Pages

Saturday, 26 May 2018

Al Risala | June 2018 (الرسالہ،جون)

4

-قرآن سے نصیحت

5

- قرآن کی دو آیتیں

6

- بسم اللہ سے آغاز

7

- اللہ اکبر

8

- انابت الی اللہ

9

- جنت کا حصول

10

- جنت کا تجربہ

11

- جنت کی زندگی

12

- جنت کی تلاش

13

- اسفل سافلین کیوں

15

- تاریخ کا اعادہ

16

- دو دنیائیں

18

- سپورٹنگ رول

19

- بے نقص کائنات

20

- پیغمبر اسلام,شخصیت کے چند نمونے

26

- قرآن کا مطالعہ

28

- تفسیر قرآن

29

- درس قرآن

31

- قرآن فہمی کا اسلوب

33

- قرآن کی ہدایت

34

- قرآن کا انقلاب

35

- قرآن کا مشن

36

- کتاب ہدایت

37

- دو مختلف انجام

39

- قول بلیغ

41

- فہم دین

44

- فطرت کا ایک قانون

45

- داعی کی حفاظت

46

- ایک با اصول انسان

47

- خبر نامہ اسلامی مرکز


قرآن سے نصیحت

قرآن فہمی کے بارے میں دو آیتیں ان الفاظ میں آئی ہیں: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْک َ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ دوسری آیت کے الفاظ یہ ہیں:کِتَابٌ فُصِّلَتْ آیَاتُہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (41:3)۔ یعنی یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں، عربی زبان کا قرآن، ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ان دونوں آیتوں کے اسلوب پر غور کرنے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قرآن فہمی کی دو سطحیں (levels) ہیں۔ ایک ہے وہ سطح جو عربی زبان بخوبی جاننے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ قرآن فہمی کا علمی درجہ ہے۔ اس سطح پر جو آدمی قرآن کو پڑھے، اس کو قرآن کی باتوں سے معنوی واقفیت حاصل ہوجائے گی۔ قرآن فہمی کی دوسری سطح وہ ہے، جو تدبر کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اس دوسری سطح پر قرآن فہمی کے ذریعے آدمی کو گہری رہنمائی حاصل ہوتی ہے، جس کو نصیحت کہاجاتا ہے۔
مثلاً قرآن میں ماہ رمضان کا بیان ہے، اس کے بعد فرمایا: فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ (2:185)۔ عربی زبان سے واقفیت رکھنے والا آدمی جب اس آیت کو پڑھے گا تو وہ آیت کا فقہی مفہوم جان لے گا۔ یعنی رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنا فرض ہے۔اس سلسلہ بیان کی اگلی آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور جب میرے بندے تم سے میری بابت پوچھیں تو میں نزدیک ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے، تو چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں(2:186)۔ اس آیت کو پڑھ کر عربی زبان جاننے والایہ سمجھ لے گا کہ اللہ سے سوال کرنے والا آدمی اللہ سے قریب ہے، اور اس کے سوال کا جواب دیتا ہے۔ لیکن یہ جواب کس صورت میں آتا ہے۔ یہ مجرد عربی زبان جاننے سے معلوم نہیں ہوتا، بلکہ غور وفکر کرنے سے اس کا ادراک ہوسکتا ہے۔ یعنی آیت پر تدبر کرنے کے ذریعے سے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی دو آیتیں

قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی کے لیے پہلی شرط اللہ کا خوف ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (2:282)۔ یعنی اور اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو علم دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ تقویٰ اور علم کا تعلق یہ ہے کہ تقویٰ آدمی کو انسان اصلی (man cut-to-size) بناتا ہے۔ یعنی انسان اپنی فکر کے اعتبار سے وہاں پہنچ جاتا ہے، جہاں بطور حقیقت اس کو ہونا چاہیے۔ جب اللہ رب العالمین کی معرفت سے انسان،انسان اصلی بن جائے، اس وقت انسان کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ (realistic approach) پیداہوجاتی ہے۔ جب انسان کٹ ٹو سائز ہو کر اس حد پر پہنچ جائے۔ اس وقت وہ اس قابل بن جاتا ہے کہ وہ چیزوں کو ایز اٹ از دیکھنے لگے، اور ایز اٹ از تھنکنگ (as it is thinking)ہی وہ واحد شرط ہے جو آدمی کو حقیقی معنوں میں کلام الٰہی کو سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔
اس سلسلے میں دوسری اہم آیت یہ ہے: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآن کے مطالعے کا معیار (criterion) کیا ہے۔ وہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ قرآن کا مطالعہ آدمی کے لیے ذکر و نصیحت کا ذریعہ بن جائے۔ کوئی بھی دوسری چیز خواہ بظاہر وہ کتنی ہی زیادہ اہم ہو، وہ کلامِ الٰہی کے مطالعے کا معیار نہیں بن سکتی۔
خواہ قرآن کے مطالعے کے لیے صحیح طریقۂ کار کا معاملہ ہو یا قرآن کے مطالعے سے نتیجہ اخذ کرنے کا معاملہ ہو ، دونوں معاملوں میں ایک ہی درست معیار ہے، وہ معیار جو قرآن سے ثابت ہو۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ سے کوئی معیار قائم نہ کرے۔ بلکہ وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرکے اس سے درست معیار کو اخذ کرے۔
واپس اوپر جائیں

بسم اللہ سے آغاز

ایک حدیث رسو ل ان الفاظ میں آئی ہے:کُلُّ کَلَامٍ، أَوْ أَمْرٍ ذِی بَالٍ لَا یُفْتَحُ بِذِکْرِ اللہِ، فَہُوَ أَبْتَرُ - أَوْ قَالَ:أَقْطَعُ - (مسند احمد، حدیث نمبر 8712)۔ یعنی ہر کلام یا اہم معاملہ جس کو اللہ کے ذکر سے شروع نہ کیا جائے تو وہ دم بریدہ یا کٹا ہوا ہے۔یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں مختلف الفاظ میں آئی ہے۔ ان کا مشترک مفہوم یہ ہے کہ جس کا کام آغاز بسم اللہ سے کیا جائےاس کا انجام بہتر ہوگا، اور جس کام کا آغاز بسم اللہ سے نہ کیا جائے ا س کا انجام بے نتیجہ ہوگا۔
بسم اللہ سے آغاز کا مطلب محض لفظی آغاز نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب کام میں خدائی اسپرٹ کا ہونا ہے، نہ کہ لفظی اعتبار سے دہرادینا۔ بسم اللہ سے آغاز کا مطلب یہ ہے کہ کسی کام کو صحیح رخ سے آغاز کرنا۔ کسی کام کو حوصلہ مندانہ اسپرٹ کے ساتھ آغاز کرنا، کسی کام کو اس ذہن کے ساتھ آغاز کرنا کہ کرنے والا اگر چہ انسان ہے، لیکن اس کی تکمیل اللہ رب العالمین کے ہاتھ میں ہے، اور اللہ رب العالمین ضرور اس کام کو تکمیل تک پہنچائے گا۔
کسی کام کو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ شروع کرنا، یہ معنی رکھتا ہے کہ بندے نے اپنے ذاتی عزم (determination) کے ساتھ اللہ رب العالمین کی رحمت کو بھی پوری طرح شامل کر لیا ہے۔ اس نے اپنے اندر یہ اسپرٹ شامل (inculcate) کرلیا ہے کہ خواہ حالات کچھ بھی پیش آئیں، اس کی نظر حالات کے بجائے اللہ کی رحمت پر ہونی چاہیے۔
بندے کے وسائل ہمیشہ محدود ہوتے ہیں، لیکن اللہ کی رحمت کی کوئی حد نہیں۔ ایسی حالت میں کسی کام کو شروع کرتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی حقیقت کو یاد کرنا، یہ معنی رکھتا ہے کہ بندے نے اپنی محدودیت کے ساتھ اللہ کی لامحدودیت کو اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے۔ اس نے امید کے ساتھ یقین کو اپنا سہارا بنا لیا ہے۔ بندے کی طرف سے یہ اسپرٹ گویا اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنا ہے۔ یہ گویا اسم اعظم کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ اکبر

نماز اسلام کی بنیادی عبادت ہے۔ نماز میں بار بار یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ اکبر، اللہ اکبر، یعنی اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے امر واقعہ کا اعلان ہے۔ یہ کوئی کلمۂ فخر نہیں، بلکہ یہ کلمۂ واقعہ ہے۔ انسان پیدا ہونے کے بعد اپنے چاروں طرف ایک عظیم کائنات کو دیکھتا ہے۔ وہ حیرانی کے ساتھ جاننا چاہتا ہے کہ کون اس دنیا کا خالق ہے، کون اس دنیا کو کنٹرول کر رہا ہے، کون اس دنیا کی عظیم ہستی ہے،جس کا وہ اعتراف کرے، اور جس کے آگے وہ ہمیشہ کے لیے جھک جائے، جس کے آگے اپنے پورے وجود کے ساتھ وہ خود کو سرینڈر کردے، جس کے آگے وہ اعتراف کی علامت کے طور پر سجدے میں گر پڑے، جس کے آگے وہ اپنے آپ کو سپرد کرکے اپنی روح کو یہ تسکین دے کہ میں نے اپنے خالق کو پالیا، میں نے اپنے رب کو دریافت کرلیا، میں نے اس ہستی کو جان لیا جو مجھ کو ہر چیز کا دینے والا ہے۔
انسان اس دنیا میں پیدا ہوتے ہی یہ تجربہ کرتا ہے کہ اس کائنات میں ایک اعلیٰ انتظام موجود ہے۔مثلا ایک بے حد کامل نظام کے تحت یہاںوہ تمام چیزیں موجود ہیں، جن کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاسکتاہے— سور ج کے ذریعے روشنی، ہوا کے ذریعے آکسیجن، بارش کے ذریعے پانی، سوئل (soil) کے ذریعے خوراک، استحکام کے لیے زمین کی کشش، اور تہذیب بنانے کے لیے ٹکنالوجی،وغیرہ۔ اس طرح کی ان گنت چیزیں اس کو رات دن بلاقیمت سپلائی ہورہی ہیں۔ انسان پیدا ہونے کے بعد رات دن ان نعمتوں کا تجربہ کرتا ہے۔ اس کی روح کسی دینے والے کے لیے سرتاپا شکر گزار بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے اندر یہ طلب آخری حد تک جاگ اٹھتی ہے کہ وہ اپنے رب کو پائے، اور سجدۂ اعتراف کے طور پر اس کے آگے پورے وجود کے ساتھ اپنے آپ کو سرینڈر کردے— اسی کیفیت کا نام ایمان باللہ ہے، اور ابدی جنت اسی ایمان باللہ کی قبولیت کے طور پر رب العالمین کا انعام (reward)ہے۔
واپس اوپر جائیں

انابت الی اللہ

انابت کا لفظی مطلب ہے، لوٹنا، بار بار لوٹنا: رجوع الشیء مرّة بعد أخرى (to return from time to time)۔ یہی انابت کی اصل ہے۔ انابت کے تمام استعمالات میں یہی مفہوم بطور اصل پایا جاتا ہے۔ یہ لفظ جب اللہ کی نسبت سے بولاجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر ڈسٹریکشن کے بعد دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہونا۔ انسان اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ خالق کا تصور اس کی فطرت کےساتھ پوری طرح وابستہ (interwoven)ہے۔ یہ وابستگی اتنی گہرائی کے ساتھ ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ پھر جب انسان مطالعہ کرتا ہے، اور غور وفکر سے کام لیتا ہے تو خالق کے ساتھ اس کی فطرت کی یہ وابستگی اور بھی زیادہ گہری ہوجاتی ہے۔
مگر اسی کے ساتھ دوسری حقیقت یہ ہے کہ انسان کو ایک ایسی دنیا میں پیدا کیا گیا ہے، جہاں ہر وقت اس کا سابقہ خالق کے سوا دوسری چیزوں کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ اس صورت حال کی بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی توجہ اپنے خالق سے دور (distract) ہوجاتی ہے۔ وہ خالق کے بجائےکسی اور کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ جب آدمی کو خالق کی معرفت ہوچکی ہو، اس نے اپنے رب کو دریافت کرلیاہو تو خدا کے ساتھ اس کا گہرا تعلق بار بار زندہ ہوگا۔ وہ بار بار اپنے رب کی طرف لوٹے گا، اسی کو رجوع الی اللہ کہا گیا ہے، یعنی رجوع الی اللہ اور انابت دونوں اپنے معنی کے اعتبار سے ایک ہیں۔
انابت، صاحبِ معرفت انسان کی ایک مستقل خصوصیت ہے۔ جس آدمی کو اپنے رب کی معرفت حاصل ہوچکی ہو، وہ اپنے اندرونی تقاضے کے تحت اس کا تحمل نہیں کرے گا کہ اس کی توجہ اپنے رب کی طرف سے ہٹ کر کسی اور کی طرف چلی جائے۔ اس لیےاس طرح کی صورت حال میں وہ بار بار لوٹے گا، اور مزید شدت کے ساتھ اپنے رب سے جڑ جائے گا— اسی کا نام توجہ الی اللہ یا انابت الی اللہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا حصول

جنت ایک صاحب معرفت کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ جنت کے بارے میں پیغمبر اسلام کی بہت سی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا، فَإِنَّہُ لا یُدْخِلُ أَحَدًا الجَنَّةَ عَمَلُہُ،قَالُوا:وَلاَ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:وَلا أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِی اللَّہُ بِمَغْفِرَةٍ وَرَحْمَة(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6467)۔ یعنی درستی اوراعتدال پر قائم رہو اور پر امید رہو ، کیوں کہ کسی کا عمل اسے جنت میں نہیں پہنچائے گا۔ لوگوں نے پوچھا آپ کو بھی نہیں، اے اللہ کےرسول۔ آپ نے فرمایا مجھ کو بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ مغفرت اور رحمت سے مجھ کوڈھانپ لے۔
جنت انسان کا ہیبیٹاٹ (habitat)ہے۔ جنت وہ آئڈیل دنیا ہے، جہاں انسان کو ابدی عمر ملے گی۔ جہاں کسی قسم کا حزن (sorrow) نہ ہوگا۔ جو ہر قسم کی محدودیت (limitations) سے خالی ہوگی۔ جہاں انسان کو کامل معنوں میں فُل فِل مینٹ (fulfilment) حاصل ہوگا۔ جہاں نہ کوئی تکلیف ہوگی، اور نہ کوئی بورڈم (boredom) ہوگا۔ ایسی دنیا بلاشبہ ایک بیحد قیمتی دنیا ہے۔ کوئی انسان اس پر قادر نہیں کہ وہ ایسی اعلیٰ دنیا کی قیمت ادا کرسکے۔
یہ جنت کسی کو اس کے عمل کی قیمت کے طور پر نہیں ملے گی۔ وہ صرف ان منتخب افراد کو ملے گی، جن کو رب العالمین اس قابل پائے کہ وہ جنت میں اعلیٰ اخلاق ( سورۃالقلم، 68:4) کے ساتھ رہ سکتے ہوں۔ جنت میں پوری انسانی تاریخ کے منتخب افراد بسائے جائیں گے۔ یہ اعلیٰ درجے کی ایک رفاقت کا ماحول ہوگا۔ یہ ایسے لوگوں کی دنیا ہوگی، جو فرشتوں کی رپورٹ کے مطابق، اپنی سوچ اور اپنے کردار کے اعتبار سے اس کا اہل بنے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے— وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت ( سورۃ النساء، 4:69)۔جنت ایک انعام ہے، جنت عمل کا معاوضہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا تجربہ

پیغمبر اسلام کی ایک روایت حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آئی ہے:فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَأَحَدُہُمْ بِمَسْکَنِہِ فِی الجَنَّةِ أَدَلُّ بِمَنْزِلِہِ کَانَ فِی الدُّنْیَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2440)۔ یعنی اس ذات کی قسم جس کےقبضے میں محمد کی جان ہے، ان میں کا کوئی شخص جنت میں اپنے گھر کو اس سے زیادہ پہچانے گا، جتنا کہ وہ دنیا میں اپنے گھر کو پہچانتا تھا۔ دنیا کی زندگی میں جو گھر آدمی کو رہنے کے لیے ملتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تو جنت نہیں ہوتا۔ لیکن اگر انسان اس کو ایک خدائی عطیے کے طور پر دریافت کرے تو اس کا گھر اس کو اتنی بڑی نعمت معلوم ہوگا، جیسے کہ اللہ نے اس کو اسی دنیا میں اس کا جنتی گھر دے دیا۔
ایک مومن دنیا میںاپنا ایک گھر بنائے، اور وہ وہاں رہنا شروع کردے۔ تو اس کی معرفت کی بنا پر اس کے لیے یہ گھر عام قسم کا ایک گھر نہیں ہوگا۔ وہ ہر لمحہ اپنے دنیا کے گھر کی صورت میں جنت کے گھر کو دریافت کرے گا۔اس کا نعمت سے بھرا ہوااحساس اس کے لیے اپنے گھر کو ایک اعلیٰ تجربہ بنادے گا۔ وہ ہر چیز میں اللہ کی نعمت کو دریافت کرے گا۔ وہ ہر چیز میں اپنے جنتی گھر کی جھلک دیکھے گا۔ یہ احساس دھیرے دھیرے اتنا شدید بن جائے گا کہ اس کو محسوس ہوگا جیسے کہ اللہ نے اس کو اسی دنیا میں پیشگی طور پر وہ گھر دے دیا ہے جو جنت کی دنیا میں اس کو ملنے والا ہے۔
اس کا یہ بڑھا ہوا احساس اس کو اس قابل بنادے گا کہ وہ ایسی دعائیں کرے جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والی ہوں، جو اس کے لیے اسم اعظم کی دعا بن جائے۔ مثلاً شکر کے گہرے احساس کے ساتھ اس کی زبان سے نکلے گا کہ خدایا تو نے اسی دنیا میں مجھ کو ایک جنتی گھر دے دیا ۔ اب کیا تو ایسا کرے گا کہ آخرت میں مجھ سے میرا جنتی گھر واپس لے لے۔ کیا تیرے رحیم و کریم ہونے کی صفت یہ چیز گوارا کرے گی کہ ایک چیز مجھ کو دےدے ، اور پھر اس کو مجھ سے واپس لےلے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی زندگی

قرآن میں جنت کی زندگی کے بارے میں مختلف بیانات آئے ہیں۔ ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِی شُغُلٍ فَاکِہُونَ (36:55)۔ یعنی بیشک اہل جنت اس دن اپنے مشغلوں میں خوش ہوں گے ۔
Indeed the companions of Paradise, that Day, will be amused in joyful occupation .
جنت میں جو چیزیں اہل جنت کو ملیں گی، ان کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ وہ موجودہ دنیا کے مشابہ (سورۃ البقرۃ،2:25) ہوں گی۔ یعنی دنیا کی زندگی میں ان کی جوسرگرمیاں تھیں، بظاہر وہی تمام سرگرمیاں جنت میں بھی ہوں گی۔ لیکن جنت کی زندگی ہر قسم کے خوف اور حزن سے پاک ہوگی۔ دنیا میں ہر سرگرمیوں کے ساتھ مشقت اور بورڈم (boredom) شامل رہتا ہے۔ لیکن جنت کی دنیا میں اس قسم کی تمام چیزیں حذف ہوجائیں گی۔ جنت کی زندگی پورے معنی میں شادمانی کی سرگرمیوں (pleasant activities) کی زندگی ہوگی۔
حدیث میں آیا ہے کہ َحُجِبَتِ الجَنَّةُ بِالْمَکَارِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر6487)۔ یعنی جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔موجودہ دنیا اپنی حقیقت کے اعتبار سے جنت کی مانند ہے۔ لیکن اس کے اوپر انسانی آلودگی (man-made pollution) کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ آخرت کی دنیا ہر اعتبار سے انسانی آلودگی سے پاک ہوگی۔ اس لیے جنت کامل معنی میں شغل فاکہہ کی دنیا بن جائے گی۔ یعنی پر مسرت سرگرمیوں (pleasant activities) کی دنیا۔جنت میں وہ تمام سرگرمیاں جاری رہیں گی جو انسانی فطرت کا تقاضا ہیں۔ لیکن موجودہ دنیا میں انسانی آلودگی کی بنا پر یہ سرگرمیاں پُرمسرت سرگرمیاں نہیں بنتیں۔ لیکن جنت کی دنیا میں انسان کی تمام سرگرمیاں جنت کے حالات کی بنا پرپُر مسرت سرگرمیاں بن جائیں گی۔ مثلا دنیا میں بورڈم ہے، مگر جنت میں بورڈم جیسی کوئی چیز موجود نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی تلاش

امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اپنے 100 دن پورے کرنے کے بعد ایک انٹرویو دیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک بات کہی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ وائٹ ہاؤس میں بحیثیت صدر داخل ہونے سے پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ وائٹ ہاؤس میرے خوابوں کی دنیا ہے۔ لیکن ایسا نہ تھا۔وائٹ ہاؤس میرے لیے ایر کنڈیشنڈ قفس کی مانند بن گیا۔ وائٹ ہاؤ س سے پہلے کا دور میرے لیے ناسٹلجیا (nostalgia) بن گیا۔
یہی اس دنیا میں ہر آدمی کا معاملہ ہے۔ ہر آدمی گویا جنت کی تلاش میں ہے۔ ہر آدمی اپنی ساری کوشش سے اپنے لیے خوابوں کی ایک دنیا تعمیر کرتا ہے— کوٹھی، بنگلہ، محل ، فارم ہاؤس، وغیرہ۔ مگر جب وہ اپنی اس دنیا میں داخل ہوتا ہے، تو اس کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ کہیں اور آگیا ہے۔ یہ دنیا وہ دنیا نہیں جو اس کی خوابوں میں بسی ہوئی تھی۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا تعمیر جنت کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ تعمیر شخصیت کے لیے ہے۔ موجودہ دنیا کا مقصد یہ ہے کہ آدمی یہاں مختلف حالات کے درمیان اپنے اندر وہ شخصیت بنائے جو اگلے مرحلۂ حیات میں جنت میں داخلے کےلیے منتخب کی جائے۔ مگر انسان غلطی سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اپنی جنت اسی دنیا میں بنا سکتا ہے۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ شاندار امنگوں کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے، مگر آخر میں ہر ایک کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ مایوسی (frustration) میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور ناکامی کی موت مرکر اس دنیا سے چلاجاتا ہے۔
امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مثال ہر ایک کی مثال ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے خالق کے تخلیقی نقشے کو دریافت کرے، اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ اگر انسان ایسا کرے تو اس پر کبھی مایوسی کا دور نہیں آئے گا۔ وہ ایک کامیاب زندگی جیے گا، اور جب وہ اس دنیا سے جائے گا تو اس احساس کے ساتھ جائے گا کہ اس نے اپنی مطلوب منزل کو پالیا۔
واپس اوپر جائیں

اسفل سافلین کیوں

قرآن کی سورۃ التین میں بتایا گیا ہے کہ خالق نے انسان کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کیا، اس کے بعد اس کو اسفل سافلین میں ڈال دیا۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب ایک اور حدیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْر(صحیح مسلم، حدیث نمبر 91)۔ یعنی جنت میں وہ شخص داخل نہ ہوگا، جس کے دل میں ذرے کے برابر کبر ہو۔
انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عمومی طور پر اس کا حال یہ ہے کہ وہ احسن تقویم کا تحمل نہیں کرپاتا۔ وہ کبر کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ کسی کے اندر یہ نفسیات کم ہوتی ہے، اور کسی کے اندر زیادہ۔انسان کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس کے اندر حقیقت پسندی کا مزاج ہو، اور یہ صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ انسان آخری حد تک کٹ ٹو سائز (cut to size)ہوجائے۔ جب انسان کٹ ٹو سائز ہوتا ہے، اس وقت اس کے اندر تواضع (modesty)آتا ہے۔ وہ حقیقت پسند بن جاتا ہے۔ اس کے اندر اپنے محاسبے کامزاج پیدا ہوتا ہے۔ وہ متکبر انسان کے بجائے متواضع انسان بن جاتا ہے۔ اس کے اندر خودپسندی کے بجائے خدا پسندی کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ آخری حد تک سنجیدہ (sincere) بن جاتاہے۔ اس کے ذہن کی تمام بند کھڑکیاں کھل جاتی ہیں، یہ صفتیں آدمی کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ اپنے پوٹینشل کو ایکچول بنائے۔
یہ صفات آدمی کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ اس دنیا میں اللہ رب العالمین کے مقابلے میں حقیقی معنوں میں عبد بن جائے۔ وہ قادرِ مطلق خدا (all-powerful God) کے مقابلے میں عاجز مطلق (all powerless) کی دوسری حد (extent) بنائے۔
انسان چوں کہ اس دنیا میں ایک مکرم مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے تمام انسان کسی نہ کسی درجے میں کبر (arrogance) کا کیس بن جاتے ہیں۔ یہ نفسیات انسان کی ترقی میں حتمی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس کا موثر حل صرف یہ تھا کہ انسان کے اوپر اس معاملے میں دباؤ (compulsion)پیدا کیا جائے۔ یہی کمپلشن پیدا کرنے کے لیے خالق نے انسان کو احسن تقویم ہونے کے باوجود اسفل سافلین کی حالت میں ڈال دیا۔ اگرچہ یہ ایک واقعہ ہے کہ اس شدید تجربے کے باوجود تاریخ میں بہت کم انسان ایسے نکلے جو اس معیار پر پورے اتریں۔ لیکن اگر ایسا نہ کیا جاتا تو شاید پوری تاریخ گزرجاتی، اور کوئی ایک انسان بھی ایسا پیدا نہ ہوتا جو اللہ کے عظیم عطیے کو پاکر حقیقی معنوں میں اس کا بندہ ٔشاکر بن جائے۔
احسنِ تقویم سے مراد فطرت کا عطیہ ہے، اور اسفل سافلین سے مراد وہ ناپسندیدہ صورت حال ہے، جو اسباب و علل کے تحت انسان کو پیش آتی ہے۔ اگر آدمی حالات کو مینج (manage)کرنا سیکھ لے، تو وہ اس آزمائش میں بچ جائے گا، اور اگر وہ آرٹ آف مینجمنٹ نہ جانے تو وہ آزمائش کا شکار ہوکر ناکام رہےگا۔ اس دنیا میں کامیابی اور ناکامی دونوں انسان کا اپنا فعل ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ مثبت انداز میں سوچے۔ منفی انداز فکر انسان کو بگاڑتا ہے، اور مثبت انداز فکر انسان کو بچالیتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭ ٭
جنتی دنیا میں انسان کامل آزادی کے ساتھ رہے گا، لیکن وہ اتنا زیادہ پختہ اور اتنا زیادہ با شعور ہوگا کہ وہ کسی بھی حال میںاپنی آزادی کا غلط استعمال نہیں کرے گا۔ وہ پوری طرح آزاد ہوتے ہوئے بھی پوری طرح ڈسپلن میں رہے گا۔یہی وہ انسان ہے جس کے سلیکشن کے لیے موجودہ زمینی سیّارہ بنایا گیا۔ موجودہ دنیا میں بھی وہ سارے حالات پائے جاتے ہیں جو جنتی دنیا میں موجود ہوں گے۔ اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ کون انسان ہے جس نے ہر قسم کے حالات سے گزرتے ہوئے جنتی کیریکٹر کا ثبوت دیا۔ اُسی انسان کا انتخاب کرکے اس کو جنتی دنیا میں ابدی طورپر بسا دیا جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کا اعادہ

یہود کی تاریخ کا ایک واقعہ قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا ہَذِہِ الْقَرْیَةَ فَکُلُوا مِنْہَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَکُمْ خَطَایَاکُمْ وَسَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ۔ فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَہُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِینَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ (2:58-59)۔ یعنی اور جب ہم نے کہا کہ داخل ہوجاؤ اس شہر میں اور کھاؤ اس میں سے جہاں سے چاہو فراغت کے ساتھ، اور داخل ہو دروازے میں سرجھکائے ہوئے اور کہو کہ اے رب ! ہماری خطاؤں کو بخش دے۔ ہم تمہاری خطاؤں کو بخش دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو زیادہ بھی دیں گے۔ تو ظالموں نے بدل دیا اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی، دوسری بات سے۔ اس پر ہم نے ان لوگوں کے اوپر جنھوں نے ظلم کیا، ان کی نافرمانی کے سبب سے، آسمان سے رِجز اتارا۔
یہی واقعہ بدلی ہوئی صورت میں امتِ مسلمہ کے ساتھ پیش آیا۔ موجودہ زمانہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک نئے دور میں داخل ہونے کا زمانہ تھا، وہ زمانہ جس میں مواقع (opportunities)کا انفجار تھا ،جہاں ان کے لیے ہر قسم کے مواقع اعلیٰ پیمانے پر موجود تھے۔ اس زمانے کی پیشین گوئی پیغمبر اسلام نے بہت پہلے کردی تھی۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے کہ آفاق و انفس کی نشانیاں دینِ اسلام کی صداقت بن جائیں گی(سورۃ فصلت، 41:53)۔اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ بعد کے زمانے میں غیر مسلم قومیں بھی اسلام کی موید (supporters)بن جائیں گی(مسند احمد، حدیث نمبر 20454) ۔ موجودہ زمانے میں یہ پیشین گوئی پوری طرح واقعہ بن چکی ہے۔لیکن مسلمان اپنے منفی نفسیات کی بنا پر ان مواقع کو پہچاننے میں ناکام ہوگئے۔ بجائے اس کے کہ وہ دور حاضر کے ان مواقع کو خدائی مشن ، دعوت الی اللہ، کے لیے استعمال کرتے، وہ دور حاضر کو دشمن سمجھ کر اس کے خلاف ہوگئے۔ یہ واقعہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان اللہ رب العالمین کے منصوبے کو سمجھنے میں ناکام رہے۔
واپس اوپر جائیں

دو دنیائیں

قرآن میں دو دنیاؤں کا ذکر ہے۔ ایک انسانی دنیا، اور دوسری مادی دنیا۔ قرآن کے بیان کے مطابق، انسانی دنیا عملاً دار الفساد بنی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَہُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ (30:41)۔ یعنی خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ اللہ مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔ انسانی دنیا سے مراد زمین پر قائم شدہ وہ دنیا ہے، جہاں انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ قرآن اور تاریخ دونوں کا بیان ہے کہ یہ دنیا عملاً دار الفساد (world of corruption) بنی ہوئی ہے۔
دوسری دنیا وہ ہے، جس کو سمجھنے کے لیے ہم فطرت کی دنیا کہہ سکتے ہیں۔ فطرت کی دنیا سے مراد وہ مادی دنیا ہے، جو قوانین فطرت (laws of nature) کے تحت چل رہی ہے۔ اس دنیا کے بارے میں قرآن کا بیان ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک آئڈیل ورلڈ ہے ۔ مثلاً سورج کے طلوع کا جو وقت ہے، وہ ہمیشہ یکساں رہتا ہے، اسی طرح سورج کے غروب کا جو وقت ہے، وہ بھی ہمیشہ یکساں رہتا ہے، وغیرہ۔ اس کے بارے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَہَا أَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ (36:40)۔ یعنی نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات، دن سے پہلے آسکتی ہے۔ اور سب ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں۔
اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ (67:3-4)۔ یعنی جس نے بنائے سات آسمان اوپر تلے، تم رحمن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی۔
گویا یہ کائناتی دنیا خالی از فطور دنیا (flawless world) ہے۔ اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ فطرت کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے، جو صحت کی بنا پر پورے معنوں میں ایک قابل پیشین گوئی دنیا (predictable world)ہے۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا پوری کی پوری ناقابل پیشین گوئی دنیا (unpredictable world) بنی ہوئی ہے۔
یہ فرق کوئی سادہ بات نہیں۔ اس فرق کے تقابلی مطالعے (comparative study) کے ذریعے ہم ایک عظیم حقیقت کو دریافت کرتے ہیں، اور وہ اللہ رب العالمین کی دریافت ہے، جو اپنی غیر معمولی طاقت کے ذریعے پوری کائنات کو نہایت صحت کے ساتھ مینج (manage)کر رہا ہے۔ اس کے برعکس، انسان کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں ہے۔ اس لیے انسانی دنیا میں اس قسم کا مینجمنٹ موجود نہیں۔ دونوں دنیاؤں کے فرق پر اس عالمی اصول کو منطبق کیجیے، جو ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہےکہ چیزیں تقابل کے ذریعے پہچانی جاتی ہیں:
تعرف الاشیاء باضدادھا
In comparison that you understand
انسانی دنیا میں نقص کا موجود ہونا، یہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا کا مینیجر انسان ہے، اور انسان کا مینجمنٹ اس کی اپنی کمزوریوں کی بنا پر پُر عیب مینجمنٹ (defective management) بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، کائنات کا منتظم (manager) ایک ایسی ہستی ہے، جو پوری طرح عیب اور نقص سے خالی ہے۔ اس کی ہستی ہر اعتبار سے ایک بے عیب ہستی ہے۔یہ فرق اللہ رب العالمین کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭ ٭
موجودہ دنیا میں امتحان عقل کا ہے۔جو آدمی سوچ سمجھ کر کام کرے گا، وہ کامیاب ہوگا اور جو شخص محض جذبات کے تحت کام کرے گا، وہ ناکام ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

سپورٹنگ رول

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے جب انسان (آدم) کو پیدا کیا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ تم انسان کے آگے سجدہ کرو۔ یہ سجدہ، سجدۂ عبادت نہ تھا۔ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ انسان کو زمین پر آباد کیا جائے گا اور فرشتوں کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ انسان کے ساتھ سپورٹنگ رول اداکریں۔ حضرت نوح نے جب کشتی بنائی تو اس وقت اللہ نے ان سے کہا : وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا(11:37) یعنی اور ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق تم کشتی بناؤ۔یہ صرف ایک کشتی کا معاملہ نہ تھا بلکہ وہ انسان کے ساتھ کیا جانے والاعام معاملہ تھا۔ انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو وہ فرشتوں کے سپورٹ سے کرتا ہے۔ فرشتوں کے سپورٹ کے بغیر انسان کوئی کام نہیں کرسکتا۔ موجودہ زمانے میں انسان نے جو تہذیب بنائی ہے، وہ بلاشبہ انسان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ یہ کارنامہ بھی بلاشبہ فرشتوں کے سپورٹ سے انجام پایا ۔ گویا کہ تہذیب کے آغاز میں اللہ نے انسان سے کہا : اصنع الحضارۃ بأعیننا و وحینا ۔ یعنی تہذیب کی تشکیل کرو، فرشتے اس معاملے میں تمہاری مدد کریں گے۔
فطرت کا یہی اصول انسان اور انسان کے درمیان بھی مطلوب ہے۔ انسان جب کوئی بڑا کام کرتا ہے تویہ کام بہت سے لوگوں کے تعاون سے انجام پاتا ہے۔فطرت کے نظام کے مطابق، اس تعاون میں کسی انسان کا قائدانہ رول ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کا سپورٹنگ رول۔انسانی سپورٹ کے بارے میں اس اصول کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا (43:32)۔ یعنی اور ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں ۔انسانوں کے درمیان صلاحیتوں کا فرق ہے۔ یہ فرق اسی لیے ہے کہ لوگوں کے درمیان باہمی تعاون وجود میںآئے۔ اگر تمام لوگ یکساں صلاحیت کے ہوں تو تعاون ممکن نہ ہوگا۔ لوگوں کو چاہیے کہ فطرت کے اس نظام کو سمجھیں، اور اپنی صلاحیت کے مطابق اپنا رول ادا کرنے پر راضی ہوجائیں۔
واپس اوپر جائیں

بے نقص کائنات

ہماری کائنات ایک بے نقص کائنات ہے۔ قرآن میں اس کائناتی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیر (67:3-4)۔ یعنی جس نے بنائے سات آسمان، اوپر نیچے، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے۔ پھر بار بار لوٹاؤ نگاہ کو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی۔
موجودہ زمانے میں کائنات کا مطالعہ نہایت وسیع پیمانے پر کیا گیاہے۔ دوربین اور خورد بین کے ذریعے انسان مشاہدہ کی اس حد تک پہنچ گیا ہے، جو پہلے بالکل ممکن نہ تھا۔ اس مشاہدے کے ذریعے انسان کائنات کے بڑے اجسام سے بہت زیادہ واقف ہوگیا ہے، اور کائنات کے چھوٹے اجسام سے بھی۔اس مشاہدے نے انسان کو صرف یہ بتایا ہے کہ قرآن کا دعوی مکمل طور پر ایک صحیح دعوی ہے۔ اب یہ ایک مسلّم حقیقت بن گئی ہے کہ کائنات بے حد منظم کائنات ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کا نقص (defect) موجود نہیں۔
موجودہ زمانے میں انسان نے ٹکنالوجی کی دنیا میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ انسان نے بہت زیادہ چاہا کہ انسانی دنیا کے مینجمنٹ کو زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کی سطح تک پہنچائے۔ مگر غیر معمولی کوششوں کے باوجود انسان زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کی سطح پر اپنے کسی نظام کو قائم نہ کرسکا۔ اس موضوع پر بڑی تعداد میں مضامین لکھے گئے ہیں، اور کتابیں چھاپی گئی ہیں۔ ان میں سے انٹرنیٹ پر ایک آرٹیکل یہ ہے:
The Concept of Zero Defects in Quality Management, by Ms Chandana Das
واپس اوپر جائیں

پیغمبر اسلام — شخصیت کے چند نمونے

مثبت مزاج
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مربی اللہ تعالیٰ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلے میں مختلف موقع پر جو رہنمائی اتری ان میں سے ایک وہ تھی جس کو مثبت مزاج کی تعمیر کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر ایک کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو بظاہر ناخوشگوار دکھائی دیتے ہیں۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں بھی بار بار ایسے واقعات پیش آئے ۔ ایسے موقع پر ہر بار اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رہنمائی دی گئی کہ بظاہر ایک غیر موافق واقعے میں بھی کس طرح موافق پہلو چھپا ہوا ہے۔
قدیم مکہ میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت توحید کا آغاز کیا تو وہاں سخت قسم کی مشکلات پیش آئیں۔ اس وقت قرآن میں یہ رہنمائی دی گئی : فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(94:5-6)۔یعنی مشکلات سے نہ گھبراؤ، کیوں کہ اس دنیا میں ہرمشکل کے ساتھ آسانی موجود ہوتی ہے ۔ اسی طرح آپ کے مشن کے بارے میں آپ کے مخالفین نے بڑے پیمانے پر جھوٹا پروپیگنڈا شروع کیا۔ آپ پر طرح طرح کے عیب اور الزام لگائے گئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رہنمائی اتری : وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (94:4)۔یعنی اس پروپیگنڈے کے ذریعہ تمھارا چرچا ہر طرف پھیل رہا ہے۔ اس لیے اس کو مخالفانہ پروپیگنڈا نہ سمجھو، بلکہ اس کو اپنا اور اپنے مشن کا رفعِ ذکر سمجھو ۔
تقریباً 20 سال تک تبلیغ کرنے کے باوجود آپ اور آپ کے ساتھی عرب میں اقلیت کی حیثیت رکھتے تھے، اور مشرکین اکثریت میں تھے۔ اس وقت آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو فطرت کا ایک قانون یاد دلاتے ہوئے قرآن میں کہاگیا : کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیرَةً بِإِذْنِ اللَّہِ وَاللَّہُ مَعَ الصَّابِرِینَ (2:249) ۔ یعنی اس دنیا میں کتنی ہی بار ایسا ہوا ہے کہ عددی اقلیت رکھنے والا گروہ، عددی اکثریت کے اوپر غالب آیا ۔
اسی طرح 3 ہجری میں غزوۂ اُحد پیش آیا۔ ا س میں مسلمانوں کو مشرکین کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ یہ بظاہر ایک دل شکن واقعہ تھا۔ مگر اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رہنما آیتیں اتریں، وہ دوبارہ اس کے روشن پہلو کی طرف نشاندہی کرنے والی تھیں۔ ان میں سے قرآن کی ایک آیت یہ ہے: إِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُہُ وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ (3:140)۔ یعنی احد کی جنگ میں اگر تم کو زخم پہنچا ہے تو اس سے پہلے بدر کی جنگ میں مشرکین کو زخم پہنچ چکا ہے۔ اور ہم ان ایام کولوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں ۔
اسی طرح 6 ہجری میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان وہ واقعہ پیش آیا جس کو صلح حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ یہ صلح بظاہر مسلمانوں کی سیاسی شکست کے ہم معنی تھی۔ مگر قرآن میں جب اس پر تبصرہ کیاگیا تو برعکس طورپر، اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا: إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا (48:1) یعنی ہم نے تم کو تمھارے حریف کے اوپر کھلی فتح دے دی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بظاہر سیاسی شکست کے باوجود اس معاملے میں تم کو اخلاقی فتح حاصل ہوئی ہے، جو آخر کار مکمل فتح بننے والی ہے،وغیرہ۔اس خدائی تربیت نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسا انسان بنا دیا جو منفی طرز فکر سے مکمل طور پر خالی تھا۔ آپ مثبت فکر میں اتنا زیادہ بڑھے ہوئے تھے کہ بلاشبہ آپ کو دنیا کا سب سے بڑا مثبت مفکر (positive thinker) کہا جاسکتا ہے۔
اللہ پر اعتماد
ہجرت کے سفر میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کے لئے روانہ ہوئے تو اس وقت آپ کے ساتھ صرف حضرت ابو بکر صدیق تھے۔ یہ بے حد نازک سفر تھا۔ مکہ کے لوگ آپ کے جانی دشمن تھے۔ یہ یقینی تھا کہ وہ آپ کا پیچھا کریں گے۔ چناں چہ آپ نے شدید احتیاط کے ساتھ یہ سفر فرمایا، حتٰی کہ آپ کو مکہ سے مدینہ کی طرف جاناتھا، لیکن آپ الٹے رخ پر چل کر غارِ ثور میں پہنچے اور وہاں حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ چھپ کر چند دن قیام کیا۔
مکہ کے سرداروں کو جب آپ کی ہجرت کی خبر ہوئی تو انھوں نے اپنے آدمیوں کو چاروں طرف دوڑایا، تاکہ وہ آپ کو مدینہ پہنچنے سے پہلے پکڑ لیں اور نعوذ باللہ آپ کو قتل کرڈالیں۔ آپ ابھی غارِ ثور میں چھپے ہوئے تھے کہ مکہ کے کئی لوگ آپ کی تلاش میں وہاں پہنچ گئے۔ اس وقت وہ اتنے قریب تھے کہ غار کے اندر سے وہ صاف نظر آرہے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے جب یہ دیکھا کہ تلوار لیے ہوئے یہ لوگ غار کے منہ تک پہنچ گئے ہیںتوانھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، اگر ان میں سے کوئی اپنے پاؤں کی طرف نظر ڈالے تو وہ ضرور ہم کو دیکھ لے گا۔ یہ سن کر پیغمبر اسلام نے کامل اعتماد کے ساتھ کہا:یَا أَبَا بَکْرٍ مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنِ اللَّہُ ثَالِثُہُمَا(سیرۃ ابن کثیر 2/242-43)۔ یعنی اے ابوبکر، ان دو کے بارے میں تمھارا کیا گمان ہے، جن کا تیسرا اللہ ہو۔
پیغمبر اسلام کی زبان سے نکلا ہوا یہ کلمہ اتنا عظیم ہے کہ شاید پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری نظیر موجود نہیں۔ اس وقت آپ بلا شبہ انتہائی پُر خطر حالات میں تھے، لیکن اللہ پر اعتماد اتنا زیادہ بڑھا ہوا تھا کہ کوئی بھی طوفان اس کو متزلزل نہیں کرسکتاتھا۔ یہی بے پناہ اعتماد تھا جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ ایسے پُر خوف حالات میں اتنا زیادہ بے خوفی کا کلمہ آپ کی زبان سے نکلے۔
عبادت کی کیفیت
پیغمبر اسلام روزانہ خدا کی عبادت کرتے تھے، دن کو بھی اور رات کو بھی۔ عبادت کے وقت آپ کے دل کی جو کیفیت ہوتی تھی اس کا اندازہ ایک روایت سے ہوتا ہے۔ حضرت علی بتاتے ہیں کہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس میں ذکر ودعا کے کون سے الفاظ آپ کی زبان پر جاری ہوتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ بتاتے ہیں کہ جب آپ نماز کے وقت رکوع میں جھکتے تھے تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ ہوتے تھے: اللہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَلَکَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَکَ سَمْعِی، وَبَصَرِی، وَمُخِّی، وَعَظْمِی، وَعَصَبِی (صحیح مسلم، حدیث نمبر 771)۔ یعنی اے اللہ میں تیرے آگے جھک گیا،اور میں تجھ پر ایمان لایا، اور میں نے اپنے آپ کو تیرے حوالے کیا، تیرے آگے جھک گئے میرے کان، اور میری آنکھ، اور میرا دماغ اور میری ہڈیاں اور میرے اعصاب۔
اسی طرح حضرت علی بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام جب سجدے کے وقت زمین پر اپنا سر رکھتے تھے تو اس وقت آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوجاتے تھے: اللہُمَّ لَکَ سَجَدْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَلَکَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہُ، وَصَوَّرَہُ، وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ، تَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِین (صحیح مسلم، حدیث نمبر 771)۔ یعنی اے اللہ میں نے تیرے لیے سجدہ کیا، اور میں تجھ پر ایمان لایا، اور میں نے اپنے آپ کو تیرے حوالے کیا، میرا چہرہ اس کے آگے جھک گیا جس نے اس کو پیدا کیا اور اس کی صورت گری کی اوراس کے کان اور آنکھ کو بنایا۔ پس بابرکت ہے اللہ، سب سے بہتر تخلیق کرنے والا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام جب عبادت میں مشغول ہوتے تھے تو اس وقت ان کے جذبات کیا ہوتے تھے۔ اس وقت وہ خدا کی عظمت وہیبت کے احساس میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے۔ خدا کی برتری اور اس کے مقابلے میں اپنے عجز کا تصور ان کے سینے میں ایک طوفان کی حیثیت اختیار کرلیتا تھا۔ آپ کی عبادت آپ کے لیے خدائے عظیم وکبیر کے سامنے حاضری کے ہم معنیٰ بن جاتی تھی۔ آپ کی عبادت آپ کے لیے انتہائی حد تک ایک زندہ عمل تھا، نہ کہ محض کچھ رسمی اعمال کی ادایگی۔
ہدایت کے لئے تڑپنا
قر آن کی سورۃ الشعراء میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا ہے :تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْمُبِینِ ۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ أَلَّا یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ۔إِنْ نَشَأْ نُنَزِّلْ عَلَیْہِمْ مِنَ السَّمَاءِ آیَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُہُمْ لَہَا خَاضِعِینَ (26:2-4)۔یعنی یہ واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔ شاید تم اپنے کو ہلاک کر ڈالو گے اس پر کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اگر ہم چاہیں تو تم پر آسمان سے نشانی اتاردیں، پھر ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں۔
یہ اور اس طرح کی دوسری شہادتیں بتاتی ہیں کہ پیغمبر اسلام اپنے مخاطبین کی ہدایت کے لیے کتنا زیادہ حریص تھے۔ ’’شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کرلو گے‘‘ کا جملہ اس کامل خیر خواہی کو بتا رہا ہے جو پیغمبر اسلام کو اپنے مخاطبین کے حق میں تھی۔دعوتی عمل خالص خیر خواہی کے جذبے سے ابلتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے اسی کامل خیر خواہی کے تحت اپنی قوم کوحق کی دعوت پہنچائی۔ اور آپ نے اپنی تمام کوششیں اس کی راہ میں صرف کردیں۔ اس کے باوجود ان کی اکثریت آپ کے پیغام کو ماننے پر راضی نہ ہوئی۔ اس کے بعد آپ کا حال یہ ہوا کہ آپ ان کی ہدایت کے غم میں ہلکان ہونے لگے۔ آپ کے دن کا چین رخصت ہوگیااور آپ کی رات کی نیند غا ئب ہوگئی۔
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ (شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کر لوگے) کا مطلب آپ کو اس سے روکنا نہیں ہے، بلکہ یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ آپ نے اپنی پیغمبرانہ ذمے داری کو اس کی آخری اور انتہائی حد تک ادا کردیا۔ دوسرے کی ہدایت کے لیے اپنے آپ کو ہلکان کرنا، پیغمبر کی شخصیت کا اہم ترین وصف ہے۔ اس وصف میں آپ بلا شبہ کمال کے درجے کو پہنچے ہوئے تھے۔
انسان کا احترام
قدیم مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ یہودی قبیلے بھی آباد تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ پیغمبراسلام مدینہ کے ایک مقام پر تھے۔ اس وقت وہاں سے ایک جنازہ گزرا۔ آپ اس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ جنازے کو دیکھ کر آپ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ اس وقت آپ کے کچھ صحابہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ یہ دیکھ کر کسی نے کہا کہ اے خدا کے رسول یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: أَلَیْسَتْ نَفْسًا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1312)۔یعنی کیا وہ انسان نہ تھا۔
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے دل میں دوسرے انسانوں کے بارے میں کس قسم کے جذبات ہوتے تھے۔ آپ ہر انسان کو انسان سمجھتے تھے۔ ہر انسان آپ کو قابل احترام نظر آتا تھا، خواہ وہ کسی بھی قوم یا ملت سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر انسان کو آپ خدا کی ایک مخلوق سمجھتے تھے۔ ہر انسان کے اندر آپ کو وہی کاریگری دکھائی دیتی تھی جو آپ کو خود اپنے وجود میں دکھائی دیتی تھی۔ انسان کو دیکھ کر آپ انسان کے خالق کو یاد کرنے لگتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے دل میں ہر انسان کے لیے محبت اور احترام کا جذبہ تھا۔ انسان سے نفرت کرنا آپ کے مزاج کے بالکل خلاف تھا۔
آخرت کی فکر
ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار اپنی ایک اہلیہ کے مکان میں تھے۔ ان کے یہاں ایک خادمہ تھی۔ آپ نے کسی فوری ضرورت کے تحت خادمہ کو باہر بھیجا۔ اس نے آنے میں دیر کی۔ معلوم ہوا کہ وہ راستہ میں بچوں کا کھیل دیکھنے کے لیے کھڑی ہوگئی تھی۔خادمہ جب تاخیر کے ساتھ واپس آئی تو اس کو دیکھ کر آپ کے چہرے پر غصے کے آثار ظاہر ہوگئے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میںایک مسواک تھی۔ آپ نے خادمہ سے کہا:لَوْلَا خَشْیَةُ الْقَوَدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، لَأَوْجَعْتُکِ بِہَذَا السِّوَاک (الادب المفرد، حدیث نمبر 184)۔ یعنی اگر قیامت میں بدلے کا ڈر نہ ہوتا تو میں تم کو اس مسواک سے مارتا۔
پیغمبر اسلام لوگوں کو قیامت کی پکڑ سے ڈراتے تھے۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈرانا یک طرفہ نہ تھا۔ آپ جس طرح دوسروں کو آنے والی قیامت سے ڈراتے تھے، اسی طرح آپ خود بھی سب سے زیادہ اس سے ڈر محسوس کرتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ لوگ دنیا میں اس طرح رہیں کہ ان کے دل میں خدا کی پکڑ کا خوف سمایا ہوا ہو۔ یہی خود آپ کی اپنی حالت بھی تھی۔ آپ آنے والی قیامت کو اپنے سمیت ہر ایک کا مسئلہ سمجھتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ آپ کا پیغمبر ہونا آپ کو اخروی مسئولیت سے بے نیاز بنادے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭ ٭
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو گویا کہ وہ فطرت کی کان (mine) سے نکل کر باہر کی دنیا میںآتا ہے۔ اِس کے بعد وہ بڑا ہوتا ہے، اور اپنی سوچ کو عمل میں لاتا ہے۔ وہ تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتا ہے۔ اِس طرح پختگی کی عمر میں پہنچ کر وہ ایک باقاعدہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ انسانی وجود کا درمیانی مرحلہ ہے۔ اِس کے بعد اگر وہ اپنی عقل کو صحیح رخ پر استعمال کرے تو وہ معرفتِ حق کے درجے میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جب کہ کوئی پیدا ہونے والا، کمالِ انسانیت کے مرحلے میں پہنچ کر عارف باللہ کا مقام حاصل کرلیتاہے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا مطالعہ

کئی بار ا یسے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی جو درس قرآن کے کسی حلقے میں برابر شرکت کرتے ہیں۔ میں نے ان سے ایک سوال کیا۔ وہ یہ کہ آپ جو درس قرآن سنتے ہیں، اس سے آپ کو ٹیک اوے (takeaway)کیا ملا۔ میرے تجربے کے مطابق، یہ لوگ متعین انداز میں بتا نہ سکے کہ ان حلقوں میں شرکت سے ان کو ٹیک اوے کیا ملا یا کیا ملتا ہے۔ ٹیک اوے کا مطلب ہےکسی کلام سے اخذ کردہ بات:
A conclusion to be made based on presented facts or information
آپ کوئی کتاب پڑھیں یا کوئی تقریر سنیں، اور اس سے آپ کو کوئی متعین بات نہ ملے تو آپ کا ذہن ایڈریس نہ ہوگا۔ آپ پڑھ کر یا سن کر بھی اس سے کوئی کار آمد بات اخذ نہ کرسکیں گے۔ جب ایسا ہوگا تو پڑھی ہوئی بات یا سنی ہوئی بات آپ کی شخصیت کا جزء نہیں بنے گی۔ پڑھ کر یا سن کربھی آپ ویسے ہی رہیں گے، جیسا کہ سننے یا پڑھنے سے پہلے تھے۔ مفید کلام وہ ہے، جس سے قاری یا سامع کو کوئی متعین پیغام ملے۔ جو اس کے ذہن کو متعین انداز میں ایڈریس کرے، جس کے بعد آدمی اس قابل ہوجائے کہ وہ تقابلی انداز میں بات کو سمجھے۔ وہ اپنی شخصیت یا اپنے موقف کا تقابلی انداز میں مطالعہ کرے۔ جو کلام آپ کے اندر یہ صفت پیدا کرے، وہی کلام مفید کلام ہے، اور جو کلام آپ کے اندر یہ صفت پیدا نہ کرے، وہ بظاہر الفاظ کا ایک مجموعہ ہوسکتا ہے، لیکن وہ معانی کا خزانہ نہیں ہوسکتا۔
مثال کے طور پر آپ نے یہ آیت پڑھی یا سنی: اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ (2:255)۔ یہ آیت پڑھ کر آپ نے الحی القیوم پر غور کیا، اور یہ سوچا کہ جس طرح میں ایک زندہ ہستی ہوں، اس سے بڑھ کر اللہ رب العالمین الحی القیوم ہے ، وہ ایک زندہ حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ آپ کے اندر اگر یہ شعور پیدا ہوا اور آپ نے اللہ رب العالمین کو ایک زندہ وجود کے طور پر دریافت کیا تو آپ کو ٹیک اوے ملا، اور اگر ایسا نہیں ہوا تو آپ کو ٹیک اوے نہیں ملا۔
اسی طرح اسلام کی ایک تعلیم قرآن میں آئی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان والو، اللہ کے لیے قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ اور کسی گروہ کی دشمنی تم کو اس پر نہ ابھارے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو۔ یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو(المائدۃ،5:8)۔
آپ نے اس آیت کو پڑھا۔ پھر آپ نے اس آیت کو اپنے آپ پر منطبق کیا۔ تطبیقی مطالعہ (applied study) کرکے آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا میں اپنے معاملے میں اس آیت پر عمل کررہا ہوں۔ پھر آپ نے دریافت کیا کہ اس طرح کے معاملے میں میرا رویہ اس آیت کے مطابق نہیں ہے۔اس کے بعد آپ نے فوراً اپنا بے لاگ محاسبہ کیا۔ آپ نے اپنی سوچ کو بدل کر اپنے آپ کو عادلانہ روش پر قائم کیا تو قرآن کا یہی مطالعہ صحیح قرآنی مطالعہ ہے۔ اس کے برعکس، اگر آپ ایسا کریں کہ قرآن کا مطالعہ فنی انداز میں کریں ۔ قرآن کے لغوی اور نحوی مسائل کو حل کریں تو آپ کو قرآن سے حلّ الفاظ کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔
قرآن کی تحریک پچھلے تقریباً سو سال سے بڑے پیمانے پر چل رہی ہے۔ لوگ قرآن کے نام پر کتابیں چھاپ رہے ہیں، اور تقریریں کر رہے ہیں۔ لیکن اگر نتیجے کے اعتبار سے جائز ہ لیا جائے تو ایسے افراد کو پانا مشکل ہوگا جن کا ذہن مطلوب انداز میں بنا ہو۔ مثلاً قومی مسائل میں جو متعصبانہ رائے عام مسلمانوں کی ہے، وہی قرآن کے ان قاریوں کی بھی ہے۔ قرآن کا نام لینے والے تو بہت سے لوگ ملیں گے ، لیکن ایسا کوئی شخص مشکل سے ملے گا، جس کے اندر صحیح معنوں میں قرآن کا ذہن بنا ہو۔
اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن کے نام پر ہونے والی یہ تمام کوششیں غیر تطبیقی انداز (unapplied way) میں کی جارہی ہیں۔ اس بنا پر ایسا ہورہا ہے کہ سننے یا پڑھنے والوں کا ذہن ایڈریس نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآن کا سننا یا پڑھنا، بس قرآن کا قصیدہ بن کر رہ جانا ہے۔ ایسے لوگ تو ملتے ہیں،جو قرآن پر فخر کریں، لیکن ایسے لوگ نہیں ملتے، جن کے اندر قرآن کو سن کر محاسبہ (introspection) کی سوچ جاگے۔
واپس اوپر جائیں

تفسیر قرآن

قرآن کی تفسیر کا مروج طریقہ یہ ہے کہ شان نزول (background of revelation) کو لے کر قرآن کی تفسیر کرنا۔ امام الشاطبی کا قول ہے:معرفة أسباب النزول لازمة لمن أراد علم القرآن ( دَرْجُ الدُّرر فی تَفِسیِر الآیِ والسُّوَر، عبد القاہر الجرجانی، الأردن، 2009، 2/49) یعنی شان نزول کی معرفت ان لوگوں کے لیے لازم ہے، جو قرآن کو جاننے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تفسیر کا یہ اصول قرآن کا مطالعہ کرنے والے کو قرآن کی آیت کی ابتدائی تاریخ بتاتا ہے۔ نزول آیات کے بعد کے زمانے کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ مگر قرآن کی تفسیر کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ مطالعہ کرنے والا قرآن کی تاریخ کو سمجھتا رہے۔ بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ نزول کے بعد کے زمانے کے لیے اس آیت کا مدعا کیا ہے۔
شانِ نزول یا سببِ نزول کو جاننا زمانۂ نزول کے اعتبار سے جتنا اہم ہے، اسی طرح زمانۂ نزول کے بعد کے ادوار میں قرآن کے تطبیقی مفہوم (applied meaning)کو جاننا بھی اہم ہے۔ مثلاً قرآن میں سورہ یوسف کی ایک آیت یہ ہے : مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاہُ فِی دِینِ الْمَلِکِ إِلَّا أَنْ یَشَاءَ اللَّہُ (12:76)۔ سببِ نزول کے اعتبار سے اس آیت کا ایک مفہوم ہے۔ اگر ہم اس سببِ نزول کو جان لیں تو ہم صرف یہ جانیں گے کہ بوقت نزول اس آیت کا مفہوم کیا تھا۔ لیکن اگر یہ جاننا ہو کہ بعد کے زمانے میں اس آیت سے کیا عملی اصول معلوم ہوتا ہے تو اس کا علم صرف اس وقت ہوگا کہ جب ہم اس آیت کو اپنے حالات کےلحاظ سے دوبارہ دریافت (rediscover) کریں، اور اس کے تطبیقی مفہوم (applied meaning) کو جانیں۔
قرآن کا تاریخی مطالعہ کرنا ہو تو شانِ نزول یا سببِ نزول کی بہت اہمیت ہے۔ لیکن اگر یہ جاننا ہو کہ اس آیت سے کون سا اصول اخذ ہوتا ہے، اور ہمارے اپنے زمانے کے لحاظ سے اس اصول کی تطبیق (application) کیا ہے تو قرآن کا تطبیقی مطالعہ ضروری ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

درس قرآن

مولانا محمود حسن دیوبندی کا واقعہ ہے۔ وہ 1920 ءمیں مالٹا کی جلاوطنی سے واپس آئے۔ اس کے بعد دیوبند میں ان کی ایک مجلس ہوئی۔ اس مجلس میں انھوں نے درسِ قرآن کی بات کہی ۔ان کے شاگرد رشید مفتی محمد شفیع صاحب اُس مجلس کی روداد اِن الفاظ میںبیان کرتے ہیں:
مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعدایک رات بعدِ عشاء (حضرت) دارالعلوم (دیوبند) میں تشریف فرما تھے۔ علما کا بڑا مجمع سامنے تھا، اس وقت فرمایا کہ’’ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں ...میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے۔ ایک، ان کا قرآن کو چھوڑدینا، اوردوسرا، آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیاہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں، بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معنی سے روشناس کرایا جائے، اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیاجائے ۔ٗٗ
یہ بات علماء کے پورے حلقے میں تیزی سے پھیل گئی۔ غیر منقسم ہندستان کے تقریباً تمام مدارس اور مساجد میں درس قرآن کے حلقے قائم ہوگئے۔ یہ حلقے ابھی تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں۔ مگر نتیجے کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو ان دروس قرآن کا مطلوب نتیجہ ابھی تک بر آمد نہ ہوسکا۔ جب کہ اس عمل پر اب تقریباً ایک صدی پوری ہورہی ہے۔
اس ناکامی کا سبب کیا تھا۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سبب یہ تھا کہ بیسویں صدی میں مسلمانان ہند کے اوپر مسلم فخر (Muslim Supremacism) کا ذہن چھایا ہوا تھا۔ اس لیے علماء کا یہ درس قرآن عملاً قصیدۂ قرآن بن کر رہ گیا، وہ نصیحتِ قرآن نہ بن سکا۔ قرآن کا درس دینے والے، اور قرآن کےدرس کو سننے والے دونوں فخر کی نفسیات میں جی رہے تھے۔ اس لیے قرآن کا تذکرہ ان کے لیے قومی فخر کو تسکین دینے والا بن کر رہ گیا، وہ ان کے لیے ذہنی اصلاح کا ذریعہ نہ بن سکا۔
قرآن کی بنیاد پر اصلاحِ امت کی تحریک صرف اس وقت کامیاب ہوسکتی ہے، جب کہ اس کو تطبیقی انداز (applied way) میں چلایا جائے۔ یعنی قرآن کی آیتوں کو مسلمانوں کی حالت پر منطبق کرتے ہوئے اس کی وضاحت کی جائے۔ تطبیقی انداز میں قرآن کا جو تذکرہ کیا جائے گا،و ہ سامعین کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا بنے گا، اور جو درس قرآن سامعین کے ذہن کو ایڈریس کرے، وہی اصلاح یا انقلاب کا ذریعہ بن سکتا ہے، اس کے بغیر ہرگز نہیں۔
مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ (6:108)۔یعنی اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، ان کو گالی نہ دو ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالی دینے لگیں گے۔
اس آیت میں لا تسبوا کا خطاب اصحاب رسول سے ہے ۔ ظاہر ہے کہ اصحاب رسول مشرکین کے بتوں کے خلاف سب و شتم کی زبان استعمال نہیں کریں گے۔اس کے باوجود اصحاب رسول جب ان کے خلاف کوئی بات بولیں گے تو وہ مشرکین کو سب و شتم نظر آئے گا، اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ جواب میں ری ایکشن کا طریقہ اختیار کریں۔ پھر یہ ری ایکشن بڑھے گا، اور چین ری ایکشن کی صورت اختیار کر لے گا، اور اس طرح لوگوں کی اصلاح کا کام مزید مشکل بن جائے گا۔
اس حقیقت کو جب تطبیقی انداز میں بیان کیا جائے تو آج کے مسلمانوں کو اس میں نصیحت کا پہلو ملے گا۔ وہ سوچیں گے کہ کچھ لوگوں کو جب ہم شاتم قرار دے کر پر شور تحریک چلانا چاہتے ہیں تو اس کا نتیجہ الٹا ہورہا ہے۔ لوگ اس کو اپنے خلاف سمجھ کر اور زیادہ شدید ہوجائیں گے، اور اصلاح کا کام مشکل سے مشکل تر ہوجائے گا۔سب و شتم کے خلاف قتل کا فتویٰ اس معاملے میں صرف کاؤنٹر پروڈکٹیو ثابت ہوگا، وہ اصلاح کا ذریعہ نہیں بنے گا، بلکہ اصلاح کو مزید مشکل بنانے کا سبب بن جائے گا- درسِ قرآن وہی مفید ہے، جو تطبیقی انداز میں کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن فہمی کا اسلوب

قرآن بلاشبہ ایک خدائی کتاب ہے۔ لیکن عملاً وہ انسانی زبان میں اتارا گیا ہے۔ تاکہ وہ انسان کے لیے پوری طرح قابل فہم ہوسکے۔ بعد کے زمانے میں قرآن کے لیے مقدس قرآن (Holy Quran) اور پَوِتر قرآن جیسے الفاظ استعمال کیے جانے لگے۔ مگر یہ اسلوب قرآن و حدیث میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ یہ اسلوب بلاشبہ مضاہات (سورۃالتوبہ، 9:30) کی قبیل سے ہے۔ وہ اسلام کا ثابت شدہ اسلوب نہیں۔ غالباًاسی ذہن کو ختم کرنے کے لیے قرآن کی 29 سورتوں کا آغاز حروف مقطعات (disjointed letters) سے کیا گیا ہے۔ حروف مقطعات کا اسلوب بتاتا ہے کہ قرآن انسانی زبان میں اتارا گیا ہے، وہ کسی ملکوتی زبان یا ملاِ اعلی کی زبان میں نہیں ہے۔ اسی ذہن کی وجہ سے بعد کے زمانے میں یہ سمجھ لیا گیا کہ قرآن کا مبالغہ آمیز انداز میں احترام کرنا، اور قرآن کے الفاظ کو مخارج کی کامل صحت کے ساتھ دہرا لینا، اسی سے قرآن کا حق ادا ہوجاتا ہے۔
اس غیر مطلوب ذہن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ قرآن فہمی کا عمل درست انداز میں جاری نہ رہ سکا۔ قرآن کی بہت سی آیتوں کو ہمارے علماء اور مفسرین سمجھنے سے قاصر رہے۔ کیوں کہ انھوں نے قرآن کے الفاظ کو مقدس سمجھ لیا، جن کو صرف ان کے ظاہری معنی میںلیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے قرآن میں غور و فکر کے لیے اجتہادی اسلوب کا خاتمہ ہوگیا۔
مثال کے طور پر قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ (3:146)۔ قرآن کی اس آیت میں قتال کا لفظ آیا ہے۔ اس کو لفظی معنی میں لے کر یہ سمجھ لیا گیا کہ بہت سے نبیوں نے اپنے زمانے میں مسلح قتال کیا ہے ۔ حالاں کہ قتال کے ان واقعات کا کوئی ثبوت نہ حدیث میں ہے، اور نہ تاریخ میں ۔
حقیقت یہ ہے کہ قتال کا لفظ اس آیت میں انسانی اسلوب کے اعتبار سے آیا ہے، یعنی شدید جدو جہد۔ مثلاً انسانی زبان میں کہا جاتا ہے کہ ہمیں اس معاملے میں فائٹ ٹو فنیش (fight to the finish) کی اسپرٹ کے ساتھ کام کرنا ہے، یا یہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں کرپشن کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ یہ تمام الفاظ شدید جدو جہد (utmost struggle) کے معنی میں ہیں، نہ کہ لفظی اعتبار سے جنگ و قتال کے معنی میں۔
یہی معاملہ حدیثِ رسول کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ لوگ حدیث کے کلام کو بالکل لفظی معنی میں لینے لگے۔ مثلاً متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ اللہ کا ایک اسم ِاعظم ہے، اور جو آدمی اسم ِاعظم کے ساتھ دعا کرے، وہ ضرور قبول ہوتی ہے ۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے ننانوے نام ہیں۔ لوگوں نے یہ ننانوے نام بطور خود متعین کر لیے ، اور یہ تلاش کرنا شروع کیا کہ اس میں سے اسمِ اعظم کونسا ہے۔ اس قسم کی کوششوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔کیوں کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ لفظی معنیٰ کے علاوہ بھی مراد ہوسکتا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6937)۔
صحیح یہ ہے کہ حدیث میںمذکوراسم ِاعظم سے مراد کوئی متعین نام (name) نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی اللہ کو ایسے اسلوب میں پکارے، جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والا ہو تو ایسی دعا اللہ کے یہاں ضرور قبول ہوتی ہے۔ مثلاً کسی شخص سے ایک غلطی ہوجائے۔ اس کے بعد اس آدمی کو اپنی غلطی کا شدید احساس ہو۔ وہ بے تابانہ طور پر سجدے میں گر پڑے، اور روتے ہوئےکہے کہ یا اللہ تو نے مجھ کو ضعیف پیدا کیا۔ اپنے اس ضعف کی بنا پر مجھ سے غلطی ہوگئی۔ اب تیرے سوا کون ہے، جو میری اس غلطی کو سنبھالے، جو مجھ کو اس غلطی کے انجام سے بچائے۔ خدایا تو میرا رب ہے۔ تیرے سوا کون ہے جس سے میں امید کروں کہ وہ میری غلطی کو سنبھالے گا، اور مجھ کو میری غلطی کے انجام سے بچائے گا۔ آدمی یہ الفاظ بولے، اور اس کی آنکھیں بےتابانہ طور پر آنسو بہا رہی ہوں۔ اگر کوئی شخص اپنی تنہائیوں میں اس طرح اللہ کو پکارے۔ تو اس کا یہ پکارنا اللہ کو اسم ِاعظم کے ساتھ پکارنا ہو گا، اور عین ممکن ہے کہ اس کی پکار اللہ کےیہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرلے ۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی ہدایت

قرآن میں ہدایت پانے کے ایک اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے:إِنَّ اللَّہَ لَا یَسْتَحْیِی أَنْ یَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَہَا فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَیَعْلَمُونَ أَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّہِمْ وَأَمَّا الَّذِینَ کَفَرُوا فَیَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّہُ بِہَذَا مَثَلًا یُضِلُّ بِہِ کَثِیرًا وَیَہْدِی بِہِ کَثِیرًا وَمَا یُضِلُّ بِہِ إِلَّا الْفَاسِقِینَ (2:26)۔ یعنی اللہ اس سے نہیں شرماتا کہ بیان کرے مثال مچھر کی یا اس سے بھی کسی چھوٹی چیز کی۔ پھر جو ایمان والے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ وہ حق ہے ان کے رب کی جانب سے۔ اور جو منکر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس مثال کو بیان کرکے اللہ نے کیا چاہا ہے۔ اللہ اس کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو اس سے راہ دکھاتا ہے۔ اور وہ گمراہ کرتا ہے ان لوگوں کو جو نافرمانی کرنے والے ہیں۔
کوئی بات ریاضیات کی زبان میں کہی جائے تو اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن مذہب کا تعلق ہیومنیٹیز (humanities)سے ہے۔ اس لیے مذہب میں ہمیشہ یہ گنجائش رہتی ہے کہ آدمی کسی بات کی صحیح تاویل کرکے اس سے ہدایت پائے، یا غلط تاویل کرکے گمراہ بن جائے۔
مثلا اگر مچھر کی مثال سے کوئی اخلاقی بات کہی جائے تو آدمی کو یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ اصل مدعا پر دھیان دے۔ ایسی حالت میں مچھرکی مثال اس کے لیے مفید سبق کا ذریعہ بن جائے گی۔ لیکن اگر وہ غیر سنجیدہ ہوکر مچھر کا مذاق اڑانے لگے تو اس کو مچھر کی مثال سے کوئی سبق نہیں ملے گا۔قرآن کی کسی آیت سے صحیح سبق لینے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر سنجیدگی ہو۔ وہ بات کو صحیح زاویے سے دیکھے۔ اگر آدمی کے اندر سنجیدگی نہ ہو تو وہ ہمیشہ بات کو غلط زاویے سے دیکھے گا ، اور اس کو سبق کے بجائے مذاق کا موضوع بنالے گا۔ ریاضیات (mathematics) میں اس قسم کی گنجائش نہیںہوتی، لیکن مذہب اور اخلاقیات کےموضوع میں غلط تاویل کی بہت زیادہ گنجائش ہوتی ہے، اس لیے مذہب اور اخلاقیات کے موضوع پر انسان کا سنجیدہ ہونا بہت ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا انقلاب

قرآن نے تاریخِ انسانی میں ایک نئی سوچ کا آغاز کیا۔ یہ سوچ قرآن میں لفظی طور پر اشارے کی زبان میں ہے، اور عملی طور پر وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کی صورت میں۔ قرآن کے الفاظ میں وہ منصوبہ بندی یہ تھی کہ رُجزکو اوائڈ کرکے اپنے مثبت عمل کا منصوبہ بنانا (المدثر،74:5) ۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اسٹرٹیجی کے اصول پر اپنا مشن چلایا۔ مثلاً مکہ میں مقدس کعبہ کے اندر کئی سو بت رکھے ہوئے تھے، جو بلاشبہ ایک موحد انسان کے لیے ایک اشتعال انگیز منظر تھا۔ یہ بت بظاہر رجز (گندگی)تھے۔ لیکن اسی رجز کی وجہ سے کعبہ کے پاس روزانہ عرب کے قبائل اپنے عبادتی رسوم کے لیے جمع ہوتے تھے۔ اس وقت رسول اللہ نے رجز کے خلاف کوئی براہ راست تحریک نہیں چلائی۔ بلکہ اس معاملے میں آپ نےڈی لنکنگ پالیسی اختیار کی۔ یعنی آپ نے رجز کے اشو کو نظر انداز کیا، اور مشرکین کے اجتماع کو اپنے مشن کے لیے بطور آڈینس (audience) استعمال کیا۔
یہ گویا معاملے کے دو پہلوؤں کے درمیان ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy)تھی۔ یہ ڈی لنکنگ پالیسی غالباً تاریخ میں پہلی بار پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن میں کامیابی کے ساتھ استعمال کی۔ اگرچہ مسلمان اس سنتِ رسول کو سمجھ نہ سکے، اور وہ بعد کی تاریخ میں اس حکیمانہ پالیسی کو اختیار کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی تاریخ میں یہ ایک انقلابی اصول تھا، جو پیغمبرِ اسلام نے پہلی بار تاریخِ انسانی کو عطا کیا۔
ڈی لنکنگ پالیسی کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی غیر ضروری ٹکراؤ سے اپنے آپ کو بچائے، اور موجود مواقع (opportunities) کوبھر پور طور پر استعمال کرے۔ ڈی لنکنگ پالیسی آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے حریف کو اپنا موید (supporter) بنالے، وہ اپنے عدو کوعملاً اپنے ولی حمیم (فصلت، 41:34) کا درجہ دے دے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا مشن

قرآن کی سورہ الزخرف مکی دور کے نصف آخر میں نازل ہوئی۔ غالباً یہ سفر طائف کے بعد کا زمانہ ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ مخالفین کی مخالفت نہایت شدیدہوچکی تھی۔ اس وقت قرآن میں یہ آیت اتری:أَفَنَضْرِبُ عَنْکُمُ الذِّکْرَ صَفْحًا أَنْ کُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِینَ (43:5)۔ یعنی کیا ہم اس قرآن کو تم سے صرف اس وجہ سے روک لیں کہ تم حد سے تجاوز کرنے والے لوگ ہو ۔اس آیت میں قرآن کو روکنے کا مطلب قرآنی مشن کو روکنا ہے۔ قرآن کی اس آیت میں اعلان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام جس مشن کو لے کر اٹھے ہیں، وہ کوئی عام مشن نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک خدائی مشن ہے، اور خدائی مشن کے لیے یہ سنتُ اللہ ہے کہ وہ اپنے آخری نشانے تک پہنچے۔
یہ سنتُ اللہ آج بھی قائم ہے۔ آج بھی اگر کوئی شخص یا گروہ ایسے مشن کو لے کر اٹھے، جو حقیقی معنوں میں اللہ کا مشن ہو تو اس کے لیے اللہ کی نصرت یقینی ہوجائے گی۔ دوبارہ اس کے لیے اللہ کا یہ فیصلہ ہوگا کہ کوئی بھی صورت حال اس کو درمیان میں روکنے پر قادر نہ ہو۔ ایسے مشن کے لیے دوبارہ یہ مقدر ہوگا کہ وہ ضرور اپنے نشانے تک پہنچے۔ کوئی طاقت درمیان میں اس کا راستہ روکنے پر قادر نہ ہو۔
مثلاً قرآن کے متعلق اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ قرآن سارے عالم کے لیے نذیر (warner) بنے۔ اب جب کہ دنیا میں عالمی کمیو نی کیشن کا زمانہ آگیا ہے، اور یہ ممکن ہوگیا ہے کہ جدید کمیونی کیشن کے ذرائع کو استعمال کرکے قرآن کو عالمی سطح پر پہنچادیا جائے، تو دوبارہ اللہ کا یہ فیصلہ ہوگا کہ جو گروہ بے آمیز انداز میں اس مشن کو لے کر اٹھے، جس کا نشانہ صرف یہ ہو کہ وہ قرآن کے خالص پیغام کو ساری دنیا تک پہنچادے، ایسے مشن کا معاملہ کسی عام مشن کا معاملہ نہیں ہے۔ ایسے مشن کے ساتھ ضرور ایسا ہوگا کہ وہ اللہ کی خصوصی مدد کے ذریعے اپنی تکمیل تک پہنچے۔ کوئی بھی طاقت اس کے اس پرامن مشن کو روکنے میں کامیاب نہ ہوگی۔ شرط صرف یہ ہے کہ مشن پورے معنوں میں ایک بے آمیز مشن ہو، اور اس مشن کے چلانے والے یک طرفہ طور پرامن طریقہ پر قائم ہوں۔
واپس اوپر جائیں

کتابِ ہدایت

انسان موجودہ دنیامیں پیداہوتا ہے۔ وہ حالات کے مطابق زندگی گزارتا ہے، اور پھر ایک دن مرجاتاہے۔ سروے کے مطابق موجودہ دنیا میں انسان کی اوسط عمر تقریباً 70 سال ہے۔ انسان کی سب سے زیادہ اہم ضرورت یہ ہے کہ اس کو بتایا جائے کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اس کا حال کیا ہے اور اس کا مستقبل کیاہے۔ موت سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ ان حقیقتوں کی دریافت پر انسان کی کامیابی کا انحصار ہے۔
قرآن اسی حقیقت کو بتانے کے لئے اترا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ خالق کا تخلیقی نقشہ انسان کے بارے میں کیا ہے۔ قرآن واحد کتاب ہے جس کا موضوع تخلیقی منصوبہ (creation plan) ہے۔ قرآن انسان کو وہ ضروری معلومات دیتا ہے جس کی روشنی میںانسان اپنی زندگی کا صحیح منصوبہ (right planning) بنا سکے۔ ایسی حالت میں حاملینِ قرآن کی یہ لازمی ڈیوٹی ہے کہ وہ قرآن کو دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ اور یہ پہنچانا لوگوں کی قابلِ فہم زبان (understandable language) میں ہو، تا کہ وہ اس کو سمجھیں اور قرآن کو ایک رہنما کتاب (guide book) بنا سکیں۔قرآن کے نزول کو تقریباً ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ اس مدت میں حاملین قرآن نے قرآن کے متن کی حفاظت کے لئے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ مختلف قوموں کے درمیان جو مطلوب کام ہے وہ ابھی تک نہ ہوسکا۔
قرآن کے متن کی حفاظت پر توبہت زیادہ کام ہوا لیکن قرآن کی اشاعت کا کام جیسے ہونا چاہیے تھا، وہ اب تک نہ ہوسکا ہے۔ اس معاملے میں مسیحی لوگوں نے حاملینِ قرآن کے لئے راستہ دکھادیا ہے۔ مسیحی لوگوں نے دنیا کی تقریباًتمام زبانوں کو سمجھا، اور لوگوں کی قابل فہم زبانوں میں بائبل کےترجمے تیار کیے ہیں۔ یہی کام حاملین ِقرآن کو قرآن کے لیے کرنا ہے، اور پھر تمام زبانوں میں ترجمے تیار کرکے ان کو ساری قوموں میں پھیلادینا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دو مختلف انجام

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا، وَیَضَعُ بِہِ آخَرِین(صحیح مسلم، حدیث نمبر 817)۔ یعنی اللہ اس کتاب (قرآن ) کے ذریعے ایک قوم کو اٹھاتا ہے، اور دوسری قوم کو گرادیتا ہے۔ اس حدیث میں دو مختلف قوموں کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس میں خود ایک قوم کی مختلف دو حالتوں کا ذکر ہے۔قوم سے مراد مسلم قوم ہے، نہ کہ کوئی غیر مسلم قوم۔اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے ذریعے مسلمانوں کا عروج بھی ہوگا، اور قرآن کے ذریعے ان پر زوال کا دور بھی آئے گا۔
ایک ہی کتاب (قرآن) کس طرح دو مختلف انجام کا سبب بنتی ہے۔ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قرآن کے مطالعے کے دو طریقے ہیں۔ اگر قرآن کا مطالعہ تطبیقی انداز (applied way) میں کیا جائے تو قرآن کی حامل قوم اپنے حالات میں اس سے رہنمائی پالے گی، اور اس طرح ان کے لیے ترقی کا سفر جاری رہے گا۔ اس کے برعکس، اگر قرآن کا مطالعہ غیر تطبیقی انداز (non-applied way) میں کیا جائے تو ایسے لوگوں کا حال حضرت عائشہ کی زبان میں وہی ہوگا : أُولَئِکَ قَرَءُوا، وَلَمْ یَقْرَءُوا (مسند احمد، حدیث نمبر24609)۔ یعنی قرآن کا حامل ہونے کے باوجود وہ قرآن کے فیض سے محروم رہ گئے۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاںایک مثال درج کی جاتی ہے۔
تطبیقی تفسیر
ملت کی بعد کی نسلوں میں قانونِ فطرت کے مطابق زوال آتا ہے۔ زوال آنے کے بعد ملت کے اندر احیائے نو کا کام کس طرح کیا جائے، اس کا طریقہ قرآن میں پیشگی طور پر بتادیا گیا ہے۔ قرآن کی اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: جان لو کہ اللہ زمین کو زندہ کرتا ہے اس کی موت کے بعد، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو (سورۃ الحدید،57:17)۔
یہاں ایک فطری تمثیل کے ذریعے ملت کے احیاء نو کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق زمین پر دو موسم آتے ہیں، سوکھے کا موسم اور بارش کا موسم۔ سوکھےکے موسم میں کھیت سوکھ جاتے ہیں، کھیت کی ہریالی باقی نہیں رہتی۔ لیکن بارش کا موسم آتے ہی کسان دوبارہ پانی اور کھاد کو استعمال کرکے اپنے کھیت کو تیار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ سوکھی زمین دوبارہ ہری بھری زمین بن جاتی ہے۔
فطرت کی یہ مثال بتاتی ہے کہ ملت کے رہنماؤں کو ملت کے احیائے نو کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ وہ ایسا نہ کریں کہ سوکھی زمین کو کسی دشمن کی سازش کا نتیجہ بتا کر احتجاج کی تحریک شروع کردیں۔ بلکہ وہ کسان کی طرح یہ کریں کہ ملت کی زمین کو دوبارہ ہموار کریں، اور پانی کو استعمال کرتے ہوئے دوبارہ زمین میں بیج بودیں، اور پودے، یعنی ملت کے افراد کو پانی پہنچا کر زراعت کے اصول کو ملت کے معاملے میں اپلائی (apply) کرتے ہوئےملت کو دوبارہ شاداب بنائیں۔ جس طرح کسان کی محنت مبنی بر پودا ہوتی ہے، اسی طرح ملت کے رہنماؤ ں کی ساری محنت مبنی برافراد ہونی چاہیے۔ ملت کا زوال دراصل افراد کے زوال کا نام ہے۔ ایسا وقت آنے پر ملت کے رہنماؤں کو یہ کرناہے کہ وہ تعمیرِ افراد کا کام کرکے ملت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کریں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ملت کے احیاء کا کام افراد کے احیا سے شروع ہوتا ہے۔افراد کے اندر اسپرٹ کو زندہ کرنے کے بعد ملت اپنے آپ زندہ ہوجاتی ہے۔
قرآن کی تفسیریں مختلف زبانوں میں بڑی تعداد میں لکھی اور چھاپی گئی ہیں۔ مگر راقم الحروف کے علم کے مطابق یہ تفسیریں غیر تطبیقی انداز میں لکھی گئی ہیں۔ قرآن کی تفسیر کے بارے میں مسلم اہل علم کا غالباً یہی وہ انداز ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں آیا ہے۔ مختلف زمانوں میں لکھی جانے والی یہ تفسیریں عملاً اسی قسم سے تعلق رکھتی ہیں، جس کو یہاں غیر تطبیقی انداز کہا گیا ہے۔ اس معاملے میں کوئی قابلِ ذکر استثنا راقم الحروف کے علم میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے دروس اور تفاسیر کی کثرت کے باوجود اس کا مطلوب نتیجہ حاصل نہ ہوسکا۔
واپس اوپر جائیں

قولِ بلیغ

قرآن میں دعوت کے ایک اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63)۔ یعنی اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔اس آیت میں قول بلیغ کا مطلب ہے، ایسا قول جو سننے والے کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ جس کو سن کر وہ سوچنے پر مجبور ہوجائے۔ ایسا قول جو آدمی کے ذہن کو ٹریگر (trigger) کردے، یہاں تک کہ وہ تخلیقی (creative) انداز میں سوچنے لگے۔مثال کے طور پر ہندستان کے مسلمانوں کو لیجیے ۔ اگر آپ ہندستان کے مسلمانوں کو یہ خبر دیں کہ یہ ملک ان کے لیے مسائل سے بھرا ہوا ہے۔ اس ملک میں ان کے لیے نفرت اور نارواداری کا ماحول ہے۔ یہاں ان کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ ان کے تہذیب و کلچر کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، وغیرہ۔ تو اس طرح کی باتوں سے مسلمانوں کو صرف مایوسی ہوگی۔ ان کو کوئی رہنمائی نہیں ملے گی۔
اس کے برعکس، اگر آپ مسلمانوں سے یہ کہیں کہ تم قرآن کی ایک آیت کو دوبارہ پڑھو، اور اس میں جو فطرت کا قانون بتایا گیا ہے، اس کو سمجھو۔ وہ آیت یہ ہے:أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَةٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ (13:17)۔ یعنی اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر نالے اپنی اپنی مقدار کے موافق بہہ نکلے۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو اٹھا لیا اور اسی طرح کا جھاگ ان چیزوں میں بھی ابھر آتا ہے جن کو لوگ زیور یا اسباب بنانے کے لئے آگ میں پگھلاتے ہیں۔ اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔ پس جھاگ تو سوکھ کرجاتا رہتا ہے اور جو چیز انسانوں کو نفع پہنچا نے والی ہے، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اللہ اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے۔
قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جو گروہ اپنے اندر نفع بخشی کی صلاحیت پیدا کرے، اس کو اس دنیا میں مکث (استحکام) حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جس گروہ کے پاس صرف شکایت اور احتجاج (protest) کی زبان ہو، وہ اس دنیا میں جھاگ کی مانند ہے۔ ایسے لوگوں کو دنیا میں کوئی باعزت جگہ حاصل ہونے والی نہیں۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی گروہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو نافع گروہ (giver community) کہا جاتا ہے، اور دوسرا وہ جن کو انسانی لغت میں لینے والا گروہ (taker community) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا پیغام، عقل کا تقاضا، اور فطرت کا قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں شکایتی گروہ کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ دنیا صرف ان لوگوں کی دنیا ہے، جو گیور(giver) کمیونٹی بن کر رہیں۔ جو لوگ لینے والے گروہ بنے ہوئے ہوں، ان کے لیے فطرت کے قانون کے مطابق صرف یہ مقدر ہے کہ وہ شکایت اور احتجاج میں پڑے رہیں، اور آخر میں ان کو محرومی کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہو۔
جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ عرب جب انڈیا میں آئے تو انھوں نے انڈیا کو شاندار کلچر (brilliant culture) دیا۔ یہ بات درست ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان کیوں انڈیا کی ایک پسماندہ کمیونٹی بن کر رہ گئے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عرب لوگ آٹھویں صدی عیسوی میں انڈیا میں آئے تھے۔ وہ زمانہ قدیم دستکاری کا زمانہ تھا۔ قدیم زمانے کے اعتبار سے عربوں نے انڈیا کو بہت کچھ دیا۔مثلا آبپاشی کے لیے رہٹ (noria) کا طریقہ ۔ یعنی ایساپہیّہ جس کے محیط کے گرد ڈول لگے ہوتے ہیں اور جو ہسپانیہ، مشرقِ وُسطیٰ اور ایشیا میں پانی کھینچنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر بعد کو جب برٹش لوگ انڈیا میں آئے تو وہ اپنے ساتھ مشینی دور (mechanical age) لے آئے۔ ماڈرن تعلیم گاہوں میں اس نئے ٹکنیک کی تعلیم ہونے لگی۔ مگر مسلم رہنماؤں نے ان نئے تعلیم گاہوں کو مسلمانوں کے لیے قتل گاہ قرار دے دیا۔ اس طرح مسلمان نئے دور کے لحاظ سے پیچھے ہوگئے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی پسماندگی کا یہی اصل سبب ہے ۔
واپس اوپر جائیں

فہمِ دین

قرآن دین خداوندی کو سمجھنے کا واحد مستند ماخذ ہے۔ قرآن اللہ رب العالمین کی آخری کتاب ہے۔ وہ ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا۔ یہ قبل از سائنس دور (pre-scientific age) کا زمانہ تھا۔ اس وقت اگر قرآن میں وہ اسلوب اختیار کیا جاتا جو سائنس کے ظہور کے بعد بیسویں صدی میںرائج ہوا ہے۔ تو یہ اس مشہور مثل کا مصداق بن جاتا:
Putting the cart before the horse
یعنی سائنٹفک اسلوب کے ظہور سے پہلے سائنٹفک اسلوب میں بات کرنا۔ قرآن و حدیث  میں اعلیٰ معرفت کی باتیں ہیں، لیکن اس کا اسلوب قدیم ہے۔ اگر یہ باتیں جدید اسلوب کلام میں ہوتیں تو اس قسم کی باتیں معاصر مخاطبین کے لیے معمہ بن جاتیں۔ سننے والوں کا ذہن ایڈریس نہ ہوتا، اور کلام میں وہ تاثیر پیدا نہ ہوتی جو مطلوب تھی۔
مثال کے طور پر حضرت ابراہیم چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے۔ قدیم عراق کے بادشاہ سے ان کا ایک دعوتی مکالمہ ہوا۔ اس میں انھوں نےبادشاہ سے ایک بات یہ کہی:فَإِنَّ اللَّہَ یَأْتِی بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ (2:258)۔ یعنی اللہ سورج کو پورب سے نکالتا ہے تم اس کو پچھم سے نکال دو ۔ اس کے برعکس حضرت ابراہیم اگر یہ کہتے کہ خدا کے قائم کردہ قانون کے مطابق صبح و شام کا نظام ہیلیو سینٹرک سسٹم (heliocentric system) کے اصول پر قائم ہے، تم اس کو جیو سنٹرک سسٹم (geocentric system) پر قائم کردو۔ تو مخاطب اس جملے کا کوئی مطلب نہ سمجھتا، اور بات بے اثر ہوکر رہ جاتی۔
اسی طرح کی ایک اور مثال یہ ہے کہ ہجرت کے بعد مدینے میں سورج گرہن (solar eclipse) پڑا، اتفاق سے اس دن پیغمبر کے بیٹے کا انتقال ہوگیا تھا۔ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ آج پیغمبر کے بیٹے کا انتقال ہوا ہے، اس لیے سورج گرہن لگا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اس موقع پر لوگوں کو مدینہ کی مسجد میں اکٹھا کرکے ان کو خطاب کیا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں پر گرہن نہ کسی کی موت سے لگتا ہے، اور نہ کسی کی زندگی سے۔جب تم اس کو دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر1052)۔ اس کے برعکس، پیغمبر اسلام اس وقت اگر ایسا کرتے کہ آپ بعد کو ہونے والی دریافت کی زبان بولتے، اور یہ کہتے :
Eclipse is an astronomical phenomenon. It occurs due to the well-calculated alignment of three moving bodies of different sizes at a particular point in time in the vast space.
پیغمبر اسلام اگر ایسی زبان بولتے تو وہ لوگوں کے لیے معمہ بن جاتا۔ آپ لوگوں کے اندر جو مبنی بر ذکر اللہ سوچ پیدا کرنا چاہتے تھے، وہ پیدا نہ ہوتی۔قرآن فہمی کے سلسلے میں اس اسلوب کو جاننا بے حد ضروری ہے۔ جو لوگ اس اصول کو نہ جانیں، وہ موجودہ زمانے میں قرآن کے اعلیٰ معانی کو سمجھ نہیں سکتے، خواہ وہ روایتی قسم کے فنون میں کتنے ہی زیادہ مہارت رکھتے ہوں۔
چند مثالیں
دور نبوت کے اسلام میں کئی چیزیںعصری حالات (age factor) کی بنا پر ظہور میں آئیں۔ مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے ایک متلاشی (seeker) انسان تھے۔ آپ اکثر خاموش رہتے، اور سوچتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں آپ اکثر تنہا غار حرا (cave of Hira) میں چلے جاتے، اور وہاں کئی دن تک قیام کرتے۔ یہ غار جبل حرا کے اوپر واقع تھا، وہ مسجد حرام سے تقریباچار کلو میٹر کی دوری پر تھا۔ وہاں آپ کھانے پینے کا کچھ معمولی سامان لے کر جاتے اور کئی روز قیام کرتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول عصری کلچر کی بنا پر تھا۔ اس زمانے کے حنفاء پہلے سے ایسا ہی کر رہے تھے۔ حنفاء کا لفظ قدیم زمانے میں متلاشیان حق (truth seekers)کے لیے بولا جاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غار حرا نبوت کا کوئی مقدس حصہ نہیں۔ کسی نبی کا ظہور اگر موجودہ زمانے میں ہوتا تو عین ممکن تھاکہ وہ موجودہ زمانے کی انٹرنیشنل لائبریری میں کتابوں کا مطالعہ کرتا،اور انٹرنیشنل سیمینار میں شرکت کرتا۔
قتل وقتال کا معاملہ
قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں قتل و قتال کے معاملے کو اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا۔ مثلاً اس سلسلے میں قرآن کی آیت یہ ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح متحد ہو کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
اس طرح کی آیتوں اور حدیثوں کو دیکھیے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاد بالسیف مطلق معنوں میں کوئی بہت بڑی بات ہے۔ یعنی جس طرح تم نماز پڑھتے ہو، اسی طرح مفروضہ طور پر کچھ لوگوں کو دشمن قرار دے کر ان سے ہمیشہ لڑتے رہو۔ مگر باعتبار حقیقت ایسا نہیں ہے۔ جہاد بالسیف ایک موقت(وقتی) حکم ہے، وہ ایمان اور نماز، وغیرہ کی طرح ہردن اور ہر زمانے میںجاری رہنے والا مطلق اور ابدی حکم نہیں ہے۔ جیسا کہ پیغمبرِ اسلام نے اپنے اصحاب کوایک نصیحت کی۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:اے لوگو، دشمن سے مقابلہ کی تمنا مت کرو، اور اللہ سے عافیت مانگو (لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّہَ العَافِیَةَ)، لیکن جب مقابلہ ہو تو جم کر مقابلہ کرو، اور یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر2966)۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جہاد بالسیف کوئی مطلق حکم کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ اس وقت کا معاملہ ہے جب کہ فریق ثانی کے اقدام کی بنا پر اس کی صورت پیش آجائے۔ چناں چہ فقہاء نے بتایا ہے کہ جہاد بالسیف حسن لذاتہ نہیں ہے، بلکہ وہ حسن لغیرہ ہے (موسوعۃ الفقہ الاسلامی، محمد بن ابراہیم التویجری، بیت الأفکار الدولیة، 2009، 5/449-50)۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کا مشن اصلاً توحید کا مشن تھا۔ یعنی وہی مشن جو تمام ابنیا ء کا ہمیشہ سے مشن رہا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ آپ کی ایک مزید ذمے داری (additional duty) یہ تھی کہ آپ دنیا سے دورِ جبر (age of despotism)کا خاتمہ کردیں۔ دورِجبر اللہ کے تخلیقی نقشے کے خلاف تھا۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کا ایک قانون

قرآن میں اجتماعی زندگی کے ایک قانون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ إِلَى اللَّہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (5:105)۔ یعنی اے ایمان والو، تمھارے او پر صرف اپنی ذمے داری ہے ۔ کسی کی گمراہی تم کو کچھ نقصان نہیں پہنچائے گی اگر تم ہدایت پر ہو۔ تم سب کو اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تم کو بتادے گا جو کچھ تم کر رہے تھے۔
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہی بات ایک اور آیت میں اس انداز میں آئی ہے:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا إِنَّ اللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطٌ (3:120)۔ یعنی اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو ان کی کوئی تدبیر تم کو نقصان نہیں پہنچا ئے گی۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، اللہ اس پر حاوی ہے ۔ دونوں آیتوں کے مطالعے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں آدمی خود اپنے انجام کو بھگتتا ہے۔ آدمی کا رویہ اگر صابرانہ رویہ ہو تو وہ لوگوں کی سازشوں سے خود فطرت کے قانون کے مطابق اس سے محفوظ رہے گا۔ اس کے برعکس، اگر اس کا رویہ بے صبری کا رویہ ہو تو وہ لوگوں کی سازش کا شکار ہوتا رہے گا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ خود اپنا محاسبہ کرے۔ دوسروں کی شکایت کرنے کے بجائے، وہ خود اپنی اصلاح کی کوشش کرتا رہے۔ ایسا آدمی یقینی طور پر دوسروں کے شر سے محفوظ رہے گا۔
دوسروں کے شر سےمحفوظ رہنے کا ایک اٹل اصول ہے۔ وہ یہ کہ آپ اپنی طرف سے اشتعال انگیز کارروائی کرکے فریق ثانی کو جوابی کارروائی (retaliation) کا موقع نہ دیں۔ اس معاملے میں یہی سب سے بڑا اصول ہے۔ اس اصول کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر آپ دوسروں کے شر سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو دوسروں کو اپنے شر سے محفوظ رکھیے، دوسروں کو کبھی جوابی کارروائی کا موقع نہ دیجیے۔
واپس اوپر جائیں

داعی کی حفاظت

قرآن کی سورہ یٰسین میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبروں کو اُن کے معاصرین نے ہمیشہ استہزا کا موضوع بنایا — ’’افسوس ہے بندوں پر، جو رسول بھی اُن کے پاس آیا، وہ اس کا استہزا کرتے رہے‘‘(36:30) ۔ دوسری طرف، قرآن میں ہے کہ فرشتوں کے ذریعے پیغمبروں کی خصوصی حفاظت کا انتظام رہتا ہے: إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّہُ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ رَصَدًا لِیَعْلَمَ أَنْ قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّہِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَیْہِمْ وَأَحْصَى کُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا (72:27-28)۔ یعنی وہ اس کے آگے اور اس کے پیچھے محافظ لگا دیتا ہے، تاکہ اللہ جان لے کہ انھوںنے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے، اور جو کچھ ان کے پاس ہے، اللہ اُن کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اور اُس نے ہر چیز کو گِن رکھا ہے۔
دونوں قسم کی آیتوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں میں فرق کا معاملہ کیا ہے۔ جہاں تک سامعین کا معاملہ ہے، اُن کو آزاد چھوڑا ہے کہ وہ پیغمبر کی دعوت کو قبول کریں یا وہ اس کو رد کردیں۔ اِسی طرح پیغمبر کے گرد بڑی تعداد اکھٹا ہو یا نہ ہو۔ لیکن جہاں تک پیغمبر کی دعوت کا معاملہ ہے، اِس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے کامل حفاظت کا انتظام فرمایا ہے۔ ہر پیغمبر کے ساتھ ہمیشہ اِس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص یا گروہ اس کے دعوتی مشن کو روکنے میں کامیاب نہ ہو۔ پیغمبر کا کام یہ ہوتاہے کہ وہ خدائی پیغام کو بے کم وکاست، لوگوں تک پہنچا دے۔ فرشتوں کی مسلسل حفاظت اِس بات کی ضامن ہوتی ہے کہ خدائی دعوت کی نظری اشاعت ہر حال میں پوری ہو کر رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ یہ سنت جس طرح پیغمبروں کے معاملے میں پوری ہوئی، اُسی طرح بعد کے زمانے میں وہ ہر سچے داعی کے ساتھ لازماً پوری ہو کر رہتی ہے۔ سچا داعی مسلسل طورپر فرشتوں کی حفاظت میں رہتاہے، تاکہ اس کا دعوتی مشن ہر حال میں پورا ہو کر رہے، کوئی شخص یا گروہ اس کے دعوتی مشن کی تکمیل میں مانع نہ بن سکے۔
واپس اوپر جائیں

ایک با اصول انسان

حافظ قاری سید شبیر احمد صاحب عمری(پیدائش1940:) جامعہ دارالسلام، عمر آباد، تامل ناڈو میں شعبہ تحفیظ القرآن کے مدیر تھے۔ 25 مارچ 2018 کو 78 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ مولانا سید اقبال احمد عمری ان کے بارے میں اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:’’وہ تقریباً 42سال تک جامعہ کے شعبہ تحفیظ القرآن کے ذمے دار رہے ۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ اتنی طویل مدت تک ایک ہی ادارہ سے وابستہ رہنے کا راز کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے ادارے کے آداب واصول کا ہمیشہ پاس ولحاظ رکھا۔ یعنی جب وہ اپنے ماتحتوں سے کام لیا کرتے تھے تو جامعہ کے اصول کے مطابق اپنی صوابدید کے مطابق کام لیتے، اور جہاں ادارے کے ذمے داران مشورہ طلب کرتے تو اپنی رائے کا اظہار بھی کیا کرتے ۔اس کے بعد اگر اجتماعیت کی طرف سے ان کی رائے کے خلاف کوئی فیصلہ ہوجاتا تو فِیہِ خَیر کہہ کر خاموشی کے ساتھ سرتسلیم خم کرلیتے۔ مجلس سے باہر آنے کے بعد نہ ہی گلہ کرتے، اور نہ ہی شکوہ کرتے، یعنی منفی مہم (negative campaign)نہیں چلاتے۔ الغرض اجتماعی فیصلے کے بعد مکمل طور پر اس کی پابندی کرتے ،اپنی مرضی نہیں چلاتے‘‘۔
ایسے ہی افراد ہیں جن کو با اصول انسان کہا جاتا ہے۔ با اصول انسان کی تعریف ایک لفظ میں یہ ہے - اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی۔ وہ جب تک کسی ادارے سے منسلک ہو با اصول انداز میں اپنی ذمے داری اداکرے۔ اگر اس کو کوئی اختلاف پیش آئے تو مثبت انداز میں ذمے داروں سے اس کا ذکر کردے، اور اس کے بعد اپنے کام میں لگا رہے۔ دوسروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنا، با اصول انسان کا طریقہ نہیں۔ با اصول آدمی کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ دوسرے آدمی کا اعتراف کرے، اور کسی معاملے میں اگر اس کی تعریف کی جائے تو وہ اس کا کریڈٹ دوسرے کو دے دے۔ وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھے، اور نہ دوسرے کے اعتراف میں کوئی کمی کرے۔ایسا آدمی موت سے پہلے ایک با اصول انسان ہوتا ہے، اور موت کے بعد لوگوں کے لیے ایک یادگار نمونہ۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 260

■ مز سعدیہ خان، سی پی ایس دہلی کی ایک سر گرم ممبر ہیں۔ وہ اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں کے درمیان صدراسلامی مرکز کی آئڈیالوجی شیر کرتی رہتی ہیں۔ یہ آئڈیالوجی لوگوں کے لیے کافی فائدہ مند ہے، جیسا کہ درج ذیل کے تاثرات سے معلوم ہوتا ہے:
٭ What Maulana says applies to situations we face in our daily lives. (Kritika S. Reddy) ٭Thank you for sharing these thoughts, they are so helpful. (Krishna K. Tripathi) ٭I was waiting for this audio. It feels good listening to him. (Venessa Michel) ٭You have no idea how much I love these daily snippets of wisdom, which I hear almost everyday. It brings calm during a stormy day. (Anjali Ghosh) ٭Great thoughts, thanks for sending. I am enjoying them and they are good reminders. (Nadia Khan) ٭Profound thoughts. Thanks for sharing. (Preeti Aggarwal) ٭ Thanks for making my morning beautiful with such wonderful messages. (Dakshina Sharma) ٭ All good lessons. But do we follow. I am trying to, in some ways. (Ravi Seth) ٭Thank you. These are really very impactful short audios. (Javed Siddiqui) ٭ They are too good! They inspire me the whole day and stay in mind. (Nadia Zaidi ) ٭ Thanks for Maulana's audios. They are very apt, and very inspiring! (Preeti Vyas) ٭This is so true and pertinent, Sadia. If only people were to give it a serious and sincere thought, our philanthropists wouldn't have to work so hard on the problems. (Dr. Nirula) ٭Thanks for sending these messages. They are really inspirational. (Srishti Pandey) ٭ Thanks for sharing such wonderful and meaningful messages. (Karuna Kalra) ٭I really like Maulana's daily audios. They are the only thing in this negative environment which provide me with the incentive to go on in the positive direction. (Aysha Sajid) ٭ Beautiful! Maulana puts in a perspective that’s so comforting. (Fabeha Syed) ٭ Thank you, these short clips are full of wisdom. (Tajwar Hassan)
ث مسز نرگس چنائے (Nargis Chinoy)سابق انگلش پروفیسر اور سماجی کارکن ہیں۔ انھوں نے اسنیہانچل ہاسپٹل (ناگپور) کا دورہ کیا۔ اس وقت جناب ساجداحمد خان (سی پی ایس ناگپور ٹیم) وہاں موجود تھے۔ انھوں نے ان سے ملاقات کی اور سی پی ایس مشن کا تفصیلی تعارف کرایا۔ انھوں نے اس کام کو پسند کیا، اور اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ دوران گفتگو انھوں نے کہا کہ قرآن کے مطالعہ کے لیے انھوں نے انگلش قرآن کی کاپی دو ضخیم جلدوں میں پاکستان سے منگوائی ہے۔ لیکن جب ساجد صاحب نے پاکٹ سائز انگلش قرآن ان کو پیش کیا تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ اس کے علاوہ واٹ از اسلام، دی ایج آف پیس، ریالٹی آف لائف، وغیرہ، کتابوں پر بھی اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ دی ایج آف پیس کو انھوں نے فوراً پڑھنا شروع کردیا۔ نیز انھوں نے اسلام کے گہرے مطالعے کے لئے سی پی ایس کے رابطے میں رہنے کا وعدہ کیا۔ یہ ملاقات 2 ستمبر 2017 کو ہوئی۔
■ 12 ستمبر 2017 کو گورکی سدن (کولکاتا) میں رشین سینٹر آف سائنس اینڈ کلچر نے انڈین پلورلزم فاؤنڈیشن کے اشتراک سے ’انٹرفیتھ راؤنڈ ٹیبل ڈائلاگ ‘ کا انعقاد کیا۔ اس میں معزز اور بااثر مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا عنوان تھا: بلڈنگ بریجز فار پیس اینڈ ہارمنی اِن ملٹی کلچرل ورلڈـ۔ اس موقع پر مختلف مذاہب کے رہنما ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوئے، اور انھوں نےسماجی ہم آہنگی ، تعلیم، صحت، ماحولیات اور غربت جیسے موضوعات پر اپنے خیال کا اظہار کیا، اور ان میدانوں میں باہمی تعاون سے کام کرنے کے مواقع اور لائحہ عمل پر گفتگو ہوئی۔ اس پروگرام میں سی پی ایس (کولکاتا) کی جانب سے مسٹر جاوید عالم، بشیر احمد اور اصطفیٰ علی صاحبان نے شرکت کی، اور حاضرین کے درمیان ترجمۂ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔
ث 6 اکتوبر 2017 کو ٹائمس آف انڈیا گروپ کے اسپریچول اخبار دی اسپیکنگ ٹری کی ایڈیٹر مز نرائنی اپنی دو ساتھیوں کے ساتھ صدر اسلامی مرکز کے آفس میں تشریف لائیں۔ یہاں انھوں نے صدر اسلامی مرکز اور تخت سری دمدمہ صاحب ،بھٹنڈا،کے جتھدار جناب ہرپریت سنگھ جی کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو اس مناسبت سے لیا گیا تھا کہ جتھدار جی نے پنجابی میں قرآن کا ترجمہ کیا ہے، توآپ دونوں یہ بتائیں کہ اسلام اور سکھ ازم میں انسانیت اور امن کے لیے کیا پیغام ہے۔
ث امریکا میں ایک آرگنائزیشن ہے، جس کا نام ہے:
Women's Islamic Initiative in Spirituality & Equality [WISE]
اس کی سربراہ ڈاکٹر ڈیزی خان ہیں۔ انھوں نے ایکسٹریمزم کے تعلق سے ایک کتاب شائع کی ہے، یہ مختلف لوگوں کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کا بھی ایک مضمون ہے۔ 26 اکتوبر 2017 کوواشنگٹن ڈی سی کے کارنیگی سائنس سینٹر میں اس کتاب کی رسم اجراء کے موقع پر WISE UP SUMMIT کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں خواجہ کلیم الدین صاحب (سی پی ایس ، امریکا) نے شرکت کی۔وہاں انھوں نے صدر اسلامی مرکز کی دو انگریزی کتابوں، دی ایج آف پیس اور قرآنک وزڈم کو لوگوں کے درمیان تقسیم کیا۔ کانفرنس کے بعد خواجہ کلیم الدین صاحب کو پروگرام کے منتظمین کی جانب سے درج ذیل ای میل موصول ہوا:
Dear Mr. Kaleemuddin, On behalf of Daisy and the WISE team, I want to thank you once again for taking the time out of your busy schedule to attend and participate in last week’s WISE Up Summit, and for everything you’ve contributed to the WISE Up Report and Campaign! You have truly been an invaluable partner throughout this whole process, and the WISE Up Report would not be what it is without you and Maulana. In particular, I wanted to let you know that we heard from a number of attendees that they really enjoyed your remarks during your panel discussion on “Islamic Theology vs. Extremist Ideology.” I know you had very little time to speak, but your unique insights, willingness to speak candidly, and dynamism on stage made your panel a big success. We have so enjoyed working with you throughout this process and hope your experience was positive as well. I look forward to being in touch with you about the WISE Up event in Philadelphia. Thank you again ! (Lisa Nakashima, Program Manager)
ث مولانا سید اقبال احمد عمری (چنئی )، اور حافظ فیاض الدین عمری( حیدرآباد ) نے 25 جنوری تا 4 فروری 2018 راجستھان میں جے پور، اجمیر، جودھ پور، پالی ، اورماؤنٹ آبوکا سفر کیا۔ اس سفر میں مختلف اداروں میں جانا ہوا، اور انفرادی طور پر لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جن اداروں کا دورہ ہوا وہ یہ ہیں، مسلم مالوار ٹرسٹ (جودھ پور) کے تحت چلنے والے ادارے، جامعہ ہدایت (جے پور)، جامعہ معین الدین چشتی (اجمیر)، اوردرگاہ معین الدین چشتی (اجمیر) کے ذمہ دار ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ان مقامات پر مسلمانوں سے دعوہ مشن کے تعلق سے باتیں ہوئی۔ ان میں سے کچھ لوگ دعوتی مشن کو پھیلانے کی خواہش رکھتے ہیں، اورکئی علماء نے صدراسلامی مرکز کی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ برہما کماری (ماؤنٹ آبو) بھی جا نا ہوا، اور جے پور لٹریچر فیسٹیول میں دیگر سی پی ایس کے ممبران کے ساتھ مل کر پروگرام کے دوران اسپیکروں کو ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر دیا۔
ث سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی کے تحت دو تعلیمی پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ ایک ، جامعہ ہمدردر، نئی دہلی کے ساتھ ایک ایم او یو (Memorandum of understanding)سائن کیا گیا ہے۔ اس کے تحت دور جدید میں اسلام، امن، تنازعات کا حل، بقائے باہمی، رواداری وغیرہ موضوع پر پی ایچ ڈی ریسرچ کا کام سی پی ایس انٹر نیشنل اور جامعہ ہمدرد،د ونوں کی نگرانی میں ہوگا۔ دوسری پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ کلچر آف پیس پروگرام کے تحت کالج کے طلبہ کے درمیان انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس میں کالج کے طلبہ جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے شریک ہوتے ہیں، اورالرسالہ مشن کے تحت انفارمل تعلیم کے ذریعہ اپناذہنی و روحانی ارتقا کرتے ہیں۔ اس کا پہلا تین ماہی پروگرام دہلی یونیورسٹی کے رام انوجن کالج میں شروع ہوا، اور اس کا اختتامی پروگرام26 مئی 2018 کو ہوا۔
■ ڈاکٹر محمد اسلم خان (سہارن پور)، سی پی ایس کے بہت ہی متحرک ممبر ہیں۔ وہ ہر ایک موقع پر دعوت کا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً 24 فروی 2018 کو ملیشیا میں ان کو انٹرنیشنل ایوارڈ دیا گیا۔ یہ ایوارڈ ان کو ہیلتھ کیر سیکٹر میں ان کی خدمات کے لیے دیا گیا ہے۔ اس موقع پر ملیشیا کے وزیر صحت اور دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے مندوبین موجود تھے۔ ان لوگوںکو ڈاکٹر صاحب نے انگریزی ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا۔ اس کے بعد مشہور اردو چینل زی سلام کے راہ نجات پروگرام میں ایک مہینہ (11اپریل تا 11 مئی 2018) تک ان کا انٹرویو نشر ہوا۔ اس موقع پر بھی انھوں نے الرسالہ مشن کا تعارف کرایا، اور الرسالہ فکر کی بنیاد پر لوگوں کی رہنمائی کی۔ نیز چینل کے آفس میں موجود تمام اسٹاف کو انھوں نے ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا۔ پھر 16 اپریل 2018 کو انھوں نے دیوبند میں ایک ولیمہ کی تقریب میں شرکت کی، اور مشہور شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی کے ہاتھوں تمام لوگوں کو تراجم قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا۔
■ میں نے خدا کے تخلیقی منصوبہ کو مولانا کے لٹریچر سے جانا ہے، اور اسی سے میرے اندر دعوتی شعور پیدا ہوا ہے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ جمعہ کے دن نگینہ (بجنور) کی اولیاء مسجد میں مَیں نے اس موضوع پر ایک تقریر کی۔ نماز کے بعد بہت سے لوگوں میں یہ تجسس بیدار ہوا کہ اس سے پہلے ایسا اچھوتابیان نہیں ہوا۔ اس موقع پر میں نے ان لوگوں کو الرسالہ اور اسپرٹ آف اسلام پڑھنے کے لیے دیا۔ تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ اس کو قبول کیا۔ (مولانا مظہر جمیل، بجنور، 9897593659 )۔
■ We recently received 100 copies of the Quran from your organization. Alhamdulillah, we have been able to distribute them to people via our bi-monthly street dawah and we have only a few remaining. We will be glad if you can help with more copies of this Quran. (Auwalu Ali, Team Leader, Street Dawah, Nigeria)
■ I am a professor of Islamic Studies and Comparative Religion at Mahidol University Thailand. I am teaching “Introduction to Islam” to about 30 Buddhist monk students from Myanmar, Cambodia, Thailand, China, Indonesia, etc. They have expressed the need to have an English translation of the Quran and I think the translation by Maulana Wahiduddin Khan is the best for them. Will it be possible for you to send me 30 copies for free or at a discounted rate? Alternatively, you can send me 30 copies for free and I pay for the shipping cost. I look forward to hear from you soon. Warm regards. (Dr. Imtiyaz Yusuf, Lecturer and Director Center for Buddhist-Muslim Understanding, College of Religious Studies, Mahidol University, Thailand)
■ I work in the Chaplain’s Dept as the Islamic Activities Coordinator for Mississippi’s Dept. of Corrections in Parchman. Our population fluctuates between 3,000 to 3,500 men. We have a little over 100 Muslims in our facility and we have daily expressed interest in the religion of Islam. I would like to provide Quran copies for the new converts and for those who would like to study the book and the religion. We would thoroughly appreciate any assistance you can provide in fulfilling this need to provide the Holy Quran to the inmate population.(William Sabree, Chaplain’s Dept. Mississippi, USA)

■It has been a privilege for me to listen to Maulana Wahiduddin Khan. I read his book "Tabeer ki Ghalti" and it took me out from the depths of darkness towards a clear understanding of Islam. I appreciate your work, which you have been doing since past so many years and I totally agree with you that terrorism cannot be eliminated through counter acts, rather it has to be eliminated ideologically. (Burhan Ahmad, Srinagar, Kashmir)
واپس اوپر جائیں

Sunday, 22 April 2018

Al Risala | May 2018 (الرسالہ،مئی)

4

-روزہ برائے ترک

5

- رزق پلس

6

- تذکیر بالقرآن

7

- آسان برائے ذکر

8

- حجت کا دور

10

- دعوت کیا ہے

11

- امت کارول

14

- نبیوں کا ماڈل

17

- رجز کو چھوڑو

18

- احسن القصص کا اعادہ

19

- دور قدیم، دور جدید

20

- دعا کی حقیقت

23

- تکریمِ بنی آدم

24

- رحمت خداوندی

25

- اسلامی روحانیت

26

- الرسالہ مشن

28

- دین کے دو درجے

29

- موت کا واقعہ

30

- امن ایک اقدام

32

- محبت انسانی

33

- عذاب سے نجات

34

- انبیاء کا نمونہ

35

- دعوت حق کا استقبال

36

- عظمت رفتہ کی بازیابی

37

- فضیلتِ رسول

38

- دین اکابر

39

- جذباتی اشو

40

- عہد شباب

24

- طالب علمی کا دور

43

- مشتبہ اظہار رائے

44

- حالاتِ حاضرہ

45

- دشمن میں دوست

46

- خبرنامہ


روزہ برائے ترک

روزہ کے بارے میں ایک حدیث قدسی آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:روزہ (صوم) میرے لیے ہے، اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ روزہ دار میرے لیے اپنی شہوت کو چھوڑتا ہے۔ وہ میرے لیے اپنا کھانا اور اپنا پانی چھوڑتا ہے۔ اور روزہ ڈھال ہے۔ اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی جب کہ وہ روزہ کھولتا ہے، اور دوسری خوشی جب کہ وہ اپنے رب سے ملے گا۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر7492)۔
روزہ کی اصل اہمیت اس کی اسپرٹ میں ہے، نہ کہ اس کے فارم میں۔ روزہ کی حقیقت ترک (چھوڑنا) ہے۔ روزہ میں روزہ دار یہ کرتا ہے کہ وہ مخصوص اوقات میں عارضی طور پر کھانا اور پانی چھوڑ دیتا ہے۔ اس چھوڑنے کے عمل کا اللہ کے یہاں بہت بڑا درجہ ہے۔ بشرطیکہ یہ چھوڑنا خالص اللہ کے لیے ہو۔ روزہ میں کھانے اور پینے کا ترک علامتی ترک ہے۔ اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ روزہ دار اپنی عادت کو یا اپنی کسی محبوب چیز کو اللہ کے خلاف سمجھ کر چھوڑ دے۔
سچا روزہ دار وہ ہے جو رمضان کے مہینہ میں یہ طے کرے کہ وہ اپنی قابل ترک عادتوں کو دریافت کرے گا۔ اور ہر دن کم از کم ایک عادت کو اللہ کے لیے چھوڑ دے گا۔ یہ گویا اللہ کے لیے ایک خود انضباطی (self discipline) کا معاملہ ہے۔
اس خود انضباطی کے عمل میں چھوڑنے کی بہت سی چیزیں ہیں۔ مثلا ایک سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق دوسروں سے بیان کرنا ۔ مجلس میں ہنسنا اور مذاق اڑانا۔ ایک آدمی بول رہا ہو تو اس کی بات ختم ہونے سے پہلے بولنا۔ وعدہ کرنے کے بعد اس کو پورا نہ کرنا۔ غیر سنجیدہ گفتگو کرنا۔ منفی رویہ اختیار کرنا۔ ایک دوسرے پر فخر کرنا۔ بات چیت میں بے احتیاطی کا انداز اختیار کرنا۔ دسترخوان پر کھانا اور پانی چھوڑنا۔ تکلف کا طریقہ اختیار کرنا۔ دھکا دے کر آگے بڑھنا۔ دلیل کے بجائے عیب جوئی کی زبان بولنا۔زیادہ بولنا یا زور زور سے بولنا ، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

رزق پلس

قرآن میں روزےکا حکم سورہ البقرۃ کی آیات183-187 میں آیا ہے۔ حدیث کی کتابوں  میں روزے کے بارے میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ مثلاً مشکوٰۃ المصابیح میں کتاب الصوم کے تحت جو حدیثیں آئی ہیں ، ان کی تعداد 152 ہے، اور ابوبکر الفِریابی کی کتاب الصیام میں ایسی احادیث کی تعداد 192 ہے۔ رمضان کے روزوں کے بارے میں ایک طویل روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ اس روایت کا ایک جزء یہ ہے:وَشَہْرٌ یَزْدَادُ فِیہِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ (صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر 1887) ۔یعنی اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ رزق بڑھانے سے مراد مادی رزق بڑھانا نہیں ہے، بلکہ روحانی رزق (spiritual food) بڑھادینا ہے۔ رمضان میں مومن وہی رزق لیتا ہے، جو رزق وہ عام مہینوں میں لیتا ہے۔ لیکن نفسیاتی اعتبار سے رمضان کا رزق مومن کے لیے رزق پلس (Rizq Plus)بن جاتا ہے۔
حضرت مریم کے جس رزق پر حضرت زکریا کو تعجب ہوا تھا، وہ یہی رزق پلس (آل عمران، 3:37) تھا۔ یعنی بظاہر حضرت مریم کا رزق وہی تھا، جو دوسرے تمام لوگوں کو ملتا ہے۔ لیکن حضرت مریم کی روحانی ترقی (spiritual development)کی بنا پر ان کا رزق ، رزق پلس بن جاتا تھا۔ یعنی رزق کو لیتے ہوئے ان کے اندر ربانی خیالات جاگتے تھے۔ شکر الٰہی کے نئے نئے آئٹم ان کے ذہن میں پیدا ہوتے تھے۔ اس بنا پر ان کی زبان سے ذکر اور دعا کے نئے نئے کلمات ادا ہوتے تھے۔ اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اس کی تفسیر یہ کردی کہ موسم سرما میں موسم گرما کے پھل، اور موسم گرمامیں موسم سرما کے پھل۔
رمضان کا رزق ایسے انسان کے لیےرزق پلس بن جاتا ہے، جو رمضان سے پہلے اللہ کی یاد اور اللہ کے شکر میں جیتا ہو، ایسا آدمی گویا بیدار آدمی ہے۔ اس کی بیداری اس کے لیے رمضان کے رزق میں نئے ربانی پہلو کا اضافہ کردیتی ہے۔ یہی مطلب ہے رزق کے رزق پلس ہونے کا۔
واپس اوپر جائیں

تذکیر بالقرآن

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:فَذَکِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ یَخَافُ وَعِیدِ (50:45)۔ یعنی پس تم قرآن کے ذریعہ اس شخص کو نصیحت کرو جو میری وعید سے ڈرے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن سے تذکیر یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کی وعید یاد دلا کر انھیں متنبہ کیا جائے، اور اس کے مطابق ان کو ذمہ دارانہ زندگی گزارنے پر تیار کیا جائے۔
وعید کا لفظی مطلب ہے، ڈراوا (warning) ۔ یہ ڈراوا کیا ہے۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈراوا یہ ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ خالق نے اس دنیا میں انسان کو جو نعمتیں دی ہیں، اس کے ساتھ ایک لازمی ذمہ داری وابستہ ہے۔ وہ یہ کہ آخرت میں انسان سے یہ پوچھا جائے کہ تم نے زندگی میں ملی نعمتوں کا اعتراف کیا یا تم نے بے اعترافی کی زندگی گزاری۔ یہ حقیقت قرآن کی ا ٓیت سے معلوم ہوتی ہے: ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ (102:8)۔
انسان ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوتا ہے، جو اس کے لیے کسٹم میڈ دنیا (custom-made world) ہے۔ پیدا ہوتے ہی انسان کو وہ تمام چیزیں ملنے لگتی ہیں، جن پر اس کی زندگی کا انحصار ہے۔ مثلا پانی، غذا، روشنی، آکسیجن، کشش ارض (gravitational pull)، وغیرہ، وغیرہ۔ اس طرح کی بے شمار چیزیں ہیں، جو انسان کی زندگی کے لیے لازمی طور پر ضروری ہیں، اور وہ سب پیشگی طور پر زمین کے اوپر مہیا کردی گئی ہیں۔انسان پر لازم ہے کہ وہ ان نعمتوں کو پہچانے، وہ ان نعمتوںکو شعور کی سطح پر دریافت کرے، وہ ان نعمتوں کا اعتراف (acknowledge) کرے ۔
ان نعمتوں کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَمَنْ یَشْکُرْ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہِ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ حَمِیدٌ(31:12)۔ نعمتوں کے اعتراف کے لیے انسان مجبور نہیں ہے۔ لیکن اعتراف یا بے اعترافی، دونوں کا انجام یکساں نہیں ہوسکتا، یعنی اعتراف پر انعام ہے اور بے اعترافی پر شدید پکڑ- اس حقیقت کو قرآن کے ذریعہ سے کھولنے کا نام تذکیر بالقرآن ہے۔
واپس اوپر جائیں

آسان برائے ذکر
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ (54:17)۔ یعنی ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ، تو کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا۔قرآن کی اس آیت کو سمجھنے کے لیے اس کی تفسیر ایسے انداز میں کی جانی چاہیے ، جو انتہائی حد تک عام فہم ہو، اس کا قدر مشترک یہ ہو کہ قرآن سے ہر انسان بہ آسانی نصیحت لے سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر جو بھی کی جائے، اس کے اندر کمال درجے میں وضوح (clarity) پائی جاتی ہو۔
مثلاً قرآن کی اس آیت کو آپ پڑھیں، اور اس میں غور کریں: وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیرَ لِتَرْکَبُوہَا وَزِینَةً وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (16:8)۔ یعنی اور اس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لئے بھی اور وہ ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے۔
قرآن کے تصور تیسیر کے مطابق آپ غور کریں تو اس میں آپ کو نصیحت کا یہ بالکل آسان پہلو ملے گا کہ خالق نے پہلے دور میں انسان کو فطرت کی سواریاں دیں، مثلا گھوڑا، خچر اور گدھا۔ پھر فطرت (nature) میں ایسی ٹکنالوجی رکھ دی، جس کو دریافت کرکے آدمی موٹرکار او ر ہوائی جہاز جیسی مشینی سواریاں بنائے، اور اس کے ذریعہ اس کے لیے زیادہ تیز رفتار سفر ممکن ہوجائے۔
یہ تفسیر مبنی بر تیسیر کی ایک مثال ہے۔ یہ تفسیر ہر آدمی کے لیے قابل فہم ہے۔ اس تفسیر میں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے شکر کا سامان ہے۔ جو شخص اس تفسیر کو لے کر سوچے گا، اس کے اندر ربانی شخصیت پرورش پائے گی۔ قرآن کی صداقت پر اس کا یقین بڑھے گا۔ اس کے اندر تخلیقی طرز فکر (creative thinking) بیدار ہوگی۔ اللہ کے وجود کے بارے میں اس کا یقین بہت بڑھ جائے گا- انھیں صفات کا نام ذکر (نصیحت) ہے۔ یہی وہ صفات ہیں، جو کسی انسان کے اندر ایمان کا وہ درخت اگاتی ہیں، جس کے بارے میںقرآن میں ا ٓیا ہے :أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ (14:24)۔ جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔
واپس اوپر جائیں

حجت کا دور

حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔جس میں بتایا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں ایک بڑا فتنہ ظاہر ہوگا۔ اس کے قائد کو حدیث میں دجال کانام دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو، صحیح مسلم، حدیث نمبر2937، وابو داؤد، حدیث نمبر4321، سنن الترمذی، حدیث نمبر 2240، سنن النسائی الکبری ، حدیث نمبر10717، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4075، مسند احمد، حدیث نمبر 17629 ، المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7644وغیرہ ۔ ایک روایت میں دجال کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:إِنْ یَخْرُجْ وَأَنَا فِیکُمْ، فَأَنَا حَجِیجُہُ دُونَکُمْ، وَإِنْ یَخْرُجْ وَلَسْتُ فِیکُمْ، فَامْرُؤٌ حَجِیجُ نَفْسِہِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2937)۔
ان روایتوں میں کہا گیا ہے کہ دجال کا مقابلہ حجیج کرے گا۔ اگر دجال رسول اللہ کے زمانے میں ظاہر ہوگا، تو خود رسول اللہ اس کے مقابلے میں حجیج ہوںگے، اور اگر وہ بعد کے زمانے میں ظاہر ہوگا تو امت کا کوئی فرد اس کے مقابلے میں حجیج ہوگا، اور دجال کو حجت کی سطح پر مغلوب کرے گا۔
حجَ یحج کا معنی ہے حجت سے غالب آنا۔ اس کا اسم فاعل ہے حجیج ۔ اس کا مطلب ہوتا ہے حجت میں غالب آنے والا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال دور حجت (age of reason) میں ظاہر ہوگا۔ دجال دور سیف(age of sword) کا فتنہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ دور حجت (age of reason) کا فتنہ ہوگا۔
دجال کے بارے میں جو روایتیں ہیں، وہ زیادہ تر تمثیل کی زبان میں ہیں۔ ان روایتوں کو سمجھنے کے لیے ضرورت ہے کہ تمثیل کی زبان کو تعیین کی زبان میں بدلا جائے۔ اس کام کا اصول کیا ہوگا۔ وہ اصول یہ ہوگا کہ دور حجت کا مطالعہ کیا جائے، اور دور حجت کے احوال کے اعتبار سے احادیث کی تشریح کی جائے۔
مثلاً دجال کے بارے میں احادیث میں آٰیا ہے کہ وہ اعور ہوگا۔ اعور کا لفظی مطلب ہوتا ہے یک چشم یعنی ایک آنکھ والا(one-eyed)۔ لیکن اس سے مراد وہ انسان ہے جو لوگوں کو بری رہنمائی دے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کی اصل صفت یہ ہوگی کہ وہ لوگوں کے ساتھ غلط رہنمائی (mislead)کا معاملہ کرے گا۔ چوں کہ غلط رہنمائی کا عمل وہ نہایت ہوشیاری کے انداز میںانجام دے گا،لوگ اس کی غلط رہنمائی کو صحیح رہنمائی سمجھ لیں گے، اس لیے اس کو حدیث میں دجال (the Great Deceiver)کہا گیا ہے۔
یہ بات کہ دجال کا ظہور دور حجت میں ہوگا۔ اس میں ان لوگوں کے لیے رہنمائی ہے جو دجال کے مقابلے کے لیے نکلیں۔ ان کو جاننا چاہیے کہ دجال کا مقابلہ نہ تلوار سے ہوگا ، اور نہ بندوق (gun) سے ہوگا۔ بمباری یا خود کش بمباری (suicide bombing) بھی دجال کے مقابلے کے لیے بالکل کارآمد نہ ہوگی۔ دجال کا کامیاب مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ اس زمانے کے لوگ حجت کی زبان سیکھیں۔ تاکہ وہ اسی زبان میں دجال کا مقابلہ کرسکیں، جس زبان میں دجال لوگوں کو گمراہ کررہا ہوگا۔ تاریخ کے دوسرے فتنوں کے مقابلے میں یہ ایک مختلف فتنہ ہوگا۔
قدیم دور کے تمام فتنے ، تشدد (violence) کے فتنے تھے۔ قدیم دور کے ارباب فتنہ تشدد کے ہتھیار کے ذریعہ لوگوں کو مغلوب کرتے تھے۔ لیکن بعد کے زمانے میں ظاہر ہونے والا یہ فتنہ حجت (reason) کے ذریعہ گمراہ کرے گا۔ ایسی حالت میں جولوگ حجت کے ذریعے دجال کے فریب میں مبتلا ہوں، ان کو دجالی فریب سے نکالنے کے لیے دوبارہ حجت یعنی عقلی استدلال کا طریقہ استعمال کرناہوگا۔
اللہ کی یہ سنت ہے کہ وہ ان لوگوں کی خصوصی مدد کرتا ہے، جو اللہ کے دین کی مدد کے لیے اٹھیں(الحج، 22:40) ۔ اللہ کی یہ مدد یقینی طور پر اس نسبت سے آتی ہے، جس نسبت سے عمل مطلوب ہے۔ اس اعتبار سے غور کیا جائے تو دجالی فتنے کے زمانے میں جو مقابلہ ہوگا، وہ مبنی بر عقل (reason-based) مقابلہ ہوگا۔ اس لیے یہ امر یقینی ہے کہ دجالی فتنہ کے زمانے میں اللہ تعالی ایسے دلائل عقلی کا ظہور فرمائے، جس کی مدد سے اہل ایمان دجالی فتنے کا کامل خاتمہ کرسکیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کیا ہے

دعوت کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں جو سچائی بیان کی گئی ہے، اس کو دوسروں تک پہنچانا۔ مگر پہنچانے کا مطلب صرف پہنچانا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ جو بات کہی جائے، وہ مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی ہو۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے : وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63)۔ یعنی ان کو اس طرح بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔ اس طرح دعوت میں ایک اور عنصر شامل ہوجاتا ہے، اور وہ ہے مدعو کے ذہن کی رعایت۔
اگر آپ دعوت کا کام اس طرح کریں کہ قرآن و حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، خود اپنے ذہن کے مطابق، اس کی شرح کردیں تو یہ حقیقی معنوں میں دعوت کا کام نہیں ہوگا۔ کوئی کلام اس وقت دعوت بنتا ہے، جب کہ آپ اپنی دعوت میں دو تقاضوں کو پورا کریں۔ ایک یہ کہ آپ قرآن و سنت کا مطالعہ غیرمتاثر ذہن کے ساتھ کریں، اور اس کا مدعا بے کم و کاست انداز میں جاننے کی کوشش کریں، اور پھر اس کو تقریر یا تحریر کے ذریعہ مخاطب کے سامنے بیان کریں۔
مگر مطلوب دعوت کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے۔ مطلوب دعوت وہ ہے، جس میں داعی غیر جذباتی انداز میں مدعو کے ذہن کو سمجھنے کی کوشش کرے، اور پھر مدعو کے ذہن کو ایڈریس کرنے والے انداز میں خیر خواہانہ طور پر اس کو اپنا مخاطب بنائے۔دعوت اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے دوسری تحریکوں کی طرح ایک تحریک ہے۔ مگر دعوت اور دوسری تحریکوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ دوسری تحریکیں عام طور پر ردعمل کے ذہن کے تحت چلائی جاتی ہیں۔ یعنی سماج میں کوئی چیز نظر آئی جو دیکھنے والوں کےلیے بظاہر غلط تھی۔ اس پر دیکھنے والوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا، اور یہ ردعمل دھیرے دھیرے ایک تحریک بن گیا۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو تمام تحریکیں عملاً ردعمل کی تحریکیں ہوتی ہیں۔ لیکن دعوت کی تحریک کسی بھی درجے میں ردعمل کی تحریک نہیں ہے۔ دعوت داعی کی طرف سے نصح (well-wishing )کا اظہار ہے، اور بس۔
واپس اوپر جائیں

امت کارول

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان (قرآن)اتارا تاکہ وہ سارے عالم کے لئے خبر دار کرنے والابنے۔
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا۔ اس وقت پیشین گوئی (prediction) کی زبان میں یہ اعلان کیا گیا کہ قرآن سارے عالم میں پھیلے گا، یہاں تک کہ اس کا پیغام زمین پر بسنے والےہر مرد اور ہرعورت تک پہنچ جائے گا۔
یہی بات حدیث رسول میںاس طرح بیان کی گئی ہے: لَا یَبْقَى عَلَى ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللہُ کَلِمَةَ الْإِسْلَامِ، بِعِزِّ عَزِیزٍ أَوْ ذُلِّ ذَلِیلٍ (مسند احمد، حدیث نمبر 23814) ۔یعنی زمین پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر اللہ اس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا، عزت والے کو عزت کے ساتھ، ذلت والے کو ذلت کے ساتھ ۔ (یعنی اسلام کا پیغام ماننے والوں تک بھی اورنہ ماننے والوں تک بھی )۔
یہ حدیث رسول پیشگی خبر کی زبان میں یہ بتارہی ہے کہ آخری دور میں امت کا فائنل رول کیا ہوگا۔ وہ رول یہ ہوگا کہ امت اپنے زمانے کے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کے کلام (word of God) کو دنیا کے ہرگوشے میں پہنچادے، یہاں تک کہ کوئی عورت یا مرد اس سے بے خبر نہ رہے۔اس حدیث میں کلمۃ الاسلام سے مراد قرآن ہے۔ قرآن کو ہر انسان تک پہنچانا کسی پر اسرار طریقے پر نہیں ہوگا، بلکہ وہ دوسرے واقعات کی طرح اسباب کے ذریعے ہوگا۔ بعد کے دور میں ایسے اسباب انسان کے دسترس میں آئیں گے جن کو استعمال کرکے امت خدا کی کتاب کو تمام انسانوں تک پہنچادے ۔
قرآن کو سارے عالم تک پہنچانا ایک ایسا کام ہے جو امت مسلمہ محض اپنی طاقت سے نہیں کرسکتی۔ اس لیے اللہ نے تاریخ کو اس طرح مینج (manage)کیا کہ دوسری قومیں بھی اس تاریخی کام میں تائیدی رول (supporting role) ادا کریں۔ یہی بات حدیث رسول میں اس طرح بیان کی گئی ہے:إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔ اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے بھی کرے گا۔ اس حدیث میں فاجر انسان سے مراد سیکولر انسان ہے۔ یعنی مستقبل میں ایسے لوگ اٹھیں گے جو بظاہر اپنے مادی مقاصد کے لیے اسباب پیدا کریں گے، مگر یہ اسباب عملاً اہل دین کے لیے سپورٹ بن جائیں گے۔
اس حدیث میں سیکولر موید (secular supporter) سے مراد وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔یہ ایک واقعہ ہے کہ مغربی تہذیب ایک مادی تہذیب ہے۔ اس نے اپنے مادی مقاصد کے لیے بہت سے نئے اسباب پیدا کیے۔ مگر یہ اسباب عملاً قرآن کی عالمی اشاعت کا ذریعہ بن گئے۔
مغربی تہذیب نے پہلی بار دنیا کے جغرافیہ کو پوری طرح ایک معلوم واقعہ بنا دیا۔ مذہبی آزادی موجودہ زمانے میں انسان کا ایک مسلمہ حق (accepted right) بن گئی۔ موجودہ زمانے میں پرنٹنگ پریس اور الیکٹرانک کمیو نی کیشن جیسی چیزیں وجود میں آئیں جن کے ذریعے پہلی بار عالمی ابلاغ (global communication)ممکن ہوگیا۔ لائبریری کلچر آخری حد تک عام ہوگیا ہے۔ سیاحت (tourism) کا ظاہرہ وجود میں آیا، جس کی صورت میں گویا مدعو خود داعی کے دروازے تک پہنچ گیا۔ لوگوں میں کھلا پن (openness)کا مزاج پیدا ہوا، جس کی بنا پر لوگ غیر متعصبانہ انداز میں مختلف مذاہب کا مطالعہ کرنے لگے، وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کے اسباب اہل دین کے لیے تائید (support) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ اہل دین ان کو استعمال کرکے قرآن کے اعلان اور پیغمبر ِ اسلام کی پیشین گوئی کو واقعہ بنادیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اہل دین اٹھیں اور قرآن کو تمام انسانوں تک پہنچا دیں تاکہ انسان اس خدائی ہدایت سے رہنمائی لے کر اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنا سکے۔ اکیسویں صدی میں قرآن کی عالمی تبلیغ آخری حد تک ممکن ہوچکی ہے۔ اس امکان کو واقعہ بنانے کی شرط صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو مکمل طور پر ختم کردے۔ وہ پر امن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے، تمام قوموں تک قرآن کا پیغام پہنچادے۔
ہر انسان پیدائشی طور پر حق کا متلاشی ہے۔ ہر انسان اپنی فطرت کے زور پر حق کا طالب بنا ہوا ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں مسلمان اپنی غلط سوچ کے تحت نفرت اور تشدد کے کلچر میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس کلچر نے داعی اور مدعو کے درمیان دوری کا ماحول قائم کردیا ہے۔ امت مسلمہ پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر نفرت اور تشدد کے موجودہ کلچر کو ختم کردے، اور پوری طرح امن کا ماحول قائم کردے۔ اس کے بعد فطری طور پر ایسا ہوگا کہ قرآن کا پیغام ہر جگہ پہنچنے لگے گا۔ آج امت مسلمہ کو یہ کرنا ہے کہ وہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو ختم کرکے امن کلچر کو اپنائے، اور دعوت کی پر امن پلاننگ (peaceful planning)کرے، اور خالص پرامن انداز میں سارے عالم تک اللہ کے پیغام کو پہنچادے۔ یہی امت مسلمہ کا فائنل رول ہوگا۔ اسی رول کی ادائیگی کے نتیجے میں امت مسلمہ کو دوبارہ وہ سرفرازی حاصل ہوگی جس کا تاریخ کو انتظار ہے۔
دعوت کی اس عالمی مہم کے لیے دوسرے معروف طریقوں کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ خالص مثبت ذہن کے تحت اعلیٰ معیار کا ایک ٹی وی چینل قائم کیا جائے۔ اس کے ذریعے تمام بڑی بڑی زبانوں میں دعوتی پروگرام نشر کیے جائیں۔ یہ کام مکمل طور پر پر امن دعوت کے تصور کے تحت کیا جائے۔ اس میں نہ مسلمانوں کی مفروضہ مظلومیت کی داستان کا ذکر ہو اور نہ مسلم فخر کا تذکرہ کیا جائے۔ اس ٹی وی کی نشریات تمام تر دعوت الی اللہ کے اصول پر مبنی ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی نشریات لازمی طور پر عصرحاضر کے اسلوب میں ہوں تاکہ وہ آج کے انسان کے ذہن کو ایڈریس کرسکیں۔جدید ٹکنالوجی نے اس بات کو پوری طرح ممکن بنا دیا ہے کہ خدا وندِ رب العالمین کا پیغام ہر گھر میں اور ہر انسان تک پہنچ جائے۔ عالمی دعوت کا یہی وہ واقعہ ہے جس کو حدیث میں شہادتِ اعظم کہا گیا ہے:ہَذَا أَعْظَمُ النَّاسِ شَہَادَةً عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِینَ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938)۔
واپس اوپر جائیں

نبیوں کا ماڈل

ہر زمانے میں اور ہر مقام پر اللہ کے پیغمبر انسان کی ہدایت کے لیے آئے۔ایک روایت کے مطابق، ان نبیوں کی مجموعی تعدادایک لاکھ بیس ہزار (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361) سے زیادہ تھی۔ ان تمام پیغمبروں کا ماڈل بنیادی طور پر ایک تھا۔ پیغمبروں نے اس ربانی ماڈل کو اپنے اپنے حالات کے لحاظ سے اپنے زمانے میں اختیار کیا۔ اس سلسلے میں قرآن کی کچھ آیتوں کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
یہ ہے ہماری دلیل جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلہ میں دی۔ ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کردیتے ہیں۔ بے شک تمھارا رب حکیم اور علیم ہے۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عطا کئے، ہر ایک کو ہم نے ہدایت دی اور نوح کو بھی ہم نے ہدایت دی اس سے پہلے۔ اور اس کی نسل میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور ہم نیکوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو بھی، ان میں سے ہر ایک صالح تھا۔ اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو بھی، اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے دنیا والوں پر فضیلت عطا کی۔ اور ان کے باپ دادوں اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی، اور ان کو ہم نے چن لیا اور ہم نے سیدھے راستہ کی طرف ان کی رہنمائی کی۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ اس سے سرفراز کرتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے۔ اور اگر وہ شرک کرتے تو ضائع ہوجاتا جو کچھ انھوں نے کیا تھا۔یہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی۔ پس اگر یہ مکہ والے اس کا انکار کردیں تو ہم نے اس کے لئے ایسے لوگ مقرر کر دئے ہیں جو اس کے منکر نہیں ہیں۔یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی، پس تم بھی ان کے طریقہ پر چلو۔ کہہ دو، میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ یہ تو بس ایک نصیحت ہے دنیا والوں کے لئے۔ (6:83-90)
یہ ربانی ماڈل بنیادی طور پر دو اصولوں پر مشتمل تھا- توحید کی پر امن دعوت، رُجز (المدثر،74:3-5) سے کامل پر ہیز۔ ہر پیغمبر نے بنیادی طور پر اسی ماڈل کی پیروی کی۔ البتہ حالات کے اعتبار سے ہر ایک کا انطباق (application) مختلف تھا۔ ان کے درمیان ظاہری فرق کو نظر انداز کیا جائے تو ہر پیغمبر کا ماڈل اصولی طور پر ایک نظر آئے گا۔
رُجز (المدثر،74:5) کا لفظی مطلب گندگی (dirt) ہے۔ رُجز کا لفظ یہاں مشن کی نسبت سے آیا ہے۔ اس اعتبار سے غور کیا جائے تو یہاں ترکِ رُجز کا مطلب یہ ہے کہ نزاعی طریقہ (confrontational method) سے پرہیز کرو اور اپنے کام کے سلسلے میں ہمیشہ غیر نزاعی طریقہ (non-confrontational method) اختیار کرو۔ رُجز کا یہ مفہوم ایک روایت پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے۔ ایک روایت میں آپ کے بارے میں بتایا گیا ہے :مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ، أَحَدُہُمَا أَیْسَرُ مِنَ الْآخَرِ، إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا(صحیح مسلم، حدیث نمبر2327)۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معالے میں سےایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا، جن میں سے ایک دوسرے سے آسان ہوتا تو آپ نے آسان طریقہ چنا۔
آسان طریقہ کیا ہے، اور مشکل طریقہ کیا ہے۔ آسان طریقہ وہ ہے جو مسئلے کو مسئلے تک محدود رکھے۔ اس کے مقابلے میں مشکل طریقہ وہ جو اصل مسئلہ میں دوسرے مسئلے کا اضافہ کردے۔ مثلاً یہ بات واضح ہے کہ توحید کا داعی اگر دعوت کے ساتھ ٹکراؤ کا طریقہ شامل کرلے تو یقینا بات بڑھے گی۔ اب پیس فل گفت و شنید کے ساتھ ٹکراؤ اور تشدد کی صورتیں شروع ہوجائیںگی۔ اس طرح پر امن مشن ڈی ریل (derail) ہو کر ایسے راستوں پر چل پڑے گا جہاں اصل مقصد گم ہوجائے گا، اور تعمیر کے بجائے تخریب کی صورت پیدا ہوجائے گی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے پیغمبروں کے حالات قرآن و حدیث سے معلوم ہوتے ہیں، اس سے اس اصول کی تصدیق ہوتی ہے۔
پیغمبر کا نمونہ
قرآن میں بتایا گیا ہےکہ جتنے بھی پیغمبر آئے ان سب کا مشن ایک تھا۔ اس سلسلےمیں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (21:25)۔ یہ تمام مقامات جہاں اللہ کے پیغمبر آئے۔ ان میں سے ہر ایک مقام میں شرک کے مراکز ، بت خانوں کی صورت میں موجود تھے۔ لیکن تمام پیغمبروں نے دو چیزوں میں فرق کیا۔ انھوں نے ہر جگہ لوگوں کو پر امن طور پر توحید کی اصولی دعوت پیش کی۔ اسی کے ساتھ انھوں نے شرک کے مراکز (centres of shirk) کے ساتھ عملی ٹکراؤ سے کامل طور پر پرہیز کیا۔ یہ گویا ڈی لنکنگ کی پالیسی (policy of delinking) تھی۔ یعنی توحید کی طرف لوگوں کو پر امن انداز میں بلانا اور اسی کے ساتھ اہل اقتدار سے عدم ٹکراؤ کی پالیسی پر شدت کے ساتھ قائم رہنا۔
یہی طریقہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تھا۔ آپ کی بعثت ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں ہوئی۔ اس وقت مکہ کا یہ حال تھا کہ کعبہ کی عمارت کو عملاً بت پرستی کا مرکز بنادیا گیا تھا، اور اس کا انتظام قبائلی پارلیمنٹ (دارالندوہ) کے تحت کیا جاتا تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منظر کو دیکھا، مگر اس سے عملی طور پر کامل اعراض کرتے ہوئے، آپ نے توحید کی پرامن دعوت لوگوں کے درمیان شروع کردی۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ماضی اور حال کے واقعات بتاتے ہیں کہ ہر انسان آخر کار احساسِ خسران میں مرتا ہے۔ کوئی شخص دولت کماتا ہے، کوئی عزت حاصل کرتا ہے، کوئی سیاسی اقتدار پر قبضہ کرتا ہے، کوئی لیڈر بن کر ابھرتا ہے، لیکن ہر شخص اپنی مطلوب منزل پر پہنچنے سے پہلے مرجاتا ہے۔ ہر شخص کے ذہن میں خوشیوں کی ایک دنیا بسی ہوئی ہے۔ وہ اس کو پانے کے لیے اپنی ساری طاقت لگا دیتا ہے۔ مگر ہر آدمی کا خاتمہ آخر کار اس احساس کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مطلوب دنیا کو نہ پاسکا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی کی خواہشات لا محدود ہیں۔ مگر موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ اس محدود اور غیر معیاری دنیا میں لامحدود قسم کی معیاری خوشی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ طالب اور مطلوب کے درمیان یہی فرق خسران کا اصل سبب ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی یاد دہانی ہے کہ انسان کی مطلوب دنیا موت کے بعد کے دور حیات میں رکھ دی گئی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس کی تیاری کرے۔
واپس اوپر جائیں

رُجز کو چھوڑو

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔اس وقت آپ کو ایک بنیادی ہدایت یہ دی گئی کہ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)۔ یعنی رجز کو چھوڑدے۔رجز کا مطلب گندگی ہے۔
وہ رجز کیا تھا جس کو آپ نے چھوڑ کر اپنا مشن چلایا۔اس کی تفصیل آپ کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔اس کا تعلق آپ کے مشن کے طریقہ کار (method) سے تھا۔ اگر رسول اللہ کی عملی روش کو لے کر اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ نزاعی طریقہ کار (confrontational method) کو چھوڑو، اور غیر نزاعی طریقہ کار (non-confrontational method) کو اختیار کرو۔
رسول اللہ کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا مشن پوری طرح غیر نزاعی اصول پر چلایا۔کعبہ میں اس وقت کے لوگوں نے 360 بت رکھ دیے تھے۔ مگر آپ نے اس سے ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ اس سے اعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ مکہ میں دارلندوہ (tribal parliament) تھا۔ مگر آپ نے اس میں قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اس سے مکمل طور پر اعراض کرتے ہوئے اپنا مشن غیر سیاسی انداز میں چلایا۔ مکہ کے سرداروں نے کہا کہ آپ مکہ چھوڑ دیجیے، تو آپ نے ان کے اس فیصلہ پر کوئی ٹکراؤنہیں کیا، بلکہ خاموشی کے ساتھ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے گیے۔
اس واقعے کی روشنی میں رجز کو چھوڑنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر قسم کے ٹکراؤ کو چھوڑتے ہوئے، اپنا مشن جاری رکھا جائے۔ یعنی مذہبی ٹکراؤ، سیاسی ٹکراؤ، قومی ٹکراؤ، حقوق کا ٹکراؤ، وغیرہ سے مکمل طور پر اجتناب کرتے ہوئے توحید کا مشن جاری رکھا جائے۔ یہی طریقہ ابدی طور پر اہل اسلام کا طریقہ ہے۔ وہ جس ملک یا جس زمانے میں ہوں، ہر جگہ میں اسی غیر نزاعی طریقہ کو اختیار کرنا ہے۔ یہی کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ قانون ِخداوندی کے مطابق کوئی اور طریقہ کامیابی کا طریقہ نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

احسن القصص کا اعادہ

قرآن میں پیغمبر یوسف کے واقعہ کو احسن القصص (best story)کا ٹائٹل دیا گیا ہے (یوسف، 12:3)۔ احسن القصص کا مطلب ہےبہترین طریقِ کا ر (best method) ۔ اللہ تعالی نے تاریخ میں حضرت یوسف کے ذریعہ ایک عملی مثال قائم کی، اور اس طرح ہر زمانے کے اہل ایمان کو یہ ہدایت دی کہ تم اپنے حالات کے اعتبار سے اس کامیاب طریقِ کار کو اختیار کرو۔اس طریقِ کار کا خلاصہ تھا- اتھاریٹی کے ساتھ ٹکراؤ نہ کرنا، اور موجود مواقع کو پر امن انداز میں استعمال کرنا۔
حضرت یوسف کے زما نے میں یہ طریقِ کار مصر کےایک بادشاہ کے ذاتی ذوق کے بنا پر ممکن ہوا تھا۔ موجودہ زمانے میں انسانی تاریخ ایک نئے دور میں پہنچی ہے۔ اب جدید دور کے مسلمہ اصول (accepted norm) کے تحت یہ ممکن ہوگیا ہے کہ احسن القصص کا اعادہ زیادہ وسیع پیمانے پر کیا جائے، اور دعوت کو احسن القصص کے اصول پر منظم کرکے عالمی کامیابی حاصل کی جائے۔
قدیم مصر میں حضرت موسیٰ کے زمانے میں جو بادشاہ حکومت کرتا تھا، وہ ایک جابر بادشاہ (despotic king)تھا۔ اس کے زمانے میں پیغمبر کے لیے یہ موقع نہیں تھا کہ وہ احسن القصص کے اصول کو استعمال کریں۔ لیکن اس سے پہلےحضرت یوسف کے زمانے میں مصر میں ایک اوربادشاہ کی حکومت قائم تھی، جو مختلف مزاج کا حامل تھا۔ اس کے مخصوص مزاج کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ حضرت یوسف احسن القصص کے مطابق وہاں اپنا کام کریں۔ حضرت یوسف کے معاصر بادشاہ نے حضرت یوسف سے کہہ دیا کہ تم مصر کے اقتصادی نظام کو اپنی مرضی کے مطابق چلاؤ، میری شرط صرف یہ ہے کہ تم کو سیاسی تخت کے معاملے میں میرے ساتھ ٹکراؤ سے اعراض کرنا ہے(Only I, as king, will be greater than you.)۔ اب موجودہ زمانے میں ممکن ہوگیاہے کہ اس حسن تدبیر کو زیادہ کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آج کے اہل ایمان حضرت یوسف کی طرح وقت کی پولیٹکل اتھاریٹی کے ساتھ ٹکراؤ سے یک طرفہ طور پر اعراض کریں۔
واپس اوپر جائیں

دور قدیم، دور جدید

دور قدیم اور دور جدید اصلاً یہ ہے کہ دور قدیم مبنی بر عقیدہ علم پر قائم تھا،اور دور جدید مبنی بر دریافت علم پر قائم ہے۔ سائنس اسی کا نام ہے کہ علوم فطرت کے مطالعے سے جو چیز دریافت ہو ، اس کو مان لیا جائے، اور جو چیز فطرت کے مطالعے سے دریافت نہ ہو، اس کو انتظار کے خانے میں ڈال دیا جائے۔ گلیلیو کے زمانے میں جو نزاع تھی، وہ یہی تھی کہ ٹیلسکوپ (telescope) کے مطالعے سے یہ دریافت ہوا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ یعنی ہیلیو سینٹرک تھیَری (heliocentric theory)، نہ کہ جیو سینٹرک تھیَری (geocentric theory) ۔ مسیحی طبقہ اپنے روایتی عقیدہ کے مطابق اس کے خلاف ہوگیا۔ اس لیے دونوں کے درمیان متشددانہ نزاع قائم ہوگئی۔ اب مسیحی طبقہ نے سائنسی دریافت کو مان لیاہے، اس لیے اب یہ نزاع بھی ختم ہوگئی۔
سائنس کا علم، نہ موافق مذہب علم ہے اور نہ مخالف مذہب علم۔ سائنسی علم در اصل موافق فطرت (pro-nature knowledge) کا نام ہے۔ سائنس سے نزاع کرنا، ایک غیر ضروری کام ہے۔ کیوں کہ سائنس کا موقف کسی نزاع سے متعین نہیں ہوگا، بلکہ صرف اس حقیقت سے متعین ہوگا کہ فطرت کے مطالعے سے کیا بات درست ثابت ہوئی ہے۔اہل اسلام کے لیے اس معاملے میں یہ سبق ہے کہ وہ مسیحی گروہ کی غلطی کو نہ دہرائیں۔ سائنسی دریافتوں کو وہ مذہبی عقیدہ سے نہ جانچیں۔ بلکہ اس کی واقعیت کو فطرت کے دریافت شدہ قانون کی روشنی میں جانچ کر دیکھیں۔
اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ وہ مغربی سائنس اور مغربی کلچر میں فرق کریں۔ مغربی سائنس مبنی بر دریافت علم کا نام ہے۔ اس کے برعکس، مغربی کلچر مغربی سوسائٹی کا حصہ ہے۔ وہ ایک سماجی ظاہرہ ہے، نہ کہ کوئی علمی طور پر دریافت شدہ حقیقت۔ سائنس کا تعلق حدیث کے مطابق، بصیرت زمانہ سے ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:على العاقل أن یکون بصیراً بزمانہ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ یعنی مومن عاقل پر ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔
واپس اوپر جائیں

دعا کی حقیقت

دعا اگر صالح دعا ہوتو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ لیکن بڑی بڑی دعائیں ہمیشہ تاخیر کے ساتھ قبول ہوتی ہیں۔ اس کی ایک مثال حضرت ابراہیم کی دعا ہے۔ حضرت ابراہیم نے تعمیر کعبہ کے وقت ایک آخری پیغمبر کے ظہور کی دعا کی تھی(البقرۃ، 2:129)۔یہ دعا قبول ہوئی۔ لیکن اس پیغمبر کا ظہور عملاً دعا کے تقریباً ڈھائی ہزار سال بعد پیش آیا۔تاریخ کے بڑے بڑے واقعات ہمیشہ اسی طرح لمبی مدت کے بعد ظہور میں آتے ہیں۔ بڑی بڑی دعاؤں کے لیے پوری تاریخ کو مینج کرنا پڑتا ہے۔ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، حالات کو اس کے مطابق بنانا پڑتا ہے۔ اس لیے قانونِ قدرت کےمطابق، کوئی بڑی دعاکبھی اس طرح قبول نہیں ہوتی کہ دعاکرنے والے نے دعا کیا۔ اور اس کے فوراً بعد اس کی قبولیت بھی سامنے آگئی۔
دعا کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ (2:186)۔ یعنی اور جب میرے بندے تم سے میری بابت پوچھیں تو میں نزدیک ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے، پس ان کو چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر یقین کریں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
اس آیت میں بتایا گیاہے کہ خدا بندے کے قریب ہے۔ اور وہ بندے کی دعا کا جواب دیتا ہے۔ لیکن جواب کی صورت کیا ہوتی ہے، اس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں موجود نہیں۔ اجیب دعْوة الداع اذا دعان کے فورا بعد جو الفاظ آئے ہیں، وہ یہ ہیں:فلیستجیبو لی ولیؤ منوا بی لعلھم یرشدون۔یعنی ان کو چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر یقین کریں، اسی میں ان کی فلاح ہے۔
یہاں دعا کے بعد جواب دعا کا ذکر نہیں۔ یہ قرآن کا ایک خاص اسلوب ہے کہ اس میں کسی بات کے ایک پہلو کا ذکر ایک مقام پر ہوتا ہے، اور اُس کے دوسرے پہلو کا ذکر دوسرے مقام پر ۔ مثلاً قرآن میں قصہ آدم کے تحت یہ بتایا گیا ہے کہ آدم نے غلطی کرنے کے بعد جب توبہ کی، تو ان کی توبہ قبول ہوئی، اور دعا کے الفاظ بھی ان کو تلقین کیے گئے۔ مگر یہ دونوں بات ایک جگہ موجود نہیں۔ مثلاً سورہ البقرۃ آیت37 میں توبہ کا ذکر ہے۔ لیکن جہاں تک الفاظِ دعا کا تعلق ہے، وہ دوسرے مقام پر سورہ الاعراف آیت23 میں بتائے گیےہیں۔
یہی اسلوب قرآن کی مذکورہ آیت میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب ریح (یوسف،12:94) کی صورت میں ملتا ہے۔ ریح کے لفظی معنی خوشبو (fragrance) کے ہیں۔ یہاں ریح کا لفظ سادہ طور پر مہک کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اچھی خبر (good news)ہے۔ یہ حضرت یعقوب کو انسپریشن (inspiration)کی صورت میں آئی تھی۔ یعنی ان کو یہ انسپریشن آتا تھا کہ خدا ان کی دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا، بلکہ یوسف کو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے استعمال کرے گا۔ یوسف کے بھائیوں نے یوسف کواندھے کنوئیں میں ڈال دیا تھا، لیکن اللہ نے ان کو مخصوص انتظام کے تحت مصر کے تخت پر پہنچادیا۔
دعا کی یہ قبولیت ہر انسان کے لیے مقدر ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کی ایک شرط ہے۔ وہ شرط قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: إِنَّہُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ (12:90)۔ یعنی جو شخص ڈرتا ہے اور صبر کرتا ہے تو اللہ نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی یہ خصوصی نعمت اس انسان کو ملتی ہے، جو احسان کے درجے میں اس کا استحقاق ثابت کرے۔ یعنی ہمیشہ اللہ سے پر امید رہے، اور ہر حال میں وہ صابرانہ انتظار کی روش پر قائم رہے۔
اس معاملے کی ایک مثال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ملتی ہے۔ پیغمبر اسلام نے 610 عیسوی میں قدیم مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔ وہاں کچھ لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا، لیکن اکثریت آپ کی مخالف بن گئی۔ آخر کار یہ واضح ہوگیا کہ آپ کو مکہ چھوڑنا پڑےگا۔ اس زمانےمیں آپ اللہ سے بہت زیادہ دعائیں کرتے تھے۔ اس کا ثبوت قرآن کی اس آیت میں ملتا ہے:وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِی مِنْ لَدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیرًا (17:80)۔ یعنی اور کہو کہ اے میرے رب، مجھ کو داخل کر سچا داخل کرنا اور مجھ کو نکال سچا نکالنا۔ اور مجھ کو اپنے پاس سے مددگار قوت عطا کر۔یہ دعا قبول ہوئی ، لیکن الفاظ کی صورت میں نہیں، بلکہ واقعات کی صورت میں۔
اس زمانے میں ہجرت سے تقریباً دو مہینہ پہلے وہ واقعہ ہوا، جو بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے۔ بیعت عقبہ ثانیہ کا واقعہ بظاہر دعا کے جواب کے طور پر پیش نہیں آیا۔ مگر یہ وہی چیز تھی جس کو قرآن میں ریح (یوسف،12:94) کہا گیا ہے۔ یعنی اس موقع پر آپ کو یہ انسپریشن ملا کہ تمھاری دعا نہایت اعلی صورت میں قبول ہونے والی ہے۔ پیغمبر اسلام نے مدخل و مخرج کی دعائیں کی، لیکن اسی کے ساتھ آپ خصوصی طور پر تقویٰ اور صابرانہ روش کے ساتھ درجۂ احسان پر قائم رہے۔آپ نے اس معاملے میں خدائی ریح پر بھروسہ کیا۔ یہاں تک کہ نبوت کے تیرھویں سال ہجرت مدینہ کا واقعہ پیش آیا۔ جو اسلام کی تاریخ کے لیے ایک بڑا انقلابی مرحلہ (breakthrough)ثابت ہوا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے کچھ پہلے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا :أُمِرْتُ بِقَرْیَةٍ تَأْکُلُ القُرَى، یَقُولُونَ یَثْرِبُ، وَہِیَ المَدِینَةُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1871) ۔ یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے، جو بستیوں کوکھا جائے گی۔ لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، وہ مدینہ ہے۔
دعا کے بارے میں حدیث میں آیا ہے :الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَة (سنن الترمذی، حدیث نمبر3371) ۔یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ دعا حکمت (wisdom) کا خزانہ ہے۔ دعا کا خزانہ خدا کی دوسری رحمتوں کی طرح عام ہے۔ لیکن اس خزانۂ دعایا اس خزانۂ رحمت سے صرف اس شخص کو حصہ ملتا ہے، جو محسن ہو۔ یعنی تقویٰ اور صبر کے مطلوب معیار پر قائم رہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ایمان باللہ وہ ہے جو کسی کو معرفت کی سطح پر ملے، نہ کہ محض تقلید کی سطح پر۔
واپس اوپر جائیں

تکریمِ بنی آدم

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خالق نے جب آدم (انسانِ اول) کو پیدا کیا تو اس کو تمام اسماء کا علم دے دیا (البقر،ۃ2:32)۔ پھر اسی سلسلۂ کلام میں آگے آتا ہے:ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَى الْمَلَائِکَةِ (2:32)۔ پہلے جزء میں ضمیر ھاء واحد مونث استعمال کی گئی ہے۔ اس کے بعد ضمیر ھم جمع مذکر استعمال ہوئی ہے۔ یہ فرق کیوں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّہَامیں ضمیر ہاء سے مراد علم اسماء ہے۔ اس کے برعکس، عرضہم میں ضمیر ھم سے مراد حاملین علم اسماء ہیں۔
تخلیق کے حوالے سے قرآن میں تین الفاظ استعمال کے گیے ہیں۔ پہلا لفظ آلاء (الرحمن،55:13) ہے ، دوسرالفظ آیات (یوسف، 12:105) ہے، اورتیسرا لفظ جو استعمال ہوا ہے، وہ کلمات (لقمان،31:27) ہے ۔ آلاء سے مراد تخلیقی کرشمہ (marvels of nature) ہے۔ آیات سے مراد تخلیق میں موجود حکمتیں (wisdom content) ہیں۔ کلمات سے مراد معلوماتِ تخلیق (knowledge of creation) ہے۔
خالق نے انسان کے اندر بالقوۃ (potential) اعتبار سے ساری تخلیقی معلومات رکھ دی ہے، جس کو علم آدم الاسماء کلہا میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ معلومات گویا کلمات اللہ ہیں۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ تخلیق کی حکمتوں (آلاء ) کو دریافت کرے، اور اس طرح اپنی معرفت کو بڑھائے۔ انسان اگر اس فکری عمل (intellectual process) کو اپنے اندر جاری کرے گا ، تو وہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) کے مقام تک پہنچ جائے گا۔ اس طرح وہ اس قابل ہوجائے گا کہ اپنے اندر اعلیٰ ربانی شخصیت کی تعمیر کرے۔ وہ لوگ جو اپنے اندر اعلیٰ ربانی شخصیت کی تشکیل کریں، وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے باغوں میں داخل کرنے کے لیے منتخب کیے جائیں گے، اور پھر وہ ابدی طور پر وہاں رہیں گے۔یہ سارا عمل تدبر کا طالب ہے۔ تدبر اعلیٰ معرفت تک پہنچنے کا زینہ ہے، اور اعلیٰ معرفت جنت میں داخلے کا استحقاق پیدا کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

رحمت خداوندی

قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
قرآن کا ایک اصول یہ ہے کہ قرآن میں بڑی بڑی باتیں بالواسطہ انداز میں بیان کی جاتی ہیں۔ تاکہ انسان ان باتوں کو غور و فکر کے ذریعہ دریافت کرے، وہ ان باتوں کو خود دریافت کردہ معرفت کے طور پر جانے۔یہ انسان کی نفسیات ہے کہ جس بات کو وہ خود دریافت کردہ معرفت کے طور پر جانے ، وہ ایسی باتوںکو نہایت گہرائی کے ساتھ اخذ کرتا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں انسانی سوچ کو ڈائریکشن (way of thinking) دیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے ہمیشہ غلطیاں کرتا ہے(to err is human)۔ ایسے موقع پر انسان کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کو قنوطیت (ناامیدی)سے بچنا چاہیے ، اور مبنی بر رحمت سوچ کو اپنانا چاہیے۔ انسان جب اس طرز فکر کو اختیار کرے گا، تو وہ تخلیق کے بارے میں ایک عظیم حقیقت کو دریافت کرے گا۔ وہ یہ کہ انسان کے اندر فطری طور پر یہ صلاحیت رکھ دی گئی ہے کہ اس کے اندر ہر غلطی یا ذنب کے بعد احساس ندامت (repentance) جاگتا ہے۔
اس احساس کے تحت اس کے اندر شدید طور پر ری تھنکنگ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ری تھنکنگ اس کے ذہن کو جگاتی ہے۔ اس کا احساس ندامت اس کی شخصیت کے ارتقا (personality development) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس طرح اس کے اندر ایک ایسا پراسس (process) جاری ہوجاتا ہے، جو اس کی روحانی ترقی کو نئی اونچائیوں تک پہنچا دیتا ہے، وہ اعلیٰ درجہ میں ایک مزکیّٰ انسان بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی روحانیت

اسلامی روحانیت اپنی حقیقت کے اعتبار سے تخلیقی روحانیت (creative spirituality) کا نام ہے۔ اسلامی روحانیت در اصل ایسے مومن کی ذہنی پیداوار ہے، جو مسلسل تدبر کے ذریعہ اس قابل ہوگیا ہو، جو روحانی آئٹم (content of spirituality) کو چیزوں سے دریافت کرسکے، اور اس طرح اپنی روحانیت کو ترقی یافتہ رروحانیت بنائے۔
قرآن میں اس عمل کو شہد کی مکھی کے عمل کی مثال سے واضح کیا گیا ہے (النحل، 16:68)۔ شہد کی مکھی پھولوں کے اندر موجود نکٹر (nectar) کو نکالتی ہے، اور اس کے مجموعے سے وہ انوکھی چیز بناتی ہے، جس کو شہد کہا جاتا ہے۔ یہی معاملہ ترقی یافتہ انسانی ذہن کا ہے۔ اس معاملے کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ (12:105)۔ یعنی اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان پر دھیان نہیں کرتے۔
یہاں قرآن میں آیت سے مراد روحانی نکٹر (nectar of spirituality) ہے۔ مومن کا تیار ذہن جب زمین و آسمان کو دیکھتا ہے۔ تو وہ بار بار چیزوں میں چھپے ہوئے روحانی نکٹر کو دریافت کرتا ہے، اور پھر اس کو اخذ کرکے اپنی فکری ارتقا کا ذریعہ بناتا ہے۔ اس طرح اس کے اندر ایک روحانی شخصیت جاگتی ہے۔ اس طرح اس کی سوچ ترقی کرتے کرتے اس کو ایک ترقی یافتہ شخصیت (developed personality) بنادیتی ہے۔
زمین و آسمان کے اندر یہ روحانی نکٹر مادی صورت میں نہیں ہے، جیسا کہ شہد کی مثال میں ہوتا ہے۔ بلکہ وہ امکان (potential)کے روپ میں ہے، جو دریافت کے ذریعہ انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ شہد کی حیثیت مادی نکٹر کی ہے، اور روحانی آئٹم کی حیثیت توسم کے ذریعہ اخذ کردہ اسپریچول وزڈم (spiritual wisdom) کی۔
واپس اوپر جائیں

الرسالہ مشن

الرسالہ مشن کے تعلق سےمیں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں الرسالہ مشن کی سب سے بڑی ڈسکوری کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ مائنڈ بیسڈ معرفت، اور پیس بیسڈ ایکٹوزم۔ لیکن میرا خیال ہے کہ الرسالہ مشن کی سب سے بڑی ڈسکوری ہے: منصوبہ تخلیق کے مطابق دین کی صحیح تعبیر پیش کرنا۔ پہلی دو نوں باتیں اس کی عملی شکلیں ہیں، اقدام کی دنیا میں عملی طور پر یہ دونوںبڑی ڈسکوری ہیں۔مولانا اس پر کچھ تبصرہ فرمائیں۔ (مولانا سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
میں کہوں گا کہ میری سب سے بڑی ڈسکوری اللہ کی دریافت ہے۔ اللہ کی دریافت سے مراد اللہ کو حی و قیوم کی حیثیت سے شعوری طور پر جان لینا۔ میرے علم کے مطابق اس ڈسکوری میں شاید مَیں اکیلا ہوں۔ اگر آپ کو اس کا تجربہ کرنا ہے تو آپ دنیا کے کسی بڑےعالم کی مجلس میں ایک گھنٹہ بیٹھیے اور دیکھیے کیا آپ کو اس مجلس میں خدا کا زندہ تذکرہ ملتا ہے،یا پھر کسی کتب خانہ میں جاکر تلاش کیجیے کہ کیا کسی شخص نے اللہ رب العالمین کے وجود پر کوئی قابل ذکر کتاب لکھی ہے۔ کیا آپ کسی ایسی تحریک کو جانتے ہیں ، جس کا مرکز و محور صرف اللہ ہو۔ میرے علم کے مطابق لوگ اللہ پر رسمی عقیدہ تو رکھتے ہیں ، لیکن انھوں نے شعوری طور پر اللہ رب العالمین کو ایک زندہ حقیقت کی حیثیت سے دریافت نہیں کیا۔
اللہ کی دریافت ایک چیز کی دریافت نہیں ہے، بلکہ اللہ کی دریافت تمام چیزوں کی دریافت ہے۔ جس آدمی کو اللہ کی دریافت ہوجائے، اس کو زندگی کا سرا مل جائے گا۔ وہ زندگی کی حقیقت کو گہرائی کے ساتھ جان لے گا۔ اس کو زندگی کے آغاز اور زندگی کے انجام کی معرفت ہوجائے گی۔ وہ ہر چیز کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ اس کو معرفت کا وہ سرا مل جائے گا، جس کی روشنی میں وہ تمام چیزوں کو ایز اٹ از (as it is) دیکھنے کے قابل ہوجائے گا۔ اللہ کی دریافت سے پہلے انسان نہ اپنے آپ کو حقیقی طور پر جانتا ہے ، اور نہ بقیہ کائنات کو۔وہ نہ تاریخ کو جانتا ہے، اور نہ تعبیر تاریخ کو۔
میری ڈسکوری کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے میں ایک مثال دیتا ہوں۔ ساری دنیا کے مسلمان یہ جانتے ہیںکہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو رحمۃ للعالمین (الانبیاء، 21:107)بنا کر بھیجا۔ اس عقیدہ کو لے کر ساری دنیا کے مسلمان رسول اللہ کی نعت خوانی کررہے ہیں، نثر میں بھی اور نظم میں بھی۔ قرآن میں جس چیز کو رحمۃ للعالمین کہا گیا ہے، اس کو تمام دنیا کے مسلمان شخصی منقبت کے معنی میں لیے ہوئے ہیں۔ لیکن قرآن کی اس آیت میں ایک بہت بڑی حقیقت کا اعلان ہے۔
وہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعے تاریخ میں ایک انقلاب برپا کیا۔ جس کا حوالہ قرآن میں اتمام نور (التوبۃ ، 9:32۔الصف، 61:8) کے الفاظ میں ملتا ہے۔ یہ اتمام نور کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ پیغمبر اسلام کے ذریعے تاریخ میں ایک عالمی انقلاب برپا کیا جائے گا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں ایک بہت بڑا واقعہ پیش آئے گا۔ وہ ہے آفاق و انفس کی آیات (فصلت، 41:53) کا منکشف کیا جانا۔ اس عمل (process) کے نقطۂ انتہا (culmination)پر وہ عظیم حقائق ظاہر ہوئے جن کو اللہ رب العالمین کی معرفت کا کائناتی خزانہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ انقلاب وہی تھا جس کو جدید سائنسی انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب کے ذریعے تاریخ میں پہلی بار وہ سائنٹفک فریم ورک انسان کے علم میںآیا، جو اللہ رب العالمین کی اعلیٰ معرفت کا دفتر ہے۔
میں نے اپنے مطالعے کے ذریعے اس حقیقت کو دریافت کیا، اور سائنسی فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے، اللہ رب العالمین کی اعلیٰ معرفت تک پہنچا۔ یہ ربانی معرفت بلاشبہ میرا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اگر میں اس فریم ورک سے بے خبر ہوتا تو شاید میں ایک اندھے بہرے انسان کی حیثیت سے جیتا اور اندھے بہرے انسان کی حیثیت سے مرتا۔ رسول اللہ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا ایک ناقابل بیان پہلو یہ ہے کہ آپ کے ذریعے وہ انقلاب آیا، جس نے اللہ کی اعلیٰ معرفت تک رسائی کو ہر انسان کے لیے ممکن بنادیا، اور بلاشبہ اللہ کی اعلیٰ معرفت سے زیادہ بڑی کوئی چیز اس دنیا میں نہیں۔معرفت صرف ایک چیز نہیں ، وہ تمام مطلوب چیزوں کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

دین کے دو درجے

یہود کی تاریخ کے بارے میں ایک آیت قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے: مَثَلُ الَّذِینَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اللَّہِ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ (62:5)۔ یعنی جن لوگوں کو تو رات دی گئی، پھر انھوں نے اس کو نہ اٹھایا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو۔ کیا ہی بری مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
قرآن کی اس آیت میںکسی امت کے لیے حمل کتاب کے دو درجے معلوم ہوتےہیں۔ ایک ہے انسانی درجے کا حمل (bearing)، اور دوسرا ہے حیوانی درجہ کا حمل۔ انسانی درجے کا حمل وہ ہے، جب کہ امت اسپرٹ کے اعتبار سےخدا کی کتاب کی حامل ہو۔ یہ اس وقت ہوتا ہے، جب کہ امت ایک زندہ امت کی حیثیت سے باقی ہو۔ اس کے بعد جب امت کی بعد کی نسلوں میں زوال آجائے تو اس وقت امت حمل حیوانی کے درجے میں آجاتی ہے۔ یعنی فارم تو باقی رہتا ہے، لیکن اس کی اسپرٹ غائب ہوجاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ظاہر میں لوگ سمجھتے ہیں کہ امت دین پر قائم ہے۔ حالاں کہ یہ قائم ہونا ویسا ہی ہے جیسے حیوان کی پیٹھ پر کتاب لاد دی جائے۔
جب کسی امت کا یہ حال ہوجائے تو اس وقت کرنے کا کام یہ نہیں ہوتا کہ فارم کی دھوم مچائی جائے۔ بلکہ ا س وقت کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ امت کے اندر دوبارہ اسپرٹ کو زندہ کیا جائے۔ اس کو دوبارہ دین کے معنوی پہلو پر کھڑا کیا جائے۔ کسی امت میں دین کبھی کلی معنوں میں ختم نہیں ہوتا۔ ختم ہونے کا مطلب عملاً یہی ہے کہ امت کے افراد میں دین کا فارم تو بظاہر موجود ہو، مگر دین کی اسپرٹ ان کے اندر سے نکل گئی ہو۔ مثلاً نفرت والا دین تو موجود ہو، لیکن محبت والا دین موجود نہ ہو۔ مبنی بر تشدد دین تو موجود ہو، لیکن مبنی بر امن والا دین غائب ہوگیا ہو۔ مبنی بر قومیت والا دین تو موجود ہو، لیکن مبنی بر دعوت والا دین ان کے اندر پایا نہ جائے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

موت کا واقعہ

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:أَکْثِرُوا ذِکْرَ ہَادِمِ اللَّذَّاتِ، یَعْنِی الْمَوْتَ۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4258)۔یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھادینے والی ہے۔اس کی شرح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ موت دنیا کی لذتوں سے آدمی کوپوری طرح منقطع کردیتی ہے ( فإنہ یقطع لذات الدنیا قطعا)۔
اس حدیث میں لذات سے مراد دنیوی تمنائیں (worldly aspirations)ہیں۔یہاں جس چیز کو ھادم اللذات کہا گیا ہے، اس کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ آدمی کے اندر اگر موت کا زندہ شعور ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کی دنیوی وابستگی (worldly attachment)باقی نہ رہے گی۔ وہ موت سے پہلے کی زندگی کے مقابلے میں موت کے بعد کی زندگی کو زیادہ اہم سمجھے گا۔ اس کے بعد اس کی سوچ مکمل طور پر آخرت رخی سوچ (akhirat-oriented thinking) بن جائے گی۔
اس سوچ کا اثر یہ ہوگا کہ آدمی کی امنگیں، آدمی کی دوڑ بھاگ، آدمی کی منصوبہ بندی، سب آخرت رخی ہوجائے گی۔ جو آدمی موت سے غافل ہو ، وہ موجودہ دنیا کو سب کچھ سمجھنے لگتا ہے، اس کے ذہن پر موجودہ دنیا کا نقصان اور فائدہ چھایا رہتا ہے۔ وہ ایک دنیا پرست انسان بن جاتا ہے۔لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا زندہ شعور آدمی کو حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اس کی زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ اب وہ سب سے زیادہ اس دن کے بارے میں سوچے گا، جب کہ لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے(المطففین،83:6)۔ اب اس کو سب سے زیادہ اس بات کی فکر ہوجائے گی کہ وہ آخرت میں اللہ کی پکڑ سے کس طرح بچ جائے۔وہ سب سے زیادہ جہنم سے ڈرےگا، اور سب سے زیادہ جنت کا مشتاق بن جائے گا۔ اس کے لذت اور غم کے تصورات بدل جائیں گے۔ اس کے سوچنے کا طریقہ اور اس کا عملی سلوک ،ہر چیز میں آخرت کا اثر دکھائی دینے لگے گا۔
واپس اوپر جائیں

امن ایک اقدام

اسلام میں جنگ، دفاع کا معاملہ (issue of defence) ہے۔ اور امن، اقدام کا اشو (issue of advancement) ہے۔ اسلام میں اہل ایمان کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی طرف سے جنگ چھیڑیں ۔ البتہ جہاں تک امن کا تعلق ہے ، اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لیے پرامن اقدام کا منصوبہ بنائیں۔ اسلام کا یہ اصول فطرت کے قانون پر مبنی ہے۔
فطرت کے قانون کے مطابق، جنگ کے ذریعہ کسی مثبت نتیجہ کا حصول ممکن نہیں۔ کیوں کہ جنگ سے کسی بات کا فیصلہ نہیں ہوتا، نہ ہارنے کی صورت میںاور نہ جیتنے کی صورت میں۔ جنگ میں اگر فتح حاصل ہو، تب بھی ہارنے والے فریق کے دل میں انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ اس لیے جنگ میں فتح بھی ایک نئی جنگ کا آغاز بن جاتا ہے۔
پر امن منصوبہ بندی ہمیشہ اپنا کام کرتی ہے، پرامن منصوبہ بندی کوئی نیا مسئلہ پیدا نہیں کرتی۔ وہ صرف مسئلہ کے حل کی طرف لے جاتی ہے۔ پر امن منصوبہ بندی کے تحت اقدام کرنا، ایک ایسے انجام کی طرف لے جاتا ہے جہاں جنگ کا خاتمہ ہوجائے اور لوگوں کو پر امن سرگرمیوں کے لیے مواقع (opportunities) حاصل ہوجائیں۔ اسلام کے دورِ اول کی تاریخ اس اصول کی تصدیق کرتی ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہل ایمان اور ان کے مخالفین کے درمیان کچھ لڑائیاں ہوئیں۔ مثلاً غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ حنین، وغیرہ۔ مگر ان لڑائیوں سےٹکراؤ ختم نہیں ہوا۔
ٹکراؤ کا خاتمہ اس وقت ہوا، جب آپ نے یک طرفہ طور پر صلح کی۔ قرآن میں فتح کی آیت صرف صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔ اس آیت میں فتح کا مطلب ہے ٹکراؤ کا خاتمہ اور پرامن سرگرمیوںکے لیے موافق ماحول پیدا ہوجانا۔کسی اور غزوہ کے بعد فتح کی آیت نہیں اتری۔حدیبیہ کا واقعہ 6 ہجری میں پیش آیا۔ اس موقع پر فریق ثانی کی کوشش صرف یہ تھی کہ رسول اور اصحابِ رسول مکہ میں داخل نہ ہوں، اور عمرہ کیے بغیر واپس مدینہ چلے جائیں۔ مگر پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی طرف سے امن کی بات چیت (peace negotiation) شروع کی۔ اس معاملہ میں آپ اس آخری حد تک گیے کہ فریق ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طور پر منظور کر لیا۔ صرف اس مقصد کے لیے کہ دونوں فریقوں کے درمیان صلح ہوجائے اور معتدل حالات قائم ہوجائیں۔ تاکہ کھلے طور پر اسلام کے دعوتی مشن کو جاری کیا جاسکے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس طرح فریقِ ثانی سے یک طرفہ شرطوں پر صلح کرلی تو اس کے بعد قرآن کی سورہ نمبر 48 نازل ہوئی۔ اس میں پیشگی طور پر یہ اعلان کردیا گیا کہ یہ پرامن مصالحت باعتبارِ نتیجہ ایک فتح مبین (clear victory) ہے۔ قرآن کی یہ پیشگی خبر صرف چند سالوں میں واقعہ بن گئی، پر امن اقدام باعتبارِ نتیجہ فتح ثابت ہوا۔
اسلام میں جنگ مجبوری کے تحت وقتی دفاع کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، پر امن منصوبہ اس لیے ہوتا ہے کہ سماج کے اندر مستقل طور پر اعتدال کی حالت قائم ہوجائے۔ ہر فرد کے لیے تعمیری سرگرمیوں کے مواقع حاصل ہوجائیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
بعد کے دور کے مسلم علماء نے جو باتیں کہی ہیں، ان کی ایک قسم وہ ہے جو نص قطعی پر مبنی ہو۔ کوئی عالم جب ایک ایسی بات کہے جو قرآن وحدیث کے ثابت شدہ حوالوں پر مبنی ہو تو ایسی رائے پر کسی کو تنقید کا حق نہیں۔ مثلاً ایک عالم اگر یہ کہتا ہے کہ نماز اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رُکن ہے تو اس پر کوئی شخص تنقید کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ کیوں کہ یہ رائے ایک معلوم نص پر مبنی ہے۔رائے کی دوسری قسم وہ ہے جو قرآن و حدیث پر اضافہ کے ہم معنٰی ہو۔ مثلاً دار الکفر، دار الحرب اور دار الاسلام کی اصطلاحیں مقرر کرنا۔ ایسی رائے شرعی اصطلاح کے مطابق ایک اجتہاد ہے۔ اجتہاد کے بارے میں شریعت کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ مجتہد کا اجتہاد صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔
واپس اوپر جائیں

محبت انسانی

محبت انسانی کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّى یُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہِ(مسند احمد، حدیث نمبر 13875) ۔ یعنی تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ وہ دوسروں کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ اس بات کو فارسی شاعر شیخ سعدی (585-691ـھ) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:ہر چہ بر خود مہ پسندی، بر دیگراں مہ پسند (جو چیز تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے، اس کو تم دوسروں کے لیے بھی پسند نہ کرو)۔
ہر انسان سے محبت کرنا، محض ایک سماجی یا اخلاقی تقاضہ نہیں ہے، بلکہ وہ خود اپنی شخصیت کے ارتقا کی بات ہے۔ یہ انسان کا خود اپنا انٹرسٹ ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ بہتر سلوک کرے۔ جو آدمی ایسا نہ کرے، وہ اپنے آپ کو جنت میں داخلے کے لیے غیر مستحق ثابت کررہا ہے۔ قرآن میں جنت کے بارے میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: لَا یَسْمَعُونَ فِیہَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِیمًا إِلَّا قِیلًا سَلَامًا سَلَامًا (56:25-26)۔یعنی اس میں وہ کوئی لغو اور گناہ کی بات نہیں سنیں گے۔ مگر صرف سلام سلام کا بول۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت کی سوسائٹی ایک ایسی سوسائٹی ہوگی، جہاں ہر آدمی کے دل میں دوسرے کے لیے سلامتی ہوگی، جہاں ہر آدمی اعلیٰ اخلاق کی پابندی کرنے والا ہوگا، جہاں کوئی شخص ایسا کام نہیں کرے گا جس سے اس کے پڑوسی کو ذرا بھی کوئی تکلیف پہنچے۔ جنت ایسے انسانوں کا معاشرہ ہوگا، جہاں ہر شخص دوسرے انسان کا کامل معنوں میں دوست اور خیرخواہ ہوگا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جنت کا عقیدہ ہر انسان کے لیے حسن اخلاق کو اس کے ذاتی انٹرسٹ کا معاملہ بنادیتا ہے۔ ہر آدمی اخلاق کے معاملے میں حد درجہ حساس ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ اگر وہ اخلاق کے معاملے میں اعلیٰ معیار پر قائم نہ ہو تو وہ قانون قدرت کے مطابق، جنت میں داخلے کے لیے نااہل ہوجائے گا۔ جنت کو ماننے والا کوئی شخص اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر پورا نہ اترے۔
واپس اوپر جائیں

عذاب سے نجات

قرآن میں بنی اسرائیل (یہود) کے حوالے سے ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَإِذْ نَجَّیْنَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ (2:49)۔ یعنی اور جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی۔ وہ تم کو بڑی تکلیف دیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے۔ اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بھاری آزمائش تھی۔
یہ اس واقعہ کا ذکر ہے، جب کہ قدیم مصر میںیہود کو فرعون جیسے ظالم بادشاہ کے ظلم کا سامنا تھا، اور پھر اللہ نے اس سے نجات دی۔ موجودہ زمانے میں نجات کا یہی واقعہ امت مسلمہ کے ساتھ پیش آیا ۔ یہود کے ساتھ قدیم عذاب در اصل مذہبی تعذیب (religious persecution) کا واقعہ تھا۔ موجودہ زمانے میںامت مسلمہ کے ساتھ بھی زمانی فرق کے ساتھ اسی قسم کا تجربہ پیش آیا۔ یہ تجربہ زیادہ تر سیاسی جبر (political persecution) کی بنا پر تھا۔ اللہ تعالی نے ایسے حالات پیدا کیے کہ دنیا سے سیاسی جبر کا نظام ختم ہوگیا، اور آزادانہ جمہوریت کا نظام ساری دنیا میں قائم ہوگیا۔ 1945 میں اقوام متحدہ (UNO) قائم ہوئی، اور دنیا کی تمام قوموں کے اتفاق سے یہ طے ہوا کہ اب کسی بھی شخص یا گروہ پر مذہب کی بنیاد پر کسی بھی قسم کا جبر یا تشدد نہیں کیا جائے گا۔
اب دنیا کامل مذہبی آزادی کے دور میں ہے۔ اب اگر کسی گروہ کو جبر یا تشدد کا سامنا پیش آئے تو وہ خود اس کی اپنی ناعاقبت اندیشانہ پالیسی کی بنا پر ہوگا۔ وہ اس لیے ہوگا کہ لوگوں نے’’آبیل مجھے مار‘‘ کی سیاست اختیار کی ۔ موجودہ زمانے میں اگر کوئی شخص یا گروہ حقیقی معنوں میں پر امن طریق کار کو اختیارکرتے ہوئے اپنا کام کرتا ہے تو اس کو ہرگز کسی سے کسی قسم کے جبر یا تشدد کا سامنا پیش نہیں آئے گا۔ قدیم زمانے میں یہود کو ظلم سےجو’’ نجات‘‘ ملی تھی، موجودہ زمانے میں اس سے بہت زیادہ بڑی ’’نجات‘‘ اہل اسلام کو مل چکی ہے۔ اب ان کے لیے شکر کا موقعہ ہے، نہ کہ شکایت کا موقعہ۔
واپس اوپر جائیں

انبیاء کا نمونہ

قرآن میں انبیاء کا ذکر کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: إِنَّا أَخْلَصْنَاہُمْ بِخَالِصَةٍ ذِکْرَى الدَّارِ (38:46)۔ یعنی ہم نے ان پیغمبروں کو ایک خاص مشن، آخرت کی یاد دہانی کے لیے چن لیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کے لیے اللہ کی طرف سے مقرر کردہ مشن کیا ہے۔ پیغمبر کی امت کو بھی ہر زمانے میں اسی مشن کی پیروی کرنا چاہیے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کا مشن آخرت کا مشن تھا۔ مگر یہ مشن اتفاقاً نہیں بنتا ۔ اس کے لیے پیغمبروں کو تیار کیا جاتا ہے۔ وہ اپنا مشن شروع کرنے سے پہلے غور و فکر کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ انسان کے خالق نے ان کو کس منصوبہ کے تحت پیدا کیا ہے۔ غور و فکرکی اس زندگی کے بعد انھیں اللہ کی طرف سے ہدایت ملتی ہے۔ اور پھر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ انسان کی زندگی آخرت رخی (akhirat-oriented life)ہو، انسان کی سوچ کا مرکز و محور آخرت ہو، وہ اپنی زندگی اس سوچ کے تحت گزارے کہ دنیا میں ان کی جو شخصیت بنے ،وہ آخرت کے اعتبار سے ایک کامیاب شخصیت ہو۔
پیغمبر اس لیے نہیں آتا کہ وہ ملی ورک یا سوشل ورک جیسے کام کرےیا کوئی سیاسی پروگرام چلائے۔ پیغمبر کا مشن یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو زندگی کے اصل مقصد سے آگاہ کرے، وہ لوگوں کو بتائے کہ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ، ان کے لیے کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا ۔ وہ دنیا میں کس طرح زندگی گزاریں کہ موت کے بعد جب وہ آخرت کی دنیا میں پہنچیں تو وہ اللہ کے انعام کے مستحق قرار پائیں۔ اللہ کی طرف سے پیغمبروں کو یہ حکم ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کسی جھکاؤ (tilt)کا ثبوت نہ دیں، وہ کسی سمجھوتے کے بغیر خدا کا اصل پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ اس معاملے میں وہ کسی بھی عذر کو استعمال نہ کریں۔
واپس اوپر جائیں

دعوت حق کا استقبال

عام طور پر یہ خیال ہے کہ اسلام کی دعوت کا کام اگر کیا جائے تو اس کی صداقت کا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں کی طرف سے یا مخاطبین کی طرف سے داعی کو پتھر مارا جائے۔ اگر داعی کا استقبال پتھر سے نہ کیا جائے تو یہ سمجھا جائے گا کہ یہ دعوت، انبیاء کے نہج پر نہیں ہے۔ وہ پیغمبرانہ دعوت نہیں ہے، بلکہ کوئی اور دعوت ہے۔ اس سوچ کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ بلکہ جو دلیل موجود ہے، وہ اس کے خلاف شہادت دیتی ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ رسول اور اصحاب رسول نے اپنے زمانے میں اللہ تعالی سے یہ دعا کی: رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا (2:286) ۔ یعنی اے ہمارے رب، ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا بوجھ تو نے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ بعد کے دور میں دعوتِ دین کے کام کے لیے اللہ کی طرف سے تسہیل کا معاملہ کیا جائے گا، جو پچھلے ادوار میں سخت مشکل کام بنا ہوا تھا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3612)۔اسی چیز کو ایک آیت میں ختم فتنہ کا زمانہ بتایا گیا ہے(البقرۃ، 2:193)۔ قرآن و حدیث کے بیانات کی روشنی میں غور کیا جائے تو یہ بات عقیدہ کے درجے میں ثابت شدہ بن جاتی ہے کہ قدیم زمانہ اگر تعسیر دعوت کا دور تھا، تو بعد کا زمانہ تیسیر دعوت کا دور ہوگا۔اس حقیقت کو نہ ماننا قرآن و حدیث کے نصوص کو نہ ماننے کے برابر ہے۔
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تیسیر کا یہ معاملہ مطلق معنی میں پایا جائے گا، یعنی وہ داعیوں کو خود بخود حاصل ہوجائے گا ۔بلکہ یہ ایک موقع (opportunity) کا معاملہ ہوگا۔ یعنی داعی اگر اس کو جانے، اور اس کے مطابق دانش مندانہ انداز میں اپنا دعوتی عمل جاری کرے تو اس کو اس تبدیلی کا فائدہ حاصل ہوگا، ورنہ نہیں۔ اس فائدہ کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ داعی اپنا کام غیر نزاعی انداز میں کرے۔ اگر اس نے اتھاریٹی سے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کیا، تواس کو ٹکراؤ کے جواب میں ٹکراؤ ملے گا۔
واپس اوپر جائیں

عظمت رفتہ کی بازیابی

عظمت رفتہ کی بازیابی موجودہ زمانے کے مسلمانوںکا ایک محبوب موضوع ہے۔ عظمت رفتہ کی بازیابی کا مطلب ہے امت مسلمہ کے سیاسی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنا ، یا اگر سیاسی اصطلاح سے اعراض کیا جائے تو اس کا مطلب ہو گا کہ ملت کی تہذیبی عظمت کی بازیافت۔ سوسال سے بھی زیادہ مدت سے تقریبا تمام مسلم رہنما اس کواپنا محبوب مقصد بنائے ہوئے ہیں، خواہ وہ عرب رہنما ہوں یا غیرعرب رہنما۔ان حضرات کی تحریر و تقریر سے معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ قرآن یا حدیث کے کس حوالے سے انھوں نے یہ نشانہ اخذ کیا ہے تو معلوم ہوگا کہ اس معاملہ میں کوئی بھی حقیقی حوالہ ان کے پاس موجود نہیں۔ یہ مسلمانوں کے قومی جذبات کی ترجمانی ہوسکتی ہے، لیکن وہ قرآن و حدیث سے اخذ کردہ کوئی ثابت شدہ مقصد نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق، عظمت رفتہ کی واپسی کوئی مقصد نہیں بن سکتا۔ اس نشانے کو اگر مادی معنی میں لیا جائے تو وہ ایک بے معنی اصطلاح ہوگی۔ کیوں کہ مادی ترقی کے اعتبار سے زندگی ہمیشہ آگے بڑھتی ہے، وہ کبھی پیچھے کی طرف سفر نہیں کرتی۔ اس لیے مادی اعتبار سے اگر ملت کی منزل متعین کی جائے تو وہ یہ ہونا چاہیے کہ جدید تہذیب میں مسلمانوں کے پچھڑے پن کو دور کیا جائے، اور مسلمانوں کو جدید معنی میں تعلیم و ترقی کے درجے تک پہنچایا جائے۔
اور اگر واپسی کے اس نشانے کو قرآن و حدیث کے معنی میں لیا جائے تو اس کو امام مالک کے استاذ، صالح بن کیسان کے الفاظ کے مطابق ہونا چاہیے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں: لا یُصْلِحُ آخِرَ ہَذِہِ الأُمَّةِ إِلا مَا أَصْلَحَ أَوَّلَہَا ( مسند الموطا للجوہری، اثر نمبر 783)۔ یعنی اس امت کے آخر کی اصلاح اسی طرح ہوسکتی ہے، جس طرح اس کے پہلے کی ہوئی ۔اس اعتبار سے موجودہ زمانے کےمسلمانوں کے درمیان کرنے کا کام یہ ہےکہ ان کے اندر دعوت کا شعور پیدا کیا جائے، ان کو دور اول کے اہل ایمان کی طرح دعوت الی اللہ کے نشانے پر کھڑا کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

فضیلتِ رسول

قرآن کے ایک مقام پر اٹھارہ نبیوں کا ذکر ہے۔ اس کے بعد ہر ایک کے لیے یہ آیت آئی ہے:وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِینَ (6:86)۔ اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے دنیا والوں پر فضیلت عطا کی۔ فضیلت کا لفظ ایک ترجیحی لفظ (preferential term) ہے۔ یعنی دوسرے تمام لوگوں پر کسی ایک کو افضلیت کا درجہ دینا۔اٹھارہ لوگوں کو بیک وقت افضل بنانا، افضلیت کے معروف مفہوم کے مطابق نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ معروف مفہوم کے مطابق افضل کوئی ایک شخص ہوتا ہے، نہ کہ بہت سے لوگ۔
یہاں فضیلت کا مطلب کیا ہے۔ یہ قرآن کی ایک اور آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں ایک مقام پرمختلف پھلوں کے بارے میں یہ آیت آئی ہے:وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلَى بَعْضٍ فِی الْأُکُلِ (13:4)۔یعنی اور ہم بعض کو بعض پر مزے میں فضیلت دیتے ہیں۔
پھلوں میں فضیلت کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی ایک پھل دوسرے پھلوں سے علی الاطلاق طور پر افضل ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پھل میں دوسرے پھل کے مقابلے میں ایک اضافی خصوصیت (additional quality) ہوتی ہے۔ کسی میں ایک مزہ ہے، او رکسی میں دوسرا مزہ۔ کوئی خالص میٹھا ہے، اور کوئی ترشی آمیز میٹھا۔ کوئی کم میٹھا ہے اور کوئی زیادہ میٹھا، کسی میں ایک غذائی فائدہ ہے ، اور کسی میں دوسراغذائی فائدہ، وغیرہ۔
یہی معاملہ مختلف نبیوں کے ساتھ تھا۔ ہر نبی مختلف قوموں میں اور مختلف حالات میں آئے۔ ہر نبی کو ان کے مقامی حالات کے اعتبار سے کوئی اضافی خصوصیت دی گئی۔ مثلاً حضرت موسیٰ کو عصا کا معجزہ، اور حضرت مسیح کو شفائے امراض کا معجزہ، وغیرہ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لیے نبی بنا کر بھیجے گیے۔ اس لیے آپ کو کوئی وقتی معجزہ نہیں دیا گیا، بلکہ ایسا معجزہ دیا گیا جو قیامت تک باقی رہے، اور وہ قرآن تھا۔ قرآن کا معجِز کلام ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ایک حجت ہے۔
واپس اوپر جائیں

دین اکابر

دور زوال میں کسی امت کا حال کیا ہوتا ہے، اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّہِ (9:31)۔ یعنی انھوں نے اللہ کے سوا اپنے علماء اور مشائخ کو رب بنا لیا ۔احبار و رہبان کو رب بنانے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے اکابر کو اتنا بڑا درجہ دیا کہ عملاً وہی لوگ ان کے لیے دین کا ماخذ بن گئے۔ یہاں تک کہ لوگ عملاًدین خداوندی کے بجائے دین اکابر پر قائم ہوگئے۔
کسی امت کی یہ حالت اس وقت ہوتی ہے جب کہ اللہ رب العالمین کے بارے میں ان کا عقیدہ محض رسمی عقیدہ بن جائے، وہ زندہ عقیدہ کی حیثیت سے ان کے درمیان باقی نہ رہے۔ اس وقت ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مفروضہ اکابر کو بڑے بڑے القاب دینے لگتے ہیں۔ مثلا امام، شیخ الاسلام، مجدد کامل، فقیہ الامت، حکیم الامت، حکیم الاسلام،امام اعظم،وغیرہ۔ اس طرح کے بڑے بڑے القاب دینے کی بنا پر ان کا ذہن یہ بن جاتاہے کہ علم کے بارے میں یہ لوگ آخری شخص بن گئے۔ تجدید اور اجتہاد کا عمل ان کے اوپر ختم ہوگیا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو وہ اپنے بڑوں کو پیغمبر تو نہیں کہتے، لیکن عملا ًوہ ان کو دین میں پیغمبر جیسا درجہ دے دیتے ہیں۔
یہ تنزل کا آخری درجہ ہے۔ جب امت میں یہ درجہ آتا ہے تو امت کے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) ختم ہوجاتی ہے۔ وہ اجتہادی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ وہ تقلید کو دین سمجھ لیتے ہیں، اور اجتہاد کو بے دینی۔ ان کی سوچ کی آخری حدیہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے مفروضہ اکابر کے ملفوظات کو دہراتے رہیں۔ وہ اپنے بڑوں کی رایوں کو تفقہ کا اعلیٰ درجہ سمجھ لیتے ہیں۔ زوال کے اس حد پرپہنچنے کے بعد ان کا وہی درجہ ہوجاتا ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:لَہُمْ قُلُوبٌ لَا یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لَا یَسْمَعُونَ بِہَا أُولَئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُولَئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ (7:179)۔
واپس اوپر جائیں

جذباتی اشو

سرحد پار سے آنے والی خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں جو انتہا پسند گروپ ہیں، وہ اب وہاں کی حکومت کے لیے غیر مطلوب (unwanted) بن چکے ہیں ۔ حکومت کے ذمہ دار اس کا اعتراف یہ کہہ کر کررہے ہیں کہ وہ ہمارےلیے مسئلہ (problem) بن گیے ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ وہ یہ بھی اعتراف کرتے ہیںکہ حکومت ان کے خلاف فوری طور پر کوئی سخت اقدام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ کیوں ہوگیا ہے کہ حکومتی ذمہ دار وہاں کی انتہا پسند تنظیموں سے اختلاف کرتے ہوئے بھی ان کے خلاف کوئی ایکشن لینے میں اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں۔ اس معاملے میں غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اس کا سبب یہ ہے کہ جن مسائل (issues) کو لے کر پڑوسی ملک میں انتہاپسند تحریکیں اٹھیں، ان کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ پاکستان کے لوگوں کے لیے جذباتی اشو بن گیا۔ یہی اس معاملے میں اصل غلطی تھی۔ اجتماعی مسائل میں بے حد ضروری ہے کہ ان کو سنسٹائز (sensitize) نہ کیا جائے، یعنی ان کو جذباتی اشو نہ بنایا جائے۔
کسی اجتماعی مسئلے کو ہمیشہ معتدل حد میں باقی رکھنا چاہیے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قوموں کےاجتماعی مسائل مقدس عقیدے کی مانند نہیں ہوتے۔ اس طرح کے مسائل میں ہمیشہ ری تھنکنگ ، ری پلاننگ، یو ٹرن پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب کسی مسئلے کو سنسٹائز کرکے اس کو ایک جذباتی اشو بنا دیا جائے تو اس معاملے میں کوئی نیا موقف (stand) لینا ناممکن ہوجاتا ہے۔ کوئی جذباتی مسئلہ جب تک اعتدال کے دائرے میں ہو، وہ رہنماؤں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ بڑھ کر ایک جذباتی اشو بن جائے تو رہنما پیچھے ہوجاتے ہیں، اور عوام آگے ہوجاتے ہے۔ اب رہنماؤں کےلیے کوئی نیا موقف اختیارکرنا عملاً ناممکن ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عہد شباب

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری میں اس کا ابتدائی جزء یہ ہے:یَأْتِی فِی آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ، حُدَثَاءُ الأَسْنَانِ، سُفَہَاءُ الأَحْلاَمِ، یَقُولُونَ مِنْ خَیْرِ قَوْلِ البَرِیَّةِ، یَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّة(صحیح البخاری، حدیث نمبر3611)۔
اس حدیث میں ایک ظاہرے کی طرف اشارہ ہے، جس کی ایک انتہائی صورت کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ مگراس سے قطع نظر اس حدیث سے فطرت کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔وہ یہ کہ کوئی آدمی جب اپنے عہد شباب (youth age) میں ہوتا ہے تو اس وقت وہ اپنی عقل و فہم کے اعتبار سے غیر پختہ (immature) ہوتا ہے۔ اس لیے کسی آدمی کی اس رائے کو زیادہ قابلِ اعتبار سمجھنا چاہیے جس کو اس نے پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد ظاہر کی ہو۔
قرآن سے بھی فطرت کا یہ اصول معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسی جب جوانی کی عمر میں تھے۔ اس وقت انھوں نے مصر کے ایک قبطی کو گھونسا ماردیا، جس سے وہ مرگیا (القصص،28:15)۔ لیکن حضرت موسی کو عہد شباب میں نبوت نہیں دی گئی۔ بلکہ اس وقت دی گئی جب کہ وہ پختگی کی عمر (age of maturity) تک پہنچ چکے تھے۔ کیوں کہ بحیثیت پیغمبر ان کو قول لیِّن (طہ، 20:44) کی زبان میں کلام کرنا تھا ۔
مذکورہ حدیث میں مسلم تاریخ کے ایک اہم پہلو کی توجیہہ ملتی ہے۔ مسلم تاریخ اپنے بعد کے زمانے میں نظریاتی انتہاپسندی (ideological extremism) کی طرف چلنے لگی۔ اس کو حدیث میں انتباہ کی زبان میں غلو (ابن ماجہ، حدیث نمبر3029)کہا گیا ہے۔ حدیث کے مطالعے سے مذکورہ تاریخی ظاہرہ کی نفسیاتی توجیہہ معلوم ہوتی ہے۔وہ یہ کہ بعد کے زمانے میں جن افراد کو مسلمانوں کے اندر مفکر (thinker)کا درجہ ملا، ان کی فکر ان کے عہدِ شباب میں تشکیل پائی تھی، جب کہ وہ پختگی کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ مثلاً ابن تیمیہ، عبدالوہاب نجدی، ابولاعلی مودودی، وغیرہ۔
عہد شباب میں انسان کے اندر جوش کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر اس کے افکار میں اکثر انتہاپسندی کا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اعتدال کی زبان بولنے کے بجائے، انتہاپسندی کی زبان بولنے لگتا ہے۔ بعد کو اس کی یہ فکر مقدس بن کر لوگوں میں اتنی پھیل جاتی ہے کہ لوگ اس کو نظرثانی کے بغیردرست فکر سمجھ لیتے ہیں۔ یہی واقعہ بعد کے زمانے کے مسلم مفکرین کے ساتھ پیش آیا۔
مثلاً ابن تیمیہ کے زمانے میں یہ خبر پھیلی کہ ایک عیسائی نے پیغمبر اسلام کے بارے میں کوئی بات کہی ہے، جس کو اس وقت کے مسلمانوں نے شتم رسول کا کیس قرار دیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کہ ابن تیمیہ اپنی جوانی کی عمر میں تھے۔اس وقت انھوں نے عربی میںایک ضخیم کتاب لکھی: الصارم المسلول علی شاتم الرسول ۔ اس کتاب میں انھوں نے یہ مسئلہ بیان کیا کہ جو آدمی شتم رسول کا مرتکب ہو، اس کی سزا قتل ہے۔ ابن تیمیہ اس وقت اگر پختگی کی عمر میں ہوتے تو یقیناً ان کا ردعمل مختلف ہوتا۔ وہ مذکورہ عیسائی سے مل کر اس کو ہمدردانہ انداز میں سمجھاتے۔ وہ ایک ایسی کتاب لکھتے جس میں وہ بتاتے کہ شتم رسول جیسا غیر فطری معاملہ ہمیشہ غلط فہمی کی بنا پر ہوتا ہے ۔ اس لیے ایسے آدمی کے اوپر تبلیغ کرنا چاہیے، اور پر امن دعوتی عمل کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوشش کرنا چاہیے۔
سید ابوالاعلی مودودی کے زمانے میں ایک واقعہ پیش آیا، اس کے بعد انھوں نے اپنی اردو کتاب الجہاد فی الاسلام لکھی۔ اس وقت وہ اپنی جوانی کی عمر میں تھے۔ چناں چہ انھوں نے جوش و خروش کے انداز میں ایک ایسی کتاب لکھی جس میں جہاد بمعنی قتال کی زبردست وکالت کی گئی تھی۔ حالاں کہ اگر وہ اس وقت پختگی کی عمر میں ہوتے تو شاید وہ ایک اور کتاب لکھتے جس کا عنوان یہ ہوتا، الدعوۃ الی اللہ۔ اس کتاب میں وہ پر امن دعوت کی اہمیت بتاتے اور مسلمانوں کو راغب کرتے کہ وہ پرامن دعوت کے اصول پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔ یہی معاملہ دوسرے مسلم مفکرین کے ساتھ پیش آیا۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے براہ راست طور پر قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے ،نہ کہ بعد کے زمانے میں لکھی ہوئی کتابوں کا۔
واپس اوپر جائیں

طالب علمی کا دور

طالب علمی کا دور نوجوانی کا دور ہوتا ہے۔ نوجوانی کے دور میں آدمی ایک غیر پختہ انسان ہوتا ہے۔ وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ ایک چیز اور دوسری چیز میں فرق کرے۔ وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ جذباتی بات اور دانش مندانہ بات کے درمیان تجزیہ کرسکے۔ وہ لفظی نعرہ اور دانشمندانہ قول کو الگ الگ کرکے دیکھے۔ وہ نتیجہ خیز اقدام اور غیر نتیجہ خیز اقدام کے درمیان فرق کو سمجھے۔ یہ فرق خود فطرت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ پختگی (maturity) کا تعلق عمر سے ہے۔ جب تک آدمی ایک خاص عمر تک نہ پہنچے ، اس کا شعور ایک پختہ شعور نہیں ہوسکتا۔ اس لیے طالب علموں کی تنظیم بنا کر ان کو مظاہراتی سرگرمیوں میں لگانا کوئی کام نہیں۔ اس قسم کی سرگرمی طالب علموں کےڈی ریلمنٹ (derailment) کے ہم معنی ہے۔ اپنے نتیجے کے اعتبا ر سے وہ طالب علموں کے ساتھ دشمنی ہے، نہ کہ دوستی۔
طالب علموں کے لیے صحیح ترین مشغلہ یہ ہے کہ وہ پڑھیں، اور پڑھیں، اور پڑھیں۔ وہ تعلیم کے ختم تک اپنی ذہنی ارتقا (intellectual development) کے سوا کسی اور چیز کو اپنا فوکس نہ بنائیں۔ مثلاً طالب علمی کے دوران وہ کالج اور یونیورسٹی کے بعد سب سے زیادہ اہمیت لائبریری کو دیں۔ وہ کلاس کے بعد کا وقت کتابوں کے مطالعے میں لگائیں۔ بلکہ میں یہ کہوں گا کہ طالب علمی کے زمانے میں وہ صرف اپنے تعلیمی مستقبل کو فوکس کریں۔ کسی اور چیز پر صرف اس وقت فوکس کریں، جب کہ تعلیم کا زمانہ ختم ہوچکا ہو۔
موجودہ زمانے میں اقتصادیات تعلیم کا ایک جزء بن گیا ہے۔ مگر طالب علم کو چاہیے کہ اس کو وہ صرف ضرورت کے خانے میں رکھے۔ تعلیم کی تکمیل سے پہلے تعلیم برائے تعلیم (education for the sake of education) کا فارمولہ اختیار کرے۔ یاد رکھیے موجودہ زمانہ اختصاص کا زمانہ ہے۔ اگر آپ کسی فن میں مہارت رکھتے ہوں تو آپ کی قیمت ہے، اور اگر آپ مہارت نہ رکھتے ہوں تو آپ کی قیمت عملی زندگی میں بہت زیادہ گھٹ جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

مشتبہ اظہار رائے

کچھ لوگوں کا طریقہ ہے کہ وہ کسی کےبارے میں کھل کر رائےنہیں دیتے، البتہ وہ اس کے بارے میں مشتبہ اظہار رائے (doubtful comment) دیتے ہیں۔ اس معاملے کی ایک مثال وہ ہے جو 6 ھ کے آخرمیں پیش آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومن ایمپائر کے بادشاہ ہرقل کو دعوتی مکتوب بھیجا۔ اس وقت ہرقل (Hercules)فلسطین میں موجودہ تھا۔ اس واقعہ کے بارے میں تفصیلی روایت حدیث کی کتابوںمیں آئی ہے۔ اس مکتوب کے ملتے ہی ہرقل نے ابوسفیان کوبلایاجو کہ تجارتی سفر کے سلسلے میں اس وقت فلسطین میں موجود تھے۔ ان سے ہرقل کے جو سوالات اور جوابات ہوئے ان میں سے ایک یہ تھا:قَالَ:فَہَلْ یَغْدِرُ؟ قُلْتُ:لاَ، وَنَحْنُ مِنْہُ فِی مُدَّةٍ لاَ نَدْرِی مَا ہُوَ فَاعِلٌ فِیہَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر7)۔ ہرقل نے پوچھا، کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے، ابوسفیان نے کہا : نہیں، اور ہم اس سے ابھی ایک معاہدہ کی مدت میں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم وہ اس میں کیا کرے گا۔
اس واقعے میں ابوسفیان ، جو اس وقت اسلام نہیں لائےتھے۔ ان کو صرف یہ کہنا تھا کہ نہیں۔ مگر اس کے بعد انھوں نے اپنے جواب میں جو بات (وَنَحْنُ مِنْہُ فِی مُدَّةٍ لاَ نَدْرِی مَا ہُوَ فَاعِلٌ فِیہَا) کہی ۔ یہ رسول اللہ کے کردار کے بارے میں ایک مشتبہ بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس قسم کا مشتبہ بیان اسلامی تعلیما ت کےمطابق جائز نہیں۔
اعلیٰ انسانی اخلاق یہ ہے کہ آدمی وہ بات کہے جو عملاً واقعہ بن چکا ہو۔ جو بات واقعہ نہیں بنی، اس کو بیان کرنا زیر بحث شخصیت کے کردار کو مشتبہ بنانے کے ہم معنی ہے۔ یہ طریقہ بلاشبہ درست طریقہ نہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ خیر (ثابت شدہ) بات بولے، ورنہ چپ رہے:وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُت(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018)۔ یعنی جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ خیر کی بات کہے، یا چپ رہے۔
واپس اوپر جائیں

حالاتِ حاضرہ

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کوئی شخص اگر حالات حاضرہ کے موضوع پر کلام کرتا ہے تو تقریبا ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ منفی انداز میں کلام کرتا ہے، وہ حالات حاضرہ پر منفی تنقید کرتا ہے، وہ حالات حاضرہ میں ظلم کی نشاندہی کرتا ہے، اور بطور خود کسی کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور پھر اس کے خلاف بولنا اور لکھنا شروع کردیتا ہے ۔ یہی معاملہ تقریر کا بھی ہے اور تحریر کا بھی۔
اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب چیزوں کے بارے میں غلط معیار سے سوچنا ہے۔ مقررین یا محررین کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کے مطابق، چیزوں کو جانچنے کا ایک معیار (yardstick) بنا لیتے ہیں۔یہ معیار ہمیشہ آئڈیل پر مبنی ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے اس آئڈیل معیار پر چیزوں کو جانچتے ہیں تو پاتے ہیں کہ ہر چیز ان کی معیار سے کم ہے۔ اس ذاتی تجربے کی بنا پر وہ منفی بن جاتے ہیں، اور چیزوں کے بارے میں منفی رائے دینا شروع کردیتے ہیں۔ بطور خود وہ اس کو تنقید (criticism) سمجھتے ہیں۔یہ رواج ہمیشہ خود ناقد کی غلط فکری پر مبنی ہوتا ہے۔ اجتماعی حالات کبھی آئڈیل نہیں ہوسکتے۔ چوں کہ ہر آدمی کو آزادی ملی ہوئی ہے، اس لیے ہر آدمی اپنی آزادی کو اپنی سوچ کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ آزادی کا یہ استعمال دوسروں کی سوچ سے ٹکراتا ہے۔ جب ہر آدمی اپنی آزادی پر چلے تو لازماً ایسا ہوگا کہ ایک صورت حال جو ایک شخص کو درست معلوم ہو، وہ دوسرے کو غلط نظر آئے ۔
یہ فطرت کا نظام ہے۔ اس نظام کے سوا کوئی اور نظام اس دنیا میں ممکن نہیں۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ آئڈیلسٹ (idealist) نہ بنیں، بلکہ وہ پریگمیٹک (pragmatic) بنیں۔ وہ یہ نہ دیکھیں کہ کیا ہونا چاہیے، بلکہ وہ یہ دیکھیں کہ عملاً کیا ہوسکتا ہے۔مذکورہ رواج کی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ ہر آدمی منفی سوچ میں مبتلا ہے۔ ہر آدمی دوسروں کے خلاف شکایت لیے ہوئے ہے۔ لیکن اگر لوگ حقیقت پسند بنیں، اور چیزوں کو آئڈیل معیار پر نہ جانچیں، بلکہ پریگمیٹک معیار پر جانچیں تو اس منفی صورتِ حال کا خاتمہ ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

دشمن میں دوست

جس کو آپ دشمن سمجھتے ہیں، وہ آپ کا سب سے بڑا دوست ہے۔ آپ کا مفروضہ دشمن آپ کی فکر کو بیدار کرتا ہے۔ وہ شاک (shock)کے ذریعہ آپ کے ذہن کی بند کھڑکیوں کو کھولتا ہے۔ وہ آپ کو نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ آپ کو نان کریٹیو مائنڈ سے ترقی دے کر کریٹیو مائنڈ بنا تا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا دشمن آپ کا بے رحم ناقد ہے، اور بے رحم ناقد سے زیادہ اچھا مشیر (adviser) اور کوئی نہیں۔
میں ایک مرتبہ ایک شہر میں گیا۔ وہاں مجھےمقامی زو (zoo) دکھایا گیا۔ اس زو میں ایک انکلوزر (enclosure) تھا۔ اس انکلوزر میں بہت سے ہرن بیٹھے ہوئے تھے۔ زو کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ یہ ہرن یہاں کے پرامن ماحول میں رہتے رہتے ڈل (dull) ہوجاتے ہیں، ان کی فرٹیلیٹی (fertility) کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے ہم کبھی کبھی ان کے درمیان بھیڑیا ڈال دیتے ہیں۔ تاکہ ہرن ان کے خوف سے دوڑیں، اور اس طرح ان کی فرٹیلیٹی کی صلاحیت بیدار ہو۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان بھی اگر آسودگی میں رہے تو اس کا ذہن ڈل ہوجائے گا۔ یہ اللہ تعالی کی حکمت کا معاملہ ہے کہ انسان کے معاشرے میں ان کے حریف (rival) موجود ہوں۔ تاکہ انسان کا ذہن برابر بیدار رہے، وہ کبھی ڈل (dull)نہ ہونے پائے۔ انسان کی ترقی کے لیے چیلنج (challenge) بہت ضروری ہے۔ چیلنج کی حیثیت شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) کی ہوتی ہے۔ چیلنج ایک رحمت کا معاملہ ہے۔ چیلنج سے سوئے ہوئے انسان جاگتے ہیں۔ چیلنج آدمی کو مین (man)سے ترقی دے کر سوپر مین (superman)بنا دیتا ہے۔
انسان کے اندر بے شمار صلاحیتیں ہیں۔ لیکن یہ صلاحیتیں خوابیدہ (dormant) حالت میں ہیں۔ ان صلاحیتوں کو جگانے کے لیے’’دشمن‘‘ درکار ہوتے ہیں۔ دشمن آپ کا سب سے بڑا دوست ہے۔دشمن آپ کے لیے زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 259

■ متلاشی حق انسان:اورنگ آباد سی پی ایس ممبر عبد السمیع صدیقی( فون9766663559:) 13 مارچ 2018 کواپنے آفس کے سینئر ساتھی کو ترجمہ قرآن دینے ان کے فلیٹ پر گئے۔ واپسی کے وقت ایک ہندی ترجمہ قرآن ان کے ہاتھ میں تھا۔ راستے میں ایک خاتون، کلپنا چھترے نے ان سے پوچھا: بھیا، یہ قرآن سیل (sale) کرنے کے لیے ہے؟ کیوں کہ میری خواہش ہے کہ اگر میری بھاشا میں قرآن مل جائے تو میں قرآن کو پڑھوں۔ مسٹر عبد السمیع نے جواب دیا کہ یہ سیل (sale)کرنے کے لیےنہیں ہے،لیکن آپ پسند کریں تو یہ آپ کے لیے ہے، یہ کہہ کر ان کو ہندی ترجمہ قرآن دے دیا۔مذکورہ خاتون بہت زیادہ خوش ہوئی اورربہت ہی احترام کے ساتھ قرآن کو اپنے دونوں ہاتھوں سے لیا، اور شکریہ ادا کیا۔
■ اسرائیل میں دعوت:اسرائیل سے ملنے والی خبروں کے مطابق، اسرائیل میں دعوت کے وسیع مواقع موجود ہیں، اور فلسطینی نوجوانوں کا ایک گروپ مسٹر طارق بن شہاب کی سرکردگی میں بیت المقدس اور ناصرہ (Nazareth)، وغیرہ، میں سیاحوں کے درمیان دعوتی کام کرتا ہے۔ ذیل کا پیغام انھوں نے سی پی ایس انٹرنیشنل، دہلی کے ٹرسٹی اور گڈورڈ بکس کے ڈائریکٹر مسٹر ثانی اثنین خان صاحب کو بھیجا ہے:
As Salam alaykom Brother, how are you. Let me tell you that the English Quran copies you had sent are almost finished. So when will the next shipment arrive here? We need many, many copies of all languages you have, brother, we need a big shipment.
■ سی پی ایس علماء ٹیم کا دعوتی دورہ: مولانا سید اقبال احمد عمری (چنئی)، اور حافظ فیاض الدین عمری ( حیدرآباد)نے 23 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2017 پنجاب کا دعوتی دورہ کیا۔ اس سفر کا سب سے پہلا مقام امرتسرتھا۔یہاں قرآن ڈسٹریبیوشن کے سلسلے میں مختلف لوگوں سے ملاقاتیں رہیں۔ ائمہ مساجد نے دعوتی کام سے دلچسپی ظاہر کی ، اور پنجابی ترجمۂ قرآن لیا۔ اس کے بعددمدمہ صاحب ٹمپل کے جتھے داربھائی ہر پریت سنگھ جی سے ملاقات کے لیے دمدمہ صاحب جانا ہوا۔ واضح ہو کہ جتھے داربھائی ہر پریت سنگھ جی نے قرآن کاپنجابی میں ترجمہ کیا ہے، اور خود ہی اس کی ٹائپنگ بھی کی ہے، جس کے لیے انھوں نےبطور خاص کمپیوٹرٹائپنگ سیکھی ۔ جس وقت یہ دونوں حضرات دمدمہ صاحب پہنچے،اُن دِنوںوہاں حیدرآباد کے سکھوں کے ذمہ دار بھی آئے ہوئے تھے ، لہذا ان سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہاں سکھ مت کی تعلیم کے لیےایک ادارہ چلتا ہے،اس ادارہ کے طلبا سے انٹر ایکشن ہوا۔ اس کے بعد پنجابی یونیورسٹی (پٹیالہ)جانا ہوا۔ وہاں ڈاکٹر حبیب محمد صاحب (جوکہ سی پی ایس کی آئڈیالوجی کو بہت پسند کرتے ہیں، اور دعوت کا کام کرتے ہیں) سے ملاقاتیں ہوئیں اور یونیورسٹی کے ریلیجس اسٹڈیز کے طلبہ کو مولانا فیاض الدین عمری صاحب نے خطاب کیا اور انٹریکشن ہوا۔ اس کے علاوہ پٹیالہ میں قائم تُہرا انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیزان سکھ ازم (Tohra Institute of Advanced Studies in Sikhism)میں جانا ہوا۔ وہاںاسلام اورپیس کے بارے میں باتیں ہوئیں۔ اس کے بعد مالیرکوٹلہ کا سفر ہوا۔ وہاں جن لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں، ان میں ڈاکٹر یوسف اور ڈاکٹر اشرف صاحبان بھی ہیں۔ ان دونوں نے پنچابی ترجمۂ قرآن کی پروف ریڈنگ کی ہے۔ مقامی لوگوں سے انٹریکشن رہا ،جس میں دعوتی ذمہ داری کی باتیں ہوئیں۔
■ 25نومبر2017کو رائچور ، کرناٹک کے مسٹر ظفر علی ، پروفیسرخواجہ ظہیر الدین (9886399147) اور امجد احمد، وغیرہ نے اپنے یہاں مشن کو چلانے کے لیےسینٹر فار پیس اینڈ کمیونل ہارمنی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ اس کےافتتاحی پروگرام میں ممبئی ٹیم شریک ہوئی۔
ث 26نومبر 2017کو سی پی ایس انٹرنیشنل دہلی کے مسٹر فراز خان، مسٹروکرانت ڈاگر، مسٹر اجئے دیویدی، مسٹر صہیب خان، وغیرہ نے انڈیا ہیبیٹاٹ سینٹر،دہلی میں منعقدہ ٹائم لٹریچر فیسٹیول میں آنے والے لوگوں کو انگریزی ترجمۂ قرآن دیا۔ تمام لوگوں نے اسے شکریہ اور خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
■ امریکا کے سابق صدر باراک اوباما یکم دسمبر 2017 کو نئی دہلی میں تھے۔ اس وقت انھوں نے ٹاؤن ہال کے نام سے 300 نوجوانوں کی منتخب ٹیم کو خطاب کیا تھا۔ یہ تمام لوگ اوباما فاؤنڈیشن کی جانب سے منتخب کیے گئے تھے۔ ان منتخب شدہ افراد میں دہلی سی پی ایس کے ممبر مسٹر اسد پرویز بھی تھے۔ مسٹر اسد پرویز نے اس موقع پر اداکارہ زائرہ وسیم کو ترجمہ قرآن بطور ہدیہ دیا۔اس پروگرام میں شریک معروف ٹی وی اینکر مز ندھی رازدان نے بتایا کہ انھوں نے صدراسلامی مرکز کا نام سنا ہے،اور وہ ان کی کتابیں پڑھنا پسند کریں گی ۔ لہذا انھیں کتابوں کا ایک سیٹ کوریرکر دیا گیا ہے۔
■ 5دسمبر 2017 کو ایک انڈونیشین وفد نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ یہ وفد عیسائی اور مسلمان ریسرچ اسکالروںکا تھا۔ ان لوگوں نے صدر اسلامی مرکز سے اس بات پر انٹرایکشن کیا کہ کس طرح انڈیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں لوکل سطح پر مذہبی وزڈم کو بڑھاوا ملے (Religious Local wisdom for strengthening social harmony in Indonesia, India and Thailand.)۔ پروگرام کے بعد تمام لوگوں کو انگلش ترجمہ قرآن اور صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔
ث 16دسمبر 2017  کو آسٹریلیا سے مسٹر ڈیو (Dave)صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ مسٹر ڈیو مذہبی رواداری کو بڑھاوا دینے کا کام کرتے ہیں۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز کو اپنی کچھ کتابیں دیں۔ ان کو انگریزی ترجمہ قرآن اور امن پر مبنی کچھ کتابیں دی گئیں، جسے انھوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
■ 11جنوری 2018 کوفادر فرانسس (انڈیا)کی رہنمائی میں جرمن عیسائیوں کے ایک گروپ نے سی پی ایس انٹرنیشنل ، دہلی کے ساتھ آئی آئی سی دہلی میں انٹرایکٹیو سیشن کیا۔پروگرام کے بعد مہمانوں کو قرآن کا جرمن ترجمہ اور جرمن واٹ از اسلام و دیگر انگریزی کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کے ٹرسٹی ڈاکٹر ثانی اثنین نے بھی فادر فرانسس کو اپنی جرمن کتابوں کا ایک سٹ دیا۔
■ 13جنوری 2018 کو امریکا کے 10 طالب علم پروفیسر عرفان عمر صاحب کی رہنمائی میں صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آئے۔ صدر اسلامی مرکز نے ان کو خطاب کیا، اس کے بعد سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔ آخر میں تمام اسٹوڈنٹ کو انگلش ترجمہ قرآن اور صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔
■ کیرالا سی پی ایس کے مسٹر شبیر علی (K) نے کیرتی انٹر نیشنل فیسٹیول آف بک اینڈ آتھرس میں شرکت کی۔ اس میلہ میں انھوں نے جن لوگوں کو ترجمہ قرآن دیا، ان میں منورما کی چیف نیوز پروڈیوسر مز شنیمول (Shanimol) بھی شامل ہیں۔ یہ میلہ 6-8مارچ 2018 کو کوچی، کیرالا میں لگا تھا۔
■ نوجوان داعی: مسٹر اظہر مبارک (بھاگلپور) سی پی ایس کا لٹریچر خود بھی پڑھتے ہیں، اور مختلف مواقع پر لوگوں کے درمیان سی پی ایس کا لٹریچر تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے نیو ہورائزن کالج (بھاگلپور) کی لائبریری کو سی پی ایس کا لٹریچر ہدیةً پیش کیا اور دو سال کے لئے صدر اسلامی مرکز کی انگلش میگزین ’اسپرٹ آف اسلام‘ کو کالج کی لائبریری کے لئے جاری کرایا ہے۔
■ مز شبینہ علی اور مز شبانہ خاتون کولکاتا ٹیم کی بہت متحرک ممبر ہیں۔ وہ کولکاتا میں سیکولر سطح پر ہونے والے مختلف پروگراموں کو بطور مواقع استعمال کرتی ہیں۔ وہ ان پروگراموں میں جاکر ان لوگوں کو ترجمۂ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر دیتی ہیں، جہاں تک عام لوگوں کی پہنچ نہیں ہوتی ۔ دوسرے الفاظ میں وہ ملأ قوم میں دعوت کا کام کرتی ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آج کے دور میں خواتین بھی اسی طرح دعوت کا کام کرسکتی ہیں، جس طرح مرد کرتے ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ دونوں خواتین نے جن پروگراموں میں حصہ لیا، اور قرآن کو دیکھ کر مدعو حضرات نے جو تاثر پیش کیا ،وہ ذیل میں در ج کیا جاتا ہے:
٭ 30 November 2017: Century Celebration of Bose Institute Foundation, Bose Institute, Kolkata.
٭ 8 December 2017: Women’s Writer Fest, Saturday Club, Kolkata. Award winning Artist Ramanjit Kaur exclaimed excitedly on seeing the Quran that she also would like to have her copy of the Quran. And she believes in the Quran being a divine book since there is a mention of the Prophet in Guru Granth Sahib.
٭ 12 December 2017: Victoria Memorial Hall and The Polish Institute New Delhi presenting ‘The Good Samaritans from Markowa’, Poland, at Victoria Memorial Hall, Kolkata. Dr. Mateusz Szpytma was so happy to receive the English Quran that he gifted a book authored by him.
٭ 23 December 2017: Stress Management and the Performance Management, Hotel Hindustan International (HHI), Kolkata. Dr. P. Sanjeev Sahni was very excited to see the Quran. On seeing the book ‘Leading A Spiritual Life’, he invited me to speak on spirituality in a seminar in the O P Jindal Global University, Sonepat.
٭ 29 December 2017: Ecocriticism and Environment Rethinking Literature and Culture, American Center, Kolkata.
٭ 2- 4 January 2018: International Seminar to commerate 150th Birth Anniversary of Sister Nivedita. Ramkrishna Mission Institute Of Culture, Golpark, Kolkata. One scholar remarked after reading ‘The Age of Peace’ that he loved reading the book as it has given insight to great peace ideas and he desired that the ideas be propagated to every individual in the world. Another lady scholar from a renowned university said she loved the Quran translation as it was simple and easy.
٭ 11- 15 January 2018: 9th Edition of International Apeejay Kolkata Literary Festival (AKLF), St. Paul Cathedral, Kolkata. One famous author, Nabaneeta Dev Sen, on seeing the Quran was overjoyed and excitedly said ‘Oh, Quran!’ Renowed director Vishal Bhradwaj said happily after he was given the Quran ‘Oh! I was looking for the Quran for a long time.’.
٭ 23-25 January 2018: 15th International Conference on Alternative Perspective and Global Concerns, O P Jindal Global University Sonipat Delhi NCR Haryana. One of the delegates expressed that he read the book ‘The Age of Peace’ with tears in his eyes.
٭ 7 February 2018: Presentation on ‘Our Journey into Deep Space’, Birla Industrial and Technological Museum, Kolkata. NASA Scientist Dr. Sharmila Bhattacharya said she was honoured to have received a copy of the Quran.
٭ 8- 10 February 18: 5th Kolkata Litreture Festival (KLF), Central Park, Kolkata. Professor of English Chinmoy Guha , University of Kolkata, was so delighted to find the little pocket-size Quran in English that he raised it to shoulder level and showed it to his students happily and said ‘See, I have a copy of the Quran.’
■ شیخ عبد الحق الترکمانی عرب عالم ہیں، اور لیسٹر برطانیہ میں رہتے ہیں۔ وہ صدر اسلامی مرکزسے تین سال قبل ملاقات کرچکے ہیں۔ اُس وقت انھوں نےتین دنوں تک مختلف موضوعات پر صدر اسلامی مرکز سے انٹرویو لیا تھا، اور کافی خوش ہوئے تھے۔ ذیل کا ای میل انھوں نے لکھ کریہ اجازت طلب کی ہے کہ وہ صدر اسلامی مرکز کی کتاب الاسلام یتحدی (عربی ترجمہ: مذہب اور جدید چیلنج)کا اختصار کرنا چاہتے ہیں:
حضرة العلامة وحید الدین خان سدد اللہ قولہ وعملہ، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ: أسأل اللہ تعالى أن تکونوا بخیر وعافیة فی الدین والدنیا وأن یدیم علیکم نعمة التوحید والسنة وخدمة الدین بفضلہ وإحسانہ۔ أعرض على حضرتکم حفظکم اللہ رغبتی فی اختصار کتابکم العظیم *الإسلام یتحدى* ذلک لأننی سعیت فی طبعہ لدى عدة جہات فی البلاد العربیة فقالوا لی: الکتاب کبیر، وقد صار أکثر الناس الیوم لا یقرؤون ولیس عندہم صبر على الکتب الکبیرة فلو أمکن اختصار الکتاب إلى مقدار النصف بالترکیز على المسائل والأفکار الأساسیة وحذف التفاصیل۔ فأحببت أن أستأذنکم فی ہذا العمل خاصة مع انتشار الإلحاد فی ہذہ الأیام۔ وتقبلوا بقبول وافر الإحترام والتقدیر واللہ یحفظکم ویرعاکم والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ أخوکم: عبد الحق الترکمانی (فی ١١/١/٢٠١٨)
■ ایک عرب نے صدر اسلامی مرکز کی مشہور کتاب الاسلام یتحدی کے تعلق سے فتوی اسلام ویب ڈاٹ نیٹ (www.fatwa.islamweb.net) پر یہ سوال پوچھا تھا کہ اس کو پڑھنا چاہیے یا نہیں ۔ اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہےکہ دور جدید میں لکھی گئی کتابوں میں وہ ایک افضل کتاب ہے،اس کا پڑھنا فائدہ مند ہے، اس سے ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ یہ کتاب خاص طور پر ان لوگوں کے لیے مفید ہےجو دعوت کا کام کرتے ہیں:
السؤال: ما ہو رأیکم فى کتاب الإسلام یتحدى للکاتب الہندى وحید الدین خان؟ وہل یجوز قراءة ہذا الکتاب؟۔ الإجابــة :فکتاب: الإسلام یتحدى. للکاتب الہندی وحید الدین خان، من أفضل الکتب التی ألفت فی العصر الحدیث، والتی تتناول الدعوة إلى الإسلام وبیان أنہ الدین الحق، بأسلوب یناسب ثقافة العصر، ویواجہ أمواج الإلحاد والعلمانیة، یتمیز بعمق الفکرة وقوة الحجة، ویدل على رسوخ الکاتب فی العلم، وسلامة منہجہ وصحة معتقدہ وقوة إیمانہ، وقراءة ہذا الکتاب أمر نافع بإذن اللہ، لا سیما لمن یتصدى للدعوة إلى اللہ، ویجابہ أصحاب العقائد الباطلة والأفکار المنحرفة. واللہ أعلم. (رقم الفتوى 117706:)
■ My husband and I have read almost all books by Maulana Wahiduddin Khan. We are Pakistanis, living in Germany, and we want to make short educational videos in Urdu based on selected ideas and concepts from Maulana's books, mainly for Pakistani audience, as Ambassadors of Peace. We will be posting these videos on our YouTube channel specially made for this purpose, and Facebook as well, and you can then upload these videos on cpsglobal website for a global audience. This is purely for educational purposes and we do not intend to earn money from these videos in any way. Credit to Maulana will be given in every video and viewers will be expressly informed in every video that the videos are based on Maulana’s ideas and books. Reference to respective books will also be given in all the videos to bring viewers’ attention to the books. The idea is to propagate Maulana’s ideas from his books to everyone, including people who do not or cannot read books. Videos will be short (4-5 mins long), in simple Urdu and will include English on-screen text + visuals + Urdu narration in our voice. In the videos, Maulana’s ideas and his explanations of Islamic concepts will be connected to real-world issues and lives of people and Muslims living in Pakistan. We will also propagate his ideas to be applicable to everyone regardless of his religion, nationality, language, etc. With that said, we are seeking Maulana’s express written permission for this endeavour and hoping to get a positive response. (Regards, Rida Tahir)
واپس اوپر جائیں