Pages

Monday, 1 October 2007

Al Risala | October 2007(الرسالہ،اکتوبر)

2

- پیغمبر ِ انقلاب

5

- دین اور منہاج

12

- نسخ کیا ہے

16

- اسلام کی سیاسی تعبیر کا فتنہ

24

- جامع تصور یا تخریبی تصور

27

- نظریاتی تشدّد

28

- جہادکیا ہے

30

- عقیدہ اور سیاست

32

- سیکولرازم کیا ہے

34

- فتویٰ کا غلط استعمال

37

- بدلتی ہوئی دنیا میں مسلمانوں کا لائحۂ عمل

42

- نشانیوں سے سبق نہ لینا

44

- مسلم مسلک کیا ہے


پیغمبر ِ انقلاب

قرآن میں پچیس پیغمبروں کا ذِکر ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک ہر زمانے میں جاری رہا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔ قرآن کے مطابق، آپ خدا کے رسول بھی تھے اور نبیوں کے خاتم بھی۔
پیغمبروں کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تمام پیغمبر مشترک طورپر توحید کا پیغام لے کر آئے ، لیکن پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں یہ پیغام زیادہ تر فکری مرحلے میں رہا، وہ عملی انقلاب کے درجے تک نہیں پہنچا۔ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ آپ کو اپنے اصحاب کی صورت میں ایک مضبوط ٹیم مل گئی۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ توحید کی دعوت کو فکری مرحلے سے آگے بڑھا کر عملی انقلاب کے درجے تک پہنچا دیا جائے۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے زمانے میں یہ انقلاب عملی طورپر پیش آیا اور پھر وہ تاریخِ بشری کا ایک معلوم اور مسلّم حصہ بن گیا۔
پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اتنی زیادہ واضح ہے کہ وہ صرف آپ کے پیروؤں کے ایک ’’روایتی عقیدہ‘‘ کی حیثیت نہیں رکھتی، بلکہ وہ ایک مسلمّہ تاریخی واقعہ ہے۔ پیغمبر آخرالزماں سے پہلے جو انبیا آئے، اُن کی زندگی مدوّن تاریخ کا جُز نہ بن سکی، مگر پیغمبر اسلام کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ آپ کی حیثیت ایک مسلّم تاریخی پیغمبر کی ہے، آپ کی نبوت پورے معنوں میں ایک ثابت شدہ نبوت ہے۔انسانی زندگی کے جس پہلو کو بھی دیکھا جائے، اُس میں پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ابدی تعلیم کے اثرات نمایاں طورپر دکھائی دیں گے۔ وہ تمام بہترین روایات اور وہ تمام اعلیٰ قدریں جن کو آج اہمیت دی جاتی ہے، وہ سب پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے عظیم انقلاب کے براہِ راست نتائج ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہہ تاریخ کے سب سے بڑے انسان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانِ کامل بنا کر انسانی نسل پر اپنا سب سے بڑا احسان فرمایا ہے۔ خدا نے پیغمبرآخرالزماں کی شکل میں تاریخ میں ایک ایسا بلند ترین مینارکھڑا کردیا ہے کہ آدمی جس طرف بھی نظر اُٹھائے، وہ آپ کو دیکھ لے۔ جب وہ اپنے رہ نُما کی تلاش میں نکلے تو اُس کی نظر سب سے پہلے آپ پر پڑے۔ جب وہ حق کا راستہ جاننا چاہے تو آپ کا روشن اور بلند و بالا وجود اُس کو سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرلے۔ آپ ساری انسانیت کے لیے ہادیٔ اعظم اور رہبرِ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِسی لیے خدا نے آپ کو نبیوں کے خاتم (الأحزاب: 40 ) کی حیثیت سے مبعوث فرمایا۔ دوسرے انبیا صرف اللہ کے رسول تھے، اور آپ اللہ کے رسول ہونے کے ساتھ خاتم النبیین بھی۔
میری کتاب ’پیغمبر انقلاب‘ پہلی بار 1982 میں چھپی۔ اس وقت میں نے اِس کتاب میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو الفاظ لکھے تھے، وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی نشانِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
قرآن کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو محمودیت کے مقام پر کھڑا کیا ہے(الإسراء: 79 )۔ چناں چہ نہ صرف اہلِ اسلام بلکہ عام مصنفین اور مورخین نے آپ کی عظمت کو کھلے طورپر تسلیم کیا ہے۔
بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں مسلم قوموں اور مسیحی قوموں کے درمیان لڑائیاں پیش آئیں، جن کو صلیبی جنگ (crusades) کہاجاتا ہے۔ اِن جنگوں میں مسیحی قوموں کو شکست ہوئی۔ اُس کے بعد مسیحی مصنفین نے اسلام کے خلاف ایک قلمی جنگ چھیڑ دی۔ کثرت سے ایسی کتابیں لکھی گئیں جن میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی تصویر کو بگاڑ کر پیش کیا گیا تھا۔ یہ سلسلہ لمبی مدت تک جاری رہا۔
اِس سلسلے کو توڑنے والا پہلا قابلِ ذکر شخص اسکاٹ لینڈ کا ایک مصنف ٹامس کارلائل (وفات: 1881 ) ہے۔ اُس نے جرأت مندانہ طورپر اِس رجحان کو بدلا۔ اُس کی مشہور کتاب ہیروورشپ(On Heroes, Hero Worship) پہلی بار1841 میں چھپی۔ اِس انگریزی کتاب میں اُس نے پیغمبر اسلام کی مثبت تصویر پیش کی۔ اُس نے پیغمبر اسلام کو دوسرے تمام پیغمبروں کے مقابلے میں ’’ہیرو‘‘ کا درجہ دیا۔
اِس کے بعد کثرت سے مختلف زبانوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کتابیں شائع ہوئیں۔ اِن کتابوں میں تاریخ میں آپ کے انقلابی رول کا کھلے طورپر اعتراف کیا گیا۔ مثلاً انڈیا کے ایک اسکالرایم این رائے (وفات: 1954 ) کی کتاب (Historical Role of Islam) 1939 میں پہلی بار دہلی سے چھپی۔ اِس میں انھوں نے لکھا کہ پیغمبر اسلام، تمام پیغمبروں میں سب سے بڑے پیغمبر تھے۔ انھوںنے سب سے بڑا تاریخی معجزہ دکھایا:
Every prophet establishes his pretentions by the performance of miracles. On that token, Muhammad must be recognised as by far the greatest of all prophets, before or after him. The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 4)
پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن میں یہ پیشین گوئی آئی ہے کہ آپ کو مقامِ محمود کا درجہ عطا کیا جائے گا(الإسراء:79 )۔ مقامِ محمودیت کا ایک پہلو وہ ہے جو آخرت میں ظاہر ہوگا۔ دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق، موجودہ دنیا سے ہے۔ موجودہ دنیا کی نسبت سے مقامِ محمود یہ ہے کہ آپ کو تاریخی اعتبار سے ایک مسلّم نبوت (established prophethood) کا درجہ حاصل ہوگا۔
آپ سے پہلے جو انبیا آئے، وہ مدوّن تاریخ میں ریکارڈ نہ ہوسکے۔آپ کے سوا ہر ایک کی حیثیت، اعتقادی نبوت کی ہے نہ کہ تاریخی نبوت کی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ آپ کو خدا نے آخری پیغمبر بنایا ـتھا۔ آپ کے بعد کوئی دوسرا پیغمبر آنے والا نہ تھا۔ اِس لیے ضروری تھا کہ آپ کی لائی ہوئی کتاب اور آپ کی پیغمبرانہ زندگی کامل طورپر محفوظ ہوجائے، وہ تسلیم شدہ تاریخی ریکارڈ کی حیثیت حاصل کرلے۔ کیوں کہ قانونِ الٰہی کے مطابق، جب پیغمبر مستند تاریخی ریکارڈ کادرجہ حاصل کرلے تو اس کے بعداُس کی لائی ہوئی کتاب اور اُس کی تعلیمات کا یہی ریکارڈ پیغمبر کا قائم مقام بن جاتا ہے، اِس کے بعد کسی نیے پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
واپس اوپر جائیں

دین اورمنہاج

قرآن کی سورہ نمبر 42 میں بتایاگیا ہے کہ خدا کا جو ’الدّین‘ہے، اُس کو خدا نے تمام پیغمبروں کو یکساں طورپردیا ہے (الشوریٰ:13 )۔ الدّین سے مراد، خدا کے دین کی ابدی تعلیمات ہیں۔ یہ تعلیمات ہمیشہ یکساں رہتی ہیں، اِس میںحالات یا زمانے کے تغیر سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ دین کی یہ ابدی تعلیمات تمام پیغمبروں کو یکساں طورپر دی گئی ہیں۔ اِن ابدی تعلیمات کے اعتبار سے ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں (لانفرّق بین أحدٍ من رّسُلہ، البقرۃ: 285 )
دوسری طرف، قرآن کی سورہ نمبر پانچ میں بتایاگیا ہے کہ ہر پیغمبر کو خدا نے الگ الگ منہاج دیے : لکلٍّ جعلنا منکم شِرعۃً ومنہاجاً (المائدۃ:48 )۔ اِس سے معلوم ہوا کہ دینِ خداوندی کے دو حصے ہیں۔ ایک، الدین اور دوسرا، منہاج۔ الدین ابدی طور پر ایک ہی رہتا ہے، لیکن منہاج یا طریقِ کار (method) کا تعلق وقت کے حالات سے ہوتا ہے، اِس لیے حالات کی تبدیلی کے تحت اُس میں فرق ہوتا رہتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی تھے (الأحزاب: 40 ) 570 عیسوی میں آپ مکہ میں پیداہوئے۔ 610 عیسوی میں آپ پرپہلی وحی اُتری۔ 632 عیسوی میں مدینہ میںآپ کی وفات ہوئی۔ آپ خدا کے آخری نبی تھے۔ آپ پر اُترنے والی کتاب(قرآن) کو خدا نے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔ آپ کو جو الدین دیاگیا، وہ کامل بھی ہے اور ابدی بھی ہے۔ ہر زمانے کے انسانوں کے لیے خدا کے دین کو جاننے کا یہی واحد مستند ماخذ ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا دوسرا حصہ وہ ہے، جس کا تعلق منہاج یا طریقِ کار سے ہے۔ اِس معاملے میں آپ نے رہ نما اصول مقرر فرمادیے ہیں، لیکن جہاں تک عملی طریقے کا تعلق ہے، وہ علمائِ امت کا کام ہے۔ ہر زمانے کے علماء حالات کے اعتبار سے اُس منہاج یا طریقِ کار کو اختیار کریں گے جو اُن کو حالات کے اعتبار سے موثر اور مفید نظر آئے۔
دین اور منہاج کا فرق
دوسرے پیغمبروں کی طرح، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دو چیزیں دی گئیں— الدین اور منہاج۔ الدین سے مراد آپ کی تعلیمات کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق، عقیدہ اور عبادت اور اخلاق جیسی اساسی چیزوں سے ہے۔ آپ کی تعلیمات کا یہ حصہ ابدی ہے۔ وہ اِس طرح کامل ہوچکا ہے کہ اُس میں اب کسی کمی یا اضافے کی گنجائش نہیں۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن کی سورہ نمبر پانچ میںاِن الفاظ میں کہی گئی ہے: الیوم أکملتُ لکم دینَکم وأتممتُ علیکم نعمتی، ورضیت لکم الإسلام دیناً (المائدۃ: 3)
دین کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کو قرآن میں ’مِنہاج‘ کہا گیا ہے۔ اِس بارے میں قرآن کی سورہ نمبر پانچ کی اِس آیت سے رہ نمائی ملتی ہے: لکلّ جعلنا منکم شرعۃً ومنہاجا (المائدۃ: 48 ) منہاج کا مطلب، طریقِ کار (method) ہے۔ طریقِ کار کا معاملہ ’’الدین‘‘ سے مختلف ہے۔ الدین، ابدی طورپر ایک ہی رہتا ہے، لیکن طریقِ کار کا تعلق حالات سے ہے۔ طریقِ کار، وقت کی صورتِ حال کی مناسبت سے بنتا ہے، نہ کہ کسی ابدی معیار کے تحت۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں اور اسلام کے بعد کی تاریخ میںاس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ الدین کے معاملے میں پیغمبر اسلام کا اُسوہ،ابدی طور پر اور غیر متغیر طورپر ایک ہے اور ایک رہے گا، لیکن جہاں تک منہاج کا معاملہ ہے، اُس کا تعلق حالات سے ہے۔ ہر زمانے میں جو طریقہ حالات کے مطابق ہوگا، اُس کو اختیار کیا جائے گا۔
چند مثالیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غزوۂ بدر (2 ہجری) کے لیے اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ سے کوچ فرمایا تو آپ نے اپنی صواب دید کے مطابق ،ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک ساتھی حبّاب بن مُنذر بن جموح نے آپ سے پوچھا کہ کیا یہ جگہ جہاں آپ نے پڑاؤ ڈالا ہے، یہ خدا کی وحی کی بنیاد پر ہے، آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ انھوںنے کہا کہ پھر تو یہ کوئی پڑاؤ ڈالنے کی جگہ نہیں (فإنّ ہٰذا لیس بمنزل)۔ اِس کے بعد آپ نے اُن کے مشورے کے مطابق، پڑاؤ کی جگہ کو بدل دیا۔
اِسی طرح کی ایک مثال وہ ہے جو غزوۂ اَحزاب (5 ہجری) کے موقع پر پیش آئی۔ اُس وقت آپ کے مخالفین ایک بڑی فوج لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اُس وقت اہلِ ایمان مقابلے کی پوزیشن میں نہ تھے، اِس لیے آپ نے چاہا کہ کسی تدبیر کے تحت جنگ کو ٹال دیا جائے۔ آپ نے لوگوں سے مشورہ کیا۔ اُس وقت سلمان فارسی کھڑے ہوئے۔ انھوںنے کہا کہ ایران کے بادشاہ جب جنگ سے اعراض کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے اور مخالف فوج کے درمیان خندق (trench) کھود دیتے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس رائے کو پسند کیا اور ایرانی طریقے کے مطابق، مدینہ کے باہر ایک خندق کھوددی۔ اِس لیے اِس غزوے کو ’غزوۂ خندق‘ کہاجاتا ہے۔
اِسی طرح کا ایک معاملہ وہ ہے جو کھجور کے درختوں کی زرخیزی (pollination) سے تعلق رکھتا ہے۔ سیرت کی کتابوں میں اِس کو ’تأبیرِ نخل‘ کا نام دیاگیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ آئے تو وہاں کے لوگ کھجور کے درختوں کی زرخیزی کے لیے تأبیر نخل کا طریقہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ آپ نے اُس کو دیکھا تو آپ نے اُس سے اپنے عدم اتّفاق کا اظہار کیا۔ چناںچہ لوگوں نے اُس کے بعد تأبیر یا تلقیح کے عمل کو چھوڑ دیا۔ مگر اِس کانتیجہ یہ ہوا کہ اُس سال کھجور کی فصل کم ہوئی۔ آپ نے کمی کا سبب پوچھا تو لوگوں نے کہا کہ آپ کے کہنے کے مطابق، ہم نے تأبیر اور تلقیح کا عمل نہیںکیا، اِس لیے ایسا ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ جو کرتے تھے، وہ کرو۔ کیوں کہ دنیا کے معاملے میں تم زیادہ جانتے ہو (أنتم أعلم بأمر دنیاکم) ۔
اِس قسم کے واقعات بتاتے ہیں کہ جہاں تک الدین کا تعلق ہے، اِس معاملے میں پیغمبر اسلام کا اسوہ ایک کامل اور ابدی اسوہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن جہاں تک منہاج یا طریقِ کار کا تعلق ہے، اِس میں حقیقی حالات کی نسبت سے یہ متعین ہوگا کہ کس وقت کون سا طریقہ اختیار کیا جائے۔
پیغمبراسلام کا اُسوہ
اسلامی عقیدے کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم انسانی زندگی کے لیے ایک عملی نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ عملی نمونہ، زندگی کے ہر پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبراسلام کی عملی زندگی ہر اعتبار سے، انسان کے لیے ابدی رہ نما کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے کہ اُس نے پیغمبر آخر الزّماں کی زندگی کو آخری طورپر محفوظ کردیا۔ ورنہ جہاں تک پچھلے پیغمبروں کا معاملہ ہے، ان کی تاریخ پورے طور پر محفوظ حالت میں موجود نہیں۔
لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے نمونہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے یہاں انسانی زندگی کے ہر معاملے کے لیے ایک مقرر مثال (set pattern) یا ایک پیشگی نمونہ (prototype) موجود ہے اور ہمیں، حقیقی صورتِ حال کا لحاظ کیے بغیر، صرف یہ کرنا ہے کہ اِن پیشگی نمونوں کو لے کر ہمیشہ اُن کو اپنے ہر معاملے میں منطبق کرتے رہیں۔ اگر ایسا مانا جائے تو اسلام ایک جامد مذہب بن جائے گا، جس میں مزید ترقی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ یہ بات پیغمبر اسلام کے زمانے کے لیے بھی درست ہے اور آپ کے بعد کے زمانے کے لیے بھی۔ اِس سلسلے میں چند مثالیں اوپر آچکی ہیں۔ یہاں مزید کچھ مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
چند مزید مثالیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے تو اُس وقت کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے، مگر آپ نے کبھی اُن بتوں کو توڑنے کی کوشش نہیں کی۔ کیوں کہ اُس وقت کی صورتِ حال یہ تھی کہ مکہ میں مسلم اور غیر مسلم دونوں موجود تھے۔ لیکن ہجرت کے آٹھویں سال جب مکہ فتح ہوا تو مکہ کے تمام لوگ اسلام میں داخل ہوگیے۔ اُس وقت صورتِ حال مکمل طور پر بدل گئی۔ چناں چہ آپ نے تمام بتوں کو کعبہ سے نکال دیا۔ یہ دو مختلف طریقے آپ نے صورتِ حال کے فرق کی بنا پر اختیار فرمائے۔
ایک اور مثال یہ ہے کہ مدینہ میںآپ نے ایک خطاب میں فرمایا کہ: نحن أمّۃٌ أمّیَّۃٌ، لا نکتب ولا نَحسِب (صحیح البخاری، مسلم، مسند احمد) یعنی ہم اُمّی لوگ ہیں۔ ہم نہ لکھتے ہیں اور نہ ہم حساب کرتے ہیں۔ یہ ابتدائی زمانے کی بات تھی۔ بعد کو ایرانی ایمپائر اور رومی ایمپائر اسلام کے علاقے میں داخل ہوئے تو صورتِ حال بدل گئی۔ اب بڑھی ہوئی ضرورتوں کی بنا پر سرکاری معاملات کا حساب رکھنا ضروری ہوگیا۔چناں چہ خلیفۂ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسلامی سلطنت کے دفتروں کو ایرانی ایمپائر اور رومی ایمپائر کے نمونے پر قائم کیا۔ انھوںنے ایرانیوں اور رومیوں کے ماہر افرادکو اسلامی دفاتر میں رکھا، جو ایرانی اور رومی نقشے پر سرکاری معاملات کا حساب درج کرتے تھے۔
طریقِ کار کے معاملے میں یہی عمل آپ کے بعد بھی جاری رہا۔ بنو اُمیّہ کے زمانے میں بحری بیڑا تیار کیا گیا، حالاں کہ اِس سے پہلے اسلام میں ایسا نہیں کیاگیا تھا۔ بنو عبّاس کے زمانے میں بغداد میں رسدگاہ (observatory) بنائی گئی، جو اسکندریہ کے رومی دَور میں بنائی جانے والی رسد گاہ کی نقل تھی۔ خوارزم شاہ کے زمانے میں سمر قند میں کاغذ کا کارخانہ بنایاگیا، جس کا نمونہ چین سے لیاگیا تھا۔ اَندلس کی مسلم حکومت کے زمانے میں آب پاشی کے نیے طریقے اختیار کیے گیے ، جس کا نمونہ غیر مسلم قوموں سے لیاگیا تھا، وغیرہ۔
یہی معاملہ موجودہ زمانے کی تمام مسلم سرگرمیوں کا ہے۔ آج ہر معاملے میں قدیم طریقے کو چھوڑ کر جدید مغربی طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ مثلاً فلسطین اور دوسرے مقامات پر مسلمان جو مسلّح جہاد کررہے ہیں اُس میں قدیم نمونے کے مطابق، تلوار اور گھوڑے کو جہاد کا ذریعہ نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ گَن اور بم کو جہاد کا ذیعہ بنایا گیا ہے، وغیرہ۔
خلاصہ یہ کہ اسلام کا ایک حصہ وہ ہے جس کو قرآن میں ’’الدین‘‘ کہاگیا ہے۔ یہ اسلام کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق، عقیدہ اور عبادت اور اخلاقی نظام جیسی اساسی چیزوں سے ہے۔ یہی اسلام کا اصل حصہ ہے، اور یہ حصہ ابدی طورپر ایک ہے اور ایک ہی رہے گا۔ یہ حصہ اُسی طرح انسان کی رہ نمائی کے لیے ابدی سر چشمہ ہے، جس طرح آفتاب ابدی طور پر روشنی کا سرچشمہ بناہوا ہے۔
مگر منہاج یا طریقِ کار کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ طریقِ کارکا تعلق وقت کے حالات سے ہوتا ہے۔ طریقِ کار کے معاملے میں ہمیشہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ حالات کے مطابق، کون سا طریقہ زیادہ مؤثر ہے اور پھر اُس کو اختیار کرلیا جاتا ہے۔
مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مکہ میں 610 عیسوی میں نبوت ملی توآپ نے اُس وقت اعلان کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ آپ مکہ کے قریب صَفا پہاڑی پر کھڑے ہوئے اور وہاں سے لوگوں کو بلند آواز سے پکارا۔ جب لوگ وہاں اکھٹا ہوئے تو آپ نے اُن کو توحیدکا پیغام دیا۔ مگر آج کا ایک داعی اِس کے بجائے یہ کرتا ہے کہ وہ ٹیلی ویژن کے اسٹوڈیو میں بولتا ہے اور وہاں سے اُس کی آواز تمام انسانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اِس مثال میں پیغامِ دعوت کا تعلق، دین سے ہے اور صَفا، یا ٹیلی ویژن کا تعلق، طریقِ کار سے۔
اُسوۂ حسنہ
اسلام کے انھیں دونوں حصوں میں فرق کو واضح کرنے کے لیے قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُسوۂ حسنہ (الأحزاب:21) بتایاگیا ہے۔ اگر اس موقع پر قرآن میں ’اُسوۂ کاملہ‘ کا لفظ استعمال کیاجاتا تو لوگ غلط فہمی میں پڑ سکتے تھے، اور یہ سمجھ سکتے تھے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے الدّین میں آپ کے ذریعے انسان کو کامل رہ نمائی عطا فرمائی ہے، اُسی طرح منہاج کے معاملے میں بھی ابدی طورپر ہمیں آپ کے طریقے کی پیروی کرنا ہے۔ ایسا سمجھنا،بلا شبہہ ایک غلط فہمی ہوتی اور نتیجۃً طریقِ کار کے اعتبار سے اسلام جُمود کا شکار ہوجاتا۔
مثلاً طریقِ کار کو ابدی سمجھنے کے بعد یہ ہوتا کہ ہم کار اور ہوائی جہاز کے زمانے میں بھی اونٹ پر بیٹھنا ضروری سمجھتے۔ جدید فنِ تعمیر کے ظہور میںآنے کے بعد بھی ہم مسجد ِ نبوی کو کھجور کے تنوں اور پتّوں کے ذریعے بناتے رہتے ۔پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ظہور کے بعد بھی ہم قرآن کو درخت کی چھالوں اور جانور کی جھِلّیوں پر بدستور لکھتے رہتے۔ جدید طرز کے دور مار ہتھیاروں کے ظہور میں آنے کے بعد بھی ہم قدیم نمونے کے مطابق، دستی تلوار کے ذریعے جہاد کرتے رہتے۔ جدید سائنسی دلائل کے ظہور میں آنے کے بعد بھی ہم قدیم روایتی معقولات کو اپنے علمِ کلام کا واحد سرمایہ سمجھتے۔ جدید کمیونی کیشن اور ٹیلی فون کے زمانے میں بھی ہم پرندوں اور جانوروں سے پیغام رسانی کا کام لیتے رہتے۔جدید الیکٹری سٹی کے ظہور کے بعد بھی ہم چراغوں اور دِیوں کے ذریعے اپنے گھروں کو روشن کرتے رہتے۔ زرعی ٹریکٹروں کے ظہور میں آنے کے بھی ہم ہَل اور بیل کے ذریعے زراعت کا کام جاری رکھتے، وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ کی یہ ایک عظیم حکمت تھی کہ اُس نے قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رہ نمائی کو بتانے کے لیے اُسوۂ حسنہ کا لفظ استعمال کیا۔ اگر اِس آیت میں اسوۂ کاملہ کا لفظ ہوتا تو لوگ یقینی طورپر غلط فہمی میں پڑ جاتے۔ لوگ الدین اور منہاج میں فرق کرنے سے قاصر رہتے۔ وہ غلط فہمی کی بنا پر یہ سمجھ لیتے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم، جس طرح الدین کے بارے میں ابدی اور کامل نمونہ ہیں، اِسی طرح منہاج اور طریقِ کار کے معاملے میں بھی آپ کا طریقہ ابدی ہے۔ اِس غلط فہمی کا یہ نتیجہ ہوتاکہ اسلام جمود کا شکار ہوجاتا۔ دوسری قومیں جدید ترقیاتی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتیں اور مسلمانوں کا قافلہ اُن سے بہت زیادہ پیچھے ہوجاتا۔
اِس غلط فہمی اور اس کے غیر مطلوب نتائج کی ایک مثال تُرکی میں ملتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عثمانی خلافت کا فوجی نظام، قدیم طرز کے مطابق چلا آرہا تھا، یعنی اُن کی فوجی تیاری تلواروں اور گھوڑوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ پھر نشاۃِ ثانیہ کے بعد مغربی یورپ کی مسیحی قوموں نے سامانِ جنگ کے لیے نئی ٹکنک اور نیے ہتھیار دریافت کیے۔ اِس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ تُرکوں اور اِن مسیحی قوموں کے درمیان فوجی توازن بگڑ گیا۔ جدید ہتھیاروں سے مسلح مغربی فوجوں کے مقابلے میں ترکوں کی فوج شکست کھانے لگی۔ ترکی کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک چشم کشا واقعہ تھا۔ چناں چہ بحث ومباحثے کے بعد یہ طے ہوا کہ ترکی کی فوج کو جدید ہتھیاروں کے ذریعے مسلح کیا جائے۔ چناں چہ وہاں ایسا ہی کیا گیا۔
واپس اوپر جائیں

نَسخ کیا ہے

قرآن کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو نسخ کہاجاتا ہے۔ نسخ کا مطلب اُردو مفہوم کے لحاظ سے منسوخی نہیں ہے۔ عربی زبان میں نسخ کا مطلب ہے ہٹانا، یعنی ایک چیز کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسری چیز لانا (replacement) ۔ مشہور عربی لغت، لسانُ العرب میں نسخ کا مفہوم اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے:النَّسخ، تبدیل الشیٔ من الشیٔ (جلد 3، صفحہ 61 )، یعنی ایک چیز کو بدل کر اُس کی جگہ دوسری چیز لانا۔
نسخ کا یہ مفہوم خود قرآن کی دوسری آیت سے واضح ہورہا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 16میں ارشاد ہوا ہے: وإذا بدّلنا آیۃً مکانَ آیۃ (النّحل: 101 )، یعنی جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کی جگہ دوسری آیت۔ اِس آیت میںایک چیز کو بدل کر اُس کی جگہ دوسری چیز لانے سے مراد عین وہی چیز ہے جس کو پہلی آیت میں نسخ کہاگیا ہے۔
مفسرین نے بھی دونوں آیتوں میں نسخ کا تقریباً یہی مفہوم لیا ہے۔ قرطبی کے الفاظ یہ ہیں: النّسخ والتّبدیل: رفعُ الشّیٔ مع وضع غیرہِ مکانہ (القرطبی، جلد 10 ، صفحہ 176 ) یعنی نسخ اور تبدیلی کا مطلب کسی چیز کو اُس کی جگہ سے ہٹانا، اور وہاں دوسری چیز کو لے آنا ہے۔
نسخ کے معاملے کو عام طور پر یہود سے، یا یہود کی شریعت سے جوڑا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک قانونِ فطرت ہے۔ اِس قانون کا تعلق بہت سے معاملات سے ہے۔ جب بھی کسی صورتِ حال میں تبدیلی ہو تو وہاں نسخ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ نسخ جب بھی ہوتا ہے، ظاہری صورت میں ہوتا ہے، معنوی حقیقت کے اعتبار سے کسی حکم میں نسخ واقع نہیں ہوتا۔
چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم نے مکہ میں کعبہ کی تعمیر کی۔ یہ کعبہ حج کا مرکز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اِن الفاظ میںاس کا حکم دیا : اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو۔ وہ تمھارے پاس آئیں گے پَیروں پر چل کر اور دُبلے اونٹوں پر سوار ہوکر جو کہ دور دراز راستوںسے آئیں گے (الحج: 27 )
موجودہ زمانے میں ہمیشہ سے زیادہ لوگ حج کے لیے مکہ جاتے ہیں، مگر اب یہ لوگ موٹر اور ہوائی جہاز سے اُس کا سفر کرتے ہیں۔ بظاہر دیکھیے تو یہ بھی نسخ کی ایک صورت ہے۔ اِس نسخ میں حقیقت نہیں بدلی ہے، بلکہ اس کی ظاہری صورت بدلی ہے۔ اِس معاملے کی اصل حقیقت سواری ہے۔پہلے زمانے میں سواری کی عملی صورت اونٹ ہوتے تھے۔ اِس لیے لوگ اونٹ پر سفر کرتے تھے۔ اب سواری کی عملی صورت ہوائی جہاز ہے۔ اس لیے اب لوگ ہوائی جہاز کے ذریعے یہ سفر طے کرتے ہیں۔
اسی طرح دفاعی جنگ کی تیاری کے لیے قرآن میں یہ حکم دیاگیا تھا کہ: اور اُن کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے، تیار رکھو قوّت اور پَلے ہوئے گھوڑے کہ اِس سے تمھاری ہیبت رہے اللہ کے دشمنوں پر اور تمھارے دشمنوں پر (الأنفال: 60 )
جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ زمانے کی مسلم حکومتیں دفاعی تیّاری کے لیے جدید ہتھیار کا سہارا لیتی ہیں، یہ بھی گویا کہ نسخ کی ایک صورت ہے۔ غور کیجیے تو اِس حکم کی اصل حقیقت دفاعی تیاری ہے۔ اِس دفاعی تیاری کی ظاہری شکل پہلے زمانے میں گھوڑا ہوتا تھا، اب اُس کی ظاہری شکل مشینی ہتھیار بن گیے ہیں۔
یہی معاملہ قتال (جنگ) کا بھی ہے۔ قرآن کی چند آیتوں میں دفاع کے لیے قتال کی اجازت دی گئی ہے۔ فقہا نے کہا ہے کہ اسلام میں قتال حَسن لِذاتہ نہیں ہے، بلکہ وہ حسن لِغیرہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ قتال، نماز کی طرح مطلق طورپر مطلوب نہیں ہے بلکہ اُس کی مطلوبیت اضافی ہے، یعنی ضرورت کے وقت قتال، اور جب ضرورت نہیں تو قتال بھی نہیں۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسو ل اور اصحابِ رسول کو قتال کا جو حکم دیاگیا تھا، اُس کا مقصد ’فتنۃ‘کو ختم کرنا تھا۔ قرآن کی سورہ نمبر آٹھ میں ارشاد ہوا ہے: اوراُن سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے۔ اور دین سب اللہ کا ہوجائے (الأنفال: 38 ) اِس آیت میں فتنہ سے مرادمذہبی جبر (religious persecution) ہے۔
قدیم بادشاہت کے نظام میں ہر جگہ یہ مذہبی جبر قائم تھا۔ بادشاہ لوگ اسٹیٹ کے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کے اختیار کرنے کو اپنے خلاف بغاوت سمجھتے تھے، اِس لیے ایسے مذہب کو وہ ہمیشہ کچل دیتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میںہوئی۔ اُس وقت قدیم بادشاہت کے تحت، ہر جگہ مذہبی جبر کا نظام قائم تھا۔ پیغمبر اسلام نے مذہبِ توحید کا اعلان کیا تو وہ اُس وقت کے تمام اَربابِ اقتدار کے اختیار کردہ مذہب کے خلاف تھا، اِس لیے وہ اس کو کچلنے کے لیے سرگرم ہوگیے۔
سب سے پہلے عرب مشرک سرداروں نے اُس کو ختم کرنا چاہا، لیکن خدا کی خصوصی نصرت سے چند مقابلوں کے بعد ان کے اوپر فتح حاصل ہوگئی۔ اِس طرح خود پیغمبر اسلام کے زمانے میں اُس وقت کے دو بڑے ایمپائر، ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر، آپ کے مشن کے دشمن بن گیے۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد خلافتِ راشدہ کے زمانے میں اِن شہنشاہیتوں کی جارحیت کے نتیجے میں اُن سے لڑائی پیش آئی۔ اِس لڑائی میں دوبارہ دونوں شہنشاہیتوں کو شکست ہوئی اور اہلِ توحید کو فتح حاصل ہوئی۔
یہی وہ واقعہ ہے جس کو قرآن میں فتنہ کے خلاف لڑ کر اُس کو ختم کرنا بتایا گیاہے۔ جب یہ نظامِ اقتدار ختم ہوا تو اس کے نتیجے میں مذہبی جبر کا نظام بھی ختم ہوگیا اور اس کے بجائے مذہبی آزادی کا نظام آگیا۔ تاہم اِس قسم کی تبدیلی اچانک پیش نہیں آتی، بلکہ وہ لمبے تاریخی عمل کے بعد اپنی منزل تک پہنچتی ہے۔ رسو ل اوراصحابِ رسول کے ذریعے جو واقعہ ہوا، وہ یہ تھا کہ مذہبی جبر کا نظام ٹوٹ گیا اور مذہبی آزادی کا پراسس شروع ہوگیا۔ اِس پراسس کا نقطۂ انتہا (culmination) یورپ میںہوا، جب کہ ہر انسان کے لیے مذہبی آزادی کو ناقابلِ تنسیخ حق کے طورپر تسلیم کرلیا گیا۔
اب ہم اِسی دور میں جی رہے ہیں۔ آج کی دنیا میں آزادی کوخیر ِاعلیٰ (summum bonum) سمجھا جاتاہے۔ اقوامِ متحدہ کے ڈکلیریشن آف ہیومن رائٹس میں اس کو درج کیا گیا اور دنیا کی تمام قوموں نے اُس پر اپنے دستخط ثبت کیے۔ اور ہر ملک کے دستور میں مذہبی آزادی کو مطلق انسانی حق کا درجہ دیاگیا۔ آج کی دنیا میں کسی انسان کو صرف تشدد کا حق نہیں ہے، اِس کے سوا ہر چیز کی آزادی اُس کو حاصل ہے۔
قتال کی حیثیت گویا کہ وائلنٹ ایکٹوزم (violent activism) کی ہے۔ اِس کے مقابلے میں دوسرا طریقِ کار وہ ہے جس کو پیس فُل ایکٹوزم(peaceful activism) کہاجاتا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آج کی دنیا میں وائلنٹ ایکٹوزم منسوخ ہوگیا ہے اور اُس کی جگہ پیس فل ایکٹوزم نے لے لی ہے۔ اب پیس فل ایکٹوزم کے تحت ہر قسم کی سرگرمیوں کا حق انسان کو مل چکا ہے، صرف ایک استثنا کے ساتھ کہ وہ تشدد نہ کرے۔ اب ہمارے لیے بلا استثنا ہر قسم کی جدوجہد کے لیے راستے کھل چکے ہیں۔ اِن میں بھی سب سے بڑی چیز تعلیم اور دعوہ ورک ہے۔ ہم کو چاہیے کہ تعلیم اور دعوہ ورک کے میدان میں نیے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مکمل جدوجہد جاری کردیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج آزادی کے نتیجے میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ہم جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اپنا دعوہ ایمپائر اور ایجوکیشنل ایمپائر قائم کرسکیں۔ اور یہ سب کچھ خالص غیر سیاسی دائرے میںجدوجہد کرتے ہوئے ممکن ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کی سیاسی تعبیر کا فتنہ

پرنٹنگ پریس کا زمانہ آنے کے بعد مسلم دنیا میں کچھ انقلابی مفکرین اٹھے۔ یہ لوگ اسلام کی سیاسی حاکمیت قائم کرنے کے نام پر جہاد اور قتال کی پُرزور تبلیغ کرنے لگے۔ اب مسلم دنیا، اِس قسم کے انقلابی مفکرین کی تیسری نسل کو دیکھ رہی ہے۔ پہلی نسل کے مفکرین میں سید جمال الدین افغانی اور ڈاکٹرمحمد اقبال کا نام لیا جاسکتا ہے۔ دوسری نسل کے مفکرین میں سید قطب اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نام شامل ہیں۔ تیسری نسل کے مفکرین میں اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر اسرار احمد کے نام معروف ہیں۔
یہ انقلابی ذہن در اصل ایک طرف خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور دوسری طرف مسلم دنیا کے بڑے حصے پر نو آبادیاتی نظام کے غلبے کا ردّعمل تھا۔ ابتدائی دور میں یہ لوگ صرف مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کی واپسی پر زور دیتے تھے، پھر دھیرے دھیرے یہ ذہن ایک مکمل نظریے اور فلسفے کی روپ میں ابھرا۔اب یہ کہا جانے لگا کہ— اسلام ایک مکمل نظام ہے (الإسلام دین شامل وکامل)، اِس لیے ضروری ہے کہ اسلام کو ایک کامل ریاست کے طورپر قائم کیا جائے، اِس کے بغیر اسلام ناقص رہے گا، اور ناقص اسلام ہمارے لیے دنیا میں بھی خسارے کا سبب ہے اور آخرت میں بھی خسارے کا سبب۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اسلام کی سیاسی تعبیر کا ذہن تدریجی طورپر بنا۔ پہلی نسل کے مسلم رہ نماؤں کا نشانہ زیادہ تر زمین کی واپسی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ مسلم علاقوں پر مغربی قوموں نے غلبہ حاصل کرلیا ہے، اب ہمیں اِس غلبے کو ختم کرکے مسلم علاقے کو دوبارہ آزاد کرانا ہے۔ سید جمال الدین افغانی نے اِسی بات کو’ الشّرقُ للشّرقیین‘کے الفاظ میں بیان کیا تھا، یعنی مشرق کے مسلم ممالک سے مغربی غلبے کو ختم کرکے دوبارہ اُس کو مشرق کے مسلمانوں کے قبضے میں دینا۔
بعد کو شعوری یا غیر شعوری طورپر مسلم رہ نماؤں کے اندر یہ ذہن بنا کہ مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو وہ اپنا حامی بنا سکیں، چناں چہ عالمی اسلامی اتحاد (Pan-Islamism) کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے یہ کیا کہ سیاسی مسئلے کو اعتقادی مسئلے کی حیثیت سے پیش کرنا شروع کردیا، یعنی انھوں نے مسلمانوں کو یہ تاثّر دینا چاہا کہ اُن کی مہم صرف ایک قومی مہم نہیں ہے، بلکہ وہ خالص مذہبی مہم ہے۔ اِس طرح انھوںنے ایک سیاسی مسئلے کو اعتقادی مسئلہ بنا دیا۔ انھوںنے اپنی تقریر اور تحریر کے ذریعے مسلمانوں کو یہ تاثر دینا شروع کیا کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے، جس میں سیاست بھی لازماً شامل ہے۔اگر مسلمان، اسلام کو ایک مکمل نظام کے طورپر غالب اور نافذ نہ کریں تو ان کا اسلام ہی ادھورا رہ جائے گا۔
اس مقصدکے لیے بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ اِن کتابوں میں اسلام کی تعبیر ایک مکمل نظامِ حیات کے طورپر کی گئی۔ اسلام کی سیاسی تعبیر کے طورپر جو لٹریچر تیار کیا گیا، اُن میں سے قر آن کی دو مکمل تفسیریں بھی تھیں۔ سید قطب کی چھ جلدوں میں عربی تفسیر ’’فی ظِلال القرآن‘‘ اِسی فکر کے تحت لکھی گئی۔ اِسی طرح سید ابوالاعلیٰ مودودی کی چھ جلدوں میں لکھی جانے والی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ بھی خاص اِسی نظریے کے تحت تیار کی گئی۔جو آدمی اِن دونوں تفسیروں کو پڑھتا ہے، اُس کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل سیاسی نظام ہے اور اس کو زمین پر غالب اور نافذ کرنا، یہی امتِ مسلمہ کا اصل مشن ہے۔
اِن مسلم رہ نماؤں نے اپنے نقطۂ نظر کی بنا جن آیتوں اور حدیثوں پر رکھی، وہ سب کی سب بلاشبہہ بے بنیاد تھیں۔ ان کی یہ تشریحات یا تو تفسیر بالرائے ہیں، یا وہ تحریف کی نوع سے تعلق رکھتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اِن حضرات نے یہ کام غیر شعوری طورپر کیا ہو، لیکن جہاں تک اُن کے استدلال کی علمی حیثیت کا تعلق ہے، وہ بلاشبہہ مکمل طورپر غلط اور غیر اسلامی ہیں۔ یہاں ہم ان کے بعض دلائل کا تجزیہ کریں گے۔
چند مثالیں
1 - قرآن کی سورہ نمبر بارہ میںآیا ہے کہ حضرت یوسف نے جیل میںاپنے رفیق پر تبلیغ کرتے ہوئے کہا: إن الحکم إلاّ للّٰہ، أمر أن لاّ تعبدوا إلاّ إیّاہ (یوسف: 40) اِس آیت کو لے کر کہا جاتا ہے کہ یہاں ’حکم‘ سے مراد سیاسی اقتدار ہے، حضرت یوسف یہ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی اقتدار صرف خدا کا حق ہے، اِس لیے خدا ہی کی حکومت زمین پر قائم ہوناچاہیے۔
یہ تفسیر بلاشبہہ ایک باطل تفسیر ہے۔ اِس آیت کا پورا سیاق بتا رہا ہے کہ یہاں حُکم سے مراد فوق الفطری اقتدار ہے، یعنی وہی بات جس کو قرآن میں دوسرے مقام پر ربّ العالمین کہاگیا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان کا خالق و مالک صرف خدا ہے، نہ کہ تمھارے مفروضہ معبود۔ اِس لیے تم کوچاہیے کہ تم اَصنام کی پوجا چھوڑ دو اور صرف ایک خدا کی عبادت کرو۔ خود حضرت یوسف کی عملی روش سے یہی بات ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ حضرت یوسف نے مصر کے معاصر بادشاہ کے تحت ایک سرکاری عہدہ قبول کرلیا، حالاں کہ یہ بادشاہ مشرک تھا اور وہ اپنے قومی مذہب کے مطابق، اصنام پرستی میں مبتلا تھا۔
2 - اِس معاملے میں ایک استدلال ایک صحابی کے قول کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ یہ صحابی رَبعی بنِ عامر تھے۔ وہ حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں مسلم فوج کے ساتھ ایران گیے، وہاں ان کی گفتگو ایرانی سپہ سالار رستم سے ہوئی۔ اُس نے پوچھا کہ تم لوگ کیوں ہمارے ملک میںآئے۔ ربعی بن عامر نے جواب دیا کہ ہم یہاں اِس لیے آئے ہیں تاکہ خدا کے بندوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر خدا کی عبادت میں لائیں (لنُخرج مَن شاء مِنْ عبادۃ العبادِ إلی عبادۃ اللہ، تاریخِ طبری) صحابی کے اِس قول کو لے کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسلام کا مشن ’تحریر الانسان‘ ہے، یعنی انسان کو انسانی جبر اور انسانی استحصال سے آزاد کرانا۔
یہ تشریح سرتاسر غیر علمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اور اصحابِ رسول کو جو مشن سپرد کیا تھا، وہ ان کے زمانے ہی میں انجام پاگیا۔ اُس زمانے میں ساری دنیا میںبادشاہت کا نظام تھا اور بادشاہ لوگ اپنے سیاسی مفاد کے لیے مذہبی جبر (religious persecution) قائم کیے ہوئے تھے۔ یہ نظامِ جبر، خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف تھا، اِس لیے خدا نے حکم دیا کہ اِس جبر کا خاتمہ کردو۔ چناں چہ پہلے عرب میںاِس کو ختم کیا گیا، اس کے بعد ایرانی شہنشاہیت اور رومی شہنشاہیت کا خاتمہ کرکے ایک ایسے دَور کا آغاز کیاگیا جس کے نتیجے میں ساری دنیا میں مذہبی جبر کے بجائے، مذہبی آزادی کا دَور دَورہ ہو۔
اِسی حقیقت کو صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن عمر نے اِن الفاظ میںبیان کیا تھا: فعلنا علیٰ عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (فتح الباری، جلد 8، صفحہ 32)، یعنی وہ تو ہم نے عہدِرسالت ہی میں آخری طورپر انجام دے دیا۔ اب اہلِ اسلام کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ مذہبی آزادی کے مواقع کو استعمال کرکے دعوت الی اللہ کا کام کریں، نہ کہ جھوٹی لڑائی چھیڑ کر دوبارہ دنیا میں جبر کا ماحول قائم کردیں۔
3 - ایک حدیثِ رسول، ابنِ ماجہ، الترمذی اور مسند احمد میں آئی ہے۔ اس کو مشکاۃ المصابیح میں حدیث نمبر 29 کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔ اِس روایت کے مطابق، ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں داخل کردے اور مجھ کو جہنم سے دور کردے۔اِس کے جواب میں آپ نے اُن کو عبادتِ خدا، روزہ، نماز، حج، زکوٰۃ، ذِکر اللہ، صدقہ (انفاق)اور حفظِ لسان کی تلقین کی۔ آپ نے جو جواب دیا، اُس میں ایک جملہ یہ تھا: وذِروَۃُ سَنامِہ الجہاد (اور اُس کی چوٹی جہاد ہے)۔
’وذروۃُ سَنامہ الجہاد‘ کے جملے کو لے کر یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں خیرِاعلیٰ (summum bonum)گردن کٹانا ہے، یعنی جہاد اور قتال کرکے ساری دنیا میں اسلام کی حکومت قائم کرنا، اور خدا کی زمین پر خدا کے احکام نافذ کرنا۔
حدیث کی یہ تشریح سخت غیر علمی اور غیر منطقی ہے۔ اِس میں جہاد کا لفظ ہے، نہ کہ قتال کا لفظ۔ سیاق کے مطابق، یہاں جہاد سے مراد جہادِ نفس ہے، جیسا کہ دوسری حدیث میںآیا ہے: المجاہد من جاہد نفسَہ فی طاعۃ اللہ (مسند احمد، جلد 6 ، صفحہ 21) بالفرض اگر اِس حدیث میں جہاد کو قتال کے معنیٰ میں لیا جائے، تب بھی وہ صرف بوقتِ جارحیت قتال کے معنی میں ہوگا، پھر بھی اِس سے یہ خود ساختہ مفہوم نہیں نکلتا کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے اور اس کو لڑکر ساری دنیا میں نافذ کرنا ہے۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کے موضوع پر جو کچھ اُردو، یا عربی، یا انگریزی میں لکھا گیا ہے، اُس کا بڑا حصہ میں نے پڑھا ہے۔ذاتی مطالعے کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ تعبیر کسی نص کی بنیاد پر قائم نہیں ہے،وہ صرف قیاس اور استنباط کی بنیاد پر قائم ہے۔ اوریہ ایک مسلّم بات ہے کہ اساسی امور میں منصوص استدلال درکار ہوتا ہے، قیاسی اور استنباطی استدلال اِس طرح کے معاملے میں کبھی بنائِ استدلال نہیں بن سکتا۔
اِن حضرات کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ غلط استنباط کے ذریعے ایک سادہ آیت، یا حدیث میں سیاسی مفہوم شامل کردیتے ہیں۔ مثلاً دین کو اسٹیٹ کے ہم معنیٰ بتانا، نماز یا جماعت کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ عسکری ٹریننگ ہے، روزے کو فوجی مشقت کی تربیت بتانا، وغیرہ۔ اِس قسم کا استدلال سخت غیرعلمی استدلال ہے۔ اگر اِس قسم کے استدلال کو جائز استدلال قرار دیا جائے تو دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قرآن اور حدیث سے ثابت نہ کی جاسکے، حتی کہ اِس قسم کے استنباطی استدلال کے ذریعے اسلام کو ایک منسوخ دین بھی ثابت کیا جاسکتاہے۔
اِس سلسلے میں غیر علمی استدلال کی ایک اور قسم وہ ہے جس میں حرفِ عطف (واو) کی مدد سے بے بنیاد طورپر ایک غیر متعلق چیز کو اسلام کی کسی تعلیم میں شامل کردیا جاتا ہے۔ مثلاً کچھ لوگوں نے اِسی طریقے کے مطابق یہ کہا کہ شرکِ اعتقادی اور شرکِ عملی کے ساتھ شرک کی ایک اور قسم ہے اور وہ شرکِ سیاسی ہے۔ لا معبودَ إلاّ اللہ کے ساتھ اُس کا ایک اور جز ہے اور وہ لا حاکمَ إلا اللہ ہے۔ اِسی طرح کہا گیا کہ عبادت کے لفظ میں پرستش کے سوا ایک اور مفہوم شامل ہے اور وہ اطاعت ہے، وغیرہ۔ مگر اِس قسم کے تمام اضافے بلاشبہہ بے حقیقت اور بے بنیاد ہیں۔
تعلیماتِ اسلام کے دو پہلو
مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے دوبڑے پہلو ہیں۔ قدیم اصطلاح میں اِن دونوں پہلوؤں کو ’حَسَن لذاتہ‘ اور ’حَسَن لِغیرہ‘ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے، یعنی کچھ چیزیں وہ ہیں جو اپنے آپ میں مطلوب ہوتی ہیں، اور کچھ چیزیں وہ ہیںجو کسی اور چیز کی نسبت سے مطلوب ہوتی ہیں۔ اِس تقسیم کے مطابق، ذکر اللہ ’حسن لذاتہ‘ ہے اور قتال ’حسن لغیرہ‘۔
اِس فرق کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اسلام میںکچھ چیزیں وہ ہیں جو میٹر آف پرنسپل (matter of principle) کی حیثیت رکھتی ہیں، اور کچھ چیزیں وہ ہیں جن کی حیثیت میٹر آف کنوی نینس (matter of convenience) کی ہے۔ اِس تقسیم کے مطابق، سیاسی اقتدار کا معاملہ دوسری نوعیت کے حکم سے تعلق رکھتا ہے۔
چناں چہ جہاں تک پہلی نوعیت کے احکام کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں قرآن میں براہِ راست زبان میںاحکام دیے گیے ہیں۔مثلاً توحید کے بارے میں فرمایا کہ: قل ہو اللّٰہ أحد (الإخلاص: 1)، عبادت کے بارے میں فرمایا کہ: لا إلٰہ إلاّ أنا فاعبدنِی (طٰہٰ: 14 ) ، عدل اور انصاف کے بارے میں فرمایا: إنّ اللّٰہ یأمرکم بالعدل والإحسان (النّحل: 95) ،مگر جہاں تک سیاسی اقتدار کا تعلق ہے، اس کے بارے میں کہیں بھی اِس طرح براہِ راست حکم نہیں دیاگیا، یعنی کہیں بھی اِس طرح کے الفاظ نہیں آئے کہ تم لوگ اسلامی حکومت قائم کرو، یا زمین میں اسلامی قوانین کو نافذ کرو، یہی امت کی حیثیت سے تمھارا نصب العین ہے۔ اِس معاملے میں سیاست پسند افراد کی طرف سے جو دلائل دیے گیے ہیں، وہ سب کے سب قیاسی اور استنباطی ہیں، مگر اِس قسم کے اساسی معاملے میں مبنی بَر نص استدلال درکار ہے، نہ کہ مبنی برقیاس استدلال۔
حاکم کا تقرر
تمام دنیا کے سیاسی نظاموں میں واضح طورپر یہ موجود رہتا ہے کہ حاکم کا تقرر کس طرح کیا جائے، مگر قرآن میں اِس معاملے میں کوئی واضح حکم موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی زمانے کے مثالی دَور میں جن خلفائے اسلام کا تقرر ہوا، اُن میں سے ہر ایک کا تقرر الگ الگ ڈھنگ سے ہوا، گویا کہ ان کا تقرر حالات کے مطابق ہوا، نہ کہ کسی مستقل اصول کے مطابق۔
اسلام کے دورِ اوّل کو ہر معاملے میں ایک معیاری دَور مانا جاتا ہے۔ اُس زمانے میں چھ خلفاء ایسے تھے جن کو اسلام میں مثالی حکم راں کا درجہ حاصل ہے— ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان بن عفّان، علی بنِ ابی طالب، معاویہ بن ابی سفیان، عمر بن عبد العزیز۔ اِن میں سے ابتدائی پانچ خلفاء اصحابِ رسول میں شامل تھے۔ چھٹے خلیفہ عمر بن عبد العزیز کا شمار اجلّۂ تابعین میں سے ہوتا ہے۔ علماء نے بالاتفاق ان کو ’خلیفۂ راشد‘ کا درجہ دیا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اِن تمام خلفاء کا تقرر الگ الگ طریقے سے کیاگیا نہ کہ کسی ایک مقرر طریقے کے مطابق، کیوں کہ اس معاملے میںکوئی ایک متعین طریقہ موجود ہی نہ تھا۔ یہ واقعہ واضح طورپر بتاتا ہے کہ سیاسی اقتدار کا معاملہ اسلام میں نماز او رروزے کی طرح اصولی معاملہ نہیں ہے، اگر وہ اصولی معاملہ ہوتا تو توحید اور عبادت کی طرح اُس کے لیے بھی متعین احکام موجود ہوتے۔ یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام میں سیاسی اقتدار کا معاملہ میٹرآف کنوی نینس (matter of convenience) کی قسم سے تعلق رکھتا ہے، وہ عقیدے اور اصول کا معاملہ نہیں۔
خیرِ اعلیٰ: معرفتِ خداوندی
اسلام میں خیرِ اعلیٰ (summum bonum) کا درجہ صرف ایک چیز کو حاصل ہے، اور وہ معرفت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفتِ خداوندی کے سوا، کسی اور چیز کو خیرِ اعلیٰ کا درجہ دینا، خدا کی بھی تصغیر ہے اور خدا کے دین کی بھی تصغیر ۔ جو لوگ سیاسی نظام کو خیر اعلیٰ سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں کم سے کم جو بات کہی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے معرفتِ خداوندی کی عظمت کو دریافت نہیں کیا۔ اگر وہ معرفتِ خداوندی کی عظمتوں سے واقف ہوتے تو انھیں یہ بات سخت مضحکہ خیز معلوم ہوتی کہ معرفتِ خداوندی کے بجائے، ایک سیاسی نظام کو خیر اعلیٰ کا درجہ دیا جائے۔
قرآن کی سورہ نمبر تین میں ارشاد ہواہے: کونوا ربّانییّین (آل عمران: 79 ) یعنی تم لوگ ربّانی بنو۔ اِسی طرح قرآن میں ایسی آیتیں ہیں جن میں تلقین کی گئی ہے کہ تم لوگ ذاکرین بنو، تم لوگ خاشعین بنو، تم لوگ مخبتین بنو، تم لوگ عارفین بنو، تم لوگ خائفین بنو، تم لوگ متقین بنو، تم لوگ قانتین بنو، وغیرہ۔ یہ تصور سارے قرآن میں پھیلا ہوا ہے۔ ایک امریکی اسکالر نے اسلام کے گہرے مطالعے کے بعد ایک کتاب شائع کی ہے۔ اِس میں وہ بجا طورپر لکھتا ہے کہ:
The greatest concern of Islam is Allah.
اِس کے برعکس، قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اے اہلِ ایمان، تم لوگ سیاسی بنو، تم لوگ زمین کے حاکم بنو، اِس قسم کی بات قرآن میں کہیں بھی موجود نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کتابِ معرفت ہے، نہ کہ کتابِ سیاست۔ یہی بات قرآن کے موضوع کے مطابق ہے۔ قرآن کا موضوع خدائے برتر کا تعارف ہے۔ اور زمین و آسمان کے خالق و مالک کا تعارف جس کتاب میں بیان کیا جائے، اس کا سب سے زیادہ اہم موضوع بلا شبہہ معرفت ہوگا، نہ کہ سیاست۔
سیاسی تعبیر کا نقصان
اسلام کی سیاسی تعبیر کوئی سادہ بات نہیں، یہ خود اسلام کی نفی کے ہم معنیٰ ہے۔ اِس قسم کی تعبیر فطری طور پر لوگوں کا ذہن سیاسی بنا دیتی ہے۔ سیاسی موضوعات ہی اُن کے لیے سب سے زیادہ اہم موضوعات بن جاتے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ معرفت ایک ایسا موضوع ہے جس کا نشانہ خود آدمی کا اپنا وجود ہوتا ہے۔ ایسے آدمی کی توجہ ہمیشہ اپنی اصلاح پر لگی رہتی ہے، اپنی شخصیت کی تعمیر اور اپنے آپ کو خدا سے وابستہ کرنا، یہی اس کا سپریم کنسرن بن جاتا ہے۔
اِس کے مقابلے میں سیاست کا موضوع بالکل برعکس ذہن بناتا ہے۔ معرفت کی صورت میں سوچ کا نشانہ اگر داخلی تھا، تو سیاست کی صورت میں سوچ کا نشانہ خارجی بن جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اِس خارجی نشانے کی حیثیت آدمی کے لیے حریف کی ہوتی ہے۔ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اُس کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مدّ ِمقابل کو شکست دے اور اُس کے اوپر غلبہ حاصل کرے۔
معرفت کا نشانہ آدمی کے باطن کو خدا کی روشنی سے بھر دیتا ہے، اس کے اندر ہر قسم کی مثبت صفات پیداہونے لگتی ہیں۔ اِس کے برعکس، سیاست کا نشانہ آدمی کے باطن کو ظلمات سے بھر دیتا ہے۔ اُس کا وجود ہر قسم کی منفی نفسیات کا جنگل بن جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر آدمی کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ بظاہر ’مکمل اسلام‘ کی بولی بولتا ہے، لیکن عملاً اس کا وجود ’جزئی اسلام‘ سے بھی خالی ہوکر رہ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جامع تصور یا تخریبی تصور

کچھ لوگ اسلام کا جامع تصور پیش کررہے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ— اسلام ایک مکمل نظام ہے۔ اسلام میں صرف عقیدہ اور عبادت اور اخلاق شامل نہیں ہیں، بلکہ پولٹکل سسٹم بھی اس کا لازمی جز ہے۔ پولٹکل سسٹم کو قائم کیے بغیر اسلام ادھورا رہتا ہے، وہ مکمل نہیں ہوتا۔ یہ بظاہر اسلام کا جامع تصور ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف ایک تخریبی تصور ہے۔ موجودہ زمانے کی مسلم ملیٹنسی (Muslim militancy) اِسی نام نہاد جامع تصور کی براہِ راست پیداوار ہے۔
آپ اسلام کے عقیدے کو مانیں، اسلامی طریقے پر عبادت کریں، اسلام کے اخلاقی اصولوں کی پابندی کریں تو یہ آپ کا ایک ذاتی عمل ہوتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے کسی اور کے ساتھ آپ کا ٹکراؤ پیش نہیں آتا، لیکن جب آپ اپنا نشانہ یہ بنائیں کہ مجھے زمین پر اسلامی حکومت قائم کرنا ہے تو یہ نشانہ فوراً آپ کو دوسرے سے ٹکرا دیتا ہے۔ اس لیے کہ پولٹکل اقتدار کوئی خالی سیٹ نہیں ہے جس پر جاکر آپ بیٹھ جائیں۔ پولٹکل اقتدار ہمیشہ کسی کے قبضے میں ہوتا ہے،اِس لیے پولٹکل گدّی کو حاصل کرنے کے لیے فوراً دوسروں سے ٹکراؤ پیش آتا ہے۔ اِس طرح آپ کا نشانہ آپ کے اندر یہ ذہن پیدا کرتا ہے کہ آپ اقدام کرکے قابض لوگوں سے اقتدار کی کنجیاں چھین لیں۔ اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کا یہ نظریہ قدرتی طورپر دو گروہوں کے درمیان تشدد اور ٹکراؤ کی صورت پیدا کردیتا ہے۔
پھر یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کی کوشش میںآپ ایسا نہیں کرسکے کہ اربابِ اقتدار کو ان کی گدیوں سے ہٹا دیں، کیوں کہ اربابِ اقتدار کے پاس پولیس اور فوج کی طاقت ہوتی ہے، آپ اِس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ اُن سے براہِ راست ٹکراؤ کرکے سیاسی ادارے پر قبضہ کرلیں، چناں چہ آپ اپنے اِس اقدام میں ناکام رہتے ہیں۔
اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کا یہ ناکام تجربہ آپ کے اندر ایک اور برائی پیدا کرتا ہے۔ اب آپ معصوم عوام پر گولیاں چلاتے ہیں، ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ کرتے ہیں، اسکول اور بازار میں بم مارتے ہیں۔ اِس منفی کارروائی کی آخری حد یہ ہوتی ہے کہ آپ خود کُش بم باری (suicide bombing) شروع کردیتے ہیں۔ اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کا جو اقدام دوسروں کے خلاف تشدد سے شروع ہوا تھا، وہ خود اپنے آپ کو ہلاک کرنے تک پہنچ جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں مختلف مقامات پر جو مسلم ملیٹنسی جاری ہے، وہ براہِ راست طورپر اِسلام کے اِسی نام نہاد جامع تصور کا نتیجہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام اصلاً اپنے آپ کو خدا کے احکام کا پابند بنانے کا نام ہے۔ جہاں تک اجتماعی نظام میں اسلام کے سیاسی اور قانونی احکام کے نفاذ کا سوال ہے، وہ تمام تر حالات پر منحصر ہے۔ سماج اگر اِن احکام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتو پُر امن کوششوں کے ذریعے اِن احکام کی بجا آوری کی جائے گی، ورنہ نہیں۔ اسلام کا اصول، تکلیف بقدرِ وسعت (البقرۃ: 286 ) کا اصول ہے۔ اجتماعی احکام کے نفاذ کے لیے اجتماعی ارادہ(social will) درکار ہے۔ گَن اور بم کی طاقت سے یہ کام کبھی انجام نہیں پاسکتا۔ گن اور بم کا طریقہ صرف تباہ کن تشدد پیدا کرتا ہے، اِس منفی انجام کے سوااس کا کوئی اور انجام نہیں۔
جامع تصور کی غلطی کو واضح کرنے کے لیے یہاں میںایک مثال دوں گا۔ چیزیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک، مکان اور دوسرے، درخت۔ اگر آپ مکان کا ایک جامع تصور دیں اور یہ کہیں کہ جامع مکان وہ ہے جس میں برآمدہ ہو،بیڈ روم ہو، ملاقات کا کمرہ ہو، کچن ہو، باتھ روم ہو، وغیرہ، تو مکان کے بارے میں آپ کا یہ بیان درست ہوگا، کیوں کہ مکان مختلف الگ الگ اجزا کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جس مکان میں اس کا ہر جز موجود ہو، اس کو ایک جامع مکان کہاجائے گا۔
لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ درخت کا جامع تصور یہ ہے کہ اس کے اندر جڑیں ہوں، تنا ہو، شاخیں ہوں، پتیاں ہوں، پھل اور پھول ہوں، تو یہ ایک غلط بات ہوگی، کیوں کہ درخت مختلف الگ الگ اجزا کو ملا کر نہیں بنتا، بلکہ وہ ایک بیج کے نشو ونُما (growth) سے وجود میں آتا ہے۔ اِس لیے درخت کے بارے میں جامع تصورنہیں پیش کیا جائے گا، بلکہ سارا زور اس پر دیا جائے گا کہ اس کا بیج ایک صحت مند بیج ہو، کیوں کہ صحت مند بیج کے ظہور ہی کا دوسرا نام درخت ہے۔
اسلام کی مثال درخت کی مانند ہے۔ چناںچہ قرآن میںایمان اور اسلام کی مثال شجرۂ طیّبہ (إبراہیم: 24) سے دی گئی ہے۔ جس طرح درخت ایک بیج سے ترقی کرکے درخت بنتا ہے، اِسی طرح اسلام ایک کلمہ سے ترقی کرکے پورا وجود بنتا ہے۔ اسلام کے بارے میں صحیح تشریح یہ ہے کہ اُس کو حقیقی تصور کی اصطلاح میں بیان کیا جائے، نہ کہ جامع تصور کی اصطلاح میں۔
درخت کی اصلاح کے لیے اگر کوئی شخص ایسا کرے کہ اُس کی پتیوں کو کاٹے، اُس کی شاخوں پر محنت کرے، اُس کے تنے پر زور آزمائی کرے تو اِس قسم کی تمام چیزیں درخت میں کوئی اصلاح یا ترقی نہیں لائیں گی، بلکہ وہ درخت کی تباہی کا ذریعہ بنیں گی۔ اِس قسم کی کوششوں کے نتیجے میں درخت مزید شاداب نہیں ہوگا، بلکہ وہ سوکھ کر رہ جائے گا۔
یہی معاملہ دین کا ہے۔ دین کی اصل، تعلق باللہ ہے۔ اِسی کے ساتھ دین کے بہت سے ظواہر ہیں۔ اگر کوئی شخص ظواہر کو اہمیت دے کر اُس میں محنت کرے، یا پُر تشدد جدوجہد کرے تو اِس سے دین میں کوئی بہتری نہیں آئے گی، بلکہ دین کا معاملہ کچھ اور بگڑ جائے گا، حتیٰ کہ اگر اچھی نیت اور اخلاص کے ساتھ ایسا کیا جائے تب بھی دین یا اہلِ دین میں کوئی حقیقی اصلاح آنے والی نہیں۔
دین یا اہلِ دین میں ترقی کا کام یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر حقیقی معنوں میں تعلق باللہ پیدا کیا جائے۔ لوگوں کے اندر ربّانی شعور کو جگایا جائے۔ لوگوں کو خدا کی پکڑ سے ڈرنے والا بنایا جائے۔ یہی وہ چیز ہے جو دین یا اہلِ دین کے اندر حقیقی معنوں میں کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرے گی۔ اِس بنیادی کام کے بغیر ہر گز مطلوب نتیجہ نکلنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

نظریاتی تشدّد

تشدد ایک جذباتی عمل ہے۔ یہ بُرائی ہمیشہ انسانی زندگی میں پائی جاتی رہی ہے، مگر کمیونسٹ مفکر کارل مارکس (وفات: 1883 ) پہلا شخص تھا جس نے تشدد کو ایک باقاعدہ نظریہ بنایا۔ کارل مارکس نے اپنے اِس نظریاتی تشدد کو تاریخی ناگُزیریت(historical determinism) قرار دیا اور اُس کو جَدلیاتی مادّیت(dilectical materialism) کا نام دیا۔
موجودہ زمانے میں کچھ مسلم مفکرین پیدا ہوئے، جنھوں نے اِس نظریاتی تشدد کو اسلامائز کیا اور اُس کو جہاد کے نام سے اسلام میں داخل کردیا۔اِس معاملے میں وہ اِس انتہا تک گیے کہ انھوں نے کہا کہ باطل سے اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کے لیے ہتھیار کا استعمال ضروری ہے، اور یہ کہ گردن کٹانا، اسلام میں خیرِ اعلیٰ(summum bonum) کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ متشددانہ فلسفہ اتنا لغو ہے کہ وہ اسلام جیسے مذہب کے لیے اِزالۂ حیثیتِ عُرفی کا درجہ رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاد پُر امن جدوجہد کا نام ہے۔ جہاد کے نام پر تشدد کرنا بلا شبہہ فساد ہے، نہ کہ جہاد۔
تشدد ایک منفی کارروائی ہے اور منفی کارروائی کے ذریعے کوئی مثبت نتیجہ کبھی نہیں نکلتا۔ چناں چہ موجودہ زمانے میں مسلم ملکوں میں یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ اِس نظریے کے حاملین نے پہلے خود ساختہ طورپر ’’باطل‘‘ کو ہٹانے کے نام پر متشددانہ جہاد کیا اور جب قانونِ فطرت کے مطابق، اُن کا مفروضہ باطل نظام نہیں ہٹا تو اِس کے بعد وہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف تشدد کرنے لگے۔ گویا کہ اُن کا وہ حال ہوا جس کی پیشین گوئی حدیث میں اِن الفاظ میں کی گئی تھی: لا ترجعوا بَعدی کُفّاراً، یضرب بعضکم رقابَ بعض۔(صحیح البخاری، کتاب المغازی)
مسلمانوں کے متشددانہ جہاد کا یہ آخری انجام کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو مارنے لگیں، یہ اپنے آپ میں اِس بات کا ثبوت ہے کہ اُن کا جہاد جہاد نہ تھا، بلکہ وہ جہاد کے نام پر فساد تھا۔ ورنہ اُس کا یہ الٹا نتیجہ کبھی نہ نکلتا۔
واپس اوپر جائیں

جہاد کیا ہے

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس ہو کر مدینہ پہنچے تو آپ نے فرمایا: رجعنا من الجہاد الأصغر إلی الجہاد الأکبر (ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں) اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ ہم وقتی جہاد سے مستقل جہادکی طرف واپس آئے ہیں:
We have come back from temporary jihad to permanent jihad.
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وقتی جہاد سے مراد دفاعی جہاد (defensive jihad) ہے، جو کبھی کبھی پیش آتا ہے، اور مستقل جہاد سے مراد اسپریچول جہاد(spiritual jihad) ہے، جو ہر آدمی کی زندگی میں مستقل طورپر جاری رہتا ہے۔ اِس بات کو ایک اور حدیث میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے: جاہدوا أہوائَکم کما تجاہدون أعدائکم۔ یعنی اپنی خواہشات سے جہاد کرو، جس طرح تم اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو۔
دشمن کے خلاف جہاد انتہائی وقتی چیز ہے، جو اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ کسی نے باقاعدہ طورپر ریاست کے اوپر حملہ کردیا ہو۔ یہ دفاعی جہاد ہے، اور اِس میں صرف کچھ تربیت یافتہ افراد حصہ لیتے ہیں، نہ کہ ساری مسلم کمیونٹی۔ اِس کے برعکس، اپنے نفس کے خلاف جہاد ایک انفرادی نوعیت کی چیز ہے اور وہ ہر مومن کی زندگی میں جاری رہتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ اِس لیے اس دنیا میں ہر عمل کو کرنے کے لیے اپنے نفس کے ساتھ مقابلہ پیش آتا ہے۔ اپنے نفس سے کامیاب مقابلے کے بغیر کوئی آدمی جہادِ نفس کے کام کو انجام نہیں دے سکتا۔ مثال کے طور پر یہ ایک ثواب کا کام ہے کہ آپ جب کسی شخص سے ملیں تو کہیں’السلام علیکم‘ (تمھارے اوپر سلامتی ہو) ۔ یہ کلمہ اتنا بڑاعمل ہے کہ اِس کے کہنے پر حدیث میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ مگر موجودہ دنیا میں جب آدمی لوگوں کے ساتھ رہتا ہے تو بار بار اُس کو دوسروں کی طرف سے تلخ تجربات پیش آتے ہیں۔ اِس بنا پر ہر آدمی کے دل میں دوسروں کے خلاف شکایت کے جذبات موجود رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں حقیقی معنوں میں ’السلام علیکم‘ صرف وہ شخص کہہ سکتا ہے جو اس سے پہلے اپنے دل کو ہر قسم کے منفی جذبات سے پاک کرے اور اس کے بجائے اپنے دل کو لوگوں کے لیے خیر خواہی کے جذبات سے بھردے۔غور کیجئے تو یہ کام اتنا مشکل ہے کہ اِس کے لیے وہی زبردست کوشش کرنی پڑے گی جس کو جہاد کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اِسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ: الحمد للّٰہ تملأ المیزان (الحمد للہ کا کلمہ میزان کو بھر دیتا ہے) غور کیجئے تو یہ بھی کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سچا الحمد للہ کہنے کے لیے بہت بڑا ذہنی عمل درکار ہے۔ الحمد للہ کہنا، خدا کی نعمتوں پر شکر کا اظہار کرنا ہے۔ خدا کی یہ نعمتیں آدمی کو مسلسل طورپر لاتعداد صورتوں میں ملتی رہتی ہیں۔ یہ نعمتیں ہر آدمی کو اپنے آپ ملتی ہیں۔ چناں چہ آدمی ان کا عادی ہوجاتا ہے اور عادی ہونے کی بنا پر شعوری طورپر ان کو بطور نعمت محسوس نہیں کرتا۔ایسی حالت میں الحمد للہ کہنے کے لیے ایک فکری جہاد کرنا پڑتا ہے۔ اُس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی تفکیری قوتوں کو عمل میں لاکر غیر شعور کو اپنے شعور میں لائے، اپنے جذبات کی نئی رُخ بندی کرے، وہ اپنی فکری قوتوں کو بیدار کرنے کے لیے مجاہدبن جائے۔ اِس کے بعد ہی اس کی زبان سے وہ کلمۂ حمد نکلتا ہے جو میزان کو بھر دینے والا کلمہ ہے۔
آدمی کے اندر طرح طرح کی خواہشیں ہیں— حرص، علو پسندی، دوسرے کو حقیر سمجھنا، بے صبری، غصہ اور انتقام، وغیرہ۔ آدمی ہر وقت اِن منفی جذبات کے تابع رہتا ہے۔ اِسی کے ساتھ وہ کچھ چیزوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ مثلاً دولت، شہرت اور اولاد، وغیرہ۔ آدمی کی یہ بے پناہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ تمام چیزیں اس کو بھر پور طور پر حاصل ہوجائیں۔
نفرت اور محبت کے یہ مختلف جذبات، آدمی کے اوپر ہر وقت چھائے رہتے ہیں، وہ جو کچھ سوچتا ہے، اِنھیں جذبات سے مغلوب ہوکر سوچتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر انھیں جذبات کے تحت اپنی زندگی کا نقشہ بناتا ہے۔ ایسی حالت میں یہ بلا شبہہ ایک جہادی عمل ہے کہ آدمی خدا کو مسلسل طورپر اپنا مرکزِ توجہ بنائے، وہ صراطِ مستقیم سے اپنے آپ کو ہٹنے نہ دے— یہی وہ پُر مشقت عمل ہے جس کو حدیث میں جہادِ نفس کہاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عقیدہ اور سیاست

دینِ اسلام کے دوبڑے حصے ہیں۔ ایک حصہ وہ ہے جس کا تعلق ابدی عقیدے سے ہے، اور دوسرا حصہ وہ ہے جو حالات کے تابع ہوتا ہے، اس لیے اس میں تغیر ہوسکتا ہے۔ پہلا حصہ حقیقی (real) ہے، اور دوسرا حصہ اضافی (relative)۔ پہلے حصے کو میٹرآف بلیف (matter of belief) کہیں گے، اور دوسرے حصے کو میٹر آف کنوی نینس (matter of convenience) کہیں گے۔
عقیدے سے مراد، توحید اور رسالت اور آخرت کا عقیدہ ہے، عبادت بھی اِسی میں شامل ہے۔ میٹر آف کنوی نینس میں جو چیزیں شامل ہیں، اُن میں سے ایک سیاست اور حکومت ہے۔ عقیدہ اور عبادت میںابدیت (eternity) ہے، ان کی مطلوبیت دائمی ہے۔ لیکن سیاست اور حکومت کا معاملہ اُس سے الگ ہے۔ جیسے حالات ہوں گے اُسی کے مطابق، سیاست اور حکومت کے معاملات بھی ہوں گے۔
اسلام میں سیاست کو عقیدے کا مسئلہ نہیں بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج (revolt) کرنا حرام ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب ایک حکومت قائم ہو جائے تو اُس کے خلاف ہر گز باغیانہ کارروائی نہ کی جائے، بلکہ اس کے ساتھ معتدل تعلقات قائم رکھتے ہوئے غیر سیاسی دائروں میں کام کیا جائے، مثلاً دعوت، تعلیم اور اصلاحی کام ، وغیرہ۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں خلیفہ کے تقرر کا کو ئی متعین اصول موجود نہیں۔ اِس معاملے میں قرآن میں کوئی ہدایت نہیں دی گئی۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ کو معیاری زمانہ مانا جاتا ہے ۔ اِس زمانے میں چھ برحق خلیفہ، یا حکم راں ہوئے— ابوبکر صدیق ، عمر فاروق، عثمان بن عفّان، علی ابن ابی طالب، معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم اور عمر بن عبد العزیزؒ۔
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، اِن میں سے ہر خلیفہ یا حکم راں کا تقرر الگ الگ ڈھنگ سے کیا گیا۔ یہ واضح طورپر اِس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں سیاسی ادارے کے متعلق کوئی متعین نقشہ موجود نہیں۔ حالاں کہ ہر سیاسی دستور میں اس کا واضح ڈھانچہ موجود ہوتا ہے۔
اِس صورت حال کا سبب یہ ہے کہ اسلام کا سب سے بڑا کنسرن خدا ہے۔ اسلام کے نزدیک سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان خدا کی معرفت حاصل کرے۔ وہ خدا کا سچا عبادت گزار بنے۔ وہ اعلیٰ اخلاق کے ساتھ لوگوں کے درمیان رہے۔ اِسی کے ساتھ وہ لوگوں کو خدا کے دین کی طرف بلائے۔ وہ خالص غیر سیاسی انداز میں اسلام کا داعی بن جائے۔ وہ اصلاح اور تعلیم کے دائرے میں لوگوں کی خدمت کرے۔
سیاسی اقتدار کا قیام اسلام کا نشانہ نہیں۔ قرآن کے مطابق، سیاسی اقتدار کی حیثیت پرچۂ امتحان کی ہے، اُس کا معاملہ مال جیسا ہے۔ مال انسان کے لیے امتحان کا پرچہ ہے، اس لیے مال کبھی ایک انسان کے پاس ہوتا ہے اور کبھی دوسرے انسان کے پاس۔ کیوں کہ خدا کو ہر انسان کا ٹیسٹ لیناہے۔ اگر مال و دولت کو ابدی طورپر کسی ایک فرد یا گروہ کا حصہ بنادیا جائے تو مال کی نسبت سے دوسرے لوگوں کی آزمائش نہ ہوسکے گی، حالاں کہ ایسا ہونا خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف ہے۔
یہی معاملہ سیاسی اقتدار کا ہے۔ سیاسی اقتدار بھی امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ سیاسی اقتدار کسی کو اِس لیے دیا جاتا ہے کہ اُس کو آزما کر دیکھا جائے کہ وہ اقتدار پاکر کیسا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اقتدار کسی ایک فرد یا گروہ کے ہاتھ میں نہیں رہتا، بلکہ وہ مختلف لوگوں کے درمیان گردش کرتا رہتا ہے۔ اِس اصول کو قرآن میں اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: تلک الأیّام نداولھا بین الناس (آل عمران: 140 )
اسلام میں سیاسی اقتدار کا مطلق طورپر مطلوب نہ ہونا کوئی کمی کی بات نہیں، یہ انسانی فلاح کے لیے بے حداہم اصول ہے۔ انسانوں کے درمیان تمام بڑے بڑے جھگڑے سیاسی اقتدار کو لے کر ہوتے ہیں۔ اِس لیے سیاسی اقتدار کے معاملے میں اسلام نے اسٹیٹس کوازم (statusquoism) کا اصول اختیار کیا ہے۔ اِس اصول کا فائدہ یہ ہے کہ سماج میں امن قائم رہتا ہے۔ لوگ جنگ اور تشدد سے بچ کر اصلاح اور تعمیر کے کام میں زیادہ سے زیادہ مشغول رہتے ہیں۔ اِس بات کودوسرے لفظوں میں اِس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ اسلام میں بالواسطہ سیاست ہے، نہ براہِ راست سیاست۔
واپس اوپر جائیں

سیکولرازم کیا ہے

سیکولرازم کے بارے میں منصفانہ رائے قائم کرنے کے لیے دو چیزوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ایک ہے سیکولر فلاسفی، اور دوسری چیز ہے سیکولرپالیسی۔ دونوں کے درمیان واضح فرق ہے۔ جو لوگ اِس فرق کو نہ سمجھیں، وہ سیکولرازم کے بارے میں صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے۔
سیکولرفلاسفی ابتداء ً اُن لوگوں کے ذہن کی پیداوار تھی جو ملحدانہ سوچ کا شکار تھے۔ مگر بعد کو فلسفے سے الگ ہوکر سیکولرازم، جمہوری نظام کی عملی پالیسی بن گیا۔عملی پالیسی کی حیثیت سے اُس کا مطلب یہ تھا کہ— مذہبی اُمور کو لوگوں کی انفرادی آزادی کا معاملہ قرار دے دینا، اور مشترک مادّی مفادات کو اسٹیٹ کے دائرے کی چیز سمجھنا۔
قدیم زمانہ مذہبی جبر کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانے میں مذہبی آزادی کو لوگوں کا ایک ناقابلِ تنسیخ حق قرار دے دیا گیا ہے۔ سیکولر پالیسی دراصل لوگوں کی اِسی مذہبی آزادی کا ایک حصہ ہے۔ پہلے زمانے میں یہ طریقہ تھا کہ ایک مذہبی گروہ دوسرے مذہبی گروہ کو آزادی دینے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔ وہ ان کو مذہبی تعذیب (religious persecution) کا شکار بناتا تھا۔ جدید جمہوریت میںاِس کے برعکس، سیکولر پالیسی کو اختیار کیا گیا، یعنی مشترک مادی امور کو ریاست کے دائرے میں رکھنا اور مذہب اور کلچر کے معاملے میں لوگوں کو کامل آزادی عطا کرنا۔
ہر معاشرے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ وہاں امن کا ماحول ہو۔ امن کے بغیر کسی بھی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ سیکولر ازم ایک عملی پالیسی کی حیثیت سے قیامِ امن کی یہی تدبیر ہے۔ اِسی تدبیر نے موجودہ زمانے میں ترقی یافتہ ملکوں کو قدیم طرز کی مذہبی لڑائیوں سے بچایا ہے۔ چناں چہ انڈیا سے لے کر امریکا اور برطانیہ تک سیکولر اسٹیٹ کے اصول کو اختیار کیاگیا۔ اِس کا مطلب مذہبی مخالفت نہیں، بلکہ مذہبی عدم مداخلت ہے۔ چناںچہ اِن ملکوں میں ہر مذہبی گروہ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ اِن ملکوں میں جو چیز ممنوع ہے، وہ صرف تشدد ہے نہ کہ اپنے مذہب پر عمل۔
سیکولر ازم کے معاملے میں جو لوگ منفی ذہن رکھتے ہیں، اُس کا سبب یہ ہے کہ وہ دو چیزوں میں فرق نہیں کرتے۔ وہ سیکولر فلاسفی اور سیکولر پالیسی، دونوں کو ایک کرکے دیکھتے ہیں۔ حالاں کہ اِس معاملے میں درست رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔
سیکولرازم کے بارے میں منفی ذہن رکھنے والے لوگ ایک اور غلط فہمی کا شکار ہیں۔ وہ سیکولر پالیسی کو صرف مشترک مادی امور تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ وہ اس کو مذہبی مخالفت کے ہم معنیٰ سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ موجود زمانے میں سیکولر حکومت کا مطلب مخالفِ مذہب حکومت نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت مذہبی امور میں عدم مداخلت (non-interference) کی پالیسی کی پابند ہے۔ اِس معاملے میں ساری غلط فہمی اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ ان لوگوں نے عدم مداخلت کو مخالفت کے ہم معنیٰ سمجھ لیا۔
اِس معاملے کا ایک پہلو اور ہے، وہ یہ کہ مذہبی آزادی کے اصول میں بیک وقت دو قسم کی آزادی شامل ہے— مذہبی عمل اور مذہبی تبلیغ۔ موجودہ زمانے کے تمام سیکولر ملکوں میں یہ دونوں قسم کی آزادی لوگوں کو مکمل طورپر ملی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مذہبی گروہ انفرادی طورپر اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے دوسرے مذہبی گروہوں کے درمیان اپنے مذہب کی پُرامن تبلیغ پوری طرح جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ آزادی اِس حد تک حقیقی ہے کہ اِن ملکوں میں بہت سے لوگ اپنا مذہب بدل لیتے ہیں اور ان پر حکومت کی طرف سے کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی ہے۔ مثلاً حال میں انڈیا میں پست طبقے کے ایک لاکھ ہندوؤں نے بدھ ازم کو قبول کرلیا۔ اِسی طرح امریکا میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ امریکی، اسلامی مذہب کو اختیار کرتے ہیں۔
اس اعتبار سے دیکھیے تو سیکولر پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ بَر وقت انفرادی دائرے میں اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے یہ کوشش کرسکتا ہے کہ وہ دوسروں کے فکر اور عقیدے کو بدل سکے۔ یہ تبدیلی اگر بڑے پیمانے پر ہوجائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ ملک کی اکثریت اپنے فکر اور عقیدے کو بدل لے۔ اِس طرح ایسا ہو کہ جو مذہبی فکر، حال میں انفرادی دین کی حیثیت رکھتا ہے، وہ مستقبل میں اجتماعی دین کا درجہ حاصل کرلے۔
واپس اوپر جائیں

فتویٰ کا غلط استعمال

ریاست جموں اورکشمیرمیں اکثر،فوج اور تشدد پسندوں کے درمیان ٹکراؤ ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر تشدد پسند لوگ عموماً ایسا کرتے ہیں کہ وہ مذہبی عمارتوں میں داخل ہو کر وہاں پناہ لے لیتے ہیں اور وہاں سے اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں دونوں طرف سے گولیاں چلتی ہیں اور فطری طورپر مذہبی عمارت کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ صورتِ حال وادی کے مدرسے اور مسجد اور درگاہ، وغیرہ میں عرصے سے جاری ہے۔
ہندستانی فوج نے اِس صورتِ حال کے پیش نظر عرصے سے کشمیر میں ’سد بھاؤنا آپریشن‘ کے نام سے ایک مہم چلا رکھی ہے۔ اُن کے پاس گورنمنٹ آف انڈیا کا فنڈ ہوتا ہے۔ وہ لوگ اس کی مدد سے مسجد اور مدرسہ ا ور خانقاہ کی عمارتوں میں ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتے ہیں اور اُس کو پھر سے درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کام کشمیر میں کئی سالوں سے جاری ہے۔
جون 2007 میں سری نگر کے علاقہ راجوری کدَل میں علما کی ایک کانفرنس ہوئی۔ اِس میں کشمیری مسلمانوں کے مذہبی رہ نما 350 کی تعداد میںشریک ہوئے۔ یہاں انھوں نے فتویٰ یا بیان کی صورت میں متفقہ طورپر ایک ریزولوشن پاس کیا۔ اِس میں کہاگیا تھا کہ مسجد کی مرمّت غیر مسلموں کے ہاتھ سے کرنا، اسلام میں حرام ہے۔ اِس لیے سَد بھاؤنا آپریشن کا یہ کام دین میں مداخلت کی حیثیت رکھتا ہے، گورنمنٹ آف انڈیا کو چاہیے کہ وہ اِس کام کو فوراً بند کرے۔
یہ فتویٰ یا بیان سرتاسر بے بنیاد ہے، یہ اسلام کو اپنے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے، اُس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کی تاریخ میں، اور خود ہندستان میںایسا برابر ہوتا رہا ہے کہ غیر مسلم لوگوں کے تعاون سے مسجدیں بنائی گئی ہیں یا اُن کی مرمّت کاکام ہوا ہے، مگر علما نے کبھی اِس کام کو غلط نہیں بتایا۔
اِس معاملے میں سب سے بڑی مثال خود کعبہ کی ہے، جو گویا کہ تمام مسجدوں کا نمائندہ ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، کعبہ یا بیت ُ اللہ کو مکہ میں چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنایا تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میں ہوئی۔ اُس وقت وہاں کعبہ کی جو سنگی عمارت تھی، وہ ابراہیمی تعمیر کے مطابق نہ تھی۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کعبہ کی ابراہیمی عمارت بارش کی وجہ سے ڈھ گئی تھی۔ اُس وقت مکہ کے لوگوں نے کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی۔ مکہ کے یہ لوگ مشرک اور بت پرست تھے۔ گویا کہ رسول اللہ کی بعثت کے وقت مکہ میں خانۂ کعبہ کی جو عمارت تھی، وہ مشرکین کے ہاتھوں بنائی گئی تھی، مگر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اُس پر اعتراض نہیں کیا، یہاں تک کہ ہجرت کے آٹھویں سال جب مکہ فتح ہوگیا اور رسول اللہ کو وہاں کا اختیار حاصل ہوگیا، تب بھی آپ نے ایسا نہیں کیا کہ آپ مشرکین کے بنائے ہوئے کعبہ کو ڈھائیں اور دوبارہ اس کو اہلِ ایمان کے ذریعے تعمیر کرائیں۔
تاریخ مزید بتاتی ہے کہ فتحِ مکہ کے وقت کعبہ کے اوپر جو غلاف تھا، وہ مشرکین کا بنایا ہوا تھا۔ اُس کو بنانے میں بت پرستوں کا مال استعمال ہوا تھا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر فتح حاصل کرنے کے باوجود اُس قدیم غلاف کو نہیں بدلا۔ بعد کو ایسا ہوا کہ ایک عورت کی غلطی سے یہ غلاف جل گیا۔ اِس کے بعد آپ نے نیا غلاف تیار کرکے اُس کے اوپر ڈالا۔ گویا کہ غلاف کی تبدیلی صرف اُس وقت کی گئی، جب کہ یہ تبدیلی ایک ناگُزیر ضرورت بن گئی تھی۔
تاریخ میں اِس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جو واضح طورپر یہ بتاتے ہیں کہ مسجد یا مدرسے میں غیر مسلم کا تعاون لینا عین جائز ہے، اس میں کسی بھی قسم کا کوئی حرج نہیں۔ ایسے فعل کو دین میں مداخلت کہنا، سرتاسر غلط ہے، بلکہ وہ فتنہ انگیز ہے۔ کیوں کہ اِس سے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان تعلقات غیر ضروری طور پر بگڑ سکتے ہیں۔
کسی مسجد یا مدرسے کی بلڈنگ بذاتِ خود مسجد یا مدرسہ نہیں ہے، وہ صرف مسجد یا مدرسے کا ظاہری ڈھانچہ ہے۔ مسجد اصلاً عبادت کا مقام ہے، اِسی طرح مدرسہ اصلاً تعلیم کا مقام ہے۔ ظاہری ڈھانچے کے بارے میں اِس قسم کے فتوے یا بیانات، اسلام کی روح کو سخت نقصان پہنچانے والے ہیں۔ اِس سے غیر ضروری طورپر ساری اہمیت ڈھانچے کی بن جاتی ہے۔ حالاں کہ صحیح یہ ہے کہ عبادت اور تعلیم کو اہمیت دی جائے۔ سارا زور اور تاکید بہتر عبادت اور بہتر تعلیم پر ہو۔ ڈھانچے کے بارے میں اِس قسم کی باتیں کرنا، لوگوں کے ذہن کو بگاڑنا ہے۔ اور ذہن کو بگاڑنا، اسلام میں ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
اِس قسم کا منفی ذہن مسلمانوں کے اندر کیوں پیدا ہوا، اُس کا سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ مسلمانوں نے موجودہ زمانے میں دعوت کا مزاج کھو دیا۔ دوسری اقوام ان کے لیے مدعو نہ رہیں، بلکہ وہ اُن کی حریف اور رقیب بن گئیں۔ اِسی منفی مزاج کا نتیجہ ہے جو کہ مذکورہ قسم کی نامحمود چیزوں کی صورت میں برآمد ہورہا ہے۔
صحیح مسلم مزاج وہ ہے جس کو دعوتی مزاج کہا جاتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں مسلمانوں کا جو موجودہ مزاج ہے، وہ قومی مزاج ہے نہ کہ دعوتی مزاج۔ دعوت، دوسرے انسانوں تک خدا کا ابدی پیغامِ رحمت پہنچانے کانام ہے۔ اِس قسم کا مشن اپنے آپ داعی کو دوسرے انسانوں کا ہمدرد اور خیر خواہ بنا دیتا ہے۔ یہ مشن آدمی کے اندر دوسرے انسانوں کے لیے محبت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ یہ مشن آدمی کودوسرے انسانوں کے حق میں نرم او رشفیق بنادیتا ہے۔
قومی مزاج کا معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ قومی مزاج آدمی کے اندر دوسروں کے خلاف رقیبانہ مزاج پیدا کردیتا ہے۔ قومی مزاج ہمیشہ مادّی مفادات کی بنیاد پر بنتا ہے۔ اِس قسم کے مزاج میں دوسروں کے لیے شکایات ہوتی ہیں، نہ کہ ہمدردی اور خیر خواہی۔ آج کل مسلمانوں کے اندر عام طورپر یہی قومی مزاج بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں منفی نفسیات میں مبتلا ہوگیے ہیں۔ یہ منفی مزاج اُن کے تمام مسائل کا اصل سبب ہے۔
واپس اوپر جائیں

بدلتی ہوئی دنیا میں مسلمانوں کا لائحۂ عمل

5 اگست 2007 کی شام کو راقم الحروف نے ایک کشمیری اجتماع کو خطاب کیا۔ یہ ٹیلی فون پر ہونے والا ایک خطاب تھا۔ میںنے دہلی سے اپنے ٹیلی فون پر تقریر کی اور سری نگر میں اکھٹا ہونے والے کشمیری مسلمانوں نے اسپیکر ٹیلی فون پر اُس کو سنا۔ یہ خطاب کسی قدر اضافے کے ساتھ یہاں نقل کیا جاتاہے۔
مجھ سے اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے لائحۂ عمل کیا ہے۔ میں کہوں گا کہ اُن کے لائحۂ عمل کا پہلا نکتہ ری اسیس مینٹ(re-assessment) ہے، یعنی ماضی میں اپنی کوششوں کا تنقیدی جائزہ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ماضی میں جان ومال کی غیرمعمولی قربانیاں دی ہیں۔ یہ قربانیاں اب تک جاری ہیں۔ ایسی حالت میں پہلا سوال یہ ہے کہ ان کوششوں کے نتیجے میں مسلمانوں نے کیا پایا اور کیا کھویا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کہنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے مسلّح جدوجہد کے باوجود اپنے مقصد کو کسی بھی درجے میں نہیں پایا، بلکہ انھوںنے صرف اپنی تباہی میں مزید اضافہ کیا ہے۔
ایسی حالت میں موجودہ مسلمانوں کے لیے کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ جہاد کے نام پر کی جانے والی موجودہ مسلّح جدوجہد کو فوراً بند کردیں، تاکہ کم ازکم ایسا ہو کہ وہ اپنے آپ کو مزید تباہی سے بچالیں۔ جہاد (بمعنیٰ قتال) کا مقصد اپنے آپ کو ہلاک کرنا نہیں ہے، بلکہ کسی مطلوب فائدے کو حاصل کرنا ہے۔ جب مطلوب فائدہ حاصل نہ ہو رہا ہو تو ٹکراؤ کی سیاست حرام کے درجے میں قابلِ ترک ہوجاتی ہے۔ یہی اب مسلمانوں کو کرنا چاہیے۔
میں جون1989 میں سری نگر گیا تھا۔ وہاں میں نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ اگر آپ شہر سے باہر جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ پہاڑ سے گھری ہوئی وادیوں میں ہر طرف پانی کے چشمے بہہ رہے ہیں۔ یہ چشمے آپ کو خدا کا ایک پیغام دے رہے ہیں۔ اِن چشموں کا حال یہ ہے کہ وہ مسلسل بہہ رہے ہیں۔ اُن کے راستے میں بار بار پتھر آتے ہیں۔ یہ پتھر بظاہر چشمے کے لیے ایک رکاوٹ ہیں، لیکن چشمہ پتھروں سے نہیں ٹکراتا، بلکہ وہ ٹکراؤ کو اوائڈ کرتے ہوئے پتھر کے دائیں یا بائیں سے نکل جاتا ہے اور اِس طرح وہ اپنے سفر کو آگے کی طرف مسلسل جاری رکھتا ہے۔
میں نے کہا تھا کہ کشمیریوں کو اپنے قریب بہتے ہوئے چشموں سے سبق لینا چاہیے۔ انھوں نے انڈیا سے یا انڈیا کی آرمی سے غیر ضروری ٹکراؤ کار استہ اختیا رکیا ہے۔ یہ ٹکراؤ اُنھیں تباہی کے سوا کچھ اور دینے والا نہیں۔ میرا یہ انتباہ اب آخری طورپر درست ثابت ہو چکا ہے۔ اب کشمیری مسلمانوں کے لیے آخری طورپر وہ وقت آگیا ہے جب کہ وہ ٹکراؤ یا مسلّح جدوجہد کا طریقہ مکمل طورپر چھوڑ دیں۔ وہ پُرامن میدان میں اپنی تعمیر کے کام میں لگ جائیں۔
آج کل نہ صرف کشمیر کے مسلمان، بلکہ ہر جگہ کے مسلمان ٹکراؤ کی سیاست کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ عملاً ٹکراؤ کی سیاست چلارہے ہیں۔ جو لوگ ٹکراؤ کی سیاست میں عملاً شامل نہیں ہیں، وہ بھی اِسی انداز میں سوچتے ہیں۔ اُن کے پاس بھی سوچنے کاکوئی اور فریم ورک موجود نہیں۔
اِس معاملے پر غور کرنے سے یہ سمجھ میںآتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان بد قسمتی سے اُس چیز سے محروم ہیں جس کو بصیرتِ زمانہ کہا جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ ایک نیا زمانہ تھا۔ اب ہر چیزبدل چکی تھی۔ ایسی حالت میں ضروری تھا کہ سب سے پہلے زمانے کو سمجھا جائے اور پھر زمانے کی رعایت سے اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کی جائے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ہمارے تمام رہ نما ردّ ِعمل کی نفسیات کا شکار ہوگیے۔ انھوں نے ردّ عمل کے تحت، مفروضہ دشمنوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اِس قسم کی جنگ زمانے سے بے خبری کا نتیجہ تھی، اِس لیے وہ مکمل طورپر ناکام ہو کر رہ گئی۔
قدیم زمانے کو زرعی دَور کہا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں ہر جگہ بادشاہت کا رواج تھا۔ اِس نظام کے تحت سب سے زیادہ اہمیت پالٹکس کی ہوگئی تھی۔ اِس طرزِ فکر کے تحت لوگوں کے پاس سوچنے کا فریم ورک صرف ایک تھا، اور وہ تھا پولٹکل ایکٹوزم۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں کا ذہن اِسی فکری تسلسل کے تحت بنا، چناںچہ جب موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے تو انھوںنے اپنے متاثّر ذہن (conditioned mind) کے تحت، فوراً پولٹکل ایکٹوزم کا طریقہ اختیار کرلیا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں بصیرتِ زمانہ کی ضرورت تھی۔ ہمارے رہ نماؤں کو جاننا چاہیے تھا کہ اب پولٹکل ایکٹوزم کا دور ختم ہوگیا۔ اب مکمل معنوں میں پیس فُل ایکٹوزم کا زمانہ آچکا ہے۔ اب ایسے مواقع پیدا ہوچکے ہیں کہ پُرامن طریقِ کار کے ذریعے وہ سب کچھ مزید اضافے کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے جس کی امید پہلے صرف سیاسی جدوجہد سے کی جاسکتی تھی۔
موجودہ زمانے میں جو تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، اُس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اُس نے مواقع (opportunities) کو ہر ایک کے لیے یکساں طورپر کھول دیا ہے۔ قدیم زمانے میں مواقعِ کار صرف اونچے طبقے کے کچھ لوگوں کو حاصل ہوتے تھے، اب مواقعِ کار عام انسانوں کی دست رس تک پہنچ گیے ہیں۔ پچھلا زمانہ ہر اعتبار سے محدودیت کا زمانہ تھا، اب جدید اسباب نے تمام حد بندیاں توڑ دی ہیں۔ اب ہر آدمی ہر کام کرنے کی پوزیشن میں ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں علم کے نام سے آدمی بہت کم چیزوں کو جانتا تھا، اب علمی انفجار(knowledge explosion) کا زمانہ ہے۔ پہلے زمانے میں سیاسی طاقت سب سے بڑی طاقت سمجھی جاتی تھی، اب تعمیری اداروں اور غیر سیاسی تنظیموں نے سب سے بڑی طاقت کا درجہ حاصل کرلیا ہے، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں سیکولرازم نے حکومتوں کو پابند کردیا ہے کہ وہ لوگوں کے معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کریں۔ اب دنیا میں جمہوریت کا زمانہ ہے، جو عوام کی سیاسی حصے داری (power sharing) پر مبنی ہے۔ پہلے اقتصادیات کا تعلق صرف زراعت سے تھا، اب جدید صنعت نے اقتصادیات کو ہر ایک کی دست رس تک پہنچا دیا ہے۔ پہلے مذہبی جبر کا زمانہ تھا، اب دنیا میں مکمل طورپر مذہبی آزادی کا زمانہ ہے۔ پہلے کوئی بڑا کام صرف بادشاہ کرسکتا تھا، اب اِداروں (institutions) اور غیر سیاسی تنظیموں کے ذریعے ہر کام کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں صرف پولٹکل ایمپائر بن سکتا تھا، اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ غیر سیاسی سطح پر عالمی دعوہ ایمپائر بنایا جاسکے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ صرف تلوار میں طاقت ہے، اب پُرامن ذرائع کا دائرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ آج تقریباً ہر چیز پُرامن ذرائع سے حاصل کی جاسکتی ہے، وغیرہ۔
اِن حالات میں متشددانہ طریقِ کار یا لڑائی کا طریقہ اختیار کرنا، ایک قسم کا خلافِ زمانہ عمل (anachronism) بن چکا ہے۔جدید اصولوں کے مطابق، آدمی اگر تشدد نہ کرے تو وہ ہر کام کے لیے آزاد ہے۔ ایسی حالت میں اب تشدد کا طریقہ اختیار کرنا، ایک قسم کی دیوانگی ہے۔ کیوں کہ تشدد کا طریقہ اختیار کرتے ہی آدمی غیر ضروری طور پر اپنے آپ کو محروم بنا لیتا ہے۔ وہ اِس قابل نہیں رہتا کہ وہ جدید مواقع کار سے فائدہ اٹھائے اور اپنے مستقبل کی عظیم تعمیر کرے۔
یہاں یہ سوال ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے یہ تباہ کُن طریقہ کیوں اختیار کیا کہ انھوںنے سیاسی غلبے کو اپنا نشانہ بنا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت جلد انھوںنے جہاد کے نام سے متشددانہ طریقِ کار کو اختیار کرلیا اور آخر کار استشہاد (طلبِ شہادت) کے نام پر وہ خود کُش بم باری کی تباہ کُن حد تک پہنچ گیے۔
اِس بھیانک غلطی کا سبب موجودہ زمانے میں پیش کی جانے والی اسلام کی سیاسی تعبیر تھی۔ اسلام کی سیاسی تعبیر بلا شبہہ ایک بے بنیاد تعبیر تھی، لیکن موجودہ سیاسی حالات نے اِس تعبیر کو موافق فضا دے دی۔ اِس بنا پر بہت سے لوگ، خاص طور پر نوجوان طبقہ، اِس مغالطہ آمیز سیاسی تعبیر کے زیرِ اثر آگیا اور اسلام کی عالمی حکومت قائم کرنے کے نام پر ایک پُر شور سیاسی تخریب کا عمل جاری کردیا۔
موجودہ زمانے میں جو انقلاب آیا، وہ عین خدا کی منشا کے مطابق تھا۔ وہ اِس لیے تھا کہ اہلِ اسلام، سیاسی نزاع اور متشددانہ ٹکراؤ سے بچ کر اسلامی دعوت کا ایک عالمی ایمپائر بنا سکیں۔ موجودہ زمانے میں ایسا کرنا عین ممکن بن چکا تھا، لیکن ٹکراؤ کی متشددانہ سیاست نے سارے امکانات کو تباہ کردیا۔
سیاسی اقتدار کی اصطلاحوں میں سوچنے کے بہت نقصانات ہوئے۔ اُن میں سے ایک نقصان یہ تھا کہ موجودہ زمانے کے کئی امکانات کو مسلم رہ نما بالکل سمجھ نہ سکے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں ایک جدید ظاہرہ وہ پیدا ہوا ، جس کو گلوبل ولیج اور گلوبلائزیشن کہاجاتا ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک عظیم نعمت تھی۔ خصوصاً اسلامی دعوت کے لیے اُس نے عالمی مواقع کھول دیے، مگر بگڑے ہوئے ذہن کی بنا پر مسلم رہ نما اِس حقیقت کو سمجھ نہ سکے اور غیر ضروری طور پر وہ اُس کے مخالف بن گیے۔
اِسی منفی ذہن کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں نے جگہ جگہ علاحدگی پسندی اور سپریشن کی تحریک چلا دی۔آج کا زمانہ یونی ورسلائزیشن کا زمانہ تھا، مگر انھوںنے مسلمانوں کو محدودیت کے خول میں بند کرنے کی ناقابلِ فہم غلطی کا ارتکاب کیا۔ یہ اتنی بڑی غلطی تھی کہ اس کے بعد ان رہ نماؤں کا کوئی بھی کارنامہ اِس غلطی کی تلافی نہ کرسکا۔
خلاصہ یہ کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لیے کسی موثر ملّی عمل کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ وہ یہ اعتراف کریں کہ انھوں نے ماضی میں غلط نشانہ بنایا۔ اِس غلطی کا کھُلا اعتراف کرنے کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ مسلمان موجودہ سیاسی ٹکراؤ اور جہاد کے نام پر مسلّح عمل کو مکمل طوپر ترک کردیں۔ اُس کے بعد مسلمانوں کے لیے عمل کا جو نشانہ بنے گا، وہ دو نکاتی فارمولے پر مشتمل ہوگا— اپنی نئی نسلوں کو اعلیٰ تعلیم میں آگے بڑھانا، اور دعوہ ورک کو اپنا نشانہ قرار دینا۔ اِس کے سوا کوئی اور لائحۂ عمل، مسلمانوں کو اعلیٰ کامیابی تک پہنچانے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

نشانیوں سے سبق نہ لینا

قرآن کی سورہ نمبر بارہ کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے:’’اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں جن پر اُن کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ اُن پر دھیان نہیں کرتے‘‘۔ (یوسف: 105 )
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی طرف سے مسلسل انسانی تاریخ میں ایسی نشانیاں ظاہر کی جارہی ہیں جو انسان کو اپنی محدودیت یاد دلائیں اور اُس کو اِس حقیقت کی طرف متوجہ کریں کہ وہ خدا کی رہ نمائی کے بغیر اپنے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر نہیں کرسکتا، لیکن انسان غفلت کا شکار ہو کر اِن نشانیوں سے سبق نہیں لیتا اور اپنی محرومی کا خاتمہ نہیں کرپاتا۔
پچھلے پانچ ہزار سال سے دنیا کے تمام بڑے بڑے دماغ اِس میں مشغول تھے کہ وہ فلسفیانہ غوروفکر کے ذریعے سچائی کو دریافت کرلیں، لیکن لمبی کوشش کے بعد صرف یہ معلوم ہوا کہ فلسفے کا طریقہ کسی یقینی منزل تک پہنچانے کے لیے سراسر ناکافی ہے۔
جدید سائنس کے ظہور کے بعد انسان نے یہ سمجھا کہ سائنسی میتھڈ کے ذریعے وہ سچائی کو دریافت کرسکتا ہے، لیکن آخر کار صرف یہ معلوم ہوا کہ سائنسی میتھڈ آدمی کو صرف چیزوں کے علم (knowledge of things) تک پہنچا سکتا ہے، وہ آدمی کو سچائی کے علم (knowledge of truths) تک پہنچانے والا نہیں۔
ہزاروں سال سے انسان یہ سمجھتا تھا کہ روحانی طریقوں کے استعمال سے وہ سچائی تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ انسان کا دل تمام حقیقتوں کا خزانہ ہے۔ دل میں اپنے دھیان کو مرتکز کرکے سچائی کی دریافت کی جاسکتی ہے، لیکن آخر کار یہ ثابت ہوا کہ دل صرف گردشِ خون کا ذریعہ ہے، وہ حقائق و معارف کا خزانہ نہیں۔
اِسی طرح جدید تہذیب کی ترقیوں کو دیکھ کر یہ امید قائم کرلی گئی تھی کہ تہذیب کا سفر آخر کار انسان کو اس کی مطلوب دنیا تک پہنچادے گا، لیکن حال میں گلوبل وارمنگ (Global Warming) کا مسئلہ ظاہر ہوا اور یہ معلوم ہوا کہ موجودہ دنیا اب اپنے خاتمے کے قریب پہنچ گئی ہے، یہاں مطلوبہ تہذیب کا قیام سرے سے ممکن ہی نہیں۔
اِس قسم کی نشانیاں، فطرت میں اور تاریخ میں، مسلسل ظاہر ہورہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے موجودہ دنیا کے لیے جو مدت مقرر کی تھی، وہ مدت اب تمام ہوچکی ہے۔ اور وہ وقت آگیا ہے کہ موجودہ دنیا کو ختم کر دیا جائے، تاکہ اس کے بجائے اگلی دنیا (world hereafter) شروع ہوسکے۔ قرآن کے یہ الفاظ شاید اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کررہے ہیں— ’’جس دن ہم آسمان کو لپیٹ دیں گے جس طرح طومار میں کاغذ لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی، اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ہمارے ذمّے وعدہ ہے اور ہم اُس کو کرکے رہیں گے‘‘ (الأنبیاء: 104)
اب آخری طورپر وہ وقت آگیا ہے جب کہ انسان بیدار ہو۔ وہ فطرت میں اور تاریخ میں ظاہر ہونے والی نشانیوں سے سبق لے اور اپنی زندگی کی اِس طرح منصوبہ بندی کرے جو اگلے مرحلۂ حیات (post-death period) میں اُس کے کام آسکے۔ جو آدمی اِس موقع کو کھو دے، اُس کو جاننا چاہیے کہ اُس کے لیے دوبارہ کوئی موقع آنے والا نہیں۔
انسان کو اپنے مستقبل کی تعمیر کے لیے صرف ایک ہی چانس دیا گیا ہے، یہ آدمی کے اوپر ہے کہ وہ اس کو استعمال کرتا ہے، یا اس کو ہمیشہ کے لیے کھودیتا ہے۔ جو لوگ اِس چانس کو استعمال کرسکیں، ان کے لیے ابدی جنت ہے اور جو لوگ اِس چانس کو استعمال کرنے میں ناکام رہیں، ان کا انجام بائبل کے الفاظ میں یہ ہے — ایسے لوگ آگ کی بھٹی میں ڈال دیے جائیں گے اور وہاں ان کے لیے ابدتک رونا اور دانت پیسنا ہوگا:
And will cast them into the furnace of fire. There will be wailing and gnashing of teeth. (Matthew 13: 42)
واپس اوپر جائیں

مسلم مسلک کیا ہے

مسلم مسلک کیا ہے۔ اِس سوال کے جواب میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان اپنی دشمن قوموں کی سازش کا شکار ہیں، یہ اغیار کی سازش ہے جس نے مسلمانوں کو موجودہ زمانے میں مسائل سے دوچار کررکھا ہے۔ یہ جواب، قرآن کی صراحت کے مطابق، یقینی طورپر بے بنیاد ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر3 میں ارشادہوا ہے کہ: وإن تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدُہم شیئًا (آل عمران: 120 ) یعنی تم اگر صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو دشمن کی سازش تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ صاحب مدارک التنزیل نے اِس آیت کی تشریح میںلکھا ہے : ہٰذا تعلیمٌ من اللہ وإرشادٌ إلیٰ أن یُستعان علیٰ کید العدوّ بالصبر والتقویٰ۔ (یہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم ہے اور اس کی ہدایت ہے کہ دشمن کی سازش کے مقابلے میں صبر اور تقویٰ سے مدد حاصل کی جائے)
اِس پر آپ غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کے لیے جو مسئلہ ہے، وہ سازش کی موجودگی نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ صبر اور تقویٰ کی غیر موجودگی ہے۔ مذکورہ سوال کا یہ جواب قرآن کی براہِ راست نصّ سے ثابت ہے، اِس لیے اُس کے برحق ہونے پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔
اِس آیت میں مسئلۂ سازش کے حل کے طورپر دو لفظ کا ذِکر آیا ہے— صبر اور تقویٰ۔ صبر کا مطلب دراصل سیلف کنٹرول (self-control) ہے، یعنی پیش آمدہ صورتِ حال میں ردّعمل سے بچ کر اپنے اقدام کی مثبت منصوبہ بندی کرنا۔ کوئی صورتِ حال پیش آئے تو جذباتی تأثر کے تحت، جوابی کارروائی نہ کرنا بلکہ معاملے کے تمام مالہٗ وما علیہ (موافق اور غیر موافق پہلو) کا اندازہ کرکے سوچا سمجھا اقدام کرنا۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں دوسرا لفظ جو استعمال ہوا ہے، وہ تقویٰ ہے۔ یہاں تقویٰ کا مطلب خود قرآن کی ایک اور آیت سے واضح ہورہا ہے۔ دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ولایجرمنکم شناٰن قومٍ علیٰ أن لا تعدلوا، إعدلوا ھو أقرب للتقویٰ (المائدۃ: 8) اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کا مطلب ہے— دشمنی کی حالت پیدا ہونے کے باوجود عدل پر قائم رہنا، اشتعال کی حالت میں بھی انصاف کی روش پر برقرار رہنا۔
قرآن کی اس آیت کی روشنی میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے کیس پر غور کیجیے۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان کسی بھی ملک میںاِس قرآنی معیار پر پورے نہیں اترتے۔ ہر جگہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ مخالفِ مزاج باتوں پر مشتعل ہو کر عاجلانہ اقدام کربیٹھتے ہیں۔ وہ صرف انتقام کا فارمولا جانتے ہیں، عدل اور انصاف کا فارمولا اُنھیں معلوم ہی نہیں۔
ایسی حالت میں مسلمانوں کے مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنی پالیسیوں کے غلط ہونے کا اعتراف کرنا۔ دوسروں کو بُرا بتانے کے بجائے، خود اپنی کمزوریوں کو دریافت کرنا۔ اپنے سارے معاملے کا ری اسیس منٹ (reassessment) کرنا، اور پھر صبر اور تقویٰ کے اصول کی روشنی میںاپنے عمل کا نیا منصوبہ بنانا۔
میرے نزدیک، موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو تین نُکاتی فارمولے پر عمل کرنا چاہیے۔ اِس کے سوا اُن کے لیے کوئی بھی دوسرا لائحۂ عمل مفید نہیں ہوسکتا۔ وہ تین نکاتی فارمولا یہ ہے:
1 - دوسروں کے خلاف منفی تقریر اور تحریر کو مکمل طورپر ترک کردینا۔
2 - پوری نسل کو تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش کرنا۔
3 - غیر مسلموں میں عالمی پیمانے پر اسلام کا مثبت تعارف۔
کوئی بھی بڑا کام صرف مثبت ذہن کے لوگ انجام دیتے ہیں۔ نکتۂ اول کی اہمیت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے اندر یہی مثبت ذہن پیدا کرتا ہے۔ موجودہ حالت میں مسلمانوں کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ وہ تمام انسانیت کے لیے، دوست اور دشمن کی تفریق کے بغیر، خیر خواہ بن جائیں۔ ان کا نظریہ صرف اکرامِ مسلم نہ ہو، بلکہ ان کا نظریہ وسیع تر معنوں میں اکرامِ انسان ہو۔ ان کا برتاؤ ہر ایک کے لیے انسان فرینڈلی برتاؤ (insan-friendly behaviour) بن جائے، نہ کہ صرف مسلم فرینڈلی برتاؤ۔
حدیث میں مومن کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ: أن یکون بصیراً بزمانہ، یعنی بصیرتِ زمانہ سے بہرہ وَر ہونا۔ تعلیم کا فائدہ یہی ہے۔ میرے نزدیک، تعلیم کا معیار یہ ہے کہ لوگ اپنی مادری زبان کے ساتھ عربی اور انگریزی زبانیں بھی بقدر ضرورت جانیں۔ تعلیم کا مقصد شعوری بیداری ہے، اور حقیقی معنوں میں شعوری بیداری کے لیے تین زبانوں کا جاننا ضروری ہے۔
دعوت الی اللہ کا مقصد صرف دعوت کا اعلان کرنا نہیںہے، بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ غیرمسلموں کو یہ محسوس ہو کہ مسلمان، دنیا میں صرف لینے والے گروہ (taker group) نہیں ہیں، بلکہ وہ دینے والے گروہ (giver group) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس دنیا میں بڑی کامیابی صرف اُس کو ملتی ہے جو دسرے کے لیے نافع بن جائے۔ شکایت اور احتجاج کا ذہن لے کر کوئی گروہ کبھی کوئی بڑی ترقی حاصل نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں

Saturday, 1 September 2007

Al Risala | September 2007(الرسالہ،ستمبر)

2

- رمضان: تقویٰ اور شکر کا مہینہ

6

- روزے کا پیغام

9

- عظیم ترین گواہی

12

- ایک دورِ حیات کا خاتمہ

14

- کشمیر: ایک جائزہ

20

- جنگ میں پہل نہیں

21

- حقیقت پسندانہ مزاج

26

- سائنس اور الہٰیات

44

- ڈارون اور ڈارون ازم

45

- جنت میں داخلے کی شرط


رمضان: تقویٰ اور شکر کا مہینہ

اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت تقویٰ کی ہے اور رمضان کے مہینے کا روزہ اِسی تقویٰ کی تربیت کے لیے مقرر کیاگیا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اے ایمان لانے والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ، جس طرح تم سے اگلوں پر فرض کیاگیا تھا، تاکہ تم تقویٰ والے بنو (البقرۃ: 182 )
تقوی ٰکیا ہے۔ اس کی بہترین تشریح ایک حدیث سے ہوتی ہے:
إنّ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سأل ابیّ بن کعب عن التقویٰ، فقال لہ: أما سلکتَ طریقاً ذا شوک۔ قال بلیٰ، قال فما عملتَ۔ قال: شمّرتُ واجتہدتُ۔ قال فذلک التقویٰ (تفسیر ابن کثیر، جلد اول، صفحہ 40 )
عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ نے اُبی بن کعب سے تقویٰ کے بارے میں پوچھا۔ ابی بن کعب نے کہا کہ کیا آپ کسی کانٹے دار راستے سے گزرے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں۔ انھوں نے پوچھا کہ پھر آپ نے کیا کیا۔ انھوںنے کہا کہ میںنے اپنے کپڑے سمیٹ لیے اور بچ کر اس سے گزر گیا۔ ابی بن کعب نے جواب دیا کہ یہی تقویٰ ہے۔
موجودہ دنیا دار الامتحان ہے۔ اسی لیے یہاں بہت سی غیر مطلوب چیزیں بھی موجود ہیں۔ مومن کو ان چیزوں سے بچتے ہوئے اپنا سفرِ حیات طے کرنا ہے۔ اِسی پرہیز گارانہ رویّے کا نام تقویٰ ہے، اور رمضان کا روزہ اِسی تقویٰ کی تربیت ہے۔
روزے میں کیا ہوتا ہے۔ روزے میں آدمی اپنا کھانا اور پانی ایک مقررہ مدت کے لیے چھوڑتا ہے۔ اپنی عادتوں کو ترک کرتا ہے۔ اپنی خواہشوں پرروک لگاتا ہے۔ اِسی طرح وہ اِس بات کی تربیت حاصل کرتا ہے کہ وہ کچھ چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔ وہ کچھ چیزوں سے بچ کر زندگی گزارے۔ روزہ اِسی پرہیزگاری کی انتہائی تربیت ہے۔ روزہ رکھ کر آدمی یہ عہد کرتا ہے کہ ناجائز چیزیں تو درکنار، اگر اللہ کی مرضی ہو تو وہ جائز چیزوں کو بھی اللہ کی خاطر چھوڑ دینے کے لیے تیار ہے۔
روزے میں کھا نا اور پینا چھوڑنا، ایک علامتی ترک ہے۔ اصل میں جوچیز ترک کرنا ہے، وہ تو خداکی ممنوعہ چیزیں ہیں۔ ممنوعات کا وقتی ترک ،ممنوعات کے اُسی مستقل ترک کی مشق ہے۔ کیوںکہ جو آدمی اللہ کے لیے غیر ممنوعات کوچھوڑنے پر راضی ہو، وہ ممنوعات کو بدرجۂ اولی چھوڑنے پر راضی ہوجائے گا۔
موجودہ دنیا میں انسان کا امتحان جس بات میں ہے، وہ یہی ہے کہ وہ حرام اور حلال میں فرق کرے۔ وہ حق اور باطل کے درمیان تمیز کرنے والا بنے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارے۔ اِسی ذمّے دارانہ زندگی کی تربیت کے لیے روزے کا طریقہ اہلِ ایمان کے اوپر فرض کیا گیا ہے۔
روزہ محض اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے مطلوب نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی حقیقی اسپرٹ کے اعتبار سے مطلوب ہے۔ اِسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ جس آدمی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اِس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پانی چھوڑ دے (صحیح البخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ لوگوں نے ایسا کیا کہ انھوںنے روزہ رکھا اور اسی کے ساتھ انھوں نے غیبت کا فعل کیا جو اسلام میں حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ انھوں نے خدا کی جائز کی ہوئی چیز سے روزہ رکھا اور اس کی ناجائز کی ہوئی چیز سے انھوں نے افطار کرلیا۔
متقیانہ زندگی کو دوسرے لفظوں میں، محتاط زندگی کہہ سکتے ہیں۔ ایک انسان وہ ہے جو احتیاط کے تصورسے خالی ہو، وہ بلاقید جو چاہے بولے اور جوچاہے کرے۔ دوسرا نسان وہ ہے جو احتیاط کے طریقے کو اختیار کئے ہوئے ہو— وہ ایک محکم اصول کے تحت، کسی روش کو اختیار کرے اور کسی روش کو اختیا رنہ کرے، یہی معاملہ متقی انسان کا ہے۔ متقی انسان مکمل طورپر ایک محتاط انسان ہوتا ہے۔ وہ اپنے قول اور عمل کو خدا کی مرضی کے تابع کردیتا ہے۔
روزہ آدمی کے اندر تقویٰ اور احتیاط کا یہی مزاج پیدا کرتاہے۔ رمضان کی ماہانہ تربیت آدمی کو اِس قابل بنادیتی ہے کہ وہ پورے سال تک اِس طرح زندگی گزارے کہ وہ مباحات کے لیے مُفطر ہو اور ممنوعات کے لیے وہ صائم بنا رہے۔
رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہوئے قرآن میںکہاگیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے یہ حکم اِس لیے دیا تاکہ تم اللہ کی بڑائی کرو اِس پر کہ اُس نے تم کو راہ بتائی اور تاکہ تم اُس کے شکر گزار بنو (ولتکبّروا اللہ علی ما ہداکم و لعلکم تشکرون، البقرۃ: 185)
رمضان کے مہینے کاروزہ دو پہلوؤں سے شکر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ ایک، اِس بات کا شکر کہ اللہ نے قرآن کی صورت میں ایک کامل ہدایت نامہ انسان کو عطا کیا۔ دوسرے، اِس بات کا شکر کہ اللہ نے دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے انسان کو وہ تمام سامانِ حیات دئے جن کی ضرورت انسان کو تھی۔
انسان اس دنیا میں اپنے آپ کو اِس حال میں پاتا ہے کہ ذاتی طورپر اس کے لیے سچّائی تک پہنچنا ممکن نہیں۔ کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایسا بورڈ بھی لگا ہوا نہیں ہے جس میں زندگی کا مقصد اور اس کی فلاح کا طریقہ بتایا گیا ہو۔ ایسی حالت میںایک حقیقی انسان جب قرآن کو پاتاہے تو اس کا دل احساسِ نعمت سے سرشار ہوجاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اِس احسان پر وہ اللہ کا شکر ادا کرے۔
مزید یہ کہ قرآن واحد خدا ئی کتاب ہے جو محفوظ حالت میں آج تک موجود ہے۔ ایک آدمی جب سچائی کی تلاش کرتا ہے اور مختلف مذاہب کی کتابوں کو پڑھتا ہے تو اس پر کھُلتا ہے کہ یہ تمام کتابیں بعد کے زمانے میں تحریف کا شکار ہوگئیں۔ اِس طرح ان تمام کتابوں نے اپنی تاریخی اعتباریت یک سر کھودی ہے۔
اِس عمومی تجربے کے بعد آدمی جب قرآن کو دیکھتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب مکمل طورپر اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔ تاریخی حیثیت سے وہ پوری طرح ایک قابلِ اعتبار کتاب ہے۔ قرآن کی یہ خصوصیت آدمی کو مزید احسان مندی میںمبتلا کرتی ہے۔ وہ ہمہ تن اللہ کے شکر وسپاس کے جذبے میں غرق ہوجاتا ہے۔
رمضان کا روزہ اِسی اظہارِ شکر کی ایک خصوصی صورت ہے۔ روزہ رکھ کر قرآن کو پڑھنا، اِس بات کی علامت ہے کہ بندہ وفورِ شکر میںاپنا کھانا اور پینا تک بھول گیا ہے،وہ اپنی ضروریاتِ زندگی تک سے بے پروا ہو کر خدا کے کلام کو اپنے سینے سے لگا لینا چاہتاہے۔
شکر کو دوسرا پہلو سامانِ حیات سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار چیزیں عطا کی ہیں جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا تھا— اُنھیں میں سے ایک ضروری چیز کھانا اور پانی ہے۔
انسان کا مزاج یہ ہے کہ عام حالات میںاُس کو کسی چیز کی قدر و قیمت کا احساس نہیںہوتا۔ چیزوں کی قدر وقیمت کو وہ صرف اُس وقت جانتا ہے جب کہ وہ ان چیزوں سے محروم ہوگیا ہو۔ آدمی کو اگر کھانا اور پانی برابر وقت پر ملتا رہے تو وہ حقیقی طورپر محسوس نہیں کر پاتا کہ کھانا اور پانی کیسی عجیب نعمتیں ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے بآسانی اِس زمین پر وافر مقدار میں فراہم کردیا ہے۔
روزہ آدمی کے اندر اسی احساسِ نعمت کو پیدا کرنے کی ایک خصوصی تدبیر ہے۔ عام حالات میں صرف کسی انتہائی غریب آدمی ہی کو کھانے اور پانی کی قدر معلوم ہوسکتی ہے، مگر روزہ اِس کو ممکن بنا دیتا ہے کہ ہر آدمی اِس نعمت کی قدر و قیمت کو محسوس کرے، ہر آدمی کے سینے میں اس جذبے کی پرورش ہو کہ وہ حقیقی معنوں میں اپنے رازق کا شکر ادا کرنے والا بن جائے۔
روزے کے زمانے میں آدمی دن بھر بھوک میںمبتلا رہنے کے بعد شام کو جب کھانے کے بعد اپنی بھوک کو مٹاتا ہے، جب وہ دن بھر پیاس کا تجربہ کرنے کے بعد شام کو پانی پی کر اپنی رگوں کو ترکرتا ہے تو اُس کی زبان پر شکرِ خداوندی کا وہ کلمہ جاری ہوجاتا ہے جوحدیث میں اس طرح آیا ہے: ذہبَ الظّماء وابتلّت العروق وثبتَ الأجر إن شاء اللہ تعالیٰ۔
شکر بہت بڑا عمل ہے۔ شکر خلاصۂ عبادت ہے۔ روزہ اسی عظیم عمل اور اسی اعلیٰ عبادت کے لیے آدمی کو تیار کرتا ہے۔ روزے داری دراصل اِسی شکر گزاری کی تربیت ہے۔
واپس اوپر جائیں

روزے کا پیغام

قرآن کی سورہ نمبر دو میں روزے کا حکم دیتے ہوئے حسب ذیل باتیں کہی گئی ہیں:
روزہ اس لیے فرض کیاگیا ہے تاکہ تمھارے اندر تقویٰ پیداہو۔ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اترا۔ تم اس پورے مہینے کا روزہ رکھو اور اس نعمتِ ہدایت پر اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ اور جان لو کہ خدا اپنے بندوں سے بے حد قریب ہے۔ وہ پکارنے والے کی پکار سنتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے، لہٰذا تم کو چاہیے کہ تم اُس کا حکم مانو اور اُس پر ایمان لاؤ، تاکہ تم کو ہدایت ملے (البقرۃ: 183-186 )
روزہ بظاہر یہ ہے کہ آدمی رات کو کھائے پیے اور دن میں وہ کھانا پانی چھوڑ دے، مگر یہ روزے کی ظاہری صورت ہے۔ روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی کے اندر تقویٰ پیدا ہو، وہ اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچ کر زندگی گزارنے لگے۔ گویارمضان کے دنوں میں روزے کی مخصوص شکل ایک علامتی تربیت ہے کہ بقیہ مہینوں میں اور ساری عمر میںآدمی کو کس طرح رہنا چاہیے۔
خدا کی شریعت میں ہر آدمی کے لیے کچھ چیزیں جائز ہیں اور کچھ چیزیں ناجائز۔ رات کے اوقات آدمی کے لیے جائز چیزوں کی علامت ہیں اور دن کے اوقات ناجائز چیزوں کی علامت۔ اس علامتی ترک کے لیے کھانے پینے کو منتخب کرنا یہ بتاتا ہے کہ ممنوعات کی فہرست اس سے بھی زیادہ ہے جو قانونی الفاظ میں بتائی گئی ہے۔ممنوعات کی اس دوسری قسم کا نام قربانی ہے۔ روزہ یہ سبق دیتا ہے کہ خدا کی خاطر رکنے اور چھوڑنے کی فہرست اگر کھانے پینے جیسی ضروری چیزوں تک پہنچ جائے تو اس سے بھی آدمی دریغ نہ کرے۔
آدمی جب دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور شام کو کھانے اور پانی سے سیراب ہوتا ہے تو وہ ایک بہت بڑی حقیقت کا تجربہ کرتا ہے، وہ یہ کہ اس کا وجود جس غذا کا اتنی شدت سے محتاج تھا وہ انتہائی کامل صورت میں اس کے باہر خدا نے مہیا کررکھی تھی۔ خوراک ایک حیرت انگریز مثال ہے کہ انسان کی طلب کا کتنا مکمل جواب خدا نے اس دنیا میں تیار کر رکھا ہے۔
یہی احساس آدمی کے اندر قرآن کے بارے میں پیدا ہونا چاہیے۔ جس طرح غذا آدمی کی مادی طلب کا جواب ہے، اسی طرح قرآن آدمی کی روحانی طلب کا جواب ہے۔ خدا کی شکر گزاری اور اس کی بڑائی کا اعتراف یہ ہے کہ آدمی قرآن کو اُس حیثیت سے پالے جس حیثیت سے خدا نے اس کو اپنے بندوں کے پاس بھیجا ہے۔ وہ اسی طرح آدمی کی ضرورت بن جائے جس طرح کھانا آدمی کی ضرورت ہے۔ وہ اس کو پاکر اسی طرح سیراب ہوجائے جس طرح ایک بھوکا آدمی کھانا کھاکر اور پانی پی کر آخری حد تک سیراب ہوجاتا ہے۔
ر وایات میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے سوال کیا کہ اے خدا کے رسول، ہمارا رب ہم سے قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی کریں، یا وہ ہم سے دور ہے کہ ہم اس کو پکاریں (یا رسول اللہ، أقریبٌ رَبُّنا فنناجیہ أم بعید فننادیہ، أخرجہ إبن أبی حاتم) اس کے جواب میں مذکورہ آیتیں اتریں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ، بلکہ تمام عبادتوں کا اصل مطلوب کیا ہے۔ اصل مطلوب اسی مقام ہدایت (رشد) تک پہنچانا ہے، جب کہ بندہ اپنے رب کے اتنا قریب ہوجائے کہ وہ خدا سے ہم کلام ہونے لگے، وہ اپنے رب سے سوال کرے اور اس سے اس کا جواب پائے۔ یہی قربتِ خداوندی تمام دینی اعمال کا اصل مقصود ہے۔ جس کا دین اس کو خدا سے اس معنی میں قریب کردے، وہی دین دار ہے۔ اور جس کا دین اس کو خدا سے اس طرح قریب نہ کرے، وہ بے دین ہے، خواہ ظاہری طور پروہ دین داری کا لباس اوڑھے ہوئے ہو۔
دن بھر کے روزے کے بعد شام کو افطار کا وقت آتا ہے۔ اسی طرح پورے مہینے کا روزہ رکھنے کے بعد عید الفطر آتی ہے۔ یہ معاملہ دنیا اور آخرت کی تعبیر ہے۔ ’’روزہ‘‘ دنیا کی زندگی کی علامت ہے اور ’’اِفطار‘‘ آخرت کی زندگی کی علامت۔ بھوک پیاس اور تعب کی ایک مدت گزارنے کے بعد آدمی کو افطار کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح موجودہ دنیا میں جو عورت اور مرد احتیاط اور ذمے داری کی زندگی گزارے گا، وہ آخرت میں ابدی جنت کا آرام پائے گا۔ دنیا، روزے کی پابندی سہنے کی جگہ ہے اور آخرت عید ِافطار کی خوشی پانے کی جگہ۔
روزہ اور دعا کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے ۔ دعا سب سے زیادہ جہاں سے ابلتی ہے، وہ ٹوٹا ہوا دل ہے۔ روزے میں آدمی کو بھوک اور پیاس ستاتی ہے، اس کے معمولات ٹوٹتے ہیں، جس کی وجہ سے اس کی زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے۔ آدمی کا جسم کمزوری اور بے بسی کا تجربہ کرتاہے۔ اس وقت آدمی کے اندر دل شکستگی پیدا ہوتی ہے ۔ وہ خدا کی طرف رجوع ہو کر اس کو پکارنے لگتا ہے— خدایا، تو میری زندگی میںدو تعب کو جمع نہ کر۔ میں نے دنیا میں بہت تعب اٹھایا، اب تو آخرت کے تعب سے مجھ کو بچالے۔ یہی دعائے رمضان ہے اور یہی رمضان کا خلاصہ۔
واپس اوپر جائیں

عظیم ترین گواہی

حدیث کی مشہور کتاب صحیح مسلم میں ایک تفصیلی روایت آئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانے میں امتِ محمدی کا ایک فرد اٹھے گا جو اُس زمانے کے فتنۂ کبریٰ کو ختم کرے گا۔ یہ خاتمہ حجت اور دلائل کے ذریعہ ہوگا۔ یہ واقعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اتنا بڑا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے بارے میں فرمایا: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین (کتاب الفتن) یعنی یہ اللہ رب العالمین کے نزدیک، تاریخ کی سب سے بڑی گواہی ہوگی۔
حالات بتاتے ہیں کہ وہ وقت پوری طرح آچکا ہے، جب کہ کچھ لوگ اٹھیں اور اِس رول کو انجام دیں۔ اِس معاملے میں اب مزید تاخیر کا وقت باقی نہیں رہا۔ یہ حدیث اور اِس طرح کے دوسرے نصوص، دراصل ایک امکان کو بتارہے ہیں، نہ کہ کسی فرد یا افراد کے کارنامے کو۔ یہ قیامت سے پہلے کا ایک رول ہے جس کی طرف دوڑنے والوںکو دوڑنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس معاملے میں ’’آنے والے‘‘ کاانتظار اور خود اپنے کو ’’آنے والا‘‘ بتانا، دونوں ہی یکساں طورپر غلط ہیں:
Waiting for a ‘‘coming person’’ or claiming ‘‘I am that person’’, both are equally wrong.
عظیم شہادت کا تعلق، عظیم امکانات سے ہے، نہ کہ صرف ایک فرد کے کارنامے سے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دورِ آخر میں ایسے عظیم مواقع ظہور میںآئیں گے جن کو استعمال کرکے عظیم دعوتی واقعہ انجام دینا ممکن ہوجائے گا۔
مشہور برٹش سائنس داں سرآئزاک نیوٹن کا ایک خط (1704ء) حال میں یروشلم کے ایک میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا گیا۔ اِس خط میں نیوٹن نے لکھا تھا کہ موجودہ دنیا 2060 میں ختم ہوجائے گی۔ اِس واقعہ کی رپورٹ دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (18 جون 2007) میں اُس کے صفحۂ اول پر چھپی ہے۔ اِس خبر کاعنوان یہ ہے:
Newton saw end of world in 2060
سر آئزاک نیوٹن (وفات:1727 ء)نے اپنی یہ تحریر کلاسکل لاز آف گریوٹی اینڈ موشن (Classical Laws of Gravity and Motion) کی روشنی میں میتھ میٹکل کیلکولیشن کے ذریعہ ظاہر کی تھی۔ یہ اندازہ اتنا عجیب تھا کہ لوگوں نے اس کو نیوٹن کی زندگی کا توہماتی پہلو (superstitious side) قرار دیا۔ یہ خط پہلی بار 1969 میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ اب اس کو یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی میں ایک مخصوص نمائش (Newton's Secrets) میں رکھا گیا ہے۔
موجودہ دنیا کے خاتمے کے بارے میں نیوٹن نے جو بات حسابی اندازے کے تحت کہی تھی، وہ اب مشاہداتی سائنس کے تحت ایک معلوم واقعہ بن چکی ہے۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جو کلائمیٹ چینج کا واقعہ پیش آرہا ہے، اُس کی روشنی میں مغربی سائنس داں یہ کہہ رہے ہیں کہ 2010 تک موجودہ دنیا کا لائف سپورٹ سسٹم بہت زیادہ بگڑ جائے گا، اور2050 تک شاید زمین پر ہر قسم کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔
قرآن اور حدیث میں واضح طورپر اِس واقعہ کی پیشین گوئی موجود ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق، خدا نے یہ دنیا محدود مدت کے لیے بنائی تھی، اور اب وہ نشانیاں ظاہر ہوچکی ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہ محدودمدت اپنے آخری خاتمے کے قریب ہے۔قرآن اور حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے خاتمے سے پہلے یہاں ایک آخری دعوتی اعلان کیا جائے گا، تاکہ انسانی نسلیں آخری طورپر جان لیں کہ اب وہ وقت آچکا ہے جب کہ انھیں خالقِ کائنات کے سامنے آخری پیشی کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ اور اُس کے بعد ہر ایک کے لیے یا تو ابدی جنت ہے یا ابدی جہنم۔
قیامت سے پہلے یہ آخری اعلان معجزاتی طورپر نہیں ہوگا، بلکہ اسباب و علل کے ذریعے ہوگا۔ حالات بتاتے ہیں کہ وہ اسباب اب پوری طرح موجود ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ اٹھنے والے اٹھیں اور پیدا شدہ مواقع کو استعمال کرکے آخری طورپر خدا کے دین کا اعلانِ عام کردیں۔ غالباً اسرافیل اپنا صور لیے ہوئے اِسی آخری اعلانِ حق کا انتظار کررہے ہیں۔حدیث میں جس چیز کو عظیم ترین شہادت یا عظیم ترین دعوت کہاگیا ہے، اُس کے امکانات کامل طور پر ظہور میںآچکے ہیں۔ اب ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ اِن امکانات کو استعمال کرکے اِس کارِ عظیم کو عملاً انجام دے دیا جائے۔
گلوبل وارمنگ یا موجودہ دنیا کے خاتمے کی بات کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ براہِ راست طورپر خدا کے قانون سے جُڑی ہوئی ہے۔ موجودہ دنیا جو انسان کو ملی ہوئی ہے، وہ اُس کو نہ حق (right) کے طور پر ملی ہے اور نہ انعام(reward) کے طورپر، اور نہ ایسا کہ وہ اتفاقی طورپر انسان کو مل گئی ہو بلکہ انسان یہاں امتحان کے طورپر رکھا گیا ہے۔ امتحان کی مدت پوری ہونے کے بعد انسان اِس دنیا میں رہنے کا جواز کھودیتا ہے۔یہ معاملہ بالکل امتحان ہال جیسا ہے۔ طالبِ علم کو امتحانی پرچہ کرنے کے لیے ایک محدود مدت تک امتحان ہال کے اندر رکھا جاتا ہے۔ یہ مدت پوری ہوتے ہی طالبِ علم کو امتحان ہال سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر موجودہ دنیا کا ہے۔
جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے، انسانوں کے درمیان برابر خداکے پیغمبر آتے رہے۔ انھوں نے انسان کو خدا کی طرف سے پیغام دیا۔ جب پیغمبر کی مخاطَب قوم نے پیغمبر کی بات نہ سُنی تو اِتمامِ حجت کے بعد اُس قوم کو تباہ کردیا گیا۔ یہ واقعہ ماضی میں بار بار ہوتا رہا۔
قدیم مثالوں میں اتمامِ حجت کا واقعہ مقامی طورپر ہوتا تھا، اِس لیے اتمامِ حجت کے بعد صرف محدود آبادی کو تباہ کیا جاتا تھا۔ اب جدید ترقیوں کی بنا پر ایسا ہورہا ہے کہ عالمی سطح پر اتمامِ حجت کا واقعہ انجام پارہا ہے، اس لیے اب اتمامِ حجت کے بعد جو تباہی آنے والی ہے، وہ عالمی تباہی ہوگی۔ اِسی کا نام قیامت ہے۔ قیامت اُسی اصول کا عالمی انطباق ہے جس کا انطباق پہلے صرف مقامی طورپر ہوا کرتا تھا۔
حدیث میں آیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ اسلام کا کلمہ ساری دنیا کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں داخل ہوجائے گا (لایبقیٰ علیٰ وجہ الأرض بیت مدرٍ ولا وبَرٍ إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃَ الإسلام) کلمۂ اسلام کا یہ عمومی داخلہ یقینی طورپر اسباب کے تحت پیش آئے گا۔ قدیم زمانے میں اس کے اسباب موجود نہ ـتھے۔ اب موجودہ زمانے میں ماڈرن کمیونکیشن کی صورت میں یہ اسباب پوری طرح انسان کی دست رس میں آچکے ہیں۔ اب یہ پوری طرح ممکن ہوگیاہے کہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اور ملٹی میڈیا کو استعمال کرکے کلمۂ اسلام کو ساری دنیا میں پہنچا دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

ایک دورِ حیات کا خاتمہ

جون 2007 کے پہلے ہفتے میں جرمن (برلن) میںجی آٹھ (G-8) کی ایک کانفرنس ہوئی ۔ ترقی یافتہ ملکوں کے سربراہ اُس میں شریک ہوئے۔ اس کے ایجنڈے میں نمایاں طورپر گلوبل وارمنگ کا مسئلہ تھا۔ لمبی بحث کی باوجود کوئی پروگرام طے نہ ہوسکا۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار (ٹائمس آف انڈیا، 10 جون 2007 ) میںاِس اہم میٹنگ کی رپورٹ چھپی ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے— اتنے زیادہ مفلس کہ وہ دنیا کو بچا نہیں سکتے:
Too broke to save the world
گلوبل وارمنگ کے بارے میں آج کل روزانہ میڈیا میں خبریں آرہی ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس داں یہ بتارہے ہیں کہ دنیا کی کلائمیٹ(climate) خطرناک طورپر بدل رہی ہے۔ 2015 تک، یعنی اب سے صرف آٹھ سال کے اندر زمین پر لائف سپورٹ سسٹم اتنا زیادہ بگڑ چکاہوگا کہ یہاں زندگی کی بقا اور نشو ونما ممکن نہیں رہے گی۔
یہ سادہ طورپر موسم میں تغیر کی بات نہیں ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ خدا نے انسان کو اور انسانی تہذیب کو رد کردیا ہے۔ انسان نے موجودہ زمین پر مزید رہنے کا جواز کھودیا ہے۔ اب وہ وقت بالکل قریب آگیا ہے جب کہ خدائی نقشے کے مطابق، پہلا دورِ حیات ختم ہوجائے اور دوسرا دورِ حیات شروع ہو، یعنی عالمِ آخرت کا دورِ حیات۔
خدا نے موجودہ دنیا کو انسان کے لیے تیاری کی دنیا (preparatory ground) کے طور پر بنایا تھا۔ یہاں وہ تمام چیزیں مہیّا کی گئی تھیں جن کے ذریعے آدمی اپنے آپ کو جنت کے قابل بنائے۔ اِس دنیا کی ہر چیز سامانِ تیاری تھی، نہ کہ سامانِ عیش۔ مگر انسان نے خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) سے سرتابی کی۔ اُس نے موجودہ دنیا کو اپنے لیے مقامِ عیش سمجھ لیا اور اُس نے زندگی کا یہ فارمولا بنایا:
Eat, drink and be merry.
اس طرح انسان نے خدا کے تخلیقی نقشے کو بدل دیا۔ یہاں تک کہ اس نے موجودہ تہذیب پیدا کی جو آخری معنوں میں اِسی فارمولے پر قائم ہے۔ خدا نے ہزاروں سال تک انتظار کیا کہ انسان اپنی روش پر نظر ثانی کرے۔ وہ خدا کی دنیا میں اپنا ذاتی ایجنڈا چلانا بند کردے۔ وہ اپنی اصلاح کرکے خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ وہ موجودہ دنیا کے مواقع کو اِس مقصد کے لیے استعمال کرے کہ وہ خدا کا وہ مطلوب بندہ بن جائے جس کو خدا اپنی ابدی جنت میں بسانے کے لیے منتخب کرے گا۔
مگر انسان اپنی روش پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار نہیں، یہاں تک کہ انسان کے اوپر خدا کی حجت تمام ہوگئی۔ اب انسان نے وہ جواز کھودیا جس کے تحت وہ زمین پر بسا ہوا تھا— موجودہ گلوبل وارمنگ دراصل اِسی حقیقت کا پیشگی انتباہ ہے۔
اِس صورتِ حال میںہر مذہب کے لوگوں کی یہ ذمّے داری تھی کہ وہ دنیا کو آنے والے بھیانک خطرے سے آگاہ کریں۔ وہ لوگوں کو بتائیں کہ اب تیاری کا آخری موقع ختم ہونے والاہے۔ کسی تاخیر کے بغیر ہوشیار ہوجاؤ اور خدا کے نقشے کے مطابق، زندگی گذارنا شروع کردو۔
لیکن ہر مذہب کے لوگ، بشمول مسلمان، کسی ’’آنے والے‘‘ کا انتظار کررہے ہیں۔ ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ کوئی آنے والا پُر اسرار طورپر آئے گا او رمعجزاتی طاقت کے ذریعے وہ سارے کام کو انجام دے دے گا۔ مگر یہ سخت بھول کی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی پُر اسرار ہستی آنے والی نہیں۔ جو چیز آنے والی ہے، وہ صرف قیامت ہے۔ اور قیامت جب آئے گی تو وہ کسی کے ساتھ بھی رعایت نہیںکرے گی۔ اُس کا معاملہ ہر ایک کے ساتھ یکساں ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

کشمیر: ایک جائزہ

کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ بابر(وفات: 1530)نے جب کشمیر کو دیکھا تو اُس نے کشمیر کو ’’جنت نظیر‘‘ کا نام دیا۔ اس نے کہا:
اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمین است وہمین است و ہمین است
یہ قبل از جہاد کے دور کا کشمیر تھا۔ بابر اگر بعد از جہاد کے کشمیر کو دیکھتا تو شاید وہ کہتا کہ پہلے میں نے کشمیر کو جنت نظیر کہا تھا، لیکن اب میں اپنے قول کو واپس لیتا ہوں۔ کیوں کہ اب کشمیر کی پہچان بدل چکی ہے۔
کشمیر اپنے قدرتی اوصاف کی بنا پر عرصے سے فطرت اور روحانیت کا خوب صورت امتزاج بنا ہوا تھا۔ یہاں کے روحانی ماحول کی وجہ سے مسلم صوفیوں کو یہاں بہت کامیابی حاصل ہوئی۔ یہاں مذہب اور روحانیت کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ نام نہاد جہاد سے پہلے کشمیر کو جن لوگوں نے دیکھا ہے، وہ اِس بیان کی مکمل تصدیق کریں گے۔
یہ کشمیر کی خوش قسمتی تھی کہ پچھلے چند سو سالوں میں یہاں باہر سے جو مسلم صوفی آئے، یا مقامی طورپر جو صوفی پیداہوئے، وہ سب کے سب امن اور محبت کا پیغام دینے والے تھے۔ اِس کے نتیجے میں کشمیر میں زبردست اِنقلاب آیا۔ کشمیر میں اسلام کو غیر معمولی طورپر فروغ حاصل ہوا۔ اگر چہ اب یہ پراسس تقریباً رک گیا ہے۔
شیخ نور الدین نورانی کشمیر کے صوفیوں میں سے ایک صوفی تھے۔ کشمیر کے لوگوں میں عام طورپر وہ ’’علَم دارِ کشمیر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ہندو لوگ انھیں پیار سے ’’نند رِشی‘‘ کہتے تھے۔ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں طورپر مقبول تھے۔ قصہ چَرار شریف (کشمیر) میں ان کی درگاہ تھی جو کہ سری نگر سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ درگاہ 11 مئی 1995 کو ایک بھیانک آگ سے جل کر راکھ ہوگئی۔
شیخ نور الدین نورنی فیروز شاہ تغلق کے ہم عصر تھے۔ وہ 1377 ء میں کشمیر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اور 1439 ء میں چرار کے مقام پر ان کی وفات ہوئی۔ پندرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں کشمیر کے حاکم زین العابدین نے شیخ نورانی کی قبر کی جگہ پر ایک بڑا مقبرہ تعمیر کیا۔ اس کے بعد انیسویں صدی عیسوی میں پٹھانوں کی حکومت کے زمانے میں اس درگاہ کی مزید توسیع ہوئی اور اس کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی۔
چرار شریف کی اِس درگاہ میں شیخ نورالدین نورانی کی قبر کے ساتھ گیارہ اور صوفیوں کی قبریں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی مقدس تاریخی یادگاریں وہاں رکھی ہوئی تھیں۔ مثلاً حضرت فاطمہ کے تبرکات، وغیرہ جو آگ کی نذر ہوگیے۔
افغانی گورنر عطا محمد خاں شیخ نورانی سے بہت متاثر تھا۔ اس نے اپنی عقیدت کے اظہار کے طورپر انیسویں صدی کے آغاز (1808-1810) میں شیخ نورالدین نورانی کے نام کا سکہ جاری کیا۔ اس افغانی گورنر نے درگاہ کی مزیدتوسیع کرکے اس میں مسجد کا اضافہ کیا۔
کشمیر کے مشہور بزرگ سید امیر کبیر علی ہمدانی (وفات: 1384 ء) اور ان کے ساتھیوں کی کوشش سے کشمیر میںایک روحانی بیداری آگئی تھی۔ اس زمانے میں مقامی صوفیوں اور بزرگوں کا ایک پورا گروہ پیدا ہوگیا۔ ان لوگوں کو عام طورپر بابا یا رِشی کہا جاتا تھا۔
یہ مسلمان رشی نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ وہ ہندو اور مسلمان دونوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ان مسلمان رشیوں میں سب سے زیادہ شہرت شیخ نورالدین نورانی نے پائی۔ ہندوؤں میں بھی وہ اتنا ہی مقبول و محبوب تھے جتنا کہ مسلمانوں میں(آبِ کوثر، از شیخ محمداکرام، صفحہ 381)
شیخ نور الدین نورانی کی ابتدائی زندگی مصیبتوں میں گزری۔ وہ دنیا والوں کی حالت دیکھ کر غمگین رہتے تھے، آخر کار انھوں نے بستی کو چھوڑ دیا۔ اور وہ پہاڑ میں جاکر تنہا ایک غار میں رہنے لگے۔ کہاجاتا ہے کہ وہ 12 سال تک اسی غار میں مراقبہ کرتے رہے۔ یہ غار اب تک وہاں موجود ہے۔ اور دس فٹ گہرا ہے۔ آخر عمر میں ان کا حال یہ تھا کہ وہ روزانہ صرف ایک پیالہ دودھ پر گزارہ کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں وہ بہت کمزور اور لاغر ہوگیے۔ اور صرف 63 سال کی عمر میں انتقال کرگیے۔ یہ سلطان زین العابدین کا زمانہ تھا۔
ایک کتاب ہے جس کا نام ’نورنامہ‘ ہے۔ اِس کتاب میں شیخ نور الدین نورانی کے صوفیانہ اقوال جمع کیے گیے تھے۔ اِس کتاب کو بابا نصیب الدین غازی نے فارسی زبان میں مرتب کیا تھا۔ یہ کتاب شیخ نورانی کے انتقال کے دو سو سال بعد تیار کی گئی۔
چرار شریف میں شیخ نور الدین نورانی کی درگاہ کا طرزِ تعمیر بالکل بُدھوں کے پگوڈا جیسا تھا۔ یہ عمارتی اسٹائل گویا اس بات کی علامت تھا کہ شیخ نورالدین نورانی کٹر پن سے بہت دور تھے۔ وہ صلحِ کُل (peace with all)کی پالیسی کو پسند کرتے تھے۔
شہنشاہ جہاں گیر ان کا معتقد تھا۔ اس نے شیخ نورالدین نورانی اور ان کے پیروؤں کے بارے میں کہا تھا کہ —یہ رشی نہ کسی کو بُرا کہتے ہیں اور نہ کسی سے کوئی چیز مانگتے ہیں۔ یہ دو لفظ میں شیخ نورالدین نورانی اور ان کے ماننے والوں کی صحیح اور جامع تصویر ہے۔
شیخ نور الدین نورانی سچی کشمیریت کی علامت تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ— اگر تو دانش مند ہے تو ہندو اور مسلمان کو الگ الگ انسان نہ سمجھ، یہی خدا سے ملنے کا راستہ ہے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ چناں چہ ان کا کلام کشمیر کے ایک شاعر نے ’رِشی نامہ‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ نورالدین نورانی کے نزدیک انسان کی ایک ہی پہچان تھی،وہ یہ کہ انسان انسان سے پیار کرے۔ ان کے نزدیک انسان سے پیار ہی خدا کی پہچان کا راستہ ہے۔
شیخ نور الدین نورانی ایک صوفی بزرگ تھے۔ وہ روحانیت اور انسانیت اور پیار کو سب سے زیادہ اہم سمجھتے تھے۔ کسی کا دل دکھانا یا کسی کو نقصان پہنچانا، ان کے نزدیک سب سے بڑا گناہ تھا ۔ وہ انسان کی زندگی میں فطرت کا حسن دیکھنا چاہتے تھے۔
شیخ نور الدین نورانی کے قیمتی اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ— میں نے تلوار توڑ دی اور اُس سے درانتی بنالی۔ یہ قول شیخ نورانی کے فکر کا خلاصہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے لوہا بنایا جس میں خصوصی طاقت ہے، مگر لوہا اس لیے نہیں ہے آپ اس کو تشدد کے لیے استعمال کریں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ لوہے کو تعمیر انسانیت کے لیے استعمال کریں۔ آپ لوہے سے تلوار کے بجائے درانتی بنائیں جو زراعت کے کام آتی ہے۔
اِسی طرح انھوں نے کہا کہ —جنگل ہوں گے تو اناج ہوگا۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ جنگل سے بارش ہوگی اور بارش سے کھیتوں میں فصل اُگے گی۔ اِسی کے ساتھ اس قول کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں ایک کو دوسرے کے ساتھ تعاون کا معاملہ کرنا ہے۔ باہمی تعاون کے بغیر اس دنیا میں کوئی تعمیری نتیجہ بر آمد نہیں ہوسکتا۔
شیخ نورا لدین نورانی کے اقوال کشمیری زبان میں ہیں۔ یہ اقوال، انسانیت اور روحانیت کی اسپرٹ سے بھر پور ہیں۔ کچھ مزید اقوال کا ترجمہ یہ ہے:
کام، کرودھ، لوبھ، موہ اور اہنکار یہ سب انسان کو دوزخ میں بھیجنے کے لیے کافی ہیں۔
اپنے جسم کا سنگار کرنے سے من کا میل نہیں ہٹتا۔
ایک ہی ماں باپ کے بیٹے ہیں، ان کو خدا کا دامن تھامنا چاہیے۔ کیا مسلمان اور کیا ہندو، اللہ کی رحمت دونوں کے لیے برابر ہے۔
شیخ نور الدین نورانی کا زمانہ چودھویں صدی عیسوی کا نصف آخر اور پندرھویں صدی کا نصف اوّل ہے۔ وہ ایک صوفی آدمی تھے۔ انھوںنے اپنے طریقِ کار کو اِن لفظوں میں بیان کیا تھا کہ— میں نے تلوار توڑ دی اور اس سے درانتی بنالی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ میں نے تشدد کا طریقہ چھوڑ کر امن اور محبت کا طریقہ اختیار کرلیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر نہ صرف ایک پُر امن علاقہ بن گیا، بلکہ وہاں اسلام اتنی تیزی سے پھیلا کہ کشمیر کی بہت بڑی اکثریت اسلام کے دائرے میں داخل ہوگئی۔
لیکن اکتوبر 1989 سے کشمیر میں ایسے لوگ اُبھرے جو برعکس اصول پر یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے برعکس طور پر یہ کیا کہ اپنی ’’درانتی‘‘ کو توڑ کر اُس سے ’’تلوار‘‘ بنالی۔ انھوں نے جہاد کے نام پر پوری ریاست میں نفرت اور تشدد پھیلادیا۔ جس کا نتیجہ اب بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔
اِس خود ساختہ جہاد کانتیجہ ناقابلِ بیان نقصانات کی صورت میں نکلا۔ کشمیر میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان خوش گوار تعلقات ختم ہوگیے۔ سیاحت کی انڈسٹری پر تباہ کن اثر پڑا۔ اقتصادی ترقی رک گئی۔ دعوت کا عمل ختم ہوگیا۔ لوگوں کے اندرمایوسی اور منافقت پیدا ہوگئی۔ ایک لاکھ سے زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں، وغیرہ۔
کشمیر میں مسلّح تحریک شروع ہونے سے ایک مہینے پہلے میں سری نگر گیا تھا۔ وہاں کے ’ٹیگور ہال‘ میں میری تقریر ہوئی۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ یہاں مسلح تحریک شروع ہونے والی ہے۔ میں نے اپنی تقریر میں پیشگی طورپر یہ کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک بدو مدینہ آیا اور اُس نے مسجدنبوی میں پیشاب کر دیا۔ رسول اللہ نے اُس کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی۔ آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ جہاں اس نے گندہ کیا ہے اُس پر پانی بہا دو، وہ صاف ہوجائے گا۔ اِس حسنِ اخلاق کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بدو اور اس کا پورا قبیلہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوگیا۔ میںنے کہا کہ پیغمبراسلام نے جو نتیجہ پانی بہا کر حاصل کیا تھا، اُس کو آپ خون بہا کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ اور ایساہونا کبھی ممکن نہیں۔
اب اِس تقریر پر تقریبا بیس سال گذر چکے ہیں۔ اللہ کی توفیق سے جو کچھ میں نے اُس وقت کہا تھا، وہ اب لفظ بہ لفظ واقعہ بن چکا ہے۔ لوگ اندر سے اپنی غلطی کو محسوس کررہے ہیں، لیکن اب بھی وہ کھلے طورپر اس کا اعتراف نہیں کرتے۔
پاکستان کے مشہور روزنامہ ’نوائے وقت‘ کے سنڈے میگزین (13 مئی 2007) کے صفحہ دو پر ایک مضمون چھپا ہے، اس کے لکھنے والے مسٹر طاق اسمٰعیل ساگر ہیں۔ اِس مضمون کا عنوان یہ ہے:
ہارٹ ٹوہارٹ کانفرنس اور مجاہد ِاوّل
اِس مضمون کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں کشمیری جہاد کے لیڈر سردار عبد القیوم خان اور انڈیا میں کشمیری جہاد کے لیڈر میر واعظ عمر فاروق، دونوں مسلح جہاد سے تائب ہو کر اب امن کی باتیں کررہے ہیں۔اب وہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے کو چھوڑچکے ہیں۔ مضمون میں سردار عبد القیوم خان کی طرف سے یہ الفاظ نقل کیے گیے ہیں: ’’موجودہ دَور میں کشمیرکی آزادی کی بات کرنا، احمقانہ سوچ ہے‘‘۔
کشمیری جہاد کے لیڈروں میں یہ تبدیلی بلا شبہہ خوش آئند ہے، لیکن اِن حضرات کو اس کا کوئی کریڈٹ ملنے والا نہیں۔ اِس لیے کہ وہ آج امن کی بولی تو بول رہے ہیں، لیکن انھوں نے کھلے لفظوں میں یہ اعلان نہیں کیا کہ اِس سے پہلے انھوں نے جو کچھ کیا، وہ بالکل غلط تھا۔ انھوں نے کشمیری قوم کی غلط رہنمائی کی۔ ان حضرات کے لیے کسی نیے رول کا آغاز اعتراف سے ہوتا ہے۔ اگر وہ کھلے طور پر اعتراف نہ کریں تو کسی نیے رول کا آغاز بھی اُن کے لیے مقدر نہیں ۔
جہاں تک راقم الحروف کا تعلق ہے، میں پہلے دن سے نام نہاد کشمیری تحریک کو بے اصل سمجھتا رہا ہوں۔ میرا کہنا یہ رہا ہے کہ اِس طرح کے واقعات تاریخ کے ذریعے ظہور میں آتے ہیں، نہ کہ موجودہ قسم کی تحریک کے ذریعے۔ میرا ماننا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ انڈیا کی آزادی کے وقت ہی ہوچکا ہے۔ اب نہ اُس کو باقاعدہ جنگ کے ذریعے بدلا جاسکتا ہے اور نہ گوریلا وار کے ذریعے۔ اِس قسم کی ہر کوشش مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے۔ اُس کو مزید دہرانا، صرف اپنے نقصان میں اضافے کے ہم معنیٰ ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ انڈیا ہر اعتبار سے پاکستان سے بہت زیادہ ترقی کررہا ہے۔ ایسی حالت میں کشمیر کے لیے بہترین چوائس انڈیا ہے، نہ کہ پاکستان۔ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کے ساتھ جُڑنا، ایک ترقی یافتہ ملک کے ساتھ جڑنا ہے۔ اور پاکستان کے ساتھ جڑنا، ایک ایسے ملک کے ساتھ جڑنا ہے جو ابھی تک ترقی کی طرف اپنا سفر بھی شروع نہ کرسکا۔
واپس اوپر جائیں

جنگ میں پہل نہیں

قرآن کی سورہ نمبر 9 میں ارشاد ہوا ہے: ألا تقاتلون قوماً نکثُوا أیمانہم وہمُّوا بإخراجِ الرّسولِ وہُم بدَء وکُم أوَّلَ مَرَّۃٍ (التوبۃ:13 ) یعنی کیا تم نہ لڑوگے ایسے لوگوں سے جنھوں نے اپنے عہد توڑ دیے اور رسول کو نکالنے کی جسارت کی، اور وہی ہیں جنھوں نے تم سے جنگ میں پہل کی۔
اِس آیت کی تشریح میںصاحب التفسیر المظہری نے لکھا ہے: وہم بدء وکم بالقتال أوّل مرّۃ، لأنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بَدَأ بالدَّعوۃِ وإلزام الحجۃ بالکتاب والتحدّی بہ، فعدلوا عن معارضتہ إلی المعاداۃ والمقاتلۃ، حتّیٰ اجتمعوا فی دارالندوۃ وأجمعوا علیٰ قتلہ (جلد 4، صفحہ 144)
یعنی انھوں نے تم سے جنگ میں پہل کی۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت سے آغاز کیا۔ اور کتاب اللہ کے ذریعہ حجت قائم کرنے سے اور اُس کے ذریعہ تحدّی کرنے سے مگر انھوں نے اُس کے جواب میں انحراف کیا اور دشمنی اور جنگ کا طریقہ اختیار کرلیا۔ یہاں تک کہ دار الندوہ میں اکھٹا ہوکر انھوں نے آپ کے قتل کا فیصلہ کرلیا۔
قرآن کی اِس آیت کے دو پہلو ہیں۔ ایک،یہ کہ ’’وہُم بدء وکم‘‘ میں جس ابتدا کا ذکر ہے، اُس سے مشرکین کی طرف سے کیا جانے والا کون سا واقعہ مراد ہے۔ اِس معاملے میں مفسرین کی ایک رائے نہیں۔ مفسرین نے مشرکوں کی طرف سے کیے جانے والے مختلف واقعات کو اِس کا مصداق قرار دیا ہے۔
آیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اُس سے ایک اصولی حکم نکلتا ہے۔ وہ یہ کہ جنگ کے معاملے میں بَدْء(آغاز) اہلِ اسلام کی طرف سے نہیں ہوگا، بلکہ فریقِ ثانی کی طرف سے ہوگا۔ فریقِ ثانی کی طرف سے جب تک جارحانہ آغاز نہ کیا جائے، اہلِ اسلام پُرامن طریقِ کار کے مطابق، اپنا دعوتی مشن جاری رکھیں گے۔ البتہ جب فریقِ ثانی کی طرف سے جارحیت کا آغاز کردیا جائے تو اُس کے بعد اہلِ اسلام کے لیے جائز ہوجاتا ہے کہ وہ دفاع کے طورپر فریقِ ثانی سے جنگی مقابلہ کریں۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت پسندانہ مزاج

نئی دہلی میں انڈیا گیٹ کا علاقہ بہت خاص علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ شام کے وقت یہاں لوگ سیروتفریح کے لیے آتے ہیں۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ ایک شخص وہاں آیا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی اور اس کا بچہ تھا۔ بچے نے اپنے باپ سے آئس کریم کی فرمائش کی۔ باپ نے فوراً اپنی جیب سے ایک نوٹ نکالا۔ اس نے آئس کریم کا ایک پیکٹ خریدا اور پھر تینوں کھڑے کھڑے آئس کریم کھانے لگے۔ میں نے اُس آدمی کے چہرے کو دیکھا تو اس کے چہرے پر فخر کی چمک تھی۔ گویا کہ خاموش انداز میں وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میری جیب میں پیسہ ہے اور میں اپنے پیسے سے آئس کریم خرید کر اپنے بچے کی فرمائش پوری کرسکتا ہوں۔ یہ پورا واقعہ اُس کے نزدیک ’’میں‘‘ کاکارنامہ تھا۔ اِس کے لیے اُسے کسی اور کا احسان مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
یہی تمام انسانوں کا حال ہے۔ تمام عورت اور مرد اِسی احساس میں جی رہے ہیں۔ اِس احساس نے لوگوں کے اندر سے تواضع(modesty) کا جذبہ چھین لیا ہے۔ ہر آدمی کا کیس کبر (arrogance) کا کیس بنا ہوا ہے۔ ہر عورت اور مرد کا صرف ایک مذہب ہے، اور وہ ایگوازم (egoism)ہے۔ اِس ایگوکلچر نے ہر ایک کو خود پسند اور سرکش اور متکبر بنا دیا ہے۔ لوگوں کا یہ مزاج صرف اُس وقت تک چھپا رہتا ہے، جب تک ان کی انا کو چھیڑا نہ جائے۔ اَنا کو چھیڑتے ہی ہر آدمی بتا دیتا ہے کہ وہ کبر کا کیس تھا۔ اگر چہ وہ بظاہر متواضع (modest) بنا ہوا تھا۔
یہ مزاج سرتاسر غیر حقیقت پسندانہ مزاج ہے۔ اگر آدمی حقیقتِ واقعہ پر غور کرے تو وہ کبھی بھی متکبرنہ بنے۔ کیوں کہ اِس دنیا میں کسی کے لیے متکبر بننا مضحکہ خیز حد تک بے معنیٰ ہے۔ چناںچہ کوئی سائنٹسٹ کبھی متکبر نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اُس کا میدانِ مطالعہ علومِ قطعیہ(exact sciences) ہوتے ہیں۔ اِس بنا پر اس کے اندر اپنے آپ حقیقت پسندی کا مزاج آجاتا ہے۔ ہر سائنٹسٹ، شعوری یا غیر شعوری طورپر جانتا ہے کہ اس کو کامل طورپر حقیقتِ واقعہ کی پابندی کرنا ہے۔ اگر وہ حقیقتِ واقعہ سے ذرا بھی ہٹے تو وہ مطلوب نتیجے تک پہنچنے سے محروم رہ جائے گا۔ گویا کہ اگزیکٹ سائنس، اس کے اندر اگزیکٹ تھنکنگ کا مزاج بناتی ہے۔ اور ایگزیکٹ تھنکنگ ہی کا دوسرا نام حقیقت پسندی ہے۔
اب انڈیا گیٹ کے مذکورہ واقعہ کو لیجیے۔ آدمی کے اندر فخر کا جذبہ کیوں آیا۔ صرف اس لیے کہ اس کے اندر سائنسی مزاج، بالفاظ دیگر، حقیقت پسندانہ مزاج موجود نہ تھا۔ اگر اس کے اندر صحیح مزاج موجود ہوتا تو آئس کریم کا پیکٹ اس کے تواضع میںاضافہ کرتا نہ کہ فخر اور گھمنڈ میں، جیسا کہ عملاً پیش آیا۔
آئس کریم کیا ہے۔ آئس کریم ایک عظیم تحفہ ہے۔ آئس کریم کو وجود میں لانے میں ایک طرف نیچر کا طویل کائناتی عمل شامل ہے، اور دوسری طرف انسان کی تہذیبی جدوجہد کا لمبا سفر اس کو وجود میں لانے میں سرگرم رہا ہے۔ اِس طرح ناقابلِ یقین حد تک ایک پُراز واقعات تاریخ کے نتیجے میں وہ وقت آیا کہ ایک شخص کو خوب صورت کیس میں پیک کی ہوئی آئس کریم حاصل ہوسکے۔
ایک سائنسی نظریے کے مطابق، تقریباً دس بلین سال پہلے وسیع کائنات گیسوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے بعد لمبے عمل کے نتیجے میں ہائڈروجن اور آکسیجن مخصوص تناسب میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے۔ اِس کے نتیجے میں پانی وجود میںآیا۔ اس کے بعد لمبی مدت تک زمین پر پانی برستا رہا۔ اس کے نتیجے میں زمین پر پانی کے ذخیرے اکھٹا ہوگیے۔ اس کے بعد حیوانات وجود میں آئے۔ آخر میں انسان اِس زمیں پر آباد ہوا۔
اِس طرح لمبی مدت کے عمل کے نتیجے میں دودھ دینے والے جانور پیدا ہوئے۔ پھر انسانی تہذیب کا عمل شروع ہوا۔ انسانی تہذیب ہزاروں سال تک ایک ارتقائی سفر طے کرتی رہی۔ اس نے حیوانات سے دودھ حاصل کیا۔ پھر اِس د ودھ کے مختلف مرکبات بنائے۔ پھر جدید صنعت ظہور میں آئی۔ اس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ دودھ کو آئس کریم کی شکل میں ڈھالا جاسکے۔ اور اس کو خوب صورت پیکٹ میں پیک کرکے بازار میں لایا جائے۔
عالمِ فطرت اور انسانی تہذیب دونوں کے اس لمبے مشترک عمل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج جب ایک آدمی چند روپیے دے کر بازار سے آئس کریم کا پیکٹ حاصل کرتا ہے تو اِس پورے عمل (process) کے مقابلے میں آدمی کا اپنا حصہ ایک فی بلین سے بھی بہت زیادہ کم ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی کے ہاتھ میں جب آئس کریم کا پیکٹ آئے تو وہ سرتاپا تواضع میں ڈھل جائے۔ دوطرفہ احسان مندی کے جذبے سے اُس کی گردن جھک جائے۔ فخر اور گھمنڈ کاکوئی ذرہ بھی اس کے دل میں باقی نہ رہے۔
یہ صرف آئس کریم کا معاملہ نہیں۔ اِس دنیا میں ہر چیز کا معاملہ یہی ہے۔ کوئی بھی چھوٹی یا بڑی چیز جس کو آدمی استعمال کرتاہے، وہ اِسی طرح انسان کے لیے ایک عالمی عطیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک طرف فطری سپورٹ (natural support) اور دوسری طرف تہذیبی سپورٹ(civilizational support) ، اِن دونوں قسم کے عظیم سپورٹ کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی مرد یاعورت اِس زمین پر آباد ہو اور اپنے لیے ایک کامیاب زندگی حاصل کرسکے۔
اِس واقعے کا اِدراک انسان کے لیے بے حد اہم ہے۔ اِسی ادراک کے نتیجے میں انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیداہوتی ہے جس کو تواضع کہاجاتا ہے۔ یہی تواضع انسان کی اصل پہچان ہے۔ جس آدمی کے اندر تواضع نہیں، وہ گویا کہ انسان بھی نہیں۔
Flaw in creationists’ argument, by Paul Davies
We will never explain the cosmos by taking on faith either divinity or physical laws. True meaning is to be found within nature. Scientists are slowly waking up to an inconvenient truth - the universe looks suspiciously like a fix. The issue concerns the very laws of nature themselves. For 40 years, physicists and cosmologists have been quietly collecting examples of all to convenient "coincidences" and special features in the underlying laws of the universe that seem to be necessary in order for life, and hence conscious beings, to exist. Change any one of them and the result would be lethal. To see the problem, imagine playing God with the cosmos. Before you is a designer machine that lets you tinker with the basics of physics. Twiddle this knob and you make all electrons a bit lighter, twiddle that one and you make gravity a bit stronger, and so on. It happens that you need to set 30-something knobs to fully describe the world about us. The point is that some of those metaphorical knobs must be tuned precisely, or the universe would be sterile. Example: neutrons are just a tad heavier than protons. If it were the other way around, atoms could not exist, because all the protons in the universe would have decayed into neutrons shortly after the big bag. No protons, then no atomic nucleuses, and no atoms. No atoms, no chemistry, no life. Like Baby Bear's porridge in the story of Goldilocks, the universe seems to be just right for life. So what's going on? Fuelling the controversy is an unanswered question lurking at the very heart of science - the origin of the laws of physics. Where do they come from? Why do they have the form that they do? Traditionally, scientists have treated the laws of physic as simply "given," elegant mathematical relationships that were somehow imprinted on the universe at its birth, and fixed thereafter. Inquiry into the origin and nature of the laws was not regarded as a proper part of science.
Illusory impression
But the embarrassment of the Goldilocks enigma has prompted a rethink. The Cambridge cosmologist Martin Rees, president of The Royal Society, suggests the laws of physics aren't absolute and universal but more akin to local bylaws, varying from place to place on a mega-cosmic scale. A God's eye view would show our universe as merely a single representative amid a vast assemblage of universes, each with this own bylaws. Mr. Rees calls this system "the multiverse," and it is an increasingly popular idea among cosmologists. Only rarely within the variegated cosmic quilt will a universe possess bio-friendly laws and spawn life. It would then be no surprise that we find ourselves in a universe apparently customized for habitation; we would hardly exist in one where life is impossible. The multiverse theory cuts the ground from beneath intelligent design, but it falls short of a complete explanation of existence. For a start there has to be a physical mechanism to make all those universes and allocate bylaws to them. This process demands its own laws, or meta-laws. Where do they come from? The root cause of all the difficulty can be traced to the fact that both religion and science appeal to some agency outside the universe to explain its law-like order. Dumping the problem in the lap of a pre-existing designer is no explanation at all, as it merely begs the question of who designed the designer. But appealing to a host of unseen universes and a set of unexplained meta-laws is scarcely any better. This shared failing is no surprise, because the very notion of physical law has its origins in theology. The idea of absolute, universal, perfect, immutable laws comes straight out of monotheism, which was the dominant influence in Europe at the time science as we know it was being formulated by Isaac Newton and his contemporaries. Just as classical Christianity presents God as upholding the natural order from beyond the universe, so physicists envisage their laws as inhabiting an abstract transcendent realm of perfect mathematical relationships. Furthermore, Christians believe the world depends utterly on God for its existence, while the converse is not the case. Correspondingly, physicists declare that the universe is governed by eternal laws, but the laws remain impervious to events in the universe.
Outdated theory
I think this entire line of reasoning is now outdated and simplistic. We will never fully explain the world by appealing to something outside it that must simply be accepted on faith, be it an unexplained God or an unexplained set of mathematical laws. Can we do better? I propose that the laws are more like computer software: programmes being run on the great cosmic computer. They emerge with the universe at the big bang and are inherent in it, not stamped on it from without like a maker's mark. Man-made computers are limited in their performance by finite processing speed and memory. So too, the cosmic computer is limited in power by its age and the finite speed of light. Seth Lloyd, an engineer at MIT, has calculated how many bits of information the observable universe has processed since the big bang. The answer is one followed by 122 zeros. Crucially, however, the limit was smaller in the past because the universe was younger. Just after the big bang, when the basic properties of the universe were being forged, its information capacity was so restricted that the consequences would have been profound. Here's why. If a law is a truly exact mathematical relationship, it requires infinite information to specify it. In my opinion, however, no law can apply to a level of precision finer than all the information in the universe can express. Infinitely precise laws are an extreme idealization with no shred of real world justification. In the first split second of cosmic existence, the laws must therefore have been seriously fuzzy. Then, as the information content of the universe climbed, the laws focused and homed in on the life-encouraging form we observe today. But the flaws in the laws left enough wiggle room for the universe to engineer its own bio-friendliness. If there is an ultimate meaning to existence, as I believe is the case, the answer is to be found within nature, not beyond it. The universe might indeed be a fix, but if so, it has fixed itself.
(Paul Davies is director of Beyond, a research center at Arizona State University, and author of The Goldilocks Enigma.)
واپس اوپر جائیں

سائنس اور الہٰیات

پروفیسر پال ڈیویز(Paul Davies) مشہور امریکی رائٹر ہیں۔ وہ ایری زونا اسٹیٹ (Arizona State) یونیورسٹی میں ایک ریسرچ سنٹر (Beyond) کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی ایک کتاب کا نام گولڈی لاکس انِگما(Goldilocks Enigma) ہے۔ حال میں ان کا ایک مقالہ مجلّہ گارجین (Guardian Newspapers Limited 2007) میں چھپا ہے۔ اِس مقالے کو انگریزی اخبار ہندو(The Hindu) نے اپنے شمارہ 27 جون 2007 میں اِس عنوان کے تحت شائع کیا ہے— تخلیق پسندوں کے استدلال میں دراڑ:
Flaw in creationists' argument
مضمون نگارلکھتے ہیں کہ ’’سائنس داں دھیرے دھیرے ایک ناگوار سچائی (inconvenient truth) تک پہنچ رہے ہیں، وہ یہ کہ کائنات ایک نہایت محکم کائنات ہے۔ سائنس داں چالیس سال سے کائنات میں کام کرنے والے قوانینِ طبیعی کی تحقیق کررہے ہیں۔ یہ تحقیق، کائنات کے پیچھے ایک شعوری وجود (concious being) کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ کائنات کے قوانین میں سے کسی ایک کو بھی اگر بدلا جائے تواس کا نتیجہ نہایت مہلک ہوگا۔ کائنات اتنی زیادہ منظم ہے کہ اس کے موجودہ ڈھانچے میں معمولی تبدیلی بھی اس کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
مثال کے طورپر ساری کائنات ایٹم سے بنی ہے۔ اور ہر ایٹم نیوٹران اور پروٹان کامجموعہ ہے۔ نیوٹران کسی قدر وزنی ہوتا ہے اور پروٹان کسی قدر ہلکا۔ یہ تناسب بے حد اہم ہے۔ کیوں کہ اگر اس کا الٹا ہو، یعنی پروٹان بھاری ہو اور نیوٹران ہلکا، تو معلوم قوانین کے مطابق، ایٹم کا وجود ہی نہ رہے گا۔ جب نیوکلیس نہ ہوگا تو ایٹم بھی نہ ہوگا، اور جب ایٹم نہ ہوگا تو کیمسٹری بھی نہیں ہوگی۔ اور جب کیمسٹری نہیں ہوگی تو زندگی بھی نہیں ہوگی۔
اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ سائنس ناقابلِ حل سوالات سے دوچار ہے۔ مثلاً طبیعیات کے موجودہ قوانین کہاں سے آئے، وہ اپنی موجودہ محکم حالت میں کیوں قائم ہیں، وغیرہ۔ روایتی طور پر سائنس داں یہ فرض کررہے تھے کہ یہ قوانین، کائنات کا لازمی حصہ ہیں۔ قوانینِ طبیعی کی حقیقت کی کھوج کرنا، سائنس کا موضوع نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب یہ سوالات سائنس دانوں کو پریشان کررہے ہیں۔
کیمبرج کے سائنس داں مارٹن ریس(Martin Rees) جو کہ ’رائل سوسائٹی‘ کے صدر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ طبیعیات کے قوانین، مطلق اور آفاقی نہیں ہیں، وہ ایک بڑے کائنات نظام کے متفرق حصے ہیں۔ ہر حصے کے اپنے ضوابط ہیں۔ وہ اِس نظام کو متعدّد کائناتی نظام (the multiverse system) کہتے ہیں۔ اِن تحقیقات کے مطابق، ہماری کائنات ایک ایسی کائنات ہے جو موافقِ حیات قوانین (bio-friendly laws) کی حامل ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ کائنات کو ہم اِس طرح پاتے ہیں کہ وہ ہماری ضرورتوں کے عین مطابق ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہاںانسان کا قیام ناممکن ہوجاتا۔ یہ محکم قوانین جو کائنات کو نہایت منظم طورپر کنٹرول کررہے ہیں، وہ کہاں سے آئے۔
تمام مشکلات کا سبب، جدید مفکرین کے نزدیک، یہ ہے کہ مذہب اور جدیدسائنس، دونوں کائنات کا جو تصور دے رہے ہیں، وہ کائنات کے علاوہ ایک ایسی ایجنسی کا تقاضا کرتے ہیں جو کائنات کے باہر سے کائنات کا نظم کررہی ہو۔ تاہم کائنات کی توجیہہ کے لیے ایک ایسے ڈزائنر کو ماننا جو کائنات سے پہلے موجود ہو، وہ اِس مسئلے کی کوئی توجیہہ نہیں۔ کیوںکہ یہ توجیہہ فوراً یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ ڈزائنر نے اگر کائنات کو بنایا تو خود ڈزائنر کو کس نے بنایا:
Who designed the designer
اگر زندگی کی کوئی آخری معنویت(ultimate meaning) ہے، جیسا کہ میں یقین رکھتا ہوں، تو یہ جواب خود نیچر کے اندر ملنا چاہیے، نہ کہ اُس سے باہر۔ کائنات ایک محکم کائنات ہوسکتی ہے، لیکن اگر ایسا ہے تو کائنات نے خود ہی اپنے آپ کو ایسا بنایا ہے‘‘۔
وضاحت
الہٰیات کے معاملے میں جدید ذہن سخت کنفیوژن کا شکار ہے۔ اِس کا ایک اندازہ پروفیسر پال ڈیویز کے مذکورہ مضمون سے ہوتا ہے۔ملحد فلاسفہ اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ اگرمذہبی عقیدے کے مطابق، خدا نے کائنات کو بنایا تو خود خدا کو کس نے بنایا۔ مگر یہ سوال مکمل طورپر ایک غیر منطقی (illogical) سوال ہے۔ یہ منطق (logic) کی نفی ہے۔ مزید یہ کہ مذکورہ اعتراض ایک کھُلی تضاد فکری پر قائم ہے۔ یہ لوگ خود تو کائنات کو بغیر خالق کے مان رہے ہیں، مگر خالق کو ماننے کے لیے وہ ایک خالقِ خالق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حالاں کہ کائنات کا وجود اگر بغیر خالق کے ممکن ہے تو خالق کا وجود بھی بغیر خالق کے ممکن ہونا چاہیے۔
عقلی موقف
خدا کے وجود کے معاملے میں اصل غور طلب بات یہ ہے کہ خالص عقلی نقطہ نظر سے ہم کیا موقف اختیار کرسکتے ہیںاور کیا نہیں۔ اِس کے سوا کوئی اور طریقہ اِس معاملے میں سرے سے قابل عمل ہی نہیں۔
یہ ایک مسلّم بات ہے کہ کائنات میں انتہائی معیاری حد تک نظم پایا جاتا ہے۔ نظم کا یہ معاملہ ہر آدمی کا ذاتی مشاہدہ ہے۔ مذکورہ مضمون نگار نے ایٹم کی ساخت کو لے کر اِسی معاملے کی ایک سائنسی مثال دی ہے۔ اِس لیے جہاں تک کائنات میں نظم کا سوال ہے، یہ ہر فریق کے نزدیک، ایک مسلّم حقیقت ہے۔
عقلی موقف کے اعتبار سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ نظم کا تصور ناظم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ جہاں نظم ہے، وہاں یقینا اس کا ایک ناظم موجود ہے۔ ناظم کے بغیرنظم کا تصور عقلی اعتبار سے محال ہے۔ نظم کی موجودگی ایک مجبورانہ منطق (compulsive logic) پیدا کرتی ہے، یعنی کسی بھی عذر کے بغیر ناظم کی موجودگی کا اقرار کرنا۔ کسی کے ذہن میں ناظم کی موجودگی کی توجیہہ نہ ہونا، اُس کو یہ منطقی جواز نہیں دیتا کہ وہ ناظم کی موجودگی کا انکار کردے۔
ایٹم کے ڈھانچے کی مثال لے کر مضمون نگار نے جو بات کہی ہے، وہی اِس دنیا کی ہر چیز کے بارے میں درست ہے۔ اِس دنیا کا ہر جُز، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، وہ اِس قدر محکم اور متناسب ہے کہ اس کے ڈھانچے میں کوئی بھی تغیر سارے نظام عالم کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
مثال کے طورپر ہمارے سیارۂ زمین میں جو کشش (gravity) ہے، وہ آخری حد تک ہماری ضرورتوں کے مطابق ہے۔ اگر زمین کی کشش نصف کے بقدر زیادہ ہوجائے، یا نصف کے بقدر کم ہوجائے تو دونوں حالتوں میں سیارۂ زمین پر انسانی تہذیب کا بقاناممکن ہوجائے گا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خلا میں ہمارے دو قریبی پڑوسی ہیں— سورج اور چاند۔ اگر ایسا ہو کہ سورج وہاں ہوجہاں آج چاند ہے، اور چاند وہاں ہو جہاں آج سورج ہے، تو زمین پر انسانی زندگی تو درکنار خود زمین جل کر ختم ہوجائے گی۔
ہماری زمین پر تمام چیزیں اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہیں۔ لیکن درخت کا معاملہ استثنائی طورپر یہ ہے کہ اس کی جڑیں تو زمین میں نیچے کی طرف جاتی ہیں اور اس کا تنا اوپر کی طرف جاتا ہے۔ اگر ایسا ہو کہ درخت میں یہ دو طرفہ خصوصیت نہ ہو تو اس کے بعد زمین کی سطح پر ہرے بھرے درختوں کا خاتمہ ہوجائے گا، وغیرہ۔
ذہین کائنات
کائنات میںاَن گنت چیزیں ہیں، اور ہر چیز مرکّب(compound) کی صورت میں ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایٹم، کائنات کا ایک ایسا واحدہ ہے جو مفرد(single) ہے اور غیر مرکب حالت میں ہے۔ مگر آئن سٹائن کے زمانے میں جب ایٹم ٹوٹ گیاتو معلوم ہوا کہ اٹیم بھی مرکب ہے، وہ کوئی مفرد چیز نہیں۔
دورِ جدید میں ہر چیز کا سائنسی مطالعہ کیا گیاہے۔ اِس مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ چیزیں جن اشیا سے ترکیب پاکر بنتی ہیں، ان کی ترکیب کے لیے ہمیشہ بہت سے آپشن (options) موجود ہوتے ہیں، مگر سائنس یہ بھی بتاتی ہے کہ نیچر ہمیشہ یہ کرتی ہے کہ بہت سے آپشن میں سے اُسی ایک آپشن کو لیتی ہے جو کائنات کی مجموعی اسکیم کے عین مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اِس دنیا کی ہر چیز بالکل پرفیکٹ نظر آتی ہے، اِس دنیا کی ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔
یہ اصول جو کائنات میں رائج ہے، اُس کو ایک لفظ میں ذہین انتخاب(intelligent selection) کہہ سکتے ہیں۔ کائنات میں بلین، ٹری لین سے بھی زیادہ چیزیں موجود ہیں، لیکن ہر چیز بلا استثنا، اِسی ذہین انتخاب کی مثال ہے۔ یہ اصول اتنا زیادہ عام ہے کہ ایک سائنس داں ڈاکٹر فریڈ ہائل (Fred Hoyle) نے اِسی موضوع پر ایک کتاب تیار کر کے شائع کی ہے، اُس کا نام ہے— ذہین کائنات(The Intelligent Universe) ۔ یہ کتاب ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ہے اور 1983میں لندن سے چھپی ہے۔
کائنات کا یہ ظاہرہ (phenomenon) کوئی سادہ بات نہیں، وہ خدا کے وجود کا ایک حتمی ثبوت ہے۔ کائنات کی بناوٹ میں ذہانت (intelligence) کی موجودگی واضح طورپر ایک اور بات ثابت کرتی ہے۔ ذہین تخلیق (intelligent creation) واضح طورپر ذہین خالق (intelligent creator) کا ثبوت ہے۔ منطقی طورپر یہ ناقابلِ قیاس ہے کہ یہاں ذہین عمل موجود ہو، لیکن ذہین عامل یہاں موجود نہ ہو۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے بلاشبہہ لازم اور ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ذہین عمل کو ماننے کے بعد ذہین عامل کو نہ ماننا، ایسا ہی ہے جیسے ایک پیچیدہ مشین کو ماننے کے بعد اُس کے انجینئر کو نہ ماننا۔ ڈاکٹر فریڈ ہائل نے اپنی کتاب میںدرست طورپر لکھا ہے کہ سائنس کے ابتدائی دور میں مسیحی چرچ نے سائنس دانوں کے خلاف جو متشددانہ کارروائی کی، وہ ابھی تک لوگوں کو یاد ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر وہ یہ اعلان کردیں کہ کائنات کے پیچھے ایک ذہین خالق کے وجود کا ثبوت مل رہا ہے تو قدیم مذہبی تشدد(religious connotation) شاید دوبارہ واپس آجائے گا۔ مگر یہ ایک بے بنیاد خوف ہے۔ ذہین خالق کے سائنسی اعتراف کے بعد جوچیز تاریخ میںواپس آئے گی، وہ سچاخدائی مذہب ہے، نہ کہ مسیحی چرچ۔
دو انتخاب(options)
کائنات میں جو غیر معمولی نظم اور تناسب پایا جاتا ہے، اس کی توجیہہ کے لیے ہمارے پاس دو انتخاب (options) ہیں۔ ایک، یہ کہ کائنات اپنی ناظم آپ ہے۔ مگر سائنس کی تمام تحقیقات اِس کی تردید کرتی ہیں۔ اِس لیے کہ سائنس نے کائنات میں جس نظم کو دریافت کیا ہے، وہ مکمل طور پر ایک ذہین نظم(intelligent design) ہے۔ دوسری طرف سائنس یہ بھی بتاتی ہے کہ خود کائنات کے اندر سب کچھ ہے، لیکن وہی چیز اس کے اندر موجود نہیں جس کو ذہانت (intelligence) کہاجاتا ہے۔ سائنس کی دریافت کردہ کائنات، بیک وقت کامل طورپر منظم (designed)ہے اور اسی کے ساتھ وہ کامل طورپر غیرذہین (non-intelligent)ہے۔ ایسی حالت میں کائنات کو اپنے نظم کا خود ناظم سمجھنا، ایسا ہی ہے جیسے پتھر کے اسٹیچو کے بارے میں یہ فرض کرلیا جائے کہ اس نے اپنی بامعنیٰ ڈزائن خود تیار کی ہے۔ وہ ایک خود تخلیقی وجود (self-created being) ہے۔
اِس کے بعد ہمارے پاس کائنات کی توجیہہ کے لیے صرف ایک آپشن باقی رہتا ہے، اور وہ یہ کہ ہم ایک خارجی ایجنسی(outside agency) کو کائنات کے نظم کا سبب قرار دیں۔ اِس ایک انتخاب کے سوا، کوئی دوسرا انتخاب ہمارے لیے عملی طورپر ممکن نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں ہمارے لیے بے خدا کائنات اور با خدا کائنات کے درمیان انتخاب نہیں ہے، بلکہ با خدا کائنات (universe with God) اور غیر موجود کائنات (no universe at all) کے درمیان انتخاب ہے۔ یعنی ہم اگر خدا کا انکار کریں تو ہمیں کائنات کے وجود کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ چوںکہ ہم کائنات کے وجود کا انکار نہیں کرسکتے، اِس لیے ہم مجبور ہیں کہ ہم خدا کے وجود کو تسلیم کریں۔
واحد انتخاب
عقلی اصولوں میںسے یہ ایک اصول ہے کہ جب ایسی صورت حال ہو کہ عملی طور پر ہمارے لیے صرف ایک ہی انتخاب ممکن ہو تو اُس وقت ایک مجبور کن صورتِ حال (compulsive situation) پیدا ہوجاتی ہے، یعنی ہم مجبور ہوتے ہیں کہ اُس ایک انتخاب کو لے لیں۔ اِس کے خلاف کرنا، صرف اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ وہاں ایک سے زیادہ انتخاب موجود ہوں۔ لیکن جب ایک کے سوا کوئی دوسرا انتخاب سرے سے موجود ہی نہ ہو تو اُس وقت لازم ہوجاتا ہے کہ ہم اِسی واحد انتخاب کو قبول کرلیں۔ زیرِ بحث مسئلے میں یہ واحدانتخاب خدا کے وجود کو بطور واقعہ تسلیم کرنا ہے، کیوں کہ یہاں اقرارِخدا کے سوا کوئی اور انتخاب ہمارے لیے سرے سے ممکن ہی نہیں۔
منطقی استدلال
کسی بات کو عقلی طورپر سمجھنے کے لیے انسان کے پاس سب بڑی چیز منطق (logic) ہے۔ منطق کے ذریعے کسی بات کو عقلی طورپر قابل فہم بنایا جاتا ہے۔ منطق کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک ہے، انتخابی منطق(optional logic) اور دوسری ہے، مجبورانہ منطق (compulsive logic) ۔منطق کے یہ دونوں ہی طریقے یکساں طورپر قابلِ اعتماد ذریعے ہیں۔ دونوں میں سے جس ذریعے سے بھی بات ثابت ہوجائے، اس کو ثابت شدہ مانا جائے گا۔
انتخابی منطق
انتخابی منطق وہ ہے جس میں آدمی کے لیے کئی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا موقع ہو۔ اِس قسم کے معاملے میںہمارے پاس ایسے ذریعے ہوتے ہیں جن کو منطبق کرکے ہم ایسا کرسکتے ہیں کہ کئی میں سے صرف ایک کا انتخاب کریں اور بقیہ کو چھوڑ دیں۔
مثلاً سورج کی روشنی کو لیجیے۔ آنکھ سے دیکھنے میں سورج کی روشنی صرف ایک رنگ کی دکھائی دیتی ہے، لیکن پِرزم (prism) سے دیکھنے میں سورج کی روشنی سات رنگوں میں بٹ جاتی ہے۔ اِس طرح سورج کی روشنی کے رنگ کے بارے میں ہمارے پاس دو انتخاب (options) ہوگیے۔ اب ہمارے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ دونوں میں سے جس انتخاب میں منطقی وزن زیادہ ہو، ہم اس کو لیں۔ چناں چہ اِس معاملے میں سات رنگوں کے نظریے کو مان لیاگیا۔ کیوں کہ وہ زیادہ قوی ذریعے سے ثابت ہورہا تھا۔
مجبورانہ منطق
مجبورانہ منطق کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ مجبورانہ منطق میں آدمی کے پاس صرف ایک کا انتخاب (option) ہوتاہے۔ آدمی مجبور ہوتا ہے کہ اُس ایک انتخاب کو تسلیم کرے۔ کیوں کہ اس میںایک کے سوا کوئی اور انتخاب سرے سے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ مجبورانہ منطق کے معاملے میں صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو لازمی طورپر ماننا بھی ہے، اور ماننے کے لیے اس کے پاس ایک انتخاب کے سوا کوئی دوسرا انتخاب موجود نہیں۔
مجبورانہ منطق کی ایک قریبی مثال ماں کی مثال ہے۔ ہر آدمی کسی خاتون کو اپنی ماں مانتا ہے۔ وہ مجبور ہے کہ ایک خاتون کو اپنی ماں تسلیم کرے۔ حالاں کہ اُس نے اپنے آپ کو اُس خاتون کے بطن سے پیدا ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اِس کے باوجود وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ ماں مانتا ہے۔ یہ ماننا، مجبورانہ منطق کے اصول کے تحت ہوتا ہے۔ ایسا وہ اِس لیے کرتا ہے کہ اِس معاملے میںاُس کی پوزیشن یہ ہے کہ اس کو ایک خاتون کو ہر حال میں اپنی ماں ماننا ہے۔ اِسی لیے وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ اپنی ماں تسلیم کرلیتا ہے۔ کیوں کہ اِس کیس میں اُس کے لیے کوئی دوسرا انتخاب (option) موجود نہیں۔
خدا کے وجود کو ماننے کا تعلق بھی اِسی قسم کی مجبورانہ منطق سے ہے۔ خدا کے وجود کے پہلو سے اصل قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِس معاملے میں ہمارے لیے کوئی دوسرا انتخاب ہی نہیں۔ ہم مجبور ہیں کہ خدا کے وجود کو مانیں۔ کیوں کہ اگر ہم خدا کے وجود کو نہ مانیں تو ہمیں کائنات کے وجود کی، اور خود اپنے وجود کی نفی کرنی پڑے گی۔ چوں کہ ہم اپنی اور کائنات کے وجود کی نفی نہیں کرسکتے ، اِس لیے ہم خدا کے وجود کی بھی نفی نہیں کرسکتے۔
انسان کا وجود، خدا کے وجود کا ثبوت
وسیع کائنات میں صرف انسان ہے جو خدا کے وجود کا انکار کرتا ہے۔ حالاں کہ انسان کا خود اپنا وجود، خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اگر انسان جیسی ایک ہستی یہاں موجود ہے تو خدا بھی یقینی طورپر موجود ہے۔ انسان کے اندر وہ تمام صفتیں ناقص طورپر موجود ہیں جو خدا کے اندر کامل طورپر موجود ہیں۔ اگر ناقص ہستی کا وجود ہے تو کامل ہستی کا بھی یقینی طورپر وجود ہے۔ ایک کو ماننے کے بعد دوسرے کو نہ ماننا، ایک ایسا منطقی تضاد ہے جس کا تحمل کوئی بھی صاحبِ عقل نہیں کرسکتا۔
ڈیکارٹ (Rene Descartes) مشہور فرنچ فلسفی ہے۔ وہ 1596 میں پیدا ہوا اور 1650 میںاس کی وفات ہوئی۔ اس کے سامنے یہ سوال تھا کہ انسان اگر موجود ہے تو اس کی موجودگی کا عقلی ثبوت کیا ہے۔ لمبے غور وفکر کے بعد اس نے اس سوال کا جواب اِن الفاظ میں دیا— میںسوچتا ہوں ، اِس لیے میں ہوں:
I think, therefore I exist.
ڈیکارٹ کا یہ جواب منطقی اعتبار سے ایک محکم جواب ہے۔ مگر یہ منطق، جس سے انسان کا وجود ثابت ہوتا ہے، وہ اس سے بھی زیادہ بڑی بات کو ثابت کررہی ہے، اور وہ ہے خدا کے وجود کا عقلی ثبوت۔ اِس منطقی اصول کی روشنی میں یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ— سوچ کا وجود ہے، اِس لیے خدا کا بھی وجود ہے:
Thinking exists, therefore God exists.
سوچ ایک مجرد (abstract) چیز ہے۔ جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں، وہ اِسی لیے خدا کا انکار کرتے ہیں کہ خدا انھیں ایک مجرد تصور معلوم ہوتا ہے، اور مجرد تصور کی موجودگی ان کے لیے ناقابل فہم ہے، یعنی ایک ایسی چیز کو ماننا جس کا کوئی مادّی وجود نہ ہو۔ لیکن ہر انسان سوچنے والی مخلوق ہے۔ خود اپنے تجربے کی بنیاد پر ہر آدمی سوچ کے وجود کو مانتا ہے۔ حالاں کہ سوچ مکمل طورپر ایک مجرد تصور ہے، یعنی ایک ایسی چیز جس کا کوئی مادّی وجود نہیں۔
اب اگر انسان ایک قسم کے مجرد تصور کے وجود کو مانتا ہے تو اُس پر لازم آجاتا ہے کہ وہ دوسری قسم کی مجرد تصور کے وجود کو بھی تسلیم کرے۔ یہ بلاشبہہ خدا کے وجود کا ایک ایسا ثبوت ہے جس کا تجربہ ہر آدمی کرتا ہے اور جس کی صحت کو ہر آدمی بلا اختلاف مانتا ہے۔ اگر سوچ کے وجود کا انکار کردیا جائے تو اس کے بعد یقینی طورپر انسان کے وجود کا اور خود اپنے وجود کا انکار کرنا پڑے گا۔ کوئی بھی آدمی اپنے وجود کا انکار نہیں کرسکتا، اس لیے کسی بھی آدمی کے لیے منطقی طورپر یہ ممکن نہیںکہ وہ خدا کے وجود کا انکار کرے۔
خدا کا غیر مرئی (invisible)ہونا، اِس بات کے لیے کافی نہیں کہ خدا کے وجود کا انکار کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر مرئی ہونے کی بنا پر خدا کے وجود کا انکار کرنا، ماڈرن سائنس کے زمانے میں ایک خلافِ زمانہ استدلال (anachronistic argument) ہے۔ اس لیے کہ آئن سٹائن (وفات: 1955 ) کے زمانے میں جب ایٹم ٹوٹ گیا اور علم کا دریا عالمِ صغیر (microworld) تک پہنچ گیا تو اس کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں ہر چیز غیر مرئی ہے۔ پہلے جو چیزیں مرئی (visible) سمجھی جاتی تھیں، اب وہ سب کی سب غیر مرئی ہوگئیں۔ ایسی حالت میں عدم رُویت کی بنیاد پر خدا کے وجود کا انکار کرنا، ایک غیر علمی موقف بن چکا ہے۔ اس موضوع کی تفصیل کے لیے حسب ذیل دو کتابوں کا مطالعہ کافی ہے:
Unseen World, by Sir Arthur Eddington
Human Knowledge, by A. W. Bertrand Russel
خلائی مشاہدہ
موجودہ زمانے میں جو نئی چیزیں وجود میں آئی ہیں، اُن میں سے ایک چیز وہ ہے جس کو خلائی سفر کہاجاتا ہے۔ بہت سے لوگ راکٹ کے ذریعے خَلا میں گیے اور وہاں سے مخصوص دور بینوں کے ذریعے انھوں نے زمین کا مطالعہ کیا۔ اِن لوگوں نے اپنے خلائی مشاہدے کی بنیاد پر بہت سی نئی باتیں بتائی ہیں۔
اُن میں سے ایک بات یہ ہے کہ ایک خلا باز نے کہا کہ خلائی سفر کے دوران انھوںنے یہ تجربہ کیا کہ وسیع خلا میں کہیں بھی زمین جیسا کوئی کُرہ موجود نہیں۔ زمین پر لائف ہے اور اُسی کے ساتھ اعلیٰ پیمانے پر لائف سپورٹ سسٹم بھی۔ یہ دونوں چیزیں زمین پر انتہائی موزوں اور متناسب اندازمیں پائی جاتی ہیں۔
ایک خلاباز نے زمین کے بارے میں اپنا تاثر بتائے ہوتے کہا— صحیح قسم کا سامان صحیح جگہ پر:
Right type of material at the right place.
زمین کی یہ انوکھی صفت ہے کہ یہاں زندگی پائی جاتی ہے، یہاں چلتا پھرتا انسان موجود ہے، مگر اِس قسم کی زندگی کی موجودگی کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کے لیے دوسرے اَن گنت اسباب درکار ہیں۔ اِن اسباب کے بغیر زندگی کا وجود اور بقا ممکن نہیں۔ زمین، اِس اعتبار سے وسیع کائنات میں ایک انوکھا استثنا ہے۔ یہاں استثنا ئی طورپر انسان موجود ہے اور اسی کے ساتھ یہاں اس کے وجود اور بقا کے لیے انتہائی متناسب انداز میں تمام سامانِ حیات موجود ہے۔
وسیع کائنات میں یہ بامعنیٰ استثنا بلا شبہہ ارادی عمل اور منصوبہ بند تخلیق کا ثبوت ہے، اور جہاں ارادی عمل اور منصوبہ بند تخلیق کا ثبوت موجود ہو، وہاں ایک صاحبِ ارادہ اور ایک صاحبِ تخلیق ہستی کا وجود اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے۔
زمین ایک استثنا
ایک شخص اگر کائنات کا سفر کرے، وہ پوری کائنات کا مشاہدہ کرے تو وہ پائے گا کہ وسیع کائنات پوری طرح ایک غیر ذی روح (lifeless) کائنات ہے۔ اُس میں اتھاہ خلا ہے، دہشت ناک تاریکی ہے، اُس کے اندر پتھر کی چٹانیں ہیں، آگ کے بہت بڑے بڑے گولے ہیں اور یہ سب چیزیں دیوانہ وار مسلسل حرکت میں ہیں۔
اِس پُر ہیبت منظر سے گذر کر جب وہ سیارۂ زمین پر پہنچتا ہے تو یہاں اس کو ایک حیران کُن استثنا نظر آتا ہے۔ یہاں استثنائی طورپر پانی ہے، سبزہ ہے، حیوانات ہیں، زندگی ہے، عقل و فہم کے پیکر انسان ہیں، پھر یہاں حیرت ناک طورپر وہ موافقِ حیات چیز موجود ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتا ہے۔ یہاںایک مکمل تہذیب (civilization) موجود ہے، جو وسیع کائنات میں کہیں بھی سرے سے موجود نہیں، یعنی بظاہر ایک انتہائی بے معنی کائنات میںایک انتہائی بامعنیٰ دنیا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ وسیع کائنات میں سیارۂ زمین ایک انتہائی نادر استثنا ہے۔ یہ استثنا کوئی سادہ بات نہیں، وہ ایک عظیم حقیقت کا مشاہداتی ثبوت ہے، اور وہ ہے قادرِ مطلق خدا کا ثبوت — استثنا مداخلت کو ثابت کرتا ہے اور مداخلت بلا شبہہ مداخلت کار کا ثبوت ہے، اور جب مداخلت کار کا وجود ثابت ہوجائے تو اس کے بعد خدا کا وجود اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے:
Exception proves intervention and intervention proves intervenor and when the existence of intervenor is proved, the existence of God is also proved.
سفرنگ کا مسئلہ
خدا کے وجود پر شک کرنے کے لیے جو باتیں کہی جاتی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو پرابلم آف اِوِل(problem of evil) یا سفرنگ (suffering) کہاجاتا ہے۔ یہ اعتراض صرف ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے، وہ یہ کہ انسانی زندگی میں جو سفرنگ ہے، وہ تمام تر مین میڈ (man-made) ہے، مگر اس کو غلط طور پر گاڈ میڈ(God-made) سمجھ لیاگیا ہے۔ انسانی زندگی میںسفرنگ کے حوالے سے جو کچھ کہاجاتا ہے، وہ اِسی غلط انتساب کا نتیجہ ہے۔
اِس غلط فہمی کااصل سبب یہ ہے کہ لوگ جب کسی انسان کی زندگی میں سفرنگ کے واقعہ کو دیکھتے ہیں تو وہ اُسی مبتلاانسان کے حوالے سے اُس کی توجیہہ کرنا چاہتے ہیں۔ چوں کہ اکثر مثالوں میں خود اُسی مبتلا انسان کے اندر اس کی توجیہہ نہیں ملتی، اس لیے اس سفرنگ کو لے کر وہ یہ کہنے لگتے ہیں کہ یا تو اس دنیا کا کوئی خدا نہیں، یا اگر خدا ہے تو وہ ظالم اور غیر منصف خدا ہے، مگر یہ انتساب بجائے خود غلط ہے۔
انسان کی زندگی میں جوسفرنگ پیش آتی ہے، اس کا سبب کبھی انسان خود ہوتا ہے اور کبھی اس کے والدین ہوتے ہیں اور کبھی اس کا سبب وہ سماج ہوتا ہے جس میں وہ رہ رہا ہے اور کبھی وسیع تر معنوں میں اجتماعی نظام اُس کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اِسی کے ساتھ کبھی کوئی سفرنگ فوری سبب سے پیش آتی ہے اور کبھی اس کے اسباب پیچھے کئی پشتوں تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔
غلط ریفرنس میں مطالعہ
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ شبہے کا سبب، اصل صورتِ حال کا غلط ریفرنس میںمطالعہ ہے، یعنی جس ظاہرے کو انسان کی نسبت سے دیکھنا چاہیے، اُس کو خدا کی نسبت سے دیکھنا۔ حالاں کہ یہ سائنسی حقائق کے سرتا سر خلاف ہے۔
مثال کے طورپر موجودہ زمانے میں ایڈز(AIDS) کا مسئلہ ایک خطرناک مسئلہ سمجھاجاتا ہے۔ مگر خود طبّی تحقیق کے مطابق، یہ انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے۔ میڈیکل سائنس میں یہ مستقل نظریہ ہے کہ کئی بیماریاں اَجداد سے نسلی طورپر منتقل ہوتی ہیں۔ ایسی بیماریوں کو اجدادی بیماری(atavistic disease) کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح مختلف قسم کی وبائیں پھیلتی ہیں جس میں ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں، یا خرابی ٔ صحت کا شکار ہوجاتے ہیں۔یہ بھی خود طبی تحقیق کے مطابق، انسان کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔
دہلی میں معروف شخصیت ڈاکٹر اَرُن شوری کے صاحب زادے مفلوج ہو کر وھیل چیئر پر رہتے ہے۔ اِس ’’سفرنگ‘‘ کا سبب بھی یہ ہے کہ چھوٹی عمر میں امریکا کے ایک اسپتال میں اُن کو غلط انجکشن لگ گیا، اِس بنا پر وہ جسمانی اعتبار سے مفلوج ہوگیے۔ اِسی طرح تشدد اور جنگوں کے نتیجے میں بے شمار لوگ مرجاتے ہیں یاناکارہ ہوجاتے ہیں، یہ سب بھی انسانی کارروائیوں کی بنا پر ہوتاہے، وغیرہ۔
واقعہ یہ ہے کہ انسانی سفرنگ کو نیچر سے منسوب کرنا، سرتاسر ایک غیر علمی بات ہے۔ سائنس کی تمام شاخوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نیچر مکمل طورپر خرابیوں سے پاک ہے۔ نیچر اِس حد تک محکم ہے کہ اس کی کارکردگی کے بارے میں پیشگی طورپر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر نیچر کے اندر قابل پیشین گوئی کردار نہ ہو تو سائنس کی تمام سرگرمیاں اچانک ختم ہوجائیں گی۔
تقابلی مطالعہ
پرابلم آف اِوِل کے اِس معاملے کا علمی مطالعہ کرنے کا پہلا اصول وہ ہے جس کو تقابلی طورپر سمجھنا (in comparision that we understand) کہاجاتا ہے۔ تقابلی مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ محدودطورپر صرف انسانی دنیا کا مسئلہ ہے، جب کہ انسان پوری کائنات کے مقابلے میں ایک بہت ہی چھوٹے جُز کی حیثیت رکھتا ہے۔ بقیہ کائنات اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ مکمل طور پر ایک بے نقص کائنات (zero-defect world) ہے۔ کائنات میں بے شمار سرگرمیاں ہر آن جاری رہتی ہیں، لیکن اُس میں کہیں بھی کوئی خرابی(evil) دکھائی نہیں دیتی۔
انسانی دنیا میں بیماریاں ہیں، انسانی دنیا میں حادثات ہیں، انسانی دنیا میں ظلم ہے، انسانی دنیا میں کرپشن ہے، انسانی دنیا میںبے انصافی ہے، انسانی دنیا میں استحصال ہے، انسانی دنیا میں لڑائیاں ہیں، انسانی دنیا میں نفرت اور دشمنی ہے، انسانی دنیامیں سرکشی ہے، انسانی دنیا میں فسادات ہیں، انسانی دنیا میں جرائم ہیں، اِس قسم کی بہت سی برائیاں انسانی دنیامیں پائی جاتی ہیں، لیکن انسان کے سوا، بقیہ کائنات اِس قسم کی برائیوں سے مکمل طورپر خالی ہے۔ یہی فرق یہ ثابت کرتا ہے کہ بُرائی کا مسئلہ (problem of evil) خود انسان کا پیدا کردہ ہے، نہ کہ فطرت کا پیدا کردہ۔اگر یہ مسئلہ فطرت کا پیدا کردہ مسئلہ ہوتا تو وہ بلا شبہہ پوری کائنات میں پایا جاتا۔
سائنٹفک مطالعہ
اس معاملے کا سائنٹفک مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا اور بقیہ کائنات میں ایک واضح فرق ہے، وہ یہ کہ بقیہ کائنات حتمی قسم کے قوانینِ فطرت سے کنٹرول ہورہی ہے۔ اِس کے برعکس، انسان آزاد ہے اور وہ خود اپنی آزادی سے اپنی زندگی کا نقشہ بناتا ہے۔ یہی فرق دراصل اُس چیز کا اصل سبب ہے، جس کو بُرائی کا مسئلہ (problem of evil) کہاجاتا ہے۔
اِس معاملے کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا کی تمام بُرائیاں، انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں۔ میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ بیماریوں کا سبب نیچر میں نہیں ہے، بلکہ وہ انسان کی اپنی غلطیوں میں ہے۔ یہ غلطیاں کبھی مبتلا شخص کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں، کبھی باپ دادا کی وراثت اس کا سبب ہوتی ہے، کبھی اجتماعی نظام کا کرپشن بیماریوں کے اسباب پیداکرتا ہے۔ یہ بات بے حد قابلِ غور ہے کہ بیماری کو نیچر سے جوڑنا ملحد مفکرین کا نظریہ ہے، وہ کسی سائنٹفک دریافت پر مبنی نہیں۔اِسی طرح لڑائیاں، گلوبل وارمنگ، مختلف قسم کی کثافت، فضائی مسائل (ecological problems) وغیرہ، سب کے سب انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں۔
خدا کا تخلیقی پلان
خالق نے انسان کویہ آزادی (freedom) کیوں دی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خالق نے چاہا کہ وہ انسان کو ایک عظیم انعام دے۔ یہ عظیم انعام جنت ہے، جو ابدی خوشیوں کی جگہ ہے۔ جنت میں جگہ پانے کا حق دار صرف وہ شخص ہوگا جو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے۔ جو آزاد ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ڈسپلن اور کنٹرول میں رکھے۔جہاں آزادی ہوگی، وہاں آزادی کاغلط استعمال بھی ہوگا۔ لیکن آزادی اتنی زیادہ قیمتی چیز ہے کہ کسی بھی اندیشے کی بنا پر اس کو ساقط نہیں کیا جاسکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے خدا کے تخلیقی پلان(creation plan) کو جاننا ضروری ہے۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کو اس دنیا میں مکمل آزادی دی گئی ہے۔ ایسا خدا نے مصلحتِ امتحان کے لیے کیا ہے۔ انسانی زندگی میں سفرنگ کے جو واقعات ہوتے ہیں، وہ تمام تر اسی آزادی کے غلط استعمال کے نتیجے میں ہوتے ہیں، کبھی براہِ راست طورپر اور کبھی بالواسطہ طور پر، کبھی سفرنگ میں مبتلا شخص کے ذاتی عمل کی وجہ سے اور کبھی دوسرے انسانوں کے عمل کی وجہ سے، کبھی کسی فوری غلطی کے نتیجے کے طورپر اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پچھلی نسلوں کی غلطی کی بنا پراُس کا نتیجہ بعد کی نسلوں کے سامنے آتا ہے۔
کائناتی معنویت کی توجیہہ
خدا کے وجود کی بحث کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق، کائنات کی معنویت (meaning) سے ہے۔ خدا کو ماننا، نہ صرف کائنات کے وجود کی توجیہہ ہے بلکہ خدا کا عقیدہ کائنات کو کامل طورپر بامعنیٰ بنا دیتا ہے۔ خدا کو نہ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ بامعنیٰ کائنات ایک بے معنیٰ انجام پر ختم ہوجائے۔ جب کہ خدا کو ماننا، یہ بتاتا ہے کہ کائنات آخر کار ایک بامعنیٰ انجام پر پہنچنے والی ہے۔
انسان کے اندر پیدائشی طورپر انصاف اور بے انصافی کاتصور پایا جاتا ہے۔ انسان پیدائشی طورپر یہ چاہتا ہے کہ جو شخص انصاف کے اصولوں کے تحت زندگی گذارے، اُس کو انعام ملے۔ اور جو شخص ناانصافی کا طریقہ اختیار کرے، اس کو سزا دی جائے۔ اِس فطری تقاضے کی تکمیل صرف باخدا کائنات (universe with God) کے نظریے میں ملتی ہے، بے خدا کائنات (universe without God) کے نظریے میں اِس فطری تقاضے کا کوئی جواب نہیں۔
ہر انسان پیدائشی طورپر اپنے اندر خواہشوں کا سمندر لیے ہوئے ہے۔ موجودہ دنیا میں اِن خواہشوں کی تکمیل (fulfillment) ممکن نہیں۔ بے خدا کائنات کے نظریے میں انسان کے لیے یہ حسرت ناک انجام مقدر ہے کہ اس کی فطری خواہشیں کبھی پوری نہ ہوں۔ لیکن باخدا کائنات کے نظریے میں یہ امکان موجود ہے کہ آدمی اپنی خواہشوں کی کامل تسکین، بعد از موت کے مرحلۂ حیات میں پالے۔
وقت کا شعور
انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان ایک ٹائم کانشش مخلوق ہے۔ وہ اپنے وقت کو حال اور مستقبل میں بانٹ کردیکھتا ہے۔ مگر دوسری طرف یہ ایک واقعہ ہے کہ ہر آدمی کو اپنی زندگی میں صرف حال (present) ملتا ہے۔ ہر آدمی اپنے مستقبل سے محروم ہوکر مایوسی کی حالت میں مر جاتا ہے۔ وہ اپنے حال میں بہتر مستقبل کے لیے عمل کرتا ہے، لیکن اس کی محدود عمر میں اس کا وہ بہتر مستقبل اس کو نہیں ملتا اور وہ مایوسی کے ساتھ اِس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
ایک بار ہم نے انٹرنیٹ پر یہ سوال ڈالا کہ بڑے بڑے لوگوں میں وہ کون ہیں جو اپنی آخری عمر میں مایوسی کا شکار ہوئے اور ڈپریشن (depression) کی حالت میں مَرے۔ اِس کے جواب میں انٹرنیٹ نے جو فہرست دی، اس میں چار سو دو بڑے بڑے اشخاص کے نام موجود تھے۔ (کوئی شخص سرچ انجن پر جاکر اِس فہرست کو دیکھ سکتا ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے: Risk Factor: Depression )۔ کائنات کے باخدا نظریے میں انسان کے اِس فطری سوال کا جواب موجود ہے، لیکن کائنات کے بے خدا نظریے میں اِس سوال کا کوئی جواب موجود نہیں۔
زَوجین کا اصول
کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں ہر چیز جوڑاجوڑا پیدا کی گئی ہے— منفی برقی ذرّے کا جوڑا مثبت برقی ذرہ، درخت کے پھولوں میں نر اور مادہ، حیوانات میں مذکّر اور مؤنث۔ انسان میں عورت اور مرد، وغیرہ۔ یہ ایک کائناتی قانون ہے کہ یہاں ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنی تکمیل کرتی ہے۔
اِس لحاظ سے انسانی زندگی کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے، یعنی موت سے پہلے کی نامکمل زندگی کے ساتھ موت کے بعد کی کامل زندگی۔ باخدا کائنات کے نظریے میں اُس کا یہ تکمیلی جوڑا موجود ہے، لیکن بے خدا کائنات کے نظریے میں اُس کایہ تکمیلی جوڑا موجود نہیں۔
آئڈیل ازم کی ناکامی
تمام فلاسفہ اور مفکرین موجودہ دنیا کو ابدی (eternal) سمجھتے رہے ہیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اِسی موجودہ عالم میں ہم کبھی نہ کبھی اپنی مطلوب دنیا بنا لیں گے۔ آئڈیل سوسائٹی، آئڈیل ریاست، آئڈیل نظام کے تصورات اِسی فکر کے تحت پیدا ہوئے۔ ایسے تمام مفکرین اِن تصورات سے اپنی آخری عمر تک مسحور رہے۔
لوگوں کے نزدیک تہذیب (civilization) اِسی انسانی خواب کی تعبیر تھی۔ موجودہ صنعتی ترقیوں کے بعد لوگوں نے یہ سمجھا کہ تہذیبی ارتقا آخر کار اُنھیں اِس منزل تک پہنچانے والا ہے، جب کہ اِسی موجودہ دنیا میں وہ اپنی جنت تعمیر کرلیں۔ لیکن یہ تصور مکمل طورپر باطل ثابت ہوا۔
دنیا کا خاتمہ
جدید سائنس کے بانی سرآئزاک نیوٹن (وفات: 1727 ) نے 1704 میں قوانینِ طبیعی کا مطالعہ کرکے بتایا تھا کہ موجودہ دنیا 2060 میں ختم ہوجائے گی۔ (ٹائمس آف انڈیا، 18 جون 2007) ۔اب دنیا بھر کے تمام سائنس داں خالص مشاہدات کی بنیاد پر یہ بتارہے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں دنیا کا خاتمہ یقینی بن چکا ہے۔ تہذیب کا مزید ارتقا اب سرے سے یہاں ممکن ہی نہیں۔
الون ٹافلر(Alvin Toffler) کی کتاب ’فیوچر شاک‘ پہلی بار 1970میں چھپی۔ الون ٹافلر نے تبایا تھا کہ دنیا انڈسٹریل ایج سے نکل کر اب سپرانڈسٹریل ایج میں داخل ہورہی ہے۔ تہذیب کا اگلا دَور مکمل آٹومیشن (complete automation) کا دور ہوگا۔ پُش بٹن کلچر (push button culture) اِس حد تک ترقی کرے گا کہ ہر کام آٹومیٹک طورپر ہونے لگے گا۔ لیکن گلوبل وارمنگ کا مسئلہ تکمیلِ تاریخ کے بجائے خاتمۂ تاریخ (end of history) کا پیغام لے کر سامنے آگیا۔
تاریخ انسانی کا یہ ظاہرہ بلا شبہہ آج کا سب سے بڑا سوال ہے۔ اِس سوال کی اطمینان بخش توجیہہ صرف با خدا کائنات کے نظریے میں موجود ہے۔ بے خدا کائنات کے نظریے کے تحت، اِس ظاہرے کی کوئی اطمینان بخش توجیہہ کرنا سرے سے ممکن ہی نہیں۔
اِس طرح کی مثالیں واضح طورپر ثابت کرتی ہیں کہ بے خدا کائنات کے نظریے میں ایک بہت بڑا خلا موجود ہے، وہ یہ کہ اِس نظریے کو ماننے کی صورت میںایک انتہائی بامعنیٰ کائنات ایک انتہائی بے معنیٰ انجام پر ختم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔
دوسری طرف، با خدا کائنات کا نظریہ اِس نقص سے مکمل طور پر خالی ہے۔ باخدا کائنات کے نظریے کو ماننے کی صورت میںیہ ہوتا ہے کہ بامعنیٰ کائنات کا انجام ایک انتہائی بامعنیٰ مستقبل پر منتہی ہوتا ہے۔ یہ واقعہ، باخدا کائنات کے نظریے کے حق میںایک ایسی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے جو عقل اور منطق کو پوری طرح مطمئن کرنے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ڈارون اور ڈارون ازم

چارلس رابرٹ ڈاروِن (وفات: 1882) نظریۂ ارتقا کی نسبت سے بہت مشہور ہے۔ اِس سلسلے میں اُس نے دو کتابیں لکھیں۔ اِن دونوں انگریزی کتابوں کے نام یہ ہیں:
On the Origin of Species
The Descent of Man
’اوریجن آف اسپیشیز‘ کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آغازِ انواع کے موضوع پر ہے۔ مگر اصلاً اُس کا موضوع انواعِ حیات کی تعبیر ہے۔ اِس لحاظ سے غالباً اس کا زیادہ صحیح نام تعبیرِ انواع (Interpretation of Species) ہونا چاہیے۔
ڈارون کی کتاب کے چھپنے کے بعد مسیحی چرچ کی طرف سے اس کی سخت مخالفت کی گئی۔ چناں چہ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ڈارون ازم خدا کے وجود کی نفی ہے، مگر یہ درست نہیں۔ ڈارون کی کتاب ’اوریجن آف اسپیشیز‘ میں ایک سے زیادہ بار خدا(God) کا نام آیا ہے۔ اُس نے اپنی یہ کتاب اِن الفاظ کے ساتھ ختم کی ہے کہ— خالق نے ابتدا میں زندگی کی ایک یا کئی شکلیں پیدا کیں اور پھر اُس سے بہت سی انواعِ حیات وجود میں آگئیں۔ تخلیق کا یہ تصور کتنا عظیم ہے:
There is grandeur in this view of life, with its several powers, having been originally breathed by the Creator into a few forms or into one: and that, whilst this planet has gone cycling on according to the fixed law of gravity, from so simple a beginning endless forms most beautiful and most wonderful have been, and are being evolved.
ڈارون اپنی آخری عمر میں ناقابلِ تشخیص اَمراض کا شکار ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی کتاب میںدی ہوئی متضاد تعبیرات(contradictory explanations) سے سخت غیر مطمئن تھا۔ اُس پر دوبار دِل کا دورہ پڑا اور اِسی میں اُس کا انتقال ہوگیا (B-5/496)
واپس اوپر جائیں

جنت میں داخلے کی شرط

آدم پہلے انسان تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کرکے اُن کو اور ان کی بیوی حوا کو جنت میں رکھا، اور کہا کہ تم دونوں یہاں رہو اور آزادانہ طورپر یہاں کے سامانِ راحت سے فائدہ اٹھاؤ۔ لیکن تم اِس شجرِ ممنوعہ کے قریب نہ جانا، ورنہ تم ظالم ہوجاؤگے (البقرۃ:35 )
مگر شیطان کے وسوسے سے متاثر ہو کر انھوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا۔ اس کے بعد آدم اور حوا دونوں جنت سے نکال کر موجودہ زمین میں ڈال دیے گیے۔اور آدم سے اور ان کی پوری نسل سے یہ کہہ دیاگیا کہ جو عمل کا ثبوت دے گا، وہی ابدی جنت میں جگہ پائے گا۔
زندگی کے آغاز کی یہ مثال بتاتی ہے کہ جنت کے حصول کی شرط کیا ہے۔ جنت کسی کو پُر اسرار طورپر نہیں ملے گی اور نہ کسی کی سفارش کسی کو جنت کا مستحق بنائے گی۔ جنت کسی کو پیدائشی حق کے طور پر ملنے والی نہیں، یہاں تک کہ پیغمبر کو بھی نہیں:
Paradise is not a birth right, even for the Prophets.
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کے ذریعے سارے انسانوں کے لیے یہ مثال قائم کردی اور بتا دیا کہ جنت کسی خود ساختہ عقیدے کے تحت کسی کو ملنے والی نہیں۔ یہ اصول اتنا عام ہے کہ اِس میں پیغمبروں تک کا کوئی استثنا نہیں ہے۔
حضرت آدم کے واقعے میںایک اور بے حد اہم بات معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ جنت کے حصول کا مدار سب سے پہلے جس چیز پر ہے، وہ ہے اپنی خواہشوں پر کنٹرول اور اپنی عقل کو اتنا زیادہ ترقی دینا کہ وہ شیطان کے وسوسوں سے بچ سکے۔ انسان کے اندر ابدی کامیابی کی خواہش بے پناہ طورپر موجود ہے۔ اِسی خواہش کے راستے سے شیطان نے آدم کے اوپر حملہ کیا اور وہ کامیاب ہوگیا۔ اِسی طرح انسان کے اندر بہت سی خواہشیں ہیں۔ ہر خواہش انسان کے اندر شیطان کے داخلے کا دروازہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی خواہش کے ہر دروازے پر چوکی دار بنا رہے، تاکہ شیطان اس کے اندر داخل ہو کر اُس کو خدا کی رحمت سے دور نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں