Pages

Sunday, 10 June 2018

Al Risala | July 2018 (الرسالہ،جولائی)

4

- اسلام کا رول

5

- اخوانِ ابرہیم ، اخوانِ محمد

6

- ایک عمل جو انسان کو رب العالمین کا محبوب بنادیتا ہے

8

- عالمی تائید اسلام

11

- ایج آف ریزن

12

- دورِ شخصیت، دورِ استدلال

14

- پیغمبروں والا کام

15

- دینِ خداوندی کے دو دور

19

- دین، تائیدِ دین

20

- سبق کا پہلو

21

- فقہ الاقلّیات

23

- حکومت کا معاملہ

24

- جمہوریت کیا ہے

25

- منصوبۂ تخلیق

36

- معیار کی تبدیلی

37

- پرامن طریق کار

42

- آفاقی طرزِ فکر

44

- نتیجہ خیز آغاز

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


اسلام کا رول

قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ شرک کیا ہے۔ شرک دراصل فطرت کی پرستش (nature worship) کا دوسرا نام ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے: لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذِی خَلَقَہُنَّ (41:37) ۔ خالق نے فطرت (nature) کے اندر عظیم ٹکنالوجی رکھی تھی۔ یہ ٹکنالوجی گویا سویلائزیشن کا انفراسٹرکچر تھا۔ مگر انسان لمبی مدت تک اس نعمت سے بے خبر رہا۔
اسلام کے ذریعے جو مبنی بر توحید انقلاب آیا۔ اس نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ نیچر اور ورشب دونوںکو ایک دوسرے سے الگ (delink) کردیا۔ اس کے بعد تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری ہوا۔ اب نیچر تحقیق کا موضوع (object of investigation) بن گئی، جو کہ اسلام سے پہلے پرستش کا موضوع (object of worship) بنی ہوئی تھی۔ اسی پراسس کے آخری مرحلے میں وہ چیز ظہور میں آئی جس کوماڈرن تہذیب کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب سے پہلے اقتصادیات کا بنیادی ذریعہ زراعتی زمین (agricultural land) تھا۔ اسی زرعی زمین سے انسان کو سب کچھ ملتا تھا۔ قدیم زمانے میں جو لڑائیاں ہوتی رہیں، وہ اسی زرعی زمین پر قبضے کے لیے ہوا کرتی تھیں۔
جدید تہذیب کے نتیجے میں ایک نیا دور آیا۔ جس کو صنعتی دور (industrial age)کہا جاتا ہے۔ اب اقتصادیات کا سب سے بڑا ذریعہ صنعت (industry) بن گئی، اور صنعت کے لیے زمین پر سیاسی قبضے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس طرح جدید صنعتی دور نے عملی طور پر جنگ کو بے فائدہ بنا دیا، اور دنیا میں ایک نیا دور آیا، جس کو دورِ امن (age of peace) کہا جاتا ہے۔اس دورِ امن کو پیدا کرنے کا ذریعہ بظاہر صنعتی انقلاب تھا۔ مگر صنعتی انقلاب کو جس چیز نے پیدا کیا، وہ اسلام تھا۔ اسلام اس دورِ امن کا نظریاتی بانی ہے، اور جدید سویلائزیشن اس دور کو عملی طور پر وجود میں لانے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اخوانِ ابرہیم ، اخوانِ محمد

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم 570 عیسوی میں مکے میں پیدا ہوئے، اور 632 عیسوی میں مدینے میں آپ کی وفات ہوئی۔آپ کا زمانہ پیغمبر ابراہیم علیہ السلام سے تقریباً ڈھائی ہزار سال بعد کا زمانہ ہے۔ آپ پیغمبر ابراہیم کی دعا (سورۃ البقرۃ،2:129)کے نتیجہ میں پیدا ہوئے۔ قرآن میں آپ کے بارے میں ایک آیت آئی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: پھر ہم نے تمہاری طرف وحی کی کہ ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو جو یکسو تھا اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا(16:123)۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں، یہ در اصل ایک تاریخی حقیقت کا اعلان ہے۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب وہ لوگ تھے، جن پر ایک تاریخ منتہی (culminate) ہوئی تھی۔ پیغمبر ابراہیم نے اپنی غیر معمولی قربانی کے ذریعے مکے میں ایک تاریخی عمل (historical process) کا آغاز کیا تھا۔ یہ تاریخی عمل اپنے فطری مراحل سے گزرتے ہوئےچھٹی صدی عیسوی میں اپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچا تھا۔ اس وقت عرب میں وہ مخصوص افراد پیدا ہوئے، جو اپنے رول کی بنا پر رسول اور اصحابِ رسول کہے جاتے ہیں۔
رسول اور اصحابِ رسول کی قربانیوں کے ذریعے ساتویں صدی عیسوی میں ایک اور تاریخی عمل (historical process) شروع ہوا۔ اس تاریخی عمل کی تکمیل پر دوبارہ تقریباً ہزار سال کا زمانہ گزرا۔ بیسویں صدی عیسوی میں یہ عمل اپنی تکمیل کو پہنچ گیا۔ اب دوبارہ ایک ایسے گروہ کی ضرورت ہے، جو اس بات کا مصداق ہو کہ بعد کو بننے والا تاریخی عمل اس پر منتہی ہوا ہو۔ اصحابِ رسول کے بعد یہ دوسرا گروہ ہوگا، جس کو حدیثِ رسول میں پیشگی طور پر اخوانِ رسول (صحیح مسلم، حدیث نمبر 249) کا نام دیا گیا ہے۔ گویا کہ پیغمبرِ اسلام اور آپ کے اصحاب اخوانِ ابراہیم تھے، اور بعد کو بننے والا گروہ اخوانِ محمد ہوگا۔ اخوانِ ابراہیم نے دعوتی مشن کو آگے بڑھایا تھا، اب اخوانِ محمد اسی دعوتی مشن کو اگلے مرحلے تک پہنچائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

ایک عمل جوانسان کو رب العالمین کا محبوب بنا دیتا ہے


اختلاف کے باوجود متحد ہو کر اللہ کے مشن کے لیے کام کرنا ایک ایسا عمل ہے، جو انسان کو معمولی انسان سے بڑھا کر غیر معمولی انسان بنا دیتا ہے۔ ایسا انسان رب العالمین کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ یہ حقیقت قرآن کی ایک آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کی وہ آیت یہ ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح مل کر قتال کرتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
قرآن کی اس آیت میں یقاتلون سے مراد یجاھدون ہے۔ یعنی اللہ کے مشن میں بھر پور طاقت کے ساتھ اپنی کوشش جاری رکھنا۔ اللہ کا مشن کیا ہے، اللہ کی مرضی کو اللہ کے بندوں تک پرامن طریقے سے پہنچانا۔ ایسا انسان اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ ایسے انسان کو اللہ خصوصی نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے۔ ایسے انسان کے لیے فرشتے بہترین دعائیں کرتے ہیں، ایسے انسان کو آخرت میں وہ درجہ ملتا ہے، جو دوسرے انسانوں کو نہیں ملتا۔
دنیا کی زندگی میں جب بھی مل جل کر کوئی کام کیا جائے تو ضرور ایسا ہوتا ہے کہ آپس میں اختلافات (differences)پیدا ہوں ۔ایک کو دوسرے سے شکایت کا تجربہ پیش آئے۔ اجتماعی جدو جہد میں اس قسم کا تجربہ پیش آنا بالکل فطری ہے، جو انسان ایسا تجربہ پیش آنے کے بعد اس کو عذر (excuse)بنا لے، اور شکایت کو عذر بنا کر اجتماعیت سے الگ ہوجائے، وہ اللہ کا غیر محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، جو انسان شکایت کو نظر انداز کرے، اوراختلاف کے باوجود متحد ہوکر اپنا کام جاری رکھے، وہ اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔
اجتماعی جدو جہد میں اختلاف کا پیش آنا، کوئی برائی نہیں، بلکہ وہ ایک موقع (chance) ہے ۔ جب کوئی انسان اختلاف کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرے، اور بڑھے ہوئےجذبے کے ساتھ خدا کے مشن کو بدستور جاری رکھے۔ ایسا انسان اپنے آپ کو اس بات کا مستحق بنادیتا ہے کہ اللہ کے یہاں اس کا درجہ بہت بڑھ جائے۔
اس دنیا میں کوئی بڑا کام اجتماعی جدو جہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اور اجتماعی جدو جہد میں اختلافات کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ ایسی حالت میں کوئی بڑا کام کس طرح کیا جائے۔ اس کی صورت صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ اختلاف کو انا (ego) کا مسئلہ نہ بنا یا جائے، بلکہ ا س کو اللہ رب العالمین کے خانے میں ڈال دیا جائے۔
حدیث کی کتابوں میں عبادہ بن الصامت سے ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: بَایَعْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ، وَعَلَى أَثَرَةٍ عَلَیْنَا، وَعَلَى أَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَہْلَہُ، وَعَلَى أَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ أَیْنَمَا کُنَّا، لَا نَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَةَ لَائِم(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1709)۔یعنی ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی، مشکل اور آسانی ، خوشی اور ناخوشی ہر حالتوں میں، اور یہ کہ ہمارے اوپر ترجیح دی جائے، اور یہ کہ ہم اولو الامر کے ساتھ اختلاف نہیں کریں گے، اور ہم جہاں بھی ہوں حق بات کہیں گے، اللہ کے بارے میں ملامت کرنے والے سے خوف نہیں کریں گے۔
یہ اجتماعی جدو جہد کا کلچر ہے۔ اس کلچر کا تعلق جنگ سے نہیںہے، بلکہ پر امن جدو جہد سے ہے۔ کسی مشن کے لیے پر امن جدو جہد کرنے میں یہ تمام امتحانات لازماً پیش آتے ہیں۔ ان امتحانات میں پورا اترنا ، وہ عمل ہے، جو انسان کو اللہ کا محبوب بندہ بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عالمی تائید اسلام

اللہ رب العالمین کا ایک منصوبہ قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:یُرِیدُونَ أَنْ یُطْفِئُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَى اللَّہُ إِلَّا أَنْ یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ (9:32)۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ اپنی روشنی کو پورا کیے بغیر ماننے والا نہیں، خواہ منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اس آیت میں نور (روشنی)سے مراد دینِ توحید ہے۔ قدیم تاریخ بتاتی ہے کہ اہل شرک نے ہرممکن کوشش کی کہ دینِ توحید کو لوگوں کا دین نہ بننے دے۔ اہل شرک اپنے وقت کے اہل اقتدار سے مل کر تشدد کی حد تک دینِ توحید کے مخالف بن گئے۔ اللہ نے چوں کہ اس دنیا کو آزادی کے اصول پر بنایا ہے، اس لیے اللہ خود اپنے منصوبے کے مطابق، ایسا نہیں کرسکتا تھا کہ وہ لوگوں کا ہاتھ پکڑ لے۔
اللہ نے اس معاملے میں مینجمنٹ کا طریقہ اختیار کیا۔ اللہ نے تاریخ کو اس طرح مینج کیا کہ وہ تدریج کے ساتھ معاونِ توحید تاریخ بن گئی۔ جب کہ اس سے پہلے وہ مخالفِ توحید تاریخ بنی ہوئی تھی۔ اس مقصد کے لیے اللہ رب العالمین نے انسان کی آزادی کو برقرار (maintain) رکھتے ہوئے تاریخ میں ایک عمل (process) جاری کیا ۔یہ پراسس اپنے آخری نتیجے کے طور پر یہ تھا کہ انسان کی آزادی مکمل طور پر باقی رہے، اسی کے ساتھ ایسے امکانات پیدا ہوجائیں، جن کو اویل (avail) کرکے اہلِ توحید آزادانہ طور پر دینِ توحید کو سارے عالم میں پھیلادیں۔اس آیت میں اتمامِ نور کا مطلب ہے— دنیا میں دورِ شرک کے بجائے، توحید کا دور لانا۔
یہ ایک عظیم خدائی منصوبہ تھا۔ اس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ہُمْ مِنْ أَہْلِہِ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔یعنی اللہ اسلام کی تائید ایسے لوگوں سے کرے گا، جو اہل اسلام میں سے نہ ہوں گے۔یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ میں دورِ توحید کا پراسس اتنے ہمہ گیر انداز میں چلے گا کہ نہ صرف اہلِ ایمان ، بلکہ غیر اہلِ ایمان بھی اس تاریخی عمل (historical process) کا حصہ بن جائیں گے۔ مگر خدائی منصوبے کے مطابق، اس تاریخی انقلاب کو اس طرح نہیں لانا تھا کہ انسانی آزادی کو موقوف کردیا جائے۔ بلکہ یہ کام منصوبہ ٔالٰہی کے مطابق، اس طرح ہونا تھا کہ انسانی آزادی بدستور برقرار رہے، اور اسی کے ساتھ تاریخ میں ایک ایسا طاقتور پراسس جاری ہو، جو اس طرح منتہی(culminate) ہو کہ اس کی تکمیل پر دنیا میں وہ دور آئے جو اپنے ساتھ مذہبی آزادی، عالمی ذرائع ابلاغ وغیرہ لائے، جس کے نتیجے میں کسی بھی انسان کے لیے رائے کا اظہار، اور مذہب کی تبلیغ وغیرہ آسان ہوجائے۔ مگر تاریخ میں یہ انقلاب باعتبار مواقع (opportunities) آیا۔ یعنی اہلِ توحید کے لیے یہ موقع کھل گیا کہ اگر وہ چاہیں تو حکیمانہ منصوبے کے ذریعہ اس امکان کو پہچانیں، اور اویل (avail)کریں۔
غالباً یہی وہ حقیقت ہے، جس کی طرف ایک حدیث میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے: کَانَ الرَّجُلُ فِیمَنْ قَبْلَکُمْ یُحْفَرُ لَہُ فِی الأَرْضِ، فَیُجْعَلُ فِیہِ، فَیُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَیُوضَعُ عَلَى رَأْسِہِ فَیُشَقُّ بِاثْنَتَیْنِ، وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دِینِہِ، وَیُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الحَدِیدِ مَا دُونَ لَحْمِہِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ، وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دِینِہِ، وَاللَّہِ لَیُتِمَّنَّ ہَذَا الأَمْرَ، حَتَّى یَسِیرَ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ، لاَ یَخَافُ إِلَّا اللَّہَ، أَوِ الذِّئْبَ عَلَى غَنَمِہِ، وَلَکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلُونَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3612)۔ یعنی تم سے پہلی امتوں میں سے کسی کے لیے (توحید اختیار کرنے پر )گڑھا کھودا جاتا اور اسے اس میں ڈال دیا جاتا ۔ پھر اس کے سر پر آرا رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتا ۔ لوہے کے کنگھے اس کے گوشت میں دھنسا کر اس کی ہڈیوں اور پٹھوں پر پھیرے جاتے پھر بھی وہ اپنا ایمان نہ چھوڑتا ۔ خدا کی قسم یہ امر بھی تکمیل کو پہنچے گا اوریہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا،اور اسے اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہیں ہو گا ، یا بھیڑیے کا (خوف ہو گا) اپنی بکریوں پر، لیکن تم لوگ جلدی بازی کررہے ہو ۔
موجودہ زمانے میں یہ تاریخ اپنی آخری حد تک پہنچ چکی ہے۔ اب اہلِ توحید کو صرف ایک حکمت (wisdom) کو جاننا ہے۔ وہ یہ کہ وہ جو کچھ کریں، پوری طرح پرامن (peaceful) انداز میں کریں۔ وہ کسی حال میں تشدد (violence) کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ جب تک وہ پر امن رہیں، سارے مواقع ان کے لیے کھلے رہیں گے۔ وہ صرف اس وقت ان سے چھن سکتے ہیں، جب کہ وہ اس راز کو نہ سمجھیں، اور تشدد کا طریقہ اختیار کرلیں۔
حدیث میں تائیدِ دین کی بات کسی محدود معنی میں نہیں ہے۔بلکہ نہایت وسیع معنی میں ہے۔ مثال کے طور پر رسول اللہ کے زمانے میں کعبہ میں تمام قبائل کے بت رکھے ہوئے تھے۔ اس بنا پر روزانہ وہاں لوگوںکا ایک بڑا مجمع اکٹھا ہوتا تھا۔پیغمبرِ اسلام نے اس اجتماع کو آڈینس (audience) کے روپ میں دیکھا، اور مکہ میں تیرہ سال تک ان مواقع (opportunities) کو دعوتی مقصد کے لیے اویل کرتے رہے۔ جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ اس زمانے میں رسول اللہ کو وہ تمام افراد ملے، جن کو اجلّۂ صحابہ کہا جاتا ہے۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ وہ ابدی معنوں میںایک سنتِ رسول ہے۔ ہر زمانے میں اس کو اپلائی (apply) کیا جاسکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی پوری طرح مثبت سوچ والا ہو، اور کسی بھی قسم کی منفی سوچ کے بغیر حالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مثلاً موجودہ زمانے میں ایک کلچر رائج ہوا ہے، جس کو اجتماع کلچر (gathering culture) کہہ سکتے ہیں۔ کہیں کانفرنس کے نام پر، کہیں ٹورزم کے نام پر، کہیں میٹنگ کے نام پر، کہیں نمائش (exhibition) کے نام پر، کہیں جشن کے نام پر،کہیں فیسٹیول کے نام پر،کہیں بک فیر (book fair)کے نام پر، وغیرہ۔ یہ کلچر اتنا زیادہ عام ہے کہ ہر جگہ اور دنیا کے ہر حصے میں تقریبا ًروزانہ وہ بڑے پیمانے پر ہوتے رہتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو مکہ میں پیغمبرِ اسلام کو "زیارتِ اصنام" کے نام پرجو موقع ملا تھا، اب وہ ہزاروں گنا زیادہ بڑے پیمانے پر ہر جگہ موجود ہے۔ اس طرح گویا داعی اور مدعو کی دوری ختم ہوچکی ہے۔ان اجتماعات کو دعوت کے لیے استعمال کرنے کے مواقع پوری طرح کھلے ہوئے ہیں، شرط صرف یہ ہے کہ لوگ تشدد سے دور رہیں، اور پرامن منصوبے کے ذریعے اس کو استعمال کریں۔
واپس اوپر جائیں

  ایج آف ریزن


حدیث رسول میں آیا ہے کہ ظہورِ دجال کے وقت ایک شخص دجال کے مقابلے میں حق کی گواہی دے گا(صحیح مسلم ، حدیث نمبر2938) ۔ یہ گواہی تاریخ کی ایک عظیم گواہی ہوگی۔ چنانچہ اس کو حدیث میں شہادتِ اعظم کہا گیا ہے۔ شہادتِ اعظم سے کیا مراد ہے اس کا ایک کُلُو (clue) دجال سے متعلق ایک اور روایت (صحیح مسلم ، حدیث نمبر 2937)میں ملتاہے جس میں حجیج کا لفظ آیا ہے۔ یعنی دلیل و حجت کی سطح پر گواہی دینا۔ حدیث کے اس لفظ کو لے کر اس معاملے کی تشریح کی جائے تو بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں جب دجال کا ظہور ہوگا تو تعقل کا دور (age of reason) آچکا ہوگا۔ دجال بظاہر عقلی اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے لوگوں کو فریب میں مبتلا کرے گا۔ اس کے بعد کوئی اللہ کا بندہ اعلیٰ عقلی استدلال کے ذریعے دجال کی پر فریب باتوں کو غلط ثابت کرے گا۔ وقت کے مطابق یہ کام حجت (reason) کی سطح پر ہوگا۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دورِ سائنس میں پیش آئے گا۔ جب کہ مبنی بر تعقل دلائل کا دور آچکا ہوگا۔
سائنسی دور سے پہلے دینِ حق کی گواہی عقلِ عام (common sense) کی سطح پر دی جاتی رہی ہے۔ اس کے بعد دنیا میں سائنسی دور آیا۔ اس دور کو قرآن میں آفاق و انفس کے دلائل کے ظہور (فصلت،41:53) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دجال اسی دور میں ظاہر ہوگا۔ وہ جس ہتھیار سے لوگوں کو فریب میں ڈالے گا، وہ عقلی ہتھیار ہوگا۔ اللہ کی توفیق سے اس زمانے میں ایک بندہ عقل کا زیادہ برتر استعمال کرکے دجال کے فریب کو ختم کردے گا۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کو حدیث میں شہادتِ اعظم (great witness) کہا گیا ہے۔
سائنسی دور عقلیاتی دور کے دلائل کے ظہور کا زمانہ ہوگا۔ اس زمانے میں دجال عقلی دلائل کو غلط طور پر اپنے حق میں استعمال کرے گا۔ اس وقت اللہ کی توفیق سے اللہ کا ایک باخبر بندہ اٹھے گا، وہ اس دجال کی دجالیت کا پردہ پھاڑ کر حق کی کامل تبیین کرے گا (فصلت،41:53)۔
واپس اوپر جائیں

دورِ شخصیت، دورِ استدلال

قدیم زمانہ شخصیت کی عظمت (personality cult) کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانہ عقلی استدلال کا زمانہ (age of reason) ہے۔ قدیم زمانے میں ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص جس کو کسی وجہ سے بڑا مان لیا جائے۔ لوگ اس کی باتوں کو اعتقادی طور پر درست سمجھتے تھے، اور عقل کے استعمال کے بغیر اس کی پیروی کرتے تھے۔ اب یہ دور ختم ہوگیا۔ موجودہ زمانے میں اس طرح کی شخصیتیں پیدا نہیں ہوتیں۔ شخصی صلاحیت کے اعتبار سے تو اب بھی لوگ پیدا ہورہے ہیں، لیکن زمانے کے زیرِاثر اب کسی شخص کو اکابر کا درجہ حاصل نہیںہوتا۔
سائنسی انقلاب کے بعد دنیا میں عقلیت کا دور (age of reason) آیا ہے۔ عقلیت کا مطلب عقل پرستی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد ہے عقلی استدلال کی بنیاد پر کسی بات کو ماننا ،اور کسی بات کو نہ ماننا۔ آج وہی تحریک کامیاب تحریک ہے جو آج کے فکری مستویٰ اور اور آج کے مسلمہ استدلال کی سطح پر اپنے نظریے کی تبلیغ کرے۔ اس کے برعکس جو تحریک اکابر اور شیوخ کے حوالے کی بنیاد پر شروع کی جائے، وہ تحریک آج کے معیار کے مطابق سرے سے تحریک ہی نہیں۔
قدیم زمانےمیں شخصیت پرستی کی بنا پر عقلی غور وفکر کا ارتقا (development)نہیں ہوا۔ قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک یہ صورتِ حال باقی رہی۔ اسلام نے پہلی بار عقلی غورو فکر کا آغاز کیا۔ قرآن میں بار بار اس قسم کے الفاظ آئے ہیں- تدبر، تعقل ، تفکر، توسم، تذکر، وغیرہ۔ حتیٰ کہ خود قرآن کے بارے میں کہا گیا ہے :کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29) ۔
لیکن بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر عملاً عقلی غور و فکر کا خاتمہ ہوگیا۔ دین میں عقلی غور وفکر کو برا سمجھاجانے لگا۔ حدیث میں عمومی معنوں میں آیا تھا :طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَةٌ(ابن ماجہ،حدیث نمبر 224)۔ لیکن بعد کے زمانے میں طلبِ علم سے مراد صرف علم دین کی طلب قرار پایا۔
اس کا سبب بعد کے زمانے میں ہونے والا ماس کنورژن (mass conversion)تھا۔ یعنی بعد کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ لوگوں نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ اس طرح امتِ مسلمہ میں نو مسلموں کی تعداد اچانک بہت زیادہ بڑھ گئی۔ یہ لوگ اپنے قدیم مائنڈ سیٹ (mindset) کو لے کر اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ کثرتِ تعداد کی بنا پر ان کی فکری تربیت ممکن نہ ہوسکی۔ یہی نوواردین ہیں ، جنھوں نے اپنے قدیم ذہن کی بنا پر عقلی غور و فکر کو اسلام کے خلاف قرار دیا۔یہ ذہن اتنا زیادہ پختہ ہوگیا کہ وہ آج تک جاری ہے۔ اس سے کسی حد تک مستثنیٰ صرف وہ مسلمان ہیں ، جنھوں نے موجودہ زمانے میں سیکولر اداروں میں تعلیم پائی ۔
عباسی دور میں ایک طبقے کے اندر عقلی غور و فکر کا آغاز ہوا، لیکن وہ یونانی فلسفے کے زیرِ اثر ہوا تھا، اس لیے اسلام کے اصول کے اعتبار سے صحیح منہج پر قائم نہ تھا۔ اس لیے اُس وقت کے علماء اس سے متوحش ہو کر اس کے خلاف ہوگئے۔ علماء نے ان لوگوں کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ کہا جانے لگا کہ من طلب العلم بالکلام تزندق (البدایۃ و النہایۃ،10/194) ۔ جس نے کلام کے ذریعے علم طلب کیا، وہ زندیق ہوگیا۔
اکیسویں صدی میں وہ وقت آگیا ہے، جب کہ اسلام میں عقلی غور و فکر کا آغاز کیا جائے۔ عقلی غور و فکر دین سے انحراف کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کو عقلی بنیاد (rational basis) پر پیش کیا جائے۔ اہلِ عقل کے فکری مستویٰ پر انھیں دین کو پہنچایا جائے تاکہ ان کا ذہن ایڈریس ہو، اور وہ اسلام پر زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کرسکیں۔راقم الحروف کی کتاب مذہب اور جدید چیلنج اسی قسم کی ایک کوشش ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ مختلف زبانوں میں شائع ہوچکا ہے۔ مثلاً عربی زبان میں الاسلام یتحدیٰ، اور انگریزی زبان میں گاڈ ارائزز، وغیرہ۔
کچھ مسلمانوں نے اس مقصد کے نام پر ایک تحریک شروع کی، جس کو وہ إسلامیَّة المعرفة (Islamization of knowledge) کہتے ہیں۔ مگر یہ تحریک صحیح خطوط پر نہیں۔ اس معاملے میں اصل کام اسلام کو جدید علم کی بنیاد پر پیش کرنا ہے، نہ کہ جدید علم کو اسلامائز کرنا۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبروں والا کام


دعوت الی اللہ کا کام پیغمبر کی غیر موجودگی میں پیغمبر والا کام انجام دینا ہے ۔قدیم زما نےمیں دعوت کا کام پیغمبر اور ان کے ساتھی انجام دیتے تھے۔ اب نبی کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اس لیے اب نبی کی امت کو نبی کی نمائندگی میں یہ کام انجام دینا ہے۔یہ کام اسی نہج (method) پر انجام دینا ہے، جس نہج پر پہلے پیغمبر انجام دیتے تھے۔ یہ اصول قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں پیغمبر کی زبان سے کہا گیا ہے : وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ (6:19)۔ یعنی اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعے سے تم کو انذار کروں اور وہ بھی جن کو یہ پہنچے۔
اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی نے درست طور پر لکھا ہے - عام طور پر مفسرین نے وَمَنْ بَلَغَ کو ضمیرِ منصوب پر معطوف مانا ہے یعنی یہ قرآن اس لیے مجھ پر وحی کیا گیا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تم کو اور ان سب کو بیدار و ہوشیار کروں جن تک یہ پہنچے۔ لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ ضمیر متکلم پر معطوف ہے۔ یعنی میں اس کے ذریعے سے تم کو خبردار کروں اور جن کو یہ پہنچے وہ بھی اپنی اپنی جگہ پر دوسروں کو اس کے ذریعے سے خبردار کریں۔(تدبر قرآن، سورہ الانعام، آیت 19)۔
یہ امتِ محمدی کی لازمی ذمے داری اور یہ ختمِ نبوت کا لازمی تقاضا ہے۔ کیوں کہ ختمِ نبوت کے بعد نبی کی شخصیت کا دور ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن جہاں تک دعوت کا تعلق ہے، اس کو بدستور قیامت تک جاری رہنا ہے۔ یہ امتِ محمدی کی ایسی ذمے داری ہے، جو کسی حال میں موقوف نہیں ہوتی۔ اس ذمے داری کا ذکر قرآن میں مختلف الفاظ میں کیا گیا ہے۔ مثلاً امت وسط، شہادت علی الناس، انذار، ابلاغ، دعوت الی اللہ، تبلیغ ما انزل اللہ، وغیرہ۔ اس اصول کے مطابق، خاتم النبیین کی امت قیامت تک کے لیے داعی کی حیثیت رکھتی ہے، اور ختمِ نبو ت کے بعد پیدا ہونے والے تمام انسان اس کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

دینِ خداوندی کے دو دور

ایک تاریخی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اورانفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ اور کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے۔
یہ سورہ ایک مکی سورہ ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں کسی وقتی صورت حال کا ذکر نہیں ، بلکہ اس میں دینِ خدواندی کی پوری تاریخ کا ایک اجمالی بیان ہے۔ رسول اور اصحاب رسول کی دینی جدو جہد کسی وقتی نشانی کے لیے نہیں تھی، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ انسانی تاریخ میں ایک ایسا عمل (process) جاری کیا جائے، جو اللہ کے دین کے کامل اظہار کے ہم معنی بن جائے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کا دین تمام دوسرے دینوں پر غالب ہوجائے(التوبۃ، 9:33)۔ تاریخ بتاتی ہے کہ رسول اللہ کا لایا ہوا دین ساتویں صدی عیسوی میں شرک کے دین پر غالب آگیا۔ رسول اوراصحابِ رسول کی جدو جہد سے شرک کے دین کا دبدبہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ اب اگر کہیں شرک کا دین باقی ہے تو وہ کچھ لوگوں کے اندر محض ذاتی عقیدے کی سطح پرباقی ہے۔ اجتماعی غلبے کی شکل میں کہیں بھی شرک کا دین باقی نہیں۔
لیکن بعد کے زمانے میں دینِ الحاد (atheism)وجود میں آیا۔ موجودہ زمانے میں یہی دینِ الحاد نظریاتی اعتبار سے ایک غالب دین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی واقعہ ہے جس کی بنا پر قرآن کی مذکورہ آیت (فصلت، 41:53)میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی دینِ شرک کا خاتمہ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں ہوا، اور دینِ الحاد کا خاتمہ بعد کے زمانے میں ہوگا۔
قرآن میں اظہارِ دین (التوبۃ، 9:33)کو پیغمبر اسلام کا نشانہ بتایا گیا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نشانے کی تکمیل کے دو دور ہیں۔ پہلا دور روایتی دور (traditional age) تھا،جس کا اتمام سائنسی انقلاب سے پہلے وقوع میں آیا۔ اس دور میں رسول اور اصحابِ رسول کی جدوجہد سے ایسے حالات پیدا ہوئے، جس کے نتیجے میں تاریخ میں ایک نیا پراسس شروع ہوا، جو موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب تک پہنچا۔ دوسرا دور آفاق و انفس کی نشانیوں کی دریافت (فصلت، 41:53) کے بعد کا دور ہے، جو پچھلے چار سوسال کے اندر سائنسی انقلاب کے ذریعے پیش آیا۔
اسی سائنسی انقلاب کو قرآن میں آفاق و انفس کی نشانیوں کے ظہور سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی لیے اس دوسرے دور کو قرآن (فصلت، 41:53) میں مستقبل کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے۔ گویا تبیینِ حق کے دودور ہیں۔ ایک ہے روایتی دور میں تبیینِ حق، اور دوسرا ہے سائنسی دور میں تبیینِ حق۔ اس دوسرے دور میں وہ علمی فریم ورک (scientific framework)وجود میں آیا، جس کو استعمال کرکے اعلیٰ معرفت حاصل کی جائے، اور دینِ الحاد کا نظری طور پر خاتمہ کردیا جائے۔
تبیینِ حق کے یہ وسائل اکیسویں صدی میں آخری طور پر حاصل ہوچکے ہیں۔ اب یہ پوری طرح ممکن ہوگیا ہے کہ ان نئے امکانات کو استعمال کرکے دینِ الحاد کا نظری خاتمہ کردیا جائے۔ یہی وہ دور ہےجس کی خبر حدیث میں شہادتِ اعظم کے الفاظ میں دی گئی ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ہَذَا أَعْظَمُ النَّاسِ شَہَادَةً عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِین (صحیح مسلم، حدیث نمبر2938)۔
حدیث میں بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والے ایک عظیم فتنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے حدیث میں فتنۂ دہیماء (ابو داؤد، حدیث نمبر4242)کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔فتنۂ دہیماء کا مطلب ہے، سیاہ فتنہ(black days)۔ یعنی ایسا زمانہ جب کہ کچھ دکھائی نہ دے۔ حق اور ناحق کو الگ کرکے دیکھناناممکن ہوجائے۔
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں زمانے ایک ساتھ آئیں گے۔ یعنی ایک طرف سائنسی دریافتوں سے وہ مواقع کھلیں گے، جب کہ دینِ الحاد کو مغلوب کرکے اسلام کے دوسرے دور (تبیین ثانی ) کو مکمل کیا جائے۔ لیکن عین اسی زمانے میں اہلِ باطل ایسے حالات پیدا کردیں گے جو روشن دور کو عملاً تاریک دور بنادیں گے۔ لوگوں کے لیے صحیح اورغلط میں تمیز کرنا ممکن نہ رہے گا۔اس بنا پر لوگوں کے لیے یہ موقع نہ ہوگا کہ وہ پیدا شدہ مواقع کو استعمال کرکے حق کی تبیین ثانی کے عمل کو مکمل کریں۔
اکیسویں صدی میں یہ فتنۂ دہیماء (تاریک فتنہ) آخری طور پر ظاہر ہوچکا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر بظاہر بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے یہ سرگرمیاں اندھیرے میں چھلانگ کے ہم معنی ہیں۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں، میں امت مسلمہ کا ایک فرد ہوں، لیکن ان کو یہ نہیں معلوم کہ وہ جس زمانے میں ہیں، وہ زمانہ کیا ہے۔
موجودہ زمانہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تبیینِ حق کا زمانہ ہے۔ یعنی وہ زمانہ جس میں امکانی طور پر سچائی کو پوری طرح کھول دیا گیا ہے۔ یہ معلوم کرنا آخری حد تک ممکن ہوگیا ہے کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس طرح بے خبری کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں ، جیسے کہ وہ اندھیرے میں بھٹک رہے ہوں۔
غالباً یہی وہ زمانہ ہے جس کی حدیث میں ان الفاظ میں خبر دی گئی ہے کہ اس زمانے میں الْأَئِمَّةُ الْمُضِلُّونَ (مسند احمد ، حدیث نمبر27485)ظاہر ہوں۔ یعنی گمراہ کرنے والے رہنما۔یہ گمراہ کرنے والے لوگ کون ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو امت کو غلط نشانے کی طرف دوڑا دیں گے۔ اس دور میں اصل کرنے کا کام تو یہ ہوگا کہ نئے امکانات کو دریافت کرکے لوگوں کو اعلیٰ معرفت پر کھڑا کیا جائے۔ مگر وہ یہ کریں گے کہ امت کو یہ بتائیں گے کہ ساری دنیا تمھاری دشمن ہے، ان سے لڑو۔ اس طرح وہ امت کو منفی سوچ کا کارخانہ بنا دیں گے۔
کچھ لوگ امت کو فرضی فخر (false pride) پر کھڑا کریں گے۔ قدیم یہود کے اندر بگاڑ کے دور میں ایک کلچر پیدا ہوا، جس کو جوئش سپرامیسزم (Jewish supremacism) کہا جاتا ہے۔ یعنی یہودی برتری کا تصور۔ یہ لوگ امت کے افراد میں مسلم برتری (Muslim supremacism) کا کلچر جاری کر دیں گے۔وہ مسلمانوں کو فرضی فخر کی غذا دیں گے، جس سے لوگ وقتی طور پر خوش ہو جائیں ۔ لیکن انھیں دینِ خداوندی کے احیا کا کوئی مثبت نشانہ نہیں ملے گا۔
کچھ لوگ مسلمانوں کو یہ سبق دیں گے کہ تمھارا کام یہ ہے کہ تم ساری دنیا میں اسلام کی عظمت کا جھنڈا لہراؤ ۔اس طرح وہ مسلمانوں کے اندر ایک ایسا ذہن پیدا کردیں گے جو اپنے اعلان کے اعتبار سے تو اسلامی ذہن ہوگا، لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے صرف تخریبی ذہن۔
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِیبًا، وَسَیَعُودُ کَمَا بَدَأَ غَرِیبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاء (صحیح مسلم، حدیث نمبر145)۔یعنی اسلام شروع ہوا تو وہ اجنبی تھا، اور دوبارہ وہ اجنبی ہوجائے گا، تو مبارک ہیں ایسے اجنبی لوگ۔اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بعد کے زمانے میں کوئی دور ایسا آئے گا، جب کہ اسلام کا وجود باقی نہ رہے۔ اسلام کے اجنبی ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے اصل ماڈل کا لوگوں کے لیے اجنبی ہوجانا۔ یعنی اس دور میں اسلام بظاہر پوری طرح موجود ہوگا، لیکن اسلام کی اصل اسپرٹ باقی نہ رہے گی۔ اس زمانے میں اسلام اپنی اسپرٹ کے اعتبار سے مفقود ہوگا، نہ کہ اپنی شکل کے اعتبار سے۔
غالباً اس حدیث کا ایک مطلب یہ ہے کہ بعد کے دور میں لوگ دین کے خود ساختہ ماڈل کو لے کر سرگرم ہوجائیں گے۔ اس لیے ایسی حالت میں جب ان کے سامنے دین کا اصل ماڈل پیش کیا جائے گا تو وہ ان کو اجنبی معلوم ہوگا۔ اس وقت جو لوگ اجنبیت کے پرد ےکو پھاڑ کر اسلام کے اصل ماڈل کو پہچانیں، اور پوری طرح اس کا ساتھ دیں ، وہ اللہ کے نزدیک قابل مبارک باد لوگ ہوں گے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
موجودہ مسلمانوں کو اگر مجھے ایک مشورہ دینا ہو تو میں کہوں گا — جذباتی کارروائیوں سے بچئے اور سوچے سمجھے عمل کا طریقہ اختیار کیجئے، اور پھر کامیابی آپ کے لیے اتنا ہی یقینی بن جائے گی جتنا کہ آج کی شام کے بعد کل کی صبح کو سورج کا نکلنا۔
واپس اوپر جائیں

دین، تائیدِ دین

دین کا کام کرنے کی دو سطحیں ہیں۔ ایک ہے ، براہ راست اور عمداً دین کا کام کرنا۔ اور دوسرا یہ ہے کہ آدمی کا ارادہ کچھ اور ہو، لیکن وہ ایسا کام کرے، جو بالواسطہ طور پر دین کے لیے تائید (support)فراہم کرنے والا ہو۔ اس سلسلے میں ایک حدیث رسول آئی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے کرے گا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔
اس حدیث رسول میں فاجر کا لفظ آیا ہے۔ فاجر کا مطلب بدعمل (wicked) آدمی ہے۔ یعنی شریعت کی زبان میں گناہ گار آدمی۔ یہاں یہ سوال ہے کہ کوئی شخص جو ذاتی اعتبار سے ایک گناہ گار آدمی ہو، وہ کیسے دین کے لیے موید (supporter) بن سکتا ہے۔ یہ واقعہ بالواسطہ انداز میں ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال اسٹیفن ہاکنگ (1942-2018) ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نہ مسلم تھا، اور نہ شریعت کا پیرو۔ اس کو ایک سیکولر آدمی کہا جاسکتا ہے۔ البتہ اس نے ایک ایسا کام کیا، جو دینِ اسلام کے عقیدۂ توحید کے لیے ایک مددگار بنیاد (supporting base) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ سے پہلے نیوٹن (1643-1727) نے یہ بتایا تھا کہ کائنات کو چار طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں:(1)قوتِ کشش (gravitational force) (2)برقی مقناطیسی قوت (electromagnetic force) (3)طاقت ور نیوکلیر قوت (strong nuclear force) (4) کم زورنیو کلیر قوت (weak nuclear force)۔
اس نظریے پر کام ہوتا رہا، یہاں تک کہ اسٹیفن ہاکنگ نے ریاضیاتی طور پر یہ بتایا کہ یہ طاقتیں چار نہیں ہیں، صرف ایک ہے۔ اس کو اس نے سنگل اسٹرنگ تھیری (single string theory)کا نام دیا۔ اس تحقیق پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سائنسی نظریہ اسلام کے تصورِ توحید کے لیے ایک نظریاتی تائید (ideological support) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی تحقیق کا یہ پہلو بلاشبہ حدیث کی زبان میں بالواسطہ دین کی ایک سائنسی تائید کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سبق کا پہلو

راقم الحروف کا ایک آرٹکل نئی دہلی کے انگریزی اخباردی ٹائمس آف انڈیا، 16 مارچ 2018 میں شائع ہوا ۔ اس کا عنوان ہے:
The Hawking Effect: Triumph of Human Spirit
یہ آرٹکل برٹش سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ کے بارے میں ہے، جس کی وفات 14 مارچ 2018 کو 76 سال کی عمر میں ہوگئی۔ اس مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک عرب عالم نے کہا : ھل یناسب ھذا الکلام عن احد اکبر دعاۃ الالحاد و محاربۃ اللہ فی ھذا العصر ۔ یعنی کیا اس طرح کا کلام اس آدمی کے بارے میں مناسب ہے جو موجودہ زمانے میں الحاد کا ایک بڑا داعی اور خدا کے وجود کا مخالف ہے۔
میرے آرٹکل کے بارے میں یہ تبصرہ ایک غیر واقعی تبصرہ ہے۔ راقم الحروف کا یہ مضمون انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ کوئی بھی شخص مذکورہ عنوان کے تحت اس آرٹیکل کو پڑھ سکتا ہے۔ اس آرٹکل کا کوئی تعلق اسٹیفن ہاکنگ کے مدح یا ذم سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کی زندگی دو پہلوؤں کو سادہ طور پر بیان کیا گیاہے، جن سے سبق(lesson) ملتا ہے۔ان میں سے ایک یہ ہےکہ اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ معذور شخص بھی ایک بڑا کام کرے، اور دوسر ایہ ہےکہ کائنات میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے، اس لیے یہاں واحد کنٹرول کا نظام ہونا چاہیے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے اس پر کام کیا ہے، اور اس کو علمی دنیا میں سنگل اسٹرنگ تھیوری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سنگل اسٹرنگ تھیوری باعتبار حقیقت توحید کی سائنسی تصدیق کے ہم معنی ہے۔
قرآن (البقرۃ،2:26)سے معلوم ہوتا ہے کہ سبق کے لیے کسی بھی چیز کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ جہاں سبق کا پہلو ہو، وہاں بات کو مطلوب سبق کے اعتبار سے دیکھا جائے گا، بات کا کوئی اور پہلو وہاں حذف ہوجائے گا۔ اس اصول کو قرآن کی مذکورہ آیت کے مطالعے سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

فقہ الاقلّیات

موجودہ زمانے میں مسلم رہنماؤں نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی ہے، جس کو فقہ الاقلیات کہا جاتا ہے۔ فقہ الاقلیات کی تعریف یہ کی جاتی ہے: الأحکـام الفقہیـة المتعلقـة بالمسـلم الذی یعیش خارج بلاد الإسلام ۔ یعنی وہ فقہی احکام جو اس مسلمان سے متعلق ہیں، جو اسلامی ممالک سے باہر رہتاہے۔فقہ الاقلیات کی اصطلاح ایک مبتدعانہ اصطلاح ہے۔ قرآن و حدیث میں اس قسم کی کوئی اصطلاح موجود نہیں۔’’فقہ الاقلیات‘‘ کا تصور مسلمانوں کے لیے غیر ضروری طور پر دوسری قوموں کے ساتھ نارمل طریقے پر رہنے میں مانع بن جاتا ہے۔ مسلمان دہری شخصیت کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے وہی چیز ہے جس کو منافقت کہا جاتاہے۔ مسلمان جدید دنیا میں ایک مس فٹ کمیونٹی (misfit community) بن کر رہ جاتے ہیں۔
صحیح بات یہ ہے کہ غیر مسلم ریاست اور مسلم ریاست کی تقسیم بذات خود بے بنیاد ہے۔ مسلمانوں کو ساری دنیا میں ایک ہی ذہن کے ساتھ رہنا ہے۔ وہ یہ کہ سارے لوگ انسان ہیں، اورساری دنیا دار الانسان ہے۔ مسلمانوں کو دنیا میں اس طرح رہنا ہے، جیسے کہ وہ اپنے بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔یہی حقیقت ایک حدیث رسول سےواضح ہوتی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: تمام انسان آدم کی اولاد ہیں، اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے(سنن الترمذی، حدیث نمبر3955)۔
قرآن و حدیث کے مطالعے سے مسلمانوں کے لیے جو طرزِ زندگی ثابت ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر ماحول میں یہ دیکھنا ہے کہ وہ کون سی روش ہے، جس کو وہ غیر نزاعی طور پراختیار کرسکتے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ ہر ماحول میں زندگی کا غیر نزاعی ماڈل دریافت کریں، اور جس ماڈل کو اختیار کرنے میں نزاع پیدا ہوتی ہو، اس کو چھوڑ دیں، خواہ مستقل طور پر یا عارضی طور پر۔ مسلمان کے لیے اصل معیار یہ ہے کہ جہاں بھی ہوں، ٹکراؤ یا نزاع کو اوائڈ کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔
بلاشبہ مسلمانوں کے لیے ایک مسنون ماڈل ہے، جو اسوۂ رسول پر قائم ہے۔ لیکن اس مسنون ماڈل میں اصل چیز دعوت الی اللہ ہے، کوئی دوسری چیز اس مسنون ماڈل کا ابدی حصہ نہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے عمل کی پلاننگ اس طرح کریں کہ وہ جہاں بھی ہوں،دعوت الی اللہ کا پیس فل کام مسلسل طور پر جاری رہے۔ جو روش دعوت الی اللہ کے کا م کو موقوف کردے، یا دعوت الی اللہ کے کام میں رکاوٹ ڈالنے والی ہو، وہ مسلمانوں کو مکمل طور پر چھوڑ دینا ہے۔ یہی مطلب ہے قرآن کی آیت کا کہ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)۔یعنی ڈرٹی پریکٹس (dirty practice) کو چھوڑ دو۔ رسول اللہ نے جو طریقہ مکی اور مدنی دور میں یکساں طور پر اختیار کیا، اس کو دیکھ کر اس کو سمجھا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ رجز سے مراد نزاعی طریقہ ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ نزاعی طریقہ کو چھوڑدو تاکہ دعوت الی اللہ کاکام پر امن اور معتدل انداز میں جاری رہے۔
اس اصول کے تحت پیغمبر اسلام نے مکے میں بھی اور مدینے میں بھی یکساں طور پر عمل کیا۔ آپ کا اصل گول دعوت الی اللہ تھا۔ جو کام آپ کے دعوتی مشن میں رکاوٹ ڈالے، وہ آپ کے لیے رُجز کی حیثیت رکھتا تھا۔ مثلاً اس وقت مکہ کو بت پرستی کا مرکز بنا دیا گیا تھا۔ کعبہ میں تقریباً 360 بت رکھ دیے گئے تھے۔ لیکن آپ نے ان بتوں کے خلاف براہ راست کوئی تحریک نہیں چلائی۔ بلکہ عملاً ان کو نظر انداز کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کا کام جاری رکھا۔ اس اصول کے معاملے میں آپ اس آخری حد تک پہنچے کہ جب آپ ہجرت کرکے مدینہ آئے تو آپ نے تقریباً سولہ مہینے تک یہود کے قبلے کو اپنا قبلہ بنا لیا۔ تاکہ دعوت الی اللہ کے کام کا تسلسل اسمود (smooth) طور پر جاری رہے۔
اہلِ اسلام کے لیے نہ کوئی اقلیتی فقہ ہے، اور نہ کوئی اکثریتی فقہ۔ اہلِ اسلام کو ہر جگہ یہ کرنا ہے کہ وہ سیاسی اور غیر سیاسی نزاع سے پر ہیز کریں۔ وہ امن (peace) کو اصل اجتماعی اصول قرار دے کر معتدل انداز میں زندگی گزاریں۔ وہ عقیدہ اور عبادت،اور اخلاق کے آزاد دائرے میں اپنے آپ کو اسلام کی روش پر قائم کریں، اور وقت کے نظام سے ٹکراؤ کو اپنے لیے شجرِ ممنوعہ سمجھتے ہوئے زندگی گزاریں، وہ أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052) کے فارمولے پر عمل کریں۔
واپس اوپر جائیں

حکومت کا معاملہ

قرآن و سنت اور صحابہ کے عمل پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں حکومت کا کوئی واحد آئڈیل ڈھانچہ نہیں ہے۔ حکومت کا معاملہ سماجی صورتِ حال کے تابع ہے، نہ کہ پیشگی طور پر کسی مقرر کردہ معیار کے تابع۔حکومت کا معاملہ نماز اور روزے کی طرح مقدس معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ عملی صورت حال کے تابع ہے۔ جیسی عملی صورتِ حال، ویسا ہی حکومت کا ڈھانچہ۔ یہی بات فطرت کے تقاضے کے مطابق ہے۔
اگر حکومت کا پیشگی طور پر کوئی معیاری نظام مقرر کردیا جائے تو موجودہ دنیا میں ایسا معیاری نظام تو کبھی قائم نہیں ہوگا، البتہ معیاری نظام قائم کرنے کے نام پر لوگ ابدی طور پر لڑتے جھگڑتے رہیں گے۔صحیح یہ ہے کہ اسلام میں دعوت اور تعلیم کا عمل ابدی طور پر یکساں حالت میں مطلو ب ہے،اور جہاں تک حکومت کا معاملہ ہے۔ تو اس کا اصول یہ ہے کہ جیسے سماجی حالات، ویسا ہی حکومت اور سیاست کا معاملہ ۔
اسی لیے قرآن میں حکومت کے فارم کے بارے میں مختلف صورتوں کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً حضرت سلیمان کی حکومت، ملکۂ سبا کی حکومت، حضرت یوسف کی حکومت، وغیرہ۔ ان میں سے حکومت کا ہرڈھانچہ کسی تنقید کے بغیر قرآن میں مذکور ہے۔ لیکن ان میں سے کسی حکومت کے ڈھانچہ کو نہ تو رد کیا گیا ہے، اور نہ کسی ڈھانچہ کی مدح کی گئی ہے۔
حکومت کے ڈھانچے کو اضافی حیثیت دینا، اپنے اندر بہت بڑی حکمت رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ حکومت کا ڈھانچہ خواہ کوئی بھی ہو، اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے رہو۔ کسی کے ساتھ ٹکراؤ نہ کرو۔حکومت سے اگر ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوجائے تو اس کو مینج کرکے یہ کوشش کرنا ہے کہ ٹکراؤ کی نوبت نہ آئے۔ حکومت کے معاملے میں اسلام کا رویہ غیر نزاعی رویہ (non-confrontational approach) ہے۔ اس اصول کی بنا پر یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ سماج میں ہمیشہ امن قائم رہے۔
واپس اوپر جائیں

جمہوریت کیا ہے

جمہوریت (democracy) کوئی مذہبی عقیدہ نہیں ہے۔ جمہوریت در اصل سیاست کے پرا من مینجمنٹ (peaceful management) کا دوسرا نام ہے۔ جمہوریت کو مجاریٹی رول کہا جاتا ہے۔ اس کا خلاصہ بھی یہی ہے۔ مجاریٹی رول سوشل مینجمنٹ کا ایک پرامن طریقہ ہے، جو پیس فل سیٹلمنٹ (peaceful settlement) پر مبنی ایک نظام ہے۔ قدیم زمانے میں حکومت کی تبدیلی کے لیے جنگ کی ضرورت ہوتی تھی، موجودہ جمہوریت نے یہ ممکن بنادیا ہے کہ ہر ایک پر امن طور پر اپنی مرضی کا سیاسی نظام بنائے۔ جمہوریت کا اپنا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ عوام کی اکثریت جس بات پر راضی ہوجائے، وہی نظام کی بنیاد بن جاتا ہے۔
جمہوریت الیکشن پر مبنی ایک نظام ہے۔ محدود مدت ،مثلاً پانچ سال کے لیے آزاد اور منصفانہ (free and fair) الیکشن کرایا جاتا ہے۔ اس الیکشن میں اکثریت جس رائےپر اتفاق کرلے، وہی محدود مدت کے لیے نظام کی بنیاد قرار پائے گی۔ اس جمہوریت کے نظام میں ہر گروپ کو یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرے۔ جمہوریت کا اصول یہ ہے کہ کسی الیکشن کے بعد اکثریت جس رائے کے حق میں ووٹ دے دے، اس کو سب لوگ ایک عملی ضرورت کے طور پر مان لیں۔ جن لوگوں کو اس رائے سے اتفاق نہ ہو، انھیں بھی الیکشن کے نتیجے کو مان لینا چاہیے۔ ان کو یہ موقع ہے کہ وہ عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کریں، اور اگلے الیکشن تک انتظار کریں۔ جب اگلے الیکشن کا موقع ہو تو وہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کریں۔ اگر اکثریت کی رائے، ان کے موافق ہوجائے تو ان کو موقع مل جائے گاکہ وہ اگلا نظام اپنی رائے کے مطابق بنائیں۔
جمہوریت کا یہ نظام اس لیے ہے کہ سماج میں امن قائم رہے، اور ہر گروپ کو یہ موقع ملے کہ وہ پر امن طریقے پر اپنی رائے کو لوگوں کے درمیان پھیلائے، اور جب لوگ اس کی رائے پر راضی ہوجائیں، تو وہ دوبارہ الیکشن کے ذریعہ اپنی رائے کے مطابق اگلا نظام بنائیں۔
واپس اوپر جائیں

منصوبۂ تخلیق

خد اکے منصوبۂ تخلیق (creation plan)کا اصل ماخذ قرآن ہے۔ قرآن گویا اس منصوبۂ تخلیق کا مستند متن (authentic text) ہے۔ سائنس تخلیق کے مطالعے کا علم ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ سائنس اس قرآنی متن کی کمنٹری (commentary)ہے۔ یہ کمنٹری وہی چیز ہے، جس کو حدیثِ رسول میں تائیدِ دین بذریعہ غیر اہلِ دین کا نام دیا گیا ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)
فلکیاتی سائنس (astronomy)کی تحقیق کے مطابق کائنات کا آغاز تقریباً 13 بلین سال پہلے بگ بینگ (Big Bang)سے ہوا۔ خلا (space) میں اچانک ایک کاسمک بال (cosmic ball) ظاہر ہوا۔ اس کاسمک بال کے اندر بہت تیز دھماکا ہوا۔ سائنس داں اس کو بگ بینگ کا نام دیتے ہیں۔ اس کاسمک بال کے اندر وہ تمام پارٹیکل موجود تھے، جن سے موجودہ کائنات بنی ہے۔ اس دھماکےکے بعد کاسمک بال کے تمام پارٹیکل روشنی کی اسپیڈ سے بھی زیادہ تیز رفتار کے ساتھ خلا میں بکھر گئے۔یہ پارٹیکل اگر اسی طرح سفر کرتے رہتے اور خلا کی وسعتوں میں بکھر جاتے تو کائنات وجود میں نہ آتی۔ مگر ایک سکنڈ کے اندر پارٹیکل کی رفتار کم ہوگئی۔اس طرح پارٹیکل جمع ہونا شروع ہوئے، اور پھر تمام ستارے اور سیارے اور کہکشائیں وجود میں آئیں۔سائنسی معلومات کے مطابق، پارٹیکل کے اجتماع سے بننے والی اس دنیا کو چھ دوروں (periods)میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(1) بگ بینگ (Big Bang) (2) سولر بینگ (Solar Bang)
(3) واٹر بینگ (Water Bang) (4) پلانٹ بینگ (Plant Bang)
(5) اینمل بینگ (Animal Bang) (6) ہیومن بینگ (Human Bang)
تخلیقِ کائنات کے آخری مرحلہ میں زمین پر وہ حالات پیدا ہوئے جن کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔ ایک سائنسداں نے درست طور پر کہا ہے کہ پوری کائنات انسان کے لیے کسٹم میڈ کائنات (custom-made universe) ہے۔ اس کے بعد سیارۂ ارض (planet earth) پر خدا نے آدم (انسان ) کو پیدا کیا، اور آدم کے جوڑے حوا (Eve) کو۔ اس کے بعد مختلف احوال سے گزرتے ہوئےزمین پر انسان کی تاریخ بننا شروع ہوئی۔ خدا نے انسان کو کامل آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا تھا۔ لیکن اسی کے ساتھ انسانی تاریخ کو مینج (manage) کرنے کا کام خدا نے اپنے کنٹرول میں رکھا۔تاریخ کو مینج کرنے کا کام اس طرح ہوا کہ تاریخ مطلوب رخ پر سفر کرے، وہ مطلوب رخ سے بھٹک کر ڈی ریل (derail) نہ ہونےپائے۔ یہ خدائی منصوبہ اس طرح زیرِ عمل لایا گیا کہ تاریخ کا سفر مطلوب رخ پر جاری رہے، اوراسی کے ساتھ انسانی آزادی بھی پوری طرح برقرار رہے۔
God decided to manage history while maintaining human freedom.
انسانی تاریخ کو مینج کرنے کا یہ کام طویل مدت کے اندر مختلف صورتوں میں انجام پایا، جس کےبنیادی اجزاء غالباً وہی ہیں جن کو آنے والی سطروں میں بیان کیا گیا ہے۔ واضح ہوکہ مینجمنٹ کا مقصد تاریخ کو کنٹرول کرنا نہیں تھا، بلکہ ہر موڑ پر تاریخ کو ری ڈائریکشن (redirection) دینا تھا، تاکہ تاریخ کو ٹوٹل ڈی ریلمنٹ (total derailment) سے بچایا جاسکے۔ تاریخ کو مینج کرنے کا یہ کام نارمل کورس میں نہیں ہوا، بلکہ اس کو جس میتھڈ (method) کے ذریعے کیا گیا، اس کو شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment)کہا جاسکتا ہے۔
انسانی تاریخ کی ابتدا
قرآ ن اور بائبل کے مطابق آدم اور حوا کو پیدائش کے بعد سیارۂ ارض پر بسایا گیا۔ ان کی نسل دھیرے دھیرے دجلہ اور فرات کے درمیان اس مقام پر مرتکز ہوگئی، جس کو میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں سفر کی سہولتیں موجود نہ تھیں۔ اس لیے لمبے عرصے تک آدم کی نسل اسی علاقے میں آباد رہی۔ لیکن آبادی کا یہ اجتماع خالق کے نقشے کےمطابق نہ تھا۔ خالق کو مطلوب تھا کہ آدم کی نسل محدود رقبے سے نکلے، اورپورے کرۂ ارض پر پھیل جائے۔ اس مدت میں آدم کی نسل میں جمود آچکا تھا۔ ان کی نسلوں کے درمیان متفرق قسم کی برائیاں پیدا ہوچکی تھیں۔ اس وقت خدا نے ان کے درمیان پیغمبر نوح کو بھیجا تاکہ وہ ان کو صحیح رہنمائی دیں۔ مگر اپنے جمود میں وہ اتنے زیادہ کنڈیشنڈ ہوچکے تھے کہ کچھ افراد کے سوا ان کی اکثریت نے پیغمبر نوح کی بات کو اختیار نہیں کیا۔
اس لیے خدا نے یہ کیا کہ اس علاقہ میں ایک بڑا طوفان (great flood) آیا۔ اس مدت میں ان کے پیغمبر نوح نے ایک بڑی کشتی تیار کی۔ پیغمبر نوح نے اس ابتدائی انسانی نسل کے منتخب افراد کو اس کشتی پر سوار کیا۔ اس کے بعد یہ کشتی طوفان کے بہاؤ کے تحت چلتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ جودی پہاڑ پر پہنچ کر رک گئی(ھود، 11:44)۔ یہ پہاڑ موجودہ ترکی کے ساحلی علاقے پر واقع ہے۔ آدم کی نسل جودی پہاڑ کے علاقے میں اتری اور پھر دھیرے دھیرے 3 بر اعظموں میں پھیل گئی، یعنی ایشیا، یورپ اور افریقہ ۔
ڈیزرٹ تھراپی
آدم کی یہ نسل توالد و تناسل کے ذریعے بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ دوبارہ ان کے اندر جمود (stagnation) آیا۔ ان کے اندر فطرت کی پرستش (nature worship) کا کلچر پھیل گیا۔ خاص طور پر سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش۔ اس وقت پیغمبر ابراہیم ان کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے۔ انھوں نے لمبی مدت تک تبلیغ کی کوششیں جاری رکھی۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں قوم کے کچھ افراد نے اصلاح قبول کی۔ مگر قوم کی اکثریت بگاڑ کے راستے پر قائم رہی۔
اس وقت خدا کی ہدایت کے تحت پیغمبر ابراہیم نے اپنے کام کی نئی پلاننگ کی۔ انھو ں نے چند افراد کے ایک چھوٹے گروپ کو لے کر عراق سے ہجرت کی۔ یہ قافلہ 3 افراد پر مشتمل تھا، پیغمبر ابراہیم، ان کی بیوی ہاجرہ، اور ان کے بیٹے اسماعیل۔ یہ لوگ عراق سے ہجرت کرکے عرب کے اس مقام پر آئے، جہاں اب مکہ واقع ہے۔ اُس وقت یہ پورا علاقہ ایک صحرائی علاقہ تھا، یعنی ایک غیر متمدن علاقہ ۔ اس وقت خالق کا یہ منصوبہ ہوا کہ تمد ن سے دور اس علاقہ میں ایسی قوم تیار کی جائے جو فطرت کے ماحول میں پرورش پائے، اور اس وقت کے تمدنی بگاڑ سے محفوظ رہے۔ یہ ایک صحرائی منصوبہ تھا۔ اس کو اس اعتبار سے ڈیزرٹ تھراپی (desert therapy) کہا جاسکتا ہے۔ صحرا کے اس سادہ ماحول میں اس قوم کے اندر فطری طور پر توالد و تناسل کا عمل شروع ہوا، جس کے ذریعے اس قوم میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ تقریباً ڈھائی ہزار سال میں ایک نسل بن کر تیار ہوگئی، جس کو بنواسماعیل کہا جاتا ہے۔یہ نسل ایک نہایت جان دار نسل تھی، جس کو ایک مغربی مفکر نے نیشن آف ہیروز (a nation of heroes) کا نام دیا ہے۔
بنو اسماعیل کا رول
وہ لوگ جن کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے، وہ انھیں بنی اسماعیل کی نسل سے تھے۔ ان کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں ہر جگہ دنیا میں جبری بادشاہت کا نظام تھا۔ اس وقت عرب کی سرحد پر دو بڑی سلطنتیںتھیں- ایرانی سلطنت (Sasanid Empire)، رومی سلطنت (Byzantine Empire) ۔ یہ سلطنتیں جابر سلطنتیں تھیں۔ ان کی وجہ سے اس وقت کی دنیا میں آزادانہ سوچ کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اس لیے ترقی کا عمل رکا ہوا تھا۔ اس زمانے کی ان سلطنتوں نے خود آغاز کرکے ٹکراؤ کی صورت پیدا کی۔ اس کے نتیجے میں اصحابِ رسول سے ان کا ٹکراؤ ہوا، اور آخر کار مختلف احوال سے گزرتے ہوئےدونوں سلطنتوں کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد دنیا میں آزادیٔ فکر کا دور شروع ہوا۔اس واقعہ کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : اس نے نگاہ کی اور قومیں پراگندہ ہوگئیں، ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے، قدیم ٹیلے جھک گئے:
He stood, and measured the earth: he beheld, and drove asunder the nations, and the everlasting mountains were scattered, the perpetual hills did bow (Habakkuk, 3:6)
سیاسی جبر کے اس نظام کا خاتمہ ایک بے حد مشکل کام تھا۔ لیکن خدا کی توفیق سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ دونوں سلطنتوں میں باری باری ٹکراؤ ہوا۔ پہلے ایرانیوں نے رومیوں کو بری طرح شکست دی۔ اس کے بعد رومیوں نے جوابی اقدام کرکے ایرانی سلطنت کو توڑ ڈالا۔ یہ دونوں واقعہ دس سال کی مدت میں ہوا۔ جس کا ذکر قرآن میں سورہ الروم کے آغاز میں کیا گیا ہے۔ اس طرح بنو اسماعیل کو یہ موقع ملا کہ وہ آسانی کے ساتھ دونوں جابرانہ سلطنتوں کا خاتمہ کر دے، اور دنیا میں آزادی کے دور کا آغاز ہو۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں پہلی بار آزادانہ سوچ (free thinking) اور ترقی کا دروازہ کھلا، اور آخر کار دنیا توہماتی دور سے نکل کر سائنٹفک دور میں داخل ہوگئی۔
اس انقلاب کے بعد ایشیا ، افریقہ اور یورپ میں مسلم دور کا آغاز ہوا۔ اس کا ایک حصہ یہ تھا کہ شام اور فلسطین کے وہ علاقے مسلم اقتدار کے تحت آگئے، جن کو مسیحی لوگ مقدس مانتے تھے۔ اس کے بعد یورپ کی مسیحی قوموں کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوا کہ وہ شام و فلسطین کے مقدس علاقوں کو مسلمانوں (بنواسماعیل) کے قبضہ سے واپس لیں۔ اس مقصد کے لیے مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان بڑے پیمانے پر جنگ کا ایک سلسلہ چھڑگیا۔ یہ جنگی سلسلہ جس کو صلیبی جنگ (crusades) کہا جاتا ہے، وہ تقریباً دو سو سال تک جاری رہا۔ لیکن مسلمان اس زمانے میں اتنا زیادہ طاقت ور ہوچکے تھے کہ دو سو سال کی متحدہ جنگ کے باوجود یورپ کی مسیحی قوموں کو کامل شکست ہوئی، جس کو مؤرّخ گبن نے ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) کہا ہے۔ یہ شکست مسیحی قوموں کے لیے ایک دھماکے کے مانند تھی۔ اس دھماکے نے مسیحی قوموں کے اندر نئی سوچ کا آغاز کیا۔ اس کے بعد ابتداء ًنشاۃ ِثانیہ (Renaissance) اور پھر مغربی تہذیب (western civilization) کا دور آیا، اور دنیا کی تصویر یکسر بدل گئی۔
جدید تہذیب کا آغاز
صلیبی جنگوں میں شدید شکست کے بعد یورپ کی مسیحی قوموں میں ایک نئی سوچ پیدا ہوئی۔ اس سوچ کو ایک مبصر نے اسپریچول کروسیڈس (spiritual crusades) کا نام دیا ہے۔ صلیبی جنگوں میں ناکامی کے بعد یورپ کی مسیحی قوموں میں نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کا دور آیا۔ اس سے مسیحی قوموں کا ذہن ٹرگر (trigger)ہوا۔ اس سے ان کے اندر نئی سوچ پیداہوئی۔ یہ سوچ پیدا ہوئی کہ ہم جنگ کے میدان میں مسلمانوں سے نہیں جیت سکتے۔ اس لیے اب ہمیں اس معاملے میں نئی پلاننگ کرنا چاہیے۔ اس طرح دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ مسیحی قوموں کے اندر جنگ کے میدان کے بجائے بڑے پیمانے پر فطرت (nature)کا میدان مطالعے کا موضوع بن گیا۔وہ دھیرے دھیرے مکمل طور پر فطرت کے رموز کو دریافت کرنے میں مشغول ہوگئے۔ ان دریافتوں کے بعد دھیرے دھیرے دنیا میں وہ دور آیا، جس کو ٹکنالوجی کا دور (age of technology) کہا جاتا ہے۔ اس پراسس کا آخر ی نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی قومیں دنیا کی غالب قومیں بن گئیں۔ یہ واقعہ کسی سازش کے تحت نہیں ہوا، بلکہ ایک فطری عمل (natural process)کے تحت پیش آیا۔
ٹکنالوجی کی اسی دریافت کا یہ نتیجہ تھا کہ جدید تہذیب (modern civilization) وجود میں آئی۔ صنعتی انقلاب (industrial revolution) کا دور دنیا میں آیا۔ ٹکنالوجی کی صورت میں ایک عظیم خزانہ نیچر میں چھپاہوا تھا، وہ سب دریافت ہوا، اور آخر کار یہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوگئی، جس کو سائنسی تہذیب کا دور کہا جاتا ہے۔
دو عالمی جنگیں
ترقیات کے نتیجے میں فطری طورپر قوموں میں رقابت (rivalry) شروع ہوگئی۔ اس رقابت نے بڑھتے بڑھتے عالمی جنگ کی صورت اختیار کرلی۔ چنانچہ بیسویں صدی میں دو بڑی جنگیں پیش آئیں، جن کو پہلی عالمی جنگ (1914-1918)اور دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کہا جاتا ہے۔ تاریخ کے دوسرے بڑے واقعات کی طرح ان جنگوں میں بھی فطرت کے اسباب اپنا کام کر رہے تھے، اور اسی کے نتیجے میں دونوں عالمی جنگیں پیش آئیں۔ لیکن تاریخ کے دوسرے منفی واقعات کی طرح ان جنگوںکا بھی براہِ راست طور پر کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں فطری طور پر ایک نئی سوچ پیدا ہوئی۔ وہ یہ کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ اس تجرباتی سوچ کے تحت انسانی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ اس دور کو دورِ جنگ کے بجائے دورِ امن کا نام دیا جاسکتا ہے۔
دونوں عالمی جنگوں کا نتیجہ بتاتا ہے کہ ان جنگوں میں کسی بھی قوم کو کوئی بھی حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ان جنگوں میں اگر کسی کو جیت ہوئی تو اس کی جیت بھی پرک وکٹری (pyrrhic victory) کے ہم معنی تھی۔ مثلاً برطانیہ بظاہر اس جنگ میں کامیاب ہوا، لیکن جنگ کے نتیجے میں وہ اتنا زیادہ کمزور ہوگیا کہ اس کو اپنے ایشیائی مقبوضات سے دستبردار ہونا پڑا، وغیرہ۔
عالمی جنگوں کے بعد فطری اسباب کے تحت قوموں کے اندر نئی سوچ جاگی۔ انھوں نے جنگ کے طریقے کے بجائےامن کے طریقے میں کامیابی کے راستے کو تلاش کیا، اور آخر کار اس تلاش میں وہ کامیاب ہوئے۔ عالمی جنگوں کا نتیجہ یہ تھا کہ دنیا میں پہلی بار اقوامِ متحدہ کی صورت میں مبنی برامن عالمی اتحاد کا دور شروع ہوا۔ دنیا کی تمام قوموں کے اتفاق سے یہ مان لیا گیا کہ کسی مقصد کے حصول کے لیے اب جنگ کا طریقہ ایک متروک طریقہ ہوگا۔ تمام قوموں نے انسان کی فکری آزادی کو عالمی اصول (universal norm) کے طور پر تسلیم کرلیا۔
دورِ امن کا مظاہرہ (demonstration)
دوسری عالمی جنگ کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ مختلف قوموں نے عالمی دباؤ کے تحت اپنی تعمیرِ نو کا پر امن منصوبہ شروع کیا، اور واضح طور پر اس میں کامیابی حاصل کی۔ اس طرح عملی طور پر یہ ثابت ہوگیا کہ جنگ کے نتیجے میں جو چیز ملتی ہے، وہ صرف بربادی ہے۔ اس کے برعکس، مبنی برامن منصوبہ یقینی طور پر کامیابی تک پہنچاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کی جو تنظیم ِنو ہوئی ،یہ اس کا ایک واضح ثبوت ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کو مجبور کن حالات میں اپنے زیر قبضہ علاقوں کو چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد برطانیہ نے پرامن بنیادوں پر اپنی تعمیرِ نو کا منصوبہ بنایا۔ اس نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے نئے نئے میدان دریافت کیے۔ مثلاً ایجوکیشن اور ٹورزم ،وغیرہ۔ اس پر امن منصوبہ بندی کے ذریعے برطانیہ نے دوبارہ وہ سب کچھ حاصل کرلیا، جس کے لیے پہلے بے فائدہ طور پر جنگ اور فتوحات کا طریقہ اختیارکیا جاتا تھا۔
یہی معاملہ یورپ کے دوسرے ملک فرانس کا ہوا۔ فرانس میں جنرل ڈیگال کے اقتدار کا دور آیا۔ اس نے محسوس کیا کہ نو آبادیاتی نظام فرانس کے لیے صرف کمزوری کا سبب بنا ہے۔ ان کالونیوں میں فرانس کو مسلسل طور پر متشددانہ مزاحمت کا سامنا کر نا پڑتا تھا۔ اس متشددانہ مزاحمت کا نتیجہ آخر کار یہ ہوا کہ فرانس نیوکلیر سائنس اور ترقیاتی دوڑ میں دوسری قوموں سے پیچھے ہوگیا ۔ چنانچہ جنرل چارلس ڈیگال کی قیادت میں فرانس نے اپنے تمام افریقی مقبوضات کو یک طرفہ طور پر چھوڑ دیا۔ اس کے بعد فرانس کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنی اقتصادیات کو پرامن منصوبے کے تحت از سرِ نو منظم کرے۔ نتیجہ بتاتا ہے کہ فرانس اس نئی منصوبہ بندی کے معاملے میں پوری طرح کامیاب رہا۔ مثلاً آج ہوابازی (aviation) کے معاملے میں فرانس امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ جب کہ اس سے پہلے فرانس اس معاملے میں بہت پیچھے تھا۔
یہی معاملہ جرمنی کا ہوا۔ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی اس عزم کے ساتھ شامل ہوا تھا کہ وہ پورے یورپ کا قائد بنے گا۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ جرمنی یورپ کا سب سے کمزور ملک بن گیا۔ ان جنگوں کے نتیجے میں جرمنی نے اپنے جغرافی رقبے کا تقریباً ایک تہائی حصہ کھودیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جرمنی نے اپنی نئی منصوبہ بندی شروع کی۔ یہ منصوبہ بندی اپنی نوعیت میں بڑی عجیب تھی، یعنی باقی ماندہ جرمنی (remaining part of Germany) کی بنیاد پر اپنی تعمیرِ نو کرنا۔ یہ شاید تاریخ میں ایک انوکھی منصوبہ بندی تھی۔ یہ منصوبہ بندی کامیاب رہی، او ر آج جرمنی یورپ کی نمبر ایک طاقت بنا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ اس نے اپنے کھوئے ہوئے جغرافی رقبے کو دوبارہ کامیابی کے ساتھ حاصل کرلیا۔
اسی قسم کی انقلابی مثال جاپان میں پائی جاتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان بظاہر دنیا کا سب سے زیادہ برباد ملک بن چکا تھا۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جاپان کو نیوکلیر بمباری کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر جاپان کی بربادی نے جاپان کے مدبرین کے اندر نئی سوچ پیدا کی۔ اس ناقابلِ برداشت حادثے کو انھوں یکسر بھلا دیا۔جاپان کےمدبرین نے اس منصوبہ پر اپنی قوم کو یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ اگر امریکا نے 1945میں ہمارے ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کیا تھا تو اس سے پہلے 1941میں ہم امریکا کے پرل ہاربر کو تباہ کرچکے تھے۔ اس طرح معاملہ برابر ہوگیا۔ ماضی کو بھلاؤ، او ر مستقبل کی تعمیر کرو۔ اس طرح جاپان کے ذریعے یہ مثال قائم ہوئی کہ کس طرح بربادی کے بعد نئی پلاننگ کے ذریعے دوبارہ ایک بڑی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ گویا حالات کی زبان تھی، اور تاریخ میں خالق کا مینجمنٹ اسی طرح حالات کے دباؤ کے تحت اپنا کام کرتا ہے۔
تائیدِ عام
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ الطبرانی نے یہ روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے: إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ہُمْ مِنْ أَہْلِہِ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640) ۔ یعنی ضرور اللہ تعالی اسلام کی مدد ان لوگوں کے ذریعے کرے گا جو دین میں سے نہ ہوں گے۔ صحیح البخاری میں یہ روایت ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِر (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی ضرور اللہ تعالی اس دین کی مدد فاجر انسان کے ذریعے کرے گا۔ یہ در اصل اسلام کے حق میں ایک پیشین گوئی (prediction) ہے۔ یہ پیشین گوئی الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ حدیث کی اکثرمشہور کتابوں میں آئی ہے۔
اس حدیث پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عالمی حالات میں ایک نیا تاریخی عمل (historical process) شروع ہوگا، جو اس حد تک پہنچے گا کہ اللہ کے دین کو عمومی اعتراف (general acceptance) کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔ یہ وقت وہ ہوگا جب کہ اپنے اور غیر (we and they)کا فرق مٹ جائے گا۔ کچھ لوگ اگر مومنین ہوں گے تو بقیہ لوگ مؤیدین (supporters) بن جائیں گے۔ اس طرح اہلِ ایمان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ کسی بھی قسم کی حقیقی رکاوٹ کے بغیر اللہ کے دین کو سارے عالم میں پہنچائیں۔ اللہ کی کتاب کو ہر گھر میں داخل کردیں ۔
حالات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دور عملاً دنیا میں آچکا ہے۔ اب اشاعت اسلام کے لیے دوسری قوموں کی طرف سے کوئی حقیقی رکاوٹ نہیں۔ اب اگر رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے تو صرف اس وقت جب کہ مسلمان خود اپنی کسی غلطی کی بنا پر لوگوں کو غیر ضروری طور پر اپنا مخالف بنالیں۔وہ ’’آبیل مجھے مار‘‘ کی پالیسی اختیار کرکے دوسروں کے اندر ایسا ردعمل (reaction) پیدا کریں کہ جو ان کے لیے عملاً موافق اقوام بنے ہوئے ہیں، وہ غیر ضروری طور پران کے مخالف بن جائیں۔
تاریخ کے فائنل رول کا زمانہ
اللہ رب العالمین کائنات کا خالق ہے۔ اس نے ایک منصوبے کے تحت انسان کو پیدا کیا۔ اس منصوبے کے تحت رب العالمین نے انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ کامل آزادی کے ساتھ زمین (planet earth) پر آباد ہو، اور کامل آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری کرے۔ لیکن اسی کے ساتھ خالق انسانی تاریخ کو مینج کرتا رہا۔ مینجمنٹ کے اسی واقعے کو قرآن میں تدبیر امر (السجدۃ، 32:5) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
انسانی تاریخ کے بارے میں اللہ رب العالمین کا نقشہ یہ تھا کہ انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو اس طرح مینج کیا جائے کہ فطرت کے تمام امکانات دریافت ہو کر سامنے آجائیں۔ خالق نے یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا کہ انسان کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) باقی رہے، اور ترقی کا عمل بھی پوری طرح جاری رہے، اور اس پراسس کے نتیجے میں فطرت میں چھپی ہوئی ٹکنالوجی دریافت ہو،جو آخر کار ایک مکمل تہذیب (civilization) کی صورت اختیار کرلے۔ پھر انسانی تاریخ مختلف حالات سے گزرتے ہوئے یہاں تک پہنچے کہ دنیا میں کمیونی کیشن کا دور آئے، امن کا دور آئے، صنعتی تہذیب کا دور آئے، بڑے پیمانے پر انسان کی نقل و حرکت (mobility) کا دور آئے، علوم کی ترقی کا دور آئے، عالمی انٹرایکشن کا دور آئے، کامل آزادیِ خیال کا دور آئے، کھلے پن (openness) کا دور آئے، وہ تمام حالات پیدا ہوجائیں جب کہ وہ دعوتی پلاننگ کی جاسکے، جس کے ذریعے انسان پر کامل معنوں میں اتمام حجت کا واقعہ انجام پائے۔ غالباً یہی وہ حقیقت ہے جس کو حدیثِ رسول میں شہادتِ اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کہا گیاہے۔
اب انسانی تاریخ اکیسویں صدی کے دور میں پہنچ چکی ہے۔ اس دور میں عالمی شہادت کے تمام موافق حالات مکمل طور پر وقوع میں آچکے ہیں۔ اب پوری طرح ممکن ہوگیا ہےکہ اس دعوتی نشانے کو عملاً ظہور میں لایا جائے، جس کی پیشین گوئی حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں کی گئی ہے: لَا یَبْقَى عَلَى ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللہُ کَلِمَةَ الْإِسْلَامِ(مسند احمد، حدیث نمبر 23814)۔ یعنی روئے زمین پر کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں باقی رہے گا، مگر اللہ اس میں اسلام کے کلمے کو داخل کردے گا۔
عالمی شہادت کا یہ تکمیلی واقعہ امتِ محمدی کے ذریعے انجام پانا ہے۔اس کے مطابق امتِ محمدی کا آخری رول شہادتِ اعظم کی انجام دہی ہے۔ اس واقعے کی عملی صورت یہ ہے - خدا کے کلام (قرآن) کا معیاری ترجمہ ہر زبان میں تیار کرکے اس کو پورے کرۂ ارض پر پھیلانا تاکہ قوموں کی اپنی قابلِ فہم زبان (understandable language) میں اللہ کی ہدایت ہر ایک کے پاس پہنچ جائے، اور اقامتِ حجت کاواقعہ پیش آجائے، تاکہ وہ معاملہ سامنے نہ آئے،جس کا بیان قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ (7:172)۔ یعنی قیامت کے دن انسان عذر کریں کہ ہم کو اس کی خبر نہ تھی۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
موجودہ زمانے میں کمیونی کیشن بہت بڑی نعمت ہے، مگر اس نعمت کا اصل استعمال یہ ہے کہ اس کو اسلامی دعوت کے لیے استعمال کیا جائے۔ بدقسمتی سے جدید کمیونی کیشن کو اب تک اسی اصل کام کے لیے استعمال نہ کیا جاسکا۔ اسلامی دعوت یہ ہے کہ اسلام کے مثبت پیغام کو قومی اور سیاسی آلائشوں سے پاک کرکے خالص ربّانی انداز میں پھیلایا جائے۔ جدید کمیونی کیشن نے پہلی بار اس کو ممکن بنایا ہے کہ دعوت کا کام عالمی سطح پر انجام دیا جاسکے۔ جدید کمیونی کیشن کا اصل استعمال یہی ہے۔ جدید کمیونی کیشن کے دعوتی استعمال کے بعد، اس کے دوسرے استعمالات بھی جائز ہوسکتے ہیں۔ مگر دعوتی استعمال کے بغیر اس کے دوسرے استعمالات کا کوئی جواز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

معیار کی تبدیلی

موجودہ زمانے میں مسلمان عام طور پر منفی (negative) ہوگئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم محاصرے کی حالت میں ہیں:
We are under siege
وہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں اسلام دورِ مظلومیت میں ہے۔ اس مزاج کی وجہ سے مسلمانوں میں تشدد کا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ اس منفی ذہنیت کی ذمہ داری تمام تر موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں پر ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے معیار (criterion) کو بدل دیا۔ ان کے نزدیک اسلام کا بہتر حالت میں ہونا یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت قائم ہو۔ عثمانی خلافت کی طرح دنیا میں مسلم استعمار قائم ہو۔ مگر یہ معیار غلط ہے۔اس معاملے میں صحیح معیار یہ ہے کہ مسلمانوں کو عمل کی آزادی حاصل ہو، اسلامی دعوت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ پائی جائے۔
موجودہ زمانے میں اسلام کے لیے مطلوب حالت پوری طرح قائم ہے۔ آج فتنہ (religious persecution)ختم ہوگیا ہے۔ جدید ذرائع پوری طرح اسلام کے لیے سازگار ہیں۔لیکن لوگ اپنے غلط معیار کی بنا پر منفی سوچ میں مبتلا ہوگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کا دور اسلام کے لیے تائید کا دور ہے۔ مگر اپنی غلط سوچ کی بنا پر یہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ آج کا دور اسلاموفوبیا کا دور ہے۔یہ تمام باتیں بالکل بے اصل ہیں۔ اگر مسلمان اپنے خود ساختہ میعار کو بدل لیں تو اچانک دیکھیں گے کہ دورِ جدید دورِ اسلام ہے۔ وہ اسلام کی تائید (support) کا دور ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمان عام طور پر احساسِ شکست کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کا سبب شکست کا واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کا شکست خوردہ نفسیات میں مبتلا ہونا ہے۔ اگر مسلمانوں کی سوچ بدل جائے اور وہ شکست اور فتح کی نفسیات میں سوچنے کے بجائے دعوتی مواقع کی اصطلاح میں سوچنے لگیں، تو اچانک صورت حال بالکل بدل جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

پرامن طریق کار

پرامن اسلامی طریقِ کار کیا ہے، اس کی ایک کامیاب مثال کشمیر کی تاریخ میں پائی جاتی ہے۔ کشمیر کو عام طور پر لوگ اس کے قدرتی حسن کی وجہ سے جانتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں اس سے بھی زیادہ بڑی چیز موجود ہے۔ یہ اسلامی طریقِ کار کا وہ نمونہ ہے جو میر سید علی ہمدانی (1314-1384 ء) کی زندگی میں ملتا ہے۔ موصوف نے، جن کو کشمیری عام طورپر ’’امیر کبیر‘‘ کہتے ہیں، اپنے عمل سے ایک عظیم قابل تقلید نمونہ قائم کیا ہے، جس کی مثال حالیہ صدیوں میں کم ملے گی۔ کشمیر اپنے قدرتی مناظر کی وجہ سے اگر جنت نظیرہے تو اپنے تاریخی نمونے کے ذریعہ وہ ہم کو اسلام کے طریقِ دعوت کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال (1877-1938 ء) نے امیر کبیرکی بابت کہا تھا:
دستِ او معمارِ تقدیر امم
امیر کبیرکی بابت یہ الفاظ صد فی صد درست ہیں۔ موجودہ مسلم کشمیر زیادہ تر امیر کبیرہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ مگر امیر کبیرنے یہ کام ’’شمشیر وسناں‘‘ کے ذریعہ نہیں کیا، انھوں نے یہ کامیابی ’’شمشیر وسناں‘‘ کو ترک کرکے حاصل کی۔ امیر کبیر کی زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ —اسلام کو زندہ کرنا چاہتے ہو تو ٹکراؤ کے ذہن کو ہمیشہ کے لیے ختم کردو، مذہبی اور سیاسی جھگڑے کھڑے کرنے سے مکمل پرہیز کرو۔ اس کے بعد تم کو خدا کی نصرتیں ملیں گی اور اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی حاصل ہوگی۔
میر سید علی ہمدانی ایران کے رہنے والے اور تیمور لنگ (1335-1405ء) کے ہم عصر تھے۔ شاہ تیمور ان سے کسی بات پر ناراض ہوگیا اور ان کو ایران سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اب امیر کبیرکے لیے ایک راستہ یہ تھا کہ وہ تیمور لنگ کے خلاف جہاد کا نعرہ لگائیں اور ایران میں حکومتِ صالحہ قائم کرنے کی جدوجہد کریں، خواہ اس کے نتیجہ میں ان کو شہید ہوجانا پڑے۔ مگر امیر کبیر نے اِس قسم کے سیاسی تصادم سے پرہیز کیا۔ وہ اپنے چالیس ساتھیوں کو لے کر اپنے وطن ہمدان سے نکل پڑے۔ افغانستان ہوتے ہوئے یہ قافلہ 781 ھ میں کشمیر پہنچا۔امیر کبیراس سے پہلے 762ھ میں اپنی سیاحت کے دوران کشمیر کو دیکھ چکے تھے۔
کشمیر پہنچ کر دوبارہ موقع تھا کہ یہاں سے شاہ تیمور کے خلاف سیاسی تحریک چلائی جائے۔ تیمور کے معاصرین میں ایسے لوگ تھے جو بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر تیمورسے بغض رکھتے ـتھے۔ امیر کبیر ان کے ساتھ متحدہ محاذ بنا کر تیموری اقتدار کو ختم کرنے کی مہم جاری رکھ سکتے تھے، مگر امیر کبیرنے اس قسم کی کسی بھی کارروائی سے مکمل پرہیز کیا۔ اسی طرح قیادت کا ایک اور راستہ امیر کبیرکے لیے پوری طرح کھلا ہوا تھا۔ یہ اس وقت کے کشمیری مسلمانوں کی اقلیت کے معاشی اور سماجی حقوق کا مسئلہ تھا۔ اس وقت کشمیر میں اگر چہ ایک مسلم خاندان کی حکومت تھی، مگر کشمیری مسلمان، ریاست میں ایک کمزور اور غریب اقلیت کی حیثیت رکھتے تھے، حتی کہ کہا جاتا ہے کہ ان سے جبراً بت خانوں کے نذرانے وصول کیے جاتے تھے۔ امیر کبیران کی طرف سے حقوق طلبی کی مہم چلا کر فی الفور مسلمانوں کے قائد بن سکتے تھے، مگر امیر کبیرنے اس قسم کی ’’ملی سیاست‘‘ سے بھی کوئی سروکار نہ رکھا۔
اسی طرح امیر کبیرکے لیے ایک راستہ یہ تھا کہ وہ ’’انسانیت‘‘ کے پیامبر بن کر اٹھیں، اور ریاست کے مختلف فرقوں کو امن کے ساتھ رہنے کا وعظ سنائیں۔ ایسا کرکے وہ بہت جلد دونوں فرقوں کے درمیان ہر دل عزیزی اور مقبولیت حاصل کرسکتے تھے۔ کیوں کہ ہر وہ تحریک لوگوں کو بہت پسند آتی ہے جس میں حق وباطل کا مسئلہ چھیڑے بغیر رواداری (tolerance)اور میل جول کا اپدیش دیاگیا ہو، جس میں کوئی زد اپنے اوپرپڑتی ہوئی محسوس نہ کرے۔ مگر اس قسم کی تحریک جلسوں اور تقریروں کی سطح پر خواہ کتنی ہی کامیاب نظر آئے، عملی نتیجہ کے اعتبار سے وہ ہمیشہ بے فائدہ ثابت ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اس کام کا اسلامی دعوت سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کا کام، اپنی ظاہری خوش نمائی کے باوجود، صرف مسائلِ دنیا کی طرف متوجہ کرنے کا کام ہے، جب کہ اسلامی دعوت کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو مسائلِ آخرت کی طرف متوجہ کیا جائے۔
امیر کبیرکا پروگرام نہ شاہ تیمور کے خلاف رد عمل کے طورپر بنا، اور نہ کشمیری مسلمانوں کے وقتی حالات سے متاثر ہو کر۔ اس وقت کشمیر میں ایک مسلم راجہ سلطان قطب الدین کی حکومت تھی۔ اس کے اندر بہت سی اعتقادی اور عملی خرابیاں موجود تھیں۔ آپ نے سلطان کو ناصحانہ انداز کے خطوط بھیج کر اس کو اصلاحِ حال کی طرف متوجہ کیا۔ تاہم آپ نے اس کو اقتدار سے ہٹانے اور اس کی جگہ صالح حکمراں لانے کی کوئی مہم نہیں چلائی۔ امیر کبیر نے ان تمام عوامل سے اوپر اٹھ کر سوچا اور خود اپنے مثبت فکر کے تحت اپنا پروگرام بنایا۔ پھر یہ پروگرام بھی کوئی کنونشن یا کانفرنس کا انعقاد نہ تھا۔ یہ تمام تر ایک خاموش عملی پروگرام تھا۔ وہ اور ان کے رفقا ریاست کے مختلف حصوں میں پھیل گئے اور پُر امن طور پریہاں کے باشندوں میں اسلام کی تبلیغ کرنے لگے۔ انھوں نے کشمیریوں کی زبان سیکھی، یہاں کے حالات سے اپنے کو ہم آہنگ کیا۔ اجنبی دیس میں اپنے لیے جگہ بنانے کی مصیبتیں اٹھائیں۔ اس طرح صبر وبرداشت کی ایک زندگی گزارتے ہوئے اپنے خاموش دعوتی مشن کو جاری رکھا۔
کشمیر میں اسلام
کشمیر میں اسلام کا ابتدائی داخلہ اگرچہ محمد بن قاسم (66-96ھ) کے زمانہ میں ہوا۔ تاہم ریاست میں اسلام کی نمایاں اشاعت غالباً سید بلبل شاہ قلندر ترکستانی کے وقت سے شروع ہوئی۔ سات سو سال پہلے کشمیر میں ایک بودھ راجہ رینچن شاہ کی حکومت (1320-23 ء) تھی۔ یہ راجہ سید بلبل شاہ کے ہاتھ پر مسلمان ہوا۔ اس زمانہ میں لوگ اپنے سرداروں کے دین پر ہوتے تھے۔ راجہ کو دیکھ کر کشمیریوں کی ایک تعداد مسلمان ہوگئی۔ سیدبلبل شاہ فقہی مسلک کے اعتبار سے حنفی تھے۔ چنانچہ اس وقت جو لوگ مسلمان ہوئے، وہ ان کے اثر سے حنفی مسلک کے مطابق عبادت کرنے لگے۔ میرسید علی ہمدانی کی تبلیغ سے جب کشمیری باشندے مسلمان ہونے لگے تو ایک مسئلہ پیدا ہوگیا، وہ یہ کہ یہ نومسلم کس فقہی مسلک پر عبادت کریں۔ امیر کبیرخود شافعی المسلک تھے، اور اس وقت کشمیر میں جو مسلمان تھے، وہ حنفی المسلک تھے۔ امیر کبیر اگر ان نومسلموں کو اپنے فقہی مسلک کی تلقین کرتے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں میں دو گروہ بن جاتے۔ ایک امیر کبیرکے ہاتھ پر اسلام لائے ہوئے لوگوں کا، دوسرا بقیہ کشمیری مسلمانوں کا۔ حنفی اور شافعی کا یہ جھگڑا نہ صرف دونوں کے مدرسوں اور مسجدوں کو الگ کردیتا، بلکہ اپنے اپنے فقہی مسلک کی صحت و برتری ثابت کرنے کی کوشش میں اصل تبلیغی کام پس پشت پڑجاتا۔کشمیری مسلمان دو جتھوں کی صورت اختیار کرکے ایک دوسرے سے لڑنا شروع کردیتے۔ جو قوت دینِ حق کی اشاعت میں صرف ہوتی، وہ آپس کے جھگڑوں میں بر باد ہوجاتی۔ نسلیں گزر جاتیں مگر یہ اختلاف کبھی ختم نہ ہوتا۔
میر سید علی ہمدانی نے صرف اساساتِ دین کی تبلیغ کی۔ انھوں نے فقہی مسالک کی کوئی بحث نہیں چھیڑی۔ انھوںنے یہاں تک احتیاطسے کام لیا کہ اپنا شافعی المسلک ہونا اپنے پیروؤں سے پوشیدہ رکھا۔ عام مسلمانوں کے ساتھ آپ خودبھی حنفی طریقہ پر نماز پڑھتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اسی کے مطابق عبادت کرنے کی تلقین کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر میں ان کو کام کرنے کے مکمل مواقع ملے۔ ان کو ہر طبقہ کا تعاون حاصل رہا۔ غیر متعلق مسائل کے الجھاؤ سے وہ بالکل محفوظ رہے۔ اپنی دعوتی جدوجہد میں ان کو اتنی زیادہ کامیابی ہوئی کہ کشمیر دائمی طورپر مسلم اکثریت کا علاقہ بن گیا۔ امیر کبیر اگر یہاں حنفی مسلک اور شافعی مسلک کی بحثیں چھیڑتے تو ان کو یہ کامیابی نہیں ہوسکتی تھی، اور بالفرض اگر کوئی کامیابی ہوتی تو وہ بھی اِس قیمت پر کہ ان کی آمد کشمیری مسلمانوں کو باہم لڑنے والے دو گروہوں میں بانٹ دینے کا سبب بن جاتی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو لوگ اس راہ پر چلیں ان کا کسی سے اختلاف نہیں ہوگا۔ با مقصد آدمی کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ خود امیر کبیر کے حالات بتاتے ہیں کہ 73 سال کی عمر میں موضع پکھلی (کشمیر) کے کچھ شر پسندلوگوں نے آپ کو زہر دے دیا، اور اسی میں آپ کا انتقال ہوا۔ تاہم اس قسم کا اختلاف محض ذاتی وجوہ سے ہوتا ہے اور وہ داعی کو صرف ذاتی نقصان پہنچاتا ہے، جب کہ ایک غیر دینی مسئلے کو دینی مسئلہ بنانا دین میں فرقہ بندی کو جنم دیتا ہے، جو اتنا بڑا جرم ہے کہ کسی گروہ سے وہ تمام نعمتیں چھن جاتی ہیں جو کتاب ِالٰہی کا حامل ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے مقدر کی گئی تھیں۔
امیر کبیرسید علی ہمدانی کی زندگی اسلامی طریقِ کار کی نہایت کامیاب عملی مثال ہے۔ اپنی پُرامن دعوتی جدوجہد میں انھوں نے جس چیز کو مرکز توجہ بنایا، وہ توحید اور آخرت کا مسئلہ تھا۔ اس کے علاوہ سیاسی مسئلے، معاشی مسئلے، فقہی مسئلے، انھوں نے بالکل نہیںچھیڑا۔ وہ اصل دین پر یکسو رہے، نہ کہ متفرقاتِ دین پر۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ عبادت کی ادائیگی میں آداب اور مناسک کے لحاظ کو غیر ضروری سمجھتے تھے۔ وہ ہر ایک کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے، اورہر چیز کو انھوں نے بالفعل اختیار کیا۔ تاہم انھوںنے جس چیز کو دعوت کا عنوان بنایا، وہ متفق علیہ دین تھا، نہ کہ سُبُلِ متفرقہ۔
امیر کبیر فقہ کی تمام شرائط کے مطابق مکمل نماز پڑھتے تھے، مگر فقہی اختلافات کے پیچھے پڑنا، ایک مسلک کو غلط ثابت کرکے اس کی جگہ دوسرے مسلک کی ترجیح قائم کرنا، انھوں نے اپنا مشن نہیں بنایا۔ اسی طرح معاشیات کے سلسلے میں انھوں نے ایک راستہ اختیار کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو وہ اوران کے ساتھی زندہ کیسے رہ سکتے تھے۔ مگر معاشی مسائل کو حل کرنے یا اس کو پوری ملت کا مشترک مسئلہ بنا کر اس کی بنیاد پر تحریک چلانے کا طریقہ انھوں نے اختیار نہیں کیا۔ اسی طرح سیاست کا نعرہ نہ لگانے کے باوجود ان کی ایک سیاست تھی، بلکہ نہایت گہری سیاست تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کشمیر کو یہ مقام نہ ملتا کہ یہاں صرف مسلم وزارت بنتی ہے،دوسری وزارت بننے کا یہاں کوئی سوال نہیں۔ کشمیر کو یہ سیاسی عطیہ تمام تر امیر کبیر کی دین ہے۔ اگر چہ معروف معنوں میں انھوں نے کوئی سیاسی پروگرام اپنی زندگی میں نہیں چلایا اور نہ کوئی ان کو ’’سیاسی لیڈر‘‘ کی حیثیت سے جانتا ہے — امیر کبیر ہر چیز کے پیچھے نہیں دوڑے۔ انھوں نے صرف یہ کیا کہ حقیقت کا سِراا پکڑ لیا۔ اس کے بعد تمام چیزیں خود بخود ان کی طرف آتی چلی گئیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
خواجہ نظام الدین اولیا ءنے اپنی ایک مجلس میں فرمایا کہ عام لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ سیدھے کے ساتھ سیدھا اور ٹیڑھے کے ساتھ ٹیڑھا۔ لیکن ہمارے بزرگوں کا یہ کہنا ہے کہ سیدھوں کے ساتھ سیدھا اور ٹیڑھوں کے ساتھ بھی سیدھا۔ اگرکوئی شخص ہمارے سامنے کانٹا ڈالے اور ہم بھی کانٹا ڈالیں تو کانٹے ہی کانٹے ہوجائیں گے۔ اگر کسی نے کانٹا ڈالا ہے تو تم اس کے سامنے پھول ڈالو۔ پھر پھول ہی پھول ہوجائیں گے۔(الرسالہ، اپریل، 2006)
واپس اوپر جائیں

آفاقی طرزِ فکر

قرآن کی آئڈیا لوجی آفاقی آئڈیالوجی ہے۔یہ نقطۂ نظرمختلف انداز سے سارے قرآن میں پھیلا ہوا ہے۔ اس سلسلے کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے ، وہ زمین میں بڑے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا، اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرکے نکلے، پھر اس کو موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کے یہاں مقرر ہوچکا (4:100)۔ قرآن کی یہ آیت زیادہ معنی خیز انداز میں میری سمجھ میں اس وقت آئی، جب کہ میں نے 1971 میں احمد آباد کا سفر کیا۔ یہاں میری ملاقات ایک مسلم نوجوان سے ہوئی۔ وہ انجینئر تھے۔ حال میں انھوں نے ایک فیکٹری بنائی تھی۔ وہ مجھ کو اپنی فیکٹری میں لے گئے۔ ان کی فیکٹری میں ابھی تک کوئی پروفیشنل مینیجر نہیں تھا۔ انھوں نے اپنی فیکٹری کے مختلف حصوں کو دکھاتے ہوئے پروفیشنل مینیجر کے نہ ہونے کا ذکر کیا، اور کہا : اپنی تو لیمیٹیشنس (limitations) آجاتی ہیں، مینجمنٹ سائڈ پر۔
فیکٹری کے مالک کا یہ جملہ سن کر میرا مائنڈ ٹریگر (trigger)ہوگیا۔ میں نے ایک نئے لائن پر سوچنا شروع کردیا۔ میں نے سوچا کہ ہمارے رہنماؤں نے پوری بیسویں صدی اسی سوچ میں گزار دی۔ ایک لفظی فرق کے ساتھ ان کی مشترک سوچ یہ تھی: اپنی تو لیمیٹیشنس آجاتی ہیں، پولیٹکل سائڈ پر۔ پولٹکس کوئی آفاقی نقطہ نظر نہیں ہے۔ پولٹکس کی محدود سرحدیں ہوتی ہیں۔ اس بنا پر ہمارے تمام رہنما گویا زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اپنی تو لیمیٹیشنس آجاتی ہیں، پولٹکل سائڈ پر۔ اس فکری محدودیت کی بنا پر ہمارے رہنما امت کو آفاقی نقطہ نظر نہ دے سکے۔ ہررہنما کی سوچ کسی نہ کسی پولٹکل سرحد پر رک گئی۔ ہر رہنما فکر ی محدودیت کا شکار ہوا، اور امت کو بھی فکری محدودیت میں مبتلا کردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ پولٹکل سرگرمی اور دعوتی عمل دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔سیاسی نقطۂ نظر محدود نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دعوت کا نقطۂ نظر آفاقی نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ آفاقی نقطۂ نظر کی کوئی جغرافی سرحد نہیں ہوتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آج امتِ مسلمہ پولٹکل سرگرمیوں سے ہجرت کرلے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے سے مدینے کو ہجرت کی تھی۔اس کے بعد ہی وہ دعوتی مشن کو آفاقی طور پر آگے لے جاسکتے ہیں۔
پیغمبرِ اسلام بعثت کے بعد تیرہ سال مکہ میں رہے۔ اس کے بعد آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ جب آپ نےہجرت کا ارادہ کیا تو اس وقت آپ نے اپنے اصحاب کو پیشین گوئی کی زبان میں خبر دیا تھا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے، جو بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، اور وہ مدینہ ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1871)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے مشن کے لیے اگرچہ ایک طرف، مکہ میں، رکاوٹ ہے، اس کے باوجود دوسری طرف، مدینہ میں ، اس کا راستہ کھلا ہوا ہے،اس راستے سے یہ ساری دنیا میں پھیلے گا۔
چودہ سو سال کی مدت گزرنے کے بعداب امت حدیث میں مذکور پیشین گوئی کے بعد کے دور میں ہے۔ اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، اس پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخی ارتقا کے نتیجے میں بعد کو کمیونی کیشن (communication) کا زمانہ آئے گا۔ نئے مواقع کے استعمال سے امت کے افراد اپنے دینی مشن کو ساری دنیا میں پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ دینی مشن ساری سرحدوں سے گزرکر تمام ملکوں میں پھیل جائے گا۔ یہ واقعہ ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: یہ امر ضرور اس حد تک پہنچے گا، جہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں، اور اللہ نہیں چھوڑے گا کسی چھوٹے اور بڑے گھر کو مگر اللہ ضرور اس کے اندر اس دین کو داخل کرے گا(مسند احمد، حدیث نمبر 16957)۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج آفاقی دعوت کے تمام مواقع کھل گئے ہیں۔دعوتی سفر میں آج کوئی دیوار یا کوئی سرحد رکاوٹ نہیں۔ پولٹکل تحریک کے لیے ہر طرف سرحدوں کی دیواریں کھڑی ہوئی ہیں۔ لیکن پرامن دعوتی مشن کے لیے کہیں کوئی دیوار حائل نہیں۔ ہر انسان اس کا مخاطب ہے، اور ہر جغرافی حصہ اس کی مملکت میں شامل ہے۔
واپس اوپر جائیں

نتیجہ خیز آغاز

ایک صاحب لکھتے ہیں:میں آپ کی کئی تقریروں کو سننے کے بعد آپ کی اوریجنل اور گہری فکر سے مَیں کافی متاثر ہوا ہوں۔ لیکن آپ کی باتوں کو سننے کے بعد آپ کے اسٹیٹس کو (status quo)کے نظریے کے بارے میں میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ اگر اسٹیٹس کو کو قبول کرنا، اتنا ونڈر فل معاملہ ہے تو ہندستان برٹش حکومت کے ماتحت ہی رہتا۔ دوسرے ممالک، جیسے ترکی، ملیشیا، انڈونیشیا، سوڈان، اور نائیجیریا وغیرہ تو اپنے غیر ملکی رولر (rulers)کے تحت ہی باقی رہتے۔ آپ مجھے ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے جواب دیجیے۔ (جاوید اظہر خان، پاکستان)
جواب: اسٹیٹس کو کامطلب ہے حالت موجودہ، بطور خاص سماجی اور سیاسی معاملات میں:
the existing state of affairs, particularly with regard to social or political issues.
میں اسٹیٹس کو ازم کو جس معنی میں استعمال کرتا ہوں، اس کا مطلب حالت موجودہ کو باقی رکھنے پر ہمیشہ کے لیے راضی رہنا نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق طریقِ کار سے ہے۔یہ ایک لفظ میں نتیجہ رخی طریقہ کو اختیار کرناہے۔یعنی حالت موجودہ سے براہ راست ٹکراؤ کرنے کے بجائے مواقع کو دریافت کرنا، اور حالت موجودہ کو برقرار رکھتے ہوئے جو ابتدا ممکن ہو، اس سے اپنے عمل کا آغاز کرنا، اور غیر نزاعی (non-confrontational) انداز میں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی پرامن تعمیر کا طریقہ اختیار کرنا۔ اس ماڈل کی ایک کامیاب مثال ساؤتھ افریقہ ہے۔ ساؤتھ افریقہ میںہندستان کی طرح برٹش راج قائم تھا۔ وہاں حالات کے زیر اثر ایسا ہوا کہ براہ راست سیاسی لڑائی کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ ایک مختلف انداز میں کام شروع ہوا۔ یعنی ساؤتھ افریقہ میں کام کا آغاز پولٹکل ایکٹیوزم سے نہیں ہوا، بلکہ ایجوکیشنل اکٹیوزم کے طو رپر ہوا۔
یہ ایک صحیح آغاز (right beginning)کا معاملہ تھا۔یعنی پہلے قوم کو تیار کرنا، اور اس کے بعد سیاسی اقتدار کا ملنا۔انڈیا میں اس سے مختلف ماڈل اختیار کیا گیا۔ ساؤتھ افریقہ میں جو ماڈل اختیار کیا گیا، وہ مختصر طور پر یہ تھا کہ پہلے ایجوکیشن اور اس کے بعد سیاسی اقتدار۔ اس کے برعکس، انڈیا میں جو طریقہ اختیار کیا گیا، وہ یہ تھا کہ پہلے سیاسی اقتدار اس کے بعد تعلیم۔ ترتیبِ کار میں اسی فرق کی بنا پر یہ ہوا کہ انڈیا 1947 میں آزاد ہوگیا، جب کہ ساؤتھ افریقہ بہت بعدمیں1994 میں آزاد ہوا۔ مگر نتیجہ بتاتا ہے کہ ساؤتھ افریقہ کو آزادی کے ساتھ ہی ترقی یافتہ ملک (developed nation) کی حیثیت حاصل ہوگئی، جب کہ انڈیا آزادی کے باوجود ابھی تک صحیح معنوں میں ترقی یافتہ نیشن کے درجے تک نہیں پہنچا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہاں کے نوجوان آزاد ہندوستان کو چھوڑ کر انھیں ملکوں کی طرف چلے جارہے ہیں، جن سے ان کے لیڈروں نے آزادی حاصل کی تھی۔
یہ ماڈل اسلام کی اسپرٹ کے مطابق ہے۔ میرے مطالعے کے مطابق، اسلام میں بھی اسی ماڈل کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس ماڈل کو’’حطیم ماڈل‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ نے مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا تو کعبہ کی عمارت اپنے ابراہیمی ماڈل پر نہ تھی، بلکہ کعبہ کی عمارت اُس تعمیری بنیاد پر موجود تھی، جس کو رسول اللہ کے زمانے کے مشرکین نے بنایا تھا۔ یعنی کعبہ کی عمارت دو تہائی رقبے پر قائم تھی، اور ایک تہائی رقبہ حطیم کی صورت میں خالی پڑا ہوا تھا۔ پیغمبر اسلام نے حطیم کے معاملے میں اسٹیٹس کو کا طریقہ اختیارکیا، اور کعبے کی موجود عمارت کو عملاً قبول کرتے ہوئے اپنے مشن کا آغاز کردیا۔
قرآن میں حج کے تذکرے کے تحت یہ بیان آیا ہے:لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ (22:28)۔ یعنی تاکہ وہ ان فائدوں کو دیکھیں جو ان کے لئے ہیں۔اس آیت میں منافع (benefit) کا غالباً ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لوگ حطیم کے تاریخی ماڈل کو دیکھیں، اوراس سے سبق لیتے ہوئے، غیر نزاعی بنیاد پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔ وہ اپنے کام کو وہاں سے شروع کریں، جہاں ہر قدم تعمیرکے ہم معنی ہو۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، آپ کو صرف یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کے نام سے بظاہرایک ملک بن گیا ہے۔ بلکہ یہ دیکھنا چاہیےکہ پاکستان کا جو نشانہ تھا، وہ ابھی تک پورا نہیںہوا، اور اس کا سبب یہی ہے کہ پاکستان کو بنانے میں ’’حطیم ماڈل‘‘ کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 261

■ سماج میں امن و بھائی چارہ پھیلانے کے لیے حکومت یوپی نے نیشنل میڈیکل کالج سہارن پور اور سی پی ایس، سہارن پور کے اشتراک سے ایک پروگرام، پیغامِ محبت کا انعقاد کیا تھا۔ اس میں حکومت یوپی کے کئی وزراء شامل ہوئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر محمد اسلم خان (پرنسپل نیشنل میڈیکل کالج اور سی پی ایس کے ایکٹیو ممبر)نے پروگرام میں امن و بھائی چارہ کے موضو ع پر ایک تقریر کی، اور پروگرام میں موجود تمام مہمانان و سامعین کے درمیان ہندی ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ یہ پروگرام 4 اکتوبر 2018 کو منعقد ہوا۔
■ راشٹرسنت تکڑو جی مہاراج ناگپور یونیورسٹی کے ہال میں 7 اکتوبر 2017 کو مفسر قرآن و داعی عبد الکریم پاریکھ کی یاد میں ایک جلسہ کیا گیا تھا۔ اس یادگاری جلسہ کے خصوصی مقرر سابق الیکشن کمشنر آف انڈیا، مسٹر ایس وائی قریشی تھے۔ اس موقع پر ناگپور سی پی ایس ٹیم نے سامعین کے درمیان مراٹھی ترجمۂ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کیا، اور سی پی ایس مشن کا تعارف کروایا۔
■ مسٹر حمید اللہ حمید، مسٹر اے ایم باندے اور مسٹر منظور تانترے، مسٹرجاویدبیگ، اورمسٹر سجاد ڈینڈا صاحبان (سی پی ایس، کشمیر چیپٹر) نے9 اکتوبر 2017 کو سری نگر میں دو پروگراموں میں شرکت کی۔ یہ دونوں پروگرام بالترتیب سری نگر کے ہوٹل للت پیلیس اور SKICCمیں منعقد ہوئے تھے۔ ان پروگراموں میں مز محبوبہ مفتی (سی ایم جموں اینڈ کشمیر)، نوبل انعام یافتہ مسٹر کیلاش ستیارتھی پرکاش ، مسٹر سی کے پرساد (صدر پریس کاؤنسل آف انڈیا )، ڈاکٹر سبھاش چندرا (ہیڈ زی میڈیا لیمٹیڈ)،وغیرہ، موجود تھے۔ ان تمام لوگوں کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔ اس کے بعد10اکتوبر 2017 کو مسٹر پرکاش دوبے (سکریٹری، پریس کاؤنسل آف انڈیا) نے ایک وفد کے ساتھ اپنا گھر ، بیروہ کا دورہ کیا ۔اس وقت انھیں سی پی ایس مشن اوراپنا گھر سے متعارف کروایا گیا۔انھوں نے اس پیس فل مشن کو کافی سراہا۔ آخر میں انھیں ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر دیا گیا۔واضح ہو کہ اپنا گھر سی پی ایس کے بہت ہی ایکٹیو ممبر مسٹر حمید اللہ حمید کی نگرانی میں چلنے والا یتیم خانہ اور پیس فل سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ اس کے علاوہ سی پی ایس کشمیر کے ایک ممبر، جناب فاروق خان صاحب نے کشمیر میں حکومت ہند کے انٹر لوکیٹر (Interlocutor)مسٹر دنیشور شرماکو ہندی ترجمۂ قرآن دیا۔ یاد رہے کہ مسٹر فاروق خان صاحب پہلے مسلح تنظیم جے کے ایل ایف کے کمانڈر تھے۔ اسی طرح کشمیر میں الرسالہ مشن سے متاثر ہو کر مسلح جدو جہد کا راستہ ترک کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔

■ودیا جیوتی کالج آف تھیولوجی، نئی دہلی میں سی پی ایس دہلی کے ممبران، مسٹر رجت ملہوترا، مز ماریہ خان، مز صوفیہ خان، مز نغمہ صدیقی، اور مولانا فرہاد احمد نے 17 اکتوبر 2017 کو کرسچن تھیالوجی کے اسٹوڈنٹس کے سامنے قرآن، پیغمبر اسلام، اور مسلمانوں کے متعلق لکچر دیا۔ لکچر کے بعد سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔ آخر میں تمام سامعین کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور دیگر اسلامی لٹریچر دیا گیا۔
■ 20-21 اکتوبر 2017 کو سہارن پور میں دو روزہ دعوہ میٹ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس دعوہ میٹ میں سی پی ایس کی جن ٹیموں نے حصہ لیا، وہ یہ ہیں: سہارنپور، مہاراشٹر، حیدرآباد، چنئی، اور بہار۔ ان لوگوں نے اس میٹ میں مختلف دعوتی مسائل و مواقع پر اپنے تجربات شیر کیے، اور آئندہ کے لیے ایک نئے عزم کے ساتھ دعوتی کام کو آگے بڑھانے کا عزم کیا۔ نیز دوسرے دن دیوالی ملن کا پروگرام تھا۔ اس موقع پر برادرانِ وطن کے لیے ایک پروگرام کیا گیا، جس میں آنے والے مہمانوں کے درمیان ہندی ترجمہ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ یہ دونوں پروگرام نیشنل میڈیکل کالج، سہارن پور میں منعقد ہوئے۔ اس پروگرام کو ڈاکٹر محمد اسلم خان نے سی پی ایس سہارن پور، اور کالج اسٹاف کے ذریعہ کامیاب بنایا۔
■ سی پی ایس (پونے) کے جناب عبد الصمد صاحب نے پونے کے گُردوارا کمیٹی کے سابق ممبر مسٹر گرومکھ سنگھ راجپال کی اہلیہ اور بیٹے، مسٹر منجیت سنگھ راجپال کو قرآن کا پنجابی ترجمہ قرآن بطور تحفہ دیا۔ ان لوگوں نے انتہائی خوشی اور شکریے کے ساتھ اسے قبول کیا۔ یہ ملاقات غالباً 27 اکتوبر 2017 کو ہوئی۔
■ ممبئی کے کینسر سرجن ڈاکٹر کامران خان صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے 30 اکتوبر 2017 کو صدر اسلامی مرکز کی آفس میں تشریف لائے۔ دوران ملاقات ان سے مختلف موضوعات پرعلمی و میڈیکل سائنس کی گفتگو ہوئی۔ آخر میں ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سٹ دیا گیا۔
■ کشمیر کے پونچھ ضلع میں 14 نومبر 2017 کو ایک انٹر فیتھ کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ یہ اس علاقے میں اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی۔ اس میں جن لوگوں نے حصہ لیا، ان میں سے چند یہ ہیں: اچاریہ پرمود سوامی جی، مولانا سید کلب صادق، جناب کمال فاروقی، سکھ گرو مہنت نانگلی اور جناب فاروق مضطر صاحبان, وغیرہ۔ سی پی ایس راجوڑی اس پروگرام میں بحیثیت ایک منتظم شریک تھی، اور انھوںنے لوگوں کے درمیان سی پی ایس کا دعوتی لٹریچر بھی تقسیم کیا۔اچاریہ پرمود سوامی جی نے جب صدر اسلامی مرکز کا نام سنا تو بہت خوش ہوئے ، جب انھیں جموں و کشمیر میں سی پی ایس انٹرنیشنل کی سرپرستی میںہورہی امن کی کو ششوں کے بارے میں بتایا گیا تو انھوں نے سی پی ایس کے کاموں کو بہت سراہا، اور اپنے جموں اور پونچھ مٹھ میں سی پی ایس ممبر ان کو آنے کی دعوت دی۔
■ مسٹر شکیل الرحمن دہلی سی پی ایس کے ایک ایکٹیو داعی ہیں۔ 16 نومبر 2018 کو انھوں نے نئی دہلی کے فورٹِس اسکارٹ ہارٹ ہاسپٹل میں ڈاکٹر پروتی ایر (Parvathi Iyer)کو صدر اسلامی مرکز کی انگریزی کتابوں کا ایک سٹ ، ترجمۂ قرآن، قرانک وزڈم، اور لیڈنگ اے اسپریچول لائف بطور تحفہ دیا۔
■ عید میلاد النبی کے موقع پر ساؤتھ گوا کے Curchorem میں ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر مدرسہ کے 47 طلبہ اور 3 کالج کے ممتاز اسٹوڈنٹس کو اعزاز سے نوازا گیا۔ جو انعامات دیے گئے، ان میں ترجمہ قرآن بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ سامعین کے درمیان 200 سے زیادہ ہندی اور انگریزی ترجمۂ قرآن تقسیم کیے گئے۔ یہ پروگرام سی پی ایس گوا کے مسٹر ایس سراج صاحب کی صدارت میں 2-4دسمبر 2017 کو منعقد کیا گیا تھا۔
■ بروز اتوار 4 فروری 2018 کو صدر اسلامی مرکز نے خاندانی زندگی (English version: The Secret of Successful Family Life)کا مراٹھی ترجمہ ریلیز کیا۔ یہ ترجمہ سی پی ایس (پونے) نے جناب عبدالصمد صاحب کی نگرانی میں کیا ہے۔ یہ کتاب خاندانی معاملات کے لیے ایک بہترین رہنما کتاب ہے۔
■ گریس پوائنٹ چرچ، نیو ٹاؤن، پنسلوانیا،امریکا میں 25 فروری 2018 کو ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس کا عنوان تھا، اپنے پڑوسی سے محبت کیجیے جیسا خود سے کرتے ہیں (Love Thy Neighbor As Thyself)۔ اس پروگرام میں تینوں آسمانی مذاہب، یہودیت، عیسائیت، اور اسلام کے نمائندے شریک ہوئے۔ اسلام کی نمائندگی خواجہ کلیم الدین صاحب (سی پی ایس، امریکا) نے کی۔ وہاں انھوں اسلام کی پر امن باتیں لوگوں کو بتائیں، اور سامعین کے درمیان ترجمۂ قرآن، قرانک وزڈم، اور دیگر کتابچے تقسیم کیا۔ کچھ لوگوں نے یہ کہتے ہوئے کتابیں لیں کہ ہم نے اسلام کے بارے میں منفی باتیں سنی تھیں، آپ نے اسلام کا مثبت رخ دکھا یا ہے، شکریہ۔ اس پروگرام میں فادر ڈیو وولف (Dave Wolf)، اور ربائی آرن گیبر (Aaron Gaber) بھی شریک تھے۔
■ ۲۶ فروری 2018 کو ایک نان مسلم، مسٹر نکل (Mr Nakul) میرے پاس اپنے ایک مسلم دوست کے ساتھ آئے۔ ان کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ایک ہندی ترجمۂ قرآن چاہتے تھے۔ ان کو میں نے ہندی ترجمۂ قرآن، جیون کا ادیش، اور اسلام ایک سوبھاوک دھرم نامی کتابیں دی۔ انھوں نے یہ تمام چیزیں بہت ہی خوشی اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا (عیاض احمد، جمشید پور)۔
■ جناب عبد السمیع صاحب (اورنگ آباد )کے مطابق، مسٹر سنتوش نامی ایک نان مسلم بہت دنوں سے قرآن پڑھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اس کاذکر اپنے ایک مسلم دوست سے کیا، مگر ان کو قرآن نہیں ملا۔ بعد میں جب ان کو مسٹر عبد السمیع صاحب صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ترجمۂ قرآن دیتے ہیں تو انھوں نے فون کرکے ترجمہ قرآن حاصل کیا۔
■ عکہ شمالی اسرائیل کا ایک پورٹ شہر (port city)جسے انگریزی میں Acre جبکہ عبرانی میں Akko کہا جاتا ہے۔یہ ایک تاریخی شہر ہے۔ یہاں کئی قابل دید مقامات ہیں۔ بہائی مذہب کا قبلہ اور بہا اللہ کا مقبرہ بھی یہیں واقع ہے۔اس شہر کا قدیم حصہ یونیسکوکے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیے گئے علاقوں میں شامل ہے۔ اس لیے پوری دنیا کےسیاح بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ یہاں ایک بہت مشہور مسجد ہے، جسے مسجد الجزار کہا جاتا ہے۔ اس مسجد میں سیاحوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ چنانچہ اسرائیل میں دعوتی کام کرنے والے ہمارے ساتھیوں نے مسجد الجزار میں تقسیمِ قرآن اسٹینڈ لگایا ہے، جہاں سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں آنے والے سیاحوں کے درمیان مختلف زبانوں میں قرآن کے ترجمے تقسیم کیے جاتے ہیں۔
■ سی پی ایس (امریکا)نے اسٹڈی سرکل کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا ہے۔ اس کے تحت امریکا کے مختلف اسٹیٹ میں موجود سی پی ایس ممبران کانفرنس کال کے ذریعے صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، اور اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ انھوں نے اگست 2016 میں شروع کیا تھا۔ اس عرصہ میں انھوں نے ’’اظہارِ دین‘‘ کتاب ختم کرلی، اور اب وہ’’ الاسلام‘‘ کا مطالعہ کررہے ہیں۔ مطالعے کا یہ طریقہ پروگرام میں شرکت کرنے والوں کے بقول کافی فائدہ مند ہے۔
■ مسٹر نسیم علی خان صاحب (ممبئی ٹیم) کی کوششوں سے یہ ہوا ہے کہ مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادیمی نے صوبہ کے 36 ضلعوں کی 350 تسلیم شدہ لائبریری کے لیے ماہنامہ الرسالہ سبسکرائب کیا ہے۔ اس کے علاوہ نسیم خان صاحب نے ممبئی سے نکلنے والے مختلف اردو اخبارات میں صدر اسلامی مرکز کے مضامین شائع کرانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ مثلا ممبئی کے مشہور روزنامہ اردو ٹائمز، ممبئی اردو نیوز، دونوں میں جمعہ کے دن ادارتی صفحہ پر ایک مضمون آتا ہے۔ روزنامہ ہندوستان میں روزانہ ایک مضمون آتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اردو نیوز ایجنسی یو این این، نئی دہلی میں واقع ہے۔ یہ ایجنسی ہندوستان اور ہندوستان کے باہر کے تقریباً 240 اردو اخبارات کو خبریں فراہم کرتی ہے۔ خبروں کے ساتھ یہ ایجنسی صدر اسلامی مرکز کے مضامین بھی اپنے اخباروں کو بھیجتی ہے۔ یہ بھی مسٹر نسیم خان صاحب کی کوششوں سے شروع ہوا ہے۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جہاں جہاں اردو اخبار نکلتے ہیں، وہاں پر موجود سی پی ایس مشن کے لوگ اس طرح مشن کی اشاعت کا کام کرسکتے ہیں۔
■ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، مولانا صاحب! فروری 2017 میں دہلی کا سفر کئی باتوں میں میرے لئے یادگار سفر رہے گا۔ میں نے محسوس کیا کہ آپ کی تحریروں کو پڑھنے سے جو فائدہ مجھے ملا، وہ یہ ہےکہ میرے ذہن کی تشکیل نو (re-engineering (ہوتی رہی۔ لیکن آپ سے براہِ راست ملنے پر مشن کوبہتر طریقہ سے سمجھنے کا موقع ملا، اور خیالات میں زیادہ وضوح(clarity) حاصل ہوئی۔ خاص طور سے جب سورۂ البقرہ کی آیت نمبر 47 کی تفسیر میں آپ نے بتایا کہ عرب کی سر زمین میں تیل کے ذخائر کا ملنا رب تعالی کے تخلیقی منصوبہ کا ایک حصہ ہے۔وہ یہ کہ اس دولت کو جسے سیال سونا ( Liquid Gold) کہا جاتا ہے، اس کا استعمال اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لئے کیاجائے۔گویا کہ ربِ کائنات یہ اعلان کررہاہے کہ دعوت کا کام تم کرو،اور اس کا بل( bill) ہم ادا کریں گے۔یہ بالکل نئی بات تھی جو میں نے اس سفر میں پائی ہے۔اس سے مجھے اپنے لئے یہ سبق ملا کہ آج بطور ٹیچر مجھے جو آسانیاں حاصل ہیں، اور سماج میں جو قدردانی ملی ہوئی ہے،ان تمام مواقع کوصرف دعوت کے لئے استعمال کرنا ہے،نہ کہ اپنے ذاتی فائدے کے لیے، اور ہرایک داعی کو یہی کرنا چاہیے۔ دوسری اہم بات جو آپ نے ہمیں نصیحت کی، وہ یہ تھی کہ ہر داعی میں دو چیزوں کا موجود ہونا لازمی طور پر ضروری ہے۔ ایک یہ کہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا، اور دوسرا یہ کہ اللہ کے بندوں سے محبت کرتے رہنا، چاہے ان کی طرف سے کسی بھی طرح کا برتاؤ ملے۔جزاک اللہ مولانا صاحب۔ (ساجد احمد خان ،سی پی ایس، ناگپور)
■ Maulana’s talk is about developing a prepared mind. He had an experience yesterday on how technology has helped him tremendously while writing, by making corrections when needed or in adding or inserting lines. He was able to connect that blessing to the bounties he is receiving from our Creator. He stated in his talk that only those who have a prepared mind (that is, one that uses its capacity to think, ponder and reflect) are able to derive lessons from their everyday experiences, and in consequence bow before the Creator. A prepared mind is a thinking mind. (Kouser Izhar, New Jersey, CPS USA)
■ A message on Quora: I am here to say thank you. You have been a part of the change I have had in my life. I read your Quran translation in English on Amazon kindle book. It helped me in deep understanding of my religion, Islam. Earlier I used to recite the Quran, but now I focus more on its meaning and try to bring it into practice. I am becoming a better person day by day. I have read your answers on Quora and I cannot thank you enough for the knowledge I have taken from such a wise person as you. I respect and adore you a lot. I pray for your health and well-being. (Saba Anjum)
■ I went on a business trip to Austria, which is a German speaking country. I had several opportunities to give the Quran and What is Islam (both in German translations) to many persons. Also had the opportunity to meet people across the world for example, from Bulgaria, a country for which we do not yet have Quran translations available. On the one hand, I felt very fortunate to have the German Quran translation and prayed for Dr. Saniyasnain Sb’s great efforts in making it available, while on the other hand I also felt the need for speeding up translations going on in other international languages. (Sajid Anwar, CPS Mumbai)
■ I really enjoy your intellectual company! I appreceiate your efforts in conveying to people the truth about Islam. (Muhammad Faisal, Lucknow)
واپس اوپر جائیں

Saturday, 26 May 2018

Al Risala | June 2018 (الرسالہ،جون)

4

-قرآن سے نصیحت

5

- قرآن کی دو آیتیں

6

- بسم اللہ سے آغاز

7

- اللہ اکبر

8

- انابت الی اللہ

9

- جنت کا حصول

10

- جنت کا تجربہ

11

- جنت کی زندگی

12

- جنت کی تلاش

13

- اسفل سافلین کیوں

15

- تاریخ کا اعادہ

16

- دو دنیائیں

18

- سپورٹنگ رول

19

- بے نقص کائنات

20

- پیغمبر اسلام,شخصیت کے چند نمونے

26

- قرآن کا مطالعہ

28

- تفسیر قرآن

29

- درس قرآن

31

- قرآن فہمی کا اسلوب

33

- قرآن کی ہدایت

34

- قرآن کا انقلاب

35

- قرآن کا مشن

36

- کتاب ہدایت

37

- دو مختلف انجام

39

- قول بلیغ

41

- فہم دین

44

- فطرت کا ایک قانون

45

- داعی کی حفاظت

46

- ایک با اصول انسان

47

- خبر نامہ اسلامی مرکز


قرآن سے نصیحت

قرآن فہمی کے بارے میں دو آیتیں ان الفاظ میں آئی ہیں: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْک َ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ دوسری آیت کے الفاظ یہ ہیں:کِتَابٌ فُصِّلَتْ آیَاتُہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (41:3)۔ یعنی یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں، عربی زبان کا قرآن، ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ان دونوں آیتوں کے اسلوب پر غور کرنے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قرآن فہمی کی دو سطحیں (levels) ہیں۔ ایک ہے وہ سطح جو عربی زبان بخوبی جاننے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ قرآن فہمی کا علمی درجہ ہے۔ اس سطح پر جو آدمی قرآن کو پڑھے، اس کو قرآن کی باتوں سے معنوی واقفیت حاصل ہوجائے گی۔ قرآن فہمی کی دوسری سطح وہ ہے، جو تدبر کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اس دوسری سطح پر قرآن فہمی کے ذریعے آدمی کو گہری رہنمائی حاصل ہوتی ہے، جس کو نصیحت کہاجاتا ہے۔
مثلاً قرآن میں ماہ رمضان کا بیان ہے، اس کے بعد فرمایا: فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ (2:185)۔ عربی زبان سے واقفیت رکھنے والا آدمی جب اس آیت کو پڑھے گا تو وہ آیت کا فقہی مفہوم جان لے گا۔ یعنی رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنا فرض ہے۔اس سلسلہ بیان کی اگلی آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور جب میرے بندے تم سے میری بابت پوچھیں تو میں نزدیک ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے، تو چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں(2:186)۔ اس آیت کو پڑھ کر عربی زبان جاننے والایہ سمجھ لے گا کہ اللہ سے سوال کرنے والا آدمی اللہ سے قریب ہے، اور اس کے سوال کا جواب دیتا ہے۔ لیکن یہ جواب کس صورت میں آتا ہے۔ یہ مجرد عربی زبان جاننے سے معلوم نہیں ہوتا، بلکہ غور وفکر کرنے سے اس کا ادراک ہوسکتا ہے۔ یعنی آیت پر تدبر کرنے کے ذریعے سے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی دو آیتیں

قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی کے لیے پہلی شرط اللہ کا خوف ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (2:282)۔ یعنی اور اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو علم دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ تقویٰ اور علم کا تعلق یہ ہے کہ تقویٰ آدمی کو انسان اصلی (man cut-to-size) بناتا ہے۔ یعنی انسان اپنی فکر کے اعتبار سے وہاں پہنچ جاتا ہے، جہاں بطور حقیقت اس کو ہونا چاہیے۔ جب اللہ رب العالمین کی معرفت سے انسان،انسان اصلی بن جائے، اس وقت انسان کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ (realistic approach) پیداہوجاتی ہے۔ جب انسان کٹ ٹو سائز ہو کر اس حد پر پہنچ جائے۔ اس وقت وہ اس قابل بن جاتا ہے کہ وہ چیزوں کو ایز اٹ از دیکھنے لگے، اور ایز اٹ از تھنکنگ (as it is thinking)ہی وہ واحد شرط ہے جو آدمی کو حقیقی معنوں میں کلام الٰہی کو سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔
اس سلسلے میں دوسری اہم آیت یہ ہے: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآن کے مطالعے کا معیار (criterion) کیا ہے۔ وہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ قرآن کا مطالعہ آدمی کے لیے ذکر و نصیحت کا ذریعہ بن جائے۔ کوئی بھی دوسری چیز خواہ بظاہر وہ کتنی ہی زیادہ اہم ہو، وہ کلامِ الٰہی کے مطالعے کا معیار نہیں بن سکتی۔
خواہ قرآن کے مطالعے کے لیے صحیح طریقۂ کار کا معاملہ ہو یا قرآن کے مطالعے سے نتیجہ اخذ کرنے کا معاملہ ہو ، دونوں معاملوں میں ایک ہی درست معیار ہے، وہ معیار جو قرآن سے ثابت ہو۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ سے کوئی معیار قائم نہ کرے۔ بلکہ وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرکے اس سے درست معیار کو اخذ کرے۔
واپس اوپر جائیں

بسم اللہ سے آغاز

ایک حدیث رسو ل ان الفاظ میں آئی ہے:کُلُّ کَلَامٍ، أَوْ أَمْرٍ ذِی بَالٍ لَا یُفْتَحُ بِذِکْرِ اللہِ، فَہُوَ أَبْتَرُ - أَوْ قَالَ:أَقْطَعُ - (مسند احمد، حدیث نمبر 8712)۔ یعنی ہر کلام یا اہم معاملہ جس کو اللہ کے ذکر سے شروع نہ کیا جائے تو وہ دم بریدہ یا کٹا ہوا ہے۔یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں مختلف الفاظ میں آئی ہے۔ ان کا مشترک مفہوم یہ ہے کہ جس کا کام آغاز بسم اللہ سے کیا جائےاس کا انجام بہتر ہوگا، اور جس کام کا آغاز بسم اللہ سے نہ کیا جائے ا س کا انجام بے نتیجہ ہوگا۔
بسم اللہ سے آغاز کا مطلب محض لفظی آغاز نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب کام میں خدائی اسپرٹ کا ہونا ہے، نہ کہ لفظی اعتبار سے دہرادینا۔ بسم اللہ سے آغاز کا مطلب یہ ہے کہ کسی کام کو صحیح رخ سے آغاز کرنا۔ کسی کام کو حوصلہ مندانہ اسپرٹ کے ساتھ آغاز کرنا، کسی کام کو اس ذہن کے ساتھ آغاز کرنا کہ کرنے والا اگر چہ انسان ہے، لیکن اس کی تکمیل اللہ رب العالمین کے ہاتھ میں ہے، اور اللہ رب العالمین ضرور اس کام کو تکمیل تک پہنچائے گا۔
کسی کام کو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ شروع کرنا، یہ معنی رکھتا ہے کہ بندے نے اپنے ذاتی عزم (determination) کے ساتھ اللہ رب العالمین کی رحمت کو بھی پوری طرح شامل کر لیا ہے۔ اس نے اپنے اندر یہ اسپرٹ شامل (inculcate) کرلیا ہے کہ خواہ حالات کچھ بھی پیش آئیں، اس کی نظر حالات کے بجائے اللہ کی رحمت پر ہونی چاہیے۔
بندے کے وسائل ہمیشہ محدود ہوتے ہیں، لیکن اللہ کی رحمت کی کوئی حد نہیں۔ ایسی حالت میں کسی کام کو شروع کرتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی حقیقت کو یاد کرنا، یہ معنی رکھتا ہے کہ بندے نے اپنی محدودیت کے ساتھ اللہ کی لامحدودیت کو اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے۔ اس نے امید کے ساتھ یقین کو اپنا سہارا بنا لیا ہے۔ بندے کی طرف سے یہ اسپرٹ گویا اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنا ہے۔ یہ گویا اسم اعظم کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ اکبر

نماز اسلام کی بنیادی عبادت ہے۔ نماز میں بار بار یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ اکبر، اللہ اکبر، یعنی اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے امر واقعہ کا اعلان ہے۔ یہ کوئی کلمۂ فخر نہیں، بلکہ یہ کلمۂ واقعہ ہے۔ انسان پیدا ہونے کے بعد اپنے چاروں طرف ایک عظیم کائنات کو دیکھتا ہے۔ وہ حیرانی کے ساتھ جاننا چاہتا ہے کہ کون اس دنیا کا خالق ہے، کون اس دنیا کو کنٹرول کر رہا ہے، کون اس دنیا کی عظیم ہستی ہے،جس کا وہ اعتراف کرے، اور جس کے آگے وہ ہمیشہ کے لیے جھک جائے، جس کے آگے اپنے پورے وجود کے ساتھ وہ خود کو سرینڈر کردے، جس کے آگے وہ اعتراف کی علامت کے طور پر سجدے میں گر پڑے، جس کے آگے وہ اپنے آپ کو سپرد کرکے اپنی روح کو یہ تسکین دے کہ میں نے اپنے خالق کو پالیا، میں نے اپنے رب کو دریافت کرلیا، میں نے اس ہستی کو جان لیا جو مجھ کو ہر چیز کا دینے والا ہے۔
انسان اس دنیا میں پیدا ہوتے ہی یہ تجربہ کرتا ہے کہ اس کائنات میں ایک اعلیٰ انتظام موجود ہے۔مثلا ایک بے حد کامل نظام کے تحت یہاںوہ تمام چیزیں موجود ہیں، جن کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاسکتاہے— سور ج کے ذریعے روشنی، ہوا کے ذریعے آکسیجن، بارش کے ذریعے پانی، سوئل (soil) کے ذریعے خوراک، استحکام کے لیے زمین کی کشش، اور تہذیب بنانے کے لیے ٹکنالوجی،وغیرہ۔ اس طرح کی ان گنت چیزیں اس کو رات دن بلاقیمت سپلائی ہورہی ہیں۔ انسان پیدا ہونے کے بعد رات دن ان نعمتوں کا تجربہ کرتا ہے۔ اس کی روح کسی دینے والے کے لیے سرتاپا شکر گزار بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے اندر یہ طلب آخری حد تک جاگ اٹھتی ہے کہ وہ اپنے رب کو پائے، اور سجدۂ اعتراف کے طور پر اس کے آگے پورے وجود کے ساتھ اپنے آپ کو سرینڈر کردے— اسی کیفیت کا نام ایمان باللہ ہے، اور ابدی جنت اسی ایمان باللہ کی قبولیت کے طور پر رب العالمین کا انعام (reward)ہے۔
واپس اوپر جائیں

انابت الی اللہ

انابت کا لفظی مطلب ہے، لوٹنا، بار بار لوٹنا: رجوع الشیء مرّة بعد أخرى (to return from time to time)۔ یہی انابت کی اصل ہے۔ انابت کے تمام استعمالات میں یہی مفہوم بطور اصل پایا جاتا ہے۔ یہ لفظ جب اللہ کی نسبت سے بولاجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر ڈسٹریکشن کے بعد دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہونا۔ انسان اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ خالق کا تصور اس کی فطرت کےساتھ پوری طرح وابستہ (interwoven)ہے۔ یہ وابستگی اتنی گہرائی کے ساتھ ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ پھر جب انسان مطالعہ کرتا ہے، اور غور وفکر سے کام لیتا ہے تو خالق کے ساتھ اس کی فطرت کی یہ وابستگی اور بھی زیادہ گہری ہوجاتی ہے۔
مگر اسی کے ساتھ دوسری حقیقت یہ ہے کہ انسان کو ایک ایسی دنیا میں پیدا کیا گیا ہے، جہاں ہر وقت اس کا سابقہ خالق کے سوا دوسری چیزوں کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ اس صورت حال کی بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی توجہ اپنے خالق سے دور (distract) ہوجاتی ہے۔ وہ خالق کے بجائےکسی اور کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ جب آدمی کو خالق کی معرفت ہوچکی ہو، اس نے اپنے رب کو دریافت کرلیاہو تو خدا کے ساتھ اس کا گہرا تعلق بار بار زندہ ہوگا۔ وہ بار بار اپنے رب کی طرف لوٹے گا، اسی کو رجوع الی اللہ کہا گیا ہے، یعنی رجوع الی اللہ اور انابت دونوں اپنے معنی کے اعتبار سے ایک ہیں۔
انابت، صاحبِ معرفت انسان کی ایک مستقل خصوصیت ہے۔ جس آدمی کو اپنے رب کی معرفت حاصل ہوچکی ہو، وہ اپنے اندرونی تقاضے کے تحت اس کا تحمل نہیں کرے گا کہ اس کی توجہ اپنے رب کی طرف سے ہٹ کر کسی اور کی طرف چلی جائے۔ اس لیےاس طرح کی صورت حال میں وہ بار بار لوٹے گا، اور مزید شدت کے ساتھ اپنے رب سے جڑ جائے گا— اسی کا نام توجہ الی اللہ یا انابت الی اللہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا حصول

جنت ایک صاحب معرفت کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ جنت کے بارے میں پیغمبر اسلام کی بہت سی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا، فَإِنَّہُ لا یُدْخِلُ أَحَدًا الجَنَّةَ عَمَلُہُ،قَالُوا:وَلاَ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:وَلا أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِی اللَّہُ بِمَغْفِرَةٍ وَرَحْمَة(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6467)۔ یعنی درستی اوراعتدال پر قائم رہو اور پر امید رہو ، کیوں کہ کسی کا عمل اسے جنت میں نہیں پہنچائے گا۔ لوگوں نے پوچھا آپ کو بھی نہیں، اے اللہ کےرسول۔ آپ نے فرمایا مجھ کو بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ مغفرت اور رحمت سے مجھ کوڈھانپ لے۔
جنت انسان کا ہیبیٹاٹ (habitat)ہے۔ جنت وہ آئڈیل دنیا ہے، جہاں انسان کو ابدی عمر ملے گی۔ جہاں کسی قسم کا حزن (sorrow) نہ ہوگا۔ جو ہر قسم کی محدودیت (limitations) سے خالی ہوگی۔ جہاں انسان کو کامل معنوں میں فُل فِل مینٹ (fulfilment) حاصل ہوگا۔ جہاں نہ کوئی تکلیف ہوگی، اور نہ کوئی بورڈم (boredom) ہوگا۔ ایسی دنیا بلاشبہ ایک بیحد قیمتی دنیا ہے۔ کوئی انسان اس پر قادر نہیں کہ وہ ایسی اعلیٰ دنیا کی قیمت ادا کرسکے۔
یہ جنت کسی کو اس کے عمل کی قیمت کے طور پر نہیں ملے گی۔ وہ صرف ان منتخب افراد کو ملے گی، جن کو رب العالمین اس قابل پائے کہ وہ جنت میں اعلیٰ اخلاق ( سورۃالقلم، 68:4) کے ساتھ رہ سکتے ہوں۔ جنت میں پوری انسانی تاریخ کے منتخب افراد بسائے جائیں گے۔ یہ اعلیٰ درجے کی ایک رفاقت کا ماحول ہوگا۔ یہ ایسے لوگوں کی دنیا ہوگی، جو فرشتوں کی رپورٹ کے مطابق، اپنی سوچ اور اپنے کردار کے اعتبار سے اس کا اہل بنے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے— وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت ( سورۃ النساء، 4:69)۔جنت ایک انعام ہے، جنت عمل کا معاوضہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا تجربہ

پیغمبر اسلام کی ایک روایت حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آئی ہے:فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَأَحَدُہُمْ بِمَسْکَنِہِ فِی الجَنَّةِ أَدَلُّ بِمَنْزِلِہِ کَانَ فِی الدُّنْیَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2440)۔ یعنی اس ذات کی قسم جس کےقبضے میں محمد کی جان ہے، ان میں کا کوئی شخص جنت میں اپنے گھر کو اس سے زیادہ پہچانے گا، جتنا کہ وہ دنیا میں اپنے گھر کو پہچانتا تھا۔ دنیا کی زندگی میں جو گھر آدمی کو رہنے کے لیے ملتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تو جنت نہیں ہوتا۔ لیکن اگر انسان اس کو ایک خدائی عطیے کے طور پر دریافت کرے تو اس کا گھر اس کو اتنی بڑی نعمت معلوم ہوگا، جیسے کہ اللہ نے اس کو اسی دنیا میں اس کا جنتی گھر دے دیا۔
ایک مومن دنیا میںاپنا ایک گھر بنائے، اور وہ وہاں رہنا شروع کردے۔ تو اس کی معرفت کی بنا پر اس کے لیے یہ گھر عام قسم کا ایک گھر نہیں ہوگا۔ وہ ہر لمحہ اپنے دنیا کے گھر کی صورت میں جنت کے گھر کو دریافت کرے گا۔اس کا نعمت سے بھرا ہوااحساس اس کے لیے اپنے گھر کو ایک اعلیٰ تجربہ بنادے گا۔ وہ ہر چیز میں اللہ کی نعمت کو دریافت کرے گا۔ وہ ہر چیز میں اپنے جنتی گھر کی جھلک دیکھے گا۔ یہ احساس دھیرے دھیرے اتنا شدید بن جائے گا کہ اس کو محسوس ہوگا جیسے کہ اللہ نے اس کو اسی دنیا میں پیشگی طور پر وہ گھر دے دیا ہے جو جنت کی دنیا میں اس کو ملنے والا ہے۔
اس کا یہ بڑھا ہوا احساس اس کو اس قابل بنادے گا کہ وہ ایسی دعائیں کرے جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والی ہوں، جو اس کے لیے اسم اعظم کی دعا بن جائے۔ مثلاً شکر کے گہرے احساس کے ساتھ اس کی زبان سے نکلے گا کہ خدایا تو نے اسی دنیا میں مجھ کو ایک جنتی گھر دے دیا ۔ اب کیا تو ایسا کرے گا کہ آخرت میں مجھ سے میرا جنتی گھر واپس لے لے۔ کیا تیرے رحیم و کریم ہونے کی صفت یہ چیز گوارا کرے گی کہ ایک چیز مجھ کو دےدے ، اور پھر اس کو مجھ سے واپس لےلے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی زندگی

قرآن میں جنت کی زندگی کے بارے میں مختلف بیانات آئے ہیں۔ ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِی شُغُلٍ فَاکِہُونَ (36:55)۔ یعنی بیشک اہل جنت اس دن اپنے مشغلوں میں خوش ہوں گے ۔
Indeed the companions of Paradise, that Day, will be amused in joyful occupation .
جنت میں جو چیزیں اہل جنت کو ملیں گی، ان کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ وہ موجودہ دنیا کے مشابہ (سورۃ البقرۃ،2:25) ہوں گی۔ یعنی دنیا کی زندگی میں ان کی جوسرگرمیاں تھیں، بظاہر وہی تمام سرگرمیاں جنت میں بھی ہوں گی۔ لیکن جنت کی زندگی ہر قسم کے خوف اور حزن سے پاک ہوگی۔ دنیا میں ہر سرگرمیوں کے ساتھ مشقت اور بورڈم (boredom) شامل رہتا ہے۔ لیکن جنت کی دنیا میں اس قسم کی تمام چیزیں حذف ہوجائیں گی۔ جنت کی زندگی پورے معنی میں شادمانی کی سرگرمیوں (pleasant activities) کی زندگی ہوگی۔
حدیث میں آیا ہے کہ َحُجِبَتِ الجَنَّةُ بِالْمَکَارِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر6487)۔ یعنی جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔موجودہ دنیا اپنی حقیقت کے اعتبار سے جنت کی مانند ہے۔ لیکن اس کے اوپر انسانی آلودگی (man-made pollution) کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ آخرت کی دنیا ہر اعتبار سے انسانی آلودگی سے پاک ہوگی۔ اس لیے جنت کامل معنی میں شغل فاکہہ کی دنیا بن جائے گی۔ یعنی پر مسرت سرگرمیوں (pleasant activities) کی دنیا۔جنت میں وہ تمام سرگرمیاں جاری رہیں گی جو انسانی فطرت کا تقاضا ہیں۔ لیکن موجودہ دنیا میں انسانی آلودگی کی بنا پر یہ سرگرمیاں پُرمسرت سرگرمیاں نہیں بنتیں۔ لیکن جنت کی دنیا میں انسان کی تمام سرگرمیاں جنت کے حالات کی بنا پرپُر مسرت سرگرمیاں بن جائیں گی۔ مثلا دنیا میں بورڈم ہے، مگر جنت میں بورڈم جیسی کوئی چیز موجود نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی تلاش

امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اپنے 100 دن پورے کرنے کے بعد ایک انٹرویو دیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک بات کہی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ وائٹ ہاؤس میں بحیثیت صدر داخل ہونے سے پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ وائٹ ہاؤس میرے خوابوں کی دنیا ہے۔ لیکن ایسا نہ تھا۔وائٹ ہاؤس میرے لیے ایر کنڈیشنڈ قفس کی مانند بن گیا۔ وائٹ ہاؤ س سے پہلے کا دور میرے لیے ناسٹلجیا (nostalgia) بن گیا۔
یہی اس دنیا میں ہر آدمی کا معاملہ ہے۔ ہر آدمی گویا جنت کی تلاش میں ہے۔ ہر آدمی اپنی ساری کوشش سے اپنے لیے خوابوں کی ایک دنیا تعمیر کرتا ہے— کوٹھی، بنگلہ، محل ، فارم ہاؤس، وغیرہ۔ مگر جب وہ اپنی اس دنیا میں داخل ہوتا ہے، تو اس کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ کہیں اور آگیا ہے۔ یہ دنیا وہ دنیا نہیں جو اس کی خوابوں میں بسی ہوئی تھی۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا تعمیر جنت کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ تعمیر شخصیت کے لیے ہے۔ موجودہ دنیا کا مقصد یہ ہے کہ آدمی یہاں مختلف حالات کے درمیان اپنے اندر وہ شخصیت بنائے جو اگلے مرحلۂ حیات میں جنت میں داخلے کےلیے منتخب کی جائے۔ مگر انسان غلطی سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اپنی جنت اسی دنیا میں بنا سکتا ہے۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ شاندار امنگوں کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے، مگر آخر میں ہر ایک کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ مایوسی (frustration) میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور ناکامی کی موت مرکر اس دنیا سے چلاجاتا ہے۔
امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مثال ہر ایک کی مثال ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے خالق کے تخلیقی نقشے کو دریافت کرے، اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ اگر انسان ایسا کرے تو اس پر کبھی مایوسی کا دور نہیں آئے گا۔ وہ ایک کامیاب زندگی جیے گا، اور جب وہ اس دنیا سے جائے گا تو اس احساس کے ساتھ جائے گا کہ اس نے اپنی مطلوب منزل کو پالیا۔
واپس اوپر جائیں

اسفل سافلین کیوں

قرآن کی سورۃ التین میں بتایا گیا ہے کہ خالق نے انسان کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کیا، اس کے بعد اس کو اسفل سافلین میں ڈال دیا۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب ایک اور حدیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْر(صحیح مسلم، حدیث نمبر 91)۔ یعنی جنت میں وہ شخص داخل نہ ہوگا، جس کے دل میں ذرے کے برابر کبر ہو۔
انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عمومی طور پر اس کا حال یہ ہے کہ وہ احسن تقویم کا تحمل نہیں کرپاتا۔ وہ کبر کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ کسی کے اندر یہ نفسیات کم ہوتی ہے، اور کسی کے اندر زیادہ۔انسان کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس کے اندر حقیقت پسندی کا مزاج ہو، اور یہ صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ انسان آخری حد تک کٹ ٹو سائز (cut to size)ہوجائے۔ جب انسان کٹ ٹو سائز ہوتا ہے، اس وقت اس کے اندر تواضع (modesty)آتا ہے۔ وہ حقیقت پسند بن جاتا ہے۔ اس کے اندر اپنے محاسبے کامزاج پیدا ہوتا ہے۔ وہ متکبر انسان کے بجائے متواضع انسان بن جاتا ہے۔ اس کے اندر خودپسندی کے بجائے خدا پسندی کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ آخری حد تک سنجیدہ (sincere) بن جاتاہے۔ اس کے ذہن کی تمام بند کھڑکیاں کھل جاتی ہیں، یہ صفتیں آدمی کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ اپنے پوٹینشل کو ایکچول بنائے۔
یہ صفات آدمی کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ اس دنیا میں اللہ رب العالمین کے مقابلے میں حقیقی معنوں میں عبد بن جائے۔ وہ قادرِ مطلق خدا (all-powerful God) کے مقابلے میں عاجز مطلق (all powerless) کی دوسری حد (extent) بنائے۔
انسان چوں کہ اس دنیا میں ایک مکرم مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے تمام انسان کسی نہ کسی درجے میں کبر (arrogance) کا کیس بن جاتے ہیں۔ یہ نفسیات انسان کی ترقی میں حتمی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس کا موثر حل صرف یہ تھا کہ انسان کے اوپر اس معاملے میں دباؤ (compulsion)پیدا کیا جائے۔ یہی کمپلشن پیدا کرنے کے لیے خالق نے انسان کو احسن تقویم ہونے کے باوجود اسفل سافلین کی حالت میں ڈال دیا۔ اگرچہ یہ ایک واقعہ ہے کہ اس شدید تجربے کے باوجود تاریخ میں بہت کم انسان ایسے نکلے جو اس معیار پر پورے اتریں۔ لیکن اگر ایسا نہ کیا جاتا تو شاید پوری تاریخ گزرجاتی، اور کوئی ایک انسان بھی ایسا پیدا نہ ہوتا جو اللہ کے عظیم عطیے کو پاکر حقیقی معنوں میں اس کا بندہ ٔشاکر بن جائے۔
احسنِ تقویم سے مراد فطرت کا عطیہ ہے، اور اسفل سافلین سے مراد وہ ناپسندیدہ صورت حال ہے، جو اسباب و علل کے تحت انسان کو پیش آتی ہے۔ اگر آدمی حالات کو مینج (manage)کرنا سیکھ لے، تو وہ اس آزمائش میں بچ جائے گا، اور اگر وہ آرٹ آف مینجمنٹ نہ جانے تو وہ آزمائش کا شکار ہوکر ناکام رہےگا۔ اس دنیا میں کامیابی اور ناکامی دونوں انسان کا اپنا فعل ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ مثبت انداز میں سوچے۔ منفی انداز فکر انسان کو بگاڑتا ہے، اور مثبت انداز فکر انسان کو بچالیتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭ ٭
جنتی دنیا میں انسان کامل آزادی کے ساتھ رہے گا، لیکن وہ اتنا زیادہ پختہ اور اتنا زیادہ با شعور ہوگا کہ وہ کسی بھی حال میںاپنی آزادی کا غلط استعمال نہیں کرے گا۔ وہ پوری طرح آزاد ہوتے ہوئے بھی پوری طرح ڈسپلن میں رہے گا۔یہی وہ انسان ہے جس کے سلیکشن کے لیے موجودہ زمینی سیّارہ بنایا گیا۔ موجودہ دنیا میں بھی وہ سارے حالات پائے جاتے ہیں جو جنتی دنیا میں موجود ہوں گے۔ اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ کون انسان ہے جس نے ہر قسم کے حالات سے گزرتے ہوئے جنتی کیریکٹر کا ثبوت دیا۔ اُسی انسان کا انتخاب کرکے اس کو جنتی دنیا میں ابدی طورپر بسا دیا جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کا اعادہ

یہود کی تاریخ کا ایک واقعہ قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا ہَذِہِ الْقَرْیَةَ فَکُلُوا مِنْہَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَکُمْ خَطَایَاکُمْ وَسَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ۔ فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَہُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِینَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ (2:58-59)۔ یعنی اور جب ہم نے کہا کہ داخل ہوجاؤ اس شہر میں اور کھاؤ اس میں سے جہاں سے چاہو فراغت کے ساتھ، اور داخل ہو دروازے میں سرجھکائے ہوئے اور کہو کہ اے رب ! ہماری خطاؤں کو بخش دے۔ ہم تمہاری خطاؤں کو بخش دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو زیادہ بھی دیں گے۔ تو ظالموں نے بدل دیا اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی، دوسری بات سے۔ اس پر ہم نے ان لوگوں کے اوپر جنھوں نے ظلم کیا، ان کی نافرمانی کے سبب سے، آسمان سے رِجز اتارا۔
یہی واقعہ بدلی ہوئی صورت میں امتِ مسلمہ کے ساتھ پیش آیا۔ موجودہ زمانہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک نئے دور میں داخل ہونے کا زمانہ تھا، وہ زمانہ جس میں مواقع (opportunities)کا انفجار تھا ،جہاں ان کے لیے ہر قسم کے مواقع اعلیٰ پیمانے پر موجود تھے۔ اس زمانے کی پیشین گوئی پیغمبر اسلام نے بہت پہلے کردی تھی۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے کہ آفاق و انفس کی نشانیاں دینِ اسلام کی صداقت بن جائیں گی(سورۃ فصلت، 41:53)۔اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ بعد کے زمانے میں غیر مسلم قومیں بھی اسلام کی موید (supporters)بن جائیں گی(مسند احمد، حدیث نمبر 20454) ۔ موجودہ زمانے میں یہ پیشین گوئی پوری طرح واقعہ بن چکی ہے۔لیکن مسلمان اپنے منفی نفسیات کی بنا پر ان مواقع کو پہچاننے میں ناکام ہوگئے۔ بجائے اس کے کہ وہ دور حاضر کے ان مواقع کو خدائی مشن ، دعوت الی اللہ، کے لیے استعمال کرتے، وہ دور حاضر کو دشمن سمجھ کر اس کے خلاف ہوگئے۔ یہ واقعہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان اللہ رب العالمین کے منصوبے کو سمجھنے میں ناکام رہے۔
واپس اوپر جائیں

دو دنیائیں

قرآن میں دو دنیاؤں کا ذکر ہے۔ ایک انسانی دنیا، اور دوسری مادی دنیا۔ قرآن کے بیان کے مطابق، انسانی دنیا عملاً دار الفساد بنی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَہُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ (30:41)۔ یعنی خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ اللہ مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔ انسانی دنیا سے مراد زمین پر قائم شدہ وہ دنیا ہے، جہاں انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ قرآن اور تاریخ دونوں کا بیان ہے کہ یہ دنیا عملاً دار الفساد (world of corruption) بنی ہوئی ہے۔
دوسری دنیا وہ ہے، جس کو سمجھنے کے لیے ہم فطرت کی دنیا کہہ سکتے ہیں۔ فطرت کی دنیا سے مراد وہ مادی دنیا ہے، جو قوانین فطرت (laws of nature) کے تحت چل رہی ہے۔ اس دنیا کے بارے میں قرآن کا بیان ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک آئڈیل ورلڈ ہے ۔ مثلاً سورج کے طلوع کا جو وقت ہے، وہ ہمیشہ یکساں رہتا ہے، اسی طرح سورج کے غروب کا جو وقت ہے، وہ بھی ہمیشہ یکساں رہتا ہے، وغیرہ۔ اس کے بارے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَہَا أَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ (36:40)۔ یعنی نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات، دن سے پہلے آسکتی ہے۔ اور سب ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں۔
اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ (67:3-4)۔ یعنی جس نے بنائے سات آسمان اوپر تلے، تم رحمن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی۔
گویا یہ کائناتی دنیا خالی از فطور دنیا (flawless world) ہے۔ اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ فطرت کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے، جو صحت کی بنا پر پورے معنوں میں ایک قابل پیشین گوئی دنیا (predictable world)ہے۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا پوری کی پوری ناقابل پیشین گوئی دنیا (unpredictable world) بنی ہوئی ہے۔
یہ فرق کوئی سادہ بات نہیں۔ اس فرق کے تقابلی مطالعے (comparative study) کے ذریعے ہم ایک عظیم حقیقت کو دریافت کرتے ہیں، اور وہ اللہ رب العالمین کی دریافت ہے، جو اپنی غیر معمولی طاقت کے ذریعے پوری کائنات کو نہایت صحت کے ساتھ مینج (manage)کر رہا ہے۔ اس کے برعکس، انسان کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں ہے۔ اس لیے انسانی دنیا میں اس قسم کا مینجمنٹ موجود نہیں۔ دونوں دنیاؤں کے فرق پر اس عالمی اصول کو منطبق کیجیے، جو ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہےکہ چیزیں تقابل کے ذریعے پہچانی جاتی ہیں:
تعرف الاشیاء باضدادھا
In comparison that you understand
انسانی دنیا میں نقص کا موجود ہونا، یہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا کا مینیجر انسان ہے، اور انسان کا مینجمنٹ اس کی اپنی کمزوریوں کی بنا پر پُر عیب مینجمنٹ (defective management) بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، کائنات کا منتظم (manager) ایک ایسی ہستی ہے، جو پوری طرح عیب اور نقص سے خالی ہے۔ اس کی ہستی ہر اعتبار سے ایک بے عیب ہستی ہے۔یہ فرق اللہ رب العالمین کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭ ٭
موجودہ دنیا میں امتحان عقل کا ہے۔جو آدمی سوچ سمجھ کر کام کرے گا، وہ کامیاب ہوگا اور جو شخص محض جذبات کے تحت کام کرے گا، وہ ناکام ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

سپورٹنگ رول

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے جب انسان (آدم) کو پیدا کیا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ تم انسان کے آگے سجدہ کرو۔ یہ سجدہ، سجدۂ عبادت نہ تھا۔ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ انسان کو زمین پر آباد کیا جائے گا اور فرشتوں کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ انسان کے ساتھ سپورٹنگ رول اداکریں۔ حضرت نوح نے جب کشتی بنائی تو اس وقت اللہ نے ان سے کہا : وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا(11:37) یعنی اور ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق تم کشتی بناؤ۔یہ صرف ایک کشتی کا معاملہ نہ تھا بلکہ وہ انسان کے ساتھ کیا جانے والاعام معاملہ تھا۔ انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو وہ فرشتوں کے سپورٹ سے کرتا ہے۔ فرشتوں کے سپورٹ کے بغیر انسان کوئی کام نہیں کرسکتا۔ موجودہ زمانے میں انسان نے جو تہذیب بنائی ہے، وہ بلاشبہ انسان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ یہ کارنامہ بھی بلاشبہ فرشتوں کے سپورٹ سے انجام پایا ۔ گویا کہ تہذیب کے آغاز میں اللہ نے انسان سے کہا : اصنع الحضارۃ بأعیننا و وحینا ۔ یعنی تہذیب کی تشکیل کرو، فرشتے اس معاملے میں تمہاری مدد کریں گے۔
فطرت کا یہی اصول انسان اور انسان کے درمیان بھی مطلوب ہے۔ انسان جب کوئی بڑا کام کرتا ہے تویہ کام بہت سے لوگوں کے تعاون سے انجام پاتا ہے۔فطرت کے نظام کے مطابق، اس تعاون میں کسی انسان کا قائدانہ رول ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کا سپورٹنگ رول۔انسانی سپورٹ کے بارے میں اس اصول کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا (43:32)۔ یعنی اور ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں ۔انسانوں کے درمیان صلاحیتوں کا فرق ہے۔ یہ فرق اسی لیے ہے کہ لوگوں کے درمیان باہمی تعاون وجود میںآئے۔ اگر تمام لوگ یکساں صلاحیت کے ہوں تو تعاون ممکن نہ ہوگا۔ لوگوں کو چاہیے کہ فطرت کے اس نظام کو سمجھیں، اور اپنی صلاحیت کے مطابق اپنا رول ادا کرنے پر راضی ہوجائیں۔
واپس اوپر جائیں

بے نقص کائنات

ہماری کائنات ایک بے نقص کائنات ہے۔ قرآن میں اس کائناتی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیر (67:3-4)۔ یعنی جس نے بنائے سات آسمان، اوپر نیچے، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے۔ پھر بار بار لوٹاؤ نگاہ کو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی۔
موجودہ زمانے میں کائنات کا مطالعہ نہایت وسیع پیمانے پر کیا گیاہے۔ دوربین اور خورد بین کے ذریعے انسان مشاہدہ کی اس حد تک پہنچ گیا ہے، جو پہلے بالکل ممکن نہ تھا۔ اس مشاہدے کے ذریعے انسان کائنات کے بڑے اجسام سے بہت زیادہ واقف ہوگیا ہے، اور کائنات کے چھوٹے اجسام سے بھی۔اس مشاہدے نے انسان کو صرف یہ بتایا ہے کہ قرآن کا دعوی مکمل طور پر ایک صحیح دعوی ہے۔ اب یہ ایک مسلّم حقیقت بن گئی ہے کہ کائنات بے حد منظم کائنات ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کا نقص (defect) موجود نہیں۔
موجودہ زمانے میں انسان نے ٹکنالوجی کی دنیا میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ انسان نے بہت زیادہ چاہا کہ انسانی دنیا کے مینجمنٹ کو زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کی سطح تک پہنچائے۔ مگر غیر معمولی کوششوں کے باوجود انسان زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کی سطح پر اپنے کسی نظام کو قائم نہ کرسکا۔ اس موضوع پر بڑی تعداد میں مضامین لکھے گئے ہیں، اور کتابیں چھاپی گئی ہیں۔ ان میں سے انٹرنیٹ پر ایک آرٹیکل یہ ہے:
The Concept of Zero Defects in Quality Management, by Ms Chandana Das
واپس اوپر جائیں

پیغمبر اسلام — شخصیت کے چند نمونے

مثبت مزاج
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مربی اللہ تعالیٰ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلے میں مختلف موقع پر جو رہنمائی اتری ان میں سے ایک وہ تھی جس کو مثبت مزاج کی تعمیر کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر ایک کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو بظاہر ناخوشگوار دکھائی دیتے ہیں۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں بھی بار بار ایسے واقعات پیش آئے ۔ ایسے موقع پر ہر بار اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رہنمائی دی گئی کہ بظاہر ایک غیر موافق واقعے میں بھی کس طرح موافق پہلو چھپا ہوا ہے۔
قدیم مکہ میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت توحید کا آغاز کیا تو وہاں سخت قسم کی مشکلات پیش آئیں۔ اس وقت قرآن میں یہ رہنمائی دی گئی : فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(94:5-6)۔یعنی مشکلات سے نہ گھبراؤ، کیوں کہ اس دنیا میں ہرمشکل کے ساتھ آسانی موجود ہوتی ہے ۔ اسی طرح آپ کے مشن کے بارے میں آپ کے مخالفین نے بڑے پیمانے پر جھوٹا پروپیگنڈا شروع کیا۔ آپ پر طرح طرح کے عیب اور الزام لگائے گئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رہنمائی اتری : وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (94:4)۔یعنی اس پروپیگنڈے کے ذریعہ تمھارا چرچا ہر طرف پھیل رہا ہے۔ اس لیے اس کو مخالفانہ پروپیگنڈا نہ سمجھو، بلکہ اس کو اپنا اور اپنے مشن کا رفعِ ذکر سمجھو ۔
تقریباً 20 سال تک تبلیغ کرنے کے باوجود آپ اور آپ کے ساتھی عرب میں اقلیت کی حیثیت رکھتے تھے، اور مشرکین اکثریت میں تھے۔ اس وقت آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو فطرت کا ایک قانون یاد دلاتے ہوئے قرآن میں کہاگیا : کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیرَةً بِإِذْنِ اللَّہِ وَاللَّہُ مَعَ الصَّابِرِینَ (2:249) ۔ یعنی اس دنیا میں کتنی ہی بار ایسا ہوا ہے کہ عددی اقلیت رکھنے والا گروہ، عددی اکثریت کے اوپر غالب آیا ۔
اسی طرح 3 ہجری میں غزوۂ اُحد پیش آیا۔ ا س میں مسلمانوں کو مشرکین کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ یہ بظاہر ایک دل شکن واقعہ تھا۔ مگر اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رہنما آیتیں اتریں، وہ دوبارہ اس کے روشن پہلو کی طرف نشاندہی کرنے والی تھیں۔ ان میں سے قرآن کی ایک آیت یہ ہے: إِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُہُ وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ (3:140)۔ یعنی احد کی جنگ میں اگر تم کو زخم پہنچا ہے تو اس سے پہلے بدر کی جنگ میں مشرکین کو زخم پہنچ چکا ہے۔ اور ہم ان ایام کولوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں ۔
اسی طرح 6 ہجری میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان وہ واقعہ پیش آیا جس کو صلح حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ یہ صلح بظاہر مسلمانوں کی سیاسی شکست کے ہم معنی تھی۔ مگر قرآن میں جب اس پر تبصرہ کیاگیا تو برعکس طورپر، اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا: إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا (48:1) یعنی ہم نے تم کو تمھارے حریف کے اوپر کھلی فتح دے دی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بظاہر سیاسی شکست کے باوجود اس معاملے میں تم کو اخلاقی فتح حاصل ہوئی ہے، جو آخر کار مکمل فتح بننے والی ہے،وغیرہ۔اس خدائی تربیت نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسا انسان بنا دیا جو منفی طرز فکر سے مکمل طور پر خالی تھا۔ آپ مثبت فکر میں اتنا زیادہ بڑھے ہوئے تھے کہ بلاشبہ آپ کو دنیا کا سب سے بڑا مثبت مفکر (positive thinker) کہا جاسکتا ہے۔
اللہ پر اعتماد
ہجرت کے سفر میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کے لئے روانہ ہوئے تو اس وقت آپ کے ساتھ صرف حضرت ابو بکر صدیق تھے۔ یہ بے حد نازک سفر تھا۔ مکہ کے لوگ آپ کے جانی دشمن تھے۔ یہ یقینی تھا کہ وہ آپ کا پیچھا کریں گے۔ چناں چہ آپ نے شدید احتیاط کے ساتھ یہ سفر فرمایا، حتٰی کہ آپ کو مکہ سے مدینہ کی طرف جاناتھا، لیکن آپ الٹے رخ پر چل کر غارِ ثور میں پہنچے اور وہاں حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ چھپ کر چند دن قیام کیا۔
مکہ کے سرداروں کو جب آپ کی ہجرت کی خبر ہوئی تو انھوں نے اپنے آدمیوں کو چاروں طرف دوڑایا، تاکہ وہ آپ کو مدینہ پہنچنے سے پہلے پکڑ لیں اور نعوذ باللہ آپ کو قتل کرڈالیں۔ آپ ابھی غارِ ثور میں چھپے ہوئے تھے کہ مکہ کے کئی لوگ آپ کی تلاش میں وہاں پہنچ گئے۔ اس وقت وہ اتنے قریب تھے کہ غار کے اندر سے وہ صاف نظر آرہے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے جب یہ دیکھا کہ تلوار لیے ہوئے یہ لوگ غار کے منہ تک پہنچ گئے ہیںتوانھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، اگر ان میں سے کوئی اپنے پاؤں کی طرف نظر ڈالے تو وہ ضرور ہم کو دیکھ لے گا۔ یہ سن کر پیغمبر اسلام نے کامل اعتماد کے ساتھ کہا:یَا أَبَا بَکْرٍ مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنِ اللَّہُ ثَالِثُہُمَا(سیرۃ ابن کثیر 2/242-43)۔ یعنی اے ابوبکر، ان دو کے بارے میں تمھارا کیا گمان ہے، جن کا تیسرا اللہ ہو۔
پیغمبر اسلام کی زبان سے نکلا ہوا یہ کلمہ اتنا عظیم ہے کہ شاید پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری نظیر موجود نہیں۔ اس وقت آپ بلا شبہ انتہائی پُر خطر حالات میں تھے، لیکن اللہ پر اعتماد اتنا زیادہ بڑھا ہوا تھا کہ کوئی بھی طوفان اس کو متزلزل نہیں کرسکتاتھا۔ یہی بے پناہ اعتماد تھا جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ ایسے پُر خوف حالات میں اتنا زیادہ بے خوفی کا کلمہ آپ کی زبان سے نکلے۔
عبادت کی کیفیت
پیغمبر اسلام روزانہ خدا کی عبادت کرتے تھے، دن کو بھی اور رات کو بھی۔ عبادت کے وقت آپ کے دل کی جو کیفیت ہوتی تھی اس کا اندازہ ایک روایت سے ہوتا ہے۔ حضرت علی بتاتے ہیں کہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس میں ذکر ودعا کے کون سے الفاظ آپ کی زبان پر جاری ہوتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ بتاتے ہیں کہ جب آپ نماز کے وقت رکوع میں جھکتے تھے تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ ہوتے تھے: اللہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَلَکَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَکَ سَمْعِی، وَبَصَرِی، وَمُخِّی، وَعَظْمِی، وَعَصَبِی (صحیح مسلم، حدیث نمبر 771)۔ یعنی اے اللہ میں تیرے آگے جھک گیا،اور میں تجھ پر ایمان لایا، اور میں نے اپنے آپ کو تیرے حوالے کیا، تیرے آگے جھک گئے میرے کان، اور میری آنکھ، اور میرا دماغ اور میری ہڈیاں اور میرے اعصاب۔
اسی طرح حضرت علی بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام جب سجدے کے وقت زمین پر اپنا سر رکھتے تھے تو اس وقت آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوجاتے تھے: اللہُمَّ لَکَ سَجَدْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَلَکَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہُ، وَصَوَّرَہُ، وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ، تَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِین (صحیح مسلم، حدیث نمبر 771)۔ یعنی اے اللہ میں نے تیرے لیے سجدہ کیا، اور میں تجھ پر ایمان لایا، اور میں نے اپنے آپ کو تیرے حوالے کیا، میرا چہرہ اس کے آگے جھک گیا جس نے اس کو پیدا کیا اور اس کی صورت گری کی اوراس کے کان اور آنکھ کو بنایا۔ پس بابرکت ہے اللہ، سب سے بہتر تخلیق کرنے والا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام جب عبادت میں مشغول ہوتے تھے تو اس وقت ان کے جذبات کیا ہوتے تھے۔ اس وقت وہ خدا کی عظمت وہیبت کے احساس میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے۔ خدا کی برتری اور اس کے مقابلے میں اپنے عجز کا تصور ان کے سینے میں ایک طوفان کی حیثیت اختیار کرلیتا تھا۔ آپ کی عبادت آپ کے لیے خدائے عظیم وکبیر کے سامنے حاضری کے ہم معنیٰ بن جاتی تھی۔ آپ کی عبادت آپ کے لیے انتہائی حد تک ایک زندہ عمل تھا، نہ کہ محض کچھ رسمی اعمال کی ادایگی۔
ہدایت کے لئے تڑپنا
قر آن کی سورۃ الشعراء میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا ہے :تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْمُبِینِ ۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ أَلَّا یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ۔إِنْ نَشَأْ نُنَزِّلْ عَلَیْہِمْ مِنَ السَّمَاءِ آیَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُہُمْ لَہَا خَاضِعِینَ (26:2-4)۔یعنی یہ واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔ شاید تم اپنے کو ہلاک کر ڈالو گے اس پر کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اگر ہم چاہیں تو تم پر آسمان سے نشانی اتاردیں، پھر ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں۔
یہ اور اس طرح کی دوسری شہادتیں بتاتی ہیں کہ پیغمبر اسلام اپنے مخاطبین کی ہدایت کے لیے کتنا زیادہ حریص تھے۔ ’’شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کرلو گے‘‘ کا جملہ اس کامل خیر خواہی کو بتا رہا ہے جو پیغمبر اسلام کو اپنے مخاطبین کے حق میں تھی۔دعوتی عمل خالص خیر خواہی کے جذبے سے ابلتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے اسی کامل خیر خواہی کے تحت اپنی قوم کوحق کی دعوت پہنچائی۔ اور آپ نے اپنی تمام کوششیں اس کی راہ میں صرف کردیں۔ اس کے باوجود ان کی اکثریت آپ کے پیغام کو ماننے پر راضی نہ ہوئی۔ اس کے بعد آپ کا حال یہ ہوا کہ آپ ان کی ہدایت کے غم میں ہلکان ہونے لگے۔ آپ کے دن کا چین رخصت ہوگیااور آپ کی رات کی نیند غا ئب ہوگئی۔
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ (شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کر لوگے) کا مطلب آپ کو اس سے روکنا نہیں ہے، بلکہ یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ آپ نے اپنی پیغمبرانہ ذمے داری کو اس کی آخری اور انتہائی حد تک ادا کردیا۔ دوسرے کی ہدایت کے لیے اپنے آپ کو ہلکان کرنا، پیغمبر کی شخصیت کا اہم ترین وصف ہے۔ اس وصف میں آپ بلا شبہ کمال کے درجے کو پہنچے ہوئے تھے۔
انسان کا احترام
قدیم مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ یہودی قبیلے بھی آباد تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ پیغمبراسلام مدینہ کے ایک مقام پر تھے۔ اس وقت وہاں سے ایک جنازہ گزرا۔ آپ اس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ جنازے کو دیکھ کر آپ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ اس وقت آپ کے کچھ صحابہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ یہ دیکھ کر کسی نے کہا کہ اے خدا کے رسول یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: أَلَیْسَتْ نَفْسًا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1312)۔یعنی کیا وہ انسان نہ تھا۔
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے دل میں دوسرے انسانوں کے بارے میں کس قسم کے جذبات ہوتے تھے۔ آپ ہر انسان کو انسان سمجھتے تھے۔ ہر انسان آپ کو قابل احترام نظر آتا تھا، خواہ وہ کسی بھی قوم یا ملت سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر انسان کو آپ خدا کی ایک مخلوق سمجھتے تھے۔ ہر انسان کے اندر آپ کو وہی کاریگری دکھائی دیتی تھی جو آپ کو خود اپنے وجود میں دکھائی دیتی تھی۔ انسان کو دیکھ کر آپ انسان کے خالق کو یاد کرنے لگتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے دل میں ہر انسان کے لیے محبت اور احترام کا جذبہ تھا۔ انسان سے نفرت کرنا آپ کے مزاج کے بالکل خلاف تھا۔
آخرت کی فکر
ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار اپنی ایک اہلیہ کے مکان میں تھے۔ ان کے یہاں ایک خادمہ تھی۔ آپ نے کسی فوری ضرورت کے تحت خادمہ کو باہر بھیجا۔ اس نے آنے میں دیر کی۔ معلوم ہوا کہ وہ راستہ میں بچوں کا کھیل دیکھنے کے لیے کھڑی ہوگئی تھی۔خادمہ جب تاخیر کے ساتھ واپس آئی تو اس کو دیکھ کر آپ کے چہرے پر غصے کے آثار ظاہر ہوگئے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میںایک مسواک تھی۔ آپ نے خادمہ سے کہا:لَوْلَا خَشْیَةُ الْقَوَدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، لَأَوْجَعْتُکِ بِہَذَا السِّوَاک (الادب المفرد، حدیث نمبر 184)۔ یعنی اگر قیامت میں بدلے کا ڈر نہ ہوتا تو میں تم کو اس مسواک سے مارتا۔
پیغمبر اسلام لوگوں کو قیامت کی پکڑ سے ڈراتے تھے۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈرانا یک طرفہ نہ تھا۔ آپ جس طرح دوسروں کو آنے والی قیامت سے ڈراتے تھے، اسی طرح آپ خود بھی سب سے زیادہ اس سے ڈر محسوس کرتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ لوگ دنیا میں اس طرح رہیں کہ ان کے دل میں خدا کی پکڑ کا خوف سمایا ہوا ہو۔ یہی خود آپ کی اپنی حالت بھی تھی۔ آپ آنے والی قیامت کو اپنے سمیت ہر ایک کا مسئلہ سمجھتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ آپ کا پیغمبر ہونا آپ کو اخروی مسئولیت سے بے نیاز بنادے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭ ٭
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو گویا کہ وہ فطرت کی کان (mine) سے نکل کر باہر کی دنیا میںآتا ہے۔ اِس کے بعد وہ بڑا ہوتا ہے، اور اپنی سوچ کو عمل میں لاتا ہے۔ وہ تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتا ہے۔ اِس طرح پختگی کی عمر میں پہنچ کر وہ ایک باقاعدہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ انسانی وجود کا درمیانی مرحلہ ہے۔ اِس کے بعد اگر وہ اپنی عقل کو صحیح رخ پر استعمال کرے تو وہ معرفتِ حق کے درجے میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جب کہ کوئی پیدا ہونے والا، کمالِ انسانیت کے مرحلے میں پہنچ کر عارف باللہ کا مقام حاصل کرلیتاہے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا مطالعہ

کئی بار ا یسے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی جو درس قرآن کے کسی حلقے میں برابر شرکت کرتے ہیں۔ میں نے ان سے ایک سوال کیا۔ وہ یہ کہ آپ جو درس قرآن سنتے ہیں، اس سے آپ کو ٹیک اوے (takeaway)کیا ملا۔ میرے تجربے کے مطابق، یہ لوگ متعین انداز میں بتا نہ سکے کہ ان حلقوں میں شرکت سے ان کو ٹیک اوے کیا ملا یا کیا ملتا ہے۔ ٹیک اوے کا مطلب ہےکسی کلام سے اخذ کردہ بات:
A conclusion to be made based on presented facts or information
آپ کوئی کتاب پڑھیں یا کوئی تقریر سنیں، اور اس سے آپ کو کوئی متعین بات نہ ملے تو آپ کا ذہن ایڈریس نہ ہوگا۔ آپ پڑھ کر یا سن کر بھی اس سے کوئی کار آمد بات اخذ نہ کرسکیں گے۔ جب ایسا ہوگا تو پڑھی ہوئی بات یا سنی ہوئی بات آپ کی شخصیت کا جزء نہیں بنے گی۔ پڑھ کر یا سن کربھی آپ ویسے ہی رہیں گے، جیسا کہ سننے یا پڑھنے سے پہلے تھے۔ مفید کلام وہ ہے، جس سے قاری یا سامع کو کوئی متعین پیغام ملے۔ جو اس کے ذہن کو متعین انداز میں ایڈریس کرے، جس کے بعد آدمی اس قابل ہوجائے کہ وہ تقابلی انداز میں بات کو سمجھے۔ وہ اپنی شخصیت یا اپنے موقف کا تقابلی انداز میں مطالعہ کرے۔ جو کلام آپ کے اندر یہ صفت پیدا کرے، وہی کلام مفید کلام ہے، اور جو کلام آپ کے اندر یہ صفت پیدا نہ کرے، وہ بظاہر الفاظ کا ایک مجموعہ ہوسکتا ہے، لیکن وہ معانی کا خزانہ نہیں ہوسکتا۔
مثال کے طور پر آپ نے یہ آیت پڑھی یا سنی: اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ (2:255)۔ یہ آیت پڑھ کر آپ نے الحی القیوم پر غور کیا، اور یہ سوچا کہ جس طرح میں ایک زندہ ہستی ہوں، اس سے بڑھ کر اللہ رب العالمین الحی القیوم ہے ، وہ ایک زندہ حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ آپ کے اندر اگر یہ شعور پیدا ہوا اور آپ نے اللہ رب العالمین کو ایک زندہ وجود کے طور پر دریافت کیا تو آپ کو ٹیک اوے ملا، اور اگر ایسا نہیں ہوا تو آپ کو ٹیک اوے نہیں ملا۔
اسی طرح اسلام کی ایک تعلیم قرآن میں آئی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان والو، اللہ کے لیے قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ اور کسی گروہ کی دشمنی تم کو اس پر نہ ابھارے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو۔ یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو(المائدۃ،5:8)۔
آپ نے اس آیت کو پڑھا۔ پھر آپ نے اس آیت کو اپنے آپ پر منطبق کیا۔ تطبیقی مطالعہ (applied study) کرکے آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا میں اپنے معاملے میں اس آیت پر عمل کررہا ہوں۔ پھر آپ نے دریافت کیا کہ اس طرح کے معاملے میں میرا رویہ اس آیت کے مطابق نہیں ہے۔اس کے بعد آپ نے فوراً اپنا بے لاگ محاسبہ کیا۔ آپ نے اپنی سوچ کو بدل کر اپنے آپ کو عادلانہ روش پر قائم کیا تو قرآن کا یہی مطالعہ صحیح قرآنی مطالعہ ہے۔ اس کے برعکس، اگر آپ ایسا کریں کہ قرآن کا مطالعہ فنی انداز میں کریں ۔ قرآن کے لغوی اور نحوی مسائل کو حل کریں تو آپ کو قرآن سے حلّ الفاظ کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔
قرآن کی تحریک پچھلے تقریباً سو سال سے بڑے پیمانے پر چل رہی ہے۔ لوگ قرآن کے نام پر کتابیں چھاپ رہے ہیں، اور تقریریں کر رہے ہیں۔ لیکن اگر نتیجے کے اعتبار سے جائز ہ لیا جائے تو ایسے افراد کو پانا مشکل ہوگا جن کا ذہن مطلوب انداز میں بنا ہو۔ مثلاً قومی مسائل میں جو متعصبانہ رائے عام مسلمانوں کی ہے، وہی قرآن کے ان قاریوں کی بھی ہے۔ قرآن کا نام لینے والے تو بہت سے لوگ ملیں گے ، لیکن ایسا کوئی شخص مشکل سے ملے گا، جس کے اندر صحیح معنوں میں قرآن کا ذہن بنا ہو۔
اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن کے نام پر ہونے والی یہ تمام کوششیں غیر تطبیقی انداز (unapplied way) میں کی جارہی ہیں۔ اس بنا پر ایسا ہورہا ہے کہ سننے یا پڑھنے والوں کا ذہن ایڈریس نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآن کا سننا یا پڑھنا، بس قرآن کا قصیدہ بن کر رہ جانا ہے۔ ایسے لوگ تو ملتے ہیں،جو قرآن پر فخر کریں، لیکن ایسے لوگ نہیں ملتے، جن کے اندر قرآن کو سن کر محاسبہ (introspection) کی سوچ جاگے۔
واپس اوپر جائیں

تفسیر قرآن

قرآن کی تفسیر کا مروج طریقہ یہ ہے کہ شان نزول (background of revelation) کو لے کر قرآن کی تفسیر کرنا۔ امام الشاطبی کا قول ہے:معرفة أسباب النزول لازمة لمن أراد علم القرآن ( دَرْجُ الدُّرر فی تَفِسیِر الآیِ والسُّوَر، عبد القاہر الجرجانی، الأردن، 2009، 2/49) یعنی شان نزول کی معرفت ان لوگوں کے لیے لازم ہے، جو قرآن کو جاننے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تفسیر کا یہ اصول قرآن کا مطالعہ کرنے والے کو قرآن کی آیت کی ابتدائی تاریخ بتاتا ہے۔ نزول آیات کے بعد کے زمانے کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ مگر قرآن کی تفسیر کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ مطالعہ کرنے والا قرآن کی تاریخ کو سمجھتا رہے۔ بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ نزول کے بعد کے زمانے کے لیے اس آیت کا مدعا کیا ہے۔
شانِ نزول یا سببِ نزول کو جاننا زمانۂ نزول کے اعتبار سے جتنا اہم ہے، اسی طرح زمانۂ نزول کے بعد کے ادوار میں قرآن کے تطبیقی مفہوم (applied meaning)کو جاننا بھی اہم ہے۔ مثلاً قرآن میں سورہ یوسف کی ایک آیت یہ ہے : مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاہُ فِی دِینِ الْمَلِکِ إِلَّا أَنْ یَشَاءَ اللَّہُ (12:76)۔ سببِ نزول کے اعتبار سے اس آیت کا ایک مفہوم ہے۔ اگر ہم اس سببِ نزول کو جان لیں تو ہم صرف یہ جانیں گے کہ بوقت نزول اس آیت کا مفہوم کیا تھا۔ لیکن اگر یہ جاننا ہو کہ بعد کے زمانے میں اس آیت سے کیا عملی اصول معلوم ہوتا ہے تو اس کا علم صرف اس وقت ہوگا کہ جب ہم اس آیت کو اپنے حالات کےلحاظ سے دوبارہ دریافت (rediscover) کریں، اور اس کے تطبیقی مفہوم (applied meaning) کو جانیں۔
قرآن کا تاریخی مطالعہ کرنا ہو تو شانِ نزول یا سببِ نزول کی بہت اہمیت ہے۔ لیکن اگر یہ جاننا ہو کہ اس آیت سے کون سا اصول اخذ ہوتا ہے، اور ہمارے اپنے زمانے کے لحاظ سے اس اصول کی تطبیق (application) کیا ہے تو قرآن کا تطبیقی مطالعہ ضروری ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

درس قرآن

مولانا محمود حسن دیوبندی کا واقعہ ہے۔ وہ 1920 ءمیں مالٹا کی جلاوطنی سے واپس آئے۔ اس کے بعد دیوبند میں ان کی ایک مجلس ہوئی۔ اس مجلس میں انھوں نے درسِ قرآن کی بات کہی ۔ان کے شاگرد رشید مفتی محمد شفیع صاحب اُس مجلس کی روداد اِن الفاظ میںبیان کرتے ہیں:
مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعدایک رات بعدِ عشاء (حضرت) دارالعلوم (دیوبند) میں تشریف فرما تھے۔ علما کا بڑا مجمع سامنے تھا، اس وقت فرمایا کہ’’ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں ...میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے۔ ایک، ان کا قرآن کو چھوڑدینا، اوردوسرا، آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیاہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں، بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معنی سے روشناس کرایا جائے، اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیاجائے ۔ٗٗ
یہ بات علماء کے پورے حلقے میں تیزی سے پھیل گئی۔ غیر منقسم ہندستان کے تقریباً تمام مدارس اور مساجد میں درس قرآن کے حلقے قائم ہوگئے۔ یہ حلقے ابھی تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں۔ مگر نتیجے کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو ان دروس قرآن کا مطلوب نتیجہ ابھی تک بر آمد نہ ہوسکا۔ جب کہ اس عمل پر اب تقریباً ایک صدی پوری ہورہی ہے۔
اس ناکامی کا سبب کیا تھا۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سبب یہ تھا کہ بیسویں صدی میں مسلمانان ہند کے اوپر مسلم فخر (Muslim Supremacism) کا ذہن چھایا ہوا تھا۔ اس لیے علماء کا یہ درس قرآن عملاً قصیدۂ قرآن بن کر رہ گیا، وہ نصیحتِ قرآن نہ بن سکا۔ قرآن کا درس دینے والے، اور قرآن کےدرس کو سننے والے دونوں فخر کی نفسیات میں جی رہے تھے۔ اس لیے قرآن کا تذکرہ ان کے لیے قومی فخر کو تسکین دینے والا بن کر رہ گیا، وہ ان کے لیے ذہنی اصلاح کا ذریعہ نہ بن سکا۔
قرآن کی بنیاد پر اصلاحِ امت کی تحریک صرف اس وقت کامیاب ہوسکتی ہے، جب کہ اس کو تطبیقی انداز (applied way) میں چلایا جائے۔ یعنی قرآن کی آیتوں کو مسلمانوں کی حالت پر منطبق کرتے ہوئے اس کی وضاحت کی جائے۔ تطبیقی انداز میں قرآن کا جو تذکرہ کیا جائے گا،و ہ سامعین کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا بنے گا، اور جو درس قرآن سامعین کے ذہن کو ایڈریس کرے، وہی اصلاح یا انقلاب کا ذریعہ بن سکتا ہے، اس کے بغیر ہرگز نہیں۔
مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ (6:108)۔یعنی اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، ان کو گالی نہ دو ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالی دینے لگیں گے۔
اس آیت میں لا تسبوا کا خطاب اصحاب رسول سے ہے ۔ ظاہر ہے کہ اصحاب رسول مشرکین کے بتوں کے خلاف سب و شتم کی زبان استعمال نہیں کریں گے۔اس کے باوجود اصحاب رسول جب ان کے خلاف کوئی بات بولیں گے تو وہ مشرکین کو سب و شتم نظر آئے گا، اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ جواب میں ری ایکشن کا طریقہ اختیار کریں۔ پھر یہ ری ایکشن بڑھے گا، اور چین ری ایکشن کی صورت اختیار کر لے گا، اور اس طرح لوگوں کی اصلاح کا کام مزید مشکل بن جائے گا۔
اس حقیقت کو جب تطبیقی انداز میں بیان کیا جائے تو آج کے مسلمانوں کو اس میں نصیحت کا پہلو ملے گا۔ وہ سوچیں گے کہ کچھ لوگوں کو جب ہم شاتم قرار دے کر پر شور تحریک چلانا چاہتے ہیں تو اس کا نتیجہ الٹا ہورہا ہے۔ لوگ اس کو اپنے خلاف سمجھ کر اور زیادہ شدید ہوجائیں گے، اور اصلاح کا کام مشکل سے مشکل تر ہوجائے گا۔سب و شتم کے خلاف قتل کا فتویٰ اس معاملے میں صرف کاؤنٹر پروڈکٹیو ثابت ہوگا، وہ اصلاح کا ذریعہ نہیں بنے گا، بلکہ اصلاح کو مزید مشکل بنانے کا سبب بن جائے گا- درسِ قرآن وہی مفید ہے، جو تطبیقی انداز میں کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن فہمی کا اسلوب

قرآن بلاشبہ ایک خدائی کتاب ہے۔ لیکن عملاً وہ انسانی زبان میں اتارا گیا ہے۔ تاکہ وہ انسان کے لیے پوری طرح قابل فہم ہوسکے۔ بعد کے زمانے میں قرآن کے لیے مقدس قرآن (Holy Quran) اور پَوِتر قرآن جیسے الفاظ استعمال کیے جانے لگے۔ مگر یہ اسلوب قرآن و حدیث میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ یہ اسلوب بلاشبہ مضاہات (سورۃالتوبہ، 9:30) کی قبیل سے ہے۔ وہ اسلام کا ثابت شدہ اسلوب نہیں۔ غالباًاسی ذہن کو ختم کرنے کے لیے قرآن کی 29 سورتوں کا آغاز حروف مقطعات (disjointed letters) سے کیا گیا ہے۔ حروف مقطعات کا اسلوب بتاتا ہے کہ قرآن انسانی زبان میں اتارا گیا ہے، وہ کسی ملکوتی زبان یا ملاِ اعلی کی زبان میں نہیں ہے۔ اسی ذہن کی وجہ سے بعد کے زمانے میں یہ سمجھ لیا گیا کہ قرآن کا مبالغہ آمیز انداز میں احترام کرنا، اور قرآن کے الفاظ کو مخارج کی کامل صحت کے ساتھ دہرا لینا، اسی سے قرآن کا حق ادا ہوجاتا ہے۔
اس غیر مطلوب ذہن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ قرآن فہمی کا عمل درست انداز میں جاری نہ رہ سکا۔ قرآن کی بہت سی آیتوں کو ہمارے علماء اور مفسرین سمجھنے سے قاصر رہے۔ کیوں کہ انھوں نے قرآن کے الفاظ کو مقدس سمجھ لیا، جن کو صرف ان کے ظاہری معنی میںلیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے قرآن میں غور و فکر کے لیے اجتہادی اسلوب کا خاتمہ ہوگیا۔
مثال کے طور پر قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ (3:146)۔ قرآن کی اس آیت میں قتال کا لفظ آیا ہے۔ اس کو لفظی معنی میں لے کر یہ سمجھ لیا گیا کہ بہت سے نبیوں نے اپنے زمانے میں مسلح قتال کیا ہے ۔ حالاں کہ قتال کے ان واقعات کا کوئی ثبوت نہ حدیث میں ہے، اور نہ تاریخ میں ۔
حقیقت یہ ہے کہ قتال کا لفظ اس آیت میں انسانی اسلوب کے اعتبار سے آیا ہے، یعنی شدید جدو جہد۔ مثلاً انسانی زبان میں کہا جاتا ہے کہ ہمیں اس معاملے میں فائٹ ٹو فنیش (fight to the finish) کی اسپرٹ کے ساتھ کام کرنا ہے، یا یہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں کرپشن کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ یہ تمام الفاظ شدید جدو جہد (utmost struggle) کے معنی میں ہیں، نہ کہ لفظی اعتبار سے جنگ و قتال کے معنی میں۔
یہی معاملہ حدیثِ رسول کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ لوگ حدیث کے کلام کو بالکل لفظی معنی میں لینے لگے۔ مثلاً متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ اللہ کا ایک اسم ِاعظم ہے، اور جو آدمی اسم ِاعظم کے ساتھ دعا کرے، وہ ضرور قبول ہوتی ہے ۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے ننانوے نام ہیں۔ لوگوں نے یہ ننانوے نام بطور خود متعین کر لیے ، اور یہ تلاش کرنا شروع کیا کہ اس میں سے اسمِ اعظم کونسا ہے۔ اس قسم کی کوششوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔کیوں کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ لفظی معنیٰ کے علاوہ بھی مراد ہوسکتا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6937)۔
صحیح یہ ہے کہ حدیث میںمذکوراسم ِاعظم سے مراد کوئی متعین نام (name) نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی اللہ کو ایسے اسلوب میں پکارے، جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والا ہو تو ایسی دعا اللہ کے یہاں ضرور قبول ہوتی ہے۔ مثلاً کسی شخص سے ایک غلطی ہوجائے۔ اس کے بعد اس آدمی کو اپنی غلطی کا شدید احساس ہو۔ وہ بے تابانہ طور پر سجدے میں گر پڑے، اور روتے ہوئےکہے کہ یا اللہ تو نے مجھ کو ضعیف پیدا کیا۔ اپنے اس ضعف کی بنا پر مجھ سے غلطی ہوگئی۔ اب تیرے سوا کون ہے، جو میری اس غلطی کو سنبھالے، جو مجھ کو اس غلطی کے انجام سے بچائے۔ خدایا تو میرا رب ہے۔ تیرے سوا کون ہے جس سے میں امید کروں کہ وہ میری غلطی کو سنبھالے گا، اور مجھ کو میری غلطی کے انجام سے بچائے گا۔ آدمی یہ الفاظ بولے، اور اس کی آنکھیں بےتابانہ طور پر آنسو بہا رہی ہوں۔ اگر کوئی شخص اپنی تنہائیوں میں اس طرح اللہ کو پکارے۔ تو اس کا یہ پکارنا اللہ کو اسم ِاعظم کے ساتھ پکارنا ہو گا، اور عین ممکن ہے کہ اس کی پکار اللہ کےیہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرلے ۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی ہدایت

قرآن میں ہدایت پانے کے ایک اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے:إِنَّ اللَّہَ لَا یَسْتَحْیِی أَنْ یَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَہَا فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَیَعْلَمُونَ أَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّہِمْ وَأَمَّا الَّذِینَ کَفَرُوا فَیَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّہُ بِہَذَا مَثَلًا یُضِلُّ بِہِ کَثِیرًا وَیَہْدِی بِہِ کَثِیرًا وَمَا یُضِلُّ بِہِ إِلَّا الْفَاسِقِینَ (2:26)۔ یعنی اللہ اس سے نہیں شرماتا کہ بیان کرے مثال مچھر کی یا اس سے بھی کسی چھوٹی چیز کی۔ پھر جو ایمان والے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ وہ حق ہے ان کے رب کی جانب سے۔ اور جو منکر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس مثال کو بیان کرکے اللہ نے کیا چاہا ہے۔ اللہ اس کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو اس سے راہ دکھاتا ہے۔ اور وہ گمراہ کرتا ہے ان لوگوں کو جو نافرمانی کرنے والے ہیں۔
کوئی بات ریاضیات کی زبان میں کہی جائے تو اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن مذہب کا تعلق ہیومنیٹیز (humanities)سے ہے۔ اس لیے مذہب میں ہمیشہ یہ گنجائش رہتی ہے کہ آدمی کسی بات کی صحیح تاویل کرکے اس سے ہدایت پائے، یا غلط تاویل کرکے گمراہ بن جائے۔
مثلا اگر مچھر کی مثال سے کوئی اخلاقی بات کہی جائے تو آدمی کو یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ اصل مدعا پر دھیان دے۔ ایسی حالت میں مچھرکی مثال اس کے لیے مفید سبق کا ذریعہ بن جائے گی۔ لیکن اگر وہ غیر سنجیدہ ہوکر مچھر کا مذاق اڑانے لگے تو اس کو مچھر کی مثال سے کوئی سبق نہیں ملے گا۔قرآن کی کسی آیت سے صحیح سبق لینے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر سنجیدگی ہو۔ وہ بات کو صحیح زاویے سے دیکھے۔ اگر آدمی کے اندر سنجیدگی نہ ہو تو وہ ہمیشہ بات کو غلط زاویے سے دیکھے گا ، اور اس کو سبق کے بجائے مذاق کا موضوع بنالے گا۔ ریاضیات (mathematics) میں اس قسم کی گنجائش نہیںہوتی، لیکن مذہب اور اخلاقیات کےموضوع میں غلط تاویل کی بہت زیادہ گنجائش ہوتی ہے، اس لیے مذہب اور اخلاقیات کے موضوع پر انسان کا سنجیدہ ہونا بہت ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا انقلاب

قرآن نے تاریخِ انسانی میں ایک نئی سوچ کا آغاز کیا۔ یہ سوچ قرآن میں لفظی طور پر اشارے کی زبان میں ہے، اور عملی طور پر وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کی صورت میں۔ قرآن کے الفاظ میں وہ منصوبہ بندی یہ تھی کہ رُجزکو اوائڈ کرکے اپنے مثبت عمل کا منصوبہ بنانا (المدثر،74:5) ۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اسٹرٹیجی کے اصول پر اپنا مشن چلایا۔ مثلاً مکہ میں مقدس کعبہ کے اندر کئی سو بت رکھے ہوئے تھے، جو بلاشبہ ایک موحد انسان کے لیے ایک اشتعال انگیز منظر تھا۔ یہ بت بظاہر رجز (گندگی)تھے۔ لیکن اسی رجز کی وجہ سے کعبہ کے پاس روزانہ عرب کے قبائل اپنے عبادتی رسوم کے لیے جمع ہوتے تھے۔ اس وقت رسول اللہ نے رجز کے خلاف کوئی براہ راست تحریک نہیں چلائی۔ بلکہ اس معاملے میں آپ نےڈی لنکنگ پالیسی اختیار کی۔ یعنی آپ نے رجز کے اشو کو نظر انداز کیا، اور مشرکین کے اجتماع کو اپنے مشن کے لیے بطور آڈینس (audience) استعمال کیا۔
یہ گویا معاملے کے دو پہلوؤں کے درمیان ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy)تھی۔ یہ ڈی لنکنگ پالیسی غالباً تاریخ میں پہلی بار پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن میں کامیابی کے ساتھ استعمال کی۔ اگرچہ مسلمان اس سنتِ رسول کو سمجھ نہ سکے، اور وہ بعد کی تاریخ میں اس حکیمانہ پالیسی کو اختیار کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی تاریخ میں یہ ایک انقلابی اصول تھا، جو پیغمبرِ اسلام نے پہلی بار تاریخِ انسانی کو عطا کیا۔
ڈی لنکنگ پالیسی کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی غیر ضروری ٹکراؤ سے اپنے آپ کو بچائے، اور موجود مواقع (opportunities) کوبھر پور طور پر استعمال کرے۔ ڈی لنکنگ پالیسی آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے حریف کو اپنا موید (supporter) بنالے، وہ اپنے عدو کوعملاً اپنے ولی حمیم (فصلت، 41:34) کا درجہ دے دے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا مشن

قرآن کی سورہ الزخرف مکی دور کے نصف آخر میں نازل ہوئی۔ غالباً یہ سفر طائف کے بعد کا زمانہ ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ مخالفین کی مخالفت نہایت شدیدہوچکی تھی۔ اس وقت قرآن میں یہ آیت اتری:أَفَنَضْرِبُ عَنْکُمُ الذِّکْرَ صَفْحًا أَنْ کُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِینَ (43:5)۔ یعنی کیا ہم اس قرآن کو تم سے صرف اس وجہ سے روک لیں کہ تم حد سے تجاوز کرنے والے لوگ ہو ۔اس آیت میں قرآن کو روکنے کا مطلب قرآنی مشن کو روکنا ہے۔ قرآن کی اس آیت میں اعلان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام جس مشن کو لے کر اٹھے ہیں، وہ کوئی عام مشن نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک خدائی مشن ہے، اور خدائی مشن کے لیے یہ سنتُ اللہ ہے کہ وہ اپنے آخری نشانے تک پہنچے۔
یہ سنتُ اللہ آج بھی قائم ہے۔ آج بھی اگر کوئی شخص یا گروہ ایسے مشن کو لے کر اٹھے، جو حقیقی معنوں میں اللہ کا مشن ہو تو اس کے لیے اللہ کی نصرت یقینی ہوجائے گی۔ دوبارہ اس کے لیے اللہ کا یہ فیصلہ ہوگا کہ کوئی بھی صورت حال اس کو درمیان میں روکنے پر قادر نہ ہو۔ ایسے مشن کے لیے دوبارہ یہ مقدر ہوگا کہ وہ ضرور اپنے نشانے تک پہنچے۔ کوئی طاقت درمیان میں اس کا راستہ روکنے پر قادر نہ ہو۔
مثلاً قرآن کے متعلق اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ قرآن سارے عالم کے لیے نذیر (warner) بنے۔ اب جب کہ دنیا میں عالمی کمیو نی کیشن کا زمانہ آگیا ہے، اور یہ ممکن ہوگیا ہے کہ جدید کمیونی کیشن کے ذرائع کو استعمال کرکے قرآن کو عالمی سطح پر پہنچادیا جائے، تو دوبارہ اللہ کا یہ فیصلہ ہوگا کہ جو گروہ بے آمیز انداز میں اس مشن کو لے کر اٹھے، جس کا نشانہ صرف یہ ہو کہ وہ قرآن کے خالص پیغام کو ساری دنیا تک پہنچادے، ایسے مشن کا معاملہ کسی عام مشن کا معاملہ نہیں ہے۔ ایسے مشن کے ساتھ ضرور ایسا ہوگا کہ وہ اللہ کی خصوصی مدد کے ذریعے اپنی تکمیل تک پہنچے۔ کوئی بھی طاقت اس کے اس پرامن مشن کو روکنے میں کامیاب نہ ہوگی۔ شرط صرف یہ ہے کہ مشن پورے معنوں میں ایک بے آمیز مشن ہو، اور اس مشن کے چلانے والے یک طرفہ طور پرامن طریقہ پر قائم ہوں۔
واپس اوپر جائیں

کتابِ ہدایت

انسان موجودہ دنیامیں پیداہوتا ہے۔ وہ حالات کے مطابق زندگی گزارتا ہے، اور پھر ایک دن مرجاتاہے۔ سروے کے مطابق موجودہ دنیا میں انسان کی اوسط عمر تقریباً 70 سال ہے۔ انسان کی سب سے زیادہ اہم ضرورت یہ ہے کہ اس کو بتایا جائے کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اس کا حال کیا ہے اور اس کا مستقبل کیاہے۔ موت سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ ان حقیقتوں کی دریافت پر انسان کی کامیابی کا انحصار ہے۔
قرآن اسی حقیقت کو بتانے کے لئے اترا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ خالق کا تخلیقی نقشہ انسان کے بارے میں کیا ہے۔ قرآن واحد کتاب ہے جس کا موضوع تخلیقی منصوبہ (creation plan) ہے۔ قرآن انسان کو وہ ضروری معلومات دیتا ہے جس کی روشنی میںانسان اپنی زندگی کا صحیح منصوبہ (right planning) بنا سکے۔ ایسی حالت میں حاملینِ قرآن کی یہ لازمی ڈیوٹی ہے کہ وہ قرآن کو دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ اور یہ پہنچانا لوگوں کی قابلِ فہم زبان (understandable language) میں ہو، تا کہ وہ اس کو سمجھیں اور قرآن کو ایک رہنما کتاب (guide book) بنا سکیں۔قرآن کے نزول کو تقریباً ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ اس مدت میں حاملین قرآن نے قرآن کے متن کی حفاظت کے لئے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ مختلف قوموں کے درمیان جو مطلوب کام ہے وہ ابھی تک نہ ہوسکا۔
قرآن کے متن کی حفاظت پر توبہت زیادہ کام ہوا لیکن قرآن کی اشاعت کا کام جیسے ہونا چاہیے تھا، وہ اب تک نہ ہوسکا ہے۔ اس معاملے میں مسیحی لوگوں نے حاملینِ قرآن کے لئے راستہ دکھادیا ہے۔ مسیحی لوگوں نے دنیا کی تقریباًتمام زبانوں کو سمجھا، اور لوگوں کی قابل فہم زبانوں میں بائبل کےترجمے تیار کیے ہیں۔ یہی کام حاملین ِقرآن کو قرآن کے لیے کرنا ہے، اور پھر تمام زبانوں میں ترجمے تیار کرکے ان کو ساری قوموں میں پھیلادینا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دو مختلف انجام

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا، وَیَضَعُ بِہِ آخَرِین(صحیح مسلم، حدیث نمبر 817)۔ یعنی اللہ اس کتاب (قرآن ) کے ذریعے ایک قوم کو اٹھاتا ہے، اور دوسری قوم کو گرادیتا ہے۔ اس حدیث میں دو مختلف قوموں کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس میں خود ایک قوم کی مختلف دو حالتوں کا ذکر ہے۔قوم سے مراد مسلم قوم ہے، نہ کہ کوئی غیر مسلم قوم۔اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے ذریعے مسلمانوں کا عروج بھی ہوگا، اور قرآن کے ذریعے ان پر زوال کا دور بھی آئے گا۔
ایک ہی کتاب (قرآن) کس طرح دو مختلف انجام کا سبب بنتی ہے۔ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قرآن کے مطالعے کے دو طریقے ہیں۔ اگر قرآن کا مطالعہ تطبیقی انداز (applied way) میں کیا جائے تو قرآن کی حامل قوم اپنے حالات میں اس سے رہنمائی پالے گی، اور اس طرح ان کے لیے ترقی کا سفر جاری رہے گا۔ اس کے برعکس، اگر قرآن کا مطالعہ غیر تطبیقی انداز (non-applied way) میں کیا جائے تو ایسے لوگوں کا حال حضرت عائشہ کی زبان میں وہی ہوگا : أُولَئِکَ قَرَءُوا، وَلَمْ یَقْرَءُوا (مسند احمد، حدیث نمبر24609)۔ یعنی قرآن کا حامل ہونے کے باوجود وہ قرآن کے فیض سے محروم رہ گئے۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاںایک مثال درج کی جاتی ہے۔
تطبیقی تفسیر
ملت کی بعد کی نسلوں میں قانونِ فطرت کے مطابق زوال آتا ہے۔ زوال آنے کے بعد ملت کے اندر احیائے نو کا کام کس طرح کیا جائے، اس کا طریقہ قرآن میں پیشگی طور پر بتادیا گیا ہے۔ قرآن کی اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: جان لو کہ اللہ زمین کو زندہ کرتا ہے اس کی موت کے بعد، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو (سورۃ الحدید،57:17)۔
یہاں ایک فطری تمثیل کے ذریعے ملت کے احیاء نو کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق زمین پر دو موسم آتے ہیں، سوکھے کا موسم اور بارش کا موسم۔ سوکھےکے موسم میں کھیت سوکھ جاتے ہیں، کھیت کی ہریالی باقی نہیں رہتی۔ لیکن بارش کا موسم آتے ہی کسان دوبارہ پانی اور کھاد کو استعمال کرکے اپنے کھیت کو تیار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ سوکھی زمین دوبارہ ہری بھری زمین بن جاتی ہے۔
فطرت کی یہ مثال بتاتی ہے کہ ملت کے رہنماؤں کو ملت کے احیائے نو کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ وہ ایسا نہ کریں کہ سوکھی زمین کو کسی دشمن کی سازش کا نتیجہ بتا کر احتجاج کی تحریک شروع کردیں۔ بلکہ وہ کسان کی طرح یہ کریں کہ ملت کی زمین کو دوبارہ ہموار کریں، اور پانی کو استعمال کرتے ہوئے دوبارہ زمین میں بیج بودیں، اور پودے، یعنی ملت کے افراد کو پانی پہنچا کر زراعت کے اصول کو ملت کے معاملے میں اپلائی (apply) کرتے ہوئےملت کو دوبارہ شاداب بنائیں۔ جس طرح کسان کی محنت مبنی بر پودا ہوتی ہے، اسی طرح ملت کے رہنماؤ ں کی ساری محنت مبنی برافراد ہونی چاہیے۔ ملت کا زوال دراصل افراد کے زوال کا نام ہے۔ ایسا وقت آنے پر ملت کے رہنماؤں کو یہ کرناہے کہ وہ تعمیرِ افراد کا کام کرکے ملت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کریں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ملت کے احیاء کا کام افراد کے احیا سے شروع ہوتا ہے۔افراد کے اندر اسپرٹ کو زندہ کرنے کے بعد ملت اپنے آپ زندہ ہوجاتی ہے۔
قرآن کی تفسیریں مختلف زبانوں میں بڑی تعداد میں لکھی اور چھاپی گئی ہیں۔ مگر راقم الحروف کے علم کے مطابق یہ تفسیریں غیر تطبیقی انداز میں لکھی گئی ہیں۔ قرآن کی تفسیر کے بارے میں مسلم اہل علم کا غالباً یہی وہ انداز ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں آیا ہے۔ مختلف زمانوں میں لکھی جانے والی یہ تفسیریں عملاً اسی قسم سے تعلق رکھتی ہیں، جس کو یہاں غیر تطبیقی انداز کہا گیا ہے۔ اس معاملے میں کوئی قابلِ ذکر استثنا راقم الحروف کے علم میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے دروس اور تفاسیر کی کثرت کے باوجود اس کا مطلوب نتیجہ حاصل نہ ہوسکا۔
واپس اوپر جائیں

قولِ بلیغ

قرآن میں دعوت کے ایک اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63)۔ یعنی اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔اس آیت میں قول بلیغ کا مطلب ہے، ایسا قول جو سننے والے کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ جس کو سن کر وہ سوچنے پر مجبور ہوجائے۔ ایسا قول جو آدمی کے ذہن کو ٹریگر (trigger) کردے، یہاں تک کہ وہ تخلیقی (creative) انداز میں سوچنے لگے۔مثال کے طور پر ہندستان کے مسلمانوں کو لیجیے ۔ اگر آپ ہندستان کے مسلمانوں کو یہ خبر دیں کہ یہ ملک ان کے لیے مسائل سے بھرا ہوا ہے۔ اس ملک میں ان کے لیے نفرت اور نارواداری کا ماحول ہے۔ یہاں ان کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ ان کے تہذیب و کلچر کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، وغیرہ۔ تو اس طرح کی باتوں سے مسلمانوں کو صرف مایوسی ہوگی۔ ان کو کوئی رہنمائی نہیں ملے گی۔
اس کے برعکس، اگر آپ مسلمانوں سے یہ کہیں کہ تم قرآن کی ایک آیت کو دوبارہ پڑھو، اور اس میں جو فطرت کا قانون بتایا گیا ہے، اس کو سمجھو۔ وہ آیت یہ ہے:أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَةٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ (13:17)۔ یعنی اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر نالے اپنی اپنی مقدار کے موافق بہہ نکلے۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو اٹھا لیا اور اسی طرح کا جھاگ ان چیزوں میں بھی ابھر آتا ہے جن کو لوگ زیور یا اسباب بنانے کے لئے آگ میں پگھلاتے ہیں۔ اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔ پس جھاگ تو سوکھ کرجاتا رہتا ہے اور جو چیز انسانوں کو نفع پہنچا نے والی ہے، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اللہ اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے۔
قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جو گروہ اپنے اندر نفع بخشی کی صلاحیت پیدا کرے، اس کو اس دنیا میں مکث (استحکام) حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جس گروہ کے پاس صرف شکایت اور احتجاج (protest) کی زبان ہو، وہ اس دنیا میں جھاگ کی مانند ہے۔ ایسے لوگوں کو دنیا میں کوئی باعزت جگہ حاصل ہونے والی نہیں۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی گروہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو نافع گروہ (giver community) کہا جاتا ہے، اور دوسرا وہ جن کو انسانی لغت میں لینے والا گروہ (taker community) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا پیغام، عقل کا تقاضا، اور فطرت کا قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں شکایتی گروہ کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ دنیا صرف ان لوگوں کی دنیا ہے، جو گیور(giver) کمیونٹی بن کر رہیں۔ جو لوگ لینے والے گروہ بنے ہوئے ہوں، ان کے لیے فطرت کے قانون کے مطابق صرف یہ مقدر ہے کہ وہ شکایت اور احتجاج میں پڑے رہیں، اور آخر میں ان کو محرومی کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہو۔
جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ عرب جب انڈیا میں آئے تو انھوں نے انڈیا کو شاندار کلچر (brilliant culture) دیا۔ یہ بات درست ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان کیوں انڈیا کی ایک پسماندہ کمیونٹی بن کر رہ گئے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عرب لوگ آٹھویں صدی عیسوی میں انڈیا میں آئے تھے۔ وہ زمانہ قدیم دستکاری کا زمانہ تھا۔ قدیم زمانے کے اعتبار سے عربوں نے انڈیا کو بہت کچھ دیا۔مثلا آبپاشی کے لیے رہٹ (noria) کا طریقہ ۔ یعنی ایساپہیّہ جس کے محیط کے گرد ڈول لگے ہوتے ہیں اور جو ہسپانیہ، مشرقِ وُسطیٰ اور ایشیا میں پانی کھینچنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر بعد کو جب برٹش لوگ انڈیا میں آئے تو وہ اپنے ساتھ مشینی دور (mechanical age) لے آئے۔ ماڈرن تعلیم گاہوں میں اس نئے ٹکنیک کی تعلیم ہونے لگی۔ مگر مسلم رہنماؤں نے ان نئے تعلیم گاہوں کو مسلمانوں کے لیے قتل گاہ قرار دے دیا۔ اس طرح مسلمان نئے دور کے لحاظ سے پیچھے ہوگئے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی پسماندگی کا یہی اصل سبب ہے ۔
واپس اوپر جائیں

فہمِ دین

قرآن دین خداوندی کو سمجھنے کا واحد مستند ماخذ ہے۔ قرآن اللہ رب العالمین کی آخری کتاب ہے۔ وہ ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا۔ یہ قبل از سائنس دور (pre-scientific age) کا زمانہ تھا۔ اس وقت اگر قرآن میں وہ اسلوب اختیار کیا جاتا جو سائنس کے ظہور کے بعد بیسویں صدی میںرائج ہوا ہے۔ تو یہ اس مشہور مثل کا مصداق بن جاتا:
Putting the cart before the horse
یعنی سائنٹفک اسلوب کے ظہور سے پہلے سائنٹفک اسلوب میں بات کرنا۔ قرآن و حدیث  میں اعلیٰ معرفت کی باتیں ہیں، لیکن اس کا اسلوب قدیم ہے۔ اگر یہ باتیں جدید اسلوب کلام میں ہوتیں تو اس قسم کی باتیں معاصر مخاطبین کے لیے معمہ بن جاتیں۔ سننے والوں کا ذہن ایڈریس نہ ہوتا، اور کلام میں وہ تاثیر پیدا نہ ہوتی جو مطلوب تھی۔
مثال کے طور پر حضرت ابراہیم چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے۔ قدیم عراق کے بادشاہ سے ان کا ایک دعوتی مکالمہ ہوا۔ اس میں انھوں نےبادشاہ سے ایک بات یہ کہی:فَإِنَّ اللَّہَ یَأْتِی بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ (2:258)۔ یعنی اللہ سورج کو پورب سے نکالتا ہے تم اس کو پچھم سے نکال دو ۔ اس کے برعکس حضرت ابراہیم اگر یہ کہتے کہ خدا کے قائم کردہ قانون کے مطابق صبح و شام کا نظام ہیلیو سینٹرک سسٹم (heliocentric system) کے اصول پر قائم ہے، تم اس کو جیو سنٹرک سسٹم (geocentric system) پر قائم کردو۔ تو مخاطب اس جملے کا کوئی مطلب نہ سمجھتا، اور بات بے اثر ہوکر رہ جاتی۔
اسی طرح کی ایک اور مثال یہ ہے کہ ہجرت کے بعد مدینے میں سورج گرہن (solar eclipse) پڑا، اتفاق سے اس دن پیغمبر کے بیٹے کا انتقال ہوگیا تھا۔ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ آج پیغمبر کے بیٹے کا انتقال ہوا ہے، اس لیے سورج گرہن لگا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اس موقع پر لوگوں کو مدینہ کی مسجد میں اکٹھا کرکے ان کو خطاب کیا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں پر گرہن نہ کسی کی موت سے لگتا ہے، اور نہ کسی کی زندگی سے۔جب تم اس کو دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر1052)۔ اس کے برعکس، پیغمبر اسلام اس وقت اگر ایسا کرتے کہ آپ بعد کو ہونے والی دریافت کی زبان بولتے، اور یہ کہتے :
Eclipse is an astronomical phenomenon. It occurs due to the well-calculated alignment of three moving bodies of different sizes at a particular point in time in the vast space.
پیغمبر اسلام اگر ایسی زبان بولتے تو وہ لوگوں کے لیے معمہ بن جاتا۔ آپ لوگوں کے اندر جو مبنی بر ذکر اللہ سوچ پیدا کرنا چاہتے تھے، وہ پیدا نہ ہوتی۔قرآن فہمی کے سلسلے میں اس اسلوب کو جاننا بے حد ضروری ہے۔ جو لوگ اس اصول کو نہ جانیں، وہ موجودہ زمانے میں قرآن کے اعلیٰ معانی کو سمجھ نہیں سکتے، خواہ وہ روایتی قسم کے فنون میں کتنے ہی زیادہ مہارت رکھتے ہوں۔
چند مثالیں
دور نبوت کے اسلام میں کئی چیزیںعصری حالات (age factor) کی بنا پر ظہور میں آئیں۔ مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے ایک متلاشی (seeker) انسان تھے۔ آپ اکثر خاموش رہتے، اور سوچتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں آپ اکثر تنہا غار حرا (cave of Hira) میں چلے جاتے، اور وہاں کئی دن تک قیام کرتے۔ یہ غار جبل حرا کے اوپر واقع تھا، وہ مسجد حرام سے تقریباچار کلو میٹر کی دوری پر تھا۔ وہاں آپ کھانے پینے کا کچھ معمولی سامان لے کر جاتے اور کئی روز قیام کرتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول عصری کلچر کی بنا پر تھا۔ اس زمانے کے حنفاء پہلے سے ایسا ہی کر رہے تھے۔ حنفاء کا لفظ قدیم زمانے میں متلاشیان حق (truth seekers)کے لیے بولا جاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غار حرا نبوت کا کوئی مقدس حصہ نہیں۔ کسی نبی کا ظہور اگر موجودہ زمانے میں ہوتا تو عین ممکن تھاکہ وہ موجودہ زمانے کی انٹرنیشنل لائبریری میں کتابوں کا مطالعہ کرتا،اور انٹرنیشنل سیمینار میں شرکت کرتا۔
قتل وقتال کا معاملہ
قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں قتل و قتال کے معاملے کو اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا۔ مثلاً اس سلسلے میں قرآن کی آیت یہ ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح متحد ہو کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
اس طرح کی آیتوں اور حدیثوں کو دیکھیے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاد بالسیف مطلق معنوں میں کوئی بہت بڑی بات ہے۔ یعنی جس طرح تم نماز پڑھتے ہو، اسی طرح مفروضہ طور پر کچھ لوگوں کو دشمن قرار دے کر ان سے ہمیشہ لڑتے رہو۔ مگر باعتبار حقیقت ایسا نہیں ہے۔ جہاد بالسیف ایک موقت(وقتی) حکم ہے، وہ ایمان اور نماز، وغیرہ کی طرح ہردن اور ہر زمانے میںجاری رہنے والا مطلق اور ابدی حکم نہیں ہے۔ جیسا کہ پیغمبرِ اسلام نے اپنے اصحاب کوایک نصیحت کی۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:اے لوگو، دشمن سے مقابلہ کی تمنا مت کرو، اور اللہ سے عافیت مانگو (لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّہَ العَافِیَةَ)، لیکن جب مقابلہ ہو تو جم کر مقابلہ کرو، اور یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر2966)۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جہاد بالسیف کوئی مطلق حکم کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ اس وقت کا معاملہ ہے جب کہ فریق ثانی کے اقدام کی بنا پر اس کی صورت پیش آجائے۔ چناں چہ فقہاء نے بتایا ہے کہ جہاد بالسیف حسن لذاتہ نہیں ہے، بلکہ وہ حسن لغیرہ ہے (موسوعۃ الفقہ الاسلامی، محمد بن ابراہیم التویجری، بیت الأفکار الدولیة، 2009، 5/449-50)۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کا مشن اصلاً توحید کا مشن تھا۔ یعنی وہی مشن جو تمام ابنیا ء کا ہمیشہ سے مشن رہا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ آپ کی ایک مزید ذمے داری (additional duty) یہ تھی کہ آپ دنیا سے دورِ جبر (age of despotism)کا خاتمہ کردیں۔ دورِجبر اللہ کے تخلیقی نقشے کے خلاف تھا۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کا ایک قانون

قرآن میں اجتماعی زندگی کے ایک قانون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ إِلَى اللَّہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (5:105)۔ یعنی اے ایمان والو، تمھارے او پر صرف اپنی ذمے داری ہے ۔ کسی کی گمراہی تم کو کچھ نقصان نہیں پہنچائے گی اگر تم ہدایت پر ہو۔ تم سب کو اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تم کو بتادے گا جو کچھ تم کر رہے تھے۔
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہی بات ایک اور آیت میں اس انداز میں آئی ہے:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا إِنَّ اللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطٌ (3:120)۔ یعنی اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو ان کی کوئی تدبیر تم کو نقصان نہیں پہنچا ئے گی۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، اللہ اس پر حاوی ہے ۔ دونوں آیتوں کے مطالعے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں آدمی خود اپنے انجام کو بھگتتا ہے۔ آدمی کا رویہ اگر صابرانہ رویہ ہو تو وہ لوگوں کی سازشوں سے خود فطرت کے قانون کے مطابق اس سے محفوظ رہے گا۔ اس کے برعکس، اگر اس کا رویہ بے صبری کا رویہ ہو تو وہ لوگوں کی سازش کا شکار ہوتا رہے گا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ خود اپنا محاسبہ کرے۔ دوسروں کی شکایت کرنے کے بجائے، وہ خود اپنی اصلاح کی کوشش کرتا رہے۔ ایسا آدمی یقینی طور پر دوسروں کے شر سے محفوظ رہے گا۔
دوسروں کے شر سےمحفوظ رہنے کا ایک اٹل اصول ہے۔ وہ یہ کہ آپ اپنی طرف سے اشتعال انگیز کارروائی کرکے فریق ثانی کو جوابی کارروائی (retaliation) کا موقع نہ دیں۔ اس معاملے میں یہی سب سے بڑا اصول ہے۔ اس اصول کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر آپ دوسروں کے شر سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو دوسروں کو اپنے شر سے محفوظ رکھیے، دوسروں کو کبھی جوابی کارروائی کا موقع نہ دیجیے۔
واپس اوپر جائیں

داعی کی حفاظت

قرآن کی سورہ یٰسین میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبروں کو اُن کے معاصرین نے ہمیشہ استہزا کا موضوع بنایا — ’’افسوس ہے بندوں پر، جو رسول بھی اُن کے پاس آیا، وہ اس کا استہزا کرتے رہے‘‘(36:30) ۔ دوسری طرف، قرآن میں ہے کہ فرشتوں کے ذریعے پیغمبروں کی خصوصی حفاظت کا انتظام رہتا ہے: إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّہُ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ رَصَدًا لِیَعْلَمَ أَنْ قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّہِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَیْہِمْ وَأَحْصَى کُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا (72:27-28)۔ یعنی وہ اس کے آگے اور اس کے پیچھے محافظ لگا دیتا ہے، تاکہ اللہ جان لے کہ انھوںنے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے، اور جو کچھ ان کے پاس ہے، اللہ اُن کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اور اُس نے ہر چیز کو گِن رکھا ہے۔
دونوں قسم کی آیتوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں میں فرق کا معاملہ کیا ہے۔ جہاں تک سامعین کا معاملہ ہے، اُن کو آزاد چھوڑا ہے کہ وہ پیغمبر کی دعوت کو قبول کریں یا وہ اس کو رد کردیں۔ اِسی طرح پیغمبر کے گرد بڑی تعداد اکھٹا ہو یا نہ ہو۔ لیکن جہاں تک پیغمبر کی دعوت کا معاملہ ہے، اِس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے کامل حفاظت کا انتظام فرمایا ہے۔ ہر پیغمبر کے ساتھ ہمیشہ اِس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص یا گروہ اس کے دعوتی مشن کو روکنے میں کامیاب نہ ہو۔ پیغمبر کا کام یہ ہوتاہے کہ وہ خدائی پیغام کو بے کم وکاست، لوگوں تک پہنچا دے۔ فرشتوں کی مسلسل حفاظت اِس بات کی ضامن ہوتی ہے کہ خدائی دعوت کی نظری اشاعت ہر حال میں پوری ہو کر رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ یہ سنت جس طرح پیغمبروں کے معاملے میں پوری ہوئی، اُسی طرح بعد کے زمانے میں وہ ہر سچے داعی کے ساتھ لازماً پوری ہو کر رہتی ہے۔ سچا داعی مسلسل طورپر فرشتوں کی حفاظت میں رہتاہے، تاکہ اس کا دعوتی مشن ہر حال میں پورا ہو کر رہے، کوئی شخص یا گروہ اس کے دعوتی مشن کی تکمیل میں مانع نہ بن سکے۔
واپس اوپر جائیں

ایک با اصول انسان

حافظ قاری سید شبیر احمد صاحب عمری(پیدائش1940:) جامعہ دارالسلام، عمر آباد، تامل ناڈو میں شعبہ تحفیظ القرآن کے مدیر تھے۔ 25 مارچ 2018 کو 78 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ مولانا سید اقبال احمد عمری ان کے بارے میں اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:’’وہ تقریباً 42سال تک جامعہ کے شعبہ تحفیظ القرآن کے ذمے دار رہے ۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ اتنی طویل مدت تک ایک ہی ادارہ سے وابستہ رہنے کا راز کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے ادارے کے آداب واصول کا ہمیشہ پاس ولحاظ رکھا۔ یعنی جب وہ اپنے ماتحتوں سے کام لیا کرتے تھے تو جامعہ کے اصول کے مطابق اپنی صوابدید کے مطابق کام لیتے، اور جہاں ادارے کے ذمے داران مشورہ طلب کرتے تو اپنی رائے کا اظہار بھی کیا کرتے ۔اس کے بعد اگر اجتماعیت کی طرف سے ان کی رائے کے خلاف کوئی فیصلہ ہوجاتا تو فِیہِ خَیر کہہ کر خاموشی کے ساتھ سرتسلیم خم کرلیتے۔ مجلس سے باہر آنے کے بعد نہ ہی گلہ کرتے، اور نہ ہی شکوہ کرتے، یعنی منفی مہم (negative campaign)نہیں چلاتے۔ الغرض اجتماعی فیصلے کے بعد مکمل طور پر اس کی پابندی کرتے ،اپنی مرضی نہیں چلاتے‘‘۔
ایسے ہی افراد ہیں جن کو با اصول انسان کہا جاتا ہے۔ با اصول انسان کی تعریف ایک لفظ میں یہ ہے - اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی۔ وہ جب تک کسی ادارے سے منسلک ہو با اصول انداز میں اپنی ذمے داری اداکرے۔ اگر اس کو کوئی اختلاف پیش آئے تو مثبت انداز میں ذمے داروں سے اس کا ذکر کردے، اور اس کے بعد اپنے کام میں لگا رہے۔ دوسروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنا، با اصول انسان کا طریقہ نہیں۔ با اصول آدمی کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ دوسرے آدمی کا اعتراف کرے، اور کسی معاملے میں اگر اس کی تعریف کی جائے تو وہ اس کا کریڈٹ دوسرے کو دے دے۔ وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھے، اور نہ دوسرے کے اعتراف میں کوئی کمی کرے۔ایسا آدمی موت سے پہلے ایک با اصول انسان ہوتا ہے، اور موت کے بعد لوگوں کے لیے ایک یادگار نمونہ۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 260

■ مز سعدیہ خان، سی پی ایس دہلی کی ایک سر گرم ممبر ہیں۔ وہ اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں کے درمیان صدراسلامی مرکز کی آئڈیالوجی شیر کرتی رہتی ہیں۔ یہ آئڈیالوجی لوگوں کے لیے کافی فائدہ مند ہے، جیسا کہ درج ذیل کے تاثرات سے معلوم ہوتا ہے:
٭ What Maulana says applies to situations we face in our daily lives. (Kritika S. Reddy) ٭Thank you for sharing these thoughts, they are so helpful. (Krishna K. Tripathi) ٭I was waiting for this audio. It feels good listening to him. (Venessa Michel) ٭You have no idea how much I love these daily snippets of wisdom, which I hear almost everyday. It brings calm during a stormy day. (Anjali Ghosh) ٭Great thoughts, thanks for sending. I am enjoying them and they are good reminders. (Nadia Khan) ٭Profound thoughts. Thanks for sharing. (Preeti Aggarwal) ٭ Thanks for making my morning beautiful with such wonderful messages. (Dakshina Sharma) ٭ All good lessons. But do we follow. I am trying to, in some ways. (Ravi Seth) ٭Thank you. These are really very impactful short audios. (Javed Siddiqui) ٭ They are too good! They inspire me the whole day and stay in mind. (Nadia Zaidi ) ٭ Thanks for Maulana's audios. They are very apt, and very inspiring! (Preeti Vyas) ٭This is so true and pertinent, Sadia. If only people were to give it a serious and sincere thought, our philanthropists wouldn't have to work so hard on the problems. (Dr. Nirula) ٭Thanks for sending these messages. They are really inspirational. (Srishti Pandey) ٭ Thanks for sharing such wonderful and meaningful messages. (Karuna Kalra) ٭I really like Maulana's daily audios. They are the only thing in this negative environment which provide me with the incentive to go on in the positive direction. (Aysha Sajid) ٭ Beautiful! Maulana puts in a perspective that’s so comforting. (Fabeha Syed) ٭ Thank you, these short clips are full of wisdom. (Tajwar Hassan)
ث مسز نرگس چنائے (Nargis Chinoy)سابق انگلش پروفیسر اور سماجی کارکن ہیں۔ انھوں نے اسنیہانچل ہاسپٹل (ناگپور) کا دورہ کیا۔ اس وقت جناب ساجداحمد خان (سی پی ایس ناگپور ٹیم) وہاں موجود تھے۔ انھوں نے ان سے ملاقات کی اور سی پی ایس مشن کا تفصیلی تعارف کرایا۔ انھوں نے اس کام کو پسند کیا، اور اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ دوران گفتگو انھوں نے کہا کہ قرآن کے مطالعہ کے لیے انھوں نے انگلش قرآن کی کاپی دو ضخیم جلدوں میں پاکستان سے منگوائی ہے۔ لیکن جب ساجد صاحب نے پاکٹ سائز انگلش قرآن ان کو پیش کیا تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ اس کے علاوہ واٹ از اسلام، دی ایج آف پیس، ریالٹی آف لائف، وغیرہ، کتابوں پر بھی اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ دی ایج آف پیس کو انھوں نے فوراً پڑھنا شروع کردیا۔ نیز انھوں نے اسلام کے گہرے مطالعے کے لئے سی پی ایس کے رابطے میں رہنے کا وعدہ کیا۔ یہ ملاقات 2 ستمبر 2017 کو ہوئی۔
■ 12 ستمبر 2017 کو گورکی سدن (کولکاتا) میں رشین سینٹر آف سائنس اینڈ کلچر نے انڈین پلورلزم فاؤنڈیشن کے اشتراک سے ’انٹرفیتھ راؤنڈ ٹیبل ڈائلاگ ‘ کا انعقاد کیا۔ اس میں معزز اور بااثر مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا عنوان تھا: بلڈنگ بریجز فار پیس اینڈ ہارمنی اِن ملٹی کلچرل ورلڈـ۔ اس موقع پر مختلف مذاہب کے رہنما ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوئے، اور انھوں نےسماجی ہم آہنگی ، تعلیم، صحت، ماحولیات اور غربت جیسے موضوعات پر اپنے خیال کا اظہار کیا، اور ان میدانوں میں باہمی تعاون سے کام کرنے کے مواقع اور لائحہ عمل پر گفتگو ہوئی۔ اس پروگرام میں سی پی ایس (کولکاتا) کی جانب سے مسٹر جاوید عالم، بشیر احمد اور اصطفیٰ علی صاحبان نے شرکت کی، اور حاضرین کے درمیان ترجمۂ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔
ث 6 اکتوبر 2017 کو ٹائمس آف انڈیا گروپ کے اسپریچول اخبار دی اسپیکنگ ٹری کی ایڈیٹر مز نرائنی اپنی دو ساتھیوں کے ساتھ صدر اسلامی مرکز کے آفس میں تشریف لائیں۔ یہاں انھوں نے صدر اسلامی مرکز اور تخت سری دمدمہ صاحب ،بھٹنڈا،کے جتھدار جناب ہرپریت سنگھ جی کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو اس مناسبت سے لیا گیا تھا کہ جتھدار جی نے پنجابی میں قرآن کا ترجمہ کیا ہے، توآپ دونوں یہ بتائیں کہ اسلام اور سکھ ازم میں انسانیت اور امن کے لیے کیا پیغام ہے۔
ث امریکا میں ایک آرگنائزیشن ہے، جس کا نام ہے:
Women's Islamic Initiative in Spirituality & Equality [WISE]
اس کی سربراہ ڈاکٹر ڈیزی خان ہیں۔ انھوں نے ایکسٹریمزم کے تعلق سے ایک کتاب شائع کی ہے، یہ مختلف لوگوں کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کا بھی ایک مضمون ہے۔ 26 اکتوبر 2017 کوواشنگٹن ڈی سی کے کارنیگی سائنس سینٹر میں اس کتاب کی رسم اجراء کے موقع پر WISE UP SUMMIT کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں خواجہ کلیم الدین صاحب (سی پی ایس ، امریکا) نے شرکت کی۔وہاں انھوں نے صدر اسلامی مرکز کی دو انگریزی کتابوں، دی ایج آف پیس اور قرآنک وزڈم کو لوگوں کے درمیان تقسیم کیا۔ کانفرنس کے بعد خواجہ کلیم الدین صاحب کو پروگرام کے منتظمین کی جانب سے درج ذیل ای میل موصول ہوا:
Dear Mr. Kaleemuddin, On behalf of Daisy and the WISE team, I want to thank you once again for taking the time out of your busy schedule to attend and participate in last week’s WISE Up Summit, and for everything you’ve contributed to the WISE Up Report and Campaign! You have truly been an invaluable partner throughout this whole process, and the WISE Up Report would not be what it is without you and Maulana. In particular, I wanted to let you know that we heard from a number of attendees that they really enjoyed your remarks during your panel discussion on “Islamic Theology vs. Extremist Ideology.” I know you had very little time to speak, but your unique insights, willingness to speak candidly, and dynamism on stage made your panel a big success. We have so enjoyed working with you throughout this process and hope your experience was positive as well. I look forward to being in touch with you about the WISE Up event in Philadelphia. Thank you again ! (Lisa Nakashima, Program Manager)
ث مولانا سید اقبال احمد عمری (چنئی )، اور حافظ فیاض الدین عمری( حیدرآباد ) نے 25 جنوری تا 4 فروری 2018 راجستھان میں جے پور، اجمیر، جودھ پور، پالی ، اورماؤنٹ آبوکا سفر کیا۔ اس سفر میں مختلف اداروں میں جانا ہوا، اور انفرادی طور پر لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جن اداروں کا دورہ ہوا وہ یہ ہیں، مسلم مالوار ٹرسٹ (جودھ پور) کے تحت چلنے والے ادارے، جامعہ ہدایت (جے پور)، جامعہ معین الدین چشتی (اجمیر)، اوردرگاہ معین الدین چشتی (اجمیر) کے ذمہ دار ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ان مقامات پر مسلمانوں سے دعوہ مشن کے تعلق سے باتیں ہوئی۔ ان میں سے کچھ لوگ دعوتی مشن کو پھیلانے کی خواہش رکھتے ہیں، اورکئی علماء نے صدراسلامی مرکز کی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ برہما کماری (ماؤنٹ آبو) بھی جا نا ہوا، اور جے پور لٹریچر فیسٹیول میں دیگر سی پی ایس کے ممبران کے ساتھ مل کر پروگرام کے دوران اسپیکروں کو ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر دیا۔
ث سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی کے تحت دو تعلیمی پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ ایک ، جامعہ ہمدردر، نئی دہلی کے ساتھ ایک ایم او یو (Memorandum of understanding)سائن کیا گیا ہے۔ اس کے تحت دور جدید میں اسلام، امن، تنازعات کا حل، بقائے باہمی، رواداری وغیرہ موضوع پر پی ایچ ڈی ریسرچ کا کام سی پی ایس انٹر نیشنل اور جامعہ ہمدرد،د ونوں کی نگرانی میں ہوگا۔ دوسری پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ کلچر آف پیس پروگرام کے تحت کالج کے طلبہ کے درمیان انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس میں کالج کے طلبہ جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے شریک ہوتے ہیں، اورالرسالہ مشن کے تحت انفارمل تعلیم کے ذریعہ اپناذہنی و روحانی ارتقا کرتے ہیں۔ اس کا پہلا تین ماہی پروگرام دہلی یونیورسٹی کے رام انوجن کالج میں شروع ہوا، اور اس کا اختتامی پروگرام26 مئی 2018 کو ہوا۔
■ ڈاکٹر محمد اسلم خان (سہارن پور)، سی پی ایس کے بہت ہی متحرک ممبر ہیں۔ وہ ہر ایک موقع پر دعوت کا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً 24 فروی 2018 کو ملیشیا میں ان کو انٹرنیشنل ایوارڈ دیا گیا۔ یہ ایوارڈ ان کو ہیلتھ کیر سیکٹر میں ان کی خدمات کے لیے دیا گیا ہے۔ اس موقع پر ملیشیا کے وزیر صحت اور دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے مندوبین موجود تھے۔ ان لوگوںکو ڈاکٹر صاحب نے انگریزی ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا۔ اس کے بعد مشہور اردو چینل زی سلام کے راہ نجات پروگرام میں ایک مہینہ (11اپریل تا 11 مئی 2018) تک ان کا انٹرویو نشر ہوا۔ اس موقع پر بھی انھوں نے الرسالہ مشن کا تعارف کرایا، اور الرسالہ فکر کی بنیاد پر لوگوں کی رہنمائی کی۔ نیز چینل کے آفس میں موجود تمام اسٹاف کو انھوں نے ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا۔ پھر 16 اپریل 2018 کو انھوں نے دیوبند میں ایک ولیمہ کی تقریب میں شرکت کی، اور مشہور شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی کے ہاتھوں تمام لوگوں کو تراجم قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا۔
■ میں نے خدا کے تخلیقی منصوبہ کو مولانا کے لٹریچر سے جانا ہے، اور اسی سے میرے اندر دعوتی شعور پیدا ہوا ہے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ جمعہ کے دن نگینہ (بجنور) کی اولیاء مسجد میں مَیں نے اس موضوع پر ایک تقریر کی۔ نماز کے بعد بہت سے لوگوں میں یہ تجسس بیدار ہوا کہ اس سے پہلے ایسا اچھوتابیان نہیں ہوا۔ اس موقع پر میں نے ان لوگوں کو الرسالہ اور اسپرٹ آف اسلام پڑھنے کے لیے دیا۔ تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ اس کو قبول کیا۔ (مولانا مظہر جمیل، بجنور، 9897593659 )۔
■ We recently received 100 copies of the Quran from your organization. Alhamdulillah, we have been able to distribute them to people via our bi-monthly street dawah and we have only a few remaining. We will be glad if you can help with more copies of this Quran. (Auwalu Ali, Team Leader, Street Dawah, Nigeria)
■ I am a professor of Islamic Studies and Comparative Religion at Mahidol University Thailand. I am teaching “Introduction to Islam” to about 30 Buddhist monk students from Myanmar, Cambodia, Thailand, China, Indonesia, etc. They have expressed the need to have an English translation of the Quran and I think the translation by Maulana Wahiduddin Khan is the best for them. Will it be possible for you to send me 30 copies for free or at a discounted rate? Alternatively, you can send me 30 copies for free and I pay for the shipping cost. I look forward to hear from you soon. Warm regards. (Dr. Imtiyaz Yusuf, Lecturer and Director Center for Buddhist-Muslim Understanding, College of Religious Studies, Mahidol University, Thailand)
■ I work in the Chaplain’s Dept as the Islamic Activities Coordinator for Mississippi’s Dept. of Corrections in Parchman. Our population fluctuates between 3,000 to 3,500 men. We have a little over 100 Muslims in our facility and we have daily expressed interest in the religion of Islam. I would like to provide Quran copies for the new converts and for those who would like to study the book and the religion. We would thoroughly appreciate any assistance you can provide in fulfilling this need to provide the Holy Quran to the inmate population.(William Sabree, Chaplain’s Dept. Mississippi, USA)

■It has been a privilege for me to listen to Maulana Wahiduddin Khan. I read his book "Tabeer ki Ghalti" and it took me out from the depths of darkness towards a clear understanding of Islam. I appreciate your work, which you have been doing since past so many years and I totally agree with you that terrorism cannot be eliminated through counter acts, rather it has to be eliminated ideologically. (Burhan Ahmad, Srinagar, Kashmir)
واپس اوپر جائیں