اجتہادی خطا پر ایک اجر کا وعدہ ، یہ معنی رکھتا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ کسی حال میں بند نہیں۔ بلکہ جو دروازہ بند ہے، وہ صرف یہ کہ کسی کے اجتہاد کو تنقید سے بالاتر سمجھ لیا جائے، اور یہ عقیدہ بنا لیا جائے کہ فلاں شخص امام برحق یا مجتہد مطلق ہے، اور اس کے اجتہاد کو کسی مزید تحقیق کے بغیر تسلیم کرنا چاہیے۔ گویا کہ خود اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہے، بلکہ نبی کے سوا کسی اور کو مطلق شارع سمجھنے کا دروازہ بند ہے۔
واپس اوپر جائیں

منسوخ، موقوف

دین کے احکام ممکن طور پر دو قسم کے ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ جو قابل تنسیخ ہوں، اور دوسرا وہ جن کو منسوخ تو نہ کیا جاسکتا ہو، لیکن ان کو وقتی طور پر موقوف کرنا درست ہو۔ کسی شرعی حکم کو منسوخ (abrogate) کرنا ایک ا صولی معاملہ ہے۔ اور اصولی معاملہ میں تغیر کا حق صرف شارع کو ہے، اور جہاں تک موقوف (suspend) کرنے کا معاملہ ہے، وہ ایک اجتہادی معاملہ ہے، اور امت کے علماء دلائل شرعیہ کے ذریعہ بطور اجتہاد ایسا کرسکتے ہیں۔مثلاً رسول اللہ کے مدنی دور میں وقتی طور پر قبلۂ یہود کو قبلہ مسلمین قرار دے دیا گیا، لیکن بعد کو یہ حکم متروک ہوگیا (البقرۃ: 143-144)۔ یعنی کعبہ ابدی طور پر اہل اسلام کا قبلہ قرار پایا۔ اب کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس حکم میں تغیر کرے۔
کسی حکم کو موقوف قرار دینے کا معاملہ ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ مثلاً اعداد قوت کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ اس سے مراد تیر اندازی ہے۔پیغمبر اسلام نے قرآن (8:60)کی آیت پڑھی:وأعدوا لہم ما استطعتم من قوة ، اور کہا:ألا إن القوة الرمی، ألا إن القوة الرمی، ألا إن القوة الرمی (صحیح مسلم، حدیث نمبر167) ۔موجودہ زمانے میں اس حکم کی حیثیت ایک موقوف حکم کی ہے، لیکن اگر کسی وقت حالات کا تقاضا ہو کہ رمی کے طریقے کو دوبارہ اختیار کیا جائے، تو اس طریقے کو اختیارکیا جاسکتا ہے۔ گویا کہ کسی حکم کا موقوف ہونا،ہمیشہ مشروط معنی میں ہوتا ہے۔
کسی حکم کو منسوخ قرار دینے کا اختیار صرف شارع کو ہے، یعنی اللہ اور اللہ کے رسول کو ، اور جہاں تک موقوف قرار دینے کا معاملہ ہے، یہ ایک اجتہادی فعل ہے۔ امت کے علماء کو یہ حق ہے کہ وہ قانون ضرورت (law of necessity)کے تحت کسی حکم کو وقتی طور پر موقوف قرار دے دیں۔
اسی کی ایک مثال یہ ہے کہ اصحاب رسول کے زمانے میں اہل فتنہ سے قتال کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ حکم چوں کہ شریعت کے متن میں موجود ہے، اس لیے کوئی شخص اس کو منسوخ نہیں قرار دے سکتا، البتہ ضرورت شرعیہ کے تحت بطور اجتہاد اس حکم کو موقوف قرار دیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

انٹلکچول ٹریپ

قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقَالَتِ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّہِ وَأَحِبَّاؤُہُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوبِکُمْ بَلْ أَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ (5:18)۔ یعنی اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں۔ تم کہو کہ پھر وہ تمہارے گنا ہوں پر تم کو سزا کیوں دیتا ہے۔ نہیں، بلکہ تم بھی اللہ کی پیدا کی ہوئی مخلوق میں سے ایک فرد ہو۔
انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ کسی خود ساختہ نظریہ کے تحت شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے آپ کو اسپیشل سمجھنے لگتا ہے۔ کبھی نسل کی بنیاد پر، کبھی مذہب کی بنیاد پر، کبھی کلچر کی بنیاد پر، کبھی اپنے علاقے کی بنیاد پر، کبھی کسی اور بنیاد پر۔ جو لوگ اس طرح اپنے آپ کو اسپیشل سمجھ لیں، وہ عملاً ایک قسم کے ذہنی شکنجہ (intellectual trap) میں پھنس جاتے ہیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ذہنی جمود (intellectual stagnation) میں مبتلا ہوجاتے ہیں، ان کے اندر تخلیقی سوچ ختم ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس سے اوپر سمجھ لیتے ہیں کہ وہ اپنے بارے میں نظر ثانی کریں۔ اپنی غلطی کو ماننا ان کے مزاج میں باقی نہیں رہتا۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھ لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کے اپنے رہنما ، رہنمائے اعظم بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے اہل علم کو مفکر اعظم سمجھ لیتے ہیں۔ ان کی اپنی شخصیتیں، عہد ساز شخصیتوں کا درجہ حاصل کرلیتی ہیں۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر سمجھ لیتے ہیں کہ غلطی دوسروں کی ہے، نہ کہ ہماری۔ ایسے لوگ موضوعی سوچ (objective thinking) سے محروم ہوجاتے ہیں۔ وہ اس قابل نہیں رہتے کہ وہ اپنے معاملات کی حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی (realistic planning) کریں۔ ترقی کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ لوگوں میں خود اپنے آپ پر تنقید (self criticism) کا مزاج ہو، اور ایسے لوگوں میں یہ مزاج مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ وہ تعریف کرنے والے کو اپنا دوست اور تنقید کرنے والے کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی اس کمزوری سے باہر آئیں۔
واپس اوپر جائیں

ملت ابراہیم

ایک صاحب نے لکھا ہے کہ قرآن میں ایک سے زیادہ بار اتباع ملت ابراہیم کا حکم دیا گیاہے۔ یہ ملت ابراہیم کیا ہے؟ براہ کرم واضح کریں(ایک قاری الرسالہ، لکھنؤ)۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ چیز جس کو ہم ملت ابراہیم یا ابراہیمی ملت کہتے ہیں، وہ وہی ہے جس کا دوسرا نام اسلام ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں تین بڑے آسمانی مذاہب ہیں — دین یہود، دین نصاریٰ، اور دین محمد۔ان تینوں مذاہب کے مورث اعلیٰ حضرت ابراہیم تھے۔اسی لیے حضرت ابراہیم کوقرآن میں امام الناس (البقرۃ، 2:124) کہا گیا ہے۔ تینوں مذاہب کے بانی حضرت ابراہیم کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ حضرت ابراہیم کی اسی جامعیت کی بنا پر قرآن میں ان کو امۃ (النحل، 16:120)کہا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم تقریباًچار ہزار سال پہلے قدیم عراق میں پیدا ہوئے۔حضرت ابراہیم ایک صاحب کتاب پیغمبر تھے(الاعلیٰ، 87:19)۔ اگرچہ ان کی کتاب آج محفوظ نہیں۔ اسی طرح بقیہ تینوں مذاہب کے انبیاءمیں سے حضرت موسی، اور حضرت مسیح صاحب کتاب پیغمبر تھے۔ تاہم ان کی کتابیں بھی آج پوری طرح محفوظ حالت میں نہیں ہیں۔
حضرت محمد نے اسی بارے میں یہ کہا کہ میں اسی دین کو لے کر آیا ہوں جس دین کو لے کر حضرت ابراہیم آئے تھے(النحل، 16:123)۔ اس اعتبار سے رسول اللہ کا مشن دین ابراہیم کی تجدید کا مشن تھا۔ رسول اللہ کو یہ خصوصیت حاصل ہوئی کہ آپ کا لایا ہوا دین ہر اعتبار سے محفوظ دین تھا، اور اب حق کے متلاشی کو اسی دین محمدی کی طرف رجوع کرنا ہے۔ کیوں کہ اب اللہ کا دین اپنی محفوظ حالت میں صرف دین محمدی میں پایا جاتا ہے۔مکہ کے قریش اگرچہ عملاً شرک پر قائم تھے، لیکن وہ اپنے مذہب کو حضرت ابراہیم کے ساتھ وابستہ کرتے تھے۔ اس لیے وسیع تر پہلو سے قریش بھی اس خطاب میں شامل ہیں۔یہود و نصاریٰ اس خطاب میں براہ راست طور پر شامل تھے، اور قریش بالواسطہ طور پر۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا وجود

خدا اپنی ذات کے اعتبار سے انسان کو دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن اپنی صفات کے اعتبار سے وہ مکمل طور پر دکھائی دینےوالی حقیقت ہے۔ جو لوگ خدا کو اس کی صفات کے اعتبار سے دیکھ لیں، وہی آنکھ والے لوگ ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ یہ کہیں کہ خدا کو اپنی ذات کے اعتبار سے ہمیں دکھاؤ، وہ بلاشبہ اندھے لوگ ہیں۔وہ بظاہر آنکھ والے لوگ ہیں، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ بے آنکھ والے ہیں۔ کیوں کہ وہ عقل رکھتے ہوئے اپنی عقل کو استعمال نہیں کرسکے۔ وہ اپنی ظاہری آنکھ کو تو کھولتے ہیں، لیکن وہ اپنی عقل کی آنکھ کو بند رکھتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں یہ بات ہر حقیقت سے زیادہ بڑی حقیقت بن چکی ہے۔ موجودہ زمانے میںجس چیز کو سائنس کہا جاتا ہے، وہ کیا ہے۔ سائنس انسان کی عقلی آنکھ ہے۔ اس عقلی آنکھ نے موجودہ زمانے میں انسان کو وہ چیزیں دکھادی ہیں، جس کو اس سے پہلے انسان نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اب انسان اس قابل ہوچکا ہے کہ وہ عالم اصغر (micro world) کو مائکرو اسکوپ کے ذریعہ دیکھے۔ جب کہ اس سے پہلے وہ انسا ن کے لیے مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ تھا۔ اسی طرح انسان کے لیے اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ عالم کبیر (macro world)کو عقل کی آنکھ سے دیکھے۔ وہ ٹیلسکوپ کے ذریعہ ایسی چیزوں کو دیکھ سکے، جو پہلے اس کے لیے ناقابل مشاہدہ بنی ہوئی تھیں۔
آج مائکرواسکوپ نے ان چیزوں کو انسان کے لیے قابل مشاہدہ بنادیا ہے، جو پچھلے زمانے میں ناقابل مشاہدہ سمجھی جاتی تھیں۔ اسی طرح ٹیلسکوپ نے وہ چیزیں انسان کو دکھادی ہیں، جو پچھلے زمانے میں انسان کے لیے ناقابل مشاہدہ بنی ہوئی تھیں۔ یہ واقعہ ایک سراغ (clue)کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سراغ بتاتا ہے کہ یہ معاملہ خدا کو نہ دیکھنے کا نہیں ہے، بلکہ یہ اپنی عقل کے کم تر استعمال کا ہے۔ اگر انسان اپنی عقل کا بر تر استعمال جان لے تو خدا اس کے لیے مشاہدہ کے درجے میں قابل دریافت بن جائے گا۔ وہ خدا کو اس طرح جان لےگا جیسے کہ وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب منصوبہ بندی

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سن 6 ہجری کے آخر میں مکہ کے لیڈروں سے ایک معاہدہ کیا تھا۔ جو حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ عام طور پر حدیبیہ کو غزوۃ الحدیبیہ کہاجاتا ہے۔ مگر یہ درست نہیں۔ کیوں کہ حدیبیہ کے موقع پر فریقین کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس، جو ہوا وہ یہ تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان باہمی امن کا معاہدہ ہوا۔
الحدیبیہ عرب کے ایک علاقہ کا نام ہے، جو مدینہ اور مکہ کے تقریباً درمیانی مقام پر واقع ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےایک پروگرام کے تحت یہاں دوہفتہ قیام کیا۔ یہاں آپ نے مکہ کے لیڈروں سے گفت و شنید (negotiation) کی۔ اس کے بعد فریقَین کے درمیان دس سال کے لیےایک ناجنگ معاہدہ (no-war pact) ہوا۔ اس معاہدہ کی تکمیل کے بعد مدینہ پہنچنے سے پہلے وہ سورہ نازل ہوئی جو الفتح کے نام سے قرآن میں شامل ہے۔ اس سورہ میں حدیبیہ کے واقعہ کو فتح مبین (clear victory) بتایا گیا ہے۔
جب حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا، اس وقت اہل اسلام کو کوئی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی۔ صرف یہ ہوا تھا کہ فریقَین کے درمیان امن کا معاہدہ ( peace treaty)عمل میں آیا تھا۔ ایسی حالت میں اس واقعہ کو فتح مبین کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لفظ حال کی نسبت سے نہیں، بلکہ مستقبل کی نسبت سے تھا۔ اس اعتبار سے فتح مبین کا مطلب گویا فاتحانہ منصوبہ (victorious planning) کے ہم معنی ہے۔ رسول اللہ کی سنتوں میں سےایک اہم سنت وہ ہے جس کو فاتحانہ منصوبہ بندی کہا جاسکتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب مدینہ سے نکلے تھے، مکہ جانے کے لیے ۔ لیکن وہ معاہدہ کے مطابق حدیبیہ سے واپس مدینہ آگیے۔ اس لحاظ سےحدیبیہ کا واقعہ بظاہر ایک پسپائی کا واقعہ تھا۔ پھر اس کو فتح مبین کیوں کہا گیا۔ وہ اس لیے تھا کہ حدیبیہ کی بظاہر پسپائی اپنے نتیجے کے اعتبار سے فتح مبین تھی۔
واپس اوپر جائیں

قیام لیل

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامِ لیل کا حکم دیتے ہوئے قرآن میں یہ آیات آئی ہیں:وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا ۔ إِنَّا سَنُلْقِی عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیلًا۔ إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّیْلِ ہِیَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِیلًا (73:4-6)۔ یعنی قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ ہم تم پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔ بیشک رات کا اٹھنا سخت روندنے والا ہے اور فہم کلام کے لئے نہایت خوب ہے۔
اس آیت میں أشد وطأ کا لفظ قیامِ لیل کی نسبت سے آیا ہے۔ یعنی اس سے نفس روندا جاتا ہے، اور اقوم قیلا کا تعلق فہم کلام سے ہے۔ یعنی اس سے آدمی اس قابل بنتا ہے کہ وہ کلام کو زیادہ بہتر طریقے پر سمجھ سکے۔یہ بات بظاہر پیغمبر اسلام کے بارے میں آئی ہے۔ تاہم پیغمبر کی اتباع کے اعتبار سے اس کا تعلق پوری امت سے ہے۔ اس میں پیغمبر کے حوالے سے پوری امت کے لیے رزق کا سامان موجود ہے۔
قرآن کی اس آیت میں وطأ شدید کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام رات کے وقت دیر تک کھڑے ہوکر عبادت کرتے تھے، اس سے آپ کو شدید بوجھ پڑتا تھا، گویا کہ آپ کا جسم روندا جارہا ہے۔ اس وطأ شدید کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے آپ کے اندر قول اقوم کی صلاحیت پیدا ہوتی تھی۔ اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ جسمانی تعب آدمی کے لیے ایک قسم کا زحمت میں رحمت (blessing in disguise) ہوتا ہے۔ اس سے آدمی کی سوچ بیدار ہوتی ہے۔ اس سے آدمی کے دماغ کی کھڑکیاں کھلتی ہیں۔ اس سے آدمی کے اندر زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچنے کی صلاحیت جاگتی ہے۔ غالباً اس وطأ شدید میں دوسرے وہ دینی اعمال بھی شامل ہیں، جن میں آدمی کو شدید تعب کا تجربہ ہو۔ جو گویا آدمی کی شخصیت کو روند ڈالے۔ جس میں آدمی کا یہ حال ہو کہ اس کی شخصیت گویا چکی کے دو پاٹ کے درمیان پس گئی ہے۔ اگر ایسا ہو تو وہ آدمی کے اندر اعلیٰ فہم کی صلاحیت پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

جہاد کا حکم

جہاد بمعنی قتال ایک خصوصی حکم ہے۔ جہاد بمعنی قتال کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے، جب کہ مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت قائم ہو، اور اس کی سرحدوں پر کھلی جارحیت کی جائے۔ اس وقت ذمہ داران سلطنت کی طرف سے جارح سے گفت و شنید کی جائے گی۔ اگر گفت و شنید ناکام ہوجائے تو بقدر ضرورت مسلمانوں کی طرف سے منظم دفاع کیا جائے گا۔ یہی شرعی جہاد ہے۔ اس دفاع کے معاملے میں افراد کا کوئی آزادانہ رول نہیںہے۔ افراد کو صرف یہ کرنا ہے کہ امیر سلطنت کے حکم کے مطابق، دفاع میں منظم حصہ لیں۔ یہاں اس سلسلے میں ایک حوالہ درج کیا جاتا ہے۔
ابو محمد موفق الدین عبد اللہ بن احمد بن محمدبن قدامہ المقدسی حنبلی (1147-1223 ء) محدث، فقہ حنبلی کے عالم اور قاضی اور مفکر تھے۔انھوں نےفقہ حنبلی کے فقہی مسائل پر بیشتر کتب تصنیف کیں ۔ وہ حنابلہ کے عظیم فقہاء میں سے ایک ہیں۔ ابن قدامہ کی تصنیف المغنی کا شمار فقہ حنبلی کی بنیادی کتابوں میںہوتا ہے۔
اس کتاب کا ایک باب ہے: فصل وأمر الجہاد موکول إلى الإمام واجتہادہ۔ اس باب کے تحت مصنف لکھتے ہیں: وَأَمْرُ الْجِہَادِ مَوْکُولٌ إلَى الْإِمَامِ وَاجْتِہَادِہِ، وَیَلْزَمُ الرَّعِیَّةَ طَاعَتُہُ فِیمَا یَرَاہُ مِنْ ذَلِکَ (المغنی، 9/202/7423)۔ یعنی جہاد اور اس کے اجتہاد کا معاملہ امام کے ذمہ (assigned)ہے، اور رعیت پر لازم ہے کہ وہ اس معاملے میں جو حاکم کی رائے ہو، اس کی اطاعت کرے۔
جہاد بمعنی قتال ایک منظم دفاعی امر ہے۔ جہاد کو شروع کرنا، اور اس کو ختم کرنا، دونوں باقاعدہ طور پر قائم شدہ حکومت کا کام ہے۔ اس معاملے میں افراد کا رول صرف حاکم کی اطاعت ہے، نہ کہ بطور خود جارح کے خلاف کوئی کارروائی کرنا۔ نماز بغیر امیر کے بھی ہوسکتی ہے، لیکن جہاد بمعنی قتال امیر کے بغیر سر تاسر ناجائز ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کا اسلوب

قرآن کا ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: فَأَعْرِضْ عَنْہُمْ وَعِظْہُمْ وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63)۔ یعنی پس تم ان سے اعراض کرو اور ان کو نصیحت کرو اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔
اس آیت میں قول بلیغ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان کی تفسیر میںقاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی (وفات1810ء)نے لکھا ہے: ای فى حق أنفسہم قَوْلًا بَلِیغاً یبلغ صمیم قلوبہم بالتأثیر (تفسیر المظہری، 2/157)۔ یعنی اپنی بات ایسے اسلوب میں کہو جس کی تاثیر ان کے دلوں کی گہرائیوں میں اترجائےہو۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ ایسا اسلوب جو ان کے ذہن کو ایڈریس (address)کرنے والا ہو۔ یہاںاسلوب بلیغ کی یہ بات بظاہر مدعو کی نسبت سے ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ داعی کی نسبت سے ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ داعی کو چاہیے کہ وہ مدعو سے خطاب کرنے سے پہلے مدعو کے ذہن کا مطالعہ کرے۔ وہ جانے کہ مدعو کا مائنڈ سٹ (mindset)کیا ہے، اور پھر مدعو کے مائنڈ سٹ کے مطابق، دعوت کا اسلوب اختیار کرے۔ دعوت یک طرفہ اعلان (one-sided announcement) کا نام نہیں ، بلکہ وہ ایک منصوبہ بند عمل کا نام ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ مدعو کے لیے قابلِ فہم (understandable) انداز کو سمجھے، پھر اس کے بعد اپنے آپ کو اس کے مطابق تیار کرے۔
مثلاً زمانہ اگر بدل جائے، اور مدعو اگر نئے اسلوب میں سوچنے والا بن گیا ہو تو اس کو قدیم طرز کے متروک اسلوب میں خطاب کرنا، دعوت کا مطلوب طرز نہ ہوگا۔مدعو اگر حقائق کی زبان میں سوچنے والا ہو تو اس کو قیاس و مثال کے ذریعہ خطاب کرنا، دعوت کا مطلوب انداز نہ ہوگا۔ مدعو اگر عقلی تجزیہ (rational analysis) کے انداز میں سوچتا ہو تو اس کو جذباتی انداز میں کلام کرنا ، مطلوب اسلوب کلام نہ ہوگا، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

خلاق علیم

اللہ رب العالمین کی ایک صفت خلاق علیم ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: أَوَلَیْسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ یَخْلُقَ مِثْلَہُمْ بَلَى وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیمُ (36:81)۔ یعنی کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، وہ اس پر قادر نہیں کہ ان جیسوں کو پیدا کردے۔ ہاں وہ قادر ہے۔ اور وہی ہے بڑاپیدا کرنے والا، جاننے والا۔
اس آیت میں جس طرح خلّاق (the Great Creator) آیا ہے، اسی طرح اس میں علیم سے مراد علّام (the Great Knower) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العالمین خلّاق اور علّام ہے۔ اللہ کی پیدا کی ہوئی کائنات اپنے آپ میں ا س کا ثبوت ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن کی ایک آیت میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے:أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ (21:30)۔ یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوںرَتق کی حالت میں تھے، پھر ہم نے ان کو فتق کیا۔ اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔ کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے۔
رتق کا مطلب ہے منضم الاجزاء (joined together)، اور فتق کا مطلب ہےپھاڑنا (to tear apart)۔ اس آیت کی ابتدا میں أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا (کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا ) کے الفاظ آئے ہیں۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ رتق اور فتق کا یہ واقعہ انسان کے لیے مشاہدہ کے درجے میں ایک معلوم واقعہ ہے۔ بیسویں صدی عیسوی میں یہ واقعہ سائنسی دریافتوں کے نتیجے میں علمی طور پر ایک معلوم واقعہ بن چکا ہے۔ جس کو عام زبان میں بگ بینگ (Big Bang) کہا جاتا ہے۔سائنسی دریافت کے مطابق، بگ بینگ کا واقعہ تقریبا تیرہ بلین سال پہلے خلا (space) میں پیش آیا۔ اس واقعہ کی جو تفصیلات سائنس نے دریافت کی ہے، وہ قرآن کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں۔
اس دریافت کے مطابق، بگ بینگ کا فلکیاتی واقعہ حیرت انگیز طور پر اس بات کا سائنسی ثبوت ہے کہ کائنات کا پیدا کرنے والا خلّاق بھی ہے اور علّام بھی۔ یعنی وہ عظیم خالق بھی ہے اور عظیم جاننے والا بھی۔ کائنات کا پیدا کرنے والا اگر خلًاق (بڑا پیدا کرنے والا) اور علّام (بڑا علم والا) نہ ہو تو کائنات کا وجود میں آنا ہی ناممکن ہوجاتا۔ خلّاق اور علّام کے الفاظ صرف پیدائش کی خبر نہیں ہے، بلکہ وہ پیدائش کے واقعہ کی دلیل بھی ہے۔
سائنس نے جس کائناتی واقعہ کو دریافت کیا ہے، وہ یہ ہے کہ تقریبا تیرہ بلین سال پہلے اچانک خلا میں ایک بہت بڑا ایٹم ظاہر ہوا اس سوپر ایٹم (super atom)کے اندر وہ تمام پارٹکل موجود تھے، جن کے مجموعے سے موجودہ کائنات بنی ہے۔ پھر اچانک اس سوپر ایٹم میں بہت بڑا دھماکہ ہوا۔ اس عظیم دھماکے کے بعد سوپر ایٹم کے تمام پارٹکل غیر معمولی تیزی کے ساتھ خلا میں دوڑنے لگے۔ان کی رفتار (speed)بے حد تیز تھی۔ اگر پارٹکل کا یہ انتشار اسی تیزی کے ساتھ جاری رہتا تو موجودہ کائنات کا بننا ناممکن تھا۔ کیوں کہ اس کے تمام پارٹکل بے حد تیزی کے ساتھ خلا میں منتشر ہوجاتے۔ ان کا اجتماع ناممکن ہوجاتا۔ اس لیے کائنات کا بننا بھی ناممکن ہوجاتا۔
سائنسی دریافت بتاتی ہے کہ سوپر ایٹم کے پھٹنے کے بعد کچھ سیکنڈوں کے اندر پارٹکل کے انتشار کی رفتار اچانک کم ہوگئی۔ رفتار کا یہ کم ہوجانا بے حد اہم تھا۔ کیوں کہ اسی کی وجہ سے منتشر پارٹکل دوبارہ مجتمع ہونے لگے، اور ان کے اجتماع سے تمام ستارے اور کہکشائیں، اور شمسی نظام، وغیرہ، وجود میں آئے۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ جس ہستی نے سوپر ایٹم میں یہ انفجار برپا کیا، وہ سب سے زیادہ طاقت ور ہونے کے ساتھ سب سے بڑا جاننے والا بھی تھا۔ اس واقعہ کا اس کےخالق کو پیشگی علم تھا۔ اس علم کے مطابق اس نے اس معاملے کی پلاننگ کی۔ سیکنڈ کے فریکشن میں ہونے والے اس واقعہ کا اس کو پیشگی علم نہ ہوتا تو ساری پلاننگ عبث ہوجاتی، اور کائنات کاوجود میں آنا ناممکن ہوجاتا۔ یہ سائنسی دریافت رب العالمین کے خلّاق وعلّام ہونے کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
واپس اوپر جائیں

مسجد کا مسئلہ

عام طو رپر یہ سمجھا جاتاہے کہ مسجد کی تعمیر ایک ابدی تعمیر ہے۔ جس مقام پر ایک بار مسجد بن جائے ، وہاں وہ مسجد ہمیشہ قائم رہے گی، اُس کا وہا ں سے ہٹانا جائز نہیں ۔ مسجد کے بارے میں یہ مسئلہ اسلام کے بعد کے زمانے میں عباسی دور میں کچھ فقہا نے وضع کیا۔ لیکن قرآن یا حدیث میں مسجد کے بارے میں ایسا کوئی مسئلہ ہرگز موجود نہیں۔موجودہ زمانے کے بعض علما نے اس مسئلہ کو اجتہادی مسئلہ بتایا ہے۔ یعنی ضرورت کے تحت مسجد کو اس کے سابق مقام سے ہٹایا جاسکتا ہے، او ر اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ حنبلی فقہ واضح طور پر اس مسئلے کی تائید کرتی ہے۔
مشہور حنبلی عالم ابن قدامہ (1147-1223ء) نے اپنی کتاب المغنی میں لکھا ہے : ولو جاز جعل أسفل المسجد سقایة وحوانیت لہذہ الحاجة، لجاز تخریب المسجد وجعلہ سقایة وحوانیت ویجعل بدلہ مسجدا فی موضع آخر(المغنی لابن قدامہ، 6/30)۔ یعنی اگر ضرورت کے تحت مسجد کے نچلے حصہ کو سقایہ(پانی کا حوض) اور دکان بنانا جائز ہے، تو مسجد کو ڈھانا اور اس کو سقایہ اور دکان بنانا بھی جائز ہے، اور اس کے بدلے میں دوسری جگہ ایک مسجد بنائی جائے گی۔
اسلام میں مسجد کی عمارت کا مسئلہ ضرورت کی بنیاد پر ہے، نہ کہ تقدس کی بنیاد پر۔ جدید دورمیں جب سٹی پلاننگ کا زمانہ آیا تو مسلم شہروں مثلاً مکہ ،مدینہ ،وغیرہ، میں بڑی تعداد میں قدیم مسجدیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل (relocate)کی گئیں۔ کیوں کہ یہ قدیم مسجدیں سٹی پلاننگ (city planning) میں رکاوٹ ثابت ہورہی تھیں۔ مثلاً اگر ایک مسجد بلال کے نام پر کہیں واقع تھی، تو اسی نام سے دوسری مسجد پہلے مقام سے ہٹاکر دوسری جگہ پر بنا دی گئی، اور مسجد کے مقام پر شہری منصوبہ کے مطابق نئی تعمیر کی گئی۔مسجد کی عمارت بلاشبہ ایک قابل احترام عمارت ہے۔ لیکن ضرورت کے تحت کسی مسجد کی عمارت کے مقام کو تبدیل کرنا بلاشبہ جائز ہے۔
واپس اوپر جائیں

آج کا نوجوان
پاکستان کے مشہور تعلیمی ادارہ ، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(LUMS) میں’’یک روزہ بک فیر‘‘کا پروگرام تھا۔ ہمارے ایک ساتھی، مسٹر طارق بدر نے وہاں بک اسٹال لگایا۔ یہ بک اسٹال بہت زیادہ کامیاب رہا۔مسٹر طارق بدر نے بک فیر کے اختتام پر اپنا تاثر ان الفاظ میں لکھا ہے:
LUMS Book Fair is going great. Students are taking copies of the English Quran and giving such comments: “I was looking for it”, ـ“I need it” and “Can I have one for my friend”. An important learning I had was that today we need to work among the youth, as they are pure seekers and want to understand the true religion. Unfortunately, all other Islamic literature does not address their minds. How our stock of 350 English Qurans finished was a great surprise and students’ excitement after receiving their free copies was unbelievable. Another book which was sold in good amount was Leading A Spiritual Life. Let’s pray that we spread this message to all universities here. We are thankful for Affan, who is doing PhD from LUMS and is part of our team.This was his initiative.
برٹش دور میں جب غیر منقسم انڈیا میں ماڈرن ایجوکیشن کا آغاز ہوا تو تقریباً تمام مذہبی طبقہ، اور اسلامی تحریکیں ان کے خلاف ہو گئیں۔ اکبر الہ آبادی نے اس تعلیم کے بارے میں کہا تھا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
سید ابوالاعلی مودودی نے اس زمانے میں کالج اور یونیورسٹی کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ تعلیم گاہیں نہیں ہیں، بلکہ وہ قتل گاہیں ہیں۔ یہی حال تقریباً تمام ان لوگوں کا تھا، جو اسلام پسند کہے جاتے تھے، اور احیائے اسلام کا جھنڈا بلند کیے ہوئے تھے۔ مگر تجربے نے بتایا کہ یہ تعلیم ہمارے نوجوانوں کے لیے ڈی کنڈیشننگ کا ذریعہ تھی۔ اس تعلیمی نظام میں جو لوگ پڑھ کر نکلے، وہ ’’قتل ‘‘ نہیں ہوئے، بلکہ جدید تعلیم نے ان کے اندر نئی اسلامی بیداری پیدا کردی— وقت کی ضرورت یہ ہے کہ سیکولر تعلیم یافتہ لوگوں پر فتوی لگانے کے بجائے، ان کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا لٹریچر تیا ر کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

خوف کی نفسیات
بیسویں صدی عیسوی مسلم دنیا کے لیے تحریکوں کی صدی (the century of milli activities) ہے۔ اس پوری صدی کے اندر مسلم دنیا کے ہر حصے میں کوئی نہ کوئی بڑا مسلم رہنما سرگرم عمل نظر آتا ہے۔ ان تحریکوں کا خلاصہ کیا جائے تو سب کا قدر مشترک ایک ہوگا۔ وہ ہے خوف کی نفسیات۔ ہر مسلم رہنما کسی نہ کسی دشمن کے خوف کو لے کر مسلمانوں کو اس کے خلاف عمل پر ابھاررہا تھا۔کہیں نو آبادیاتی طاقتوں کے خلاف، کہیں اسرائیل کے خلاف، کہیں ہندو اکثریت کے خلاف، کہیں ظالم قوم کے خلاف، کہیں مغربی طاقتوں کے خلاف، کہیں صہیونیت کے خلاف، وغیرہ۔
یہ ایک عام تجربہ ہے کہ لوگوں کو محبت انسانی کے اوپر اٹھایا جائے تو کبھی ایسی تحریک کو عوامی تائید حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس، جو لیڈر لوگوں کو خوف کی نفسیات پر ابھارے، اس کے جھنڈے کے نیچے بےشمار لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہوجاتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کے اندر اپنے خالق و منعم کا خوف پیدائشی طور پر موجود ہے۔ انسان فطری طور پر اس احساس میں جیتا ہے کہ جس خالق نے ہم کو تمام نعمتیں دی ہیں، اگر وہ ان نعمتوں کو چھین لے تو ہمارا کیا انجام ہوگا۔ یہ نفسیات انسان کے اندر خالق کی نسبت سے رکھی گئی ہے، تاکہ ہر انسان ذمہ دار انسان بن کر دنیا میں رہے۔ مگر غیردانش مند لیڈر اپنے انٹرسٹ کے لیے اس نفسیات کو مفروضہ انسانی دشمنوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری انسانی تاریخ ایک عظیم نقصان سے دو چار ہورہی ہے۔ خوف کی نفسیات جو انسان کے اندر خدا کی نسبت سے رکھی گئی تھی، وہ انسان کی نسبت سے استعمال ہونے لگی۔ جس نفسیات کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ انسان کے اندر خدا رخی مزاج بنے، وہ انسان کے خلاف منفی مزاج پیدا کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ انسان خالق سے ڈرے تو اس کے نتیجے میں اس کے اندر یہ نفسیات جاگتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو انسان درست آدمی بنائے۔ اس کے برعکس، جب یہ نفسیات انسان کی نسبت سے استعمال ہونے لگے تو ہر آدمی دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ کر اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سیاسی کنڈیشننگ میں جینا

انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مسلمانوں کے اندر بہت سی تحریکیں اٹھیں۔ ان تحریکوں کے ٹائٹل الگ الگ تھے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے سب کا نشانہ ایک تھا— مسلمانوں کی سیاسی عظمت کو دوبارہ زندہ کرنا۔ ان میں سے کسی تحریک کا ٹائٹل حکومت الہیہ تھا اور کسی کا اقامت دین، کسی کا ٹائٹل امامت کبریٰ تھا اور کسی کا ٹائٹل خلافت اسلامیہ، کسی کا ٹائٹل اسلامی نظام تھا اور کسی کا ٹائٹل اسلامی عدل، کسی کا ٹائٹل تہذیب اسلامی کا احیا تھا اور کسی کا ٹائٹل امت کی نشاۃ ثانیہ، کسی کا ٹائٹل شریعت کا نفاذ تھا اور کسی کا ٹائٹل خلافت علیٰ منہاج النبوۃ، وغیرہ۔ لیکن اگر ان کو عملی سرگرمیوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہر ایک دین کے نام پر سیاسی سرگرمیوں میں مبتلا نظر آئے گا۔ اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کو لمبے عرصے تک سیاسی عظمت حاصل ہوئی۔ حالات نے ان کو موقع دیا کہ وہ زمین کے بڑے حصے میں اپنا ایمپائر قائم کرلیں۔ اس کے بعد جب جدید دور آیا تو دوبارہ حالات کے تقاضے کے تحت ان کی سلطنتیں ٹوٹ گئیں، اور دھیرے دھیرے ہر جگہ جمہوری سلطنتیں قائم ہوگئیں۔
یہ سیاسی واقعہ جو پیش آیا، وہ قرآن میں بیان کردہ اس قانون کے تحت ہوا :وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ َ (3:140)۔یعنی اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن مسلم رہنماؤں نے شعوری یا غیر شعور ی طور پر سیاسی عظمت کو اپنا قومی حق سمجھ لیا۔ وہ اپنی سیاسی عظمت کو واپس لانے کے لیے کوششیں کرنے لگے، اور غلط طور پر ان کوششوں کو جہاد کا نام دے دیا۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوری مسلم قوم کے لیے یہ معاملہ سیاسی کنڈیشننگ (political conditioning) کا معاملہ بن گیا ہے۔ اب پولیٹکل پیٹرن کے سوا کوششوں کا کوئی دوسرا پیٹرن ان کو درست پیٹرن نظر نہیں آتا۔ ان کو صرف ایک بات معلوم ہے— جس قوم کو اپنا حریف سمجھیں، اس پر بم مارنا، اور جب اس غلط پلاننگ کا الٹا نتیجہ نکلے تو اپنے آپ کو مظلوم بتا کر ظلم کی شکایت کرنا۔
واپس اوپر جائیں

مشکل حالات

فطرت کا ایک اصول قرآن میں ان الفاظ میں بیا ن کیا گیاہے: سَیَجْعَلُ اللَّہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْرًا (65:7)۔ یعنی اللہ عُسر کے بعد عنقریب یسر پیدا کردے گا۔ عسر کا مطلب ہے مشکل (difficulty)، اور یُسر کا مطلب ہے آسانی (ease)۔قرآن کی یہ آیت طلاق کے حکم کے دوران آئی ہے۔ لیکن یہ فطرت کا اصول ہے، اور اس اعتبار سے اس اصول کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔
اس اصول کے اندر ایک حکمت چھپی ہوئی ہے۔ جب آدمی کے اوپر مشکل حالات آتے ہیں، تو اس کے ذہن میں ایک دباؤ (pressure) پیدا ہوتا ہے۔ اس دباؤ کے تحت وہ زیادہ سوچنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ معاملے کے نئے نئے پہلو اس کی سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ مشکل سے پہلے اگر وہ ایک غیر تخلیقی ذہن تھا، تو مشکل کے بعد وہ ایک تخلیقی ذہن (creative mind) بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ زیادہ اہلیت کے ساتھ صورت حال کا سامنا کرے۔وہ زیادہ بہتر طور پر مواقع (opportunities) کو دریافت کرسکے۔
اس اصول کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ گھر کی زندگی، سماج کی زندگی، اور وسیع تر معنوں میں قومی اور بین اقوامی زندگی۔ حقیقت یہ ہے کہ مشکل کی حیثیت انسانی زندگی میں معلّم کی ہے۔ کسی نے درست طور پر کہا ہے کہ مشکل انسان کو انسان بناتی ہے:
It is not ease but effort, not facility but difficulty that makes men.
فطرت کا نظام اس طرح بنا ہے کہ انسان کو کبھی اپنی مرضی کے مطابق بالکل آسان حالات نہ ملیں ، اس کو مشکلات کی جھاڑیوں سے گزرنا پڑے۔ یہ صورت حال انسان کی شخصیت کی تعمیر کرنے کے لیے ہے۔ یہ صورتِ حال ایک انسان کو غیر پختہ شخصیت (immature personality)کے بجائے پختہ شخصیت (mature personality)بنا دیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ختم نبوت کا عقیدہ

ختم نبو ت کا عقیدہ فضیلت کا عقیدہ نہیں ہے۔ اسی طرح ختم نبوت کا عقیدہ عدد (number) کی تکمیل کا نام نہیں ہے۔ ختم نبوت کے عقیدہ کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت باعتبار رہنمائی قیامت تک جاری رہے گی۔ نبوت محمدی کا تسلسل باعتبار رہنمائی غیرمنقطع طور پر اور مسلسل طور پر قیامت تک قائم رہے گا۔ یہ تسلسل ختم نبوت کا لازمی تقاضا ہے۔ اگر پیغمبرانہ رہنمائی کا تسلسل ٹوٹ جائے تو اللہ کے قانون کے مطابق نئے پیغمبر کا آنا لازم ہوجائے گا، اور اب کوئی نیا پیغمبر آنے والا نہیں ۔
البتہ ایک چیز کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی، اور وہ ہے مخاطب کی نسبت سے پیغمبرانہ رہنمائی کی تفہیم۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ زمانہ میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ لوگوں کا فکری اسلوب بدلتا رہتا ہے۔اس بنا پر ضرورت ہوتی ہے کہ ہر زمانہ کے مخاطبین کے لیے پیغمبرانہ رہنمائی کو قابل فہم بنایا جائے تاکہ ان کا ذہن ایڈریس ہو۔ یہ کام تفہیم و تشریح کا کام ہے، نہ کہ کسی قسم کے اضافہ کا کام ۔
مثال کے طور پر پیغمبرانہ ہدایت میں ایک تصور توبہ (repentance) کاہے۔ توبہ کا لفظی مطلب ہےلوٹنا، رجوع کرنا۔ دوسرے لفظوں میںپٹری سے اترنے (derailment) کے بعد دوبارہ پٹری پر واپس لانا۔ اگر کوئی شخص اس معاملے کو ان الفاظ میں بیان کرے کہ توبہ کا مطلب ہےفرسٹ چانس کھوئے جانے کے بعد سیکنڈ چانس کو اویل (avail) کرنا۔ تو یہ ایک تفہیم کے اسلوب کی بات ہو گی۔اس کا مقصد یہ ہوگا کہ مخاطب کا ذہن ایڈریس ہو، اور اس کے اندر عمل کی آمادگی پیدا ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ کسی گم شدہ کڑی سے لوگوں کودوبارہ باخبر کیا جائے۔
یہی دین کی تجدید ہے۔ تجدید کا مطلب ہے نیا کرنا۔ نیا کرنے کا یہ عمل ریفارمیشن (reformation) کا عمل ہے ۔ یہ دین کی وضاحت کرنے کا عمل ہے۔ تجدید دین سے مراد تفہیم دین کی تجدید ہے، نہ کہ خود دین کی تجدید۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپا رمائنڈر کا زمانہ

بڑھاپے کا زمانہ یاد دلاتا ہے کہ اب انسان کے لیے موت کا وقت قریب آچکا ہے۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ پہلا دور حیات ختم ہوا، اور اب دوسرا دور حیات شروع ہونے والا ہے۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ وہ وقت قریب آچکا ہے ، جس کو قرآن میں یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ (83:6) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
بڑھاپا یاددلاتا ہے کہ انسان کے لیے عمل کا زمانہ ختم ہوچکا ہے، اور اب عمل کے مطابق محاسبہ کا وقت آگیا۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ عارضی دور حیات سے گزر کر ابدی دور حیات میں داخل ہونے کا وقت قریب آچکا ہے۔بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ اب اس کا سامنا اس رب العالمین سے ہونے والا ہے جس سے اس کی کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔
بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ انسان کے لیے وہ وقت قریب آچکا ہے، جس کو قرآن میں یوم التغابن (التغابن، 64:9)کہا گیا ہے۔ یعنی کسی کے لیے ہار کا دن اور کسی کے لیے جیت کا دن۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ عنقریب اس کا داخلہ یا تو ابدی جنت میں ہونے والا ہے، یا اس کے لیے ابدی حسرت (البقرۃ، 2:167) ہوگی۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ آخری توبہ کا وقت قریب آچکا ہے۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ آخری فیصلہ کا وقت قریب آچکا ہے۔
بڑھاپے کا زمانہ آدمی کے لیے گویا فائنل کال (final call)ہے کہ اب تمھارے لیے تلافی ما فات کا آخری لمحہ ہے۔ جو کام ماضی میں نہ ہوسکا اس کو اب انجام دینے کی کوشش کرو۔ اب تمھارے لیے آخری وقت ہے کہ تم ماضی کی غلطی کی اصلاح کرلو۔ اب تمھاری زندگی میں جو تھوڑا سا وقت باقی ہے، وہ تمھارے لیے آخری وقت ہے۔ اس کو استعمال کرلو، کیوں کہ اب یہ وقت دوبارہ تمھارے لیے آنے والا نہیں۔پچھلا زمانہ اگر تم نے سونے میں گزاردیا تو اب جاگ اٹھو۔ کیوں کہ بیداری کا وقت اب دوبارہ آنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

غیر متحقق بات کا چرچا

انسان کی ایک کمزوری ہے ———غیر ثابت شدہ بات کا چرچا کرنا۔ یعنی سنی ہوئی بات کو بلاتحقیق لوگوں سے بیان کرنا۔ اللہ کی نظر میں یہ عادت اتنی زیادہ غلط ہے کہ اس کو اشاعت فاحشہ (النور، 24:19) کہا گیا ہے۔ اشاعت فاحشہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں کوئی بری بات سنے تو فوراً اس کو دوسروں سے بیان کرنے لگے۔یہ عادت بے حد مذموم عادت ہے۔ اس قسم کی عادت یقینی طور پر اللہ کے یہاں قابل مواخذہ ہے۔
سماجی زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ طرح طرح کی خبریں پھیلتی ہیں۔ لوگوں کا عام مزاج یہ ہے کہ وہ جب بھی کوئی ایسی بات سنتے ہیں تو وہ فوراً ہی ا س کا چرچا شروع کردیتے ہیں۔ یہ نہایت غیرذمہ دارانہ طریقہ ہے۔ سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق بیان کرنا، ایک ایسا فعل ہے جو آدمی کے لیے ایک بڑی ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے۔
اس طرح کے معاملے میں آدمی کے لیے صرف دواختیار (options) ہیں۔ ایک یہ کہ خبر کو سن کر اس کو نظر انداز کردیا جائے، اور اپنے کام میں لگا رہے۔ اگر آدمی ایسا کرے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ اس کے لیے نہ دنیا میں اس کی پکڑ ہے، اور نہ آخرت میں ۔
لیکن اگر وہ سنی ہوئی خبر کو بطور واقعہ تسلیم کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے انتہائی طور پر ضروری ہے کہ وہ مستند ذرائع سے اس کی تحقیق کرے، اس وقت تک اس خبر کو نہ مانے جب تک ناقابل تردید شواہد سے اس کی تصدیق نہ ہوچکی ہو۔
بے بنیاد خبر کو پھیلانا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کا براہ راست تعلق خود آپ کی اپنی شخصیت سے ہے۔ اگر آپ خبر کو بلاتحقیق بیان کریں تو اس سے آپ کے اندر کمزور شخصیت (weak personality) بنے گی، اور کمزور شخصیت ہی کا دوسرا نام منافقت ہے۔ آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے اندر اس مزاج کو بننے نہ دیں۔
واپس اوپر جائیں

اپنے خلاف

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بظاہر دوسرے کے خلاف بولتا ہے۔ لیکن اس کی بات خود اپنے خلاف ہوتی ہے۔ اکثر آدمی’’وہ‘‘ کی زبان بولتا ہے۔ مگر جو بات وہ کہتا ہے، وہ عملاً ’’میں‘‘ کی زبان میں ہوتی ہے۔ یعنی آدمی ایک ایسی بات کہتا ہے، جس میں اس کی زد بظاہر ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ دوسرے کے خلاف ہوتی ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف اس کے اپنے خلاف ہوتی ہے۔
ایسا اس لیے ہے کہ اللہ کے نزدیک ہر معاملے میں انسان کی نیت کو دیکھا جاتا ہے۔ ہر معاملے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ آدمی نے بولنے سے پہلے کیا سوچا۔ اس کی کون سی سوچ تھی، جس کے تحت اس کی زبان سے وہ الفاظ نکلے جن میں اس نے کوئی بات کہی تھی۔ اسی بات کو ایک فارسی شاعر نے ان الفاظ میں کہا ہے: کجا میں نماید، کجا میں زند۔
یعنی تیر چلانے والا بظاہر کسی اور طرف نشانہ لگاتا ہے، لیکن وہ اپنے تیر سے جس کو مارنا چاہتا ہے، وہ کوئی اور ہوتا ہے۔انسان کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو جانے کہ آدمی جب بھی کوئی بات کہتا ہے تو اس سے پہلے وہ سوچتا ہے۔ سوچنا پہلے ہوتا ہے، اور بولنا اس کے بعد۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات جو آدمی بولتا ہے، اس کے ذریعہ وہ خود اپنا کردار بنا رہا ہوتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ یہ جانے کہ ہر بولنا ایک عمل ہے۔ بولنے کے دوران آدمی اپنی شخصیت کی تعمیر کر رہا ہوتا ہے، مثبت تعمیر یا منفی تعمیر، کبھی شعوری طور پر اور کبھی غیر شعوری طور پر۔
ہر عورت اور مرد کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مثبت بنیادوں پر تعمیر کرے۔ مثبت بنیاد پر تعمیر وہ ہے جس میں انسان کی نفسیات یا تو اللہ رب العالمین سے تعلق کی بنیاد پر بن رہی ہو، یا انسان سے محبت کی بنیاد پر۔ تعمیر خویش کی یہی اصل بنیادیں ہیں۔ آدمی کو ہمیشہ اپنا محاسبہ کرکے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اللہ سے تعلق کی بنیاد پر اپنی تعمیر کررہا ہے یا انسان سے خیر خواہی کی بنیاد پر۔ ہر عورت اور ہر مرد کو انھیں دو بنیادوں پر اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

منفی تجربہ

منفی تجربہ (negative experience) صرف منفی تجربہ نہیں ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک صدمہ (shock)ہے۔ صدمہ کا تجربہ انسانی ذہن کے لیے ایک فکری طوفان (storm) کے ہم معنی ہوتا ہے، کبھی چھوٹا اسٹارم اور کبھی بڑا اسٹارم۔ منفی تجربہ کے وقت انسان کے ذہن میں طوفان (storm) پیدا ہوتا ہے۔ وہ در حقیقت ایک توانائی (energy) کے اخراج (release) کا واقعہ ہے۔ یہ صدمہ انسان کے لیے مطلق معنوں میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اس کا استعمال اس کو اچھا یا برا بناتا ہے۔
اگر آپ اس صدماتی انرجی (shocking energy) کو مثبت رخ پر موڑ سکیں تو ہر صدمہ آپ کے لیے انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا ذریعہ بن جائے گا۔ آپ کے سوچنے کی طاقت، آپ کے تجزیہ (analysis)کی طاقت کچھ بڑھ جائے گی۔ آپ کا ذہن غیر تخلیقی ذہن سے بڑھ کر تخلیقی ذہن (creative mind) ہوجائے گا۔ آپ کے ذہن کی ایسی کھڑکیاں کھل جائیں گی، جو اس سے پہلے بند پڑی تھیں۔آپ کسی بھی وقت اس حقیقت کا تجربہ کرسکتے ہیں۔ مثلاً آپ نے کسی سے ایک بات کہی۔ وہ آدمی آپ کی بات کو سن کر غصہ ہوگیا۔ اس نے آپ کو اس کا سخت جواب دیا۔ اس وقت آپ جوابی غصہ نہ کریں، اور ٹھنڈے طریقے سے مثبت انداز میں غور کریں۔ آپ بہت جلد محسوس کریں گے کہ آپ کی قوت تفکیر بڑھ گئی ہے۔ آپ کے ذہن میں نئے نئے پوائنٹ آرہے ہیں۔ آپ کی بات خود آپ کے لیے زیادہ قابل فہم بن رہی ہے۔ آپ کے ذہن کی تخلیقیت میں اضافہ ہورہا ہے۔
جب بھی آپ کو کسی بات سے صدمہ پہنچے تو آپ صرف یہ کیجیے کہ آپ چپ ہوجایئے۔ آپ ری ایکشن کے بجائے، خاموشی کا طریقہ اختیار کیجیے۔ آپ ایک شخص پر سوچنے کے بجائے اصل ایشو پر سوچنا شروع کردیجیے، اور پھر جلد آپ کو ایسا محسوس ہوگا جیسے آپ کی سوچ کے بند دروازے اچانک کھل گئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

لرننگ اسپرٹ

زندگی میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر سیکھنے کا جذبہ (learning spirit) ہو۔ جس آدمی کے اندر سیکھنے کا جذبہ ہو، وہ برابر ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس کا ذہنی ارتقا (intellectual development) کبھی رکتا نہیں۔اس کے ذہنی سفر میںہمیشہ کاما (comma) آتا ہے، نہ کہ فل اسٹاپ(full stop)۔ ذہنی سفر میں رکاوٹ صرف ایک چیز سے آتی ہے۔ وہ یہ کہ آپ کے اندر غلطی کے اعتراف کا مادہ نہ پایا جائے۔ اپنی غلطی کا اعتراف آدمی کے ارتقائی سفر کو برابر جاری رکھتا ہے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر یہ کہنے کی ہمت نہ ہو کہ میں غلطی پر تھا (I was wrong)، وہ کبھی ذہنی ارتقا کا تجربہ نہیں کرسکتا۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کی کھڑکیاں ہمیشہ کھلی رکھے۔ وہ ہر لمحہ نئی چیز سیکھنے کا طالب بنا ہوا ہو۔ اس قسم کی طلب آدمی کو ذہنی ترقی کے سفر میں آگے بڑھاتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس، جب آدمی کے اندر سیکھنے کی یہ طلب باقی نہ رہے تو اس کے اندر جمود (stagnation)پیدا ہوجاتا ہے۔ بظاہر وہ زندہ ہوتا ہے، لیکن اس کی زندگی ایک قسم کی حیوانی زندگی بن جاتی ہے، نہ کہ صحیح معنوںمیں انسان کی زندگی۔
جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ اس کے ذہنی ارتقا کا سفر بلاروک ٹوک برابر جاری رہے۔ ا س کو اپنے ذہن کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ اس کو اسپرٹ آف لرننگ میں جینا چاہیے۔ اس کو کسی نئی بات کو لینے میں کبھی ہچکچانا نہیں چاہیے۔ خواہ وہ بات اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
اسپرٹ آف لرننگ کی ایک پہچان یہ ہے کہ آدمی کم بولے اور زیادہ سنے ۔ وہ مونو لاگ (monologue) نہ ہو، بلکہ وہ ڈائیلاگر (dialoguer) ہو۔ وہ جب کوئی نئی بات سنے تو وہ اس کو رد کرنے کے جذبے سے نہ سنے، بلکہ اس کو سننے کے بعد وہ اس پرکھلے ذہن کے ساتھ غور کرے۔ ایسے آدمی کی پہچان یہ ہے کہ وہ بولے کم ، اور سوچے زیادہ۔
واپس اوپر جائیں

اسٹیج کا فتنہ

موجودہ زمانے میں ایک نیا فتنہ پیدا ہوا ہے، جس کو اسٹیج کا فتنہ کہا جا سکتا ہے۔ جس آدمی کے اندر شاندار شخصیت ہو، جو اچھا بولنے کی صلاحیت رکھتاہو، جو لوگوں کو خوش کرنے کا فن جانتا ہو، جو عوام پسند لہجہ میں بول سکے، اس کو فوراً اسٹیج مل جاتا ہے۔ اسٹیج ملتے ہی آدمی کی انا (ego) بوسٹ (boost) ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ واپس لوٹنا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔
اسٹیج ایکٹوزم کے بظاہر دوسرے بہت سے فائدے ہیں— عوامی مقبولیت، ہر جگہ پذیرائی،ہر قسم کے دنیوی ساز و سامان، وغیرہ۔ یہ چیزیں اس کے اندر مصنوعی شخصیت بنانے لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسی میں کنڈیشنڈ ہوجاتا ہے۔ جب یہ درجہ آجائے تو اس کے اندر محاسبہ کا ذہن ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں درست راستے پر ہوں۔ مجھے اپنے اندر کوئی تبدیلی لانے کی ضرورت نہیں۔
جو آدمی مین آف اسٹیج (man of stage)بن جائے، وہ بظاہر کامیاب نظر آتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ سب سے زیادہ ناکام انسان ہوتا ہے۔ اس کے اندر تنقید سننے کامزاج ختم ہوجاتاہے۔ اس کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل رک جاتا ہے۔ وہ تخلیقی فکر(creative thinking) کے قابل نہیں رہتا۔ وہ صرف آج (today) میں جینے لگتا ہے، کل (tomorrow) کی سوچ اس کے اندر ختم ہوجاتی ہے۔ وہ دوسروں کے اندر جینے لگتا ہے، خود اپنے آپ میں جینا کیا ہے، وہ اس سے نا آشنا ہوجاتاہے۔
ایسا آدمی بظاہر پاتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک محروم انسان ہوتا ہے۔ اس کو ہر جگہ انسانوںکی بھیڑ ملنے لگتی ہے، لیکن فرشتوں کی صحبت اس کو حاصل نہیں ہوتی۔ وہ مادی اعتبار سے بھر پور ہوتا ہے، لیکن روحانی (spiritual) اعتبار سے وہ ایک خالی انسان ہوتا ہے۔ وہ بظاہر سب کچھ ہونے کے باوجود حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں

کام کی قیمت

اگر آپ ایک بائیسکل خریدنے کے لیے بازار میں جائیں، تو اس کی ایک قیمت ہے۔ وہ ضروری قیمت ادا کیے بغیر وہ بائیسکل آپ کو نہیں ملے گی۔ اسی طرح موٹر کار کی ایک قیمت ہے۔ اگر آپ موٹر کار خریدنا چاہتے ہوں۔ لیکن آپ کی جیب میں ا س کی ضروری قیمت نہ ہو، تو کوئی بازار آپ کو موٹر کار دینے والا نہیں۔
اسی طرح مشن کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اگر آپ ایک مشن لے کر اٹھیںتو صرف بڑے بڑے الفاظ بولنے سے آپ مین آف مشن نہیں بن سکتے۔ مشن ایک بے حد سنجیدہ منصوبہ ہے۔ مشن کی صرف ایک قیمت ہوتی ہے۔ اور وہ ہے، مشن کو ترجیح (priority) کی سطح پر اختیار کرنا۔ اگر آپ ایک مشن شروع کریں۔ لیکن آپ نے اس کو اپنی واحد ترجیح نہ بنایا ہو،بلکہ عملاً آپ اولاد کو اپنی ترجیح بنائے ہوئے ہوں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ مشن کے لیے کھڑے نہ ہوں۔ ساگ سبزی کی دکان کھولنا، اس سے بہتر ہے کہ ایسا آدمی مین آف مشن بننے کا دعویٰ کرے۔
یونیورسٹی کے ایک استاد نے کہا کہ ہم لوگ حیوان کاسب (earning animal) ہیں۔ ہم لوگوں کا کنسرن تو صرف پرسنل انٹرسٹ ہوتا ہے، لیکن ہم لوگ غلط طور پر اپنے آپ کو علم کا کیس بتاتے ہیں۔ یہ منافقت ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کچھ اور بنے، لیکن وہ منافق نہ بنے۔ لوگ عام طور پر حرام و حلال کو جانتے ہیں۔ لیکن اس کے سوا ایک اور چیز ہے، جس کو نفسیات کی اصطلاح میں کمزور شخصیت (weak personality) کہا جاتا ہے، اس کو کوئی نہیں جانتا۔ کمزور شخصیت اور منافق شخصیت میں صرف نام کے اعتبار سے فرق ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اللہ کی نظر میں کمزور شخصیت والا انسان بھی وہی درجہ رکھتا ہے، جو منافق انسان کا درجہ ہوتا ہے۔اعلیٰ انسان وہ ہے جس کے قول اور عمل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ جو قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل انسان ہو۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب شادی

ہر شادی کامیاب شادی ہے، کوئی شادی ناکام شادی نہیں۔ شرط یہ ہے کہ آدمی فطرت کے قانون کو جانے، اور اس کو اپنی شادی شدہ زندگی میں استعمال کرے، خواہ یہ قانون اس کی مرضی کے مطابق ہو یا اس کی مرضی کے خلاف ہو۔ ہر عورت اور ہر مرد کو ایک ہی خالق نے پیدا کیا ہے، اور خالق کا اعلان ہے کہ وہ ہر انسان کو احسن تقویم (التین،95:4) پر پیدا کرتا ہے۔ اگر آدمی اس حقیقت کو جان لے تو کسی کی شادی کبھی ناکام شادی نہ بنے۔قرآن میں آیا ہے :إِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتَّى (94:4) یعنی تمھاری کوششیں مختلف ہیں (Indeed your striving is different)۔ اس آیت میں ڈفرنٹ کا لفظ کوششوں کے اختلاف کے لیے آیا ہے۔سعی کا لفظ نتیجہ کو بتاتا ہے، مگر وہ یہاں سبب نتیجہ کے معنٰی میں ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ لوگوں کی کوششیں مختلف کیوں ہوتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد کا مزاج دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ہر عورت اور مرد کا کیس ہمیشہ مختلف کیس (different case) ہوتا ہے۔ یہ اختلاف اس لیے ہے تاکہ لوگ اپنی کوششوں کو مختلف اعتبار سے استعمال کریں، اور زندگی میں ہر پہلو سے ترقی کا عمل جاری ہو۔
اسی فطری حقیقت کو جاننا شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا راز ہے۔ مرد اور عورت دونوں اگر اس حقیقت کو جانیں تو وہ دریافت کریں گے کہ شتیّٰ (اختلاف) کا یہ معاملہ فطرت کی زبان میں ایک پیغام دے رہا ہے۔ وہ یہ کہ لوگ فطرت سے ٹکرانے کے بجائے اس سے موافقت کریں۔ وہ اس معاملے میں ٹکراؤ کا طریقہ اختیارنہ کریں، بلکہ مینجمنٹ کا طریقہ اختیار کریں:
They have to adopt the art of difference management in this regard
اس معاملے میں ٹکراؤ کا طریقہ سر تاسر بے فائدہ ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی شخص فطرت کے قانون سے لڑ کر جیت نہیں سکتا۔ جب ٹکراؤ انسان اور فطرت کے قانون کے درمیان ہو تو ہار ہمیشہ انسان کو ہوگی، فطرت کے قانون کو نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مس ایڈونچرزم

انسان فطری طور پر باہمت (adventurist) پیدا ہوا ہے۔ اگر آدمی ہمت والا نہ ہو تو وہ کوئی اقدام نہیں کرے گا، اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ کوئی کام اپنی زندگی میں نہیں کرپائے گا۔ فطرت (nature) آدمی کو ابھارتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کسی کام میں لگائے۔ وہ کچھ کرنے والا بنے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو مفید کام میں لگائے۔
اس جذبہ کی بنا پر آدمی فطری طور پر ایڈونچرسٹ (adventurist) بن جاتا ہے۔ وہ اقدام کا طریقہ اختیارکرتا ہے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ایڈونچرزم بہت آسانی سے مس ایڈوینچرزم بن جاتی ہے، اور پھرآدمی کے حصہ میں فائدہ کے بجائے نقصان آتا ہے۔ ایڈونچر اور مس ایڈونچر کے درمیان ایک باریک لائن (thin line) ہے، جو ایک دوسرے کو جدا کرتی ہے۔وہ یہ کہ ایڈونچرزم ہمیشہ ویل کیلکولیٹیڈ (well-calculated) ہونا چاہیے، نہ کہ محض جوش کے تحت کیا ہوا اقدام عمل ۔ جوش کے تحت کیا ہوا اقدام ہمیشہ ناکام ہوتا ہے، اور ویل کیلکولیٹیڈ (well-calculated) اقدام ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔
ضروری ہے کہ آدمی کے اندر جوش کے ساتھ عقل بھی ہو۔ وہ اقدام کے جذبے کے تحت یہ بھی جانے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے، اور کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں۔ کیا چیز اس کے بس کی ہے، اور کیا چیز عملاً اس کے بس سے باہر ہے۔ کسی بھی کام میں پیشگی طور پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا چیز آدمی کے لیے ممکن العمل (possible) ہے، اور کیا چیز نہیں۔
کسی آدمی کے لیے بہترین عقل مندی یہ ہے کہ وہ ایسا کام کرے، جو اس کے بس کا کام ہو۔ جو کام اس کے بس کا نہ ہو، اس کو کرنے سےبہتر ہے کہ آدمی سرے سے کام ہی نہ کرے۔ کام نہ کرنے سے جو چیز پیش آتی ہے، وہ صرف کمی ہے۔ لیکن جوش کے تحت کود پڑنا، اس سے زیادہ غلط ہے، اور وہ ہے —ناقابل تلافی نقصان ۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
ایک سوال یہ ہے کہ آج کے اس پر فتن دور میں جبکہ مسلمان فرقوں میں بٹ گئے ہیں اور ہر فرقہ اپنے کو حق پر ہونے کا دعوٰی کرتا ہے ہمیں کس منہج پر چلنا چاہیے؟ (محمد عمر خالد)
جواب
اس سوال کا جواب راقم الحروف کی کتاب تجدید دین میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں مختصراً اس سوال کا جواب درج کیا جاتا ہے۔فرقہ بندی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب مبنی برفارم انتہا پسندی ہے۔ دین، مثلاً نماز کا ایک فارم ہے۔ اسی کے ساتھ اس کی ایک اسپرٹ ہے۔ اسپرٹ ایک ہے، اور وہ ہمیشہ ایک رہے گی۔ یہ اسپرٹ تقویٰ اور خشوع ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: التقوى ہاہنا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2564)۔ یعنی تقویٰ دل میں ہے۔ اسی طرح قرآن میں آیا ہے: الَّذِینَ ہُمْ فِی صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ (23:2)۔ عبادت میں اگر اسپرٹ پر زور دیا جائے تو کبھی فرقہ بندی پیش نہیں آئے گی۔ کیوں کہ اسپرٹ ایک ہے، وہ ہمیشہ ایک ہی رہے گی۔
اس کے برعکس، فارم میں تعدد ہے۔ یعنی روایتوں میں کسی عبادت کے کئی فارم بتائے گئے ہیں۔ یہ تعدد سب کے سب جزئی امور میں ہیں۔ اس لیے فارم میں زور دینے سے ہمیشہ تعدد پیدا ہوجائے گا۔ اس بنا پر فارم کے معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس معاملے میں تنوع کو درست سمجھا جائے۔ مثلاً کوئی شخص نمازمیں آمین بالسر کا طریقہ اختیار کرے تب بھی درست، اور کوئی شخص نماز میں آمین بالجہر کا طریقہ اختیار کرے تب بھی درست۔
فرقہ بندی فارم پر زور دینے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ کوئی ایک فارم کو درست سمجھتا ہے، کوئی دوسرے فارم کو ۔ اس طرح عبادت کے کئی طریقے بن جاتے ہیں۔ اس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ عبادت کے معاملے میں بنیادی فارم میں توحد کا طریقہ اختیار کیا جائے، اور عبادت کے فروعی اجزاء میں تنوع کا طریقہ۔مثلاً نماز کی رکعت میں توحد، اور حالت قیام میں ہاتھ باندھنے میں تنوع۔
سوال
کسی کی تعبیر کی غلطی کو واضح کرنا، اور تکفیر و تفسیق کا حکم لگانا، ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ (حافظ سید اقبال احمد عمری، عمر آباد،تامل ناڈو)
جواب
تعبیر کی غلطی کو واضح کرنا، زیر بحث موضوع کا علمی تجزیہ ہے۔ اس کے برعکس، تکفیر و تفسیق کا حکم لگانا، تنقیص کا فعل ہے۔ پہلی صورت میں زیر بحث موضوع کا علمی پہلو واضح ہوتا ہے۔ جب کہ دوسری صورت میں عملاً کسی شخص کی شخصی عیب زنی کا فعل انجام پاتا ہے۔ پہلی صورت علمی ارتقا کا ذریعہ ہے، اور دوسری صورت کا حاصل صرف یہ ہے کہ ایک شخص کے خلاف نفرت کے جذبات کو فروغ ملے۔
مثلاً اٰیک شخص جہاد کے موضوع پر ایک مضمون شائع کرتا ہے،ا ور اس میں لکھتا ہے کہ جہاد بمعنی قتال حسن لغیرہ ہے، حسن لذاتہ نہیں۔ یعنی وہ کوئی عقیدہ کا مسئلہ نہیں، وہ ایک طریقہ کار (method) کا مسئلہ ہے۔ جہاد بمعنی قتال صرف ضرورت (necessity)کے تحت مطلوب ہوتاہے، نہ کہ اس اعتبار سے کہ وہ بذات خود کوئی دینی فریضہ ہے ۔ اس نقطہ نظر پر کوئی شخص قرآن و حدیث کی روشنی میں تنقید کرے ، اور علمی زبان میں اس کے صحت یا سقم کو واضح کرے تو وہ ایک جائز فعل ہوگا۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ایک شخص اسلام دشمن طاقتوں کا ایجنٹ ہے، وہ مسلمانوں کو فریضۂ جہاد سے ہٹانا چاہتا ہے۔ تو یہ صرف تنقیص یا الزام تراشی ہوگی۔ ایسی تنقید بلاشبہ ایک ناجائز فعل ہے۔ اسلام میں اس کا کوئی جواز نہیں۔
اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ کسی نے کچھ غلط لکھا یا کہا ہے تو آپ صرف یہ کیجیے کہ اس کی غلطی کو علمی طور پر واضح کیجیے۔ کیوں کہ اگر آپ الزام تراشی یا تنقیص کی زبان بولیں تو وہ سب و شتم ہوگا، جو اسلام میں جائز نہیں— حقیقت پسندانسان وہ ہے جو باتوں کو دلائل کے اعتبار سے دیکھے۔ جو بات دلائل سے درست ثابت ہو اس کو مانے، اور جو بات دلائل سے درست ثابت نہ ہو اس کو رد کردے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 258

■ ویب سائٹ: صدر اسلامی مرکز نے 21 جنوری 2018کو تامل زبان میں سی پی ایس کا ویب سائٹ لانچ کیا، اور 18 فروری 2018 کو کنڑا زبان کا ویب سائٹ لانچ کیا ۔تامل ویب سائٹ سی پی ایس چنئی کے زیر اہتمام چلے گا، اور کنڑا ویب سائٹ بنگلورو ٹیم کی نگرانی میں چلے گا۔ ان دونوں ویب سائٹس کا ایڈریس یہ ہے:
www.peaceandspiritualityintamil.com
www.peaceandspiritualityinkannada.com
ث کتاب میلہ : سی پی ایس کی مختلف ٹیموں نے نیشنل اور انٹرنیشنل پیمانے پرمنعقد ہونے والے بک فیرس میں حصہ لیا اور زائرین کے درمیان ترجمہ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچرتقسیم کیا۔ مثلاً سی پی ایس چنئی نے گڈورڈ بکس کی جانب سے کولمبو بک فیر (15-24 ستمبر 2017) میں حصہ لیا، جن لوگوں کو قرآن دیا گیا، ان میں ایک اہم نام سری لنکا کے صدر مسٹر میتھری پالا سری سینا کا بھی ہے۔ اس کے علاوہ گڈورڈ بکس نے دوحہ بک فیر (29 نومبر تا 5 دسمبر 2017)، جدہ بک فیر (14-24 دسمبر 2017) میں حصہ لیا، سی پی ایس (چنئی) نے شولاپور اردو بک فیر (31-23 دسمبر 2017) میں حصہ لیا، ڈاکٹر ثانی اثنین خان ڈائریکٹر گڈورڈ ورڈ بکس نے شارجہ بک فیر (11-1 نومبر 2017) میں حصہ لیا، دلی فیلڈ ٹیم نے دہلی انٹرنیشنل بک فیر (14- 6 جنوری 2018) میں حصہ لیا، کولکاتا ٹیم نے کولکاتا اردو بک میلہ (28-20 جنوری 2018) اور کولکاتا انٹرنیشنل بک فیر (30 جنوری تا 11 فروری 2018) میں حصہ لیا، پاکستان سی پی ایس ٹیم نے لاہور بک فیر (5-1 فروری2018) میں حصہ لیا، اور گیا ٹیم نے گیا بک فیر(18-10 فروری 2018) میں حصہ لیا، سی پی ایس پاکستان نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنس (LUMS) منعقدہ یک روزہ بک فیر (21 فروری 2018) میں حصہ لیا (اس پر صدر اسلامی مرکز کا ایک مضمون اسی شمارہ میں شامل ہے)۔ ان تمام کتاب میلے میں ہزاروں کی تعداد میں خدا کے بندوں کو خدا کا پیغام پہنچایا گیا۔ نیز دہلی فیلڈ ٹیم نے جے پور لٹریچر فیسٹیول (24 تا 29 جنوری 2018) اور جودھپور ٹیم کے مسٹر وقاص صاحب نے صوفی فیسٹیول، جودھپور (18-15 فروری 2018) میں متلاشیان حق (seekers) کے درمیان قرآن کے تراجم تقسیم کیے۔ ان بک فیرس میں مختلف قسم کے حیرت انگیز تجربات پیش آتے رہے ہیں۔ مسٹر طارق بدر صاحب (پاکستان) نے اس سلسلے میں ذیل کا تاثر لکھا ہے:
Lahore Book Fair 2018, ended this Monday. It was a great success and our sale was doubled compared to last year. This simply shows that our readers’ base has been established. Most of the readers were bringing their friends and recommending to them Maulana's books they have read.This made our work very easy. Two important things to mention: first, this success is related to Quran distribution. With one of our team member's contribution we sold Quran copies at Rs. 300. This news spread like wild fire, and we received many calls from people who wanted to buy and give it as a gift. The sale was so rapid that we had to stop it as we were afraid that our stock would finish. Even small English and Urdu translations of the Quran were finished. Second, one of our readers from Qasoor requested to distribute 200 copies of Kitab-e-Marefat for free, which was also very helpful to introduce Maulana's literature to new readers.The previous book fair in Karachi and this one gave us confidence that this literature is the need of the time and with God’s help we will be able to show to people the true face of Islam. Our mission is to make Maulana's Tazkeerul Quran and other books reach every home in Pakistan. Two of our readers also contributed for giving stall charges and asked their children to volunteer with us in the next book fair. There were lots of interesting incidents about how readers were coming to our stall and sharing their stories of how these books had changed their lives. How these people approached us and got connected to us was miraculous. Apart from Saifullah and Abdul Latif Sb’s hard work and dedication, it was Mrs. Saifullah’s tireless efforts that were behind this success. One scholar at the book fair said that now most of the ulema had already accepted Maulana’s approach. Another interesting incident was that when I saw a lady standing away from our stall, I invited her and told her about Maulana's books. She was happy and told me that articles from Maualna's books on personality development were shared during their Dars at Jamat-e-Islami. I was very surprised to hear that. (Tariq Badar, CPS Pakistan)
ث خواتین کا رول : مس شبینہ علی کولکاتا سی پی ایس کی نہات متحرک خاتون ممبر ہیں۔ وہ کولکاتا شہر میں ہونے والے مختلف پروگراموں میں جاکر وہاں موجود لوگوں کو ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیتی ہیں۔ مثلاً 4 ستمبر 2017 کو راما کرشنا مشن انسٹی ٹیوٹ آف کلچر(کولکاتا) میں یونیسکو(UNESCO) کے تعاون سے ہونے والا پروگرام ، جس کا عنوان تھا :عالمی مفاہمت برائے انسانی اتحاد۔ خواتین کے ذریعہ جو دعوتی کام ہو رہا ہے، اس کی نسبت سے یہ سمندر میں تیرتے ہوئے آئس برگ کا ٹپ (tip of the iceberg)ہے ۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت دعوت کو پھیلانے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد لگی ہوئی ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر فریدہ خانم (چیر پرسن سی پی ایس انٹرنیشنل، دہلی)، انھوں نے سی پی ایس کے مشن کو اردو سے انگریزی زبان میں منتقل کیا ہے، اور حالیہ دنوں میں آپ نے جو پروگرام اٹینڈ کیے وہ یہ ہیں: انڈیا انٹرنیشنل سینٹر، نئی دہلی میں 12 جنوری 2018کو لوٹس ٹیمپل اینڈ بہائی کمیونٹی نے چائلڈ رائٹ اور مذہب کے عنوان سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحبہ نے شرکت کی اور اسلام میں بچوں کے حقوق پر ایک لکچر دیا۔ اس کے بعد اوپی جندل گلوبل یونیورسٹی، سونی پت ہریانہ میں 23 جنوری 2018 کو ایک انٹرنیشنل سمینار ہوا۔ اس میں مس شبینہ علی (کولکاتا ٹیم) نے ڈاکٹر فریدہ خانم کے ساتھ شرکت کی۔ یہاں مس شبینہ علی نے ایک پیپر پیش کیا، جس کا عنوان تھا، معاصر سیاسی اقدار اسلامی روحانیت کی روشنی میں (Present-day political values in the light of Islamic Spirituality) ۔ پروگرام کے بعد تمام نیشنل و انٹرنیشنل مشارکین کو ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ اس کے بعد 28 جنوری 2018 کو واردھا (مہاراشٹر)میں انسٹی ٹیوٹ آف گاندھی اسٹڈیز کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈاکٹر فریدہ خانم نے شرکت کی۔ اس موقع پر مس شماز انصاری (میرٹھ ) ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ ہمراہ موجود تھیں۔اس پروگرام کا عنوان تھا، بڑے مذاہب میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر عدم تشدد کا تصور، اصول اور عمل:
Concept, Principles and Practice of Non-violence at the individual and the societal level in major religious faiths.
ان کے علاوہ جو خواتین اس دعوتی مشن کو آگے لے جارہی ہیں ، وہ یہ ہیں: ڈاکٹر مسلمہ صدیقی، ڈاکٹر سعدیہ خان، ڈاکٹر نغمہ صدیقی، ڈاکٹر نجمہ صدیقی، مز ماریہ خان، مز راضیہ صدیقی، مز صوفیہ خان، مز استتھی ملہوترا، مز آنکھی چٹرجی، مز حمامہ فرقان ( دہلی)، مز شماز انصاری (میرٹھ)، مز سارہ فاطمہ، (انگلش میگزین اسپرٹ آف اسلام، بنگلور)، مز مظہر النساء، مز فاطمہ اسریٰ (بنگلور)، مز صالحہ پروین (ہاسن)، مز قرۃ العین (کشمیر)، مز عصمت خانم، مز شیاما دیوی، مز سلطانہ بیگم ، ڈاکٹر سفینہ تبسم (سہارن پور، یوپی)، مز شبانہ خاتون، مز یاسمین مہتاب (کولکاتا) مز امۃ المعز بشریٰ (سعودی عربیہ)، مسز نسیم نصرت (تھانہ، ممبئی)، مز ثمینہ خان(بودھن، مہاراشٹر)،مز مسعودہ خاتون (پٹنہ)، مز فوزیہ خان (پھلواری،بہار)، ڈاکٹر عالیہ، ڈاکٹر فوزیہ، مسز اختر، مز سلمی عون، مز شبانہ انصاری (پاکستان)، مز گل زیبا احمد(میری لینڈ ،امریکا)، مز کوثر اظہار(نیو جرسی، امریکا)، مز بشری کوثر (پیٹس برگ، امریکا)مز ایویٹ فرانسین گرے ([Yuvette Francine Gray]مسی سپی، امریکا)، مسزفرحانہ طاہر،مسز نصیرہ یونس، مز شہناز علوی ، (ٹکساس، امریکا)،اشرف النساء کلیم (پنسلوانیا، امریکا)، ڈاکٹر حنا (یوکے)، مزسیما جلال (دبئی)۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد ان خواتین کی ہے جو خود براہ راست دعوتی کام نہیں کرتی ہیں، لیکن فیملی میں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کو وہ بھر پور طور پر سپورٹ کرتی ہیں، ان میں ایک اہم نام مز زرین خان (اہلیہ ڈاکٹر ثانی اثنین خان) کا ہے۔
■ کولکاتا ٹیم کا دعوتی دورہ12: ستمبر2017 کو سی پی ایس ٹیم کولکاتا نے جمشید پور کا دورہ کیا۔ وہاںعیاض صاحب کی سربراہی میں الرسالہ ریڈرس سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔ پھر الحرا لائبریری میں ایک خصوصی نشست کے ذریعہ لائبریری کے ممبران سے ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر محمد عبداللہ (کولکاتا ٹیم)نے سی پی ایس مشن کے حوالے سے کئی باتیں رکھیں اور انٹرایکشن بھی ہوا۔ اس نشست میں کئی برادران وطن بھی موجود تھے۔اس دورے کا دوسرا پروگرام کلب ہاوس میں ہوا، جس میں جناب اروند کمار مینیجر جسکو (ٹاٹاا سٹیل) اوردیگر سرآوردہ لوگوں نے شرکت کی ، یہاں پیس اور اسپریچولٹی کے موضوع پر باتیں ہوئیں ، اورسی پی ایس کا تفصیلی تعارف کروایا گیا۔اس پروگرام کو عیاض صاحب نے آرگنائز کیا تھا۔ پروگرام میں موجود لوگوں نے سی پی ایس کے کام کوکافی پسند کیا۔
ث دعوہ میٹ 25:-23 دسمبر2017 کو ناگپور میں سی پی ایس ٹیم کی نیشنل دعوہ میٹ ہوئی۔ اس میں ہندوستان میں موجود تقریباً تمام ٹیموں نے حصہ لیا۔ اس دوران انھوں نے اپنا احتساب کیا، اور نئے عزم کے ساتھ دعوتی کام کو آگے بڑھانے کا عزم کیا۔
■ ملاء قوم میں دعوت: ڈاکٹر محمد اسلم خان (سہارن پور)، سی پی ایس کے بہت ہی متحرک داعی ہیں۔ کوئی بھی موقع ہو وہ دعوتی کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً16 ستمبر 2017 کو انھیں ہوٹل تاج، نئی دہلی میں رورل ہیلتھ کیر کے لیے امراجالا ایکسلنس ایوارڈ 2017 سے نوازا گیا۔ اس موقع پر چار مرکزی وزراء مسٹر سریش پربھو، مسٹر مختار عباس نقوی، مز انوپریا پٹیل، اور شری ستپال سنگھ موجود تھے۔ سامعین کی بڑی تعداد ملاء قوم سے تعلق رکھتی تھی۔ان تمام کو انھوں نے ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر دیا۔ اس کے علاوہ 9 نومبر 2017 کو اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ، شری ترویندر سنگھ راوت نے انھیں ادے شری ایوارڈ دیا، اور 20 دسمبر 2017کو انھیں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ مسٹر یوگی ناتھ ادتیہ نے ہیلتھ کیر کے لیے ایوارڈ سے نوازا تھا۔ ان دونوں موقعوں پر انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ تمام لوگوں کو، بشمول وزراء، ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر دیا۔ نیز اسی درمیان 21 ستمبر 2017کو انھوں نے اپنی فیملی اور مشن کے ساتھیوں کے ساتھ جاکر مظفر نگر سینٹرل جیل میں جیل سپرٹنڈنٹ، جیلر اور قیدیوں کے درمیان خدا کی کتاب کو تقسیم کیا۔
■ بہار اور جھارکھنڈ سے ملی خبر کے مطابق، 21،نومبر2017کومولاناسعیدخان ندوی(شیرگھاٹی،گیا،بہار) کی ہمشیرہ کا نکاح مولانا محمد یاسین ندوی کے ساتھ ہوا۔حافظ ابوالحکم محمد دانیال(صدر، سینٹر فار پیس اینڈ آبجیکٹو سٹڈیز، بہار و جھارکھنڈ ) نے اپنے رفقاء کے ساتھ اس تقریب میں شرکت کی۔یہاں ندوی فضلاء اور دوسرے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ کئی علمی و دعوتی نشستیں ہوئیں۔ مثلاً ظہر تا عصر ’’ہندوستان میں دعوتی کام کے امکانات ‘‘کے موضوع پراور پھر مغرب سے رات ۱۰ بجے تک مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا رہا۔مولانا خالد ندوی(امام محمد رفیع مسجد،باندرہ،ممبئی) نے کہا کہ آج میرے بہت سارے سوالوں کا جواب مل گیا اور آپ نے جو اپنے دعوتی تجربات بتائے اس سے بہت حوصلہ ملا۔بزرگ عالم دین اور کئی کتابوں کے مصنف مولانا عبیداللہ ندوی نے کہا کہ آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں عملی طور پر اسی کام کی ضرورت ہے۔مجھے آپ کا کام اور کام کرنے کے طریقے سے بہت خوشی ہوئی ۔ اس کے بعد 26نومبر2017 کو جاگرن نیوز گروپ نے پورنیہ میں مدرسہ کے فارغین کے لیے ایک سیمینار The Significance and Role of Education in Nation Building کا انعقاد کیا تھا۔اس سیمینار میں حافظ ابو الحکم محمد دانیال نے اپنی ٹیم کے ساتھ شرکت کی اور موضوع پرتقریر کی۔ اس موقع پراعلی نمبروں سے پاس ہونے والے طلبہ کو انعام سے نوازا گیا۔اختتام پر تمام حاضرین کو قرآن کا ترجمہ اور سیرت کی کتابیں تحفہ میں دی گئیں۔نیز 1 دسمبر 2017 کو دلسنگھ سرائے ،سمستی پور کے مولوی چک میں ربیع الاول کے موقع پر سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے ایک پروگرام ہوا۔ اس مناسبت سے سینٹر فار پیس اینڈ آبجیکٹو سٹڈیز کی ٹیم نے دلسنگھ سرائے کا دو روزہ دعوتی سفر کیا۔ پروگرام میں حافظ ابو الحکم محمد دانیال نے سیرت کے موضوع پر خصوصی خطاب پیش کیا۔ خطاب کے بعد تمام لوگوں کو سیرت کی کتاب تحفہ میں دی گئیں ۔دوسرے دن سینٹر کی ٹیم نے علاقے کے مختلف لوگوں سے میٹنگ کی اور انہیں مشن سے متعارف کیا ۔اس سفر میں حافظ ابوالحکم محمد دانیال کے علاوہ جناب عزیز الرحمن،محمد ثناءاللہ،محمد مشتاق اور دلسنگھ سرائے ٹیم کے حاجی ادریس ،محمد نفیس،محمد انعام،محمد نصیر الدین ،مولانا شعیب اور محمد شاہ جہاں صاحبان شامل تھے۔
■ بہار کا گیا ضلع بدھ مذہب کے ماننے والوں کا مرکز ہے۔ اس لیے وہاںپوری دنیا کے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ یہاں الرسالہ مشن سے تعلق رکھنے والے دعاۃ مانو کلیان سمیتی (Mobile: 8122773742)نامی این جی او کے ذریعہ دعوتی کام کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً انھوں نے 17 تا 28 جنوری 2018 کو نگما ٹیمپل (Nigma Temple) بودھ گیا میں 29th ورلڈ پیس پرےیر (Prayer for world peace) کے موقع پر بڑی تعداد میں ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔ قرآن جن زبانوں میں تقسیم کیا گیا، وہ یہ ہیں: انگریزی، ہندی، جرمن، پرتگیز، اسپینش، ڈچ، رشین، اٹالین، چائنیز، پنجابی، مراٹھی، تیلگو، تمل، ملیالم، گجراتی، وغیرہ۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں دعوتی کام سے دلچسپی رکھنے والے، یہاں سے ترجمہ قرآن و دعوتی لٹریچر منگواکر تقسیم کرتے ہیں۔ جیسے رانچی، اورنگ آباد، جئے پور، ناگپور، ہاپوڑ(یوپی)، وغیرہ۔
■ جناب ثناء اللہ صاحب اکولہ (Mobile: 9579733042) سے لکھتے ہیں کہ 18 جنوری 2018 کو میری دکان میں دو ہندو بھا ئی آئے۔ میرے کاریگر گنیش والوکر نےان دونوں کو مراٹھی ترجمہ ٔقرآن اور دیگر کتابیں دیں، اور ان سے پندرہ منٹ تک بات کی۔ دوران گفتگو گنیش نے ان سے کہا کہ قرآن کو کسی لیکھک (مصنف)کی کتاب سمجھ کر مت پڑھنا ،اگر تم اس کو کسی لیکھک کی کتاب سمجھ کر پڑھوگے تو تم اس کو نہیں سمجھو گے اور اگر تم اس کو ایشور کی کتاب سمجھ کر پڑھوگے تو تم کو یہ کتاب سمجھ میں آئے گی۔ ان لوگوں نے یہ کتابیں بڑے شوق سے حاصل کی۔ اسی طرح 13فروری 2018کو سابق مقامی کونسلر صبح کے وقت میرے پاس آئے اور آتے ہی کہاکہ مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی جتنی کتابیں آپ کے پاس ہیں ،وہ آپ مجھے دیں، کسی دوسرے لیکھک کی کتاب نہیں چاہئے۔ اس سے پہلے میں نےان کو پرافٹ آف پیس کا مراٹھی ترجمہ ’’شانتی چے پروشت محمد‘‘ دی تھی، جس سے وہ بہت متاثر ہوئے، اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی مسلمان ہی نظر نہیں آتا، جو اسلام کی ان باتوں پر عمل کرتا ہو، ِایسا لگتا ہے جیسے ہر مسلمان اپنی مرضی سے جی رہا ہے۔ اسی طرح کچھ عرصے پہلے مقامی پولیس اسٹیشن سے دو پولیس والے آئے اور کہا کہ پولیس اسٹیشن میں آپ کی چرچا ہوتی ہے کہ آپ شانتی اور بھائی چارہ (peace and harmony) کے لیے کام کرتے ہیں۔ ہمیں اس قسم کی کچھ کتابوں کی ضرورت ہے، آپ مجھے وہ کتابیں مہیا کریں۔ جو ان کو دی گئی۔ انھوں نے بھی یہ کتابیں بڑی شوق سے لیں۔
■ ناگپور و کامٹی CPS ٹیم کے ایک ممبر محمد اکرم صاحب ( Mobile: 8983218667) اکثر سفر کرتے ہیں اور اس دوران وہ دعوہ ورک بھی کرتے ہیں۔ بروز بدھ، مورخہ 17 جنوری 2018 وہ ناگپور سے وردھا کا سفر بذریعہ ٹرین کر رہے تھے ۔سفر کے دوران انہوں نے مولانا وحید الدین خان صاحب کی کتاب، اسلام کیا ہے، کا مطالعہ شروع کر دیا۔ ان کے ہم سفر ایک کشمیری مسلمان بھی تھے ۔انھوں نے اکرم صاحب کو کتاب پڑھتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ مجھے بھی کوئی کتاب دیجیے ۔اکرم صاحب کے بیگ میں اس کتاب کی مزید کاپیاں تھیں، انھوں نے اس کتاب کے ساتھ اردو ترجمہ قرآن، انسان اپنے آپ کو پہچان بھی انھیںدے دیا۔ ڈبے میں بیٹھے چند اور مسلم حضرات نے بھی مطالبہ کیا، انھیں بھی کتابیں دے دی گئیں ۔یہ دیکھ کر ایک ہندو بھائی نے پوچھا کیا آپ کے پاس مراٹھی قرآن بھی ہے ۔ اکرم صاحب نے ان کو مراٹھی قرآن، مرتیو چے اسمرن، اسلام پریچے، جیونا چا واستو، کتابیں دی ۔وہ بہت زیادہ خوش ہوئے ۔ یہ دیکھ کرپاس میںبیٹھے ہوئے چار ہندو بھائیوں نے بھی مطالبہ کیا۔ انہیں بھی یہ کتابیں دے دی گئیں ۔سبھی لوگوںنے خوشی کے ساتھ اسے قبول کیا، اور کہا کہ اصل کام آپ کر رہے ہیں ۔اس کی آج بہت ضرورت ہے ۔ میں نے سوچا الحمدللہ دعوت کا کام کرنا کتنا آسان ہے ۔ کاش یہ بات ہر مسلمان مرد و عورت کی سمجھ میں آجائے۔ (محمد عرفان رشیدی، کامٹی ،ناگپور)
■ I have completed reading Maulana’s Mutala-e-Seerat. By the Grace of Allah, I understood as to why Allah asked us to follow the Prophet's life pattern. A Muslim can never feel that he has no purpose to live at any point of time, as there is a continuous task of self-purification and the task of sharing the message with others until his death. My conviction for both the tasks has increased many folds. My conviction about the Hereafter and Islam as the true revealed religion of God Almighty is also getting deeper. All these years, I was reading only those kinds of books that contained dos and don’ts, but after reading this book, I felt that being a born Muslim, knowing some history about Islam is not enough for true conviction or belief. Maulana's way of writing is God’s greatest blessing for this generation. Spirit of Islam, the English Magazine, also has articles which are also very inspirational for personality development. (Mrs. Asra, Bangalore)
واپس اوپر جائیں

Tuesday, 13 February 2018

Al Risala | March 2018 (الرسالہ،مارچ)

-خصوصی شمارہ: امت مسلمہ کا فائنل رول


امت مسلمہ کا فائنل رول

The Final Role of Muslim Ummah
قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کی تاریخ میں دو بڑے رول مقدر ہیں۔ ایک وہ رول جو اصحاب رسول کے ذریعہ انجام پایا۔ دوسرا وہ رول جس کے لیے حدیث میں اخوان رسول (مسند احمد، حدیث نمبر 12579) کے الفاظ آئے ہیں۔ تاریخ میں کوئی بڑا رول ہمیشہ لمبے تاریخی عمل کا نقطۂ انتہا (culmination) ہوتا ہے۔ اصحاب رسول کا رول اس تاریخ کا نقطۂ انتہا تھا، جو پیغمبر ابراہیم کے ذریعہ قدیم مکہ میں ساڑھے چار ہزار سال پہلے شروع ہوا، اور ساتویں صدی عیسوی میں اپنے نقطۂ انتہا (culmination) کو پہنچا۔ اصحابِ رسول وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اس لمبے تاریخی عمل (historical process) کے ذریعہ پیدا ہونے والے حالات کو اپنی غیر معمولی جد و جہد کے ذریعہ اویل (avail) کیا۔
رسول اور اصحاب رسول کے ذریعہ تاریخ کا دوسرا عمل (process) شروع ہوا۔ یہ دوسرا تاریخی عمل مختلف حالات سے گزرتا ہوا، بیسویں صدی میں اپنے نقطۂ انتہا تک پہنچا۔ ماڈرن سیویلائزیشن اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسی تکمیلی مرحلہ کا نام ہے۔ وہ تکمیلی مرحلہ جس میں توحید کے مشن کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ آفاق و انفس کی آیات (فصلت53:) بالفاظ دیگر سائنس کی دریافت کردہ دلائل ظاہر ہوں، جس کے ذریعہ توحید کو ناقابل انکار حقائق کی روشنی میں لوگوں کے لیے مبرھن کیا جاسکے۔
مواقع کو پہچاننے میں ناکامی
بیسویں صدی میں وہ وقت پوری طرح آچکا تھا، جب کہ امت مسلمہ سے مطلوب تھا کہ وہ نئے پیدا شدہ حالات کو پہچانیں، اور نئے مواقع کو اویل کرتے ہوئے اس کام کو انجام دیں، جس کو قرآن میں آفاق و انفس کی سطح پر اعلیٰ تبیین حق (فصلت53:) کا رول کہا گیا ہے۔ بظاہر یہی وہ رول تھا جس کو حدیث میں اخوان رسول کا رول بتایا گیا تھا۔ لیکن عین اسی وقت ایک برعکس واقعہ ظاہر ہوا۔ یہ واقعہ غالباً وہی تھا جس کو حدیث میں فتنۂ دھیماء کہا گیا ہے۔ یہ فتنۂ دھیماء (سیاہ فتنہ) ایک ایسا عمومی فتنہ ہوگا جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:ثم فتنة الدہیماء، لا تدع أحدا من ہذہ الأمة إلا لطمتہ لطمة (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4242)۔ یعنی پھردہیماء کا فتنہ ہوگا، اور وہ اس امت میں سے کسی ایک فرد کو بھی نہیں چھوڑے گا مگر وہ اس کو ہٹ (hit)کرے گا۔اس حدیث میں لطمۃ سے مراد غالباًلطمۂ نفرت ہے۔ یعنی اس فتنہ کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہوگا کہ امت کا ہر فرد اس سے شدید طور پر متاثر ہوجائے گا۔ وہ ہر فرد امت کو نفرت کا کیس بنا دے گا۔
یہ حادثہ اس طرح پیش آئے گا کہ جو مغربی قومیں حدیث کے الفاظ میں موید دین بن کر ابھریں گی، ان کے ساتھ ایک اور اتفاقی پہلو شامل ہوگا۔ وہ یہ کہ یہ مغربی قومیں ایک طرف موید دین تہذیب لے کر ظاہر ہوں گی، لیکن اسی کے ساتھ ان کی دوسری حیثیت یہ ہوگی کہ وہ اس سیاسی کلچر کی حامل ہوں گی، جس کو نو آبادیاتی نظام(colonialism) کہا جاتا ہے۔ نو آبادیاتی نظام ایک اتفاقی سبب (chance factor) کی بنا پر اس تائیدی تہذیب کا حصہ ہوگا۔ مگر مسلم رہنما دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی پالیسی (delinking policy) اختیار نہ کرسکیں گے، اور سیاسی اختلاف کی بنا پر خود تائیدی تہذیب کے دشمن بن جائیں گے۔ مسلمانوں کایہ مزاج اتنا زیادہ بڑھے گا کہ امت کا کوئی فرد اس کی زد میں آنےسے محفوظ نہ رہے گا۔
اس کیفیت کو اگر نئے اصطلاح میں بیان کیا جائے تو اس کو ویسٹو فوبیا کہا جاسکتا ہے۔ یہی مغربی قومیں تھیں، جنھوں نے ایک طرف ماڈرن تہذیب کو وجود دیا، اور دوسری طرف یہی وہ قومیں تھیں، جو بعد کو نو آبادیاتی طاقتوں (colonial powers) کے نام سے ابھریں۔ انھوں نے ایک کے بعد ایک تمام مسلم سلطنتوں کو ختم کردیا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ مسلمان عمومی پیمانے پر سیاسی محرومی کا شکار ہوگئے۔ قدیم زمانے میں اس طرح کا واقعہ مقامی خبر (local event) بن کر رہ جاتا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں جدید میڈیا کی بنا پر یہ سیاسی واقعہ اتنا پھیلا کہ کوئی مسلمان اس "حادثہ" سے بے خبر نہ رہا۔ چنانچہ ہر مسلم مرد اور عورت مغرب سے متنفر ہوگیا۔
اگر مسلم رہنما بروقت ڈی لنکنگ (delinking)کی حکمت کو اختیار کرتے، جیسا کہ اسلام کے دور اول میں پیغمبر اسلام نے کیا تھا۔ پیغمبر اسلام نے کعبہ کے اصنام اور ان کے لیے روزانہ اکٹھا ہونے والے زائرین (audience) کو ایک دوسرے سے الگ کیا تھا۔ اس طرح آپ نے ایسا دانش مندانہ طریقہ اختیار کیا، جو آخر کار فتح مبین (الفتح 1:) کا باب بن گیا۔ اگر وقت کے مسلم رہنما اس ڈی لنکنگ پالیسی کو اختیار کرتے تو مسلم امت عمومی نفرت کے فتنہ سے بچ جاتی، اور مغربی تہذیب کے ذریعہ پیدا ہونے والے تائیدی مواقع کو بھر پور طور پر اویل (avail) کرکے اس کارنامے کو انجام دیتی جس کو ایک برٹش مورخ ای ای کلیٹ (Ernest Edward Kellett) نے پیغمبر اسلام کی نسبت سے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ انھوں نے ناموافق حالات کا مقابلہ اس عزم کے ساتھ کیا کہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑلیا:
He faced adversity with the determination to wring success out of failure. (A Short History of Religions by E.E. Kellet, pp. 331-32, Middlesex)
ویسٹو فوبیا
نفرتِ مغرب کے اس عمومی فتنے کو اگر ایک نیا نام دیا جائے تو وہ شاید ویسٹوفوبیا (westophobia) ہوگا ۔ یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوںکا سب سے زیادہ عام مائنڈ سیٹ (mindset) ہے۔ یعنی مغربی قوموں کو اپنا دشمن سمجھنا، اور ان سے نفرت کرنا۔ نفرتِ مغرب کا یہ مزاج ابتداءاً نوآبادیات (colonialism) کے پس منظر میں پیدا ہوا۔ پھر وہ بڑھتے بڑھتے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا عام مزاج بن گیا۔ حتی کہ آج مسلم قوم کا مطلب یہ بن گیا کہ اپنے سوا دوسری تمام قوموں سے نفرت کرنا۔ مسلمانوں کے درمیان اس نفرت کلچر (culture of hate)کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہ تھا۔
انیسویں صدی اور بیسویں صدی کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب کہ اللہ نےایسے اسباب پیدا کیے کہ مغربی قوموں نے وہ رول ادا کیا، جس کو حدیث میں تائید دین کہا گیا ہے(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640) ۔ صلیبی جنگوںکے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ مغربی قومیں جنگ کے میدان سے ہٹ کر تسخیر فطرت کے میدان میں آگئیں ۔یعنی انھوں نے فطرت کے ان اسرار کو دریافت کرنا شروع کیا ،جن کو قرآن میں آیات (signs) کہا گیا ہے۔ اس معاملے کی پیشین گوئی قرآن میں کردی گئی تھی۔ قرآن میں یہ بتایا گیا تھا کہ مستقبل میں ایسا ہوگا کہ آفاق و انفس کی نشانیاں بڑے پیمانے پر ظاہر ہوں گی، اور وہ حق کی اعلیٰ تبیین کا رول انجام دیں گی(فصلت53:)۔حق کی تبیین کا کام انجام پانا، اپنے آپ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ کوئی گروہ ہوگا ،جو حق کی تبیین کا یہ کام انجام دے۔ تمام قرائن یہ بتاتے ہیں کہ حق کی تبیین کا یہ کام انجام دینے والے وہی گروہ تھے، جن کو اہل مغرب کہا جاتا ہے۔رموز فطرت کی اس تسخیرکو موجودہ دور میں فطرت کے قوانین (laws of nature) کی دریافت کہا جاتا ہے۔ ان دریافتوں نے تاریخ میں پہلی بار اہل ایمان کو یہ موقع دیا تھا کہ وہ اسلام اور قرآن کی صداقت کو انسان کے مسلمہ عقلی معیار کی سطح پر ثابت کریں۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں تبیین حق کہا گیا ہے۔مگر مسلمان اس عمل کی انجام دہی میں کامل طور پر ناکام رہے۔ اس کا سبب تھا— مغرب یعنی مؤیدِ دین سے نفرت۔
مسلمان جس مغرب سے متنفر ہوگئے تھے، وہ وہی مویدِ دین تھے جن کی پیشین گوئی حدیث میں کردی گئی تھی۔ مگر نفرت کی نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمان خود اپنے حامیوں سے بے خبر ہوگئے۔مسلمانوں کے اندر مغرب کے خلاف نفرت کلچر (anti-West culture) کا مزاج اتنا زیادہ بڑھا کہ وہ یہ سوچ ہی نہیں سکے کہ اہل مغرب وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں پیشگی طور پردین کے مؤیدین کہا گیا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو ایک لفظ میں ویسٹو فوبیا (westophobia) کہا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر یہ ویسٹوفوبیا اتنا زیادہ بڑھا ہواہے کہ مسلمان صرف نفرتِ مغرب کو جانتے ہیں، وہ تائید مغرب سے بالکل بے خبر ہیں۔شاید آج کی دنیا میں کوئی ایک مسلمان بھی نہیں ملے گا، جو اس ویسٹوفوبیا یا مغرب سے نفرت کا شکار نہ ہوا ہو۔
اس کے نتیجہ کے طور پر یہ ہوا کہ مسلمان اپنی تاریخ کی سب سے بڑی محرومی کے شکار ہوگئے۔ موجودہ زمانے میں ویسٹوفوبیا کی بنا پر مسلمانوں کو دو بڑے نقصان اٹھانے پڑے۔ یہ ایک ایسی محرومی ہے جس سے بڑی کوئی محرومی مسلم امت کے لیے نہیں ہوسکتی۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مغربی قوموں کو اپنا دعوتی مخاطب نہ بنا سکے۔ کیوں کہ نفرت اور دعوت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ جہاں نفرت ہوگی، وہاں دعوت کا ذہن نہیں ہوگا، اور جہاں دعوت کا ذہن ہوگا، وہاں نفرت کی نفسیات ختم ہوجائے گی۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ مغرب جدید تہذیب کا چیمپین تھا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان مغرب سے متنفر ہونے کی بناپر جدید تہذیب سے متنفر ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جدید تہذیب کے ذریعہ جو نئے مواقع (opportunities) کھلے تھے، وہ مسلمانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ اس بنا پر مسلمان موجودہ زمانے میں ایک پچھڑاہوا گروہ (backward community) بن کر رہ گئے۔
امت مسلمہ کی ذمہ داری
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میںآئی ہے:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان (قرآن)اتارا تاکہ وہ سارے عالم کے لئے خبر دار کرنے والابنے۔قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا۔ اس وقت پیشین گوئی (prediction) کی زبان میں یہ اعلان کیا گیا کہ قرآن سارے عالم میں پھیل جائےگا، یہاں تک کہ اس کا پیغام زمین پر بسنے والےہر مرد اور ہرعورت تک پہنچ جائے گا۔ یہی بات حدیث رسول میںاس طرح بیان کی گئی ہے:لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر، ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام(مسند احمد، حدیث نمبر 23814)۔یعنی زمین پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر اللہ اس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا۔
یہ حدیث رسول پیشگی خبر کی زبان میں یہ بتارہی ہے کہ آخری دور میں امت کا فائنل رول کیا ہوگا۔ وہ رول یہ ہوگا کہ امت اپنے زمانے کےاعتبار سے ایک عالمی منصوبہ بندی کرے، اور مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کے کلام (word of God) کو دنیا کے ہرگوشے میں پہنچادے۔ یہاں تک کہ کوئی عورت یا مرد اس سے بے خبر نہ رہے۔
اس حدیث میں کلمۃ الاسلام سے مراد قرآن ہے۔ قرآن کو ہر انسان تک پہنچانا کسی پر اسرار طریقے پر نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ دوسرے واقعات کی طرح اسباب کے ذریعے ہوگا۔ بعد کے دور میں ایسے اسباب انسان کے دسترس میں آئیں گے، جن کو استعمال کرکے امت خدا کی کتاب کو تمام انسانوں تک پہنچادے ۔ قرآن کو سارے عالم تک پہنچانا ایک ایسا مشن ہے، جو امت مسلمہ صرف اپنی طاقت سے نہیں کرسکتی۔ اس لیے اللہ نے تاریخ کو اس طرح مینج (manage)کیا کہ دوسری قومیں بھی اس تاریخی مشن میں تائیدی رول (supporting role) ادا کریں۔ یہی بات مذکورہ حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔ یعنی اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے کرے گا۔ اس حدیث میں فاجر انسان سے مراد سیکولر انسان ہے۔ یعنی مستقبل میں ایسے لوگ اٹھیں گے، جو بظاہر اپنے مادی محرکات (commercial interest)کے تحت ایک عمل کریں گے۔ مگر یہ اسباب عملاً اہل دین کے لیے سپورٹر بن جائیں گے۔
اس حدیث میں سیکولر مؤید (supporter) سے مراد وہی واقعہ ہے، جس کو موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔یہ ایک واقعہ ہے کہ مغربی تہذیب ایک مادی تہذیب ہے۔ اس نے اپنے مادی مقاصد کے لیے بہت سے نئے اسباب پیدا کیے۔ مگر یہ اسباب امکانی طور پر (potentially) قرآن کی عالمی اشاعت کا ذریعہ بن گئے۔
مغربی تہذیب کے بعد پہلی بار یہ ہوا کہ دنیا کا جغرافیہ پوری طرح ایک معلوم واقعہ بن گیا۔ مذہبی آزادی موجودہ زمانے میں انسان کا ایک مسلمہ حق (accepted right) بن گئی۔ موجودہ زمانے میں پرنٹنگ پریس اور الیکٹرانک کمیو نی کیشن جیسی چیزیں وجود میں آئیں، جن کے ذریعے پہلی بار عالمی ابلاغ (global communication)ممکن ہوگیا۔ لائبریری کلچراور کانفرنس کلچرجیسی چیزیں آخری حد تک عام ہوگئیں۔ سیاحت (tourism) کا ظاہرہ وجود میں آیا، جس کی صورت میں گویا مدعو خود داعی کے دروازے تک پہنچ گیا۔ لوگوں میں کھلا پن (openness)کا مزاج پیدا ہوا، جس کی بنا پر لوگ غیر متعصبانہ انداز میں مختلف مذاہب کا مطالعہ کرنے لگے، وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کے اسباب اہل دین کے لیے تائید (support) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ اہل دین ان کو استعمال کرکے قرآن کے اعلان اور پیغمبر ِ اسلام کی پیشین گوئی کو واقعہ بنادیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اہل دین ہر قسم کے منفی خیالات کو چھوڑ کر اٹھیں اور خالص مثبت ذہن کے تحت قرآن کو تمام انسانوں تک پہنچا دیں۔ تاکہ انسان اس خدائی ہدایت سے رہنمائی لے کر اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنا سکے۔ اکیسویں صدی میں قرآن کی عالمی تبلیغ کا مطلوب مشن آخری حد تک ممکن ہوچکا ہے۔ اس امکان کو واقعہ بنانے کی شرط صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو مکمل طور پر ختم کردے۔ وہ پر امن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے، تمام قوموں تک قرآن کا پیغام پہنچادے۔
ہر انسان پیدائشی طور پر حق کا متلاشی ہے۔ ہر انسان اپنی فطرت کے زور پر حق کا طالب بنا ہوا ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں مسلمان اپنی غلط سوچ کے تحت نفرت اور تشدد کے کلچر میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس کلچر نے داعی اور مدعو کے درمیان دوری کا ماحول قائم کردیا ہے۔ امت مسلمہ پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر نفرت اور تشدد کے موجودہ کلچر کو ختم کردے، اور پوری طرح امن کا ماحول قائم کردے۔ اس کے بعد فطری طور پر ایسا ہوگا کہ قرآن کا پیغام ہر جگہ پہنچنے لگے گا۔ آج امت مسلمہ کو یہ کرنا ہے کہ وہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو ختم کرکے امن کلچر کو اپنائے، اور دعوت کی پر امن پلاننگ (peaceful planning)کرے، اور خالص پرامن انداز میں سارے عالم تک اللہ کے پیغام کو پہنچادے۔ یہی امت مسلمہ کا فائنل رول ہوگا۔ اسی دعوتی رول کی ادائیگی کے نتیجے میں امت مسلمہ کو دوبارہ وہ سرفرازی حاصل ہوگی جس کا تاریخ کو انتظار ہے۔
مادی تہذیب
موجودہ زمانے میں ہم اپنے آپ کوجس تہذیب کے دور میں پاتے ہیں، اس تہذیب کو عام طور پرمغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک مادی تہذیب (material civilization) ہے۔ یہ مادی تہذیب خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق ایک مقدرتہذیب تھی۔یہ تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے دین خداوندی کے لیےپوری طرح ایک موافق تہذیب ہے۔تاہم ہر دوسری چیز کی طرح اس تہذیب کے بھی مختلف پہلو ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس تہذیب کے غیر متعلق پہلو (irrelevant part) کو نظر انداز کرکے اس کے متعلق پہلو (relevant part) کو دیکھا جائے۔
اس مادی تہذیب کا بالواسطہ حوالہ قرآن کی ایک آیت میں ملتا ہے، وہ آیت یہ ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ ُ (41:53)۔یعنی مستقبل میں ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یہ حق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے۔ یہاں آیات سے مراد وہ قوانین فطرت ہیں جو تخلیقی طور پر اس دنیا میں ہمیشہ سے موجود تھے۔ ’’ہم نشانیاں دکھائیں گے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کچھ انسانوں کو توفیق دے گا کہ وہ فطرت کے مخفی قوانین (hidden laws of nature) کو دریافت کریں، اور اس طرح دین خداوندی کی تائید (support) کے لیے ایک عقلی بنیاد (rational base)فراہم ہو۔ اس تہذیب نے انسانی دنیا اور مادی دنیا میں چھپی ہوئی جن حقیقتوں کو دریافت کیا ہے، وہ سب بلاشبہ دینِ حق کی فکری تصدیق کرنے والی ہیں۔
موجودہ دنیا میں انسان کو آباد کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ معرفت (realization) کا سفر کرے، اور اپنی شخصیت کو اعلی ارتقاء کے درجے تک پہنچائے۔ اس تہذیب نے انسان کے لیے غور و فکر کا ایک نیا فریم ورک (framework) دیا۔ اس نے غورو فکر کے لیے انسان کو نئی معلومات (data) فراہم کیں۔ اس نے انسان کو نئے وسائل (resources) دیے۔ یہ تمام چیزیں اہل دین کے لیےتائیدی عنصر (supporting factor)کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ اس لیے ہیں کہ انسان اپنے سفر معرفت کو زیادہ کامیابی کے ساتھ جاری رکھے، وہ اپنے آپ کومطلوبِ الٰہی کے مطابقـ ایک سیلف میڈ مین (self-made man) کی حیثیت سے ڈیولپ کرے۔
سائنس کی شہادت
انسان کی تخلیق کا مقصد قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ (51:56)۔ یعنی اور میں نے جن اور انسان کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ لیعبدون کی تفسیر صحابی عبد اللہ بن عباس کے شاگرد مجاہد تابعی نے لیعرفون سے کی ہے (وقال مجاہد:إلا لیعبدون:لیعرفون)البحر المحیط، لأبی حیان الأندلسی، 9/562۔ یعنی اللہ کی عبادت کرنے کا مطلب ہے اللہ کی معرفت حاصل کریں۔ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ابن جریج تابعی کے حوالے سے یہی بات نقل کی ہے۔قال ابن جریج:إلا لیعرفون (تفسیر ابن کثیر، 7/425)۔ ابن جرج نے کہا: تاکہ وہ میری معرفت حاصل کریں۔ اس معرفت کا تعلق انسان سے ہے۔
انسان ایک صاحب ارادہ مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے کہ انسان کے اندر تصوراتی سوچ (conceptual thinking) کی صلاحیت ہے۔ انسان کے لیے معرفت کا تعین اسی بنیاد پر کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے انسان کے لیے معرفت کا معیار خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) ہے۔ یہی انسان کا اصل امتحان ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی سوچنے کی طاقت (thinking power) کو ڈیولپ کرے۔ یہاں تک کہ وہ اس قابل ہوجائے کہ وہ سیلف ڈسکوری کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرلے۔
اس دریافت کے دو درجے ہیں۔ پہلا درجہ ہے کامن سنس کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرنا، اور دوسرا درجہ ہے سائنس کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرنا۔ پچھلے ہزارو ں سال سے انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ اپنے کامن سنس کو بے آمیز انداز میں استعمال کرے۔ وہ اپنی فطرت کو پوری طرح بیدار کرے۔ اس طرح وہ اس قابل ہوجائے گا کہ وہ کامن سنس کی سطح پر اپنے خالق کی شعوری معرفت حاصل کرلے۔ اس دریافت کی صرف ایک شرط تھی، اور وہ ہے ایمانداری (honesty)۔ اگر آدمی کامل ایمانداری کی سطح پر جینے والا ہو تو یقینی طور پر کامن سنس اس کے لیے اپنے خالق کی دریافت کے لیے کافی ہوجائے گی۔
معرفت کی دوسری سطح ، سائنٹفک معرفت ہے۔ یعنی فطرت (nature) میں چھپی ہوئی آیات (signs) کو جاننا، اور ان کی مدد سے اپنے خالق کی عقلی معرفت (rational realization)تک پہنچنا۔ سائنٹفک معرفت کے لیے ضروری تھا کہ آدمی کے پاس غور و فکر کے لیے سائنس کا سپورٹنگ ڈیٹا موجود ہو۔ مجرد عقلی غور و فکر کے ذریعہ سائنٹفک معرفت کا حصول ممکن نہیں۔ سائنٹفک معرفت تک پہنچناکسی کے لیےصرف اس وقت ممکن ہے، جب کہ سائنس کا سپورٹنگ ڈیٹا موجود ہو۔ اس سائنٹفک ڈیٹا کے حصول کا واحد ذریعہ قوانین فطرت (laws of nature) کا علم ہے۔ قدیم زمانے میں انسان کو قوانین فطرت کا علم حاصل نہ تھا۔ اس لیے خالق کی سائنسی معرفت بھی انسان کے لیے ممکن نہ ہوسکی۔
خالق کی ایک سنت یہ ہے کہ وہ انسانی تاریخ کو مینج کرتا ہے، یعنی انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے انسان کو منصوبۂ تخلیق کے مطابق مطلوب حالت تک پہنچاتا ہے۔ خالق اپنا یہ کام انسانی آزادی کو منسوخ کیے بغیر انجام دیتا ہے۔ یہ ایک بے حد پیچیدہ کام ہے، اور اس کو خالق کائنات ہی اپنی بر تر طاقت کے ذریعہ انجام دے سکتا ہے۔ ہمارا کام اس منصوبۂ خداوندی کو سمجھنا ہے، نہ کہ اس کے کورس کو بدلنے کی کوشش کرنا۔ کیوں کہ وہ ممکن ہی نہیں۔
قرآن کے ذریعہ اللہ تعالی نے بار بار اہل ایمان کو یہ بتایا تھا کہ کائنات انسان کے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ تم ان تسخیری قوانین کو دریافت کرو، تاکہ تم معرفت کے اس درجے تک پہنچ سکو، جس کو سائنسی معرفت کہا جاتا ہے۔ مگر اہل ایمان اس کام کو کرنےمیںعاجز ثابت ہوئے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنی سنت کے مطابق اس کام کے لیے ایک اور قوم کو کھڑا کیا (محمد38:) ۔ یہ یورپ کی مسیحی قوم تھی۔ایسا اس طرح ہوا کہ صلیبی جنگوں (Crusades) میں یورپ کی مسیحی قوم کو اتنی سخت شکست ہوئی کہ بظاہران کے لیےجنگ کا آپشن (option)باقی نہ رہا۔ اب عملاًان کےلیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے معاملے کی ری پلاننگ کریں ، اوراپنی کوشش کسی دوسرےمیدان میں جاری رکھیں۔ چناں چہ انھوں نے میدانِ جنگ کے بجائے قوانین فطرت (laws of nature) کے دریافت کی طرف بتدریج اپنی کوششوں کو ڈائیورٹ(divert) کردیا۔
اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (وفات1642:ء) کو فادر آف ماڈرن سائنس (the father of modern science) کہاجاتاہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہی وہ پہلا سائنس داں تھا جس سے ماڈرن سائنس کا سفر باقاعدہ صورت میں شروع ہوا۔ یہ عمل تقریباً چار سو سال تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ بیسویں صدی میں انسان کو وہ تمام سائنٹفک ڈیٹا حاصل ہوگئے، جو خالق کو سائنسی سطح یا ریشنل لیول پر دریافت کے لیے ضروری تھے۔
اللہ نے جس عالم کو تخلیق کیا، اس کے ہر جزء پر خالق کی شہادت ثبت (stamped) ہے۔ پھر اس نے اس علم سے فرشتوں کو واقف کرایا۔ اس کے بعد اس نے اس حقیقت کو چھپے طور پر (hidden form)اس کائنات میں رکھ دی، جس کو انسان خود سے دریافت کرسکتا تھا۔ یہی وہ چھپی حقیقت ہے جودریافت کے بعد ماڈرن سائنس کےنام سے جانی جاتی ہے۔
اہل اسلام کا کنٹری بیوشن
اب اہل ایمان کے لیے جو کرنے کا کام تھا ، وہ یہ تھا کہ وہ سائنٹفک معلومات کو اسلام کے لیے استعمال کریں۔وہ سائنٹفک معلومات (scientific knowledge) کو استعمال کرکے اپنی معرفت کو نئی مطلوب سطح تک پہنچا دیں، اور دوسروں کے لیے بھی اس معاملے میں رہنمائی کا رول ادا کریں۔ مگر تاریخ دیکھتی ہے کہ اہل اسلام اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے۔ بیسویں صدی کے پورے دور میں پوری مسلم دنیا میں بظاہر ایک شخص بھی نظر نہیں آتا جس کو اس کام کا واضح شعور ہو، اور اس نے اس کام کو مطلوب صورت میں انجام دیا ہو۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مسلمان اس عظیم امکان سے مکمل طور پر بے خبر رہے۔ انھوں نے اس حقیقت کو جانا ہی نہیں کہ اللہ نے تاریخ کو مینج کرکے اس درجہ تک پہنچایا ہے کہ فطرت میں چھپی ہوئی آیات اللہ (signs of God) دریافت ہوکر سامنے آگئی ہیں۔ اس دریافت کا کام اہل مغرب نے نہایت اعلیٰ سطح پر انجام دے دیا ہے۔ اب مسلمانوں کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اس سائنسی دریافت کوبھر پور طور پر دین خداوندی کی تائید کے لیے استعمال کریں۔ اس معاملے میں اب عملاً مسلمانوں کا کام بنیادی طور پر سیکنڈری ہے، نہ کہ پرائمری۔
اس معاملے میں غالباًامت کی سطح پر مسلمانوں کے کسی براہ راست کنٹری بیوشن کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔ بظاہر چند افراد نے اس موضوع پر کچھ کام کیا ہے، لیکن وہ اصل مطلوب کی حیثیت سے کوئی قابل ذکر کام نہیں نظر آتا ہے۔ البتہ کچھ مسلم مترجمین نے مسیحی اہل علم کی کتابوں کے ترجمے کیے ہیں، جو یقینا اس معاملے میں اہمیت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک قابل ذکر کتاب وہ ہے جو چالیس مغربی سائنس دانوں کے مقالات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب انگریزی میں مندرجہ ذیل ٹائٹل کے ساتھ شائع ہوئی ہے:
The Evidence of God in an Expanding Universe (G. P. Putnam's Sons, 1958)
یہ کتاب اس موضوع پر ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔اس کا عربی ٹائٹل یہ ہے:اللہ یتجلی فی عصر العلم (مترجم: الدمرداش عبد المجید سرحان، مؤسسة الحلبى وشرکاہ للنشر والتوزیع، 1968)۔راقم الحروف اپنے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے اسی کام کو اپنا اصل موضوع بنایا۔ وسیع مطالعے کے بعد میں نے اس موضوع پر بہت سے مقالے اور کتابیں شائع کیں۔ ان میں سے ایک بڑی کتاب وہ ہے جو اردو زبان میں مذہب اور جدید چیلنج کے نام سے1966 میں شائع ہوئی۔اس کتاب کا عربی ترجمہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کیا، وہ پہلی بار قاہرہ سے 1976میں چھپی ۔ یہ 196 صفحات پر مشتمل تھی۔اس کے بعد اس کے بہت سے ایڈیشن بار بار شائع ہوتے رہے ۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ، گاڈ ارائزز (God Arises)کے نام سےڈاکٹر فریدہ خانم نے کیا۔ یہ کتاب 1987 میں پہلی بار دہلی سے چھپی۔
مسیحی اہل علم نے اس موضوع پر بلاشبہ قابل قدر کام کیا ہے۔ انھوںنے اس موضوع پر بڑی تعداد میں مقالے اور کتابیں شائع کی ہیں، جو بلاشبہ ہمارے لیے تائیدی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے چند کتابوں کے نام یہاں لکھے جاتے ہیں:
The Intelligent Universe by Fred Hoyle, (Holt, Rinehart, and Winston, 1984)
The Cosmic Detective: Exploring the Mysteries of Our Universe by Mani Bhaumik, ‎Mani (Penguin Books India, 2008)
Science And The Unseen World by Arthur Stanley Eddington (Kessinger Publishing, 2004)
New Proofs for the Existence of God: Contributions of Contemporary Physics and Philosophy by Robert J. Spitzer, (2010)
How to Know God Exists: Scientific Proof of God, by Sr Ray Comfort (2008)
اس معاملے کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اس بے خبری کا سبب وہی عمومی فتنہ تھا جس کو حدیث میں فتنۃ الدہیما ء (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر4242) کہا گیا ہے۔ فتنۃ الدُہیماء سے مراد نفرتِ مغرب کا عمومی فتنہ ہے۔ اس فتنہ کو زیادہ صحیح طور پر ویسٹو فوبیا (westophobia) کہا جاسکتا ہے۔ یہ پوری اسلامی تاریخ کی سب سے زیادہ تعجب خیز حقیقت ہے کہ اللہ رب العالمین نے جب سائنسی ترقی کے ذریعہ اعلیٰ معرفت کا دروازہ کھولا تو مسلمان اس حقیقت سے پوری طرح بے خبر ہو کر رہ گئے۔
حدیث میں آیا ہے :حبک الشیء یعمی ویصم (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 5130)۔ اس قول کو توسیع دے کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بغضک الشیء یعمی ویصم یعنی تمھارا کسی چیز سے نفرت کرنا تم کو اندھا اور بہرا بنادیتا ہے۔موجود ہ زمانے کے مسلمانوں میں بعض سیاسی اسباب سے اہل مغرب سے نفرت پیدا ہو گئی۔ اس بغض کے نتیجہ میں وہ اہل مغرب کے کنٹری بیوشن کو مثبت طور پر جاننے سے محروم ہوگئے۔ انھوں نے حالات کے دباؤ کے تحت مغربی تہذیب سے مادی فائدہ اٹھایا، لیکن وہ مغربی تہذیب کے اس پہلو سے بے خبر ہوگئے کہ مغربی تہذیب حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق اسلام کے لیے ایک تائیدی تہذیب (supporting civilization) ہے۔ اس عمومی نفرت کا سب سے بڑا نقصان خود مسلمانوں کو ہوا۔ کیوں کہ اس بنا پر وہ اپنے اس اہم رول سے بے خبر ہوگئے کہ مغرب کی دریافت کردہ تائیدات کو لے کر وہ اسلام کی تبیین اعلیٰ عقلی سطح پر کرسکیں، اور اس طرح وہ اہم رول ادا کرسکیں جس کو حدیث میں شہادت اعظم کہا گیا ہے۔
حق کیا ہے
حق کیا ہے۔ حق اصلاً توحید کا دوسرا نام ہے۔ اس کے مقابلے میںجو چیز باطل ہے، وہ اصلاً شرک ہے۔ شرک یہ ہے کہ آدمی خالق کو چھوڑ کر مخلوقات کی پرستش کرنے لگے،یعنی فطرت کی پرستش (nature worship) ۔ خالق بظاہر دکھائی نہیں دیتا، لیکن مخلوق دکھائی دے رہی تھی۔ اس لیے انسان نے خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی پرستش شروع کردی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے رات اور دن اور سورج اور چاند۔ تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا، اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو(41:37)۔
مظاہر فطرت (nature) دکھائی دینے والی چیزیں ہیں۔ خاص طور پر سورج، چاند اور ستارے انسان کو نمایاں نظر آتے تھے، ان کے بارے میں انسان کے اندر استعجاب (sense of awe) پیدا ہوا۔ اس استعجاب کے تحت انسان نے ان کو برتر سمجھ کر پوجنا شروع کردیا۔ اس طرح قدیم زمانے میں مظاہر فطرت کو معبود مان کر ان کی پرستش کا کلچر دنیا میں رائج ہوا۔ یہ صورت حال پوری تاریخ میں برابر جاری رہی۔ خدا کے پیغمبر مسلسل طور پر خدا کی طرف سے یہ پیغام لے کر آئے کہ مخلوق کو چھوڑو، اور خالق کی عبادت کرو۔ مگر انسان ایسا نہ کرسکا۔ اسلام نے خالق کی پرستش کے اس کلچر کا آغاز کیا، اوراس کے بعد ماڈرن سائنس نےاس عمل کی تکمیل کی۔ماڈرن سائنس نے مشاہداتی سطح پر مظاہر فطرت کو معبودیت کے مقام سے ہٹا کر مخلوق کے مقام پر پہنچادیا ۔
یہ عمل سترھویں صدی عیسوی میں اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei) کی ریسرچ کے ذریعہ شروع ہوا، جب کہ گلیلیو گلیلی نےمشاہداتی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ زمین شمسی نظام کا سینٹر نہیں ہے، بلکہ وہ سورج کا ایک سیارہ (satellite) ہے۔ اس کے بعد 1969 میںنیل آرم اسٹرانگ ( 1930-2012– ) خلائی سفر کرکے چاند کی سطح پر پہنچا۔ اس نے بتایا کہ چاند کوئی روشن چیز نہیں، وہ بے نور پتھروں کا ملبہ ہے۔ اس کی روشنی اپنی نہیں، وہ سورج کے ریفلیکشن سے چمکتا ہے۔ اس کے بعد انسان نے بڑی بڑی رصدگاہیں بنائیں، اور بڑے پیمانے پر ریسرچ کیا۔ اس کے ذریعہ حتمی طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ ستارے جو آسمان میں نظر آتے ہیں، وہ سب کے سب آگ کے ٹکڑے ہیں، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس طرح سائنسی ریسرچ نے مشاہداتی بنیاد پر یہ بتایا کہ خلا (space) میں جتنے بھی اجسام (bodies) ہیں، وہ سب کے سب یا تو آگ کے انگارے ہیں، یا پتھر کے ٹکڑے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ مظاہر فطرت کی معبودیت کا تصور تمام تر توہم پرستی (superstition) کی بنیاد پر قائم تھا۔ سائنس نے توہم پرستی کے دور کو مکمل طور پر ختم کردیا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ مظاہر پرستی کا دور علمی طور پر ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن میں آفاق کی آیات کے ذریعے بتائی گئی ہے۔
اسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں انفس کی نشانیوں کے ذریعہ حق کی تبیین ہوگی۔انفس سے مراد انسان ہے ۔ آیاتِ انسان سے کس طرح حق کی تبیین ہوتی ہے۔ اس کا اشارہ ایک حدیث میں ملتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:خلق اللہ آدم على صورتہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227)۔ یعنی اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک ایسا وجود ہے جس کا مطالعہ کرکے خالق کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔ انسان کے اندر وہ تمام صلاحتیں چھوٹی سطح پر پائی جاتی ہیں، جو خالق کے اندر اعلیٰ سطح پر موجود ہیں۔ کائنات پوری کی پوری ایک مادی کائنات ہے۔ مگر کائنات کے اندر ایک ہستی ایسی پائی جاتی ہے، جس کو انسان کہا جاتاہے۔ انسان کے اندر دماغ (Mind) ہے، انسان دیکھنے اور سننے کی صلاحیت رکھتاہے، وہ اپنے ارادے سے کام کرتا ہے، انسان واحد مخلوق ہے جس کے اندر مَیں (I) کا شعور پایا جاتاہے، وغیرہ۔ غالباً اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ (75:14)۔ یعنی انسان اپنے وجود کو دریافت کرکے خالق کی دریافت تک پہنچ سکتا ہے۔مثال کے طور پر فرانسیسی فلسفی ڈیکارٹ (René Descartes) نے انسان کے وجود پر غور کیا۔ اس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
I think, therefore, I am
اس اصول کی توسیع کرتے ہوئے یہ کہنا درست ہوگا کہ میں ہوں اس لیے خدا بھی موجود ہے:
I am, therefore, God is
اکیسویں صدی
خالق کی تخلیقی اسکیم (creation plan) ہمیشہ سے ثابت شدہ حقیقت تھی۔ لیکن بیسویں صدی کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آیا ہے۔ جب کہ نظری حقیقتیں، مادی حقائق کی روشنی میں قابل فہم (understandable) بن گئیں۔ مثلا غیب پر ایمان قدیم زمانے میں ایک عقیدہ کی بات تھی۔ موجودہ زمانے میں کوانٹم فزکس (quantum physics) کی دریافت کے بعد یہ صرف نظری بات نہ رہی، بلکہ پرابیبیلٹی (probability) کے درجے میں تقریباً قابل یقین حقیقت کے درجہ تک پہنچ گئی۔ پرابیبلٹی جدید سائنس کا ایک اہم اصول ہے۔ کہا جاتا ہے:
Probability is less than certainty, but more than perhaps
موجودہ زمانے میں جن چیزوں کو سائنسی حقیقت (scientific fact) کہا جاتا ہے، ان سب کا معاملہ یہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک پرابیبیلٹی کے درجے میںمسلمہ حقیقت بنی ہیں، نہ کہ مشاہدہ کے درجے میں۔ یہی معاملہ مذہبی عقائد یاتصورات کا ہے۔ اِس زمانے میں مذہبی تصورات اسی تسلیم شدہ درجے میں ثابت شدہ بن چکے ہیں، جس درجے میں مسلّمہ سائنسی حقائق ۔
اہل علم کی شہادت
زیر نظر موضوع سے متعلق قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: شَہِدَ اللَّہُ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ وَالْمَلَائِکَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ (3:18)۔ یعنی اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقیناً اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور فرشتے اور اہل علم میں سےجو انصاف پر قائم ہیں (وہ بھی یہی گواہی دیتے ہیں کہ) اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں، وہ غالب ہے حکمت والا ۔
اللہ شہادت دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی الہ نہیں— اس کا مطلب یہ ہے کہ تخلیق کے ہر جزء پر خالق کی اسٹیمپ (stamp) لگی ہوئی ہے۔ تخلیق (creation) کا مطالعہ باعتبار حقیقت خالق کے عمل (act) کا مطالعہ ہے۔ تاہم اس معاملے میںسائنس کے آغاز پر ایک نا موافق حادثہ پیش آیا۔ وہ سائنٹفک کمیونٹی اور کرشچن چرچ کے درمیان ٹکراؤ تھا۔ اس کی تفصیل درج ذیل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے:
History of the Conflict Between Religion and Science by John William Draper (1874)
یہ تصادم سائنٹفک کمیونٹی اور کرسچن چرچ کے درمیان تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ سائنٹفک کمیونٹی نے نیچر کے مطالعہ (باعتبار حقیقت تخلیق کےمطالعہ) میں تخلیق اور خالق کو ایک دوسرے سے ڈی لنک (delink) کردیا۔ وہ تخلیق کا مطالعہ خالق کے ریفرنس کے بغیر کرنے لگے۔ اس طرح سائنس بظاہر ایک سیکولر سبجکٹ بن گیا۔ حالاں کہ باعتبار حقیقت وہ مکمل طور پر ایک مذہبی سبجکٹ کی حیثیت رکھتی تھی۔
اس کے بعد دوسری غلطی مسلم علماء نے کی۔ انھوںنے سائنس کو ایک مادی سبجکٹ کا درجہ دے دیا، جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو۔ حالاں کہ مسلم علماء کو کرنا یہ تھا کہ وہ اس ڈی لنکنگ کو ختم کردیں۔ وہ دنیا کو یہ بتائیں کہ سائنس جس مطالعے کو نیچر کا مطالعہ کہہ رہی ہے، وہ در اصل تخلیق کا مطالعہ ہے، اور تخلیق کا مطالعہ اپنے آپ تخلیق کے خالق کامطالعہ ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت میں اولو العلم سے مراددین کے علماء نہیں ہیں، بلکہ طبیعیاتی سائنس کے علماء ہیں۔اٹلی کے سائنس داں گلیلیو گلیلی کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آیا۔ اس کو سائنس کا دور (age of science) کہا جاتا ہے۔ اس دور میں خالص عقلی اصولوں کی روشنی میں مادی دنیا کا مطالعہ شروع ہوا۔ یہ مطالعہ تیزی سے بڑھا، یہاں تک کہ سائنس سب سے بڑا علمی شعبہ بن گیا۔ اس سائنسی مطالعے نے فطرت کے بہت سے وہ اسرار دریافت کیے، جو اب تک غیر دریافت شدہ حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ یہ دریافتیں تخلیقی دنیا سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس بنا پر ان کا تعلق براہ راست طور پرخالق کی معرفت سے تھا۔
سائنسی علوم کا مطالعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے خالق کی معرفت کا مطالعہ تھا۔ مگر سائنسدانوں نے اس مطالعے کو مکمل طور پر ایک سیکولر سبجکٹ کے طور پر کیا۔ تقریباً چار سو سال کے سائنسی مطالعے کے نتیجے میں جو سائنسی معلومات انسان کے علم میں آئی ہیں، وہ سب کی سب معرفت خداوندی کا دفتر ہیں۔ لیکن سائنسی دریافتوںکا یہ پہلو ابھی تک چھپا ہوا تھا۔ اس معاملے میں اب اہل اسلام کا رول یہ ہےکہ وہ اس کے ریفرنس(reference) کو بدلیں۔علوم فطرت کی جو دریافتیں اب تک سیکولر دریافتوں کی حیثیت سے سمجھی جاتی رہی ہیں، ان کو رب العالمین کی دریافت کا درجہ دے دیں۔ وہ سائنس کو اسلام کے علم کلام کی حیثیت سے لوگوں کے سامنےلائیں۔ان دریافتوں کی بنیاد پر وہ اسلام کا نیا علم کلام مدون کریں۔
سائنس سے معرفت تک
سائنس کیا ہے۔ سائنس در اصل ایک منظم علم کا نام ہے۔ سائنس سے مراد وہ علم ہے جس میں کائنات کا مطالعہ موضوعی طور پر ثابت شدہ اصولوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے:
Science: the systematized knowledge of nature and the physical world.
کائنات کی حقیقت کے بارے میں انسان ہمیشہ غور و فکر کرتا رہا ہے۔ سب سے پہلے روایتی عقائد کی روشنی میں ، اس کے بعد فلسفیانہ طرز فکر کی روشنی میں، اور پھر سائنس کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں۔سائنس کا موضوع کائنات (physical world) کا مطالعہ ہے۔ تقریبا چار سو سال کے مطالعے کے ذریعے سائنس نے جو دنیا دریافت کی ہے، وہ استنباط (inference) کے اصول پر خالق کے وجود کی گواہی دے رہی ہے۔ لیکن غالباً کسی سائنسداں نے کھلے طور پر خدا کے وجود کا اقرار نہیں کیا ہے۔ ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ البرٹ آئن سٹائن(1879-1955) کی طرح ان کا کیس کھلے طور پر خدا کے انکار (atheism)کا کیس نہیں ہے، بلکہ ان کا کیس لا ادری (agnosticism) کا کیس ہے۔
طبیعیاتی سائنس کے میدان میں پچھلی چار صدیوں میں تین انقلابی ڈیولپمنٹ پیش آئے ہیں۔ اول، برٹش سائنس داں نیوٹن کا مفروضہ کہ کائنات کی بنیادی تعمیر ی اینٹ مادہ ہے۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے آغاز میں جرمن سائنس داں آئن سٹائن کا یہ نظریہ سامنے آیا کہ کائنات کی تعمیری اینٹ توانائی ہے، اور اب آخر میں ہم امریکن سائنس داں ڈیوڈ بام کے نظریاتی دور میں ہیں، جب کہ سائنس دانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد یہ مان رہی ہے کہ کائنات کی بنیادی تعمیری اینٹ شعور ہے۔ یہ تبدیلیاں لازمی طور پر ایک نئے فلسفے کو جنم دیتی ہیں، جب کہ فلسفہ مادیت سے گزر کر روحانیت تک پہنچ گیا ہے:
In the realm of the physical science, we have had three major paradigm shifts in the last four centuries. First, we had the Newtonian hypothesis that matter was the basic building block of the universe. In the early twentieth century, this gave way to the Einsteinian paradigm of energy being the basic building block. And the latest is the David Bohm era when more and more scientists are accepting consciousness to be the basic building block. These shifts have had inevitable consequences for the New Age philosophy, which has moved away from the philosophy of crass materialism to that of spirituality.
وہ دور جس کو سائنسی دور کہا جاتا ہے، اس کا آغاز تقریبا سو سال پہلے مغربی یورپ میں ہوا۔ دھیرے دھیرے عمومی طور پر یہ تاثر بن گیا کہ سائنس حقیقت کو جاننے کا سب سے اعلیٰ ذریعہ ہے۔ جو بات سائنس سے ثابت ہوجائے، وہی حقیقت ہے، جو بات سائنسی اصولوں کے ذریعہ ثابت نہ ہو، وہ حقیقت بھی نہیں۔ابتدائی صدیوں میں سائنس خالص مادی علم کے ہم معنی بن گیا۔ چوں کہ مذہبی حقیقتیں مادی معیار استدلال پر بظاہر ثابت نہیں ہوتی تھیں، اس لیے مذہبی حقیقتوں کو غیر علمی قرار دے دیا گیا۔ لیکن علم کا دریا مسلسل آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب کہ خود سائنس مادی علم کے بجائے عملاً غیر مادی علم کے ہم معنی بن گیا۔
پچھلی صدیوں کی علمی تاریخ بتاتی ہے کہ سائنس کے ارتقا کے ذریعے پہلی بار استدلال کی ایسی علمی بنیاد وجود میں آئی جو عالمی طور پر مسلمہ علمی استدلال کی حیثیت رکھتی تھی، پھر اس میں مزید ارتقا ہوا، اور آخر کار سائنس ایک ایسا علم بن گیا جو مسلمہ عقلی بنیاد پر یہ ثابت کر رہا تھا کہ کائنات ایک بالاتر شعور کی کار فرمائی ہے۔ ایک سائنس داں نے کہا ہے — کائنات کا مادہ ایک ذہن ہے:
The stuff of the world is mind-stuff (Eddington)
مشہور سائنس داں ڈاکٹر اسٹیفن ہاکنگ نے کہا ہے :
There is a “grand design” to the universe, but it has nothing to do with God. Science is coming close to “The Theory of Everything,” and when it does, we will know the grand design. (Catherine Giordano: Here’s Why Stephen Hawking Says There Is No God [www.owlcation.com])
وہ ایک دوسری جگہ کہتے ہیں :
One can’t prove that God doesn’t exist, but science makes God unnecessary.
(www.en.wikipedia.org/wiki/The_Grand_Design_(book)
کوانٹم فزکس کے نظریے کو اگر اس معاملے پر منطبق کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے :
Probably, there is a God
یہ خالص سائنس کا موقف ہے۔ لیکن جہاں انسان کے وجدان (intuition) کا تعلق ہے۔ اس کی سطح پر خدا کا وجود اتنا ہی یقینی ہے، جتنا کہ انسا ن کا وجود۔
سائنس اور عقیدۂ خدا
1927 میں بلجیم کے ایک سائنس داں جارجز لیمٹری (Georges Lemaitre) نے بگ بینگ (Big Bang) کا نظریہ پیش کیا۔اِس نظریے پر مزید تحقیق ہوتی رہی، یہاں تک کہ اِس کی حیثیت ایک مسلّمہ واقعہ کی ہوگئی۔ آخر کار 1965 میں بیگ گراؤنڈ ریڈی ایشن (background radiation) کی دریافت ہوئی۔ اِس سے معلوم ہوا کہ کائنات کے بالائی خلا میں لہر دار سطح (ripples) پائی جاتی ہیں۔ یہ بگ بینگ کی شکل میں ہونے والے انفجار کی باقیات ہیں۔ اِن لہروں کو دیکھ کر ایک امریکی سائنس داں جویل پرائمیک (Joel Primack) نے کہا تھا کہ — یہ لہریں خدا کے ہاتھ کی تحریر ہیں:
The ripples are no less than the handwriting of God.
جارج اسموٹ 1945 میں پیداہوا۔ وہ ایک امریکی سائنس داں ہے۔ اس نے 2006 میں فزکس کا نوبل پرائز حاصل کیا۔ یہ انعام اُن کو ’کاسمک بیک گراؤنڈ ایکسپلورر، کے لیے کام کرنے پر دیاگیا۔ 1992 میں جارج اسموٹ نے یہ اعلان کیا کہ بالائی خلا میں لہردار سطحیںپائی جاتی ہیں۔ یہ بگ بینگ کی باقیات ہیں۔ اُس وقت جارج اسموٹ نے اپنا تاثر اِن الفاظ میں بیان کیا تھا — — یہ خدا کے چہرے کو دیکھنے کے مانند ہے:
George Fitzgerald Smoot III (born February 20, 1945) is an American astrophysicist and cosmologist. He won the Nobel Prize in Physics in 2006 for his work on the Cosmic Background Explorer. In 1992 when George Smoot announced the discovery of ripples in the heat radiation still arriving from the Big Bang, he said it was "like seeing the face of God". (God For The 21st Century, Templeton Press, May 2000)
جب یہ بات ثابت ہوجائے کہ کائنات کی تخلیق کے پیچھے ایک عظیم ذہن (mind) کی کار فرمائی ہے۔ کائنات کے اندر جو معنویت ہے، جو منصوبہ بندی ہے، جو بے نقص ڈزائن ہے، وہ حیرت انگیز طور پر ایک اعلیٰ ذہن کے وجود کو بتاتا ہے۔ کائنات میں ان گنت چیزیں ہیں۔ لیکن ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔ کائنات میں حسابی درستگی اتنے زیادہ اعلیٰ معیار پر پائی جاتی ہے کہ ایک سائنس داں نے کہا کہ کائنات ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical mind)کی موجودگی کا اشارہ کرتی ہے۔اس موضوع پر اب بہت زیادہ لٹریچر تیار ہوچکا ہے، جس کو انٹرنیٹ پر یا لائبریری میں دیکھا جاسکتا ہے۔ کائنات میں انٹلیجنٹ ڈیزائن ہونے کی ایک مثال یہ ہے کہ ہمارا سولر سسٹم جس میں ہماری زمین واقع ہے، وہ ایک بڑی کہکشاں (galaxy)کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ہمارا شمسی نظام کہکشاں کے بیچ میں نہیں ہے، بلکہ اس کے کنارے واقع ہے۔ اس بنا پر ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم محفوظ طور پر زمین پر زندگی گزاریں، اور یہاں تہذیب (culture) کی تعمیر کریں:
The centre of the galaxy is a very dangerous place. Being in the outskirts of the galaxy, we can live safely from the hectic activities at the centre.
اس حکیمانہ واقعہ کا اشارہ قرآن میں موجود تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں سائنسی مطالعے کے ذریعہ اس کی تفصیلات معلوم ہوئیں، جو گویا قرآن کے اجمالی بیان کی تفسیر ہے۔جب علم کا دریا یہاں تک پہنچ جائے تو اس کے بعد صرف یہ کام باقی رہ جاتا ہے کہ اس دریافت کردہ شعور یا اس ذہن کو مذہبی اصطلاح کے مطابق، خدا (God) کا نام دے دیا جائے۔
بے نقص کائنات
کائنات مکمل طور پر ایک بے نقص (zero-defect)کائنات ہے۔قرآن میں کائنات کے اس پہلو کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےَ ۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: یعنی جس نے بنائے سات آسمان درجہ بدرجہ، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے (ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُور) ۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی (67:3-4)۔
قرآن کی اس آیت میں کائنات کوبے فطور (flawless) کہا گیا ہے ۔ جس وقت قرآن میں یہ آیت اتری، اس وقت انسان کو معلوم نہ تھا کہ کائنات ایک بے نقص کائنات ہے۔ انسان سورج چاند کو دیکھتا تھا، سمندروں اور پہاڑوں کو دیکھتا تھا۔ اس سے اس کے اندر ایک تحیر کا احساس (sense of awe) پیدا ہوجاتا تھا۔ اس سے کائنات کی پرستش (nature worship) کا تصور پیدا ہوا۔ خالق کا جو اصل مقصود تھا، وہ یہ تھا کہ انسان کائنات کے بے فطور (flawless) پہلو کو جانے ، اور اس طرح خالق کی قدرت کو دریافت کرے۔ مگر ہزاروں سال تک کائنات کا یہ پہلو غیردریافت شدہ بنا رہا۔
پچھلے تقریباً چار سو سال کے درمیان سائنس کے میدان میں جو دریافتیں ہوئی ہیں، انھوں نے پہلی بار انسا ن کو بتایا کہ کائنات میں کمال درجے کی معنویت پائی جاتی ہے۔ کائنات ویل پلانڈ (well planned) کائنات ہے، کائنات ایک ویل مینجڈ (well managed) کائنات ہے، کائنات ایک ویل ڈیزائنڈ (well designed) کائنات ہے، کائنات ایک ویل ڈسپلنڈ (well disciplined) کائنات ہے۔ اب سائنسداں عام طور پر یہ مانتے ہیں کہ کائنات ایک انٹلجنٹ کائنات (intelligent universe) ہے۔ حتی کہ اب یہ ایک باقاعدہ موضوع بن گیا ہے، جس پر بہت سی کتابیں اور رسالے شائع کیے جارہے ہیں۔
نیوٹن کے زمانے میں کائنات کو ایک میکینیکل کائنات کہا جاتا تھا۔ لیکن مزید ریسرچ سے یہ نظریہ غلط ثابت ہوگیا۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں جو ریسرچ ہوئی ہے، اس سے اب یہ بات تقریباً واقعہ (fact) بن چکی ہے کہ کائنات ایک ذہین کائنات (intelligent universe) ہے۔ کائنات کو ذہین کائنات ماننے کے بعد یہ معاملہ ایک لفظی مسئلہ بن جاتا ہے۔ کائنات کو ذہین کائنات ماننا دوسرے لفظوں میں یہ ماننا ہے کہ یہ کائنات ایک ذہین خالق کی تخلیق ہے۔ اس کے سوا اس کا کوئی اور مفہوم نہیں ہوسکتا۔ اس موضوع پر غالباً پہلی باقاعدہ کتاب فریڈ ہائل (Fred Hoyel) کی تھی، جس کا نام تھا ذہین کائنات:
The Intelligent Universe: A New View of Creation and Evolution (1983)
مگر اب ذہین ڈزائن کے موضوع پر بڑی تعداد میں کتابیں اورمقالے چھپ چکے ہیں۔ ان کتابوں اور مقالات کو کسی بڑی لائبریری میں یا انٹر نیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔
کائنات کی توجیہہ
طبیعیات کے جدیدمطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ تقریباً 14 بلین سال پہلے خلا میں ایک دھماکہ ہوا جس کو بگ بینگ کہاجاتاہے۔ یہ کائنات کا آغاز تھا۔ مطالعہ مزید بتاتاہے کہ دھماکے کے بعد ایک سیکنڈ کے اندر ایک اور واقعہ ہوا جس نے ذروں کو نہایت تیز رفتاری کے ساتھ خلا کی وسعت میں پھیلا دیا۔ اس کے بعد تدریجی طور پر موجودہ کائنات بنی۔
یہ انوکھے واقعات کیسے پیش آئے۔ اتفاق (accident) جیسے الفاظ اس کی توجیہہ نہیں کرسکتے۔ یہ ایک بے حد بامعنی واقعہ تھا اور صرف ایک بامعنی توجیہہ (meaningful explanation) ہی اِس واقعے کی تشریح کرسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس قسم کی دریافتوں نے انسان کو معرفتِ الٰہی کے عین دروازے تک پہنچا دیا ہے۔ اب صرف اتنا ہی باقی ہے کہ لفظی طورپر اس کا اعتراف کرلیا جائے۔
Universe Origins: Giant Boost for Big Bang Theory
London: An international team of astrophysicists has discovered the signal left in the sky by the super-rapid expansion of space that would have occurred fractions of a second after everything came into being following the Big Bang. Announcing their finding over a global press call, scientists from Harvard Smithsonian Centre for Astrophysics said researchers from the BICEP2 (Background Imaging of Cosmic Extragalactic Polarization) collaboration have found this first direct evidence for this cosmic inflation, a theory pioneered by Prof Alan Guth among others. Almost 14 billion years ago the universe burst into existence in an extraordinary event that initiated the Big Bang, they said. It has been theorized that in the first fleeting fraction of a second the universe expanded exponentially in what is described as the first tremors of the Big Bang, stretching far beyond the view of our best telescopes. Their data also represents the first images of gravitational waves or ripples in space-time. The team analysed their data for more than three years in an effort to rule out any errors.They also considered whether dust in our galaxy could produce the observed pattern, but the data suggest this is highly unlikely. Harvard theorist Avi Loeb said this work offers new insights into some of our most basic questions: Why do we exist?? How did the universe begin??? These results not only offer strong evidence for inflation, they also tell us when inflation took place and how powerful the process was. These ground breaking results came from observations by the BICEP2 telescope of the cosmic microwave background a faint glow left over from the Big Bang. (The Times of India, New Delhi, March 19, 2014, p. 23)
کائنات کی معنویت
سائنس فطرت (nature) کے مطالعے کا نام ہے۔ فطرت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں، جن کو ہم کائنات کہتے ہیں۔ سائنسی مطالعے کا آغاز کچھ ابتدائی باتوں سے ہوا، لیکن یہ مطالعہ جتنا زیادہ بڑھتا گیا، اتنا ہی یہ ظاہر ہوتا گیا کہ کائنات ایک بے حد بامعنی کائنات ہے۔ کائنات کی کوئی بھی ایسی تشریح جو کائنات کی معنویت کے اعتراف پر قائم نہ ہو، وہ سائنسی تحقیقات سے مطابقت نہیں رکھتی۔
مثلاً سائنسی مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا کہ کائنات کے اندر ایک ذہین ڈیزائن (intelligent design) ہے۔ اب اگر یہ نہ مانا جائے کہ کائنات کے پیچھے ایک ذہین ڈیزائنر (intelligent designer)کام کر رہا ہے تو کائنات کا نادر ظاہرہ ناقابلِ توجیہہ بن جاتاہے۔
اِسی طرح سائنس کے مطالعے نے بتایا کہ ہماری کائنات انسان کے لیےایک کسٹم میڈ (custom-made) کائنات ہے، یعنی وہ انسان جیسی مخلوق کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ اب اگر ایک ایسے خالق کو نہ مانا جائے جس نے دو الگ الگ چیزوں کے درمیان مطابقت کو قائم کیا، تو اِس ظاہرے کی کوئی قابلِ فہم توجیہہ ممکن نہیں۔ اِسی طرح مختلف شعبوں میں سائنس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات کے مختلف اجزا آپس میں بے حد مربوط ہیں، اور ان کے درمیان ایک انتہائی فائن ٹیوننگ (fine-tuning) پائی جاتی ہے تو اِس مائنڈ باگلنگ (mind-boggling) ظاہرے کی کوئی ہ ممکن نہیں۔
سائنس کوئی مذہبی سبجیکٹ نہیں، سائنس کا موضوع خالق کی دریافت نہیں۔ سائنس کا موضوع تخلیق (creation)کی دریافت ہے، لیکن تخلیق کے مطالعے میں خالق (Creator) کا مطالعہ اپنے آپ شامل ہے، اِس لیے تخلیق کا مطالعہ عملاً خالق کا مطالعہ بن گیا۔ سائنس نے اپنے مطالعے کے ذریعے جو چیزیں دریافت کیں، وہ سب خدائی نشانیوں کی دریافت کے ہم معنی بن گئیں، جن کو قرآن میں ’آیات اللہ‘  (signs of God) کہاگیا ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ تخلیق کی معنویت کی دریافت عملاً ایک بامعنی خالق کے وجود کی دریافت ہے۔
Fine-Tuning in the Universe: "There is plenty of good scientific evidence that our universe began about 14 billion years ago, in a Big Bang of enormously high density and temperature, long before planets, stars and even atoms existed. But what came before [The physicist Lawrence ] Krauss in his book discusses the current thinking of physicists that our entire universe could have emerged from a jitter in the amorphous haze of the subatomic world called the quantum foam, in which energy and matter can materialize out of nothing. Krauss’s punch line is that we do not need God to create the universe. The quantum foam can do it quite nicely all on its own. Aczel asks the obvious question: But where did the quantum foam come from? Where did the quantum laws come from? Hasn’t Krauss simply passed the buck? Legitimate questions. But ones we will probably never be able to answer. "...[The fine-tuning problem] For the past 50 years or so, physicists have become more and more aware that various fundamental parameters of our universe appear to be fine-tuned to allow the emergence of life — not only life as we know it but life of any kind. For example, if the nuclear force were slightly stronger than it is, then all of the hydrogen atoms in the infant universe would have fused with other hydrogen atoms to make helium, and there would be no hydrogen left. No hydrogen means no water. On the other hand, if the nuclear force were substantially weaker than it is, then the complex atoms needed for biology could not hold together. In another, even more striking example, if the "cosmic dark energyـ", discovered by scientists 15 years ago, were a little denser than it actually is, our universe would have expanded so rapidly that matter could never have pulled itself together to form stars. And if the dark energy were a little smaller, the universe would have collapsed long before stars had time to form. Atoms are made in stars. Without stars there would be no atoms and no life. So, the question is: Why? Why do these parameters lie in the narrow range that allows life. (Book: ‘Why Science Does Not Disprove God’ by mathematician Amir D. Aczel, who is currently researcher in the history of science at Boston University. The above are excerpts taken from a review on the book by physicist Alan Lightman for The Washington Post, April 11, 2014)
انسان کی مسلسل حفاظت
قرآن میں انسان کے بارے میںایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: قُلْ مَنْ یَکْلَؤُکُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ بَلْ ہُمْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّہِمْ مُعْرِضُونَ (21:42)۔ قرآن کو ماننے والےساتویں صدی عیسوی سے اس کو مانتے تھے۔ لیکن ان کا ماننا بطور عقیدہ تھا، وہ ایک معلوم حقیقت کے طور پر نہ تھا۔ فلکیاتی سائنس نے پہلی بار اس کو بطور حقیقت کے دریافت کیا۔ اس بارے میں قرآن کے ماننے والوں کا عقیدہ واقعاتی طور پر ایک معلوم حقیقت بن گیا۔ سائنس کے مطابق، زمین اپنی جسامت کے اعتبارسے کائنات میں ایک ذرے سے بہت زیادہ کم ہے،مگراس کے باوجودوہ ہماری تمام معلوم دنیاؤں میں اہم ترین ہے،کیونکہ ا س کے اوپرحیرت انگیزطورپروہ حالات مہیاہیں، جوہمارے علم کے مطابق اس وسیع کائنات میں کہیں نہیں پائے جاتے۔
سب سے پہلے زمین کی جسامت کولیجئے ،اگراس کاحجم کم یازیادہ ہوتاتواس پرزندگی محال ہوجاتی۔ مثلًاکرۂ زمین،اگرچاند اتناچھوٹاہوتا،یعنی اس کاقطرموجودہ قطرکی نسبت سے ایک چوتھائی 1/4ہوتاتواس کی کشش ثقل، زمین کی موجودہ کشش کا 1/6 رہ جاتی ، کشش کی اس کمی کانتیجہ یہ ہوجاتاکہ ہماری دنیاپانی اورہواکواپنے اوپرروک نہ سکتی ،جیساکہ جسامت کی اسی کمی کی وجہ سے چاندمیں واقع ہواہے۔چاندپراس وقت نہ توپانی ہے ،اورنہ کوئی ہوائی کرہ ہے۔ہواکاغلاف نہ ہونے کی وجہ سے چاند رات کے وقت بیحد سرد ہوجاتا ہے، اوردن کے وقت تنورکے مانندجلنے لگتاہے۔ اسی طرح کم جسامت کی زمین کشش کی کمی کی وجہ سے پانی کی اس کثیرمقدارکوروک نہ سکتی جوزمین پرموسمی اعتدال کوباقی رکھنے کاایک اہم ذریعہ ہے،اوراسی بناپرایک سائنس داں نے اس کوعظیم توازنی پہیہ (Great Balance Wheel) کانام دیاہے، اورہواکاموجودہ غلاف اڑکرفضامیں گم ہوجاتاتواس کاحال یہ ہوتاکہ اس کی سطح پردرجہ حرارت چڑھتاتوانتہائی حدتک چڑھ جاتا،اورگرتاتوانتہائی حدتک گرجاتا۔اس کے برعکس اگرزمین کاقطر موجودہ زمینی قطر کے مقابلے میں دگناہوتاتواس کی کشش ثقل بھی دگنی بڑھ جاتی، کشش کے اس اضافہ کانتیجہ یہ ہوتاکہ ہوا،جواس وقت زمین کے اوپرپانچ سومیل کی بلندی تک پائی جاتی ہے،وہ کھنچ کربہت نیچے تک سمٹ جاتی ،اس کے دباؤ میں فی مربع انچ 15تا30پونڈکااضافہ ہوجاتا،جس کانتیجہ مختلف صورتوں میں زندگی کے لئے نہایت مہلک ثابت ہوتا،اوراگرزمین کی جسامت سورج کےبرابر ہوتی اوراس کی کثافت برقرار رہتی تواس کی کشش ثقل دیڑھ سوگنابڑھ جاتی ،ہواکے غلاف کی دبازت گھٹ کرپانچ سومیل کے بجائے صرف چارمیل رہ جاتی ،نتیجہ یہ ہوتاکہ ہواکادباؤ ایک ٹن فی مربع انچ تک جاپہنچتا،اس غیر معمولی دباؤ کی وجہ سے زندہ اجسام کانشوونماممکن نہ رہتا،ایک پونڈوزنی جانورکاوزن ایک سوپچاس پونڈہوجاتا،انسان کاجسم گھٹ کرگلہری کے برابرہوجاتا،اوراس میں کسی قسم کی ذہنی زندگی ناممکن ہوجاتی ،کیونکہ انسانی ذہانت حاصل کرنے کے لئے بہت کثیر مقدار میں اعصابی ریشوں کی موجودگی ضروری ہے، اوراس طرح کے پھیلے ہوئے ریشوں کانظام ایک خاص درجہ کی جسامت ہی میں پایاجاسکتاہے۔
قرآن کی سائنسی تفسیر
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ (21:30)۔ یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔ اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔ کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں خود تخلیق کے اعتبار سے ایسی کھلی شہادت موجود ہیں، جو اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب کہ قرآن نازل ہوا، یہ آیت ایک پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھی۔ مگر اب یہ آیت سائنسی طور پر ایک ثابت شدہ واقعہ بن چکی ہے۔ اس سائنسی دریافت کا معروف نام بگ بینگ (Big Bang) ہے۔ بیسویں صدی عیسوی کے ربع اول میں پہلی بار اس حقیقت کی دریافت ہوئی، اور پھر سائنسداں اس دریافت کی مزید تحقیق کرتے رہے، یہاں تک کہ اب بگ بینگ کا واقعہ سائنسی طور پر ایک ثابت شدہ واقعہ بن چکا ہے۔
اس دریافت کے مطابق، تقریبا تیرہ بلین سال پہلے خلا میں ایک بہت بڑا کاسمک بال (cosmic ball) ظاہر ہوا۔ اس کاسمک بال میں وہ تمام پارٹکل (particle)موجود تھے، جن کے مجموعے سے موجودہ کائنات بنی ہے۔ اس کاسمک بال میں ایک زبردست انفجار (explosion) ہوا۔ اس انفجار کے بعد ایک لمبی مدت کے دوران وہ پوری دنیا بنی، جس کو آج ہم کائنات کے نام سے جانتے ہیں۔بگ بینگ کا نظریہ اب ایک سائنسی واقعہ (scientific fact) کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اس موضوع پر ہر انسائیکلوپیڈیا میں مواد موجود ہے۔ اس کے بارے میں بڑی تعداد میں کتابیں اور مقالات شائع ہوچکی ہیں۔ یہاں بطور مثال صرف ایک کتاب کا حوالہ دیا جاتا ہے:
Big Bang: The Origin of the Universe by Simon Singh (Harper Collins, 2005)
الہامی علم کی ضرورت
اللہ تعالی نے پیغمبروں کے ذریعہ انسان کی ہدایت کا ا نتظام کیا۔ پیغمبروں پر وحی آتی تھی، اور پھر وہ لوگوں کو اس علم سے واقف کراتے تھے۔ پیغمبرانہ رہنمائی کی ضرورت کیوں ہے۔ اس کا جواب قرآن میں یہ دیا گیا تھا :وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا (17:85)۔ یعنی اور وہ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
اس آیت میں روح سے مراد وحی ہے۔ اس آیت میں وحی کی ضرورت پر یہ دلیل دی گئی ہے کہ انسان کو تھوڑا علم دیا گیا ہے، وہ خود سے اپنی ہدایت کو دریافت نہیں کرسکتا۔ اس لیے وحی کے ذریعہ اس کو ہدایت نامہ بھیجا جاتا ہے، تاکہ وہ کامل رہنمائی کی روشنی میں دنیا میں اپنی زندگی گزار سکے۔ قرآن کا یہ بیان بظاہر صرف ایک بیان (statement) ہے۔ اس بیان کی عقلی تفسیر نزول قرآن کے وقت موجود نہ تھی۔ بعد کو جب سائنس کا علم وجود میں آیا، اور زندگی اور کائنات کے بارے میں سائنسی مطالعہ شروع ہوا تو ابتداء ًانسان نے سمجھا کہ اب ہمیں پیغمبرانہ ہدایت کی ضرورت نہیں۔ اب انسان خود اپنے علوم کے ذریعہ اپنے لیےکامل رہنمائی کو دریافت کرسکتا ہے۔ یہی وہ ذہن تھا، جس کے تحت برٹش فلسفی جولین ہکسلے (Julian Huxley) نے ایک کتاب لکھی، جس کا ٹائٹل یہ تھا:
Man Stands Alone (1941)
مگر کئی سو سال کی تحقیق کے بعد خود سائنسدانوں نے یہ اعتراف کیا کہ سائنس کے ذریعہ انسان کے لیے کامل ہدایت نامہ دریافت نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل کتاب کا مطالعہ کافی ہوگا:
The Limitations Of Science by J.W.N. Sullivan ( 1973)
اس کتاب میں مصنف نے تجزیہ کرکے بتایا ہے کہ سائنس کی محدودیت ہے۔ سائنس سچائی کا صرف جزئی علم دے سکتی ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality.
اس تجربے کے بعد اب انسان مجبور ہے کہ وہ پیغمبر کی اہمیت کو تسلیم کرے، اور یہ مانے کہ اس معاملے میںپیغمبر کے سوااس کے پاس کوئی اور بدل نہیں ہے۔
جنت انسان کا اصلی ہیبیٹاٹ (habitat)
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک ایسی دنیا کا طالب ہے، جہاں وہ پر امن (peaceful) انداز میں رہ سکے۔ انسان کی پوری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان ہمیشہ ایک ایسی دنیا کی تلاش میں رہا ہے۔ لیکن عملاً وہ اس دنیا کو کبھی پا نہ سکا۔ موجودہ زمانے میں جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ یہ ممکن ہوا کہ انسان مکمل تہذیب (civilization) کو وجود میں لائے۔ چناں چہ ساری کوششوں کے بعدیہ ممکن ہوگیا کہ انسان ایک کامل تہذیب کو وجود میں لائے۔ مگر جب یہ تہذیب عملاً بن چکی تو معلوم ہوا کہ وہ انسان کے لیے صرف ایک ناقص تہذیب ہے۔ قرآن کا یہ بیان تجرباتی سطح پر ایک ثابت شدہ واقعہ بن گیا :وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ (41:31)۔
پہلے زمانے میں انسان صرف ضرورت (necessity) پر زندگی گزارتا تھا۔ پھر سہولت (comfort) کا دور آیا۔ اس کے بعد تہذیب نے لگزری (luxury) کے بے شمار سامان انسان کے لیے فراہم کردیے۔ لیکن کوئی بھی چیز انسان کے لیے ذہنی سکون (peace of mind) کا ذریعہ نہ بن سکا۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک آئڈیل دنیا (perfect world) کی تلاش میں ہے۔ مگر تجربے نے یہ بتایا کہ موجودہ دنیا کی محدودیت کی بنا پر یہاں کامل دنیا کی تعمیر ممکن نہیں۔ عام تصور کے مطابق، تہذیب کا یہ سفر ابھی جاری تھا۔ امریکا کے رائٹر الوین ٹافلر (Alvin Toffler) نے ایک کتاب چھاپی۔ اس کتاب کا ٹائٹل تھا:
Future Shock (1970)
اس کتاب میں انھوںنے یہ پیشین گوئی کی کہ انڈسٹریل ایج(industrial age)اب سپر انڈسٹریل ایج (super-industrial age)کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مستقبل میں ایک نئی ترقی یافتہ دنیا وجود میں آئے گی، جب کہ انسان کے لیے اس کی طلب کو حاصل کرنا ممکن ہوجائے۔ لیکن اس کے بعد ہی سائنسدانوں نے یہ دریافت کیا کہ موجودہ زمین اپنے کاؤنٹ ڈاؤن (countdown)کے آخری مرحلے میں پہنچ رہی ہے۔ا کیسویں صدی کے آخر تک موجودہ زمین انسان کے لیے قابل رہائش (habitable) نہیں رہے گی۔ اس دریافت کے بعد اب یہ ناممکن ہوگیا کہ زمین کی بنیاد پر کوئی جنت جیسی اعلیٰ دنیا تعمیر کی جاسکے۔
مشہور برطانی سائنسداں، اسٹیفن ہاکنگ نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ اب انسان کو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے اسپیس کالونی (space colony) بنانا چاہیے۔ مگر ہر شخص جانتا ہے کہ یہ تجویز ایک سائنس فکشن سے زیادہ کچھ نہیں۔
اسی طرح سائنس نے دریافت کیا کہ انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک کامل دنیا کا متلاشی ہے، لیکن موجودہ دنیا میں یہ کامل دنیا بننا ممکن نہیں۔ یہ دریافت بالواسطہ طور پر جنت جیسی ایک دنیا کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ کیوں کہ جس دنیا میں ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر پائی جاتی ہو، وہاں جنت جیسی ایک دنیا کا ہونا، اپنے آپ میں ایک ثابت شدہ بات ہے۔ جنت اگر دکھائی نہیں دیتی تو اس کو نہ دکھائی دینے والی دنیا میں موجود ہونا چاہیے۔ جنت انسان کی طلب کا مطلوب ہے، اور کائنات کا مطالعہ جس بامعنی دنیا (meaningful world) کی نشاندہی کررہا ہے، اس میں علمی طور پر یہ ناممکن ہے کہ طلب تو پائی جائے، لیکن مطلوب موجود نہ ہو۔ یہ دریافت جنت کی موجودگی کا ایک استنباطی ثبوت (inferential proof) ہے۔
سائنس کا نظریاتی کنٹری بیوشن
اسلام کے لیے سائنس کا ایک کنٹری بیوشن وہ ہے جس کو نظریاتی کنٹری بیو شن کہا جاسکتا ہے۔ پچھلے تمام زمانوں میں قوموں کے اندر توہماتی طرز فکر کا رواج تھا۔ لوگوں کے اندر مبنی بر حقیقت سوچ موجود نہ تھی۔ توہماتی عقائد کے تحت لوگ طرح طرح کی بے بنیاد رائیں بنائے ہوئے تھے۔
اس کی ایک مثال گرہن کا مسئلہ ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آسمان میں سورج گرہن یا چاند گرہن کا واقعہ پیش آتا ہے۔ اس معاملے میں لوگ توہماتی عقیدہ بنائے ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر اس قسم کا ایک واقعہ ہجرت کے بعد مدینہ میں پیش آیا تھا۔ یہ سورج گرہن تھا، جو 10 ہجری میں پیش آیا تھا۔اسی تاریخ کو پیغمبر اسلام کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ قدیم زمانے میں یہ مانا جاتا تھا کہ گرہن اس وقت پڑتا ہے، جب زمین پر کوئی سنگین واقعہ پیش آئے۔ چناں چہ مدینہ کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ چوں کہ آج پیغمبر کے بیٹے کی وفات ہوئی ہے، اس لیے یہ گرہن پڑا ہے۔
پیغمبر اسلام کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے لوگوں کو مدینہ کی مسجد میں اکٹھا کرکے ایک خطبہ دیا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے :سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں(آیتان من آیات اللہ)، ان کو نہ کسی کی موت سے گرہن لگتا ہے، اور نہ کسی کی زندگی سے۔ جب تم اس کو دیکھو تو اللہ کو یاد کرو (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1052)۔
پیغمبر اسلام نے اپنے اس خطاب میں گرہن کو خدا کی ایک نشانی (sign of God) بتایا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گرہن کا واقعہ کسی زمینی حادثہ کی بنا پر پیش نہیں آتا۔ بلکہ وہ خالق کے مقرر کیے ہوئے ابدی قانون کے تحت پیش آتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی مطالعہ کے تحت متعین طو رپر یہ معلوم ہوچکا ہے کہ گرہن کا واقعہ کیوں پیش آتا ہے:
An eclipse is a well-calculated alignment of three moving bodies of different sizes in the vast space at a particular point in time.
یہی معاملہ شرک کا ہے۔ شرک نام ہے خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی پرستش کرنا۔ اسی کو انیمزم (animism) کہا جاتاہے۔ انیمزم کیا ہے۔ اس کا مطلب ہےفوق الفطری طاقت میں یقین رکھنا جو مادی کائنات کو آرگنائز کرتے ہیںاور زندگی دیتے ہیں:
The belief in a supernatural power that organizes and animates the material universe.
شرک دراصل تمام تر توہمات پر مبنی ایک عقیدہ ہے۔ اسی فکرکے تحت قدیم دنیا میں فطرت کی پرستش (nature worship) کا عقیدہ پیدا ہوا۔ فطرت کے تمام مظاہر انسان کے لیے پرستش کا موضوع (subject) بن گئے۔ مثلا سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، سمندر، درخت ،وغیرہ۔قدیم زمانے میں پوری دنیا میں شرک چھایا ہوا تھا۔ اسلام کا مشن یہ تھا کہ اس توہماتی عقیدہ کا غلبہ ختم کردیا جائے۔ اصولی طور پر اسلامی تحریک نے اس کو انجام دیا۔ اسلام نے اعلان کیا کہ اس قسم کا عقیدہ ایک بے بنیاد عقیدہ ہے۔یہاں تک کہ دنیا میں شرک کا عقیدہ علمی طورپر ایک بے بنیاد عقیدہ بن کر رہ گیا۔
اس معاملے میں سائنس کا کنٹری بیوشن بہت اہم تھا۔ سائنس کا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ اس نے مشاہداتی سطح (demonstrative level)پر ثابت کیا کہ یہ ایک غیر عقلی اور ایک بے اصل عقیدہ ہے۔ سائنس نے مشاہداتی سطح پر یہ ثابت کیا کہ پوری مادی دنیا ایٹم کا مجموعہ ہے، اور ایٹم کائنات کی مادی اکائی ہے۔ ایٹم نہ کوئی جاندار چیز ہے، اور نہ اس کے اندر کوئی فوق الفطری طاقت موجود ہے۔ مثال کے طور انسان قدیم زمانے سے چاند کی پرستش کرتا تھا، کیوں کہ اس نے اس کو خدا کا درجہ دے رکھا تھا۔ سائنس نے پہلے یہ ثابت کیا کہ چاند کوئی روشن کرہ نہیں، بلکہ وہ غیر روشن پتھروں کا ملبہ ہے۔ اس کی روشنی سورج کی روشنی کا ریفلیکشن ہے۔ یہ نظریہ 20 جولائی 1969 کو آخری طور پر بے بنیاد ثابت ہوگیا، جب کہ امریکی اسٹرانومر نیل آرم اسٹرانگ (1930-2012) خلائی سفر کرکے چاند کی سطح پر پہنچا، اور اس پر اپنا قدم رکھ دیا۔
20جولائی1969 کی رات کو راقم الحروف کو کسی وجہ سے ایک اخبار کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت خبریں آرہی تھیں کہ کس طرح انسان چاند کی سطح پر پہنچ گیا۔ میری ملاقات ایک نیوز ایڈیٹر سے ہوئی۔ انھوں نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے نہایت جوش کے ساتھ کہا کہ تھریلنگ خبریں آرہی ہیں۔ میرے دماغ میں آیا کہ یہ تھریلنگ خبریں نہیں ہیں، بلکہ ایک عجیب حقیقت کے اعلان کی خبریں ہیں، وہ یہ کہ چاند کوئی دیوتا نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بے جان مادہ ہے۔ یہ در اصل چاند کا خالق ہے جو چاند کو اپنے کنٹرول میں لیے ہوئے ہے۔ آج شرک کا عقیدہ اصولی اعتبار سے آخری طور پر باطل ہو کر رہ گیا ہے۔
اہل ایمان، اہل تائید
پیغمبر اسلام کو اللہ نے اپنا آخری نبی (الاحزاب 40:)بنا کر بھیجا۔ نبی کی حیثیت سے آپ دنیا میں 23 سال رہے۔ آپ آخری نبی تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر نبیوں کی فہرست ختم ہوگئی، لیکن آپ کی پیغمبرانہ رہنمائی قیامت تک جاری رہے گی۔ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ تھا۔ اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ آپ کے بعد ایک ایسا عمل (process) جاری ہو، جو پوری تاریخ انسانی کے لیے رہنمائی کا کام کرتا رہے۔
پیغمبر اسلام کے بعد آپ کی تبلیغ کے تحت آپ کے اصحاب کی جماعت (ٹیم) بنی۔ پھر یہ مقدر کردیا گیا کہ اصحاب رسول کے بعد متبعین رسول ہر دور میں پیدا ہوں، اور وہ پیغمبر کی رہنمائی کو ہمیشہ تاریخ کے ہر دور میں جاری رکھیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اہل ایمان کہا جاتا ہے۔
یہ کام بلاشبہ تاریخ کا سب سے بڑا کام تھا۔ اہل ایمان شاید اس کام کو تنہا انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اس لیے اللہ نے ان کے ساتھ اہل تائید کا گروہ کھڑا کردیا۔ یہ گروہ ہر دور میں اپنا تائیدی رول ادا کرتا رہا ہے۔ لیکن بعد کے زمانہ میں تائید کا یہ کام بہت زیادہ بڑا بننے والا تھا۔ تائید کا یہ کام درحقیقت اہل ایمان کو مادی بنیاد فراہم کرنے کے ہم معنی تھا۔ اہل ایمان شاید اپنی آخرت پسندی کی بنا پر اس مادی بنیاد کو بطور خود بنانے کے قابل نہ تھے۔ اس لیے بعد کے دور میں تائید کے اس کام کے لیے زیادہ بڑے درجے کا اہتمام کیا گیا۔ اہل ایمان کے لیے دوسروں کی طرف سے یہی تائید کا معاملہ تھا، جس کو پیغمبر نے پیشگی طور پر بتا دیا تھا۔ پیشین گوئی کی یہ روایات حدیث کی اکثر کتابوں میں مستند طور پر موجود ہیں۔
اہل ایمان کے لیے دوسروں کی تائید کا یہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ اس کو یقینی بنانے کے لیے اللہ نے پوری تاریخ کو مینج (manage) کیا۔ 12 ویں اور 13 ویں صدی میں جو صلیبی جنگیں ہوئیں، ان میں مسلم سلطنتیں اور مسیحی سلطنتیں بہت بڑے پیمانے پر ایک دوسرے سے ٹکرا گئیں۔ اس ٹکراؤ میں مسیحی قوموں کو اتنی بڑی شکست ہوئی کہ ان کے لیے جنگ کا آپشن ہی ختم ہوگیا۔ اس طرح حالات کے دباؤ نے یورپ کی مسیحی قوموں کو جنگ کے میدان سےہٹاکر سائنسی تحقیق کے میدان کی طرف موڑ دیا ۔ اس طرح اہل مغرب کے درمیان فطرت (nature) کی دریافت کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔یہ کئی سو سال تک برابر جاری رہا۔ یہاں تک کہ اہل مغرب نے فطرت کے قوانین (laws of nature) کے ذریعہ اس جنگ کو امن کے میدان میں دوبارہ جیت لیا، جو اس سے پہلے وہ مسلح جنگ کے میدان میں ہار چکے تھے۔
قوانین فطرت کی دریافت کے میدان میں اہل مغرب مکمل طور پر کامیاب ہوئے۔ یہاں تک کہ انھوں نے تاریخ میں پہلی بار ترقی کا نیا دور پیدا کردیا، جس کو مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔اپنی ان کامیابیوں کے ذریعہ اہل مغرب فطری طور پرپوری دنیا کے قائد (leader) بن گئے۔ سیاسی معنوں میں نہیں، بلکہ غیر سیاسی معنوں میں۔ اہل مغرب کی ترقی مذہبی ترقی نہیں تھی، بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے سیکولر ترقی تھی۔ اس ترقی میں فطری طور پر ہر قوم کو حصہ ملا، اور اہل ایمان کو بھی۔ اس طرح ایسا ہوا کہ اہل ایمان کو کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر اہل مغرب کی سیکولر تائید (secular support) مل گئی۔ اس طرح اہل ایمان اس قابل ہوگئے کہ وہ دور جدید میں پیغمبر کے لائے ہوئے دین کو دوبارہ غیر سیاسی طور پر قائم کرسکیں، جس کو وہ پچھلی تاریخ میں سیاسی طور پر قائم کیے ہوئے تھے۔
اہل مغرب کی یہ سیکولر تہذیب بھی تاریخ کا وہ انقلابی واقعہ ہے جس کو حدیث میں غیر اقوام کے ذریعہ اہل اسلام کی تائید (support) قرار دیا گیا ہے(المعجم الکبیر، حدیث نمبر 4640)۔ اہل مغرب نے پیغمبر اسلام کے دین کی تائید میں جو کارنامے انجام دیے، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی فہرست بنانا مشکل ہے۔ مثلاً اہل مغرب کے ذریعہ لائے ہوئے انقلاب کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ اہل اسلام کو عالمی مواصلات (global communication) کا عظیم تحفہ ملا۔
اہل مغرب نے ہوائی جہاز رانی (aviation) کا عالمی نظام قائم کرکے اسلامی دعوت کو ایک نئے دور میں پہنچادیا۔ اہل مغرب نے عرب دنیا کے نیچے موجود پٹرول کو دریافت کیا، اور پھر اس کو کمرشیلائز کرکے اہل اسلام کو ایک نئی طاقتور معاشی بنیاد فراہم کردی۔ اہل مغرب نے پہلی عالمی جنگ، اور دوسری عالمی جنگ کے تجربات کے بعد اقوام متحدہ (UNO) قائم کیا، جس کے ذریعہ پہلی بار ایسا ہوا کہ عالمی امن کے تصور نے یونیورسل نارم (universal norm) کی حیثیت اختیار کرلی۔
اہل مغرب نے تاریخ میں پہلی بارجمہوریت (democracy) کا نظام قائم کیا، جس نے تاریخ میں پہلی بار پولٹیکل پاور اور مواقع (opportunities) کو ایک دوسرے سے الگ (delink) کردیا۔ اب پولیٹکل رولر کے پاس صرف ایڈمنسٹریشن کا شعبہ رہ گیا۔ اس کے علاوہ دوسرے تمام شعبے ہر انسان کے لیے آزادانہ طور پر کھل گیے۔ اس طرح اہل اسلام کو موقع مل گیا کہ وہ بلاروک ٹوک دینِ خداوندی کی اشاعت کی عالمی منصوبہ بندی کرسکیں۔ وہ تنظیم (organization) کے ذریعہ اپنا نان پولیٹکل ایمپائر دنیا میں قائم کرسکیں۔
اہل مغرب نے تاریخ میں پہلی بار پرنٹنگ پریس کا پورا نظام قائم کیا، جو اسلامی مشن کے لیے عین مطلوب حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا تھا کہ قرآن کے لیے سارے عالم کے لیے نذیر ہے(الفرقان1:)۔ مگر اس نشانہ کو قابل حصول نشانہ اہل مغرب نے اپنی تہذیب (civilization) کے ذریعہ بنایا۔ قرآن میں آفاق و انفس کی نشانیوں کے اظہار کو تبیین حق کا سب سے بڑا واقعہ بتایا گیا تھا (فصلت 53:)۔ یہ کام بھی اہل مغرب کی دریافت کردہ تہذیب کے ذریعہ قابل عمل بنا، وغیرہ۔
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے : الحکمة ضالة المؤمن، حیثما وجد المؤمن ضالتہ فلیجمعہا إلیہ (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 146)۔ یعنی حکمت مومن کا متاع گم شدہ ہے، مومن جہاں اپنی گم شدہ متاع کو پائے تو چاہیے کہ وہ اس کو اپنے پاس لے لے۔ پیغمبر کے بیان کردہ اس اصول کا اطلاق (application) اہل یورپ کی پیدا کردہ ماڈرن تہذیب پر بھی یقینی طور پر ہوتا ہے— مؤیدین کے گروہ نے اپنا کام انجام دے دیا ہے۔ اب اہل اسلام کو یہ کرنا ہے کہ وہ اس کام کو بطور مواقع (opportunities) دریافت کریں، اور ان کو پیغمبر کے دین کی حمایت میں استعمال کریں۔ یہ واقعہ اتنا بڑا ہے کہ اہل اسلام کو اس میں حقیقی دریافت ہوجائے تو ان کے تمام منفی خیالات (negative thought)مکمل طور پر ختم ہوجائیں، اور وہ کامل مثبت ذہن کے ساتھ جدید مواقع کو استعمال کرنے کی طرف دوڑ پڑیں۔
مغربی اقوام، دوست اقوام
نزول قرآن کے زمانے میں انسانی تاریخ جس مرحلے میں تھی، اس کے لحاظ سے اہل ایمان کو یہ فارمولا بتایا گیا کہ اگر کوئی بظاہرتم کو دشمن نظر آئے تو اس کے ساتھ تم ردعمل کا سلوک نہ کرو، بلکہ اس کے ساتھ یک طرفہ طور پر حسن سلوک کا طریقہ اختیار کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمھارا دشمن تمھارا دوست بن جائے گا(فصلت34:)۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حسن سلوک کا یہ طریقہ ایک وقتی تدبیر کا طریقہ تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے تاریخ میں ایسا عمل (process) جاری کیا ، جس کے نتیجے میں دنیا ایک نئے دور (age) میں داخل ہوگئی، جب کہ قومیں خود حالات کے تقاضے کے تحت عملاً اسلام کی مؤید (supporter) بن گئیں۔ یہ انسانی تاریخ میں ایک انوکھا انقلاب تھا۔ اس انقلاب کی پیشگی خبر پیغمبر اسلام نے اپنی امت کو دے دی تھی۔ یہ روایت حدیث کی اکثر کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد فاجر انسان کےذریعہ کرے گا۔ یہاں غالباً فاجر کا لفظ اپنےلغوی معنی میں نہیں ہے، بلکہ فاجر انسان کا مطلب ہے سیکولر انسان۔ غیر مسلم اقوام کے ذریعہ اسلام کی تائید کی پیشین گوئی سب سے زیادہ مغربی اقوام پر صادق آتی ہے۔
مغربی اقوام نے غیر معمولی کوشش کے ذریعہ جو مادی تہذیب برپا کی، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے پوری طرح مؤید اسلام تہذیب ہے۔ مغربی اقوام کا مؤید اسلام ہونا، عملاً ایک واقعہ بن چکا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ مسلمان اس امکان کو جانیں، اور اس کو اویل (avail) کریں۔
اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ تمثیل کے ذریعہ حقیقتوں کو واضح کرتا ہے (البقرۃ26:)۔ چناں چہ اس معاملے میں اللہ نے ایک تاریخی مثال کے ذریعہ اہل ایمان کو بتایا کہ کس طرح مخالف قوم کو موافق قوم بنایا جاسکتا ہے۔ یہ مثال جاپان کی ہے، جو کہ بیسویں صدی میں پیش آئی۔ اب مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ جاپان کی سیکولر مثال کو اسلامائز کریں، اور اس کو اپنے حالات پر منطبق کریں۔
دوسری عالمی جنگ (1939-1945) سے پہلے جاپان میں امریکوفوبیا (Americophobia) کا غلبہ تھا۔ جاپانی قوم بطور خود امریکا کو اپنا دشمن سمجھتی تھی۔ جاپان کا امریکی فوبیا اتنا بڑھا کہ غالباً تاریخ میں پہلی بار جاپانی نوجوانوں نے امریکا کے خلاف خود کش بمباری کا طریقہ اختیار کیا۔ انھوں نے 1941 میں امریکا کے بحری اڈہ (پرل ہاربر) کو خود کش بمباری کے ذریعہ تباہ کردیا۔ اس کے بعد امریکا میں انتقامی جذبہ بھڑکا۔ انھوں نے 1945 میں جاپان کے دو شہروں(ہیروشیما، ناگاساکی) پر ایٹم بم گرائے۔ یہ اتنا شدید حملہ تھا کہ اس کے بعد جاپان کے لیے لڑائی کا آپشن (option) باقی نہ رہا۔
تاہم مختلف اسباب کے تحت جاپانی قوم نے اپنے آپ کو منفی رد عمل (reaction) سے بچایا۔انھوں نے غیر جانب دارانہ انداز میں سوچا تو وہ اس دریافت تک پہنچے کہ امریکا نہ کسی کا دشمن ہے، نہ کسی کا دوست۔ امریکا کا فارمولاصرف ایک ہے، اور وہ اس کا سیلف انٹرسٹ ہے۔ چناں چہ امریکا میں کہا جاتا ہے:
The business of America is business
چناں چہ جاپان نے یہ فیصلہ کیا کہ امریکا کو اپنا دوست ملک بنالیں تو امریکا بھی ہمیں اپنا دوست ملک بنالے گا۔ اس کے بعد جاپان نے یو ٹرن (u-turn) لیا۔ انھوں نے امریکا سے نزاع کی پالیسی کو یک طرفہ طور پر ختم کردیا۔ اس پالیسی نے جاپان کو یہ موقع دیا کہ وہ امریکا کے سپورٹ سے اپنی قومی ترقی کا سفر نہایت تیزی کے ساتھ جاری کرسکے۔ یہ پالیسی کامیاب رہی۔ یہاں تک کہ 25 سال بعد جاپان دنیا کے نقشے پر ایک نئی طاقت بن کر ابھرا۔ یہاں تک کہ وہ اقتصادی سوپر پاور (economic super-power) کے درجے تک پہنچ گیا۔
یہ تاریخی ظاہرہ (historical phenomenon) اہل اسلام کی رہنمائی کے لیے ابھرا ہے۔ اب مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے ویسٹوفوبیا (westophobia) کے ذہن کو مکمل طور پر ختم کردیں۔ وہ دل سے مغرب کو اپنا دوست قرار دیں۔ اگر مسلمان ایسا کرسکیں تو بہت جلد دنیا یہ واقعہ دیکھے گی کہ مسلمان دیگر اقوام کی تائید سے دنیا کے نقشے پر ایک نئی قوم بن کر ابھری ہے، جنگجو قوم نہیں بلکہ پرامن قوم کی حیثیت سے۔ پھر وہ واقعہ عالمی سطح پر پیش آئے گا، جس کا تاریخ کو لمبی مدت سے انتظار ہے۔ یعنی وہ واقعہ جس کی پیشین گوئی ساتویں صدی کے ربع اول میں قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی تھی:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔
ملت مسلمہ کی غفلت
سائنس (physical science) اپنی حقیقت کے اعتبار سے گویا اسلام کا علم کلام تھا۔ یہ اسلامی علم کلام کو قیاسی فلسفہ کے بجائے برہانیات پر قائم کرنا تھا، یعنی دلائل عقلیہ کی بنیاد پر۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ سائنس کو سیکولر گروہ نے ہائی جیک کرلیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مسلمان اپنی منفی سوچ کی بنا پر سائنس کی حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔ وہ انتہائی بے بنیاد طور پر مغرب کی ہر چیز کے خلاف ہوگئے۔ یہاں تک کہ سائنس کے بھی۔ اگر مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ بر وقت اپنا رول ادا کرتا تو سائنس ربانی حقیقتوں کی دریافت کا علم بن جاتا۔ مگر مسلمانوں کی کوتاہی کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا۔
اس معاملے میں ایک واقعہ یہاں بطور مثال نقل کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ عنایت اللہ خاں مشرقی (1888-1963) نے بیان کیا ہے۔ عنایت اللہ خان مشرقی اعلیٰ تعلیم کے لیےانگلینڈ گئے تھے۔ وہاں انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی میںتعلیم حاصل کی۔ جس زمانے میں وہ وہاں تھے، اس وقت سر جیمز جینس کیمبرج یونیورسٹی میں اپلائڈ ریاضیات ( applied mathematics) کے پروفیسر تھے۔ عنایت اللہ خاں مشرقی نے سر جیمز جینس کے ساتھ اپنے طالب علمی کے زمانے کے ایک واقعہ کا ذکر ان الفاظ میںکیا ہے:
’’1909ء کاذکرہے، اتوارکادن تھا،اورزورکی بارش ہورہی تھی، میں کسی کام سے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہورماہرفلکیات سرجیمزجینس(James Jeans) پرنظرپڑی جوبغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جارہے تھے، میں نے قریب ہوکر سلام کیا،انھوں نے کوئی جواب نہ دیا،دوبارہ سلام کیاتووہ متوجہ ہوئے اورکہنے لگے، ’’تم کیاچاہتے ہو‘‘میں نے کہا،دوباتیں اول یہ کہ زورسے بارش ہورہی ہے اور آپ نے چھاتابغل میں داب رکھاہے،سرجیمزاپنی بدحواسی پرمسکرائے اور چھاتا کھول لیا،دوم یہ کہ آپ جیساشہرۂ آفاق آدمی گرجاگھرمیںعبادت کے لئے جارہاہے ،یہ کیا؟میرے اس سوال پرپروفیسرجیمزلمحہ بھرکے لئے رک گئے اورپھرمیری طرف متوجہ ہوکرفرمایا’’آج شام کوچائے میرے ساتھ پیو‘‘چنانچہ میںشام کو ان کی رہائش گاہ پہنچاٹھیک 4بجے لیڈی جیمزباہرآکرکہنے لگیں’’سرجیمزتمہارے منتظر ہیں‘‘ اندر گیا توایک چھو ٹی سی میزپرچائے لگی ہوئی تھی،پروفیسرصاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے ،کہنے لگے’’تمہاراسوال کیاتھا‘‘ اورمیرے جواب کاانتظارکئے بغیراجرام آسمانی کی تخلیق،ان کے حیرت انگیزنظام، بے انتہا پہنائیوں اورفاصلوں ،ان کی پیچیدہ راہوں اورمداروں نیزباہمی کشش اورطوفان ہائے نورپروہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرادل اﷲکی اس داستانِ کبریاوجبروت پردہلنے لگا، اوران کی اپنی کیفیت یہ تھی سرکے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے، آنکھوں سے حیرت وخشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں ،اﷲ کی حکمت ودانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے ،اورآوازلرزرہی تھی، فرمانے لگے ’’عنایت اﷲ خاں!جب میںخداکے تخلیقی کارناموں پرنظرڈالتاہوں تومیری تمام ہستی کاہرذرہ میراہم نوابن جاتاہے ،مجھے بیحدسکون اورخوشی نصیب ہوتی ہے،مجھے دوسروں کی نسبت عبادت میں ہزارگنازیادہ کیف ملتاہے،کہوعنایت اﷲ خاں!تمہاری سمجھ میںآیاکہ میں گرجے کیوں جاتاہوں۔‘‘
علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسرجیمزکی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کردیا َیں نے کہا’’جناب والا!میں آپ کی روح افروزتفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں،اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یادآگئی اگراجازت ہوتوپیش کروں ، فرمایا ’’ضرور‘‘ چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھی:وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہَا وَغَرَابِیبُ سُودٌ۔ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَى اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ (35:27-28)۔
یہ آیت سنتے ہی پروفیسرجیمزبولے:’’کیاکہا،اﷲ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں ،حیرت انگیز،بہت عجیب، یہ بات جومجھے پچاس برس مسلسل مطالعہ ومشاہدہ کے بعدمعلوم ہوئی،محمد کوکس نے بتائی،کیاقرآن میں واقعی یہ آیت موجودہے، اگرہے تومیری شہادت لکھ لوکہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے ،محمد ان پڑھ تھا ،اسے یہ عظیم حقیقت خودبخودمعلوم نہیں ہوسکتی ، اسے یقیناًاﷲ نے بتائی تھی،بہت خوب ،بہت عجیب۔ (نقوش شخصیات نمبر،صفحات9۔1208)
اصل یہ ہے کہ سائنسی علوم کو ایکزیکٹ سائنسز (exact sciences ) کہا جاتا ہے۔اس لیے کہ سائنسی علوم تمام تر ریاضیات (mathematics) پر مبنی ہوتے ہیں۔ یورپ میں جب سائنسی علوم پھیلے تو اس کے نتیجے میں اہل یورپ کے درمیان مبنی بر واقعیت سوچ (exact thinking) پیدا ہوئی۔ یہ طرز فکر اسلام اور قرآن کے عین موافق تھا۔ اس طرز فکر کی بنا پر اہل یورپ اسلام اور قرآن کی دعوت کے لیے بہترین مدعو بن گئے۔ اس وقت اگر اہل یورپ کو اسلام اور قرآن کی دعوت پہنچائی جاتی تو یقینی طور پر وہ اسلام اور قرآن کے لیے نہایت مثبت جواب (positive response) دیتے۔ مثالیں بتاتی ہیں کہ یورپ کے بہت سے افراد نے اس قسم کا رسپانس دیا۔ مگر عین اسی زمانے میں ساری دنیا کے مسلمان نفرت مغرب کی نفسیات میں مبتلا ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں وہ اس دعوتی امکان کو اویل کرنے کےلیے ناکام ثابت ہوگئے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو مغربی سائنس بلاشبہ اسلام کے لیے ایک تائیدی سائنس (supporting science) بن جاتا۔
اسی قسم کا ایک اور واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے بیا ن کیا ہے۔ انھوں نے یہ واقعہ مضامین رشید میں نقل کیا ہے:
18 ءیا 19ء کا واقعہ ہے۔ یونین میں ام الالسنہ عربی پر خواجہ کمال الدین (1870-1932) کی اردو میںتقریر تھی۔ انھوں نے بڑی قابلیت اور اعتماد کے ساتھ تقریر شروع کی۔ مولانا سہیل کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ سردیوں کا زمانہ تھا، مولانا کو احباب اسپتال لائے تھے۔ یونین میں مجمع دیکھا تو کہا مولانا تکلیف نہ ہو تو ذرا تقریرسنتے چلیں۔ مولانا نے کہا اچھی بات ہے، لیکن آنکھوں میں تکلیف زیادہ ہے، جلد اٹھ آئیں گے۔ سب لوگ یونین میں آئے۔ مولانا سر سے پاؤں تک بڑے وزنی لبادے میں ملفوف تھے، سر پر اونی کنٹوپ تھا۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، اور اس پر ہرے رنگ کا چھجا (شیڈ) لگا ہوا تھا۔ خواجہ صاحب نے کم و بیش دو گھنٹے تک تقریر کی۔ حاضرین محو حیرت تھے۔ تقریر ختم ہوئی تو وائس پریسیڈنٹ نے اعلان کیا کہ مولانا سہیل، فاضل مقرر کا طلبائے کالج کی طرف سے شکریہ ادا کریں گے۔ مولانا کے خلاف سازش کامیاب ہوئی۔ دوستوں اور ساتھیوں نے مولانا کو ہاتھوں ہاتھ ڈائس پر پہنچادیا۔ مولانا کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، میز کے پاس کھڑے کیے گئے۔ تھوڑی سی ناک، اس سے ذرا بڑی اور ہاتھ کی صرف انگلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ مولانا نے بےتکلف تقریر شروع کردی، اس اعتماد سے گویا تمام عمر اسی مبحث پر تیاری کی تھی۔ جو لوگ یونین کے مجمع سے واقف ہیں، وہ جانتے ہوں گے کہ اچھے مقرر کے بعد کسی اور کی تقریر سننے کے لیے کوئی نہیں ٹھیرتا، اور صدر کا شکریہ بھی اسی بدنظمی کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ مولانا نے بھی ام الالسنہ عربی پر تقریر شروع کی۔ پون گھنٹہ تک تقریر کی، نئے نئے پہلوؤں سے موضوع پر روشنی ڈالی، نئی نئی مثالیں پیش کیں۔ تقریر اس درجہ دلنشیں اور کہیں کہیں اتنا شگفتہ بنادیا کہ خواجہ صاحب نے بے اختیار ہو کر مولانا کو گلے لگا لیا، اور فرمایا تمھارے ایسا جامع کمالات ساتھ کام کرنے والا مل جائے تو اسلام کا جھنڈا یورپ کی سب سے بلند چوٹی پر نصب کردوں۔ (مضامین رشید،علی گڑھ،1964 صفحہ 42-43)
مولانا اقبال احمد سہیل (1884-1955) اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے، ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کی۔ وہ نہایت ذہین آدمی تھے۔ لیکن اس زمانے کے دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ بھی انگریز سے اور یورپ سے نفرت کرتے تھے۔ ان کو اسلام دشمن سمجھتے تھے۔ اس بنا پر وہ خواجہ کمال الدین کی پیش کش کی اہمیت کو سمجھ نہ سکے۔ تعلیم کے بعد وہ علی گڑھ سے اعظم گڑھ چلے گئے، اور وہاں ضلع کی عدالت میں پریکٹس کرنے لگے۔ اسی حالت میں ان کا انتقال ہوگیا۔
امت کا انقلابی رول
قدیم زمانے میں امت محمدی کا رول یہ تھا کہ وہ دنیا سے شرک کاخاتمہ کرے۔ شرک یعنی بت پرستی کا خاتمہ کس اعتبار سے مطلوب تھا۔ بت پرستی کے کلچرکےاعتبار سے نہیں ،بلکہ اس کی فکری اساس (intellectual base) کے اعتبار سے۔ قدیم زمانے میں ہزاروں سال کے نتیجے میں لوگوں نے یہ تصور قائم کرلیا تھا کہ نیچر (مظاہر فطرت) کے اندر خدائی صفات (divinity) موجود ہے۔ یہی شرک کی فکری اساس تھی۔ قرآن ایک توحید کی کتاب ہے، جو شرک کے تصور کا بے بنیاد ہونا ثابت کرتا ہے۔ امت محمدی نے قرآن کی مدد سے یہ کیا کہ نیچر اور خدائی، دونوں کو ایک دوسرے سے الگ (detach) کردیا۔ اس کے بعد افکار کی دنیا میں رکاوٹ کا خاتمہ ہوگیا، اور پھر فطری طور پر ہر قسم کی ترقیوں کا دروازہ کھل گیا۔
اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں۔ تقریباً پانچ سو سال کے عمل کےدوران ایک نئی فکری گمراہی وجود میں آئی ہے، یعنی الحادی فکر کا ظاہرہ۔ موجودہ زمانے میں مغرب کی قیادت میں سائنس کا علم وجود میں آیا، یعنی نیچر (فطرت) کے مطالعے کا علم۔ اس کے نتیجے میں وہ قوانین دریافت ہوئے جو نیچر میں ابتدائے تخلیق سے چھپے ہوئے تھے۔ پھرانسان کو ٹکنالوجی (technology) کا علم ہوا، جس سے پانچ سو سال پہلے کا انسان بالکل بے خبر تھا۔
سائنسی علم کیا ہے۔ یہ تخلیق (creation) میں چھپے ہوئے قوانین کو دریافت کرنے کا نام ہے۔ سائنس کے آغاز میں ایسے اسباب پیش آئے کہ انسان نے دوبارہ ایک غلطی کی۔ اس نے فکری طور پر خالق کو تخلیق سے الگ کردیا۔ انسان نے تخلیق (creation)کا نہایت وسیع مطالعہ کیا۔ لیکن یہ سارا مطالعہ خالق کے حوالےکے بغیر تھا۔ اس کے نتیجے میں علم کی دنیا میں ایک نئی برائی پیدا ہوئی، اور وہ تھی خالق (Creator) کو تخلیق (creation) سے الگ (detach) کردینا۔ اب امت محمدی کے اہل علم حضرات کا یہ کام ہے کہ وہ اس غلطی کی تصحیح کریں۔ وہ دنیا کو بتائیں کہ تخلیق کوئی الگ چیز نہیں ہے، وہ خالق کےتخلیقی عمل کا نتیجہ ہے۔
یہ ایک اہم تاریخی رول ہے، جو موجودہ زمانے میں مذہبی طبقے کے لیے مقدر ہے۔ مسیحی اہل علم نے اس عمل کا آغاز کردیا ہے۔ مسیحی اہل علم نے اس موضوع پر بڑی تعدادمیں کتابیں اور مقالے تیار کرکے شائع کیے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم کتاب وہ ہے، جو سائنس کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے چالیس امریکن سائنس دانوں کے مضامین پر مشتمل ہے۔ وہ کتاب یہ ہے:
The Evidence of God in an Expanding Universe, edited by John Clover Monsma (G. P. Putnam's Sons, 1958, pp. 250)
دوبارہ امت محمدی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس فتنۂ الحاد کی فکری اساس کو بے بنیاد ثابت کریں۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قرآن کے ذریعہ اس فتنۂ الحاد کا خاتمہ کریں، جیسا کہ اس سے پہلے انھوں نے قرآن کی مدد سے فتنۂ شرک کا خاتمہ کیا تھا۔ اس معاملے میں ان کو مسیحی اہل علم کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انھوں نے اس موضوع پر بقدر ضرورت ابتدائی کام انجام دے دیا ہے۔ اب امت محمدی کا کام یہ ہے کہ وہ اس کام کو تکمیل تک پہنچائے، اور اسی کے ساتھ ہر زبان میں قرآن کے ترجمہ کو تیار کرکے تمام انسانوں کے لیے اس کی رسائی ممکن بنادے۔
شہادت اعظم
حدیث رسول کے مطابق، تاریخ کے آخری دور میں امت مسلمہ کا ایک فائنل رول ہوگا، جس کو حدیث میں شہادت اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کہا گیا ہے،یعنی مبنی بر حجت دعوت حق کی ادائیگی۔ غالباً یہ شہادت اعظم وہی چیز ہے جس کو قرآن میں تبیین حق (فصلت53:) کہا گیا ہے۔ شہادت اعظم، اور تبیین حق دونوں میں مشترک بات یہ ہے کہ یہ رول حجت کی سطح پر انجام پائے گا۔
حجت (evidence) کیا ہے۔ حجت ہونا اس بات سے متعین ہوتا ہے کہ اس کا دلیل ہونا فریق ثانی کے نزدیک ثابت شدہ ہو۔ جو حجت فریق ثانی کے نزدیک مسلّم نہ ہو، وہ فریقین کے درمیان دلیل نہیں بن سکتی۔ دعوت کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانوں میں دعوت کے حق میں جو دلائل دیے گیے، وہ عملاً یک طرفہ تھے۔ یعنی داعی کے نزدیک وہ مسلّم تھے، لیکن مدعو کے نزدیک وہ مسلّم نہ تھے۔
بعد کے زمانوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ دعوت کے حق میں ایک ایسی دلیل استعمال کی جائے جو داعی اور مدعو دونوں کے درمیان یکساں طور پر مسلّم ہو۔ مثلاً سائنٹفک دور سے پہلے جب داعی یہ کہتا تھا کہ رب السموات والارض صرف ایک ہے۔ تو یہ ایک یک طرفہ بیان ہوتا تھا۔ دوسرے فریق کے لیے موقع تھا کہ چاہے وہ اس بیان کو مانے یا نہ مانے۔ مگر آج یہ بیان کہ رب السموات والارض یک طرفہ عقیدہ کی بات نہیں ہے، بلکہ دو طرفہ طور پر ثابت شدہ یونیورسل فیکٹ کی بات ہے۔ آج سائنٹفک مطالعے نے یہ بتایا ہے کہ پوری یونیورس ایک ہی قانون کے تحت عمل کررہی ہے۔ اس کو ایک سائنسداں نے واحد ڈور کا نظریہ (single-string theory) کہا ہے۔
یہی وہ منصوبۂ الٰہی ہے جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ یہاں آفاق و انفس کی آیات سے مراد ایسے دلائل ہیں، جو دونوں فریقوں کے درمیان تسلیم شدہ ہوں۔کیوں کہ وہ عالمی قانون فطرت سے مستنبط ہیں۔ اس مقصد کے لیے اللہ نے تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کیا ہے۔ وہ پراسس تھا، فطرت (nature) میں انکوائری کا عمل جاری کرنا۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہ صلیبی جنگوں کے بعد مغربی قوموں کو سائنسی دریافتوں کی طرف موڑ دیا۔اس طرح تاریخ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ تقریباً پانچ سو سال کے عمل کے بعد انسان نے فطرت میں چھپی ہوئی حقیقتوں کو دریافت کیا۔ یہ دریافتیں مسلّمہ سائنسی دریافتیں تھیں، جوریاضیاتی اصولوں پر مبنی تھیں۔ اس بنا پر یہ دریافتیں ہر ایک کےلے ناقابل انکار حقیقتیں بن گئیں۔
اس طرح تاریخ میں پہلی بار فطرت کی ایسی عالمی حقیقتیں دریافت ہوئیں ، جو ہر انسان کے لیے ناقابل انکار بن گئیں۔ اس بنا پر پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ دوطرفہ مسلّمات کی بنیاد پر لوگوں کو حق کا پیغام دیا جائے۔اس طرح کی سائنسی دریافتوں کے نتیجے میں اب علمی اعتبار سے انسان کے لیے صرف توحید کا آپشن باقی رہا ہے۔ شرک یا انکار خدا کا آپشن اب انسان کے لیے موجود نہیں۔ موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں نے ہیومنزم (humanism) کے آپشن کا دعوی کیا ہے، جس کا مطلب ہے:
The transfer of seat from God to man
مگر یہ صرف ایک دعوی ہے، جس کے پیچھے کوئی علمی دلیل موجود نہیں۔ برٹش فلسفی جولین ہکسلے اسی قسم کے مدعیوں میں سے ایک ہے۔ اس نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے، جس کا ٹائٹل ہے:
Man Stands Alone by Julian Huxley (Harper, 1941, pp. 297)
اس کتاب کا موضوع اس کے ٹائٹل سے ظاہر ہے۔ اس کتاب کے جواب میں ایک امریکی سائنٹسٹ نے ایک مدلل کتاب تیار کرکے شائع کی۔ وہ کتاب یہ ہے:
Man Does Not Stand Alone by Abraham Cressy Morrison (Fleming H. Revell Company, 1944, pp. 107)
حقیقت یہ ہے کہ ماڈرن سائنس نے خالص دلیل کی سطح پر یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے، اور وہ اللہ رب العالمین ہے۔ اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ سائنٹفک کمیونٹی اس معاملے میں فریق بننے کو تیار نہیں۔ سائنٹفک کمیونٹی اس معاملے میں ان ڈفرنٹ (indifferent) رہنا چاہتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ناسا کے ایک سائنسداں کو اس وجہ سے جاب سے نکال دیا گیا کہ وہ کائنات میں انٹلیجنٹ ڈیزائن کو مانتا تھا۔ اس کا یہ ماننا تھا کہ زندگی اتنی پیچیدہ ہے کہ اس کو نظریہ ارتقا سے حل نہیں کیا جاسکتا:
Nasa of America sued by scientist 'sacked for belief in intelligent design': Life is too complex to have developed through evolution alone. (www.telegraph.co.uk. [accessed: 25.01.2018])
حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے بارے میں جو سائنٹفک دریافتیں ہوئی ہیں، انھوںنے حقیقت خداوندی کو اب ایک ثابت شدہ واقعہ بنا دیا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ کوئی ان حقائق کو لے کر کھڑا ہو۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ رول صرف اور صرف امت مسلمہ کے لیے مقدر ہے، جس کو قرآن میں امت وسط کہا گیا ہے(البقرۃ143:)۔ مگر امت مسلمہ اس رول کو اداکرنے میں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ موجودہ مسلم کمیونٹی اپنے منفی نفسیات کی بنا پر اس مثبت رول کو ادا کرنے کے لیے نا اہل ہوگئی ہے۔ امت مسلمہ کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کی نفرت اور تشدد کی تمام سرگرمیوں کو یک طرفہ طور پر اور کلی طور پر ختم کردیں تاکہ وہ دنیا میں شہادت اعظم کے اس رول کو ادا کرنے کے اہل ہوجائیں، اور اس کے بدلے میں اللہ رب العالمین کے یہاں ابدی جنت کے مستحق قرار پائیں۔
٭ ٭ ٭٭ ٭ ٭
اسلام اصلاً ایک آئڈیا لوجی کا نام ہے۔ جب دلائل کی تائید اسلام کے حق میں ہو، تو اسلام کو غالب سمجھا جائے گا۔ دلائل کی یہ تائید پہلے بھی اسلام کے حق میں تھی، اور اب سائنسی حقائق کے ظہور کے بعد مزید اضافے کے ساتھ دلائل کی یہ تائید اسلام کو حاصل ہوچکی ہے۔اب جو سوال ہے، وہ صرف مسلمانوں کی اپنی ذمے داری کا ہے۔
واپس اوپر جائیں