Pages

Wednesday, 2 July 2008

Al Risala | July 2008 (الرسالہ،جولائی)

2

- قربِ قیامت کا مسئلہ

8

- امتِ وسَط

9

- شر میں خیر

10

- ہیمرنگ کی زبان

11

- تحقیق کے بغیر

12

- حِلفُ الفُضول

13

- ہر گھر دعوتی مرکز

14

- ٹیلی فون کا دور

15

- فخر، تواضع

16

- ابدی انجام

17

- سر، یہ آپ کے لیے ہے

18

- دعوت الی اللہ کا کام

19

- طوفانِ قیامت

23

- دعوت الی اللہ کے تین دَور

36

- کامیاب زندگی ، ناکام خاتمہ

38

- گنہ گار شخصیت، کم زور شخصیت

39

- کم پر راضی ہونا

40

- خود ساختہ منطق

41

- محبت اور نفرت

42

- جنون درکار ہے

43

- سوال وجواب

45

- خبر نامہ اسلامی مرکز— 186


قربِ قیامت کا مسئلہ

ماہ نامہ الرسالہ کے پچھلے شماروں میں کچھ مضامین شائع ہوئے ہیں۔ یہ مضامین گلوبل وارمنگ (global warming) کے بارے میں ہیں۔ گلوبل وارمنگ ایک نیا ظاہرہ (phenomenon) ہے۔ سائنسی مطالعہ اور مشاہدہ کے ذریعے یہ الارمنگ صورتِ حال سامنے آئی ہے کہ زمین کے درجۂ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اِس کی وجہ سے زمین پر پہلی بار ایک خطرناک صورتِ حال پیش آرہی ہے، ایک ایسی صورتِ حال جو انسان جیسی مخلوق کے لیے زمین کو ناقابلِ رہائش (inhabitable) بنادے۔ سائنس دانوں کا متفقہ طور پر یہ کہنا ہے کہ یہ صورتِ حال ناقابلِ تبدیلی (irreversible) ہے۔یہاںتک کہ سائنسی حلقوں میں اِس طرح کے الفاظ بولے جارہے ہیں کہ — اب قیامت زیادہ دور نہیں:
Doomsday is not far
یہ بات جو سائنس کے حوالے سے الرسالہ میں آئی ہے، وہ قرآن اور حدیث کی پیشین گوئی کے عین مطابق ہے۔ پچھلے مضامین میں ہم، قرآن اور حدیث سے اِس قسم کے حوالے نقل کرچکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بات قرآن اور حدیث میںچودہ سو سال پہلے کہی گئی تھی، وہ اب خود علمِ انسانی کے ذریعے ایک معلوم حقیقت بن گئی ہے۔ یہ بات بے حد سنجیدہ ہے۔ اِس کا تقاضا تھا کہ لوگوں کے دل دہل اٹھیں۔ وہ اپنی توجہات کو دوسری چیزوں سے ہٹا کر آخرت کی طرف لگادیں۔مگر عجیب بات ہے کہ کچھ افراد نے الرسالہ میں چھپنے والی اِن باتوں کا منفی اثر لیا۔ انھوںنے استہزا کے انداز میں کہا کہ الرسالہ والے اب بے عقلی کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ ابھی کیسے قیامت آسکتی ہے۔ ابھی تو دجّال ظاہر نہیں ہوا۔ ابھی تو مسیح آسمان سے نہیں اترے، ابھی تو اللہ، اللہ کہنے والوں کا دنیا سے خاتمہ نہیں ہوا، وغیرہ۔
اس قسم کی باتیں سر تاسر غیر متعلق باتیں ہیں۔ لوگ جن چیزوں کا انتظار کررہے ہیں، وہ کسی ہمالیائی اعلان کے ساتھ نہیں آئیں گی۔ وہ خدائی قانون کے مطابق، التباس (شبہہ) کے پردے میں آئیں گی۔ حتی کہ عین ممکن ہے کہ وہ چیزیں جن کا لوگ انتظار کررہے ہیں، وہ عملاًپیش آچکی ہوں۔ عین ممکن ہے کہ قُربِ قیامت سے پہلے جو کچھ ہونے والا تھا، وہ ہوچکا ہو، مگر چوں کہ قانونِ الٰہی کے مطابق، ہمیشہ سچائی کے ساتھ ایک شبہہ کا عنصر(element of doubt) موجود رہتا ہے (الأنعام: 9 ) اِس لیے ظاہر ہونے کے باوجود لوگ اِن علامتی واقعات کو پہچاننے سے قاصر ہوں۔ عین ممکن ہے کہ لوگ اِسی طرح خود ساختہ انتظار کے خول میں پڑے رہیں اور صورِ اسرافیل کی چنگھاڑ اچانک بلند ہو کر اُن کو یہ خبر دے کہ اب ان کے لیے انتظار کا وقت ختم ہوگیا۔ اب ان کے لیے جو چیز مقدر ہے، وہ صرف حسرت ہے، اور ابدی حسرت۔
سائنس دانوں کے یہ بیانات بلاشبہہ قطعی مشاہدات اور قطعی حسابات (calculations) پر مبنی ہیں۔ اِن مشاہدات پر ان کی واقعیت کے اعتبار سے شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اِن بیانات کو اِسی طرح مستند (authentic) سمجھا جاتا ہے جس طرح زمین اور سورج اور چاند کے بارے میں ان کے حسابات کو مستند سمجھا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں اس کے مقابلے میں صحیح ردِ عمل یہ تھا کہ لوگ اپنے روایتی ماحول سے باہر آکر یہ سوچیں کہ ایسا تو نہیں کہ قرآن اور حدیث میںجس قیامت کی پیشین گوئی کی گئی تھی، واقعتا وہ قریب آگئی ہو۔ ایسا تو نہیں کہ قیامت سے پہلے جن علامتوں کو ظاہر ہونا تھا، واقعتا وہ ظاہر ہوچکی ہوں، اور ہم اپنے خود ساختہ تصورات کی بنا پر اِس کو سمجھنے میں ناکام ہورہے ہوں۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ دوسرے تمام معاملات میں سائنس کے مشاہدات کو وہ درست مانتے ہیں۔ مثلاً چاند گرہن (Lunar eclipse) اور سورج گرہن (Solar eclipse) کے بارے میں سائنس دانوں کی خبر پر کوئی شک نہیں کرتا۔ اِسی طرح چاہیے کہ لوگ قربِ قیامت کے بارے میں سائنس دانوں کے مشاہدات پر بطور واقعہ شک نہ کریں۔ ان کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ سائنس دانوں کے مشاہدات پر شک کرنے کے بجائے خود اپنے روایتی تصورات پر نظر ثانی کریں، وہ سوچیں کہ جن علاماتِ قیامت کے بارے میں وہ بطور خودکراماتی اور معجزاتی نوعیت کے تصورات قائم کئے ہوئے تھے، ہوسکتا ہے کہ اُن کے یہ مفروضہ تصورات بے اصل ہوں، اور ظاہر ہونے والی علامتیں عام واقعات کی طرح اسبابِ عادی کے نقشے میں ظاہر ہوچکی ہوں، اور ہم اپنے خود ساختہ روایتی تصور کی بناپر ان کو پہچاننے سے قاصر ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ وقت خود اپنے ذہن پر نظر ثانی کرنے کا ہے، نہ کہ سائنس کے مشاہدات پر شک کرکے ان کو نظر انداز کرنے کا۔ اِن سائنسی مشاہدات پر بطور واقعہ شک نہیں کیا جاسکتا۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اِن سائنسی مشاہدات کی روشنی میں قرآن اور حدیث کی پیشین گوئیوں پر ازسرِ نو غور کریں۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ بائبل کی پیشین گوئیوں کے مطابق، یہود، پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے منتظر تھے، مگر جب وہ آنے والا آیا تو وہ اس کے منکر بن گئے (البقرۃ: 89 )۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے بطور خود آنے والے کی ایک مفروضہ تصویر اپنے ذہن میں بنارکھی تھی۔ چوں کہ آنے والاان کی مفروضہ ذہنی تصویر پر بظاہر پورا نہیں اترتا تھا، اس لئے انھوں نے انتظار کے باوجود اس کا انکار کردیا ۔ لوگوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ دوبارہ یہود والی غلطی نہ کریں۔ اور اپنے خود ساختہ ذہن پر نظر ثانی کرکے معاملے پر زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور کریں۔ کیوں کہ اس طرح کے معاملے میں غلطی ہمیشہ ناقابلِ تلافی ہوتی ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ قیامت سے پہلے صرف ایک ہی واقعہ اپنی برہنہ صورت میں سامنے آئے گا، اور وہ فرشتہ اسرافیل کا صور پھونکنا ہے۔ اِس ایک واقعہ کے سوا تمام دوسرے علامتی واقعات، التباس کے پردہ میں ظاہر ہوں گے۔ ان کو پہچاننے کا معاملہ ایک آزمائش کا معاملہ ہوگا، نہ کہ صورِ اسرافیل کی طرح برہنہ اظہار کا معاملہ۔موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ امتحان کی دنیا میں حقیقتیں اپنی برہنہ صورت میں سامنے نہیںآتیں۔ حقیقتوں کا عیاناً سامنے آنا صرف اُس وقت ہوگا، جب کہ کشفِ ساق (القلم: 42 ) ہوجائے۔ یہی خدا کا تخلیقی منصوبہ ہے۔ اگر خدا کا منصوبہ یہ ہوتا کہ حقیقت کو عیاناً دکھادیا جائے، تاکہ اُس کو مان کر لوگ جنت میں داخل کیے جائیں، اگر ایسا ہوتا تو خدا، انسان جیسی مخلوق کو پیدا کرکے اِس دنیا میں آباد نہ کرتا۔ ایسی حالت میں وہ صرف فرشتوں کو پیدا کرتا، تاکہ وہ حقیقتوں کو عیاناً دیکھیں اور پھر اُن کی شہادت دے کر ابدی جنتوں میں داخل کردیے جائیں۔
حالیہ سائنسی تحقیقات کے حوالے سے الرسالہ میں جو مضامین شائع ہوئے ہیں، ان کے خلاف منفی ردِّ عمل بلاشبہہ انتہائی حد تک غیر علمی بھی ہے اور غیر مومنانہ بھی۔ اِس کو واضح کرنے کے لیے ہم چند حوالے یہاں نقل کرتے ہیں:
1 - قرآن کی سورہ نمبر 42 میں دو آیتیں آئی ہیں۔ اِن آیتوں کا ترجمہ یہ ہے:
’’اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری اور ترازو بھی۔ اور تم کو کیا خبر، شاید قیامت قریب ہو۔ جو لوگ قیامت کا یقین نہیں رکھتے، وہ اس کی جلدی کررہے ہیں، اور جو لوگ یقین رکھنے والے ہیں، وہ اُس سے ڈرتے ہیں، اور وہ جانتے ہیں کہ وہ برحق ہے۔ یاد رکھو کہ جو لوگ قیامت کے بارے میں بحثیں نکال رہے ہیں، وہ گم راہی میں بہت دور نکل گئے ہیں‘‘ (الشوریٰ: 17-18 )۔
اِس آیت میں بتایا گیا تھا کہ قیامت قریب آگئی ہے۔ یہ آیت چودہ سوسال پہلے نازل ہوئی، مگر لمبی مدت گزرنے کے باوجود ابھی تک قیامت نہیں آئی۔ اِس دوران کسی بھی عالم یا مفسر نے اِس آیت میں دی جانے والی خبر پر شک کا اظہار نہیں کیا، بلکہ وہ اس سے خوف کی غذا لیتے رہے، اور سچے مومن کی یہی پہچان ہے۔ اِس کے برعکس، جو لوگ قریب اور بعید کے نکتے نکال کر اس پر بحثیں کریں، ان کو قرآن میںواضح طورپر گم راہ قرار دیاگیا ہے۔
2 - قرآن کی سورہ نمبر 21 میں ایک آیت وارد ہوئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: ’’لوگوں کے لیے ان کا حساب نزدیک آپہنچا ۔ اور وہ غفلت میںپڑے ہوئے اعراض برت رہے ہیں‘‘ (الأنبیاء:1 )۔
اِس آیت کی تفسیر کے تحت، ایک صحابی کا واقعہ نقل کیا گیا ہے، جو اِس طرح ہے— رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میںسے ایک شخص اپنے گھر کی دیوار بنا رہا تھا۔ اُس دن جس دن کہ یہ سورہ نازل ہوئی، ایک اور صحابی کا وہاں سے گزر ہوا۔ جو شخص دیوار بنا رہا تھا، اُس نے کہا: آج قرآن میں کیا اترا۔ دوسرے صحابی نے جواب دیا کہ: اقترب للناس حسابہم وہم فی غفلۃ معرضون نازل ہوئی۔ یہ سن کر اُس صحابی نے تعمیر کا کام روک دیا، اور کہا کہ خدا کی قسم، اب میں کبھی اِس دیوار کی تعمیر نہیں کروں گا، جب کہ حساب کا وقت قریب آگیا (واللہ لا بنیتُ أبداً وقد اقترب الحساب) القرطبی، جلد 11، صفحہ 266 )
صحابی ٔ رسول کا ذہن اگر وہ ہوتا، جو اِس معاملے میں آج کل کے لوگوں کا ذہن ہے، تو وہ اطمینان کے ساتھ اپنا گھر بناتے رہتے، اور یہ کہتے کہ ابھی تو قیامت بہت دور ہے۔ ابھی تو اس کی فلاں فلاں علامتیں ظاہر نہیں ہوئیں، پھر اِس سے پہلے قیامت کیسے آجائے گی۔
3 - صحابی ٔ رسول انس بن مالک کہتے ہیں کہ :إن کانت الرّیح، فنبادر المسجد مخافۃ القیامۃ (سنن أبی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب: الصلاۃ عند الظلمۃ) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اگر کبھی تیز ہوا بھی چلتی، تو ہم (اصحابِ رسول) دوڑ کر مسجد میں چلے جاتے تھے، اِس ڈر سے کہ کہیں قیامت نہ آگئی ہو۔
اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ رسول کا مزاج کیا تھا۔ اُن کا مزاج، قرآن کی اِس آیت سے بنا تھا: إنہم یرونہ بعیداً، ونراہ قریباً (المعارج: 6-7 ) یعنی لوگ قیامت کو دور سمجھتے ہیں، اور خدا اُس کو قریب دیکھ رہا ہے۔ اِسی طرح ان کی مزاج سازی اِس حدیث رسول سے ہوئی تھی، ألا، کلّ ما ہو اٰتٍ قریب (ابن ماجۃ، مقدمہ) یعنی آگاہ رہو کہ ہر وہ چیز جو آنے والی ہے، وہ بالکل قریب ہے۔
اصحابِ رسول کا مزاج اگر وہ ہوتا جو آج کل کے لوگوں کا مزاج ہے، تو ’’آندھی‘‘ کو دیکھ کر وہ یہ کہتے کہ ابھی قیامت کہاں۔ ابھی تو وہ تمام نشانیاں ظاہر نہیں ہوئیں، جو قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی ہیں۔ مثلاً دجال کا ظاہر ہونا، مہدی کا پیداہونا، اور مسیح کا آسمان سے اترنا، وغیرہ۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ صحابہ، اسلام میں ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس لیے یقین کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ موجودہ زمانے کے لوگوں کا ذہن صحیح ذہن نہیں، کیوں کہ وہ صحابہ کے ذہن کے خلاف ہے۔
مصر کے مشہور عالم محمد بن احمد ابو زہرہ (وفات: 1974 ) نے نزولِ مسیح کی روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ : أنَّہا أحادیث اٰحاد، ولیست متواترۃ، لم تشتہر قطّ إلاّ بعد القرون الثلاثۃ الأولیٰ (مجلّۃ: ’’لواء الإسلام‘‘ اپریل 1963 ، صفحہ 261؛ بحوالہ: ’’المسیحیّۃ‘‘ (1998)، صفحہ: 66 ، الدکتور أحمد شَلَبِی) یعنی یہ حدیثیں روایاتِ آحاد پر مبنی ہیں، وہ متواتر روایتیں نہیں۔ وہ صرف ابتدائی تین صدیوں کے بعد لوگوں کے درمیان پھیلیں۔
یہ بات بے حد اہم ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں لوگوں کو ان روایتوں کی خبر ہی نہ تھی۔ اگر اُس زمانے کے لوگ اِن روایتوں سے باخبر ہوتے، تو ضرور ایسا ہوتا کہ آج کے لوگ اِس معاملے میں جس طرح کی بحثیں نکال رہے ہیں، یہ بحثیں دورِ اوّل ہی میں ظاہر ہوچکی ہوتیں۔ جیسا کہ معلوم ہے، صحابہ اور تابعین کثرت سے لوگوں کو قربِ قیامت سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ اگر اُس زمانے کے لوگ نزولِ مسیح جیسی روایتوں سے باخبر ہوتے، تو صحابہ اور تابعین کے زمانے کے لوگ ضرور یہ کہتے کہ آپ جس قیامت کے قریب ہونے کی خبر دے رہے ہیں، وہ تو ابھی بہت دور ہے۔ کیوں کہ اس کی علامتیں ابھی تک ظاہر نہیں ہوئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قربِ قیامت کی جو علامتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں، وہ بجائے خود درست ہیں۔ لیکن بعد کے زمانے میں قصّاص (story tellers) نے اُس میں پُر عجوبہ باتوں کے اضافے کردیے۔ یہ اضافے چوں کہ عربی زبان میںتھے، اِس لیے لوگ اُن کو اصل روایت کا حصہ سمجھنے لگے۔ اُس زمانے میں کتابت کا رواج بہت کم تھا۔ زیادہ تر باتیں زبانی طورپر دہرائی جاتی تھیں، اِس لیے یہ اضافے نہایت آسانی کے ساتھ روایات کا جز بن گئے۔
اِس معاملے میں آخری بات یہ ہے کہ اِس قسم کی پیشین گوئی ہمیشہ تمثیل کی زبان میںہوتی ہے، وہ تصریحات اور تعینات کی زبان میںنہیں ہوتی۔ اور جو چیز تمثیل کی زبان میں ہو، اس کو محض لفظی طور پر لے کر اس کا مطلب سمجھا نہیں جاسکتا، بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ اپنی عقل کو استعمال کیا جائے، تاکہ سطور (lines) کے ماورا جو بین السطور (between the lines) ہے، اس کو سمجھا جاسکے۔ یہی معاملہ علامات قیامت کی روایات کا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دجال اور مسیح کی پیشین گوئیاں تمثیل کی زبان میں ہیں۔ جب تک اِس حقیقت کو ذہن میں نہ رکھا جائے، اِن روایتوں کو سمجھنا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

امتِ وسَط

قرآن کی سورہ نمبر 2 میں ایک آیت ہے۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں: وکذٰلک جعلناکم أمّۃً وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس، ویکون الرّسول علیکم شہیداً (البقرۃ:143 ) یعنی اِس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنادیا، تاکہ تم گواہ بنو لوگوں کے اوپر، اور رسول گواہ بنے تمھارے اوپر۔
وسَط کے لفظی معنٰی ہیں— بیچ، دو طرفوں کے درمیان(بین طرفی الشییٔ)۔ امتِ وسط کا مطلب ہے— بیچ کی امت(middle community) ۔ آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں مسلمانوں کی داعیانہ حیثیت کا ذکر ہے۔ خدا کا دین اُن کو خدا کے رسول کے ذریعے ملا ہے۔ اب ان کا فرض ہے کہ وہ اِس دین کو ہر دور اور ہر نسل میں پہنچاتے رہیں۔ اِس آیت میں شہید (گواہ) سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں داعی کہاجاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ ہر نبی کی امت کی یہ ذمے داری تھی کہ جس سچائی کو اُس نے خداکے پیغمبر کے ذریعے پایا ہے، اُس سچائی کو وہ دوسرے انسانوں تک پہنچائے۔ قدیم اہلِ کتاب کی بھی یہی ذمے داری تھی، جس کو قرآن میں تبیین (آلِ عمران: 187 ) کہاگیا ہے۔
یہ تبیین، یا دعوت، یا شہادت نہ کوئی پُراسرار (mysterious) چیز ہے، اور نہ وہ کوئی فضیلت کی چیز ہے۔ یہ صرف ایک دعوتی ذمے داری ہے، اور بلا شبہہ دعوتی ذمے داری سے زیادہ بڑی ذمے داری اور کوئی نہیں۔ امتِ محمدی سے یہ دعوتی ذمے داری مزید اضافے کے ساتھ مطلوب ہے۔ کیوں کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت آخری پیغمبر کی تھی۔ آپ کے بعد اب کوئی، اور پیغمبر آنے والا نہیں۔ اِس لیے امتِ محمدی کی ہر نسل کو قیامت تک ہر دور میں اپنے معاصرین کے درمیان اِس دعوتی ذمّے داری کو ادا کرنا ہے۔ یہ ہر مسلم فرد کی ذمے داری ہے جس کو اُسے ترجیح (priority) کی بنیاد پر انجام دینا ہے۔ اِس دعوتی کام کا معیار یہ ہے کہ وہ قولِ بلیغ (النساء: 63 ) کی زبان میں ادا کی جائے، یعنی ایسا قول جو مدعو کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو۔
واپس اوپر جائیں

شر میں خیر

قرآن کی سورہ نمبر 24 کی ایک آیت اِن الفاظ میںآئی ہے: لا تحسبوہ شراًّ لکم بل ہو خیرٌ لکم (النّور:11 ) یعنی تم اس کو اپنے حق میںبُرا نہ سمجھو، بلکہ وہ تمھارے حق میں بہتر ہے:
Do not regard it a bad thing for you; may be it is good for you.
یہ آیت قرآن میں ایک مخصوص سیاق(particular reference) میںآئی ہے، لیکن اس کا ایک عمومی مفہوم (general application) بھی ہے، اِس عمومی مفہوم کے اعتبار سے اِس آیت میںہر انسان کے لیے سبق ہے۔ ہر انسان غور کرکے اُس سے اپنی زندگی کے لیے سبق لے سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں فطرت کا ایک عام قانون بتایا گیاہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ اِس دنیا میں کسی کے ساتھ کوئی منفی واقعہ پیش آئے، تو وہ اس کے لیے کُلّی طورپر بُرا نہیں ہوتا۔ یہ دراصل آدمی کا اپنا رویہ ہے جو کسی واقعے کو اُس کے لیے برا واقعہ بنا دیتا ہے۔
جب کوئی منفی واقعہ کسی کے ساتھ پیش آئے تووہ اس کے صبر کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے۔اگر آدمی صبر سے کام لے، وہ جوابی نفسیات کا شکار نہ ہو، بلکہ اپنے ذہن کو اشتعال سے بچاتے ہوئے معاملے کا بے لاگ جائزہ لے، اور غیر متاثر ذہن کے ساتھ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ اگر وہ ایسا کرسکے، تو وہ دیکھے گا کہ جو چیز بظاہر اس کے لیے بُری تھی، وہ اس کے لیے اچھے نتیجے کا سبب بن گئی۔
فطرت کے قانون کے مطابق، کوئی بھی شخص آپ کو نقصان پہنچانے کی طاقت نہیںرکھتا۔ یہ آپ کا اپنا رد عمل ہے جو آپ کے لیے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ اپنے آپ کو درست راستے پر رکھیے، اور پھر کوئی بھی چیز یا کوئی بھی شخص آپ کے لیے نقصان کا باعث نہیں بنے گا۔موجودہ دنیا ناموافق تجربات سے بھری ہوئی ہے، ٹھیک اُسی طرح جیسے پھول کی ایک شاخ کانٹوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں عقل مندی یہ ہے کہ آدمی، ناموافق بات کو نظر انداز کرے، اور موافق پہلو کو تلاش کرکے اس کو استعمال کرے۔ یہی طریقہ فطرت کے مطابق ہے، اور یہی طریقہ کسی شخص کی کامیابی کا ضامن ہوسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہیمرنگکی زبان

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت کے ابتدائی تیرہ سال تک مکہ میں رہے، اس کے بعد آپ مدینہ چلے گئے اور آخر وقت تک وہیں رہے۔ پہلے دور کو مکی دور کہاجاتا ہے اور دوسرے دور کو مدنی دور۔ قرآن کی سورہ نمبر 109 (الکافرون) کا آغاز اِن الفاظ سے ہوا تھا: قل یاأیّہا الکافرون (کہوکہ اے کافرو)۔ اِس خطاب کے بعد سورہ میں فرمایا گیا تھا کہ: ولا أنتم عابدون ما أعبد (تم اس کی عبادت نہیں کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتاہوں)۔
مذکورہ خطاب ثابت شدہ طورپر قدیم اہلِ مکہ سے تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اِس کے تقریباً آٹھ سال بعد مکہ فتح ہوا، اور مکہ کے تمام لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ یہی واقعہ ہے جس کو قرآن کی سورہ نمبر 110 میںاِن الفاظ میں بیان کیاگیا: إذا جاء نصر اللہ والفتح، ورأیت الناس یدخلون فی دین اللہ أفواجاً (النّصر: 1-2 )یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے، اور تم دیکھو کہ لوگ، فوج در فوج، خدا کے دین میں داخل ہورہے ہیں۔
یہاں یہ سوال ہے کہ جب مکہ کے تمام لوگ آئندہ مومن اور مسلم بننے والے تھے تو ان کو ’’کافر‘‘ کے لفظ سے کیوں خطاب کیاگیا، اور کیوں یہ کہاگیا کہ تم لوگ خدا کی عبادت کرنے والے لوگ نہیں ہو، حالاں کہ خدائے عالم الغیب کو اِس ہونے والے واقعے کا پورا علم تھا۔
اِس فرق کا سبب یہ تھا کہ یہاں قانون کی زبان استعمال نہیں کی گئی ہے، بلکہ ہیمرنگ کی زبان (language of hammering) استعمال کی گئی ہے۔ ہیمرنگ کی زبان قانون اور منطق کی زبان نہیں ہوتی۔ اُس میں شدتِ کلام کااسلوب اختیار کیا جاتاہے۔ مذکورہ الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم نے پیغمبر کی بات نہیں مانی، تو خدا کی نظر میں تم ’’کافر‘‘ قرار پاؤ گے اور آخر کار جہنم کے مستحق ٹھہروگے۔ گویا کہ تشدید کی زبان میں یہ ایمان کی دعوت تھی، نہ کہ ان کے کفر کا اعلان۔اگر یہ ان کے کفر کا اعلان ہوتا، تو فتحِ مکہ کے بعد وہ تمام لوگ جوق درجوق خدا کے دین میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔
واپس اوپر جائیں

تحقیق کے بغیر

24 اپریل 2008 کو ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ وہ نہایت جو ش کے ساتھ بول رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ماہ نامہ الرسالہ (اپریل 2008 ) میںایک مضمون چھپا ہے۔ اُس کا عنوان ہے— سفارش نہیں، استحقاق(صفحہ: 3 )۔ اِس مضمون میںآپ نے یہ کہا ہے کہ جنت کسی کو صرف استحقاق کی بنیاد پر ملے گی، نہ کہ سفارش کی بنیاد پر۔ انھوںنے کہاکہ آپ نے ایسا کیسے لکھ دیا،حالاں کہ حدیث میں آیا ہے: یشفع یومَ القیامۃ ثلاثۃ: الأنبیاء، ثمّ العلماء، ثم الشہداء (ابن ماجہ، کتاب الزہد) یعنی قیامت کے دن تین لوگ شفاعت کریں گے— انبیاء، علماء اور شہداء۔
اِس روایت کو علماء نے موضوع (fabricated)قرار دیا ہے۔ مشکاۃ المصابیح (رقم الحدیث: 5611) میں مشہور محدث محمد ناصر الدین الالبانی (وفات: 1999 ) نے اِس حدیث کے تحت حاشیے میں یہ الفاظ لکھے ہیں:
حدیث موضوع، فی سندہ عنبسۃ بن عبد الرحمن. قال أبو حاتم: کان یضع الحدیث (صفحہ: 1561) یعنی یہ حدیث موضوع ہے۔ اِس کی سند میں عنبسہ بن عبد الرحمن ہے۔ ابوحاتم نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ حدیث وضع کرتا تھا۔
لوگ عام طورپر ایسا کرتے ہیں کہ وہ خطیبوں اور واعظوں کی زبان سے ’’حدیث‘‘ سنتے ہیں۔ چوں کہ یہ حدیث عربی الفاظ میںہوتی ہے، اِس لیے لوگ اس کو قولِ رسول سمجھ لیتے ہیں اور اس کو بطور قولِ رسول بیان کرنے لگتے ہیں، مگر یہ طریقہ درست نہیں۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی جب کسی بات کو سنے، تو وہ اُس کی تحقیق کرے۔ تحقیق کے بغیر کسی بات کا چرچا شروع کردینا، ایک خطرناک عادت ہے۔ اِسی قسم کی عادت کے بارے میں حدیث میں آیا ہے: کفیٰ بالمرئِ کذبا أن یحدِّث بکلّ ما سمع (صحیح مسلم بحوالہ: مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 156 ) یعنی کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے صرف یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو دوسروں کے سامنے بیان کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں

حِلفُ الفُضول

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تقریبا بیس سال پہلے مکہ میںایک واقعہ ہوا۔ یمن سے ایک شخص مکہ آیا۔ اُس نے اپنا کچھ تجارتی سامان مکہ کے ایک شخص عاص بن وائل سہمی کے ہاتھ فروخت کیا۔ عاص بن وائل نے سامان لیا، لیکن اس کی پوری قیمت ادا نہ کی۔
یہ واقعہ مکہ کی روایات (traditions) کے خلاف تھا۔ جب مکہ والوں کو اِس کا علم ہوا، تو لوگوں نے اس کو بہت بُرا مانا۔ مکہ کے کچھ سربرآوردہ افراد عبد اللہ بن جُدعان کے مکان پر اکھٹا ہوئے۔ انھوں نے اِس واقعے پر اپنی برہمی کا اظہار کیا۔ پھر انھوںنے ایک معاہدہ کیا۔ اِس معاہدے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک تھے۔ اس معاہدے کو تاریخ میں حلف الفضول کہاجاتا ہے۔ اِس معاہدے کے متعلق، روایات میں بتایا گیا ہے کہ: فتعاقدوا وتعاہدوا باللہ لیکونُنَّ یداً واحدۃً مع المظلوم علی الظالم حتّٰی یؤدّی إلیہ حقہ (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، جلد 1، صفحہ 259 )یعنی انھوں نے خداکا نام لے کر ایک دوسرے کے ساتھ یہ عہد کیا کہ وہ متحد ہو کر ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کریںگے اور حق دار کو اس کا حق دلوائیں گے۔
یہ معاہدہ موجودہ اصطلاح کے مطابق، سوشل سروس، یا خدمتِ خَلق کا معاہدہ نہ تھا، بلکہ وہ دادرسی اور نصرتِ مظلوم کا معاہدہ تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ مکہ میں ظلم اور حق تلفی کے کسی معاملے کو برداشت نہیںکیا جائے گا۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوگا، تو مکہ کے سربرآوردہ افراد موقع پر پہنچیں گے اور ظالم کو مجبور کریں گے کہ وہ اپنے ظلم سے باز آئے، وہ غاصب کو مجبور کریں گے کہ وہ غصب کا مال اُس کے مغصوب کے حوالے کرے۔
حلف الفضول سے یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے میںداد رسی کی اسپرٹ ہونا چاہیے۔ لوگوں کے اندر یہ طاقت ور جذبہ ہونا چاہیے کہ وہ کسی بے انصافی کو برداشت نہ کریں، اور عملاً اُس میں دخل دے کر پُر امن دباؤ کے ذریعے اس کا خاتمہ کر دیں۔
واپس اوپر جائیں

ہر گھر دعوتی مرکز

حضرت موسیٰ کا زمانہ پندرھویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے، یعنی اب سے تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا زمانہ۔ وہ قدیم مصر میں پیغمبر بنائے گئے۔ اُس وقت مصر میں بنی اسرائیل چند لاکھ کی تعداد میں آباد تھے۔ وہ گویا اُس زمانے کے اہلِ ایمان تھے۔ اُس وقت بنی اسرائیل کو ایک حکم دیاگیا، جو قرآن میںاِن الفاظ میںآیاہے: اجعلوا بیوتکم قبلۃ (یونس: 87 ) یعنی تم اپنے گھروں کو قبلہ بنالو۔ ’’اپنے گھروں کو قبلہ بنالو‘‘ کا حکم دینے کا مطلب یہ تھا کہ اگر میکسمم (maximum) صورت ممکن نہ ہو، تو مینمم (minimum) صورت تو ہر حال میں ممکن ہوتی ہے، اور تم کو اِس حکمت کو اختیار کرنا چاہیے۔
قبلہ اُس مرکزی جگہ کو کہتے ہیں، جس کی طرف توجہ کی جائے۔ جولوگوں کے لیے فوکس آف اٹنشن (focus of attention) یا سنٹر آف اٹنشن (centre of attention) کی حیثیت رکھتا ہو۔ اُس وقت کے حالات میں اِس کا مطلب یہ تھا کہ اپنے گھروں کو اپنے لیے دعوتی اور تربیتی عمل کا مرکز بنالو۔
یہ ایک تدبیر تھی، اور یہ تدبیر ہر زمانے میںاورہر مقام پر مطلوب ہے۔ موجودہ زمانے میں بھی ہمیں دعوتی عمل کو مستحکم کرنے کے لیے یہی کام کرنا ہے۔ وہ تمام لوگ جو کہ دعوت الی اللہ کاکام کرناچاہتے ہیں، اُن پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ اُن میں سے ہر ایک اپنے اپنے مقام پر اِس قسم کا ’’قبلہ‘‘ بنائے۔ گھروں کو قبلہ بنانے کا حکم جو بنی اسرائیل کو دیاگیا، وہ گویا کہ اِس معاملے کی آخری ممکن صورت تھی۔ بلاشبہہ یہ ایک ایسی صورت تھی، جو ہر ایک کے لیے اور ہمیشہ ممکن ہوتی ہے۔
موجودہ زمانے میں اِس کی بہترین صورت یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے مقام پر لائبریری کے نام سے ایک جگہ بنائے، خواہ اپنے گھر کے اندر، یا اپنے گھر کے باہر ۔ حتی کہ اگر کسی کے پاس ایک کمرے کا گھر ہو، تب بھی وہ اس کے ایک حصے میں کتابوں کی الماری کھڑی کرکے اس کو لائبریری کی صورت دے سکتا ہے۔ یہ لائبریری عملاً دعوت اور تربیت کا ایک مرکز ہوگی۔ ضرورت ہے کہ اِس طرح کے مراکز ِ دعوت ہر جگہ قائم کیے جائیں۔
واپس اوپر جائیں

ٹیلی فون کا دور

21 مئی 2008 کو ماہ نامہ الرسالہ کے ایک قاری کا ٹیلی فون آیا۔ انھوںنے کہا کہ میں برسوں سے الرسالہ کا مطالعہ کرتا ہوں اور اُس کے پیغام سے پوری طرح اتفاق رکھتا ہوں۔ ایک مسئلہ میرے سامنے آگیا ہے، اس میںآپ کی رہ نمائی چاہتا ہوں۔ میرے والد صاحب کا اصرار ہے کہ اِس سال میںحج کے لیے جاؤں۔ وہ میرے سفرِ حج کی پوری رقم دینے کے لیے تیار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ گھر کے دوسرے افراد سب حج کرچکے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ تم بھی میری زندگی میں حج کرلو۔ کیا معلوم میرے بعد کیا ہو۔
انھوںنے کہا: لیکن مجھے ابھی اِس پیش کش کو قبول کرنے میں تردد ہے۔ جلد ہی میرا نکاح ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اور میری اہلیہ دونوں، ایک ساتھ حج کی سعادت حاصل کریں۔ میںنے پوچھا: کیا آپ کے پاس اتنی رقم ہے کہ آپ دونوں ایک ساتھ حج کرسکیں۔ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میںنے کہا کہ پھر یہ کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے کہ آپ ایک مفروضہ بات کو لے کر ایک حقیقی پیش کش کو رد کردیں، جب کہ مستقبل کے بارے میں کوئی بھی شخص کوئی یقینی بات نہیں کہہ سکتا۔ میںنے کہا کہ زندگی کا ایک اصول یہ ہے کہ — کوئی موقع(opportunity) ملے، تو اس کو فوراً استعمال (avail) کرو، کیوں کہ موقع بار بار نہیں آتا۔انھوںنے کہا کہ آپ کی نصیحت بالکل درست ہے اور میں ان شاء اللہ ایسا ہی کروں گا۔
موجودہ زمانے میں ایک نئی سہولت پیدا ہوئی ہے جس کو ٹیلی فون کہاجاتا ہے۔ میںسمجھتا ہوں کہ جو لوگ ماہ نامہ الرسالہ پڑھتے ہیں، اُن کو اِس سہولت کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ میرا تجربہ ہے کہ صرف الرسالہ، یا کتاب کو پڑھنا کافی نہیں ہوتا۔ ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے بعد براہِ راست مشورہ اور ڈسکشن کیاجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیلی فون موجودہ زمانے میں صحبت کا بدل ہے۔ ٹیلی فون کے ذریعے صحبت کا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ الرسالہ کے قارئین کو ٹیلی فون کے ذریعے یہ صحبت کلچر جاری کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

فخر، تواضع

فخر تمام برائیوں کی جڑ ہے، اور تواضع تمام خوبیوں کا سرچشمہ۔ کسی آدمی کو پہچاننا ہو، تو اِنھیں دو چیزوں کے ذریعے اس کی شخصیت کو پہچانا جاسکتا ہے۔ جس آدمی کے اندر فخر کی نفسیات ہو، وہ ہر اعتبار سے ایک غیر مطلوب شخصیت کا حامل ہوگا، اور جس آدمی کے اندر تواضع کی نفسیات ہو، اس کی شخصیت کے اندر تمام مطلوب اوصاف پائے جائیںگے۔
جس سماج میں لوگ فخر والا مزاج رکھتے ہوں، وہ سماج منفی نفسیات کا جنگل ہوگا۔ فطرت کے نظام کے تحت، ہر سماج میںکچھ لوگ چھوٹے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ بڑے۔ اب ایسے سماج میں یہ ہوگا کہ ایک شخص جس آدمی کو اپنے سے کم پائے گا، اس کو وہ حقیر سمجھ لے گا، اور جس آدمی کو وہ اپنے سے زیادہ دیکھے گا، اس کے بارے میں وہ حسد اور جلن کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے گا۔ ایسے سماج میں کوئی بھی شخص معتدل نفسیات کا حامل نظر نہیں آئے گا۔
اِس کے برعکس معاملہ تواضع (modesty) کا ہے۔ جس آدمی کے اندر تواضع کی نفسیات پائی جائے، اس کا حال یہ ہوگا کہ وہ ہر چیز کو خدا کی نسبت سے دیکھے گا، نہ کہ انسان کی نسبت سے۔ اس کو چھوٹا آدمی بھی ایک انسان نظر آئے گا، اور بڑا آدمی بھی ایک انسان۔ وہ لوگوں کو انسان بمقابلہ انسان (man versus man)کی نظر سے نہیںدیکھے گا،بلکہ وہ لوگوں کو انسان بمقابلہ خدا (man versus God) کی نظر سے دیکھے گا۔ یہ مزاج اس کے اندر سے کبر اور حسد جیسی نفسیات کا خاتمہ کردے گا۔ وہ اِس کو سب سے بڑا کام سمجھے گا کہ وہ اپنا بے لاگ جائزہ لے کر اپنی کمیوں کو جانے اور ان کی اصلاح کرے، وہ اپنا محاسبہ (introspection) کرکے اپنی ذمے داریوں کو جانے اور ان کو پورا کرے۔
تواضع در اصل حقیقت کے اعتراف (acknowledgement)کا دوسرا نام ہے، اور فخر حقیقت کے انکار کا دوسرا نام۔ اِس دنیا میں حقیقت کا اعتراف تمام خوبیوں کا سرچشمہ ہے، اور حقیقت کا انکار تمام برائیوں کا سرچشمہ۔
واپس اوپر جائیں

ابدی انجام

موجودہ دنیا میں ہر آدمی غلطیاں کرتا ہے، پھر وہ دیکھتا ہے کہ ہر غلطی کے بعد ایسے حالات پیداہوئے کہ اس نے اپنی غلطی کو درست کرلیا اور غلطی کرنے کے باوجود وہ غلطی کے بُرے انجام سے بچ گیا۔یہ واقعہ ہر آدمی کے ساتھ پیش آرہا ہے۔ ہر آدمی اِس کو اپنی زندگی میں، یا دوسروں کی زندگی میں روزانہ دیکھتا ہے۔
اِس عمومی تجربے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی غلطی کو ایک قابلِ تلافی خطا (compensating error) سمجھ لیتا ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ حتمی معنوں میں غلطی کوئی مہلک (fatal) چیز نہیں۔ غلطی وقتی طورپر ضرور نقصان پہنچاتی ہے، لیکن جلد ہی کسی نہ کسی طورپر غلطی کی تلافی ہوجاتی ہے، اور پھر زندگی اپنے معمول پر آجاتی ہے۔
اِس صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان آخرت کے معاملے کو بھی دنیا کے معاملے پر قیاس کرنے لگتا ہے۔ وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ غلطی کے انجام کے معاملے میں جو کچھ دنیا میں پیش آرہا ہے، وہی آخرت میں بھی پیش آئے گا۔ اِسی نفسیات کا یہ نتیجہ تھا کہ کچھ لوگوں نے آخرت کو مانتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ: لن تمسّنا النّار إلاّ أیّاماً معدودۃ (البقرۃ: 80 )-
یہ صورتِ حال ہر عورت اور مرد کے لیے سخت آزمائش ہے۔ اِس دنیا میں ہر عورت اور رمرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ کھلے ذہن کے تحت سوچے اور آخرت کی پکڑ کے معاملے کو اُس کی اصل نوعیت کے اعتبار سے دریافت کرے۔ ہر عورت اور مرد کو یہ جاننا چاہیے کہ آخرت کا معاملہ دنیا کے معاملے سے بالکل مختلف ہے۔ موت کے بعد ہر ایک کو ایک ایسی ابدی دنیا میں داخل ہونا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوگی، جہاں ہر آدمی اکیلا ہوگا، جہاں تلافی ٔ مافات کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ آخرت کی دنیا میں داخل ہونے کے بعد ہر آدمی کو بہر حال اپنے عمل کے انجام کو بھگتنا ہے۔ آخرت کی دنیا میں داخل ہونے کے بعد ہر آدمی اپنے آپ کو یا تو ابدی جنت میں پائے گا، یا ابدی جہنم میں۔
واپس اوپر جائیں

سر، یہ آپ کے لیے ہے

ہمارے یہاں سے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر بڑی تعداد میں دو ورقہ، یا کتابچے (brochures) چھاپے گئے ہیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ اِن کتابچوں (brochures) کو رکھتے ہیں۔ جب بھی کوئی شخص، کہیں ان کو ملتا ہے، تو وہ یہ کہتے ہوئے کتابچہ اس کو پیش کردیتے ہیں— سر،یہ آپ کے لیے ہے:
Sir, this is for you.
انھوں نے بتایا کہ جب بھی وہ کسی کو ایسا کتابچہ پیش کرتے ہیں، تو وہ نہایت خوشی کے ساتھ اُس کو لے لیتا ہے اور پڑھنے لگتا ہے۔ یہ بلاشبہہ دعوت کا نہایت آسان طریقہ ہے۔ ہر آدمی نہایت آسانی کے ساتھ اِس طریقے کو اختیار کرسکتا ہے۔ آپ خواہ سفر میں ہوں، یا حضر میں، ہر وقت کسی سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے۔ ہر وقت کسی سے آپ کو سابقہ پیش آتا ہے۔ ایسا ہر لمحہ آپ کو یہ موقع دیتا ہے کہ آپ اُس لمحے کو دعوت الی اللہ کے کام کے لیے استعمال کریں۔
موجودہ زمانے میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے یہ دعوتی موقع ہمارے لیے فراہم کیا ہے۔ اِسی کے ساتھ موجوہ زمانے میں انٹریکشن (interaction) بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ہر جگہ اور ہر وقت کوئی نہ کوئی شخص آپ کو مل سکتا ہے، جس کو آپ ایک چھپا ہوا خوب صورت دعوتی کتابچہ پیش کرکے دعوت کے فرض کو انجام دے سکیں۔
دعوتی عمل کوئی مصنوعی عمل نہیں، وہ ایک فطری عمل ہے۔ روزانہ اپنی معمول کی زندگی کے ساتھ آپ دعوتی عمل کرسکتے ہیں۔ دعوتی موضوعات پر چھوٹے چھوٹے کتابچوں کی اشاعت نے ہر ایک کے لیے دعوت الی اللہ کے کام کو بہت زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ اِس امکان کو استعمال کرے۔ ہر شخص اِن کتابچوں کو اپنے ساتھ رکھے، اور موقع کی مناسبت سے وہ اُس کو لوگوں تک پہنچاتا رہے۔ یہ عمل مسلسل جاری رکھنا ہے، یہاں تک کہ تمام لوگوں تک سچائی کا پیغام پہنچ جائے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت الی اللہ کا کام

موجودہ زمانہ دعوت الی اللہ کے کام کے لیے انتہائی حد تک موافق زمانہ ہے۔ آج ہر جگہ مذہبی آزادی (religious freedom) کا ماحول ہے۔ کمیونکیشن کی سہولتیں اعلیٰ درجے میں حاصل ہیں۔ موثّر دعوتی لٹریچر چھپا ہوا موجود ہے۔ ایسی حالت میں کسی بھی شخص کے لیے کوئی عذر (excuse) باقی نہیں رہا۔کوئی بھی عورت یا مرد یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکتا کہ وہ دعوت کا کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، اِس لیے اُس نے دعوت کاکام نہیں کیا۔
آج دعوت کاکام کرنے کے لیے اِس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ اپنے کاموںکوچھوڑ کر، تمام ضروری مضامین کا مطالعہ کریں اور پھر اپنے اندر اعلیٰ علمی استعداد پیدا کریں اور پھر دعوت کا کام کریں۔ اب آپ کی طرف سے یہ کام کیا جاچکا ہے۔ آپ اپنی زندگی کے نقشے میںکوئی تبدیلی کیے بغیر دعوت کے کام کو اپنی زندگی کا جُز بنا سکتے ہیں اور دعوت کی ذمے داریوں کو بخوبی طورپر اداکرسکتے ہیں۔
آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ آپ الرسالہ کے دعوتی مشن میںشامل ہوجائیں۔ اِس مشن کے تحت مختلف زبانوں میں طاقت ور لٹریچر شائع کیا جاچکا ہے۔ آپ اِس لٹریچر کو حاصل کریں۔ اس کو ہر جگہ اپنے ساتھ رکھیں، اور جب بھی کسی شخص سے آپ کی ملاقات ہو، توآپ اس کو یہ کہہ کر پیش کردیں کہ — جناب، یہ آپ کے لیے ہے:
Sir, this is for you!
آپ اِس لٹریچرکو اپنے آفس میں، اپنی دکان میں، اور اپنے ادارے میں نمایاں مقام پر رکھ دیں۔ آنے والے لوگ خود ہی اس کو لے لیں گے اور شوق سے اس کا مطالعہ کریںگے۔ یہ زمانے کا تقاضا ہے، اور ہمیں چاہیے کہ ہم اِس تقاضے کو دعوت الی اللہ کے کام کے لیے استعمال کریں۔ زمانے نے اپنا کام کردیا ہے، اب ہماری ذمے داری ہے کہ ہم جدید امکانات (opportunities)کو پہچانیں اور اس کو بھر پور طور پر استعمال کریں۔
واپس اوپر جائیں

طوفانِ قیامت

گلوبل وارمنگ (global warming) موجودہ زمانے میں سب سے بڑا عالمی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ سائنسی جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ زمین پر لائف سپورٹ سسٹم کی صورت میں جو متوازن نظام قائم تھا، وہ تیزی سے ٹوٹ رہا ہے۔سخت اندیشہ ہے کہ جلد ہی وہ وقت آجائے جب کہ زمین پر زندہ رہنے کے لیے کچھ بھی باقی نہ رہے۔
اِس آنے والے ہول ناک دور کے لیے پیشگی طورپر مختلف قسم کی تدبیریں کی جارہی ہیں۔ اِن میں سے ایک تدبیر یہ ہے کہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی (climatic change) کے نتیجے میں اگر ایسا ہو کہ غذا کے لیے استعمال ہونے والی فصلیں زمین کی سطح سے نابود ہوجائیں، تو دوبارہ ان کی کاشت کرکے غذا کی ضرورت پوری کی جاسکے۔ اِس مقصد کے لیے ناروے (Norway) میںمختلف قسم کے بیجوں (seeds) کا محفوظ گودام بنایاگیاہے۔ اس کا افتتاح 26 فروری 2008 کوکیا گیا۔ اِس تقریب کے موقع پر بڑی بڑی عالمی شخصیتیں وہاں موجود تھیں۔ مثلاً یورپین کمیشن کے پریزڈنٹ یوسے مینول(Jose Manuel Baroso) اور نوبل انعام یافتہ ماہر ماحولیات (environmentalist) وینگر(Wangari Matai) ، وغیرہ۔ اِس واقعے کی رپورٹ مختلف اخبارات میں آئی ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (26 فر وری 2008 ) میں یہ رپورٹ اِس عنوان کے تحت چھپی ہے:
‘Doomsday Vault’ Comes to Life
یعنی روزِ قیامت کے لیے حفاظتی گودام تیار ہوگیا۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ فصلوں کی عمومی تباہی کے اندیشے کی بنا پر ناروے کے جزیرہ (Svalbard) میں ایک پہاڑ کے اوپر عالمی بیج گودام (Global Seed Vault) بنایاگیا ہے۔ یہ مقام قطب شمالی (North Pole) سے ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں اونچے پہاڑ کے اوپر تین وسیع ائرکنڈیشنڈ کمرے (spacious cold chambers) بنائے گئے ہیں۔ اِن حفاظتی کمروں میں دنیا بھر کے دو لاکھ پچاس ہزار قسم کے مختلف بیجوں کے نمونے (samples) رکھے گئے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے ایک عالمی تنظیم (Global Crop Diversity Trust) بنائی گئی ہے۔
مذکورہ خبر مشہور نیوز ایجنسی اے پی ایف (APF) کے حوالے سے میڈیا میںآئی ہے۔ اِس رپورٹ کا آغاز اِن الفاظ کے ساتھ کیاگیا ہے— ناروے کا منصوبہ ہے کہ وہ انسان کے لیے نوح جیسی ایک غذائی کشتی فراہم کرے، تاکہ وہ آنے والی عالمی مصیبت سے اپنے آپ کو بچا سکے:
Longyearbyen (Norway): Aimed at providing mankind with a Noah’s Ark of food in the event of a global catastrophe, and Arctic “Doomsday Vault” filled with samples of important seeds. (p.21)
مگرزیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ناروے میں پہاڑ کے اوپر بنائے جانے والے غذائی گودام کو سفینۂ نوح (Noah’s Ark) کے معاملے سے تشبیہہ دینے کے بجائے نوح کے بیٹے کنعان کے معاملے سے تشبیہ دی جائے۔ قرآن میںبتایا گیا ہے کہ پیغمبر نوح کے آخری زمانے میں جب عمومی سیلاب آیا، تو پیغمبر نوح کے باغی بیٹے کنعان نے کہا کہ میںکسی پہاڑ کے اوپر پناہ لے لوں گا، اور وہ مجھ کو سیلاب کی زد سے بچالے گا:
I will be take myself for refuse to a mountain, that shall protect me from the water (11:43).
پیغمبر نوح نے اپنے بیٹے کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ سیلاب کا معاملہ ایک خدائی معاملہ ہے، کوئی پہاڑ تم کو اِس سے نہیں بچا سکتا (ہود: 43)۔ طوفانِ نوح کے بارے میں پیغمبر کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی اور پیغمبر اور ان کے کچھ ساتھیوں کے سوا کوئی بھی اِس طوفان سے محفوظ نہیں رہا۔ یہی معاملہ آنے والے طوفانِ قیامت کا بھی ہے۔ پہاڑ کی کوئی چوٹی یاکوئی غذائی گودام انسان کو اِس طوفان کی زد سے بچانے والا نہیں۔ آنے والا طوفان موجودہ صورتِ حال کو یک سر بدل دے گا۔ جب یہ طوفان آئے گا، تو کوئی بھی انسان اُس سے اپنا بچاؤ نہ کرسکے گا۔
قدیم زمانے میں انسانی آبادی صرف میسوپٹامیا (Mesopotamia) کے علاقے میں پائی جاتی تھی۔ میسوپوٹامیا اُس علاقے کو کہاجاتا ہے جو دریائے دجلہ اور دریائے فُرات کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کی آبادی میں بگاڑ پیدا ہوا، تو اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت نو ح کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔ خدا نے ان کو بہت لمبی عمر دی۔ وہ ساڑھے نو سو سال تک لوگوں کے درمیان موجود رہے۔
لمبی مدت تک حضرت نوح کی دعوتی کوششوں کے باوجود صرف چند لوگوں نے خدا کے پیغام کو مانا۔ ان کی بھاری اکثریت انکار اور گم راہی میںپڑی رہی۔ آخر کار حضرت نوح نے لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے اپنی اصلاح نہ کی، تو یہاں ایک بہت بڑا سیلاب آئے گا اور تم سب کے سب لوگ اس میں ہلاک ہوجاؤ گے۔ لوگوں نے حضرت نوح کے اِس انتباہ (warning) کو نظر انداز کردیا۔ آخر کار ایک عظیم سیلاب آیا۔ اِس سیلاب میںیہ پورا آباد علاقہ پانی میں ڈوب کر تباہ ہوگیا۔
یہ قدیم زمانے کا طوفانِ نوح تھا۔ حالات بتاتے ہیں کہ اب غالباً جلد ہی طوفانِ قیامت آنے والا ہے۔ اِس نئے شدید تر طوفان کی زد میں ساری دنیا آجائے گی، صرف وہ تھوڑے سے لوگ اِس عمومی تباہی سے بچالیے جائیں گے جو بگاڑ میں مبتلا نہ ہوئے ہوں۔
موجودہ زمانہ گویا کہ خدائی نعمتوں کے انفجار (explosion) کا زمانہ تھا، لیکن نعمتوں کی کثرت نے صرف لوگوں کی سرکشی میںاضافہ کیا۔ لوگوں نے اِن نعمتوں کو بھر پور طورپر استعمال کیا، لیکن وہ ہمیشہ سے زیادہ مُنعم سے دور ہوگئے۔ آزادی کے نام پر سرکشی موجودہ زمانے کا عام کلچر بن گیا۔
قدیم طوفان کے خلاف پیشگی انتباہ، پیغمبر نوح نے دیا تھا۔ جدید طوفان کے خلاف پیشگی انتباہ ماڈرن سائنس دے رہی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے ساری دنیا کے سائنس داں مسلسل یہ خبریں دے رہے ہیں کہ برف کے بھاری ذخیرے پگھل رہے ہیں۔ گلیشئر کی برف، قطب شمالی (North Pole) اور قطب جنوبی (South Pole) کی برف نہایت تیزی سے پگھل کر سمندروںمیں شامل ہو رہی ہے۔
یہ واقعہ موسمیاتی تبدیلی (climatic change)کے ذریعے ہورہا ہے۔ اِس کو گلوبل وارمنگ (global warming) کہاجاتاہے۔ برفانی پہاڑوں کے پگھلنے سے مسلسل سمندروں کے پانی کی سطح میں اضافہ ہورہا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 2050 تک یہ تبدیلی اپنی آخری حد پر پہنچ جائے گی۔ یہ ایک شدید تر قسم کا نیا طوفانِ نوح ہوگا اور دنیا کی تمام آبادی اس کی زد میں آکر ختم ہوجائے گی۔ صرف تھوڑے سے لوگ بچیں گے جو موجودہ زمانے کے عمومی بگاڑ سے محفوظ تھے۔
پیغمبر نے یہ خبر دی تھی کہ زمین پر انسان کی آبادی موجودہ صورت میں ہمیشہ باقی نہیں رہے گی۔ وہ وقت آئے گا جب کہ موجودہ آباد دنیا کا خاتمہ کردیا جائے گا، اور پھر ایک نئی دنیا بنے گی جس میں تمام سرکشوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور خدا کے وفادار بندوںکو الگ کرکے اُنھیں ابدی جنتوں میں بسا دیا جائے گا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں صدی عیسوی میںکہا تھا کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ انسان کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے (أنا والساعۃ کہاتین، صحیح البخاری، کتاب الرقاق) گلوبل وارمنگ کا ظاہرہ (phenomenon) بتاتا ہے کہ یہ فاصلہ اب ختم ہوچکا ہے۔ جدید سائنس جس موسمیاتی تبدیلی (clamatic change) کی خبر دے رہی ہے، وہ تبدیلی سائنس دانوںکے بیان کے مطابق، اب اِس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب اس کو دوبارہ الٹی طرف لوٹانا ممکن نہیں۔
جو واقعہ ہونے والا تھا، وہ ہوچکا ۔جو دن آنے والا تھا، وہ دن بہت قریب آگیا۔ اب آخری وقت آگیا ہے جب کہ انسان اپنے آپ کو بدلے۔ وہ خدا کے خلاف سرکشی کا طریقہ چھوڑ کر خدا کے ساتھ وفاداری کا طریقہ اختیار کرے۔ حالات کی یہ خاموش پکار ہے کہ انسان اپنے آپ کو درست کرلے، اِس سے پہلے کہ اپنے آپ کو درست کرنے کا موقع اس کے لیے باقی نہ رہے ۔
واپس اوپر جائیں

دعوت الی اللہ کے تین دَور

دعوت الی اللہ کے کام کو قرآن میں اِنذار اور تبشیر کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 4 میں ارشاد ہوا ہے: رسُلاً مبشّرین ومنذرین لئلاّ یکون للنّاس علی اللہ حجّۃٌ بعد الرّسل (النساء: 165 ) یعنی ہم نے لوگوں کی طرف اپنے پیغمبر بھیجے، خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے، تاکہ لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف حجت باقی نہ رہے۔
پیغمبروں نے دعوت الی اللہ کاجو کام کیا، وہ اصلاً یہ تھا کہ ہر زمانے کے انسان کو خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) سے آگاہ کیا جائے،لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ موجودہ دنیا تم کو بطور انعام نہیں ملی ہے، بلکہ بطور امتحان ملی ہے۔ اِس دنیا میں تمھارے قول و عمل کا ریکارڈ درج کیا جارہا ہے۔ اگلی مستقل دنیا میںاِس ریکارڈ کے مطابق، ہر ایک کے لیے یا تو جنّت کا فیصلہ کیاجائے گا، یا جہنّم کا۔ دعوت الی اللہ کی اِس طویل تاریخ کے تین بڑے دور ہیں۔ مطالعے کی آسانی کے لیے اُن کو حسب ذیل تین اَدوارکی صورت میں بیان کیاجاسکتا ہے:
1 - پیغمبروں کا دور
2 - اصحابِ رسول کا دور
3 - اخوانِ رسول کا دور
پیغمبروں کا دور
پیغمبروں کا دور آدم سے شروع ہوا، جو کہ پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی، اور یہ دورآخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا۔ قرآن کے بیان کے مطابق، خدا کے یہ پیغمبر ہر نسل میں اور ہر علاقے میں لوگوں کو خدائی سچائی (divine truth)کا پیغام دیتے رہے (الفاطر: 24 )۔ یہ پیغام اصلاً توحید اور آخرت کا پیغام تھا۔ اِس پیغمبرانہ دعوت کا جو عمومی انجام ہوا، اُس کو قرآن میں اِس طرح بیان کیا گیاہے: یا حسرۃً علی العباد، مایأتیہم من رسولٍ إلاّ کانوا بہ یستہزؤن (یٰس: 30)۔ یعنی بندوں پر افسوس ہے۔ اُن کے پاس جب بھی کوئی پیغمبر آیا، تو انھوں نے اُس کو حقیر سمجھا اور اس کا مذاق اُڑایا ۔
پیغمبروں کے ذریعے دعوت کا یہ سلسلہ حضرت ابراہیم تک جاری رہا۔ حضرت ابراہیم 260 قبل مسیح میں عراق کے شہر اُر (Ur) میں پیدا ہوئے۔ انھوںنے 175 سال کی عمر پائی۔ وہ لمبی مدت تک دعوت الی اللہ کا کام کرتے رہے، لیکن لوگوں نے آپ کی بات نہ مانی۔ آخر کار وہ عراق سے نکل کر دوسرے مقامات کی طرف چلے گئے۔ جب وہ عراق سے نکلے تو اُن کے ساتھ صرف دو انسان تھے۔ ایک، اُن کے بھتیجے لوط اور دوسرے، ان کی بیوی سارہ۔
پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں ایسا کیوں ہوا۔ اِس کا جواب حضرت ابراہیم کی آخری زمانے کی ایک دعا میں اِن الفاظ میںملتا ہے: ربّ إنّہنّ أضللن کثیراً من الناس (إبراہیم: 36) اِس آیت کی تشریح اُس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جس میں پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلُّ مولود یُولد علی الفطرۃ، فأبواہ یہوّدانہ أوینصرانہ أویمجّسانہ (صحیح البخاری، کتاب الجنائز ) ۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا سب سے پہلے اپنے قریبی ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ اُس کا بچپن اور اس کی جوانی جس ماحول میں گزرتی ہے، اس کے مطابق، اس کی کنڈیشننگ (conditioning) ہوتی رہتی ہے۔ اس کے بعد جب اس کے سامنے کوئی پیغمبر آتا ہے اور اُس کو خدائی سچائی کا پیغام دیتا ہے تو ماحول کی کنڈیشننگ کی بنا پر وہ اُس کو سمجھ نہیں پاتا۔ یہی کنڈیشننگ اُس زمانے میں دعوت کی راہ میں سب سے بڑا مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ اُن کے لیے ناممکن ہوگیا تھا کہ وہ اپنی کنڈیشننگ سے باہر آکر ایک نئے پیغام کو خالی الذہن ہوکر سنیں اور آزادانہ طورپر اس کو سمجھ کر اُس کو قبول کرلیں۔
اُس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، حضرت ابراہیم نے دعوتی عمل کا ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ شہروں اور انسانی آبادیوں سے دُور کھُلے صحرا میں ایک نئی نسل تیار کی جائے، جو انسانی تمدن کی کنڈیشننگ سے پاک اور غیر متاثر ذہن کے تحت پیغمبرانہ دعوت کو سنے اوراس کو قبول کرسکے۔ اِسی منصوبہ بندی کے تحت ایسا ہوا کہ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو اُن کی ماں ہاجرہ کے ساتھ موجودہ مکہ کے پاس غیر آباد صحرا میں لاکر بسا دیا، یعنی ایک ایسی جگہ جہاں کوئی تمدن یا کوئی انسانی کلچر لوگوں کی کنڈیشننگ کے لیے موجود نہ تھا۔
اصحابِ رسول کا دَور
عرب کے صحرا میں جو قوم تیار ہوئی، اس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔ توالد وتناسل کے ذریعے اِس قوم کی تیاری میں تقریباً ڈھائی ہزار سال لگ گئے۔ یہ منفرد قسم کے لوگ تھے۔ صحرائی تربیت کے اِس معاملے کو پروفیسر فلپ ہٹی (وفات: 1978 )نے نرسری آف ہیروز (nursery of heroes) کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ میں کہوں گا کہ صحرائی تربیت کا یہ طریقہ اِس لیے اختیار کیا گیا، تاکہ کنڈیشننگ سے پاک لوگ(deconditioned people) پیدا کئے جاسکیں۔
کنڈیشننگ سے محفوظ ہونے کی بنا پر بنو اسماعیل اپنے اصل نیچر پر قائم رہے۔ اُن کے اندر انسانی اوصاف بدرجۂ اتم محفوظ حالت میںموجود تھے۔ یہی انسانی اوصاف تھے جن کو قدیم عرب کے لوگ المرُوء ۃ(manliness) کہتے تھے۔
ڈھائی ہزار سالہ صحرائی تربیت کے بعد بنو اسماعیل کی جو قوم تیار ہوئی، وہ اُس وقت کی پوری آباددنیا میں ایک منفرد قوم تھی۔ اُس وقت دنیا کا یہ حال تھا کہ تمام قوموں میںشرک کلچر چھاگیا تھا۔ شہری آباد یوں میں بسنے والے تمام عورت اور مرد مشرکانہ کنڈیشننگ کا شکار ہو کر رہ گئے تھے۔ شرک کا تصور اُن کے دل و دماغ میں اِس طرح سما گیا تھا کہ اُس کے خلاف سوچنا، اُن کے یے ناممکن ہوگیا تھا۔ اگرچہ سرحدی علاقوں کے اثرات سے بنواسماعیل میںبھی جُزئی طورپر شرک اور بُت پرستی آگئی تھی، لیکن یہ محض رواج کی سطح پر تھی، بنو اسماعیل کے اندر اس کی گہری جڑیں موجود نہ تھیں۔ اِس کا اندازہ ایک واقعے سے ہوتا ہے۔
امرء ُ القیس عرب کا ایک ممتاز شاعر تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش (570ء) سے تیس سال پہلے 540 ء میںاُس نے وفات پائی۔ وہ بظاہر ایک بت پرست قبیلے میں پیدا ہوا، لیکن دوسرے عربوں کی طرح، بت پرستی کے بارے میں گہرا یقین اس کے اندر موجود نہ تھا۔ امرء القیس کے باپ کو قتل کردیا گیاتھا۔ وہ قاتل سے اس کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ وہ اپنے قبیلے کے بت ذُو الخلَصہ کے پاس گیا اور عرب رواج کے مطابق، اُس نے فال نکال کر اِس معاملے میں بت کی رائے معلوم کرنا چاہا کہ میں اپنے باپ کے قاتل کو قتل کروں یا نہ کروں۔ جواب آیا کہ نہیں۔ اِس پر امرء القیس غصّے میں آگیا اور اُس نے بت کو اپنی کمان سے مار کر کہا:
لو کنتَ یا ذا الخلص الموتورا مثلی، وکان شیخک المقبورا
لم تنہ عن قتل العُداۃ زُوراً
یعنی اے ذو الخلصہ، اگر تیرے ساتھ ایسا ہوتا کہ تیرے بزرگ کو قتل کیا گیاہوتا، تو ہر گز تو ایسی غلط بات نہ کہتا کہ مجرموں کو قتل نہ کیا جائے۔
قدیم ُحنفاء
بنو اسماعیل کی یہ نسل جو ڈھائی ہزار سالہ صحرائی تربیت کے ذریعے بنی، وہ تاریخ بشری میں ایک نئی نسل کی حیثیت رکھتی تھی۔ اِس نسل کی بڑی اکثریت ایسے عورتوں اور مردوں پر مشتمل تھی جو بنیادی طورپر اپنی فطرت پر قائم تھے، اور اِس بنا پر وہ نئی بات کو قبول کرنے کی امتیازی صفت رکھتے تھے۔ اِن میں ایک تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو اِس صفت میں نسبتاً زیادہ نمایاں تھے۔ یہ لوگ گویا کہ اپنی فطرت کے زور پر پچاس فی صد سچائی کو پہلے ہی پاچکے تھے۔ اِن لوگوں کو قدیم عرب میں ُحنفاء کہاجاتا تھا۔
حنیف یا حنفاء سے مراد وہ انسان ہے جو متلاشی ٔ حق (truth seeker) ہو۔ قدیم عرب میں ایسے بہت سے لوگ تھے۔ انھیں میں سے ایک قُس بن ساعدہ (وفات: 600 ء) تھے۔ ان کے اندر خطابت کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ اِسی طرح ایک اور صاحب تھے، جن کا نام زید بن عمرو بن نُفیل (وفات: 606 ء) تھا۔ وہ بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ : الّٰہم إنّی لو أعلم أحبّ الوجوہ إلیک عبدتُک بہ، ولٰکنّی لا أعلم(سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 154 )۔ یعنی اے خدا، اگر میں جانتا کہ تیری عبادت کا بہتر طریقہ کیا ہے تو میں اُسی طرح تیری عبادت کرتا، لیکن میں اُس کو نہیں جانتا:
O God, if I knew how you whished to be worshipped, I would so worship you; but I do not know.
اِنھیں حنفاء میں سے ایک ورقہ بن نوفل (وفات: 611ء) تھے۔610 ء میں جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی، تو اُس وقت وہ بوڑھے اور نابینا ہوچکے تھے۔ مگر جب انھوںنے آپ کی زبان سے وحی کی بات سنی تو انھوںنے فوراً آپ کی تصدیق کی، تاہم اس کے چند مہینے بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ ابو بکر بن ابی قحافہ بھی انھیں حنفاء میں سے ایک تھے، جنھوںنے کسی تردّد کے بغیر آپ کی دعوت کو قبول کرلیا۔ نبوت سے پہلے خود محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بھی اِسی قسم کے ایک حنیفِ کامل تھے، یعنی خالص حق کے متلاشی۔ قرآن کی سورہ نمبر 93 میں اس حقیقت کی طرف اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: ووجدک ضالاّ فہدیٰ (الضّحی: 7 )۔
مؤرخین نے عام طور پر تسلیم کیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ اِس کامیابی کا راز کیا تھا۔ اِس معاملے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ آپ کو اعلیٰ کردرا رکھنے والے جان دار ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد ملی، جن کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ یہ اصحابِ رسول بنی اسماعیل کے منتخب افراد تھے۔ اِس قسم کی ٹیم اِس سے پہلے کسی پیغمبر کو حاصل نہ ہوئی۔ اِن میں سے ایک ایک آدمی گویا کہ ایک ہیرو تھا۔ یہ اعلیٰ افراد، سادہ طورپر محض ’’صحبت‘‘ کی بنا پر نہیں ملے، وہ دراصل اُس ڈھائی ہزار سالہ منصوبۂ خداوندی کا نتیجہ تھے جو ایک نئی نسل پیدا کرنے کے لیے حضرت ابراہیم اور ہاجرہ اور اسماعیل کی غیر معمولی قربانی کے ذریعے عمل میں لایا گیا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں، یہ گروہ اخراجِ امت (آل عمران: 110 ) کا تاریخی نتیجہ تھا، نہ کہ سادہ طورپر صرف صحبت کا پُراسرار نتیجہ۔
اخوانِ رسول کا دور
حدیث میںآیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہم عصر اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: وددتُ أنّا قد رأینا إخوانَنا۔ قالوا: أولسنا إخوانک یا رسولَ اللہ، قال: أنتم أصحابی، وإخواننا الّذین لم یأتوا بعد (صحیح مسلم، کتاب الطّہارۃ) یعنی میری تمنا ہے کہ ہم اپنے بھائیوں (اِخوان) کو دیکھتے۔ صحابہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے بھائی نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ میرے اصحاب ہو، اور وہ ہمارے اخوان ہیں جو بعد کو آئیں گے۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، دورِ اوّل کے اصحابِ رسول ایک لمبے تاریخی عمل کے ذریعے وجود میں آئے۔ اِسی طرح دورِ ثانی کے اخوانِ رسول بھی ایک خصوصی تاریخی عمل کے ذریعے ظہور میںآنے والے لوگ ہیں۔ گہرائی کے ساتھ غور کیا جائے تو دونوں گروہوں کے درمیان ظاہری فرق کے باوجود کامل مشابہت پائی جاتی ہے۔
دورِ اوّل کے اصحابِ رسول، بنو اسماعیل کی اُس نسل سے نکلے تھے جس کو تمدنی ماحول سے دور رکھ کر صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے عمل سے گزارا گیا، اور اِس طرح متعصبانہ ذہن سے پاک کرکے اُن کو ان کی اصل فطرت پر لایا گیا۔ اِس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ وہ دین ِ فطرت کا پیغام سنیں اور کسی نفسیاتی پیچیدگی (complex)کے بغیر اُس کو قبول کرلیں۔
موجودہ سائنسی دور بھی اِسی قسم کا ایک دور ہے۔ اِس زمانے میں دوبارہ عالمی سطح پر جدید نسلوں کی سائنسی ڈی کنڈیشننگ کی گئی۔ اِس طرح ایسے لوگ تیار ہوئے، جو قدیم طرز کی روایتی سوچ سے آزاد تھے۔ وہ خالص فطرت کی سطح پر چیزوں کو سمجھ سکتے تھے۔ اِنھیں لوگوں کے لیے یہ مقدر کیاگیا تھا کہ وہ اسلام کودوبارہ معرفت کی سطح پر پائیں اور انقلابی ذہن کے ساتھ اس کو قبول کرلیں۔
یہی بات موجودہ زمانے میں اِس طرح ہوئی کہ جب دنیا میں سائنس کا تجرباتی متھڈ رائج ہوا، تو لوگ قدیم تصورات پر نظر ثانی کرنے لگے۔ پہلے قیاس اور توہمات کی بنیاد پر رائیں قائم کی جاتی تھیں، اب تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعے رائیں قائم کی جانے لگیں۔ اِسی کو موجودہ زمانے میں سائنٹفک متھڈ(sientific method) کہاجاتا ہے۔ اِس سائنٹفک متھڈ کے رواج نے موجودہ زمانے میں قدیم اندازِ فکر کو بدل دیا، اور لوگ چیزوں کو سائنسی انداز میں ازسرِ نو جانچ کردیکھنے لگے۔ اِسی واقعے کو ہم نے یہاں سائنسی ڈی کنڈیشننگ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔
یہ سائنسی ڈی کنڈیشننگ موجودہ زمانے کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اِس کے نتیجے میں موجودہ زمانے میں ایک نئی نسل پیدا ہوئی ہے، جس طرح قدیم عرب میں صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے ایک نئی نسل بنی تھی۔ موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ روایتی بندشوں سے آزاد ہو کر سوچتے ہیں۔ اِسی بنا پر وہ کسی نئی سچائی کو سمجھنے کے لیے تیار ذہن (prepared mind) کی حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ قدیم زمانے میں ایسا نہ تھا۔
ڈھائی ہزار سال پہلے صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے عرب میںایسے لوگ پیدا ہوئے تھے، جو باپ دادا سے ملی ہوئی مذہبی روایات سے باہر آکر سوچنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اِسی طرح موجودہ زمانے میں سائنسی ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے ایسے لوگ بڑی تعداد میں پیدا ہوئے، جو اپنے آبائی مذہب کے خول سے باہر آکر سوچنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اِس طرح کے لوگ ساری دنیا میں پیدا ہوئے۔ مثال کے طور پر یہاں اِس قسم کے دو ممتاز مغربی افراد کا ذکر کیا جاتا ہے۔
اِن میں سے ایک مشہور سائنس داں سر آئزاک نیوٹن (وفات:1727 ) تھا۔ وہ اگر چہ روایتی مسیحی خاندان میں پیدا ہوا، لیکن سائنسی مطالعے کے بعد وہ مسیحیت کے روایتی خول سے باہرآگیا۔ نیوٹن کے ایک سوانح نگار پیٹر (Peter Ackroyd) کی ایک کتاب اِس موضوع پر 2006 میں شائع ہوئی ہے۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے:
Isaac Newton — A Secret Faith
مصنف نے اِس کتاب میں نیوٹن کے بارے میں لکھا ہے:
Newton also believed that the true religion was derived from the sons of Noah, and had been transmitted by Abraham, Isaac and Moses. Pythagoras was a convert to this religion, and passed it on to his own disciples. Christ was a witness to that primitive faith in his simple commandments to love God and to love one's neighbor. In a later document Newton declared that we must worship 'the only invisible God' and venerate the 'one mediator between God & man the man Christ Jesus'. At the peril of our souls 'we must not pray to two Gods'. We must not worship Christ. Christ had been filled with divine spirit, but he was not God. (p. 54)
دوسری مثال فرانسس ہر برٹ بریڈ لے (وفات: 1924 ) کی ہے۔ وہ مشہور برٹش فلسفی ہے۔ وہ بھی اِسی قسم کے افراد کی ایک مثال ہے، جو اگرچہ قدیم مذہبی روایات کے ماحول پیداہوئے، لیکن سائنسی تعلیم اور سائنسی غور وفکر نے ان کو مجبور کیا کہ وہ قدیم روایتی خول سے باہر آکر کھلے ذہن کے تحت سوچیں اور بے آمیز سچائی کی تلاش کریں۔
فرانسس ہر برٹ بریڈ لے کی ایک کتاب (Appearance and Reality) ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1893 میںشائع ہوئی۔ اس نے اپنی اِس کتاب میں لکھا ہے کہ آج انسان کو ایک سائنٹفک مذہب (scientific religion) کی ضرورت ہے۔ قدیم روایتی طرز کا مذہب آج کے انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ بریڈ لے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ آج کے انسان کو ایسا مذہب چاہیے، جس کا پیغمبر نیوٹن ہو، اور جس کی مقدس کتاب پرنسپیا (Principia) ہو، یا یہ کہ اُس کا پیغمبر آئن سٹائن ہو، اور اُس کا الٰہیاتی نظریہ آئن سٹائن کا نظریۂ اضافیت (General theory of relativity) ہو، بلکہ بریڈلے کا مطلب صرف یہ تھا کہ آج کے زمانے میں وہی مذہب انسان کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے جو سائنٹفک جانچ (scientific scrutiny) میں پورا اُترے۔
اِس قسم کے افراد میں ایسے لوگ بھی تھے جو اپنی تلاش کی آخری منزل تک پہنچے۔ ان میں سے ایک مثال ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادّھیائے کی ہے۔ وہ ایک بڑے ہندو اسکالر تھے۔ وہ کئی زبانیں جانتے تھے۔ وہ بنگال کے ایک روایتی ہندو خاندان میں پیدا ہوئے۔ بعد کو ان کی تعلیم نے ان کو پورے معنوں میں نان کنفارمسٹ(non-conformist) بنا دیا۔ انھوں نے آزاد ذہن کے تحت، مختلف مذاہب کامطالعہ کیا۔ انھوں نے مختلف مذہبی شخصیتوں کو پڑھا۔ آخر میں اپنے کھلے ذہن کی بنا پر وہ اِس اعتراف پر مجبور ہوگئے کہ تمام مذہبی شخصیتیں غیر تاریخی شخصیتیں ہیں۔ اِن میں صرف ایک استثنا ہے، اور وہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔
اِس معاملے میں اپنے خیالات کے اظہار کے لیے انھوںنے 1904حیدر آباد (انڈیا) میںایک لیکچر دیا تھا۔ اِس لیکچر میں انھوںنے واضح طورپر کہا کہ دوسری تمام مذہبی شخصیتیں مائتھالاجکل فیگر (mythological figure) کی حیثیت رکھتی ہیں، اِس عموم میں صرف ایک استثناء ہے، اور وہ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اِس بات کا ذکر کرتے ہوئے، انھوںنے اپنے تحریری لیکچر میںیہ تاثر سے بھرا ہوا جملہ کہاتھا:
Oh, what a relief to find, after all, a truly historical Prophet to believe in.
جدید حنفاء
جس طرح قدیم عرب میں حنفاء پیدا ہوئے تھے، اسی طرح موجودہ زمانے میں بھی بہت سے حنفاء پیدا ہوئے۔ یہ جدید حنفاء وہ لوگ تھے جو تعصبات سے آزاد ہو کر امکانی طورپر اسلام کی صداقت کا اعتراف کرنے کے لیے تیار تھے۔ اِس قسم کی مثالیں موجود ہ زمانے میں کثرت سے سامنے آئیں۔ اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں اِس نوعیت کی چند مثالوں کو ذکر کیا جاتا ہے۔
اسکاٹ لینڈ کے ٹامس کارلائل (وفات: 1881 ) ایک مشہور انگریزی مصنف اور مورخ ہیں۔ ان کی مختلف کتابیں ہیں۔ اُن میں سے ایک کتاب کا نام یہ ہے:
On Heroes, Hero-Worship (1841)
ٹامس کارلائل نے اپنی اِس کتاب میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے اور ان کو تمام پیغمبروں کا ہیرو بتایا ہے۔
مشہور لبنانی پروفیسر فلپ ہٹی (وفات: 1978) نے اپنی کتاب تاریخِ عرب (History of the Arabs) میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لکھا ہے کہ دوسرے پیغمبروں کے برعکس، محمد تاریخ کی مکمل روشنی میں پیداہوئے:
Muhammad was born withing the full light of history (p.111)
فرانس کے ڈاکٹر مورس بوکائی (پیدائش: 1920 ) نے عربی زبان سیکھی اور قرآن کا مطالعہ کیا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ تمام مذہبی یا الہامی کتابوں میں قرآن واحد کتاب ہے، جس کی صداقت جدید سائنسی معیار پر پوری اترتی ہے۔ اِس موضوع پر انھوںنے ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
The Bible, the Quran and Science
امریکا کے ڈاکٹر مائکل ہارٹ (پیدائش:1932 ) نے 572 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب تیار کی۔ یہ کتاب 1991 میں پہلی بار چھپی۔ اِس کتاب میں مصنف نے تاریخ کے ایک سو ایسے افراد کے حالات لکھے ہیں، جنھوںنے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ ایک سو ایسے کامیاب ترین افراد کی فہرست میں انھوں نے نمبر ایک پر جس کا نام درج کیا ہے، وہ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس کتاب کا نام یہ ہے:
The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History
انڈیا کے ایک مؤرخ مسٹر ایم این رائے (وفات: 1954 ) نے اسلام پر ایک کتاب شائع کی ہے۔ اس کا نام ہے— اسلام کا تاریخی رول (The Historical Role of Islam) ۔ یہ کتاب پہلی بار 1939 میں چھپی۔ مصنف نے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے انقلاب کا ذِکر ان الفاظ میں کیا ہے— تمام معجزوں میں سب سے زیادہ بڑا معجزہ:
The Most Miraculous of all Miracles. (p. 4)
اِس طرح کے حنفاء جدید دور میں بڑی تعداد میں پیدا ہوئے۔ اُن میں بہت سے ایسے لوگ تھے جنھوں نے واضح طورپر مذکورہ قسم کا اعتراف کیا۔ اِن کے علاوہ اِس گروہ میں بہت سے ایسے لوگ بھی نکلے جنھوں نے بطور خود قرآن کا ترجمہ پڑھ کر باقاعدہ اسلام قبول کرلیا۔ مثلاً ہنگری کے ڈاکٹرعبدالکریم جُرمانوس، آسٹریا کے لیو پولڈ محمد اسد، برطانیہ کے محمد مارما ڈیوک پکتھال، اور لارڈ ہیڈلے فاروق، وغیرہ۔
جدید سائنسی دور نے موجودہ نسلوں کے اندر ایک نیا ذہن پیدا کیا، جو عین اسلام کے موافق تھا۔ وہ ہے روحِ تجسس (spirit of inquiry)۔انگلش فلسفی برٹرینڈ رسل (وفات: 1970 ) نے خاص اِسی موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے— وِل ٹو ڈاؤٹ (Will To Doubt)۔ اِس طرح کی کتابوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جدید ذہن کی نمایاں صفت یہ ہے کہ سائنس کی ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے لوگوں کا روایتی فکر ختم ہوگیا۔ وہ یہ چاہنے لگے کہ چیزوں کو تاریخی اور سائنسی معیار پر جانچ کر وہ اس کی سچائی کو جانیں اور پھر اس کو قبول کریں۔
موجودہ زمانے کا یہ ذہنی انقلاب عین اسلام کے حق میں تھا۔ کیوں کہ تمام مذاہب میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو کامل طورپر محفوظ مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے تمام مذاہب تبدیلی کا شکار ہوکر علمی اور تاریخی اعتبار سے غیر مستند بن چکے ہیں۔ اِس بنا پر جدید ذہن کے لیے مذہبوں کے درمیان صرف ایک ہی چوائس باقی رہا ہے، یہ اسلام کا چوائس ہے جو استثنائی طورپر الہامی مذہب کے مستند متن (authentic version) کی حیثیت رکھتا ہے۔
اِس طرح جدید تاریخ میں دوبارہ عین وہی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے جو ساتویں صدی عیسوی کے آغاز میں عرب میں تھی، یعنی انسانوں کے ایک ایسے گروہ کا وجود میں آجانا جو اپنی ڈی کنڈیشننگ کی بنا پر غیر شعوری اعتبار سے اسلام کے قریب آچکا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ آج کے انسان کے اِس لاشعور کو شعور میں تبدیل کیا جائے۔ ایک سفر میں ایک جاپانی اسکالر نے مجھ سے کہا کہ جاپانی لوگ بالقوّہ مسلمان ہیں:
Japanese are potentially Muslims.
میں کہوں گا کہ موجودہ زمانے میں تمام انسان بالقوہ طورپر مسلم بن چکے ہیں۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ جدید سائنسی معیار پر اسلامی دعوت کا کام کیا جائے اور اِس امکان (potential) کو واقعہ (actual) بنایا جائے۔ اِسی جدید نسل سے وہ لوگ نکلیں گے جو خدائی سچائی کو پہچانیں اور اس کا اعتراف کرکے وہ جماعت بنائیں، جس کو حدیث میں ’اخوان رسول‘ کہاگیا ہے۔
اخوانِ رسول کا یہ معاملہ کوئی پُراسرار معاملہ نہیں۔ یہ اُسی طرح ایک معلوم تاریخی واقعہ ہوگا، جس طرح اصحابِ رسول کا معاملہ ایک تاریخی واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔اصحابِ رسول کا معاملہ یہ تھا کہ وہ پیغمبرانہ اسلوب پر ایک دعوتی عمل کے ذریعے وجود میں آئے تھے۔ اِسی طرح موجودہ زمانے میں بھی پیغمبرانہ اسلوب پر ایک دعوتی عمل درکار ہے، جس کے ذریعے نئی نسل کے لوگ خدائی سچائی کو دریافت کرکے وہ گروہ بنیں گے، جس کو حدیث میںاخوانِ رسول کہاگیا ہے۔
عظیم ترین شہادت
حدیث کی مشہور کتاب صحیح مسلم (کتاب الفتن، باب ذکر الدّجال) میں چند روایتیں آئی ہیں۔ اِن روایتوں میں بتایا گیا ہے کہ تاریخ کے آخری دور میں ایک دجّالی زمانہ آئے گا، یعنی پُر فریب نظریات اور توجیہات کا زمانہ۔ لوگوں کی بڑی تعداد اُس سے مسحور ہوجائے گی۔ اُس وقت ایک شخص اٹھے گا جس کے لیے حدیث میں ’’رجلٌ ہو خیرا لناس‘‘ اور ’’رجل من المؤمنین‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ شخص اُس وقت کے دجالی فتنے کا مقابلہ کرکے اس کا خاتمہ کرے گا۔ اور سچائی کا اظہار اِس طرح کرے گا کہ لوگ دجّالی فتنے سے باہر آکر سچائی کو پہچان سکیں۔ یہ تاریخِ دعوت کا ایک عظیم معاملہ ہوگا۔ اِسی بنا پر اس کو حدیثِ رسول میں: أعظم النّاس شہادۃً عند ربّ العالمین سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی خدا وند ِ عالم کے نزدیک لوگوں کے سامنے حق کی عظیم ترین شہادت ۔
عظیم ترین شہادت سے مراد، حق کا عظیم ترین اظہار ہے۔ حق کا یہ اظہار خود علمِ انسانی کی سطح پر ہوگا، جس کو سائنسی دور نے پہلی بار ممکن بنا دیاہے۔ یہی وہ عظیم دعوتی واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر41 میں اِس طرح کیاگیا ہے: سنریہم آیاتنا فی الآفاق و فی أنفسہم حتی یتبین لہم أنّہ الحق (حٰمٓ السجدۃ: 53) یعنی آئندہ ہم لوگوں کو اپنی نشانیاں (signs) دکھائیں گے، آفاق میںبھی اور انفس میں بھی، یہاں تک کہ لوگوں پر پوری طرح کھل جائے گا کہ یہ حق ہے۔
مذکورہ حدیث کو سامنے رکھ کر اِس معاملے پر غور کیجیے۔ اِس سے معاملے کی جو تصویر بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ جس طرح اسلام کے دورِ اوّل میںدعوتی عمل کیا گیا اوراس کے نتیجے میںایک عظیم واقعہ پیش آیا، ٹھیک وہی حالات آج دوبارہ پیدا ہوچکے ہیں۔ اور زمانی فرق کی رعایت کرتے ہوئے آج دوبارہ اُسی عمل کو دہرایا جائے گا اور پھر اس کا وہ مطلوب نتیجہ ظاہر ہوگا جس کی پیشگی خبر حدیثِ رسول میں دی جاچکی ہے، یعنی بصیرتِ زمانہ کا حامل ایک شخص اٹھے گا۔ اس کو خدا کی خصوصی نصرت حاصل ہوگی۔ وہ زمانے کی مکمل رعایت کرتے ہوئے پیغمبرانہ اسلوب پر دعوتی عمل جاری کرے گا۔
اِس دعوتی عمل کے نتیجے میںیہ ہوگا کہ ایک طرف، وقت کے پُر فریب نظریات کا پردہ چاک ہوجائے گا اور لوگ سچائی کو بے نقاب حالت میں دیکھ سکیں گے۔ دوسری طرف، یہ ہوگا کہ بہت سے وہ افراد جو حق کے متلاشی بنے ہوئے تھے اور اپنے سائنسی ذہن کی سطح پر، سچائی کی معرفت حاصل کرنا چاہتے تھے، اُن کو یہ معرفت حاصل ہوگی۔ اِس طرح اللہ ولیّ الذین آمنوا یُخرجہم من الظلمات إلی النّور (البقرۃ: 257 ) کا واقعہ دوبارہ تاریخ میں ظاہر ہو کر سامنے آجائے گا۔
یہی وہ گروہ ہے جس کو حدیث میں اخوانِ رسول کا نام دیاگیا ہے۔ یہ لوگ تاریخِ دعوت کا آخری حصہ ہوں گے۔ جدید ذرائع کو استعمال کرکے وہ عالمی سطح پر کلمۂ اسلام کو ہر گھر میں داخل کردیں گے۔ اِس کے بعد تاریخِ بشری کا پہلا دور ختم ہوجائے گا اور پھر تاریخِ بشری کا وہ دوسرا دور ہوگا، جب کہ تمام انسان خدا وند ِ رب العالمین کے سامنے حاضر ہوں گے، تاکہ وہ اپنے ابدی انجام کے بارے میں خدائی عدالت کا فیصلہ سن سکیں۔ ایسا بہر حال ہوگا، اور اب ایسا ہونے میں زیادہ دیر نہیں۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی ، ناکام خاتمہ

ایک مغربی ملک کے ایک آدمی کو دولت کمانے کا شوق تھا۔ اس کا خیال تھا کہ دولت کے ذریعے وہ زندگی کی تمام خوشیاں حاصل کرسکتا ہے۔ اُس نے کافی دولت کمائی۔ اس نے اپنے لیے ایک شان دار گھر بنایا۔ ہر طرح کی راحت اور عیش کے سامان اپنے گرد اکھٹا کیے، لیکن حقیقی خوشی اس کو حاصل نہ ہوسکی، یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہوگیا۔ اس کی جسمانی طاقت ختم ہوگئی، وہ بستر پر پڑگیا۔ اپنی زندگی کے اِس آخری زمانے میں اُس نے اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:
Now, I am 90 plus, bedridden. My story can be sum up in these two words— successful life, unsuccessful end.
یہی اُن تمام لوگوں کی کہانی ہے جن کو لوگ اچیور، یا سُپر اچیور کہتے ہیں۔ بڑی بڑی کامیابیوں والے اِس دنیا میں صرف چھوٹی خوشی حاصل کرتے ہیں اور آخر کارمایوسی کے ساتھ وہ اِس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ اتنا عام ہے کہ اِس میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
انڈیا میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والوں میں سے ایک مشہور نام لَتا منگیشکر کا ہے۔ وہ اب 80 سال کی ہوچکی ہیں۔ ان کو اپنی زندگی میں وہ تمام چیزیں ملیں جن کی لوگ حرص کرتے ہیں۔ دولت، شہرت، مقبولیت اور اعلیٰ خطابات، وغیرہ۔ انھوںنے عالمی سطح پر شاپنگ کی۔ بہت زیادہ جیولری اور جواہرات حاصل کیے۔ ہر وہ چیز اُن کے پاس ہے جس کی دنیا پرست لوگ تمنا کرتے ہیں۔ لیکن عمر کے آخری حصے میں پہنچ کر وہ محسوس کرتی ہیں کہ انھوں نے جو کچھ چاہا تھا، وہ اُن کو نہیں ملا۔
نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا (30 ستمبر 2007 ) میں لتا منگیشکر کا ایک انٹرویو چھپا ہے۔ انٹرویور کا نام سُدیشنا (Sudeshna Chatterjee) ہے۔ اِس انٹرویو کے مطابق، لتا منگیشکر تمام ظاہری کامیابیوں کے باوجود افسردگی کے احساس (dejected feeling) میں جیتی ہیں۔ یہ انٹرویو اخبارکے ضمیمہ (Times Life) میںاِس عنوان کے تحت چھپا ہے— میرے خواب کبھی پورے نہیں ہوئے:
‘My dreams have never got fulfilled’.
انٹرویو ر نے لتا منگیشکر سے پوچھا کہ اگر خدا اُن سے پوچھے کہ عمر کے اِس حصے میں پہنچ کر ان کی سب سے بڑی خواہش کیا ہوگی۔ انھوں نے کسی وقفے کے بغیر فوراً جواب دیا کہ— میری صرف یہ خواہش ہوگی کہ میں اِس دنیا کو چھوڑ کر چلی جاؤں:
I would like to leave this world. (p. 3)
کامیاب انسانوں کی اِس ناکام کہانی میں ہر عورت اور مرد کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ وہ یہ کہ جس پُر مسرت زندگی کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنی ساری عمر لگا دیتے ہیں، وہ اِس دنیا میں سِرے سے قابلِ حصول(achievable) ہی نہیں۔
تمنّا کا ہونا، مگر تمنا کے حصول کا فُقدان ایک عظیم حقیقت کی طرف اشارہ کررہا ہے، وہ یہ کہ آدمی جس چیز کو قبل از موت (pre-death period) دنیا میں پانا چاہتا ہے، اس کو خالقِ کائنات نے بعداز موت (post-death period) دنیا میں رکھ دیا ہے۔
ایسی حالت میں سب سے بڑی عقل مندی یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بعد از موت دنیا میں کامیابی کا مستحق بنائے۔ وہ موجودہ عارضی زندگی کو بعد کی ابدی زندگی کی تیاری میں لگا دے۔
انسان پیدائشی طورپر معیار پسند (idealist) ہے، لیکن موجودہ دنیا میں ہر چیز معیار سے کم (less than ideal) حالت میں پائی جاتی ہے۔ یہی لوگوں کے ٹنشن (tension) کا اصل سبب ہے۔ انسان اپنی پوری توانائی صرف کرکے جو کچھ حاصل کرتا ہے، وہ ہمیشہ اس کے اپنے مطلوب معیار سے کم ہوتا ہے۔
طلب اور مطلوب کے درمیان اِس فرق کو جاننا ہی سب سے بڑی دانش مندی ہے۔ جو آدمی اِس فرق کو جانے، وہ اپنے عمل کی حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کرے گا، اور پھر کامیابی کی منزل تک پہنچ جائے گا۔ ایسا انسان کبھی ٹنشن میں جینے ولا انسان نہیں ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

گنہ گار شخصیت، کم زور شخصیت

مطلوب شخصیت وہ ہے جو اعلیٰ انسانی اَوصاف کی حامل ہو، جو اصول پسند ہو، جو اخلاقی اقدار پر قائم ہو، جس کے اندر مثبت نفسیات پائی جاتی ہو، جس کے دل میں سارے انسانوں کے لیے محبت ہو، جس کے اندر اعتراف کا جذبہ پایا جاتا ہو، جو قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل ہو۔ ایسا ہی انسان حقیقی معنوں میں وہ انسان ہے جس کو مطلوب انسان کہا جاسکے۔
اِس کے بعد وہ لوگ ہیںجو انسانی پہلو سے گراوٹ کا شکار ہوں۔ ایسے افراد کی دو قسمیںہیں— گنہ گار شخصیت، اور کم زور شخصیت۔ گنہ گار شخصیت سے مراد وہ شخصیت ہے جو جھوٹ پربنے۔ جس کے اندر استحصال (exploitation) کا مزاج ہو۔ جو اپنے ذاتی مفاد (interest) کے سوا کسی اور چیز کو نہ جانتا ہو۔ جو اپنی ذاتی بڑائی کے خول میںجینے والا انسان ہو۔
کم زورشخصیت (weak personality) دراصل منافق شخصیت کا دوسرا نام ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اندر سے کچھ ہوںا و باہر سے کچھ۔ جو بناوٹی باتیں کرکے دوسروں کو دھوکے میں رکھیں۔ جن کے کہنے اور کرنے میںیکسانیت نہ ہو۔ جن کے سامنے ذاتی مفاد کے سوا کوئی اور اصول نہ ہو۔
اِس دنیا میں کسی آدمی کے لیے حاصل کرنے کی سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ انسانی شخصیت کی پرورش کرے۔ یہی لوگ حقیقی انسان کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہی لوگ خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God)کے مطابق، مطلوب انسان کہے جاسکتے ہیں۔
اس کے برعکس، جو لوگ جھوٹ میںجیتے ہوں، جو اپنے مادّی مفاد کے لیے ہر اصول کو توڑنے کے لیے تیار ہوں، جن کا واحد مقصد اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنا ہو، نہ کہ انسانیتِ عامہ کے لیے کام کرنا، ایسے لوگ خدا کی زمین پر ایک بوجھ (liability) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خالق کی مطلوب شخصیت وہ ہے جو اپنے کردار کے اعتبار سے، مضبوط شخصیت (strong personality) ہو، نہ کہ کم زور شخصیت(weak personality)۔
واپس اوپر جائیں

کم پر راضی ہونا

اِس دنیا میں کامیابی کا سادہ اصول صرف ایک ہے— کم پر راضی ہوجاؤ، تاکہ تم زیادہ کو پاسکو۔ اِس دنیا میں زیادہ چاہنے والے کو کم ملتا ہے، اور جو کم چاہے، وہ زیادہ پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اِس دنیا کے لیے یہ ایک ایسا عام اصول ہے جس میں غالباً کوئی استثنا نہیں۔
عالمِ فطرت میںہر چیز کے نمونے موجود ہیں۔ اِسی طرح کامیابی کے مذکورہ اصول کا نمونہ بھی یہاںموجود ہے۔ یہ نمونہ درخت کا نمونہ ہے۔ درخت کیا ہے۔ درخت ایک بیج سے شروع ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے تنا، اپنی شاخوں او راپنی پتیوں کے ساتھ ایک بڑا درخت بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ فطرت میں یہ نمونہ اِس لیے ہے، تاکہ انسان اُس سے سبق لے اور اِس فطری اصول کو اختیار کرتے ہوئے وہ اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔اِسی فطری حقیقت کو ایک شاعر نے اِن الفاظ میں نظم کیا ہے:
اگر کچھ مرتبہ چاہے تو اِس ہستی کو باطل کر
کہ دانا بارور ہوتا ہے پہلے خاک میں مل کر
ہر انسان اپنے اندر غیر معمولی امکانات (potentials) لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ امکانات کسی انسان کے لیے گویا بہ منزلہ بیج ہیں۔ جو انسان اپنے اندر چھپے ہوئے اِس امکان کو جانے اور اُس کو دانش مندانہ طورپر بروئے کار لانے کی کوشش کرے، اُس کے لیے کامیابی اتنا ہی یقینی بن جاتی ہے، جتنا کہ ایک اچھے بیج کو زمین میں ڈالنے کے بعد اُس کا ہرے بھرے درخت کی صورت میں تبدیل ہونا۔
ایک بیج قانونِ فطرت کی مدد سے درخت بنتا ہے۔ اِسی طرح ایک انسان اپنے فطری امکانات کے دانش مندانہ استعمال سے اعلیٰ کامیابی حاصل کرتا ہے۔ درخت کی صور ت میں جو کام فطرت کا قانون کرتا ہے، انسان کی صورت میں وہی کام اس کی اپنی عقل انجام دیتی ہے، بشرطیکہ انسان اپنی عقل کو صبر اور حکمت کے ساتھ استعمال کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

خود ساختہ منطق

ایک انگریزی کتاب نظر سے گزری۔ وہ 2007 میں بمبئی سے چھپی ہے۔ وہ 391 صفحات پر مشتمل ہے۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے— کامیابی کا قانون :
Law of Success For Both the Worlds.
اِس کتاب کے باب (chapter) نمبر چار میں فلسطینی لیڈر شیخ احمد یاسین کو ماڈل کے طورپر پیش کیا گیا ہے(صفحہ 16 )۔ وہ نوجوانی کی عمر میں ایک حادثے کی بنا پر چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے۔ وہ وھیل چیر (wheel chair) پر رہتے تھے۔ وہ اپنی جوشیلی تقریروں کے ذریعے فلسطینی نوجوانوں کو ابھارتے تھے کہ وہ اسرائیل کے خلاف جنگ کریں۔ مگر اِس جنگ میں فلسطینیوں کو یک طرفہ نقصان کے سوا اور کچھ حاصل نہیںہوا۔ اسرائیل نے شیخ یاسین کو پہلے جیل میں قید کیا۔ جب وہ قید سے چھوٹے تو پھر انھوںنے اسرائیل کے خلاف اپنی لفظی جنگ جاری کردی۔ آخر کار اسرائیل نے ان کو 22 مارچ 2004 کوگولی مار کر ہلاک کردیا۔
مصنف نے اِس واقعے کو کامیابی کے قانون کے تحت بطور ماڈل پیش کیا ہے۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ اِس واقعے کو ناکامی کے قانون کے تحت بطور ماڈل پیش کیا جائے۔ کامیابی کی جدوجہد، مواقع (opportunities) کو مثبت طورپر استعمال کرنے کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ مفروضہ دشمن سے لڑکر اپنی جان دینے کے لیے۔
اِس دنیا میں زندگی کا معاملہ ایک امتحان کا معاملہ ہے۔ اِس دنیا میں ہمیشہ مختلف قسم کے اَحوال موجود رہتے ہیں۔ اِس دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وقت کے حالات کا گہرا مطالعہ کیا جائے ۔ موافق مواقع کو دریافت کیا جائے اور پھر پُر امن منصوبہ بندی کے ذریعے اِن مواقع کو استعمال کیا جائے۔ اِس دنیا میں کامیابی ہمیشہ مواقع کو استعمال کرنے کا نام ہوتی ہے، نہ کہ جذباتی طور پر مفروضہ دشمن سے ٹکرا کر اپنے آپ کو ہلاک کرنے کا نام۔
واپس اوپر جائیں

محبت اور نفرت

ایک مغربی مصنف لینس آرم اسٹرانگ (Lance Armstrong) کی ایک کتاب چھپی ہے۔ یہ کتاب اسپورٹس اور اس کے شائقین کے بارے میں ہے۔ اِس کتاب کا فرانسیسی نام یہ ہے:
Tour de France.
کتاب کے مصنف نے بتایا ہے کہ اسپورٹس کے شائقین کی یہ نفسیات ہے کہ وہ اپنی قوم کے جیتنے والوں سے جذباتی طورپر محبت کرتے ہیں، اور اگر وہ ہار جائیں تو اسی شدت کے ساتھ وہ اُن سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ — عوام یا تو آپ سے محبت کرتے ہیں یا آپ سے نفرت۔ اِس معاملے میں ان کے یہاں کوئی درمیانی حالت نہیں:
Either the public loves you or hates you. There is no such thing as a happy middle ground.
عوامی نفسیات کے بارے میں یہ بیان بالکل درست ہے۔ عام لوگ محبت اور نفرت دونوں کے معاملے میں سخت جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ایک تباہ کن عادت ہے۔ صحیح یہ ہے کہ محبت اور نفرت کو عقل کے تابع کیاجائے، نہ کہ جذبات کے تابع۔
حدیث میںآیا ہے کہ دوستی کرو تو اعتدال کے ساتھ کرو، شاید تمھارا دوست کبھی تمھارا دشمن بن جائے۔ اور دشمنی کرو تو اعتدال کے ساتھ کرو، شاید تمھارا دشمن کبھی تمھارا دوست بن جائے (أحبب حبیبک ہونًا ما، عسیٰ أن یکون بغیضک یوماً ما۔ وأبغض بغیضک ہونا ما، عسیٰ أن یکون حبیبک یوماً ما) الترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب۔
یہ ایک نہایت حکیمانہ ہدایت ہے۔ دنیا میں دوستی اور دشمنی دونوں عارضی چیزیں ہیں۔ اِس معاملے میں ضروری ہے کہ آدمی اعتدال پسندی کا رویہ اختیا رکرے، نہ کہ انتہا پسندی کا رویہ۔ اعتدال پسندی کا رویہ ہمیشہ مفید ثابت ہوتا ہے، اور انتہا پسندی کا رویہ ہمیشہ مہلک نتیجے کا سبب بنتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنون درکار ہے

ایک سفر کے دوران میری ملاقات ایک ہندستانی نوجوان سے ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ میں آپ کا ماہ نامہ الرسالہ باقاعدہ پڑھتا ہوں۔ اُس سے مجھ کو زندگی کا نیا شعور ملا ہے۔ الرسالہ کے مطالعے سے میرے اندر یہ جذبہ پیدا ہوا کہ میں انگریزی زبان سیکھوں۔ چناں چہ میں نے انگریزی زبان سیکھنے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ میںاس مقصد کے لیے کون سی ڈکشنری استعمال کروں۔ میں نے جواب دیا— ڈکشنری آف جنون۔
یہ بات نہ صرف کسی نئی زبان کو سیکھنے کے لیے ضروری ہے، بلکہ وہ ایک عام فطری اصول ہے۔ کوئی بھی اعلیٰ مقصد مجنونانہ کوشش چاہتا ہے۔ مجنونانہ کوشش کے بغیر کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنا ممکن نہیں۔
مجنونانہ کوشش کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مکمل طور پر مقصد کے حصول میںلگادے۔ وہ کسی بھی عذر (excuse) کو عذر نہ سمجھے، کوئی بھی چیز اُس کو اپنے طے شدہ راستے سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو۔ اُس کے دماغ میں اگر کوئی خیال ایسا آئے جو اس کے طے شدہ مقصد کے خلاف ہو، تو وہ اس کو لڑ کر اپنے ذہن سے نکال دے۔
کامیابی کا فارمولا صرف دو ہے— صحیح مقصد، اور اس مقصد کے لیے مسلسل جدوجہد۔ جو آدمی اِن شرطوں کو پورا کرے، وہ لازماً اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا۔ کامیابی کے سفر کا بنیادی فارمولا یہی ہے۔ دوسری چیزیں جومطلوب ہیں، وہ اپنے آپ اس میں شامل ہوتی جاتی ہیں۔
جنون کا مطلب ہے اپنے آپ کو اپنے مقصد کے لیے وقف (dedicate) کردینا۔ جو آدمی اپنے وقت اور اپنی توانائی کو مختلف کاموں میں تقسیم کیے ہوئے ہو، وہ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ بڑاکام لازمی طورپر ڈیڈی کیشن (dedication) چاہتا ہے، یعنی پوری یک سوئی کے ساتھ ایک متعین نشانے کے لیے جدوجہد۔ اِس یک سوئی میں دوسرے پہلوؤں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، لیکن اِسی برداشت میں بڑی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
محترم جناب مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ اللہ تعالی کا ہزار شکر و احسان ہے کہ ہم سبھی احباب بعافیت ہیں۔ امید کرتا ہوں حضرت والا بھی بعافیت ہوں گے۔ ماہ نامہ الرسالہ (جنوری ،فروری، مارچ 2008 ) ایک ساتھ دستیاب ہوا۔ الحمد للہ مدرسے کے اساتذہ کرام اور طلبہ کو بھی الرسالہ سے پورا فائدہ حاصل ہورہا ہے اور قرب و جوار میں رہنے والے دینی شوق رکھنے والے دوستوں کو بھی۔ آپ کی توجہات کا شکریہ کہ آپ نے اس لائق سمجھا اور مدرسے کے نام الرسالہ جاری فرمادیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم سے نوازے، آمین۔ ملکی حالات کافی کشیدہ ہیں۔ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ملک میں دستور سازی کا الیکشن ہونے والا ہے۔ مسلمانوں کی شمولیت اچھی ہو اور مسلمانوں کے حق میں بھی ضابطے بنیں، ابھی تک تو مسلمان دستور کے اعتبار سے ملک میں برائے نام ہیں۔ بس دعاء اور رہ نمائی کی درخواست ہے (مولانا محمد حسین خاںندوی، مدرسہ حرمین ، نیپال)۔
جواب
ماہ نامہ الرسالہ میںمسلسل طورپر جو ذہن دیا جاتا ہے، وہ اِس سے مختلف ہے۔ ہم کسی ملک کو اِس لحاظ سے نہیں دیکھتے کہ مسلمان وہاں اکثریت میںہیں یا اقلیت میں۔سیاسی اعتبار سے وہاں کے ماحول میں کشیدگی ہے، یا کشیدگی نہیں ہے، یا یہ کہ دستور اور قانون میں مسلمانوں کو کیا حقوق دیے گیے ہیں، اور کیا حقوق نہیں دیے گئے ہیں۔ یہ سب باتیں ہمارے نزدیک اضافی (relative) ہیں۔
اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ ہر ملک انسانوں کا ملک ہے۔ ہر ملک میںفطری طورپر مسائل ہوتے ہیں، خواہ وہ نام نہاد مسلم ملک ہو، یا غیر مسلم ملک۔ اِسی طرح ہم یہ بھی نہیں مانتے کہ کسی کو اس کے حقوق، دستور اور قانون کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ کسی کو اُس کا حق خود اپنی ذاتی استعداد کی بنیاد پر ملتا ہے، نہ کہ کسی کے عطیہ کی بنیاد پر۔
کسی نقطۂ نظر کے درست ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ آدمی کے اندر نہ احساسِ برتری (superiority complex)پیدا کرے، اور نہ وہ احساسِ کم تری (inferiority complex) پیدا کرنے کا سبب بنے۔ اور مذکورہ نقطہ نظر اِس معیار کے اوپر کامل طورپر پورا اترتا ہے۔ احساسِ برتری اور احساسِ کم تری دونوں یکساں طور پر مہلک ہیں۔ مذکورہ نقطہ نظر،انسان کو اِن دونوں برائیوں سے بچانے کا واحد ذریعہ ہے۔ہمارا ماننا ہے کہ آدمی کو خدا کے اعتماد پر جینا چاہیے، نہ کہ سیاسی اور سماجی حالات کے اعتبار پر۔ سیاسی اور سماجی حالات خواہ کچھ ہوں، لیکن جس آدمی کو خدا پر حقیقی اعتماد ہو، وہ ہر حال میںیکساں طورپر مثبت نفسیات کا مالک بنا رہے گا۔ اس کی شخصیت کی تشکیل، اس کی اپنی داخلی سوچ کی بنیاد پر ہوتی ہے، نہ کہ خارج میں پائی جانے والی کسی موافق یا غیر موافق صورتِ حال کی بنیاد پر۔
سیاسی، یا غیر سیاسی مسائل چوں کہ بظاہر کچھ انسانوں کی طرف سے پیش آتے ہیں، اِس لیے لوگ ان کو انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھ لیتے ہیں اور اس کے خلاف نفرت اور تشدد کا ہنگامہ شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ بلا شبہہ ایک مہلک قسم کی غلط فہمی ہے۔ یاد رکھیے، ہر مسئلہ، خواہ وہ سیاسی ہو، یا غیر سیاسی، وہ ہمیشہ نظامِ فطرت کا ایک حصہ ہوتا ہے، نہ کہ محض کسی انسان کا ظلم، یا اس کی سازش۔
موجودہ زمانے کے مسلمان، اُن کے بڑے اور چھوٹے، سب زندگی کے اِس راز سے بے خبر ہیں۔ اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایت میں جی رہے ہیں۔ موجودہ زمانے کا شاید ہی کوئی مسلمان ہو جو نفرت اور شکایت کی نفسیات سے خالی ہو۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اِس منفی نفسیات سے اپنے کو پاک کریں۔ جب تک ایسا نہ ہو، مسلمانوں کے اوپر سعادت کے دروازے بند رہیں گے، جیسا کہ اِس وقت وہ ان کے اوپر بند ہیں۔ یہ بظاہر ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن اِس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنے ہی میں مسلمانوں کے لیے تمام بھلائیوں کا راز چھپا ہوا ہے۔
اِس معاملے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شکایت، شکر کی قاتل ہے۔ جو آدمی شکایت کی نفسیات میںمبتلا ہو، وہ کبھی حقیقی شکر کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کی نصرتیں صرف شکر کرنے والے بندوں کے لیے مقدر ہیں۔ شکر نہیں تو نصرت بھی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 186

1 - 28 فروری 2008 کو 24 افراد پر مشتمل ایک وفد اسلامی مرکز میںآیا۔ اس نے ’’اسلام اور صوفی ازم‘‘ کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا خطاب سنا۔ اس وفد کے ذمے دار کاایک تاثراتی خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
Dear Maulana Wahiduddin Khan!
The group were so blest to have heard your speach and I know the African brothers would love to have you with them in their country. Your presence and your lived peace “spoke” louder than your words to them. Thank you and your lovely family for such hospitality. Truly the group have left with a whole new concept of 'Islam' and with a big question: “Why no one else can grasp the message as you did”. With our thanks and very warm regards and hope for your continued sharing,. (Gloria Bunett, America, March 13, 2008)
2 - سرودھرم سنسد (Parliament of Religions) کا پہلا کنونشن 29 مارچ 2008 کو ہوا۔ اس کی کارروائی نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشنل کلب میں انجام پائی۔ یہ کنونشن ہر قسم کے سماجی بھید بھاؤ (discrimination) کے خلاف تھا، خواہ وہ جس بنیاد پر بھی ہو۔ اِس کنونشن میں سوامی اگنی ویش، فادر تھمپواور دوسرے مذہبی رہ نما شریک ہوئے۔ اسلام کی نمائندگی کرنے کے لیے اِس کنونشن کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کو دعوت نامہ ملا تھا، لیکن وہ کسی وجہ سے ذاتی طورپر اس میں شریک نہ ہوسکے۔ تاہم کنونشن کے ذمہ داروں کی درخواست پر صدر اسلامی مرکز نے ایک تحریر ان کو بھیج دی، جو کہ کنونشن کے موقع پر وہاںپیش کی گئی۔
3 - 30مارچ 2008 کو انگلینڈ کے دو اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبان اسلامی مرکز میںآئے۔ ان کے نام یہ ہیں:
Sir Mark Tully
Dr. Richard Cheetham
(Bishop of Kingston, U.K.)
اِن لوگوں نے صدر اسلامی مرکز سے اسلام کے مختلف موضوعات پر تفصیل کے ساتھ گفتگوکی۔ مثلاً یہ کہ مسلمان اِس وقت جن مسائل سے دوچار ہیں، ان کا اسلام کے مطابق کیاحل ہے۔ جدید بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان بہتر تعلق قائم کرنے کے لیے اسلام کی تعلیم کیا ہے۔ ہمارا مشن مسلمانوں کے لیے اور غیرمسلموں کے لیے کیا کام کررہا ہے۔ تمام سوالات کا جواب تفصیل کے ساتھ دیاگیا۔ ان لوگوں نے آخر میں اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ملاقات ہمارے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔
4 - این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے 2 اپریل 2008 کو اپنے ایک پروگرام کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈکیا۔ انٹرویور کا سوال یہ تھا کہ اسلام میں ری برتھ (re-birth) یا ری انکارنیشن (reincarnation) کا تصور کیا ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام کے تصور کے مطابق، برتھ اور ری برتھ دونوں ایک ایک بار ہیں۔ موت کے بعد آدمی اگلی دنیا میں چلا جاتا ہے۔ وہ دوبارہ موجودہ دنیا میں واپس نہیںآتا۔ موت کے بعد کی دنیا میںآدمی کے عمل کے مطابق، اس کے انعام یا اس کی سزا کا دور شروع ہوجاتا ہے۔ یہ سوال وجواب انگریزی زبان میں تھا۔
5 - سی پی ایس انٹرنیشنل اور گڈ ورڈ کی طرف سے 5 اپریل 2008 کو انڈیاانٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں بڑی تعداد میں ہندواور مسلمان دونوں طبقے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے کیا گیا تھا۔ اِس کا عنوان یہ تھا:
The Message of the Prophet Muhammad.
ایک گھنٹے کی تقریر میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ابدی پیغام کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔ مثلاًتوحید، عالمی اخوت، امن اور انسانی ہمدردی، وغیرہ۔ لوگوں نے اس کو بہت پسند کیا۔ اِس موقع پر تمام آنے والوں کو اسلامی لٹریچر بھی دیا گیا۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔
6 - محترم المقام مولانا وحید الدین خاں صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ! السلام علیکم ورحمۃاللہ۔ امید کہ مزاج گرامی ہر طرح بخیر و خوبی ہوں گے۔ ’’الرسالہ‘‘ ہر ماہ نظر نواز ہوتا ہے، خرید کر پڑھتا ہوں۔ آپ کی تحریروں نے مجھے ایک نئی زندگی بخشی ہے۔ مجھ ٹوٹے ہوئے انسان کو بنانے، سنبھالنے اور سنوارنے میں، بلکہ مجھ میںایک نیا انسان پید کرنے میں آپ کے توانا قلم کا غیر معمولی رول رہا ہے۔ ان حقائق کا اظہار میں نے آپ کی خدمت میں پہلے بھی کیا ہے، آج بھی کررہا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ جامعہ دار السلام عمر آباد سے ایک ماہ نامہ گزشتہ 17 سال سے شائع ہورہا ہے۔ ہر سال کسی خاص موضوع پر اس کے خصوصی شمارے نکلتے ہیں۔ امسال ستمبر (2007)میںاس کا خصوصی شمارہ بعنوان ’’مسلمانوں کے مسائل، امراض او ران کا علاج‘‘ طے ہے۔ میرا احساس ہے کہ کسی مرض کے ازالے کے لیے دو چیزیں بہت اہم ہیں: (1) مرض کی صحیح تشخیص (2) دواؤں کی صحیح تجویز۔ یہ خوبی آپ کے علاوہ میںنے دوسروں میں نہیں پائی ہے۔ خصوصی شمارے کے لیے تجویز کردہ درج ذیل عناوین بھی آپ کی تحریروں کی دین ہیں:
(1) مسلمانوں میں حقیقت پسندی کا فقدان (2) مسلمانوں میں پروفیشنل ازم کا فقدان
(3) مسلمانوں میں دور اندیشی اور منصوبہ بندی کا فقدان (4) مسلمانوں میں احساسِ ذمہ داری کا فقدان
(5) مسلمانوں میں جذباتیت کا مسئلہ
ہماری دلی خواہش اور عاجزانہ گزارش ہے کہ مذکورہ بالا عناوین میں سے کسی ایک دوموضوعات پر آپ کی قیمتی تحریریں خصوصی شمارے کی زینت بنیں۔ امید کہ مایوس نہیں فرمائیں گے۔ آپ کے ’’جوابِ باصواب‘‘ کا انتظار رہے گا (مولانا محمد رفیع کلوری عمری، نائب مدیر ماہ نامہ ’’راہِ اعتدال‘‘ جامعہ دار السلام ،عمر آباد، یکم جولائی2007 ۔
واپس اوپر جائیں

Monday, 2 June 2008

Al Risala | June 2008 (الرسالہ،جون)

2

- حُبّ ِالٰہی، محبت ِرسول

4

- دوطرفہ معاملہ

5

- سب سے بڑا سوال

7

- تواصی بالحق ، تواصی بالصبر

12

- پہلے اپنی اصلاح

13

- قیامت کا بھونچال

15

- انسان نما حیوان

16

- ذہنی سکون کا راز

20

- دعوت کے نئے امکانات

21

- مسیحی مذہب کے عقائد

23

- قدیم شرک، جدید شرک

27

- فطرت کی آواز

28

- ایک علمی ملاقات

30

- مدرسہ کلچر

31

- عقل اور جذبات

32

- مسئلہ نہیںحل

33

- مقابلے کی دنیا

34

- زندگی کا فارمولا

35

- سوال وجواب

44

- خبر نامہ اسلامی مرکز — 185


حُبّ ِالٰہی، محبت ِرسول

مومن سے یہ مطلوب ہے کہ اس کو خدا سے اور خدا کے رسول سے نہایت گہرا قلبی تعلق ہو۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو خدا سے محبت کے درجے کا تعلق ہونا چاہیے (البقرۃ: 165 )۔ جہاں تک رسول کا تعلق ہے، قرآن میںرسول کے لیے محبت کا لفظ نہیںآیاہے، بلکہ اتباع اور اطاعت کے الفاظ آئے ہیں(آل عمران: 31)۔ تاہم حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول سے بھی محبت کے درجے کا تعلق مطلوب ہے۔ البتہ اللہ سے محبت اور رسول سے محبت کے درمیان وہی فرق پایا جائے گا جو خود اللہ اور رسول کے درمیان پایا جاتا ہے۔
حبّ ِالٰہی سے مراد عشقِ الٰہی نہیں ہے۔ اِسی طرح محبت ِ رسول سے مراد عشقِ رسول نہیں ہے۔ اِس معاملے میں عشق کا لفظ قرآن اور حدیث میں اجنبی ہے۔ اِس معاملے میں عشق کا تصور بلا شبہہ ایک مُبتدعانہ تصور ہے، جو بعد کے زمانے میں پیدا ہوا۔ محبت کا تعلق شعوری معرفت سے ہے، جب کہ عشق صرف ایک والہانہ کیفیت کا نام ہے۔ حقیقی محبت اعلیٰ معرفت کے ذریعے پیدا ہوتی ہے، جب کہ عشق ایک ایسی مبہم کیفیت کا نام ہے جس کو صرف وجد (ecstasy) اور بے خودی جیسی پُراسرار حالت سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔
محبت ِ الٰہی کا سرچشمہ یہ ہے کہ آدمی جب بے شمار خدائی انعامات کے بارے میں سوچتا ہے، تو فطری طور پر اس کے اندر اِن انعامات کے مُنعم کے بارے میں گہرا جذبۂ اعتراف پیدا ہوتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں رسول سے محبت کا جذبہ اِس اعتبار سے پیدا ہوتا ہے کہ رسول کے ذریعے ہم کو خدا کی ہدایت ملی۔ اِس کے بغیر ہم خدا کی ہدایت سے محروم رہتے۔
دونوں کے درمیان فرق کو اِس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ خدا سے محبت فوق الطبیعی جذبے کے تحت پیدا ہوتی ہے، اور رسول سے محبت طبیعی جذبے کے تحت۔ خدا سے محبت، ربّ العالمین سے محبت ہے، اور رسول سے محبت، رب العالمین کے فرستادہ سے محبت۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایؤمن أحدکم حتّٰی أکون أحبَّ إلیہ من والدہ وولدہ والنّاس أجمعین۔ ایک اور روایت میں اِن الفاظ کا اضافہ ہے: مِن أہلہ ومالہ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری، کتاب الإیمان، باب حبّ الرّسول) یعنی تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک اُس کا یہ حال نہ ہوجائے کہ میںاس کے لیے اس کے والد سے اور اس کی اولاد سے اور اس کے اہل سے اور اس کے مال اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
محبت ِ رسول کے بارے میں جو روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں، اُن میں یہ بات بہت زیادہ قابلِ غور ہے کہ اُن میں سے کسی روایت میںاِس قسم کے الفاظ نہیںآئے ہیں کہ تم رسول سے اُسی طرح محبت کرو، جس طرح تم خدا سے محبت کرتے ہو۔ اِس کے بجائے روایتوں میںاِس قسم کے الفاظ آئے ہیں کہ تمھارا ایمان باللہ اُس وقت مکمل ہوگا، جب کہ تم رسو ل سے اُس سے بھی زیادہ محبت کرو جتنا کہ تم اپنے والد سے، اپنے اہل سے اور اپنے مال اور اولاد سے محبت کرتے ہو، یعنی اِن روایتوں میں خداکے برابر محبت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اپنی محبوباتِ دنیا سے زیادہ، رسول سے محبت کا ذکر ہے۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں محبتوں میں ایک نوعی فرق ہے۔ حبّ ِ الٰہی بہ معنیٰ تعظیم اور اِجلال مراد ہے، اور حبّ ِ رسول بہ معنی ترجیح اور تقابل مراد ہے۔ حبّ ِ الٰہی ایک مطلق نوعیت کی محبت ہے۔ اِس کے مقابلے میں حبّ ِ رسول کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بہ مقابلہ محبوباتِ دنیا مراد ہے۔جو لوگ محبوباتِ دنیا سے اوپر نہ اٹھیں، وہ رسول کے ربّانی مشن میںاپنے آپ کو پوری طرح وقف نہیں کرسکتے۔ جوآدمی خدا کے رسول کو خدا کے رسول کی حیثیت سے پہچانتا ہے، وہ فوراً ہی یہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ اصحابِ رسول کی طرح رسول کے دعوتی مشن میں شامل ہوجائے۔ یہ شُمولیت اعلیٰ درجے میںاُسی وقت ہوسکتی ہے، جب آدمی کو رسول کے ساتھ محبت کے درجے کا تعلق پیدا ہوجائے۔
رسول سے محبت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول سے عاشقانہ اور والہانہ تعلق ہو، جیسا کہ کسی نعت خواں، یا قوّال میں بظاہر دکھائی دیتاہے۔ بلکہ رسول سے محبت کامطلب یہ ہے کہ رسول کے دعوتی مشن سے گہرا لگاؤ ہو۔ ہر دوسری چیز کو ثانوی (secondary) بناکر آدمی رسول کے دعوتی مشن کو اپنا دعوتی مشن بنالے، جس طرح خود رسول نے اپنی زندگی میں کیا تھا۔
واپس اوپر جائیں

دوطرفہ معاملہ

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایرمی رجلٌ رجلاً بالفسق ولا یرمیہ بالکفر إلاّ ارتدّت علیہ، إن لم یکن صاحبہ کذٰلک (مسند احمد، جلد 5 ، صفحہ 181) یعنی جب بھی ایک آدمی دوسرے آدمی پر کافر یا فاسق ہونے کا الزام لگاتا ہے، تو ضرور یہ الزام خود قائل کی طرف لوٹ آتا ہے، اگر دوسرا آدمی ویسا نہ ہو۔
یہ کوئی پُر اسرار بات نہیں۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے جس کو خدا نے اِس دنیا میں قائم کررکھا ہے۔ اِس قانون کو موجودہ زمانے میں بوم رَینگ (boomerang) کا قانون کہاجاتا ہے۔یعنی کسی چیز کو آپ جس قوت سے دوسرے کی طرف پھینکیں، اُسی قوت سے وہ آپ کی طرف لوٹ کر آئے گی:
It is the law of the boomerang — the harder and faster you throw it, the faster and more violently it comes back.
جب کوئی آدمی کسی کو بُرا کہتا ہے، یا اس کو فاسق یا کافر بتا تا ہے تو وہ اس کو اپنے داخلی احساس کے تحت صرف ایک یک طرفہ معاملہ سمجھتا ہے، یعنی ایک ایسی بات جس کا تعلق خود اس کی اپنی ذات سے نہیں ہے، بلکہ صرف دوسرے شخص کی ذات سے ہے۔ مگر یہ ایک خطرناک بھول ہے۔ کیوںکہ اگر دوسرا آدمی ویسا نہیں ہے جیسا آپ نے اس کو بتایا ہے، تو آپ کا کہا ہوا خود آپ کی طرف لوٹ آئے گا۔ جو الزام آپ دوسرے شخص کو دے رہے تھے، آپ خود اس کے مجرم بن جائیں گے۔
اب اگر یہ دیکھا جائے کہ فسق یا کفر کا تعلق انسان کے دل سے ہے، اور دل کا حال صرف خدا جانتا ہے تو ہر وہ شخص جو خدا سے ڈرتا ہو، اس کا حال یہ ہوجائے گا کہ اِس قسم کی زبان استعمال کرنے سے وہ آخری حد تک بچے گا۔ وہ اگر کسی شخص کے اندر کوئی برائی دیکھ رہا ہے تو وہ خیر خواہانہ انداز میں اس کو نصیحت کرے گا۔ وہ ہر گز ایسا نہیں کرے گا کہ وہ اس کے بارے میں فاسق اور کافر جیسی زبان بولنے لگے۔ وہ کسی شخص کے فسق اور کفر کو خدا کے اوپر چھوڑ دے گا، اوراپنی ذمے داری صرف یہ سمجھے گا کہ وہ نصیحت اور تلقین کے ذریعے دوسرے انسان کی اصلاح کی کوشش کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑا سوال

انسان بہترین جسم اور اعلیٰ دماغ کے ساتھ اِس دنیا میں آتا ہے۔ اُس کے لیے سوچنے کی سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ کیسے بنا۔ پھر وہ جس دنیا میں آتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ دنیا استثنائی طورپر اس کے لیے ایک انتہائی موافق دنیا ہے۔ یہاں وہ ایک ایسی زمین کو پاتا ہے جس پر وہ پُرراحت طورپر رہے۔ یہاں سورج ہے جو مسلسل طورپر اُس کو روشنی اور انرجی دے رہا ہے۔ یہاں زرخیز مٹی ہے جو اُس کے لیے مختلف قسم کی غذائیں اُگاتی ہے۔ یہاں وافر مقدار میں پانی ہے جو زندگی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔ یہاں ہوا ہے جو مسلسل طورپر اس کو آکسیجن سپلا ئی کررہی ہے۔
یہ سیارۂ زمین جس پر انسان آباد ہے، وہ بے شمار طریقوں سے اس کا مدد گار بنا ہوا ہے۔ یہاں نہایت اعلیٰ قسم کا لائف سپورٹ سسٹم ہے، جس کے بغیر انسان کے لیے یہاں زندہ رہنا اور ترقی کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اِس دنیا میں اتنی زیادہ نعمتیں ملی ہوئی ہیںجن کا شمار کرنا ممکن نہیں۔ اِن نعمتوں میں سے صرف کچھ نعمتوں کو سائنس نے دریافت کیا ہے۔ یہ دریافت کردہ نعمتیں بھی اتنی زیادہ ہیںکہ کوئی انسان ساری عمر مطالعہ کرے، تب بھی وہ کامل طورپر اُن سے واقف نہیں ہوسکتا۔
یہ صورت ِ حال اپنے آپ میںایک سوال ہے، اتنا بڑاسوال کہ کوئی بھی عورت یا مرد اُن کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ انسان کا اپنا حیرت ناک وجود اور آس پاس کی حسین دنیا مجبور کررہی ہے کہ ہر انسان اِن سوالات پر غور کرے اور ان کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرے۔
یہ سوالات گویا ایک خاموش پکار ہیں— مجھ کو کس نے بنایا۔ اِس دنیا کا بنانے والا کون ہے۔ وہ کون ہے جس نے مجھ کو اتنا زیادہ با معنیٰ قسم کا لائف سپورٹ سسٹم پیدا کرکے دے دیاہے۔ اِس دنیا میں ہر چیز ایک عظیم نعمت ہے، اور ہر نعمت زبانِ حال سے پکار رہی ہے اور دعوت دے رہی ہے کہ اِس معاملے پر غور کرو اور دریافت کرو کہ اِن نعمتوں (blessings) کا مُنعم (giver) کون ہے۔
اِسی کے ساتھ ایک اور نہایت سنگین سوال ہے جو اِن سوالات کے ساتھ جُڑا ہوا ہے، وہ یہ کہ انسان انتہائی قیمتی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اُس کا دماغ معجزاتی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ وہ اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے لامحدود ترقی حاصل کرنا چاہتا ہے، بظاہر یہ سب کچھ ابدی معلوم ہوتا ہے، لیکن ابھی وہ اپنے سفرِ حیات کے درمیان میں ہوتا ہے کہ سوسال سے بھی کم عرصے میںکوئی نامعلوم طاقت مداخلت کرتی ہے۔ وہ اُس پر موت وارد کرکے اُس کو موجودہ دنیا سے اٹھا کر کسی اور دنیا میں پہنچا دیتی ہے۔
یہ تمام سوالات نہایت گمبھیر سوالا ت ہیں، وہ لازمی طورپر اپنا ایک جواب چاہتے ہیں۔ کوئی عورت یا مرد جو اپنی زندگی کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ اِن سوالات کا جواب معلوم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اِن سوالات کا صحیح جواب ہی ہماری موجودہ زندگی کی درست توجیہہ کرتا ہے، اور اِسی کے ساتھ اِن سوالات کا جواب ہی ہم کو یہ بتاتا ہے کہ حقیقی طورپر زندگی کو با معنیٰ اور کامیاب بنانے کے لیے ہمیں کیا کرناچاہیے۔
اِن سوالات پر پوری تاریخ میں غور و فکر کیا جاتا رہا ہے۔ انتہائی بڑے بڑے دماغ اِن سوالات کا جواب معلوم کرنے کے لیے ہمیشہ سرگرم طورپر کوشش کرتے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ جس جواب نے عالمی دماغوں کو مطمئن کیا ہے، وہ یہ کہ اِس دنیا کا ایک خدا ہے، وہی اِس کا خالق ہے، وہی اس کا مالک ہے، وہی اس کا انتظام کررہا ہے، وہی اپنی عظیم طاقتوں کے ساتھ اِس پوری دنیا کو سنبھالے ہوئے ہے۔
پھر یہ کہ اِس دنیا کو خدا نے ایک خصوصی تخلیقی پلان (creation plan) کے تحت پیدا کیا ہے۔ اِس پلان کے مطابق، انسان ایک ابدی مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن انسان کو پیداکرنے والے نے اس کی زندگی کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس کا بہت تھوڑا حصہ موت سے قبل کے مرحلۂ حیات میںہے، اور اس کا زیادہ بڑا حصہ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں۔ آدمی جب اِس دنیا میں مرتا ہے تو وہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اگلی دنیا میں داخل ہوجاتاہے، تاکہ وہ اپنی بقیہ زندگی وہاں کے ابدی ماحول میں گزارے۔
واپس اوپر جائیں

تواصی بالحق ، تواصی بالصبر

27 اگست 2007 کو میں نے رات میں ایک خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک آواز آئی۔ اُس نے کہا کہ اٹھو۔ میںنے کہا کہ میںتو اٹھا ہوا ہوں۔ اُس نے کہا ’تواصی بالحق‘ کو جانو، ’تواصی بالحق ‘ کو جانو، ’تواصی بالحق‘ کو جانو، میںنے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیا ہے۔ اُس نے کہا، ’تواصی بالحق‘ کوجانو، میںنے کہا کہ آپ مجھے بتائیے۔ اُس نے کچھ دیر تک مجھے سمجھایا۔ میں نے کہا کہ آپ نے جو کہا، میں اس کو سمجھ نہیں پایا۔ اُس نے کہا کہ اِسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ تواصی بالحق کو سمجھو۔ اِس کے بعد میری آنکھ کُھل گئی۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ یہ لفظ نہ میرے مطالعے میں تھا اور نہ مجھے اُس کا مفہوم معلوم تھا۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ میں ’تواصی بالحق‘ کو کیسے سمجھوں۔ اِس میں آپ میری مدد فرمائیں (حبیب محمد، حیدر آباد)
’تواصی‘ کا لفظ قرآن کی سورہ نمبر 103 میںآیا ہے۔ اِس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: زمانہ گواہ ہے کہ بے شک، انسان گھاٹے میں ہے۔ سوا اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیا، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی:
History is a witness that man is in loss. Except those who believe and do good, and exhort on each other truth, and exhort on each other patience.
قرآن کی اِس سورہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ایک روایت میںبتایا گیا ہے کہ دو صحابی جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو وہ یاددہانی کے لیے آپس میں اِس سورہ کا تذکرہ کرتے تھے (عن أبی حُذیفہ قال: کان الرّجلان مِن أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا التقیا، لم یتفرّقا حتّٰی یقرأ أحدُہما علی الآخر سورۃَ العصر، ثمّ یسلّم أحدہما علی الآخر، رواہ البیہقی فی شعب الإیمان)۔
قرآن کی اِس سورہ میں مومنانہ زندگی کا کورس بتایا گیا ہے۔ یہ کورس بنیادی طورپر تین اجزا پر مشتمل ہے— ایمان اور عمل اور تواصی۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی کو شعور کی سطح پر خدا کی معرفت حاصل ہو۔ یہ معرفت ایک انسان کے لیے ذہنی انقلاب کے ہم معنیٰ ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی نے اپنی تلاش کا جواب پالیا۔ آدمی کو اپنی فکری سرگرمیوں کے لیے صحیح فریم ورک مل گیا ۔ آدمی کو ظاہری بصارت کے ساتھ، داخلی بصیرت کی روشنی حاصل ہوگئی۔ آدمی کو اپنی ذہنی تگ و دَو کا مرکز حاصل ہوگیا۔ آدمی کے اندر اُس ہستی کا شعور پیداہوگیا، جس سے وہ سب سے زیادہ ڈرے اور جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرے۔
اِس کورس کا دوسرا جُز عملِ صالح ہے۔ عملِ صالح سے مراد وہ عمل ہے جو عین حقیقتِ واقعہ کے مطابق ہو۔ عملِ صالح کی اِس فہرست میں ذکر و دعا، عبادات، اخلاق اور معاملات، وغیرہ سب شامل ہیں۔ ہر وہ کام جس میں انسان کا جسمانی وجود شامل ہوتا ہے، وہ سب اُس کا عمل ہے اور یہ مطلوب ہے کہ اِن تمام اعمال کو صالحیت کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی عمل کی دو قسمیں ہیں— ایک، خود رُخی(self-oriented) عمل اور دوسرے، خدا رُخی (God-oriented)عمل۔ اسلامی شریعت میں خود رخی عمل کا دوسرا نام غیر صالح عمل ہے اور خدا رخی عمل کا دوسرا نام صالح عمل۔
اِس کورس کا تیسرا جُز تواصی ہے۔ تواصی میں مشارکت پائی جاتی ہے۔اِس کا مطلب ہے ایک دوسرے کو نصیحت کرنا۔ دو آدمی ایک دوسرے کی خیر خواہی کے جذبے کے تحت، سنجیدہ موضوعات پر ایک دوسرے کے ساتھ جو گفتگو کریں، اُس کانام تواصی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ تواصی نام ہے باہمی تبادلۂ خیال(mutual discussion) کا۔ دینی موضوعات پر باہمی ڈسکشن کسی مومن کی زندگی کا اُسی طرح ایک ناگزیر حصہ ہے، جس طرح ایمان اور عملِ صالح۔
یہ باہمی تبادلۂ خیال، یا انٹلکچول ایکسچینج (intellectual exchange) ذہنی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انٹلکچول ایکسچینج کے بغیر ذہنی ترقی بالکل ممکن نہیں۔ جب دو آدمی سنجیدگی کے ساتھ ایک موضوع پر تبادلۂ خیال کریں تو دو آدمیوں کی گفتگو کے دوران ایک تیسرا تصور ایمرج (emerge)کرتا ہے، جس طرح دو پتھروں کے ٹکرانے سے ایک تیسری چیز نکلتی ہے، یعنی چنگاری۔ اِسی طرح باہمی تبالۂ خیال دونوں کے لیے ذہنی ارتقاکا ذریعہ بنتا ہے۔
اہلِ ایمان کے لیے تواصی کے اِس عمل کا موضوع صرف دو ہے، اور وہ ہے— حق اور صبر۔ حق میں تمام مثبت موضوعات شامل ہیں۔ مثلاً قرآن اورحدیث کے گہرے معانی کو سمجھنے کے لیے باہمی تبادلۂ خیال کرنا۔ یہ مقصد صرف قرآن کی تلاوت سے حاصل نہیں ہوتا۔ اُس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور حدیث کو چرچا اور تبادلۂ خیال کا موضوع بنادیا جائے۔ یہ مقصد صرف سنجیدہ ڈسکشن کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔مثلاً ہر گھر میں یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ کبھی کسی نقصان کا تجربہ ہوتا ہے اور کبھی کسی فائدے کا تجربہ۔ عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ گھروں میںنقصان کے واقعے کو لے کر لوگ منفی انداز میں بولنے لگتے ہیں۔ اِسی طرح فائدے کے واقعے کو لے کر خوشی اور فخر کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ دونوں طریقے غلط ہیں۔
اصل یہ ہے کہ ایسے موقع پر قرآن کی آیت: لکیلا تأ سَو علیٰ ما فاتکم ولا تفرحوا بما آتاکم (الحدید: 23 ) کو چرچا کا موضوع بنایا جائے، یعنی اگرنقصان کا تجربہ ہو تو اُس پر اِس انداز سے آپس میں بات کی جائے کہ مایوسی کا احساس لوگوں کے اندر سے ختم ہوجائے ۔ اور اگر فائدے کا تجربہ ہو، تب بھی اُس پر اِس انداز سے باہم گفتگو کی جائے کہ لوگوں کے اندر فخر کے بجائے شکر کا جذبہ پیدا ہو۔
اِسی طرح نئے واقعات بھی اِس تواصی کا موضوع بن سکتے ہیں۔مثلاً حال میں چھپی ہوئی ایک کتاب کے اندر یہ انکشاف کیا گیاہے کہ مدر ٹریسا (وفات:1997 ) جو تقریباً ستّر سال تک خدا کے نام پر سوشل سروس کرتی رہیں، مگر اُنھیں اپنے اِس عمل کے دوران کبھی سچائی کا تجربہ نہیںہوا۔ وہ مسلسل طورپر مذہبی اور روحانی اعتبار سے سوہانِ روح (agony) میںمبتلا رہیں (ٹائم میگزین، 3 ستمبر 2007)۔ اب اِس خبر پر آپ باہم ہمدردانہ تبادلۂ خیال کریں کہ مدر ٹریسا کے ساتھ یہ ٹریجڈی کیوں پیش آئی۔
تواصی کے عمل کا دوسرا موضوع صبر ہے۔ صبر کوئی انفعالی چیز نہیں۔ وہ اعلیٰ درجے کا مثبت عمل ہے۔ اِس دنیا میں آدمی کو مسلسل طور پر ناموافق حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایسی حالت میں تو اصی بالصبر یہ ہے کہ دو آدمی یا چند آدمی اِس پر گفتگو کریں کہ ناموافق حالات کے باوجود، کس طرح ایمان اور عملِ صالح کی زندگی کی منصوبہ بندی کی جائے۔
میرے تجربے کے مطابق، اِس تواصی کا پہلا میدان آدمی کا اپنا خاندان ہے، خاندان، عورت اور مرد کے اُس مجموعے کا نام ہے جن کے درمیان خونی رشتہ(blood relationship) ہوتا ہے۔ اِس دنیا میں سماجی تعلقات کے درمیان سب سے زیادہ طاقت ور رشتہ خونی رشتہ ہوتا ہے۔ یہ خونی رشتہ انٹلکچول ایکسچینج کے لیے بے حد مفید ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ باہمی تبادلۂ خیال کے لیے دونوں فریق کے درمیان باہمی موانست بے حد ضروری ہے۔ اور خاندانی افراد کے درمیان یہ موانست کامل درجے میں پائی جاتی ہے۔
صحت مند تبادلۂ خیال کے لیے ایک لازمی شرط ہے، اور وہ یہ ہے کہ ساری گفتگو’حق‘ اور ’صبر‘ کے موضوع پر کی جائے۔ دیگر موضوعات سے مکمل طورپر پرہیز کیا جائے۔ دیگر موضوعات مثلاً نفرت اور شکایت کا چرچا، دنیوی اہمیت کی چیزیں اورسطحی موضوعات پر تفریحی باتیں، وغیرہ۔ یہ سب اِس معاملے میں ڈسٹریکشن ہیں۔ اور ڈسٹریکشن اتنی زیادہ تباہ کُن چیز ہے جس کا تحمل ایک حق پرست آدمی کبھی نہیں کرسکتا۔
قرآن کی سورہ نمبر 33میں اہلِ بیتِ رسول کے بارے میں ایک آیت آئی ہے۔ وہ آیت یہ ہے: یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس أہل البیت، ویُطہّرکم تطہیراً (یعنی اللہ تو چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیت سے آلودگی کو دور کرے اور تم کو پوری طرح پاک کردے (الأحزاب:33 )۔
اِس آیت میں بظاہر اہلِ بیتِ رسول کا ذکر ہے، مگر یہاں پرٹکلر ریفرنس (particular reference) میں ایک جنرل تعلیم دی گئی ہے۔ اِس اعتبار سے یہاں ہر صاحبِ ایمان کے اہلِ بیت مراد ہیں۔ اِس آیت میں دو چیزوں کا ذکر ہے— رِجس کو دور کرنا اور تطہیر کرنا۔ بظاہر اِن دونوں عمل کو خدا کی طرف منسوب کیاگیا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبارسے یہ وہی چیز ہے جس کو تواصی کہاگیا ہے۔ تواصی کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ بیت کے لیے کیا۔ اِسی طرح ہر اہلِ ایمان عورت اور مرد کو اپنے اہلِ بیت پر تواصی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔
اہلِ بیت کی تواصی سے مراد سادہ طورپر خاندان کی اصلاح نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مومن خاندان کے اندر یہ ماحول ہونا چاہیے کہ افرادِ خاندان ایک دوسرے کے ساتھ تواصی میں شریک ہوجائیں۔ہر گھر میں ایسا ہونا چاہیے کہ لوگوں کے درمیان چرچا یا تبادلۂ خیال صرف دو موضوعات پر ہو، یعنی حق کے موضوع پر اور صبرکے موضوع پر۔ ہر خاندان میںیہ ماحول ہو کہ دُنیوی چیزیں ضرورت کے خانے میں ڈال دی جائیں، دُنیوی چیزیں اہلِ خاندان کے درمیان چرچا کا موضوع نہ ہوں، بلکہ چرچا کا موضوع صرف وہ چیزیں ہوں جن کا تعلق دین اور آخرت سے ہو۔
مزید غور کیجیے تومعلوم ہوگا کہ ہر انسان کے لیے خدا نے اُس کے اہلِ بیت کی صورت میں ایک فطری گروپ فراہم کردیا ہے، جس کے ذریعے وہ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی عبادت کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور عملِ صالح کے بعد ہر مومن کی ایک اور ضرورت ہے اور وہ ہے اس کا ذہنی ارتقا۔ اِس ذہنی ارتقا میں مطالعہ اور مشاہدہ کے علاوہ انٹلکچول ایکسچینج بہت زیادہ اہم ہے۔
کسی خاندان کے افراد کا سب سے بڑا رول یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے انٹلکچول پارٹنر (intellectual partners) بن جائیں، جس طرح کسی اکیڈمی میں کچھ اسکالر ہوں تو وہاں وہ شاپنگ اور آؤٹنگ کی بات نہیں کرتے، بلکہ وہاں وہ سنجیدہ علمی موضوعات پر بات کرتے ہیں۔یہی معاملہ ہر مومن خاندان کا ہونا چاہیے۔ مومن خاندان کے ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے جب بھی بات کریں تو وہ صرف علمی اور دینی موضوعات پر بات کریں۔ دوسرے موضوعات کو قصداً وہ اپنے لیے چرچا کا موضوع نہ بنائیں۔ ہر مومن فیملی کو چاہیے کہ وہ باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعے یہ کوشش کرے کہ کسی فردِ خاندان کے اندر منفی جذبات پرورش نہ پائیں۔ ہر ایک مثبت ذہن کے ساتھ جینے والا انسان بن جائے۔
بچوں کی اصلاح کا بھی یہی سب سے زیادہ کارگر ذریعہ ہے۔ عام طورپر ماں باپ صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی خوشی پوری کرتے رہیں، مگر یہ بچوں کے ساتھ محبت نہیں بلکہ وہ بچوں کے ساتھ دشمنی ہے۔ اِس معاملے میں ایک حدیثِ رسول، والدین کے لیے رہ نما اصول کی حیثیت رکھتی ہے: مانحلَ والدٌ ولدَہ من نُحْلٍ أفضلَ من أدبٍ حسَنٍ۔ یعنی کسی والد کی طرف سے اُس کی اولاد کے لیے سب سے اچھا عطیہ یہ ہے کہ وہ اُس کو اچھے اخلاق اور آدابِ حیات کی تعلیم دے (الترمذی، کتاب البِّر)۔
بچوں کی تعلیم وتربیت کا یہ مقصد اِس طرح حاصل نہیں ہوسکتا کہ والدین اپنے بچوں کو یہ کرو اور وہ نہ کرو (do’s and don’ts) کی زبان میں کچھ ہدایات دیتے رہیں، بلکہ یہ مقصد صرف اِس طرح حاصل ہوسکتا ہے کہ پورے گھر کے اندر تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا ماحول قائم ہوجائے۔ گھر کے اندر چرچا کا موضوع صرف ایک ہو اور وہ حق اور صبر ہو۔
واپس اوپر جائیں

پہلے اپنی اصلاح

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ آپ غیر مسلموں میں دعوت الی اللہ کی تحریک چلارہے ہیں، لیکن پہلا کام خود اپنی اصلاح ہے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کام کریں۔ جب مسلمانوں کی اصلاح ہوجائے گی تو اس کے بعد غیر مسلموں میںدعوت کا کام اپنے آپ ہونے لگے گا۔
میںنے کہا کہ یہ نظریہ آپ نے خود اپنے ذہن سے بنایا ہے، یا آپ نے اس کو قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم کیا ہے۔ وہ اپنے اِس نظریے کے حق میں قرآن اور حدیث سے کوئی حوالہ نہ دے سکے۔ میںنے کہا کہ جو بات قرآن اورحدیث میںنہ کہی گئی ہو، اس کو اپنی طرف سے کہنے کا نام بدعت ہے، اور بدعت ایک گم راہی ہے۔ ’’پہلے اپنی اصلاح‘‘ کا نظریہ بھی اِسی قسم کی ایک بدعت ہے۔
میںنے کہا کہ دعوتی کام کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہمارے لیے نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوںنے مسلسل دعوتی عمل کے ذریعے اسلام کو ہر طرف پھیلایا۔ آپ اصحابِ رسول کی زندگی کا مطالعہ کریں، تو آپ پائیں گے کہ ہر صحابی احساسِ بے عملی میںمبتلا تھا، نہ کہ احساسِ عمل میں۔ ہر صحابی اپنے آپ کو غیر اصلاح یافتہ سمجھتا تھا، اِس کے باوجود اُس نے دعوتِ عام کا کام کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ دعوت کی شرط اگر یہ ہو کہ داعی اپنے آپ کو اصلاح یافتہ سمجھنے لگے، تو کبھی دعوت کا کام نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ سچا مومن ہمیشہ اِس احساس میںمبتلا رہتا ہے کہ میں اپنی اصلاح نہ کرسکا۔ جو آدمی اپنے آپ کو اصلاح یافتہ سمجھ لے، وہ دعوت کے لیے سب سے زیادہ نااہل (incompetent) انسان بن جاتا ہے۔ اِسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ دعوت ہر حال میں دی جائے گی، خواہ مسلمان اصلاح یافتہ ہوں، یا اصلاح یافتہ نہ ہوں۔ اصلاح اور دعوت دونوں کام ایک ساتھ کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی کام نہ مقدم ہے اور نہ مؤخر۔حقیقت یہ ہے کہ اپنی اصلاح بھی اُسی وقت ہوتی ہے، جب کہ آدمی دوسروں کی اصلاح کی کوشش میں لگا ہوا ہو۔ اپنی اصلاح کوئی ایسا کام نہیں جو خلا میں انجام پائے۔
واپس اوپر جائیں

قیامت کا بھونچال

راقم الحروف کی کتاب —مذہب اور جدید چیلنج (God Arises) پہلی بار 1966 میں چھپی۔ اس میں دلیلِ آخرت (Argument for the Life Hereafter) کے باب کے تحت حسب ذیل سطریں درج تھیں:
’’سب سے پہلا تجربہ جو ہم کو قیامت کے امکان سے باخبر کرتاہے، وہ زلزلہ ہے۔ زمین کا اندرونی حصہ نہایت گرم سیّال (hot semi-molten) کی شکل میںہے۔ اس کا مشاہدہ آتش فشاں پہاڑوں سے نکلنے والے لاوا کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ مادّہ مختلف شکلوں میں زمین کی سطح کو متاثر کرتا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات زمین کے اوپر زبردست گڑگڑاہٹ کی آواز محسوس ہوتی ہے اور کش مکش کی وجہ سے جھٹکے پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی کا نام زلزلہ ہے۔ یہ زلزلہ آج بھی انسان کے لیے سب سے زیادہ خوف ناک لفظ ہے۔ یہ انسان کے اوپر قدرت کا ایسا حملہ ہے جس میں فیصلے کا اختیار تمام تر دوسرے فریق کو ہوتا ہے۔ زلزلے کے مقابلے میں انسان بالکل بے بس ہے۔ یہ زلزلے ہم کو یاد دلاتے ہیں کہ ہم ایک سُرخ پگھلے ہوئے نہایت گرم مادّے کے اوپر آباد ہیں، جس سے صرف پچاس کلو میٹر کی ایک پتلی سی چٹانی تہہ (crust) ہم کو الگ کرتی ہے۔ یہ چٹانی تہہ زمین کے مقابلے میں ویسی ہی ہے، جیسے سیب کے اوپر اس کا باریک چھلکا۔ ایک جغرافیہ داں کے الفاظ میں — ہمارے آبادشہروں اور نیلے سمندروں کے نیچے ایک قدرتی جہنم (Physical Hell) دہک رہا ہے۔ گویا کہ ہم ایک عظیم ڈائنا مائٹ کے اوپر کھڑے ہوئے ہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ کر سارے نظامِ ارضی کو درہم برہم کرسکتا ہے۔‘‘ (صفحہ 88 )۔
45 سال پہلے یہ بات بطور امکان لکھی گئی تھی۔ اب یہ بات واقعہ بن چکی ہے۔ میڈیا میں ہر روز اس کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس داں اپنے سروے کی بنیاد پر مسلسل یہ خبریں دے رہے ہیں کہ اب وہ دن زیادہ دور نہیں، جب کہ: إنّ زلزلۃ السّاعۃ شیٔ عظیم (الحج: 1) کی قرآنی پیشین گوئی واقعہ بن کرسامنے آجائے۔
اِس سلسلے کی ایک خبر وہ ہے جو حال میں میڈیا میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا سورس یہ ہے:
US Geographical Survey, NASA, National Geographic, “Smithsonian Earth”.
نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا (26 مارچ2008 ) میں یہ رپورٹ حسب ذیل عنوان کے تحت چھپی ہے:
Fire Underground.
اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کا یلواسٹون نیشنل پارک ایک متحرک جوالہ ُ مکھی کے اوپر قائم ہے، جو کہ زمین کی سطح سے صرف پانچ میل نیچے ہے۔ بہ ظاہر اگرچہ اس کی کو ئی علامت دکھائی نہیں دیتی، مگر وہ ایک انفجار (eruption) کی طرف جارہا ہے۔ اِس قسم کا انفجار ایک عظیم ہلاکت کا سبب ہوگا۔ یلو اسٹون کے نیچے اگر اِس قسم کا انفجار ہوتا ہے، تو وہ امریکا کے بڑے رقبے کو قبرستان بنا دے گا:
Yellowstone National Park sits on an active volcanic system. Yellowstone’s magma chamber lies 5 miles below surface and although the system shows no signs that it is headed toward an eruption, such an eruption could be catastrophic.... If another eruption were to occur at Yellowstone, thick ash deposits would bury vast areas of the United States. (p. 37).
خدا نے یہ دنیا ابدی طورپر نہیں بنائی ہے، بلکہ ایک محدود مدت کے لیے بنائی ہے۔ زیر زمین آتش فشاں اِس بات کی وارننگ ہے کہ یہ محدود مدت پوری ہوتے ہی سب کچھ پھٹ جائے گا اور پوری تہذیب ایک کھنڈر بن کر رہ جائے گی۔
مذکورہ سروے گویا کہ آنے والی قیامت کی ایک پیشگی خبر ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھئے تو اب آخری وقت آگیا ہے کہ انسان جاگ اٹھے۔ وہ آنے والے دن کی تیاری شروع کردے، اِس سے پہلے کہ وہ دن آجائے اور کسی کے لیے تیاری کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں

انسان نما حیوان

فروری 2008 میں پرگتی میدان (نئی دہلی) میں ایک انٹرنیشنل بک فئر کا انعقاد کیاگیا۔ میں 9 فروری 2008 کو یہ بک فئر دیکھنے کے لیے وہاں گیا۔ پرگتی میدان کے وسیع رقبے میں ہر طرف کتابوں کے شان دار اسٹال لگے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتاتھا، جیسے نئی دہلی کا پرگتی میدان علم کا شہر (city of knowledge) بن گیاہے۔ کثیر تعداد میں لوگ کتابوں کو پڑھتے ہوئے اور خریدتے ہوئے نظر آئے۔
جب میں بک فئر کے اندر چل پھر رہا تھا، اس وقت مجھے وہاں ایک انوکھا منظر دکھائی دیا۔ میںنے دیکھا کہ وہاںانسانوں کے علاوہ ایک کتّا بھی ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان اِدھر اُدھر دوڑتا ہوا نظرآیا۔ بظاہر وہ بھی انسانوں کی طرح چل پھر رہا تھا، لیکن اس کو نہ اِس بات کا علم تھا کہ یہاں کتابوں کی صورت میں دنیا بھر کا علم موجود ہے، اور نہ اس کو یہ شوق تھا کہ وہ اس اتھاہ علمی ذخیرے سے اپنے لیے کوئی روشنی حاصل کرے۔
بک فئر کی دنیا میں ایک حیوان کی موجودگی دیکھ کر مجھے قرآن کی ایک آیت یاد آئی، جس میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے لوگ بظاہر انسان دکھائی دیتے ہیں، لیکن وہ حیوان کی مانند ہیں۔ وہ اِس دنیا میں صرف کھاتے پیتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں۔ ایسے لوگ آخرت میں اندھے پن کے ساتھ اٹھائے جائیں گے (طٰہٰ: 125 )۔
موجودہ دنیا میں ہر طرف خالق کی نشانیاں (signs)بکھری ہوئی ہیں۔یہ نشانیاں مخلوق کی صورت میں خالق کا تعارف کرارہی ہیں۔ جو لوگ اِس تعارف میں خالق کو دریافت کریں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں، وہ بینا لوگ ہیں۔ اور جو لوگ اِس تعارف میں خالق کو نہ دیکھیں، وہ گویا کہ اندھے تھے۔ وہ دنیا میں اندھے بن کررہے ، اِس لیے وہ آخرت میں بھی اندھے پن کی حالت میں اٹھائے جائیں گے۔ ایسے لوگ بظاہر انسان، مگر حقیقت میں وہ حیوان ہیں۔ دنیا میں ان کی یہ حقیقت چھپی ہوئی ہے، لیکن آخرت میں ان کی یہ حقیقت عیاں ہو کر سامنے آجائے گی۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی سکون کا راز

چارلس ڈیوک (Charles Mass Duke Jr.) ایک امریکی خلاباز (astronaut) ہیں۔ وہ 1935 میں امریکا (North Carolina) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اسپیس سائنس میںاعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ 1966 میں ناسا (NASA) کے پانچویں خلاباز گروپ کے لیے منتخب کیے گئے۔ انھوںنے خلا (space) میںکئی پروازیں کیں۔ 1972 میں انھوںنے اپالو (Apollo-16) کے ذریعے چاند کا سفر کیا۔ 16 اپریل 1972 میںوہ چاند کی سطح پر اُترے۔
21فروری 2008کی شام کو ہماری ٹیم کے دو ممبر (رجت ملہوترا، سعدیہ خان) ڈاکٹر چارلس ڈیوک سے نئی دہلی کے اشوکا ہوٹل میںانٹرویو کے لیے ملے۔ ملاقات کے وقت انھوںنے اپنے دست خط کے ساتھ اپنی ایک تصویر دی۔ اِس تصویر میں وہ خلائی سوٹ میں چاند کی سطح پر کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تصویر اِس مضمون کے ایک الگ صفحے پر دیکھی جاسکتی ہے۔
ہماری ٹیم کے مذکورہ د ونوں ممبروں نے امریکی خلا باز ڈاکٹر چارلس ڈیوک کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع اسپریچولٹی (spirituality) تھا۔ انٹرویو کے دوران اُن سے ایک سوال یہ کیا گیا کہ کیا آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں، اور آپ کو پُرمسرت زندگی حاصل ہے۔ اِس کے جواب میں انھوں نے اپنے حالات بتاتے ہوئے کہا کہ — ابتدائی طورپر میری زندگی میں سکون نہ تھا۔ میںنے یہ سمجھا کہ چاند مجھ کو سکون دے گا۔ میںنے یہ سمجھا کہ خلابازی کی زندگی مجھے سکون عطا کرے گی۔ میںخلابازبن گیا، مگر خلابازی کی زندگی نے مجھ کو سکون نہیں دیا۔ پھر میںنے سوچا کہ میںاپنا کیریر بدل دوں۔ میںنے ناسا میںایسٹروناٹ کا جاب چھوڑ دیا اور بزنس شروع کردیا۔ میںنے کافی دولت کمائی، مگر اب بھی میری زندگی میں سکون نہ تھا۔ میںمحسوس کرتاہوں کہ اب بھی میری زندگی میںکوئی چیز مفقود ہے:
I had no peace in life. I thought the moon would give me peace. I thought all these goals, all these accomplishments, this great career would give me peace, but it didn’t, So I thought I'll change career. So I left NASA as an astronaut and went into business. Imade a lot of money but I still had no peace in my life. There was still something missing.
New Delhi, Charlse Duke Jr.
February 21, 2008
یہ معاملہ صرف ڈاکٹر چارلس ڈیوک کا نہیں، یہی موجودہ زمانے میں تمام لوگوں کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں دولت اور شہرت اور اقتدار حاصل کرنے کے مواقع بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ لوگ نہایت تیزی کے ساتھ اِن چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اِن چیزوں کو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سپر اچیورس (super achievers) کہاجاتا ہے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ تمام سپر اچیور کا کیس سپر ناکامی (super failure) کا کیس تھا۔ سب کچھ پانے کے باوجود اِن لوگوں کو داخلی مسرت حاصل نہیں ہوئی۔ آخر کار وہ مایوسی کا احساس لے کر مر گئے۔
کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانہ بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کا زمانہ ہے۔ اِس صورتِ حال نے موجودہ زمانے میں ایک نئی اصطلاح پیدا کی ہے جس کو اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والے (super achievers) کہاجاتا ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ہر بڑی کامیابی آخر میں صرف بڑی ناکامی (super failure)بن گئی۔ اِس قسم کے لوگ نئے قسم کے سنگین مسائل میں مبتلا ہوگئے۔ مثلاً مہلک بیماریاں، وغیرہ۔
اِنھیں نئے مسائل میں سے ایک ٹنشن (tension) یا اسٹریس (stress) ہے۔ لوگوں کے پاس دولت اور شہرت اور اقتدار سب کچھ موجود ہے، لیکن اِن ظاہری کامیابیوں کے باوجود لوگ مسلسل طورپر ٹنشن اور اسٹریس میں مبتلا رہتے ہیں۔ زیادہ دولت صرف زیادہ بیماری کا سبب بن رہی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ رسرچ میڈیکل سائنس میں ہورہی ہے، تاکہ نئی نئی بیماریوں کا علاج دریافت کیا جاسکے۔اِس صورت ِ حال کے نتیجے میں ایک نیا بزنس شروع ہوگیا ہے جس کو ڈی اسٹریسنگ (de-stressing) کہاجاتا ہے۔ اِن اداروں میںبڑے بڑے ماہرین، لوگوں کو اسٹریس سے نجات دینے کے لیے سرگرم ہیں۔ لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ لوگوں کا ٹنشن اور اسٹریس بدستور بڑھتا جارہا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا خطرہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں ہے، بلکہ ٹنشن اور اسٹریس کا خطرہ ہے۔
یہ صورت ِ حال ہم کو قرآن کی ایک آیت کی یاد دلاتی ہے۔ وہ آیت یہ ہے: ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب (الرّعد: 28 ) اِسی بات کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں فرمایا: اللہم لا عیش إلاّ عیش الآخرۃ (صحیح البخاری، کتاب الرّقاق) اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدائے برتر ہی کو اپنا سپریم کنسرن (supreme concern) بنانے سے انسان کو سکون حاصل ہوتا ہے اور اپنی پسند کی جو زندگی انسان چاہتا ہے، وہ صرف موت کے بعد کے دورِ حیات میں کسی انسان کو ملے گی۔ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں کسی کو اپنی پسند کی زندگی ملنے والی نہیں۔
اِس معاملے کا براہِ راست تعلق خالق کے کریشن پلان (creation plan of God) سے ہے۔ خالق نے موجودہ دنیا کو امتحان گاہ (testing ground) کے طور پر بنایا ہے۔ موجودہ دنیا کسی کے لیے بھی اپنی آرزوؤں کی تکمیل کی جگہ نہیں بن سکتی۔ موجودہ دنیا ہر عورت اور مرد کے لیے سفر کا مرحلہ ہے، اور بعد کو آنے والی آخرت کی دنیا اس کی ابدی منزل ہے۔
آپ، بس یا ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کررہے ہوں اور اس کے اندر آپ گھر والی سہولتیں حاصل کرنا چاہیں، تو آپ اس کو حاصل نہ کرسکیں گے۔ کیوں کہ سواری صرف سواری ہے، وہ گھر کا بدل نہیں۔ اِس طرح موجود دنیا میں خواہشوں کی تکمیل (fulfillment) کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ جو آدمی اپنی خواہشوں کی تکمیل چاہتا ہو، اس کو آخرت کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: لمثل ہٰذا فلیعمل العاملون (الصّافّات:61 ) ۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کے نئے امکانات

سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی ٹیم کے ایک ممبر مسٹر رجت ملہوترا 7 مارچ 2008 کو دہلی سے بمبئی گئے۔ یہ سفر ان کی کمپنی کے تحت تھا۔ ان کا یہ سفر کنگ فشر (King Fisher) ائر لائنس کے ذریعے ہوا۔ نئی دہلی کے ائر پورٹ پر جب وہ جہاز کے اندر داخل ہوئے، تو انھوںنے دیکھا کہ فرسٹ کلاس کی اگلی سیٹ پر ایک ہندو لیڈر بیٹھے ہوئے ہیں۔وہ ہوائی پرواز(civil aviation) کے محکموں میں کیبنٹ منسٹر ہیں۔ اُس وقت مسٹررجت ملہوترا کی جیب میں ہمارے یہاں کا انگریزی میں چھپا ہوا پمفلٹ (The Reality of Life) موجود تھا۔ انھوںنے منسٹر صاحب کو ایک پمفلٹ یہ کہتے ہوئے پیش کیا:
Sir, this is for your inflight reading.
منسٹر صاحب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے پمفلٹ کو لے لیا اور اُسی وقت اس کو پڑھنا شروع کردیا، مسٹر رجت ملہوترا نے جب یہ واقعہ مجھے بتایا، تو میںنے یہ سمجھا کہ موجودہ زمانے کے دعوتی امکانات میںسے ایک امکان یہ بھی ہے کہ حاکم (ruler) اور محکوم (ruled) دونوں ایک سواری پر سفر کریں، اور محکوم کسی قسم کے درباری رسوم ادا کیے بغیر حاکم کو بے تکلف ایک خوب صورت چھپا ہوا دعوتی پمفلٹ پیش کرسکے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی اتری، تو اُس میں یہ کہا گیا تھا: علّم بالقلم (القلم : 4 )۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی دعوت ایک مبنی بر لٹریچر (literature-based) دعوت ہے۔ قدیم زمانے میں جب کہ پرنٹنگ پریس وجودمیں نہیں آیا تھا، یہ دعوتی لٹریچر لوگوں کے حافظے میںہوتا تھا۔ آدمی کا حافظہ ہر وقت اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اِس پوزیشن میںہوتاتھا کہ اپنے حافظے کی مدد سے لوگوں کو دعوتی پیغام دے سکے۔ اب پرنٹنگ پریس کے زمانے میں یہ کرنا ہے کہ داعی ہر وقت اپنے پاس چھپا ہوا دعوتی لٹریچر رکھے، اور ملاقاتوں کے دوران اُسے لوگوں کو دے سکے۔
واپس اوپر جائیں

مسیحی مذہب کے عقائد

مارک جے ایچ کلاسین (Mark J.H. Klassen) کناڈا کے ایک مسیحی عالم ہیں۔ وہ کناڈا کی ایک کمپنی (Kalora Interiors International Inc.) کے نمائندہ (representative)کے طور پر نئی دہلی میں مقیم ہیں۔ وہ 6 مارچ 2008 کو الرسالہ کے دفتر میں آئے۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر اقبال پردھان بھی موجود تھے۔ اُن سے دیر تک مسیحی مذہب اور اسلام کے بارے میں گفتگو ہوئی۔
گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ میں حضرت مسیح کو خدا کا پیغمبر مانتا ہوں، لیکن میں اُن کو خدا کا بیٹا نہیں مانتا۔ میں نے کہا کہ موجودہ مسیحیت (Christianity) کے تین بنیادی عقیدے ہیں— تثلیث (Trinity) ، ابنیّت ِ مسیح (Sonship) ، کفّارہ (Atonement) ۔ مگر یہ تینوں عقیدے نئے عہدنامہ (New Testament) کے اُن چار ابواب میںموجود نہیں ہیں جن کو گاسپل (Gospel) کہاجاتا ہے، حالاں کہ یہی چار ابواب مسیحیت کے مستند ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن عقیدوں کو مسیحی چرچ نے چوتھی صدی عیسوی میں وضع کیا، حضرت مسیح کی اصل تعلیمات سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
انھوںنے کہا کہ گاسپل کے ایک راوی یوحنّا (John) ہیں، اور یوحنّا کے خطوط (Epistles) میں اِبنیّت (Sonship) کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔ ان کے بیگ میں بائبل کا ایک نسخہ موجود تھا۔ انھوںنے یہ نسخہ نکالا اور اس کی یہ آیت مجھے دکھائی:
جوکچھ ہم نے دیکھا اور سنا ہے، تمھیں بھی اس کی خبر دیتے ہیں، تاکہ تم بھی ہمارے ساتھ شریک ہو، اور ہماری شرکت باپ کے ساتھ اور اس کے بیٹے یسوع مسیح کے ساتھ ہے:
That which we have seen and heard, we declare to you, that you also may have fellowship with us; and truly our fellowship is with the Father and with His Son Jesus Christ (The First Epistle of John: 3).
میںنے کہا کہ گاسپل (Gospel) اور خطوط (Epistles) میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ گاسپل، نئے عہد نامے کا وہ حصہ ہے جس میںمسیح کے براہِ راست شاگردوں نے مسیح کی زندگی اور ان کی تعلیمات کے بارے میں روایت کیا ہے:
Gospel: The history of the life and teachings of Jesus.
انھوں نے کہا کہ یہ خط بھی اُسی یوحنّا (John) کا ہے جو گاسپل کے چار راویوں میں سے ایک راوی ہیں۔ میں نے کہا کہ گاسپل اور خطوط میں ایک بنیادی فرق ہے، وہ یہ کہ گاسپل میں خود مسیح کی اپنی تعلیمات بیان کی گئی ہیں، مگر خطوط کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو مسیح کے بعد ان کے کچھ متبعین(followers) نے ان کو اپنی طرف سے لکھا۔ ایسی حالت میں خطوط کا درجہ وہ نہیں ہوسکتا جو گاسپل کا درجہ ہے۔
یہ گفتگو کئی لوگوں کی موجودگی میں کافی دیر تک جاری رہی۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ جب ہم بائبل اور چرچ کے درمیان فرق کو دیکھتے ہیں تو خود ہم کو مایوسی ہوتی ہے:
When we see the difference between the Bible and the Church, we are dissappointed.
مجھے اِس طرح کے تجربات بار بار ہوئے ہیں۔ میرا احساس یہ ہے کہ مسیحی لوگ اندر سے کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں، لیکن سماجی تقاضے کی بنا پر وہ مسیحیت سے جڑے رہتے ہیں۔
یہ موجودہ مسیحی مذہب کی بہت بڑی کم زوری ہے۔ اِس اعتبار سے مسلم داعیوں کے لیے مسیحی حضرات کے درمیان دعوت الی اللہ کا بہت اچھا موقع تھا، لیکن مسلم علما کی ایک غلطی کی وجہ سے یہ امکان واقعہ نہ بن سکا۔ وہ غلطی یہ کہ انھوں نے مسیحی حضرات کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے دعوت کا انداز اختیار نہیں کیا، بلکہ مناظرہ (debate) کا انداز اختیار کیا۔
دعوت کے انداز سے مدعو کے دل میں قربت پیدا ہوتی ہے۔ اِس کے مقابلے میں مناظرے کا انداز مدعو کے اندر توحش کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ مناظرے کا انداز مسلمانوں کو خوش کرسکتا ہے، لیکن وہ مدعو کو متاثر نہیں کرتا۔ یہ غلطی نو آبادیاتی دور میں شروع ہوئی تھی، مگر بد قسمتی سے وہ آج تک جاری ہے۔ مناظرہ بازی سے صرف منفی نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور دعوت سے مثبت نتیجہ۔
واپس اوپر جائیں

قدیم شرک، جدید شرک

موجودہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی کے دوراستے ہیں— سیدھا راستہ اور بھٹکاؤ کا راستہ (النّحل: 9 )۔ سیدھا راستہ یہ ہے کہ آدمی خالق کو اپنی زندگی میں مرکزی مقام دے، وہ خالق کو اپنا سب کچھ بنالے۔ بھٹکاؤ کا راستہ یہ ہے کہ آدمی مخلوق میں گُم ہو جائے، وہ مخلوق کی نسبت سے اپنی زندگی کا پورا نقشہ بنائے۔ پہلے طریقے کا نام توحید ہے،اور دوسرے طریقے کا نام شرک ہے۔ہماری کائنات میں صرف دو چیزیں ہیں— خالق اور مخلوق ۔ خالق کو اپنا کنسرن بنانے کا مذہبی نام توحید ہے، اور مخلوق کو اپنا کنسرن بنانے کا مذہبی نام شرک۔
جیسا کہ معلوم ہے، انسانیت کے آغاز ہی سے ہر زمانے میں خدا کے پیغمبر آتے رہے اور انسان کو صحیح اور غلط کی رہ نمائی دیتے رہے۔ ہر پیغمبر کا مشن ایک ہی تھا— انسان کو توحید کی طرف بلانا، اور اس کو شرک سے بچنے کی تلقین کرنا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ہر زمانے میں توحیدایک تھی، اسی طرح شرک بھی ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔
قدیم شرک یا شرک کا قدیم ورژن (ancient version of shirk) نیچر پرستی (nature worship) پر قائم تھا۔ نیچر کی حیثیت مخلوق کی ہے۔ قدیم زمانے کے انسان نے نیچر کو معبود کا درجہ دے دیا۔ وہ نیچر پرستی (nature worship) کی بُرائی میںمبتلا ہوگیا، یعنی خالق کی پرستش کے بجائے مخلوق کی پرستش کرنا۔ اِسی کو مظاہرِ فطرت کی پرستش کہاجاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں بھی یہ شرک اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔ آج کا انسان بھی یہی کررہا ہے کہ وہ خالق کے بجائے مخلوق کو اپنا سب کچھ (supreme concern) بنائے ہوئے ہے۔ قدیم شرک اور جدید شرک کے درمیان جو فرق ہے، وہ ظاہر کے اعتبار سے ہے، نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے۔
قدیم انسان نے نیچر کو پرستش کا موضوع (object of worship) بنایا تھا۔ جدید انسان نے نیچر کو تفریح کا موضوع(object of entertainment) بنا لیا ہے۔ جذباتِ عُبودیت کا مرکز پہلے بھی مخلوقات تھیں، اور اب بھی جذباتِ عبودیت کا مرکز مخلوقات ہیں۔
موجودہ زمانے کے انسان کا نظریہ یہ ہے کہ اپنے آج (now) میں خوش رہو، کل کی فکر چھوڑ دو۔ یہ ’’آج‘‘ کیا ہے۔ یہ وہی سامانِ حیات ہے جو ہم کو نیچر کی صورت میں ملا ہے۔ یہ سامانِ حیات خدا کی دی ہوئی نعمتیں ہیں۔ تفریح کے سامانوں میں سے کوئی بھی سامان انسان نے خود نہیں بنایا، وہ اس کو خالق کی طرف سے ملا ہے۔ یہ خالق ہے جو ساری چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ آج کے انسان نے یہ کیا کہ اُس نے نعمت (blessing) کو لیا، اور منعم (giver) کو چھوڑ دیا۔ یعنی خالق رُخی نظریے کو ترک کرکے، مخلوق رخی نظریے کو اختیار کرلیا۔
انسان کی یہ فطرت ہے کہ اُس کو جب کوئی چیز ملے تو وہ دینے والے کا اعتراف کرے۔ احساسِ تشکُّر (gratitude) انسان کی فطرت کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ موجودہ زمانے میں انسان نے دوربارہ یہ کیا کہ اُس نے اپنے احساسِ تشکر کو خالق کے بجائے مخلوق کی طرف موڑ دیا۔ جو قلبی اعتراف اس کو مُنعم کے لیے پیش کرنا چاہیے تھا، اُس کو وہ منعم کی پیدا کردہ مخلوق کے لیے پیش کرنے لگا۔
آج کل کے لوگوں کی باتیں سنیے، یا ان کی تحریریں پڑھیے تو بار بار اِس قسم کے نمونے سامنے آتے ہیں۔ہر آدمی اپنے روزانہ کے تجربات میں اِس کے نمونے دیکھ سکتا ہے۔ یہاں مثال کے طورپر میںایک حوالہ نقل کروں گا۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (27 جنوری 2008 ) میں اِس موضوع پر ایک مضمون چھپا ہے۔ اِس کے لکھنے والے کا نام ڈونا (Donna Devane) ہے۔ اِس مضمون کاعنوان یہ ہے:
Be happy here and now.
آج کل کے زمانے میں انسان ایک عام مسئلے سے دوچار ہے۔ وہ ٹنشن یا اسٹریس (stress) ہے۔ یہ ٹنشن کیوںہے، اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کو اُس کی مطلوب خوراک نہیںدے رہا ہے۔ وہ خالق کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے بھر پور انتفاع کررہا ہے، لیکن وہ خالق کا اعتراف نہیںکرتا۔ یہ بے اعترافی، یا عدم تشکر فطرت کے خلاف ہے۔ اِس لیے وہ انسان کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر ٹنشن یا اسٹریس کا سبب بنا ہوا ہے۔ موجودہ انسان نے اِس کا یہ غیر فطری حل دریافت کیا ہے کہ دینے والے کے بجائے، خود دی ہوئی چیزوں پر تشکر کا اظہار کرنا۔ مذکورہ مضمون اِسی جدید ذہن کی نمائندگی کررہا ہے۔ چناں چہ اس میں کہاگیا ہے کہ — تم ملی ہوئی چیزوں پر خوب تشکر کا اظہار کرو اور تم ٹنشن سے بچ جاؤ گے۔ اِس سلسلے میں مضمون نگار کے الفاظ یہ ہیں:
Gratitude feels my soul as I enjoy my computer, more about my home, enjoy the feeling of a hug from my daughter. There is so much to be grateful for each moment of each day. I find that where gratitude goes, joy flows, spend a few moments throughout the day with thought shifter statements. A few of the thought shifter statements that I use are— I am so happy and joyful to believe. I am so happy and grateful for this wonderful mind, and body that allows me to enjoy touch, taste, sound, and movement. I am so happy and grateful for my family, and friends, and the love we share. I am so happy and grateful for my home and utilities. I am so happy and grateful for my computer, my internet, my ability to type and share with friends all over the world.
انسان کے اندر جس طرح بھوک اور پیاس کا طاقت ور جذبہ موجود ہے، اُسی طرح یہ جذبہ بھی انسان کے اندر نہایت طاقت ور شکل میںموجود ہے کہ وہ اپنے محسن کے احسان کا اعتراف کرے۔ اپنی فطرت کے اعتبار سے انسان اِس کا تحمل نہیںکرسکتا کہ اُس کو کسی سے کوئی بڑی چیز ملے اور وہ اس کا اعتراف نہ کرے۔ آدمی کا فطری مزاج یہ ہے کہ جب اُس کو کسی سے کوئی بڑا فائدہ پہنچتا ہے تو اس کی پوری شخصیت چاہتی ہے کہ چیخ کر وہ اس کا اعتراف کرے۔ یہ انسان کی ایک ایسی صفت ہے جس سے کوئی بھی عورت یا مرد خالی نہیں۔
انسان کے پاس جو کچھ ہے، وہ سب خداکا عطیہ ہے۔ خواہ اس کا اپنا وجود ہو یا اس کے باہر کا وہ پورا نظام جس کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے، سب کا سب اس کو خدا کی طرف سے یک طرفہ عطیہ کے طور پر ملا ہے۔ ایسی حالت میں انسان کی فطرت چاہتی ہے کہ وہ اِن تمام عطیات (blessings) کے لیے ان کے مُعطی (giver) کا بھر پوراعتراف کرے۔ اِن عطیات میںسے ایک قسم اُن عطیات کی ہے جو براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے انسان کو مل رہے ہیں۔ مثلاً ہوا اور پانی اور روشنی ، وغیرہ۔ اور دوسری چیزیں وہ ہیں جو بالواسطہ طورپر خدا کا عطیہ ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کو انسان نے عالمِ فطرت میں دریافت کرکے خدا کی دی ہوئی عقل کے ذریعے اُن کو مختلف قسم کی مصنوعات میںتبدیل کیا ہے۔ مثلاً تمام قسم کے کنزیومر گُڈس (consumer goods) ۔
یہ تمام عطیات تقاضا کرتے ہیں کہ انسان اپنے سارے دل اور سارے دماغ کے ساتھ اُن کا اعتراف کرے۔ لیکن خود ساختہ فلسفوں کے تحت ،انسان نے یہ کیا کہ اُس نے عطیات کو لیا، اور اُن کے معطی (giver) کو حذف کردیا۔ یہ ایک بھیانک غلطی تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کی فطرت ایڈریس ہونے سے رہ گئی:
The human nature was left unaddressed.
یہ کسی انسان کے لیے ایک داخلی تضاد کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں تمام عورت اور مرد اِسی داخلی تضاد میں جی رہے ہیں۔ موجودہ زمانے کا وہ مسئلہ جس کو ٹنشن اور اسٹریس کہا جاتا ہے، وہ براہِ راست طورپر اِسی داخلی تضاد کا نتیجہ ہے۔
اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب (الرّعد:28 ) یعنی اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتاہے:
Peace of mind can be achieved only through the remembrance of God (13: 28)
واپس اوپر جائیں

فطرت کی آواز

کمیونسٹ حکومت کے آخری زمانے میں میںنے سوویت یونین (روس) کا سفر کیا تھا۔ اُس وقت میخائل گوربا چیف (Mikhail Gorbachev) وہاں کے صدر تھے۔ اُس زمانے میں وہاںآزادی کا دور شروع ہوچکا تھا۔ میںنے دیکھا کہ وہاں کے چرچ اور مسجدیں جو پہلے ویران رہا کرتی تھیں، اب وہاں مذہبی سرگرمی دکھائی دیتی ہے۔ میںنے اپنے گائڈ سے کہا کہ ہم نے پہلے سنا تھا کہ روس میں مذہب مر چکا ہے، مگر یہاں تو وہ زندہ حالت میں دکھائی دیتا ہے۔ گائڈ نے جواب دیا کہ مذہب یہاں ہمیشہ زندہ تھا۔ جو فرق ہوا ہے، وہ صرف یہ کہ پہلے یہاں مذہب اَنڈر گراؤنڈ (underground)تھا، اور اب وہ سامنے آگیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا اور مذہب کا تصور انسان کی فطرت میں آخری حدتک پیوست ہے۔ کوئی شخص اگر اپنی زبان سے خدا کا انکار کرے، تب بھی خدا کا شعور اس کے دل کے اندر پوری طرح موجود رہتا ہے۔ سوویت یونین کے سابق صدر میخائل گوربا چیف پہلے ایک ملحد کمیونسٹ تھے، مگر اب ان کی دبی ہوئی فطرت جاگ اٹھی ہے۔ انھوںنے خود اِس کا اعتراف کیا ہے۔
برٹش نیوز پیپر ڈیلی ٹیلی گراف (The Daily Telegraph) کی ایک رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (20 مارچ2008 ) میں چھپی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ گوربا چیف اٹلی کے ایک چرچ میں پہنچے اور وہاں انھوںنے اپنے عقیدے کے مطابق، خدا کی عبادت کی:
Gorbachev, who had earlier publicly pronounced himself as an atheist, acknowledged his Christian faith while paying a surprise visit to pray at the tomb of St Francis of Assisi in Italy (p. 22).
خدا کا شعور انسان کی فطرت میںاِس طرح شامل ہے کہ وہ کسی بھی حال میں اُس سے جدا نہیں ہوتا۔ اِس معاملے میں منکرین اور ملحدین کا بھی کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک علمی ملاقات

30 مارچ 2008 کی شام کو دو اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبان سے ملاقات ہوئی۔ ایک، مشہور برطانی جنرلسٹ سرمارک تلی (Sir Mark Tully) ، اور دوسرے، برطانیہ کے ایک مسیحی عالم (Bishop of Kingston) ڈاکٹر رِچرڈ (Dr. Richard Cheetham) ۔ یہ لوگ اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ چناں چہ اُن سے اسلام کے مختلف موضوعات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
سرمارک تلی نے کہا کہ اسلام کے اعتقادی نظام میں ایک خدا کے عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ ہے، یا خدا کے وجود کا کوئی سائنسی ثبوت بھی ہے۔ میں نے کہا کہ اسلام میں کوئی عقیدہ محض ادّعائی عقیدہ (dogmatic belief) نہیں ہوتا، اسلام کے اعتقادی نظام فطرت کے اٹل اصولوں پر قائم ہے۔ اِسی کو موجودہ زمانے میں سائنسی بنیاد (scientific base) کہا جاتا ہے۔میں نے کہا کہ 1920 سے پہلے جو نیوٹنین میکانکس (Newtonian Mecanics) تھی، اس کے مطابق، مادّہ (matter) کی آخری اکائی (unit) ایٹم تھا۔ اُس وقت ایٹم (atom) ناقابلِ تقسیم سمجھا جاتا تھا۔ اُس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہر چیز قابلِ مشاہدہ ہے، اِس لیے معقول استدلال (valid argument) وہی ہے جو براہِ راست استدلال (direct argument) کے اصول پر مبنی ہو۔
مگر1920 کے بعد نیوکلیر سائنس (nuclear science) میںجو نئی تحقیقات ہوئیں، اس کے نتیجے میںایٹم ٹوٹ گیا۔اب کلاسکل فزکس (classical physics) کی جگہ ویومیکانکس (wave mechanics) وجود میں آئی۔ اِس تبدیلی کا اثر اصولِ استدلال پر پڑا۔ اِس نئی دریافت نے استنباطی استدلال (inferential argument) کی اہمیت بڑھا دی۔ اب یہ مان لیا گیا کہ استنباطی استدلال بھی اتنا ہی معقول استدلال(valid argument) ہے، جتنا کہ براہِ راست استدلال (direct argument) ۔
بنائِ استدلال کی اِس تبدیلی کے بعد خدا کے عقیدے پر استدلال قائم کرنا اتنا ہی ممکن ہوگیا ہے، جتنا کہ الیکٹران پر استدلال قائم کرنا۔ جیسا کہ معلوم ہے، الیکٹران کے وجود کو استنباطی دلیل کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے۔ یہی استنباطی استدلال اب خدا کے وجود کو علمی طورپر ثابت کرنے کے لیے بھی حاصل ہوگیا ہے۔چناںچہ برٹرینڈرسل (وفات: 1970) نے ڈزائن سے استدلال (argument from design) کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے، ایک سائنسی استدلال قرار دیا ہے۔
میری اِس بات کو سن کر ڈاکٹر رچرڈ نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ موجودہ طبیعیاتی علماء (physicists) اِس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ کائنات کی حد درجہ معنویت اِس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ موجودہ کائنات کسی ذہن (mind) کی تخلیق ہے، لیکن علمائِ حیاتیات (biologists) اِس کی تائید نہیںکرتے۔میں نے کہا کہ بطور واقعہ آپ کا کہنا صحیح ہے، لیکن علمائِ حیاتیات کی یہ رائے کسی سائنسی حقیقت پر مبنی نہیں، ان کی یہ رائے تمام تر ایک غلط مفروضے پر قائم ہے۔ چارلس ڈارون (وفات: 1802 ) نے اِس معاملے میں ایک غلط مفروضہ پیش کیا اور پھر تمام لوگوں نے اِس مفروضے کو بطور حقیقت مان لیا۔
ڈارون نے زندگی کے مختلف نمونوں کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا۔ اُس نے پایا کہ ہماری زمین پر بہت سی انواعِ حیات(species) پائی جاتی ہیں، مگر ان کے جسمانی ڈھانچے میں بہت زیادہ مشابہت ہے۔ مثلاً بلّی اور شیر کے ڈھانچے میں مشابہت، بکری اور زرافہ کے ڈھانچے میں مشابہت، انسان اور بندر کے ڈھانچے میں مشابہت، وغیرہ۔ اِن مشابہتوں (similarities) کو لے کر ڈارون نے یہ مفروضہ قائم کیا کہ یہاں نیچرل سلیکشن (natural selection) کے اصول کے تحت، ایک ارتقائی عمل (evolutionary process) ہواہے۔ اِس ارتقائی عمل کے تحت،ایک نوع دوسری نوع میںخود بخود تبدیل ہورہی ہے۔
میں نے کہا کہ اِس معاملے میں ڈارون کی غلطی یہ تھی کہ اس نے مختلف انواعِ حیات کے درمیان اِن مشابہتوں کی غلط توجیہہ کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مشابہتیں زندگی میں تنوّع (varieties) کو بتاتی ہیں، نہ کہ مفروضہ ارتقائی عمل کو۔ ہم متنوّع اقسامِ حیات کو دیکھ رہے ہیں۔ اِس لحاظ سے تنوع کا نظریہ اپنے آپ ثابت شدہ ہے۔ اِس کے مقابلے میں ارتقائی عمل کا تصور محض ایک قیاس ہے، جس کے حق میںکوئی واقعی ثبوت موجود نہیں۔انھوں نے میری بات سے اتفاق کیا۔
واپس اوپر جائیں

مدرسہ کلچر

مدرسہ کے بارے میں عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہاں دینی تعلیم ہوتی ہے، مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ مدرسہ مبنی بر اقدار تعلیم (value education) کا ادارہ ہے۔ مدرسہ دراصل اُن قدیم روایات کے تسلسل کا نام ہے، جب کہ تعلیم کا مطلب اخلاقی تعلیم (moral education) ہوتا تھا، جب کہ انسانی اَقدار (human values) کو نصابِ تعلیم کا اہم جز سمجھا جاتا تھا۔
جدید نظامِ تعلیم کے برعکس، مدرسہ میں صرف سبجکٹ پڑھانے کے بجائے کتابوں کے ذریعے مختلف موضوعات کو پڑھایا جاتا ہے۔ اِس طرح اِن مدرسوں میں ابھی تک قدیم کتابوں کی اہمیت باقی ہے۔ قدیم روایات کے مطابق، یہ تمام کتابیں انسانی اقدار اور اخلاقی اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اِس طرح مدارس تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کے ادارے بن گئے ہیں۔ اِن مدارس میں سماج کے اچھے شہری تیار کیے جاتے ہیں۔
مدارس کے ماحول میںہمیشہ خدا اور مذہب اور روحانیت کا چرچا رہتا ہے۔ اِس طرح یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ مدارس میں تربیت پاکر جو لوگ تیار ہوں، وہ تعمیری سوچ کے حامل ہوں۔ وہ اجتماعی ذمے داریوں کو سمجھیں۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ (accountable) سمجھیں۔ وہ اپنی ذات میں جینے والے نہ ہوں، بلکہ وہ دوسرے انسانوں کا شعور بھی یکساں طورپر رکھتے ہوں۔
مدرسے کے تعلیمی نظام میں مسلسل طورپر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بات دہرائی جاتی ہے۔ یہ دونوں تصور مدرسہ کے پورے نظامِ تعلیم میں براہِ راست یا بالواسطہ طورپر شامل ہیں۔ اِس طرح ہر مدرسہ گویا کہ ایک ایسا ادارہ بن جاتا ہے، جو فنّی تعلیم کے ساتھ انسانی اور اخلاقی کلچر کا مرکزہو۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ موجودہ زمانے میں قدیم اخلاقی روایات کا تسلسل جن اداروں کے ذریعے قائم ہے، وہ یہی مدرسے ہیں۔ یہ مدرسے قدیم اخلاقی چراغ کو موجودہ زمانے میں بھی جلائے ہوئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسجدوار دعوت

ایک سیّاح نے لکھا ہے کہ میںنے دنیا بھر میں مختلف ملکوںکا سفر کیا۔ میںنے پایا کہ دوسری قوموں کے لوگ جہاں جہاں گئے، وہاں انھوں نے بڑے بڑے قلعے بنائے، لیکن مسلمان جب عرب سے نکل کر دنیا کے مختلف ملکوں میں داخل ہوئے تو انھوںنے ہر جگہ مسجدیں بنائیں۔ یہ مسجدیں گویا کہ اسلام کے مراکز ہیں۔ اسلام کی حیثیت ایک غیر سیاسی ایمپائر کی ہے، اور یہ مسجدیں گویا کہ عالمی سطح پر قائم اِس غیر سیاسی ایمپائر کی شاخیں ہیں جو ساری دنیا میں تقریباً ہر شہر اور ہر بستی میں موجود ہیں۔
یہ مسجدیں ایک اعتبار سے اسلام کی عبادت گاہیں ہیں، دوسرے اعتبار سے یہ مسجدیں اسلام کے دعوتی مراکز ہیں۔ اِن مسجدوں کے ذریعے جس طرح عالمی سطح پر نماز کا نظام قائم ہے، اِسی طرح اِن مسجدوں کے ذریعے اسلام کی عالمی دعوت کو منظم کیا جاسکتا ہے۔ خاص طورپر جمعہ اور عیدین کا دن اِس مقصد کے لیے بہت زیادہ موزوں ہے۔ اِن دنوں میں مسلمان بڑی تعداد میں اِن مسجدوں میں اکھٹا ہوتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ عالمی سیّاح (tourists) بھی اپنے سفر کے دوران اِن مسجدوں میںبرابر آتے رہتے ہیں۔ اِن لوگوں کے ذریعے اسلام کی دعوت تیزی سے عالمی سطح پر پھیل سکتی ہے۔
دعوت، اہلِ ایمان پر اُسی طرح فرض ہے، جس طرح نماز اُن کے اوپر فرض ہے (البقرۃ: 143)۔ مسجد اِن دونوں فرائض کی ادائیگی کے لیے فطری مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔
اِس مقصد کے لیے اسلامی مرکز نے اور گڈ ورڈ (Goodword) نے اور سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) نے بڑی تعداد میں پمفلٹ اور بروشر خوب صورت انداز میں چھپوائے ہیں۔ اِن میں اسلام کی تعلیمات کو سادہ اور عصری اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ پمفلٹ اور بروشر اردو اور ہندی اور انگریزی زبان میں بڑی تعداد میں دستیاب ہیں۔ مسجدوں کے امام اِس دعوتی مہم میں نہایت آسانی کے ساتھ شریک ہوسکتے ہیں۔ وہ اِس لٹریچر کو منگواکر اپنے یہاں رکھیں اور آنے جانے والے لوگوں کے درمیان اُن کو تقسیم کریں۔ اِس طرح مسجدوں کے امام بیک وقت دو کام کرسکتے ہیں— نماز کی امامت، اور دعوتِ اسلامی کی اشاعت۔
واپس اوپر جائیں

عقل اور جذبات

موجودہ دنیا میں کسی کام کے بننے یا بگڑنے کا اصول صرف ایک ہے۔ جو کام عقلی طورپر غور وفکر کے ذریعے کیا جائے، وہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور جو کام جذباتی ردّ عمل کی صورت میں کیا جائے، اُس کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ عقلی غور وفکر کے ذریعے کیے ہوئے کام کو مثبت عمل کہہ سکتے ہیں، اور جذبات کے تحت کیے ہوئے کام کو منفی عمل۔
موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جب کہ آدمی کے اندرمنفی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ مثلاً غصہ، حسد لالچ اور گھمنڈ، وغیرہ۔ یہ جذبات فوری طور پر آدمی کو شدت کے ساتھ متاثر کرتے ہیں۔ آدمی اگر اِس شدتِ تاثر کے تحت کوئی کام کرنے لگے، تو اِسی کا نام جذبات کے تحت کام کرنا ہے۔ ایسا کام کبھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوتا۔ اُس میں حالات کا پورا جائزہ نہیں لیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اِس طرح کا کام ہمیشہ بے نتیجہ انجام پر ختم ہوجاتا ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جب آدمی کے اندر جذبات بھڑکیں، وہ کسی صورتِ حال کے نتیجے میںشدت تاثر میں مبتلا ہو، تو وہ فوری طورپر کوئی کارروائی نہ کرے۔ وہ صبر تحمل کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے معاملے کے تمام موافق پہلوؤں اور ناموافق پہلوؤں پر غور کرے۔ وہ اپنی عقل کو استعمال کرے اور دوسرے صاحب الرّاے لوگوں سے مشورہ کرے۔ اِس طرح کے ایک صابرانہ کورس سے گزرنے کے بعد وہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
پہلا طریقہ گویا کہ اندھیرے میں چھلانگ لگانے کا طریقہ ہے۔ اور دوسرا طریقہ روشنی میںاپنا سفر طے کرنے کاطریقہ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اندھیرے میں چھلانگ لگانا ہمیشہ آدمی کو ہلاکت تک پہنچاتا ہے۔ اور روشنی میں سفر کا طریقہ ہمیشہ آدمی کو کامیابی تک پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔عقل اور جذبات دونوں فطری طور پر انسان کے اندر موجود ہیں، مگر عقل کی حیثیت رہ نماکی ہے، اور جذبات کا کام یہ ہے کہ وہ عقل کی رہ نمائی میں زندگی کا سفر طے کرے۔ جذبات کو اگر رہ نما کی حیثیت دے دی جائے تو اس کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیںہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

مسئلہ نہیںحل

ایک بار میں ایک فیکٹری کو دیکھنے کے لیے گیا۔میں اس کے مینیجر کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اِس اثنا میں فیکٹر ی کا ایک کارکن کمرے میں داخل ہوا۔ اُس نے کہا: سر، پانی کی سپلائی رک گئی ہے۔ ہمارا کام بند ہوگیا ہے۔ مینجر نے یہ بات سنی تو اس نے تقریباً چیخ کر کہا: پرابلم مت لاؤ، سلیوشن لاؤ۔ کارکن واپس گیا اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ واپس آیا۔ اس نے کہا کہ میںنے ساتھیوں سے مشورہ کیا، سب کا کہنا یہ ہے کہ کارپوریشن کے واٹر سپلائی کے بجائے، یہاں بورِنگ کرکے خود اپنا پانی کا انتظام ہونا چاہئے۔ اِس کے بعدمینیجر نے ٹیلی فون اٹھایا اور کسی ٹھیکے دار سے کہا کہ ہماری فیکٹری میں بورنگ کی ضرورت ہے۔ آپ آج ہی اُس کا کام شروع کردیں۔ اگلے دن فیکٹری میں پانی کا ذاتی انتظام ہوچکا تھا۔
یہی کام کا صحیح طریقہ ہے۔ اگر آپ کسی ادارے سے وابستہ ہیں، یا آپ کسی کمپنی میں کام کررہے ہیں تو آپ کو جاننا چاہیے کہ آپ کا کام شکایت کرنا نہیں ہے، بلکہ مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔ آپ ذمے داروں کے پاس نہ شکایت لے جائیے اور نہ احتجاج۔ آپ ان کو بتائیے کہ مسئلے کا حقیقی حل کیا ہے۔ اور پھر آپ ادارے کے ایک مطلوب شخص بن جائیں گے۔
اگر آپ کسی ادارے سے وابستہ ہیں اور آپ وہاں کسی بات کو لے کر شکایت کرتے ہیں، تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ وہاں ایک غیر جانب دار شخص بن کر رہ رہے ہیں۔ لیکن جب آپ مسئلے کا حل بیان کریں، تو آپ ادارے کے ایک مطلوب شخص بن جاتے ہیں۔ اب ادارہ آپ کو غیر کی نظر سے نہیں دیکھے گا، بلکہ اپنی تنظیم کے ایک فرد کی حیثیت سے دیکھے گا۔ یہی زندگی کا صحیح طریقہ ہے۔ اِسی طریقے میںآپ کی اپنی کامیابی بھی ہے، اور ادارے کی کامیابی بھی۔
کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دوسروں کی ضرورت بنادے۔ وہ دوسروں کے لیے سرمایہ (asset) بن جائے، نہ کہ بوجھ (liability) ۔ یہی اِس دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ اِس کے سوا اِس دنیا میں کامیابی کا کوئی اور طریقہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مقابلے کی دنیا

ایک ہندستانی نوجوان بزنس کے لیے باہر کے ایک ملک میں گئے۔ یہ بیرونِ ملک کے لیے ان کا پہلا سفر تھا۔ دو ہفتے کے بعد وہ اپنے سفر سے واپس آئے۔ میںنے پوچھا کہ آپ نے اپنے اِس بیرونی سفر میں سب سے بڑا تجربہ کیا حاصل کیا۔ انھوں نے ایک لمحہ سوچا اور اس کے بعد کہا— یہ کہ آج کی دنیا میں انا کے لیے کوئی جگہ نہیں:
Ego has no place in the world.
یہ بے اہم بات ہے۔ ایک آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر کے ماحول میں لاڈ پیار (pampering) کے ماحول میں رہتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ گھر کے اندر اس کی شخصیت ہی مرکزی شخصیت ہے۔ دوسرے لوگ وہی کرتے ہیں جو وہ چاہے۔ گھر کے ماحول میں اس کی انا (ego) ہی مرکزی شخصیت کا درجہ رکھتی ہے۔
لیکن جب وہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو اچانک اس کو محسوس ہوتا ہے کہ یہاں بالکل مختلف ماحول ہے۔ یہاں مکمل طورپر مقابلہ اور مسابقت (competition) کا ماحول ہے۔ یہاں جو کچھ کسی کو ملتا ہے، وہ اُس کے ذاتی جوہر (merit) کی بنیاد پر ملتا ہے۔ انسان کے ذاتی جوہر کے سوا، کسی اور چیز کی یہاںکوئی قیمت نہیں۔ باہر کی دنیا مکمل طورپر اِس اصول پر قائم ہے— مقابلہ کرکے جیو، یا مر جاؤ:
Compete, or perish
یہ زندگی کی ایک سنگین حقیقت ہے۔ اِس دنیا میں ہر عورت اور ہر مرد کو اِس سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ماں باپ کی سب سے بڑی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اِس آنے والے امتحان کے لیے تیار کریں۔ اِس معاملے میںکوئی بھی دوسری چیز ذاتی تیاری (self-pereparation) کا بدل نہیں بن سکتی۔
ذاتی تیاری ہی وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو مقابلے کی اِس دنیا میں کامیاب بنا سکتی ہے۔ موجودہ دنیا حقائق کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ ایسی حالت میں کسی غیر حقیقی بنیاد پر کامیابی کا حصول اِس دنیا میں ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کا فارمولا

انسان کے لیے زندگی کا کامیاب فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے — آخرت کے لیے غم، اور دنیا کے لیے بے غم۔ یہی انسان کے تمام معاملات کا خلاصہ ہے۔ یہی واحد طریقِ زندگی (way of life) ہے جس میں انسان اپنے لیے سکون پاسکتاہے۔
انسان کے اندر پیدائشی طورپر طلب کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ انسان اپنی پوری ساخت کے اعتبار سے چاہتا ہے کہ کوئی چیز ہو جس کو وہ اپنا اصل کنسرن (sole concern) بنائے، جس کے حصول کے لیے وہ اپنا سارا وقت اور اپنی ساری توانائی (energy)صرف کرے۔ یہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے، اور کوئی بھی شخص اِس فطری تقاضے سے خالی نہیں۔
انسان جب پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کے گرد و پیش ایک مادّی دنیا (material world)پھیلی ہوئی ہے۔ ہر آدمی اِس مادّی دنیا کے حصول کو اپنا کنسرن بنائے ہوئے ہے۔ وہ اُس کے حصول کے لیے رات دن کوشش کررہا ہے۔ اِس ماحول میں ہر پیدا ہونے والا آدمی وہی کرنے لگتا ہے جو دوسرے عورت اور مرد کررہے ہیں۔
مگر اِس کا نتیجہ کیا ہے۔ ہر آدمی ساری جدوجہد کے باوجود اپنے مطلوب کو حاصل نہیں کرپاتا اور مایوسی (despair) کے احساس میں مرجاتا ہے۔ اِس دنیا میںبیماری، حادثہ ، بڑھاپا، نقصانات اورموت، فیصلہ کُن طورپر اِس راہ میں رکاوٹ ہیں کہ آدمی اِس دنیا میں اپنی طلب کی تکمیل کرسکے۔
یہ عمومی نتیجہ ہر عورت اور مرد کے لیے ایک رہ نما واقعہ ہے۔ یہ نتیجہ بتاتا ہے کہ فطرت کی طلب کی تکمیل (fulfillment) موجودہ دنیا میں ممکن نہیں، اس کے حصول کا مقام آخرت ہے جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے کامیابی کا فارمولا صرف یہ ہے کہ وہ آخرت کو اپنا سپریم کنسرن بنائے، اور موجودہ دنیا کے معاملے میں وہ بقدر ضرورت پر راضی ہوجائے— دنیا میں بقدر ضرورت پر راضی ہوجانا، اور آخرت کو اپنا سپریم کنسرن بنا لینا، یہی اِس دنیا میں کامیاب زندگی کا فارمولا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
الرسالہ، مارچ 2008 ملا۔ یوں تو میں الرسالہ کا دس سال سے زائد مدت سے مطالعہ کرتا آرہا ہوں اور ہر مضمون سے الحمد للہ نفع حاصل ہوتا ہے، لیکن اِس ماہ کے الرسالہ میں مضمون ’’جھوٹ کی دو قسم‘‘ ایک چشم کشا (eye opener) مضمون ثابت ہوا۔ اِس مضمون کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوا کہ گویا اب تک اپنی زندگی کا بہت بڑا حصّہ میں نے جھوٹ کی بنیاد پر قائم کررکھا تھا۔ اللہ آپ کو اِس نصیحت اور خیر خواہی کے لیے جزائے خیر عطا فرمائے۔اس مضمون کے مطالعہ کے بعد اب میری کوشش ہے کہ میں ہر حال میں کذبِ خفی سے بچوں۔ اللہ سے اس کے لیے دعا بھی کرتا ہوں۔
مضمون کے آخری حصہ، جس میں کذب خفی کا انجام، کمزور شخصیت، کی شکل میں ظاہر ہونا لکھا گیا ہے،اس نے بھی خاص طورپر متاثر کیا۔ ابھی تک منافقانہ شخصیت کا جو تصور ذہن میں بناہوا تھا، اس کے اندر کافی تبدیلی آگئی۔ کذب خفی بھی منافقانہ شخصیت کی پرورش کرتا ہے، اس کا علم پہلی بار ہوا۔ اب تو میں سمجھتا ہوں کہ کذب خفی سے بچنا فرض کے درجہ میں ضروری ہوگیاہے ،جس طرح ہر ایمان والے کے لیے منافقانہ صفات سے بچنا فرض کے درجہ میں ضروری ہے (ساجد انور، مہاراشٹر)۔
جواب
حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی دو قسمیں ہیں—شرکِ جَلی اور شرکِ خفی۔ اِس پر قیاس کرکے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اِسی طرح کذب کی بھی دو قسمیں ہیں— کذبِ جلی، اور کذبِ خفی۔ جہاں تک کذبِ جلی کا معاملہ ہے، وہ ایک معلوم بات ہے۔ ہر آدمی بہ آسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ کون سا بیان کذبِ جلی کی تعریف میں آتا ہے۔ البتہ کذبِ خفی کو صرف سنجیدہ غور وفکر کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
کذبِ خفی تقریباً وہی چیز ہے جس کو ٹو ِسٹ (twist) کرنا کہتے ہیں، یعنی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا۔ یہ عمل آدمی خاص طورپر دو مقصد سے کرتا ہے۔ کسی معاملے میں جب آدمی کی اپنی ذات زد میں آرہی ہو، تو وہ بات کو اِس طرح پیش کرتا ہے کہ اس کی اپنی ذات پر کوئی حرف نہ آئے۔ اِسی طرح جب ایک آدمی دوسرے شخص کو بدنام کرنا چاہے، تو وہ اس کی بات کو صحیح صورت میں نہ پیش کرکے، بدلی ہوئی صورت میں پیش کرتا ہے۔ جیسے کہ کہاجاتا ہے — اخبار نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا:
The newspaper was accused of twisting the facts.
ٹوسٹ کرکے بات کو پیش کرنے کا طریقہ موجودہ زمانے میں اتنا زیادہ عام ہوچکا ہے کہ شاید ہی کوئی انسان اِس برائی سے بچا ہوا ہو۔
اِس معاملے کوجاننے کا سب سے زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی خود اپنے ضمیر (conscience) سے اِس کو دریافت کرے۔ کوئی عورت یا مرد جب کسی بات کو ٹوسٹ کرکے کہتے ہیں، تو ان کا ضمیر فوراً اس کی خلش محسوس کرنے لگتا ہے۔ ضمیر اپنی خاموش زبان میں کہتا ہے کہ تم اِس معاملے میں صاف گوئی سے کام نہیں لے رہے ہو، بلکہ تم اس کو بدلی ہوئی صورت میں پیش کررہے ہو۔ آدمی اگر اپنے ضمیر کی اِس آواز کو سنے، تو یہ آواز ہی اِس معاملے میں اس کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔
سوال
میںالرسالہ کا پچھلے 5-6 سال سے مسلسل مطالعہ کررہا ہوں اور الرسالہ کی ہر بات سے اتفاق رکھتا ہوں۔ الرسالہ میںاسلامی تعلیمات کو اِس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ پڑھنے اور سننے والے کے مائنڈ کو ایڈرس کرتی ہیں۔ یہ طریقہ کہیں اور دیکھنے اور سننے میں نہیںآتا۔ میں شروع میں تبلیغی جماعت سے جڑا تھا اور 4-5 بار 3-3 دن بھی لگایا۔ لیکن اس کے بعد جب الرسالہ مجھے ملا اور میں نے اس کو پڑھنا شروع کیا تو میری سوئی ہوئی فطرت جاگ اٹھی۔ یہ تجربہ مجھے جماعت میں جانے سے نہیں ہوا تھا۔ تبلیغی جماعت میں دین کے صرف ظاہری فارم کو بنانے کی بات پر زور دیا جاتا ہے، نہ کہ اندرونی انسان سازی پر۔ پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ طریقہ امت کے عوام طبقہ کے لیے درست ہوسکتا ہے، جس کو سرے سے اس بات کا علم ہی نہیں کہ دین کیا ہے، خدا، رسول اور آخرت کیا ہے۔ لیکن اب میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ عوام ہوں یا خواص، تبلیغی جماعت میں جڑنے کے بعد مسلمان ذہنی جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے سے باہر کسی بات پر سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہیں رہتا۔ اِس لیے کہ اس میں کچھ گنی چنی باتوں کو دہرایا جاتا ہے اور خالص روایتی انداز میں بات کہی جاتی ہے، بنا کسی دلیل کے۔
میرے محلّے کا واقعہ ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ کچھ دنوں پہلے میری بیٹی کے گھرڈلیوری ہونے والی تھی، میرے داماد پرمحلے کی جماعت کے ساتھیوں نے چار مہینہ جماعت میں لے جانے کے لیے زور دیا۔ اس پر میں نے یہ بات جماعت والوںکو بتائی تو انھوں نے کہا کہ سب اللہ اچھا کرے گا۔ ایسا کہہ کر وہ اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ دنوںبعد میری لڑکی کی طبیعت خراب ہوگئی۔پھر میں اس کو اپنے گھر لایا اور اسپتال میں بھرتی کرایاجس میں مجھے قریب 17000 روپئے کا خرچ اٹھانا پڑا۔ نہیں تو میری بچّی کی جان خطرے میں تھی۔
یہ بات جب میںنے اپنے داماد کو جماعت سے واپس آنے پر بتائی تو وہ میرا احسان ماننے کے بجائے مجھ سے جھگڑا کرنے لگے اور 17000میں سے ایک پیسہ بھی مجھے نہیںدیا۔ تب سے مجھے جماعت کے نام سے نفرت ہوگئی ہے۔یہ بات مذکورہ صاحب نے مجھے اُس وقت بتائی جب میں نے ان سے فجر کی نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلتے وقت پوچھا کہ آج کل آپ تعلیم میں کیوں نہیں بیٹھتے۔ اسی طرح کے اور بھی واقعات ہیں۔
اصل یہ ہے کہ تبلیغی جماعت میں بھیڑ دیکھ کر آدمی اُس سے جڑ تو جاتا ہے لیکن وہ خدا کی معرفت اور دین کی حقیقت سے ہمیشہ بے خبر رہتا ہے۔ الرسالہ پڑھنے کے بعد جب میرے اندر صحیح طرز فکر پیدا ہوا تو میں نے ان حضرات سے کہا کہ آپ لوگ صبح شام ایک ہی کتاب پڑھتے رہتے ہیں اور وہ فضائل اعمال ہے۔ اور بات کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی۔ حالاں کہ آپ کا طریقہ تو یہ تھا کہ آپ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے اور قر آن سے ہی دعوت دیتے تھے، جب کہ ان کی مخاطب قوم تو جہالت کی حد پر تھی۔ پھر جب وہ قوم قرآن کے ذریعے ہمارے لیے نمونہ بنا دی گئی تو ہمیں جھوٹے فضائل کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے۔ جس دین میں خدا کی کتاب ہی کاوجود نہیں، وہ دین کیسا۔
میری اس بات کا ان کے پاس کوئی جوا ب نہیں تھا۔ لہذا وہ کسی مفتی سے یہ جواب لے کر آئے کہ قرآن کو صرف علماء ہی سمجھ سکتے ہیں، عام مسلمان اس کو پڑھنے سے بھٹک سکتا ہے۔ اس طرح کی باتوں سے جماعت کے آدمی کا ذہن ایسا ہوجاتا ہے کہ وہ خود کسی بات پر کھلے ذہن کے ساتھ سوچ نہیں پاتا۔ بس ایک بات یا جملہ ان کے بڑوں نے کہہ دیا تو وہ پتھر کی لکیر ہوگئی، صحیح ہے یا غلط اس پر کسی کو عقل لگانے کی ضرورت نہیں۔
میرے ساتھ اللہ کا یہ بڑا احسان ہوا جو اس نے مجھے الرسالہ کے ذریعہ اس گمراہی سے باہر نکال لیا۔اب میرے ساتھ یہ معاملہ ہوگیا ہے کہ نہ صرف میںخود الرسالہ پڑھتاہوں،بلکہ الرسالہ کی اردو اور انگریزی کاپیاں اپنے ساتھ بیگ میں ہمیشہ رکھتا ہوں اور اپنے آفس میں، اور دوستوں کو پڑھنے کے لیے دیتا رہتا ہوں۔ ابھی فی الحال میںنے ایسا کیا ہے کہ میں اپنے رشتہ داروں کے ایڈرس الرسالہ آفس میں ڈی ڈی کے ساتھ بھیجنا شروع کیا ہے اور ایک سال کا الرسالہ مذکورہ لوگوں کے لیے جاری کرایا ہے۔ الرسالہ کے ساتھ ساتھ آپ کی ساری کتابیں بھی میں مسلسل پڑھ رہا ہوں اور اس سے مجھے غیر معمولی فائدہ حاصل ہورہا ہے۔
میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے جو مسلسل الرسالہ اور آپ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے دور ہوگئے۔ لیکن ایک غلطی کی تلافی کے لیے آپ کی مدد چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ میری شادی 2004 میں ہوئی، اس میں میری سسرال والوں نے مجھے کافی جہیز دیا جس میں دوسری چیزوں کے ساتھ10 تولا سونا بھی موجود ہے۔ اس وقت تو میں نے ان کو منع کیا تھا کہ آپ یہ سب چیزیں نہ دیں، لیکن وہ نہیں مانے۔ ظاہر ہے کنڈیشنڈ مائنڈ ہونے کی وجہ سے انھوں نے ایسا کیا اور میں بھی یہ سارا سامان لے کر گھر چلا آیا۔ اب جیسا کہ آپ کی تحریریں مسلسل پڑھنے سے میری ڈی کنڈیشننگ ہورہی ہے تو خدا کی پکڑ اور آخرت کے ڈر سے میں یہ سوچ کر پریشان ہورہا ہوں کہ یہ چیز کہیں آخرت میں گھاٹے کا سبب نہ بن جائے۔ آپ مہربانی کرکے مجھے بتائیں کہ کیا مجھے اس کی رقم اپنے سسر کو واپس کرنا چاہیے یا پھر اس کی اور کوئی دوسری صورت ہے جس سے اس کی تلافی ہوسکے۔
قرآن میںجو خدا کی عظمت اور اس کے جلال کا، جنت کا، جہنم کا، قیامت کی ہولناکی کا ذکر ہے، اس کو پڑھنے کے بعد میں زیادہ تر اسی کے بارے میں سوچتا رہتاہوں۔ کبھی کبھی تو میں آفس میں کام کرتا رہتا ہوں اور پھر اچانک مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ کہیں میں اپنا زیادہ وقت تو دنیا کمانے میں نہیں لگا رہا ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے میں کام کرتے کرتے رک جاتا ہوں اور اِس پر دیر تک بیٹھا سوچتا رہتاہوں۔ یہ معرفت مجھے الرسالہ کے ذریعہ ہی سے حاصل ہوئی ہے۔
میں2003 میں آپ سے آپ کی رہائش گاہ پر ملاتھا۔ میں نے الرسالہ میں جو کچھ پڑھا تھا، آپ کی شخصیت میں اس کو عملاًویسا ہی پایا۔ جس سنجیدگی کی بات آپ کرتے ہیں وہ آپ کے چہرے پر صاف دکھائی دیتی ہے۔ آپ سادگی اور سنجیدگی کی ایک مثال ہیں جو اسی آدمی کی اصلاح کا ذریعہ بنے گی جس کے اندر حقیقت پسندی والا ذہن ہو، جو باتوں کو اپنے ذاتی خول سے باہر نکل کر صرف اصول کی بنا پر حقیقت پسندانہ انداز میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو (شکیل احمد، اندور)۔
جواب
1 - تبلیغی جماعت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے ذمے داروں نے عوام کے اندر دینی شوق پیدا کرنے کے لیے اس کام کو شروع کیا۔ انھوںنے محسوس کیا کہ عوام زیادہ گہری باتوں کو سمجھ نہیںسکتے، اِس لیے انھوںنے فضائل کی روایات کے اوپر اپنی تحریک کی بنیاد رکھی۔
عوام کی اصلاح کے اعتبار سے یہ طریقہ مفید ہوسکتا ہے، لیکن بعد کو یہ ہوا کہ تبلیغ کے ذمّے داروں نے اپنے طریقِ کار کو بدلے بغیر، خواص کو اپنے دائرۂ عمل میں شامل کرلیا۔ تبلیغی جماعت کی یہ توسیع الٹا نتیجہ پیدا کرنے کا سبب بن گئی۔ کیوں کہ فضائل کی روایتیں عوام کو متاثر کرسکتی تھیں، لیکن خواص کا ذہن اس سے ایڈریس نہیں ہوتا تھا۔ چناں چہ خواص، تبلیغی جماعت سے قریب ہونے کے بعد جلد ہی اس سے دور ہونے لگے۔
خواص کی یہ دوری سادہ طور پر تبلیغ سے دوری نہ تھی، بلکہ عملاً وہ دین سے دوری کا سبب بن گئی۔ خواص یہ سمجھنے لگے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو عوام کی ضرورت کو تو پوری کرتا ہے، لیکن اس میں خواص کے لیے اطمینان کا سامان نہیں۔ دہلی کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان جو پہلے تبلیغی جماعت سے قریب ہوئے تھے اور پھر وہ دل برداشتہ ہوکر اُس سے دور ہوگئے۔ انھوںنے اِس معاملے کو بتاتے ہوئے یہ بامعنیٰ جملہ کہا— تبلیغ والوںنے پہلے میواتیوں کو مسلمان بنایا، اب وہ مسلمانوں کو میواتی بنا رہے ہیں۔
2 - جہیز کے سلسلے میں عرض ہے کہ شادیوں میں جہیز کاموجودہ طریقہ بلاشبہہ ایک بدعت ہے۔ اِس اعتبار سے جہیز کے رواج کو ختم کیا جانا چاہیے۔ لیکن ملے ہوئے جہیز کا معاملہ اِس سے الگ معاملہ ہے۔ اس کی واپسی کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر ممکن ہو تو آپ اس کو کسی تعمیری کام میںاستعمال کریں۔ مثلاً اپنے لیے گھر بنانا، وغیرہ۔
سوالات کے سلسلے میں ایک اصولی بات یہ سمجھ لیجیے کہ ایک صحابی کہتے ہیں: نُہینا عن کثرۃ السؤال ( صحیح البخاری، کتاب الرّقاق) یعنی ہم کو زیادہ سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اِس لیے کہ سوال کرنا اِس بات کی علامت ہے کہ آدمی خود غور و فکر کرنے کے بجائے کسی دوسرے سے اپنے سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے۔ آپ مطالعہ کیجیے اور سوچنے کی عادت ڈالیے، اور کامن سنس (common sense)استعمال کیجیے، آپ کو خود ہی اپنے سوال کا جواب معلوم ہوجائے گا۔
سوال
علوم قطعیہ نے کلّی طورپر یہ ثابت کردیا ہے کہ صرف دماغ ہی تمام جذبات و احساسات اور غور وفکر کا مرکز ہے۔ جب کہ ہم اب بھی ایک خاص طریقے پر کچھ مخصوص کلمات کا ورد کرکے قلب پر ضرب لگاکر تطہیر قلب کا دعویٰ کرتے ہیں اور بشمول افرادِ خانہ، محلے کے لوگوں کی نیند خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے بجائے جدید منطق کے پیش نظر، تطہیر دماغ کے لیے آپ ہیمرنگ (hammering) کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ اس کا طریقۂ کار کیا ہو، اس کی وضاحت فرمائیے (محمد جمیل اختر، کشن گنج، بہار)۔
جواب
ذکر بالجہر کا فلسفہ یہ ہے کہ آدمی کا دل اس کے تمام احساسات کا مرکز ہے،بُرے احساسات کا بھی اور اچھے احساسات کا بھی۔ کوئی آدمی جب بلند آواز سے لاإلٰہ کہہ کر اپنے دل پر ضرب لگاتا ہے، تو اس کے دل سے تمام بُرے احساسات نکل جاتے ہیں۔ اور پھر جب وہ بلند آواز سے إلاّ اللہ کہہ کر دوبارہ اپنے دل پر ضرب لگاتا ہے، تو اس کا دل تمام اچھے احساسات سے بھر جاتا ہے۔قدیم ر وایتی دور میں ایک مفروضہ کے طورپر اِس کو مان لیا گیا تھا، لیکن موجودہ سائنسی دور میں یہ نظریہ بے بنیاد (baseless)ثابت ہوچکا ہے۔ اب دل پر ضرب لگانا، ٹھیک ویسا ہی ہے جیسے ہاتھ کی ہتھیلی پر ضرب لگانا۔
دین میں تزکیہ بلا شبہہ ایک مطلوب عمل ہے۔ تزکیہ کا یہ عمل ذہن کی سطح پر انجام پاتا ہے۔ کیوں کہ انسان کا ذہن ہی ہر قسم کے افکار اور احساسات کا مرکز ہے۔ ایک حدیث کے مطابق، ہر انسان اپنے ماحول سے اثر قبول کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اُسی میں آدمی کے ذہن کی کنڈیشننگ (conditioning) ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں تزکیہ کا صحیح آغاز یہ ہے کہ اِس ذہنی کنڈیشننگ کو ’’ضرب‘‘ کا موضوع بنایا جائے، یعنی فکری ضرب (intellectual beating) کے ذریعے اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کی جائے۔ اِسی فکری ضرب کا دوسرا نام فکری ہیمرنگ (intellectual hammering) ہے۔
سوال
آپ کی مایہ ناز کتاب ’’مسائلِ اجتہاد‘‘ واقعی حکمت کا مخزن ہے۔صفحہ 37 میں مغل بادشاہ اکبر کے موقف تالیفِ قلب کے لیے آپ نے سراہاہے۔ تائید میں ایک اقتباس از سید حسین احمد مدنی بحوالہ مکتوبات شیخ الاسلام (صفحہ 141) بطور دلیل درج ہے، جب کہ اکبر نے جودھا بائی سے مشرکانہ رواج میں شادی کی اور ایک مشرکہ سے نکاح اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ (البقرۃ:221 ) اتنی اچھی کتاب ہے آپ کی۔ مگر اکبری دین کی حمایت میں یہ کیسا داغ اِس میں موجود ہے (نثار احمد خاں السلفی ،مومن پورہ، ناگ پور)۔
جواب
مذکورہ کتاب میںاکبر کی مثال ایک معیاری مسلمان کی حیثیت سے نہیں دی گئی ہے۔ اِس مضمون کا مقصد اکبر کی مجموعی زندگی پر رائے دینا نہیں ہے، بلکہ اکبر کی زندگی کے صرف ایک مثبت پہلو کو بتانا ہے۔ اوراِس قسم کا مثبت پہلو کسی بھی شخص کی زندگی میں ہوسکتا ہے۔ آپ کا سوال اِس معاملے میں غلو پسندی کی ایک مثال ہے۔ حالاں کہ غلو اسلام میں نہیں (لا غُلوّ فی الإسلام)۔ غلو دراصل انتہا پسندی کا دوسرا نام ہے۔ اور انتہا پسندی ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتی ہے۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنّ اللہ لیؤید ہٰذا الدین بالرّجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد)۔ اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص اگر کسی پہلو سے ’’فاجر‘‘ ہو، تب بھی وہ کسی اور پہلو سے اسلام کے حق میں تائید کا سبب بن سکتا ہے۔ ہم کو چاہیے کہ اگر کسی آدمی کی زندگی میں کوئی فجور کا پہلو ہو، تو اِس پہلو سے اس کے لیے دعا کریں۔ اور اگر اس کی زندگی میں کسی اعتبار سے کوئی مفید پہلو ہو تو اس کا اعتراف کریں۔ یہی صحیح اسلامی اسپرٹ ہے۔
سوال
عرض خدمت ہے کہ راقم نے ایک نہایت ہی اہم موضوع پر اپنی اولین تحقیقی کتاب بنا م ’’قرآن عظیم کی آفاقیت اور اس کا فلسفہ کائنات‘‘ تصنیف کی ہے، جس کا مسودہ حاضر خدمت ہے۔ جیساکہ سرورق سے عیاں ہے، اس کتاب میں خارج از زمین زندگی اور خود انسان اور کتاب الٰہی کی حقیقت پر جدید قرآنی بصائر کو منکشف کرتے ہوئے عالم انسانی پر قرآن مجید کے عظیم ترین علمی اعجاز کی نقاب کشائی کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تحقیق کی عوامی سطح پر اشاعت سے قبل میںاس پر عالمِ اسلام کے چند منتخب اہلِ علم اور علمی و دینی مراکز کے تاثرات حاصل کرنا چاہ رہا ہوں، جن میں آںجناب کا نام نامی بھی شامل ہے۔ لہذا آںجناب سے میری مخلصانہ درخواست ہے کہ موضوع کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اولین فرصت میں اس پر اپنے گراں قدر تاثرات کا اظہار فرمایا جائے (سعید الرحمن ندوی، بنگلور)۔
جواب
آپ کی کتاب (قرآنِ عظیم کی آفاقیت اور اس کا فلسفۂ کائنات) کا مسوّدہ موصول ہوا۔ آپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ قرآن کی آفاقیت کا تعلق صرف موجودہ زمین پر آباد انسانوں سے نہیںہے، بلکہ اس کا تعلق یکساں طورپر کائنات میں موجود دوسرے سیاروں پر آباد امکانی مخلوقات سے بھی ہے۔ قرآن ان مخلوقات کے لیے بھی کتابِ ہدایت کی حیثیت رکھتا ہے۔ عرض یہ کہ مجھے آپ کے اِس نظریے سے اتفاق نہیں ہے۔ قرآن بلا شبہہ ایک آفاقی کتاب ہے، لیکن اُس کی آفاقیت کا تعلق موجودہ سیّارۂ زمین سے ہے، نہ کہ بقیہ کائنات میں دوسرے مفروضہ سیّاروں سے۔
قرآن کی دعوتِ عام ہمارے اوپر فرض ہے، لیکن اِس کا تعلق موجودہ زمین پر بسنے والے انسانوں سے ہے، نہ کہ کائنات کے کسی اور سیارے پر آباد مفروضہ مخلوقات سے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ موجودہ سیارۂ زمین پر جو انسان آباد ہیں، اُن کو قرآن کا پیغام پہنچائیں، اُن کے لیے قرآن کی دعوت کو قابلِ فہم بنائیں اور اس مقصد کے لیے تمام ضروری وسائل اختیار کریں۔ آپ نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا ہے، وہ صرف ایک مفروضہ بحث ہے۔ اس کا تعلق نہ ہماری ذمّے داری سے ہے، اور نہ کسی معلوم حقیقت سے۔ میںآپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ اپنے نظریات کی بنیاد مسلّمات پر قائم کریں، نہ کہ مفروضات پر۔
آپ کے نظریات کو زیادہ سے زیادہ استنباط کہاجاسکتاہے، لیکن یہ استنباط کوئی معقول استنباط (valid inference) نہیں۔ کیوں کہ اصولِ استدلال کے مطابق، معقول استنباط وہ ہے جوکسی ثابت شدہ حقیقت پر قائم کیاگیا ہو۔ ایک ایسا واقعہ جو خود ثابت شدہ نہ ہو، اس کی بنیاد پر کوئی معقول استنباط نہیں کیا جاسکتا۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز — 185

1- 06 Feb. 2008
Al-Risala is the only book which gives the life style to all humankind. This is the Great monthly magzine that I read in my life. It provides us the right thought, right direction of life. I pray to God that you continue to go on like. (Rafeeq Ahmad, Canada)
2 - نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا کے زیر اہتمام پرگتی میدان (نئی دہلی) میں ہر دوسال پر ایک ورلڈ بک فئر لگتا ہے۔ اِس سال یہ بک فئر 2 فروری سے 10 فر وری 2008 تک کے لیے تھا۔ گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے اِس میں اپنا اسٹال لگایا۔ یہ اسٹال اردو اور انگریزی کے دونوں ہال میں لگایا گیا تھا۔ دونوں اسٹال سے لوگوں نے کافی تعداد میں صدر اسلامی مرکز کی کتابیں خریدیں اور بہت کم قیمت پر ہندی اور انگر یزی ترجمۂ قرآن حاصل کیا۔ ہمالین پیس اینڈ ویلفئر ٹرسٹ (راجوری، جمّوں) نے بڑی تعداد میں یہاں سے قرآن خرید کر غیر مسلم حضرات کے درمیان ہدیۃً تقسیم کیا۔ 9 فروری 2008 کو صدر اسلامی مرکز نے بک فئر میں آکر دونوں اسٹال کا معائنہ کیا۔ اِس سے اسٹال پر موجودکارکنان اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے ممبران کی کافی حوصلہ افزائی ہوئی۔
3 - ایک خط: برادرم محمد ذکوان ندوی حرّسک اللہ من أعین الحسد! السلام علیکم ورحمۃ اللہ، ماہ نامہ الرسالہ کا تازہ شمارہ (جنوری 2008 ) موصول ہوا۔ بہت بہت شکریہ۔ مزید شکریہ اِس بات کا کہ آپ نے میرے نام ایک سال کے لیے الرسالہ جاری کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کوجزائے خیر عطا فرمائے۔ میں تو زمانہ ٔ طالب علمی سے محترم مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی تحریروں کو پڑھتا رہا ہوں۔ میرے دل میںاِن تحریروں کی بہت قدر ہے، میںان کا بہت مداح ہوں۔عصری اسلوبِ نگارش کا مالک یہ مفکر، جدید ہندستان اور عالمِ اسلام میںایک عظیم معمار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندستان کے ایک سطحی حلقے نے مولانا کی مخالفت محض اِس بنیاد پر کی ہے کہ یہ شخص عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق کیوں گفتگوکرتا ہے، یا روایتی قسم کے لوگوں کے خاص اندازِ فکر سے ہٹ کر وہ کیوں سوچتا ہے۔ مگر بادِ مخالف، دعوت اور ربانیت کے اِس چراغِ ہدایت کو ہر گز بجھا نہیں سکتی۔ میںذاتی طورپر نہ صرف مولانا کا قائل ہوں بلکہ جدید ذہن کو اسلام کی صداقت پر مطمئن کرنے کے حوالے سے ان کی گراں قدر خدمات کا کھلے دل سے معترف بھی ہوں۔ مولانا سے اِس نیاز مند کا سلام عرض کیجیے۔ خدا آپ کو راہِ دعوت میں ثابت قدم رکھے (مولانا محمد احمد بیگ ندوی، استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ، 22 فروری 2008 )۔
4- 27 Feb. 2008
I am in receipt of your Al-Risala for the month of March 2008 first time. Many many thanks for that. I have gone through the magazine, it's a very good collection of informative articles and very beautiful and effective response to the present problems of the Muslim Ummah. This is the call of the times. even the caption on the front page give us a great food for thought. I hope now insha-Allah we will get Al-Risala regularly. If you need any sort of co-operation from me please do not hesitate to write, I am always at your disposal. Please convey my Salam to your family Members and co-workers. (Muhammad Omer Khan, General Secretary, Bengal Educational & Social Trust, Kolkata)
5 -مسلم یونی ورسٹی (علی گڑھ) میں 22-23 فروری 2008 کو ایک آل انڈیا پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام کا عنوان تھا — کا مرشیلائزیشن اور ویلوسسٹم:
Commercialization and Value System.
اِس پروگرام میںشرکت کے لیے صدر اسلامی مرکز کو خصوصی دعوت نامہ موصول ہوا اور کئی ٹیلی فون آئے۔ لیکن بعض وجوہ سے وہ اِس پروگرام میں شریک نہ ہوسکے، البتہ مذکورہ موضوع پر ایک تحریری مقالہ منتظمین کو بھیج دیا گیا۔ یہ مقالہ انگریزی کے گیارہ سو الفاظ پر مشتمل تھا۔
6 - امریکا میں کرسچین بردرس (Christian Brothers) کے نام سے ایک تنظیم قائم ہے۔ اِس تنظیم کے تقریباً 10 افراد 24 فروری 2008 کو اسلامی مرکز (نئی دہلی) میںآئے۔ اِس گروپ کی قیادت ڈاکٹر بنڈیلا (Yesupadam Bandela) کررہے تھے۔ ڈاکٹر بنڈیلا گاسپل ایسوسی ایشن آف انڈیا (Gospel Assocaition) کے صدر ہیں۔ اِن لوگوں نے صدر اسلامی مرکز سے اسلام اور صوفی ازم، اسلام اور امن جیسے موضوعات پر تفصیلی بات کی۔ یہ لوگ بہت مطمئن ہوئے۔ ان کو انگریزی زبان میں اسلامی لٹریچر دیاگیا۔
7 - امریکا میں کرسچن بردرس (Christian Brothers) کے نام سے ایک تنظیم قائم ہے۔ اِس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ عیسائی شریک ہیں۔ اِس تنظیم کے 24 سینئر افراد انڈیا آئے۔ 28 فروری 2008 کو وہ اسلامی مرکز میں آئے۔ اُن کے ساتھ کچھ اور افراد بھی شریک تھے۔ یہاں اسلامی مرکز (نئی دہلی) کے آڈی ٹوریم میںصدر اسلامی مرکز سے ملے۔ ان کی فرمائش پر صدر اسلامی مرکز نے یہاںاسلام اور صوفی ازم (Islam and Sufism) کے موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ اِس کے بعد سوال و جواب ہوا۔یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ آخر میں اُن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور انگریزی زبان میں چھپا ہوا اسلامی لٹریچر دیاگیا۔پروگرام کے بعد اُن لوگوں نے اپنے گہرے تاثر کا اظہار کیا۔ انھوںنے کہا کہ پہلی بار ہم کو اِس طرح اسلام کا تعارف حاصل ہوا ہے، اِس پروگرام کے بعد اسلام کے متعلق ہماری غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔ اب ہم اپنے اپنے مقامات پر اِس لٹریچر کو عام کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں گے۔
8 - اسٹار نیوز (Star News) کی ٹیم نے 11 مارچ 2008 کو صدر اسلامی مرکزکاویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور کا نام کمل جیت سندھو تھا۔مسیحی پوپ نے ویٹکن سے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں موجودہ زمانے کی بہت سی چیزوں کو گناہ (sin) قرار دیا ہے۔ مثلاً مووی، وغیرہ۔ اِس سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اِس قسم کی چیزیں شرعی معنوں میں گناہ نہیں ہیں، لیکن یہ تمام چیزیں ڈسٹریکشن (distraction) کا ذریعہ ہیں۔ اِس اعتبار سے وہ قابلِ ترک ہیں۔ اِس قسم کی چیزیں آدمی کو اس کے اعلیٰ مقصد سے ہٹا دیتی ہیں۔ وہ ٹائم کو برباد کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ اِسی ڈسٹریکشن کا نیتجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں لوگوں کا انٹلیکچول ڈیولپ منٹ اور اسپریچول ڈیولپ منٹ نہیں ہورہا ہے۔
9 - خدا کے فضل سے الرسالہ مشن اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے ذریعے مسلسل طورپر دعوت الی اللہ کا کام نہایت تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اِس سلسلے میں ایک واقعہ مارچ 2008 میں سامنے آیا ہے۔ اس کو یہاںنقل کیا جارہا ہے۔ بنگلور میں الرسالہ کے دعوتی حلقے سے جڑے ہوئے ایک ساتھی نے یہ طے کیا کہ وہ مختلف شہروں میں جاکر الرسالہ کا دعوتی لٹریچر پھیلائیں۔ اِس سلسلے میں انھوںنے مقامی حلقے کے ایک ساتھی سے کہا کہ آپ ہمارے لیے ایک سکنڈ ہینڈ کار (van) کا انتظام کردیں، تاکہ میں اُس پر دعوتی میٹریل رکھ کر اس کے ذریعے مختلف شہروں کا سفر کروں، اور وہاں پر آبادانسانوں تک خدا کا پیغام پہنچاؤں۔ مذکو رہ ساتھی نے جب یہ بات سنی، تو وہ بہت غصہ ہوئے۔ انھوںنے کہا— اپنے لیے نئی کار اور خدا کے کام کے لیے سکنڈ ہینڈ کار۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ اِس کے بعد انھوںنے اپنے ساتھی سے کہا کہ آپ کار کے شو روم میں جائیں اور وہاں جو کار آپ کو اپنے مقصد کے اعتبار سے پسند آئے، اس کو خرید لیں۔ اِس کے بعد انھوںنے ایک نئی کار (van) کی قیمت ان کو دے دی۔ اب اِس کارکے ذریعے مختلف شہروں میں دعوتی لٹریچر عام کیا جارہا ہے۔ لوگ بہت دل چسپی اورشوق کے ساتھ وہاں سے دعوتی لٹریچر حاصل کررہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں