Pages

Wednesday, 1 January 2003

Al Risala | January 2003 (الرسالہ،جنوری)

2

- غم کو دعا میں ڈھالنا

3

- اہل جنت کے درجات

6

- پختگی کیا ہے

8

- حفاظت کیجئے

10

- رشی کیش کا سفر

39

- خبرنامہ اسلامی مرکز۱۵۶


غم کو دعا میں ڈھالنا

قرآن کی سورہ نمبر ۱۲ میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اُن کے سو تیلے بھائیوں کے غلط سلوک کی وجہ سے وہ وقت آیاجب کہ حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب بظاہر اپنے دو عزیز بیٹوں سے محروم ہوگئے۔ اس حادثہ کے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کی زبان سے یہ دعائیہ کلمہنکلا: انما أشکوا بثّی وحزنی الی اللہ (یوسف ۸۶) یعنی میںاپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوہ صرف اللہ سے کرتا ہوں۔
پیغمبر کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ایک اہم حقیقت کو بتاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ مومن جب کسی غم سے دوچار ہوتا ہے تو وہ عام انسان کی طرح آہ اور فریاد میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ اس کا ایمانی شعور اُس کے غم کو دعا میں ڈھال دیتا ہے۔ وہ اللہ کی طرف رجوع ہو کر اُس سے التجا کرنے لگتا ہے کہ وہ اُس کے کھونے کو یافت میں بدل دے، وہ اُس کی محرومی کی حسن تلافی فرمائے۔
کسی انسان کے ساتھ جب غم اورمحرومی کا تجربہ پیش آتا ہے تو اُس وقت اُس کے لیے رد عمل کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک ہے، انسانوں کی طرف دیکھنا،اور دوسرا ہے ،خدا کی طرف دیکھنا۔ جو لوگ حادثہ کے وقت انسان کی طرف دیکھیں وہ صرف یہ کرتے ہیں کہ انسان کے خلاف فریاد و فغاں میں مبتلا ہوجائیں۔ مگر جس شخص کا یہ حال ہو کہ وہ اس قسم کے تجربہ کے بعد خدا کو یاد کرنے لگے، وہ چھیننے والے کے بجائے دینے والے کو اپنا مرکزِ توجہ بنالے گا۔ اُس کا ذہن مایوسی کے بجائے اُمید کا آشیانہ بن جائے گا۔
دعا ایک طاقت ہے۔ نازک وقتوں میں دعا مومن کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ دعا اس اعتماد کا سرچشمہ ہے کہ اس دنیا میںکوئی کھونا آخری نہیں، بلکہ ہر کھونے میںاز سرِ نو پانے کا راز چھپا ہوا ہے۔
ہر آدمی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب کہ وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ ایسے لمحات میں خدا سے دعا کرنا آدمی کے دل کو سکون بخشتا ہے۔ دعا گویا کسی آدمی کے لئے کرائسس مینیجمنٹ (crisis management) کا بہترین ذریعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

اہل جنت کے درجات

قرآن میںجنت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ لوگو، دوڑو اپنے رب کی معافی کی طرف اور ایسی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کے برابر ہے۔ (الحدید ۲۱) دوسری جگہ اہل جنت کی زبان سے یہ خبر دی گئی ہے کہ—اوروہ کہیں گے کہ شکر ہے اُس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کواس زمین کا وارث بنادیا۔ ہم جنت میںجہاں چاہیں مقام کریں۔ پس کیا خوب بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا (الزمر ۷۴)
قرآن کے اس بیان سے اندازہ ہوتاہے کہ جنت ایک ایسی دنیا ہوگی جو تمام جنتیوں کے لیے کھلی ہوئی ہوگی۔ کوئی جنتی انسان اس وسیع دنیا میں جہاں چاہے گا اپنا مبوّأ (اقامت گاہ) بنا سکے گا۔ اقامت یا سکونت کے اعتبار سے ہرجنتی کو یکساں آزادی حاصل ہوگی۔
دوسری آیتوں اورحدیثوں سے یہ ثابت ہے کہ جنت میں فرق مراتب ہوگا۔ کچھ جنتی افراد دوسرے جنتیوں کے مقابلہ میںزیادہ اونچی جنت کے مالک ہوں گے۔ مثلاً قرآن کے مطابق، اُن میں سے کچھ سابق ہوں گے اور کچھ مقتصد (فاطر ۳۲) اب سوال یہ ہے کہ یہ فرق مراتب کس اعتبار سے ہوگا۔ غور کرنے سے یہ سمجھ میںآتا ہے کہ یہ فرق استمتاع (enjoyment) کے اعتبار سے ہوگا۔ جنت اپنے ظواہر کے اعتبار سے غالباً ہر ایک کے لیے یکساں ہوگی مگر جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہونے کا جو معاملہ ہے، وہ ہر ایک کے لیے یکساں نہ ہوگا۔ کسی کو جنت کی نعمتوں سے زیادہ حظّ ملے گا اورکسی کو نسبتاً کم۔
محظوظیت کا یہ فرق معرفت یا شعور کے فرق کی بنیاد پر ہوگا۔ دنیا کی زندگی میں جو شخص شعور یا معرفت کے جس درجہ پر پہنچا ہوگا اُسی درجہ کے برابر وہ جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہوسکے گا۔ گویا مکانی اعتبار سے جنت کے تمام افراد یکساں طورپر اقامت میں شریک ہوں گے، مگر جو شخص شعوری اعتبار سے ارتقاء کے جس درجہ پر ہوگا اُسی نسبت سے وہ جنت کی نعمتوں سے متمتع ہوسکے گا۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے ایک حدیث کا مطالعہ کیجئے۔ محدث البیہقی نے ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے: ان عبداللہ بن رواحۃ قال لصاحب لہ: تعال حتی نؤمن ساعۃً، قال: أو لسنا بمؤمنین؟ قال: بلیٰ ولکنا نذکر اللہ فنزداد ایماناً (حیاۃ الصحابۃ، الجزء الثالث، صفحہ ۱۳)۔ یعنی عبداللہ ابن رواحہ صحابی نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ آؤ، ہم ایک ساعت کے لیے ایمان لائیں۔ ساتھی نے کہا کہ کیا ہم مومن نہیں ہیں؟ ابن رواحہ نے کہا کہ ہاں، مگر جب ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ہم اپنے ایمان میںاضافہ کرتے ہیں۔
اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک انسان وہ ہے جو کلمۂ توحید کا اقرار کرنے کے بعد یہ سمجھے کہ وہ صاحب ایمان ہوگیا، جو ایمان اُس کو ملنا تھا وہ اُسے مل گیا۔ ایمان یا عقیدہ کے اعتبار سے اب اُسے کچھ اور پانا نہیں ہے۔ اس کے مقابلہ میںدوسرا انسان وہ ہے جو بار بار اللہ کو یاد کرے، وہ اللہ پر غور و فکر کرے۔ اور اس طرح وہ اپنی معرفت ایمانی کو بڑھاتا رہے۔ اُس کا ایمان مسلسل شعوری ترقی کرتا رہے۔
اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصحاب ایمان میں معرفت کے اعتبار سے درجات ہوتے ہیں۔ کوئی اعلیٰ معرفت کے درجہ پر ہوتا ہے اورکوئی اُس سے کم معرفت کے درجہ پر۔ معرفتِ حق کا یہ فرق جنت میں استمتاع کے اعتبار سے فرق پیدا کردے گا۔
ایک مومن وہ ہے جس نے قرآن میں الحمد للہ رب العٰلمین پڑھا تو اُس نے کسی شک اورتردد کے بغیر اس حقیقت کو مان لیا۔ اُس نے یقین (conviction) کے درجہ میں اُس کو قبول کرلیا۔ قرآن کا دوسرا قاری وہ ہے کہ جب اُس نے الحمد للہ رب العٰلمین پڑھا تو اس آیت میں تخلیق الٰہی کے ایسے گہرے معانی اُس کے ذہن میں تازہ ہوگئے کہ اُس کے اندر اہتزاز (thrill) کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ وہ حمد خداوندی کے جذبہ سے سرشار ہوگیا۔
اسی طرح ایک مومن وہ ہے جس کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو وہ اُس کو ایک سچائی مان کر اُس کو قبول کرلے۔ مثلاً چھینک آنے پرایک شخص اگر کہے کہ:الحمد للّٰہ، تو اُس کو سن کر اُس کی زبان پر یہ کلمہ آجائے کہ یرحمک اللہ۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا مومن وہ ہے جس کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو اپنی بڑھی ہوئی معرفت کی بنا پر اُس کا یہ حال ہوکہ اللہ کی عظمت کے احساس سے اُس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اللہ کی کبریائی کو سوچ کر اُس کا دل دہل اُٹھے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: انما المؤمنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبہم (الانفال ۲)۔
اسی طرح ایک مومن وہ ہے جس نے قرآن میںیہ آیت پڑھی: والذی ہو یُطعِمنی ویَسقین (الشعراء ۷۹)۔ اُس نے اس آیت کو اُس کے ظاہری مفہوم کے اعتبار سے لیا اور اُس کی زبان پر شکر کے الفاظ آگئے۔ دوسرا مومن وہ ہے جو اس آیت کو پڑھے تو اُس کے ذہن میںحقائق کاایک دفتر کھل جائے۔ وہ سوچے کہ زمین وآسمان کے اندر بے شمار سرگرمیاں ظہور میں آئیں۔ اُس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ وہ چیز بن کر تیار ہوجس کو ہم کھانا اور پانی کہتے ہیں اور جو زندگی کی بقا کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔ یہ سوچ کر اُس کے سینے میںکمالاتِ خداوندی کے اعتراف کا ایک سمندر موجزن ہوجائے۔ حتیٰ کہ یہ احساس اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی شکل میں بہہ پڑے۔
یہ دونوں ہی مومن حمد خدا وندی کے احساس کے حامل ہیں۔ مگر معرفت کے فرق کے اعتبار سے دونوں کے درمیان اتنا زیادہ فرق پیدا ہوگیا ہے کہ اُس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ جو لوگ سچے دل کے ساتھ ایمان لائیں، جن کی نیتیں درست ہوں۔ جو بقدر استطاعت اللہ کے احکام کی پابندی کریں وہ جنت میں جائیں گے۔ مگر یہ ایمان کا ابتدائی درجہ ہے۔ ایمان کا اعلیٰ درجہ وہ ہے جو معرفت کے سفر کے ساتھ ترقی کرتا رہتا ہے۔ جو ربّانی سمندر میں فکری غوطہ لگانے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس میںشک نہیں کہ دونوں قسم کے اصحابِ ایمان کے لیے جنت ہے۔ مگر جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہونے کے معاملہ میںایک مومن اوردوسرے مومن کے درمیان وہی فرق ہوجائے گا جو دنیا میںمعرفت حق کے اعتبار سے دونوں کے درمیان پایا جاتا تھا۔
واپس اوپر جائیں

پختگی کیا ہے

پختگی یہ ہے کہ آدمی اپنے غصہ پر قابو پالے اور اختلافات کو تشدد اور تخریب کے بغیر دور کرسکے۔ پختگی تحمل اور برداشت کا نام ہے اور اس صلاحیت کا کہ وقتی خوشی کو دیر طلب مقاصد کے لیے قربان کردیا جائے۔ پختگی اس استعداد کا نام ہے کہ کسی تلخی کے بغیر، ناخوش گوار اور مایوس کن حالات کا مقابلہ کیاجائے۔ پختگی انکساری کا نام ہے۔ ایک پختہ شخص یہ کہنے کا حوصلہ رکھتا ہے کہ ’’میں غلطی پر تھا‘‘۔ پختگی اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی ان چیزوں کے ساتھ پُر امن طورپر رہ سکے جن کو وہ بدل نہیں سکتا۔
Maturity is the ability to control anger, and settle differences without violence or destruction. Maturity is patience, the willingness to give up immediate pleasure in favour of the long-term gain. Maturity is the capacity to face unpleasantness and disappointment without becoming bitter. Maturity is humility. A mature person is able to say, “I was wrong”. Maturity is the ability to live in peace with things we can not change.
پختگی در اصل حقیقت واقعہ کے اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ وہ ساری صفتیں جن کو پختگی کہا جاتا ہے وہ سب حقیقت واقعہ کے اعتراف سے پیدا ہوتی ہیں۔ حقیقت واقعہ کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس بات کو جانے کہ کہاں اس کی حد ختم ہوتی ہے اور کہاں سے دوسری طاقتوں کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اُس کے لیے ممکن ہے۔ اور وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اس کے لیے ممکن نہیں۔حقیقتِ واقعہ کا اعتراف آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اقدام سے پہلے اُس کے انجام کو سوچے، وہ اپنے عمل کی نتیجہ خیز منصوبہ بندی کرے۔
حقیقت واقعہ کا اعتراف آدمی کے اندر یہ بصیرت پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرے۔ وہ یہ جانے کہ کیا چیز اُس کے لیے قابلِ حصول ہے اور کیا چیز اُس کے لیے قابل حصول نہیں۔ پختہ انسان ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور بالفرض اگر وہ کسی معاملہ میںکامیاب نہ ہو تو وہ اپنی ناکامی سے سبق لے کر اپنے آپ کو زیادہ صاحب بصیرت بنا لیتاہے، اور اسی کے ساتھ زیادہ طاقتوربھی۔ پختگی کسی انسان کی نہایت اعلیٰ صفت ہے۔
پختہ (mature) کی تعریف ڈکشنری میںاس طرح کی گئی ہے—ایک وجود جس کا نشو ونما پوری طرح ہوا ہو، وہ اپنی ترقی کے کمال تک پہنچا ہو:
A being full-grown, or fully developed.
ایک درخت کی پختگی یہ ہے کہ وہ ابتدائی درجہ سے شروع ہو کر پھول اور پھل کے آخری درجہ تک پہنچ جائے، وہ ہر اعتبار سے ایک مکمل درخت بن جائے۔ اسی طرح انسان کی پختگی یہ ہے کہ وہ اپنی عقلی صلاحیت کے اعتبار سے آخری درجۂ کمال تک پہنچ جائے۔
تاہم انسان کی پختگی کا تعلق صرف حیاتیات یا نفسیات سے نہیں ہے بلکہ اُس کا گہرا تعلق علم سے ہے۔ جو آدمی اپنے علم کو بڑھائے، جوتجربات سے سبق سیکھے، جو دنیا سے معرفت کا رزق لے کر اپنے ذہنی وجودکو مکمل کرے، وہ گویا پختگی کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچا۔
پختہ انسان صاحبِ بصیرت انسان ہوتا ہے۔ پختہ انسان اس حیثیت میں ہوتا ہے کہ وہ معاملات میں صحیح رائے قائم کرے۔ غیر پختہ انسان خوش فہمیوں میں جیتا ہے اور پختہ انسان حقائق میں۔ غیر پختہ انسان جذباتی فیصلہ کرتا ہے اور پختہ انسان جذبات سے اوپر اٹھ کر اپنی رائے بناتا ہے۔ غیر پختہ انسان کا اقدام جلد بازی کا اقدام ہوتا ہے اور پختہ انسان کا اقدام سوچا سمجھا ہوا اقدام۔ غیرپختہ انسان کا طریقہ لڑائی بھڑائی کا طریقہ ہوتا ہے اور پختہ انسان کا طریقہ صبر اور تحمل کا طریقہ۔ غیرپختہ انسان متشددانہ طریقِ کار میںیقین رکھتا ہے اور پختہ انسان پُر امن طریقِ کار میں۔
غیر پختہ انسان اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ وہ اپنی غلطی سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ اس کے برعکس پختہ انسان جب کوئی غلطی کرتا ہے تو فوراً ہی وہ کھلے دل سے اس کا اعتراف کرلیتا ہے۔ غلطی کا یہ اعتراف اُس کے لیے اس بات کی ضمانت بن جاتا ہے کہ وہ ہر تجربہ سے سبق سیکھے۔ وہ اپنی شخصیت کو بہتر سے بہتر بناتا رہے۔ اُس کا ذہنی ارتقاء کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل جاری رہے۔
واپس اوپر جائیں

حفاظت کیجئے

سفید کپڑے پر کوئی دھبہ لگ جائے تو آدمی فوراً اُس کو دھو کر صاف کرتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اگر فوراً اُس کو صاف نہ کیا تو بعد کو دھبہ نہیں مٹے گا اور اس کا کپڑا مستقل طورپر داغ دار ہوجائے گا۔
ایسا ہی کچھ معاملہ آدمی کے ذہن کا ہے۔ سماج میںرہتے ہوئے بار بار آدمی کے ذہن میں کوئی نہ کوئی بری بات آتی رہتی ہے۔ مثلاً انتقام کاجذبہ، حسد کا جذبہ، دشمنی کا جذبہ، شکایت کا جذبہ، نفرت کا جذبہ، وغیرہ۔ اس قسم کے جذبات اور احساسات بار بار ہر مرد اور ہر عورت کے ذہن میں صبح و شام آتے رہتے ہیں۔ وہ آدمی کو منفی احساسات میںمبتلا کرتے رہتے ہیں۔
ایسا ہر تجربہ گویا ایک قسم کا نفسیاتی دھبّہ ہے۔ وہ آدمی کے نفسیاتی وجود کو داغ دار کرنے کا ایک واقعہ ہے۔ ان نفسیاتی دھبوں کے لیے بھی آدمی کووہی کرنا ہے جو وہ مادی دھبوں کے لیے کرتا ہے۔ ہر عورت اور مرد کو چاہئے کہ جیسے ہی اس قسم کا کوئی دھبّہ اُس کے نفسیاتی وجود پر لگے تو فوراً وہ اس کو اپنے دل ودماغ سے نکال دے۔ وہ کوئی نہ کوئی توجیہہ کرکے فوراً اپنے آپ کو اس کے زیراثر آنے سے بچالے۔ جو مرد یا عورت ایسا نہ کرے اُس کو ایسا نہ کرنے کی یہ بھاری قیمت دینی پڑے گی کہ وہ نفسیاتی دھبّہ اُس کے وجود کا مستقل حصہ بن جائے گا۔ وہ اُس کی داخلی شخصیت کو ہمیشہ کے لیے داغ دار کر دے گا۔
جدید نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ کے دو بڑے حصے ہیں۔ ایک زندہ ذہن اور دوسرا خفتہ ذہن۔ فطری نظام کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی بات آدمی کے ذہن میںداخل ہوتی ہے تو پہلے دن وہ اُس کے زندہ ذہن میں رہتی ہے۔ اس کے بعد آدمی جب رات کو سوتا ہے تو نیند کی حالت میںانسانی دماغ کا فطری نظام اس بات کو زندہ ذہن سے نکال کر خفتہ ذہن میں پہنچا دیتا ہے۔ اور جب ایسا ہوجائے تو پھر وہ بات آدمی کے پورے وجود کا حصہ بن جاتی ہے۔ اُس کو ذہن سے نکالنا بے حد مشکل ہوجاتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عام طورپر عورت اور مرد دوسروں کے بارے میں شکایتوں اور تلخیوں میں جیتے ہیں۔ ہر ایک کسی نہ کسی کے خلاف منفی نفسیات کا شکار رہتا ہے۔ مگر عین اسی وقت وہی مرد اور عورت اپنے بیٹا اوراپنی بیٹی کے لیے ہمیشہ مثبت احساسات کا نمونہ بنے رہتے ہیں۔ حالاں کہ ہر مردو عورت کو اپنے اولاد سے بھی اسی طرح شکایات کے تجربے ہوتے ہیں جس طرح دوسروں سے ہوتے ہیں۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ شکایتوں کے باوجود لوگ اپنی اولاد کے معاملہ میں ہمیشہ معتدل بنے رہتے ہیں۔ جب کہ یہی لوگ دوسروں کے بارہ میں معمولی شکایتوں کو لے کر اُس کے خلاف ہمیشہ کے لیے نفرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
اس فرق کا سبب یہ ہے کہ لوگ ان دونوں کے معاملہ میں دو الگ الگ انداز اختیارکرتے ہیں۔ اُن کو جب اپنی اولاد کی طرف سے شکایت کا تجربہ ہوتا ہے تو اُسی وقت وہ کوئی نہ کوئی توجیہہ کرکے اُس کو ختم کردیتے ہیں۔ اپنی اولاد کے خلاف شکایت کو وہ اپنے ذہن سے فوراً نکال دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جب اُن کو دوسروں سے کوئی شکایت پیش آجائے تو وہ اُس کو اپنے ذہن میں بٹھا لیتے ہیں۔ وہ اُس کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ وہ لوگوں سے اس کا چرچا کرتے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی بہانے ہر روز اُس کو اپنے ذہن میں تازہ کرتے رہتے ہیں۔
اسی فرق کی بنا پر ایسا ہے کہ اپنی اولاد کے خلاف شکایتیں اُن کے وجود کا حصہ نہیں بنتیں، وہ پیدا ہوتے ہی فوراً ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کے برعکس دوسروں کے خلاف شکایتیں ہمیشہ کے لیے ان کے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں، وہ کسی طرح ختم نہیںہوتیں۔
یہ ذاتی تجربہ ہر آدمی کو بتاتا ہے کہ اُس کو دوسروں کے معاملہ میں کیساہونا چاہئے۔ اُس کو ویسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے معاملہ میں ہے—جب بھی کسی کے خلاف کوئی منفی احساس پیدا ہو تو وہ فوراً ہی اس کو اپنے ذہن سے نکال دے۔ کسی بھی حال میںوہ اُس کو اپنے ذہن کا مستقل حصہ نہ بننے دے۔
واپس اوپر جائیں

رشی کیش کا سفر

رشی کیش میںپرمارتھ نکیتن کے نام سے ایک انٹرنیشنل ہندو سنٹر ہے۔ اس کی شاخیں بہت سے ملکوں میںقائم ہیں۔ ۲۔۳جون ۲۰۰۲ کو اس سنٹر کے تحت ایک بڑا پروگرام ہوا جس میںملک کے اندراور ملک کے باہر کے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر رشی کیش کا سفر ہوا۔ یکم جون ۲۰۰۲ کو روانگی ہوئی اور ۴ جون کو دوبارہ دہلی واپس آیا۔
یکم جون ۲۰۰۲ کی صبح کو ۶ بجے ہمارا قافلہ دہلی سے روانہ ہوا۔ جب ہماری گاڑی دہلی کی سڑکوں پر چلتے ہوئے یوپی میںداخل ہوئی تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ بظاہر آپ ایک مادی سفر کررہے ہیںلیکن اگر آپ سوچیں تو آپ کا یہ سفر ایک روحانی سفر بن جائے گا۔ میںنے کہا کہ یہ کار کیا ہے۔ کار جامد مادہ (dead matter) کا متحرک مادہ (moving matter) کی صورت اختیار کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ ایک تبدیلی (conversion) کا معاملہ ہے۔ یہ کنورژن ہماری دنیا کا ایک عالمی اصول ہے۔ ایک کنورژن وہ ہے جو فطری طورپر ہوتا ہے۔ مثلاً ناقابل خوراک (non-edible) چیز کا بدل کر قابل خوراک (edible) چیز کی صورت اختیار کرنا۔ دوسرا کنورژن وہ ہے جس کو انسان قانون فطرت کے استعمال کے ذریعہ کرتا ہے۔ کار اور ہوائی جہاز اور موبائل ٹیلی فون جیسی چیزیں، اسی دوسری قسم کے کنورژن کی مثالیں ہیں۔
سفر کے دوران ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ رشی کیش اس وقت ہندو روحانیت کا عالمی سنٹر بن گیا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بتایا کہ کناڈا کا ایک سیاح رشی کیش گیا۔ واپسی کے بعد اس نے اپنے مشاہدات پر مبنی ایک رپورٹ تیارکر کے شائع کی جس کا عنوان یہ تھا:
A week spent in the flakes of Shankara.
اس رپورٹ میںسیاح نے لکھا تھا کہ رشی کیش اس وقت ہندو سوامیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بیشتر سوامی کسی نہ کسی طور پر رشی کیش سے وابستہ ہیں۔ ان کے شاگرد نہ صرف ہندستان میںبلکہ بیرونی ملکوں میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے سوامیوں کے پاس ہر وقت موبائل ٹیلی فون موجود رہتا ہے۔ اکثر کے پاس انٹرنیشنل رومنگ ہوتا ہے۔ دور دور کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ان کے شاگرد اپنے مسائل کے لئے اُن سے رجوع کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً بیماری، تجارتی گھاٹا، حادثہ وغیرہ۔ سوامی لوگ موبائل اپنے کان میں لگائے ہوئے اپنے شاگردوں کو ان کے سوالات کاجواب دیتے رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اس نے لکھا تھا کہ ٹکنالوجی آج روحانیت کی ایک شدید ضرورت ہے:
Technology is most wanted by spirituality.
ہماری گاڑی چلتے ہوئے ایک ریستوران میں داخل ہوئی۔ یہ ایک وسیع اور خوبصورت ریستوران تھا۔ اس کے وسیع احاطہ میں کثرت سے گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں۔ کھتولی کے قریب واقع اس ریستوران کا نام چیتل گرانڈ (Cheetal Grand) ہے۔ اس ریستوران کا مالک ایک مسلمان ہے۔ مجھے اس ریستوران کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا۔ چنانچہ میںنے لوگوں کو بتایا کہ اس مسلمان کے اندر دوسروں کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔ وہ اس علاقہ میںگویا ایک ٹرنڈ سٹر (trend setter) بن گیا ہے۔
دہلی سے نینی تال جانے والی سڑک پر بیس سال پہلے مسافروں کے لیے بہت معمولی قسم کے ہوٹل ہوتے تھے جس کو ڈھابہ کہا جاتا تھا۔ چیتل گرانڈ کے مالک نے پہلی بار مغربی انداز پر یہاں مسافروں کی سہولت کے لیے وہ چیز بنائی جو مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں پہلے سے قائم تھی۔ بیس سال پہلے اس قسم کا جدید ریستوران صرف یہی ایک تھا۔ لوگ دہلی سے یہ سوچ کر چلتے تھے کہ راستہ میں اُنہیں چیتل گرانڈ میں ٹھہرنا ہے اور وہاں کھانا پینا ہے اور ضروریات سے فارغ ہونا ہے۔ اس کا اثر دوسروں پر پڑا ۔ ہر ایک نے اپنے ڈھابا کو ماڈرنائز کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ راستہ میں میں نے کئی جگہ اسی انداز کے دوسرے ریستوران دیکھے۔ اگرچہ اپنی کوالٹی کے اعتبار سے چیتل گرانڈ اب بھی اس راستہ میں غالباً نمبر ایک ہے۔
ہماری گاڑی اندر پال چلارہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں چالیس سال سے گاڑی چلا رہا ہوں۔ میںنے پوچھا کہ آپ کی گاڑی کا کبھی اکسیڈنٹ ہوا یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میںنے پوچھا کہ اس کا راز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں رفتار کی حد (speed limit) کے اندر اپنی گاڑی چلاتا ہوں۔ کسی کا دباؤ ہو تب بھی میںاپنی گاڑی کو تیز نہیں چلاتا۔ مثلاً کوئی پیچھے سے ہارن دے رہا ہو یا بیٹھی ہوئی سواری تیز دوڑانے کو کہے تب بھی میں حد کے اندر رہ کر اپنی گاڑی کو چلاتا ہوں۔ میں نے سوچا کہ یہی قومی پالیسی کا معاملہ بھی ہے۔ ہمیں اپنی قومی پالیسی خود اپنے مثبت فیصلہ کے تحت چلانا چاہئے، نہ کہ دوسروں کے ردّ عمل کے طورپر۔ مثلاً فریقِ ثانی اگر مشتعل کرے تب بھی ہمیں مشتعل ہوئے بغیر اپنا عمل جاری رکھنا چاہئے۔
اس گفتگو کے دوران ہمارے ایک ساتھی خالد انصاری نے ایک انگریزی مقولہ سنایا —تیز رفتاری بہت اچھی لگتی ہے مگر وہ ہلاک کرتی ہے:
Speed thrills but kills.
راستہ میں کئی جگہ گاڑیاں الٹی ہوئی پڑی تھیں۔ اس قسم کے حادثے ان سڑکوں پر اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ ان حادثات کے اسباب زیادہ تر دو ہوتے ہیں—شراب پی کر گاڑی چلانا یا غیر ذمہ دارانہ طورپر گاڑی دوڑانا۔
اس موقع پر ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ ان کے گھر کی ایک خاتون ڈرائیونگ لائسنس لینا چاہتی تھیں۔وہ دہلی میں ٹسٹ دینے کے لیے گئیں۔ ان کے بیچ میں۱۰ آدمی تھے۔ ٹسٹ کے بعد ۸ آدمیوں کو ڈرائیونگ لائسنس دے دیا گیا۔خاتون نے کہا کہ میںنے ان لوگوں سے اچھا چلایا تھا پھر تم نے مجھ کو لائسنس کیوں نہیں دیا۔ جواب دینے والے نے جواب دیا کہ ہماراآج کا کوٹہ ۸ لائسنس کا تھا وہ پورا ہوگیا۔ آپ کل آئیں تو ہم پہلے نمبر پر آپ کو لائسنس دے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا میں، خاص طورپر دہلی میں، اتنے زیاد ہ اکسیڈنٹ ہونے کا سبب یہ ہے کہ لوگوں کو ’’کوٹہ سسٹم‘‘ کی بنیاد پر لائسنس دئے جاتے ہیں، نہ کہ واقعی معنوں میں ٹریننگ کی بنیاد پر۔
اس طرح کی باتوں میں راستہ طے ہوتا رہا، یہاں تک کہ چھ گھنٹہ کا سفر کرنے کے بعد ہم لوگ دو پہر کے وقت پرمارتھ نکیتن پہنچے۔ یہاں کے آشرم میں تقریباً ایک ہزار کمرے ہیں۔ مجھے یہاں کمرہ نمبر ۲۱۵ میں ٹھہرایا گیا۔
سب سے پہلے میںنے غسل کیا ۔ اس کے بعد ہم لوگوں کو دوپہر کا کھانا کھلایا گیا۔ کھانا بالکل سادہ تھا، اسی کے ساتھ وہ صحت بخش اور زود ہضم تھا۔ قدیم تصور کے مطابق، کھانا صرف دو مقصد کے لیے ہوتا تھا—لذت اور شکم سیری۔ مگر موجودہ سائنسی زمانہ میں دو اور تصور زیادہ اہم سمجھے جانے لگے ہیں۔ اوروہ ہیں متوازن خوراک (balanced diet)اور غذائی اجزاء (nutritive value) کا حامل ہونا۔
رشی کیش ہندو دھرم کے بڑے مرکزوں میں سے ایک مرکز ہے۔ یہاں کاموجودہ پروگرام ایک ایسا پروگرام تھا جس میں ہندو دھرم کے بڑے بڑے نمائندے شریک ہورہے تھے۔ یہاں ہندو مذہب کا ایک مکمل مظاہرہ متوقع تھا۔ اس لیے میں بعض دوسرے پروگراموں کو کینسل کرکے رشی کیش آیا تا کہ ہندو مذہب کو قریب سے دیکھ سکوں اور اس کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کروں۔
یکم جون کی شام کو مغرب کے بعد افتتاحی پروگرام تھا۔ میںجس آشرم میں ٹھہرا تھا وہ گنگا کے عین کنارے تھا۔ یہاں گنگا کے اندر کشتیوں کی مدد سے بہت بڑا پلیٹ فارم بنایا گیا تھا۔ چاروں طرف دور دور تک روشنیاںجگمگاتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ ممتاز ہندو رہنما گنگا کے کنارے مخصوص نشستوں پر بیٹھے ہوئے ـتھے۔ فضا میں لاؤڈاسپیکر پر گائے جانے والے بھجن کی آواز گونج رہی تھی۔ اس بھجن کا ایک حصہ جو بار بار دہرایا جارہا تھا وہ یہ تھا۔ میّا گنگا تم ہی داتا۔
ایک طرف یہ الفاظ فضا میں گونج رہے تھے اور دوسری طرف میں یہ دیکھ رہا تھا کہ گنگا ہمالیہ پہاڑ سے اتر کر تیزی کے ساتھ میدانی علاقے کی طرف بہہ رہی تھی۔ چوں کہ یہاں گنگا ڈھلوان پر ہوتی ہے اس لیے یہاں اس کا بہاؤ بہت تیز ہوتا ہے۔ اس کا مسلسل بہتا ہوا پانی اپنی پر شور آواز کے ساتھ گویا یہ کہہ رہاتھا کہ وہ کسی کی طرف سے مسخر کیا ہوا ہے۔ وہ ایک برتر طاقت کے حکم کے تحت ہے۔ ایک طرف ہزاروں لوگ گنگاکی پوجا کے لیے ہاتھ جوڑے اس کے سامنے کھڑے ہوئے تھے اور دوسری طرف خود گنگا اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنی پر شور موجوں کے ذریعہ یہ اعلان کررہی تھی کہ میں ایک عاجز مخلوق ہوں۔ معبود کوئی دوسرا ہے، نہ کہ میں۔ میں نے غور سے دیکھا تو یہاں گنگا کاپانی ویسا صاف و شفاف نہ تھا جیسا کہ وہ ہمالیہ کی چوٹی پر ہوتا ہے۔ بلکہ وہ ایک گدلے پانی کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ چند مہینہ پہلے میںسوئزرلینڈ گیا تھا۔ سوئزرلینڈ کو جھیلوں کا ملک سمجھا جاتا ہے۔ میںنے دیکھا کہ وہاں کی جھیلوںکا پانی صاف و شفاف اپنی اصلی حالت میں تھا۔ یہ ایک بڑا عجیب منظر تھا۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ سوئزرلینڈ کے لوگ اپنی جھیلوں کی صفائی کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے برعکس گنگا کاحال یہ ہے کہ ہر قسم کی گندگی اس میں بہا دی جاتی ہے۔
ایک ہندو نے گفتگو کے دوران کہا کہ گنگا کے بارے میں ہندو عقیدہ یہ ہے کہ اس میں نہانے سے ہر قسم کے پاپ دھل جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی شخص جرم کرکے آئے اور گنگا میں ڈبکی لگالے تو وہ اپنے جرم سے پاک صاف ہوجائے گا۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ یہاں اشنان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نہیں۔ انہوںنے کہا کہ گنگا کے ساحل پر آباد شہروں اور بستیوں کی گندگی مسلسل بہہ کر گنگا کے پانی میںشامل ہوتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے گنگا کے پانی کی کثافت (pollution) اتنا بڑھ گئی ہے کہ اب بہت سے ہندو اس میں نہانا پسند نہیں کرتے۔ کیوں کہ گنگا کا پانی اب آلودگی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، نہ کہ پاک کرنے کا ذریعہ۔
میں نے سوچا کہ پانی کا جو ذخیرہ اپنی صفائی کے لئے خود ہی دوسرے انسانوں کا محتاج ہو پھر وہ کسی انسان کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ سوئزرلینڈ اور ہندستان کا یہ فرق گویا ایک مشاہداتی ثبوت ہے کہ پانی ایک مجبور مخلوق ہے، وہ کوئی با اختیار ہستی نہیں۔
یکم جنوری کی شام کو گنگا پوجا کے مناظر دیکھنے کے بعد گنگا کے کنارے ہم لوگ ایک سجے ہوئے مقام پر لے جائے گئے۔ اس کو روشنیوں اور رنگین کپڑوں سے مزین کیاگیا تھا۔یہاں کھانے کا انتظام میز کرسی پر تھا۔ کھانے کے دوران کچھ تعلیم یافتہ ہندو میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔ ایک صاحب جو انگریزی اخبار کے کالمنِسٹ ہیں،انہوں نے کہا کہ میں سچائی اور روحانیت(spirituality) میں یقین رکھتا ہوں۔ میںنے ہر مذہب کا مطالعہ کیا ہے۔ اسلام کے بارے میں آپ کی کچھ کتابیں پڑھی ہیں۔
میںنے پوچھا کہ آپ سچائی کی تعریف کس طرح کرتے ہیں اور یہ کہ اس کی کیا پہچان ہے کہ کسی کو سچائی مل گئی۔ وہ غیر مربوط انداز میں دیر تک بولتے رہے مگر کوئی واضح بات نہ بتا سکے۔ میںنے کہا کہ آپ متعین اور محدد(specific) الفاظ میں میرے سوال کا جواب دیں۔ مگر کافی دیر تک سننے کے باوجود میںان کی تقریر سے اپنے سوال کا واضح جواب نہ پاسکا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ سچائی ایک ذاتی تجربہ (experience) کی بات ہے، اس کو لفظوں میںبیان نہیں کیا جاسکتا۔
پنجاب سے آئی ہوئی ایک خاتون پروفیسر بھی کھانے کی میز پر موجود تھیں۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ گنگا میا میری ہر ضرورت کو پوری کر دیتی ہیں۔ جب بھی میںان کو پکارتی ہوں میں ان کو موجود پاتی ہوں۔ میںنے ان سے کہا کہ اس سلسلہ میں آپ اپنا کوئی عملی تجربہ بتائیں۔ انہوں نے کہا، ایسے بہت تجربات ہیں۔ کافی اصرار کے بعد انہوں نے ایک تجربہ بتایا۔
انہوں نے کہا کہ رشی کیش کے اس پروگرام میںمیںآنا چاہتی تھی۔ میںاس کے لئے بہت زیادہ خواہش مند تھی۔ میں نے اپنے شوہر سے اپنی اس خواہش کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اس لئے کہ میں جانتی تھی کہ وہ انویٹیشن (دعوت نامہ) کے بغیر کہیں نہیں جاتے۔
میرے مَن میں یہ تھا کہ گنگا میا انویٹیشن بھیج دیں تومیرا کام بن جائے۔ اگلے دن صبح کی ڈاک سے مجھے انویٹیشن مل گیا، اس طرح میں یہاں پہنچ گئی۔
میںنے کہا کہ اب آپ میری مثال لیجئے ۔ مجھے یہاں کے پروگرام کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا اور نہ میں نے اس میں شرکت کی خواہش کی تھی۔ مگر اپنے آپ مجھے اس کا انویٹیشن مل گیا۔ اب یہ بتائیے کہ اگر آپ کا انویٹیشن گنگا میا نے بھیجا تو میرا انویٹیشن کس نے بھجوایا۔ میرے اس سوال کا وہ کوئی جواب نہ دے سکیں۔
ایک اور تعلیم یافتہ ہندو نے گفتگو کے دوران کہا کہ میں اس طرح کے مندروں اور مذہبی مقامات پر بہت زیادہ گیا ہوں۔ اب میںان لوگوں سے کہتا ہوں کہ بھگوان کے مندر بہت بن چکے اب انسان کا مندر بناؤ۔ مندر کے نام پر جھگڑے بھی بہت ہورہے ہیں۔ انسان کے مندر میں کوئی جھگڑا نہ ہوگا۔ انسان کے مندر سے ان کی مراد یہ تھی کہ ایجوکیشن اور اسپتال جیسے سوشل کام بڑے پیمانہ پر کئے جائیں۔
اس طرح کی گفتگوؤں سے میںنے سمجھا کہ برادران وطن کی بہت بڑی تعداد ہے جو ہندوازم کے موجودہ روایتی ڈھانچہ سے غیر مطمئن ہے۔ اس کی فطرت اس کے سوا کچھ اور چاہتی ہے۔ مگر اس ’’کچھ اور‘‘ کا کوئی واضح نقشہ اس کے سامنے نہیں۔
رشی کیش کے آشرم میں ہر طرف مختلف ہندو بت نصب کیے ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر پر ہر وقت ہندو روایات کے مطابق، سنسکرت کے منتر یا بھجن سنائی دیتے رہتے تھے۔ یہاں ایک ضخیم انسائیکلوپیڈیا آف ہندو ازم بھی تیار کی جارہی ہے۔ اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں ۱۲ ہندستانی اور۱۲ بیرونی ہندو پروفیسر شامل ہیں۔ ڈاکٹر شیشا گری راؤ اس کے ہیڈ ہیں۔ میں نے اس انسائیکلو پیڈیا کے کچھ حصوں کو دیکھا۔ مجھے یہ انسائیکلو پیڈیا بظاہر انسائیکلوپیڈیا آف ہندو ازم کے بجائے انسائیکلوپیڈیا آف ہندو مائتھا لوجی نظر آئی۔ مثلاً اس میںبتایا گیا ہے کہ گنگا ایک دیوتا کی جٹا سے نکلی ۔ اس قسم کی افسانوی باتوں سے یہ انسائیکلو پیڈیا بھری ہوئی ہے۔ ’’انسائیکلو پیڈیا‘‘ کا لفظ علمی اور تاریخی معلومات کے لئے ہوتا ہے، نہ کہ افسانوی معلومات کے لیے۔ مگر موجودہ زمانہ میں ہر مذہب میںمختلف پہلوؤں سے اس قسم کا غیر علمی انداز عام ہورہا ہے۔ ایسا انداز عقیدت مندوں کو خوش کرسکتا ہے مگر وہ جدید ذہن کو مطمئن کرنے والا نہیں۔
یہاں کثرت سے اس قسم کے تجربات اور مشاہدات ہوئے۔ میںنے سوچا کہ برادران وطن سیکڑوں سال سے توہماتی عقائد اور روایات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مگر مسلمان ان کی ہدایت کے لئے نہیں تڑپے۔ ان کی خیر خواہی نے انہیں بے چین نہیںکیا۔ خود ہندوؤں میں ایسے لوگ اٹھے جنہوں نے محدود طورپر اصلاح کی کوششیں کیں۔ مثلاً کبیر نے اس سلسلہ میں بہت سی باتیں کہیں۔ ان کا ایک شعر یہ ہے:
ماتھے تِلک ہاتھ مَلبانا
لوگن رام کھلونا جانا
آریہ سماج کی تحریک بھی اسی نوعیت کی ایک ادھوری تحریک تھی۔ گرونانک کی تحریک اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے غیر خداؤں کی پرستش کے بجائے ایک خدا کی پرستش کاپیغام تھا۔ اقبال نے گرونانک کے بارے میں یہ شعر کہاتھا:
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
مسلمانوں کے پاس محفوظ آسمانی کتاب کی صورت میں کامل سچائی موجود تھی مگر مسلمان برادران وطن کی اصلاح کے لئے کچھ نہ کرسکے۔ رشی کیش میں گفتگو کے دوران بہت سے ہندوؤں نے مجھ سے اسلام کے مطالعہ کی خواہش ظاہر کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی حقیقی اصلاحی کوشش کے لئے گہری خیرخواہی درکار ہوتی ہے۔ وہ خیر خواہی جو شکایتوں کے باوجود نہ ٹوٹے، بیٹے کے ساتھ ماں کی محبت کی طرح جو ہر حال میں قائم رہے۔ بد قسمتی سے مسلمانوں کے اندر برادران وطن کے لئے اس قسم کی خیرخواہی موجود نہ تھی۔ مسلم سلطنت کے دور میںوہ ہندوؤں کو کمتر سمجھتے رہے اور ۱۹۴۷ کے بعد وہ ہندوؤں سے اپنے سینہ میں نفرت اور شکایت لئے ہوئے ہیں۔ اور جو لوگ اس طرح کی نفسیات میںمبتلا ہوں وہ کبھی اصلاح و دعوت کاکوئی گہرا کام نہیں کرسکتے۔
۱۹۴۷ سے پہلے کے دور میں مسلم صوفیوں نے ضرور کچھ مفید کام کئے مگر جہاں تک مسلم علماء کا تعلق ہے، وہ اس سلسلہ میںکوئی قابل قدر خدمت انجام نہ دے سکے۔ کچھ لوگوں نے ہندستان کو دارالحرب بتا کر مسلمانوں کے اندر منفی نفسیات پیدا کیں۔کچھ لوگوں نے ہندوؤں کے ’’مسلم ملچھ‘‘ کے تصور کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’ہندو کافر‘‘کا نظریہ پھیلایا۔ کچھ لوگوں نے بت شکنی کے نام پر ایسے کام کئے جو اپنے نتیجہ کے اعتبار سے صرف دل شکنی کے ہم معنٰی تھے۔
حال میںپاکستان نے اس فرقہ وارانہ تناؤ کو آخری حد تک پہنچا دیا ہے۔ اس نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ہندو نفرت کا عالمی کارخانہ کھول دیا۔ اُس نے ہندستان کے خلاف اپنی قومی جنگ کو اسلامی جہاد کا نام دیا۔ اسی معاملہ کی ایک مثال یہ ہے کہ اس نے ہندستان سے امکانی جنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ میزائل بنائے تو ان کے نام غوری میزائل، غزنوی میزائل اور ابدالی میزائل رکھ دئے۔ یہ نام بلاشبہہ سخت اشتعال انگیز ہیں ۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ساری مسلم دنیا میںکوئی بھی عالم یا غیر عالم نہیں جو پاکستانی رہنماؤں سے یہ کہے کہ تم اپنی قومی لڑائی کو انتہائی ناعاقبت اندیشانہ طورپر یہ مجرمانہ رنگ دے رہے ہو کہ ہندوؤں کی مسلم نفرت یا اسلام نفرت اس حد تک بڑھ جائے کہ وہ معتدل ذہن کے ساتھ اسلام کے پیغام کو سننے کے قابل ہی نہ رہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میرے بچپن کے زمانہ میں کچھ علماء نے ’’تبلیغ‘‘ کے نام پر مناظرہ بازی کی مہم شروع کر رکھی تھی۔حالانکہ اس قسم کی مہم کو تبلیغ کے بجائے اینٹی تبلیغ کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔
مثلاً ایک مناظر عالم کو جوش آیا۔ انہوں نے ایک کتاب تیار کی جس کانام انہوں نے ’’کفر توڑ‘‘ رکھا ۔ اس کے جواب میںایک ہندو مناظر نے کتاب شائع کی جس کا نام تھا ’’کفر توڑ کا بھانڈا پھوڑ‘‘۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ اردو زبان عمومی طورپر ہندواور مسلمان دونوں کی مشترک زبان تھی۔ گویا داعی اور مدعو کے درمیان وہ لسانی بعد (language gap) موجود نہ تھا جو آج پایا جاتا ہے۔ مگر اس سنہری زمانہ کو خیر خواہانہ دعوت کے بجائے مناظرہ بازی کے لیے استعمال کیا گیا جو صرف یہ کرسکتا تھا کہ برادران وطن کو متنفر کرکے انہیں اسلام سے کچھ اور دور کردے۔ اس قسم کی کوششوں نے یہی کارنامہ انجام دیا۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا: ’’اسلام ہندو ازم کی ایک شاخ ہے۔ ہندو ازم اصل ہے اور اسلام اور دوسرے مذاہب اس کی برانچ‘‘۔ میںنے کہا کہ اس معاملہ میںاصل سوال یہ نہیں ہے کہ کون اصل ہے اور کون برانچ۔ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ مختلف مذاہب میں کو ن سا مذہب زیادہ مستند اور قابل اعتماد ہے۔
۲ جون کی صبح کو ناشتہ پر مسٹر پرکاش ہندوجا اوران کے ساتھی سے ملاقات ہوئی۔ ہندوجا برادرس کا کاروبار اتنا بڑا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ۵۰ برلا اکٹھا کئے جائیں تو ایک ہندوجا بنتا ہے۔ ان سے تقریباً ایک گھنٹہ گفتگو ہوئی۔ مگر عجیب بات ہے کہ میرے کسی بھی سوال کا منطقی جواب ان کے پاس نہ تھا۔ وہ ہر سوال کے جواب میںایک غیر متعلق بات کہہ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ گفتگو کسی نتیجہ پر نہ پہنچی۔ مثلاً میں نے کہا کہ آپ اسلام کو سمجھنے کے لیے خود اسلام کو دیکھئے، نہ کہ موجودہ مسلمانوں کو۔ مگر یہ فرق ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔
میںنے اپنے تجربہ میںاکثر یہ پایا ہے کہ جو لوگ کسی مادی شعبہ میں بہت زیادہ کامیاب ہوتے ہیں وہ اپنے مخصوص شعبہ کے علاوہ دوسرے معاملات میں تفکیری انداز سے سوچ نہیں پاتے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ اپنی ساری فکر ی صلاحیت کو صرف ایک پسندیدہ رخ پر مرتکز کردیتے ہیں۔ اس لئے ایک مخصوص شعبہ میںتو ان کی معلومات بہت زیادہ ہوتی ہیں مگر دوسرے شعبہ میںان کی واقفیت بقدر ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
یہاں انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس کا شمارہ ۲ جون ۲۰۰۲ دیکھا۔ اس میں ایک سبق آموز رپورٹ تھی۔ یہ رپورٹ اخبار کے ہفتہ وار کالم انٹرویو آف دی ویک (Interview of the Week) کے تحت چھپی تھی۔ مسٹر یشونت راج نے مشہور لیڈر نٹور سنگھ سے انٹرویو کرکے یہ رپورٹ تیار کی۔
اخباروں میں یہ خبر آچکی ہے کہ مسٹر نٹور سنگھ کے یہاں دو زبردست خاندانی حادثے ہوئے۔ ان کی بہو نتاشا نے مارچ ۲۰۰۲ میںاور ان کی بیٹی ریتو نے اپریل ۲۰۰۲ میںخود کشی کر لی۔ یہ مسٹر نٹور سنگھ کے لیے بڑا سخت حادثہ تھا۔ اس کے بعد کانگریس کی صدر مسز سونیا گاندھی ان کے یہاں تعزیت کے لئے گئیں۔ مسز سونیا گاندھی جب وہاں پہنچیں تو اس وقت مسٹر نٹور سنگھ اپنے گھر کے کمرۂ مطالعہ (study) میں تھے۔ یہاں کتابوں سے بھری ہوئی الماریاں ہر طرف دکھائی دیتی تھیں۔
غمزدہ نٹور سنگھ نے رپورٹر سے کہا کہ سونیا گاندھی جب یہاں آئیں تو میںاپنی اسٹڈی میںتھا جہاںتقریباً دس ہزار کتابیں موجودہیں۔ میں نے سونیا سے کہا کہ یہاں ساری دنیا کی حکمت و دانش موجودہے، مختلف ادوار کی حکمت و دانش کا خلاصہ۔ مگر یہاں ایک بھی کتاب ایسی موجود نہیں جس کوپڑھ کر میںتسکین حاصل کرسکوں:
Within an hour of my daughter taking her life, Sonia came to see us. We were in our study upstairs—where I have close to 10,000 books. I told her, here you have the wisdom of the world, wisdom of the ages in concentrated form, but there is not a book I could pick up to console myself. (p. 14)
اسی اخبار میں صفحہ ۱۰ پر ایک اور سبق آموز رپورٹ تھی جس کا عنوان تھا—نصیحت نہ کرو بلکہ تعلیم دو:
Don't preach, just teach.
۲ جون کی صبح کو ۱۰ بجے یہاں کے وسیع ہال میںایک جلسہ تھا۔ اس میں گانے بجانے کے پروگرام کے علاوہ ایک خصوصی پروگرام تھا۔ وہ بھگوت کتھا (کرشن کتھا) کا پروگرام تھا۔ اس پروگرام کو شری کانت ویاس نے کیا۔ وہ بھگوت کتھا کے اکسپرٹ مانے جاتے ہیں۔
اس پروگرام میںمجھے اسٹیج پر بٹھایا گیا تھا۔ہال کے اندر بڑی تعداد میں مرد اور عورتیں موجودتھیں۔ ہر ایک خوشی سے سرشار دکھائی دیتا تھا۔ مگر میرا حال یہ تھا کہ میں شدید غم کی وجہ سے مسلسل رو رہا تھا۔ میں دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر رہا تھا کہ خدایا، یہ لوگ میرے وطنی بھائی ہیں۔ تو ان کے لئے ہدایت کے دروازے کھول دے، تو ان کو جنت کا مسافر بنا دے۔
ایک بات کو سوچ کر میرا دل ہمیشہ تڑپ اٹھتا ہے۔ ہندستان کے مسلم علماء اور مسلم دانشور عام طورپر یہ شکایت کرتے ہیں کہ یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم اور تعصب کا معاملہ کیا جاتا ہے۔ مگر میرے نزدیک اس ملک میں ہمارے لئے جوسب سے بڑی مصیبت پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان نفرت اورتناؤ کاماحول قائم ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ناممکن ہوگیا ہے کہ معتدل فضا میں کھلی بات چیت (open dialogue) کیا جاسکے۔ مسلمان ایک عالمی مشن کے حامل ہیں۔ اس اعتبار سے سب سے زیادہ قابل لحاظ بات یہ ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقوام کے درمیان آزادانہ ڈائیلاگ کے مواقع موجود ہوں۔ مگر مسلم رہنماؤں اور مسلم دانشوروں کی ناقابل فہم نادانی کی بنا پر سب سے زیادہ ملک میں اس مطلوب چیز کا خاتمہ ہوگیا۔ مسلمانوں کے اوپر لازم ہے کہ وہ یک طرفہ صبر واعراض کے ذریعہ دوبارہ ایسا ماحول قائم کریں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل معافی نہ ٹھہریں گے، خواہ انہوں نے شاندار مسجدیں بنا رکھی ہوں اور بظاہر ان مسجدوں کو نمازیوں سے بھر دیا ہو۔
شری کانت ویاس کو کتھا کرنے کی خصوصی مہارت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنی کتھا میں بہت سی عوام پسند باتیں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ چاہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ کرشن کے بنا بھی کام چل سکتاہے۔ اوردوسرا یہ کہ کرشن کے بنا کام ہی نہیں چل سکتا۔ اپنے اس نظریہ کے ثبوت کے لیے انہوں نے ایک مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ آپ سبزی لینے کے لیے بازار جائیں۔ آپ کی چاہ یہ تھی کہ آپ پرول لیں گے۔ لیکن اگر بازار میں پرول نہ ہو تو آپ بھنڈی یا کوئی بھی سبزی لے کر واپس آجائیں گے۔ لیکن اگر آپ کے گھر میںایک مریض ہے اور ڈاکٹر کہتا ہے کہ اس کو انار کھلاؤ۔ اب اگر آپ انار لانے کے لیے بازار جائیں اور ایک دکان پر انار نہ ہو توآپ دوسری دکان پر جائیں گے۔ یہاںتک کہ انار حاصل کرنے کے لئے پورا بازار چھان ماریں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج کل لکھ پتی اس کو سمجھا جاتا ہے جس کے پاس لاکھ روپیہ ہو او رکروڑ پتی اس کو سمجھا جاتاہے جس کے پاس کروڑ روپیہ ہو۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ لکھ پتی وہ ہے جو لاکھ بار کرشن کا نام لے اور کروڑپتی وہ ہے جوکروڑ بار کرشن کا نام لے۔ میںنے دیکھا کہ مقرر کے اس قسم کے الفاظ کو سن کر حاضرین جوش سے بھر جاتے تھے۔ حالانکہ اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ صرف الفاظ کا کھیل ہے،اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ الفاظ کا یہ کھیل خود مسلمانوں میں بھی اتنا ہی پایا جاتاہے جتنا کہ دوسرے لوگوں میں۔
انہوں نے کہاکہ گیتا میں ایک بہت بڑی بات کہی گئی ہے۔ مہابھارت میں جب ارجن لڑائی کے لئے آگے بڑھنے سے ہچکچا رہے تھے تو کرشن نے ان کو اکساتے ہوئے کہا کہ تم سوچتے ہو کہ میںان زندہ لوگوں کو کیسے ماروں۔ مگر میں تم کو بتاتا ہوں کہ یہ مرتیو نہیں، بلکہ یہ تو چولا بدلنا ہے۔ یہ سن کر میںنے ایک صاحب سے کہا کہ چولا بدلنے کا یہ نظریہ اگر کسی سماج میں عام ہو جائے تو اس سماج کا کیسا عجیب حال ہوگا۔ وہ میری اس بات کو سن کر مسکرا دیے۔
۲ جون کی شام کو خصوصی پروگرام تھا۔ اس پروگرام کے لیے عین گنگا کے اوپر ایک بہت بڑا رنگا رنگ پلیٹ فارم بنایا گیا تھا۔ بہت سی کشتیوں کے اوپر اس پلیٹ فارم کو قائم کیا گیا تھا۔ اس کے اوپر بڑی تعداد میںلوگ خصوصی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس پلیٹ فارم میں ذرا بھی جنبش نہیںتھی۔ معلوم ہوا کہ ماہرتیراکوں کی مدد سے گنگا کی تہہ میں بڑے بڑے پتھر جمائے گئے ہیں۔ ان پتھروں کے اوپر بہت سے کھمبوں کو جمایا گیا اور پھر اس کے اوپر خصوصی تکنیک کے ذریعہ مسطّح منچ سجایا گیا تھا۔ اب تک لوگ گنگا کے ساحل پر گنگا کی پوجا کیا کرتے تھے۔ یہاں جدید تکنیک کو استعمال کرکے ایسا منچ بنایا گیا جس کے نیچے گنگا موجیں مارتی ہوئی بہہ رہی تھی اور اس کے اوپر گنگا پوجاکے پروگرام پر سکون طورپر جاری تھے۔
شام کے پروگرام کے درمیان مغرب کی نماز کا وقت آگیا۔ منچ کے ایک حصہ میں کچھ جگہ خالی تھی۔ یہاں کھڑے ہوکر میں نے مغرب کی نماز پڑھی۔ لوگوں کے بیان کے مطابق،وہاں موجود کیمرہ مین نے میری نماز کا فوٹو بھی لے لیا۔ میرے لئے یہ ایک بڑا عجیب تجربہ تھا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ جس منچ کے اوپر لوگ گنگا کی پرستش کے لئے اکٹھا ہوئے تھے۔ وہاں میںنے لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر خالق گنگا کی عبادت اور پرستش کا فریضہ انجام دیا۔
شام کے اس پروگرام میں اترانچل کے چیف منسٹر نارائن دت تیواری آکر شریک ہوئے۔ وہ ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ آئے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ شام کے اس فنکشن میں ۷ بجے گنگا آرتی کا پروگرام تھا جس کو چیف منسٹر انجام دینے والے تھے۔ مگر چیف منسٹر کے لیٹ آنے کی وجہ سے گنگا آرتی کا یہ پروگرام دیر سے ہوا۔ ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ اس زمانہ میں چیف منسٹر کا درجہ بھگوان سے بھی زیادہ بڑا ہے۔
نارائن دت تیواری نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے تقریر کی۔ میںنے پہلی بار ان کی تقریر سنی۔وہ اگرچہ ایک تجربہ کار سیاست داں سمجھے جاتے ہیں۔مگر جہاں تک تقریر کا تعلق ہے، وہ مجھے کوئی اچھے مقرر نظر نہیں آئے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ میںیہاں مکھیہ منتری کے روپ میں نہیںآیا ہوں بلکہ میںیہاں مکھیہ سیوک کے روپ میں آیا ہوں۔ انہوں نے اپنی تقریر میںگنگا کے پانی کی صفائی پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہری دوار سے لے کر گنگوتری تک گنگا کی صفائی کے لئے جو بھی پروگرام بنایا جائے گا اس میںاترانچل گورنمنٹ پوری مددکرے گی۔
شام کے پروگرام کے خاتمہ پر عشاء کی نماز باجماعت ادا کی گئی۔ میںنے اس کی امامت کی۔ جماعت میں کل چھ آدمی شریک تھے۔ ان میں سے دو ہندو (آر۔ملہوترا، پی۔ملک) تھے۔ اس قسم کی باجماعت نماز بھی شاید پہلی بار رشی کیش میں پڑھی گئی ہو۔ میرے ساتھ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ہندوؤں نے میرے پیچھے جماعت میں شریک ہو کر نماز پڑھی۔
۲ جون کو شام کا کھانا ایک ایسے مقام پر کھایا گیا جو عین گنگا کے کنارے واقع تھا۔ ہم لوگ ایک میزکے چاروں طرف کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ دوسری طرف گنگا ہلکی موسیقی کے ساتھ مسلسل بہتی ہوئی نظر آتی تھی۔ اس کے آگے دوسری طرف ہمالیہ پہاڑ پھیلا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ اور اس کے اوپر کھلا آسمان اور پھر خالص ہوا کے خوشگوار جھونکے۔ یہ ایک آفاقی منظر تھا جو فطرت کے ناقابل بیان کائناتی حُسن کی یاد دلا رہا تھا۔
میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کو قرآ ن کی ایک آیت سنائی: یوم تبدل الارض غیر الارض (ابراہیم ۴۸) یعنی جب ارض کو بدل کر غیر ارض کر دیا جائے گا۔ میںنے کہا کہ اس آیت میںتبدیلی سے مراد غالباً وہی چیز ہے جس کو کنورژن (conversion) کہا جاتاہے۔ کنورژن فطرت کا عالمی اصول ہے۔ یہاں ہر چیز کنورژن کے عمل (process) سے گزر کر ارتقا یافتہ صورت اختیار کرتی ہے۔ مثلاً لوہا (ore) بدل کر ایک بامعنٰی انجن بن جاتاہے۔ مٹی اور معدنیات بدل کر خوراک کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح ہماری پوری دنیا آخر میںایک سپر کنورژن (super conversion) کے عمل سے گزرے گی اور پھر وہ زیادہ بہتر اور کامل دنیا وجود میں آئے گی جس کو آخرت کی دنیا کہاگیا ہے۔
مختلف اوقات میں کھانے کی میز پر جن لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان میں سے ایک ریٹائرڈ جسٹس گردھر مالوی تھے۔ وہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے بانی مدن موہن مالوی کے پوتے ہیں۔ انہوں نے ملاقات کے دوران کئی باتیں بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے دادا نے بنارس یونیورسٹی کو ایک قومی یونیورسٹی کے طور پر بنایا تھا۔ وہاں ملک کے ہر اسٹیٹ کے لیے کوٹا مقرر تھا۔ حیدر آباد کا بھی ایک کوٹا تھا۔ چنانچہ حیدر آباد کے طلبہ کے لئے وہاںایک نظام کالونی بنائی گئی تھی جو ابھی تک موجود ہے۔
انہوں نے کئی دلچسپ واقعات بتائے۔ مثلاً انہوں نے بتایا کہ ایک بار مدن موہن مالوی ٹرین میںسفر کررہے تھے۔ ان کے ساتھ محمد علی اور شوکت علی بھی تھے۔ نماز کا وقت آیا تو علی برادران نے نماز پڑھنے میں دیر کی۔ اس پر مدن موہن مالوی نے یاد دلایا کہ آپ کی عبادت کا وقت آگیا اورابھی تک آپ نے نماز نہیں پڑھی۔
اگر آپ مدن موہن مالوی کی تصویر دیکھیں اور اس کے نیچے ان کا نام لکھا ہوا نہ ہو تو آپ یقین نہیں کرسکیں گے کہ یہ کسی ہندو کی تصویر ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ان کے چہرے پر شاندار داڑھی ہے اور ان کا لباس بھی مسلم لباس ہے۔ اسی لیے ایک اُردو شاعر نے کہا تھا:
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
یہ وہ دور تھا جب کہ مسلم کلچر کا غلبہ ملک میں قائم تھا۔ مدن موہن مالوی ایک پنڈت تھے مگر ان کی وضع قطع ایسی تھی کہ ان کو دیکھ کر بظاہر یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ پنڈت مدن ہیں یا مولوی مدن۔ دوسری زبانوں کے ساتھ وہ عربی اور فارسی زبان بھی جانتے تھے۔
۲ جون کو ایک مجلس میں میں نے سورہ والعصر کی تشریح کی۔ میںنے بتایاکہ قرآن میںانسان کی زندگی کو زمانہ (ٹائم) سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ جس طرح ٹائم ہر لمحہ گھٹتا رہتا ہے اسی طرح انسان ہردن اپنی زندگی کی مقرر مدت کو کم کرتا ہوا موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح برف پگھل کر ہر لمحہ کم ہوتی جارہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہر آدمی کا کائونٹ ڈاؤن (count down) ہو رہا ہے۔ ایک آدمی کی کل عمر اگر تقدیر میں دس ہزار دن کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی اس کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوگیا۔ یعنی آج اگر اس کی مدت عمر دس ہزار دن تھی تو کل اس کی عمر ۹۹۹۹ دن ہو جائے گی۔ اگلے دن۹۹۹۸ دن اور اس کے بعد ۹۹۹۷ دن، وقس علی ہذا۔
رشی کیش پہلے یوپی کاایک ٹاؤن تھا۔ اب وہ نئی اسٹیٹ اترانچل کا ایک حصہ ہے۔ رشی کیش ہمالیہ کے دامن میںواقع ہے۔ اس کے ایک طرف ہمالیہ کی پھیلی ہوئی چوٹیاں دکھائی دیتی ہیںاور دوسری طرف گنگا کا پانی ہلکی موسیقی کے ساتھ بہتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں ہر طرف فطرت کا آفاقی ماحول ہے۔ پورا رشی کیش اسی طرح فطرت کی گود میں بسا ہوا ہے۔
یہاں کا پروگرام ہندی زبان میں چھپا ہوا تھا۔ اس میں زیادہ تر سنسکرت کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ میرے لیے ان کو سمجھنا مشکل تھا۔ ۲ جون کو مجھے ایک پروگرام میں لے جایا گیا۔ یہاں گنگا کے کنارے مخصوص سجے ہوئے منچ پر گدی کی نشستیں بنی ہوئی تھیں۔ ان گدیوں پر ممتاز مہمان بٹھائے گئے تھے۔ مجھے بھی لے جا کر وہاں ایک گدی پر بٹھا دیا گیا۔ میری تمام تر دلچسپی اس وقت یہ تھی کہ میںیہ جانوں کہ ہندو دھرم کیا ہے اور اس کے رسم و رواج کیا ہیں۔ یہاں پہلے باجے کے ساتھ بھجن گایا گیا۔ دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس کے بعد تمام لوگ ایک ایک تھال لے کر کھڑے ہوگئے جس میںکچھ روایتی چیزیں تھیں اور دئے جل رہے تھے۔ لوگوں نے کھڑے ہو کر مخصوص انداز میں اس کو گھمانا شروع کردیا۔ یہ گنگا پوجا کی رسم تھی۔ میں نے سادہ طورپر یہ کیا کہ میںبدستور اپنی جگہ خاموش بیٹھا رہا۔ اس طرح میںنے اپنے منصوبہ کے مطابق، گنگا پوجا کا معائنہ تو کیا مگر میںنے اپنے آپ کو اس میںشرکت سے بچائے رکھا۔
۳ جون کی صبح کو فجر کی نماز کے بعد میںاپنے کمرے سے باہر آیا۔یہاں درختوں کے سایہ میں لمبا پختہ راستہ بناہوا تھا۔ یہاں میں اپنا جوتا اتار کر ننگے پاؤں ٹہلنے لگا۔ تازہ ہوا میں ٹہلنا ایک بے حد فرحت بخش تجربہ ہے۔ اسی کے ساتھ اگر ننگے پاؤں ٹہلنا ہو تو تاثیر اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ پیدل چلنے میں لمسِ فطرت (contact with nature) کاتجربہ ہوتا ہے۔ یہ تجربہ اس وقت نہیں ہوسکتا جب کہ آدمی جوتا اور موزہ پہن کر چل رہا ہو۔
یہاں جین مذہب کے کئی لوگ آئے ہوئے تھے۔ ایک جینی پیشوا جو اپنے منہ پر پتّی لگائے ہوئے تھے ان سے گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ آپ مندر بنانا چھوڑ و، انسان بناؤ۔ میںنے پوچھا کہ انسان بنانے کا فارمولا کیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ اپنی خواہشوں (desires) کو ہلاک کرنا۔ انہوں نے بتایاکہ جینی طریقہ کے مطابق، منہ پر پتّی باندھنا اسی باپرہیز زندگی کی ایک علامت ہے۔
میںنے کہا کہ دوسرے لفظوں میں، آپ کا نظریہ سلف کنٹرول کا نظریہ ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کوئی شخص سلف کنٹرول کیوں کرے۔ کوئی شخص اپنی طاقتور خواہشوں کو کیوں دبائے۔ انسان کو سلف کنٹرول پرآمادہ کرنے کے لیے ایک زیادہ بڑا محرک درکار ہے۔ اس سلسلہ میںمیں نے انہیں اسلام کے نظریۂ جنت سے متعارف کرایا۔
رشی کیش میںایک ادارہ ہے جس کا نام یہ ہے—اسٹریٹیجک مینیجمنٹ سروسز (SMS) ۔ اس کے نمائندے (مسٹر انل نائر اور شیو ساگر چوپڑا) وغیرہ ۳ جون کو میرے کمرے میں آئے اور کہا کہ ہمیں آپ کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کرنا ہے۔ وہ ایجوکیشن اور اخلاقی سدھا رکے بارہ میں میرے خیالات ریکارڈ کرنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا کہ یہ بلا شبہہ ہمارے دیش کا سب سے زیادہ اہم مسئلہ ہے۔ مگر میں اپنے تجربہ کے مطابق، اس کو نہیں مانتا کہ تعلیمی نصاب کو بدل کر یا ہسٹری کودوبارہ لکھ کر یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ مسئلہ کا حل ہوتا تو اب تک مسئلہ حل ہوچکا ہوتا۔ کیوں کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہماری ہر گورنمنٹ اسی مقصد کی بنیاد پر نصاب میں تبدیلی کرتی رہی ہے۔ مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں،اس کا کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں تعلیمی اصلاح کے نام سے بہت سے ادارے قائم ہیں۔ مثلاً شانتی نکیتن اور گروکل وغیرہ، مگر یہ سب بے نتیجہ رہے۔
اسی طرح انگریزوں کی مثال بھی ہے۔ لارڈ میکالے کی سفارشات کے تحت برٹش گورنمنٹ نے ملک میں ایک ایسا انگریزی تعلیمی نظام جاری کیا جس کے متعلق اُن کا اندازہ یہ تھا کہ ہندستانیوں کے خیالات اس طرح بدل جائیں گے کہ وہ ہمیشہ کے لیے برٹش حکومت کی ماتحتی قبول کرلیں گے۔ مگر اس کا نتیجہ بالکل الٹا نکلا۔ اسی انگریزی نظام تعلیم سے وہ تمام لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف فریڈم موومنٹ کی قیادت کی۔
پھر میںنے کہا کہ میں تعلیم برائے تعلیم (education for the sake of education) کا قائل ہوں۔ میرا نظریہ ہے کہ تعلیم کے نظام کو خالص فنی بنیاد پر چلانا چاہئے۔ جہاںتک اخلاق اور کریکٹر کی بات ہے تو اس کام کے لئے زیادہ موثر طریقہ وہ ہے جس کو غیر رسمی تعلیم (informal education) کہا جاتا ہے۔ ہم خود ۴۰ سال سے اسی کام کو کر رہے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہمارے مشن کے ذریعہ ہزاروں لوگوں کے اندر ذہنی اور اخلاقی انقلاب آیا ہے۔
۳ جون کو ناشتہ اور کھانے کی میز پرکئی لوگوں سے ملنے کا اور گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ ہمارے ساتھ نوآدمی تھے۔ ان میں سے ۳ فارنر تھے۔ ان لوگوں کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ انہیں روحانیت کا وہ تجربہ ہوا ہے جس کو وجد (ecstasy) کہا جاتا ہے۔ میں نے مختلف سوالات کرکے یہ جاننا چاہا کہ وجد کیا ہے۔ مگر وہ لوگ بار بار یہی کہتے رہے کہ وجد ایک اندرونی کیفیت ہے جس کو لفظوں کے ذریعہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ گفتگو کے آخر میں انہوں نے کہا کہ اب آپ بتائیے کہ وجد کیا ہے۔ میںنے کہا کہ اگر آپ لوگ برا نہ مانیں تو میںکہوں گا کہ جو لوگ وجد کی اصطلاح میں روحانیت کی بات کرتے ہیں وہ صرف ایک مصنوعی یا غیر حقیقی تجربہ کو حقیقی سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں۔ میں نے قرآن کی آیت والذین آمنوا اشد حبا للہ (البقرہ ۱۶۵)کی روشنی میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر فطری طورپر اپنے خالق (خدا ) کے لیے بے پناہ جذبۂ محبت موجود ہوتا ہے۔ ہر آدمی خود اپنی فطرت کے زور پر یہ چاہتا ہے کہ وہ اس مرکزِمحبت کو پالے جس سے وہ اپنے اعلیٰ جذبات کو وابستہ کرسکے۔
موجودہ حالات میں خدا کا تصور لوگوں پر واضح نہیں ہے۔ خاص طور پر آریائی مذاہب (Aryan Religions) میں خدا کا عقیدہ وحدت وجود (monism) کے تصور پر مبنی ہے۔ اس تصور میںخدا ہم سے علیٰحدہ کوئی مستقل وجود نہیں۔ وہ ایک غیر مشخص قسم کا مجرد تصور (abstract idea) ہے۔ اس لئے جولوگ آریائی روایات میں پرورش پاکر نکلے ہیں وہ عملاً ایسے کسی شخصی خدا سے روشناس نہیں ہوتے جس کو وہ اپنا مرکز محبت بنائیں اور اس کے ذریعہ ان کے اندر وجد کی کیفیت پیدا ہو۔ اس لئے وہ خود ساختہ ورزشوں کے ذریعہ اپنی ایک مفروضہ دنیا بناتے ہیں اور اس کو وجد سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا وجد حقیقۃً ایک فطر ی حقیقت کا غیر حقیقی انتساب (attribution) ہے، نہ کہ حقیقی مرکز محبت سے مربوط ہونے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا تجربہ۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو سے بات کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ ان کے دل میں اسلام کے خلاف سخت نفرت ہے۔ میںنے سنجیدگی کے ساتھ ان سے پوچھا کہ اسلام کے بارہ میں آپ کی وہ کون سی معلومات ہیں جن کی وجہ سے آپ کے دل میں اُس کے خلاف منفی جذبات پیدا ہوئے۔ انہوں نے چند باتیں بتائیں۔ مثلاً محمود غزنوی نے سومناتھ کے مندر کو لوٹا۔ بابر نے انڈیا پر حملہ کیا۔ اورنگ زیب نے ہندوؤں کے خلاف جنگ کی۔ہندستان میں جبر کے ذریعہ اسلام پھیلایا گیا۔
میں نے کہا کہ آپ کو اسلام اور مسلمانوں کے درمیان فرق کرنا چاہئے ۔ اس کے بعد ہی آپ اس معاملہ میںمنصفانہ رائے قائم کرسکیں گے۔ میںنے کہا کہ محمود غزنوی کا مندر کے سونے کو لوٹنا اسلام کے نزدیک بھی اتنا ہی غلط تھا جتنا کہ وہ آپ کے نزدیک غلط ہے۔ اسی طرح بابر کے حملہ کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں۔ اسلام کے نقطۂ نظر سے بابر کو یا اور کسی مسلمان کو پر امن پیغام لے کر ہندستان میں داخل ہونا چاہئے تھا، نہ کہ تلوار لے کر۔ اسی طرح اورنگ زیب نے جو کچھ کیا اس کا بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاں تک جبری کنورژن کا تعلق ہے تو یہ صرف ایک الزام ہے اس کا کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں۔ خود ہندو اسکالر س نے تسلیم کیا ہے کہ ہندستان میںاسلام کی اشاعت پر امن طورپر ہوئی ہے، نہ کہ جبر اور تشدد کے ذریعہ۔
رشی کیش میں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی اُن میںسے ایک قابلِ ذکر شخص مسٹر ترلوچن سنگھ تھے۔ وہ نیشنل کمیشن فار مائینارٹیز کے وائس چئر مین ہیں۔ وہ دہلی میں رہتے ہیں۔ (Tel.: off-4690809, Res- 3384664) ۔ وہ مجھ کو میری تحریروں سے جانتے تھے۔ گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ ایک سمجھ دار اور حقیقت پسند آدمی ہیں اور اپنے موجودہ عہدہ کے لیے پوری طرح موزوں ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ انڈیا میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تناؤ کی جو حالت ہے وہ گویا ایک قسم کی سرد جنگ (cold war) ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس فرقہ وارانہ مسئلہ کا صرف ایک ہی مؤثر حل ہے، اور وہ دونوں فرقوں کے درمیان سوشیلائیزیشن(socialization) ہے۔ ضرورت ہے کہ دونوں کے درمیان ملنے جلنے کے مواقع کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ ملنا جلنا اپنے آپ اس مسئلہ کا حل بن جائے گا۔
ایک اور بات اُنہوں نے یہ کہی کہ دونوں فرقوں کے صرف نرم دَل والے لوگ اگر ملیں تو اس سے مطلوب فائدہ حاصل ہونے والا نہیں۔ ضرورت ہے کہ دونوں طرف کے گرم دَل کے لوگ باہم ملیں اور تعلقات کو بڑھائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ دونوں طرف کے انتہا پسندوں کو مل کر بیٹھنا چاہئے:
Extremists should sit.
کانفرنس کے رسمی اجتماعات میں شرکت کے علاوہ بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک ملاقات میںخدا کے وجود کا تذکرہ ہوا۔ ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا: خدا کہیں باہر نہیں، وہ تو خود ہمارے اندر موجود ہے۔ میںنے کہا کہ بہت سے لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں مگر اس نظریہ کے حق میں کوئی علمی دلیل موجود نہیں۔ ’’خدا انسان کے اندر ہے‘‘ صرف ایک لفظی بیان ہے، وہ کوئی مدلّل بیان (reasoned statement) نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہندو ازم ایک گہرے تضاد کا شکار ہے۔ ہندو ازم کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان خدا کا ایک اَنش ہے۔ اس عقیدہ کو ادوئت واد کہتے ہیں۔ انسان اگر خدا کا جزء ہے توانسان کے اندر خدا والی صفت ہونی چاہئے، مثلاً تخلیق کی قدرت ۔مگر کسی بھی دلیل سے اس کا ثبوت نہیںملتا۔ اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے قطرہ اور سمندر کی مثال دی جاتی ہے۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، قطرہ میں سمندر کے سارے اوصاف موجود ہیں جب کہ انسان میںکوئی بھی خدائی صفت موجود نہیں۔
اس فکری تضاد کو رفع کرنے کے لیے ہندوؤں میں دوسرا عقیدہ پیدا ہوا جس کو دوئت واد کہا جاتا ہے، یعنی خدا الگ ہے اور انسان الگ۔ اس نظریہ کی حامی ایک ممتاز شخصیت مادھو چاریہ کی ہے۔ اگرچہ ہندوؤں میں شنکر آچاریہ کا ادوئت واد زیادہ مقبول ہوا اور مادھو چاریہ کا دوئت واد زیادہ مقبول نہ ہوسکا۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو سے خدا کے عقیدہ پر گفتگو ہوئی۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ خدا انسان کے اندر ہے، خدا انسان کے باہر نہیںجس کو کہیں اور تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔ میںنے کہا کہ خدا کی موجودگی کا احساس ضرور انسان کے اندر ہے۔ مگر خدا کی ذات ہمارے وجود کے باہر ہے، نہ کہ ہمارے اندر۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ جب خدا کا احساس ہمارے اندر موجود ہے تو یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا ہمارے اندر ہے، اُس کو باہر ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔
میں نے کہا کہ خدا کا احساس اندر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ باہر موجود نہ ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے۔ میںنے کہا کہ یہ توہر انسان کا عام تجربہ ہے۔ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ پیاس ہمارے اندر موجود ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ خود پانی بھی ہمارے اندر موجود ہے۔ ہر آدمی کا ذاتی تجربہ ہے کہ پیاس اگر چہ ہمارے اندر ہے مگر پانی ہم سے الگ اپنا مستقل وجود رکھتا ہے۔ آپ لوگ احساس خداوندی کو وجود خداوندی کے مفہوممیں لے رہے ہیں۔ میری یہ بات سن کر وہ کچھ دیر چُپ رہے اور کہا کہ میںاپنے گرو سے پوچھ کر کل آپ کو بتاؤں گا۔ لیکن اگلے دن اُن سے ملاقات نہ ہوسکی۔
رشی کیش کا یہ اجتماع بہت بڑے پیمانہ پر کیا گیا تھا۔ اس میں نہ صرف ملک کے بلکہ دوسرے ملکوں کے ہندو نمائندے شریک ہوئے۔ تین دن تک ہر طرف زبردست مذہبی دھوم نظر آئی—بھجن، مذہبی سنگیت، کرشن کتھا، گنگا پوجا، طرح طرح کی مذہبی رسمیں، وغیرہ۔
میںنے سوچا کہ کیا یہ حقیقی معنوں میں مذہبی دھوم ہے۔ میرے دل نے کہا کہ نہیں۔ کیوں کہ یہاں ظاہری ہنگامے توکافی تھے مگر مذہب کی حقیقی روح نظر نہ آئی۔ ایک بوڑھے ہندو نے درد کے ساتھ کہا کہ یہاں آکرمجھے زیادہ خوشی نہیںہوئی۔ رنگ برنگ کے یہ پروگرام مجھے صرف تام جھام دکھائی دیتے ہیں۔ مذہب کی اصل اسپرٹ کا کہیں پتہ نہیں۔
میں نے مزید سوچا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ سب مذہب نہیںہے بلکہ کلچر ہے۔ خود مسلمانوں کا حال بھی تقریباً یہی ہے۔ آج کل مسلمانوں میں مذہب کے نام پر کافی دھوم دکھائی دیتی ہے۔ مگر یہ سب اپنی حقیقت کے اعتبار سے کلچرل اسلام کے مظاہر ہیں، نہ کہ ربّانی اسلام کے مظاہر۔ ربّانی اسلام وہ ہے جس میں معرفت کی گہرائی ہو۔ جس میں سچائی کا اعتراف ہو۔ جس میں خوف خدا کا غلبہ ہو۔ جس میں اخلاقی اقدار زندہ ہوں۔ جس میں انصاف کی بولی بولی جائے خواہ وہ اپنے موافق ہو یا اپنے خلاف ، وغیرہ۔ مگر یہی وہ چیزیں ہیں جن کا اسلام کے نام پر ہونے والے ہنگاموں میںکہیں پتہ نہیں۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو سے تفصیلی گفتگوہوئی۔ اُنہوں نے میڈیٹیشن (meditation)کے فائدے بتائے۔اُنہوںنے کہا کہ ہمارے سماج میں سب سے بڑا پرابلم ایگو (ego) کا پرابلم ہے۔ ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ کوئی بات اپنے مزاج کے خلاف ہو تو فوراً اُس کا ایگو بھڑک اٹھتا ہے۔ جس کا آخری نتیجہ بریک ڈاؤن(break down) ہوتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ میڈیٹیشن کے ذریعہ ہم ایگو کو تحلیل(disolve) کردیتے ہیں۔ گویا کہ اَنا والا آدمی بے اَنا بن جاتا ہے اور پھر وہ کسی کے لیے پرابلم نہیں رہتا۔
میں نے کہا کہ یہ صرف کہنے کی ایک بات ہے۔ اَنا یا ایگو انسان کی ایک فطری صفت ہے، اُس کو میڈیٹیشن جیسی ورزشوں کے ذریعہ تحلیل یا ڈیزالو کرنا ممکن ہی نہیں۔ میںنے کہا کہ ایگو انسانی دماغ کی ایک صفت ہے۔ اورمیڈیٹیشن میںآپ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ ایک جسمانی ورزش (physical exercise) ہوتی ہے اور ایک دماغی صفت کو جسمانی ورزش کے ذریعہ ختم کرنا نفسیاتی اعتبار سے ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ میڈیٹیشن کے پورے کورس سے گذرنے کے باوجود لوگوں کے اندر ایگو پوری طرح موجود ہوتا ہے اور جب بھی اُس کے اَنا پر چوٹ پڑے تو وہ بھڑک اُٹھتا ہے۔
میںنے کہا کہ ایگو کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ البتہ اُس کو ڈیفیوز (defuse) کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کا طریقہ یہی ہے۔ اسلام آدمی کی سوچ کے اندر انقلاب لاتا ہے۔ یہ سوچ اس بات کی ضامن بن جاتی ہے کہ جب بھی آدمی کی اَنا بھڑکے تو اُس کی سوچ متحرک ہو کر اُس کی انا کے بم کو ڈیفیوز کردے۔ میں نے کہا کہ اَنا (ایگو) کوئی برائی نہیں، وہ ایک طاقت ہے۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ اپنے ذہن کو اتنا زیادہ ترقی دیں کہ وہ اَنا کو صرف اچھے استعمال میں لے، وہ اُس کو برے استعمال تک نہ جانے دے۔
ایک صحافی نے انٹرویو کے دوران سوال کیا کہ اسکول اورکالج کی تعلیم میںآج کل ریفارم کی باتیں ہورہی ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سوسائٹی میں جو اخلاقی بگاڑ آیا ہے اُس کو اس طرح دور کیا جاسکتا ہے کہ تعلیمی نصاب میں اخلاق کو ایک مستقل مضمون کے طورپر شامل کر دیا جائے۔ میں نے کہا کہ یہ تجربہ تو کیاجاچکا ہے۔ موجودہ تعلیمی نصاب میںبھی اکثر جگہ کسی نہ کسی طورپر اخلاقی چیزیں پڑھائی جاتی ہیں۔ شانتی نکیتن اور گروکل جیسے بہت سے تعلیمی ادارے تو خاص اسی مقصد کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ مگر اُن سے مطلوب اخلاقی نتیجہ حاصل نہ ہوسکا۔
میںنے کہا کہ تعلیم کے دو الگ الگ شعبے ہیں۔ ایک فارمل ایجوکیشن، اور دوسرے انفارمل ایجوکیشن۔ فارمل ایجوکیشن سے مراد اسکول اور کالج کی تعلیم ہے اور انفارمل ایجوکیشن سے مراد اصلاحی کوشش ہے جو رسمی تعلیم کے باہر تعمیر شعور کے لیے کی جائے۔ اخلاقی شخصیت پیدا کرنے کے لیے انفارمل ایجوکیشن مفید ہے، نہ کہ صرف فارمل ایجوکیشن۔
اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ فارمل ایجوکیشن میںسارا زور نمبر پر ہوتا ہے۔ طالب علم کی آخری کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ امتحان کے موقع پر کسی نہ کسی طرح زیادہ نمبر لائے تاکہ وہ امتحانی اصطلاح میں کامیاب ہوسکے۔
بہائی مذہب کے ایک صاحب بھی یہاں آئے تھے۔ اُنہوں نے ’’یونیورسل مذہب‘‘ کے موضوع پر اپنی مختصر تقریر کی۔ اُنہوں نے آٹھ صفحہ کا ایک پمفلٹ (اپریل ۲۰۰۲) تقسیم کیا۔ یہ بہائی عالمی مرکز کے بیت العدل اعظم کی طرف سے تیار کیا گیا تھا۔ یہ پمفلٹ عمدہ کاغذ پر نہایت عمدہ چھپا ہوا تھا مگر پورا پڑھنے کے باوجود اُس کا کوئی خلاصہ میری سمجھ میں نہ آسکا۔ اُس کا ایک اقتباس یہ تھا:
’’۱۸۹۳ء میں مشہور عالمی کولمبیائی اجلاس (شکاگو) نے ’’مذہبی پارلیمنٹ‘‘ کو وجود میں لاکر سب کو حیران کردیا۔ روحانی اوراخلاقی اشتراک کی اس استصواب رائے نے تمام براعظموں کی توجہ مبذول کرائی اور اُس نے سبھی سائنسی، تکنیکی اور تجارتی کامیابیوں سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ تھوڑے عرصہ کے لیے لگا کہ پابندیوں اور قدامت پرستی کی دیواریں گرگئیں۔ مؤثر مفکرین کے لیے بھی یہ اشتراک انوکھا اور تاریخ عالم میںاہمیت کا حامل تھا۔ ’’مذہبی پارلیمنٹ‘‘ کے منتظمین نے کہا کہ ’’مذہبی پارلیمنٹ‘‘ نے دنیا کو مذہبی جنون سے بچا لیا‘‘۔
یہ میرے نزدیک ایک خیالی بات ہے۔ عالمی انقلاب کبھی کسی جلسہ یا سیمینار کے ذریعہ ظہور میں نہیں آتا۔ اس قسم کا جلسہ صرف ایک مظاہرہ ہے۔ انسانوں کے درمیان کوئی حقیقی انقلاب لانے کے لیے ایک مسلسل فکری تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قسم کا انقلاب ہمیشہ طویل فکری جدوجہد کے ذریعہ آتا ہے، نہ کہ وقتی قسم کے مظاہروں سے۔
بہائی مذہب کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ بہائی لوگوں کے درمیان آپس میں سلام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں: اللہ ابھیٰ (God is most glorious)۔ واضح ہو کہ بہائی مذہب کے بانی کا نام بہاء اللہ تھا۔
رشی کیش میں ایک اور بات معلوم ہوئی جس کا ابھی تک مجھے علم نہ تھا۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کے پان اسلام ازم کی طرح ہندوؤں میںایک عالمی تحریک پان ہندوازم کے نام پر چل رہی ہے۔ اس کا مقصد تمام دنیا کے ہندوؤں کو متحد کرنا ہے جن کی تعداد تقریباً ایک ارب بتائی جاتی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہوا، یہ تحریک تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ مثلاً یہاں پُرتگال کے ایک ہندو لیڈر ملے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پرتگال میں بسنے والے تمام ہندوؤں کو اُنہوں نے ایک اتحاد میں جوڑ دیا ہے۔
موجودہ ہندوؤں کے ذہن میں یہ خیال ڈالا جارہا ہے کہ مستقبل میں ہندوؤں کے لیے خطرہ عیسائیت وغیرہ سے نہیں ہے بلکہ صرف اسلام سے ہے۔ اس لیے اپنے خیال کے مطابق، وہ ہر قیمت پر اسلام کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں کچھ ایسے ہندوؤں سے ملاقات ہوئی جو عربی اور فارسی زبانیں بے تکلف بولتے تھے۔ میںنے ایسے ہی ایک ہندو سے کہا: حال شما چیست۔ اُس نے خالص ایرانی لہجہ میں اس کا جواب دیا۔
رشی کیش کے اس عالمی اجتماع کو کنڈکٹ کرنے یا چلانے کا کام ایک ۳۵ سالہ خاتون کر رہی تھیں۔ وہ ایک امریکن خاتون تھیں۔ مگر انہوں نے ہندو مذہب کو اپنا لیا تھا اور اب اُن کا نام بھاگوتی تھا۔ وہ سفید رنگ کی ساڑی پہنے ہوئی تھیں اور انتہائی پھرتی کے ساتھ تمام پروگرام کو چلارہی تھیں۔
اجلاس کے دوران اُنہوں نے انگریزی میںبولتے ہوئے مجھے تقریر کے لیے مدعو کیا۔ میںنے سادہ اُردو زبان میں اپنی تقریر کی۔ تقریر کے بعد وہ میرے پاس آئیں اور میری تقریر پر اچھے تأثر کا اظہار کیا۔ میںنے کہا کہ یہاں جو لوگ اکٹھا ہیں اُن کی اکثریت ہندی سمجھتی ہے اس لئے میں نے اپنی تقریر ہندی زبان میں کی۔ میں نے اُن سے یہ بات انگریزی میں کہی تھی۔ اس کو سن کر انہوں نے امریکی لہجہ میں کہا:
مولانا صاحب، میں ہندی سمجھتی ہوں۔
رشی کیش میںجو نئی باتیں معلوم ہوئیں اُن میں سے ایک یہ تھی کہ سنسکرت پاٹھ شالاؤں میںایک مستقل شعبہ ہوتا ہے جس کو کتھا کاریتا کہتے ہیں۔ اس شعبہ میںخصوصی تربیت کے ذریعہ کتھاکار تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ لوگ کرشن کتھا اور رام کتھا جیسے پروگرام کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی تقریروں کو قصے کہانیوں اور لطیفوں اور مختلف اداؤں کے ساتھ اتنا دلچسپ بنا دیتے ہیں کہ سننے والے گھنٹوں دلچسپی کے ساتھ اُس کوسنتے رہتے ہیں۔ دیکھنے والوں نے بتایا کہ اُن کی تقریر کے دوران ایسے بھی لمحات آتے ہیں جب کہ لوگ باقاعدہ رونے لگتے ہیں۔ کبھی اُن پر وجد (ecstacy) کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
عجیب بات ہے کہ یہ کتھا کار کئی کئی گھنٹے مسلسل بولتے ہیں، مگر اُن کی آواز میں فرق نہیںآتا۔ اُن کے گلے کی طاقت بدستور یکساں طورپر موجود رہتی ہے۔ ان لوگوں کو ہر کتھا پر بڑی بڑی رقمیں ادا کی جاتی ہیں۔
کتھاکار کی ایک خصوصیت پر مجھے بہت تعجب تھا۔ وہ یہ کہ مسلسل کئی گھنٹہ تک بولنے کے باوجود اُن کی آواز خراب کیوں نہیں ہوتی۔ ایک انگریزی صحافی نے اس کا راز بتایا۔ اُنہوں نے کہا کہ یہاں میں کتھا کا رسے ملا اوراُن سے دوسری باتوں کے ساتھ ان کے گلے کی طاقت کا راز بھی دریافت کیا۔ کتھا کار نے کہا کہ یہ سب ہمارے گرو کی کرپا ہے۔ کتھا کار نے مذکورہ جرنلسٹ کوایک پُڑیا دکھائی اور کہا کہ یہ ہمارے گرو کی دی ہوئی ہے اور اس کا نام مسٹیریس پاؤڈر (mysterious powder) ہے۔
جرنلسٹ نے پڑیا کھول کر پاؤڈر کو چکھا اورکہا کہ مجھے یہ شک ہے کہ اس کے اندر ایسٹرائڈس(steroids) ملا ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ جرنلسٹ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے یہ بھی بتادیا کہ وہ فلاں مشہور انگریزی اخبار کا کرسپانڈنٹ ہے۔ اس کے بعد کتھا کار کافی سنجیدہ ہوگئے۔ اُنہوں نے کہا کہ اصل میں یہ ملہٹھی کا سفوف ہے۔ مذکورہ اخبار نویس نے یہ پڑیا مجھے دی اور میں نے اُس کو چکھا تو میرے اندازہ کے مطابق، اُس کا ذائقہ بالکل ملہٹھی جیسا تھا۔
ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ اپنی اصلاح کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز خود احتسابی (self-criticism) ہے۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو دنیا میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔ سلف کریٹیسزم کیا ہے، اس کی مثال دیتے ہوئے میںنے کہا کہ حال میں میں ریڈیوسُن رہا تھا۔ اس دوران اُس پر ایک فلم ایکٹر کا انٹرویو آنے لگا۔ انٹرویو ر نے پوچھا کہ اپنی زندگی کا کوئی خاص واقعہ بتائیے۔ فلم ایکٹر نے کہا کہ ایک بار ممبئی میں شوٹنگ ہورہی تھی۔ میںاُس میںایک رول ادا کررہا تھا۔ اچانک فلم ڈائرکٹر نے شوٹنگ بندکر دی۔ میںاُس کے پاس گیا اور کہا کہ آپ نے شوٹنگ کیوں بند کردی۔ فلم ڈائریکٹر نے کہا کہ تمہارا رول مجھے کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا ہے۔
اب فلم ایکٹر نے ایسا نہیںکیا کہ وہ ڈائریکٹر سے جھگڑنے لگے۔ اس کے بجائے وہ خاموشی کے ساتھ اپنے کمرہ میں چلا گیا۔ وہاں وہ آئینہ کے سامنے کھڑاہوگیا اور اپنے بارے میں غور کرنے لگا۔ آئینہ میں جب اُس نے اپنی صورت دیکھی تو اصل راز اُس کی سمجھ میں آگیا۔ بات یہ تھی کہ اُس دن صبح کو وہ مشہور تاج محل سیلون میں گیا اور شاندار طورپر اپنے بال درست کرائے اور شیمپو لگایا۔ اس طرح وہ ایک جینٹلمین تو دکھائی دینے لگا مگر وہ اپنے فلمی رول کے لیے غیر موزوں ہوگیا۔ اس لیے کہ فلم میںوہ ایک ایسے آدمی کا رول ادا کررہا تھا جو فطری طورپر ناقص العقل تھا۔ اُس کو محسوس ہوا کہ میرا موجودہ چہرہ ایک صاحب عقل آدمی کا چہرہ دکھائی دیتاہے،نہ کہ ناقص العقل آدمی کا چہرہ۔
اس دریافت کے بعد اُس نے یہ کیا کہ ایک قینچی لی اور آئینہ دیکھے بغیر وائلڈ ہیر کٹ (wild haircut) کے انداز میں اپنے بال کو بے ترتیبی کے ساتھ ادھر ادھر سے کاٹ دیا اور پھر اپنے چہرہ اور بال پر مٹی لگا لی۔ اس طرح اپنی صورت کو بگاڑ کر جب وہ فلم ڈائریکٹر کے سامنے آیا تو ڈائریکٹر نے کہا کہ اب تم بالکل ٹھیک ہو۔ اس کے بعد اُس نے اسی طرح پوری شوٹنگ کرائی۔میںنے کہا کہ جو آدمی اپنی ترقی چاہتا ہو اُس کو نہایت بے رحمی کے ساتھ اپنی تنقید آپ کے اصول پر عمل کرنا چاہیے۔
ایک شخص نے نجی گفتگو کے دوران بتایا کہ میرا تجربہ ہے کہ ہندوؤں کو عیسائیت، جین ازم، سکھ ازم، بودھ ازم اور دوسرے مذہبوں سے کوئی نفرت نہیں۔ مگر میرا تجربہ ہے کہ اسلام کے خلاف اکثر ہندوؤں میںنفرت پائی جاتی ہے۔ اُنہوںنے کہا کہ آخر اس مسئلہ کا کیاحل ہے۔
میںنے کہا کہ اس مسئلہ کا سادہ اور آسان حل یہ ہے کہ مسلمان رد عمل کا طریقہ چھوڑ دیں۔ وہ یک طرفہ طورپر ہندوؤں سے محبت کرنے لگیں۔ دشمنی کا جواب دشمنی نہیں ہے۔ بلکہ دشمنی کا جواب محبت ہے۔ یہی قرآن کی تعلیم ہے اور یہی تجربہ کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے۔
میںنے کہا کہ اس قسم کی دشمنی کوئی فطری چیز نہیں۔ وہ ہمیشہ اوپری اسباب کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی پتھر کے اوپر کچھ مٹی جم جائے۔ جیسے ہی آپ اُس کے اوپر پانی ڈالیں گے وہ بہہ کر ختم ہو جائے گی۔ ایسا ہی معاملہ اس قسم کی نفرت کا ہے۔ آپ محبت کے سیلاب سے دھو کر اس کو کسی بھی وقت صاف کرسکتے ہیں۔
۴ جون ۲۰۰۲ء کی صبح کو رشی کیش سے واپسی تھی۔ سوامی چیدانند سے آخری ملاقات کرکے روانہ ہوا۔ ہماری گاڑی چلتے ہوئے میرٹھ کے قریب پہنچی تو سڑک کے دونوں طرف سرسبز مناظر تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ مودی پورم ہے ۔ تقریباً ۲۵ کیلو میٹر کے رقبہ میں ایک ہری بھری دنیابنائی جارہی ہے۔ اس میںانتہائی جدید قسم کی سہولتیں موجود ہوں گی۔ یہاں تک کہ اس میں فلم بندی کے انتظامات بھی ہوں گے۔ یہ نئی دنیا اُن دولت مندوں کے لیے بنائی جارہی ہے جو شہر کے مسائل سے بیزار ہیں اور فطرت کی کھلی فضا میں رہنا چاہتے ہیں۔ مودی پُورم کو مودی نگر والوں نے بنایا ہے۔ مودی نگر (مودی انڈسٹریز) کو یہاں ۱۹۳۲ میں قائم کیا گیا تھا۔
مودی پورم کے مختلف منفی اورمثبت پہلو ہیں۔ اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ موجودہ ہندستان جس کو کرپٹ سیاستداں آخری حد تک تباہ کرچکے ہیں، اُس کو یہاں کے تجارتی طبقہ نے بچایا ہے۔ ہندستان میں سینکڑوں سال سے تجارت کی روایات قائم تھیں۔ آزادی سے پہلے یہاں ایک طبقہ موجود تھا جو ملک کے اندر مضبوط تجارتی بنیاد قائم کر چکا تھا۔ یہی وہ طبقہ ہے جس نے ملک کواقتصادی تباہی سے بچا رکھا ہے۔ ورنہ جہاںتک سیاسی لیڈروں کا تعلق ہے، اُنہوںنے پہلے سوشلزم کے نام پر ملک کو تباہ کیا تھا اور اس کے بعد لیڈروں کے ناقابل بیان کرپشن نے ملک کو بالکل کھوکھلا بنا دیا۔
کانفرنس کے منتظمین نے واپسی کے سفر کے لیِے مجھے جو گاڑی دی تھی، اُس کا ڈرائیور ایک نوجوان تھا۔ اُس کا نام راکیش شرما تھا۔ وہ گاڑی کو تیز دوڑانے لگا۔ میرے ساتھی نے اُس کو منع کیا مگر وہ بدستور تیز دوڑاتا رہا۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ تھی کہ وہ بار بار اوور ٹیک کرتا تھا۔ میرے ساتھی نے کسی قدر سختی کے ساتھ کہا کہ تم دیکھ رہے ہو کہ سڑک کے دونوں طرف کئی گاڑیاں الٹی پڑی ہیں۔ کیا تم ہمارا انجام بھی یہی کرنا چاہتے ہو۔
اس کے بعد ڈرائیور نے گاڑی کھڑ ی کر دی اور باہر نکل کر سڑک کے کنارے بیٹھ گیا۔ اس نے کہا کہ میںایک پروفیشنل ڈرائیور ہوں۔ میںتو اسی طرح گاڑی چلاؤں گا۔ میرے ساتھی نے محسوس کیا کہ اگر ہم اس ڈرائیور سے ضد کرتے ہیں تو ہمارا سفر مزید مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے اُنہوں نے ڈرائیور کو منانے کی پالیسی اختیار کی اور پھر ہمارا سفر آگے کے لیے جاری ہوگیا۔ یہ واقعہ غازی آباد سے کچھ پہلے پیش آیا۔
اس تجربہ کے بعد میری سمجھ میںآیا کہ سڑکوں پر جو حادثے ہوتے ہیں،اُن کا سبب زیادہ تر اپنے بارے میں بڑھا ہوا اعتماد ہوتا ہے۔ جن لوگوں میںکسی قسم کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے وہ عام طور پر اس نفسیاتی مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے آس پاس اس کا براانجام دیکھتے ہیں مگر اُن کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ—یہ دوسروں کا معاملہ تھا، میرے ساتھ ایسا ہونے والا نہیں۔
خدا کسی انسان کو زیادہ صلاحیت دیتا ہے تاکہ وہ زیادہ کام کرے۔ مگر وہ اپنی برخود غلط نفسیات کی بنا پر اکثر اپنے آپ کو تباہ کر لیتا ہے۔ اپنے کو زیادہ سمجھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایسا کام کر ڈالتا ہے جو اُس کے لیے انتظامی حد (managable limit) سے باہر ہو۔ اکثر لوگوں کی ناکامی کا سبب اُن کا یہی مزاج ہوتا ہے۔
رشی کیش کا یہ سفر میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ وہاں جس ہندو سے بھی اسلام پر گفتگو ہوئی اُس نے دلچسپی کے ساتھ اُس کو سنا۔ کئی لوگوں کو کتابیں دی گئیں جن کو اُنہوں نے شوق کے ساتھ لیا اور پڑھنے کا وعدہ کیا۔ یہاں مجھے چند بار عمومی خطاب کا موقع ملا۔ اپنے خطابات میں میںنے اسلام کو دینِ رحمت کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی۔
میرا تجربہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے تعلیم یافتہ لوگ اس کو بہت بُرا مانتے ہیں کہ اُن کے اوپر مذہبی کٹّرپن کا الزام آئے۔ اس لیے وہ اپنے مذہب کے سوا دوسرے مذہب کی بات کو توجہ کے ساتھ سنتے ہیں۔ یہ زمانی مزاج ہم کو موقع دیتا ہے کہ ہم دین حق کی دعوت کو موافق ماحول میں پیش کرسکیں۔
۴ جون ۲۰۰۲ کی رات کو میں واپس ہو کر دہلی پہنچا۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۵۶

۱ ۲۵ مئی ۲۰۰۲ کو جین ٹی وی (نئی دہلی) میںایک خصوصی پروگرام تھا۔ اس کا موضوع تھا، اسلام اورامن۔ صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر قرآن و حدیث کی روشنی میںایک تقریر کی۔ اُنہوں نے بتایا کہ اسلام امن اور انسانیت کا مذہب ہے، وہ جنگ اورتشدد کا مذہب نہیں۔
۲۔ رشی کیش میں ۴ جون ۲۰۰۲ کو پرمارتھ نکیتن کے زیراہتمام بہت بڑاجلسہ ہوا۔ اس میں ٹاپ کے ہندو پیشوا شریک ہوئے۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور اس موضوع پر ایک تقریر کی کہ مختلف مذاہب کے درمیان معتدل تعلقات کس طرح قائم کیے جائیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس معاملہ میںاسلام کا فارمولا یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا پورا احترام کیاجائے اور کسی بھی حال میں یا کسی بھی عذر کی بنا پر ٹکراؤ اور تشدد کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔
۳۔ وی آئی پی فیملی میگزین (جے پور) کے نمائندہ مسٹر محمد رفیق نے ۱۳جون ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم خواتین کی تعلیم سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں مسلم مردوں کے ساتھ مسلم عورتیں بھی تعلیم میں آگے رہی ہیں۔ موجودہ زمانہ میں سارے ملک میں کثرت سے مسلم لڑکیوں کے لیے اسکول اور مدرسے کھولے جارہے ہیں۔ مسلم خواتین بہت بڑے پیمانہ پر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ یہ مدرسے اور اسکول گویا مسلم خواتین کے لیے ایک نئے دور کی علامت ہیں۔
۴۔ سوتنتر وچار منچ کے تحت ۱۹ جون ۲۰۰۲ کو نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک سیمینا ر ہوا۔ اس کا موضوع تھا: ٹیررزم اور انڈیا۔ اس کی دعوت پرصدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایک مفصّل تقریر کی۔
۵۔ دہلی کے ہفتہ وار ہندی اخبار ’’راشٹریہ وشواس‘‘ کے نمائندہ مسٹر بابو لال شرما نے ۲۱ جون ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق ملک اور ملت دونوں قسم کے مسائل سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ یہ صحیح ہے کہ موجودہ زمانہ میں مختلف مقامات پر جہاد کے نام پر جو متشددانہ تحریکیں چل رہی ہیں ان سے اسلام کی تصویر خراب ہور ہی ہے۔ مگر اس کا سبب اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں۔ اسلام مکمل طورپر امن اور انسانیت کا مذہب ہے۔ مسلمان اپنی قومی تحریکوں کو اسلامی جہاد کے نام پر چلاتے ہیں، اس لیے اس کی وجہ سے اسلام بدنام ہورہا ہے۔ اگر وہ سری لنکا جیسے لوگوں کی طرح اپنی تحریک کو قومی بنیاد پر چلائیں تو ان کی تحریک کا خواہ جو بھی نتیجہ ہو مگر اس کی وجہ سے اسلام بد نام نہیں ہوگا۔ کیوں کہ ایسی حالت میں ان کی تحریک کی رپورٹنگ پریس میںمسلم قوم کے حوالہ سے آئے گی، نہ کہ مذہب اسلام کے حوالہ سے۔
۶۔ ۲جولائی ۲۰۰۲ کو نئی دہلی کے ایناڈو ٹی وی (EENADU TV) نے صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس کا موضوع تھا: اسلام اور تعلیم۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام تعلیم کو بے حد اہمیت دیتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا سبب اسلام نہیں ہے۔ اُس کے اسباب زیادہ تر سیاسی ہیں۔
۷۔ برطانیہ کے دو اسکالر کرس فلپاٹ (Chris Philpolt) اور فرزر گرانٹ(Frser Grant) ۱۰ جولائی ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز سے ملے۔ انہوںنے اپنی ایک زیر تصنیف کتاب کے لئے تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کی کتاب کا ٹائٹل اور موضوع یہ ہے:
Millennium Choices; Global Environmental Problems, Spiritual Traditions, a rediscovery of Green Spirituality.
ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر ماحولیات اور روحانیات کے بارے میں تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ ان دونوں موضوعات پر اسلام کا نقطۂ نظر کیاہے۔ نیز ان کاسوال یہ تھا کہ موجودہ ماحولیاتی مسائل کے بارے میں اسلام کیا رہنمائی دیتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے سوالات کے جوابات دئے گئے۔
۸۔ مائنارٹیز کمیشن کے زیر اہتمام ۱۴ جولائی ۲۰۰۲ کو نئی دہلی میں ایک سیمینار ہوا۔ اس میں ہر مذہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ ہمارے مسائل کاحل رواداری اورمفاہمت کے اصول پر ہی نکل سکتا ہے۔ ٹکراؤ کا طریقہ کسی کے لیے بھی مفید نہیں۔
۹۔ بی بی سی لندن (انگریزی پروگرام) کے تحت ۱۴ جولائی ۲۰۰۲ کو ایک انٹرویو ہوا۔ انٹرویور مسٹر نابلینک(Noblank) لندن کے بُش ہاؤس سے بول رہے تھے اور نئی دہلی کے بی بی سی آفس سے صدر اسلامی مرکز اُن کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔ ایک سوال کے جواب میںکہا گیا کہ بائیکاٹ کی پالیسی کوئی پالیسی نہیں۔ بلکہ دونوں گروہوں کے درمیان سنجیدہ ڈائیلاگ ہونا چاہئے۔
۱۰۔ جین ٹی وی (نئی دہلی) میں ۱۶ جولائی ۲۰۰۲ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کاموضوع تھا کہ ہندستان کے ہندو اور مسلمان مل جل کر کس طرح امن کے ساتھ رہیں۔ اس کی دعوت پر صدراسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اس موضوع پر اپنے خیالات پیش کیے۔
۱۱۔ جامعہ ہمدرد (نئی دہلی) کے کنونشن سنٹر میں ۲۱ جولائی ۲۰۰۲ کو حکیم عبد الحمید مرحوم، بانی جامعہ کی یوم وفات کے موقع پر ایک اسلامک کوئز کمپٹیشن کا انعقاد عمل میںآیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکزنے اس میں شرکت کی اور تقسیم انعامات کے علاوہ ایک تقریر کی۔ تقریر میں انہوں نے طلباء اور طالبات کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکیم صاحب اور جامعہ ہمدرد میںآپ کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ یہ جگہ جہاںآج ہمدرد یونیورسٹی ہے ،یہاں ۱۹۴۷ میں صرف جنگل تھا۔ انہوں نے شیکسپیئر اور برنارڈ شا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ شیکسپیئر کی موت اور برنارڈ شاکی وفات میں تقریباً ڈھائی سو سال کا فاصلہ ہے۔ اس واقعہ کو لے کر برنارڈ شا نے کہا تھا کہ میرا قد شیکسپیئر سے چھوٹا ہے مگرمیں شیکسپئر کے کندھوں کے اوپر کھڑا ہوں:
I am smaller in stature than shakespeare, but I stand upon his shoulders.
انہوں نے نوجوان طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرا قد حکیم عبدالحمید سے چھوٹا ہے مگر میں حکیم عبدالحمید کے کندھوں پر کھڑا ہوا ہوں۔ ۱۹۴۷ میں حکیم عبدالحمید صاحب نے اپنی زندگی کاآغاز جنگل کی سطح سے کیا تھا آج آپ اپنی زندگی کاآغاز یونیورسٹی کی سطح سے کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس کا شکر ادا کیجئے اور عزم وہمت کے ساتھ ایک نئے مستقبل کی طرف اپنا سفر شروع کردیجئے۔
۱۲۔ راشٹریہ سہارا اُردو (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر ودود ساجد نے ۲۴ جولائی ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس سے تھا کہ ایک ہندو پارٹی نے مانگ کی ہے کہ قرآن کی کچھ آیتوں کو قرآن سے نکال دیا جائے۔ جواب میں کہا گیا کہ قرآن کی آیتوں پر یہ اعتراض سراسر لغو ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ قرآن اپنے مخاطبین کو الانسان اور الناس کہہ کر خطاب کرتا ہے اس لیے قرآن کے مطابق، ساری دنیا دار الانسان ہے، نہ کہ دار الکفار۔ مائناریٹی کمیشن کے ڈائیلاگ (۱۴ جولائی) کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس کے بارہ میں یہ نہ کہئے کہ وہاںملی نمائندے نہیں تھے بلکہ یہ کہئے کہ وہاں ملی دادا نہیں تھے۔
۱۳۔ حیدر آباد سے مولانا سید اکبر الدین قاسمی اپنے خط مورخہ ۲۵ جولائی ۲۰۰۲ میں لکھتے ہیں: یکساں سول کوڈ آپ کا مؤقر کتابچہ جو اس موضوع پر ہزاروں کتابوں پر بھاری ہے وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حالیہ اجلاس (حیدرآباد) کے موقع پر شرکاء اجلاس میںتحفۃً تقسیم کیا گیا۔ اس کو بہت پسند کیا گیا۔ میرٹھ کے سفر نامہ میں مسلم انٹلیکچول فورم کا آپ نے تذکرہ فرمایا تھا، اسی نہج پر یہاں کام کرنے کے لیے یہ فورم قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔
۱۴۔ ۱۸ اگست ۲۰۰۲ کو نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب (اسپیکر ہال) میںایک گوسٹھی ہوئی۔ اس کا انتظام سار بدیشک آرے پرتی ندھی سبھا نے کیا تھا۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور قومی ایکتا کے موضوع پر ایک تقریر کی۔
۱۵۔ دین دیال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) میں ۱۵ اگست ۲۰۰۲ کو ایک جلسہ ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہاں اشوک سنگھل نے اپنی تقریر میں کہا کہ قرآن کہتا ہے کہ کافروں کو مارو۔ اس کاجواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ قرآن میں کافر سے مراد کوئی نسل یا قوم نہیں۔ اس سے مراد پیغمبر کے وہ معاصر منکرین ہیں جنہوں نے آپ اور آپ کے اصحاب کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی تھی۔ اور پیغمبر اور آپ کے اصحاب کو دفاع میں ان سے لڑنا پڑا۔
۱۶۔ سعودی ٹی وی اورایجپٹ ٹی وی کے نمائندہ مسٹر محمد بسّام نسّان مصری نے ۱۸ اگست ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کشمیر کے مسئلہ سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ موجودہ حالت میں پاکستان کے سامنے صرف دو آپشن ہیں۔ یا تو وہ حالت موجودہ (statusquo) کو مان کر معاملہ ختم کردے یا تشدد کو براہ راست اور بلاواسطہ دونوں اعتبار سے مکمل طورپر چھوڑ کر پُرامن ڈائیلاگ کا طریقہ اختیار کرے۔
۱۷۔ نیشنل کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ (نئی دہلی) کی طرف سے ۱۹ اگست ۲۰۰۲ کو ایک سیمینار ہوا۔ یہ سیمینار جامعہ ہمدرد (نئی دہلی) کے کنونشن ہال میں منعقد کیاگیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکزنے اُس میں شرکت کی اوروہاں ایک تقریر کی۔ اس کا موضوع تھا: ہندستانی اسکولوں میں ویلو ایجوکیشن۔ اس موضوع پر ایک مفصل تقریر کی گئی۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ نصاب میںکچھ اخلاقی کتابیں شامل کرنے سے نوجوانوں میں اخلاق نہیں آجائے گا۔ اس مقصد کے لیے ایک ہمہ جہتی کوشش کی ضرورت ہے۔
۱۸۔ سہارا ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۱ اگست ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ گجرات کی گورو یاترا کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ گورویاترا نہیں ہے بلکہ وہ الیکشن یاترا ہے۔ اس کو پری الیکشن سرگرمیوں کے پس منظر میں دیکھنا چاہئے۔
۱۹۔ ایناڈو ٹیلی ویژن (EENADU TV) نے ۲۳ اگست ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر گجرات کے فساد سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ فساد کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نفرت اور غلط فہمی کے ماحول کو ختم کیا جائے۔ اس کے بغیر فساد کا مستقل خاتمہ نہیںہوسکتا۔
۲۰۔ جین وشو بھارتی انسٹی ٹیوٹ (راجستھان) کی خاتون وائس چانسلر سُدھا ماہی نے ۳۱ اگست ۲۰۰۲ کواپنے انگریزی میگزین (You) کے لیے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کاخاص موضوع یہ تھاکہ پازیٹیو تھنکنگ کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ پازیٹیو تھنکنگ یہ ہے کہ آدمی کی سوچ اتنا زیادہ ترقی کرچکی ہو کہ وہ منفی صورت حال میں بھی مثبت رسپانس دے سکے۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیاکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر انسان کو انسان کی حیثیت سے دیکھنا چاہئے۔ ہر مرد اور عورت کو یکساں احترام کے قابل سمجھنا چاہئے اور ہر حال میں پُر امن روش پر قائم رہنا چاہئے۔
۲۱۔ نئی دہلی (جن پتھ) کے نیشنل میوزیم میں ۱۲ ستمبر ۲۰۰۲ کی شام کو ایک سیمینار ہوا۔ اس کا انتظام نہرویووا کیندر کی طرف سے کیا گیا تھا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں خصوصی مقرر کے طور پر خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کا موضوع تھا: اسلام کیا ہے۔ اس موضوع پر دو گھنٹہ کا پروگرام تھا۔ آخر میںحاضرین کی طرف سے سوالات کیے گیے اور اُن کے جوابات دیے گئے۔
۲۲۔ ستمبر ۲۰۰۲ کے وسط میںادارہ الرسالہ ہندی کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے بمبئی کا سفر کیا۔ اس سلسلہ میں مختلف پروگرام ہوئے۔ اس کی روداد انشاء اللہ سفر نامہ کے تحت الرسالہ میںشائع کردی جائے گی۔
۲۳۔ انڈین کونسل آف ریلیجس لیڈرس (نئی دہلی) کی طرف سے اعلیٰ طبقہ کے ہندوؤں کا ایک وفد اجودھیا لے جایا گیا۔ وہ لکھنؤ اور فیض آباد ہوتے ہوئے اجودھیا پہنچا۔ یہ پروگرام ۱۹۔۲۰ ستمبر ۲۰۰۲ کو ہوا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کو بھی شریک کیا گیا تھا۔ اس سفر میں مختلف ہندو رہنماؤں سے گفتگو ہوئی اور اجودھیا کے ایک بڑے جلسہ میں خطاب کیا۔ اس خطاب کا خلاصہ یہ تھا کہ ملک کی ترقی ٹکراؤ کے ذریعہ نہیں ہوسکتی بلکہ رواداری اور میل ملاپ کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔
۲۴۔ یکم اکتوبر ۲۰۰۲ کو راشٹریہ سہارا (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر ودود ساجد نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس مسئلہ سے تھا کہ گودھرا اور گجرات جیسے فسادات کاحل کیا ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ اس کا حل یہ ہے کہ ایک طرف سماج کی جانب سے کھلی مذمت اور دوسری طرف حکومت کی جانب سے مجرمین کو مکمل سزا۔ ہمارے ملک میں یہ دونوں کام نہیں ہوئے۔ اخلاقی مذمت جانبدارانہ انداز میں کی جاتی ہے، اسی طرح حکومت کی طرف سے مجرمین کو سزا نہیں ملتی۔ اگر یہ دونوں باتیں ہوں تو فسادات بہت کم وقت میں ختم ہو جائیں۔
۲۵۔ گاندھی سمیتی کے زیر اہتمام برلا ہاؤس (نئی دہلی) میں ۶اکتوبر ۲۰۰۲ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا کہ نوجوانوں میں پیس اور ڈسیپلن کس طرح لایا جائے۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔ حاضرین میں زیادہ تر نوجوان لوگ تھے۔
۲۶۔ تہران ریڈیو نے ۷ اکتوبر ۲۰۰۲ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ایک امریکی مصنف نے لکھا ہے کہ اسلام ٹیررزم کا مذہب ہے۔ سوالات کا تعلق اسی سے تھا۔ جواب میں دلائل سے بتایا گیا کہ یہ ایک لغو بات ہے۔ اس الزام کی تردید میں میری متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ تازہ کتاب کا نام ہے، آئیڈیالوجی آف پیس۔
۲۷۔ نظریۂ امن (Ideology of Peace) کے نام سے ایک تازہ کتاب تیار ہوئی ہے۔ فی الحال وہ انگریزی زبان میںچھپی ہے جو ۱۳۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد انشاء اللہ وہ اردو میں بھی شائع ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

Sunday, 1 December 2002

Al Risala | December 2002 (الرسالہ،دسمبر)

2

- فرقوں میں بٹ جانا

3

- مثبت فکر

4

- سوال و جواب (فرائیڈے اسپیشل کے لئے)

39

- ایک خط

43

- ایک خط


فرقوں میں بٹ جانا

اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور باہم اختلاف کیا جب کہ ان کے پاس واضح دلائل آچکے تھے۔ اور ان کے لئے بڑی سزا ہے۔ (آل عمران ۱۰۵)
جب کسی قوم کی توجہ خدا کی طرف سے ہٹتی ہے تو اس کی توجہ اپنے آپ کی طرف لگ جاتی ہے۔ اب اس کے افراد کے اندر خود پسندی اور مفاد پرستی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ افتراق اور اختلاف ہے۔ جب لوگوں کی توجہ خدا کی طرف لگی ہوئی ہو تو آپس کا اختلاف قدرتی طورپر دب جاتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ باہمی اتحاد ہو تا ہے۔ اس کے برعکس جب لوگو ں کی توجہ اپنی ذات کی طرف لگ جائے تو ہر ایک کی رائے اور ہر ایک کا مفاد الگ الگ ہو جاتا ہے۔اس کے قدرتی نتیجہ کے طورپر باہمی اختلاف اور آپس کا ٹکراؤ پیدا ہو تا ہے۔
اتحاد خدا سے خوف کا لازمی نتیجہ ہے، اور اختلاف خدا سے بے خوفی کا لازمی نتیجہ۔کسی مذہبی گروہ میں اختلاف اس بات کی علامت ہے کہ اس کی زندگی تقویٰ کی پٹری سے اتر کر کسی اور پٹری پر چلنے لگی ہے۔اتحاد نام ہے اختلاف کے باوجود متحد ہونے کا۔ مختلف اسباب سے ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان طرح طرح کے اختلاف پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ اختلافات ناگزیر ہیں۔ کسی بھی تدبیر سے اختلافات کے وجود کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی حالت میںاصل چیز یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے درمیان سرے سے اختلاف موجود نہ ہو۔ اصل چیز یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ مزاج پایا جائے کہ وہ اختلاف کے باوجود باہم مل کر کام کرسکیں۔
یہ مزاج لوگوں کے اندر کسی برتر مشن کے نتیجہ میں پیدا ہوتاہے۔ خدا کا سچا عقیدہ لوگوں کے اندر یہی مزاج پیدا کرتا ہے۔ خدا کی عظمت کا تصور لوگوں کی نظرمیں بقیہ تمام چیزوں کی اہمیت کو گھٹا دیتا ہے۔ مزاج کی یہ تبدیلی لوگوں کے اندر یہ حوصلہ پیدا کرتی ہے کہ وہ اختلاف کو نظر انداز کرکے باہم متحد ہو جائیں۔
واپس اوپر جائیں

مثبت فکر

دور اول کے مسلمانوں نے جو بے نظیر کامیابی حاصل کی اس کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ ان میں کا ہر فرد مکمل معنوں میں مثبت سوچ (Positive Thinking) کا مالک تھا۔ وہ ،قرآن کے مطابق عسر میں یسر کا پہلو تلاش کر لیتا تھا۔ وہ بظاہر شکست کے واقعہ میں فتح کا راز دریافت کر لیتا تھا۔ اس کے لئے پوری دنیا اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ مثبت خوراک کا دستر خوان بن گئی تھی۔ مسلمانوں کا یہی مزاج تقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ انیسویں صدی میں جب مسلم سلطنتیں اہل مغرب کے ہاتھوں ٹوٹ گئیں تو اس کے بعد جو مسلم رہنما اٹھے وہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو چکے تھے ۔انہوں نے دور جدید کی مسلم نسلوں کو احتجاجی ذہن میں مبتلا کر دیا۔ ساری دنیا کے مسلمان ، خواص اور عوام دونوں احساس محرومی (Persecution Complex) میں مبتلا ہوگئے۔ اس نازک تاریخی موقع پر مسلم رہنمائوں کی اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا گئے جس کو انگریزی میں پیرا نوئیا(Paranoia) کہاجاتاہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار کر لیںگے اور اگر وہ فلاح کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار نہ کریں گے (الاعراف۔۱۴۶)
اس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ لوگ منفی پکار کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں، مگر مثبت پکار کی طرف وہ اس طرح نہیں دوڑتے اس کا سبب یہ ہے کہ منفی کلام حال کی زبان میں ہوتا ہے اور مثبت کلام ہمیشہ مستقبل کی زبان میں ، اور تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ مستقبل کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور حال کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت زیادہ۔
اس دنیا میں ہر قسم کی ناکامیوں کا راز منفی طرز فکر ہے اور ہر قسم کی کامیابی کا راز مثبت طرز فکر۔ منفی طرز فکر ہر قسم کی دینی اور اخلاقی برائیوں کا سر چشمہ ہے اور مثبت طرز فکر اس کے مقابلے میں ہر قسم کے دینی اور دنیوی خیر کا سر چشمہ ۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

(سہ ماہی السلام، نئی دہلی کے سوال نامے کا جواب)
سوالات
۱۔ اسلام اگر ایک مہذب اور مثقف مذہب ہے تو وہ دوسرے مذاہب کی توہین کیوں کرتا ہے۔ اگر اس کی روحانی اور عملی قدریں بہت بلند ہیں تو وہ دیگر اقوام کے لیے تحقیر آمیز الفاظ کیوں استعمال کرتا ہے، کیا یہ ایک مذہب کا دوسرے مذہب کے تئیں نفرت کا اظہار نہیںہے؟۔
الف۔ جب مشرک کو اسلام کی مذہبی کتابوں میں نجس کہا جاتا ہے اور ان کی بنائی ہوئی چیزوں کو چھونے سے روکا جاتا ہے اور اسلامی سلطنت میں برابر کے حقوق نہیں دیئے جاتے ہیںتو کیا اسلام کا ہندو دھرم یا دیگر مذاہب کے ساتھ برا سلوک نہیں ہے؟
ب۔ اسلام کی مذہبی کتابوں میں کافر اور مشرک کا لفظ کچھ اس طرح استعمال کیا گیا ہے کہ اس سے ہندو دھرم کے ماننے والوں کو مراد لے کر کم تر درجے کا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کیا یہ مناسب بات ہے؟۔
ج۔ قرآن میں جگہ جگہ کافروں سے لڑنے اور مشرکین کا خون بہانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ بات ایسی صورت حال میں اور بھی خطرناک ہو جاتی ہے جب کافر سے ہندو دھرم کے ماننے والے ہی مراد لئے جاتے ہیں، تو کیا خونریزی کی یہ تعلیم امن و امان کے خلاف ایک نظریاتی اور عملی کوشش نہیں ہے؟۔
۲۔ جہاد کے بہت سے معانی ہوتے ہیں لیکن اس کا اصل معنٰی اس قوم کے ساتھ جنگ کرنا ہے جو مسلمان نہ ہو۔ گویا مسلم قوم کی سیاسی بالادستی کے لئے لڑائی کرنا ۔ کیا اس خیال کی تشہیر منطقی اور معقول بات ہے؟۔
۳۔ اسلام پر ایک الزام ہے کہ وہ نوع انسانی کو دو حصوں، مسلم و کافر میں تقسیم کرتا ہے۔ مسلمان نہ ہونے کی صورت میں کافر قرار دیتا ہے۔ ہندو سماج کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے جس کی وجہ سے دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں، نفرت و عناد جنم لیتی ہے اور فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔
قرآن کریم کی وہ آیات جن پر اکثر و بیشتر اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:
الف۔ انما المشرکون نجس (التوبہ ۲۸)
ب۔ فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم وخذوہم واحصروہم واقعدوا لہم کل مرصد (التوبہ ۵)
ج۔ لایتخذ المؤمنون الکافرین اولیاء من دون المؤمنین و من یفعل ذالکفلیس من اللہ فی شئ الا ان تتقوا منھم تقٰۃ (آل عمران ۲۸)
د۔ یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیہم بالمودۃ وقد کفروا بما جاء کم من الحق ( الممتحنۃ ۱)
ہ۔ یاایہا النبی جاہد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم و ماواہم جہنم وبئس المصیر (التوبۃ ۷۳)
و۔ ایہا الجاہلون (قل افغیر اللہ تأمرونی اعبد ایہا الجٰہلون) (الزمر ۶۴)
ز۔ یا ایہا الذین آمنوا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار ولیجدوا فیکم غلظۃ (التوبۃ ۱۲۳)
ح۔ یا ایہا النبی حرض المؤمنین علی القتال، ان یکن منکم عشرون …الخ (الانفال ۶۵)
ط۔ قاتلوا الذین لایؤمنون باللہ والیوم الآخر ولا یحرمون ما حرم اللہ و رسولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اُوتوا الکتب حتی یعطوا الجزیۃ عن یَد وہم صٰغرون (التوبہ ۹۲)
جوابات
۱۔ یہ بات سراسر خلاف واقعہ ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب کی توہین کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں سے ایک تعلیم یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کو بُرا نہ کہا جائے ۔ کیوں کہ اس سے مذاہب کے درمیان باہمی احترام کا ماحول ختم ہوتا ہے (الانعام ۱۰۸) اسی طرح یہ بات بھی سراسر بے بنیاد ہے کہ اسلام دوسری قوموں کی تحقیر کرتا ہے۔ اس کے برعکس، قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے پیغمبروں نے اپنے غیر مسلم معاصرین کوہمیشہ ’’ائے میری قوم‘‘ کہہ کر خطاب کیا (الأعراف ۵۹)۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے مطابق، دیگر اقوام کو نہ غیر قوم سمجھنا درست ہے اور نہ اُن کے ساتھ بُرا سلوک کرنا جائز ہے۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق، کھُلے دشمن کے ساتھ بھی نفرت کرنا جائز نہیں (فصلت ۳۴) ۔ ایسی حالت میں صرف مذہبی فرق کی بناپر نفرت کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔
الف۔ یہ کہنا درست نہیں کہ اسلام میںمشرک کو عمومی طورپر نجس قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کی آیت انما المشرکون نجس (التوبہ ۲۸) کا یہ مطلب نہیں۔ یہ آیت محدود زمانی مفہوم میں ہے۔ اس میں ’’المشرکون‘‘ سے مراد صرف عرب کے وہ قدیم مشرک ہیں جو پیغمبرﷺکے ہم عصر تھے۔ اُنہوں نے کسی حق کے بغیر یہ کیا تھا کہ حضرت ابراہیم کے تعمیر کیے ہوئے دار التوحید کو ظلماً دارالاصنام بنا دیا تھا۔ اس لیے رسول اللہ کے ان معاصر لوگوں کے بارے میں قرآن میں یہ حکم آیا کہ ـــیہ مشرکین نجس ہیں۔ اس لیے وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے نزدیک نہ آئیں (التوبہ ۲۸)۔
اسی طرح یہ بات بالکل غلط ہے کہ مشرکین کی بنائی ہوئی چیزوں کو چھونا اسلام میں ناجائز ہے۔ یہ سراسر بے بنیاد بات ہے۔ اس کی کوئی اصل اسلام کی تعلیمات میں نہیں۔ خود رسول اللہ ﷺنے مشرکین کی بنائی ہوئی چیزوں کو مَس کیا ہے۔ حال میں کچھ لوگوں نے یہ ’’فتویٰ‘‘ دیا کہ امریکہ کی مصنوعات کو مسلمان نہ خریدیں۔ یہ بلاشبہہ ایک خود ساختہ فتویٰ ہے۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات بھی سراسر بے بنیاد ہے کہ اسلامی سلطنت میں غیر مسلموں کو برابر کے حقوق حاصل نہیں۔ بین اقوامی امور میں اسلام کا وہی مسلک ہے جو دوسری قوموں کا مروّجہ مسلک ہے۔ اس لیے آج اگر اسلامی ریاست قائم ہوتو اُس میں غیر مسلموں کو وہی حقوق دیے جائیں گے جو اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق عالمی حقوق سمجھے جاتے ہیں (سیرت ابن ہشام، الجزء ۴؍۲۷۲)۔
ب۔ اسلام انسانی برابری کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام میں کم تر انسان اور برتر انسان کا کوئی تصور نہیں۔ قرآن کی مدنی سورتوں میں بعض مقامات پر کافر یا کفار کا لفظ آیا ہے۔ مگر یہ لفظ خدا کی طرف سے ہے، نہ کہ اہلِ اسلام کی طرف سے۔ مثلاً نبوت کے تیرہویں سال قرآن میں یہ آیت اُتری کہ: قل یا ایہا الکافرون (الکافرون ۱) ۔مگر رسول یا اصحاب رسول نے کبھی اپنے ہم عصر غیرمسلموں کوایہا الکافرون کہہ کر خطاب نہیں کیا۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد صحابہ و تابعین ایشیا اور افریقہ کے مختلف ملکوںمیں پھیل گئے جہاں کی آبادی اُس وقت غیر مسلموں پر مشتمل تھی۔مگر کسی بھی ملک میں اُنہوں نے یہ نہیں کیا کہ وہاں کے لوگوں کو ’’اے کافرو‘‘ کہہ کر خطاب کریں۔ اس کے برعکس اُنہوں نے یہ کیا کہ کوئی قوم اپنے آپ کو جو نام دیئے ہوئے تھی اُسی نام سے اُس کو پکارا۔ مثلاًشام میںنصاریٰ، فلسطین میں یہود، ایران میں مجوس، چین میں بوذا، ہندستان میں ہندو، مصر میں قبطی، وغیرہ۔
ج۔ یہ بات سراسر بے بنیادہے کہ قرآن میں کافروں اور مشرکوں سے لڑنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ کافروں اور مشرکوں کے مقابلہ میں قرآن کا حکم اصلاً صرف ایک ہے، اور وہ تبلیغ ما أنزل اللہ (المائدہ ۶۷) ہے۔ یعنی خدا کی دی ہوئی تعلیمات کو انتہائی پُر امن انداز میں لوگوں تک پہنچانا۔ اگر مخاطبین کی طرف سے اذیت رسانی ہو تب بھی پُر امن رویّہ پر قائم رہتے ہوئے پیغام رسانی کا کام جاری رکھنا۔ جہاں تک لڑائی یا جنگ کا تعلق ہے، اُس کی اجازت صرف اُس وقت ہے جب کہ اہل اسلام کے خلاف کھلی جارحیت کی جائے اور اُن کو مجبورانہ دفاع کے تحت لڑنا پڑے۔ (البقرہ ۱۹۰، الحج ۳۹)۔
ہندو دھرم کے ماننے والوں کو کافر کہنا سراسر غیر اسلامی ہے، بلکہ وہ ایک گناہ کا فعل ہے۔ کافر سے مراد کوئی نسل یا گروہ نہیں۔ کافر کا مطلب ہے انکار کرنے والا۔ انکار کا تحقق صرف اُس وقت ہوتا ہے جب کہ کسی گروہ پر دعوت کا پُر امن عمل کیا جائے اور اُس کو تمام ضروری شرائط کی ادائیگی کے ساتھ اتمام حجت تک پہنچا دیا جائے، اس کے باوجود وہ گروہ انکار کی روش پر قائم رہے۔ مزید یہ کہ اس انکار کا تعلق مکمل طورپر انسان کی نیت سے ہے اور نیت کا حال صرف اللہ کو معلوم ہے۔ اس لیے کسی فرد یا گروہ کو کافر (منکر) قرار دینا صرف اللہ عالم الغیب کا حق ہے۔ اس مفہوم کے اعتبار سے کوئی ایک نسل کافر (منکر) ہوسکتی ہے جس پر اتمام حجت کیا گیا ہو۔ اُس کی بعد کی نسلوں پر پھر بھی اس لفظ کا اطلاق نہیںہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ ظہور اسلام کے بعد ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے کبھی کسی قوم کو کافر کا لقب نہیںدیا، وہ اُنہیں ان کے معروف نسبتی نام سے پکارتے رہے۔ یہ زبان پچھلے دو سو سال کے دوران استعمال ہوئی ہے جب کہ مسلمانوں کو غیر مسلم قوموں کے مقابلہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ درحقیقت موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی طرف سے احساس نفرت کا اظہار تھا، نہ کہ احساس دینی کا اظہار۔ اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ ظہور اسلام کے بعد ایک ہزار سال تک مسلمان اپنے دوردعوت میں تھے اور اب وہ اپنے دور نفرت میں ہیں۔ کافر اور دشمن کے الفاظ در اصل مذہبِ نفرت کی پیداوار ہیں، نہ کہ مذہبِ اسلام کی پیداوار۔
خونریزی اسلام کی تعلیم ہی نہیں۔ اسلام کی تمام تعلیمات امن اور انسانی خیر خواہی پر مبنی ہیں۔ اس مسئلہ پر اسلام کے نقطۂ نظر کو میں نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جو ماہنامہ الرسالہ اکتوبر ۲۰۰۲ میں ’’امن کلچر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔
۲۔ جہاد کا لفظی مفہوم کوشش یا جدوجہد ہے۔ اس سے مراد اسلام کے دعوتی مقصد کے لیے پُرامن جدوجہد کرناہے۔ جہاد کا کوئی بھی براہ راست تعلق جنگ سے نہیں۔
قرآن میں جنگ کے لیے قتال کا لفظ آیا ہے۔ مگر قرآن کے مطابق، قتال کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ غیر مسلموں پر مسلمانوں کا غلبہ قائم کرنے کے لیے جنگ کی جائے۔ اس قسم کی جنگ قرآن کے مطابق، نہ جہاد ہے اور نہ قتال۔ بلکہ وہ ایک قومی سرکشی ہے جس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کی جنگ فساد ہے، نہ کہ جہاد۔ جو نظریہ سرے سے درست ہی نہ ہو اُس کی تشہیر کیو ں کر معقول ہوسکتی ہے۔
۳۔ یہ سراسر الزام ہے کہ اسلام میں نوع انسانی کو مسلم و کافر میں تقسیم کیا گیا ہے۔ قرآن میں بار بار ایہا الانسان اور ایہا الناس کا لفظ استعمال ہوا ہے جن کی مجموعی تعداد قرآن میں ۳۱۵ ہے۔ اس سے اور دوسری قرآنی آیتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک زمین پر بسنے والے تمام لوگوں کی اصل حیثیت صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ وہ انسان ہیں۔ تمام لوگ بنی آدم ہونے کی حیثیت سے یکساں طورپر بنی آدم کا حصہ ہیں۔ ان میں سے جن لوگوں کو خدائی حق کی معرفت ہوجائے اور وہ اُس کو قبول کرلیں تو وہ اللہ کے نزدیک مومن قرار پائیں گے۔ ہندو سماج کے ذہن میںاس سلسلہ میں جو غلط فہمی پیدا ہوئی ہے اُس کا سبب اسلام کی حقیقی تعلیمات نہیں ہیں بلکہ کچھ مسلمانوں کی غلط نمائندگی ہے۔ چنانچہ جو ہندو مسلمانوں کی روش سے قطع نظر کرکے براہ راست طورپر اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں وہ کبھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوتے۔ اس معاملہ کی ایک مثال ڈاکٹر نشی کانت چٹو پادھیا ہیں۔ ان کا پورا واقعہ خود اُنہی کے الفاظ میں، راقم الحروف کی کتاب اسلام ری ڈسکورڈ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ہندستان میں جو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے یا ہورہے ہیں، اُن کا کوئی بھی تعلق اسلام کی تعلیمات سے نہیں ہے۔ وہ براہ راست طورپر دو قومی سیاست اورتقسیم ملک کی غیر فطری تحریک کا نتیجہ ہیں۔ اس کا سادہ ثبوت یہ ہے کہ اس غیر فطری اور غیر دانش مندانہ تحریک سے پہلے تقریباً ہزار سال تک ہندو اور مسلمان بر صغیر ہند میں مل جل کر رہتے تھے۔ اُن کے درمیان کبھی وہ چیز مشاہدہ میں نہیں آئی جس کو آج کل فرقہ وارانہ فساد کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ وارانہ فساد یقینی طورپر تقسیم کے غیر فطری عمل کا نتیجہ ہے، نہ کہ اسلام کی تعلیم کا نتیجہ۔
سوال نامے میں قرآن کی ۹ آیتوں کا حوالہ دیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اعتراض کرنے والے انہی آیتوں کو لے کر اعتراض کرتے ہیں۔ مگر یہ تمام اعتراضات صرف غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ ان محوّلہ آیتوں کا جواب مختصر طورپر یہاں درج کیا جاتا ہے۔
(الف) قرآن میںنجس کا لفظ صرف رسول کے اُن معاصر لوگوں کے بارے میں آیا ہے جنہوں نے ناجائز طورپر بیت اللہ میں ۳۶۰ بُت رکھ دیئے تھے۔ اُن کے بارے میں کہا گیا کہ آئندہ وہ بیت اللہ کے قریب نہ آئیں (التوبہ ۲۸) یہ حکم خصوصی ہے، نہ کہ عمومی۔
(ب) قرآن کی جس آیت میں مشرکین کے قتل کا حکم ہے، اُس سے مراد رسول اللہ کے وہ معاصر لوگ ہیں جو مکہ میں تھے اور جنہوں نے اپنے مسلسل عمل سے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ ظالم اور جارح لوگ ہیں۔ اس حکم کا دوسری اقوام یا دوسری نسلوں سے کوئی تعلق نہیں۔
(ج) قرآن کی جس آیت میں یہ حکم آیا ہے کہ اہل ایمان اہل کفر کو اپنا اولیاء نہ بنائیں اُس سے مراد زمانۂ رسالت کے وہ مخصوص اہل کفر ہیں جنہوں نے یک طرفہ طورپر دشمنی اور جارحیت کی روش اختیار کر رکھی تھی۔ یہ حکم بھی یقینی طورپر وقتی اور خصوصی ہے، نہ کہ ابدی اورعمومی۔
(د) اسی طرح قرآن کی جس آیت میں اہل ایما ن کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے عدو سے مودت کا طریقہ اختیار نہ کریں، اُس کا تعلق صرف عرب کے ایک جارحگروہ سے ہے۔ یہ بلاشبہہ ایک استثنائی حکم ہے۔ جہاں تک عداوت کے مقابلہ میں اسلام کے عمومی حکم کا تعلق ہے، وہ قرآن کی سورہ نمبر ۴۱، آیت نمبر ۳۴ میں بیان ہوا ہے۔ اس کے مطابق، اہل اسلام کو اپنے اعداء کے مقابلہ میں رد عمل کا طریقہ نہیں اختیار کرنا چاہئے بلکہ انہیں یک طرفہ حُسن سلوک کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
(ہ) قرآن کی جس آیت میں کفار اور منافقین سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے اُس سے مراد ہر گز جنگ نہیں ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی منافقین سے جنگ نہیں کی۔ یہ دراصل تشدیدی لحظہ کی ایک مثال ہے جس کو مُصلح بعض اوقات اصلاح کے لیے اختیار کرتا ہے۔
(و) قرآن کی جس آیت میں جاہلون کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اُس سے مراد ناواقف اور بے خبر ہونا ہے۔ یعنی بے خبر لوگوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ وہ باخبر شخص سے بے دلیل تکرار کرنے لگیں۔
(ز) مذکورہ آیت میںکفارسے مراد جارح کفار ہیں۔ یہ آیت بھی قرآن کے ایک خصوصی اور زمانی حکم کو بتاتی ہے، نہ کہ عمومی اور ابدی حکم کو۔ اس میں مسئلۂ جارحیت کا حکم بتایا گیا ہے، نہ کہ مذہبی اختلاف کا حکم۔
(ح) اس نمبر کے ذیل میں قرآن کی جس آیت کا حوالہ دیاگیا ہے اُس کا تعلق اُن لوگوں سے ہے جنہوں نے یک طرفہ جارحیت کرکے اہلِ اسلام پر حملہ کردیا ہو اور اہلِ اسلام کو دفاع کے طور پر اُن سے لڑنا پڑے۔
(ط) اس آیت کا تعلق بھی حالت جارحیت سے ہے۔ اس آیت میں لا یدینون دین الحق کا لفظ صرف قید اتفاقی کے طورپر آیا ہے۔اس حکم کا انطباق صرف دور اوّل کے کچھ لوگوں پر کیا گیا۔ اس کے بعد اس حکم کی توسیع نہیں کی گئی، جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے۔
آخر میںعرض ہے کہ قرآن کی مذکورہ آیتوں کا جو مفہوم راقم الحروف نے یہاں بیان کیا ہے وہ ان آیتوں کا کوئی نیامفہوم نہیں۔ قرون مشہود لہا بالخیر میں عام طورپر ان آیتوں کا یہی مفہوم سمجھا گیا ہے اور اسی کے مطابق، عمل کیا جاتا رہا ہے۔ میں نے اپنی تحریروں میں اسلام کے اس پہلو کو تفصیل کے ساتھ واضح کیا ہے۔ مثال کے طورپر ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب: دین انسانیت۔
تاہم موجودہ زمانہ میں کچھ مسلمانوں کو مذکورہ تشریحات اجنبی معلوم ہو سکتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں ایک نئی کمزوری پیدا ہوئی ہے جو اس سے پہلے کبھی مسلمانوں میں نہ تھی۔ اور وہ ہے غیر مسلموں کے خلاف نفرت۔ آج کل کے مسلمان عام طورپر غیر مسلموں کے بارے میں نفرت کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ اور جو لوگ نفرت کی نفسیات میں جیتے ہوں وہ منفی باتوں کو تو خوب سمجھیں گے مگر مثبت باتیں ان کے لیے اجنبی ہو جائیں گی۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی یہ حالت اُس حدیث رسول کے عین مطابق ہے جس میں پیشگی طورپر یہ خبر دی گئی تھی کہ: بدأ الاسلام غریبا وسیعود کما بدأ (مسلم کتاب الایمان، الترمذی کتاب الایمان، ابن ماجہ کتاب الفتن، الدارمی کتاب الرقاق، مسند احمد)یعنی اسلام شروع ہوا تو وہ لوگوں کے لیے اجنبی تھا اور دوبارہ وہ لوگوں کے لیے اجنبی بن جائے گا جیسا کہ وہ پہلے اجنبی تھا۔ ۲۶؍ ستمبر ۲۰۰۲
سوال و جواب
(پندرہ روزہ فرائیڈے اسپیشل، نئی دہلی کے سوالنامے کا جواب)
سوالات
۱۔ جماعت اسلامی کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟
۲۔ ایک خیال یہ ہے کہ جماعت اسلامی اقامت دین کی جدو جہد کے ساتھ اقامت سیکولرزم کے لئے بھی کوششیں کر رہی ہے۔
۳۔ جماعت اسلامی میں ممتاز علمائے کرام نظر نہیں آتے جیسا کہ ماضی میں تھا۔ کیا علماء کا طبقہ ا س کی طرف نہیں آرہا ہے۔ آخر کیوں؟
۴۔ جماعت اسلامی میں مجموعی طور پر اشاعت دین کا وہ جذبہ نظر نہیں آتا جو قدیم کارکنوں کے یہاں تھا۔ کیا یہ قیادت کی کمزوری ہے یا ارکان کی تربیت میں کمی آگئی ہے؟
۵۔ کارکنوں کے باہمی تعلقات میں بھی دوریاں پیدا ہوگئی ہیں اور ’’بنیان مرصوص‘‘ والی کیفیت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔
۶۔ الیکشن کے معاملہ پر جماعت اسلامی میں اکثر و بیشتر شدید اختلافات پیدا ہوتے رہے ہیں۔ کیا مٹھی بھر افرادی قوت رکھنے والی پارٹی کو متنازع معاملات میں اپنی قوت صرف کرنی چاہئے۔ بعض حلقے اسے شمالی اور جنوبی ہند کی کشمکش سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنوبی ہند کے لوگوں کو فرقہ وارانہ عصبیت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ ان میں مصالحت اور ہم آہنگی کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے جب کہ شمالی ہند کے حالات بالکل مختلف ہیں۔
۷۔ آپ کو نہیں لگتا کہ جماعت اسلامی ایک مقام پرآکر ٹھہر گئی ہے اور اس پر فکری جمود طاری ہے۔ تخلیقی لٹریچر میں جس طرح خود کو دہرایا جارہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے والوں کی بھی کمی ہوگئی ہے۔
۸۔ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ عصر حاضر کے مفکر اسلام مولانا مودودیؒ پر خصوصی نمبر شائع کرنے جارہا ہے جس میں مختلف پہلوؤں سے ان کی شخصیت پر مضامین شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ اس کے تحت مولانا مرحوم کی قائم کردہ جماعت اسلامی سے متعلق مذکورہ سوال نامہ آپ کی خدمت میں ارسال کیاجارہا ہے۔ہمیں امید ہے کہ آپ اس کا مفصل جواب عنایت فرمائیں گے ۔
جوابات
۱۔ جماعت اسلامی کے اپنے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اُس کی سب سے بڑی کامیابی یہ کہی جاسکتی ہے کہ اس نے ۱۹۴۰ کے بعد ایک معمولی تنظیم کی حیثیت سے اپنا آغاز کیا اور اب جماعت اسلامی مادی اعتبار سے ایک مؤسسہ(stablishment) کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ مؤسسہ کے بیشتر ظاہری لوازم اُس نے اپنے گرد جمع کرلیے ہیں۔ لیکن اگر اسلام اور ملّتِ اسلام کے اعتبار سے دیکھا جائے تو شاید جماعت اسلامی کا کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں ۔
اسلام کے اعتبار سے جماعتِ اسلامی کی سب سے بڑی فکری ناکامی یہ ہے کہ اُس نے اسلام کی غلط تعبیرپیش کی۔ اُس نے اسلام کو، وقت کے مروّجہ مزاج کے مطابق، سیاست کی اصطلاحوں میں بیان کیا۔ اس کا ثبوت جماعت اسلامی کا پورا لٹریچر ہے۔ اس لٹریچر نے جن لوگوں کو متاثر کیا اُن کا حال یہ ہوا کہ وہ اسلام کو ایک قسم کا سیاسی نظریہ سمجھنے لگے۔ نتیجۃً اسلام کا اصل پہلو، خشوع اور تقویٰ اور انابت اور اخبات اور ربانیت جیسی چیزیں اُن کے ذہن میں اپنا حقیقی مقام نہ پاسکیں۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی عملاً ایک قسم کی سیاسی پارٹی بن کر رہ گئی۔
۲۔ یہ خیال بجائے خود درست ہے۔ مگر یہ جماعت اسلامی کی مجبوری ہے، نہ کہ اُس کے نقطۂ نظر سے کوئی انحراف۔ اصل یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اقامت دین کا ایک خود ساختہ تصور پیش کیا۔ اس خود ساختہ تصور کے مطابق، اقامت دین کا مطلب یہ تھا کہ اسلام کو ایک مکمل قانونی اور سیاسی نظام کے طورپر قائم کیا جائے۔ میرے نزدیک یہ نظریہ غیر اسلامی بھی تھا اور غیر حقیقی بھی۔ چنانچہ جب واقعی حالات سے سابقہ پیش آیا تو معلوم ہوا کہ یہ رومانی تخیل حقائق کی دنیا میں قابل عمل ہی نہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تجربہ ثابت کرتا ہے کہ جماعت اسلامی کا مفروضہ اقامتِ دین وہاں بھی قابل عمل نہیں۔ مگر پاکستان کے مخصوص حالات کی بنا پر وہاں کم ازکم یہ ممکن ہے کہ سیکولرزم کے خلاف شور و غل کا ہنگامہ جاری رکھا جائے۔ چنانچہ جماعت اسلامی پاکستان میں یہی کام کررہی ہے۔ اگر چہ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پاکستان میں جماعت اسلامی کی حیثیت ایک ایسی جماعت کی بن گئی جو صرف ازعاج کی صفت (nuisance value) رکھتی ہے۔ وہ مشکلات پیدا کرنے والی(trouble maker) تو ضرور ہے مگر وہ کوئی تعمیری رول ادا کرنے والی نہیں۔
جہاں تک ہندستان کا تعلق ہے، ۱۹۴۷ کے بعد یہاں کے افراد جماعت بھی، جماعت اسلامی کے بانی کی تقلید میں سیکولرزم کو باطل اور غیر اسلامی نظریہ بتاتے رہے۔ مگر ایک عرصہ کے بعد اُن پر کھلا کہ ہندستان جیسے ملک میں سیکولرزم کو باطل قرار دینے کے بعد اُن کے لیے دو میں سے ایک کا چوائس باقی رہتا ہے۔ یا تو وہ یہاں کے نظام کو طاغوتی نظام قرار دے کر اُس سے لڑیں اور اس راہ میں مرتے رہیں۔ یا پھر مصالحت کا طریقہ اختیار کرکے سیکولرزم کے زیر سایہ زندگی کا استحقاق حاصل کرلیں۔
سیکولرزم کے معاملہ میں جماعت اسلامی نے یہی مصالحانہ انداز اختیار کیا۔ میرے نزدیک سیکولرزم نہ تو طاغوتی نظریہ ہے اور نہ وہ غیر اسلامی ہے۔ سیکولرزم کے تحت ہم انتہائی جائز طورپر کسی ملک میں زندگی گذار سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی اگر کھلے طورپر اس قسم کا اعلان کرتی تو وہ موجودہ تضاد کا شکار نہ ہوتی۔ مگر ایسی صورت میں اُس کو یہ اعلان کرنا پڑتا کہ سیکولرزم کے بارے میں اُس کا پچھلا نظریہ غلط اور انتہا پسندانہ تھا۔ اُس نے اس معاملہ میں اپنی غلطی کا اعتراف نہیںکیا اور غلطی کا اعتراف نہ کرنے کی قیمت ہمیشہ یہ دینی پڑتی ہے کہ آدمی تضاد فکری اور تضاد عملی کا شکار ہوجائے۔
۳۔ یہ صحیح ہے کہ جماعت اسلامی کے ابتدائی دور میں کچھ ممتاز علماء وقتی طورپر اُس میںشریک ہوگئے تھے۔ ایک عرصہ کے بعد وہ اُس سے الگ ہوگئے۔ میرے نزدیک اس معاملہ میں اصل غلطی ممتاز علماء کی ہے، نہ کہ جماعت اسلامی کی۔ یہ علماء میرے نزدیک زیادہ غور وفکر کے تحت جماعت اسلامی میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ وہ زیادہ تر رومانی تخیل کے تحت اُس میں شریک ہوئے تھے۔ اور جب حالات نے رومانی تخیل کو توڑ دیا تو اس کے بعد اُن کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اُس سے الگ ہو جائیں۔
اس سلسلہ میں ایک بات یہ ہے کہ جو علماء جماعت اسلامی میںشمولیت کے بعد اُس سے الگ ہوئے، اُن سب کے علیٰحدگی کا ایک ہی مشترک سبب تھا۔ اور وہ یہ کہ اُنہیں جماعت اسلامی کی عملی سیاست سے اختلاف تھا، نہ کہ فکری معنوں میں اس کے نظریہسے۔ اصولی طورپر اس قسم کی علیٰحدگی کے لیے کوئی مبرّر(justification) موجود نہیں۔
اس معاملہ میں صرف راقم الحروف کا استثناء ہے۔ جماعت اسلامی سے میری علیٰحدگی عملی اختلاف کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ تمام تر فکری اور نظریاتی اختلاف کی بنا پر تھی جس کی تفصیل میری کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی سے علیٰحدگی کے لیے میرے پاس تو مبرّر ہے مگردوسرے علماء کے پاس اس کا کوئی مبرّر نہیں۔
۴۔ جماعت اسلامی کے ماضی اور حال میں یہ فرق ضرور پایا جاتا ہے۔ مگر یہ فرق فطری ہے۔ جماعت اسلامی کے قدیم کارکن وہ لوگ تھے جو جماعت کی پہلی نسل کی حیثیت رکھتے تھے اور اُس کے موجودہ کارکن اُس کی دوسری نسل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور کسی بھی جماعت یا تحریک کی ابتدائی نسل اور بعد کی نسل میں اس قسم کا فرق پیدا ہونا تقریباً لازمی ہے۔
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے قدیم کارکن بھی اْس زمانہ میں جو کام کرتے تھے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اشاعت دین کا کام نہ تھا بلکہ اشاعت سیاست کا کام تھا۔ یہ لوگ دین کے نام پر جماعت اسلامی کے بانی کا وہ لٹریچر پھیلاتے تھے جو حقیقی معنوں میں اسلام کی مطلوب تشریح نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کی خودساختہ سیاسی تشریح ہے۔ میرے نزدیک ایسے کسی کام کو اشاعت دین کا عنوان نہیں دیا جا سکتا۔
۵۔ کارکنوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں یہ شکایت بالکل درست ہے۔ مگر اس کا تعلق عروج و زوال کے فطری قانون سے ہے، نہ کہ خود جماعت اسلامی کے کسی داخلی سبب سے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر جماعت یا تحریک کی بعد کی نسلوں میں وہی گراوٹ آجاتی ہے جس کا مشاہدہ جماعتِ اسلامی کے موجودہ افراد میں کیا جا رہا ہے۔
۶۔ الیکشن کے معاملہ میں جماعت اسلامی کے لو گوں میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ جماعت کے بانی نے ’’ طاغوتی نظام‘‘ کے نام سے جو نظریہ پیش کیا، اُس کے مطابق،سیکولر جمہوری ریاست کے اندر الیکشن میںحصہ لینا حرام قرار پاتا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، تقسیم ملک کے بعد جماعتِ اسلامی کے بانی نے ایک دستوری نکتہ نکال کر یہ اعلان کر دیا کہ پاکستان کی ریاست نے کلمہ پڑھ لیا ہے اس لیے پاکستان میں الیکشن میں حصہ لینا جائز ہوگیا ہے۔
مگر ہندستان میں یہاں کی ریاست کے بارے میں اس قسم کی ’’کلمہ گوئی‘‘ کا بہانہ موجود نہ تھا۔ ایسی حالت میں جماعت اسلامی کے مبینہ نظریہ کے مطابق، ہندستان میں الیکشن میں حصہ لینا بدستور حرام تھا۔ مگر دھیرے دھیرے جماعت اسلامی والوں کو محسوس ہوا کہ اس قسم کا نظریہ سراسر ایک غیر عملی نظریہ ہے۔
اب جماعت اسلامی والوں کے لیے صحیح طریقہ یہ تھا کہ وہ یہ اعلان کردیں کہ اُن کا طاغوتی نظام کا فلسفہ ایک انتہا پسندانہ نادانی تھی۔ وہ ایک سیاسی غلو تھا جس کا تعلق نہ اسلام سے ہے او رنہ عقل سے۔ اگر وہ اس طرح اپنی غلطی کا اعلان کردیتے تو وہ کھلے طورپر الیکشن میں حصہ لے سکتے تھے۔ مگر انہوں نے ایسا اعلان نہیں کیا۔ اس کے نتیجہ میں جماعت اسلامی دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک وہ لوگ ہیں جو اعترافِ خطا کے بغیر الیکشن میں حصہ لینا درست سمجھتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو بانی جماعت کی تقلید میں بدستور الیکشن کو حرام سمجھ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے لیے اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ وہ یہ اعلان کردے کہ اُس کا سابقہ طاغوتی نظریہ درست نہ تھا۔ اس اعلان کے بغیر یہی ہوگا کہ کچھ لوگ مصلحت پسندانہ طورپر الیکشن میں حصہ لیں گے اور کچھ لوگ تقلیدی طورپر اُس کو حرام سمجھتے رہیں گے۔
۷۔ جماعت اسلامی میں ٹھہراؤ اور جمود کی بات بلاشبہہ درست ہے۔ مگر اس کا سبب لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے بلکہ جماعت اسلامی میں اعتراف کی کمی ہے۔اصل یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا فکر ایک رومانی دور میں بنا۔ اس کے فطری نتیجہ کے طورپر جماعت اسلامی نے ایک ایسا فکری نظام بنایا جو عملی سے زیادہ تخیّلاتی تھا۔ اس قسم کی رومانیت (romanticism) کا نتیجہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے جو جماعت اسلامی کے اندر پیش آیا۔ اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی میں وہ تحریک چلے جس کو عام طورپر تحریک نظر ثانی (revisionism) کہا جاتا ہے۔ یعنی جماعت اسلامی کے لوگ کھلے طور پریہ مانیں کہ اُن کی جماعت کے بانی نے فکری ناپختگی کی بنا پر غلط نظریات قائم کیے اور اسلام کی ایسی تشریح کی جس کا تعلق نہ دین سے تھا اور نہ عقل سے۔ اس حقیقت واقعہ کو مان کر جماعت اسلامی کے فکر پر نظر ثانی کی جائے اور اس کی تصحیح کرکے اُس کو شریعت اور حقائق کے مطابق بنایا جائے۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کی مذکورہ کمزوری اپنے آپ دور ہوجائے گی۔
جماعت اسلامی جس نظریہ پر اُٹھی وہ یہ تھا کہ انسانی اقتدار کا نام طاغوت ہے۔ اس نظریہ کے مطابق، موجودہ دنیا میں ہر جگہ طاغوتی نظام قائم ہے۔ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس طاغوتی نظام کو توڑ کر خدائی اقتدار کا نظام قائم کرے۔ اس کوشش کے بغیر جو موت ہوگی وہ جاہلیت کی موت ہوگی۔
یہ نظریہ نہ صرف خود ساختہ تھا بلکہ وہ ناقابلِ عمل بھی تھا۔ اس لیے جماعت ِ اسلامی کے لوگ دھیرے دھیرے اس نظریہ سے ہٹنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ دوسری مسلم جماعتوں کی طرح، صرف ایک ملّی جماعت بن کر رہ گئے۔ اس گراوٹ کے بعد اُن کے اندر وہ تمام خرابیاں آگئیں جو کسی جماعت کے اندر اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کہ اُس نے اعلان کے بغیر اپنا موقف بدل لیا ہو۔ اس کے بعد جماعت اسلامی اُسی طرح ایک مسلم قومی جماعت بن گئی جس طرح آر۔ ایس۔ ایس ایک ہندو قومی جماعت ہے۔
اگر کوئی شخص ایسا کرے کہ وہ ایک طرف آر ایس ایس کے آرگن، پانچ جنیہ اور آرگنائزر کے ایک سال کے شمارے اکٹھا کرے اور دوسری طرف وہ جماعت اسلامی کے آرگن دعوت اور ریڈینس کے ایک سال کے شمارے اکٹھا کرے اور پھر دونوں کا تقابلی مطالعہ کرے تو وہ پائے گا کہ الفاظ کے فرق کے ساتھ دونوں میں حیرت انگیزمشابہت ہے۔ آر ایس ایس کے پرچے اگر اینٹی ہندو سازشوں اور اینٹی ہندو سرگرمیوں کے انکشاف کا دفتر ہیں تو جماعت اسلامی کے پرچے اینٹی مسلم سازشوں اور اینٹی مسلم سرگرمیوں کے انکشاف کا دفتر۔ یہ مشابہت اتنی زیادہ نمایاں ہے کہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پانچ جنیہ اور آرگنائزر ہندوؤں کے دعوت اور ریڈینس ہیں اور دعوت اور ریڈینس مسلمانوں کے پانچ جنیہ اور آرگنائزر۔
اس کانتیجہ یہ ہے کہ پانچ جنیہ اور آرگنائزر پڑھنے والے ہندو جس طرح مسلمانوں کے بارہ میں منفی سوچ کا شکار ہو جاتے ہیں، ٹھیک اسی طرح دعوت اور ریڈینس پڑھنے والے بھی اینٹی ہندو سوچ کا شکارہیں۔
اس منفی ذہن نے جماعت اسلامی کے افراد کو بیک وقت دو برے تحفے دیے ہیں۔ اس منفی ذہن کی بنا پرایک طرف وہ لوگ دعوت کے قابل نہیں رہے ہیں۔ دعوت مدعو کے حق میں گہری خیرخواہی کے تحت پیدا ہوتی ہے۔ اب جو لوگ اپنے مدعو کے خلاف منفی سوچ میں مبتلا ہوں وہ مدعو کے حق میں یک طرفہ خیر خواہ نہیں بن سکتے۔ اس طرح کی منفی سوچ آدمی کو دعوت کے عمل کے لیے بالکل نا اہل بنا دیتی ہے۔ آج کل جماعت اسلامی کے لوگ دعوت کے نام سے جو کچھ کررہے ہیں، وہ میرے نزدیک ایک قسم کا پروفیشن ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی سنجیدہ مشن۔ وہ صرف ایک ظاہری نوعیت کا جماعتی پروگرام ہے، نہ کہ لعلّک باخع نفسک (الشعراء ۳) کی نفسیات کے تحت ظاہر ہونے والا کوئی ربّانی عمل۔اس منفی سوچ کا دوسرا اس سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی کا سینہ مثبت نفسیات سے خالی ہو جائے گا۔ اور جس آدمی کا سینہ مثبت نفسیات سے خالی ہو وہ اعلیٰ ربّانی احساسات کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ اُس کی زندگی میں بظاہر نماز روزہ دکھائی دے گا۔ مگر اس کا یہ نماز روزہ اُس کی زندگی کا صرف ایک رسمی حصہ ہوگا۔ وہ ربّانی نفسیات کا اظہار نہیں ہو سکتا۔
۸۔ مولاناابوالاعلیٰ مودودی کی قائم کردہ جماعت اسلامی کے بارے میں میں نے اوپر اپنے خیالات کا اظہار کردیا ہے۔ جہاں تک مولانا مودودی کی شخصیت کا تعلق ہے، اس سلسلہ میں عرض ہے کہ میرے مطالعہ کے مطابق، وہ کوئی مفکر (thinker) نہ تھے۔ آج کل ایک عجیب ر واج یہ ہوگیا ہے کہ لوگ اپنی محبوب شخصیتوں کو خوش عقیدگی کے تحت مفکر لکھ دیا کرتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک اس لفظ کا یہ استعمال درست نہیں۔آج کل جن مسلم افراد کو مفکر کا نام دیا جاتا ہے، وہ سب یا تو شاعر تھے یا خطیب تھے یا ادیب۔ ذاتی طورپر میں مولانا مودودی کو ادیب اور انشا پرداز سمجھتا ہوں، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی مفکر۔
مفکر یا تھنکر وہ ہے جو بصیرت (vision) کا حامل انسان ہو۔ جو اپنی بڑھی ہوئی تحلیلی قوت کے ذریعہ حال میں مستقبل کو دیکھے۔ جو متفرق حقائق کو ایک داخلی وحدت (inter-related whole) میں تبدیل کرسکے۔ جو ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان اُس فرق (difference) کو جانے جو صحت تفکیر کے لیے ضروری ہے۔ جو قریبی حالات سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جس کی سوچ مکمل طورپر رد عمل سے خالی ہو۔ جو منفی سوچ سے پوری طرح پاک ہو اور خالص مثبت سوچ کے تحت رائے قائم کرسکے۔
میرے نزدیک موجودہ زمانہ کی مسلم شخصیتوں میں سے کوئی بھی شخصیت (بشمول مولانا مودودی) ان شرائط پر پوری نہیں اترتی۔ اس لیے ان میں سے کوئی بھی مفکر کہے جانے کی مستحق نہیں۔ ان لوگوں کی فکر ردعمل کے تحت بنی جب کہ مفکر وہ ہے جو ابدی حقائق کی روشنی میں سوچ سکے۔
میرے نزدیک جماعت اسلامی کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اُس نے اپنے غیر فطری نظریہ کی بنا پر اپنے پیروؤں کو ایک دو طرفہ مشکل میں ڈال دیا۔ اب اُن کے لیے صرف دو میں سے ایک کا چوائس موجود ہے۔ یا تو وہ جماعت کے بانی کے نظریہ کے مطابق، طاغوتی نظام سے بے فائدہ لڑائی لڑ کر اپنے آپ کو تباہ کرلیں یا اپنے اور اپنے بچوں کی انٹرسٹ کی خاطر منافق بن کر زندگی گذاریں۔
جماعت اسلامی کے مبیّنہ نظریہ کے مطابق، آج کی پوری دنیا میں طاغوتی نظام قائم ہے اور طاغوتی نظام سے سمجھوتہ اُن کے نزدیک ہر حال میں حرام ہے۔ اس نظریہ کے مطابق، طاغوتی نظام کے تحت رہنے کی ایک ہی صورت ہے، وہ یہ کہ اس سے مقاطعہ کرکے اُس سے مسلسل جنگ کی جائے، یہاں تک کہ اسی راہ میں اپنی جان دے دی جائے۔
ظاہرہے کہ اس انتہا پسندانہ تصور سے آدمی کا اور اُس کے بچوں کا دنیوی مستقبل مکمل طورپر تباہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اب جماعت کے تمام لوگ موجودہ طاغوتی نظام سے سمجھوتہ کرکے اُس کے تحت دوسرے لوگوں کی طرح مادی تعمیر میں لگ گئے ہیں۔
میرے نزدیک موجودہ نظام کے تحت مادّی ترقی حاصل کرنا غلط نہیں۔ مگر جماعت اسلامی والوں کے لیے ، وہ ان کے عقیدہ کے مطابق، حرام ہے، الّا یہ کہ وہ اپنے سابقہ نظریہ کے باطل ہونے کا اعلان کریں۔ چونکہ جماعت والوں نے ایسا اعلان نہیں کیا، اس لیے اُن کی موجودہ سمجھوتہ کی زندگی صرف منافقت قرار پائے گی، نہ کہ حقیقی معنوں میں با اصول زندگی۔ (۱۱؍ستمبر ۲۰۰۲)
سوال
مسلم مصنفین کی کتابوں کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساری خدائی صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔ خواہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ محروم طبقہ ہوں۔ مگر وہ برابر یہ کہتے رہتے ہیں کہ ’’ساری کائنات بس ہمارے لئے تخلیق کی گئی ہے‘‘۔ اس کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی اپنی تفسیر میں وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمینکی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’نیز حق تعالیٰ نے وعدہ فرمالیا ہے کہ پہلی امتوں کے برخلاف اس امت کے کافروں کو عام ومستأصل عذاب سے محفوظ رکھا جائے گا‘‘ (صفحہ ۴۲۸)۔ یہ کیا معاملہ ہے ،اس کی وضاحت کریں (محمد سلیم، دہلی)
جواب
۱۔ یہ بات بے بنیاد ہے کہ مسلم قوم خدا کے نزدیک کوئی افضل قوم ہے۔ شعب مختار (chosen people) کا عقیدہ خالص یہودی عقیدہ ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جو فیصلہ ہوگا وہ ہر فرد کے اپنے ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ کسی قوم یا نسل یا گروہ سے وابستگی کی بنیاد پر۔
۲۔ تفسیر عثمانی کا جو اقتباس آپ نے نقل کیا ہے وہ بھی درست نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب عذاب مستأصل نہیں آئے گا۔ مگراس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا تعلق صرف بعد کے مسلمانوں سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون الٰہی کا تعلق اس بات سے ہے کہ اب کوئی پیغمبر دنیا میں آنے والا نہیں۔ عذاب مستأصل صرف کسی ایسی قوم پر آتا ہے جس کے درمیان کوئی پیغمبر آئے اور وہ ان پر اتمام حجت کردے۔ اس کے باوجود وہ قوم انکار کی روش پر قائم رہے۔ ایسی ہی کسی قوم پر عذاب مستأصل آتا ہے، جیسے کہ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور قوم فرعون پر آیا۔ اب ختم نبوت کے بعد چوںکہ دنیا میں کوئی پیغمبر آنے والا نہیں۔ اس لئے اب کسی کے اوپر عذاب مستأصل بھی نہیں آئے گا۔
سوال
ماحولیاتی پرابلم(Ecological Problem) کے بارے میںاسلام کیا رہنمائی دیتا ہے۔ آج کل کے زمانہ میں ساری دنیا میںاس مسئلہ کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس مسئلہ پر بہت زیادہ سوچ بچار ہورہا ہے۔ اگر ممکن ہو تو بتائیں کہ اسلام میں اس مسئلہ کے بارے میں کیا روشنی ڈالی گئی ہے۔ (کرِس فلپاٹ (Chris Philpott) برمنگھم)
جواب
ماحولیات کا مسئلہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ فطرت کا قائم کیا ہوا نظام بگڑ جائے۔ ائرپولیوشن، واٹر پولیوشن، گلوبل وارمنگ، وغیرہ مسائل اس لئے پیدا ہوئے کہ جدید انڈسٹری یا جدید مشینی تہذیب کی وجہ سے فطرت کا بنایا ہوا نظام اپنی اصل حالت پر قائم نہ رہا، اس میں بگاڑ آگیا۔
اس معاملہ میں قرآن کی رہنمائی اس اصول پر قائم ہے کہ فطرت کے قائم شدہ نظام کو درہم برہم نہ کرو۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ خدا نے دنیا کی ہر چیز معین مقدار میں بنائی (الحجر ۱۹) اسی طرح قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ خدا نے دنیاکا نظام کس طرح کامل انداز میں بنایا کہ تم اس کے اندر کوئی نقص نہیں پاسکتے (الملک ۳) اسی حقیقت کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن میں انسان کو یہ حکم دیا گیا: لا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا (الاعراف ۵۶) یعنی زمین میں فساد نہ کرو اس کی اصلاح کے بعد۔اس طرح کی مختلف آیتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے ہماری دنیا کو انتہائی متوازن(balanced) صورت میں بنایا ہے۔ اس کی ہر چیز انتہائی صحیح تناسب (right proportion) میں ہے۔ خدا جو اس دنیا کا مالک ہے اس نے اس دنیا کو انسان کے حوالہ کرتے ہوئے یہ تاکید کی کہ تم کو یہ حق حاصل ہے کہ تم دنیا کو اپنے لئے استعمال کرو۔ مگر تم کو یہ حق حاصل نہیں کہ تم اس کو بگاڑو۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی ترقی کا منصوبہ اس طرح بنائے کہ دنیامیں فطرت کا قائم کیا ہوا توازن ٹوٹنے نہ پائے۔ یہاں کی مختلف چیزوں میں جو تناسب رکھا گیا ہے، وہ جیسا ہے ویسا ہی باقی رہے۔
قرآن کے مطابق، انسان کو ایک اصلاح یافتہ دنیا دی گئی ہے، انسان کے اوپر لازم ہے کہ وہ اس اصلاحی حالت کو باقی رکھتے ہوئے اسے استعمال کرے۔ اگر انسان اس اصلاح میں خلل ڈالے اور وہ مسئلہ پیدا کرے جس کو ماحولیاتی مسئلہ کہا جاتا ہے تو خدا کے نزدیک وہ ایک مجرم قرار پائے گا۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ نے چند دن کے لئے کسی شخص کو اپنے گھر میں مہمان رکھا۔ اب اگر وہ سمجھ لے کہ وہ اس گھر کا مالک ہے اور اس احساس کے ساتھ وہ گھر کی چیزوں کو بے قید طورپر استعمال کرنے لگے اور گھر کے اندر چیزوں کا جو نظم ہے اس کو بگاڑ ڈالے تو وہ مہمان نہ رہے گا بلکہ مجرم بن جائے گا۔
اسی طرح موجودہ دنیا گویا خدا کا ایک عالمی گسٹ ہاؤس ہے۔ انسان کو خدا نے اس گسٹ ہاؤس میں محدود مدت تک رہنے کی اجازت دی ہے۔ انسان اگر اصل مالک کی مرضی کے مطابق، یہاں رہے اور گیسٹ ہاؤس کے نظام میں خلل ڈالے بغیر اس کو استعمال کرے تو یہ اس کا جائز حق ہوگا، لیکن اگر وہ خود اپنے آپ کو اس عالمی گسٹ ہاؤس کا مالک سمجھنے لگے اور اس کے اند رقائم کئے ہوئے نظام کو درہم برہم کردے تو اس کی حیثیت ایک ایسے مجرم کی ہو جائے گی جس کو انعام دینے کے بجائے ذلّت کی سزا دی جائے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو ماحولیاتی مسئلہ موجودہ زمانہ میں پیدا ہوا ہے اس کو قرآن میں پیشگی طورپر بتا دیا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں قرآن کی یہ آیت بے حد اہم ہے: ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون (الروم ۴۱) یعنی خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ اللہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔
اس آیت میں عین انہی ماحولیاتی مسائل سے پیشگی طورپر خبردار کیا گیا ہے جو آج انسان کو درپیش ہیں۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق، جو ماحولیاتی مسائل آج پیش آرہے ہیں، انسان کو چاہئے کہ وہ ان ماحولیاتی مسائل کو وارننگ کے طورپر لے اور اپنی روش میں اصلاح کرکے دنیا کو دوبارہ اس اصلاحی حالت کی طرف لے جائے جو کہ صنعتی دور سے پہلے تھی۔
سوال
آپ نے الرسالہ ماہ جون ۲۰۰۲ میں لکھا ہے کہ: اسی طرح گجرات میں جن لوگوں نے جگہ جگہ خونی فساد کیا وہ بھی اپنی اصل حقیقت کے اعتبا رسے غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے، نہ کہ ہندو۔ یہ لوگ اگر تعلیم یافتہ ہوتے تو ایسا واقعہ کبھی پیش نہ آتا (صفحہ ۲۶) واقعہ یہ ہے کہ آج دنیا میں سارا فساد تعلیم یافتہ لوگوں ہی کہ وجہ سے ہے۔ اس لیے اس طالب علم کا قول ہے:
Education without ethics is an evil.
(ابن غوری ، نلگنڈا)
جواب
تعلیم یافتہ سے ہماری مراد ڈگری یافتہ نہیں ہے، بلکہ شعور کا مالک ہونا ہے۔ اصل یہ ہے کہ جس سماج میںلوگ پڑھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں وہاں ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، یعنی مصلحین اور عام لوگوں کے درمیان فکری بُعد(intellectual gap) ۔ ہمیشہ اور ہردور میں مصلحین ہوتے ہیں لیکن اگر سماج میں تعلیم عام نہ ہو تو لوگ ان مصلحین کی باتوں سے فائدہ نہیں اٹھاپاتے۔ اس بنا پر سماج میںتربیتِ شعور کا عمل رُک جاتا ہے۔ یہی خاص حکمت ہے جس کی بنا پر تمام اعلیٰ دماغ لوگ عمومی تعلیم کو بے حد اہمیت دیتے ہیں۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم کا مقصد جاب(job) حاصل کرنا ہے۔ میرے نزدیک جاب کا مسئلہ ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرہ کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہاں مصلحین ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو کسی بات کو اس کی گہرائی کے ساتھ سمجھ سکیں۔ جب کہ بے پڑھے لکھے سماج میںایسے افراد موجود نہیں۔
غیر تعلیم یافتہ سماج میں لوگ ایک چیز اور دوسری چیز کا فرق نہیں سمجھتے۔ وہ معاملات کا گہرا تجزیہ نہیں کرسکتے۔ مثلاً اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہندستانی مسلمانوں میں قیادت کافقدان ہے۔ حالاں کہ یہ ایک غیر واقعی بات ہے۔ ہندستانی مسلمانوں میںاصل مسئلہ فقدانِ قیادت نہیں ہے بلکہ فقدانِ قبولیت قیادت ہے۔ ہمارے یہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اُن افراد کے گرد لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہوجاتی ہے جو ہائی پروفائل میں بولتے ہوں، حالاں کہ دانش مند ہمیشہ لو پروفائل میں کلام کرتا ہے۔ اسی طرح باہمی نزاعات میں لوگ اکثر آئیڈیل سلوشن کی بات کرنے لگتے ہیں حالاں کہ اس طرح کے معاملات ہمیشہ پریکٹیکل سلوشن کے ذریعہ طے ہوتے ہیں۔
اسی طرح آپ دیکھیں گے کہ اکثر لوگ جب قومی معاملات میں بولتے یا لکھتے ہیں تو وہ غیرمفاہمانہ انداز میں کلام کرتے ہیں۔ حالانکہ یہی لوگ خود اپنے ذاتی مسائل کو مفاہمت اور مصالحت کے ذریعہ حل کرتے ہیں۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ ذاتی معاملہ میں آدمی کی جبلّت (instinct) ہی رہنمائی کے لئے کافی ہے جو ہر ایک کو حاصل ہوتی ہے مگر ملّی اور قومی معاملات میں مفاہمت اور مصالحت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اعلیٰ شعور درکار ہے جو ایک کم تعلیم یافتہ معاشرہ میںلوگوں کو حاصل نہیں ہوتا۔
سوال
میں ماہنامہ الرسالہ کا ریگولر قاری ہوں۔ مجھے آپ کی یہ بات بہت پسند ہے کہ آپ ہمیشہ ناامیدی کے حالات میں امید کا پہلو تلاش کرتے ہیں۔ مایوسی کے حالات میں ہمت اورعزم پیدا کرنے والی بات کرتے ہیں۔ مگر مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ بہت سے مسلمان آپ کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ جو مسلمانوں کو یہ بتاتے ہیں کہ انڈیا میں اور دنیا بھر میں لوگ مسلمانوں کو مٹاڈالنا چاہتے ہیں ان کی باتیں مسلمان خوب شوق سے سنتے ہیں مگر آپ مسلمانوں کو خوش خبری دیتے ہیں تو مسلمانوں کو آپ کی بات اچھی نہیں لگتی۔ ایسا کیوں ہے۔ (محمد اصغر، نئی دہلی)
جواب
آپ کے اس سوال پر مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ ایک بار میں بی بی سی لندن (ہندی) سن رہا تھا۔ انہوں نے پروگرام کے مطابق، ماریشش میں مقیم ایک ہندو کا خط پڑھ کر سنایا۔ خط میں یہ شکایت کی گئی تھی کہ بی بی سی لندن اپنے ہندی پروگرام میں ہندی بولنے والے علاقہ کی خبریں دیتا ہے مگر اس کے ہندی پروگرام میں کبھی ماریشش کی کوئی خبر نہیں آتی۔ حالانکہ ماریشش میں ہندی بولنے والے بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ بی بی سی لندن کے اناؤنسر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا کام یہ ہے کہ وہ بیڈ نیوز (بری خبریں) نشر کرے جب کہ ماریشش میں سب اچھی خبریں ہوتی ہیں۔ پھر اس نے ہنستے ہوئے کہا:
And good news is no news.
یہی معاملہ موجودہ مسلمانوں کا ہے۔ آج کے مسلمان اپنے پریس اور اپنے اسٹیج سے اپنے بارے میں بری خبریں سنتے سنتے اس کے اتنے زیادہ عادی ہوچکے ہیں کہ اب اپنے بارے میں اچھی خبریں ان کواجنبی معلوم ہونے لگی ہیں۔ ان کو یقین نہیں آتا کہ ان کے بارے میں کوئی اچھی خبر بھی صحیح ہوسکتی ہے۔ موجودہ مسلمانوں کے اس مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ:
Good ne ws is no news for a Muslim.
کسی قوم کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ واقعہ پیش آنے کے وقت پہلے ہی مرحلہ میںاس کو ہوش مند لیڈر مل جائیں۔ جیسا کہ ۲۰۰ سال پہلے امریکہ کے ساتھ پیش آیا۔ مثلاً جیفرسن، واشنگٹن، لنکن، وغیرہ۔بدقسمتی سے انہی ۲۰۰ سالوں میں مسلمانوں کے ساتھ کئی ناخوش گوار واقعات پیش آئے۔ اس وقت کرنے کا کام یہ تھا کہ مسلمانوں کو قرآن کے الفاظ میں عُسر میں یُسر کا راز بتایا جائے۔ مگر ساری دنیا کے مسلم لیڈر صرف عُسر کی اصطلاحوں میں لکھتے اوربولتے رہے۔ میرے علم کے مطابق، کوئی بھی قابل ذکر مسلمان ایسا نہیں نکلا جو یسر کی اصطلاحوں میں بات کرے۔ اس مدت میں کچھ لوگوں نے فضائل کی زبان میں کچھ بشارتیں سنائیں مگر اس قسم کی بشارتیں افیون کی گولی ہیں، نہ کہ حقیقی معنوں میں مثبت رہنمائی۔ اس طرح لمبی مدت تک منفی ماحول میں جینے کی وجہ سے مسلمانوں کا حال وہ ہوگیاہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا۔
اس معاملہ میں مسلمانوںکی مثال ساس اور بہو کے روایتی جھگڑے جیسی ہے۔ جو ساس اپنی بہو کے بارے میں منفی ذہنیت کا شکار ہوچکی ہو اس کے سامنے اگر بہو کی خوبیاں بیان کی جائیں تو ساس کو یقین نہیںآئے گا۔ عین ممکن ہے کہ اس بات کو سن کر وہ غصہ ہوجائے۔ البتہ اگر بہو کی برائی بیان کی جائے تو وہ خوب خوش ہوگی اور بلا ثبوت بہو کے خلاف باتوں کو مان لے گی۔ٹھیک یہی معاملہ برعکس طورپر بہو کے بارے میں بھی درست ہے۔
موجودہ مسلمانوں کی یہی کمزوری ہے جس کی بنا پر اُن کا حال وہ ہوگیا ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: اگر وہ ہدایت کا راستہ دیکھیں تو وہ اُس کو نہ اپنائیں گے اور اگر وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اپنا لیں گے (الاعراف ۱۴۶)
سوال
میںنے عالمی تاریخ کی کچھ کتابیں پڑھیں اور کچھ مورخین کے تبصرے پڑھے۔ ان کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے پوری انسانی تاریخ شورش اور ہنگاموں کی تاریخ ہے۔ تاریخ میں بہت کم ایسے لمحات ملتے ہیں جب کہ پرسکون اور معتدل ماحول میں انسان کو جینے کا موقع ملا ہو۔ تاریخ کے اس منظر کو دیکھ کر کچھ لوگ خدا کی خدائی پر شک کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا اگر عادل ہے تو اس کی بنائی ہوئی دنیا میں اتنا زیادہ بگاڑ کیوں؟ براہ کرم اس سوال پر روشنی ڈالیں۔ (عبد الرحمن ، ناندیڑ)
جواب
دنیا کے بارے میں مذکورہ سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ اس کو انسان کی نظر سے دیکھا جائے۔ لیکن اگر دنیا کو خالق کی نظر سے دیکھا جائے تو نہایت آسانی سے اس کا جواب مل جاتا ہے۔ اور یہ یقین ہوجاتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہی ہونا چاہئے تھا۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ موجودہ دنیا کے بارے میں خدا کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ قرآن کے مطابق، وہ تخلیقی نقشہ امتحان (test) کے اصول پر مبنی ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا نے انسان کو اس لئے نہیں بسایا کہ وہ یہاں عیش کرے۔ عیش کی زندگی انسان کو اُس کے عمل کے مطابق، آخرت میں ملے گی۔ موجودہ دنیا کا سارا نظام اس ڈھنگ پر بنا ہے کہ ہر انسان اور ہر گروہ امتحان کی کسوٹی پر آسکے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ معتدل حالات میں کسی انسان کی اصل حقیقت کا پتہ نہیں چلتا۔ لوگ خوبصورت لفظوں اور خوشنما کپڑوں میں اپنے آپ کو چھپائے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں لوگوں کو اکسپوز(expose) کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میںاضطراب (disturbance) لایا جائے۔ اس معاملہ میں انسان کی مثال انڈے جیسی ہے۔ اوپر سے دیکھنے میں ہر انڈا اچھا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جب انڈوں کو توڑا جائے اس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ کون انڈا اچھا تھا اور کون انڈا خراب۔
اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے وہ امتحان ہے۔ اور امتحان کے لئے غیر معمولی حالات کا پیش آنا لازمی ہے۔ اس لئے بار بار ہر فرد اور گروہ کی زندگی میں غیر معمولی حالات پیدا کئے جاتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ کیسا تھا۔ وہ حقیقی معنوں میں حق پرست تھا یا اس نے صرف ظاہری طورپرحق کا نمائشی خول اپنے اوپر ڈال لیا تھا۔
سوال
کہا جاتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں ساری دنیا ایک ہوگئی ہے۔ اس کا خوبصورت نام گلوبلائزیشن ہے۔ مگر جیسا کہ بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ یہ ایک فتنہ ہے۔ مغرب کی مسلم دشمن طاقتیں گلوبلائزیشن کے نام پر اسلام کو اپنے جال میں پھنسا لینا چاہتی ہیں۔ اس نئے خطرہ کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے۔ (ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
گلوبلائزیشن میرے نزدیک فتنہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک عظیم نعمت ہے۔ گلوبلائزیشن سے مراد یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن اور دوسرے ذرائع اتنا زیادہ وسیع ہوگئے ہیں کہ ساری دنیا ایک گاؤں (global village) کی مانند ہوگئی ہے۔ یہ صورت حال ایک عظیم موقع ہے۔ اس دنیا میں خدا نے ہر ایک کو آزادی دی ہے۔ اس لیے دوسرے لوگ اگر اس کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کریں توآپ کو اُن کے خلاف احتجاج کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے احتجاج سے یہ نہیں ہوسکتا کہ دوسرے لوگ ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چھوڑ دیں۔
اصل ضرورت یہ ہے کہ ان جدید مواقع کو سمجھا جائے او ران کو استعمال کیا جائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کہ اللہ اسلام کے پیغام کو ساری دنیا کے ایک ایک گھر میں پہنچا دے گا۔ جدید مواصلاتی ذرائع نے پہلی بار اس کو ممکن بنایا ہے کہ حق کی اشاعت کے اس خدائی منصوبہ کو مکمل کیا جاسکے۔
عقبہ بن نافع تابعی افریقہ میںاسلام کا پیغام پہنچاتے ہوئے اٹلانٹک کے ساحل تک پہنچ گئے۔ وہاں اُنہوں نے اپنے گھوڑے پر بیٹھے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم، اگر میں جانتا کہ اس سمندر کے اُس پار بھی کچھ لوگ آباد ہیں تو میں وہاں تک پہنچتا تاکہ کوئی بھی شخص اللہ کا پیغام پانے سے محروم نہ رہے۔
مگر آج اس گلوبلائزیشن کی بنا پر ہم دنیا کے ہر خطّے کے بارے میں تفصیل کے ساتھ جان چکے ہیں۔ اسی بنا پر یہ ممکن ہوا ہے کہ ہم بآسانی ہر جگہ پہنچ سکیں۔ پھر اسی بنا پر یہ بھی ممکن ہوا ہے کہ جدید وسائل کو استعمال کرتے ہوئے لٹریچر اور دوسری صورتوں میں بہت کم مدت میں سچائی کا پیغام زمین کے ہر گوشہ میں پہنچایا جاسکے۔
سوال
مسلمانوں کے اندر پائی جانے والی تشدد پسندی کے موضوع پر کئی کتابیں اب تک شائع ہوئی ہیں۔ آپ بھی اس موضوع پر لکھتے ہیں اور اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔ میں نے آپ کی تحریروں میں پایا ہے کہ آپ مسلمانوں کے اس تشدد کو غلط بتاتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ درست ہے۔ کیوں کہ مسلمان اپنے جائز حق کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ رائے میں یہ اختلاف کیوں۔ (ایک قاری الرسالہ، کشمیر)
جواب
اپنے جائز حق کے لیے کوشش کرنا اور تشدد کا استعمال دونوں دو مختلف چیزیں ہیں اور دونوں کا حکم ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ایک کی حیثیت نظری اوراصولی ہے اور دوسرے کی حیثیت عملی طریقِ کار کی۔ اگر سوال یہ ہو کہ کسی شخص یا گروہ کو اپنے جائز حق کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا درست ہے یا نہیں، تو ہر شخص یہ کہے گا کہ جائز حق کے لیے کوشش کرنا اصولاً بالکل درست ہے۔
مگر جہاں تک تشدد کا سوال ہے، وہ عملی طریق کار سے تعلق رکھتا ہے۔ اور طریق کار کے بارے میں متفقہ طورپر یہ حکم ہے کہ پُر امن طریقِ کار درست ہے۔ مگر پُر تشدد طریقِ کار درست نہیں۔ جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہو اور آدمی کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ پُر امن طریقِ کار اختیار کرے یا پر تشدد طریقِ کار، تو لازماً اُس کو پُر امن طریقِ کار اختیار کرنا چاہئے اور پُر تشدد طریقِ کار کو چھوڑ دینا چاہئے۔ اپنے حق کے لیے پُر امن طریقِ کار کے ذریعہ جدوجہد کرنا بالکل درست ہے مگر اپنے حق کے لیے پُرتشدد طریقِ کار اختیار کرنا ہر گز درست نہیں۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے۔ اس طرح کے معاملات میں اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ فریقِ ثانی جب تشدد کررہا ہو تو ہم کیسے تشدد سے پرہیز کرسکتے ہیں، کیا ہم یک طرفہ طورپر مار کھاتے رہیں۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے دعوے کے مطابق، اُن پر تشدد ہو رہا ہے وہاں مسلمانوں نے خود ہی تشدد کا آغاز کیا۔ اس کے بعد فریقِ ثانی نے ان کے مقابلہ میں جوابی تشدد کیا۔ میرے علم کے مطابق، ہر جگہ ایساہی ہوا ہے۔ مسلمان اگر اپنی جدوجہد کو پُرامن طریقِ کار کے حدود میں رکھتے تو ہر گز ایسا نہیںہوسکتا تھا کہ فریقِ ثانی اُنہیں اپنی گولی اور اپنے بم کا نشانہ بنائے۔
اس معاملہ کے اصل ذمہ دار مسلم عوام نہیں ہیں بلکہ اُن کے خود ساختہ لیڈر ہیں جو جوش دلا کراُنہیں تشدد پر اُکساتے ہیں۔ یہ مسلم لیڈر دور جدید کی ایک اہم حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں۔ اُن کو یہ معلوم نہیں کہ دور جدید کے مانے ہوئے اصول کے مطابق، پُرامن جدوجہد مکمل طورپر جائز ہے اور پُر تشدد جدوجہد مکمل طورپر ناجائز۔ یہ فرق آج عالمی سطح پر تسلیم کیا جاچکا ہے۔ مسلمانوں کے نام نہاد لیڈر اگر اس حقیقت کو جانتے اور اُس کے مطابق، مسلمانوں کی رہنمائی کرتے تو مسلمان اُن تباہیوں سے بچ جاتے جو اس بین اقوامی اُصول کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں اُنہیں پیش آرہی ہیں۔
سوال
الرسالہ جولائی ۲۰۰۲ کے شمارے میں آپ نے صفحہ ۳۳ پر ’’بے بنیاد سوچ‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مکالمہ تحریر فرمایا ہے جو ایک ہندو اور مسلم کے درمیان ہے۔’’ مسلمان کا یہ کہنا کہ اسلام سچا ہے، اس لئے میں بھی سچا ہوں‘‘ ۔جہاں تک جملہ کے پہلے حصہ کا تعلق ہے وہ ایک حقیقت ہے لیکن یہ کہنا کہ اسلام سچا ہے اس لئے میں بھی سچا ہوں آج تک کسی مسلمان نے ایسا کہنے کی جرأت نہیں کی اور نہ آئندہ کرے گا۔ دین کا سچا ہونا الگ بات ہے اور دین کے ماننے والوں کا سچا ہونا قطعی الگ۔ یہ ایک سراسر الزام ہے جو آپ نے ایک مسلمان پر عائد کیا ہے، ورنہ ہر مسلمان جانتا ہے اور اس کا اعتقاد بھی ہے کہ اس کے کسی بھی عمل کا سچ ہونا صرف روز محشر ہی میں ثابت ہوگا۔
آپ سے گذارش ہے کہ اپنی مثال کو اور واضح کریں تاکہ جو الزام آپ نے ایک مسلمان پر لگایا ہے اس کی وضاحت ہوجائے او ر تشویش دور ہو جائے۔ (محمد بشیر احمد، گلبرگہ)
جواب
آپ نے الرسالہ جولائی ۲۰۰۲ (صفحہ ۳۳) کے مضمون کو زیادہ غور کے ساتھ نہیں پڑھا، ورنہ یہ اشکال نہ ہوتا۔ آپ اس کو دوبارہ پڑھیں۔ اس کے بعد آپ کی غلط فہمی ختم ہوجائے گی۔ واضح ہو کہ اس مضمون میںہندو اور مسلمان کے ’’کیس‘‘ کو بتایا گیا ہے، اس میںاُن کے ’’قول‘‘ کو نہیں دہرایا گیا ہے۔ آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ کسی کے قول کو دہرانا ایک بات ہے اور اُس کے کیس کو بتانا اُس سے بالکل مختلف دوسری بات ہے۔کیس اور قول کے اس فرق کو قرآن و حدیث کے مطالعہ سے بھی جانا جاسکتا ہے اورروز مرّہ کے تجربہ سے بھی۔
اس غلط فہمی کی بنا پر آپ نے مذکورہ مضمون کو ’’مکالمہ‘‘ سمجھ لیا ہے اور اس کو الزام قرار دیا ہے۔ حالانکہ وہ مکالمہ نہیں ہے بلکہ وہ تجزیہ ہے۔ اگر آپ اُس کو مکالمہ کے بجائے تجزیہ سمجھتے تو آپ کو ہر گز یہ غلط فہمی نہ ہوتی۔
سوال
میںنے ایک کتاب لکھنی شروع کی ہے جس کا عنوان ہے ’’رسول اللہﷺ کی سنتیں، سائنسی وجوہات اوراُخروی فائدے‘‘ ۔میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو سائنسی نظریے کی روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کروں تاکہ کلمہ میں جو بات کہی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے ہی میں کامیابی ہے، اوردوسروں کے طریقوں میں ناکامی ہے، لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور اس طرح میں ایک بہترین کتاب کی شکل میں اُسے لوگوں کے سامنے پیش کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ تھوڑی مدد کریں۔ بتائیں کہ اس سلسلہ میںآپ کی کون سی کتابوں کا مطالعہ کروں اور کیسے اس مشن کو آگے بڑھاؤں۔ (ایک قاری الرسالہ ، ناگ پور)
جواب
کتاب پوچھ کر نہیں لکھی جاتی۔ کتاب خود اپنے طوفانی احساس کے تحت لکھی جاتی ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی سے کسی نے پوچھا کہ میں کب لکھوں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ اتنا پڑھو، اتنا پڑھو کہ اُبلنـے لگے۔ اس کے بعد لکھو۔
اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں مصنف بننا چاہتا ہوں، اُس کی تدبیر بتائیے۔ میرا جواب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کوئی شخص مصنف نہیں بن سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریر مشکل ترین آرٹ ہے۔ جو آدمی واقعی معنوں میں اس آرٹ کو جانتا ہو اُسی کو کتاب لکھنا چاہئے۔ بقیہ لوگوں کے لیے کتاب پڑھنا ہے، نہ کہ کتاب لکھنا۔
سوال
ایک فیکٹری میں مختلف مذاہب کے لوگ کام کرتے ہیں۔ وہاں میرے ماموں زاد بھائی بھی ایک ورکر کی حیثیت سے ہیں۔ جب میں اُن سے ملاقات کے لیے گیا تو وہاں پر موجود دوسرے لوگوں نے مجھ سے اسلام کے متعلق مختلف سوالات کیے۔ میں نے اپنے علم کے مطابق، اُن کے سوالات کے جواب دئے۔ ان سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ مسلمان بے رحم اور خونخوار قوم ہے اس لیے کہ اُن کی مذہبی کتاب قرآن نے خون بہانے یعنی جانوروں کو ذبح کرکے کھانے کا حکم دیا ہے جو کہ غلط ہے۔ مزید یہ انسانیت کے خلاف ہے اور بے رحمی کا ثبوت بھی۔ میں نے حتی الامکان اُن کے سوال کاجواب دینے کی کوشش کی مگر انہیں تسلی نہ ہوسکی۔ آپ اس سوال کا فکری جواب وضاحت کے ساتھ لکھیں۔ (جاوید انجم سہراب علی، نئی دہلی)
جواب
جانور کو ذبح کرنا صرف مسلمان کا اصول نہیں، وہ فطرت کا عام اصول ہے۔ موجودہ دنیا میںکوئی بھی شخص، حتیٰ کہ سوال کرنے والے لوگ بھی اس سے بری نہیں۔ دنیا میں بسنے والے انسانوں میں ، بشمول ہندستان، بیشتر لوگ حیوانی غذا کو استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ بظاہر حیوانی غذا نہیں لیتے وہ بھی بالواسطہ طورپر ایسا ہی کرتے ہیں۔ پانی، دودھ، سبزی، پھل یا کوئی بھی چیز جس کو انسان کھاتا ہے اُن سب میں خورد بینی زندگیاں ہوتی ہیں۔ ان زندگیوں کو قتل یا ذبح کیے بغیر کوئی شخص ویجیٹیرین غذا بھی نہیں لے سکتا۔ جس کو اس معاملہ میں شبہہ ہو اُس سے کہیے کہ وہ دودھ کو خوردبین کے شیشے کے نیچے رکھ کر دیکھ لے۔
اصل یہ ہے کہ ذبح حیوان ہمارے لیے انتخاب(choice) کا معاملہ نہیںہے بلکہ وہ ہمارے لیے مقدر (destiny) کا معاملہ ہے۔ موجودہ دنیا میں اس کے بغیر زندگی کا کوئی امکان ہی نہیں۔ موجودہ دنیا میں اگر کوئی شخص حقیقی معنوں میں ذبح حیوان کے بغیر جینا چاہے تو اُس کو خود اپنے آپ کو ذبح کرنا پڑے گا۔ کیوںکہ ایسے کسی انسان کے لیے یہاں صرف خود کشی کا امکان ہے، اُس کے لیے زندگی کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں۔
سوال
میں انگریزی زبان میں کمزور ہوں۔ فکر و نظر کو تقویت بخشنے میں عربی کے ساتھ انگریزی کا کردار آپ خود اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ نے انگریزی زبان جس اُصول و طریقہ کے مطابق سیکھی ہے اس سلسلہ میں کوئی نمونہ لکھ بھیجیں تاکہ میں اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوسکوں۔ (رضوان اللہ الریاضی، ریاض)
جواب
کسی کا قول ہے کہ پڑھنے سے پڑھنا آتا ہے اور لکھنے سے لکھنا آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی زبان کو سیکھناچاہتا ہے تو اُس کو چاہئے کہ وہ اُس کو فوراً شروع کردے۔ اور اُس کو مسلسل جاری رکھے۔ اس معاملہ میں آدمی کا شوق اور اُس کی محنت ہی اس کے سب سے بڑے معلّم ہیں۔ میں نے افریقہ میں ایک تاجر کو دیکھا کہ وہ مسلسل انگریزی بولنے کی کوشش کرتا تھا۔ اگر چہ اُس کی زبان میں گرامر کے لحاظ سے بہت سی غلطیاں ہوتی تھیں۔ کسی نے اُس سے کہا کہ جب تم انگریزی نہیں جانتے تو تم انگریزی کیوں بولتے ہو۔ اُس نے جواب دیا کہ میں غلط انگریزی بولتا ہوں تاکہ مجھے صحیح انگریزی بولنا آجائے:
I speak incorrect english, so that I may be able to speak correct English.
سوال
آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے یہ لکھا ہے کہ مسلمان ۲۰۰ سال سے ملٹنسی (militancy) کررہے ہیں۔ کیا آپ نے ایسالکھا ہے۔ اور اگر لکھا ہے تو کس دلیل کی بنیاد پر لکھا ہے۔ براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیں (ایک قاری الرسالہ۔ ابوظہبی)
جواب
ایسا میں نے کبھی نہیں لکھا۔ یہ بلاشبہہ ایک لغو بات ہے۔ البتہ میں نے ایک اور بات لکھی ہے اور کچھ غیر ذمہ دار لوگ اس کو بگاڑ کر میرے خلاف اس قسم کا پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ جو لوگ ایسی باتیں کہہ رہے ہیں وہ قرآن کی اس آیت کا مصداق بن رہے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ: یحرفون الکلم عن مواضعہ (المائدہ ۱۳ )
میںنے جو بات لکھی ہے وہ یہ ہے کہ عام طورپر مسلم مقررین اور محررین دور جدید میں اسلامی جدجہد کا آغاز ۱۷۹۹ سے کرتے ہیں جب کہ میسور کے سلطان ٹیپو انگریزی فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اگر ۱۷۹۹ کو آغاز مانا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مسلمان ۲۰۰ سال سے اپنے مسائل کے حل کے لئے مسلح جدوجہد کررہے ہیں۔ یہ مسلح جدوجہد ابھی تک مختلف مقامات پر جاری ہے۔
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ۲۰۰ سال کی اس مسلح جدوجہد کا کوئی بھی مثبت نتیجہ اسلام کے لئے یا مسلمانوں کے لئے نہیں نکلا۔ اب بھی مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے شکایت اور احتجاج کی زبان بول رہے ہیں۔ اس طرح یہ تمام لوگ اعتراف کررہے ہیں کہ لمبی مدت تک اس مسلح جدوجہد کامطلوب نتیجہ نہیںنکلا۔
اب میں کہتا ہوں کہ عقل اور شریعت دونوں کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کے اندر اپنے طریقِ کار کے بارے میں نظر ثانی (revision) کا عمل کیا جائے۔ ہندستان میں ۱۸۵۷ میں آزادی کی تحریک مسلح انداز میں شروع کی گئی۔ جب وہ بے فائدہ ثابت ہوئی تو ۱۹۱۹ میں اس طریقِ کار کو بدل کر آزادی کی تحریک کو پرامن طریقِ کار کے اصول پر چلایا گیا۔
خود اسلام کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار صحابہ کے ساتھ ۸ ہجری میںطائف کی طرف اقدام فرمایا۔ وہاں پہنچ کر محسوس ہوا کہ بروقت حالات موافق نہیں ہیں ۔ چنانچہ آپ نے طائف کا محاصرہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف واپسی کا فیصلہ فرمایا۔ اسی طرح غزوۂ موتہ کے موقع پر ابتدائی جنگ کے بعد اندازہ ہوا کہ جنگ کو جاری رکھنا اہل اسلام کے حق میں نہیں ہے تو حضرت خالد درمیان ہی میں واپس ہو کر مدینہ آگئے، وغیرہ۔
میں اسی نظر ثانی (revision) کی بات کرتا ہوں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ ۲۰۰ سال کی مسلح جدوجہد نے یہ ثابت کیا ہے کہ مسلح طریقِ کار موجودہ حالات میں ہمارے لئے کار آمد نہیں ہے۔ اس لئے اب مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مسلح طریقِ کار کو مکمل طورپر چھوڑ دیں اور پر امن طریقِ کار کا تجربہ کریں۔ پرامن طریقِ کار سے مراد ہیــــــمسلمانوں کی داخلی اصلاح، مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنانا، مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا کرنا، مسلمانوں کو جدید اقتصادیات میں آگے بڑھانا، جدید وسائل کی مدد سے دعوت وتبلیغ کا کام کرنا، مسائل کو نظر انداز کرکے مواقع کو استعمال کرنا، وغیرہ۔
سوال
آپ کے تعمیری انداز اور پلس طریقِ تعلقات اور دنیاوی اور دینی انداز عمل سے غیر متفق ہونے کا سوال ہی نہیں۔ لیکن ہم تجربہ حاصل کررہے ہیں کہ پریکٹکل لائف میں خیالات کی صحت مندی کام دینے سے قاصر ہے۔ لوگ، بالخصوص دیگر اور الگ الگ مذاہب کے لوگ اب بالکل ہی بے حس ہوگئے ہیں، وہ دوسروں کی پرابلم کو یا اوروں کی مصیبتوں کو سمجھنے کی بھی کوشش نہیں کرتے ۔ انجام کیا ہوگا (عدنان کریمی، حیدر آباد)
جواب
موجودہ زمانہ کے مسلمان اور اُن کے رہنما ایک تضاد میں مبتلا ہیں۔ وہ نماز روزہ کے مسائل اور حج کے آداب جیسے معاملات میں تو اسلام سے رہنمائی لینے کے لیے تیار ہیں۔ مگر جہاں تک اُن کے ملّی اور قومی مسائل کی بات ہے تو وہ ان معاملات میںاپنی خواہشوں پر چلنا چاہتے ہیں۔ میرے نزدیک اس تضاد کی موجودگی میں ان کے مسائل کا کوئی حل نہیں۔ جب تک وہ اس تضاد سے باہر نہ آئیں، اُن کا کوئی بھی دنیوی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
اس سے بھی زیادہ غیر اسلامی بات یہ ہے کہ الرسالہ میں جس ایڈجسٹمنٹ کی بات کہی جاتی ہے، ہر مسلمان، عوام اور خواص دونوں اپنے ذاتی معاملات میں عین اسی ایڈجسٹمنٹ کے فارمولا پر عمل کرتے ہیں۔ جہاں اُن کے ذاتی انٹرسٹ کا مسئلہ ہو وہاں وہ فوراً ایڈجسٹمنٹ کے اصول کو اختیار کرلیتے ہیں۔ البتہ جب اُنہیں ملی مسائل پر بولنا اور لکھنا ہو تو وہ ایڈ جسٹمنٹ کو بزدلی کہہ کر اُسے رد کردیتے ہیں۔ انفرادی اور قومی زندگی کا یہ تضاد بلا شبہہ ایک جرم ہے۔ اس جرم کی موجودگی میں یہ امر بھی سخت مشتبہ ہے کہ دینی مسائل کے معاملہ میں اُن کی مذکورہ روش اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل قبول قرار پائے۔
آپ نے یہ شکایت کی ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ مسلمانوں کے مسائل کے حل میںاُن کی مدد نہیں کرتے۔ یہ ایک غیر ضروری شکایت ہے۔ موجودہ دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوتا، حتیٰ کہ رشتہ داروں کے درمیان بھی نہیں۔ مسلمانوں کو یا تو اپنا مسئلہ خود حل کرنا ہوگا یا اُن کے مسائل ہمیشہ غیر حل شدہ حالت میں پڑے رہیں گے۔
سوال
سوال یہ ہے کہ کیااسلام میں ذہین لوگوں کے لئے گنجائش نہیں ہے ۔ یہ سوال اس لئے ذہن میں پیدا ہوا کہ میں دیکھتا ہوں کہ ماضی میں اور حال میں بھی ذہین یا منطقی لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا گیا۔ مثلاً ماضی میں سیّد شہاب سہروردی کو قتل کردیا گیا جب کہ وہ ابھی صرف ۳۷ سال کے تھے۔ مگر بہت ذہین انسان تھے۔ ابن رُشد کو جیل میں ڈالا گیا۔ رازی، فارابی اور بوعلی سینا پرکفر کا فتویٰ لگا کر اُن کو ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہمارے یہاں سرسیّد احمد خاں کی تکفیر کی گئی اور اُنہیں ذلیل کیا گیا۔ڈاکٹر اقبال پر بھی کفر کا الزام لگایا گیا۔ بو علی سینا نے بھی اپنے ایک فارسی قطعہ میں کہا ہے کہ یہاں اگر رہنا ہے تو گدھا بن کر رہو اگر عقلمند بنو گے تو پھر خیر نہیں۔
کیا اسلام میں ایسے ہی لوگوں کی گنجائش ہے جو منطقی نہ ہوں، استدلالی نہ ہوں، اپنی عقل و فہم کی روشنی میں حیات و کائنات کو سمجھنے کی کوشش نہ کرتے ہوں۔ (احساس آفاقی، کُرلا، ممبئی)
جواب
آپ نے چند مثالوں کو لے کر اُن کو جنرلائز کر دیا ہے۔ حالانکہ واقعہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام میں فکری آزادی کو بہت بڑا درجہ دیا گیا ہے۔ اس معاملہ کی تفصیل کے لیے آپ میری کتاب دین انسانیت کا باب ’’حریت فکر‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ انشاء اللہ آپ کی غلط فہمی دور ہوجائے گی۔
قرآن میں بار بار اہل عقل کو خطاب کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خود قرآن کے نزول کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ عقل والے اس پر غور کریں (ص ۲۹)۔ چنانچہ ہر دور میں عقلی غور وفکر کا سلسلہ جاری رہا ہے۔
آپ نہج البلاغہ کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ حضرت علی کتنا زیادہ عقلی غور وفکر کو پسند کرتے ـتھے۔ عباسی خلافت اور اسپین کی اموی خلافت کے دور میں عقلی غور وفکر کی زبردست حوصلہ افزائی ہوئی جس کی تفصیل آپ فلپ ہٹی کی کتاب ہسٹری آف دی عربس میں دیکھ سکتے ہیں۔ قدیم زمانہ میں فخر الدین رازی کی ضخیم تفسیر اور موجودہ زمانہ میں جوہری طنطاوی کی مفصل تفسیر قرآن کی عقلی تشریح کی مثالیں ہیں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ خاص اسی مقصد کے لیے لکھی۔خودراقم الحروف نے تقریباً چالیس سال سے اسلام کی عقلی اور سائنسی تشریح کو اپنا موضوع بنایا ہے اور اس پر سو سے زیادہ کتابیں شائع کی ہیںمگر ساری مسلم دنیا میں کسی بھی شخص نے اس پہلو سے میری مخالفت نہیں کی۔
تاہم بعد کے زمانہ میں ایک غلط مسئلہ مسلمانوں میں پھیل گیا۔ اور وہ یہ کہ جو شخص رسول کی اہانت کرے یا اسلام کی اہانت کرے اُس کو قتل کردیا جائے۔ ا س مسئلہ کی بنا پر کچھ لوگوں کا قتل بھی ہوا۔ مگر یہ مسئلہ بذاتِ خود غلط ہے۔ اس کی کوئی اصل قرآن یا حدیث میں نہیں۔ اس مسئلہ کی ذمہ داری بعد کے دور کے کچھ مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، نہ کہ خود اسلام پر۔ اس معاملہ میں شرعی حکم کو سمجھنے کے لیے آپ راقم الحروف کی کتاب ’’شتم رسول کا مسئلہ‘‘ مطالعہ فرمائیں۔
سوال
آج ایک ایسے قائد کی اشد ضرورت ہے جو ہندستانی مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کرسکے۔ آپ کی کئی کتابیں اور الرسالہ کا مسلسل مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیادت کے لائق صرف آپ کی شخصیت ہی ہے جو ہندستانی مسلمانوں کی احسن طور پر رہنمائی کر سکتی ہے۔ بشرطیکہ علماء کرام اور دانشوروں کا طبقہ ’’بغیاًبینہم ‘‘کے مرض سے دور ہو جائیں (نثار احمد خاں سلفی، امام و خطیب مسجد اہل حدیث ، مومن پورہ، ناگپور)
جواب
قیادت کا مسئلہ نامزدگی کا مسئلہ نہیںہے بلکہ وہ قبولیت کامسئلہ ہے۔ کوئی شخص قائد اُس وقت بنتا ہے جب کہ لوگوں کی اکثریت اُس کو اپنے قائد کے طورپر قبول کرلے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ابو الکلام آزاد اور محمد علی جناح دونوں ایک ہی زمانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں نے مسلمانوں کے اندر کام کیا اوراُن کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ مسٹر محمد علی جناح مسلمانوں کے قائد بن گئے، لیکن ابوالکلام آزاد عملاً مسلمانوں کے قائد نہ بن سکے۔ اس کا سبب سادہ طورپر صرف یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر محمد علی جناح کو قبول کرلیا اور ابوالکلام آزاد کو قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہ ہوسکے۔ یہی معاملہ ساری مسلم دنیا کا ہے۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ شعوری اعتبار سے ایک پچھڑی ہوئی قوم بن گئے ہیں۔ اُن میں جب تک شعوری بیداری نہ لائی جائے، کسی صالح قیادت کا اُن کے اندر اُبھرنا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۲۳ ستمبر ۲۰۰۲ کو ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد یہ خط لکھ رہا ہوں۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے حکم کے باوجود ابلیس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ ابلیس نے یہ بتائی کہ: أنا خیر منہ (الأعراف ۱۲) ۔ قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو أنا خیر منہ کی نفسیات میں جیتے ہوں ،اوردوسرے وہ جوالحق خیر منی کی نفسیات میںجئیں۔
مزید غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ہدایت اور گمراہی کے معاملہ میں یہ تقسیم بے حد اہم ہے۔ قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت ایک ارتقاء پذیر عمل ہے۔ اُس میں مسلسل اضافہ ہوتارہتا ہے (الکہف ۱۳)۔ اس قانون الٰہی کانتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ الحق خیر منی کی نفسیات میں جئیں اُن کی ہدایت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے اورجو لوگ أنا خیر منہ کی نفسیات میں جئیں اُن کے لیے ہدایت کا دروازہ بند ہوجائے۔
اصل یہ ہے کہ کوئی بھی انسان سب کچھ لے کر پیدا نہیںہوتا۔ سیکھنے کے عمل کے ذریعہ اُس کو بار بار اپنے علم میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے حضرت عمر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: کان یتعلم من کل احدٍ (وہ ہر ایک سے علم سیکھتے تھے)۔ یعنی اُن کا تجسس اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جب بھی کسی کی طرف سے کوئی قابل اخذ چیز سامنے آتی تو وہ بلا تاخیر اُس کو لے لیتے تھے۔
بمبئی کے حالیہ سفر میںایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ میںآپ کی ڈائری شوق سے پڑھتا ہوں اور بار بار پڑھتا ہوں۔ اس میںطرح طرح کی معلومات ملتی ہیں۔ مگر میں آپ کی کتابیں نہیں پڑھتا ۔ میں نے پوچھا کہ کیوں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ کتاب کو پڑھنے کامطلب یہ ہے کہ ایک بولے اور دوسرا سنے۔ کتاب کا مطالعہ یک طرفہ عمل ہے، وہ دو طرفہ عمل نہیں۔ میں نے کہا کہ مطالعۂ کتاب کا یہ مطلب ہر گز نہیں۔ مطالعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک فکری حصہ داری (intellectual sharing) ہے۔ یہ مکمل طورپر ایک دو طرفہ عمل ہے۔ البتہ صاحبِ مطالعہ ذہنی بیداری کے جس درجہ پر ہوگا اُسی کے بقدر وہ مطالعہ کے عمل میں حصہ دار بن سکے گا۔
میں اپنی ساری زندگی میں کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ مگر میرا مطالعہ ہمیشہ دو طرفہ عمل تھا، نہ کہ یک طرفہ عمل۔ مثلاً میں نے انگریز فلسفی برٹرینڈر سل کی کتابیں پڑھیں۔ یہ کتابیں مصنف نے تشکیک اورالحاد پر لکھی تھیں۔ مگر دو طرفہ ذہنی عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ برٹرینڈرسل کی کتابوں میں برعکس طورپر ایک نہایت اہم چیز دریافت ہوئی۔ اور وہ ہے اسلامی عقائد پر استدلال کا سائنسی انداز۔ اس معاملہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب: مذہب اور سائنس۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک باشعور انسان کے لیے اُس کی پوری زندگی ایک تعلّمی عمل (learning process) ہے۔ ایسا آدمی اپنے مشاہدہ اور تجربہ اور مطالعہ کے دوران ہر چیز سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔ وہ ہر چیز سے کچھ نہ کچھ لیتا ہے۔ ہرچیز اُس کے لیے اُس کی معرفت میںاضافہ کا سبب بنتی رہتی ہے۔ اسی لیے حدیث میںآیا ہے کہ : الحکمۃ ضالۃ المومن حیث وجدھا فہو احق بہا۔ (حکمت مومن کا کھویا ہوا سرمایہ ہے، وہ جہاںاُس کو پائے تو وہی اُس کا زیادہ حق دار ہے)۔
تعلّم (learning) کے اس عمل کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے کی دو لازمی شرطیں ہیں۔ اوّل یہ کہ آدمی کے اندر روح تجسس (spirit of inquiry) اتنی زیادہ پائی جائے کہ وہ کبھی اور کسی حال میںاُس سے سیر نہ ہوسکے۔
اس معاملہ میں دوسری لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی عُجب اور خود پسندی کی نفسیات سے مکمل طورپر پاک ہو۔ جب بھی کوئی اچھی بات اُس کے سامنے آئے تو وہ اُس کو کسی تردّد کے بغیر فوراً اخذ کرلے۔ وہ قرآن کے الفاظ میں، اخذتہ العزۃ بالاثم (البقرہ ۲۰۶) کا مصداق نہ بنے۔
عام طورپر لوگوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ کوئی حقیقت اگر انسان کے سوا کسی اور ذریعہ سے آئے تو وہ اُس کو مان لیتے ہیں، اُس کو ماننے میںکوئی چیز اُن کے لیے رُکاوٹ نہیں بنتی۔ لیکن جب اپنے جیسے ایک انسان کے ذریعہ کوئی ایسی حقیقت اُن کے سامنے آئے جس کو وہ پہلے سے نہ جانتے ہوں تو اُس کو ماننا اُن کے لیے سخت دشوار ہو جاتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اگر میں نے اس کی بات مان لی تو میرا قد اُس کے مقابلہ میں چھوٹا ہو جائے گا۔ یہ نفسیات اُن کے لیے حق کو ماننے میں رکاوٹ بن جاتی ہے، خواہ اس حق کو کتنے ہی زیادہ دلائل کے ساتھ اُن کے سامنے بیان کیا گیا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اعتراف علم کا دروازہ ہے۔ اعتراف آدمی کواس قابل بناتا ہے کہ اُس کے اخذ کا عمل کبھی نہ رُکے۔ اُس کاذہنی ارتقاء کسی روک کے بغیر مسلسل جاری رہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میری ملاقات کسی ایسے شخص سے ہوتی ہے جس کو میں بیس سال یا چالیس سال پہلے جانتا تھا۔ اب لمبے وقفہ کے بعد اُس سے ملاقات ہوئی۔ میںنے ہمیشہ پایا کہ وہ آدمی آج بھی وہیں ہے جہاں وہ پہلے تھا۔ ان میں سے اکثر اس مدت میںمادّی اعتبار سے کافی ترقی کرچکے ہوتے ہیں مگر فکری اعتبار سے وہ اب بھی وہیں ہوتے ہیں جہاں وہ بیس سال یا چالیس سال پہلے تھے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ مادی کمائی کے میدان میں تو اُنہوں نے اپنے ذہن کو خوب لگایا مگر فکری ترقی کے میدان میںوہ اپنے ذہن کو استعمال کرنے سے عاجز رہے۔
قرآن میں پیغمبر کے چار خاص کام بتائے گئے ہیںـــــتلاوت آیات، تعلیم کتاب، تعلیم حکمت اور تزکیہ (البقرہ ۱۲۹) تلاوت آیات کامطلب ہے ،نازل شدہ قرآن کو لوگوں تک پہنچانا۔ تعلیم کتاب سے مراد تفصیلی قوانین کی تعلیم ہے۔ تعلیمِ حکمت سے مراد ہے، قرآن کی تعلیمات میںچھپی ہوئی وزڈم (wisdom) کو کھولنا۔
تزکیہ کو عام طورپر پُر اسرار معنوں میں لیا جاتا ہے اور اُس کو تطہیر نفوس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مگر اس تشریح سے تزکیہ کی پوری معنویت واضح نہیں ہوتی۔ میرے نزدیک تزکیہ سے وہی چیز مراد ہے جس کو دوسرے لفظوں میں ذہنی ارتقاء کہا جاتا ہے۔ پیغمبر کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ ہے کہ وہ ہر فرد کے ذہن کو بیدار کرے۔ وہ لوگوں کے اندر معرفت کا عمل جاری کرے۔ وہ لوگوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی فکری قوتوں کو بیدار کرکے اپنی شخصیت کو ارتقاء یافتہ شخصیت بنائیں۔
ایک بیدار ذہن یہ کرتا ہے کہ مطالعہ اور مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ جو چیزیں اُس کے سامنے آتی ہیں اُن کو وہ تدبر اور توسّم کے ذریعہ معرفت حق میں ڈھالتا رہتا ہے۔ یہی تزکیۂ نفس ہے اور پیغمبرکی سنت کے مطابق، علماء کویہ کرنا ہے کہ وہ خود اس معرفت کے حامل بنیں اور دوسروں کو اسی مفہوم میں صاحبِ معرفت بننے کی مدد کریں۔
تزکیۂ نفس کا کوئی تعلق صوفیا کی ’’روحانی‘‘ مشقوں سے نہیں ہے۔ تزکیۂ نفس سے مراد تزکیۂ فکر ہے۔ یعنی آدمی کے ذہن کو کنفیوژن سے نکال کر اُس کے اندر سِداد فکر پیدا کرنا۔ تحلیل و تجزیہ کی صلاحیت پیدا کرکے اُس کو اس قابل بنانا کہ وہ معاملات میں صحیح رائے تک پہنچ سکے۔ اُس کے ذہن کو اس طرح کھولنا کہ وہ اعلیٰ حقائق کی گرفت کے قابل ہوجائے۔ اُس کے اندر اشیاء کی وہ معرفت پیدا کرنا کہ وہ حق کو ہر صورت میں اور ہر حال میں پہچان لے۔ اُس کے اندر وہ بلند فکری پیدا کرنا جو ہر بھٹکاؤ سے اوپر اُٹھ کر چیزوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھ سکیں۔
آخر میں عرض ہے کہ علم یا معرفت کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ ضروری شرط تواضع (modesty) ہے۔ کسی آدمی کے اندر ساری صلاحیت ہو مگر اُس کے اندر سچی تواضع نہ ہو تو وہ کبھی علم ومعرفت کا اعلیٰ درجہ نہیں پاسکتا۔ علم صرف اُس سینہ کے اندر جگہ پاتا ہے جو کبر اور انانیت اور خود پسندی جیسے جذبات سے پاک ہو۔ حقیقی علم دنیا میں خدا کا نمائندہ ہے۔ خدا کی معرفت کسی کو تواضع کے بغیرنہیں ہوسکتی۔ اسی طرح کسی شخص کو علم صرف اُس وقت ملتا ہے جب کہ وہ اپنے اندر حقیقی معنوں میں تواضع پیدا کرچکا ہو۔ کبر او ر علم دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
۲۴؍ستمبر ۲۰۰۲ وحید الدین
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم عبدالسلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۳جولائی ۲۰۰۲ ء کو ٹیلی فون پر آپ سے گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ حدیث میںآیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وإنی لا أخاف علی امتی الا الائمۃ المضلین (الترمذی، کتاب الفتن، ابو داؤد، کتاب الفتن، الدارمی، مقدمہ، مسند احمد ۴؍۱۲۳) یعنی میں اپنی امت کے بارے میں صرف گمراہ کرنے والے لیڈروں سے ڈرتا ہوں۔
میںنے اس حدیث پر غور کیا تو میری سمجھ میں آیا کہ اس سے مراد غالباً صنعتی دور کے مسلم لیڈر ہیں۔ صنعتی دور میں ایسے قیادتی مواقع کھلے ہیں جو اس سے پہلے کبھی موجود نہ تھے۔ان عظیم قیادتی مواقع کا یہ نتیجہ ہوگا کہ لیڈر بننے میں ایسے فائدے ملنے لگیں گے جو پہلے راجاؤں اور نوابوں کو بھی حاصل نہ تھے۔ اس مادی کشش کے نتیجہ میں استحصالی لیڈروں کی ایک نئی قسم وجودمیں آئے گی۔ غالباً یہی وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں الأئمۃ المضلون کہاگیا ہے۔لیڈروں کا یہ گروہ سستی مقبولیت حاصل کرنے کی خاطر یہ کرے گا کہ وہ مسلم عوام کو جذباتی خوراک دے گا۔ وہ دل پسند الفاظ بول کر عوام کی بھیڑ اپنے گرد اکٹھا کرے گا اور پھرمادی فائدوں کی صورت میں اُس کی شاندار قیمت وصول کرے گا۔
گمراہ کرنے والے ان لیڈروں کی ایک صفت جو موجودہ زمانہ میں تجربہ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو منفی سوچ میں ڈال کر اُن کی اصلاح کو تقریباً ناممکن بنادیا ۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان طول امد (الحدید ۱۶) کے نتیجہ میں زوال کا شکار ہوئے۔ اُن میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ اب اللہ کی سنت کے مطابق، مسلمانوں کے اوپرتنبیہات نازل ہوئیں۔ یہ تنبیہات اس لیے تھیں کہ مسلمانوں کے اندر احتساب خویش کا مادہ ابھرے اور وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ اللہ کی رحمت کے مستحق بن جائیں۔
مگر عین وقت پر ساری دنیا میں گمراہ کرنے والے لیڈروں کی فوج ظاہر ہوئی۔ انہوں نے یہ کیا کہ جو واقعات خدائی تنبیہہ کا درجہ رکھتے تھے، اُن کو اس حیثیت سے پیش کرنا شروع کیا کہ وہ تمہارے دشمنوں کی سازش کی بنا پر پیش آئے ہیں۔ اس غلط رہنمائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو واقعات اس لیے تھے کہ اُن سے مسلمانوں کے اندر اپنی اصلاح کا جذبہ پیدا ہو، اُن سے مسلمانوں کے اندر مفروضہ دشمنوں کے خلاف نفرت اور انتقام کاجذبہ اُبھر آیا۔ مسلمانوں کی جو طاقت ذاتی اصلاح میں صرف ہوتی وہ مفروضہ دشمنوںسے لڑائی بھڑائی میں ضائع ہونے لگی۔ نام نہاد مسلم لیڈروں کا یہ فعل اللہ کے منصوبہ میں خلل اندازی کے ہم معنٰی تھا۔ اور بلاشبہہ اس سے زیادہ کوئی گمراہی کی بات نہیں کہ کوئی شخص اللہ کے منصوبہ میں خلل ڈالنے کی کوشش کرے۔ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو یہ گمراہ لیڈر، حدیث کے الفاظ میں امانت (honesty) سے محروم نظر آئیں گے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ بعد کے زمانہ میںامانت اٹھالی جائے گی (صحیح البخاری، کتاب الفتن)۔ یہاں امانت سے مراد دیانت داری (honesty) ہے۔
موجودہ زمانہ کے نام نہاد مسلم لیڈر واضح طور پر اس کا مصداق ہیں۔ اُن میں سے تقریباً ہر ایک کا یہ حال ہے کہ اگر آپ یہ دیکھیں کہ ۱۹۴۷ میںاُن کا اور اُن کی فیملی کا اسٹیٹس کیا تھا تو آپ پائیں گے کہ اس مدت میں اُن کا اسٹیٹس سوگنا بڑھ چکا ہے۔ ہر ایک ایسی زندگی گذار رہا ہے جس کا پچاس برس پہلے اُس نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ ایسی حالت میں ان خود ساختہ لیڈروں کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کو یہ بتائیں کہ اُن کے پاس وہ کون سا نسخہ ہے جس سے اُن کو یہ فائدہ حاصل ہوا کہ اُن کے بقول، مسلمانوں کی تباہی کے باوجود ٹھیک اسی مدت میں وہ خود اور اُن کی فیملی نے زبردست ترقی حاصل کرلی۔
اُن کی یہ دو عملی بلاشبہہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اُن کے اندر امانت (honesty) نہیں۔ اگر اُن کے اندر امانت و دیانت ہوتی تو یقینا وہ لوگوں کو اپنی ذاتی کامیابی کے راز سے آگاہ کرتے، نہ کہ اُس کو چھپا کر مسلمانوں کو ظلم اور سازش کی خبر دیں۔ اوراس طرح مسلم ملّت کایہ حال کردیں کہ اُس کے لیڈر تو شاندار ترقی کررہے ہوں اور ملت محرومی کا شکاربنی رہے۔
۴ جولائی ۲۰۰۲ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں