Pages

Wednesday, 1 May 2019

Al Risala | May 2019 (الرسالہ،مئی)

4

-معرفت حق

5

- خدا کی معرفت

6

- افضل ایمان

7

- حبّ شدید صرف اللہ سے

8

- حمد خداوندی

9

- توحید کا مقام

10

- ذکر کثیر کیا ہے

11

- سجدہ ذریعۂ قربت

12

- انسان کے لیے سبق

13

- شکر کا آئٹم

14

- ایمان بالغیب

15

- ایمان باللہ

16

- اقشعرار کیا ہے

17

- اسمِ اعظم

19

- جنت، جنت

20

- جنت کس کے لیے

21

- خالق اور مخلوق

22

- خدا اور انسان

23

- خدا کا وجود

24

- انسان کی تخلیق

26

- ایمان کا ذائقہ

28

- خدا کی پہچان

30

- خدا کی دریافت

35

- عجز کا اصول

37

- خوف کی نفسیات

38

- حکمت کا سر چشمہ

39

- فوق الفطری حکم

41

- عارف انسان

43

- معرفت کا سفر

44

- مومن کون

45

- مسخر کائنات

45

- پرزنس آف گاڈ

47

- تخلیق میں تنوع

48

- ربانی شخصیت

49

- اللہ کا تخلیقی منصوبہ

50

- زندہ شخصیت


معرفت حق

قرآن میں ایک گروہ کے قبول اسلام کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ ۔ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ (5:83-84)۔ یعنی اور جب انھوں نےاس کلام کو سنا، جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھے کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
قرآن کیا ہے۔ قرآن فطرت انسانی کا بیان ہے۔ جو لوگ اس فطرت کو زندہ رکھیں، جو حق کے متلاشی ہوں، جو تخلیق خداوندی میں غور کرنے والے ہوں، ان کی فطرت زندہ فطرت ہوتی ہے۔ وہ جب اللہ کے کلام کو سنتے ہیں، تو وہ ان کو اپنے دل کی آواز معلوم ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے کلام میں اپنے فطرت کی آواز سن لیتے ہیں۔ ان کو اللہ کا کلام اپنی فطرت کا کاؤنٹر پارٹ (counterpart) نظر آتا ہے۔ اللہ کا کلام ان کے لیے سچائی کی دریافت بن جاتا ہے۔ معرفت کے اس تجربے کا ذکر قرآن کی ایک اور آیت میں اس طرح کیا گیاہے۔
اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے۔ اس کی روشنی کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق اس میں ایک چراغ ہے۔ چراغ ایک شیشہ کے اندر ہے۔ شیشہ ایسا ہے جیسے ایک چمک دار تارہ۔ وہ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ اس کا تیل ایسا ہے گویا آگ کے چھوئے بغیر ہی وہ خود بخود جل اٹھے گا۔ روشنی کے اوپر روشنی۔ اللہ اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے (24:35) - سچائی کی اسی دریافت کا نام معرفت ہے۔ جو لوگ اس معرفت پر کھڑے ہوجائیں ، وہ اللہ کے مومن بندے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی معرفت

انسان پیدائشی طور پر ایک متلاشی (seeker)انسان ہے۔ اس کی تلاش کا اصل مرکز صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنے خالق کو دریافت کرنا۔ انسان جب اپنے آپ کو دیکھتا ہے، اور اپنے آس پاس کی دنیا کو دیکھتا ہے تو ہر طرف اس کو تخلیق کے کرشمے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے اندر فطری طور پر یہ سوچ جاگ اٹھتی ہے کہ میرا اور اس دنیا کا خالق کون ہے، اور اس سے میرا تعلق کیا ہے۔
آپ ایک کھلے میدان میں کھڑے ہوں تو آپ کو بے شمار چیزیں دکھائی دیں گی۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کے اوپر سورج چمک رہا ہے، چاروں طرف آپ کے لیےہرے بھرے درخت اُگے ہوئے ہیں۔ آپ کو مسلسل طور پر آکسیجن سپلائی کیا جارہا ہے، جو آپ کے لیے زندگی بخش سانس کا ذریعہ ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ دریاؤں اور سمندروں میں آپ کے لیےپانی کے بھاری ذخیرے موجود ہیں۔ آپ کو نظر آئے گا کہ زمین (soil) آپ کے لیے بڑی مقدار میں اناج اور پھل اُگارہے ہیں۔ آپ دریافت کریں گے کہ پوری یونیورس آپ کے لیے ایک کسٹم میڈ یونیورس (custom-made universe) ہے، وغیرہ۔
غور و فکر کے ذریعے آپ جانیں گے کہ اس دنیا میں کوئی ہے، جو دینے والا (giver) ہے۔ سارے انسان اس کے مقابلے میں لینے والے (taker) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسان کے اپنے وجود سے لے کر باہر کی پوری دنیا تک ہر چیز آپ کو اسی حقیقت کی گواہی دیتی ہوئی نظر آئے گی۔ یہ معرفت کا آغاز ہے۔ اس طرح کے تجربے کے دوران آخر کار آپ اللہ رب العالمین کو دریافت کرتے ہیں۔ یہ دریافت آپ کے وجود کا سب سے بڑا حصہ بن جاتی ہے۔ یہ دریافت آپ کے لیےماسٹر اسٹروک ثابت ہوتی ہے۔یہ دریافت آپ کی سوچ کو بدل دیتی ہے۔ آپ کے اندر پورے معنوں میں خدا رخی فکر پیدا ہوتی ہے۔ آپ کی ہر بات میں اللہ کی محبت اور اللہ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے۔ آپ کے اندر ایک نیا ذہن جاگ اٹھتا ہے، جس کو عارفانہ ذہن کہتے ہیں -اسی کا نام معرفت خداوندی ہے۔
واپس اوپر جائیں

افضل ایمان

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أَفْضَلَ الْإِیمَانِ أَنْ تَعْلَمَ أَنَّ اللَّہَ مَعَکَ حَیْثُمَا کُنْتُ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 8796)۔ یعنی عبادہ بن الصامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: بیشک افضل ایمان یہ ہے کہ تم یہ جانو کہ یقیناً اللہ تمھارے ساتھ ہے، تم جہاں بھی ہو۔
اس حدیث میں علم کا لفظ آیا ہے۔ یہاں علم سے مراد معرفت ہے۔ ایسی معرفت کسی انسان کو کیسے حاصل ہوتی ہے۔ وہ اس ایمان کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، جو آدمی کو دریافت (discovery) کے ذریعے حاصل ہوا ہو۔ جب ایک آدمی غور و فکر کی زندگی اختیار کرتا ہے۔ وہ دنیا میں اس طرح زندگی گزارتا ہے کہ اللہ کی تخلیقات میں برابر سوچتا رہتا ہے۔ اس کا ایمان صرف عقیدہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس کے لیے تدبر (contemplation) بن جاتاہے۔اس تدبرسے اس کو برابر تخلیقات میں اللہ کے وہ کرشمے دریافت ہوتے رہتے ہیں، جن کو قرآن میں آلاء اللہ کہا گیا ہے۔یہی وہ دریافتیں ہیں، جو ایک مومن انسان کو عارف انسان بنادیتی ہے۔
اس معرفت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر لمحہ اللہ کی یاد میں جینے لگتا ہے۔ اس کو ہر لمحہ اللہ کی موجودگی (presence) کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ برابر اللہ کے ساتھ ہے، اور اللہ اس کے ساتھ ہے۔ افضل ایمان کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ اللہ کےنزدیک مطلوب ایمان۔ اللہ کا مطلوب ایمان یہ نہیں ہے کہ آدمی تلفظ کے صحت کے ساتھ کلمہ کے الفاظ کو اپنی زبان سے ادا کرلے۔ بلکہ اللہ کا مطلوب ایمان یہ ہے کہ آدمی ایمان کی معنوی حقیقت میں جینے لگے۔ ایمان اس کے لیے حدیث کے الفاظ میں ذائقہ (taste)بن جائے (صحیح مسلم، حدیث نمبر34)۔ ایمان اس کے لیے غذا کا درجہ حاصل کرلے۔ ایمان اس کے لیے روحانی توانائی (spiritual energy) کی حیثیت اختیار کرلے۔
واپس اوپر جائیں

حبّ شدید صرف اللہ سے

قرآن میں مومن کا یہ معیار بتایا گیا ہے کہ مومن وہ ہے، جس کو اللہ رب العالمین سے حب شدید کا تعلق قائم ہوجائے:(ترجمہ) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر (equal) ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہیے۔ اور جو اہل ایمان ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والے ہیں (2:165)۔ یہ حب شدید اس طرح پیدا نہیں ہوتا کہ آدمی صحت مخارج کے ساتھ کلمہ پڑھ لے۔ بلکہ حب شدید معرفت شدید کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے۔ آدمی جب اللہ رب العالمین کو اس طرح دریافت کرے کہ اس کے اندر اپنے رب سے نہایت گہرا تعلق پیدا ہوجائے۔ اس کے اندر اللہ کے سوا کسی اور سے گہرا قلبی تعلق باقی نہ رہے۔ اس کو صرف اللہ سے محبت ہو، اور صرف اللہ سے خوف ہو۔ اسی گہرے تعلق باللہ کا نام حب شدید ہے۔
حب شدید کیا ہے، اس کا تجربہ مجھے ایک واقعہ سے ہوا۔ میں ایک صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ نارمل انداز میں مجھ سے بات کر رہے تھے۔ اس وقت ان کے بیٹے کا ٹیلیفون آگیا، جو باہر کے ملک میں رہتا تھا۔ باپ کی حیثیت سے ان کو اپنے بیٹے سے نہایت گہرا تعلق تھا۔ جب انھوں نے ٹیلیفون اٹھایا ، اور بیٹے سے بات کرنے لگے تو میں نے دیکھا کہ وہ بار بار’’ہاں میرے بیٹے، ہاں میرے بیٹے‘‘ کہہ رہے تھے۔ اس وقت وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ شدت جذبات کے تحت وہ کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے ہیں، اور کھڑے ہوکر اپنے بیٹے سے بات کرنے لگے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس وقت وہ صرف اپنے بیٹے کو جانتے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ ان کے سوا کوئی اور بھی ان کے پاس موجود ہے۔ محبت کا یہی وہ درجہ ہے، جس کو حضرت مسیح نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے- خداوند اپنے خدا سے، اپنے سارے دل، اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ:
You shall love the Lord your God with all your heart, and with all your soul, and with all your mind. (Matthew 22:37)
واپس اوپر جائیں

حمد خداوندی

قرآن کی پہلی آیت یہ ہے:الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (1:1)۔ یعنی سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو جو نعمتیں (blessings)دی ہیں، ان کے جواب میں انسان سے کیا رسپانس مطلوب ہے۔ یہ حمد کا رسپانس ہے۔ حمد کا مطلب شکر اور تعریف کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ مگر انسانی استعمال کے اعتبار سے شاید زیادہ بامعنی لفظ ہےاعتراف (acknowledgement)۔ یعنی ان نعمتوں کو دریافت کرنا، اور دل کے سچے جذبہ کے ساتھ ان کا اعتراف کرنا۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان سے شکر یا تعریف کا لفظ بول دیا جائے۔ اعتراف کا آغاز دریافت (discovery) سے ہوتا ہے۔ پہلے انسان ان نعمتوں کو دریافت کرتا ہے، اس کے بعد اس کے دل میں اعتراف کا جذبہ امڈتا ہے، اور پھر ان وفور جذبات کا اظہار مختلف الفاظ کی صورت میں بے ساختہ طور پر اس کی زبان سے نکل پڑتا ہے۔ گویا شکر وہ ہے، جس کے اندر گہرے جذبات کا طوفان شامل ہو۔ شکر وہ ہے، جو دل کو تڑپادے، جو آنسوؤں کی صورت میں امڈ پڑے۔ شکر وہ ہے، جس کے اندر انسان کی پوری شخصیت شامل ہوجائے۔
شکر یہ نہیں ہے کہ زبان سے کچھ الفاظ بول دیے جائیں۔ شکر گہرے اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ ایک شاعر نے ایک گہرے جذبے کا ذکر کرنا چاہا، تو اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:
اس بات کے کہنے کو کہاں سے جگر آئے
حقیقت یہ ہے کہ سچا اعتراف وہ ہے، جس کے احساس سے آدمی کا دل پھٹنے لگے، جس کو بیان کرنے کے لیے انسان کی ڈکشنری کے الفاظ ناکافی نظر آئیں۔ سچا اعتراف انسان کی پوری شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔سچے اعتراف میں آنکھ کے آنسو، اور زبان کے الفاظ اس طرح ایک دوسرے میں شامل ہوجاتے ہیں کہ ان کو الگ کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

توحید کا مقام

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا شَاءَ اللہُ وَشِئْتَ۔قَالَ:جَعَلْتَ لِلَّہِ نِدًّا بَلْ مَا شَاءَ اللہُ وَحْدَہُ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 13005)۔ یعنی ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، جو اللہ چاہے اور جوآپ چاہیں۔ یہ سن کر آپ نے کہا: کیا تو نے مجھے اللہ کے برابر کردیا۔ بلکہ جو اللہ اکیلا چاہے۔
ند کا معنی ہے برابر (equal)۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ کوئی ہستی کسی ادنی پہلو سے بھی اس کے ہمسر نہیں ہوسکتی۔ جو آدمی اللہ کی غیر مشترک عظمت کا حقیقی شعور رکھتا ہو، وہ اس معاملے میں اتنا زیادہ حساس ہوگا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو ضمیر (pronoun)کی شکل میں بھی برابر کرنا گوارا نہیں کرسکتا۔ قرآن کی مختلف آیتوں میں اللہ کی عظمت کا بیان ہوا ہے، مثال کے طور پر آیۃ الکرسی (البقرۃ، 2:255) ۔ آپ آیۃ الکرسی کو سمجھ کر پڑھیں تو آپ کا دل دہل اٹھے گا۔ مثلاً اللہ کی عظمت کے بارے میں آیۃ الکرسی کے ان الفاظ کو پڑھیے -وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ:
His throne extends over the heavens and the earth.
زمین و آسمان ناقابل قیاس حد تک وسیع ہے۔ اس عظیم کائنات کو اللہ رب العالمین ہر لمحہ سنبھالے ہوئے ہے۔اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یَسْأَلُہُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِی شَأْنٍ(55:29)۔ یعنی اسی سے مانگتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ ہر روز اس کا ایک کام ہے۔
یہ معاملہ عقل کو چکرانے (mind-boggling)کی حد تک عظیم ہے۔ ایک اردو شاعر نے 1857 ء میں دلی کی بربادی کویاد کرتے ہوئے یہ کہا تھا:
اس بات کو کہنے کے لیے کہاں سے جگر آئے
اللہ رب العالمین کی عظمت کے بارے میں یہ بات بے شمار گنا حد تک بڑی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذکر کثیر کیا ہے

قرآن کی کئی آیتوں میں کہا گیا ہے کہ اللہ کا ذکر کثیر کرو۔ مثلا یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللَّہَ ذِکْرًا کَثِیرًا (33:41)۔ یعنی اے ایمان والو، اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو۔ اللہ کے ذکر کثیرکا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان سے بار بار اللہ اللہ دہراؤ، یا بار بار زبان سے اس طرح کے الفاظ بولو کہ الحمد للہ، سبحان اللہ، ماشاءاللہ، وغیرہ۔
اللہ کے ذکر کثیر کا مطلب مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب معنوی اعتبار سے اللہ بار بار عارفانہ رسپانس (realized response) دینا ہے۔ یہ معرفت کا ایک کلمہ ہے، نہ کہ حروف تہجی کے کچھ کلمات کی لفظی تکرار۔ ایک حدیث سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ، عائشہ آپ کے بارے میں فرماتی ہیں:کَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذْکُرُ اللہَ عَلَى کُلِّ أَحْیَانِہِ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 373)۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ کو یاد کرتے تھے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر موقع (occasion) پر آپ کو اللہ کی یاد آئے۔ ہر تجربہ آپ کے لیے ایک پوائنٹ آف ریفرینس بن جائے، جس کو لے کر آپ اللہ کو بار بار یاد کرتے رہیں۔ ذکر اللہ کی معرفت کی بنیاد پر زبان سے جاری ہونے والا ایک کلمہ ہے، وہ الفاظ کی تکرارنہیں ۔
مثلاً آپ رات کو بستر پر گئے، اور آپ کو نیند آگئی ۔ اس وقت آپ کو یہ یاد آیا کہ اللہ نے نیند کی صورت میں کیسی عجیب نعمت عطا کی ہے کہ دن بھر کی تکان کے بعد انسان سوجاتا ہے، اور پھر وہ صبح کو تازہ دم ہوکر اٹھتا ہے۔ اسی طرح رات کے وقت آپ کو اندھیرے کا تجربہ ہوا ، پھر صبح ہوئی ، اور دوبارہ روشن سورج نکل آیا۔ اس وقت آپ کو یاد آیا کہ اللہ نے سورج کی شکل میں کتنی بڑی نعمت انسان کو دی ہے۔ ذکر کثیر در اصل ذہنی ارتقا (intellectual development) کا نتیجہ ہے۔ اگر آپ کا ذہن ایک عارفانہ ذہن (realized mind) ہوتو زندگی کا ہر تجربہ آپ کو اللہ کی یاد دلائے گا، اور آپ اللہ کا اعتراف مختلف عارفانہ ذہن کے ساتھ کرتے رہیں گے۔ یہی ہے اللہ کا ذکر کثیر۔
واپس اوپر جائیں

سجدہ ذریعۂ قربت

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:کَلَّا لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (96:19)۔ یعنی ہرگز نہیں، اس کی بات نہ مان اور سجدہ کر اور قریب ہوجا۔ قرآن کی اس آیت میں سجدہ سے مراد اس کا فارم نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد وہ سجدہ ہے، جو سجدہ کی اسپرٹ سے بھرا ہوا ہو۔ سجدہ ایک علامتی فعل ہے۔ سجدہ کسی بندہ کی طرف سے اس بات کی علامت ہے کہ وہ آخری حد تک یکسو ہو کر اللہ کو یاد کرنے والا بن گیا ہے۔ اس نے آخری حد تک اپنے آپ کو اللہ کی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ سجدہ اس بات کا عملی عزم ہے کہ بندہ اپنی یکسوئی میں کسی بھی بات سے ڈسٹریکٹ ہونے والا نہیں۔
لا تطعہ (اس کی اطاعت نہ کرو)- یہاں اطاعت کا لفظ شدتِّ اظہارکے معنی میں ہے۔ وہ بندہ کے اس عزم کو بتاتا ہے کہ بندہ اس حد تک یکسو ہو چکا ہے کہ اللہ کے معاملے میں کوئی شیطانی وسوسہ یا کسی انسان کی غوغا آرائی اس کو ڈسٹریکٹ کرنے والی نہیں ۔ اس کی سوچ اللہ والی سوچ ہوگی۔ اس کے جذبات اللہ والے جذبات ہوں گے۔ اس کا رخ اللہ کی طرف ہوگا۔ اس کی تمنائیں اللہ کے لیے وقف ہوں گی۔ وہ سوچے گاتو اللہ کے لیے سوچے گا، اور کرے گا تو اللہ کے لیےکرے گا۔ سجدہ سپردگی (submission) کی علامت ہے۔ کسی کے آگے سر زمین پر رکھنا اس بات کا اظہار ہے کہ آدمی نے پوری طرح اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردیا ہے ۔سر زمین پر رکھنے کے بعد آدمی کے پاس کوئی چیز حوالہ کرنے کے لیے باقی نہیں رہتی۔
جب آدمی اپنا سر زمین پر رکھتا ہے تو یہ اس کے لیے سپردگی اور سرینڈر (surrender) کے معاملے میں کامل یکسوئی کا اظہار ہوتا ہے۔ سجدہ اس بات کی علامت ہے کہ بندہ نے انسانوں سے اپنی سوچ کو ہٹا لیا ہے۔ اس نے پورے معنوں میں خدا رخی زندگی (God-oriented life) اختیار کر لی ہے۔ اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی ڈسٹریکشن کی بات کو یہ موقع نہیں دے گا کہ وہ اس کو خدا رخی زندگی سے ہٹائے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کے لیے سبق

قرآن میں ایک بات ان الفاظ میں آئی ہے:بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ ، وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ (75:14-15)۔ یعنی بلکہ انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے ، چاہے وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اس انداز میں ہوئی ہے کہ اگر وہ عذر (excuse) کا شکار نہ ہو، تو وہ خود اپنی تخلیق پرغور کرکے بڑی بڑی باتیں سیکھ سکتا ہے۔ اس کی زندگی خود ایک لائبریری ہے۔ اپنے مطالعہ سے خود وہ اپنے لیے بڑے بڑے سبق دریافت کرسکتا ہے۔ مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر6227)۔ یعنی انسان کو وہ صلاحیتیں بہت ہی چھوٹے پیمانے پر دی گئی ہیں، جو صفات بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اللہ رب العالمین کی ہیں۔
انسان جب اس کائنات کو دیکھتاہے ، تو اس کو یہ نظرآتا ہے کہ پوری کائنات نہایت منصوبہ بند انداز میں چل رہی ہے۔ سورج ہمیشہ ٹھیک اپنےوقت پر نکلتا ہے، اور متعین وقت پر غروب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پوری کائنات زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر چل رہی ہے۔ اس کے برعکس، انسان کے انتظام میں ہمیشہ نقائص موجود رہتے ہیں۔ انسان اگر اس معاملے کا مطالعہ تقابلی انداز میں کرے، تو وہ خود اپنے مطالعہ کے ذریعے خدائے برتر کے وجود کو دریافت کرلے گا۔ یہ دریافت اس کو یہ کہنے پر مجبور کردے گی:أَفِی اللَّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ(14:10)۔اگر آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ قرآن و حدیث کی باتوں کو اپنے الفاظ میں ڈھال سکے، تو اس کی دریافت اس کے لیے ری ڈسکوری بن جاتی ہے۔ وہ مذکور باتوں کو زیادہ موثر انداز میں دریافت کرنے لگتا ہے۔ مثلاً قرآن میں آیاہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: اس نے تم کو ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے مانگا (14:34)۔ اگر آپ کے پاس اپنے مطالعے کے مطابق، یہ لفظ موجود ہو کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پاتا ہے، جو ہیومن فرینڈلی دنیا ہے۔ اس کا احساسِ شکر بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

شکر کا آئٹم

تقریباً تیرہ بلین سال پہلے سولر سسٹم وجود میں آیا۔ اس وقت زمین کے اوپر صرف گیس تھی۔ پھر گیس کے ذریعے پانی بنا۔ پانی کا فارمولا H2 O ہے، یعنی اس زمین میں ایسے مالیکیول رکھ دیئے گئے، جس میں ہائڈروجن کے دو ایٹم ہوتےتھے، اور آکسیجن کا ایک ایٹم۔ اس طرح زمین کے اوپر پانی وجود میں آیا۔ یہ پانی بڑے پیمانے پر سمندر کی گہرائیوں میں جمع ہوگیا۔ ابتدامیں نیچر نے اس پانی میں حفاظت ( preservation) کے طور پر نمک (salt) شامل کیا ۔ یہ نمک آمیزپانی براہ راست طور پر انسان کے لیے قابل استعمال نہ تھا۔ پھر زمین کے اوپرسورج کی حرارت اور پانی کے تعامل سے حیرت انگیز طور پر بارش کا انتظام ہوا۔ فطری طور پر نمک کا وزن زیادہ تھا، اور پانی کا وزن کم۔ چنانچہ پانی جب سورج کی حرارت سے بھاپ بنا، تو فطری قانون کے تحت نمک الگ ہوگیا،ا ور پانی الگ۔ پھر یہ ڈیسالینیٹڈ پانی (desalinated water) ہلکا ہونے کی بنا پر فضا میں بلند ہوا، اور پھر آخر کار فطرت کے قانون کے مطابق وہ پانی بارش بن کر زمین پر برسا۔ اس پانی نے زمین کو سیراب کیا، اور چشموں اور دریاؤں کی صورت میں محفوظ ہوگیا۔
فطرت کے نظام کے تحت یہ ایک سائکل (cycle) ہے، جو مسلسل طور پر جاری ہے۔ پانی کا یہی نظام ہے، جس نے زمین کو انسان کے لیے حیات بخش سیارہ بنا کر رکھا ہے۔ اگر یہ نظام نہ ہو تو انسان زمین کے اوپر زندہ سماج نہ بنا سکے۔ زمین پر تہذیب کی تشکیل پانی کے بغیر ناممکن ہو جائے۔ اس پورے عمل پر غور کیا جائے ،تو اس میں حکمت کے اتنے زیادہ پہلو ہیں، جو انسان کے لیے مائنڈ باگلنگ ظاہرہ (mind-boggling phenomena) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قدیم زمانے کا انسان ان حقیقتوں سے بے خبر تھا، مگر اب سائنسی مطالعے کے ذریعے یہ حقیقتیں انسان کے علم میں آگئی ہیں۔ ان حقیقتوں کو جاننا انسان کے اتھاہ خزانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ غالباً یہی وہ عظیم حقیقت ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّہِ لَا تُحْصُوہَا (16:18) ۔
واپس اوپر جائیں

ایمان بالغیب

اسلام کی ایک تعلیم قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے: الم ،ذَلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیہِ ہُدًى لِلْمُتَّقِینَ ۔ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ (2:1-3)۔ یعنی الم، یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ راہ دکھاتی ہے ڈر رکھنے والوں کو، جو یقین کرتے ہیں بن دیکھے۔
اس آیت میں ایمان بالغیب سے مراد بلائنڈ فیتھ (blind faith) نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایمان جو مطالعہ اور غور و فکر کے نتیجے میں مومن کے اندر بطور واقعہ وجود میں آئے۔ایمان ابتدائی طور پر ایک حقیقت کو ماننے کا نام ہے۔انسان جب اس حقیقت کو مان لے تو فطری طو رپر اس کے اندر ایک پراسس شروع ہوجاتا ہے۔ جب ایک انسان اللہ کے وجود کو مان لے، تو فطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں ہر ممکن ذریعے سے مطالعہ اور تحقیق شروع کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے، جس کو دریافت (discovery) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے، جب کہ مومن کا لفظی اقرار اس کی پوری ہستی کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔
اللہ کے بارے میں اس کی دریافت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ گویا کہ اس کو دیکھنے لگتا ہے(أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ) صحیح البخاری، حدیث نمبر50 ۔ بظاہر نہ دیکھتے ہوئے بھی وہ اس پر دیکھنے کی مانند یقین کرنے لگتا ہے۔ قرآن کی ایک آیت سے اس معاملے کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ (وہ کہہ اٹھتے ہیں) اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بےمقصد نہیں بنایا(3:191) ۔ اس آیت کو دیکھیے، ایک سچے انسان کے لیے غور و فکر کے بعد یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ وہ ’’کہہ اٹھتے ہیں‘‘، لیکن قرآن میں ’’کہہ اٹھتے ہیں‘‘ کو حذف کردیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بعد ان کے اندر غور وفکر کا جو گہرا پراسس جاری ہوتا، وہ نتیجے تک پہنچتے پہنچتے اتنا شدید ہوتا ہے کہ گویا وہ چیخ اٹھتے ہیں:رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا ۔
واپس اوپر جائیں

ایمان باللہ

اللہ پر ایمان اللہ کی معرفت سے شروع ہوتا ہے، یعنی اللہ رب العالمین کی شعوری دریافت سے ۔ یہ حقیقت قرآن کی آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ (5:83)۔ یعنی اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
ایمان قبول کرنے کے بعد جب کوئی انسان اللہ رب العالمین کو شعوری دریافت کے درجے میں پاتا ہے، تو اس کے بعد اس کے اندر ایک ذہنی عمل (intellectual process) شروع ہوجاتا ہے۔ اس عمل کا حوالہ قرآن میں ان الفاظ میں دیا گیا ہے:أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ ۔ تُؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (14:24-25)۔ یعنی کیا تم نے نہیں دیکھا، کس طرح مثال بیان فرمائی اللہ نے کلمۂ طیبہ کی۔ وہ ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے، جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ ہر وقت پر اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے۔ اور اللہ لوگوں کے لئے مثال بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب کسی انسان کو دریافت (discovery)کے درجے میں ایمان ملتا ہے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر ایک پراسس جاری ہوجاتا ہے، وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ ہر تجربے اور مشاہدے کو اپنی شخصیت کے ارتقا کا جزء بنا سکے۔ اس طرح یہ عمل (process) جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی شخصیت ایک ربانی شخصیت بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اقشعرار کیا ہے

قرآن کی ایک آیت میں مومن کی صفت ان الفاظ میں بتائی گئی ہے:اللَّہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ کِتَابًا مُتَشَابِہًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِینُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَى ذِکْرِ اللَّہِ ذَلِکَ ہُدَى اللَّہِ یَہْدِی بِہِ مَنْ یَشَاءُ وَمَنْ یُضْلِلِ اللَّہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ (39:23)۔ یعنی اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے۔ ایک ایسی کتاب آپس میں ملتی جلتی، بار بار دہرائی ہوئی، اس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔ پھر ان کے بدن اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے۔ اس سے وہ ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے۔ اور جس کو اللہ گمراہ کردے تو اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
اقشعرار کا مطلب ہے شدت تاثر کے تحت جسم پر کپکپی (shivering)کا طاری ہوجانا۔ یہ کیفیت ایک عام کیفیت ہے۔ مومن کے لیے ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کہ اللہ کے خوف سے اس کے اندر شدید تاثر پیدا ہو۔ اس وقت عام فطری قانون کے تحت اس کے جسم پر کپکپی کی کیفیت طاری ہوجائے گی۔ اس سے دل کے اندر نرمی پیدا ہوجائے گی۔ آدمی زیادہ قبولیت کے جذبے کے تحت اللہ کی باتیں سننے لگے گا۔اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر اقشعرار کی یہ کیفیت نہ پیدا ہو، یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں قساوت کی کمزوری پیدا ہوچکی ہے۔ وہ اللہ کی پکڑ کی باتیں سننے کے بعد بھی سخت دل بنا رہتا ہے۔
اس آیت کے آخری جزء کا ترجمہ یہ ہے: یہ اللہ کی ہدایت ہے۔اس سے اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے۔ اور جس کو اللہ گمراہ کردے تو اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ قصداً کسی کو ہدایت دیتا ہے، اور کسی کو نہیں دیتا ہے۔ بلکہ ایسا انسان کی اپنی طرف سے ہوتا ہے، جو انسان سوچے اور نصیحت کو پکڑے، وہ ضرور ہدایت پائے گا، اور جو آدمی سوچ اور نصیحت سے خالی ہو، وہ اس کیفیت سے بھی خالی رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

اسمِ اعظم

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:سَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا یَقُولُ: اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللَّہُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَقَدْ سَأَلَ اللَّہَ بِاسْمِہِ الْأَعْظَمِ، الَّذِی إِذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطَى، وَإِذَا دُعِیَ بِہِ أَجَابَ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3857)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا، اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، کیوں کہ تو ہی اللہ ہے، اکیلا، ہر ایک کی ضرورتوں کو پوری کرنے والا، جس نے کسی کو پیدا نہیں کیا، اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا، اور اس کے برابر کوئی نہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اس نے اللہ کو اس کے اسم اعظم کے ساتھ پکارا ہے، جس کے ذریعے سے جب مانگا جائے توو ہ عطا کرے،ا ور جب دعا کی جائے تو قبول ہو۔
یہ کون سی دعا ہے۔ یہ دعا رٹے ہوئے الفاظ کی تکرار نہیں ہے، نہ اس کا کوئی ’’رسمی نصاب‘‘ ہے۔ یہ دعا کی وہ قسم ہے جس میں بندہ اپنی پوری ہستی کو انڈیل دیتا ہے۔ جب بندے کی آنکھ سے عجز کا وہ قطرہ ٹپک پڑتا ہے جس کا تحمل زمین اور آسمان بھی نہ کرسکیں۔ جب بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیادہ شامل کردیتا ہے کہ ’’مانگنے والا‘‘ اور ’’دینے والا‘‘ دونوں ایک ترازو پر آجاتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب کہ دعا ،محض لغت کا ایک لفظ نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک شخصیت کے پھٹنے کی آواز ہوتی ہے۔ اُس وقت خدا کی رحمتیں اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ بندگی اور خدائی دونوں ایک دوسرے سے راضی ہوجاتے ہیں۔ قادرِ مطلق ،عاجزِ مطلق کو اپنی رحمت کے سائے میں لے لیتا ہے۔
یہ زبان وہ ہے، جس کو انگریزی کے حوالے سے لینگویج آف انڈراسٹیٹمنٹ (language of understatement) کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اردو کے انشاء پردازوں کی زبان لینگویج آف اووراسٹیٹمنٹ (language of overstatement) کہی جاسکتی ہے۔وہ لوگ جو اردو زبان میں پلے بڑھے ہوں، جن کا اسلوب اردو زبان کے ماحول میں بنا ہو، وہ لینگویج آف انڈرسٹیٹمنٹ بولنے کے لیے نااہل ہوتے ہیں۔
لینگویج آف اوورا سٹیٹمنٹ کا معاملہ سادہ معاملہ نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں جو مزاج بنتا ہے، وہ کبر خفی (hidden arrogance)کا مزاج کہا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگ اس کےلیے نااہل ہوجاتے ہیں کہ وہ اسم اعظم کی زبان بولیں، اور اسم اعظم کے لب و لہجہ میں سوچیں۔ پروفیسر ہمایون کبیر نے انڈیا ونس فریڈم (India Wins Freedom)کے مقدمے میں بجا طور پر لکھا ہے کہ انگریزی زبان بنیادی طور پر لینگویج آف انڈر اسٹیٹمنٹ ہے:
English, on the other hand, is essentially a language of understatement.
اس کے مقابلے میں اردو زبان لینگویج آف اوور اسٹیٹمنٹ ہے۔ جو لوگ اردو زبان کے ماحول میں رہتے ہوں، وہ اس فرق کو سمجھنے کے لیے تقریباً نا اہل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً غالباً 1940 کی بات ہے، اس وقت میں ایک مدرسے میں پڑھتا تھا۔ یہ آزادی کی جدو جہد کا زمانہ تھا۔ ہمارے مدرسے کے ایک بڑے استاد نے ایک بار تقریر کرتے ہوئے کہا: انگریز ساری دنیا کا مکھن کھا گئے۔ جو لوگ اس طرح کی زبان کو لکھیں یا پڑھیں، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر کبر خفی کا شکار بن جاتے ہیں۔ وہ باتوں کو ایز اٹ از (as it is) سمجھنے کے لیے نااہل ہوجاتے ہیں۔ اردو زبان کا یہ ایک عام مسئلہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اردو ریڈر شپ میں عام طور پر حقیقت پسندی کا مزاج موجود نہیں ہوتا۔اردو ریڈر شپ کی یہ کمزوری ہے کہ وہ صرف ہائی پروفائل (high profile)کے اسلوب کو جانتی ہے، لو پروفائل (low profile)کے اسلوب کو وہ سرے سے جانتی ہی نہیں۔ حالاں کہ ہائی پروفائل لوگوں کے اندر جذباتی مزاج پیدا کرتا ہے، اور جذباتی مزاج کامیابی تک پہنچنے کے لیے مستقل رکاوٹ ہے۔
اس معاملے کا بہت گہرا تعلق دعا سے ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی جو لینگویج آف اوور سٹیٹمنٹ سے مانوس ہو، وہ عجز کی نفسیات سے خالی ہوجائے گا، وہ عجز کی زبان میں دعا کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ ایسا آدمی ہائی پروفائل میں بولے گا، اور ہائی پروفائل میں سوچے گا،اور ہائی پروفائل اور عجز کا شعور دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔
واپس اوپر جائیں

جنت، جنت

جنت رب العالمین کا پڑوس ہے (التحریم،66:11)۔جنت ان لوگوں کے لیے ہے، جو دنیا میں خداوند رب العالمین کی یاد میں جینے والے ہوں، وہی لوگ ابدی جنت میں بسائے جائیں گے۔جہاں ان کو خداوندِ رب العالمین کی قربت حاصل ہوگی۔ جو لوگ منفی سوچ (negative thinking) میں جینے والے ہوں، وہ دنیا میں بھی خداوند رب العالمین کی قربت سے محروم رہیں گے، اور آخرت میں بھی۔
موجودہ دنیا تربیت گاہ ہے، اور آخرت کی دنیا تربیت یافتہ لوگوں کا مقام۔ جنت میں صرف منتخب افراد رہائش کا درجہ پائیں گے۔ وہ لوگ جو دنیا کی زندگی میں اپنے آپ کو اس قابل ثابت کریں کہ وہ منظم زندگی گزارنا جانتے ہیں، جن کے اندر قابلِ پیشین گوئی کردار موجود ہے۔ جنت میں ان لوگوں کو داخلہ ملے گا، جو اپنے عمل سے یہ ثابت کریں کہ ان کے اندر تخلیقی (creative)صلاحیت موجود ہے، جو یہ ثابت کریں کہ وہ آزادی کے باوجود ذمے دارانہ زندگی (disciplined life) کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنت ان لوگوں کے لیے ہے، جو پورے معنی میں باشعور ہوں، جو پورے معنیٰ میں بے مسئلہ انسان ہوں، جو اپنے اندر سیلف کنٹرول (self-control) کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
جنت کے بارے میں قرآن میں آیا ہے :حَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت حسنِ رفاقت (excellent companionship) کی دنیا ہے۔ دنیا میں اسی کا امتحان ہورہا ہے۔ یہاں یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ کون شخص ہے، جو اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں اس کے اندر سیلف ڈسپلن کی صفت اعلی درجے میں پائی جاتی ہے، جو کسی کے دباؤ کے بغیر دوسروں کے لیے بہترین ہمسایہ بن کر رہنے والا ہے۔ جس آدمی کے اندر حسن رفاقت کی صفت ہو، جو کسی دباؤ کے بغیر سیلف ڈسپلن کے ساتھ ہر حال میں رہ سکتا ہو، ایسے ہی لوگ ہیں، جو جنت میں داخلے کے لیے منتخب کیے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کس کے لیے

ایک حدیث رسول میں طالب جنت کے لیے یہ الفاظ آئے ہیں:مَا رَأَیْتُ... مِثْل الجَنَّةِ نَامَ طَالِبُہَا (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2601)۔ یعنی میں نے نہیں دیکھا، جنت جیسی چیز، جس کا طالب سورہا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ جنت اس کے لیے ہے، جو سراپا طالب جنت بن جائے۔ جو جنت کی حقیقت کو اتنی زیادہ گہرائی کے ساتھ دریافت کرے کہ جنت اس کا انتظار بن جائے۔ وہ جنت کی یاد میں سوئے، اور جنت کی یاد میں جاگے۔ جس کا احساس یہ بن جائے کہ اللہ نے اگر اس کو جنت نہ دی تو اس کا حال کیا ہوگا۔ اگر وہ آخرت میں جنت سے محروم ہوجائے، تو اس کا کتنا زیادہ برا حال ہوجائے گا۔ اس کے لیے زندگی کتنی بڑی مصیبت بن جائے گی۔
جنت کا طالب وہ ہے، جو جنت کو دیکھے بغیر جنت کو دیکھنے لگے۔ جو جنت کو پانے سے پہلے جنت کا طالب حقیقی بن جائے۔ طالبِ جنت کی تصویر قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کی گئی ہے: وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَہَا لَہُمْ (47:6)۔ یعنی اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جس کی اس نے انھیں پہچان کرا دی ہے۔ اس آیت میں جنت کی معرفت کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ مگر وہ مومن کی صفت ہے۔ مومن وہ ہے، جو جنت کو اس طرح دریافت کرے کہ جنت اس کا شوق بن جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جنت کیا ہے، اس سے لوگوں کو پیشگی طور پر آگاہ کردیا گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صاحب ایمان جنت کے بارے میں اپنی معرفت کو اتنا زیادہ بڑھاتا ہے کہ جنت اس کے لیے پیشگی طور پر ایک معلوم چیز بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جنت ایک ایسا مطلوب ہے، جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے طالبِ جنت کا مثنی (counterpart) ہے۔ وہ فطری طور پر انسان کا ایک معلوم مسکن ہے۔ گویا کہ جنت انسان کے لیے ہے، اور انسان جنت کے لیے۔ لیکن جنت کا شوق جنت کے حصول کے لیے کافی نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ضروری تیاری کرے۔
واپس اوپر جائیں

خالق اور مخلوق

تخلیق (creation)کا وجود خالق (Creator)کے وجود کا ثبوت ہے۔ انسان اگرچہ براہ راست طو رپر خالق کو نہیں دیکھتا، لیکن بالواسطہ طو رپر وہ ہر لمحہ خالق کو دیکھ رہا ہے۔ اس دنیا کی ہر چیز اپنے خالق کی ریمائنڈر (reminder) ہے۔ ہر چیز، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی، خاموش زبان میں کہہ رہی ہے کہ ایک خالق ہے، جس نے مجھ کو وجود بخشا ہے۔ میرا ہونا، اپنے آپ میں خالق کے ہونے کا ثبوت (proof) ہے۔
انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ چیزوں کو فار گرانٹیڈ (for granted) لیتا رہتا ہے۔ انسان جب کسی چیز کو بار بار دیکھتا ہے، تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اس کے لیے موجود ہے۔ انسان اپنی اس کمزوری کی بنا پر خالق کے وجود(existence of Creator) کو ایک زندہ وجود کا درجہ نہیں دے پاتا۔ خالق کو بظاہر مانتے ہوئے بھی، وہ اس کو زندہ یقین کی حیثیت سے اختیار نہیں کرپاتا۔ اس کمی کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ خدا کو وہ اپنی زندگی میں سپریم کنسرن (supreme concern) کی حیثیت سے شامل نہیں کرپاتا۔
اس کمزوری کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ بظاہر اگرچہ وہ خدا کو مانتا ہے، لیکن اس کی روزمرہ کی زندگی اس طرح گزرتی ہے کہ جیسے خدا اس کی زندگی میں صرف ایک بے روح ضمیمہ (spiritless appendix) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے خدا کو ماننا بھی ایسا ہی ہے، جیسے کہ خدا کا نہ ماننا۔ اپنڈکس کا آپریشن کردیا جائے تو اس کے بعد بھی انسان بدستور ویسا ہی باقی رہتا ہے، جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ اس کے لیے خدا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔خالق کو زندہ یقین کی حیثیت سے اپنی زندگی میں شامل کرنا، اپنے آپ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے ایک مسلسل قسم کا تھنکنگ پراسس درکار ہے۔ نان اسٹاپ تھنکنگ پراسس (non-stop thinking) کے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی شخص کی زندگی میں خالق ایک زندہ ہستی کے طور پر شامل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

خدا اور انسان

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ دھیرے دھیرے زبان سیکھتا ہے ۔ اس طرح وہ یہ شعور حاصل کرتا ہے کہ وہ ایک انسان ہے۔ اسی حقیقت کو زیادہ فلسفیانہ انداز میں فرانسیسی مفکر ، ڈیکارٹ (1596) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے — میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
I think, therefore, I exist
یہ ذاتی شعور کے ذریعہ اپنے وجود کا یقین ہے۔ اس کے بعد آدمی ایک سیارہ (planet earth) پر زندگی گزارتا ہے۔ وہ دھیرے دھیرے یہ یقین حاصل کرتا ہے کہ میرا ایک وطن ہے، جو زمین پر واقع ہے۔ آدمی کو جس طرح یہ مبنی بر مشاہدہ یقین اپنی ذات کے بارے میں ہوتا ہے، اسی طرح اس کو اپنے وطن ، زمین کے بارے میں بھی ہوتا ہے۔
یہ شعوری ارتقا کا ایک معاملہ ہے۔ یہ شعوری ارتقا جس طرح آدمی کو اپنے وجود کا یقین دیتا ہے۔ اسی طرح وہ اس کو یہ یقین دیتا ہے کہ یہاں ایک زمین ہے، جس میں وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ آباد ہے۔ اس زمین میں لائف سپورٹ سسٹم کے تمام آئٹم موجود ہیں۔ شعور کا یہ فطری ارتقا پھر اس درجہ کو پہنچتا ہے کہ آدمی یہ دریافت کرتا ہے کہ جس طرح میرا ایک وجود ہے، اسی طرح میرے خالق کا بھی یقینی طور پر ایک وجود ہے۔ انسان جب خالق کے وجود کو دریافت کرلے تو اس کو بقیہ تمام چیزوں کی توجیہہ (explanation) مل جاتی ہے۔ اور اگر وہ خالق کے وجود سے بے خبر رہے تو اس کے لیے ہر چیز غیر توجیہہ شدہ (unexplained) بنی رہتی ہے۔
اس کے بعد آدمی قرآن میں یہ پڑھتا ہے کہ اہل جنت کو جب اگلے دور حیات میں جنت ملے گی تو وہ کہیں گے کہ یہ جنت تو ہمارے لیے زمین کے متشابہ جنت ہے (البقرۃ، 2:25) ۔ یہ ایک فطری دریافت کا معاملہ ہے۔ یہ فطری پراسس (natural process) ہے جو آدمی کو ہر قابل دریافت چیز کی ڈسکوری تک پہنچادیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا وجود

خدا کی دریافت انسان کے لیے معرفت کا آغاز ہے۔ جو شخص اللہ رب العالمین کو دریافت کرلے، اس نے تمام حقیقتوں کو دریافت کرلیا، اوراس نے حقیقت کے سرے کو پالیا۔خدا کی دریافت کے بغیر ہر چیز غیر دریافت شدہ بنی رہتی ہے۔ خدا کی دریافت کرنے کے بعد ہر چیز دریافت شدہ بن جاتی ہے۔ خدا کو دریافت کرتے ہی انسان کو وہ شاہ کلید (master key) مل جاتی ہے، جس کے بعد اس کے لیے ہر چیز کو دریافت کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ خدا کو دریافت کرتے ہی اس کے ذہن کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں، یہاں تک کہ کوئی دروازہ اس پر بند نہیں رہتا۔
خدا کی دریافت کسی انسان کے لیے اتنا ہی آسان ہے، جتنا خود اپنی دریافت۔ اسی لیے کہا گیا ہے :مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ (حلیۃ الاولیاء، 10/208)۔ یعنی جس نے اپنے آپ کو دریافت کیا، اس نے اپنے خدا کو دریافت کرلیا۔اس قول کو ایک حدیث پر غور کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:خَلَقَ اللَّہُ آدَمَ عَلَى صُورَتِہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227)۔ یعنی اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔
اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے اندر جو صفات رب کی سطح پر ہیں، وہی صفات بندے کے اندر انسان (مخلوق)کی سطح پر رکھی گئی ہیں۔ اس بنا پر یہ ممکن ہے کہ آدمی ایک سے دوسرے کو سمجھے۔ وہ اپنی معرفت حاصل کرکے اللہ رب العالمین کی معرفت تک پہنچ جائے۔ اگر آدمی ایسا کرے تو اس کے لیے اللہ کی یاد ، اللہ سے دعا کرنا، اللہ کا تصور قائم کرنا، آسان ہوجائے گا۔
مثلاً انسان اپنے ساتھ کسی کی شرکت کو پسند نہیں کرتا۔ اس کو غیرت آتی ہے کہ اس کے ساتھ کوئی انسان اس کا شریک بن جائے۔ اس تجربے سے انسان کو یہ سبق لینا چاہیے کہ اللہ رب العالمین بدرجہا زیادہ اس صفت کا حامل ہوگا۔ انسان اگر سنجیدہ ہوتو یہ اصول اس کے لیے خدا کی معرفت میں بہت زیادہ مددگار بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق

علم فلکیات (astronomy) کے موضوع پر ہر زبان میں بڑی تعداد میں کتابیں موجود ہیں۔ آپ فلکیات کے موضوع پر کوئی کتاب پڑھیے، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کائنات (universe) ناقابل قیاس حد تک بڑی کائنات ہے۔ وہ متحرک ستاروں اور سیاروں سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات نہایت عظیم ہونے کے باوجود ایک بے خطا کائنات (flawless universe) ہے۔ کائنات ریاضیاتی صحت (mathematical precision)کے اصول پر قائم ہے۔ کائنات کی اس حقیقت کا حوالہ خود قرآن میں ایک ناقابل انکارحقیقت کے طور پر کیا گیا ہے (الملک، 67:3-4)۔
اس کے بعد آپ انسانی دنیا کو دیکھیے، تو آپ کو دونوں دنیاؤں میں ایک عجیب فرق دکھائی دے گا۔ انسانی دنیا برعکس طور پر مصائب (suffering) سے بھری ہوئی ہے۔ یہ مصائب اتنے زیادہ عام ہیں کہ ہر عورت اور ہر مرد کو اپنی زندگی میں اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس فرق پر غور کرتے ہوئے، مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ یہ واقعہ غالباً 1972 کا ہے، جب کہ میں نے احمد آباد کا ایک سفر کیا تھا۔ ’احمد آباد کا سفر‘ کے عنوان سے یہ واقعہ الجمعیۃ ویکلی میں شایع ہوچکا ہے۔
اس سفر کے دوران میری ملاقات ایک نوجوان انجینئر سے ہوئی۔ اس نے جلد ہی شہر احمد آباد میں ایک فیکٹری لگائی تھی۔ یہ فیکٹری بظاہر نہایت اعلیٰ معیار پر قائم کی گئی تھی۔ نوجوان نے اپنی فیکٹری کے مختلف حصوں کو دکھاتے ہوئے کہا کہ ہماری فیکٹری جدید معیار پر قائم کی گئی ہے۔ مگر ابھی تک ہمارے پاس کوئی کوالیفائڈ مینیجر نہیں ۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اس نے یہ جملہ کہا —اپنی تو لیمیٹیشنس (limitations)آجاتی ہیں مینیجمنٹ سائڈ پر۔
اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے میری زبان پر یہ جملہ آگیا کہ کیا خدانخواستہ خالق کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، کیا خالق کی لیمیٹیشنس آجاتی ہیں انسان کی سائڈ پر۔اس سوال پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا ۔ کیوں کہ خود قرآن کے مطابق، انسان کو اس کے پیدا کرنے والے نے احسن تقویم (التین،95:4) کے ساتھ پیدا کیا۔ خالق کائنات نےانسان کے لیے اعلیٰ ترین انجام مقدر کیا ہے، یعنی ابدی جنتوں میں داخلے کا انعام ۔
اس پہلو پر غور کرتے ہوئے سمجھ میں آیا کہ انسان کے ساتھ جو پوری کائنات سے الگ معاملہ کیا گیا ہے، یعنی مصیبت (البقرۃ،2:156) کا معاملہ۔ وہ انسان کی بہتری کے لیے کیا گیا ہے۔ انسان کی زندگی ایک سفر ہے، دنیا سے جنت کا سفر۔ یہ سفر انسان کے لیے ایک تربیتی سفر ہے۔ انسان کے لیے اس سفر کے دوران ایک تربیتی کورس مقدر کیا گیا ہے۔ انسان کے لیے یہ مقدر کیا گیا ہے کہ وہ اس تربیتی کورس سے کامیاب ہوکر نکلے۔ تاکہ جب اس کا یہ تربیتی دور ختم ہو تو وہ اپنے آپ کو جنت کے گیٹ پر کھڑا ہوا پائے۔
انسان کے بارے میں خالق کے اس تخلیقی نقشہ (creation plan) کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی ساری توجہ اپنی زندگی کے اس پہلو پر مرتکز کردے۔ وہ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اس مقصد کے لیے استعمال کرے کہ وہ اپنے آپ کو ایک تربیت یافتہ انسان بنانے میں کامیاب ہوسکے۔ قرآن میں اس حقیقت کو بار بار بتایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں تین آیتیں یہ ہیں:وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ ۔ إِذْ یَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِینِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیدٌ۔ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ (50:15-18)۔ یعنی اور ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں ان باتوں کو جو اس کے دل میں آتی ہیں ۔ اور ہم رگِ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں ۔جب دو لینے والے لیتے رہتے ہیں جو کہ دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہیں ۔ کوئی لفظ وہ نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک مستعد نگراں موجود ہے۔
جنت انسان کا ہیبیٹاٹ (habitat) ہے۔ جنت انسان کا فطری مسکن ہے۔ جنت وہ مقام ہے جہاں انسان کو ہر اعتبار سے کامل فل فل منٹ (fulfillment)ملے گا۔ جنت ہی وہ مقام ہے جس کو پانے کے لیے ہر مرد و عورت کو عمل کرنا چاہیے (الصافات، 37:61)۔
واپس اوپر جائیں

ایمان کا ذائقہ

کسی کھانے کی چیز کو آپ اپنے ہاتھ میں لیں، تو آپ کو اس کا کوئی ذائقہ محسوس نہیں ہوگا۔ لیکن جب کھانے کی اسی چیز کو آپ اپنے منھ میں ڈالتے ہیں تو آپ کو مختلف قسم کے خوشگوارذائقے محسوس ہوتے ہیں، مثلاً کھٹا، میٹھا، نمکین وغیرہ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ زبان میں چھوٹے چھوٹے ذائقہ خانے (taste buds) ہوتے ہیں۔ جب کوئی ذائقہ خانہ اس کے مزاج کی چیز کا تجربہ کرتا ہے تو انسان فوراً اس کے ذائقے کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ ذائقہ خانے فطری طور پر کسی کی زبان میں کم ہوتے ہیں، اور کسی کی زبان میں زیادہ۔ چنانچہ ان ذائقہ خانوں کی تعداد تقریباً دو ہزار سے لے کر دس ہزار تک شمار کی گئی ہے۔یہ ذائقہ خانے استعمال کرنے کی بنا پر زندہ (alive) رہتے ہیں۔ لیکن جب ان کو استعمال نہ کیا جائے تو یہ کند (dul) ہوجاتےہیں۔
یہ مادی ذائقہ کا معاملہ ہے۔ اسی طرح انسان کے اندر زیادہ اعلیٰ درجے کے روحانی ذائقہ خانے (spiritual taste buds) بھی ہوتے ہیں۔ جو لوگ اپنے اس روحانی ذائقہ خانے کو استعمال کریں اور اس کو ڈیولپ کرتےرہیں، وہ روحانی ذائقوں کو بھی اسی طرح زیادہ لطیف انداز میں محسوس کریں گے، جس طرح کوئی شخص مادی ذائقے کو محسوس کرتا ہے۔ مثلاً اللہ سے محبت یا اللہ سے تعلق ایک ذائقہ ہے۔ اس ذائقے کے بہت سے درجے ہیں۔ جو آدمی ان ذائقوں کو ڈیولپ کرے، اور ان کو محفوظ رکھے تو وہ ہر ربانی آئٹم کے تجربے پر اس کا ذائقہ پاتا رہے گا۔ یہ روحانی ذائقہ خانے تعداد میں کم بھی ہوسکتے ہیں، اور اتنے زیادہ بھی کہ ان کا شمار کرنا ناممکن ہوجائےگا۔مادی ذائقہ خانے ہوں یا روحانی ذائقہ خانے دونوں ڈیولپ کرنے سے زندہ رہتے ہیں، اور اگر ان کو ڈیولپ نہ کیا جائے تو وہ کند ہوجاتے ہیں۔
یہی وہ حقیقت ہے، جو ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں آئی ہے:ذَاقَ طَعْمَ الْإِیمَانِ مَنْ رَضِیَ بِاللہِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 34)۔ یعنی اس نے ایمان کا ذائقہ چکھا، جو اللہ کو رب مان کر راضی ہوا، اور اسلام کو دین مان کر، اور محمد کو نبی مان کر۔
ان ذائقوں کی شدت مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً کسی شخص کو کھانے کی کوئی اچھی چیز ملے تو اس کو کھاکر وہ بہت زیادہ خوش ہوجائے گا، اس کی زبان سے واؤ (wow) یا ونڈرفل (wonderful) جیسے الفاظ نکل پڑتے ہیں۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ اسپریچول ذائقے کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ مثلاً کسی کو اللہ سے تعلق کا اعلی تجربہ ہو، تو اس قسم کا اعلیٰ تجربہ پیش آئے گا، جس کو قرآن کی مختلف آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ مثلا ً إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَعَلَى رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ (8:2)۔ یعنی ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح یہ آیت ہے: الَّذِینَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ (4:173)۔ یعنی جن سے لوگوں نے کہا کہ بلاشبہ لوگوں نے تمہارے خلاف بڑی طاقت جمع کرلی ہے اس سے ڈرو، لیکن اس چیز نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بولے کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔
انسان کی شخصیت میں شاید سب سے زیادہ خالص (pure) چیز آنسو ہے۔ آنسو ہمیشہ دل کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں۔ انسانی جسم میں ہاضمے کا جو پیچیدہ عمل ہوتا ہے، اس سے انسان کے جسم میں جو مختلف قسم کی رقیق اشیا پیدا ہوتی ہیں، ان میں سب سے زیادہ لطیف چیز آنسو ہیں۔ جب کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان محبت خداوندی کے کسی لطیف ذائقے کو محسوس کرتا ہے تو وہ محبت کے آنسو کی شکل میں اس کی آنکھوں سے ابل پڑتا ہے۔ اس ظاہرے کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ (5:83)۔یعنی جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوںسے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی پہچان

خدا کو پہچاننے کے بہت سے پہلو ہیں۔ اگر کوئی خدا کو پہچاننا چاہے، تو ان پہلوؤں سے خدا کو دریافت کرسکتا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ فطرت کے نظام کا تقابل انسانی نظام سے کیا جائے۔
محمّد بن الحسن الفتال (وفات 508ھ) ایک مشہور عالم ہیں، ان کی ایک مشہور کتاب ہے، اس کا نام ہے روضة الواعظین۔ انھوں نے اس کتاب میں علی ابن ابی طالب کے حوالے سے ان کا ایک قول نقل کیا ہے:قال أبو جعفر :قام رجل، فقال: یا أمیر المؤمنین بماذا عرفت ربک؟ قال:بفسخ العزائم ومنع الہمة لما ان ہممت بأمر فحال بینی وبین ہمتی، وعزمت فخالف القضاء عزمی، علمت أن المدبر غیری (روضۃ الواعظین، صفحہ نمبر 30)۔ یعنی ابوجعفر نے کہا: ایک آدمی کھڑا ہوا، اس نے پوچھا: اے امیر المومنین، آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا۔ علی نے کہا: پختہ عزم کے ٹوٹنے ، اور ارادے کےناتمام رہنے سے۔ میں نے ایک کام کرنے کا ارادہ کیا توکوئی میرے اور میرے ارادے کے درمیان حائل ہوگیا۔ میں نے ایک عزم کیا، تو تقدیر میرے عزم کے خلاف گئی۔ اس سے میں نے یہ جانا کہ تدبیر کرنے والا میرے علاوہ کوئی اور ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے رب کو پہچانا اپنے منصوبوں کے ٹوٹنے سے۔اس بات کو آج کل کی زبان میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ تقابل (comparison) کے اصول کو اپلائی کرکے اللہ کی معرفت حاصل کرنا ہے۔ یعنی خدا کے منصوبے جو فطرت (nature) میں کام کر رہے ہیں، ان کا تقابل انسان کے منصوبوں سے کیا جائے۔ اس تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ رب العالمین کے منصوبے زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ (zero-defect management) کی سطح پر جاری ہیں۔ اس کے برعکس، انسان کے منصوبے سب کے سب کوشش کے باوجود زیرو ڈیفکٹ کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ موجودہ زمانے میں یہ دریافت ہوئی کہ فطرت (nature) کے تمام منصوبے زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کی سطح پر چل رہے ہیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں کوشش کی گئی کہ انسان کی صنعت بھی زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر چلائی جائے۔ لیکن اس معاملے میں کامل ناکامی ہوئی۔ یہ معاملہ انسان کی نگرانی میں چلنے والے بڑے سے بڑے آرگنائزیشن سے لے کر انفرادی سطح پر جاری تمام منصوبو ں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میرے دفتر میں کچھ لوگ ملاقات کے لیے آئے۔ ان کے لیے چائے منگائی گئی۔ چائے پینے کے بعد چائے کے تمام برتن ایک ٹرے(tray)میں رکھ دیے گئے۔ یہ ٹرے میز کے ایک طرف رکھی ہوئی تھی۔ کسی وجہ سے پوری ٹرے فرش پر گر پڑی۔ ٹرے میں موجود ٹی سیٹ کے تقریبا دو درجن آئٹم تھے۔ سب کے سب نیچے گر کر ٹوٹ گئے۔اس تجربے کو آپ ایک اصول کے تحت لائیے:
In comparison that you understand
رب العالمین بیشمار چیزوں کو مینج کررہا ہے۔ لیکن کہیں بھی کوئی نقص نہیں، آتا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ (67:3-4)۔ یعنی جس نے بنائے سات آسمان اوپر تلے، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی۔اس خدائی مینجمنٹ کے مقابلے میں انسانی کوششوں کو دیکھئے۔انسان جب ایسا کرتا ہے تو وہ بہت ساری چیزوں کو کھودیتا۔ اب انسان غور کرے گا تو اس کو یہ دریافت ہوگا کہ اس کائنات کا بہت بڑا حی و قیوم خدا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
خدا مشاہدہ (observation) میں نہیں آتا مگر خدا تجربہ کے اعتبار سے ضرور ایک معلوم حقیقت ہے۔ انسان کے اندر اگر حقیقت پسندانہ مزاج ہو تو بلا شبہ وہ خدا کے وجود کا اقرار کرے گا۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی دریافت

انسان کی تاریخ میں غالباً ایک ایسا واقعہ ہے، جو سب سے بڑی حقیقت ہونے کے باوجود عملاً ایک غیر دریافت شدہ حقیقت (missing discovery) بن گیا۔ انسان نے خدا کی تخلیق کو دریافت کیا، لیکن انسان خود خالق کو دریافت کرنے میں ناکام رہا۔ بظاہر خدا (God) اہل مذاہب کا سب سے بڑا موضوع (subject) رہا۔ لیکن اہل مذاہب کے یہاں خدا فنی (technical)بحثوں کا موضوع بن گیا۔ اہل مذاہب عملاً خدا کو ایک حی و قیوم (the Living, the All-Sustaining) خدا کے طور پر دریافت کرنے میں ناکام رہے۔
اہل مذاہب نے خدا کو اقراری ایمان کا حصہ تو بنایا، لیکن وہ ایسے خدا کو دریافت نہ کرسکے، جو ان کے لیے حبّ شدید اور خوف شدید کا ذریعہ (source) بن جائے۔ اللہ رب العالمین نے پانچ سو سال پہلے طبیعی سائنس (physical science)کو وجود بخشا۔ سائنس اس معاملے میں ایک تائیدی علم کی حیثیت سے ابھرا۔ سائنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے تائیدی ڈیٹا (supporting data) کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن اہل مذاہب اس حقیقت کو دریافت نہ کرسکے۔ انھوں نے سائنس کو مذہب کا ایک شعبہ سمجھنے کے بجائے، میتھمیٹکس کا ایک شعبہ سمجھا، اور اس کو سیکولر علم کے خانے میں ڈال دیا۔
مذہب انسان کو خدا کا عقیدہ دیتا ہے۔ لیکن خدا کو کامل معنوں میں ایک زندہ حقیقت بنانے میں سائنس کے علوم ایک مددگار علم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر آدمی صحیح ذہن کے ساتھ سائنس کو پڑھےتو سائنس اس کے مذہبی ادراک میں اضافہ کرنے کا سبب بن جائے گا۔جو لوگ اس معاملے میں تجربہ کرنا چاہتے ہیں، ان سے میں کہوں گا کہ پہلے آپ مذہبی کتابوںکا مطالعہ کرکے اپنے اندر خدا کا عقیدہ پیدا کیجیے، اس کے بعد آپ حسب ذیل کتابوں کا مطالعہ کیجیے:
The Evidence of God in an Expanding Universe, by John Clover Monsma, published by G.P. Putnam's Sons
(اردو ترجمہ:’خدا موجود ہے‘، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشر، نئی دہلی)
God Arises, by Maulana Wahiduddin Khan, published by Goodword Books, New Delhi (’ مذہب اور جدید چیلنج‘:اردو ترجمہ)
فطرت کا قانون
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:قُلْ لَا أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّہُ وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوءُ(7:188)۔ یعنی کہو، میں مالک نہیں اپنی جان کے بھلے کا اور نہ برے کا مگر جو اللہ چاہے۔ اور اگر میں غیب کو جانتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لئے حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا۔
قرآن کی یہ آیت بظاہر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کررہی ہے۔ لیکن وہ اپنے عمومی انطباق کے اعتبار سے ساری انسانی تاریخ پر محیط ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں فائدہ اور نقصان کا تعلق بہت زیادہ مستقبل بینی سے ہے۔ اگر آدمی مستقبل کو جانے تو وہ بڑے بڑے فائدے حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن مستقبل کو نہ جاننے کی بنا پر انسان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔یہ معاملہ عام انسانی زندگی کا معاملہ ہے۔ اس لحاظ سے یہ آیت پوری انسانی تاریخ کو بیان کررہی ہے۔
یہاں ایک تقابل کے ذریعے بہت بڑی حکمت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات کی ایسی منصوبہ بندی نہیں کرسکتا، جس میں اس کو نقصان نہ پیش آئے۔ انسان کی ہر منصوبہ بندی میں کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے، اس لیے انسان کو بار بار نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس، کائنات کا معاملہ ہے۔ کائنات اللہ رب العالمین کی تخلیق ہے۔ کائنات میں ہر لمحہ بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں۔ مثلاً سورج روزانہ اپنے مقررہ وقت پر نکلتا ہے۔ حتیٰ کہ شمسی نظام کا ایسا المنک (almanac) بنایا جاتا ہے، جو ہزاروں سال کی مدت تک ٹھیک ٹھیک نقشہ پیشگی طور پر بتاتا ہو۔ اس کے برعکس، انسان کسی بھی حال میں اس قسم کی بے عیب منصوبہ بندی (zero-defect management)پر قادر نہیں۔ یہ تقابل اللہ رب العالمین کے وجود کا ایک بین ثبوت ہے۔ایک طرف انسان کا معاملہ ہے کہ وہ زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ پر قادر نہیں، دوسری طرف خالق کائنات نے زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام مسلسل طور پر کائنات میں قائم کررکھا ہے۔تقابل کا اصول (تعرف الاشیاء باضدادہا) کو اپلائی کیجیے تو اس سے آپ کی معرفت رب میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔
زیرو ڈیفکٹ کائنات
سیکنڈ ورلڈ وار (1939-1945) کے زمانے میں ایک تصور پیدا ہوا، جس کو زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کہا جاتا ہے۔اس موضوع پر بہت سے آرٹکل اور بہت سی کتابیں شائع ہوئیں۔ جلد ہی یہ تصور ترقی یافتہ ملکوں میں تیزی سے پھیل گیا۔کئی ملکوں، مثلا ًامریکا اور جاپان، وغیرہ میں اس تصور کو بڑے پیمانے پرعمل میں لانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن لمبے تجربے کے بعد یہ مان لیا گیا کہ زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا تصور ناقابل حصول ہے۔اس موضوع پر انٹرنیٹ میں کافی مواد موجود ہے۔ آپ نمونے کے طور پر حسب ذیل آرٹکل پڑھ سکتے ہیں:
The Concept of Zero Defects in Quality Management by Chandana Das (www.simplilearn.com)
دور جدید میں صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ملکوں میں بڑے پیمانے پر یہ کوشش کی گئی کہ زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ قائم کیا جائے۔ اس موضوع پر بڑی تعداد میں ریسرچ ہوئی اور کتابیں لکھی گئیں۔بیسویں صدی کے تقریباً پورے دور میں یہ کام جاری رہا۔ مگر اس مقصد میں مکمل ناکامی ہوئی۔ حالاں کہ دورِ جدید کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں نے اس عمل میں حصہ لیا۔ مثلاً امریکا اور جاپان وغیرہ۔ دوسری طرف عین اسی وقت دور جدید کے سائنسی مطالعے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ فطرت کا نظام، مثلاً ستاروں اور سیاروں کی گردش ،وغیرہ، انتہائی حد تک بے خطا انداز میں قائم ہیں۔ اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ کل ٹھیک ٹھیک کس وقت سورج نکلے گا، اور کس وقت ٹھیک وہ غروب ہوگا، تو آپ آج ہی اس کو نہایت درست انداز میں معلوم کرسکتے ہیں۔
ایک طرف یہ تجربہ ہے کہ انسانی دنیا میں زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا تصور مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے، اور دوسری طرف انسان کے سوا جو مادی دنیا ہے، اس میں یہ تصور کامل طور پر موجود ہے۔ مثلاً اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ 15 اپریل 2025 کو سورج کب طلوع ہوگا، اور کب غروب ہوگا تو پیشگی طور پر آپ یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ 15 اپریل کو دہلی میں سورج کے طلوع اور غروب کا وقت حسب ذیل ہوگا:
طلوع آفتاب (Sun rise) 05:56
غروب آفتاب (Sun set) 18:46
سورج کے طلوع و غروب کےبارے میں یہ وقت اسی صحت (accuracy) کے ساتھ ساری دنیا کے بارے میں معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پوری مادی دنیاکا نظام کامل صحت کے ساتھ چل رہا ہے۔ مادی دنیا کی سائنس کو اسٹرانومی ، فزکس، کیمسٹری، وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس مادی دنیا کا ریکاڑد ہزاروں سال پہلے، اور ہزاروں سال بعد تک معلوم کیا جاسکتا ہے، اور کسی ادنی فرق کے بغیر وہ یہی رہے گا۔ اس دنیا کے بارے میں اب تک کوئی فرق ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے۔
آپ غور کیجیے کہ وہ مادی دنیا جو براہ راست خالق کے مینجمنٹ کے تحت چل رہی ہے، وہ شروع سے اب تک اسی زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر قائم ہے۔ اس کے مقابلے میں انسان کی دنیا میں ، انسان جو منصوبہ بناتا ہے، مثلاً انڈسٹری کی دنیا ، وہاں انتہائی کوشش کے باوجود زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم نہ ہوسکا۔ یعنی ایک طرف اسپیس میں ڈیوائن مینجمنٹ کو دیکھیے، جو زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر مسلسل چل رہا ہے۔ دوسری طرف ہیومن مینجمنٹ کو دیکھیے۔ اس دوسری دنیا میں تقریباً ایک صدی کی مسلسل کوشش کے باوجودد زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم نہ ہوسکا۔اس معاملے میں اگر آپ کو ہیومن مینجمنٹ کا تجربہ جاننا ہو، تو آپ انٹرنیٹ پر موجود اس مضمون کو پڑھیے:
Zero Defects, a term coined by Mr. Philip Crosby in his book "Absolutes of Quality Management" has emerged as a popular and highly-regarded concept in quality management—so much so that Six Sigma is adopting it as one of its major theories. Unfortunately, the concept has also faced a fair degree of criticism, with some arguing that a state of zero defects simply cannot exist. Others have worked hard to prove the naysayers wrong, pointing out that “zero defects” in quality management doesn’t literally mean perfection, but rather refers to a state where waste is eliminated and defects are reduced. It means ensuring the highest quality standards in projects. What Do We Mean by Zero Defects: From a literal standpoint, it’s pretty obvious that attaining zero defects is technically not possible in any sizable or complex manufacturing project. (www.simplilearn.com. accessed on 13.03.19)
اب اس دو طرفہ تجربے کے اوپر مشہور فارمولے کو منطبق (apply) کیجیے کہ چیزیں اپنے ضد سے سمجھ میں آتی ہیں(تعرف الاشیاء باضدادہا):
in comparison that you understand
قرآن کی مختلف آیتوں میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان کی دنیا میں انسان جو نظام بناتا ہے، اور انسان کے باہر بقیہ کائنات میں جو نظام ہے، دونوں میں تقابل (comparison)کرکے دیکھو۔ یہ تقابلی مطالعہ(comparative study) بتائے گا کہ دونوں دنیاؤں میں بنیادی فرق ہے۔ انسان کی دنیا میں انسان جو نظام بناتا ہے، اس میں ساری کوشش کے باوجود زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ یہ مان لیا گیا کہ انسان کی دنیا میں اس تصور کا حصول ممکن نہیں۔ دوسری طرف خدا کی قائم کردہ مادی دنیا میں یہ تصور پوری تاریخ میں انتہائی صحت (accuracy) کے ساتھ قائم ہے۔
اس فرق پر جب مذکورہ فارمولا کو منطبق کیا جائے تو خود انسانی تجربے کے مطابق یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کائنات کا مالک ایک برتر ہستی ہے، یعنی اللہ رب العالمین۔ انسان کی دنیا اور فزیکل سائنس (exact sciences) کی دنیا میں جو فرق ہے، وہ فرق خدا کے وجود کا ایک قطعی ثبوت ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ (67:3-4) ۔ یعنی جس نے بنائے سات آسمان اوپر تلے، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی۔
اسی طرح ایک آیت یہ ہے: أَفَلَمْ یَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاہَا وَزَیَّنَّاہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوجٍ (50:6)۔ یعنی کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا، ہم نے کیسا اس کو بنایا اور اس کو رونق دی اور اس میں کوئی رخنہ نہیں۔ موجودہ زمانے میں کائنات کے بے خطا نظام کی یہ دریافت اللہ رب العالمین کی ایک صفت کو ثابت شدہ بنا رہی ہے۔ اور وہ ہے: لَا تَأْخُذُہُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ (2:255)۔ یعنی اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
قرآن میں ہے کہ پیغمبر موسیٰ نے خدا کو دیکھنا چاہا،لیکن اپنی محدودیت کی بنا پر وہ خدا کو دیکھ نہیں سکے (الاعراف، 7:143)۔ اس واقعے پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان خدا کی ذات کو دیکھ نہیں سکتا۔ البتہ وہ اس کی صفات کا تجربہ کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسا ن اللہ کی تخلیق پر غور کرے، تو وہ تخلیق کا علم حاصل کرسکتا ہے۔ یعنی خدا کی تخلیق کے ذریعے خدا کے وجود کی معرفت حاصل کرسکتا ہے۔ اس میں خدا کی معرفت حاصل کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خدا کی صفات کا مطالعہ کرکے خدا تک پہنچے۔ انسان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ خدا کی ذات کا براہ راست مطالعہ کرکے وہ خدا کا عارف بن جائے۔ فلاسفہ اور صوفیا ، دونوں نے یہ غلطی کی کہ انھوں نے خدا کا براہ راست مطالعہ کرکے خدا کو جاننا چاہا۔ مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔سائنس نے خدا کے مطالعے کا بالواسطہ طریقہ اختیار کیا، اور اس میں کامیابی حاصل کی۔مثلاً بگ بینگ (Big Bang) کے مطالعے کے ذریعے یہ دریافت کرنا کہ کائنات تقریباً تیرہ بلین سال پہلے وجود میں آئی، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

عجز کا اصول

عجز کا مطلب لفظی اعتبار سے بے طاقتی (helplessness) ہے۔ لیکن اسلام میں عجز کا مطلب اس سے زیادہ ہے۔ اسلام کے مطابق، عجز ایک مثبت قدر (positive value) کانام ہے۔ عجز ایک اعلیٰ دریافت ہے، جو ایمان کے بعد کسی شخص کو حاصل ہوتا ہے۔خالق کی اعلیٰ صفت یہ ہے کہ وہ قادر مطلق ہستی (all-powerful being) ہے۔ اس کے مقابلے میں عجز بندے کی صفتِ حقیقی کا نام ہے۔ بندہ جب خالق کے مقابلے میں اپنی حقیقی حالت کو دریافت کرتا ہے، تو اسی کا دوسرا نام عجز ہے۔
عجز سب سے بڑی عبادت ہے۔ عجز عبادت کا مغز (essence) ہے۔ عجز انسان کی خودشناسی کا اعلیٰ درجہ ہے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی اپنی حقیقتِ واقعی کو دریافت کرلے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی خالق کے مقابلے میں اپنی حیثیتِ اصلی کا شعور حاصل کرلے۔عجز کمزوری کا نام نہیں ہے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ سے باخبر ہوجائے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی مین کٹ ٹو سائز (man cut to size)بن جائے۔عجز عبدیت کی تکمیل ہے۔ عجز خدا سے قربت کی آخری حالت ہے۔ عجز خدا شناسی کا اعلیٰ درجہ ہے۔ عجز بے طاقتی کا ظاہرہ نہیں، بلکہ عجز خدا سے قربت کا ایک ظاہرہ ہے۔
قرآن میں مومن کی ایک صفت ان الفاظ میں بتائی گئی ہے:وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّہَ (9:18)۔ یعنی وہ اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے۔ اس آیت میں ڈرنے کا مطلب معروف معنی میں ڈرنا نہیں ہے، بلکہ اللہ کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنانا ہے۔ جب کوئی شخص اللہ کو اپنا سول کنسرن بنا لے، تو اس کے بعد انسان کی جو داخلی حالت ہوتی ہے، اسی کانام عجز ہے۔ عجز کو محسوس کیا جاسکتا ہے، لیکن عجز کا خارجی مظاہرہ شاید ممکن نہیں۔ عجز کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کو انووک (invoke)کرنے والا ہے۔ کیوں کہ عجز اپنی آخری حد پر پہنچ کر سفارش بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خوف کی نفسیات

بیسویں صدی عیسوی مسلم دنیا کے لیے تحریکوں کی صدی (century of milli activities) ہے۔ اس پوری صدی کے اندر مسلم دنیا کے ہر حصے میں کوئی نہ کوئی بڑا مسلم رہنما سرگرم عمل نظر آتا ہے۔ ان تحریکوں کا خلاصہ کیا جائے تو سب کا قدر مشترک ایک ہوگا۔ وہ ہے خوف کی نفسیات۔ ہر مسلم رہنما کسی نہ کسی دشمن کے خوف کو لے کر مسلمانوں کو اس کے خلاف عمل پر ابھاررہا ہے۔کہیں نو آبادیاتی طاقتوں کے خلاف، کہیں اسرائیل کے خلاف، کہیں ہندو اکثریت کے خلاف، کہیں ظالم قوم کے خلاف، کہیں مغربی طاقتوں کے خلاف، کہیں صہیونیت کے خلاف، وغیرہ۔
یہ ایک عام تجربہ ہے کہ لوگوں کو محبت انسانی کے اوپر اٹھایا جائے تو کبھی ایسی تحریک کو کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس، جو لیڈر لوگوں کو خوف کی نفسیات پر ابھارے، اس کے جھنڈے کے نیچے بےشمار لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہوجاتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کے اندر اپنے خالق و منعم کا خوف پیدائشی طور پر موجود ہے۔ انسان فطری طور پر اس احساس میں جیتا ہے کہ جس خالق نے ہم کو تمام نعمتیں دی ہیں، اگر وہ ان نعمتوں کو چھین لے تو ہمارا کیا انجام ہوگا۔ یہ نفسیات انسان کے اندر خالق کی نسبت سے رکھی گئی ہے۔ مگر غیر دانش مند لیڈر اپنے انٹرسٹ کے لیے اس نفسیات کو مفروضہ انسانی دشمنوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری انسانی تاریخ ایک عظیم نقصان سے دو چار ہورہی ہے۔ خوف کی نفسیات جو انسان کے اندر خدا کی نسبت سے رکھی گئی تھی، وہ انسان کی نسبت سے استعمال ہونے لگی۔ جس نفسیات کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ انسان کے اندر خدا رخی مزاج بنے، وہ انسان کے خلاف منفی مزاج پیدا کرنے کا ذریعہ بن گیا۔
انسان خالق سے ڈرے تو اس کے نتیجے میں اس کے اندر یہ نفسیات جاگتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو انسان دوست آدمی بنائے۔ اس کے برعکس، جب یہ نفسیات انسان کی نسبت سے استعمال ہونے لگے تو ہر آدمی دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ کر اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حکمت کا سر چشمہ

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (2:282)۔ یعنی اور اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ تقویٰ علم یعنی حکمت کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایسا کیوں کر ہوتا ہے۔ اس کی حقیقت ایک حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا: رَأسُ الحِکمَة مَخافَةُ اللَّہِ عز وجل (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 730) ۔ یعنی حکمت کا سرا ، اللہ کا خوف ہے۔
خوف خدا کیا ہے! خوف خدا در اصل یہ ہے کہ آدمی کو اللہ رب العالمین کی دریافت اس طرح ہوجائے کہ اس کو برابر خدا کی موجودگی (presence of God) کا تجربہ ہونے لگے۔ جس آدمی کو اپنی زندگی میں اس طرح کا زندہ تجربہ ہونے لگے، وہ مسلسل طور پر اس احساس میں جینے لگتا ہے کہ خدا اس سے پوری طرح باخبر ہے، اور وہ انسان کے تمام قول و فعل کا حساب لے گا۔
جو آدمی اس طرح موجودگی ٔرب کے احساس میں جینے لگے، اس کے لیے یہ ناممکن ہوجاتاہے کہ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں بے خوفی کی زندگی گزارے۔ وہ ہر قول اور فعل سے پہلے ہمیشہ یہ سوچے گا کہ کیا میں اللہ رب العالمین کے سامنے اپنے اس قول و فعل کے لیے مبرر (justification) دے پاؤں گا۔ کیا اللہ اپنے علم کی روشنی میں مجھ کو درست قرار دے گا، یا ایسا ہوگا کہ اللہ مجھ کو پوچھے گا کہ تم نے ایسا کیوں کہا ، تم ایسا کیوں بولے، تم نے ایسا فعل کیوں انجام دیا، وغیرہ۔ یہ احساس آدمی کو خود اپنے اوپر نگراں بنا دے گا۔دوسرے خواہ اس سے پوچھیں یا نہ پوچھیں، وہ خود اپنے آپ سے پوچھے گا کہ تم نے ایساکیوں کہا، تم نے ایسا کیوں کیا۔ جب آدمی کے اندر ایسی حساسیت جاگ اٹھے تو اس کے اندر خود بخود موضوعی سوچ (objective thinking) پیداہوجاتی ہے، وہ وہی بولتا ہے، جو اس کو بولنا چاہیے، وہ وہی کرتا ہے، جو اس کو کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

فوق الفطری حکم

قرآن میں ایک فطری قانون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ (12:40)۔ یعنی حکم صرف اللہ کے لئے ہے۔ اس نے آرڈر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے۔ مگر بہت لوگ نہیں جانتے۔
اس آیت میں حکم کا لفظ بطور خبر (information) ہے، جب کہ عبادت کا لفظ بطور انشاء ہے۔ خبر کا مطلب ہے،کسی ہونےوالے واقعہ کے بارے میں انفارمیشن دینا،اطلاع کرنا، اور انشاء کا مطلب ہے، کسی بات کے کرنے یا نہ کرنے کا مطالبہ کرنایاحکم دینا ۔اس آیت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ کائنات میں حکم یعنی الفطری اقتدار (supernatural sovereignty) صرف اللہ کا ہے، اور وہ بالفعل ازل سے ابد تک قائم ہے، اوربحیثیت مقتدر اعلیٰ ا س کا امر یہ ہے کہ انسان صرف اسی کی عبادت کرے، اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرے۔قرآن کی اس آیت سے حکومت الٰہیہ کا نظریہ نکالنا سر تا سر بے بنیاد ہے۔ یہ خبر کو انشاء بنانے کے ہم معنی ہے۔ ایسا کرنا مذموم تفسیر بالرائے کی ذیل میں آتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ اللہ کا حکم ساری کائنات میں بالفعل قائم ہے، نہ کہ انسان اس کو قائم کرے۔یہ معاملہ خبر کا معاملہ ہے، نہ کہ انشاء کا معاملہ۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اللہ رب العالمین کو دریافت کرے۔ اس کی دریافت اتنی زیادہ گہری ہو کہ وہ أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر50) کا کیس بن جائے۔ یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو، گویا کہ تم ا س کو دیکھ رہے ہو۔ بات صرف عبادت کی حد تک نہ ہو، بلکہ وہ اپنی پوری زندگی اسی میں جینے لگے۔ اس کا جینا، اور اس کا مرنا، سب کا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہوجائے۔ وہ ہر چیز میں اللہ کو دیکھے، وہ ہر چیز میں اللہ کی کار فرمائی کا مشاہدہ کرے، وہ اس طرح کامل معنوں میں اللہ کا عبد بن جائے، جیسے کہ وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ اس کے لیے اللہ کا معاملہ صرف رسمی عقیدہ کا معاملہ نہ رہے، بلکہ اللہ اس کے لیےایک زندہ عقیدہ کا معاملہ بن جائے، جیسا کہ آیت الکرسی میں بیان کیا گیا ہے۔ آیت الکرسی ایک لمبی آیت ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:
اﷲ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے، سب کا تھامنے والا۔ اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے، اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جو وہ چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے۔ وہ تھکتا نہیں ان کے تھامنے سے۔ اور وہی ہے بلند مرتبہ، بڑا۔
اللہ کی دریافت انسان کے لیے ویسے ہی ایک حقیقت ہے، جیسے کہ کسی سائنسی حقیقت کو دریافت کرنا۔ مثلاً انسان جب آسمان کی طرف دیکھتا ہے، اور وہ پاتا ہے کہ کہکشائیں (galaxies)، اور سورج ، چاند اور پورا شمسی نظام (solar system) نہایت صحت (accuracy) کے ساتھ چل رہا ہے۔ صبح کو سورج کا نکلنا، اور شام کو سورج کا ڈوبنا انتہائی صحت کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ملین اور بلین سال کے اندر بھی اس میں کوئی فرق نہیں آتا ۔ وہ دریافت کرتا ہے کہ کائنات مسلسل طور پر پھیل رہی ہے۔
چاروں طرف اس کا یہ پھیلنا (expansion)انتہائی صحت (precision) کے ساتھ پیش آرہا ہے۔ متحرک ملکی وے (Milky Way)کے حاشیہ پر پورا شمسی نظام اس طرح قائم ہے کہ شمسی نظام بھی حرکت میں ہے، اور کہکشاں بھی حرکت میں ہے، اور یہ پورا واقعہ حد درجہ صحت کے ساتھ پیش آرہا ہے۔ملین اور بلین سال کے اندر بھی اس میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس طرح کے متحرک نظامات خلا (space) کے اندر پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر ایک مسلسل طور پر بے حد تیز رفتار حرکت کی حالت میں ہے۔ مگر ان میں کبھی کوئی ادنیٰ درجہ کا ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ یہ پورا نظام انتہائی صحت کے ساتھ متحرک ہے۔
واپس اوپر جائیں

عارف انسان

قرآن میں ایک واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ، وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ (5:83-84)۔ یعنی اور جب انھوں نے اس کلام کوسنا جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسوبہہ پڑے، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔
یہ واقعہ ایک مسیحی گروپ کا ہے، جو پیغمبر اسلام سے ملنے کے لیے حبش سے مدینہ آئے تھے۔ اس مثال کے ذریعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام الٰہی کا سننا ،ان کے لیے ایک گہراروحانی تجربہ (spiritual experience) بن گیا۔ اس روحانی تجربے کی کچھ علامتیں یہ ہیں - (1) گہرے تاثر کے ساتھ کلام اللہ کو سننا۔ (2) اس کے ذریعہ وحی الٰہی کی پہچان ہوجانا۔ (3)اس کو سننے کے بعد آنکھوں سے آنسو جاری ہونا۔ (4) معرفت کے زیر اثر یہ کہہ اٹھنا کہ خدایا ہم نے اس حق کو قبول کیا۔ (5)سننے کے بعد دل سے اس کی تصدیق کرنے والے بن جانا ۔ (6)کسی چیز کو قبول حق کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دینا۔ (7) کلام اللہ کو سنتے ہی یہ طلب پیدا ہوجانا کہ وہ اس گروہ میں شامل ہوجائیں، جنھوں نے اس کلام کو سن کر فوراً مثبت رسپانس (positive response) دیا۔ اس تاثر کا تعلق یکساں طور پرسماعت قرآن سے بھی ہے، اور مطالعہ قرآن سے بھی۔
یہ تمام علامتیں ایک لفظ میں معرفت قرآن کی علامتیں ہیں۔ اصل یہ ہے کہ قرآن پورا کا پورا فطرت کی زبان میں ہے۔ قرآن ہر آدمی کے لیے اس کی فطرت کا مثنیٰ (counterpart) ہے۔ قرآن کا سننا ہر آدمی کے لیے اس کی داخلی شہادت بن جاتا ہے۔ خاص طور پر جو لوگ اپنی فطرت کو زندہ رکھیں، ان کے لیے تو قرآن ایسی کتاب ہے کہ اس کو پڑھتے یا سنتے ہی انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی فطرت میں چھپی ہوئی روشنی اچانک روشن ہوگئی ۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:یَکَادُ زَیْتُہَا یُضِیءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ نُورٌ (24:35)۔ یعنی اس کا تیل ایسا ہے گویا آگ کے چھوئے بغیر ہی وہ خود بخود جل اٹھے گا۔
اس فطری مطابقت کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ جس آدمی کو قرآن کی سچی معرفت ہوجائے، اس کے لیے قرآن معرفت حق (realization of truth)کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی سوئی ہوئی فطرت بیدار ہوجاتی ہے۔ اس کے اندر ایک نئی ربانی شخصیت کی تعمیر شروع ہوجاتی ہے۔ یہ تعمیر شخصیت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ساری کائنات اس کے لیے رزق ربانی کا دسترخوان بن جاتی ہے۔
قرآن میں اس نوعیت کے حوالے کثرت سے موجود ہیں۔ ان کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس انسان کی زندگی میں قرآن اس طرح داخل ہوکہ اس کی فطرت کے تمام دروازے کھل جائیں، اس کی دماغ کی تمام کھڑکیاں خدائی الہامات (divine inspiration) کوبے روک ٹوک وصول کرنے لگیں۔ ایسا انسان ایک نیا انسان بن جاتا ہے۔ قرآن اس کے لیے ہوجاتا ہے، اور وہ قرآن کے لیے۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ عربی زبان میں فنی مہارت پیدا کریں، اور پھرمفروضہ علوم قرآن کے عالم بن جائیں تو آپ کو فہم قرآن حاصل ہو۔ بلکہ فہم قرآن یہ ہے کہ قرآن آپ کو اتنی گہرائی کے ساتھ متاثر کرے کہ آپ کی فطرت کی کھڑکیاں کھل جائیں۔ آپ قرآن کو ساری کائنات میں پڑھنے لگیں۔ جس طرح پھولوں میں شہد کی مکھی کے لیے نکٹر ہوتا ہے، اسی طرح مومن کے لیے ساری دنیا میں حق کا نکٹر (nectar of truth) موجود ہے۔ قرآن جب کسی انسان کو اس طرح متاثر کرے کہ کائنات میں چھپے ہوئے حق کے نکٹر اس کو ملنے لگیں، تو اس کے بعد اس کے اندر ایک نئی شخصیت بننے لگتی ہے، ربانی شخصیت، جس کو جنت کے ابدی باغوں میں جگہ دی جائے۔
واپس اوپر جائیں

معرفت کا سفر

حدیث کی کتابوں میں ایک روایت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: لو عرفتم اللہ حق معرفتہ لمشیتم على البحور، ولزالت بدعائکم الجبال، ولو خفتم اللہ حق مخافتہ لعلمتم العلم الذی لیس معہ جہل، ولکن لم یبلغ ذلک أحدا، قیل:یا رسول اللہ ولا أنت؟ قال:ولا أنا، اللہ عز وجل أعظم من أن یبلغ أحد أمرہ کلہ (کنزالعمال، حدیث نمبر 5893)۔ یعنی اگر تم اللہ کی معرفت حاصل کرلو، جیسا کہ اس کی معرفت کا حق ہے، تو ضرور تم سمندروں میں چلنے لگو گے، اور تمھاری دعا سے پہاڑ زائل ہوجائے گا، اور اگر تم اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، تو ضرور تمھیں وہ علم حاصل ہوجائے گا، جس کے ساتھ کوئی جہل نہ ہو، لیکن کوئی اس تک نہیں پہنچا۔ کہا گیا: آپ بھی نہیں اے خدا کے رسول، آپ نے کہا: نہیں، میں بھی نہیں۔ اللہ تعالی اس سے بہت عظیم ہے کہ کوئی اس کے تمام معاملات تک پہنچ جائے۔
مذکورہ اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ کوئی پراسرار بات نہیں ہے۔ وہ دراصل ایک اہم حقیقت کو بتارہی ہے۔ وہ یہ کہ انسان کو جو عقل دی گئی ہے، وہ صرف زمان ومکان (time and space) کے اندر سوچ سکتی ہے اور زمان ومکان کے اندر واقع چیزوں کو جان سکتی ہے۔ لیکن اللہ رب العالمین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ زمان ومکان سے ماورا (beyond space and time) ہے۔
یہ انسان کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ انسان کی عقل اگر چہ زمان ومکان کے اندر کام کرتی ہے، لیکن اس سے مطلوب ہےکہ وہ زمان ومکان سے ماورا حقیقت کو دریافت کرے اور اُس پر ایمان لائے۔ اِسی دریافت کے لیے انسان کو وہ صلاحیت دی گئی ہے جس کو تصوراتی فکر (conceptual thinking) کہاجاتا ہے۔ اِس دریافت تک پہنچنے ہی کا نام اعلی معرفت ہے۔ جو انسان اپنے ’تصوراتی فکر، کو بھر پور طورپر استعمال کرے اور زمان ومکان کے ماورا حقیقت کو شعوری طورپر دریافت کرے، وہی وہ عارف انسان ہے جس کے لیے آخرت میں جنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

مومن کون

مومن کی صفت قرآن میں یہ بتائی گئی ہے:وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّہَ (9:18)۔ یعنی مومن وہ ہے جس کی معرفت اس کو بہت زیادہ اللہ سے ڈرنے والا بنا دے۔ مومن آخری حد تک ایک حساس انسان (sensitive person) ہوتا ہے۔ مومن کی بڑھی ہوئی حساسیت اس کو اس سے روکتی ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جو سنجیدہ (sincere) انسان کا کام نہ ہو۔ جو اصول پسندی کے معیار پر پورا نہ اترے۔
مومن اگر کوئی وعدہ کرلے تو اس کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک وہ اپنے وعدہ کو پورا نہ کرلے۔ مومن کی وجہ سے اگر کسی کا کچھ خرچ ہوا ہے تو مومن کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک اس خرچ کی تلافی نہ ہوجائے۔ مومن کی زبان سے اگر کوئی غلط بات نکل جائے تو اس وقت تک اس کو نیند نہیں آتی جب تک وہ اپنی غلطی کا کھلا اعلان نہ کردے۔ مومن اگر انسانوں کی رعایت سے کوئی بے حقیقت بات کہہ دے تو اس وقت تک وہ تڑپتا رہتا ہے، جب تک وہ اس سے رجوع کرکے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے مبرر (justified) نہ بنالے۔
مومن کی تعریف قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَعَلَى رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ (8:2)۔ یعنی ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
مومن کون ہے۔ مومن وہ ہے جس کو اللہ رب العالمین کی معرفت ڈسکوری کے درجہ میں حاصل ہوجائے۔ جو اس طرح اللہ کو ماننے والا بن جائے، جیسے کہ وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ جس کی شخصیت پورے معنوں میں خدا رخی شخصیت (God-oriented personality) بن جائے، جو ہر لمحہ اس حقیقت کو یاد رکھے :یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ (83:6)۔
واپس اوپر جائیں

مسخر کائنات

قرآن میں دو درجن سے زیادہ آیتیں ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ زمین و آسمان کو اللہ نے انسان کے لیے مسخر کردیا ہے۔مسخر کرنے کا مطلب ہے تابع کردینا، یا سبجکٹ (subject)بنا دینا۔ زمین و آسمان کا مطلب ہے کائنات۔ کائنات کوانسان کے لیے مسخر کردینا، انسان کے اوپر خالق کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اسی تسخیر کی وجہ سے پوری کائنات کسٹم میڈ یونیورس (custom-made universe) بنی ہوئی ہے۔
اس تسخیرکے دو پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ جس کو فوق الفطری سطح پر تابع بنانا کہا جاسکتا ہے۔ یعنی انسان کی مرضی کے بغیر اپنے آپ کائنات کے تمام اجزاء کا انسان کی خدمت میں لگا رہنا۔ اس کائنات میں کوئی چیز انسان کی دشمن نہیں، کائنات کی ہر چیز انسان کے موافق بنی ہوئی ہے۔ انسان کی مرضی کے بغیر ہر چیز انسان کی خدمت کررہی ہے۔
تسخیر کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نےکائنا ت کو معلوم فطری قوانین کا تابع بنا دیا ہے۔ اس طرح یہ ممکن ہوگیا ہے کہ انسان فطرت کے ان قوانین کو دریافت کرے، اور ان کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرے۔ مثلاً بجلی کے قانون کو دریافت کرکے بجلی کو اپنے لیے مفید بنانا۔ ہوائی جہاز کے قانون کو دریافت کرکے ہوائی جہاز کو اپنی سواری کے لیے استعمال کرنا، وغیرہ۔
کائنات ناقابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ کائنات کی عظمت خالق کی عظمت کا ایک تعارف ہے۔ انسان کو اگر اس عظمت کی معرفت ہوجائے، تو وہ کامل معنوں میں سبمیشن (submission) کی زندگی اختیارکرلے گا۔ انسان کے لیے ناممکن ہوجائے گا کہ وہ زمین پر سرکشی کا طریقہ اختیارکرے۔ انسان فساد کا طریقہ چھوڑ کر کامل معنوں میں اطاعت الٰہی کی زندگی اختیار کرلے گا۔ اسی زندگی کا شرعی نام تقویٰ کی زندگی ہے۔ ایسے ہی متقیوں کے لیے آخرت میں ابدی جنت کی خوشخبری ہے۔
واپس اوپر جائیں

پرزنس آف گاڈ

کوفی انّان (1938-2018) اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل تھے۔ 18اگست کو 80 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا ۔ ان کی موت پر مختلف لوگوں نے تبصرہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے موجودہ سکریٹری جنرل مسٹر انتونیو گو ٹیرش نے ان کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا — بہت سے پہلوؤں سے کوفی انّان (اپنے آپ میں ) اقوام متحدہ تھے:
In many ways, Kofi Annan was the United Nations. (The Times of India, New Delhi, Aug 19, 2018, p. 20)
اس کا مطلب یہ ہے کہ کوفی انّان کی پرسنالٹی ایک ٹاورنگ (towering)پرسنالٹی تھی۔ وہ جب اقوام متحدہ میں ہوتے تھے، تو ان کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پوری اقوام متحدہ ان سے بھری ہوئی ہے۔ اس ریمارک کو میں نے پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ بات زیادہ درست طور پر اللہ رب العالمین کے لیے صادق آتی ہے۔
صبح کے وقت جب آپ کسی کھلی جگہ پر ہوں، اور کھلے آسمان میں کائنات کے منظر کو دیکھیں ، توواضح طور پر معلوم ہوگا کہ ساری کائنات خدا کی عظمت سے بھری ہوئی ہے۔اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُودًا (17:78)۔ یعنی بیشک فجر کی قرأت مشہود ہوتی ہے۔ یہی بات قرآن کی ایک اور آیت میںقیامت کی نسبت سے ان الفاظ میں آئی ہے:وَمَا قَدَرُوا اللَّہَ حَقَّ قَدْرِہِ وَالْأَرْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہ(39:67)۔جب انسان کو اللہ رب العالمین کی حقیقی معنوں میں دریافت ہوتی ہے، اس وقت انسان کو پرزنس آف گاڈ (presence of God) کا احساس ہونے لگتا ہے۔اسی حقیقت کی طرف حدیث جبریل میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 50)۔یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو، گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، اور اگر تم نہیں دیکھتے ہو تو وہ تم کو دیکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

تخلیق میں تنوع

قرآن میں مختلف مقامات پر انسان کی تخلیق کا قصہ بیان ہوا ہے۔ ان میں سے ایک جزء کا ترجمہ یہ ہے: جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ پھر جب میں اس کو درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔ پس تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔ مگر ابلیس کہ اس نے گھمنڈ کیا اور وہ انکار کرنے والوں میں سے ہوگیا۔ اللہ نےفرمایا کہ اے ابلیس، کس چیز نے تجھ کو روک دیا کہ تو اس کو سجدہ کرے جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔ یہ تو نے تکبر کیا یا تو بڑے درجہ والوں میں سے ہے۔ اس نے کہا کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے، اور اس کو مٹی سے۔ (38:71-76)
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ ابلیس نے اپنی افضلیت کا دعویٰ خود اپنی زبان سے کیا تھا۔ اس کے برعکس، انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی افضلیت کا بیان خود خالق نے اپنی زبان سے کیا ہے۔ ابلیس کی بات خود ساختہ دعویٰ کی ہے۔ جب کہ انسان کی افضلیت کا اعلان خود خالق کائنات نے کیا ہے۔اللہ اور ابلیس کے درمیان اس مکالمے سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ انھیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ کا جو منصوبہ ترقی کے بارے میں ہے، وہ اختلاف (diversity)سے تعلق رکھتا ہے، نہ کہ یکسانیت سے۔ جہاں یکسانیت ہوگی، وہاں ارتقا رک جائے گا، اور جہاں اختلاف پایا جائے، وہاں ارتقا جاری رہے گا۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کو تنوع پسند ہے۔ یکسانیت اللہ کو پسند نہیں۔ اگر یکسانیت اللہ کو پسند ہوتی تو فرشتہ، جنات اور انسان سب کو اللہ یکساں بنا دیتا۔ سب کی سوچ، سب کا ذوق، سب کا عمل ، بالکل ایک طرح کا ہوجاتا۔ مگر اس دنیا کے خالق کو تنوع پسند ہے، نہ کہ یکسانیت۔ یہ فطرت کا قانو ن ہے، اور فطرت کے قانون میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔اسی فطری حقیقت کو اردو کے مشہور شاعر ذوق نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن اے ذوؔق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
واپس اوپر جائیں

ربانی شخصیت

قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے:کُونُوا رَبَّانِیِّینَ (3:79)۔ یعنی رب والے بنو۔ اس سے مراد وہ انسان ہے جس کی شخصیت کی تعمیر اللہ رب العالمین کی معرفت کی بنیاد پر ہوئی ہو۔ جو اللہ رب العالمین میں جینے والا انسان ہو۔ علی ابن طالب نے ربانی کا مطلب بتاتے ہوئے کہا: ہم الذین یغذّون الناس بالحکمة، ویربّونہم علیہا (زاد المسیر، 1/298)۔ یعنی ربانی وہ لوگ ہیں جو انسانوں کو حکمت کی غذا دیں،اور حکمت کی بنیاد پر لوگوں کی تربیت کریں۔
ربانی سے مراد رب والا انسان (man of God) ہے۔ یعنی وہ انسان جس کے اندر پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد تلاش کی اسپرٹ جاگے۔ وہ غور و فکر کے ذریعہ اللہ رب العالمین کو دریافت کرے۔ اس کی دریافت اتنی گہری ہوکہ وہی اس کی شخصیت بن جائے۔ وہ رب العالمین کی یاد میں جینے لگے۔ وہ رب العالمین کی یاد کو لے کر جاگے، اور رب العالمین کی یاد کو لے کر سوئے۔ اس کی دریافت اس کی شخصیت میں اتنی گہرائی کے ساتھ شامل ہوجائے کہ وہ اللہ رب العالمین سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا بن جائے، اور اللہ رب العالمین سے سب سے زیادہ اندیشہ کرنے والا بن جائے۔ اس کی یہ کیفیت اتنا زیادہ بڑھے کہ اللہ رب العالمین اس کا واحد کنسرن (sole concern) بن جائے۔
ربانی انسان کا یقین رب العالمین کے لیے اتنا بڑھ جاتا ہے کہ رب العالمین سے اس کی سرگوشیاں (whisper) ہونے لگتی ہیں، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:یُنَاجِی رَبَّہُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 413)۔ یعنی وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔ یہ سرگوشی دوطرفہ ہوتی ہے۔ یعنی وہ اپنے رب کے ذکر اور دعا میں مشغول ہوتا ہے، اور رب کی طرف سے انسپریشن (inspiration) کی زبان میں جواب آنے لگتا ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (2:186)۔ربانی انسان در اصل اعلیٰ درجے کا عارف انسان ہوتاہے، یعنی صاحب معرفت انسان۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کا تخلیقی منصوبہ

اللہ رب العالمین جو کائنات کا خالق ہے، اس نے ہر چیز کو اعلیٰ منصوبے کے تحت بنایا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:صُنْعَ اللَّہِ الَّذِی أَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ (27:88)۔ یعنی یہ اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کوکامل خوبی کے ساتھ بنایاہے:
Such is the work of God, Who has created all things in perfect order .
پیڑ پودے سے لے کر سائفن (siphon) اور کمپیوٹر تک ہر چیز اسی اعلیٰ منصوبہ بندی کی مثال ہے۔ اس دنیا میں ہر آدمی جزئی یا کلی طور پر ان اعلیٰ تخلیقات سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس واقعے کا تقاضا ہے کہ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ شکر ِ خداوندی کا ظاہرہ پایا جائے۔ لیکن شاید یہی وہ چیز ہے جو دنیا میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔ اس کمی کا سبب یہ ہے کہ سورج، چاند اور ستارے (مخلوقات) بظاہر دکھائی دیتے ہیں، لیکن خالق (Creator) محسوس انداز میں دکھائی نہیں دیتا۔اس ظاہرے کی بنا پر انسان نے یہ فرض کرلیا کہ جو چیز مشاہدے میں آئے، وہ اپنا وجود رکھتی ہیں، اور جو چیزمشاہدے میں نہ آئے، اس کا کوئی وجود بھی نہیں۔مگر جدید زمانے میں سائنسی مطالعہ نے بتایا ہے کہ جو چیزیں بظاہر دکھائی دیتی ہیں، وہ بھی گہرے تجزیہ کی سطح پر غیر مشہود بن جاتی ہیں۔ اس حقیقت کو مشہور سائنس داں سر آرتھر ایڈنگٹن اور دوسرے مصنفین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ مثلا ًملاحظہ ہوسر آرتھر ایڈنگٹن کی کتاب:
Science and the Unseen World, Macmillan [US], 1929.
موجودہ زمانے میں تخلیق (nature) کے بارے میں بہت زیادہ معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ یہ ساری معلومات گویا کہ شکر کے آئٹم ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ نئی معلومات نے شکر خداوندی میں اضافہ نہیں کیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ چیزوں کو مادی معنی میں لے لیتے ہیں، ان واقعات میں معرفت کا جو نکٹر (nectar) ہے، اس کو دریافت کرنے میں وہ ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ شہد کی مکھی جانتی ہے کہ ا س کو باغ کے پھولوں سے نکٹر (nectar) لینا ہے۔ مگر انسان اس راز سے بے خبر ہے۔
واپس اوپر جائیں

زندہ شخصیت

ایک بزرگ کا قول ہے:من عاش للہ لایموت ابدا۔ یعنی جس نے اللہ کے لیے زندگی گزاری ، وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ قول ایک عارف انسان کا قول ہے۔ اس قول کے پہلے حصے میں عیش کا لفظ حقیقی معنی میں آیا ہے۔ا س کے دوسرے حصے میں موت کا لفظ تمثیل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو انسان اللہ کی یاد میں جینے لگے، اس کو ایک ابدی رزق مل جاتا ہے۔ اس کو ہمیشہ کے لیے ایک زندہ شخصیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کا دل و دماغ کبھی جمود (stagnation) کا شکار نہیں ہوتا۔ اس کے دن بھی زندہ دن ہوتے ہیں، اور اس کی راتیں بھی زندہ راتیں۔اس کے برعکس جو شخص اللہ کی یاد میں نہ جیے، وہ گویا ایک مردہ انسان ہے، وہ زندگی کی حقیقی نعمت سے آشنا نہیں۔
زندگی اور موت کے معاملے میں انسان کے لیے صرف ایک آپشن ہے۔ وہ یہ کہ وہ خالق کے فیصلے پر راضی ہوجائے۔ خالق کے فیصلے پر راضی نہ ہونا، ایک ایسے آپشن کی طرف بھاگنا ہے، جو کسی کے لیے قابلِ حصول ہی نہیں ۔ اس معاملے میں خالق کے فیصلے پر راضی ہونا کیا ہے، اور خالق کے فیصلے کے خلاف بھاگنا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کا منصوبہ خالق کے نقشے کے مطابق بنائے۔ وہ خالق کے نقشے پر پورا اترنے کی کوشش کرے۔ اس کے برعکس، اگر انسان خود اپنے بنائے ہوئے نقشے پر چلنا چاہے ، تو وہ ناممکن کی طرف دوڑنے کے ہم معنی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس معاملے میں حقیقت پسند بنے، وہ ہرگز حقیقت کے خلاف چلنے کی کوشش نہ کرے۔
اس دنیا کا جو خالق ہے، وہی اس کا مالک بھی ہے۔ دنیا پر سارا اختیار خالق کا ہے۔ اس دنیا میں کامیابی اس کے لیے ہے، جو خالق کے فیصلے پر راضی ہوجائے، جو انسان خالق کے فیصلے کو چھوڑ کر اپنے راستے پر چلنا چاہے، اس کے لیے بربادی کے سوا اور کچھ نہیں۔ خالق کے فیصلے پر راضی ہونے کا مطلب ہے— آخرت رخی زندگی (Akhirat-oriented life) گزارنا۔ اس کے برعکس، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی مرضی کی طرف دوڑے، مگر ایسی دوڑ انسان کو کہیں پہنچانے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

Monday, 1 April 2019

Al Risala | April 2019 (الرسالہ،اپریل)

4

-حظِّ عظیم

5

- میں خدا کو پانا چاہتا ہوں

8

- خوراک ایک معجزہ

9

- انسان کے لیے سبق

10

- سیکولر معرفت، ربانی معرفت

11

- اللہ کے حوالےکرنا

12

- حجت کا قانون

13

- لو پروفائل میں کام کرنا

15

- فارم ، اسپرٹ

16

- پیغمبر ِ اسلام —— استثنائی شخصیت

23

- پیغمبر ِ انقلاب

26

- عقل کا مسئلہ

28

- اسلام دورِ جدید میں

29

- خبرنامہ اسلامی مرکز

50

- ایک ضروری اعلان


حظِّ عظیم

قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ ۔ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ ۔ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ (41:33-35)۔ یعنی اور اس سے بہتر کس کی بات ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں، اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو بڑا نصیب والا ہے۔
قرآن کی ان آیتوں میں ایسے اہل ایمان کا ذکر ہے، جو بڑے نصیبے والے (truly fortunate) ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے برتاؤ سے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ دشمن بھی ان کا دوست بن جائے، جو بظاہر غیر بنا ہوا تھا، وہ بدل کر آپ کا اپنا بن جائے۔
اس انقلابی تبدیلی کا فارمولا کیا ہے۔ وہ صبر کا فارمولا ہے۔ صبر کا فارمولا کیا ہے۔ صبر کا فارمولاایک لفظ میںیک طرفہ اخلاقیات (unilateral ethics) کا نام ہے۔ یعنی جوابی ردِّعمل کا طریقہ اختیار نہ کرنا، بلکہ فریقِ ثانی کی روش سے اوپر اٹھ کر غیر جوابی انداز میں یا ردِّعمل کا طریقہ اختیار کیے بغیر یک طرفہ بنیاد پر حسن ِعمل کا سلوک کرنا۔
ایسے لوگوں کو ذو حظِّ عظیم (truly fortunate) ہونےکی بشارت دی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبر سب سے بڑا اسلامی عمل ہے۔ اس لیے کہ صبر کا طریقہ اختیار کرنے والا ذاتی سوچ پر اللہ کی سوچ کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ ذاتی تقاضے پر کنٹرول کرتے ہوئے اللہ کے حکم کو اختیار کرتا ہے۔وہ قربانی کی سطح پر اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

میں خدا کو پانا چاہتا ہوں

ایک صاحب اپنے ای میل میں لکھتے ہیں: میں خدا کو پانا چاہتا ہوں۔ تقریباً 20/21سال سے آپ کی کتابیں، اورماہنامہ الرسالہ پڑھنے والوں میں سے ہوں ۔ تذکیر القرآن کا تقریباًہر روز مطالعہ کرتا ہوں۔ سائنٹفک ریسرچ اور کائنات پر غور کرنے سے بھی یہ بات ثابت تو ہوجاتی ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے۔لیکن میں ذاتی طور پر خدا کو پانا چاہتا ہوں۔ شاید میں اس کو پانے کی قیمت ادا نہیں کر پارہاہوں۔ بقول آپ کے اپنی ہستی کو مٹانا ہے۔ روزانہ دعا کرتا ہوں کہ خدا مل جائے۔ زندگی میں کوئی لطف باقی نہیں رہا۔ ایک بے مزہ زندگی سے اکتا گیا ہوں۔ کیا آپ سے کوئی رہنمائی مل سکتی ہے۔
آپ سے رہنمائی چاہنے کی دو وجہیں ہیں۔ ایک، آپ کی تحریر آج سے 21 سال پہلے بنا کسی انسانی مداخلت کے بالکل معجزاتی طور پر مجھے اس وقت ملی، جب کہ میں روزانہ موت کی تمنا کیا کرتا تھا۔ پورا واقعہ لکھنا مشکل ہے۔ مختصر یہ کہ گویا کوئی ان دیکھی طاقت ہے، جو مجھے زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ دوسری، میری معلومات کے مطابق، آپ واحد انسان ہیں، جو خدا کو پانے کا پورے یقین کے ساتھ دعوی کرسکتے ہیں۔ کیا مجھے بھی خدا مل سکتا ہے، کیسے؟ (ایک قاریٔ الرسالہ، ممبئی)
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا کو پانا، دراصل ایک پائی ہوئی حقیقت کو دوبارہ دریافت کرنا ہے۔ خدا کو پانا دراصل غیر شعور کو شعور بنا نا ہے۔یعنی جو چیز غیر شعوری طور پر ملی ہوئی ہے، اس کو شعوری طور پر اپنی یافت بنانا ہے۔ خدا آپ کا خالق ہے، اور اس نے آپ کو غیر موجود سے موجود کیا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ آپ کی زندگی میں شامل ہے، وہ خود بخود آپ کو ملا ہوا ہے۔ مگر یہ پانا غیر شعوری اعتبار سے ہے۔اب آپ کا کام یہ ہے کہ آپ غیر شعوری طور پر ملی ہوئی چیز کو شعوری طور پر دریافت کرلیں۔ خدا کو پانا بظاہر ایک مشکل کام معلوم ہوتا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ سب سے زیادہ آسان کام ہے۔
آپ سوچیے کہ جب آپ ماں کے پیٹ میں تھے، اسی وقت آپ کی ضرورت کی تمام چیزوں کی سپلائی باقاعدہ طورپر شروع ہوگئی تھی۔ یہ کون تھا، جس نے آپ کے لیےآپ کی ضروریات کی کامل فراہمی کا انتظام کیا۔ پھر جب آپ ماں کے پیٹ سے نکلے ، تو آپ نے پایا کہ آپ کےلیے یہاں مکمل معنوں میں ایک لائف سپورٹ ئسسٹم (life support system) موجود ہے۔ پھر جب آپ بڑے ہوئے، اور آپ دنیا میں چلنے پھرنے کے قابل ہوئےتو آپ نے پایا کہ پوری یونیورس آپ کے لیے کسٹم میڈ یونیورس (custom-made universe)ہے۔ اس قسم کے تجربات جو آپ کو ہر لمحہ پیش آتے ہیں، وہ گویا ملی ہوئی چیز کو آپ کے لیے ایک دریافت کردہ حقیقت (discovered reality) بنا رہے ہیں۔
میں جب پہلی بار امریکا گیا، تو وہاں ایرپورٹ کے باہر نکلتے ہوئے میں نے جو پہلی چیز دریافت کی، وہ یہ تھی کہ کیسا عجیب ہے وہ خالق جس نے میرے لیےزندگی بخش آکسیجن کی سپلائی کا نظام انڈیا میں بھی قائم کررکھا تھا، اور امریکا میں بھی اس کا تسلسل بلاانقطاع جاری ہے۔ یہ تاثر اتنا شدید تھا کہ میں نے چاہا کہ میں روڈ پراپنے خالق کے لیے سجدے میں گر پڑوں۔ اسی طرح دوسرے تمام تجربات ہر لمحہ میرے لیے خدا کی یاد کے ریمائنڈر بنے رہتے ہیں۔ یہی وہ یاد دلانے والے واقعات ہیں، جن کا ذکر قرآن کی اس آیت میں آیا ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ (12:105)۔ یعنی اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان پر دھیان نہیں کرتے۔
جو لوگ صبح و شام ان نشانیوں کے درمیان زندگی گزاریں، مگر ان کا حال یہ ہو کہ ان کے پاس دماغ ہو مگر وہ نہ سوچیں، ان کے پاس آنکھیں ہو مگر وہ نہ دیکھیں، ان کے پاس کان ہو مگر وہ نہ سنیں، ایسے لوگ خالق کے نزدیک اندھے بہرے ہیں۔ ان کو صرف قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ صورِ اسرافیل کے سواکوئی اور چیز نہیں ہے، جو ان کو غفلت کی نیند سے جگائے۔
خالق کی معرفت کوئی سادہ چیز نہیں۔ خالق کی معرفت جنت الفردوس کی قیمت ہے۔جنت الفردوس اس کے لیے ہے جو خدا کو دیکھے بغیر دیکھے، جو خدا کی جنت میں داخل ہونے سے پہلے ا س کو دریافت کرے ۔ خدا کو پانے کی توفیق اس کو ملتی ہے، جو خدا کے لیے غیر خدا کو چھوڑنے پر راضی ہوجائے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ہر انسان کو پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ڈسکور کرے۔ یہ زندگی کی شروعات ہے۔ اگر آپ سیلف ڈسکوری کے بغیر اپنی زندگی میں کوئی چوائس لے لیںتو آپ کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ آپ کو غیر مطلوب انجام کی طرف لے جائے گا۔ اس منفی ریزلٹ کے بعد آپ چاہیں گے کہ آپ سیکنڈ چوائس لیں ۔ لیکن سیکنڈ چوائس آپ کو دوسری ناکامی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ اس سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ وہ یہ کہ آپ ریلسٹک اپروچ کو اختیار کریں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آئڈئلزم ہمیشہ ناکامی کی طرفلے جاتی ہے۔ جب کہ پریگمیٹک اپروچ کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن یہ آئڈیل ٹرم میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ پریگمیٹزم کے سنس میں ہوتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
اعتدال کیا ہے
اعتدال کا اصول، کسی اصولی موقف کی طرح کسی مستقل اصول پر مبنی نہیں ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے اصول پر مبنی ہے۔ یعنی جس موقعے پر خالص اصولی موقف بظاہر قابل عمل (practical)نہ ہو، وہاں حالات کو دیکھتے ہوئے رعایت کا طریقہ اختیار کیا جائے، اور ایسے موقف کو اختیار کیا جائے، جس میں نقصان بھی کم ہو، اور اختلاف کی صورت ختم ہوجائے۔ مثلا ً پراپرٹی کی تقسیم کا معاملہ ہو، اور دو آدمیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے، تو دونوں پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ نزاع کی صورت کو ختم کرنے کے لیے ایک ایسے درمیانی حل پر راضی ہوجائیں، جس میں بظاہر نظری انصاف تو نہ ہو، لیکن اس سے نزاع کی صورت ختم ہوتی ہو۔ ایسے حل کو پریکٹکل وزڈم پر مبنی حل کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خوراک ایک معجزہ

برٹش شاعر والٹر ڈی لا مئر (Walter de la Mare [1873-1956]) کا ایک شعر ہے۔ وہ کہتا ہے — یہ بڑی عجیب بات کہ مس ٹی (انسان) جو کچھ کھاتا ہے، وہ اس کے اندر داخل ہو کر اس کا جز بن جاتا ہے:
It's a very odd thing -
As odd can be-
That whatever Miss T eats ,
Turns into Miss T.
یہ بات بلاشبہ بہت ہی زیادہ عجیب ہے کہ انسان کی خوراک، خواہ وہ زمینی خوراک ہو، یا حیوانی خوراک اس کے پیٹ میں داخل ہوتی ہے۔ ایک بے حد پیچیدہ نظام اس کو ہضم (digest) کرتا ہے۔ انسان کے جسم میں دو سو سے زیادہ قسم کے خلیات (cells) ہیں۔ یہ سیل جسم کے مختلف حصوں کا پارٹ بنتے ہیں۔ یہ سیل برابر بدلتے رہتے ہیں۔ انسان کا جسم انھیں سیل کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ پیدائش سے موت تک انسان کے جسم کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ یہ ایک بے حد عجیب قسم کا جسمانی نظام ہے، جو ہر عورت اور مرد کو مفت میں حاصل رہتا ہے۔ اس کے علاوہ انسان کے وجود سے باہر کی پوری دنیا ، انسان کے لیے لائف سپورٹ سسٹم کا کام کرتی ہے۔
انسان کے جسم میں تقریباً اسّی آرگن ہوتے ہیں، یہ تمام آرگن انتہائی مربوط انداز میں کام کرتے ہیں۔ اس طرح انسان اس قابل بنتا ہے کہ وہ اپنے تمام کام انجام دے سکے۔ مزید یہ کہ یہ تمام آرگن خود کار مشین کی طرح کام کرتے ہیں۔ انسان کے ارادے کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ اس طرح کی بے شمار چیزیں ہیں، جو انسان کے جسم میں ہر وقت متحرک رہتی ہیں۔ تب انسان اس قابل بنتا ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال انجام دے سکے۔ انسان اگر اپنے وجود کے اس فطری انتظام کو لے کر سوچے تو وہ شکر کے سمندر میں غرق ہوجائے، ناشکری کا کلمہ کبھی اس کی زبان سے نہ نکلے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کے لیے سبق

قرآن میں ایک بات ان الفاظ میں آئی ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ ، وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ (75:14-15)۔ یعنی بلکہ انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے ، چاہے وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اس انداز میں ہوئی ہے کہ اگر وہ عذر (excuse) کا شکار نہ ہو، تو وہ خود اپنی تخلیق پرغور کرکے بڑی بڑی باتیں سیکھ سکتا ہے۔ اس کی زندگی خود ایک لائبریری ہے۔ اپنے مطالعہ سے خود وہ اپنے لیے بڑے بڑے سبق دریافت کرسکتا ہے۔
مثلاً انسان جب اس کائنات کو دیکھتاہے ، تو اس کو یہ نظرآتا ہے کہ پوری کائنات نہایت منصوبہ بند انداز میں چل رہی ہے۔مثلاً سورج ہمیشہ ٹھیک اپنےوقت پر نکلتا ہے، اور ٹھیک متعین وقت پر غروب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پوری کائنات زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر چل رہی ہے۔ اس کے برعکس، انسان کے انتظام میں ہمیشہ نقائص موجود رہتے ہیں۔ انسان اگر اس معاملے کا مطالعہ تقابلی انداز میں کرے، تو وہ خود اپنے مطالعہ کے ذریعے خدائے برتر کے وجود کو دریافت کرلے گا۔ یہ دریافت اس کو یہ کہنے پر مجبور کردے گی:أَفِی اللَّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (14:10) ۔ یعنی کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کو وجود میں لانے والا ہے۔
اگر آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ قرآن و حدیث کی باتوں کو اپنے الفاظ میں ڈھال سکے، تو اس کی دریافت اس کے لیے ری ڈسکوری (rediscovery) بن جاتی ہے۔ وہ مذکور باتوں کو زیادہ موثر انداز میں دریافت کرنے لگتا ہے۔ مثلاً قرآن میں آیاہے:وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ (14:34)یعنی اس نے تم کو ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے مانگا ۔ اگر آپ کے پاس اپنے مطالعے کے مطابق، یہ لفظ موجود ہو کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پاتا ہے، جو ہیومن فرینڈلی دنیا ہے۔ اس کا احساسِ شکر بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

سیکولر معرفت، ربانی معرفت

امریکا کے مشہور مشنری بلی گراہم (1918-2018) نے لکھا ہےکہ ایک بار امریکا کے ایک مشہور سیاست داں نے اس کو لکھا کہ وہ فوری طور پر اس سے ملے ۔ جب بلی گراہم اس سے ملا، تو دونوں ایک کمرے میں اکٹھا ہوئے۔ اس وقت سیاست داں نے بلی گراہم سے کہا:
You see, I am an old man. Life has lost all meaning. I am ready to take a fateful leap into the unknown. Young man, can you give me a ray of hope. (The Secret of Happiness, by Billy Graham, p. 2)
یہ موت کے بارے میں ایک ایسا قول ہے، جس کو موت کی سیکولر معرفت کہا جاسکتا ہے۔ دوسرا واقعہ جو موت کی ربانی معرفت کا واقعہ ہے، وہ ایک حدیث سے اس طرح معلوم ہوتا ہے: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَہُوَ فِی المَوْتِ، فَقَالَ:کَیْفَ تَجِدُکَ؟ ، قَالَ: وَاللَّہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنِّی أَرْجُو اللَّہَ، وَإِنِّی أَخَافُ ذُنُوبِی، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَا یَجْتَمِعَانِ فِی قَلْبِ عَبْدٍ فِی مِثْلِ ہَذَا المَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاہُ اللَّہُ مَا یَرْجُو وَآمَنَہُ مِمَّا یَخَافُ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 983)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس گئے، جب کہ وہ مرض الموت میں تھا۔ آپ نے پوچھا: تم اپنے کو کیسا پاتے ہو۔ اس نے کہا: خدا کی قسم، اےاللہ کے رسول ، میں اللہ سے امید رکھتا ہوں، اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں، آپ نے کہا: کسی بھی بندے کے دل میں اس قسم کے موقع پر یہ دونوں باتیں جمع ہوں ، تو اللہ ضرور اس کو وہ عطا کرے گا، جس کی وہ امید کرتا ہے، اور اس کو امن دے گا، جس سے وہ خوف کھاتا ہے۔
موت ہر انسان کے لیے ایک معلوم واقعہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ سیکولر انسان موت کو زندگی کے خاتمے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کے برعکس، ربانی انسان موت پر اس یقینی لمحے کے طور پر دیکھتا ہے، جب کہ بندے کی ملاقات اس کے رب سے ہوگی۔ یہ لمحہ اس کے لیے بیک وقت دو کیفیات کا لمحہ ہوتا ہے— ایک طرف اللہ کی رحمت، اور دوسری طرف اللہ کا خوف۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کے حوالےکرنا

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ(3:146)۔ یعنی اور کتنے نبی ہیں جن کے ساتھ ہو کر بہت سے اللہ والوں نے قتال کیا۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں، ان سے نہ وہ پست ہمت ہوئے، نہ انھوں نے کمزوری دکھائی، اور نہ وہ دبے۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں قتال کا لفظ جنگ کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ شدید جدو جہد کے معنی میں ہے۔ یہ اسلوب وہی ہے، جس کے لیے انگریزی میں جنگی سطح (war footing) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، یعنی کسی کام کو پوری طاقت کے ساتھ انجام دینا۔
اسی طرح آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں :وہ نہ پست ہمت ہوئے، نہ انھوں نے کمزوری دکھائی، اور نہ وہ دبے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بہت طاقت ور لوگ تھے، اور انھوں نے نہایت طاقت کے ساتھ اس کام کو انجام دیا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشن کے راستے میں جب کوئی مشکل پیش آئی تو وہ اس کے لیے فکر مند ہوکر رکے نہیں، بلکہ مشکل کو رب العالمین کے حوالے کرکے اعتماد علی اللہ کی اسپرٹ کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔
اعتماد علی اللہ کی اسپرٹ کا مطلب ہے کہ ایسے موقعے پر یہ یاد کرنا کہ تمام وسائل اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ یعنی یہ اسپرٹ کہ اللہ مجھ کو تنہا نہیں چھوڑے گا، بلکہ ایسے حالات پیدا کرےگا، جب کہ میں اللہ کے کام کواللہ کی مدد سے کامیابی کے ساتھ انجام دے سکوں۔ مومن کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ دنیا کے نظام کو اللہ کے فرشتے انجام دے رہے ہیں۔ یہ فرشتے اللہ کے حکم سے مومن کی مدد کوآجائیں گے، اور فرشتوں کی مدد سے مطلوب کام کو انجام دینا ممکن ہوجائے گا۔ یہی مطلب ہے قرآن کی اس آیت یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ (47:7)کا۔
واپس اوپر جائیں

حجت کا قانون

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دنیا کو پیدا کرنے کے بعد یہاں انسان کو آباد کیا، اور پیغمبر اور داعیوں کے ذریعے یہ انتظام فرمایا کہ انسانوں کے پاس مسلسل طور پر ایسے افراد آئیں، جو انسان کو بتائیں کہ خالق کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ یہ انتظام اس لیے کیا گیا ہے، تاکہ انسان کو پیشگی طور پر پوری بات معلوم ہوجائے، اور وہ اس کے مطابق زندگی گزار کر جنت کے انعام کا اپنے آپ کو مستحق بنائے۔ اسی بات کو مزید تاکید کی زبان میں بتاتے ہوئے یہ کہا گیا: رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (4:165)۔ یعنی اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت (excuse)باقی نہ رہے۔
یہ کوئی فقہی نوعیت کا حکم نہیں ہے، یعنی کوئی ایسا حکم جس کا لوگوں میں صرف اعلان کر دینا کافی ہے۔ مثلاً یہ کہ اے لوگو، تم لوگ ہر سال ایک مہینے کا روزہ رکھو۔ بلکہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اجتہادی حکم ہے، یعنی ہمیشہ حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ حکم کا تطبیقی مفہوم (applied meaning)دریافت کرتے رہنا ہے۔ ہمیشہ حالات کی رعایت کرتے ہوئے حکم کو اس طرح بتاتے رہنا ہے کہ لوگوں کو حکم اپنے زمانے کے لحاظ سے قابلِ اتباع معلوم ہو۔ حکم کی وضاحت اس طرح کرنا ہے کہ ہر زمانے کے انسان کا ذہن برابر ایڈریس ہوتا رہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آیت کسی جامد مفہوم میں نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک انفرادی حکم میں ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ بتانے والا ہمیشہ اس کو اس طرح بتائے کہ زمانے کے لوگوں کا ذہن اس سے ایڈریس ہوتا رہے۔ اس حکم میں حجت شامل ہے، یعنی بتانے والا حکم کو اس طرح بتائے کہ جس سے سننے والے کا ذہن مطمئن ہو۔ وہ یقین کی اسپرٹ کے ساتھ اس پر برابر کاربند ہوتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

لو پروفائل میں کام کرنا

قرآن کی ایک آیت میں پیغمبر یعقوب کی اپنے بیٹوں کو نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے: یَا بَنِیَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ (12:67)۔ یعنی اے میرے بیٹو، تم سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا۔
قرآن کی اس آیت میں تدبیر ِ کار کا ایک طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ وہ طریقہ فقہ کی اصطلاح میں غیرجہری طریقہ ہے۔ یعنی اپنا مشن اس انداز میں چلانا کہ فریقِ ثانی اس کو اپنے لیے خطرہ نہ سمجھے۔ وہ آخر وقت تک کام کرنے والوں کو کام کرنے کا موقع دے۔ اس طریقِ کار کو اگر جدید اسلوب میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا —— لوپروفائل (low profile) میں کام کرنا۔ یعنی کام کو ایسے انداز میں کرنا جس سے فریق ثانی اس کو اپنے لیے چیلنج نہ سمجھے، اور اس طرح کام کرنے والوں کو آخر وقت تک کام کرنے کا موقع ملتا رہے۔ اس کے مقابلے میں جو طریقہ ہے، اس کو ہائی پروفائل کا طریقہ کہاجاتا ہے۔ ہائی پروفائل میں فریق ثانی فوراً ہی چوکنا ہوجاتا ہے، اور جوابی کارروائی شروع کردیتا ہے۔ جب کہ لوپروفائل میں فریق ثانی کام کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتا۔ اس بنا پر اس کونظر انداز کرتا رہتا ہے۔
اس طریقِ کار کے لیے حدیثِ رسول میں ایک حوالہ موجود ہے۔ پیغمبر اسلام نے جب مکہ کی فتح کا ارادہ کیا تو آپ نے اس معاملے میں بہت زیادہ لوپروفائل سے کام لیا۔ سیرت ابنِ ہشام میں اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:وأمر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بالجہاز، وأمر أہلہ أن یجہزوہ،فدخل أبو بکر على ابنتہ عائشة رضی اللہ عنہا، وہی تحرک بعض جہاز رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فقال:أی بنیة:أأمرکم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أن تجہزوہ؟ قالت:نعم، فتجہز، قال:فأین ترینہ یرید؟ قالت:(لا) واللہ ما أدری. ثم إن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أعلم الناس أنہ سائر إلى مکة، وأمرہم بالجد والتہیؤ، وقال: اللہم خذ العیون والأخبار عن قریش حتى نبغتہا فی بلادہا(سیرت ابن ہشام، 2/397)۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے تیاری کا حکم دیا۔ اور اپنی اہلیہ کو کہا کہ وہ اس کے سفر کی تیاری کا کام کرے۔ جب ابو بکر اپنی بیٹی عائشہ کے پاس آئے ، اس وقت وہ رسول اللہ کے سفر کی کچھ تیاری کا کام کر رہی تھیں، تو پوچھا: بیٹی رسول اللہ نےکسی سفر کی تیاری کا حکم دیا ہے۔ عائشہ نے کہا: ہاں، سامان سفر کی تیار کرنے کا ۔ ابوبکر نے پوچھا، تمھارے خیال سے کہاں کا ارادہ ہے۔ عائشہ نے کہا، اللہ کی قسم مجھےنہیں معلوم۔ پھر رسول اللہ نے لوگوں کو خبر دیا کہ وہ مکہ کی طرف کوچ کرنے والے ہیں، اور ان کو تیاری کا حکم دیا۔ اس وقت یہ دعا کی: اللہ ، تو قریش کی آنکھوں اور خبروں کو روک دے۔ یہاں تک کہ تو ہم کو ان کےشہر میں پہنچا دے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کام کا ایک طریقہ شور و غل کے ساتھ کام کرنا ہے، اور دوسراطریقہ ہے حکیمانہ طریقہ۔ شور و غل کے ساتھ کام کرنا نبی کا طریقہ نہیں۔ نبی کا طریقہ وہ ہے، جس میں خاموش تدبیر کا انداز اختیار کیا گیا ہو۔ کامیابی ہمیشہ خاموش تدبیر والے کام میں ہوتی ہے، نہ کہ شور و غل والے طریقے میں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر بیک وقت دو آزادانہ نظام قائم ہیں— انا (ego)، اور دوسرا ضمیر (conscience)۔ یہ دونوں نظام ایک دوسرے سے آزاد ہیں۔ انسان کے اندر انا (ایگو) کا نظام پوری طرح آزاد ہے، اور آزادی کے تحت وہ خود جیسا چاہے ، اس کے مطابق، فیصلہ لے سکتا ہے،یعنی صحیح بھی اور غلط بھی۔ لیکن ضمیر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اس کے کنٹرول کا نظام بالکل الگ ہے۔ ضمیر اگرچہ انسان کی شخصیت کا ایک حصہ ہے، اوراپنے عمل میں وہ پوری طرح آزاد ہے۔ انسان اگر اپنی زندگی میں صحیح راستہ اختیار کرے، تو ضمیر خاموش زبان میں اس کی تصدیق کرتا ہے، اور اگر انسان غلط راستے پر چل پڑے تو ضمیر فوراً اس کو وارننگ دیتا ہے کہ تم غلط راستے پر چل پڑے ہو، اور غلط راستے پر چلنے کا انجام اس سے مختلف ہوگا، جو صحیح راستے پر چلنے کا ہوتا ہے۔ ضمیر کا نظام گویا ایک غیبی آواز ہے، جو بر وقت انسان کی رہنمائی کے لیے متحرک ہوجاتاہے۔
واپس اوپر جائیں

فارم ، اسپرٹ

عباسی دور میں فقہ کی تدوین ہوئی۔صحابہ کے دوراور تابعین کے دور میں عام طور پر مبنی بر اسپرٹ دین کا تصور پایا جاتا تھا، لیکن فقہاء کے دورمیں بعض اسباب سے مبنی بر فارم دین کا تصور عام ہوگیا۔ یہاں تک کہ اس بارے میں لوگ غلو (انتہا پسندی) کی حد تک پہنچ گئے۔ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں دین میں اصل اہمیت اسپرٹ کی ہوتی تھی۔ اس بنا پر اس زمانے میں جزئی نوعیت کے طریق عبادت میں تنوع کا تصور پایا جاتا تھا۔ یہ تصور اس حدیث پر مبنی تھا:أَصْحَابِی کَالنُّجُومِ فَبِأَیِّہِمُ اقْتَدَیْتُمُ اہْتَدَیْتُمْ(جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث نمبر 1684) ۔ یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں،تم ان میں سے جن کی بھی اقتدا کرو گے، ہدایت پر رہوگے۔
لیکن بعد کے زمانے میں جب کہ طریقِ عبادت میں تعدد کا ذہن ختم ہوگیا، اور فارم میں توحد پر زور دیا جانے لگاتو اس قسم کا ذہن ختم ہوگیا۔ مگر یہ طریقہ بلاشبہ درست طریقہ نہیں۔ کیوں کہ اس روایت کے علاوہ بھی ایسی صحیح روایتیں ہیں، جس میں تعدد کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً رسول اللہ کے زمانے میں ایک صحابی کا بلند آواز سے کہنا :رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْدُ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 799) ۔روایت کے مطابق، یہ کلمہ سن کر آپ نے اس کی تحسین کی، جب کہ رسول اللہ نے اس کی تعلیم نہیں دی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادت کے جزئی طریقوں میں اسپرٹ اصل ہے۔ اس معاملے میں اگر اسپرٹ کو اصل مانا جائے تو اپنے آپ فرقہ بندی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر عبادت کے جزئی طریقوں میں فارم پر زور دیا جانے لگے تو فرقہ بندی کا دروازہ کھل جاتا ہے، جو کبھی بند نہیں ہوتا۔ عہدِ رسالت میں عبادت کا صرف ایک تصور پایا جاتا تھا، وہ ہے مبنی بر اسپرٹ عبادت۔ مبنی بر فارم عبادت کا تصور بعد کے زمانے میں پیدا ہوا، اور پھر تاریخ میں عام ہوگیا۔ تاہم مبنی بر اسپرٹ عبادت ہی اصل عبادت ہے۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر ِ اسلام — استثنائی شخصیت

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 570ء میں مکہ میں ہوئی۔ 610ء میں آپ کو نبوت ملی۔ 632ء میں مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ آپ پوری تاریخ میں ایک استثنائی شخصیت تھے۔ آپ کا استثنائی شخصیت ہونا اپنے آپ میں اِس بات کا ایک ثبوت ہے کہ آپ اللہ تعالی کے نمائندہ تھے۔ آپ کو اللہ تعالی کی خصوصی نصرت حاصل تھی۔ خداوندِ کائنات کی خصوصی نصرت کے بغیر کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ پوری تاریخ میں ایک استثنائی شخصیت بن جائے۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس استثنائی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں۔ اِس موضوع کی تفصیل کے لیے ایک مکمل کتاب درکار ہے۔ یہاں آپ کی استثنائی شخصیت کے چند پہلو مختصر طورپر درج کیے جاتے ہیں:
اظہارِ دین
قرآن کی سورہ الفتح میں پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (48:28)۔یعنی یہ اللہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ اُس کو تمام دین پر غالب کردے۔ اور اللہ گواہی کے لیے کافی ہے۔قرآن کے اِس بیان میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دینِ خداوندی کے اعلان کے لیے بہت سے لوگ اٹھے، لیکن اُن کا کام اعلان کے درجے تک محدود رہا، وہ انقلاب کے درجے تک نہیں پہنچا۔ پیغمبرِ اسلام کا مشن اللہ کی خصوصی نصرت سے نظریاتی انفجار (ideological explosion) تک پہنچ گیا۔ آپ کے ذریعے افکار کی دنیا میں ایک ایسا انقلاب آیا کہ آپ کو تاریخ ساز پیغمبر (epoch-making prophet) کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس انقلابی صفت کا اعتراف مختلف مورخین نے کھلے طورپر کیا ہے۔ فرانس کا مورخ ہنری پرین (Henri Pirenne) 1862 میں پیدا ہوا، اور 1935 میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے اسلام اور پیغمبر ِاسلام کے موضوع پر کئی کتابیں شائع کی ہیں۔ اُس نے لکھا ہے کہ — اسلام نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ اس کے بعد روایتی دورِ تاریخ کا خاتمہ ہوگیا:
It (Islam) had sufficed to change the face of the globe. Wherever it had passed the ancient States, which were deeply rooted in the centuries, were overturned as by a cyclone; the traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne: A History of Europe, London, 1939, p. 46).
کارِ نبوت کا تسلسل
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو انقلاب آیا، اُس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ پیغمبر کے بغیر کارِ نبوت کا تسلسل جاری رہے۔ پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں ایسا ہوتا تھاکہ پیغمبر پر نازل ہونے والی وحی پیغمبر کے بعد محفوظ نہیں رہتی تھی، اِس لیے بار بار خدا کی طرف سے پیغمبر بھیجے جاتے رہے۔ لیکن پیغمبر اسلام کے ذریعے یہ ہوا کہ آپ کے اوپر نازل ہونے والی وحی (قرآن) پوری طرح محفوظ ہوگئی۔ آپ کی زندگی بھی تاریخی طورپر مدوّن ہوگئی۔ اِس لیے آپ کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی شخص جو گہرے طورپر پیغمبر کے مشن سے اپنے آپ کو وابستہ کرے، وہ اپنے زمانے میں پیغمبر کا نمائندہ بن جائے۔
یہی بات حدیثِ رسول میں اِس طرح بتائی گئی ہے: إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِیَاءِ (سنن الترمذی، حدیث نمبر2682)۔یعنی علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: عُلَمَاءُ أُمَّتِی کَأَنْبِیَاءِ بَنِی إِسْرَائِیلَ(المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر 702) ۔یعنی میری امت کے علماءبنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہیں۔
پیغمبرِ اسلام صلی للہ علیہ وسلم کے ذریعے دینِ خداوندی کے تمام اجزا محفوظ ہوگئے، جو دین پہلے زندہ شخصیتوں کی سطح پر ہوتا تھا، وہ اب مستند کتابوں کی شکل میں محفوظ ہوگیا، اِس طرح امت کی بعد کی نسلوں میں اٹھنے والے افراد کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ کارِ نبوت کا تسلسل دوبارہ زندہ حالت میں جاری کرسکیں:
Without being a prophet, one can play the prophetic role.
خالق کا تخلیقی پلان
یہ ہر انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ جانے کہ پیدا کرنےوالے نے اُس کو کس لیے پیدا کیا ہے۔ اُس کا مقصدِ تخلیق کیا ہے۔ اس کے لیے کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا۔ ہر عورت اور مرد اِس سوال سے لازمی طور پر دوچار ہوتے ہیں، خواہ شعوری طورپر یا غیر شعوری طورپر۔
اِس سوال کا معتبر جواب صرف خالق دے سکتا ہے۔ یہ صرف خالق ہے جو یہ بتا سکتا ہے کہ انسان اور کائنات کو پیدا کرنے سے اُس کا منصوبۂ تخلیق(creation plan) کیا ہے۔ قرآن اور پیغمبرقرآن کے ذریعے خدا نے اِس سوال کا معتبر جواب فراہم کیا ہے۔اب ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ خدا کے تخلیقی پلان کو جانے:
It became possible for everyone to know the creation plan of God.
پہلے زمانے میں حنفاء ہوا کرتے تھے، یعنی متلاشیٔ حق۔پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی شخص اپنی تلاشِ حق کو دریافت ِحق بناسکے:
Truth-seekers no longer need to live in bewilderment.
نشانیوں کا ظہور
قرآن کی سورہ حم السجدہ میں بعد کی تاریخ کے لیے ایک پیشین گوئی اِن الفاظ میں آئی ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقّ( 41:53)۔ یعنی مستقبل میں ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، کائنات میں بھی اور انسان کے اندر بھی، یہاں تک کہ اُن پر پوری طرح یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔
قدیم زمانے میں جو انبیا آئے، انھوںنے خرقِ عادت معجزے دکھائے۔ یہ معجزے اُن کے معاصرین کے لیے اُن کے پیغمبر ہونے کی دلیل تھے۔ حسّی معجزہ معاصرین کے لیے دلیل ہوتا ہے، بعد کے لوگوں کے لیے وہ دلیل نہیں ہوتا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری پیغمبر تھے، یعنی قیامت تک کے لیے پیغمبر۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے پیغام کی پیغام رسانی اہلِ عالم کے لیے جاری رہے گی۔
یہ کام اِس طرح انجام پایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب کے ذریعے تاریخ میں ایک ایسا عمل جاری ہوا جس کے نتیجے میں فطرت کے قوانین دریافت ہوئے۔ یہ قوانین ِ فطرت معجزہ کا بدل بن گئے۔ اِن قوانین کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا کہ بعد کے زمانے میں سائنسی دلائل کی طاقت سے وہ دعوتی کام انجام دیا جاسکے جو پہلے معجزہ کی طاقت سے انجام دیا جاتا تھا، گویا کہ پیغمبر اسلام سے پہلے دعوت بذریعہ معجزہ (dawah through miracle)کا زمانہ تھا۔ اور اب دعوت بذریعہ علمی دلائل (dawah through scientific argument) کا زمانہ ہے۔
قرآن کی سورہ الاسراء میں پیغمبر اسلام کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ: عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(17:79) یعنی قریب ہے کہ تمھارا رب تم کومقامِ محمود پر کھڑا کرے۔ اِس آیت میں مقامِ محمود کسی پُراسرار واقعے کا نام نہیں ہے۔ اُس سے مراد ایک معلوم واقعہ ہے جو تاریخ میں مسلّمہ طورپر پیش آیا۔ پیغمبر اسلام سے پہلے جو پیغمبر آئے، وہ مستند تاریخ میں ریکارڈ نہ ہوسکے۔ پیغمبروں کی فہرست میں پیغمبر اسلام پہلے پیغمبر ہیں جو مستند تاریخ میں درج کیے گئے۔ ایک مغربی مؤرخ نے اِس کا اقرار اِن الفاظ میں کیا ہے — محمد تاریخ کی کامل روشنی میں پیدا ہوئے:
Muhammad was born within the full light of history.
حقیقت یہ ہے کہ نبیٔ محمود سے مرادنبیٔ معتَرَف(acknowledged Prophet) ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی میں آپ کو اتنا کم سمجھا گیا کہ مکہ کے مخالفین آپ کو مذمّم (condemned person) کہنے لگے۔ لیکن آخر کار تاریخ آپ کے موافق ہوگئی۔ عام طور پر مؤرخین اور مبصرین آپ کی عظمت کا اعتراف کرنے لگے۔اِن میں سے ایک مثال امریکا کے ڈاکٹر مائکل ہارٹ(Michael H. Hart) کی ہے۔ انھوں نے تمام دنیا کی مشہور شخصیتوں کا مطالعہ کرکے ایک ضخیم کتاب تیار کی۔ اُس کا عنوان ایک سو (The Hundred) ہے۔ اِس کتاب میں پوری انسانی تاریخ کی ایک سو بڑی شخصیتوں کا تذکرہ ہے۔ مصنف نے اِس کتاب میں پیغمبر اسلام کو اِس فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ انھوںنے لکھا ہے — محمد تاریخ کے پہلے شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے، مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی:
He [Mohammad] was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels (Michael H, Hart: The 100, Carol, 1993, p. 3).
اخوانِ رسول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قول میں یہ پیشین گوئی کی کہ بعد کے زمانے میں آپ کی امت میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اخوانِ رسول قرار پائیں گے(صحیح مسلم، حدیث نمبر 249)۔یہ وہ لوگ ہوں گےجنھوں نے پیغمبر اسلام کو دیکھا نہیں ہوگا، مگر اصحابِ رسول کی طرح انھوں نےمعرفتِ دین حاصل کیا:
Ikhwan-e-Rasool are those who share Sahaba-like experiences due to their deep realization.
پچھلے پیغمبروں کے یہاں صرف اصحاب (Companions) ہوا کرتے تھے۔ یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی استثنائی صفت ہے کہ آپ کی امت میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اخوان (brothers) کا درجہ پائیں گے۔ ایسا صرف اِس لیے ممکن ہوگا کہ پیغمبر اسلام کے بعد خدا کا دین نظریہ اور عمل دونوں اعتبار سے پوری طرح محفوظ ہوگیا۔
خاتم النبیین
قرآن کی سورہ الاحزاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ (33:40)۔یعنی محمد، اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے متعدد پہلو ہیں۔ اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ نبوت اب شخصی عمل کے طور پر باقی نہ رہی، البتہ کارِ نبوت اب دعوتی عمل کے طورپر مسلسل جاری ہے۔ یہ پیغمبر اسلام کی ایک استثنائی صفت ہے۔ دوسرے پیغمبروں کے معاملے میں یہ ہوا کہ پیغمبر کا نام لینے والوں کا ایک گروہ تو ضرور باقی رہا، لیکن پیغمبر کی حقیقی دعوت کسی تبدیلی کے بغیر اپنی اصل صورت میں جاری رہنے کا امکان ختم ہوگیا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد یہ ہوا کہ ایک نیا دورِ دعوت وجود میں آیا، وہ تھا — براہِ راست پیغمبر کی ذات کے ذریعے دعوت کے دورکا خاتمہ، اور پیغمبر کے ماننے والوں کے ذریعے دعوت کے دور کا آغاز:
End of Dawah through the Prophet, beginning of Dawah through the followers of the Prophet, continuation of prophetic role through the followers of the Prophet.
فتحِ مبین
قرآن کی سورہ نمبر 48 معاہدۂ حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔ معاہدۂ حدیبیہ امن کا معاہدہ تھا۔ معاہدہ حدیبیہ کیا تھا۔ معاہدہ حدیبیہ کا مقصد تھا — جنگ کے حالات کو ختم کرکے امن کے حالات پیدا کرنا۔ اِس معاہدے کے بعد پیغمبر اسلام اور آپ کے مخالفین کے درمیان مکمل طورپر جنگ بندی ہوگئی اور طرفین کے درمیان امن کی حالت قائم ہوگئی۔ اِس کے بعد معتدل حالات میں دعوتی کام کرنا ممکن ہوگیا۔امن کا یہ معاہدہ پوری تاریخ کا ایک انوکھا معاہدہ تھا۔ یہ فریقِ ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان کر انجام پایا تھا۔ بظاہر وہ پسپائی کا ایک معاہدہ تھا، لیکن معاہدے کی تکمیل کے بعد قرآن میں یہ آیت اتری:اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ۔ لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَ نْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِیْمًا۔ وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَــصْرًا عَزِیْزًا (48:1-3)۔یعنی بے شک ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دے دی، تاکہ اللہ تمہاری اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کردے، اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کردے، اور تم کو سیدھا راستہ دکھائے، اور تم کو زبردست مدد عطا کرے۔
تاریخ کے مطابق، معاہدۂ حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی سیاسی فتح حاصل نہیں ہوئی۔ یہ معاہدہ بظاہر فریقِ ثانی کے مقابلے میں شکست کا واقعہ تھا، نہ کہ فتح کا واقعہ۔ اِس کے باوجود قرآن میں کیوں اُس کو فتح ِ مبین کہاگیا ۔ ایسا اِس لیے ہوا کہ معاہدہ حدیبیہ کے بعد دعوت کے تمام مواقع کھل گئے۔ یہ مواقع اتنے غیر معمولی تھے کہ معاہدے کے بعد صرف دو سال کے اندر پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کی تعداد پانچ گنا زیادہ ہوگئی۔ اور جنگ کے بغیر صرف زیادہ تعداد فیصلے کے لیے کافی ہوگئی۔
حدیبیہ دراصل ایک عظیم پالیسی کا نام ہے۔ یہ پالیسی تاریخ میں پہلی بار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو بتائی، یعنی حالتِ موجودہ کو مان کر ٹکراؤ ختم کردو، تاکہ مواقع (opportunities) کو استعمال کرنا ممکن ہوسکے:
Hudaybiyah means the policy of positive status quoism. And positive status quoism is the key to super achievement.
صلح بہتر ہے
قرآن کی سورہ النساء میں یہ آیت آئی ہے: الصُّلْحُ خَیْرٌ(4:128) یعنی صلح بہتر ہے۔ گویاامن کا طریقہ سب سے زیادہ کار گر طریقہ ہے:
Peace is the most successful policy.
فلاسفہ اور مفکرین ہمیشہ امن کی بات کرتے رہے ہیں۔ امن کے مطالعے کے لیے ایک مستقل شعبۂ علم وضع ہوا ہے جس کو پیسفزم (pacifism) کہا جاتاہے۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک مکمل نظریۂ امن (ideology of peace) دنیا کو دیا۔ اِس اعتبار سے آپ کو پیغمبر امن (prophet of peace) کہا جاسکتاہے۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر ِ انقلاب

قرآن میں پچیس پیغمبروں کا ذِکر ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی (مسند احمد، حدیث نمبر 22288)۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک ہر زمانے میں جاری رہا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میںپیغمبر اسلام، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔ قرآن کے مطابق، آپ خدا کے رسول بھی تھے اور نبیوں کے خاتم بھی۔
پیغمبروں کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تمام پیغمبر مشترک طورپر توحید کا پیغام لے کر آئے ، لیکن پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں یہ پیغام زیادہ تر فکری مرحلے میں رہا، وہ عملی انقلاب کے درجے تک نہیں پہنچا۔ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ آپ کو اپنے اصحاب کی صورت میں ایک مضبوط ٹیم مل گئی۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ توحید کی دعوت کو فکری مرحلے سے آگے بڑھا کر عملی انقلاب کے درجے تک پہنچا دیا جائے۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے زمانے میں یہ انقلاب عملی طورپر پیش آیا اور پھر وہ تاریخِ بشری کا ایک معلوم اور مسلّم حصہ بن گیا۔
پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اتنی زیادہ واضح ہے کہ وہ صرف آپ کے پیروؤں کے لیے ایک ’’روایتی عقیدہ‘‘ کی حیثیت نہیں رکھتی، بلکہ وہ ایک مسلمّہ تاریخی واقعہ ہے۔ پیغمبر آخرالزماں سے پہلے جو انبیا آئے، اُن کی زندگی مدوّن تاریخ کا جُز نہ بن سکی، مگر پیغمبر اسلام کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ آپ کی حیثیت ایک مسلّم تاریخی پیغمبر کی ہے، آپ کی نبوت پورے معنوں میں ایک ثابت شدہ نبوت ہے۔انسانی زندگی کے جس پہلو کو بھی دیکھا جائے، اُس میں پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ابدی تعلیم کے اثرات نمایاں طورپر دکھائی دیں گے۔ وہ تمام بہترین روایات اور وہ تمام اعلیٰ قدریں جن کو آج اہمیت دی جاتی ہے، وہ سب پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے عظیم انقلاب کے براہِ راست نتائج ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ تاریخ کے سب سے بڑے انسان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانِ کامل بنا کر انسانی نسل پر اپنا سب سے بڑا احسان فرمایا ہے۔ خدا نے پیغمبرآخرالزماں کی شکل میں تاریخ میں ایک ایسا بلند ترین مینارکھڑا کردیا ہے کہ آدمی جس طرف بھی نظر اُٹھائے، وہ آپ کو دیکھ لے۔ جب وہ اپنے رہ نُما کی تلاش میں نکلے تو اُس کی نظر سب سے پہلے آپ پر پڑے۔ جب وہ حق کا راستہ جاننا چاہے تو آپ کا روشن اور بلند و بالا وجود اُس کو سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرلے۔ آپ ساری انسانیت کے لیے ہادیٔ اعظم اور رہبرِ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِسی لیے خدا نے آپ کو نبیوں کے خاتم (الاحزاب،33:40) کی حیثیت سے مبعوث فرمایا۔ دوسرے انبیا صرف اللہ کے رسول تھے، اور آپ اللہ کے رسول ہونے کے ساتھ خاتم النبیین بھی۔
میری کتاب ’پیغمبرِ انقلاب‘ پہلی بار 1982 میں چھپی۔ اس وقت میں نے اِس کتاب میں پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو الفاظ لکھے تھے، وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی نشانِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔قرآن کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو محمودیت کے مقام پر کھڑا کیا ہے(17:79)۔ چناں چہ نہ صرف اہلِ اسلام بلکہ عام مصنفین اور مؤرخین نے آپ کی عظمت کو کھلے طورپر تسلیم کیا ہے۔
بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں مسلم قوموں اور مسیحی قوموں کے درمیان لڑائیاں پیش آئیں، جن کو صلیبی جنگ (Crusades) کہاجاتا ہے۔ اِن جنگوں میں مسیحی قوموں کو شکست ہوئی۔ اُس کے بعد مسیحی مصنفین نے اسلام کے خلاف ایک قلمی جنگ چھیڑ دی۔ کثرت سے ایسی کتابیں لکھی گئیں جن میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی تصویر کو بگاڑ کر پیش کیا گیا تھا۔ یہ سلسلہ لمبی مدت تک جاری رہا۔اِس سلسلے کو توڑنے والا پہلا قابلِ ذکر شخص اسکاٹ لینڈ کا ایک مصنف ٹامس کارلائل (وفات1881) ہے۔ اُس نے جرأت مندانہ طورپر اِس رجحان کو بدلا۔ اُس کی مشہور کتاب آن ہیرو، ہیروورشپ ہے:
On Heroes, Hero-Worship, and the Heroic in History (James Fraser, London, 1841)
اِس انگریزی کتاب میں اُس نے پیغمبر اسلام کی مثبت تصویر پیش کی۔ اُس نے پیغمبر اسلام کو ’’ہیرو‘‘ کا درجہ دیا۔ اس کتاب کا متعلق باب یہ ہے:
The Hero as a Prophet. Mahomet: Islam
اِس کے بعد کثرت سے مختلف زبانوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کتابیں شائع ہوئیں۔ اِن کتابوں کے اندر انسانی تاریخ میں آپ کے انقلابی رول کا کھلے طورپر اعتراف کیا گیا۔ مثلاً انڈیا کے ایک اسکالرایم این رائے (وفات1954) کی کتاب (Historical Role of Islam) 1939 میں پہلی بار دہلی سے چھپی۔ اِس میں انھوں نے لکھا کہ پیغمبرِ اسلام، تمام پیغمبروں میں سب سے بڑے پیغمبر تھے۔ انھوںنے سب سے بڑا تاریخی معجزہ دکھایا:
Every prophet establishes his pretentions by the performance of miracles. On that token, Muhammad must be recognised as by far the greatest of all prophets, before or after him. The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 4)
پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن میں یہ پیشین گوئی آئی ہے کہ آپ کو مقامِ محمود کا درجہ عطا کیا جائے گا(الاسراء،17:79)۔ مقامِ محمودیت کا ایک پہلو وہ ہے جو آخرت میں ظاہر ہوگا۔ دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق، موجودہ دنیا سے ہے۔ موجودہ دنیا کی نسبت سے مقامِ محمود یہ ہے کہ آپ کو تاریخی اعتبار سے ایک مسلّم نبوت (established prophethood) کا درجہ حاصل ہوگا۔
آپ سے پہلے جو انبیا آئے، وہ مدوّن تاریخ میں ریکارڈ نہ ہوسکے۔آپ کے سوا ہر ایک کی حیثیت، اعتقادی نبوت کی ہے نہ کہ تاریخی نبوت کی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ آپ کو خدا نے آخری پیغمبر بنایا ـتھا۔ آپ کے بعد کوئی دوسرا پیغمبر آنے والا نہ تھا۔ اِس لیے ضروری تھا کہ آپ کی لائی ہوئی کتاب اور آپ کی پیغمبرانہ زندگی کامل طورپر محفوظ ہوجائے، وہ تسلیم شدہ تاریخی ریکارڈ کی حیثیت حاصل کرلے۔ کیوں کہ قانونِ الٰہی کے مطابق، جب پیغمبر مستند تاریخی ریکارڈ کادرجہ حاصل کرلے تو اس کے بعداُس کی لائی ہوئی کتاب اور اُس کی تعلیمات کا یہی ریکارڈ پیغمبر کا قائم مقام بن جاتا ہے، اِس کے بعد کسی نئے پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
واپس اوپر جائیں

عقل کا مسئلہ

عقل (reason) کیا ہے۔ عقل خالق کا ایک قیمتی عطیہ ہے۔ حدیث قدسی ہے ، اللہ تعالی نے عقل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا — میں نے کوئی مخلوق نہیں پیدا کی— جو میرے نزدیک تم سے زیادہ افضل ہو(مَا خلقت خلقا...أکْرم عَلیّ مِنْک)نوادر الاصول،الحکیم الترمذی، جلد 2، صفحہ 353۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے تمام کمالات کا انحصار عقل پر اور عقل کے استعمال پر ہے۔ عقل کے بغیر کوئی بھی انسانی ترقی ممکن نہیں۔عقل نہ ہو تو انسان پتھر کے ایک اسٹیچو کی مانند ہوجائے گا۔ وہ نہ حق کو حق سمجھ سکے گا اور نہ باطل کو باطل۔عقل بذاتِ خود معیار (criterion) نہیں ہے۔ عقل، فہم وادراک کی صلاحیت (ability) ہے۔ عقل کی حیثیت آلہ یا فیکلٹی (faculty) کی ہے، عقل کی حیثیت مستقل بالذات جج کی نہیں۔ عقل، حقائق سے نتیجہ اخذ کرنے کی استعداد کا نام ہے:
Reason: The intellectual faculty by which conclusions are drawn from premises.
عقل اور وحی (revelation) کو ایک دوسرے کا حریف بتانا بلاشبہ ایک غلطی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وحی ایک مستقل ذریعۂ علم ہے، جب کہ عقل بذاتِ خود کوئی ذریعۂ علم نہیں۔ خود وحی کی صحت پر جب کوئی شخص یقین کرتاہے تو وہ بھی یہی کرتاہے کہ وہ اپنی خداداد عقل کو استعمال کرکے اُس پر غور کرتاہے اور پھر یقین کے درجے میں پہنچ کر وہ وحی کی صداقت کو دریافت کرتا ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ عقل، وحی کی مددگار ہے، نہ کہ وحی کی مدِّ مقابل۔
عقل، خالق کی دی ہوئی ایک فطری صلاحیت ہے، عقل کسی کی ذاتی ایجاد نہیں۔ اِس معاملے میں غلطی کا آغاز یہاں سے ہوا کہ دوسری تمام چیزوں کی طرح عقل کے معاملے میں بھی کچھ لوگوں نے عقل کا غلو آمیز تصور (extreme version) پیش کیا۔ انھوں نے انتہا پسندی کا طریقہ اختیار کرتےہوئے خود ساختہ طورپر یہ دعوی کیا کہ عقل بذاتِ خود حصولِ علم کا معیاری ذریعہ ہے۔ مذہبی طبقے نے اِس تصورِ عقل کو درست سمجھ لیا اور وہ غیر ضروری طورپر عقل یا عقلی غوروفکر کو مذہب کا مخالف سمجھنے لگے اور وہ اِس طرح کی غیرعلمی باتیں کرنے لگے —عقل کا دائرہ الگ ہے اور وحی کا دائرہ الگ۔ عقل کا دائرہ وہاں پر ختم ہوجاتاہے، جہاں سے وحی کا آغاز ہوتاہے، وغیرہ۔ اصل یہ ہے کہ عقل الگ ہے اور عقل پرستی الگ۔
قرآن میں ’عقل‘کا مادّہ (root word)تقریباً 50 بار استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں بار بار عقل کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہاگیا ہے کہ اپنی عقل کے ذریعے وحی کی صداقت کو دریافت کرو۔ مثال کے طور پر قرآن کی سورہ یوسف میں یہ آیت آئی ہے:إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ (2:12)۔ یعنی ہم نے اِس کتاب کو عربی قرآن بنا کر اتارا ہے، تاکہ تم سمجھو:
We have sent down the Quran in Arabic, so that you may understand (by applying reason).
اِسی طرح قرآن میں بتایاگیا ہے کہ تم اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے نبوت کی صداقت کو دریافت کرو(یونس، 10:16)، وغیرہ۔انسان کو فطری طور پر مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ مثلاً پاؤں کے اندر چلنے کی صلاحیت، ہاتھ کے اندر پکڑنے کی صلاحیت، آنکھ کے اندر دیکھنے کی صلاحیت۔ کان کے اندر سننے کی صلاحیت، وغیرہ۔ اُنھیں میں سے ایک صلاحیت عقل ہے، جس کے ذریعے انسان سوچنے اور تجزیہ کرنے کا کام لیتاہے۔ اِسی کے ساتھ انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے۔ انسان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا وہ اُس کا غلط استعمال کرے، اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ کان اور آنکھ کا صحیح استعمال بھی ہے اور اس کا غلط استعمال بھی۔
عقل انسان کو اِس لیے دی گئی ہے کہ وہ ڈاٹا (data) جمع کرے، اور پھر حاصل شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کرکے صحیح علم تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ تاہم عقل بذاتِ خود علم کا ذریعہ نہیں، اِس لیے عقل صحیح فیصلہ تک بھی پہنچ سکتی ہے اور غلط فیصلے تک بھی۔ جو لوگ عقل کو بذاتِ خود علم کا ذریعہ سمجھتے ہیں، وہ دراصل عقلی مدرسۂ فکر (school of thought) کے انتہا پسند (extremists) لوگ ہیں۔ ایسے انتہا پسند لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، حتی کہ خود مذہب اور عقیدے کے دائرے میں بھی۔
واپس اوپر جائیں

اسلام دورِ جدید میں

امیرشکیب ارسلان (1946-1869) کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے:لماذا تأخر المسلمون وتقدّم غیرہم (مسلمان کیوں پیچھے ہوگئے اور ان کے سوا دوسرے کیوں آگے ہوگئے) یہ کتاب 50 سال پہلے چھپی تھی ۔ اس کے بعد میں نے ایک عربی مجلہ رابطة العالم الاسلامی (اپریل 1985) میںایک مضمون پڑھا۔ اس مضمون کا عنوان دوبارہ حسب ذیل الفاظ میں قائم کیاگیا تھا:
لما ذا تأخرنا وتقدم غیرنا
اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان پچھلی نصف صدی سے ایک ہی سوال سے دوچار ہیں۔ اور وہ سوال یہ ہے کہ ہم جدید دور میں دوسری قوموں سے کیوں پیچھے ہوگئے۔ اور دوسری قومیں ہم سے آگے کیوں نکل گئیں۔ مزید عجیب بات یہ ہے کہ اسی نصف صدی کے اندر جاپان ایٹمی بربادی کے کھنڈر سے ابھرا اور ترقی کی انتہا پر پہونچ گیا۔ چنانچہ امریکہ میں ایک کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے جاپان نمبر ایک:
Japan as Number One: Lessons for America by Ezra Vogel
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا یہ انجام کسی موہوم سبب کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ معلوم خدائی قانون کی بنا پر ہے۔ اس دنیا کے لیے خدا کا قانون یہ ہے کہ جو گروہ اپنے آپ کو نفع بخش ثابت کرے اس کو دنیا میں ترقی اور استحکام نصیب ہو، اور جو گروہ نفع بخشی کی صلاحیت کھو دے اس کو ہمیشہ کے لیے پیچھے دھکیل دیا جائے۔ قدیم زمانہ کے مسلمان اہلِ عالَم کے لیےنفع بخش بنے ہوئے تھے اس لیے قدیم زمانہ میں انھیں عظمت حاصل ہوئی۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان بے نفع ہوگئے۔ اس لیے موجودہ زمانہ میں انھیں کوئی عظمت حاصل نہ ہوسکی۔عروج وزوال کا یہ اصول قرآن کی حسبِ ذیل آیت میں واضح طورپر موجود ہے:
أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَةٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ (13:17)۔ یعنی اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر نالے اپنی اپنی مقدار کے موافق بہہ نکلے۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو اٹھالیا اور اسی طرح کا جھاگ ان چیزوں میں بھی ابھر آتا ہے جن کو لوگ زیور یا اسباب بنانے کے لیے آگ میں پگھلاتے ہیں۔ اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔ پس جھاگ تو سوکھ کر جاتا رہتا ہے اور جو چیز انسانوں کو نفع پہنچانے والی ہے، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اللہ اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کے لیے اللہ تعالی کا قانون کیاہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ جو گروہ اپنے آپ کو نفع بخش ثابت کرے اس کو دنیا میں بقا اور استحکام ملے۔ اور جو گروہ اپنی نفع بخشی کھو دے وہ یہاں بے قیمت ہو کر رہ جائے۔
اس عالمی قانون کو ایک طرف کتابِ الٰہی میں لفظی طور پر بیان کیاگیا ہے۔ دوسری طرف مادی دنیا میں اس کا عملی مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ سورۂ رعد کی مذکورہ آیت میں اس نوعیت کی دو مثالیں دی گئی ہیں۔ ایک مثال بارش کی ہے۔ بارش ہوتی ہے اور اس سے نالے بھرتے ہیں تو جھاگ اوپر دکھائی دینے لگتا ہے۔ مگر جلد ہی ایسا ہوتا ہے کہ جھاگ تو ہوا میں اڑ جاتا ہے اور جو چیز اس میں نفع بخش ہے وہ باقی رہتی ہے، یعنی پانی۔
دوسری مثال دھات کی ہے۔ دھات کو جب آگ پر پگھلایا جاتا ہے، تو ابتداء ً اس کا میل کچیل اوپر دکھائی دینے لگتا ہے۔ مگر بہت جلد یہ وقتی منظر ختم ہوجاتا ہے اور جو اصل قیمتی دھات ہے وہ اپنی جگہ باقی رہ جاتی ہے۔
دورِ اول کی مثال
دورِ قدیم میں اسلام کو غیر معمولی عظمت ملی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک اسلام کو آباد دنیا کے قائد کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اسلام کو یہ عظیم حیثیت اتفاقاً نہیں ملی اور نہ مطالبات کے ذریعہ اس کو یہ حیثیت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ قدرت کا وہی ابدی قانون تھا جس کا اوپر ذکر ہوا، یعنی نفع بخشی اور فیض رسانی۔
دنیا کو اسلام سے جو کچھ ملا، اس کے بہت سے پہلو ہیں۔اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسلام نے دنیا کو توہمات (superstitions) کے دور سے نکالا اور اس کو پہلی بار سائنس کے دور میں داخل کیا۔
آج کی دنیا جس چیز کو اپنے لیے سب سے بڑی نعمت سمجھتی ہے وہ سائنس ہے۔ اور تمام محققین اور منصف مورخین نےتسلیم کیا ہے کہ یہ دراصل اسلام ہے جس نے سائنس کے دور کو پیدا کیا۔ یہاں ہم صرف ایک مغربی مصنف مسٹر بریفالٹ کا قول نقل کریں گے۔ وہ اس موضوع پر تفصیلی بحث کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ اگر چہ یورپی ترقی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس میں اسلامی تہذیب کی فعال اثر انگیزی دیکھی نہ جاسکتی ہو۔ مگر وہ سب سے زیادہ واضح اس قوت کی پیدائش میں ہے جو جدید دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یعنی طبیعی سائنس اور سائنسی اسپرٹ۔ ہماری سائنس پر عربوں کا قرض انقلابی نظریات کی دریافت کی حد تک نہیں ہے۔ سائنس اس سے کہیں زیادہ عرب تہذیب کی احسان مند ہے، وہ خود اپنےوجود کے لیے اس کی مرہون منت ہے:
For although there is not a single aspect of European growth in which the decisive influence of Islamic culture is not traceable, nowhere is it so clear and momentous as in the genesis of that power which constitutes the permanent distinctive force of the modern world, and the supreme source of its victory -natural science and the scientific spirit... The debt of our science to that of the Arabs does not consist in startling discoveries of revolutionary theories; science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence. (Briffault: Making of Humanity, London, 1919, pp. 190-91)
یہ ایک معلوم تاریخی حقیقت ہے کہ قدیم زمانہ میں تمام دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ تمام قومیں بے شمار دیوتاؤں کو پوجتی ہیں۔ ہندستانی روایات کے مطابق ان کی تعداد 33 کروڑ تک پہنچ گئی تھی۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) میں تعدد آلہہ کےعنوان کے تحت بتایا گیا ہے کہ مذاہب میں عمومی طورپر یہ بات پائی گئی ہے کہ فطرت کی طاقتوں اور فطرت کے مظاہر کو خدا مان لیا جاتا ہے۔ نہایت آسانی کے ساتھ ان کو تین قسموں میں بانٹا جاسکتا ہے— آسمانی، فضائی اور زمینی۔ یہی تقسیم بجائے خود ہند آریائی مذہب میں تسلیم کی گئی ہے، چنانچہ سورج ان کے یہاں آسمانی خدا ہے۔ اِندر فضائی خداہے جو طوفان، بارش اور جنگ لانے والا ہے۔ اگنی (آگ کا دیوتا) زمینی واقعات کا سبب ہے:
A widespread phenomenon in religions is the identification of natural forces and objects as divinities. It is convenient to classify them as celestial, atmospheric, and earthly. This classification itself is explicitly recognized in Indo-Aryan religions: Surya, the sun god, is celestial; Indra, associated with storms, rain, and battles, is atmospheric; and Agni, the fire god, operates primarily at the earthly level (14/785)
اسلام سے پہلے انسان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر چیز کو پوجتا تھا۔ وہ سورج اور چاند سے لے کر دریا اور پہاڑ تک ہر چیز کے آگے جھکتا تھا۔ درختوں میں اس نے درخت خدا (plant deities)اور جانوروں میں اس نے جانور خدا (animal deities) بنا رکھے تھے۔ دنیا کی تمام چیزیں معبود بنی ہوئی تھیں۔ اور انسان ان کا عبادت گزار۔ اس طرح انسان نے اپنی عظمت کھو دی تھی۔ اسلام کے ذریعہ تاریخ میں جو انقلاب آیا اس نے پہلی بار انسان کو اس کی عظمت عطا کی۔
شرک (بالفاظ دیگر مظاہر فطرت کی پرستش) کا رواج قدیم زمانہ میں سائنسی ترقیوں میں رکاوٹ بناہوا تھا۔ انسان فطرت کے مظاہر کو معبود سمجھ کر انھیں تقدس کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اس لیے اس کے اندر یہ جذبہ ہی پیدا نہیں ہوتا تھاکہ وہ ان مظاہر کی تحقیق کرے اور ان کو اپنے فائدے کے لیے استعما ل کرے۔ فطرت کے مظاہر جب پرستش کاموضوع بنے ہوئے ہوں تو اسی وقت وہ تحقیق کا موضوع نہیں بن سکتے۔ یہ بنیادی سبب تھا جو طبیعی سائنس کا دور شروع ہونے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اسلام نے تاریخ میں پہلی بار اس سبب کو ختم کیا، اس لیے اسلام کے بعد تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ طبیعی سائنس کا دور شروع ہوا ور بالآخر اس حد کو پہنچا جہاں ہم آج اس کو دیکھ رہے ہیں۔
آرنلڈ ٹوائن بی نے بجاطورپر لکھا ہے کہ یہ در اصل توحید(Monotheism) کا عقیدہ ہے جس نے جدید سائنس اور صنعتی دور کو پیدا کیا۔ کیوں کہ توحید کے انقلاب سے پہلے دنیا میں عملی طورپر شرک کا غلبہ تھا۔ شرک کے عقیدہ کے تحت آدمی فطرت (Nature) کو پوجنے کی چیز سمجھے ہوئے تھا۔ پھر وہ اس کو تحقیق و تسخیر کی چیز کیسے سمجھتا۔ جب کہ فطرت کو تحقیق اور تسخیر کی چیز سمجھنے کے بعد ہی اس علم کا آغاز ہوتا ہے جس کو طبیعی سائنس کہتے ہیں۔
قرآن میں مختلف انداز سے یہ بات کہی گئی ہے کہ زمین وآسمان کی نشانیوں (مظاہر فطرت) پر غور کرو۔ قرآن میں اس قسم کی سات سو آیتیں شمار کی گئی ہیں جن میں مظاہر فطرت پر غور کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔اگر بالواسطہ آیتوں کو بھی شامل کیا جائے تو ان کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ جائے گی۔ یہ معلوم انسانی تاریخ میں بالکل نئی آواز تھی۔ کیوں کہ اس سے پہلے انسان صرف یہ جانتا تھا کہ وہ مظا\ہر فطرت کو پوجے۔ ایک ایسی دنیا جس میں ہزاروں برس سے انسان صرف یہ جانتا تھا کہ مظاہر فطرت پوجنے کی چیزہیں، وہاں قرآن نے یہ آواز بلند کی کہ مظاہر فطرت اس لیے ہیں کہ ان پر غور کیا جائے، اور ان میں چھپی ہوئی حکمتوں کو دریافت کیا جائے۔
اسلام کا یہ پیغام صرف پیغام نہ رہا بلکہ سو سال کےاندر ہی وہ ایک عالمی انقلاب بن گیا۔ اس نے اولاً عرب کے دل ودماغ کو فتح کیا۔ پھر وہ ایشیا اور افریقہ اور یورپ تک پہنچ گیا۔ اس نے عرب کے بُت خانے ختم کردیئے۔ ایرانی اوررومی شہنشاہتیں اس زمانہ میں شرک کی سب سے بڑی سرپرست تھیں، دونوں کو اسلام نے مغلوب کرلیا اور توحید کا غلبہ تقریباً پوری آباد دنیا میں قائم کردیا۔
اسلام کی اس نفع بخشی کو تمام منصف مزاج مورخین نے تسلیم کیا ہے۔ یہاں ہم انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) کا ایک پیراگراف نقل کرتے ہیں:
Islamic culture is the most relevant to European science. There was active cultural contact between Arabic-speaking lands and Latin Europe. Conquests by the Prophet's followers began in the 7th century, and, by the 10th, Arabic was the literate language of nations stretching from Persia to Spain. Arabic conquerors generally brought peace and prosperity to the countries they settled (16/368)
اسلامی تہذیب کا تعلق یورپی سائنس سے بہت زیادہ ہے۔ عربی زبان بولنے والے علاقوں اور لاتینی یورپ کےدرمیان نہایت گہرا ربط قائم تھا۔ پیغمبر کے پیروؤں کی فتوحات ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوئیں۔ اور دسویں صدی تک یہ حال ہوگیا کہ عربی زبان ایران سے لے کر اسپین تک کی تمام قوموں کی علمی زبان بن گئی۔ عرب فاتحین جہاں گئے وہاں عام طورپر وہ امن اور خوش حالی لے گئے۔ قرآن کے ذریعہ عالمی سطح پر جو فکری انقلاب آیا اس نے تاریخ میں پہلی بار نئی قسم کی سرگرمیاں شروع کردیں۔ انسان نے اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پایا جو پوجنے کی چیز نہیں بلکہ برتنے کی چیز تھی، جس کا وہ تابع نہ تھا بلکہ وہ اس کے لیے مسخر کی گئی تھی کہ وہ اس کو اپنا تابع بنائے۔ چنانچہ اسلام کے عظیم الشان اعتقادی انقلاب کے ساتھ ایک عظیم الشان علمی اور ذہنی انقلاب بھی شروع ہوگیا۔ اسلام کے ماننےوالوں نے جب ایک قادر مطلق خدا کو پایا تو اسی کے ساتھ انھوںنے دوسری تمام چیزوں کو بھی پالیا۔ انھوں نے ہر میدان میں ترقیاں شروع کردیں۔ ان سے دنیا کو وہ چیزیں ملنے لگیں جو ابھی تک اس کو نہیں ملی تھیں۔ چنانچہ اس دور میں پیداہونے والی جتنی بھی قابلِ ذکر ترقیاں ہیں ان کامطالعہ کیجیے تو ہر ترقی کے پیچھے کسی نہ کسی مسلمان کا ہاتھ کام کرتا نظر آئے گا۔
چند تاریخی حوالے
توحید اس دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے۔توحید کو اختیار کرنے کی وجہ سے دورِ اول کے مسلمانوں کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ دنیا والوں کے درمیان ایک ایسی برادری بن کر ابھریں جن کا ہر طرف استقبال کیا جائے اور جن سے دنیا والوں کو ہر قسم کا نفع حاصل ہو۔ یہاں ہم اس سلسلہ میں چند مثالیں درج کریں گے۔
1۔ اسلامی انقلاب کے بعد کئی سو سال ایسے گزرے ہیں جب مسلمان ساری دنیا میں علمِ طب کے امام تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے لوگ مسلم اطباء سے رجوع کرتے تھے، اور طب میں مسلمانوں کی تصنیفات ہر جگہ فن طب کا ماخذ بنی ہوئی تھیں۔ یورپ کا سب سے پہلا میڈیکل کالج سارنو (اٹلی) میں قائم ہوا۔ یہ میڈیکل کالج گیارھویں صدی عیسوی میں قائم ہوا تھا۔ اس کا نصاب بڑی حد تک ان طبی کتابوں پر مشتمل تھا جو عربی زبان سے لاتینی زبان میں ترجمہ کی گئی تھیں۔ انسائیکلوپیڈیابرٹانیکا (1984) نے اس کے تذکرہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ یورپ میں بارہویں صدی نے عربی سے لاتینی میں کتابوں کے ترجمہ کا ایک ہیرووانہ پروگرام دیکھا۔یہ بات بہت اہم ہے کہ یورپ کا ابتدائی طبی اسکول جو سلرنو میں قائم ہوا اور دوسرا جو مانٹ پیلیر میں قائم ہوا، دونوں عربی اور یہودی ماخذوں سے بہت قریب تھے:
The 12th Century saw a heroic program of translation of works from Arabic to Latin. It is significant that the earliest medical school in Europe was at Salerno and that it was later rivaled by Montpellier, also close to Arabic and Jewish sources (16/368)
پروفیسر ہٹی نےاس سلسلہ میں مزید تفصیل بیان کرتےہوئے لکھا ہے کہ الزہراوی کی کتاب (التصریف لمن اعجز عن التالیف) کا سرجری سے متعلق حصہ گیرارڈ آف کریمونا نے عربی سے لاتینی میں ترجمہ کیا۔ یورپ میںاس کے مختلف ایڈیشن چھپے۔ وینس میں 1497 میں، بیسل میں 1541 میں، آکسفورڈ میں 1778 میں۔ یہ ترجمہ صدیوں تک سلرنو اور مانٹ پیلیر اور دوسرے یورپی طبی اداروں میں نصابِ تعلیم کا جز بنا رہا:
This surgical part was translated into Latin by Gerard of Cremona and various editions were published at Venice in 1497, at Basel in 1541 and at Oxford in 1778. It held its place for centuries as the manual of surgery in Salerno, Montpellier and other early schools of medicine
(P. K. Hitti, History of the Arabs. 1979, p. 577)
آج آپ جدید طرز کے کسی اسپتال یاکسی میڈیکل کالج میں داخل ہوں تو وہاں کی ہر چیز آپ کو مغربی تہذیب کا عطیہ نظر آئے گی۔ مگر چند سو سال پہلے یہ حال تھا کہ آپ وقت کے کسی معیاری اسپتال یا کسی میڈیکل کالج میں داخل ہوں تو وہاں کی ہرچیز اسلامی تہذیب کا عطیہ نظر آتی تھی۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق جو مسلمانوں کے ماضی اوران کے حال میں پیدا ہوگیا ہے۔
2۔ جغرافیہ ایک بے حد اہم سائنس ہے۔ اس کا تعلق زندگی کے بے شمار شعبوں سےہے۔ دور اول کے مسلمانوں نے اس فن میں بھی کمال پیدا کیا۔ مثال کے طورپر الادریسی اپنے زمانہ میں دنیا کا سب سے بڑا جغرافی عالم تھا۔ پروفیسر فلپ ہٹی نے اس کی بابت حسب ذیل الفاظ لکھے ہیں:
The most distinguished geographer of the Middle Ages.
یعنی قرونِ وسطی کا سب سے زیادہ ممتاز جغرافیہ داں۔ الادریسی کے زمانہ میں راجر دوم سسلی کا بادشاہ تھا۔ اس کو ایک جغرافی نقشہ کی ضرورت ہوئی تو اس کو یہ نقشہ جس نے بنا کردیا وہ یہی الادریسی تھا۔ فلپ ہٹی نے مزید لکھاہے:
The most brilliant geographical author and cartographer of the twelfth century, indeed of all medieval time, was al-Idrisi, a descendant of a Spanish Arab family who got his education in Spain. (P. K. Hitti, History of the Arabs, 1979, p. 568)
بارھویں صدی عیسوی کا سب سے زیادہ باکمال جغرافی مصنف اور نقشہ نویس، بلکہ پورے قرونِ وسطی کا سب سے بڑا جغرافی عالم بلاشبہ الادریسی تھا۔ وہ اسپین کے ایک اعلی عرب خاندان میں پیدا ہوا، اور اس کی تعلیم اسپین میں ہوئی۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ الادریسی نے 1154ء میں سسلی کے مسیحی حکمراں (راجر دوم) کے لیے ایک عالمی نقشہ بنایا۔ اس میں ایشیائی علاقوں کی زیادہ بہتر معلومات دی گئی تھیں جو اس وقت تک ابھی انسان کو حاصل نہ ہوئی تھیں:
Al-Idrisi constructed a world map in AD 1154 for the Christian king Roger of Sicily, showing better information on Asian areas than had been available theretofore. (11/472)
موجودہ زمانہ میں مسلم ملکوں میں مغرب کے ماہرین (experts) بھرے ہوئے ہیں۔ مگر ایک وقت تھا جب کہ مسلمان ہر شعبہ کے ماہرین دنیا کو فراہم کررہے تھے۔ آج مسلمان دنیا والوں سے لے رہے ہیں، مگر چند سال پہلے یہ حال تھا کہ مسلمان دنیا کو دینے والے بنےہوئے تھے۔ کیسا عجیب فرق ہے ماضی میںاور حال میں۔
3۔ آج مسلم ملکوں کے نوٹ اور سکے مغربی ممالک تیار کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی مسلم ملک خود اپنا سکہ یا نوٹ تیار کرتاہے تو اس کے لیے بھی وہ مغربی ٹکنالوجی کا مرہون منت ہے۔ مگر ایک وقت تھا کہ یہ مقام خود مسلمانوں کو عالمی سطح پر حاصل تھا۔
پروفیسر ایچ. ڈبلیو . سی . ڈیوس(H.W.C. Davis) نے اپنی کتاب قرونِ وسطی کا انگلستان (Medieval England) میں انگلستان کےایک قدیم سنہرے سکہ کی تصویر اس کے دونوں رخ سے چھاپی ہے۔ یہ سکہ برٹش میوزیم میں رکھاہوا ہے۔ تصویر میں واضح طورپر نظر آرہاہے کہ سکہ کے ایک طرف عربی رسم الخط میں کلمہ شہادت لکھا ہوا ہے اور دوسری طرف اس وقت کے انگلستان کے بادشاہ اوفاریکس (Offa Rex) کا نام کندہ ہے۔ اسی کے ساتھ سکہ پر بغداد کے مسلمان سکہ گر کانام بھی درج ہے۔ سکہ کی تصویر کے نیچے پروفیسر ڈیوس نے حسب ذیل الفاظ لکھےہیں:
Anglo-Saxon gold coin imitating an Arab Dinar of the year 774.
یعنی قدیم انگلستان کا سونے کا سکہ جو 774ء میں ڈھالا گیا اور جس میںایک عرب دینار کی نقل کی گئی ہے۔ یہ ایک تاریخی شہادت ہے جو بتاتی ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان صنعتی ترقی کے اس مقام پر تھے کہ انگلستان کے نامور بادشاہ اوفارکس (وفات796:ء)کو ضرورت محسوس ہوتی تھی کہ وہ اپنے ملک کا سکہ ڈھالنے کے لیے بغداد سے مسلم ماہرین کو بلائے۔ اس وقت انگلستان میںجو سکہ ڈھالا گیا وہ مسلم ممالک کے سکہ (دینار) کی نقل تھا۔حتی کہ مسلم سکوں کی طرح اس پر کلمہ شہادت بھی عربی رسم الخط میں لکھا ہوا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہزار برس پہلے کے دور میں اسلامی تہذیب ساری دنیا میں کس قدر غالب حیثیت رکھتی تھی۔
2۔ واسکوڈی گاما (1524-1469) ایک پرتگالی ملاح تھا۔ اس کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس نے 1497 میں ہندستان اور یورپ کے درمیان سمندری راستہ دریافت کیا جو کیپ آف گڈہوپ ہو کر جاتا تھا۔ مگر یہ عظیم کامیابی اس کو ایک عرب ملاح احمد بن ماجد کے ذریعہ حاصل ہوئی اس کی بابت انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) نے حسب ذیل الفاظ لکھے ہیں:
Vasco da Gama's Arab pilot, Ahmad ibn Majid (7/862)
یعنی واسکوڈی گاما کا عرب جہاز راں احمد بن ماجد۔ برٹانیکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ واسکوڈی گاما جب پرتگال سے چل کر افریقہ پہنچا تو وہاںموزنبیق کے سلطان نے واسکوڈی گاما کو دو مسلم ملّاح دیئے۔ ان میں سے ایک اس وقت بھاگ گیا جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ پرتگالی مسیحی مذہب کے ہیں:
The Sultan of Mozambique supplied da Gama two (Muslim) pilots, one of whom deserted when he discovered that the Portuguese were Christians (7/861)
جس جہاز راں نے واسکوڈی گاما کا ساتھ دیا اس کا نام احمد بن ماجد تھا۔ وہ نہایت ماہر تھا اور سمندری جہاز سے اتنی واقفیت رکھتا تھا کہ اس پر اس نے ایک اہم کتاب لکھی تھی جو مذکورہ سفر کے وقت اس کے ساتھ تھی۔
پروفیسر فلپ ہٹی نے لکھا ہے کہ بحری جہاز رانی کےموضوع پر ایک خصوصی کتاب احمد بن ماجد کی ہے جس میں بحری جہاز رانی کے نظریاتی اور عملی پہلوؤں کی وضاحت کی گئی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ 1498 میں یہی احمد بن ماجد تھا جس نے افریقہ سے ہندستان تک واسکوڈی گاما کی رہنمائی کی:
And exceptional work of major importance is a compendium of theoretical and practical navigation by Ahmad ibn Majid of Najdi ancestry, who, it is claimed, in 1498 piloted Vasco da Gama from Africa to India.
P. K. Hitti, History of the Arabs, 1979, p. 689.
5۔ پندرھویں صدی عیسوی کے آخر میں جو دریافتیں ہوئیں ان میں سے ایک وہ دریافت ہے جس کو نئی دنیا (امریکا) کی دریافت کہاجاتا ہے۔ یہ عظیم دریافت عام طورپر کرسٹوفر (کولمبس 1506-1451) کے نام سے موسوم ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اٹلی کا کولمبس ہی وہ شخص ہے جس نے اس مہم کی رہنمائی کی۔ مگر اس کو یہ تصور دینے والے مسلمان تھے کہ وہ اٹلانٹک سمندر میں اپنی کشتی اس امید میں داخل کرے کہ اس ناپیداکنار سمندر کے دوسری طرف اس کو خشکی ملے گی جہاں وہ اتر سکے۔
پروفیسر ہٹی نے لکھاہے کہ عربوں نے زمین کے گول ہونے کے قدیم نظریہ کو زندہ رکھا ،جس کے بغیر نئی دنیا کی دریافت ممکن نہ ہوتی۔ اس نظریہ کا ایک مبلغ ابو عبیدہ مسلم البلنسی تھا جس نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کا زمانہ دسویں صدی عیسوی کا نصف اول ہے۔ زمین کے گول ہونے کا نظریہ عربی سے لاتینی میں ترجمہ ہو کر 1410ء میں یورپ میں شائع ہوا۔ اس کو پڑھ کر کولمبس نے اس نظریہ سے واقفیت حاصل کی۔ اِس سے اُس نے سمجھا کہ زمین ایک ناشپاتی کی مانند ہے اور یہ کہ زمین کے مغربی نصف کرہ میں بھی ایسا ہی ابھار موجود ہے جیسا کہ اس کے مشرقی نصف کرہ میں نظر آتا ہے۔ پروفیسر ہٹی کے الفاظ یہ ہیں:
They kept alive the ancient doctrine that the earth was round. We have already referred to the Hindu idea that the known hemisphere of the world had a centre or “world cupola” situated at an equal distance from the four cardinal points. This arīn theory found its way into a Latin work published in 1410. From this Columbus acquired the doctrine which made him believe that the earth was shaped in the form of a pear and that on the western hemisphere opposite the arin was a corresponding elevated centre.
P. K. Hitti, History of the Arabs, The Macmillan Press Ltd., London, Tenth Edition 1979, p. 570.
ہمیں کیا کرنا ہے
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرناہے۔ ماضی میں بلاشبہ مسلمانوں نے بہت بڑی بڑی سائنسی خدمات انجام دی تھیں۔ مگر موجودہ زمانہ میں مسلمان سائنس اور صنعت کے میدان میں تمام قوموں سے پیچھے ہوگئے ہیں۔ آج وہ اس حیثیت میں نہیں ہیں کہ خالص سائنسی اور صنعتی اعتبار سے اہلِ دنیا کے لیے نفع بخش بن سکیں۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک صنعتی دور (industrial Age) میں بھی داخل نہیں ہوئے۔ جب کہ بقیہ دنیا الوین ٹافلر کے الفاظ میں، مافوق صنعتی دور (super-industrial Age) میں داخل ہوگئی ہے۔
Alvin Toffler, Future Shock, New York, 1971
مگر امت مسلمہ محفوظ آسمانی کتاب کی حامل ہے۔ اس نسبت سے وہ خود بھی ایک محفوظ امت ہے۔ اس محفوظیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں مواقع بظاہر ختم ہوجائیں، وہاں بھی اس کے لیے ایک نیا موقع موجود رہتا ہے۔ خدا نےانسانیت کے لیے عام طور پر اور امت مسلمہ کے لیے خاص طورپر یہ فیصلہ کردیا ہے کہ ہر ڈس ایڈوانٹج کے ساتھ اس کے لیے ایک ایڈوانٹج ہمیشہ موجود رہے۔ یہی وہ ابدی حقیقت ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:فَإِن معَ الْعُسْرِ یُسْراً إنَّ معَ الْعُسْرِ یُسْراً( 94:5-6)۔ یعنی پس مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اللہ تعالی کی یہ سنت موجودہ زمانہ میں پوری طرح ظاہر ہوچکی ہے۔سائنس اپنی ترقیوں کی انتہا پر پہنچ کر ایک ایسے سنگین مسئلہ سے دوچار ہے جس کا خود اس کے پاس کوئی حل نہیں۔ نہ سائنسی طبقہ سے باہر کوئی گروہ ایسا موجود ہے، جو اس مسئلے کا حل اسے دے سکے۔ یہ صرف مسلمان ہیں جو محفوظ آسمانی کتاب کے حامل ہونے کی وجہ سے اس پوزیشن میں ہیں کہ سائنسی طبقہ کو نیز پوری انسانیت کو اس مسئلہ کےحل کا تحفہ پیش کرسکیں۔
اس معاملہ کی نوعیت سمجھنے کے لیےیہاں میں انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کا ایک پیراگراف نقل کروں گا۔ اس کے تاریخ سائنس (History of Science) کے مقالہ نگار نے اس سلسلہ میں لکھا ہے:
Until recently, the history of science was a story of success. The triumphs of science represented a cumulative process of increasing knowledge and a sequence of victories over ignorance and superstition; and from science flowed a stream of inventions for the improvement of human life. The recent realization of deep moral problems within science of external forces and constraints on its development, and of dangers in uncontrolled technological change has challenged historians to a critical reassessment of this earlier simple faith. (16/366)
ابھی حال تک سائنس کی تاریخ کامیابیوں کی کہانی تھی۔ سائنس کی فتوحات میں یہ شمار ہوتا تھا کہ اس نےانسانی معلومات میں اضافہ کیا ہے اور جہالت اور توہم پرستی پر فتح حاصل کی ہے۔ سائنس سے ایجادات کا ایک سیلاب نکلا ہے جس نے انسانی زندگی کو بہتر بنایا ہے۔ مگر حال میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سائنس گہرے اخلاقی سوالات سے دوچار ہے۔ بے قید ٹکنالوجی کے خطرات کی وجہ سے اس کی ترقی پر روک لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ یہ صورتِ حال مؤرخین کو چیلنج کررہی ہے کہ وہ ان خیالات کا دوبارہ تنقیدی جائزہ لیں جو ابتدا میں سادہ طورپر قائم کرلیے گئے تھے۔
جدید دنیا کا یہی وہ خلا ہے جہاں مسلمان اپنے نفع بخش ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں، اور اس طرح دوبارہ اپنے لیے سرفرازی کا وہ مقام حاصل کرسکتے ہیں جو انھوں نے دنیا میں کھودیا ہے۔
سائنس کی ابتدائی فتوحات نے بہت سے لوگوں کو اتنا زیادہ متاثر کیا کہ انھوں نے سمجھ لیا کہ اب ہمیں سائنس کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ سائنس ہماری تمام ضرورتوں کے لیے کافی ہے۔ اس سلسلہ میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ جولین ہکسلے (1975-1887) نے اس نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک کتاب شائع کی تھی جس کا نام تھا — انسان تنہا کھڑا ہوتا ہے:
Man Stands Alone
اس کے جواب میں کریسی ماریسن (1946-1884) نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام بامعنی طورپر یہ تھا — انسان تنہا کھڑا نہیں ہوسکتا:
Man Does Not Stand Alone
بیسویں صدی کے نصف اول تک انسان کا یہ دعوی تھا کہ اس کی سائنس اس کے لیے کافی ہے۔ مگر اسی صدی کے نصف ثانی میں انسان کو اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑا۔ اس سے پہلے جو بات کریسی ماریسن جیسے چند مستثنی افراد کہتے تھے، اب وہ عام طورپر لوگوں کی زبانوں سے کہی جارہی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مذکورہ اقتباس میں کیا گیا ہے۔
جدید انسان کی ذہنی حالت کیا ہے، اس کا ایک نمونہ لارڈ بر ٹرینڈرسل (1970-1872) ہے۔ وہ انگلینڈ کے ایک دولت مند خاندان میں پیدا ہوا۔ اس نےاعلی ترین تعلیم حاصل کی۔ اس کو نوبل انعام ملا جو آج کی دنیا میں سب سے بڑا علمی اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ اس نے مذہب کو چھوڑ دیا اور مادی سائنس میں سکون تلاش کرنے کی کوشش کی۔ مگر بھر پور عمر گزارنے کے باوجود اس کو وہ چیز نہیں ملی جس کو سکون کہاجاتا ہے۔ برٹرینڈرسل کی طویل خودنوشت سوانح عمری کے آخر میں ہم اس کے ہاتھ سے یہ الفاظ لکھے ہوئے پاتے ہیں:
The inner failure has made my mental life a perpetual battle (p. 727)
اندرونی ناکامی نے میری ذہنی زندگی کو ایک مستقل جنگ میں مبتلا رکھا۔
گلیلیو اور سائنس
آپ سائنس کی تاریخ کی کسی کتاب میں گلیلیو (1642-1562) کا باب کھول کر دیکھیں تو وہاں آپ کو اس قسم کے الفاظ لکھے ہوئے ملیں گے کہ گلیلیو نے مشاہدہ اور تجربہ اور ریاضی کو جس طرح استعمال کیا اس نے جدید سائنس کی بنیاد رکھنے میں مدد دی:
His use of observation, experiment and mathematics helped lay foundation of modern science.
گلیلیو کا خاص کارنامہ کیا ہے۔ گلیلیو کا خاص کارنامہ یہ ہے کہ اس نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو، جو ابعاد (Dimension) اور وزن (Weight) پر مشتمل ہیں اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جاسکتی ہے، ان کو ثانوی صفات سے الگ کردیا جو شکل، رنگ اور بو وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ ایک لفظ میں یہ کہ اس نے کمیت کو کیفیت سے جدا کردیا۔
گلیلیو کے اس فعل نے اس بات کو ممکن بنا دیا کہ آدمی میٹر کو استعمال کرسکے، بغیر اس کے کہ اس نے میٹر کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کی ہوں۔ اس طرح فطرت کو کام میں لانے کا دروازہ کھل گیا۔ ٹکنالوجی کو ترقی ہوئی اور بے شمار نئی نئی چیزیں بننے لگیں جو انسان کے لیے مفید ثابت ہوئیں۔ مگر زیادہ مدّت نہیں گزری کہ انسان کا عدم اطمینان ظاہر ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں سائنس داں یا انجینئر کا معاملہ اس جاہل بڑھئی سے کچھ بھی مختلف نہیں جو لکڑی کو کاٹ کر فرنیچر بناتا ہے، اگرچہ وہ لکڑی کی کیمسٹری کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ گلیلیو نے چیزوں کے جس ظاہری پہلو کو الگ کرکے اس کو سائنس کے مطالعہ کا موضوع بنایا تھا، اس کے بارہ میں بھی انسان کی معلومات حد درجہ ناقص ہیں۔ انسان نہ صرف پھول کی ’’خوشبو‘‘سے بے خبر ہے بلکہ پھول کی ’’کیمسٹری‘‘ بھی بہت کم اس کے علم میں آتی ہے۔ ایک چیز جس کو متمدن دنیا کا انسان تین سو سال تک علم سمجھتا رہا وہ بھی آخر کار بے علمی ثابت ہوا۔ برٹرینڈ رسل نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے:
As is natural when one is trying to ignore a profound cause of unhappiness, I found impersonal reasons for gloom. I had been very full of personal misery in the early years of the century, but at that time I had a more or less Platonic philosophy which enabled me to see beauty in the extra-human universe. Mathematics and the stars consoled me when the human world seemed empty of comfort. But changes in my philosophy have robbed me of such consolations. Solipsism oppressed me, particularly after studying such interpretations of physics as that of Eddington. It seemed that what we had thought of as laws of nature were only linguistic conventions, and that physics was not really concerned with an external world. I do not mean that I quite believed this, but that it became a haunting nightmare, increasingly invading my imagination. (Bertrand Russell, Autobiography, Unwin Paperbacks, London, 1978, pp. 392-93 )
میں نے اپنی اداسی کے کچھ غیر شخصی اسباب پالیے جیسا کہ عام طورپر اس وقت ہوتا ہے جب کہ آدمی ناخوشی کے ایک گہرے سبب کو نظر انداز کرنے کی کوشش کررہا ہو۔ میں موجودہ صدی کے ابتدائی سالوں میں ذاتی پریشانیوں میں بہت زیادہ مبتلا رہاہوں۔ مگر اس وقت میں کم وبیش افلاطونی فلسفہ کا قائل تھا جس نے مجھے اس قابل بنائے رکھا کہ میں خارجی دنیا میں حسن کو دیکھ سکوں۔ ریاضیات اور ستاروں نے مجھے اس وقت تسکین دی جب کہ انسانی دنیا آسائش سے خالی نظر آتی تھی۔ مگر میرے فلسفہ میں تبدیلی نے اس قسم کی تسکین کو مجھ سے چھین لیا۔ خودی نے مجھ کو بالکل مضمحل کردیا۔ خاص طورپر اس وقت جب کہ میں نے طبیعیات کی ان تشریحوں کو پڑھا جو اڈنگٹن جیسے لوگوں نے کی ہیں۔ مجھ کو نظر آیا کہ جس چیز کو ہم نے فطرت کے قوانین سمجھا تھا وہ محض الفاظ کا معاملہ تھا۔ اور طبیعیات حقیقةً کسی خارجی دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ میں اس کو پوری طرح مانتا ہوں۔ مگر یہ میرے لیے ایک کابوس بن گیا جو میرا پیچھا کررہا تھا۔ وہ میرے تخیلات پر برابر حملہ کررہا تھا۔
روحانی تسکین
جو سائنس خارجی دنیا کا علم دینے سے عاجز تھی وہ اس باطنی دنیا کا علم کیا دیتی جس کے بارے میں اس نے گلیلیو ہی کے زمانہ میں عملی طورپر اپنی نارسائی کا اعلان کردیا تھا۔ سائنس آدمی کو وہ جھوٹا اطمینان بھی نہ دے سکی جو مادی سطح پر بظاہر ایک انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ اور ذہنی اور روحانی سطح کا اطمینان تو نہ اس کے بس میں تھا اور نہ کبھی اس نے اس کو دینے کا دعوی کیا۔
قرآن میںارشادہوا ہے:أَلَا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13:28)۔ یعنی سن لو کہ اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے۔ یہی بات بائبل میں ان الفاظ میں آئی ہے— انسان صرف روٹی ہی سے جیتا نہیں رہتا، بلکہ ہر بات سے جو خداوند کے منہ سے نکلتی ہے، وہ جیتا رہتا ہے:
Man does not live by bread alone but by every word that comes from the mouth of the Lord. (Deuteronomy 8:3)
حضرت مسیح نے اسی بات کو ان لفظوں میں بیان کیا ہے— آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے:
Man shall not live by bread alone, but by every word that comes from the mouth of God. (Matthew 4:4)
انسان اپنے ساتھ ایک مخصوص نفسیات رکھتا ہے۔ اس نفسیات سے وہ اپنے آپ کو جدا نہیں کرسکتا۔ یہ نفسیات ایک برتر تسکین کی طالب ہے۔ انسان کو مادی سازوسامان کے ساتھ ایک عقیدہ اور ایک اصولِ حیات بھی درکار ہے۔ سائنس نے انسان کو جو کچھ دیا وہ اپنی آخری صورت میں بھی صرف مادی سازوسامان تھا۔ سائنس انسان کو ایک قابلِ اعتماد عقیدہ نہ دے سکی۔ یہی وہ کمی ہے، جس نے جدید دنیا کے بے شمار لوگوں کو غیر مطمئن کر رکھا ہے۔ باہر سے دیکھنے والوں کو ان کی زندگیاں پُررونق نظرآتی ہیں۔ مگر اندر سے ان کی روح بالکل ویران ہوچکی ہے۔
اقدار کا مسئلہ
یہ مسئلہ جس سے آج کا انسان دوچار ہے، فلسفیانہ لفظ میں اس کو اقدار کا مسئلہ (problem of values) کہاجاسکتا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ انسان ایک دہری مشکل سے دوچار ہے۔ وہ جانتا ہےمگر نہیں جانتا۔ معلومات کے ڈھیر کے درمیان وہ محسوس کرتاہے کہ وہ کم سے کم اس پوزیشن میں ہوتا جارہا ہے کہ یہ فیصلہ کرسکے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے کہ وہ کسی چیز کو اچھا اور کسی چیز کو بُرا سمجھے۔ وہ اس تمیز کو کسی بھی طرح اپنے آپ سے جدا نہیں کرسکتا۔ مگر جب اپنی عقل یا اپنے علم کے ذریعہ وہ اس کو متعین کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کو متعین نہیں کرپاتا۔
جوزف وڈکرچ نےاپنی کتاب ’’دورِ جدید کا مزاج‘‘ میں اس مسئلہ پر عقلی بحث کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان اگرچہ باعتبار فطرت یہ یقین کرنے کی طرف مائل ہے کہ زندگی کا ایک مقصد ہے اور اچھائی اور برائی کا ایک معیار ہے۔ مگر سائنس اس کا کوئی حتمی جواب نہیں دیتی۔ سائنس کی ترقی اس کو زیادہ سےزیادہ ظاہر کرتی جاری ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں اقدار اپنا کوئی موضوعی مقام (objective status) نہیں رکھتیں۔ انسان اخلاقی معیاروں کی ضرورت محسوس کرتاہے جس کے مطابق وہ زندگی گزارے۔ وہ وجدانی طورپر اس کی مستقل تلاش میں ہے۔ مگر سائنس کی دریافت کردہ دنیا میں خیر وشر کے تصورات کی کوئی جگہ نہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان ایک اخلاقی جانور ہے جو ایک ایسی کائنات میں ہے جہاں اخلاقی عنصر کا کوئی وجود نہیں:
Man is an ethical animal in a universe which contains no ethical element. (Joseph Wood Krutch, The Modern Temper, New York, 1929, p. 16)
انسان چیزوں کی حقیقت کو جاننا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف چیزوں کے ڈھانچہ کا علم دیتی ہے۔ انسان دنیا کے آغاز وانجام کو جاننا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف درمیانی مرحلہ کے بارہ میںکچھ باتیں بتاتی ہے۔ انسان چیزوں کی معنویت کو دریافت کرنا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف اس کی ظاہری ہیئت کا پتہ دیتی ہے۔ انسان پھول کی مہک کو سمجھنا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف پھول کی کیمسٹری سے آگاہ کرتی ہے۔ انسان ذہن اور روح کی گہرائی میں اترنا چاہتاہے مگر سائنس صرف جسم کے مادی اجزا کا تجزیہ اس کے سامنے پیش کرتی ہے۔ ایک لفظ میں یہ کہ انسان ’’خالق‘‘ کے بارہ میں جاننا چاہتا ہے اور سائنس اس کو صرف ’’مخلوق‘‘ کے بارہ میں بتا کر خاموش ہوجاتی ہے۔
یہی بات ہے جس کو ایک مغربی مفکر نے حسرت کے ساتھ اس فقرہ میں بیان کیا ہے— جو اہم ہے وہ ناقابل دریافت ہے، اور جو قابل دریافت ہے وہ اہم نہیں:
The important is unknowable, and the knowable is unimportant.
اعلی ذریعۂ علم
یہی بے اطمینانی جدیددور کے تمام باشعور انسانوں کا پیچھا کیے ہوئے ہے۔ ان کی اکثریت اگر چہ مذہب کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، مگر انھوںنے یہ بات مان لی ہے کہ جس سائنسی ترقی کو انھوں نے انسانیت کے مسئلہ کا حل سمجھ لیا تھا، وہ انسانیت کے مسئلہ کا حل نہ تھا۔ برٹرینڈ رسل نے مغربی فکر وفلسفہ پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کے آخر میں ہم اس کے اعتراف کے حسب ذیل کلمات پاتے ہیں:
(Western philosophers) confess frankly that the human intellect is unable to find conclusive answers to many questions of profound importance to mankind, but they refuse to believe that there is some 'higher' way of knowledge, by which we can discover truths hidden from science and the intellect. (Bertrand Russell, A History of Western Philosophy, 1979, p. 789)
مغربی فلسفی کھلے طور پر اقرار کرتے ہیں کہ انسانی عقل کے بس سے باہر ہے کہ وہ ان بہت سے سوالات کا قطعی جواب پاسکے جو انسانیت کے لیے بے حد اہمیت رکھتےہیں۔ مگر وہ اِس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ سائنس کے علاوہ علم کا کوئی اور بلند طریقہ ہے جس کے ذریعہ سے ہم ان سچائیوں کو دریافت کرسکیں جو سائنس اور عقل کی دسترس میں نہیں آتیں۔
آج کے انسان کو یہی بتانا اس کو سب سے بڑی چیز دینا ہے کہ ہاں، یہاں ایک بلند تر طریقہ موجود ہے جس کے ذریعہ نامعلوم کو معلوم کیا جاسکے۔ اور وہ الہام خداوندی ہے۔ اور یہ الہام خداوندی جہاں اپنی محفوظ شکل میں موجود ہے وہ قرآن ہے۔
قرآن پوری طرح اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے اور تقریباً ڈیڑھ ہزار برس سے مسلسل اپنی صداقت کو ثابت کررہا ہے، اس موضوع پر راقم الحروف نے اپنی کتاب ’’عظمت قرآن‘‘ اور دوسری کتابوں میں گفتگو کی ہے۔ اس کی تفصیل ان کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
داخلی شہادت
اخلاقی یا مذہبی احساس انسان کے اندر بے حد طاقت ور ہے۔ ماضی سے لے کر حال تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ احساس کسی طرح انسان کے اندر سے ختم نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ یہ خالص انسانی خصوصیت ہے۔ کسی بھی نوع کے جانور میں اب تک اخلاقی یا مذہبی شعور کا ہونا ثابت نہ کیا جاسکا۔
الفرڈ رسل ویلس (1913-1823)مشہور ارتقا پسند عالم ہے۔ تاہم وہ ڈارون کی طرح اس کا قائل نہ تھا کہ ذہنِ انسانی کی اعلی اور نادر خصوصیات محض انتخابِ طبیعی (natural selection) کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔
اسی طرح اس نے لکھا ہے کہ افادیت کا مفروضہ جو کہ دراصل ذہن پر انتخاب طبیعی کے نظریہ کا انطباق ہے، وہ انسان کے اندر اخلاقی شعور کی پیدائش کی تشریح کے لیے ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ اخلاقی شعور کو اس دنیا میں بےحد مشکلات کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ طرح طرح کے استثنائی حالات پیش آتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اخلاقی شعور کے تحت عمل کرنے والا موت سے دوچار ہوتا ہے یا برباد ہو کر رہ جاتاہے۔ ہم کیوں کر یقین کرسکتے ہیں کہ افادیت کا لحاظ ایک شخص کے اندر ایک اعلی نیکی کے لیے اتنا پر اسرار تقدس پیدا کرسکتا ہے۔ کیا افادیت کا لحاظ ایک شخص کے اندر ایک اعلی نیکی کے لیے اتنا پراسرار تقدس پیدا کرسکتا ہے۔ کیا افادیت آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرسکتی ہے کہ وہ سچائی کو بذاتِ خود مقصود ومطلوب سمجھے اور نتائج کا لحاظ کیے بغیر اس پر عمل کرے:
The Utilitarian hypothesis, which is the theory of natural selection applied to mind, seems inadequate to account for the development of the moral sense. Such being the difficulties with which virtue (or the moral sense) has had to struggle, with so many exceptions in its practice, with so many instances in which it brought ruin or death to its too ardent devotee, how can we believe that considerations of utility could ever invest it with the mysterious sanctity of the highest virtue–-could ever induce men to value truth for its own sake, and practice it regardless of consequences.
’’ذہین کائنات‘‘ نامی کتاب کا مصنف فریڈ ہائل اپنے قیمتی مطالعہ کا خاتمہ ان الفاظ پر کرتاہے کہ اگر زمین کو کسی مزید اہمیت کا حامل بننا ہے، اور انسان کو کائناتی اسکیم میں کوئی جگہ پانی ہے تو ضرورت ہوگی کہ ہم افادیت کے نظریہ کو مکمل طورپر ترک کردیں۔ اگر چہ میرا خیال ہے کہ قدیم طرز کے مذہبی نظریات کی طرف واپسی کچھ مفید نہ ہوگی، مگر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ایساکیوں ہے کہ ویلس کی تشریح کے مطابق ، پراسرار تقدس ہمارے اندر موجود رہتا ہے اور فردوسی دنیا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کیا ہم اس کی پیروی کریں گے:
If the Earth is to emerge as a place of added consequence, with man of some relevance in the cosmic scheme, we shall need to dispense entirely with the philosophy of opportunism. While it would be no advantage I believe to return to older religious concepts, we shall need to understand why it is that the mysterious sanctity described by Wallace persists within us, beckoning us to the Elysian fields, if only we will follow. (Fred Hoyle, The Intelligent Universe, Michael Joseph, London, 1983, p. 251)
حقیقت یہ ہے کہ مذہب انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ وہ مذہب کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آج کا انسان بھی اتنا ہی زیادہ مذہب کا ضرورت مند ہے جتنا قدیم زمانہ کا انسان تھا۔ مزید یہ کہ سائنس کی طرف سے مایوسی نے اس کو مزید شدت کے ساتھ مذہب کا مشتاق بنادیا ہے۔ مگر جدید انسان کی مشکل یہ ہے کہ وہ مذہب کے نام سے جس چیز کو جانتا ہے ،وہ صرف بگڑے ہوئے مذاہب ہیں، اور بگڑے ہوئے مذاہب کے ساتھ انسانی فطرت کو مطابقت نہیں۔ جدید انسان جب اندرونی تقاضے سے مجبور ہو کر مذہب کے بارے میں سوچتا ہے تو اسی بگڑے ہوئے مذہب کی تصویر اس کے سامنے آجاتی ہے۔ وہ مذہب سے قریب ہو کر دوبارہ مذہب سے دور ہوجاتا ہے۔
اسلام ایک محفوظ مذہب ہے۔وہ ان خرابیوں سے یکسر پاک ہے جو انسانی ملاوٹ کے نتیجہ میں دوسرے مذہبوں میں پیدا ہوگئی ہیں۔ انسان کی فطرت جس مذہب کو تلاش کررہی ہےوہ حقیقةً اسلام ہی ہے۔ مگر مسلمانوںکا حال یہ ہے کہ وہ اسلام کو اپنے خود ساختہ جھگڑوں کا عنوان بنائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اسلام کو دنیا کے سامنے پیش ہی نہیں کیا، اور اگر پیش کیا تو بگڑی ہوئی خود ساختہ صورت میں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو اسلام اور دوسرے مذہبوں میں بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اسلام کو اگر اس کی اصل صورت میں آج کے انسان کے سامنے پیش کردیا جائے تو وہ یقیناً اس کو اپنی طلب کا جواب پائے گا اور اس کی طرف دوڑ پڑے گا۔
مسلمان سائنس کے میدان میں دوسروں سے پچھڑ گئے ہیں مگر عقیدہ (نظریۂ حیات) کے معاملہ میں وہ آج بھی دوسروں سے آگے ہیں۔ وہ جدید دنیا کو وہ چیز دے سکتے ہیں جس کی آج اسے سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یعنی خدا کی طرف سے آیا ہوا سچا دین، وہ دین جس کے اوپر آدمی اپنے لیے ایک پر اعتماد زندگی کی تعمیر کرسکے۔ یہ مقام آج مسلمانوں کے لیے خالی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں وہ اہلِ عالَم کے لیےنفع بخش بن سکتے ہیں، اور دوبارہ اپنے آپ کو اِس کا اہل ثابت کرسکتےہیں کہ قدرت کا یہ قانون ان کے حق میں پورا ہو — فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ (13:17)۔ یعنی پس جھاگ تو سوکھ کر جاتا رہتا ہے اورجو چیز انسانوں کو نفع پہنچا نے والی ہے، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 267

صدر اسلامی مرکز کو ساری دنیا میں پڑھا اور سنا جاتا ہے۔مثلاً ہمارے فیس بک پیج، مولانا وحید الدین خان (@@maulanawkhan)،اور سی پی ایس انٹرنیشنل (@@cpsinternational)، نیز مولانا عبد الباسط عمری (قطر)کے زیر انتظام چل رہے اردو فیس بک پیج حکمت و دانائی (@@hikmat.u.danae) پر لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں، اور اپنی تلاش کا جواب پاتے ہیں۔ ذیل میں ایسے کچھ متلاشیان حق کا تاثر دیا جارہا ہے، جن کی زندگیوں میں اس مشن سے مثبت تبدیلی آئی ہے:
† I was introduced to Maulana in the most negative phase of my life. It was totally by the grace of God, Maulana’s views and knowledge changed my life from that of a hopeless negative person to an optimistic positive one. It helped me to discover our Creator, Sustainer and Cherisher. (Danish Khan, Kanpur [Via Facebook])
† After listening to the lectures of Maulana Wahiduddin Khan, one can understand the purpose of one’s life, the creation plan of God, and how to live successfully. (Izhar ul Hassan, Bhakkar, Pakistan [Via Facebook])
† CPS, I think, is the only hope that will make peace prevail in every corner of this world and with Maulana’s ideas it seems to be very near in achieving its goal. The chains of hate, unhappiness, ruthlessness and cruelty will be overcome by peace, love, happiness and prosperity. Whenever I think of Maulana in my mind, it gives me hope that soon people of this world will love Islam in its true peaceful essence. (Irfan ul Islam [Via Facebook)
† I love everything that CPS International stands for and their work in promoting peace, spirituality and disseminating the message of Islam in a peaceful way! I have benefited a lot from CPS International (Shahril Shahrudin [Via Facebook])
الرسالہ کا انگلش ورژن ’’ اسپرٹ آف اسلام‘‘ ہر ماہ پابندی کے ساتھ انڈیا اور پاکستان سے شائع ہوتا ہے اورپوری دنیا میں کثرت سے پڑھا اور پسند کیا جاتا ہے۔ ذیل میں تین قارئین کے تاثرات نقل کیے جارہے ہیں:
† ††I have been reading Spirit of Islam for some time now, and I have come to understand well that Islam is a modern, progressive religion, fair to women in particular, especially with regards to divorce and property rights. It has dispelled my earlier misperception of it as merely a “burqa” religion. Sri Wahiduddin Khan and Smt. Farida Khanam write very clearly and beautifully. (Ms. Ramadevi Lingaraju, Bangalore)
† Yesterday I saw the PDF version of Spirit of Islam February 2019 issue. The contents are extremely interesting as well as informative and helpful. Also the designing of the magazine from January 2019 onwards is worthy of praise. I have a plan to open a “Peace Centre” in my locality so that people can benefit from Islamic knowledge and can read the literature of Maulana Wahiduddin Khan and can get free copies of the Quran and monthly magazines Al-Risala and Spirit of Islam. In addition they can also get access to the digital programs which they can later on watch at home or other places. I hope Almighty Allah will make me able to do so. (Muneeb Gulzar, Kashmir)
† I would like to present a tribute to you for the great contributions in promoting the true image and spirit of Islam through your esteemed monthly magazine Spirit of Islam. I read the issue of June 2018 (soft copy version) and found it a valuable effort for a noble cause. I am Assistant Professor in Mass Communication at a Post Graduate College in Gilgit-Baltistan, the northern region of Pakistan. I am keen to take advantage of your knowledge and vision, and will further disseminate the valuable contribution and knowledge-based thoughts. You are kindly requested to include me in your online mailing list for getting the softcopy of your magazine. If possible, please share your contents regarding the course Peace Building and Conflict resolution, as I am also contributing as provincial Vice Chairman of National Peace Council of Pakistan. I pray that Almighty Allah help and strengthen your efforts for the noble cause. (Prof. Ejaz Ahmed Khan, Gilgit-Pakistan)
واپس اوپر جائیں

ایک ضروری اعلان

قارئین الرسالہ سے گزارش ہے کہ وہ اپنامکمل ایڈریس مع پن کوڈ ، فون نمبراور ای میل (اگر موجود ہو) بذریعہ ڈاک الرسالہ کے پتے پر یا مندرجہ ذیل ای میل پر روانہ فرمائیں:
feedback@cpsglobal.org
cs.alrisala@gmail.com
واپس اوپر جائیں