Pages

Saturday, 1 September 2007

Al Risala | September 2007(الرسالہ،ستمبر)

2

- رمضان: تقویٰ اور شکر کا مہینہ

6

- روزے کا پیغام

9

- عظیم ترین گواہی

12

- ایک دورِ حیات کا خاتمہ

14

- کشمیر: ایک جائزہ

20

- جنگ میں پہل نہیں

21

- حقیقت پسندانہ مزاج

26

- سائنس اور الہٰیات

44

- ڈارون اور ڈارون ازم

45

- جنت میں داخلے کی شرط


رمضان: تقویٰ اور شکر کا مہینہ

اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت تقویٰ کی ہے اور رمضان کے مہینے کا روزہ اِسی تقویٰ کی تربیت کے لیے مقرر کیاگیا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اے ایمان لانے والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ، جس طرح تم سے اگلوں پر فرض کیاگیا تھا، تاکہ تم تقویٰ والے بنو (البقرۃ: 182 )
تقوی ٰکیا ہے۔ اس کی بہترین تشریح ایک حدیث سے ہوتی ہے:
إنّ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سأل ابیّ بن کعب عن التقویٰ، فقال لہ: أما سلکتَ طریقاً ذا شوک۔ قال بلیٰ، قال فما عملتَ۔ قال: شمّرتُ واجتہدتُ۔ قال فذلک التقویٰ (تفسیر ابن کثیر، جلد اول، صفحہ 40 )
عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ نے اُبی بن کعب سے تقویٰ کے بارے میں پوچھا۔ ابی بن کعب نے کہا کہ کیا آپ کسی کانٹے دار راستے سے گزرے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں۔ انھوں نے پوچھا کہ پھر آپ نے کیا کیا۔ انھوںنے کہا کہ میںنے اپنے کپڑے سمیٹ لیے اور بچ کر اس سے گزر گیا۔ ابی بن کعب نے جواب دیا کہ یہی تقویٰ ہے۔
موجودہ دنیا دار الامتحان ہے۔ اسی لیے یہاں بہت سی غیر مطلوب چیزیں بھی موجود ہیں۔ مومن کو ان چیزوں سے بچتے ہوئے اپنا سفرِ حیات طے کرنا ہے۔ اِسی پرہیز گارانہ رویّے کا نام تقویٰ ہے، اور رمضان کا روزہ اِسی تقویٰ کی تربیت ہے۔
روزے میں کیا ہوتا ہے۔ روزے میں آدمی اپنا کھانا اور پانی ایک مقررہ مدت کے لیے چھوڑتا ہے۔ اپنی عادتوں کو ترک کرتا ہے۔ اپنی خواہشوں پرروک لگاتا ہے۔ اِسی طرح وہ اِس بات کی تربیت حاصل کرتا ہے کہ وہ کچھ چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔ وہ کچھ چیزوں سے بچ کر زندگی گزارے۔ روزہ اِسی پرہیزگاری کی انتہائی تربیت ہے۔ روزہ رکھ کر آدمی یہ عہد کرتا ہے کہ ناجائز چیزیں تو درکنار، اگر اللہ کی مرضی ہو تو وہ جائز چیزوں کو بھی اللہ کی خاطر چھوڑ دینے کے لیے تیار ہے۔
روزے میں کھا نا اور پینا چھوڑنا، ایک علامتی ترک ہے۔ اصل میں جوچیز ترک کرنا ہے، وہ تو خداکی ممنوعہ چیزیں ہیں۔ ممنوعات کا وقتی ترک ،ممنوعات کے اُسی مستقل ترک کی مشق ہے۔ کیوںکہ جو آدمی اللہ کے لیے غیر ممنوعات کوچھوڑنے پر راضی ہو، وہ ممنوعات کو بدرجۂ اولی چھوڑنے پر راضی ہوجائے گا۔
موجودہ دنیا میں انسان کا امتحان جس بات میں ہے، وہ یہی ہے کہ وہ حرام اور حلال میں فرق کرے۔ وہ حق اور باطل کے درمیان تمیز کرنے والا بنے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارے۔ اِسی ذمّے دارانہ زندگی کی تربیت کے لیے روزے کا طریقہ اہلِ ایمان کے اوپر فرض کیا گیا ہے۔
روزہ محض اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے مطلوب نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی حقیقی اسپرٹ کے اعتبار سے مطلوب ہے۔ اِسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ جس آدمی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اِس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پانی چھوڑ دے (صحیح البخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ لوگوں نے ایسا کیا کہ انھوںنے روزہ رکھا اور اسی کے ساتھ انھوں نے غیبت کا فعل کیا جو اسلام میں حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ انھوں نے خدا کی جائز کی ہوئی چیز سے روزہ رکھا اور اس کی ناجائز کی ہوئی چیز سے انھوں نے افطار کرلیا۔
متقیانہ زندگی کو دوسرے لفظوں میں، محتاط زندگی کہہ سکتے ہیں۔ ایک انسان وہ ہے جو احتیاط کے تصورسے خالی ہو، وہ بلاقید جو چاہے بولے اور جوچاہے کرے۔ دوسرا نسان وہ ہے جو احتیاط کے طریقے کو اختیار کئے ہوئے ہو— وہ ایک محکم اصول کے تحت، کسی روش کو اختیار کرے اور کسی روش کو اختیا رنہ کرے، یہی معاملہ متقی انسان کا ہے۔ متقی انسان مکمل طورپر ایک محتاط انسان ہوتا ہے۔ وہ اپنے قول اور عمل کو خدا کی مرضی کے تابع کردیتا ہے۔
روزہ آدمی کے اندر تقویٰ اور احتیاط کا یہی مزاج پیدا کرتاہے۔ رمضان کی ماہانہ تربیت آدمی کو اِس قابل بنادیتی ہے کہ وہ پورے سال تک اِس طرح زندگی گزارے کہ وہ مباحات کے لیے مُفطر ہو اور ممنوعات کے لیے وہ صائم بنا رہے۔
رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہوئے قرآن میںکہاگیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے یہ حکم اِس لیے دیا تاکہ تم اللہ کی بڑائی کرو اِس پر کہ اُس نے تم کو راہ بتائی اور تاکہ تم اُس کے شکر گزار بنو (ولتکبّروا اللہ علی ما ہداکم و لعلکم تشکرون، البقرۃ: 185)
رمضان کے مہینے کاروزہ دو پہلوؤں سے شکر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ ایک، اِس بات کا شکر کہ اللہ نے قرآن کی صورت میں ایک کامل ہدایت نامہ انسان کو عطا کیا۔ دوسرے، اِس بات کا شکر کہ اللہ نے دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے انسان کو وہ تمام سامانِ حیات دئے جن کی ضرورت انسان کو تھی۔
انسان اس دنیا میں اپنے آپ کو اِس حال میں پاتا ہے کہ ذاتی طورپر اس کے لیے سچّائی تک پہنچنا ممکن نہیں۔ کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایسا بورڈ بھی لگا ہوا نہیں ہے جس میں زندگی کا مقصد اور اس کی فلاح کا طریقہ بتایا گیا ہو۔ ایسی حالت میںایک حقیقی انسان جب قرآن کو پاتاہے تو اس کا دل احساسِ نعمت سے سرشار ہوجاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اِس احسان پر وہ اللہ کا شکر ادا کرے۔
مزید یہ کہ قرآن واحد خدا ئی کتاب ہے جو محفوظ حالت میں آج تک موجود ہے۔ ایک آدمی جب سچائی کی تلاش کرتا ہے اور مختلف مذاہب کی کتابوں کو پڑھتا ہے تو اس پر کھُلتا ہے کہ یہ تمام کتابیں بعد کے زمانے میں تحریف کا شکار ہوگئیں۔ اِس طرح ان تمام کتابوں نے اپنی تاریخی اعتباریت یک سر کھودی ہے۔
اِس عمومی تجربے کے بعد آدمی جب قرآن کو دیکھتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب مکمل طورپر اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔ تاریخی حیثیت سے وہ پوری طرح ایک قابلِ اعتبار کتاب ہے۔ قرآن کی یہ خصوصیت آدمی کو مزید احسان مندی میںمبتلا کرتی ہے۔ وہ ہمہ تن اللہ کے شکر وسپاس کے جذبے میں غرق ہوجاتا ہے۔
رمضان کا روزہ اِسی اظہارِ شکر کی ایک خصوصی صورت ہے۔ روزہ رکھ کر قرآن کو پڑھنا، اِس بات کی علامت ہے کہ بندہ وفورِ شکر میںاپنا کھانا اور پینا تک بھول گیا ہے،وہ اپنی ضروریاتِ زندگی تک سے بے پروا ہو کر خدا کے کلام کو اپنے سینے سے لگا لینا چاہتاہے۔
شکر کو دوسرا پہلو سامانِ حیات سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار چیزیں عطا کی ہیں جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا تھا— اُنھیں میں سے ایک ضروری چیز کھانا اور پانی ہے۔
انسان کا مزاج یہ ہے کہ عام حالات میںاُس کو کسی چیز کی قدر و قیمت کا احساس نہیںہوتا۔ چیزوں کی قدر وقیمت کو وہ صرف اُس وقت جانتا ہے جب کہ وہ ان چیزوں سے محروم ہوگیا ہو۔ آدمی کو اگر کھانا اور پانی برابر وقت پر ملتا رہے تو وہ حقیقی طورپر محسوس نہیں کر پاتا کہ کھانا اور پانی کیسی عجیب نعمتیں ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے بآسانی اِس زمین پر وافر مقدار میں فراہم کردیا ہے۔
روزہ آدمی کے اندر اسی احساسِ نعمت کو پیدا کرنے کی ایک خصوصی تدبیر ہے۔ عام حالات میں صرف کسی انتہائی غریب آدمی ہی کو کھانے اور پانی کی قدر معلوم ہوسکتی ہے، مگر روزہ اِس کو ممکن بنا دیتا ہے کہ ہر آدمی اِس نعمت کی قدر و قیمت کو محسوس کرے، ہر آدمی کے سینے میں اس جذبے کی پرورش ہو کہ وہ حقیقی معنوں میں اپنے رازق کا شکر ادا کرنے والا بن جائے۔
روزے کے زمانے میں آدمی دن بھر بھوک میںمبتلا رہنے کے بعد شام کو جب کھانے کے بعد اپنی بھوک کو مٹاتا ہے، جب وہ دن بھر پیاس کا تجربہ کرنے کے بعد شام کو پانی پی کر اپنی رگوں کو ترکرتا ہے تو اُس کی زبان پر شکرِ خداوندی کا وہ کلمہ جاری ہوجاتا ہے جوحدیث میں اس طرح آیا ہے: ذہبَ الظّماء وابتلّت العروق وثبتَ الأجر إن شاء اللہ تعالیٰ۔
شکر بہت بڑا عمل ہے۔ شکر خلاصۂ عبادت ہے۔ روزہ اسی عظیم عمل اور اسی اعلیٰ عبادت کے لیے آدمی کو تیار کرتا ہے۔ روزے داری دراصل اِسی شکر گزاری کی تربیت ہے۔
واپس اوپر جائیں

روزے کا پیغام

قرآن کی سورہ نمبر دو میں روزے کا حکم دیتے ہوئے حسب ذیل باتیں کہی گئی ہیں:
روزہ اس لیے فرض کیاگیا ہے تاکہ تمھارے اندر تقویٰ پیداہو۔ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اترا۔ تم اس پورے مہینے کا روزہ رکھو اور اس نعمتِ ہدایت پر اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ اور جان لو کہ خدا اپنے بندوں سے بے حد قریب ہے۔ وہ پکارنے والے کی پکار سنتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے، لہٰذا تم کو چاہیے کہ تم اُس کا حکم مانو اور اُس پر ایمان لاؤ، تاکہ تم کو ہدایت ملے (البقرۃ: 183-186 )
روزہ بظاہر یہ ہے کہ آدمی رات کو کھائے پیے اور دن میں وہ کھانا پانی چھوڑ دے، مگر یہ روزے کی ظاہری صورت ہے۔ روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی کے اندر تقویٰ پیدا ہو، وہ اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچ کر زندگی گزارنے لگے۔ گویارمضان کے دنوں میں روزے کی مخصوص شکل ایک علامتی تربیت ہے کہ بقیہ مہینوں میں اور ساری عمر میںآدمی کو کس طرح رہنا چاہیے۔
خدا کی شریعت میں ہر آدمی کے لیے کچھ چیزیں جائز ہیں اور کچھ چیزیں ناجائز۔ رات کے اوقات آدمی کے لیے جائز چیزوں کی علامت ہیں اور دن کے اوقات ناجائز چیزوں کی علامت۔ اس علامتی ترک کے لیے کھانے پینے کو منتخب کرنا یہ بتاتا ہے کہ ممنوعات کی فہرست اس سے بھی زیادہ ہے جو قانونی الفاظ میں بتائی گئی ہے۔ممنوعات کی اس دوسری قسم کا نام قربانی ہے۔ روزہ یہ سبق دیتا ہے کہ خدا کی خاطر رکنے اور چھوڑنے کی فہرست اگر کھانے پینے جیسی ضروری چیزوں تک پہنچ جائے تو اس سے بھی آدمی دریغ نہ کرے۔
آدمی جب دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور شام کو کھانے اور پانی سے سیراب ہوتا ہے تو وہ ایک بہت بڑی حقیقت کا تجربہ کرتا ہے، وہ یہ کہ اس کا وجود جس غذا کا اتنی شدت سے محتاج تھا وہ انتہائی کامل صورت میں اس کے باہر خدا نے مہیا کررکھی تھی۔ خوراک ایک حیرت انگریز مثال ہے کہ انسان کی طلب کا کتنا مکمل جواب خدا نے اس دنیا میں تیار کر رکھا ہے۔
یہی احساس آدمی کے اندر قرآن کے بارے میں پیدا ہونا چاہیے۔ جس طرح غذا آدمی کی مادی طلب کا جواب ہے، اسی طرح قرآن آدمی کی روحانی طلب کا جواب ہے۔ خدا کی شکر گزاری اور اس کی بڑائی کا اعتراف یہ ہے کہ آدمی قرآن کو اُس حیثیت سے پالے جس حیثیت سے خدا نے اس کو اپنے بندوں کے پاس بھیجا ہے۔ وہ اسی طرح آدمی کی ضرورت بن جائے جس طرح کھانا آدمی کی ضرورت ہے۔ وہ اس کو پاکر اسی طرح سیراب ہوجائے جس طرح ایک بھوکا آدمی کھانا کھاکر اور پانی پی کر آخری حد تک سیراب ہوجاتا ہے۔
ر وایات میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے سوال کیا کہ اے خدا کے رسول، ہمارا رب ہم سے قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی کریں، یا وہ ہم سے دور ہے کہ ہم اس کو پکاریں (یا رسول اللہ، أقریبٌ رَبُّنا فنناجیہ أم بعید فننادیہ، أخرجہ إبن أبی حاتم) اس کے جواب میں مذکورہ آیتیں اتریں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ، بلکہ تمام عبادتوں کا اصل مطلوب کیا ہے۔ اصل مطلوب اسی مقام ہدایت (رشد) تک پہنچانا ہے، جب کہ بندہ اپنے رب کے اتنا قریب ہوجائے کہ وہ خدا سے ہم کلام ہونے لگے، وہ اپنے رب سے سوال کرے اور اس سے اس کا جواب پائے۔ یہی قربتِ خداوندی تمام دینی اعمال کا اصل مقصود ہے۔ جس کا دین اس کو خدا سے اس معنی میں قریب کردے، وہی دین دار ہے۔ اور جس کا دین اس کو خدا سے اس طرح قریب نہ کرے، وہ بے دین ہے، خواہ ظاہری طور پروہ دین داری کا لباس اوڑھے ہوئے ہو۔
دن بھر کے روزے کے بعد شام کو افطار کا وقت آتا ہے۔ اسی طرح پورے مہینے کا روزہ رکھنے کے بعد عید الفطر آتی ہے۔ یہ معاملہ دنیا اور آخرت کی تعبیر ہے۔ ’’روزہ‘‘ دنیا کی زندگی کی علامت ہے اور ’’اِفطار‘‘ آخرت کی زندگی کی علامت۔ بھوک پیاس اور تعب کی ایک مدت گزارنے کے بعد آدمی کو افطار کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح موجودہ دنیا میں جو عورت اور مرد احتیاط اور ذمے داری کی زندگی گزارے گا، وہ آخرت میں ابدی جنت کا آرام پائے گا۔ دنیا، روزے کی پابندی سہنے کی جگہ ہے اور آخرت عید ِافطار کی خوشی پانے کی جگہ۔
روزہ اور دعا کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے ۔ دعا سب سے زیادہ جہاں سے ابلتی ہے، وہ ٹوٹا ہوا دل ہے۔ روزے میں آدمی کو بھوک اور پیاس ستاتی ہے، اس کے معمولات ٹوٹتے ہیں، جس کی وجہ سے اس کی زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے۔ آدمی کا جسم کمزوری اور بے بسی کا تجربہ کرتاہے۔ اس وقت آدمی کے اندر دل شکستگی پیدا ہوتی ہے ۔ وہ خدا کی طرف رجوع ہو کر اس کو پکارنے لگتا ہے— خدایا، تو میری زندگی میںدو تعب کو جمع نہ کر۔ میں نے دنیا میں بہت تعب اٹھایا، اب تو آخرت کے تعب سے مجھ کو بچالے۔ یہی دعائے رمضان ہے اور یہی رمضان کا خلاصہ۔
واپس اوپر جائیں

عظیم ترین گواہی

حدیث کی مشہور کتاب صحیح مسلم میں ایک تفصیلی روایت آئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانے میں امتِ محمدی کا ایک فرد اٹھے گا جو اُس زمانے کے فتنۂ کبریٰ کو ختم کرے گا۔ یہ خاتمہ حجت اور دلائل کے ذریعہ ہوگا۔ یہ واقعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اتنا بڑا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے بارے میں فرمایا: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین (کتاب الفتن) یعنی یہ اللہ رب العالمین کے نزدیک، تاریخ کی سب سے بڑی گواہی ہوگی۔
حالات بتاتے ہیں کہ وہ وقت پوری طرح آچکا ہے، جب کہ کچھ لوگ اٹھیں اور اِس رول کو انجام دیں۔ اِس معاملے میں اب مزید تاخیر کا وقت باقی نہیں رہا۔ یہ حدیث اور اِس طرح کے دوسرے نصوص، دراصل ایک امکان کو بتارہے ہیں، نہ کہ کسی فرد یا افراد کے کارنامے کو۔ یہ قیامت سے پہلے کا ایک رول ہے جس کی طرف دوڑنے والوںکو دوڑنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس معاملے میں ’’آنے والے‘‘ کاانتظار اور خود اپنے کو ’’آنے والا‘‘ بتانا، دونوں ہی یکساں طورپر غلط ہیں:
Waiting for a ‘‘coming person’’ or claiming ‘‘I am that person’’, both are equally wrong.
عظیم شہادت کا تعلق، عظیم امکانات سے ہے، نہ کہ صرف ایک فرد کے کارنامے سے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دورِ آخر میں ایسے عظیم مواقع ظہور میںآئیں گے جن کو استعمال کرکے عظیم دعوتی واقعہ انجام دینا ممکن ہوجائے گا۔
مشہور برٹش سائنس داں سرآئزاک نیوٹن کا ایک خط (1704ء) حال میں یروشلم کے ایک میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا گیا۔ اِس خط میں نیوٹن نے لکھا تھا کہ موجودہ دنیا 2060 میں ختم ہوجائے گی۔ اِس واقعہ کی رپورٹ دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (18 جون 2007) میں اُس کے صفحۂ اول پر چھپی ہے۔ اِس خبر کاعنوان یہ ہے:
Newton saw end of world in 2060
سر آئزاک نیوٹن (وفات:1727 ء)نے اپنی یہ تحریر کلاسکل لاز آف گریوٹی اینڈ موشن (Classical Laws of Gravity and Motion) کی روشنی میں میتھ میٹکل کیلکولیشن کے ذریعہ ظاہر کی تھی۔ یہ اندازہ اتنا عجیب تھا کہ لوگوں نے اس کو نیوٹن کی زندگی کا توہماتی پہلو (superstitious side) قرار دیا۔ یہ خط پہلی بار 1969 میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ اب اس کو یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی میں ایک مخصوص نمائش (Newton's Secrets) میں رکھا گیا ہے۔
موجودہ دنیا کے خاتمے کے بارے میں نیوٹن نے جو بات حسابی اندازے کے تحت کہی تھی، وہ اب مشاہداتی سائنس کے تحت ایک معلوم واقعہ بن چکی ہے۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جو کلائمیٹ چینج کا واقعہ پیش آرہا ہے، اُس کی روشنی میں مغربی سائنس داں یہ کہہ رہے ہیں کہ 2010 تک موجودہ دنیا کا لائف سپورٹ سسٹم بہت زیادہ بگڑ جائے گا، اور2050 تک شاید زمین پر ہر قسم کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔
قرآن اور حدیث میں واضح طورپر اِس واقعہ کی پیشین گوئی موجود ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق، خدا نے یہ دنیا محدود مدت کے لیے بنائی تھی، اور اب وہ نشانیاں ظاہر ہوچکی ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہ محدودمدت اپنے آخری خاتمے کے قریب ہے۔قرآن اور حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے خاتمے سے پہلے یہاں ایک آخری دعوتی اعلان کیا جائے گا، تاکہ انسانی نسلیں آخری طورپر جان لیں کہ اب وہ وقت آچکا ہے جب کہ انھیں خالقِ کائنات کے سامنے آخری پیشی کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ اور اُس کے بعد ہر ایک کے لیے یا تو ابدی جنت ہے یا ابدی جہنم۔
قیامت سے پہلے یہ آخری اعلان معجزاتی طورپر نہیں ہوگا، بلکہ اسباب و علل کے ذریعے ہوگا۔ حالات بتاتے ہیں کہ وہ اسباب اب پوری طرح موجود ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ اٹھنے والے اٹھیں اور پیدا شدہ مواقع کو استعمال کرکے آخری طورپر خدا کے دین کا اعلانِ عام کردیں۔ غالباً اسرافیل اپنا صور لیے ہوئے اِسی آخری اعلانِ حق کا انتظار کررہے ہیں۔حدیث میں جس چیز کو عظیم ترین شہادت یا عظیم ترین دعوت کہاگیا ہے، اُس کے امکانات کامل طور پر ظہور میںآچکے ہیں۔ اب ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ اِن امکانات کو استعمال کرکے اِس کارِ عظیم کو عملاً انجام دے دیا جائے۔
گلوبل وارمنگ یا موجودہ دنیا کے خاتمے کی بات کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ براہِ راست طورپر خدا کے قانون سے جُڑی ہوئی ہے۔ موجودہ دنیا جو انسان کو ملی ہوئی ہے، وہ اُس کو نہ حق (right) کے طور پر ملی ہے اور نہ انعام(reward) کے طورپر، اور نہ ایسا کہ وہ اتفاقی طورپر انسان کو مل گئی ہو بلکہ انسان یہاں امتحان کے طورپر رکھا گیا ہے۔ امتحان کی مدت پوری ہونے کے بعد انسان اِس دنیا میں رہنے کا جواز کھودیتا ہے۔یہ معاملہ بالکل امتحان ہال جیسا ہے۔ طالبِ علم کو امتحانی پرچہ کرنے کے لیے ایک محدود مدت تک امتحان ہال کے اندر رکھا جاتا ہے۔ یہ مدت پوری ہوتے ہی طالبِ علم کو امتحان ہال سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر موجودہ دنیا کا ہے۔
جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے، انسانوں کے درمیان برابر خداکے پیغمبر آتے رہے۔ انھوں نے انسان کو خدا کی طرف سے پیغام دیا۔ جب پیغمبر کی مخاطَب قوم نے پیغمبر کی بات نہ سُنی تو اِتمامِ حجت کے بعد اُس قوم کو تباہ کردیا گیا۔ یہ واقعہ ماضی میں بار بار ہوتا رہا۔
قدیم مثالوں میں اتمامِ حجت کا واقعہ مقامی طورپر ہوتا تھا، اِس لیے اتمامِ حجت کے بعد صرف محدود آبادی کو تباہ کیا جاتا تھا۔ اب جدید ترقیوں کی بنا پر ایسا ہورہا ہے کہ عالمی سطح پر اتمامِ حجت کا واقعہ انجام پارہا ہے، اس لیے اب اتمامِ حجت کے بعد جو تباہی آنے والی ہے، وہ عالمی تباہی ہوگی۔ اِسی کا نام قیامت ہے۔ قیامت اُسی اصول کا عالمی انطباق ہے جس کا انطباق پہلے صرف مقامی طورپر ہوا کرتا تھا۔
حدیث میں آیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ اسلام کا کلمہ ساری دنیا کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں داخل ہوجائے گا (لایبقیٰ علیٰ وجہ الأرض بیت مدرٍ ولا وبَرٍ إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃَ الإسلام) کلمۂ اسلام کا یہ عمومی داخلہ یقینی طورپر اسباب کے تحت پیش آئے گا۔ قدیم زمانے میں اس کے اسباب موجود نہ ـتھے۔ اب موجودہ زمانے میں ماڈرن کمیونکیشن کی صورت میں یہ اسباب پوری طرح انسان کی دست رس میں آچکے ہیں۔ اب یہ پوری طرح ممکن ہوگیاہے کہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اور ملٹی میڈیا کو استعمال کرکے کلمۂ اسلام کو ساری دنیا میں پہنچا دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

ایک دورِ حیات کا خاتمہ

جون 2007 کے پہلے ہفتے میں جرمن (برلن) میںجی آٹھ (G-8) کی ایک کانفرنس ہوئی ۔ ترقی یافتہ ملکوں کے سربراہ اُس میں شریک ہوئے۔ اس کے ایجنڈے میں نمایاں طورپر گلوبل وارمنگ کا مسئلہ تھا۔ لمبی بحث کی باوجود کوئی پروگرام طے نہ ہوسکا۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار (ٹائمس آف انڈیا، 10 جون 2007 ) میںاِس اہم میٹنگ کی رپورٹ چھپی ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے— اتنے زیادہ مفلس کہ وہ دنیا کو بچا نہیں سکتے:
Too broke to save the world
گلوبل وارمنگ کے بارے میں آج کل روزانہ میڈیا میں خبریں آرہی ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس داں یہ بتارہے ہیں کہ دنیا کی کلائمیٹ(climate) خطرناک طورپر بدل رہی ہے۔ 2015 تک، یعنی اب سے صرف آٹھ سال کے اندر زمین پر لائف سپورٹ سسٹم اتنا زیادہ بگڑ چکاہوگا کہ یہاں زندگی کی بقا اور نشو ونما ممکن نہیں رہے گی۔
یہ سادہ طورپر موسم میں تغیر کی بات نہیں ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ خدا نے انسان کو اور انسانی تہذیب کو رد کردیا ہے۔ انسان نے موجودہ زمین پر مزید رہنے کا جواز کھودیا ہے۔ اب وہ وقت بالکل قریب آگیا ہے جب کہ خدائی نقشے کے مطابق، پہلا دورِ حیات ختم ہوجائے اور دوسرا دورِ حیات شروع ہو، یعنی عالمِ آخرت کا دورِ حیات۔
خدا نے موجودہ دنیا کو انسان کے لیے تیاری کی دنیا (preparatory ground) کے طور پر بنایا تھا۔ یہاں وہ تمام چیزیں مہیّا کی گئی تھیں جن کے ذریعے آدمی اپنے آپ کو جنت کے قابل بنائے۔ اِس دنیا کی ہر چیز سامانِ تیاری تھی، نہ کہ سامانِ عیش۔ مگر انسان نے خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) سے سرتابی کی۔ اُس نے موجودہ دنیا کو اپنے لیے مقامِ عیش سمجھ لیا اور اُس نے زندگی کا یہ فارمولا بنایا:
Eat, drink and be merry.
اس طرح انسان نے خدا کے تخلیقی نقشے کو بدل دیا۔ یہاں تک کہ اس نے موجودہ تہذیب پیدا کی جو آخری معنوں میں اِسی فارمولے پر قائم ہے۔ خدا نے ہزاروں سال تک انتظار کیا کہ انسان اپنی روش پر نظر ثانی کرے۔ وہ خدا کی دنیا میں اپنا ذاتی ایجنڈا چلانا بند کردے۔ وہ اپنی اصلاح کرکے خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ وہ موجودہ دنیا کے مواقع کو اِس مقصد کے لیے استعمال کرے کہ وہ خدا کا وہ مطلوب بندہ بن جائے جس کو خدا اپنی ابدی جنت میں بسانے کے لیے منتخب کرے گا۔
مگر انسان اپنی روش پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار نہیں، یہاں تک کہ انسان کے اوپر خدا کی حجت تمام ہوگئی۔ اب انسان نے وہ جواز کھودیا جس کے تحت وہ زمین پر بسا ہوا تھا— موجودہ گلوبل وارمنگ دراصل اِسی حقیقت کا پیشگی انتباہ ہے۔
اِس صورتِ حال میںہر مذہب کے لوگوں کی یہ ذمّے داری تھی کہ وہ دنیا کو آنے والے بھیانک خطرے سے آگاہ کریں۔ وہ لوگوں کو بتائیں کہ اب تیاری کا آخری موقع ختم ہونے والاہے۔ کسی تاخیر کے بغیر ہوشیار ہوجاؤ اور خدا کے نقشے کے مطابق، زندگی گذارنا شروع کردو۔
لیکن ہر مذہب کے لوگ، بشمول مسلمان، کسی ’’آنے والے‘‘ کا انتظار کررہے ہیں۔ ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ کوئی آنے والا پُر اسرار طورپر آئے گا او رمعجزاتی طاقت کے ذریعے وہ سارے کام کو انجام دے دے گا۔ مگر یہ سخت بھول کی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی پُر اسرار ہستی آنے والی نہیں۔ جو چیز آنے والی ہے، وہ صرف قیامت ہے۔ اور قیامت جب آئے گی تو وہ کسی کے ساتھ بھی رعایت نہیںکرے گی۔ اُس کا معاملہ ہر ایک کے ساتھ یکساں ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

کشمیر: ایک جائزہ

کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ بابر(وفات: 1530)نے جب کشمیر کو دیکھا تو اُس نے کشمیر کو ’’جنت نظیر‘‘ کا نام دیا۔ اس نے کہا:
اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمین است وہمین است و ہمین است
یہ قبل از جہاد کے دور کا کشمیر تھا۔ بابر اگر بعد از جہاد کے کشمیر کو دیکھتا تو شاید وہ کہتا کہ پہلے میں نے کشمیر کو جنت نظیر کہا تھا، لیکن اب میں اپنے قول کو واپس لیتا ہوں۔ کیوں کہ اب کشمیر کی پہچان بدل چکی ہے۔
کشمیر اپنے قدرتی اوصاف کی بنا پر عرصے سے فطرت اور روحانیت کا خوب صورت امتزاج بنا ہوا تھا۔ یہاں کے روحانی ماحول کی وجہ سے مسلم صوفیوں کو یہاں بہت کامیابی حاصل ہوئی۔ یہاں مذہب اور روحانیت کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ نام نہاد جہاد سے پہلے کشمیر کو جن لوگوں نے دیکھا ہے، وہ اِس بیان کی مکمل تصدیق کریں گے۔
یہ کشمیر کی خوش قسمتی تھی کہ پچھلے چند سو سالوں میں یہاں باہر سے جو مسلم صوفی آئے، یا مقامی طورپر جو صوفی پیداہوئے، وہ سب کے سب امن اور محبت کا پیغام دینے والے تھے۔ اِس کے نتیجے میں کشمیر میں زبردست اِنقلاب آیا۔ کشمیر میں اسلام کو غیر معمولی طورپر فروغ حاصل ہوا۔ اگر چہ اب یہ پراسس تقریباً رک گیا ہے۔
شیخ نور الدین نورانی کشمیر کے صوفیوں میں سے ایک صوفی تھے۔ کشمیر کے لوگوں میں عام طورپر وہ ’’علَم دارِ کشمیر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ہندو لوگ انھیں پیار سے ’’نند رِشی‘‘ کہتے تھے۔ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں طورپر مقبول تھے۔ قصہ چَرار شریف (کشمیر) میں ان کی درگاہ تھی جو کہ سری نگر سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ درگاہ 11 مئی 1995 کو ایک بھیانک آگ سے جل کر راکھ ہوگئی۔
شیخ نور الدین نورنی فیروز شاہ تغلق کے ہم عصر تھے۔ وہ 1377 ء میں کشمیر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اور 1439 ء میں چرار کے مقام پر ان کی وفات ہوئی۔ پندرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں کشمیر کے حاکم زین العابدین نے شیخ نورانی کی قبر کی جگہ پر ایک بڑا مقبرہ تعمیر کیا۔ اس کے بعد انیسویں صدی عیسوی میں پٹھانوں کی حکومت کے زمانے میں اس درگاہ کی مزید توسیع ہوئی اور اس کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی۔
چرار شریف کی اِس درگاہ میں شیخ نورالدین نورانی کی قبر کے ساتھ گیارہ اور صوفیوں کی قبریں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی مقدس تاریخی یادگاریں وہاں رکھی ہوئی تھیں۔ مثلاً حضرت فاطمہ کے تبرکات، وغیرہ جو آگ کی نذر ہوگیے۔
افغانی گورنر عطا محمد خاں شیخ نورانی سے بہت متاثر تھا۔ اس نے اپنی عقیدت کے اظہار کے طورپر انیسویں صدی کے آغاز (1808-1810) میں شیخ نورالدین نورانی کے نام کا سکہ جاری کیا۔ اس افغانی گورنر نے درگاہ کی مزیدتوسیع کرکے اس میں مسجد کا اضافہ کیا۔
کشمیر کے مشہور بزرگ سید امیر کبیر علی ہمدانی (وفات: 1384 ء) اور ان کے ساتھیوں کی کوشش سے کشمیر میںایک روحانی بیداری آگئی تھی۔ اس زمانے میں مقامی صوفیوں اور بزرگوں کا ایک پورا گروہ پیدا ہوگیا۔ ان لوگوں کو عام طورپر بابا یا رِشی کہا جاتا تھا۔
یہ مسلمان رشی نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ وہ ہندو اور مسلمان دونوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ان مسلمان رشیوں میں سب سے زیادہ شہرت شیخ نورالدین نورانی نے پائی۔ ہندوؤں میں بھی وہ اتنا ہی مقبول و محبوب تھے جتنا کہ مسلمانوں میں(آبِ کوثر، از شیخ محمداکرام، صفحہ 381)
شیخ نور الدین نورانی کی ابتدائی زندگی مصیبتوں میں گزری۔ وہ دنیا والوں کی حالت دیکھ کر غمگین رہتے تھے، آخر کار انھوں نے بستی کو چھوڑ دیا۔ اور وہ پہاڑ میں جاکر تنہا ایک غار میں رہنے لگے۔ کہاجاتا ہے کہ وہ 12 سال تک اسی غار میں مراقبہ کرتے رہے۔ یہ غار اب تک وہاں موجود ہے۔ اور دس فٹ گہرا ہے۔ آخر عمر میں ان کا حال یہ تھا کہ وہ روزانہ صرف ایک پیالہ دودھ پر گزارہ کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں وہ بہت کمزور اور لاغر ہوگیے۔ اور صرف 63 سال کی عمر میں انتقال کرگیے۔ یہ سلطان زین العابدین کا زمانہ تھا۔
ایک کتاب ہے جس کا نام ’نورنامہ‘ ہے۔ اِس کتاب میں شیخ نور الدین نورانی کے صوفیانہ اقوال جمع کیے گیے تھے۔ اِس کتاب کو بابا نصیب الدین غازی نے فارسی زبان میں مرتب کیا تھا۔ یہ کتاب شیخ نورانی کے انتقال کے دو سو سال بعد تیار کی گئی۔
چرار شریف میں شیخ نور الدین نورانی کی درگاہ کا طرزِ تعمیر بالکل بُدھوں کے پگوڈا جیسا تھا۔ یہ عمارتی اسٹائل گویا اس بات کی علامت تھا کہ شیخ نورالدین نورانی کٹر پن سے بہت دور تھے۔ وہ صلحِ کُل (peace with all)کی پالیسی کو پسند کرتے تھے۔
شہنشاہ جہاں گیر ان کا معتقد تھا۔ اس نے شیخ نورالدین نورانی اور ان کے پیروؤں کے بارے میں کہا تھا کہ —یہ رشی نہ کسی کو بُرا کہتے ہیں اور نہ کسی سے کوئی چیز مانگتے ہیں۔ یہ دو لفظ میں شیخ نورالدین نورانی اور ان کے ماننے والوں کی صحیح اور جامع تصویر ہے۔
شیخ نور الدین نورانی سچی کشمیریت کی علامت تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ— اگر تو دانش مند ہے تو ہندو اور مسلمان کو الگ الگ انسان نہ سمجھ، یہی خدا سے ملنے کا راستہ ہے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ چناں چہ ان کا کلام کشمیر کے ایک شاعر نے ’رِشی نامہ‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ نورالدین نورانی کے نزدیک انسان کی ایک ہی پہچان تھی،وہ یہ کہ انسان انسان سے پیار کرے۔ ان کے نزدیک انسان سے پیار ہی خدا کی پہچان کا راستہ ہے۔
شیخ نور الدین نورانی ایک صوفی بزرگ تھے۔ وہ روحانیت اور انسانیت اور پیار کو سب سے زیادہ اہم سمجھتے تھے۔ کسی کا دل دکھانا یا کسی کو نقصان پہنچانا، ان کے نزدیک سب سے بڑا گناہ تھا ۔ وہ انسان کی زندگی میں فطرت کا حسن دیکھنا چاہتے تھے۔
شیخ نور الدین نورانی کے قیمتی اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ— میں نے تلوار توڑ دی اور اُس سے درانتی بنالی۔ یہ قول شیخ نورانی کے فکر کا خلاصہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے لوہا بنایا جس میں خصوصی طاقت ہے، مگر لوہا اس لیے نہیں ہے آپ اس کو تشدد کے لیے استعمال کریں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ لوہے کو تعمیر انسانیت کے لیے استعمال کریں۔ آپ لوہے سے تلوار کے بجائے درانتی بنائیں جو زراعت کے کام آتی ہے۔
اِسی طرح انھوں نے کہا کہ —جنگل ہوں گے تو اناج ہوگا۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ جنگل سے بارش ہوگی اور بارش سے کھیتوں میں فصل اُگے گی۔ اِسی کے ساتھ اس قول کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں ایک کو دوسرے کے ساتھ تعاون کا معاملہ کرنا ہے۔ باہمی تعاون کے بغیر اس دنیا میں کوئی تعمیری نتیجہ بر آمد نہیں ہوسکتا۔
شیخ نورا لدین نورانی کے اقوال کشمیری زبان میں ہیں۔ یہ اقوال، انسانیت اور روحانیت کی اسپرٹ سے بھر پور ہیں۔ کچھ مزید اقوال کا ترجمہ یہ ہے:
کام، کرودھ، لوبھ، موہ اور اہنکار یہ سب انسان کو دوزخ میں بھیجنے کے لیے کافی ہیں۔
اپنے جسم کا سنگار کرنے سے من کا میل نہیں ہٹتا۔
ایک ہی ماں باپ کے بیٹے ہیں، ان کو خدا کا دامن تھامنا چاہیے۔ کیا مسلمان اور کیا ہندو، اللہ کی رحمت دونوں کے لیے برابر ہے۔
شیخ نور الدین نورانی کا زمانہ چودھویں صدی عیسوی کا نصف آخر اور پندرھویں صدی کا نصف اوّل ہے۔ وہ ایک صوفی آدمی تھے۔ انھوںنے اپنے طریقِ کار کو اِن لفظوں میں بیان کیا تھا کہ— میں نے تلوار توڑ دی اور اس سے درانتی بنالی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ میں نے تشدد کا طریقہ چھوڑ کر امن اور محبت کا طریقہ اختیار کرلیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر نہ صرف ایک پُر امن علاقہ بن گیا، بلکہ وہاں اسلام اتنی تیزی سے پھیلا کہ کشمیر کی بہت بڑی اکثریت اسلام کے دائرے میں داخل ہوگئی۔
لیکن اکتوبر 1989 سے کشمیر میں ایسے لوگ اُبھرے جو برعکس اصول پر یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے برعکس طور پر یہ کیا کہ اپنی ’’درانتی‘‘ کو توڑ کر اُس سے ’’تلوار‘‘ بنالی۔ انھوں نے جہاد کے نام پر پوری ریاست میں نفرت اور تشدد پھیلادیا۔ جس کا نتیجہ اب بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔
اِس خود ساختہ جہاد کانتیجہ ناقابلِ بیان نقصانات کی صورت میں نکلا۔ کشمیر میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان خوش گوار تعلقات ختم ہوگیے۔ سیاحت کی انڈسٹری پر تباہ کن اثر پڑا۔ اقتصادی ترقی رک گئی۔ دعوت کا عمل ختم ہوگیا۔ لوگوں کے اندرمایوسی اور منافقت پیدا ہوگئی۔ ایک لاکھ سے زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں، وغیرہ۔
کشمیر میں مسلّح تحریک شروع ہونے سے ایک مہینے پہلے میں سری نگر گیا تھا۔ وہاں کے ’ٹیگور ہال‘ میں میری تقریر ہوئی۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ یہاں مسلح تحریک شروع ہونے والی ہے۔ میں نے اپنی تقریر میں پیشگی طورپر یہ کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک بدو مدینہ آیا اور اُس نے مسجدنبوی میں پیشاب کر دیا۔ رسول اللہ نے اُس کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی۔ آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ جہاں اس نے گندہ کیا ہے اُس پر پانی بہا دو، وہ صاف ہوجائے گا۔ اِس حسنِ اخلاق کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بدو اور اس کا پورا قبیلہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوگیا۔ میںنے کہا کہ پیغمبراسلام نے جو نتیجہ پانی بہا کر حاصل کیا تھا، اُس کو آپ خون بہا کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ اور ایساہونا کبھی ممکن نہیں۔
اب اِس تقریر پر تقریبا بیس سال گذر چکے ہیں۔ اللہ کی توفیق سے جو کچھ میں نے اُس وقت کہا تھا، وہ اب لفظ بہ لفظ واقعہ بن چکا ہے۔ لوگ اندر سے اپنی غلطی کو محسوس کررہے ہیں، لیکن اب بھی وہ کھلے طورپر اس کا اعتراف نہیں کرتے۔
پاکستان کے مشہور روزنامہ ’نوائے وقت‘ کے سنڈے میگزین (13 مئی 2007) کے صفحہ دو پر ایک مضمون چھپا ہے، اس کے لکھنے والے مسٹر طاق اسمٰعیل ساگر ہیں۔ اِس مضمون کا عنوان یہ ہے:
ہارٹ ٹوہارٹ کانفرنس اور مجاہد ِاوّل
اِس مضمون کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں کشمیری جہاد کے لیڈر سردار عبد القیوم خان اور انڈیا میں کشمیری جہاد کے لیڈر میر واعظ عمر فاروق، دونوں مسلح جہاد سے تائب ہو کر اب امن کی باتیں کررہے ہیں۔اب وہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے کو چھوڑچکے ہیں۔ مضمون میں سردار عبد القیوم خان کی طرف سے یہ الفاظ نقل کیے گیے ہیں: ’’موجودہ دَور میں کشمیرکی آزادی کی بات کرنا، احمقانہ سوچ ہے‘‘۔
کشمیری جہاد کے لیڈروں میں یہ تبدیلی بلا شبہہ خوش آئند ہے، لیکن اِن حضرات کو اس کا کوئی کریڈٹ ملنے والا نہیں۔ اِس لیے کہ وہ آج امن کی بولی تو بول رہے ہیں، لیکن انھوں نے کھلے لفظوں میں یہ اعلان نہیں کیا کہ اِس سے پہلے انھوں نے جو کچھ کیا، وہ بالکل غلط تھا۔ انھوں نے کشمیری قوم کی غلط رہنمائی کی۔ ان حضرات کے لیے کسی نیے رول کا آغاز اعتراف سے ہوتا ہے۔ اگر وہ کھلے طور پر اعتراف نہ کریں تو کسی نیے رول کا آغاز بھی اُن کے لیے مقدر نہیں ۔
جہاں تک راقم الحروف کا تعلق ہے، میں پہلے دن سے نام نہاد کشمیری تحریک کو بے اصل سمجھتا رہا ہوں۔ میرا کہنا یہ رہا ہے کہ اِس طرح کے واقعات تاریخ کے ذریعے ظہور میں آتے ہیں، نہ کہ موجودہ قسم کی تحریک کے ذریعے۔ میرا ماننا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ انڈیا کی آزادی کے وقت ہی ہوچکا ہے۔ اب نہ اُس کو باقاعدہ جنگ کے ذریعے بدلا جاسکتا ہے اور نہ گوریلا وار کے ذریعے۔ اِس قسم کی ہر کوشش مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے۔ اُس کو مزید دہرانا، صرف اپنے نقصان میں اضافے کے ہم معنیٰ ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ انڈیا ہر اعتبار سے پاکستان سے بہت زیادہ ترقی کررہا ہے۔ ایسی حالت میں کشمیر کے لیے بہترین چوائس انڈیا ہے، نہ کہ پاکستان۔ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کے ساتھ جُڑنا، ایک ترقی یافتہ ملک کے ساتھ جڑنا ہے۔ اور پاکستان کے ساتھ جڑنا، ایک ایسے ملک کے ساتھ جڑنا ہے جو ابھی تک ترقی کی طرف اپنا سفر بھی شروع نہ کرسکا۔
واپس اوپر جائیں

جنگ میں پہل نہیں

قرآن کی سورہ نمبر 9 میں ارشاد ہوا ہے: ألا تقاتلون قوماً نکثُوا أیمانہم وہمُّوا بإخراجِ الرّسولِ وہُم بدَء وکُم أوَّلَ مَرَّۃٍ (التوبۃ:13 ) یعنی کیا تم نہ لڑوگے ایسے لوگوں سے جنھوں نے اپنے عہد توڑ دیے اور رسول کو نکالنے کی جسارت کی، اور وہی ہیں جنھوں نے تم سے جنگ میں پہل کی۔
اِس آیت کی تشریح میںصاحب التفسیر المظہری نے لکھا ہے: وہم بدء وکم بالقتال أوّل مرّۃ، لأنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بَدَأ بالدَّعوۃِ وإلزام الحجۃ بالکتاب والتحدّی بہ، فعدلوا عن معارضتہ إلی المعاداۃ والمقاتلۃ، حتّیٰ اجتمعوا فی دارالندوۃ وأجمعوا علیٰ قتلہ (جلد 4، صفحہ 144)
یعنی انھوں نے تم سے جنگ میں پہل کی۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت سے آغاز کیا۔ اور کتاب اللہ کے ذریعہ حجت قائم کرنے سے اور اُس کے ذریعہ تحدّی کرنے سے مگر انھوں نے اُس کے جواب میں انحراف کیا اور دشمنی اور جنگ کا طریقہ اختیار کرلیا۔ یہاں تک کہ دار الندوہ میں اکھٹا ہوکر انھوں نے آپ کے قتل کا فیصلہ کرلیا۔
قرآن کی اِس آیت کے دو پہلو ہیں۔ ایک،یہ کہ ’’وہُم بدء وکم‘‘ میں جس ابتدا کا ذکر ہے، اُس سے مشرکین کی طرف سے کیا جانے والا کون سا واقعہ مراد ہے۔ اِس معاملے میں مفسرین کی ایک رائے نہیں۔ مفسرین نے مشرکوں کی طرف سے کیے جانے والے مختلف واقعات کو اِس کا مصداق قرار دیا ہے۔
آیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اُس سے ایک اصولی حکم نکلتا ہے۔ وہ یہ کہ جنگ کے معاملے میں بَدْء(آغاز) اہلِ اسلام کی طرف سے نہیں ہوگا، بلکہ فریقِ ثانی کی طرف سے ہوگا۔ فریقِ ثانی کی طرف سے جب تک جارحانہ آغاز نہ کیا جائے، اہلِ اسلام پُرامن طریقِ کار کے مطابق، اپنا دعوتی مشن جاری رکھیں گے۔ البتہ جب فریقِ ثانی کی طرف سے جارحیت کا آغاز کردیا جائے تو اُس کے بعد اہلِ اسلام کے لیے جائز ہوجاتا ہے کہ وہ دفاع کے طورپر فریقِ ثانی سے جنگی مقابلہ کریں۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت پسندانہ مزاج

نئی دہلی میں انڈیا گیٹ کا علاقہ بہت خاص علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ شام کے وقت یہاں لوگ سیروتفریح کے لیے آتے ہیں۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ ایک شخص وہاں آیا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی اور اس کا بچہ تھا۔ بچے نے اپنے باپ سے آئس کریم کی فرمائش کی۔ باپ نے فوراً اپنی جیب سے ایک نوٹ نکالا۔ اس نے آئس کریم کا ایک پیکٹ خریدا اور پھر تینوں کھڑے کھڑے آئس کریم کھانے لگے۔ میں نے اُس آدمی کے چہرے کو دیکھا تو اس کے چہرے پر فخر کی چمک تھی۔ گویا کہ خاموش انداز میں وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میری جیب میں پیسہ ہے اور میں اپنے پیسے سے آئس کریم خرید کر اپنے بچے کی فرمائش پوری کرسکتا ہوں۔ یہ پورا واقعہ اُس کے نزدیک ’’میں‘‘ کاکارنامہ تھا۔ اِس کے لیے اُسے کسی اور کا احسان مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
یہی تمام انسانوں کا حال ہے۔ تمام عورت اور مرد اِسی احساس میں جی رہے ہیں۔ اِس احساس نے لوگوں کے اندر سے تواضع(modesty) کا جذبہ چھین لیا ہے۔ ہر آدمی کا کیس کبر (arrogance) کا کیس بنا ہوا ہے۔ ہر عورت اور مرد کا صرف ایک مذہب ہے، اور وہ ایگوازم (egoism)ہے۔ اِس ایگوکلچر نے ہر ایک کو خود پسند اور سرکش اور متکبر بنا دیا ہے۔ لوگوں کا یہ مزاج صرف اُس وقت تک چھپا رہتا ہے، جب تک ان کی انا کو چھیڑا نہ جائے۔ اَنا کو چھیڑتے ہی ہر آدمی بتا دیتا ہے کہ وہ کبر کا کیس تھا۔ اگر چہ وہ بظاہر متواضع (modest) بنا ہوا تھا۔
یہ مزاج سرتاسر غیر حقیقت پسندانہ مزاج ہے۔ اگر آدمی حقیقتِ واقعہ پر غور کرے تو وہ کبھی بھی متکبرنہ بنے۔ کیوں کہ اِس دنیا میں کسی کے لیے متکبر بننا مضحکہ خیز حد تک بے معنیٰ ہے۔ چناںچہ کوئی سائنٹسٹ کبھی متکبر نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اُس کا میدانِ مطالعہ علومِ قطعیہ(exact sciences) ہوتے ہیں۔ اِس بنا پر اس کے اندر اپنے آپ حقیقت پسندی کا مزاج آجاتا ہے۔ ہر سائنٹسٹ، شعوری یا غیر شعوری طورپر جانتا ہے کہ اس کو کامل طورپر حقیقتِ واقعہ کی پابندی کرنا ہے۔ اگر وہ حقیقتِ واقعہ سے ذرا بھی ہٹے تو وہ مطلوب نتیجے تک پہنچنے سے محروم رہ جائے گا۔ گویا کہ اگزیکٹ سائنس، اس کے اندر اگزیکٹ تھنکنگ کا مزاج بناتی ہے۔ اور ایگزیکٹ تھنکنگ ہی کا دوسرا نام حقیقت پسندی ہے۔
اب انڈیا گیٹ کے مذکورہ واقعہ کو لیجیے۔ آدمی کے اندر فخر کا جذبہ کیوں آیا۔ صرف اس لیے کہ اس کے اندر سائنسی مزاج، بالفاظ دیگر، حقیقت پسندانہ مزاج موجود نہ تھا۔ اگر اس کے اندر صحیح مزاج موجود ہوتا تو آئس کریم کا پیکٹ اس کے تواضع میںاضافہ کرتا نہ کہ فخر اور گھمنڈ میں، جیسا کہ عملاً پیش آیا۔
آئس کریم کیا ہے۔ آئس کریم ایک عظیم تحفہ ہے۔ آئس کریم کو وجود میں لانے میں ایک طرف نیچر کا طویل کائناتی عمل شامل ہے، اور دوسری طرف انسان کی تہذیبی جدوجہد کا لمبا سفر اس کو وجود میں لانے میں سرگرم رہا ہے۔ اِس طرح ناقابلِ یقین حد تک ایک پُراز واقعات تاریخ کے نتیجے میں وہ وقت آیا کہ ایک شخص کو خوب صورت کیس میں پیک کی ہوئی آئس کریم حاصل ہوسکے۔
ایک سائنسی نظریے کے مطابق، تقریباً دس بلین سال پہلے وسیع کائنات گیسوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے بعد لمبے عمل کے نتیجے میں ہائڈروجن اور آکسیجن مخصوص تناسب میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے۔ اِس کے نتیجے میں پانی وجود میںآیا۔ اس کے بعد لمبی مدت تک زمین پر پانی برستا رہا۔ اس کے نتیجے میں زمین پر پانی کے ذخیرے اکھٹا ہوگیے۔ اس کے بعد حیوانات وجود میں آئے۔ آخر میں انسان اِس زمیں پر آباد ہوا۔
اِس طرح لمبی مدت کے عمل کے نتیجے میں دودھ دینے والے جانور پیدا ہوئے۔ پھر انسانی تہذیب کا عمل شروع ہوا۔ انسانی تہذیب ہزاروں سال تک ایک ارتقائی سفر طے کرتی رہی۔ اس نے حیوانات سے دودھ حاصل کیا۔ پھر اِس د ودھ کے مختلف مرکبات بنائے۔ پھر جدید صنعت ظہور میں آئی۔ اس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ دودھ کو آئس کریم کی شکل میں ڈھالا جاسکے۔ اور اس کو خوب صورت پیکٹ میں پیک کرکے بازار میں لایا جائے۔
عالمِ فطرت اور انسانی تہذیب دونوں کے اس لمبے مشترک عمل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج جب ایک آدمی چند روپیے دے کر بازار سے آئس کریم کا پیکٹ حاصل کرتا ہے تو اِس پورے عمل (process) کے مقابلے میں آدمی کا اپنا حصہ ایک فی بلین سے بھی بہت زیادہ کم ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی کے ہاتھ میں جب آئس کریم کا پیکٹ آئے تو وہ سرتاپا تواضع میں ڈھل جائے۔ دوطرفہ احسان مندی کے جذبے سے اُس کی گردن جھک جائے۔ فخر اور گھمنڈ کاکوئی ذرہ بھی اس کے دل میں باقی نہ رہے۔
یہ صرف آئس کریم کا معاملہ نہیں۔ اِس دنیا میں ہر چیز کا معاملہ یہی ہے۔ کوئی بھی چھوٹی یا بڑی چیز جس کو آدمی استعمال کرتاہے، وہ اِسی طرح انسان کے لیے ایک عالمی عطیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک طرف فطری سپورٹ (natural support) اور دوسری طرف تہذیبی سپورٹ(civilizational support) ، اِن دونوں قسم کے عظیم سپورٹ کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی مرد یاعورت اِس زمین پر آباد ہو اور اپنے لیے ایک کامیاب زندگی حاصل کرسکے۔
اِس واقعے کا اِدراک انسان کے لیے بے حد اہم ہے۔ اِسی ادراک کے نتیجے میں انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیداہوتی ہے جس کو تواضع کہاجاتا ہے۔ یہی تواضع انسان کی اصل پہچان ہے۔ جس آدمی کے اندر تواضع نہیں، وہ گویا کہ انسان بھی نہیں۔
Flaw in creationists’ argument, by Paul Davies
We will never explain the cosmos by taking on faith either divinity or physical laws. True meaning is to be found within nature. Scientists are slowly waking up to an inconvenient truth - the universe looks suspiciously like a fix. The issue concerns the very laws of nature themselves. For 40 years, physicists and cosmologists have been quietly collecting examples of all to convenient "coincidences" and special features in the underlying laws of the universe that seem to be necessary in order for life, and hence conscious beings, to exist. Change any one of them and the result would be lethal. To see the problem, imagine playing God with the cosmos. Before you is a designer machine that lets you tinker with the basics of physics. Twiddle this knob and you make all electrons a bit lighter, twiddle that one and you make gravity a bit stronger, and so on. It happens that you need to set 30-something knobs to fully describe the world about us. The point is that some of those metaphorical knobs must be tuned precisely, or the universe would be sterile. Example: neutrons are just a tad heavier than protons. If it were the other way around, atoms could not exist, because all the protons in the universe would have decayed into neutrons shortly after the big bag. No protons, then no atomic nucleuses, and no atoms. No atoms, no chemistry, no life. Like Baby Bear's porridge in the story of Goldilocks, the universe seems to be just right for life. So what's going on? Fuelling the controversy is an unanswered question lurking at the very heart of science - the origin of the laws of physics. Where do they come from? Why do they have the form that they do? Traditionally, scientists have treated the laws of physic as simply "given," elegant mathematical relationships that were somehow imprinted on the universe at its birth, and fixed thereafter. Inquiry into the origin and nature of the laws was not regarded as a proper part of science.
Illusory impression
But the embarrassment of the Goldilocks enigma has prompted a rethink. The Cambridge cosmologist Martin Rees, president of The Royal Society, suggests the laws of physics aren't absolute and universal but more akin to local bylaws, varying from place to place on a mega-cosmic scale. A God's eye view would show our universe as merely a single representative amid a vast assemblage of universes, each with this own bylaws. Mr. Rees calls this system "the multiverse," and it is an increasingly popular idea among cosmologists. Only rarely within the variegated cosmic quilt will a universe possess bio-friendly laws and spawn life. It would then be no surprise that we find ourselves in a universe apparently customized for habitation; we would hardly exist in one where life is impossible. The multiverse theory cuts the ground from beneath intelligent design, but it falls short of a complete explanation of existence. For a start there has to be a physical mechanism to make all those universes and allocate bylaws to them. This process demands its own laws, or meta-laws. Where do they come from? The root cause of all the difficulty can be traced to the fact that both religion and science appeal to some agency outside the universe to explain its law-like order. Dumping the problem in the lap of a pre-existing designer is no explanation at all, as it merely begs the question of who designed the designer. But appealing to a host of unseen universes and a set of unexplained meta-laws is scarcely any better. This shared failing is no surprise, because the very notion of physical law has its origins in theology. The idea of absolute, universal, perfect, immutable laws comes straight out of monotheism, which was the dominant influence in Europe at the time science as we know it was being formulated by Isaac Newton and his contemporaries. Just as classical Christianity presents God as upholding the natural order from beyond the universe, so physicists envisage their laws as inhabiting an abstract transcendent realm of perfect mathematical relationships. Furthermore, Christians believe the world depends utterly on God for its existence, while the converse is not the case. Correspondingly, physicists declare that the universe is governed by eternal laws, but the laws remain impervious to events in the universe.
Outdated theory
I think this entire line of reasoning is now outdated and simplistic. We will never fully explain the world by appealing to something outside it that must simply be accepted on faith, be it an unexplained God or an unexplained set of mathematical laws. Can we do better? I propose that the laws are more like computer software: programmes being run on the great cosmic computer. They emerge with the universe at the big bang and are inherent in it, not stamped on it from without like a maker's mark. Man-made computers are limited in their performance by finite processing speed and memory. So too, the cosmic computer is limited in power by its age and the finite speed of light. Seth Lloyd, an engineer at MIT, has calculated how many bits of information the observable universe has processed since the big bang. The answer is one followed by 122 zeros. Crucially, however, the limit was smaller in the past because the universe was younger. Just after the big bang, when the basic properties of the universe were being forged, its information capacity was so restricted that the consequences would have been profound. Here's why. If a law is a truly exact mathematical relationship, it requires infinite information to specify it. In my opinion, however, no law can apply to a level of precision finer than all the information in the universe can express. Infinitely precise laws are an extreme idealization with no shred of real world justification. In the first split second of cosmic existence, the laws must therefore have been seriously fuzzy. Then, as the information content of the universe climbed, the laws focused and homed in on the life-encouraging form we observe today. But the flaws in the laws left enough wiggle room for the universe to engineer its own bio-friendliness. If there is an ultimate meaning to existence, as I believe is the case, the answer is to be found within nature, not beyond it. The universe might indeed be a fix, but if so, it has fixed itself.
(Paul Davies is director of Beyond, a research center at Arizona State University, and author of The Goldilocks Enigma.)
واپس اوپر جائیں

سائنس اور الہٰیات

پروفیسر پال ڈیویز(Paul Davies) مشہور امریکی رائٹر ہیں۔ وہ ایری زونا اسٹیٹ (Arizona State) یونیورسٹی میں ایک ریسرچ سنٹر (Beyond) کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی ایک کتاب کا نام گولڈی لاکس انِگما(Goldilocks Enigma) ہے۔ حال میں ان کا ایک مقالہ مجلّہ گارجین (Guardian Newspapers Limited 2007) میں چھپا ہے۔ اِس مقالے کو انگریزی اخبار ہندو(The Hindu) نے اپنے شمارہ 27 جون 2007 میں اِس عنوان کے تحت شائع کیا ہے— تخلیق پسندوں کے استدلال میں دراڑ:
Flaw in creationists' argument
مضمون نگارلکھتے ہیں کہ ’’سائنس داں دھیرے دھیرے ایک ناگوار سچائی (inconvenient truth) تک پہنچ رہے ہیں، وہ یہ کہ کائنات ایک نہایت محکم کائنات ہے۔ سائنس داں چالیس سال سے کائنات میں کام کرنے والے قوانینِ طبیعی کی تحقیق کررہے ہیں۔ یہ تحقیق، کائنات کے پیچھے ایک شعوری وجود (concious being) کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ کائنات کے قوانین میں سے کسی ایک کو بھی اگر بدلا جائے تواس کا نتیجہ نہایت مہلک ہوگا۔ کائنات اتنی زیادہ منظم ہے کہ اس کے موجودہ ڈھانچے میں معمولی تبدیلی بھی اس کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
مثال کے طورپر ساری کائنات ایٹم سے بنی ہے۔ اور ہر ایٹم نیوٹران اور پروٹان کامجموعہ ہے۔ نیوٹران کسی قدر وزنی ہوتا ہے اور پروٹان کسی قدر ہلکا۔ یہ تناسب بے حد اہم ہے۔ کیوں کہ اگر اس کا الٹا ہو، یعنی پروٹان بھاری ہو اور نیوٹران ہلکا، تو معلوم قوانین کے مطابق، ایٹم کا وجود ہی نہ رہے گا۔ جب نیوکلیس نہ ہوگا تو ایٹم بھی نہ ہوگا، اور جب ایٹم نہ ہوگا تو کیمسٹری بھی نہیں ہوگی۔ اور جب کیمسٹری نہیں ہوگی تو زندگی بھی نہیں ہوگی۔
اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ سائنس ناقابلِ حل سوالات سے دوچار ہے۔ مثلاً طبیعیات کے موجودہ قوانین کہاں سے آئے، وہ اپنی موجودہ محکم حالت میں کیوں قائم ہیں، وغیرہ۔ روایتی طور پر سائنس داں یہ فرض کررہے تھے کہ یہ قوانین، کائنات کا لازمی حصہ ہیں۔ قوانینِ طبیعی کی حقیقت کی کھوج کرنا، سائنس کا موضوع نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب یہ سوالات سائنس دانوں کو پریشان کررہے ہیں۔
کیمبرج کے سائنس داں مارٹن ریس(Martin Rees) جو کہ ’رائل سوسائٹی‘ کے صدر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ طبیعیات کے قوانین، مطلق اور آفاقی نہیں ہیں، وہ ایک بڑے کائنات نظام کے متفرق حصے ہیں۔ ہر حصے کے اپنے ضوابط ہیں۔ وہ اِس نظام کو متعدّد کائناتی نظام (the multiverse system) کہتے ہیں۔ اِن تحقیقات کے مطابق، ہماری کائنات ایک ایسی کائنات ہے جو موافقِ حیات قوانین (bio-friendly laws) کی حامل ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ کائنات کو ہم اِس طرح پاتے ہیں کہ وہ ہماری ضرورتوں کے عین مطابق ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہاںانسان کا قیام ناممکن ہوجاتا۔ یہ محکم قوانین جو کائنات کو نہایت منظم طورپر کنٹرول کررہے ہیں، وہ کہاں سے آئے۔
تمام مشکلات کا سبب، جدید مفکرین کے نزدیک، یہ ہے کہ مذہب اور جدیدسائنس، دونوں کائنات کا جو تصور دے رہے ہیں، وہ کائنات کے علاوہ ایک ایسی ایجنسی کا تقاضا کرتے ہیں جو کائنات کے باہر سے کائنات کا نظم کررہی ہو۔ تاہم کائنات کی توجیہہ کے لیے ایک ایسے ڈزائنر کو ماننا جو کائنات سے پہلے موجود ہو، وہ اِس مسئلے کی کوئی توجیہہ نہیں۔ کیوںکہ یہ توجیہہ فوراً یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ ڈزائنر نے اگر کائنات کو بنایا تو خود ڈزائنر کو کس نے بنایا:
Who designed the designer
اگر زندگی کی کوئی آخری معنویت(ultimate meaning) ہے، جیسا کہ میں یقین رکھتا ہوں، تو یہ جواب خود نیچر کے اندر ملنا چاہیے، نہ کہ اُس سے باہر۔ کائنات ایک محکم کائنات ہوسکتی ہے، لیکن اگر ایسا ہے تو کائنات نے خود ہی اپنے آپ کو ایسا بنایا ہے‘‘۔
وضاحت
الہٰیات کے معاملے میں جدید ذہن سخت کنفیوژن کا شکار ہے۔ اِس کا ایک اندازہ پروفیسر پال ڈیویز کے مذکورہ مضمون سے ہوتا ہے۔ملحد فلاسفہ اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ اگرمذہبی عقیدے کے مطابق، خدا نے کائنات کو بنایا تو خود خدا کو کس نے بنایا۔ مگر یہ سوال مکمل طورپر ایک غیر منطقی (illogical) سوال ہے۔ یہ منطق (logic) کی نفی ہے۔ مزید یہ کہ مذکورہ اعتراض ایک کھُلی تضاد فکری پر قائم ہے۔ یہ لوگ خود تو کائنات کو بغیر خالق کے مان رہے ہیں، مگر خالق کو ماننے کے لیے وہ ایک خالقِ خالق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حالاں کہ کائنات کا وجود اگر بغیر خالق کے ممکن ہے تو خالق کا وجود بھی بغیر خالق کے ممکن ہونا چاہیے۔
عقلی موقف
خدا کے وجود کے معاملے میں اصل غور طلب بات یہ ہے کہ خالص عقلی نقطہ نظر سے ہم کیا موقف اختیار کرسکتے ہیںاور کیا نہیں۔ اِس کے سوا کوئی اور طریقہ اِس معاملے میں سرے سے قابل عمل ہی نہیں۔
یہ ایک مسلّم بات ہے کہ کائنات میں انتہائی معیاری حد تک نظم پایا جاتا ہے۔ نظم کا یہ معاملہ ہر آدمی کا ذاتی مشاہدہ ہے۔ مذکورہ مضمون نگار نے ایٹم کی ساخت کو لے کر اِسی معاملے کی ایک سائنسی مثال دی ہے۔ اِس لیے جہاں تک کائنات میں نظم کا سوال ہے، یہ ہر فریق کے نزدیک، ایک مسلّم حقیقت ہے۔
عقلی موقف کے اعتبار سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ نظم کا تصور ناظم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ جہاں نظم ہے، وہاں یقینا اس کا ایک ناظم موجود ہے۔ ناظم کے بغیرنظم کا تصور عقلی اعتبار سے محال ہے۔ نظم کی موجودگی ایک مجبورانہ منطق (compulsive logic) پیدا کرتی ہے، یعنی کسی بھی عذر کے بغیر ناظم کی موجودگی کا اقرار کرنا۔ کسی کے ذہن میں ناظم کی موجودگی کی توجیہہ نہ ہونا، اُس کو یہ منطقی جواز نہیں دیتا کہ وہ ناظم کی موجودگی کا انکار کردے۔
ایٹم کے ڈھانچے کی مثال لے کر مضمون نگار نے جو بات کہی ہے، وہی اِس دنیا کی ہر چیز کے بارے میں درست ہے۔ اِس دنیا کا ہر جُز، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، وہ اِس قدر محکم اور متناسب ہے کہ اس کے ڈھانچے میں کوئی بھی تغیر سارے نظام عالم کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
مثال کے طورپر ہمارے سیارۂ زمین میں جو کشش (gravity) ہے، وہ آخری حد تک ہماری ضرورتوں کے مطابق ہے۔ اگر زمین کی کشش نصف کے بقدر زیادہ ہوجائے، یا نصف کے بقدر کم ہوجائے تو دونوں حالتوں میں سیارۂ زمین پر انسانی تہذیب کا بقاناممکن ہوجائے گا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خلا میں ہمارے دو قریبی پڑوسی ہیں— سورج اور چاند۔ اگر ایسا ہو کہ سورج وہاں ہوجہاں آج چاند ہے، اور چاند وہاں ہو جہاں آج سورج ہے، تو زمین پر انسانی زندگی تو درکنار خود زمین جل کر ختم ہوجائے گی۔
ہماری زمین پر تمام چیزیں اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہیں۔ لیکن درخت کا معاملہ استثنائی طورپر یہ ہے کہ اس کی جڑیں تو زمین میں نیچے کی طرف جاتی ہیں اور اس کا تنا اوپر کی طرف جاتا ہے۔ اگر ایسا ہو کہ درخت میں یہ دو طرفہ خصوصیت نہ ہو تو اس کے بعد زمین کی سطح پر ہرے بھرے درختوں کا خاتمہ ہوجائے گا، وغیرہ۔
ذہین کائنات
کائنات میںاَن گنت چیزیں ہیں، اور ہر چیز مرکّب(compound) کی صورت میں ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایٹم، کائنات کا ایک ایسا واحدہ ہے جو مفرد(single) ہے اور غیر مرکب حالت میں ہے۔ مگر آئن سٹائن کے زمانے میں جب ایٹم ٹوٹ گیاتو معلوم ہوا کہ اٹیم بھی مرکب ہے، وہ کوئی مفرد چیز نہیں۔
دورِ جدید میں ہر چیز کا سائنسی مطالعہ کیا گیاہے۔ اِس مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ چیزیں جن اشیا سے ترکیب پاکر بنتی ہیں، ان کی ترکیب کے لیے ہمیشہ بہت سے آپشن (options) موجود ہوتے ہیں، مگر سائنس یہ بھی بتاتی ہے کہ نیچر ہمیشہ یہ کرتی ہے کہ بہت سے آپشن میں سے اُسی ایک آپشن کو لیتی ہے جو کائنات کی مجموعی اسکیم کے عین مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اِس دنیا کی ہر چیز بالکل پرفیکٹ نظر آتی ہے، اِس دنیا کی ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔
یہ اصول جو کائنات میں رائج ہے، اُس کو ایک لفظ میں ذہین انتخاب(intelligent selection) کہہ سکتے ہیں۔ کائنات میں بلین، ٹری لین سے بھی زیادہ چیزیں موجود ہیں، لیکن ہر چیز بلا استثنا، اِسی ذہین انتخاب کی مثال ہے۔ یہ اصول اتنا زیادہ عام ہے کہ ایک سائنس داں ڈاکٹر فریڈ ہائل (Fred Hoyle) نے اِسی موضوع پر ایک کتاب تیار کر کے شائع کی ہے، اُس کا نام ہے— ذہین کائنات(The Intelligent Universe) ۔ یہ کتاب ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ہے اور 1983میں لندن سے چھپی ہے۔
کائنات کا یہ ظاہرہ (phenomenon) کوئی سادہ بات نہیں، وہ خدا کے وجود کا ایک حتمی ثبوت ہے۔ کائنات کی بناوٹ میں ذہانت (intelligence) کی موجودگی واضح طورپر ایک اور بات ثابت کرتی ہے۔ ذہین تخلیق (intelligent creation) واضح طورپر ذہین خالق (intelligent creator) کا ثبوت ہے۔ منطقی طورپر یہ ناقابلِ قیاس ہے کہ یہاں ذہین عمل موجود ہو، لیکن ذہین عامل یہاں موجود نہ ہو۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے بلاشبہہ لازم اور ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ذہین عمل کو ماننے کے بعد ذہین عامل کو نہ ماننا، ایسا ہی ہے جیسے ایک پیچیدہ مشین کو ماننے کے بعد اُس کے انجینئر کو نہ ماننا۔ ڈاکٹر فریڈ ہائل نے اپنی کتاب میںدرست طورپر لکھا ہے کہ سائنس کے ابتدائی دور میں مسیحی چرچ نے سائنس دانوں کے خلاف جو متشددانہ کارروائی کی، وہ ابھی تک لوگوں کو یاد ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر وہ یہ اعلان کردیں کہ کائنات کے پیچھے ایک ذہین خالق کے وجود کا ثبوت مل رہا ہے تو قدیم مذہبی تشدد(religious connotation) شاید دوبارہ واپس آجائے گا۔ مگر یہ ایک بے بنیاد خوف ہے۔ ذہین خالق کے سائنسی اعتراف کے بعد جوچیز تاریخ میںواپس آئے گی، وہ سچاخدائی مذہب ہے، نہ کہ مسیحی چرچ۔
دو انتخاب(options)
کائنات میں جو غیر معمولی نظم اور تناسب پایا جاتا ہے، اس کی توجیہہ کے لیے ہمارے پاس دو انتخاب (options) ہیں۔ ایک، یہ کہ کائنات اپنی ناظم آپ ہے۔ مگر سائنس کی تمام تحقیقات اِس کی تردید کرتی ہیں۔ اِس لیے کہ سائنس نے کائنات میں جس نظم کو دریافت کیا ہے، وہ مکمل طور پر ایک ذہین نظم(intelligent design) ہے۔ دوسری طرف سائنس یہ بھی بتاتی ہے کہ خود کائنات کے اندر سب کچھ ہے، لیکن وہی چیز اس کے اندر موجود نہیں جس کو ذہانت (intelligence) کہاجاتا ہے۔ سائنس کی دریافت کردہ کائنات، بیک وقت کامل طورپر منظم (designed)ہے اور اسی کے ساتھ وہ کامل طورپر غیرذہین (non-intelligent)ہے۔ ایسی حالت میں کائنات کو اپنے نظم کا خود ناظم سمجھنا، ایسا ہی ہے جیسے پتھر کے اسٹیچو کے بارے میں یہ فرض کرلیا جائے کہ اس نے اپنی بامعنیٰ ڈزائن خود تیار کی ہے۔ وہ ایک خود تخلیقی وجود (self-created being) ہے۔
اِس کے بعد ہمارے پاس کائنات کی توجیہہ کے لیے صرف ایک آپشن باقی رہتا ہے، اور وہ یہ کہ ہم ایک خارجی ایجنسی(outside agency) کو کائنات کے نظم کا سبب قرار دیں۔ اِس ایک انتخاب کے سوا، کوئی دوسرا انتخاب ہمارے لیے عملی طورپر ممکن نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں ہمارے لیے بے خدا کائنات اور با خدا کائنات کے درمیان انتخاب نہیں ہے، بلکہ با خدا کائنات (universe with God) اور غیر موجود کائنات (no universe at all) کے درمیان انتخاب ہے۔ یعنی ہم اگر خدا کا انکار کریں تو ہمیں کائنات کے وجود کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ چوںکہ ہم کائنات کے وجود کا انکار نہیں کرسکتے، اِس لیے ہم مجبور ہیں کہ ہم خدا کے وجود کو تسلیم کریں۔
واحد انتخاب
عقلی اصولوں میںسے یہ ایک اصول ہے کہ جب ایسی صورت حال ہو کہ عملی طور پر ہمارے لیے صرف ایک ہی انتخاب ممکن ہو تو اُس وقت ایک مجبور کن صورتِ حال (compulsive situation) پیدا ہوجاتی ہے، یعنی ہم مجبور ہوتے ہیں کہ اُس ایک انتخاب کو لے لیں۔ اِس کے خلاف کرنا، صرف اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ وہاں ایک سے زیادہ انتخاب موجود ہوں۔ لیکن جب ایک کے سوا کوئی دوسرا انتخاب سرے سے موجود ہی نہ ہو تو اُس وقت لازم ہوجاتا ہے کہ ہم اِسی واحد انتخاب کو قبول کرلیں۔ زیرِ بحث مسئلے میں یہ واحدانتخاب خدا کے وجود کو بطور واقعہ تسلیم کرنا ہے، کیوں کہ یہاں اقرارِخدا کے سوا کوئی اور انتخاب ہمارے لیے سرے سے ممکن ہی نہیں۔
منطقی استدلال
کسی بات کو عقلی طورپر سمجھنے کے لیے انسان کے پاس سب بڑی چیز منطق (logic) ہے۔ منطق کے ذریعے کسی بات کو عقلی طورپر قابل فہم بنایا جاتا ہے۔ منطق کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک ہے، انتخابی منطق(optional logic) اور دوسری ہے، مجبورانہ منطق (compulsive logic) ۔منطق کے یہ دونوں ہی طریقے یکساں طورپر قابلِ اعتماد ذریعے ہیں۔ دونوں میں سے جس ذریعے سے بھی بات ثابت ہوجائے، اس کو ثابت شدہ مانا جائے گا۔
انتخابی منطق
انتخابی منطق وہ ہے جس میں آدمی کے لیے کئی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا موقع ہو۔ اِس قسم کے معاملے میںہمارے پاس ایسے ذریعے ہوتے ہیں جن کو منطبق کرکے ہم ایسا کرسکتے ہیں کہ کئی میں سے صرف ایک کا انتخاب کریں اور بقیہ کو چھوڑ دیں۔
مثلاً سورج کی روشنی کو لیجیے۔ آنکھ سے دیکھنے میں سورج کی روشنی صرف ایک رنگ کی دکھائی دیتی ہے، لیکن پِرزم (prism) سے دیکھنے میں سورج کی روشنی سات رنگوں میں بٹ جاتی ہے۔ اِس طرح سورج کی روشنی کے رنگ کے بارے میں ہمارے پاس دو انتخاب (options) ہوگیے۔ اب ہمارے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ دونوں میں سے جس انتخاب میں منطقی وزن زیادہ ہو، ہم اس کو لیں۔ چناں چہ اِس معاملے میں سات رنگوں کے نظریے کو مان لیاگیا۔ کیوں کہ وہ زیادہ قوی ذریعے سے ثابت ہورہا تھا۔
مجبورانہ منطق
مجبورانہ منطق کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ مجبورانہ منطق میں آدمی کے پاس صرف ایک کا انتخاب (option) ہوتاہے۔ آدمی مجبور ہوتا ہے کہ اُس ایک انتخاب کو تسلیم کرے۔ کیوں کہ اس میںایک کے سوا کوئی اور انتخاب سرے سے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ مجبورانہ منطق کے معاملے میں صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو لازمی طورپر ماننا بھی ہے، اور ماننے کے لیے اس کے پاس ایک انتخاب کے سوا کوئی دوسرا انتخاب موجود نہیں۔
مجبورانہ منطق کی ایک قریبی مثال ماں کی مثال ہے۔ ہر آدمی کسی خاتون کو اپنی ماں مانتا ہے۔ وہ مجبور ہے کہ ایک خاتون کو اپنی ماں تسلیم کرے۔ حالاں کہ اُس نے اپنے آپ کو اُس خاتون کے بطن سے پیدا ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اِس کے باوجود وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ ماں مانتا ہے۔ یہ ماننا، مجبورانہ منطق کے اصول کے تحت ہوتا ہے۔ ایسا وہ اِس لیے کرتا ہے کہ اِس معاملے میںاُس کی پوزیشن یہ ہے کہ اس کو ایک خاتون کو ہر حال میں اپنی ماں ماننا ہے۔ اِسی لیے وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ اپنی ماں تسلیم کرلیتا ہے۔ کیوں کہ اِس کیس میں اُس کے لیے کوئی دوسرا انتخاب (option) موجود نہیں۔
خدا کے وجود کو ماننے کا تعلق بھی اِسی قسم کی مجبورانہ منطق سے ہے۔ خدا کے وجود کے پہلو سے اصل قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِس معاملے میں ہمارے لیے کوئی دوسرا انتخاب ہی نہیں۔ ہم مجبور ہیں کہ خدا کے وجود کو مانیں۔ کیوں کہ اگر ہم خدا کے وجود کو نہ مانیں تو ہمیں کائنات کے وجود کی، اور خود اپنے وجود کی نفی کرنی پڑے گی۔ چوں کہ ہم اپنی اور کائنات کے وجود کی نفی نہیں کرسکتے ، اِس لیے ہم خدا کے وجود کی بھی نفی نہیں کرسکتے۔
انسان کا وجود، خدا کے وجود کا ثبوت
وسیع کائنات میں صرف انسان ہے جو خدا کے وجود کا انکار کرتا ہے۔ حالاں کہ انسان کا خود اپنا وجود، خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اگر انسان جیسی ایک ہستی یہاں موجود ہے تو خدا بھی یقینی طورپر موجود ہے۔ انسان کے اندر وہ تمام صفتیں ناقص طورپر موجود ہیں جو خدا کے اندر کامل طورپر موجود ہیں۔ اگر ناقص ہستی کا وجود ہے تو کامل ہستی کا بھی یقینی طورپر وجود ہے۔ ایک کو ماننے کے بعد دوسرے کو نہ ماننا، ایک ایسا منطقی تضاد ہے جس کا تحمل کوئی بھی صاحبِ عقل نہیں کرسکتا۔
ڈیکارٹ (Rene Descartes) مشہور فرنچ فلسفی ہے۔ وہ 1596 میں پیدا ہوا اور 1650 میںاس کی وفات ہوئی۔ اس کے سامنے یہ سوال تھا کہ انسان اگر موجود ہے تو اس کی موجودگی کا عقلی ثبوت کیا ہے۔ لمبے غور وفکر کے بعد اس نے اس سوال کا جواب اِن الفاظ میں دیا— میںسوچتا ہوں ، اِس لیے میں ہوں:
I think, therefore I exist.
ڈیکارٹ کا یہ جواب منطقی اعتبار سے ایک محکم جواب ہے۔ مگر یہ منطق، جس سے انسان کا وجود ثابت ہوتا ہے، وہ اس سے بھی زیادہ بڑی بات کو ثابت کررہی ہے، اور وہ ہے خدا کے وجود کا عقلی ثبوت۔ اِس منطقی اصول کی روشنی میں یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ— سوچ کا وجود ہے، اِس لیے خدا کا بھی وجود ہے:
Thinking exists, therefore God exists.
سوچ ایک مجرد (abstract) چیز ہے۔ جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں، وہ اِسی لیے خدا کا انکار کرتے ہیں کہ خدا انھیں ایک مجرد تصور معلوم ہوتا ہے، اور مجرد تصور کی موجودگی ان کے لیے ناقابل فہم ہے، یعنی ایک ایسی چیز کو ماننا جس کا کوئی مادّی وجود نہ ہو۔ لیکن ہر انسان سوچنے والی مخلوق ہے۔ خود اپنے تجربے کی بنیاد پر ہر آدمی سوچ کے وجود کو مانتا ہے۔ حالاں کہ سوچ مکمل طورپر ایک مجرد تصور ہے، یعنی ایک ایسی چیز جس کا کوئی مادّی وجود نہیں۔
اب اگر انسان ایک قسم کے مجرد تصور کے وجود کو مانتا ہے تو اُس پر لازم آجاتا ہے کہ وہ دوسری قسم کی مجرد تصور کے وجود کو بھی تسلیم کرے۔ یہ بلاشبہہ خدا کے وجود کا ایک ایسا ثبوت ہے جس کا تجربہ ہر آدمی کرتا ہے اور جس کی صحت کو ہر آدمی بلا اختلاف مانتا ہے۔ اگر سوچ کے وجود کا انکار کردیا جائے تو اس کے بعد یقینی طورپر انسان کے وجود کا اور خود اپنے وجود کا انکار کرنا پڑے گا۔ کوئی بھی آدمی اپنے وجود کا انکار نہیں کرسکتا، اس لیے کسی بھی آدمی کے لیے منطقی طورپر یہ ممکن نہیںکہ وہ خدا کے وجود کا انکار کرے۔
خدا کا غیر مرئی (invisible)ہونا، اِس بات کے لیے کافی نہیں کہ خدا کے وجود کا انکار کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر مرئی ہونے کی بنا پر خدا کے وجود کا انکار کرنا، ماڈرن سائنس کے زمانے میں ایک خلافِ زمانہ استدلال (anachronistic argument) ہے۔ اس لیے کہ آئن سٹائن (وفات: 1955 ) کے زمانے میں جب ایٹم ٹوٹ گیا اور علم کا دریا عالمِ صغیر (microworld) تک پہنچ گیا تو اس کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں ہر چیز غیر مرئی ہے۔ پہلے جو چیزیں مرئی (visible) سمجھی جاتی تھیں، اب وہ سب کی سب غیر مرئی ہوگئیں۔ ایسی حالت میں عدم رُویت کی بنیاد پر خدا کے وجود کا انکار کرنا، ایک غیر علمی موقف بن چکا ہے۔ اس موضوع کی تفصیل کے لیے حسب ذیل دو کتابوں کا مطالعہ کافی ہے:
Unseen World, by Sir Arthur Eddington
Human Knowledge, by A. W. Bertrand Russel
خلائی مشاہدہ
موجودہ زمانے میں جو نئی چیزیں وجود میں آئی ہیں، اُن میں سے ایک چیز وہ ہے جس کو خلائی سفر کہاجاتا ہے۔ بہت سے لوگ راکٹ کے ذریعے خَلا میں گیے اور وہاں سے مخصوص دور بینوں کے ذریعے انھوں نے زمین کا مطالعہ کیا۔ اِن لوگوں نے اپنے خلائی مشاہدے کی بنیاد پر بہت سی نئی باتیں بتائی ہیں۔
اُن میں سے ایک بات یہ ہے کہ ایک خلا باز نے کہا کہ خلائی سفر کے دوران انھوںنے یہ تجربہ کیا کہ وسیع خلا میں کہیں بھی زمین جیسا کوئی کُرہ موجود نہیں۔ زمین پر لائف ہے اور اُسی کے ساتھ اعلیٰ پیمانے پر لائف سپورٹ سسٹم بھی۔ یہ دونوں چیزیں زمین پر انتہائی موزوں اور متناسب اندازمیں پائی جاتی ہیں۔
ایک خلاباز نے زمین کے بارے میں اپنا تاثر بتائے ہوتے کہا— صحیح قسم کا سامان صحیح جگہ پر:
Right type of material at the right place.
زمین کی یہ انوکھی صفت ہے کہ یہاں زندگی پائی جاتی ہے، یہاں چلتا پھرتا انسان موجود ہے، مگر اِس قسم کی زندگی کی موجودگی کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کے لیے دوسرے اَن گنت اسباب درکار ہیں۔ اِن اسباب کے بغیر زندگی کا وجود اور بقا ممکن نہیں۔ زمین، اِس اعتبار سے وسیع کائنات میں ایک انوکھا استثنا ہے۔ یہاں استثنا ئی طورپر انسان موجود ہے اور اسی کے ساتھ یہاں اس کے وجود اور بقا کے لیے انتہائی متناسب انداز میں تمام سامانِ حیات موجود ہے۔
وسیع کائنات میں یہ بامعنیٰ استثنا بلا شبہہ ارادی عمل اور منصوبہ بند تخلیق کا ثبوت ہے، اور جہاں ارادی عمل اور منصوبہ بند تخلیق کا ثبوت موجود ہو، وہاں ایک صاحبِ ارادہ اور ایک صاحبِ تخلیق ہستی کا وجود اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے۔
زمین ایک استثنا
ایک شخص اگر کائنات کا سفر کرے، وہ پوری کائنات کا مشاہدہ کرے تو وہ پائے گا کہ وسیع کائنات پوری طرح ایک غیر ذی روح (lifeless) کائنات ہے۔ اُس میں اتھاہ خلا ہے، دہشت ناک تاریکی ہے، اُس کے اندر پتھر کی چٹانیں ہیں، آگ کے بہت بڑے بڑے گولے ہیں اور یہ سب چیزیں دیوانہ وار مسلسل حرکت میں ہیں۔
اِس پُر ہیبت منظر سے گذر کر جب وہ سیارۂ زمین پر پہنچتا ہے تو یہاں اس کو ایک حیران کُن استثنا نظر آتا ہے۔ یہاں استثنائی طورپر پانی ہے، سبزہ ہے، حیوانات ہیں، زندگی ہے، عقل و فہم کے پیکر انسان ہیں، پھر یہاں حیرت ناک طورپر وہ موافقِ حیات چیز موجود ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتا ہے۔ یہاںایک مکمل تہذیب (civilization) موجود ہے، جو وسیع کائنات میں کہیں بھی سرے سے موجود نہیں، یعنی بظاہر ایک انتہائی بے معنی کائنات میںایک انتہائی بامعنیٰ دنیا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ وسیع کائنات میں سیارۂ زمین ایک انتہائی نادر استثنا ہے۔ یہ استثنا کوئی سادہ بات نہیں، وہ ایک عظیم حقیقت کا مشاہداتی ثبوت ہے، اور وہ ہے قادرِ مطلق خدا کا ثبوت — استثنا مداخلت کو ثابت کرتا ہے اور مداخلت بلا شبہہ مداخلت کار کا ثبوت ہے، اور جب مداخلت کار کا وجود ثابت ہوجائے تو اس کے بعد خدا کا وجود اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے:
Exception proves intervention and intervention proves intervenor and when the existence of intervenor is proved, the existence of God is also proved.
سفرنگ کا مسئلہ
خدا کے وجود پر شک کرنے کے لیے جو باتیں کہی جاتی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو پرابلم آف اِوِل(problem of evil) یا سفرنگ (suffering) کہاجاتا ہے۔ یہ اعتراض صرف ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے، وہ یہ کہ انسانی زندگی میں جو سفرنگ ہے، وہ تمام تر مین میڈ (man-made) ہے، مگر اس کو غلط طور پر گاڈ میڈ(God-made) سمجھ لیاگیا ہے۔ انسانی زندگی میںسفرنگ کے حوالے سے جو کچھ کہاجاتا ہے، وہ اِسی غلط انتساب کا نتیجہ ہے۔
اِس غلط فہمی کااصل سبب یہ ہے کہ لوگ جب کسی انسان کی زندگی میں سفرنگ کے واقعہ کو دیکھتے ہیں تو وہ اُسی مبتلاانسان کے حوالے سے اُس کی توجیہہ کرنا چاہتے ہیں۔ چوں کہ اکثر مثالوں میں خود اُسی مبتلا انسان کے اندر اس کی توجیہہ نہیں ملتی، اس لیے اس سفرنگ کو لے کر وہ یہ کہنے لگتے ہیں کہ یا تو اس دنیا کا کوئی خدا نہیں، یا اگر خدا ہے تو وہ ظالم اور غیر منصف خدا ہے، مگر یہ انتساب بجائے خود غلط ہے۔
انسان کی زندگی میں جوسفرنگ پیش آتی ہے، اس کا سبب کبھی انسان خود ہوتا ہے اور کبھی اس کے والدین ہوتے ہیں اور کبھی اس کا سبب وہ سماج ہوتا ہے جس میں وہ رہ رہا ہے اور کبھی وسیع تر معنوں میں اجتماعی نظام اُس کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اِسی کے ساتھ کبھی کوئی سفرنگ فوری سبب سے پیش آتی ہے اور کبھی اس کے اسباب پیچھے کئی پشتوں تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔
غلط ریفرنس میں مطالعہ
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ شبہے کا سبب، اصل صورتِ حال کا غلط ریفرنس میںمطالعہ ہے، یعنی جس ظاہرے کو انسان کی نسبت سے دیکھنا چاہیے، اُس کو خدا کی نسبت سے دیکھنا۔ حالاں کہ یہ سائنسی حقائق کے سرتا سر خلاف ہے۔
مثال کے طورپر موجودہ زمانے میں ایڈز(AIDS) کا مسئلہ ایک خطرناک مسئلہ سمجھاجاتا ہے۔ مگر خود طبّی تحقیق کے مطابق، یہ انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے۔ میڈیکل سائنس میں یہ مستقل نظریہ ہے کہ کئی بیماریاں اَجداد سے نسلی طورپر منتقل ہوتی ہیں۔ ایسی بیماریوں کو اجدادی بیماری(atavistic disease) کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح مختلف قسم کی وبائیں پھیلتی ہیں جس میں ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں، یا خرابی ٔ صحت کا شکار ہوجاتے ہیں۔یہ بھی خود طبی تحقیق کے مطابق، انسان کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔
دہلی میں معروف شخصیت ڈاکٹر اَرُن شوری کے صاحب زادے مفلوج ہو کر وھیل چیئر پر رہتے ہے۔ اِس ’’سفرنگ‘‘ کا سبب بھی یہ ہے کہ چھوٹی عمر میں امریکا کے ایک اسپتال میں اُن کو غلط انجکشن لگ گیا، اِس بنا پر وہ جسمانی اعتبار سے مفلوج ہوگیے۔ اِسی طرح تشدد اور جنگوں کے نتیجے میں بے شمار لوگ مرجاتے ہیں یاناکارہ ہوجاتے ہیں، یہ سب بھی انسانی کارروائیوں کی بنا پر ہوتاہے، وغیرہ۔
واقعہ یہ ہے کہ انسانی سفرنگ کو نیچر سے منسوب کرنا، سرتاسر ایک غیر علمی بات ہے۔ سائنس کی تمام شاخوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نیچر مکمل طورپر خرابیوں سے پاک ہے۔ نیچر اِس حد تک محکم ہے کہ اس کی کارکردگی کے بارے میں پیشگی طورپر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر نیچر کے اندر قابل پیشین گوئی کردار نہ ہو تو سائنس کی تمام سرگرمیاں اچانک ختم ہوجائیں گی۔
تقابلی مطالعہ
پرابلم آف اِوِل کے اِس معاملے کا علمی مطالعہ کرنے کا پہلا اصول وہ ہے جس کو تقابلی طورپر سمجھنا (in comparision that we understand) کہاجاتا ہے۔ تقابلی مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ محدودطورپر صرف انسانی دنیا کا مسئلہ ہے، جب کہ انسان پوری کائنات کے مقابلے میں ایک بہت ہی چھوٹے جُز کی حیثیت رکھتا ہے۔ بقیہ کائنات اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ مکمل طور پر ایک بے نقص کائنات (zero-defect world) ہے۔ کائنات میں بے شمار سرگرمیاں ہر آن جاری رہتی ہیں، لیکن اُس میں کہیں بھی کوئی خرابی(evil) دکھائی نہیں دیتی۔
انسانی دنیا میں بیماریاں ہیں، انسانی دنیا میں حادثات ہیں، انسانی دنیا میں ظلم ہے، انسانی دنیا میں کرپشن ہے، انسانی دنیا میںبے انصافی ہے، انسانی دنیا میں استحصال ہے، انسانی دنیا میں لڑائیاں ہیں، انسانی دنیا میں نفرت اور دشمنی ہے، انسانی دنیامیں سرکشی ہے، انسانی دنیا میں فسادات ہیں، انسانی دنیا میں جرائم ہیں، اِس قسم کی بہت سی برائیاں انسانی دنیامیں پائی جاتی ہیں، لیکن انسان کے سوا، بقیہ کائنات اِس قسم کی برائیوں سے مکمل طورپر خالی ہے۔ یہی فرق یہ ثابت کرتا ہے کہ بُرائی کا مسئلہ (problem of evil) خود انسان کا پیدا کردہ ہے، نہ کہ فطرت کا پیدا کردہ۔اگر یہ مسئلہ فطرت کا پیدا کردہ مسئلہ ہوتا تو وہ بلا شبہہ پوری کائنات میں پایا جاتا۔
سائنٹفک مطالعہ
اس معاملے کا سائنٹفک مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا اور بقیہ کائنات میں ایک واضح فرق ہے، وہ یہ کہ بقیہ کائنات حتمی قسم کے قوانینِ فطرت سے کنٹرول ہورہی ہے۔ اِس کے برعکس، انسان آزاد ہے اور وہ خود اپنی آزادی سے اپنی زندگی کا نقشہ بناتا ہے۔ یہی فرق دراصل اُس چیز کا اصل سبب ہے، جس کو بُرائی کا مسئلہ (problem of evil) کہاجاتا ہے۔
اِس معاملے کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا کی تمام بُرائیاں، انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں۔ میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ بیماریوں کا سبب نیچر میں نہیں ہے، بلکہ وہ انسان کی اپنی غلطیوں میں ہے۔ یہ غلطیاں کبھی مبتلا شخص کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں، کبھی باپ دادا کی وراثت اس کا سبب ہوتی ہے، کبھی اجتماعی نظام کا کرپشن بیماریوں کے اسباب پیداکرتا ہے۔ یہ بات بے حد قابلِ غور ہے کہ بیماری کو نیچر سے جوڑنا ملحد مفکرین کا نظریہ ہے، وہ کسی سائنٹفک دریافت پر مبنی نہیں۔اِسی طرح لڑائیاں، گلوبل وارمنگ، مختلف قسم کی کثافت، فضائی مسائل (ecological problems) وغیرہ، سب کے سب انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں۔
خدا کا تخلیقی پلان
خالق نے انسان کویہ آزادی (freedom) کیوں دی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خالق نے چاہا کہ وہ انسان کو ایک عظیم انعام دے۔ یہ عظیم انعام جنت ہے، جو ابدی خوشیوں کی جگہ ہے۔ جنت میں جگہ پانے کا حق دار صرف وہ شخص ہوگا جو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے۔ جو آزاد ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ڈسپلن اور کنٹرول میں رکھے۔جہاں آزادی ہوگی، وہاں آزادی کاغلط استعمال بھی ہوگا۔ لیکن آزادی اتنی زیادہ قیمتی چیز ہے کہ کسی بھی اندیشے کی بنا پر اس کو ساقط نہیں کیا جاسکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے خدا کے تخلیقی پلان(creation plan) کو جاننا ضروری ہے۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کو اس دنیا میں مکمل آزادی دی گئی ہے۔ ایسا خدا نے مصلحتِ امتحان کے لیے کیا ہے۔ انسانی زندگی میں سفرنگ کے جو واقعات ہوتے ہیں، وہ تمام تر اسی آزادی کے غلط استعمال کے نتیجے میں ہوتے ہیں، کبھی براہِ راست طورپر اور کبھی بالواسطہ طور پر، کبھی سفرنگ میں مبتلا شخص کے ذاتی عمل کی وجہ سے اور کبھی دوسرے انسانوں کے عمل کی وجہ سے، کبھی کسی فوری غلطی کے نتیجے کے طورپر اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پچھلی نسلوں کی غلطی کی بنا پراُس کا نتیجہ بعد کی نسلوں کے سامنے آتا ہے۔
کائناتی معنویت کی توجیہہ
خدا کے وجود کی بحث کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق، کائنات کی معنویت (meaning) سے ہے۔ خدا کو ماننا، نہ صرف کائنات کے وجود کی توجیہہ ہے بلکہ خدا کا عقیدہ کائنات کو کامل طورپر بامعنیٰ بنا دیتا ہے۔ خدا کو نہ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ بامعنیٰ کائنات ایک بے معنیٰ انجام پر ختم ہوجائے۔ جب کہ خدا کو ماننا، یہ بتاتا ہے کہ کائنات آخر کار ایک بامعنیٰ انجام پر پہنچنے والی ہے۔
انسان کے اندر پیدائشی طورپر انصاف اور بے انصافی کاتصور پایا جاتا ہے۔ انسان پیدائشی طورپر یہ چاہتا ہے کہ جو شخص انصاف کے اصولوں کے تحت زندگی گذارے، اُس کو انعام ملے۔ اور جو شخص ناانصافی کا طریقہ اختیار کرے، اس کو سزا دی جائے۔ اِس فطری تقاضے کی تکمیل صرف باخدا کائنات (universe with God) کے نظریے میں ملتی ہے، بے خدا کائنات (universe without God) کے نظریے میں اِس فطری تقاضے کا کوئی جواب نہیں۔
ہر انسان پیدائشی طورپر اپنے اندر خواہشوں کا سمندر لیے ہوئے ہے۔ موجودہ دنیا میں اِن خواہشوں کی تکمیل (fulfillment) ممکن نہیں۔ بے خدا کائنات کے نظریے میں انسان کے لیے یہ حسرت ناک انجام مقدر ہے کہ اس کی فطری خواہشیں کبھی پوری نہ ہوں۔ لیکن باخدا کائنات کے نظریے میں یہ امکان موجود ہے کہ آدمی اپنی خواہشوں کی کامل تسکین، بعد از موت کے مرحلۂ حیات میں پالے۔
وقت کا شعور
انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان ایک ٹائم کانشش مخلوق ہے۔ وہ اپنے وقت کو حال اور مستقبل میں بانٹ کردیکھتا ہے۔ مگر دوسری طرف یہ ایک واقعہ ہے کہ ہر آدمی کو اپنی زندگی میں صرف حال (present) ملتا ہے۔ ہر آدمی اپنے مستقبل سے محروم ہوکر مایوسی کی حالت میں مر جاتا ہے۔ وہ اپنے حال میں بہتر مستقبل کے لیے عمل کرتا ہے، لیکن اس کی محدود عمر میں اس کا وہ بہتر مستقبل اس کو نہیں ملتا اور وہ مایوسی کے ساتھ اِس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
ایک بار ہم نے انٹرنیٹ پر یہ سوال ڈالا کہ بڑے بڑے لوگوں میں وہ کون ہیں جو اپنی آخری عمر میں مایوسی کا شکار ہوئے اور ڈپریشن (depression) کی حالت میں مَرے۔ اِس کے جواب میں انٹرنیٹ نے جو فہرست دی، اس میں چار سو دو بڑے بڑے اشخاص کے نام موجود تھے۔ (کوئی شخص سرچ انجن پر جاکر اِس فہرست کو دیکھ سکتا ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے: Risk Factor: Depression )۔ کائنات کے باخدا نظریے میں انسان کے اِس فطری سوال کا جواب موجود ہے، لیکن کائنات کے بے خدا نظریے میں اِس سوال کا کوئی جواب موجود نہیں۔
زَوجین کا اصول
کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں ہر چیز جوڑاجوڑا پیدا کی گئی ہے— منفی برقی ذرّے کا جوڑا مثبت برقی ذرہ، درخت کے پھولوں میں نر اور مادہ، حیوانات میں مذکّر اور مؤنث۔ انسان میں عورت اور مرد، وغیرہ۔ یہ ایک کائناتی قانون ہے کہ یہاں ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنی تکمیل کرتی ہے۔
اِس لحاظ سے انسانی زندگی کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے، یعنی موت سے پہلے کی نامکمل زندگی کے ساتھ موت کے بعد کی کامل زندگی۔ باخدا کائنات کے نظریے میں اُس کا یہ تکمیلی جوڑا موجود ہے، لیکن بے خدا کائنات کے نظریے میں اُس کایہ تکمیلی جوڑا موجود نہیں۔
آئڈیل ازم کی ناکامی
تمام فلاسفہ اور مفکرین موجودہ دنیا کو ابدی (eternal) سمجھتے رہے ہیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اِسی موجودہ عالم میں ہم کبھی نہ کبھی اپنی مطلوب دنیا بنا لیں گے۔ آئڈیل سوسائٹی، آئڈیل ریاست، آئڈیل نظام کے تصورات اِسی فکر کے تحت پیدا ہوئے۔ ایسے تمام مفکرین اِن تصورات سے اپنی آخری عمر تک مسحور رہے۔
لوگوں کے نزدیک تہذیب (civilization) اِسی انسانی خواب کی تعبیر تھی۔ موجودہ صنعتی ترقیوں کے بعد لوگوں نے یہ سمجھا کہ تہذیبی ارتقا آخر کار اُنھیں اِس منزل تک پہنچانے والا ہے، جب کہ اِسی موجودہ دنیا میں وہ اپنی جنت تعمیر کرلیں۔ لیکن یہ تصور مکمل طورپر باطل ثابت ہوا۔
دنیا کا خاتمہ
جدید سائنس کے بانی سرآئزاک نیوٹن (وفات: 1727 ) نے 1704 میں قوانینِ طبیعی کا مطالعہ کرکے بتایا تھا کہ موجودہ دنیا 2060 میں ختم ہوجائے گی۔ (ٹائمس آف انڈیا، 18 جون 2007) ۔اب دنیا بھر کے تمام سائنس داں خالص مشاہدات کی بنیاد پر یہ بتارہے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں دنیا کا خاتمہ یقینی بن چکا ہے۔ تہذیب کا مزید ارتقا اب سرے سے یہاں ممکن ہی نہیں۔
الون ٹافلر(Alvin Toffler) کی کتاب ’فیوچر شاک‘ پہلی بار 1970میں چھپی۔ الون ٹافلر نے تبایا تھا کہ دنیا انڈسٹریل ایج سے نکل کر اب سپرانڈسٹریل ایج میں داخل ہورہی ہے۔ تہذیب کا اگلا دَور مکمل آٹومیشن (complete automation) کا دور ہوگا۔ پُش بٹن کلچر (push button culture) اِس حد تک ترقی کرے گا کہ ہر کام آٹومیٹک طورپر ہونے لگے گا۔ لیکن گلوبل وارمنگ کا مسئلہ تکمیلِ تاریخ کے بجائے خاتمۂ تاریخ (end of history) کا پیغام لے کر سامنے آگیا۔
تاریخ انسانی کا یہ ظاہرہ بلا شبہہ آج کا سب سے بڑا سوال ہے۔ اِس سوال کی اطمینان بخش توجیہہ صرف با خدا کائنات کے نظریے میں موجود ہے۔ بے خدا کائنات کے نظریے کے تحت، اِس ظاہرے کی کوئی اطمینان بخش توجیہہ کرنا سرے سے ممکن ہی نہیں۔
اِس طرح کی مثالیں واضح طورپر ثابت کرتی ہیں کہ بے خدا کائنات کے نظریے میں ایک بہت بڑا خلا موجود ہے، وہ یہ کہ اِس نظریے کو ماننے کی صورت میںایک انتہائی بامعنیٰ کائنات ایک انتہائی بے معنیٰ انجام پر ختم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔
دوسری طرف، با خدا کائنات کا نظریہ اِس نقص سے مکمل طور پر خالی ہے۔ باخدا کائنات کے نظریے کو ماننے کی صورت میںیہ ہوتا ہے کہ بامعنیٰ کائنات کا انجام ایک انتہائی بامعنیٰ مستقبل پر منتہی ہوتا ہے۔ یہ واقعہ، باخدا کائنات کے نظریے کے حق میںایک ایسی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے جو عقل اور منطق کو پوری طرح مطمئن کرنے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ڈارون اور ڈارون ازم

چارلس رابرٹ ڈاروِن (وفات: 1882) نظریۂ ارتقا کی نسبت سے بہت مشہور ہے۔ اِس سلسلے میں اُس نے دو کتابیں لکھیں۔ اِن دونوں انگریزی کتابوں کے نام یہ ہیں:
On the Origin of Species
The Descent of Man
’اوریجن آف اسپیشیز‘ کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آغازِ انواع کے موضوع پر ہے۔ مگر اصلاً اُس کا موضوع انواعِ حیات کی تعبیر ہے۔ اِس لحاظ سے غالباً اس کا زیادہ صحیح نام تعبیرِ انواع (Interpretation of Species) ہونا چاہیے۔
ڈارون کی کتاب کے چھپنے کے بعد مسیحی چرچ کی طرف سے اس کی سخت مخالفت کی گئی۔ چناں چہ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ڈارون ازم خدا کے وجود کی نفی ہے، مگر یہ درست نہیں۔ ڈارون کی کتاب ’اوریجن آف اسپیشیز‘ میں ایک سے زیادہ بار خدا(God) کا نام آیا ہے۔ اُس نے اپنی یہ کتاب اِن الفاظ کے ساتھ ختم کی ہے کہ— خالق نے ابتدا میں زندگی کی ایک یا کئی شکلیں پیدا کیں اور پھر اُس سے بہت سی انواعِ حیات وجود میں آگئیں۔ تخلیق کا یہ تصور کتنا عظیم ہے:
There is grandeur in this view of life, with its several powers, having been originally breathed by the Creator into a few forms or into one: and that, whilst this planet has gone cycling on according to the fixed law of gravity, from so simple a beginning endless forms most beautiful and most wonderful have been, and are being evolved.
ڈارون اپنی آخری عمر میں ناقابلِ تشخیص اَمراض کا شکار ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی کتاب میںدی ہوئی متضاد تعبیرات(contradictory explanations) سے سخت غیر مطمئن تھا۔ اُس پر دوبار دِل کا دورہ پڑا اور اِسی میں اُس کا انتقال ہوگیا (B-5/496)
واپس اوپر جائیں

جنت میں داخلے کی شرط

آدم پہلے انسان تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کرکے اُن کو اور ان کی بیوی حوا کو جنت میں رکھا، اور کہا کہ تم دونوں یہاں رہو اور آزادانہ طورپر یہاں کے سامانِ راحت سے فائدہ اٹھاؤ۔ لیکن تم اِس شجرِ ممنوعہ کے قریب نہ جانا، ورنہ تم ظالم ہوجاؤگے (البقرۃ:35 )
مگر شیطان کے وسوسے سے متاثر ہو کر انھوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا۔ اس کے بعد آدم اور حوا دونوں جنت سے نکال کر موجودہ زمین میں ڈال دیے گیے۔اور آدم سے اور ان کی پوری نسل سے یہ کہہ دیاگیا کہ جو عمل کا ثبوت دے گا، وہی ابدی جنت میں جگہ پائے گا۔
زندگی کے آغاز کی یہ مثال بتاتی ہے کہ جنت کے حصول کی شرط کیا ہے۔ جنت کسی کو پُر اسرار طورپر نہیں ملے گی اور نہ کسی کی سفارش کسی کو جنت کا مستحق بنائے گی۔ جنت کسی کو پیدائشی حق کے طور پر ملنے والی نہیں، یہاں تک کہ پیغمبر کو بھی نہیں:
Paradise is not a birth right, even for the Prophets.
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کے ذریعے سارے انسانوں کے لیے یہ مثال قائم کردی اور بتا دیا کہ جنت کسی خود ساختہ عقیدے کے تحت کسی کو ملنے والی نہیں۔ یہ اصول اتنا عام ہے کہ اِس میں پیغمبروں تک کا کوئی استثنا نہیں ہے۔
حضرت آدم کے واقعے میںایک اور بے حد اہم بات معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ جنت کے حصول کا مدار سب سے پہلے جس چیز پر ہے، وہ ہے اپنی خواہشوں پر کنٹرول اور اپنی عقل کو اتنا زیادہ ترقی دینا کہ وہ شیطان کے وسوسوں سے بچ سکے۔ انسان کے اندر ابدی کامیابی کی خواہش بے پناہ طورپر موجود ہے۔ اِسی خواہش کے راستے سے شیطان نے آدم کے اوپر حملہ کیا اور وہ کامیاب ہوگیا۔ اِسی طرح انسان کے اندر بہت سی خواہشیں ہیں۔ ہر خواہش انسان کے اندر شیطان کے داخلے کا دروازہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی خواہش کے ہر دروازے پر چوکی دار بنا رہے، تاکہ شیطان اس کے اندر داخل ہو کر اُس کو خدا کی رحمت سے دور نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

Wednesday, 1 August 2007

Al Risala | August 2007 (الرسالہ،اگست)

2

- دجّال اکبر کا فتنہ

5

- تفسیر قرآن

8

- قیامت قریب آگئی

10

- تطفیف پر وَیل

12

- خلافتِ ارضی

14

- اظہار دین

15

- صوفی ازم

18

- مدعو نہ کہ دشمن

19

- مسلم ذہن

20

- مسلمان کیا کریں

21

- جذباتِ پرستش

22

- کامیابی کا اصول

23

- دعوہ ورک، کمیونٹی ورک

25

- ڈی لنکنگ پالیسی

26

- صحیح طرزِ فکر

30

- سائنٹفک مذہب کی ضرورت

32

- چیلنج کی اہمیت

34

- غلط جنرلائزیشن

35

- مال کی حیثیت

36

- متواضع انسان

37

- تعلیم کی اہمیت

39

- امانی، عمل

41

- احتیاط ضروری ہے

42

- ایک خط

44

- خبرنامہ اسلامی مرکز180


دجّالِ اکبر کا فتنہ

حدیث کی کتابوں میں بہت سی روایتیں مستقبل کے بارے میں آئی ہیں۔ اِن میں سے ایک یہ ہے کہ آخری زمانے میں ایک دجّال پیدا ہوگا۔ اُس وقت اُمتِ مسلمہ میںسے ایک شخص اٹھے گا، جو دجّال کا’حَجیج‘بنے گا اور اُس کا خاتمہ کرے گا(إن یخرج وأنا فیکم فأنا حَجیجہ دُونکم، وإن یخرج ولستُ فیکم فامْرُئٌ حجیج نفسہ، صحیح مسلم، کتاب الفتن) یہ واقعہ تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہوگا۔ چناں چہ صحیح مسلم کی روایت میںیہ الفاظ آئے ہیں: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین ( کتاب الفتن) یعنی یہ خدا کے نزدیک سب سے بڑی گواہی ہوگی۔
دجّال کے لفظی معنٰی بہت دھوکا دینے والا(great deceiver) ہے۔ دجال اپنا یہ کام تلوار کے ذریعے نہیں کرے گا۔ دھوکا دینا، دلیل کے ذریعے ہوتا ہے، نہ کہ تلوار کے ذریعے۔ چنانچہ دجال علم اور دلائل کے زور پر لوگوں کو بہکائے گا۔ وہ لوگوں کو ذہنی گم راہی میں مبتلا کرے گا۔ دجال کے مقابلے میں جو شخص اس کی کاٹ کے لیے اٹھے گا، اُس کے لیے صحیح مسلم میں ’حجیج‘ کا لفظ آیا ہے۔ لسان العرب میں ’حجیج‘ کا مفہوم اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: مُحاجُّہ ومغالبُہ بإظہار الحُجّۃ علیہ (2/228) یعنی دلائل کے ذریعے غالب آنے والا:
One who can overcome in the argument.
حدیث میں آتا ہے کہ دجّال کی پیشانی پر ک، ف، ر (کفر) لکھا ہوا ہوگا (صحیح مسلم، کتاب الفتن) اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دجال جس دور میں پیدا ہوگا، وہ خدا سے کفر (انکار) کا دور ہوگا، یعنی الحاد کا دور۔ پچھلی تاریخ کا فتنہ خدا کا انکار نہیں تھا، بلکہ خدا کو مان کر اُس کا شریک بنانا تھا۔ اُس زمانے میں خدا کا وجود ایک اصولِ موضوعہ(axiom)کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں یہ مسلّمہ ٹوٹ گیا۔ آج الحاد کا زمانہ ہے، یعنی انکارِ خدا کا زمانہ۔
قدیم زمانے میں داعی کو یہ ثابت کرنا پڑتا تھا کہ خدا کا کوئی شریک نہیں۔ موجودہ زمانے میں داعی کو خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو دجّال کے فتنے سے لڑنا کہاگیا ہے۔ خدا کے وجود کو علمی طورپر ثابت کرنا، یہی دجّال کو قتل کرنا ہے۔ حدیث میں جس چیز کو ’’عظیم ترین شہادت‘‘ کہاگیا ہے، اُس سے مراد غالباً یہی ہے۔
حدیثوں کے مطالعے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دجّال یا دجّالیت در اصل سائنسی دور کا فتنہ ہے۔ سائنسی دور میں پہلی بار یہ ہوگا کہ کچھ لوگ دلائل کے نام پر حق کا ابطال کریں گے۔ وہ یہ تأثر دیں گے کہ حق، علمی ترقی کے مقابلے میں ٹھیر نہیں سکتا۔ پھر خدا کی توفیق سے ایک شخص اٹھے گا جو خود سائنسی دلائل کے ذریعے اِس دجّالی فتنے کا خاتمہ کردے گا۔ وہ دجّالی دلائل کو زیادہ بر تر دلائل کے ساتھ بے بنیاد ثابت کردے گا۔ یہ واقعہ، اپنی نوعیت کے اعتبار سے، تاریخ بشری کا پہلا واقعہ ہوگا۔ وہ دعوتِ حق کی عظیم ترین مثال کے ہم معنی ہوگا۔ اِسی لیے اُس کی بابت صحیح مسلم میں یہ الفاظ آئے ہیں: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین۔ یہ عظیم دعوتی واقعہ قیامت سے پہلے پیش آئے گا۔
دجّالی فتنہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کوئی نیا فتنہ نہیں،وہ شیطانی فتنے ہی کا نقطۂ انتہا (culmination) ہے۔شیطان ہمیشہ سے یہ کرتا رہا ہے کہ وہ ’تزئین‘ کے ذریعے لوگوں کو سچائی کے راستے سے ہٹاتا ہے۔ شیطان کا یہ کام ہمیشہ سے جاری ہے۔ اِسی شیطانی فتنے کے خلاف ذہن کو بیدار رکھنے کے لیے حج کے موقع پر رمی کی جاتی ہے۔ رمی دراصل شیطان کے خلاف علامتی سنگ باری (symbolic stoning) ہے۔ سائنسی دور میں یہ شیطانی تزئین، علمی تزئین کے روپ میں ظاہر ہوگی۔ اسی لیے اس کو دجّالیت کہاگیا ہے۔
قرآن کے مطابق، شیطان کا کام تزئین (الحجر: 39 ) کرنا ہے۔ تزئین کے لیے ہمیشہ اُس کے موافق سامان درکار ہوتا ہے۔ پچھلے زمانوں میں یہ موافق سامان زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ موجودہ زمانے میں یہ موافق سامان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، علمی اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی۔ دجّال دراصل وہ شیطانِ اکبر ہے جو جدید ذرائع سے، زیادہ پُرزور انداز میں باطل کی تزئین کرے گا۔ پھر امتِ محمدی کا ایک شخص اٹھے گا جو خدا کی خصوصی مدد سے نظریاتی سطح پراس کی دجّالیت کا خاتمہ کردے گا۔
دجّالیت در اصل علمی سطح پر تزئینِ اکبر کا فتنہ ہے۔ حدیث کے مطابق، اُس زمانے میں ایک ’’رجلِ مومن‘‘ اٹھے گا جو دجّال کو قتل کرے گا، مگر یہ قتل جسمانی معنوں میں نہ ہوگا بلکہ فکری معنوں میں ہوگا، یعنی دجّالی فتنے کو ایکسپوز (expose) کرنا۔
دجالیت ایک علمی فتنہ ہوگا اور رجلِ مومن بھی اس کا خاتمہ علمی دلائل کے زور پر کرے گا۔ حدیث میں ’عظیم شہادت‘ کا لفظ اِسی معنیٰ میںآیا ہے۔اِس میں ’شہادت‘ سے مراد گواہی ہے نہ کہ جان کی قربانی۔دینِ حق کی یہی وہ عظیم ترین گواہی ہے جس کو حدیث میں ’’قتلِ دجّال‘‘ کہاگیا ہے۔
دجّال اکبر کا مقابلہ کرنے والے اِسی رجلِ مومن کو حدیث میں مہدی کہاگیا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں مہدی اور مسیح دونوں کو ایک شخصیت بتایا گیا ہے(ولا المہدیُّ إلاّ عیسیٰ بنُ مریم، ابن ماجہ، کتاب الفتن) اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ دجّال، شیطانی کلچر کا نقطۂ انتہا ہے اور مہدی، ربّانی کلچر کا نقطۂ انتہا۔ دجّال، مٹیریل آئڈیالوجی کا نمائندہ ہے اور مہدی، اسپریچول آئڈیالوجی کا نمائندہ— مٹیریل آئڈیالوجی کا نشانہ دنیا میں جنت کی تعمیر ہے، اور اسپریچول آئڈیالوجی کا نشانہ آخرت میں جنت کی تعمیر۔
واپس اوپر جائیں

تفسیرِ قرآن

کچھ لوگ ضروری علمی حق ادا کیے بغیر قرآن کی تفسیر کرتے ہیں۔ مگر حدیث میںاس کو سختی سے منع کیا گیا ہے(الترمذی، باب أن یفسّر القرآن بغیر علم) مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اُس میں دو قسم کی آیتیں ہیں۔ چناںچہ ارشاد ہوا ہے: منہ آیات محکمات ہنّ أم الکتاب وأخر متشابھات (آل عمران: 7) یعنی اُس میں بعض آیتیں محکم ہیں، وہ کتاب کی اصل ہیں۔ اور دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔
اس آیت میں ’متشابہات‘ کا لفظ لے کر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں کچھ آیتیں مشتبہ آیتیں ہیں، اُن کا مفہوم واضح نہیں۔ مگر آیت کی یہ تفسیر درست نہیں۔ متشابہات کا مطلب متماثلات ہے، یعنی بزبان تمثیل۔ یہ دونوں الفاظ اُسلوب کو بتانے کے لیے ہیں، نہ کہ اصل معنیٰ کو بتانے کے لیے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن میں دوقسم کے مضامین ہیں۔ ایک، موجودہ معلوم دنیا کے بارے میں۔ دوسرے، غیب کی دنیا کے بارے میں۔ قرآن میں موجودہ معلوم دنیا کے بارے میں جو بیانات ہیں وہ براہِ راست زبان میں ہیں اور غیب کی دنیا کے بارے میں جو بیانات ہیں وہ تمثیل کی زبان میں ہیں۔
مثلاً إن الصلاۃ کانت علی المؤمنین کتاباً موقوتًا (النساء: 103 ) ایک ایسی آیت ہے جو محکم زبان میں ہے۔ اس آیت میں’موقوت‘ کے مفہوم کو ہم پوری طرح جان سکتے ہیں۔ اس کے برعکس یداہ مبسوطتان (المائدہ: 64) ایک ایسی آیت ہے جو متشابہ زبان میں ہے۔ اللہ کا ہاتھ کیسا ہے، اُس کو جاننا ہمارے لیے ممکن نہیں، اس لیے اُس کو تمثیل کی زبان میں بیان کیا گیا۔ اس دوسری آیت کا مفہوم ہم صرف اجمالی زبان میں سمجھ سکتے ہیں۔ کلی اورحتمی طور پر اُس کا مفہوم اس دنیا میں سمجھا نہیں جاسکتا۔
متشابہ آیتوں میں غیب کی باتوں کو تمثیل کی زبان (symbolic language) میں بیان کیا گیا ہے۔ چوں کہ ان غیبی باتوں کو انسان موجودہ دنیا میں کلی طورپر سمجھ نہیں سکتا، اس لیے اُن کے معاملے میں ایسا کیا گیا۔ اس قسم کی آیتوں کے بارے میں خوض اور تعمق درست نہیں۔ ایک عالم نے بجا طور پر کہا ہے کہ: أبہموا ما أبہمہ اللہ (تم اُس چیز کو مبہم رکھو جس کو اللہ نے مبہم رکھا ہے)۔
جہاں تک محکم آیتوں کا تعلق ہے، اُن میں ہم یہ کرسکتے ہیں کہ اُن کی تفصیلات جاننے کے لیے مکمل تحقیق اور غور و فکر کریں کیوں کہ ایسی آیتیں انسان کے دائرۂ علم سے تعلق رکھتی ہیں۔ مگر جہاں تک متشابہات کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں طالبِ قرآن کو اجمالی مفہوم پر اکتفا کرنا چاہیے۔
2 - اسی طرح قرآن میں ’أولوا الألباب‘ کا لفظ کئی مقامات پر آیا ہے۔ مثلاً فرمایا: إنما یتذکر أولواالألباب(الرعد: 19 ) ۔ ان آیتوں کے بارے میں اگر کوئی شخص کہے کہ ’أولواالألباب‘ کا مطلب ہے اوپن مائنڈ(open mind) تو یہ درست نہ ہوگا۔ قرآن کی تفسیر کے بارے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے زبان کے اعتبار سے آیت کا لفظی مفہوم بتایا جائے۔ اُس کے بعد ضروری تشریح اور تجزیہ کرکے بیان کیا جائے کہ اُس کے نزدیک آیت کا مفہوم کیا ہے۔ مثلاً ’أولواالألباب‘ کی آیت میں پہلے اُس کا صحیح ترجمہ بتانا ہوگا۔ اُس کے بعد اُس کے بارے میں اپنی تشریح دلائل کے ذریعہ بتائی جاسکتی ہے۔
عربی زبان میں ’لُبّ‘ کے معنی عقل (intellect) کے ہیں۔ تاہم لُبّ میںلغوی طورپر مزید وسعت ہے۔ لُب اصل میں ہر چیز کے خالص کو کہتے ہیں۔ عقل کے لیے جب یہ لفظ استعمال کیا جائے تو اُس سے مراد خالص عقل ہوگی، وہ عقل جو وہم اور تعصب کی آمیزش سے پاک ہو۔ اس لیے لُبّ پر عقل کا اطلاق ہوگا مگر عقل پر لُبّ کا اطلاق ضروری نہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی بے آمیز عقل کے ساتھ سوچے تو وہ قرآن کے بیان کی تصدیق پر مجبور ہوگا۔
’أولوا الألباب‘ کی تشریح کرتے ہوئے مفسر ابن کثیر نے لکھا ہے کہ: العقول التّامۃ الزّکیۃ التی تدرک الأشیاء بحقائقہا (تفسیر ابن کثیر ،جلد 1 ، صفحہ 438 ) یعنی کامل اور پاکیزہ عقل جو چیزوں کا اُن کی حقیقت کے لحاظ سے ادراک کر لے۔
عقل ہر انسان کو ملتی ہے، لیکن لوگ اپنی عقل پر طرح طرح کے پردے ڈال لیتے ہیں۔ اس لیے وہ چیزوں کو ویسا نہیں دیکھ پاتے جیسی کہ وہ ہیں۔ جو آدمی اپنی عقل کو اس کمزوری سے بچائے اُس کے لیے حق کو پہچاننا کچھ بھی مشکل نہیں۔
یہاں میں ایک اور بات کا اضافہ کروں گا۔ وہ یہ کہ علم کے حصول کے لیے تواضع (modesty) لازمی طورپر ضروری ہے۔ جس آدمی کے اندر تواضع کی صفت نہ ہو وہ کبھی علم اور معرفت کا تجربہ نہیں کرسکتا۔
ہر آدمی کے اندر پیدائشی طورپر انانیت اورکبر کا مادہ ہے، کوئی بھی آدمی اس سے خالی نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کسی آدمی کا کبر اُس کے لہجے اور انداز میں کھلے طورپر نمایاں ہوجاتا ہے اور کوئی شخص اپنے کبر کواس طرح چھپائے رہتا ہے کہ عام حالات میں کوئی آدمی اُس کو پکڑ نہیںسکتا۔
کبر حصولِ علم میں کیوں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے آپ بہت کم باتوں کو جان سکتاہے۔ زیادہ باتیں اُس کو دوسروں سے سیکھنی پڑتی ہیں۔ اب ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی آدمی کے سامنے دوسرے کی طرف سے کوئی علم کی بات آتی ہے تو وہ أخذتہ العزّۃ بالإثم (البقرہ: 206 ) کا مصداق بن جاتا ہے۔ یعنی وہ اُس کو ساکھ (prestige) کا سوال بنا لیتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے دوسرے کی بات مان لی تو میں اُس کے مقابلے میں چھوٹا ہوجاؤں گا۔ اس نفسیات کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اُس کے سامنے علم آتا ہے مگر وہ اُس کو قبول کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

قیامت قریب آگئی

وسیع کائنات میں زمین ایک استثنائی کُرہ ہے۔ وہ استثنائی طورپر سرسبز و شاداب ہے۔ اِس بنا پر وہ اِس قابل ہے کہ انسان اُس پر آباد ہو اور یہاں ترقی یافتہ تہذیب بنائے۔ مگر قرآن کے مطابق، یہ ابدی صورتِ حال نہیں۔ ایک وقت آئے گا جب کہ زمین کی شادابی باقی نہ رہے گی۔ وہ ایک بے آب و گیاہ کرہ بن کر رہ جائے گی۔ یہ واقعہ قیامت سے پہلے ہوگا۔
قرآن کی سورہ نمبر 18 کی ایک آیت یہ ہے: إنا جعلنا ما علی الأرض زینۃً لہا لنبلوہم أیُّہم أحسن عملاً۔ وإنّا لجاعلون ما علیہا صعیداً جُرُزاً (الکہف: 7-8 ) یعنی رُوئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اُس کو زمین کے لیے زینت بنایاہے تاکہ ہم لوگوں کو جانچیں کہ اُن میں اچھا عمل کرنے والا کون ہے۔ اور ہم بالآخر اُس پر جو کچھ ہے سب کو بنجر میدان بنادیں گے۔
ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں جب قرآن میں یہ آیت اتری، اُس وقت یہ بات ایک بعید پیشین گوئی تھی، مگر اب زمین کے سائنسی مشاہدات بتارہے ہیں کہ زمین کا یہ مقرر انجام شروع ہوچکا ہے۔ حال میں سیٹلائٹ کے ذریعے سطحِ زمین کے جو مشاہدات کیے گیے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے کُرۂ ارض پر پانی کے نظام میں سخت اختلال پیدا ہوگیا ہے۔ اور زمین تیزی سے عین اُسی انجام کی طرف جارہی ہے جس کی پیشین گوئی قرآن میں ’’صعیداً جُرُزاً‘‘ کے الفاظ میں کی گئی تھی۔
حال میں ساری دنیا کے سائنس دانوں نے اِس موضوع پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا شروع کیا ہے۔ اُن کے مشاہدات اور ریسرچ کے نتائج برابر میڈیا میں آرہے ہیں۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ’ٹائمس آف انڈیا‘ (18 مئی 2007 ) میں ایک رپورٹ اِس عنوان کے تحت چھپی ہے— 2050 تک زمین بے آب و گیاہ اور ویران ہو جائے گی:
By 2050, Earth will be arid and empty.
اِس خبر میں بتایا گیا ہے کہ مشہور سائنس داں جیمس لولاک (James Lovelock) نے جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں کہا ہے کہ 2050 تک سطحِ ارض کا بڑا حصہ خشک ہوچکا ہوگا۔ بیش تر زندگیاں ختم ہوجائیں گی۔ ہم ایک ایسے انجام کے کنارے پہنچ چکے ہیں جب کہ ایک ایک کرکے لوگ مرنے لگیں گے، یہاں تک کہ سارے لوگ ختم ہوجائیں گے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہوگا جس کو اِس سے پہلے انسان نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ جو کچھ ہونے والا ہے، اُس میں اگر بیس فی صد آدمی بھی زندہ بچ جائیں تو وہ بہت خوش قسمت انسان ہوں گے:
We are on the edge of the greatest die-off humanity has ever seen. We will be lucky if 20 % of us survive what is coming. (p. 22)
یہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ سادہ طورپر ماحولیاتی تبدیلی (climate change) کی بات نہیں ہے۔ وہ خالق کی طرف سے ایک واررننگ ہے۔ وہ ایک ہونے والے واقعہ کی پیشگی اطلاع ہے۔ وہ اس لیے ہے تاکہ آدمی ہوش میںآجائے۔ وہ اپنی اصلاح کرکے اپنے آپ کو خدا کی پکڑ سے بچانے کی کوشش کرے۔
اصل یہ ہے کہ خدانے موجودہ دنیا کو ایک مقامِ تیاری (preparatory ground) کے طورپر بنایا ۔اُس نے اِس زمین پر ہر قسم کی ضروری چیزیں مہیا کردیں۔ یہ چیزیں سامانِ عیش کے طورپر نہ تھیں، بلکہ وہ صرف سہولیات (facilities) کے طورپر تھیں۔ انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ اپنے اندر جنّتی شخصیت کی تعمیر کرے، تاکہ اُس کو جنت کی ابدی دنیا میں بسایا جاسکے۔ مگر انسان نے یہ کیا کہ اُس نے سامانِ تیاری کو سامانِ عیش سمجھ لیا۔ اپنے آپ کو جنت کے لیے تیار کرنے کے بجائے، وہ اِسی دنیا میں اپنی جنت بنانے لگا۔
خدا مختلف قسم کی تنبیہات (warnings)بھیجتا رہا، لیکن انسان ہوش میں نہ آیا۔ اِس طرح اُس نے خدا کی نظر میں یہ جواز کھو دیا کہ وہ مزید مدت تک اِس دنیا میں قیام کرے۔ بظاہر اب وہ وقت آگیا ہے جب کہ یہ دنیا ختم کردی جائے اور انسان کو اپنے عمل کا حساب دینے کے لیے میدانِ حشر میں کھڑا کردیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

تطفیف پر وَیل

تجارت کو منصفانہ بنیاد پر قائم کرنا، شریعتِ الٰہی کا ایک اہم اصول ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں ایک بنیادی حکم یہ دیاگیا ہے کہ تجارتی سودے میں کوئی تاجر نہ کم تولے اور نہ کم ناپے بلکہ ناپ اور تول میں پوری طرح عدل سے کام لے۔ اس سلسلے میں قرآن کے چند حوالے یہ ہیں:
1 - لاتنقصوا المکیال والمیزان (ہود:84 )
2 - ولا تبخسوا الناس أشیاء ہم (الشعراء:183 )
3 - ولا تخسروا المیزان (الرحمٰن:9 )
اس کے علاوہ قرآن کی سورہ نمبر 83 میں ایک اور حکم آیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: ’’خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں۔ اور جب اُن کو ناپ کر یا تول کردیں تو گھٹا کردیں۔ کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ اُٹھائے جانے والے ہیں، ایک بڑے دن کے لیے، جس دن تمام لوگ خداوند عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے‘‘۔ (التطفیف: 1-6 )
سورہ التطفیف کے حکم اور دوسری سورتوں کے حکم میں بظاہر لفظی مشابہت ہے۔ یعنی دونوں میں ناپ اور تول کی زبان استعمال کی گئی ہے۔ مگر دونوں میںایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ دوسری سورتوں میں دینے کے وقت یک طرفہ طورپر کم تولنے یا کم ناپنے کا ذکر ہے۔ مگر سورہ التطفیف میں اس کے برعکس یہ کہاگیا ہے کہ— وہ لوگ جو دوسروں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں۔ اور جب اُن کو ناپ کر یا تول کردیں تو گھٹا کر دیں۔
اس فرق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری سورتوں میں تاجرانہ بد معاملگی سے منع کیا گیا ہے۔ مگر سورہ التطفیف میں جو بات ہے اُس کا تعلق تجارتی معاملے سے نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک انسانی کردار ہے جس کو ناپ اور تول کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کامزاج یہ ہو کہ اپنے معاملے میں اُن کا معیار کچھ ہو اور دوسروں کے معاملے میں اُن کا معیار کچھ اور۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اُن کی اپنی ذات کا ذکر ہو تو وہ صرف اپنی خوبیاں بیان کریں، اور جب دوسرے کا معاملہ ہو تو وہ اُس کی صرف برائیاں بیان کریں۔ اپنے معاملے کو بیان کرنے کے لیے اُن کو ہمیشہ خوب صورت الفاظ مل جائیں، اور دوسرے کے معاملے کو بیان کرنے کے لیے اُن کے پاس صرف برے الفاظ ہوں۔ وہ اپنے آپ کو تو ہمیشہ خوش نام رکھنا چاہتے ہوں مگر دوسروں کے معاملے میں انھیں صرف اُن کی بدنامی سے دلچسپی ہو۔ ایک طرف وہ اپنے کارناموں کا بھرپور اعتراف چاہتے ہوں اور دوسری طرف اُن کے سوا جو لوگ ہیں، اُن کا ذکر اس طرح کریں جیسے کہ انھوں نے کوئی اچھا کام ہی انجام نہیں دیا۔
ان آیات میں ناپ اور تول کی زبان بطور تمثیل استعمال کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس باٹ سے دوسروں سے لے رہاہے، اسی باٹ سے اُسے دوسروں کو دینا بھی چاہیے۔ مثلاً دوسروں سے وہ اپنا اعتراف چاہتا ہے تو اُس کو بھی دوسروں کا اعتراف کرناچاہیے۔ دوسروں سے وہ چاہتا ہے کہ وہ اُس کو بدنام نہ کریں تو اُس کو بھی چاہیے کہ وہ دوسروں کو بدنام کرنے سے پرہیز کرے۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ حق کے معاملے میں اُس کا ساتھ دیں تو اُس کو بھی اسی طرح دوسروں کا ساتھ دینا چاہیے۔وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اُس کے بارے میں وہی بات کہیں جو واقعہ کے مطابق ہو تو اُس کو بھی دوسروں کے بارے میں ہمیشہ مطابقِ واقعہ بات کہنا چاہیے۔
تاریخ کے اکثر نزاعات بدگمانی کی بنیاد پر ہوئے ہیں، اور بدگمانی کا سبب ہمیشہ یہی تطفیف ہوتا ہے۔ دو افراد یا دو گروہوں کے درمیان جب بھی نزاع ہو یا ہوئی تو اُس کا سبب ہمیشہ یہی تطفیف تھا۔ لوگوں نے جس کو اپنا حریف سمجھ لیا، اُس کی اچھائیوں کو بالکل نظر انداز کردیا۔ البتہ اُس کی حقیقی یا غیر حقیقی برائیوں کو ڈھونڈھ کر نکالا اور اُس کو عوام کے درمیان خوب پھیلادیا— گھر کی انفرادی لڑائی سے لے کر باہر کی قومی لڑائیوں تک ہر جگہ یہی تطفیف کا معاملہ کام کرتا ہوا نظر آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

خلافتِ ارضی

خلافتِ ارضی سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں دوسری جگہ ’تمکین فی الارض‘ (الکہف: 84) کہاگیا ہے۔ یعنی زمین میں اقتدار دینا۔ یہ اقتدار ایک آزمائشی پرچہ ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح مال ایک آزمائشی پرچہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافتِ ارضی حکمت الٰہی کے تحت ہر قوم کو دی جاتی ہے۔ اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ یہ دیکھے کہ اقتدار پانے والی قوم اقتدار پانے کے بعد کیسا عمل کرتی ہے (یونس : 14 )
یہ خلافت ارضی یا اقتدار قرآن کے مطابق، مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہے۔ وہی اپنی مصلحت کے تحت یہ عطیہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور جس کو نہیں چاہتا اس کونہیں دیتا۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ— تم کہو،اے اللہ، سلطنت کے مالک تو جس کو چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے۔ اور تو جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلیل کرے۔ تیرے ہاتھ میں ہے سب خیر۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے (آل عمران: 26 )
جس طرح مال مقصود حیات نہیں ہے اسی طرح خلافتِ ارضی بھی مقصود دعوت نہیں ہے۔ یہ منصوبۂ الٰہی کے خلاف ہے کہ کوئی گروہ خلافت کو اپنی تحریک کا نشانہ بنائے، خلافت کسی گروہ کو اس طرح نہیں ملتی کہ وہ اس کو اپنا نصب العین قرار دے کر اس کے لیے براہِ راست جدوجہد کرے۔ اس سیاسی عطیہ کا تعلق استحقاق سے ہے۔ اگر کسی گروہ کے اندر یہ شرط پائی جائے تو خوداللہ کی طرف سے ایسے حالات پیدا کیے جائیں گے جو اس کو منصب خلافت تک پہنچا دیں۔ استحقاق کے بغیر محض مطالباتی مہم یا سیاسی جدوجہد کے ذریعہ کسی کو خلافت کا منصب نہیں مل سکتا۔
جہاں تک اہلِ ایمان کاتعلق ہے خلافت ارضی کا معاملہ ان کے لیے ایک امر موعود ہے، وہ ان کے لیے امر مقصود نہیں۔ یعنی اہلِ ایمان کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ خلافت کو اپنا نشانہ بنا کر اس کے حصول کے لیے براہِ راست تحریک چلائیں۔ان کو اپنے اندر ایمانی شعور کو زندہ کرنا ہے اور اپنی ذات سے متعلق ضروری عملی تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ اللہ کاوعدہ ہے کہ اس کے بعد وہ ان کے لیے خلافت ارضی کا فیصلہ فرمائے گا۔قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میں خلافت (اقتدار) دے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت (اقتدار) دیا تھا۔ اور ان کے لیے ان کے دین کو جمادے گا جس کو ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘ (النور : 55)
خلافت یانظام صالح کوئی ایسی چیز نہیں جو کاغذ سے نکل کر زمین پر قائم ہوجائے۔ اس دنیا میں صالح نظام کو قائم کرنے کے لیے ہمیشہ صالح افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر صالح افراد موجود نہ ہوں تو خلافت یا نظام صالح کا نام لینے سے کوئی صالح نظام قائم نہیں ہوسکتا۔ یہ عمل اور نتیجے کے درمیان فرق کا معاملہ ہے۔ اگر آپ پھل چاہتے ہوں تو پہلے آپ کو شجر کاری پر عمل کرنا ہوگا۔ شجر کاری کے میدان میں ضروری عمل کیے بغیر کبھی کوئی شخص پھل کا مالک نہیں بن سکتا۔
یہی معاملہ خلافت یا نظام صالح کے قیام کا بھی ہے۔ کرنے والوں کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ وہ افراد کے اندر اعلیٰ ایمانی شعور جگائیں۔ وہ لوگوں کے اندر بلند کرداری پیدا کریں۔ وہ ایسے افراد تیار کریں جو ہر قسم کے نفسانی محرکات سے اوپر اٹھ کر لوگوں سے معاملہ کرنے والے ہوں۔ جن کے اندر یہ استعدادپیدا ہو چکی ہو کہ وہ اقتدار پاکر بھی متواضع بنے رہیں۔ زمین کے خزانے ان کے ہاتھوں میں آئیں مگر وہ حبّمال میں مبتلا نہ ہوں۔ لوگوں کی طرف سے ان کی اناکو چوٹ لگے اس کے باوجود وہ انصاف کے اصول پر قائم رہیں۔ ایسے افراد ہی کوئی صالح نظام قائم کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے بغیر خلافت یا صالح نظام کا نعرہ لگانا صرف فساد فی الارض ہے، نہ کہ حقیقی معنی میں کوئی نتیجہ خیز عمل۔
واپس اوپر جائیں

اظہارِ دین

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن اتر رہا تھا، اس وقت یہ اعلان کی گیا کہ— وہ اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کردے(ہوالذی أرسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدّین کلّہ)
یہ آیت قرآن کی تین سورتوں (التوبہ، الفتح، الصف) میں آئی ہے۔ اس آیت میں جس غلبہ کا ذکر ہے اس سے مراد فکری غلبہ ہے۔ اس کا ابتدائی مظاہرہ عرب میں ہوا جب کہ پورے عرب میں شرک مغلوب ہوگیا اور توحید کو تمام ملک میں فکری غلبہ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اسی کے ساتھ پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر جوانقلاب لائے اس کے ذریعہ سے تاریخ میںایک نیا عمل جاری ہوا جو تمام علمی اور نظریاتی اسباب کو اسلام کے حق میں کر دینے والا تھا۔ یہ عمل تاریخ میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ موجودہ زمانے میں وہ پوری طرح مکمل ہوگیا۔ اب اسلام کو امکانی طورپر تمام ادیان کے اوپر فکری غلبہ حاصل ہوچکا ہے۔ تاہم یہ فکری غلبہ امکان کی صورت میں ہے۔ اب اہلِ اسلام کا یہ کام ہے کہ وہ اٹھیں اور اس امکان کو استعمال کرکے اسلام کو عملی طورپر تمام ادیان کے اوپر غالب اور سر بلند کردیں۔
اظہار دین کی آیت میں جو بات کہی گئی ہے اس سے مراد دراصل یہ ہے کہ پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے ذریعہ تاریخ میںایسا انقلاب لایا جائے گا جس کے بعد دلائل کا وزن تمام تر مذہب توحید کے حق میں جمع ہوجائے۔ شرک کی قسم کا کوئی بھی نظریہ دلیل کی بنیاد پر کھڑا ہونے کے قابل نہ رہے۔ یہ تمام نتیجہ اس انقلاب کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہے جس کو موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کہاجاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں یہ امکان اپنی آخری صورت میں پیدا ہوچکا ہے۔ آج تمام علمی دلائل اسلام کی صداقت کی تصدیق کررہے ہیں۔ آج سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان جدید امکانات کو سمجھا جائے اور ان کو پُر امن طور پر اسلامی دعوت کے حق میں استعمال کیا جائے۔ موجودہ زمانے میں اسلامی دعوت کا کام گویا کہ ایک نظری امکان کو عملی واقعہ بنانے کا کام ہے۔
واپس اوپر جائیں

صوفی ازم

بی بی سی لندن کی طرف سے ایک خط مورخہ 31 دسمبر 2003 مجھے ملا۔ اس خط میں مجھ سے فرمائش کی گئی تھی کہ اُن کے ویب سائٹ کے لیے میںایک ہزار الفاظ کا ایک آرٹیکل تیار کرکے اُنھیں دوں۔ اس آرٹیکل کا تعلق، صوفی ازم سے تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا صوفی ازم مشرق اور مغرب کے درمیان دوری کو ختم کرسکتا ہے:
If Sufism has the possibility to bridge the widening gulf between the Islamic world and the West.
یہ آرٹیکل اُنھیں انگریزی زبان میں ایک ہزار الفاظ میںمطلوب تھا۔ اس آٹیکل کو وہ مختلف زبانوں میں اپنی ویب سائٹ پر شائع کرنا چاہتے تھے۔ آرٹیکل کا عنوان انھوں نے حسب ذیل الفاظ میں تجویز کیا تھا:
Relevance of Sufism in the post 9/11 world.
یہ دعوت نامہ ملنے کے بعد میںنے از سرِ نو صوفی ازم کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے میں میں نے صوفیوں اور غیر صوفیوں کی بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا، اُردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی۔ اس مطالعے کے بعد بہت سی حقیقتیں میرے سامنے آئیں۔
صوفی یا تصوف کی اصطلاحیں قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ جہاں تک میںسمجھتا ہوں، اس کے بجائے قرآن میں الربّانیۃ (آل عمران: 79) کا لفظ آیا ہے۔ قرآن میں الربّانیۃ تقریباً اُسی مفہوم کے لیے استعمال ہوا ہے جس کے لیے بعد کے زمانے میں تصوف کے الفاظ استعمال ہوئے۔
الربّانیۃ یا الربّانیون کا لفظی مطلب ہے، رب والا۔ یعنی وہ شخص جس کی سوچ اور جس کا عمل، سب کچھ رب کی طرف متوجہ ہوجائے۔ جس کی زندگی مکمل طورپر رب کے رنگ میں ڈھل جائے۔ وہ بظاہر دنیا میں رہے مگر وہ نفسیاتی اعتبار سے دنیا سے قطع تعلق کرکے آخرت سے جُڑ جائے۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدا میں جو آیتیں اُتریں اُن میںآپ کو مدثر اور مزمل کے لفظ سے خطاب کیا گیا، یعنی اے چادر اوڑھنے والے۔ چادر اوڑھنا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ آدمی خارجی دنیا سے قطع تعلق کرکے داخلی دنیا کی طرف متوجہ ہوگیا۔ وہ مادی دنیا سے کٹ کر روحانی دنیا سے جڑ گیا۔ وہ انسانوں کی طرف سے اپنا رُخ موڑ کر خدا کی طرف دیکھنے لگا۔ نبوت کے بعد پیغمبر اسلام کے اندر یہی نفسیاتی حالت پیدا ہوئی۔ چناں چہ آپ کو مدثر اور مزمل کے لفظ سے خطاب کیاگیا۔
صوفی کلچر اس مخصوص نام (تصوف) سے عباسی خلافت کے زمانے میں شروع ہوا۔ اُس وقت صوفی مزاج کے لوگوں نے پیغمبر اسلام کی پیروی میں ’’چادر‘‘ اوڑھنا شروع کیا۔ یہ چادر عام طورپر صوف (اون) کی بنی ہوئی ہوتی تھی۔ اس لیے ایسے لوگوں کو صوفی کہا جانے لگا، یعنی اون کی چادر اوڑھنے والے۔ پھرصوفی کے لفظ نے مزید ترقی کی اور اس فعل کو تصوف کہاجانے لگا۔ بعد کے زمانے میں اگر چہ تصوف کے حلقوں میں کچھ بدعتیں رائج ہوگئیں، مگر ابتدائی زمانے میںتصوف کا مطلب صرف یہی تھا۔
صوفی ازم اور روحانیت اور ربّانیت سب تقریباً ہم معنٰی الفاظ ہیں۔ یہ سب بنیادی طورپر مراقبہ (meditation) پر مبنی ہیں۔ یعنی داخلی عبادت کرنا، ذکر و فکر میںمشغول ہو کر حقیقت اعلیٰ کی طرف دھیان لگانا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ عمل دنیا میں رہتے ہوئے انجام دیا جاتا ہے، نہ کہ دنیا سے باہر جنگلوں اور پہاڑوں میںجاکر۔ میںسمجھتا ہوں کہ اسلامی تصوف یا ربّانی زندگی کا بہترین اظہار مندرجہ ذیل حدیث میں پایا جاتا ہے:
وعلی العاقل مالم یکن مغلوباً علی عقلہ أن تکون لہ ساعات۔ ساعۃ یناجی فیہا ربّہ، وساعۃ یحاسب فیہا نفسہ، وساعۃ یتفکر فیہا فی صنع اللہ تعالیٰ، وساعۃ یخلوفیہا لحاجتہ من المطعم والمشرب (صحیح ابن حبان عن أبی ذر، جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلی البغدادی، صفحہ 98)
یعنی ہر صاحب عقل پر لازم ہے کہ اُس کے لیے کچھ گھڑیاں ہوں۔(1) وہ گھڑی جب کہ وہ اپنے رب سے سرگوشی کرے۔ (2) وہ گھڑی جب کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے ۔(3) وہ گھڑی جب کہ وہ خدا کی کاری گری میں غور کرے۔ (4) اور وہ گھڑی جب کہ وہ اپنے کھانے پینے کی ضرورتوں میں مشغول ہو۔
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اپنے چوبیس گھنٹے کے وقت کو چھ چھ گھنٹے کے حساب سے چار حصوں میں تقسیم کرے اور ہر حصے کو مذکورہ چار کاموں میں سے ایک کام کے لیے وقف کردے۔ اس قسم کی ساعاتی تقسیم نہ فطری طورپر ممکن ہے اور نہ مذکورہ حدیث کا یہ منشا ہے۔
حدیث کا مدعا یہ ہے کہ آدمی کو اپنے رات اور دن کے اوقات اس طرح گذارنا چاہئیں کہ اُس پر مذکورہ قسم کے لمحات برابر آتے رہیں۔ وہ بار بار اس قسم کے تجربات سے گذرتا رہے۔ یہ حدیث تجربات کے تنوع کو بتانے کے لیے ہے، نہ کہ اوقات کی حسابی تقسیم کو بتانے کے لیے۔
ایک انسان کو جب حقیقتِ اعلیٰ (خدا) کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو اُس کے اندر ایک نفسیاتی انقلاب آجاتا ہے۔ اس نفسیاتی انقلاب کے تحت اُس کی روزوشب کی زندگی اُنھیں تجربات ربانی کے درمیان گذرنے لگتی ہے جن کا ذکر مذکورہ حدیث میں ملتا ہے۔ یہ حدیث دراصل اُس ربانی انسان کی زندگی کی تصویر ہے جس کو خدا کی دریافت ہوگئی ہو اور اس دریافت کے نتیجے میں اُس کی زندگی کا نقشہ بالکل بدل گیا ہو۔
ایسے انسان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی خدا کی یاد میں اس طرح ڈوب جاتا ہے کہ اُس کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خدا سے باتیں کررہا ہے۔ اسی طرح یہ دریافت اُس کے اندر احتساب خویش کا جذبہ جگادیتی ہے اور وہ اپنا بے لاگ جائزہ لینے لگتا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنا تزکیہ کرسکے۔ اسی طرح خالق کی دریافت اُس کے اندر خالق کی تخلیقات میں غور وفکر کا مزاج پیدا کردیتی ہے۔ وہ تخلیقات میںخالق کا جلوہ دیکھنے لگتا ہے۔ یہ اُس کی روحانی یا ربّانی مصروفیات ہیں۔ اسی کے ساتھ اُس کی ایک ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ایک جزئی حصے میں اپنی معاشی حاجتوں کے لیے کچھ وقت نکالے۔
واپس اوپر جائیں

مدعو نہ کہ دشمن

موجودہ زمانے میں تقریباً تمام مسلمان، غیر مسلم قوموں کو اپنا دشمن یا حریف سمجھتے ہیں۔ اُن کا ایک طبقہ ان قوموں کے خلاف مسلّح جنگ چھیڑے ہوئے ہے۔ اور ان کا دوسرا طبقہ ان کے خلاف منفی جذبات میں مبتلا ہے۔ یہ بات سرتا سر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ اِس قسم کی تمام کارروائیاں نہ تو اسلامی جہاد ہیں اور نہ اسلامی غیرت۔ وہ اسلام کے نام پر صرف غیر اسلام کا ارتکاب ہیں، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
قرآن کے مطابق، ہمارا دشمن صرف شیطان ہے جس کو قرآن میں طاغوت کہا گیا ہے۔ ہماری لڑائی صرف شیطان سے ہے، کسی اور سے نہیں۔انسان کے اندر امتحان کے مقصد سے مختلف قسم کے جذبات رکھے گیے ہیں۔ مثلاً غصہ اور انتقام، وغیرہ۔ اِن جذبات کو غلط رُخ دے کر شیطان ہم کو صحیح راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وہ مواقع ہیں جب کہ ہمیں شیطان سے لڑنا ہے۔ شیطان کی تزئین (الحجر: 39) سے بچنے ہی کا نام تزکیہ ہے اور جو لوگ اِس اعتبار سے اپنا تزکیہ کریں، وہی وہ لوگ ہیں جن کو جنت میں داخلہ ملے گا (طٰہٰ: 76) شیطان کے خلاف انسان کی لڑائی صرف نفسیات کی سطح پر ہوتی ہے، تشدّد اور ہتھیار کی سطح پر نہیں۔
جہاں تک انسان کا معاملہ ہے، قرآن کے مطابق، انسان ہمارا مدعو ہے۔ وہ ہمارا حریف یا دشمن نہیں۔ انسان کے ساتھ ہمارا تعلق داعی اور مدعو کا ہے، دشمن یا مدّ مقابل کا نہیں۔ انسان کے مقابلے میں ہماری ذمے داری یہ ہے کہ ہم اُس کو پر امن طور پر خدا کا پیغام پہنچائیں۔ پیغام رسانی کا یہ کام صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جو نفرت اور عداوت کے جذبات سے مکمل طورپر خالی ہوں۔ نفر ت اور دعوت دونوں ایک سینے کے اندر جمع نہیں ہوسکتے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان، انسان کے خلاف اپنی طاقت ضائع کررہے ہیں۔ یہ سراسر خدا کی اسکیم کے خلاف ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اِس رجحان کو بدلیں اور اپنی ساری طاقت دعوت الی اللہ کے کام میں صرف کریں۔ یہی اُن کے لیے نجات کا واحد راستہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

مسلم ذہن

موجودہ مسلم ذہن (Muslim mind) کیا ہے— ایک صاحب نے سوال کیا۔ میںنے کہا کہ میرے مطالعے اور تجربے کے مطابق، موجودہ زمانے کے مسلمان اُس ذہنیت کا شکار ہیں جس کو خطرے سے گھری ہوئی ذہنیت(besieged mentality) کہا جاتا ہے۔ یہ حالت تقریباً تمام مسلمانوں کی ہے۔ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ۔ کوئی شعوری طورپر اس ذہن کا شکار ہے اور کوئی غیرشعوری طورپر۔موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ کوئی ہندو خطرے کی بات کرتا ہے اور کوئی یہودی خطرے کی اور کوئی مسیحی خطرے کی۔ کوئی امریکی خطرے کی نشان دہی کر رہا ہے اور کوئی انگریزی خطرے کی۔ اس قسم کی تمام باتیں یقینی طور پر اسلامی اسپرٹ اور اسلامی طرزِ فکر کے خلاف ہیں۔قرآن میں اعلان کیا گیا ہے کہ پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ نے اپنے دین کو آخری حد تک مستحکم کردیا، اس لیے اب تم لوگ انسانوں سے نہ ڈرو بلکہ اللہ سے ڈرو۔ (المائدہ: 3 ) اس واضح اعلان کے بعد انسانی خطرے کی بات کرنا یقینی طور پر خود اپنے ایمانی شعورکی کمی کا اعلان ہے، نہ کہ انسانی خطرے کی موجودگی کا اعلان۔
قرآن کے اس اعلان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب مسلمانوں کے لیے کوئی مسئلہ بطور واقعہ پیش نہ آئے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے مواقع کھول دیے ہیں جو ہر مسئلے پر غالب رہیں، گویا مسئلہ اگر ایک ہو گا تو اُس کے مقابلے میں مواقع متعدد ہوں گے۔ اسی حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا: لن یغلب عُسرٌ یُسرَین (تفسیر ابن کثیر، جلد4 ، صفحہ 525)
موجودہ زمانے میں تیسیر کا یہ معاملہ اپنی آخری حد پر پہنچ چکا ہے۔ مثلاً قدیم زمانے میں اقتصادیات کا انحصار تمام تر زمین(land) پر ہوتا تھا۔ اور زمین کا مالک پورے ملک میں صرف ایک شخص ہوتا تھا، اور وہ بادشاہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قدیم زمانے میں بادشاہ تو شان دار محلوں میں رہتے تھے اور عام انسان صرف معمولی مکانات میں۔
واپس اوپر جائیں

مسلمان کیا کریں

1940 کے قریب مسلم اخبارات اور رسائل میں ایک عنوان پر بہت زیادہ لکھا جارہا تھا— ’’مسلمان کیا کریں‘‘۔ عجیب بات ہے کہ آج بھی یہ موضوع بدستور زندہ ہے۔ ایک مسلم پروفیسر سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ موجودہ مسلمانوں کے لیے ’لائن آف ایکشن‘ کیا ہو۔ ایک عرب شیخ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے یہ سوال کیا کہ ہم اپنا عمل کہاں سے شروع کریں (مِن أین نبدأ) اِس مسئلے پر میں نے بہت غور کیا ہے۔ میری سمجھ میں تین باتیں آتی ہیں:
1 - اِس معاملے کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ بعد کے دور میں مسلمانوں نے پیغمبرِاُسوہ کو پیغمبرِفضیلت بنا لیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہزاروں کتابیں لکھی گئیں، مگر وہ کم و بیش نعت خوانی کے اسلوب میں لکھی گئیں، کوئی منثور نعت خوانی تھی اور کوئی منظوم نعت خوانی۔ چناں چہ اِن کتابوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیغمبر اسلام سے مسلمانوں کو فخر کی غذا ملی مگر ان کو پیغمبر اسلام سے رہنمائی کی غذانہ مل سکی۔
2 - قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے پچیس پیغمبروں کا ذِکر ہے۔ قرآن کی صراحت کے مطابق، پچھلے پیغمبروں کا یہ ذکر اِس لیے تھا کہ اُن سے اپنے حالات میں رہنمائی حاصل کی جائے۔ (فبہداہم اقتدہ) لیکن بعد کے زمانے میں یہ ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کو ’پیغمبر کامل‘ سمجھ لیا۔ اِ س بنا پر مسلمانوں میں یہ ذہن ختم ہوگیا کہ وہ پچھلے پیغمبروں سے رہنمائی حاصل کریں، جواُن کے نزدیک گویا کہ ’غیرکامل پیغمبر‘ تھے۔
3 - حدیث میں مومن کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہوتا ہے (أن یکون بصیراً بزمانہ) لیکن موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہنماؤں نے یہ کیا کہ انھوںنے موجودہ زمانے کو اپنا دشمن سمجھ لیا ۔ اِس بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے اندر یہ ذہن ہی پیدا نہیں ہوا کہ وہ زمانے کو مثبت انداز میں سمجھیں اور اس کے مطابق، اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں— میرے نزدیک، یہ تین بنیادی کوتاہی ہے جس نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو حقیقی رہنمائی سے محروم کردیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جذبات ِ پرستش

انسان اپنے پیدائشی مزاج کے اعتبار سے ایک پرستش پسند مخلوق ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ کوئی اس کا معبود ہو جس کی وہ پرستش کرے۔ کوئی ہو جس کو وہ اپنی توجہات کا مرکز بناسکے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام قومیں ہیرو پرست ہوتی ہیں۔ وہ اپنے ’’اکابر‘‘ کو اپنے خدا پرستارانہ جذبات کا مرکز بنا لیتی ہیں۔ ہیروؤں سے غیر معمولی لگاؤ درحقیقت اس جذبۂ عبودیت کا غلط استعمال ہے جو اللہ نے ہر آدمی کے اندر پیدائشی طورپر رکھ دیا ہے۔ جس طرح ہر آدمی کو پیاس لگتی ہے اور وہ پانی پینے پر مجبور ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر آدمی خود اپنے اندرونی جذبے کے تحت مجبور ہے کہ وہ کسی کو معبود بنا کر اس کی پرستش کرے۔ کوئی بھی شخص اس احساس سے خالی نہیں ہوسکتا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں آدمی کا امتحان لیا جارہا ہے۔ جو لوگ اپنے جذبات پرستش کا مرکز ایک خدا کو بنائیں وہ سچے پرستار ہیں، وہ امتحان میں کامیاب ہوگئے۔ جو لوگ اپنے جذبات پرستش کا مرکز کسی غیر خدا کو بنالیں وہ جھوٹے پرستا رہیں، وہ امتحان میں ناکام ہوگیے۔
کچھ لوگ ہیں جو اپنی فطرت میں چھپے ہوئے جذبات پرستش کا مرکز بتوں کو یا مظاہر فطرت کو بناتے ہیں۔ کچھ اور لوگ ہیں جو اپنے قومی ہیروؤں کو اپنا معبود بنا لیتے ہیں اور اپنے جذبات پرستش ان کے لیے خاص کردیتے ہیں۔ یہ سب شرک ہے۔ اور شرک کو خدا کبھی قبول نہیں کرے گا۔
اسی طرح ایک اور طبقہ ہے جو اپنے ’’اکابر‘‘ سے وہ محبت کرنے لگتا ہے جو خدا سے ہونی چاہیے۔ اپنے اکابر کی باتوں کو وہ اہمیت دینے لگتا ہے جو خدا کی باتوں کو دینا چاہیے۔ جو اپنے اکابر پر کسی بھی قسم کی تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اکابر کی تقدیس و تعظیم ہی اس کا سرمایۂ حیات ہوتی ہے۔ یہ بھی بلاشبہہ وہی چیز ہے جس کو غیر اللہ کو معبود بنانا کہاگیا ہے۔
حقیقی موحد وہ ہے جس کے جذبات کا مرکز آخری حد تک صرف خدا بن جائے۔جوانسانی شخصیتوں میں اٹکا ہوا نہ ہو۔ ایسا آدمی اکابر کے خلاف تنقید سن کر کبھی نہیں بھڑکے گا۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا اصول

جلدی نہ کرو۔ کیوں کہ تم جتنی جلدی کرو گے اتنی ہی زیادہ دیر لگے گی— جلدی کرنا کسی کام کو وقت سے پہلے مکمل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اور اِس دنیا کے لیے خالق کا قائم کردہ اٹل قانون یہ ہے کہ یہاںہر کام اپنے وقت پر مکمل ہو، وقت سے پہلے کوئی کام کبھی مکمل نہیں ہوسکتا۔ جلدی کرنے والے کا کام صرف بگڑتا ہے، اُس کا کام کبھی بننے والا نہیں۔
اس دنیا میں آدمی جب کوئی کام کرتا ہے تو اگر چہ اس کو شروع کرنے والا وہ خود ہوتا ہے۔ مگر اس کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب کہ فطرت کا نظام بھی اس کے ساتھ موافقت کرے۔ فطرت کے نظام کی موافقت حاصل کیے بغیر، یہاں کوئی کام کبھی تکمیل کو پہنچنے والا نہیں۔
فطرت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ تدریج کے اصول پر عمل کرتی ہے۔ وہ واقعات کو اچانک ظہور میں نہیں لاتی۔ اب انسان اگر فوراً اور جلد نتیجہ نکالنا چاہے تو وہ عملاً ممکن نہ ہوگا۔ کیوں کہ انسان کی رفتار تیز ہوگی اور فطرت کی رفتار تدریجی قاعدے کی بنا پر سُست۔ ایسی حالت میں آدمی کو اپنے کام میں فطرت کی موافقت حاصل نہ ہوگی۔ اس کا کام بننے کے بجائے صرف بگڑ کر رہ جائے گا۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ جو کام بھی کرنا چاہے، سب سے پہلے وہ فطرت کے نظام کا مطالعہ کرے۔ اس کے بارے میں وہ فطرت کے اصول کو معلوم کرے۔ اور پھر اس مطالعہ کی روشنی میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کو اختیار کرکے کوئی شخص کامیابی کے ساتھ اپنے مقصد تک پہنچ سکتا ہے۔
کامیابی اورناکامی دونوں کا معاملہ فطرت کے نظام سے جُڑا ہوا ہے۔ اِس دنیا میں فطرت سے مطابقت کرنے کا نام کامیابی ہے، اور فطرت کے خلاف چلنے کا نام ناکامی ۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ پہلے فطرت کے نظام کو سمجھے اور اُس کے بعد اُس کے مطابق، وہ اپنے کام کی منصوبہ بندی کرے۔
واپس اوپر جائیں

دعوہ ورک، کمیونٹی ورک

دو کام ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک ہے، کمیونٹی ورک، اور دوسرا ہے، دعوہ ورک۔ یہ صحیح ہے کہ دونوں ہی کام اہمیت رکھتے ہیں۔ مگر دونوں میں یہ بنیادی فرق ہے کہ کمیونٹی ورک کی اہمیت دنیا کی تعمیر کے اعتبار سے ہے، اور دعوہ ورک کی اہمیت آخرت کی تعمیر کے اعتبار سے۔
موجودزمانہ میں دعوہ ورک حقیقی معنوں میں تو کہیں موجود نہیں۔ البتہ کمیونٹی ورک ہر ملک کے مسلمانوں میں بہت بڑے پیمانہ پر انجام دیا جارہا ہے۔ امریکی اصطلاح میں، ایسے کسی شخص کو کمیونٹی ایکٹیوسٹ (community activist) کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ جن میدانوں میں کام کرتے ہیں وہ یہ ہیں— تعلیم، اقتصادیات، ملّی مسائل، فرقہ وارانہ نزاعات، ریلیف ورک، سوشل ویلفیر، رفاہی کام، دوسری قوموں کی طرف سے مشکلات کا حل تلاش کرنا، وغیرہ۔
یہ کمیونٹی ورک ہے۔ اس قسم کا کام ہر قوم میں پایا جاتا ہے۔ ہندو، عیسائی، سکھ اور دوسری قوموں میںاس قسم کا کام بہت بڑے پیمانہ پر اور بہت منظّم اندا ز میں کیا جارہا ہے۔ جب بھی کوئی قوم قابلِ لحاظ تعداد میں موجود ہو تو اُس کے افراد میں فطری طور پر قومی حمیت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو دنیوی معنوں میں مستحکم اور ترقی یافتہ بنائے، وہ اپنی قومی کلچرل شناخت کو برقرار رکھے۔
اس کے نتیجے میں ہر قوم میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہتے ہیں جو اپنی قوم کی خیر خواہی کے جذبہ کے تحت مذکورہ قسم کے کام انجام دیتے ہیں۔ اس قسم کے قومی کام کا داعیہ پیدا ہونے کی مزید وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس سے آدمی اپنی قوم کے اندر مقبول ہوتا ہے۔ ا س کو لیڈری ملتی ہے۔ اُس کو ہر جگہ باعزت مقام پر بٹھایا جاتا ہے۔ میڈیا میں شان دار الفاظ میں اُس کا چرچا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو معاشرہ کے اندر وہ چیز ملتی ہے جس کواسٹیٹس (status) کہا جاتا ہے۔
مگر قرآن اور سنت کے مطالعہ سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ اس قسم کا کمیونٹی ورک دنیا میں لوگوں کو خواہ کتنا ہی زیادہ اہم نظر آئے، آخرت کے اعتبار سے اُس کی کوئی قیمت نہیں۔ میرے فہم دین کے مطابق، آخرت کے اعتبار سے صرف دو چیزوں کی اہمیت ہے— ایک، اللہ سے عجز کا تعلق، اور دوسرے، اللہ کے بندوں کو اللہ کا پیغام پہنچانا، جس کو میں نے دعوہ ورک کہا ہے۔
صحیح مسلم اور مسند احمد میں ایک روایت آئی ہے۔اس کے مطابق، حضرت عائشہ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، عبد اللہ بن جُدعان جاہلیت کے زمانہ میں خوب صلہ رحمی کرتا تھا اور مسکینوں کو بہت کھانا کھلاتا تھا تو کیا اُس کا یہ عمل اُس کو آخرت میںنفع دے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اے عائشہ، نہیں۔ اُس نے کسی دن یہ نہ کہا کہ: ربّ اغفرلی خطیئتی یوم الدین (اے میرے رب، جزا کے دن میرے گناہ کو معاف کردے) صحیح مسلم، کتاب الایمان، مسند احمد 6/93 ۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رب اغفر لی خطیئتی یوم الدین کے الفاظ میں کچھ ایسے فضائل چھپے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی آدمی ان الفاظ کو اپنی زبان سے بول دے تو اُس کے بعد پُر اسرار طورپر اُس کو نجات حاصل ہوجائے گی۔ یہ جملہ دراصل عجز کا کلمہ ہے، نہ کہ معروف معنوں میں فضیلت کا کلمہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا کی بے پایاں عظمت کو اس طرح دریافت کرے کہ اُس کے مقابلہ میں وہ سراپا عجز بن جائے۔ اُس کا عاجزانہ احساس اُس کے دل کی گہرائیوں سے مذکورہ دعا کی صورت میں نکلنے لگے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی بندہ کی طرف سے جو چیز سب سے زیادہ محبوب ہے وہ عجز ہے، وہ عجز جو داخلی معرفت کا اظہار ہو، نہ کہ محض کچھ الفاظ کی تکرار۔
دعوہ ورک سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں دعوت الی اللہ اور شہادت علی الناس جیسے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ حق کی پیغام رسانی کا وہی کام ہے جس کو پیغمبر نے اپنے معاصرین کے سامنے انجام دیا۔ یہ کام ہر قوم میںاور ہر نسل میں مطلوب ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اُس کو ہر زمانے میں مسلسل طورپر جاری رکھا جائے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ پیغمبر نے اپنے زمانہ میں براہِ راست طورپر اس دعوتی کام کو انجام دیا تھا۔ اور امت مسلمہ کی بعد کی نسلیں بالواسطہ طورپر اُس کو ہر زمانہ میں انجام دیتی رہیں گی۔
حقیقت یہ ہے کہ جو ایمان باللہ آدمی کے اندر عجز کی کیفیت پیدا نہ کرے وہ ایمان ہی نہیں۔ اسی طرح جو شخص دعوت الی اللہ کا کام انجام نہ دے اُس کے بارے میں یہ امرہی مشتبہ ہے کہ وہ آخرت میں امت محمدی میںشمار ہوگا یا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ڈی لنکنگ پالیسی

اسلام کی ایک اہم تعلیم وہ ہے جس کو اعراض (الحجر: 94 )کرنا کہا جاتا ہے۔ آج کل کی زبان میںاس کو ڈی لنکنگ پالیسی (de-linking policy)کہہ سکتے ہیں۔ یہ ڈی لنکنگ پالیسی بے حد اہم ہے۔ عملی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے اِس کے سوا کوئی اور صورت نہیں۔ مثال کے طور پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان 1947 سے جھگڑا شروع ہوگیا۔ یہ جھگڑا کشمیر کو لے کر تھا۔ اِس جھگڑے میںآدھی صدی سے زیادہ مدت گذر گئی۔
انڈیا اور پاکستان دونوں سرحدی ملک ہیں۔ دونوں کے درمیان بہت بڑے پیمانے پر اقتصادی لین دین ہوسکتا ہے، مگر پاکستان کے لیڈروں نے یہ شرط لگائی کہ جب تک کشمیر کا جھگڑا طے نہ ہو، وہ انڈیا کے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم نہیں کرسکتے۔ اِس کے نتیجے میں پاکستان کو بے شمار نقصانات اٹھانے پڑے۔ حالاں کہ اِس مسئلے کا سادہ حل یہ تھا کہ پاکستان ڈی لنکنگ کی پالیسی اختیار کرے۔ وہ کشمیر کے اِشو کو پُر امن گفت و شُنید کی میز پر رکھ دے اور انڈیا کے ساتھ ہر قسم کے اقتصادی تعلقات بحال کرلے۔ مگر پاکستان کے لیڈروں نے ایسا نہیں کیا۔ اِس طرح وہ عظیم فوائد سے محروم ہوگیے۔
یہی معاملہ انفرادی زندگی کا ہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان اکثر جھگڑے پیش آتے ہیں، یہ جھگڑے زیادہ تر ذوقی یا مزاجی اختلاف کی بنا پر ہوتے ہیں۔ اِس قسم کے نزاعات کا سادہ حل یہ ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں ڈی لنکنگ کی پالیسی اختیار کرلیں۔ وہ اختلافی معاملے کو سائڈ میں رکھ کر بقیہ معاملات میں خوش گوار زندگی گذاریں۔ خاندانی زندگی کے مسائل کا یہی بہترین حل ہے۔
ڈی لنکنگ پالیسی کا تعلق انفرادی زندگی سے بھی ہے اور قومی زندگی سے بھی۔ انسانی تعلقات کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے یہی بہترین پالیسی ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، انسانوں کے درمیان اختلافات کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ ایسی حالت میں مسئلے کا حل اختلافات کو مٹانا نہیں ہے، بلکہ اختلافات کے معاملے میں ڈی لنکنگ کی پالیسی کو اختیار کرلینا ہے۔
واپس اوپر جائیں

صحیح طرزِ فکر

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے گفتگو کے دوران کنفیوژن کا ذکر کیا۔ میں نے کہا کہ یہ ایک حد اہم مسئلہ ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ 99 فیصد سے زیادہ لوگ کنفیوزڈ تھنکِنگ (confused thinking) میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اس نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں جس کو رائٹ تھنکنگ (right thinking) کہا جاتا ہے۔ رائٹ تھنکنگ دراصل سدادِ فکر (sound thinking) کا دوسرا نام ہے۔ انسان کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ آرٹ آف تھنکنگ میں مہارت حاصل کرے۔ اس کے بغیر اس کی پوری زندگی بے معنی ہو کر رہ جائے گی، فکری اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی۔
کنفیوژن کا یہ مسئلہ صرف انسان کا مسئلہ ہے۔حیوانی دنیا (animal world) اس مسئلے سے آشنا نہیں۔ کوئی بھی حیوان اپنی زندگی کا کورس متعین کرنے کے لیے کبھی کنفیوژن کا شکار نہیں ہوتا۔ چیونٹی سے لے کر شیر تک اورمچھلی سے لے کر چڑیا تک ہر حیوان کارویہ ہمیشہ درست رویہ ہوتا ہے۔ ہر حیوان قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا مالک ہے۔ حیوانات کے اس قابلِ رشک پہلو کو ٹی وی پر اینمل ورلڈ (Animal World) کے پروگرام میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حیوانات معیاری حد تک ٹھیک وہی کرتے ہیں جو کہ ازروئے واقعہ انھیں کرنا چاہیے۔
اس کے مقابلے میںانسان کو دیکھئے تو یہاں بالکل مختلف منظر دکھائی دے گا۔ انسان فکری بے راہ روی کا نمونہ نظر آتا ہے۔ اس فرق کا سبب کیا ہے۔ اس فرق کا بنیادی سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ تنظیمِ فکر(thought management) ہے۔ حیوانات میں تنظیم فکر کامل طورپر موجود ہے۔ جب کہ انسان میں تنظیم فکر کا فقدان ہے۔
یہاں دوبارہ یہ سوال پیداہوتا ہے کہ حیوان اور انسان میں یہ فرق کیوں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حیوان اپنی جبلت (instinct) سے کنٹرول ہوتا ہے، اس کی جبلت اس کے اندر تنظیم فکر کی یقینی ضمانت ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میںانسان ایک آزاد مخلوق ہے۔ انسان آزادانہ طورپر سوچتا ہے اور خود اپنی آزادی (free will) کے تحت رائے قائم کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کو اپنی فکری تنظیم خودہی انجام دینا ہے۔ اس کو خود اپنے فیصلے کے تحت اپنے آپ کو فکری ڈسپلن کا پابند بنانا ہے۔
انسان کے اندر فکری تنظیم (thought management) کا عمل (process) کیوں سُکڑتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان معلومات کے جنگل کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کے اندر وہ فکری استعداد موجود ہو جس کے ذریعے وہ متعلق (relevant) اور غیر متعلق (irrelevant)کے فرق کو جانے۔ وہ غیر متعلق باتوں کو چھوڑتے ہوئے متعلق باتوں پر اپنی نظر جمائے رہے۔ یہی وہ واحد آرٹ ہے جو انسان کے لیے صحت فکر کا ضامن ہے۔
چند مثالوں سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ اکثر لوگ ڈارون ازم کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ زندگی کا ظہور جب ارتقا (Evolution) کے ذریعے ہوا تو اب خدا کو ماننے کی کیا ضرورت۔ مگر یہ صرف مغالطہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ ارتقا کا نظریہ اولاً تو ابھی تک کوئی ثابت شدہ واقعہ نہیں۔اور اگر بالفرض وہ واقعہ ہو تب بھی وہ خالق کے عقیدے کی تردید نہیں۔ نظریۂ ارتقا زیادہ سے زیادہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ خالق کا طریقہ خصوصی تخلیق(special creation) نہیں، بلکہ ارتقائی تخلیق (evolutionary creation) ہے۔ نظریۂ ارتقا کا تعلق تخلیق کے پراسس (process of creation) سے ہے، نہ کہ خود خالق سے۔
اسی طرح کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ اسلام ابدی مذہب نہیںہوسکتا۔ کیوں کہ زندگی کے حالات بدلتے رہـتے ہیں اور بدلے ہوئے حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ لوگوں کو ازسرِ نو رہنمائی دی جائے۔ مگر یہ صرف فکری کنفیوژن کی بات ہے۔ کیوں کہ اسلام اپنے اصل کے اعتبار سے صرف اساسات (basics) کا مجموعہ ہے۔ اور اساسات میں کبھی تبدیلی نہیںہوتی۔ جن چیزوں میںتبدیلی ہوتی ہے وہ غیر اساسی چیزیں (non-basics) ہیں۔ اور غیر اساسی چیزوں میں تبدیلی کے اس مسئلے کے لیے اسلام میں اجتہادکا طریقہ رکھا گیا ہے جو یقینی طورپر اس مسئلے کا مکمل حل ہے۔
بہت سے لوگ مدر ٹریسا کو ماڈل سمجھتے ہیں۔ مگر یہ ادھوری سوچ کا نتیجہ ہے۔ مدر ٹریسا علامت ہے انسان کی جسمانی تکلیف کو دور کرنے کی۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ انسان کی جسمانی تکلیف دور کرنا ایک مفید کام ہونے کے باوجود وہ اصل کام نہیں۔ اس لیے کہ انسان ایک فکری حیوان (thinking animal) ہے۔ جسمانی اعتبارسے صحت مند ہوتے ہی وہ دوسری شدید تر فکری بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مثلاً تکبر، حسد، انتقام، اقتدار پسندی، خود غرضی، عصبیت، بے اعترافی اور سرکشی، وغیرہ۔
تجربہ بتا تا ہے کہ انسان اگر مسائل کے درمیان ہو تو اس کے اندر تواضع (modesty) پرورش پاتی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے نو پرابلم انسان بنا رہتا ہے۔ لوگوں کی جسمانی تکلیف کو دور کرنا صرف ایک جزئی کام ہے۔ زیادہ بڑا کام یہ ہے کہ انسان کے اندر صحیح طرزِ فکر (right thinking) کا مادہ پیدا کیا جائے، اس کو اس کے روحانی ارتقا (spiritual development) میں مدد دی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ مدر ٹریسا اپنے مشن کے ابتدائی مرحلے میں حالت اطمینان میں ـتھیں، مگر وہ اپنے مشن کے آخری مرحلے میں مایوس ہو کر مریں۔ کیوں کہ جب مدر ٹریسا کے ادارے کو کافی شہرت اوردولت مل گئی تو ان کے ’’تندرست‘‘ ساتھیوں نے ان کو ایسی پریشانی میں مبتلا کردیا جس کا تجربہ ان کو اپنے ’’مریض‘ ‘ ساتھیوں سے نہیں ہوا تھا۔
1947 سے پہلے کے دور میں اقبال اور جناح جیسے لوگوں نے یہ سوچا کہ ہندو- مسلم مشترک لینڈ کے مقابلے میں علیٰ حدہ مسلم لینڈ مسلمانوں کے سارے مسائل کا حل ہے۔ مگر جب یہ علیٰ حدہ مسلم لینڈ بن گیا تو معلوم ہوا کہ اس علیٰ حدہ مسلم لینڈ میںاس سے بھی زیادہ مسائل ہیں جتنا کہ ہندو- مسلم مشترک لینڈ میں ہیں، یا ہوسکتے تھے۔ اس اندوہ ناک انجام کا سبب یہ ہے کہ اقبال اور جناح جیسے لوگ اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے کہ پاکیزہ معاشرے کا تعلق پاکیزہ انسان سے ہے۔ پاکیزہ معاشرہ اس طرح نہیں بن سکتا کہ کسی لینڈ کو سیاسی اعتبار سے الگ کرکے اس کا نام پاکیزہ لینڈ رکھ دیا جائے۔
اس معاملے میںانسان کی ایک سنگین غلطی یہ ہے کہ وہ ایک واقعہ کو دوسرے واقعہ سے جوڑ کر نہیں دیکھ پاتا۔ چناں چہ علیٰ حدگی پسندگی کی جو سیاست پاکستان کی صورت میں اندوہ ناک حد تک ناکام ہوچکی ہے۔ اب کشمیر کے مسلمان ٹھیک اسی سیاست کو دہرانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے انجام سے کوئی سبق نہیں لیا۔ حالاں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیر خواہ آزاد کشمیر بنے یا پاکستانی کشمیر، دونوں حالتوں میں اس کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ حالات کے اعتبار سے کشمیر کے لیے بہترین پالیسی یہ تھی کہ وہ تاریخ کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے ہندستان کے ساتھ مل کر رہے۔ ہندو- مسلم مشترک سماج کشمیر کی ترقی کے لیے زیادہ مفید ہے۔
سدادِ فکر کی لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی واقعات کو تقابلی انداز میں دیکھ سکے۔ یہی وہ حکمت ہے جس کو شیکسپئر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
In comparison that we understand.
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے میں یہاںایک مثال دوں گا۔ ایمرجنسی کے بعد 1970 میں انڈیا کا جنرل الیکشن ہوا۔ اس وقت جے پرکاش نرائن نے نان کانگریس ازم کی تحریک چلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس راج ملک کی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ انھوں نے نعرہ دیا کہ کانگریس کو ہٹاؤ، ملک میں ٹوٹل ریولیوشن لاؤ۔ ایمرجنسی کی وجہ سے عوام بہت برہم تھے۔ چناں چہ نان کانگریس ازم کا نعرہ کامیاب ہوا اور کانگریس، الیکشن میں بری طرح ہار گئی۔ اس کے بعد نئی دہلی میں جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ حکومتی تبدیلی جے پرکاش نرائن کے پروگرام کے عین مطابق تھی۔
مگر جہاں تک حقیقی سطح پر سماجی اور قومی حالات کا معاملہ ہے اس میں کچھ بھی تبدیلی نہیںآئی، بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوگیا۔ حتیٰ کہ خود جنتا پارٹی کی حکومت اپنا ٹرم پورا نہ کرسکی اور ڈھائی سال کے اندر ہی ختم ہوگئی۔
واپس اوپر جائیں

سائنٹفک مذہب کی ضرورت

فرانسس ہربرٹ بریڈلے (وفات: 1924 ) مشہور برٹش فلسفی ہے۔ اس نے اپنی کتاب (Appearance and Reality) میں لکھا ہے کہ آج انسان کو ایک سائنٹفک مذہب (Scientific religion) کی ضرورت ہے، قدیم روایتی طرز کا مذہب آج کے انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ بریڈلے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ آج کے انسان کو ایسا مذہب چاہیے جس کا پیغمبر نیوٹن ہو اور جس کی مقدس کتاب پرنسپیا (Principia) ہو، یا یہ کہ اُس کا پیغمبر آئن سٹائن ہو اور اس کا الہٰیاتی نظریہ (General theory of relativity) ہو، بلکہ بریڈلے کا مطلب یہ تھا کہ آج کے زمانے میں وہی مذہب انسان کے لیے قابلِ قبول ہوسکتا ہے جو سائنٹفک جانچ میں پورا اترے۔
اصل یہ ہے کہ جدید سائنس کے ظہور کے بعد تمام افکار و عقائد کی دوبارہ سائنسی جانچ کی گئی۔ اِس جانچ میں بہت سے نظریات غیر واقعی ثابت ہو کر متروک ہوگیے۔ مثلاً اِسی جانچ کے نتیجے میں سولرسسٹم کے بارے میں زمین مرکزی (geocentric)نظریہ ختم ہوگیا اور آفتاب مرکزی (heleocentric)نظریے کو مان لیا گیا۔ اِسی طرح قدیم الکیمی ختم ہوگئی اور جدید کمیسٹری نے اُس کی جگہ لے لی۔ اِسی طرح قدیم ایسٹرالوجی کا خاتمہ ہوگیا اور جدید ایسٹرا نومی کو قبولیت حاصل ہوگئی، وغیرہ۔
بریڈلے کا مقصد یہ تھا کہ مذہب کے اوپر بھی یہی عمل کیا جانا ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک مثبت تجویز ہے۔ میں نے ذاتی طورپر اِس تجویز پر بھر پور عمل کیا ہے۔ میں نے سائنٹفک میتھڈ کو مذاہب کے اوپر اپلائی کیا ہے۔ مجھے اپنے مطالعے سے یہ معلوم ہوا کہ پچھلے تمام مذاہب تبدیلیوں کی بنا پر اپنی اصل حیثیت کو باقی نہ رکھ سکے۔ اس بنا پر وہ سائنسی تحقیق کے معیار پرپورے نہیں اترتے۔
مگر اسلام کا معاملہ استثنائی طورپر مختلف ہے۔ میں نے ذاتی طور پر اسلام کا مطالعہ بالکل غیرجانب دارانہ انداز میں اور خالص سائنسی طریقِ کار کے مطابق کیا ہے۔ میں ذاتی تحقیق کے مطابق، پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام ہی وہ سائنٹفک مذہب ہے جس کا خواب برٹش فلسفی بریڈلے نے دیکھا تھا۔ اپنی تحقیق کے نتائج کو میں اپنی کتابوں اور اپنے مضامین نیز اپنی تقریروں میں بیان کرتا رہا ہوں۔ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ لاکھوں لوگوں کو میری اِن تحریروں اور تقریروں سے اسلام کے بارے میں نیا یقین حاصل ہوا ہے، فللّٰہ الحمد۔
اپنے تجربے کے مطابق، میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ضرورت ہے کہ غیرمسلموں کے لیے اسلام کو اُن کی ڈسکوری (discovery) بنایا جائے۔ اور مسلمانوں کے لیے اسلام کو اُن کی ری ڈسکوری (re-discovery)بنایا جائے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ الرسالہ مشن لمبی مدت سے یہی کا م کررہا ہے۔ ہمارا نشانہ یہ ہے کہ دوسری قوموں کے لیے اسلام کو ان کی ڈسکوری بنائیں۔ اور مسلم قوم کے لیے اسلام کو اس کی ری ڈسکوری بنائیں۔
یہی موجودہ زمانے میں دعوت الی اللہ کا نشانہ ہے۔ دعوت الی اللہ نہ تو کوئی مناظرے جیسا کام ہے، اور نہ وہ کسی قسم کی سیاسی تحریک ہے۔ دعوت الی اللہ یہ نہیں ہے کہ مسلمان اپنے فخر کو دوسروں کے اوپر نمایا ں کریں۔ دعوت الی اللہ کا کمیونٹی ورک سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ دعوت الی اللہ یہ نہیں ہے کہ دوسروں کا کم تر ہونا اور اپنا برتر ہونا ثابت کیا جائے۔ داعی کی زبان یہ نہیں ہوسکتی کہ:
Buldoze them all, knock them out.
داعی کی زبان یہ بھی نہیں ہوسکتی کہ— ہاں ہم ٹررسٹ ہیں، مگر ہم سوسائٹی کے اینٹی سوشل عناصر (anti social elements)کے لیے ٹررسٹ ہیں، جیسا کہ پولیس ہوتی ہے۔ اِس قسم کے تمام اسلوب غیر داعیانہ اسلوب ہیں۔ داعیانہ اسلوب صرف وہ ہے جس میں انسان کی سچی خیر خواہی جھلکتی ہو۔
واپس اوپر جائیں

چیلنج کی اہمیت

جاپان کے لوگوں کی بنیادی غذا مچھلی ہے۔ وہ مچھلی کو بہت پسند کرتے ہیں۔ ایک عرصے تک مچھلی کا مسلسل شکار کرنے کی وجہ سے جاپانی ساحل کی مچھلیاں یا تو ختم ہوگئیں، یا ساحل سے دور سمندر میں چلی گئیں۔ جاپان کی فشنگ کمپنیوں نے یہ کیا کہ انھوں نے زیادہ طاقت ور انجن کی کشتیاں بنائیں اور دور پانی میں مچھلیوں کا شکار کرنے کے لیے انھیں سمندر میں بھیج دیا۔ یہ کشتیاں جاپانیوں کی محبوب مچھلیوں کا شکار تو کرتی تھیں، مگر جب ان کو مارکیٹ میں لایا گیا تو ان مچھلیوں کا ذائقہ(taste) جاپانیوں کو پسند نہ آیا۔ ایسی مچھلیاں جاپان کے مارکیٹ میں صرف کم قیمت پر فروخت ہوسکتی تھیں۔
اب فشنگ کمپنیوں نے یہ کیا کہ انھوں نے اپنی فشنگ بوٹ (fishing boat) میں بڑے بڑے فریزر رکھ دیے۔ اب یہ کیا جانے لگا کہ دور پانی میں جب مچھلیاں پکڑی جاتیں تو اُسی وقت ان کو فریزر میں رکھ دیا جاتا۔اس طرح یہ مچھلیاں بظاہر تازہ حالت میں مارکیٹ میں پہنچائی گئیں، لیکن جاپانیوں کو اب بھی ان کا ذائقہ پسند نہ آیا۔ فریزر میںجمی ہوئی مچھلی اپنے اصل فطری ذائقے سے محروم تھی۔
اب فشنگ کمپنیوں نے یہ کیا کہ انھوں نے اپنی فشنگ بوٹ میں پانی کے بڑے بڑے ٹینک رکھ دیے۔ اب یہ کیا جانے لگا کہ دور پانی میں مچھلیاں پکڑنے کے بعد ان کو فوراً پانی کے ٹینک میں ڈال دیا جاتا۔ اس طرح یہ مچھلیاں بظاہر زندہ حالت میں مارکیٹ کے اندر آنے لگیں، لیکن جاپانیوں کو اب بھی ان کا ذائقہ پسند نہ آیا۔ یہ بظاہر زندگی مچھلیاں بھی جاپان کے مارکیٹ میں صرف کم قیمت پر فروخت ہوتی تھیں۔
مسٹر ران ہبرڈ(L. Ron Hubbard) نے اِس معاملے کامطالعہ کیا۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ مچھلیوں کا فطری ذائقہ صرف اُس وقت تک باقی رہتا ہے، جب کہ وہ سمندر میں ہر طرف دوڑ رہی ہوں۔ فشنگ بوٹ کے ٹینک میںاگر چہ مچھلیوں کو زندہ رکھنے کے لیے پانی تھا، لیکن وہاں مچھلیوں کے لیے دوڑنے کا کوئی سبب موجود نہ تھا۔ یہ مچھلیاں واٹر ٹینک میںزندہ تو رہیں، لیکن وہ سست اور ڈَل حالت میں رہیں۔ اِس بنا پر اُنھوں نے اپنا فطری ذائقہ کھو دیا۔
اب فشنگ کمپنیوں نے اپنے واٹر ٹینک میں پانی کے ساتھ ایک چھوٹی شارک مچھلی بھی ڈال دی۔ شارک مچھلی شکار کرنے والی مچھلی ہے۔ وہ ایک ایسی مچھلی ہے جو مچھلیوں کو اپنی غذا بناتی ہے۔ اب شکار کی ہوئی مچھلیوں کے ساتھ شارک مچھلی بھی پانی میں ڈالی دی گئی۔ اب یہ ہوا کہ شارک مچھلی دوسری مچھلیوں کو پکڑنے کی کوشش کرتی اور دوسری مچھلیاں پانی میں ہر طرف دوڑنے لگتیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب شکار کی ہوئی مچھلیاں مارکیٹ میں پہنچیں تو اُن کا فطری ذائقہ پوری طرح محفوظ تھا۔ چناں چہ یہ مچھلیاں پوری قیمت پر مارکیٹ میں بکنے لگیں۔
یہ فطرت کا نظام ہے۔ اس دنیا میں چھوٹی مچھلیوں کو دوڑانے کے لیے بڑی مچھلیاں ہیں۔ یہاں شیر ہیں جن کے خوف سے ہرن ہروقت بھاگتے رہتے ہیں۔ حیوانات کی دنیا میں یہ دوڑ بھاگ بے حد اہم ہے۔ وہ حیوانات کی توانائی کو باقی رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ خدا کے قائم کیے ہوئے فطری نظام کے تحت، انسانوں کے ساتھ بھی چیلنج اور مسابقت کے حالات پیش آتے ہیں۔ اِس دنیا کا نظام یہ ہے کہ چیلنج نہیں تو ترقی بھی نہیں۔ ایسی حالت میں چیلنج کے خلاف احتجاج اور شکایت خدا کے خلاف احتجاج اور شکایت ہے۔ کیوں کہ چیلنج اور مسابقت کے حالات پیدا کرنے والا خدا ہے، نہ کہ کوئی انسان۔
واپس اوپر جائیں

غلط جنرلائزیشن

10 مئی 2007 کی صبح کو میں دہلی سے بمبئی گیا اور 12مئی 2007 کی شام کو واپس آیا۔ ہوائی جہاز میںتمام ضروری سہولتیں موجود تھیں۔ سروس بھی بہتر تھی، لیکن مجھے ذاتی طورپر ایک ’’شکایت‘‘ کا تجربہ ہوا۔ جہاز کی طرف سے جوکھانا دیاگیا اُس میں خِلال(tooth pick) موجود نہ تھا۔ میںنے عملے کے دو آدمیوں سے کہا کہ مجھے خلال چاہیے، لیکن وہ شاید بھول گیے اور اُس کو نہ دے سکے۔
اِس واقعہ کو لے کر ایک لمحے کے لیے میرے دل میں خیال آیا کہ یہ ہوائی کمپنی بالکل ناقص ہے۔ اُس میں مسافر کے لیے خلال بھی موجود نہیں۔ لیکن فوراً ہی میں نے محسوس کیا کہ ایسا سوچنا انصاف کے خلاف ہوگا۔ جہاز کے اندر ننّانوے چیزیں بالکل ٹھیک حالت میںتھیں۔ صرف ایک چیز میرے ذوق کے مطابق نہ تھی۔ ایسی حالت میں یہ بالکل غلط ہوگا کہ کوئی شخص ایک جُزئی کمی کو لے کر جہاز کی پوری سروس کو بُرا بتائے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو غلط جنرلائزیشن کہا جاتا ہے۔ قرآن میں اِس کے لیے ’تطفیف‘ کا لفظ آیا ہے۔
عام طور پر لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ دوسروں پر تبصرہ کرنے کے معاملے میں سخت ناانصافی کرتے ہیں۔ وہ ایک جزئی شکایت کو لے کر اُسی کو کُلّی بنا دیتے ہیں۔ اُن کا حال یہ ہے کہ وہ جس سے خوش ہوں گے، اُس کی ایک اچھی بات کو لے لیں گے اور اس کی ننّانوے بُری بات کو چھوڑ دیں گے۔ اور جس سے ناخوش ہوں گے، اس کی ایک بُری بات کو لے لیں گے اور اس کی ننّانوے اچھی بات کو نظرانداز کردیں گے۔ یہ مزاج غیر انسانی بھی ہے اور غیر اسلامی بھی۔ ایسے لوگ اخلاق کی عدالت میں بھی مجرم ہیں اور خدا کی عدالت میں بھی۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی جب کسی بات کو بیان کرے تو وہ اس کو عین اُسی طرح بیان کرے جیساکہ وہ ہے۔ غلط طورپر کسی بات کو بڑھانا یا غلط طورپر کسی بات کو گھٹانا، دونوں عادتیں سخت مذموم ہیں۔ اِس قسم کی عادت آدمی کے اندر صالح شخصیت کی تعمیر میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
واپس اوپر جائیں

مال کی حیثیت

ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے ایک بڑے تاجر کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اللہ نے ان کو بہت نوازا ہے۔ یعنی ان کو بہت مال دیا ہے۔ میںنے کہا کہ جب کسی کے پاس زیادہ مال آجاتا ہے تو اکثر لوگ اس کے بارے میں یہ جملہ بولتے ہیں۔ مگر یہ اسلامی بات نہیں۔ کیوں کہ قرآن اور حدیث میںمال کو نوازش نہیں بتایا گیا ہے، بلکہ اس کو آزمائش کہا گیا ہے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھارے لیے آزمائش ہیں۔ (إنما أموالکم وأولادکم فتنۃ۔ التّغابن: 15) قرآن میں کہیں بھی مال کو مطلق طورپر انعام نہیں بتایا گیا ہے۔ بلکہ اسے فتنہ اور آزمائش کی حیثیت دی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مال و دولت کے معاملے میں مومن کا ذہن کیا ہونا چاہیے۔
مومن کو چاہیے کہ اس کو جب مال و دولت ملے تو اس کو وہ اس نظر سے دیکھے کہ یہ امتحان کا ایک پرچہ ہے جس کو خدا نے اس کے حوالے کیا ہے۔ مال کو جب آزمائش کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کے اندر یہ احساس جاگے گا کہ وہ اس کو خدا کی بتائی ہوئی مدوں میں خرچ کرے، وہ اس کے استعمال میں سخت محتاط ہو، وہ اس اندیشے میں مبتلا ہو کہ اگر اس نے مال کو صحیح راہ میں استعمال کرنے کا ثبوت نہیں دیا تو وہ خدا کی پکڑ میں آجائے گا۔
جو آدمی مال کو نوازش سمجھ لے اس کی نفسیات بالکل مختلف ہوگی۔ وہ مال کو پاکر خوشی منائے گا۔ وہ مال کو صرف اپنی پسندیدہ راہوں میں خرچ کرے گا۔ وہ مال کو ان راہوں میں استعمال کرے گا جن سے اس کو یہ امید ہو کہ لوگوں کے درمیان اسے عزت کا مقام حاصل ہوگا۔
مال کو اگر جائز طریقے سے حاصل کیا جائے اور اس کو جائز مدوں میں خرچ کیا جائے تو وہ انسان کے لیے ایک نعمت ہے۔ اس کے برعکس اگر آدمی اپنی خواہش سے اتنا زیادہ مغلوب ہو کہ وہ نہ مال کمانے میںجائز طریقوں کی پابندی کرے اور نہ اس کو خرچ کرنے میں تو مال اس کے لیے گھاٹے کی چیز بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

متواضع انسان

احساسِ خویش (یا احساس برتری) ایک فطری جذبہ ہے جو ہر آدمی کے اندر موجودرہتا ہے۔ اس جذبہ سے آدمی کے اندر حوصلہ اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ اگراحساس خویش آدمی کے اندر نہ ہو تو اس کے اندر خود اعتمادی بھی نہ رہے گی اور جب خود اعتمادی نہیں ہوگی تووہ اس دنیا میں کوئی کام بھی نہیں کرسکتا۔ مگر یہ ضروری ہے کہ آدمی کا احساس خویش یا احساس برتری بے قید نہ ہونے پائے ، وہ تواضع کے جذبہ کے تحت دبا رہے۔ اگر یہ دباؤ نہ ہو تو آدمی اجتماعی زندگی میں اپنی افادیت کھودے گا۔ وہ اہنکار میں مبتلا ہوجائے گا۔ اور بلاشبہہ اہنکار سے زیادہ تباہ کن کوئی چیز اس دنیا میں نہیں۔
اس دنیا میں صرف دو چیزیں ہیں جوآدمی کو متواضع بناتی ہیں۔ ایک، سائنٹفک ذہن، دوسرے متقیانہ مزاج۔ سائنٹفک ذہن علم کی معرفت سے بنتا ہے اور متقیانہ ذہن خدا کی معرفت سے۔
آدمی کے اندر جب اہنکار کا جذبہ پیداہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے معاملے کو انسان کی نسبت سے دیکھتا ہے۔ چوں کہ انسانوں میں بہت سے لوگ اس کو اپنے آپ سے کم تر دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے اس کے اندر اپنی بڑائی کا جذبہ ابھر آتا ہے۔مگر جس آدمی کے اندر حقیقی معنوں میں سائنٹفک ذہن ہو، وہ اپنے معاملے کو علم کی نسبت سے دیکھتا ہے نہ کہ عالمِ کی نسبت سے۔ عالم محدود ہوسکتا ہے، مگر علم لامحدود ہے۔ عالم کی نسبت سے ایک آدمی اپنے کو زیادہ سمجھ سکتا ہے مگر وسیع تر علم کی نسبت سے ہر آدمی کم ہے۔ یہ احساس ایک سائنٹفک انسان کے اندر فطری طور پر تواضع کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح جس آدمی کے اندر تقویٰ کی صفت ہو۔ وہ اپنے معاملے کو خدائے بزرگ و برتر کی نسبت سے دیکھنے لگتا ہے۔ یہاں بھی وہی بات مزید بے پناہ اضافہ کے ساتھ موجود ہے۔ مخلوق کی نسبت سے دیکھنے میںایک شخص کو اپنی ذات بڑی دکھائی دے سکتی ہے، مگر خدا کی نسبت سے دیکھا جائے تو ہر آدمی چھوٹا ہوجاتا ہے، خدا کی نسبت سے کوئی آدمی بھی بڑا آدمی نہیں۔ اس طرح متقی آدمی کے لیے اس کا عقیدہ اس کو ایک متوازن انسان بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

تعلیم کی اہمیت

تعلیم کی اہمیت کیوں ہے،ایک عام انسان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ تعلیم اس لیے ضروری ہے کہ وہ ملازمت حاصل کرنے میںمددگار ہوتی ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ تعلیم کا ثانوی پہلو ہے۔ یہ صحیح ہے کہ تعلیم آدمی کے لیے ملازمت یا معاش میں مدد گار ہوتی ہے، مگر تعلیم کی اصل اہمیت یہ ہے کہ تعلیم آدمی کو باشعور بناتی ہے۔ تعلیم آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ باتوں کو اُس کی گہرائی کے ساتھ سمجھے اور زیادہ نتیجہ خیز انداز میں اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرسکے۔
قدیم زمانے میں عام طورپر تعلیم برائے تعلیم کا رواج تھا۔ قدیم زمانے میں علم یا تعلیم کا رشتہ معاش سے کم اور زندگی سے زیادہ جڑا ہوا تھا۔ لوگ علم کی خاطر علم حاصل کیا کرتے تھے۔ قدیم زرعی دور میں معاش کا تعلق جسمانی محنت سے زیادہ تھا اور دماغی محنت سے کم۔ اس صورت حال نے علم کو معاش کے بجائے زیادہ تر خود علم سے جوڑ رکھا تھا۔
یہی خاص وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام بڑے بڑے اہلِ علم قدیم زمانے میں پیدا ہوئے۔ موجودہ زمانے میں ڈاکٹر اور انجینئر اور دوسرے تجارتی شعبوں کے ماہرین تو بہت پیدا ہورہے ہیں، مگر خالص علمی شعبے کے ماہرین موجودہ زمانے میں بہت کم پائے جاتے ہیں۔موجودہ زمانے میں علم اقتصادیات کے تابع ہوگیاہے، جب کہ قدیم زمانے میں زندگی کے تمام شعبے، بشمول اقتصادیات، علم کے تابع ہوا کرتے تھے۔
علمی تاریخ کے اعتبار سے دیکھاجائے تو معلوم ہوگا کہ بڑی بڑی دریافتیں کرنے والے اور بڑے بڑے علمی کارنامے انجام دینے والے زیادہ تر ماضی میں پیدا ہوئے۔ موجودہ زمانے میں کوئی سقراط، کوئی گلیلیو، کوئی نیوٹن نظر نہیں آتا۔ البتہ ٹیکنیکل شعبوں کے ماہرین لاکھوں کی تعداد میں ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔
یہ صورت حال بے حد تشویش ناک ہے ۔ اس صورت حال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ زندگی کے مادّی شعبوں میں تو بڑی بڑی نمائشی ترقیاں ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں، مگر علمی یا ذہنی ترقی کا عمل رک گیا ہے۔
حال میں امریکا کے بڑے بڑے دولت مندوں کے بارے میں ایک جائزہ شائع ہوا ہے ۔ اس کے مطابق، امریکا کے ارب پتی قسم کے لوگ ایک نئی بیماری سے دوچار ہیں۔ اس بیماری کو افلوئنزا کا نام دیاگیا ہے، یعنی خوش حالی کی بیماری۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کے ارب پتی خاندانوں کے لڑکے اور لڑکیوں کا حال یہ ہے کہ وہ جسمانی اعتبار سے تو خوب فربہ ہوگیے ہیں، مگر وہ ذہنی بونے پن کا شکار ہیں۔ اُن کا عقلی ارتقا زیادہ نہ ہوسکا۔
واپس اوپر جائیں

اَمانی،عمل

مفسر ابن کثیر نے نقل کیا ہے کہ کچھ مسلمان اور اہلِ کتاب (یہود ونصاریٰ) باہم ملے اور انھوں نے ایک دوسرے پر فخر کیا (إن المسلمین وأہل الکتاب افتخروا)۔ اہل کتاب نے کہا کہ ہمارا نبی تمھارے نبی سے پہلے ہے اور ہماری کتاب تمھاری کتاب سے پہلے ہے، ہم اللہ کے زیادہ قریبی لوگ ہیں،وغیرہ۔ مسلمانوں نے کہا کہ ہم اللہ کے زیادہ قریبی ہیں۔ کیوں کہ ہمارا نبی تمام نبیوں کا خاتم ہے اور ہماری کتاب تمام کتابوں کی ناسخ ہے۔ اس پر قرآن کی وہ آیتیں اتریں، جن کا ترجمہ یہ ہے:
نہ تمھاری آرزوؤں (امانی) پر ہے اور نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو شخص بھی برا عمل کرے گا اس کو اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ اور وہ اللہ کے سوا کسی کو اپنا حمایتی اور مددگار نہ پائے گا۔ اور جو شخص نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوںگے، اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا (النساء: 123-124 )
اِس آیت میں وہ خاص گم راہی بتائی گئی ہے جس میںآسمانی کتاب کی حامل قومیں اپنے دورِزوال میں مبتلا ہوتی ہیں، یہ ہے— فخر کی بنیاد پر جینا، امانی کو عمل کا بدل سمجھ لینا۔
’’آخرت میںاللہ کے سوا کوئی مدد گار نہ ہوگا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں کسی شخص کو پکڑ سے بچانے والی چیز اللہ کا یہی قانون ہوگا جو یہاں بیان ہوا۔ یعنی وہاں سچا عمل آدمی کے کام آنے والا ہے نہ کہ بے بنیاد آرزوئیں۔
فخر اور امانی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ— اللہ سے ہمارا خصوصی رشتہ ہے۔ ہم محبوبِ خدا کی امت ہیں۔ ہم اولیاء اور بزرگوں کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ ہم عظیم ترین تاریخ کے وارث ہیں۔ ہم مرحوم و مغفور امت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم کلمہ گو اور عاشق رسول ہیں۔ ہم کو اکابر و اعاظم کی نسبت حاصل ہے، وغیرہ ۔
اس قسم کے خیالات لوگوں کے اندر فرضی بھرم پیدا کردیتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے مختلف سمجھ لیتے ہیں۔ مگر یہ سب بے بنیاد آرزوئیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں نہ خوش فہمیاں کام آئیں گی اور نہ اسلام پر فخر کرناوہاں کام دے گا۔ اللہ کے یہاں ہر آدمی کی جانچ صرف اس کے ذاتی عمل کی بنیاد پر ہوگی، اس کے سوا ہر چیز وہاں بالکل بے قیمت ٹھہرے گی، خواہ آدمی کی اپنی نظر میں اس کی کتنی ہی زیادہ قیمت کیوں نہ ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ فخر ایمان کی ضد ہے۔ جب آدمی کو عظیم خدا کی دریافت ہوتی ہے تو عین اُس کے نتیجے میں اُس کے اندر تواضع کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ خدا کی عظمت آدمی کے اندر ذاتی عظمت کے تمام احساسات کو مٹا دیتی ہے۔ آدمی خدا کی بڑائی میں جینے لگتا ہے۔ ایمان دراصل خدا کی بڑائی کے مقابلے میں اپنے عجز کی دریافت کا نام ہے۔
جس آدمی کے اندر خدا کی دریافت اِس قسم کی متواضعانہ نفسیات پیدا کردے، وہ کبھی لوگوں کے درمیان فخر کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ یہ ناممکن ہے کہ انسان دو مختلف احساسات کے درمیان جیے۔ ایک طرف اس کے اندر فخر کا احساس ہو، اور دوسری طرف اس کے اندر تواضع کی نفسیات بھری ہوئی ہو۔ جب تواضع آئے گی تو اپنے آپ فخر کا احساس اُس کے اندر سے نکل جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

احتیاط ضروری ہے

آلیور ونڈل ہومز(Oliver Wendell Holmes) نے کہا ہے کہ— نوجوان شخص عموم کو دیکھتا ہے اور عمر رسیدہ آدمی استثنا کو:
Young men see the rules, old men see the exceptions.
زندگی کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں ہوتا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اتفاقی رکاوٹ ہمارے سوچے ہوئے نقشہ کو بگاڑ دیتی ہے۔ اس لیے عقل مند وہ ہے جو صرف عام حالات پر بھروسہ نہ کرے، بلکہ غیر متوقع امکانات کو ذہن میں رکھ کر اپنا منصوبہ بنائے۔
ایک صاحب کو ٹرین کے ذریعہ ایک سفر پر جانا تھا۔ وہ وقت پر اسٹیشن جانے کے لیے تیار ہوئے تو ان کے ساتھی نے کہا: آپ اتنی جلدی کیوں جارہے ہیں۔ ٹرین تو آج کل اکثر لیٹ آتی ہے۔ مذکورہ بزرگ نے کہا— اور اگر اسٹیشن پہنچ کر معلوم ہوا کہ آج ٹرین وقت پر چلی گئی تو۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک دن کے اتفاقی انجام سے بچنے کے لیے ہر روز اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ جو شخص یہ خیال کرکے دیر میں اسٹیشن جائے کہ ٹرین تو اکثر لیٹ ہو جاتی ہے، عین ممکن ہے کہ ٹرین اس سے چھوٹ جائے۔ اس کا امکان ہے کہ جس دن اس کو سفر کرنا ہے اس دن ٹرین بالکل صحیح وقت پر جارہی ہو۔ اور مسافر ٹھیک اسی دن ٹرین کو پکڑ نہ سکے۔
بس میںایک صاحب کی جیب کٹ گئی۔ کئی سو روپیے نکل گیے۔ میںنے پوچھا کہ روپیہ آپ نے کہاں رکھا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ کُرتے کے باہر کی جیب میں۔ میںنے کہا کہ باہر کی جیب سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔ روپیہ تو آپ کو ہمیشہ اندرونی جیب میں ر کھنا چاہیے۔ انھوںنے کہا: میںتو روزانہ اسی طرح باہر کی جیب میں روپیہ رکھ کر سفر کرتا تھا مگر کبھی ایسا حادثہ نہیںہوا۔
یہ جملہ اکثر لوگوں کو کہتے ہوئے سنیں گے کہ—آج ہی یہ بات ہوگئی، ورنہ وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اس قسم کا جملہ حقیقت کے اعتبار سے بالکل بے معنی ہے۔ کیوں کہ ’’حادثہ‘‘ روز روز نہیں ہوتا، حادثہ ہمیشہ ایک ہی دن ہوتا ہے اور اسی ایک دن سے بچنے کے لیے آدمی کو ہر روز چوکنا رہنا پڑتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادرِ محترم عبد السلام اکبانی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
26 مئی 2007 کی صبح کو آپ نے ٹیلی فون پر بتایا کہ آج جسٹس ایم ایم قاضی کا انتقال ہوگیا۔ إنا للہ وإنا الیہ راجعون۔ اُن کے صاحب زادے کے ذریعے معلوم ہوا کہ ان کی پیدائش فروری1930 میں ہوئی تھی۔ جسٹس صاحب سے میری پہلی ملاقات غالباً بمبئی میں ہوئی ، جب کہ وہ وہاں جسٹس کے عہدے پر تھے۔ اس کے بعد بمبئی میں اور ان کے وطن ناگ پور میں بار بار ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ وہ بڑی عجیب صلاحیتوں کے آدمی تھے۔
ایک بار انھوں نے بمبئی کی ملاقات میں مجھ سے کہا کہ ریلیونس (relevance) اور ارریلیوینس(irrelevance) کا جتنا اکیوٹ سینس (acute sense) میں نے آپ کے اندر پایا، کسی اور کے اندر نہیں پایا۔ میں نے کہا کہ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کے اندر خود یہ صفت بدرجۂ اتم موجود ہو۔ اور یہ ایک واقعہ ہے کہ جسٹس قاضی کے اندر یہ صفت بہت زیادہ پائی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن سے میرا انٹلکچول ایکسچینج دیر دیر تک ہوتا تھا اور دونوں میں سے کوئی بھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا تھا۔
جسٹس قاضی کو شعر و شاعری کا ذوق تھا۔ وہ اقبال کے بہت قدر داں تھے۔ چناں چہ کئی بار ایسا ہوا کہ گفتگو کے دوران اقبال کا ذکر آگیا۔ میں نے اقبال پر تنقید کی، مگر جسٹس قاضی نے کبھی بھی میری تنقید کا بُرا نہیں مانا، بلکہ اس کے علمی وزن کا اعتراف کیا۔مثلاً ایک بار میںنے کہا کہ لوگ اقبال کو تھنکرپوئٹ کہتے ہیں۔ میرے نزدیک وہ پوئٹ تو ضرورتھے، لیکن وہ تھنکرنہ تھے۔ میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اقبال کا یہ شعر بتاتا ہے کہ اُن کے اندرتجزیہ(analysis) کی صلاحیت نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے قرآن کے نام پر اتنا زیادہ کام کیا ہے جو پچھلی صدیوں میں کبھی نہیں ہوا۔ موجودہ زمانے میں جتنی زیادہ نمازیں پڑھی جارہی ہیں اور جتنے زیادہ لوگ حج کررہے ہیں، اتنا زیادہ اِس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اِسی طرح موجودہ زمانے میں اسلام کے نام پر جتنی زیادہ سرگرمیاں ساری دنیا میں جاری ہیں، اتنی زیادہ اِس سے پہلے کبھی نہ تھیں۔موجودہ زمانے میں جہاد کے نام پر جان اور مال کی جتنی زیادہ قربانیاں دی گئی ہیں، وہ مقدار کے اعتبار سے پوری مسلم تاریخ کی مجموعی قربانی سے بھی زیادہ ہے۔ایسی حالت میں اصل مسئلہ عمل کے فُقدان کا نہیں ہے، بلکہ اُس کے نتیجے کے فقدان کا مسئلہ ہے۔ اقبال نے اِس فرق کو نہیں سمجھا اور نتیجۂ عمل کے فقدان کو دیکھ کر یہ سمجھ لیا کہ خود جو عمل درکار ہے، وہی مفقود ہے۔ اقبال کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ مسلمان بظاہر ’’تارکِ قرآں‘‘ نہیں ہیں، اِس کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ وہ قرآن کی برکتوں سے محروم ہیں۔ جسٹس قاضی نے میری اِس بات کو دل چسپی کے ساتھ سنا اور اُس پر کسی منفی ردّ عمل کا اظہار نہیں کیا۔
اسی طرح ایک بار میںنے گفتگو کے دوران اُن سے کہا کہ اقبال اور دوسرے مسلم رہنما، مغربی تہذیب کو اسلام دشمن تہذیب سمجھتے ہیں اور اُس کے خلاف سخت جذبات کا اظہار کرتے ہیں، مگر یہ ناواقفیت کی بات ہے۔ فطرت کا قانون یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہر چیز کے ساتھ کچھ نہ کچھ مثبت پہلو شامل رہتے ہیں، مگر اقبال اور دوسرے مسلم رہنما مغربی تہذیب کے اِس مثبت پہلو کو دیکھ نہ سکے۔ اُس وقت مجلس میں ایک اور صاحب موجود تھے۔ انھوںنے کہا کہ یہ بات صحیح نہیں۔ اقبال نے مغربی تہذیب کے مثبت عناصر کا بھی ادراک کیا ہے۔ اپنے دعوے کی تائید میں انھوں نے اقبال کا یہ شعر پڑھا:
قوتِ افرنگ از علم و فن است از ہمیں آتش، چراغش روشن است
میں نے کہا کہ یہ ایک غیر متعلق (irrelevant) حوالہ ہے۔ اِس شعر میں اقبال نے مغرب کی داخلی قوت کا راز بتایا ہے۔ اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ کسی کو بھی داخلی قوت کے بغیر عروج نہیں ہوتا۔ میں نے جوبات کہی، اُس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مغرب نے داخلی قوت کے بغیر ہی عروج حاصل کرلیا ہے۔ ایسی بات کوئی نادان آدمی ہی کہہ سکتا ہے۔ میرا مدّعا یہ ہے کہ اقبال اور دوسرے لوگوں نے مغرب کے مخالفِ اسلام ہونے کا تو اعلان کیا، مگر وہ یہ نہ بتا سکے کہ مغربی تہذیب میں موافق اسلام عناصر بھی موجود ہیں۔ اور وہ فلاں فلاں ہیں۔ جسٹس قاضی صاحب کے اہلِ خانہ کو میری طرف سے تعزیت فرمادیں۔
نئی دہلی، 26 مئی 2007 دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز — 180

1 - انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 12 مارچ 2007 کو ایک سیمنار ہوا۔ اس کا عنوان تھا: مذاہب کے درمیان ڈائلاگ ۔ اِس سیمنار میںمختلف مذاہب کے لوگ شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر سیمنار میں شرکت کی اور اسلام کے تعارف پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔ اِس میں سی پی ایس انٹرنیشنل کی ٹیم کے افراد نے بھی شرکت کی اور حاضرین کے درمیان دعوہ بروشر تقسیم کیا۔
2 - ایران کلچر ہاؤس کی طرف سے 24 مارچ 2007 کو انڈیا ہیبی ٹٹ سنٹر (نئی دہلی) میںایک سیمنار ہوا۔ اُس کا عنوان یہ تھا:
Dialogue Among Islam and Hinduism.
اِس سیمنار کی صدارت مسٹر ایم شکیب نے کی۔ وہ ایرانی سفارت خانے میں کلچرل کاؤنسلر ہیں۔ اِس سیمنار میںاسلام اور ہندوازم دونوں مذہبوں کے اسکالرز شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا:
Follow one and respect all.
اِس سیمنار کی ساری کارروائی انگریزی زبان میں ہوئی۔
3 - نئی دہلی کی پی آئی او ٹی وی (PIO TV) کی ٹیم نے 26 مارچ 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر کیدار ناتھ گُپتا تھے۔ سوالات کا تعلق، دو مسئلوں سے تھا— ’اسلام میں جہاد کا حکم، اور اہانتِ رسول کی سزا، جواب میں بتایا گیا کہ اسلام میں اہانتِ رسول کوئی قابلِ سزا جرم نہیں ہے۔ جوآدمی اسلام کی یارسول کی توہین کرے، وہ گویا کہ اسلام کی سچائی کے بارے میں مشتبہ ہے۔ ایسے آدمی کو دلائل کے ذریعے مطمئن کیاجائے گا، نہ کہ اُس کو سزا دی جائے گی۔ جہاد (بہ معنیٰ قتال) قائم شدہ ریاست کی طرف سے دفاعی جنگ کا نام ہے۔ ریاست کی طرف سے دفاعی جنگ کے سوا کوئی اور جنگ اسلام میں نہیں۔
4 - آل انڈیا ریڈیو (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں 29 مارچ2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک پروگرام رکارڈ کیا گیا۔ اس کا موضوع تھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ سلوک
اِس موضوع پر بولتے ہوئے صدر اسلامی مرکز نے حدیث اور سیرتِ رسول کی روشنی میں اظہار خیال کیا۔
5 - مسٹر اشکوک کمار جرمن ریڈیو (نئی دہلی) نے 4 اپریل 2007 کو ’یوپی کاالیکشن اور مسلمان‘ کے موضوع پر
صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ خواہ یوپی کا الیکشن ہو یا کوئی اور الیکشن ہرجگہ کے لیے ہماری پالیسی صرف ایک ہے، وہ یہ کہ مسلمان منفی ووٹنگ کا طریقہ چھوڑ دیں اور مثبت ووٹنگ کا طریقہ اختیار کریں۔ یہی مسلمانوں کی مستقل الیکشن پالیسی ہونا چاہیے۔
6 - بمبئی کے ایک ادارہ ’ورڈس ورتھ‘ (Wordsworth) کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے بمبئی کا سفر کیا۔ 10 مئی 2007 کی صبح کو راشٹریہ سہارا کی فلائٹ سے روانگی ہوئی اور 12مئی 2007 کی شام کو دوبارہ راشٹریہ سہارا کی فلائٹ سے دہلی واپسی ہوئی۔ اِس سفر میںملاقاتوں کے علاوہ چار پروگرام ہوئے۔ ایک ’ورڈس ورتھ‘ کا افتتاح۔ دوسرے، اعلیٰ سرکاری افسران کے ایک اجتماع سے خطاب۔ تیسرے، ایک ہوٹل کے ہال میں ہندو اور مسلمانوں کے ایک مشترک اجتماع سے خطاب۔ چوتھے، اِکرا(ICRA) کے ہال میں ’الرسالہ‘ کے قارئین سے خطاب۔ اِن اجتماعات کے موقعے پر لوگوں کو کتابیں اور پمفلٹ دیے گیے۔
7 - صدر اسلامی مرکز کے اردو اور انگریزی مضامین ، ہر ہفتے، تقریباً تین ہزار ای میل سبسکرائبرز کو روانہ کیے جاتے ہیں۔ جو لوگ اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں، وہ درج ذیل ای میل پر رابطہ کریں:
info@goodwordbooks.com
8 - لندن سے ایک خط بذریعہ ای میل موصول ہوا ہے جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
Assalam Alaikum
I am an admirer of Maulana's writings for a very long time and I would like to congratulate Goodwrod TV to bring Maulana's video on the internet. The video quality is very good. Now I hope to see more videos of Maulana on the net. (Farooq Chishty, London, England)
9 - کراچی (پاکستان) سے محمد عمر فاروق صاحب کا ایک خط موصول ہوا ہے۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ علومِ اسلامی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔ اور وہاں سے ڈاکٹریٹ کررہے ہیں۔ ان کی تحقیق کا موضوع یہ ہے:
مولانا وحید الدین خاں کی علمی و فکری خدمات— ایک تحقیقی اور تنقیدی جائزہ ۔
اس سلسلے میں ان کو اسلامی مرکز (نئی دہلی) سے ضروری مواد ارسال کردیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں