Pages

Sunday, 1 March 2020

Al Risala | March 2020 (الرسالہ،مارچ)

4

-فئۃ قلیلۃ، فئۃ کثیرۃ

5

- چیلنج، مواقع

6

- کتاب اور حکمت

7

- فرقان کیا ہے

8

- حالات کی رعایت

9

- محفوظ کا تحفظ

10

- دین کی عصری تفہیم

11

- اجتہاد کیا ہے

14

- فارم ، اسپرٹ

15

- دعوتی حکمت

16

- قولِ بلیغ

17

- آج کی نوجوان نسلیں

18

- ظلم کا بدلہ

19

- جدید مائنڈ سٹ

20

- فاجر کے ذریعے تائید ِ دین

21

- ایک تجربہ

22

- مسلم اور غیر مسلم تعلقات

23

- فکری آزادی کا فارمولا

25

- اسلام دورِ جدید میں

28

- مذہبی برداشت

29

- دو قرآنی آیات

31

- مسلح جہاد

32

- مسلمانوں کا مسئلہ

34

- وطن سے محبت

40

- جدید اسلوب کا ایک پہلو

41

- فریم ورک کا مسئلہ

43

- مثال کے بغیر

44

- بے خبری کا کیس

45

- جمہوریت کا نظام

46

- اتحاد ملت

47

- کفر، تکذیب

48

- میل ملاپ کا سماج

49

- مثبت لٹریچر کی ضرورت

50

- ملت کا احیاء


فئۃ قلیلۃ، فئۃ کثیرۃ

قرآن معروف معنوں میں صرف شریعت کی ایک کتاب نہیں ہے۔ بلکہ وہ فطرت کی کتاب ہے،اور اس اعتبار سےتخلیق کے تمام قوانین کا اس سے تعلق ہے، خواہ براہِ راست ہو یا بالواسطہ۔ انھیں قوانین فطرت میں سے ایک قانون وہ ہے، جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیرَةً بِإِذْنِ اللَّہِ (2:249)۔یعنی کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔
اس آیت کے مطابق، اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کون گروہ عددی اعتبار سے اقلیت میں ہے، اور کون گروہ عددی اعتبار سے اکثریت میں ہے۔ بلکہ فطرت کے قانون کے مطابق، عددی اکثریت اور عددی اقلیت دونوں اضافی (relative) الفاظ ہیں۔ اس دنیا میں اصل فیصلہ اذن اللہ (فطرت کا قانون) کرتاہے۔ جو گروہ اذن اللہ (فطرت کے قانون) کے مطابق اپنی درست منصوبہ بندی کرے گا، وہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ جائے گا، اور جو فریق فطرت کے قانون کے مطابق درست منصوبہ بندی میں ناکام رہے گا، وہ بظاہر حالات کا مالک ہوتے ہوئے بھی زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔
وہ قانون فطرت کیا ہے۔ وہ ایک محرک عمل ہے۔مطالعہ بتاتا ہے کہ جوگروہ عددی اعتبار سے بظاہر اقلیت میں ہو، اس کے افراد میں ایک فطری اسپرٹ جاگتی ہے۔ اس اسپرٹ کو داعیہ یا محرک (incentive)کہا جاتا ہے۔ یہ داعیہ ہر اقلیتی گروہ میں لازمی طور پر پیداہوتا ہے، بشرطیکہ رہنمائی کرنے والے غلط رہنمائی(mislead) کرکے لوگوں کے ذہن کو بگاڑ نہ دیں۔انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اگر لوگوں کے ذہن کو بگاڑا نہ جائےتو فطرت ضرور اپنا عمل کرتی ہے، اور جب فطرت درست انداز میں اپنا عمل کرتی ہے، تو عددی اقلیت والے افراد اپنے آپ غیر تخلیقی گروہ سے ترقی کرکے تخلیقی گروہ بننا شروع ہو جاتے ہیں، اور اگر کوئی رہنما مس لیڈ (mislead) نہ کرے، تو یہ عمل جاری رہتاہے۔ یہاں تک کہ فئة قلیلة ترقی کرتے ہوئے فئة کثیرة بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

چیلنج، مواقع

اکثر لوگ حالات کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حالات ہمارے لیے موافق نہیں ہیں۔ ایسے مقام پر کیا کرنا چاہیے۔ میں کہوں گا کہ قرآن میں آیا ہے : لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ (90:4)۔ یعنی ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشکلات (hardship)انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ وہ ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ایسی حالت میں مشکلات کے حوالے سے سوچنا بجائے خود درست نہیں۔
انسان کو کبد یا عُسر(hardship)کے اندر پیدا کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کبد زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ کبد کو لے کر اپنی زندگی کا منصوبہ نہ بنائے، بلکہ کبد کے اندر جو موافق امکانات موجود ہیں، ان کو لے کر اپنی زندگی کی پلاننگ کرے۔ انسان کا منصوبہ مبنی برغیرموافق حالات نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مبنی بر موافق حالات ہونا چاہیے۔
انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کے لیے اس دنیا میں صرف مشقت ہی مشقت ہے، اس کے لیے اس دنیا میں آسانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ایک ایسی دنیا میں پیدا کیا گیا ہے، جہاں انسان کے لیے مواقع (opportunities) تو بہت زیادہ ہیں، لیکن ان مواقع کے ساتھ چیلنجز بھی موجود ہیں۔ آدمی سے یہ مطلوب ہے کہ وہ چیلنج کے درمیان مواقع کو تلاش کرنا سیکھے، وہ چیلنج کو مینج (manage)کرکے اپنی دنیا بنائے۔ ایسا اس لیے ہے تاکہ انسان کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی عقل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرے، وہ اپنی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ ترقی یافتہ بنائے۔
چیلنج کا مقابلہ کرکے جب انسان اپنا مقصد حاصل کرتا ہے، تو وہ ایسے مراحل سے گزرتا ہے، جو اس کے اندر تخلیقیت (creativity) پیدا کرنے والی ہیں، جو انسان کو مین (man)سے اٹھا کر سوپر مین (super-man) بنانے والی ہیں۔
واپس اوپر جائیں

کتاب اور حکمت

قرآن میں متعدد مقامات پر بتایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو دو چیزیں دے کر بھیجا ہے— کتاب اور حکمت(البقرۃ،2:129، آل عمران،3:164، النساء،4:113، الاحزاب، 33:34، الجمعۃ، 62:2، وغیرہ)۔کتاب سے مراد ہے اللہ کی آخری کتابِ ہدایت قرآن ہے، اور حکمت سے مراد یہ ہے کہ اس کتاب کو بطور مشن لے کر اٹھنے کی صورت میں جو حالات پیدا ہوں گے، ان کو کس طرح حکمت کے ساتھ مینج کرتے ہوئے آخری منزل تک پہنچایا جائے۔
رسول اللہ کی 23 سالہ زندگی اس بات کا عملی نمونہ ہے۔ اس پیغمبرانہ وزڈم کا ایک اصول حضرت عائشہ نے ان الفاظ میں بیان کیا مَا خُیِّرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6786)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معاملے کے درمیان اختیار دیا گیا، تو آپ نے آسان تر کا انتخاب کیا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایسر سے مراد پرامن، یعنی غیر نزاعی طریقہ ہے۔ اجتماعی زندگی میں ڈیلنگ کے عملاً دو طریقے ہیں— نزاعی اور غیر نزاعی (non-confrontational method)۔ پیغمبر اسلام کا طریقہ نزاعی طریقہ نہیں تھا۔ بلکہ مکمل طور پر غیر نزاعی طریقہ تھا۔ غیر نزاعی طریقے کا فائدہ یہ ہے کہ فوراً اسٹارٹنگ پوائنٹ مل جائے، اور مشن کسی رکاوٹ کا شکار ہوئے بغیر اسموتھ (smooth)انداز میں اپنے راستے پر چلتا رہے۔
اس طریق کا ر کو دوسرے انداز میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ راستے کی رکاوٹ سے ٹکراؤ کرنے کے بجائے اس کو مینج کرکے اپنا راستہ نکالنا۔ مثلاً کعبہ کے بت بظاہر داعیٔ توحید کے لیے ایک رکاوٹ تھے، مگر آپ نے اس رکاوٹ کو مینج کیا۔ آپ نے کعبہ کے پاس جمع ہونے والے بت پرستوں کے مجمع کو اپنے لیے آڈینس(audience) بنا لیا، اور اس طرح سارے عرب میں نہایت پیس فل انداز میں توحید کی دعوت کو پھیلا دیا۔ اسی طریقے کا نام حکمت ہے۔
واپس اوپر جائیں

فرقان کیا ہے

مومن کےلیے ایک خدائی عطیہ وہ ہے، جس کو قرآن میں فرقان کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی متعلق آیت ان الفاظ میں آئی ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّہَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقَانًا (8:29)۔ یعنی اے ایمان والو، اگر تم اللہ سے ڈرو ، تو اللہ تمہارے لیے فرقان عطا کرے گا۔
فرقان کا لفظی مطلب ہے فرق کرنے والا، یعنی انسان کی یہ صلاحیت جس کے ذریعے وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق (differentiate)کرسکے۔ یہ فرق دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک، مادی فرق اور دوسرا، معنوی فرق۔ مادی فرق کو جاننا بہت آسان ہے۔ کیوں کہ اس معاملے میں ایک چیز سخت ہوتی ہے، اور دوسری چیز نرم، ایک چیز گرم ہوتی ہے، اور دوسری چیز ٹھنڈی، ایک چیز کھانے کے قابل ہوتی ہے، اور دوسری چیز کھانے کے قابل نہیں ہوتی۔ لیکن معنوی فرق کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ یہاں فرق کو جاننے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر فرق کو سمجھنے کا اکیوٹ سنس (acute sense)موجود ہو۔ اسی کے ساتھ آدمی کے اندر وہ ذوق موجود ہو، جو اس کو مجبور کرے کہ وہ اس فرق کو اپنے معاملات میں استعمال کرے۔
مثلا ًمبنی بر عداوت تحریک، اور مبنی بر دعوت تحریک۔ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ کیوں کہ دعوتی عمل خیرخواہی کی بنیاد پر چلتا ہے، اور خیر خواہی عداوت کی ضد ہے۔جو آدمی اس معاملے میں حساس (sensitive) نہ ہو، وہ دعوت کی بات کرے گا، اور اسی کے ساتھ وہ عداوت کا طریقہ بھی اختیارکرے گا۔ اس کے برعکس، جو آدمی اس معاملے میں حساس ہو، وہ اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ صاحبِ دعوت ہونے کا دعویٰ کرے، اور اسی کے ساتھ وہ لوگوں کے خلاف عداوت کی باتیں بھی کرتا رہے۔وہ یہ بھی کہے کہ مسلمان کو لوگوں کے درمیان نافع (giver group) بن کر رہنا چاہیے، اور اسی کے ساتھ وہ شکایت اور ظلم کی باتیں لے کر پرجوش تقریریں بھی کرے۔ فرقان کی یہ صلاحیت صحیح معنوں میں اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ آدمی اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

حالات کی رعایت

مسلمانوں میں عام طو رپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمیں دو چیزوں کی پیروی کرتے ہوئے اپنا کام کرنا چاہیے، اور وہ ہے قرآن اور سنت۔ مگر عملی اعتبار سےیہ مکمل بات نہیں۔ بلاشبہ مسلمان کے لیے قرآن و سنت واحد ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں،لیکن اسی کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ مسلمان وقت کے تقاضے کو سمجھیں، اور وقت کے تقاضوں کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی دینی پلاننگ انجام دیں۔
مثلاً جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اس سفر کے لیے آپ نے ایک مشرک کو اپنے سفر کا رہنما بنایا۔سیرت کی کتابوں میں اس کا نام عبد اللہ بن اُرَیقِط یا أَرْقَط (سیرت ابن ہشام،جلد1، صفحہ488) بتایا گیا ہے۔ یہ ایک طریقے کی بات تھی، جو قرآن میں پہلے سے لکھا ہوا موجود نہ تھا، وہ حالات کا تقاضا تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حالات کے تقاضے کی رعایت کرنا، کام کی درستگی کا ذریعہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس تیسرے عمل ، یعنی حالات کےتقاضے کو سمجھیں، ورنہ وہ اپنی منصوبہ بندی میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
حالات کے تقاضے کو سمجھنا، اور اس کی رعایت کرنا، منصوبہ بندی کو کامیاب کرتا ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے، جب کہ انسان کھلے ذہن کے ساتھ حالات کو سمجھنے کی کوشش کرے، اور بغیر کسی ریزرویشن کے حالات کے مطابق اپنے کام کو آگے بڑھائے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے اس راز کو نہیں سمجھا کہ موجودہ زمانہ جدید ٹکنالوجی کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ جدید تقاضوں کو سمجھیں، اور اس کو اپنی تعمیر میں استعمال کریں۔
پیغمبر ِ اسلام کی سنت سے یہ ثابت ہوتاہے کہ آپ نے ایک طرف وحی کی پیروی کی، اور دوسری طرف حالات کے تقاضے کو سمجھ کر ہمیشہ حکمت پر مبنی پلاننگ کی۔ آپ نے ہمیشہ ٹکراؤ سے اعراض کرتے ہوئے اپنے عمل کا نقشہ بنایا۔ آپ ہمیشہ دوسروںکےلیے ناصح (خیرخواہ) بنے رہے۔ آپ نے اس حکمت کو اتنا زیادہ اختیار کیا کہ آپ نے آخری حد تک خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔
واپس اوپر جائیں

محفوظ کا تحفظ

دیوبند کے دو عالم ملاقات کے لیے آئے۔ان کے ساتھ میں نے جو گفتگو کی، اس کا خلاصہ میں نے اپنی ڈائری میں ان الفاظ میں نقل کیا ہے ’’ان سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آج کل جگہ جگہ تحفظ ِختم ِنبوت کانفرنس ہو رہی ہے۔ میں اس قسم کی کانفرنسوں کو بالکل بے معنی سمجھتا ہوں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تحفظِ آفتاب کانفرنس منعقد کی جائے۔ سورج براہ راست خدا کی طاقت سے قائم ہے، اس کے لیے تحفظ آفتاب کانفرنس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسی طرح نبوت کی حفاظت بھی خدا نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اس کے لیےبھی یہ ضرورت نہیں کہ تحفظ نبوت کانفرنس منعقد کی جائے۔ مسلمانوں کی اصل ذمے داری پیغام نبوت کی پیغام رسانی ہے۔ یعنی پیغمبر نے اپنے بعد جو دین چھوڑا ہے، اس کو دنیا کی تمام قوموں تک پہنچانا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان دعوتِ نبوت کا کام نہیں کرتے، البتہ وہ تحفظِ نبوت کی کانفرنس کر رہے ہیں۔ اس قسم کا فعل مسلمانوں کی اصل مسئولیت کا کسی بھی درجے میں بدل نہیں۔‘‘(ڈائری، 5 دسمبر 1989)
تحفظ ختم نبوت کا مطلب کیا ہے۔ بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ ختم نبوت کا عقیدہ خطرے میں ہے، اس کو بچاؤ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کہاں خطرے میں ہے، اور کون اس کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ اس کا حقیقی جواب کسی کے پاس نہیں۔ یہ ایک مفروضہ خطرے پر کانفرنس منعقد کرنا ہے۔ اس مسئلے پر اگر کچھ کام کرنا ہے،تو وہ نبوت کے عقیدے پر ایسی کتابیں لکھنا ہے، جو علمی اور تاریخی دلائل کی بنیاد پر تیار کی گئی ہوں۔ ایسی کتابیں ، جن سے لوگوں کو پیغمبر کی رہنمائی پر یقین حاصل ہو۔ ایسی کتابیں، جو لوگوں کے ایمان میں اضافہ کرنے والی ہوں۔ ایسی کتابیں ، جو موجودہ عقلی دور میں لوگوں کے لیے عقل کی بنیاد پر اس عقیدے کو قابل فہم بنائیں۔ یہ کتابیں سب و شتم کی زبان میں نہیں ہونا چاہیے، بلکہ عقلی دلائل کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ یہ زمانہ عقلی تفہیم و تبیین کا زمانہ ہے۔ کوئی اور اسلوب آج کے انسان کے لیے مؤثر نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

دین کی عصری تفہیم

ایک لمبی روایت صحابی رسول کے حوالے سےحدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک جز یہ ہے۔ آپ نے کہا:وَعَلَى الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ بَصِیرًا بِزَمَانِہِ(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر361)۔ یعنی دانش مند کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔ بصیرت زمانی کی یہ صفت زندگی کے عام معاملات کے لیے بھی ہے، اسی کے ساتھ دین کو زمانے کی نسبت سے سمجھنے کے لیے بھی۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات مومنِ مجتہد کے لیے کہی گئی ہے۔ اجتہاد اہلِ اسلام کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اجتہاد کی خاص شرط کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مومن مجتہد قرآن و سنت کی گہری واقفیت کے ساتھ اپنے زمانے کے حالات سے بھی بخوبی طور پر واقف ہو۔ تاکہ وہ زمانے کے تقاضے کے مطابق اسلامی تعلیم کی نئی تشریح کرسکے۔ ایسی تشریح جس میں اسلام کی تعلیمات کی بھرپور طور پر تعمیل موجود ہو، اور اسی کے ساتھ اس میں زمانے کے حالات کےمطابق اہل اسلام کو درست رہنمائی حاصل ہوتی ہو۔
اجتہاد دوسرے الفاظ میں اسلام کی دانش مندانہ تعبیر ہے۔ جس آدمی کا حال یہ ہو کہ وہ قرآن و سنت سے واقف ہو، لیکن اس کے اندر دانش مندی کی صفت نہ ہو ،تو وہ دین کو درست طور پر نہیں سمجھے گا۔ وہ درست طو رپر لوگوں کو دینی رہنمائی نہ دےسکے گا۔وہ دین کو تطبیقی انداز (applied way) میں پیش نہ کرسکے گا۔
دین کی عصری تفہیم کا مطلب صرف یہ ہے کہ ابدی دین کو وقت کے اسلوب (idiom) میں بیان کرنا۔ دینی متن (religious text)کا ترجمہ اگر صرف ترجمہ ہے تو اس کی عصری تفہیم کا مطلب ترجمہ پلس (translation plus) ہے، یعنی سطور (lines) کے ساتھ بین السطور (between the lines)کا بیان۔
واپس اوپر جائیں

اجتہاد کیا ہے

اجتہاد کیا ہے۔ اجتہاد یہ ہے — کسی حکم شرعی پر عمل کرنے میں جب حالات کی تبدیلی کی بنا پر فرق واقع ہوجائے، تو اس وقت حکم کو ظاہری صورت کے اعتبار سے دیکھنے کے بجائےحکم کو ری ڈیفائن کرنا تاکہ اسپرٹ پوری طرح باقی رہے،لیکن فارم کو اس طرح بدلا جائے کہ وہ مطابقِ حال ہو جائے۔
اس کی ایک رہنما مثال پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی دور کا ایک واقعہ ہے۔ آپ نےایک بار مدینہ سے صحابہ کی ایک جماعت کو بنو قریظہ کی طرف بھیجا۔ بنو قریظہ ایک یہودی قبیلہ (Jewish tribe)تھا۔یہ قبیلہ مدینہ سے جنوب کی جانب آباد تھا۔ اس واقعے کا ذکر روایتوں میں آیا ہے، اس کا متعلق جز یہ ہے: لما انصرف المشرکون عَن الخندق وَرَجَعَ رَسُول اللَّہِ - صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - فَدَخَلَ بیت عَائِشَة أتاہ جبریل فوقف عند موضع الجنائز فَقَالَ:عذیرک مِن محارب! فخرج إِلَیْہِ رَسُول اللَّہِ - صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ -[فزعا فَقَالَ:إن اللہ یأمرک أن تسیر إلى بنی قریظة فإنی عامد إلیہم فمزلزل بہم حصونہم. فَدَعَا رَسُولُ اللَّہِ - صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - علیا. رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ. فدفع إِلَیْہِ لواءہ وبعث بلالا] فنادى فِی النَّاسُ إِنَّ رَسُول اللَّہِ - صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - یأمرکم ألا تصلوا العصر إلا فِی بنی قریظة (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، 2/57)۔ بعض روایتوں میں یہ اضافہ ہے : فَأَدْرَکَ بَعْضَہُمُ العَصْرُ فِی الطَّرِیقِ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ: لاَ نُصَلِّی حَتَّى نَأْتِیَہَا، وَقَالَ بَعْضُہُمْ: بَلْ نُصَلِّی، لَمْ یُرَدْ مِنَّا ذَلِکَ، فَذُکِرَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْہُمْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 946)۔ان میں جن لوگوں نے نماز پڑھی ان لوگوں نے یہ کہا :لم یرد رسول اللہ ترک الصلاة، إنما أراد تعجیل السیر (الفصول فی السیرة، أبو الفداء ابن کثیر ، 1/171)۔
ان روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے صحابہ کی ایک جماعت کو غزوۂ خندق کے بعد بنوقریظہ کی طرف بھیجا، اور بھیجتے ہوئے آپ نے تاکید کے ساتھ یہ کہا کہ تم لوگ عصر کی نماز بنو قریظہ کی بستی میں پہنچ کر ہی ادا کرنا۔ مگر بنو قریظہ کی بستی تک پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز کا وقت آگیا۔ یہاں تک کہ ایسا لگنے لگا کہ بنو قریظہ تک پہنچنے سے پہلے عصر کا وقت ختم ہوجائے گا۔ اس لیے کچھ لوگوں نے بنوقریظہ تک پہنچنے سے پہلے ہی عصر کی نماز پڑھ لی۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپ نے کسی کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ نماز پڑھنے والے صحابہ نے کہا رسول اللہ کی مراد نماز ترک کرنا نہیں تھا،بلکہ آپ کی مراد تیزی کے ساتھ سفر کرنا تھا۔
فَذُکِرَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْہُمْ (پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپ نے کسی کے خلاف کچھ نہیں کہا)۔رسول اللہ کےاس عمل سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ آپ نے جو کچھ کیا، اس کا مفہوم یہ تھا کہ تم دونوں درست ہو کہ تم میں سے ایک گروہ نے حکم کی لفظی پیروی کی، اور تم میں سے دوسرے گروہ نے حکم کی اجتہادی پیروی کی ہے۔
تجدیدی کام
مشہور حنفی فقیہ زین الدین ابن نجیم (926-970ھ) نے اپنی کتاب الْأَشْبَاہُ وَالنَّظَائِر میں لکھا ہے:قَالَ بَعْضُ الْمَشَایِخِ:الْعُلُومُ ثَلَاثَةٌ:عِلْمٌ نَضِجَ وَمَا احْتَرَقَ؛ وَہُوَ عِلْمُ النَّحْوِ، وَعِلْمُ الْأُصُولِ. وَعِلْمٌ لَا نَضِجَ وَلَا احْتَرَقَ؛ وَہُوَ عِلْمُ الْبَیَانِ وَالتَّفْسِیرِ. وَعِلْمٌ نَضِجَ وَاحْتَرَقَ؛ وَہُوَ عِلْمُ الْفِقْہِ وَالْحَدِیثِ( الْأَشْبَاہُ وَالنَّظَائِرُ عَلَى مَذْہَبِ أَبِیْ حَنِیْفَةَ النُّعْمَانِ لابن نجیم المصری ،دار الکتب العلمیة، بیروت ، 1999 ،صفحہ 330)۔ یعنی بعض مشائخ نے کہا ہے کہ علم تین ہیں، ایک وہ علم، جو نضج کو پہنچ گیا، مگرفنا نہیں ہوا۔ یہ نحو اور اصول کا علم ہے۔ دوسرا وہ علم ہے، جو نہ نضج کو پہنچا، اور نہ فنا ہوا۔ یہ بیان اور تفسیر کا علم ہے۔ تیسرا وہ علم جو نضج کو پہنچ گیا، اور فنا ہوگیا۔ یہ فقہ اور حدیث کا علم ہے۔ یہ بات شافعی فقیہ بدر الدین محمد بن عبد اللہ الزرکشی (وفات 794ھ) نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے(المنثور فی القواعد الفقہیة ، وزارة الأوقاف الکویتیة، 1985، جلد 1، صفحہ 72) ۔
نضج کا مطلب ہے پختگی کی حد کو پہنچ جانا (fully developed)۔ راقم الحروف کا اپنے مطالعے کے مطابق، یہ خیال ہے کہ تمام وہ علوم جو اسلامی علوم کہے جاتے ہیں، انطباق کے اعتبار سے ان کے دو درجے ہیں — روایتی انطباق (traditional application)، عصری انطباق (contemporary application) ۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ روایتی اعتبار سے تمام علوم پر اتنا کام ہوا ہے کہ وہ نضج کے درجے تک پہنچ گئے ہیں۔ لیکن دورِ سائنس، جو روایتی دور سے بالکل مختلف ہے، اس دور کے اعتبار سے یہ ضرورت ابھی باقی ہے کہ تمام علوم کو دورِ جدید کے معیار پر دوبارہ مدون کیا جائے۔ اس دوسرے پہلو سے تمام علوم ابھی تک غیر نضج کی حالت میں ہیں۔ غالباً کوئی بھی علم نضج کے درجے تک نہیں پہنچا۔
مثلاً عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ فقہ کا علم نضج کے درجے تک پہنچ چکا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ فقہ اس معاملےمیں مستثنیٰ (exception) نہیں۔ مثال کے طور پرکئی عمل ایسے ہیں،جن کے بارے میں فقہاء یہ کہتے ہیں کہ یقتل حدا(بطور حد قتل کیا جائے گا)۔جیسے ترک صلاۃ، ارتداد، شتم رسول، وغیرہ ۔ اسی طرح فقہا نے دنیا کو دار الاسلام اور دارالحرب کے خانوں میں تقسیم کررکھا ہے، وغیرہ۔
اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس قسم کے فتاویٰ زمانی تقاضے کے تحت بنے ہیں، جو موجودہ زمانے میں غیر متعلق (irrelevant) ہوچکے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ خود علما کے عمومی مسلک کے مطابق اس قسم کے فتاوى پر نظر ثانی کی جائے۔ علما کے اس مسلک کی نمائندگی کرتے ہوئے ابن القیم (1292-1350ء)نے اپنی کتاب إعلام الموقعین عن رب العالمین میں ایک مستقل باب لکھا ہے، اس باب کا عنوان یہ ہے فَصْلٌ فِی تَغْیِیرِالْفَتْوَى،وَاخْتِلَافِہَا بِحَسَبِ تَغَیُّرِ الْأَزْمِنَةِ وَالْأَمْکِنَةِ وَالْأَحْوَالِ وَالنِّیَّاتِ وَالْعَوَائِدِ (فصل زمانہ، مقامات، حالات، نیتوں اور ضروریات کے بدل جانے کی بنیاد پرفتوی کی تبدیلی، اور ان میں فرق)۔
واپس اوپر جائیں

فارم ، اسپرٹ

عباسی دور میں فقہ کی تدوین ہوئی۔صحابہ کے دوراور تابعین کے دور میں عام طور پر مبنی براسپرٹ دیں کا تصور پایا جاتا تھا، لیکن فقہاء کے دورمیں بعض اسباب سے مبنی بر فارم دین کا تصور عام ہوگیا۔ یہاں تک کہ اس بارے میں لوگ غلو (انتہا پسندی) کی حد تک پہنچ گئے۔ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں دین میں اصل اہمیت اسپرٹ کی ہوتی تھی۔ اس بنا پر اس زمانے میں جزئی نوعیت کے طرق عبادت میں تنوع کا تصور پایا جاتا تھا۔ یہ تصور اس حدیث پر مبنی تھا:أَصْحَابِی کَالنُّجُومِ فَبِأَیِّہِمُ اقْتَدَیْتُمُ اہْتَدَیْتُمْ(جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث نمبر 1684) ۔ یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں،تم ان میں سے جن کی بھی اقتدا کرو گے، ہدایت پر رہوگے۔
لیکن بعد کے زمانے میں جب کہ طرق عبادت میں تعدد کا ذہن ختم ہوگیا، اور فارم میں توحد پر زور دیا جانے لگاتو اس قسم کا ذہن ختم ہوگیا۔ مگر یہ طریقہ بلاشبہ درست طریقہ نہیں۔ کیوں کہ اس روایت کے علاوہ بھی ایسی صحیح روایات ہیں، جس میں تعدد کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً رسول اللہ کے زمانے میں ایک صحابی کا بلند آواز سے کہنا :رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْدُ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 799) ۔روایت کے مطابق، یہ کلمہ سن کر آپ نے اس کی تحسین کی، جب کہ رسول اللہ نے پہلے کبھی اس کی تعلیم نہیں دی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادت کے جزئی طریقوں میں اسپرٹ اصل ہے۔ اس معاملے میں اگر اسپرٹ کو اصل مانا جائے تو اپنے آپ فرقہ بندی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر عبادت کے جزئی طریقوں میں فارم پر زور دیا جانے لگے تو فرقہ بندی کا دروازہ کھل جاتا ہے، جو کبھی بند نہیں ہوتا۔ عہدِ رسالت میں عبادت کا صرف ایک تصور پایا جاتا تھا، وہ ہے عبادت میں اسپرٹ پر زور۔ عبادت میں فارم پر زور دینے کا تصور بعد کے زمانے میں پیدا ہوا، اور پھر تاریخ میں عام ہوگیا۔ تاہم مبنی براسپرٹ عبادت ہی اصل عبادت ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 757)۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی حکمت

ہر زمانے میں کام کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاً قدیم عرب میں مختلف مقامات پر اصنام (idols)ہوا کرتےتھے۔ لوگ ان اصنام کے نام پر سفر کیا کرتے تھے۔ اس طرح عرب میں ایک قسم کا سیاحت کلچر (tourist culture) رائج ہوگیا تھا۔ رسول اور اصحابِ رسول نے اس سیاحت کلچر کو بڑے پیمانے پر دعوتی مقصد کے لیے استعمال کیا۔ اس بنا پر ایسا ہوا کہ تھوڑے وقت میں دین توحید کا پیغام سارے عرب میں پھیل گیا۔
موجودہ زمانے میں ایک نیا کلچر رائج ہوا ہے، جس کو لیڈیز فرسٹ (ladies first) کہا جاتا ہے۔ اس کلچر کے تحت ایسا ہوا ہے کہ اجتماعی مواقع پر عورتوں کو ترجیح (preference) دی جاتی ہے، ان کو پہلے موقع دیا جاتا ہے۔ یہ کلچر دعوت کے کام کے لیے بہت مفید ہے۔ چنانچہ ہمارے ساتھی جب قرآن یا لٹریچر پھیلانے کے لیے کہیں جاتے ہیں، اور وہ دیکھتے ہیں کہ وہاںلوگوں کی تعدادبہت زیادہ ہے، تو خواتین آگے بڑھ کر دعوتی کام میں حصہ لیتی ہیں۔تمام لوگ بہت عزت کے ساتھ ترجمۂ قرآن اور تعارفِ اسلام پر مشتمل لٹریچر لیتے ہیں۔ اس طرح دعوت کے کام میں بہت آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔
اسی کا نام حکمت ہے۔ جو لوگ دعوتی کام کررہے ہیں، ان کو چاہیے کہ موقع کے لحاظ سے دعوت کے لیے حکمت کا طریقہ اختیار کریں۔ دعوتی حکمت کس طرح دریافت ہوتی ہے، اس کا جواب ایک پرانی مثل میں ملتا ہے جوئِندہ یابِندہ ، یعنی ڈھونڈنے والا پاتا ہے— ڈھونڈنے والے بنئے،چیزیں آپ کو اپنے آپ مل جائیں گی۔ مطلوب چیزوں کی کوئی فہرست نہیں بنتی۔وہ ہمیشہ اپنے آپ مل جاتی ہیں۔ آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ ڈھونڈنے والا بنے۔ اس کے بعد اپنے آپ اس کے اندر جستجو کی اسپرٹ پیدا ہوگی۔ وہ اپنے آپ متلاشی انسان بن جائے گا۔ دعوتی حکمت اختیار کرنے کے لیے کس چیز سے بچنا چاہیے۔ اس کے لیے سب سے ضروری چیز ہے، اپنے آپ کو بھٹکاؤ (distraction) سے بچانا، اوریکسوئی کے ساتھ اپنے مطلوب کی تلاش میں لگے رہنا۔
واپس اوپر جائیں

قولِ بلیغ

ایک مسلم نوجوان جو نیوزی لینڈ میں رہتے ہیں، انھوں نےاپنا تجربہ بیان کیا: نیوزی لینڈ کے باشندے بہت اچھے ہیں۔ مگر یہاں کی نئی نسل میں ایک خرابی یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ یہ لوگ خدا کے تعلق سے زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں، نہ ہی خدا کا نام لیتے ہیں۔ بلکہ اگر ان کے سامنے خدا کا نام لیا جائے تو وہ اس کو پسند نہیں کرتے۔ ایسی صورت حال میں ان کے درمیان دعوت کا کام کیسے کیا جائے۔
جس مزاج کا ذکر آپ نے کیا، اس مزاج کے لوگ آج کی دنیا میں کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ میں نے ایسے لوگوں کے کیس کو بہت زیادہ سمجھنے کی کوشش کی۔ میری سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ آزادی کو خیر اعلیٰ (summum bonum)سمجھتے ہیں۔ وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن خود اپنی آزادانہ رائے سے، نہ کہ کسی بر تر ہستی کے حکم سے۔ ان کے لیے یہ بات ناقابل قبول ہے کہ وہ کسی کے آگے سرینڈر کریں، اور ان کی ماتحتی قبول کرتے ہوئے اچھے کام کریں۔ وہ اچھے کام کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن خود اپنے آزادانہ فیصلے کے تحت، نہ کہ اپنے سے باہر کسی حکم کے تحت۔
ان کے ذہن کو ایڈریس کرنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ ان کو ملحد اور منکر بتایا جائے۔ ان سے یہ کہنا چاہیے کہ آپ کے اندر سب کچھ ہے، لیکن آپ کے اندر حقیقت پسندانہ فکر (realistic approach) موجود نہیں۔ اپنے خالق کو ماننا یا نہ ماننا، محدود معنوں میں ایک مذہبی رویہ نہیں ہے، بلکہ وہ غیر حقیقت پسندانہ سوچ (unrealistic approach)ہے، اور غیر حقیقت پسندانہ سوچ اتنی زیادہ غیر عقلی (irrational) ہے کہ کوئی صاحب عقل انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا۔
خدا کے پیدا کیے ہوئے وجود کی صورت میں جینا اور خدا سے بے خبر رہنا، خدا کی پیدا کی ہوئی دنیا میں جینا مگر خدا کا اقرار نہ کرنا، خدا کی دی ہوئی عقل سے سوچنا اور خدا کا اعتراف نہ کرنا، ایک ایسا تضاد ہے جس کا ایک صاحب فکر آدمی تحمل نہیں کرسکتا۔ ایسے لوگوں کو اگر ان کے اس فکری تضاد سے باخبر کردیا جائےتو یقیناً وہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

آج کی نوجوان نسلیں

موجودہ زمانے کے نوجوانوں کا مسئلہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ ان کے ذہن میں کچھ مثبت سوالات ہیں۔ مگر ہمارے رہنما ان سوالات کے جوابات منفی انداز میں پیش کررہے ہیں۔ یہ ایک تضاد کی صورت حال ہے، اور یہی تضاد آج کے نوجوانوں کا اصل مسئلہ ہے۔ آج کا نوجوان بھٹکا ہوا نوجوان نہیں ہے، بلکہ وہ متلاشی (seeker) نوجوان ہے۔
بے لاگ تجزیہ بتاتا ہے کہ آج کل کے نوجوانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بزرگوں نے ان کو یہ بتایا کہ دور جدید ایک مخالفِ مذہب دور ہے۔ اس سوچ کے تحت ہمارے بزرگوں نے نوجوانوں کو یہ ٹارگٹ دیا کہ وہ دور جدید کو بدلیں۔ اس بنا پر ہماری کئی نسلیں خود ساختہ نظریے کے تحت دور جدید سے لڑتی رہیں۔ لیکن عملاً ان کو ناکامی کے سوا کچھ اورنہیں ملا۔
اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ ہمارے بزرگ کھلے طور پر اعتراف کریں کہ ان کی نشاندہی غلط تھی۔ وہ اعلان کریں کہ دور جدید جو سائنس کی دریافتوں کے تحت بنا ہے، وہ ایک موافق مذہب دور تھا، لیکن ہمارے بزرگوں نے خلاف واقعہ طور پر اس کو مخالف مذہب دور کی حیثیت دے دی، اور ہماری جدید نسل نےبے فائدہ طور پر اس کے خلاف نظری یا عملی جنگ چھیڑ دی۔ اس کے نتیجہ میں مایوسی کے سوا ان کو کچھ اور نہیں ملا۔
اب کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ آج کے نوجوانوں کو یہ بتایا جائے کہ جدید دور ایک موافق مذہب دور ہے۔ جدید تہذیب ایک موافق مذہب تہذیب ہے۔ جدید دور نے ہمارے لیے نئے مواقع کھول دیے ہیں، جن کو اویل کرکے ہم تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ مثلاً قدیم دور توہمات کا دور (age of superstitions)تھا، آج کا دور حقائق کا دور ہے۔ قدیم دور جبر کا دور تھا، آج کا دور آزادی کا دور ہے، وغیرہ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے ہم نوجوانوں کو ایک امید بھرانیا آغاز دے سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ظلم کا بدلہ

قرآن کی ایک آیت میں مظلوم کا معاملہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:لَا یُحِبُّ اللَّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَکَانَ اللَّہُ سَمِیعًا عَلِیمًا (4:148)۔ یعنی اللہ پسند نہیں کرتا ظاہر کرنا بری بات، مگر جس پر ظلم ہوا ہو ، اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔قرآن کی اس آیت کے مطابق، مظلوم کے لیے جائز ہے کہ وہ ظالم کے خلاف بولے۔ مگر یہ جواز رخصت کے درجے میں ہے، عزیمت کے درجے میں نہیں۔ اگر کوئی شخص ظلم پر بدلہ لینا چاہے تو اس کے لیے لازم ہوگا کہ وہ ٹھیک اتنا ہی بدلہ لے جتنا کہ اس پر ظلم کیا گیا ہے۔اگر وہ ظلم سے زیادہ کرے گا تو خدا کی نظر میں وہ خود ظالم بن جائے گا(النحل، 16:126، الشورى 42:40)۔
اسی لیے رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی ظلم پر بدلہ نہیں لیا، بلکہ ان کا رویہ قرآن کے اس حکم کے تحت تھا  وَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ (42:37)۔ یعنی اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایمان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی ظالم کو معاف کردے (الشوریٰ، 42:43)۔یہی اعلیٰ اخلاق ہے۔ اعلیٰ اخلاق کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی ظالم کو معاف کرکے اس کو اپنے لیے نیکی میں کنورٹ کردیتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق کی نسبت سے دیکھا جائے تو مظلومیت نیکی کمانے کا ایک موقع ہے۔ ظلم کے باوجود ظالم کو معاف کردینا، بلاشبہ ایک عظیم نیکی ہے۔
دعوت اور داعی کی نسبت سے دیکھا جائے تو یہ اورزیادہ اہم بات ہے۔ داعی اگر ظالم کو معاف کردے تو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مظلوم اور ظالم کے درمیان معتدل ماحول قائم ہوجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے اگر دونوں کے درمیان ظالم اور مظلوم کا تعلق تھا، تو اب دونوں کے درمیان داعی اور مدعو کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ ظالم کو معاف کرنا، عملاً دعوت کے مواقع کھول دیتا ہے۔ظلم پر فریاد کرنا صرف ایک رخصت کا معاملہ ہے۔ جب کہ ظلم کو معاف کردینا، داعی کا اخلاق ہے، یعنی با اصول انسان کا اخلاق ہے۔
واپس اوپر جائیں

جدید مائنڈ سٹ

میں کئی مہینے سے بیماری کے دور سے گزر رہا تھا۔ آخر کار ہمارے ساتھیوں نےستمبر2019 کے پہلے عشرےمیں یہ فیصلہ کیا کہ مجھ کو دلی کے سب سے اچھے اسپتال میں لے جائیں۔میں اس کےلیے راضی نہیں تھا۔ کیوں کہ نوجوانی کی عمر سے میں یہ سنتا تھا کہ اسپتال انسان کے لیے کوئی اچھی جگہ نہیں ہے۔ مثلا ًمشہور اردو شاعر اکبر الہ آبادی نے جدید دور کے بارے میں طنزیہ انداز میں لکھا تھا
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر
انڈیا کے ایک معروف عالم دین کے قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ اسپتال کی زندگی سے بچائے۔ مجھے دو بزرگوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ علاج کے لیے امریکا گئے۔ جب وہ روانہ ہونے لگے، تو ان کے معتقدین نے ان کو مشورہ دیا کہ حضرت آپ یہودی ڈاکٹر وںسے علاج مت کیجیے گا۔ کیوں کہ یہودی مسلمانوں کے دشمن ہوتے ہیں۔
مسلمانوں کے درمیان اس قسم کا ماحول اس بات کے لیے رکاوٹ بن گیا ہے کہ وہ جدید ترقیوں سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق جدید ترقیوں سے الرجک ہوگئے ہیں۔ان حضرات کو یہ معلوم ہی نہیں کہ موجودہ زمانہ پروفیشنلزم(professionalism) کا زمانہ ہے۔ اب یہودی ڈاکٹر یہود کی حیثیت سے علاج نہیں کرتے، اب کرشچن ڈاکٹر کرشچن کی حیثیت سے کسی انسان کا طبی معاینہ نہیں کرتا، بلکہ خالص پروفیشنل انداز میں وہ اس کام کو انجام دیتا ہے۔
جدید ترقی کیا ہے۔ وہ دراصل خدا کے پیدا کردہ امکانات کو دریافت کرکے ان کو استعمال کرنا ہے۔ یہ ترقی غیر اسلامی ترقی نہیں، بلکہ وہ خود خدا کی تخلیق کا حصہ ہے۔ مسلمانوں نے اس حقیقت کو سمجھنے میں بہت زیادہ دیر کی ۔ اب انھیں بلاتاخیراس حقیقت کو سمجھنا چاہیے، تاکہ وہ مزید نقصان سے بچ جائیں۔( 11 ستمبر2019)
واپس اوپر جائیں

فاجر کے ذریعے تائید ِ دین

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں وَإِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔ یعنی بے شک اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر آدمی کے ذریعے کرے گا۔ صحی بخاری کی شرح میں ابن حجر نے رجل کے لفظ کو جنس کے معنی میں لیا ہے (یُحْتَمَلُ أَنْ تَکُونَ لِلْجِنْسِ )فتح الباری، جلد 7، صفحہ 473۔ یعنی رجال (افراد)۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہاں رجل سے مراد سیکولر افراد ہیں، یعنی اللہ تعالی اس دین کی تائید سیکولر افراد کے ذریعے کرے گا۔
سیکولر افرادکے ذریعے دین کی تائید کا مطلب کیا ہے۔ غالباً اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکولر لوگوں کے درمیان غور و فکر کا کام نان اسٹاپ (non-stop) انداز میں جاری رہتا ہے۔ اگر آپ افکار کی تاریخ دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مسلم اہلِ علم کے درمیان غور وفکر کا کام نان اسٹاپ انداز میں جاری نہیں تھا۔ اہلِ دین کے درمیان چوں کہ ڈائکاٹمس تھنکنگ (dichotomous thinking) کا طریقہ ہوتا ہے، یعنی سچائی دو کے درمیان ہے۔ یہ لوگ غلط اور صحیح ، جائز اور ناجائز کے درمیان سوچتے ہیں۔ اس لیے ان کے یہاں بہت جلد بحث ایک حد پر پہنچ کر رک جاتی ہے۔
اس کے برعکس، سیکولر لوگ اختلاف کے بجائے ڈسنٹ (dissent) کو مانتے ہیں۔ اختلاف کے مقابلے میں ڈسنٹ کا لفظ نیوٹرل (neutral) معنی میں ہے، یعنی کسی ایک سائڈ کو لیے بغیر اظہارِ رائے کرنا۔ اختلاف کے ذہن سے سوچنے والے لوگوں کے یہاں کوئی بحث مسلسل طور پر جاری نہیں رہتی۔ اس کے برعکس، ڈسنٹ کے تصور کے ساتھ جو لوگ ڈائلاگ کرتے ہیں، ان کے یہاں ممکن ہوتا ہے کہ ان کے یہاں ڈائلاگ جاری رہے۔ اس طرح سیکولر لوگوں کے یہاں یہ ممکن ہوتا ہے کہ کسی موضوع پر زیادہ سے زیاد ہ بحث و مباحثہ ہو۔ اس مزاج کی وجہ سے سیکولر لوگ دین کے زیادہ پہلوؤں پر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک تجربہ

آج دسمبر 2019 کی 3 تاریخ ہے۔ اس وقت میں نظام الدین ویسٹ میں ایک پارک میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا ہوں۔ دھوپ نکلی ہوئی ہے، اور موسم نہایت خوشگوار ہے۔ یہاں پارک میں بیٹھ کر میں نے مولانا عبد السلام عمری (حیدر آباد) سے موبائل پر گفتگو کی۔گفتگو کرتے ہوئے میں نے سوچا کہ میں نے پہلی بار حیدر آباد کا سفر غالباً 1948 میں کیا تھا۔ اس وقت میں ٹرین کا سفر کرکے حیدر آباد پہنچا تھا۔ اس زمانے میں دلی سے حیدر آباد کا کمیونی کیشن بہت محدود معنوں میں ہوسکتا تھا۔ اب اللہ کے فضل سے کمپوٹر ایج آچکا ہے، اور یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بہ آسانی رابطہ قائم کیا جاسکے۔
1925 میں جب میں پیدا ہوا، اس وقت دنیا میں برٹش ایمپائر موجود تھا۔ یہ ایک پولٹکل ایمپائر تھا۔ اس وقت ایمپائر قائم کرنے کی صرف ایک صورت تھی، اور وہ یہ کہ صاحبِ ایمپائر کے پاس فوج کی طاقت موجود ہو۔ مگر آج فوج کی کوئی ضرورت نہیں۔ آج کی دنیا میں اقوامِ متحدہ (UNO)کا نظام ہر ایک کو عالمی سطح پر مکمل امن دے رہا ہے۔ اگر آدمی خود سے اپنی کسی غلطی کی بنا پر اس امن کو درہم برہم نہ کرے، تو وہ پائے گا کہ ساری دنیا اس کی اپنی دنیا ہے۔ ساری دنیا اس کے لیے مکمل طور پر کھلی ہوئی ہے۔
اب ہر پرامن انسان کے لیے وہ عالمی دور آچکا ہے، جس کی پیشین گوئی پیغمبر اسلام نے ان الفاظ میں کی تھیلَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ(مسند احمد، حدیث نمبر 16957)۔ یعنی یہ امر وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک دن اور رات پہنچتے ہیں۔ میں اس وقت اپنے ساتھی کے ساتھ نظام الدین ویسٹ کے پارک میں بیٹھا ہوں، ہمارے پاس لیپ ٹاپ اور موبائل فون انٹرنیٹ کے ساتھ موجود ہے۔ پوٹنشلی (potentially) ہم ساری دنیا سے مکمل طور پر مربوط ہیں۔ کیسی عجیب ہے، اللہ کی یہ نعمت، وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ (40:57)۔یعنی لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسلم اور غیر مسلم تعلقات

مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کی اصولی بنیاد کیا ہے۔ اس کو مسلم اور ذمّی یا مسلم اور حربی جیسی اصطلاحوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس قسم کے فقہی الفاظ صرف وقتی تعلق کو بتاتے ہیں، وہ دونوں کے درمیان مستقل یا اصولی تعلق کو نہیں بتاتے۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق کی فطری بنیاد یہ ہے کہ دونوں یکساں طورپر انسان ہیں۔ دونوں کے درمیان انسانیت کا ابدی رشتہ قائم ہے۔ انسانیت کا تعلق دونوں کے درمیان وہ فطری تعلق ہے، جو کبھی اور کسی حال میں ٹوٹنے والا نہیں۔ ہر سماج میں اور ہر ملک میں یہ انسانی رشتہ یکساں طورپر برقرار رہتا ہے۔ یہ رشتہ وہ ہے، جو پیدائش کے ساتھ ہی دونوں گروہوں کے درمیان اپنے آپ قائم ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسا اٹل رشتہ ہے، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان دوسرا رشتہ وہ ہے، جو عقیدے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اسلامی عقیدے کے مطابق، مسلمان ایک صاحب مشن گروہ ہے۔ یہ مشن وہی ہے، جو پیغمبرکا مشن تھا، یعنی خدا کے پیغام کو پُر امن طورپر دوسرے لوگوں تک پہنچانا۔ اس اعتبار سے زیادہ صحیح طورپر، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے——داعی اور مدعو، شاہد اور مشہود، ناصح اور منصوح۔
انسان کی نسبت سے مسلمانوں کے اوپر دوسرے لوگوں کے لیے وہ تمام فرائض عائد ہوتے ہیں، جو اخلاق کے عنوان سے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ انسانی اخلاقیات کی پابندی جس طرح دوسرے لوگوں کے لیے ضروری ہے، اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ داعی کی حیثیت سے مسلمانوں کی اخلاقی ذمے داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اب ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ یک طرفہ طورپر حسن اخلاق کا ثبوت دیں، تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان معتدل تعلقات قائم رہیں، جو کہ مؤثر دعوتی عمل کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

فکری آزادی کا فارمولا

سائنس نام ہے نیچرل سائنس کا ۔ نیچرل سائنس ساری کی ساری اس پر مبنی ہے کہ خالق کی بنائی ہوئی دنیا کن اصولوں پر کام کرتی ہے۔ اسی دریافت (discovery)کو جب منظم انداز میں بیان کردیا جائے، تو اسی کا نام سائنس ہے۔ یہ مبنی بر فطرت قوانین عملاًتقریبا تیرہ بلین سال سے موجود تھے، جب کہ بگ بینگ سے کائنات کا آغاز ہوا۔ پھر کیوں ایسا ہوا کہ فطرت کے ان قوانین کو دریافت کرنے میں بہت زیادہ دیر لگی۔ حالاں کہ اس پر غور و فکر بہت پہلے سے جاری ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ فطرت کا علم یقینی طور پر مدون شکل میں موجود نہ تھا۔ بلکہ اس کو ریسرچ کرکے دریافت کرنا تھا۔ دریافت کے اس عمل میں بہت سے دماغ شامل تھے۔ ہر دماغ اپنے مطابق سوچتا تھا، اور اس کو بیان کرتا تھا۔ اس کے باوجود فطرت کا علم آگے نہیں بڑھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مختلف دماغوں کو ایک سوچ پر لانے کے لیے کوئی فارمولا موجود نہ تھا۔
آخر کار مغرب کے اہل دماغ نے اس پر غور کیا۔ انھوںنے پایا کہ علوم فطرت کی دریافت کے لیے فری تھنکنگ (free thinking) بہت ضروری ہے۔ لیکن بے قید فری تھنکنگ کی صورت میں اگریمنٹ (agreement)ہونا عملاً ناممکن بن گیا ہے۔ اس لیے اہل مغرب نے اس معاملے میں ایک قابل عمل اصول دریافت کیا۔ وہ اصول تھاڈسنٹ (dissent) کا اصول۔ ڈسنٹ کا لفظ ایک نیوٹرل ٹرم (neutral term) ہے۔ جب کہ ہر آدمی کی ایک اوپینین (opinion) ہے۔ اوپینین کوصحیح اور غلط کے معیار سے جانچنے کے بجائے مجرد طور پر آزادیٔ فکر (freedom of opinion) کا اصول تسلیم کیا جائے۔ اس سے ایک نیوٹرل ٹرم وضع ہوا، جس کو ڈسنٹ (dissent) کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ نظریہ کہ اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہوئے دوسرے کے لیے یہ امکان تسلیم کرنا کہ وہ یکساں طور پر برسر حق ہوسکتا ہے۔ اس اصول سے فکر ی عمل مکمل طور پر آزاد ہوگیا۔اب ہر آدمی کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اپنی رائے کو آزادانہ طور پر ظاہر کرے، بغیر اس کے کہ وہ دوسرے کی رائے کو غلط یا صحیح بتائے۔
کہا جاتا ہے کہ مشرقی دنیا میں فکری جمود کا مسئلہ ہے۔ مشرقی فکرکے مفروضہ جمود کا سبب یہ ہے کہ اہل مشرق آزادی فکر کا کوئی قابل عمل (workable)فارمولا دریافت نہ کرسکے۔ مغرب میںفکری عمل بھر پور طور پر جاری ہوا، لیکن مشرق میں فکری عمل تنگ حالت میں پڑا رہا۔ جس چیز کو فکری جمود کہا جاتا ہے، وہ نتیجہ ہےفکری عمل کے ورکیبل (workable) فارمولےکودریافت کرنے میں ناکام رہنا۔ کیوں کہ مشرق میں تعدد فکر(diversity of thought ) کے بجائے توحد فکر (unity of thought)کو اپنایا گیا۔ اہل مشرق چیزوں کو حلال وحرام کے ٹرم میں دیکھتے رہے،جس کی وجہ سے ان کے یہاں فری تھنکنگ عملاً رواج نہ پاسکی۔ہر بار جب ایک شخص نے کوئی فکری فارمولا دریافت کیا، تو دوسرا شخص جوابی ذہن لے کر کھڑا ہوگیا کہ یہ غلط ہے،یہ ناجائز ہے،یہ حرام ہے، وغیرہ۔ مشرق میں کسی کے لیے بھی فری تھنکنگ کو اپناکر جمہور سے الگ رائے اختیار کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ ان کے یہاں فکرو تحقیق کا کام تعطل کی حالت میں پڑا رہ گیا۔
مغرب میں فکری آزادی کا ڈیولپمنٹ واقعہ بن گیا، لیکن مشرق میں یہ واقعہ نہیں بن سکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اس معاملے میں اصل رکاوٹ اتھاریٹی کا نظریہ تھا، یعنی باتوں کو ریزن کی بنیاد پر سننے کے بجائے ’’اکابر‘‘کی بنیاد پر سننا۔ قدیم زمانے میں ساری دنیا میں اتھاریٹی کا تصور چھایا ہوا تھا۔ تاہم مغرب میں سائنس اور چرچ کے ٹکراؤ کے نتیجے میں اتھاریٹی کا تصور کمزورہوا، پھر اس کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد مغرب نے نسبتاً آسانی کے ساتھ ڈسنٹ (dissent) کا نیوٹرل نظریہ اختیار کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں پوپ ڈم (popedom) کا مستند تصور ایک مدت کے رواج کے بعد ختم ہوگیا۔ اس کے برعکس، مشرق کا حال یہ ہے کہ وہاں اس قسم کا تصور اعتقادی سطح پر موجود ہے۔ مشرق میں اتھاریٹی کا تصور عقیدے پر مبنی ہے، یعنی ’’اکابر‘‘کی اتھاریٹی۔ اس لیے وہ ختم نہ ہوسکا۔ بلکہ آج تک وہ موجود چلا آرہا ہے۔ یہاں ہر آدمی عملا ًیہ مانتا ہے کہ ’’اکابر‘‘ کی رائے عقیدہ سے تعلق رکھتی ہے، اور عقیدے کے معاملے میں حرام و حلال کو دیکھا جاتا ہے، نہ کہ ریزن کو۔
آزادی فکر اپنے آپ میں تنوع (diversity)چاہتی ہے۔ اس لیے آزادی فکر اور توحدِ فکر دونوں یکجا نہیں ہوسکتے۔ دونوں کو یکجا کرنے کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ آزادی فکر کا حصول عملا ًناممکن ہوجائے گا۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ اس معاملے کے لیے ایک نیوٹرل فارمولا دریافت کیا جائے۔ یعنی ہر ایک یہ کرے کہ وہ اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہوئے دوسرے کو بھی یکساں درجے میں صحیح سمجھنے کا حق دے۔ اسی نیوٹرل آزادی فکر کا نام ہے ڈسنٹ، جو آزادیٔ فکر کا واحد قابل عمل فارمولا ہے۔ آزادی فکر ایک میوچول پراسس (mutual process)ہے،وہ یونی لیٹرل (unilateral)نوعیت کا پراسس نہیں۔
٭٭٭٭٭٭
دور جدید میں جن مثبت باتوں کا آغاز ہوا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اب بذریعہ تلوار اختلاف کو دور کرنے کا زمانہ ختم ہوچکاہے ، اوربذریعہ ڈسینٹ (dissent) اختلاف کو اوائڈ کرنے آغاز ہوا ہے۔قدیم زمانے میں جب اختلاف پیدا ہوتا تھا، تواس کا خاتمہ صرف تلوار کے ذریعے ہوا کرتا تھا۔مثلاً قدیم عرب میں یہ سمجھا جاتا تھا  القتل انفی للقتل (قتل ، قتل کے لیے سب سے بڑا روک ہے)۔
مگر اب یہ فریم ورک (framework)بدل چکا ہے۔ موجودہ دور میں اختلاف کے خاتمے کا سپورٹنگ اسٹرکچر (supporting structure)بدل گیا ہے۔ اب وسیع تباہی کے ہتھیاروں (weapons of mass destruction) نے دونوں فریقوں کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ دونوں فریق اختلاف کا خاتمہ گفتگو کی میز پر کریں۔اب جو اختلاف ختم ہوا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو’’تلوار‘‘ کی بنیاد پر فیصلےکا بدل مل گیا ہے، اور وہ ہے ڈسنٹ (dissent)۔ انسان کی عقل نے یہ ریلائز کرلیا ہے کہ اختلاف کا خاتمہ ریزن کی سطح پر ہوسکتا ہے۔پہلے زمانے میںحالت یہ تھی کہ اختلاف کی وجہ سے اگر کوئی فریق نہ لڑنا چاہے، تب بھی اس کو جان و مال کی قربانی دینی پڑتی تھی۔ اس کے برعکس، موجودہ دور میں ریزن (reason) کی سطح پر اختلاف کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام دورِ جدید میں

دورِ جدید میں مسلمان جن مسائل سے دو چار ہیں، ان میں سے ایک مسئلہ وہ ہے، جس کو جدید تہذیب کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ اپنی پوری شدت کے ساتھ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے وسط میں پیدا ہوا، اور اب اس کے اوپر ایک صدی سے زیادہ کا وقت گزرچکاہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس مسئلہ سے نمٹنا تو درکنار ابھی تک ہم یہ بھی سمجھ نہ سکے کہ یہ مسئلہ کیا ہے، اور اس مسئلہ میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
اسلام کے نقطۂ نظر سے جدید تہذیب کا مسئلہ اصلاً یہ مسئلہ نہیں تھا کہ ماڈرن انسان ایک خاص قسم کا لباس پہنتے ہیں، اور ہم اسے پہنیں یا نہ پہنیں ،یایہ کہ گھروں میں استعمال کے لیے انھوں نے ایک خاص قسم کا فرنیچر تیار کیا ہے،اور ہم اپنے گھروں کو ان سے سجائیں یا نہ سجائیں، وغیرہ۔ یہ سوالات اسلامی یا مذہبی نہیں تھے۔ بلکہ تمدنی اور جغرافی سوالات تھے، اور تمدنی ذوق اور جغرافی حالات کے لحاظ سے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔ اسلام کی نسبت سے جدید تہذیب کے مسائل حقیقۃ ً صرف دو تھے:
1 - یورپ میں جدید تہذیب اور چرچ کے درمیان تصادم نے غلط طور پر جدید علوم کا رخ لامذہبیت کی طرف کردیا۔ چنانچہ اس تصادم کا یہ نتیجہ ہے (نہ کہ بذاتِ خودجدید تہذیب کا) کہ اس تہذیب کے ذریعے جو علوم پیدا ہورہے ہیں، یا جو معاشرہ بن رہا ہے، وہ مذہب سے بیزاری کی طرف جارہا ہے۔
جدید تہذیب، صنعتی تہذیب کے معنی میں ، وقت کی ایک دریافت تھی، اور یقیناً اس قابل تھی کہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ مگر جدید تہذیب نے مغربی قوموں کو جس طرح طاقت ور بنادیا، اور جدید تہذیب اور مسیحیت کے درمیان ٹکراؤ نےجس طرح اس کا رخ الحاد کی طرف کردیا، وہ اسلام کے لیے فکری چیلنج تھا، اور یہاں ضرورت تھی کہ اس کا جواب مہیا کیاجائے۔ بدقسمتی سے اسلامی دنیا بروقت اس کا ثبوت نہ دے سکی کہ وہ ان باتوں کا واضح جواب رکھتی ہے۔اس لیے نہ تو جدیدتہذیب سے صحیح استفادہ ہوسکا، اور نہ اس چیلنج کا صحیح جواب مہیا کیا جاسکا۔
2 -اس سلسلے میں دوسرا کام جو سمجھنے کا تھا، وہ یہ کہ جدید تہذیب کے ذریعے وہ مواقع (opportunities)پیدا ہوئے، جن کو استعمال کرکے عالمی سطح پر دینِ اسلام کی اشاعت کا مطلوب کام انجام دیا جاسکے۔ دینِ اسلام کی اس عالمی اشاعت کے لیے ابتدائی زمانےمیں حالات موافق نہ تھے۔ جدیدتہذیب نے بالواسطہ طور پر ناموافق حالات کو مکمل طور پر موافق بنا دیا ہے۔
اس جدید تہذیب کے نتیجے میں بہت سی مثبت چیزیں پیدا ہوئیں۔ مثلاً جدید تعلیم کا فروغ، حقیقت پسندانہ طرزِ فکر (realistic thinking) کا رواج، فکری جمود کا ٹوٹنا، دنیا میں پہلی بار کامل معنوں میں کھلاپن (openness) کا دور آنا، جدید وسائل کو کسی ریزرویشن کے بغیر رواج دینا، جدید کمیونی کیشن کے نتیجے میں عالمی انٹریکشن (global interaction) کا عمومی پھیلاؤ، دنیا میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ ہر آدمی کے لیے مواقع کے دروازے مکمل طور پر کھل گئے۔
دنیا میں پرنٹنگ پریس اور مواصلاتی دور (age of communication) وجود میں آیا۔ فطرت (nature)میں چھپے ہوئےموافق اسلام سائنسی حقائق دریافت ہوئے، اور عمومی طور پر وہ ہر ایک کی دسترس میں آگئے۔ دنیا میں مکمل معنوں میں مذہبی آزادی کا دور آیا،جس میں ہر ایک کو یہ موقع تھا کہ وہ جس مذہب کو چاہیں اختیار کرے، اور اس کی تبلیغ کرے، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ آدمی تشدد (violence) سے مکمل طور پر پرہیز کرے۔
جدید تہذیب مسلمانوں کے لیے حدیث کی زبان میں مؤید دین تہذیب ( صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062، مسند احمد، حدیث نمبر 20454، المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640) تھی۔ وہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم موقع (great opportunity) تھا، جس کو استعمال کرکے مسلمان جدید معیار کے مطابق زیادہ مؤثر انداز میں اسلام کی اشاعت کا کام کرسکتے تھے۔ جدیدتہذیب نے یہ کیا کہ اجارہ داری کے دور کو ختم کردیا۔ اس طرح انسانی آزادی کا وہ مطلوب ماحول پیدا ہوگیا، جو خدا کے نقشۂ تخلیق کے مطابق درکار تھا۔
واپس اوپر جائیں

مذہبی برداشت

مذہبی معاملات میں برداشت کا معاملہ سب سے زیادہ نازک معاملہ ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ معاملہ اگر سیکولر میدان کا ہوتو آسانی سے آدمی اس کے لیے راضی ہوجاتا ہے کہ وہ خود ایک راستے پر چلے، اور دوسرے کو دوسرے راستے پر چلنے دے۔ مگر جب معاملہ مذہبی ہو تو دونوں فریق اپنے آپ کو برحق سمجھنے لگتے ہیں، دونوں میں سے کوئی لچک (flexibility)دکھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہ بےلچک انداز مذہبی معاملات میں برداشت یا رواداری کو ختم کردیتا ہے۔ یہی بنیادی سبب ہے، جس کی بنا پر سیکولر معاملے میں آسانی کے ساتھ برداشت کا طریقہ اختیار کرلیا جاتا ہے، اور جب کہ مذہبی معاملے میں رواداری ایک حرام طریقہ نظر آنے لگتا ہے۔ آدمی کو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ وہ کیسے ایسا کرے کہ حرام راستہ پر چلنے کے لیے راضی ہوجائے۔
اس مسئلے کا آسان حل یہ ہے کہ دونوں فریق باہمی احترام(mutual respect) کا طریقہ اختیار کریں۔ پیش آمدہ معاملے کو اخلاق کا معاملہ بنادیں، نہ کہ عقیدے کا معاملہ۔ کسی معاملے کو آپ مذہبی عقیدے کا معاملہ سمجھیں، تو ایسا معاملہ بہت جلد حرام و حلال کا معاملہ بن جاتا ہے۔ آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک طریقہ حرام ہے، اور دوسرا طریقہ حلال۔ اب آپ کو سمجھ میں نہیں آتا کہ حلال طریقے کو چھوڑ کر حرام طریقہ کیسے اختیار کریں۔ اس کے برعکس،پیش آمدہ معاملہ جب آپ کے لیے اخلاق کا معاملہ ہو جائے ، تو اس وقت برداشت کا طریقہ اختیار کرنا آسان ہوجا تا ہے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں آپ کو نظر آتا ہے کہ بیجا پسپائی اختیار کیے بغیر آپ بھی اپنے راستے پر چلتے رہیں، اور دوسرا بھی اپنے راستے پر چلتے ہوئے اپنے مقام تک پہنچ جائے۔
برداشت کا طریقہ اختیار کرنے میں باہمی افہام و تفہیم کا راستہ کھل جاتا ہے۔ جب کہ اس کا برعکس راستہ اختیار کرنے میں باہمی افہام و تفہیم کا راستہ بند پڑا رہتا ہے۔ دانش مندی یہ ہے کہ معاملات کو حرام و حلال کا مسئلہ بنانے کے بجائے عملی مفاہمت کا راستہ بنا دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

دوقرآنی آیات

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الْأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا(5:32)۔ یعنی جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے آدمیوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اس نے سارے آدمیوں کو بچا لیا۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، انسان کو قتل کرنا، سب سے بڑا سوشل کرائم (social crime)ہے۔ اس معاملے میں استثنا صرف یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک انسان کو عمداً (intentionally) قتل کردیا، تو وہ قابلِ گردن زدنی قرار پائے گا۔ اس سلسلے میں دوسری چیز فساد فی الارض ہے۔ تفسیر المنار میں فساد فی الارض کی تفسیر سلب ِامن سے کی گئی ہے(تفسیر المنار، جلد6، صفحہ288)۔ یعنی ایسا فعل انجام دینا ، جس سے امن عامہ ختم ہوتا ہو۔ گویا قتلِ نفس سے مراد انفرادی قتل ہے، اور فساد فی الارض سے مراد اجتماعی قتل ہے۔
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہےوَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ فَإِنِ انْتَہَوْا فَإِنَّ اللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ (8:39)۔یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ دیکھنے والا ہے ان کے عمل کا۔ اس آیت میں فتنہ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے۔ قرآن میں اس جرم پر قتال(war) کا حکم دیا گیا ہے۔کیوں کہ مذہبی جبر کا فعل عام طور پر حکومت کی طرف سے ہوتاہے۔اس لیے یہ حکم دیا گیا کہ ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ کی یہ حالت ختم ہوجائے۔
قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ اسلام میں جنگ کا تصور کیا ہے۔ اس آیت میں لَا تَکُونَ فِتْنَةٌاور وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ دونوں ایک ہی حکم کے دو پہلو ہیں۔ ایک منفی پہلو، اور دوسرا مثبت پہلو۔ فتنہ سے مراد نظام فطرت میں مداخلت ہے، یعنی مذہبی جبر، اور وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ سے مراد ہے کہ فتنہ ، مذہبی جبر سے قبل جو حالتِ فطری تھی، وہ لوٹ آئے۔ اس آیت کے مطابق، جنگ کا مقصد کسی حکومت کا قیام نہیں ہے، بلکہ حکومت کی سرپرستی میں جاری مذہبی جبر کو ختم کرکے نظام فطری کو وجود میں لانا ہے، جس میں ہر ایک کو اپنے ارادے اور اختیار سے عمل کی آزادی حاصل ہو۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7095)دوسرے لفظوں میں، ہر انسان کو پرامن دائرے میں اپنا کام کرنے کا موقع مل جائے۔ تاکہ آخرت میں ہر انسان کے لیے اس کے اختیارانہ عمل کے مطابق، جزا و سزا کا فیصلہ کیا جائے۔
یہ آیت کسی محدود سیاسی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ تاریخی پراسس کے معنی میں ہے۔ وسیع تر معنی میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا سے قدیم قبائلی طرز کا دور ختم ہو،جس میں اختلافات کافیصلہ تلوار سے کیا جاتا تھا، اور دنیا میں تہذیب کا دور (civilizational age) آئے۔تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری ہو، جس کا منتہیٰ (culmination) یہ ہو کہ نیچر میں چھپی ہوئی ٹکنالوجی دریافت ہو۔ دنیا میں ایج آف کمیونی کیشن آئے۔ آفاق و انفس میں جو موافقِ دین حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں، ان کی دریافت ہو۔ یہاں تک کہ مکمل معنوں میں دنیا میں تبیینِ حق کا دور آجائے(فصلت، 41:53)۔
یہ دراصل انبیاء کے مشن کی تکمیل ہے۔ انبیاء کا مشن یہ تھا کہ انسان جو غیر اللہ کی پرستش میں الجھا ہوا تھا، وہ ایک اللہ کی عبادت میں جینے لگے۔ فطرت کا نظام اس طرح کھل جائے کہ انسان خالق کی محبت میں اور خالق کی خشیت میں جینے لگے(البقرۃ، 2:165، التوبۃ، 9:18)۔
اس قسم کی آیات کا غور سے مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں موجود قتال کی آیتوں کا مخصوص پس منظر ہے، اور شرائط ہیں۔ان کا لحاظ کیا جائے، تو آج قتال کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے۔ لیکن مسلمان ان کا لحاظ نہیں کرتے ہیں، اس وجہ سے وہ جنگ و قتال میں لگے ہوئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسلح جہاد

اسلام کے کچھ احکام وقتی ہوتے ہیں، یعنی وقتی حالات کی نسبت سے مطلوب ہوتے ہیں۔ مثلاً قرآن میں حج کے سفر کے ذیل میں یہ آیا ہے وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَى کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ (22:27)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بروقت پیدل اور اونٹ پر سفر کرکے حج کیا جائے۔ لیکن جب ہوائی جہاز کا زمانہ آجائے، تو ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کرکے حج کیا جائے۔
اسی طرح قرآن میں مسلح جہاد کا حکم وقتی ہے، یعنی جب تک دنیا میں وائلنٹ ایکٹوزم کا دور ہے، تو تم بھی بطور دفاع وائلنٹ ایکٹوزم کا طریقہ اختیار کرو۔ جب دنیا میں پیس فل ایکٹوزم کا دور آجائے، تو اس وقت مسلح جہاد مطلوب نہیں رہے گا۔ اس وقت زمانے کے تقاضے کے لحاظ سے پیس فل جہاد مطلوب ہوجائے گا۔ کیوں کہ بعد کے زمانے میں ایسے اسباب پیدا ہوں گے کہ مسلح جدو جہد غیر مطلوب ہوجائے گا۔ اس وقت سے پہلے کے دور میں مسلح عمل سے جو چیز حاصل کی جاتی تھی، وہ سب مزید اضافے کے ساتھ پیس فل طریقہ کار کے ذریعہ قابلِ حصول ہوجائے گا۔
پہلے زمانے میں طاقت کا نشان صرف تلوار ہوتی تھی۔ چنانچہ کہا جاتا تھا ہر کہ شمشیر زند سکہ بنامش خوانند۔ مگر سائنسی انقلاب کے بعد ساری اہمیت علم، ٹکنالوجی اور انڈسٹری کو حاصل ہوگئی ہے۔یہ واقعہ جنگ عظیم ثانی (1939-1945)کے بعد پیش آیا ہے۔ اس حقیقت کی طرف ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے  لَا ہِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر2783)۔ یعنی فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہجرت کے بعد ایک ایسا دور آنے والا تھا، جب کہ اسلام پر عمل کرنے کے لیے ہجرت کرنا غیر ضروری ہوجائے گا۔کیوں کہ اس کے بعد سب کچھ پرامن ذرائع سے حل کرنا ممکن ہوجائے گا، یعنی وہ دور ایسا ہوگا کہ اس میں دعوتی جہاد کا عمل پر امن طریقے سے انجام دیا جائے گا— اسلام میں اصل مطلوب مقصد ہے، نہ کہ ذریعہ ۔
واپس اوپر جائیں

مسلمانوں کا مسئلہ

مسلمان اور مغربی قوموں کے درمیان طویل مدت تک ایک جنگی سلسلہ چلا۔ یہ جنگی سلسلہ 1096ء شروع ہوا، اورتقریباً دو سو سال تک وقفے وقفے کے ساتھ جاری رہا۔ اس کو تاریخ میں صلیبی جنگ (Crusades)کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ اس میں مسلمانوں کو مکمل فتح ، اور مغربی قوموں کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ مسلمان فتح کی خوشی منانے میں مشغول ہوگئے۔ دوسری طرف مسیحی یورپ کے اندر موضوعی انداز (objective way)میںری پلاننگ (re-planning) کا ذہن پیدا ہوا۔ انھوں نے یہ سوچنا شروع کیاکہ کس طرح میدانِ جنگ کی شکست کو کسی اور میدان میں کامیابی میں تبدیل کیا جاسکتاہے۔ آخر کار انھوں نے یہ دریافت کیا کہ ان کے لیے ایک اور زیادہ بہتر میدان موجود ہے، اور وہ ہے جنگی کروسیڈ س کے بجائے اسپریچول کروسیڈس۔ یعنی فطرت کے قوانین کو دریافت کرکے اس کے ذریعے دوبارہ فتح حاصل کرنا۔
اس منصوبہ بندی میں انھوں نے سو سال سے زیادہ کا عرصہ لگایا۔ یہاں تک کہ مسیحی یورپ نے واقعۃً عمل کا نیا میدان دریافت کرلیا۔ یہ دریافت فطرت کے قوانین (laws of nature) کی دریافت تھی۔ اس دریافت نے مسیحی یورپ کو ایک نئی طاقت دے دی، جس سے اب تک دنیا ناواقف تھی۔ وہ ہے جنگی طاقت کے بجائےفطرت کےقوانین کی تسخیر۔ یہ ایک انوکھی دریافت تھی۔ کیوں کہ اس نے مسیحی یورپ کو یہ موقع دے دیا کہ وہ جنگ کیے بغیر امن کی طاقت سے دنیا پر غلبہ حاصل کرلیں۔ اس دریافت کو عام زبان میں صنعتی انقلاب (industrial revolution) کہا جاتا ہے۔
مسیحی یورپ کی اس دریافت نے مسلمانوں کو بھی ایک عظیم رہنمائی دی ہے، وہ یہ کہ مسلمان مسلح جہاد کے بجائے، پر امن میدان جہاد کو اختیار کریں۔وہ تخریب کے بجائے تعمیر کی طاقت کے ذریعے جینے کا راز دریافت کریں۔ وہ سیاسی غلبہ کی اصطلاح میں سوچنے کے بجائےانسانیت کی تعمیر (development) کی اصطلاح میں سوچیں۔
قدیم زمانہ اور جدید زمانے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ قدیم زمانے میں جسمانی طاقت (muscle power) کی اہمیت ہوتی تھی۔ اب ٹکنالوجیکل پاور کی اہمیت ہے۔ قدیم زمانے میں قتل و قتال کی اہمیت تھی، موجودہ زمانے میں آرگنائزیشن کی اہمیت ہے۔ قدیم زمانے میں اہمیت یہ تھی کہ بادشاہ کے سر سے اس کا تاج چھین لیا جائے، موجودہ زمانے میں ساری اہمیت سائنس اور تعلیم کی ہوگئی ہے۔ قدیم زمانے میںکامیابی حاصل کرنے کے لیے محنت اہم ہوا کرتی تھی، موجودہ زمانے میں پلاننگ کی اہمیت زیادہ ہے۔ قدیم زمانے میں خطابت کی اہمیت تھی، موجودہ زمانے میں علم کی اہمیت ہے۔ قدیم زمانے میں شعر و شاعری اور انشاپردازی کی اہمیت تھی، موجودہ زمانے میں فیکٹ (fact)کی اہمیت ہے۔ قدیم زمانے میں باتوں کا فیصلہ میدانِ جنگ میں ہوا کرتا تھا، موجودہ زمانے میں باتوں کا فیصلہ گفتگو کی میز پر ہوا کرتا ہے۔ قدیم زمانے میں الفاظ کی اہمیت ہوا کرتی تھی، موجودہ زمانے میں ساری اہمیت معانی کی ہوتی ہے۔
آج مسلمانوں کو جو اصل کام کرنا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ زمانے کے فرق کو پہچانیں، وہ شاعری، ادب اور خطابت کے دور سے باہر نکلیں، اور علم کے دور میں جینے کا طریقہ سیکھیں۔ وہ ماضی کی فتوحات کو دہرانے کا کلچر چھوڑ دیں، اور حال کے معیار کو سمجھیں، اور اس کے مطابق اپنی تعمیرِ نو کریں۔ وہ اس بات کو جانیں کہ زندگی کا راز قومی فخر میں جینا نہیں ہے، بلکہ ساری دنیا کے ساتھ ترقی کے عمل میں شریک ہونے کا نام زندگی ہے۔ مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ ماضی کے جس دور پر وہ فخر کرتے ہیں، وہ دور اب مکمل طور پر ختم ہوچکاہے۔ وہ جس چیز کو اپنا فخر بنائے ہوئے ہیں، وہ فرضی فخر (false pride) کے سوا اور کچھ نہیں۔ مسلمان آج بھی خلافت کے نام سے ایمپائر کے دور میں جی رہے ہیں ۔ حالاں کہ موجودہ زمانہ نیشن اسٹیٹ کا زمانہ ہے، جس نے ایمپائر کے دور کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا ہے۔ مسلمانوں کا کیس ایک لفظ میں پیرانوئیا (paranoia) کا کیس ہے۔پیرانوئیا کا مطلب ہے، فریب خوردگی (delusion) میں جینا۔ اس خود فریبی سے نکلنے ہی میں ان کے لیے نئی زندگی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

وطن سے محبت

28 مارچ 1998 کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک سیمینار تھا۔ اس کا اہتمام اردو اکادمی، دہلی کی طرف سے کیا گیا تھا۔اس موقع پر میں نے بھی ایک تقریر کی۔ میں نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک حب الوطنی کا مسئلہ تھا۔
میں نے کہا کہ 20 ویں صدی میں لمبی مدت تک مسلم مفکرین کسی نہ کسی طور پر اس نظریہ سے متاثر رہے ہیں، جس کو عام طورپر پان اسلامزم (pan islamism)کہاجاتا ہے۔ اس میں دور جدید کے بہت سے مسلم مفکرین کےنام شامل ہیں۔یہ لوگ مسلمانوں کو ایک بین اقوامی برادری سمجھتے تھے، اور مسلمانوں کو ایک عالمی قومیت کا رکن بتاتے تھے۔ اپنے اس نظریے کی بنیاد پر ان کا کہنا تھاکہ قومیت (nationhood) کی بنیاد مذہب پر ہے، نہ کہ وطن پر۔
میں نے کہا کہ میری عمر ہجری کیلنڈر کے لحاظ سے 78 سال ہور ہی ہے۔ میں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اسلام اوراسلام سے متعلق علوم کے مطالعے میں گزارا ہے۔ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ قومیت کو مذہب پر مبنی قرار دینا کوئی اسلامی نظریہ نہیں۔ یہ سراسر ایک سیاسی نظریہ ہے، جو مخصوص حالات میں پیداہوا۔ 20 ویں صدی کے نصف اول میں مسلمان قائدین یورپی استعمار کے خلاف تمام دنیا کے مسلمانوں کو ابھارنا چاہتے تھے۔ اپنے اس سیاسی مقصد کے نظریاتی جواز کے لیے انھوں نے مذہبی قومیت کا مذکورہ نظریہ پیش کیا۔ یہ اسلام کا سیاسی استحصال تھا، نہ کہ اسلام کی حقیقی ترجمانی۔
اس معاملہ میں اسلام کا نقطۂ نظر وہی ہے، جو پولیٹکل سائنس کا نقطۂ نظر ہے، اور جس کو تمام دنیا میں نظری یا عملی طورپر قبول کرلیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ قومیت (nationhood) کی بنیاد وطن (motherland) پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام دنیا میں پاسپورٹ پر کسی آدمی کی قومیت (nationality) وہی لکھی جاتی ہے، جو وطن کی نسبت سےاس کی ہے، خواہ وہ ایک مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو، یا دوسرے مذہب سے۔ مثلاً انڈیا میں ہر مسلمان یا غیر مسلمان پاسپورٹ میں اپنے آپ کو انڈین لکھتا ہے، برطانیہ میں برٹش، امریکا میں امریکن، وغیرہ۔
مبنی بروطن قومیت کا یہ نظریہ اسلام کے عین مطابق ہے۔ اس معاملہ میں اسلام اور بقیہ دنیا میں کوئی اختلاف یا ٹکراؤ نہیں۔ مولانا سید حسین احمد مدنی نے کہا تھا کہ موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ اس پر کچھ لوگوں نے یہ اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ مولانا مدنی کا یہ جملہ خبر ہے، وہ انشاء نہیں۔ یعنی یہ ایک واقعہ ہے کہ بقیہ دنیا میں وطن کو قومیت کی بنیاد مان لیا گیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام میں بھی قومیت کی بنیاد وطن پر قائم ہے۔
مگر یہ تشریح درست نہیں۔ اس سلسلے میں یہاں میں چند باتیں عرض کروں گا۔ فقہ کا ایک مستقل اصول یہ ہے کہ چیزوں کی اصل ان کا مباح ہونا ہے (الأصل فی الأشیاء الإباحة):
Everything is lawful unless it is declared unlawful.
یہ ایک واضح بات ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں قرآن وحدیث میں کوئی براہِ راست ہدایت موجود نہیں۔ قرآن وحدیث میں نہ یہ کہا گیاہے کہ قومیت کی بنیاد مذہب پر ہے، اور نہ یہ کہ اس کی بنیاد وطن پر ہے۔ اس لیے اس معاملے کو ان امور سے متعلق سمجھا جائے گا ،جن کی بابت پیغمبر اسلام نے کہا:أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْیَاکُمْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2363)۔ یعنی تم اپنی دنیا کے معاملہ کو زیادہ جانتے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک عقیدہ ،عبادت اور آخرت کے معاملات کا تعلق ہے، ان میں مسلمان پابند ہیں کہ وہ شریعت کی رہنمائی کو تاویل کے بغیر قبول کریں، مگر جو امورانتظام دنیا سے تعلق رکھنے والے ہیں، ان میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ اپنے حالات کے لحاظ سے جس طریقہ کو درست سمجھے اس کو اختیار کرے۔
اس معاملے میں ایک پیغمبرانہ واقعے سے مزید رہنمائی ملتی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یمن میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا اس کا نام مسیلمہ تھا۔ اس نے دو آدمیوں پر مشتمل اپنا ایک سفارتی وفد مدینہ بھیجا ۔انھوں نے مدینہ آکر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی، اور مدعی نبوت کا یہ تحریری پیغام پہنچایا کہ میں نبوت میں آپ کے ساتھ شریک کیا گیا ہوں (فَإِنِّی قَدْ أُشْرِکْتُ فِی الْأَمْرِ مَعَکَ)۔ سفارتی امور پر گفتگو کرنے کے بعد آپ نے ان دونوں سفیروںسے پوچھا کہ اس بارے میں تمہاری ذاتی رائے کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری بھی وہی رائے ہے جو ہمارے صاحب کی رائے ہے۔ یہ سن کر آپ نے کہا کہ خدا کی قسم اگر ایسا نہ ہوتا کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کو قتل کردیتا (أَمَا وَاَللَّہِ لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَکُمَا) سیرة ابن ہشام، جلد2، صفحہ 600۔
پیغمبرِ اسلام کے اس واقعہ سے اسلام کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ بین اقوامی معاملات میں شریعت کا طریقہ بھی وہی ہوگا، جو دوسری قوموں کا طر یقہ ہے۔ دوسری قوموں میں اگر سفیر کی جان کو ہر حال میں محترم سمجھا جاتا ہے، تو اسلام میں بھی اس کو ہر حال میں محترم سمجھا جائے گا۔ اسی طرح اس پر قیاس کرتےہوئے یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ وطنیت کے معاملہ میں دنیا میں جس اصول کو عمومی طور پر مان لیا جائے وہی شریعت میں بھی اختیار کرلیا جائے گا۔ اس معاملہ کو غیر ضروری طورپر عقیدہ اور مذہب کا مسئلہ نہیں بنایا جائے گا۔
ایک بار میں ایک جلسہ میں شریک تھا۔ وہاں ایک صاحب نے اپنی تقریر میں حب وطن کی اہمیت بیان کی، اور کہا کہ اسلام میں بھی اس کی اہمیت کو تسلیم کیاگیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیاہے : حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِیمَانِ (الدرر المنتثرۃ للسیوطی،حدیث نمبر 190)۔یعنی وطن سے محبت کرنا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ ایک عالم جو اس وقت جلسے میں موجود تھے، انھوں نے اس کی تردید کرتےہوئے کہا کہحُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِیمَانِ کوئی حدیث نہیں ہے، یہ تو صرف ایک عربی مقولہ ہے۔
میں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِیمَانِ حدیث نہیں۔مگر وہ سادہ طورپر صرف عربی کا ایک مقولہ نہیں، بلکہ وہ فطرت کا ایک مقولہ ہے ،جو انسانی نفسیات کی ترجمانی کرتاہے۔ محدثین عام طورپر اِس قول کو حدیثِ رسول نہیں مانتے، وہ اِس کو ضعیف یا موضوع قرار دیتے ہیں۔ تاہم کچھ علماء نے اس قول کو معنوی اعتبار سے درست قرار دیا ہے۔ مثلاً آٹھویں صدی ہجری کے مشہور عالم محمد بن عبد الرحمن السخاوی (وفات1497ء) نے اِس قول کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:لم أقف علیہ، ومعناہ صحیح (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر386) ۔ یعنی میں اِس سے واقف نہیں، لیکن اس کا مفہوم درست ہے۔ محدثین کے اصول کے مطابق، السخاوی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ یہ قول حدیثِ رسول کے طورپر ان کو نہیں ملا، لیکن دینِ اسلام میں اس کی اصل پائی جاتی ہے۔کتابوں کے ذخیرے میں بہت سی چیزیں ہیں، جو خواہ حدیث رسول نہ ہوں، لیکن وہ یقینی طور پر حدیثِ فطرت ہیں۔ اس بات کو بتانے کے لیے محدثین نے وہ اصول بنایا ہے، جس کو السخاوی کے حوالے سے اوپر بیان کیا گیا ۔
راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ یہ قول اگر کلامِ رسول کے طور پر ثابت شدہ نہ ہو، تب بھی وہ حدیث ِ فطرت ہے۔ جو آدمی حُبّ الوطنی کو فطرت کا جز نہ سمجھتا ہو، وہ جانتا ہی نہیں کہ فطرت کیا چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن سے محبت انسانی فطرت کا ایک لازمی تقاضا ہے، اور فطرت کا تقاضا ہونا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ حُبّ الوطنی (patriotism) کو اسلام کا ایک حصہ سمجھا جائے۔
میں نے کہا کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اس لیے فطرتِ انسانی کا ہر صحیح تقاضا بھی عین اسلام کا تقاضا ہے۔ مثال کے طورپر حدیث میں کہیں یہ نہیں آیا ہے کہ حب الام من الایمان (ماں کی محبت ایمان کا حصہ ہے) ۔اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ہر مسلمان اس کو اپنا فرض سمجھتاہے کہ اس کے دل میں اپنی ماں سے محبت ہو۔ جس آدمی کے دل میں اپنی ماں کی محبت نہ ہو، وہ اپنے ایمان میں بھی کامل نہ ہوگا کیونکہ فطرت اور ایمان میں کوئی تضاد نہیں۔
وطن سے محبت بھی بلاشبہ ہر مسلمان کے لیے ایک ایمانی تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آدمی جس ملک میں پیدا ہوا، جہاں اُس کی پرورش ہوئی، جہاں کی ہوا میں اس نے سانس لیا، جہاں کے لوگوں سے اس کے تعلقات قائم ہوئے، جہاں اُس نے اپنی زندگی کی تعمیر کی، ایسے ملک سے محبت کرنا انسانی شرافت کا تقاضا ہے، اور اِسی طرح وہ انسان کے ایمان واسلام کا بھی تقاضا ۔
میں نے کہا کہ جو چیز فطرتِ انسانی کا جز ہو، اس کو قرآن وحدیث میں لکھنے کی ضرورت نہیں وہ قرآن وحدیث میں لکھے بغیر ہی شریعت کا ایک لازمی جز ہے۔ قرآن وحدیث میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ اے مسلمانو، تم اپنی ماں سےمحبت کرو۔ کیونکہ یہ چیز حکم کے بغیر اپنے آپ ہی فطرت کے زور پر حاصل تھی۔ اسی طرح قرآن وحدیث میں یہ لکھنے کی ضرورت بھی نہیں کہ اے مسلمانو، تم اپنے وطن سے محبت کرو۔ کیونکہ وطن سے محبت انسانی شرافت کا تقاضا ہے، وہ انسان ایک پست انسان ہے جس کے دل میں اپنے وطن کے لیے محبت نہ ہو۔ ایسے گہرے فطری تقاضے کے لیے شریعت میں کسی لفظی حکم کی ضرورت نہیں، وہ اپنے آپ ہر مومن کے دل میں پہلے ہی سے موجود ہوتاہے۔
یہاں ایک معاملے کی وضاحت ضروری ہے۔ بعض انتہا پسند لوگوں نے لکھا ہے کہ ہندستان کے عیسائی اور مسلمان سچے محب وطن نہیں ہوسکتے۔ اس لیےکہ محب وطن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس وطن یا اس جغرافی خطہ کو آدمی مقدس سمجھتا ہو، جہاں وہ پیداہوا ہے۔ ہندو چونکہ اپنے وطن (ماتر بھومی) کو مقدس سمجھتا ہے، اور اس کو معبود کا درجہ دیتاہے۔ اس لیے وہی بھارت کا سچا محبِ وطن (دیش بھکت) ہے۔ عیسائی اور مسلمان چونکہ اپنے مخصوص عقیدے کی بنا پر زمین یا کسی زمینی خطے کو معبود کی طرح مقدس نہیں سمجھ سکتے، اسی لیے وہ بھارت کے سچے دیش بھکت بھی نہیں ہو سکتے۔
یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے خود ساختہ عقیدے کی بناپر اپنی ماں کو معبود مان لے، اور اس کی پر ستش کرنے لگے، تو اس بنا پر اس کو یہ کہنے کا لائسنس نہیں مل جائے گا کہ اس کے سوا بقیہ لوگ اپنی ماں سے محبت نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنی ماں کو معبود نہیں سمجھتے۔ کسی شخص یا گروہ کو بلاشبہ یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی ماں کو یا اپنے وطن کو معبود سمجھنے لگے۔ مگر کسی بھی قانون یا اصول کی بنا پرایسے لوگوں کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ دوسروں کے بارےمیں یہ حکم لگائیں کہ وہ اپنی ماں کو یا اپنے وطن کو معبود مانیں، ورنہ وہ اپنی ماں سے محبت کرنے والے قرار پائیں گے، اور نہ اپنے وطن سے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات کا تعلق عالمی سطح پر مانے ہوئے رواج سے ہے، نہ کہ کسی شخص یا گروہ کے اپنے مفروضہ سے۔ عالمی اور بین اقوامی سطح پر جب یہ مان لیا گیا ہے کہ قومیت کی بنیاد وطن پر ہے، اور وطن سے مرادمعروف معنوں میں جغرافی وحدت ہے، نہ کہ پُراسرار معنوں میں تقدیسی وحدت۔ اس لیے حب الوطنی (patriotism)کا معیار ہر ایک کے لیے یہی ہوگا۔ البتہ ہر ایک کو یہ آزادی حاصل رہے گی کہ وہ اس کے علاوہ کوئی اورعقیدہ پسند کرتا ہو تو اس کو اپنے لیے اختیار کرلے۔
مادرِ وطن کہنا
ایک صاحب نے بذریعہ ای میل یہ سوال کیا کہ انڈیا کو مادرِ وطن کہنا جائز ہے، یا ناجائز۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مادرِ وطن کو جائزیا ناجائز کی اصطلاح میں بیان کرنا اس کو غیر ضروری طور پر شرعی مسئلہ بنانا ہے۔ یہ انتہاپسندی ہے کہ ہر چیز کو جائزیا ناجائز کا مسئلہ بنایا جائے۔ اس مزاج کو شریعت میں غلو کہا گیا ہے، اور قرآن و سنت میں غلو کی ممانعت کی گئی ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی وابصۃالاسدی رسول اللہ کے پاس آئے۔ وہ بہت سا سوال کرنا چاہتے تھے۔ رسول اللہ نے ان کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ بلکہ یہ کہا:اسْتَفْتِ قَلْبَکَ (مسند احمد، حدیث نمبر18006)۔ یعنی اپنے دل سے فتویٰ پوچھو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات کو شرعی مسئلہ نہ بنائو۔ بلکہ اپنی فطرت کی آواز کی پیروی کرو۔
جو لوگ انڈیا کو مادرِ وطن کہتے ہیں۔ وہ اس معنی میں نہیں کہتے کہ وہ اسی جغرافیہ کے بطن سے پیدا ہوکر نکلے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ استعارہ (metaphor) کی زبان ہے۔ اصل یہ ہے کہ مادر وطن سے مراد وہی چیز ہے، جس کو دوسرے الفاظ میں وطن مالوف، مسقط ِرأس، ہوم لینڈ (homeland)، مقامِ پیدائش (birth place) ، جنم بھومی، وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اگر بالفرض کچھ لوگ مادر وطن کا لفظ اس معنی میں بولیں کہ وہ وطن کے پیٹ سے اسی طرح پیدا ہوئے ہیں، جس طرح کوئی شخص ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ تو یہ ان کا اپنا معاملہ ہوگا، نہ کہ آپ کا معاملہ۔ آپ مادرِ وطن کا لفظ اپنے مفہوم میں بولیے۔ دوسرے لوگوں کو چھوڑ دیجیے کہ وہ کس معنی میں اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی زندگی کی ایک حکمت ہے کہ کسی بات کو اس کی منطقی حد (logical end) تک نہ پہنچایا جائے۔
مادر وطن (بھارت ماتا) کی اصطلاح انیسویں صدی کے آخری زمانے میں شروع کی گئی۔ یہ آزادی کی تحریک چلانے والے لیڈروں نے سیاسی مقصد کے تحت استعمال کیا تھا۔ اس اصطلاح کا کوئی مذہبی پس منظر نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جدید اسلوب کا ایک پہلو

ایک مسلم رائٹر کسی شخص کے بارے میں لکھے گا تو وہ اس طرح لکھے گا کہ شیخ الاسلام تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ ان ذی علم ہستیوں میں سے ایک تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی تجدید کے لیے پیدا فرمایا۔ دین کے مجددین کی فہرست میں انہیں خصوصی مقام حاصل ہے۔
لیکن سیکولر رائٹر کی زبان یہ نہیں ہوتی۔ سیکولر رائٹر کسی چیز کو اس کے میرٹ پر جانچتا ہے، وہ اس کو اس کے تاریخی پہلو سے دیکھتا ہے۔ اس کا معیار یہ ہوتا ہے کہ آبجیکٹیو (objective) انداز میں جو کچھ ثابت ہو، وہی قابل حوالہ ہے، اور جو چیز آبجیکٹیو انداز میں ثابت نہ ہو، وہ عقیدے کا موضوع ہے، نہ کہ علم کا۔ رائٹر(writer) کے لیے اس اصول کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ اس کی تحریریں کچھ صاحب عقیدہ لوگوں کے لیے قابل مطالعہ ہوسکتی ہیں، لیکن دوسرے لوگوں کے لیے ان کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔
عام دینی علما اور مستشرق اہل علم کے درمیان یہی فرق ہے۔ مستشرق عالم ایسی باتوں کی بنیاد پر لکھتا ہے، جو دینی مآخذ کے باہر آزادانہ حوالوں سے ثابت شدہ قرار پاتی ہوں۔جو باتیں آزادانہ حوالوں سے ثابت شدہ نہ ہوں، وہ مستشرقین کے لیے قابل حوالہ نہیں۔
خواہ لکھنے کا معاملہ ہو، یا بولنے کا معاملہ ۔ صحیح اسلوب یہ ہے کہ آدمی حقیقت نگاری کا طریقہ اختیار کرے۔ تعریف نگاری اوربلادلیل تنقید، دونوں سے وہ دور رہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ غلط رواج وہ ہے، جس میں افراد کو فضیلت کی زبان میں بیان کیا جاتاہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ افراد کو اسی نام سے یاد کیا جائے، جو ان کا اصل نام ہے۔ ان کے نام کے ساتھ بڑے بڑے القاب اور فضیلت کا اسلوب ہرگز اختیار نہ کیا جائے۔ صحابہ کے زمانے میں یہی طریقہ رائج تھا۔ بڑھا چڑھا کر نام لینا، اور نام کے ساتھ فضیلت کے القاب شامل کرنا، یہ سب صحابہ کے زمانے میں نہیں تھا۔ صحیح اسلوب حقیقت نگاری کا اسلو ب ہے، نہ کم ، نہ زیادہ۔
واپس اوپر جائیں

فریم ورک کا مسئلہ

ایک اعلی تعلیم یافتہ مصنف کی کتاب ہے، جس کا نام یہ ہے:
A Modern Approach to Islam by Dr A. A. Faizi (1899-1981)
میں نے اس کتاب کو مکمل طو رپر پڑھا ہے۔ اس پر ایک تبصرہ بھی لکھا ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، اس کتاب میں مسئلہ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ موجودہ زمانے میں اسلام کا اصل مسئلہ ماڈرن اپروچ کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ سائنٹفک انقلاب کے بعد اسلوب کے اعتبار سےفریم ورک (framework) بدل گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اسلام کی دعوت کو جدید فریم ورک کے اعتبار سے پیش کیا جائے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں ادبی اسلوب ایک متروک اسلوب بن چکا ہے۔ اب دنیا میں سائنٹفک اسلوب کا رواج ہے۔ تبدیلیٔ اسلوب کے سلسلہ میں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو حسب ذیل کتاب:
The Great Intellectual Revolution by John Frederick West (J. Murray, 1965, pp.132)
اس کتاب کاایک چیپٹراس عنوان سے ہے :تمثیلی اسلوب کا خاتمہ (The Death of Metaphor)۔ یہ چیپٹر اس موضوع پر بحث کرتا ہے۔ تمثیلی اسلوب (metaphor) میں ادبی اسلوب بھی شامل ہے۔ یہاں ادبی اسلوب کی ایک مثال درج کی جاتی ہے۔ ایک معروف عالم دین اور مورخ نے اپنی دینی کتاب سیرت النبی کے دیباچہ میں یہ بتایا ہے کہ اسلام عرب میں کیوں آیا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں: معمورۂ عالم کے صفحےنقشہائے باطل سے ڈھک چکے تھے۔ اب ایک سادہ ، بے رنگ ، ہر قسم کے نقش و نگار سے مُعَرّیٰ ورق درکار تھا، جس پر طُغرائے حق لکھا جائے۔
یہ ادبی اسلوب کی مثال تھی۔ اب ماڈرن سائنٹفک فریم ورک کے اعتبار سے یہ کہاجائے گا کہ یہ پوری عبارت ادبی اسلوب میں ہے۔ اس سے متعین (specific) انداز میں معلوم نہیں ہوتا کہ جو واقعہ ہوا، وہ کیا تھا۔ اس کے برعکس، اس واقعہ کو سائنٹفک اسلوب میں کہا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ اسلام کے ظہور کا معاملہ دو فیزز (phases) سے تعلق رکھتا ہے۔ پیغمبر ابراہیم نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو اس صحرائی مقام پر بسایا جہاں اب مکہ واقع ہے۔ یہ گویا ڈزرٹ تھرپی (desert therapy) کا معاملہ تھا۔ اس صحرائی ماحول میں دوہزار سالہ توالد وتناسل کے ذریعہ ایک نسل بنو اسماعیل تیار ہوئی، جو ماحول کی کنڈیشننگ سے پاک تھی۔ یہ ڈی کنڈیشنڈ قوم (deconditioned nation) بڑی حد تک اپنی فطرت پر قائم تھی۔ اس ڈی کنڈیشنڈ نسل میں پیغمبر اسلام نے اپنا مشن شروع کیا۔ پیغمبر ابراہیم نے اس مشن کو باعتبار تربیت شروع کیا، اور پیغمبر اسلام نے اس مشن کو عملی اعتبار سے تکمیل تک پہنچایا۔
مذکورہ عالم ِ دین نے عرب قوم کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ ایک ادبی اسلوب تھا، اور ادبی اسلوب جدید فریم ورک کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس، اوپر جو لکھا گیا، وہ جدید فریم ورک کے اسلوب کی مثال ہے۔ ہمارے مصنفین کی کتابوں میں اصل کمی یہی ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، ان میں سے کوئی کتاب ایسی نہیں ہے، جو جدید فریم ورک کے مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتابیں عصری ذہن کو ایڈریس نہیں کرتیں۔ ان کتابوں میں عصری ذہن کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملتا۔ اور جب پڑھنے والے کو ٹیک اوے نہ ملے تو ایسی تحریروں کو پڑھنا، اور نہ پڑھنا برابر ہوجاتا ہے۔ مسلم مصنفین کی جو کتابیں ہمارے کتب خانے میں موجود ہیں، ان کا بڑا حصہ اسی قسم کا ہے جو جدید علمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔
واپس اوپر جائیں

مثال کے بغیر

بینکنگ (banking)کی اصطلاح میں ایک لفظ ہے ڈَڈ چیک (dud cheque)۔ یعنی ایسا چیک جس کے حق میں بینک میں ضروری رقم (cash)موجود نہ ہو۔ ایسی ہی مثال اس مضمون یا کتاب کی ہے، جس میں بڑی بڑی باتیں بیانیہ انداز میں ہوں، مگر ان باتوں کے حق میں کوئی ثابت شدہ دلیل موجود نہ ہو۔
مثال کے بغیر تحریر کا یہ انداز قدیم دور میں عام تھا۔ جب سائنس کا زمانہ آیا، تو لوگوںکو معلوم ہوا کہ متعین مثال کے بغیر کوئی تقریر یا تحریر اتنی ہی بے قیمت ہے، جتنا کہ بینک کی اصطلاح میں ڈَڈ چیک (dud cheque)۔ مثلاً آپ کہیں کہ شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی عالم ادب کے آفتاب و ماہتاب تھے، یا محمد اقبال اور محمد علی جناح برصغیر کی مسلم سیاست میں عہد ساز مفکر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تو ایسا بیان علمی اعتبار سے ڈڈ چیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ ان بیانات میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بیانیہ انداز میں ہے، دلیل کے انداز میں نہیں ۔
جو لوگ اس طرح کے بیان کی کمزوری کو نہ جانتے ہوں، ان سے میں کہوں گا کہ وہ ایک کتاب کے صرف ایک باب کو پڑھ لیں۔ یہاں کتاب کام نام اور اس باب کا نام لکھا جاتا ہے
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West, (Chapter: The Death of Metaphor) J. Murray, 1965, pp. 132.
جیسا کہ معلوم ہے کہ بینک کسی ڈڈ چیک پر لکھے ہوئے اماؤنٹ (amount)پر کوئی ادائیگی نہیں کرتا، جب تک اس چیک کے حق میں بینک میں ضروری رقم موجود نہ ہو۔ اسی طرح ایسا مضمون جو دعوی کی زبان میں ہو، لیکن اس میں کوئی مثال نہ دی گئی ہو، ایسے مضمون کو پڑھنے سے قاری کو کوئی ٹیک اوے (takeaway)نہیں ملتا ہے۔ ایسا مضمون صرف ڈڈ چیک کی مانند ہے۔ اس میں نہ لکھنے والے کے لیے کچھ ہوتا ہے، اور نہ پڑھنے والے کے لیے کچھ ۔ ایسا مضمون لکھنا اور پڑھنا، دونوں صرف وقت کا ضیاع ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بے خبری کا کیس

آج کل جس مسلمان سے بات کیجیے، وہ ہمیشہ ایک ہی بات کو دہرائے گا، اور وہ مسلمانوں پر ظلم کی بات ہے۔ اگر ان سے مزید گفتگو کیجیے تو وہ اخباری نیوز کا حوالہ دیں گے۔ اخباری نیوز کیا ہیں، وہ یک طرفہ خبر رسانی کی مثالیں ہیں۔ قرآن کے مطابق، ایسی خبروں کو مان لینا درست نہیں ہے، بلکہ رائے بنانے سے پہلےغیر جانبدارانہ انداز میں ان کی تحقیق کرنا چاہیے۔
جولوگ ظلم کی داستان سناتے ہیں، یا اسلامو فوبیا (Islamophobia) کی باتیں کرتے ہیں، ان سب پر قرآن کی یہ آیت صادق آتی ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَاءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ (49:6)۔ یعنی اے ایمان والو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لائے تو تم اچھی طرح تحقیق کرلو، کہیں ایسانہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانی سے کوئی نقصان پہنچا دو ، پھر تم کو اپنے کیےپر پچھتانا پڑے۔
اخبار (newspaper)یا میڈیا کیا ہے۔میڈیا منتخب خبروں (selective news) کی انڈسٹری ہے۔ میڈیا کا کام نیوز کو فروخت (sell) کرنا ہے۔ اسی کو صحافت کی دنیا کہا جاتا ہے۔میڈیا کو معلوم ہے کہ لوگ سنسنی خیز خبروں کو پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے میڈیا سنسنی خیز خبروں کو اکٹھا کرکے ان کو چھاپتا ہے۔ لوگوں میں انھیں خبروں کا چرچا ہوتا ہے، پھر لوگ اسی قسم کی خبروں کو لے کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ آج کل لوگوں کا حال یہ ہے کہ صحافت ان کے لیے ذہن سازی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لوگوں کی منفی سوچ کا سبب یہی ہے۔
لوگوں کو یہ جاننا چاہیے کہ اس قسم کی خبروں کو ماننا،گویا سنی سنائی خبروں کو لے کر اپنا ذہن بنانا ہے۔ یہ بات عملاً ناممکن ہے کہ لوگوں کے درمیان اس قسم کی خبروں کا چرچا نہ ہو۔ البتہ ایک ذمے دار انسان یہ کرسکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قسم کی خبروں سے بچائے، وہ اخباری نیوز پر یقین نہ کرے، وہ خود اپنی سوچ کے مطابق اپنا ذہن بنائے۔ آپ اپنے آپ کو غیر متاثر ذہن کے ساتھ رہنا سیکھ لیں۔
واپس اوپر جائیں

جمہوریت کا نظام

جمہوریت (democracy) کے بارے میں اکثر لوگ منفی رائے رکھتے ہیں۔ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ جمہوریت کا نظام ایک غلط نظام ہے۔ بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ لکھنے اور بولنے والے، جمہوریت کو غلط معیار (yardstick) سے ناپتے ہیں ۔ حالاں کہ جمہوریت کو ایک معیاری نظام قرار دے کر اس کو آٗئیڈیل سے ناپنا بجائے خود غلط ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ جمہوریت ایک قابل عمل نظام ہے، نہ کہ آئیڈیل نظام۔
کسی سماج میں سیاسی نظام قائم کرنا، ایک ایسا کام ہے، جو کبھی آٗئیڈیل پیمانے پر نہیں ہوسکتا۔ آپ ایسا کرسکتے ہیں کہ آپ لوہے یا پتھر کا ایک پل (bridge) بنانے کے لیے اس کا ایک پیشگی نقشہ بنائیں، اور پھر ضروری سامان اکٹھا کرکے اپنے نقشے کے مطابق لوہے یا پتھر کا ایک پل بنائیں۔ لیکن یہ ناممکن ہے کہ آپ لوگوں کو مجبور کریں کہ وہ پل یا سڑک کے اوپر ہمیشہ ایک انداز سے سفر کریں، وہ کبھی اس سے گزرنے کے لیے غیر معیاری انداز اختیار نہ کریں۔ پل ہمیشہ مٹیریل کے ذریعے بنتا ہے، اور پل یا روڈ پر چلنے والے زندہ انسان ہوتے ہیں۔ آپ کوئی مادی عمارت مقررہ نقشے پر تعمیر کرسکتے ہیں ، لیکن زندہ انسان کا ایک واحد نقشہ بنانا ممکن نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا نظام پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے اصول پربنتا ہے، نہ کہ آئیڈیل وزڈم(ideal wisdom) کے اصول پر۔ جو چیز پریکٹکل وزڈم پر بنائی جائے، اس کو آئیڈیل وزڈم کے معیار پر ناپنا اصولی طور پر ایک غلطی ہے۔ ایسی غلطی کبھی درست فیصلے تک پہنچانے والی نہیں۔
یہ دانش مندی ہے کہ جب آئیڈلزم (idealism)کا حصول ممکن نہ ہو، تو پریکٹکل وزڈم کے اصول پر زندگی کا نقشہ بنایا جائے۔ جو لوگ ایسا نہ کریں، وہ ہمیشہ ناقد بنے رہیں گے۔ وہ نہ کبھی مثبت رائے تک پہنچیں گے، اور نہ کبھی مثبت انجام تک۔
واپس اوپر جائیں

اتحاد ملّت

ملت میں اتحاد ایک بے ٛحد مطلوب چیز ہے۔ لیکن اتحاد کا راز صرف ایک ہے— اختلاف کے باوجود متحد ہونا۔ اتحاد (unity) کبھی اس طرح پیدا نہیں ہوتا کہ سب لوگوں کی رائے بالکل ایک ہوجائے۔ رایوں کا اختلاف ایک فطری امر ہے۔ اختلاف ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق یہ بالکل ناممکن ہے کہ اختلاف سرے سے موجود نہ رہے۔اتحاد ایک بہت بڑی عبادت ہے۔ لیکن اتحاد ایک عملی ضرورت ہے، نہ کہ اعتقادی ضرورت۔
انسان ایک سوچنے والی مخلوق ہے۔ مختلف انسانوں کی سوچ کبھی یکساں نہیں ہوسکتی۔ یہ فطرت کا تقاضا ہے کہ لوگوں کی سوچ میں یکسانیت (uniformity)نہ ہو۔ اس لیے اختلاف کو مٹاکر اتحاد کو قائم کرنے کی شرط ایک ناممکن شرط ہے۔ اختلاف کو مٹاکر اتحاد قائم کرنا، ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹو (counter-productive)ثابت ہوتا ہے۔ اگر آپ اختلاف کو ختم کرکے اتحاد پیدا کرنا چاہیں ، تو ایسی کوشش ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرے گی۔ اس لیے اگر آپ اتحاد پیدا کرنا چاہتے ہیں، تو لوگوں کے اندر برداشت اور رواداری کی صفت پیدا کیجیے۔ لوگوں کو بتائیے کہ اختلاف کے باوجود متحد ہونا، یہی اتحاد ہے۔ تمام لوگوں کو ہم خیال کرکے اتحاد پیدا کرنا، ایک ناممکن چیز کی کوشش کرنا ہے۔
کسی گروہ میں اگر اختلاف رائے پیدا ہو، تو اس کو ایک صحت مند علامت سمجھیے— لوگوں سے ڈسکشن کیجیے، لوگوں سے پرامن ڈائلاگ کیجیے، ڈسکشن کے بعد اگر لوگ اپنی رائے بدل لیں، تو اس پر اللہ کا شکر کیجیے، اور اگر لوگ رائے بدلنے پر تیار نہ ہوں، تو آپ بذاتِ خود اختلاف کے باوجود متحد ہوکر رہنے کا طریقہ اختیار کیجیے، اور اسی کو خیر سمجھیے۔
اختلافِ رائے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) موجود ہو۔ لوگوں کے اندر کھل کر سوچنے کا مزاج موجود ہو اور لوگ فکری جمود کی برائی سے بچے ہوئے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو یہ شکر کی بات ہے، نہ کہ ٹکراؤ کی بات۔
واپس اوپر جائیں

کفر، تکذیب

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَالَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِآیَاتِنَا أُولَئِکَ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ (5:10)۔ یعنی اور جنھوں نے کفر کیا اور ہماری نشانیوں کی تکذیب کی، ایسے لوگ دوزخ والے ہیں۔ اس طرح کی آیتوں میں کفر اور تکذیب بآیات اللہ کا کیا مطلب ہے۔ متداول تفسیروں کے مطابق اس قسم کی آیتوں میں کفر سے مراد ہے نبوت کا انکار۔ اب سوال یہ ہے کہ تکذیب آیات کا کیا مطلب ہے۔ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں ایک ہی حقیقت کو دو پہلوؤں سے بیان کیا گیا ہے۔ کفر سے مراد ہے، نبوت کا بحیثیت عقیدہ انکار، اور تکذیب آیات سے مراد ہے، اس مسئلے پر بیان کردہ دلائل کو خود ساختہ توجیہات کے ذریعے ناقابلِ قبول قرار دینا۔
مثلاً یہ ماننا کہ انبیا ہمیشہ بنی اسرائیل کی نسل میں پیدا ہوئے۔ اس لیے بنی اسماعیل میں نبی کا پیدا ہونا قابل قبول بات نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تو یہود نے آپ کو نبی بر حق ماننے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ کی طرف سے جو نبی آئے، وہ سب کے سب بنی اسرائیل میں آئے، یعنی قبیلۂ یہود میں۔ پیغمبر عربی اس کے برعکس، بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے ہیں، ان کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں ہے۔ اس لیے وہ نبی بر حق کے طور پر قابلِ قبول نہیں ہوسکتے۔
اسی طرح یہود کے روایتی عقیدے کے مطابق، ہدایت ایک نسلی حقیقت تھی، یعنی ایک مخصوص نسل میں پیدا ہونے سے آدمی کو ہدایت مل جاتی تھی۔ پیغمبر اسلام نے ہدایت کو ایک پیدائشی چیز کے بجائے، ذاتی انتخاب (choice) کی چیز بتا یا۔ یہ بات بھی یہود کے لیے اپنے روایتی عقیدے کے مطابق ناقابلِ فہم تھی۔اس بنا پر وہ بیک وقت دو جرم کے مرتکب قرار پائے، نبوت کا بطور عقیدہ انکار کرنا،ا ور اس معاملے میں بیان کردہ دلیل کو نہ ماننا۔ اس بنا پر ان کا کیس کفر کاکیس بھی تھا، اور تکذیب کا کیس بھی۔ مسلمانوں نے اس سے مشابہ یہ غلطی کی کہ انھوں نے سچائی کو اپنے اپنے مسالک اور فرقوںسے منسوب کردیا، اور اس معاملے میں کسی بھی دلیل کو ماننے سے انکار کردیا۔
واپس اوپر جائیں

میل ملاپ کا سماج

کلدیپ نائر (Kuldip Nayar) 1923 میں سیالکوٹ (پاکستان) میں پیدا ہوئے، اور 2018 میں انڈیا میں ان کی وفات ہوئی۔ تقسیم کے وقت وہ سیالکوٹ چھوڑ کر انڈیا آگئے۔ یہاں انھوں نے انگلش جرنلزم میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ اپنے ابتدائی زمانے میں وہ اردو زبان میں لکھا کرتے تھے۔ انڈیا آنے کے بعد وہ دہلی کے اردو اخبار (وحدت)میں کام کرنے لگے۔ اس زمانے میں ان کی ملاقات حسرت موہانی (1878-1951)سے ہوئی، جو کہ اردو کے شاعر تھے۔ انھوں نے کلدیپ نائر میں انگلش کی صلاحیت محسوس کی۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ انگلش صحافت میں اپنا کیریر بنائیں۔ کلدیپ نائر نے حسرت موہانی کے مشورے کو مان لیا، اور پھر انگلش اخباروں میں لکھنا شروع کیا، یہاں تک کہ وہ انگلش کے ممتاز صحافی بن گئے، اور ترقی کرتے کرتے انڈیا میں کئی اعلیٰ مناصب حاصل کیے۔ کلدیپ نائر کے تعلقات ہندو مسلم دونوں سے بہت اچھے تھے۔
تقسیم (1947) سے پہلے بر صغیر ہند میں میل ملاپ کا سماج تھا۔ ہندوؤں کو مسلمانوں سے فائدہ پہنچتا تھا، اور مسلمانوں کو ہندوؤں سے فائدہ ملتا تھا۔ اس طرح دونوں کے درمیان اچھے تعلقات قائم تھے۔ اچھے تعلقات کے نتیجے میں دونوں کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچتا تھا، اور دونوں ترقی کر رہے تھے۔ تقسیم کے بعد دونوں فرقوں کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے۔ اب مصلحین نے یہ کوشش کی کہ اجلاس اور سیمیناروں کے ذریعے دونوں کے درمیان دوبارہ بہتر تعلقات قائم کیے جائیں۔ مگر اس کوشش میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بہتر سماجی تعلقات فطری طور پر قائم ہوتے ہیں۔ وہ جلسہ اور سیمینار کے ذریعے قائم نہیں ہوتے۔ ملک کی تقسیم سے پہلے دونوں کے درمیان فطری عمل کے ذریعے اچھے تعلقات قائم تھے۔ مگر تقسیم کے بعد جب یہ فطرت پر مبنی تعلقات ٹوٹ گئے، تو وہ دوبارہ پہلے کی طرح قائم نہ ہوسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہتر سماجی تعلقات فطری عمل کے ذریعے بنتے ہیں، نہ کہ مصنوعی تدبیروں کے ذریعے۔
واپس اوپر جائیں

مثبت لٹریچر کی ضرورت

ایک مدرسہ کے طالب علم نے کراچی بک فیر 2019 میںسی پی ایس انٹرنیشنل کے اسٹال پر آکر اپنا تاثر ان الفاظ میں نقل کیا ہےچار سال قبل میں عورتوں کے بارے میں عرب کے دورِ جاہلیت سے بھی بدتر سوچتا تھا۔ میرے بڑے بھائی نے مولانا (وحید الدین خاں)صاحب کی کتابوں کے مطالعہ پر زور دیا۔ اس وقت میری ذہنی حالت بدتر ہورہی تھی ، میں سوچ سوچ کر اتنا پریشان ہوگیا کہ میں نے خودکشی کرنے کا ارادہ کرلیا۔ ایک دن میں بڑے بھائی کی لائبریری گیا، کتابیں دیکھتے ہوئے میری نظر مولانا صاحب کی کتاب ’’انسان کی منزل‘‘ پر پڑی۔ میں نےاس کتاب کا مطالعہ کیا۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرے ذہن سےبوجھ اتر گیاہو۔اس کے بعد مجھے مولانا صاحب کی مزید کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس وقت کسی نے مجھے عورت کے بارے میں اسلام کا غلط تصور بتایا کہ اسلام عورتوں کوکمتر درجہ دیتا ہے۔ اب میں عورتوں کے بارے میں اسلام سے کچھ حوالہ چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ انھیں قید کرنے کی اسلام میں مجھے اجازت مل جائے گی۔ میں نے اسی نیت سے مطالعہ شروع کیا۔ لیکن جب میں نے کتاب پڑھی، تو انسانوں کے درمیان مجھے اپنا وجود جنگلی محسوس ہونے لگا۔ پہلے میں سوچتا تھا کہ مرد افضل ہے عورت سے۔ مطالعہ کرنے کے بعد میری سوچ کا پیمانہ بدل گیا۔ میں نے یہ کتابیں پڑھیں— خاتونِ اسلام، خاتونِ جنت، عورت معمارِ انسانیت، وغیرہ۔ ان کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے دوسروں کا احتساب کرنے کے بجائے خود کا احتساب شروع کیا۔ گھر میں عورتوں کے ساتھ میں نے غلط رویہ ختم کردیا۔ میرے اندر بدلاؤ آیا تو میں نے اس نظر سے دیکھنا شروع کیا کہ عورت کا بھی درجہ ہے، وہ بھی اللہ کی مخلوق ہے، جیسے کہ مرد۔ اب گھر میں میں عورتوں سے جھگڑا نہیں کرتا ہوں۔ میں اب یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے رب نے دوبارہ زندگی عطا کی ہے۔ (محمود السلام قاسمی، کراچی، 8 دسمبر2019)
اس تاثر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آج کے نوجوان طبقے کی رہنما ئی کے لیے مثبت لٹریچرکی کتنی زیادہ ضرورت ہے۔
واپس اوپر جائیں

ملّت کا احیا

ملّت کی بعد کی نسلوں میں قانونِ فطرت کے مطابق، زوال آتا ہے۔ زوال آنے کے بعد ملت کے اندر احیائے نو کا کام کس طرح کیا جائے، اس کا طریقہ قرآن میں پیشگی طور پر بتادیا گیا ہے۔ قرآن کی اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: جان لو کہ اللہ زمین کو زندہ کرتا ہے اس کی موت کے بعد، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو (الحدید،57:17)۔
یہاں ایک فطری تمثیل کے ذریعے ملت کے احیائے نو کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق زمین پر دو موسم آتے ہیں، سوکھے کا موسم اور بارش کا موسم۔ سوکھےکے موسم میں کھیت سوکھ جاتے ہیں، کھیت کی ہریالی باقی نہیں رہتی۔ اس وقت کسان یہ کرتا ہے کہ بارش کا موسم آتے ہی وہ دوبارہ پانی اور کھاد کو استعمال کرکے اپنے کھیت کو تیار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ سوکھی زمین دوبارہ ہری بھری زمین بن گئی۔
فطرت کی یہ مثال بتاتی ہے کہ ملت کے رہنماؤں کو ملت کے احیاء نو کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ وہ ایسا نہ کریں کہ سوکھی زمین کو کسی دشمن کی سازش کا نتیجہ بتا کر احتجاج کی تحریک شروع کردیں۔ بلکہ وہ کسان کی طرح یہ کریں کہ ملت کی زمین کو فرد کی سطح پر دوبارہ ہموار کریں، اور ملت کے پودے، یعنی ہر ہر فرد کی فکری اعتبار سے تعمیر کریں۔
وہ زراعت کے اصول کو ملّت کے معاملے میں اپلائی (apply) کرتے ہوئے،ملت کو دوبارہ شاداب بنائیں۔جس طرح کسان کی محنت مبنی بر پودا ہوتی ہے، اسی طرح ملت کے رہنماؤ ں کی ساری محنت مبنی بر افراد ہونی چاہیے۔ ملت کا زوال دراصل افراد کے زوال کا نام ہے۔ ایسا وقت آنے پر ملت کے رہنماؤں کو یہ کرناہے کہ وہ افراد کی تعمیر کا کام کرنے کی کوشش کریں۔ اسی سے ملت کو دوبارہ زندگی ملے گی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ملت کے احیا کا کام افراد کے احیا سے شروع ہوتا ہے۔افراد کے اندر اسپرٹ کو زندہ کرنے کے بعد ملت اپنے آپ زندہ ہوجاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

Sunday, 2 February 2020

Al Risala | February 2020 (الرسالہ،فروری)

4

-ایمان کی علامت

5

- حظِّ عظیم

6

- ہدایت کا قانون

7

- حدیث ، عارفانہ کلام

8

- حدیث کی تدوین

9

- رسول اللہ کی سنت

11

- اختلاف کو نظر انداز کیجیے

14

- حکمتِ رسول

16

- حکم اللہ کا

18

- حکومت الٰہیہ

19

- اصلاحی سیاست

20

- ائمۂ ہدایت

21

- فکری کنفیوژن

23

- اسلام میں جنگ

24

- اسلام میں جہاد

25

- ارتداد کا مسئلہ

26

- انتقام نہیں

28

- لو پروفائل، ہائی پروفائل

31

- اسلام اور سائنس

43

- زمانے کے مطابق عمل

45

- ہر مذہب سچا ہے

46

- ذاتی معاملات

47

- عقل کی بات

48

- جنون درکار ہے

49

- خبرنامہ اسلامی مرکز- 271


ایمان کی علامت

محمد بن کعب القرظی (وفات108ھ) مشہور تابعی ہیں۔ ان کا ایک قول ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہےإِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِعَبْدٍ خَیْرًا زَہَّدَہُ فِی الدُّنْیَا، وَفَقَّہَہُ فِی الدِّینِ، وَبَصَّرَہُ عُیُوبَہُ، وَمَنْ أُوتِیہِنَّ أُوتِیَ خَیْرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ (الزھد لوکیع بن الجراح، اثر نمبر 2)۔ یعنی جب اللہ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے، تو اس کو دنیا میں زہد عطا کرتا ہے، اور اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے، اور اس کے عیوب اس کو دکھا دیتا ہے۔ جس کو یہ چیزیں دی گئیں، اس کو دنیا اور آخرت کا خیر دے دیا گیا۔
اس قول میں مومن کی چند صفات بتائی گئی ہیں— زہد، فہم ِدین، خود احتسابی۔ یہ صفات الگ الگ صفات نہیں ہیں، یہ ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر ہیں۔ ان کے مجموعے کو ایک لفظ میں معرفت کہا جاسکتا ہے۔ جب انسان کو اللہ رب العالمین کی دریافت ہوتی ہے، تو وہ ایک عارف باللہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ معرفت اس کی پوری شخصیت کی کلیدبن جاتی ہے۔
مذکورہ تابعی کے قول میں زہد کا لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے وہی ہے، جس کو قرآن میںعدم رکون (ہود، 11:113) کہا گیا ہے،یعنی حالات کے اثر سے جھکاؤکا شکارنہ ہونا۔ یہاں مومن سے مراد وہ مومن ہے، جو اللہ کے مشن میں اپنے آپ کو لگا دیتا ہے۔ ہر مشن میں انسان کو ایک نازک قسم کا اجتماعی رول ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس اجتماعی رول میں ادنیٰ درجے کا ڈسٹریکشن (distraction) مومن کو اپنے رول سے دور کردیتا ہے۔ وہ امکان کے قریب پہنچ کر بھی امکان سے دور ہوجاتا ہے۔
آدمی کو امکان کے قریب پہنچانے والا اللہ رب العالمین ہے۔ لیکن اس امکان کو پہچاننا، ہمیشہ انسان کا اپنا کام ہوتا ہے۔ انسان اگرمعرفت کی پہچان میں ناکام ہوجائے، تو کوئی فرشتہ اس کی مدد کے لیے آنے والا نہیں۔ اس معاملے میں فرشتہ انسان کو ضمیر کے ذریعے سے اشارہ کرتا ہے۔ لیکن نجات کے معنی میں خود کو بچانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ ضروری ہے کہ انسان اس معاملے میں بہت زیادہ الرٹ رہے، تاکہ وہ اپنے آپ کو تباہی سے بچا سکے۔
واپس اوپر جائیں

حظِّ عظیم

قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ ۔ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ ۔ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ (41:33-35)۔ یعنی اور اس سے بہتر کس کی بات ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں، اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو بڑا نصیبے والا ہے۔
قرآن کی ان آیتوں میں ایسے اہل اسلام کا ذکر ہے، جو بڑے نصیبے والے (truly fortunate) ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے برتاؤ سے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ دشمن بھی ان کا دوست بن جائے، جو بظاہر غیر بنا ہوا تھا، وہ بدل کر آپ کا اپنا بن جائے۔
اس انقلابی تبدیلی کا فارمولا کیا ہے۔ وہ صبر کا فارمولا ہے۔ صبر کا فارمولا کیا ہے۔ صبر کا فارمولاایک لفظ میںیک طرفہ اخلاقیات (unilateral ethics) کا نام ہے۔ یعنی جوابی ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرنا، بلکہ فریق ثانی کی روش سے اوپر اٹھ کر غیر جوابی انداز میں یا رد عمل کا طریقہ اختیار کیے بغیر یک طرفہ بنیاد پر حسن عمل کا سلوک کرنا۔
ایسے لوگوں کو ذو حظ عظیم (truly fortunate) ہونےکی بشارت دی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبر سب سے بڑا اسلامی عمل ہے۔ اس لیے کہ صبر کا طریقہ اختیار کرنے والا ذاتی سوچ پر اللہ کی سوچ کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ ذاتی تقاضے پر کنٹرول کرتے ہوئے اللہ کے حکم کو اختیار کرتا ہے۔وہ قربانی کی سطح پر اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہدایت کا قانون

قرآن میں انسانی غفلت کے حوالےسےایک اصول ان دو آیتوں میں بیان کیا گیا ہے: وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُونَ ۔ وَأُمْلِی لَہُمْ إِنَّ کَیْدِی مَتِینٌ (7:182-83)۔ یعنی اور جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا ہم ان کو آہستہ آہستہ پکڑیں گے ایسی جگہ سے جہاں سے ان کو خبر بھی نہ ہوگی۔ اور میں ان کو ڈھیل دیتا ہوں، بیشک میرا داؤ بڑا مضبوط ہے۔
تکذیبِ آیات (نشانیوں کو جھٹلانا) کا مطلب کیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ کائنات کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ قرآنی حقیقتوں کی تصدیق بن گئی ہے۔انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ کائنات کی نشانیوں میں اس تصدیق کو پڑھے، اور ان کا اعتراف کرے، مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کا نظام بتاتا ہے کہ اس کا کنٹرول ایک عظیم خالق کے ہاتھ میں ہے۔ سورج کا ہردن نہایت وقت پر نکلنا، اور پھر نہایت متعین وقت پر اس کا ڈوبنا، اس بات کی گواہی ہے کہ سورج کا نظام ایک عظیم خالق کے کنٹرول میں ہے۔ اس طرح کی بے شمار نشانیاں کائنات میں ہیں۔ جو لوگ ان نشانیوں سے سبق لے کر خالق کو دریافت کریں، انھوں نے سچائی کو جان لیا، اور جو لوگ ان نشانیوں کو نظر انداز کریں، انھوں نے عملاً ان کو جھٹلایا۔ ایسے لوگ خالق کی پکڑ میں آجائیں گے۔
تکذیب کا عمل زیادہ تر لاشعور کے تحت ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کو دھیرے دھیرے پکڑنے کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ فطرت کے اس نظام کو جانے، اور زیادہ ہوش مندی کے ساتھ اس نظام کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اگر انسان زیادہ ہوش مندی کے ساتھ چیزوں کو دیکھے گا، تو وہ فطرت کے نظام سے با خبر ہوجائے گا، اور اس کے لیے اپنی اصلاح کرنا آسان ہوجائے گا۔ اس کے برعکس، جو لوگ غفلت کی زندگی گزاریں، جو دنیا کی دلچسپیوں میں اتنا مشغول ہوجائیں کہ اپنی آخرت کو بھلادیں، ایسے لوگ تخلیقی نظام کی پکڑ میں آجائیں گے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس غلطی سے اپنے آپ کو بچائے۔ انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ٖوہ غفلت کی زندگی گزارے۔
واپس اوپر جائیں

حدیث ، عارفانہ کلام

حدیثِ رسول کو پڑھتے ہوئے مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے، ایک ایسی کیفیت جو قرآن سے کسی قدر مختلف ہوتی ہے۔ ایساکیوں ہوتاہے، اِس کا سبب آج میری سمجھ میں آیا۔ یہ اُس فرق کی بنا پر ہے جو قرآن اورحدیث کے درمیان پایا جاتا ہے۔ قرآن دراصل حقیقت کا بیان (statement of fact) ہے۔ اِس کے مقابلے میں حدیث گویا ایک عارفِ کامل کا کلامِ معرفت ہے، جس نے خود اس معرفت کا تجربہ کیا ہو۔ قرآن کا مطالعہ آدمی کے اندر رب العالمین کی عظمت پیدا کرتاہے، اور حدیث کے مطالعے سے آدمی کو معرفت رب کا ذائقہ ملتاہے۔
مثال کے طور پر جب آپ قرآن میں پڑھتے ہیںأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِکْرِی(20:14)۔یعنی میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ اس میں آپ کو ایک متعین حکم ملتا ہے۔ آپ کے اندر یہ شعور جاگتا ہے کہ آپ اپنے رب کے اس حکم کو عملاً اختیار کریں۔ آپ اپنے رب کے اطاعت گزار بن جائیں۔ اس کے برعکس، جب آپ حدیثِ رسول میں یہ پڑھتے ہیں  رَأْسُ الْحِکْمَةِ مَخَافَةُ اللَّہِ(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 730)۔یعنی حکمت کا سرا اللہ کا خوف ہے۔ آپ کا ذہن اس میں سوچنے لگتا ہے۔ اس قول میں جو معنوی گہرائی ہے۔ آپ اس کی سوچ میں غرق ہوجاتے ہیں۔ آپ کے لیے یہ قول صرف قول نہیں رہتا، بلکہ وہ اسرارِ معانی کا خزانہ بن جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسا کس طرح ہوتا ہے کہ اللہ کا ڈر آپ کے لیے حکمت کا خزانہ بن جائے۔اس کا سبب یہ ہے کہ خوفِ خدا کا احساس آپ کے ذہن کے بند دروازے کو کھول دیتا ہے۔المناوی نے اس حدیث کی شرح ان الفاظ میں کی ہے أَی أَصْلہَا وأسہا الْخَوْف مِنْہُ لِأَنَّہَا تمنع النَّفس عَن المنہیات والشبہات وَلَا یحمل على الْعَمَل بہَا أَی الْحِکْمَة إِلَّا الْخَوْف مِنْہُ (التیسیر بشرح الجامع الصغیر ، جلد2، صفحہ23)۔ یعنی حکمت کی اصل اور جڑ اللہ کا خوف ہے، کیوں کہ وہ نفس کو منہیات اور شبہات سے روکتا ہے، اور حکمت کے مطابق عمل پر صرف اللہ کا خوف ابھارتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حدیث کی تدوین

جیسا کہ معلوم ہے، حدیثیں رسول اللہ کے زمانے میں باقاعدہ طورپر جمع نہیں کی گئیں۔ جب کہ اسی زمانے میں قرآن کو باقاعدہ طورپر جمع کیا جارہا تھا۔ ایسا خود رسول اللہ کی ہدایت کے مطابق ہوا۔آپ نے کہاتھا:لَا تَکْتُبُوا عَنِّی شَیْئًا غَیْرَ الْقُرْآن(مسند احمد، حدیث نمبر 11536)۔ یعنی مجھ سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو۔یہ ایک عجیب بات ہےکہ وہی پیغمبر جس نے قرآن کے بارے میں کہا: تَعَاہَدُوا القُرْآنَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5033)۔ یعنی قرآن کی نگہبانی کرتے رہو۔ اس پیغمبر نے حدیث کی حفاظت کی اتنی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
اِس پر کافی غور کرنے کے بعد میں یہ سمجھا ہوں کہ یہ ایک خدائی منصوبہ بندی کا معاملہ تھا۔ کیوں کہ یہ بات طے شدہ تھی کہ لوگ ہر حال میں اقوالِ رسول کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھیں گے۔ قرآن کی حفاظت، کتابت کے ذریعہ ہوتی رہی، اور حدیث کی حفاظت حافظے کے ذریعہ۔ اِس فرق کا ایک بہت بڑا فائدہ تھا۔ اگر قرآن ہی کی طرح حدیث، آپ کی زندگی میں لکھ کر محفوظ ہوجاتی، تو بعد کی نسلوں کے لیے کوئی کام باقی نہ رہتا۔ حدیثوں کی جمع وتدوین کاکام زیادہ تر عباسی خلافت کے زمانے میں ہوا ہے۔ یعنی اُس زمانے میں جب کہ مسلمانوں کے اندر سیاسی بگاڑ آچکا تھا۔ ایسی حالت میں یہ ہوتا کہ تمام لوگ سیاسی اصلاح کے نام پر حکمرانوں سے لڑنا شروع کردیتے۔ اِس طرح پوری امت، ابن زبیر او رمعاویہ جیسے لوگوں سے بھر جاتی۔ حدیث کا غیر مدوّن ہونا لوگوں کے لیے اِس بات کا ذریعہ بن گیا کہ وہ سیاسی بگاڑ کے اِشو کو نظر انداز کرکے حدیث رسول کی تدوین میں لگ جائیں۔
اِس طرح حدیث رسول کی تدوین کا کام بعد کے لوگوں کے لیے ایک چیک بن گیا، یعنی سیاسی بگاڑ یا حکمرانوں کے ساتھ لڑائی سے روکنے والا عمل۔ حدیث کےکام نے لوگوں کو ایک معلوم میدان دے دیا، جہاں وہ اپنی کوششوں کو صرف کریں۔ جو صلاحیتیں منفی جھگڑے میں ضائع ہوتیں، وہ صلاحیتیں مثبت کام میں مشغول ہوگئیں۔
واپس اوپر جائیں

رسول اللہ کی سنت

سنتِ رسول کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے— قول، عمل اور تقریر۔ تاہم قدیم کتابوں میں قول ، عمل اور تقریر کی جو صورتیں بتائی گئی ہیں، وہی کل مثالیں نہیں ہیں۔ رسول اللہ کی زندگی سے استنباط کرکے ان مثالوں کی تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے گا۔
مثال کے طور پر کعبہ کو جس قرآن میں بیتِ اول (پہلی مسجد) کہا گیا ہے، اس کو پیغمبر ابراہیم نے تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے قدیم مکہ میں تعمیر کیا تھا۔ اس کے ایک عرصہ بعد قدیم مکہ میں ایسے لوگوں کا غلبہ ہوگیا،جو توحید کے بارے میں زیادہ حساس نہیں تھے۔ انھیں میں سے ایک شخص کا نام عمرو بن لحی تھا۔ اس نے پہلی مرتبہ کعبہ کے اندر بت لا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد وہاں دھیرے دھیرے بتوں میں اضافہ ہوتا رہا، یہاں تک کہ عملاً کعبہ ایک بت خانہ بن گیا۔ جس وقت رسول اللہ کو پیغمبر بنایا گیا، اس وقت کعبہ کے اندر تقریباً تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ گویا کعبہ جو کہ توحید کا مرکز تھا، بعد میں اس کو بت پرستی کا مرکز بنا دیا گیا۔
یہ واقعہ پیغمبر توحید کے لیے بظاہر ایک اشتعال انگیز واقعہ تھا۔ لیکن آپ نے اس واقعے پر صبر سے کام لیا، آپ نے اس واقعے کو ایک نئے اینگل سے دیکھا، اوروہ موقع (opportunity) کا اینگل تھا۔ یعنی منفی پہلو کو نظر انداز کرکےیہ دیکھنا کہ اس میں دعوت کے لیے مواقع کیا ہیں ۔ آپ نے دریافت کیا کہ کعبہ عرب کے تمام قبائل کے بت پرستوں کا مرکز بن گیا ہے۔ اس بنا پر وہاں روزانہ بڑی تعداد میں بت پرست قبائل کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ آپ نے اس اجتماع کو دعوت کے اینگل سےدیکھا، اور اس اجتماع کو دعوتی مشن کے لیے بطور آڈینس (audience)استعمال کرنا شروع کردیا۔ آپ کعبہ میں بتوں کی عبادت کے لیے اکٹھا ہونے والے لوگوں کے پاس جاتے ، وہاں آپ لوگوں کے سامنے کعبہ میں رکھے گئے بتوں کے خلاف کوئی احتجاج نہ کرتے تھے، بلکہ پر امن انداز میں آپ لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے تھے۔
رسول اللہ کا یہ عملی نمونہ بھی ایک سنت ہے کہ دعوت کے لیے بظاہر ناموافق صورت حال کو موافق میں تبدیل کرنا،یعنی پیش آمدہ اشتعال انگیز صورتِ حال پر ری ایکٹ نہ کرنا، اور اس میں موجود مواقع کو دعوت کے لیے استعمال کرنا۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے معاملات میں اس سنت رسول پر عمل نہیں کیا۔
مثلاً ایک مسلمان مضمون نگار نے ایک اردو میگزین میں ایک مضمون لکھا،جس کا ٹائٹل یہ تھا— بھارتی مسلمان: سیاسی و سماجی کسمپرسی ۔ یہ صورتِ حال کو مسائل کے اعتبار سے دیکھنا ہے۔ یہ سنت ِ رسول کے خلاف عمل ہے۔ سنت ِ رسول کے مطابق عمل کرنا یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ان مسائل کے درمیان کیا مواقع ہیں ، جو فرد کو اور سماج کو ترقی میں مدد دے سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف کو نظر انداز کیجیے

جنوبی ہند سے ایک عالم ِ دین کا مکتوب موصول ہوا ہے، اس کو یہاں نقل کیا جاتا ہے: تمل ناڈو اور دوسرے علاقوں میں علمائے کرام مختلف اداروں، مثلاً مدرسہ یا مسجد، وغیرہ، سے منسلک ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ان کو ادارے کی انتظامیہ (management) سے کوئی شکایت ہوجاتی ہے ، اس وقت وہ منفی رویہ اپنا کر اس ادارے سے نکل کر کسی دوسرے ادارے میں چلے جاتے ہیں، یا ایک نیا ادارہ قائم کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ پریشان بھی رہتے ہیں، اور ان کا علمی سفر بھی رک جاتا ہے۔ کیوں کہ ادارہ کی ذمے داریاں سنبھالنے میں ان کا وقت گذر جاتا ہے۔ان واقعات کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں یہ بات سمجھ میں آئی ہےکہ علما\ئے کو صرف خروج علی الحاکم کے مسائل معلوم ہیں، خروج علی مینجمنٹ کے مسائل ان کومعلوم نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خروج ہر جگہ غیر مطلوب ہے ، ا س کا انھیں علم نہیں ۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ علماء اپنی علمی ذمے داریاں ادا کریں ،اور ادارے کی انتظامیہ، وغیرہ اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں تو معاملہ ٹھیک رہے گا۔ اس معاملے میں علماء کے لیےوہ حدیث رسو ل واحد راستہ ہے ، جس کے الفاظ یہ ہیں أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052)۔ یعنی ان کو حق ان کادو، اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔ اگر اس حدیث کے مطابق عمل نہ کیا جائے، تو باعتبارِ نتیجہ صرف فساد برپا ہوگا، شکایت کا ازالہ نہیں ہوگا۔
اس سلسلے میں محدثین ہمارے لیے نمونہ ہیں۔ انھوں نے اپنی علمی اور دینی ذمے داریاں بھرپور طریقے سے ادا کی، لیکن وقت کے حکام سے جو شکایت تھی، اس کو نظرانداز کیا۔ جس کی وجہ سے آج ہم ان کے علمی ذخیرے سے فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ آج علماء کرام دلوں میں شکایت پالنے کی وجہ سےاپنے لیے مسائل میں اضافہ کرتے جارہے ہیں، مگر کوئی بڑا علمی ذخیرہ یا کارنامہ نہیں ادا کررہے ہیں۔ تقریباًہر عالم اپنی انتظامیہ اور متولیانِ مساجد کے خلاف شکایت کرتا ہوا نظر آتا ہے، یہاں تک کہ پوری زندگی شکایت کی نذرہوجاتی ہے ۔
آج علماء صرف جلسوں یا کانفرنسوں میں نظر آجاتے ہیں، مگر ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو کو ئی علمی تحقیق یا علمی یاد گار نہیں دے پاتے۔ اس کےبغیر ہی وہ دنیا سےشاکی ہو کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ علماء اپنی اس سوچ کی اصلاح کریں، وہ اپنی لاعلمی کو جانیں۔ وہ ادارے کی انتظامیہ کی نیتوں پر حملے ترک کر یں ، اس کے بجائے ان کو چاہیےکہ جو مواقع ان کو حاصل ہیں ، ان پر وہ فوکس کریں، اور امت مسلمہ کو فائدہ پہنچائیں۔ (مولانا سیداقبال احمد عمری، عمرآباد، تامل ناڈو)
مکتوب نگار نے جو بات لکھی ہے، وہ بلاشبہ درست ہے۔ لیکن راقم الحروف کے نزدیک اس کا سبب ماضی کی تاریخ تک جاتا ہے۔ فقہائے متقدمین اس معاملے میں میرے نزدیک ٹرینڈ سیٹر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فقہائے متقدمین کے زمانے میں مسائل میں اختلافات پیدا ہوئے۔ اس وقت فقہائے متقدمین نے مسائل پر لامتناہی بحثیں چھیڑ دیں۔ یہ بلاشبہ ایک غلو تھا، جس کے نتیجے میں غیرضروری طور پر فقہی مسالک بنے، اور بڑھتے بڑھتے ان مسائل کی بنیاد پر مختلف قسم کے فقہی گروپ بن گئے۔ فقہ صرف ایک ہے، اور وہ وہی ہے، جو صحابہ کرام کے زمانے میں عملاً موجود تھی۔ بعد کے زمانے میں فقہی بنیاد پر مختلف گروہ بن گئے،مثلاًحنفی فقہ ،مالکی فقہ ، شافعی فقہ، حنبلی فقہ، جعفری فقہ، وغیرہ۔ وہ وہی چیز تھی، جس کو قرآن میں تفرق فی الدین (البقرۃ، 2:103)کہا گیا ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مشترک امور میں توحد کا طریقہ اختیار کیا جائے، اور اختلافی امور میں توسع کا طریقہ۔
علمائے فقہ کو اس معاملے میں توسع کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا، جس کی طرف ابن عبد البر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم و فضلہ (جلد 1، صفحہ 345)میں اشارہ کیا ہے۔ اس اختلافی مسائل میں غلو کے نتیجے میں ایک مبتدعانہ اصول پیدا ہوا، جس کو ترجیح کہتے ہیں۔ ترجیح کا طریقہ، جو علمائے فقہ کے درمیان رائج ہوا، وہ بلاشبہ ایک مبتدعانہ اصول تھا۔ صحیح اصول توسع ہے، نہ کہ ترجیح۔ عبادات میں اصل زور روح یعنی اسپرٹ پر دینا چاہیے، مگر ترجیح کی اس بحث نے یہ کیا کہ عبادات میں روحِ عبادت کا مسئلہ عملاً غیر اہم بن گیا، اور ساری بحث مسائل پر ہونے لگی۔ مسائل بالفاظ دیگر فارم پر ہونے لگی۔ اسی کا نتیجہ آخر کاروہ نکلا جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :مَسَاجِدُہُمْ عَامِرَةٌ وَہِیَ خَرَابٌ مِنَ الْہُدَى (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1763)۔ یعنی ان کی مسجدیں آباد ہوں گی، لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گی۔یہی معاملہ اداروں کے ذمہ داران سے اختلاف کا ہے۔ اگر اس قسم کے معاملے کا آپ تجزیہ کیجیے تو آپ پائیں گے کہ یہ سارے اختلافات فروعی چیزوں میں ہیں، نہ کہ اصولی چیزوں میں ۔ جب کہ اتحاد صرف اصولی مسائل میں ممکن ہے، فروعی مسائل میں ممکن ہی نہیں۔
اس معاملے پر شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اسلام کے دورِ اول میں جب خروج علی الحاکم کا مسئلہ پیدا ہوا، تو علمائے اسلام نے اس پر کیا رویہ اختیار کیا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، اس پر علما کا یہ اجماع ہو گیا کہ حاکم کے خلاف خروج کرنا، جائز نہیں ہے۔ چنانچہ امام نووی نے لکھا ہے: وَأَمَّا الْخُرُوجُ عَلَیْہِمْ وَقِتَالُہُمْ فَحَرَامٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ وَإِنْ کَانُوا فَسَقَةً ظَالِمِینَ (شرح النووی علی صحیح مسلم، جلد نمبر12، صفحہ 229)۔ یعنی حاکم کے خلاف خروج کرنا، مسلمانوں کے اجماع سے حرام ہے، اگر چہ حاکم فاسق و ظالم ہو۔
ا س کا مطلب یہ ہوا کہ حاکم کے خلاف خروج نہ کرنا، مطلقاً مطلوب ہے۔ کوئی بھی عذر (excuse) اس معاملے میں خروج کو جائز نہیں کرتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خروج ایک اور چیز سے جڑا ہوا ہے، اور وہ ہے، استحکام (stability)۔ سماجی زندگی میں استحکام مطلق طور پر مطلوب ہے۔ کوئی بھی چیز جو استحکام کو نقصان پہنچائے، وہ بطورِ اصول قابلِ ترک ہے۔
قدیم زمانے میں یہ عمل سیاسی حاکم کے مقابلے میں اختیار کیا گیا تھا، موجودہ زمانے میں یہی اصول اس معاملے میں اپلائی ہوتا ہے، جب کہ ادارے کے ذمے دار کے خلاف خروج کا معاملہ ہو۔ کسی کے لیے یہ تو جائز ہے کہ وہ کسی عذر کو لے کر خاموشی کے ساتھ ادارے سے الگ ہوجائے۔ وہ الگ ہونے سے پہلے بھی اس معاملے میں خاموش رہے، اور ادارے سے الگ ہونے کے بعد بھی خاموش رہے۔ ادارے کے خلاف یا ادارے کے ذمے داران کے خلاف شکایتیں کرنا، اور منفی باتیں کرکے لوگوں کے اندر شکایتی ماحول پیدا کرنا، ہرگز جائز نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں

حکمتِ رسول

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت معلمِ دین کی ہے، یعنی دینِ خداوندی کی تعلیمات سے انسان کو باخبر کرنا۔ اس سلسلے میں قرآن میں دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں— کتاب اور حکمت۔ کتاب سے مراد قرآن ہے۔ یعنی وہ سب جو پیغمبر اسلام پر بذریعہ وحی اترا ہو، اور وہ محفوظ طور پر مابین الدفتین، ہمارے پاس موجود ہو۔اس مجموعے کو قرآن بھی کہا جاتا ہے، اور کتاب اللہ بھی۔ اس کتاب کا متن عربی زبان میں محفوظ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو تعلیم قرآن میں لفظاً موجود نہ ہو، اس کے بارے میں کیا اصول ہے۔ انھیں دوسری تعلیمات کو حکمت کہا گیا ہے۔ حکمت سے مراد وہی چیزہے، جس کو انگریزی زبان میں وزڈم (wisdom) کہتے ہیں۔یہ حکمت قرآن کی ملفوظ تعلیمات کے علاوہ ہے۔ یہ قول کی صورت میں بھی ہوسکتی ہیں، اور عمل کی صورت میں بھی، اور اُس صورت میں بھی جس کو محدثین کی اصطلاح میں تقریر کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ کی تعلیمات کا یہی وہ حصہ ہے، جس کو قرآن میں حکمت کہا گیا ہے۔
مثال کے طور پر رسول اللہ کا مشن توحید کا مشن تھا، یعنی انسان اللہ کو ایک مانے، اور اس کا عبادت گزار بنے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب رسول اللہ کی بعثت ہوئی، اس وقت کعبہ کی عمارت میں تقریباً تین سو ساٹھ بت موجود تھے۔ رسول اللہ وہاں جاتے، اور لوگوں سے کہتے کہ ایک اللہ کو مانو، اور اسی کی عبادت کرو۔ لیکن سیرت کی کتابوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے وہاں جاکر یہ کہا ہوکہ کعبہ کے معمار پیغمبر ابراہیم نے کعبہ کو ایک اللہ کی عبادت کے لیے بنایا تھا۔ تم کعبہ کی عمارت سے بتوں کو ہٹاؤ، اور اس کو صرف ایک اللہ کی عبادت کے لیے خالص کرو۔
اب یہ سوال ہے کہ رسول اللہ کا یہ عمل قرآن میں کہاں مذکور ہے۔ یہ تعلیم رسول اللہ کے عمل سے نکلتی ہے، نہ کہ قرآن کے الفاظ سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ طریقہ جو رسول اللہ نے اختیار کیا، وہ ایک مستنبط طریقہ تھا۔ اسی مستنبط طریقے کا نام حکمت ہے،یعنی بذریعہ استنباط (inference) دریافت کیا ہوا طریقہ۔
اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ پیغمبرِ اسلام نے اس معاملے میں ڈی لنکنگ (delinking) کا طریقہ اختیار کیا، یعنی بت پرستی اور کعبہ کے قریب بت پرستوں کے اجتماع میں فرق کرنا۔ آپ نے دیکھا کہ قدیم مکہ کے لوگوں نے کعبہ کی عمارت میں بت رکھ دیے ہیں، وہاں وہ روزانہ جمع ہوتے ہیں، اور اپنے عقیدے کے مطابق بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کعبہ میں بیک وقت دو مظاہر موجود تھے۔ ایک، کعبہ کی عمارت میں بتوں کی موجودگی، اور دوسرا، ان بتوں کی وجہ سے کعبہ کے پاس روزانہ اہل شرک کا اکٹھا ہونا۔
آپ نے اس معاملے میں ڈی لنکنگ کی پالیسی اختیار کی۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی، اور ان بتوں کی وجہ سے کعبہ کے پاس عرب قبائل کا اکٹھا ہونا۔ آپ نے ایک کو دوسرے سے الگ کردیا۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو وقتی طور پر نظر اندازکیا، اور عرب قبائل کے اجتماع کو اپنے آڈینس کے طور پر استعمال کیا۔
ڈی لنکنگ کا یہ طریقہ جو آپ نے اختیار کیا، وہ لفظی حکم کے طو رپر قرآن میں موجود نہ تھا۔ یہ ایک استنباطی حکمت تھی، جو آپ نے دعوت کے لیے استعمال کی۔ اس استنباطی حکمت کے لیے دوسرا لفظ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی آیت میں کتاب سے مراد قرآن ہے، اور حکمت سے مراد پریکٹکل وزڈم ہے۔
پریکٹکل وزڈم، یعنی ایک طریقے کو عمل کی بنیاد پر اختیار کرنا، جب کہ نظریے کی بنیاد پر وہ طریقہ متن میں موجود نہ ہو۔ موجودہ زمانےمیں حدیث اور سنت کا چرچا بہت زیادہ کیا گیا ہے، لیکن مذکورہ طریقہ جوبلاشبہ ایک سنت رسول ہے،اس کا کوئی چرچا نہیں۔ اس سنت کی بنیاد پر مسلمانوں میں اب تک کوئی منصوبہ بندی نہیںہوئی۔ یہ ایک ایسی سنت رسول ہے، جو عملاً مسلمانوں میں متروک بنی ہوئی ہے۔ موجودہ زمانے کا اصل کام یہ ہے کہ اس متروک سنت کو زندہ کیا جائے۔ اس متروک سنت کو ایک لفظ میں پریکٹکل وزڈم کہا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حکم اللہ کا

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میںآئی ہے: إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ (12:40) ۔ یعنی حکم صرف ایک اللہ کا ہے۔ اس طرح کی آیات میں حکم کا لفظ سیاسی حکم (political rule) کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ فوق الطبیعی حکم (supernatural rule) کے معنی میں ہے۔اس کا مطلب پولٹکل سائنس کی کتابوں سے نہیں معلوم ہوگا، بلکہ اس کا مطلب قرآن کی آیتوں میں غور و فکر سے معلوم ہوگا۔
اس طرح کی آیتوں میں حکم کا لفظ اس قانون کے لیے نہیں آیا ہے، جو اسمبلی میں یا پارلیمنٹ میں بنایا جاتا ہے، اور جس کو وزیرِ قانون یا عدالت کے جج نافذ کرتے ہیں۔ بلکہ اس طرح کی آیتوں میں حکم سے مراد وہ برتر حکم ہے، جو اللہ رب العالمین نے براہ راست طور پر اپنے فرشتوں کے ذریعہ عالم وجود میں نافذ کر رکھا ہے۔ اس حکم سے مراد وہ حکم ہے، جس کو یاد کرنے سے انسان کے اندر شکر اور عبادت کی اسپرٹ پیدا ہوتی ہے، جو آدمی کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس دنیا میں شاکر اور عبادت گزار بن کر زندگی گزارے۔ مثلاً سورج کا نکلنا، آکسیجن کی سپلائی کا نظام، بارش کا نظام، زمین سے غلہ پیدا ہونے کا نظام، ہواؤں کے چلنے کا نظام، زمین پر لائف سپورٹ سسٹم قائم کرنے کا نظام، وغیرہ، اور اس طرح کی بے شمار چیزیں جو اس دنیا میں انسان کو فطرت کے نظام کے تحت حاصل ہیں۔ یہ سب نظام اللہ رب العالمین کے حکم کے تحت وقوع میں آتے ہیں۔ اس حکم کی دریافت کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ انسان اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرے، اور اللہ کو اپنا معبود سمجھ کر صرف اسی کی عبادت کرے۔
اگر کوئی شخص اس طرح کی قرآنی آیتوں کو لے کر دنیا میں سیاسی تحریک چلائے، اور حکمرانوں کو قیادت سے بے دخل کرنے کے لیے ان سے لڑائی شروع کردے تو یہ اس حکم کی تعمیل نہیں ہوگی، بلکہ اس حکم کے نام پر ایک تخریب کاری کی سیاست چلانا ہوگا۔ یہ اللہ کے نام پر ایک باغیانہ فعل کا ارتکاب ہوگا۔ قرآن کی اس طرح کی آیتوں کا کوئی تعلق پولٹکل اکٹوزم (political activism)سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تمام تر تعلق اس سے ہے کہ انسان اس دنیا میں شکر اور عبادت کی زندگی گزارے، وہ دنیا میںرحمٰن کا بندہ (الفرقان، 25:63-74) بن کر زندگی گزارے ۔
حکومت کا معاملہ
موجودہ دنیا پورے معنوں میں اللہ رب العالمین کی سلطنت ہے۔ دنیا کی ہر چیز کو محدود مدت کے لیے اللہ نے انسان کے چارج میں دے دیا ہے۔ اسی میں سے حکومت کا معاملہ بھی ہے، جس طرح زمین کا زرعی رقبہ (agricultural land) عارضی طو رپر انسان کو دیا گیا ہے تاکہ وہ اس کو استعمال کرے، اسی طرح انسان کو یہ موقع بھی عارضی طور پر دیا گیا ہے کہ وہ دنیا میںسویلائزیشن بنائے۔ یہ مدت صرف قیامت تک کے لیے ہے۔ قیامت کے بعد انسان کا اختیار ختم ہوجائے گا، اور اس کو اپنے عمل کے مطابق، اس کی جزا یا سزا دی جائے گی۔
یہی معاملہ حکومت کا بھی ہے۔ حکومت دوسری اشیاء سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ حکومت کا اختیار بھی انسان کے لیے امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ آخرمیں انسان کا اس اعتبار سے حساب لیا جائے گا، اور انسان کو اس کے عمل کے مطابق، جزا یا سزا دی جائے گی۔ قرآن میں اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:( ترجمہ) لوگوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اور زمین ساری اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں۔ وہ پاک اور برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (39:67)۔
حدیث میں مزید یہ الفاظ آئے ہیں:یَطْوِی اللہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَاوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، ثُمَّ یَأْخُذُہُنَّ بِیَدِہِ الْیُمْنَى، ثُمَّ یَقُولُ:أَنَا الْمَلِکُ، أَیْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُونَ. ثُمَّ یَطْوِی الْأَرَضِینَ بِشِمَالِہِ، ثُمَّ یَقُولُ:أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُونَ؟ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2788)۔ یعنی اللہ تعالی قیامت کے دن آسمان کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں رکھے گا، پھر کہے گا، میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جبار، کہاں ہیں متکبرین، پھر وہ زمین کو اپنے بائیں ہاتھ میں رکھے گا، پھر کہے گا، میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جبار، کہاں ہیں متکبرین — یہ اس وقت ہوگا جب کہ انسان کی آزادی اس دنیا میں ختم ہوجائے گی۔
واپس اوپر جائیں

حکومت الٰہیہ

قرآن میں بتایا گیا ہے :إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ (12:40)۔ یعنی اقتدار صرف اللہ کے لیے ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے۔ مگر بہت لوگ نہیں جانتے۔ قرآن کی اس آیت میں انسان سے یہ نہیں کہا گیا ہے کہ وہ حکومت الٰہیہ جو ابھی قائم نہیں ہے، اس کولڑ کر زمین پر قائم و نافذ کرے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ خود اپنے آپ کو قائم شدہ حکومتِ الٰہیہ کا مطیع بنائے۔ یہ اطاعت امر کا حکم ہے، نہ کہ کسی مفروضہ حکومت یا نظام کے نفاذ کا امر۔
قرآن کی اس آیت کو اگر اس کے صحیح معنی کے اعتبار سے لیا جائے تو وہ انسان کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو حکم خداوندی کا تابعدار بنائے۔ اس کے برعکس، اگر اس آیت کو نفاذ (enforcement) کے معنی میں لیا جائے، تو برعکس طور پر اس کا مطلب یہ بنے گا کہ انسان کو چاہیے کہ وہ با اقتدار لوگوں سے لڑ کر ان سے اقتدار کی کنجیاں چھینے ، اور خود تختِ سلطنت پر قبضہ کرے۔ وہ حاکم بنے، اور دوسروں کو محکوم بنا کر بطور خود خدا کا حکم زمین پر چلائے۔
صحیح تفسیر کے مطابق، قرآن کی یہ تعلیم تمام انسانوں کو یکساں حیثیت دیتی ہے، یعنی آیت کی نظر میں تمام انسان اللہ کے بندے ہیں، اور ہر انسان کو یکساں طور پر یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ رب العالمین کا محکوم سمجھے، اور اللہ کے احکام کی تابعداری میں زندگی گزارے ۔ یہ آیت ایسا نہیں کرتی کہ لوگوں کو دو گروہ میں بانٹے، اور پھر ان میں سے ایک گروہ کو حاکم (ruler) قرار دے، اور ودسرے گروہ کو یہ حیثیت دے کہ وہ محکوم (ruled) بن کر زندگی گزاریں۔
حکمِ الٰہی کا لفظ قرآن میں کسی سیاسی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ عمومی اطاعت کے معنی میں ہے۔ اس سے مراد ایک سلوک (behaviour) ہے، نہ کہ کوئی سیاسی قانون ۔ یہ فرد کو اسلامائز کرنے کا معاملہ ہے، نہ کہ حکومت یا ریاست کو اسلامائز کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

اصلاحی سیاست

تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے بھی سیاست کی اصلاح کے نام پر تحریک چلائی، ان کی سیاست ہمیشہ تخریبی سیاست ثا بت ہوئی۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ سیاسی اصلاح کا مروجہ طریقہ درست طریقہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی اصلاح کے طریقے میں ہمیشہ ایک فریقِ ثانی موجود رہتا ہے۔ ہر سیاسی اصلاح کا طریقہ فریقِ ثانی کو اپنے سیاسی مفاد کے خلاف نظر آتا ہے۔ اس لیے اول دن ہی سے وہ اس اصلاحی سیاست کے خلاف ہوجاتا ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔
یہ حل وہی ہے ، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں اختیار کیا تھا۔ آپ کی اہلیہ عائشہ آپ کی پالیسی کو ان الفاظ میں بتاتی ہیں:مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا أَخَذَ أَیْسَرَہُمَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3560)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معاملات کے درمیان اختیار دیا گیا، آپ نے ان دونوںمیں سے آسان تر کو اختیار کیا۔ یہ طریقِ عمل ہر تحریک کے لیے یکسا ں طور پر چسپاں ہوتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں جب بھی کوئی تحریک چلائی جائے، تو اس کے چلانے والوں کو نہایت شدت کے ساتھ یہ اصول اپنانا چاہیے کہ ان کی تحریک مکمل طور پر امن کے اصول پر قائم رہے۔
اس قسم کی تحریک کے دوران اگر کوئی ایسا مرحلہ آئے، جب کہ تحریک کو چلانے کی صورت میں اربابِ سیاست سے ٹکراؤ پیش آنے والا ہو، تو وہاں مصلحین کو چاہیے کہ وہ پریکٹکل وزڈم کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ یک طرفہ طور پر غیرنزاعی انداز میں اپنی تحریک کو چلائیں، کسی حال میں بھی وہ اپنی تحریک کو نزاع اور ٹکراؤ کے راستے پر نہ لے جائیں۔ اربابِ سیاست سے نزاعی طریقہ اختیار کرنا، ہمیشہ نقصان کا سبب بنتا ہے۔ کیوں کہ اس قسم کا ٹکراؤ عملاً دو غیر مساوی گروہوں کے درمیان ٹکراؤ بن جاتا ہے۔ اہل اقتدار کے پاس طاقت ہوتی ہے، اور مصلحین کے پاس طاقت موجود نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عملا ً گریٹر ایول (greater evil) کے انجام تک پہنچ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ائمۂ ہدایت

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّةً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ (32:24)۔ یعنی اور ہم نے ان میں پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، جب کہ انھوں نے صبر کیا۔ اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔
اس آیت میں سارا زور یقین پر ہے۔ یعنی جب کوئی امت اپنے فکری اور ذہنی ارتقا کے نتیجے میں اللہ کی رہنما ئی پر یقین کے درجے میں قائم ہوجاتی ہے، تو وہ اللہ کے نزدیک اس قابل ہوجاتی ہے کہ اس کو ہدایت کی ذمے داری عطا کی جائے۔ اس کو کلامِ الٰہی کی گہری سمجھ عطا کی جاتی ہے، اور اس کی یہ ذمے داری قرار پاتی ہے کہ وہ پوری امانت کے ساتھ اللہ کی ہدایت کو لوگوں تک پہنچائے۔ یہ ایک ذمے داری کا معاملہ ہے، وہ کوئی اعزاز کا معاملہ نہیں۔ اگر امت کے افراد یقین کی حالت پر نہ ہوں، تو وہ ذمے داری کے اس کام کو صحیح طور پر انجام دینے کے اہل نہیں ہوں گے۔ اس لیے اس ذمے داری کو ادا کرنے کی شرط یہ قرار پائی کہ امت کے لوگ جس ہدایت کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں، وہ خود اس کی صداقت پر یقین رکھتے ہوں۔
اسی بات کو قرآن میں دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ (6:163)۔ یعنی میں پہلا مسلمان ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے— میں جس بات کی طرف تم کو بلا رہا ہوں، میں خود اس پر یقین کے ساتھ کھڑا ہو رہا ہوں۔
اس ذمے داری کی ادائیگی میں صبر کا بنیادی رول ہے۔ کیوں کہ صبر کسی آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ یکسوئی کے ساتھ ذمے داری کے اس کام میں لگ جائے۔ اس کام میں وہ کسی رکاوٹ کو رکاوٹ نہ بننے دے۔ صبر سے آدمی کے اندر مشن کے لیے استقامت آتی ہے، صبر آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ خواہ اس کی ذمے داری اس کے لیے ایک مشکل ذمے داری ہو، پھر بھی وہ اس پر دلجمعی کے ساتھ قائم ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

فکری کنفیوژن

حدیثِ رسول میں بعد کے زمانہ کے بارے میں ایک پیشین گوئی کی گئی ہے۔ اس میں بتایاگیاہے کہ یہ دور فتنۂ دہیماء کا دور ہوگا۔ فتنۂ دہیماء کا مطلب ہے کالا فتنہ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہت زیادہ اندھیرا (utter darkness) ہوگا۔ یہ اندھیرا مادی روشنی کےاعتبار سے نہیں ہوگا بلکہ اس اعتبار سے ہوگا کہ لوگوں کے لیے سچائی کا راستہ گم ہوجائے گا۔ اس دور کے لیے حدیث میں یہ الفاظ بھی آئےہیں کہ اس زمانہ میں اسلام کا صرف نام باقی رہے گا، اور قرآن کا صرف رسم الخط باقی رہے گا(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1763)۔
حدیث کی اس پیشین گوئی کو میںنے ایک سفر کے دوران سمجھا۔اس سفر کے دوران میری ملاقات کچھ تعلیم یافتہ مسلمانوں سےہوئی۔ گفتگو کے دوران کسی نے کہا کہ ہمارے لیے نقطۂ آغازکیا ہے (مِن این نبدأ)۔ کسی نے کہا کہ ہمارے لیے لائحۂ عمل (line of action) کیاہے۔ گویاکہ لوگ اس امر میں مشتبہ ہوگئے ہیں کہ موجودہ حالات میں کرنے کا صحیح کام کیا ہے۔
غور کرنے سے سمجھ میں آتاہے کہ یہ فقدان اجتہاد (lack of ijtihad) کا مسئلہ ہے۔موجودہ زمانہ مکمل طور پر ایک بدلا ہوا زمانہ ہے۔ سوچنےکا انداز، کام کرنے کا طریقہ، وقت کے مطابق پلاننگ، رائے قائم کرنے کے پیمانے ،سب یکسر طور پر بدل گئےہیں۔اب روایتی طریقہ زمانے کے اعتبار سے غیر متعلق (irrelevant) ہوگیا ہے۔ جو چیزیں پہلےمسلّمہ سمجھی جاتی تھیں، وہ اب ناقابل قبول بن گئی ہیں۔ایسی حالت میں جس چیز کی ضرورت ہے وہ فتوی کی زبان نہیں ہے کہ لوگوں کو سادہ طورپر امر اور نہی (dos & don’ts) کی فہرست بتادی جائے۔ یہ صورت حال دراصل نئے اجتہاد کی طالب ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام دور حاضر میں بے جگہ(misfit) ہوگیا ہے، بلکہ یہ مسائل کو ریڈیفائن (redefine) کرنے کا وقت ہے۔ اب ضرورت ہے کہ قرآن وسنت کا از سرنو مطالعہ کیا جائے۔ اب ضرورت ہےکہ مجتہدانہ ذہن کے تحت اسلام کی از سر نو تطبیق (reapplication) تلاش کی جائے۔ اس سے کم درجہ کی کوئی رہنمائی موجودہ دور میں کافی نہیں ہوسکتی۔
مثال کے طورپر وطنیت (patriotism) کا تصور پہلے زمانہ میں مذہب سے متعلق سمجھا جاتا تھا۔ مگر موجودہ جمہوری زمانہ میں وہ ایک سیکولر سبجکٹ(subject)بن گیاہے۔ اس معاملہ میں ضرورت ہے کہ اس معاملہ کو مجتہدانہ ذہن کے ساتھ دیکھا جائے، اور دنیا سے ہم آہنگی اختیار کرتےہوئے وطنیت کو ایک سیکولر سبجکٹ قرار دیا جائے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہر مقام پر مسلمان بے جگہ (displaced persons) بنے ہوئے ہیں۔
اسی طرح شریعت کے نفاذ کے بارے میں عام طورپر ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے جو تشدد کا سبب بن رہی ہے۔ اسی نوعیت کی ایک مثال یہ ہے— پاکستان کے دو شہروں کوئٹہ اور پارا چنار میں بم دھماکے ہوئے جس میں 43 لوگ مارے گئے اور 100 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ اس سلسلہ میں پاکستانی طالبان کے ایک گروپ نے کوئٹہ کے حملہ کی ذمہ داری لیتے ہوئے نیوز ایجنسی کو ایک خط لکھا جس کا ایک جملہ یہ تھا—— کوئٹہ پر حملے جاری رہیں گے اس وقت تک جب تک کہ سچا شریعت سسٹم پاکستان میں لاگو نہیں ہوگا:
“Our attacks will continue until a true shariah system is enforced in Pakistan”. (The Times of India, June, 24, 2017)
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے اندر یہ سخت خطرناک غلط فہمی (extremely dangerous misunderstanding)پیدا ہوگئی ہے کہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ شریعت کے قانون کو وہ دنیا میں نافذ (implement) کریں۔ یہ بلاشبہ ایک بے بنیاد تصور ہے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ انفرادی سطح پر شریعت کے قانون کی پرامن انداز میں پیروی کریں۔مثلاً قرآن میں آیا ہے کہ أَقِیمُوا الصَّلَاةَ (نماز قائم کرو)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نمازکو اس کی اسپرٹ کے ساتھ ادا کرو، اور نماز والی اسپرٹ کو اپنی پوری زندگی میں قائم کرو۔
واپس اوپر جائیں

اسلام میں جنگ

اسلام میں جنگ سلبی مقصد کے لیے ہے، اسلام میں جنگ ایجابی مقصد کے لیے نہیں۔ یعنی اسلام میں جنگ کسی مانع (obstacle) کو دور کرنے کے لیے ہے، نہ کہ مطلوب (desired) گول کو قائم و نافذ کرنے کے لیے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک رہنما آیت یہ ہے: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ فَإِنِ انْتَہَوْا فَإِنَّ اللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ (8:39)۔ یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ دیکھنے والا ہے ان کے عمل کا۔
اس آیت میں واضح طو رپر جنگ کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ فتنہ عملاً ختم ہوجائے۔ صحابی رسول عبد اللہ بن عمر نے فتنہ کو یہاں شرک جارح کے معنی میں لیا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4514)۔ دوسرے لفظوں میں اس کو مذہبی جبر (religious persecution) کہا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جبر کرنے والے اگر اپنے جبر سے باز آجائیں، اور لوگوں کو مذہب پر آزادانہ عمل کرنے کا موقع دے دیں، تو اس کے بعد ان سے جنگ ختم کردی جائے گی۔ اس آیت میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ فتنہ کو ختم کرکے عادلانہ حکومت قائم کرو۔ اس تفسیر کا تعلق قرآن کی اس آیت سے نہیں۔
کچھ لوگ خود ساختہ تشریح کے تحت اس آیت کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ فتنہ(شرک) کا نظام ختم کرو، اور عدل (اسلام)کا نظام قائم کرو۔ اس طرح کا مفہوم وہ قرآن کی آیتأَقِیمُوا الدِّینَ (42:13)سے بھی اخذ کرتے ہیں۔ حالاں کہ اس آیت میں دین کی اقامت کا مطلب بذاتِ خود دین کی پیروی کرناہے،نہ کہ دین کا مکمل نظام لوگوں کے اوپر عملاً نافذ (enforce) کرنا۔اسی طرح قرآن میں اعْدِلُوا (المائدۃ، 5:8) کا حکم آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عدل کا نظام لوگوں کے اوپرنافذ  کرو،بلکہ اس کا درست مطلب، صحابی رسول عمار بن یاسر کے الفاظ میں اس طرح ہوگا کہ تمھارااپنی ذات کے اعتبار سے عدل کرنا(الإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِکَ)۔ صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب نمبر 18۔
واپس اوپر جائیں

اسلام میں جہاد

اسلام میں جہادبالسیف (مسلح جہاد) کا مقصد صرف ایک تھا ختم ِ فتنہ، یعنی مذہبی جبر (religious persecution)کا خاتمہ۔ دورِ جدید میں مذہبی جبر کا خاتمہ ہوچکا ہے، اس لیے اس زمانے میں مسلح جہاد قابلِ عمل (applicable) نہیں ہے۔ اس دور میں جہاد کی بات کرنی، یقینی طور پر بے خبری کی بات ہے۔ جہاد بالسیف کا حکم اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:(ترجمہ)ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہوجائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو اس کے بعد سختی نہیں ہے مگر ظالموں پر (2:193)۔اس آیت میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ جہاد بالسیف صرف ختم فتنہ تک کے لیے ہے۔ جب فتنہ ختم ہوجائے تو جہاد بالسیف کا دور بھی موقوف ہوجائے گا۔ مسلح جہاد کے تعلق سے قرآن کی ایک دوسری آیت ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
اس دوسری آیت کا مطالعہ پہلی آیت کے ذیل میں کیا جائے گا۔ یعنی اس آیت میں جس جہاد کا ذکر ہے، وہ پہلی آیت کی طرح ایک مشروط حکم ہے، نہ کہ غیر مشروط حکم۔ یعنی جب فتنہ کے ختم کے لیے قتال جاری ہو تو اس وقت دوسری آیت (یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا ) ایک مطلوب حکم ہوگا۔ لیکن جب فتنہ کا زمانہ ختم ہوجائے، تو اس وقت جہادکرنابھی موقوف ہوجائے گا۔ختم ِ فتنہ کے لیے قتال اس لیے ضروری تھا کہ فتنہ کی وجہ سے دنیا میںمذہبی آزادی (religious freedom) کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ قدیم زمانے میں بادشاہی نظام نے مذہبی آزادی کو امر ممنوع (forbidden)قرار دے دیا تھا۔ یہ کلچر خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے خلاف تھا۔ اس بنا پر ضروری تھا کہ بادشاہت کی قائم کردہ اجارہ داری کے دور کو ختم کردیا جائے، تاکہ خالق کے نقشے کے مطابق دنیا میں مذہبی آزادی کا دور آجائے۔
واپس اوپر جائیں

ارتداد کا مسئلہ

اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے— یہ ایک بے بنیاد مسئلہ ہے۔ کیوں کہ یہ حکم نہ قرآن سے ثابت ہے، اور نہ حدیث سے۔ البتہ فقہا نے بطور خود ایسے مسائل وضع کرلیے ہیں، جن میں سےکچھ یہ ہیں، شاتم کی سزا قتل، مرتد کی سزا قتل ،وغیرہ۔
اس قسم کے مسائل اسلام کی اسپرٹ کے خلاف ہیں۔ اسلام کے نزدیک ایسے ایمان کی کوئی حقیقت نہیں، جو قانونی جبر کے تحت کسی نے اختیار کیا ہو۔ اسلام وہ ہے، جو قانونی جبر کے تحت نہیں، بلکہ آزادانہ طور پر اختیار کیا گیا ہو۔ اسلام کی اصل ذاتی دریافت ہے۔ ایمان وہ ہے جو سیلف ڈسکوری (self discovery) کی بنیاد پر کھڑا ہو۔
اسلام کے مطابق، جہاں کوئی شخص "شتم " یا "ارتداد " میں مبتلا پایا جائے، تو خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اس کے لیے دعا کی جائے، اس سے ڈسکشن کیا جائے۔ اگر اس کے اندر کچھ شک پیدا ہو ا ہے، تو اس کے شک کو علمی ڈسکشن کے ذریعے دور کیا جائے۔ اس کو ایک مجرم کی طرح نہ دیکھا جائے، بلکہ اس طرح دیکھا جائے، جس طرح کوئی ڈاکٹر مریض کو دیکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا مقصد لوگوں کو فتویٰ دے کر قتل کرنا نہیںہے، بلکہ اس کو خیر خواہی کے جذبے کے تحت اللہ کی رحمت کے سائے میں لانے کی کوشش کرنا ہے۔ اصل حقیقت کے اعتبار سے ایسے افراد کا کیس بے خبری (unawareness) کا کیس ہوتا ہے۔ داعی یا مصلح کا کام یہ ہے کہ اس کی بے خبری کو توڑا جائے، اس کی فطرت کو بیدار کیا جائے۔ اس کو اپنے خالق سے قریب ہونے کا موقع دیا جائے۔ یہ کوشش کی جائے کہ اس کے اندر توبہ کی نفسیات جاگے۔یہ کوشش کی جائے کہ وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ صراطِ مستقیم پر قائم ہوجائے۔ اسلام میں سماجی جرم (social crime) پر قتل کی سزا ہے، اسلام میں اعتقادی جرم (thought crime) پر قتل کی سزا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

انتقام نہیں

میں نے تقریبا ًتمام مشہور مذاہب کا مطالعہ کیاہے۔ میں نے پایا کہ ہر مذہب میں ایک تعلیم مشترک ہے۔ اسلوب اور انداز مختلف ہے، لیکن تعلیم کا خلاصہ ایک ہے۔وہ ہے، انتقام نہ لینا۔ کسی سے کوئی تکلیف پہنچے، تو اس کو درگزر کردینا۔ہر ایک سے اچھا سلوک کرنا، خواہ اس نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ہو۔ یہ اخلاقی تعلیم ہر مذہب میں مشترک طو رپر پائی جاتی ہے۔
میں نےغور کیا کہ یہ تعلیم تمام مذاہب میں کیوں ہے، اور یہ کہ یہ صرف ایک اخلاقی تعلیم ہے، یا اس میں کوئی وزڈم ہے۔ اخلاق کا تصور تعلیم کو محدود کرتا ہے، لیکن اگر اس تعلیم میں کوئی وزڈم دریافت کی جائے، تو وہ تعلیم اپنی نوعیت میں ایک یونیورسل اصول بن جاتا ہے۔غور و فکر کے بعد میں نے پایا کہ یہ اصول ایک اعلیٰ وزڈم پر مبنی ہے۔ یہ ایک یونیورسل اصول ہے، نہ کہ محدود معنوں میں صرف ایک اخلاقی تعلیم۔
یہ تعلیم آپ کے ایک عمل کو ڈبل گڈ (double good) بنا دیتی ہے۔ آپ کا ایسا عمل آپ کو ڈبل بلیسنگ (double blessing) کا مستحق بنادیتا ہے۔ ایسے اصول پر عمل کرنا، آپ کی شخصیت میں ڈبل ارتقا کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی کے ساتھ ایک اچھا سلوک کریں، آپ اس کے ساتھ نیکی کا ایک معاملہ کریں۔ آپ کا ایسا کرنا، ایک درجہ کی نیکی ہے۔ لیکن اگر کسی نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ہے، اور آپ اس کے ساتھ رد عمل کا انداز اختیار کرتے ہوئے، خودبھی اس کے ساتھ ایک برا سلوک کریں، تو آپ دوسرے کے برے سلوک کابدلہ لے لیتے ہیں۔ اس طرح آپ کا اور دوسرے کا معاملہ برابر ہوجاتا ہے۔
اس کے برعکس، اگر آپ جوابی عمل کا طریقہ یا ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کریں، تو آپ ڈبل بلیسنگ کے مستحق بن جاتے ہیں۔ ایک ہے، انتقام نہ لینا، اور دوسرا ہے دوسرے کے ساتھ یک طرفہ طور پر نیکی کا معاملہ کرنا۔ غور کیجیے تو ہر مذہب میں اس طرح کے سلوک کا طریقہ موجود ہے۔مثلاً رام چندر کا درجہ ہندوؤں میں بہت بڑا ہے۔ رام چندر کا قصہ بیان کیاجاتا ہے کہ کوئی ان پر غصہ ہوگیا۔ اس نے اپنے پاؤں سے رام چندر کے سینے پر ماردیا۔ رام اس کے جواب میں غصہ نہیں ہوئے، انھوں نے مذکورہ آدمی کو اپنے گلےسے لگا لیا، اور کہا: میرے لوکھنڈ سینے سے تمھارے کومل پاؤں کو چوٹ تو نہیں لگی۔ اس آدمی نے پوچھا کہ میں نے آپ کے ساتھ ایک غلط کام کیا، اور آپ میرے ساتھ اتنا اچھا معاملہ کیوں کررہے ہیں۔ رام نے کہا تمھیں تو اس قابل ہو کہ تم کو گلے سے لگایا جائے، کیوں کہ تمھارے اندر ایک برائی ہے۔ برائی کی اصلاح برائی سے نہیں ہوتی، بلکہ برائی کی اصلاح اچھائی سے ہوتی ہے۔ یہی تعلیم مسیحیت کی بھی ہے۔ مثلا ًنئے عہد نامہ کی تعلیم ہے:
Love your enemies, do good to those who hate you, bless those who curse you, pray for those who mistreat you. (Luke 6:27-28)
اس کا مطلب یہ ہے کہ چاہے دوسرا شخص آپ کے ساتھ دشمنی کا معاملہ کرے، آپ پھر بھی اس کے ساتھ محبت کا معاملہ کیجیے۔ یہی تعلیم اسلام کی بھی ہے۔ مثلاً قرآن میں مومن کی تعریف یہ کی گئی ہے: وَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ (42:37)۔ یعنی جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا شخص تمھارے ساتھ غصہ دلانے والا معاملہ کرے، تب بھی غصہ نہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ یک طرفہ طور پر عفو ودرگزر کا معاملہ کرو۔
یہ تعلیم اس لیے ہے کہ جب آدمی ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرے، وہ یک طرفہ طور پر دوسروں کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرے، تو وہ ڈبل ریوارڈ کا مستحق بن جاتا ہے۔ ایک یہ کہ اس نے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا، دوسرا یہ کہ انتقام کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ اس یک طرفہ سلوک میں حکمت یہ ہے کہ ایک غلط معاملہ کرنے کے بعد چین ری ایکشن نہیں بنتا، بلکہ بات وہیں کی وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ گویا یہ نیپنگ ان دی بڈ (nipping in the bud) کی عملی صورت ہے۔ یعنی شروع میں ہی ختم کر دینا ، پوری طرح پھولنے پھلنے نہ دینا ۔
واپس اوپر جائیں

لو پروفائل، ہائی پروفائل

قرآن کی ایک آیت میں پیغمبر یعقوب کی اپنے بیٹوں کو نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے:وَقَالَ یَا بَنِیَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ (12:67)۔ یعنی اور یعقوب نے کہا کہ اے میرے بیٹو، تم سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا۔
قرآن کی اس آیت میں تدبیر کار کا ایک طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ وہ طریقہ فقہ کی اصطلاح میں غیرجہری طریقہ ہے۔ یعنی اپنا مشن اس انداز میں چلانا کہ فریق ثانی اس کو اپنے لیے خطرہ نہ سمجھے۔ وہ آخر وقت تک کام کرنے والوں کو کام کرنے کا موقع دے۔ اس طریقہ کار کو اگر جدید اسلوب میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا —— لوپروفائل (low profile) میں کام کرنا۔ یعنی کام کو ایسے انداز میں کرنا کہ فریق ثانی اس کو اپنے لیے چیلنج نہ سمجھے، اور اس طرح کام کرنے والوں کو آخر وقت تک کام کرنے کا موقع ملتا رہے۔ اس کے مقابلے میں جو طریقہ ہے، اس کو ہائی پروفائل کہاجاتا ہے۔ ہائی پروفائل میں فریق ثانی فوراً ہی چوکنا ہوجاتا ہے، اور جوابی کارروائی شروع کردیتا ہے۔ جب کہ لوپروفائل میں فریق ثانی کام کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتا۔ اس بنا پر اس کونظر انداز کرتا رہتا ہے۔
اس طریقِ کار کے لیے حدیثِ رسول میں ایک حوالہ موجود ہے۔ پیغمبر ِ اسلام نے جب مکہ کی فتح کا ارادہ کیا تو آپ نے اس معاملے میں بہت زیادہ لوپروفائل سے کام لیا۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں وأمر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بالجہاز، وأمر أہلہ أن یجہزوہ،فدخل أبو بکر على ابنتہ عائشة رضی اللہ عنہا، وہی تحرک بعض جہاز رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فقال:أی بنیة:أأمرکم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أن تجہزوہ؟ قالت:نعم، فتجہز، قال:فأین ترینہ یرید؟ قالت:(لا) واللہ ما أدری. ثم إن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أعلم الناس أنہ سائر إلى مکة، وأمرہم بالجد والتہیؤ، وقال:اللہم خذ العیون والأخبار عن قریش حتى نبغتہا فی بلادہا(سیرت ابن ہشام،جلد 2، صفحہ 397)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سفر کی )تیاری کا حکم دیا، اور اپنی اہلیہ کو کہا کہ وہ اس سفر کی تیاری کا کام کرے۔ پس ابو بکر اپنی بیٹی عائشہ کے پاس آئے ، اس وقت وہ رسول اللہ کے سفر کی بعض تیاری کا کام کر رہی تھیں۔ تو کہا: بیٹی ، کیا رسول اللہ نے تیار ی کا حکم دیا ہے۔ عائشہ نے کہا: ہاں، سامان سفر تیار کرنے کا ۔ ابوبکر نے پوچھا، تمھارے خیال سے کہاں کا ارادہ ہے۔ عائشہ نے کہا، مجھے ، اللہ کی قسم، نہیں معلوم۔ پھر رسول اللہ نے لوگوں کو خبر دیا کہ وہ مکہ کی طرف کوچ کرنے والے ہیں، اور ان کو تیاری کا حکم دیا۔ اس وقت آپ نےیہ دعا کی: اللہ ، تو قریش کی آنکھوں اور خبروں کو روک دے۔ یہاں تک کہ تو ان کےشہر میں پہنچا دے۔
اسی طرح غزوۂ خیبر کا ایک واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔محدث البخاری کے مطابق، ابوموسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں جارہے تھے، (راستے میں) ہم یہ کرنے لگے کہ جب ہم کسی بلندی پر چڑھتے یا بلندی پر پہنچ جاتے یاکسی نشیبی علاقہ میں اترتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے قریب آئے تو آپ نے کہا: اے لوگو ، اپنے آپ پر رحم کرو، کیونکہ تم کسی بہرے یا غیر موجود کو نہیں پکارتے ہو،بلکہ تم اس ذات کو پکارتے ہو جو بہت زیادہ سننے والا بڑا دیکھنے والا ہے (یَا أَیُّہَا النَّاسُ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِکُمْ، فَإِنَّکُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، إِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِیعًا بَصِیرًا)صحیح البخاری، حدیث نمبر6610۔
ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہےکہ انبیاء کے کام کرنے کا طریقہ کیا تھا۔انبیاء ہمیشہ لوپروفائل (low profile) میں کام کرنا پسند کرتے تھے۔ ہائی پروفائل میں کام کرنا، نبیوں کا مطلوب طریقہ نہ تھا۔لو پروفائل کا مطلب ہے، غیر نمایاں انداز میں کام کرنا۔ ایسے انداز میں کام کرنا، جب کہ آپ کا حریف آپ کے کام کو اپنے لیے چیلنج نہ سمجھے۔ فریق ثانی آپ کے کام میں اپنے لیے خطرہ محسوس نہ کرے۔ فریقِ ثانی آپ کے معاملے کو اپنے لیے غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردے:
A position of avoiding or not attracting much attention or publicity. Intended to attract no attention or controversy.
یہ طریقہ بہت بڑی حکمت پر مبنی ہے۔ اس طریقۂ کار کی حکمت یہ ہے کہ لو پروفائل میں کام کیا جائے، تو اس سے ری ایکشن کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ آدمی کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ شروع سے آخر تک اپنا کام معتدل انداز میں جاری رکھے، اور اپنے حسب منشا اپنے منصوبے کو تکمیل تک پہنچائے۔
لو پروفائل میں کام کرنے کی صورت میں ایسا ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کو آپ کے کام کی خبر نہیں ہوتی۔ وہ آپ کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کا منصوبہ نہیں بناتا، وہ آپ سے ٹکراؤ کی کوشش نہیں کرتا۔ اس طرح آپ کو موقع مل جاتا ہے کہ آپ معتدل انداز میں اپنے منصوبوں کو مکمل کرسکیں۔ آپ کی پوری انرجی صرف اپنے منصوبے کی تکمیل میں استعمال ہو۔ غیر ضروری چیزوں میں ضائع ہونے سے بچ جائے۔ اس کے مقابلے میں ہائی پروفائل کا طریقہ ہے۔ اس کا مطلب ہے، نمایاں انداز میں کام کرنا:
A position or approach characterized by a deliberate seeking of prominence or publicity. If someone has a high profile, people notice them and what they do. If you keep a low profile, you avoid doing things that will make people notice you.
ہائی پروفا ئل (high profile)میں کام کرنا، ہمیشہ مسئلہ پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ فریق ثانی بہت جلد آپ کے عمل سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ وہ ضروری سمجھتا ہے کہ آپ کے مقابلے میں جوابی منصوبہ بندی شروع کردے۔ اس طرح بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ آپ اور فریق ثانی کے درمیان چین ری ایکشن (chain reaction) شروع ہوجاتا ہے۔ لو پروفائل میں کام کرنے کی صورت میں یہ ہوتا ہے کہ آپ کا وقت اور آپ کی انرجی (energy)صرف اپنے منصوبہ کی تکمیل میں استعمال ہوتی ہے۔ جب کہ ہائی پروفائل میں کام کرنے کی صورت میں آپ کے وقت اور آپ کی انر جی کا بڑا حصہ جوابی کارروائی میں گزر جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام اور سائنس

اس مختصر مقالہ میں مجھے اس سوال کی تحقیق کرنی ہے کہ مسلمان موجودہ زمانہ میں سائنس کی تعلیم میں پیچھے کیوں ہوگئے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان سائنس کی تعلیم میں اس لیے پیچھے ہیں کہ ان کا مذہب سائنس کی تعلیم کا مخالف ہے، یا کم ازکم اس کو پسند نہیں کرتا۔ مگر یہ بات حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن میں کثیر تعداد میں ایسی آیتیں موجود ہیں، جن میں مختلف طریقوں سے اس امر پر زور دیاگیا ہے کہ زمین وآسمان کی چیزوں پر غور کرو۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ اسلام کے ماننے والے زمین و آسمان کی چیزوں کا مطالعہ نہ کریں، جس کا دوسرانام سائنس ہے۔ اسلام کے نزدیک کائنات کے مطالعہ کا سب سے پہلا فائدہ معرفت ہے، یعنی مخلوق کے ذریعے خالق کا مشاہدہ کرنا۔ تاہم جب لوگ کائنات کو قابل غور سمجھ کر اسے دیکھتے ہیں، تو اس سے وہ چیز بھی برآمد ہوتی ہے جس کو سائنس کہاجاتا ہے۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کی اپنی تاریخ بھی اس کی تردید کرتی ہے۔ کیوں کہ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ ابتدائی دور کے مسلمانوں نے سائنس کے شعبوں میں زبردست ترقی کی۔ حتی کہ جس زمانہ میں یوروپ کی قوموں نے سائنس کی راہ میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا تھا، اس وقت مسلمان سائنس کی راہ میں شاندار ترقیاں حاصل کرچکے تھے۔ برٹرینڈ رسل نےاس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے کہ 600ء سے 1000 ء تک کے دور کو ہم تاریک دور کہتے ہیں۔ یہ مغربی یوروپ کو غیر واقعی اہمیت دینا ہے۔ اسی زمانہ میں چین میں تُنگ کی حکومت تھی، جو کہ چینی شاعری کا اہم ترین دور ہے، اورکئی دوسرے پہلوؤں سے بہت اہم دور ہے۔ اسی زمانہ میں ہندستان سے لے اسپین تک اسلام کی شاندار تہذیب چھائی ہوئی تھی۔ اس زمانہ میں جو چیز مسیحیت کے لیے کھوئی ہوئی تھی، وہ تہذیب کے لیے کھوئی ہوئی نہ تھی بلکہ اس کے برعکس تھی:
Our use of the phrase "the Dark Ages" to cover the period from 600 to 1000 marks our undue concentration on Western Europe. In China, this period includes the time of the Tang dynasty, the greatest age of Chinese poetry, and in many other ways a most remarkable epoch. From India to Spain, the brilliant civilization of Islam flourished. What was lost to Christendom at this time was not lost to civilization, but quite the contrary. (Bertrand Russell, A History of Western Philosophy, Woking UK, 1947, p. 420)
زمانہ سے آگے
قرون وسطی میں مسلمانوں نے طب اور سائنس کے میدان میں جوکارنامے انجام دیےہیں، وہ تعجب خیز حد تک عظیم ہیں۔ الرازی (865-932) اور ابن سینا(980-1037) اپنے وقت کے سب سے بڑے ماہرینِ طب تھے، جن کا کوئی ثانی اس وقت کی دنیا میں موجود نہ تھا۔ ابن سینا کی کتاب القانون فی الطب علم طب پر ایک بنیادی کتاب ہے۔ وہ دنیا کے اکثر طبی اداروں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی رہی ہے۔ حتی کہ فرانس میں وہ 1650ء تک داخل نصاب تھی:
Al-Qanun became a classic and was used at many medical schools, at Montpellier, France, as late as 1650 (11/828).
مسلمانوں کے یہ کارنامے عام طورپر مشہور اور معلوم ہیں۔ ان پر بے شمار کتابیں ہر زبان میں لکھی گئی ہیں۔ تاہم اس سلسلہ میں ایک سوال ہے، اور یہ سوال اس کی توجیہہ کے بارے میں ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانکا (1984) کے مقالہ نگار نےاس کو ان الفاظ میں بیان کیاہے:
The greatest contribution of Arabian Medicine was Chemistry and in the knowledge and preparation of medicines; many drugs now in use are of Arab origin, as also are such processes as distillation and sublimation. Often the chemistry of that time was mainly as search for the philosopher's stone, which supposedly would turn all common metals to gold. Astronomers were astrologers and chemists were alchemists. It is, therefore, surprising that, despite all this, the physicians of the Muslim empire did make a noteworthy contribution to medical progress. (11/828)
طب عربی کی سب سے بڑی خدمت کیمسٹری اور دواؤں کے علم اور ان کی تیاری کے بارے میں تھی۔ اکثر دوائیں جو آج استعمال ہوتی ہیں، ان کی اصل عرب ہی ہے۔ اسی طرح تقطیر اور تصعید جیسےعمل بھی۔ اس زمانہ کی کیمسٹری اکثر وبیشتر پارس پتھر کی تلاش کا نام تھی، جس کے متعلق یہ گمان کرلیاگیا تھا کہ وہ تمام دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرسکتا ہے۔ اس زمانہ کے فلکیات داں محض نجومی ہوتے تھے، اور کیمسٹری کے علماء صرف کیمیا گری کرتے تھے۔ اس لیے یہ تعجب خیز بات ہے کہ ان سب کے باوجود مسلم عہد کے اطباء نے طب کی ترقی میں قیمتی اضافے کیے۔
اسلام سائنس کا خالق
یہ باتیں وہ ہیں، جن کا عام طورپر مورخین نے اعتراف کیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس سے بھی آگے ہے۔ جدید سائنس خود اسلام کی پیدا کردہ ہے۔ اسلام بلاشبہ سائنس کے لیے نہیں آیا۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سائنسی انقلاب خود اسلامی انقلاب کی ضمنی پیداوار ہے۔ اسلام اور سائنس کے اس تعلق کو بریفالٹ نےان الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ ہماری سائنس پر عربوں کا قرضہ صرف یہ نہیں ہے کہ انھوں نے حیران کن نظریات دیے۔ سائنس اس سے زیادہ عربوں کی مقروض ہے۔ یہ خود اپنے وجود کے لیے ان کی احسان مند ہے:
“The debt of our science to that of the Arabs does not consist in startling discoveries or revolutionary theories, science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence. The Astronomy and Mathematics of the Greeks were a foreign importation never thoroughly acclimatized in Greek culture. The Greeks systematized, generalized and theorized, but the patient ways of investigation, the accumulation of positive knowledge, the minute method of science, detailed and prolonged observation and experimental inquiry were altogether alien to the Greek temperament. Only in Hellenistic Alexandria was any approach to scientific work conducted in the ancient classical world. What we call science arose in Europe as a result of new spirit of enquiry, of new methods of experiment, observation, measurement, of the development of mathematics, in a form unknown to the Greeks. That spirit and those methods were introduced into the European world by the Arabs. (Robert Briffault, Making of Humanity, p. 34)
یہ ایک علمی اور تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام سائنس کا خالق ہے۔ سائنس سادہ طورپر مطالعۂ فطرت (study of nature)کا نام ہے۔انسان جب سے زمین پر آباد ہے اسی وقت سے فطرت اس کے سامنے موجود ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فطرت کے مطالعہ اور تسخیر میں انسان کو اتنی زیادہ دیر لگی۔سائنس کی تمام ترقیاں پچھلے ہزار برس کے اندر ظہور میں آئی ہیں۔ جب کہ اصولاً انھیں لاکھوں سال پہلے ظاہر ہوجانا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ قدیم زمانہ میں شرک کا غلبہ ہے۔ شرک اس میں مانع تھا کہ آدمی فطرت کا مطالعہ کرے، اور اس کی قوتوں کو دریافت کرکے انھیں اپنے کام میں لائے۔شرک کیا ہے۔ شرک نام ہے فطرت کو پوجنے کا۔ قدیم زمانہ میں یہی شرک تمام اقوام کا مذہب تھا۔
For the ancient man, Nature was not just a treasure-trove of natural resources, but a goddess, Mother Earth. And the vegetation that sprang from the earth, the animals that roamed the earth’s surface, and the minerals hiding in the earth’s bowels, all partook of nature’s divinity, so did all natural phenomena — springs and rivers and the sea; mountains, earthquakes and lightening and thunder.
غرض زمین سے آسمان تک جو چیز بھی انسان کو نمایاں نظر آئی، اس کو اس نےاپنا خدا فرض کرلیا، اسی کا نام شرک ہے اور یہ شرک اسلام سے پہلے تمام معلوم زمانوں میں دنیا کا غالب فکر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدیم انسان کے لیے فطرت پرستش کا موضوع (object of worship)بنی ہوئی تھی۔ پھر عین اسی وقت وہ تحقیق کا موضوع (object of investigation) کیسے بنتی۔ یہی اصل وجہ ہے، جس کی بنا پر قدیم انسان اس طرف راغب نہ ہو سکا کہ وہ فطرت کا مطالعہ کرے۔ تمام قدیم زمانوں میں انسان فطرت کو خدا سمجھ کر اس کے سامنے جھکتا رہا ہے۔ فطرت کو مقدس نظر سے دیکھنا، انسان کے لیے اس میں روک بنا رہا کہ وہ فطرت کی تحقیق کرے ،اور اس کو اپنے تمدن کی تعمیر کے لیے استعمال کرے۔
آرنلڈٹائن بی نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ فطرت پرستی (شرک) کے اس دور کو سب سے پہلے جس نے ختم کیا وہ توحید (Monotheism) ہے۔ توحید کے عقیدے نے پہلی بار انسان کو یہ ذہن دیا کہ فطرت خالق نہیں، بلکہ مخلوق ہے۔ وہ پوجنے کی چیز نہیں، بلکہ استعمال کی چیز ہے۔ اس کے آگے جھکنا نہیں ہے، بلکہ اس کو تسخیر کرناہے۔ تاہم جب اس حقیقت کو دیکھا جائے کہ توحید کے نظریہ کو پہلی بار اسلام نے عملی طورپر رائج کیا ،تو یہ انقلاب براہ راست اسلام کا کارنامہ قرار پاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خدا کے تمام پیغمبر توحید کا پیغام لے کر آئے۔ ہر دور میں خدا کے جن بندوں نے سچائی کی تبلیغ کی انھوں نے خالص توحید ہی کی تبلیغ کی۔ مگر اسلام سےپہلے کسی بھی دور میں ایسا نہیں ہوا کہ بڑی تعداد میں لوگ توحید کے نظریہ کو مان لیں اور توحید کی بنیاد پر انسانی معاشرہ میں وسیع انقلاب برپا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام سے پہلے انسان کبھی توحید کے حقیقی ثمرات سےآشنا نہ ہوسکا۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، خدا کا ہر پیغمبر توحید کا پیغام لےکر آیا۔ مگر پچھلے پیغمبروں کے ساتھ یہ صورت پیش آئی کہ ان کے پیرو ان کے لائے ہوئے دین کی حفاظت نہ کرسکے۔ انھوں نے توحید میں شرک کی آمیزش کردی۔ مثال کے طورپر حضرت مسیح نے خالص توحید کا پیغام دیا، مگر ان کے بعد ان کے پیروؤں نے خود حضرت مسیح کو خدا سمجھ لیا۔ ان کا یہ مشرکانہ عقیدہ مختلف پہلوؤں سے سائنس کی ترقی کے لیے رکاوٹ بن گیا۔ مثلاً کچھ علمائے فلکیات نے نظامِ شمسی کی تحقیق کی۔ وہ اس حقیقت تک پہنچے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ مگر عیسائی علماء ایسے لوگوں کے سخت مخالف ہوگئے۔ اس کی وجہ ان کا مذکورہ مشرکانہ عقیدہ تھا۔ انھوں نے زمین کو خداوند کی جنم بھومی فرض کررکھا تھا، اس لیے ناقابلِ فہم ہوگیا کہ جس زمین پر خدا پیدا ہوا ہو، وہ زمین نظامِ شمسی کا مرکز نہ ہو، بلکہ اس کی حیثیت محض ایک تابع کی قرار پائے۔ اپنے مشرکانہ عقیدہ کو بچانے کے لیے انھوں نے سائنسی حقیقت کا انکار کردیا۔
دوسری بات یہ کہ پچھلے تمام پیغمبروںکامشن صرف اعلان کی حد تک جاسکا، وہ عملی انقلاب تک نہیں پہنچا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھی انسانی تاریخ کے پہلے گروہ ہیں جنھوں نے توحید کو ایک زندہ عمل بنایا۔ انھوں نے اولاً عرب میں شرک (مظاہر فطرت کی پرستش) کا مکمل خاتمہ کیا، اور توحید کو عملی طورپر انسانی زندگی میں رائج کیا۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھے، اور قدیم زمانہ کی تقریباً تمام آباد دنیا میں شرک کو مغلوب کردیا۔ انھوں نے ایشیا اور افریقہ کے تمام بُت خانوں کو غیر آباد کر دیا، اور توحید کو ایک عالمی انقلاب کی حیثیت دے دی۔
اہلِ اسلام کے ذریعہ توحید کا جو عالمی انقلاب آیا، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ توہم پرستی کا دور ختم ہو۔ اب مظاہر فطرت کو پرستش کے مقام سے ہٹا دیاگیا۔ خدائے واحدانسان کا معبود قرار پایا۔ اس کے علاوہ جو تمام چیزیں ہیں، وہ سب صرف مخلوق بن کررہ گئیں۔انسانی تاریخ میں اسلام کے ظہور سے جو عظیم تبدیلی آئی، اس کا اعتراف ایک امریکی انسائیکلو پیڈیا میں ان الفاظ میں کیاگیا ہے کہ اسلام کے ظہور نے انسانی تاریخ کے رُخ کو موڑ دیا:
Its advent changed the course of human history.
مظاہر فطرت کو پرستش کے مقام سے ہٹانے کا یہ نتیجہ ہوا کہ وہ فوراً انسان کے لیے تحقیق اور تسخیر کا موضوع بن گئے۔ مظاہر فطرت کی تحقیق وتسخیر کے فکر کی ابتدا بالواسطہ انداز میں مدینہ میںشروع ہوئی۔ پھر دمشق اور بغداد اس تحقیق وتسخیر کے عملی مرکز بنے۔ اس کے بعد یہ لہر سمندر پار کرکے اسپین اور سسلی میں داخل ہوئی، وہاں سے وہ مزید آگے بڑھ کر اٹلی اور فرانس تک جا پہنچی۔ یہ تاریخی عمل جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ جدید سائنسی انقلاب تک پہنچ گیا۔ مغرب کا سائنسی انقلاب اس اعتبار سے اسلامی انقلاب کا نقطۂ انتہا ہے۔ وہ توحید کے انقلاب کا سیکولر نتیجہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو اسلام سائنس کا بانی تھا، اور جس کے ماننے والے اپنے ابتدائی دور میں ساری دنیا کے لیے سائنس کے معلم بنے، اسی اسلام کے ماننے والے موجودہ زمانہ میں سائنس کی تعلیم میں دوسروں سے پیچھے کیوں ہوگئے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی ہے۔ مسلمانوں نےابتداء ً جو سائنسی انقلاب برپا کیا تھا، وہ اسپین تک پہنچنے کے بعد مغربی قوموں کی طرف منتقل ہوگیا۔ اس کے بعد سائنس کی ترقیاں زیادہ تر اہلِ مغرب کے ہاتھوں ہوئیں۔ اس زمانہ میں بھی اگرچہ دنیا کا بڑا حصہ سیاسی طور پر مسلمانوں کے قبضہ میں تھا، مگر سائنس کی ترقی کا کام صلیبی جنگوں کے بعد مغربی یورپ کے ذریعہ انجام پاتا رہا۔
مسلمانوں نے اپنے ابتدائی دور میں سائنس کے میدان میں جو ترقیاں کی تھیں، اس کا پہلا سب سے بڑا فائدہ ان کو دو سو سالہ صلیبی جنگوں (1095-1270) میں ہوا۔ اس جنگ میں تقریباً سارا یورپ متحدہ طاقت سےمسلم دنیا پر حملہ آور ہوا، تاکہ اپنے مقدس مقامات کو مسلمانوں کے قبضہ سے واپس لے۔ مگر انھیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ ان مہموں میں کروروں جانیں اور بے پناہ دولت قربان کردی گئی،اور جب یہ سب ختم ہوا تو یروشلم بدستور ’’بددینوں‘‘ کے قبضہ میں تھا:
Millions of lives and an enormous amount of treasure were sacrificed in these enterprises. And when all was done, Jerusalem remained in the possession of the “infidels”.
(Pears' Cyclopeadia, 1953-1954, p. 539)
صلیبی جنگوں کا خاتمہ مسلمانوں کی کامل فتح اور مسیحی یورپ کی کامل شکست پر ہوا۔ مسلمانوں کی فتح ان کے لیےالٹی پڑی۔ اس کے برعکس عیسائیوں کو ان کی شکست کا زبردست فائدہ حاصل ہوا۔ مسلمان اپنی سیاسی فتح پر قانع ہو کر رہ گئے۔ کامیابی کے احساس نے ان کی عملی قوتوں کو ٹھنڈا کردیا۔
اس کے برعکس مسیحی یورپ کو اپنی ناکامی کا یہ فائدہ ملا کہ اس کے اندر یہ ذہن پیدا ہوا کہ اپنی کمزوریوں کو معلوم کرکے ان کی تلافی کرے۔ چنانچہ اس کے اندر ایسے لوگ پیدا ہوئے، جنھوں نے زور وشور کے ساتھ یہ تبلیغ کی کہ مسلمانوں کی زبان عربی سیکھو، اور ان کی کتابوں کا اپنی زبان میں ترجمہ کرو۔ یہ رجحان یورپ میں تیزی سے پھیلا۔ مسلمانوں کی اکثر کتابیں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کی گئیں، جو اس وقت یورپ کی علمی زبان تھی۔ یہ عمل کئی سو سال تک جاری رہا۔ ایک طرف مسلمان اپنی سیاسی کامیابی میں گم تھے، دوسری طرف یورپ علمی میدان میں مسلسل ترقی کررہا تھا۔
یورپ کا یہ علمی سفر جاری رہا۔ یہاں تک کہ 18ویں صدی آگئی جب کہ یوروپ واضح طورپر مسلم دنیا سے آگے بڑھ گیا۔مغربی یوروپ نے سائنس کو جدیدٹکنالوجی تک پہنچایا۔ اس نے دستکاری کی جگہ مشینی صنعت ایجاد کی۔ اس نے دستی ہتھیاروں کی جگہ دور مار ہتھیار بنا لیے۔ وہ برّی طاقت سے آگے بڑھا، اور ابتداء ً بحری طاقت، اور اس کے بعد فضائی طاقت پر قابو حاصل کرلیا۔ اس طرح مغرب بالآخر ایسی طاقت بن گیا، جس کا مقابلہ مسلمان اپنے موجودہ سازوسامان کے ساتھ نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ مغرب جدید قوتوں سے مسلح ہو کر دوبارہ جب مسلم دنیا کی طرف بڑھا تو مسلمان قومیں ان کو روکنے میں ناکام رہیں۔ مغربی قوموں نے مختصر عرصہ میںتقریباً پوری مسلم دنیا پر براہِ راست یا بالواسطہ کنٹرول حاصل کرلیا۔
صلیبی جنگوںکے بعد مسلمان اپنی سیاسی فتح کے جوش میں سائنس سے دور ہوگئے تھے۔ موجودہ زمانہ میں یہی بات ایک اور شکل میں پیش آئی۔ مغربی قوموں کے مقابلہ میں سیاسی شکست نے موجودہ مسلمانوں کے اندر منفی رد عمل پیدا کیا۔ مغربی قوموں نے ان سے ان کا سیاسی فخر (political pride) چھینا تھا۔ چنانچہ وہ مغربی قوموں سے سخت متنفر ہوکر رہ گئے۔ اپنی رد عمل کی نفسیات کی وجہ سے انھوں نے نہ صرف مغربی قوموں کو برا سمجھا، بلکہ مغربی قوموں کی زبان، اور مغربی قوموں کے ذریعہ آنے والے علوم کو بھی وہ نفرت کی نظر سے دیکھنے لگے۔
ایک صدی کی پوری مدت اسی حال میں گزر گئی۔ مسلمان مغربی قوموں سے نفرت کرتے رہے، یا ان سے ایسی لڑائیاں لڑتے رہے، جو مسلمانوں کی کمتر تیاری کی وجہ سے صرف شکست پر ختم ہونے والی تھی۔ دوسری طرف دنیاکی دوسری قومیں مغربی زبان اور مغربی علم کو سیکھ کر تیزی سے آگے بڑھتی رہیں، یہاں تک کہ دونوں کے درمیان وہ بعید فاصلہ پیدا ہوگیا،جس کی ایک مثال ہم کو ہندستان میں نظر آتی ہے۔ مسٹر کلدیپ نائر (1923-2018)نے لکھا ہے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمان تعلیم میں دو سو سال پیچھے ہیں۔ اگر اس کو گھٹایا جائے تب بھی یہ فاصلہ ایک سوسال کے بقدر ماننا ہوگا۔
مغربی قومیں جن علوم کو لے کر آگےبڑھیں، وہ سادہ معنوں میں محض علوم نہ تھے، بلکہ وہ دورِ جدید میں ہر قسم کی ترقی کی بنیاد تھے۔ چنانچہ جن قوموں نے ان علوم کو سیکھا، وہ دنیوی اعتبار سے دوسروں سے آگے بڑھ گئیں۔ مغربی قومیں اور ان کے پیروی کرنے والے تہذیب وتمدن میں مسلمانوں سے بدرجہا زیادہ فائق ہوگئے۔ یہی وقت ہے جب کہ مسلمانوں میں سرسید (1817-1898) اور اس قسم کے دوسرے مصلحین پیدا ہوئے۔ مگر یہاں پہنچ کر مسلم مصلحین سے تیسری غلطی ہوئی۔ وہ مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب ہوگئے۔ وہ مغربی تہذیب کی جڑوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ نہ دیکھ سکے۔ وہ مغرب کی طرف بڑھے۔ مگر ان کا بڑھنا مغرب کی تہذیب سے مرعوبیت کی بنا پر تھا،نہ کہ مغرب کی قوت کے اصل سرچشمہ (سائنس) کو سمجھ کر اس کو اختیار کرنے کے لیے تھا۔ چنانچہ اس قسم کے مصلحین کی ساری توجہ مغرب کی زبان، مغرب کے لٹریچر، مغرب کے تمدنی مظاہر پر رہی۔ یہ مغرب سے قریب ہونے والے بھی مغرب کی سائنس سے اسی طرح محروم رہے، جس طرح مغرب سے دور رہنے والے اس کی سائنس سے محروم تھے۔ سرسید نے انگلستان کا سفر کیا تو وہاں کی خاص چیز جو وہ اپنے ساتھ لائے وہ ایک صوفہ سیٹ تھا۔ اس کے بجائے اگر وہ سائنس کی کتابیں یا کوئی مشین اپنے ساتھ لاتے تو یقیناً وہ ہندستانی مسلمانوں کے لیے زیادہ بہتر تحفہ ہوتا۔ آخر وقت میں جب مسلمان مغربی تعلیم کی طرف مائل ہوئے، اس وقت بھی ان کے ذہن میں ساری اہمیت مغربی تہذیب کی تھی۔ مغربی سائنس سےوہ بدستور دو رپڑے رہے۔
سائنسی شعور
سائنس کے میدان میں مسلمانوں کے پچھڑے پن کی وجہ اگر مختصر طورپر بتانی ہو تو وہ صرف ایک ہوگی — مسلمانوں میں سائنسی شعور نہ ہونا۔ہندستان کا زمین دار طبقہ جدید تجارت میں پیچھے کیوں ہوگیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر تجارتی شعور موجود نہ تھا۔ یہی واقعہ سائنس کے سلسلہ میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا۔ ایک یا ایک سے زیادہ اسباب کی بنا پر مسلمانوں کے اندر جدید دور میں سائنسی شعور پیدا نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوںنے سائنس کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دی، اور اگر توجہ دی بھی تو ادھوری شکل میں۔
اس کی ایک واضح مثال وہ فرق ہے جو مسلمانوں کے درمیان دینی تعلیم اور سائنسی تعلیم کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر دینی تعلیم کی اہمیت کا شعور موجود تھا، اس لیے انھوں نے اس کا پورا اہتمام کیا۔ اس کے برعکس موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں سائنسی تعلیم کا شعور موجود نہ تھا، اس لیے وہ اس کا وہ اہتمام نہ کرسکے جس کے بغیر کسی قوم میں سائنسی تعلیم نہیں آسکتی۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم رہنماؤں کو جب جدید علوم کی طرف توجہ ہوئی تو انھوںنے کالج اور یونیورسٹیاں تو بنائیں مگر انھوںنے جدید علوم کی ابتدائی تعلیم کا نظام قائم نہیں کیا، جو کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو خوراک فراہم کرتے ہیں۔ جب کہ انھیں مسلمانوں میں دینی مدارس کی مثال اس سے بالکل مختلف نمونہ پیش کرتی ہے۔
مسلمانوں نے موجودہ زمانہ میں بڑے بڑے دینی مدرسے قائم کیے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا کہ صرف بڑے بڑے مدرسے قائم کرکے بیٹھ جائیں۔ اسی کے ساتھ انھوںنے یہ بھی کیا کہ پورے ملک میں ابتدائی تعلیم کا مکتب کا نظام قائم کیا۔ یہی ابتدائی مکاتب دراصل وہ ادارے ہیں جو بڑے بڑے دینی مدرسوں کو غذا فراہم کرتے ہیں۔ اگر یہ ابتدائی مکاتب نہ ہوں تو تمام بڑے بڑے دینی مدرسے غیر آباد نظر آئیں۔
یہی بات جدید سائنس کی تعلیم کے سلسلہ میں بھی ملحوظ رکھنے کی تھی۔ مسلم رہنماؤں کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو خوراک پہنچانے والے ابتدائی اسکول نہ ہوں، تو کالجوں اور یونیورسٹیوں کو طلبہ کہاں سے ملیں گے۔ ہندستان میں مثال کے طورپر ہندو اور عیسائی بہت بڑے پیمانے پر ابتدائی تعلیم کا نظام قائم کررہے تھے۔ مگر مسلم رہنماؤں نے اس مثال سے کوئی سبق نہیں لیا۔ انھوںنے کالج اور یونیورسٹیاں بنانے کے لیے زبردست کوشش کی، مگر ابتدائی اسکول قائم کرنے کی طرف اتنا کم دھیان دیا کہ وہ نہیں کے برابر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم یہ منظر دیکھتے ہیں کہ مسلم کالج اور اسلامی یونیورسٹی تو ہمارے پاس موجود ہیں مگر اس کے اندر مسلم طلبہ موجود نہیں۔ کیوں کہ ان بڑے اداروں کو غذا پہنچانے والے چھوٹے ادارے نہیں۔ مسلمانوں نے اپنے بچوں کو مذہبی جذبے کے تحت ہندو اور عیسائی یا گورنمنٹ کےابتدائی اسکولوں میں بھیجنا پسند نہیں کیا، اور خود ان کے اپنے ابتدائی اسکول موجود نہ تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قوم کے بچوں کی ابتدائی تعلیم اس انداز پر نہ ہوسکی کہ وہ آگے بڑھ کر سائنس کے شعبوں میں داخلہ لے سکیں۔مسلم رہنماؤں کی اس غفلت کی وجہ جو بھی ہو، مگر یہ ایک واقعہ ہے کہ عملی طورپر یہ ایک بڑا سبب ہے، جس نے مسلم قوم کو سائنسی تعلیم میں پیچھے کردیا۔
بنیادی غفلت
سائنس کی تعلیم میں مسلمانوں کے پیچھے ہونے کا سبب ایک لفظ میں بیان کیاجائے تو وہ یہ ہوگا— مسلمان انگریز اور انگریزی میں فرق نہ کرسکے۔ انھوں نے استعماری قوموں اور استعماری قوموں کے ذریعے آنے والے علوم کو ایک سمجھا۔ اول الذکر سے سیاسی اسباب کے تحت انھیں نفرت پیدا ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ثانی الذکر سے بھی نفرت کرنے لگے۔ اگر وہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرسکتے، تو یقینی طورپر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی سائنسی تاریخ دوسری ہوتی۔
ہر قوم کے کچھ اپنے قومی علوم ہوتےہیں۔ ان قومی علوم سے دوسری قوموں کو دلچسپی نہ ہونا ایک فطری بات ہے۔ مزید یہ کہ دوسری قومیں اگر ان قومی علوم سے دلچسپی نہ لیں تو اس سے انھیں کوئی حقیقی نقصان نہیں ہوتا۔مگر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک قوم ایک علم کو لے کر اٹھتی ہے لیکن حقیقة ً وہ اس کا قومی علم نہیںہوتا بلکہ اس کی حیثیت ایک آفاقی علم کی ہوتی ہے۔ یہ علم اپنی حقیقت کے اعتبار سے تمام قوموں کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ کسی ایک قوم کے لیے۔ وہ انسانیت کا مشترک سرمایہ ہوتا ہے، نہ کہ کسی قوم کا انفرادی ورثہ۔
قدیم صلیبی جنگوں کے بعد یہی صورت حال مغربی قوموں کے ساتھ پیش آئی تھی۔ اُس وقت مسلمان سائنسی علوم کے حامل تھے، اور اسی بناپر وہ مغربی قوموں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے، اس وقت مغرب کی حیثیت مفتوح کی تھی، اور مسلمانوں کی حیثیت فاتح کی۔ اگر چہ عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ مفتوح کےدل میں فاتح کے لیے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ فاتح کی ہر چیز کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ مگر مغربی قوموں نے یہ نادانی نہیں کی۔ انھوں نے مسلمانوں کو اور مسلمانوں کے علوم کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا۔ انھوں نے مسلمانوں سے نفرت کی، مگر مسلمانوںکے علوم کو انھوں نے آگے بڑھ کر لیا۔ نیز اپنی کوششوں سے اس میں اتنے اضافے کیے کہ بعد کی صدیوں میں وہ ان علوم کے امام بن گئے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آیا کہ وہ دوبارہ تاریخ کو اپنے حق میں بدلنے میں کامیاب ہوگئے۔
یہی صورت حال موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آئی۔ مغربی قومیں ان کے لیے فاتح کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اس لیے مغربی قوموں سے بیزاری ان کے لیے ایک فطری بات تھی۔ مگر یہاں مسلمان اس ہوش مندی کا ثبوت نہ دے سکے کہ وہ مغرب اور مغربی علوم کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھیں۔مغربی قومیں جن علوم کو لے کر آگے بڑھی تھیں، وہ ان کے قومی علوم نہ تھے، بلکہ وہ کائناتی علوم تھے۔ ان کی حیثیت قوت وطاقت کی تھی۔ دور جدید کے مسلم رہنما اگر اس راز کو بروقت جان لیتے، تو وہ مغربی علوم کو مغرب سے الگ کرکے دیکھتے۔ مغربی علوم کو وہ اپنے لیے طاقت سمجھ کر حاصل کرتے۔ وہ ان کو خود اپنی چیز سمجھتے ،نہ کہ غیر کی چیز۔ مگر یہاں دور جدید کے مسلم رہنما اس دانش مندی کا ثبوت نہ دےسکے۔انھوں نے بیک وقت مغرب سے بھی نفرت کی، اور مغربی علوم سے بھی۔ یہی وہ غلطی ہے، جس نے دور جدید میں مسلمانوں کو سائنس میں پیچھے کردیا۔ مسلم رہنماؤں نے ایک لمحہ کی غلطی کی تھی، مگر اس کا نتیجہ مسلم قوم کو صدیوں کی شکل میں بھگتنا پڑا:
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد
زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت شعور کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، مسلمانوں نے جب صلیبی جنگوں میں مغربی اقوام پر فتح حاصل کی ،تو وہ فتح کے جوش میں مبتلا ہوگئے۔ اس جوش نے انھیں سائنس کی تحقیق سے غافل کردیا۔ اس کے بعد موجودہ زمانہ میں یہی واقعہ ایک اور شکل میں پیش آیا۔ مسلمان مغربی قوموں کے مقابلہ میں مفتوح ہوئے، تو ان کےاندر مغربی اقوام کے خلاف نفرت جاگ اٹھی۔ وہ نفرت کی نفسیات میں مبتلا ہو کر مغربی سائنس کی طرف سے بے رغبت ہوگئے۔ مسلمان اپنی بے شعوری کے نتیجہ میںفاتح کی حیثیت سے بھی نقصان میں رہے، اور مفتوح کی حیثیت سے بھی۔
واپس اوپر جائیں

زمانے کے مطابق عمل

قدیم زمانہ دستکاری کا زمانہ تھا۔ ہر آدمی اپنا کام خود کرتا تھا۔ موجودہ زمانہ انڈسٹری کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر کام میں پورا سماج شامل (involve) ہوتا ہے۔ اس بنا پر موجودہ زمانے میں ایک نیا کلچر وجود میں آیا ہے، جس کو انٹر ڈپنڈنٹ کلچر (interdependent culture)کہا جاسکتا ہے، یعنی ہر آدمی کا دوسرے آدمی پر منحصر (نربھر) ہونا۔
قدیم بادشاہت کے زمانے میں لوگوں کے درمیان جو مساوات (equation) تھی، وہ حاکم اور محکوم کی تھی۔ جدید دور میں دنیا میں جمہوریت کا نظام آیا۔ اب مساوات (equation) کا معاملہ بالکل بدل گیا۔ اس معاملے میں نئی مساوات پولٹیکل لیڈر اور ووٹر کی بنیاد پر قائم ہوئی۔ قدیم بادشاہوں کو ووٹر کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ صرف ایک بات جانتا تھا، فوج کے ذریعہ لوگوں کو زیر کرکے ان کے اوپر حکومت قائم کرنا۔
نئی مساوات کے زمانے میں حاکم اور محکوم کے درمیان نیا تعلق قائم ہوا۔ اب حاکم (political leader) کو ووٹر کی ضرورت ہے۔ اس نئے دور میں ووٹر کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اپنی مرضی کی حکومت قائم کرے۔ اس طرح ایسا ہوا کہ ووٹر کو پولیٹکل لیڈر کی ضرورت ہوگئی، اور پولیٹکل لیڈر کو ووٹر کی ضرورت ۔ اس کے بعد دنیا میں پہلی بار وہ نظام آیا، جس کو انٹر ڈپنڈنٹ نظام کہا جاتا ہے۔
اس طرح دنیا میں نئے مواقع پیدا ہوگئے۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ ہر ایک دوسرے کی ضرورت بن کر اپنا فائدہ حاصل کرے۔ پولیٹکل لیڈر اور ووٹر ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کریں۔ اسی طرح تاجر اور خریدار دونوں ایک دوسرے سے فائدہ اٹھائیں۔ اب نہ کسی کو لڑنے کی ضرورت ہے، اور نہ کسی کو شکایت کی ضرورت ۔ انٹر ڈپنڈنٹ کے نئے نظام میں ہر ایک کو اصولا ًوہی حیثیت مل گئی ہے، جو اس سے پہلے مراعات یافتہ طبقہ(privileged class) کے لیے مخصوص سمجھی جاتی تھی۔ ہر ایک کے لیے وہ تمام مواقع یکساں طور پر کھل گئے، جو پہلے کچھ خاص طبقے کو حاصل تھے۔
نئے سماج میں یہ ہوا کہ لیڈر کو ووٹر کی ضرورت، اور ووٹر کو لیڈر کی ضرورت۔ ڈاکٹر کو مریض کی ضرورت، اور مریض کو ڈاکٹر کی ضرورت۔ دوکاندار کو کسٹمر کی ضرورت، اور کسٹمر کو دوکاندار کی ضرورت۔ اس طرح موجودہ زمانے میں ایک نیا سماج بنا، جس میں کسی ایک شخص کو عملاً وہی مواقع حاصل ہوگئے، جو کسی دوسرے شخص کے لیے مخصوص سمجھے جاتے تھے۔
اس دو طرفہ سسٹم کی بنا پر موجودہ زمانے میں ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ جو چاہے کرے، اور جو چاہے حاصل کرے۔ صرف ایک شرط کے ساتھ ،اور وہ یہ ہے کہ وہ دوسرے کے معاملے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ وہ دوسرے کے لیے اپنی طرف سے کوئی پرابلم کھڑا نہ کرے۔ وہ دوسروں کے لیے مکمل طور پر پرابلم فری (problem-free)انسان بن جائے۔ وہ اگر دوسروں سے کچھ پاناچاہتا ہے، تو وہ دوسروں کو کچھ دینے والا بن جائے، نہ کہ صرف لینے والا۔ یہی وہ کلچر ہے، جس کو عام زبان میں گیو اینڈ ٹیک (give and take) کلچر کہا جاتا ہے۔ اس نئے دور نے شکایت کے تصور کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہر مذہب سچا ہے

ہر مذہب سچا ہے کا نظریہ بظاہر ایک خوبصورت نظریہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہ آدمی کو اسی چیز سے محروم کردیتا ہے، جو مذہب کی اصل ہے، یعنی یقین۔ ایسا آدمی بظاہر ہر مذہب کو یکساں درجہ دیتا ہے، لیکن یہ اس کے لیے لپ سروس (lip service) کی بات ہوتی ہے۔ یہ نظریہ مذہبی یقین کو سماجی اخلاق (social ethics) کا درجہ دے دیتا ہے۔ بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ میں بھی سچا، تم بھی سچے۔ یعنی کہنے کے لیے ہر مذہب کو سچا ماننا، لیکن گہرے یقین کے اعتبار سے کسی بھی مذہب پر یقین نہ ہونا۔
اصل یہ ہے کہ یہ معاملہ ایک مذہب یا تمام مذاہب کو ماننے کا نہیں ہے۔ بلکہ مذہب کو سچائی کا معاملہ سمجھنے کے بعد اس کو سماجی اخلاق (social ethics) کا درجہ دینے کا ہے۔ یعنی مذہبی یقین کے بجائے سوشل مینرس (social manners) میں جینا۔ اس لیے اس معاملے میں صحیح فارمولا وہ ہے، جو باہمی احترام (mutual respect) پر قائم ہوتا ہے، نہ کہ باہمی اعتراف (mutual recognition) پر۔
دوسرے تمام معاملات میں زندگی کا نظام باہمی احترام کے نظریے پر چلتا ہے۔ یعنی کسی کا مذہب پوچھے بغیر اجتماعی زندگی میں اس کا احترام کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ سماجی اعتبار سے زندگی کا نظام انسان کے عمومی احترام پر قائم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، سچائی کے اعتبار سے زندگی کا نظام تحقیق، اور ڈسکوری کے اوپر قائم ہوتا ہے۔ سچائی کے معاملے میں پہلے آپ متلاشی (seeker) بنتے ہیں، پھر آپ مطالعہ اور تحقیق کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کو سچائی کی دریافت ہوجاتی ہے۔ اس وقت آپ سچائی پر دل و جان سے قائم ہوجاتے ہیں۔ باہمی احترام کا فارمولا ایک ورکیبل فارمولا (workable formula) ہے، جو عملی ضرورت کی بنیاد پر بنتا ہے۔اس کے برعکس، سچائی کو ماننے کا فارمولا یقین (conviction) کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذاتی معاملات

ذاتی معاملہ ہر آدمی کا اپنا معاملہ ہوتا ہے۔ اس کو کوئی دوسرا شخص نہ سمجھ سکتا ہے، اور نہ اس کے بارے میں صحیح رائے قائم کر سکتا ہے۔ اپنے ذاتی معاملے میں آدمی کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے صوابدید کے مطابق فیصلہ کرے۔یہ طریقہ اصولی طور پر غلط ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے ذاتی معاملے میں بہت زیادہ دخیل ہونے کی کوشش کرے، اور اس کے بارے میں اپنی رائے دینے میں شدت کا طریقہ اختیار کرے۔
فطرت کے اصول کے مطابق، کوئی آدمی اپنے ذاتی معاملے میں کسی دوسرے آدمی کی رائے کا پابند نہیں ہے۔ میری رائے اپنے لیے ہوسکتی ہے، کسی دوسرے کے لیے نہیں۔ ہر آدمی اپنے ذاتی معاملے میں جو کچھ کرتا ہے، وہ اس کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ اصولی طور پر اس معاملے میں دوسروں کے لیے صرف یہ حق ہے کہ وہ آپ کے لیے دعا کرے۔ آپ کے لیے خیرخواہی کا طالب بنے۔ اس معاملے میں اگر کسی کو رائے دینے کا حق ہے، تو وہ آدمی کی اپنی فیملی ہے۔
مثلاً بچوں کی تعلیم، شادی بیاہ کا معاملہ، بزنس کا انتخاب، وغیرہ۔ زیادہ تر ذاتی دائرے کی چیزیں ہیں۔ ان معاملات میں فیملی کی رائے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ غیر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی حد پر قائم رہے۔ کسی آدمی کے ذاتی معاملے میں زیادہ دخل نہ دے۔ اس حقیقت کو ایک عربی مثل میں اس طرح بیان کیا گیا ہےصاحب البیت ادرى بما فیہ ( گھر والا زیادہ جانتا ہے کہ گھر میں کیا ہے)۔
ضرورت سے زیادہ رائے دینا ایک غیر دانش مندانہ بات ہے۔ بہت سے معاملات جہاں لوگ رائے دینے لگتے ہیں، وہاں ان کو دعا کرنا چاہیے۔ دعا اگر سچی خیر خواہی کے ساتھ ہو، تو امید ہے کہ وہ ان شاء اللہ، قبول ہوگی، اور آدمی کے لیے فائدہ کا سبب بنے گی۔ دعا خیر خواہی کا اعلیٰ طریقہ ہے۔دعا بلاشبہ مشورے کا ایک اعلیٰ بدل ہے۔ دعا گویا اپنی رائے کو اللہ کے ذریعے انسان تک پہنچانا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عقل کی بات

قدیم مثل ہے، بٗوجھ کے باجھے، باجھ کے نہ بوجھے۔ موجودہ زمانے میں مسلم ایکٹوسٹ (Muslim activist) لوگوں نے بار بار یہی غلطی کی ہے۔ وہ اجتماعی معاملات میں بار بار کسی طاقت سے الجھ گئے، اور پھر جب ناکامی سے دوچار ہوئے تو وہ کہنے لگے کہ ایسا مخالفین کی سازش کی وجہ سے ہوا۔ یہ بالکل خلاف واقعہ بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہ لوگ خود اپنی اس غلطی کا شکار ہوئے کہ وہ بوجھے بغیر باجھ گئے، یعنی سوچے سمجھے بغیر اپنے آپ کو ایسے معاملات میں الجھا لیا، جس سے نپٹنے کی طاقت ان کے اندر نہ تھی۔
منصوبہ بندی اگر ٹکراؤ پرمبنی ہو، تو وہ نتیجہ خیز (result-oriented) منصوبہ بندی نہیں۔ کیوں کہ ایسی منصوبہ بندی میں بے فائدہ ٹکراؤ زیادہ ہوتا ہے، اور مطلوب نتیجہ بہت کم ۔ مطلوب نتیجہ جس میں ملحوظ رکھا گیاہو، وہ نتیجہ خیز منصوبہ بندی ہے، اور جو عملاً ردعمل (reaction) پر مبنی ہو، وہ حقیقی معنوں میں منصوبہ بندی نہیں۔ ایسی منصوبہ بندی رد عمل ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں عمل۔
بوجھ کے باجھے، باجھ کے نہ بوجھے کا مثل قدیم زمانے کے تجربات (experiences )پر قائم ہے۔ آج کی زبان میں اس کو کہنا ہو تو یہ کہیں گے کہ اقدام ہمیشہ منصوبہ بند اقدام ہونا چاہیے، نہ کہ بغیر منصوبہ کا اقدام۔ منصوبہ بند اقدام کیا ہے۔ وہ ہے اقدام سے پہلے تمام پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوچنا۔ ہر پہلو سے، خواہ وہ منفی ہو یا مثبت ،صورتِ حال کا جائزہ لینا، اور پھر غیر جذباتی انداز میں اپنے عمل کا نقشہ بنانا۔
منصوبہ بند اقدام کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ بطور ری ایکشن نہ ہو، بلکہ ری ایکشن کے بغیربے لاگ انداز میں سوچ کر بنایا گیا ہو۔ منصوبہ بند اقدام وہ ہے، جو حقیقی حالات کی روشنی میں بنایا جائے، نہ کہ جذباتی رد عمل کے اثر سے۔ منصوبہ بند اقدام وہ ہے، جو پریکٹکل وزڈم پر مبنی اقدام ہو۔ منصوبہ بند اقدام مبنی بر حقیقت اقدام کا دوسرانام ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنون درکار ہے

ایک سفر کے دوران میری ملاقات ایک ہندستانی نوجوان سے ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ میں آپ کا ماہ نامہ الرسالہ باقاعدہ پڑھتا ہوں۔ اُس سے مجھ کو زندگی کا نیا شعور ملا ہے۔ الرسالہ کے مطالعے سے میرے اندر یہ جذبہ پیدا ہوا کہ میں انگریزی زبان سیکھوں۔ چنانچہ میں نے انگریزی زبان سیکھنے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ میںاس مقصد کے لیے کون سی ڈکشنری استعمال کروں۔ میں نے جواب دیا— ڈکشنری آف جنون۔
یہ بات نہ صرف کسی نئی زبان کو سیکھنے کے لیے ضروری ہے، بلکہ وہ ایک عام فطری اصول ہے۔ کوئی بھی اعلیٰ مقصد مجنونانہ کوشش چاہتا ہے۔ مجنونانہ کوشش کے بغیر کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنا ممکن نہیں۔مجنونانہ کوشش کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مکمل طور پر مقصد کے حصول میںلگادے۔ وہ کسی بھی عذر (excuse) کو عذر نہ سمجھے، کوئی بھی چیز اُس کو اپنے طے شدہ راستے سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو۔ اُس کے دماغ میں اگر کوئی خیال ایسا آئے جو اس کے طے شدہ مقصد کے خلاف ہو، تو وہ اس کو لڑ کر اپنے ذہن سے نکال دے۔
کامیابی کا فارمولا صرف دو ہے— صحیح مقصد، اور اس مقصد کے لیے مسلسل جدوجہد۔ جو آدمی اِن شرطوں کو پورا کرے، وہ لازماً اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا۔ کامیابی کے سفر کا بنیادی فارمولا یہی ہے۔ دوسری چیزیں جومطلوب ہیں، وہ اپنے آپ اس میں شامل ہوتی جاتی ہیں۔
جنون کا مطلب ہے اپنے آپ کو اپنے مقصد کے لیے وقف (dedicate) کردینا۔ جو آدمی اپنے وقت اور اپنی توانائی کو مختلف کاموں میں تقسیم کیے ہوئے ہو، وہ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ بڑاکام لازمی طورپر ڈیڈی کیشن (dedication) چاہتا ہے، یعنی پوری یک سوئی کے ساتھ ایک متعین نشانے کے لیے جدوجہد۔ اِس یک سوئی میں دوسرے پہلوؤں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، لیکن اِسی برداشت میں بڑی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 271

■ یکم دسمبر کو بی بی سی پشتو کے افغانی نمائندہ مسٹر داؤد اعظمی (مقیم حال انگلینڈ)نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹر ویو کا موضوع تھا— افغانستان کے موجودہ حالات، اور صدر اسلامی مرکز کا افغانستان سے تعلق۔ انٹرویو کے اختتام پر مہمان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سٹ دیا گیا، جس کو انٹرویورنے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
■ سی پی ایس انٹرنیشنل (امریکا) کے نوجوان ممبر مسٹر اسد پرویز نے قرآن کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے کے لیے سی پی ایس کے تراجم قرآن پر مشتمل ایک ویب سائٹ (www.quranonline.org) لانچ کی ہے۔ وہ سی پی ایس انٹرنیشنل کی امریکی ٹیم کی مدد سے اس کو مزید آگے لے جارہے ہیں۔
■ سی پی ایس ٹیم کے مختلف ممبران قرآن کو زیادہ سے زیادہ انسانوں تک پہنچانے کے لیے طرح طرح سے کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ ہوٹل یا سوپر مارکیٹ ،وغیرہ، میں انتظامیہ کی اجازت لے کر وہاں ترجمۂ قرآن کی کاپیاں رکھوانا۔ مثلاً دہلی کے اندر ہوٹل القریش (الک نندا) میں قرآن کا اسٹینڈ لگا ہوا ہے، جہاں آنے والے لوگ قرآن کے ترجمے لے جاتے ہیں، اوربراہ راست طور پر خدا کا پیغام پڑھتے ہیں۔ امریکا میں اس دعوتی طریقے کا آغاز سی پی ایس دہلی کی بزرگ ممبر ڈاکٹر نجمہ صدیقی نے کیا ہے، جو حالیہ دنوں امریکا میں مقیم ہیں۔ انھوں نے امریکا کی میکسیکن سوپر مارکیٹ ، بریٹو میں انگریزی اور اسپینشن تراجم قرآن کا اسٹینڈ انتظامیہ کی اجازت سے لگوایا ہے۔ اطلاع کے مطابق،پہلا لوٹ (lot) بہت جلد ختم ہوگیا، اور سوپر مارکیٹ والوں نے دوبارہ قرآن پہنچانےکی درخواست کی ہے۔
■ ڈاکٹر رجت ملہوترا (ممبر سی پی ایس دہلی)نے از قرآن اونلی فار مسلم ؟ (Is Quran only for Muslims?) کے عنوان سے اپنی ایک ویڈیو تقریر ریکارڈ کی تھی۔یہ تقریر انٹرنیٹ پربہت زیادہ وائرل ہوئی۔ لوگوں نے امید سے زیادہ اس ویڈیو کو پسند کیا، اور جگہ جگہ سے مسلم و غیر مسلم نے ترجمہ قرآن کی ڈیمانڈکی، تاکہ وہ اس کو براہ راست طور پر پڑھ سکیں۔ مثلا ًجناب عبد الصمد صاحب (سی پی ایس، پونے) کی اطلاع کے مطابق، اس ویڈیو کو سننے کے بعدفوراً 7 لوگوں نے ان سے تراجم قرآن کی مانگ کی۔ اسی طرح مسز سارہ فاطمہ (سی پی ایس بنگلورو) نے بتایا کہ اس ویڈیو کے بعد قرآن کی کافی ڈیمانڈ بڑھی۔ان تمام لوگوں کو قرآن کا ترجمہ پہنچایا جارہا ہے۔

■جناب عبد الصمد صاحب پونے(موبائل نمبر 9665059035) الرسالہ کے بہت پرانے قاری ہیں۔ انھوںنے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ سی پی ایس مہاراشٹر کی جانب سے اب تک صدر اسلامی مرکز کی چھ کتابیں اور دو لیف لٹس مراٹھی زبان میں ترجمہ کرکے شائع کی گئی ہیں۔ وہ کتابیں یہ ہیں:(ریالٹی آف لائف، واٹ از اسلام، خاندانی زندگی،دلیلِ آخرت [مذہب اور جدید چیلنج کا ایک باب]، قرآن این ابائنڈنگ ونڈر، یکساں سول کوڈ، موت کی یاد [الرسالہ، نومبر 2016])، نیز واٹ از اسلام کو گجراتی زبان میں ترجمہ کرکے شائع کیا گیاہے۔اس کے بعد 14-24نومبر 2019 کو گجرات کےاحمد آباد میںایک بک فیر منعقد ہوا۔ اس میں عبد الصمد صاحب کی جانب سے تقریبا ً 1700 واٹ از اسلام (گجراتی) آنے والے لوگوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ تقسیم کا یہ کام گجرات کے داعیوں نے انجام دیا۔مذکورہ کتابوں کے لیے عبد الصمد صاحب سے ان کے نمبر پر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔

■طارق بدر صاحب ( لاہور، پاکستان) کی اطلاع کے مطابق، 5-9 دسمبر 2019 کو کراچی انٹرنیشنل بک فیر لگا تھا۔ سی پی ایس، پاکستان کی جانب سے کراچی انٹرنیشنل بک فیر میں شرکت کا یہ چھٹا سال تھا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہر آنے والا سال گزرے ہوئے سال سے بہتر ریزلٹ دے رہا ہے۔ لوگ بک فیر میں سی پی ایس اسٹال کو تلاش کرتے ہوئے آتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو ترغیب دے کر ہمارےاسٹال پر لاتے ہیں،یا بطور خود خرید کرانھیں تحفے میں دیتے ہیں۔ اس سال ایک نیا تجربہ یہ ہوا کہ مدرسہ کے اساتذہ، اور طلبا بڑی تعداد میں آئے۔نہ صرف یہ کہ وہ آئے، بلکہ اپنے ساتھ دو چار اور بھی طلبا کو لائے، تاکہ وہ ہماری کتابیں خریدیں۔ مدرسبہ کے طلبا کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے ان کو بطور خاص زیادہ ڈسکاؤنٹ پر کتابیں دی گئیں۔ انھوں نے بہت ہی دلچسپی سے ہماری کتابیں خریدیں۔ کچھ طلبا کو ہماری طرف سے فری میں بھی کتابیں دی گئیں۔ جو کتابیں ان کے درمیان مقبول ہوئیں، وہ یہ ہیں تذکیر القرآن، مسائل اجتہاد، مطالعہ سیرت، مذہب اور جدید چیلنج، مذہب اور سائنس، اسباقِ تاریخ، اور راز حیات، وغیرہ۔ سی پی ایس پاکستان نے تعمیر شخصیت پر معروف کتاب رازِ حیات کا اینڈرائیڈ ایپ تیار کیا ہے، جو گوگل پلے اسٹور پر موجود ہے(دیکھیے اسی شمارے کا صفحہ نمبر 44)، اور پاکستان میںسی پی ایس مشن کی کتابوں تک عام رسائی کے لیے سی پی ایس پاکستان نے ایک ویب سائٹ بھی شروع کیا ہے۔ اس کا ایڈریس یہ ہے
www.goodword.com.pk
■ صدر اسلامی مرکز کو اس وقت ساری دنیا میں انٹرنیٹ (سی پی ایس انٹرنیشنل ویب سائٹ، فیس بک، یوٹیوب، وغیرہ)کے ذریعے سنا اور پڑھا جاتا ہے۔ذیل میں آڈینس کے چند کمنٹس کا ذکر کیا جاتا ہے، جو انھوں نے صدر اسلامی مرکز کے فیس بک پیج (@maulanawkhan) پر لکھا ہے
Ø He is a wonderful person. Whoever follows him will definitely succeed in life. (Ms. Aayesha Yusra)
Ø A living saint and a completely peace loving person. A great human being who has helped people discover their Creator. He has not an iota of negative feelings against anyone.(Mr. Sahab Ali Khan)
Ø Maulana Sb is the only hope for Muslim Community. His thinking is based on the Quran and sunnah. Maulana always gives perfect solution for every matter. He is a really positive person. People must read his books. May God bless him. (Maulana Anas Malek Nadwi)
Ø If anyone has to learn the art of life, He must follow Maulana and read his books and literature. His immense knowledge, positive thinking, and real life management lessons help us. He is a big hope, not only for Muslims, but also for the whole of humanity. I strongly suggest all my friends to start following him.(Mr Aamir Mori)
واپس اوپر جائیں