Pages

Sunday, 1 October 2006

Al Risala | October 2006 (الرسالہ،اکتوبر)

2

- روزے کی حکمت

3

- نماز،قرآن میں

5

- دعوت اور داعی

7

- اخلاق، محفوظ انسانی سفر کا ضامن

11

- آئی ڈنٹٹی کی تلاش

15

- لائف بیانڈ لائف

18

- ڈائلاگ اسلام میں

23

- توہماتی دَور سے سائنسی دَور تک

26

- نئی منصوبہ بندی کی ضرورت

30

- مسلم ایمپاورمنٹ، یا سیلف ایمپاورمنٹ

33

- قیادت ناکام، مسلمان کامیاب

37

- عارضی دورِ حیات، ابدی دورِ حیات

38

- نعمت نہ کہ زحمت

39

- دانش مند باپ

40

- دعوت کی تاریخ

42

- سی پی ایس انٹرنیشنل


روزے کی حکمت

اسلام میں دو عبادت کو بنیادی عبادت کا درجہ دیا گیا ہے— نماز، اور روزہ۔ نماز علامتی طورپر اسلام کے مثبت احکام کو بتاتی ہے۔ اور روزہ بتاتا ہے کہ اہلِ ایمان کو کچھ باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ نماز عمل کی زبان میں یہ بتاتی ہے کہ اہلِ ایمان کے اندر تواضع، اطاعت، شکر، امن پسندی اور باہمی الفت کا مزاج ہونا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں روزہ یہ بتاتا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زندگی پرہیزگاری کی زندگی ہو۔
حدیث میں آیا ہے کہ جب کوئی شخص روزہ رکھے تو وہ نہ گندی بات کرے اور نہ شور کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے تو وہ یہ کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ ر وزہ سیلف کنٹرول کی تربیت ہے۔ آدمی روزے کے زمانے میں جس طرح کھانے پینے کی چیزوں میںسیلف کنٹرول کا طریقہ اختیار کرتا ہے، اسی طرح اس کو اپنی پوری زندگی میں اخلاقی کنٹرول کا طریقہ اختیار کرناچاہیے۔ کوئی شخص اگر اپنے غلط رویّے سے اس کو بھڑکائے تب بھی اس کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو بھڑکنے سے بچائے۔
اِسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ جس شخص نے روزہ رکھا مگر ا س نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑدے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان میں کھانا اور پانی چھوڑنا ایک علامتی ترک ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ آدمی ہر بُرائی کے معاملے میں ’’روزے دار‘‘ بن جائے۔ وہ غلط بات بولنا بھی چھوڑ دے، اور غلط کام کرنا بھی چھوڑ دے۔ یہی روزے کا اصل مقصد ہے۔
رمضان کا مہینہ ذاتی محاسبہ کا مہینہ ہے۔ یہ اپنے اوپر نظر ثانی کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ اپنی اصلاح آپ کرنے کا مہینہ ہے۔ رمضان کے مہینے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو خدا کی نظر سے دیکھے نہ کہ صرف اپنی نظر سے۔
واپس اوپر جائیں

نماز، قرآن میں

قرآن کی سورہ نمبر ۲۹ میں بتایا گیا ہے کہ:إنّ الصلوٰۃ تنہیٰ عن الفحشاء والمنکر (العنکبوت: ۴۵) یعنی بے شک نماز فحش اور منکر باتوں سے روکتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص نماز کے فارم کو دہرائے تو خود بخود اس کا یہ عملی نتیجہ ہوگا کہ وہ بُری باتوں اور بُرے کاموں سے رُک جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا تو فارم والی نماز پڑھنے والے کروروں لوگ ہر بُری بات اور ہر بُرے کام سے رُکنے والے دکھائی دیتے۔ حالاں کہ ایسا نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اِس آیت میں نماز سے مراد نماز کی اسپرٹ ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی انسان کے اندر نماز والی اسپرٹ پیدا ہوجاتی ہے تو اس کے اندر بُرائیوں سے بچنے کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ نفسیاتِ نماز اس کے لیے فحش اور منکر سے ناہی (restrict) کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ نماز دراصل ایک تربیت ہے نہ کہ صرف ایک رسم۔ آیت میں دراصل تربیت یافتگانِ نماز کا ذکر ہے نہ کہ صرف رسمی طورپر فارم کو ادا کرنے والوں کا ذکر۔
اِس کا مطلب یہ نہیں کہ فارم کوئی غیر اہم چیز ہے۔ اصل یہ ہے کہ فارم داخلی اسپرٹ کا ایک خارجی ظہور ہے۔ جہاں اسپرٹ ہوگی وہاں یہ خارجی ظہور بھی یقینا پایا جائے گا۔ اِس معاملے کو اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ نماز کا فارم، نماز کی اسپرٹ کا ظہور یا اسپرٹ اِن ایکشن (spirit in action) ہے۔
ہر عبادتی فارم کا معاملہ یہی ہے۔ اگر چہ عبادت میں اصل اہمیت اسپرٹ کی ہے، لیکن اسپرٹ جب زندہ ہو تو فطری طور پر وہ حرکت و عمل(activities) کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ نماز کے لیے آدمی جب وقت پر اٹھتا ہے، وہ وضو کرتا ہے، وہ مسجد جاتا ہے، وہ لوگوں کے ساتھ باجماعت نماز میں شریک ہوتا ہے اور پھر لوگوںسے مل کر وہ واپس آتا ہے، اور پھر یہی کام وہ روزانہ پانچ بار کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کی عبادت، حرکت و عمل میں (activities) بدل جاتی ہے۔ اسپرٹ کے بغیر حرکت و عمل نہیں، اور حرکت و عمل کے بغیر اسپرٹ نہیں۔
اسپرٹ اِن ایکشن کے معاملے کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مختلف ملکوں میں قومی دن منائے جاتے ہیں۔ مثلاً ہندستان میں ۱۵؍اگست کو یوم آزادی، ۲۶ جنوری کو یومِ جمہوریہ وغیرہ۔ بظاہر یہ کچھ رسمی تقریبات(celeberation) منانے کا دن ہوتا ہے۔ مگر ان کی اہمیت صرف اِن ظاہری تقریبات کی بنا پر نہیں بلکہ اُس داخلی اسپرٹ کی بنا پر ہوتی ہے، جس کے تحت ان کو منایا جاتا ہے۔
یہ داخلی اسپرٹ کیا ہے۔ یہ داخلی اسپرٹ حبُّ الوطنی ہے۔ یعنی وطن سے اپنے تعلق کو یاد کرنے کے لیے کچھ تاریخی دنوں میں بعض تقریبات منانا۔ اِس اعتبار سے ہندستان کے یومِ آزادی یا یومِ جمہوریہ کو حبّ الوطنی کا عمل (patriotis in action) کہا جاسکتا ہے۔
یہ معاملہ زندگی کی ہر سرگرمی سے تعلق رکھتا ہے۔ مثال کے طورپر آپ کا ایک دوست لمبے عرصے کے بعد آپ کے پاس آتا ہے اور آپ سے ملاقات کرتا ہے۔ دوست کو دیکھ کر آپ کے اندر محبت کا جذبہ بھڑک اٹھے گا۔ آپ اٹھ کر اس سے ملیں گے۔ اس سے معانقہ کریں گے۔ اس کو لے جاکر عزت کے ساتھ بٹھائیں گے۔ ٹیلی فون کے ذریعے دوسروں کو بتائیں گے کہ آپ کا فلاں دوست آیا ہوا ہے۔ اس کے لیے کھانے پینے اور آرام کرنے کا اہتمام کریں گے، وغیرہ۔
محبوب د وست کے لیے آپ کی یہ تمام سرگرمیاں عملاً محبت(love in action) کا مصدا ق ہیں۔آپ کی ظاہری سرگرمیاں گویا کہ داخلی محبت کا خارجی ظہور ہیں۔ محبت اگرچہ اصلاًایک داخلی حالت کا نام ہے، لیکن مذکورہ سرگرمیاں بھی اس کا لازمی جُز ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا—اِن مثالوں سے عبادت کی روح اور اس کے فارم کے باہمی تعلق کو سمجھا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت اور داعی

قرآن اور حدیث میں دعوت کے لیے دوسرا لفظ جو استعمال ہوا ہے وہ شہادت ہے۔ اِسی طرح داعی اور مدعو کے لیے جو دوسرے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ شاہد اور مشہود کے الفاظ ہیں۔ یہ بات بہت با معنیٰ ہے۔ اس پر غور کرنے سے ایک نہایت اہم حقیقت سامنے آتی ہے۔
شاہد کا مطلب گواہ (witness) ہے۔ گواہ کون ہے۔ گواہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے زیرِ بحث واقعہ کو دیکھا ہو، یا کسی چیز کے بارے میں وہ ابتدائی معلومات دے سکے:
Witness: a person who saw, or can give a first-hand account of something.
دعوت سے مراد یہ ہے کہ غیر مسلموں میں حق کا پیغام پہنچا یا جائے۔ جب مسلمانوں کو ان کی یہ دعوتی ذمے داری یاد دلائی جائے تو کہا جاتا ہے کہ اِس سلسلے میں پہلا کام خود مسلمانوں کی اصطلاح ہے۔ یعنی مسلم سماج اور مسلم ریاست کو صحیح اسلامی اصول پر قائم کرنا۔ کیوں کہ اگر مسلمان خود ہی بگڑے ہوئے ہوں اور اُن کے درمیان صالح معاشرہ او ر صالح نظامِ حکومت قائم نہ ہو تو غیر مسلموں کو کس طرح اسلام کی طرف بلایا جاسکتا ہے۔
یہ ایک غیر متعلق (irrelevant) بات ہے۔ کیوں کہ اسلامی دعوت کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو مسلم سماج کی طرف بلایا جائے۔ اسلامی دعوت کا مقصد لوگوں کو مسلمانوں کی طرف بلانانہیں بلکہ اسلام کی طرف بلانا ہے۔ لوگوں کو یہ بتانا کہ ان کا ایک خدا ہے۔ لوگوں کو خدا کے کریشن پلان سے آگاہ کرنا، لوگوں کو جنت اور جہنم کی خبر دینا، لوگوں کو یہ بتانا کہ خدا ایک دن تم کو جمع کرے گا اور تمھارا حساب لے گا، اور پھر لوگوں کے لیے ان کے ریکارڈ کے مطابق، جنت یا جہنم کا فیصلہ کرے گا۔
گویا کہ دعوت کا نشانہ یہ ہے کہ جو لوگ دکھائی دینے والی دنیا(seen world) میں جیتے ہیں، ان کو یہ بتانا کہ یہاںایک نہ دکھائی دینے والی دنیا(unseen world) موجود ہے، اور تم کو آخر کار مرنے کے بعد اسی نہ دکھائی دینے والی ابدی دنیا کی طرف جانا ہے، اور اس کے تقاضوں کا سامنا کرنا ہے۔
اِس اعتبار سے دیکھیے تو دعوت کے عمل میں مسلمانوں کے معاشرے یا نظام کا صالح ہونا یا غیر صالح ہونا ایک غیر متعلق بات ہے۔ اِس معاملے میں اصل اہمیت صرف دوچیزوں کی ہے— استدلال اور یقین۔ ایک، یہ کہ داعی کے پاس ایسی دلیل کا سرمایہ موجود ہو جو مدعو کو مطمئن کرسکے۔ دوسری بات یہ کہ داعی کو خود سچائی کی اتنی گہری معرفت حاصل ہو کہ وہ پورے یقین کے ساتھ اس کی طرف دعوت دے سکے۔ اس کا یقین اتنا بڑھا ہوا ہو کہ جب وہ اس کے بارے میں بولے تو ایسا محسوس ہو کہ وہ لوگوں کو کسی ایسی چیز سے باخبر کررہا ہے جس کو اس نے خود دیکھا ہے۔
داعی جب دوسروں کے درمیان دعوت کا کام کرتا ہے تو اُس وقت نکتۂ دعوت کیا ہوتا ہے۔ اُس وقت اس کا نکتۂ دعوت یہ نہیں ہوتا کہ ہم نے اپنے یہاں ایک صالح نظامِ زندگی بنالیا ہے، تم اس کو دیکھو اور تم بھی ویسا ہی نظام اپنے یہاں بناؤ۔ داعی کا دعوتی نکتہ یہ نہیں ہوتا۔ داعی کا دعوتی نکتہ صرف یہ ہوتا ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان کیا تعلق ہے، اور دعوت کے بعد کی زندگی میں انسان کے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے۔ اسی کو قرآن میںانذار اور تبشیر کہاگیا ہے۔ گویا کہ اسلام میں نکتۂ دعوت اس کا نظری پہلو ہے نہ کہ اس کا نظامی پہلو۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری سیرت اِسی دعوتی نقطۂ نظر کی تائید کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اخلاق، محفوظ انسانی سفر کا ضامن

انسانی سماج کو ایک بہتر سماج بنانے کے لیے جو تعمیری اصول ہیں، انھیں اصولوں کو اخلاقی اقدار (moral values) کہا جاتا ہے۔ اِن اخلاقی اقدار کو اختیار کرنے سے انسانی سماج بہتر سماج بنتا ہے، اور ان کو چھوڑنے سے انسانی سماج برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔ سماج کو اگر ٹرین سے تشبیہ دی جائے تو اخلاقی اقدار گویا ریل کی وہ پٹریاں ہیں جن کے اوپر سماجی ٹرین بھٹکے بغیر اپنا سفر کامیابی کے ساتھ طے کرتی ہے۔
یہ اخلاقی اقدار بنیادی طورپر یہ ہیں— امن، انصاف، محبت، سچائی، رواداری، خیر خواہی، عدم تشدد، صبر تواضع، عالمی اخوت اور اخلاقی سلوک، وغیرہ۔ یہ اخلاقی اقدار اتنی زیادہ مسلّم ہیں کہ تمام مذہبی اور روحانی نظاموں میں یکساں طورپر ان کی خصوصی تعلیم دی گئی ہے، اور ان کو انسانی ترقی کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اقدارکا یہی مجموعہ ہے جس کو اخلاق کہا جاتا ہے۔ یہی اخلاقی اصول انسان کے اندر اعلیٰ شخصیت بناتے ہیں۔ انھیں اخلاقی اصولوں کی پیروی سے کوئی سماج بہتر سماج بنتا ہے۔ انھیں اخلاقی اصولوں کی پیروی سے وہ سماجی مقاصد حاصل ہوتے ہیں، جن کو ہم انسانیت کی فلاح کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔
خدا نے اِن اقدار کو انسان کی فطرت میں اخلاقی حِس (moral sense) کے طور پر ودیعت کردیا ہے۔ ہر انسان اِن اخلاقی اصولوں کا شعور پیدائشی طورپر رکھتا ہے۔ تمام مذہبی اور روحانی نظام اِس کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ خدا نے کائنات کو اِس طرح بنایا ہے کہ وہ انسان کے لیے گویا ایک اخلاقی ماڈل بن گئی ہیں۔ جو چیز انسان کو خود اپنے ارادے کے تحت، عمل میں لانا ہے وہ چیز بقیہ کائنات میں خدا کے براہِ راست کنٹرول کے تحت زیر عمل آرہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان اور کائنات دونوں کا اخلاقی نظام ایک ہے۔ بقیہ کائنات میں اس کا نام قانونِ فطرت (law of nature) ہے، اور انسانی دنیا میں اس کو اخلاقی اقدار (moral values) کہاجاتا ہے۔
انسان اور کائنات دونوں کو ایک خدا نے پیدا کیا ہے۔ دونوں کی کارکردگی کے لیے اس نے ایک ہی قانون مقرر کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ بقیہ کائنات میں یہ قانون براہِ راست طورپر خود خدا نے نافذ کررکھا ہے۔ لیکن انسان کو خدا نے یہ عزت دی ہے کہ اس کو آزاد اور خود مختار بنایا ہے۔ بہتر انسانی سماج بنانے کا راز یہ ہے کہ انسان اسی خدائی قانون کو خود اپنے ارادے سے اپنی زندگی میں نافذ کرے۔
خلامیں اَن گنت ستارے ہیں۔ ہر ایک نہایت تیزی کے ساتھ وسیع خلا میں گردش کررہا ہے۔ لیکن ان کے درمیان کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ اِس کا راز یہ ہے کہ ہر ستارہ اور سیارہ اپنے اپنے مقرر مدار(orbit) پر گردش کرتا ہے۔ کوئی ستارہ دوسرے ستارے کے مدار میں داخل نہیں ہوتا۔ گردش کا یہ انضباطی اصول، ستاروں کے درمیان ٹکراؤ ہونے نہیں دیتا۔ یہی اصول، انسان کو اپنی زندگی میںاختیار کرنا ہے۔ ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو اپنے دائرے کے اندر محدود رکھے۔ اس کے بعد انسانی سماج میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوگا۔ یہی فارمولا پیس فُل سماجی تعلقات کا واحد فارمولا ہے۔
ہوائیں چلتی ہیں تو وہ نہایت تیزی کے ساتھ میدان سے گذرتی ہیں۔ یہاں سر سبز پودے ہوتے ہیں۔ یہ پودے ہواؤں کے طوفان میں نہیں ٹوٹتے۔ اس کا سبب یہ ہے وہ ہوا کے مقابلے میں کبھی نہیں اکڑتے۔ جب ہو اکا جھونکا آتا ہے تو پودا فوراً جھک کر ہوا کو گذرنے کا موقع دے دیتا ہے۔ یہی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ سماجی زندگی میں اکڑ کے بجائے سمجھوتہ اور ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرے۔
پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے اور اس سے چشمے جاری ہوجاتے ہیں۔ چشمے کے راستے میں بار بار پتھر آتے ہیں مگر چشمہ ایسا نہیں کرتا کہ پہلے وہ پتھر کو اپنے راستے سے ہٹائے اور پھر اس کے بعد اپنا سفر جاری کرے۔ بلکہ وہ مُڑ کر پتھر کے کنارے کی طرف سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے، اور آگے کی طرف رواں ہوجاتا ہے۔ یہی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ٹکراؤ کو اوائڈ کرکے اپنا راستہ بنائے۔ نہ کہ وہ رُکاوٹ سے ٹکراؤ شروع کردے۔
درخت انسان کے لیے آکسیجن نکالتا ہے، اور ہوا اس کو لے کر اُسے انسان تک پہنچاتی ہے۔ لیکن درخت اور ہوا اپنے اس عمل کے لیے انسان سے اس کی کوئی قیمت نہیں مانگتے ۔ایسا ہی انسان کو کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بنے۔ اور اپنے اس عمل کے لیے لوگوں سے کسی قیمت کا تقاضا نہ کرے۔
گائے خدا کی ایک زندہ انڈسٹری ہے۔ گائے کو اس کا مالک گھاس کھلاتا ہے، لیکن گائے اس کے بدلے میںاپنے مالک کو دودھ لوٹاتی ہے۔ وہ دوسروں سے غیر دودھ (non-milk)کو لیتی ہے اور پھر ان کو اپنی طرف سے دودھ (milk) کا تحفہ واپس کرتی ہے۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ جب بھی اس کو کسی سے منفی تجربہ ہو تواس کے جوا ب میں وہ اس کے ساتھ مثبت سلوک کی روش اختیا رکرے۔
کسی مقام پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہوں اور وہ زمین پر پڑے ہوئے دانے چُگ کر خوش خوش اس کو کھارہی ہوں۔ ایسی حالت میں آپ ان کی طرف ایک کنکر پھینک دیں۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ چڑیاں اُڑ کر درخت کی شاخ پر پہنچ گئیں، اور دوبارہ وہاں چہچہانے لگیں۔ نفرت اور شکایت جیسی چیز کسی چڑیاں کے دل میں کبھی جگہ نہیں پاتی۔ یہی طریقہ انسان کا ہونا چاہیے۔ انسان کو بھی ایسا بننا چاہیے کہ جب کوئی شخص اس کو ستائے یا اس کو کوئی نقصان پہنچائے تو وہ نفرت اور شکایت کو اپنے دل میں جگہ نے دے۔ وہ منفی حالات کے باوجود اپنے آپ کو مثبت نفسیات پر قائم رکھے۔
دنیا کی تمام چیزیں قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کی حامل ہیں۔ اِس مادّی دنیا میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اِس معاملے میں استثناء کی حیثیت رکھتی ہو۔ مثلاً ستارے ہمیشہ اپنی مقرر رفتار پر پوری حتمیت کے ساتھ قائم رہتے ہیں۔ ببول کے بیج سے ہمیشہ ببول کا درخت نکلتا ہے اور انگور کے بیج سے ہمیشہ انگور کا درخت، وغیرہ۔ یہی کردار انسان کا بھی ہونا چاہیے۔ انسان کو بھی اس طرح قابلِ پیشین گوئی عمل کے معیار پر پورا اترنا چاہیے۔ قابلِ پیشین گوئی کردار یہ ہے کہ کسی صورتِ حال میں ایک حقیقی انسان سے جو امید کی جائے، وہ ہمیشہ اُس پر پورا اُترے۔
سورج مسلسل طورپر روشنی اور حرارت سپلائی کرتا ہے۔ اِس معاملے میں وہ اپنے اور غیر کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا۔ وہ سب کو یکساں طورپر روشنی اور حرارت کا خزانہ پہنچاتا رہتا ہے۔ یہی کردار انسان کا بھی ہونا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر یک کے لیے نفع بخش بنے۔ اپنوں کے لیے بھی اور غیروں کے لیے بھی۔ دوستوں کے لیے بھی اور دشمنوں کے لیے بھی۔ خوش گوار تعلق والوں کے لیے بھی اور ناخوش گوار تعلق والوں کے لیے بھی۔ یہی کسی انسان کے لیے اعلیٰ معیاری اخلاق ہے۔
شہد کی مکھی اپنے مقام سے اُڑ کر جنگل میں جاتی ہے۔ یہاں بہت سی مختلف قسم کی چیزیں ہیں۔ مثلاً لکڑی، کانٹا، جھاڑی اور گھاس، وغیرہ۔ لیکن شہد کی مکھی انتخابی طریقہ اختیار کرتی ہے۔ وہ ہر دوسری چیز سے اعراض کرکے سیدھے اُس پھول تک پہنچتی ہے جہاں سے اس کو میٹھا رس لینا ہے۔ یہی انتخابی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ اس کو سماج میں اِس طرح رہنا چاہیے کہ وہ غیر مطلوب چیزوں سے اعراض کرکے۔ وہ ہر ناپسندیدہ چیز سے دور رہتے ہوئے اپنے مطلوب تک پہنچ جائے۔
انسان اور بقیہ کائنات میں ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ بقیہ کائنات نے جس کردار کو مجبورانہ طورپر اختیار کررکھا ہے، اُسی کردار کو انسان خود اپنی آزادی کے تحت اختیار کرے۔
بقیہ کائنات مجبورانہ اخلاق کی مثال ہے۔ مگر انسان کو اختیارانہ کردار کا نمونہ بننا ہے۔ اِس کا سبب یہ ے کہ بقیہ کائنات کے لیے نہ کوئی انعام ہے اور نہ کوئی سزا۔ لیکن انسان کے لیے خدا کا قائم کردہ قانون یہ ہے کہ جو شخص اِس مطلوب کردار کو اختیار نہ کرے وہ خدا کی طرف سے سزا پائے گااور جو شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اس مطلوب کردار کا حامل بن جائے اس کو خدا کی طرف سے ابدی انعام کا مستحق قرار دیا جائے گا۔ یہ امتیازی انعام اِس کائنات میں صرف انسان کے لیے مقدر ہے۔ کیوں کہ انسان خود اپنے اختیار سے وہ مطلوب روش اختیار کرتا ہے، جس کو بقیہ کائنات مجبورانہ طورپر اختیار کیے ہوئے ہے۔
واپس اوپر جائیں

آئی ڈنٹٹی کی تلاش

مَیں کون ہوں(who am I) ایک ایسا سوال ہے جو ہمیشہ سے انسان کی توجّہ کا مرکز رہا ہے۔ اِس سوال کو ایک لفظ میں آئی ڈنٹٹی کرائسس(identity crisis) کا نام دیا جاسکتا ہے۔ افکار کی تاریخ (history of thought) بتاتی ہے کہ اِس معاملے میں انسانی دماغ سب سے زیادہ جس تصور سے مسحور رہا ہے وہ وحدتِ وجود (monism) کا تصور ہے۔ ہندو ازم میں اس کو ادُوئت واد کہا جاتا ہے۔ اِس تصور کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ایک عظیم پھیلی ہوئی طاقت ہے اور انسان اسی طاقت کا ایک جُزء ہے۔
فلسفہ اور مذہب دونوں میں یہ نظریہ ہمیشہ چھایا رہا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان بھی بعد کے زمانے میں یہ نظریہ پھیل گیا۔ صوفیامیں خاص طورپر اور علماء میں عام طور پر اِس نظریے نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کرلی۔مثنوی مولانا روم، جس کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے، اورجو نہ صرف صوفیا بلکہ علماء میں بھی مقدس کتاب کے طورپر پڑھی جاتی رہی ہے، وہ پوری کی پوری وحدتِ وجود کے تصور پر لکھی گئی ہے۔
اِس بات کو اردو شاعر نے اِس طرح بیان کیا ہے:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اصل یہ ہے کہ انسان جب پیدا ہو کر دنیا میں آتا ہے تو و ہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس سوال سے دوچار ہوتا ہے کہ میں کون ہوں، میں کہاں سے آیا ہوں، اور میری منزل کیا ہے۔
پانچ ہزار سال پہلے یونانی فلسفیوں نے آئی ڈنٹٹی کرائسس کے اِس سوال پر غور کرنا شروع کیا۔ انھوں نے یہ فرض کیا کہ انسان ایک حقیقتِ کُلّی کا حصہ ہے۔ وہ صرف اس لیے اُس سے الگ ہوا ہے کہ ایک دن وہ دوبارہ اس سے مل جائے۔ انسان ایک الگ وجود کی حیثیت سے اپنی شناخت نہیں پارہا تھا۔ لیکن جب اس نے یہ مان لیا کہ وہ ایک عظیم تر حقیقتِ کلّی کا ذاتی جز ہے تو اس نے گویا اپنی شناخت پالی۔ کائنات کے اندر اس کو اپنی پہچان معلو م ہوگئی۔ یہ نظریہ بہت بڑے پیمانے پر پھیلا۔ یہی وہ نظریہ ہے جس کو مانزم اور ادوئت واد اور وحدتِ وجود کہا جاتا ہے۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ انسان اپنی ذات میں ایک نامکمل وجود ہے۔ وہ اپنی تکمیل کے لیے اپنی ذات سے باہر کسی اور چیز کو چاہتا ہے۔ یہ احساس ہر انسان کو مسلسل طورپر بے چین رکھتا ہے۔ جب انسان کو اپنی اِس تلاش کا جواب نہیں ملتا تو اس کا حال وہ ہو جاتا ہے جس کو سر جیمز جینز نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا— میں شاید بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہوں جو میرے لیے بنائی نہیں گئی۔ اِسی احساس کی ترجمانی ایک اردو شاعر نے اِس طرح کی ہے:
مجھے بلا کے یہاں، آپ چھپ گیا کوئی وہ میہماں ہوں جسے میزباں نہیں ملتا
I was invited here, but when I came the invitee was absent. I am the guest who failed to find his host.
میں نے وحدتِ وجود کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا۔ مگر میں نے پایا کہ اِس پورے نظریے کے پیچھے کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔ یہ پورا نظریہ صرف تمثیلات پر کھڑا کیاگیا ہے، اور تمثیل کسی بھی درجے میں منطقی دلیل کے قائم مقام نہیں۔ مثال کے طورپر ہندوازم کوماننے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ سمندر کا ایک قطرہ سمندر سے باہر ہو تب بھی وہ سمندر کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح انسان حقیقت کے سمندر کا ایک قطرہ ہے۔ جب تک وہ باہر ہے وہ ایک الگ قطرہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب وہ سمندر میں مل جائے تو اس کے بعد ایک الگ قطرے کی حیثیت سے اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔ اسی بات کو مثنوی مولانا روم میںاِس طرح کہاگیا ہے:
بشنو ازنَے حکایت می کُند از جدائی ہا شکایت می کند
اصل یہ ہے کہ یہ سارا معاملہ ایک کنفیوژن کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ انسان کے اندر اپنی شناخت کے حوالے سے جو بحران (crisis) پایا جاتارہا ہے وہ اِس لیے نہیں ہے کہ پانی کا قطرہ اپنے سمندر کی تلاش میں ہے، بلکہ وہ اِس لیے ہے کہ مخلوق اپنے خالق کو پہچاننا چاہتی ہے۔ اسی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے وہ نظریات پیدا ہوئے جن کو مانزم یا اِس طرح کے دوسرے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
اِس معاملے پر قرآن کی روشنی میں غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ بندے اور خدا کے درمیان ربط اپنے آپ میں ایک فطری حقیقت ہے۔ لیکن اِس ربط کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پانی کا قطرہ سمندر میں مل کر ایک ہو جائے، بلکہ اس کا مطلب صرف قربت(nearness) ہے۔ انسان فطری طورپر اپنے اُس خدا کی قربت چاہتا ہے جس نے اس کو پیدا کیا، اور جو اس کو سب کچھ دینے والا اور اس کو سنبھالنے والا ہے۔
اِس قربت کو ماں اور بیٹے کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ بیٹا اپنی ماں سے قریب ہونا چاہتا ہے۔ یہ بلا شبہہ اس کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ لیکن اس خواہش کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ماںاور بیٹا دونوں کی ذات ایک دوسرے میں مدغم ہوجائے، یہاں تک کہ بیٹے کا کوئی الگ وجود باقی نہ رہے۔ بیٹے کے اندر یہ خواہش سادہ طورپر صرف قربت کے معنیٰ میں ہے نہ کہ انضمام (merger) کے معنٰی میں۔
قرآن میں خدااور بندے کی دنیوی قربت کے معنی میں یہ آیت آئی ہے: واسجد واقترب (القلم)، اور آخرت میں خدا اور بندے کی قربت کا تصور اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے: ربّ ابن لی عندک بیتاً فی الجنّۃ (التحریم ۱۱)
اِس بات کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں خدا اور بندے کے درمیان روحانی ہم سائیگی (spiritual neighbourhood) کامعاملہ پیش آتا ہے اور آخرت کی زندگی میں خدا اور بندے کے درمیان مادّی ہم سائیگی (physical neighbourhood) کا تجربہ ہوگا۔ جو کہ انسان کے لیے تمام لذتوں سے زیادہ لذیذ ثابت ہوگا۔
اس معاملے پر مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے انسان کو پیدا کرکے جس دنیا میں اس کورکھا ہے وہ دنیا پورے معنوں میں اپنے خالق کاتعارف ہے۔ یہاں وسیع خلا ہے جو خالق کی ناقابلِ احاطہ ہستی کا گویا ایک تعارف ہے۔ یہاں روشن سورج اور روشن ستارے ہیں جو بتاتے ہیں کہ خالق کس طرح تمام موجودات کے لیے روشنی کا منبع ہے۔ یہاں اونچے پہاڑ ہیں جو خدا کی عظمت کا ایک علامتی اظہار ہیں۔ یہاں پانی کے اتھاہ سمندر ہیں جو خدا کی بے پایاں رحمت کی داستان سنارہے ہیں۔ یہاں سرسبز درخت ہیں جویہ بتارہے ہیں کہ خدا نے کس طرح ہماری زمین پر لائف سپورٹ سسٹم کا حیرت انگیز نظام قائم کر رکھا ہے، وغیرہ۔
انسان پیدائشی طورپر ایک عاجز مخلوق ہے۔ وہ اپنے عجزکی تلافی کے لیے اپنے سے بڑی کسی ہستی کو پانا چاہتا ہے۔ اِسی فطری احساس کی توجیہہ کرنے کی کوشش میں وحدتِ وجود کی قسم کے فلسفے بنے۔ مگر اِس احساس کا صحیح جواب یہ ہے کہ انسان خدا کی معرفت حاصل کرے۔ وہ خدا کی تخلیق میں غور و فکر کرکے خدا کی جھلکیاں دیکھے۔ وہ خدا کو دریافت کرنے کی سعادت حاصل کرے۔
قرآن کے مطابق، انسان کی زندگی کا ایک مختصر حصہ قبل از موت دورِ حیات میں رکھا گیا ہے، اور اس کا زیادہ بڑا حصہ بعد ازموت دَور میں رکھا گیا ہے۔ اِن دونوں دوروں میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ مخلوق کو اپنے خالق کی قربت حاصل ہوجائے۔ یہ قربت، دنیا کی زندگی میںتصوّراتی قربت کی صورت میں حاصل ہوگی، اور آخرت کی زندگی میں حقیقی قربت کی صورت میں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دنیا کی زندگی میںآدمی کو خدا رُخی زندگی حاصل ہوجائے اور آخرت میں اس کو خدا کے پڑوس میں رہنے کی سعادت ملے۔
واپس اوپر جائیں

لائف بیانڈ لائف

Life Beyond Life
کیا موت کے بعد آدمی دوبارہ زندہ رہتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ ہاں۔ موجودہ دنیا میں کسی بھی چیز کو ثابت کرنے کے لیے جس طرزِ استدلال کو معتبر سمجھا جاتا ہے، ٹھیک اسی طرزِاستدلال سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ موت کسی کے لیے زندگی کا خاتمہ نہیں۔ ہر عورت اور مرد کی زندگی ابدی ہے۔ موت کا مطلب صرف یہ ہے کہ آدمی ایک دورِ حیات سے نکل کر دوسرے دورِ حیات میں داخل ہوجاتا ہے۔
۱۔ علماء طبّ پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ موت کا مطلب دل کی حرکت کا بندہوجانا ہے۔ مگر اب یہ نظریہ رد کیا جاچکا ہے۔ اب یہ مانا جاتا ہے کہ کوئی آدمی اُس وقت مرتا ہے جب کہ اس کے برین کا فنکشن رُک جائے۔ اس واقعہ کو بتانے کے لیے فنکشن کا لفظ درست نہیں۔زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ برین کسی انسان کے لیے موجودہ دنیا میں اس کے سفر کا آخری اسٹیشن ہے۔
جیساکہ معلوم ہے، جب انسان کے ساتھ وہ واقعہ پیش آتا ہے جس کو کلنکل موت (clinical death) کہا جاتا ہے تو یہ ہوتا ہے کہ اس کے جسم سے روح نکل جاتی ہے، لیکن جہاں تک برین کا تعلق ہے، وہ بدستور ویسا ہی باقی رہتا ہے جیسا کہ وہ موت سے پہلے تھا۔ موت کے بعد برین کا ایک سیل(cell) بھی کم نہیں ہوتا۔
اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ روح یا انسان کی شخصیت (personality) برین سے الگ اپنا ایک مستقل وجود رکھتی ہے۔ وہ کسی بھی اعتبار سے برین کا حصہ نہیں ۔
۲۔ اس سلسلے میں دوسری قابل لحاظ بات یہ ہے کہ مرنے والا انسان مرکر بظاہر ہمارے پاس سے چلا جاتا ہے۔ لیکن اس کے وجود کا کم از کم ایک حصہ دنیا میں باقی رہتا ہے۔ یہ اس شخص کی آواز ہے۔ اس کے مرنے کے بعد جب ہم کیسیٹ پر اس کی آواز سنتے ہیں تو ہم کسی شبہہ کے بغیر یہ جان لیتے ہیں کہ یہ آواز اُسی مرنے والے انسان کی آواز ہے۔
موت کے بعد کسی آدمی کی آواز کا ٹھیک اُسی طرح موجود رہنا، اِس بات کا کم ازکم ایک جزئی ثبوت ہے کہ انسان کی ہستی ایک غیر فانی ہستی ہے۔ انسان کی شخصیت کا اگر ایک جز ثابت شدہ طور پر موت کے بعد بھی باقی رہتا ہے تو اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کی پوری ہستی بھی قابلِ اعادہ (repeatable) حالت میں باقی اور موجود ہو۔
اگر یہ کہا جائے کہ موت کے بعد کسی انسان کی آواز جو باقی رہتی ہے وہ صوتی لہروں (sound waves) کی شکل میں باقی رہتی ہے۔ جب کہ انسان ایک زندہ وجود ہے۔ مگر یہ اعتراض درست نہیں۔ اس لیے کہ اس دنیا میں ہر چیز لہروں ہی کا ایک مجموعہ ہے۔ اس دنیا میں جو چیزیں ہیں ان کی آخری ہیئت لہروں پر مشتمل ہے۔ میٹریل و رلڈ کی ہر چیز اپنے آخری تجزیے میں الکٹران ہے، اور الکٹران کے بارے میں سائنس داں یہ کہتے ہیں کہ وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ اَمواج امکان (waves of probability) ہیں، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ پھر اگر اِس دنیا کی تمام چیزیں امواجِ امکان ہیں تو انسان کی شخصیت بھی اگر امواجِ امکان کی ایک صورت ہو تو اس کے وجود سے انکار کیسے کیا جاسکتا ہے۔
۳۔ حیاتیاتی سائنس بتاتی ہے کہ انسان کاوجود بے شمار چھوٹے چھوٹے سیل (cell)کا مجموعہ ہے۔ یہ سیل ہر وقت ٹوٹتے رہتے ہیں، اور نیا سیل پرانے سیل کی جگہ لیتا رہتا ہے۔ یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ پورے جسم کے تمام سیل بدل جاتے ہیں۔ گویا کہ معروف موت سے پہلے بھی انسان کا جسم برابر مرتا رہتا ہے۔
جسم میں سیل کے بدلنے (replacement) کا یہ عمل برابر جاری رہتا ہے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی انسان کا سابقہ جسم مکمل طورپر مرجاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی کا حافظہ (memory) مستقل طورپر ایک حالت میں باقی رہتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب جسم پر بار بار موت واقع ہوتی ہے تو انسان کا حافظہ کہاں باقی رہتا ہے۔ اگروہ جسم کے سیل پر موجود رہا ہو تو حافظے کو ختم ہوجانا چاہیے۔ لیکن سیل کے فنا ہونے کے باوجود حافظے کا باقی رہنا، اِس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کی شخصیت، جسم سے ماورا ایک مستقل وجود ہے۔ وہ معروف موت کے باوجود اپنے آپ کو باقی رکھتی ہے۔
۴۔ اس سلسلے میں آخری اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں کسی بات کو ثابت کرنے کے لیے جو طرزِ استدلال رائج ہے، اور جس معیار پر وضاحت کے بعد چیزیں ثابت شدہ مان لی جاتی ہیں، اسی معیار پر زندگی بعد موت کے ثبوت کا تقاضا بھی کیا جاسکتا ہے۔ کسی اور معیار پر زندگی بعد موت کے ثبوت کا تقاضا کرنا غیر علمی بات ہے۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی بعد موت بھی اسی طرح ایک ثابت شدہ واقعہ ہے جس طرح زندگی قبل موت ایک ثابت شدہ واقعہ سمجھی جاتی ہے۔ خالص منطقی اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ڈائلاگ اسلام میں

ڈائلاگ (dialogue) یا مکالمہ دو شخصیتوں یا دو پارٹیوں کے درمیان بات چیت (conversation) کا نام ہے۔ ڈائلاگ کا مقصد یہ ہے کہ کسی اختلافی مسئلے کا پُر امن حل تلاش کیا جائے۔ قدیم بادشاہی دَور میں آزادانہ ڈائلاگ کا رواج نہ تھا۔ جب دنیا میں ڈیماکریسی آئی تو فطری طورپر لوگوں کے درمیان آزادانہ ڈائلاگ ہونے لگا۔ یہ ڈائلاگ سیاسی سطح پر بھی جاری ہوا، اور غیرسیاسی سطح پر بھی۔
ڈائلاگ دراصل انسانیت کو حیوانی دور سے اٹھا کر انسانی دور میں لانے کا نام ہے۔ انسانوں کے درمیان اختلاف ایک فطری چیز ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ اختلاف کی باتوں پر لڑجاتے تھے۔ وہ اختلاف کو طے کرنے کا ایک ہی طریقہ جانتے تھے، اور وہ لڑائی تھی۔ لیکن ڈیماکریسی نے اِس طریقے کوختم کردیا، اور انسان کو جنگل کلچر کے دور سے نکال کر امن کلچر کے دور میں پہنچایا۔
ڈائلاگ یا پُر امن مکالمے کا طریقہ عین اسلام کا طریقہ ہے۔ اسلام کی بنیاد دعوت کے اصول پر قائم ہے، اور دعوت پُر امن گفت وشنید کا دوسرا نام ہے۔ اسلام میں تشدد مکمل طورپر ایک ممنوع فعل ہے۔ اس ممانعت میں صرف ایک استثناء ہے، اور وہ دفاع کا ہے۔ یہ دفاع، خارجی حملے کے وقت ہوتا ہے۔ اور دفاع کا یہ کام بھی صرف باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت کرسکتی ہے۔ غیر حکومتی تنظیم، دفاع یا انصاف کے نام پر متشددانہ لڑائی لڑنے کا حق نہیں رکھتی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶۱۰عیسوی میں عرب میں اپنا مشن شروع کیا۔ یہ مشن کیا تھا۔ وہ مشن یہ تھا کہ آپ اپنی آئڈیا لوجی کو لے کر لوگوں میں جائیں اور لوگوں سے اس کے بارے میں بات چیت کریں۔ ان کے اعتراضات کو سُنیں اور دلیل کے ذریعے اپنے نقطۂ نظر پر انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔ پیغمبر اسلام پر جب وحی اترنا شروع ہوئی تو اس کے آغاز ہی میںآپ پر یہ آیت اتری: وأمابنعمۃ ربّک فحدث (الضحی: ۱۱) یعنی خدا کی طرف سے آپ کو جو نظریۂ حیات دیاگیا ہے، لوگوں کے درمیان اس کاچرچا کریں۔ آپ کا نظریۂ حیات توحید پر مبنی تھا، جب کہ اُس وقت عرب کے لوگ شرک پر عقیدہ رکھتے تھے۔ اس لیے فطری طورپر آپ کا مشن دو طرفہ گفت وشنید کا موضوع بن گیا۔ آپ لوگوں سے اپنی بات کہتے اور لوگوں کا رد عمل سنتے اور پھر اس کی مزید وضاحت کرتے۔ اِس طرح آپ کا مشن عملاً وہی چیز بن گیا جس کو موجودہ زمانے میں ڈائلاگ کہاجاتا ہے۔
اِس ڈائلاگ کو مفید بنانے کے لیے قرآن میں کچھ با معنیٰ اصول بتائے گیے ہیں۔ ان اصولوں میںسے کچھ اصولوں کا ہم یہاں تذکرہ کریں گے۔
۱۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت وہ ہے جس کا ترجمہ یہاں درج کیا جاتا ہے: ’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بُلاؤ، اور اُن سے اچھے طریقے سے بحث کرو‘‘۔ (النحل: ۱۲۵)
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ دوسروں سے تم جو گفتگو کرو وہ ’جِدال احسن‘ کے طریقے پر ہو۔ یعنی فریقِ ثانی سے تکرار نہ کرنا، بلکہ اس کے اختلاف کو سُن کر سنجیدگی کے ساتھ ایسی بات کہنا جو اس کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والی ہو۔ گفتگو محض بحث و مباحثے پر ختم نہ ہو بلکہ وہ ایک نتیجہ خیز انجام پر ختم ہو۔ بات چیت کے دوران حریفانہ اور رقیبانہ انداز اختیار نہ کیا جائے بلکہ علمی انداز اختیار کیا جائے۔
۲۔ اِس سلسلے میں دوسری آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور بھلائی اور بُرائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اُس سے بہتر ہو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی،وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا‘‘۔ (حم السجدہ: ۳۴)
قرآن کی اِس آیت میںبتایا گیا ہے کہ کوئی آدمی مسٹر دشمن نہیں۔ ہر آدمی امکانی طور پر مسٹر دوست ہے۔ اس لیے کہ ہر آدمی ایک ہی فطرت پر پیدا کیا گیا ہے، کئی فطرت پر نہیں۔ اِس قر آنی اصول سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈائلاگ کا آغاز اِس طرح نہیں ہونا چاہیے کہ پہلے ہی سے دونوں فریق ایک دوسرے کے بارے میں ناامید بنے ہوئے ہوں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ڈائلاگ کا عمل پُرامید ذہن کے ساتھ کیا جائے نہ کہ ناامیدی اور مایوسی کے ذہن کے ساتھ۔
۳۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک اور آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’’کہو، اے اہلِ کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مسلّم ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں‘‘۔ (آل عمران: ۶۴)
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دو فریق کے درمیان بات چیت ہو تو اُس وقت موضوعِ گفتگو کا انتخاب کس طرح کرنا چاہیے۔ وہ یہ کہ گفتگو کا آغاز کنٹرورشل پہلو کو لے کر نہ کیا جائے بلکہ دونوں فریقوں کے درمیان کامن گراؤنڈ (کلمۂ سَواء) کی تلاش کی جائے، اور اِس کامن گراؤنڈ سے گفتگو کاآغاز کیاجائے۔ یعنی گفتگو کا طریقہ اختلاف سے اتفاق کی طرف نہ ہو بلکہ اتفاق سے اختلاف کی طرف ہو۔
۴۔ اِس سلسلے میں ایک اور قابلِ حوالہ آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور خدا کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں ان کوتم بُرا بھلا نہ کہو، ورنہ یہ لوگ حد سے گذر کر، جہالت کی بناپر، خدا کو بُرا بھلا کہنے لگیں گے‘‘۔ (الانعام: ۱۰۹)
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دوفریقوں کے درمیان ایک اختلافی موضوع پر ڈائلاگ ہو تو ضروری ہے کہ ڈائلاگ کے باہر موافقِ ڈائلاگ فضا کو باقی رکھا جائے۔ اگر ایسا ہو کہ دونوں فریقوں کا میڈیا ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی باتیں پھیلا رہا ہو۔ دونوں طرف کے لوگ ایسی باتوں کا چرچا کرنے میں مصروف ہوں جس سے ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ جذبات پیدا ہوتے ہیں تو ایسی غیر موافق فضا میں مفید ڈائلاگ نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈائلاگ کے نتیجہ خیز ہونے کا تعلق، صرف کمرۂ ڈائلاگ کی بات چیت پر منحصر نہیں ہوتا، بلکہ اِس پر منحصر ہوتا ہے کہ کمرۂ ڈائلاگ کے باہر جو فضا بنائی گئی ہے وہ ڈائلاگ کے حق میں ہے یا اس کے خلاف ہے۔
ڈائلاگ کا ایک اور اصول وہ ہے جو سنتِ رسول سے ثابت ہوتا ہے، یہ اصول حُدیبیہ کے معاہدے سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ معاہدہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان لمبی بات چیت کے بعد طے پایا تھا۔ جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، یہ معاہدہ اِس طرح ممکن ہوا کہ پیغمبر اسلام نے قریش کی کئی شرطوں کویک طرفہ طورپر مان لیا۔ پیغمبر کی اِس سنت سے ڈائلاگ کا یہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے نقطۂ نظر کو دلیل کے ساتھ پیش کریں۔ لیکن اِسی کے ساتھ دونوں اِس بات کے لیے تیار رہیں کہ ڈائلاگ ہمیشہ لینے اور دینے (give and take) کے اصول کو اختیار کرکے کامیاب ہوتا ہے نہ کہ صرف لینے کے اصول پر اصرار کرنے سے۔عملی معاملات میں اسلام آخری حد تک لچک کے اصول کو پسند کرتا ہے۔
اسلامی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں صرف ڈائلاگ کے اصول نہیں بتائے گیے ہیں بلکہ ڈائلاگ کے اصول کا عملی تجربہ بھی بار بار کیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اِس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
پیغمبر اسلام نے اپنے مشن کے مکّی دو رمیں بار بار ڈائلاگ کے اصول پر عمل کیا۔ مثلاً ایک بار قریش نے اپنے سردار عقبہ بن ربیعہ کو اپنا نمائندہ بنا کر پیغمبر اسلام کے پاس بھیجا۔ تاکہ باہمی اختلاف کے موضوع پر بات چیت کرکے صُلح کا ماحول بنایا جائے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عقبہ نے نہایت غور کے ساتھ آپ کی باتیں سنیں اور قریش کے پاس جاکر انھیں اِس سے آگاہ کیا۔ اِسی طرح ایک بار آپ کے چچا ابو طالب کی دعوت پر آپ اور قریش کے نمائندے اکھٹا ہوئے اور اختلافی موضوعات پر پُرامن انداز میں بات چیت ہوئی۔
اِسی طرح حدیبیہ کے موقع پر پیغمبر اسلام اور قر یش کے درمیان ایک گفت و شنید ہوئی۔ اِس کا سلسلہ تقریباً دو ہفتے تک جاری رہا۔ اِس کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان وہ معاہدۂ امن طے پایا جس کو معاہدۂ حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ یہ واقعہ بلاشبہہ پُرامن ڈائلاگ کی ایک کامیاب مثال ہے۔
اِسی طرح پیغمبر اسلام کی موجودگی میں تین مذہب—اسلام، مسیحیت اور یہودیت کے نمائندوں کے درمیان ڈائلاگ ہوا۔ یہ ٹرائلاگ (trilogue) مدینہ کی مسجد نبوی میں ہوا۔ عرب مصنفین نے اس کو مؤتمر الادیان الثلاثہ کانام دیا ہے۔یعنی تین مذہبوں کے درمیان ٹرائلاگ۔ غالباً یہ تاریخ کا پہلا ٹرائلاگ تھا جو مقدس عبادت خانے کے اندر ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں پُر امن گفت وشنید کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
اسلام کی تاریخ میں اِس طرح کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ یہ مثالیں اُس عہد زرّیں سے تعلق رکھتی ہیں جس کو عہدِ نبوت اور عہدِ صحابہ کہاجاتا ہے۔ اس لیے ڈائلاگ یا باہمی گفت وشنید کے اصول کو اسلام میں ایک مستند اصول کی حیثیت حاصل ہے۔
خلاصۂ کلام
اوپر کی گفتگو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کا طریقہ پُرامن ڈائلاگ کا طریقہ ہے۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ صلح کا طریقہ سب سے بہتر طریقہ ہے۔ (النساء: ۱۲۸) اِس طرح ایک اور آیت میںآیا ہے کہ اختلاف کے موقع پر باہمی گفت و شنید اور ثالثی کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔(النساء: ۳۵) حدیث میں آیا ہے کہ دشمن سے مڈبھیڑ نہ کرو بلکہ اللہ سے عافیت مانگو (لاتتمنوا لقاء العدوّ وسئلوا اللہ العافیۃ)۔
اسلام کا مقصد ربّانی انقلاب لانا ہے۔ لوگوں کو خدا پرستانہ زندگی کی طرف بلانا ہے۔ ایک ایسا سماج بنانا ہے جہاں روحانی اور اخلاقی اور انسانی قدروں کا رواج ہو۔ اسلام ایک ایسے ماحول کا داعی ہے جہاں امن اور ٹالرنس اور محبت اور خیر خواہانہ تعلقات کا مزاج لوگوں کے اندر پایا جائے۔ جہاں نزاعات کو تشدد کے بغیر حل کیا جائے۔ یہی اسلام کی مطلوب دنیا ہے۔ ایسی دنیا صرف پُرامن ڈائلاگ کے ذریعے ہی قائم کی جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام عقیدے کے اعتبار سے توحید پر قائم ہے، اور طریقِ کار کے اعتبار سے پُرامن ڈائلاگ پر۔ یہی اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ اس کے سوا جو طریقہ ہے اس کو اسلام کا طریقہ نہیں کہا جاسکتا۔ (۲ جون ۲۰۰۶ء)
واپس اوپر جائیں

توہّماتی دَور سے سائنسی دَور تک

حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک جلیل القدر پیغمبر تھے۔ وہ عراق میں پیدا ہوئے۔ پھر مصر اور فلسطین سے سفر کرتے ہوئے وہ عرب کے اس مقام پر پہنچے جہاں اب مکہ آباد ہے۔ اُس وقت یہ مقام ایک غیر آباد مقام تھا۔ رتیلے میدان اور خشک پہاڑوں کے سوا یہاں اور کوئی چیز موجود نہ تھی۔ یہاں انھوں نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو بسا دیا۔
یہ چار ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ یہ کوئی سادہ واقعہ نہ تھا۔ یہ دراصل ایک نیا دورِ تاریخ شروع کرنے کا منصوبہ تھا۔ یہ منصوبہ اب مختلف مراحل سے گذرتے ہوئے اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔
اصل یہ ہے کہ چار ہزار سال پہلے کی دنیا میں ہر طرف شرک کا غلبہ تھا۔ شرک دراصل فطرت پرستی کا نام ہے۔ انسان، سورج، چاند، ستارے، دریا، پہاڑ اور حیوانات، ہر چیز کو پوجتا تھا۔ وہ فطرت (nature)کو پرستش کی چیز بنائے ہوئے تھا۔
یہ صورت حال ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ خالق نے فطرت (nature) کے اندر ہر قسم کی طاقتیں چھپا دی تھیں۔ ضرورت تھی کہ انسان ان کو دریافت کرکے انھیں استعمال کرے۔ لیکن انسان نے فطرت کو پرستش کی چیز بنا لیا۔ حتی کہ فطرت کی پرستش(nature worship) یا شرک، انسانی کلچر کا غالب حصہ بن گیا۔ پرستشِ فطرت کے اِس مزاج نے انسان کے اندر سے تسخیرِ فطرت کا ذہن ختم کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فطرت کی طاقتوں کو دریافت کرکے، اس کو انسانی خدمت کے لیے استعمال کرنے کا ذہن عملاً ختم ہوگیا۔ اِس ماحول میں عابد ِفطرت پیدا ہونے لگے نہ کہ وہ لوگ جو کھُلے ذہن کے ساتھ تحقیق کرکے فطرت میں چھپے ہوئے رازوں کو دریافت کرسکیں۔
ان حالات میںضرورت تھی کہ ایک ایسی نسل پیدا کی جائے جو فطرت پرستی کے ذہن یا مشرکانہ تہذیب کے اثر سے خالی ہو۔ یہ کام کسی متمدن شہر میں نہیں ہوسکتا تھا۔ کیوں کہ اس زمانے میں ہر متمدّن شہر ، شرک (فطرت پرستی) کا مرکز بن چکا تھا۔ اِس بنا پر حضرت ابراہیم نے مکّہ کے غیر آباد علاقے کو منتخب کیا تاکہ یہاں کے کھُلے ماحول میں ایک نئی نسل پیدا کی جائے جو مشرکانہ تہذیب کے اثرات سے خالی ہو، اور اپنے بے آمیز ذہن کی بنا پر نئی تاریخ بنانے کا کام کرسکے۔
پیغمبر اسلام اسی علاقے میں ۵۷۰ عیسوی میں پیدا ہوئے۔ ۶۱۰ عیسوی میں آپ کو نبوت ملی۔ یہاں کی زندہ نسل جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے، اس میں کام کرکے آپ نے ایک طاقت ور ٹیم تیار کی۔ یہ ٹیم جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے اس نے غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے قدیم دَور کے فطرت پرستانہ نظام (مشرکانہ نظام) کو توڑا، اور دوسرے دَورِ تاریخ کا آغاز کیا۔ یعنی وہ دَور جب کہ فطرت(nature) پرستش کے بجائے تسخیر کا موضوع بنے۔ یہ عمل ہزار سال تک جاری رہا۔ یہاںتک کہ موجودہ دور پیدا ہوا، جب کہ فطرت کا آزادانہ مطالعہ کرکے فطرت میں چھپے ہوئے رازوں کو دریافت کیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ دَور آگیا جس کو سائنسی دَور یا جدید صنعتی دَور کہاجاتا ہے۔
اکیسویں صدی میںاب دنیا اپنی تاریخ کے تیسرے دَور میں پہنچ چکی ہے۔ اس دَور میں بیک وقت دو چیزیں پوری طرح ظاہر ہوچکی ہیں۔ ایک ہے، جدید مشینی سامانوں کے ذریعے نیے تمدنی اسباب کا پیدا ہونا۔ ان نیے تمدنی اسباب میں سب سے زیادہ اہم چیز جدید مواصلات (ماڈرن کمیونکیشن) ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ساری دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر اور پیغام رسانی اتنا ہی آسان بن چکا ہے جتنا کہ پہلے ایک محلے کے اندر ممکن ہوتا تھا۔
جدید انقلاب کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خدائی سچائی آخری حد تک مُبرہن ہوچکی ہے۔ خدائی سچائی کے حق میں پہلے روایتی دلائل ہوا کرتے تھے۔ اب خدائی سچائی کو ثابت شدہ بنانے کے لیے سائنسی دلائل ظاہر ہوچکے ہیں۔ خدائی سچائی اب صرف ایک عقیدہ نہیں رہی بلکہ وہ سائنسی طورپر ایک ثابت شدہ واقعہ بن چکی ہے۔
یہ تیسرا دور لوگوں کو ایک نیے عمل کی دعوت دے رہا ہے۔ پہلے دور کا مطلوب کام نئی نسل بنانا تھا، وہ بنو اسماعیل کے ذریعے انجام پایا۔ دوسرے دور کا مطلوب کام ایک انقلاب لانا تھا، جس میں فطرت (نیچر) پرستش کے بجائے تسخیر کا موضوع بن جائے۔ یہ کام اصحاب رسول کے ذریعہ واقعہ بنا۔ تیسرے دور کا مطلوب کام یہ ہے کہ اب اکیسویں صدی میں عزم و یقین سے بھر پور ایک گروہ اٹھے۔ وہ جدید وسائل اور جدید دلائل کو استعمال کرکے خدائی سچائی کو عالمی سطح پر آشکارا کردے، تاکہ خدا کے بندے خدا کی رحمت کے سایے میں جینے کی سعادت حاصل کرسکیں۔
شاید انسانی تاریخ کا یہی وہ آخری دَور ہے جس میں دعوتِ نبوت کو انجام دینے والوں کے لیے حدیث میں اخوانِ رسول کا لفظ آیا ہے۔ اصحابِ رسول نے روایتی دَور میں اظہارِ دین کا کام انجام دیا تھا، اب اخوانِ رسول سائنسی دَور میں اظہارِ دین کے اسی کام کو انجام دیں گے۔ حدیث میں اخوانِ رسول کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔
رویاتی دور میں اظہارِ دین، اور سائنسی دو رمیں اظہارِ دین کے درمیان کیا فرق ہے، اس کو راقم الحروف نے اپنی کتابوں میںتفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم روایتی دور میں انسان کا جو فریم ورک تھا اس کے مطابق، گرہن کے بارے میں قابل فہم طورپر صرف یہ کہا جاسکتا تھا کہ وہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں سائنسی فریم ورک کی روشنی میں اِس واقعے کو اور بھی زیادہ ایمان افروز انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً یہ کہ زمین اور سورج اور چاند تین مختلف سائز کے متحرک اَجرام ہیں۔ مگر وسیع خلا میں ان کو ایک ناقابلِ قیاس حساب کے ذریعے ایک سیدھ میںلایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں سورج گرہن اور چاند گرہن واقع ہوتا ہے:
It is a result of unimaginably well-calculated positioning of three different moving bodies in the vast space.
واپس اوپر جائیں

نئی منصوبہ بندی کی ضرورت

انیسویں صدی عیسوی میں یہ واقعہ ہوا کہ مغربی قومیں نئی قوتوں سے مسلّح ہو کر ابھریں، اور ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گئیں۔ یہ علاقہ وہی تھا جہاں مسلمان سیکڑوں سال سے حالتِ اقتدار میں رہ رہے تھے۔ مسلم دنیا کے رہنماؤں کے اندر اس صورت حال کے خلاف ردّ عمل پیدا ہوا۔ تقریباً ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں اس ردّ عمل کا اظہار ہونے لگا۔
یہ بات بے حد اہم ہے کہ اسی زمانے میں اِس سوال کو لے کر دو تحریکیں اٹھیں۔ ایک تحریک ۱۸۵۷ میں اٹھی۔ اس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے۔ یہ تحریک مسلّح انقلاب پر یقین رکھتی تھی۔ چنانچہ انھوں نے یہ کوشش کی کہ اسلحے کی مدد سے انگریزوں کو ہندستان سے نکال دیں۔اِس جنگ میں ہندو اور مسلمان، دونوں کا بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔لیکن یہ تحریک اپنے مقصد میں مکمل طورپر ناکام رہی۔
اِس مسلّح تحریک کے تقریباً ساٹھ سال بعد مہاتما گاندھی، سیاسی آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوئے۔ ۱۹۱۹ء کے بعد وہ کانگریس کے سب سے بڑے لیڈر بن گیے۔
مہاتما گاندھی نے ۱۹۱۹ میں یہ اعلان کیا کہ وہ ہنسا (تشدد) میں یقین نہیں رکھتے۔ چنانچہ وہ آزادی کی تحریک کو مکمل طورپر اَہنسا (عدم تشدّد) کے اصول پر چلائیں گے۔ یعنی وائلنٹ متھڈ (violent method) کے بجائے پیس فُل متھڈ(peaceful method) کے ذریعے۔
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، انگریزی حکومت ۱۸۵۷سے لے کر ۱۹۱۹ تک تحریکِ آزادی سے وابستہ لوگوں کو تشدد کے ذریعے کچلنے کی کوشش کرتی رہی۔ تحریک آزادی کے کارکنوں کا تشدد، انگریزوں کو یہ موقع دیتا رہا کہ وہ جوابی تشدد کے ذریعے اِس تحریک کو کچلنے کی کوشش کرتے رہیں۔ لیکن جب مہاتما گاندھی نے تشدد کا طریقہ ترک کردیا تو گویا کہ انھوںنے انگریزی حکومت سے تشدد کا جواز چھین لیا۔
مہاتما گاندھی کی امن پالیسی کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوئے اس کا ایک اندازہ اِس واقعے سے ہوتا ہے کہ اُس زمانے کے ایک انگریز کلکٹر نے اپنے برٹش سکریٹریٹ کو یہ میسیج بھیجا کہ— براہِ کرم، بذریعہ ٹیلی گرام یہ بتائیے کہ ایک شیر کو تشدد کے بغیر کس طرح ہلاک کیا جائے:
Kindly, wire instructions how to kill a tiger non-violently.
جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، متشددانہ طریقِ کار کے مقابلے میں پُر امن طریقِ کار اتنا زیادہ کامیاب رہا کہ صرف ۲۵ سال کے بعد ۱۹۴۷ میں انڈیا آزاد ہوگیا۔ ساٹھ سال کی پُر تشدد جدوجہد، آزادی کے حصول میں ناکام ثابت ہوئی۔ مگر بیس سال کی پُرامن جدوجہد، آزادی کے حصول میں پوری طرح کامیاب رہی۔
برِّ صغیر ہندمیں پیش آنے والے یہ دونوں واقعات، مسلم نقطۂ نظر سے بے حد اہم تھے۔ یہ واقعات بتارہے تھے کہ نوآبادیاتی دَور صرف سیاسی استیلاء کے ہم معنٰی نہیں ہے، اسی کے ساتھ وہ نیے عظیم تر امکانات بھی لے کر آیا ہے۔ اِن امکانات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اب نیے وسائل نے قدیم پُر تشدد طریقِ کار کے مقابلے میں پُر امن طریقِ کار کو زیادہ مؤثر بنادیا ہے۔ یہاں تک کہ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ جو جنگ ہتھیاروں کی مدد سے جیتی نہیں جاسکتی تھی، اس کو امن کے ذرائع کی مدد سے شان دار طور پر جیت لیا جائے۔
یہ واقعہ ساری دنیا کے مسلم رہنماؤں کے لیے ایک چشم کُشا واقعے کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر میرے علم کے مطابق، ساری مسلم دنیا میں کوئی ایک بھی قابلِ ذکر مسلم رہنما نہیں تھا جو اِس واقعے سے سبق لے اور اس کی روشنی میں اپنی ملّی جدوجہد کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ ہر جگہ کی مسلم تحریکیں بدستور اُسی متشددانہ طریقِ کار پر چلتی رہیں جس پر وہ پہلے چلتی تھیں۔ اِس تاریخ پر اب ڈیڑھ سو سال گذر چکے ہیں، لیکن کسی بھی علاقے کے مسلمانوں میں کوئی حقیقی مثبت تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔
مزید اندوہ ناک بات یہ ہے کہ مسلمان اپنے ذاتی معاملات کو تو مصالحت اور ایڈجسٹ مینٹ کے اصول پر چلاتے ہیں۔ لیکن جہاں تک قومی پالیسی کی بات ہے، ہر جگہ وہ تشدد اور انتہا پسندی کا طریقہ استعمال کررہے ہیں— یہ دوعملی بلا شبہہ اُن کے لیے پہلے سے بھی زیادہ ہلاکت خیز ہے۔
اِس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ مسلمان ساری دنیا میں اپنی تحریکوں پر نظر ثانی کریں۔ وہ نظری اعتبار سے اپنی سوچ کو بدلیں، اور عملی اعتبار سے اپنی تحریکوں کو متشددانہ طریقِ کار کے بجائے پُر امن طریقِ کار کے اصول پر چلائیں۔ موجودہ حالت میں مسلمانوں کے لیے اِس کے سوا کوئی اور انتخاب نہیں۔ یہاں میں مختصر طور پر بتاؤں گا کہ موجودہ حالت میں مسلمانوں کو اپنی نئی پالیسی کن خطوط پر بنانا چاہیے۔
۱۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ واضح انداز میں اِس بات کا کھلا اعلان کیا جائے کہ انڈیا میں، اور دوسرے ملکوں میں مسلمانوں نے جو مسلّح تحریکیں شروع کیں، وہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ اِس اعتراف کے بعد یہ اعلان کیا جائے کہ تمام مسلّح تحریکوں کو بلا شرط یک طرفہ طورپر ختم کیا جاتا ہے۔ اِس قسم کا اعلان لازمی طورپر ضروری ہے۔ اس کے بغیر مسلمانوں کو کوئی نیانقطۂ آغاز ہی نہیں ملے گا۔
بد قسمتی سے اِس معاملے میں برعکس طریقہ اختیار کیا گیا۔ سلطان ٹیپو سے لے کر یاسر عرفات تک، پچھلے دو سو سال کے اندر جو ناکام لڑائیاں لڑی گئیں، اب تک ہمارے لکھنے اور بولنے والے ان کو گلوری فائی کرتے رہے ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تباہی کے واقعات مسلمانوں کی نظر میں فخر کے واقعات بن گیے۔ اس کی ایک مثال ’’علماء ہند کا شان دار ماضی‘‘ نامی کتاب ہے۔ اِس طرح کی تحریریں ساری دنیا میں شائع کی گئیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان اپنی معکوس نتیجہ پیدا کرنے والی لڑائیوں پر نظر ثانی نہ کرسکے۔ کیوں کہ فخر اور نظر ثانی، دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
۲۔ ضرورت ہے کہ ہر جگہ تمام متشددانہ کارروائیوں کو یک لخت بند کرکے تعلیم کا کام شروع کیا جائے۔ خاص طور پر ماڈرن ایجوکیشن بہت ضروری ہے۔ مسلمانوں میں جب تک ماڈرن ایجوکیشن نہ آئے، وہ جدید مسائل کو سمجھ نہیں سکتے۔ اور جب مسائل کی نوعیت ہی معلوم نہ ہوتو ان کے حل کی کامیاب منصوبہ بندی کس طرح کی جاسکتی ہے۔
۳ ۔ مسلمان ساری دنیا میں جہاں جہاں زمین کے لیے لڑ رہے ہیں، اب وہ اِس معاملے میں اسٹیٹس کوازم(statusquoism) کی پالیسی اختیار کرلیں۔ یعنی حالتِ موجودہ کو علیٰ حالہ تسلیم کرنا، اور غیر نزاعی دائرے میں موجود مواقع کو پُر امن طورپر استعمال کرنے کی کوشش کرنا۔
۴۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ مسلمان اُس کام کو کریں جس کو اسلام میں دعوت الیٰ اللہ کہاگیا ہے۔ یعنی اسلام کے پیغام کو پُر امن طورپر غیر مسلم قوموں تک پہنچانا۔ دعوت کا کام کوئی محدود کام نہیں، دعوت کا کام پوری زندگی کے لیے ایک انقلابی عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں میں اگر دعوت کا کام زندہ ہو جائے تو اس کے بعد دوسرے بہت سے مثبت واقعات وجود میں آئیں گے۔ مثلاً مسلمانوں کے اندر عالمی نقطۂ نظر پیدا ہوگا۔ ان کے روابط دوسری قوموں سے بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔ ان کے اندر تعلیم کا گہرا جذبہ پیدا ہوگا۔ وہ ایک متحرک قوم بن جائیں گے۔ ان کے اندر مثبت سوچ، تعمیری ذہن، تحمّل، رواداری اور انسانی احترام جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوں گی۔
واپس اوپر جائیں

مسلم ایمپاورمنٹ، یا سیلف ایمپاورمنٹ

۱۹۴۷ میں جب ہندستان آزاد ہوا تو مسلم سیاست کی نسبت سے جو سب سے بڑی غلطی ہوئی وہ یہ کہ ہندستان کے مسلمانوں کے اندر کوئی ایسی شخصیت یاتحریک نہیں اٹھی جو مسلمانوں میں اپنی ملّی تعمیر کے لیے صحت مند رجحان (healthy trend) قائم کرے۔ فوری ردّ عمل کے تحت، ہر باریش اور بے ریش رہنما نے مسلم حقوق کے نام پر مطالبات کی مہم شروع کردی۔ یہ ان لوگوں نے کیا جو ایک ایسے مذہب پر فخر کرتے تھے جس کی تعلیم یہ ہے کہ— دوسروں سے سوال نہ کرو بلکہ دوسروں کے لیے نفع بخش بن جاؤ، اس کے بعد تمہارے حقوق تم کو اپنے آپ مل جائیں گے۔
حال میں اِس قسم کے لوگوں کو اپنی بے نتیجہ مطالباتی مہم کو چلانے کے لیے ایک نیا خوب صورت لفظ مل گیا ہے، اور وہ مسلم ایمپاورمنٹ (Muslim Empowerment) ہے۔ ایمپاور یا ایمپاورمنٹ کا مطلب ہے اختیار دینا۔ کہا جاتا ہے:
Science empowers men to control natural forces more effectively.
مسلم ایمپاورمنٹ کا مطلب دوسرے لفظوں میں مسلم اَپ لفٹ (uplift) ہے، یعنی مسلمان جو مفروضہ طورپر ایک پچھڑی ہوئی کمیونٹی بن گیے ہیں، ان کو ایسے مواقع بہم پہنچانا کہ وہ اوپر اٹھیں اور دوسرے گروہوں کے برابر ہوجائیں۔ اِسی قسم کی تحریک عورتوں کے حوالے سے ویمن ایمپاورمنٹ (Women Empowerment) کے نام سے چل رہی ہے۔ وہاں بھی یہی تصور ہے کہ عورتیں سماجی زندگی میں مَردوں سے پیچھے ہوگئی ہیں۔ اب عورتوں کو ایسے مواقع فراہم کیے جائیں جن کے ذریعہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں مَردوں کے برابر ہوجائیں۔
میرے نزدیک مسلم ایمپاورمنٹ کی تحریک ایک لفظی کھیل کے سوا اور کچھ نہیں۔ مسلم حقوق کے لیے مطالبات کی مہم پچھلی نصف صدی کے دوران مسلسل چلائی گئی ہے۔ یہ مہم اس سے پہلے مسلمانوں کے ’’اکابر‘‘ کے ذریعے چلائی گئی۔ لیکن وہ مکمل طورپر ناکام رہی۔ اب یہ مہم مسلمانوں کے ’’اصاغر‘‘ کے ذریعے چلائی جارہی ہے۔ ایسی حالت میں کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اب وہ نتیجہ خیز ہوجائے گی۔
اس معاملے میں ناکامی کسی اتفاقی سبب سے نہیں ہوئی۔ اس کا سبب صرف ایک تھا، اور وہ یہ کہ یہ مطالباتی مہم، قانونِ فطرت کے خلاف تھی۔ اِس دنیا کے لیے فطرت کا اٹل قانون یہ ہے کہ —جو دے وہ پائے، اور جو نہ دے وہ پانے سے محروم رہے۔ فطرت کا یہی اصول قرآن کی اِس آیت میں بیان کیاگیا ہے: وأمّا ما ینفع الناس فیمکث فی الأرض (الرعد: ۱۷) یعنی جو دوسروں کے لیے نفع بخش بنتا ہے اُسی کو اِس دنیا میں قیام اور استحکام حاصل ہوتا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: ولا تسئلنَّ أحداً شیئاً وإنّ سقط سوسطک (مسند احمد، جلد ۵، صفحہ ۱۸۱) اِس حدیث کو عام طورپر فضائل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے حالاں کہ اِس میں زندگی کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ خدا کی اِس دنیا میں اگر کامیاب ہونا چاہتے ہو تو مانگنے کا مزاج اپنے اندر سے ختم کردو، اپنی ذاتی محنت کے بل پر اپنی زندگی کی تعمیر کرو۔
مسلم ایمپاورمنٹ کی بات کرنے والے لوگ دستورِ ہند کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری مطالباتی مہم جائز ہے۔ کیوں کہ دستورِ ہند میں ملک کے شہریوں اور اقلیتوں کو جو حقوق دیے گیے ہیں ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان حقوق کو عملاً ہمیں دے دیا جائے۔
یہ بات گریمر کے اعتبار سے صحیح ہے۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ سرتاسرغلط ہے۔ اِس ملک کا ہر آدمی جانتا ہے کہ دستورِ ہند، صرف ایک لفظی گُل دستہ ہے۔ بعض ٹکنکل دفعات کے سوا، اس میں لکھی ہوئی کوئی بات اب تک واقعہ نہیں بنی— دستورِ ہند کے مطابق، ملک کو فیر الکشن ملنا چاہیے، لیکن اب تک ملک اس سے محروم ہے۔دستور کے مطابق، ملک کو دیانت دار ایڈمنسٹریشن ملنا چاہیے، لیکن ملک کو صرف ایک کرپٹ ایڈمنسٹریشن ملا ہے۔ دستور ہند کے مطابق، دستور کے نفاذ کے پندرہ سال کے اندر سارے ملک کو تعلیم یافتہ ہوجانا چاہیے تھا، لیکن اب تک یہ خواب پورا نہیں ہوا۔ دستور نے ہندی زبان کو ملک کی قومی زبان کادرجہ دیا تھا لیکن عملاً ملک کے اوپر انگریزی زبان کا راج ہے، وغیرہ۔
دستور ِ ہند کی یہ ناکامی ایک معلوم اور مسلّم واقعہ ہے۔ ایسی حالت میں کس طرح ممکن ہے کہ دستورِ ہند ایک استثنائی معجزہ کے طورپر مسلمانوں کی خواہش کے مطابق، ان کے تمام حقوق کا پارسل انھیں رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعہ روانہ کردے۔
جیسا کہ معلوم ہے، ہندستان میں مسلمانوں کے علاوہ اور کئی ’’اقلیتیں‘‘ بستی ہیں۔ مثلاً عیسائی، پارسی، سکھ اور جَین وغیرہ۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقلیتوں کے حقوق پوری طرح محفوظ ہیں۔ عیسائی اِس ملک کے تعلیمی نظام پر چھائے ہوئے ہیں۔ پارسیوں نے اِس ملک میںاپنا انڈسٹریل ایمپائر بنا لیا ہے۔ سکھوں کی تعداد صرف دو فیصد ہے لیکن عملاً وہ ملک کی تقریباً بیس فیصد اقتصادیات کو کنٹرول کررہے ہیں۔ جینی فرقہ اتنا زیادہ خوش حال فرقہ ہے کہ اس کو کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں۔ اِن اقلیتوں نے یہ کامیابی خود اپنی جدوجہد کے ذریعہ حاصل کی ہے، وہ انھیں دستور کے عطیہ کے طورپر نہیں ملی۔
اِن مثالوں میں ایک اور مثال شامل کر لیجئے، اور وہ خود مسلمانوں کا وہ طبقہ ہے جو مسلمانوں کی محرومی کو لے کر اپنی تحریک چلا رہا ہے، اور مسلمانوں کو ایمپاور کرنا چاہتا ہے۔قریب سے دیکھیے تو یہ لوگ اپنی ذات کے اعتبار سے خود پوری طرح ایمپاور ہوچکے ہیں۔ ان کو وہ تمام مادّی چیزیں حاصل ہیں جن کودوسروں کے لیے فراہم کرنے کے نام پر وہ اپنی تحریکیں چلارہے ہیں۔
ایسی حالت میں مسلم ایمپاور منٹ کا نعرہ لگانے والوں کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو یہ بتائیںکہ اِس ملک کی دوسری اقلیتوں اور خود مسلم ایمپاور منٹ کے لیڈروں نے کس طرح اِسی ملک میں اپنے تمام مطلوب مفادات حاصل کرلیے۔ انھیں چاہیے کہ مسلمانوں کو کا میابی کا یہ راز بتائیں تاکہ وہ اِس سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو کامیاب بنا سکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم ایمپاورمنٹ کا اِشو، سیلف ایمپاورمنٹ کا اشو ہے۔ یعنی خود اپنی جدوجہد کے ذریعے اپنے آپ کو محرومی سے نکالنا اور اپنے آپ کو ترقی کے مقام تک پہنچانا۔ یہ سارا معاملہ داخلی جدوجہد کا ہے، نہ کہ خارجی مطالبات کا۔
واپس اوپر جائیں

قیادت ناکام، مسلمان کامیاب

۱۹۴۷ میں ہندستان آزاد ہوا۔ اُس وقت یہاں کے مسلمان، غالباً بلااستثنا، یہ سمجھ رہے تھے کہ اِس ملک میں اب مسلمانوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ اُس زمانے میں مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے جس قسم کی مایوس کُن باتیں کہہ رہے تھے اُس کی ایک علامتی مثال مسٹر خالد لطیف گابا (وفات ۱۹۸۱) کی انگریزی کتاب منفعل آوازیں (Passive Voices) ہے۔ اِس کتاب کے دیباچے میں انھوں نے لکھا تھا کہ— انڈیا کے مسلمانوں کی حالت کا خلاصہ بتانے کے لیے صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اِس ملک میں منفعل آوازیں بن چکے ہیں:
It would be difficult to sum up the status and conditions of Muslims in India better in two words "Passive Voices".
یہ آزادی کے بعد ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں مسلم قیادت کا عمومی اندازہ تھا۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ نتیجہ عملاً اس کے بالکل برعکس نکلا۔ آج ہندستان کے مسلمان اس ملک میں ہمیشہ سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں، حتی کہ مغل دَور سے بھی زیادہ بہتر حالت میں۔ آج کے شہروں میں مسلمانوں کو جو مادّی سہولیات حاصل ہیں وہ مغل دور کے مسلمانوں کو بھی حاصل نہ تھیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندستان کے مسلمان موجودہ ستّاون مسلم ملکوں سے بھی زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ اس کی علامتی مثال یہ ہے کہ پاکستان کا مسلمان نیو کلیر سائنٹسٹ ڈاکٹر عبد القدیر خاں قید کی زندگی گذاررہا ہے۔ اس کے مقابلے میں انڈیا کا مسلمان نیوکلیر سائنٹسٹ ڈاکٹر عبد الکلام، ملک کی صدارت کے عہدے پر فائز ہے۔
اس طرح انڈیا کے حکیم عبد الحمید (وفات ۱۹۹۹) نے دہلی میں ہمدرد یونیورسٹی بنائی۔ اس کے بعد اپنی عمر طبعی کے مطابق، ان کی وفات ہوئی۔ اس کے برعکس، حکیم محمد سعید (وفات ۱۹۹۸) نے کراچی میں ہمدرد یونیورسٹی بنائی اور ان کے دفتر میں ان کو گولی مار کر ہلاک کر دیاگیا، وغیرہ۔
موجودہ ہندستان میں مسلمانوں کی جو ترقی یافتہ حالت ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۹۶۷ میں جب میں دہلی آیا، اُس وقت دہلی میں یہ حالت تھی کہ جمعہ اور عیدین کے دن مسجد کے باہر کسی مسلمان کی کار دکھائی نہیں دیتی تھی۔ آج یہ حالت ہے کہ آپ جس مسجد میں جمعہ اور عیدین کی نمازادا کریں، وہاںآپ کو مسجد کے باہر مسلم کاروں کی لمبی قطاریں دکھائی دیں گی۔ میں ۱۹۸۳ میں نظام الدین ویسٹ (نئی دہلی) کی کالونی میں آیا۔ اُس وقت یہاں ہر طرف صرف ہندو دکھائی دیتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ کالونی کی بیش تر بلڈنگوں کو مسلمانوں نے بڑی بڑی قیمت دے کر خرید لیا ہے۔ یہاں کی سڑکوں پر رات، دن مسلمانوں کی کاریں دوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
اس معاملے کو ایک اور مثال سے سمجھیے۔ پروفیسر خورشید احمد (مقیم برطانیہ) نے اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدرآبادی (وفات ۲۰۰۲) کے بارے میں ان کے حالات بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’میرے استفسار پر ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ایک بار بتایا کہ ‘‘میں دولتِ آصفیہ (حیدرآباد) کے پاسپورٹ پر یورپ آیا تھا۔ پھر (پولیس ایکشن کے بعد) میری غیرت نے قبول نہ کیا کہ بھارت کا پاسپورٹ حاصل کروں…‘‘ان کی دینی حس اتنی بیدار تھی کہ حیدر آباد دکن سے یورپ جانے کے بعد مقبوضہ حیدرآباد دکن کبھی واپس نہ آئے۔ جب میں نے اصرار کیا کہ اسلامک فاؤنڈیشن لسٹر کے پروگرام میں شریک ہوں، تو بڑے دُکھے دل سے کہا کہ میں اُس انگلستان کی سرزمین پر قدم رکھنا پسند نہیں کرتا جس نے میرے آزاد ملک کو بھارت کی غلامی میں دے دیا۔ وہ کبھی برطانیہ نہ آئے‘‘ ۔(ماہ نامہ میثاق، لاہور، مئی ۲۰۰۳)
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے احساسات جو حیدر آباد کے بارے میں تھے وہی ۱۹۴۷ کے بعد تمام مسلم قائدین کے احساسات تھے۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ ۱۹۴۷ کے بعد حیدرآباد کے مسلمانوں نے غیر معمولی ترقی کی، ایسی ترقی جو انھیں سابق دولتِ آصفیہ کے زمانے میں بھی حاصل نہ تھی۔میں نے حیدرآباد کو ۱۹۴۷ سے پہلے بھی دیکھا تھا، اور آج کے حیدر آباد کو بھی میں نے کئی بار بار دیکھا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج حیدرآباد کے مسلمانوں نے اتنی زیادہ ترقی کی ہے جس کا تصور بھی ۱۹۴۷ سے پہلے کے مسلمان نہیں کرسکتے تھے۔
آج آپ حیدرآباد کے جس حصے میں جائیں وہاں آپ کو مسلمانوں کی شان دار دکانیں اور بڑے بڑے نو تعمیر رہائشی مکانات نظر آئیں گے۔ مسجدیں اور مدرسے اور مسلم ادارے اپنی شان دار بلڈنگوں کے ساتھ بتارہے ہوں گے کہ نیے حیدرآباد میںمسلمانوں کو غیر معمولی ترقیاں حاصل ہوئی ہیں۔
یہی حال پورے ملک کا ہے۔ اوپر میں نے ملک کے دو بڑے شہروں کا ذکر کیا ہے۔مشرقی یوپی میں میرا آبائی گاؤں ایک دور افتادہ گاؤں کی حیثیت رکھتا تھا۔ ۱۹۴۷ سے پہلے یہاں ترقی نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ مگر آج اِس گاؤں میںبجلی، ٹیلی فون اور سڑک جیسی چیزوں کی موجودگی بتارہی ہے کہ اب یہ گاؤں بھی ملکی ترقی کے نقشے پر آچکا ہے۔گاؤں میں شان دار مدرسہ اور شان دار اسکول قائم ہے۔ گاؤں میں ہر طرف پختہ مکانات نظر آتے ہیں، وغیرہ۔
یہی حالت آج پورے ملک میں مسلمانوں کی ہے۔ گاؤں سے لے کر شہر تک ہر جگہ مسلمان تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔ وہ تجارت اور تعلیم اور دوسرے تر قیاتی شعبوں میں نمایاں طورپر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو انڈیا کے ہر شہر اور ہر علاقے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان اِس حقیقت کا انکار کرے تو اس سے آپ صرف ایک سوال کیجئے کہ— تمھارے اپنے خاندان کی معاشی حالت ۱۹۴۷ سے پہلے کیا تھی، اور اب کیا ہے۔ یقینی طور پر اس کا جواب یہ ہوگا کہ آج میرا خاندان ۱۹۴۷ کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر حالت میں ہے۔ پہلے اگر ہمارے گھر کے لوگ سائیکل نشیں تھے تو اب وہ کار نشیں ہوگیے ہیں، وغیرہ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندستان کے مسلم قائدین کے تمام مایوسانہ اندازوں کے سراسر خلاف، ہندستانی مسلمانوں کی حالت اتنی زیادہ بہتر کیسے ہوگئی ۔ یہ کوئی پُراسرار معاملہ نہیں۔ یہ تمام تر زمانی تبدیلی کا معاملہ ہے۔ ۱۹۴۷ سے پہلے کا انڈیا، بنیادی طورپر، زرعی دَور میںتھا۔ ۱۹۴۷ کے بعد کا انڈیا، بنیادی طورپر، صنعتی دور میں پہنچ چکا ہے۔ زرعی دور میں معاشی ذرائع صرف لینڈ لارڈ کے پاس ہوا کرتے تھے۔ صنعتی دور نے معاشی ذرائع کو ڈی سنٹرلائز(de-centralize) کردیا۔ اِسی زمانی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ آج معاشی اسباب تمام لوگوں کے لیے قابل حصول ہوگیے۔ اسبابِ معیشت کے اِس عمومی پھیلاؤ میں جس طرح دوسروں کو حصہ ملا، اُسی طرح مسلمانوں کو بھی اس میں حصہ ملا۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ یہ المیہ پیش آیا کہ ان کے اوپر ایسے لوگ قائدبن گیے جو زمانی بصیرت سے مکمل طورپر خالی تھے۔ اپنی بے بصیرتی کی بنا پر وہ صرف ماضی کو دیکھ سکے۔ انھیں زمانے کی اُن انقلابی تبدیلیوں کی خبر نہ ہوسکی جو دورِ جدید کو مکمل طورپر بدل دینے والی تھیں۔ مسلمانوں کے یہ بے بصیرت قائدین، مسلمانوں کو منفی خبریں بتاتے رہے۔ جب کہ عین اسی وقت زمانے کے اندر ہونے والا تاریخی عمل ، پورے ملک اور پورے سماج کو ایک نیے ترقیاتی دور کی طرف لے جارہا تھا، جہاں معاشی مواقع ہر ایک کے لیے کھُل جائیں ، جہاں کوئی بھی شخص عمومی اقتصادی برسات میں حصہ پانے سے محروم نہ رہے۔
مسلمانوں کے نام نہاد قائدین، اپنی بے بصیرتی کی بنا پر منفی بولی بولتے رہے۔ دوسری طرف زمانی اسباب مسلمانوں کے لیے ترقی کے دروازے کھولتے رہے۔ یہی وہ دو طرفہ واقعہ ہے جس کا نتیجہ ہم آج اِس صورت میں دیکھ رہے ہیں کہ— مسلم قائدین مکمل طورپر ناکام ہیں، اور مسلم کمیونٹی مکمل طور پر کامیاب۔
واپس اوپر جائیں

عارضی دورِ حیات، ابدی دورِحیات

ایک طالب علم جب اپنی زندگی کے تعلیمی مرحلے میںہو تو اُس کی سوچ اُس سے مختلف ہوتی ہے جب کہ وہ اپنی تعلیم کو مکمل کرکے اپنے لیے ایک اچھا جاب حاصل کرلے۔ پہلے مرحلے میں وہ اِس طرح رہتا ہے جیسے کہ وہ ایک مسافر ہے۔ جب کہ دوسرے مرحلے میں وہ اِس طرح رہتا ہے جیسے کہ وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گیا ہو۔ پہلے مرحلے میں وہ ہر چیز کو ایک وقتی چیز سمجھتا ہے۔ جب کہ دوسرے مرحلے میں وہ ہر چیز کو اِس حیثیت سے لیتا ہے جیسے کہ وہ اس کی زندگی کا مستقل حصہ ہو۔
یہی معاملہ وسیع تر معنوں میں، انسانی زندگی کا ہے۔ انسان کو ہمیشہ کی عمر دی گئی ہے۔ اس عمر کے دو حصے ہیں، قبل ازموت، اور بعد از موت۔ قبل ازموت، آدمی اپنے عارضی دَورِ حیات میں رہتا ہے۔ بعد از موت وہ اپنے ابدی دَور حیات میں پہنچ جاتا ہے۔ اگر یہ حقیقت آدمی کے اندر زندہ شعور کے طورپر موجود ہو تو یہی اس کی مکمل اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔
موجودہ دنیا کو مذہبی اصطلاح میں فتنے کی دنیا کہاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا ایک مغالطے کی دنیا (deceptive world) ہے۔ یہاں کی ہر چیز کسی نہ کسی اعتبار سے مغالطے کا رول (deceptive role) ادا کررہی ہے۔ یعنی موجودہ عارضی دنیا کو مستقل دنیا کے روپ میں دکھانا۔ موجودہ دنیا کی وقتی چیز کو مستقل چیز کی حیثیت سے متعارف کرنا۔فانی بدایونی ایک اردو شاعر تھے۔ انھیں اپنی زندگی میں کچھ ایسے تجربات پیش آئے جس نے انھیں بتایا کہ موجودہ دنیا ایک بے حقیقت دنیا ہے۔ یہاں کی ہر خوش نُمائی صرف ظاہری اور وقتی خوش نمائی ہے۔ اپنے اِس تجربے کو انھوں نے اِن الفاظ میں نظم کیا تھا:
فریبِ جلوہ اور کتنا مکمل، اے معاذ اللہ! بڑی مشکل سے دل کو بزمِ عالم سے اٹھا پایا
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا کی ہر چیز مغالطہ آمیز ہے۔ وہ وقتی چیز کو مصنوعی طورپر ابدی رنگ میں دکھاتی ہے۔ کامیاب وہ ہے جو موجودہ دنیا کو عارضی دورِ حیات سمجھے، اور ناکام وہ ہے جو اِس دنیا کو ابدی دورِ حیات سمجھ لے۔
واپس اوپر جائیں

نعمت نہ کہ زحمت

زُہیر بن ابی سُلمیٰ (وفات: ۶۰۹ء) عرب جاہلیت کا مشہور شاعر تھا۔ ابن الاعرابی نے اس کے بارے میں کہا ہے: کان لزُہیر فی الشعر ما لم یکن لغیرہ(زہیر کا درجہ شعر میں وہ تھا جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوا) ۔ اس کا ایک قصیدہ سبع معلّقہ میں شامل کیا گیا۔ زہیر نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے کہ —میں زندگی کی مشقتوں سے اُکتا چکا ہوں، اور جو شخص اسی سال تک زندہ رہے گا، تیرے باپ کی قسم، وہ زندگی سے اکتا جائے گا:
سئمتُ تکالیف الحیاۃ ومن یعش ثمانین حولاً لاأبا لکََ یسأم
میری عمر اب اسّی سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔اپنے تجربے کی روشنی میں میں کہہ سکتا ہوں کہ لمبی عمر بلاشبہہ جسمانی اعتبار سے ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ لیکن ذہنی اعتبار سے وہ کوئی بوجھ نہیں بلکہ وہ ایک نعمت ہوتی ہے۔ کیوں کہ زیادہ عمر کا مطلب ہے—زیادہ علم، زیادہ تجربہ، زیادہ معرفت اور زیادہ بصیرت۔ یہ چیز جو لمبی عمر میں ملتی ہے وہ کسی کو کم عمری میں حاصل نہیں ہوتی۔آدمی اگر اس حقیقت کو سمجھے اور اپنے علم اور بصیرت کو مثبت طور پر استعمال کرے تو وہ نہ اُکتائے گا اور نہ مایوس ہوگا، بلکہ وہ نیے حوصلے کے ساتھ ازسرِ نو زندگی کا سفر شروع کردے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر دو صفتیں ہوں۔ ایک، امکاناتِ فطرت کا شعور اور دوسرے، انسان کے ساتھ گہری خیر خواہی۔ جس آدمی کے اندر یہ دو چیزیں ہوں وہ برعکس طورپر یہ سوچے گا کہ آج دنیا کو دینے کے لیے میرے پاس ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ مجھے یہ کرنا چاہیے کہ میں اِس سرمایے کو تمام انسانوں کی امانت سمجھوں اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میںاپنی بقیہ زندگی وقف کردوں۔زیادہ عمر ایک نعمت ہے، اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ۔
اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ہر ناموافق میں ایک موافق پہلو چھپا ہوا ہے۔ بڑھاپا اگر چہ انسان کے لیے بظاہر ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اس کے اندر ایک اعلیٰ درجے کی مطلوب چیز چھپی ہوئی ہے۔
واپس اوپر جائیں

دانش مند باپ

مختار الحسن رفیقی (پیدائش ۱۹۷۲) ایک ہونہار نوجوان ہیں۔ ان کی تعلیم جامعہ دار السلام عمر آباد میں ہوئی۔ ان کے والد مولانا محمدرفیق قاسمی ۱۹۹۸ میں دہلی سے کویت جارہے تھے۔ اس وقت انھوں نے اپنا بایوڈاٹا ان کو دیااور کہا کہ آپ کویت جارہے ہیں، وہاں کوشش کیجئے کہ مجھے کوئی جاب مل جائے۔ یہ بظاہر بیٹے اور باپ کا معاملہ تھا۔ باپ ہمیشہ بیٹے کے لیے نرم دل ہوتا ہے۔ لیکن یہاں بالکل برعکس واقعہ ہوا۔ باپ نے بیٹے کے بایو ڈاٹا کو اس کے سامنے ہی پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا کہ میں اس کو نہیں لے جاسکتا۔ آپ اپنے اندر ایسی صلاحیت پیداکریں جس سے لوگ آپ کو بذات خود مدعو کریں۔
مختار الحسن رفیقی صاحب کو فطری طورپر اس واقعہ پر بہت غصہ آیا۔ وہ یہ سمجھے کہ میرے باپ کو مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کو میرے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ لیکن یہ واقعہ دراصل ایک دانشمند باپ کا واقعہ تھا۔ چنانچہ اس کے بعد یہ ہوا کہ مختار الحسن صاحب ہمیشہ سے زیادہ متحرک ہوگئے۔ان کی صلاحیتیں اس جھٹکے کے بعد جاگ اٹھیں۔ انھوں نے بزنس کے میدان میں کام شروع کردیا۔ اب وہ خدا کے فضل سے ممبئی میں ایک کمپنی میں مینیجر ہیں اور ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔
عام طور پر باپ کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے ساری سہولتیں فراہم کرے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں نہ دینا بھی دینے کی ایک صورت ہے۔ جو باپ اپنے بیٹے کو کچھ نہ دے وہ اس کو زیادہ بڑی چیز دے دیتا ہے، اور وہ ہے خود کچھ کرنے کا جذبہ۔
اِس دنیا میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر عمل کا جذبہ جاگ اٹھے۔ اس کو کام کرنے کی دُھن لگ جائے۔ اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جائے کہ میں اپنے ہی کیے کا نتیجہ پاؤں گا۔ کسی اور سے مجھے کچھ ملنے والا نہیں۔ ایسا آدمی ایک بے پناہ آدمی بن جاتا ہے۔ اس کی سوئی ہوئی صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ یہاں تک کہ پہلے کا زیرو آج کا ہیرو بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کی تاریخ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل حیثیت یہ تھی کہ آپ حق کے داعی تھے۔ آپ کے بعد امتِ مسلمہ کی اصل ذمے داری بھی یہی ہے کہ وہ تمام قوموں تک اُس سچائی کو پہنچائے جو پیغمبر کے ذریعے اس کو ملی ہے۔ لیکن دعوت کا یہ کام اسلام کی تاریخ میں اپنے مطلوبہ انداز میں زیادہ نہ ہوسکا۔ دعوت کے اعتبار سے اسلام کی تاریخ کے تین دور ہیں:
۱۔ ایکٹیو دعوہ(active dawah)
۲۔ پَیسیو دعوہ(passive dawah)
۳۔ اینٹی دعوہ (anti dawah)
رسول اور اصحاب رسول کا زمانہ ایکٹیو دعوہ کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں براہِ راست طورپر دعوت الی اللہ کا کام کیاگیا۔ کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی آمیزش کے بغیر دعوت کا کام اس کی بے آمیز صورت میں انجام دیا گیا۔ یہ دعوت کے اعتبار سے اسلام کی تاریخ میں معیاری دور تھا۔
خلافتِ راشدہ کے بعد وہ دور آیا جب کہ دعوت کا براہِ راست کام تقریباً ختم ہوگیا۔ لیکن دعوت کاکام بالواسطہ انداز میں اب بھی پوری طرح جاری رہا۔ اب قرآن محفوظ ہوچکا تھا۔ حدیث مدوّن ہوگئی تھی۔ ایک مسلم سماج بڑے پیمانے پر بن گیا تھا۔ مسلم ادارے منظم کیے جاچکے تھے۔ عبادات کا نظام قائم ہوگیا تھا۔ اِس قسم کی چیزوں کے نتیجے میں یہ ہوا کہ دعوت کا کام خود اپنے زور پر برابر جاری رہا۔ اِس بعد کے زمانے میں اگر چہ مسلمان عملاً براہِ راست انداز میں دعوت کی مہم نہیں چلارہے تھے ، لیکن قائم شدہ ماحول کی بنا پر بالواسطہ انداز میں اسلام کا تعارف جاری تھا، اور اس کے نتیجے میں لوگ برابر اسلام میں داخل ہورہے تھے۔ اسی کو ہم نے پیسیو دعوہ کہا ہے۔ یہ کام مسلسل طورپر اٹھارہویں صدی عیسوی تک جاری رہا۔ اس کے بعد نو آبادیاتی نظام کے ظہور کی بنا پر اس کے اوپر روک لگ گئی۔
نوآبادیاتی نظام آٹھارہویں صدی میں مسلم دنیا میں داخل ہوا، اب مسلمانوں کے اندر غیر مسلموں کے خلاف منفی ذہن پیدا ہوگیا۔انھوں نے غیر مسلموں کے خلاف جگہ جگہ مسلّح جنگ چھیڑ دی۔ پورے مسلم سماج میں غیر مسلموں کے خلاف نفرت کا ماحول پیداہوگیا۔ یہ نفرت یا جنگ مدعوکے خلاف تھی۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کی طرف سے دعوت کے عمل کا خاتمہ کردیا۔ مدعو قوموں کے لیے مسلمانوں کے دل میں نُصح اور خیر خواہی کا جذبہ باقی نہیں رہا، وہ ان کو دشمن کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ایسی حالت میں فطری طورپر دعوت کا کام جاری نہیں رہ سکا۔
رسول اور اصحاب رسول کے بعد مسلمان تقریباً ایک ہزار سال تک آپس میں لڑتے رہے۔ اِس لمبی مدت کا کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں ہے جب کہ مسلمان مختلف گروہوں میں بٹ کر آپس میں لڑائی نہ کررہے ہوں۔ یہ آپس کی لڑائی بلا شبہہ غلط تھی، لیکن وہ پیسیو دعوہ کے عمل کے جاری رہنے میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکی۔
اینٹی دعوہ کا دَور جو اٹھارہویں صدی میں شروع ہوا، وہ دعوت کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتا تھا۔ باہمی لڑائیوں میں مسلمان قتل ہوتے تھے، لیکن مدعو کے خلاف لڑائی میں دعوت کا قتلِ عام ہونے لگا۔ اِس عمل کے نتیجے میں فطری طورپر دعوت کے عمل کو سخت نقصان پہنچا۔ یہی تیسرا دور ہے جس کو ہم نے اوپر کی تقسیم میں اینٹی دعوہ کا نام دیا ہے۔
مسلمان جب تک آپس میں لڑرہے تھے وہ خدا کی نظر میں صرف گنہ گار کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن جب انھوں نے مدعو قوموں سے لڑنا شروع کیا تو وہ خدا کے غضب کا نشانہ بن گیے۔ قرآن اور حدیث کے مطابق، وہ لعنت کے مستحق قرا ر پائے۔
یہ تیسرا دَور بے حد خطرناک دور ہے۔ یہی وہ دَور ہے جب کہ خدا نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے حوالے کردیا۔ وہ ذلّت اور تباہی کے مستحق قرار پائے۔ دو سو سال سے بھی زیادہ مدّت سے مسلمانوں پر یہی دور گزر رہا ہے۔ عزت اور سرفرازی ان سے چھین لی گئی ہے۔ خدا نے انھیں ان کے دشمنوں کے حوالے کر دیا ہے۔ یہ صورتِ حال صرف اُس وقت ختم ہوگی جب کہ مسلمان اپنی مجرمانہ روش کی بھیانک غلطی کا اعتراف کریں، وہ مدعو کے خلاف اپنی نفرت اور اپنے تشدد کو یک طرفہ طورپر ختم کردیں۔
واپس اوپر جائیں

سی پی ایس انٹرنیشنل

سَروے بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں تمام عورت اور مرد آئی ڈنٹٹی کرائسس کا کیس بنے ہوئے ہیں۔ اِس دنیا میں پیدا ہونے والے ہر چھوٹے اور بڑے انسان کا یہ حال ہوا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ایک کامیڈی کے روپ میں دیکھنا چاہتا تھا مگر موت نے بتایا کہ ہر ایک کے لیے صرف ٹریجڈی کا انجام مقدر تھا، ہر آدمی غیر حاصل شُدہ تمنّاؤں(unfulfilled desires) کا کیس بن کر رہ گیا۔ یہ بلا شبہہ انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ دردناک سوال ہے جس کا جواب شعوری یا غیر شعوری طورپر تمام عورت اور مرد تلاش کررہے ہیں، اِس میں کسی کا کوئی استثناء نہیں۔تجربہ بتاتا ہے کہ ہر عورت اور مرد شعوری یا غیر شعوری طورپر کچھ سوالات سے دوچار رہتے ہیں—میں کون ہوں۔ میری پیدائش کا مقصد کیا ہے۔ یہ دنیا کس منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے۔ موت کے بعدکیا ہونے والا ہے۔ اس دنیا کے بارے میں خدا کا کریشن پلان کیا ہے۔ یہ سوالات آئڈیالوجی آف لائف سے تعلق رکھتے ہیں۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا مقصد انھیں سوالات کا جواب فراہم کرنا ہے۔
سی پی ایس انٹرنیشنل (Centre for Peace and Spirituality)گویا ایک اسٹڈی فورم ہے۔ سی پی ایس، لٹریچر، میڈیا، آڈیو اور ویڈویو کیسٹ اور ویب سائٹ کے ذریعے یہ کوشش کررہا ہے کہ وہ پُرامن انداز میں سچائی کا پیغام لوگوں تک پہنچائے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل گویا عالمی ڈائلاگ کا ایک اسٹیج ہے۔ وہ اِس لیے قائم کیا گیا ہے کہ لوگ اعلیٰ فکری سطح پر زندگی اور کائنات کے بارے میں ڈسکشن کریں اور اِس معاملے میں وہ کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ سی پی ایس انٹرنیشنل ایک خالص دعوتی تحریک ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا تعلق، سیاست سے نہ براہِ راست طورپر ہے اور نہ بالواسطہ طورپر۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں سیاست ایک ثانوی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ اب سیاست کا تعلق صرف ایڈمنسٹریشن سے ہے۔ زندگی کے دوسرے تمام شعبے سیاست کے دائرۂ عمل سے باہر ہوچکے ہیں، جب کہ قدیم زمانے میں ایسا نہ تھا۔
زندگی میں دو اہم شعبے ہیں۔ ایک ہے انتظامِ ملکی، اور دوسرا ہے انسان سازی۔ قدیم زرعی دَورمیں یہ دونوں شعبے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ موجودہ صنعتی اور سائنسی دَور میں یہ دونوں شعبے عملاً ایک دوسرے سے الگ ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت کو انتظامیہ (administration) کہاجاتا ہے۔ اب اگر کسی کو حکومتی عہدہ مطلوب ہو تو اس کو سیاست میں جانا چاہیے۔ لیکن جو لوگ انسانی ترقی سے دلچسپی رکھتے ہوں اُن کے لیے صحیح اور مفید طریقہ یہی ہے کہ وہ اقتدار سے باہر غیر سیاسی شعبوں کو اپنی جدوجہد کا نشانہ بنائیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل انسانی ترقی سے دل چسپی رکھتا ہے۔ اِس لیے ا س نے صرف غیر سیاسی شعبے کو اپنا میدان کار بنایا ہے۔ مثلاً ایجوکیشن، فارمل اور انفارمل دونوں، اسپریچول ڈیولپ مینٹ، تعمیر شعور، امن کا فروغ، پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا، ویب سائٹ، میٹنگ اور ڈائلاگ، فکری رہنمائی اور ذہنی انقلاب ، وغیرہ۔ یہی سی پی ایس کا اساسی مقصد ہے۔ ہمارا اصل کام فکری انقلاب لانا ہے۔ عملی انقلاب اِسی فکری انقلاب کا نتیجہ ہے۔ فکری انقلاب کے بغیر عملی نتائج پانا کسی بھی حال میں ممکن نہیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل امن اور روحانیت کے ربّانی اصولوں پر قائم کیاگیا ہے۔ سی پی ایس کا پیغام یہ ہے کہ آؤ ہم امن اور روحانیت کے اصولوں میں اپنی مطلوب آئڈیالوجی آف لائف کو تلاش کریں۔ سی پی ایس کو یقین ہے کہ انسان، امن اور روحانیت کے ربّانی اصولوں میں اپنے اُن سوالات کا جواب پاسکتا ہے جن کا جواب پانے کے لیے وہ لمبی مدت سے ناکام طورپر سرگرداں ہے، اور پھر زیادہ بہتر بنیادوں پر وہ اپنی زندگی کی تعمیر و تشکیل کرسکتا ہے۔
امن کے متعلق عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے وہ عدم جنگ (absence of war) کا نام ہے۔ مگر یہ امن کی ایک ناقص تعبیر ہے۔ صحیح یہ ہے کہ امن ایک مکمل کلچر کا نام ہے۔ امن ایک اصول حیات ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عدم ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے زندگی کی تعمیر وتشکیل کی جائے۔ میدانِ جنگ کے محدود دائرے سے باہر کی پوری زندگی امن کے دائرے میں داخل ہے۔
روحانیت کو عام طور پر ایک پُر اسرار ڈسپلن سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ روحانیت اِس سے زیادہ وسیع ہے۔ روحانیت در اصل، ربّانیت (divine cultrue) کانام ہے۔ روحانیت کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔ روحانیت، دوسرے لفظوں میں، خدا رُخی زندگی(God-oriented life) کانام ہے۔ روحانیت یہ ہے کہ آدمی اعلیٰ شعوری سطح پر سچائی کی معرفت حاصل کرے۔ فکری عمل کے ذریعے وہ اپنے اندر ربّانی شخصیت پیدا کرے۔ وہ سچائی کو ابدی حقیقت کی صورت میں دریافت کرے۔ وہ محدود مادّی دنیا سے اوپر اٹھ کر سچائی کو اس کی آفاقی صورت میں پالے۔ وہ زندگی کی معنویت کو دریافت کرکے پوری طرح ایک بامقصد انسان بن جائے۔
سی پی ایس انٹر نیشنل اپنے فکر کے اعتبار سے ایک آفاقی تحریک ہے اور اپنے مزاج کے اعتبار سے وہ انسان فرینڈلی مزاج رکھتی ہے۔ سی پی ایس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے محدود دائرے سے اٹھ کر کائناتی کلچر کا حصہ بن جائے۔ وہ امن اور روحانیت اور حقیقت شناسی کی لامحدود دنیا میں جینے لگے۔
واپس اوپر جائیں

Friday, 1 September 2006

Al Risala | September 2006 (الرسالہ،ستمبر)

2

- رمضان کا مہینہ

3

- فتویٰ ایکٹوزم یا ایجوکیشنل ایکٹوزم

7

- سب کچھ امتحان

10

- جنت کس کے لیے

13

- شناخت کا مسئلہ

16

- مقبول دعا

19

- جذبات کو ٹھیس پہنچنا

23

- ٹیم کی اہمیت

26

- سی پی ایس انٹرنیشنل

41

- ذہنی تناؤ کا مسئلہ

43

- سادہ فارمولا


رمضان کا مہینہ

رمضان میں ایک مہینے کے لیے روزہ رکھا جاتا ہے۔ یعنی دن کے اوقات میں کھانے اور پینے کو پوری طرح چھوڑ دینا۔ دوسرے لفظوں میں آدمی سال کے گیارہ مہینے تک کھانے اور پینے کا تجربہ کرتا ہے اور سال کے ایک مہینے میں وہ یہ تجربہ کرتا ہے کہ نہ کھانا کیا ہے اور نہ پینا کیا۔ یہ با خوراک زندگی کے بعد بے خوراک زندگی کا تجربہ ہے۔ یہ آزاد زندگی کے بعد پابند زندگی کا تجربہ ہے۔
غذا کی حیثیت ایک علامت کی ہے۔ غذا علامتی طورپر یہ بتاتی ہے کہ خدا نے اِس دنیا میںاستثنائی طورپر انسان کے لیے وہ عظیم سسٹم بنایا ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ وسیع کائنات میں اَن گنت ستارے اور سیّارے ہیں لیکن کہیں بھی وہ لائف سپورٹ سسٹم نہیں جو صرف ہماری زمین میں خصوصی طورپر پایا جاتا ہے۔
رمضان کا مہینہ دراصل اِسی عظیم نعمت کی یاد دہانی ہے۔ رمضان کا مہینہ یہ یاد دلاتا ہے کہ اگر زمین پر لائف سپورٹ سسٹم موجود نہ ہو تو انسان کا کیا حال ہوگا۔ لائف سپورٹ سسٹم کے بغیر انسان بے یارومددگار ہو کر رہ جائے گا۔ وہ عجز کے آخری مقام پر پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد زمین پر پانی نہ ہوگا جس کو وہ پیے۔ خوراک نہ ہوگی جس کو وہ کھائے۔ آکسیجن نہ ہوگا جس میں وہ سانس لے۔ سورج کی روشنی نہ ہوگی جس میں وہ چلے پھرے۔ زمین میں قوتِ کشش نہ ہوگی جس کے اوپر وہ اپنے تمدّن کی تعمیر کرے،وغیرہ۔
قرآن میں رمضان کے فائدے کو بتانے کے لیے دو لفظ استعمال کیے گیے ہیں۔ لعلکم تتقون، لعلکم تشکرون (البقرہ) اِس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان، آدمی کو لائف سپورٹ سسٹم کی اہمیت یاد دلاتا ہے، تاکہ وہ شکرِ خداوندی کے احساس میں غرق ہوجائے۔ اِسی طرح وہ یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ اگر یہ لائف سپورٹ سسٹم نہ ہو تو اس کی پوری زندگی تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ رمضان کا مہینہ ایک اعتبار سے تقویٰ کا مزاج پیدا کرتا ہے، اور دوسرے اعتبار سے شکر کا مزاج۔ اور بلا شبہہ انھیں دونوں قسم کے احساسات میں جینے کا نام اسلام ہے۔
واپس اوپر جائیں

فتویٰ ایکٹوزم یا ایجوکیشنل ایکٹوزم

آج کل مختلف قسم کے ایکٹوزم (activism) کا چرچا ہے۔ مثلاً پولٹکل ایکٹوزم، سوشل ایکٹوزم، ملّی ایکٹوزم اور میڈیا ایکٹوزم، وغیرہ۔ انھیں میں سے ایک وہ ہے جس کو جوڈیشیل ایکٹوزم (judicial activism) کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پبلک انٹرسٹ (مفادِ عامہ) کے کاموں میں عدالت سے رجوع کرکے اس کا حکم حاصل کرنا، قانون کی مدد سے مفادِ عامّہ سے تعلق رکھنے والے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ جوڈیشیل ایکٹوزم کا یہ طریقہ سیکولر طبقے کے لوگوں کے یہاں رائج ہے۔
اِسی طرح مسلمانوں کے کچھ مذہبی طبقے نے کچھ عرصے سے وہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے جس کو فتویٰ ایکٹوزم کہا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کی اصلاح کے مقصد کے لیے فتوے کا طریقہ اختیار کررہے ہیں۔ مثلاً کسی لباس کو غیر دینی لباس بتا کر اس کے خلاف فتویٰ دینا، کسی مشروب کو غیر اسلامی مشروب بتا کر اس کے حُرمت کا فتویٰ جاری کرنا، کسی مذہبی مقام پر عورتوں کے جانے کو ممنوع قرار دینے کے لیے فتویٰ جاری کرنا، کسی کو پیغمبر کی شان میں گستاخی کرنے والا بتا کر اس کے قتل کا فتویٰ صادر کرنا، کسی مصنف کو متنازعہ قرار دے کر یہ فتویٰ جاری کرنا کہ اس کی کتابیں نہ پڑھو، کسی کو مرتد قرار دے کر اس کے خلاف بائکاٹ کا فتویٰ جاری کرنا، ٹیلی ویژن یا اسی قسم کی اور چیزوں کو حرام قرار دے کر ان سے اجتناب کرنے کا فتویٰ دینا، بینکنگ اور اسی طرح دوسری نئی چیزوں کو غیر اسلامی قرار دے کر اس کے عدم استعمال کا فتویٰ دینا، وغیرہ۔
اِس قسم کے فتوے موجودہ زمانے میں ہزاروں کی تعداد میں دیے گیے ہیں مگر سب کے سب بے اثر ثابت ہوئے ہیں۔ اِن میں سے ہر فتوے کا صرف یہ انجام ہوا کہ وہ مطلوب نتیجہ پیدا نہ کرسکا۔ پورے جدید دو رمیں مجھے صرف ایک واقعہ معلوم ہے جب کہ مفتی نے استفتا کے باوجود فتویٰ دینے سے انکار کردیا۔ یہی طریقہ میرے نزدیک صحیح طریقہ تھا۔
برٹش دَور میں، دہلی میں، ایک عالم تھے ان کا نام مولانا عبد الحق حقّانی (وفات ۱۸۳۱)تھا۔ انھوں نے قرآن کی ایک تفسیر لکھی تھی جو ’’تفسیر حقّانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے زمانے میں انگریزی حکومت نے سونا چاندی کے سکّے کی جگہ کاغذی نوٹ جاری کیے۔ یہ کاغذی نوٹ روایتی فقہی مسئلے کے اعتبار سے بظاہر غیر اسلامی تھے۔ مولانا عبد الحق حقّانی سے یہ فتویٰ پوچھا گیا کہ کاغذی نوٹ کا طریقہ اسلامی نقطۂ نظر سے جائز ہے یا ناجائز۔ انھوں نے اِس استفتا پر کوئی فتویٰ نہیں دیا،انھوں نے صرف یہ کہا کہ — میرا فتویٰ نہیں چلے گا اور نوٹ چل جائے گا۔ اس طرح کے معاملے میں یہی صحیح اسلامی طریقہ ہے۔
فتویٰ کا لفظی مطلب رائے (opinion) ہے۔ فتویٰ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص خود اپنے بارے میں پوچھے کہ مجھے فلاں معاملہ درپیش ہے۔ میں اس میں کیا کروں۔ مثلاً ایک خاتون کھلاڑی اپنے ڈریس کے بارے میں پوچھے کہ کھیل کے دوران مجھے اسلامی نقطۂ نظر سے کون سا ڈریس استعمال کرنا چاہیے۔ ایسی حالت میں فتویٰ دینا درست ہے۔ یہ وہ حالت ہے جب کہ فتویٰ پوچھنے والاخود اپنے بارے میں حکم کی پیروی کی نیت سے مفتی سے سوال کرے۔ ایسی حالت میں مفتی کو فتویٰ پوچھنے والے کا جواب دینا چاہیے۔ فتوے کا صحیح استعمال اور اس کا درست محل یہی ہے۔
د وسری صورت یہ ہے کہ سماج میں ایک بُرائی موجود ہے۔ اس کے بارے میں خود سماج کی طرف سے کوئی سوال نہ کیا جارہا ہو۔ ایک شخص ذاتی طور پر اُس سماجی مسئلے کو لے کر اس کے متعلق، استفتاء مرتب کرے اور اس کے بارے میں مفتی سے فتویٰ پوچھے۔ اِس صورت میں اگر مفتی فتویٰ دیتا ہے تو وہ فتوے کا غلط استعمال کرتا ہے۔ ایسا فتویٰ مثبت معنوں میں کوئی اصلاح تو پیدا نہیں کرے گا، البتہ وہ اسلام کی بدنامی کا سبب بن جائے گا۔
مثال کے طور پر کئی سماجی برائیاں ہیں جن کے خلاف مفتی صاحبان نے موجودہ زمانے میں فتوے دیے ہیں۔ مگر مولانا عبد الحق حقانی کی زبان میں، یہ ہوا کہ ان کافتویٰ تو نہیں چلا، البتہ برائیاں بدستور جاری رہیں۔ مثلاً بدعات کے خلاف فتویٰ، مشرکانہ رسموں کے خلاف فتویٰ، شادیوں میں جہیز کے خلاف فتویٰ، ٹی وی اور سینما کے خلاف فتویٰ، لاؤڈاسپیکر کے خلاف فتویٰ، بینک انٹرسٹ کے خلاف فتویٰ، داڑھی نہ رکھنے کے خلاف فتویٰ، مغربی لباس کے خلاف فتویٰ، انگریزی تعلیم کے خلاف فتویٰ، وغیرہ۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ تمام فتوے بے نتیجہ ہو کر رہ گیے، معاشرے کے اوپر ان کا کوئی اثر نہیں پڑا۔
میرے مطالعے کے مطابق، اِس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ صرف صاحبِ معاملہ کو اپنے بارے میں استفتا کا حق ہے، اور اِسی طرح کے معاملے میں مفتی کو فتویٰ دینا چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی شخص مفتی کے پاس اِس قسم کا استفتا بھیجے کہ فلاں مسجد کے امام کی داڑھی چھوٹی ہے، تو کیا ایسے امام کے پیچھے مقتدیوں کی نماز ہوتی ہے یا نہیں۔ اِس قسم کا استفتا ایک فتنہ ہے نہ کہ حقیقتاً کوئی استفتا۔ مفتی کو چاہیے کہ وہ ایسے استفتا کا جواب نہ دے۔ استفتا کا تعلق، فتویٰ پوچھنے والے کے ذاتی معاملے سے ہے نہ کہ اس کی ذات کے باہر دوسروں کے معاملے سے۔
اب سوال یہ ہے کہ عمومی اصلاح یا معاشرتی اصلاح کے بارے میں اسلام کا طریقہ کیا ہے۔ یہ طریقہ تذکیر اور نصیحت کا طریقہ ہے نہ کہ فتوے کا طریقہ۔ یعنی تحریر اور تقریر کے ذریعے لوگوں کو سمجھانا۔ سمجھانے کا یہ کام ’’قولِ بلیغ‘‘ کی زبان میں ہوناچاہیے۔ یعنی ایسی زبان اور دلیل جو سننے والے کے دل میں اُتر جائے۔ یہاں تک کہ وہ اس کی صداقت کا اعتراف کرلے۔
نصیحت اور تذکیر کے اِس طریقے کو آج کل کی زبان میںایجوکیشنل ایکٹوزم کہا جاسکتا ہے۔ یعنی تعلیم اور تربیت کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کرنا، لوگوں کے ذہن کو بدلنے کی کوشش کرنا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اصلاحِ معاشرہ کے بارے میں اسلام کا اصول ایجوکیشنل ایکٹوزم پر مبنی ہے نہ کہ فتویٰ ایکٹوزم پر۔
اِس معاملے میںایک رہنما مثال وہ ہے جس کا ذکر صحیح البخاری میںآیا ہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں قرآن کی جو آیتیں اُتریں ان میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا۔ تاکہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کے بارے میںنرم گوشہ پیداہو اور لوگوں کے اندر ذہنی آمادگی آجائے۔ اِس طرح جب قبولیت کی استعداد پیدا ہوگئی تو اس کے بعد قرآن میں اترا کہ زنا چھوڑ دو، اور شراب چھوڑ دو۔ ایسا حکم اگر پہلے اُترتا تو لوگ اس کی تعمیل نہ کرتے بلکہ وہ یہ کہتے کہ ہم تو زنا نہ چھوڑیں گے، ہم تو شراب نہ چھوڑیں گے۔(لاندع الزنا أبداً ولا ندع الخمرأبداً)
اِس سے معلوم ہوا کہ عمومی اصلاح کا کام فتویٰ یا حکم جاری کرنے سے نہیں ہوتا، بلکہ اِس کام کے لیے سب سے پہلے لوگوں کے اندر قبولیت کی استعدادپیدا کی جاتی ہے اِس کے بعد ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ استعداد پیدا کیے بغیر حکم دینا کسی بھی درجے میں مسئلے کا کوئی حل نہیں۔
جب بھی کسی معاشرے میں بگاڑ آتا ہے تو اس کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ لوگوں کو حُکم یا قانون کا علم نہیں ہے، اس لیے لا علمی کی بنا پر لوگ غلط کاموں میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرتی بگاڑ کا سبب لوگوں کے اندر اسپرٹ کی کمی ہوتی ہے نہ یہ کہ وہ حکم اور قانون سے بے خبر ہیں۔
ایسی حالت میں سماج سُدھار یا معاشرے کی اصلاح کا نقطۂ آغاز یہ نہیں ہے کہ قانونی حکم کو لے کر فتویٰ صادر کیا جائے، بلکہ اس کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ لوگوں کے اندر اسپرٹ کو جگایا جائے، لوگوں کے اندر شعور کو زندہ کیا جائے، لوگوں کے اندر مادّۂ قبولیت پیدا کیا جائے۔ جب یہ کام قابلِ لحاظ حد تک ہوجائے اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ لوگوں کو حکم اور قانون کی زبان میں مسائل سے آگاہ کیا جائے۔ داخلی استعداد پیدا کرنے سے پہلے، خارجی احکام کا اعلان کرنا ایک غلط ترتیب ہے۔ یہ گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا ہے جو کہ یقینی طورپر قابلِ عمل نہیں۔
فتویٰ ایکٹوزم ہو یا دوسرا کوئی ایکٹوزم، ہر ایک کو جانچنے کا طریقہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ عملی طورپر اس کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے۔ کسی عمل کی درستگی کو جاننے کا ذریعہ صرف اس کا صحیح نتیجہ ہے۔ یہ ایک مسلّم اصول ہے کہ عمل کو ہمیشہ نتیجہ رُخی عمل (result-oriented action) ہوناچاہیے۔ اور فتویٰ ایکٹوزم بلا شبہہ اِس اصول عام سے مستثنیٰ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سب کچھ امتحان

قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ولنبلونکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقص من الأموال والأنفس والثمرات وبشّر الصابرین (البقرہ: ۱۵۵)
اس آیت میں بتایاگیا ہے کہ خدا ہر انسان کو خوف، بھوک، جانی ومالی نقصان، اور فوائد میں گھاٹے کے ذریعہ آزماتا ہے۔ ایسی حالت میں اُن لوگوں کے لیے بشارت ہے جو ان نقصانات پر صبر کریں اور یہ کہہ دیں کہ ہم خدا کے لیے ہیں اور ہم کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ نقصانات براہِ راست طورپر آسمان سے نازل ہوتے ہیں۔ بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے موجودہ دنیا کو امتحان کے مقصد سے بنایا ہے۔ اِس بنا پر انسان کو آزادی دی ہے۔ یہ انسانی آزادی طرح طرح کے مسائل پیدا کرتی ہے۔ اسی آزادی کی بنا پر ایک انسان کو دوسرے انسان سے تلخ تجربات پیش آتے ہیں۔ اِن تجربات کے دوران اپنے آپ کو مؤمنانہ حالت پر برقر ار رکھنا، یہی امتحان پر پورا اترنا ہے اور ایسے ہی لوگوں کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ اس امتحان میں بیش تر لوگ ناکام ہوجاتے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ پیش آنے والا ناخوش گوار تجربہ بظاہر کسی انسان کی طرف سے پیش آتا ہے۔ اِس ظاہری مشاہدے کی بنا پر آدمی اس کو کسی انسان کی طرف منسوب کردیتا ہے جس کی طرف سے اس کو یہ تجربہ پیش آیا تھا۔ اِس غلط انتساب کی بنا پر وہ اِس تجربے سے صرف غصہ وانتقام اور نفرت کی غذا لیتا ہے۔ وہ ساری عمر منفی نفسیات میں مبتلا رہتا ہے۔
اس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ آدمی پیش آنے والے ناپسندیدہ واقعے کو خدا کی طرف منسوب کرے۔ وہ اس کو خدا کے قائم کردہ تخلیقی نظام کا نتیجہ قرار دے۔ ایسا کرنے کی صورت میں آدمی منفی نفسیات کا شکار نہ ہوگا۔ وہ اس کو نظامِ فطرت کا نتیجہ سمجھ کر اس پر راضی رہے گا، اور اِسی راضی رہنے کا دوسرا نام صبر ہے۔
کوئی شخص راستہ چل رہا ہو اور اچانک بارش آجائے جس میں اولے ہوں تو وہ کبھی اس پر غصہ نہیں ہوگا بلکہ وہ فوراً کسی قریبی جگہ میں جاکر پناہ لے گا۔ لیکن اسی انسان کو اگر کوئی شخص پـتھر مار دے تو وہ فوراً غصہ، انتقام اور نفرت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ آدمی اولے کو خدا کی طرف سے سمجھتا ہے اور پـتھر کو انسان کی طرف سے۔ یہی فرق اِس طرح کے معاملے میں انسان کی نفسیات کو بدل دیتا ہے۔ وہ اولے کے معاملے میں مثبت رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے اور پتھر کے معاملے میں منفی رد عمل کا مظاہرہ۔
اِس مثال سے زندگی کے معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کامیاب اسلامی زندگی کا راز یہ ہے کہ آدمی ہر نقصان یا ہر ناخوش گوار تجربے کو خدا کی طرف سے سمجھے۔ ایسا سمجھنا اس کے اندر مثبت احساسات کی تعمیرکرے گا۔ وہ اس کو منفی نفسیات میں مبتلا ہونے سے بچائے گا۔ ایسے ہی لوگ خدا کے نزدیک صبر کرنے والے لوگ ہیں، یعنی خدا کے قائم کردہ نظام پر راضی رہنے والے۔ ایسے ہی انسان کو قرآن میں نفسِ مطمئنہ کہاگیا ہے، اور جنت انھیں لوگوں کے لیے مقدر ہے جونفس مطمئن کے ساتھ آخرت تک پہنچیں۔
ایک حدیثِ قدسی میں آیا ہے کہ: أنا عند المنکسرۃ قلوبہم۔ میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس رہتا ہوں۔ کون لوگ ہیں جو اِس ٹوٹے ہوئے دل کا شکار ہوتے ہیں— یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ مصیبتیں پیش آتی ہیں۔ جو نقصان اور محرومی کا تجربہ کرتے ہیں۔ جن کی زندگی غم میں گذرتی ہے۔ اِس صورت حال کی روشنی میںاِس حدیث پر اور غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ مصیبت اپنی حقیقت کے اعتبار سے مصیبت نہیں ہے بلکہ وہ ایک رحمت ہے۔ یہ زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کا معاملہ ہے۔
اِس پہلو سے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہ چیز جس کو فلاسفہ اور مفکرین خرابی کا مسئلہ (problem of evil) کہتے ہیں، وہ در اصل غلط تسمیہ (wrong nomenclature) کا معاملہ ہے۔ لوگ جس چیزکو خرابی کہتے ہیں وہ در اصل اِس لیے ہے تاکہ انسان سب سے بڑی حقیقت کا تجربہ کرے، یہ سب سے بڑی حقیقت عجز ہے۔ خدا کے مقابلے میں بندے کی حیثیت ایک عاجز مخلوق کی ہے۔ لیکن ہر آدمی کے چھپی ہوئی انا(ego) اس کو اپنے بارے میں دھوکے میں رکھتی ہے۔ مصیبت کا مقصد یہ ہے کہ آدمی انا کے فرضی خول سے باہر آئے اور اِس حقیقت کی دریافت کرے کہ وہ صرف ایک عاجز مخلوق ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
عجز کا یہی احساس انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ عجز کا احساس آدمی کو متواضع (modest) بناتا ہے۔ اس کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ پیدا ہوتی ہے۔ وہ مفروضات سے باہر آکر حقائق کا ادارک کرنے لگتا ہے۔ گویا کہ مصیبت ہی وہ چیز ہے جو اِس دنیا میں اعلیٰ انسانی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے۔ اعلیٰ انسانی شخصیت کی تعمیر کا دوسرا کوئی کورس یہاں موجود نہیں۔
انسانی زندگی کو سمجھنے کا اصل سرا یہ ہے کہ آدمی یہ جانے کہ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق‘ انسان کی پوزیشن موجود ہ دنیا میں کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی اِس دنیا میںامتحان کے لیے آباد کیاگیا ہے۔ اِس دنیا کی خوشی اور غم‘ کامیابی اور ناکامیابی‘ پانا اور کھونا‘ سب کچھ امتحان کے لیے ہے۔ یہاں طاقت ور آدمی بھی امتحان کی حالت میںہے، اور کمزور آدمی بھی امتحان کی حالت میں۔
اِس دنیا میں کامیابی کا راز یہ نہیں ہے کہ آدمی مادّی سازوسامان اپنے گرد اکھٹا کرلے۔ یہاں کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی کو امتحان کاجو پرچہ دیاگیا ہے اس پرچے کو حل کرنے میں وہ کامیاب ٹھہرے۔
یہ نظریہ آدمی کو حقیقت پسند بناتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر تواضع کی نفسیات پیدا کرتا ہے۔ وہ اس کو صبر و تحمل والا آدمی بنادیتا ہے۔ زندگی کا یہ نظریہ جس کے دل میں بیٹھ جائے وہ ہر قسم کی منفی نفسیات سے خالی ہوجائے گا۔ اس کا حال یہ ہوجائے گا کہ وہ دوسروں کے بارے میں سوچنے کے بجائے خود اپنے بارے میں سوچے۔ وہ دوسروں کی غلطیاں بتانے کے بجائے خود اپنی غلطی پر دھیان دینے لگے۔ فخر و غرورکی نفسیات کا اس کے اندر مکمل خاتمہ ہوجائے۔ سچائی کا اعتراف کرنے میںاس کے لیے کوئی چیز روک نہ بن سکے۔ وہ مصنوعی انسان کے بجائے ایک حقیقی انسان بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کس کے لیے

ایک تعلیم یافتہ غیر مسلم نے کہا کہ میں لوگوں کے درمیان اچھے اخلاق کے ساتھ رہتا ہوں، کبھی کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔ میری کوشش یہ رہتی ہے کہ میں اپنے سماج کا اچھا ممبر بنوں۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ موت کے بعد مجھ کو جنت ملے گی۔ جب میں ایک اچھا انسان ہوں تو خدا مجھے جہنم میں کیوں ڈال دے گا۔
میں نے کہا کہ صرف اچھے اخلاق کی بنا پر کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا۔ جنت کیا ہے، جنت دراصل خدا کے پڑوس کا نام ہے۔ خدا اپنے پڑوس میں صرف ان لوگوں کو رہنے کی جگہ دے گا جو خدائی اخلاقیات کے حامل ہوں، صرف سماجی اخلاقیات کی بنا پر کوئی شخص جنت میں داخلے کا مستحق نہیں بن سکتا۔
اصل یہ ہے کہ ایک اخلاق وہ ہے جو انسان بمقابلہ انسان (man versus man) کی نسبت سے پیداہوتا ہے، اور دوسرا اخلاق وہ ہے جو انسان بمقابلہ خدا (man versus God) کی نسبت سے پیدا ہوتا ہے۔ دونوں قسم کے اخلاق کا محرّک بالکل الگ الگ ہے۔ انسان کی نسبت سے جو اخلاق کسی کے اندر پیدا ہوتا ہے وہ دراصل سماجی اخلاق ہوتا ہے۔ اس کا محرّک یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے سماج کے اندر بے ضرر زندگی حاصل کرسکے۔ وہ لوگوں کی نظر میں اچھا بنا ہوا ہو۔ لوگ اس کو سماج کا اچھا ممبر سمجھیں۔
اس کے مقابلے میں خدا کی نسبت سے جو اخلاق پیدا ہوتا ہے اس کا سرچشمہ دراصل معرفتِ خداوندی ہوتا ہے۔ ایک آدمی جب اپنے خالق کو دریافت کرتا ہے ،تو یہ دریافت اس کے ذہن کو بالکل بدل دیتی ہے۔ اس کی ربّانی فطرت جاگ اٹھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندر وہ تمام صفات پیدا ہوجاتی ہیں جن کواعلیٰ انسانی اخلاق کہاجاتا ہے۔
انسان کی نسبت سے جواخلاقیات پیدا ہوتی ہیں وہ سماجی محرک کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے سماج سے رشتہ ٹوٹنے کے بعد ان کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ایسا اخلاق وقتی مقصد کے لیے ہوتا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ہی وہ ختم بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں خدا کی نسبت سے جو اخلاقیات پیدا ہوتی ہیں وہ ابدی محرک کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا رشتہ خدا کی ابدیت کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اِس لیے ایسا انسان اِس قابل ٹھیرتا ہے کہ وہ خدا کی ابدی جنت میں جگہ پائے۔
خدائی اخلاقیات دراصل خدا کی معرفت سے پیدا ہونے والے کردار کا نام ہے۔ مثلاً خدا خالق ہونے کی حیثیت سے اپنے بندوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ اس لیے ایسا انسان دوسرے انسانوں سے محبت کرنے لگتا ہے۔ خدا یوم الحساب کا جج ہے۔ یہ عقیدہ ایسے آدمی کے اندر شدید محاسبہ (accountability) کا احساس پیدا کردیتا ہے۔ وہ ہر ایسے قول یا فعل سے بچنے لگتا ہے جس میں یہ اندیشہ ہو کہ خدا اس کو پکڑے گا اور اس کو سخت سزا دے گا۔ ایسے انسان کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ دینے والا بھی خدا ہے اور چھیننے والا بھی خدا۔ یہ احساس اس کے اندر کبر کی نفسیات کو مکمل طورپر ختم کردیتا ہے۔ کسی انسان کو کم سمجھنا اس کے لیے ایک ایسی روش بن جاتی ہے جس کا وہ تحمل نہ کرسکے۔
پہلی قسم کے انسان کا اخلاق آزادانہ اخلاق ہوتا ہے، جب کہ دوسری قسم کے انسان کا اخلاق خدا کے ساتھ عبدیت کا تعلق قائم کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ پہلی قسم کے انسان کا اخلاق دُنیوی اخلاق ہوتا ہے، اور دوسری قسم کے انسان کا اخلاق جنّتی اخلاق۔ سماجی اخلاق ہمیشہ ایک حد پر پہنچ کر ختم ہوجاتا ہے۔ جب کہ خدائی اخلاق کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی کبھی اور کسی حال میں کوئی حد نہیں آتی۔
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور جنت کی قیمت خدا کی معرفت ہے۔ معرفتِ خداوندی سے کم تر درجے کی کوئی چیز جنت کی قیمت نہیں بن سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنت کی تصغیر ہے کہ معرفتِ اعلیٰ سے کم تر کسی چیز کو جنت کی قیمت سمجھا جائے۔
معرفت کیا ہے، معرفت (realization) دراصل خدا کی دریافت (discovery) کا نام ہے۔ یہ نہ دکھائی دینے والے خدا کو بصیرت کی آنکھ سے دیکھ لینا ہے۔ یہ اعلیٰ شعور کا ایک ایسا درجہ ہے جب کہ آدمی کے لیے خدا کے سوا ہر چیز غیر اہم بن جائے، جب کہ خدا کے سوا ہر چیز اپنی کشش کھودے۔ جب کہ خدا ہی انسان کا سب سے بڑا کنسرن (concern) بن جائے۔
یہ معرفت کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفت کے اوپر شبہات (doubts) کے ہزاروں پردے پڑے ہوئے ہیں۔ جو آدمی شبہات کے اِن پردوں کو پھاڑ سکے وہی اُس اعلیٰ یقین کے درجے تک پہنچتا ہے جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔ معرفت کے متلاشی کو بہر حال اس امتحان میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ جو آدمی شبہات کے پردے کو پھاڑنے کے اِس امتحان میں پورا اُترے وہی معرفتِ خداوندی کا تجربہ کرسکتا ہے۔
حصولِ معرفت کی حقیقی پہچان صرف ایک ہے، اور وہ داخلی ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی خدا کو اِس طرح پائے کہ وہ کامل طورپر اس کی فطرت کی آواز بن جائے۔ آدمی پیدائشی طورپر ایک متلاشی انسان ہے۔ آدمی پیدائشی طورپر حقیقتِ اعلیٰ کو دریافت کرنا چاہتا ہے۔ معرفت اسی تلاش کا جواب ہے۔ ایک بچّہ اپنی ماںکی تلاش میں ہو تو اپنی ماں کو پاکر وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اُس سے لپٹ جاتا ہے۔ یہی معاملہ صاحبِ معرفت کا ہے۔ جب کسی انسان کو حقیقی معنوں میں خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو وہ اس کو پانے کے بعد اِس طرح کامل طورپر اپنے خدا کے ساتھ جُڑ جاتا ہے جس طرح ایک چھوٹا بچہ اپنی ماں کے ساتھ۔
معرفت کے معاملے میں کوئی بھی عُذر (excuse) قابلِ قبول نہیں۔ جوآدمی موجودہ دنیا میں معرفت کے حصول میں اندھا ثابت ہو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ معرفت جب اپنے دلائل اور اپنی نشانیوں کے ساتھ سامنے آتی ہے تو کسی بینا انسان کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو نہ پہچانے۔ اس کے وجود میں چھپا ہوا احساسِ معرفت کافی ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو پہچاننے سے محروم نہ رہے۔
ایک بچے کی ماں غائب ہو اور پھر وہ اس کے سامنے آجائے تو یہ ناممکن ہوتا ہے کہ بچہ اپنی ماں کو پہچاننے میں ناکام رہ جائے۔ بچّے کے اندر ماں کی معرفت اتنی زیادہ قوی ہوتی ہے کہ اس کے لیے یہ ناممکن ہوجاتا ہے کہ اس کی ماں اس کے سامنے آجائے اور وہ اس کو پہچاننے سے قاصر رہے۔ اسی طرح جب دلائل اور نشانیوں کے ذریعے خدا کی معرفت کسی آدمی کے سامنے کھل جائے تو وہ اس کا تحمّل نہیں کرسکتا کہ وہ اس کو نہ پہچانے۔ جو بچہ اپنی ماں کو نہ پہچانے وہ بلا شبہہ اندھا ہے، وہ اپنی باہر کی آنکھ سے بھی محروم ہے اور اپنی اندر کی آنکھ سے بھی محروم۔
واپس اوپر جائیں

شناخت کا مسئلہ

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ ان سے میرے ساتھی نے CPS International کا تعارف کرایا اور کہا کہ اِس تنظیم کے تحت، ہم غیر مسلموں میں دعوت کا کام کررہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ میں نے الرسالہ میں اس کا ذِکر پڑھا ہے، مگر میں نے یہ بھی سُنا ہے کہ جو لوگ اسلام کو اپناتے ہیں آپ ان کا نام نہیں بدلتے۔ ان کو اسلامی لباس اور اسلامی وضع قطع اختیار کرنے کے لیے نہیں کہتے۔ ان کے قدیم تشخص کو بدل کر انھیں اسلامی تشخص پر لانے کی کوشش نہیں کرتے۔ آپ کا یہ طریقہ درست نہیں۔ ایسا آپ کیوں کررہے ہیں۔
میںنے کہا کہ مذکورہ تشخص(identity) نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ وہ ایک نقصان کی بات ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں کی آئی ڈنٹٹی کو بدل کر آپ یہ کرتے ہیں کہ ان کا دعوتی رول ختم کردیتے ہیں۔ اگر ایسا ہو کہ اس کا دل اسلام کی صداقت پر پوری طرح مطمئن ہو اور وہ اپنا نام نہ بدلے تو وہ اپنی سوسائٹی سے کٹتا نہیں۔ اِس طرح وہ اِس قابل رہتا ہے کہ وہ اپنی سوسائٹی کے لوگوں میں اسلام کی دعوت کو پھیلا سکے۔ لیکن جب وہ اپنا نام اور اپنا ظاہری تشخص بدل لے تو اچانک ہی وہ اپنی سوسائٹی سے کٹ جاتا ہے۔ اس کے بعد فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ وہ داعی کا رول ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
اِس معاملے میں قرآن کے اندر واضح رہنمائی موجود ہے۔قرآن کی سورہ نمبر ۴۰ میں حضرت موسیٰ کے ہم زمانہ مصری حکمراں فرعون کا ذکر ہے۔ حضرت موسی کی دعوت سننے کے بعد اس نے ارادہ کیاکہ وہ حضرت موسی کو قتل کردے۔ اس وقت فرعون کے دربار کے ایک ممبر نے مداخلت کی اور اس طرح بادشاہ کو قتل کے اِس ارادے سے روک دیا، اور حضرت موسی کو یہ موقع مل گیا کہ وہ حکومت کے تشدد سے محفوظ رہ کر اپنا پُرامن دعوتی کام جاری رکھ سکیں۔
دربارِ فرعون کے اس شخص کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وقال رجل مؤمن من آلِ فرعون یکتم ایمانہ (المؤمن: ۲۸) یعنی آلِ فرعون میں سے ایمان لانے والے ایک شخص نے کہا جو کہ اب تک اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا۔
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے شاہی حلقے کا ایک آدمی ایمان لاچکا تھا لیکن فرعون کو یا اس کے درباریوں کو اس کا کوئی علم نہ تھا۔ اِس شخص کا نام تفسیروں میںشمعان یا خبرک آیاہے ۔ سوال یہ ہے کہ اِس آدمی کو ایمان کا پیغام کیسے پہنچا۔ ظاہر ہے کہ وہ ہوا کے ذریعے نہیں پہنچا۔ یقینی طور پر وہ وقت کے پیغمبر حضرت موسیٰ کے ذریعہ پہنچا۔ اُس سے حضرت موسی کی ملاقات ہوئی۔ حضرت موسی نے اس کو حق کا پیغام پہنچایا اور پھر اس نے حضرت موسیٰ کے اوپر ایمان قبول کرلیا۔
یہاں واضح قرینے کے طورپر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس کے ایمان کو تو قبول کر لیا لیکن آپ نے اس کا نام نہیں بدلا۔ آپ نے اس کی وضع قطع نہیں بدلی، آپ نے اس کو اس کے سابقہ تشخص پر باقی رہنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آدمی ایک نازک موقع پر ایک بے حد اہم رول ادا کرسکا۔ حضرت موسیٰ پر ایمان لاتے ہی اگر اس کا نام بدل دیا جاتا اور اس سے کہا جاتا کہ تم اپنے قدیم تشخص کو چھوڑو اور موسی کے تشخص کو اختیار کرلو۔ اگر ایسا کیا جاتا تو مذکورہ رجُل مؤمن فوراً فرعون کے حلقے سے کٹ جاتا۔ اس کے بعد وہ اِس قابل نہ رہتا کہ وہ فرعون کے دربار میں وہ اہم رول اداکرسکتا جو اس نے قرآن کے بیان کے مطابق، بعد کو ادا کیا۔
اِس واقعے سے ایک عظیم پیغمبرانہ سنت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ داعی کا کام آدمی کے دل کوبدلنا ہے نہ کہ اس کے ظاہری تشخص کو بدلنا۔ اِس عظیم حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے موجودہ زمانے میں بڑے بڑے نقصانات ہوئے ہیں۔
بیسویں صدی میں بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے اسلام قبول کیا۔ مسلمانوں کی طرف سے کسی حقیقی دعوتی کوشش کے بغیر ان لوگوں نے قرآن کا مطالعہ کیا۔ ان کا دل اس پر مطمئن ہوگیا، اور پھر انھوں نے اسلام کو اپنا دین بنا لیا۔ ایسے افراد ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ اسلام قبول کرتے ہی ان کا دعوتی رول ختم ہوگیا۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد جب وہ مسلمانوں سے ملے تو مسلمانوں نے فوراً ان کا نام بدلوایا، اور ان کے لباس اور وضع قطع کو بدل کر انھیں موجودہ مسلم معاشرے کا ایک فرد بنا لیا۔ ایسا کرتے ہی ان کا مطلوب دعوتی رول ختم ہوگیا۔ اس نام نہاد اسلامائزیشن کے بعد مسلمان تو خوش ہوگیے لیکن اسلامی دعوت کا عمل آگے نہ بڑھ سکا۔
مثلاً ہندستان میں ایک تعلیم یافتہ بنگالی ڈاکٹر نِشی کانت چٹوپادھیانے ذاتی مطالعے کے تحت اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد فوراً مسلمانوں نے ان کانام بدل کر انھیں مسلم معاشرے کا ایک ممبر بنا لیا۔ وہ مشہور ہندو خاتون مسز سروجنی نائڈو کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بہت بڑا دعوتی کام کرسکتے تھے مگر ظاہری تشخص کو بدلنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مطلوب انداز میںاپنا دعوتی رول ادا کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ اِسی طرح ہنگری کے عبدالکریم جُرمانوس، آسٹریا کے محمد اسد، برطانیہ کے یوسف اسلام، امریکا کے حمزہ یوسف اور اِس طرح کے بہت سے لوگ ہیں جن کا انجام وہی ہوا جو ڈاکٹر نشی کانت کا ہوا۔ ان میں سے کوئی بھی ’’رجل مؤمن‘‘ کا رول ادا کرنے کے قابل نہ رہا۔ ہر ایک بس مسلم معاشرے کا ایک فرد بن کر رہ گیا۔
یہ انسانی نفسیات ہے کہ آدمی جب تک اپنا نام اور اپنا تشخص نہ بدلے وہ اپنی قوم کا ایک فرد شمار کیا جاتا ہے۔ وہ عقیدے یا نظریے کے معاملے میں الگ بات کہنے کے باوجود اپنی اِس حیثیت کو باقی رکھتا ہے کہ وہ جو کچھ کہے اس کو اس کی قوم کے افراد کسی توحّش کے بغیر سنیں۔ وہ اس کو اپنی ہی قوم کا ایک فرد سمجھ کر اس کی باتوں پر غور کریں۔ لیکن جب وہ اپنا نام اور اپنا تشخص بدل دے تو اس کے اور اس کی قوم کے درمیان ایک دوری قائم ہوجاتی ہے۔ وہ اس کو غیر کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس کی باتوں کو سننے کے لیے ان کے اندر آمادگی باقی نہیں رہتی۔ اِس لیے یہ روش سراسر غیر حکیمانہ ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی آدمی کا نام اور حلیہ بدل دیا جائے۔ کچھ نادان لوگ اِس سے خوش ہو سکتے ہیں لیکن خدا کے نزدیک وہ کوئی پسندیدہ بات نہیں، جیسا کہ آلِ فرعون کے ایک رجل مؤمن کی مثال سے واضح ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مقبول دعا

دعا آدمی کی پوری ہستی سے نکلتی ہے نہ کہ محض زبانی الفاظ سے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا سے مانگنے والا کبھی محروم نہیں ہوتا۔ مگر مانگناصرف کچھ لفظوں کو دہرانے کا نام نہیں ہے۔ مانگنا وہی مانگنا ہے جس میں آدمی کی پوری ہستی شامل ہوگئی ہو۔ ایک شخص زبان سے کہہ رہا ہو ’’خدایا! مجھے اپنا بنالے‘‘ مگر عملاً وہ اپنی ذات کا بنا رہے، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے مانگا ہی نہیں۔ اس کو جو چیز ملی ہوئی ہے، وہی دراصل اس نے خدا سے مانگی تھی۔ خواہ زبان سے اس نے جو لفظ بھی ادا کئے ہوں۔
ایک بچہ اپنی ماں سے روٹی مانگے تو یہ ممکن نہیں کہ ماں اس کے ہاتھ میں انگارہ رکھ دے۔ خدا اپنے بندوں پر تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ خدا سے خشیت مانگیں اور وہ آپ کو قساوت دے دے۔ آپ خدا کی یاد مانگیں اوروہ آپ کو خدا فراموشی میں مبتلا کردے۔ آپ آخرت کی تڑپ مانگیں اور خداآپ کو دنیا کی محبت میں ڈال دے۔ آپ کیفیت سے بھری ہوئی دین داری مانگیں اور خداآپ کو بے روح دین داری میں پڑا رہنے دے۔ آپ حق پرستی مانگیں اور خدا آپ کو شخصیت پرستی کی کوٹھری میں بند کردے۔
آپ کی زندگی میں آپ کی مطلوب چیز کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے ابھی تک اس کو مانگا ہی نہیں۔ اگر آپ کو دودھ خریدنا ہو اور آپ چھلنی لے کر بازار جائیں تو پیسے خرچ کرنے کے بعد بھی آپ خالی ہاتھ واپس آئیں گے۔ اسی طرح اگر آپ زبان سے دعا کے کلمات دہرارہے ہوں مگر آپ کی اصل ہستی کسی دوسری چیز کی طرف متوجہ ہو تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ نہ آپ نے مانگا تھا اور نہ آپ کو ملا۔ جو مانگے وہ کبھی پائے بغیر نہیں رہتا۔ یہ مالک کائنات کی غیرت کے خلاف ہے کہ وہ کسی بندے کو اس حال میں رہنے دے کہ قیامت میں جب خدا سے اس کا سامنا ہو تو وہ اپنے رب کو حسرت کی نظر سے دیکھے۔ وہ کہے کہ خدایا، میں نے تجھ سے ایک چیز مانگی تھی مگر تونے مجھے نہ دی۔ بخدا ،یہ ناممکن ہے۔ یہ ناممکن ہے۔ یہ ناممکن ہے۔ کائنات کا مالک تو ہر صبح وشام اپنے تمام خزانوں کے ساتھ آپ کے قریب آکر آواز دیتا ہے—’’کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اسے دوں‘‘ مگر جنھیں لینا ہے وہ اس سے غافل اور اندھے بنے ہوئے ہوں تو اس میں دینے والے کا کیا قصور۔
’’میرے لیے ایک بائیسکل خرید دیجئے‘‘ بیٹے نے باپ سے کہا۔ با پ کی آمدنی کم تھی۔ وہ بائیسکل خریدنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ اس نے ٹال دیا۔ لڑکا بار بار کہتا رہا اور باپ بار بار منع کرتا رہا۔ بالآخر ایک روز باپ نے ڈانٹ کر کہا ’’ میں نے کہہ دیا کہ میں بائیسکل نہیں خریدوں گا۔ اب آئندہ مجھ سے اس قسم کی بات مت کرنا‘‘۔
یہ سن کر لڑکے کی آنکھوں میںآنسو آگئے۔ وہ کچھ دیر چپ رہا۔ اس کے بعد روتے ہوئے بولا: ’’آپ ہی تو ہمارے باپ ہیں۔ پھر آپ سے نہ کہیں تو اور کس سے کہیں‘‘۔ اس جملے نے باپ کو تڑپا دیا۔ اچانک اس کا انداز بدل گیا۔ اس نے کہا: اچھا بیٹے اطمینان رکھو میںتمہارے لیے بائیسکل خریدوں گا، اور کل ہی خریدوں گا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ اگلے دن اس نے پیسے کا انتظام کرکے بیٹے کے لیے ایک نئی بائیسکل خرید دی۔
لڑکے نے بظاہر ایک لفظ کہا تھا۔ مگر یہ ایک ایسا لفظ تھا جس کی قیمت اس کی اپنی زندگی تھی، جس میں اس کی پوری ہستی شامل ہوگئی تھی۔ اس لفظ کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے سرپرست کے آگے بالکل خالی کردیا ہے۔ یہ لفظ بول کر اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے نقطے پر کھڑا کر دیا جہاں اس کی درخواست اس کے سرپرست کے لیے بھی اتنا ہی بڑا مسئلہ بن گئی جتنا کہ وہ خو د اس کے لیے تھی۔
اس واقعے سے سمجھا جاسکتا ہے کہ دعا کی وہ کون سی قسم ہے جس کے بعد خدا کی رحمتیں بندے کے اوپر امنڈ آتی ہیں۔ یہ رٹے ہوئے الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ نہ اس کا کوئی ’’نصاب‘‘ ہے۔ یہ دعا کی وہ قسم ہے جس میں بندہ اپنی پوری ہستی کو انڈیل دیتا ہے۔ جب بندے کی آنکھ سے عجز کا وہ قطرہ ٹپک پڑتا ہے جس کا تحمل زمین اور آسمان بھی نہ کرسکیں۔ جب بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیادہ شامل کردیتا ہے کہ ’’مانگنے والا‘‘ اور ’’دینے والا‘‘ دونوں ایک ترازو پر آجاتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب کہ دعا ،محض لغت کا ایک لفظ نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک شخصیت کے پھٹنے کی آواز ہوتا ہے۔ اس وقت خدا کی رحمتیں اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ بندگی اور خدائی دونوں ایک دوسرے سے راضی ہوجاتے ہیں۔ قادر مطلق ،عاجز مطلق کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔
حدیث میںآیا ہے کہ : لا یردّ القضاء إلا الدعاء (الترمذی، کتاب القدر، ابن ماجہ) یعنی قضا و قدر کے فیصلے کو صرف دعا بدل سکتی ہے۔ خدا نے اِس دنیا کا نظام اسباب و علل کی بنیاد پر قائم کیا ہے، اور پھر انسان کو مکمل آزادی دے دی ہے۔ اب انسان اپنی آزادی کے مطابق، عمل کرتا ہے اور خدا کے قائم کردہ نظام اسباب و علل سے مطابقت یا مخالفت کی بنیاد پر اس کا اچھا یا برُا نتیجہ اس کے سامنے آتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظام بالکل حتمی ہے۔ کوئی آدمی خواہ مخلص ہو یا غیر مخلص اُس کو بہر حال اِس نظام کو بھُگتنا ہے۔ کسی بھی شخص کے لیے اِس نظام کو منسوخ نہیں کیا جاتا۔
اِس معاملے میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ دعا کا ہے۔ کوئی آدمی جب سچی دعا کرتا ہے اور اُس وقت اگر خدا اس کی دعا قبول کرلیتا ہے تو وہ اسباب کے نظام میں مداخلت کرکے اس کا راستہ ہموار کردیتا ہے۔ یہی مطلب ہے اِس بات کا کہ دعا، قضا وقدر کو بدل دیتی ہے۔
لیکن دعا الفاظ کی تکرار کا نام نہیں ہے۔ حتی کہ قرآنی دعائیں یا ماثور دعائیں بھی اگر صرف رَٹے ہوئے الفاظ کی تکرار ہوں تو وہ بھی مؤثر نہیں ہوسکتیں۔ نظامِ قضا کو بدلنے کے لیے وہ دعا درکار ہے جو دل کو پھاڑ کر کی جاتی ہے۔ جو دل کی پھٹن کی آواز ہوتی ہے۔ جس میںآدمی کی پوری شخصیت شامل ہوجاتی ہے۔
اِس قسم کی دعا کی قبولیت کی ایک اور شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والے کا ذہنی تزکیہ اتنا زیادہ ہوچکا ہو کہ اس کی سوچ خدا کی سوچ بن جائے۔ ایسا آدمی وہی دعا کرے گا جو خدا کے نزدیک قابلِ قبول ہوتی ہے۔ اس کی زبان سے ایسی دعا نہیں نکلے گی جو خدا کی سنّت کے مطابق، قابلِ قبول ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جذبات کو ٹھیس پہنچنا

موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں ایک نئی اصطلاح ظہور میں آئی ہے۔ وہ ہے جذبات کو ٹھیس پہنچنا۔ اکثرایسا ہوتا ہے کہ کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو مسلمانوں کے قومی جذبات کے خلاف ہوتا ہے۔ ایسے موقعے پر مسلمان بھڑک اٹھتے ہیں‘ اور مظاہرہ اور تشدد کی کارروائی کرنے لگتے ہیں۔ مسلم دانش ور یہ کہہ کر اس کو جائز بتاتے ہیں کہ اس واقعے سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور جب ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی تو فطری طورپر وہ مشتعل ہوجائیں گے۔ اور مظاہرے کریں گے‘ خواہ وہ تشدد تک پہنچ جائے۔
یہ دلیل بلا شبہہ غیر اسلامی ہے۔ مسلمان اگر اِس قسم کے پُر شور مظاہرے اپنے قومی جذبات کے اظہار کے نام پر کریں تو اِس پر کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ لیکن مسلمان اِس قسم کے پر شور مظاہروں کو اسلامی حمیت اور اسلامی غیرت کے نام پر کرتے ہیں۔ اِس بنا پر وہ ایک غلط فعل قرار پاتا ہے۔ کیوں کہ اس معاملے میں اسلام کی تعلیم سراسر اِس کے خلاف ہے۔
قرآن کی واضح تعلیم کے مطابق‘ یہ خود مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ جہاں تک دوسروں کی اشتعال انگیزی کا تعلق ہے تو اس پر مسلمانوں کے لیے صبر اور اعراض کا حکم ہے‘ نہ کہ بھڑک کر اس کے خلاف ہنگامہ آرائی کرنا۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کی دو آیتوں کا مطالعہ کیجئے۔ اِن دونوں آیتوں کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
پہلی آیت
’’اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں تم ان کو گالی نہ دو‘ ورنہ یہ لوگ حد سے گذر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے۔ اِسی طرح ہم نے ہر گروہ کی نظر میں اس کے عمل کو خوش نُما بنا دیا ہے۔ پھر اُن سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ اُس وقت اللہ انھیں بتا دے گا جو وہ کرتے تھے‘‘۔ (الانعام : ۱۵۹)
دوسری آیت
’’جب انکار کرنے والوں نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی‘ جاہلیت کی حمیت۔ پھر اللہ نے اپنی طرف سے سکینت نازل فرمائی اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر‘ اور اللہ نے ان کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔ اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے‘‘۔ (الفتح: ۲۶)
پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس سے بچائیں کہ وہ دوسروں کے معبودوں یا اُن کے مقدس شعائروں کو بُرا بھلا کہیں اور اس کے نتیجے میں ایسا ہو کہ وہ ردّ عمل کا شکار ہوجائیں اور جواب میں مسلمانوں کے دین اور شعائر کو بُرا بھلا کہنے لگیں۔ اس آیت میں واضح طورپر مسلمانوں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ اُنھیں اپنے جذبات پر کٹرول کرنا ہے۔ انھیں ایسی کوئی بات لکھنا یا بولنا نہیں ہے جو دوسروں کے لیے اشتعال انگیز ثابت ہو‘اور جس کا نتیجہ یہ ہو کہ وہ بھڑک اٹھیں اور مسلمانوں کے دین کے خلاف منفی باتیں بولنے لگیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کو اس سے روکا گیا ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائیں۔
دوسری آیت صلح حُدیبیہ کے موقع کی ہے۔ اس موقع پر فریقِ مخالف نے سخت اشتعال انگیز باتیں کیں‘ مثلاً انھوں نے معاہدے کی تحریر میں رسول اللہ کے لفظ پر سخت اعتراض کیا اور رسول اور اصحابِ رسول کو معاہدے کی تحریر سے اس کو مٹانے پر مجبور کیا‘ وغیرہ۔ اِن باتوں سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی تھی۔ لیکن خدا کی تعلیم کے مطابق‘ اُنھوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔ مذکورہ آیت کے مطابق‘ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خود اپنے آپ کو ایمان اور تقویٰ کی روش پر قائم رکھیں۔ یہ کوئی صحیح بات نہیں ہے کہ مسلمان دوسروں سے یہ مطالبہ کریں کہ تم ہمارے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچاؤ۔ یہی اسلام کا اصول ہے اور یہی عقل کا تقاضا بھی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میںایسی تعلیم کیوں دی گئی ہے جو بظاہر نابرابری کی تعلیم معلوم ہوتی ہے۔ یعنی مسلمانوں کو مشتعل ہونے سے روکنا‘ اور دوسروں کی اشتعال انگیزی پر مسلمانوں کو صبر اور اعراض کی تلقین کرنا‘ یک طرفہ اخلاقیات کا یہ اصول اسلام میں کیوں رکھا گیا ہے۔ اس کا جواب قرآن کی دوسری آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔
قرآن میں باربار یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم صبر کی روش اختیار کرو۔ تم صبر سے مدد لو (استعینوا بالصبر) اسی طرح فرمایا کہ تم ان کی ایذارسانی سے اعراض کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ (دع اذا ہم وتوکّل علی اللہ)۔ قرآن میں اِس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں جو یہ تعلیم دیتی ہیں کہ اہلِ اسلام فریقِ مخالف کے مقابلے میں ردّعمل کا طریقہ اختیار نہ کریں، وہ یک طرفہ طورپر اپنے آپ کو صبر وتحمل کی روش پر قائم رکھیں۔
اِس یک طرفہ اخلاقیات کی معنویت قرآن کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتی ہے۔ فرمایا کہ: وترجون من اللہ مالا یرجون (النساء : ۱۰۴) یعنی صابرانہ روش کی اہمیت فریقِ مخالف کو معلوم نہیں۔ کیوں کہ وہ موجودہ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس‘ تمہارا معاملہ یہ ہے کہ تم آخرت پر عقیدہ رکھتے ہو۔ تم کو یقین ہے کہ تمھاری صابرانہ روش کا انعام بے حساب مقدار میں آخرت میں ملے گا (إنما یُوفّی الصابرون أجرہم بغیر حساب)
یہ معاملہ کوئی پُراسرار معاملہ نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ اہلِ اسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عالمی مشن دیا گیا ہے۔ اِسی عالمی مشن کی ادائیگی پر اُن سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ مشن‘ دعوت الی اللہ ہے۔ اِس دعوتی عمل کے لیے طرفین کے درمیان معتدل تعلقات ناگزیر طورپر ضروری ہیں۔ دونوں کے درمیان معتدل تعلقات کے بغیر دعوت کا عمل مؤثر طورپر جاری نہیں رہ سکتا۔
یک طرفہ طورپر صابرانہ روش کی حکمت یہی ہے۔ صابرانہ روش کے ذریعہ ہی یہ ممکن ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان نارمل تعلقات قائم ہوں‘ اور مسلمان وہ دعوتی عمل انجام دے سکیں جس کی انجام دہی پر مسلمانوں کے لیے دنیا میںکامیابی اور آخرت میں جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ انجام صرف اہلِ ایمان کے لیے مقدّر کیاگیا ہے۔ اس لیے اہلِ ایمان ہی کو یہ کرنا ہے کہ وہ فریقین کے درمیان نارمل تعلقات کو برقرار رکھنے کی ذمّے داری لیں۔ تاکہ وہ اللہ کے وعدے کے مطابق‘ بطور نتیجہ‘ عظیم خدائی انعامات سے بہرہ ور ہوسکیں۔
یہاں جس دوطرفہ روش کا ذکر کیاگیا وہ کوئی سادہ بات نہیں‘ یہ دراصل بامقصد انسان کا طریقہ ہے۔ بامقصد انسان یہ کرتا ہے کہ وہ اپنی روش کا تعین دوسروں کی روش کو دیکھ کر بطور ردّ عمل نہیں کرتا‘ اس کے بجائے اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی ناپسندیدہ باتوں سے غیر متاثر رہ کر یہ سوچتا ہے کہ اس کے مقصد کے اعتبار سے اس کے لیے صحیح روش کیا ہے۔ وہ کون سی روش ہے جو اس کے مستقبل کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ سوچ بامقصد انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ محض جذباتی اشتعال کے تحت کوئی اقدام نہ کرے بلکہ سوچے فیصلے کے تحت‘ اپنے عمل کا تعین کرے۔ اِسی کا نام منصوبہ بند عمل ہے‘ اور منصوبہ بند عمل با مقصد انسان کی ایک لازمی صفت ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ جذباتی رد عمل ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتا ہے اور منصوبہ بند عمل ہمیشہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ جذباتی رد عمل میں آدمی کا رہنما اس کے منفی احساسات ہوجاتے ہیں۔ اِس کے برعکس‘ منصوبہ بند عمل میں اس کا رہنما اس کا مثبت ذہن ہوتا ہے۔ اِس فرق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں میں سے ایک تخریب کاری کا عمل بن جاتا ہے اور دوسرا مکمل معنوں میں تعمیر کاری کا عمل۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں جن سے آدمی کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ لیکن حقیقت پسندانہ بات یہ ہے کہ آدمی ایسے واقعات کو نظر انداز کرے۔ وہ اپنے آپ کو اپنے جذبات کے بجائے اپنی عقل کے تابع بنائے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ جذبات کی پیروی کرنے والا ہمیشہ ناکام ہوتا ہے۔ اور عقل کی پیروی کرنے والا ہمیشہ کامیاب رہتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ٹیم کی اہمیت

اقبال (وفات ۱۹۳۸ء) نے اپنی آخری عمر میں کہا تھا :
سُرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
اقبال اپنے آپ کو دانائے راز سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے مشن کو آئندہ جاری رکھنے کے لیے ضرورت ہے کہ اقبال کی طرح ایک اور دانائے راز پیدا ہو۔ مگر یہ ایک خیالی بات ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق نہیں۔ فطرت کے قانون کے مطابق، کوئی تخلیقی انسان ایک ہی بار پیدا ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں سعودی عرب میں تھا۔ شیوخ کی ایک مجلس تھی۔ اس میں ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ نے عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر اور دعوت کا جو کام شروع کیا ہے وہ بہت قابلِ قدر ہے۔ لیکن آپ کے بعد اس کام کو کون جاری رکھے گا۔ ایک اور عرب شیخ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: وحیدالدین لا یکون إلا وحیداً(یعنی وحید الدین صرف ایک ہی ہوتا ہے) یہی بات اقبال اور اِس قسم کے دوسرے لوگوںکے لیے درست ہے۔
اِس دنیا میں کسی مشن کو جاری رکھنے کا فطری طریقہ یہ نہیں ہے کہ اقبال کے بعد ایک اور اقبال پیدا ہو۔ اِس قسم کی سوچ قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ اِس دنیا میں صحیح طریقہ وہ ہے جس کو سورہ صف کی آخری آیت میں بتایا گیا ہے۔ یعنی اپنی زندگی میںایک ایسی ٹیم تیار کرنا جو آدمی کے بعد اس کے مشن کے تسلسل کو جاری رکھ سکے۔ اِس ٹیم کو حضرت مسیح کے یہاں حواری کہاگیا ہے اور پیغمبر اسلام کے یہاں انصار۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دونوں مثالوں میں دراصل صاحبِ مشن کی تیار کی ہوئی ٹیم تھی جس نے ان کے بعد ان کے مشن کو زندہ رکھا۔
میں خدا کی توفیق سے یہی کام کررہا ہوں۔میں نے اِس غیر عملی فارمولے کو اختیار نہیں کیا کہ ایک دانائے راز کے بعد دوسرے دانائے رازکا فرضی خواب دیکھوں۔ میںنے مسلسل جدوجہد کے ذریعے ایک ٹیم تیار کرنے کی کوشش کی۔ جو میرے بعدالرسالہ مشن کو آئندہ جاری رکھے۔ یہ ٹیم اللہ کے فضل سے تقریباً تیار ہوچکی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ٹیم میرے بعد مزید متحرک ہو کر حواریین اور انصاراللہ کی تاریخ کو زندہ کرے گی اور الرسالہ مشن کو ساری دنیا میں پہنچا دے گی۔
انصار اللہ جیسی ٹیم کو بنانا بلا شبہہ ممکن ہے۔ البتہ اس کو بنانے کے لیے ایک قیمت درکار ہے۔ وہ قیمت یہ ہے کہ ٹیم کو بنانے والا اپنے آپ کو قربانی کی اعلیٰ سطح پر پہنچائے۔ وہ اِس محرومی پَر راضی ہو کہ اس کو عوامی مقبولیت نہ ملے۔ اس کی زندگی میں اس کے گِرد بھیڑ اکھٹا نہ ہو۔ وہ دنیا میں شہرت اور ترقی کے مواقع کو رد کرکے ٹیم بنانے میں پوری طرح لگارہے۔
ٹیم بنانے کا یہ کام افراد سازی کا کام ہے۔ یہ کام اِس طرح نہیں ہوسکتا کہ عوام کی بھیڑ اکھٹا کرکے اسٹیج سے اس کے سامنے تقریریں کی جائیں۔ یہ طریقہ ٹیم بنانے کے لیے بالکل غیر مفید ہے۔ ٹیم بنانے کا کام فرد فرد کو مخاطب کرکے ہوتا ہے۔ ایک ایک فرد سے محبت کرنا، ایک ایک فرد کے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کرنا، ایک ایک فرد پر لگاتار ذہنی تعمیر کی کوشش کرنا، ایک ایک فرد کو نشانہ بنا کر خاموش جدوجہد کرنا۔ اِس طرح کا کام بلاشبہہ ایک مشکل ترین قربانی کا طالب ہے ۔ مگر اِس قربانی کے ذریعے ہی کوئی ٹیم تیار ہوتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ یہ فطرت کا ایک نظام ہے کہ کچھ لوگ پیدا ہوتے ہیں، پھر وہ جوان ہوتے ہیں اور پھر بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر وہ مرجاتے ہیں۔ اِس طرح نسل درنسل یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ نظام اِس لیے ہے کہ پچھلی نسل کا تجربہ اگلی نسل کے لوگوں تک پہنچتا رہے۔ زیادہ عمر کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ صرف اپنی اولاد کے لیے زندہ نہ رہیں بلکہ وسیع تر معنوں میں وہ انسانیت کے لیے زندہ رہیں۔ وہ انسانیت کے خیر خواہ بن کر لوگوں کو اپنے علم اور اپنے تجربے کا سرمایہ منتقل کرتے رہیں۔ دوسری طرف نئی نسل کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ بے جا خود اعتمادی میں مبتلا نہ ہوں بلکہ پچھلے لوگوں سے زندگی کا درس لے کر اپنے سفرِ حیات کو زیادہ با معنٰی بنائیں۔
رواں دریامیں یہی عمل فطری قانون کے تحت ہوتا ہے۔ رواں دریا میں ہر لمحہ پہاڑیوں کی بلندی سے نیا پانی آتا ہے۔ پُرانا پانی بہہ کر آگے چلا جاتا ہے اور نیا پانی آکر اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہ روانی مسلسل جاری رہتی ہے۔ اس لیے دریا کا پانی ٹھیرے ہوئے پانی کی طرح خراب نہیں ہوتا ۔ یہی عمل شعوری طورپر انسانی نسل کے اندر انجام پانا ہے۔ دریا میں یہ عمل فطری قانون کے تحت خود بخود انجام پاتا ہے۔ انسانی زندگی میں یہ عمل شعوری منصوبہ بندی کے تحت انجام پائے گا۔
قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں ایک آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور یہ ممکن نہ تھا کہ اہلِ ایمان سب کے سب نکل کھڑے ہوں۔ تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کر آتا، تاکہ وہ دین میں گہری سمجھ پیدا کرتا، اور واپس جاکر اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتا، تاکہ وہ بھی پر ہیز کرنے والے بنتے۔‘‘ (التوبہ ۱۲۲)
قرآن کی اِس آیت سے پیغمبرانہ عمل کی ایک حکمت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ ہر مشن کی ایک کورٹیم (core team)ہوتی ہے۔ یہی کورٹیم بعد میںمشن کو لے کر آگے بڑھتی ہے۔ عوام کی بھیڑ یہ کورٹیم نہیں بناتی۔ کورٹیم بنانے کی صورت صرف یہ ہے کہ کچھ افراد کو منتخب کرکے ان کے اوپر خصوصی محنت کی جائے۔ ان کی فکری تطہیر کرکے انھیں تیار کیا جائے۔
یہی لوگ ہیں جو بعد کو تربیت یافتہ گروپ کا درجہ حاصل کریں گے اور کام کو آگے بڑھائیں گے۔ میں اللہ کے فضل سے سی پی ایس کی ٹیم کی صورت میں یہی کام کررہا ہوں۔
واپس اوپر جائیں

سی پی ایس انٹرنیشنل (CPS International)

دعوت حق کی تاریخ میں دوگروپ کے لیے دو بڑا رول مقدرتھا۔ ایک وہ گروپ جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ جس کے لیے حدیث میں اخوانِ رسول کے الفاظ آئے ہیں۔ اصحابِ رسول نے اپنا رول ساتویں صدی عیسوی میں پوری طرح ادا کردیا، اخوانِ رسول کا رول باقی ہے جس کو بعد کے زمانے میں انجام پانا ہے۔ اصحابِ رسول نے اپنا رول روایتی دور میں انجام دیا تھا۔ اخوانِ رسول اپنا رول سائنسی دور میں انجام دیں گے—سی پی ایس کی ٹیم اسی دوسرے رول کے لیے امیدوار گروپ کی حیثیت رکھتی ہے۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اب وہ وقت پوری طرح آچکا ہے جب کہ دوسرے دَور کا دعوتی رول عالمی سطح پر انجام دیا جائے۔ تمام قرائن اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ کسی بھی سنجیدہ انسان کے لیے اِس حقیقت کو سمجھنا کچھ بھی مشکل کام نہیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل ایک خالص غیر سیاسی تنظیم ہے۔ کسی بھی مادّی یا قومی اشو سے اس کا کوئی تعلق نہیں، نہ براہِ راست طور پر اور نہ بالواسطہ طورپر۔ سی پی ایس کا واحد کنسرن یہ ہے کہ تمام انسانوں کو اُن کے حقیقی مقصدِ حیات سے باخبر کیا جائے۔ سی پی ایس کا نشانہ ہے—سائنسی دَور میں خدائی سچائی کا اعلانِ عام:
Proclamation of divine truth in modern scientific age.
انسانی تاریخ دو دوروں میں تقسیم ہے۔ ابتدائی زمانے سے لے کر پندرہویں صدی تک، سولھویں صدی سے لے کر موجودہ زمانے تک۔ (۱) پہلا زمانہ وہ ہے جب کہ دنیا میں توہّم پرستی (superstition) کا غلبہ تھا۔ (۲) دوسرے زمانے میں ساری دنیا میں سائنسی فکر کا غلبہ ہوگیا ہے۔پہلے دور کو قبل سائنس دَور (pre-scientific age) کہا جاسکتا ہے۔ اور دوسرے دَور کو عام طور پر بعدسائنس دَ ور (post-scientific age) کہا جاتا ہے۔
قبل سائنس دور میں انسان کو سب سے زیادہ بڑی چیز وہ دکھائی دیتی تھی جس کو مظاہر فطرت کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس زمانے کے انسان نے ہر اُس چیز کو معبود سمجھ کر اس کو پوجنا شروع کردیا جو بظاہر بڑی اورنمایاں دکھائی دیتی تھی۔ مثلاً چاند، سورج، ستارے، پہاڑ اور دریا، وغیرہ۔یہی وہ زمانہ ہے جب کہ ساری دنیامیں بت پرستی رائج ہوئی۔ اس زمانے میں بُت، انسان کے لیے توحید کا مدّ مقابل بن گیے۔
ابراہیم بن آزر خدا کے ایک پیغمبر تھے۔ وہ چار ہزار سال پہلے عراق میں ظاہر ہوئے۔یہ زمانہ وہی تھا جس کو توہم پرستی کا زمانہ کہاجاتا ہے۔ اس زمانے میں تمام لوگ سورج، چاند اور ستارے جیسی نمایاں چیزوں کو معبود سمجھ کر ان کو پوجنے لگے تھے۔ قرآن (ابراہیم ۴) کے بیان کے مطابق، پیغمبر نے اُس دَور کے انسانوں کے بارے میں یہ تبصرہ کیا تھا: ربّ إنہنّ أضللن کثیراً من الناس(اے میرے رب، انھوں نے بہت سے لوگوں کو بھٹکا دیا) یعنی لوگوں نے ان مظاہرِ فطرت کی ظاہری چمک کو دیکھ کر انھیں معبود سمجھ لیا۔
پچھلے ہزاروں سال کے دَوران خدا نے بہت سے پیغمبر بھیجے۔ ان پیغمبروں کا مشترک مشن یہ تھا کہ وہ انسانوں کو مظاہر فطرت کی پرستش سے نکالیں اور اُن کو حقیقی خدا جو صرف ایک ہے، اس کا پرستار بنائیں۔ مگر انسان مظاہر پرستی کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوا۔ چھٹی صدی عیسوی کے آخر تک یہی صورت حال باقی رہی۔
آخر کار پیغمبرِ اسلام محمد بن عبد اللہ پیدا ہوئے۔ ۶۱۰ عیسوی میں خدا نے ان کو اپنا پیغمبر بنایا۔ ان کو یہ مشن سپرد کیا گیا کہ وہ خدا کی خصوصی مددسے قدیم بت پرستی کے دور کا خاتمہ کردیں۔آپ کے اِس مشن کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے: ’’وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو تمام دین پر غالب کردے۔ اور اللہ گواہی کے لیے کافی ہے‘‘۔ (الفتح: ۲۸)
اِس آیت میں جس غلبہ (اظہار) کا ذکر ہے اس سے مراد فکری غلبہ ہے، یعنی دینِ شرک کو دلیل کی طاقت سے محروم کردینا اور دینِ توحید کو دلیل کی طاقت سے قائم کردینا۔ اس کام کو پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے پوری طرح انجام دے دیا یہاں تک کہ قدیم دور کا خاتمہ ہوگیا اور شرک ایک غالب تہذیب کی حیثیت سے باقی نہ رہا۔
مابعد سائنس دور میں حالات بالکل بدل گیے ہیں۔ سائنس کے بطن سے جدید صنعتی دَورپیدا ہوا۔ اِس صنعتی دور نے بے شمار قسم کے دل کش سامان حیات پیدا کیے۔ ان سامانوں کو حاصل کرنے کے لیے مال کی ضرورت تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موجودہ زمانے میں پہلی بار مال کی اہمیت ہمیشہ سے زیادہ ہوگئی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو پیغمبر اسلام نے اِس طرح بیان کیا ہے: لکلّ أمۃ فتنۃ و فتنۃ امتی المال (الترمذی، کتاب الزہد،مسند احمد) یعنی ہر امت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ یہاں امت سے مراد امت کا زمانہ ہے ۔ یعنی میری امت کے زمانے میں مال سب سے زیادہ فتنے کا سبب بن جائے گا۔
شرک یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی اور چیز کو عظیم سمجھ کر اس کو اپنا سب سے بڑا کنسرن (concern) بنا لیا جائے۔ پچھلے زمانے میں مظاہر فطرت سب سے بڑی چیز دکھائی دیتے تھے اس لیے انسان مظاہرِ فطرت کو سب سے بڑی چیز سمجھ کر ان کو پوجتا رہا۔ اب دَور سائنس میں مظاہرِ فطرت کی الہیاتی عظمت ختم ہوگئی ہے۔ اب نیے حالات نے مال کو سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ بڑی چیز بنا دیا ہے۔ چنانچہ اب بت پرستی (Idol worship) کی جگہ دولت پرستی (money worship) نے لے لی ہے۔ اِس نیے دور کو دوسرے الفاظ میں مادیت(materialism) کہا جاتا ہے۔
مذاہب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر مذہب میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ بعد کے زمانے میں ایک نیا دورِ انقلاب آئے گا جب کہ خدائی سچائی ازسرِ نو ظاہر اور غالب ہوجائے گی۔یہ اظہار یا غلبہ فکری اعتبار سے ہوگا نہ کہ سیاسی اور معجزاتی اعتبار سے۔
مذاہب میں دورِ آخر کے جس انقلاب کی پیشین گئی کی گئی ہے اس سے مراد سائنسی دَور کا انقلاب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنسی دور میں ایک تحریک اٹھے گی جو خدائی سچائی کو نیے حقائق کی روشنی میں ازسرِ نو مُبَرہن کردے گی۔ اس سے مراد کسی قسم کا سیاسی یا مادّی غلبہ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ نظری دلائل کا زور دوبارہ خدائی سچائی کے حق میں ہوجائے گا۔ نیے حالات میں خدائی سچائی دوبارہ ایک ثابت شدہ سچائی بن جائے گی۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ قدیم زمانے میں اگر مظاہر شرک، توحید کا مدّ مقابل بنے ہوئے تھے تو اب دورِ حاضر میں مال کو توحید کے مدّ مقابل کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ پچھلے زمانے میں یہ ہوا کہ توحید کے حق میں دلائل فراہم کیے گیے اور مظاہرِ فطرت کی پرستش کو دلائل کے ذریعے رد کردیا گیا۔ اب بعد کے زمانے میں یہ ہوگا کہ توحید کو وقت کے دلائل کے ذریعے مدلّل کیا جائے گا اور مال پر مبنی مادّی تہذیب وقت کے دلائل کے ذریعے غلط قرار پاجائے گی۔
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں: وددتُ انّا قدرأینا إخواننا، قالوا اولسنا اخوانک یا رسول اللہ۔ قال أنتم أصحابی وأخواننا الذین لم یأتو بعد۔(صحیح مسلم ، کتاب الطہارۃ، جلد ۳، صفحہ ۱۳۸) یعنی میری خواہش ہے کہ ہم اپنے اخوان کو دیکھیں۔ انھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے اخوان نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم میرے اصحاب ہو، اور ہمارے اخوان وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔
اِس حدیث میں دو خاص گروہوں کا ذکر ہے— اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول۔ اصحابِ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جو پیغمبر اسلام کے ہم عصر ساتھی تھے۔ جنھوں نے آپ کے ساتھ مل کر دور اول میں خدائی سچائی کا اعلان اور اظہار کیا۔ اور اخوان رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جو آپ کے بعد آنے والے زمانے میں اٹھیں گے اور اُس وقت خدائی سچائی کا اعلان اور اظہار کریں گے۔ اصحابِ رسول کا تعلق قبل سائنس دور سے ہے اور اخوانِ رسول کا تعلق بعد سائنس دور سے۔
سی پی ایس انٹرنیشنل کی تحریک اسی بعد کے زمانے میں انجام پانے والے کام کے لیے اٹھی ہے۔ سی پی ایس کے لوگ گویا کہ اُس گروہ میں شمولیت کے امیدوار ہیں جس کو مذکورہ حدیث میں اخوانِ رسول کہاگیا ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا مشن بعدسائنس دور میں خدائی سچائی کے اُس مطلوب اظہار کے لیے اٹھا ہے جس کا ذکر پچھلی تمام مذہبی کتابوں میں کیا گیا تھا۔
اخوان رسول کی پہچان کیاہوگی۔ اخوان رسول کی سب سے زیادہ واضح پہچان یہ ہوگی کہ وہ بعدکے زمانے میں ٹھیک وہی کام انجام دیں گے جو اس سے پہلے اصحاب رسول نے اپنے زمانے میں انجام دیا تھا۔ دونوں گروہوں کے درمیان زمانی فرق تو ضرور ہوگا لیکن دونوں کے درمیان کام کے اعتبار سے کوئی فرق نہ ہوگا۔
یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ اصحاب رسول نے اپنے زمانے میں جو کام انجام دیا وہ دعوت الی اللہ کا کام ہے۔ اس کام کو قرآن میں خدا کی طرف سے گواہی دینا کہاگیا ہے۔ قرآن میں اصحاب رسول کے لئے شہداء علی الناس (الحج : ۷۸) کے الفاظ آئے ہیں۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ: انتم شہداء اللہ فی الارض (البخاری، کتاب الجنائز)
مطالعہ بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر بہت سی سیاسی اور غیر سیاسی تحریکیں اٹھیں لیکن خالص دعوت الی اللہ کے لیے اصحاب رسول کے بعد اُن کے اندر کوئی بھی تحریک نہیں اٹھی۔ بعد کے زمانے میں ایسے لوگ تو پائے جاتے ہیں جنھوںنے دعوت اور تبلیغ کا لفظ استعمال کیا لیکن ان کے یہاں دعوت کا کوئی حقیقی تصور نہ تھا اور نہ انھوں نے عملی اعتبار سے وہ کام کیا جس کو قرآن میں دعوت الی اللہ کہا گیا ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے میں دعوت (غیر مسلموں میں تبلیغ) کا تصور شعوری طورپر حذف ہوگیا۔ حتی کہ مسلمانوں کی داخلی اصلاح کے کام کو دعوت کا کام سمجھا جانے لگا۔حالانکہ مسلمانوں میںکئے جانے والے کام کمیونٹی ورک ہیں نہ کہ دعوہ ورک۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سی پی ایس کی ٹیم اصحاب رسول کے بعد بننے والی پہلی ٹیم ہے جو خالص دعوت الی اللہ کے لیے اٹھی ہے۔ سی پی ایس بعد کی تاریخ میں بننے والی پہلی ٹیم ہے جو مکمل طورپر دعوتی لٹریچر کی بنیاد پر اٹھی ہے۔ جس کی ذہنی تربیت یا فکری تشکیل خالص دعوتی لٹریچر کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ سی پی ایس کی ٹیم ایک ایسی تحریک کے نتیجے میں بنی ہے جس تحریک میں پہلی بار قرآن کی دعوتی تفسیر تیار ہوئی۔ جس میں پہلی بارحدیث کی دعوتی شرح لکھی گئی۔ جس میں پہلی بار پیغمبر اسلام کی دعوتی سیرت مرتب ہوئی۔ جس میں پہلی باراصحاب رسول کے دعوتی رول کو نمایاں کیاگیا۔ جس میں پہلی بار یہ بتایا گیا کہ اسلام کی سب سے بڑی طاقت اس کی دعوت ہے۔ جس میں پہلی بار وقت کے فکر ی مُستویٰ کے مطابق، اسلامی لٹریچر تیار کیا گیا۔جس میں پہلی بار جدید سائنسی تحقیقات سے مدلل کرتے ہوئے دعوتی اسلوب پر علم کلام تیار کیا گیا۔ جس میں پہلی بار اس حقیقت کا انکشاف کیاگیا کہ جدید دور اپنے تمام اجزاء کے ساتھ موافقِ دعوت دور ہے۔ جس میں پہلی بار یہ انکشاف کیا گیا کہ غیر مسلم قومیں مسلمانوں کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ دشمن یا حریف کی حیثیت نہیں رکھتیں۔جس میں پہلی بار یہ تصور پیش کیاگیا کہ غیر مسلم ممالک ہمارے لیے دارالدعوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس میں پہلی بار یہ بتایا گیا کہ امتِ مسلمہ کی اصل ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہر قوم اور ہر زبان میں دعوت الی اللہ کے کام کو آخری حد تک انجام دے ۔ جس میں پہلی بار یہ بتایا گیا کہ مسلمانوں کے تمام ملّی مسائل کا حل غیر مسلموں کے اوپر دعوتی ذمے داری کو انجام دینا ہے، کسی بھی دوسری تدبیر سے ان کے ملی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
اصحابِ رسول کی حیثیت ایک دعوتی ٹیم کی تھی۔ یہ ٹیم ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کے نتیجے میں بنی۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب کہ ہاجرہ اور اسماعیل کو خدا کے حکم سے صحرا میں بسا دیا گیا۔ اصحاب رسول دراصل اِسی ڈھائی ہزار سالہ تاریخی پراسس کاculmination تھے۔ یہ بات قرآن میں اشارے کے طورپر اور حدیث میں تفصیل کے ساتھ موجودہے۔ مگر اصحابِ رسول کے بارے میں اس تاریخی منصوبہ بندی سے تمام تحریکیں بے خبر رہیں۔ اسلام کے بعد کی تاریخ میں بننے والے لٹریچر میں کہیں بھی اس کی نشاندہی نہیں ملتی۔ سی پی ایس کی پشت پر پیدا ہونے والا لٹریچر ہی وہ پہلا لٹریچر ہے جس نے اصحابِ رسول کے متعلق، اس تاریخی منصوبۂ خداوندی کی حقیقت کو نمایاں کیا اور سی پی ایس کی ٹیم کی ذہنی تشکیل کے لیے پہلی بار ایک تاریخی پس منظر فراہم کیا۔
جس طرح اصحاب رسول ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کے نتیجے میں بنے تھے۔ سی پی ایس کی ٹیم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اصحابِ رسول کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل(process) شروع ہوا۔ اسی عمل کا کلمنیشن (culmination) سی پی ایس کی ٹیم ہے۔ اصحابِ رسول کے دعوتی عمل کے نتیجے میں جو انقلاب آیا اور اس کے نتیجے میں فکری ارتقا کاجو عمل شروع ہوا وہ سب اس لٹریچر میں پایا جاتا ہے جو سی پی ایس کی ٹیم کے وجود میں آنے کی بنیاد بنا۔ گویا اصحابِ رسول اگر قدیم زمانے میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کا کلمنیشن(culmination) تھے تو سی پی ایس کی ٹیم بعد کے تقریباً ڈیڑھ ہزار سالہ عمل کا کلمنیشن ہے۔ اصحابِ رسول کے بعد بننے والی طویل تاریخ کے تمام مثبت عناصر سی پی ایس کی ٹیم میں جمع ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اس کو یہ حیثیت ملی ہے کہ وہ دور حاضر میں اخوانِ رسول کا رول کرسکے۔
ساتویں صدی عیسویں میں اصحابِ رسول کا جو گروہ بنا تھا وہ کسی قسم کے کرشمے کے ذریعے نہیں بنا تھا۔ اصحابِ رسول در اصل اعلیٰ ذہنی ارتقاء کا نتیجہ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن پر پچھلی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی تھی۔ وہ قبل سائنس دور کی تمام بہترین روایات کے امین تھے۔ وہ اُس اعلیٰ خدائی منصوبے کا اظہار تھے جو حضرت ابراہیم سے شروع ہوا اور حضرت محمد پر ختم ہوا۔
یہی معاملہ اخوانِ رسول کا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن پر ظہور ِ محمدی کے بعد بننے والی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی ہو۔ جن کی شخصیت کی تعمیر دورِ سائنس کے تمام بہترین اجزاء کے ذریعے ہوئی ہو۔جو دینِ حق کے سائنسی اظہار کے نمائندہ بن گیے ہوں۔ ایسے ہی لوگ اخوانِ رسول کا درجہ پانے کے مستحق ٹھیریں گے۔
اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول دونوں میں ایک بات مشترک ہے۔ اور وہ معرفت (realization) ہے۔ اصحابِ رسول کا دین گہرے شعورِ معرفت کے اوپر قائم تھا۔ اسی طرح اخوانِ رسول کا دین بھی گہرے شعورِ معرفت کے اوپر قائم ہوگا۔ گہرے شعورِ معرفت سے مراد ہے سچائی کی ذاتی دریافت، وہ دریافت جو آدمی پر تمام حقیقتوں کے دروازے کھول دے۔ کائنات کا ہر جز جس کے لیے اس کی معرفت کی تصدیق بن جائے۔
خدا کو یہ مطلوب ہے کہ معرفت کی سطح پر خدا کے دین کا اظہار کیا جائے۔قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس اظہار حق کے دو دور ہیں۔ پہلا دور وہ تھا جب کہ حق کا اظہار سادہ فطری منطق (natural logic) کی بنیاد پر کیاگیا۔ اس کا بیان قرآن میں اِس طرح ملتا ہے:
’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش میںاور رات اور دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میںغور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا‘‘۔ (آل عمران ۹۴ــ ۹۵)
یہ معرفتِ حق کی وہ سطح ہے جب کہ آدمی تخلیق کی سادہ سطح پر مطالعہ کرکے خالق کو پالیتا ہے۔ وہ کائنات کے سادہ مطالعے کے ذریعے خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) کو دریافت کرلیتا ہے۔ وہ فطرت کی سادہ سطح پر تخلیق کی معنویت کو جان لیتا ہے۔ اور اپنے آپ کو خدا کے حوالے کرکے زندگی گزارنے لگتا ہے۔
معرفت حق کی دوسری سطح وہ ہے جو قرآن کے مطابق، بعد کے زمانے میں ظاہر ہونے والی تھی۔ اس لیے اس کو استقبال کے صیغے میں بیان کیا گیا۔ زمانۂ نزولِ قرآن کے لحاظ سے یہ ایک مستقبل کی بات تھی لیکن اب وہ حال کی بات ہوچکی ہے۔ یہ تاریخی حقیقت قرآن کے درج ذیل بیان سے واضح ہوتی ہے:
’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے‘‘۔ (حٰم السجدہ ۵۳)
قرآن کی اس آیت میں جس واقعے کا ذکر کیاگیا ہے اس کو دوسرے لفظوں میں تاریخِ دعوت کا دوسرا مرحلہ کہا جاسکتا ہے۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسرا مرحلہ وہی ہے جس کو عام طورپر سائنسی انقلاب (scientific revolution) کہاجاتا ہے۔ پہلے دور میں فطری مشاہدے کی سطح پر انسان نے تخلیقِ خداوندی کو دیکھا تھا اور اس سے معرفت کی روشنی حاصل کی تھی۔ دوسرے مرحلے میں دور بینی اور خورد بینی مشاہدے کے ذریعے وہ تخلیقِ خداوندی کے گہرے رازوں کو دریافت کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پہلے دور میںفطرت کے فریم ورک (natural framework) میں خدا کی معرفت حاصل کی گئی۔ دوسرے مرحلے میں انسان اس قابل ہوجائے گا کہ وہ سائنسی فریم ورک(scientific framework) کے ذریعے خدا کی گہری اور برتر معرفت حاصل کرسکے۔ معرفتِ حق کے اِن دو اَدوار کو حدیث میں ایک تمثیل کی صورت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا: مثل امتی مثل المطر لایدری اولہ خیر ام آخرہ ( الترمذی، کتاب الأدب، مسند احمد، جلد ۳،صفحہ ۱۳۰)
یعنی میری امت کی مثال بارش جیسی ہے۔ نہیں معلوم کہ اس کا پہلا حصہ زیادہ اچھا ہوگا یا اس کا دوسرا حصہ ۔اس حدیث میں دراصل تاریخِ معرفت کے مذکورہ دونوں دوروں کو بتایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصحاب ایمان پہلے دور میں فطرت کے فریم ورک میں حق کی معرفت حاصل کریں گے اور دوسرے دور کے اہلِ ایمان کو یہ موقع حاصل ہوجائے گا کہ وہ سائنس کے فریم ورک یا علم انسانی کے فریم ورک میں حق کی معرفت حاصل کریں اور دوسروں کے سامنے اس کو پیش کریں۔ ان دونوں دوروں میںایسے لوگ اٹھیں گے جو اپنے زمانے کے اعتبار سے حق کا اظہار کریں گے۔
پہلے زمانے کے لوگ فطری فریم ورک کے ذریعے یہ کام انجام دیں گے اور دوسرے زمانے کے لوگ انسانی علم کے فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے اظہار حق کے اس کام کو انجام دیں گے، یعنی جدید اصطلاح کے مطابق، سائنٹفک فریم ورک کے ذریعے— حدیث میں پہلے دور کے گروہ کو اصحاب رسول کہاگیا ہے اور دوسرے دور کے گرو ہ کے لیے اخوان رسول کے الفاظ آئے ہیں۔
اصحاب رسول اور اخوانِ رسول کا زمانہ اگر چہ دو مختلف زمانہ ہوگا لیکن دونوں کا رول پوری طرح یکساں ہوگا، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ اصحابِ رسول نے اپنا رول روایتی دو رمیں انجام دیا تھا اور اخوانِ رسول اپنا رول سائنسی دور میں انجام دیں گے۔
اصحابِ رسول کا خصوصی رول کیا تھا، اس کو بتانے کے لیے قرآن میںیہ الفاظ آئے ہیں: وکذلک جعلناکم امّۃً وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیداً۔ (البقرہ ۱۴۳) یعنی اور اِس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔اِسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: أنتم شہداء اللہ فی الأرض (البخاری، کتاب الجنائز) یعنی تم زمین پر خدا کے گواہ ہو۔
اِس کے مطابق، اصحابِ رسول کی حیثیت ایک درمیانی گروہ (middle group) کی ہے۔ انھوںنے یہ کیا کہ انسانیت کے نام خدا کا پیغام رسول سے لیا اور اس کو دوسرے انسانوں تک بے کم وکاست پہنچا یا۔ اب اخوانِ رسول کی حیثیت بھی ایک درمیانی گروہ کی ہوگی۔ رسول کے ذریعے ملنے والا پیغام جو قرآن اور سنت کی شکل میں محفوظ ہے، اس کو بے کم و کاست لینا اور بعد کے زمانے کی انسانی نسلوں تک اس کو پہنچانا۔ اِس معاملے میںاصحابِ رسول اور اخوانِ رسول کے درمیان اصلاً لسان (ابراہیم ۴) کا فرق ہوگا۔ اصحابِ رسول نے اپنے زمانے کے اسلوب اور زبان میںیہ دعوتی کام انجام دیا تھا۔ اسی طرح اخوانِ رسول اپنے زمانے کے عصری اسلوب میں اِس دعوتی کام کو انجام دیں گے۔
بعد کے زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکوں میں صرف سی پی ایس انٹرنیشنل وہ تحریک یا گروپ ہے جو استثنائی طورپر اِس معیار پر پوری اترتی ہے۔ قرآن اور حدیث کی صراحت کے مطابق، اصحابِ رسول کی امتیازی صفت یہ تھی کہ وہ پورے معنوں میں ایک داعی گروہ بنے۔ مگر بعد کو بننے والے گروہوں میںکسی بھی گروہ کو حقیقی معنوں میں داعی گروہ کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔
دعوت کیا ہے۔ دعوت سے مراد وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں شہادت اور انذار وتبشیر کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی خدا کے تخلیقی نقشے سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ دعوت کا لفظ قرآن میں صرف غیر مسلموں میں خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے آیا ہے۔ کوئی شخص مسلمانوں میں کام کرے تو اس کو اصلاح اور تذکیر کہاجائے گا۔ ایسے کام کو دعوت اور تبلیغ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں جب اسلامی علوم کی تدوین ہوئی تو اس میں دعوت اور تبلیغ کا باب حذف ہوگیا۔ چنانچہ پچھلے ہزار سال میں لکھی جانے والی کتابوں میں سے کسی بھی کتاب میں غیر مسلموں میں دعوتی ذمے داری ادا کرنے کے پہلو سے اس کا ذکر موجود نہیں۔ ایسا کیوں ہوا۔ غالباً اس کا سبب یہ تھا کہ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان اپنے دورِ حکمرانی میں پہنچ گیے۔ اس کے بعد سیاست اور حکومت یا اس سے متعلق ابواب ہی ان کی توجہ کا مرکز بن گیے۔ یہاںتک کہ یہ ذہن اتنا عام ہوا کہ اب دوسرے ملّی مقاصد پر تحریکیں اٹھائی جاتی ہیں اوراس کو دعوت و تبلیغ کی تحریک سمجھ لیا جاتا ہے۔
یہ بات بڑی عجیب ہے کہ بعد کے زمانے میں تیار ہونے والے اسلامی لٹریچر میں دعوت کا تصور حذف ہوگیا۔ تاہم یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کے پیچھے ایک معلوم سبب کام کررہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ عباسی دَور میں جب فقہ کی تدوین عمل میں آئی، اُس وقت مسلمان دنیا کے بڑے حصے میں سیاسی حاکم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اُس زمانے میں مسلمانوں کا سیاسی امپائر قائم تھا۔
جب بھی اِس قسم کا کوئی سیاسی امپائر قائم ہوتا ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ دوسری قوموں سے اس کی رقابت (rivalry) قائم ہوجاتی ہے۔ بار بار دونوں کے درمیان چھوٹی یا بڑی لڑائیاں پیش آتی رہتی ہیں۔ اِس سیاسی پس منظر میں حالات کے تقاضے کے تحت، ایسا ہوا کہ فقہاء کے ذہن میں شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ تقسیم قائم ہوگئی کہ جس علاقے میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہے وہ علاقہ دارالاسلام ہے، اور جس علاقے میں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں وہ علاقہ دارالحرب ہے۔
فقہ کی کتابوں میں بالکل محدّد انداز میں دارالحرب کی تعریف نہیں ملتی۔ تاہم عمومی طورپر یہ کہاجاسکتا ہے کہ دارلحرب سے مراد وہ ملک ہے جس سے مسلمان یا تو عملاً بر سرِ جنگ ہوں یا وہ اُس ملک سے امکانی طورپر برسرِ جنگ (potentially at war) ہوں۔ یہی وہ ذہن ہے جس نے مسلمانوں کے عوام اور خواص کے ذہن سے دعوت کا تصور حذف کردیا۔ اب وہ غیر مسلموں کو حریف اور رقیب کی نظر سے دیکھنے لگے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، مسلم اور غیر مسلم کے درمیان داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ اِس تعلق کو قرآن میں شاہد اور مشہود (البروج ۳) کے الفاظ میںبیان کیا گیا ہے۔ لیکن غیرمسلم علاقے کو دارالحرب قرار دینے کا یہ فطری نتیجہ تھا کہ اُن علاقوں میں بسنے والے لوگ، مدعو کا درجہ نہ پاسکے۔
پچھلے ہزار سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت تیار ہونے والے لٹریچر میں بتایا گیا کہ غیر مسلم ہمارے لیے مدعو اور تمام غیر مسلم علاقے اسلامی نقطۂ نظر سے دارالدعوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پچھلے ہزار سال کے دوران مختلف زبانوں میں جو اسلامی کتابیں لکھی گئیں وہ اِس تصوّر سے پوری طرح خالی ہیں۔
تاہم جہاں تک دعوتی عمل (Dawah Process) کا تعلق ہے، وہ ہر زمانے میں خاموش طور پر جاری رہا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر طالبِ حق پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر حق کا متلاشی ہے۔ دوسری طرف قرآن استثنائی طورپر ایک محفوظ خدائی کلام کی حیثیت سے دنیا میں موجود ہے، چنانچہ فطرت اور کلامِ الٰہی کے باہمی تعامل کی بنا پر دعوت کا عمل خود اپنے زور پر ہمیشہ جاری رہا، اور اسی طرح وہ ہمیشہ جاری رہے گا۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کا پہلا خطاب ہمیشہ اپنے ہم عصر خواص سے ہوتا ہے۔ اِن خواص کے لیے قرآن میں مَلائِ قوم (الاعراف ۶۰)کا لفظ آیا ہے۔ اِس پیغمبرانہ نمونے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں میں دعوت کا عمل کس طرح کیا جائے۔ اس کا طریقہ ہمیشہ یہ ہوگا کہ غیر مسلم قوم کے خواص کو اپنا اوّلین مخاطب بنایا جائے گا۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ بالواسطہ طورپر اس کے مخاطب بنتے چلے جائیں گے۔ یہی پیغمبرانہ طریقہ ہے۔ اِس کے بجائے عوام سے دعوت کے کام کا آغاز کرنا پیغمبرانہ نمونے سے انحراف کے ہم معنیٰ ہے۔
اِس ترتیب کی ایک خاص حکمت ہے۔ وہ یہ کہ خواص اپنے علم اور اپنے ذہنی مرتبے کے اعتبار سے اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ اعلیٰ حقائق کو سمجھ سکیں۔ اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ جب داعی، خواص کی نسبت سے اسلام کو پیش کرتا ہے تو اپنے آپ اسلام کی ترجمانی اعلیٰ سطح پر ہونے لگتی ہے۔ اب اسلام اپنی برتر سطح پر لوگوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور لوگوں کے لیے اعلیٰ سطح کے ایمان اور معرفت کے حصول کا سبب بنتا ہے۔
اِس کے برعکس، جب داعی نچلی سطح کے لوگوں کو اپنا مخاطب بنائے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ داعی کا طرزِ خطاب بدل جاتا ہے۔ اب اسلام کی نمائندگی نچلی سطح پر ہونے لگتی ہے۔ مثلاً اگر خواص آپ کے مخاطب ہوں تو آپ کہیں گے کہ اسلام کا آغاز سچائی کی دریافت (discovery) سے ہوتا ہے۔اِس کے برعکس، اگر آپ نچلی سطح کے لوگوں کو اپنا مخاطب بنائیں تو وہاں آپ کاطرزِ خطاب بدل جائے گا۔ اب آپ یہ کریں گے کہ ان کو کلمہ پڑھوائیں گے اور کلمہ کے الفاظ کی صحیح تلفظ کے ساتھ ادائیگی کے بعد یہ سمجھ لیں گے کہ آپ نے دعوت کا کام انجام دے دیا ۔
وہ چیز جس کو بدعت کہا جاتا ہے وہ زیادہ تراسی کا نتیجہ ہے۔ بدعت دراصل کم تر سطح پر اسلام کے اظہار کا نتیجہ ہوتی ہے۔ عرب اور برصغیر ہند میں فر ق کا یہی سبب ہے۔ عرب میں دعوت کا آغاز خواصِ قوم سے کیا گیا۔ چنانچہ وہاں بدعات کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ اِس کے برعکس، برصغیر ہند میں صوفیاء نے عوام کو اپنا نشانہ بنایا۔ اسی کا براہِ راست نتیجہ وہ دینی خرابی ہے جس کو بدعت کہا جاتا ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں دعوت الی اللہ کا تصور ہی لوگوں کے ذہن سے حذف ہوگیا ۔ چنانچہ قرآن کی کوئی بھی تفسیر دعوتی انداز پر نہیں لکھی گئی۔ حدیث کی شرحوں میں سے کوئی بھی شرح دعوتی انداز پر لکھی جانے والی شرح نہیں ہے۔فقہ کو دیکھیے تو وہ بھی مکمل طورپر دعوت کے ابواب سے خالی ہے۔ علمِ کلام کی تدوین بھی دعوت کے انداز پر نہ کی جاسکی۔ پچھلی صدیوں میں جو بڑی بڑی کتابیں لکھی گئیں مثلاً الغزالی کی احیاء علوم الدین، ابن قیّم کی اعلام الموقعین، شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغۃ، اقبال کی تشکیل جدید الہیاتِ اسلامیہ(Reconstruction of Religious Thought in Islam) وغیرہ، کسی بھی کتاب کا موضوعِ بحث دعوت الی اللہ نہیں ہے۔
اسلامی لٹریچر کی تاریخ کا یہ منفی پہلو بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں امت کے اندر وہ دعوتی فکر ہی نہیں بنا جس کی زمین پر حقیقی معنوں میں کوئی دعوتی تحریک اٹھے اور اس کے ذریعے کوئی دعوتی گر وپ بنے۔ بعد کی تاریخ میں سی پی ایس انٹرنیشنل واحد تحریک ہے جو خالص دعوت الی اللہ کے اصول پر اٹھی اور پھر اس کی زمین پر خالص دعوتی مقاصد کے لیے ایک گروپ بن کر تیار ہوا جس کو سی پی ایس کی ٹیم کہا جاتا ہے۔
اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول کا معاملہ ایک تقابلی مثال سے بخوبی طورپر واضح ہوجاتا ہے۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کا تعلق افریقہ میں مسلم فتوحات سے ہے۔
عُقبہ بن نافع تابعی ۶۲۱عیسوی میں پیدا ہوئے اور ۶۸۳میں ان کی وفات ہوئی۔ وہ پیغمبر اسلام کے آخری زمانے میں پیدا ہوئے لیکن آپ سے ان کی ملاقات نہ ہوسکی۔
عقبہ بن نافع تابعی یزید بن معاویہ کے دَور خلافت میں افریقہ کی مسلم فوجوں کے سپہ سالار تھے۔ وہ مغربی افریقہ کے ملکوں کو فتح کرتے ہوئے اٹلانٹک کے ساحل تک پہنچ گیے۔ شہرِ اَسفیٰ ان کی آخری منزل تھی۔ وہاں انھوں نے اپنا گھوڑا سمندر میں ڈال دیا اور اس کے پانی میںکھڑے ہو کر کہا:
اللہم إنی لو أعلم وراء ہٰذا البحر بلداً لخضتہ إلیہ حتی لا یعبد أحد دونک (خدایا، اگر میں جانتا کہ اس سمندر کے اُس پار بھی کوئی ملک ہے تو میں سمندر میں گھس کر وہاں جاتا۔ یہاں تک کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔)
جیسا کہ معلوم ہے، افریقی ساحل کے دوسری طرف امریکا ہے۔ دونوں کے درمیان اٹلانٹک کا وسیع سمندر حال ہے۔ عقبہ بن نافع کے زمانے میں امریکا دریافت نہیں ہوا تھا۔ وہ بعد کو دریافت ہوا چنانچہ اس کو نئی دنیا کہا جاتا ہے۔
اِس واقعے کو علامتی طور پرلے کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے گروہ نے ’’قدیم دنیا‘‘ میں اپنا دعوتی رول ادا کیا تھا، اب کمیونکیشن کے نیے دَور میں دوسرے گروہ کو ’’نئی دنیا‘‘ کے درمیان اپنا دعوتی رول ادا کرنا ہے۔ پہلے گروہ نے روایتی دور میںاپنا دعوتی رول ادا کیا تھا اب دوسرا گروہ سائنسی دور میں اپنا دعوتی رول ادا کرے گا۔ پہلے گروہ نے زمین کے مخصوص حصّے میںاپنادعوتی رول انجام دیا تھا۔ اب دوسرا گروہ زمین کے پورے حصے میں اپنا دعوتی رول انجام دے گا۔ پہلے گروہ نے قدیم اسلوب میںاپنا دعوتی رول انجام دیا تھا، اب دوسرا گروہ جدید اسلوب میں اپنا دعوتی رول انجام دے گا، وغیرہ۔
سی پی ایس انٹرنیشنل کے نام سے موجودہ دعوتی کام جنوری ۲۰۰۱ کو دہلی میں شروع ہوا۔ لیکن اِس تنظیم کے صدر نے اِس دعوتی کام کو اِس سے بہت پہلے ۱۹۵۰ میں اعظم گڑھ (یو۔پی) میں ادارۂ اشاعتِ اسلام کے نام سے شروع کیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ کام مسلسل بلا انقطاع جاری رہا۔ ۱۹۷۰ میں اِسی مقصد کے لیے اسلامی مرکز (نئی دہلی) کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۹۷۶ میں اس نے الرسالہ مشن کی صورت اختیار کی۔ سی پی ایس انٹر نیشنل (۲۰۰۱) اسی کام کی تکمیلی صورت ہے۔ لمبی مدّت کے بعد اب خداکے فضل سے ساری دنیا میں یہ آواز پہنچ چکی ہے۔ اور اسی کے ساتھ اس کی ایک طاقت ور ٹیم بن چکی ہے جس کو ہم سی پی ایس ٹیم کہتے ہیں۔
ماضی اور حال کے تمام قرائن تقریباً یقینی طورپر بتاتے ہیں کہ سی پی ایس کی ٹیم ہی وہ ٹیم ہے جس کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے اس کو اخوانِ رسول کا لقب دیا تھا۔ اصحابِ رسول کوئی عجیب الخِلقت لوگ نہ تھے بلکہ وہ عام انسانوں کی طرح انسان تھے۔ اِسی طرح اخوانِ رسول بھی کوئی عجیب الخِلقت لوگ نہ ہوں گے بلکہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح انسان ہوں گے۔ ان کی پہچان یہ نہ ہوگی کہ وہ انوکھے جسم والے ہوں گے یا یہ کہ وہ کرامتیں دکھائیں گے۔ ان کی پہچان صرف یہ ہوگی کہ وہ دعوتِ حق کے اُس ربّانی مقصد کے لیے کھڑے ہوں گے جس پر رسول اور اصحابِ رسول کھڑے ہوئے تھے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے د رمیان بہت سی تحریکیں اٹھیں ہیں مگر وہ اخوانِ رسول کا درجہ نہیں پاسکتیں۔ اس لیے کہ اخوانِ رسول کا درجہ صرف وہ لوگ پاسکتے ہیں جو ما أنا علیہ وأصحابی کا مصداق ہوں۔ موجودہ زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکیں ردّ عمل کی تحریکیں تھیں، ان میں سے کوئی بھی تحریک ایسی نہیں جس کا یہ کیس ہو کہ اس کے رہنما نے ردّ عمل کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو کر قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا، اور پھر خالص مثبت بنیادوں پر اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ خصوصیت صرف سی پی ایس انٹرنیشنل کی تحریک میں پائی جاتی ہے۔
تاریخ میں اہلِ حق کے لیے جو بڑے بڑے امکانات رکھے گیے تھے، اب وہ سب امکانات ختم ہو چکے ہیں— پیغمبروں کا ساتھ دینا، مسیح کا حواری بننا، پیغمبرِ آخر الزماں کے اصحاب میں شامل ہونا۔ اب صرف ایک بڑا درجہ باقی رہ گیا ہے، یہ درجہ اخوانِ رسول کے گروپ کا حصہ بننا ہے۔ اس کے بعد جو چیز ہے وہ تاریخ کا خاتمہ(end of history) ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تاریخ کا آخری مبارک موقع ہے۔ جس نے اِس موقع کو پالیا اس نے سب کچھ پالیا۔ اور جس نے اس موقع کو کھودیا اس نے سب کچھ کھودیا۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی تناؤ کا مسئلہ

آج کل ساری دنیا میں ایک نئی انڈسٹری وجود میں آئی ہے۔ اس کو ڈی اسٹرسنگ (de-stressing) کہاجاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک ہر ملک میں ایسے ادارے قائم ہوئے ہیں، اور ایسے ماہرین پیدا ہوئے ہیں جو لوگوں کے ذہنی تناؤ یا اسٹریس کو ختم کرنے کا کام بطور پروفیشن کررہے ہیں۔ یہ دَور جدید کا ایک کامیاب پروفیشن بن چکا ہے، اور ساری دنیا میں کروروں لوگ اِس سے وابستہ ہیں۔
ذہنی تناؤ یا اسٹریس کیا ہے، یہ دراصل خواہش اور واقعے کے درمیان پیدا ہونے والے بُعد (gap) کے نتیجے کانام ہے۔ یعنی آدمی جو کچھ چاہتا ہے، اور جو کچھ اس کو ملا ہوا ہے دونوں کے درمیان یکسانیت نہ ہونا۔ آدمی چاہتا ہے کہ اس کو اپنی خواہش کے مطابق، تمام چیزیں مل جائیں ۔ لیکن عملاً ایسا ہوتا ہے کہ اس کو جو چیز ملتی ہے وہ اس کی خواہش سے بہت کم ہوتی ہے۔ اِس سے آدمی کے اندر محرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اِسی احساسِ محرومی کا دوسرانام ذہنی تناؤ یا اسٹریس ہے۔
یہ تناؤ یا اسٹریس موجودہ زمانے کا ایک ظاہرہ ہے۔ قدیم زمانے میں انسان عام طورپر خوش رہتا تھا پھر کیوں ایسا ہوا کہ موجودہ زمانے میں وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوگیا۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جب سائنس کا ظہور ہوا اور جدید صنعت اور ٹکنالوجی کے ذریعے بہت سی ایسی نئی چیزیں ظہور میں آئیں جن کا انسان نے پہلے تصور نہیں کیا تھا۔ مثلاً قدیم کہانیوں میںاُڑن کھٹولہ ایک خیالی سواری کے طور پر بتایا جاتا تھا۔ اب ہوائی جہازکی صورت میں ہر آدمی کے لیے مشینی اڑن کھٹولے پر بیٹھنا ممکن ہوگیا، وغیرہ۔
جدید صنعتی دَور کے ظہور کے بعد انسان یہ سمجھنے لگا کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب کہ وہ اپنی تمام خواہشوں کو مکمل طورپر پورا کرسکے۔ چنانچہ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ کمانے کے لیے دوڑنے لگا۔ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ سامانِ حیات اکھٹا کرنے میں لگ گیا۔ مگر سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی اس کی خواہشیں پوری نہ ہوسکیں۔اب بھی اس کے لیے بورڈم کا سوال باقی تھا۔ بیماری، حادثہ اور موت جیسے مسائل بدستور اس کی پریشانی کے لیے موجود تھے۔ یہ احساس اب بھی اس کو ستارہا تھا کہ واقعات اس کے کنٹرول میںنہیں ہیں۔ اس کی ہر خواہش صرف جُزئی طورپر پوری ہورہی تھی، کُلّی طورپر نہیں۔
اس کا سبب یہ تھا کہ انسان فطری طورپر لامحدود خواہشیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن وہ دنیا جس کے اندر وہ اپنی زندگی گذارتاہے وہ صرف ایک محدود دنیا ہے۔ انسان پیدائشی طورپر ایک معیار پسند (perfectionist) مخلوق ہے، لیکن یہ دنیا جس کے اندر وہ اپنی زندگی گذارتا ہے وہ ایک غیر معیاری دنیا ہے۔ طلب اور واقعے کے درمیان یہی فرق ہے جو ذہنی تناؤ کا سبب بنتا ہے۔ اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے حقیقت کا اعتراف۔
اصل یہ ہے کہ خالق نے موجودہ دنیا کو صرف مقام امتحان کے طور پر بنایا ہے۔ اس بنا پر موجودہ دنیا کی ہر چیز محدود ہے، وہ اعلیٰ معیار سے کم ہے۔ کوئی بھی صنعتی ترقی محدود خواہشوں کو پورا نہیں کرسکتی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ انسان اپنی خواہش کے اعتبار سے کامل ہے، لیکن موجودہ دنیا ایک غیر کامل دنیا ہے۔ انسان سب کچھ چاہتا ہے لیکن اس کو صرف کچھ ملتا ہے۔ محرومی کی یہی صورت حال، ذہنی تناؤ کا اصل سبب ہے۔
اِس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو جانے کہ کوئی بھی ترقی یا کوئی بھی کامیابی اپنی محدودیت کی بنا پر اس کو وہ سب کچھ نہیں دے سکتی جس کو وہ پانا چاہتا ہے۔ غیر کامل دنیا میں کامل یافت ممکن ہی نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اگلی دنیا کو اپنی طلب کی منزل بنائے۔ وہ یہ جانے کہ جو کچھ وہ آج کی دنیا میں پانا چاہتا ہے وہ صرف کَل کی دنیا میں ملنے والی ہے۔ کسی طالبِ علم کو امتحان ہال میں جاب نہیں مل سکتا۔ اِسی طرح کسی انسان کو موجودہ امتحانی دنیا میں اس کا تمام مطلوب حاصل نہیں ہوسکتا۔
ذہنی تناؤ کو دور کرنے کا راز صرف یہ ہے کہ آدمی خدا کے تخلیقی نقشے پر راضی ہوجائے۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق جینے کے بجائے خدا کے منصوبے کے مطابق جینے لگے۔ وہ اپنی سوچ کو خدا کی سوچ کے تابع کردے۔ یہی ڈی اسٹریسنگ کا واحد کامیاب فارمولا ہے۔ یہی وہ واحدتصور ہے جو ذہنی تناؤ کو مکمّل طورپر ختم کرنے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سادہ فارمولا

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔نماز کا وقت ہواتو وہ ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہوگیے۔ نماز کے دَوران ان کے موبائل ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ نماز ختم ہونے تک بار بار گھنٹی بجتی رہی۔ اس کی وجہ سے نمازی ڈسٹرب ہوتے رہے۔معلوم ہوا کہ یہ اُن کے نوجوان بیٹے کا ٹیلی فون تھا۔ وہ کہیں باہر گیے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو انھوں نے اپنے باپ کو گھرپرنہ پایا۔ انھیں پریشانی ہوئی کہ والد صاحب کہاں چلے گیے۔ اِس پریشانی میں وہ بار بار ٹیلی فون کی گھنٹی بجاتے رہے۔ انھوں نے ٹیلی فون کرکے اپنے بیٹے کو بتایا کہ میںاِس وقت یہاں ہوں اور کچھ دیر کے بعد آؤں گا۔
میںنے کہا کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر آپ کے صاحب زادے بار بار آپ کو ٹیلی فون کریں اور اِس طرح اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کریں۔ آپ نے اپنے صاحب زادے کو لاڈ پیار تو خوب کیا ہوگا لیکن ان کو زندگی کا اصول نہیں بتایا۔میں نے کہا کہ انگریزی کا ایک مقولہ ہے۔ یہ مقولہ لمبے انسانی تجربے کے بعد بنا ہے۔ وہ مقولہ یہ ہے کہ—خبر نہ ہونا اچھی خبر ہے:
No news is good news.
میں نے کہا کہ میں نے زندگی میں بار بار سفر کیے ہیں۔ مگر میرے گھر والے کبھی ایسا نہیں کرتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میںنے اپنے گھر والوں کو بہت پہلے یہ مقولہ بتادیا تھا۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ اگر میرے بارے میں کوئی خبر نہ آئے تو سمجھ لو کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی حادثہ پیش آئے تو فوراً اس کی خبر یہاںآجائے گی۔میری اِس بات پر مذکورہ بزرگ صرفمسکرا دیے۔ انھوںنے ایسا نہیںکیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ٹیلی فون کرکے بتائیں کہ آج ایک بہت قیمتی اصول مجھ کومعلوم ہوا ہے۔ اس کو تم پکڑ لو۔ وہ اصول یہ کہ جب تک کوئی بُری خبر نہ آئے سمجھ لو کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔
انھوںنے کیوں اپنے بیٹے کو یہ بات نہیں بتائی۔اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی محبت میںاتنا زیادہ سرشار تھے کہ وہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ میرے بیٹے نے کوئی غلطی کی ہے۔ اِس قسم کی محبت کوئی سادہ چیز نہیں۔ وہ محبت کرنے والے کے لیے ایک عظیم نقصان کا باعث ہے۔ اِس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر واضح فکر پیدا نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ کنفیوژن میں مبتلا رہتا ہے۔
فکری وُضوح اور کنفیوژن کیا ہے۔ وہ دراصل سارٹنگ کا عمل ہے، یعنی ایک چیز سے دوسری چیز کو الگ کرنا۔ اسی سے ذہن کے اندر فکری وضوح آتا ہے۔ جب آدمی کسی وجہ سے سارٹنگ کا یہ کام نہ کرسکے تو اسی کے نتیجے کا نام وہ چیز ہے جس کو کنفیوژن کہاجاتا ہے۔
موصوف کو ’’نو نیوز از گڈ نیوز‘‘ کا فارمولا بظاہر پسندآیا۔ مگر بیٹے کی محبت کی وجہ سے وہ یہ نہ کرسکے کہ وہ دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کریں۔ یعنی اپنے بیٹے کی روش کو غلط قرار دیں اور میں نے جو فارمولا بتایا اس کو صحیح سمجھیں۔ اِس عدم سارٹنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا ذہن کنفوژن میںپڑا رہا۔ انھوںنے شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ مان لیا کہ—یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک۔
پھر میں نے کہا کہ یہ کمیونیکیشن کا زمانہ ہے۔ آدمی کو تھوڑی دیر میں دور دور کی خبریں مل جاتی ہیں۔ اِس لیے موجودہ زمانے میں یہ فارمولا ہمیشہ سے زیادہ درست بن گیا ہے۔ اب تو منٹوں میںکوئی خبر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے۔ انھوںنے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ فلاں شخص کے ساتھ دور کے شہر میںایک حادثہ پیش آیا۔ وہ دو دن تک اسپتال میںرہا مگر ہمارے پاس اس کی خبر اس وقت آئی جب کہ اس کا انتقال ہوچکا تھا۔
میںنے کہا کہ آپ کی یہ سوچ ہمیشہ آپ کو کنفوژن میں مبتلا رکھے گی۔ کیوں کہ آپ خیالات کی سارٹنگ کاکام کرنا نہیں جانتے۔ میںنے کہا کہ اس معاملے میں آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ ایک استثناء (exception) کو جنرلائز کررہے ہیں۔ ہر دن ہزاروں خبریں منٹوں میںایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ رہی ہیں۔ آپ نے اس کو چھوڑ کر ایک استثنائی واقعہ لے لیا اور اسی سے اپنی رائے بنانے لگے۔
یہی بیش تر لوگوں کا حال ہے۔ لوگ کسی نہ کسی وجہ سے ایسا کرتے ہیں کہ وہ خیالات کی سارٹنگ کا کام نہیں کرتے۔ اِس بنا پر ان کا ذہن مختلف قسم کے خیالات کا جنگل بنا رہتا ہے۔ ان کے اندر نہ وضوحِ فکر پیدا ہوتا ہے اور نہ وہ اِس قابل ہوتے ہیںکہ تجزیہ وتحلیل کا کام انجام دے سکیں۔
واپس اوپر جائیں