Pages

Tuesday, 1 September 2020

Al Risala | September 2020 (الرسالہ،ستمبر)

4

-تاریخ کا مطالعہ

5

- تخلیق کے ادوار

6

- قرآن کا طریقِ مطالعہ

7

- اللہ اور فرشتوں کا مکالمہ

8

- علم الاسماء

9

- خدا کا منصوبہ

11

- سیلف کرکشن کی صفت

12

- شاک ٹریٹمنٹ

13

- قانون دفع

14

- ہبوط آدم

15

- طوفان نوح

16

- کنگ شپ کا نظام

16

- رسول اور اصحاب رسول

19

- پالیٹکل ماڈل

20

- اہل ایمان کا رول

21

- صلیبی جنگیں

22

- شہادت اعظم

22

- انذار بذریعہ تائید

23

- تاریخ کے دو بڑے ادوار

26

- تخلیق، تہذیب

27

- سائنس اور اسلام

28

- ایک مثال

29

- موافق اسلام انقلاب

30

- محفوظ دین، محفوظ امت

31

- حفاظت کا راز

33

- حفاظت کا طریقہ

34

- تبلیغِ رسالت کا نظام

36

- مواقع اویل کرنا

37

- حضرت یوسف کی مثال

38

- رسول اللہ کا طریقِ کار

39

- سیکولر دنیا کی مثال

40

- یہود کی مثال

42

- ڈی لنکنگ کا اصول

43

- دورِ جنگ کا خاتمہ

44

- دورِ امن کی طرف

45

- امن کی اشاعت

46

- تعلیم، قدیم اور جدید

48

- شیطان کا چیلنج

48

- تبیینِ حق کا دور

49

- عصری اسلوب میں دعوت

50

- خلاصۂ کلام


انذار ،تائید

تاریخ کا مطالعہ
تاریخ میں معنویت کی تلاش— ایک مستقل موضوع ہے۔ اس پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ایک مشہور کتاب برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی کی ہے۔یہ کتاب بارہ جلدوں میں ہے، اس کا نام ہے:
A Study of History by Arnold Toynbee (1934-61)
اس موضوع سے متعلق بنیادی باتیں قرآن سےبھی معلوم ہوتی ہیں۔ موجودہ زمانے میں یہ موضوع اہل علم کی دلچسپی کا خصوصی مرکز بنا ہے۔ مطالعے کے ذریعے اس موضوع کی مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ راقم الحروف کے نزدیک، منصوبۂ تخلیق کے اعتبار سے، اس موضوع کو تین عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(1) فطرت کا سفر (Journey of Nature)
(2) انسانی تاریخ کا سفر (Journey of Human History)
(3) جنت کا سفر (Journey of Paradise)
اس موضوع پر قرآن کی آیتوں کا مطالعہ کیا جائے تو اس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ خالق نے انسان کو پیدا کرکے اس کو زمین (planet earth) پر بسایا۔ یہاں انسان کے لیے ہر قسم کی آزادیاں فراہم کی گئی ہیں۔ ہر انسان کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ آزادی کے ماحول میں تاریخ کا سفر شروع کرے۔ مگر اسی کے ساتھ خالق مسلسل طور پر انسانی تاریخ کی نگرانی کر رہا ہے۔ وہ انسانی آزادی کو بر قرار رکھتے ہوئے بار بار اس میں مداخلت کرتا ہے تاکہ انسانی تاریخ کا سفر کامل طور پر ڈی ریل (derail) نہ ہونے پائے۔ خالق جب بھی دیکھتا ہے کہ انسانی تاریخ درست راستے سے ہٹ رہی ہے تو وہ تاریخ میں جزئی مداخلت کرکےتاریخ کی گاڑی کو دوبارہ صحیح پٹری پر ڈال دیتا ہے۔انسانی تاریخ میں اس نوعیت کی مداخلت بار بار پیش آئی ہے۔اس معاملے کی وضاحت کے لیے ہم یہاں کچھ مثالیں درج کریں گے، جس سے انسانی تاریخ کی خدائی منصوبہ بندی کا اصول واضح طور پر سامنے آسکے۔
واپس اوپر جائیں

تخلیق کے ادوار

اللہ رب العالمین نے پہلے مادی کائنات (universe) کو بنایا۔ معلوم طور پر یہ آغاز اس عالمی دھماکے سے ہوا جو سائنسی اندازے کے مطابق، تقریباً 13.8 بلین سال پہلے پیش آیا۔ اس کے بعد موجودہ کائنات تدریجی ارتقا (gradual development) کے اصول پر بنی۔ یہ واقعہ غالباً چھ ادوار (periods) کی صورت میں پیش آیا۔ یہ بات قرآن میں سات مرتبہ ستۃ ایام (چھ دن ) کے الفاظ میں آئی ہے۔قرآن میں جس چیز کو ایام کہا گیا ہے، اس سے مراد ادوار (periods) ہیں۔ قرآن کے چھ دن (ستۃ ایام) کو اگر سائنسی معلومات کی روشنی میں متعین کرنے کی کوشش کی جائے، تو غالباً وہ یہ ہوگا:
(1)بگ بینگ (Big Bang): سائنس کے مطابق، تقریباً 13.8 بلین سال پہلے ایک کاسمک بال (cosmic ball) ظاہر ہوا، پھر اس میں ایک عظیم دھماکہ ہوا۔ پھر ا س کے بعد پراسس جاری ہوا، جس سے کائنات ظہور میں آئی ۔
(2) سولر بینگ (solar bang): مذکورہ دھماکے کے بعد خلا میں جو پراسس جاری ہوا، اس کے نتیجے میں سورج اور شمسی نظام وجود میں آئے۔ اسی دوران ہماری زمین (planet earth) وجود میں آئی۔
(3) واٹر بینگ (water bang): زمین کے وجود میں آنے کے بعد ایک لمبا پراسس جاری ہوا، اس کے بعد زمین پر دو گیسوںکی ترکیب سے پانی بنا، اور وہ سمندروں میں بھر گیا۔
(4) پلانٹ بینگ (plant bang): اس پراسس کے اگلے مرحلے میں زمین کے اوپر نباتات کا وجود عمل میں آیا۔ مختلف قسم کے نباتات سے پوری زمین ڈھک گئی۔
(5) انیمل بینگ (animal bang) : اس کے بعد اگلا مرحلہ سامنے آیا، اور زمین پر بے شمار قسم کے حیوانات (زندہ اشیا) وجود میں آگئے۔
(6)ہیومن بینگ (human bang): آخری دور میں انسان وجود میں آیا، اور دھیرے دھیرے پورے زمین پر پھیل گیا۔ زندگی کی یہ مختلف صورتیں، الگ الگ وجود میں آئیں۔ ان چیزوں کے وجود میں آنے کے معاملے میں مفروضہ نظریۂ ارتقا کا کوئی دخل نہیں ہے۔
ان چھ ادوار کا ذکر قرآن میں اپنے مخصوص انداز میں آیا ہے۔ قرآن کا گہرا مطالعہ کرکے ان کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک پہلے دور کی بات ہے، وہ قرآن میں صراحت کی زبان میں آیا ہے۔ یہ بات قرآن کی دو آیتوں میں بیان کی گئی ہے۔ پہلی آیت یہ ہے:أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا (21:30)۔ یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔دوسری آیت یہ ہے:أَفِی اللَّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (14:10)۔ یعنی کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کو پھاڑنے والا ہے۔اس آیت میں فاطر کے معنی ہیں، پھاڑنے والا۔
پہلی آیت میں جس واقعے کو رَتق اور فَتق کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، اسی کو دوسری آیت میں فاطر کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ دونوں آیتوں میں لفظی فرق کے ساتھ ایک ہی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ یعنی کائنات ابتدا میں ایک کاسمک بال کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ اس کاسمک بال میں کائنات کے تمام پارٹکل موجود تھے۔ پھر ایک عظیم دھماکے کے ذریعے یہ تمام پارٹکل فضا میں پھیل گئے۔ پھر ایک لمبے پراسس کے ذریعے یہ تمام پارٹکل کائنات کے مختلف اجزا کی صورت میں جمع ہوئے۔ یہ سارا معاملہ انتہائی منظم انداز میں ہوا۔ اس عمل کی کوئی توجیہہ اس کے سوا نہیں ہوسکتی کہ ایک قادرِ مطلق خدا نے ان تمام واقعات کو انجام دیا۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا طریقِ مطالعہ

قرآن معروف معنوں میں ایک مذہبی رسم کی کتاب نہیں ہے، وہ ایک ایسی کتاب ہے، جس میں پوری انسانی زندگی کے لیے رہنما تعلیمات دی گئی ہیں۔قرآن کی رہنمائی عام انسانی کتابوں سے مختلف ہے۔ عام انسانی کتابوں کے لیے ریڈنگ (reading) کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن قرآن کے لیے یہ کرنا ہے کہ اس کا قاری اس کو تدبر (ص،38:29) کے ساتھ مطالعہ کرے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن اپنی اسلوب کے اعتبار سے ربانی حکمت کا مجموعہ (collection of divine wisdom) ہے۔ قرآن میں بیان کردہ انسانی تاریخ کو سمجھنے کے لیے اسی اصول کو اختیار کرنا چاہیے۔
قرآن کے مطابق ،تاریخ بہ ظاہر انسان کی تاریخ ہے۔ لیکن تاریخ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسی طرح ایک خدائی واقعہ ہے، جس طرح تخلیق (creation) ایک خدائی واقعہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ تخلیق مکمل طور پر خدا کا عمل ہے، لیکن تاریخ چوں کہ انسان کے لیے امتحان گاہ ہے، اس لیے تاریخ کے معاملے میں خدا کا طریقہ یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو مینج کرنا:
Managing the course of human history while maintaining human freedom.
قرآن کی روشنی میں انسانی تاریخ کی تعبیر کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا عنوان غالباً یہی ہوگا۔اس اصول کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ اللَّہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُورٍ (22:38) ۔یعنی بیشک اللہ ان لوگوں کی مدافعت کرتا ہے جو ایمان لائے۔ بیشک اللہ بد عہدوں اور نا شکروں کو پسند نہیں کرتا۔ ان ادوار کے بارے میں قرآن میں اشارات موجود ہیں(دیکھیے: سورہ الاعراف، 7:54؛ سورہ یونس، 10:3، وغیرہ)۔ زیادہ تفصیلی بیان اس معاملے میں انسان کی تخلیق کا ہے۔ انسان کی تخلیق کے وقت جو واقعات پیش آئے، ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے، جو اللہ رب العالمین اور فرشتوں کے درمیان مکالمہ کی صورت میں ہوا۔
واپس اوپر جائیں

اللہ اور فرشتوں کا مکالمہ

اللہ اور اس کے فرشتوں کے درمیان ہونے والا مکالمہ قرآن میں اس طرح بیان ہوا ہے: اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اس میں فساد کریں اور خون بہائیں۔ اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔اور اللہ نے سکھادیے آدم کو سارے نام، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بیشک تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے۔ اللہ نے کہا اے آدم، ان کو بتاؤ ان کے نام۔ تو جب آدم نے بتائے ان کو ان کے نام تو اللہ نے کہا ۔ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید کو میں ہی جانتا ہوں۔ اور مجھ کو معلوم ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔ (البقرۃ،2:30-34)
واپس اوپر جائیں

علم الاسماء

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کے واقعے میں اسماء (نام) کو بتانے سے مرادغالباً انسان کی تاریخ کا خلاصہ بتانا ہے۔ یعنی وہ تاریخ جو آدم کی اولاد کے زمین پر سرگرم عمل ہونے کے بعد وجود میں آئی۔ انسان سے پہلے اللہ نے جنات کو پیدا کیا(الحجر، 15:27)۔اس بنا پر فرشتوں کو یہ شک تھا کہ انسان بھی وہی کرے گا، جو اس سے پہلے جنات کرچکے ہیں۔ لیکن انسان کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ انسان کے معاملے میں اللہ کا منصوبہ یہ تھا کہ جنت کی صورت میں ایک اعلیٰ مسکن بنائے، اور وہاں انسان جیسی مخلوق کے منتخب افراد کو بسائے۔ انسان کو کامل آزادی دی جائے،جس کو قرآن میں امانت کہا گیا ہے(الاحزاب، 33:72)۔ اس منصوبہ کا مقصد یہ تھا کہ ایک صاحب عقل مخلوق کو پیدا کی جائے، اور اس کو زمین پر آباد کرکے آزادانہ طور پر عمل کا پورا موقع دیا جائے۔ پھر ان میں سے ایسے افراد منتخب کیے جائیں، جن کے بارے میں تجربے سے یہ ثابت ہو کہ وہ کامل آزادی کے باوجود کامل اطاعت کی صفت رکھنے والے ہوں۔ یعنی کامل آزادی (total freedom) کے باوجود خود اختیار کردہ ڈسپلن (self-imposed discipline) کا حامل ہونا۔
یہاں اس بات کا شدید امکان تھا کہ کامل آزادی کی صورت میں ایسا ہوگا کہ انسانوں کی ایک تعداد اپنی آزادی کا غلط استعمال (misuse) کرے گی۔ لیکن ایسا ہونا ناگزیر تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ ابدی جنت کے مستحق افراد کو وجود میں لانا، اور ایسےافراد اسی وقت پیدا ہوسکتے تھے جب کہ ان کو حقیقی معنوں میں کامل آزادی دے کر یہ رسک (risk) لیا جائے کہ ان میں سے ایک گروہ بھٹکنے والا ہوگا تو دوسرا گروہ ایسانکلے گا، جو اپنے اختیار کو صحیح طور پر استعمال کرے، اوراپنے آپ کو جنت کا مستحق ثابت کرے۔
فرشتے اپنے ذہن کے مطابق اس کو ناممکن سمجھتے تھے کہ نئی مخلوق (انسان) فرشتوں کی مانند کامل معنوں میں اطاعت گزار ہو۔ چنانچہ انھوں نے کہاکہ انسان زمین میں فساد کریں گےاور ایک دوسرے کا خون بہائیں گے (البقرۃ، 2:30)۔لیکن اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ نئی مخلوق تخلیقی اوصاف (creative quality) کی مالک ہو۔ یعنی وہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) پر کھڑی ہو، وہ خود اختیار کردہ نظم (self-acquired discipline) کی صفت رکھتی ہو، وہ خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑی ہونے والی ہو،اس کے اندر یہ صفت ہو کہ وہ اپنی اصلاح آپ (self-correction) کا پراسس (process) اپنے اندر جاری کرسکے، وہ پورے معنوں میں خود تعمیر کردہ انسان (self-made man) کہلانے کی مستحق ہو ۔ ایسی ہی مخلوق اللہ کے نزدیک اس قابل تھی کہ وہ ابدی جنت کے باغوں میں ہمیشہ کے لیے آباد کی جائے۔
یہاں "علم الاسماء"سے مرادبہ ظاہر انسان کی تاریخ ہے۔ اللہ کا فرشتوں سے یہ کہنا کہ تم ان کے نام بتاؤ، یعنی ان کی تاریخ بتاؤ۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ تم یہ دیکھ رہے ہو کہ پیدا کیے جانے والے انسان آزادی کا غلط استعمال کریں گے، اور دوبارہ زمین میں فساد پھلائیں گے۔ مگر اللہ کے سوال میں یہ بات مضمر تھی کہ تم انسانی تاریخ کے جزء کو دیکھ رہے ہو، تم تاریخ کے کُل کو دیکھ کر رائے نہیں بنا رہے ہو۔ آدم نے اپنے الہامی علم کے مطابق، فرشتوں کو انسان کی تاریخ بتائی۔ اس کے بعد فرشتے اعتراف کے طور پر سجدے میں گر پڑے، اور وہ انسان جیسی مخلوق کی پیدائش کو اللہ رب العالمین کا اعلیٰ تخلیقی منصوبہ سمجھ کر اس پر راضی ہوگئے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا منصوبہ

کائنات اور انسان کی صورت میں جو عظیم دنیا ہمارے سامنے ہے، وہ بلاشبہ ایک خدائی منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے۔ اور خدائی منصوبے کے مطابق، اس کا ایک بامعنی انجام ہونا مقدر ہے۔ اپنی تخلیقی صلاحیت کے اعتبار سے انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ لیکن انسان موجودہ دنیا میں صرف محدود مدت کے لیے رہتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کی اوسط عمر تقریباً 70سال ہے۔ ابدیت کا طالب انسان عملاً ابدیت کو پانے سے محروم رہتا ہے۔ مگر انسان کے لیے یہ محرومی کی بات نہیں۔ ایسا خالق کے تخلیقی پلان کی بنا پر ہوتا ہے، نہ کہ انسان کی اپنی خواہش کی بنا پر۔ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، انسان کو اس دنیا میں صرف محدود مدت تک کے لیے رہنا ہے۔ اس کے بعد انسا ن کو اس کے ہیبیٹاٹ (habitat)میں پہنچادیا جاتا ہے، جہاں اس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی پسند کی دنیا میں ابدی طور پر رہے۔اس اگلے دورِ حیات کو قرآن میں جنت (Paradise)کا نام دیا گیا ہے۔
ابدی جنت کی دنیا پوری تاریخ بشری کے منتخب انسانوں کا معاشرہ ہوگا۔ یہ منتخب افراد دراصل موجودہ دنیا کے تربیت یافتہ افراد (trained individuals)ہوں گے۔ جنت میںپوری تاریخ کے منتخب افراد (selected people of history) کو یہ موقع ہوگا کہ وہ اعلیٰ فکری سرگرمیوں (high level of intellectual activities) کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ اس اعلی معاشرہ (high society)کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی یہ اہل جنت ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔
جنت کے حصول کے لیے انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ خالق کے پلان کو جانے اور اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرے۔ انسان کو پیدا کرنے والا خدا ہے۔ لیکن اپنے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرنا مکمل طور پر انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر اس پرسنالٹی کو ڈیولپ کرے جس کی وجہ سےوہ اگلی دنیا میں بننے والی پیراڈائزکے لیےمستحق امیدوار (deserving candidate) قرار پائے۔اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (4:165)۔ یعنی اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت باقی نہ رہے۔
انذار و تبشیر کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پیغمبروں کا مشن خالص اخروی مشن تھا۔ ان کے مشن کا فوکس ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ انسان کے لیے وہ کون سا رویہ ہے، جو اس کو ابدی جنت تک پہنچانے والا ہے، اور وہ کون سا رویہ ہے جو اس کو اس خطرے (risk) میں ڈالتا ہے کہ اگلے دورِ حیات میں اس کو ابدی طورپر جہنم والوں کے ساتھ شامل کیا جائے۔
پیغمبروں کے ذریعے انسان کو جو رہنمائی ملی، اصولی طور پر اس کا خلاصہ دو چیزیں تھیں:
(1) نظریۂ توحید (Ideology of Tawheed)
(2) طریقِ کار (Method)۔ پیغمبرانہ طریقِ کار ایک لفظ میں غیر نزاعی طریق کار (non-confrontational method)ہے۔نظریہ اور طریق کار کے اعتبار سے یہی دو چیزیں پیغمبروں کے ذریعے انسان کو دی گئیں۔
واپس اوپر جائیں

سیلف کرکشن کی صفت

انسان کے بارے میں اللہ رب العالمین کا منصوبہ کیا تھا۔ قرآن کے اشارات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ نے انسان کے اندر تخلیقی طور پر ایک مزید صفت رکھ دی۔ یہ صفت اس بات کی ضامن تھی کہ انسان جنات سے مختلف مخلوق ثابت ہوگا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کے اندر وہ صفت رکھ دی، جس کو قرآن میں نفس لوامۃ کہا گیا ہے(القیامۃ، 75:2)۔ یعنی اپنی غلطی پر نادم ہونا۔ غلطی کے بعد اپنا محاسبہ کرنا۔
یہ گویا انسان کی شخصیت میں سیلف کریکشن (self-correction) کا نظام قائم کرنا تھا۔ اس نظام کی بنا پر یہ امید تھی کہ انسان اپنی غلطی کے بعد اپنا محاسبہ کرے گا۔ وہ اپنی غلطی کو درست کرے گا۔ وہ اپنے عمل کی ری پلاننگ (replanning) کرے گا۔ یعنی انسان اس صفت کا ثبوت دے گا، جس کو آسٹرین عالم نفسیات، الفریڈ ایڈلر (1870-1937) نے انسان کی سب سے بڑی صفت قرار دیا ہے ۔ اس کا مخصوص موضوع شخصی نفسیات (individual psychology)ہے۔ اپنی ریسرچ کے مطابق اس نے پایا کہ انسان کی خصوصیات میں سے ایک نادر خصوصیت اس کی یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے "نہیں" کو" ہے" میں تبدیل کرسکے:
One of the wonder-filled characteristics of human beings is their power to turn a minus into plus. (The Golden Treasury of WISDOM, B N Bahuguna, Delhi, 1998, p. 139 [Google books])
انسان کی شخصیت میں یہ صفت بلاشبہ ایک نادر صفت ہے، جو صرف انسان کے اندر پائی جاتی ہے۔ اس صفت کی بنا پر انسان جنات کے مقابلے میں یا دوسرے حیوانات کے مقابلے میں ایک ممتاز مخلوق قرار پاتا ہے۔ چنانچہ انسان کی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان نے بار بار ایسا کیا ہے کہ وہ ایک غلطی کرنے کے بعد اپنے عمل کی ری پلاننگ کرے، اور اپنی محرومی کو یافت میں بدل دے۔
واپس اوپر جائیں

شاک ٹریٹمنٹ

سفک دماء یا فساد فی الارض کا واقعہ کون کرتا ہے۔ یہ انسان کرتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کے اندر مزید ایک برعکس صفت موجود ہوتی ہے، اور وہ ہے ضمیر کی صفت۔ اس کو دوسرے الفاظ میں محاسبہ خویش کی صفت کہا جاسکتا ہے۔ انسان کے ساتھ لازماً ایسا واقعہ پیش آتا ہے کہ جب وہ کسی وجہ سے ایک انتہائی اقدام کربیٹھتا ہے، اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ فطرت کے قوانین کی بنا پر اس کا اقدام باعتبار نتیجہ معکوس (counter productive)اقدام ثابت ہوتا ہے تو اس کے اندر ندامت (repentance) کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔ وہ اپنی فطرت کی بنا پر اپنے عمل کی ری پلاننگ کرتا ہے۔ انسان کے اندر یہ عمل ہمیشہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ اس کو کوئی بڑا شاک (shock) لگے۔ اس قسم کے بڑے شاک کے لیے کوئی بڑا واقعہ چاہیے۔ سفک دماء یا فساد فی الارض انسان کی شخصیت میں اسی قسم کا شاک پیدا کرتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ وہ چیز جس کو قرآن میں سفکِ دماء یا فساد فی الارض کہا گیا ہے، وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے انسان کے لیے شاک ٹریٹمنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کے ساتھ جب غیر مطلوب صورت حال پیش آتی ہے تو وہ انسان کے اندر تخلیقیت (creativity) پیدا کرتی ہے۔ وہ انسان کی سوئی ہوئی صلاحیت کو بیدار کردیتی ہے۔ وہ انسان کے اندر یہ محرک (incentive) جگاتی ہے کہ وہ دوبارہ نئے سرے سے کوشش کرکے کامیابی حاصل کرے۔
فرشتوں نے انسان کے بارے میں سفک دماء اورفساد کا اندیشہ ظاہر کیا تھا، اللہ تعالی نے سفک دماء اور فساد کےمقابلے میں مثبت پہلو کا حوالہ دیا، اور فرشتوں کو مظاہرے کی صورت میں بتایا کہ انسان کی یہ صفت اس کے اندر نئی سوچ پیدا کرے گی، اور وہ ایسے کام کرسکیں گے، جو اس سے پہلے نہ حیوانات نے کیا، اور نہ جنات نے۔
تاریخ کے واقعات کو پیش نظر رکھا جائے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ انسان کو جن اوصاف کے ساتھ پیدا کیا جارہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان کے لیے فساد فی الارض اور سفک دماء جیسے واقعات اپنے عمل پر نظر ثانی (rethinking) کا ذریعہ بن جائیں گے۔ اس طرح اس قسم کے منفی واقعات اس کے لیے مثبت نتیجہ کا سبب بنیں گے۔ وہ بار بار اپنے عمل کی ری پلاننگ کرے گا۔ اس طرح منفی واقعات باعتبار نتیجہ اس کے لیے شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment)کا سبب بن جائیں گے۔ اس کو اپنی غلطیوں سے اپنے لیے نیا ڈائریکشن (new direction) ملے گا۔ اس طرح ہر غیر مطلوب تاریخ کے بعد مطلوب تاریخ بنے گی، اور اس طرح انسان کی تاریخ عملاً صحیح رخ پر سفر کرتی رہے گی، اور اس طرح وہ بڑے بڑے نتائج تک پہنچے گی۔ اس سلسلے میں چند تاریخ مثالیں یہاں درج کی جاتی ہیں— غالباً منفی واقعہ سے مثبت واقعہ نکلنے کا یہی وہ ظاہرہ ہے جس کو قرآن میں قانونِ دفع سے تعبیر کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

قانونِ دفع

اللہ رب العالمین کا ایک قانون وہ ہے، جس کو قرآن میں قانونِ دفع کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن کی دو آیتوںمیں اس قانون کا ذکر ہوا ہے:وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ (2:251)۔یعنی اور اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض لوگوں سے دفع نہ کرتا رہے تو زمین فساد سے بھر جائے (نیز دیکھیےسورہ الحج آیت 40 )۔ دفع کا مطلب ہےدور کرنا یا ہٹانا (to repel)۔ یعنی اللہ صاحب اقتدار گروہ کو ، جب اس میں جمود آجائے تو بدل کر دوسرا گروہ اس کی جگہ لاتا ہے۔
قانونِ دفع کا تعلق جزئی طور پر جہاد سے ہے۔ لیکن وہ توسیعی اعتبار سے اللہ رب العالمین کی عمومی سنت ہے۔ اس کے تحت اللہ انسانی تاریخ میں مداخلت (interference) کرتا ہے، اور انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئےتاریخ کو غلط رخ پر چلنے سے بچاتا ہے۔ اس طرح انسانی تاریخ اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔جہاد تو مسلم حکومت کا اپنے دفاع کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن دفع کی سنت ایک ایسی سنت ہے، جو عمومی اعتبار سے یہ کام انجام دیتی ہے کہ انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کا سفر صحیح سمت میں جاری رہے۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں تاریخ کی کچھ مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ہبوط آدم

انسان کی پیدائش فطرت کے جس نظام کے تحت ہوئی ہے، اس کے مطابق، انسان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل طور پر متحرک رہے۔ حرکت سے انسان کے اندر ترقی ہوتی ہے، اور ٹھہراؤ سے انسان کے اندر جمود (stagnation) آجاتا ہے۔ اس بنا پر خالق نے یہ مقدر کردیا کہ انسان کو ہمیشہ شاک لگتا رہے۔ اس بنا پر انسان کے لیے شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) کا طریقہ مقرر کیا گیا۔
انسان کی تاریخ میں اس نوعیت کا شاک ٹریٹمنٹ سب سے پہلے آدم اور حوا کے ساتھ پیش آیا، جس کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے۔ آدم کو پیدائش کے بعد پہلے مرحلے میں جنت کے باغوں میں بسایا گیا، وہاں اس کے لیے ایک امتحان (ٹیسٹ) مقرر کیا گیا، اور وہ شجر ممنوعہ (forbidden tree) کا ٹیسٹ تھا۔ انسان اپنے مزاج کی بنا پر عزم (طہ، 20:115) کا ثبوت نہ دے سکا۔ چنانچہ اس کے لیے جنت سے بے دخلی (eviction) کا حکم ہوا۔ جنت اول سے یہ بے دخلی ایک اعتبار سے بطور مواخذہ تھی، اور دوسرے اعتبار سے وہ بطور شاک ٹریٹمنٹ کا معاملہ تھا۔ شاک ٹریٹمنٹ کا یہ طریقہ پوری انسانی تاریخ میں مختلف صورتوں میں جاری رہا۔
واپس اوپر جائیں

طوفان نوح

اللہ رب العالمین نے انسان کو پیدا کرکے زمین پر بسایا۔یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسان کی آبادکاری ابتدائی دور میں دریائے دجلہ، اور دریائے فرات کے درمیان عراق کے اس علاقے میں ہوئی جس کو میسوپوٹامیہ کہا جاتاہے۔ یہ ایک زرخیز علاقہ تھا۔ یہاں توالد و تناسل کے ذریعہ انسان کی نسل بڑھتی رہی۔ اس علاقے میں انسان لمبے عرصے تک اپنی آزادانہ سرگرمیوں میں مشغول رہا۔ شروع میں لوگ آدم کی شریعت پر تھے۔ لیکن کئی نسل گزرنے کے بعد ان کے اندر جمود (stagnation) آگیا۔ ان کے اندر ضعیف الاعتقادی اور بدعملی پیدا ہوگئی۔ ان کی بیداری کے لیے پیغمبر نوح آئے۔ یہ گویا کہ پرامن تبلیغ کے ذریعہ ان کے اندر بیداری لانے کی کوشش تھی۔ لیکن لمبی مدت کی پرامن اصلاحی کوششوں کے باوجود ان کے اندر دوبارہ بیداری نہیں آئی۔
اب ان کے اندر نئی زندگی لانے کے لیے ہارش ٹریٹمنٹ (harsh treatment) کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ قوم نوح کے علاقے میں ایک عظیم طوفان (great flood) آیا۔ اس وقت اپنی قوم کے منتخب افراد کو پیغمبر نوح نے ایک کشتی میں بٹھایا، اور اس کشتی کو تیز طوفان میں ڈال دیا۔
قوم نوح کے یہ منتخب افراد ایک مدت تک کشتی میں تیرتے رہے۔ یہاں تک کہ کشتی تیرتے ہوئے جودی پہاڑ پر رکی۔ الجودی کوہستان ارارات کی اس چوٹی کا نام ہے جو جبل وام (Vam) کے جنوب مغرب میں واقع ہے ۔اس قرب وجوار میں کردوں کی زبان پر آج تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ کشتی نوح یہیں آکر رکی تھی(تفسیر ماجدی،سورہ ھود، حاشیہ 68)۔ اس طوفان کا حوالہ قرآن کی سورہ ھود (11:25-49) میں موجود ہے۔
کشتی کے ذریعہ حفاظت کا یہ مخصوص طریقہ کیوں اختیارکیا گیا۔ اس کا مقصد اولادِ آدم کو میسوپوٹامیہ سے منتشر (disperse) کرکے مختلف ملکوں میں پہنچانا تھا۔ چنانچہ یہ لوگ میسوپوٹامیہ سے کشتی پرسوار ہوکر نکلے اور دھیرے دھیرے ایشیا، یورپ اور افریقہ کے مختلف ملکوں میں پھیل گئے۔ بعد کو انسانوں کا ایک گروہ سمندر پار کرکے امریکا پہنچا، اور نئی دنیا آباد ہوئی۔
قوم نوح کے ساتھ یہ جو معاملہ پیش آیا، وہ ایک اعتبار سے سرزنش کا معاملہ تھا، اور دوسرے اعتبار سے اس کا مقصد یہ تھا کہ ان کے جمود کو توڑا جائے ، اور ان کو زمین کے وسیع تر حصے میں پھیلنے کا موقع دیا جائے۔ محققین نے بتایا ہے کہ کشتی نوح ایسے مقام پر ٹھہری ،جہاں ایشیا، یورپ، اور افریقہ ملتے تھے۔ اس طرح قوم نوح کے افراد کو یہ موقع ملا کہ وہ پھیلتے پھیلتے تین بر اعظموں میں داخل ہوجائیں، اور زمین کے محدود رقبے سے نکل کر زمین کے وسیع تر رقبے میں آباد ہوجائیں۔ قوم نوح کو اس طرح بکھیرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ زمین کے وسیع تر رقبے میں ترقی کے مواقع کو اویل کریں۔
واپس اوپر جائیں

کنگ شپ کا نظام

اس دور میں انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال (misuse) کیا۔ کچھ انسانوں نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے دنیا میں بادشاہت (kingship) کا نظام قائم کرلیا۔ بادشاہت کے نظام نے وسائل پر اپنی اجارہ داری (monopoly) قائم کرلی۔ اس نظام کے تحت انسان کی آزادی بہت محدود ہوگئی، اور انسان کے لیے ترقی کا دروازہ عملاً بند ہوگیا۔
اب خالق کی مرضی یہ ہوئی کہ اس سیاسی اجارہ داری (political monopoly) کو ختم کرکے تمام انسانوں کو یکساں طور پر عمل کا موقع دیا جائے۔ اس کے لیے ایک انقلاب درکار تھا۔ اس انقلاب کولانے کے لیے ایک تیار ٹیم (prepared team)کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے اللہ رب العالمین نے پیغمبر ابراہیم کو استعمال کیا۔ پیغمبر ابراہیم نے اپنی فیملی کو لے کر عرب کے صحرا میں ذبح عظیم (الصافات،107:37) کا ثبوت دیا۔یہ صحرائی پراسس کا لمبا دور تھا، جو تقریباً ڈھائی ہزار سال کے اندر پورا ہوا۔
واپس اوپر جائیں

رسول اور اصحاب رسول

اس منصوبے کے تحت وہ انوکھی ٹیم تیار ہوئی، جو مطلوب انقلاب کے لیے پوری طرح اہل تھی۔ اس پراسس کی تکمیل پر 570 عیسوی میں خالق نے اس نسل میں پیغمبر محمد بن عبداللہ کو قدیم مکہ میں پیدا کیا۔ انھوں نے ایک اعلیٰ پلاننگ کے تحت اس علاقہ میں توحید کا مشن چلایا۔ اس مشن کے ذریعہ وہ خصوصی نسل پیدا ہوئی جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔ پھر اس نسل کے اندر ایک حکیمانہ عمل کے ذریعہ صحابہ کی جماعت پیدا ہوئی۔ آپ نے ایک منظم جدو جہد کے ذریعہ وہ مطلوب ٹیم تیار کی۔ اسی مطلوب ٹیم کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے (ابراہیم،14:37)۔ یہ مطلوب ٹیم بلاشبہ ایک تیار ٹیم تھی۔ اس کا مشن یہ تھا کہ قدیم زمانے سے جاری بادشاہت کے نظام کو توڑدے، اور اس طرح انسانی تاریخ میں تیسرے دور (third phase) کا دروازہ کھلے۔ اس جماعت کو ایک حکیمانہ منصوبہ کے ذریعہ مشن کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ انقلابی واقعہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں دور شرک کا خاتمہ ہوا، اور تاریخ میں دورِ توحید کا آغاز ہوا۔
اس موقع پر اللہ ر ب العالمین نے مداخلت کی۔اس وقت وہ حالات پیدا ہوئے جب کہ اصحاب رسول کی ٹیم کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنے وقت کےنظامِ بادشاہت کو توڑ کر نئے تاریخی دور کا آغاز کریں۔ اس واقعہ کی طرف قرآن میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیاہے:الم ۔ غُلِبَتِ الرُّومُ ۔ فِی أَدْنَى الْأَرْضِ وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ ۔ فِی بِضْعِ سِنِینَ لِلَّہِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ۔ بِنَصْرِ اللَّہِ یَنْصُرُ مَنْ یَشَاءُ وَہُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ (30:1-5)۔ یعنی رومی پاس کے علاقہ میں مغلوب ہوگئے۔ اور وہ اپنی مغلوبیت کے بعد عنقریب غالب ہوں گے۔ چند برسوں میں۔ اللہ ہی کے ہاتھ میں سب کام ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور اس دن ایمان والے خوش ہوں گے، اللہ کی مدد سے۔ وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔ اور وہ زبردست ہے، رحمت والا ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ ظہور اسلام کے وقت دنیا میں دو بہت بڑی سلطنتیں تھیں۔ ایک، مسیحی رومی سلطنت، اور دوسرا، مجوسی ایرانی سلطنت۔ دونوں میں ہمیشہ رقیبانہ کش مکش جاری رہتی تھی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے بعد 603 ء کا واقعہ ہے۔ اس وقت ایسے اسباب پیش آئے کہ دونوں عظیم سلطنتوںمیں سخت ٹکراؤ ہوا، جس سےیہ دونوں سلطنتیں بے حد کمزور ہوگئیں۔ یعنی بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایران نے رومی سلطنت پر حملہ کردیا۔ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ 616 ء تک یروشلم سمیت روم کی مشرقی سلطنت کا بڑا حصہ ایرانیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو 610 ء میںنبوت ملی ۔اس کے بعد آپ نے مکہ میں دعوت توحید کا کام شروع کیا۔ اس لحاظ سے یہ عین وہی زمانہ تھا جب کہ مکہ میں توحید اور شرک کی کش مکش جاری تھی۔ مکہ کے مشرکین نے سرحدی واقعہ سے نیک فال لیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ ہمارے مشرک بھائیوں (مجوس) نے تمہارے اہل کتاب بھائیوں (مسیحی) کو شکست دی ہے۔ اسی طرح ہم بھی تمہارا خاتمہ کردیں گے۔
اس وقت قرآن میں، حالات کے سراسر خلاف، یہ پیشین گوئی اتری کہ دس سال کے اندر رومی دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گے۔ رومی مورخین بتاتے ہیں کہ اس کے جلد ہی بعد روم کے شکست خوردہ بادشاہ (ہرقل) میں پر اسرار طور پر تبدیلی پیدا ہوناشروع ہوئی۔ یہاں تک کہ 623 ء میں اس نے ایران پر جوابی حملہ کیا۔ 624 ء میں اس نے ایران پر فیصلہ کن فتح حاصل کی۔ 627 ء تک اس نے اپنے سارے مقبوضہ علاقے ایرانیوں سے واپس لے لیے۔ قرآن کی پیشین گوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی ۔
لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ اس دوطرفہ جنگ میں دونوں سلطنتیں انتہائی حد تک کمزور ہوگئیں۔ پہلے ساسانیوں نے رومیوں پر فتح حاصل کرکے ان کو کمزور کیا، اس کے بعد رومیوں نے ساسانیوں پر فتح حاصل کرکے انھیں بے حد کمزور کردیا۔ اس طرح باری باری ایک نے دوسرے کو کمزور کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ اور تابعین کو یہ موقع ملا کہ وہ اس قدیم جبری بادشاہت کے نظام کو بہ آسانی توڑ دے۔ چنانچہ خلیفہ اول ابوبکر اور خلیفہ ثانی عمر کے زمانے میں جب مسلم فوجیں ساسانیوں اور رومیوں کے علاقے میں داخل ہوئیں تو انھوں نے نہایت آسانی کے ساتھ دونوں سلطنتوں کے اوپر فتح حاصل کرلی۔ ساسانی سلطنت اور بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔
یہ خاتمہ صرف دو سیاسی طاقتوں کا خاتمہ نہ تھا، بلکہ اسی کے ساتھ شرک کا خاتمہ بھی تھا۔ کیوں کہ یہ سلطنتیں اس زمانےمیں مذہبی جبر کی سرپرست بنی ہوئی تھیں۔ اس طرح ساتویں صدی اور آٹھویں صدی میں پوری دنیا کا سیاسی اور تہذیبی نقشہ بدل گیا،اور پھر ایک تاریخی عمل کے ذریعہ وہ انقلابی واقعہ پیش آیا، جس کا اعتراف فرانسیسی مورخ ہنری پرین نے ان الفاظ میں کیا ہےکہ اسلام نے زمین کا نقشہ بدل دیا، تاریخ کے روایتی نظام کو ختم کردیا گیا:
(Islam) changed the face of the Globe...the traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne, A History of Europe, London, 1958, p 46)
اس کے بعد یہ ہوا کہ جن علاقوں میں مشرک بادشاہ حکومت کرتے تھے، وہاں موحد حکمراں حکومت کرنے لگے۔اس وقت عملاً پوری دنیا میں مسلم ایمپائر کا غلبہ قائم ہوگیا— اموی ایمپائر، عباسی ایمپائر، اسپینی ایمپائر، مغل ایمپائر، عثمانی ایمپائر، وغیرہ۔ اسی کے ساتھ بڑی تعداد میں چھوٹی چھوٹی سلطنتیں ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبے میں قائم ہوگئیں۔ اس کےنتیجے میں ہر جگہ توحید کا چرچا ہونے لگا۔ لوگ بڑی تعداد میں شرک کو چھوڑ کر دین توحید میں داخل ہونے لگے۔ جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ اس زمانے کے رواج کے مطابق، عام طور پر انفرادی تبدیلیٔ مذہب نہیں ہوتی تھی، بلکہ لوگ عام طور پر پبلک کنورزن (public conversion)کے اصول پر دین توحید میں داخل ہوتے تھے۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، برٹش مورخ پروفیسر آرنلڈ (T W Arnold) کی کتاب، دی پریچنگ آف اسلام )۔
واپس اوپر جائیں

پالیٹکل ماڈل

قرآن و حدیث، نیز اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام میں پالٹکس کا کوئی ایک متعین معیاری ماڈل نہیں۔ اسلام کی طویل تاریخ میں کوئی واحد عملی ماڈل نہیں ملتا ، جس کو ہر دور کے لیے ایک اسٹینڈرڈ ماڈل سمجھا جائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پالٹکس کے معاملے میں اسلام کا اصول تمکین (stability) پر مبنی ہے، نہ کہ کسی ایک معیاری ڈھانچےپر۔ مثلاً اسلام میں کوئی ایسی نص موجود نہیں ، جس سے معلوم ہو کہ اسلام کا پولیٹکل ماڈل خلافت پر مبنی ہے، یا حکومت الٰہیہ پرمبنی ہے، یا اجتماعی عدل پر مبنی ہے، یا شورائیت پر مبنی ہے، یا اور کسی ماڈل پر مبنی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا پولیٹکل ماڈل ، پریکٹکل وزڈم پر مبنی ہے، نہ کہ کسی ایک آئیڈیل پر۔
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں سیاست کے معاملے میں اصل چیز تمکین (الحج،22:41)ہے ، یعنی سیاسی استحکام (political stability) ۔ کیوں کہ اگر پولیٹکل استحکام آجائے تو اسلام کا اصل مطلوب حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر امن قائم ہوجائے تو اہل ایمان کے لیے یہ آسانی پیدا ہوجاتی ہے وہ مواقع (opportunities) کو بھر پور طور پر استعمال کرسکیں۔ وہ تعلیم اور دعوت جیسے مثبت مقاصد کی منصوبہ بندی کسی رکاوٹ کے بغیر انجام دے سکیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام کی وفات کےتقریباً تیس سال بعد مسلم دنیا میںعملاً شخصی حکومت قائم ہوگئی، جس کو ڈائناسٹی (dynasty)کہا جاتا ہے۔اس حکومت کو اگرچہ بعض لوگوں نے یہ نام دیا کہ وہ خلافت کو منسوخ کرکے ملوکیت کو قائم کرنا تھا۔ مگر جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، علمائےامت نے اجماعی طور پر اس کو قبول کرلیا، اور وہ تقریباً ہزار سال تک پوری مسلم دنیا میں جاری رہا۔ اس نظام کے خلاف بغاوت (revolt)کا کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہیں آیا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ اس طرز حکومت نے مسلم دنیا میں پولیٹکل استحکام قائم کردیا، جس کے تحت اسلام کے تمام مطلوب کام خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پائے۔ مثلاً قرآن کی حفاظت، حدیث کی جمع و تدوین، فقہ کی تشکیل، مسجد اور مدرسہ اور حج کا نظام، عربی زبان کی فنی تشکیل، سیرت اور تاریخ جیسے موضوعات پر کتب خانے کی ترتیب و تشکیل، اور اس طرح کے دوسرے عملی تقاضوں کی تکمیل، وغیرہ، وغیرہ۔یہ تمام کام صرف سیاسی استحکام کے حالات میں انجام پاسکتے تھے۔ چوں کہ اس نظام کے تحت یہ مقصد حاصل ہوا، اس لیے عملاً پوری امت نے اس کو قبول کرلیا۔
واپس اوپر جائیں

اہل ایمان کا رول

مسلم دور میں یہ ہوا کہ ساری دنیا میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر دین شرک کے بجائے دین توحید کا چرچا ہونے لگا۔ پہلے اگر دنیا میں شرک اور اہل شرک کو وقت کے بادشاہوں کی سرپرستی حاصل تھی تو اب توحید اور اہل توحیدکو حکمرانوں کی سرپرستی حاصل ہونے لگی۔ اس طرح اصولی طور پر یہ ہوا کہ ہر جگہ دین شرک کا غلبہ تقریباً ختم ہوگیا، اور دین توحید کا غلبہ عام طور پر قائم ہوگیا۔ پہلے اگر مظاہر فطرت (nature) کو خدائی کا درجہ حاصل تھا، تو اب فطرت کے خالق کو خدائی کا درجہ حاصل ہوگیا۔
تاہم یہ اصل کام کا نصف حصہ تھا۔ فطرت (nature) کی اعتقادی بالادستی ختم ہوگئی۔ لیکن اس کام کا دوسرا پہلو ابھی باقی تھا۔ یعنی فطرت (nature) کے قوانین کو دریافت کرکے ان کو ٹکنالوجی میں تبدیل کرنا۔ مسلم عہد میں یہ ہواکہ فطرت (nature)پرستش کا موضوع (object of worship) نہ رہی۔ اب دوسرا کام یہ تھا کہ فطرت کو تحقیق کا موضوع (object of investigation) بنایا جائے، فطرت میں چھپے ہوئے قوانین کو دریافت کرکے دنیا میں ٹکنالوجی کا دور لایاجائے، جو اپنی تکمیل تک پہنچ کر جدید تہذیب کا موجد بنے۔ یہ دوسرا کام یورپ کے مسیحی علما نے انجام دیا۔
واپس اوپر جائیں

صلیبی جنگیں

مسلم فتوحات کے بعد تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس عمل کے نتیجے میں مسلم اقوام کو غیر معمولی عروج حاصل ہوا۔ اسی عروج کا ایک حصہ یہ تھا کہ مسیحی عقیدہ کے مطابق ایشیا میں ان کے مقدس مقامات مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے۔ یہ صورت حال مسیحی قوموں کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ چنانچہ یورپ کی مسیحی سلطنتوں نے متحد ہو کر اس علاقے کو اپنے قبضہ میں لینے کے لیے حملہ کردیا۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور مسیحی قوموں کے درمیان دو سوسال کی وہ لڑائی چھڑ گئی، جس کو صلیبی جنگ (Crusades) کہا جاتا ہے۔ مگر تقریباً دو سو سال کی خونی جنگ کے باوجود یورپ کی مسیحی قوموں کو کامل شکست پیش آئی۔ مورخ گبن کے الفاظ میں مسیحی قوموں کو اس جنگ میں ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) کا سامنا کرنا پڑا۔
مسیحی قوموں کے لیے یہ شکست اتنی فیصلہ کن تھی کہ عملاً ان کے لیے یہ آپشن باقی نہ رہا کہ وہ اس صلیبی جنگ کو مزید جاری رکھ سکیں۔اس شکست نے یورپ کی مسیحی قوموں میں یہ سوچ بیدار کی کہ ان کے لیے مسلمانوں کے مقابلے میں جنگ کا آپشن باقی نہیں رہا۔ حالات کے دباؤ (compulsion) کے تحت انھوں نے اپنے لیے نیا آپشن (new option) تلاش کیا۔ یہ آپشن تھا — جنگی میدان کے بجائے علم کے میدان میں اپنی کوشش لگا دینا۔ان کے اندر فطرت (nature) کی تحقیق کا ذہن پیدا ہوا۔ دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ مسیحی قوموں کا ذہن جو جنگ کی اصطلاح میں سوچتا تھا، وہ اب فطرت کی دریافت کی اصطلاح میں سوچنے لگا۔ یہ عمل تقریباً پانچ سو سال تک جاری رہا۔ اس عمل کا نقطۂ انتہا (culmination) وہ واقعہ ہے، جس کو مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔ مسیحی قوموں کے لیے یہ ایک ڈائیورزن (diversion) تھا، جو بہ ظاہر خدائی مداخلت (divine intervention) کے ذریعہ پیش آیا۔
واپس اوپر جائیں

شہادت اعظم

اس تاریخی عمل کا غالباً آخری دور وہ ہے، جو تقدیر الٰہی کے تحت غالباً اکیسویں صدی میں پیش آنے والا ہے۔ اس عمل کو قرآن میں گلوبل انذار (الفرقان، 25:1) اور حدیث میں شہادت اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر2938) کا نام دیا گیا ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی زبان میں بتایا ہے کہ انسانی تاریخ کے آخری زمانے میں ایک واقعہ پیش آئےگا، یعنی شہادت اعظم کا واقعہ۔ شہادت اعظم کا مطلب ہے سب سے بڑی گواہی (the greatest witness)۔گواہی کا مطلب ہے زمین پر پیدا ہونے والے انسانوں کو اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) سے واقف کرانا۔ تاکہ انسان دنیا میں خالق کے اسکیم آف تھنگس سے باخبر ہوکر زندگی گزارے۔ اس کام کو قرآن میں انذار کہا گیا ہے۔ انسانی تاریخ کے ہر دور میں انذار کا یہ کام مسلسل طور پر جاری رہا۔ کبھی پیغمبروں کے ذریعے اور کبھی ان مصلحین کے ذریعے جنھوں نے پیغمبر کی نیابت میں انذار کے اس کام کو انجام دیا۔
واپس اوپر جائیں

انذار بذریعہ تائید

قرآن خدا کے دین کا واحد مستند ماخذ (authentic source)ہے۔ خدا کے دین کے لیےیہ مطلوب ہے کہ وہ سارے عالم میں پھیلے۔ پھیلنے کا یہ عمل دو طریقوں سے جاری ہوتا ہے—  انذار اور تائید۔ پہلے طریقے کا ذکر قرآن میں آیا ہے، اور دوسرا طریقہ حدیث رسول کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ پہلا طریقہ قرآن میں ان الفاظ میں مذکور ہے:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا(25:1)۔یعنی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لیے آگاہ کرنے والا ہو۔
دین کی اشاعت کے اس عمل کو قرآن میں انذار کا عنوان دیا گیا ہے۔ انذار کا مطلب ہوتا ہےآگاہ کرنا، باخبر کرنا۔ عربی زبان کے مشہور عالم ابن فارس(وفات 395ھ) نے انذار کا مطلب ابلاغ بتایا ہے(معجم مقاییس اللغة، جلد5، صفحہ414)۔ یعنی خدا کے منصوبۂ تخلیق سے لوگوں کو آگاہ کرنا۔ یہ عمل بہت زیادہ سنجیدہ عمل ہے۔ وہ پوری انسانی تاریخ میں مختلف تدبیروں کے ذریعے جاری رہتا ہے۔ انذار کا یہ عمل اتنا اہم ہے کہ اللہ نے اس کے لیے مقدر کردیا کہ وہ اہل ایمان کے علاوہ غیراہل ایمان کے ذریعے بھی دنیا میں پھیلے۔ تائید کے اس عمل میں غیر اہل دین اور فاجر (بُرے) لوگ بھی شریک ہوں۔
اس تائیدی عمل کا ذکر حدیث کی اکثر کتابوںمیں آیا ہے۔ مثلاً قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ہُمْ مِنْ أَہْلِہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔ اس معنی کی حدیث صحیح البخاری میں ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِر (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ان دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی اسلام کی تائید کا کام ان لوگوں سے لے گا، جو اہل دین نہ ہوں گے۔ اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ اس معاملے میں اہل ایمان کو اتنا زیادہ باشعور ہونا چاہیے کہ وہ تاریخ میں تائید کے اس عمل کو پہچانیں، اورمنصوبہ بند انداز میں تائید کے مواقع کو قرآن کی عالمی اشاعت کے لیے استعمال کریں۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کے دو بڑے ادوار

انسانی تاریخ کے دو بڑے دور ہیں۔ ایک ، سائنسی انقلاب سے پہلے کا دور، اور دوسرا، سائنسی انقلاب کے بعد کا دور۔ وہ دور جس کو سائنسی دور کہا جاتا ہے، وہ اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (1564-1642) کے بعد شروع ہوا، اور اب تک جاری ہے۔ قبل سائنس دور میں استدلال کی بنیاد عقل عام (common sense) ہوا کرتی تھی۔ بعد از سائنس دور میں استدلال کی بنیاد ریزن (reason) ہوگئی۔ قدیم زمانے میں عقل عام استدلال کے لیے کافی ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب سائنسی طور پر مسلمہ ریزن (accepted reason) استدلال کے واحد بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔
اللہ رب العالمین کو معلوم تھا کہ تاریخ میں یہ انقلاب آنے والا ہے۔ اس لیے اللہ نے یہ انتظام کیا کہ قبل از سائنس دور میں عقل عام کی بنیاد پر دین خداوندی کی بات کو مدلل کیا جائے۔ لیکن سائنسی دور آنے کے بعد فطری طور پر اللہ کی منشاء یہ ہوئی کہ اللہ کے دین کو وقت کی مسلمہ دلیل (سائنسی دلیل) کی بنیادپر پیش کیا جائے تاکہ انسان پر اللہ کی حجت قائم ہوسکے۔
ایک اور حدیث میں بتایا گیا ہے کہ دور آخر میں جو داعی لوگوں کے سامنے دین خداوندی کو پیش کرے گا، وہ حَجِیج (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2937)ہوگا۔ حَجِیج کا مطلب بذریعہ دلیل کلام کرنے والا۔ یعنی وہ شخص جو عقلی دلیل (rational argument) کے ذریعہ اپنی بات پیش کرے۔ شہادت اعظم کے دور میں شاہد (گواہ) کی یہی صفت ہوگی۔ وہ مسلمہ دلیل (accepted reason) کی زبان میں لوگوں کے سامنے دینِ خداوندی کو پیش کرے گا۔
یہ سادہ بات نہ تھی۔ یہ بنائے استدلال میں تبدیلی کا معاملہ تھا۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ علم کی دنیا میں ایک نیا انقلاب لایا جائے۔ عقل عام پر مبنی استدلال کو عقلی دلائل کے ذریعہ استدلال پر قائم کیا جائے۔ قیاسی استدلال کی جگہ سائنسی طور پر ثابت شدہ استدلال مسلمہ استدلا ل کا درجہ دیا جائے۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً اللہ رب العالمین کا منصوبہ یہ تھا کہ پیغمبر اسلام کے بعد آپ کی امت پوری طرح حفاظت دین کے کام میں مشغول ہوجائے۔ کیوں کہ آپ کے بعد کوئی پیغمبر آنے والا نہیں تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ پیغمبر کے بعد پیغمبر کی نمائندگی کرنے کے لیے مکمل معنوں میں ایک محفوظ دین باقی رہے۔ امت محمدی نے اپنی کئی سال کی غیر معمولی کوششوں کے ذریعہ دین اسلام کو مکمل طور پر ایک محفوظ دین بنا دیا۔ امت محمدی کا یہ رول پندرھویں صدی عیسوی تک پوری طرح جاری رہا، جب کہ دنیا میں پرنٹنگ پریس کا دور آگیا۔ اب دین کی حفاظت کے لیے مشین نے انسانی کوششوں کی جگہ لے لی۔
اب وہ وقت آگیا تھا جب کہ خدا کے دین کو انسان کے اپنے مسلمات کی بنیاد پر ثابت شدہ بنایا جائے۔ یہ ایک بہت بڑا کام تھا۔ اس کام کے لیے ایک تازہ دم قوم (fresh nation) کی ضرورت تھی۔ حدیث میںاس قوم کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ اللہ اسلام کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعہ کرے گا جو اس دین میں سے نہ ہوں گے( المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640ِ)۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں "رجال " سے مراد ایسا گروہ ہے جو کہ بعد کے زمانے میں دین اسلام کے لیے عقلی تائید (rational support) کا کام کرے گا۔ یعنی ان کے ذریعے اہل اسلام کو یہ موقع ملے گا کہ وہ دینِ خداوندی کی دعوت کا کام سائنسی طور پر ثابت شدہ عقلی دلیل کی بنیاد (rational basis) پر انجام دے سکیں ۔
مزید غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تائیدی گروہ مغرب کے مسیحی لوگوں کا گروہ ہے۔ نشاۃ ثانیہ (renaissance) کے بعد مغرب کی قوموں نے غیر معمولی کوشش کے ذریعہ تاریخ میں ایک نیا دور پیدا کیا، جس کو سائنسی دور (scientific age) کہا جاتاہے ۔ سائنسی دور اگرچہ زیادہ تر مسیحی قوموں کی کوشش سے وجود میں آیا۔ لیکن پورے معنوں میں یہ موافق اسلام دور ہے۔ یہ امت کو اپنے دین کے لیے وہی تائید فراہم کرتا ہے ، جس کو اوپر حدیث میں بیان کیا گیاہے۔
انسانی تاریخ کے بعد کے زمانے میں پیش آنے والی اس شہادت اعظم کا ذکر خود قرآن میں بھی آیا ہے۔ قرآن کی اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ یعنی آئندہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر پوری طرح ظاہر ہوجائے کہ یہ حق ہے۔
قرآن کی اس آیت میں جس چیز کو آفاق اور انفس کی آیات (signs) کہا گیا ہے، وہ موجودہ کائنات میں کثرت سے پھیلی ہوئی ہیں، مگر قرآن میں ان کا ذکر اشارات کی زبان میں ہے۔ ان اشارات کو اکچول (actual) بنانے کا کام موجودہ زمانے میں انجام پایا ہے۔ یہ کام زیادہ تر مغرب کی مسیحی قوموں نے انجام دیا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ شہادت اعظم کی ادائیگی کا کام اگرچہ عملاً امت محمدی کے لوگ انجام دیں گے۔ لیکن اس کام کی انجام دہی کے لیے تائیدی اسباب بلاشبہ مغرب کی مسیحی قوموں نے فراہم کیے ہیں۔ گویا کہ شہادت اعظم کے کام میں ملت محمدی کا رول شاہد کا رول ہے، اور مسیحی اقوام کا رول مؤید کا رول ہے۔
تائیدکا یہ ظاہرہ بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔ خالق نے ہماری زمین (planet earth) کو بے شمار ٹکنالوجی سے بھر دیا ہے۔ یہ ٹکنالوجی قوانین فطرت کی صورت میں ہمیشہ سے موجود تھی۔ لیکن اب تک وہ مخفی قوانین (hidden laws) کی صورت میں غیر دریافت حالت میں پڑی ہوئی تھی۔ صلیبی جنگوں کی شکست سے یورپ کی مسیحی قوموں کے لیے ایک جبر (compulsion) پیدا ہوا۔ انھوں نے حالات کے دباؤ کے تحت اپنی ساری طاقت فطرت کے قوانین کو دریافت کرنے میں لگا دیا۔ یہ عمل اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei [1564-1642]) کے زمانے میں شروع ہوا، اور تقریباً چار سو سال تک جاری رہا۔ اس دوران بے شمار فطری قوانین دریافت ہوئے۔ یہاں تک کہ دنیا میں وہ عظیم انقلاب پیدا ہوا، جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتاہے۔
واپس اوپر جائیں

تخلیق، تہذیب

مادی دنیا کی ہر چیز میں ایک پہلو تخلیق کا ہے، اور دوسرا پہلو تہذیب کا۔ مثلا ً لوہا (iron)خدا کی ایک تخلیق ہے۔ مگر انسان جب لوہا اور ربر (rubber)سے پہیہ (wheel) بناتا ہے تو یہ انسانی تہذیب کا ایک واقعہ ہوتا ہے۔لوہا اور ربراگر خالق کی یاد دلاتا ہے تو پہیہ انسان کی یادلاتا ہے، جس نے اپنی عقل کو استعمال کرکے پہیہ بنایا۔
ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے :مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللَّہَ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 1955)۔ یعنی جس نے انسان کا شکر ادا نہیں کیا، وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کیا۔ اگر آدمی کے اندر صحیح سوچ ہو تو ایک چیز کو دیکھ کر وہ پوری انسانی تاریخ کو یاد کرے گا۔ مثلا ً آج وہ ایک پہیہ دار گاڑی کو استعمال کرے گا تو وہ سوچے گا کہ اُس انسان کا تاریخ میں کتنا بڑا کنٹری بیوشن ہے کہ جس نے اپنی عقل کو استعمال کرکے پہیہ جیسی چیز کو ایجاد کیا۔ اس کے بعد انسان نے پہیہ دار بیل گاڑی بنائی۔ اس کے بعد غور و فکر کرکے پہیہ دار کشتی (wheel boat)بنائی۔ اس کے بعد مزید غور و فکر کے ذریعہ انسان نے پہیہ دار بائسکل بنائی۔ پھر اس نے پہیہ دار ریل بنائی۔ پھر اس نے پہیہ دار موٹر کار بنائی۔ پھر اس نے پہیہ دار ہوائی جہاز بنایا۔اسی فہرست میں وھیل چیر (wheelchair) ہے جس نے کمزور انسان کے لیے چلنے کو آسان بنادیا، وغیرہ۔ یہی معاملہ پوری انسانی تہذیب (human civilization) کا ہے۔
آدمی اگر اس طرح سوچے تو پورا انسانی قافلہ اس کو اپنا محسن نظر آئےگا۔ اس کو محسوس ہوگا کہ پوری انسانیت ساری تاریخ میں سرگرم رہی ہے تاکہ وہ اُن تمام چیزوں کو بنائے جس نے آج میری زندگی کو بہت آسان کردیا ہے۔یہ سوچ اگر گہرائی کے ساتھ آدمی کے اندر آجائے تو وہ ایک طرف خالق کی عظمت میں سرشار ہوجائے گا۔ وہ سوچے گا کہ خالق کتنا عظیم ہے، جس نے میرے لیے یہ تمام چیزیں تخلیق کیں۔ اسی کے ساتھ وہ انسانوں کے بارے میں بہت زیادہ اعتراف(شکر) کرنے والا بن جائے گا، جس نے تخلیق کو تہذیب میں کنورٹ کیا۔یہ سوچ آدمی کے لیے شکرِ خداوندی کا سرچشمہ ہے، اور اسی کے ساتھ محبتِ انسانی کا سرچشمہ بھی۔
واپس اوپر جائیں

سائنس اور اسلام

قرآن میں ایک دعوتی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ (61:8)۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے منھ سے بجھا دیں، حالاں کہ اللہ اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا، خواہ منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
قرآن کی ا س آیت میں نور (روشنی) سے مراد حق کےدلائل ہیں۔ یعنی ہر زمانے کے انسان جس چیز کو دلیل کا درجہ دیتے تھے، اس استدلالی زبان میں اللہ تعالی نے اپنے دین کو انبیاء کے ذریعہ مدلل فرمایا۔ تاکہ ہر زمانے کے انسان پر حق کی حجت قائم ہوسکے۔ یہی واقعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر لوگوں کے ساتھ پیش آیا۔ لیکن رسول اللہ کی نبوت قیامت تک کے لیے ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے یہاں یہ انتظام فرمایا، تاکہ بعد کے لوگوں کے ذہن کے مطابق اللہ کا دین مدلل ہوسکے۔
اتمام نور سے مراد یہ ہے کہ ہر زمانے کے انسان کے عقلی تقاضے کے مطابق دین کا مدلل کیا جانا۔ اس اعتبار سے آخری زمانہ غالباً وہ زمانہ ہے جس کو سائنس کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنسی استدلا ل کو اعلیٰ استدلال مانا جاتا ہے۔ اس لیے انسان کی نسبت سے اتمام نور یہ ہوگا کہ سائنسی دور کے عقلی تقاضے کے مطابق دینِ حق کو مدلل کیا جائے۔
یہی وہ بات ہے،جو حدیث رسول میں اس طرح بیان کی گئی ہے:مَا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا قَدِ اُعْطِیَ مِنَ الْآیَاتِ مَا مِثْلُہُ آمَنَ عَلَیْہِ الْبَشَرُ، وَإِنَّمَا کَانَ الَّذِی أُوتِیتُ وَحْیًا أَوْحَى اللہُ إِلَیَّ، فَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَکْثَرَہُمْ تَابِعًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ(صحیح مسلم، حدیث نمبر152)۔ یعنی ہر نبی کو وہ نشانیاں دی گئیں، جن کے مثل پر (ان کے زمانے کے) لوگ ایمان رکھتے تھے۔ اور مجھ کو جو چیز دی گئی ہے، وہ وحی ہے، جو اللہ نے میری طرف بھیجا ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ میرے متبعین قیامت کے دن سب سے زیادہ ہوں گے۔ اس کی شرح میں احمد بن محمدالقسطلانی نے یہ بات بیان کی ہے: وہو القرآن ... فإنہ یشتمل على الدعوة والحجّة وینتفع بہ إلى یوم القیامة( ارشاد الساری، جلد7 صفحہ 444)۔ یعنی مجھے جو دیا گیا، وہ قرآن ہے۔ کیوں کہ وہ دعوت اور حجت پر مشتمل ہے، اور ان سے قیامت تک فائدہ اٹھایا جائے گا۔ فَہِیَ تشاہد بِعَین الْعقل (کشف المشکل لابن الجوزی ، جلد3، صفحہ 412)۔یعنی اس کا مشاہدہ عقل کی آنکھ سے کیا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک مثال

پانی زمین پر زندگی کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس کو قرآن میں اشاراتی طور پران الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَکًا (50:9) ۔ یعنی ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا۔سائنسی مطالعے کےذریعےاس کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، وہ یہ ہیں۔ تقریباً 13.8 بلین سال پہلے سولر سسٹم وجود میں آیا۔ اس وقت زمین کے اوپر صرف گیس تھی۔ پھر گیس کے ذریعے پانی بنا۔ پانی کا فارمولا H2O ہے، یعنی ابتدائی زمانے میں ایسے مالیکیول بنے، جس میں ہائڈروجن کے دو ایٹم ہوتےتھے، اور آکسیجن کا ایک ایٹم۔ اس طرح زمین کے اوپر پانی وجود میں آیا۔
پھر یہ پانی بڑے پیمانے پر سمندر کی گہرائیوں میں جمع ہوگیا۔ ابتداءمیں نیچر نے اس پانی میں حفاظت ( preservation) کے طور پر نمک (salt) شامل کیا ۔ یہ نمک آمیزپانی براہ راست طور پر انسان کے لیے قابل استعمال نہ تھا۔ پھر زمین کے اوپرسورج کی حرارت اور پانی کے تعامل سے حیرت انگیز طور پر بارش کا انتظام ہوا۔ فطری طور پر نمک کا وزن زیادہ تھا، اور پانی کا وزن کم۔ چنانچہ پانی جب سورج کی حرارت سے بھاپ بنا، تو فطری قانون کے تحت نمک الگ ہوگیا،ا ور پانی الگ۔ پھر یہ ڈیسالینیٹڈ پانی (desalinated water) ہلکا ہونے کی بنا پر فضا میں بلند ہوا، اور پھر آخر کار وہ فطرت کے قانون کے مطابق، پانی بارش بن کر زمین پر برسا۔ اس پانی نے زمین کو سیراب کیا، اور چشموں اور دریاؤں کی صورت میں محفوظ ہوگیا۔
فطرت کے نظام کے تحت یہ ایک سائکل (cycle) ہے، جو مسلسل طور پر جاری ہے۔ پانی کا یہی نظام ہے، جس نے زمین کو انسان کے لیے حیات بخش سیارہ بنا کر رکھا ہے۔ اگر یہ نظام نہ ہو تو انسان زمین کے اوپر زندہ سماج نہ بنا سکے۔ زمین پر تہذیب کی تشکیل پانی کے بغیر ناممکن ہو جائے۔ اس پورے عمل پر غور کیا جائے ،تو اس میں حکمت کے اتنے زیادہ پہلو ہیں، جو انسان کے لیے مائنڈ باگلنگ ظاہرہ (mind-boggling phenomena) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قدیم زمانے کا انسان ان حقیقتوں سے بے خبر تھا، مگر اب سائنسی مطالعے کے ذریعے یہ حقیقتیں انسان کے علم میں آگئی ہیں۔ ان حقیقتوں کو جاننا انسان کے اتھاہ خزانے کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

موافق اسلام انقلاب
یہ سائنسی انقلاب (scientific revolution) پورے معنوں میں ایک موافق اسلام انقلاب تھا۔ اس انقلاب کے ذریعہ اللہ کی وہ رحمتیں انسان پر کھلیں، جن کو قرآن میں آیات اللہ، کلمات اللہ، آلاءاللہ جیسے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہی وہ موافق اسلام انقلاب ہے، جس کو مختلف حدیثوں میں تائید دین بذریعہ غیر مسلم اقوام کہا گیا ہے۔ مسند احمد میں یہ بات ان الفاظ آئی ہے:إِنَّ اللہَ سَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِأَقْوَامٍ لَا خَلَاقَ لَہُمْ ( مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔ یعنی یقینا اللہ اس دین کی مدد اس قوم کے ذریعے کرے گا، جن کا اس (دین) میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔
تہذیب جدید (modern civilization)کا یہ انقلاب مختلف پہلوؤں سے بلاشبہ ایک موافقِ اسلام انقلاب (pro-Islamic revolution) تھا۔ لیکن مسلم رہنما اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔وہ مغربی تہذیب، اور مغربی کلچر ، اسی طرح مغربی کلونیلزم (colonialism)کے درمیان فرق نہ کرسکے، اور مغربی تہذیب کی اصل حیثیت کو دریافت نہ کرسکے۔ اس لیے موجودہ دور کے مسلم رہنما غیر ضروری طور پر ویسٹو فوبیا (Westophobia) کا شکار ہوگئے۔ وہ مغرب کے خلاف نفرت اور تشدد میں مبتلا ہوگئے۔ جو چیز حدیث کے الفاظ میں تائید دین کی حیثیت رکھتی تھی، اس کو انھوں نے برعکس طور پر دشمنی اور سازش وغیرہ سمجھ لیا۔ بد قسمتی سے ویسٹوفوبیا کی یہ حالت مسلم دنیا میں ابھی تک جاری ہے۔ مگر یہ سوچ قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔
واپس اوپر جائیں

محفوظ دین، محفوظ امت

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: یَاأَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللَّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ (5:67)۔ یعنی اے پیغمبر، جو کچھ تمہارے اوپر تمہارے رب کی طرف سے اترا ہے تم اس کو پہنچا ؤ ، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اللہ کے پیغام کو نہیں پہنچا یا، اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے گا۔ اللہ یقیناً منکر لوگوں کو راہ نہیں دیتا۔
قرآن (الحجر، 15:9) میں ہے کہ دینِ اسلام کے لیے اللہ نے حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے— اسلام ایک محفوظ دین ہے، قرآن ایک محفوظ کتاب ہے، پیغمبر ایک محفوظ پیغمبر ہے۔ اسی طرح امت محمدی ایک محفوظ امت ہے۔ حفاظت کا یہ معاملہ کسی فضیلت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ تعالی کے تخلیقی منصوبہ کی بنا پر ہے۔ یہ اس لیے ہے تاکہ نبوت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد بھی قیامت تک انسان کو ربانی رہنمائی ملتی رہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اگر اسلام محفوظ دین نہ رہے، تو انسان کو محفوظ ہدایت نہیں ملے گی۔ قرآن اگر محفوظ کتاب نہ رہے، تو انسان کے لیے اس دنیا میں مستند رہنمائی کا وجود نہ ہوگا۔ اگر پیغمبر محفوظ پیغمبر نہ رہے،تو اس کے لیے اپنی دعوتی ذمے داری کو درست طور پر انجام دینا ممکن نہ رہے گا۔اسی طرح امت محمدی ایک محفوظ امت ہے۔ اگر یہ امت محفوظ نہ ہو ،توقیامت تک دعوتی ذمے داری کو درست طور پر انجام دینا اس کے لیے ممکن نہ رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

حفاظت کا راز

قرآن کی سورہ المائدہ(5:67) میں فرمایا ہے کہ عصمت الناس (لوگوں سے حفاظت) کا راز تبلیغ ما انزل اللہ (اللہ کی نازل کردہ باتوں کی تبلیغ)میں ہے۔ یہ عصمت (حفاظت) براہ راست طور پر پیغمبر سے متعلق ہے، لیکن بالواسطہ طور پر امت محمدی بھی اس خدائی ضمانت میں شامل ہے۔ اس لیے کہ پیغمبر کی حیثیت خاتم النبیین کی ہے۔ امت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ پیغمبر کی نیابت میں قیامت تک آنے والے لوگوں کو اللہ رب العالمین کا پیغام پہنچاتی رہے۔ اس لیے اللہ کی منصوبہ بندی کایہ تقاضا ہوا کہ امت محمدی کو بھی حفاظت کی اس ضمانت میں شامل رکھا جائے، تاکہ دعوت الی اللہ کا کام رکے بغیر قیامت تک جاری رہے۔
یہ حفاظت دنیا کے اعتبار سے ہے، آخرت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔اس حقیقت کو حدیث رسول میں امت مرحومہ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مرحومہ کا مطلب ہے محفوظہ ، یعنی حفاظت کی ہوئی امت۔ اس بات کا ذکر مختلف روایتوں میںکیا گیا ہے،ان میں سے تین روایتوں کو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
(1) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّکُمْ مِنْ أُمَّةٍ مَرْحُومَةٍ، فَلَا تَنْزَقُوا، وَلَا تَطْغَوْا(مساوی الاخلاق للخرائطی، حدیث نمبر 571)۔ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:بیشک تم لوگ امت مرحومہ میں سےہو۔ پس بے صبری نہ کرنا، اور نہ سرکشی کرنا۔
(2)عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ قَالَ:إِنَّ ہَذِہِ الْأُمَّةَ أَمَةٌ مَرْحُومَةٌ، لَا عَذَابَ عَلَیْہَا إِلَّا مَا عَذَّبَتْ ہِیَ أَنْفُسَہَا، قَالَ:قُلْتُ وَکَیْفَ تُعَذِّبُ أَنْفُسَہَا؟ قَالَ:أَمَا کَانَ یَوْمُ النَّہَرِ عَذَابٌ؟ أَمَا کَانَ یَوْمُ الْجَمَلِ عَذَابٌ؟ أَمَا کَانَ یَوْمُ صِفِّینَ عَذَابٌ؟( مسند ابی یعلیٰ، حدیث نمبر 6204)۔یعنی ابوہریرہ نے کہا: بیشک یہ امت، امتِ مرحومہ ہے۔ اس پر کوئی عذاب نہیں ہے، سوائے اس کے کہ یہ خود ہی اپنے کو عذاب دے۔ راوی نے پوچھا، اپنے آپ کو کیسے عذاب دیا جاتا ہے۔ ابوہریرہ نے کہا: کیا یوم النہر عذاب نہیں تھا، کیا یوم الجمل عذاب نہیں تھا، کیا یوم صفین عذاب نہیں تھا۔
امت کے بارے میں نصرتِ الٰہی کی ایک اورروایت میں اس طرح آئی ہے:(ترجمہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ تعالیٰ نے میرے لیے روئے زمین کو سمیٹا،چنانچہ میں نے روئے زمین کو مشرق سے لے کر مغرب تک دیکھا اور یقینا میری امت کادائرہ روئے زمین میں وہاں تک پہنچے گا، جو سمیٹ کر مجھ کو دکھایا گیا ہے، اورمجھ کو سرخ اور سفید دو خزانے عطا کیے گئے ہیں،اس وقت میں نے اپنے پروردگار سے درخواست کی کہ اللہ میری امت کے لوگوں کو عام قحط میں نہ مارے ،اور یہ کہ میری امت پر اپنے لوگوں کے سوا کسی اور کو مسلط نہ کرے۔
میرے رب نے فرمایا :اے محمد، جب میں کسی بات کا فیصلہ کرلیتا ہوں تو وہ بدلا نہیں جاسکتا، پس تمہاری امت کے لیے میں نے تم کو یہ عطا کیا کہ تمھاری امت کو نہ تو قحط میں ہلاک کروں گا اور نہ خود ان کے علاوہ کوئی اور دشمن ان پر مسلط کروں گا ،جو ان کی اجتماعیت پر قبضہ کرلے، اگرچہ ان کے خلاف تمام روئے زمین کے لوگ جمع ہو جائیں، الاّ یہ کہ تمہاری امت ہی کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں اور ایک دوسرے کو قید وبند میں ڈالیں (حَتَّى یَکُونَ بَعْضُہُمْ یُہْلِکُ بَعْضًا، وَیَسْبِی بَعْضُہُمْ بَعْضًا)صحیح مسلم، حدیث نمبر 2889۔
واپس اوپر جائیں

حفاظت کا طریقہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جس عصمت (حفاظت) کا وعدہ تھا، وہ اپنے دور کے لحاظ سے فرشتوں کے ذریعے تھا۔ لیکن بعد کے لوگوں کے لیے یہ حفاظت باعتبار حالات یا زمانی تقاضے کے تحت ہوگا۔تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ کے اس منصوبہ کے مطابق، تاریخ میں ایک عمل (process) جاری کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود تاریخی اسباب اس بات کی ضمانت بن گئے کہ امت محمدی ایسی مصیبت سے محفوظ رہے، جو اس کے لیے دعوت الی اللہ کی ذمے داری کی ادائیگی میں حتمی رکاوٹ بن جائے۔تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ مقصد بعد کے زمانے میں اس طرح حاصل ہوا کہ اللہ رب العالمین نے امن (peace) کو لوگوں کے لیے باہمی مفاد (mutual interest) کی چیز بنا دیا۔ لوگوں کی مفادپرستی کا یہ تقاضا ہوا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کے حصول میں سرگرم رہیں، اور امت محمدی کے خلاف عداوتی منصوبہ نہ بنائیں۔
موجودہ زمانے میں یہ عمل (process) اپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچ گیا ہے۔ موجودہ زمانہ مکمل طور پر باہمی مفاد (mutual interest) کے اصول پر قائم ہے۔ موجودہ زمانے میں صنعتی تہذیب کے پھیلاؤ کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے کہ دنیا میں باہمی انحصار (interdependence) کا دور آگیا ہے۔ اب ہر ایک کو خود اپنے مفاد کے تحت دوسرے کی ضرورت ہے— تاجر کو گراہک (customer) کی ضرورت ہے، اور گراہک کو تاجر کی۔ وکیل کو کلائنٹ کی ضرورت ہے اور کلائنٹ کو وکیل کی ۔ ڈاکٹر کو مریض کی ضرورت ہے، اور مریض کو ڈاکٹر کی۔ لیڈر کو ووٹر کی ضرورت ہے ،اور ووٹر کو لیڈر کی۔ کنزیومر کو بازار کی ضرورت ہے، اور بازار کو کنزیومر کی۔ کمرشیل سواری کو مسافر کی ضرورت ہے، اور مسافر کو کمرشیل سواری کی ۔ہوٹل کو سیاح کی ضرورت ہے، اور سیاح کو ہوٹل کی ۔ صنعت کو خریدار کی ضرورت ہے، اور خریدار کو صنعت کی ، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے عام طور پر یہ شکایت کرتے ہیں کہ مسلمان ظالموں کے ظلم کا شکار ہیں، مسلمان ساری دنیا میں محاصرے (under siege) میں ہیں۔ دنیا میںاسلاموفوبیا (Islamophobia)پھیلا ہوا ہے،وغیرہ۔ مسلمانوں کی مظلومیت کا یہ افسانہ یقینی طور پر بے بنیاد ہے۔ یہ مسلمانوں کے بے خبر لوگوں کی اپنی سوچ ہے، نہ کہ زمانے کی حالت۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ جن باتوں کو مسلمانوں کے خلاف ظلم کا کیس بتاتا ہے، وہ صرف جوابی انتقام (retaliation) کا کیس ہے۔ مسلمان اپنی بے خبری کی بنا پر دوسروں کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہیں، مثلاً دوسروںکو شتم رسول کا ملزم بتا کر ان کو مارنا، یا دوسروں کو دشمن قرار دے کر ان پر سنگ باری (stone-pelting) کرنا۔ اس بنا پر مسلمانوں کو دوسروں کی طرف سے ناموافق حالات کا تجربہ ہوتا ہے، مسلمان اگر اپنی طرف سے مفروضہ ظلم کے خلاف رد عمل کا طریقہ مکمل طور پر چھوڑ دیں تو اس کے بعد یقینی طور پر مسلمانوں کے خلاف تمام مخالفانہ کارروائیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

تبلیغِ رسالت کا نظام

اللہ کے مقرر کردہ نظام کے مطابق،تبلیغ رسالت کا نظام یہ ہے کہ اللہ کا پیغام پہلے فرشتوں کے ذریعہ رسولوں تک آتا ہے، اور پھر رسول اس پیغام کو اپنے زمانے کے انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ یہ اصول قرآن کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے:اللَّہُ یَصْطَفِی مِنَ الْمَلَائِکَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ(22:75)۔ یعنی اللہ فرشتوں میں سے اپنا پیغام پہنچا نے والا چنتا ہے، اور انسانوں میں سے بھی۔ بیشک اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ اس آیت میں اصلاً پیغمبر کے انتخاب کی بات ہے، لیکن تبعاً امت محمدی کے افراد بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ سنت الٰہی کے مطابق، پیغمبر کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ لیکن دعوت کام ختم نہیں ہوا، بلکہ وہ پیغمبر کی امتیوں کے ذریعہ بدستور جاری ہے۔
گویا دعوت الیٰ اللہ کے پیغام کے چار مرحلے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں اللہ رب العالمین سے فرشتے تک۔ دوسرے مرحلے میں فرشتے سے پیغمبر تک، اور تیسرے مرحلے میںپیغمبر کے ذریعہ اپنے معاصر انسانوں تک، اور آخری مرحلے میںامت کے منتخب افراد کے ذریعے عہد بہ عہد تمام انسانوں تک۔ یہ نظام عین فطرت کے مطابق ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ ذمے داری امت محمدی کے اہل علم کی ہے کہ وہ پیغمبر سے ملے ہوئے دین خداوندی کو ہر زمانے کے انسانوں تک پہنچاتے رہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے، جو قرآن کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے:وَکَذلِکَ جَعَلْناکُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَکُونُوا شُہَداءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیداً (2:143)۔ یعنی اور اس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔
پہلے انسان (آدم) سے لے کر محمد بن عبد اللہ (علیہم السلام) تک ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر انسان کی طرف آئے(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ انھوں نے انسا ن کو بتایا کہ یہ زمین تمھارے لیے ابدی قیام گاہ (eternal habitat) نہیں ہے، بلکہ یہ تمھارے لیے ایک عارضی قیام گاہ (temporary abode) ہے۔ یہاں تمھیں یہ موقع دیا گیا ہے کہ تم اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق (deserving candidate) بناؤ، اور تاریخِ انسانی کے خاتمہ پر جنت کی شکل میں اپنے مطلوب ابدی ہیبیٹاٹ (habitat) میں جگہ پاؤ۔ ساتویں صدی عیسوی میں محمد عربی کے ظہور کے بعد انبیاء کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ مگر خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان پھر بھی پیدا ہوکر زمین پر آباد ہورہے تھے۔ اب یہ سوال تھا کہ بعد کو پیدا ہونے والے انسانوں تک خدائی رہنمائی کی نمائندگی کون کرے۔
ساتویں صدی عیسوی میں ختم نبوت سے پہلے خدا کی طرف سے اس رہنمائی کی ذمہ داری پیغمبروں نے ادا کی۔ اس اعتبار سے تمام پیغمبر امت وسط (middle ummah)کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے ایک طرف اللہ رب العالمین تھا اور ان کے دوسری طرف تمام انسان۔ انھوں نے اس رہنمائی کو اللہ سے لیا اور پورے معنوں میں ناصح اور امین (الاعراف، 7:68) بن کر اس کو انسانوں تک پہنچایا۔ختم نبوت کے بعد یہ ذمے داری امت مسلمہ کی ہے کہ پیغمبروں کی طریقے پر تمام انسانوں کو خدا کا پیغام پہنچائے۔یہی اللہ رب العالمین کا مقرر کردہ دعوت حق کا نظام ہے۔
اس نظام میں جو لوگ واسطہ بنیں ، ان کے اوپر فرض ہے کہ وہ اس نظام کے اندر اپنی ذمہ داری کو دریافت کریں، اور پھر پوری تیاری کے ساتھ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں لگ جائیں۔ دعوت کا یہ پر امن کام مکمل طور پر غیر سیاسی (non-political) اور نان کمیونل انداز میں کرنا ہے۔مزید یہ کہ اس کام کو اس اصول کے تحت انجام دینا چاہیے جس کو قرآن میں تالیف قلب (التوبۃ، 9:60) کہا گیا ہے۔ تالیف قلب ایک ابدی اصول ہے۔ وہ کبھی اور کسی حال میں منسوخ ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مواقع اویل کرنا

نصیحت کا اصول یہ ہے کہ دوسروں کے عمل سے تجربہ (experience) حاصل کیا جائے۔ دوسروں کے تجربے سے جو چیز باعتبار نتیجہ ہلاکت ثابت ہوئی ہو، اس کو چھوڑ دیا جائے، اور ان کے تجربے سے جو مفید سبق حاصل ہوتا ہو، اس کو لے لیا جائے۔ مثلاً یہ کہ جنگ کے منفی تجربے سے سبق لینا، اور جنگ کا طریقہ چھوڑ کر پر امن دعوت کا طریقہ اختیار کرنا۔ اس سلسلے میںصحابی رسول عبد اللہ ابن مسعود کا ایک حکیمانہ قول ان الفاظ میں آیا ہے:السَّعِیدُ مَنْ وُعِظَ بِغَیْرِہِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2645) ۔ یعنی سعید وہ ہے جو دوسروں سے اپنے لیے نصیحت حاصل کرے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ایسا ہوا کہ انھوں نے ہر قسم کی قربانی کے باوجود صرف کھویا، ان کو کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ اب حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی یو ٹرن (U-Turn) لیں۔ وہ جنگ اور تشدد کے طریقہ کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور پر امن انداز اختیار کرتے ہوئے، دعوت الی اللہ کے کام میں لگ جائیں۔ یہی تاریخ کا تقاضا ہے، اور یہی اسلام کا تقاضا بھی۔
وقت کے ان مواقع کو دعوتی عمل کے لیے کیسے اویل کیا جائے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کے لیے اسلام کی قدیم تاریخ میں بھی نمونے موجود ہیں، اور سیکولر قوموں کی تاریخ میں بھی ۔ انسانی تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ بے آمیز ذہن کے ساتھ کیا جائے۔ غیر متاثر ذہن کے ساتھ پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کچھ دروازے اگر بند ہوئے ہیں تو دوسرے دروازے پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔ اگر حالات کو سمجھ کر ری پلاننگ کی جائے تو یقیناً مستقبل کی نئی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ماضی کی ناکامیوں کو بھلایا جائے، اور مستقبل کے امکانات کو لےکر اپنےعمل کا منصوبہ بنایاجائے۔
واپس اوپر جائیں

حضرت یوسف کی مثال

قرآن میں پیغمبر یوسف کے واقعہ کو احسن القصص (best story)کا ٹائٹل دیا گیا ہے (یوسف، 12:3)۔ احسن القصص کا مطلب ہےبہترین طریقِ کا ر (best method) ۔ اللہ تعالی نے تاریخ میں حضرت یوسف کے ذریعہ ایک عملی مثال قائم کی، اور اس طرح ہر زمانے کے اہل ایمان کو یہ ہدایت دی کہ تم اپنے حالات کے اعتبار سے اس کامیاب طریقِ کار کو اختیار کرو۔پیغمبر اسلام کو قرآن میں جو حکمت کی باتیں بتائی گئی ہیں، ان میں سے ایک حکمت وہ ہے جو پیغمبر یوسف کے حوالے سے قرآن میں آئی ہے۔اس طریقِ کار کا خلاصہ تھا— اتھاریٹی کے ساتھ ٹکراؤ نہ کرنا، اور موجود مواقع کو پر امن انداز میں استعمال کرنا۔
پیغمبر یوسف کنعان میں پیدا ہوئے، جو اب الخلیل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا زمانہ بقول اغلب 1910 تا 1800 ق م کا ہے۔ ان کے ساتھ کچھ خاندانی اسباب پیدا ہوئے، اور وہ فلسطین سے نکل کر مصر پہنچ گئے۔اس زمانے کا مصر کا بادشاہ ان سے متاثر ہوا، اور اس نے آپ کو اپنی سلطنت میں پورے ملک کی زراعت کا انچارج بنا دیا۔
پیغمبر یوسف ایک گاؤں سے نکل کر مصر پہنچے تھے۔ ان کو یہ غیر معمولی کامیابی کیسے حاصل ہوئی۔ اس کا راز یہ تھا کہ انھوں نے مصر میں اس وقت کے بادشاہ سے ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ ایسا طریقہ اختیار کیا ، جس کو پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ کہا جاسکتا ہے۔ وہ پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ یہ تھا کہ پیغمبر یوسف اِس پر راضی ہوگئے کہ حکومت کے تخت پر مشرک بادشاہ بدستور قائم رہے، لیکن ملک کے خزائن (زرعی نظام) پیغمبر یوسف کے ہاتھ میں ہو۔
یہ قصہ قرآن اور بائبل دونوں میں آیا ہے۔ بائبل (پیدائش، 41:40)میں اس کا ذکر ان الفاظ میں ہے— سو تو میرے گھر کا مختار ہوگا، اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا:
Only as regards the throne will I be greater than you. (Genesis 41:40)
پیغمبر یوسف کے قصے کو قرآن میں احسن القصص یعنی بہترین طریق کار(best method) قرار دیا گیا ہے۔ یہ بہترین طریق کار کیا تھا، جس نے پیغمبر یوسف کو قدیم مصر میں اعلیٰ مواقع عطا کردیے۔ وہ طریق کار ایک لفظ میں یہ تھا— سیاسی اقتدار کے ساتھ پولیٹکل اپوزیشن کے بجائے پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ اختیار کرنا۔ یہ طریقہ جو پیغمبر یوسف نے اختیار کیا، وہ قدیم زمانے میں بھی سب سے زیادہ کامیاب طریقہ تھا، اور موجودہ زمانے میں بھی وہ سب سے زیادہ کامیاب طریقہ ہے۔
حضرت یوسف کے زما نے میں یہ طریقِ کار مصر کےایک بادشاہ کے ذاتی ذوق کی بنا پر ممکن ہوا تھا۔ موجودہ زمانے میں انسانی تاریخ ایک نئے دور میں پہنچ چکی ہے۔ اب جدید دور کے مسلمہ اصول (accepted norm) کے تحت یہ ممکن ہوگیا ہے کہ احسن القصص کا اعادہ زیادہ وسیع پیمانے پر کیا جائے، اور دعوت کو احسن القصص کے اصول پر منظم کرکے عالمی کامیابی حاصل کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

رسول اللہ کا طریقِ کار

پرامن منصوبہ بندی کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں قدیم مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔ آپ کا مشن اللہ کی توحید کا مشن تھا۔ مکہ کی عملی صورت حال یہ تھی کہ پیغمبر ابراہیم کے بنائے ہوئے مقدس کعبہ کو بعد کے لوگوں نے بت پرستی کا مرکز بنادیا تھا۔ خود کعبہ کی عمارت میں تقریبا 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ پیغمبر اسلام اپنے ابتدائی دور میں تیرہ سال مکہ میں رہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان تیرہ سالوں میں آپ نے کبھی عملی طور پراس پر احتجاج نہیں کیا کہ تم لوگوں نے پیغمبر ابراہیم کے کعبہ کو بتوں کا مرکز کیوں بنا دیا، اس کو یہاں سے ہٹاؤ، اور دوبارہ اس کو کعبہ کے بانی کی بنیاد پر قائم کرو۔
پیغمبر اسلام کا یہ عمل ایک غیر معمولی عمل تھا۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا توحید کا مشن جاری کرنا۔ مگر حدیث کے پورے ذخیرہ میں ایسا کوئی حوالہ موجود نہیں کہ اس کا سبب کیا تھا۔ گویا کہ یہ واقعہ ابھی تک بلاتوجیہہ (unexplained) پڑا ہوا ہے۔ یقیناً اس واقعہ کا کوئی معقول سبب موجود ہوگا۔ جب وہ کتابوں میں لکھا ہوا موجود نہیں ہے،تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو دریافت کریں۔ اس دریافت کے ذریعہ جو سبب معلوم ہو، اس کو مبنی بر استنباط سنت کا درجہ دیا جائے گا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy)کی سنت تھی ۔ یعنی پیغمبر اسلام نے دیکھا کہ کعبہ میں بتوں کی موجودگی بلاشبہ ایک غیر مطلوب فعل ہے۔ لیکن ان بتوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ عرب میں پھیلے ہوئے تمام قبائل کے بت تھے۔ ان بتوں کی وجہ سے عرب کے تمام قبائل کے لوگ روزانہ مکہ آتے، اور اپنے بتوں کی زیارت کرتے۔ اس بنا پر کعبہ سارے عرب کے لوگوں کا اجتماع گاہ بن گیا تھا۔ یہ اجتماع عملاً پیغمبر اسلام کے لیے آڈینس (audience) کی حیثیت رکھتا تھا۔ گویا کہ ان بتوں کا ایک پہلو یہ تھا کہ وہ مشرکانہ کلچر کی علامت تھے۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ ان کی وجہ سے پیغمبر اسلام کو یہ موقع مل رہا تھا کہ آپ سارے عرب کا سفر کیے بغیر خود مکہ میں عرب کے تمام قبائل کو اپنا موحدانہ پیغام پہنچا سکیں۔ چنانچہ آپ نےاس معاملے میں ڈی لنکنگ پالیسی اختیار کی۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرکے آپ نے زائرین کو لیا، اور ان کو خدا کا پیغام براہ راست طور پر پہنچانا شروع کردیا۔
اس اصول کو پیغمبر اسلام کی اہلیہ عائشہ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے:مَا خُیِّرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6786)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو طریقوں میں سے ایک طریقہ کو ا ختیار کرنا ہوتاآپ ہمیشہ ان میں سے آسان طریقہ کا انتخاب کرتے تھے۔اس اصول کی بنیاد پر اگر فارمولا بنایا جائے تو وہ یہ ہوگا— مسئلے کو نظر انداز کرو، اور مواقع کو استعمال کرو:
Ignore the problem, avail the opportunity
واپس اوپر جائیں

سیکولر دنیا کی مثال

جدید تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ جو قومیں فرسٹ ورلڈ وار(1914-1918) اور سکنڈ ورلڈ وار(1939-1945) میں شامل تھیں ، تجربے کے بعد انھوں نے دیکھا کہ ان جنگوں میں انھوں نے صرف نقصان اٹھایا۔ جنگ کا طریقہ ان کے لیے کاؤنٹر پرڈکٹیو ثابت ہوا۔ اس تجربے کے بعد ان قوموں کے قائدین نے دوبارہ غور کیا۔ انھوں نے پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لیا۔ اس کے بعد حقیقت پسندی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے انھوں نے وہ طریقہ اختیار کیا، جس کو ری پلاننگ کا طریقہ کہاجاتا ہے۔ انھوں نے جنگ کا طریقہ چھوڑ دیا، اور مکمل معنوں میں امن کا طریقہ اختیار کرلیا۔ برطانیہ نے یہ کیا کہ اپنی عظیم سلطنت (empire) کو خود اپنے اختیار سے ختم کردیا، اور اپنی سلطنت کو صرف برطانیہ تک محدود کرلیا۔ فرانس نے اپنی افریقی مقبوضات کو یک طرفہ طور پر چھوڑ دیا۔ جرمنی نے یہ کیا کہ ایسٹ جرمنی کو چھوڑ کر ویسٹ جرمنی کی تعمیر و ترقی میں لگ گیا۔ جاپان نے مکمل طور پر جنگ اور تشدد کا طریقہ چھوڑ دیا، اور جاپان کی پر امن ترقی میں مصروف ہوگئے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

یہود کی مثال

قرآن میں یہود کی تاریخ کا ایک نصیحت آمیز واقعہ سورۃ الاسراء کی ابتدائی چند آیتوںمیںبیان کیا گیا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے: اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں بتادیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں خرابی کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے۔ پھر جب ان میں سے پہلا وعدہ آیا تو ہم نے تم پر اپنے بندے بھیجے، نہایت زور والے۔ وہ گھروں میں گھس پڑے اور وعدہ پورا ہو کر رہا۔ پھر ہم نے تمہاری باری ان پر لوٹا دی اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تم کو زیادہ بڑی جماعت بنا دیا۔ اگر تم اچھا کام کرو گے تو تم اپنے لیے اچھا کرو گے اور اگر تم برا کام کرو گے تب بھی اپنے لیے برا کرو گے۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اور بندے بھیجے کہ وہ تمہارے چہرے کو بگاڑ دیں اور مسجد میں گھس جائیں جس طرح وہ اس میں پہلی بار گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا زور چلے اس کو برباد کردیں (17:4-7)۔
قرآن کی ان آیتوں میں یہود کے بگاڑ کا ذکر ہے۔ لیکن اس کے بعد یہ نہیں فرمایا کہ یہود کے اندر ہم نے مصلحین پیدا کیے۔ بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے اندر ہم نےاپنے زور آور بندے بھیجے، جنھوں نے ان کو تباہ و برباد کیا۔ یہود (بنی اسرائیل) کی تاریخ میں دوبار یہ واقعہ پیش آیا کہ ان کو نبوکد نضر(1125-1104ق م) اور رومی بادشاہ ٹائٹس (39-81ء) نے فلسطین کے علاقے سے نکال کر بیرونی علاقہ میں پھیلادیا، جس کو ڈائسپورا (diaspora) کہا جاتا ہے۔ (دیکھیے، تفسیر ماجدی، سورہ بنی اسرائیل، حاشیہ7)
اس کی وجہ کیا ہے۔ بنی اسرائیل کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، یہ واقعہ ایک اعتبار سے سزا کا معاملہ تھا، اور دوسرے اعتبار سے اس کا مقصد یہ تھا کہ قدیم زمانے میں یہودی نسلوں میں جو تعطل (stagnation) آگیا تھا، اس کو توڑا جائے۔ ان کو دوبارہ یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنے افراد کے اندر بیداری لائیں، اور ان کو احیا (revival) کا موقع مل سکے۔ ہار ش ٹریٹمنٹ کا یہ عمل یہود کے ساتھ کئی سو سال تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ 1948 میں ان کو دوبارہ یہ موقع دیا گیا کہ وہ فلسطین کے علاقے میں لوٹ کر آئیں، اور اپنی نئی زندگی شروع کریں۔ بد قسمتی سے اسرائیل کی یہ واپسی مثبت واپسی نہ بن سکی۔ اس واپسی کے ساتھ یہودیوں اور عربوں کے درمیان ایک خونی تصادم شروع ہوگیا، اور اس طرح وہ امکان واقعہ نہ بن سکا، جو اس معاملہ میں چھپا ہوا تھا۔
اگر مسلمان یہود کو دشمن سمجھنے کے بجائے مدعو سمجھتے، اور ان کے درمیان دعوتی کام کرتے تو عین ممکن تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ جزئی یا کلی طور پر وہی واقعہ پیش آتا، جو اس آیت میں مذکور ہے:وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ ۔ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:33-34)۔ یعنی اور اس سے بہتر کس کی بات ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
اس کے برعکس، اس بات کو ماننے کے لیے کوئی بنیاد قرآن و حدیث میں نہیں ہے کہ یہود ابدی طور پر "ملعون" ہوچکے ہیں، اور اب ان کے لیے سچائی کے راستے پر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں بہت سے یہودیوں نے اسلام قبول کیا، اور اب بھی قبول کر رہے ہیں۔ مثلا آسٹریا کے لیو پولڈ اسد (1900-1992)، اور امریکا کی مارگریٹ جمیلہ (1934-2012)۔ اسی طرح اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہود کے اوپر قرآن کی یہ آیت (41:33-34) منطبق (apply) نہیں ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ڈی لنکنگ کا اصول

خلیفہ دوم عمر فاروق کے زمانے کا واقعہ ہے۔ مسلمانوں کا مقابلہ ایرانی ایمپائر سے پیش آیا۔ مسلمان جب پیش قدمی کرنے لگے تو ایرانی فوج کےسپہ سالار رستم نے مسلم فوج کے سردار سعد بن وقاص کے پاس پیغام بھیجا کہ تم اپنا نمائندہ گفت وشنید کے لیے بھیجو ۔ وہ دربار میں پہنچے تو رستم نے اُن سے کہا کہ تم لوگ کیوں ہمارے ملک میں آئے ہو۔ اِس سوال کے جواب میں ربعی بن عامر نے کہا:اللَّہُ ابْتَعَثْنَا لِنُخْرِجَ مَنْ شَاءَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ إِلَى عِبَادَةِ اللَّہِ (البدایة والنہایة،جلد 7، صفحہ 39)۔ یعنی اللہ نے ہم کو بھیجا ہے، تاکہ جو چاہے، اُس کو ہم انسان کی عبادت سے نکال کر اللہ کی عبادت میں لے آئیں۔اِس واقعے سے ایک اہم اصول اخذ ہوتاہے اور وہ ہے فرقان کا اصول، یعنی دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا۔ صحابی کے قول کا مطلب یہ تھا کہ تم ہم کو حملہ آور نہ سمجھو، ہم دراصل تہذیبِ توحید کے نقیب (harbinger) بن کر آئے ہیں۔ ہم تمھارے لیے رحمت ہیں، نہ کہ کوئی مسئلہ۔
یہی معاملہ دورِ جدید کا ہے۔ دور جدید اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک موافقِ اسلام دور ہے، نہ کہ مخالفِ اسلام دور۔ دور جدید کو مخالفِ اسلام دور بتانا، صرف اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی دورِ جدید کی الف ب بھی نہیں جانتا۔ ایسا آدمی دراصل مسلم قومی ذہن کے تحت سوچ رہا ہے اور غلط فہمی کی بنا پر اس کو وہ اسلام کے اوپر منطبق کررہا ہے۔
دورِ جدید کیا ہے۔ دورِ جدید عقلی طرز فکر (rational thinking) کا نام ہے، اور عقلی طرز فکر مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے۔ دورِ جدید مذہبی آزادی کا دور ہے، اور مذہبی آزادی مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے۔ دورِ جدید کمیونی کیشن کا دور ہے، اور کمیونی کیشن مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے۔ دورِ جدید پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے، اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے، وغیرہ۔ ایسی حالت میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ دورِ جدید کے موافقِ اسلام پہلوؤں کو دریافت کرکے اس کو اسلام کےحق میں استعمال کریں۔
انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں جب نوآبادیاتی غلبہ کا دور آیا تو مسلم دنیا کے تمام رہنما، علما اور غیر علما دونوں اُن سے لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اِس لڑائی میں انھوں نے غیر معمولی قربانیاں پیش کیں، لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیںنکلا۔ مسلم رہنما اگر صحابی رسول کی اِس مثال سے سبق لیتے اور اس کو موجودہ صورتِ حال پر منطبق کرتے اور وہ کہتے کہ یہ نوآبادیاتی قومیں سادہ طورپر صرف حملہ آور نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک نئی تہذیب کے نقیب (harbinger of a new civilization) ہیں۔ لہٰذاہم کو چاہیے کہ ہم اُن سے لڑنے کے بجائے، اُن سے نئے ترقیاتی ذرائع کو سیکھیں۔ ہمارے رہنما اگر اِس طرح ایک پہلو کو دوسرے پہلو سے الگ کرکے دیکھتے اور اِس کے مطابق، وہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرتے تو آج امتِ مسلمہ کی تاریخ مختلف ہوتی۔ آج مسلمان شکر کرنے والا گروہ ہوتے، جب کہ آج مسلمان صرف شکایت اور احتجاج کرنے والا گروہ بنے ہوئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

دورِ جنگ کا خاتمہ

دنیا میں قدیم زمانے سے قوموں کے درمیان جنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ اس نامتناہی سلسلۂ جنگ کا سبب یہ تھا کہ قدیم زمانے میں جنگ اور صلح کی کوئی ایسی معلوم حد موجودد نہ تھی، جو قوموں کے درمیان تسلیم شدہ ہو۔ اسلام نے صلح حدیبیہ کے بعد اس دورِ صلح کا آغاز کیا۔ اس کے بعد دنیا میں بین الاقوامی سطح پر ایک تاریخی عمل (historical process)کا آغاز ہوا۔ اس عمل کا نقطۂ انتہا 1945 تھا، جب کہ تمام قوموں کے اتفاق رائے سے اقوام متحدہ (UN) کا قیام عمل میں آیا۔
اقوامِ متحدہ کے قیام سے بین الاقوامی طور پر ایک مشترک پلیٹ فارم وجود میں آیا۔جہاں تمام قوموں کے ذمہ دار نمائندے اکٹھا ہوں، اور با اختیار انداز میں اجتماعی فیصلے کریں۔ اس اجتماعی پلیٹ فارم کے ذریعے اس سلسلے میں پہلا اہم کام یہ ہوا کہ قوموں کی جغرافی حدیں متعین ہوئیں۔ یہ حد نیشن اسٹیٹ (nation state) تھی۔ اس سے یہ طے ہوا کہ ہر قوم کی ایک معلوم حد ہے، اور کسی قوم کو یہ حق نہیں کہ وہ اس معلوم حد کی خلاف ورزی کرے۔
اسی طرح قوموں کے اتفاق رائے سے یہ اصول طے ہوا کہ باہمی اختلافات کا تصفیہ اقوام متحدہ کے تحت امن کی میز پر ہوگا، نہ کہ جنگ کے میدان میں۔ اس طرح دنیا میں پہلی بار یہ ہوا کہ تقریباً ایک سو قوموں کی جغرافی حدیں مقرر ہوگئیں، اور اس طرح جنگ کا خاتمہ ممکن ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کی ایک آیت میں یہ جو الفاظ آئے ہیں  حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا (47:4)۔یعنی یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے۔ اس میں اسی حتی (حد) کی پیشین گوئی تھی، جو بیسویں صدی کے نصف آخر میں پوری ہوئی۔ قرآن کی یہ آیت کسی وقتی معاملے کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ ایک مستقل تصفیے کے لیے ہے، جو اقوامِ متحدہ کے ذریعے بین اقوامی اسٹیج پر طے ہوا۔اس آیت میں ایک بین الاقوامی پراسس کی تکمیل کا اعلان ہے، نہ کہ ایک وقتی اور محدود معاملے کا۔ یہ آیت ایک تاریخی تکمیل کو بتاتی ہے، جس کے بعد پر امن دعوت کے مواقع آخری طور پر کھل گئے۔
اسلام کے ذریعے ایک عالمی عمل جاری ہوا، جس کی تکمیل جدید تہذیب کی صورت میں ہوئی، اور رسول اللہ کی پیشین گوئی پوری ہوئی کہ اللہ اس دین کی تائید سیکولر قوموں کے ذریعے کرے گا۔
واپس اوپر جائیں

دورِ امن کی طرف

قرآن میں اصحابِ رسول کو ایک حکم ان الفاظ میں دیا گیا تھا:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ لِلَّہِ فَإِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِینَ (2:193)۔ یعنی اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (سب )اللہ کا ہوجائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو اس کے بعد جارحیت نہیں ہے، مگر ظالموں پر۔
قرآن کی اس آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں کہا گیا ہے کہ جنگ کرو یہاں تک کہ فتنے کا خاتمہ ہوجائے،دوسرے حصے کے الفاظ یہ ہیں کہ "دین اللہ کا ہوجائے"۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے مطلوب کے لیے لڑنا ہوگا، اور دوسرا مطلوب اپنے آپ حاصل ہوجائے گا۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی تخلیق کے مطابق انسانی دنیا میں فطری حالت قائم تھی، اور فطری حالت امن کی حالت ہے۔ لیکن بعد کو ایسا ہوا کہ دنیا میں ڈسپاٹک کنگ (despotic king) کا زمانہ آیا۔ انھوں نے یہ کیا کہ حالتِ فطری کو ختم کرکے اس کی جگہ غیر فطری حالت قائم کردی، یعنی جبر و تشدد کی حالت۔ یہ حالت اللہ کو منظور نہ تھی، کیوں کہ یہ حالت اللہ کے منصوبۂ تخلیق کے خلاف تھی ۔ چنانچہ اللہ نے اپنے رسول اور اصحابِ رسول کویہ حکم دیا کہ جن لوگوں نے انسانی دنیا میں خود ساختہ طور پر تشدد کی حالت قائم کر رکھی ہے، اس کو بزورِ طاقت ختم کردو، تاکہ دوبارہ دنیا میں حالت فطری قائم ہوجائے۔
قدیم زمانے میں مذہبی تشدد (religious persecution) اسی بنا پر قائم تھا۔چنانچہ اصحابِ رسول کو اپنے زمانے کے اربابِ اقتدار سے جنگ کرنا پڑا۔ یہی وہ تاریخی انقلاب ہے، جس کی طرف بائبل میں ان الفاظ اشارہ کیا گیا ہے: اس نے نگاہ کی، اورقومیں پراگندہ ہوگئیں، ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے، قدیم ٹیلے جھگ گئے (حبقوق، 3:6)۔ یہ واقعہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے وقوع پذیر ہوا۔ اصحاب رسول نے اس وقت کے جبری نظام کا خاتمہ کردیا۔ اس کے بعد دنیا میں ایک نئے دور کا پراسس شروع ہوگیا، یعنی جنگ کے دور کا خاتمہ اور امن کے دور کا آغاز۔
تاریخ میں کوئی بڑا واقعہ اچانک نہیں ہوتا، بلکہ وہ تاریخی عمل (historical process) کی صورت میں ابتدائی حالت سے شروع ہوکر تکمیل کی حالت تک پہنچتا ہے۔ تاریخ میں اس دورِ امن کا آغاز اہل اسلام نے کیا تھا۔ بعد کے زمانے میں آزادی اور جمہوریت (freedom and democracy) کا جو دور آیا، وہ اسی آغاز کا منتہا (culmination) ہے۔اکیسویں صدی میں اب ہم اسی دورِ امن میں جی رہے ہیں۔ اب قرآن کے الفاظ میں دین سب کا سب اللہ کے لیے ہوچکا ہے۔ یعنی یہ ممکن ہوگیا ہے کہ پرامن طریقِ کار کو استعمال کرتے ہوئے، اپنے مقصد کو نارمل کورس (normal course) میں حاصل کرلیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

امن کی اشاعت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ السَّلَامَ اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّہِ وَضَعَہُ اللَّہُ فِی الْأَرْضِ فَأَفْشُوہُ بَیْنَکُمْ (الادب المفرد، حدیث نمبر 989)۔ یعنی بیشک السلام اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جس کو اس نے زمین میں رکھا ہے، تو اس کو تم لوگ آپس میں پھیلاؤ۔ اس حدیث میں السلام کا لفظی مطلب ہے، امن (peace)، سلامتی، چین و سکون، امان و حفاظت، صلح جوئی، وغیرہ۔
اس حدیث میں اللہ کے نام سے مراد اللہ کا مطلوب ہے۔ یعنی اللہ کی مطلوبات میں سے ایک مطلوب وہ ہے، جس کو ہم اپنی زبان میں امن کہتے ہیں۔ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ امن (peace) کو خوب پھیلائیں۔ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ انسانوں کے درمیان امن کا ماحول قائم ہو۔ اللہ کو مطلوب ہے کہ انسانوں کا معاشرہ امن کا معاشرہ ہو۔ کیوں کہ جہاں امن ہوگا، وہاں تمام مطلوباتِ الٰہی کی اشاعت اعلیٰ سطح پر ممکن ہوجائے گی۔ جہاں امن ہے، وہاں عبادت کا ماحول ہے۔ جہاں امن ہے، وہاں اللہ کے پیغام کو پھیلانے کا ماحول ہے۔جہاں امن ہے، وہاں تعلیم اور دعوت ،وغیرہ کا کام کرنا آسان ہے۔ سماج کے اعتبار سے امن کی حیثیت خیر مطلق(absolute good) کی ہے۔ امن ہے، تو سب کچھ ہے، اور امن نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہر سماجی ترقی امن کے ماحول میں ممکن ہے۔
امن کے ماحول کا مطلب ہے فطری ماحول۔ خالق کا بنایا ہوافطری ماحول ہمیشہ پرامن ماحول ہوتا ہے۔ پرامن ماحول میں مثبت مزاج پھیلتاہے۔ پرامن ماحول میں یہ موقع ہوتا ہے کہ انسان کسی مزاحمت کے بغیر ہر اچھے کام کو انجام دے سکے۔ امن کا ماحول ہر مفید اور تعمیری کام کے لیے ضروری ہے۔ کسی بھی سماج میں امن کا ماحول لانے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے اندر مخالف امن سرگرمیاں ختم ہوجائیں۔ مخالفِ امن سوچ موجود نہ رہے۔ امن کا ماحول تعلیم کے ماحول سے شروع ہوتا ہے۔ تعلیم کے ذریعے وہ ذہن بنتاہے، جو سماج کے لیے تعمیری کام کرتاہے۔
واپس اوپر جائیں

تعلیم، قدیم اور جدید

جدید دَور میں سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں تمام علوم کو از سرِ نو مدوَّن کیاگیا ہے۔اسی طرح ٹکنالوجی کی ترقی نے قدیم روایتی دَور کو بالکل بدل دیا ہے۔ چنانچہ قدیم زمانے میں تعلیم کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ زندگی کی قائم شدہ ر وایات کو باقی رکھنے کے لیے تربیت یافتہ افراد مہیا کرنا۔ مثلاً مذہب کے رسوم کو درست طور پر ادا کرنے کے لیے تربیت یافتہ افراد کو مہیا کرنا ہے۔ موجودہ زمانے میں تعلیم کا مقصد یہ ہوگیا ہے کہ ریسرچ و تحقیق کے ذریعے زندگی کے نئے راستے تلاش کرنا، اور تہذیب کی ترقی کے سفر کو مسلسل طور پر آگے بڑھا نا ہے۔
موجودہ زمانے میں تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ اپنے آپ کو وقت کے تقاضے کے مطابق تیار کیا جائے۔ تاکہ انسان ترقی کی دوڑ میں اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ قدیم زمانے میں تعلیم عملاً ایک جامد ڈسپلن کی حیثیت رکھتی تھی۔ موجودہ زمانے میں تعلیم ایک تخلیقی سرگرمی (creative activity) کا نام ہے۔ قدیم زمانے میں تعلیم کا تعلق کچھ محدود لوگوں سے ہوتا تھا۔ موجودہ زمانے میں تعلیم کا تعلق زندگی کے تمام شعبوں سے ہوگیا ہے۔ قدیم زمانے میں تعلیم کا نشانہ یہ نہیں ہوتا تھا کہ نئی نئی چیزوں کو دریافت کیا جائے،تاکہ تہذیب کے ارتقا میں ان کا استعمال ہو۔ موجودہ زمانے میں تعلیم ایک انقلابی عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس کو ایک مثال کے ذریعے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ قدیم زمانے میں تعلیم گویا ایک بنی بنائی عمارت کا نام ہوتا تھا، جس کی وقت وقت پر صفائی کردی جائے اور وائٹ واش کردیا جائے۔ اس کے برعکس، موجودہ زمانے میں تعلیم یہ ہے کہ نئی نئی دریافتوں کے مطابق نئی نئی عمارت کھڑی کی جائے۔ قدیم زمانے میں تعلیم کا مقصد زندگی کے روایتی ڈھانچہ کو برقرار رکھنے کا نام ہوتا تھا۔ قدیم زمانے میں تعلیم کا اصل مقصد یہ تھا کہ سماج کے اقدار (values)، آداب، تہذیب، وغیرہ کو اگلی نسل میں منتقل کرنا، تاکہ سماجی روایت جاری رہے۔موجودہ زمانے میں تعلیم ایک ترقی پذیر عمل کا نام ہے، جو بہتے ہوئے دریا کی مانند آگے بڑھتا ہے، اور ترقی کے سفر میں بنیادی رول ادا کرتا ہے۔
قدیم دور میں اپنی روایت سے نکل کر سوچنا نادرست سمجھا جاتا تھا، خواہ وہ توہمات پر مبنی کیوں نہ ہو۔ جو ایسا کرتا اس کا بائیکاٹ کیا جاتا تھا۔اس پر ظلم کیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس،جدید دور میں روایت شکنی سب سے بڑی خوبی کی بات ہے۔ یہ انسان کو موقع دیتی ہے کہ انسان ڈی کنڈیشنڈ  مائنڈ کے ساتھ سوچے، اور میرٹ (merit)کی بنیاد پر کسی چیز کو رد ّیا قبول کرے۔
واپس اوپر جائیں

شیطان کا چیلنج

انسان کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم دور میں انسانوں کی بڑی تعداد کو شیطان نے یہ سکھایا کہ مخلوق میں بھی خدائی (divinity) ہوتی ہے۔ چنانچہ بیشتر انسان مخلوق کے پرستار بن گئے۔ سائنس دانوں اس روایتی کنڈیشننگ کا توڑا،انھوں نے پچھلے تقریباً چار سو سال کی تحقیق کے بعد بتایا کہ مخلوقات میں خدائی (divinity) نہیں۔ سائنس دانوں کی ریسرچ سے یہ ثابت ہوگیا کہ خالق الگ ہے، اور مخلوق الگ۔ مغرب کے سائنس داں حدیث کے الفاظ میں مؤیدین ِ دین تھے (مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔ یہ وہ لوگ تھے، جن کے ذریعے دریافت شدہ علم نے دین کی تائیدکا کام انجام دیا ہے۔ لیکن شیطان نے مسلمانوں کے دلوں میں یہ ڈال دیا کہ اہل مغرب تمھارے دشمن ہیں۔اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ وہی چیلنج تھا، جو شیطان نے آدم کی تخلیق کے وقت اللہ رب العالمین کو ان الفاظ میں دیاتھا: وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِینَ (7:17)۔ یعنی تو بیشتر انسانوں کو اعتراف کرنے والا نہ پائے گا۔
چنانچہ مغرب سے دشمنی کی بنا پرمسلمان اس اہم چیز سے دور ہوگئے، جس کو سائنٹفک ڈیٹا کہا جاتا ہے۔ یعنی ہمارے علما نے اہل مغرب سے دشمنی کی بنا پر ان کی زبان اور ان کے ذریعے دریافت شدہ سائنس کو نہیں پڑھا، اس بنا پر وہ جدید سائنسی دریافت سے بے خبر ہوگئے۔اس طرح مسلمان ان تمام کائناتی نشانیوں سےدور ہوگئے، جو اللہ رب العالمین کے وجود کا علمی ثبوت فراہم کرنے والے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہوا کہ وہ اللہ پر سچا ایمان رکھنے والے نہ بن سکے۔وہ لوگ اگرچہ اللہ کے منکر تو نہیں بنے، لیکن اللہ ان کی زندگی کا ایک رسمی ضمیمہ بن کر رہ گیا۔
واپس اوپر جائیں

تبیینِ حق کا دور

حدیث میں ایک دعوتی پیشین گوئی ان الفاظ میں آئی ہے:لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ (مسند احمد، حدیث نمبر 16957)۔ یعنی یہ معاملہ وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک دن اور رات پہنچتے ہیں۔اس پیشین گوئی کو لازماً پورا ہوناتھا۔ اس پیشین گوئی کی تکمیل اہل ایمان کے ذریعے ہوگی۔ اب آخر وقت آگیا ہے کہ اہل ایمان ان مواقع کو جانیں، اور اس کے لیے ضروری پلاننگ کریں۔ اگر اہل ایمان کا ایک گروہ اس کام کے لیے اٹھے، تو اللہ رب العالمین کی تائید ان پر ٹوٹ پڑے گی، اور فرشتے ہر طرف ان کی مدد کے لیے کھڑے ہوجائیں گے، اور عالمی دعوت کا یہ کام اس طرح انجام پائے گا، جیسے کہ اس سے زیادہ آسان کوئی کام نہیں تھا۔اکیسویں صدی میں امت محمدی کو اپنا فائنل رول ادا کرنا ہے۔ یہ فائنل رول ان کے لیے فرض عین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ فائنل رول وہی ہے، جس کو قرآن میں اعلیٰ سطح پر تبیین حق (فصلت، 41:53) کہا گیا ہے، اور حدیث میں غالباًاسی دعوتی عمل کو شہادتِ اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کا درجہ دیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عصری اسلوب میں دعوت

اس وقت جو رول اہل ایمان کو انجام دینا ہے، وہ ہے وقت کے مطابق اعلیٰ ذہنی مستویٰ (higher intellectual level) پر دعوت الی اللہ کا کام انجام دینا۔ یہ کام سائنسی دریافتوں کے ذریعہ بالقوۃ طور پر (potentially) انجام پاچکا ہے۔ اب اہل ایمان کو یہ کرناہے کہ وہ اس بالقوۃ کوبالفعل (actual)بنائیں۔ وہ فطرت (nature) میں دریافت کردہ حقیقتوں کو ربانی شہادت کے طور پر دنیا کے سامنے لائیں۔
اس کام کا اصل نشانہ یہ ہے کہ خدا کے ہدایت نامہ قرآن کو دنیا کی ہر زبان میں معیاری ترجمہ کرکے اس کو تمام قوموں تک پہنچانا، تاکہ دنیا یہ جانے کہ جن حقیقتوں کو موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیق کے طور پر انسان نے دریافت کیا ہے، وہ حقیقتیں پیشگی طور پر قرآن میں "آیات" کی زبان میں بتا دی گئی تھیں۔ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کہ کلمۂ اسلام ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں پہنچ جائے (مسند احمد، حدیث نمبر 23814)۔ اس کا مطلب ہے قرآن کا گلوبل ڈسٹری بیوشن ، یعنی قرآن کو ہر قوم کی قابل فہم زبان میں پہنچادینا۔اس کام میں اصل اہمیت قرآن کے اشاعت کی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ قرآن کی ضروری تشریح کرنا بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ اس مقصد کےلیے ایک مدد گار لٹریچر (supporting literature) بھی ضروری ہے، جو قرآن کو لوگوں کے لیے ان کے اپنے مائنڈ سیٹ کے اعتبار سے قابلِ فہم (understandable) بنادے۔
واپس اوپر جائیں

خلاصۂ کلام

قرآن ساتویں صدی عیسوی میں اترا۔ اول دن سے یہ مطلوب تھا کہ قرآن عالمی سطح پر انسانوں کے درمیان پہنچے۔ اس کام کی کچھ شرطیں تھیں، وہ شرطیں اللہ تعالی کی توفیق سے پوری ہوچکی ہیں۔ اب صرف یہ کام ہے کہ کچھ لوگ اٹھیں، اور قرآن کو عالمی سطح پر لوگوں تک پہنچادیں۔
اللہ کی توفیق سے پہلا کام یہ ہوا کہ قرآن کے متن کو امت نے پوری طرح محفوظ کردیا۔ قرآن کے متن کو اس طرح محفوظ کردیا گیا کہ اب اس کے مستند ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اسی کے ساتھ وہ تمام اسباب مکمل طور پر فراہم کردیے گئے، جو ان سب کے لیے ضروری تھے۔
مثلاً (1)پرنٹنگ پریس کا وجود میں آنا۔ (2) عالمی کمیونی کیشن، اس کے تحت قرآن تمام لوگوں کے لیے قابلِ حصول ہوگیا۔ (3)انٹرنیشنل زبان ، یعنی انگریزی زبان کا وجود میں آنا۔ (4)مذہبی تعصب کا خاتمہ۔ (5) علمی انفجار(knowledge explosion)۔ (6) عالمی سطح پر نقل و حمل کی آسانی۔ (7) اسپرٹ آف انکوائری۔ (8) مذہبی افہام و تفہیم (religious understanding) کا کھلا ماحول۔ (9) حاملین قرآن کے پاس وسائل کی مکمل موجودگی، مثلاً تیل اور گیس کے ذخائر کا ہونا۔(10) امن کو خیر اعلیٰ کی حیثیت دینا۔ (11) بین مذاہب تعلقات پر زور۔(12) اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے مذہبی اشاعت کی کامل آزادی کا معاہدہ۔ (13) سائنسی تحقیقات کے ذریعے آفاق و انفس کی نشانیوں کا ظاہر ہونا۔ (14) ماڈرن انسان کسی بات کو اس وقت قبول کرتا ہے، جب کہ بات ریزن کو اپیل کرتی ہو، وغیرہ۔
یہ تمام ظاہرے دعوت الی اللہ کے حق میں ہیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ قرآن کی اشاعت کا کام بھر پور طور پر انجام دے دیا جائے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل اسی مقصد کے حصول کے لیے قائم کیا گیا ہے،یعنی تمام انسانوں کو خدا کے پیغام سے باخبر کرنا۔ اس کے ذریعے یہی کام انجام دیا جارہا ہے۔دعا ہے کہ یہ کام اپنی آخری منزل تک پہنچ جائے۔
واپس اوپر جائیں

Monday, 1 June 2020

Al Risala | June 2020 (الرسالہ،جون)

4

-ہر ایک کے لیے خیر

5

- جدید اسپتال

6

- انسان کے لیے سبق

7

- اللہ کی معرفت

8

- حمد کلچر

9

- غضب، رحمت

10

- اہلِ جنت

11

- اللہ کو دھوکہ دینا

12

- بے خدا زندگی

13

- گوشۂ رحمت

14

- عافیت کا راز

15

- بگ برڈ تھنکنگ

16

- غلطیوں کی معافی

17

- بے مسئلہ انسان

18

- بد دعا نہیں، دعا

19

- انسانی خیر خواہی

20

- اسلامی روحانیت

21

- پیغمبر اسلام ﷺ

23

- دینِ اسلام

25

- جہاد بالنفس

26

- انسان کا جسم

28

- خوف، بے خوفی

32

- آزادی، ڈسپلن

34

- پریکٹکل وزڈم

37

- اینٹی سیلف انسان

39

- اخلاقیات کا معاملہ

41

- کامیابی اور ناکامی

42

- توازن یا ترجیح

43

- فطرت کا سبق

48

- شہد کی مکھی کا سبق

49

- سوال وجواب


ہر ایک کے لیے خیر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:الْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ، خَیْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیفِ، وَفِی کُلٍّ خَیْرٌ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2664)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک بہتر اور زیادہ محبوب ہے کمزور مومن سے، اور بھلائی ہر ایک کے لیے ہے۔
ایک شخص اگر پیدائشی طور پر طاقت ور ہو تو اس کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات کو خود اپنی طاقت سے درست کرلے۔ لیکن جو انسان پیدائشی طور پر کمزور ہو، وہ بظاہر اس قابل نہیں ہوتا کہ اپنے معاملات کو خود اپنی طاقت سے درست کرسکے۔ لیکن خیر دونوں کے لیے ہے۔ ایک کےلیے اپنی ذاتی طاقت کی بنیاد پر ، اور دوسرے کے لیے اللہ کی مدد کی بنیاد پر۔
جو آدمی کمزور اور عاجز ہو، وہ اگر منفی نفسیات میں مبتلا نہ ہو تو اس کے اندر اللہ کی یاد جاگ اٹھتی ہے۔ وہ اللہ سے مدد کا طالب بن جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ ہوتا ہے کہ اللہ اس کی مدد پر آجاتا ہے۔ جب کمزور انسان یہ کہتا ہے کہ خدایا، تونے مجھ کو کمزور پیدا کیا، اب تجھ ہی کو یہ کرنا ہے کہ تو میری کمزوری کی تلافی کرے۔ اس قسم کی دعا اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والی ہوتی ہے۔ اللہ ایسے انسان کی طرف مزید اضافے کے ساتھ متوجہ ہوجاتا ہے۔
جو انسان اپنے آپ کو طاقت ور پائے، اس کے اندر اپنے آپ پر بھروسے کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس جو آدمی اپنے آپ کوعاجز اور کمزور پائے۔ اس کے اندر اللہ سے طلب کی نفسیات جاگ اٹھتی ہے۔ وہ دعا کرنے لگتا ہے کہ خدایا، تونے مجھے ضعیف پیدا کیا ہے۔ اب تو ہی میرے ضعف کی تلافی فرما۔ اس طرح کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، اور بندۂ ضعیف اللہ کی مدد سے وہ کام کرلیتا ہے، جو اکثر حالات میں بندۂ قوی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ مگر اس کی ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ بندۂ ضعیف کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پائی جاتی ہو۔
واپس اوپر جائیں

جدید اسپتال

Modern Hospital, Centre of New Hope
ماڈرن ہاسپٹل کیا ہے۔ انسانی جسم، اور اس کے فنکشن کو سمجھنے کا مقام ہے۔جہاں میڈیکل سائنس کی بنیاد پر انسانی جسم کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔پہلے زمانے میں علاج کا تصور سینہ بسینہ منتقل ہونے والے روایتی علاج پر قائم تھا۔ سائنس نے میڈیکل دنیا میں یہ تصور دیا کہ ماڈرن میڈیکل ٹکنالوجی کے ذریعے جسمانی فنکشن کا مشاہدہ کرکے اس کا علاج کیا جائے:
Medical science covers many subjects which try to explain how the human body works. Starting with basic biology it is generally divided into areas of specialisation such as anatomy, physiology and pathology with some biochemistry, microbiology, molecular biology and genetics.
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوجاتا ہے۔ اس کاؤنٹ ڈاؤن کی تکمیل پر انسان کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اب انسان کا کام یہ ہے کہ وہ کاؤنٹ ڈاؤن کی اس مدت کو اچھی طرح مینٹین (maintain) کرے، تاکہ وہ زیادہ مدت تک اپنے آپ کو قابل کار بنائے رکھے۔ جدید اسپتال اسی انسانی انجینئرنگ کا سینٹر ہے۔ لیکن یہ سینٹر خواہ کتنا ہی اچھی طرح عمل کرے، اس کے ساتھ یہ ضروری ہوتا ہے کہ انسان کا خود اپنا عمل صحیح سمت میں جاری رہے، اگر انسان کے عمل اور خارجی میکنزم میں موافقت نہ رہے، تو اس بندوبست کا بہت جزئی فائدہ حاصل ہوگا۔
اس معاملے میں انسان کا خود اپنا رول یہ ہے کہ وہ ہیلتھ کے فطری قوانین کو سمجھے، اور اس کو بھرپور طور پر اپنی زندگی میں برقرار رکھے۔ اگر انسان اپنے حصے کا یہ کام نہ کرے تو خارجی انجینئرنگ اس کے لیے بہت کم مفید ثابت ہوگی۔ مثلاً انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں کوئی مضر عادت نہ اپنائے۔ وہ کسی غیر ضروری چیز کا شائق نہ بن جائے۔ وہ ہمیشہ اپنی حد کو جانے، اور اپنی فطری حد کے اندر ہر کام انجام دے۔ وہ اپنی زندگی میں بقدر ضرورت پر قانع رہے، نہ کہ زیادہ سے زیادہ (more and more) کا طالب بن جائے۔وہ حرص کے بجائےقناعت کا طریقہ اختیار کرے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کے لیے سبق

قرآن میں ایک انسانی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ ، وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ (75:14-15)۔ یعنی بلکہ انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے ، چاہے وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اس انداز میں ہوئی ہے کہ اگر وہ عذر (excuse) کا شکار نہ ہو، تو وہ خود اپنی تخلیق پرغور کرکے بڑی بڑی باتیں سیکھ سکتا ہے۔ اس کی زندگی خود ایک لائبریری ہے۔ اپنے مطالعہ سے خود وہ اپنے لیے بڑے بڑے سبق دریافت کرسکتا ہے۔ مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر6227)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو صفتیں کامل طور پر اللہ رب العالمین کی ذاتی صفتیں ہیں، ان میں سے کچھ محدود طور پر انسان کو بطور عطیہ دی گئی ہیں۔
مثلاً انسان جب اس کائنات کو دیکھتاہے ، تو اس کو یہ نظرآتا ہے کہ پوری کائنات نہایت منصوبہ بند انداز میں چل رہی ہے۔سورج ہمیشہ ٹھیک اپنےوقت پر نکلتا ہے، اور ٹھیک متعین وقت پر غروب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پوری کائنات زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر چل رہی ہے۔ اس کے برعکس، انسان کے انتظام میں ہمیشہ نقائص موجود رہتے ہیں۔ انسان اگر اس معاملے کا مطالعہ تقابلی انداز میں کرے، تو وہ خود اپنے قریبی مطالعے کے ذریعے خدائے برتر کے وجود کو دریافت کرلے گا۔ یہ دریافت اس کو یہ کہنے پر مجبور کردے گی:أَفِی اللَّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (14:10)۔ یعنی کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کو وجود میں لانے والا ہے۔
انسان خدا کو براہ راست نہیں دیکھ سکتا۔ البتہ وہ تخلیق کی معرفت حاصل کرکے خدا کی موجودگی کے یقین تک پہنچ سکتا ہے۔ کائنات ایک موجود حقیقت ہے۔ خدا اس موجود حقیقت کا واجد (وجود دینے والا) ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ کائنات کا موجود ہونا،اپنے آپ میں خالق کے موجود ہونے کا ثبوت ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی معرفت

حضرت موسی اسرائیلی سلسلۂ نبوت کے جلیل القدر پیغمبر تھے۔ ان کاایک واقعہ قرآن میں اس طرح ذکر ہوا ہے:(ترجمہ)اور جب موسیٰ ہمارے وقت پر آگیا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے کہا، مجھے اپنے کو دکھا دے کہ میں تجھ کو دیکھوں۔ فرمایا، تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو تم بھی مجھ کو دیکھ سکو گے۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو اس کو ریزہ ریزہ کردیا۔ اور موسیٰ بےہوش ہو کر گرپڑا۔ پھر جب ہوش آیا تو بولا، تو پاک ہے، میں نے تیری طرف رجوع کیا اور میں اول المومن ہوں(7:143)۔
قرآن کی اس آیت پر غور کیجیے۔ اس میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ قَالَ لَنْ تَرَانِی(کہا، تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے)۔ دوسری جگہ یہ الفاظ ہیں کہ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِینَ(میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں)۔ ان دونوں الفاظ کے فرق پر غور کیجیے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان براہ راست اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ البتہ وہ بالواسطہ طور پر اللہ کی معرفت حاصل کرسکتا ہے۔
راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ بالواسطہ انداز پہلی بار گلیلیو گلیلی کے زمانے میں پیش آیا، جب کہ گلیلیو نے حقیقت کو دوربین کے ذریعے دیکھا۔ دور بین کے ذریعے پہلی بار وہ میتھڈ قائم ہوا، جو حقیقت اعلیٰ کی معرفت کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ کوانٹم فزکس (quantum physics) کے زمانے میں یہ ثابت ہوا کہ مادہ (matter) کا آخری جزء سب ایٹمک پارٹکل (subatomic particle) ہے، اور سب ایٹمک پارٹکل براہ راست طور پر قابل مشاہدہ نہیں۔ یہ سب ایٹمک پارٹکل مسلسل طور پر حرکت کی حالت میں رہتا ہے۔ اس حرکت کے دوران اس سے ہیٹ (heat) جنریٹ ہوتا ہے۔ یہ ہیٹ (heat) صرف آلاتی طور پر قابلِ دریافت ہے۔ اس طرح مادہ کا آخری جزء قابل دریافت بن جاتا ہے۔یہی معاملہ خالق کائنات کا ہے۔ خالق کائنات بلاشبہ اپنا حقیقی وجود رکھتا ہے۔ لیکن انسان کی نسبت سے وہ صرف بالواسطہ طور پر قابل دریافت ہے۔
واپس اوپر جائیں

حمد کلچر

قرآن میں خالق کائنات کو رب العالمین کہا گیا ہے۔ راغب الاصفہانی(وفات 502ھ) نے رب کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے: ہو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام (المفردات فی غریب القرآن، صفحہ 336)۔ یعنی کسی چیز کی پرورش کرکے اس کو درجہ بدرجہ کمال تک پہنچانا۔ رب العالمین کی اس صفت کا اظہار مادی کائنات میں بھی ہواہے، اور انسانی تاریخ میں بھی۔ مادی کائنات میں ربوبیت کی مثال یہ ہے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی سب سے پہلی دریافت، شعوری طور پر تو نہیں ، مگر غیر شعوری طور پر یہ ہوتی ہے کہ کیسا عجیب ہے ،وہ خالق جس نے پوری دنیا کو میرے لیے کسٹم میڈ دنیا بنا دیا۔ رحم مادر اورخارجی دنیا کا پورا نظام عین وہی ہے، جو انسان کے لیے مطلوب تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا کے لیے بنا ہے، اور دنیا انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔
انسانی تاریخ میں اللہ تعالی صفت ربوبیت کا اظہار مختلف اعتبار سے ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔قرآن کی اس آیت میں مایوسی سے بچنےکی تعلیم دی گئی ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمھارے پچھلے لمحات ختم ہوگئے، مگر اگلا لمحہ ابھی باقی ہے۔ اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کو اویل کرو۔
اس معاملے میں انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ خدا کی حمد کرے، اور الحمد للہ کلچر کو اپنائے۔ حمد کی حقیقت شکر ہے۔جیسا کہ ایک حدیث رسول میں آیا ہے:الْحَمْدُ رَأْسُ الشُّکْرِ، مَا شَکَرَ اللہَ عَبْدٌ لَا یَحْمَدُہُ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 4085)۔ یعنی حمد شکر کی بنیاد ہے، اس بندے نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا، جو اس کی حمد نہ کرے۔
واپس اوپر جائیں

غضب، رحمت

اللہ کی صفت غضب بھی ہے اور رحمت بھی۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ اللہ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ اس کو اپنے غضب کا تجربہ کرائے تو یہ بلاشبہ اللہ رب العالمین کا ایک کمتر اندازہ (underestimation) ہوگا۔زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ اللہ رب العالمین اس کو اپنی رحمت کا تجربہ کرائے۔ یہی تصور اللہ رب العالمین کی شان کے مطابق ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ(7:156)۔یعنی میری رحمت شامل ہے ہر چیز کو۔ ایک حدیث قدسی میں اس حقیقت کواس طرح بیان کیا گیا ہے: إِنَّ رَحْمَتِی غَلَبَتْ غَضَبِی(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7422)۔ یعنی میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے۔
باپ کے اندر اپنے بیٹے کے لیے ایک اعلیٰ شریفانہ جذبہ ہوتا ہے، جس کو پدرانہ شفقت (fatherliness)کہا جاتا ہے۔ یہ جذبہ باپ کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی غلطی کو سنبھالے، وہ اپنے بیٹے کو اس کی غلطی کا انجام بھگتنے نہ دے۔ یہ صفت بلاشبہ خالق کے اندر بے شمار گنا حد تک زیادہ ہے۔ اس صفت کی بنا پر جس طرح خالق کے غضب پر اس کی رحمت غالب آجاتی ہے۔ اسی طرح بندے کا بھی یہ حال ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے مہربان خالق کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کی رجاء (hope)اس کے خوف پر غالب آجاتی ہے۔ وہ یہ امید کرتا ہے کہ اس کا مہربان خالق اس کی غلطیوں کو سنبھالے گا، وہ اس کو اس کی غلطیوں سے بچالے گا۔یہ احساس آدمی کو اللہ کی رحمت کا یقین دلاتا ہے۔
زندگی کا یہ تصور اگر آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ ایک طرف وہ ہمیشہ آخرت کی پکڑ سے ڈرتا رہے، دوسری طرف یہ مزاج اس کے اندر یہ نفسیات پیدا کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کے بارے میں پر امید (hopeful) بنا رہے— رحمت، اللہ کی صفت عام ہے، اور اللہ کاغضب ایک استثنائی (exceptional)معاملہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

اہل جنت

قرآن کی ایک آیت کے مطابق، جنت میں وہ لوگ داخلہ پائیں گے، جن کو پیشگی طو رپر جنت کی معرفت حاصل ہوئی ہو: وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَہَا لَہُمْ (47:6)۔ یعنی اور ان کو جنت میں داخل کرے گا، جس کی اس نے انھیں پہچان کرا دی ہے۔
جنت کی پیشگی معرفت کیا ہے۔ وہ یہ کہ آدمی جنت کے موضوع پر اتنا زیادہ تدبر کرے کہ جنت اس کے لیے اجنبی چیز نہ رہے، بلکہ وہ ایک جانی پہچانی حقیقت بن جائے۔ یعنی جنت اس کے لیے ایسی چیز بن جائے، جس کو اس نے دیکھے بغیر دیکھا ہے۔ پہلے زمانے میں انسان کو حیوانِ ناطق کہاجاتا تھا۔ موجودہ زمانے میں انسان کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
conceptual thinking animal
انسان کی یہی خصوصیت ہے، جو کسی صاحبِ ایمان کو عارف بالجنۃ انسان بناتی ہے۔ جنت کی طلب انسان کے لاشعور میں فطری طو رپر بسی ہوئی ہے۔ اس کے بعد جب وہ دنیا میں اللہ کی نعمتوں کوپاتا ہے، اور اس پر غور کرتا ہے تو وہ دوبارہ جنت کا تعارف حاصل کرلیتا ہے۔اس لیے جنت انسان کے لیے ایک قابلِ دریافت چیز ہے۔ جس طرح ایک سائنسداں مظاہر فطرت پر غور کرکے فطرت کے ایک قانون کو دریافت کرتا ہے، اسی طرح ایک مومن اللہ کی نعمتوں پر غور کرکے جنت کا تعارف حاصل کرتا ہے۔
جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے۔ انسان کو تخلیق کے بعد جنت میں رکھا گیا تھا، پھر اس کو جنت سے نکلنا پڑا۔ اس اعتبار سے جنت انسان کے لیے ایک دیکھی ہوئی چیز کو پانے کے ہم معنی ہے۔ اس حقیقت کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے: لَأَحَدُہُمْ بِمَسْکَنِہِ فِی الجَنَّةِ أَدَلُّ بِمَنْزِلِہِ کَانَ فِی الدُّنْیَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2440) ۔ یعنی اہل جنت میں سے ہر ایک اپنے جنت کے مسکن کو اس سے زیادہ جانے گا، جتنا وہ دنیا میں اپنی منزل کو جانتا تھا۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کو دھوکہ دینا

ایک کردار کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:یُخَادِعُونَ اللَّہَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ (92)۔ یعنی وہ دھوکہ دیتے ہیں اللہ کو ، اور ان کو جو لوگ ایمان لائے ،اور نہیں دھوکہ دیتے مگر اپنے آپ کو ،اور نہیں سمجھتے ۔
اللہ کو دھوکہ دینے کا کام کون کرتا ہے۔ یہ وہی شخص ہے، جو سماج میں اپنی امیج (image) بنانے کے لیے ایسے انداز میں بولتا ہے کہ عام لوگ اس کے بارے میں غلط فہمی میں پڑجائیں، وہ جھوٹ کو سچ مان لیں، اور بناوٹی بات کو حقیقی بات سمجھ لیں۔ اپنے دنیوی معاملات میں ہوشیار ہونا ،اور آخرت کے معاملہ میں سرسری توقعات کو کافی سمجھنا گویا خدا کے سامنے جھوٹ بولنا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں، وہ گویا اللہ رب العالمین کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ حالاں کہ اللہ کو دھوکہ دینا اپنے جرم کو ڈبل بنانا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ایسی کوشش سے آخری حد تک اپنے آپ کو بچائے۔
مثلاً لوگوں میں اختلافات کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا کوئی حقیقی جواز نہیں ہوتا۔ اختلافات کی جڑ میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ تاہم لوگ یہ کرتے ہیں کہ اپنے اختلاف کو جائز اختلاف بتانے کے لیے اس کا کوئی ایساسبب پیش کرتے ہیں، جو ان کے اختلاف کو جائز قرار دیتا ہو۔ وہ اپنے ذاتی اختلاف کو جائز اختلاف کا نام دے دیتے ہیں۔
اسی کو قرآن میں اللہ کو دھوکہ دینا کہا گیا ہے۔ یعنی ان کا حقیقی مقصد تو ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ لیکن وہ ایسے الفاظ بولتے ہیں، جو ان کے اصل مقصد کو چھپانے والا ہو، اور یہ ظاہر کرتا ہو کہ صرف حق کے لیے وہ ایسا کررہے ہیں۔ اس قسم کے واقعے کو یہاں اللہ کو دھوکہ دینا کہا گیا ہے۔ یعنی عالم الغیب جو تمام حقیقتوں سے باخبر ہے، اس کو معلوم ہے کہ کس نفسیات کے تحت کوئی اختلاف کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے۔ لوگوں کو جاننا چاہیے کہ آخرت میں ان کا معاملہ حقیقتِ واقعہ کی نسبت سے جانچا جائے گا، نہ کہ ان کے بولے ہوئے الفاظ کی نسبت سے۔
واپس اوپر جائیں

بے خدا زندگی

خدا رخی زندگی یہ ہے کہ آدمی اللہ رب العالمین کو اس طرح دریافت کرے کہ وہ اس کی زندگی میں شامل ہوجائے۔ وہ خدا کی یاد کے ساتھ سوئے، اور خدا کی یاد کے ساتھ جاگے۔ وہ خدا کی دنیا میں خداوالا بن کر رہے۔ دنیا کی ہر چیز اس کو خدا کی یاد دلانے والی بن جائے۔ اس کے مقابلے میں بےخدا زندگی یہ ہے کہ آدمی پیدا ہوکر اس دنیا میں آگیا ۔ لیکن اس نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ اپنی عقل کو استعمال کرکے اپنے خالق کو دریافت کرے۔ وہ اپنے آج میں مشغول رہے، مگر وہ اس حقیقت کو دریافت نہ کرے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔
میرا تجربہ ہے کہ اگر لوگوں سے مسلم ایمپاورمنٹ کی بات کی جائے، تو ہر آدمی شوق سے سنے گا۔ بہت جلد لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہوجائے گی۔ ہر آدمی چاہے گا کہ وہ مسلم ایمپاورمنٹ کی کوشش میں اپنا حصہ ادا کرے۔اس کے برعکس، اگر خدا اور آخرت کی بات کی جائے، تو اچانک محسوس ہوگا کہ لوگوں کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔ لوگ اس کو اس طرح لینے لگے ہیں، جیسے کہ وہ کوئی غیر متعلق بات ہے۔ مسلم ایمپاورمنٹ کی بات لوگ اس طرح سنیں گے، جیسے کہ وہ ان کی اپنی بات ہو۔ اس کے برعکس، خدا اور آخرت کی بات لوگ اس طرح سنیں گے ، جیسے کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ دنیا کے حصول کی طرف دوڑ لگا ر ہے ہیں۔ دنیا کے معاملے میں وہ تکاثر کی نفسیات میں جیتے ہیں، نہ کہ قناعت کی نفسیات میں۔ موجودہ زمانے کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام کے نام پر جلسہ اور جلوس کی دھوم ہے، لیکن اسلام کے اعتبار سے حقیقی معنوں میں کوئی قابلِ قدر چیز نظر نہیں آتی۔ لوگوں کے درمیان فارم کی دھوم ہے، لیکن اسپرٹ کے اعتبار سے دیکھیے، تو وہ ہر جگہ مفقود نظر آئے گی۔ اسی کو حدیث میں ان الفاظ میں کہا گیا ہے:مَسَاجِدُہُمْ عَامِرَةٌ وَہِیَ خَرَابٌ مِنَ الْہُدَى(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1763)۔یعنی ان کی مسجدیں آباد ہیں، لیکن وہ ہدایت سے خالی ہیں۔
واپس اوپر جائیں

گوشۂ رحمت

قرآن میں بتایا گیاہے کہ پوری کائنات انسان کےلیے مسخر کردی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک آیت یہ ہے:وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (45:13)۔ یعنی اس نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں۔
انسان کے لیے دوسرا تخلیقی اصول ا س آیت میں ملتا ہے: وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِی کِتَابٍ مُبِینٍ (11:6)۔ یعنی اور زمین پر کوئی چلنے والا ایسا نہیں جس کی روزی اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ اور وہ جانتا ہے جہاں کوئی ٹھہرتا ہے اور جہاں وہ سونپا جاتا ہے۔ سب کچھ ایک کھلی ہوئی کتاب میں موجود ہے۔
ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری کائنات انسان کے لیے کسٹم میڈ یونیورس (custom-made) کے طور پر بنائی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ ہر فرد کےلیے ایک گوشۂ خاص (personal corner) ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ذاتی گوشے کو دریافت کرے، اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ جو شخص ایسا کرے، وہ بہت جلد دنیا میں اپنے لیے ایک گوشۂ عافیت پالے گا۔ جو آدمی ایسا نہ کرے، وہ ساری عمر منفی سوچ میں جیے گا، اور دنیا سے حصہ لیے بغیر اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ زندگی کی اس حقیقت کو ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَابْتَغِ فِیمَا آتَاکَ اللَّہُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِیبَکَ مِنَ الدُّنْیَا (28:77)۔یعنی جو کچھ اللہ نے تم کو دیا ہے اس میں آخرت کے طالب بنو۔ اور دنیا میں سے اپنے حصے کو نہ بھولو۔اس آیت میں نصیب کا مطلب ہے حصہ (share)۔ لوگ عام طور پر یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ دوسرے کا نصیب چھیننا چاہتے ہیں، جو ان کو کبھی نہیں ملتا۔ صحیح یہ ہے کہ فطری طور پر جو آپ کا نصیب ہے، اس کو دریافت کیجیے۔ پھر آپ جانیں گے کہ جو آپ چاہتے تھے، وہ پہلے سے آپ کو ملا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عافیت کا راز

پر عافیت زندگی کا راز صرف ایک ہے— آدمی حقیقت پسند (realist) بن جائے۔ اس معاملے میں یہی ایک ورکیبل فارمولا (workable formula)ہے، دوسرا کوئی فارمولا ورکیبل ہی نہیں۔آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ زندگی کے معاملے میں کچھ امیدیں قائم کرلیتا ہے، کبھی دنیا سے اور کبھی اپنے تعلق والوں سے، اورکبھی سماج سے۔ یہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں۔ جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں، تو وہ اپنے اندر شکایت کا مزاج بنا لیتا ہے۔ اسی حقیقت سے بے خبری کے نتیجے میں تمام مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ہمارے یہاں ایک بزرگ تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بل تو اپنا بل ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی زندگی کا حقیقت پسندانہ فارمولا ہے۔ یعنی آدمی کو چاہیے کہ وہ خود اپنی طاقت سے جو کچھ کرسکتا ہو، اس پر بھروسہ کرے۔ لیکن جو چیز اس کی ذاتی طاقت سے باہر ہو، اس پر اپنی امید کی دیوار کھڑی نہ کرے۔ اسی حقیقت کو دریافت کرنے کا نام پر عافیت زندگی ہے۔
یہ اصول خاندانی زندگی کے لیے بھی ہے، اور سماجی زندگی کے لیے بھی، حتی کہ قومی زندگی کے لیے بھی۔ اگرچہ کلی معنوں میں حقیقت پسند بننا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن یہ تو بہرحال ممکن ہے کہ جب آدمی کے اندازے پورے نہ ہوں، تو وہ برداشت کا طریقہ اختیار کرے، وہ شکایت کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ جب آدمی کسی کے ساتھ احسان کا کوئی معاملہ کرتا ہے تو وہ کچھ امیدوں کی بنیاد پر کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں مشہور مثل کے مطابق عمل کرے— نیکی کر دریا میں ڈال۔
اگر آپ کسی سے کوئی اچھا سلوک کریں تو تقریباً ننانوے فیصد کیسوں میں فریق ثانی آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اترے گا۔ اس لیے عافیت کا طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملے میں آدمی یہ اصول اختیار کرے کہ وہ یا تو کسی کے ساتھ کوئی احسان کا معاملہ ہی نہ کرے یا وہ ایسا کرے کہ احسان کا معاملہ کرتے ہی وہ اس کو بھلادے۔
واپس اوپر جائیں

بگ برڈ تھنکنگ

صبر کی حقیقت کیا ہے، اس کو بیان کرتے ہوئے خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب (وفات23 ھ) کا ایک قول کتابوں میں ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے:إِنَّ أَفْضَلَ عَیْشٍ أَدْرَکْنَاہُ بِالصَّبْرِ، وَلَوْ أَنَّ الصَّبْرَ کَانَ مِنَ الرِّجَالِ کَانَ کَرِیمًا (الصبروالثواب علیہ لابن أبی الدنیا، اثر نمبر 6)۔ یعنی بیشک افضل زندگی ہم نے صبر میں پائی، اور اگر صبر انسان ہوتا ، تو وہ کریم ہوتا۔
یہ دراصل صابر انسان کی پہچان (identity) ہے۔ جس آدمی کے اندر صبر کا مزاج ہو، اس کے اندر اسی قسم کی اعلی انسانی صفت موجود ہوگی۔کریم انسان سے مراد شریف اور سنجیدہ انسان ہے۔ جو اعلیٰ سوچ کا مالک ہو، جو بولنے سے پہلے سوچے، جو بدلہ لینے کے بجائے معاف کرنے کو بہتر سمجھتا ہو، جو بولے کم، اور سوچے زیادہ، جس کے اندر ردعمل (reaction) کا مزاج نہ ہو، وغیرہ۔
اعلیٰ سوچ کیا ہے۔اعلیٰ سوچ ایک لفظ میں بگ برڈ تھنکنگ (Big Bird Thinking) کا دوسرا نام ہے۔ بگ برڈ تھنکنگ کی حقیقت یہ ہے کہ جب خطرناک طوفان آتے ہیں، تووہاں پر موجود چھوٹے چھوٹے پرندے جو زیادہ اوپر نہیں اڑ پاتے ہیں، وہ طوفان میں پھنس کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ا س کے برعکس، بڑے پرندے، جو اونچائی پر اڑان بھرتے ہیں، وہ طوفان سے بچنے کے لیے مزید اوپر چلے جاتے، جہاں طوفانی ہواؤں کا اثر نہیں ہوتا۔اس طرح وہ طوفان سے اپنے آپ کو بچالیتے ہیں۔ ایک سچے انسان کو اپنے اندر یہی مزاج ڈیولپ کرنا چاہیے، یعنی مثبت سوچ کا مزاج— عقل مند آدمی وہ ہے جو ان چیزوں کے ساتھ پرامن طورپر رہ سکے، جن کو وہ بدل نہیں سکتا:
In countries where there are severe storms, birds with small wings are caught up in them, but large birds with strong wings fly upwards and save themselves from becoming victims of these storms. This phenomenon has given rise to the saying: ‘Big bird of the storm.’ A spiritual person is one who has developed the capacity for ‘big bird’ thinking.
واپس اوپر جائیں

غلطیوں کی معافی

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک شخص جب کلمہ پڑھتا ہے، تو عین اسی وقت یہ ہوتاہے کہ کلمہ کی برکت سے اس کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ یہ بات بجائے خود صحیح ہے کہ ایمان قبول کرنے سے پہلے انسان جو عمل کرتا ہے، وہ ایمان قبول کرنے کے بعد معاف کردیا جاتا ہے۔ لیکن معافی کا یہ عمل اس طرح نہیں ہوتا، جیسے کمپیوٹر میں ایک بٹن دبایا، اور سارا ٹائپ کیا ہوا، فوراً ہی ڈیلیٹ ہوگیا۔ یہ سارا معاملہ ایک پراسس کے تحت انجام پاتا ہے، نہ کہ ٹچ بٹن میکانزم کی مانند۔
ایمان ایک دریافت کا نام ہے۔ ایمان ایک معرفت ہے۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی زندگی پر غور وفکر کرے، اور پھر فکری دریافت کے طور پر اس پرکُھلے کہ اس کا خالق اللہ رب العالمین ہے۔ اس کو جو کچھ ملا ہے، وہ اللہ رب العالمین کا دیا ہوا ہے۔ اللہ رب العالمین نے اس کو ایک بامقصد منصوبے کے تحت پیدا کیا ہے۔ اس غور وفکر کے نتیجے میں اس پر تخلیق کی حکمت کُھلے۔ وہ شعوری طور پریہ فیصلہ کرے کہ اس نے انکارِ خدا کی زندگی کو چھوڑا، اور اقرارِ خدا کی زندگی کو اختیار کیا۔ وہ شعوری طور پر زندگی کے اس نقشے کو اختیار کرے، جو خالقِ کائنات نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔
ایمان ایک شعوری فیصلہ ہے۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی زندگی کی ایک روش کو بالقصد چھوڑے، اور ایک زندگی کی دوسری روش کو بالقصد پورے عزم کے ساتھ اختیار کرے۔ انسان دنیا پرستانہ زندگی کو ترک کرے، اور آخرت پسندانہ زندگی کو عملاً اختیار کرلے۔کوئی انسان جب ایسا کرے، تو اللہ کا اعلان ہے کہ وہ اس کو اپنے بندے کے طور پر قبول فرماتا ہے، اور اس کی پچھلی خطاؤں کو معاف کردیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بے مسئلہ انسان

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت وہ ہے، جس کو غیر نزاعی طریقہ کہا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت کو ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:الْمُؤْمِنُ الَّذِی یُخَالِطُ النَّاسَ، وَیَصْبِرُ عَلَى أَذَاہُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِی لَا یُخَالِطُ النَّاسَ، وَلَا یَصْبِرُ عَلَى أَذَاہُم(ابن ماجہ، حدیث نمبر 4032) ۔ یعنی وہ مومن جو لوگوں کے درمیان رہتا ہے، اور ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے، وہ زیادہ اجر پاتا ہے اس مومن سے جو لوگوں کے درمیان نہیں رہتا، اور لوگوں کی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا۔
اجتماعی زندگی میں کام کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک، نزاعی طریقہ اور دوسرا، غیر نزاعی طریقہ (non-confrontational approach)۔ موجودہ زمانے میں جو سیاسی طریقہ عام طورپر رائج ہوا ہے، وہ زیادہ تر نزاعی طریقہ (confrontational approach) ہوتا ہے، یعنی برسرِ اقتدار پارٹی سے نزاع کرتے ہوئے اپنا طریقِ کار متعین کرنا۔اس معاملے میں دوسرا طریقہ غیر نزاعی طریقہ ہے۔ غیر نزاعی طریقے کا دوسرا نام پرامن تعمیری طریقہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجود صورتِ حال کو بدلنے کی کوشش نہ کرنا، بلکہ کامل طور پر غیر نزاعی طریقے کی بنیاد پر اپنا منصوبہ بنانا۔
جب آدمی سوسائٹی میں رہتا ہے تو اس کے لیے صحیح یہ ہے کہ وہ نو پرابلم انسان بن کر رہے۔ نوپرابلم انسان بننے کا اصول یہ ہے کہ آدمی کے اندر قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) موجود ہو۔ قابلِ پیشین گوئی کردار یہ ہے کہ کسی صورتِ حال میں ایک حقیقی انسان سے جو امید کی جائے، وہ ہمیشہ اُس پر پورا اُترے۔ یعنی دوسرا آدمی یہ جانے کہ اس کا سلوک آپ کے ساتھ کیا ہوگا۔ اصولی طور پر ہر انسان بے مسئلہ انسان کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن پیدا ہونے کے بعد ماحول کے اثر سے وہ مسئلے والا انسان بن جاتا ہے۔ اپنے آپ کوماحول کی کنڈیشننگ سے بچائیے، اور آپ اس دنیا کے لیے ایک رحمت والے انسان بن جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

بددعا نہیں، دعا

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:قَالَ عَبْدُ اللَّہِ:کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَحْکِی نَبِیًّا مِنَ الأَنْبِیَاءِ، ضَرَبَہُ قَوْمُہُ فَأَدْمَوْہُ، وَہُوَ یَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْہِہِ وَیَقُولُ: اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَإِنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3477)۔ یعنی عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ گویا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، نبیوں میں سے ایک نبی کا واقعہ آپ بیان کر رہے ہیں، اس نبی کو ان کی قوم نے مارا، ان لوگوں نے نبی کا خون بہا دیا، اور وہ اپنے چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں: اے اللہ، میری قوم کو معاف کردے، بیشک وہ نہیں جانتی ۔
اس واقعے میں نبی کی حیثیت داعی کی تھی، اور مارنے والوں کی حیثیت مدعو قوم کی۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل دین کو اگر اپنے مدعو سے برے سلوک کا تجربہ ہو ، تو ان پر لازم ہے کہ وہ اس برے سلوک کو مدعو کی بے خبری پر محمول کرے۔ مدعو قوم کے خلاف شکایت کرنا، ان کے خلاف اخباروں میں بیان چھاپنا، مدعو کےخلاف لوگوں کو ایسے احتجاج پر ابھارنا، جس سے لوگوں میں نفرت اور تشدد پیدا ہوتا ہو، یہ سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ اگر داعی کو مدعو گروہ کی طرف سے تکلیف پہنچے، تو داعی کے لیے صرف ایک آپشن (option) ہے۔ وہ یہ کہ داعی مدعو کے لیے اللہ سے ہدایت کی دعا کرے۔ وہ دل سے مدعو کا خیر خواہ بنے۔
اس سلسلے میں ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں:عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ، قَالَ:قِیلَ:یَا رَسُولَ اللہِ ادْعُ عَلَى الْمُشْرِکِینَ قَالَ:إِنِّی لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2599) ۔ یعنی ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ کہا گیا : اے خدا کے رسول، مشرکین پر بددعا کردیجیے، آپ نے کہا: میں لعنت کرنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا ہوں، میں بلاشبہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں— اللہ رب العالمین پر ایمان لانے والوں کے لیے صرف وہی روش جائز ہے، جو رحمت کے مطابق ہو، کسی بھی صورتِ حال میں اس کے خلاف روش جائز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

انسانی خیر خواہی

قرآن کی سورہ الاعراف میں پیغمبر کی زبان سے اپنے مدعو کے لیے یہ الفاظ آئے ہیں: وَاَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ (7:68)۔ یعنی اور میں تمھارا خیر خواہ اور امین ہوں۔ پیغمبر کی یہ خیر خواہی صرف اپنی قوم کے لیے نہیں ہوتی، بلکہ اس کی خیر خواہی تمام انسانوں کے لیے ہوتی ہے:
Well-wishing for all mankind
خدا کی طرف سے جو پیغمبر دنیا میں آئے، ان سب کا مشن ایک تھا۔ اس پیغمبرانہ مشن کے دو بنیادی نکتے تھے،ایک اللہ کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنانا، اور بلاتفریق ہر انسان کا خیرخواہ ہونا۔ یہی مشن پچھلے تمام پیغمبروں کا تھا، اور پیغمبر آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن بھی۔ اب امت محمدی کو ہر زمانے میں اسی مشن کو زندہ رکھنا ہے۔
اللہ کو اپنا کنسرن بنانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے شعور کو اتنا بیدار کرے کہ وہ دریافت (discovery) کے درجے میں اللہ رب العالمین کی معرفت حاصل کرے۔ یہ معرفت اتنی زیادہ گہری ہو کہ وہ انسان کے پورے وجود کو اپنے رنگ میں رنگ لے۔ انسان کی پوری شخصیت اسی معرفت میں ڈھل جائے۔ اس کی سوچ اور اس کا قول و عمل اس کے عین مطابق ہو جائے۔ یہی وہ عارفانہ شخصیت ہے جس کو قرآن میں ربانی شخصیت (آل عمران،3:79)کہا گیا ہے۔
انسانی خیر خواہی وہ بنیادی اصول ہے، جس پر تمام انسانی تعلقات کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر انسان دوستی (human-friendly behaviour) کا کردار بنتا ہے۔ سماج کا ہر فرد سماج کا دینے والا ممبر (giver member) بن جاتا ہے۔ اپنی اصول پسندی کی بنا پر سماج کا ہر فرد قابل پیشین گوئی کردار (predictable character)کا حامل بن جاتا ہے۔ ہر انسان کے اندریہ مزاج پرورش پاتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرے ، جو سلوک وہ دوسروں سے اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی روحانیت

روحانیت ایک ادبی زبان کا لفظ ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ لفظ مذکور نہیں۔ روحانیت اگرچہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے۔ لیکن یہ قرآن و حدیث کی اصطلاح نہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانیت اگر چہ باعتبار لفظ قرآن میں نہیں ہے، لیکن باعتبار معنی وہ قرآن میں موجود ہے۔ یہ قرآنی لفظ الربانیہ (آل عمران،3:79) ہے ، یعنی رب رخی زندگی (God-oriented life)۔
تاہم اسلامی روحانیت مبنی بر قلب روحانیت کا نام نہیں ہے۔ مبنی بر قلب روحانیت ایک متصوفانہ اصطلاح ہے۔ اسلامی روحانیت در اصل مائنڈ بیسڈ اسپریچوالٹی کا دوسرا نام ہے۔ مائنڈ بیسڈ اسپریچوالٹی کیا ہے۔ یہ صحتِ فکر یا مثبت تھنکنگ کا عمل ہے۔ یہ دراصل صحتِ فکر ہی ہے، جو انسان کو حیوان سے ممیز کرتی ہے۔
قرآن میں اس موضوع پر جو آیتیں آئی ہیں، ان کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مبنی بر ذہن روحانیت (mind-based spirituality) کو مانتا ہے۔ مبنی بر قلب روحانیت (heart-based spirituality) کا تصور اسلام میں موجود نہیں۔قرآن میں عقل کے مترادف کم سے کم چھ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں— عقل، فؤاد، لب، قلب، حجر، نُہٰی۔ان کے سوا قرآن میں اور بہت سے الفاظ ہیں، جو بالواسطہ طورپر عقل سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً سمع اور بصر، وغیرہ۔ یہ ایک واحد حقیقت کو بتانے کے لیے مختلف الفاظ ہیں۔
یہ جوبتایا جاتا ہے کہ عقل سوچ کا مرکز ہے، اور قلب جذبات کا مرکز ۔یہ درست تصور نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچ اور فکر کے تمام پہلوؤں کا مرکز ایک ہی ہے، اور وہ عقل ہے۔ قلب (heart) کا فنکشن صرف ایک ہے، اور وہ ہے انسان کے جسم میں تیار شدہ خون کو رگوں کے ذریعے جسم کے تمام حصوں میں پہنچانا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قلب (heart) کو تھنکنگ ہارٹ (thinking heart) سمجھنا، ایک بے خبری کا کیس ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم

محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری پیغمبر تھے۔ وہ 570 عیسوی میں قدیم مکہ میں پیداہوئے۔ 610 عیسوی میں اُن کو خدا کی طرف سے پہلی وحی ملی۔ اِس کے بعد انھوںنے مکہ میں اپنا مشن شروع کردیا۔ وہ 13 سال مکہ میں رہے۔ اس کے بعد 622 عیسوی میں وہ عرب کے دوسرے شہر مدینہ چلے گئے۔ وہاں انھوں نے اپنے مشن کو مزید 10 سال تک جاری رکھا۔ 632 عیسوی میں اُن کی وفات ہو ئی۔ ان کی قبر مدینہ میںاب بھی موجود ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مشن توحید تھا، یعنی خدا کو ایک ماننا، اورایک ہی خدا کی عبادت کرنا۔ جب پیغمبر ِ اسلام نے لوگوں کو توحید کا یہ پیغام دینا شروع کیا، اُس وقت مکہ کی مسجد کعبہ میں 360 بُت موجود تھے، لیکن آپ نےبتوں کی موجودگی کے مسئلے سے اعراض کیا، اوربتوں کی زیارت کے لیے آنے والوں کے درمیان اپنا مشن جاری رکھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر شروع میں خدا کی طرف سے جو تعلیمات اُتریں، اُن میں سے ایک تعلیم یہ تھی کہ نزاعی مسئلوں پر صبر کرتے ہوئے پُرامن انداز میں اپنا پیغام لوگوں کو پہنچاتے رہو(المدثر، 74:7)۔ آپ نے اِسی اصول پر عمل کیا۔ آپ کی کوشش کا نشانہ انسان کی سوچ کو بدلنا تھا۔ کیوںکہ انسان کی سوچ اگر بدل جائے تو اس کی پوری زندگی بدل جاتی ہے۔
پیغمبر اسلام کی زندگی اور اُن کی تمام تعلیمات اور واقعات آج بھی پوری طرح محفوظ ہیں۔ کوئی بھی شخص اُن کا مطالعہ کرکے خالص تاریخی معیار پر آپ کی شخصیت اور آپ کی تعلیمات کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ آپ کی حیثیت پورے معنوں میں ایک تاریخی پیغمبر کی ہے۔
پیغمبر اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ خود آپ کے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— خدا سے ڈرنا، اور اچھے اخلاق کے ساتھ دنیا میں رہنا (تَقْوَى اللَّہِ وَحُسْنُ الخُلُقِ) جامع الترمذی، حدیث نمبر 2004۔ خدا سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ (accountable) سمجھے۔ وہ خدا کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنائے۔ اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی (God-oriented life) بن جائے۔
اچھے اخلاق کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دو معیار دیے ہیں۔ اچھے اخلاق کا اعلیٰ معیار یہ ہے کہ انسان ، سماج کے اندر اِس طرح رہے کہ اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچے۔ وہ سماج کا ایک دینے والا ممبر(giver member) بن جائے۔ اچھے اخلاق کا کم سے کم معیار یہ ہے کہ آدمی اپنے سماج میں بے مسئلہ انسان(no-problem person) بن کر رہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2518)۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تم لوگ اِمَّعہ نہ بنو، یعنی یہ کہنے لگو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے، اور لوگ بُرا سلوک کریں گے، تو ہم بھی اُن کے ساتھ ظلم کریں گے۔ اس کے برعکس تم اپنے اندر یہ مزاج پیدا کرو کہ لوگ اچھا سلوک کریں، تب بھی تم اچھا سلوک کرو، اور لوگ بُرا سلوک کریں، تو تم اُن کے ساتھ ظلم نہ کرو(إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا، وَإِنْ أَسَاءُوا فَلَا تَظْلِمُوا)جامع الترمذی، حدیث نمبر 2007۔
اِس اصول کا تعلق صرف انفرادی کردار سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اجتماعی کردار سے بھی ہے۔ یہی اصول ایک خاندان کو بھی اختیار کرنا ہے۔ یہی اصول ایک سماج کے لیے بھی ضروری ہے۔ یہی اصول ایک قوم کو اپنی قومی پالیسی کے لیے بھی رہ نمااصول کی حیثیت سے اپنانا ہے۔
قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ماڈل کی حیثیت دی گئی ہے (الأحزاب، 33:21)۔ یہ بات ہر اعتبار سے درست ہے، اور وہ سارے انسانوں کے لیے ہے۔ تمام انسانوں کی یہ ایک ضرورت ہے کہ ان کے پاس سچائی کے لیے ایک عملی ماڈل ہو۔ پیغمبر اسلام کی زندگی اِس اعتبار سے ایک تاریخی ماڈل کی حیثیت ر کھتی ہے۔ جوآدمی بھی یہ چاہتاہو کہ وہ اپنی زندگی میں خدا کے پسندیدہ طریقِ حیات کو اختیار کرے، اُس کو چاہیے کہ وہ پیغمبر اسلام کی زندگی کا مطالعہ کرے۔ وہ آپ کی زندگی سے خدا کے پسندیدہ نمونے کو جانے اور اپنی پوری زندگی میںاس کی پیروی کرے۔
واپس اوپر جائیں

دین ِاسلام

اسلام عربی زبان کا ایک لفظ ہے۔ اُس کا لفظی مطلب سرینڈر کرنا(to surrender) ہے۔ اِس سے اسلام کی اصل روح معلوم ہوتی ہے۔ اسلام کا مطلب یہ ہے کہ انسان اِس دنیا میں اپنے اختیار سے خدا کی اطاعت کرنے والا بن کر رہے، وہ اپنے آپ کو خدا کے حکموں کا تابع بنالے۔
انسان کو اِس دنیا میں پوری آزادی ملی ہوئی ہے۔ اس کو اختیار ہے کہ وہ جو چاہے کرے، اور جو چاہے نہ کرے۔ یہ آزادی جو انسان کو ملی ہے، وہ کسی حق یا انعام کے طورپر نہیں ملی ہے، بلکہ وہ صرف امتحان کے لیے ہے۔ اِس دنیا میں انسان کے لیے صرف ایک ہی انتخاب(choice) ہے، اور وہ یہ کہ وہ اپنی آزادی کو خدائی احکام کے دائرے میں استعمال کرے۔
اسلام کے مطابق، انسان کی زندگی دو مرحلوں میںتقسیم ہے— موت سے پہلے کا مرحلہ، اور موت کے بعد کا مرحلہ۔ موت سے پہلے کا مرحلہ عارضی ہے، اورموت کے بعد کامرحلہ مستقل۔ زندگی کے موجودہ مرحلے میں انسان جس طرح عمل کرے گا، اُسی کے مطابق، اگلے دورِ حیات میں وہ اس کا صلہ پائے گا۔ اچھا عمل کرنے والوں کے لیے اگلے دورِ حیات میں انعام ہے، اور بُرا عمل کرنے والوں کے لیے اگلے دورِ حیات میں سزا۔
اسلام کی ایک لمبی تاریخ ہے جو اس کے آغاز کے بعد بنی۔ لیکن اسلام کیا ہے، اس کو جاننے کا ماخذ تاریخ نہیں ہے، بلکہ اسلام کا اسکرپچر (scripture) ہے، یعنی قرآن، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات۔ جس آدمی کو جاننا ہو کہ اسلامی مذہب کیا ہے، اس کو براہِ راست قرآن اور حدیثِ رسول کو دیکھنا چاہیے۔ اِس کے بغیر وہ اسلام پر صحیح رائے قائم نہیں کرسکتا۔
اسلام کوئی نسلی مذہب نہیں ہے۔ تمام انسان یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ لوگوں کی نجات کا فیصلہ اِس پر نہیں کیا جائے گا کہ وہ پیدائشی طورپر کس نسل سے تعلق رکھتا ہے، بلکہ اِس پر کیا جائے گا کہ اسلام کے بتائے ہوئے اصولی معیار پر کون شخص پورا اترا، اور کون شخص پورا نہیں اترا۔
اسلام کا مذہب خدا کے تصور پر قائم ہے۔ اسلام میں خدا مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ تمام دوسری چیزیں خدا کے عقیدے سے براہِ راست یا بالواسطہ طورپر جُڑی ہوئی ہیں۔ اسلامی عقیدے کی بنیاد خدا کے تصور پر ہے۔ بقیہ تمام چیزیں خدا کے تصور کا حصہ ہیں، نہ کہ اس سے الگ یا مستقل حصہ۔
اسلام میں خدا کا تصور وحدتِ وجود (monism) کے تصورپر مبنی نہیں ہے، بلکہ وہ توحید (monotheism) کے تصور پر مبنی ہے۔ وحدتِ وجود کے تصور میں تمام چیزیں خدا کا حصہ ہیں، مگر توحید کے تصور میں ایسا نہیں ہے۔ توحید کے تصور میں، خدا خالق ہے، اور بقیہ تمام دوسری چیزیں اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہیں۔ خدا اپنی ذات میں ایک علاحدہ اور مستقل وجود کی حیثیت رکھتا ہے۔ خدا تمام چیزوں کا نہ صرف خالق ہے، بلکہ وہ ان کا رب اور مالک بھی ہے۔
اسلام کے تصور کے مطابق، انسان اور خدا کے درمیان تعلق قائم کرنے کے لیے کسی تیسرے وسیلے کی ضرورت نہیں۔ہر انسان براہِ راست طورپر خدا سے تعلق قائم کرسکتا ہے۔ ہر انسان اپنی انفرادی حیثیت میں خدا کو دریافت کرسکتا ہے۔ ہر انسان اپنی انفرادی حیثیت میں خدا کا عبادت گزار بن سکتا ہے۔ ہر انسان اِس پوزیشن میں ہے کہ وہ براہِ راست طورپر خدا سے تعلق قائم کرسکے۔
اسلام کی حیثیت ایک کلچر یا ٹریڈیشن (tradition) کی نہیں ہے۔ اسلام کسی سماج کا ظاہرہ بھی نہیں ہے، بلکہ اسلام ایک الہامی مذہب (revealed religion) ہے۔ وہ خدا کی طرف سے تمام انسانوں کے لیے ایک ہدایت نامہ ہے۔ اسلام اُسی طرح ہر انسان کی ضرورت ہے، جس طرح سورج کی روشنی ہر انسان کی ایک ضرورت ہے۔ اسلام کسی کمیونٹی کا کلچر نہیں، اسلام ہر انسان کی تلاشِ حق کا جواب ہے۔
اسلام کے مطابق، سچّا مسلم وہ ہے جو اپنے دل اور اپنے دماغ کی تبدیلی کے ذریعے مسلم بنے۔ اِس لیے اسلام میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں۔ اسلام از اوّل تا آخر امن کا مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اپنے مقصد کو پُر امن طریقِ کار کے ذریعے حاصل کرو، اور اگر امن کا طریقہ حصولِ مقصد میں موثر نہ ہو، تو صبر کرتے ہوئے اپنی ذاتی ذمّے داریوں کو ادا کرتے رہو۔
واپس اوپر جائیں

جہاد بالنفس

امام الغزالی (1058-1111ء)کی ایک مشہور کتا ب ہے: احیاء علوم الدین۔ اس میں انھوں نے جہاد بالنفس کا ذکر کیا ہے: جاہد نفسک بأسیاف الریاضة(نفس سے جہاد کرو، ریاضت کی تلوار سے)۔ امام الغزالی کے نزدیک جہاد بالنفس کیا ہے۔ انھوں نے احیاء العلوم میں جہاد بالنفس کے تحت جن مختلف باتوں کا ذکر کیا ہے، ان میں سے ایک ہے کم سے کم کھانا، اور بہت تھوڑا سونا (القوت من الطعام والغمض من المنام) احیاء علوم الدین،جلد 3، صفحہ 66۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب ہے اپنے آپ کو جسمانی مشقت میں مبتلا کرنا۔
جہاد بالنفس بلاشبہ ایک اعلیٰ اسلامی عمل ہے۔لیکن امام الغزالی نےجہاد بالنفس کا جو تصوردیا ہے، وہ درست تصور نہیںہے۔ بالقصد اپنے آپ کو جسمانی مشقت میں مبتلا کرنا ، دوسرے ادیان کا تصور ہے، یہ اسلام کی تعلیم نہیں۔ اسلام کے مطابق، جہاد بالنفس کا مطلب یہ ہے کہ اعمال کے دوران فطری طور پر جو پُر مشقت احوال گزریں،ان کو منفی انداز میں نہ لینا، بلکہ ان کو صبر کے خانے میں ڈالنا۔ پرمشقت احوال کے باوجود اپنے آپ کو مثبت فکر اور مثبت عمل پر قائم رکھنا۔ جیسا کہ آپ اور آپ کے اصحاب کے ساتھ شعب ابی طالب میں گزرا تھا۔ اس وقت انھوں نے مثبت سوچ (positive thinking) کا طریقہ اختیار کیا تھا۔
دوسرے الفاظ میں اس کو بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا — ایک، اپنے آپ کو جان بوجھ کر جسمانی مشقت میں مبتلا کرنا ۔مثلاً غذا رہنے کے باوجود کئی دنوں تک نہیں کھانا، نیند کے باوجود نہیں سونا، وغیرہ۔ یہ غیر اسلامی طریقہ ہے۔ اس کے برعکس، اگر کسی اعتبار سےآپ کو مصیبت یا تکلیف کا معاملہ پیش آجائے، مثلا ًآپ کہیں سفرمیں جارہے ہیں، اور وہاں آپ کو کوئی نقصان پیش آجائے، تو آپ مثبت سوچ کے ساتھ اس کو برداشت کیجیے۔اپنے آپ کوصابرانہ روش پر قائم رکھیے۔ اسلام کے مطابق، یہ جہاد بالنفس ہے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کا جسم

بڑھاپا کیاہے۔ آدمی کے اعضاء میں کمزوری پیدا ہوجائے۔ اعضا میں اپنا عمل کرنے کی طاقت کم ہوجائے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کے جسم کے اندر بہت سے آرگن ہیں۔یہ آرگن جسم کی پوری مشین کو چلاتے ہیں۔ ان میں سے وائٹل آرگنز (vital organs) پانچ ہیں۔ وہ یہ ہیں— برین، ہارٹ، کڈنی، لیور ،ا ور لنگس۔ انھیں آرگن کے فنکشن پر سارے جسم کی کارگردگی منحصر ہوتی ہے۔ موت یہ ہے کہ انسان کے آرگنز اپنا عمل کرنا بند کردیں۔اس کو میڈیکل سائنس کی زبان میں ملٹی آرگن فیلیر (multi-organ failure) کہا جاتا ہے۔
آرگن کے فنکشن کا جاری رہنا، یا اس کے فنکشن کا بند ہوجانا، حیرت انگیز واقعہ ہے۔ ان کا انسان کی مرضی سے تعلق نہیں، وہ تخلیقی نظام کے تحت مسلسل طو رپر اپنا عمل جاری رکھتے ہیں، اور جب ان کا عمل جاری نہ رہے، تو اسی کا نام موت ہے۔ اس معاملے کو قرآن میں تنکیس ِخلقت کہا گیا ہے (یس، 36:68)۔ آرگن کا فنکشن ایک خودکار عمل ہے۔ انسان نہ اس کے بقا پر کوئی قدرت رکھتا ہے، او ر نہ اس کے خاتمے پر۔ انسانی جسم میں آرگن کی موجودگی ، اور ان کا عمل انسان کے لیے ایک ناقابلِ توجیہہ نعمت کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہ انسان کے لیے شکرِ خداوندی کا بہت بڑا آئٹم ہے ۔یہ ایک ایسی عظیم نعمت ہے، جس کی تخلیق پر انسان قادر نہیں، اورنہ ان کی صحت اور بقا پر قادر ہے۔ یہ انسان کے لیے ایک ایسی نعمت ہے، جو یک طرفہ عطیے کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ آرگن انسان کے جسم میں کیسے وجود میں آتے ہیں۔ کیسے وہ خود کار مشین کی طرح اپنا کام کرتے رہتے ہیں، اور پھر انسان کی مرضی کے بغیر ان کا جزئی یا کلی خاتمہ ہوجاتا ہے۔ یہ سب چیزیں تخلیق کے اسرار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انسان اس نعمت پر جتنا زیادہ غور کرے، اتنا ہی اس کے تعلق باللہ میں اضافہ ہوتا ہے۔
برٹش شاعر والٹر(Walter de la Mare) کا واقعہ ہے۔ وہ ایک مرتبہ کھانے کی میز پر بیٹھا ہوا تھا۔ گھر کے کئی افراد کھانے پینے میں مشغول تھے۔ ان میں ایک لڑکی بھی تھی۔ شاعر اس لڑکی کو دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ وہ فوڈ آئٹم لیتی ہے، اور اس کو کھاتی ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ کھانا، جو لڑکی کھارہی ہے، وہ کھانا جسم میں پہنچ کر خون اور گوشت اور ہڈی کی شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے یہ شعر کہا:
It's a very odd thing / As odd can be/That whatever Miss T eats/Turns into Miss T.
کھانا کھانے کے بعد انسان کے جسم میں کیساحیرت انگیز واقعہ پیش آتا ہے، یعنی کھانا اور پانی جسم کے اندر انسان کی شخصیت کی صورت میں ڈھل جاتاہے۔
انسان جو غذا اپنے جسم میں داخل کرتا ہے، وہ ایک پیچیدہ نظام کے تحت خون میں تبدیل ہوتی ہے۔ خون کا بننا، خون کا مسلسل گردش کرنا اور خون کی صفائی کا انتظام، وغیرہ۔یہ ایک معجزاتی واقعہ ہے، جو ہر دن ہر انسان کے جسم میں پیش آتا ہے۔ یہ معجزاتی واقعہ کیسے وقوع میں آتا ہے۔ اس کے لیے قدرت نے انسان کے جسم میں تقریباً ایک سو حیرت انگیز عامل بنائے ہیں، جن کو آرگنز (organs) کہاجاتا ہے۔ یہ آرگن ایک خود کار مشین کی طرح رات دن کام کرتے ہیں۔ انسان نہ ان کو حرکت میں لاسکتا ہے، اور نہ وہ ان کی حرکت کو بند کرسکتا۔میڈیکل سائنس میں اسی نظام کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق، جسم کا یہ نظام جو مسلسل طور پر انسان کے اندر عمل کرتا ہے، یہ بہت ہی حیرت انگیز معاملہ ہے۔
اسپتال میں انسانی جسم کے میکنزم مطالعہ کیا جاتا ہے، اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کیسے یہ زندہ مشین مسلسل حرکت کرتی ہے۔ اس مطالعے میں جب کوئی بگاڑ دکھائی دیتا ہے تو ڈاکٹر کوشش کرتے ہیں کہ اس جسمامی بگاڑ کو خارجی ٹریٹمنٹ کے ذریعے دوبارہ فطری حالت پر واپس لایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سارا جسمانی نظام خالق کا ایک حیرت انگیز عطیہ ہے۔انسان اگر اس کے بارے میں سنجیدہ ہوکر سوچے تو وہ اپنے خالق کا اتنا زیادہ شکر گزار بن جائے کہ خالق کے شکر کےسوا کوئی اور چیز اس کو یاد نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں

خوف، بے خوفی

اکثر لوگ مسائل اور مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حالات ہمارے لیے موافق نہیں ہیں۔ ایسے مقام پر کیا کرنا چاہیے۔مثلاً ایک مسلم ادارے سے شائع ہونے والے انگریزی میگزین میں ایک مضمون کا عنوان تھا:
Where the mind is without fear
یعنی جہاں انسان بے خوف ہو کر زندگی گزارے۔ مگر یہ تصور مطلق معنی میںدرست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مائنڈ کو خوف والا رہنا چاہیے۔ بے خوف مائنڈ بے پروائی کی زندگی گزارتا ہے، ایسا انسان تواضع کی صفت سے خالی ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے سے لڑتا جھگڑتا رہتاہے۔ ایسا انسان انجام سے بے خبر ہوکر ہر کام کرتا ہے۔ اس کو نتیجے کی کوئی پروا نہیں ہوتی ۔
اس کے برعکس،خوف انسان کو اس کی اپنی آزادی کے مس یوز (misuse)سے روکتا ہے۔ وہ مائنڈ کو متحرک کرتا ہے تاکہ مائنڈمسائل میں الجھنے کے بجائے مواقع کو تلاش کرے۔ یہ انسان کا سب سے اچھا استاد ہے،جو مائنڈ کو الائیو (alive) رکھتا ہے۔جو انسان کو تجربہ سکھاتا ہے۔ انسان خوف کی حالت میںسنجیدگی کے ساتھ پلاننگ کرتا ہے۔ ایسا انسان کچھ کرنے سے پہلے سوچتا ہے، اس کے بعد وہ کوئی قدم اٹھاتا ہے۔خوف کی صورتِ حال اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسان کے لیے ایک چیلنج کی صورتِ حال ہے۔
آدمی سے یہ مطلوب ہے کہ وہ چیلنج کے درمیان مواقع کو تلاش کرنا سیکھے، وہ چیلنج کو مینج (manage) کرکے اپنی دنیا بنائے۔ ایسا اس لیے ہے تاکہ انسان کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی عقل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرے، وہ اپنی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ ترقی یافتہ بنائے۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے۔میں ایک چڑیا خانہ (zoo) دیکھنے کے لیے گیا۔ یہ چڑیاخانہ غالباً یوپی کے کسی شہر میں واقع تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک بڑا سا گھیرا(enclosure) ہے۔ ا س کے اندر کچھ ہرن بیٹھے ہوئے تھے۔ چڑیا خانے کے نگراں نے کہا کہ ان ہرنوں کو دیکھیے۔ یہ بے خوفی کی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بے خوفی کی حالت ان کے لیے اچھی نہیں ہے۔ اگر وہ دیر تک بے خوفی کی حالت میں رہیں تو وہ اپنی تولیدی (fertility) صلاحیت کھو دیں گے۔ اس لیے ہم کبھی کبھی ایسا کرتے ہیں کہ اس گھیرے(enclosure) کے اندر بھیڑیا ڈال دیتے ہیں۔ بھیڑیاہرن کے لیے ایک خوفناک جانور ہے۔ چنانچہ ہرن جب بھیڑیا دیکھتاہے، تو وہ فورا گھیرے کے اندر دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ بھیڑیا ہرن کو دوڑاتا ہے، اور ہرن بھیڑیا سے بچنے کے لیے تیزی سے دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ یہ گویا جنگل والی حالت کو چڑیا گھر میں مصنوعی طور پر پیدا کرنا ہے۔ اس دوڑ دھوپ کے نتیجے میں ہرن کی تولیدی صلاحیت لوٹ آتی ہے۔ ہرن دوبارہ اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ بچے پیدا کریں۔ وہ جنگلی زندگی والے اوصاف کو دوبارہ اپنے اندر پیدا کرلیں۔
یہ فطرت کا نظام ہے۔ فطرت کا نظام انسان کے لیے بھی مطلوب ہے۔ انسان کی زندگی میں جب ٹھہراؤ آجاتا ہے تو فطری نظام کے تحت انسان کے اندر ڈر کی حالت (challenge) پیدا کی جاتی ہے۔ یہ ڈر کی حالت یا چیلنج کی حالت انسان کی تخلیقیت (creativity) کو بڑھاتی ہے۔ اس کی وجہ سے غیر تخلیقی گروہ (non-creative group) تخلیقی گروہ (creative group) بن جاتاہے۔ یہی وہ فطری حقیقت ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیرَةً بِإِذْنِ اللَّہِ وَاللَّہُ مَعَ الصَّابِرِینَ (2:249)۔ کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرانسان ناموافق صورت ِحال میں صابرانہ طریقہ، یعنی حکیمانہ منصوبہ بندی کا طریقہ اپنائے تو بظاہر کم ہونے کے باوجود وہ زیادہ کے اوپر غالب آجائے گا۔
خوف محض ایک منفی چیز نہیں وہ ایک بصیرت ہے، جو آدمی کے ذہن کو اس طرح روشن کردیتا ہے کہ وہ ہر چیز کو اس کے اصلی اور حقیقی (as it is)روپ میں دیکھ سکے۔ خوف یا چیلنج کسی انسانی گروہ کو تخلیقی گروہ بناتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں یہ اذن اللہ، یعنی فطرت کا نظام ہے۔ یہ فطرت کا نظام بظاہر خوف کی بات ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ امید کی بات ہے۔ انسان کو چاہیے کہ جب کسی گروہ کے اندر ایسی حالت پیدا ہو، تو وہ اس کو فطرت کا تحفہ سمجھے۔وہ اس کو بطور موقع (opportunity) اویل (avail) کرے۔ اس طرح غیر تخلیقی گروہ تخلیقی گروہ بن جائے گا۔
برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975) نے12 جلدوں میں ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کا نام اسٹڈی آف ہسٹری (A Study of History)ہے۔ اس کتاب میں اس نے پوری دنیا کی 19 عظیم تہذیبوں کا جائزہ لیا ہے۔ ا س جائزے میں اس نے بتایا ہے کہ تاریخ میں فطرت کا ایک نظام قائم ہے۔ جس کو اس نے چیلنج- رسپانس میکانزم کانام دیا ہے۔ یعنی حالات کے تحت ایک چیلنج پیش آتا ہے۔ اس کے بعد قوم کے اندر ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہلچل قوم کو ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہاں تک کہ غیر ترقی یافتہ قوم ترقی یافتہ قوم بن جاتی ہے۔ یہ عمل پوری تاریخ میں جاری رہا ہے۔
موجودہ زمانے میں اس واقعے کی ایک مثال جاپان ہے۔ جاپان ایک کم ترقی یافتہ قوم بنی ہوئی تھی۔ پھر ایسے حالات پیدا ہوئے کہ سیکنڈ ورلڈ وار میں اس پر دو ایٹم بم گرا دیے گئے۔ اس واقعے کے بعد جاپان کی پوری قوم متحرک ہوگئی۔ جاپان کے اندر ترقیاتی سرگرمی کا عمل جاری ہوگیا۔
میں نے خود اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ جاپان کی صنعت کھلونا بنانے والی صنعت بنی ہوئی تھی۔ جاپان میں بڑی ترقیاں نہیں ہورہی تھی۔ اس کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ امریکا نے جاپان کے دو شہروں ، ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر 1945 میں دو ایٹم بم گرادیے۔ اس سے جاپان کے شہر برباد ہوگئے۔ جاپان کی صنعت کو غیر معمولی نقصان پہنچا۔ یہ ایک دھماکہ خیز عمل تھا۔ مگر اس دھماکہ خیز عمل نے پوری جاپانی قوم کو جگا دیا۔ اس وقت جاپان کے اوپر ہیرو ہیٹو (Hirohito) کی حکومت تھی۔ ہیرو ہیٹو بہت پڑھا لکھا آدمی تھا۔ اس نے اس واقعے سے منفی سبق نہیں لیا، بلکہ اس سے مثبت سبق حاصل کیا۔ جنگ عظیم کے بعد 10 اگست 1945 کو ریڈیو پر اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ہم ایک ناقابلِ برداشت صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ لیکن ہم کو اس ناقابلِ برداشت صورتِ حال کو برداشت کرنا ہے:
The time has come when we must bear the unbearable.
ہیرو ہیٹو کی بات کا مطلب یہ تھا کہ وقتی طور پر ہمیں ایک نا موافق صورتِ حال کو برداشت کرنا ہے تاکہ ہم جاپان کی اگلی نسلوں کو ترقی یافتہ قوم بناسکیں۔
دھماکہ خیز واقعات ہمیشہ چیلنج ہوتے ہیں، وہ اس لیے آتے ہیں کہ قوم کے اندر ہلچل پیدا کریں، وہ غیر زندہ قوم کو زندہ قوم بنادیں۔چیلنج کیا ہے۔ چیلنج کا لفظ مسئلہ (problem) کے لفظ سے مختلف ہے۔مسئلہ ایک منفی لفظ ہے، جب کہ چیلنج ایک مثبت لفظ ہے۔ چیلنج نسبتاً ایک نیا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے — ایک نیا یا مشکل مسئلہ جو کہ آدمی کے لیے اس کی استعداد کا امتحان ہوتا ہے:
A new or difficult task that tests somebody's ability and skill.
جب بھی کوئی چیلنج سامنے آتا ہے تو اس میں مسائل (problems) کےساتھ نئے امکانات (opportunities) بھی موجود ہوتے ہیں۔ چیلنج کا رسپانس دینے کی دوصورتیں ہیں — نگیٹیو رسپانس (negative response)، پازیٹیو رسپانس (positive response)۔ نگیٹیو رسپانس یہ ہے کہ آدمی کو جب کسی چیلنج کا سامنا ہو تو وہ منفی رد عمل کا شکار ہوجائے، اور چیلنج کی حالت کو خوف اور سازش کے اعتبار سے دیکھنے لگے۔ اس کے برعکس، پازیٹیو رسپانس یہ ہے کہ انسان چیلنج پیش آنے پر نفرت اور شکایت کی نفسیات کا شکار نہ ہو، بلکہ صورتِ حال کا مطالعہ کرکے اس میں موجود مواقع کو دریافت کرے، اور اس کو اویل کرنے کی کوشش کرے۔
فرد کی ترقی یا سماج کی ترقی کا راز یہ ہے کہ فطرت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔اگر فرد یا سماج کی سرگرمیوں میںمنفی نفسیات کے تحت مداخلت نہ کی جائے تو فرد اور سماج دونوںچیلنج - رسپانس (challenge-response) کے پراسس کے تحت اپنے آپ بھر پور طور پر ترقی کرتے ہیں — عقل مند انسان وہ ہے، جو مسائل میں الجھ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے امکان تلاش کرے، اور اس کو اویل (avail) کرے۔
واپس اوپر جائیں

آزادی، ڈسپلن

قرآن میںاللہ کی صفت کو بتاتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:کَتَبَ عَلَى نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ (6:21)۔ یعنی اللہ نے اپنے اوپر رحمت کو لکھ دیاہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ جو بھی معاملہ کرے گا، وہ اعلیٰ رحمت کے مطابق ہوگا۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ کبھی بھی رحمت کے خلاف معاملہ نہیں کرے گا۔لیکن اسی کے ساتھ بطورِ امتحان یہ بھی کیا کہ اللہ نےانسان کو پیداکرکے اس دنیامیں رکھا،اور اس کو کامل آزادی دے دی، یہ کامل آزادی ایک انتہائی انوکھا اختیار ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ کامل آزادی کے باوجود اپنی آزادی کو ڈسپلن کے اندر استعمال کرے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو ایک امانت دی ہے،جو کائنات میں کوئی بھی لینے کے لیے تیار نہیں ہوا۔انسان نے اس امانت کو اٹھالیا۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنْسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا( 33:72)۔
امانت کیا ہے۔ امانت سے مراداختیار و ارادے کی آزادی ہے۔ یہ اللہ رب العالمین کی خصوصیت ہے۔اس بنا پر اس کو امانت کہا گیا ہے۔اس خصوصیت کو اللہ رب العالمین نے عارضی طور پر انسان کو بطورِ آزمائش عطا کیا ہے۔ تاکہ انسان خود اپنے ارادے سے خدا کا تابعدار بنے، اور اپنے آپ کو خدا کے کنٹرول میں دے دے۔ اس کائنات میں صرف اللہ حاکم ہے، اور تمام چیزیں اس کی محکوم ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوئی کہ ایک ایسی آزاد مخلوق پیدا کرے، جو کسی جبر کے بغیر خود اپنے اختیار سے وہی کرے، جو خدا اس سے کروانا چاہتا ہے۔ اب انسان موجودہ دنیا میں خدا کی ایک امانت کا امین ہے۔ اس کو اپنے اختیار سے وہی کرنا ہے، جو خدا دوسری چیزوں پر کر رہا ہے۔ انسان کوخود اختیاری سے اپنے آپ پر خدا کا حکم چلانا ہے۔
اس کو خود اختیار کردہ اخلاقیات (self-imposed ethics) کہاجاسکتا ہے۔ خود اختیار کردہ اخلاقیات کے ساتھ زندگی گزارنا کیا ہے۔ مثلاً قرآن میں زندگی کا ایک اصول ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا(3:120)۔ یعنی اگر تم صبرکرو اور تقوی کی روش اختیار کرو تو ان کی سازش تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ اگر تمھارے اندر صبر اور تقوی ہوتو تمہارے خلاف لوگوں کی سازش کا خاتمہ ہوجائے گا۔ بلکہ صرف یہ فرمایا کہ اگر تمھارے اندر صبر اور تقوی ہو تو لوگوں کی سازش تمھارے لیے نقصان دہ (harmful) نہیں بنے گی۔
اس دنیا میں ہر ایک کو اپنا امتحان دیناہے ۔ یہ امتحان صرف آزادانہ ماحول میں ممکن ہے۔ امتحان کا یہ نظام کسی انسانی گروہ کی جانب مقرر کردہ سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق براہ راست طور پر خالقِ کائنات سے ہے۔کسی اورکے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ خالق کائنات کے مقرر کیے ہوئے کورس کا خاتمہ کرسکے۔لیکن اللہ نے آپ کے لیے اس دنیا میں یہ امکان ضرور رکھا ہے کہ اگر کوئی اپنی آزادی کاغلط استعمال (misuse) کررہا ہے تو آپ سازش یا مخالفانہ تدبیر کو آزادی کے حدود میں رہتے ہوئے اپنی جوابی تدبیر سے غیر موثر بناسکیں۔
مثلاً اگر آپ کو یہ شکایت ہے کہ پولیس آپ کے خلاف ہے، اور وہ آپ پر گولی چلاتی ہے تو آپ اس معاملے کا موضوعی انداز میں مطالعہ کیجیے۔ گہرے مطالعے کے ذریعے آپ دریافت کریں گے کہ پولیس کبھی ایسا نہیں کرتی کہ وہ خود سے آپ کے اوپر گولی چلائے۔ ہمیشہ ایسا ہوگا کہ آپ بے صبر ہو کر پولیس کو پتھر ماریں گے۔ اس کے بعد پولیس جوابی کارروائی کے طورپر آپ کے اوپر گولی چلائے گی۔ اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ آپ بے صبر ہو کر پولیس کو پتھر نہ ماریں۔اس کے بعد پولیس آپ پر گولی بھی نہیں چلائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ فطرت کے قانون کےمطابق ناموافق صورتِ حال کا وجود کبھی ختم نہ ہوگا، البتہ دانشمندانہ منصوبہ بندی کے ذریعہ اس کو اپنے لیے بے اثر بنایا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

پریکٹکل وزڈم

اجتماعی زندگی کبھی یکساں نہیں ہوتی۔ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ مختلف قسم کے مسائل پیش آتے ہیں۔ اس بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے کی طرف سے ایسا تجربہ پیش آئے گا، جو اس کی مرضی کے خلاف ہوگا۔ ایسے موقع پر ہمیشہ یہ عقل کی بات ہوتی ہے کہ آدمی کم پر راضی ہوجائے۔ آئڈیل کی مانگ کرنا، عملاً اس نتیجے تک پہنچنا ہے کہ جو ممکن ہے، وہ بھی نہ ملے، اور زیادہ تو ملنے والا ہی نہیں تھا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام اس طرح بنا ہے کہ اِس دنیا میں ا جتماعی اختلافات کبھی معیار (ideal) کی بنیاد پر طے نہیں ہوتے۔
عام طور پر انسان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ متاثر ذہن (conditioned mind)سے سوچنے کی بنا پر صحیح فیصلہ نہیں لے پاتا۔ وہ چیزوں کو ان کے فیس ویلو (face-value) پر لیتا ہے۔جہاں انتظار کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے، وہاں وہ جلد بازی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ جہاں پر امن تدبیر کے ذریعہ مسئلہ حل کرنا چاہیے، وہاں وہ تشدد کا طریقہ اختیار کرلیتا ہے۔ جہاں رد عمل (reaction) سے بچ کر اپنا منصوبہ بنانا چاہیے، وہاں وہ ری ایکشن کا شکار ہوکر ایسا منصوبہ بناتا ہے، جو مسائل میں صرف اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ اسے اس کا مطلوب آئڈیل کی بنیاد پر حاصل ہو۔اس بنا پر وہ ایسا کرتا ہے۔ مگر یہ طریقہ وزڈم کے خلاف ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ چیزوں کو نتیجے کے اعتبار سے دیکھے۔ اس طرح مسئلہ کسی مزید دشواری کے بغیر بہ آسانی حل ہوجائے گا۔
اس دنیا میں اختلاف کے معاملے میںآپشن دو بہتر کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ چھوٹے شر (lesser evil)اور بڑے شر (greater evil)کے درمیان ہوتا ہے۔اسی کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیر الشرین کہا ہے(العقد الفرید، جلد2، صفحہ109-110)، یعنی عقل مند وہ ہے، جو دو برائیوں (evils) میں سے کمتر بُرائی (شر)کو پہچانے۔ اگر آدمی چھوٹے شر پر راضی نہ ہو تو اس کے بعد اس کو جس چیز پر راضی ہونا پڑتا ہے، وہ بڑا شر ہے۔اس حقیقت کو صحابی رسول عمیر بن حبیب بن خماشہ اس طرح بیان کیا ہے: جو شخص نادان کی طرف سے پیش آنے والے چھوٹے شر پر راضی نہیں ہوگا، اس کو نادان کے بڑے شر پر راضی ہونا پڑے گا (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 2258)۔
اختلاف کے وقت دانش مند آدمی کے لیے پہلا آپشن کیا ہوتا ہے۔ وہ یہ ہےکہ فریقِ ثانی کی شرطوں کو قبول کرتے ہوئے اس سے صلح کرلی جائے۔پیغمبر اسلام کی یہی سنت رہی ہے۔ اسی سنت کو قرآن میں حکمت کہا گیا ہے۔ قرآن میں ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو کتاب اور حکمت کے ساتھ بھیجا۔ کتاب سے مراد قرآن ہے، اور حکمت سے مراد وہی چیز ہے، جس کو پریکٹکل وزڈم کہا جاتا ہے ۔
پریکٹکل وزڈم کی وجہ سے آپ کو ملنے والی چیز ابتدا میں بہ ظاہر کم نظر آتی ہے۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر بہت سے صحابہ کو لگا تھا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2731)۔ لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے وہ ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ آئڈیل وزڈم نتیجے کی اعتبار سے بے فائدہ ٹکراؤ کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس، پریکٹکل وزڈم غیر ضروری نقصان سے بچا کر کامیابی کی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔پریکٹکل وزڈم ہمیشہ آدمی کو یہ موقع دیتی ہے کہ اس کو اسٹارٹنگ پوائنٹ مل جائے۔ اسٹارٹنگ پوائنٹ سے آغاز کرکے آدمی زیادہ کو پاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اسی اصول پر مبنی تھی۔
غیر حقیقت پسندانہ رہنمائی
ایک صاحب کا مضمون پڑھا، اس کا پہلا جملہ یہ تھا: مسائل تو اس امت کو ورثے میں ملے ہیں۔یہ پڑھ کر میں سوچنے لگا کہ قاری کو اس مضمون سے کیا ملے گا۔ مسلم قاری کا ذہن منفی ذہن بنے گا۔ وہ سمجھے گا کہ میری زندگی مسائل سے گھری ہوئی ہے۔ اس سے اس کے اندر شکایتی ذہن پیدا ہوگا، جو بڑھ کرکے نفرت کا ذہن بن جائے گا۔ اب اگر اس کے حالات ٹکراؤ کے موافق ہیں، تو وہ ٹکراؤ شروع کردے گا، اور اگر ایسا نہیں ہے تو قاری مستقل طور پر ڈبل اسٹینڈرڈ میں جینے لگے گا۔ یعنی وہ زمانے سے نفرت کی سوچ کے ساتھ جیے گا۔ مگر عملا ًوہ مصالحت کی زندگی گزارے گا۔ مسلم شعرا کے یہاں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔مثلاًاقبال کا یہ شعر
گفتند جہان ما آیا بہ تو می سازد؟ گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن
یعنی اس نے کہا کہ میرا پیدا کردہ یہ جہاں تمہارے ساتھ سازگاری کررہا ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں،یہ سازگاری نہیں کر رہا ،تو اس نے کہاکہ اسے درہم برہم کر دو۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا ذہن عام طور پر اسی قسم کا ہے۔ وہ منفی ذہن کے ساتھ جیتے ہیں،اور زمانے کے ساتھ ٹکراؤ کرنا چاہتے ہیں، لیکن عملاً زمانے کو ناساز پاکر ڈبل اسٹینڈرڈ کے تحت مصالحانہ زندگی اختیار کرلیتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے اندر کوئی ذہنی ارتقا نہیں ہوتا۔ کیوں ایسے لوگ ہمیشہ منفی ذہن کے ساتھ جیتے ہیں۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی حالتِ موجودہ میں مواقع کو تلاش کرے۔ آدمی مسائل کو نظر انداز کرے، اور مواقع کو دریافت کرکے ان کی بنیاد پر اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ مثلاً اگر وہ دیکھے کہ اس کے ماحول میں ایک گروہ کو ریزرویشن ملا ہوا ہے، جس سے تعلیم گاہوں میں اس کو بہ آسانی داخلے مل جاتے ہیں۔ اس کو بہ آسانی سروس حاصل ہوجاتی ہے۔ وہ ان حالات کا مطالعہ کرے۔ اگر وہ غیر جانبدارانہ انداز میں مطالعہ کرے گا ، تو وہ دریافت کرے گاکہ ریزرویشن ایک محدود دائرے میں عمل کرتا ہے۔ محدود دائرے کے باہر تمام مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ وہ اگر ریزرویشن کے دائرے سے باہر جاکر محنت کرے، تو اس کو نئے نئے دائرے حاصل ہوں گے، جہاں وہ ریزرویشن کے بغیر بھی اچھے مواقع پاسکتا ہے۔
مثلاً میرے چھوٹے بھائی ایک کالج میں داخلے کے لیے گئے۔ وہ تاخیر کے ساتھ وہاں پہنچے تھے۔جب کہ داخلے کا وقت نکل چکا تھا۔ پرنسپل کو جب معلوم ہوا کہ طالب علم تاخیر کے ساتھ آیا ہے، تو اس نے فرض کرلیا کہ یہ تھرڈ کلاس کا طالب علم ہوگا، اسی لیے اس کو کہیں داخلہ نہیں ملا، تو اب وہ ہمارے ادارے میں آیا ہے۔ پھر گفتگو کے دوران پرنسپل نے پوچھا کہ تمھارے مارکس کتنے ہیں۔ طالب علم نے جواب دیا: سر، 85 پرسنٹ
یہ سنتے ہی پرنسپل فوراً اس کے لیے ہمدرد بن گیا، اور اس کو اپنے کالج میں داخلہ دے دیا۔ یہ طالب علم بعد کو فرسٹ کلاس میں پاس ہوا، اور اپنی بعد کی زندگی میں کامیاب رہا۔ کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی مواقع کو دریافت کرے، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔
واپس اوپر جائیں

اِینٹی سیلف انسان

آج کل ہر لکھنے والا اور بولنے والا مسلمان الفاظ کا جنگل بکھیر رہاہے۔ ہر لکھنے اور بولنے والا مسلمان بے تکان لکھ رہا ہے، اور بول رہا ہے۔ لیکن اگر آپ ان کے کلام کو سنیں یا پڑھیں، تو تقریباً بلااستثنا آپ یہ پائیں گے کہ الفاظ کے اس جنگل میں آپ کے لیے کوئی ٹیک اوے نہ ہوگا۔ حتی کہ ان کا کلام صحافت کے سادہ تقاضوں سے بھی خالی ہوگا۔
اصل یہ ہے کہ انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک، وہ جو سوچتے ہیں، اور پھر بولتے ہیں۔ جن کی ہر بات احساسِ ذمے داری کا نتیجہ (outcome) ہوتی ہے۔ جن کا کلام ان کی پوری شخصیت کا ترجمان ہوتا ہے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے، جن کے حافظے میں الفاظ کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ وہ جب بولتے ہیں، تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کہ ان کا ذہن ایک ماہر ذہن ہے،جو سوچے بغیر بولے چلاجارہا ہے۔
اس سلسلےمیں ایک لمبی روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس میں بعد کے زمانے کی پیشین گوئی کی گئی ہے ۔ اس حدیث کا ایک جزء یہ ہے:وَیُقَالُ لِلرَّجُلِ:مَا أَعْقَلَہُ وَمَا أَظْرَفَہُ وَمَا أَجْلَدَہُ، وَمَا فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِیمَانٍ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6497، صحیح مسلم، حدیث نمبر 143)۔ یعنی ایک شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ کتنا عقلمند ہے ، کتنا بلند حوصلہ ہے اور کتنا بہادر ہے ۔ حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہو گا ۔ اس حدیث رسول میں ایمان نہ ہونے کا مطلب ہے، انسان کے دل کا خدا کے خوف سے خالی ہونا، جس کی وجہ سے انسان غیرسنجیدہ انداز میں بولتا یا لکھتا ہے۔
غالباً اس حدیث میں موجودہ زمانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔موجودہ زمانہ ایک اعتبار سے اسٹیج ایکٹوزم کا زمانہ ہے۔ جو آدمی اسٹیج پر عوام پسند بولی بول سکے، وہ اچانک مقبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس کا ہر جگہ استقبال کیا جاتا ہے۔ لوگ اس کی باتوں کو شوق کے ساتھ سنتے ہیں، اور تالیاں بجاتے ہیں۔ اس کو تیزی سے سستی مقبولیت (cheap popularity) حاصل ہوجاتی ہے۔ وہ میڈیا میں نمایاں ہوجاتا ہے۔ خوبصورت الفاظ بولنا ہی اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے کہ وہ ہر جگہ سنا جائے۔ میڈیا میں اور اخبارات میں اس کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ مجلسوں میں اس کا چرچا ہوتا ہے، وغیرہ۔ اسٹیج کلچر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان کے اندر وہ مزاج بن جاتاہے، جس کوایک ہندومفکر نے باہری یاترا کا نام دیا تھا، یعنی سیلف تھنکنگ (self-thinking) کے بجائے اکسٹرنل تھنکنگ ۔
انسان کو فطری طور پر مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں ۔مثلاً پاؤں کے اندر چلنے کی صلاحیت، ہاتھ کے اندر پکڑنے کی صلاحیت، آنکھ کے اندر دیکھنے کی صلاحیت۔ کان کے اندر سننے کی صلاحیت، وغیرہ۔ اِسی طرح انسان کو عقل دی گئی ہے، جو سوچنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مگر اکثر انسان اپنی اس صلاحیت کو درست طور پر استعمال کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنے منصوبۂ تخلیق سےبے خبر رہتا ہے۔ وہ دوسروں کو اپنی باتیں سناتا رہتا ہے، لیکن خود اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوںکو دریافت کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کو خوش کرنے والی بولی بولتے ہیں۔ انھیں اس کا وقت نہیں ملتا کہ وہ اپنے بارے میں سوچیں، اور اپنی ذات کے ارتقا کی فکر کریں۔
انسان کو جس دنیا میں جینا پڑتا ہے، وہ گویا ایک عالمی جنگل ہے، اس جنگل میں ہر جگہ حکمت و معرفت کا نِکٹر (nectar) چھپا ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ اللہ نے انسان کو خصوصی صلاحیت دی ہے، جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں دی۔وہ بذریعہ عقل تدبر و تفکر کی صلاحیت ہے۔ تدبر کی صفت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دنیا کے جنگل میں ڈسٹریکٹ (distract) نہ ہو۔ وہ غور و فکر کرکے حکمت و معرفت کے چھپے ہوئے نکٹر کو دریافت کرے۔ جن لوگوں کے اندر تدبر کی صلاحیت ہوتی ہے،وہ شہد کی مکھی کی مانندانسانی تہذیب کے اس جنگل میں معرفت کا نِکٹر دریافت کرتے ہیں۔اس کے ذریعے اپنے آپ کو وہ انسان بناتے ہیں، جس کو صاحبِ معرفت انسان (realized soul) کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اخلاقیات کا معاملہ

اخلاقیات (ethics) کا معاملہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مذہبی شریعت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ سیکولر دستور کا معاملہ ہے۔ اخلاق کی صحت کے لیے کوئی مذہبی شرط نہیں ہوسکتی۔ اخلاق کی صحت کے لیے صرف ایک ہی قابلِ قبول شرط ہے، اور وہ یہ کہ اخلاقی اصول کو انصاف کے مطابق ہونا چاہیے۔ اخلاق کے لیے ضروری ہے کہ وہ باہمی طور پر قابلِ قبول (mutually acceptable) معاملہ ہو، اور پورے سماج کے ہر فرد کو یکساں طور پر درست نظر آئے۔ اخلاق وہی ہوسکتا ہے، جو سماجی تعمیر کے اصول پر مبنی ہو۔ اخلاق سماجی انصاف کا موضوع ہے، اور سماجی انصاف اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک سیکولر موضوع ہے۔ اخلاق کا معیار (criterion) صرف ایک چیز ہے، اور وہ فطری انصاف (natural justice) ہے۔ مذہب کو اخلاقیات کا معیار بنایا جائے تو کبھی اخلاقی سماج نہیں بنے گا۔ اس کے برعکس، نیچرل جسٹس کی بنیاد پر اخلاق کا نظام بنایا جائے تو وہ بہ آسانی قائم ہوجائے گا۔ کیوں کہ نیچرل جسٹس سب کے لیے قابل قبول بنیاد ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔قرآن میں میزان (الحدید،57:25) کا لفظ اسی معنی میں آیا ہے۔ میزان سے مراد شرعی میزان نہیں ہے، بلکہ فطری میزان ہے۔یعنی فطری شعور کی سطح پر ہر انسان کے اندر پایا جانے والا نظام۔
اخلاق کیا ہے۔ اخلاق در اصل صحیح سماجی سلوک (right social conduct) کا نام ہے۔ ایک فرد جب سماج کے اندر زندگی گزارتا ہے، تو اس وقت اس کی کچھ اجتماعی ذمہ داریاں بن جاتی ہیں۔ ان اجتماعی ذمہ داریوں کو اس طرح نبھانا کہ فرد اور سماج دونوں کے تقاضوں کی ادائیگی کے درمیان کوئی ٹکراؤ پیش نہ آئے۔ اس اعتبار سے اخلاق ان اصولوں نام ہے، جس سے سماج کی تنظیم ہو ۔ اخلاق فطرت انسانی کا سبجکٹ ہے، وہ قانون کا سبجکٹ نہیں۔
اس تعریف کے مطابق، درست اخلاق وہ ہے، جس میں فرد اور سماج دونوں کے تقاضے اس طرح پورے ہورہے ہوں کہ ایک دوسرے کے لیے پرابلم نہ بنے۔ فرد اپنی زندگی کی پلاننگ اس طرح کرے کہ اس کے اپنے انفرادی تقاضے بھی پورے ہورہے ہوں، اور اسی کے ساتھ سوسائٹی کے اجتماعی تقاضوں میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ فرد کو بھی یہ موقع ہو کہ وہ اپنی شخصیت کی تعمیر کسی رکاوٹ کے بغیر کر سکے، اور اسی طرح سوسائٹی کو بھی یہ موقع ہو کہ اس کی اجتماعی ترقی درست طور پر جاری رہے۔
غور کیا جائے تو اس لحاظ سے اخلاق کی تعریف یہ قرار پاتی ہے کہ فرد کے اندر سوشل ذمےداریوں کا پورا احساس موجود ہو۔ وہ قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل ہو۔ ہر فرد یہ جانے کہ سماج کا دوسرا فرد کس صورتِ حال میں کیسا عمل کرے گا تاکہ دوسرا شخص اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی زندگی کا منصوبہ اس طرح بنائے، جو دوسروں سے ٹکراؤ کے بغیر کامیابی کے ساتھ جاری رہے۔
اس اعتبار سے اخلاق گویا انفرادی ترقی اور سماجی ترقی کے درمیان مطابقت (coordination) کے ساتھ زندگی گزارنے کا دوسرا نام ہے۔ مثال کے طور پر رات کا وقت ہے، اور ایک شخص کے گھر سے کوئی اچھی خبر آتی ہے۔ اب اگر اس وقت خبر پانے والا خوشی منائے تو اس کے پڑوسی کی نیند خراب ہوگی۔ اس لیے خبر پانےوالے کو خوشی منانے کا ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو بلا آواز طریقہ ہو، نہ کہ با آواز طریقہ۔
قابلِ عمل اخلاق وہی ہوسکتا ہے، جو سب کے لیے باہمی طور پرقابل قبول (mutually accepted)معاملہ ہو۔ مثال کے طور پر حکومت سازی کا معاملہ ہو ، اور اس کے لیے الیکشن کرایا جائے تو الیکشن کو فری اینڈ فیر (free and fair) بنیاد پر ہونا چاہیے۔ کیوں کہ فری اینڈ فیربنیاد ایک ایسا اصول ہے جو سب کے لیے قابل قبول ہے۔ اسی طرح کوئی نزاعی معاملہ ہو تو اس کو قانون ملکی (law of the land) کے مطابق سیٹل کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ملکی قانون سماج کے تمام طبقات کے لیے قابل قبول بنیاد دیتا ہے، جس میں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا، وغیرہ۔عبادت کے معاملے میں اسلام کا الگ اصول ہوسکتا ہے، لیکن سماجی اخلاقیات کے معاملےمیں اسلام کا اصول بڑی حد تک وہی ہوگا، جو سماج کے دائرے میں سب کے لیے قابل قبول ہو۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی اور ناکامی

زندگی ناکامی کے واقعات کے ایک تسلسل کا نام ہے۔ کامیاب وہ ہے، جو اپنی ناکامی کو اپنی کامیابی میں کنورٹ (convert)کرسکے۔ یہ زندگی کا سب سے بڑا راز ہے۔ کامیاب وہ ہے، جو اس راز کو جانے، اور اس کو جانتے ہوئے اپنی زندگی کی پلاننگ کرسکے۔
انسانی زندگی کی یہ نوعیت کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دنیا میں کوئی انسان اکیلا نہیں ہے۔ بلکہ یہاں بہت سے انسان آباد ہیں۔ ہر ایک کا نشانہ الگ ہے۔ ہر ایک کی سوچ مختلف ہے۔ ہر ایک آزاد ہے کہ وہ اپنے لیے جس منزل کا چاہے انتخاب کرے۔
زندگی کی اس نوعیت نے زندگی کو ایک ایسی دنیا بنا دیا ہے، جہاں مسابقت اور چلن کا ایک سمندر ہے۔ ہر آدمی مجبور ہے کہ وہ اس سمندر کو پار کرکے اپنے آپ کو ساحل تک پہنچائے۔ جو اس راز کو نہ جانے، وہ اس سمندر میں عملاً غرق ہوجائے گا۔ اس کو زندگی کے تجربے سے شکایت کے سوا کچھ اور حاصل نہیں ہوگا۔ البتہ جو آدمی زندگی کی اس نوعیت کو جانے، جو عقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی کی مطلوب منصوبہ بندی (planning) کرسکے، وہ ضرور کامیابی کے ساحل تک پہنچے گا۔ اس کو کوئی روکنے والا نہیں ۔
زندگی کے بارے میں یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کے لیے جو چوائس ہے، وہ دوسروں سے لڑنا نہیں ہے، بلکہ دوسروں سے ایڈجسٹ کرتے ہوئےاپنے معاملات کو مینج (manage) کرنا ہے۔ اس کو یہ کرنا ہے کہ وہ پرامن انداز میں پیش آمدہ چیلنج کا مقابلہ کرتے ہوئے سفر طے کرے۔ وہ مواقع (opportunities) کو دریافت کرکے منصوبہ بند انداز میں ان کو اویل (avail) کرنے کی کوشش کرے۔ اس دنیا میں کامیابی مطابقِ واقعہ منصوبہ بندی کا نام ہے، اور ناکامی یہ ہے کہ آدمی مطابقِ واقعہ منصوبہ بندی کے امتحان میں فیل ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں شکایت اس بات کا اعلان ہے کہ آدمی درست پلاننگ میں ناکام رہا۔
واپس اوپر جائیں

توازن یا ترجیح

ماہ نامہ الرسالہ کے مضامین میں اکثر روحانیت (spirituality) پر زور دیا جاتا ہے۔ ایک صاحب جو ماہ نامہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں، اِن مضامین کو پڑھنے کے بعد ای میل کے ذریعے اُن کا ایک سوال موصول ہوا ہے۔ انھوں نے یہ سوال کیا ہے — زندگی کے مادی تقاضے بھی ہیں اور روحانی تقاضے بھی، پھر دونوں تقاضوں کے درمیان توازن (balance)کس طرح قائم کیا جائے:
How can one maintain a balance between spirituality and materialism?
جواب یہ ہے کہ توازن کا اصول غیر فطری اصول ہے۔ اکثر لوگ ’’توازن‘‘ کے تصور میںالجھے رہتے ہیں،چنانچہ وہ کبھی اپنی زندگی کے مختلف تقاضوں کے درمیان توازن قائم نہیں کرپاتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ذہنی تناؤ (tension)کا شکار ہوجاتے ہیں۔ توازن کا اصول غیر فطری ہونے کی وجہ سے ایک ناقابلِ حصول چیز ہے، اور جو چیز ناقابلِ حصول ہو، اس کے بارے میں صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ اس کو علیٰ حالہ قبول کرلیا جائے۔
فطری قانون کے مطابق، زندگی کا نظام ترجیح (priority) کے اصول پر قائم ہے، یعنی زندگی کے ایک تقاضے کو اولین (primary) اہمیت دینا اور دوسرے تقاضے کو ثانوی (secondary) درجے پر رکھنا۔ اِس معاملے میں یہی واحد قابلِ عمل فارمولا ہے۔ اِس کے سوا کوئی دوسرا فارمولا سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں۔
روحانیت اور مادیت کے معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ترجیح کا اصول اختیار کیا جائے ، یعنی روحانیت کو اولین حیثیت دی جائے اور مادیت کو ثانوی حیثیت۔ اِس معاملے میں یہی حقیقت پسندی ہے۔ جو آدمی اِس حقیقت کو نہ مانے، اُس کو اِس کی بھاری قیمت دینی پڑے گی۔ وہ یہ کہ ایسا شخص ہمیشہ ذہنی تناؤ میں جیے گا، وہ ہمیشہ ذہنی سکون (peace of mind) سے محروم رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کا سبق

کائنات میں اَن گنت ستارے اور سیارے ہیں۔ یہ سب کے سب وسیع خلا کے اندر ہر لمحہ گھوم رہے ہیں۔ خلا گویا کہ لاتعداد متحرک اجسام کی دوڑ کا ایک اتھاہ میدان ہے۔ مگر حیرت ناک بات ہے کہ ان ستاروں اور سیاروں میں کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔
اس کا راز کیا ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ ہر ستارہ اور ہر سیارہ نہایت پابندی کے ساتھ اپنے اپنے مدار میں گھومتا ہے۔ وہ اپنے مدار سے ذرا بھی باہر نہیں جاتا۔ حرکت کا یہی قانون ہے جو ان ستاروں اور سیاروں کو آپس میں ٹکرانے سے مسلسل روکے ہوئے ہے۔
ٹھیک یہی طریقہ انسان سے بھی مطلوب ہے۔انسان کی دوڑ کے لیے بھی خالقِ کائنات نے ایک دائرہ مقرر کردیا ہے۔ ہر انسان کواسی محدود دائرے کے اندر حرکت کرنا ہے۔ جب تمام انسان اپنے اپنے دائرے میں حرکت کریں تو سماج میں اپنے آپ امن کی حالت قائم ہوجاتی ہے، اور جب لوگ اپنی حد میں نہ رہیں بلکہ مقرر حد کو توڑ کر اِدھر اُدھر دوڑنے لگیں تو ایسے سماج میں لازماً نزاع شروع ہوجائے گی۔ لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا کر اپنے آپ کو بھی تباہ کریں گے، اور دوسرے کی تباہی کا بھی سامان فراہم کریں گے۔
اختلاف کے وقت
اختلاف انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ مختلف اسباب سے لوگوں کے درمیان اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ جس طرح عام لوگوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے، اسی طرح مخلص اور مومن کے درمیان بھی اختلاف پیش آتا ہے۔ اختلاف کے ہونے کو روکا نہیں جاسکتا۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اختلاف کے باوجود آدمی اپنے آپ کو صحیح رویہ پر قائم رکھے۔اختلاف پیش آنا بُرا نہیں، بُرا یہ ہے کہ اختلاف پیش آنے کے بعد آدمی دشمنی اور انتقام میں مبتلا ہوجائے۔
سچا انسان وہ ہے، جو اختلاف کو دشمنی کا مسئلہ نہ بنائے۔ اختلاف کو اسی دائرے تک محدود رکھے جہاں اختلاف پیدا ہوا ہے۔ ایک معاملے میں اختلاف کی وجہ سے کسی کو ہر معاملے میں غلط سمجھ لینا، ایک معاملہ میں اختلاف پیش آنے کے بعد اس کو منافق، بدنیت اور غیر مخلص کہنے لگنا، یہ سراسر غیرخدائی طریقہ ہے۔
اختلاف پیش آنے پر تعلقات ختم کرنا صحیح نہیں۔ اختلافی مسئلے پر سنجیدہ بحث جاری رکھتے ہوئے باہمی تعلقات کو بدستور قائم رکھنا چاہیے۔ اختلاف والے شخص سے سلام وکلام بند کرنا یا اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دینا کسی بھی حال میں درست نہیں۔
موجودہ دنیامیں ہر چیز لرننگ کے لیے ہے۔ اسی طرح اختلاف بھی لرننگ کے لیے ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اختلاف سے کوئی نئی لرننگ حاصل کرے ، نہ کہ کوئی ایسا غلط اقدام کرے، جولرننگ کے خلاف ہو۔اختلاف کے وقت انصاف پر قائم رہنا بلا شبہ ایک مشکل کام ہے۔مگر وہ انسان ایک اعلیٰ انسان ہے ، جو اختلاف اور نزاع کی صورت پیش آنے کے باوجود اپنے دل کو دشمنی اور انتقام کی نفسیات سے بچائے، اختلاف کے باوجود وہ انصاف کی روش پر قائم رہے۔
عدم یکسانیت
خالق نے انسانی زندگی کو جس اصول پر بنایا ہے، اس میں یکسانیت (uniformity) نہیں ہے، بلکہ عدم ِیکسانیت (dis-uniformity) ہے۔یہ فطرت کا قانون ہے۔ یعنی انسان ایک سوچنے والی مخلوق ہے۔ مختلف انسانوں کی سوچ کبھی یکساں نہیں ہوسکتی۔ یہ فطرت کا تقاضا ہے کہ لوگوں کی سوچ میں یکسانیت (uniformity)نہ ہو۔ لیکن اس فرق کی بنا پرایسا ہوتا ہے کہ بار بار ایک اور دوسرے کے درمیان اختلاف کی صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ وہ ہر جگہ اور ہمیشہ پایا جاتا ہے۔ اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ دو مختلف انسان اپنی مختلف صلاحیتوں کو متحدہ طور پر استعمال کرکے زیادہ مفید انداز میں سماجی زندگی کا حصہ بنیں۔ تاہم اس فرق کی بنا پرایسا ہوتا ہے کہ بار بار ایک کو دوسرے سے ناخوش گواری کا تجربہ پیش آتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں، خواہ وہ گھر کے اندر کی ہو یا گھر کے باہر ، اس طرح کی ناپسندیدہ صورت حال کا پیش آنا بالکل فطری ہے۔ اس کو روکنا کسی حال میں ممکن نہیں۔
اب ایک طریقہ یہ ہے کہ ہر اختلاف سے ٹکراؤ کیا جائے۔ ہر ناخوش گواری سے براہِ راست مقابلہ کرکے اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔اس طرح کی کوشش غیر فطری ہے۔ اس لیے کہ وہ مسئلہ کو صرف بڑھانے والی ہے، وہ ہر گز اس کو گھٹانے والی نہیں۔
رواداری
ایسے مواقع پرقابلِ عمل اصول رواداری (tolerance) اور اعراض (avoidance) کا اصول ہے۔یہ دونوں اہم معاشرتی اصول اور اعلیٰ انسانی صفات ہیں۔ رواداری کامطلب دوسروں کی رعایت کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں عدم رواداری یہ ہے کہ آدمی صرف اپنے آپ کو جانے، وہ دوسروں کے تقاضے سے بے خبر ہوجائے۔ رواداری ایک اعلیٰ انسانی اسپرٹ ہے۔ اس کواسلام میں مختلف الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ مثلاً — رفق، تالیفِ قلب، شفقت علی الخلق، وغیرہ۔
سچا انسان وہ ہے ،جو خود غرضی کے تحت پیش آنے والی تمام برائیوں سے اوپر اٹھ جاتاہے۔ وہ اپنی ذات میں جینے کے بجائے حقائق میں جینے لگتا ہے۔ ایسا انسان عین اپنے مزاج کے مطابق دوسروں کو محبت کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ وہ دوسروں سے کسی چیز کا امیدوار نہیں ہوتا اس لیے دوسرے اگر اس سے اختلاف رکھیں یا اس کے ساتھ اچھا سلوک نہ کریں تب بھی وہ دوسروں کا خیرخواہ بنا رہتا ہے۔ تب بھی وہ دوسروں کی رعایت کرتا ہے۔ تب بھی وہ دوسروں کے ساتھ اپنے روادارانہ سلوک کو باقی رکھتا ہے۔
رواداری یہ ہے کہ آدمی ہر حال میں دوسرے کی عزت کرے ،خواہ وہ اس کے موافق ہو یا اس کے خلاف۔ وہ ہر حال میں دوسرے کو اعلیٰ انسانی درجہ دے، خواہ وہ اس کا اپنا ہو یا غیر۔ وہ دوسرے کے کیس کو ہر حال میں ہمدردی کا کیس سمجھے۔ خواہ دوسرے کی طرف سے بظاہر غیر ہمدردانہ سلوک کا اظہار کیوں نہ ہوا ہو۔
رواداری کا مطلب دراصل دوسروں کی رعایت کرنا ہے۔اجتماعی زندگی میں لازمی طورپر ایک دوسرے کے درمیان اختلافات پیش آتے ہیں۔ مذہب، کلچر، رواج اور ذاتی ذوق کا فرق ہر سماج میں باقی رہتا ہے۔ ایسی حالت میں اعلیٰ انسانی طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے اصول پر قائم رہتے ہوئے دوسرے کے ساتھ رعایت اورتوسع کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ اپنی ذات کے معاملے میں اصول پسند ہو، مگر دوسرے کے معاملے میں روادار۔ وہ اپنے آپ کو آئڈیل کی روشنی میں جانچے۔ مگر جب دوسروں کا معاملہ ہو تو وہ رواداری اور وسعتِ ظرف کا طریقہ اختیار کرے۔ یہ رواداری انسانی شرافت کا لازمی تقاضا ہے۔ اسلام آدمی کے اندر یہی اعلیٰ شرافت پیدا کرتاہے۔
اعراض
اعراض کا مطلب ہے شکایت اور اختلاف کے وقت ٹکراؤ سے پرہیز کرنا۔ اشتعال کے مقام پر رد عمل سے بچتے ہوئے اپنے آپ کو مثبت رویہ پر قائم رکھنا۔ یعنی ناخوش گوار صورت حال کو مٹانے کے بجائے اس کو برداشت کرنا، اشتعال انگیزی کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کو نظر انداز کرنا، اختلاف کے باوجود لوگوں کے ساتھ متحد ہو کر رہنا۔ اعراض کوئی مجبوری کا فعل نہیں ہے، یہ سچے انسان کا ایک مثبت رویہ ہے۔
اسلام کے مطابق جب کوئی شخص شکایت اور اختلاف کے باوجود لوگوں کے ساتھ اچھے رویے پر قائم رہے، وہ اپنے منفی جذبات کو دبا کر مثبت رویے کا ثبوت دے توخدا کے یہاںایسے لوگوں کا شمار محسنین میں کیا جائے گا، یعنی وہ لوگ جنھوں نے دنیا کی زندگی میں برتر اخلاق اوراعلیٰ انسانیت کا ثبوت دیا —رواداری اور اعراض کے بغیر اعلیٰ انسانی کردار پر قائم رہنا ممکن نہیں۔
امن پسندی
سچا انسان ایک امن پسند انسان ہوتاہے۔ سچائی اور امن پسندی اتنا زیادہ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں کہ سچا انسان ہر حال میں امن کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتاہے۔ وہ ہر دوسری چیز کو کھونا گوارا کرلیتا ہے، مگر وہ امن کو کھونا گوارا نہیں کرتا۔
سچا انسان موجودہ دنیا میں جو زندگی گزارنا چاہتاہے، وہ صرف امن کی حالت ہی میں گزاری جاسکتی ہے۔ امن کی حالت سچے انسان کے لیے موافق ماحول فراہم کرتی ہے، اور بے امنی کی حالت سچے انسان کے لیے مخالف ماحول کی حیثیت رکھتی ہے۔
امن ہمیشہ ایک قربانی چاہتاہے۔ وہ قربانی یہ کہ دوسری طرف سے بد امنی کے اسباب پیداکیے جائیں تب بھی اس کو نظر انداز کرتے ہوئے امن کی حالت کو برقرار رکھا جائے۔سچا انسان ہمیشہ اس قربانی کو دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ وہ ہر نقصان اور زیادتی کو برداشت کرتاہے تاکہ امن کی حالت نہ ٹوٹے، تاکہ امن کا ماحول مسلسل طورپر قائم رہے۔
سچا انسان اندر سے باہر تک ایک تعمیرپسند انسان ہوتاہے۔ اس کی تعمیری سرگرمیاں صرف امن کی حالت میں جاری رہ سکتی ہیں۔ اس لیے وہ ہر قیمت دے کر امن کو برقرار رکھتا ہے تاکہ اس کی تعمیری سرگرمیاں بلا روک ٹوک جاری رہیں۔
سچا انسان فطرت کے باغ کا ایک پھول ہے۔ پھول گرم ہوا میں جھلس جاتاہے اور ٹھنڈی ہوا میں اپنے دل کش وجود کو باقی رکھتا ہے۔ یہی حال سچے انسان کا ہے۔ امن سچے انسان کی لازمی ضرورت ہے، اور اس کی زندگی ہے۔ سچا انسان حرص کی حد تک امن کا خواہش مند ہوتاہے تاکہ اس کا انٹلکچول ڈیولپمنٹ ہوسکے، اور کسی رکاوٹ کے بغیر فطرت کی فضا میں ظاہر ہوکر اپنی بہاریں دکھا سکے۔
امن کائنات کا دین ہے۔ امن فطرت کا عالمگیر قانون ہے۔ خالق ِکائنات کو امن کی حالت پسند ہے، اس کو بے امنی کی حالت پسند نہیں۔ یہی واقعہ اس بات کے لیے کافی ہے کہ اس کی مخلوق امن کو پسند کرے۔ وہ کسی حال میں امن کے خاتمہ کو برداشت نہ کرسکے۔
انسان اجتماعی زندگی میں کس طرح رہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ کس طرح معاملہ کرے۔ دوسروں کے ساتھ اس کا سلوک کیسا ہو۔ اپنے قول وعمل میں وہ کیا انداز اختیار کرے۔ جو لوگ زندگی کے معاملات میں اپنے مقرر دائرے کے اندر حرکت کررہے ہیں، وہ سماج میں امن قائم کرنے والے ہیں۔اس کے برعکس ،جو لوگ اپنے مقرر دائرے سے باہر آگئے، یہی وہ لوگ ہیں جو سماج میں ہر قسم کی خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔ وہ خود بھی تباہ ہوتے ہیں، اور سماج کی تباہی کا بھی سبب بنتے ہیں۔سچا انسان وہ ہے، جو اپنے مقرر دائرے میں رہتے ہوئے زندگی گزارے۔
واپس اوپر جائیں

شہد کی مکھی کا سبق

ایک مسلم میگزین میں ایک آئٹم ان الفاظ میں چھپا ہوا تھا: ایک استاد نے اپنےطالب علم سے پوچھا، تم شہد کی مکھی سے کیا سیکھ سکتے ہو۔ طالب علم نے جواب دیا: یہی کہ جو چھیڑے اسے ڈنک مارو۔ شہد کی مکھی کا یہ حوالہ درست نہیں۔ شہد کی مکھی میں انسان کے لیے ایک تعمیری سبق ہے، نہ کہ کوئی تخریبی سبق۔
شہد کی مکھی (honeybee) فطرت کا ایک شاہ کار ہے۔ شہد کی مکھی یہ کرتی ہے کہ مسلسل محنت کر کے بے شمار پھولوں سےان کا نکٹر (nectar) نکالتی ہے، اس کے بعدپر امن منصوبہ بندی کے ذریعے اس کو اپنے چھتے میں جمع کرتی ہے۔تاکہ انسان کے لیے ایک قیمتی غذا حاصل ہو۔ اس اعتبار سے شہد کی مکھی کا سبق انسان کے لیے یہ ہے کہ تم اپنے سماج کے ایک دینے والے ممبر (giver member) بنو، تم اپنے سماج میں اس طرح تعمیری انداز میں رہو کہ تم سے دوسروں کو فائدہ پہنچے۔
یہ صحیح ہے کہ شہد کی مکھی بعض اوقات انسان کو ڈنک مارتی ہے۔ لیکن شہد کی مکھی کا یہ ڈنک مارنا صرف اپنے بچاؤ کےلیے ہوتا ہے۔ جب شہد کی مکھی یہ دیکھتی ہے کہ کوئی انسان اس کے چھتے میں مداخلت کر رہا ہے تو وہ اپنے بچاؤ کے لیے ایسے آدمی کو ڈنک مارتی ہے۔شہد کی مکھی کا ڈنک مارنا صرف اپنے دفاع (defence) کے لیے ہوتا ہے۔ شہد کی مکھی کے اندر پیدائشی طور پر کسی کے خلاف کوئی منفی سوچ نہیں۔
انسان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ انسان کے اندر اَنا (ego) کا جذبہ ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے خلاف بات پر بھڑک اٹھتا ہے، اور انتقام (revenge) کے درپے ہو جاتا ہے۔ انسان ایسے موقعے پر انتقامی کارر وائی کرتا ہے، جب کہ انتقام کلچرشہد کی مکھی کی فطرت میں موجود ہی نہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ فطرت کے واقعات سے ہمیشہ مثبت سبق (positive lesson) لے، منفی سبق (negative lesson) لینا فطرت کے نظام کے مطابق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
قرآن کی ایک آیت ہے:وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِینَ کَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْہَبْتُمْ طَیِّبَاتِکُمْ فِی حَیَاتِکُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہَا فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُونَ فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا کُنْتُمْ تَفْسُقُونَ (46:20)۔ یعنی اور جس دن انکار کرنے والے آگ کے سامنے لائے جائیں گے، (اُن سے کہا جائے گا کہ) تم اپنی اچھی چیزیں دنیا کی زندگی میں لے چکے اور ان کو برت چکے تو آج تم کو ذلت کی سزادی جائے گی، اس وجہ سے کہ تم دنیا میں ناحق تکبر کرتے تھے اور اس وجہ سے کہ تم نافرمانی کرتے تھے۔ اس آیت میں اذہاب طیب کا معنی کیا ہے،ایک مومن کو آرام دہ زندگی کا ملنا کتنا مطلوب ہے۔ وضاحت چاہیے۔ (مولانا سید اقبال احمد عمری، عمر آباد، تامل ناڈو)
جواب
قرآن کی اس آیت میں اذہابِ طیبات مطلق معنی میں نہیں ہے۔ اس لیے کہ مطلق معنی میںطیبات اس زمانے میں کسی کو نہیں ملتی تھیں۔ اُس زمانے میں جو چیز ملتی تھی، وہ کھجور اور اونٹ کا دودھ ہے ۔ یہ طیبات کے اسٹینڈرڈ کے مطابق، بہت معمولی چیزیں ہیں۔
اس آیت میں طیبات سے مراد طیبات فطری ہیں، نہ کہ مادی طیبات۔ یعنی طیبات سے مراد غالباً انسانی مصنوعات نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں، جو براہ راست اللہ رب العالمین کی طرف سے انسانوں کو پہنچ رہی ہیں۔ یعنی وہ تمام چیزیں جو فطری طور پر کسی خاص کسب کے بغیر انسانوں کو ملتی ہیں ۔ اس میں رزق کی تمام چیزیں شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تم کو جو مواقع دیےگئے تھے، وہ خداوند عالم کی شکر گزاری کے لیے تھے۔ لیکن تم نے ان طیبات کو اویل نہیں کیا، بلکہ اویل کرنے کا موقع گنوادیا۔ خداوند عالم کی شکر گزاری کا تعلق تمام فطری نعمتوں سے ہے۔ مثلاً پانی کا برسنا، ہوا کے ذریعے آکسیجن کی سپلائی۔ زمین سے غذائی اشیاء کا اگنا، وغیرہ وغیرہ۔
سوال
مسلمانوں کے درمیان مختلف مسائل پر جاری احتجاج کے پس منظر میں ایک صاحب نے لکھا ہے:"احتجاج کے لیے جو جرات درکار تھی، وہ خون میں شامل ہوچکی ہے۔ اب نقصان کی پرواہ مت کیجیے۔ مولانا وحید الدین خاں صاحب سمجھانا چاہیں، تو ٹال دیجیے۔" اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ (عادل خاں، بنگلورو، کرناٹک)
جواب
میرے نزدیک احتجاج کے جواز یا عدم جواز کا سوال نہیں ہے۔ مفید یا غیر مفید ہونے کا سوال ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کشمیر اور فلسطین میں یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ہوا، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، بلکہ برعکس طور پر ان کے نقصان میں اضافہ ہوا ہے۔ صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود کے الفاظ میں،وہ خوش قسمت ہے، جو دوسرے (کی کامیابی یا ناکامی)سے نصیحت حاصل کرے(السَّعِیدُ مَنْ وُعِظَ بِغَیْرِہِ)صحیح مسلم، حدیث نمبر 2645۔ احتجاج کے تعلق سے میری یہ رائے کسی عالم دین کی رائے پر مبنی نہیں ہے، بلکہ حدیث رسول پر مبنی ہے۔ وہ حدیث یہ ہے:مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ المَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2317) ۔ یعنی یہ کسی آدمی کے اچھے اسلام میں سے ہے کہ وہ بے فائدہ چیز کو ترک کرے۔
اس حدیث کی تشریح میں محمد بن عبد الہادی السندی لکھتے ہیں: مِنْ جُمْلَةِ مَحَاسِنِ إِسْلَامِ الشَّخْصِ وَکَمَالِ إِیمَانِہِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہِ مِنْ عَنَاہُ إِذَا قَصَدَہُ ... فَإِنَّ الشَّیْءَ الَّذِی لَا فَائِدَةَ فِیہِ غَیْرُ قَاصِدٍ لِلشَّخْصِ وَلَا مُتَوَجِّہٌ إِلَیْہِ وَلَا مُتَعَلِّقٌ بِہِ (حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجہ، جلد2، صفحہ474، حدیث نمبر 3976)۔ یعنی کسی شخص کے محاسن اسلام اور کمالِ ایمان میں سے ہے کہ وہ اس کو چھوڑ دے، جو اس کے لیے بے معنی ہو۔ (یعنیہ کا لفظ ) عناہ سے ماخوذہے، (اس کا مطلب ہے) قصدو ارادہ کرنا... (یعنی )جس چیز میں انسان کا فائدہ نہ ہو، وہ اس کا قصد نہیں کرتا ہے، نہ وہ اس کی طرف توجہ کرتا ہے، اور نہ وہ اس سےتعلق رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں