Pages

Wednesday, 2 April 2008

Al Risala | April 2008 (الرسالہ،اپریل)

2

- صلاۃ کلچر

3

- سفارش نہیں، استحقاق

4

- دو طرفہ معاملہ

5

- اولاد پرستی

6

- دعوت اور انگریزی

7

- جدالِ احسن کیا ہے

10

- قومی فخر نہیں

17

- دیوارِ قہقہہ

21

- جنت اور انسان

25

- ابدی صحرا

26

- دورِ امن کا آغاز

31

- موت کا شعور

32

- اعلیٰ ذوق

- کامیاب زندگی کا راز

34

- ڈگری اور انگریزی

35

- حیوانِ کاسِب نہ بنیے

36

- عُذر نہیں

37

- سادگی کااصول

38

- سوال وجواب

45

- خبرنامہ اسلامی مرکز— 183


صلاۃ کلچر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بین العبد والکُفرترک الصلوۃ ( صحیح مسلم، کتاب الایمان)۔ یعنی نماز کسی آدمی کے اسلام کی پہچان ہے، اور کسی آدمی کا اسلام سے نکل جانا یہ ہے کہ وہ نماز کی عبادت ترک کردے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ دین میں نماز کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔پنج وقتہ نماز دراصل اعترافِ خداوندی کی عملی صورت ہے۔ نمازکے تمام اَجزا بندے کی طرف سے اپنے رب کے اعتراف کو ممثّل (symbolize) کرتے ہیں۔ اِس اعتبار سے نماز عبادتِ الٰہی کی کامل صورت ہے۔ نماز میں وہ تمام اجزا مکمل طورپر پائے جاتے ہیں جو عبادت کی نسبت سے انسان سے مطلوب ہیں۔نماز کو رات اور دن کے درمیان پانچ مخصوص اوقات کے ساتھ مقرر کیا گیا ہے ۔یہ بے حد اہم ہے۔ اِس طرح نماز کو کسی انسان کے لیے اس کے لازمی رُٹین (compulsive routine) میں شامل کردیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو حالات کے زیر اثر، انسان بار بار عذر (excuse) لیتا رہے اور وہ نماز جیسی عبادت کی پابندی نہ کرسکے۔
نماز کی عبادت کے لیے باجماعت نماز کا نظام مقرر کرنا گویا کہ اُس کو ایک مکمل کلچر کا درجہ دے دینا ہے۔ اِس طرح با جماعت نماز اپنے متنوع پہلوؤں کے ساتھ انسان کی پوری زندگی میں شامل ہوجاتی ہے۔ باجماعت نماز کی پابندی کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ خدا کی عبادت کو انسان کی زندگی میں مرکزی مقام حاصل ہوجاتا ہے۔ انسان کی پوری زندگی کے لیے نماز ایک قسم کے رِگولیٹر (regulator) کی حیثیت حاصل کرلیتی ہے۔ نماز کسی انسان کی زندگی کو خدا رُخی زندگی بنا دیتی ہے۔
نماز ابتدائی طور پر ایک انفرادی عبادت ہے، لیکن جب کچھ لوگ مسجد پہنچ کر وہاں امام کی اقتدا میں با جماعت نماز ادا کرتے ہیں تو نماز اُن کی زندگی کے لیے گویا اجتماعی شیرازہ بن جاتی ہے— اِن متنوع فوائد کا تقاضا ہے کہ ہر آدمی نماز کو اپنی زندگی میں لازمی طورپر شامل کرلے۔ اگر بالفرض آدمی کو خشوع کی نماز حاصل نہ ہو، تب بھی اس کے لیے نماز کی ادائیگی ضروری ہے۔ کیوں کہ نماز یاددہانی کے لیے ہے(طٰہٰ: 14 ) اور یاددہانی کا فائدہ پھر بھی آدمی کو حاصل ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سفارش نہیں، استحقاق

بعدکے زمانے میں مسلمانوں میں بہت سی ایسی موضوع روایتیں رائج ہوئیں جو یہ بتاتی تھیں کہ جنت میں داخلے کا معاملہ سفارش (recommendation) پر مبنی ہے، نہ کہ استحقاق (merit) پر۔ مثلاً یہ کہ جس گھر میں ایک حافظ ہو، اس کی سفارش پر اس کے خاندان کے بہت سے لوگ جنت میں داخل کردیے جائیں گے۔ اِسی طرح پیغمبر کے بارے میں بہت سی موضوع روایتیں رائج ہوئیں۔ مثلاً: الصّالح للہ والطّالح لی( نیک خدا کے لیے ہے، اور بد میرے لیے)۔ مگر یہ تمام روایتیں قطعی طورپر بے بنیاد ہیں، اسلام میں ان کی کوئی اصل نہیں:
It has no basis in fact.
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا مستحقین ِ جنت کے انتخاب (selection)کی دنیا ہے۔ جنت میں صرف اُنھیں لوگوں کو داخلہ ملے گا جنھوںنے موجودہ دنیا میں اپنے عمل سے اس کا استحقاق ثابت کیا ہو۔ قرآن کی سورہ نمبر 53 میں بتایا گیا ہے کہ آخرت میں انسان کے لیے وہی ہے جس کے لیے اُس نے دنیا کی زندگی میں کوشش کی (النّجم: 29 )۔ اِسی طرح قر آن کی سورہ نمبر 2 میں بتایا گیا ہے کہ آخرت کے دن کسی آدمی کے لیے نہ خرید و فروخت کام آئے گی اور نہ دوستی اور نہ سفارش (البقرۃ: 254 )۔
سفارش جیسی چیزوں کو جنت میں داخلے کا ذریعہ سمجھنا، جنت کی تصغیر (underestimation) ہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں تمام انسانوں کی زندگی کا اعمال نامہ(record) تیا ر کیا جارہاہے۔ جنت ایک اعلیٰ ترین مقام ہے، اور موجودہ دنیا کے ریکارڈ کی بنیاد پر اعلیٰ ترین انسانوں کو وہاں آباد کرنے کے لیے منتخب کیا جائے گا۔ قرآن کے مطابق، جنت وہ جگہ ہے جو خدائے برتر کے پڑوس میں بنے گی، اور جہاں سچے لوگ سچائی کی دنیا میں ابدی جگہ پائیں گے (القمر: 55 )۔ جنت خدا کے پڑوس (التحریم: 11)میں رہنے کا نام ہے۔ یہ تصور مضحکہ خیز حد تک بے اصل ہے کہ خدائے برتر کے پڑوس میں داخلہ کسی کو محض انسانی سفارش کی بنیاد پر حاصل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

دو طرفہ معاملہ

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایرمی رجلٌ رجلاً بالفسق ولا یرمیہ بالکفر إلاّ ارتدّت علیہ، إن لم یکن صاحبہ کذلک (مسند احمد، جلد 5، صفحہ 181) یعنی جب بھی ایک آدمی دوسرے آدمی پر کافر یا فاسق ہونے کا الزام لگاتا ہے، تو ضرور یہ الزام خود قائل کی طرف لوٹ آتا ہے، اگر دوسرا آدمی ویسا نہ ہو۔
یہ کوئی پُراسرار بات نہیں۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے جس کو خدا نے اِس دنیا میں قائم کررکھا ہے۔ اِس قانون کو موجودہ زمانے میں بوم رینگ (boomerang) کا قانون کہا جاتا ہے۔ یعنی کسی چیز کو آپ جس قوت سے دوسرے کی طرف پھینکیں، اُسی قوت سے وہ آپ کی طرف لوٹ کر آئے گی:
It is the law of the boomerang— the harder and faster you throw it, the faster and more violently it comes back.
جب کوئی آدمی کسی کو برا کہتا ہے، یا اس کو فاسق یا کافر بتاتا ہے تو وہ اپنے داخلی احساس کے تحت اس کو محض ایک یک طرفہ معاملہ سمجھتا ہے، یعنی ایک ایسی بات جس کا تعلق خود اس کی اپنی ذات سے نہیں ہے، بلکہ صرف دوسرے شخص کی ذات سے ہے۔ مگر یہ ایک خطرناک بھول ہے۔ کیوں کہ اگر دوسرا آدمی ویسا نہیں ہے جیسا آپ نے اس کو بتایا ہے، تو آپ کا کہا ہوا خود آپ کی طرف لوٹ آئے گا۔ جو الزام آپ دوسرے شخص کو دے رہے تھے، آپ خود اس کے مجرم بن جائیں گے۔
اب اگر یہ دیکھا جائے کہ فسق یا کفر کا تعلق انسان کے دل سے ہے، اور دل کا حال صرف خدا جانتا ہے تو ہر وہ شخص جو خدا سے ڈرتا ہو، اس کا حال یہ ہوجائے گا کہ اِس قسم کی زبان استعمال کرنے سے وہ آخری حد تک بچے گا۔ وہ اگر کسی شخص کے اندر کوئی برائی دیکھ رہا ہے تو وہ خیر خواہانہ انداز میں اس کو نصیحت کرے گا۔ وہ ہر گز ایسا نہیں کرے گا کہ وہ اس کے بارے میں فاسق اور کافر جیسی زبان بولنے لگے۔ وہ کسی شخص کے فسق اور کفر کو خدا کے اوپر چھوڑدے گا، اور اپنی ذمّے داری صرف یہ سمجھے گا کہ وہ نصیحت اور تلقین کے ذریعے دوسرے انسان کی اصلاح کی کوشش کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

اولاد پرستی کا فتنہ

ایک حدیثِ رسول میں بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ گھاٹے میں وہ شخص ہے جو دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھودے (أذہب آخرتہ بدنیا غیرہ، ابن ماجہ، کتاب الفتن)۔ یہ حدیث موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ اُن لوگوں پر چسپاں (apply) ہوتی ہے جو صاحبِ اولاد ہیں۔ موجودہ زمانے میں صاحبِ اولاد لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر ایک کے لیے اس کی اولاد اُس کا سب سے بڑا کنسرن (supreme concern) بنی ہوئی ہے۔ ہر ایک کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے میں مصروف ہے، اور خود اپنی آخرت کی خاطر کوئی حقیقی کام کرنے کے لیے آدمی کے پاس وقت ہی نہیں۔
موجودہ زمانے میں ہر آدمی اِس حقیقت کو بھول گیا ہے کہ اس کی اولاد اُس کے لیے صرف امتحان کا پرچہ (الأنفال: 28 ) ہے۔ اولاد اس کو اِس لیے نہیں ملی ہے کہ وہ بس اپنی اولاد کو خوش کرتا رہے، وہ اپنی اولاد کی دنیوی کامیابی کے لیے اپنی ساری توانائی لگادے۔
موجودہ زمانے میں بہت سے لوگ ہیں جو بظاہر مذہبی وضع قطع بنائے رہتے ہیں اور رسمی معنوں میں صوم و صلاۃ کی پابندی بھی کرتے ہیں، لیکن عملاً وہ اپنا سارا وقت اور اپنی بہترین صلاحیت صرف دنیا کمانے میں لگائے رہتے ہیں، صرف اِس لیے کہ جب وہ مریں تو اپنی اولاد کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ سامانِ دنیا چھوڑ کر جائیں۔
مگر ایسے لوگ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ خدا کو دینے کے لیے اُن کے پاس صرف کچھ ظاہری رسوم ہیں اور جہاں تک حقیقی زندگی کا تعلق ہے، اس کو انھوں نے صرف اپنی اولاد کے لیے وقف کررکھا ہے۔ یہ خدا پرستی نہیں ہے، بلکہ وہ حدیث کے الفاظ میں اولاد پرستی ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اولاد پرستی کا طریقہ کسی کو خدا پرستی کا کریڈٹ نہیں دے سکتا۔ خدا پرستی، زندگی کا ضمیمہ (appendix) نہیں، حقیقی خدا پرستی وہ ہے جو انسان کی پوری زندگی کا اِحاطہ کیے ہوئے ہو۔
واپس اوپر جائیں

دعوت اور انگریزی

موجودہ زمانے میں انگریزی زبان ایک انٹرنیشنل زبان(international language) کی حیثیت رکھتی ہے۔ کمپیوٹر انقلاب (computer explosion) کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دنیا کی آبادی کے تقریباً 75 فی صد لوگوں کے لیے انگریزی زبان رابطے کی زبان (link language) بن گئی ہے۔ انگریزی زبان کے اِس پھیلاؤ کی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ دعوت الی اللہ کے کام کے لیے انگریزی زبان کو جاننا داعی کی ایک لازمی ضرورت بن گیا ہے۔
لیکن موجودہ زمانے میں جس طرح انگریزی زبان کو عمومی پھیلاؤ حاصل ہوا ہے، اِسی طرح ایک اور چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں بہت زیادہ پھیلاؤ حاصل ہوا ہے، یہ دوسری چیز سائنٹفک تھنکنگ ہے۔ موجودہ زمانے میں موثردعوتی عمل کے لیے صرف انگریزی زبان جاننا کافی نہیں۔ اِسی کے ساتھ لازمی طورپر ضروری ہے کہ آدمی یہ جانے کہ جدید فکر (modern thought) کیا ہے۔ وہ کیا چیز ہے جس کو سائنسی استدلال (scientific reasoning) کہاجاتا ہے۔
جب آپ کسی شخص کے اوپر دعوتی عمل کریں تو اُس وقت دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک، یہ کہ بہ اعتبارِ زبان آپ کی بات مدعو کے لیے قابلِ فہم ہو۔ دوسرے، یہ کہ آپ کا استدلال مدعو کے اپنے مسلّمہ (axiom) پر مبنی ہو، تاکہ وہ مدعو کے ذہن کو ایڈریس کرسکے۔
داعی اگر صرف انگریزی زبان جانتا ہو، لیکن وہ جدید اصولِ استدلال سے ناواقف ہو تو اس کی بات مدعو کی سمجھ میں تو آئے گی، لیکن وہ اس کے دل میں نہیں اترے گی۔ وہ اس کے ذہن کو مطمئن نہیں کرے گی۔ وہ اس کے اندر وہ فکری بھونچال نہیں پیدا کرے گی جس کے بعد آدمی اپنی سوچ پر نظرِ ثانی کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ جس دعوتی عمل میں پہلی چیز موجود ہو، لیکن دوسری چیز موجود نہ ہو، وہ حقیقی معنوں میں دعوتی عمل نہیں۔ کیوں کہ حقیقی دعوت کی تعریف قرآن میں یہ کی گئی ہے کہ وہ قولِ بلیغ (النّساء: 63 ) کے اسلوب میں ہو، یعنی ایسا اسلوبِ دعوت جو مدعو کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو۔
واپس اوپر جائیں

جدالِ احسن کیا ہے

جِدال (discussion) کے دوطریقے ہیں۔ ایک، احسن اور د وسرا، غیر احسن۔ جدالِ احسن یہ ہے کہ زیر بحث مسئلے پر مسلّمہ دلیل کی روشنی میں اظہارِ خیال کیا جائے۔ مثلاً حضرت ابراہیم کا معاصر بادشاہ خدائی کا دعوے دار تھا۔ آپ نے اس کے دعوے کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے کہا کہ خدا، سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تم اس کو مغرب سے نکال دو (البقرۃ: 258 )۔ سورج کا مشرق سے نکلنا اور مغرب میں ڈوبنا مسلمہ طورپر ایک برتر طاقت کا عمل تھا، اِس لیے مذکورہ بادشاہ اس کے مقابلے میں مبہوت ہو کر رہ گیا۔
جدالِ غیر احسن یہ ہے کہ آپ فریقِ ثانی کے خلاف کوئی مسلّمہ دلیل نہ دیں، اِس کے برعکس، آپ یہ کریں کہ اُس کے خلاف صرف منفی ریمارک(negative remark) دیں، لفظی طورپر اس کی مذمت کریں اور بیانیہ انداز میں اس کو غلط بتائیں۔ یہ جدالِ غیر احسن ہے، اِس سے کبھی مطلوب نتیجہ برآمد نہیںہوتا۔ اِسی قسم کے جدالِ غیر احسن سے مسلمانوں کو روکنے کے لیے قرآن میںیہ حکم دیاگیا کہ: اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، اُن کو تم بُرا نہ کہو، ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو بُرا کہنے لگیں گے (الأنعام: 109 )۔
قرآن، توحید کی کتاب ہے۔سارا قرآن براہِ رست یا بالواسطہ طورپر، توحید کا بیان ہے، مگر یہ تمام بیانات دلائل کی زبان میں ہیں۔ کیوں کہ دلیل کی زبان ہی میں کوئی قول، قولِ بلیغ(النساء:63 ) بنتا ہے۔ مگر قرآن میںاس کو پسند نہیںکیاگیا کہ کوئی شخص توحید کے مسئلے کو سب وشتم کی زبان میں بیان کرے۔ کیوں کہ ایسے اسلوب سے مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ ایسے اسلوب کا نتیجہ ہمیشہ منفی ہوتا ہے، ایسے اسلوب کے ذریعے کبھی مثبت نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔
جدالِ غیر احسن کے اِس معاملے کی ایک مثال حدیث ِ رسول میں یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مدینہ کے ایک یہودی اور مسلمان کے درمیان نبوت کے مسئلے پر تکرار ہوئی۔ یہودی نے کہا: إن اللہ اصطفیٰ موسیٰ علی العالمین (اللہ نے موسیٰ کو تمام دنیا والوں پر افضل بنایا)۔ اِس کو سن کر مسلمان نے یہودی کو تھپڑ مارا اور کہا کہ تم غلط کہتے ہو، اللہ نے محمد کو تمام دنیا والوں پر افضل بنایا ہے (إنّ اللہ اصطفیٰ محمداً علی العالمین)۔
اِس کے بعد مذکورہ یہودی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اوراس نے آپ سے اِس معاملے کی شکایت کی۔ اِس کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہوگئے، یہاں تک کہ غضب آپ کے چہرے پر ظاہر ہوگیا۔ آپ نے کہا کہ اللہ کے نبیوں کو ایک دوسرے پر افضل نہ بتاؤ (لا تفضلوا بین أنبیاء اللہ)، کیوں کہ قیامت کے دن صور پھونکا جائے گا، تو زمین اور آسمان کے تمام لوگ بے ہوش ہوجائیں گے، سوا اس کے جس کو خدا چاہے۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، پھر میں پہلا شخص ہوں گا جو ہوش میں آکر کھڑا ہوگا۔ پھر میں دیکھوں گا کہ موسیٰ عرشِ الٰہی کو پکڑ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ بے ہوش ہوئے تھے اور پھر ہوش میں آگئے، یا اللہ نے اُن کو بے ہوشی سے مستثنیٰ رکھا (صحیح البخاری ومسلم، بہ حوالہ: جامع الأصول فی أحادیث الرسول، رقم الحدیث:6308)۔
اِس روایت میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو کچھ نہیں کہا، آپ نے یہودی کو ’’گستاخِ رسول‘‘ قرار نہیں دیا۔ آپ اُس وقت مدینہ میں حاکم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس کے باوجود آپ نے اِس معاملے میں یہودی کی طرف سے بالکل صرفِ نظر فرمایا۔ آپ نے صرف مسلمان کو نصیحت کی۔ آپ نے مسلمان کو ہمیشہ کے لیے اِس قسم کے رویّے سے باز رہنے کا حکم دیا۔
دوسری بات جو اِس واقعے سے معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ اسلام میںتفضیل اور تفاخر کی زبان استعمال کرنا مطلقاً ممنوع ہے۔ اہلِ ایمان کو جس طرح سب وشتم کی زبان سے مکمل طورپر بچنا ہے، اُسی طرح اُن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تفضیل اور تفاخر کی زبان سے مکمل طورپر اپنے آپ کو دور رکھیں۔
سب وشتم کی زبان اگر نفرت کا ماحول پیدا کرتی ہے تو تفضیل اور تفاخر کی زبان استعمال کرنے سے بے جا فخر کی نفسیات پیداہوتی ہے۔ اور دونوں ہی کا مشترک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان معتدل تعلقات ختم ہوجاتے ہیں، اور جہاں لوگوں کے درمیان معتدل تعلقات نہ ہوں، وہاں دعوت کا عمل بھی موثر طورپر جاری نہیں رکھا جاسکتا۔
مدینہ کا مذکورہ واقعہ گویا کہ اسلام کی تاریخ میںپہلا مناظرہ (debate) تھا۔ اس واقعے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مناظرے کا طریقہ اسلامی طریقہ نہیں، مناظرہ جاہلیت کا طریقہ ہے۔ مناظرہ گویا کہ اسٹیج پر کیا ہوا لفظی دَنگل ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ لفظی دنگل کا کوئی فائدہ کسی کو نہ دنیا میں ملنے والا ہے اور نہ آخرت میں۔ اِس قسم کا طریقہ کسی شخص کو عوامی مقبولیت دے سکتا ہے، لیکن اسلام کو یااسلامی دعوت کو اس سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں۔
جدال (discussion) کا مقصد اسلامی تعلیم کے مطابق یہ ہے کہ فریقِ ثانی کو مطمئن (convince) کیا جائے۔ اسلام کے مطابق، جدال کامقصد یہ نہیں ہے کہ فریقِ ثانی کو شکست دے دی جائے اور پھر تالیاں بجا کر بطور خود یہ فرضی خوشی حاصل کی جائے کہ ہم نے دوسرے کو ہرا کر اس کے اوپر جیت حاصل کرلی۔
اسلامی جدال یادعوتی کلام کا اصل محرک فریقِ ثانی کے لیے خیر خواہی (well-wishing)ہے، یعنی فریقِ ثانی کو مطمئن کرکے اُس کو اِس قابل بنانا کہ وہ خدا کی رحمت کے سایے میں آجائے۔ دعوتی کلام فریقِ ثانی کے لیے درد مندی کے جذبے کے تحت نکلتا ہے، اور مناظرانہ کلام فریقِ ثانی کو کسی نہ کسی طرح ہرانے کے جذبے سے۔
واپس اوپر جائیں

قومی فخر نہیں

دورِ اوّل میںجو لوگ اسلام میں داخل ہوئے، اُن کے لیے اسلام ایک ذاتی دریافت (discovery) تھا۔ وہ خوفِ خدا اور فکرِ آخرت میں جینے والے لوگ تھے۔ تقریباً سو سال کے بعد مسلمانوں کی یہ پہلی نسل ختم ہوگئی۔ اِس کے بعد نسلی مسلمانوں کا دَور آیا۔ اِس دور کے لوگوں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، اُس میںاہلِ اسلام کو سیاسی دبدبہ حاصل ہوچکا تھا۔پہلے دور میں اگر اسلام دریافتِ خداوندی کے ہم معنیٰ تھا تو دوسرے دور میں اسلام ایک پولٹکل ایمپائر کے ہم معنیٰ بن چکا تھا۔
یہ دوسرا دور قریب ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اِس ہزار سال کے اندر مسلم فکر کا جو ارتقا ہوا، وہ خلافت کے نام پر سیاسی عظمت (political glory)پر مبنی تھا۔ اب مسلمانوں کے تمام ادارے، مسلم نسلوں کو فخر اور عظمت کا سبق دینے لگے۔ وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بر تر سمجھنے لگے۔ بعد کی مسلم نسلوں میں، شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ ذہن بن گیا کہ ہم ہر اعتبار سے دوسری قوموں سے افضل ہیں، دنیا میںبھی اور آخرت میں بھی۔
مگر اٹھارھویں صدی عیسوی میں ایک نیا انقلاب آیا۔ قانونِ فطرت کے تحت، اب مسلم ایمپائر ٹوٹنے لگا۔ مسلمان زندگی کے ہر میدان میں دوسروں سے پیچھے جانے لگے۔ اب مغربی قوموں نے سیاسی اور تہذیبی برتری کا درجہ حاصل کرلیا۔ اچانک مسلمانوں کے ساتھ یہ فکری حادثہ پیش آیا کہ جس دنیا میں وہ دوسروں کے مقابلے میں برتری کے احساس میں جی رہے تھے، وہاں وہ مجبور ہوگیے کہ دوسروں کے مقابلے میں کم تری کے احساس میں زندگی گزاریں۔
بیسویں صدی عیسوی کے نصف اوّل میں یہ صورتِ حال پوری طرح واضح ہوگئی۔ اُس وقت مسلم دنیا میں بڑی تعداد میں مصلحین (reformers) پیدا ہوئے، مگر اِس نیے مرحلے میںہمارے رہ نماؤں سے یہ بھیانک غلطی ہوئی کہ وہ ردّعمل کی نفسیا ت کے ساتھ اُبھرے۔ میرے علم کے مطابق، اِس دَور کاکوئی ایک بھی مسلم رہ نما ایسا نہیںہے جو ردّ عمل کی نفسیات سے اوپر اُٹھ کر معاملے کو سمجھے اور خالص مثبت انداز میں مسلمانوں کو فکری رہ نمائی دے۔
حقیقت یہ ہے کہ تبدیلی ٔاقتدار کا یہ معاملہ، فطرت کے ایک قانون کے تحت ہوا۔ اِس کو قر آن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: تلک الأیّام نداولہا بین الناس(آل عمران: 140 )۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیامیں غلبہ واقتدار بھی، دوسری دُنیوی چیزوں کی طرح، امتحان کا ایک پرچہ (test paper)ہے۔ اقتدار کے اوپر کسی ایک قوم کی اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوسکتی، وہ کبھی ایک قوم کے پاس رہے گا اورکبھی دوسری قوم کے پاس۔ فطرت کا یہی قانون تھا جس کا نفاذ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اوپر ہوا۔
ایسے وقت میں مسلم رہ نماؤں کو صرف ایک کام کرنا تھا، وہ یہ کہ وہ مسلمانوں کے اندر خود احتسابی (introspection)کا مزاج پیدا کریں۔ وہ مسلمانوں کو اصلاح اور تعمیر اور استحکام کے داخلی کاموںمیں لگائیں۔ وہ مسلمانوں کو جدید تعلیم میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھائیں۔ وہ مسلمانوں کو جدید سائنس اور جدید صنعت اور تجارت کے میدان میں ترقی کرنے کا سبق دیں۔ وہ مسلمانوں کو یہ بتائیں کہ سیاسی اقتدار کے باہر سیکڑوں قیمتی مواقع (opportunities) ہیں جو اُن کے لیے پوری طرح کھُلے ہوئے ہیں، اِس لیے انھیں چاہیے کہ وہ سیاسی ٹکراؤ کا راستہ چھوڑ کر پُرامن تعمیر کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ ماضی کو بھُلا کر مستقبل کی نئی تعمیر کو اپنا نشانہ بنائیں۔
اِس دَور کے مسلم رہ نماؤں کے لیے ضروری تھا کہ وہ مسلمانوں کو تعمیری رہ نمائی دیں، یعنی پُرامن طورپر داخلی تعمیر واستحکام کا راستہ بتانا۔ مگر ہر ایکنے مسئلے کو صرف ایک خارجی مسئلہ (external problem) سمجھا۔ ہر ایک نے مسلمانوں سے کہا کہ دوسرے لوگ ظالم اور غاصب ہیں تم اُن سے لڑ کر اپنے لیے زندگی کا حق حاصل کرو، یعنی انھوں نے تعمیری رہ نمائی کے بجائے، عسکری رہ نمائی دی۔ اِس معاملے میں عرب لوگوں کو اپنے موجودہ مزاج کے تحت صرف ایک ماڈل نظر آیا، اور وہ صلاح الدین ایوبی (وفات: 1193 ) کا ماڈل تھا۔ عرب ذہن کی نمائندگی کرتے ہوئے عرب شاعرالزرکلی نے کہا:
ہاتِ صلاح الدین، ثانیۃً فینا جدّدی حطّین، أوشبہ حطّینا
صلاح الدین کو دوبارہ ہمارے پاس لاؤ۔ اور حطین کا معرکہ یا حطین جیسا معرکہ دوبارہ گرم کرو۔
امیر شکیب ارسلان (وفات: 1946 ) نے اپنی مشہور کتاب : لماذا تأخّر المسلمون وتقدّم غیرہم (1938) میں مسلمانوں کو دوبارہ عسکری معرکہ آرائی پر ابھارا ہے اور عسکری اقدام کو کامیابی کا راز بتایا ہے۔ اِس سلسلے میں انھوں نے حسب ذیل شعر نقل کیا ہے:
تأخّرتُ أستبقی الحیاۃَ، فلم أجد لنفسی حیاۃً، مثل أن أتقدّما
میں زندہ رہنے کے لیے (میدانِ جنگ) سے پیچھے رہا، لیکن میں نے اپنے لیے کوئی زندگی نہ پائی۔ زندگی تو صرف آگے بڑھنے والوں کے لیے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض غیر مسلم مصنفین نے دورِ جدید کے مسلم ذہن کی جو تصویر پیش کی ہے، وہ عسکریت (militancy) کی تصویر ہے۔ اِس سلسلے میں رام موہن گاندھی نے اقبال کا یہ مصرعہ نقل کیا ہے:
ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
اِس مصرعے کا انگریزی ترجمہ انھوںنے حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے:
For every vein of falsehood, every Muslim was a knife.
اِس دور کے تمام مسلم رہ نما ردّ ِ عمل کی نفسیات کا شکار ہوگیے تھے، اِس لیے وہ صرف منفی رُخ پر سوچتے رہے۔ انھوں نے انتہائی غیر دانش مندانہ طورپر یہ کیا کہ غیر مسلم قوموں کو اسلام دشمن قرار دے کر، مسلمانوں کو اُن سے متنفّر کردیا۔ مسلمان اِس قابل نہ رہے کہ وہ نئی ابھرتی ہوئی قوموں کے بارے میں مثبت رائے قائم کریں، وہ اُن سے نئی حقیقتوں کو سیکھیں۔
اِس نئی صورت حال کے پیش آنے کے بعد، اصل ضرورت یہ تھی کہ مسلمانوں کو بتایا جائے کہ غیر مسلم اقوام کا کیس اُن کے خلاف دشمنی کا کیس نہیں، بلکہ وہ اُ ن کے لیے چیلنج کا کیس ہے۔ فطرت کے عمومی قانون کے تحت، اِن قوموں نے مسلمانوں کو چیلنج دیا ہے، اور اب مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ وہ مثبت ذہن کے ساتھ اِس کا سامنا کریں۔ وہ پورے معاملے پر نظر ثانی (reassessment) کرکے نئی منصوبہ بندی کے تحت دنیا میں دوبارہ اپنا مقام بنائیں۔ یہی مسلمانوں کی صحیح رہ نمائی تھی، مگر منفی نفسیات میں مبتلا رہ نما، مسلمانوں کو یہ صحت مند رہ نمائی (healthy guidance)نہ دے سکے اور پوری مسلم دنیا منفی سوچ اور غصہ اور نفرت میں مبتلا ہو کر رہ گئی۔
بیسویں صدی کے نصف اوّل میں پوری مسلم دنیا میں بڑی تعداد میں مسلم رہ نما پیدا ہوئے، مگر اِن تمام مسلم رہ نماؤں کا کیس مشترک طورپر وہی تھا جو اوپر بیان ہوا۔ عرب دنیا میں اِس زمانے میں سیدجمال الدین افغانی، سید قطب، امیر شکیب ارسلان، وغیرہ نے یہی کام کیا۔ اِسی طرح برّ صغیر ہند میں اقبال اور ابوالاعلیٰ مودودی ، وغیرہ یہی کام کرتے رہے۔ میرے علم کے مطابق، رہ نماؤں کی لمبی فہرست میں کوئی بھی اِس معاملے میں استثنا (exception)کی مثال نہیں۔ یہ منفی رہ نمائی مسلمانوں کو جہاد کے نام پر تشدد تک لے گئی، اور جب مسلمان دوسروں کو ہلاک کرنے پر قادر نہ ہوسکے تو انھوں نے خود کُش بم باری (suicide bombing) کے ذریعے خود اپنے آپ کو ہلاک کرنا شروع کردیا۔
اِس صورت حال کا ایک انوکھا ظاہرہ وہ ہے جس کو میں نظر یاتی خود فریبی سے تعبیر کروں گا۔ موجودہ زمانے میں آپ کو بہت سے مسلمان ملیں گے جو یہ کہیں گے کہ ہم کو سید قطب کی تحریروں اور ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں اور احمد دیدات کے کیسیٹس کے ذریعے نیا ایمان حاصل ہوا ہے۔ اِن حضرات کے افکار سے ہم کو دوبارہ اسلام ملا ہے، ورنہ ہم اسلام سے دور چلے گیے تھے۔
میںنے اِن حضرات کے کیس پر بہت غور کیا۔ میرے نزدیک یہ مسلم رہ نما، منفی خوراک دیتے ہیں نہ کہ مثبت خوراک۔ پھر کیسے ایسا ہوا کہ اُن کی باتوں سے کچھ لوگوں کو مثبت اسلام مل گیا۔ اِس قسم کے بہت سے لوگوں سے میری ملاقاتیں ہوئیں۔ گہرے جائزے کے بعد آخری طورپر جوبات میری سمجھ میں آئی، وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو جو چیز ملی ہے، وہ قومی اسلام ہے نہ کہ حقیقی اسلام۔ بیسویں صدی میں بہت سے مسلمان، خاص طورپر مسلم نوجوان، اِس احساس میں جی رہے تھے کہ دوسری قوموں نے اُن کا قومی فخر اُن سے چھین لیا ہے۔ مسلّح جہاد کے باوجود وہ اپنے اِس قومی فخر کو دوبارہ حاصل نہ کرسکے۔
اِس دوران میں یہ ہوا کہ کچھ ایسے لوگ نکلے جوالفاظ کی دنیا میں ان کے جذباتِ فخر کی تسکین فراہم کررہے تھے۔ کسی نے بتایا کہ مغرب کی سائنسی ترقی مسلم دماغوں کی خوشہ چینی کے ذریعے ہوئی ہے۔ کسی نے مسلمانوں کی سیاسی فتوحات پر کتابیں لکھ کر اُن کو ماضی کی عظمت دوبارہ یاد دلائی۔ کسی نے بتایا کہ اسلام کا نظام دنیا کے تمام نظاموں سے زیادہ اعلیٰ اور برتر(superior) ہے۔ کسی نے بتایا کہ مغربی تہذیب ایک ایسا درخت ہے جو صرف زہریلے پھل دے سکتا ہے۔ کسی نے بتایا کہ مغربی تہذیب اپنی موت آپ مررہی ہے، تاکہ مسلمانوں کو دوبارہ ان کا بلند مقام حاصل ہوجائے۔ کسی نے بتایا کہ دنیا کا اسٹیج مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ (renaissance) کا انتظار کررہا ہے:
اُٹھ، کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے
موجودہ زمانے میں شاعروں اور خطیبوں اور انشا پردازوں کے علاوہ، ایک اور طبقہ پیداہوا جس کو مسلم ڈبیٹر (مُناظر) کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے شان دار اسٹیج بنائے اور وہاں پُرجوش تقریریں کیں۔ انھوںنے ٹی وی کے اسکرین پر مناظرانہ مظاہرے کیے۔ انھوں نے مسلم نفسیات کو یہ کہہ کر فرضی فتوحات کی خوراک دی کہ — اِن سب کو بُل ڈوز کردو:
Bulldoze them all.
یہ مسلم ڈبیٹر اِس آخری حد تک گیے کہ جب مسلمانوں کو ٹررسٹ (terrorist)کہاگیا تو انھوںنے کہا کہ ہاں، ہم ٹررسٹ ہیں۔ مگر ہم پولس کی طرح مجرمین کے لیے ٹررسٹ ہیں:
Every Muslim should be a terrorist. A terrorist is a person who causes terror. The moment a robber sees a policeman, he is terrified. A pliceman is a terrorist for the robber. Similarly, every Muslim should be a terrorist for the anti-social elements of society, such as thieves, dacoits and rapists.
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم کو قطب اور اقبال اور مودودی اور احمد دیدات کے ذریعے اسلام ملا، وہ دراصل ایک شدید قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔وہ قومی اسلام کو ربّانی اسلام کا درجہ دے رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ صرف یہ تھا کہ انھوںنے اِن حضرات کے ذریعے اپنے قومی فخر کو دوبارہ حاصل کرلیا، مگر غلط فہمی کی بنا پر انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ اُن کو حقیقی اسلام حاصل ہوگیا ہے۔
اِسی قسم کے ایک مسلمان مسٹر مراد سے 2 اگست 2007 کو میری ملاقات دہلی میں ہوئی۔ اُن کے والدین شام سے تعلق رکھتے تھے۔ پھر وہ شام کو چھوڑ کر ترکی گیے۔ پھر ترکی سے وہ آسٹریلیا منتقل ہوگیے۔ اِس وقت یہ فیملی آسٹریلیا میںرہ رہی ہے۔ مسٹر مرادکی تعلیم آسٹریلیا کے اسکول اور کالج میں ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ یہ اسکول ایک کرسچن اسکول تھا۔ وہاں انھیں بتایا جاتا تھا کہ عیسائیت (Christianity)زیادہ اچھا مذہب ہے، اور اسلام اُس کے مقابلے میں کم تر مذہب ہے۔
وہ اسلام کی اِس منفی تصویر سے سخت پریشان تھے۔ پھر انھیں احمد دیدات جیسے لوگوں کو سننے کا موقع ملا۔ اِس سے اُن کے ذہن میں اسلام کی عظمت (glory)دوربارہ لوٹ آئی۔ وہ اسلام کو اپنے لیے فخر کی ایک چیز سمجھنے لگے۔ پھر اسی مجلس میںانھوں نے بتایاکہ میں تاج محل دیکھنے کے لیے آگرہ گیا تھا۔ مجھے تاج محل دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ میں نے سوچا کہ تاج محل کو بنانے والے مسلمان تھے، مگر آج ہندو لوگ اُس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
میں نے کہا کہ آپ کی اِس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو احمد دیدات جیسے لوگوں کے ذریعے جو اسلام ملا ہے، وہ اسلام نہیں ہے، بلکہ صرف قومی فخر ہے۔ اگر آپ کو حقیقی اسلام ملا ہوتا تو آپ تاج محل کے بارے میں اِس قسم کی منفی بات نہ کہتے۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کو انڈیا میں صرف تاج محل دکھائی دیا۔ انڈیا میںاس کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ بڑی چیز موجو ہے، اور وہ دعوتی عمل کی آزادی ہے۔ تاج محل کو لے کر آپ کا ذہن منفی سوچ کا شکار ہوگیا، حالاں کہ اگر آپ انڈیا میں موجود دعوتی مواقع کو لے کر سوچتے تو آپ کا دل شکر کے جذبات سے بھر جاتا۔
میرے تجربے کے مطابق، یہی اُن تمام لوگوں کا معاملہ ہے جو شاعروں اور مُناظروں کی باتوں کو سُن کر یہ سمجھتے ہیں کہ انھوںنے اسلام کو پالیا ہے، حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ جس چیز کو انھوںنے دریافت کیاہے، وہ اسلام کے نام پر محض فخر (pride)ہے۔ اور فخر صرف ایک مذموم چیز ہے، نہ کہ کوئی پسندیدہ چیز۔
کسی آدمی نے حقیقی اسلام کو پایا ہے یا نہیں، اُس کا معیار صرف ایک ہے، اور وہ فکرِآخرت ہے۔ جس آدمی کا اسلام اُس کے اندر گہرے طورپر آخرت کی فکر پیدا کردے، اُسی نے فی الحقیقت اسلام کو پایا۔ جس آدمی کا اسلام اُس کو جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو نہ دکھائے، اُس نے اسلام کو پایا ہی نہیں۔اُس نے کسی اور چیز کو پایا ہے اور غلطی سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اُس نے اسلام کو پالیا ہے۔
اسلام کا آغاز، خدا کی دریافت (معرفت) سے ہوتا ہے۔ خداکی دریافت ایک ایسی بالا تر ہستی کی دریافت ہے جو انسان کا خالق ہے، جو انسان کا مالک ہے، جس نے انسان کو زندگی کے تمام سامان دیے ہیں۔ جب انسان خدا کو دریافت کرتاہے تو اُسی کے ساتھ وہ یہ بھی دریافت کرتا ہے کہ انسان کے بارے میں خدا کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ خدا کا یہ تخلیقی نقشہ اُس کو بتاتا ہے کہ دنیا میں جو سامانِ حیات اُس کو ملے ہوئے ہیں، وہ سب کے سب امتحان کے پرچے ہیں۔ یہ چیزیں اُس کو حق کے طورپر نہیں ملی ہیں، بلکہ وہ اِس لیے ملی ہیں کہ اُن کے ذریعے انسان کو جانچ کر دیکھا جائے کہ وہ جہنم کی سزا کے قابل ہے، یا جنت کے انعام کے قابل۔
یہ دریافت اُس کو آخری حد تک تڑپا دیتی ہے۔ دنیا کی چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے، ہر وقت اُس کو قرآن کی یہ آیت یاد آتی ہے : ثمّ لتسئلن یومئذ عن النّعیم(التّکاثر: 8) یعنی پھر یقینا تم سے اُس دن نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔ پھر خدا کی معرفت اور جنت اور جہنم کا یقین اور مواخذۂ آخرت (accountability)کا شدید احساس، اُس کو ایسا بنا دیتا ہے کہ اِس دنیا میںمیرا کوئی حق (right)نہیں، یہاں میری صرف ذمّے داریاں (responsibilities) ہی ذمّے داریاں ہیں۔
یہ احساس اُس کو آخری حد تک فرض شناس (duty conscious) بنا دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک ایسا ذہن بنتا ہے جس میں دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ وہ صرف اپنی ذمّے داریوں کو سوچتا ہے، نہ کہ دوسروں کی کوتاہیوں کو۔ اُس کی نظر ہمیشہ اپنی غلطیوں پر ہوتی ہے، نہ کہ دوسروں کی زیادتیوں پر۔ اُس کا دل دوسروں کے لیے ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات سے بھر جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دیوارِ قہقہہ

The story of the wall of laughter
ایک پُرانا قصہ ہے کہ کسی مقام پر ایک مضبوط دیوار تھی۔ یہ دیوار بہت اونچی تھی۔ اِسی کے ساتھ وہ دونوں طرف بہت زیادہ دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ دیوار کے اِس طرف رہنے والوں کو کچھ بھی معلوم نہ تھا کہ دیوار کے دوسری طرف کیا ہے، اور کس قسم کے لوگ اُدھر رہتے ہیں۔ دیوار کے ایس طرف جو لوگ رہتے تھے، انھوں نے یہ چاہا کہ دیوار کے دوسری طرف کا حال معلوم کریں۔
اِس مقصد کے لیے انھوںنے ایک بہت لمبی سیڑھی بنائی، پھر انھوں نے اُس سیڑھی کو دیوار کے ایک طرف کھڑا کیا اور اپنے ایک آدمی کو سیڑھی پر چڑھایا، تاکہ وہ دیوار کے اوپر تک جائے اور وہاں سے دیکھے کہ دیوار کے دوسری طرف کیا ہے۔ اِس مشاہدے کے بعد وہ نیچے آکر دیوار کے اِ س طرف رہنے والوں کو دیوار کے دوسری طرف کا حال بتائے۔ لیکن جب یہ آدمی لمبی سیڑھی پر چڑھ کر دیوار کے اوپر پہنچا تو دوسری طرف کی دنیا اُس کو اتنی زیادہ خوب صورت معلوم ہوئی کہ وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور قہقہہ لگا کر دیوار کے دوسری طرف کود پڑا۔
اِس کے بعد دیوار کے اِس طرف رہنے والوں نے اپنے ایک اور آدمی کو تیار کیا اور اس کو لمبی سیڑھی کے اوپر چڑھایا، لیکن دوبارہ یہی ہوا کہ جب وہ آدمی دیوار کے اوپرپہنچا تو قہقہہ لگا کر وہ دوسری طرف کود پڑا۔ یہ تجربہ بار بار کیا جاتا رہا، لیکن ہر بار یہی ہوا کہ اوپر چڑھنے والے آدمی کو دوسری طرف کا منظر اتنا پُر کشش نظر آیا کہ وہ قہقہہ لگا کر دیوار کے دوسری طرف کود پڑا۔ اِس طرح دیوار کے اِس طرف رہنے والوں کے لیے دیوار کے دوسری طرف کا حال بدستور نامعلوم بنا رہا۔
اِس افسانوی دیوار کو اگر موت کی دیوار مانا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ انسان کی زندگی کا ایک حصہ دیوار کے اِس طرف ہے، اور اس کا دوسرا حصہ دیوار کے دوسری طرف۔ دیوار کے دوسری طرف خوشیوں کی دنیا، یا دوسرے لفظوں میں، جنت کی دنیا بسی ہوئی ہے اور دیوار کے اِس طرف محنت اور مشقت کی دنیا ہے، تو یہ کہانی انسانی تاریخ کے اوپر مکمل طورپر صادق آئے گی۔ یہ تمثیلی کہانی گویا کہ پوری انسانی تاریخ کی کہانی ہے۔
انسان پیدائشی طورپر اپنے لیے خوشیوں کی ایک زندگی چاہتا ہے۔ اِس اعتبار سے انسان کو متلاشی ٔ مسرت حیوان (joy-seeking animal) کہاجاسکتا ہے۔ قدیم انسان نے جب یہ دیکھا کہ اُس کی زندگی مختلف قسم کے غم سے بھری ہوئی ہے، تو اس نے اپنے لیے ایک پُر مسرت زندگی کی تلاش شروع کردی۔ اِس تلاش کا غالباً پہلا نمایاں واقعہ پہیہ (wheel) کی دریافت تھی۔ پہیے کی دریافت کے بعد تلاشِ مسرت کا یہ انسانی سفر شروع ہوگیا۔ اِس سفر کو ایک متعین نام دینا ہو تو اُس کو تہذیب (civilization) کا سفر کہاجاسکتا ہے۔تہذیب کا یہ سفر چلتا رہا۔ لمبی مدت کے بعد آخر کار یہ سفر جدید تہذیب (modern civilization) کے دَور تک پہنچ گیا۔ اب اُس کو تیز رفتار سفر کے لیے مشین کی طاقت حاصل ہوگئی۔ جدید کمیونی کیشن کا زمانہ آیا اور جسمانی سفر کے بغیر انسان کی آواز اور اس کی متحرک تصویر بعید ترین مسافت تک پہنچنے لگی۔ جدید انڈسٹری نے کنزیومرازم (consumerism)کا دور پیدا کیا، جب کہ راحت اور آسائش کی تمام چیزیں غلّے اور سبزی کی طرح بازار میں بکنے لگیں، وغیرہ۔
اِس طرح انسانی تہذیب کا میابی کے ساتھ لمبا سفر طے کرتے ہوئے آخر کار اکیسویں صدی عیسوی میں پہنچ گئی، لیکن اِس آخری منزل پر پہنچ کر انسان کے لیے ایک نیا شدید تر مسئلہ پیدا ہوگیا۔ اب یہ ہوا کہ دیوارِ قہقہہ (laughter wall) اُن کے لیے ایک نئی قسم کی دیوارِ گریہ (wailing wall) بن گئی۔ اب معلوم ہوا کہ انسان نے لمبی جدوجہد کے بعد جو دنیا اپنے لیے بنائی تھی، وہ انسان کے لیے خوشیوں کی دنیا نہ تھی، بلکہ وہ صرف نئی ناقابلِ عبور مصیبتوں کی ایک دنیا تھی۔ چناں چہ اکیسویں صدی میں انسانی تہذیب ایک بندگلی (blind alley) تک پہنچ کر انسانی تاریخ کے خاتمہ (end of history) کے ہم معنیٰ بن گئی۔
ایسا کیوں ہوا۔ اِس کا سبب بنیادی طورپر صرف ایک ہے،وہ یہ کہ خوشیوں کی ایک دنیا بنانے کے لیے ایک مکمل انڈسٹری درکار ہے۔انسان نے لمبی جدوجہد کے بعد ایک ایسی انڈسٹری تیار کی، لیکن جب یہ انڈسٹری تیار ہوگئی تو اس کے بعد معلوم ہوا کہ یہ انڈسٹری ایک نیا ناقابلِ عبور مسئلہ لے کر آئی ہے۔ یہ مسئلہ فضائی کثافت (air pollution) کا مسئلہ ہے، جو کہ انسانی انڈسٹری کے ساتھ لازمی طور پر جُڑا ہوا ہے۔ ہم کو اپنی مطلوب راحتوں کی دنیا بنانے کے لیے بے کثافت انڈسٹری (pollution-free industry) درکار ہے، اور بے کثافت انڈسٹری کو وجود میں لانا انسان کے لیے سرے سے ممکن ہی نہیں۔ اِس طرح کثافت کے مسئلے نے عملی طورپر تہذیب کے تمام ثَمرات (achievements)کی نفی کردی ہے۔
ایک طرف، اپنی مطلوب دنیا بنانے کے لیے انسان کے عجز کا یہ معاملہ ہے اور دوسری طرف، اِسی دنیا میں یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ یہاں ایک بے کثافت انڈسٹری عملاً ہزاروں سال سے مکمل طورپر قائم ہے۔ یہ فطرت (nature) کی انڈسٹری ہے۔ تہذیب ، بے کثافت انڈسٹری کو وجود میں لانے میںمکمل طورپر ناکام رہی، لیکن اِسی دنیا میں فطرت (nature) ایک مکمل قسم کی بے کثافت انڈسٹری بہت بڑے پیمانے پر بالفعل(in action) قائم کیے ہوئے ہے۔
موجودہ سیارۂ زمین جس پر انسان رہتا ہے، وہ مسلسل طورپر گردش میں ہے۔ وہ اپنے محور (axis) پر ایک ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے گھوم رہا ہے۔ اِسی کے ساتھ وسیع خلا میں سورج کے گرد وہ اپنے مدار (orbit) پر 19 کروڑ میل کا لمبا سفر طے کرتاہے، پہلا سفر 24 گھنٹے میں پورا ہوتاہے اور دوسرا سفر ایک سال میں۔ سیارۂ زمین کا یہ دو طرفہ تیز رفتار سفر مسلسل طورپر جاری ہے، لیکن یہاں نہ کوئی شور (noise) ہے اور نہ کسی قسم کی کثافت (pollution) ۔
سورج آگ اور انرجی کا بہت بڑا بھنڈار ہے۔ وہ اتنا زیادہ بڑا ہے کہ اُس سے 12 لاکھ زمینیں بن سکتی ہیں۔ وہ زمین سے 9 کروڑ 30 لاکھ میل دور رہتے ہوئے مسلسل طورپر ہم کو روشنی اور حرارت بھیج رہا ہے، لیکن دوبارہ یہاں کسی قسم کی کوئی کثافت (pollution) مطلق موجود نہیں۔ اِسی طرح نیچر میں ایک اور انڈسٹری ہے۔ یہ درختوں اور پودوں کی صورت میں قائم ہے۔ یہ انڈسٹری ایک نہایت پیچیدہ نظام کے تحت، انسان کو مسلسل طورپر صحت بخش آکسیجن سپلائی کررہی ہے۔ اِسی کے ساتھ وہ ہماری سانس سے نکلی ہوئی کاربن ڈائی آکسائڈ کو اپنے اندر جذب کررہی ہے۔ یہ بلاشبہہ ایک عظیم انڈسٹری ہے، لیکن یہ انڈسٹری بھی شور اور کثافت جیسی نامطلوب چیزوں سے مکمل طورپر پاک ہے۔
اِسی طرح پانی کو دیکھیے۔ پانی کا بہت بڑا ذخیرہ بڑے بڑے سمندروں کی صورت میں ہماری زمین پر موجود ہے۔ اِس ذخیرے میں تحفظّاتی مادّہ (preservative) کے طورپر تقریباً 10 فی صد نمک ملا ہوا ہے۔ اِس بنا پر وہ براہِ راست طورپر انسان کے لیے قابلِ استعمال نہیں۔ یہاں بارش کی صورت میں ایک عظیم آفاقی عمل جاری ہے، جس کو ازالۂ نمک (desalination) کا عمل کہا جاتا ہے۔ یہ بھی ناقابلِ بیان حد تک ایک عظیم انڈسٹری ہے، لیکن یہ انڈسٹری کسی قسم کی کوئی کثافت پیدا نہیں کرتی۔
یہی معاملہ انسانی خوراک کا ہے۔ انسان کو اپنی زندگی کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ خوراک غلّہ اور سبزی اور پھل اور دودھ اور مچھلی اور گوشت، وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ تمام خوراک بھی مسلسل طور پر انسان کے لیے وجود میں لائی جارہی ہے۔ یہ عمل بھی ایک عظیم انڈسٹری کے ذریعے انجام پاتا ہے، لیکن یہاں بھی انسانی صنعتوں کی مانند کوئی کثافت پیدا نہیں ہوتی۔
یہ دو مختلف قسم کے تجربے ہیں۔ ایک، انسانی تہذیب کی انڈسٹری اور دوسرے، ڈوائن نیچر کی انڈسٹری۔ انسانی تہذیب کی انڈسٹری ہمارے لیے خوشیوں اور راحتوں کی دنیا بنانے میں ناکام ہے۔ وہ راحت کے سامان وجود میں لانے کی کوشش میں مصیبتوں کا ایک نیا جنگل اُگا دیتی ہے۔ دوسری طرف، عین اُسی وقت، ڈوائن نیچر کی انڈسٹری راحت کے تمام سامان پیدا کررہی ہے، لیکن وہ مکمل طورپر ایک بے کثافت انڈسٹری ہے، نہ کہ انسانی انڈسٹری کی طرح پُرکثافت انڈسٹری۔
اب اگر قدیم کہانی کے مطابق، دیوار کو موت کی دیوار قرار دیاجائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اِس دیوار کے ایک طرف دنیائے گریہ (wailing world) ہے، اور اِس دیوار کے دوسری طرف دنیائے قہقہہ (laughter world)ہے۔ اکیسویں صدی میں پہنچ کر تہذیبِ انسانی کی ناکامی ہمیں ایک نیاپُرامید سبق دے رہی ہے، وہ یہ کہ ہم ’’دیوار‘‘ کے اِس طرف ناکام طورپر اپنی دنیائے قہقہہ بنانے کی کوشش نہ کریں، بلکہ ’’دیوار‘‘ کے دوسری طرف کی ’’دنیائے قہقہہ‘‘ میںاپنی سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں، جو کہ بَروقت ہی ڈوائن نظام کے تحت ’’دیوار‘‘ کے دوسری طرف موجود ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت اور انسان

غالباً 1998 کی بات ہے، ڈاکٹر مہیش چندر شرما نے مجھے دہلی کے ایک سینئر اسکالر سے ملایا۔ یہ پروفیسر نونہال سنگھ (پیدائش: 1923) تھے۔ امریکا سے رٹائر ہو کر آنے کے بعد یہاںان کو راجیہ سبھا کا ممبر (1992-1998)بنادیا گیا تھا۔ اُن کا گھر ایک کتب خانہ معلوم ہوتا تھا۔ اُس میں ہر طرف لکھنے پڑھنے کا ماحول تھا۔ وہ پورے معنوں میں ایک اسکالر دکھائی دیتے تھے۔
ملاقات کے وقت انھوں نے بتایا کہ پولٹکل سائنس میں انھوں نے ایم اے کیا تھا۔ اِس کے بعد انھوں نے انٹرنیشنل رلیشنس (international relations) کے سبجیکٹ پر ڈاکٹریٹ کیا۔ اُس زمانے میں امریکا کی ایک یونی ورسٹی کو اپنے لیے اِس موضوع پر ایک پروفیسر کی ضرورت تھی۔ اُس کا اشتہار دیکھ کر پروفیسر سنگھ نے اس کے لیے اپنی درخواست بھیج دی۔ جلد ہی انھیں یونی ورسٹی کی طرف سے ایک لیٹر ملا، اِس میں انھیں انٹرویو کے لیے امریکا بلایا گیا تھا۔
وہ امریکا پہنچے تو ائر پورٹ پر ایک صاحب اُن سے ملے۔ اُنھوں نے کہا کہ میں یونی ورسٹی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں، تاکہ یہاں میں آپ کو گائڈ کروں۔ اِس کے بعد اُس آدمی نے پروفیسر سنگھ کو اپنی گاڑی پر بٹھایا اور اُن کو لے کر یونی ورسٹی پہنچا۔ یونی ورسٹی میں پروفیسر سنگھ کو وہاں کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھیرایا گیا۔
اِس کے بعد وہ آدمی روزانہ پروفیسر سنگھ کے پاس آتا اور ان کو لے کر صبح سے شام تک یونی ورسٹی کے وسیع کیمپس میں گھماتا رہتا۔ اِس طرح وہ آدمی پروفیسر سنگھ کو یونی ورسٹی کے ہر شعبے میں لے گیا اور یونی ورسٹی کی ہر سرگرمی میںانھیں شامل کیا۔ مثلاً لائبریری، ڈائننگ ہال، کلاس روم ، ٹیچرس کلب، اسٹوڈنٹس میٹنگ، یونی ورسٹی ورکرس، وغیرہ۔
اِس طرح ایک ہفتہ گزر گیا۔ پروفیسر سنگھ کو تشویش ہوئی۔ انھوں نے اپنے ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین سے کہا کہ میں ایک ہفتے سے یہاں ہوں۔ مجھے انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا، لیکن اب تک میرا انٹرویو نہیں ہوا۔ چیئر مین نے کہا کہ آپ کا انٹرویو ہوچکا ہے۔ ہم نے آپ کا سلیکشن کرلیا ہے، اور اب آپ کل سے ہمارے یہاں جوائن کرلیجیے۔ اِس کے بعد چیئر مین نے بتایا کہ ائر پورٹ پر ہمارا جو آدمی آپ سے ملا تھا، وہ یہاں کا سینئر پروفیسر تھا۔ اور وہی آپ کا انٹرویور بھی تھا۔
چیئرمین نے کہا کہ آپ کے بھیجے ہوئے کاغذات کو دیکھنے کے بعد ہم نے جان لیا تھا کہ جہاں تک تعلیمی لیاقت کا تعلق ہے، آپ اس کے پوری طرح اہل ہیں۔ اب ہم کو یہ جاننا تھا کہ آپ ہمارے یونی ورسٹی کلچر کے معیار پر پورے اترتے ہیں یا نہیں۔ آپ کا مذکورہ انٹرویور یہی کام کررہا تھا۔ وہ آپ کو یونی ورسٹی کے ہر شعبے میں لے گیا۔ اس نے یہاں کی تمام ایکٹوٹیز (activities)سے آپ کو متعارف کرایا۔ اس نے اسٹوڈنٹس اور ٹیچرس دونوں کے ساتھ آپ کے سلوک کو دیکھا۔ اِس دوران وہ آپ کی ہر بات کا دقّتِ نظر کے ساتھ معائنہ کرتا رہا۔ انٹرویور کی رپورٹ آپ کے بارے میں پوری طرح مثبت ہے۔ چناں چہ آپ کے ریکارڈ کو دیکھنے کے بعد ہم نے آپ کا انتخاب کرلیا ہے۔ آپ کل سے یہاں اپنا کام شروع کردیں۔
یہ واقعہ ایک حقیقی مثال کی صورت میں، جنت اور انسان کے معاملے کو بتاتا ہے۔ خدا نے ایک وسیع دنیا بنائی، جنت کی دنیا۔ یہ دنیا پورے معنوں میںایک کامل دنیا تھی۔ یہاں ہر چیز اعلیٰ معیار کے مطابق تھی۔ خدا نے چاہا کہ اِس کامل دنیا میں وہ ایسے لوگوں کو بسائے جو اپنے کردار کے اعتبار سے اُس کے لیے پوری طرح اہل ہوں، جو اِس معیاری دنیا میں معیاری انسان کی حیثیت سے رہ سکیں۔
اب خدا نے اِس دنیا کے تعارفی نمونے کے طورپر موجودہ زمینی سیّارہ بنایا۔ یہاں وہ ساری چیزیں پائی جاتی ہیں جو جنتی دنیا کے اندر موجود ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ جنتی دنیا، معیاری دنیا (perfect world) ہے اور موجودہ زمینی دنیا، غیر معیاری دنیا (imperfect world)۔ جنتی دنیا کامل ہے اور موجودہ زمینی دنیا غیر کامل۔ جنتی دنیا ابدی ہے اور موجودہ زمینی دنیا غیر ابدی۔ جنتی دنیا ہر قسم کے خوف اور حُزن سے خالی ہے، جب کہ موجودہ دنیا کا حال یہ ہے کہ وہ خوف اور حزن سے بھری ہوئی ہے۔ جنتی دنیا انعام(reward) کی دنیا ہے اور موجودہ دنیا آزمائش (test) کی دنیا۔
اِس منصوبے کے تحت، خدا نے انسان کو پیدا کرکے اس کو موجودہ زمینی دنیا میں بسایا۔ خدا نے انسان کو کامل آزادی دے دی۔ اُس نے انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ یہاں کسی پابندی کے بغیر رہے۔ اُس کو اختیار ہے کہ وہ اپنی آزادی کو چاہے تو غلط طور پر استعمال کرے اور چاہے تو درست طورپر استعمال کرے۔ ہر انسان جو زمین پر پیدا ہوتا ہے، اُس کے ساتھ خدا کے دو غیر مَرئی (invisible) فرشتے ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ وہ انسان کے ہر قول اور عمل کا مکمل ریکارڈ تیار کر رہے ہیں۔اِسی ریکارڈ کی بنیاد پر اس کے لیے اگلی دنیا میں جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا۔
جنتی دنیا میں انسان کامل آزادی کے ساتھ رہے گا، لیکن وہ اتنا زیادہ پختہ اور اتنا زیادہ با شعور ہوگا کہ وہ کسی بھی حال میںاپنی آزادی کا غلط استعمال نہیں کرے گا۔ وہ پوری طرح آزاد ہوتے ہوئے بھی پوری طرح ڈسپلن میں رہے گا۔یہی وہ انسان ہے جس کے سلیکشن کے لیے موجودہ زمینی سیّارہ بنایا گیا۔ موجودہ دنیا میں بھی وہ سارے حالات پائے جاتے ہیں جو جنتی دنیا میں موجود ہوں گے۔ اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ کون انسان ہے جس نے ہر قسم کے حالات سے گزرتے ہوئے جنتی کیریکٹر کا ثبوت دیا۔ اُسی انسان کا انتخاب کرکے اس کو جنتی دنیا میں ابدی طورپر بسا دیا جائے گا۔
ہر انسان کے ساتھ خدا کے غیر مرئی فرشتے لگے ہوئے ہیں اور وہ ہر لمحہ اس کا ریکارڈ تیار کر رہے ہیں۔ یہی انسان کا ٹسٹ ہے، اور اِسی ٹسٹ کے نتیجے کی بنیاد پر ہر آدمی کے مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ وہ ٹسٹ یہ ہے کہ آدمی ہر موقع پر خدائی کی بڑائی کا اعتراف کرے، یعنی آدمی کے ضمیر نے جب اس کو ٹوکا تو اس نے ضمیر کی آواز کو مانا، یا اس کو نظر انداز کردیا۔ جب اس کے سامنے دلیل کے ساتھ ایک سچائی آئی تو وہ اس کے آگے جھک گیا، یا اس نے اس کے خلاف سرکشی دکھائی۔ جب اپنی انا اور سچائی کا مقابلہ ہوا تووہ اپنی انا کے پیچھے چلا، یا اُس نے سچائی کا اعتراف کیا۔
اِسی طرح لوگوں سے معاملہ کرتے ہوئے وہ انصاف پر قائم رہا، یا اپنے انٹرسٹ کی خاطر بے انصافی کرنے لگا۔ وہ صرف لوگوں کے سامنے اچھا بنا رہا، یا اپنی پرائیویٹ زندگی میں بھی وہ اچھائی پر قائم رہا۔ اس نے حق کو اپنا سپریم کنسرن بنایا، یا حق کے سوا کسی اور چیز کو وہ اپنا کنسرن بنائے رہا۔ اسی طرح یہ کہ جب اس کو اقتدار ملا تو وہ بگاڑ کا شکار ہوگیا،یا اقتدار کے باوجود اس نے اپنے آپ کو انصاف پر قائم رکھا۔ جب اس کو دولت حاصل ہوئی یا اس کو غریبی کا تجربہ ہوا تو دونوں حالتوں میں یکساں طورپر اس نے اعتدال کا ثبوت دیا، یا وہ اعتدال کے راستے سے ہٹ گیا۔ سماجی زندگی میں جب اس کو آگے کی سیٹ ملی، اس وقت وہ کیسا تھا اور جب اس کو پیچھے کی سیٹ پر بیٹھنا پڑا تب اس کا رویہ کیا تھا۔ اس نے اپنے جذبات اور اپنی خواہشوں کو اصول کا پابند رکھا، یا اصول سے ہٹ کر وہ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلنے لگا۔اِسی ریکارڈ کی بنیاد پر ہر عورت اور مرد کے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔
موجودہ زمینی دنیا ایک محدود مدت کے لیے بنائی گئی ہے۔ اِس مدت کے پورا ہونے کے بعد یہاں پیدا ہونے والے تمام انسان، خدا کے سامنے حاضر کیے جائیں گے۔ خدا، فرشتوں کے تیار کیے ہوئے ریکارڈ کے مطابق، ہر ایک کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ جس عورت یا مرد کا ریکارڈ بتائے گا کہ وہ زمینی دنیا میں جنتی کردار کے ساتھ رہا، اُس نے اپنی آزادی کو خدا کے مقرر کیے ہوئے دائرے کے اندر استعمال کیا اور اِس طرح یہ ثابت کیا کہ وہ جنتی دنیا کے ماحول میں بسائے جانے کے قابل ہے، ایسے لوگوں کو جنت کے باغوں میں رہنے کے لیے منتخب کرلیا جائے گا۔ اور وہ تمام لوگ جو جنتی کردار کا ثبوت نہ دے سکے، اُن کو رد کر کے کائنات کے ابدی کوڑے خانے میں ڈال دیا جائے گا، تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے مایوسی اور حسرت کی زندگی گزارتے رہیں اور کبھی اُس سے چھٹکارا نہ پاسکیں۔
واپس اوپر جائیں

ابدی صحرا

نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (9 فروری 2008 )میں ایک سبق آموز واقعہ نظر سے گزرا۔ بمبئی کے ایک ایکٹر آنند سوریا ونشی(Anand Suryavanshi) نے اپنی بڑی موٹر کار گورے گاؤں (بمبئی) میں پے اینڈ پارک ایریا (pay-and park area) میں کھڑی کی۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ واپس آئے تو ان کی کار وہاں موجود نہ تھی۔ وہ چوری ہوچکی تھی۔ انھوں نے اخبار کے رپورٹر آلیورا (Roshni Olivera) کو بتایا کہ اِس کار میں میری تمام ذاتی چیزیں موجود تھیں۔ مثلاً لیپ ٹاپ، قیمتی اسٹون رِنگ، 30 ، 40 ڈی وی ڈیز(DVDs)، تقریباً 50 سی ڈیز(CDs) ، شوٹنگ کے کپڑے، موبائل فون، اور پرسنل ڈائری، وغیرہ۔ مسٹر آنند نے کہا کہ میں اِن چیزوں سے جذباتی طورپر وابستہ تھا:
I was emotionally attached to them.
اِس قسم کی تفصیلات کو بتاتے ہوئے انھوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ— اِس حادثے کے بعد مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کہ میں اچانک کسی ویران جزیرے میں آکر پھنس گیا ہوں:
I feel like I am stranded on some island (p. 4)
یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر آخرت میں پیش آئے گا۔ موت کے پہلے کی زندگی میں آدمی ہر قسم کے ساز وسامان میں جیتا ہے۔ مکان، گاڑی، اولاد، بزنس، شہرت، بینک بیلنس، وغیرہ۔ موت کے بعد کی زندگی میں آدمی اچانک اپنے آپ کو ایک نئی دنیا میں پائے گا۔ یہاں وہ پوری طرح اکیلا ہوگا۔ اس کے تمام مادّی سامان اُس سے چھوٹ چکے ہوں گے۔ اُس کے پیچھے وہ دنیا ہوگی جس کو وہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکا۔ اُس کے آگے وہ دنیا ہوگی جہاں اُس کے لیے ابدی صحرا کے سوا اور کچھ نہیں۔ موت سے پہلے آدمی اِس آنے والے دن کے بارے میں سوچ نہیں پاتا۔ موت کے بعد اچانک یہ دن آجائے گا۔ اُس وقت انسان سوچے گا، لیکن اس کا سوچنا اس کے کام نہ آئے گا۔سب سے بڑی عقل مندی یہ ہے کہ آدمی اِس آنے والے ہول ناک دن کی تیاری کرے۔
واپس اوپر جائیں

دورِ امن کا آغاز

جنوری 2008 میں ایک غیر متوقع خبر میڈیا میں آئی۔ وہ یہ کہ متشددانہ جہاد کے لیڈر اسامہ بن لادن کے ایک بیٹے نے اعلان کیا کہ وہ اپنے باپ سے الگ ہوگئے ہیں اور اب وہ امن کے لیے کام کریںگے۔عمر بن اُسامہ کی عمر 26 سال ہے۔ انھوں نے ایک انگریز خاتون (Jane Felix-Browne ) سے شادی کی ہے۔ اُن کا موجودہ نام زَینہ الصباح (Zaina Alsabah) ہے۔ خاتون کی عمر 52 سال ہے۔ عمر بن اسامہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ میرے باپ اسامہ بن لادن نے تشدد کا طریقہ اختیار کیا۔ مگر وہ طریقہ غلط تھا۔ اب میںمسلمان اور مغربی دنیا کے درمیان ایمبیسڈر آف پیس (ambassador of peace) کا کردار ادا کروں گا۔انھوں نے کہا کہ اِس مقصد کے لیے وہ نارتھ افریقہ میں پانچ ہزار کلو میٹر کی ایک ہارس ریس (horse race) کریں گے۔ انگریزی اخبار (The Times of India) کے شمارہ 19 جنوری 2008 میں یہ خبر اِس عنوان کے تحت چھپی ہے— اسامہ کا بیٹا امن کا پیام بَر بننا چاہتا ہے:
Osama’s son wants to be a peacenik
انھوں نے کہا کہ— اسلام کے دفاع کے لیے القاعدہ کی اختیار کردہ ملیٹنسی سے زیادہ بہتر طریقہ اسلام میں موجود ہے:
There is a better way to defend Islam, than Al-Qaida’s militancy (p. 22)
عمر بن اسامہ بن لادن نے مذکورہ بات اسوسی ایٹیڈ پریس (A.P.) کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہی تھی۔ اس کے بعد مشہور ٹی وی چینل سی این این(CNN) نے اُن سے انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو مختلف اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (23جنوری 2008 ) نے اِس کی رپورٹ مندرجہ ذیل عنوان کے تحت چھاپی ہے:
Osama's son wants father to 'give up violence, find another way'
Osama’s son wants father to
‘give up violence, find another way’
Washington: Elusive al-Qaida mastermind Osama-bin Laden may have terrorised the world, but his 26-year-old son Omar wants to launch ‘‘a movement of peace’’ and wishes his father will give up violence and find ‘‘another way’’ to pursue his goals. Omar, who last saw Osama in 2000 when he decided to leave al-Qaida, said he did not think his father was a terrorist and was sure that he must have felt ‘‘very sorry’’ for the September 11 attacks. In interviews to US news channels, Omar, who works as a contractor, however, expressed apprehensions that his father ‘‘doesn't have the power to stop the movement at this moment.’’ Omar, who is the fourth of 11 children born to his Osama's first wife and one of 19 children the al-Qaida leader has fathered, said he is talking publicly because he wants an end to the violence his father has inspired by launching a movement for peace. ‘‘I try and say to my father: “Try to find another way to help or find your goal. This bomb, this weapons, it’s not good to use it for anybody,’’ he told CNN in broken English. He said that’s not just his own message, but one that a friend of his father's and other Muslims have expressed to him. ‘‘They too say... my father should change (his) way’’ He said he has no idea where his father is, but is confident he will never be caught because locals support him. Omar, who has has little in common with his father except his looks minus the beard, grabbed headlines when he married a British national twice his age. ‘‘Being Osama's son, I don't hide it. I don't hide my name,’’ he said. ‘‘I am proud of my name, but if you have a name like mine you will find people run away from you, are afraid of you.’’ Omar said he doesn't consider his father to be a terrorist. When his father was fighting the Soviets, Washington considered him a hero, he said.‘‘Before they call it war; now they call it terrorism,’’ he said. He said his father believes his duty is to protect Muslims from attack. ‘‘He believes this is his job - to help the eople,’’ he said. PTI
یہ خبر علامتی طورپر تاریخ میں ایک نئے دور کا اعلان ہے— دورِ تشدد کا خاتمہ، اور دورِ امن کا آغاز۔ یہ نیا دور نظریاتی طورپر شروع ہوچکا ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ عملی طور پر بھی وہ دنیا میں قائم ہوجائے گا۔
بیسویں صدی عیسوی میں تاریخ کی دو سب سے بڑی جنگیں لڑی گئیں، پہلی عالمی جنگ، اور دوسری عالمی جنگ۔ اِن جنگوں میں تقریباً 60 ملین انسان ہلاک ہوگئے۔ اِس عظیم ہلاکت کے بعد انسان کا ضمیر عام طورپر جنگ کے خلاف ہوگیا۔ اِس کے بعد جب دنیا میں عمومی تباہی کے ہتھیار (weapons of mass destruction) آگئے، تو یہ سمجھا جانے لگا کہ اب اِس کا امکان ختم ہوگیا کہ جنگ کے ذریعے کوئی مثبت مقصد حاصل کیا جاسکے۔
اِس عالمی پس منظر کا اثر مسلمانوں کی مسلّح جدوجہد پر بھی پڑا۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے مسلّح جہاد کے نام پر اپنی جان اور اپنے مال کی جو قربانی دی ہے، وہ پوری تاریخ کی تمام قربانیوں سے بھی زیادہ ہے۔ اکیسویں صدی میں پہنچ کر مسلم دنیا میں یہ احساس عام ہوچکا ہے کہ مسلّح جدوجہد اب مسلمانوں کے لیے کوئی قابلِ انتخاب چیز نہیں۔ اِس پس منظر میں اسامہ بن لادن کے بیٹے کامذکورہ اعلان گویا کہ پوری ملت کی طرف سے ایک نمائندہ اعلان ہے۔ اب تقریباً یقینی ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان جنگ اور تشدد کے راستے کو چھوڑ کر امن اور مفاہمت کا طریقہ اختیار کریں گے اور پھر اپنے مقصد کو زیادہ بہتر طور پر حاصل کر لیں گے۔
تیرھویں صدی عیسوی میں یہ واقعہ پیش آیا کہ تاتاری قبائل نے اُس زمانے کی عبّاسی سلطنت کو تباہ کردیا اور مسلم دنیا کے اوپر اپنا اقتدار قائم کرلیا۔ مگر اِس کے بعد صرف پچاس سال کے اندر یہ واقعہ پیش آیا کہ تاتاریوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔ جو لوگ پہلے بظاہر اسلام کے دشمن بنے ہوئے تھے، وہ اب اسلام کے سپاہی بن گئے۔ اِس حیرت ناک تاریخی واقعے کا اعتراف ایک مؤرخ نے اِن الفاظ میں کیا ہے— مسلمانوں کے مذہب نے وہاں فتح حاصل کرلی، جہاں اُن کے ہتھیار ناکام ہوچکے تھے:
The religion of Muslims have conquered, where their arms had failed.
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تاریخ دوبارہ دہرائی جانے والی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دوسرا عمل (process) بطور واقعہ شروع ہوچکا ہے۔ آج کل میڈیا میں مسلسل یہ خبریں آرہی ہیں کہ ساری دنیا میں، خاص طور پر مغربی ممالک میں،لوگ تیزی سے اسلام قبول کررہے ہیں۔ برطانیہ اور امریکا میں یہ تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بظاہرِ حالات، یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ عمل اب رکنے والا نہیں۔
اسلام کی یہ فکری اشاعت کوئی اتفاقی بات نہیں۔ وہ موجودہ زمانے کے حالات کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس کے زیر اثر توہماتی طرزِ فکر کا خاتمہ ہوگیا۔ لوگ قدیم طرز کے تعصّباتی مزاج سے بلند ہو کر مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے لگے۔ جدید کمیونکیشن نے اسلام کی معلومات کو ہر آدمی کے لیے قابلِ حصول بنا دیا۔ موجودہ زمانہ جس کو گلوبلائزیشن کا زمانہ کہاجاتا ہے، وہ دراصل گلوبل انٹریکشن کا زمانہ تھا۔ اِس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ مسلمان ساری دنیا کے لوگوں سے ملنے لگے، اور اِس طرح انٹریکشن کے دوران اسلام کا پیغام عالمی سطح پر لوگوں تک پہنچنے لگا، وغیرہ۔
اِس طرح کے مختلف واقعات جو موجودہ زمانے میں پیش آئے، وہ سب کے سب اسلام کے لیے ایک موافق زمین بنانے کے ہم معنٰی تھے۔ ظاہری سطح پر خواہ کتنے ہی غیر موافق اسباب دکھائی دیتے ہوں، لیکن حقیقت کے اعتبار سے جدید دنیا براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اسلام کی موافقت میں تھی۔ جدید دنیا کا یہ مثبت پہلو اب بطور واقعہ دکھائی دینے لگا ہے۔ اسلامی دعوت اب خود تاریخی عمل (historical process) میں شامل ہوچکی ہے، اور جو فکر خود تاریخی عمل میں شامل ہوجائے، اُس کا اپنے آخری انجام تک پہنچنا اتنا ہی ممکن ہوجاتا ہے جتنا کہ رات کے بعد سورج کا نکلنا۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے جو مسلّح جہاد شروع کیا، وہ اسلامی دعوت کے اعتبار سے کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) بن گیا۔ مسلمانوں نے جن قوموں کے خلاف مسلح جہاد شروع کیا، وہ سب اسلامی دعوت کے اعتبار سے مدعو قومیں تھیں، یعنی مسلمان داعی تھے اور وہ مدعو۔ اسلامی دعوت کا تقاضا تھا کہ داعی اور مدعو کے درمیان معتدل تعلقات قائم ہوں۔ کیوں کہ جب داعی اور مدعو کے درمیان معتدل تعلقات ہوں، تو دعوت کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہتا ہے۔ اور جب داعی اور مدعو کے درمیان معتدل تعلقات باقی نہ رہیں، تو دعوت کا عمل بھی ختم ہوجاتا ہے۔
بیسویں صدی عیسوی پوری کی پوری مسلمانوں کی طرف سے مدعو قوموں کے خلاف مسلح جہاد کی صدی تھی۔ یہ مسلح جہاد خدا کے منصوبے کے خلاف تھا، اِس لیے وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ اب جان و مال کی تباہی کے بعد مسلمان مجبور ہوچکے ہیں کہ وہ مسلح جہاد کے اِس عمل کو چھوڑ دیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ اب عملاً اِس کا آغاز ہوچکا ہے۔
غیر مطلوب مسلح جہاد کا ختم ہونا، اپنے آپ میں دعوتی عمل کا آغاز ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب حالات معتدل ہوجائیں تو لوگ کسی نفسیاتی رکاوٹ کے بغیر اسلام کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں، اور عین اپنی فطرت کے مطابق پا کر اس کو اختیار کرلیتے ہیں۔ بیسویں صدی اگر غیرمطلوب مسلح جہاد کی صدی تھی، تو اکیسویں صدی مطلوب دعوت کی صدی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے، تشدد کا خاتمہ اور امن کا آغاز اہل اسلام کے لیے فتحِ مبین (الفتح: 1 ) کی حیثیت رکھتا ہے۔
واقعات بتاتے ہیںکہ موجودہ زمانے میں کمیونکیشن کی ترقی اپنے آپ اسلامی دعوت کا ذریعہ بن گئی ہے۔ خلیجی جنگ (1991) کے دوران امریکا کے فوجی بڑی تعداد میں مصر اور عرب ملکوںمیں گئے۔ ان کا انٹریکشن مسلمانوں سے ہو۔ اِس دوران تقریباً پانچ ہزار امریکی فوجیوں نے اسلام قبول کرلیا۔ یہ واقعہ موجودہ زمانے میں ہر جگہ ہورہا ہے۔ فی الحال یہ واقعہ زیادہ تر اپنے آپ ہورہا ہے۔ اِ س عمل میں ماڈرن کمیونکیشن عملاً دعوت کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔
گویا کہ ماڈرن کمیونکیشن کے زمانے میں دعوت کا کام خود تاریخی عمل (historical process) کا حصہ بن چکا ہے۔ اب مسلمانوں کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اِس تاریخی عمل میں اپنے آپ کو شامل کردیں۔ تاکہ جو کام اپنے آپ ہورہا ہے، وہ مزید شدت کے ساتھ براہِ راست کو شش کے ذریعے ہونے لگے۔ اور دعوت کا قافلہ بہت جلد اپنی مطلوب منزل تک پہنچ جائے۔ یہ مطلوب منزل، حدیث کے الفاظ میں یہ ہے کہ — اسلام کا کلمہ رُوئے زمین کے تمام چھوٹے اور بڑے گھروں میں داخل ہوجائے، کوئی بھی عورت یا مرد خدائی پیغام سے بے خبر نہ رہے (لایبقیٰ علیٰ وجہ الأرض بیت مدر ولا وبر، إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃ الإسلام)۔
واپس اوپر جائیں

موت کا شعور

لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر پیدا ہونے والا محدود مدت کے بعد مرجاتاہے۔ اِس کے باوجود یہ نہایت عجیب بات ہے کہ کوئی شخص خود اپنی موت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ وہ دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے، مگر خود اپنی موت کے بارے میں وہ غفلت میں پڑا رہتا ہے۔ موجودہ زمانے میں ڈی این اے (DNA) کی دریافت اِس سوال کا جواب ہے۔ یہ ایک نئی سائنس ہے۔ اِس پر دنیا کے بڑے بڑے دماغوں نے کام کیا ہے۔ اِس میں انڈیا کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر ہرگوبند کھورانا (85سال) کانام بھی شامل ہے۔ اِس جدید تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ہر انسان کے جسم میں تقریباً ایک سو ٹریلین سیل (living cells) ہوتے ہیں۔ ہر سیل کے نیوکلیس میں ایک ناقابلِ مشاہدہ ڈی این اے موجود رہتا ہے۔ ڈی این اے کے اندر انسانی شخصیت کے بارے میں تمام چھوٹی بڑی معلومات کوڈ کی صورت میں موجود رہتی ہیں۔ یہ معلومات اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ اگر اُن کو ڈی کوڈ (decode) کیا جائے، تو وہ برٹانکا جیسی ضخیم انسائکلو پیڈیا کے ایک ملین سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہوں گی:
One human DNA molecule contains enough information to fill a million-page encyclopaedia.
ڈی این اے کے اندر انسانی شخصیت کے بارے میں تمام معلومات درج ہوتی ہیں، مگراِس فہرست میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ موت ہے۔ ڈی این اے کی طویل فہرست موت کے تصور سے خالی ہے۔ موت کا تصور انسانی شخصیت (human consciousness) میں موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے، لیکن وہ خود اپنی موت کے بارے میں سوچ نہیں پاتا۔ یہی انسان کا امتحان ہے۔ موت کسی شخص کے اوپر ڈی این اے کی پروگریمنگ کے تحت نہیں آتی، بلکہ وہ براہِ راست خدائی فیصلے کے تحت آتی ہے۔ کامیاب انسان وہ ہے جو اپنے اندر اینٹی پروگریمنگ سوچ پیدا کرے۔ وہ خدائی فیصلے کی نسبت سے موت کے معاملے کو دریافت کرلے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ ذوق

دنیا میں سب سے زیادہ کمی کس چیز کی ہے۔ شاید یہ کہنا صحیح ہوگا کہ دنیا میں سب سے زیادہ کمی اعلیٰ ذوق (high taste) کی ہے۔ اعلیٰ ذوق بلا شبہہ سب سے زیادہ کم یاب چیز ہے۔ اگر چہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اعلیٰ ذوق کے لوگ ہی موجودہ دنیا میں اعلیٰ روحانی ترقی حاصل کرتے ہیں، اور اعلیٰ ذوق کے لوگ ہی آخرت میں جنت کے اعلیٰ درجات کو پائیں گے۔
لوگوں کے اندر اعلیٰ ذوق نہ ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ گہری باتیں کہنے والے افراد لوگوں کے درمیان مقبول نہیں ہوتے، اِس طرح لوگ گہری دانش مندی کی باتوں سے بے خبر رہ جاتے ہیں۔ عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ سطحی باتیں کرنے والے لوگ عوام کے درمیان مقبول ہوتے ہیں۔ اِس صورت حال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگ اعلیٰ انسانی ترقی سے محروم ہوکر رہ جاتے ہیں۔
مثال کے طورپر فخر پسندی ایک پست ذوق کی چیز ہے، اور تواضع پسندی اعلیٰ ذوق کی چیز۔ فخر (pride) کا تعلق جذبات سے ہے۔ اِس لیے ہر آدمی کے اندر، خواہ وہ عالم ہو یاجاہل، فخر کے جذبات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ اِس لیے جب کوئی شخص ایسی باتیں کرے جس سے لوگوں کو فخر کی غذا مل رہی ہو، تو وہ اس کی باتوں پر تالیاں بجاتے ہیں۔ ایسے انسان کے پاس بہت جلد لوگوں کی بھیڑ اکھٹا ہوجاتی ہے۔
اِس کے برعکس، تواضع (modesty) کا تعلق گہری دانش مندی سے ہے۔ صرف اعلیٰ ذوق کے لوگ ہی تواضع کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ چناں چہ جو شخص تواضع کی بولی بولے، اس کے گرد لوگوں کی بھیڑ اکھٹا نہیں ہوتی۔ ایسے انسان کی بات اعلیٰ ذوق کے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں اور وہی اُس کے گِرد جمع ہوسکتے ہیں۔ اِس لیے تواضع کے بول بولنے والے انسان کے گرد وہ بھیڑ اکھٹا نہیں ہوتی، جو فخر کے بول بولنے والے انسانوں کے گرد اکھٹا ہو جاتی ہے۔
ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ ذوق پیدا کرے۔ اعلیٰ ذوق اِس بات کا ضامن ہے کہ آدمی اعلیٰ روحانی حالت میں جیے گا، اور موت کے بعد جنت کے اعلیٰ درجات حاصل کرے گا۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی کا راز

فطرت کے اصولوں کی پابندی کرنے کا نتیجہ ہمیشہ کامیابی ہوتا ہے، اور فطرت کے اصولوں سے انحراف کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی۔
واپس اوپر جائیں

ڈِگری اور انگریزی

اگر آپ کی جیب میں بینک کا کریڈٹ کارڈ(credit card) ہے اور آپ شاپنگ سنٹر جائیں تو آپ کو اطمینان ہوتا ہے کہ آپ جو چیز بھی چاہیں گے، اس کو شاپنگ سنٹر سے خرید سکیں گے۔ آدمی کے پاس کریڈٹ کارڈ کا ہونا اِس بات کو ممکن بناتا ہے کہ وہ اپنی مطلوب چیز کو شاپنگ سنٹر سے بہ آسانی حاصل کرسکتا ہے۔یہی معاملہ جاب مارکیٹ(job market) کا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر جگہ بہت بڑا جاب مارکیٹ موجود ہے۔ کوئی بھی آدمی جاب مارکیٹ میں داخل ہو کر اپنی مرضی کے مطابق جاب حاصل کرسکتا ہے، البتہ اُس کی ایک شرط ہے۔ وہ شرط یہ ہے کہ آدمی کے پاس دو چیزیں موجود ہوں— ڈگری اور انگریزی۔ موجودہ زمانے میں ڈگری اور انگریزی کی اہمیت گویا کہ کریڈٹ کارڈ کی مانند ہے۔ آپ اپنے آپ کو ڈگری اور انگریزی کے اعتبار سے تیار کر لیجیے، اِس کے بعد آپ کو جاب یا روزگار کے معاملے میں کوئی شکایت نہ ہوگی۔
معاش ہر آدمی کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ ہر آدمی کی یہ ضرورت ہے کہ اس کو کوئی قابلِ اعتماد معاشی ذریعہ حاصل ہو۔ قدیم زرعی دور میں معاشی ذریعہ زیادہ تر صرف ایک ہوتا تھا، اور وہ زرعی زمین (agricultural land) کا ذریعہ تھا۔ قدیم زمانے میں تمام لوگ براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اِسی ذریعے سے اپنی معاش حاصل کرتے تھے۔
موجودہ زمانے میں صنعتی انقلاب(industrial revolution) نے حصولِ معاش کے ہزاروں نئے ذرائع پیدا کردیے ہیں۔ اِن نئے ذرائع کا براہِ راست تعلق تعلیم سے ہے، ایسی تعلیم جو آدمی کو ڈگری اور انگریزی دے سکے۔ موجودہ زمانے میں ہزاروں کی تعداد میںنئے قسم کے کام وجود میں آئے ہیں، مگر اِن تمام کاموں کاتعلق علم سے ہے۔ اِن حالات میں ڈگری اور انگریزی کی حیثیت گویا کہ شناختی کارڈ (indentity card) کی ہے۔ موجودہ زمانے میں ڈگری اور انگریزی، آدمی کی پہچان بناتی ہے۔ جس آدمی کے پاس یہ پہچان ہو، اُس کو موجودہ حالات میں اپنا معاشی مقام حاصل کرنے میں کوئی دقّت پیش نہیں آئے گی۔
واپس اوپر جائیں

حیوانِ کاسِب نہ بنیے

موجودہ زمانہ انفجارِ مواقع(opportunity explosion)کا زمانہ ہے، یعنی مواقع کی فراوانی کا زمانہ۔ یہ مواقع مختلف قسم کے مقاصد کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں، لیکن عملی طور پر یہ ہوا ہے کہ 99 فی صد سے زیادہ لوگ ان مواقع کا صرف ایک ہی استعمال جانتے ہیں، اور وہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنا ہے۔ اِس صورت ِحال نے موجودہ زمانے میں تقریبا ہر انسان کو حیوانِ کاسب (earning animal) بنا دیا ہے۔
مگر یہ مواقع کا صرف کم تر استعمال (under-utilization) ہے۔ اِن مواقع کا زیادہ بڑا استعمال یہ ہے کہ اِس کو ذہنی ترقی (intellectual development) کے لیے استعمال کیا جائے۔ ذہنی ترقی کسی انسان کے لیے اوّلین حیثیت کی چیز ہے، اور دولت کمانا صرف ثانوی (secondary) حیثیت کی چیز۔ ذہنی ترقی کسی انسان کے لیے اعلیٰ ترین مقصد کی حیثیت رکھتی ہے، اور انسان کی زندگی اِس سے زیادہ قیمتی ہے کہ اُس کو مقصدِ اعلیٰ سے کم تر کسی چیز میں استعمال کیا جائے۔
دولت بقدر ضرورت بلا شبہہ ایک اچھی چیز ہے، لیکن ضرورت سے زیادہ دولت ہمیشہ اور ہر انسان کے لیے وبالِ جان ثابت ہوتی ہے۔ کمانے والے کے لیے زیادہ دولت ذہنی تناؤ (tension) کا ذریعہ بنتی ہے، اور کمانے والے کی اولاد کے لیے وہ بے محنت کی کمائی (easy money) ہے۔تجربہ بتاتا ہے کہ بے محنت کی کمائی انسان کے لیے ہمیشہ تباہی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اِس قسم کی دولت کمانے والا انسان آخر میں مایوسی (despair) کا شکار بنتا ہے، اور اس کی اولاد طرح طرح کے مسائل کا شکار۔
عقل مند انسان وہ ہے جو مال کو زندگی کی ضرورت بنائے، نہ کہ زندگی کا مقصد۔ جب آپ مال کو صرف ضرورت (need)کا درجہ دیں، تو اس سے آپ کی زندگی میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوگی۔ لیکن جب آپ مال کو اپنی زندگی کامقصد (goal)بنالیں تواُس سے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ یہ خرابیاں اتنی زیادہ اور اتنی سنگین ہوں گی کہ آپ اپنی ساری دولت کو خرچ کرکے بھی اِن خرابیوں کی اصلاح کرنے میں ناکام ثابت ہوں گے۔
واپس اوپر جائیں

عُذر نہیں

انگریزی زبان کے ایک مشہور مقولے میںنہایت درست طورپر کہاگیا ہے کہ — اگر تمھارے پاس ایک بہترین عذر ہو، تب بھی تم اس کو استعمال نہ کرو:
If you have a good excuse, don't use it.
عذر (excuse) انسانی زندگی میں ہر وقت پیش آتا رہتا ہے۔ کوئی بھی گھر یا کوئی بھی سماج عذر سے خالی نہیں۔ ایسی حالت میںاگر عذر کو عذر بنایا جائے تو آدمی کوئی کام نہیں کرسکتا۔ ہر وقت وہ کسی نہ کسی عذر میں پھنسا رہے گا، اور جو کرنے کا کام ہے، اس کو وہ نہ کرسکے گا۔
اِس مسئلے کا حل کیا ہے۔ اِس کا حل یہ ہے کہ دو قسم کے اَعذار (excuses) میں فرق کیا جائے۔ ایک، معمولی عذر (usual excuse) اور دوسرا، غیر معمولی عذ ر(unusual excuse) ۔ معمولی عذر یہ ہے کہ گھر میں مہمان آجائیں، سر میں کچھ درد ہوجائے، کسی کو اسپتال میں دیکھنے کے لیے جانا ہو، خاندانی تقریب میں شرکت، کسی کی آمد پر اس کا استقبال(receive) کرنااور اس کو بھیجنے (see off) کے لیے جانا، پیدائش اور موت کے واقعات، وغیرہ۔ یہ سب معمول کے عذر ہیں۔ ایسے عذر کو کسی ذمے داری کے سلسلے میں عذر بنانا درست نہیں۔
دوسرا عذر وہ ہے جو غیر معمولی عذر کی حیثیت رکھتا ہو، یعنی شدید قسم کا ناگہانی واقعہ۔ اِس دوسرے قسم کے عذر کو مجبور کُن عذر (compulsive excuse) کہاجاسکتا ہے۔ یہ وہ عذر ہے جو آدمی کے لیے سخت معذوری (crippling) کا سبب بن جاتا ہے۔
جب صورتِ حال یہ ہے کہ اِس دنیا میں زندگی اعذار (excuses) سے بھری ہوئی ہے تو ہر بامقصد انسان کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ عذر سے اوپر اٹھ جائے، تاکہ مقصدِ حیات کے اعتبار سے جو بڑا کام اس کو کرنا ہے،اُس بڑے کام کو وہ انجام دے سکے۔ جو آدمی ایسا نہ کرے، وہ عذر کے قبرستان میں دفن ہو کر رہ جائے گا اور کوئی بڑا کام انجام نہ دے سکے گا۔
واپس اوپر جائیں

سادگی کا اصول

سادگی صرف عدم تکلّف کانام نہیں، سادگی زندگی کا ایک بنیادی اصول ہے۔ سادگی کا مطلب یہ ہے کہ مادّی معاملات کے بارے میں اپنے آپ کو حقیقی ضرورت (basic need) تک محدود رکھا جائے، اور اپنی ساری توانائی کو صرف مقصدِ اعلیٰ کے راستے پر خرچ کیا جائے۔ سادگی کا تعلق لائف مینج مینٹ (life management) سے ہے، نہ کہ معروف معنوں میں محض ایک شخص کے ذاتی ذوق سے۔
سادگی زندگی کی ایک علاحدہ صفت نہیں، سادگی کا تعلق انسان کی تمام دوسری سرگرمیوں سے ہے۔ اِسی لیے ایک مشہور مقولے میں درست طورپر کہاگیا ہے کہ— اگر تم اعلیٰ ترقی حاصل کرنا چاہتے ہو تو سادگی کا طریقہ اختیار کرو:
Simple living, high thinking
سادہ زندگی اور اونچی سوچ(high thinking) دونوں ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ سادہ زندگی نہیں تواونچی سوچ بھی نہیں۔ اونچی سوچ یا اعلیٰ ذہن کی تشکیل کے لیے اِرتکاز (concentration) نہایت ضروری ہے، اور سادگی کے بغیر ذہنی ارتکاز (intellectual concentration) پر قائم رہنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔
جب کوئی شخص سماجی زندگی میں ر ہتا ہے تو اس کے ساتھ بار بار ڈسٹریکشن (distraction) کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، یعنی ایسی چیزوں میں مشغول ہونا جو آدمی کو اس کے حقیقی مقصد سے منحرف کردیں۔ ڈسٹریکشن کا معاملہ سماجی زندگی میں بار بار پیش آتا ہے۔ لیکن جس آدمی کے سامنے کوئی اعلیٰ مقصد ہو اور وہ واقعی معنوں میں اس کو حاصل کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچائے۔ ڈسٹریکشن آدمی کی توجہ کو اس کے اصل مقصد سے ہٹاتا رہتا ہے۔ کوئی بامقصد انسان اِس قسم کے ڈسٹریکشن کو گوارا نہیں کرسکتا۔ سادگی با مقصد انسان کا کلچر ہے، بامقصد انسان اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ سادگی کے اصول کو ترک کردے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
آج کل گراس روٹ (grassroots) کا بہت چرچا ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ گراس روٹ سے کام کرنے کا طریقہ ٹھوس طریقہ ہے۔ یہی اصلاحی کام کا زیادہ صحیح طریقہ ہے۔لیکن آپ کا طریقہ بظاہر اِس سے مختلف نظرآتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ گراس روٹ لیول (grassroot level) سے کام کرنے کو زیادہ اہم نہیں سمجھتے۔ ایسا کیوں ہے، اور اِس معاملے کی حقیقت کیا ہے۔ (محمد ذکوان ندوی، نئی دہلی)
جواب
گراس روٹ لیول سے کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی سطح سے کام کیاجائے، یعنی اصلاحی کام کا آغاز گاؤں سے کرنا، یا غریب بستیوں سے کرنا، یا بے پڑے لکھے عوام سے کرنا۔ اِس طریق کار میں کچھ فائدے ضرور ہیں، لیکن یہ کام کا زیادہ نتیجہ خیز طریقہ نہیں۔ نچلی سطح کے لوگوں کو گراس روٹ سمجھنا، ایک غلط مفروضہ ہے۔ صحیح یہ ہے کہ گراس روٹ انسان کا ذہن ہے، یعنی انسان کی سوچنے کی صلاحیت کا مرکز۔
مذکورہ مفروضے کے مطابق، بہت سے بڑے بڑے لوگوں نے گراس روٹ سے کام کیا ہے، مگر اُن کے اپنے نشانے کے مطابق، ان کے کام کا کوئی بڑا نتیجہ نہیںنکلا۔ مثال کے طورپر مدر ٹریسا (وفات: 1997 ) کا نام اِس معاملے میں بہت زیادہ مشہور ہے، لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ ان کی موت روحانی کرب (agony) کے عالم میں ہوئی۔ آخر وقت میں وہ اپنے کام سے غیر مطمئن تھیں۔ کیوں کہ جس نشانے کو سامنے رکھ کر انھوں نے کام شروع کیا تھا، وہ نشانہ ان کو حاصل نہیں ہوسکا۔ یہی حال اُن تمام بڑے بڑے مصلحین (reformers) کا ہے جنھوں نے اپنے خیال کے مطابق، مفر وضہ گراس روٹ سے کام شروع کیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے تمام اعمال کا مصدر اور منبع اس کا ذہن (mind) ہے۔ آدمی جیسا اپنے ذہن سے سوچتا ہے، ویسا ہی وہ عمل کرتا ہے۔ اِس لیے آدمی کا ذہن (mind) انسانی زندگی میں گراس روٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی بات فطری نقشے کے مطابق ہے۔ ہم اپنا کام اِسی فطری نقشے کے بنیاد پر کررہے ہیں۔ ہم انسان کے ذہن کو تمام انسانی اعمال کے لیے گراس روٹ سمجھتے ہیں۔ اِس لیے ہماری تمام کوشش یہ ہے کہ انسان کا ذہن بدلے، انسان کی سوچ بدلے، انسان کے اندر صحیح طرزِ فکر پیدا ہو۔ سوچ بدلے گی تو زندگی بدلے گی، اور اگر سوچ نہ بدلے تو کچھ بھی بدلنے والا نہیں۔
سوال
عام طور پر یہ سمجھتا ہے کہ شادی یا نکاح کے معاملے میں اسلام کا طریقہ ارینجڈ میریج (arranged marriage) کا طریقہ ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں اِس طریقے کو روایتی (traditional) طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ آج کل کے نوجوانوں کا یہ خیال ہے کہ شادی یا نکاح زندگی کا ایک بے حد اہم معاملہ ہے، اِس لیے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا یہ ماننا ہے کہ اُنھیں اس معاملے کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔ اِس دوسرے طریقے کو عام طورپر لَو میریج (love marriage) کہاجاتا ہے۔ اِس معاملے میں آپ کی رائے کیا ہے۔ براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں (رابعہ، کرناٹک)۔
جواب
موجودہ دنیا عقل کا امتحان ہے۔جو آدمی سوچ سمجھ کر کام کرے گا، وہ کامیاب ہوگا اور جو شخص محض جذبات کے تحت کام کرے گا، وہ ناکام ہوگا۔ جہاںتک شادی کاتعلق ہے، شادی لَو میریج کا نام نہیں۔ لو اَفیئر(love affair)یا لَو میریج کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ صرف سطحی جذباتیت کا خوب صورت نام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شادی یا نکاح اپنے لیے ایک لائف پارٹنر حاصل کرنے کا نام ہے۔ زوجین کو چاہیے کہ وہ نکاح کے معاملے کو اِسی نقطۂ نظر سے دیکھیں۔ اِس معاملے میں وہ جذباتی مغلوبیت کے تحت کوئی کام نہ کریں، بلکہ خالص عقلی فیصلے کے تحت کام کریں۔
لَو افیئر یا لو میریج صرف وقتی جذباتیت کا نتیجہ ہوتی ہے، جب کہ نکاح کا تعلق عورت یا مرد کی پوری زندگی سے ہوتا ہے۔ اِس معاملے میں دانش مندانہ فیصلہ ہمیشہ کے لیے آدمی کی زندگی کو خوش گوار بنادیتا ہے۔ اِس کے برعکس، جذباتی فیصلہ ہمیشہ کے لیے اس کی زندگی کو تلخ بنادیتا ہے۔ اِس دنیا میں عقلی فیصلے کا نتیجہ کامیابی ہے اور جذباتی بہاؤ کا نتیجہ ناکامی۔
سوال
ایک دینی حلقے سے جُڑے ہوئے لوگوں کے درمیان تدبر قرآن اورفہم قرآن کی باتیں ممنوع قرار دے دی گئی ہیں۔ان کے نزدیک عوام کے لیے قرآن صرف تلاوت کی شے ہے، تدبر قرآن اور فہم قرآن صرف علماء کا حق ہے۔ اِن دنوں عوام کو قرآن فہمی سے روکنے کے لیے اِن حضرات کے ذریعے ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ — ’’صحابہ کرامؓ نے فرمایا کہ ہم نے پہلے ایمان سیکھا، پھر قرآن سیکھا (تعلّمنا الإیمان، ثمّ تعلّمنا القرآن) ‘‘۔ پھر اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے کہاجاتا ہے کہ ایمان کو پختہ کئے بغیر قرآن فہمی کی کوشش گم راہی کا سبب بن سکتی ہے۔جب اللہ تعالیٰ خود قرآن میں تدبّر کرنے کا حکم دیتا ہے تو اِس قسم کی حدیثوں کی حقیقت کیا ہے۔ آخر یہ حضرات عوام کو قرآن سے دور کرنے کی کوشش کیوں کررہے ہیں۔ مہربانی فرما کر اس مسئلے میں ہم لوگوں کی رہ نمائی کریں، شکریہ (محمد خورشید اکرم سوز، کیلاش نگر، مہاراشٹر)۔
جواب
آپ نے جس حدیث کا ذکر کیا ہے، وہ صحیح اسناد سے ثابت ہے۔ لیکن صحابی کے اِس قول کی وہ تشریح درست نہیں جس کو آپ نے کچھ لوگوں کی طرف منسوب کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔ صحابی کے اِس قول میںایمان سے مراد معرفت ہے، اور قرآن سے مراد شریعت۔ یہ بالکل درست ہے کہ اسلام میں پہلا دعوتی عمل یہ ہے کہ لوگوں کے اندر معرفت پیدا کی جائے، یعنی لوگوں کی سوچ کو بدلا جائے، لوگوں کو ذہنی اعتبار سے تیار کیاجائے۔ اِس ذہنی تیاری کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ لوگ اسلام کے عملی احکام کو اپنی زندگی میںاختیار کریں۔
تاہم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ معرفت کے حصول کا ذریعہ بھی قرآن ہی ہے۔ کوئی اور خود ساختہ طریقہ نہیں۔ قرآن ہی کی رہ نمائی میںیہ کیا جائے گا کہ لوگوں کو بدلا جائے۔ لوگوں کے اندر معرفت پیدا کی جائے جس کو ایمان کہاگیا ہے۔ قرآن سے باہر معرفت کے حصول کاکوئی اور طریقہ وضع کرنا ایک بدعت ہے، اور بدعت سے کبھی کوئی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
’تذکیر القرآن‘ اِسی اصول پر لکھی گئی ہے۔ تذکیرالقرآن میں قرآن کے اُن پہلوؤں کو نمایاں کیا گیا ہے جو معرفت یا شعورِ ایمان کو پیدا کرنے والے ہیں۔ تذکیر القرآن کے جس صفحے کو بھی آپ کھولیں، آپ یہ حکمت اس کے اندر پائیں گے۔ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ تذکیر القرآن کے ذریعے لوگوں کے اندر شعورِ ایمان پیدا کیا جائے۔ شعور ایمان کا پیدا ہونا گویا کہ استعداد کا پیدا ہونا ہے۔ اور جب استعداد پیدا ہوجائے تو اس کے بعد خود ہی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ شریعت کے عملی احکام کو اپنی زندگی میںاختیار کرلیتے ہیں۔
سوال
اسلامی شریعت کے مطابق، یہ مسئلہ بتایا جاتا ہے کہ قیامت کے دن خدا ظاہر ہوگا۔ وہ اچھے لوگوں کو جنت میں جگہ دے گا اور برے لوگوں کو جہنم میں داخل کرے گا۔ بہت سے لوگ اِس پر اعتراض کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا تو ارحم الراحمین ہے، پھر خدا رحمت والا خداہونے کے باوجود کیوں لوگوں کو ابدی جہنم میں داخل کرے گا (رجت ملہوترا، نئی دہلی)۔
جواب
قیامت کے جزا اور سزا کا تعلق رحمت سے نہیں ہے، بلکہ عدل سے ہے۔ یہ خدا کے عدل کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کو اُن کے عمل کے مطابق، جزا یا سزا دے۔
قیامت میںجن لوگوں کے لیے جہنم کا فیصلہ کیاجائے گا، وہ ان کے اندھے پن کی بنا پر ہوگا۔ کیوں کہ انھوںنے نعمتوں کا بھر پور استعمال کیا، لیکن انھوں نے منعم کا اعتراف نہیں کیا۔
خدا نے ان کو اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا، لیکن انھوںنے یہ نہیں سوچا کہ یہ پیدا کرنے والا کون ہے۔ خدا نے اُن کو سیارۂ ارض (planet earth) جیسی جگہ رہنے کے لیے دی، لیکن انھوںنے یہ نہیں سوچا کہ یہ استثنائی زمین کس نے بنائی۔ خدا نے سورج کے ذریعے روشنی اور حرارت کا انوکھا انتظام کیا، لیکن انھوںنے یہ نہیں سوچا کہ یہ انوکھا انتظام کرنے والا کون ہے۔ خدا نے اُن کے لیے آکسیجن کی مسلسل فراہمی کا انتظام کیا، لیکن انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ فراہمی کس کی طرف سے ہورہی ہے۔ خدا نے زمین سے اُن کے لیے طرح طرح کی غذائیں نکالیں، لیکن انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ کون ہے جو یہ سب کررہا ہے۔ خدا نے دریاؤں اور سمندروںکو پانی سے بھر دیا، لیکن انھوںنے یہ نہیں سوچا کہ اِس زندگی بخش نعمت کو فراہم کرنے والا کون ہے۔ خدا نے دنیا میں انسان کے لیے وہ تمام چیزیں فراہم کیں، جن کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے، لیکن انھوںنے یہ نہیں سوچا کہ اِس لائف سپورٹ سسٹم کو دینے والا کون ہے۔
وہ لوگ جو نعمتوں کو استعمال کریں، لیکن وہ منعم کا اعتراف نہ کریں، ایسے لوگوں کو قرآن میںاندھا اور بہرا (الإسراء: 72 ) بتایا گیا ہے۔ جہنم دراصل اِنھیں اندھے اور بہرے لوگوں کے لیے ہے۔ جو لوگ دنیا کی زندگی میںاندھے اور بہرے بن کر رہیں، جن کا حال یہ ہو کہ وہ نہ اپنی عقل سے سوچیں، اورنہ اپنی آنکھ سے دیکھیں، اور نہ اپنے کان سے سُنیں، ایسے لوگوں کا انجام بلاشبہہ یہی ہوسکتا ہے کہ ان کو ما بعد موت دورِ حیات (post-death period) کے ابدی مرحلے میں خدا کی اِن رحمتوں سے محروم کردیا جائے۔ وہ دوبارہ خدا کی رحمتوں میں حصے دار نہ بن سکیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو قرآن میں اہلِ جہنّم (الأعراف: 179 ) کہاگیا ہے۔
سوال
May name is Yusuf Vorajee, I am 35 years old. I am a born and bred south African. I hail from a town called Lenasia, a suburb of Johannesburg. I have had the privilege of a good Islamic upbringing. When I was 21 years of age I decided to pursue the study of Islam seriously. The only option available to me at the time was to go to a local dar al-ulum affiliated to the madrasah in Deoband. I studied in this institution for 7 years, but was always at loggerheads with the authorities regarding issues of teaching methodology, curriculum content, interpretation of sources etc.
After I qualified, however, then I came into real conflict with the 'ulama fraternity after I refused to submit to the dictates of the 'ulama uncritically. I have subsequently been ostracized by the 'ulama, rendered unemployable and labeled a deviant.
During this time (over 7 years plus the period of my studies), one of the sources by which I drew solace was your writings. Whenever I was asked to speak in a Musjid I spoke from your books.
At present I find myself in a “spiritual mess”. I have literally been ostracized by the “ruling” ‘ulama body here who exert every influence over most of the Islamic organizations. I have continuosly been refused work at “their” madaaris and Islamic schools and anywhere else. I am not called upon to deliver khutbas, jumu'ah or otherwise any longer, I have no avenues from which to articulate my thought. Friends I had from my madrasah days avoid me. I read extensively and continue studying on my own, and have grown beyond the narrow outlook of the traditional ulema fraternity. It’s not possible for me to move away to a different place or locality as I have a widowed mum and an ailing widowed grandmother to take care of, and I am an only child. I am also married and have two beautiful children alhamdulillah. Because of this total isolation and ostracism, I feel abandoned by Allah (SWT) and there are days when I question my faith, times when I felt shaken to my core. When I contemplate my predicament, I am able to understand and accept it on an intellectual level, and have intellectual responses; but I can’t come to terms with it emotionally or spiritually, and I am in serious need of a spiritual guide and mentor.
I do realize that you are extremely busy but if you could spare a few minutes for me so that I may solicit advice from you albeit electronically I would be most grateful. Also I humbly request you to make du'a for me. (Yusuf Vorajee, South Africa)
جواب
According to my experience, I would make some suggestion to you:
1. First of all, you will have to study all of my books, also you will have to be a regular reader of my monthly magazine “Al-Risala”, published from Islamic Centre, New Delhi, India. This magazine and other of my writings are also available on the internet (www.alrisala.org).
2. According to my analysis, all of your problems are the result of one thing alone. And that is your idealism. You are an idealist, and idealists always try to translate their ideals into their social matters, but it is not possible. This problem is not due to the existence of some bad people, it is directly a result of the law of nature.
The only solution to your problem is that you must adopt a realistic approach towards all your problems. That is, be ideal in your personal matters, but when it comes to social matters, you have to adopt a practical policy. The formula of practical policy is very simple. You have to differentiate between what is possible and what is impossible. According to this formula, I would suggest that, you should adjust with the madrasa and masjid people of your locality. I am sure that there are opportunities for you, in both masjid and madrasa, but at the same time there are some problems for you in such a situation, my advice to you is — ignore the problems, and avail the opportunities.
It is my experience that, people always adopt this realistic formula in their family life, but they are reluctant to adopt the same realistic formula in their social life. The price of not accepting realistic approach is that you become double standard.
I hope these lines will suffice for you. May God bless you to achieve success in life.
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 183

1 - پاکستان کے جیو (Geo TV) نے 25 اکتوبر 2007 کو اپنے اسٹوڈیو میں ایک پینل ڈسکشن رکھا ۔ یہ ڈسکشن انگریزی میں تھا۔ اِس کا موضوع تھا— اسلامی شناخت (Islamic identity)۔ اِس ڈسکشن میں پاکستان کے تین پروفیسر شریک تھے۔ صدر اسلامی مرکز کو بھی اِس میںاِس طرح شریک کیاگیا کہ انھوںنے دہلی سے ٹیلی فون پر اپنا نقطۂ نظر بتایا اور اس کو ’جیو ٹی وی‘ کے پروگرام میں نشر کیاگیا۔ ان کے بیان کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلامی شناخت کا تعلق کلچر سے نہیں ہے، بلکہ کردار سے ہے۔ مسلمان کی پہچان اس کا اسلامی کردار ہے۔ حدیث (خالفوا الیہود والنّصاریٰ) کے بارے میں انھوں نے بتایاکہ اِس سے مراد دوسری قوموں کا کلچر نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد دوسری قوموں کی مذہبیعلامت(religous symbol) ہے۔ جیسے کہ مسیحی لوگوں کا اپنی گردن میں صلیب لٹکانا، وغیرہ۔
2 - دور درشن (نئی دہلی) نے 12 نومبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔ اِس کا موضوع — اسلام میں لڑکیوں کی تعلیم تھا۔ یہ انٹرویو 12 نومبر کی شام کو لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت نشر کیاگیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام میں تعلیم کی اہمیت جس طرح مردوںکے لیے ہے، اُسی طرح عورتوں کے لیے ہے۔ چناں چہ آج سارے ملک میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ہزاروں ادارے کھُلے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کے بغیر عورت اپنا رول صحیح طورپر ادا نہیں کرسکتی۔
3 - 13نومبر 2007 کو ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو حج کے موضوع پر تھا۔ اِس انٹرویو کو 16 نومبر کی شام کو ساڑھے نو بجے نشر کیاگیا۔ حج کے بارے میں بتایا گیا کہ حج، اسلام کی ایک بہت بڑی عبادت ہے۔ یہ حضرت ابراہیم کے مشن اور پیغمبر اسلام کے مشن کے اتباع کا ایک عہد ہے۔ حج، امن اور اتحاد اور عالمی انسانیت کا پیغام ہے۔
4 - سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 14 نومبر 2007 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں مختلف اسکولوں کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ منتظمین کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اوراسلام اور بنیادی انسانی اَقدار کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ چوں کہ آنے والا حج (21 دسمبر2007) کا زمانہ قریب تھا۔ اِس لیے اِس تقریر میں حج کو لے کر مذکورہ موضوع کی وضاحت کی گئی ۔ تقریر کے آخر میں سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر انگریزی میں چھپا ہوا اسلامی لٹریچر بھی لوگوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ مثلاً(Reality of Life) کے نام سے چھپا ہوا پمفلٹ۔ اِس کے علاوہ لوگوں کو ویب سائٹ کے بارے میں بتایا گیا ۔ لوگوں نے کہا کہ وہ اِس سے استفادہ کریں گے۔
5 - 25 نومبر 2007 کو نئی دہلی میں انڈیا اور پاکستان کا کرکٹ میچ تھا۔ اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل کے ایک ممبر نے دونوں طرف کے کھلاڑیوں کو صدر اسلامی مرکز کے لکھے ہوئے اردو اور انگریزی لٹریچردستی طورپر پہنچائے۔ کھلاڑیوں نے اس کو بہت شوق سے لیا اور اُس سے اپنی دل چسپی کا اظہار کیا۔
6 - سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 5 دسمبر 2007 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں سنٹرل اسکولوں کے پرنسپل حضرات شریک تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلام میں بنیادی انسانی اقدار کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ آخر میں سوالات کا جواب دیا۔ اِس موقع پر لوگوں کے درمیان انگریزی زبان میںاسلامی لٹریچر بھی تقسیم کیاگیا۔ لوگوں نے اس کو نہایت شوق سے لیا اور اپنی دل چسپی کا مظاہرہ کیا۔
7 - پٹنہ بُک فئر(Book Fair)کا شمار ہندستان کے بڑے بک فئر میں ہوتا ہے۔ ہر سال کی طرح اِس سال بھی پٹنہ کے تاریخی گراؤنڈ ’گاندھی میدان‘ میں 7 تا 18 دسمبر2007 یہ بُک فئر منعقد کیا گیا۔ گڈورڈ بُکس (نئی دہلی) کا اسٹال بھی یہاں لگایا گیا۔ اِس کا انتظام شاہ عمران حسن نے سنبھالا۔ صدر اسلامی مرکز کا ہندی ترجمۂ قرآن (پوتر قرآن) تیسرے دن ہی ختم ہوگیا۔ ان کی دیگر کتابوں کو بھی لوگوں نے بہت شوق سے لیا۔ الرسالہ مشن سے وابستہ مقامی افراد مثلاً ابو الحکم محمد دانیال، حافظ عبد الرافع، وغیرہ نے بک اسٹال کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ بُک اسٹال پر صوبہ بہار کے معروف اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات تشریف لائے، جن میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل تھے۔ مثلاً ڈی ایس پی توحیدپرویز، پنڈت رام کرشن سوامی، وغیرہ۔ اس کے علاوہ امارتِ شرعیہ کے طلباء اور اساتذہ نے اسٹال پر تشریف لاکر اپنی خوشی کا اظہار فرمایا، اور وہاں سے بڑی تعداد میں صدر اسلامی مرکز کی کتابیں اور ماہ نامہ الرسالہ حاصل کیا۔ پٹنہ کے مشہور روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ نے اپنے شمارہ 13 دسمبر 2007 میں حسب ذیل الفاظ میں اس کی رپورٹ شائع کی ہے:
کتاب میلہ (بک فئر) میں پوتر قرآن اور گاڈ ارائزز خصوصی توجہ کا مرکز
’’اس کتاب میلہ کی جو سب سے قابل ذکر اور قابل غور بات ہے وہ یہ ہے کہ ’’پوتر قرآن‘‘ اور گاڈ ارائزز‘‘ (God Arises) نام کی کتاب لوگ خوب خرید رہے ہیں۔ یہ دونوں کتابیں دہلی کے ایک مشہور پبلشر گڈ ورڈ (Goodword) نے شائع کی ہیں۔ دونوں کتابیں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم حضرات بھی شوق سے خرید رہے ہیں۔ ’’پوتر قرآن‘‘ قرآن کا سادہ اور سلیس زبان میں ترجمہ ہے جس کا ہدیہ دعوت کے مقصد سے صرف 25 روپیے رکھاگیا ہے اور ’’گاڈ ارائزز‘‘ عالم اسلام کے مشہور عالمِ دین اورمفکر مولانا وحید الدین خاں کی کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اس میں سائنٹفک دلائل کی روشنی میں اسلامی عقائد اور اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کیا گیا ہے۔ یہاں ہم پھر سے یہ واضح کردیتے ہیں کہ ’’پوتر قرآن‘‘ کو سب سے زیادہ غیر مسلم حضرات خرید رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ خریدتے وقت اسلام کے بارے میں معلومات بھی حاصل کررہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کتاب میلہ دعوت الی اللہ کا مرکز ہو۔ اس سے مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے جو قرآن نہیں پڑھتے اور ان کو اس میلے سے فیض یاب ہونا چاہیے‘‘ (صفحہ 9 ) ۔
8 - مختلف لوگوں تک ماہ نامہ الرسالہ پہنچانے کے لیے بہت سے حضرات اپنی طرف سے اس کا مخلصانہ تعاون پیش کرتے ہیں۔ اِس سال (2008) سی پی ایس انٹرنیشنل کی ٹیم کے ایک ممبر نے انڈیا کے ایک سو سے زائد دینی مدارس کے نام ماہ نامہ الرسالہ بھجوانے کے لیے اس کا سالانہ زرِ تعاون دیا ہے۔ان مدارس کے نام ایک سال کے لیے الرسالہ جاری کر دیا گیا ہے۔ الرسالہ کے دعوتی مشن کو پھیلانے کا یہ بلاشبہہ ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے۔
9 - الرسالہ کا دعوتی لٹریچر خدا کے فضل سے مسلسل طورپر پھیل رہا ہے۔ سی پی ایس کی ٹیم کے ایک ممبر نے کچھ تعلیم یافتہ حضرات کے سامنے ’تذکیر القرآن‘ کا ایک نسخہ پیش کیا۔ انھوںنے اس پر ایک منفی ریمارک دیا۔ سی پی ایس کے مذکورہ ممبر نے ان سے کہا کہ آپ تذکیر القرآن کا ایک صفحہ پڑھیں۔ اس کے بعد کوئی ریمارک دیں۔ اِس کے بعد اُن حضرات نے تذکیر القرآن میں سورہ فاتحہ کی تشریح پڑھی، اور فوراً اس کی تین کاپیوں کے لیے نقد آرڈر روانہ کردیا۔ یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی تحریک اگر اپنے آپ میں سچائی پر کھڑی ہو، تو سچائی کی یہ طاقت ہی زندہ اور سنجیدہ انسانوں کے لیے اس کی طرف سے اس کے کامل دفاع کے لیے کافی ہوجائے گی۔
10- Tuesday, 18 December 2007
I am delighted to read Al Risala, November 2007, which is exclusively about Asmaa’ Husna and Ism A‘zam. Many Thanks for considering the request of Kalim, and sharing your valuable thoughts on this important subject. The articles are well written and dispel many doubts in the minds of people. Also, they are very inspiring as you have laced the descriptions with real examples from Islamic history and your personal life. There is no doubt that your writings do convince a modern educated man and are in the style and idiom which he understands and appreciates. I pray for your long life and good health so that you may continue rendering this great service.
Al Risala, November 2007, has been an eye opener for me, particularly. Now I very clearly understand what is a super du'aa' and what is invocation, as different from what we normally pray in which there is not much earnestness.The caption on the title page of Al Risala always fascinates me a great deal. However, the one on al Risala of November 07 is highly inspiring and is a statement of universal truth. Also, the way it gets linked up with the anecdote of Sultan ‘Abdur Rahman An-Nasir (d. 961 CE) is revealing. The story of Sir Syed Ahmad Khan (d. 1989) at the end of Al Risala (pp. 44-45) is very inspiring and educative.
It will be worthwhile to have this issue of Al Risala translated into English for wider circulation and the same could also be posted on the Internet. Such a useful writing must reach to as many people as possible. I hope someone will take up this job. (Shakil Ahmad Khan, Sharjah, UAE)
واپس اوپر جائیں

Sunday, 2 March 2008

Al Risala | March 2008 (الرسالہ،مارچ)

2

- سب سے بڑا مسئلہ

3

- جہاد اسلامی تاریخ میں

15

- عظیم ترین شہادت

28

- گلوبل وارمنگ یا ڈِوائن وارننگ

31

- انسانی تاریخ کے دو دَور

35

- فرائض اور نوافل

38

- بریک اِن ہسٹری

40

- کامیابی کا فارمولا

41

- کثرت کے درمیان قلّت

42

- اِزد واجی زندگی

43

- حُسنِ تدبیر

44

- جھوٹ کی دو قسم

45

- غریبی اور امیری


سب سے بڑا مسئلہ

انسان کی زندگی ایک باشعور زندگی ہے۔ انسان ایک زندہ وجود ہے اور اسی کے ساتھ وہ اپنے زندہ ہونے کا شعور بھی رکھتا ہے۔ اس کا یہ شعور حسّاسیت (sensitivity)کی حد تک بڑھا ہوا ہے۔ انسان کامل درجے میں باشعور ہے اور اسی کے ساتھ وہ کامل درجے میں حسّاس بھی ہے۔انسان کی اِس صفت کا نتیجہ یہ ہے کہ اُس کو کوئی اچھا تجربہ ہو تو وہ بہت زیادہ خوش ہوتا ہے، اور اگر اس کو کوئی بُرا تجربہ پیش آئے تو وہ بہت زیادہ پریشان ہوجاتا ہے۔ خوشی اورغم دونوں قسم کے جذبات انسان کے اندر آخری انتہائی درجے تک پائے جاتے ہیں۔
انسان کے اندر یہ دونوں صفتیں پیدائشی طورپر پائی جاتی ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ آدمی بہت زیادہ جنت کا طالب بنے اور وہ بہت زیادہ جہنم سے ڈرنے والا بن جائے۔ کیوں کہ موت کے بعد ہر آدمی کا آخری ٹھکانہ یا تو جنت میںہونے والا ہے، یا جہنم میں۔ جنت ابدی طورپر خوشیوں اور راحتوں کی جگہ ہے اور جہنم ابدی طورپر غم اورحسرت کی جگہ۔ آدمی اپنے عمل کے اعتبار سے دونوں میںسے کسی انجام تک لازماً پہنچنے والا ہے۔ اِس لیے ہر انسان کو اِس معاملے میںسب سے زیادہ فکر مند ہونا چاہیے۔ مگر عجیب بات ہے کہ انسان اِس سنگین ترین معاملے میں اُس حدیثِ رسول کی تصویر بنا ہوا ہے جو اِن الفاظ میں آئی ہے: ما رأیتُ مثلَ الجنّۃ نامَ طالبُِہَا، ومارأیتُ مثلَ النّارِ نامَ ہَارِبُہَا ( الترمذی، کتاب صفۃُ جہنّم)۔ یعنی کیسی عجیب بات ہے کہ لوگ جنت جیسی قیمتی چیز کے طالب نہیں بنتے، اور کیسی عجیب بات ہے کہ لوگ جہنم جیسی خوف ناک چیز سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔
خدا کا خوف کوئی منفی چیز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کی معرفت جب اپنے آخری درجے میں پہنچتی ہے تو وہ خدا کا خوف بن جاتی ہے۔ ایسا آدمی بے پناہ حد تک جنت کا طالب بن جاتا ہے۔ اِسی کے ساتھ اُس کو ہر وقت یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ اگر خدا نے اس کے لیے جنت کا فیصلہ نہ کیا تو اس کا کیا حال ہوگا۔ یہ معرفت کا اعلیٰ درجہ ہے، اور اِسی اعلیٰ معرفت کا نام تقویٰ ہے۔
واپس اوپر جائیں

جہاد اسلامی تاریخ میں

جہاد کے لفظی معنیٰ کوشش یا جدّ وجہد کے ہیں۔ اِس سے مراد اصلاً پُرامن کوشش ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر پچیس میں ارشاد ہوا ہے— اُن سے جہاد کرو، قرآن کے ذریعے، بڑا جہاد (الفرقان: 52 ) قرآن کی اِس آیت میں جہاد یا ’جہادِ کبیر‘ سے مراد واضح طورپر پُرامن دعوتی جد و جہد ہے۔ اِسی طرح حدیث میں آیا ہے: المجاہد مَن جاہد نفسہ فی طاعۃ اللّٰہ (مسند احمد، جلد 6، صفحہ 22) یعنی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف خدا کی اطاعت کے لیے جہاد کرے۔ اِس حدیثِ رسول میں جس چیز کو جہاد کہاگیا ہے، وہ بھی واضح طورپر ایک پُرامن عمل ہے، اُس کا جنگ اور قتال سے کوئی تعلق نہیں۔
تاہم، توسیعی معنوں میں کبھی جہاد کا لفظ قتال کے لیے بھی بولا جاتا ہے، یعنی حربی جہاد کے لیے۔ موجودہ زمانے میں جہاد کا لفظ عام طورپر مسلّح جہاد کے لیے استعمال ہونے لگا ہے۔ آج کل مختلف ملکوں میں مسلمان اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف مسلّح کارروائیوں میں مشغول ہیں اور اُن کو وہ جہاد فی سبیل اللہ کہتے ہیں، مجھے اِس سے اتفاق نہیں۔ تاہم، زیر نظر مضمون میں ہم عمومی استعمال کے لحاظ سے جہاد کو مسلّح جہاد کے معنیٰ میں لیتے ہوئے اِس موضوع کا ایک تاریخی جائزہ لیں گے۔
1 - پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا۔ اُس وقت مکہ پر مشرک لوگوں کا اقتدار قائم تھا۔ اُس وقت مکہ میںآپ کی حیثیت داعی کی تھی اور بقیہ لوگوں کی حیثیت مدعو کی۔ مکہ کے مشرک سردار آپ کے نظریۂ توحید کے دشمن بن گیے اور آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے لگے۔ اِسی حال میں تیرہ سال گزر گیے۔ اِس دوران مکہ اور اطرافِ مکہ اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام قبول کرکے آپ کے ساتھی بن گیے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مکی دَور کے آخر میں آپ کے ساتھیوں نے آپ سے اِصرار کیا کہ ہم مشرکینِ مکہ کے خلاف لڑیں گے۔ اُس وقت آپ کے ساتھیوں کی تعداد مجموعی طورپر تقریباً اتنی ہی تھی جتنی کہ غزوۂ بدر کے موقع پر شریک ہونے والے صحابہ کی۔ لیکن اُس وقت آپ نے جنگ کا فیصلہ نہیں کیا، بلکہ آپ نے اپنے ساتھیوں کو یہ جواب دیا کہ: اصبروا، فإنی لم أومر بالقتال یعنی تم لوگ صبر کرو، کیوں کہ مجھ کو جنگ کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب، اسلام کی ایک اہم تعلیم کو بتاتاہے۔ وہ تعلیم یہ کہ جنگ ایک قائم شدہ حکومت کاکام ہے، غیر حکومتی تنظیمیں، یا افراد جنگ نہیں کر سکتے۔ اُن کے لیے غیر سیاسی میدان میں پُرامن جدوجہد کرنا ہے، نہ کہ مسلّح ٹکراؤ کرنا۔ اِسی بات کو دورِ تابعین میں مسیّب ابن رافع تابعی نے اِس طرح بیان کیا کہ کچھ اجتماعی چیزیں وہ ہیں، جن کا تعلق صرف حُکّام سے ہوتا ہے۔ اِسی لیے اُن کو ’صَوافی الأُمراء‘ کہاجاتا ہے،یعنی حاکموں کا میدان (جامع بیان العلم، جلد 2، صفحہ 144)۔ علماء کے اتفاق کے مطابق، مسلّح جہاد کا تعلق، صوافی الامراء سے ہے، یعنی اُس کا فیصلہ صرف حکام کرسکتے ہیں، نہ کہ عوام (الرّحیل للإمام)۔
مکی دَور کے تیرہ سالوں میں اہلِ اسلام کا اقتدار قائم نہیں ہوا تھا، اِس لیے مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کے باوجود جنگ اور قتال کا فیصلہ نہیں فرمایا۔ اِس کے بعد جب ہجرت کا واقعہ پیش آیا اور مدینہ میں پیغمبر اسلام کا اقتدار قائم ہوگیا تو آپ نے دفاع کے لیے جنگ کی اجازت دی۔ اِسی زمانے میں غزوۂ بدر (2 ہجری)، غزوۂ اُحُد (3ہجری) اور غزوۂ حُنَین (8ہجری) کے واقعات پیش آئے، یہ سب دفاعی غزوات تھے۔ اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے اور اُس کا اختیار بھی صرف حاکمِ وقت کو حاصل ہوتا ہے، کسی غیر حکومتی گروہ کو مسلح جہاد کی ہرگز اجازت نہیں۔
اسلام میں اگر چہ دفاع کے لیے جنگ کی اجازت ہے، لیکن اسی کے ساتھ شدت سے اِعراض کا حکم دیا گیا ہے، یعنی دفاع کے حالات پیدا ہونے کے باوجود آخری حد تک جنگ سے اعراض کی کوشش کی جائے گی اور جب اعراض کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں، اُ س وقت آخری چارۂ کار کے طور پر دفاعی جنگ کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صرف تین بار باقاعدہ جنگ(fullfledged war) ہوئی، یعنی بدر اور احد اور حنین کی جنگ۔ اس کے سوا جن واقعات کو ’غزوہ‘ کہا جاتا ہے، وہ یا تو صرف پُرامن مہمیں (peaceful campaigns)تھیں،مثلاً غزوۂ تبوک (9 ہجری)، یا جنگ کی حالت پیدا ہونے کے باوجود جنگ سے اعراض، مثلاً غزوۂ خندق (5 ہجری) یا بعض واقعات کی صورت میں صرف جھڑپیں (skirmishes)۔ غزوۂ خیبر (7 ہجری) کی نوعیت اِسی قسم کی ہے۔
جنگ کے باقاعدہ واقعات بھی اِس طرح ہوئے کہ اُن میں عملاً صرف آدھے دن کی لڑائی ہوئی، یعنی دوپہر کے بعد جنگ کا آغاز اور شام تک جنگ کا خاتمہ، جیسا کہ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد اور عزوۂ حنین کے موقع پر پیش آیا۔ اِس لحاظ سے یہ کہنا درست ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے 23 سالہ دورِ نبوت میں مجموعی طورپر صرف ڈیڑھ دن کے لیے جنگ کی۔
2 - حدیث کی کتابوں میں دوسرے ابواب کے ساتھ عام طور پر ’کتابُ الفتن‘ کا باب ہوتا ہے۔ اِس باب کے تحت، بہت سی ایسی حدیثیں آئی ہیں، جن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے شدت کے ساتھ امت کو یہ حکم دیا کہ تم لوگ کسی بھی حال میں وقت کے حاکموں سے جنگ نہ کرنا۔ آپ نے فرمایا کہ تمھارے نزدیک خواہ حکم رانوں میں کتنا ہی بگاڑ کیوں نہ آجائے ، لیکن تم اُن کے خلاف لڑائی نہ چھیڑنا۔ لوگوں نے پوچھا کہ پھر ایسے حالات میں ہم کیا کریں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے اونٹوں اور اپنی بکریوں کو لے کر پہاڑیوں میں چلے جاؤ، یا کسی کے پاس زمین ہے تو وہ اپنی زمین میں جاکر کاشت کرنے لگے (مشکاۃ المصابیح، جلد 3، صفحہ 1482 )۔
اِسی بنا پر علما کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ حکم رانوں کے خلاف خروج کرنا، یا اُن سے جنگ کرنا اہلِ اسلام کے لیے جائز نہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، شرح نووی، جلد 12 ، صفحہ 129 )۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن صریح احکام اور علمائِ اسلام کے اِس پر اتفاقِ عام کی بنا پر یہ ہوا کہ امت میںعوام اور حکم رانوں کے درمیان سیاسی ٹکراؤ کا بالکل خاتمہ ہوگیا۔پیغمبر اسلام کے بعد تقریباً بارہ سوسال تک مسلم حکومتیں ساری دنیا میں قائم رہیں۔ اُن میں ہر طرح کے سیاسی بگاڑ بھی پیش آئے، لیکن وقت کے علما نے کبھی اُن کے خلاف سیاسی ٹکراؤ یا سیاسی جنگ نہیں چھیڑی۔
مفسرین اور محدثین، فقہا اور علما ہمیشہ اپنے علمی دائرے میں مشغول رہے۔ اُنھوں نے کبھی سیاسی بگاڑ کے حوالے سے وقت کے حکم رانوں سے مسلّح ٹکراؤ نہیں کیا۔ عدم ٹکراؤ کے یہی پالیسی تھی جس کے نتیجے میں اسلامی علوم کی تدوین ہوئی اور اسلام کا عظیم کتب خانہ وجود میں آیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اسلام کا کتب خانہ تو نہ بنتا، البتہ ہر جگہ شہیدوں کا قبرستان ضرور بن جاتا۔
3 - بارہ سو سال کی اِس طویل مدت میں ہم کو صرف ایک استثنائی واقعہ ملتاہے اور وہ حسین بن علی (وفات: 680 ء) کا واقعہ ہے، مگر میں اپنے مطالعے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ جس حُسین کو لوگ جانتے ہیں، وہ ایک خود ساختہ شخصیت ہے، تاریخ میں ایسے کسی حُسین کا وجود نہیں۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ حُسین بن علی مکہ میں تھے۔ اُن کو خبر ملی کہ کوفہ (عراق) کے کئی لوگوں نے اُن پر غائبانہ بیعت کرلی ہے اور وہ اُنھیں کوفہ بلا رہے ہیں۔ اِس خبر کو سُن کر وہ مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس دن حضرت حسین مکہ سے روانہ ہوئے، اُس دن کوفہ کے لوگ اپنی بیعت توڑ چکے تھے۔ اگر وہ ٹیلی فون کا زمانہ ہوتا تو حضرت حسین کو فوراً ہی نقضِ بیعت کی خبر مل جاتی اور یقینا وہ مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ نہ ہوتے۔ اگر چہ اُس وقت بہت سے صحابہ موجود تھے اور انھوں نے حضرت حسین کو سفر سے روکا، لیکن وہ اپنے اہلِ خاندان کے تقریباً اَسّی افراد کو لے کر کوفہ کے لیے روانہ ہوگیے۔ اِس سفر میں کوئی صحابی اُن کے ساتھ موجود نہ تھا۔ گویا کہ یہ کوئی جنگی سفر نہ تھا، بلکہ وہ نجی نوعیت کا ایک سفر تھا۔
حضرت حسین اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ جب کوفہ کے قریب کربلا کے مقام پر پہنچے تو وہاں یزید کے مقامی حاکم عبید اللہ بن زیاد (وفات: 686 ء)نے اُن کو آگے بڑھنے سے روکا۔ مستند تاریخی روایات کے مطابق، اُس وقت حضرت حسین نے کہا کہ میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا۔ تم مجھ کو چھوڑ دو، تاکہ میں واپس لوٹ کر مکہ پہنچ جاؤں، یا پھر تم مجھ کو یزید کے پاس دمشق لے چلو اور میں یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا(إما أن أضع یدی فی ید یزید ، تاریخ الطَبری، جلد 4، صفحہ 313 )۔
اُس وقت کوفہ میں یزید کی حکومت کی طرف سے شَمِر بن ذی الجوشَن ایک فوجی دستے کے ساتھ موجود تھا۔ یزید کی کسی ہدایت کے بغیر اُس نے خود سے یہ فیصلہ کیا کہ حُسین کو واپس لوٹنے نہیں دینا ہے۔ اِس کے بعد اُس نے اپنے مسلّح فوجی دستے کے ساتھ حسین کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اُس نے حضرت حسین کے ساتھ وہی معاملہ کیا جس کو آج کل کی زبان میں فرضی مڈبھیڑ(fake encounter) کہاجاتا ہے۔ چناں چہ شمر ذی الجوشن نے حضرت حسین کی آمادگی کے بغیر اُن کو لڑنے پر مجبور کیا اور پھر انھیں قتل کرڈالا۔
حسین بن علی کے معاملے میں جو اصل واقعہ پیش آیا، اُس کو تاریخ طَبری یا البدایہ والنہایہ، وغیرہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یزید کی رضا مندی کے بغیر ایک سرکش آدمی نے حُسین کو گھیر کر اُنھیں قتل کردیا۔ موجودہ زمانے میں جس طرح حُسین کی شہادت کے عنوان سے اُس کوبیان کیا جاتا ہے اور شاعری اور انشاپردازی کی زبان میںاُس کو جس طرح گلوری فائی کیا جاتا ہے، وہ تمام تر حُسین کی خود ساختہ تصویر ہے، اُس کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اصل حقیقت بدستور یہی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ سوسال تک ایسا نہیں ہوا کہ علما سیاسی بگاڑ کے نام پر وقت کے حکم رانوں سے لڑائی کریں۔ اس کے بجائے، انھوں نے یہی کیا کہ حکّام سے عدم تعرض کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو علمی اور دینی اور دعوتی کاموں میں مشغول رکھا۔
4 - یہ تاریخ اٹھارھویں صدی عیسوی کے آخر میں بدلتی ہے۔ اِس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ مسلم حکم راں تمام سیاسی اور فوجی معاملات سے نپٹتے رہے، لیکن اٹھارھویں صدی میں مغربی قوموں کے ظہور کے بعد علما نے محسوس کیا کہ اب مسلم حکم راں اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہ ثابت ہورہے ہیں۔ مثلاً عثمانی تُرکوں کے بحری بیڑے کو اٹھارھویں صدی کے آخر میں مغربی قوموں نے تباہ کردیا۔1799 ء میں انگریزوں نے میسور کے سلطان ٹیپو کو ہلاک کردیا۔ ہندستان میں 1857ء میں برٹش فوج نے مغل سلطنت کا خاتمہ کردیا، وغیرہ۔
اِس طرح کے واقعات کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ مسلم علما نے محسوس کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اِس معاملے میں کچھ کریں۔ جس کام کو مسلم حکم راں انجام نہ دے سکے، اُس کو وہ اپنی مسلّح مداخلت کے ذریعے انجام دیں۔ اِس طرح ، اسلامی تاریخ میں پہلی بار انیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں یہ واقعہ پیش آیا کہ مسلم علما اور مسلم رہ نماؤں نے اپنے دائرے سے نکل کر مسلّح سیاست کے دائرے میں قدم رکھ دیا۔
میں ذاتی طورپر اِس کو مُبتدعانہ سیاست سمجھتا ہوں۔ یہ اسلام میںبلا شبہہ ایک سیاسی بدعت تھی۔ اِس سیاسی بدعت کا آغاز غالباً سب سے پہلے انڈیا میںہوا۔ 1831 ء میں سید احمد بریلوی (وفات: 1831) اور اُن کے ساتھیوں نے مہاراجارنجیت سنگھ کے خلاف مسلّح جہاد کیا۔ وہ اور اُن کا حلقہ واضح طور پرایک غیر حکومتی گروہ کی حیثیت رکھتا تھا، اِس اعتبار سے انھیں مسلّح جہاد کا کوئی حق نہ تھا۔ مگر ان کاخیال تھا کہ مغل حکومت اتنی زیادہ کم زور ہوچکی ہے کہ وہ پیدا شدہ مسائل سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ اُن کا یہ اقدام دینی اعتبار سے سیاسی بدعت اور عقلی اعتبار سے سیاسی نادانی کی حیثیت رکھتا تھا، کیو ں کہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی فوج نہایت طاقت ور فوج تھی۔ مہاراجا نے فرانس کے رٹائرڈ جنرلوں کو بلا کر اپنی فوج کو ٹرینڈ کیا تھا۔ چناں چہ سید احمد بریلوی اور ان کے ساتھیوں کا پورا قافلہ بالا کوٹ کے میدان میں ہلاکت کا شکار ہوکر رہ گیا۔
اِس کے بعد1857ء میں سہارن پور (دیوبند) کے علما نے برٹش گورنمنٹ کے خلاف مسلّح جہاد کیا۔ اِس موقع پر طاقت کا توازن انتہائی غیر متناسب طورپر برطانیہ کے حق میں تھا۔ چناں چہ دوبارہ یک طرفہ تباہی کے سوا کچھ اور حاصل نہیں ہوا۔
انیسویں صدی عیسوی اور بیسویں صدی عیسوی میں اِس طرح کے کئی واقعات عالمِ اسلام میں ہوئے۔ مثلاً مَہدی سوڈانی (وفات:1885 ء) نے سوڈان (افریقہ) کے علاقے میں برٹش راج کے خلاف مسلّح جہاد کیا، حالاں کہ اُن کو حکومتی حیثیت حاصل نہ تھی۔اِس اقدام میں اُنھیں ابتدائی طورپر کچھ کامیابی ہوئی، مگر بعد کو لارڈ کِچنر(Horatio Hebert Kitchner) نے جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرکے مہدی سوڈانی کی ’’بغاوت‘‘ کو کچل دیا۔ لارڈ کچنر کو 1898 ء میں برطانیہ کی طرف سے سوڈان کا گورنر جنرل بنایا گیا۔
اِسی طرح غیر حکومتی افراد کی طرف سے مسلّح جہاد کا ایک معاملہ وہ ہے جو لیبیامیں پیش آیا۔ 1911ء میں اٹلی نے سمندری راستے سے لیبیا پر حملہ کیا اور اُس پر اپنا قبضہ کرلیا۔میں نے فروری 1976ء کے سفر میں وہ وسیع مکان دیکھا، جس میں اٹلی کا گورنر رہتا تھا۔ اِس مکان کو اب قومی میوزیم بنا دیاگیا ہے۔ اٹلی کا یہ قبضہ 1911ء سے 1943 ء تک باقی رہا۔
اٹلی کے قبضے کے دوران یہاں مجاہدین کا ایک گروہ پیداہوا۔ یہ بھی غیر حکومتی گروہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ انھوں نے اٹلی کے قبضے کے خلاف مسلح جہاد کیا۔ اِس گروہ کے لیڈر احمد الشریف السَّنوسی (وفات: 1933 ) تھے۔ اِس ٹکراؤ میں مذکورہ گروہ نے غیر معمولی قربانیوں کا ثبوت دیا، لیکن انھیں اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوسکی۔ اس میوزیم میں ان مجاہدین کے کچھ آثار رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کَتبہ وہ ہے جس کے اوپر یہ نعرہ لکھا ہوا ہے: مُوتوا الیوم أعزاء، قبل أن تموتوا غداً أذلاّء (آج عزّت کے ساتھ مرجاؤ، قبل اِس کے کہ کل تمھیں ذلّت کے ساتھ مرنا پڑے)۔
یہ جملہ بتاتا ہے کہ اِن عرب مجاہدین کے نزدیک، اُن کے لیے لیبیا میں صرف دو میں سے ایک کا انتخاب(option) تھا، یعنی بے عزتی کی زندگی جینا، یا عزت کے ساتھ مرجانا۔ مگر یہ صرف ایک ثَنائی سوچ (dichotomous thinking) تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کے لیے ایک تھرڈ آپشن (third option)بھی وہاںموجود تھا، جوبلاشہبہ اُن کے لیے زیادہ بہتر تھا، اور وہ تھا— سیاسی ٹکراؤ سے اعراض کرتے ہوئے غیرسیاسی میدان میں تعمیری کام کرنا۔ مثلاً تعلیم، دعوت، جدید ٹکنالوجی کو اقتصادی ترقی میں استعمال کرنا، وغیرہ۔
یہی معاملہ فلسطین میں پیش آیا۔ بالفور ڈیکلریشن (Balfour Declaration)کے تحت، فلسطین کے ایک حصے میں اسرائیل کا قیام عمل میںآیا۔یہ1948 کا زمانہ تھا۔ اُس وقت حسن البنا (وفات:1949 ) اور الاخوان المسلمون نے قاہرہ کی سڑکوں پر بہت بڑا جلوس نکالا۔ اِس جلوس کا نعرہ تھا: لبّیک، یا فلسطین، لبّیک، یا فلسطین۔ حسن البنا، یا الاخوان المسلمون کو بلاشبہہ حکومتی حیثیت حاصل نہ تھی، اِس کے باوجود انھوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح جہاد چھیڑ دیا۔ اِس میں شک نہیں کہ یہ غیر حکومتی جہاد بھی ایک مبتدعانہ فعل تھا۔ چناں چہ وہ مکمل طورپرناکام ہوکر رہ گیا۔
اِسی طرح کا معاملہ جموں وکشمیر میں پیش آیا۔ یہاں مختلف ناموں کے ساتھ مجاہدین کی جماعتیں بنیں۔ اِن جماعتوں کو باہر کے مسلم ملکوں سے خفیہ امداد دی گئی۔چناں چہ انھوں نے زبردست جانی اور مالی قربانیوں کے ذریعے کشمیر میں مسلح جہاد شروع کردیا۔ یہ کشمیری مجاہدین، حکومت کا حصہ نہ تھے۔ اِس بنا پر اُنھیں مسلح جہاد کا کوئی شرعی حق نہیں تھا۔ مگر انھوںنے نہایت دھوم کے ساتھ مسلح جہاد شروع کیا۔ اگرچہ خود کُش بم باری کی آخری حد تک پہنچنے کے باوجود وہ اپنے مسلح جہاد میں کوئی بھی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔وہ اپنے مطلوب نشانے تک پہنچنے میں پوری طرح ناکام ہوگیے۔
5 - غیر حکومتی گروہوں کے ذریعے مسلّح جہاد کا یہ عمل مکمل طورپر غیر شرعی تھا۔ اِس کے باوجود وہ کیوں جاری رہا۔ اِس کا واحد سبب یہ تھا کہ تمام دنیا کے علما نے یا تو اُس کی کھلی تائید کی، یا خاموش رہ کر اُس کی حوصلہ افزائی کی۔ دو سو سال کی اِس پوری مدت میں پوری مسلم دنیا کے علما کا یہی رویّہ تھا اور تادمِ تحریر اُن کا یہی رویہ بدستور قائم ہے۔ اِس معاملے میں کچھ علما، خاص طورپر عرب علما، اِس حد تک گیے کہ انھوں نے خودکُش بم باری کو بھی ایک جائز فعل قرار دیا۔مثلاً دکتور یوسف القرضاوی نے فلسطینیوں کی خود کش بم باری (suicide bombing) کو استشہاد قر ار دیا ہے، یعنی طلبِ شہادت کا عمل(عملیّۃ استشہادیۃ، المجتمع، 18 جون 1996 ،صفحہ 34, 35)۔ مگر یہ سرتاسر ایک غیر اسلامی فتویٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں شہید ہونا ہے، اسلام میں شہید کروانا نہیں، جن لوگوں نے خود کش بم باری کو استشہاد قرار دیا، انھوںنے بلا شبہہ ایک ایسا فعل کیا جس کا اسلامی شریعت میں کوئی جواز موجود نہیں۔
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، اِس مدت میں چند علما ایسے نکلے جنھوں نے مذکورہ قسم کے مسلح جہاد سے اتفاق نہیں کیا۔ مثلاً سید احمد بریلوی نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے خلاف 1831ء میں پنجاب میں جو مسلح جہاد کیا، اُس کے خلاف خود اُن کے حلقے کے ایک عالم نے اُس سے سخت اختلاف کیا۔ اُن کا نام یہ تھا— مولانا میر محبوب علی دہلوی (وفات: 1864ء)۔ جب سید احمد بریلوی نے ان کی بات نہیں مانی تو وہ اُن سے الگ ہوکر اپنے وطن (دہلی) واپس آگیے۔
اِسی طرح دیوبنداورسہارنپور کے علماء نے 1857 ء میں انگریزوں کے خلاف مسلّح جہاد کیا۔ اُس وقت وہاں ایک بڑے عالم مولانا شیخ محمد تھانوی (وفات: 1865 ) موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ آپ لوگوں کے لیے یہ مسلح جہاد جائز نہیں۔ اِس پر دیوبند کے علما سے اُن کی گفتگو ہوئی، لیکن علما اُن کی بات کو ماننے پر تیار نہیں ہوئے۔
اِسی طرح الاخوان المسلمون کے مُرشدِ عام حسَن الہُضیبی (وفات: 2004 ) ایک مصری عالم تھے۔ انھوں نے الاخوان المسلمون سے اختلاف کیا اور اس پر ایک کتاب بھی لکھی جو عربی میں ’دُعاۃ... لاقُضاۃ‘ کے نام سے قاہرہ سے شائع ہوچکی ہے۔ حسن الہضیبی اگر چہ الاخوان المسلمون کے مرشدِ عام تھے، لیکن اِس کتاب کا کوئی اثر الاخوان المسلمون کی تحریک پر نہیں پڑا۔
بعض علما کی یہ اصلاحی کوشش کیوں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کاسبب یہ تھا کہ یہ لوگ زیادہ مدلّل انداز میں اپنی بات پیش نہ کرسکے۔ اُن کے ارشادات زیادہ تر اختلاف کی نوعیت کے تھے، وہ معاملے کی مدلل تردید کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اِس بنا پر اُن کے خیالات کا بے اثر ہوجانا ایک فطری امر تھا اور عملاً ایسا ہی ہوا۔
6 - قرآن میں پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: وقاتلوہم حتیٰ لاتکون فتنۃ، ویکون الدّینُ کلّہ للّٰہ (الأنفال:39 ) یعنی تم اُن سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کا ہوجائے۔اِس آیت میں ’قاتلوہم‘ سے مراد عوام سے جنگ نہیں، بلکہ سردارانِ وقت سے جنگ ہے۔ جنگ ہمیشہ اقتدار کے مالکوں سے کی جاتی ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: قاتلوا أئمۃَ الکفر (التوبۃ: 12)
اِس آیت میں ’فتنۃ‘ کالفظ استعمال ہوا ہے۔ مفسرینِ قرآن نے عام طورپر یہ لکھا ہے کہ فتنہ سے مراد کفر اور شرک ہے۔ مگر اس کا مطلب مجرد شرک یا اعتقادی شرک نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ شرک یا کفر، دوسرے امتحانی پرچوں کی طرح امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ امتحان کے تمام پرچے قیامت تک باقی رہیں گے۔ اُن میںسے کسی امتحانی پرچے کو قیامت سے پہلے منسوخ یا معدوم نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں فتنہ سے مراد شرکِ جارح، یا کفرِ جارح ہے، جیسا کہ عبد اللہ بن عباس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
شرکِ جارح کیا چیز ہے، اِس سے مراد وہی چیز ہے جس کو آج کل کی اصطلاح میں مذہبی تعذیب کہاجاتا ہے۔اس کا ایک حوالہ قرآن کی سورہ نمبر 85 میں ملتا ہے۔ اس سورہ میں ارشاد ہوا ہے— ہلاک ہوئے خندق والے جس میں بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی۔ جب کہ وہ اُس پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور جو کچھ وہ ایمان والوں کے ساتھ کررہے تھے، وہ اُس کو دیکھ رہے تھے۔ اور اُن سے اُن کی دشمنی اِس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ ایمان لائے اللہ پر، جو زبردست ہے، تعریف والا ہے (البروج:4-8 )۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں مذہب کو اسٹیٹ کے معاملات (state affairs) میں سے ایک معاملہ سمجھتا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں اسٹیٹ ریلیجن (state religion) کے سوا، کسی اور مذہب کو اختیار کرنا، اسٹیٹ سے بغاوت کے ہم معنیٰ تھا۔ یہ صورتِ حال، خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے خلاف تھی۔ خدا کے تخلیقی نقشے کا تقاضا ہے کہ دنیا میں مذہبی جبر نہ ہو، بلکہ مذہبی آزادی ہو۔ تاکہ لوگوں کے بارے میں صحیح یا غلط کا حکم لگایا جاسکے۔اِس لیے خدا نے پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کو یہ حکم دیا کہ وہ اِس سیاسی جارحیت کا خاتمہ کردیں، تاکہ اسٹیٹ کا معاملہ اور مذہبی عقیدے کا معاملہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔
اِس معاملے پرمزید غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اِس تعلیم کا مطلب انسانی تہذیب میں ایک نیے دور کا آغاز کرنا تھا۔ ایک ایسا دورجس میں اسٹیٹ کا حاکمانہ تعلق صرف انتظامِ مُلکی سے رہے اور بقیہ تمام معاملات حکومتی اقتدار سے باہر کی چیز بن جائیں۔ یہ گویا کہ مذہبی آزادی کی تکمیل ہے۔ اِس معاملے کو دوسرے لفظوں میں، ڈی سنٹرلائزیشن آف پاور(de-centralization of power) کہا جاسکتا ہے۔
سیاسی اقتدار کی تحدید(demarcation) انسانی تاریخ میںایک انقلابی تبدیلی لانے کا معاملہ تھا۔ اِس قسم کا انقلاب تاریخ میں اچانک واقع نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ ایک لمبے عمل (process) کے ذریعے ظہور میں آتا ہے۔ اِس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں شرکِ جارح کو ختم کیا گیا۔ یہ واقعہ عرب میں مشرکانہ اقتدار کے خاتمے اور دوسری طرف بازنطینی ایمپائر اور ساسانی ایمپائر کے خاتمے کے ذریعے پیش آیا۔
اس واقعے کے بعد تاریخ میں ایک نیا پراسس شروع ہوا۔ یہ ڈی سنٹرلائزیشن آف پاور کا پراسس تھا۔ یہ پراسس مدینہ سے شروع ہوا۔ اس کے بعد وہ مسلسل جاری رہا۔ اٹھارھویں صدی کاآخر اِس پراسس کا نقطۂ انتہا (culmination) تھا۔ اِس کے بعد رفتہ رفتہ ساری دنیا میں یہ نظام قائم ہوگیا کہ حکومتی اقتدار کاتعلق صرف انتظام ِ ملکی(administration) تک محدود ہوگیا۔اِس کے سوا، زندگی کے تمام شعبے سیاسی اقتدار سے آزاد ہوگیے۔ مثلاً تعلیم، مذہب، صحافت، نظریاتی اشاعت، صنعت اورتجارت، وغیرہ۔
اِس انقلاب کے بعد دنیا میںایک نیا دور آگیا، جس کو انسٹی ٹیوشن کا دور کہاجاتا ہے، یعنی وہ دور جب کہ آزاد ادارہ بنا کر کسی بھی کام کو کیا جاسکتا ہے۔ پولٹکل پاور کو اب یہ حق نہیں رہا کہ وہ اداروں کے قیام کو روکے۔ موجودہ زمانے میں سیاسی ادارہ صرف ایڈمنسٹریشن تک محدود ہوگیا۔ اِس کے سوا تمام دوسرے کام، آزاد اداروں کے ذریعے انجام دیے جاسکتے ہیں۔
قتالِ فتنہ کی مذکورہ آیت میں ارشاد ہوا تھا— ’’اور دین سب اللہ کا ہوجائے‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی انتظام کے سوا جو مذہبی معاملات ہیں، براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر، وہ سب سیاسی حاکمیت سے آزاد ہوجائیں۔ انسان کو یہ موقع حاصل ہوجائے کہ وہ مذہب کے معاملے میں آزادانہ طورپر جو چاہے کرے، کسی سیاسی اقتدار کو اُس پر پابندی عائد کرنے کا حق باقی نہ رہے۔
7 - وہ زمانہ جس کو موجودہ زمانہ کہاجاتاہے، وہ اِسی کامل مذہبی آزادی کا زمانہ تھا۔اِس زمانے میں اہلِ اسلام کو مکمل طورپر یہ موقع حاصل تھا کہ وہ سیاسی اقتدار کے محدود دائرے کے باہر اسلام کی تمام سرگرمیاں آزادانہ طورپر جاری کرسکیں۔ اسلامی تنظیم، اسلامی تعلیم، اسلامی دعوت، اسلامی اصلاح، اسلامی اقتصادیات، وغیرہ تمام معاملات میں انھیں پورا ختیار حاصل ہوچکا تھا، مگر زمانی تبدیلی سے بے خبری کی بنا پر اہلِ اسلام جدید مواقع کے استعمال کی منصوبہ بندی نہ کرسکے، بلکہ انتہائی نادانی کے ساتھ سیاست کی چٹان سے ٹکرانے لگے۔
جدید مواقع سے مراد مذہبی آزادی، جدید کمیونکیشن، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا، ادارتی تنظیم کی جدید سہولتیں، اشاعتِ افکار کے عالمی مواقع، سائنٹفک دلائل کا ظہور، ذہنی کٹرپن کا خاتمہ، اسپرٹ آف انکوائری، انگریزی کی صورت میں عالمی زبان کا وجود میں آنا، اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کے قیام کے امکانات، وغیرہ۔ اِن جدید مواقع کو استعمال کرنے کی صوت میں مسلمان تمام اسلامی مقاصد کو اعلیٰ ترین درجے میں حاصل کرسکتے تھے۔
آغازِ اسلام کے بعد ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک علمائِ اسلام یہ کرتے رہے کہ حکم رانوں سے ٹکراؤ، یا مفروضہ ظالموں کے خلاف مسلّح جہاد سے وہ مکمل طورپر دور رہے۔ انھوںنے اپنی ساری توانائی قرآن اور حدیث اور دوسرے علومِ اسلامی کی خدمت میں لگا دی۔ وہ دعوتِ دین اور تعلیمِ اسلام جیسے کاموں میں مصروف رہے۔ انھوں نے مسجد اور مدرسہ جیسے تعمیری اور ربّانی ادارے قائم کرکے غیر سیاسی انداز میںاسلام کی خدمات انجام دیں۔ اِسی پالیسی کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام ایک اعلیٰ تہذیب اور ایک شان دار تاریخ کے روپ میں دنیا میں قائم ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں اسلام کے تمام شان دار کارنامے علمائِ دین کی اِسی تعمیری پالیسی کا نتیجہ تھے۔
موجودہ زمانے میں علمائِ اسلام کو یہی موقع دوبارہ زیادہ بڑے پیمانے پر حاصل ہوا۔ اُن کو چاہیے تھا کہ وہ اہلِ اقتدار کے خلاف مسلّح جہاد کے ممنوعہ میدان میں نہ داخل ہوں، بلکہ وہ اسلام کو دوبارہ علمی اور فکری اور تہذیبی اعتبار سے آج کی دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو وہ قدیم سیاسی ایمپائر سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر اسلام کا غیر سیاسی ایمپائر بنا سکتے تھے، مگر علمائِ اسلام کو زمانی بصیرت سے محرومی کی یہ قیمت دینی پڑی کہ انھوں نے اپنے خیال کے مطابق، قربانی کی یادگاریں تو ضرور قائم کیں، لیکن وہ اسلام کو دنیا کے سامنے اِس طرح پیش نہ کرسکے کہ دینا، اسلام کو اپنے لیے زندگی کا سرچشمہ سمجھے اور حال کا انسان بھی اُس کو اُسی طرح قبول کرے جس طرح ماضی کے انسان نے اس کو آگے بڑھ کر قبول کیا تھا۔
واپس اوپر جائیں

عظیم ترین شہادت

شہادت کے لفظی معنٰی گواہی(witness) کے ہیں۔ شہادت، قرآن کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں دعوت الی اللہ کہاگیا ہے۔ شہادت، واحد دینی عمل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کا کام (الصّف: 14) بتایا ہے۔
اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ تمام پیدا ہونے والے انسانوں کو ان کی موت سے پہلے بتادیا جائے کہ ان کے بارے میں خالق کا تخلیقی پلان (creation plan)کیا ہے۔ قبل از موت زندگی کیا ہے اور بعد از موت زندگی کیا ہے۔ اسی لیے اس کام کو قرآن میں اِنذار و تبشیر(الأحزاب: 45 ) کا کام قرار دیا گیا ہے۔
یہی وہ خاص کام ہے جس کے لیے خدا نے ہر زمانے میں اپنے پیغمبر بھیجے اور اب ختم ِ نبوت کے بعد یہی کام آپ کے امتیوں کو انجام دینا ہے۔ جو شخص انذار و تبشیر کے اس کام کو انجام دے وہ داعی ہے، اور جس کے اوپر اس کا م کو انجام دیا جائے وہ مدعو ہے۔ داعی اور مدعو کے اس تعلق کو قرآن میں شاہد اور مشہود (البروج: 3 ) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
دعوت یا شہادت کا یہ عمل انسان کی تخلیق کے آغاز ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ چناں چہ آدم پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی ۔ اس مقصد کے لیے ہر مقام پر او رہر زمانے میں پیغمبر آتے رہے۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی تھے۔ اب کوئی اور پیغمبر آنے والا نہیں، لیکن پیغمبر کا دعوتی کام پیغمبر کے متبعین کے ذریعے بدستور باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔
تاہم تاریخی اعتبار سے اس دعوتی کام کے دو دور ہیں—قبل از سائنس دور اور بعد از سائنس دور۔ جدید سائنس کے ظہور سے پہلے دنیا میں توہمات (superstitions) کا غلبہ تھا۔ جدید سائنس نے پہلی بار اِس توہماتی دور کو ختم کیا۔ اس کے بعد دنیا میں عقلی طرزِ فکر کا دور آیا۔ اس اعتبار سے دعوتی عمل کے بھی دو مختلف ادوار ہیں۔ ایک، قدیم روایتی دور میں کیا جانے والا دعوتی کام اور دوسرا، جدید سائنسی دور میں کیا جانے والا دعوتی کام۔ جدید دورِ سائنس میں کیا جانے والا یہی دعوتی کام ہے جس کو حدیث میںعظیم ترین شہادت قرار دیا گیا ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر الدّجال)
دعوت یا شہادت کے اِس عظیم ترین کام کا ذکر خود قرآن میں بھی موجود ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 42 میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں ایسے دلائل ظاہر ہوں گے جن کے ذریعے حق کی تبیینِ اعلیٰ ممکن ہوجائے گی۔ اِس قرآنی آیت کا ترجمہ یہ ہے: عن قر یب ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، کائنات میں بھی اور خود انسانوں کے اندر بھی، یہاں تک کہ لوگوں پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ بلاشبہہ حق ہے (حمٓ السجدۃ: 53 ) ۔
اوّل الذکر حدیثِ رسول میں بتایاگیا ہے کہ آخری زمانے میں جب کہ دجّالی فتنہ ظاہر ہوگا، ایک شخص اس کے مقابلے میں ’حَجیج‘ بن کر اٹھے گا۔ وہ دجّالی فتنے کو حجت اور دلیل (rational argument) کے ذریعے ختم کرے گا اور امرِ حق کو اعلیٰ ترین سطح پر مُبرہن کردے گا، اور یہ دعوتی کام اللہ رب العالمین کے نزدیک لوگوں کے اوپر امرِ حق کی اعلیٰ ترین شہادت کے ہم معنی ہوگا (ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین)۔
بظاہر اِس حدیث رسول میں ایک فرد (حجیج) کا ذکر ہے، لیکن اِس دنیا میں کوئی بھی بڑا کام ایک فرد کا ذاتی کارنامہ نہیںہوتا۔ اصل یہ ہے کہ زمانے میں کچھ خصوصی مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مواقع ہمیشہ لمبے تاریخی عمل کے ذریعے ظہور میں آتے ہیں۔ اِس معاملے میں فرد کا حصہ یہ ہے کہ وہ اِن مواقع کو دریافت کرتا ہے اور منصوبہ بند انداز میں اُن کو استعمال کرتاہے۔ اِس طرح وہ چیز ظہور میں آتی ہے جس کو انقلاب کہاجاتا ہے۔ کوئی انقلاب کبھی بھی شخصی چمتکار کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ موجود مواقع کو دانش مندانہ انداز میں استعمال کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہی معاملہ دینی انقلاب کا بھی ہے اور یہی معاملہ سیکولر انقلاب کا بھی۔
اِس معاملے کی ایک سیکولر مثال انڈیا کے قومی لیڈر مہاتما گاندھی کی ہے۔ 1947میںانڈیا کو برطانیہ کے مقابلے میںجو سیاسی آزادی ملی، عام طورپر اُس کو مہاتما گاندھی کا کارنامہ بتایا جاتا ہے۔ اِس معاملے میں ایک مقبول نظم میں ایک شاعر گاندھی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے:
سابرمتی کے سنت، تونے کردیا کمال!
مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندستان کی سیاسی آزادی، مہاتما گاندھی کا شخصی چمتکار نہ تھا، وہ دورِ جدید کے مواقع کو استعمال کرنے کا نتیجہ تھا۔ شہنشاہ اورنگ زیب (وفات: 1707 ) کے زمانے میں مرہٹہ لیڈر اورسکھ لیڈر اسی طرح کے سیاسی نشانے کو لے کر اٹھے، مگروہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے برعکس، مہاتما گاندھی برطانوی حکمرانوں کے مقابلے میں سیاسی مقصد کو لے کر اٹھے اور کامیاب ہوگئے۔ اِس فرق کا سبب زمانی فرق ہے۔ مہاتما گاندھی کو بیسویں صدی عیسوی کا زمانہ ملا، جب کہ دنیا میں ڈیماکریسی، سیکولرازم، قومی خودمختاری، صحافتی آزادی، حقوقِ انسانی(human rights) کا زمانہ آچکا تھا۔ اِس تبدیلی کے نتیجے میں مہاتما گاندھی کو وہ زمانی حمایت حاصل ہوچکی تھی جو اورنگ زیب کے زمانے میںاٹھنے والے لیڈروں کو حاصل نہ تھی۔ مہاتما گاندھی نے اِن جدید مواقع کو استعمال کیا۔ اِس طرح وہ اپنے سیاسی مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
یہی معاملہ دینی انقلاب کا بھی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔ تمام مورخین اِس کو بطور واقعہ تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی شخصی چمتکار کا معاملہ نہ تھا، بلکہ وہ زمانے کے موجود مواقع کو استعمال کرنے کا معاملہ تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے موجود مواقع کو دانش مندی کے ساتھ استعمال کیا، اس کے نتیجے میں وہ انقلاب ظاہر ہوا جس کو ہم اسلامی انقلاب کہتے ہیں۔
یہ مواقع ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش (570 ء) سے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے حضرات ابراہیم مکہ آئے، جو اُس وقت صرف ایک بے آب و گیاہ صَحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں انھوں نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو بسا دیا۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ حدیث میںآیا ہے (صحیح البخاری، کتاب الأنبیاء)۔
اِس طرح متمدّن شہروں سے دور صحرا کے اِس فطری ماحول میں ایک نسل بننا شروع ہوئی۔ یہ نسل، انسانی تہذیب کی کنڈیشننگ سے پاک تھی۔ صحرا کے اس فطری ماحول میں تربیت پاکر ایک نئی قوم تیار ہوئی۔ ایک مستشرق نے بجا طور پر اس کو ہیروؤں کی قوم(a nation of heroes) کا نام دیا ہے۔ یہی انوکھی قوم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا میدان بنی۔ پیغمبر کی تعلیم و تربیت کے ذریعے اِنھیں کے اندر سے صحابہ کا وہ استثنائی گروہ نکلا، جس کو قرآن میں خیرِ امت (آل عمران: 110)کہا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ساری دنیا پر مشرکانہ تہذیب کا غلبہ تھا۔ اِس ماحول میں پیدا ہونے والے ہر عورت اور مرد کا کیس کنڈیشننگ کا کیس بن چکا تھا۔ اِس کنڈیشننگ کی بنا پر وہ لوگ پیغمبر کے پیغام پر کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے کے قابل نہ رہے۔ ڈھائی ہزار سال کی صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے نتیجے میںایک نئی قوم پیدا ہوئی، جو آزادانہ طورپر سوچنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ قدیم اہلِ عرب کی یہی خصوصیت تھی جس کی بنا پر ایسا ہوا کہ انھوں نے پیغمبر اسلام کی دعوت کو سمجھا اور اس کو دل وجان کے ساتھ قبول کرلیا۔ اِس طرح وہ انقلابی ٹیم بنی جس کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔
یہی تاریخ موجودہ زمانے میں ایک نئی صورت میں دہرائی گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں جو سائنسی انقلاب آیا، اُس کو مغربی مصنف جان فریڈرِک ویسٹ (John Fredrick West) نے اپنی کتاب میں عظیم ذہنی انقلاب (great intellectual revolution) کا ٹائٹل دیا ہے۔ زیر بحث موضوع کے اعتبار سے اِس انقلاب کو ڈی کنڈیشننگ کا ایک عظیم واقعہ(great event of de-conditioning) کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔
جدید سائنسی انقلاب کا ایک پہلو، اس کا ٹکنکل پہلو ہے۔ اور اس کا دوسرا پہلو، اس کا فکری پہلو ہے۔ فکری پہلو کے اعتبار سے سائنس نے جو کارنامہ انجام دیا، وہ اپنی گہرائی اور وسعت کے اعتبار سے عالمی ڈی کنڈیشننگ (universal de-conditioning) کے ہم معنیٰ تھا۔ اِس کے نتیجے میں تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مائتھا لوجی اور توہم پرستی(superstitions) کے زیر اثر سوچنے کا دور عملی طورپر ختم ہوگیا۔ اب لوگوں کے اندر بڑے پیمانے پر روحِ تجسس(spirit of inquiry) پیدا ہوئی۔ لوگ قومی اور سماجی تعصبات سے اوپر اٹھ کر خالص موضوعی (objective) انداز میں سوچنے لگے، چیزوں کو فارگرانٹیڈ(for granted)لینے کا دور ختم ہوگیا اور ثابت شدہ حقائق کی بنیاد پر اُن کو ماننے کا زمانہ آگیا۔ قدیم زمانے میں مسلّمات پر مبنی سوچ کا طریقہ رائج تھا، اب یہ ذہن بن گیا کہ حقیقی وجود صرف اُس چیز کا ہے جو سائنسی جانچ (scientific scrutiny) پر پوری اُترے۔
تحقیق کا یہ ذہن ابتداء ً مخصوص سائنسی موضوعات کے ذیل میں پیدا ہوا، مگر دھیرے دھیرے وہ مذہب کے دائرے تک پہنچ گیا۔ چناں چہ ایک نیا علمی موضوع پیدا ہوا جس کو تنقید ِعالیہ (higher criticism) کہا جاتا ہے۔ اِس سائنسی تنقید کے نتیجے میں تمام مذاہب کا علمی اور تاریخی استناد مشتبہ ہوگیا۔ اِس عموم میں صرف ایک استثنا تھا، اور وہ ہے مذہبِ اسلام کا استثنا۔
جدید سائنسی تحقیقات نے ایک طرف، دوسرے مذاہب کے بارے میں بتایا کہ وہ علمی اور تاریخی اعتبار سے ثابت شدہ مذہب کی حیثیت نہیں رکھتے۔ دوسری طرف، اِنھیں سائنسی تحقیقات کے ذریعے یہ ثابت ہوگیا کہ اسلام استثنائی طورپر ایک ایسا مذہب ہے جس کو علمی اور تاریخی اعتبار سے کامل استناد(credibility) کا درجہ حاصل ہے۔
اِسی کے ساتھ جدید سائنس نے اور بہت سے اُن موافق دلائل کو واضح کیا جس کو قرآن میں آیات (signs) کہاگیا ہے۔ اِس طرح دورِ جدید، دینِ خداوندی کے حق میں ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِس دور میںایک طرف یہ ہوا کہ بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کی ڈی کنڈیشننگ عمل میں آئی، یعنی ایک ایسا گروہ وجود میں آیا جو ہر قسم کے پیشگی تعصبات (pre-occupations) سے آزاد ہو کر خالص جوہر (merit) کی بنیاد پر رائے قائم کرسکتا تھا۔
فیصلے کی یہ بنیاد جو موجودہ زمانے میں تاریخ کے طویل عمل کے بعد پیدا ہوئی، وہ عین دین ِخداوندی کے حق میں تھی، مگر اِس امکان کو حقیقی طورپر استعمال نہ کیا جاسکا۔ اِس کا سبب صرف ایک تھا، اور وہ یہ کہ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہ نما اور مفکرین مواقع بلائنڈ (opportunity blind) ہوگئے، وہ جدید مواقع کو دیکھنے سے مکمل طورپر محروم رہے۔ انھوں نے انتہائی نادانی کے ساتھ جدید حالات کو اپنا دشمن سمجھ لیا اور اُس کے خلاف ایک ایسی غیر دانش مندانہ لڑائی میں مصروف ہوگئے جس کا انجام کامل تباہی کے سوا اورکچھ نہ تھا۔
موجودہ زمانہ میں دنیا بھر کے مسلم رہ نما، مواقع بلائنڈ کیوں ہوگئے، اِس کا جواب ہم کو ایک حدیثِ رسول سے ملتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حُبّک الشیٔ یعمی ویصمّ (أبوداؤد، کتاب الأدب) یعنی کسی چیز کی محبت تم کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ اِس قولِ رسول میںایک اور مفہوم بھی لازمی طورپر شامل ہے، وہ یہ کہ: بُغضُک الشیٔ یعمی ویصمّ، یعنی کسی چیز کے ساتھ دشمنی تم کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔
یہی موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں کے ساتھ ہوا۔ موجودہ زمانے میں جو انقلاب آیا، وہ مغربی قوموں یا مغربی تہذیب کے ذریعے آیا تھا۔ بعض سیاسی اسباب کے تحت، موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں نے مغربی قوموں یا مغربی تہذیب کو اپنا دشمن سمجھ لیا، وہ ان سے نفرت کرنے لگے۔ اِس منفی نفسیات کی بنا پر ایسا ہوا کہ وہ مغرب کی طرف سے آئی ہوئی ہر چیز کو سازش اور دشمنی کی نظر سے دیکھنے لگے۔ مغربی قوموں یا مغربی تہذیب کے ذریعے اسلامی دعوت کے عظیم مواقع کھُلے تھے، لیکن یہ رہ نما اپنے منفی ذہن کی بنا پر اِن جدید مواقع کو دیکھنے سے قاصر رہے۔
میرے علم کے مطابق، اِس معاملے میں کسی بھی مسلم رہ نما کا کوئی استثنا نہیں۔ افغانستان کے سیدجمال الدین افغانی، عرب ورلڈ کے سید قطب، ایران کے آیت اللہ خمینی، انڈیا کے ڈاکٹر محمد اقبال سب یکساں طورپر اِس منفی نفسیات کا شکار بن گئے، حتی کہ مولانا حمید الدین فراہی جیسا غیر سیاسی آدمی بھی اپنے آپ کو اِس منفی نفسیات سے محفوظ نہ رکھ سکا۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہم اِس معاملے پر نظرِثانی کریں اور شخصیت پرستی کے دائرے سے باہر آکر جدید مواقع کو سمجھیں۔ اِس کے بغیر نہ جدید مواقع کی معرفت حاصل ہوگی اور نہ ان کو استعمال کرنا ممکن ہوسکے گا۔
جدید دور نے جو عظیم مواقع اسلامی دعوت کے حق میں پیدا کیے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ جدید دور میں پہلی بار حق کے داعیوں کو ایک عظیم استدلالی امکان حاصل ہوا، جس کو مشترک استدلالی بنیاد (mutually accepted ground) کہاجاسکتا ہے۔
قدیم زمانے میں جن داعیانِ حق نے دعوت الی اللہ کا کام کیا، اُن کے پاس اپنے پیغام کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے صرف روایتی دلیل ہوتی تھی۔ اُس زمانے کا ذہنی فریم ورک روایتی عقائد پر قائم تھا، اِس لیے اُس زمانے کے داعیوں نے اس فریم ورک کے مطابق کلام کیا اور روایتی دلائل کی زبان میں اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ اِس میں استثنا صرف پیغمبروں کا ہے، جنھوں نے خدا کی خصوصی نصرت کے تحت کچھ معجزات پیش کیے، جن کو اُن کے معاصرین نے جادو کا کرشمہ کہا اور اس کو ماننے سے انکار کردیا۔
موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے بعد پہلی بار یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ ایسی بنیاد پر اپنی بات کو ثابت کیا جائے جس کا دلیل ہونا، فریقِ ثانی کے نزدیک بھی تسلیم شدہ ہو۔ اِس قسم کی مشترک استدلالی بنیاد پہلے زمانے میں ممکن نہ تھی، مگر آج وہ پوری طرح ایک ممکن چیز بن گئی ہے۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما اپنی منفی نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کو صرف مسائل (problems) کی نظر سے دیکھتے رہے، وہ موجودہ زمانے کو مواقع(opportunities) کی نظر سے نہ دیکھ سکے۔ اِس بنا پر وہ اِن مواقع کو استعمال کرنے سے بھی قاصر رہے۔
مثلاً قدیم زمانے میں تمام فلاسفہ اور سیکولر مفکرین یہ سمجھتے تھے کہ دینی حقیقتوں کو ثابت کرنے کے لیے اوّل درجے کا استدلال (primary rationalism) موجود نہیں، دینی حقیقتوں کے لیے صرف ثانوی درجے کا استدلال (secondary rationalism) ممکن ہے۔مثال کے طورپر قدیم زمانے کے علمائِ الٰہیات، خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے وہ دلیل استعمال کرتے تھے، جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہاجاتا ہے، یعنی دنیا کی چیزوں میں ڈزائن ہے تو ضرور اُن کا ایک ڈزائنر ہے:
Where there is a de sign, there is also a designer, and when designer is proved, existence of God is also proved.
اِس استدلال کو قدیم سیکولر مفکرین یہ کہہ کر نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ ایک استنباطی استدلال (inferential argument) ہے، نہ کہ براہِ راست استدلال (direct argument) ۔ لیکن موجودہ زمانے کی سائنسی تحقیقات نے اس اعتراض کو بے بنیاد ثابت کردیا۔ اب یہ ثابت ہوگیا کہ استنباطی استدلال واحد استدلال ہے جو اِس دنیا میں ممکن ہے، سیکولر حقیقتوں کو ثابت کرنے کے لیے بھی اور مذہبی حقیقتوں کو ثابت کرنے کے لیے بھی۔
یہ حقیقت اُس وقت سامنے آئی، جب کہ بیسویں صدی میں سائنس کی تحقیقات عالمِ کبیر (macro world) سے گزر کر عالمِ صغیر (micro world)تک پہنچ گئیں۔جب تک انسان کا علم عالم کبیر تک محدود تھا، یہ سمجھا جاتا تھا کہ چیزیں قابلِ مشاہدہ ہیں، صحیح استدلال وہی ہے جو مبنی بر مشاہدہ ہو، لیکن بیسویں صدی میں جب انسانی علم ترقی کرکے عالمِ صغیر تک پہنچ گیا تو معلوم ہوا کہ اس دنیا میں کوئی بھی چیز قابلِ مشاہدہ نہیں۔علم کی اس ترقی کا فکری نتیجہ تھا کہ استدلالی منطق میں تغیر واقع ہوگیا۔ اب یہ مان لیا گیا کہ استنباطی استدلال بھی اتنا ہی معقول (valid) ہے، جتنا کہ براہِ راست استدلال ۔
اصولِ استدلال میں اس تبدیلی سے الٰہیات یا علم کلام میں بنیادی تغیر واقع ہوگیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ مذہب کے تصورات کو ٹھیک اسی منطقی بنیاد پر ثابت کیا جاسکے، جس بنیاد پر اس سے پہلے غیر مذہبی تصورات کو ثابت کیا جاتا تھا۔ان مذہبی تصورات میں وہ تمام تصورات شامل ہیں جن کو مذہبی عقائد کہاجاتا ہے۔ مثلاً توحید، ملائکہ، نبوت، آخرت، جنت اور جہنم، وغیرہ۔ اس طرح منطقی اعتبار سے وہ فرق باقی نہ رہا جو روایتی طورپر مذہبی علم اور سیکولر علم کے درمیان سمجھا جاتا تھا۔ اب استدلالی بنیاد کے اعتبار سے دونوں کی سطح بالکل یکساں ہوگئی ہے۔ یہ بہت بڑا علمی انقلاب ہے جو جدید دور میں پیش آیا ہے۔
مہدی اور مسیح کی آمد
حدیث کی کتابوں میں کئی ایسے کردار کا ذکر ہے جو تاریخِ انسانی کے آخری د ور میں ظاہر ہوں گے۔ ان میں سے دو کردار وہ ہیں جن کے لیے حدیث میں مہدی اور مسیح کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن روایتوںکو لے کر مسلمانوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ ذہن بن گیا ہے جس کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
مَردے از غیب بروں آید وکارے کند
یعنی وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دینِ خداوندی کے سلسلے میں کوئی بڑا کام اُس وقت انجام پائے گا جب کہ کوئی ’’آنے والا‘‘ پُر اسر ار طورپر آئے گا اور معجزاتی طورپر بڑے بڑے کام کر ڈالے گا۔ اِس تصور نے مسلمانوں کے اندر ذہنی جمود (intellectual stagnation) کی حالت پیدا کردی ہے۔ ان کے اندر سے تخلیقی فکر(creative thinking) کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ دین کی دعوت کے لیے کسی بڑے کام کا حوصلہ ان کے اندر موجود نہیں ۔ عام انسانوں کے لیے ذمہ داری کا کوئی احساس وہ اپنے اندر نہیں پاتے۔ ان کا ذہن یہ بن گیا ہے کہ اپنے اور اپنے اہلِ خاندان کے معاملات کو درست کرنے میں لگے رہیں، اس کے علاوہ انسانیتِ عامہ کی نسبت سے جو وسیع تر ذمہ داریاں ہیں، ان کے سلسلے میں ان کو صرف یہ کرنا ہے کہ کسی آنے والے کا انتظار کرتے رہیں۔ ’’مَردے از غیب‘‘ کے اِس عقیدے کا انجام یہ ہوا ہے کہ ان میں سے تقریباًہر شخص کے اندر ایک کم زور شخصیت پیدا ہوگئی ہے۔
ہر ایک کا یہ حال ہے کہ اپنے ذاتی مفاد کے معاملے میں وہ آخری حد تک با عمل ہے، اور انسانیت عامہ کے مفاد کے معاملے میں آخری حد تک بے عمل ۔ وہ اکرامِ خویش کو جانتاہے لیکن وہ اکرامِ غیر کو نہیں جانتا۔ اس کے پاس اپنوں کے لیے دعائیں ہیں اور ’’اغیار‘‘ کے لیے صرف بد دعائیں۔ اپنے لیے تو انھوں نے جنت الفردوس میں رزرویشن کرارکھا ہے، لیکن دوسری قوموں کو جہنم سے بچانے کی ان کو کوئی فکر نہیں۔ وہ اپنے معاملات کے بارے میں آخری حد تک خوش فہم بنا ہوا ہے، وغیرہ۔ اس قسم کی کمزوریاں مسلمانوں کے اندر عام طورپر پیدا ہوگئی ہیں اور یہ صرف اس بات کا نتیجہ ہیں کہ موجودہ مسلمانوں نے یہ عقیدہ بنا لیا ہے کہ دینی دعوت کاکوئی بڑا کام صرف اس وقت انجام پائے گا جب کہ پُر اسرار طور پر ایک معجزاتی شخصیت، ہندو اصطلاح کے مطابق، اچانک پرکٹ ہوجائے گی اور پھر وہ خود ہی تمام مسلمانوں کے حصے کا کام کر ڈالے گی۔
اس قسم کے تمام خیالات بلا شبہہ بے بنیاد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں مہدی اور مسیح کے نام سے مستقبل کے جن کرداروں کا ذکر آیا ہے، وہ کردار کے حوالے سے مواقع کی پیشین گوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں تاریخی عمل (process) کے نتیجے میں نئے قسم کے عظیم مواقع ظاہر ہوں گے۔ اُس وقت یہ ممکن ہوجائے گا کہ کوئی خدا کا بندہ ان مواقع کو استعمال کرکے بہت بڑا دعوتی کام انجام دے گا۔
اس قسم کی حدیثیں کسی کراماتی شخصیت کے ظہور کی پیشین گوئی نہیں ہیں، بلکہ وہ شخصیت کے حوالے سے کراماتی مواقع کے ظہور کی پیشین گوئی ہیں۔ موجودہ زمانے میں یہ عظیم مواقع مکمل طورپر ظہور میںآچکے ہیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ان مواقع کو پہچانا جائے اور ان کا بھر پور استعمال کرکے دعوتِ حق یا عظیم ترین شہادت کا وہ کام انجام دے دیا جائے جو دورِ آخر کے لیے خدا نے مقدر کیا ہے۔
تاریخ کا خاتمہ قریب آگیا
حالیہ برسوں میں دنیا بھر کے سائنس دانوں نے ایک نئے موضوع پر بہت بڑے پیمانے پر تحقیقات کی ہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلی (climatic change) کا موضوع ہے۔ یہ تحقیقات سب سے بڑے عالمی ادارہ، اقوامِ متحدہ (یو این او) کے تحت کی گئی ہیں۔ان تحقیقات کے ذریعے نہایت حتمی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ یہ معلومات سائنسی تیقّن (scientific certainty) کی حد تک درست سمجھی جاتی ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس دانوں نے متفقہ طورپر ان نتائجِ تحقیق کی تصدیق کی ہے۔
ان سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں مسلّمہ طورپر یہ معلوم ہوا ہے کہ ہماری زمین کے اوپر جو لائف سپورٹ سسٹم قائم تھا، وہ تیزی سے تباہ ہورہا ہے۔ گلوبل وارمنگ، برف کے ذخیروں کا پگھلنا، سمندروں میں پانی کی سطح کا خطرناک حد تک بڑھنا، ہوائی کثافت، وغیرہ کے نتیجے میں زمین کے حالات، زندگی کے لیے خطرناک حد تک بدلتے جارہے ہیں۔ زمین کے مختلف حصوں میں تیزی سے جانور ہلاک ہورہے ہیں، سمندروں کی مچھلیاں ختم ہورہی ہیں۔ غرض مختلف قسم کے تباہ کن حالات بتارہے ہیں کہ زمین پر انسانی تاریخ کا خاتمہ قریب آگیا۔ اور انسانی تاریخ کے خاتمے ہی کا دوسرا نام قیامت کا آنا ہے۔
حال میں ایک عالمی سائنسی رپورٹ کو چھاپتے ہوئے نئی دہلی کے انگریزی اخبار ’ہندستان ٹائمس، نے اس کا یہ عنوان قائم کیا تھا— اب قیامت زیادہ د ور نہیں:
Doomsday not far
ایسی حالت میں یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ انتظار کا وقت ختم ہوگیا۔ خدا کی طرف سے فائنل کال آگئی۔ اب نہ الون ٹافلر(Alvin Toffler) جیسے سیکولر مفکرین کے لیے سُپر سویلائزیشن کی آمد کا انتظار کرنے کا موقع ہے اور نہ امتِ محمدی کے لیے اس انتظار کا موقع کہ مہدی اور مسیح کی صورت میں پُراسرار طورپر کسی شخصیت کا ظہور ہوگا اور وہ خدا کا مطلوب دعوتی کام عالمی سطح پر انجام دے دے گا۔
اب انتظار کرنے والوں کے لیے جو چیز مقدر ہے، وہ کسی طلسماتی شخصیت کا ظہور نہیں، بلکہ صورِ اسرافیل کااعلان ہے۔ پیغمبر ِ خاتِم پر ایمان رکھنے والوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنی توانائی کا ہر حصہ دعوت الی اللہ کے کام میں لگا دیں۔ وہ اسرافیل کے فائنل اعلان سے پہلے اپنے حصے کا کام کردیں۔
دابّہ کادَور
دعوتی پیغام کو پھیلانے کے دو ذریعے ہیں— قول اور تحریر۔ قدیم زمانے میں اِن دونوں طریقوں کو دعوت کے لیے استعمال کیاگیا، لیکن سائنسی دور سے پہلے دونوں ذریعے صرف محدود دائرے میںاستعمال ہوسکتے تھے۔ داعی کا قول صرف وہ لوگ سن سکتے تھے جواس کے قریب موجود ہوں۔ یہی معاملہ تحریر کا تھا۔ قدیم زمانے میں کوئی داعی صرف ہاتھ سے کسی لَوح یا کاغذ پر اپنا پیغام لکھ سکتا تھا۔ ہاتھ سے لکھنے کے سوا کوئی اور ذریعہ اُس وقت موجود نہ تھا۔ اِس محدودیت کی بنا پر حق کا داعی صرف اپنے قریبی دائرے میں حق کا پیغام پہنچانے کی استطاعت رکھتا تھا۔ گویا کہ قدیم زمانے میں ہر داعی ایک مقامی داعی کی حیثیت رکھتا تھا، نہ کہ بین اقوامی داعی کی حیثیت۔
موجودہ سائنسی دور میں کمیونکیشن میں غیر معمولی انقلاب آیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار انسان کو وہ چیز حاصل ہوئی جس کو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کہاجاتا ہے۔ اِس طرح جدید ذرائع ابلاغ نے قول اور تحریر دونوں کے اندر تیز رفتاری کی صفت پیدا کردی۔ اب انسان کو وہ چیز حاصل ہوگئی جس کو فاصلاتی پیغام رسانی (telecommunication) کہا جاتا ہے۔
غالباً یہی وہ متحرک ذریعہ ہے جس کو قرآن میں دابّہ (النّمل: 82) کہاگیا ہے۔ دابّہ کے لفظی معنٰی ہیں رینگنے والا (creeper) ، یعنی وہ چیز جو متحرک ہو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچے۔ قرآن کا یہ ارشاد کہ بعد کے زمانے میں ایک دابّہ ظاہر ہوگا، اِس سے مراد غالباً یہی تیز رفتار مشینی حرکت کا دور ہے جو سائنسی انقلاب کے بعد سامنے آیا ہے۔ تیز نشریاتی ذرائع کی اِس ٹیکنیک نے مختلف صورتیں پیدا کی ہیں، جن کے مجموعے کو موجودہ زمانے میں ملٹی میڈیا(multi media) کہاجاتا ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخر الزماں کو سارے عالم کے لیے نذیر بنا کر بھیجا ہے (الفرقان:1 ) مگر ساتویں صدی کے رُبع اوّل میں جب کہ پیغمبر آخر الزماں کا ظہور ہوا، اُس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کا ظہور عمل میں نہیں آیا تھا۔ حدیث میںآیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آئندہ وہ زمانہ آنے والا ہے، جب کہ خدا اسلام کے کلمہ کو ساری دنیا کے تمام گھروں میں پہنچا دے (لایبقیٰ علیٰ وجہ الأرض بیت مدر ولا وبر، إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃ الإسلام )
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، دعوت کی تاریخ میں ایک مسلسل عمل (process) کو ظہور میں لانے کے ہم معنٰی تھا۔ آپ کے ذریعے ایک ایسا دعوتی عمل ظہور میں آیا، جس کا آغاز عرب سے ہوا اور پھر ایک مسلسل عمل (process) کے روپ میں وہ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ سارے عالم پر محیط ہوگیا۔
مگر اسباب کی اِس دنیا میں ہر دعوتی کام انسانوں کے ذریعے انجام پاتا ہے۔دورِ اول میںاسلام کا پھیلاؤ اصحابِ رسول کے ذریعے ہوا تھا،بعد کے زمانے میں بھی یہ دعوتی عمل ایک انسانی گروہ کے ذریعے انجام پائے گا۔ غالباً اسی لیے حدیث میں بعد کے زمانے میں ظاہر ہونے والے ایک گروہ کا ذکر ہے جس کو ’اخوانِ رسول‘ کہاگیا ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روایتی کمیونکیشن کے دور میں یہ دعوتی کام اصحابِ رسول کے ذریعے انجام پائے گا، اور سائنسی کمیونکیشن کے دور میں یہ دعوتی کام اُن لوگوں کے ذریعے انجام پائے گا جن کو حدیث میں اخوانِ رسول کا نام دیا گیا ہے۔
اصحابِ رسول کے بارے میں حضرت عمر فار وق نے فرمایا تھا: مَن سرّہ أن یکون من ہذہ الأمۃ، فلیؤدّ شرط اللہ فیہا (ابن کثیر، جلد1، صفحہ 396) یعنی جو شخص اصحابِ رسول کی اِس امت میںشامل ہونا چاہے، وہ اس کے بارے میں خدا کی شرط کو پورا کرے۔ وہ شرط یہ تھی کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی مہم میںاپنے وقت اور اپنے مال اور اپنی توانائی کو پوری طرح لگا دینا۔ پیغمبر اسلام کے معاصر اہلِ ایمان نے اِس شرط کو پورا کیا، اِس لیے وہ اصحابِ رسول قرار پائے۔
موجودہ زمانے میں دوبارہ دعوت الی اللہ کے نئے امکانات کھلے ہیں۔ اب دوبارہ وہی صورتِ حال پیداہوگئی ہے کہ کچھ لوگ اٹھیں اور جدید مواقع دعوت کو استعال کرکے دینِ خداوندی کے پیغام کو سارے عالم تک پہنچا دیں۔ یہی وہ عالمی دعوتی کام ہے جس کو حدیث میںعظیم ترین شہادت قرار دیاگیا ہے۔ اصحاب رسول کو یہ درجہ مطلوب عمل کے ذریعے حاصل ہوا تھا، اِسی طرح اخوانِ رسول کو بھی اخوانِ رسول کا یہ درجہ مطلوب عمل کے ذریعے حاصل ہوگا۔ عمل کے بغیر نہ اصحابِ رسول، اصحابِ رسول بنے تھے، اور نہ اب یہ ممکن ہے کہ کوئی گروہ مطلوب عمل کے بغیر اخوانِ رسول کادرجہ حاصل کرلے۔
اخوانِ رسول تاریخ کا آخری خدائی اعزاز ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اِس حقیقت کو سمجھیں اور اپنی توانائیوں کو نصرتِ خداوندی کے اِس مشن میں لگا کر خدا کے یہاں تاریخ کا عظیم انعام حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں

گلوبل وارمنگ یا ڈِوائن وارننگ

ساری دنیا کے سائنس دانوں کی طرف سے آج کل مسلسل گلوبل وارمنگ کی خبریں آرہی ہیں۔ پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا دونوں کے ذریعے روزانہ اِس خطرے کی بابت لوگوں کو آگاہ کیا جارہا ہے۔
20 دسمبر 2007 کو انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) میںایک لمبا تفصیلی پروگرام تھا جس کاعنوان تھا— قیامت پانچ سال میں ۔ ان رپورٹوں میں سائنس دانوں کی زبان سے وارننگ کے طورپر آگاہ کیا گیا ہے کہ کلائمٹ چینج (climate change)اب کلائمٹ ڈزاسٹر (climate disaster)بنتا جارہا ہے۔ زمین پر گرمی بہت زیادہ بڑھ رہی ہے اور لائف سپورٹ سسٹم کا متوازن نظام ٹوٹ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ساری دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے انسانوں کے لیے وہ وقت تیزی سے آرہا ہے جب کہ ان کے لیے اس سیارہ زمین پر زندہ رہنا ہی ممکن نہ ہوگا۔
جیسا کہ معلوم ہے، قطب شمالی اور قطب جنوبی میں برف کی بہت بڑی بڑی کیپ (ice cap) تھی۔ اسی طرح پہاڑوں کے اوپر گلیشیر کی صورت میں برف کے بہت بڑے بڑے تودے موجود تھے۔ یہ گویا میٹھے پانی کے بڑے بڑے اسٹور ہاؤس (store house) تھے۔ گلوبل وارمنگ کے اثر سے یہ ذخیرے بہت زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ان کا پانی دریاؤں کے راستے بہہ کر سمندر میں چلا جارہا ہے۔ اِس طرح میٹھا پانی دوبارہ کھاری پانی بنتا چلا جارہا ہے۔
اِس کا نتیجہ دو ناقابلِ برداشت ہلاکتوں کی صورت میں ظاہر ہونے والا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف یہ ہوگا کہ بہت جلد سمندروں میں پانی کا لیول بہت اونچا ہوجائے گا۔ اِس بنا پر یہ ہوگا کہ ساحلی شہر ڈوب کر ختم ہوجائیں گے۔ مثلاً انڈیا میں کلکتہ اور بمبئی اور مدراس، وغیرہ۔ دوسری طرف، غیرساحلی مقامات خطرناک حد تک پانی کی کمی کا شکار ہوجائیں گے۔ پانی کی قلت اتنی زیادہ بڑھ جائے گی کہ عین ممکن ہے کہ پانی کے حصول کے لیے تیسری عالمی جنگ شروع ہوجائے۔
دریاؤں میں پانی مسلسل اس لئے رہتاہے کہ پہاڑوں کی برف پگھل کر دھیرے دھیرے چشموں کی صورت میں سال بھر اوپر سے نیچے آتی رہتی ہے اور دریاؤں میںشامل ہوتی رہتی ہے۔ لیکن جب پہاڑوں کی برف پگھل کر ختم ہوجائے گی توفطری طورپر دریاؤں کا پانی بھی خشک ہوجائے گا۔ دوسری طرف یہ سارا پانی سمندروں میں جاکر مل جائے گا اور تمام میٹھا پانی کھاری پانی بن جائے گا۔ اس کے بعد سمندروںمیں اگر چہ بہت پانی ہوگا لیکن سخت کھاری ہونے کی بنا پر یہ پانی نہ آب پاشی کے قابل ہوگا اور نہ پینے کے قابل۔ گویا کہ وہی صورتِ حال عالمی سطح پر پیدا ہو جائے گی جس کی تصویر اٹھارھویں صدی کے شاعر کولرج (Coleridge) نے اپنی ایک نظم میں ان الفاظ میں کھینچی تھی:
Water water everywhere
Nor a drop to drink
خدا کے پیغمبر برابر یہ بتاتے رہے تھے کہ موجودہ دنیا ابدی نہیں ہے۔ اس کا مسلسل کاؤنٹ ڈاؤن (countdown) ہو رہا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب کہ وہ اپنی عمر پوری کرکے ختم ہوجائے گی۔ تمام قرائن بتارہے ہیں کہ اب یہ کاؤنٹ ڈاؤن بہت جلد اپنے آخری نمبر پر پہنچنے والا ہے۔
بیسویں صدی کے سائنس دانوں نے ضابطۂ ناکارگی (Law of Entropy) کو دریافت کرکے بتایا تھا کہ دنیا کی انر جی مسلسل ختم ہورہی ہے۔ اس عمل کو واپسی کی طرف لوٹایا نہیں جاسکتا۔اس لئے یہ یقینی ہے کہ ایک مقرر مدت کے بعد موجودہ دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اب اکیسویں صدی کے سائنس داںاپنی تازہ تحقیقات کے مطابق، بتارہے ہیں کہ اب خاتمے کی یہ مدت بہت زیادہ قریب آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ مدت 10 سال یا 20 سال سے بھی کم ہو۔
یہ بات جو میڈیا میں گلوبل وارمنگ(global warming) کے عنوان سے آرہی ہے، وہ دراصل ڈوائن وارننگ (divine warning)ہے۔ یہ خالق کی طرف سے اِس بات کا اعلان ہے کہ خالق کے منصوبے کے مطابق ، اب دنیا کی مقرر مدت پوری ہوچکی ، دنیا کی مقرر مدت کا پہلا دور (first phase) ختم ہوچکا۔ اب بہت جلد یہ ہونے والا ہے کہ موجودہ دنیا کو ختم کرکے اس کی عمر کادوسرا دور (second phase) شروع کیا جائے۔ پہلا دور ٹسٹ کے لیے تھا اور ٹمپرری تھا۔ دوسرا دور انجام کے لیے ہے اور ابدی ہوگا۔
موجودہ دنیا میں انسان کو عمل کی آزادی دی گئی تھی۔ یہ آزادی کسی استحقاق کی بنا پر نہ تھی، بلکہ وقتی طورپر صرف امتحان کے لیے تھی۔ یہ اس لیے تھی تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون اس کا غلط استعمال کرتاہے۔ فطرت کے نظام کے تحت ہر عورت اور مرد کا ریکارڈ تیار کیا جارہا ہے۔ اگلے مرحلۂ حیات میں یہ ریکارڈ خالق کے سامنے پیش ہوگا۔ جس شخص کا ریکارڈیہ بتائے گا کہ اس نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا، اس کو اس کا خالق جنت میں جگہ دے گا، جہاں وہ ابدی طورپر راحت اور مسرت کی زندگی گزارے گا۔ قرآن کے الفاظ میں، ایسے لوگ جنت الفردوس میں جگہ پائیں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے(الکہف: 107-108)۔ اس کے برعکس، جن لوگوں کا ریکارڈ بتائے گا کہ انھوںنے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا، ان کو خالق کے فیصلے کے تحت جہنم میں داخل کردیا جائے گا، جہاں پیغمبر مسیح کے الفاظ میں وہ ابد تک غم اور حسرت کی زندگی گزاریں گے:
There will be wailing and weeping for all eternity (Matthew 13:42)
اب آخری وقت آگیا ہے کہ سارے مرد اور عورت جاگ اٹھیں۔ وہ اپنا محاسبہ (introspection) کریں۔ وہ اگلے مرحلۂ حیات میںکامیاب زندگی حاصل کرنے کو اپنا واحد کنسرن بنائیں۔ ہر عورت اور مرد کو جاننا چاہیے کہ موجودہ دنیا میں ان کو جو چانس ملا تھا، وہ پہلا اور آخری چانس تھا، اس کے بعد کوئی دوسرا چانس انھیں ملنے والا نہیں ۔ موجودہ گلوبل وارمنگ بتارہی ہے کہ — اب لوگوں کے لیے پائنٹ آف نورٹرن (point of no return) آچکا ہے۔ ملے ہوئے موقع کو استعمال کرلیجئے، اس سے پہلے کہ اس کو استعمال کرنے کا وقت ہی ختم ہوجائے اور پھر نہ موجودہ دنیا کی طرف واپسی کا امکان ہو اور نہ اگلی دنیا میں عمل کرنے کا امکان۔
واپس اوپر جائیں

انسانی تاریخ کے دو دَور

خدا نے انسان کو ابدی مخلوق کی حیثیت سے بنایا۔ پھر اس نے انسان کی تاریخ کو دو دور میں بانٹ دیا۔ پہلا مختصر دور پیدائش سے لے کر موت تک، اور دوسرا طویل تر دور موت کے بعد، جس میں انسان ابدی طورپر رہے گا۔ اِن میں سے پہلا امتحان (test) کا دور ہے۔ اور دوسرا دور پہلے دور کے ریکارڈ کے مطابق، ابدی انجام پانے کا دور۔
تاریخ بتاتی ہے کہ انسانوں کی بہت بڑی اکثریت ہمیشہ اِس حقیقت سے بے خبر رہی۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ غالباً وہ چیز ہے جس کو کنڈیشننگ (conditoning) کہاجاتا ہے۔ انسان جب اِس دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو فوراً ہی اس کو ماں اور باپ اور رشتے دار مل جاتے ہیں۔ وہ کما کر پیسہ حاصل کرتا ہے اور پھر اپنے لیے ایک گھر بناتا ہے اور اپنی کوششوں کے ذریعے دھیرے دھیرے زندگی کے تمام سامان حاصل کرلیتا ہے۔ بظاہر وہ دیکھتا ہے کہ ہر چیز جو اس کو مل رہی ہے، وہ خود اس کی اپنی کوشش کے ذریعے مل رہی ہے۔
اِس طرح شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کے اندر وہ ذہن بنتا ہے جس کو ملکیت (ownership) کہاجاتا ہے۔ اس کے اندریہ ذہن بن جاتا ہے کہ اِس دنیا میںاُس کو جو چیزیں ملی ہوئی ہیں، وہ سب اس کی ملکیت ہیں اوروہ اس کو اپنی ذاتی کوشش کے ذریعے حاصل ہوئی ہیں، یہ تمام چیزیں سامانِ ملکیت ہیں، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اِسی کا نام کنڈیشننگ ہے۔ اِس کنڈیشننگ کی بنا پر وہ سمجھ نہیں پاتا کہ اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے چیزوں کی اصل نوعیت کیا ہے۔ اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے چیزیں سامانِ امتحان ہیں، مگر انسان کنڈیشننگ کی بنا پر اُن کو سامانِ ملکیت سمجھ لیتا ہے۔
یہی موجودہ دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) کے مطابق، موجودہ دنیا میں انسان کی پوری زندگی زیر امتحان زندگی ہے۔یہاں انسان کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ اس کے لیے پرچۂ امتحان (test paper) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس اعتبار سے انسان کے لیے صحیح رویّہ یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں ہر لمحہ اِس احساس کے ساتھ رہے کہ وہ آزاد نہیں ہے، بلکہ پابند ہے۔ وہ چیزوں کا مالک نہیں ہے، بلکہ تمام چیزیں وقتی طورپر اس کے تصرف میں دی گئی ہیں تاکہ اِن چیزوں میں جانچ کر دیکھا جائے کہ وہ صحیح عمل کرنے والا ہے، یا غلط عمل کرنے والا۔
اِس دنیا میں آدمی ایک گھر بناتا ہے اور اُس کو وہ ’’اپنا گھر‘‘ کہتا ہے۔ وہ اپنے نام پر اس کا نام رکھتا ہے۔ یہی معاملہ تمام چیزوں کا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہر گھر ٹسٹ ہاؤس ہے۔ اِس دنیا میں ہر کارٹسٹ کار ہے۔ اِس دنیا میں ہر پراپرٹی ٹسٹ پراپرٹی ہے۔ اِس دنیا میں ہر اولاد ٹسٹ اولاد ہے۔ اِس دنیا کی تمام چیزیں ٹسٹ کا سامان ہیں۔
مگر آدمی اِس سب سے بڑی حقیقت کو بھولا ہوا رہتا ہے، یہاں تک کہ اچانک اس کی موت آتی ہے اور وہ تمام چیزوں کو چھوڑ کر بالکل تنہا اگلے مرحلۂ حیات میں داخل ہوجاتا ہے۔ اُس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کو میں اپنی چیزیں سمجھتا تھا، وہ تو خدا کی طرف سے امتحان کے لیے وقتی طورپر ملی ہوئی تھیں۔ پچھلا دورِ حیات ختم ہوتے ہی وہ سب کی سب مجھ سے چھین لی گئیں۔ اب مجھے ایک ایسی دنیا میں رہنا ہے جہاں مجھے مکمل طورپر محرومی کی حالت میں زندگی گزارنا ہے۔ اِس سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہوں گے جن کو اُن کے حسنِ عمل کے نتیجے میں دوبارہ تمام چیزیں بطور انعام دے دی جائیں گی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شرّ البلاد الی اللہ أسواقہا(صحیح مسلم، کتاب المساجد) یعنی تمام جگہوں میں سب سے بُری جگہ بازار ہے۔ بازار کیا ہے۔ بازار، وہ مقام ہے جہاں سے آدمی چیزوں کو خرید کر حاصل کرتاہے۔ بازار خرید و فروخت کی علامت ہے۔ اس طرح بازار آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کرتا ہے کہ چیزیں صرف خرید کر ملتی ہیں۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہے۔ چیز کی قیمت ادا کرو اور تم کو وہ چیز مل جائے گی۔
موجودہ دنیا میں ملکیت (ownership) کا قانون رائج ہے۔ اِس دنیا میں ہر چیز ملکیت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ مکان، گاڑی، سازوسامان، استعمال کی چیزیں ، کنزیومر گُڈس، تمام چیزیں آدمی کو اِس طرح ملتی ہیں کہ وہ ان کی قیمت ادا کرتا ہے اور پھر وہ ان کا مالک بن جاتا ہے۔
اِس طرح یہ دنیا ایک فریب کی جگہ(deceptive world) بن گئی ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے دنیا کی ہر چیز امتحان کا پرچہ (test paper) ہے۔ وہ خدا کی طرف سے انسان کو اس کی آزمائش کے لیے دی گئی ہے۔ لیکن خرید وفروخت کے موجودہ نظام کی بنا پر آدمی غلط طورپر یہ سمجھ لیتا ہے کہ چیزیں اس کو قیمت ادا کرکے حاصل ہورہی ہیں۔
اِس صورت ِ حال کی بنا پر ہر آدمی ایک فریب میں جی رہا ہے۔ وہ امتحان کے ذریعے ملی ہوئی چیزوں کے بارے میں شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اس کو بطورملکیت حاصل ہوئی ہیں۔یہ صورت حال بلاشبہہ سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ اس صورت حال کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی احساسِ ملکیت کے تحت زندگی گزارتا ہے، حالاں کہ اس کو احساسِ ذمے داری کے تحت زندگی گزارنا چاہیے۔
موت اس صورتِ حال کا خاتمہ ہے۔ موت کے وقت اچانک یہ تمام چیزیں انسان سے چھن جاتی ہیں۔ اُس وقت اچانک انسان پر یہ کھلتا ہے کہ جن چیزوں کے درمیان وہ زندگی گزار رہا تھا، وہ چیزیں صرف امتحان کی مدت تک کے لیے تھیں، موت نے اِس مدت کا خاتمہ کردیا۔ موت سے پہلے آدمی اپنے کو ’’سب کچھ والا‘‘ سمجھ رہا تھا، مگر موت کے بعد اچانک وہ ’’بے کچھ والا‘‘ بن جاتا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو موت سے پہلے، خود سے فریب کے اس پردے کو پھاڑ دے، ورنہ موت اس پردے کو پھاڑے گی، لیکن موت کی طرف سے پردے کا پھاڑا جانا کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا۔
ثانیہ مرزا (21 سال) ٹینس کی مشہور کھلاڑی ہیں۔ ان کا وطن حیدرآباد ہے۔ ان کی برتھ ڈے پر ان کی ماں نسیمہ نے حیدر آباد کے ایک لگزری ہوٹل میں شان دار پارٹی دی۔ اِس کی رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا (16 نومبر2007) میں اِس عنوان سے چھپی ہے:
Surprise party brings in Sania’s 21st birthday.
رپورٹ کے مطابق، ثانیہ مرزا کی ماں نسیمہ نے اپنی بیٹی کے بارے میں کہا کہ— میں اپنی بیٹی کے اوپر ہر دن اور ہر لمحہ فخر کرتی ہوں:
I am proud of my daughter, every moment of the day. (p. 28)
یہی آج تقریباًتمام عورتوں اور مردوں کا حال ہے۔ آج تمام لوگ اِسی قسم کے جھوٹے فخر میں مبتلا ہیں۔ کسی کو اپنی اولاد پر فخر ہے، کسی کو اپنی جائداد اور اپنے سازوسامان پر فخر ہے، کسی کو اپنے عہدے اور مقبولیت پر فخر ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ تمام چیزیں اس کو کیسے ملیں۔ اگر آدمی گہرائی کے ساتھ سوچے تو وہ جان لے کہ ہر چھوٹی اور بڑی چیز جو اس کو ملی ہوئی ہے، وہ سب خدا کا عطیہ ہے۔ ہر چیز براہِ راست خدا کی دین ہے۔ اگر آدمی اِس حقیقت کو جان لے تو اس کا سینہ احساناتِ خدا وندی کے جذبے سے بھر جائے گا۔ وہ کہہ اٹھے گا کہ ہر دن اور ہر لمحہ میں خداوند برتر کا شکر گزار ہوں:
I am grateful to God Almighty, every moment of the day.
واپس اوپر جائیں

فرائض اور نوافل

اسلامی تعلیم کے مطابق، ہر دینی عمل عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کی عبادات میں کچھ عبادتیں فرض ہیں، اور کچھ عبادتیں نفل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً روزانہ پانچ وقت کی نماز اسلام میں فرض ہے۔ اِسی کے ساتھ ایک عبادت وہ ہے جس کو تہجد کہاجاتا ہے۔ تہجد ایک نفل عبادت ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: فتہجّد بہ نافلۃً لک (الإسراء:79 )۔ اِس طرح اشراق اور چاشت کی نمازیں اور دوسری غیر مفروض نمازیں نفل کا درجہ رکھتی ہیں۔
’نفل‘ یا ’نافلہ‘ کے معنیٰ زائد (زائدۃ علی الفریضۃ) کے ہیں۔ نفل عبادت کا مطلب ہے فرض کے علاوہ مزید عبادت (additonal prayers) ۔ نفل عبادت کے معاملے میں ایک مشہور روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ یہ حدیثِ قُدسی ہے۔ اس کے ایک حصے کا ترجمہ یہ ہے:
’’بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پھر جب میںاُس سے محبت کرتا ہوںتو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، میںاس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کا قلب بن جاتا ہوں جس سے وہ باتوں کو سمجھتا ہے (وقلبہ الذی یعقل بہ)، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے‘‘ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری، کتاب الرقاق، با ب التواضع، جلد 11، صفحہ 348 )۔
نفلی عمل سے مراد زائد عمل ہے۔ زائد عمل کا تعلق صرف نفلی نمازوں سے نہیں، بلکہ اس کا تعلق ہر اُس اسلامی عمل سے ہے جو فرائض سے زیادہ کی حیثیت رکھتا ہو۔ اِس زائد اسلامی عمل میں ذکر اور تلاوت اور روزہ اور حج اور صدقات جیسے اعمال سے لے کر وہ اعمال بھی شامل ہیں جن کو توسّم اور تفکر اور تدبّر ، وغیرہ کہاجاتا ہے۔ یہ تمام نفلی اعمال تعلق باللہ میں اضافے کا ذریعہ ہیں۔ نفل کے لفظ کو روایتی مفہوم میں لینے کے بجائے اس کے لغوی معنیٰ میں لینا چاہیے۔ اِس طرح، نفل کے لفظ میں وہ تمام توسیعی مفہوم اپنے آپ شامل ہوجاتا ہے، جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔
آدمی جب ایمان قبول کرتا ہے تو وہ کلمۂ شہادت ادا کرتا ہے۔ کلمۂ شہادت ، اسلام میں داخلے کا دروازہ ہے۔ یہ داخلہ اسلام کا آغاز ہے، اس کی منزل نہیں۔ اِس داخلے کے بعد بار بار ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا رہے۔ اِس اضافے کو قرآن اور حدیث میں ’ازدیادِ ایمان‘ کہاگیا ہے۔ اضافے کا یہ عمل، ایمان کے لیے لازمی طور پر ضروری ہے۔ اِس عمل کے بغیر آدمی کا ایمان جامد ایمان بن جائے گا، وہ زندہ ایمان کی حیثیت سے باقی نہ رہے گا۔
میڈیکل اصطلاح میںایک لفظ ہے، جس کو بوسٹر ڈوز(booster doze) کہاجاتا ہے۔ ڈاکٹر جب مریض کو ایک دوا دیتا ہے تو صرف ایک خوراک دینا کافی نہیں ہوتا۔ ایک خوراک کے بعد دوا کے عمل کو تیز کرنے کے لیے بار بار مزید خوراکیں دینی پڑتی ہیں۔ دوا کی اِس مزید خوراک کو بوسٹر ڈوز کہاجاتاہے۔
یہی معاملہ صحت مند انسان کا بھی ہے۔ صحت مند انسان بھی بار بار غذائی خوراک لیتا ہے۔ صبح کے ناشتے کے بعد دوبارہ وہ دوپہر کا کھانا کھاتا ہے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ پھر رات کا کھانا کھاتا ہے۔ اِس طرح غذاؤں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ بار بار کی غذا بھی بوسٹر فوڈ(booster food) کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر کوئی آدمی ایک بار کھانا کھالے اور اس کے بعد وہ پھر کبھی نہ کھائے تو ایسا آدمی اپنی صحت کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔
ایمان کے لیے نفلی اعمال اِسی طرح اضافی (additional doze) کا درجہ رکھتے ہیں۔ اِن اضافی خوراکوں کے بغیر کسی آدمی کا ایمان، زندہ اور متحرک ایمان نہیں بن سکتا۔ اِن اضافی خوراکوں میں جس طرح معروف عبادتی اعمال شامل ہیں، اسی طرح اس میں توسّم ، تذکّر اور تدبّر جیسے ذہنی اعمال بھی لازمی طورپر شامل ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ مطالعہ اور تدبر کے ذریعے مسلسل طورپر اپنے ذہنی ارتقا کا سامان کرتا رہے، ورنہ اس کا ایمان، جامد ایمان بن کر رہ جائے گا۔
جامد ایمان اور زندہ ایمان کے درمیان وہی فرق ہے جو ہری بھری شاخ اور سوکھی لکڑی کے درمیان ہوتا ہے۔ جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ اس کا ایمان سوکھی لکڑی جیسا بن کر نہ رہ جائے، اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل طورپر فکری خوراک لیتا رہے، جن کی حیثیت ایمان کی ترقی کے لیے بوسٹرفوڈ (booster food) کی ہے۔ اِس طرح کے بوسٹر ڈوز کے بغیر زندہ ایمان کا حصول ممکن نہیں۔ اس کے بغیر آدمی کا ایمان صرف ایک قانونی ایمان بن کر رہ جائے گا، وہ ربّانی ایمان کا درجہ حاصل نہ کرسکے گا۔
کان اور آنکھ اور عقل کے حوالے سے حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے آدمی کا ذوق، خداوندی ذوق (divine taste) بن جاتا ہے۔ وہ حیوانی ذوق سے اوپر اٹھ کر ذوق کی اُس اعلیٰ سطح پر پہنچ جاتا ہے جس کو ربّانی ذوق سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔
حیوان کی سوچ اس کی ابتدائی ضرورتوں تک محدود رہتی ہے۔ انسان کی سوچ اِس سے وسیع ہوتی ہے، لیکن وہ بھی اپنی ذات کے دائرے میں عمل کرتی ہے۔ اِس کے برعکس، خدا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اِس قسم کی تمام محدودیتوں سے برتر ہوتا ہے۔ جب کوئی آدمی حقیقی معنوں میں ’نوافل‘ کی کثرت کرتا ہے تو بلا تشبیہہ اس کی ذات میں خدا سے ایک قسم کی مماثلت کی شان پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے ہر معاملے میں فطرت کا رنگ غالب آجاتا ہے۔ اس کی سوچ آفاقی سوچ بن جاتی ہے۔ اس کی پوری شخصیت خدا کے تخلیقی نقشے میں ڈھل جاتی ہے۔ یہی وہ ربّانی شخصیت ہے جس کو مذکورہ حدیث میں مخصوص تمثیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بریک اِن ہسٹری

Break in History
گورنمنٹ سروس کے قاعدوں میںسے ایک قاعدہ یہ ہے کہ اگر کوئی سرکاری ملازم بغیر رخصت (without an approved leave) دفتر میں حاضر نہ ہو، تو گورنمنٹ کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اس کو شکستِ ملازمت (break in service) کا کیس قرار دے دے۔ شکستِ ملازمت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سینیرٹی (seniority) ختم ہوجائے گی۔ وہ حقوق ملازمت کے اعتبار سے واپس ہو کر اپنے پہلے دن کے حال پر پہنچ جائے گا، جب کہ اس کا تقرّر ہوا تھا، اس کے لیے ملازمت کے پچھلے ایام کے اعتبار سے پروموشن (promotion) کا حق باقی نہ رہے گا:
A break in service is any separation from employment status.
یہ اصول زیادہ بڑے پیمانے پر ہر عورت اور مرد پر منطبق ہوتا ہے۔ اِس دوسرے عمومی اصول کو شکستِ تاریخ(break in history) کہا جاسکتا ہے، یعنی تاریخ کا ختم ہوجانا۔ کسی آدمی نے اپنے عمل سے اپنی جو تاریخ بنائی ہے، اس کا اچانک مٹ جانا اور انسان کا اپنے بے تاریخ دَور کی طرف لوٹ جانا۔
اِس دنیا میں ہر آدمی اپنی بنائی ہوئی تاریخ کی بنا پر کھڑا ہوتا ہے۔ ایک انسان یہاں پیدا ہوتاہے۔ اس کے بعد وہ دھیرے دھیرے بڑا ہوتا ہے۔ اس کو مختلف قسم کے مواقع ملتے ہیں، جن کو استعمال کرکے وہ اپنی ایک تاریخ بناتا ہے۔ گھر اور جائداد اور خاندان اور حلقہ اور شہرت اور اقتدار اور مال اور اسباب، وغیرہ۔ اِس قسم کی چیزیں اس کے گِرد اکھٹا ہوجاتی ہیں۔
اِس طرح اس کی اپنی بنائی ہوئی ایک تاریخ ہوتی ہے جس کے ذریعے اس کا تشخّص قائم ہوتاہے، اس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو جانتا ہے اور اس کے ذریعے دوسرے لوگ اس کو پہچانتے ہیں۔ یہ معاملہ ہر عورت اور مرد کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ہر ایک مسلسل جدوجہد کے ذریعے اپنی ایک تاریخ بناتا ہے جس کے اوپر وہ کھڑا ہوتا ہے۔
لیکن کوئی بھی شخص لمبی مدت تک اپنی تاریخ میں جینے کا موقع نہیںپاتا۔ سو سال کے اندرہی اچانک وہ لمحہ آجاتا ہے جس کو موت کہتے ہیں۔ موت ایک ناقابلِ واپسی فیصلے کے طورپر ہر شخص کے اوپر آتی ہے اور اچانک قبل از موت مرحلۂ حیات سے جدا کرکے اُس کو بعد از موت مرحلۂ حیات میں پہنچا دیتی ہے۔
موت کو اِس اعتبار سے شکستِ تاریخ (break in history) کا معاملہ کہاجاسکتا ہے۔ شکستِ تاریخ کا یہ واقعہ ہر عورت اور ہر مرد کے ساتھ پیش آتا ہے۔ہر عورت اور مرد کا یہ معاملہ ہے کہ وہ اپنی ساری طاقت خرچ کرکے اپنی امیدوں اور اپنی تمناؤں کی ایک دنیا بناتے ہیں۔ ہر انسان اپنی بنائی ہوئی اِس دنیا میں جی رہا ہوتا ہے کہ اچانک اس کے لیے موت کا وقت آجاتا ہے۔ وہ مجبور ہوتا ہے کہ وہ اپنی اِس بنائی ہوی دنیا کو چھوڑ کر اچانک ایک اور دنیا میں پہنچ جائے، جس کے لیے اُس نے کچھ نہیں کیا تھا۔ اُس کے پیچھے اس کی بنائی دنیا ہوتی ہے جس کو وہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکا، اور اس کے آگے ایک ابدی صحرا ہوتا ہے جس کے لیے اس نے کچھ نہیں کیا۔ یافت کے احساس میں جینے والا انسان اچانک کامل محرومی کے دور میں داخل ہوجاتا ہے۔
قبل ازموت کا مرحلۂ حیات ہر انسان کے لیے پہلا اور آخری موقع ہے، اس کے بعد کسی کودوسرا موقع ملنے والا نہیں۔ اِس پہلے موقع کو جس شخص نے صرف دُنیوی سازوسامان کی فراہمی میں لگایا، وہ موت کے بعدکے مرحلۂ حیات میں کامل محرومی میں جینے پر مجبور ہوگا۔ کیوں کہ موت اس کی پچھلی تاریخ کواُس سے جدا کردے گی، اور موت کے بعد دوبارہ نئی تاریخ بنانے کا موقع اُس سے ہمیشہ کے لیے چھن چکا ہوگا۔ کیسا عجیب ہے آج کا وہ موقع جس کو انسان کھورہا ہے، اور کیسی بھیانک ہوگی کل کی وہ محرومی جس سے انسان دوچار ہوگا، اور جس سے اپنے آپ کو بچانا کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا فارمولا

ایک صاحب نے پوچھا کہ موجودہ دنیا میںکامیاب زندگی کی تعمیر کا فارمولا کیا ہے۔ میںنے کہا کہ کامیاب زندگی کا انحصار دو چیزوں پر ہے— آدھا عمل پر، اور آدھا بے عملی پر۔ اُن کو میرا یہ جواب بہت عجیب معلوم ہوا۔ انھوںنے دوبارہ پوچھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔میںنے کہا کہ عمل یہ ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کریں۔ بے عملی یہ ہے کہ آپ دوسروں سے نہ ٹکرائیں۔ جب بھی دوسروں کے ساتھ کوئی شکایت کی بات پیش آئے تو اُس وقت آپ اُن کے مقابلے میں بے عمل بن جائیں، یعنی دوسروں سے الجھے بغیر اپنا سوچا سمجھا کام جاری رکھیں۔ موجودہ دنیا میںکامیابی کے لیے یہ دونوں چیزیں یکساں طورپر ضروری ہیں۔اِس اصول کا تعلق، انفرادی کامیابی سے بھی ہے اور اجتماعی کامیابی سے بھی۔
انفرادی معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کسی چیز کو لینے کے لیے لائن (قطار) میں کھڑے ہوئے ہیں۔ بعد کو ایک آدمی آتا ہے اور وہ لائن توڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے اور اپنا کام پہلے کرالیتا ہے۔ ایسے موقع پر آپ خاموش مشاہد بن جائیے۔ اس کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ اپنا کام کیجئے اور خاموشی کے ساتھ واپس چلے جائیے۔ یہ انفرادی معاملے میں ’’بے عملی‘‘ کی مثال ہے۔ اِس طرح کے معاملے میں اگر آپ غصہ ہوجائیں اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کریں تو آپ کا ایسا کرنا ہمیشہ خود آپ کے لیے نقصان کا باعث ہوگا۔
اجتماعی معاملے کی ایک مثال پالٹکس آف اپوزیشن ہے۔ آج کل ہر لیڈر یہ کررہا ہے کہ وہ کوئی سماجی مسئلہ لے کر اتھارٹی کے خلاف احتجاج (protest) کی مہم چلادیتا ہے۔ اِس طریقِ کار کے نتیجے میں لیڈر کو تومقبولیت مل جاتی ہے، لیکن سماج کو اِس کا کوئی فائدہ نہیںملتا۔ یہاں بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ اتھارٹی کے خلاف احتجاجی مہم چلانے کے بجائے تعمیر کے میدان میں کوئی مثبت کام کیاجائے۔ مثلاً تعلیم کا میدان — اِس دنیا میں کامیابی کے لیے عمل جتنا زیادہ ضروری ہے، اتنا ہی یہ بھی ضروری ہے کہ آپ بے عمل ہونے کا فن بھی جانتے ہوں۔
واپس اوپر جائیں

کثرت کے درمیان قلّت

سموئل ٹیلر کولرج (Samuel Tailor Coleridge) مشہور انگریزی شاعر ہے۔ وہ 1772 میں پیدا ہوا،اور 1834 میں اس کی وفات ہوئی۔
اس کی ایک مشہور نظم ہے جس کا نام ہے —قدیم ملّاح(The Ancient Mariner) ۔ اس نظم میں وہ دکھاتا ہے کہ ملاح اپنی کشتی لے کر سمندر میں سفر کر رہا ہے۔ اس کے بعد کشتی طوفان کی زد میں آجاتی ہے۔ کشتی تباہ ہوجاتی ہے۔ ملاح ایک تختے کو پکڑ کر اس پر اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے۔ وہ تختہ سمندر میں موجوں کے سہارے تیرنے لگتا ہے۔
ملاح کو پیاس لگتی ہے۔ اس کے چاروں طرف اگرچہ پانی ہے، مگر سخت کھاری ہونے کی وجہ سے وہ پینے کے قابل نہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ملاح کہہ اٹھتا ہے— ہر طرف پانی ہی پانی ہے، مگر ایک قطرہ بھی پینے کے لیے نہیں:
Water, water everywhere,
Nor a drop to drink.
یہ بات جو مذکورہ ملاح نے سمندر کے پانی کے بارے میں کہی، وہ عمومی اعتبار سے بھی درست ہے۔ آج کی دنیا میں پوری انسانیت مذکورہ ملاح کے مانند ہے جس کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے، مگر پینے کے لیے ایک قطرہ بھی نہیں۔
پریس کے دورنے ہر طرف چھپے ہوئے کاغذات کا انبار لگا دیا ہے، مگر ایسے صفحات بہت کم ہیں جو واقعۃً پڑھنے کے قابل ہوں۔ دنیا کے بازارپُررونق سامان سے بھرے ہوئے ہیں، مگر وہ سامان کہیں نظر نہیں آتا جو انسان کی روح کو سکون دینے والا ہو۔ زمین پر جہاں بھی دیکھئے، انسانی سرگرمی کا طوفان دکھائی دے گا، مگر وہ سرگرمی کہیںنظر نہیں آتی جو اُس کو حقیقی منزل کی طرف لے جانی والی ہو۔
دنیا انسانوں سے بھری ہوئے ہے مگر وہ انسان معدوم ہورہے ہیں جو اُن فطری اوصاف کے حامل ہوں جن پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اِزدواجی زندگی

8 اکتوبر 2007 کو میں آل انڈیا ریڈیو پر ایک خصوصی پروگرام سُن رہا تھا۔ یہ پروگرام شادی اور نکاح کے بارے میں تھا۔ ایک خاتون نے بولتے ہوئے کہا کہ نکاح تین قسم کے رِنگ (انگوٹھی) پر مشتمل ہوتا ہے— منگنی کی رِنگ، شادی کی رِنگ اور مصیبت کی رِنگ:
Marriage includes three rings— engagement ring, wedding ring, suffering.
شادی شدہ زندگی کا ناخوش گوار زندگی بن جانا، موجودہ زمانے کا ایک عام مسئلہ ہے۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ میںنے بہت سے ماڈرن لڑکوں اور لڑکیوں سے بات کرنے کے بعد سمجھا ہے کہ اِس مسئلے کا بڑا سبب وہ جدید تصور ہے جس کو صنفی مساوات (gender equality) کہاجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک غیر فطری نظریہ ہے۔ ہر اجتماعی نظام کے لیے ہمیشہ ایک ناظم درکار ہوتاہے۔ ناظم کے بغیر کسی اجتماعی ادارے کا قیام ممکن نہیں۔
ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے رشتے میں بندھ کر ایک خاندان بناتے ہیں تو وہ ایک اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتے ہیں۔ ہر خاندان ایک اجتماعی تنظیم ہے۔ اِس تنظیم کو درست طورپر چلانے کے لیے بھی ایک ناظم درکار ہے۔ مرد اپنی فطری ساخت کی بنا پر ناظم کی ذمے داری کو زیادہ بہتر طورپر سنبھال سکتا ہے۔ اِسی لیے مرد کو خاندانی زندگی کا قوّام (النساء: 34 ) بنایا گیا ہے۔
قوّام سے مراد عین وہی چیز ہے، جس کو موجودہ زمانے میں باس (boss) کہاجاتا ہے۔ باس ازم(bossism) ہر تنظیم یا اجتماعی ادارے کی ایک فطری ضرورت ہے، اور خاندان بلا شبہہ اِس سے مستثنیٰ نہیں۔ شادی شدہ خواتین اگر اپنے شوہر کو گھر کے اندر اُسی طرح باس مان لیں، جس طرح وہ دفتر میں کسی کو اپنا باس مان کر اپنا کام معتدل طورپر کرتی ہیں، تو اِس کے بعد شادی شدہ زندگی کا تیسرا پہلو(suffering) اپنے آپ ختم ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

حسن ِتدبیر

ایک صاحب میرے پاس تحفے کے طورپر مٹھائی کا پیکٹ لے آئے۔ میں نے کہا کہ میں اِس قسم کے تحفے کو پسند نہیں کرتا۔ آپ کبھی میرے لیے کوئی تحفہ نہ لائیں۔ انھوں نے کہا یہ مٹھائی ہمارے علاقے کی مشہور مٹھائی ہے۔ میں جب بھی کسی عالم یا بزرگ سے ملنے جاتا ہوں تو ہمیشہ اُس کے لیے یہ تحفہ لے کر جاتاہوں۔
گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ ایک بڑی رقم کے قرض دار ہیں۔ انھوںنے بتایا کہ میری ماں بیمار ہوگئی تھیں۔ میںنے اُن کے علاج کے لیے کچھ لوگوں سے قرض لیا جو اب تک ادا نہ ہوسکا۔ میںنے کہا کہ جب آپ کے اوپرقرض ہے تو آپ تحفے تحائف پر رقم کیوں خرچ کرتے ہیں۔ میںنے کہا کہ خرچ کو گھٹانا بھی آمدنی کو بڑھانا ہے۔آپ آج ہی یہ عہد کریں کہ آپ اپنے خرچ کو گھٹائیں گے۔ اِس طرح پیسہ بچا کر آپ اپنے قرض کو ادا کریں۔ عید کا زمانہ تھا۔ میںنے کہا کہ آپ عید میں کسی بھی قسم کاکوئی نیا سامان نہ خریدیں۔ بچوں کے لیے نیے کپڑے نہ بنوائیں۔ یہ سب آپ اُس وقت تک کرتے رہیں، جب تک آپ کا قرض ادا نہ ہوجائے۔
دو سال کے بعد اُن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بہت خوشی کے ساتھ بتایا کہ میں نے آپ کی نصیحت پر سختی کے ساتھ عمل کیا۔ اور اب اللہ کے فضل سے میرا قرض ادا ہو چکا ہے ۔ اب میںرات کو سکون کی نیند سوتا ہوں، جب کہ اِس سے پہلے سکون کے ساتھ سونا میرے لیے ناممکن ہوگیا تھا۔
ان کی اِس روش کا ان کے بچوں پر نہایت مثبت اثر ہوا۔ ان کے بڑے لڑکے نے ٹیلی فون کال کی ایک دکان کھول لی۔ یہ دکان جلد ہی کامیابی کے ساتھ چلنے لگی۔ اِس طرح گھر کی آمدنی میں ایک مستقل اضافہ ہوگیا۔ ان کی بیوی اور ان کے بچوں میں بھی تعمیری ذہن آگیا۔ ہر ایک کچھ نہ کچھ کام کرنے لگا۔ اب وہ صاحب خوشی کے ساتھ اپنے مقام پر رہ رہے ہیں۔ ان کے تمام مسائل آہستہ آہستہ حل ہوگیے۔ بچوں کی تعلیم بھی جاری ہوگئی— حسنِ تدبیر سے مسئلہ حل ہوتا ہے اور بدتدبیری سے مسئلہ اور زیادہ بگڑ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جھوٹ کی دو قسم

جھوٹ کی ایک قسم وہ ہے جس کو برہنہ جھوٹ، یا کذبِ صریح کہاجاتا ہے، یعنی جان بوجھ کر ایک سراسر خلافِ واقعہ بات کہنا۔ مثلاً ایک بار میں نے دیکھا کہ ایک لیڈر صاحب کے پاس ایک شخص اپنے کسی کام کے لیے آیا۔اِس کام کا تعلق ایک منسٹر سے تھا۔ انھوںنے فوراً ٹیلی فون پر کچھ نمبر ڈائل کیے۔ اِس کے بعد انھوںنے رسیور اٹھایا اور ہلو کرکے اِس طرح بات کرنے لگے، جیسے کہ وہ متعلق منسٹر سے بات کررہے ہیں۔بعد کو مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایک جھوٹا ڈراما تھا۔ اِس جھوٹے ڈرامے کے ذریعے انھوںنے آنے والے کو یہ تاثّر دیا کہ اُن کا قریبی تعلق منسٹر صاحب سے ہے، اور وہ اُن سے براہِ راست بات کرسکتے ہیں۔ یہ برہنہ جھوٹ کی ایک مثال ہے۔
جھوٹ کی دوسری قسم وہ ہے جس کو بالواسطہ جھوٹ، یا کذبِ خفی کہاجاسکتا ہے۔کذبِ صریح کا ارتکاب تو بہت کم لوگ کرتے ہیں، لیکن جہاں تک کذبِ خفی کا تعلق ہے، غالباً ننّانوے فیصد سے بھی زیادہ لوگ اِس بُرائی میں مبتلا ہیں۔ کذبِ خفی کی بُرائی موجودہ سماج میں اتنا زیادہ عام ہوچکی ہے کہ لوگ اِس میں مبتلا ہوتے ہیں، مگر شعوری طورپر وہ نہیں جانتے کہ وہ ایک ایسی عادت کا شکار ہیں جو حقیقتاً ایک مہلک جھوٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔
کذبِ خفی کیا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی بات کو ٹھیک ٹھیک بیان نہ کیا جائے، بلکہ اُس کو بدلی ہوئی صورت میں بیان کیا جائے۔ ایسا کب ہوتا ہے، اِس کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً اپنی صفائی پیش کرنا، اپنے کو سماج میں اچھا بنائے رکھنا، اپنے آپ کو بدنامی سے بچانا، اپنے لوگوں کو دوسروں کی نظر میں اونچا دِکھانا، اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش کرنا، غیر ضروری طورپر کسی چیز کا کریڈٹ لینا، اپنی غلطی کو نہ ماننے کے لیے اصل بات کو بدل کر پیش کرنا، وغیرہ۔ اِس قسم کی تمام صورتوں میں آدمی بات کو صاف طورپر بیان نہیں کرتا، مگر یہ سب بلا شبہہ جھوٹ کی صورتیں ہیں۔ اِس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ آدمی کے اندر کمز ور شخصیت (weak personality) پرورش پاتی ہے، اور کمزور شخصیت ہی کا دوسرا نام منافقانہ شخصیت ہے۔
واپس اوپر جائیں

غریبی اور امیری

ایک تعلیم یافتہ آدمی نے ایک بار کہا—برسات کے موسم میں چھتری والا اور بے چھتری والا، دونوں پانی میں بھیگتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ بے چھتری والے آدمی کے مقابلے میں چھتری والا آدمی شرمندگی سے بچ جاتا ہے۔ یہی معاملہ غریبی اور امیری کا ہے۔ غریبی بھی ایک مسئلہ ہے، اور امیری بھی ایک مسئلہ۔ فرق صرف یہ ہے کہ غریب آدمی کا مسئلہ ظاہر ہوجاتا ہے اور امیر آدمی کا مسئلہ لوگوں کے لیے چھپا رہتاہے۔
اصل یہ ہے کہ مسائل کا تعلق غریبی اور امیری سے نہیں ہے، وہ انسانی زندگی کا ایک فطری حصہ ہے۔ ہر انسان لازمی طورپر مسائل سے دوچار ہوتا ہے— جان ومال کا نقصان، دوسروں کی طرف سے لائی ہوئی ناخوش گواری، ذہنی تناؤ، مستقبل کے اندیشے، بچوں کی بے راہ روی، حادثہ، بڑھاپا اور آخر میں موت۔
آدمی کے لیے سب سے بڑی پریشانی غالباً یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ یہ سوچتا رہتا ہے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو میرے لیے زیادہ اچھا ہوتا، حالاں کہ یہ صرف ایک فرضی سوچ ہوتی ہے۔ اِسی طرح ہر آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ اپنا مقابلہ اپنے سے کم والوں سے نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنا مقابلہ اپنے سے زیادہ والوں سے کرتا ہے۔ اِس طرح کی چیزیں آدمی کو مسلسل طور پر پریشان رکھتی ہیں۔ وہ خود ساختہ سوچ کے تحت، بے اطمینانی کی زندگی گزارتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اِسی بے اطمینانی کی حالت میں وہ اِس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
جب اس حقیقت کو دیکھا جائے کہ غریب آدمی جس طرح اپنی زندگی کی طرف سے غیر مطمئن ہے اسی طرح امیر آدمی بھی اپنی زندگی کی طرف سے غیر مطمئن ہے توغریبی کی حالت اور امیری کی حالت، دونوں اضافی (relative) معلوم ہونے لگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں سکون کا راز صرف یہ ہے کہ آدمی یہ سمجھ لے کہ جس چیز کو وہ سکون سمجھتا ہے، وہ کبھی اِس دنیا میں ملنے والا نہیں۔ اِس دنیا میں سکون کا راز صرف ایک ہے اور وہ قناعت ہے، یعنی حالتِ موجودہ پر راضی ہو کر زندگی گزارنا۔
واپس اوپر جائیں