Pages

Friday, 1 February 2019

Al Risala | February 2019 (الرسالہ،فروری)

4

-اللہ سے محبت

5

- اللہ کی عظمت

6

- اللہ کی رحمت

7

- تزکیہ کا عمل

8

- عطیات خداوندی

9

- ہدایت کا اصول

10

- بے ادبی کا تصور

11

- دین کا کام

12

- دعوت کے نئے امکانات

13

- مغرب میں بسنے والے مسلمان

14

- دین کا خودساختہ ماڈل

15

- فرضی ماڈل کا نمونہ

18

- جنت کی دریافت

21

- شخصیت کا فریب

22

- پہلے اپنی اصلاح

23

- ای- اتصال

24

- انعام، یا آزمائش

25

- نظری تبلیغ، عملی اقدام

26

- ایک عام غلطی

28

- فطرت کی آواز

29

- ایک تقابل

30

- فریم ورک کا مسئلہ

32

- ایک خط

34

- اختلاط کی اہمیت

35

- خروج کا مسئلہ

40

- روحِ دین

41

- جنّت کا ٹکٹ

42

- روحانیت کیا ہے

43

- دعا کی قبولیت

45

- حق کی مخالفت

46

- اعلیٰ شخصیت

47

- غیر واقعی عذر

48

- خبرنامہ اسلامی مرکز


اللہ سے محبت

قرآن میں ایک تعلیم ان الفاظ میں آئی ہے:وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللَّہِ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ(2:165)۔ یعنی اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہیے۔ اور جو اہل ایمان ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں:
There are some who set up equals with God and adore them with the adoration due to God, but those who believe love God most.
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ امر (حکم) کے صیغے میں نہیں ہے، بلکہ وہ خبر (information)کے اسلوب میں ہے۔ یعنی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کی زندگی میں کوئی غیر خدا ان کی حبِّ شدید کا مرکز بن جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ ایمان والے ہیں، یعنی جن کو اللہ رب العالمین کی دریافت ہوگئی ہے، ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر بطور واقعہ اللہ رب العالمین سے حبِّ شدید پیدا ہوجاتی ہے۔
اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر ایک فطری کیفیت پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے، یعنی کسی چیز سے گہری محبت کاتعلق قائم کرنا۔ یہ حکم کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ فطری حالت کا معاملہ ہے۔ مومن وہ ہے، جو اس حقیقت کو دریافت کرلے کہ اللہ رب العالمین اس کا سب کچھ ہے۔ اس وقت یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کامل معنوں میں اس کا مرکزِ محبت بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، کچھ لوگ جو فطرت کے اس معاملے کو دریافت نہیں کرپاتے ، ان کا کیس غلط انتساب (wrong attribution) کا کیس بن جاتا ہے۔ وہ عدمِ دریافت کی بنا پر اپنے اس فطری جذبے کو اللہ رب العالمین کے سوا کسی اور سے منسوب کرلیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے سواکوئی اور ان کے اس فطری جذبے کا مرکز بن جاتا ہے۔گویا شرک اور توحید دونوں انتساب کا معاملہ ہے، شرک غلط انتساب کا معاملہ، اور توحید درست انتساب کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی عظمت

فتح ِمکہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک صحابی کہتے ہیں: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّةَ، فَقَالَ:لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ، نَصَرَ عَبْدَہُ، وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ- قَالَ ہُشَیْمٌ مَرَّةً أُخْرَى-الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی صَدَقَ وَعْدَہُ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ (مسند احمد، حدیث نمبر 15388) ۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح ِمکہ کے دن خطبہ دیا، تو کہا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اسی نے اپنے بندے کی مدد کی، اور اکیلے لشکروں کو شکست دی، ہُشَیم راوی نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی۔
مکہ کی فتح کا واقعہ سن آٹھ ہجری میں ہوا، آپ اس واقعے کو تاریخ کی کتابوں میں پڑھیں تو بظاہر ایسا معلوم ہوگا جیسے کہ یہ واقعہ رسول اور اصحابِ رسول کی کوششوں سے وقوع میں آیا۔ پھر رسول اللہ نے فتح مکہ کے دن اپنی تقریر میں مذکورہ بالا الفاظ کیوں کہے۔ یہ قصیدے کی زبان نہیں ہے، بلکہ واقعے کی زبان ہے۔ اگر وہ قصیدہ کی زبان ہو، تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اس کی اہمیت اسی وقت ہے، جب کہ وہ حقیقت کی زبان میں کہی جائے۔
اصل یہ ہے کہ کوئی بھی واقعہ جو اس دنیا میں پیش آتا ہے، وہ بے شمار عوامل (factors) کے مجموعی عمل کے نتیجے میں پیش آتا ہے۔ ان عوامل پر انسان کو کوئی اختیار نہیں۔ ان عوامل میں کوئی ایک عامل اگر اپنا کام نہ کرے، تو مطلوب نتیجہ کا نکلنا ناممکن ہوجائے گا۔ خواہ ایک درخت کا اگنا ہو، یا سورج کا نکلنا ہو، یا بارش کا برسنا ہو، سب اسی نہج پر وقوع میں آتے ہیں۔ یہی معاملہ تاریخ کے واقعات کا بھی ہے۔مومن وہ ہے،جو صاحبِ معرفت انسان ہو۔ صاحب معرفت انسان ، صاحبِ دریافت انسان ہوتا ہے۔ ایک مومن کی معرفت انہیں عالمگیر حقائق پر قائم ہوتی ہے۔ مومن جب مذکورہ قسم کے الفاظ بولتا ہے، تو وہ قصیدہ کی زبان نہیں ہوتی، بلکہ وہ دریافت (discovery) کی زبان ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی رحمت

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
قرآن کی اس آیت میںایک بات بظاہر غیر مذکور ہے، مگر وہی بات آیت کا اصل مدعا ہے۔ آیت میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ یہ کیس اس انسان کا ہے، جو غلطی کرنے کے بعد شرمندہ ہو، اور اللہ سے مغفرت کا طالب ہو، تو ایسے انسان کو یہ امید رکھنا چاہیے کہ اللہ کی رحمت کا یہ تقاضا ہوگا کہ اس کو معاف کردیا جائے، اور اس کو جنت میں داخلہ دے دیا جائے۔
دوسری آیات اور احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کواس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ اس کےاندر غلطی کرنے کے بعد شرمندگی ہو، اور اس کے اندر ندامت (repentance) کا احساس جاگ اٹھے۔ یہ احساس انسان کی اصلاح کا ضامن ہے۔ انسان کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ اگر وہ اپنی فطرت پر قائم رہے، توہمیشہ ایسا ہوگا کہ غلطی کرنے کے بعد اس کے اندر ندامت کا احساس جاگ اٹھے۔ اس احساس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی احساسِ خطا کے ساتھ اللہ سے معافی کا طالب ہوگا۔ یہ نفسیاتی واقعہ آدمی کی اصلاح کا سب سے بڑا ضامن ہے۔
یہ نفسیاتی واقعہ آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ غلطی کرنے کے بعد اپنی اصلاح کرے۔ وہ غلطی کرنے کے بعد دوبارہ اپنے آپ کو اصلاح یافتہ بنالے۔ وہ گمراہی کی تاریکی کو دوبارہ روشنی میں تبدیل کرلے۔ وہ اپنی غفلت کو دوبارہ بیداری بنالے ۔ وہ آلودگی میں مبتلا ہونے کے بعد دوبارہ اپنے آپ کو پاک و صاف بنالے۔ وہ خدا سے دور ہونے کے بعد دوبارہ خدا کی قربت حاصل کرلے۔
واپس اوپر جائیں

تزکیہ کا عمل

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے۔اس حدیث میں ایک فطری مسئلے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ، أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔ یعنی ہر پیداہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔
اس حدیث میں ایک ایسے عمل (process) کا ذکر ہے، جو ہر انسان کے ساتھ لازماً پیش آتا ہے۔ ہر انسان اصلاً مذہبِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، مگر بعد کووہ اپنے قریبی کلچر سے متاثر ہو کر دھیرے دھیرے ماحول کا پروڈکٹ (product) بن جاتاہے۔ یہ واقعہ ہر انسان کے ساتھ بلااستثنا پیش آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان ابتدائی طور پر خالق کا شعور لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان پیدائشی طور پر خالق کے مقرر کردہ مذہب کی پیداوار ہوتا ہے۔ لیکن دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کسی ماحول میں زندگی گزارتا ہے، وہ ہر لمحے اپنے ماحول کا اثر قبول کرتا ہے۔ اس طرح یہ ہوتا ہے کہ انسان ابتدائی طور پر فطرت کے پروڈکٹ کے طو رپر پیدا ہوتا ہے، لیکن دھیرے دھیرے وہ پوری طرح ماحول کا پروڈکٹ بن جاتا ہے۔
لفظ بدل کر اس حقیقت کو بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ اس حدیث میں در اصل کنڈیشننگ (conditioning) کے معاملے کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی ابتدائی طور پر اپنی حالتِ فطری پر ہوتا ہے، لیکن ماحول کی کنڈیشننگ کی بنا پر وہ دھیرے دھیرے ماحول کا پروڈکٹ بن جاتاہے۔ یہ ہر آدمی کا کیس ہے۔ ایسی حالت میں ہر آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ اپنا مطالعہ کرکے اپنے کیس کو سمجھے ۔ ہر آدمی اپنی کنڈیشننگ کو توڑ کر اپنے آپ کو اپنی فطری حالت پر قائم کرے۔ اسی عمل کا دوسرا نام تزکیہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

عطیات خداوندی

قرآن میں ایک حقیقت کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے: وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّہِ لَا تُحْصُوہَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ (14:34)۔یعنی اور اس نے تم کو ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو تم گن نہیں سکتے۔ بیشک انسان بہت بےانصاف اور بڑا ناشکرا ہے۔
قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں فطری طور پر انسان کی جو ضرورتیں ہیں، خالق کی طرف سےوہ سب کی سب انسان کو دے دی گئی ہیں۔ اب انسان کو اپنی ضروریات کے لیے تخلیق نہیں کرنا ہے، بلکہ ضروریات کو دریافت کرکے اس کو استعمال (avail)کرنے کی پلاننگ کرنا ہے، تاکہ انسان ان کو پوری طرح استعمال کرسکے۔
ضروریات کی یہ فراہمی صرف ہوا اور پانی تک محدود نہیں ہے، بلکہ دوسری تمام چیزوں تک وسیع ہے۔ مثلا ً حکومت کو لیجیے۔ لوگ حکومت کو سرچشمہ اقتدار سمجھتے ہیں۔ وہ اہلِ حکومت سے حکومت کو چھیننے کے لیے بڑی بڑی لڑائیاں کرتے ہیں۔ حالاں کہ حکومت کا جو اصل مقصد ہے، وہ ہر ایک کو یکساں طور پر حاصل ہے۔ غور کیجیے تو حکومت کی سیٹ (seat) پر بیٹھنے کا موقع کسی ایک شخص کو ملتا ہے۔ لیکن ایک قائم شدہ حکومت کی صورت میں جو امن (peace) قائم ہوتا ہے، اس میں ہر ایک کو حصہ ملتا ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے، تو سیاست کے معاملے میں لوگوں کو اقتدار چھیننے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ موجودہ حکومت کے ذریعے حاصل شدہ مواقع کو اپنے اپنے مقصد کے مطابق اویل (avail) کرنے کی ضرورت ہے۔ گویا سیاسی اقتدار کے معاملے میں اصل چیز حاصل شدہ مواقع کو استعمال کرنے کی پلاننگ ہے، نہ کہ اقتدار کی کنجی کو چھیننے کی پلاننگ۔ اسی لیے قرآن میںدوسری چیزوں کی طرح حکومت کو بھی عطیہ خداوندی بتایا گیا ہے (البقرۃ 2:26)۔
واپس اوپر جائیں

ہدایت کا اصول

قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَلَوْ عَلِمَ اللَّہُ فِیہِمْ خَیْرًا لَأَسْمَعَہُمْ وَلَوْ أَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَہُمْ مُعْرِضُونَ(8:23)۔ یعنی اگر اللہ جانتا اُن میں کچھ بھلائی تو وہ ضرور اُن کو سنا دیتا، اور اگر وہ اب اُن کو سنادے تو وہ ضرور بھاگیں گے منہ پھیر کر:
If God had found any good in them, He would certainly have made them hear; but being as they are, even if He makes them hear, they will turn away in aversion.
قرآن کی اِس آیت میں جو بات اللہ کی نسبت سے کہی گئی ہے، وہ در اصل انسان کی نسبت سے ہے۔ اِس آیت میں ہدایت ملنے یا نہ ملنے کا اصول بتایا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت عملی طور پر ہر ایک کے سامنے آتی ہے، لیکن اس کی قبولیت کا تعلق ہمیشہ طلبِ حق سے ہوتا ہے۔ جو شخص پہلے سے طالب (seeker)ہو، وہ فوراً ہدایت کو پہچان لیتا ہے اور اس کو دل سے قبول کرلیتا ہے۔ لیکن جس آدمی کے اندر طلب کا گہرا جذبہ موجود نہ ہو، وہ ہدایت کو پہچاننے میںناکام رہے گا، اس کا کنفیوژن اس کے لیے ہدایت کو قبول کرنے میں مانع بن جائے گا۔
ہدایت کا سارا معاملہ سچی طلب پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر آدمی کے اندر سچی طلب موجودنہ ہو تو ہدایت اس کے سامنے آئے گی، لیکن کسی نہ کسی عذر کی بنا پر وہ اس کو قبول کرنے سے محروم رہے گا۔
طلب اگرچہ ایک فطری چیز ہے، لیکن آدمی ایساکرتا ہے کہ وہ حق کے سوا دوسری چیزوں کو اہمیت دینے لگتا ہے، مثلاً ذاتی یا قومی مصلحتوں کو۔ یہ مزاج آدمی کے اوپر اِس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ حق کو بے آمیز صورت میں دیکھ نہیں پاتا۔
یہ صورتِ حال اس کو کنفیوژن میں مبتلا کردیتی ہے ، اور کنفیوژن بلا شبہ قبولِ حق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے— حق کا سچا طالب وہ ہے جو اِس سے پہلے غیر ِ حق کی نفی کرچکا ہو۔ یہی انسان حق کا طالب ہے اور ایسے ہی انسان کو خدا کی طرف سے حق کی توفیق ملتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

بے ادبی کا تصور

ایک شہر میں، میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے یہاں گیا۔ وہ ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اُس سے ملاہوا غیر مسلموں کا فلیٹ تھا۔ مسلمان نے کہا کہ ہم لوگ اِس گھر میں پریشان رہتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اِس گھر میں کچھ آسیب کا اثر ہے۔ میں نے کہا کہ یہ سب توہم پرستی (superstition) ہے۔ پھر میں نے اُن سے قرآن مانگا، تاکہ اِس معاملے میں، میںاُن کو قرآن کی ایک آیت دکھاؤں۔ معلوم ہوا کہ ان کے گھر میں قرآن کا کوئی نسخہ موجودنہیں ہے۔ میںنے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے۔ صاحبِ خانہ نے جواب دیا کہ پہلے یہاں قرآن کا ایک نسخہ موجود تھا، پھر ہم نے اُس کو بے ادبی کے ڈر سے مسجد میں رکھوا دیا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ قرآن کے بارے میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا مزاج کیا ہے۔ قرآن کو وہ شعو ری طورپر اپنے لیے رہ نمائی کی کتاب نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن ایک مقدس کتاب ہے اور اُس کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اُس کو مفروضہ ’’بے ادبی‘‘ سے بچایا جائے۔بے ادبی کیا ہے۔ مسلم تصور کے مطابق، بے ادبی یہ ہے کہ قرآن نیچے ہو اور آپ اوپر بیٹھ جائیں۔ وضو کیے بغیر کوئی شخص قرآن کو چھولے۔ کوئی غیر مسلم، قرآن کو اٹھا کر اُسے دیکھنے لگے۔ قرآن غلاف میں لپٹا ہوا نہ ہو۔ قرآن ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر جائے۔ قرآن کھلا ہو ا رہ جائے، کیوں کہ ایسا ہوگا تو شیطان اس کو پڑھے گا۔ قرآن کے اوپر کوئی اور کتاب، یا کوئی اور چیز رکھ دی جائے، وغیرہ۔
یہ سب بے اصل باتیں ہیں۔ اِن خود ساختہ نظریات نے مسلمانوں کو قرآن سے دور کردیا ہے۔ قرآن کا حق یہ ہے کہ قرآن کو پڑھا جائے۔ اُس سے نصیحت لی جائے۔ اُس سے اپنے معاملات میں رہ نمائی حاصل کی جائے۔ قرآن پر غور کیا جائے اور اس کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ اُس سے اپنی زندگی میں روشنی حاصل کی جائے— قرآن، ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے اور یہی اُس کا حق ہے کہ لوگ اُس سے ہدایت حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں

دین کا کام

دو مسلم نوجوان ملاقات کے لیے آئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم دونوں دین کا کام کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ آج ساری دنیا میں اسلام کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں، اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے، الحاد زور پکڑتا جارہا ہے۔ ایسے ماحول میں دین کا کام کیسے کیا جائے۔
میں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے : ابْدَأْ بِنَفْسِکَ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 997)۔ یعنی اپنے آپ سے شروع کرو۔ اس حدیثِ رسول کے مطابق، آپ کو یہ کرنا ہے کہ سب سے پہلے خود اپنا محاسبہ کریں۔ اپنی غلطیوں کو دریافت کریں۔ اپنی اصلاح کرکے اپنے آپ کو اسلام پر قائم کریں۔ جب آپ ایسا کرلیں ، تب آپ اس قابل ہوجائیں گے کہ آپ دوسروں کی اصلاح کے لیے اٹھیں۔
ابھی آپ کی سوچ یہ ہے کہ ساری دنیا اسلام کی دشمن ہے۔ لوگ اسلام کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ اس سوچ کے تحت آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آج اسلام کی خدمت یہ ہے کہ اس کے دشمنوں کو ختم کیا جائے۔ جب تک اسلام کے دشمنوں کو ختم نہ کیا جائے، اسلام اور مسلمانوں کے لیے عمل کا راستہ نہیں کھلے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی آپ کا دل دوسروں کی نفرت سے بھرا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں آپ کا پہلا کام یہ ہے کہ آپ اپنے دل کو دوسروں کی دشمنی سے پاک و صاف کریں، اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے قابل بنائیں۔یہ داخلی اصلاح کا کام ہے۔ جب داخلی اصلاح ہوجائے، تب خارجی اصلاح کا کام ہوگا۔
جب آپ اپنے آپ کو انسان سے محبت کرنے والا بنائیں گےتو فطری طور پر یہ ہوگا کہ آپ سوچیں گے کہ دین کا کام کس طرح انجام دیا جائے کہ وہ لوگوں کے لیے زیادہ مؤثر ثابت ہو۔اس کے بعد آپ اپنا مطالعہ بڑھائیں گے، دوسروں کے بارے میں ضروری معلومات جمع کریں گےاور دعوت کے کام کی پلاننگ کریں گے تاکہ وہ زیادہ مفید ثابت ہو۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کے نئے امکانات

سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے ایک ممبر مسٹر رجت ملہوترا 7 مارچ 2008 کو اپنی کمپنی کے کسی کام سے دہلی سے ممبئی گئے۔ ان کا یہ سفر کنگ فشر (Kingfisher) ائر لائنس کے ذریعے ہوا۔ نئی دہلی کے ائر پورٹ پر جب وہ جہاز کے اندر داخل ہوئے، تو انھوںنے دیکھا کہ فرسٹ کلاس کی اگلی سیٹ پر ایک ہندو لیڈر بیٹھے ہوئے ہیں۔وہ ہوائی پرواز(civil aviation) کے منسٹر ہیں۔ اُس وقت مسٹررجت ملہوترا کی جیب میں ہمارے یہاں کا انگریزی میں چھپا ہوا پمفلٹ (The Reality of Life) موجود تھا۔ انھوںنے منسٹر صاحب کو ایک پمفلٹ یہ کہتے ہوئے پیش کیا:
Sir, this is for your inflight reading.
منسٹر صاحب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے پمفلٹ کو لے لیا اور اُسی وقت اس کو پڑھنا شروع کردیا۔ مسٹر رجت ملہوترا نے جب یہ واقعہ مجھے بتایا، تو میںنے یہ سمجھا کہ موجودہ زمانے کے دعوتی امکانات میںسے ایک امکان یہ بھی ہے کہ حاکم (ruler) اور محکوم (ruled) دونوں ایک سواری پر سفر کریں، اور محکوم کسی قسم کے درباری رسوم ادا کیے بغیر حاکم کو بے تکلف ایک خوب صورت چھپا ہوا دعوتی پمفلٹ پیش کرسکے۔
جب پہلی وحی اتری، تو اُس میں یہ کہا گیا تھا: الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(96:4)۔یعنی جس نے قلم سے علم سکھایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی دعوت ایک مبنی بر لٹریچر (literature-based) دعوت ہے۔ قدیم زمانے میں جب کہ پرنٹنگ پریس وجودمیں نہیں آیا تھا، یہ دعوتی لٹریچر لوگوں کے حافظے میںہوتا تھا۔ آدمی کا حافظہ ہر وقت اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اِس پوزیشن میںہوتاتھا کہ اپنے حافظے کی مدد سے لوگوں کو دعوتی پیغام دے سکے۔ اب پرنٹنگ پریس کے زمانے میں یہ کرنا ہے کہ داعی ہر وقت اپنے پاس چھپا ہوا دعوتی لٹریچر رکھے، تاکہ ملاقاتوں کے دوران اُسے لوگوں کو دے سکے۔
واپس اوپر جائیں

مغرب میں بسنے والے مسلمان

20 جون 2010 کو ایک ویڈیو کانفرنسنگ تھی۔ راقم الحروف نے دہلی سے امریکا کے ایک آڈینس کو خطاب کیا۔ یہ خطاب انگریزی زبان میں تھا۔ اس خطاب کا موضوع یہ تھا:
How to do effective dawah work in the western world?
میں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مغربی ملکوں میں مؤثر دعوتی کام کی پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمان اپنے اندر داعیانہ طرزِ فکر پیدا کریں۔ اِس وقت مختلف مغربی ملکوں میں دس ملین سے زیادہ مسلمان جاکر آباد ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے پچھلے مائنڈ سیٹ (mindset)کے ساتھ وہاں رہتے ہیں۔ وہ مشرقی گیم کو مغربی فیلڈ میں کھیلنا چاہتے ہیں:
They are playing eastern game in the western court.
یہ طریقہ اسلامی نقطۂ نظر سے سراسر باطل ہے۔ مغربی ملکوں میں بسے ہوئے مسلمانوں کو یہ جاننا چاہیے کہ اُن کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ اُن کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ وہ مغربی قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں۔ وہ اُن سے نفرت کرنا یک طرفہ طورپر چھوڑ دیں۔ مزید یہ کہ یہ چھوڑنا اصولی طورپر ہو، نہ کہ منافقانہ طورپر۔ یہ مسلمان اگر ایسا کریں کہ ان کے دل میں تو نفرت ہو، لیکن وہ اسٹیج پر یا میڈیا میں مختلف بولی بولیں، تو یہ ان کے جرم میں مزید اضافے کے ہم معنی ہوگا۔
مغربی دنیا میں بسنے والے مسلمان جب مغربی قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں گے تو اس کے بعد لازمی طورپر ان کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرے گی۔ ان کی سوچ مثبت سوچ بنے گی، ان کا بول خیر خواہانہ بول بن جائے گا، اُن کا کردار ایک با مقصد انسان کاکردار ہوگا۔ وہ مغربی ملکوں میں حریف اور رقیب کے طورپر نہیں رہیں گے، بلکہ داعی اور مبلغ بن کر رہیں گے۔ وہ ایک مشن کے حامل بن جائیں گے، اُن کو وہ ٹارگیٹ (target)مل جائے گا جو ایک سچے مومن کا ٹارگیٹ ہے، یعنی تمام انسانوں کو خدائی سچائی سے آگاہ کرنا۔
واپس اوپر جائیں

دین کا خودساختہ ماڈل

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےقرآن کی یہ آیت پڑھی:(ترجمہ) جنھوں نے اپنے دین میں راہیں نکالیں اور گروہ گروہ بن گئے (6:159) ،اور کہا: اے عائشہ ۔یہ لوگ بدعت والے، یہ لوگ خواہشات والے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے توبہ نہیں ہے، میں ان سے بَری ہوں، اور وہ مجھ سے بَری ہیں(أَنَا مِنْہُمْ بَرِیءٌ ,وَہُمْ مِنِّی بِرَاءٌ) المعجم الصغیر للطبرانی، حدیث نمبر 560 ۔
یہ کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دین کے نام پر دین کا خودساختہ ماڈل بنالیتے ہیں،اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہی خدا کا دین ہے۔ یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ ایسا کیوں کر ہوتا ہے کہ انسان ایک خود ساختہ دین کو اصل دین سمجھ لے۔انسان ایک ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ ماحول کے اثر سے اس کی ایک شخصیت بن جاتی ہے۔ اس شخصیت کے بننے میں مختلف قسم کے تعلقات کا دخل ہوتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے ماحول کا پروڈکٹ (product) بن جاتا ہے۔ یہ اثرات دھیرے دھیرےاتنا زیادہ پختہ ہوجاتے ہیں کہ انسان اسی کو اصل دین سمجھنے لگتاہے۔ وہ سختی کے ساتھ اسی خود ساختہ دین پر قائم ہوجاتا ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرے۔ وہ اپنی شخصیت کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے آپ کو دوبارہ فطرت کے تقاضوں پر کھڑا کرے۔
کنڈیشننگ اور ڈی کنڈیشننگ کا معاملہ ہر انسان کا معاملہ ہے۔ ہر انسان کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ وہ اپنے ماحول کے اثرات کے تحت ایک کنڈیشنڈ (conditioned) انسان بن جاتاہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس کنڈیشننگ کو دریافت کرے۔ بے رحم ڈی کنڈیشننگ (merciless de-conditioning) کے تحت وہ اپنے بناوٹی مولڈ کو توڑے، اور دوبارہ اپنے آپ کو فطرت کے مولڈ (mould)پر قائم کرے۔ یہ عمل ہر انسان کو لازمی طورپر کرنا ہے۔ جو آدمی ڈی کنڈیشننگ کے اس عمل میں ناکام رہے، اس کا وہی حال ہوگا، جس کی تصویر مذکورہ حدیث میں بتائی گئی ہے،یعنی دین کے نام پر بے دین شخصیت۔
واپس اوپر جائیں

فرضی ماڈل کا نمونہ

28 جون2004 کو میں دہلی کے ایک ٹی وی پروگرام میں تھا۔ـ یہاں میری ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئیــ ۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر ذاکر حسین (1897-1969) کے فین ہیں۔ آج کل وہ ان کی مشہور کہانی ’’ابو خاں کی بکری‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں کررہے ہیں۔ اچانک میری زبان سے نکلا کہ وہ تو اسٹون ایج کی کہانی ہے۔ آج کے حالات میں اس کا کیاریلونس۔ اس پر وہ غصہ ہوگئے اور کہا کہ ابوخاں کی بکری تو ایک ادبی شاہکار ہے۔ اس کے اندر ایک ابدی پیغام ہے، وغیرہ۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کی اس کہانی میں آزادی اور بہادری کی اہمیت کو بتایا گیا ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ آزادی کے لیے بڑی سے بڑی طاقت سے لڑجاؤ، خواہ اس راہ میںتم کو اپنی جان دینی پڑے۔کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ الموڑا کے ایک شخص، ابو خاں، کی بکری آزادی کی تلاش میں اپنے مالک سے بھاگ کر پہاڑ وں میں چلی جاتی ہے۔ وہاں اس کو ایک بھیڑیا ملتا ہے۔ بکری خوب جانتی تھی کہ میں بھیڑیے کو نہیں مارسکتی مگر اس نے مقابلہ کا فیصلہ کیا۔ مقابلہ ضروری ہے، خواہ اس راہ میں جان دینی پڑے۔ کہانی کے مطابق، بکری ساری رات بھیڑیے سے لڑتی رہی یہاں تک کہ وہ لہو لہان ہوگئی۔صبح ہوئی تو قریب کی مسجد سے مؤذن کی اللہ اکبر کی آواز آرہی تھی۔ بکری نے کہاکہ اللہ تیرا شکر ہے اور پھر وہ سخت زخمی ہو کر زمین پر گرگئی اور مر گئی۔ اس وقت پاس کے درخت پر کچھ چڑیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اکثر چڑیوں نے کہا کہ بھیڑیا جیت گیا۔ مگر ایک بوڑھی چڑیا نے کہا کہ نہیں، بکری کی جیت ہوئی۔
بکری کی یہ لڑائی بلاشبہ بے مقصد بھی تھی اور بے فائدہ بھی۔ کہانی کے مطابق، بظاہر اس لڑائی کا کوئی واقعی مقصد نہ تھا۔ مزید یہ کہ اس لڑائی سے کوئی فائدہ نکلنے والا نہ تھا۔ کہانی اس لڑائی کا کوئی مثبت فائدہ نہیں بتاتی۔ گویا کہ یہ لڑائی برائے لڑائی تھی، اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی لڑائی کوئی قابلِ تعریف کام نہیں۔
حقیقت کے اعتبار سے دیکھیے تو مذکورہ قسم کی لڑائی بکری کی فطرت کے بالکل خلاف ہے۔ کوئی بکری کبھی اس طرح بھیڑیے سے لڑ کر اپنی جان نہیں دیتی۔ بکری کا طریقہ بھیڑیے سے ٹکراؤ کو اوائڈ کرنا ہے نہ کہ جان بوجھ کر اس سے لڑ جانا۔ اس فرضی کہانی کو اس کے مصنف نے الموڑا کے ایک واقعہ کے طور پر پیش کیا ہے، مگر اس کا تعلق نہ حقیقت سے ہے اور نہ اسلام سے۔
کسی بکری نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ وہ رات بھر بھیڑیے سے لڑے اور اس طرح جان بوجھ کر اپنے کو ہلاک کردے۔ کہانی کی مذکورہ بکری ڈاکٹر ذاکر حسین کی مفروضہ بکری ہے، وہ نہ کسی ابو خاں کی بکری تھی اور نہ خدانے کبھی کسی ایسی بکری کو پیدا کیا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھئے تو اس قسم کی لڑائی سراسر ناجائز ہے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص اچانک کسی طاقتور دشمن کی زد میں آجائے اور قتل کرنے والا اس کو قتل کردے۔ مگر جان بوجھ کر ایک ایسے دشمن سے ٹکرانا بلاشبہ غلط ہے جس سے مقابلہ کرنے کی طاقت آدمی کے اندر نہ ہو اور جس کا یقینی نتیجہ یک طرفہ تباہی ہو۔حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّہَ العَافِیَةَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2965) یعنی تم دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرواور تم اللہ سے عافیت مانگو۔
اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس قسم کا ٹکراؤ خود کشی ہے، اور خود کشی اسلام میں جائز نہیں۔لوگ اکثر ایک مہلک غلطی میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ بطور خود ایک مفروضہ ماڈل بناتے ہیں اور پھر اس مفروضہ ماڈل کے ذریعہ ایک ایسے عمل کو جسٹی فائی(justify)کرنے لگتے ہیں جو حقیقۃً قابلِ جواز (justifiable) نہیں۔اس کی ایک مثال امام حسین کے معاملہ میں ملتی ہے۔ خطیبوں اور شاعروں نے امام حسین کا ایک خود ساختہ ماڈل بنایا۔ وہ ماڈل یہ تھا کہ امام حسین نے اپنا سر کٹوادیا مگر وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کے لیے تیار نہیں ہوئے:
سرداد نداد دست در دست یزید
یہ شاعروں اور خطیبوں کا اپنا بنایا ہوا ماڈل ہے ورنہ تاریخ میں جو تصویر ملتی ہے وہ برعکس طورپر یہ ہے کہ امام حسین جب مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو ان کا کوئی ارادہ لڑائی کا نہ تھا۔ اس وقت یزید دمشق میں تھا اور امام حسین اس سے بہت دور کوفہ کی سرحد پر تھے۔ کوفہ میں متعین فوج نے یزید کے حکم کے بغیر بطور خود امام حسین کو گھیر کر ان کو لڑنے پر مجبور کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت امام حسین نے وہاں کے فوجی افسر سے کہا کہ تم مجھ کو جنگ پر مجبور نہ کرو بلکہ میری طرف سے تین باتوں میں سے کوئی ایک اختیار کرلو، یا تو میں وہاں واپس چلا جاتا ہوں، جہاں سے میں آیا ہوں، یا مجھے یزید کے پاس لے چلو، اور میں یزید کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دوں گا، پھر دیکھیں گے کہ میرے اور یزید کے درمیان کیا رائے بنتی ہے (وَإِمَّا أَنْ أَضَعَ یَدِی فِی یَدِ یَزِیدَ بْنِ مُعَاوِیَةَ فَیَرَى فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَہُ رَأْیَہُ)، یا تم مجھے مسلمانوں کی سرحدوں میں سے کسی سرحد پر لے چلو، میں انھیں میں سے ایک بن جاؤں گا،پھر جو حق ان کا ہوگا، وہ میرا ہوگا، اور جو ذمے داری ان کی ہوگی، وہ میری ہوگی۔( تاریخ طبری، جلد5 ، صفحہ413 ؛ الکامل فی التاریخ ،جلد3، صفحہ164)۔
معلوم ہوا کہ امام حسین کا وہ ماڈل فر ضی ماڈل ہے جس کو نام نہاد مجاہدین اپنی جنگی کارروائیوں کو جائز ٹھہرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پاکستان میں اسلام کے نام پر ٹکراؤ کی سیاست چلائی جو یقینی طورپر غیر اسلامی سیاست تھی۔ اس کے لیے انہوں نے امام حسین کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حسین کے نمونہ کو چھوڑ دیا جائے تو نمونہ کہاں سے آئے گا۔ اس اصول کے مطابق، شاید ڈاکٹر ذاکر حسین بھی یہ کہیں کہ اگر ابو خاں کی بکری نہ ہوتی تو لڑکر مر جانے کا نمونہ کہاں سے آتا۔
فرضی ماڈل کو اپنے غلط اقدام کے لیے جواز بنانا ایک عام برائی ہے۔ مگر وہ ایک مہلک عمل ہے۔ جو لوگ اس قسم کا طریقہ اختیار کریں ان کے اندر ایک بے حد کمزور شخصیت پرورش پاتی ہے۔ ایسے لوگ کبھی اعلیٰ ربانی حقائق کا تجربہ نہیں کرسکتے۔
فرضی ماڈل کو نمونہ بنانے کی ایک مثال حضرت ابراہیم کے بارے میں اقبال کا یہ شعر ہے:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اصل واقعہ کے مطابق، حضرت ابراہیم خود سے آگ میں نہیں کودے تھے بلکہ ان کے مخالفین نے جارحیت کرکے انہیں آگ میں ڈالا تھا (الأنبیاء، 68) ۔مگر اقبال نے حضرت ابراہیم کا ایک فرضی ماڈل بنایا اور پھر اس فرضی ماڈل کے حوالہ سے قوم کو للکارتے ہوئے کہا:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
واپس اوپر جائیں

جنت کی دریافت

غالباً 1983کی بات ہے۔ اُس وقت دہلی میں ایک انگریز مسٹر جان بَٹ (John Butt) رہتے تھے۔ اُنہوں نے میری انگریزی کتابیں پڑھی تھیں ،اور میری فکر سے کافی مانوس ہوچکے تھے۔ ملاقات کے دوران ایک بار میں نے اُن سے کہا کہ قلم میری محبوب چیز ہے۔ میںنے بہت سے قلم استعمال کیے مگر مجھے اپنی پسند کا قلم ابھی تک نہیں ملا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں جلد ہی لندن جانے والا ہوں، وہاں سے میں آپ کے لیے ایک اچھا قلم لے آؤں گا۔
کچھ عرصہ کے بعد وہ مجھ سے ملے اور انگلینڈ کا بنا ہوا ایک قلم مجھے دیتے ہوئے کہا کہ میں نے لندن اور آکسفورڈ کی مارکیٹ میںکافی تلاش کے بعد یہ قلم (فاؤنٹین پین) حاصل کیا ہے۔ تاہم مجھے امید نہیں کہ یہ قلم آپ کی پسند کے مطابق ہوگا۔ میں نے کہا ، کیوں۔ اُنہوں نے کہا کہ میںجانتا ہوں کہ آپ ایک پرفیکشنسٹ(perfectionist) ہیں اور دنیا میں چونکہ کوئی بھی قلم پرفیکٹ قلم نہیں، اس لیے آپ کوکوئی بھی قلم پسند نہیں آئے گا۔اصل یہ ہے کہ ہر آدمی پیدائشی طورپر پرفیکشنسٹ ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان ایک کمال پسند حیوان ہے:
Man is a perfection-seeking animal.
انسانی فطرت کا یہی خاص پہلو ہے جس کی بنا پر ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ محرومی کے احساس میںجیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو دنیا کا ہر سامان حاصل کرلیتے ہیں، وہ بھی محرومی کے احساس سے خالی نہیں ہوتے۔اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے پرفیکشنسٹ ہے مگر جس دنیا میںوہ رہتا ہے اُس کی کوئی بھی چیز پرفیکٹ نہیں۔ اس طرح انسان کی طلب اور دنیا کی قابلِ حصول چیزوںکے درمیان ایک عدم مطابقت (incompatibility) پیدا ہوگئی ہے۔ دونوں کے درمیان یہی عدم مطابقت انسان کے اندر محرومی کے احساس کا اصل سبب ہے۔
انسان اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے دنیا میں جدوجہد شروع کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ دولت، اقتدار، سازوسامان اور دوسری مطلوب چیزیں حاصل کر لیتا ہے۔ مگر اُس کو محسوس ہوتا ہے کہ اپنی مطلوب چیزوں کو پانے کے بعد بھی وہ بدستور محرومی کے احساس سے دوچار ہے، اب بھی وہ یافت کے احساس تک نہ پہنچ سکا۔اس کا سبب یہ ہے کہ پانے سے پہلے وہ سمجھتا ہے کہ یہی وہ چیز ہے جس کی آرزو وہ اپنے دل میں لیے ہوئے ہے۔ مگر اس چیز کو پانے کے بعد اُسے وہ تسکین نہیں ملتی جو کسی مطلوب چیز کی یافت سے ہونی چاہیے۔ کیوں کہ اُس کے دل میںجو آرزو تھی وہ پرفیکٹ چیز کے لیے تھی۔ جب کہ دنیا کی ہر چیز غیر پرفیکٹ(imperfect) ہے اور ظاہر ہے کہ کسی پرفیکشنسٹ کو غیر پرفیکٹ میںتسکین نہیں مل سکتی۔
اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی جنت کو اپنا نشانہ بنائے۔ جنت پورے معنوں میں ایک پرفیکٹ ورلڈ (perfect world) ہے، جب کہ اُس کے مقابلہ میں موجودہ دنیا صرف ایک اِم پرفیکٹ ورلڈ (imperfect world) کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے جس پرفیکٹ ورلڈ کا طالب ہے، وہ جنت ہے۔ جنت کی معرفت نہ ہونے کی وجہ سے آدمی موجودہ دنیا میں اپنی آرزوئیں تلاش کرنے لگتا ہے اور اپنی فطرت اورخارجی دنیا کے درمیان عدم مطابقت کی بنا پر محرومی کے احساس کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ آدمی کے اندر وہ شعوری انقلاب لایا جائے کہ وہ جنت کی معرفت حاصل کرسکے۔ اس معرفت کے حصول کے بعد اُس کی مایوسی کا احساس اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ کیوں کہ وہ جان لے گا کہ جن چیزوں میںوہ اپنی آرزوؤں کی تسکین ڈھونڈھ رہا ہے، اُن میںاُس کے لیے تسکین کا سامان موجود ہی نہیں۔ اس دریافت کے بعد اُس کی توجّہ جنت کی طرف لگ جائے گی۔ اس کے بعد وہ موجودہ دنیا کی چیزوں کو ضرورت کے طورپر لے گا، نہ کہ مطلوب کے طورپر۔ اور جب کسی آدمی کے اندر یہ سوچ پیدا ہوجائے تو اُس کے بعد اُس کا حال یہی ہوگا کہ وہ یافت کے احساس میں جینے لگے گا، نہ کہ محرومی کے احساس میں۔
موجودہ دنیا پانے سے زیادہ کھونے کی جگہ ہے۔ یہاں ہر مرد اور عورت کو بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ فلاں چیز اُس سے کھوئی گئی۔ فلاں موقع اُس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ فلاں شخص نے اُس کو نقصان پہنچادیا۔ اس قسم کے چھوٹے یا بڑے حادثات ہر ایک کو بار بار پیش آتے ہیں۔ کسی بھی مرد یا عورت کے لیے ان نقصانات سے بچنا ممکن نہیں۔
اس قسم کے نقصانات ہر ایک کو پیش آتے رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان نقصانات کی تلافی کی صورت کیا ہے۔ اس کی صورت صرف ایک ہے۔ اور وہ جنت کا یقین ہے۔ جس آدمی کو خدا کی جنت پر یقین ہو اُس کا حال یہ ہوگا کہ ہر نقصان کے بعد وہ یہ کہہ سکے گا کہ دنیا کا یہ نقصان تو بہت چھوٹا ہے۔ جنت کے مقابلہ میں اس نقصان کی کوئی حقیقت نہیں۔ دنیا کے ہر نقصان کے بعد وہ اور زیادہ خدا کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ وہ خدا سے اور زیادہ جنت کا طالب بن جائے گا۔
قرآن میں جنت کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہاں آباد ہونے والے لوگوں کے لیے نہ خوف ہوگا اور نہ حُزن (البقرہ ، 2:38)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں انسان کو جو زندگی ملتی ہے وہ کبھی اور کسی کے لیے خوف اور حُزن سے خالی نہیں ہوتی۔ موجودہ دنیا کا نظام اس ڈھنگ پر بنا ہے کہ یہاں حقیقی معنوں میں خوف اور حزن سے خالی زندگی کا حصول ممکن ہی نہیں۔ ایسی حالت میںآدمی کے لیے واحد درست رویّہ یہ ہے کہ وہ دنیا کو اپنا مقصود نہ بنائے۔ وہ دنیا کو صرف یہ حیثیت دے کہ وہ حقیقی منزل کی طرف جانے کا ایک راستہ ہے۔اس حقیقت کو پیغمبر اسلام نےان الفاظ میں بیان کیا ہے: لاَ عَیْشَ إِلَّا عَیْشُ الآخِرَةِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3795)۔ یعنی راحت اور مسرّت تو صرف آخرت میں ممکن ہے۔ دنیا میں راحت و مسرّت تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسافر ریلوے اسٹیشن پر اپنے لیے ایک آرام دہ گھر بنانے کی کوشش کرے۔ ہر مسافر جانتا ہے کہ اسٹیشن گھر بنانے کے لیے نہیںہوتا۔ اسی طرح موجودہ دنیا جنت کے عمل کے لیے ہے، نہ کہ جنت کی تعمیرکے لیے۔ جنت کو اپنی منزل مقصود بنانا صرف عقیدہ کی بات نہیں وہ مقصد ِحیات کی بات ہے، ایسا مقصد جس کے سوا کوئی اور مقصد انسان کے لیے ممکن نہیں۔
﴿جنت صرف اُن افراد کو ملے گی جو اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کریں ﴾
واپس اوپر جائیں

شخصیت کا فریب

مولانا عبد الماجد دریابادی نے لکھا ہے کہ انھوں نے پہلی بار مولانا ابوالکلام آزاد کو لکھنؤ کے ریلوے اسٹیشن پر دیکھا۔ اس وقت ان کو ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے سامنے کوئی ایرانی پرنس کھڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ مسحور کن شخصیتوں کی داستان کا نام ہے۔ کوئی کسی انسان کی شاندار شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوگیا، تو اس نے اسی کو بڑا انسان سمجھ لیا۔ کوئی کسی کے غیر معمولی حافظہ کو دیکھ کر اس سے مسحور ہوگیا۔ کوئی کسی کی خطابت کا گرویدہ ہوگیا، وغیرہ۔
بعض افراد میں کچھ ظاہرفریب خصوصیات ہوتی ہیں۔ لوگ ان ظاہر فریب خصوصیات کو دیکھ کر مسحور ہوجاتے ہیں، اور ان کو بڑا آدمی سمجھنے لگتے ہیں۔ مگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ان مسحور کن شخصیتوں نے حقیقی معنوں میں کبھی کوئی بڑا کام نہیں کیا۔ مثلا جرمنی کا ہٹلر اپنی تقریر سے لوگوں کو سحر میں مبتلا کردیتا تھا۔ لیکن 56 سال کی عمر میںجب وہ مرا تو اس نے تعمیر و ترقی کی کوئی یادگار نہیں چھوڑی۔
حقیقت یہ ہے کہ بڑے آدمی کی پہچان نہ شاندار شخصیت ہے، اورنہ شاندار خطابت، حتی کہ شاندار حافظہ بھی کسی آدمی کے بڑے ہونے کی پہچان نہیں۔ کسی آدمی کے بڑے ہونے کی پہچان یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ کا خوف پایا جاتا ہو۔ یہ معیار ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:اللہ کا خوف حکمت کا سرا ہے(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 730)۔اللہ کا خوف آدمی کو متواضع (modest) بناتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کو سنجیدہ (sincere) بناتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کو محتاط (cautious) بناتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر وہ صفت پیدا کرتا ہے، جس کو حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: جو اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے، وہ بھلی بات کہے یا وہ چپ رہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018)۔یہ صفات آدمی کو مین آف وزڈم (man of wisdom)بناتی ہے، اور جو آدمی مین آف وزڈم ہو، وہی آدمی جانتاہے کہ سوچنے کے وقت وہ کیا سوچے اور بولنے کے وقت وہ کیا بولے۔
واپس اوپر جائیں

پہلے اپنی اصلاح

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ آپ غیر مسلموں میں دعوت الی اللہ کی تحریک چلارہے ہیں، لیکن پہلا کام خود اپنی اصلاح ہے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کام کریں۔ جب مسلمانوں کی اصلاح ہوجائے گی تو اس کے بعد غیر مسلموں میںدعوت کا کام اپنے آپ ہونے لگے گا۔
میںنے کہا کہ یہ نظریہ آپ نے خود اپنے ذہن سے بنایا ہے، یا آپ نے اس کو قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم کیا ہے۔ وہ اپنے اِس نظریے کے حق میں قرآن اور حدیث سے کوئی حوالہ نہ دے سکے۔ میںنے کہا کہ جو بات قرآن اورحدیث میںنہ کہی گئی ہو، اس کو اپنی طرف سے دین کا نام دینا بدعت ہے۔ ’’پہلے اپنی اصلاح‘‘ کا نظریہ بھی اِسی قسم کی ایک بدعت ہے۔ میںنے کہا کہ دعوتی کام کے لیےاصحابِ رسول ہمارے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوںنے مسلسل دعوتی عمل کے ذریعے اسلام کو ہر طرف پھیلایا۔ آپ اصحابِ رسول کی زندگی کا مطالعہ کریں، تو آپ پائیں گے کہ ہر صحابی احساسِ بے عملی میںمبتلا تھا، نہ کہ احساسِ عمل میں۔ ہر صحابی اپنے آپ کو غیر اصلاح یافتہ سمجھتا تھا، اِس کے باوجود اُس نے دعوتِ عام کا کام کیا۔
دعوت کی شرط اگر یہ ہو کہ داعی اپنے آپ کو اصلاح یافتہ سمجھنے لگے، تو کبھی دعوت کا کام نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ سچا مومن ہمیشہ اِس احساس میںمبتلا رہتا ہے کہ میں اپنی اصلاح نہ کرسکا۔ جو آدمی اپنے آپ کو اصلاح یافتہ سمجھ لے، وہ دعوت کے لیے سب سے زیادہ نااہل (incompetent) انسان بن جاتا ہے۔ اِسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ دعوت ہر حال میں دی جائے گی، خواہ مسلمان اصلاح یافتہ ہوں، یا اصلاح یافتہ نہ ہوں۔ اصلاح اور دعوت دونوں کام ایک ساتھ کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی کام نہ مقدم ہے اور نہ مؤخر۔حقیقت یہ ہے کہ اپنی اصلاح بھی اُسی وقت ہوتی ہے، جب کہ آدمی دوسروں کی اصلاح کی کوشش میں لگا ہوا ہو۔ اپنی اصلاح کوئی ایسا کام نہیں جو خلا میں انجام پائے۔
واپس اوپر جائیں

ای- اتصال

21 مئی 2008 کو ماہ نامہ الرسالہ کے ایک قاری کا ٹیلی فون آیا۔ انھوںنے کہا کہ میں برسوں سے الرسالہ کا مطالعہ کرتا ہوں اور اُس کے پیغام سے پوری طرح اتفاق رکھتا ہوں۔ ایک مسئلہ میرے سامنے آگیا ہے، اس میںآپ کی رہ نمائی چاہتا ہوں۔ میرے والد صاحب کا اصرار ہے کہ اِس سال میںحج کے لیے جاؤں۔ وہ میرے سفرِ حج کی پوری رقم دینے کے لیے تیار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ گھر کے دوسرے افراد سب حج کرچکے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ تم بھی میری زندگی میں حج کرلو۔ کیا معلوم میرے بعد کیا ہو۔
انھوںنے کہا: لیکن مجھے ابھی اِس پیش کش کو قبول کرنے میں تردد ہے۔ جلد ہی میرا نکاح ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اور میری اہلیہ دونوں، ایک ساتھ حج کی سعادت حاصل کریں۔ میںنے پوچھا: کیا آپ کے پاس اتنی رقم ہے کہ آپ دونوں ایک ساتھ حج کرسکیں۔ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میںنے کہا کہ پھر یہ کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے کہ آپ ایک مفروضہ بات کو لے کر ایک حقیقی پیش کش کو رد کردیں، جب کہ مستقبل کے بارے میں کوئی بھی شخص کوئی یقینی بات نہیں کہہ سکتا۔ میںنے کہا کہ زندگی کا ایک اصول یہ ہے — کوئی موقع(opportunity) ملے، تو اس کو فوراً استعمال (avail)کرو، کیوں کہ موقع بار بار نہیں آتا۔انھوںنے کہا کہ آپ کی نصیحت بالکل درست ہے اور میں ان شاء اللہ ایسا ہی کروں گا۔
موجودہ زمانے میں ایک نئی سہولت پیدا ہوئی ہے جس کو الیکٹرانک اتصال کہاجاتا ہے۔ میںسمجھتا ہوں کہ جو لوگ ماہ نامہ الرسالہ پڑھتے ہیں، اُن کو اِس سہولت کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ میرا تجربہ ہے کہ صرف الرسالہ، یا کتاب کو پڑھنا کافی نہیں ہوتا۔ ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے بعد براہِ راست ڈسکشن کیاجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ موجودہ زمانے میں براہ راست صحبت کا بدل ہے۔جدید ذرائعِ اتصال کے ذریعے صحبت کا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ الرسالہ کے قارئین کو ان جدیدذرائع سے یہ صحبت کلچر جاری کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

انعام، یا آزمائش

ایک صنعتی شہر کا واقعہ ہے۔ وہاں کے ایک مسلم نوجوان نے ٹکنکل ایجوکیشن حاصل کی ۔ اِس کے بعد ان کو مقامی طورپر ایک اچھا جاب (job)مل گیا۔ اِس درمیان ان کا ربط ایک دینی حلقے سے قائم ہوا۔ انھوںنے دینی کتابیں پڑھیں اور دینی شخصیتوں سے استفادہ کیا۔ وہ کافی متاثر ہوئے، یہاںتک کہ انھوںنے رو کر کہا — میںنے اپنی عمر کا ایک حصہ ضائع کردیا۔ کاش، یہ دینی ماحول مجھے اور پہلے مل گیا ہوتا۔
اِس کے بعد مذکورہ نوجوان کے اندر ایک تبدیلی واقع ہوئی۔ مذکورہ نوجوان کے ایک رشتے دار ایک ’’فارین‘‘ کنٹری میں رہتے تھے۔ انھوں نے ان کے لیے ہوائی جہاز کا ایک ٹکٹ بھیج دیا اور کہا کہ تم وزٹ ویزا (visitor visa) لے کر یہاں میرے پاس آجاؤ اور جاب ہنٹنگ (job hunting) کرو۔ ہوسکتا ہے، تم کو یہاں زیادہ اچھا جاب مل جائے۔ اِس کے بعد نوجوان کا ذہن بدل گیا۔ وہ پہلی فرصت میں باہر کے ملک میں جاب ہنٹنگ کے لیے چلے گئے۔
یہ کسی ایک نوجوان کی بات نہیں۔ یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام لوگوں کا حال ہے۔ بظاہر ایک آدمی دین داری کی بات کرے گا۔ وہ اسلام کو اپنی منزل بتائے گا۔ لیکن اگر اس کو کسی قسم کی مادّی ترقی (worldly progress)حاصل ہوجائے، تو اچانک وہ بدل جائے گا۔ وہ تمام باتوں کو بھلاکر مادّی ترقی ہی کو اپنا سب کچھ بنا لے گا۔
ایسے کسی آدمی کے سامنے جب کوئی مادّی ترقی کا موقع آتا ہے، تو وہ اس کے لیے کوئی انعام کی بات نہیں ہوتی، بلکہ وہ تمام تر اس کی آزمائش (test) کے لیے ہوتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ تمام لوگ اُس کو انعام کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں، تمام لوگ اِس خدائی آزمائش میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ دین داری کسی رُٹین(routine) کا نام نہیں، دین دار وہ ہے جو اِس جانچ (test)میں پورا اُترے— اپنے دین کی حفاظت کیجئے، ورنہ شیطان کسی بھی وقت اس کو اچک لے جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

نظری تبلیغ، عملی اقدام

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:إِذَا رَأَیْتُمْ أَمْرًا لَا تَسْتَطِیعُونَ تَغْیِیرَہُ، فَاصْبِرُوا حَتَّى یَکُونَ اللہُ ہُوَ الَّذِی یُغَیِّرُہُ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7685)۔ یعنی اگر تم ایک ایسا معاملہ دیکھو، جس کو بدلنے کی طاقت تم کو نہ ہو تو صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ خود اس میں کوئی تبدیلی کردے۔ اس حدیث رسول میں اسلام کا طریق عمل بتایا گیا ہے۔ اسلام کا طریقہ نظری تبلیغ اور عملی اقدام میں فرق کرتا ہے۔ اسلام کا طریقہ یہ ہےکہ ممکن کے درجے میں پر امن طریقے سے تبلیغ کا کام کیا جائے۔ خود اپنی طرف سے ہر گز کوئی عملی ٹکراؤ نہ شروع کیا جائے۔ اسی اسلامی اصول کا نام صبرہے۔ مومن کے لیے فرض ہے کہ وہ ایک خود ساختہ عذر لے کرموجود اتھاریٹی کے ساتھ ٹکراؤ سے اپنا کام شروع نہ کرے۔
تحریک کا ایک مرحلہ عملی تبدیلی ہے۔ مگر عملی تبدیلی کے لیے کوئی اقدام صرف اس وقت کیا جائے گا، جب کہ حالات میں کوئی ایسا واضح فرق واقع ہو، جو بتائے کہ اب اگر عملی اقدام کیا گیا تو وہ مثبت (positive) ریزلٹ کا سبب بن سکتا ہے۔ گویا کہ آدمی اگر کسی چیز کو حق سمجھے تو وہ صرف پرامن طور پر نظری تبلیغ کرسکتا ہے، لیکن عملی اقدام کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ آدمی کو اس کااپنا اقدام بطور خود درست نظر آتا ہو۔ عملی اقدام کی لازمی شرط ہے کہ وہ باعتبار نتیجہ مفید ثابت ہوسکتا ہو۔ جس عملی اقدام سے مثبت نتیجہ نکلنے والا نہ ہو، وہ اقدام اسلام کے مطابق ہرگز جائز نہیں۔
اس حدیث میں تبدیلی کو اللہ کی طرف منسوب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ خود آکر حالات کو بدل دے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فطری حالات کے مطابق خود اس میں تبدیلی واقع ہوجائے۔ فطری حالات کے مطابق تبدیلی کا واقع ہونا، اس بات کا اشارہ ہے کہ اب درست طور پر وہ وقت آگیا ہے، جب کہ اپنے مقصد کی طرف عملی اقدام کیا جائے۔ نظری تبلیغ میں، پہنچانا معیار ہے، اور عملی اقدام میں، مثبت نتیجہ کا نکلنا۔
واپس اوپر جائیں

ایک عام غلطی

مصر کی الاخوان المسلمون کے لیڈر ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے پانچویں منتخب صدر تھے۔ وہ یکم جولائی2012 کو مصر کے صدر منتخب ہوئے، تاہم ایک سال مکمل ہونے سے پہلے ہی پورے ملک میں ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے، جس کے بعد جولائی 2013 میں مصری افواج نے انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا ۔ بوقتِ تحریر (10 جولائی 2018)و ہ مصر کی جیل میں ہیں۔ بحیثیتِ صدر انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا: أصبت أحیانا وأخطأت أحیانا أخرى (Sky News Arabia, published on June 26, 2013) ۔یعنی میں نے کبھی درست کام کیا، اور کبھی میں نے غلطی کی۔یہ تقریر ابھی بھی یو ٹیوب پر موجود ہے۔
یہ غلطی کیا تھی، جو ان کے زوال کا سبب بنی ۔ یہ در اصل کچھ ایسے اقدامات تھے، جو مصری فوج کے مفاد (interest) کے خلاف تھے۔ مثلاً سوئز کنال کی توسیع کے بارے میں فوجی حکومت کے دور میں کچھ کمپنیوں کو ٹھیکے دیے گئے تھے۔ ان ٹھیکوں کو ڈاکٹر مرسی نے قابلِ اعتراض سمجھا۔ چنانچہ انھوں نے ٹھیکوں کی منسوخی کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر مرسی اور فوجیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ جس ;کا نتیجہ یہ ہوا کہ فوج نے قبل از وقت ان کی صدارت کا خاتمہ کردیا۔
یہ غلطی کی وہ قسم ہے، جو اکثر اربابِ اقتدار کرتے ہیں۔ پولیٹکل اقتدار میں آنے سے پہلے، ان کا ایک ایجنڈا ہوتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ فوراًاپنے ایجنڈے کو عمل میں لانا شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ طریقہ حکمت کے خلاف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اس معاملے میں جلدی نہ کی جائے۔ کچھ نازک چیزوں کو ناتمام ایجنڈا (unfinished agenda) کے طور پر چھوڑ دیا جائے۔ مگر اکثر اربابِ اقتدار اس معاملے میں غلطی کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حالات خراب ہوجاتے ہیں، اور قبل از وقت ان کو اقتدار سے محروم ہوجانا پڑتا ہے، اور پھر ایک فریق دوسرے فریق کو الزام دینا شروع کردیتا ہے۔ حالاں کہ قرآن کی ایک آیت (الحج22:28) میں اس معاملے کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ وہ رہنمائی کیا ہے۔ اس کی ایک مثال پیغمبر اسلام نے عملاً پیش کی ہے۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو 8 ہجری میں مکہ کا اقتدار ملا۔ اس وقت کعبہ کی عمارت میں ایک مسئلہ موجود تھا۔ وہ یہ کہ کعبہ کاتقریبا ًدو تہائی حصہ مسقف (covered)تھا،یہ کعبہ کی موجودہ عمارت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک تہائی حصہ غیر مسقف (non-covered)پڑا ہوا تھا، جس کو حطیم کہا جاتا ہے ۔ حضرت عائشہ نے غیر مسقف حصے کو بھی مسقف بنانے کا مشورہ دیا، لیکن رسول اللہ نےایسا نہیں کیا، اور غیر مسقف حصے کو بدستور ایز اٹ از (as it is) چھوڑ دیاکیوں کہ ایسا کرنا اہل مکہ کو ناپسند ہو سکتا تھا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1584)۔
کعبہ کی عمارت کا یہ معاملہ رسول اللہ کی ایک حکیمانہ سنت کو بتاتاہے۔ وہ بتاتا ہے کہ زندگی میں کچھ چیزوں کو ناتمام ایجنڈے کے طور پر چھوڑنا پڑتا ہے، خواہ آدمی کو مکمل اقتدار ملا ہوا ہو۔یہ اجتماعی زندگی کی ایک اہم حکمت ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ لوگوں نے اس واقعے سے سبق نہیں لیا۔ ہر آدمی اقتدار پانے کے بعد اپنے ایجنڈے کو فوراً مکمل کرنا شروع کردیتا ہے۔ اگرچہ اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو مکمل تو نہیں کرپاتا، البتہ اس کے اقتدار کا قبل از وقت خاتمہ ہوجاتا ہے۔
اس کی مثالیں تاریخ میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک مثال پاکستان کی تاریخ میں ہے۔ 1947 میں جب پاکستان بنا ، تو شیخ مجیب الرحمن مسلم لیگ کی جماعت میں شامل تھے۔ لیکن محمد علی جناح نے 21 مارچ 1948 کو یہ اعلان کیا کہ اردو پورے پاکستان (بشمول ایسٹ پاکستان)کی قومی زبان ہوگی۔ شیخ مجیب الرحمن اپنے بنگالی ذوق کے مطابق اس اعلان کے سخت خلاف ہوگئے، وہ مسلم لیگ سے الگ ہوگئے، اور ایک علاحدہ ملک کی تحریک چلائی، جو آخر کار اس پر منتج ہوئی کہ مشرقی پاکستان ، پاکستان سے ٹوٹ کر نیا ملک (بنگلہ دیش) بن گیا۔
ناتمام ایجنڈے پر راضی ہونا، ایک پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)ہے۔ اجتماعی زندگی کی یہ ایک اہم حکمت ہے۔ اس حکمت کے بغیر کوئی شخص بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ کعبہ میں حطیم کی مثال سے سمجھا جاسکتاہے۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کی آواز

کمیونسٹ حکومت کے آخری زمانے میں میںنے سوویت یونین (روس) کا سفر کیا تھا۔ اُس وقت میخائل گوربا چیف (Mikhail Gorbachev) وہاں کے صدر تھے۔ اُس زمانے میں وہاںآزادی کا دور شروع ہوچکا تھا۔ میںنے دیکھا کہ وہاں کے چرچ اور مسجدیں جو پہلے ویران رہا کرتی تھیں، اب وہاں مذہبی سرگرمی دکھائی دیتی ہے۔ میںنے اپنے گائڈ سے کہا کہ ہم نے پہلے سنا تھا کہ روس میں مذہب مر چکا ہے، مگر یہاں تو وہ زندہ حالت میں دکھائی دیتا ہے۔ گائڈ نے جواب دیا کہ مذہب یہاں ہمیشہ زندہ تھا۔ جو فرق ہوا ہے، وہ صرف یہ کہ پہلے یہاں مذہب اَنڈر گراؤنڈ (underground)تھا، اور اب وہ سامنے آگیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا اور مذہب کا تصور انسان کی فطرت میں آخری حدتک پیوست ہے۔ کوئی شخص اگر اپنی زبان سے خدا کا انکار کرے، تب بھی خدا کا شعور اس کے دل کے اندر پوری طرح موجود رہتا ہے۔ سوویت یونین کے سابق صدر میخائل گوربا چیف پہلے ایک ملحد کمیونسٹ تھے، مگر اب ان کی دبی ہوئی فطرت جاگ اٹھی ہے۔ انھوںنے خود اِس کا اعتراف کیا ہے۔
برٹش نیوز پیپر ڈیلی ٹیلی گراف (The Daily Telegraph) کی ایک رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (20 مارچ2008 ) میں چھپی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ گورباچیف اٹلی کے ایک چرچ میں پہنچے اور وہاں انھوںنے اپنے عقیدے کے مطابق، خدا کی عبادت کی:
Gorbachev, who had earlier publicly pronounced himself as an atheist, acknowledged his Christian faith while paying a surprise visit to pray at the tomb of St Francis of Assisi in Italy (p. 22).
خدا کا شعور انسان کی فطرت میںاِس طرح شامل ہے کہ وہ کسی بھی حال میں اُس سے جدا نہیں ہوتا۔ اِس معاملے میں منکرین اور ملحدین کا بھی کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک تقابل

قرآن میں انسان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ غیب کی بات کو نہیں جانتا:قُلْ لَا أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّہُ وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوءُ (7:188)۔ یعنی کہو، میں مالک نہیں اپنی جان کے بھلے کا اور نہ برے کا مگر جو اللہ چاہے۔ اور اگر میں غیب کو جانتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا۔
یہ انسان کا معاملہ ہے۔ انسان خواہ وہ عام انسان ہو یا پیغمبر ،وہ غیب (unseen) کو نہیں جانتا۔ یعنی کل کیا ہوگا، اس سے انسان بے خبر ہوتا ہے۔ انسان آج کے علم کے تحت ایک کام کرتا ہے، لیکن کل کیا ہونے والا ہے، اس سے انسان مکمل طو رپر بے خبر ہوتا ہے۔ انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ آئندہ آنے والے نقصان سے خود کو بچالے۔ اس کے مقابلے میں اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ علام الغیوب ہے۔ انسان اور خدا کے درمیان اس فرق سے ایک تقابل کا اصول ملتا ہے۔ یعنی وبضدہا تعرف الأشیاء(in comparison that you understand)۔
انسان کا کوئی کام خالی ازنقص(free from defect) نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، اللہ رب العالمین کی تخلیق کے جو نمونے ہمارے سامنے ہیں، وہ کامل معنوں میں نقص سے خالی ہیں۔ انسان کی کوئی بھی انڈسٹری نقص (defect) سے پاک نہیں ہوتی، لیکن اللہ رب العالمین کا بنایا ہوا، شمسی نظام (solar system) مکمل طو رپر زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ (zero-defect management) کا نمونہ ہے۔ یہ فرق خالق کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
اس لیے بیسویں صدی میں ترقی یافتہ ملکوں نے بہت زیادہ کوشش کی کہ وہ اپنی انڈسٹری میں زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم کریں، جیسا کہ وہ فطرت (nature) کی دنیا میں عملاً قائم ہے۔ مگر اس معاملے میں ان کو مکمل ناکامی ہوئی، اور آخر میں یہ مان لیا گیا کہ انسان کا بنایا ہوا کوئی نظام زیرو ڈیفکٹ نظام نہیں ہوسکتا۔ یہ فرق خالق کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
واپس اوپر جائیں

فریم ورک کا مسئلہ

ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مصنف کی کتاب ہے جس کا نام ہے:
A Modern Appraoch to Islam by Dr A A Faizi (1899-1981)
میں نے اس کتاب کو مکمل طو رپر پڑھا ہے۔ اس پر ایک تبصرہ بھی لکھا ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، اس کتاب میں مسئلہ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ موجودہ زمانے میں اسلام کا اصل مسئلہ ماڈرن اپروچ کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ سائنٹفک انقلاب کے بعد اسلوب کے اعتبار سےفریم ورک (framework) بدل گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اسلام کی دعوت کو جدید فریم ورک کے اعتبار سے پیش کیا جائے۔ مثلا موجودہ زمانے میں ادبی اسلوب ایک متروک اسلوب بن چکا ہے۔ اب دنیا میں سائنٹفک اسلوب کا رواج ہے۔ تبدیلیٔ اسلوب کے سلسلہ میں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو حسب ذیل کتاب:
The Great Intellectual Revolution by John Frederick West
(J. Murray, 1965, pp.132)
اس کتاب کاایک چیپٹرہے :تمثیلی اسلوب کا خاتمہ (The Death of Metaphor)۔ یہ چیپٹر اس موضوع پر بحث کرتا ہے۔ تمثیلی اسلوب (metaphor) میں ادبی اسلوب بھی شامل ہے۔ یہاں اس اسلوب کی ایک مثال درج کی جاتی ہے۔ ایک معروف مسلمان عالم نے اپنی سیرت کی کتاب کے دیباچہ میں یہ بتایا ہے کہ اسلام عرب میں کیوں آیا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں: معمورۂ عالم کے صفحےنقشہائے باطل سے ڈھک چکے تھے۔ اب ایک سادہ ، بے رنگ ، ہر قسم کے نقش و نگار سے معرّا ورق درکار تھا، جس پر طغرائے حق لکھا جائے۔
یہ ادبی اسلوب کی مثال تھی۔ اب ماڈرن سائنٹفک فریم ورک کے اعتبار سے یہ کہاجائے گا کہ یہ پوری عبارت ادبی اسلوب میں ہے۔ اس سے متعین (specific) انداز میں معلوم نہیں ہوتا کہ جو واقعہ ہوا، وہ کیا تھا۔ اس کے برعکس، اس واقعہ کو سائنٹفک اسلوب میں کہا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ اسلام کے ظہور کا معاملہ دو فیز (phase) سے تعلق رکھتا ہے۔ پیغمبر ابراہیم نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو اس صحرائی مقام پر بسایا جہاں اب مکہ واقع ہے۔ یہ گویا ڈزرٹ تھرپی (desert therapy) کا معاملہ تھا۔ اس صحرائی ماحول میں دوہزار سالہ توالد وتناسل کے ذریعہ ایک نسل بنو اسماعیل تیار ہوئی، جو مشرکانہ ماحول کی کنڈیشننگ سے پاک تھی۔ یہ ڈی کنڈیشنڈ قوم (deconditioned nation) بڑی حد تک اپنی فطرت پر قائم تھی۔ اس ڈی کنڈیشنڈ نسل میں پیغمبرِ اسلام نے اپنا مشن شروع کیا۔ پیغمبر ابراہیم نے اس مشن کو باعتبار تربیت شروع کیا، اور پیغمبرِ اسلام نے اس مشن کو عملی اعتبار سے تکمیل تک پہنچایا۔
مذکورہ عالم نے اس قوم کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ ایک ادبی اسلوب تھا، اور ادبی اسلوب جدید فریم ورک کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس، اوپر جو لکھا گیا، وہ جدید فریم ورک کے اسلوب کی مثال ہے۔ ہمارے مصنفین کی کتابوں میں اصل کمی یہی ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، ان میں سے کوئی کتاب ایسی نہیں ہے، جو جدید فریم ورک کے مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتابیں عصری ذہن کو ایڈریس نہیں کرتیں۔ ان کتابوں میں عصری ذہن کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملتا۔ اور جب پڑھنے والے کو ٹیک اوے نہ ملے تو ایسی تحریروں کو پڑھنا، اور نہ پڑھنا برابر ہوجاتا ہے۔
مسلم مصنفین کی جو کتابیں ہمارے کتب خانوں میں موجود ہیں، ان کا بڑا حصہ اسی قسم کا ہے جو جدید علمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت
میں نے ایک امریکی پروفیسر سے پوچھا کہ امریکا کی ترقی کا راز کیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ ڈسینٹ (dissent) کا احترام کرنا۔ اس نے کہا کہ ہم ڈسینٹ (اختلاف) کو بُرا نہیں سمجھتے۔ ہم ڈسینٹ کو اُس وقت تک برداشت کرتے ہیں جب تک وہ تشدد نہ بنے۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

ایک عالم دین اپنے خط میں لکھتے ہیں: میں ابھی سر ی لنکا کے سفر سے واپس ہوا ہوں۔ اس دوران وہاں کےدینی مدارس کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔میں نے یہ دیکھا کہ سری لنکا کےدینی مدارس کے نصاب میں شاہ ولی اللہ صاحب کی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ شامل نہیں ہے۔مگر ہندوستان کے مدارس میں اس کتاب کو اہمیت کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔واپسی کے بعد اس کتاب کے تعلق سے میری گفتگو ہندستان کے ایک بزرگ عالم دین سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اس تعلق سے میری رائے یہ ہے کہ حجۃ اللہ البالغۃ کو ہندوستان کے مدارس میں شاہ صاحب کی عقیدت میں پڑھایا جاتا ہے۔ میں ذاتی طور پر شاہ صاحب کی اُس توجیہہ کو زیادہ دلچسپی کے ساتھ طلبہ کو پڑھاتا ہوں، جو انھوں نے امت میں موجود اختلافات کے تعلق سے بیان کی ہیں، مثلاً مقلدین اور غیر مقلدین کے مسائل ۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، تو شاہ صاحب نے دونوں کے درمیان اعتدال قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے مجھے یہ نقطۂ نظر پسند ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ خیال کہ اسرارِ شریعت سے لوگوں کو واقف کرایا جائے،تو اسرارِ شریعت میں انھوں نے تکلف کیا ہے، مجھے اس سے زیادہ اتفاق نہیں ۔ اس باب میں میری رائے یہ ہے کہ یہ ناممکن بات ہے کہ آپ ہر ایک حکم کی علت پیش کریں، جیسے پانچ وقت کی نمازوں میں رکعات کیوں مختلف ہیں ، سری اور جہری نمازیں کیوں ہیں، وغیرہ۔ ایسی تمام باتوں سے پچاس فیصد ہی اتفاق کیا جاسکتا ہے، مجھے ذاتی طور پر ان باتوں سے دلچسپی نہیں ہے۔ (ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
الرسالہ: شاہ ولی اللہ صاحب کی کتاب کا ٹائٹل ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ قرآن کی ایک آیت سے لیا گیا ہے۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں: قُلْ فَلِلَّہِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَہَدَاکُمْ أَجْمَعِینَ (6:149) ۔ یعنی کہو کہ حجت بالغہ تو اللہ کی ہے، اور اگر اللہ چاہتا تو وہ تم سب کو ہدایت دے دیتا۔ الحجۃ البالغۃ سے مراد کس قسم کے دلائل ہیں۔ قرآن کے دوسرے مقامات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد آیات ِکون ہیں، یعنی زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی نشانیاں۔ یہ آیاتِ کون وہی ہیں، جن کو موجودہ زمانے میں سائنسی دلائل کہا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اپنی کتاب کا ٹائٹل تو قرآن کی ایک آیت سےلیا ، لیکن ان کی پوری کتاب میں کہیں بھی دلائلِ کون کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ اس لحاظ سے اس کتاب کا ٹائٹل درست ٹائٹل نہیں۔ اس کا ٹائٹل غالباً یہ ہونا چاہیے کہ’’ احکامِ دین کے اسرار پر روایتی دلائل‘‘۔ مزید یہ کہ شاہ ولی اللہ کے بعد ان کے کسی شاگرد نے اس کتاب میں دلائلِ کون کا اضافہ نہیں کیا۔ کتاب اپنی ابتدائی صورت میں بدستور پڑھی اور پڑھائی جارہی ہے۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت
عام طورپر لوگ چیزوں کو فیس ویلو (face value) پر لیتے ہیں۔ وہ چیزوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ نہیں سمجھ پاتے۔ مثلاً امریکا کے ایک سفر میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی، جو باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں۔ جدید اصطلاح میں ایسے لوگوں کو امیگرنٹ (immigrant) کہاجاتا ہے۔ یہ امیگرینٹ لوگ زیادہ تر تعلیم یافتہ تھے۔ یہاںآکر وہ یہاں کے مختلف ترقیاتی شعبوں میں سروس کرنے لگے۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے انھوںنے کہا کہ امریکا کو امریکیوں نے ترقی نہیں دی ہے، بلکہ امیگرینٹ لوگوں نے ترقی دی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو یہ امیگرنٹ لوگ خود اپنے ملک کو کیوں ترقی نہ دے سکے۔ میںنے کہا کہ اصل یہ ہے کہ امریکا میں میرٹ (merit) کا اصول ہے۔ یہ اصول لوگوں کے اندر عمل کا محرک (incentive) پیدا کرتا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ کام کرتے ہیں، تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ رٹرن (return) پاسکیں۔ ایسی حالت میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ امریکا کو مسٹر امیگرنٹ (Mr. Immigrant) نے ترقی نہیں دی، بلکہ امریکا کو مسٹر انسینٹیو (Mr. Incentive) نے ترقی دی۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت
واپس اوپر جائیں

اختلاط کی اہمیت

ایک حدیثِ رسو ل مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:الْمُؤْمِنُ الَّذِی یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلَى أَذَاہُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الَّذِی لَا یُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلَى أَذَاہُمْ (مسند احمد، حدیث نمبر23098)۔ یعنی وہ مومن جو لوگوں سے میل جول رکھتا ہے، اور ان کی اذیت پر صبر کرتا ہے، اس کا اجر اس سے زیادہ ہے جو لوگوں سے میل جول نہیں رکھتا، اور ان کی اذیت پر صبر نہیں کرتا۔اس حدیث میں اختلاط کا مطلب میل جول (interaction) ہے۔ ایک شارحِ حدیث نے اس کی شرح کرتے ہوئے کہا کہ إن الخلطة أفضل من العزلة (تحفۃ الاحوذی، جلد7، صفحہ 177)۔ یعنی تنہائی کی زندگی کے مقابلے میں میل جول کی زندگی زیادہ افضل ہے۔ اختلاط کی زندگی کا افضل ہونا صرف اخلاق کے معنی میں نہیں ہے۔ اس سے زیادہ وہ پرسنالٹی کے ڈیولپمنٹ کے معنی میں ہے۔
یہ فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ انسان کے اندر سنجیدگی ہو۔ اس کے اندر سوچنے اور نصیحت لینے کا مزاج ہو۔تو ہر اختلاط اس کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔لوگوں سے انٹرایکشن کے درمیان اس کو طرح طرح کے تجربات پیش آتے ہیں۔وہ لوگوں سے نئی نئی باتیں سیکھتا ہے۔ اختلاط کے دوران اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی فکری اصلاح کرے۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ لوگوں کی معلومات سے اپنے علم میں اضافہ کرے۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی فکری محدودیت کو عالمی فکر میں تبدیل کرسکے۔ انٹرایکشن کا یہ فائدہ اس انسان کو ملتا ہے جس کے اندر سیکھنے کا مزاج (spirit of learning) ہو۔ جوباتوں کو غیر متعصبانہ انداز میں دیکھ سکے۔ وہ جو کچھ سنے اس کوآبجکٹیو (objective) انداز میں لے، نہ کہ سبجکٹیو (subjective) انداز میں ۔ اس کے اندر اعتراف کا مادہ ہو۔ وہ کسی رائے کو سچائی کے اعتبار سے دیکھے، نہ یہ کہ وہ کس شخص کی رائے ہے۔ وہ پورے معنوں میں نفسِ مطمئنہ (complex-free soul) کی حیثیت رکھتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

خروج کا مسئلہ

خروج کا لفظی مطلب ہے نکلنا (going out)۔ اصطلاحی طور پر اس کا مطلب ہے سیاسی بغاوت۔ یعنی کسی قائم شدہ حکومت کے اقتدار کو نہ ماننا، اور اس کو بدلنے کی کوشش کرنا، پولیٹکل اپوزیشن کی تحریک چلانا۔ خروج یا بغاوت اسلام میں حرام ہے، اور اس پر تمام علمائے امت کا اجماع ہے۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد مسلم دنیا میں شوری پر مبنی خلافت شروع ہوئی۔ یہ طرزِ حکومت تقریباً تیس سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد معاویہ بن ابو سفیان (وفات 60:)کا دور آیا۔
امیر معاویہ، علی بن ابی طالب (وفات 40:ھ)کے بعد امیر المومنین بنے۔ امیر معاویہ کو دَاھِیَۃُ الْعَرَبْکہا جاتا تھا، یعنی اعلیٰ فراست کا انسان۔امیر معاویہ کو اموی سلطنت (Umayyad Empire) کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے پہلی بار مبنی بر شوریٰ خلافت کے بجائے مبنی بر خاندان حکومت (dynasty)کا نظام قائم کیا۔کچھ لوگ اس کو ملوکیت کا دور کہتے ہیں، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس کے بعداسلامی دنیا میں سیاسی استحکام(political stability) کا دور آیا، جو نشیب و فراز کے ساتھ برابر جاری رہا، اور اب بھی عرب ریاستوں میں جاری ہے۔
سمجھاجاتا ہے کہ امیر معاویہ اسلامی دور کے وہ شخص ہیں، جنھوں نے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کیا۔ مگر اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کو اسلام کی سیاسی تاریخ میں ٹرینڈ سیٹر (trendsetter) کا درجہ حاصل ہوا۔ امیر معاویہ نے شورائی خلافت کو خاندانی حکومت (dynasty) میں تبدیل کیا تھا، اور تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے بعد یہی طرز حکومت بعد کے پورے اسلامی دور میں باقی رہا۔ اس اعتبار سے امیرمعاویہ کو اسلامی تاریخ میں ٹرینڈ سیٹر کا درجہ حاصل ہے۔
اس معاملے کا زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ امیر معاویہ کے اس’’اجتہاد‘‘ کو پوری امت نے تسلیم کرلیا۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین ، فقہاء، اور تمام علمائے متقدمین نے اس کو بلااختلاف مان لیا، حتی کہ ان کے اس اجتہاد کو اجماع امت کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس معاملے میں علمائے امت کی نمائندگی کرتے ہوئےشارح مشکاۃ المصابیح شرف الدین الحسین بن عبد اللہ الطیبی(وفات 743:ھ) اس موضوع کے تحت کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأما الخروج علیہم وتنازعہم فمحرم بإجماع المسلمین، وإن کانوا فسقة ظالمین. وأجمع أہل السنة على أن السلطان لا ینعزل بالفسق؛ لتہیج الفتن فی عزلہ وإراقة الدماء وتفرق ذات البین، فتکون المفسدة فی عزلہ أکثر منہا فی بقائہ (الکاشف عن حقائق السنن، 8/2560)۔ یعنی اور جہاں تک خروج (بغاوت) کی بات ہے، اور ان سے نزاع کرنا، وہ حرام ہے، اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہو، اور اس پر اہل سنت نے اجماع کیا ہے کہ سلطان کو فسق کی بنا پر معزول نہیں کیا جائے گا۔ کیوں کہ اس کی معزولیت کی وجہ سے فتنے اٹھتے ہیں، اور خون بہتا ہے، اور( مسلمانوں میں)باہمی اختلاف پیدا ہوتا ہے، تو اس کی معزولیت پر ہونے والا نقصان اس کے باقی رہنے سے زیادہ ہے۔
علمائے امت کا یہ اجماع محض اتفاق کے طور پر نہیں ہے، بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر نہایت صراحت کے ساتھ پیشگی طور پر اس کا حکم دیا تھا۔ حدیث کی کتابوں میں کتاب الفتن میں اس طرح کی روایتیں کثرت سے دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں تین روایتیں نقل کی جاتی ہیں:تَسْمَعُ وَتُطِیعُ لِلْأَمِیرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَہْرُکَ، وَأُخِذَ مَالُکَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1847)۔ یعنی آپ نے کہا کہ سنو اور اطاعت کرو، خواہ وہ تمھاری پیٹھ پر مارے، اور تمھارا مال چھین لے، سنو اور اطاعت کرو۔
ایک دوسری روایت یہ ہے:عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ:قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِی أَثَرَةً وَأُمُورًا تُنْکِرُونَہَا، قَالُوا:فَمَا تَأْمُرُنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052)۔ یعنی عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہم لوگوں سے کہا کہ تم میرے بعد عنقریب ترجیح (preference)دیکھوگے، اور کچھ ایسے امور جن کو تم ناپسند کرو گے، لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول، آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے کہا: ان کو ان کا حق ادا کرو، اور تم اپنا حق اللہ سے مانگو۔
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:مَنْ رَأَى مِنْ أَمِیرِہِ شَیْئًا یَکْرَہُہُ فَلْیَصْبِرْ عَلَیْہِ فَإِنَّہُ مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِیتَةً جَاہِلِیَّةً (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7054)۔ یعنی آپ نے کہا کہ جو اپنے امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو، تو وہ اس پر صبر کرے، کیوں کہ جو جماعت سے ایک بالشت کے برابر بھی جدا ہوا، اور اسی حال میں وہ مرگیا، تووہ جاہلیت کی موت مرا۔
اس موضوع پر بعض علماء کا اختلاف نقل کیا گیا ہے۔ مگر ا س قسم کا اختلاف بلاشبہ ناقابل اعتبار ہے۔ اس لیے کہ اس معاملے میں رسول اللہ کی اتنی زیادہ کھلی کھلی ہدایات موجود ہیں۔ اس کے بعد کسی کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ وہ کوئی خود ساختہ عذر لے کر اس سے اختلاف کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا اختلاف بداہۃً ہی قابل رد ہے:
prima facie it stands rejected
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح احادیث کےمطابق، اس مسئلے پر امت کا اجماع مسلسل طور پر جاری رہا۔ بیسویں صدی میں پہلی بار بعض مسلم رہنما مثلاً پاکستان کے سید ابو الاعلیٰ مودودی (وفات1979:) اور مصر کے سید قطب(وفات 1966:)نے مبینہ طور پر اس معاملے میں اختلافی موقف اختیار کیا ہے۔ پاکستان میں سید ابو الاعلیٰ مودودی نے منتخب صدر جنرل ایوب کے خلاف، اور مصر میں سید قطب نے سابق صدر جمال عبد الناصر کے خلاف سیاسی اپوزیشن کے تحریکیں چلائیں۔ اس قسم کا اپوزیشن بلاشبہ وہی چیز تھا، جس کو خروج یا بغاوت کہا جاتا ہے۔ ان حضرات کا یہ فعل بلاشبہ شرعی اعتبار سے غلط تھا۔ اس معاملے میںکوئی بھی عذر (excuse) ایک ایسے عمل کے لیے وجہِ جواز نہیں بن سکتا، جس کو خود پیغمبرِ اسلام نے حرام کا درجہ دیا ہو۔
اس معاملے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی اور سید قطب ، اور ان کے رفقا اور مویدین کو وہی کرنا چاہیے تھا، جو رسول اللہ کے بعد امت کے تمام اسلاف و اخلاف نے اختیارکیا۔ یعنی پولیٹکل دائرے کو چھوڑ کر نان پولیٹکل دائرے میں اپنی کوششوں کو صرف کرنا۔ مثلاً رسول اللہ کے بعد کے زمانے میں مسلم حکمرانوں کے اندر وہ تمام بگاڑ پوری طرح آچکا تھا، جس کے حوالے سے پاکستان اور مصر کے مسلم رہنماؤں نے بڑی بڑی سیاسی تحریکیں چلائی تھیں۔ رسول اللہ کے بعد علمائے امت نے صرف یہ کیا کہ سیاسی دائرے سے باہر رہ کر غیر سیاسی دائرے میں اپنی تمام سرگرمیاں محدود کردیں۔ پاکستان اور مصر کے مسلم رہنماؤں پر لازم تھا کہ وہ یہی طریقہ اختیار کریں۔
مثال کے طور پر مصر میں وہاں کے حکمراں جنرل جمال عبد الناصر نے سید قطب کو، جو کہ سیاسی اپوزیشن کے لیڈر تھے، یہ پیش کش کی کہ وہ مصر میں تعلیم کی وزارت سنبھالیں، اور ملک کے نوجوانوں کو اسلامی انداز میں تربیت دیں۔ مگر سید قطب نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح 1962 میں پاکستان کے سابق صدر محمد ایوب خاں نے سید ابوالاعلیٰ مودوی کو یہ پیش کش کی کہ ان کو بہاول پور یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا جائے گا، اور اس کا پورا چارج بلاشرط ان کو دے دیا جائے گا۔ یہاں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ نوجوانوں کی اپنے نہج پر فکری تربیت کریں۔ مگر سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ دونوں صاحبان کا انکار رسول اللہ کی ہدایات اور امت کے اجماع کےواضح طور پر خلاف تھا۔ اس معاملے میں ان حضرات کا کوئی بھی عذر ہرگز قابل قبول نہیں۔
رسول اللہ نے حکمرانوں سے خروج کے خلاف جو واضح ہدایات دی تھی، اور جس پر آپ کے بعد تمام علمائے امت نے اجماع کرلیا، وہ کوئی سادہ بات نہ تھی۔ وہ آپ کی اس پیغمبرانہ حیثیت کی بنا پر تھا، جو آپ کو اللہ کی طرف سے دی گئی تھی، یعنی امت کو حکمت کی تعلیم دینا (الجمعۃ ، 62:2)۔ تجربہ بتاتا ہے کہ آپ کی یہ تعلیم اعلیٰ حکمت (wisdom) پر مبنی تھی۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں امت اس پیغمبرانہ حکمت پر قائم رہی، اس لیے مسلمان مسلسل طور پر کامیاب رہے۔ مگر بیسویں صدی میں امت کے رہنماؤں نے اس حکیمانہ تعلیم کو چھوڑ دیا، اور اپنے حکمرانوں سے سیاسی نزاع کا طریقہ اختیار کرلیا، اس کے نتیجے میں ان کی تمام کوششیں حبط اعمال (الکہف،18:105) کا شکار ہوگئیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم اعلیٰ حکمت (great wisdom) پر مبنی تھی۔ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ سیاسی معاملات میں نزاع کا طریقہ ہمیشہ بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، سیاسی معاملے میں غیر نزاعی طریقہ ہمیشہ کامیابی تک پہنچاتا ہے۔ ایسافطرت کے مسَلّم قانون کی بنا پر ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے، اور اس معاملے میں کسی کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جو ہدایت دی تھی، وہ بظاہر ایک مذہبی ہدایت تھی، لیکن وہ فطرت کے قانون پر مبنی ایک ہدایت تھی۔ اسی حقیقت کو جرمنی کے مدبر سیاست داں بسمارک (1815-1898) نے اس طرح کہا تھا کہ سیاست ممکنات کا فن ہے:
ُُُPolitics is the art of the possible, the attainable, the art of the next best.
فطرت کے قانون پر مبنی اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ دنیا میں آئڈیل وزڈم کا حصول ممکن نہیں۔ یہاں کسی کے لیےآئڈیل وزڈم کا انتخاب ممکن نہیں ہے، بلکہ یہاں ہر ایک کے لیے پریکٹکل وزڈم کا انتخاب ہے۔ کوئی شخص تصوراتی طور پر آئڈیل کو اپنا گو ل بنا سکتا ہے۔ لیکن جب معاملہ کسی نشانے کو عملی صورت میں ظہور میں لانے کا ہو تو ہر ایک کے لیے صرف پریکٹکل وزڈم کا انتخاب ممکن ہوتا ہے، نہ کہ آئڈیل وزڈم کا انتخاب۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت
امریکا میں کئی ایسے مسلمانوں سے ملاقات ہوئی جو نظامِ خلافت کی باتیں کرتے ہیں۔ میںنے کہا کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ نظامِ خلافت کی باتیں کرتے ہیں، مگر عملاً وہ نظامِ منافقت پر قائم ہوتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ وہ کیسے۔ میںنے کہا کہ اگر آپ لوگ واقعۃً نظامِ خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ امریکا کی شہریت کو ختم کردیجئے۔ کیوں کہ شہریت کے فارم پر دستخط کرنے کے بعد اِس قسم کی باتیں کرنا اگر بالاعلان ہو تو وہ ملک سے غداری ہے، اور اگر اعلان کے بغیر ہو تو وہ منافقت ہے۔
واپس اوپر جائیں

روحِ دین

ایک سفر کے دوران مجھے ایک ایسے ملک میں جانا پڑا جہاں پہلے بادشاہی نظام تھا۔ اب بادشاہ کا خاتمہ ہوگیا۔ اب وہاں صدر راج قائم ہے۔ قدیم شاہی محل کی تمام شان وشوکت باقی ہے۔ البتہ اب \اس کو شاہی محل کے بجائے صدارتی محل کہاجاتاہے۔
میںاور کانفرنس کےدوسرےشرکاء صدرِ مملکت سے ملاقات کے لیے صدارتی محل میں لے جائے گئے۔ ہم لوگ جب اس پُر ہیبت عمارت میںداخل ہوئے تو میں نے دیکھا کہ ہر آدمی کا انداز اچانک بدل گیا ہے۔ لوگوں پر خاموشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ ان کی رفتار سست پڑ گئی۔ چہرے پر سنجیدگی کے آثار ظاہر ہوگئے۔ محل کی ہر چیز کو وہ پُر رعب نظروں سے دیکھنے لگے۔
اس منظر کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ یہ دنیا جس میں ہم رہتـے ہیں، وہ بھی خدا کا ایک عظیم محل ہے۔ اس میں ہر طرف خدا کی عظمت وقدرت کے جلوے نمایاں ہیں۔ اس خدائی محل کے اندر چلتے ہوئے مزید اضافہ کے ساتھ آدمی پر وہ کیفیت طاری ہونا چاہیے جو کسی شاہی محل کے اندر چلتے ہوئے اس کے اندر طاری ہوتی ہے۔
مگر جب میں دنیا کے راستوں میں لوگوں کو چلتے ہوئے دیکھتا ہوں تو یہ محسوس کرکے میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتےہیں کہ یہاں لوگ اس طرح چل رہے ہیں گویا کہ انھیں اس عظیم حقیقت کی کوئی خبر ہی نہیں۔ لوگوں کے چہروں پر خشوع جھلکتا ہوا نظر نہیں آتا جو از روئے واقعہ ان کے چہروں پر جھلکنا چاہیے۔لوگوں کے چہروں پر مجھے احتیاط کے بجائے غفلت نظر آتی ہے۔ ان کی چال تواضع کے بجائے سرکشی کی چال معلوم ہوتی ہے۔ ان کے انداز پر ذمہ داری کے بجائے بے حسی کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ خدا کی دنیا میں چلتے ہوئے لوگ اتنا سنجیدہ بھی نظر نہیں آتے جتنا کہ کوئی شخص کسی ایوانِ صدارت یا کسی قصر شاہی میں چلتے ہوئے نظر آتا ہے۔
جن لوگوں کاحال یہ ہوکہ انسانی محل میں چلتےہوئے ان پر ہیبت طاری ہو مگر خدائی محل میں چلتےہوئے ان پر ہیبت طاری نہ ہو وہ خدا کی رحمت سے آج ہی دور ہوگئے۔
واپس اوپر جائیں

جنّت کا ٹکٹ

مغربی دنیا کے ایک سفر میں میری ملاقات ایک مسلمان سے ہوئی۔ ان کی عمر پچاس سال سے اوپر ہوچکی ـتھی۔ انھوں نے کہا: مجھ کو تو جنّت کا ٹکٹ چاہیے، مجھ کو آپ صرف یہ بتائیے کہ جنّت کا ٹکٹ کیا ہے۔
میں نے کہا کہ جنت کا کوئی ٹکٹ نہیں۔ یہ جنتی ٹکٹ کا معاملہ نہیں، یہ جنتی شخصیت کا معاملہ ہے۔ آخرت کی قیمتی جنت اس آدمی کو ملے گی جس نے اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کی تھی۔ جنت میں داخلہ کسی کو ’’ٹکٹ‘‘ کے ذریعہ نہیں ملے گا۔ جنت کی قیمت آدمی کا اپنا وجود ہے، اپنے وجود کی قیمت دے کر ہی کوئی شخص جنت کی دنیا میں اپنے لیے داخلہ پاسکتا ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت تزکیہ کرنے والوں کےلیے ہے (طہ، 20:76)۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ جنت میں داخلہ کی شرط یہ ہے کہ آدمی مزکّی شخصیت لے کر وہاں پہنچا ہو۔ یعنی وہ ایک ایسا انسان ہو جس کے اندر پاک روح بسی ہوئی ہو، جس کا دل اور دماغ آلائشوں سے پاک ہو۔ جس نے اپنے اندر ربّانی شخصیت کا باغ اگایا ہو۔
موجودہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جس کے ایک طرف کیچڑ ہے اور دوسری طرف صاف وشفاف پانی۔ آدمی چاہے تو اپنے کو کیچڑ میں گندا کرے، اور چاہےتو صاف پانی میںنہاکر صاف ستھرا بن جائے۔ جو لوگ اپنے آپ کو گندا کریں، وہ آخرت میں جہنم میں ڈال دیے جائیں گے۔ اور جو لوگ اپنے آپ کو پاک کریں، ان کو جنت کی نعمت گاہوں میں بسایا جائے گا۔
اعتراف کے موقع پر اعتراف کرنا، اپنی شخصیت کو پاک کرنا ہے۔ اس کے برعکس، اعتراف کے موقع پر بے اعترافی کا رویہ اختیار کرنا، اپنی شخصیت کو گندا کرنا۔ اسی طرح ایک موقع آتا ہے جس میں ایک شخص اعلی اخلاق کا ثبوت دیتا ہےاور دوسرا شخص پست اخلاق کا۔ ایک موقع آتا ہے جس میں ایک شخص حق تلفی کرتاہےاور دوسرا شخص حق رسانی۔ ایک موقع آتاہے جس میں ایک شخص امین ثابت ہوتا ہےاور دوسرا شخص خائن۔ ایک موقع آتا ہے جس میں ایک شخص تواضع کے راستہ پر چلتاہے اور دوسرا شخص سرکشی کے راستہ پر۔ان میں سے پہلا آدمی جو اپنی شخصیت کو پاک کرنے والا ہے، وہ جنت کی نفیس دنیا میں داخلہ پائے گا۔ اس کے برعکس، دوسرا آدمی جو اپنی شخصیت کو گندا کرنے والا ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

روحانیت کیا ہے

ایک مجلس میں ایک صاحب نے یہ سوال کیا کہ اسلام میں روحانیت کا تصور کیا ہے، اور اسلامی نقطۂ نظر سے روحانیت کو پانے کا کیا اصول ہے۔ اس معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ روحانیت (spirituality) کا لفظ بعد کی تاریخ میں بولا جانے لگا۔ قرآن میں اس مفہوم کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ربانیت ہے۔ روحانیت بلاشبہ ایک مطلوب چیز ہے۔
عام تصور یہ ہے کہ روحانیت کا مقام پانے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ترکِ دنیا (renunciation) ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ ترکِ دنیا سے جو چیز ملتی ہے وہ روحانیت نہیں ہے بلکہ وہ رہبانیت ہے اور رہبانیت اسلام میں نہیں (مسنداحمد، حدیث نمبر 25893) ۔
روحانیت یا ربّانیت یہ ہے کہ آدمی کی داخلی شخصیت ربانی شخصیت بن جائے۔ وہ خدا اور آخرت کے تصور میں جینے لگے۔ روحانیت کا یہ درجہ فکری انقلاب کے ذریعہ آتا ہے نہ کہ مادی دنیا کو چھوڑنے کے نتیجہ میں۔ یہ فکری انتقال کا ایک عمل ہے نہ کہ جسمانی انتقال کا کوئی عمل۔ قرآن کے مطابق، اس فکری انتقال کا ذریعہ توسم ہے۔ یہ روحانیت کسی کو اس ذہنی بیداری کے ذریعہ ملتی ہے جس کو قرآن میں ذکر ِکثیر (الجمعہ،62:10) کہا گیا ہے۔
یہ ذکرِ کثیر کوئی لسانی تکرار نہیں، وہ دراصل ایک فکری عمل ہے۔ یعنی مادی چیزوں میں خدا کی نشانیاں دیکھنا۔ مادی تجربات سے آخرت کا سبق نکالنا۔ دنیا کی ہر چیز میں یہ ربانی پہلو چھپا ہوا ہے۔ روحانیت یہی ہے کہ آدمی دنیوی یا مادی سرگرمیوں کے درمیان رہتے ہوئے ان نشانیوں کو دیکھے ۔وہ مادی تجربہ کو روحانی تجربہ میں کنورٹ کرسکے۔ روحانیت دراصل کنورژن کی اسی ذہنی صلاحیت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ روحانیت نہ دنیا کو ترک کرنے سے ملتی ہے اور نہ الفاظ کی لسانی تکرار سے۔ روحانیت کا درجہ اُس کو ملتا ہے جو مادی دنیا کو اپنے لیے روحانی خوراک بنا سکے۔
واپس اوپر جائیں

دعا کی قبولیت

غالباً 1965 ء میں مَیں اعظم گڑھ سے کانپور گیا تھا۔ کانپور میں میرے ایک مدرسے کے ساتھی تھے،ان کا نام تھا، مرزا امتیاز بیگ اصلاحی۔ اب ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ کانپور کے اس سفر میں مَیں مرزا امتیاز بیگ اصلاحی کےیہاں چند دن ٹھہرا۔ یہاں قیام کے دوران انھوں نے اپنا ایک ذاتی واقعہ بتایا، جو بہت سبق آموز تھا، اور یہ واقعہ اب تک مجھے یاد ہے۔
مرزا امتیاز بیگ اصلاحیاعظم گڑھ کے رہنے والے تھے۔ کانپور میں انھوں نے چمڑے کا بزنس شروع کیا تھا۔ پہلے وہ یہاں ایک مکان میں کرائے پر رہتے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد مالکِ مکان نے مکان خالی کرنے کے لیے کہا۔ انھوں نے کوشش کی کہ دوسرا کوئی مکان کرائے پر مل جائے، مگر کافی کوشش کے باوجود ان کو کانپور میں دوسرا کوئی مکان کرائے پر نہیں ملا۔ ان کا یہ مالک مکان ایک ہندو تاجر تھا۔ وہ روزانہ اس کے پاس جاتے ، اور کہتے کہ میرے پاس کوئی دوسرا مکان نہیں ہے، اس لیے آپ مجھے اس مکان میں رہنے دیں۔ لیکن مالک مکان کسی طرح راضی نہیں ہوتاتھا۔ وہ روزانہ مالک مکان کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ، لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ آخر کار ایک دن اس نے الٹی میٹم کی زبان میں کہہ دیا کہ آپ میرے مکان کو خالی کردیں، ورنہ میں آپ کے خلاف قانونی کارروائی کروں گا۔
یہ سن کر مرزا امتیاز بیگ اصلاحی مایوسی کے عالم میں واپس آگئے۔ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اللہ سے دعا کریں۔ اس رات کو انھیں نیند نہیں آئی، وہ رات کے اکثر اوقات دعا کرتے رہے۔ انھوں نے اللہ سے کہا : خدایا ، میرے پاس تو کوئی گھر نہیں ہے ، میں کل کہاں جاؤں۔ اسی طرح کی دعاؤں میں رات گزرگئی۔ اگلے دن صبح کو وہ پھر مالکِ مکان کے پاس گئے۔ جب وہ اس کے دروازے پر پہنچے تو ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جو ان کی توقع کے بالکل خلاف تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ مالک مکان اور اس کی بیوی دونوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اُن پر نظر پڑتے ہی مالک ِمکان بولا۔ مرزا صاحب آئیے، ہم تو آپ ہی کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر مالک مکان نے خلاف توقع کہا: ہمارے پاس ایک اور مکان ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ فی الحال ہم اس کو استعمال کریں گے ۔ اس درمیان آپ کوئی مکان تلاش کر لیجیے۔جب مکان مل جائے ، تو آپ ہمارے مکان کو ہمارے استعمال کے لیے چھوڑ دیجیے۔
یہ ایک سچا واقعہ ہے، جس کو خود صاحبِ واقعہ نے براہ راست طور پر مجھ سے بیان کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کو ہمیشہ سچی اسپرٹ کے ساتھ دعا کرنی چاہیے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:أَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوءَ (27:62)۔یعنی کون ہے جو بے بس کی پکار کو سنتا ہے اور اس کے دکھ کو دور کر دیتا ہے۔اگر بندہ اس اسپرٹ کے ساتھ دعا کرے تو عین ممکن ہے کہ اللہ اس کی دعاؤں سے فریقِ ثانی کے دل کو بدل دے، اور اس کا انکار اقرارمیں تبدیل ہوجائے۔
تاریخ میں اس قسم کی قبولیتِ دعا کے واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً قدیم مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیمانے پر دعوت کا کام کیا۔ وہاں بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ لیکن عمربن الخطاب آپ کے مخالف بنے رہے۔ یہاں تک کہ روایت میں آیا ہےکہ ایک صحابی، عامر بن ربیعہ اپنی بیوی، لیلی بنت ابی حثمہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کررہے تھے کہ عمر بن الخطاب کا وہاں سے گزر ہوا۔ عمر نے ماجرا پوچھا، انھوں نے جواب دیا کہ تم لوگ ہمیں ستاتے ہو، اس لیے ہم شہر چھوڑ کر جارہے ہیں، عمر نے کچھ ہمدردی کے الفاظ کہے۔ یہ سن کر عامر بن ربیعہ نے کہا: کیا تم امید کرتی ہو کہ عمر اسلام قبول کرلے گا، لیلیٰ نے کہا: ہاں، تو عامر نے جواب دیا:خدا کی قسم ،خطّاب کا گدھا اسلام قبول کرسکتا ہے، لیکن عمر نہیں کرے گا (وَاللّہِ لَا یُسْلِمُ حَتَّى یُسْلِمَ حِمَارُ الْخَطَّابِ )۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 25/29/47۔ مگر رسول اللہ عمر بن الخطاب سے مایوس نہیں ہوئے، اور آپ نے دعا کی:اللہُمَّ أَیِّدِ الْإِسْلَامَ بِعُمَر(مسند احمد، حدیث نمبر4362)۔ یعنی اے اللہ تو عمر کے ذریعے اسلام کی تائید کر۔ اس کے بعد خود عمر بن الخطاب نے اسلام قبول کرلیا۔
واپس اوپر جائیں

حق کی مخالفت

حق کی مخالفت اصلاً صرف ایک سبب سے ہوتی ہے، اور وہ ہے ماحول کی کنڈیشننگ۔ ہر انسان ایک ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ آدمی اپنے قریبی ماحول سے اثر قبول کرتا ہے۔ اس تاثر پذیری کو جدید نفسیاتی اصطلاح میںکنڈیشننگ (conditioning) کہا جاتا ہے۔اسی معاملے کو حدیث میں ماں باپ کی طرف منسوب کیا گیا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔
یہ کنڈیشننگ اگرچہ گہری ہوتی ہے، لیکن وہ انسان کی فطرت کو نہیں بدلتی۔ انسان کا حقیقی مزاج بدستور انسان کی فطرت میں موجود رہتا ہے۔ انسان کے لیے ہمیشہ یہ ممکن رہتاہے کہ وہ اپنی ضمیر کی آواز کو سنے، اور اپنی کنڈیشننگ کو ڈی کنڈیشنڈ کرسکے۔ البتہ یہ فرق ہے کہ ابتدائی فطرت میں کنڈیشننگ کا معاملہ ماحول سے اثر پذیری کی بنا پر ہوتا ہے، لیکن بعد کو اس کی ڈی کنڈیشننگ آدمی خود اپنے ارادے سے کرتا ہے۔ ہر انسان جو سچائی کا طالب ہو، اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ گہرائی کے ساتھ اپنا محاسبہ (introspection) کرے، وہ اپنے آپ کو دریافت کرے، اور پھر اپنے آپ کو دوبارہ اصل فطرت پر قائم کرے۔ یہ کام ہر آدمی کو لازماً کرنا ہے۔ اس ڈی کنڈیشننگ کے بغیر کوئی شخص دوبارہ اپنی اوریجنل فطرت پر قائم نہیں ہوسکتا۔
اس معاملے کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہر آدمی کو اپنا مصلح آپ بننا ہے۔ ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ بے لاگ طور پر اپنا جائزہ لے۔ وہ عذر(excuse)کو قبول نہ کرے، وہ اپنا نگراں آپ بنے۔ اس طرح وہ آسانی کے ساتھ اپنی شخصیت کی تعمیرِ نو کرسکتا ہے۔ یہاں آدمی کے لیےاس کا ضمیر (conscience) اس کا معاون ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ انسان کا ضمیر ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ انسان کا ضمیر کبھی بدلتا نہیں ۔ اس لیے ہر انسان کے لیے ہمیشہ یہ موقع باقی رہتا ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرکے خود کو دریافت کرے، اور اپنے آپ کو اصلاح یا فتہ انسان بنائے۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ شخصیت

انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس کے اندر اعلیٰ شخصیت کا ارتقا ہو۔ لیکن اکثر حالات میں انسان خود اس معاملے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر اپنے اندر اعلیٰ شخصیت کا ارتقا ہونے نہیں دیتا۔ علمی دنیا میں اس کی مثالیں بہت عام ہیں۔ مثلاً ایک آدمی ایک کتاب لکھے گا، اس میں وہ ایک فکر (thought) کا ذکر کرے گا۔ وہ ایسا کرے گا کہ اپنی تھیم (theme)کا اصل فکر تو کسی اور سے لے گا، لیکن غیر متعلق طور پر کسی کا حوالہ دے کر یہ ظاہر کرے گا کہ اس کی تھیم فلاں شخص سے ماخوذ نہیں ہے، بلکہ دوسرے شخص سے ماخوذ ہے۔ اس طرح وہ اپنے خیال کے مطابق، اپنے آپ کو بچاتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ اپنے آپ کو کھو رہا ہے۔
اعلیٰ شخصیت والا انسان وہ ہے، جو کھلے اعتراف والا ہو، جس کا یہ حال ہو کہ جب اس کو کسی سے کوئی بات ملے تو وہ ایسا نہ کرے کہ دوسرے سے ملی ہوئی بات کو خود اپنی طرف منسوب کرلے، بلکہ وہ کھلے طور پر اس بات کا اعتراف کرے کہ اس کو یہ بات فلاں شخص سے حاصل ہوئی ہے۔ زندگی میں شاید سب سے بڑی قابل قدر چیز اعتراف ہے۔ ایک حدیث رسول آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:جو انسان کا شکر ادا نہیں کرے گا، وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرے گا (مسند احمد، حدیث نمبر 19350) ۔ شکر کا مطلب اعتراف (acknowledgment) ہے۔
ایک شخص جب انسان کا اعتراف نہ کرے، تو وہ اپنے اندر ایسی نفسیات کی پرورش کررہا ہے کہ وہ اللہ رب العالمین کا بھی اعتراف کرنے میں ناکام رہے۔ اعتراف انسان کی ایک اعلیٰ صفت ہے۔ اعتراف کے ذریعے انسان کے اندر شخصیت کا ارتقا مسلسل طور پر جاری رہتا ہے، اور جو آدمی اعتراف سے محروم رہے، وہ شکر خداوندی سے بھی محروم رہے گا۔ کیوں کہ قرآن کے مطابق، انسان کے سینے میں دو دل نہیں ہوتے(الاحزاب، 33:4)۔ یہ ناممکن ہے کہ آپ انسان کے معاملے میں بے اعترافی کی نفسیات میں جی رہے ہوں، اور اللہ کے معاملے میں برعکس طور پر آپ اعتراف والے بن جائیں۔
واپس اوپر جائیں

غیر واقعی عذر

ایک صاحب نے کہا کہ میرے اندر کام کرنے کا بہت جذبہ ہے، لیکن جب میں کوئی کام شروع کرتا ہوں تو درمیان میں کچھ ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں ، جس کی وجہ سے مجھے اس کام کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں کام کس طرح کروں۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ اس قسم کی بات کرتے ہیں، ان کا کیس عذر کا کیس نہیں ہے،بلکہ ارادے(will power)کے نہ ہونے کا کیس ہے۔ ایسے لوگوں کے اندر ارادے کی طاقت موجود نہیں ہوتی۔ البتہ کام کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جاننا چاہیے کہ اس دنیا میں کوئی کام صرف شوق کی بنیاد پر نہیں ہوتا ہے، بلکہ طاقتور ارادے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ حقیقی ارادہ یہ ہے کہ آپ جانیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔ آپ کے کام کی راہ میں کس قسم کی صلاحیت درکار ہے۔ آپ کو کن رکاوٹوں سے لڑ کر اپنے کام کو آگے بڑھانا ہے۔ آپ کے اندر سابقہ کنڈیشننگ کی وجہ سے وہ کون سی کمزوریاں ہیں، جن کو دور کرنا ضروری ہے، ورنہ آپ عذرات میں پھنسے رہیں گے، اور جو کام آپ کرنا چاہتے ہیں، اس میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔
اصل یہ ہے کہ ہر کام سب سے پہلے منصوبہ بندی (planning) چاہتا ہے۔ منصوبہ بندی یہ ہے کہ آپ اپنے کام کے تمام پہلوؤں اور اس کے مالہ و ماعلیہ کو جانیں، آپ پیشگی طور پر یہ جانیں کہ آپ محض شوق کے طور پر یہ کام کرنا چاہتے ہیں، یا آپ اس کے لیے ضروری قربانی دینے کو تیار ہیں۔ آپ صرف باتیں بنانے والے آدمی ہیں، یا آپ کے اندر پختہ عزم کی طاقت موجود ہے۔ آپ دوسروں کو الزام دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں، یا آپ عذر میں خود اپنی کمی کو دریافت کرکے اس کی اصلاح کے لیے تیار ہیں۔ جو لوگ مذکورہ قسم کی باتیں کرتے ہیں، وہ دراصل وہ لوگ ہیں، جو ہر مسئلے کا ذمے دار دوسرے کو قرار دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں، ان کے اندر یہ ہمت نہیں ہوتی کہ اپنی کمزوریوں کو دریافت کریں، اور اپنی کمزوریوں کو ڈھونڈ کر اپنے منصوبہ کو آگے بڑھائیں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 266

■ 30 جولائی 2018 کو امریکن سنٹر (کولکاتا) نے ’آور وائس آور جرنی، اے کنورسیشن وِد وومن چینج میکرس‘ کے عنوان سے ایک پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا۔ شرکاء میں عالمی شہرت یافتہ شخصیات کافی تعداد میں موجود تھیں۔ مس شبینہ علی (سی پی ایس ٹیم ممبر، کولکاتا) نےاس میں شرکت کی۔ انھوں نے شرکاء سے ملاقات کرکے ان تمام لوگوں کے درمیان قرآن (ترجمہ)، اسپرٹ آف اسلام ، ایج آف پیس، لیڈنگ اسپریچول لائف وغیرہ دیے۔ تمام لوگوں نے خوشی کے ساتھ ان کو قبول کیا۔
■ سی پی ایس (جمشید پور) نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کے تحت ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر مساجد اور لائبریریوں میں لوگوں کو پڑھنے کی غرض سے رکھا جاتا ہے۔اس پر سی پی ایس جمشید پور کا اسٹمپ لگا ہواہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ واقعہ ہوا کہ سی پی ایس (جمشید پور) کو ایک فون آیا ۔کال کرنے والے نے بتایا کہ ٹلکو (جمشیدپور) کی ایک مسجد میں اس نے قرآن کا ہندی ترجمہ دیکھا ہے جس پر یہ فون‌نمبر تھا، اور اس پر فری ڈسٹریبیوشن کا‌اسٹامپ لگا ہوا ہے، تو کیا میں اسے حاصل کر سکتا ہوں۔ انھوں نے مزید یہ بتایا کہ میں ملٹری میں سروس کرتا ہوں۔یہ تھے مسٹر شیخ‌صادق جو انڈین ملٹری کے میکینیکل ڈپارٹمنٹ میں ٹکنیشین ہیں۔ 3 اگست 2018 کو مسٹر شیخ‌صادق اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ قرآن کے لیے آئے۔انھوں نے بتایا کہ وہ مولانا کو پچھلے کئی سالوں سے جانتے ہیں اور انٹر نیٹ پر ان کو کبھی کبھی سنتےہیں۔ان کو قرآن کے ہندی اور انگریزی ترجمے، ہندی کی سیرت کی کتابیں اور پمفلٹس دیے گئے۔ ان کو پاکر ان لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا، اور شکریہ ادا کرکے رخصت ہوئے۔
■ سی پی ایس ٹیم (سہارنپور) نے مشہور دینی ادارہ مظاہر العلوم اور دار العلوم کے علماء سے 2 اگست 2018 کو ملاقات کی اور انھیں دعوت کی اہمیت بتائی۔ تمام لوگوں نے اس کاا ظہار کیا کہ وہ دعوت کا کام کریں گے۔
■ سی پی ایس مشن کے تحت جیلوں میں بھی دعوہ لٹریچر خاص طورپر قرآن تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے کا ایک ای میل یہاںشائع کیا جارہا ہے:
I am wanting to get at least 25 copies of the Quran for a jail in the city of Marion, Indiana. They have requested for Quran copies and have a high need of them, as the prisoners have asked for the Quran. I am the President of the Women’s Committee at the Islamic Center of Bloomington in Bloomington, Indiana. I am a convert to Islam. I would like to help these people by providing them the Quran. We have had some copies of your translation of the Quran and they are wonderful. If you could send some more so that we can distribute as a form of dawah, it would be greatly appreciated. (Katherine Barrus, Bloomington, Indiana, USA).

■ ذیل میں چند تاثرات نقل کئے جاتے ہیں:
… میں پچھلے 20 سال سے درس وتدریس کا کام کرتاہوں۔ تفسیر جلالین، تفسیر نسفی کا طلبہ کو درس دے چکا ہوں،تفسیر القرطبی وغیرہ مطالعے میں رہتی ہیں، لیکن یہ سب تفاسیر صرف فنی معلومات دیتی ہیں۔ نصیحت کہیں کہیں مل بھی جاتی ہے تو فنی معلومات کے بالمقابل نہ کے برابر ہے۔اس کے برعکس، تذکیر القران ایک ایسی تفسیر ہے جس میں صرف پیغام الٰہی پر فوکس کیا گیا ہے، جس میں ناصحانہ پہلو ،داعیانہ پہلو مرکزی موضوع ہے۔ ایک اور بات یہ کہ ایک کم پڑھا لکھا شخص بھی اس تفسیر سے اصل پیغام الٰہی کو اچھی طرح سمجھ سکتاہے۔ یہ خصوصیت کسی اور تفسیر میں نہیں ملتی ۔واللہ اعلم (مولانا محمد جمیل صدیقی، گلبرگہ، کرناٹک)۔
… تذکیر القرآن کا فوکس معرفت اور دعوت ہے۔ مولانا کی چاہے کوئی کتاب ہو، یا تفسیر، یا لکچر، یہ تمام معرفت اور دعوت پر مبنی ہیں۔ جو آدمی بھی مولانا کی کتابیں اور لکچرس مسلسل پڑھتا اور سنتا رہےگا، امید ہے کہ وہ کنفیوژن سے بچ جائے گا۔ (مولانا عبد الباسط عمری، قطر)۔
… تذکیر القرآن ایک ایسی تفسیرہے، جو دوسروں کے یہاں نہیںہے۔ خدا اور آخرت کا پیغام، دعوت کا پیغام کسی دوسری جگہ نہیں ملتا ہے۔یہی تذکیر القرآن کی امتیازی خصوصیت ہے۔ قرآن کا جو اصل پیغام ہے تذکیر القرآن اس کو بتاتا ہے، یعنی خدا اور آخرت رخی زندگی ۔ اس کے پڑھنے والے کو ہر جگہ معرفت، دعوت اور ربانیت کی ہی باتیں ملتی ہیں۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
… مولانا صاحب کی تحریریں کس طرح ہمیں سوچنے میں مدد کرتی ہیں ۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ 1992 میں میں نے کسی کے کہنے پر مولانا کی کتاب ’’ کتاب زندگی‘‘ خریدی تھی۔ اُس وقت میں مولانا کے نام سے بھی واقف نہ تھا ۔ میرا مطالعہ زیادہ تر ناولوں، افسانوں یا سفر ناموں پر مشتمل تھا۔ اُس وقت میری عادت تھی جب کوئی کتاب پڑھنے بیٹھتا، چالیس پچاس صفحے ایک نشست میںختم کردیتاتھا۔ اِ سی عادت کے تحت میں نے مولانا کی مذکورہ کتاب بھی پکڑی، اورپڑھنے بیٹھ گیا ،صرف پانچ چھ صفحات پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ یہ کتاب ویسی نہیں جیسی کتابیں میںنے پہلے پڑھی ہیں۔ اس کا ہر صفحہ اپنے دامن میں حکمت و دانائی کے موتیوں کوسمیٹے ہوا ہے۔ یہ کتاب تو کایا پلٹ (game changer) کتا ب ہے ۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ ہر روز اِس کتاب کا ہر روز ایک صفحہ پڑھوں گا۔ پھر اس صفحہ میں جو پیغام ہے اُس کو اچھی طرح سے ذہین نشین کرنے کے لیے باتوں باتوں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اُس پیغام کو زیر گفتگو لاؤں گا۔ کتاب زندگی کو میں نے ایسے ہی ختم کیا تھا ۔ اس کتاب نے مجھے سنجیدگی دی ، اور ایک با مقصد زندگی کی طرف ر اغب کیا۔ پھر مولانا کی کتابوں کا ایسا ذوق پیدا ہوا کہ ایک کے بعد ایک کتاب زیر مطالعہ رہی ۔تاہم کبھی بھی مولانا کی کتاب کے دوتین صفحے سے زیادہ پڑھنے کی کوشش نہ کی۔ کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ مولانا کی دعوت گہرے غور وفکر کا تقا ضہ کرتی ہے۔ سرسری مطالعہ اس فکر کے ساتھ ناانصافی ہے۔ مولانا کی تحریر نے مجھے احساس دیا کہ اگر میں کسی کی طرف ایک اُنگلی اُٹھاتا ہوں تو باقی انگلیوں کا رخ میری طرف ہوتا ہے۔پہلے مجھے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہے ۔ کامیابی کوئی خارجی چیز نہیں ہے ،یہ داخلی معاملہ ہے۔ کامیاب وہ نہیں ہے،جو دوسروں کا سر کاٹ لے ،کامیاب وہ ہے جو دوسروں کے دلوں کو جیت لے۔ مولانا کی تحریر سے مجھے معلوم ہوا کہ میں صرف لڑنے کی اہمیت کو جانتا ہوں، امن اور صلح کی اہمیت سے بے خبر ہوں ، جب کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امن کے لیے حد یبیہ میں فریقِ مخالف کی تمام شرائط کو یک طرفہ طور پرتسلیم کر لیتے ہیں،تا کہ کسی طرح امن قائم ہو جائے ۔ میں اُن کا امتی ہو کر بھی امن کی اہمیت سے بے خبر تھا۔ یہ مولانا کی تحریروں کا فیض تھا کہ میرے لیے امن (peace)کی اہمیت اجاگر ہوئی۔ اسی طرح مولانا سے یہ بھی سیکھا کہ اللہ بتانے سے نہیں ملتا ، اللہ کو ذاتی طور پر تلاش (discover) کرنا پڑتا ہے۔ جب داخلی طور پراللہ کی دریافت ہوتی ہے ،توپھر ایمان و یقین ثمر بار ہوتا ہے۔ اس لیے اپنےاردگرد مظاہر فطرت پر غور کرو ۔ پھر اللہ کی موجودگی کا احساس اندر سے پیدا ہوگا۔ اسی طرح مولانا کی کتاب ’’فکر اسلامی ‘‘ جب میں نے پڑھی ، یقین جانیے میری تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس میں مولانا نے بڑی بڑی اسلامی قد آور شخصیات کے فکر و نظریات پر قلم اُٹھایا تھا۔ پہلے پہل تو میں ہکا بکا رہ گیا۔ لیکن جب ٹھنڈے دل سے غور کیا تو مولانا کے نقطہ نظر میں مجھے توازن نظر آیا۔ ہم پچھلے کئی سو سال سے خوار ہورہے ہیں۔ اس کی آخر کوئی تو وجہ ہو گی۔ کہیں تو ہم سے چوک ہوئی ہوگی۔ کوئی شخص تو ہمت کرکے جائزہ لے کہ ہم کیوں دنیا میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ مولانا نے جس چیز کو صحیح سمجھا اس کو بیان کر دیا ۔ جہاں کوئی غلطی نظر آئی اس کا بر ملا اظہار کردیا۔ نتیجتاً اُن کو سقراط بن کر لوگوں کی زہریلی باتوں کے جام پینے پڑے ، لیکن حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے محمد بن قاسم اور صلاح ا لدین ایوبی کی تلواروں کی تعریف کی ہے۔ لیکن کبھی اپنے احتساب کے لیے اٹھنے والے قلم کی تعریف نہ کی۔ ہماری عقلوں کو نہ جانے کس کی نظر لگی ہے کہ جب تک کو ئی رہنما اس دنیا سے چلا نہیں جاتا، تب تک ہم اُس کا اعتراف نہیں کرتے۔ ہماری آنکھوں میں ایسی کجی آئی کہ عصر حاضر کے آئینہ میں ہم کو کسی کی خوبی نظر نہیں آتی۔ دعا کریں اللہ میرے اندر ایک داعی کی خوبیاں پیدا کرے۔ آمین (محمد فاروق، لاہور، پاکستان )
† The Quran: An Abiding Wonder was the first book by Maulana that I read about 30 years ago. It helped me understand the reason for the fall of various Muslim rulers and their dynasties over centuries. At a personal level, it has been a constant source of learning for all facets of life. I have also learnt from the Maulana that dawah is not merely one of the activities of a believer, rather it should reflect in all of one’s dealings and behaviour. (Azhar Rizvi, Karachi)
†The real subject of Maulana’s books is to see things scientifically and understand their logical end. (Qamar Abbas, Lahore)
واپس اوپر جائیں

Tuesday, 1 January 2019

Al Risala | January 2019 (الرسالہ،جنوری)

4

-شادابی لوٹ آ ئی

5

- بحران کا مسئلہ

6

- صاحب مطالعہ انسان

7

- تربیتِ افراد

9

- قرآن کی اشاعت

10

- معرفت یا معلومات

11

- انسان رخی سوچ

13

- الرسالہ کا ایک سبق

15

- مشن، انٹرایکشن

16

- اسوہ رسول

17

- الرسالہ مشن

18

- تعمیری مشن، غوغائی سیاست

19

- قاری الرسالہ کا تاثر

20

- اسپریچول کلاس

23

- سی پی ایس انٹرنیشنل

26

- روحانی ارتقا

28

- نقل اور عقل

29

- مین آف مشن

30

- آسان تدبیر

31

- چشمہ کا سبق 

32

- خدا کے حق کی قیمت پر

33

- لائن آف ایکشن کا مسئلہ

36

- الرسالہ مشن کے متعلق بعض سوالات

41

- ایک سوال

43

- ایک انٹرویو


شادابی لوٹ آ ئی

دہلی میںمیری رہائش گاہ کے پاس ایک درخت ہے۔ اس کو میں اسپریچول ٹری (spiritual tree) کہتا ہوں۔ اس کے نیچے میںدیر تک بیٹھتا ہوں۔ اس سے مجھے روحانی سکون ملتا ہے۔
برسات کے موسم سے پہلے یہ درخت بالکل سوکھ گیا تھا۔ بظاہر وہ ٹھنٹھ (stem) دکھائی دیتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ درخت کی عمر شاید ختم ہوگئی ہے، وہ دوبارہ شاداب ہونے والا نہیں، مگر برسات کا موسم آنے کے بعد وہ دوبارہ ہرا ہونے لگا۔ اس کی شاخوں پر ہری پتیاں نکلنے لگیں، یہاںتک کہ اگست کے آخر تک دوبارہ وہ پوری طرح ہرا بھرا ہوگیا۔اس کی شادابی مکمل طورپر لوٹ آئی۔
یہ تمثیل کے روپ میں انسان کے لیے ایک سبق ہے۔ انسان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ انسان کی روحانی زندگی کے لیے ضرورت ہے کہ اس کو ’’پانی‘‘ ملتا رہے۔ جو انسان اس پانی سے محروم ہو جائے، اس کی شخصیت سوکھے درخت جیسی ہو جائے گی۔انسانی زندگی کے لیے یہ حیات بخش پانی خدائی فیضان (divine inspiration)ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خدا وند ِذوالجلال سے مسلسل روحانی ربط قائم رکھے۔ اسی ربط سے اس کو شادابی ملے گی۔ یہ ربط کسی وجہ سے ٹوٹ جائے تو وہ سوکھے درخت کی مانند ہو کر رہ جائے گا۔
اللہ سے اِس ربط کا ذریعہ ذکر ہے۔خدا کو یاد کرنا کیا ہے۔ وہ کسی قسم کے اوراد کو زبان سے دہرادینے کانام نہیں ہے، وہ مختلف حالات میں خدا کو بار بار یاد کرنا ہے۔ مثلاً مذکورہ قسم کے درخت کو آپ نے دیکھا تو اُس کے اندر آپ کو خدا کا کرشمہ نظر آیا۔ آپ نے تڑپتے ہوئے دل کے ساتھ کہا کہ خدایا، تو نے جس طرح اِس درخت کو شاداب کیا ہے، اُسی طرح تو مجھے بھی شاداب کردے۔ میں ایک سوکھا ہوا درخت ہوں، تو اپنے فیضانِ رحمت سے مجھ کو ایک شاداب درخت بنا دے —اِس تجربے کا تعلق کسی ایک چیز سے نہیں، اس کا تعلق تمام چیزوں سے ہے۔ اِس دنیا کی ہر چیز میں یہی ربانی غذا موجود ہے۔ دانش مند انسان وہ ہے جو اِس ربانی غذا کو لیتے ہوئے اِس دنیا میں زندگی گزارے۔
واپس اوپر جائیں

بحران کا مسئلہ

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ آپ اکثر آرٹ آف کرائسس مینج منٹ (the art of crisis management) کی بات کرتے ہیں۔ یہ نہایت اہم موضوع ہے۔ یہ ہر آدمی کا ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ ہر آدمی کبھی نہ کبھی کرائسس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مگر سوا ل یہ ہے کہ اِس کا کارگرفارمولا کیا ہے۔ میںنے کہا کہ اِس کا کارگر فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب زندگی میں کوئی کرائسس پیش آئے، تو اس کو خدا کے حوالے کردیا جائے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کی بابت، صحابیٔ رسول، حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا: الخیر فیما وقع،یعنی جو کچھ پیش آئے، اس کو آدمی خدا کی طرف سے سمجھے اور اس پر راضی ہوجائے۔ اِسی حقیقت کو ایک فارسی مقولے میںاِس طرح بیان کیاگیا ہے :
دشمن اگر قوی است، نگہباں قوی تر است
یعنی دشمن اگر قوی ہے، تو نگہبان اس سے بھی زیادہ قوی ہے:
If the enemy is strong, the saviour is stronger.
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں جو کچھ پیش آتا ہے، وہ براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔یعنی حالات کا اہتمام خدا کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ انسان کا حصہ اُس میں صرف یہ ہے کہ وہ مثبت رسپانس (positive response) دیتا ہے، یا منفی رسپانس (negative response)۔ وہ یا تو ایک قسم کا رسپانس دے کر کریڈٹ (credit) پاتا ہے، یا دوسرے قسم کا رسپانس دے کر اپنے آپ کو ڈس کریڈٹ (discredit) کرلیتا ہے۔
ایسی حالت میں انسان کے بارے میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے صبری سے بچائے اور بہتر انجام کے لیے خدا سے دعا کرتا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں صبر بھی ایک عمل ہے اور دعا بھی ایک عمل۔
واپس اوپر جائیں

صاحبِ مطالعہ انسان

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جدید معیار کے مطابق، وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ گفتگو کے دوران انھوںنے بتایا کہ ان کو مطالعے کا بہت شوق ہے۔ وہ زیادہ تر انگریزی ناولیں پڑھتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ سنجیدہ موضوعات پر لکھی ہوئی کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ اُن کا کمرہ انگریزی کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے سیکڑوں ناولیں اور کتابیں پڑھی ہیں۔ اِس مطالعے کے دوران آپ نے بہت سی بامعنی باتیں پڑھی ہوں گی۔ اِس قسم کی کوئی ایک مثال بتائیے۔ وہ بہت جوش و خروش کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ میں نے ایسی بہت سی باتیں پڑھی ہیں، مگر وہ کوئی ایک بامعنی بات نہ بتا سکے۔ میں نے کئی مثالیں دے کر بتایا کہ بامعنی بات سے میری مراد کیا ہے، مگر اصرار کے باوجود وہ ایسی کوئی ایک بات بھی نہ بتا سکے۔
اِس قسم کا تجربہ مجھے بار بار ہوا ہے۔ میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملاہوں جو اپنے آپ کو صاحبِ مطالعہ سمجھتے ہیں۔ وہ سفراور حضر میں کتابیں، خاص طورپر ناولیں پڑھتے رہتے ہیں۔ وہ جوش کے ساتھ ان کتابوں کی تعریف کریں گے، لیکن جب یہ پوچھا جائے کہ کوئی ایک سبق کی بات، یا بامعنیٰ بات بتائیے جو آپ نے ان کتابوں کے مطالعے سے پائی ہو تو وہ ایسی کوئی بات نہیں بتا پاتے۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ کتابوں کو تفریح (entertainment) کے لیے پڑھتے ہیں۔ وہ کتابوں کو اِس لیے نہیں پڑھتے کہ اس سے حکمت (wisdom) اور نصیحت کی چیزیں دریافت کریں اور مطالعے کو اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بنائیں۔ اور جب مطالعے کا مقصد تفریح ہو، تو وہ حکمت کے حصول کا ذریعہ کیسے بن جائے گا۔ اِن لوگوں سے جب یہ کہا جائے کہ آپ کواپنے مطالعے میں کوئی حکمت کی بات اِس لیے نہیں ملی کہ آپ نے صرف تفریح کے لیے مطالعہ کیا تھا، تو وہ ہر گز اِس کا اعتراف نہیں کریں گے۔ اِس بے اعترافی کا سبب کبرِ خفی ہے۔ یہی کبرِ خفی لوگوں کے ذہنی ارتقا میںسب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
واپس اوپر جائیں

تربیتِ افراد

ایک صاحب سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ انھوں نے ایک صاحب کا قصہ بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ الرسالہ پڑھنے والے کچھ افراد کو میں نے دیکھا ہے، وہ بہت مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ حالاں کہ میری آمدنی ان سے زیادہ ہے، مگر مجھے اطمینان والی زندگی حاصل نہیں۔
میں نے ان سے کہا کہ یہ الرسالہ کا کرشمہ نہیں ، بلکہ وہ اسلام کا کرشمہ ہے۔ قرآن کے مطابق، اسلام آدمی کو نفس مطمئن (الفجر، 89:27)بناتا ہے۔ اسی نفس مطمئن کا وہ نتیجہ ہے ، جس کا آپ نے ذکر کیا۔ جب بھی کسی انسان کو حقیقی معنوں میں اسلام حاصل ہوجائے، تو اس کے بعد یہی ہوگا کہ اس کو اتھاہ اطمینان والی زندگی حاصل ہوجائے گی۔ اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:أَلَا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13:28)۔ یعنی آگاہ رہو، اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں اسلام کے نام پر بہت سی سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر شاید ان میں سے کوئی بھی سرگرمی نہیں جو لوگوں کو حقیقی اسلام کا تحفہ دے رہی ہو۔ کوئی تحریک مسلمانوں کو پراسرار کہانیاں سنارہی ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کےاندر خوش عقیدگی کا ذہن بنتا ہے۔ کوئی تحریک حکومت واقتدارکو نشانہ بنائے ہوئے ہے جس کے نتیجہ میں سیاسی ذہن پیدا ہوتا ہے۔ کوئی تحریک غیر مسلموں کے خلاف جہاد کا نعرہ لگا رہی ہے جس سے صرف نفرت کا ذہن بنتا ہے۔ کوئی تحریک ملّی مسائل کا اشو اٹھائےہوئے ہے،جس سے صرف قومی ذہن بنتا ہے۔ کوئی تحریک فقہی مسلک پر زور دے رہی ہے جس کے نتیجہ میں صرف کٹر پن اور تفرق کا ذہن بنتا ہے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی ذہن حقیقی معنوں میں اسلامی ذہن نہیں۔
موجودہ مسلم تحریکوں میں مشترک طورپر یہ بات ہے کہ وہ اسلام کو اس طرح پیش کرتی ہیں جیسے کہ اس کا تعلق انسان کی حقیقی زندگی سے نہ ہو۔ ان کے مطابق، اسلام یا تو فخر کی چیز ہے یا برکت کی چیز یا شہادت کے نام پر لڑ کر مرجانے کی چیز۔ انسان کو روز مرہ کی زندگی میں جو عملی مسائل پیش آتے ہیں، گویا کہ ان کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں، ان کے لیے اسلام میں کوئی رہنمائی نہیں۔
الرسالہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اسلام کی اصل اسپرٹ کو زندہ کرنا چاہتا ہے، اور جن لوگوں کے اندر یہ اسپرٹ زندہ ہوجائے، ان کے لیے اسلام زندگی کا گائڈ بن جاتاہے،ایک ایسا گائڈ جو زندگی کے ہر چھوٹے اور بڑے معاملہ میں اس کا قابلِ عمل رہنما ہو۔
اسلام اپنے ماننے والے انسان کے اندر اطمینانِ قلب کا جو مزاج پیدا کرتا ہے، اس کے دو خاص سبب ہیں جن کا میں یہاں ذکر کروں گا۔ یہی دونوں صفتیں اہل ایمان کے اندر وہ مزاج پیدا کردیتی ہیں جن کا مذکورہ صاحب نے ذکر کیا۔ ایک یہ کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک اعلی مشن دیتاہے، دعوت کا مشن۔ یہ مشن ہر قسم کی مادی چیزوں سے بلند ہے۔ جو لوگ اسلام کو اپنی زندگی میں بطور مقصدشامل کرلیں ان کو اسلام ایک اعلی مشن کا حامل بنا دیتاہے۔
صاحب مشن ہونے کا یہ احساس آدمی کو اتنا زیادہ اونچا اٹھا دیتا ہے کہ ہر دوسری چیز اس کے لیے حقیر بن جاتی ہے۔ عام لوگ دولت، عزت، شہرت اور عہدہ، وغیرہ کو بڑی چیز سمجھتےہیں، مگر اسلامی مشن کے حامل ایک شخص کا احساس یہ ہوجاتاہے کہ اس کو ان تمام چیزوں سے زیادہ بڑی چیز حاصل ہے۔ ان چیزوں کا ملنا یا نہ ملنا دونوں اس کی نظر میں برابر ہوجاتےہیں۔ دوسرے لوگوں کے برعکس، صاحب مشن ایسی چیز میں جیتا ہے ،جس میں نہ کھونے کا اندیشہ ہے اور نہ کم ہونے کا خوف۔ یہ احساس اس کو ابدی طورپر مطمئن بنا دیتاہے۔
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ہے کہ اسلام کو بطورِ مشن لے کر اٹھنے والے شخص کی زندگی فطری طور پر سادہ اور غیرتکلفانہ ہوجاتی ہے۔ ان کے اندر دنیا کے بارےمیں قناعت کا جذبہ پیدا ہوجاتاہے۔ حرص اورحسد کا جذبہ ان کے سینہ سے نکل جاتا ہے جو تمام بے چینیوں کا اصل سبب ہے۔ صاحب اسلام کا مسلک یہ بن جاتاہے — اتنے کم پر راضی رہو کہ جو کچھ تم کو مل جائے وہی تم کو کافی معلوم ہو۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی اشاعت

ہمارے ادارے کے ذریعے اللہ کے فضل سے قرآن کے ڈسٹری بیوشن کا کام برابر کیا جاتا ہے۔ تقریباً تمام میجر زبانوں میں قرآن کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے، اوردنیا کے مختلف حصوںمیں برابراس کے ڈسٹری بیوشن کا کام کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسا کام ہے، جس کو ہم امت کا نمبر ایک کام سمجھتے ہیں۔ امت کی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا کی تمام زبانوں میں قابلِ فہم ترجمہ (understandable translation) تیار کرے، اور اس کو اچھی طباعت کے ساتھ لوگوں تک پہنچائے۔ پیغمبر ِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک بڑے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا: کیا میں نے تم لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچادیا۔ لوگوں نے بلند آواز سے کہا کہ ہاں ہم گواہ ہیں کہ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچادیا۔ اس کے بعد آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا :اے اللہ تو گواہ رہ کہ میں نے لوگوں کو پہنچادیا ( أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:اللہُمَّ اشْہَد)صحیح مسلم، حدیث نمبر 1679۔
امت مسلمہ کے تعلق سے دعوتی ذمےداری کا جو بیان قرآن میں آیا ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: مجھ پر یہ قرآن اترا ہے، تاکہ میں تم کو اس سےآگاہ کروں، اور وہ بھی (آگاہ کریں)جن کو یہ قرآن پہنچے (6:19)۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کی طرح امت کی ذمے داری بھی لوگوں کو خدا کے پیغام سے آگاہ کرنا ہے، ان کی ذمے داری لوگوں کو کلمہ پڑھوانا نہیں ہے۔ پہنچانے کے بعد ذمے داری ان لوگوں کی ہوجاتی ہے، جن کو اللہ کا پیغام پہنچا ہے۔ البتہ امت کی مزید ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے اور مدعو کے درمیان سننے اور سنانے کی نارمل فضا کو برقرار رکھیں۔ اس معاملے میں امت کو شدت سے یہ اہتمام کرنا چاہیے کہ اس کے اور دوسروں کے درمیان مدعو فرینڈلی ماحول برقرار رہے۔یعنی پہنچانے کے بعد امت کی ذمے داری نارمل حالات کو برقرار رکھنا ہے، نہ کہ اس کو لوگوں کے دلوں میں اتارنا۔ مدعو فرینڈلی بیہیویر (madu-friendly behaviour)کو قائم رکھنا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کہ پیغام کو پہنچانا۔ دعوت کے کام کو مطلوب درجے میں کرنے کے لیے یہ دونوں باتیں ضروری ہیں۔
واپس اوپر جائیں

معرفت یا معلومات

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پابندی کے ساتھ، ماہ نامہ الرسالہ پڑھتے ہیں۔ میںنے پوچھا کہ الرسالہ سے آپ نے کیا حاصل کیا۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ بہت معلوماتی پرچہ ہے۔ کسی اور پرچے میں ہم کو ایسی معلومات نہیں ملتیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ الرسالہ کا ایک شمارہ کتنی بار پڑھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک بار۔ میںنے کہا کہ جس شخص نے الرسالہ کو ایک بار پڑھا، اس نے الرسالہ کو نہیں پڑھا۔ چوں کہ آپ ماہ نامہ الرسالہ کو صرف ایک بار پڑھتے ہیں، اِس لیے آپ ابھی تک اس کو سمجھ نہیں سکے۔ آپ نے صرف الرسالہ کے سطور (lines) کو پایا ہے، آپ نے ابھی تک اس کے بین السطور(between the lines) کو نہیں پایا ۔
پھر میںنے کہا کہ ماہ نامہ الرسالہ کوئی معلوماتی پرچہ نہیں ہے، بلکہ وہ معرفت کا پرچہ ہے۔ الرسالہ میں جو معلومات ہوتی ہیں، وہ بہ ذاتِ خود مقصود نہیں ہوتیں، اُن کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔ یہ مقصد توسّم (الحجر،15:75) ہے، یعنی معلومات کے حوالے سے معرفت اور معنویت کا سبق دینا۔ اصل یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہم کو دو قسم کی خوراک کی ضرورت ہے۔ ایک، مٹیریل خوراک (dose) جو ہمارے جسم کی صحت کا ذریعہ ہے۔ دوسرے، معرفت کی خوراک (spiritual dose) جو ایمان باللہ کوطاقت بخشنے کا ذریعہ ہے۔ اِس کو قرآن میںاضافۂ ایمان، یا اِزدیادِ ایمان (الفتح،48:4) کہاگیا ہے۔ ماہ نامہ الرسالہ کا مقصد اِسی اِزدیادِ ایمان کی تربیت ہے۔
ماہ نامہ الرسالہ ازدیادِ ایمان کا دسترخوان ہے۔ الرسالہ کا مقصد یہ ہے کہ وہ آپ کو معرفت کی خوراک دے۔ وہ آپ کے دل میں خدا اور آخرت کااحساس جگائے۔ جس شخص نے الرسالہ سے معرفت کی یہ خوراک لی، اُسی نے الرسالہ کو پڑھا۔ اور جس کو الرسالہ سے یہ خوراک نہیں ملی، اس نے الرسالہ کو پڑھا ہی نہیں۔ الرسالہ کو معلومات کے لیے پڑھنا،الرسالہ کے ساتھ ظلم کرنا ہے۔ ایسا آدمی نہ الرسالہ کے ساتھ انصاف کرنے والا ہے، اورنہ خود اپنے ساتھ انصاف کرنے والا۔
واپس اوپر جائیں

انسان رخی سوچ

ایک صاحب لکھتے ہیں: اس وقت ملکی حالات کافی کشیدہ ہیں۔ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ملک میں دستور سازی کا الیکشن ہونے والا ہے۔ مسلمانوں کی شمولیت اچھی ہو اور مسلمانوں کے حق میں بھی ضابطے بنیں، ابھی تک تو مسلمان دستور کے اعتبار سے ملک میں برائے نام ہیں۔ بس دعا اور رہ نمائی کی درخواست ہے (ایک قاری الرسالہ، نیپال)۔
ماہ نامہ الرسالہ میںمسلسل طورپر جو ذہن دیا جاتا ہے، وہ اِس سے مختلف ہے۔ ہم کسی ملک کو اِس لحاظ سے نہیں دیکھتے کہ مسلمان وہاں اکثریت میںہیں یا اقلیت میں۔سیاسی اعتبار سے وہاں کے ماحول میں کشیدگی ہے، یا کشیدگی نہیں ہے، یا یہ کہ دستور اور قانون میں مسلمانوں کو کیا حقوق دیے گئے ہیں، اور کیا حقوق نہیں دیے گئے ہیں۔ یہ سب باتیں ہمارے نزدیک اضافی (relative)ہیں۔
اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ ہر ملک انسانوں کا ملک ہے۔ ہر ملک میںفطری طورپر مسائل ہوتے ہیں، خواہ وہ نام نہاد مسلم ملک ہو، یا غیر مسلم ملک۔ اِسی طرح ہم یہ بھی نہیں مانتے کہ کسی کو اس کے حقوق، دستور اور قانون کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ کسی کو اُس کا حق خود اپنی ذاتی استعداد کی بنیاد پر ملتا ہے، نہ کہ کسی کے عطیہ کی بنیاد پر۔
کسی نقطۂ نظر کے درست ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ آدمی کے اندر نہ احساسِ برتری (superiority complex)پیدا کرے، اور نہ وہ احساسِ کم تری (inferiority complex) پیدا کرنے کا سبب بنے۔ اور مذکورہ نقطۂ نظر اِس معیار کے اوپر کامل طورپر پورا اترتا ہے۔ احساسِ برتری اور احساسِ کم تری دونوں یکساں طور پر مہلک ہیں۔ مذکورہ نقطۂ نظر،انسان کو اِن دونوں برائیوں سے بچانے کا واحد ذریعہ ہے۔ہمارا ماننا ہے کہ آدمی کو خدا کے اعتماد پر جینا چاہیے، نہ کہ سیاسی اور سماجی حالات کے اعتبار پر۔ سیاسی اور سماجی حالات خواہ کچھ ہوں، لیکن جس آدمی کو خدا پر حقیقی اعتماد ہو، وہ ہر حال میںیکساں طورپر مثبت نفسیات کا مالک بنا رہے گا۔ اس کی شخصیت کی تشکیل، اس کی اپنی داخلی سوچ کی بنیاد پر ہوتی ہے، نہ کہ خارج میں پائی جانے والی کسی موافق یا غیر موافق صورتِ حال کی بنیاد پر۔
سیاسی یا غیر سیاسی مسائل چوں کہ بظاہر کچھ انسانوں کی طرف سے پیش آتے ہیں، اِس لیے لوگ ان کو انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھ لیتے ہیں اور اس کے خلاف نفرت اور تشدد کا ہنگامہ شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ بلا شبہہ ایک مہلک قسم کی غلط فہمی ہے۔ یاد رکھیے، ہر مسئلہ، خواہ وہ سیاسی ہو، یا غیر سیاسی، وہ ہمیشہ نظامِ فطرت کا ایک حصہ ہوتا ہے، نہ کہ محض کسی انسان کا ظلم، یا اس کی سازش۔
موجودہ زمانے کے مسلمان، اُن کے بڑے اور چھوٹے، سب زندگی کے اِس راز سے بے خبر ہیں۔ اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایت میں جی رہے ہیں۔ موجودہ زمانے کا شاید ہی کوئی مسلمان ہو جو نفرت اور شکایت کی نفسیات سے خالی ہو۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اِس منفی نفسیات سے اپنے کو پاک کریں۔ جب تک ایسا نہ ہو، مسلمانوں کے اوپر سعادت کے دروازے بند رہیں گے، جیسا کہ اِس وقت وہ ان کے اوپر بند ہیں۔ یہ بظاہر ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن اِس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنے ہی میں مسلمانوں کے لیے تمام بھلائیوں کا راز چھپا ہوا ہے۔
اِس معاملے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شکایت، شکر کی قاتل ہے۔ جو آدمی شکایت کی نفسیات میںمبتلا ہو، وہ کبھی حقیقی شکر کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کی نصرتیں صرف شکر کرنے والے بندوں کے لیے مقدر ہیں۔ شکر نہیں تو نصرت بھی نہیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
نزاع کا ماحول ایک قاتل ماحول ہے۔ نزاع کے ماحول میں یہ ہوتا ہے کہ طرفین ایک دوسرے کے لیے منفی (negative) بن جاتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی مثبت صلاحیتوں کو دریافت نہیں کرپاتے۔
واپس اوپر جائیں

الرسالہ کا ایک سبق

عام طورپر الرسالہ میںآیت کا ترجمہ دیا جاتا ہے، مگر کبھی کبھی ترجمہ موجود نہیںہوتا۔ ایسا بالقصد کیا جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ الرسالہ کے قاری براہِ راست طور پر قرآن سے مربوط ہوں۔آپ جانتے ہیں کہ اِس زمانے میں چھپا ہوا با ترجمہ قرآن ہر گھر میں موجود رہتا ہے۔اور اگر بالفرض کسی کے گھر میں با ترجمہ قرآن موجود نہ ہو تو اس کو پہلی فرصت میں با ترجمہ قرآن حاصل کرکے اپنے گھر میں رکھنا چاہیے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ جب بھی الرسالہ کا قاری ایسی کسی آیت کو الرسالہ میں پڑھے تو وہ قرآن کھول کر حوالہ کے ذریعے مذکورہ آیت نکالے اور اس کو پڑھ کر اس آیت کا ترجمہ معلوم کرے۔ اس طرح اُس کے مطالعہ کا تاثر بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔
قرآن کی حیثیت زندگی کے معاملات میںایک ریفرنس بک (reference book)کی ہے۔ پرنٹنگ پریس سے پہلے ایسا ہوتا تھا کہ اکثر مسلمان قرآن کے حافظ ہوتے تھے۔ جب بھی کوئی معاملہ پیش آتا، تو وہ اپنے حافظے کی مدد سے قرآن کی اس آیت تک پہنچ جاتے اور اُس سے اپنے لیے رہنمائی حاصل کرتے۔ اب پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے اور با ترجمہ قرآن کے نسخے چھپے ہوئےتقریباً ہر گھر میں موجود ہیں، اور بالفرض اگر کسی کے گھر میں باترجمہ قرآن موجود نہ ہو تو بہت آسانی کے ساتھ وہ اس کو قریبی مارکیٹ سے حاصل کرسکتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ الرسالہ کا ہر قاری قرآن کو اپنے لیے ایک ریفرنس بک بنالے۔ جب بھی قرآن کی کوئی آیت اس کے سامنے آئے تو خواہ وہاں اس کا ترجمہ موجود ہو یا موجود نہ ہو، ہر حال میں وہ اس آیت کواپنے باترجمہ قرآن میں براہِ راست دیکھے۔اِس طرح اس کا تعلق قرآن سے بڑھے گا اور اس کے یقین میںاضافہ ہوگا۔
الرسالہ محض ایک ماہ نامہ پرچہ نہیں، وہ ایک دینی تحریک ہے۔ الرسالہ کا مقصد یہ ہے کہ قرآنی خطوط پر لوگوں کی ذہنی تربیت کی جائے۔ یہ مقصد اس وقت پورا ہوتا ہے جب کہ الرسالہ کے قارئین الرسالہ کو قرآن سے ملا کر پڑھیں۔ میرا مشورہ ہے کہ قارئینِ الرسالہ ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی تفسیر تذکیر القرآن کا ایک نسخہ اپنے پاس رکھیں۔ آپ تذکیر القرآن کامطالعہ الگ سے بھی کریں اور الرسالہ کو پڑھتے ہوئے بھی جہاں کوئی آیت آئے تو اس کو بھی تذکیر القرآن سے ملا کر دیکھیں۔ اس طرح آپ کے مطالعہ کی دینی افادیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔
الرسالہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ وقت گزاری کے طورپر اس کو پڑھ لیا جائے۔ الرسالہ ایک تحریک ہے۔ الرسالہ کی اِس تحریکی نوعیت کا تقاضا ہے کہ اس کو باقاعدہ اور منظّم مطالعے کے انداز میں پڑھا جائے۔ الرسالہ کے مطالعے کو مکمل ذہنی سرگرمی کا ذریعہ بنا دیا جائے۔
مجھے کئی بار یہ تجربہ ہوا ہے کہ ایک شخص مجھ سے ملے گا۔ وہ چند گھنٹے میرے ساتھ گزارے گا، پھر جاتے ہوئے وہ کہے گا کہ میں برسوں سے ماہ نامہ الرسالہ اورآپ کی کتابیں پڑھ رہا تھا اور اس سے متاثر تھا، لیکن چند گھنٹہ آپ کی صحبت میں بیٹھنے سے جو فائدہ ہوا، وہ برسوں تک الرسالہ اور کتابیں پڑھنے سے نہیں ہوا تھا۔ایسا کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اکثر لوگ ماہ نامہ الرسالہ کو صرف انٹرسٹ ریڈنگ (interest reading) کے لیے پڑھتے ہیں۔ اِس کا اندازہ اِس طرح ہوتا ہے کہ جب اُن سے پوچھا جائے کہ آپ الرسالہ کیوں پڑھتے ہیں، تو وہ کہیں گے کہ اُس میں نئی نئی معلومات ہوتی ہیں۔ اس کا اسلوب منفرد ہے۔ اِس میں چھوٹے چھوٹے واقعات سے بڑے بڑے نتائج نکالے جاتے ہیں، وغیرہ۔ جولوگ اِس قسم کی بات کہتے ہیں، وہ ابھی تک صحیح معنوں میں الرسالہ کے قاری نہیں بنے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو صحبت سے جو چیز ملتی ہے، وہ ان کو الرسالہ کے مطالعے سے نہیں ملتی۔
الرسالہ کے مطالعے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو کئی بار پڑھا جائے۔ اگر ممکن ہو تو اس کے حوالوں کو دوبارہ اصل کتاب میںدیکھا جائے۔ الرسالہ کے مضامین پر علمی انداز میں باہم مذاکرہ کیاجائے۔ مزید غور وفکر کے ذریعے سطورکے درمیان اس کے بین السطورکو جاننے کی کوشش کی جائے۔ جو لوگ اِس طرح الرسالہ کا مطالعہ کریں، ان کے لیے الرسالہ کا مطالعہ، ایک زندہ مطالعہ بن جائے گا۔ جو چیز انھوں نے ’’صحبت‘‘ کے ذریعے پائی تھی، وہ اس کو الرسالہ کے مطالعے کے دوران پالیں گے۔
واپس اوپر جائیں

مشن، انٹرایکشن

ایک صاحب لکھتے ہیں:میں کافی عرصے سے مستقل طورپر آپ کے مؤقر علمی اور دعوتی مجلہ ماہ نامہ الرسالہ کا مطالعہ کررہا ہوں۔ میں نے ہر لحاظ سے الرسالہ کو مفید اورچشم کشا پایا ہے۔مدرسہ کے دیگر اساتذہ بھی الرسالہ سے برابر استفادہ کررہے ہیں۔ ادارے کے بہت سے نزاعی امور کو حل کرنے میں بھی الرسالہ نے ہمیں حکیمانہرہ نمائی دی اور کئی نازک مسائل نہایت احسن طریقے سے حل ہوگئے۔ تاہم ایک چیز جو مجھے آپ سے عرض کرنا ہے، وہ یہ کہ بسا اوقات آپ ایک انگریزی عبارت نقل کرتے ہیں، مگراس کا ترجمہ درج نہیں ہوتا۔ اِس سے پوری بات سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اگر آپ ہر انگریزی عبارت کا ترجمہ بھی تحریر فرمادیں تو ہم جیسے لوگوں کے لیے الرسالہ سے مزید استفادہ کرنا آسان ہوجائے گا (مولانا محمد شاہد قاسمی، ہریانہ)۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ماہ نامہ الرسالہ میںانگریزی عبارتیں بھی ہوتی ہیں اور قرآن اورحدیث کے حوالے بھی۔ اکثر ان کا ترجمہ ساتھ ساتھ موجود رہتا ہے، مگر کبھی کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا بھول کر نہیں ہوتا، بلکہ ایسا بالقصد کیا جاتا ہے۔ ایسا ایک مقصد کے تحت کیا جاتا ہے۔ الرسالہ کے قارئین کو چاہیے کہ وہ اِس مقصد کو سمجھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، الرسالہ ایک مشن ہے۔ مشن لازمی طورپر انٹریکشن (interaction) چاہتا ہے۔ بعض اوقات ترجمہ نہ دینے کا مقصد قارئین کے لیے انٹریکشن کے اِنھیں مواقع کو پیداکرنا ہے۔ مثلاً جب الرسالہ میںکوئی انگریزی لفظ یا انگریزی جملے ہوں اوران کا ترجمہ وہاں موجود نہ ہو، تو غیر انگریزی داں قاری کو چاہیے کہ وہ الرسالہ کو لے کر آس پا س کے کسی انگریزی داں آدمی سے ملے، اور اُس کے ذریعے سے انگریزی عبارت کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس طرح، قارئین الرسالہ کی ملاقات دوسرے لوگوں سے ہوگی اورنتیجۃً ایسی ملاقات مشن کی توسیع کا ذریعہ بن جائے گی۔
اِسی طرح، جب کبھی الرسالہ میں قرآن اور حدیث کا کوئی حوالہ ہو اور وہاں اس کا ترجمہ موجود نہ ہو، تو غیر عربی داں قاری کو چاہیے کہ وہ الرسالہ کو لے کر قریب کے کسی عالم سے ملے۔ وہ اُس عالم کی مدد سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس طرح یہ ہوگا کہ الرسالہ کے قارئین کا تعلق علما سے بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں ان کو بہت سے دینی فوائد حاصل ہوں گے۔
الرسالہ کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ اِس کے قارئین کا عمومی انٹریکشن بڑھے، جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لوگوں کا تعلق علما سے قائم ہو، اور اِسی طرح، علما کاتعلق جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لوگوں سے قائم ہو۔ اِس طرح، دونوں کے اجتماع سے دینی اور دعوتی فوائد کے علاوہ، ان کے لیے ذہنی ارتقا کا دروازہ کھلے، اور وہ زیادہ بہتر طورپر الرسالہ کے دعوتی مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کرسکیں۔
واپس اوپر جائیں

اسوہ رسول

قرآن میں بتایا گیا ہے :لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (33:21)۔ یعنی اللہ کے رسول میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اِس آیت میں ’اسوہ‘ کسی محدود معنی میں نہیں ہے، وہ پیغمبر کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔ پیغمبر اپنی پوری زندگی کے اعتبار سے، اہلِ ایمان کے لیے ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس عموم میں استثنا صرف کسی ایسی چیز کا ہوسکتا ہے جس کو صراحتاً پیغمبر کے ساتھ خاص کیاگیا ہو۔ مثلاً ازدواج کے معاملے میں بعض پہلوؤں سے آپ کے ساتھ استثنا کا معاملہ، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: خَالِصَةً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ(33:50)۔ یعنی یہ خاص تمہارے لیے ہے، سب مسلمانوں کے لیے نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول کا ہر قول اورہر فعل امت کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہوگا، الا یہ کہ رسول کے کسی فعل کو صراحتاً رسول کی ذات کے ساتھ خاص کیاگیا ہو۔
واپس اوپر جائیں

الرسالہ مشن

ماہنامہ الرسالہ 1976میں دہلی سے جاری ہوا۔ اس وقت سے اب تک برابر پابندی کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ الرسالہ ریڈر پوری اردو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جنھوں نے الرسالہ کو پڑھنے کے لیے اردو زبان سیکھی۔ ایسے افراد بھی ہیںجو الرسالہ کا ترجمہ اپنی زبان میں کرواتے ہیں تاکہ وہ اس کا مطالعہ کرسکیں۔ الرسالہ کس قسم کا ذہن پیدا کرتا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جنوری 2017 میں مہاراشٹر کے ایک الرسالہ ریڈر سے پوچھا گیا کہ تم کو الرسالہ سے کیا ملا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو الرسالہ سے ایک سوچ ملی۔ پھر اس نے اس سوچ کو تین جملوں میں بیان کیا— اللہ دیکھ رہا ہے، فرشتے لکھ رہے ہیں، میں مرنے والا ہوں۔(روایت : محبوب ہنوتگی، ممبئی)
میں سمجھتا ہوں کہ یہ الرسالہ مشن کا نہایت درست خلاصہ ہے۔ اگر آدمی کی سوچ یہ بن جائے کہ اللہ اس کو ہر لمحہ دیکھ رہا ہے، اسی طرح اس کو یقین ہوجائے کہ فرشتے اس کے قول و عمل کا مکمل ریکارڈ تیار کررہے ہیں، اور وہ اس شعور میں جیتا ہو کہ کسی بھی صبح و شام اس کی موت آسکتی ہے۔ جس آدمی کے اندر اس طرح کا ذہن پیدا ہوجائے، اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی بن جائے گی۔ وہ پورے معنی میں ایک ذمہ دارانہ زندگی جینے لگے گا۔ وہ چاہے گا کہ اپنا کام آج ہی پورا کرلے، کیوں کہ کل کا دن اس کو ملنے والا نہیں۔
انسان کو جو چیز انسان بناتی ہے، وہ کوئی نظام یا سسٹم نہیں ہے، بلکہ اس کا اپنا طریقِ فکر (way of thinking) ہے۔ آدمی جیسا سوچتا ہے، ویسی ہی اس کی شخصیت بنتی ہے۔ انسان کی شخصیت اس کی سوچ کے تابع ہے۔ انسان کی تعمیر کے سلسلے میں اصل بات یہی ہے کہ اس کے اندر صحیح سوچ (right thinking) پیدا کی جائے۔ یہی انسانی تعمیر کا نقطۂ آغاز (starting point) ہے۔کارل مارکس نے اس ترتیب کو الٹ دیا تھا۔ یعنی اس کے مطابق یہ سسٹم ہے جو انسان کی شخصیت بناتا ہے، مگر پہلے ہی تجربے میں یہ نظریہ ناکا م ہوگیا۔
واپس اوپر جائیں

تعمیری مشن، غوغائی سیاست

ماہنامہ الرسالہ کے ایک قاری لکھتے ہیں: الرسالہ میرا سب سے محبوب میگزین ہے۔ اس میگزین نے میری زندگی میں جو اہم تبدیلی پیدا کی ہے، وہ یہ ہے کہ میں نے منفی اندازِ فکر کو چھوڑ کر مثبت طرزِ فکر والی زندگی اختیار کی ۔ مزید یہ کہ اس کے مطالعے سے ناسازگار صورتِ حال میں بھی جینے کی امید ملتی ہے۔ (محمد اکبر، گلمرگ، کشمیر)
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ الرسالہ مشن کس قسم کے انسان بنانے کی مہم چلا رہا ہے۔ اللہ کے فضل سے آج ساری دنیا میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں، جو اس انداز میں سوچتے ہیں، اور دوسروں میں بھی یہی سوچ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اللہ ان کی کوششوں کو کامیاب کرے۔
کوئی تعمیری مشن غوغائی سیاست سے شروع نہیں ہوتا ۔ اسٹریٹ ایکٹوزم سے جو تعمیری مشن شروع کیا جائے، اس کا ناکام ہونا پیشگی طور پر ایک معلوم بات ہے۔ تعمیری مشن ہمیشہ تعمیرِ افراد سے شروع ہوتا ہے۔ تعمیری مشن کے لیے ہائی پروفائل ہرگز کار آمد نہیں۔ تعمیری جدو جہد وہ ہے، جو لوپروفائل (low profile) کے ساتھ شروع کیا جائے۔
تعمیر ِ افراد کا مطلب گویا محل بنانے سے پہلے اس کی اینٹیں تیار کرنا ہے۔ اینٹیں جتنی پختہ ہوں گی، محل بھی اتنا ہی مضبوط بنے گا۔کچی اینٹوں پر کوئی مضبوط محل تعمیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہی معاملہ کسی بڑے مشن کی ترقی کا ہے۔ مشن کے معماروں کو چاہیے کہ وہ دھوم دھام کے بجائے افراد کی تعمیر پر طاقت صرف کریں۔ وہ افراد کے اندر گہری فکر پیدا کریں۔ وہ افراد کے اندر پازیٹیو تھنکنگ پیدا کریں۔ وہ افراد کے اندر سطحیت کے بجائے گہرائی کا مزاج بنائیں۔وہ افراد کے اندر غیر جذباتی مزاج بنائیں۔ یہ صلاحیت پیداکریں کہ وہ منصوبہ بند اند از میں کام کرنا سیکھیں۔ وہ خلاف مزاج باتوں پر بھڑکنے سے پاک ہوں۔
واپس اوپر جائیں

قاری الرسالہ کا تاثر

ایک قاری الرسالہ نے لکھا ہے: میں نے ماہنامہ الرسالہ نومبر2018 کا ایک مضمون پڑ ھا: خدا کی پہچان (صفحہ 28-29)۔ اس میں جو مثال آپ نے دی ہے ،وہ بہت ہی عمدہ ہے۔ ا س طرح کا انداز کسی کا نہیں ہے سوائے آپ کے۔ اس مثال سے خدا کے انکار کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔
انھوں نے اپنا ایک اور تاثر ان الفاظ میں لکھا ہے: آج صبح کو جب سورج طلوع ہو رہا تھا، تو میں نے یہ محسوس کیا کہ سورج اور چاند ہم جہاں جاتے ہیں وہ ہمارے ساتھ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اس کو پیدا کرنے والے کی نظر بھی،رحمت بھی،رزق بھی، مسائل بھی، اورمواقع بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ستارے ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ جس طرح وہ دور ر ہ کر بھی پاس نظر آتے ہیں، اسی طرح خدا عرش پر ر ہ کر بھی بندوں کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔سورج سے خدا ہمیں یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ اس کا غصہ کیسا ہوگا،اور چاند سے ہمیں اس کی رحمت کی ٹھنڈک، بارش سے اس کی رحمتیں، اور ٹھنڈک سے جنت کا احساس۔میرا یہ ماننا ہے کہ الرسالہ کی نظر سے کائنات کی چیزوں کو دیکھا جائے تو معرفت کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ (ام اشہاد، تامل ناڈو)
یہ ایک مثال ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ برابر ماہنامہ الرسالہ کا مطالعہ کرتے ہیں، ان کے اندر کس قسم کا ذہن پیدا ہوتا ہے۔ یہ ذہن ربانیت کا ذہن ہے۔ الرسالہ کے مضامین اپنے قاری کو رب العالمین کی یاد دلاتے ہیں۔ الرسالہ کے قاری کو الرسالہ کے مضامین میں ربا نیت کی غذا ملتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ الرسالہ میں صحافت کے عمومی رواج کے خلاف نہ مفروضہ ظلم کے خلاف شکایتی باتیں ہوتی ہیں، اور نہ کوئی اور منفی (negative)تذکرہ ہوتا ہے۔ الرسالہ میں ہمیشہ قرآن و حدیث کی تعلیمات پر مبنی مضامین ہوتے ہیں۔ الرسالہ میں ان باتوں کا تذکرہ ہوتا ہے، جن کو قرآن میں اللہ کی آیات (signs of God) کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص برابر الرسالہ کو پڑھتا ہے، اس کے اندر خدا رخی (God-oriented) ذہن بنتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسپریچول کلاس

پچھلےکئی سالوں سے میں دہلی میں اسپریچول کلاس (spiritual class) چلا رہا ہوں۔اس کلاس میں انگریزی تعلیم یافتہ ہندو اور مسلمان شریک ہوتے ہیں۔اسپریچول کلاس در اصل ایک خاص تصورِ اصلاح پر قائم ہے۔اس کا آغاز اس طرح ہوا کہ دہلی کے کچھ انگریزی تعلیم یافتہ ہندو نوجوانوں کے اندر اسلام کو سمجھنے کا شوق پیدا ہوا۔وہ انگریزی زبان میں اسلامی لٹریچر چاہتے تھے۔ان کو دہلی کے کسی مسلمان نے بتایا کہ تم لوگ جماعتِ اسلامی کے دفتر جائو، وہاں تم کو اپنے مقصد کے مطابق کتابیں مل جائیں گی۔چنانچہ وہ جماعت ِاسلامی کے مرکزی دفتر گئے اور وہاں کے ذمہ داروں سے ملے۔انھوں نے ان ہندو نوجوانوں کو 15کتابیں دیں۔یہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں کا انگریزی ترجمہ تھا۔ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد وہ دوبارہ جماعت اسلامی کے ذمہ داروں سے ملے۔انھوں نے انھیں بتایا کہ آپ کی یہ کتابیں ہم نے پڑھیں، مگر یہ کتابیں ہمارے مائنڈ (mind) کو ایڈریس نہیں کرتیں:
These books do not address our mind
انھوں نے کہا کہ یہ کتابیں مسلم مائنڈ کو سامنے رکھ کرلکھی گئی ہیں جو پہلے ہی سے بطورِ عقیدہ اسلام کی سچائی کو مانتے ہیں۔جب کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ ہم اسلام کی سچائی کو بطور عقیدہ نہیں بلکہ بطوردلیل آبجیکٹیو طور پر سمجھنا چاہتے ہیں۔ہم سچائی کے متلاشی ہیں اور ہم نے دوسرے مذہبوں اور فلسفوں کو پڑھا ہے اور اب ہم اسلام کو اس حیثیت سے پڑھنا چاہتے ہیںکہ کیا وہ عقلی بنیاد پر پورا اتر رہا ہے یا دوسرے مذہبوں کی طرح وہ بھی ایک عقیدہ (dogma)کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ نوجوان وہاں سے مایوس ہوکر واپس ہو گئے۔پھران کی ملاقات جمیل احمد الیاسی سے ہوئی۔انھوں نے کہا کہ میرے علم کے مطابق، دنیا میں صرف ایک ہی مسلم عالم ہے جس کی کتاب تم لوگوں کو مطمئن کر سکتی ہے۔انھوں نے میرا نام بتایا۔یہ نوجوان میرے پاس آئے۔میں نے ان لوگوں کونہ صرف اپنی کتابیں پڑھنے کو دیں بلکہ ان کو اپنے ہفتہ وار اسپریچول کلاس میں شامل کرلیا۔اب یہ نوجوان مکمل طور پر اسلام کی صداقت پر مطمئن ہو چکے ہیں اور وہ ہمارے مشن کے باقاعدہ ممبر ہیں۔
اس تجربہ سے مجھے ایک نئی حقیقت دریافت ہوئی۔مسلمانوں میں جو مصلحین اٹھے انھوں نے زیادہ ترجلسوں اور اجتماعات کو خطاب کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔گویاکہ ان کا طریقہ بھیڑ(crowd) کو ایڈریس کرنا تھا۔مگر یہ تجربہ اپنے مقصد کے اعتبار سے نا کام رہا۔اسپریچول کلاس کے تجربہ کے ذریعہ مجھے معلوم ہوا کہ اصلاح یا قرآن کے الفاظ میں تزکیہ کاصحیح طریقہ یہ ہے کہ انفرادی ذہن کو ایڈریس کیا جائے۔یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ اصلاح کا مقصد حقیقی طورپر حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اس تجربہ کے ذریعہ میں نے ایک معلوم حقیقت کو دوبارہ دریافت کیا۔ وہ یہ کہ، مشہور حدیث کے مطابق ،ہر انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی بے آمیز فطرت پر ہوتا ہے۔اس اعتبار سے ہر انسان کو مسٹر نیچر کہا جا سکتا ہے۔مگر اس کے بعد اس کا ماحول اس کو ’’یہودی یا مجوسی یا نصرانی‘‘ بنا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ ایک کنڈیشنڈ کیس بن جاتا ہے۔ایسی حالت میں سب سے پہلا کام ہر آدمی کی کنڈیشننگ کو توڑنا ہے ۔گویاکہ اصلاح و تزکیہ کا کام ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) سے شروع ہوتا ہے، نہ کہ عمومی تقریر یاوعظ خوانی سے۔
ہماری اسپریچول کلاس میں جو ہندو نوجوان شریک ہوتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم اس کلاس میں شرکت سے پہلے اسلام اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔ہم یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اسلام ہمارے لیے کوئی پسندیدہ مذہب بن سکتا ہے۔ہم تو آپ کے پاس روحانیت (spirituality)کی تلاش میں آئے تھے۔پہلے ہم سمجھتے تھے کہ اسلام کا مطالعہ اسلام کے بارے میں ہمارے منفی ذہن کو مزید پختہ کردے گا۔مگر آپ نے ہمارے اوپر ڈی کنڈیشننگ کاجو پراسس چلایا اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ ہم اسلام کی تصویرکواس کی اصلی صورت میں دیکھ سکیں۔
اسپریچول کلاس سے ایک اور بات مجھے معلوم ہوئی۔یہ نوجوان میری کلاس میں آنے لگے تو میں اپنی عادت کے مطابق، ایسا نہیں کرتا تھا کہ ان سے میٹھی میٹھی باتیں کروں۔بلکہ میں شدید الفاظ میں ان کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتا تھا۔یہ لوگ اپنے گھروں میں اپنے ماں باپ کی طرف سے پیمپرنگ (pampering)کے عادی تھے، لیکن میرے یہاں اس کے برعکس انہیں ہیمرنگ (hammering)کا تجربہ ہوا۔ابتدا میں وہ لوگ اس سخت تجربہ سے گھبرائے۔مگر وہ برابرہماری کلاس میں آتے رہے کہ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔
آخرکار اب وہ کھلے طور پرمانتے ہیں کہ میری ہیمرنگ سے ان کو وہ فائدہ ہوا جو انہیں ان کے ماںباپ کی پیمپرنگ سے نہیں ہو سکتاتھا اور نہ ہوا تھا۔ہماری کلاس کی ایک خاتون پریا ملک ممبئی گئیں۔وہاں ایک مسلمان سے ان کی گفتگو ہوئی۔پریا ملک نے اسلام کے بارے میں جوگہری باتیں بتائیں اس کو سن کرمسلمان کو بہت تعجب ہوا۔انھوں نے پوچھاکہ آپ ایک ہندو فیملی میں پیدا ہوئیں پھر اسلام کے بارے میں آپ کے اندر اتنی کلیرٹی (clarity) کہاں سے آئی۔پریا ملک نے جواب دیا کہ اس کا راز صرف ایک ہے اور وہ ہے:
hammering, hammering, hammering.....
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
تعلیم کی دو قسمیں ہیں — رسمی تعلیم (formal education)، اور غیررسمی تعلیم (informal education) ۔ رسمی تعلیم کا ادارہ آدمی کو جاب (job) کے لیے تیار کرتا ہے، اور غیررسمی تعلیم کا ادارہ سماج کے لیے بہتر افراد بنانے کا ذریعہ ہے۔ اسکول اور کالج رسمی تعلیم کے ادارے ہیں اور خاندان غیر رسمی تعلیم کے ادارے۔سماج کے اندر وسیع تر دائرے میں مثبت اور منفی نوعیت کے جو تجربات ہوتے ہیں، وہ تمام تجربات گھر کے اندر محدود دائرے میں ہوتے ہیں- گھر کے اندر کسی عورت یا مرد کو یہ سیکھنا ہے کہ جب گھر کے کسی فرد سے اس کو تکلیف پہنچے تو وہ اُس کو بھلا دے۔ اِسی طرح جب گھر کے کسی فرد سے اس کو کوئی فائدہ پہنچے تو وہ دل سے اس کا اعتراف کرے۔
واپس اوپر جائیں

سی پی ایس انٹرنیشنل

سَروے بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں تمام عورت اور مرد آئی ڈنٹٹی کرائسس (identity crisis) کا کیس بنے ہوئے ہیں۔ اِس دنیا میں پیدا ہونے والے ہر چھوٹے اور بڑے انسان کا یہ حال ہوا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ایک کامیڈی کے روپ میں دیکھنا چاہتا تھا مگر موت نے بتایا کہ ہر ایک کے لیے صرف ٹریجڈی کا انجام مقدر تھا، ہر آدمی غیر حاصل شُدہ تمنّاؤں (unfulfilled desires)کا کیس بن کر رہ گیا۔ یہ بلا شبہہ انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ دردناک سوال ہے جس کا جواب شعوری یا غیر شعوری طورپر تمام عورت اور مرد تلاش کررہے ہیں، اِس میں کسی کا کوئی استثناء نہیں۔تجربہ بتاتا ہے کہ ہر عورت اور مرد شعوری یا غیر شعوری طورپر کچھ سوالات سے دوچار رہتے ہیں——میں کون ہوں، میری پیدائش کا مقصد کیا ہے، یہ دنیا کس منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے، موت کے بعدکیا ہونے والا ہے، اس دنیا کے بارے میں خدا کا کریشن پلان کیا ہے۔ یہ سوالات آئڈیالوجی آف لائف سے تعلق رکھتے ہیں۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا مقصد انھیں سوالات کا جواب فراہم کرنا ہے۔
سی پی ایس انٹرنیشنل (Centre for Peace and Spirituality)گویا ایک اسٹڈی فورم ہے۔ سی پی ایس، لٹریچر، میڈیا، آڈیو اور ویڈیو اورانٹرنیٹ کے ذریعے یہ کوشش کررہا ہے کہ وہ پُرامن انداز میں سچائی کا پیغام لوگوں تک پہنچائے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل گویا عالمی ڈائلاگ کا ایک اسٹیج ہے۔ وہ اِس لیے قائم کیا گیا ہے کہ لوگ اعلیٰ فکری سطح پر زندگی اور کائنات کے بارے میں ڈسکشن کریں اور اِس معاملے میں وہ کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ سی پی ایس انٹرنیشنل ایک خالص دعوتی تحریک ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا تعلق، سیاست سے نہ براہِ راست طورپر ہے اور نہ بالواسطہ طورپر۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں سیاست ایک ثانوی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ اب سیاست کا تعلق صرف ایڈمنسٹریشن سے ہے۔ زندگی کے دوسرے تمام شعبے سیاست کے دائرۂ عمل سے باہر ہوچکے ہیں، جب کہ قدیم زمانے میں ایسا نہ تھا۔
زندگی میں دو اہم شعبے ہیں۔ ایک ہے انتظامِ ملکی، اور دوسرا ہے انسان سازی۔ قدیم زرعی دَورمیں یہ دونوں شعبے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ موجودہ صنعتی اور سائنسی دَور میں یہ دونوں شعبے عملاً ایک دوسرے سے الگ ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت کو انتظامیہ (administration) کہاجاتا ہے۔ اب اگر کسی کو حکومتی عہدہ مطلوب ہو تو اس کو سیاست میں جانا چاہیے۔ لیکن جو لوگ انسانی ترقی سے دلچسپی رکھتے ہوں اُن کے لیے صحیح اور مفید طریقہ یہی ہے کہ وہ اقتدار سے باہر غیر سیاسی شعبوں کو اپنی جدوجہد کا نشانہ بنائیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل انسانی ترقی سے دل چسپی رکھتا ہے۔ اِس لیے ا س نے صرف غیر سیاسی شعبے کو اپنا میدان کار بنایا ہے۔ مثلاً ایجوکیشن، فارمل اور انفارمل دونوں، اسپریچول ڈیولپ مینٹ، تعمیر ِ شعور، امن کا فروغ، پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا، ویب سائٹ، میٹنگ اور ڈائلاگ، فکری رہنمائی اور ذہنی انقلاب ، وغیرہ۔ یہی سی پی ایس کا اساسی مقصد ہے۔ ہمارا اصل کام فکری انقلاب لانا ہے۔ عملی انقلاب اِسی فکری انقلاب کا نتیجہ ہے۔ فکری انقلاب کے بغیر عملی نتائج پانا کسی بھی حال میں ممکن نہیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل امن اور روحانیت کے ربّانی اصولوں پر قائم کیاگیا ہے۔ سی پی ایس کا پیغام یہ ہے کہ آؤ ہم امن اور روحانیت کے اصولوں میں اپنی مطلوب آئڈیالوجی آف لائف کو تلاش کریں۔ سی پی ایس کو یقین ہے کہ انسان، امن اور روحانیت کے ربّانی اصولوں میں اپنے اُن سوالات کا جواب پاسکتا ہے جن کا جواب پانے کے لیے وہ لمبی مدت سے ناکام طورپر سرگرداں ہے، اور پھر زیادہ بہتر بنیادوں پر وہ اپنی زندگی کی تعمیر و تشکیل کرسکتا ہے۔
امن کے متعلق عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے وہ عدمِ جنگ (absence of war) کا نام ہے۔ مگر یہ امن کی ایک ناقص تعبیر ہے۔ صحیح یہ ہے کہ امن ایک مکمل کلچر کا نام ہے۔ امن ایک اصولِ حیات ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عدم ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے زندگی کی تعمیر وتشکیل کی جائے۔ میدانِ جنگ کے محدود دائرے سے باہر کی پوری زندگی امن کے دائرے میں داخل ہے۔
روحانیت کو عام طور پر ایک پُر اسرار ڈسپلن سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ روحانیت اِس سے زیادہ وسیع ہے۔ روحانیت در اصل، ربّانیت (divine culture) کانام ہے۔ روحانیت کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔ روحانیت، دوسرے لفظوں میں، خدا رُخی زندگی(God-oriented life) کانام ہے۔ روحانیت یہ ہے کہ آدمی اعلیٰ شعوری سطح پر سچائی کی معرفت حاصل کرے۔ فکری عمل کے ذریعے وہ اپنے اندر ربّانی شخصیت پیدا کرے۔ وہ سچائی کو ابدی حقیقت کی صورت میں دریافت کرے۔ وہ محدود مادّی دنیا سے اوپر اٹھ کر سچائی کو اس کی آفاقی صورت میں پالے۔ وہ زندگی کی معنویت کو دریافت کرکے پوری طرح ایک بامقصد انسان بن جائے۔
سی پی ایس انٹر نیشنل اپنے فکر کے اعتبار سے ایک آفاقی تحریک ہے اور اپنے مزاج کے اعتبار سے انسان فرینڈلی مزاج رکھتی ہے۔ سی پی ایس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے محدود دائرے سے اٹھ کر کائناتی کلچر کا حصہ بن جائے۔ وہ امن اور روحانیت اور حقیقت شناسی کی لامحدود دنیا میں جینے لگے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
موجودہ زمانے میں جو تبدیلیاں ظہور میں آئی ہیں، وہ اتنی زیادہ ہیں کہ کوئی انسائکلوپیڈیا بھی ان کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ ان کے بیان کے لیے ایک پوری لائبریری کی ضرورت ہے۔ تاہم مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِن تبدیلیوں کی بناپر تاریخ انسانی میں پہلی بار ایک نیادور پیداہوا، ایک ایسا دور جس کا تصور قدیم انسان نہیں کرسکتا تھا۔ یہ دور اپنی حقیقت کے اعتبار سے، مکمل طورپر ایک موافقِ اسلام دور ہے۔ مزید یہ کہ دورِ جدید کے یہ عظیم امکانات تمام تر امن کے تصور پر مبنی ہیں۔ اِن امکانات کو استعمال کرنے کے لیے نہ جنگ کی ضرورت ہے اور نہ کوئی سیاسی ایمپائر قائم کرنے کی۔
واپس اوپر جائیں

روحانی ارتقا

میں ذاتی طورپر اسپریچول ڈیولپمنٹ کو بہت اہمیت دیتا ہوں، لیکن میرے نزدیک اسپریچول ڈیولپمنٹ ایک مائنڈ بیسڈ ڈسپلن (mind-based discipline) ہے، نہ کہ ہارٹ بیسڈ ڈسپلن (heart-based discipline)۔ مبنی بر قلب میڈیٹیشن آدمی کو وجد (ecstasy) تک لے جاتا ہے۔ جب کہ مبنی برذہن میڈیٹیشن آدمی کو انٹلیکچول ڈیولپمنٹ تک پہنچاتا ہے، اور انٹلیکچول ڈیولپمنٹ ہی پیس آف مائنڈ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
روحانیت کا اصل مقصد معرفت ہے، اور معرفت کا دائرہ اتنا بڑا ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور(1861-1941)نے اپنی کتاب گیتانجلی میں لکھا تھا، بینا کے تاروں کو سلجھانے میں ساری عمر بیت گئی، جو انتم گیت میں گانا چاہتا تھا، نہ گا سکا۔
جو آدمی ابھی صرف متلاشی (seeker)ہو، وہ گویا قبلِ معرفت کے دور میں ہے۔ اس کے لیے بھی تلاش معرفت ایک لامحدود میدان کی حیثیت رکھتا ہے، اور جو انسان معرفت کی دریافت تک پہنچ گیا ہو، اس کے لیے بھی معرفت کا میدان ایک لامحدود میدان ہے۔ اس لامحدود میدان کو پار کرنا، دونوں ہی کا سب سے بڑا کنسرن ہوتا ہے۔
روحانی ارتقا (spiritual development)کا قرآنی نام ربانی ارتقا (Rabbani development) ہے۔ یہ ربانی ارتقا کسی انسان کی فطرت کی سب سے بڑی تمنا ہوتی ہے۔ ایک انسان جو مادیات سے اوپر اٹھ گیا ہو، وہ محسوس کرتا ہے کہ میرے ذہن میں جو خیالات آتے ہیں، ان کو ادا کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ وہ مسلسل طور پر اسی احساس میں جیتا ہے جس کا ایک نمونہ ٹیگور کے مذکورہ الفاظ میں موجود ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے سب سے بڑی چیز جو چاہتا ہے ، وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایکسپرس (express)کرسکے۔ مگر ذہنی ارتقا کا ہر درجہ اس کو صرف یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی دریافت کو الفاظ میں بیان کرنے سے عاجز ہے۔
انسان کا یہی احساس جنت کی سب سے بڑی دریافت ہے۔ انسان سب بڑی چیز جو چاہتا ہے ، وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایکسپرس کرسکے۔ مگر انسان اس میدان میں جتنا زیادہ کوشش کرتا ہے، اتنا ہی اس کا یقین بڑھتا چلا جاتا ہےکہ وہ اس دنیا میں اپنے آپ کو ایکسپرس (express) کرنے پر قادر نہیں۔ یہ گویا اس دنیا میں جنت کا ایک سراغ (clue) ہے۔ آدمی اگر اس سراغ پر گہرائی کے ساتھ غور کرے تو وہ یقینا ًجنت کی دریافت تک پہنچ جائے گا۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ(51:49)۔ یعنی اور ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔ تخلیق کا یہ پہلو گویا جنت کا ایک یقینی سراغ ہے۔ اس پر غور کرتے ہوئے انسان اس دریافت تک پہنچتا ہے کہ موجودہ دنیا کے بعد یقیناً ایک اور دنیا ہے، اسی دوسری دنیا کو جنت کہا گیا ہے۔ جنت انسان کا ہیبیٹاٹ (habitat) ہے۔ جنت موجودہ دنیا کی کمی کی تکمیل ہے۔ جنت میں وہ تمام اسباب اپنی اعلیٰ ترین شکل میں موجود ہوں گے، جہاں انسان اپنی خواہشات کو پالے :وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ (41:31) ۔یعنی اور تمہارے لیے وہاں ہر چیز ہے جس کا تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے۔ یقینا ًانسان کی اس خواہش کی تکمیل بھی وہاں موجود ہوگی، جس کو ہم نے اپنی ہستی کا کامل اظہار کہا ہے۔
جنت میں انسان اپنی ارتقا یافتہ ہستی کے ساتھ داخل ہوگا۔ جنت میں انسان کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ ان حقیقتوں کو دریافت کرسکے، جن کو وہ دنیا کی زندگی میں دریافت کرنے میں ناکام رہا تھا۔ مزید یہ کہ جنت میں انسان کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ اپنی دریافت کردہ باتوں کو الفاظ کی صورت میں بیان کرسکے۔ جنت انسان کے لیے مقامِ راحت بھی ہے اور اس بات کا مقام بھی کہ وہ اپنی اعلیٰ دریافتوں کو بیان کرنے کے لیے اعلیٰ الفاظ پالے۔ جنت انسان کی شخصیت کی تکمیل کا مقام ہے، ہر اعتبار سے تکمیل، ایک ایسی تکمیل جس کے بعد کوئی چیز غیر مکمل حالت میں باقی نہ رہے۔ جنت انسان کے لیے اپنی آرزؤں کی تکمیل بھی ہے اور اپنےرب کی اعلی دریافت بھی۔
واپس اوپر جائیں

نقل اور عقل

ایک قاری الرسالہ لکھتے ہیں:سلفی اصول ہے تقدیم النقل علی العقل، اس کے مقابلے میں معتزلہ و متکلمین تقدیم العقل علی النقل کرتے ہیں۔ اس معاملے میں آپ کا منہج کیا ہے۔ علاماتِ قیامت کی تشریح کےلیے آپ نے کس منہج کو اختیار کیا ہے۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
مَیں اس معاملے میں اصولاً سلفی مسلک کو درست سمجھتا ہوں۔ البتہ اس معاملے میں میرے الفاظ مختلف ہوتے ہیں۔ یعنی الفاظ کے فرق کے ساتھ میں علمائے سلف کے مسلک کو اصولاًدرست مانتاہوں ، اور متکلمین و معتزلہ کا مسلک میرے نزدیک درست مسلک نہیں۔میرے مطالعے کے مطابق نقل (قرآن اور سنت) کو علم کے اصل ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس معاملے میں جو لوگ عقل کو مقدم قرار دیں ، اور نقل کو اس کے تابع کی حیثیت دے دیں، وہ بلاشبہ غلطی پر ہیں۔ تاہم میں ایسے لوگوں کی تکفیر کا قائل نہیں ہوں۔ البتہ میں اس کو ضروری سمجھتا ہوں کہ علمی مباحثہ کے ذریعہ ان کی غلطی کو واضح کیا جائے۔میرے مطالعے کے مطابق ، علوم عقلیہ کی حیثیت تائیدی علم کی ہے، نہ کہ مستقل ماخذ کی حیثیت۔ میں علیٰ وجہ البصیرۃ یہ مانتا ہوں کہ نقل میں اور حقیقی عقل میں کوئی ٹکراؤ نہیں ۔ تاہم اگر بالفرض دونوں کے درمیان کوئی ٹکراؤ پیش آئے تو میں بلاتوقف نقل کو ترجیح دوں گا، اور عقل کو چھوڑ دوں گا۔
میں نے کثیر تعداد میں چھوٹی بڑی کتابیں لکھی ہیں۔ ان تمام کتابوں کا مشترک موضوع ہے اسلام کی تعلیمات کو عصری ذہن کے لیے قابلِ فہم بنا نا۔ میرا یہ کام کسی قسم کی مرعوبیت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ کامل یقین کی بنا پر ہے۔ میں نے اپنے مطالعے میں کبھی ایسی کوئی چیز نہیں پائی جو حقیقی اسلام اور ثابت شدہ عقل کے خلاف ہو۔ نقل سے میری مراد قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں۔ بعد کے علما کے بارے میں میرا مسلک وہی ہے جو امام مالک کا مسلک تھا۔ ان کا مشہورقول ہے: کل أحد یؤخذ من قولہ ویترک إلا صاحب ہذا القبر (سیر اعلام النبلاء،7/178 )۔
واپس اوپر جائیں

مین آف مشن

ایک صاحب مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے سنا تھا کہ آپ بوڑھے ہوگئے ہیں، اور اب کسی سے ملاقات نہیں کرتے۔ اس کے باوجود میں آپ سے ملنے کے لیے آگیا۔ میں نے سوچا کہ اگر بات چیت نہیں ہوگی تو میں کم از کم آپ کو دیکھ لوں گا، اور آپ سے مصافحہ کرلوں گا۔
میں نے کہا کہ آپ نے مین آف مشن کو انڈر ایسٹیمیٹ (underestimate) کیا۔ مین آف مشن نہ کبھی بوڑھا ہوتا ہے، اور نہ وہ کبھی ملاقات کا سلسلہ بند کرتا ہے۔میں نے کہا کہ آدمی جب بوڑھا ہو تو وہ مشن پلس (mission ‘plus’) بن جاتا ہے۔ بوڑھا ہونے سے پہلے اس کے پاس علم تھا تو بوڑھا ہونے کے بعد اس کے پاس علم کے ساتھ تجربہ (experience) کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ لمبی عمر کی بنا پر وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ حال کے واقعات پر دانش مندانہ تبصرہ کرے۔ اسی کے ساتھ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ پچھلے زمانہ کے بارے میں لوگوں کو اپنا مشاہدہ بتائے۔
علم یا معلومات ہر ایک کے پاس ہوسکتی ہے، لیکن تجربہ ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا۔ تجربے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی پر مختلف قسم کے احوال گزریں، اور اس قسم کا معاملہ صرف اس کے ساتھ پیش آتا ہے جو لمبی عمر تک زندہ رہے۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ بوڑھے آدمی سے ضرور ملیں۔ وہ بوڑھے آدمی سے مل کر زندگی کے بارے میں اس کے تجربات کو جانیں، وہ اس کے تجربات سے اپنی زندگی کی زیادہ درست منصوبہ بندی کریں۔
یہ فطرت کا ایک عجیب نظام ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان جسمانی اعتبار سے بوڑھا ہوجاتا ہے، لیکن ذہنی اعتبار سے وہ بوڑھا نہیں ہوتا۔ اکثر حالات میں اس کی یاد داشت (memory) بڑی حد تک باقی رہتی ہے ۔ اس بنا پر وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اپنے پچھلے گزرے ہوئے واقعات کو بتائے، اور طویل مدت کے درمیان پیش آنے والے تجربات سے لوگوں کو واقف کرائے۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ اولڈ از گولڈ (old is gold)۔
واپس اوپر جائیں

آسان تدبیر

میں نے اپنی ڈائری (17 فروری 2004) میں یہ الفاظ لکھے —جب بھی مجھے کسی سے کوئی شکایت پیدا ہوتی ہے تو میںاس معاملہ میں خود اپنی غلطی دریافت کرلیتا ہوں۔ اس کے بعد وہ شکایت اپنے آپ ختم ہوجاتی ہے۔اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا ناخوشگوار باتوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں ہر آدمی کو اپنی پسند کے خلاف باتوں کے درمیان جینا پڑتا ہے۔ایسی ایک ناموافق دنیا میں آدمی کس طرح زندگی گزارے ۔ وہ ناخوش گوار تجربات کے درمیان کس طرح اپنے لیے ایک خوش گوار زندگی کی تعمیر کرے۔ اس کا فارمولا صرف ایک ہے — ناخوش گواری کو خوش گواری میں بدل لینا۔
اس دنیا میں ہر قسم کی ترقی کا سب سے بڑا راز مثبت سوچ ہے۔ تمام ترقیاں اسی مثبت سوچ کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ منفی تجربات کے درمیان مثبت سوچ کو کس طرح برقرار رکھا جائے۔ اس کا سب سے آسان فارمولا یہ ہے کہ شکایت پیدا ہوتے ہی آدمی اس کو ڈیفیوز کرکے ختم کردے۔ڈیفیوز کرنے کے لیے آدمی اگر یہ طریقہ اختیار کرے کہ جس سے شکایت ہوئی ہے اُس سے بحث کرکے اُس کو قائل کرے تو اس طرح کی کوشش میں کامیابی تقریباً صفر کے برابر ہے۔ ایسی حالت میں بہترین تدبیر یہ ہے کہ آدمی خوداپنے اندر شکایت کا سبب دریافت کرے۔ اس طرح وہ ایک لمحہ کے اندر اپنے آپ کو معتدل بنا سکتا ہے، وہ کسی تاخیر کے بغیر اپنے اندر مثبت سوچ کا عمل دوبارہ جاری کرسکتا ہے۔
اس تدبیر کی معنویت یہ ہے کہ آدمی کو دوسروں کے اوپر تو کوئی اختیار نہیں۔ مگر ہر آدمی خود اپنے آپ پر پورا اختیار رکھتا ہے۔ شکایت کو دور کرنے کے لیے د وسروں سے آغاز کرنا گویا ناممکن سے آغاز کرنا ہے۔ اس کے مقابلہ میں شکایت کو ختم کرنے کے لیے خود اپنے آپ سے آغازکرنا گویا ممکن سے آغاز کرنا ہے۔ اور جب ممکن سے آغاز کرنے کا راستہ کھلا ہوا ہو تو کوئی نادان ہی ایسا کرسکتا ہے کہ وہ ناممکن سے آغاز کرنے کی ناکام کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

چشمہ کا سبق 

1989 کے وسط میں میں نے کشمیر کا سفرکیا۔ایک روز میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سرینگر کے باہر گیا۔ ہم لوگ ایک کھلی وادی میں تھے۔ سامنے پہاڑی سلسلے دکھائی دیتے تھے۔ ان پہاڑوں سے نکلنے والے چشمے میدان میں ہر طرف بہہ رہے تھے۔ میں اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔ میں نے کہا کہ دیکھیے یہ سیکڑوں چشمے جو یہاں بہہ رہے ہیں، وہ فطرت کی زبان میں آپ کو ایک بے حد اہم پیغام دے رہے ہیں۔ وہ پیغام یہ ہے کہ ٹکراؤ سے اعراض کرکے اپنی زندگی کی تعمیر کرو۔
پھر میں نے کہا کہ ان بہتے ہوئے چشموں کے راستے میں جگہ جگہ پتھر موجود ہیں۔ یہ پتھر بظاہر ان کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ اگر چشمے ایسا کریں کہ وہ پتھر کو توڑ کر سیدھ میں آگے جانا چاہیں، تو ان کاسفر اچانک رک جائے گا۔ ان چشموں نے اس مسئلے کا یہ فطری حل نکالا ہے کہ وہ پتھر کے دائیں یا بائیںمڑ کر آگے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح ان کا راستہ ایک لمحہ رکے بغیر جاری رہتا ہے۔
یہ اہلِ کشمیر کے لیے فطرت کا ایک عظیم سبق ہے۔ آپ لوگوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی چٹانوں سے ٹکرانے کا ذہن ختم کردیں، اور ان سیاسی چٹانوں کی موجودگی میں جو مواقع آپ لوگوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں، ان کو استعمال کریں۔یہی انسان کے لیے اس دنیا میں کامیاب سفر کا واحد طریقہ ہے۔ جس طرح بہتے ہوئے چشمے کے راستے میں پتھر ہوتے ہیں، اسی طرح ہر فرد اور ہر گروہ کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں موجود ہوتی ہیں۔ عقل مندی یہ ہے کہ آدمی پیش آنے والی رکاوٹوں سے نہ ٹکرائے، وہ رکاوٹوں سے اعراض کرتے ہوئے اپنا سفر مسلسل جاری رکھے۔ رکاوٹوں سے ٹکرانا، سفر کو روک دینے کے ہم معنی ہے۔ اس کے برعکس، رکاوٹوں سے اعراض کرنا، بلاتوقف اپنے سفر کے لیے مواقع حاصل کرنا ہے۔ یہ اس دنیا کے لیے فطرت کا قانون ہے۔ اس قانون سے لڑنا، خود فطرت کے نظام سے لڑنا ہے، اور کون ہے، جو فطرت سے لڑ کر کامیاب ہوسکے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کے حق کی قیمت پر

ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ وہ الرسالہ کے قاری ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ اکثر خاندان کی تقریبات میں مشغول رہتے ہیں۔ وہ الرسالہ مشن کے لیے کچھ نہیں کرپاتے۔ میں نے اُن سے پوچھا تو اُنھوں نے کہا کہ رشتے داروں کا بھی تو حق ہے۔ میںنے کہا کہ خدا کا حق، رشتے داروں کے حق سے بھی زیادہ ہے۔ آپ خدا کے حق کی قیمت پر رشتے داروں کا حق ادا کررہے ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک جرم ہے، نہ کہ کوئی اچھا کام۔
موجودہ زمانے میں ہر عورت اور مرد کا یہی حال ہے، خواہ وہ بے دین ہو، یا بظاہر دین دار۔ ہر ایک اِس طرح فیملی کلچر میں پھنسا رہتا ہے، جیسے کہ اس کا خاندان ہی اس کا معبود ہے۔ ایسے لوگوں کی زندگی میںخدا کی حیثیت صرف ایک رسمی عقیدے کی ہوتی ہے۔ عملاً وہ اپنا وقت اور اپناپیسہ اور اپنے جذباتِ محبت کا مرکز اپنے خاندان کو بنائے رہتے ہیں۔ اور رسمی الفاظ کی حیثیت سے خدا کا نام بھی لے لیتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام میں رشتے داروں کے حقوق کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن اس کا تعلق حقیقی ضرورت سے ہے، نہ کہ خاندانی رسوم اور خاندانی رواج کو پورا کرنے سے۔ موجودہ زمانے میں ’’رشتے داروں کے حقوق‘‘ کے نام پر جو سرگرمیاں جاری ہیں، وہ بلا شبہ ایک سنگین گناہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ نمائشی قسم کی سرگرمیوں میں لگے رہتے ہیں اور بطور خود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شرعی حقوق کو ادا کررہے ہیں۔ ایسے لوگ جو کچھ کرتے ہیں، اگر وہ اس کو خاندان کے نام پر کریں، تو وہ صرف ایک گناہ ہے۔ اور اگر وہ اُس کو شریعت کے نام پر کریں، تو یہ گناہ پر سرکشی کا اضافہ ہے۔یہ بے حد سنگین صورتِ حال ہے۔ کیوں کہ گناہ، خدا کے یہاں قابلِ معافی ہے، لیکن سرکشی خدا کے یہاں قابلِ معافی نہیں۔ جو آدمی سرکشی کی زندگی اختیار کرے اور توبہ کیے بغیر مرجائے، تو وہ اِس طرح خدا کی سخت پکڑ میںآجائے گا کہ وہاں اُس کا کوئی رشتے دار اس کو بچانے کے لیے موجود نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

لائن آف ایکشن کا مسئلہ

1947 میں جب ہندستان آزاد ہوا تو اس کے بعدتمام مسلمانوں کے سامنے یہ سوال تھا کہ نئے ہندستان میں مسلمانوں کے لیے لائن آف ایکشن کیا ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک اس موضوع پر ہزاروں تحریریں سامنے آئیں اور ہزاروں جلسے کیے گئے۔ مگر آج بھی لوگ یہی پوچھتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے راہِ عمل یا لائن آف ایکشن کیا ہونا چاہیے۔
میرے نزدیک یہ مسئلہ لائن آف ایکشن کی غیر موجودگی کا نہیں ہے بلکہ لائن آف ایکشن کے موجود ہوتے ہوئے اس کو عملاً قبول نہ کرنے کا ہے۔ مسلمانوں کے سامنے بار بار مختلف جماعتوں اور رہنماؤں کی طرف سے اپنے اپنے انداز میں اس سوا ل کا جواب دیا گیا ہے مگر آج تک کسی بھی جوا ب کو مسلمانوں میں عمومی قبولیت کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے 1948 میں لکھنؤ میں مشہور مسلم کنونشن کیا۔ اس موقع پر مولانا آزاد نے جو تقریر کی تھی وہ آج بھی چھپی ہوئی موجود ہے۔ اپنی اس تقریر میں انہوں نے مسلمانان ہند کے سامنے یہ لائحۂ عمل پیش کیا کہ وہ مسلم لیگ کو توڑ دیں اور نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرلیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہندستان کے مسلمان فرقہ وارانہ بنیاد پر اپنی ملی پالیسی نہ بنائیں بلکہ اپنی پالیسی مشترک قومی بنیاد پر بنائیں۔ نمائندگی کے اعتبار سے لکھنؤ کا یہ آل انڈیا مسلم کنونشن نہایت کامیاب تھا۔ مگر اس کے بعد ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان مولانا آزاد کے مشورہ کو اپنی ملی پالیسی کے طورپر اختیار کرلیں۔ ان کی ولولہ انگیز تقریر فضا میں تحلیل ہو کر رہ گئی۔
اسی طرح نہایت دھوم کے ساتھ آل انڈیا مسلمِ مجلس مشاورت (1964) بنی ۔ ملک کے تقریباً تمام مسلم رہنما اس کے پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئے۔ مگر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیںنکلا۔ آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت نے متفقہ طورپر ایک مسلم منشور تیار کرکے شائع کیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہندستان کے مسلمان اس ملک میں خیرِ امت کا کردار ادا کریں۔ مگر اس عنوان پر مسلمان عملاً متحرک نہ ہوسکے۔ یہاں تک کہ خود مسلم مجلسِ مشاورت بے اثر ہوکر رہ گئی۔
یہی معاملہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (1972) کا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بانی قائدین کے زمانہ میں متفقہ طورپر تعمیر ِ ملت اور اصلاحِ معاشرہ کی تجویز پاس کی۔ اس پر کافی حد تک وہ کام بھی ہوا جس کو پیپر ورک کہا جاتا ہے۔ مگر یہ لائحۂ عمل بھی مسلمانوں کے درمیان عملی قبولیت حاصل نہ کر سکا۔اس طرح کچھ مسلم قائدین نے نہایت دھوم کے ساتھ وہ تحریک شروع کی جو پیام ِانسانیت (1951) کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان خود انسانی اقدار کو اپنائیں اور برادرانِ وطن کو انسانی اقدار کی پیروی کی دعوت دیں۔ مگر جلسوں کی وقتی دھوم دھام کے علاوہ اس کا بھی کوئی عملی نتیجہ نہیں نکلا۔ انسانی اقدار کی پیروی کی فضا نہ مسلمانوں میں قائم ہوسکی اور نہ غیر مسلموں میں۔
اسی طرح1990 میں بابری مسجد کے نام پر جلسہ اور جلوس اور ریلی کے زبردست ہنگامے شروع ہوئے۔ یہ سلسلہ پورے ملک میں جاری ہوگیا۔ اس تحریک کے مسلم لیڈروں نے یہ نعرہ دیا کہ مسلمان لاکھوں کی تعداد میں مارچ کرکے اجودھیا پہنچیں اور حملہ آور وںکے مقابلہ میں بابری مسجد کی حفاظت کریں۔ مگر اس مقصد کے لیے نہ چھوٹا مارچ ہوا اور نہ بڑا مارچ۔ یہاں تک کہ ’’حملہ آور‘‘ کسی مزاحمت کے بغیر 6دسمبر 1992 کو اجودھیا میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے بابری مسجد کے ڈھانچہ کو توڑ کر اس کی جگہ ایک عارضی رام مندر تعمیر کر دیا۔
اسی طرح کچھ ممتاز مسلم لیڈروں نے یہ لائحۂ عمل دیا کہ مسلمان اس ملک میں باعزت زندگی اس طرح حاصل کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی ووٹ کی طاقت کو اینٹی مسلم پارٹیوں کو ہرانے کے لیے استعمال کریں۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک اردو شاعر کا یہ شعر سنایا:
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے اگر کانٹوں میںہو خوئے حریری
ہر بار جب اسمبلی اور پارلیمنٹ کا الیکشن ہوتا ہے تو وہ وقت آتا ہے جب کہ مسلمان اس لائحۂ عمل کو اختیار کرکے مفروضہ اینٹی مسلم پارٹیوں کو ہرائیں اور مفروضہ پرومسلم پارٹیوں کو جتائیں۔ مگر ہر بار صرف یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ اپنے عدمِ اتحاد کی بنا پر منتشر ہوجاتا ہے۔ مذکورہ سیاسی مقصد حاصل کرنے کے بجائے مسلمان صرف یہ کرتے ہیں کہ وہ ہر الیکشن کے موقع پرتقسیم ہو کرووٹ کی طاقت کو ضائع کردیتے ہیں۔ الیکشن ان کے ووٹوں کا ایک سیاسی قبرستان بن کر رہ جاتا ہے۔
یہی معاملہ جمعیۃ علماء ہند کا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے تقریباً ہر موقع پر یہ لائحہ عمل پیش کیا ہے کہ مسلمان ایسا طریقِ کار نہ اختیار کریں جس میں ہندو اور مسلم کے درمیان ٹکراؤ کی فضا بنے۔ اس کے بجائے وہ خاموش تدبیر اور تعمیری اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے اپنا مسئلہ حل کریں۔ مگر ہر بار یہی ہوا ہے کہ مسلمان جمعیۃ علماء ہند کے بتائے ہوئے اس لائحۂ عمل کو اختیار نہیں کر پاتے۔ گویا لائحہ عمل موجود ہے مگر لائحۂ عمل کی قبولیت اور پیروی موجود نہیں۔
اس فہرست میں کسی قدر فرق کے ساتھ خود الرسالہ مشن کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ الرسالہ مشن کے تحت مسلمانوں کے سامنے نہایت واضح اور مدلّل انداز میں1976 سے یہ لائحہ عمل پیش کیا جارہا ہے کہ مسلمان کا اصلی اور ابدی مشن دعوت ہے۔ اس ملک میں مسلمان اور برادران وطن کا تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے اپنے اس فریضہ کو پہچانیں۔ وہ دعوت کے آداب اور دعوت کی حکمتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس ملک میں دین حق کی پر امن پیغام رسانی کا کام انجام دیں۔ مگر رُبع صدی سے زیادہ مدت تک مسلسل جدوجہد کے باوجود ابھی تک مسلمانوں کی صرف ایک محدود تعداد ہی نے اس راہ ِعمل کوعملاً اختیار کیا ہے۔
یہ طویل تجربہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ راہ عمل کی غیر موجودگی نہیںہے بلکہ جذبۂ قبولیت کی غیر موجودگی ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے درمیان حقیقی کام کا آغاز صرف یہ نہیں ہوسکتا کہ تقریر یا تحریر کی صورت میں ایک راہِ عمل یا لائن آف ایکشن کا اعلان کردیا جائے۔ موجودہ حالات میں اس کے لیے شعوری تعمیر اور ذہنی بیداری کی ایک مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ پہلے شعوری اعتبار سے لوگوں میںمادّۂ قبولیت پیدا کیجیے، اُس کے بعد ہی راہِ عمل کے اعلان کا کوئی مفید عملی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے، اس کے بغیر ہر گز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

الرسالہ مشن کے متعلق بعض سوالات

1۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ آپ اپنی تحریروں اور تقریروں میں ہمیشہ اسلام کے نظریاتی پہلو کو بیان کرتے ہیں۔ اسلام کا جو عملی پہلو ہے اس کو آپ بیان نہیں کرتے۔ آخر یہ تفریق کیوں۔
میں نے کہا کہ عمومی اعتبار سے یہ بات درست نہیں۔ میں نے اسلام کے تقریباً ہر موضوع پر لکھا ہے۔ مثلاً نماز اور روزہ اور حج جیسے موضوعات پر میری کئی کتابیں موجود ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ میں اسلام کے نظری پہلوؤں پر زیادہ زور دیتا ہوں۔ نظری پہلو سے میری مراد ہے اسلام کی داخلی اسپرٹ، یعنی اسلامی طرزِ فکر پیدا کرنا، لوگوں کے اندر اسلامی جذبہ ابھارنا، اسلام کی صحیح اسپرٹ کو زندہ کرنا۔ یہ میری توجہ کا خصوصی مرکز رہا ہے۔ یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ آپ کو یہ بات قابلِ اعتراض اس لیے دکھائی دیتی ہے کہ آپ ہمارے مشن کو امت کی سرگرمیوں سے الگ کرکے دیکھتے ہیں۔ اگر آپ ہمارے مشن کو امت کی عمومی سرگرمی میں شامل کرکے دیکھیں تو آپ کا اعتراض اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ملتِ مسلمہ کے احیاء کی تحریک عالمی سطح پر چل رہی ہے۔ اس میں امت کے تمام درد مند افراد شریک ہیں۔ میںنے اپنے مطالعے میں پایا کہ احیاءِ ملت کی یہ تحریکیں ننّانوے فیصد کی حد تک اُسی پہلو پر چل رہی ہیں جس کو آپ اسلام کا عملی پہلو کہہ رہے ہیں۔ آپ دیکھیے تو ان میں سے کوئی نماز اور روزہ اور حج جیسے اسلامی اعمال کا نظام قائم کرنے میں مصروف ہے۔ کسی نے اسلام کے سماجی پہلوؤں پر اپنی توجہ لگا رکھی ہے۔ کوئی اسلام کے سیاسی ڈھانچے کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ کوئی مسجد اور مدرسے کے نظام کو قائم کرنے میںمصروف ہے۔ کوئی مسلمانوں کے خاندانی نظام کو اسلامی احکام پَر تشکیل دینا چاہتا ہے۔ کوئی ملّی مسائل، یا کمیونٹی ورک کے میدان میں محنت کررہا ہے، وغیرہ۔ لیکن میں نے اپنے تجربے میں پایا کہ کوئی بھی عصری اسلوب میں اسلام کی اسپرٹ کو جگانے کاکام نہیں کررہا ہے۔ اس لیے ہم نے اپنے آپ کو اس چھوٹے ہوئے کام میں لگا دیا ہے۔ گویا کہ ہمارا مشن احیاءِ ملت کے مجموعی کام میں ایک تتمّہ (supplement) کی حیثیت رکھتا ہے۔
موجودہ حالات میں یہی چیز ممکن اور قابلِ عمل ہے۔ احیاءِ ملت کا موجودہ کام جو عالمی سطح پر انجام پارہا ہے اس کی حیثیت ایک پراسس (process) کی ہے۔ اِس پر اسس میں ساری تحریکیں اور سارے اجزائے ملّی شریک ہیں۔ ہمارا مشن بھی اِس پراسس کا ایک حصہ ہے۔ یہ پراسس گویا کہ ایک بلا اعلان تقسیمِ کار کا معاملہ ہے۔ اِس پراسس کے مختلف اجزا میں سے کوئی ایک بھی ساری ملی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتا اور نہ کررہا ہے۔ ہر ایک کسی ایک پہلو سے ملت کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ ہر ایک کو اپنی نیت اور اپنے اخلاص کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے یہاں انعام ملے گا۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملّت کے اندر تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری ضرورتوں کی طرح، تنقید بھی ملت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ تنقید، حدیثِ رسول (سنن ابو داؤد، حدیث  نمبر 4918)کے الفاظ میںالْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ ( مومن مومن کے لیے آئینہ ہے) کے اصول کی تکمیل ہے۔ علمی تنقید ہمیشہ ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر علمی تنقید کا طریقہ ختم کردیا جائے تو اس کے نتیجے میں صرف یہی نہیں ہوگا کہ علمی تنقید باقی نہ رہے گی، بلکہ ذہنی ارتقا کا عمل رک جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ذہنی جمود پیدا ہو جائے گا جو کسی گروہ کے لیے سمّ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔
2۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ آپ کا مشن ایک فکری مشن ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمارا نشانہ یہ ہے کہ ہم اسلام کو عصری اسلوب میں پیش کریں۔ اِس طرح ہم کچھ لوگوں کے لیے اسلام کو ان کی ڈسکوری بنانا چاہتے ہیں، اور کچھ لوگوں کے لیے اسلام کو ان کی ری ڈسکوری۔ آپ کی اِس فکری مہم میں مسلمانوں کا کیا درجہ ہے۔ کیا آ پ مسلم اور غیر مسلم کو اِس معاملے میں برابر کی حیثیت دیتے ہیں یا آپ کے نزدیک مسلمانوں کو کوئی خصوصی حیثیت حاصل ہے۔
قرآن اور حدیث کے مطابق، ہماری رائے یہ ہے کہ جہاں تک آخرت کی جزا اور سزا کا معاملہ ہے، اس میں دونوں گروہوں کو یکساں حیثیت حاصل ہے۔ یہ بات قرآن کی اِس آیت سے واضح طور پر ثابت ہوتی ہے:لَیْسَ بِأَمَانِیِّکُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِہِ(4:123) یعنی نہ تمھاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو کوئی بھی بُرا کرے گا وہ اس کا بدلہ پائے گا۔
یہ عقیدہ بالکل بے بنیاد ہے کہ مسلمان خود اپنی پیدائش کے اعتبار سے ’’منتخب گروہ‘‘ بن چکے ہیں۔ اور ان کی جنّتیں رزرو (reserve)ہیں۔ یہ عقیدہ سر تا سر بے بنیاد ہے۔ یہ عقیدہ بھی ایک بے بنیاد عقیدہ ہے کہ کچھ ظاہری رسوم ورواج کی تعمیل، یا کسی کلچرل شناخت کو اختیار کرناآدمی کو جنت کا سرٹفکیٹ دے دیتا ہے۔ جنت نفوسِ مزکّیٰ کے لیے ہے، نہ کہ کسی کلچرل گروہ کے لیے (طٰہٰ، 20:76)۔البتہ ایک اور پہلو ہے جس کے اعتبار سے مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلے میں موافق حیثیت (advantageous position) حاصل ہے۔ وہ یہ کہ دوسروں کے برعکس، مسلمانوں کا ذہن اسلام کے خلاف تعصّب سے خالی ہوتا ہے۔ اِس بنا پر مسلمان ممکن طورپر اس قابل رہتے ہیں کہ وہ کسی نفسیاتی رکاوٹ کے بغیر اِس بارے میں غور وفکر کا صحیح نقطۂ آغاز پالیں۔
حدیث میں آیا ہے: کُلُّ مَوْلُودٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔ یعنی ہر پیدا ہونے والا فطرتِ صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اس کو یا تو یہودی بنا دیتے ہیں۔ یانصرانی بنا دیتے ہیں، یا مجوسی بنادیتے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا کسی خاندان میں پیداہوتا ہے اور کسی سماج میں اس کی پرورش ہوتی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر آدمی بچپن ہی سے متاثّر ذہن کا حامل بن جاتا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں کنڈیشننگ (conditioning) کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ہر آدمی بلا استثنا کنڈیشننگ کا ایک کیس ہوتا ہے۔ آدمی کی کنڈیشننگ جس ماحول میں ہوتی ہے، اُسی ماحول کے اعتبار سے اس کی شخصیت بن کر تیار ہوتی ہے۔ کنڈیشننگ کے اِس عمل کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کو اپنے خاندانی مذہب کے ساتھ متعصبانہ حد تک جذباتی تعلق ہوجاتا ہے، اور دوسرے مذہب کے بارے میں وہ منفی ذہنیت کا حامل بن جاتا ہے۔ یہ کنڈیشننگ کسی غیر مسلم کے لیے اس میں رکاوٹ بن جاتی ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں غیر متاثر ذہن کے ساتھ سوچ سکے۔
اِس معاملے میں مسلمان ایک مستثنیٰ حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ مسلمان کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ مخالفانہ احساس سے خالی ہوکر اسلام کا مطالعہ کرسکے۔ اِس طرح ایک مسلمان کو اسلام کے مطالعے کے لیے ایک موافق نقطۂ آغاز مل جاتا ہے۔ وہ اِس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ معتدل ذہن کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرے اور کسی قسم کی نفسیاتی رُکاوٹ کے بغیر اسلام کی صداقت اس کے ذہن میں بیٹھتی چلی جائے۔
3۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ — الرسالہ کا انداز غیر معتدل انداز ہے۔ آپ اُس میں ہمیشہ مسلمانوں کو صبر اور تقوی کی ’’نصیحت‘‘ کرتےہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور سازشوں پر آپ کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔ جب کہ دوسرے مسلم اہلِ علم اور رہنما، اعتدال کا طریقہ اپناتے ہوئے ہمیشہ دونوں فریقوں کی غلطی کو بتاتے ہیں۔
میں نے کہا کہ الرسالہ کا انداز قرآنی انداز ہے، وہ ہر گز غیر معتدل انداز نہیں۔ اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے غزوۂ احد (3 ہجری) کی مثال دی۔ میں نے کہا کہ مشرکین نے مکہ سے چل کر چار سو کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ اور یک طرفہ طورپر انھوں نے مدینہ میں مقیم مسلمانوں پر جارحانہ اقدام کرکے انھیںجنگ کرنے پر مجبور کردیا۔ اِس جنگ میں اپنی ایک غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ ستر صحابہ شہید ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، مخالفین کے پتھراؤ کی وجہ سے شدید طورپر زخمی ہوگیے۔
اِس کے باوجود قرآن میں جب اِس واقعہ پر تبصرہ نازل ہوا تو اُس میں یک طرفہ طورپر ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالتےہوئے کہاگیا: حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْأَمْرِ وَعَصَیْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاکُم مَّا تُحِبُّونَ (3:152)۔ یعنی جب تم خود کمزور پڑ گئے اور تم نےکام میں جھگڑا کیااور تم کہنے پر نہ چلے جب کہ اللہ نے تم کو وہ چیز دکھا دی تھی جو تم چاہتے تھے۔
میں نے کہا کہ آپ کے نزدیک ایسے موقع پر معتدل انداز یہ تھا کہ دونوں فریقوں پر تبصرہ کیا جاتا۔ پہلے مشرکینِ مکہ کے جارحانہ اقدام کی کھلے طورپر مذمت کی جاتی اور اُس کے بعد مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے ان کی کمزوری بتائی جاتی۔ حالاں کہ قرآن کے اِس تبصرے میں ایسا انداز نہیں ہے۔ اِس میں مشرکینِ مکہ کے جارحانہ اقدام کا سرے سے کوئی ذکر موجود نہیں، بلکہ اِس آیت میںساری ذمے داری مسلمانوں پر ڈال دی گئی ہے، اور کہاگیا ہے کہ احد کی شکست کسی دشمن کی سازش اور ظلم کا نتیجہ نہ تھی۔ یہ شکست خود تمھاری اپنی کمزوری کا نتیجہ تھی۔
میں نے کہا کہ اگر آپ قرآن کے اِس تبصرے کو درست سمجھتے ہیں تو آپ کو یقیناً الرسالہ کے انداز ہی کو صحیح انداز سمجھنا چاہیے۔ الرسالہ کا انداز خالص قرآنی انداز ہے، نہ کہ غیر معتدل انداز۔
میں نے کہا کہ قرآن میں واضح طورپر یہ آیت موجود ہے: وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا(3:120)۔یعنی اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو (مخالفین) کی کوئی بھی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گی۔ اِس آیت سے واضح طورپر یہ ثابت ہوتاہے کہ اہلِ ایمان کے لیےاصل مسئلہ سازش کا ہونا نہیں ہے، بلکہ صبر اور تقوی کا نہ ہونا ہے۔ اگر کسی گروہ کے اندر صبر اور تقوی کی صفت موجود ہے تویہ صبر اور تقوی ان کے لیے ہر سازش کے خلاف ایک چیک بن جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر کوئی مسلم گروہ کسی مخالف گروہ کی سازش کا نشانہ بنے تو قرآن کے مطابق، لازماً یہ یقین کرنا چاہیے کہ صبر اور تقوی کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ سازش کی موجودگی نقصان کا سبب نہیں، بلکہ صبر اور تقوی کی عدم موجودگی نقصان کا اصل سبب ہے۔ اس لیے تمام لکھنے اور بولنے والوں کو صبر اور تقوی کی اسپرٹ جگانے پر مصروف ہونا چاہیے، نہ یہ کہ وہ مفروضہ دشمنوں کے خلاف بے فائدہ طورپر احتجاج اور شکایت کی مہم میں لگ جائیں۔ صبر اور تقوی کامیابی کی واحد ضمانت ہے، جب کہ احتجاج اور شکایت کا طریقہ اپنانا،کامیابی کی اِس واحد خدائی ضمانت سے اپنے آپ کو محروم کرلینا ہے۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک انتہائی حکیمانہ بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ ایسے معاملات میں اگر دونوں فریقوں کو نصیحت کی جائے تو نصیحت غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ نصیحت کے لیے ہمیشہ یک طرفہ کلام موثر ہوتا ہے، تاکہ سامع کی ساری توجہ صرف قابلِ اصلاح پہلو پر پڑے، اس کی توجہ اصل مرکز سے ہٹنے نہ پائے۔
واپس اوپر جائیں

ایک سوال

اکثر علماء یہ سوال کرتے ہیں کہ صاحب الرسالہ کا منہج اخذ واستدلال کیا ہے؟ اس سلسلے میںجواب مطلوب ہے۔ (حافظ سید اقبال عمری، عمرآباد، تامل ناڈو)
جواب
اس معاملہ میں ہمارا منہج وہی ہے جو عملاً تمام علما کا معروف منہج ہے۔ اس منہج کی اصل صحابی رسول حضرت معاذ بن جبل کی حدیث میں موجود ہے۔ یہ حدیث سنن الترمذی، ابوداوود، اور مسند احمد وغیرہ کتب حدیث میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الیَمَنِ، فَقَالَ:کَیْفَ تَقْضِی؟، فَقَالَ:أَقْضِی بِمَا فِی کِتَابِ اللہِ، قَالَ:فَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِی کِتَابِ اللہِ؟، قَالَ:فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:فَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِی سُنَّةِ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ:أَجْتَہِدُ رَأْیِی، قَالَ: الحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّہِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر1327)۔
معاذ بن جبل کے بعض ساتھیوں سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن بھیجنے کا ارادہ کیا تو پوچھا: تم کس طرح فیصلہ کرو گے ۔ انہوں نے کہا اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپ نے پوچھا: اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ ؟ انھوں نےکہاکہ رسول اللہ کی سنت کے مطابق (فیصلہ کروں گا)۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اگر سنتِ رسول میں بھی نہ پاؤ ؟ انھوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا: اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے رسول اللہ کے رسول کو اس چیز کی توفیق دی۔
اس حدیث کو بعض علماء نے ضعیف بتایا ہے۔ لیکن یہ تضعیف خالص فنی بنیاد پر ہے۔ چناں چہ دوسرے علما ءنے اس کی تصحیح کی ہے، مثلاً ابن القیم الجوزیہ ۔ اس فنی بحث سے الگ ہوکر دیکھا جائے تو عملاً تمام علماء نے اس روایت کو تسلیم کیا ہے۔ کیوں کہ تمام علماء کے متفقہ مسلک کے مطابق مصادر شریعت چار ہیں، قرآن، سنت ، قیاس، اور اجماع۔ یہ مسلک عین معاذ بن جبل کی روایت کے مطابق ہے۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ باعتبار حقیقت مصادر شریعت چار نہیں ہیں، تین ہیں۔ کیوں کہ قیاس اور اجماع دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہیں۔ جب قیاس کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد انفرادی قیاس ہوتا ہے اور جب اجماع کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد اجتماعی قیاس ۔ قیاس اور اجماع دونوں کی اصل اجتہاد ہے۔
یہاں میں اضافہ کروں گا کہ قرآن میں اجتہاد کا لفظ نہیں آیا ہے۔ البتہ اس کے ہم معنی دوسرالفظ آیا ہے، اور وہ استنباط (النساء ، 4:83)ہے۔اجتہاد اور استنباط دونوں کا مشترک مفہوم ایک ہے، اوروہ استخراج (inference)ہے۔ جب کسی معاملہ میں حکم شرعی منصوص انداز میں موجود ہو تو وہاں کسی اجتہاد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن جب کسی معاملہ کا حکم بشکل نص موجود نہ ہو تو وہاں ضرورت ہوتی ہے کہ غور و فکر کرکے متعلقہ معاملہ میں حکم کی شرعی تطبیق (application) کو دریافت کیا جائے۔ اسی عمل کو استخراج کہا جاتا ہے۔ یعنی نص شرعی کے حدود میں رہتے ہوئے، بطریق استنباط متعلقہ معاملہ کا حل تلاش کرنا۔
**********
مومن کا مشن عالمی دعوت کا مشن ہے۔ یہ ذہن فطری طورپر مومن کے اندر آفاقیت پیدا کرتا ہے۔ اس کا نشانہ پوری انسانیت ہوتی ہے۔ وہ قومی تعصب سے یکسر خالی ہوتاہے۔ وہ سارے انسانوں کا خیر خواہ ہوتا ہے۔ وہ سارے انسانوں کو ایک فیملی کی طرح اپنا سمجھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن ’’ہم اور وہ‘‘(We and They) کے تصور سے ناآشنا ہوتا ہے۔ اِس کے بجائے مومن کا تصور ’’ہم اور ہم‘‘ (We and We) کے تصور پر مبنی ہوتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیاہےکہ اللہ تمام انسانوں کا رب ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو مومن کا ذہن بناتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک انٹرویو

مندرجہ ذیل انٹرویو ریاض (سعودی عرب) سے شائع ہونے والے مجلہ اوج (مطبوعہ شمارہ نمبر 4، 1439/2018) نے لیا تھا۔ یہاں اس انٹرویو کا متعلق حصہ نقل کیا جار ہا ہے:
سوال: مسلمانوں کی اکثریت یہ محسوس کرتی ہے کہ اس وقت مادی والحادی فکر اور اسلام و ایمان کے درمیان ایک آئڈیولاجیکل ٹکراؤ ہے۔ چوں کہ ہر ٹکراؤ کا ایک اسلحہ ہوتا ہے، تو ان مادی اور الحادی فکر رکھنے والوں کا مشہور ہتھیار کیا ہے،جس کے ذریعہ وہ دور جدید میں اہل ایمان اور مسلم نوجوانوں کو متاثر کرتے ہیں؟
جواب: اس سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں لوگوں کے اندر تبدیلی آئی ہے۔ بیسویں صدی کا دور نظریاتی دور تھا۔ اس زمانے میں چیزوں کو نظریاتی اعتبار سے جج (judge) کیا جاتا تھا۔ مگر مارکسزم کے زوال کے بعد یہ ذہن ختم ہوگیا۔ اب ساری دنیا میں چیزوںکو ان کی افادیت کے اعتبار سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اگر نظریے کا حوالہ دیں تب بھی حقیقت میں ان کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی ترقی کا راز کیا ہے۔ مادی ترقی کے اعتبار سے وہ کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔
مسلمان چوں کہ ابھی تک روایتی دور میں جی رہے ہیں، اس لیے نئے دور کے لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کے ساتھ ترقی کا سفر جاری نہیں ہوسکتا۔ لوگ خواہ الفاظ جو بھی بولیں، لیکن پس منظر میں جوبات ہوتی ہے، وہ یہی ہے کہ اسلام کے روایتی ورزن کو لے کر ترقی کا سفر طے نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کے روایتی ورژن کی پیروی کرنے سے مسلمان مستقل طور پر پسماندہ کمیونٹی بنے رہیں گے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو اس کے روایتی ورزن سے نکال کر ماڈرن ایج کے اعتبار سے اس کو متعارف کرانا ہوگا۔ تاکہ اسلام دور جدید کے لوگوں کو سمجھ میں آسکے۔یہ اسلام کی تعلیمات میں تبدیلی کی بات نہیں ہے، بلکہ دور جدید کی زبان میں اسلام کو متعارف کرانے کی بات ہے۔
سوال: دورِ جدید میں پھیلنے والے لامذہبیت اور سیکولرزم کا سبب کیا ہے، آپ کی نظر میں اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟
جواب: یہ بات جو کہی جاتی ہے، وہ در اصل اسلام کے اعتبار سے نہیں ہے۔ بلکہ اسلام کے روایتی ورزن کے اعتبار سے ہے۔ اسلام کے روایتی ورزن کے اعتبار سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ اسلام کا تعلق زندگی کے سارے پہلو سے ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ یہی سوچ سب سے بڑا سبب ہے کہ مسلمانوں کا ذہین طبقہ کیوں سیکولرزم کی طرف مائل ہورہا ہے۔ مگر یہ سوچ بذات خود غلط ہے۔ جہاں تک میں سمجھتاہوں اسلام کا تعلق اصلاً انسان کے مذہبی امور سے ہے، جیسا کہ خود پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کردیا تھا: إِذَا کَانَ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ دُنْیَاکُمْ فَشَأْنَکُمْ بِہِ، وَإِذَا کَانَ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ دِینِکُمْ فَإِلَیَّ(مسند احمد، حدیث نمبر 24920) ۔ یعنی کوئی چیز اگر دنیا کے معاملہ سے متعلق ہو تو تم اس کو زیادہ جانتے ہو اور اگروہ بات دین کے متعلق ہو تواس کی ذمےداری میرے اوپر ہے۔
مذہبی دائرے کے سوا اسلام انسان کو پوری آزادی دیتا ہے۔ مثلا ًروایتی اسلام میں رسول اللہ کے بارے میں کوئی کریٹیکل کمنٹ دینا شتم رسول کا حکم رکھتا ہے، اور شتم رسول ایک ایسا جرم ہے، جس کی سزا قتل ہے۔ جب کہ قرآن و سنت دونوں میں اس پر سزا کا براہ راست ثبوت نہیں ملتا۔ تفصیل کے لیے میری کتاب، شتم رسول کا مسئلہ ملاحظہ ہو۔
شتم رسول پر سزا آج کے انسان کے لیے قابل قبول نہیں۔ موجودہ زمانے کی فکر، اظہار خیال کی آزادی (freedom of expression) پر قائم ہے۔ اس بنا پر لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اسلام کے ساتھ دنیا میں ترقی نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ اسلام ان مسائل کی بنیاد پر دوسری قوموں سے اتحاد میں رکاوٹ ہے، اور اتحاد کے بغیر ترقی کا کوئی پلان نہیں بنایا جاسکتا۔ جدید ذہن کے لیے اسلام کا یہ نظریہ مستقل طور پر قیام امن میں رکاوٹ ہے، اور قیامِ امن کے بغیر کوئی ترقی کا کام عملاً ممکن ہی نہیں۔ اس معاملے کا حل صرف اسلام کے پر امن پیغام کو عام کرنا اور شتم کرنے والے کے ساتھ اس معاملے میں افہام و تفہیم کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔
سوال: آپ مسلم مفکرین اور لکھنے والوں کو کیا نصیحت کرنا چاہیں گے، بطور خاص اس لیے کہ آپ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ آپ نے جب بھی کسی فکر پر تنقید کرنے کا ارادہ کیا، تو اس کے بارے میں ہزاروں صفحات پڑھا ہے؟
جواب: مسلم مفکرین اور لکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ جدید فکر (modern thought) ان کے خلاف ایک چیلنج ہے۔ مگر بہ غور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس چیز کو جدید فکر کہا جاتا ہے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام مخالف نہیں ہے، وہ عین موافق اسلام ہے۔ مسلم مفکرین کی یہ غلطی ہے کہ انھوں نے جدید فکر یا جدید تہذیب کو اسلام کا مخالف سمجھ لیا۔ اس بنا پر ان کے اور جدید ذہن کے درمیان غیر ضروری ٹکراؤ پیدا ہوگیا ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید ذہن اور جدید تہذیب پوری کی پور ی اسلام کے موافق ہے۔ حقیقت کےاعتبار سے دیکھیے تو اسلام اور جدید فکر میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔
اصل مسئلہ فکر جدید کو بدلنے کا نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کی سوچ کو بدلنے کا ہے۔ اس کے بعد کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔ مسلمانوں کا مزاج یہ تھا کہ ہر نئی چیز کے خلاف ہوجانا۔ تو جب کلونیلزم کا دور آیا تو وہ ہر چیز کے خلاف ہوگئے۔ اسی چیز نے اصل مسئلہ پیدا کیا۔ تو اسی ذہنیت کو بدلنا ہے۔میری ان کو نصیحت ہے کہ وہ جدید فکر کے خلاف اپنی منفی مہم کو بند کردیں۔
سوال: آنے والے دنوں میں آپ اسلام کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
جواب: اسلام کا مستقبل بہت ہی اچھا ہے، بشرطیکہ مسلمان اپنے کو بدلیں۔ موجودہ زمانے کی کوئی چیز اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن مسلمان ہر چیز کو اسلام کے خلاف سمجھنے لگتے ہیں، اور ہر چیز کے خلاف لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ مثلاً جب پرنٹنگ پریس آیا تو ابتداء میں ترکی کے شیخ الاسلام نے اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا۔ یہ دورِ جدید سے علماء کی بے خبری کا مسئلہ تھا، نہ کہ غیر مسلموں کی اسلام سے مخالفت کا۔اس لیے ضرورت یہ ہے کہ مسلمان اپنی سوچ کو بدلیں۔
سوال: آپ کے بچپن یا جوانی کا کوئی واقعہ ، جس کو آپ ابھی تک یاد کرتے ہوں، اور اس کا آپ کی شخصیت پر آج تک اثر ہو؟
جواب: میں تو سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ جو واقعہ مجھے یاد رہتا ہے، وہ وہی سبق ہے جو میرے استاذ امین احسن اصلاحی سے مجھے ملا۔ ایک روز قرآن کی کلاس میں یہ آیت سامنے آئی:أَفَلَا یَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ کَیْفَ خُلِقَت (88:17)۔ یعنی کیا وہ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیا گیا۔ استاذ محترم نے اس موقع پر طلبہ سے پوچھا کہ اونٹ کے سم پھٹے ہوتے ہیں یا جڑے ہوتے ہیں۔ یعنی بیل کی مانند پھٹے ہوتے ہیں یا گھوڑے کی مانندجڑے ہوئے۔ اس وقت ہماری جماعت میں تقریبا 20 طالب علم تھے۔ مگر کوئی بھی شخص یقین کے ساتھ اس کا جواب نہ دے سکا۔ ہر ایک اٹکل بچو سے کبھی ایک جواب دیتا، اور کبھی دوسرا جواب۔
اس موقع پر استاد محترم نے ہم لوگوں کو سمجھایا کہ تمھارے جوابات سے اندازہ ہو تاہے کہ تم لوگ اونٹ کے سم کی نوعیت نہیں جانتے۔ پھر انھوں نے عربی کا مقولہ سنایا: ا ادری نصف العلم (میں نہیں جانتا، آدھا علم ہے)۔ اس کی تشریح انھوں نے کی کہ اگر تم لوگ یہ جانتے کہ تم اونٹ کے سم کے بارے میں بے خبر ہو تو گویا کہ اس معاملہ میں تمھارے پاس آدھا علم ہوتا۔ کیوں کہ اپنی لاعلمی کو جاننے کے بعد تمھارے اندر یہ شوق پیدا ہوتا کہ تم اپنے علم کو مکمل کرنے کے لیے یہ معلوم کرو کہ اونٹ کے سم کیسے ہوتے ہیں۔ اگر لا ادری (میں نہیں جانتا) کا شعور تمھارے اندر بیدار ہوتا تو اونٹ پر نظر پڑتے ہی تم اس کے سم کو غور سے دیکھتے، اور پھر تم اس کے نہ جاننے کو جاننا بنا لیتے۔
مدرسہ کا یہ واقعہ میرے لیے اتنا موثر ثابت ہوا کہ یہ میرا عمومی مزاج بن گیا کہ میں ہر معاملہ میں اپنی ناواقفیت کو جانوں، تاکہ میں اس کو واقفیت بنا سکوں۔ علمی تلاش کا یہ جذبہ مجھے ابتداء ً مدرسہ سے ملا تھا۔ بعد کو میں نے اس موضوع پر مغربی مصنفین کی کچھ کتابیں پڑھیں، مثلاً اسپرٹ آف انکوائری (Spirit of Inquiry)۔ ان سے معلوم ہوا کہ تجسس کا یہی جذبہ تمام علمی ترقیوں کی اصل بنیاد ہے۔ اس کی ایک مشہور مثال یہ ہے کہ ہزاروں لوگوں نے سیب کو درخت سے گرتے دیکھا تھا۔ مگر اس معاملہ میں وہ اپنے ’’لا ادری‘‘ کو نہیں جانتے تھے، اس لیے وہ حقیقت سے بے خبر رہے۔ نیوٹن پہلا شخص ہے، جس نے اس معاملہ میں اپنے ’’لاادری‘‘ کو جانا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ’’ادری‘‘ کے درجہ تک پہنچ گیا۔
اس کے برعکس، مسلم علماء دور جدید کو نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے فتوی دے کر یہ ظاہر کیا کہ ادری ان العصر الجدید حرام (میں جانتا ہو ںکہ دور جدید حرام ہے)۔جب کہ انھیں کہنا یہ چاہیے تھاکہ لاادری ما ھوالعصر الجدید (میں نہیں جانتا کہ دورجدید کیا ہے )۔ اس کے بعد وہ اس قابل ہوتے کہ دور جدید کو جانیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جب انھوں نے دور جدید کو جانے بنا ایک قدم اٹھایا تو اس کے نتیجے میں انھوں نے اس ادری (میں جانتا ہوں) کلچر کی بنیاد پر ہر چیز کو حرام قرار دے دیا، اوریہی وہ چیز ہے جو سیکولر تعلیم یافتہ مسلمانوں کے اسلام سے دور ہونے کا سبب بن رہی ہے۔ جب کہ میں ہر چیز کو سب سے پہلے لاادری (میں نہیں جانتا ہوں)کے خانے میں ڈالتا ہوں۔ اس کے بعد موضوعی اعتبار سےیہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔
سوال: وہ کیا پروگرام ہیں، جس کے بارے میں آپ اللہ سے یہ تمنا کرتے ہیں کہ وہ اس کو پورا کرے؟
جواب: میری صرف ایک تمنا ہے۔ حدیث میں آیا ہےکہ اللہ ہر گھر میں اسلام کا کلمہ داخل کرے گا، روایت کے الفاظ یہ ہیں: لَا یَبْقَى عَلَى ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللَّہُ کَلِمَةَ الْإِسْلَامِ(مسند احمد، حدیث نمبر 23814)۔ یعنی روئے زمین پر کوئی بھی بڑا یا چھوٹا گھر باقی نہیں رہے گا، مگر اللہ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کرے گا۔ میری خواہش ہے کہ اس حدیث میں بیان کردہ پراسس کا میں حصہ بن جاؤں۔یہاں تک کہ یہ ریَلٹی بن جائے، اور قرآن کی آیت ، لیکون للعالمین نذیرا (25:1)، کے مطابق سارے عالم تک قرآن کا میسج آف انذار پہنچ جائے۔
My greatest desire is to become a part of this historical process, the process of the spreading of the word of God, until it becomes a reality.
سوال: آپ کی ایک اہم کتاب الاسلام یتحدی (مذہب اور جدید چیلنج) ہے۔ کیا آپ کا یہ ارادہ ہے کہ اس کو نئے سائنسی انکشافات کے اعتبار سے اپ ڈیٹ (update) کی جائے، تاکہ وہ موجودہ دور کے اعتبار سےاپ ٹو ڈیٹ (up to date) ہوسکے؟
جواب: جہاں تک کتاب کو اپ ڈیٹ کرنے کی بات ہے، تو میں اس کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ کیوں کہ اس میں جو مباحث موجود ہیں، وہ ابھی تک ریلیونٹ ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ ایک ہسٹاریکل بک بن چکی ہے۔ اس میں کسی اپ ڈیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت میں سارا فوکس دعوت پر دیتا ہوں ، اور دعوتی فوکس کے اعتبار سے اس معاملہ میں میری ایک نئی کتاب آئی ہے، اظہار دِین۔ یہ کتاب فی الوقت اردو زبان میں موجود ہے۔
سوال: آپ مسلم نوجوانوں کو کن کتابوں کے پڑھنے کا مشورہ دیں گے، تاکہ وہ فکری اعتبار سے مضبوط ہوسکیں؟
جواب: میں انھیں دو کتابیں پڑھنے کامشورہ دوں گا۔ ایک ہے ، اللہ یتجلی فی عصر العلم (اردو ترجمہ :خدا موجود ہے)۔ یہ جان کلوور مونسما کی کتاب The Evidence of God in an Expanding Universeکا عربی ترجمہ ہے۔ اس سے انھیں معلوم ہوگا کہ سائنس اسلام کے خلاف نہیں ہے، اور دوسری کتاب جس کومیں پڑھنے کا مشورہ دوں گا، وہ یہ ہے:
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West
اس کتاب سے انھیں معلوم ہوگا کہ دورِ جدید کی فکر کیا ہے۔
سوال: ہم کیوں نوجوان مسلم عورتوں میں دینی انحراف دیکھتے ہیں،اس کا سبب کیا ہے؟
جواب: اس کی وجہ صرف ایک ہے، اسپرٹ (تقوی، محبتِ الٰہی اور اخلاق )کے بجائے ظواہرِ دین پر غلو کی حد تک زور دینا۔ مثلاً پردہ پر غیر ضروری زور دینا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو کام پردہ کے باہر جائز نہیں ہے، اس کو انھوں نے پردے کی آڑ میں جائز کر لیا ہے:
What is not allowed outside the purdah, they are allowing inside the purdah.
اِس زمانے میں برقعہ والی عورتیں زیادہ فیشن کرتی ہیں۔ یہ برقعہ پر ظواہر دین پر غلو سے پیدا ہونے والا ری ایکشن ہے۔ پیغمبر ِ اسلام کی بیوی عائشہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تربیت نتیجہ خیز کیسے ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا تھا: إِنَّمَا نَزَلَ أَوَّلَ مَا نَزَلَ مِنْہُ سُورَةٌ مِنَ المُفَصَّلِ، فِیہَا ذِکْرُ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، حَتَّى إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَى الإِسْلاَمِ نَزَلَ الحَلاَلُ وَالحَرَامُ، وَلَوْ نَزَلَ أَوَّلَ شَیْءٍ:لاَ تَشْرَبُوا الخَمْرَ، لَقَالُوا:لاَ نَدَعُ الخَمْرَ أَبَدًا، وَلَوْ نَزَلَ:لاَ تَزْنُوا، لَقَالُوا:لاَ نَدَعُ الزِّنَا أَبَدًا، لَقَدْ نَزَلَ بِمَکَّةَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِنِّی لَجَارِیَةٌ أَلْعَبُ:بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْہَى وَأَمَرُّ[ 54:46] وَمَا نَزَلَتْ سُورَةُ البَقَرَةِ وَالنِّسَاءِ إِلَّا وَأَنَا عِنْدَہُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر4993 )۔ یعنی سب سے پہلے جو چیزیںنازل ہوئیں، ان میں ایک مفصل کی سورت ہے۔ اس میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہے ۔ پھر جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہو گئے، اس کے بعد حلال وحرام (کے احکام) اترے ، اگر ابتداہی میں یہ اترتاکہ شراب نہیں پینا تو لوگ کہتے ہم تو کبھی بھی شراب پینا نہیں چھوڑیں گے۔ اگر شروع ہی میں یہ اترتاکہ زنا نہیں کرنا تو لوگ کہتے ہم تو زنا نہیں چھوڑیں گے۔ اس کے بجائے مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی : بل الساعۃ موعدھم والساعۃ ادھی وامر ( بلکہ قیامت ان کے وعدہ کا وقت ہے اور قیامت بڑی سخت اور بڑی کڑوی چیز ہے)۔ اس وقت جب میں بچی تھی اور کھیلا کرتی تھی ۔ (اس کے برعکس،) سورۃ البقرہ اور سورۃ النساء اس وقت نازل ہوئی ، جب کہ میں ( مدینہ میں )آپ کے پاس آگئی تھی ۔
سوال: موجودہ دور میں امت کی حالت کے اعتبار سے کمی کہاں ہے؟
جواب: صرف ایک دور جدید سے بے خبری۔موجودہ دور کو سمجھنے کے لیے مودودی اور سید قطب کی کتاب کو نہ پڑھا جائے، بلکہ اس کتاب کو پڑھا جائے:
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West
سوال: آپ کے اعتبار سے قرآن کا مطلوب انسان کون ہے، جیسا کہ آپ کی ایک کتاب بھی اسی نام سے ہے؟
جواب: داعی انسان۔ قرآن کا سب سے زیادہ فوکس دعوت پر ہے،اور قرآن کا مطلوب انسان وہی ہے جو قرآن سے اس کو دریافت کرے،اور قرآن کا داعی بن جائے۔
سوال: وہ پانچ اہم افکار کیا ہیں، جن پر آپ نے اپنی فکری اور تجدیدی پروگرام میں فوکس کیا؟
جواب:وہ پانچ افکار درج ذیل ہیں:
(1) معرفتِ خداوندی (realization of God)
(2) مثبت سوچ (positive thinking)
(3) دعوت الی اللہ
(4)نفرت (hate) کا کلی خاتمہ، منفی سوچ کا کلی خاتمہ، مغرب کو اسلام کا دشمن سمجھنے کے بجائے، اس کو اسلام موید سمجھنا۔
(5) سیاسی ٹارگٹ کے بجائے، آخرت رخی زندگی کواپنا ٹارگٹ بنانا۔
سوال: آپ کی زندگی بھر کی حکمت کا کوئی خلاصہ ۔
جواب: پرابلم کو اگنور کرنا، اورمواقع کو دریافت کرکے اس کو اویل کرنا۔
To ignore the problem and avail of the opportunity by discovering it.
**********
اٹھارھویں صدی میں قدیم زمانی حالات ختم ہوگئے۔ اب کسی قوم کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ قدیم طرز کا سیاسی ایمپائر قائم کرے۔ مسلمانوں کی سیاسی تحریکوں کو جو ناکامی ہوئی، وہ کسی دشمن کی ’’سازش‘‘ کی بنا پر نہ تھی، وہ صرف اِس لیے تھی کہ موجودہ زمانے میں اٹھنے والے مسلم رہنما زمانے کی تبدیلی سے بے خبر تھے۔ اِس بنا پر وہ ایسی سیاست کے چیمپئن بنے رہے جو نئے دور میں سرے سے ممکن ہی نہ تھی۔اب جو لوگ مسلم تحریکوں کی ناکامی کو دشمن کی ’’سازش‘‘ قرار دے کر مضامین اور کتابیں لکھ رہے ہیں، وہ صرف اپنی بے دانشی کا ثبوت دے رہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں