Pages

Sunday, 2 November 2008

Al Risala | November 2008 (الرسالہ،نومبر)

2

-کتابِ مہجور

3

- آنے والا کل

4

- ایمان، ایمان پلَس

5

- ذکر ایک تفکیری عمل

6

- ڈر والے اور بے ڈر والے

7

- اشجارِ ممنوعہ کا جنگل

8

- خدائی قانون

9

- اِقرا کلچر

10

- ربانیت، رہبانیت

11

- متشابہ دنیا

12

- توبۂ نصوح

13

- عمومی بگاڑ کا دور

14

- اکرام یا تکلف

15

- سچا عمل، سچی دعا

16

- معرفتِ اعلیٰ

17

- بے ادبی کا تصور

18

- موت ایک یاد دہانی

20

- انسان اور شیطان

21

- جنت کی قیمت

22

- شادابی لوٹ آ ئی

23

- انعام، یا آزمائش

24

- دین یا کلچر

25

- فخر اور شکر

26

- بے نتیجہ بھیڑ

28

- کشمیر کا خواب

29

- مقامِ نزاع سے پیچھے ہٹنا

30

- ردّ ِعمل اسلام میں نہیں

31

- نفرت کا بم

32

- منفی تأثر، مثبت تأثر

33

- دولت کافی نہیں

34

- مادّی ترقی، روحانی موت

35

- شخصیت کی تعمیر

36

- حقیقت پسندانہ عمل، یا چھلانگ

37

- زیادہ ذہین، زیادہ دُور

38

- ماضی میں جینا

39

- سوال وجواب

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


کتابِ مہجور

قرآن کی سورہ نمبر 25 میں قیامت کا ایک منظر بیان ہوا ہے۔ قرآن کے اِس حصے کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جس دن آسمان بادل سے پھٹ جائے گا، اور فرشتے لگاتار اتارے جائیں گے۔ اُس دن حقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہوگی، اور وہ دن منکروں پر بڑا سخت ہوگا۔ اور جس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا، وہ کہے گا— کاش، میں نے رسول کی معیت میں راہ اختیار کی ہوتی۔ ہائے میری شامت، کاش، میں فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بناتا۔ اُس نے مجھ کو نصیحت سے بھٹکا دیا، بعد اِس کے کہ وہ میرے پاس آچکی تھی، اور شیطان ہے ہی انسان کو دغا دینے والا۔ اور رسول کہے گا کہ — اے میرے رب، میری قوم نے اِس قرآن کو مہجور کتاب بنا دیا( الفرقان: 25-30 )۔
اِس آیت میں مہجور سے مراد متروک ہے، یعنی قرآن کو ماننے کے باوجود اُس کو ایک متروک کتاب (discarded book) بنا دینا۔ قرآن کے الفاظ پر غور کیجئے، تو اِس میں دوگروہوں کا ذکر ہے— قومِ کفر، اور قومِ رسول۔ قومِ کفر سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوںنے پیغمبر کی دعوت نہیں مانی اور آخروقت تک انکار کی روش پر قائم رہے۔ قومِ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے پیغمبر کی دعوت کو قبول کیا، مگر ان کے بعد کی نسلیں اُس پر قائم نہ رہ سکیں۔
قیامت میں پیغمبر دونوں گروہوں کے بارے میں خدا کی عدالت میں اپنا بیان دے گا۔ ایک گروہ کے بارے میں پیغمبر اپنا بیان دیتے ہوئے کہے گا کہ انھوں نے میری دعوت کو نہیں مانا، وہ اہلِ انکار کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ اِسی کے ساتھ اُن میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے میری دعوت کو قبول کیا اور اِس طرح وہ اہلِ اقرار کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ لیکن ان کی بعد کی نسلیں اِس ایمانی روش پر قائم نہ رہیں۔ بظاہر وہ خدا کی کتاب کو مانتے تھے، لیکن عملاً وہ خدا کی کتاب سے بہت دور چلے گئے —جولوگ زبان سے قرآن کو مانیں، مگر عملی طورپر وہ اس کو ترک کیے ہوئے ہوں، وہی وہ لوگ ہیں جنھوںنے قرآن کو کتابِ مہجور بنادیا۔
واپس اوپر جائیں

آنے والا کل

قرآن کی سورہ نمبر 75 کی ایک آیت یہ ہے: کلّا بل تحبّون العاجلۃ، وتذرون الآخرۃ (القیامۃ: 20-21) یعنی ہرگز نہیں، بلکہ اصل یہ ہے کہ تم عاجلہ سے محبت کرتے ہو، اور تم آخرت کو نظر انداز کیے ہوئے ہو:
Nay, but you love the present life, and neglect the hereafter.
کوئی انسان جب پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے، تو وہ دیکھتا ہے کہ اِس دنیا میں ہر طرف اس کے لیے مختلف قسم کے مواقع (opportunities) موجود ہیں۔ وہ اِن مواقع کو استعمال کرنے کے لیے اُن کے اوپر ٹوٹ پڑتا ہے، ٹھیک اُسی طرح جیسے کوئی جانور ہری گھاس کو دیکھ کر اس کے اوپر ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اِن مواقع کے ذریعے وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرلے۔
یہ سب سے بڑی بھول ہے، جس میں ہر انسان مبتلا ہے۔ موجودہ دنیا کے مواقع اِس لیے نہیں ہیں کہ اُن کے ذریعے صرف وقتی قسم کے دنیوی فائدے حاصل کیے جائیں، بلکہ یہ مواقع اِس لیے ہیں، تاکہ انسان اُن کی مدد سے وہ اعلیٰ کام کرے، جو آخرت میںاُس کے لیے مفید بننے والا ہو۔ مثلاً کسی کے پاس مال ہے تو وہ اِس لیے نہیں ہے کہ وہ اُس کے ذریعے اپنی خواہشوں کو پورا کرے۔ وہ سماج کے اندر اپنے اسٹیٹس (status) کو زیادہ سے زیادہ بڑھائے۔ وہ اعلیٰ معیار کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ بلکہ مال کا صحیح مصرف یہ ہے کہ — بقدر ضرورت وہ اس کو اپنے پاس رکھے، اور بقیہ مال کو وہ خدا کی راہ میں خرچ کرے۔ مثلاً دعوت الی اللہ کا کام۔
موجودہ دنیا عارضی ہے، اور بعد کو آنے والی دنیا ابدی۔ مگر عجیب بات ہے کہ آدمی اپنا سب کچھ عارضی دنیا کی ترقی اور خوش حالی میں لگا دیتا ہے، لیکن آخرت کی ابدی زندگی کے معاملے کو وہ اِس طرح چھوڑے ہوئے ہوتا ہے، جیسے کہ وہ کبھی پیش آنے والا ہی نہیں۔دانش مند وہ ہے جو آخرت کی فکر میں جیے، اور نادان وہ ہے جو آخرت کی فکر سے غافل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

ایمان، ایمان پلَس

قرآن کی سورہ نمبر 4 میں کہاگیا ہے: یٓأیہا الذین آمنوا، آمنوا (النساء: 136 ) یعنی اے ایمان والو، ایمان لاؤ۔ ایمان کے بعد ایمان کیا ہے۔ اِس کا جواب خود قرآن کی اِس آیت میں موجود ہے: قالتِ الأعراب آمنّا، قُل لم تؤمنوا ولٰکن قوُلوا أسلمنا، ولمّا یدخل الإیمانُ فی قلوبکم (الحجرات: 14) یعنی اَعراب نے کہا کہ ہم ایمان لائے۔ اُن کو بتادو کہ تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے، اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں کے اندر داخل نہیںہوا۔
دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد ایمان کا مطلب یہ ہے کہ ایمان باللّسان کے بعد اپنے ایمان کو داخلُ القلب ایمان بناؤ، وہ ایمان جو تمھاری پوری شخصیت میں شامل ہوجائے، جس طرح رنگ پانی کے اندر پوری طرح شامل ہوجاتاہے (البقرۃ:138 ) اِس بات کو دوسرے الفاظ میں، اِس طرح کہاجاسکتا ہے کہ اپنے ایمان کو ایمان پلس (ایمان مزید) بناؤ، سادہ ایمان کو ایمانِ معرفت کے درجے تک پہنچاؤ۔ اِسی حقیقت کو قرآن میں اِزدیادِ ایمان (الفتح: 4 ) کہا گیا ہے۔ یعنی اپنے ایمان پر مزید ایمان کا اضافہ کرو۔اِس ایمانِ مزید کے حصول کے دو ذریعے ہیں— آیاتِ وحی، اور آیاتِ کائنات۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک سچے انسان کے لیے، آیاتِ وحی میں تدبر کرنا، معرفتِ حق (المائدۃ:83 ) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اِسی طرح، قرآن کے مطابق، آیاتِ کائنات میں غور وفکر کرنے سے تبیینِ حق (حٰمٓ السجدۃ: 53 ) کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان، یا معرفتِ حق کے دو درجے ہیں— ابتدائی معرفت، اور اعلیٰ معرفت۔ اِسی اعتبار سے، جنت کے بھی دو بڑے درجے ہیں (الرحمن: 62)۔ اعلیٰ معرفت والوں کے لیے قرآن میں ’السابقون الأوّلون‘ (الواقعۃ:10 ) کا لفظ آیا ہے، اور ابتدائی معرفت والوں کے لیے ’أصحاب الیمین‘ (الواقعۃ:27 ) کا لفظ۔ معرفتِ حق کے یہی دو درجے ہیں، اِس کے سوا معرفت کا کوئی اور درجہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ذکر ایک تفکیری عمل

قرآن میںامر کی زبان میں جو احکام دیے گئے ہیں، اُن میں سے ایک حکم وہ ہے جس کے لیے ذکر ِ کثیر کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ حکم قرآن کی مختلف آیتوں میں ہے۔ اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: یٰأیّہا الذین آمنوا اذکروا اللہ ذِکراً کثیراً (الأحزاب:41 ) یعنی اے ایمان والو، خدا کا بہت زیادہ ذکر کرو۔
ذکر کے لفظی معنیٰ ہیں— یاد کرنا(to remember) ۔ یاد ایک معنوی حقیقت ہے، نہ کہ صرف ایک لفظی حقیقت۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ انسان جب کسی کو یاد کرتا ہے تو وہ اس کو الفاظ کے وسیلے سے یاد کرتاہے۔ مثلاً جب زید کو یاد کرنا ہو تو پہلے آدمی کے ذہن میں زید کا لفظ آئے گا۔ مگر یاد کے معاملے میں لفظ کی حیثیت صرف اضافی (relative) ہے، نہ کہ حقیقی (real) ۔ اِسی طرح، جب آپ زید کو یاد کریں تو آپ کے ذہن میںایک انسان کا تصور آئے گا۔ اور جب آپ خداوند ِ ذوالجلال کو یادکریں تو فطری طورپر آپ کے ذہن میں اُس عظیم ہستی کا تصور آئے گا جو سارے زمین وآسمان کا خالق اور مالک ہے، جس کے آلاء (الأعراف:74 ) اتنے زیادہ ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اِس طرح، ذکر میں اپنے آپ تفکر اور تدبر اور تعقل کا مفہوم شامل ہو جاتا ہے۔
حدیث کی مختلف کتابوں میںحضرت عائشہ کی یہ روایت آئی ہے کہ: کان رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم یذکر اللہَ علیٰ کل أحیانہ (صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب: ہل یَتَتبّعُ المؤذّن) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع (occasion) پر اللہ کو یاد کرتے تھے۔ اِس روایت کے مطابق، ذکر ِکثیر یہ ہے کہ ہر تجربہ اور مشاہدہ آدمی کے اندر خدا کی سوچ پیدا کردے، اس کے اندر خدا رخی سوچ (God-oriented thinking) پیدا ہوجائے۔ پورا عالمِ کون (nature) اس کے لیے خدا کی یاد دلانے والا بن جائے۔یہ ذکر ِ کثیر کسی قسم کے تکرارِ الفاظ کا نام نہیں۔ ذکر ِکثیر کا فطری طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ذہن کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ زندگی کے مختلف حالات کے درمیان وہ ہر چیز میں خدا کی یاد کا تجربہ کرنے لگے، ہر چیز اس کے لیے یادِ الٰہی کا ذریعہ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

ڈر والے اور بے ڈر والے

قرآن کی سورہ نمبر 84 میں بتایا گیا ہے کہ قیامت میںجن لوگوں کو اُن کے عملِ صالح کی بنیاد پر جنت میں داخلہ ملے گا، ان کا اعمال نامہ ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ اس کو پاکر خدا کا شکر ادا کریں گے اور خوشی خوشی اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹیں گے( الإنشقاق: 9-7 )۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کے مطابق، اپنے گھر والوں کے درمیان خدا سے ڈر کر رہتے تھے (الطّور: 26 )۔
جو شخص دنیا میں خدا کی پکڑ سے ڈرا، آخرت میں وہ ڈر والی زندگی سے محفوظ رہے گا اور اپنے صالح اہل و عیال کے ساتھ جنت کی بے خوف زندگی گزارے گا۔ اِس کے برعکس حال اُن لوگوں کا ہوگا جو دنیا میں خدا سے بے خوف تھے اور آخرت کی پکڑ سے بے پروا ہو کر اپنے اہل وعیال کے درمیان مگن رہتے تھے (المطففین: 31 )۔ جن لوگوں کا دنیا میں یہ حال تھا، ان کو ان کا اعمال نامہ ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ خدا کے فرشتے ان کو پکڑ کر جہنم میں ڈال دیں گے، جہاں انھیں دوبارہ خوشی حاصل نہ ہوگی۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ایک شخص اگر دنیا میں صالح زندگی اختیار کرے اور اپنے آپ کو جنت کے اعلیٰ درجے کا مستحق بنائے، تو اس کی صالح ذریت کو اَپ گریڈ (upgrade) کرکے یک جا طور پر جنت کے اعلیٰ درجات میں داخل کردیا جائے گا (الطّور: 21 )۔
دنیا میں زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک، یہ کہ اپنے گھر والوں کے درمیان آخرت کا فکر مند بن کر رہنا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو آخرت میںجنت کی بے خوف دنیا میں داخلے کا موقع ملے گا۔ اِس کے برعکس، جو لوگ اپنے گھر والوں کے درمیان اِس طرح رہیںکہ ان کو آخرت کی کوئی پروا نہ ہو، وہ خدا کی پکڑ سے بے خوف ہوکر اپنے گھر والوں کے درمیان خوش و خرم زندگی گزاریں، وہ آخرت کی دنیا میں دوبارہ خوشیوں کی زندگی سے محروم رہیں گے— جو شخص دنیا میں ڈرا، اس کو آخرت میںدوبارہ ڈرایا نہیں جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

اشجارِ ممنوعہ کا جنگل

خدا نے جب انسانِ اوّل آدم کو پیدا کیا تو اُن کو ابتداء ً ایک جنت (باغ) میں بسایا گیا۔ اُن سے کہا گیا کہ یہاںتم آزادی کے ساتھ رہو، لیکن تم فلاں درخت کے پاس نہ جانا اور اس کا پھل نہ کھانا (البقرۃ: 35)۔ یہ آدم کی ابتدائی قیام گاہ کا شجر ِ ممنوعہ تھا، مگر قرآن کے بیان کے مطابق، آدم صبر نہ کرسکے اور انھوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا (طٰہٰ: 121)۔ اِس کے نتیجے میں وہ جنت سے نکال کر موجودہ زمین پر بھیج دیے گئے۔
تاہم جہاں تک آزمائش کا تعلق ہے، وہ بدستور باقی ہے، البتہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ ابتدائی جنت میں ایک شجرِ ممنوعہ تھا، جب کہ موجودہ زمین پر اشجارِ ممنوعہ کا ایک جنگل اگا ہوا ہے۔ جنت کی طرف انسان کی دوبارہ واپسی اِسی شرط پر ہوگی کہ وہ ممنوعہ درخت کا پھیل نہ کھائے۔ انسان کو اِس شرط پر پورا اترنے کے لیے بہت زیادہ محتاط (cautious) بننا ضروری ہے۔ کیوں کہ پہلے اگر ایک درخت سے دور رہنا تھا، تو اب درختوں کے جنگل سے دور رہنا اس کے لیے ضروری ہے۔
موجودہ دنیا میں انسان کو جن حرام چیزوں سے بچنا ہے، ان کی ایک فہرست وہ ہے جو باقاعدہ نام کے ساتھ قرآن اور حدیث میں دے دی گئی ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں ایسی چیزوں کی فہرست بہت لمبی ہوگئی ہے جو انسان کو بھٹکانے والی اور اس کو صراطِ مستقیم سے دور کردینے والی ہیں۔
اِن ممنوعہ چیزوں کی کوئی کامل فہرست نہیں دی جاسکتی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ نہایت ہوش مندی کے ساتھ دنیا میں رہے اور جب بھی اس کے سامنے کوئی ایسی چیز آئے جو اس کے لیے صراطِ مستقیم سے انحراف (distraction) کا ذریعہ بننے والی ہو، تو وہ اس کو پہچان لے اور اس سے کامل طورپر دور رہے۔
اِس دنیا میں ہر وہ چیز شجر ِممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے جو آدمی کو خدا کی یاد سے ہٹائے اور آخرت کی پکڑ سے اس کو غافل کردے۔ جو آدمی اپنا محاسب آپ بنے، وہی اِن اشجارِ ممنوعہ سے بچ سکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خدائی قانون

قرآن کی سورہ نمبر 17 میںایک خدائی قانون کا ذکر ہے۔ قرآن کی اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اُس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اُس بستی میں نافرمانی کرتے ہیں۔ تب اُن پر بات ثابت ہوجاتی ہے، پھر ہم اُس بستی کو تباہ و برباد کردیتے ہیں‘‘ (الإسراء: 16 )۔
قرآن کی اِس آیت میں ’فسق‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فسق کے لفظی معنیٰ— انحراف (deviation) کے ہیں، یعنی فطرت کے مقرر راستے سے ہٹ جانا۔ اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے اوپر خدا کا عذاب کب آتا ہے۔ اُس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ سماج کے خوش حال افراد بے خوفی کا شکار ہو کر، خدا کے مقرر راستے سے ہٹ جاتے ہیں، وہ خدا کے نافرمان بن جاتے ہیں۔ اِس انحراف کا آغاز سماج کے خوش حال طبقے سے ہوتاہے۔ اس کے بعد وہ عام لوگوں تک پھیل جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو وہ انسانی گروہ اِس بات کا جواز (justification)کھو دیتا ہے کہ اُس کو اِس زمین پر مزیدزندگی گزارنے کا موقع دیا جائے۔ چناں چہ پیغمبروں کی طرف سے اتمامِ حجت کے بعد اُس کو تباہ کردیا جاتا ہے۔
یہ اصول موجودہ زمانے میں زیادہ بڑے پیمانے پر قابلِ انطباق ہوگیاہے۔ موجودہ زمانے میں انسان کے انحراف نے ایک مکمل تہذیب کا درجہ اختیار کرلیا ہے۔ اب انسان نے اپنے منحرفانہ طرزِحیات کے لیے پورا ایک فلسفہ وضع کرلیا ہے۔ اِس طرح، انسان کا فسق اب اپنے آخری اور عالمی درجے تک پہنچ چکا ہے۔بظاہراب انسان نے اپنا یہ حق کھو دیا ہے کہ وہ موجودہ زمین پر مزید عرصے کے لیے باقی رہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے جو تدمیر (destruction)علاقائی سطح پر ہوتی تھی، اب وہ عالمی سطح پر ہونے والی ہے، یعنی وہی وقت جس کو قرآن میں قیامت کہا گیا ہے۔ قیامت کا مطلب ہے— امتحانی دورِ حیات کا خاتمہ اور اُس دوسرے دورِ حیات کا آغاز جب کہ ہر عورت اور مرد کو اس کے عمل کے مطابق، سزا یا انعام دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

اِقرا کلچر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی 610 عیسوی میں اتری۔ اُس کے الفاظ یہ تھے: إقرأ باسم ربّک الّذی خلق (العلق: 1 ) اقرأکے لفظی معنٰی ہیں— پڑھو، لیکن اِس میں پڑھاؤ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ کیوں کہ جب آدمی سچائی کو دریافت کرتا ہے تو فطری طورپر وہ چاہتا ہے کہ اِس سچائی سے وہ دوسروں کو بھی آگاہ کرے۔ اِس اعتبار سے، اِس آیت کا مطلب ہے— پڑھو اور پڑھاؤ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہ تھا۔ آپ، لوگوں کو اسلام کی دعوت پیش کرتے اور ان کے سامنے قرآن پڑھ کر سناتے (فعرضَ علیہم الإسلام، وقرأ علیہم القرآن)۔ گویا کہ آپ قرآن کے قاری بھی تھے اور اُس کے مقری بھی۔ ہجرت سے پہلے، صحابی ٔ رسول مصعب بن زبیر (وفات: 690 ء) دعوتی مشن کے تحت، مدینہ گئے۔ وہاں اُن کا طریقہ یہ تھا کہ وہ قرآن کو یاد رکھتے اور اُس کو پڑھ کر لوگوں کو سناتے۔ چناںچہ وہ مقری کہے جانے لگے (وکان یُدعیٰ المُقرئ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب بیک وقت قاری بھی تھے اور مقری بھی۔
اب پرنٹنگ پریس کا زمانہ آگیا ہے۔ اب یہی کام ہم کو مطبوعہ دعوتی لٹریچر کے ذریعہ کرنا ہے، ایسا دعوتی لٹریچر جو وقت کی زبان میں ہو، جو جدید ذہن کو ایڈریس کرے۔ اِس قسم کا لٹریچر، بروشر اور پمفلٹ، موجودہ زمانے میں دعوت کا سب سے زیادہ موثر ذریعہ ہے۔ ہر مسلمان کا یہ دعوتی فرض ہے کہ اُس کی جیب میں، یا اس کے بیگ میں اِس قسم کا خوب صورت چھپا ہوا لٹریچر موجودہو اور جب اُس کو کوئی شخص ملے، تو وہ فوراً اُس کواس لٹریچر کی ایک کاپی پیش کردے۔ یہ کام ہر مسلم عورت اور ہر مسلم مرد کو کرنا ہے، اور ساری دنیا میں کرنا ہے۔
دعوتی فریضے کی ادائیگی کی یہ کم سے کم صورت ہے۔ مسلمان، ختمِ نبوت کے بعد مقامِ نبوت پر ہیں۔ اگر وہ دعوت الی اللہ کا پیغمبرانہ فریضہ ادا نہ کریں، تو دوسری کوئی بھی چیز اُن کو خدا کی پکڑ سے بچانے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ربانیت، رہبانیت

قرآن کی سورہ نمبر 57 میں بتایا گیا ہے کہ مسیحی لوگوں نے بعد کے زمانے میں رہبانیت کا طریقہ اختیار کرلیا، جس کی تعلیم ان کو پیغمبر کے ذریعے نہیں دی گئی تھی (الحدید: 27 )۔
رہبانیت (monasticism) کیا ہے۔ رہبانیت دراصل، خدا کی طلب میں دنیا کو چھوڑنے کا نام ہے۔ اِسی لیے ایسے افراد کو تارک الدنیا کہا جاتا ہے۔ رہبانیت کا فلسفہ یہ ہے کہ ترکِ دنیا سے خدا کی قربت حاصل ہوتی ہے۔اِسی ذہن کے تحت لوگوں نے وہ طریقے ایجاد کیے جن کو تجرد اور میڈی ٹیشن اور مراقبہ، وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اِسی ذہن کی انتہا پسندانہ صورت یہ ہے کہ آدمی انسانی آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں چلاجائے اور وہاں وہ روحانی ورزشوں کے ذریعے خدا کی قربت تلاش کرے۔ اِسی کے اثر سے، مسلمانوں کے اندر تصوف یا صوفی ازم کا نظریہ پیدا ہوا۔
اسلام میں اِس قسم کی رہبانیت نہیں (لارَہبانیّۃَ فی الإسلام۔مسند احمد، جلد 6، صفحہ 226)۔ اسلام کی رہبانیت فکری رہبانیت ہے، نہ کہ جسمانی یا مقامی رہبانیت، یعنی ذکر و فکر کی سطح پر خدا سے تعلق قائم کرنا، دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے بے رغبت ہو کر زندگی گزارنا۔ اِسی کو قرآن میں ربانیت (آلِ عمران: 79) کہاگیا ہے، یعنی خدا رخی سوچ (God-oriented thinking) کے ساتھ دنیا میں زندگی گزارنا۔
قرآن کے مطابق، موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے (الملک: 2 )۔ یہاں ملنا بھی آزمائش ہے اور نہ ملنا بھی آزمائش۔ اسلامی رہبانیت یہ ہے کہ آدمی کی سوچ اتنی بلند ہوجائے کہ وہ دونوں حالتوں پر یکساں طورپر راضی رہے، وہ منفی تجربات کو بھی مثبت تجربے میں تبدیل کرسکے، وہ دنیا میں رہتے ہوئے مکمل طورپر آخرت کا طالب بن جائے، وہ انسانوں کے درمیان اِس طرح رہے کہ ہر چیز اُس کو خدا کی یاد دلانے والی بنی ہوئی ہو۔ ایسے افراد کو قرآن میں النفس المطمئنۃ (الفجر:27 ) کہاگیا ہے، اوریہی وہ نفوس ہیں جن کو آخرت کی دنیا میں خدا کا پڑوس ملے گا۔ وہ جنت کے باغوں میں داخل کیے جائیں گے، جہاں وہ ہمیشہ راحتوں اورخوشیوں کی زندگی گزاریں گے۔
واپس اوپر جائیں

متشابہ دنیا

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت کو جب جنت میں داخل کیا جائے گا اور ان کو وہاں کا رزق دیا جائے گا تو اُس کو پاکر وہ کہیں گے کہ—یہ تو وہی ہے جو ہم کو اِس سے پہلے دنیا میں دیا گیا تھا۔ اور اُن کو جنت میں متشابہ رزق دیا جائے گا (البقرۃ: 25 )۔
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو دنیائیں ایک دوسرے کے مشابہ پیدا کیں۔ ایک موجودہ دنیا، اوردوسری جنت والی دنیا۔ موجودہ دنیا امتحان (test) کے لیے ہے اور اگلی دنیا انجام (reward) کے لیے۔ موجودہ دنیا ناقص ہے اور آخرت کی دنیا کامل۔ یہ غیر معیاری ہے اور وہ معیاری۔ یہ ناپائدار ہے اور وہ پائدار۔ قرآن کے الفاظ میں، یہاں خوف اور حزن ہے اور دوسری دنیا خوف اور حزن سے مکمل طورپر خالی ہے۔
موجودہ دنیا میں آدمی کو بار بار یہ تجربہ ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ چاہتا ہے وہ بظاہر یہاں موجود ہے، اِس کے باوجود وہ آدمی کے لیے قابلِ حصول نہیں۔ آدمی صحت چاہتا ہے، مگر بیماری، حادثہ اور بڑھاپا اُس کی تمناؤں کی نفی کردیتے ہیں۔ آدمی لذت چاہتا ہے، مگر ہزار کوشش کے بعد جب وہ سامانِ لذت کو حاصل کرلیتا ہے تو اس پر کھُلتا ہے کہ وہ اُس سے انجوائے نہیں کرسکتا۔ آدمی خوشیوں سے بھری ہوئی زندگی چاہتا ہے، مگر خوشیوں کے باغ میں داخل ہو کر وہ دریافت کرتا ہے کہ یہاں خوشیوں کا باغ طرح طرح کے کانٹوں سے بھرا ہوا ہے۔
ایسا اس لیے ہے کہ آدمی کو یہاں جنت کاتعارف صرف دور سے دیا جاتا ہے۔ یہاں آدمی کو جنت کی ایک جھلک تو دکھائی جاتی ہے مگر اسی کے ساتھ اس کو یہ بتایاجاتا ہے کہ جنت تمھیںاس دنیا میں نہیں مل سکتی۔ تمھارے لیے مقدر ہے کہ یہاں تم جنت کے لیے کوشش کرو اور اگلے مرحلۂ حیات میں جنت کو عملاً حاصل کرو۔ موجودہ دنیا میں آدمی سے عمل مطلوب ہے۔ اسی کے ساتھ ابتدائی جھلک کی صورت میں اُس کو دکھا دیا جاتا ہے کہ اگر تم عمل میں پورے اترے تو وہ کون سی دنیا ہے جہاں تمھیں اس کے نتیجے میں داخلہ دیا جائے گا، موجودہ دنیا تعارفِ جنت کا مقام ہے اور اگلی دنیا حصولِ جنت کا مقام۔
واپس اوپر جائیں

توبۂ نصوح

قرآن کی سورہ نمبر 66 میں بتایا گیا ہے کہ توبۂ نَصوح کیا ہے۔ اِس سلسلے میںارشاد ہوا ہے: ااے ایمان والو، اللہ کے آگے توبۂ نصوح کرو۔ امید ہے کہ تمھارا رب تمھارے گناہ معاف کردے اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ جس دن اللہ، نبی کو اور اس کے ساتھ ایمان والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔ ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کے دائیں طرف دوڑ رہی ہوگی۔ وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب، ہمارے لیے ہماری روشنی کو کامل کردے اور ہماری مغفرت فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے (التحریم:8 )
نصوح یا ناصح کے معنی خالص کے ہیں۔ کہاجاتا ہے : ہذا عسل ناصحٌ، یعنی یہ خالص شہد ہے۔ توبۂ نصوح کا مطلب خالص توبہ یا سچی توبہ ہے۔مفسر القرطبی نے لکھا ہے کہ علما نے توبۂ نصوح کے23معانی بتائے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ 23 مختلف معانی نہیں بلکہ وہ خالص توبہ کے مختلف مظاہر ہیں۔ یہ مظاہر صرف 23 تک محدود نہیں۔ وہ اس سے بہت زیادہ ہیں، حتی کہ وہ 23 ہزار بھی ہوسکتے ہیں۔
آدمی کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے۔ اس کے بعد اس کو اپنی گنہ گاری کا احساس ہو۔ وہ اپنے دل میں شدید طور پر شرمندہ (repentant)ہو اور پختہ عزم کے ساتھ وہ خدا کی طرف رجوع کرلے تو اسی کا نام توبۂ نصوح ہے۔
آدمی اگر حقیقی طورپر توبۂ نصوح کرے تو اس کے بعد اس کی پوری زندگی بدل جائے گی۔ اس کی سوچ کا رخ پہلے اگر غیر اللہ کی طرف تھا تو اب وہ اللہ کی طرف ہوجائے گا۔ پہلے اگر وہ غیر سنجیدہ تھا تو اب وہ سنجیدہ ہوجائے گا۔ پہلے اگر وہ غیر ذمے دارانہ زندگی گزارتا تھا تو اب وہ ذمے دارانہ زندگی گزارنے لگے گا۔ پہلے اگر وہ اپنے قول و عمل میںآزاد تھا تو اب وہ اپنے قول و عمل کا سخت پابند ہوجائے گا۔ پہلے اگر وہ آخرت سے بے خوف تھا تو اب وہ آخرت کے اندیشے میں زندگی گزارنے لگے گا— حقیقی توبہ آدمی کو بدل دیتی ہے اور جو توبہ آدمی کو بدل ڈالے، وہی توبۂ نصوح ہے۔
واپس اوپر جائیں

عمومی بگاڑ کا دور

روایات میں آیا ہے کہ ایک شخص، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااور یہ سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی (متی الساعۃ)۔ آپ نے جواب دیا کہ — جب امانت ضائع کی جانے لگے تو اُس وقت تم قیامت کا انتظار کرو (فإذا ضُیّعت الأمانۃ فانتظر السّاعۃ )۔ آنے والے نے پوچھا کہ امانت ضائع کیا جانا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب عہدے نا اہل لوگوں کو دیے جانے لگیں، تو اس وقت تم قیامت کا انتظار کرو (إذا وُسّد الأمر إلی غیر أہلہ فانتظر الساعۃ) صحیح البخاری، کتاب العلم، باب مَن سُئل علماً۔
اِس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میںاُس آخری دور کا ذکر ہے، جب کہ دنیا میں عمومی بگاڑ آجائے گا۔ اِسی عمومی بگاڑ کا یہ نتیجہ ہوگا کہ تمام عہدوں پر نا اہل افراد قابض ہوجائیں گے۔ وہ اپنے منصب کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کریں گے، نہ کہ اپنی ذمے داری کو پورا کرنے کے لیے۔ ایسا کب ہوگا۔ ایسا اُس وقت ہوگا جب کہ سماج میں صرف نا اہل افراد باقی رہ جائیں۔
اِس حدیث میں دراصل اُس وقت کا ذکر ہے، جب کہ عمومی بگاڑ اپنی آخری حد پر پہنچ جائے گا، جب کہ غلط کام کرنے والا اپنے غلط کام کو اچھا سمجھے گا، جب غلط کام کرنے والوں کو کوئی روکنے والا نہ ہوگا، جب منافقانہ باتوں کا عمومی رواج ہوجائے گا، جب غلط قسم کے لوگوں کو سماج میں غلبہ حاصل ہوجائے گا، جب لوگ صرف اپنے ذاتی مفاد کو جانیں گے، نہ کہ اپنی ذمہ داریوں کو۔
موجودہ زمانے میں وہ حالات پوری طرح ظاہر ہوچکے ہیں جن کو قربِ قیامت کی علامت کہاجاسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں پہلی بار ایسا ہوا کہ نظریاتی جواز (ideological justification) کے تحت، برائیاں کی جارہی ہیں۔ بظاہر اب اِس کا امکان ختم ہوچکا ہے کہ لوگ اپنے رویّے پر نظر ثانی کریں اور اپنی اصلاح کریں۔ جب انسان کا یہ حال ہوجائے تو موجودہ زمین پر انسان کی آبادی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اِس کے بعد جو اگلا مرحلہ ہے، وہ وہی ہے جس کو قیامت اور روزِ جزا (Day of Judgement) کہاجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اکرام یا تکلف

موجودہ زمانے میں یہ عام رواج ہے کہ لوگ اپنے مہمان کے کھانے پینے کے لیے غیر معمولی اہتمام کرتے ہیں اور اُس پر بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر اُن سے کہا جائے کہ یہ اسراف ہے اور وہ اپنے وقت اور مال کا ضیاع ہے، تووہ کہیں گے کہ یہ تو شریعت کی تعلیم ہے۔ شریعت میں ’اکرامِ ضیف‘ کا حکم دیا گیا ہے، اِس لیے ہم ایسا کرتے ہیں۔
مگر یہ سرتا سر ایک بے بنیاد بات ہے۔ شریعت میں جس اکرامِ ضیف کا حکم ہے، وہ صرف بقدرِ ضرورت ہے، نہ کہ بقدرِ تکلف۔ یہ صحیح ہے کہ حدیث میںاکرامِ ضیف کی تعلیم دی گئی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو، اُس کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے (مَن کان یؤمن باللہ والیوم الآخرفلْیکرم ضیفہ) ۔ مگر اکرام کا مطلب ہر گز تکلف نہیں۔ اکرام سادہ معنوں میں ایک انسانی اور اخلاقی نوعیت کی چیز ہے، نہ کہ کوئی نمائش اور تکلف کی چیز۔
مہمان کے لیے اکرام کے نام پر تکلف کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ چناں چہ حضرت سلمان کہتے ہیں کہ : نہیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن نتکلف للضّیف (الجامع الصغیر ، جلد 2 ، صفحہ 1159 ) یعنی رسول اللہ نے ہم کو اِس بات سے منع فرمایا کہ ہم مہمان کے لیے تکلف کریں۔ اِسی طرح، ایک اورروایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أناوأتقیائُ أمّتی بُرآئُ من التکلف ( کشف الخفاء، جلد 1، صفحہ 236) یعنی میں اور میری امت کے متقی لوگ تکلف سے بہت زیادہ دور رہنے والے ہیں۔
نفسیاتی اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مہمان کی آمد کے موقع پر جوتکلف کیا جاتا ہے، وہ حقیقۃً لوگوں کے نزدیک، خود اپنے اکرام کی ایک صورت ہوتی ہے، نہ کہ مہمان کے اکرام کی صورت۔ حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر تقویٰ کی صفت موجود ہو، وہ کبھی تکلف جیسی نمائشی چیز کا تحمل نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں

سچا عمل، سچی دعا

ہر انسان جو اِس دنیا میں پیدا ہوتاہے، وہ بہر حال ایک مختصر مدت کے بعد مرنے والا ہے۔ اِس کے بعد ہر عورت اور ہر مرد کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اِس کے بعد خدا ہر ایک کے ابدی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ یہ ابدی مستقبل، یا تو جنت کی صورت میں ہوگا، یا جہنم کی صورت میں۔ اِس معاملے کو نجات (salvation) کہاجاتا ہے۔
یہ نجات اُن لوگوں کو ملے گی جو خدا کے یہاں اِس حال میں پہنچیں کہ اُن کے پاس دو میں سے کوئی ایک چیز اپنی اعلیٰ صورت میں موجود ہو۔وہ دو چیزیں یہ ہیں— سچا عمل، یا سچی دعا۔ سچا عمل وہ ہے جو خالص رضائِ الٰہی کے لیے کیا جائے۔ اور سچی دعا وہ ہے جو کامل عجز کی سطح پر کی گئی ہو:
The criterion of true ‘amal’ is that it is performed purely for the sake of God. And the criterion of true ‘dua’ is that it is performed with a sense of total helplessness.
سچے عمل کی توفیق اس کو ملتی ہے جو اپنے آپ کو منافقت سے کامل طورپر پاک کرے، جس کے قول اور جس کے عمل میں کوئی فرق باقی نہ رہے، جو اپنے آپ کو کم زور شخصیت (weak personality) بننے سے بچائے، جس کے لیے اس کا عمل اس کی پوری شخصیت کا اظہار بن جائے۔
اِسی طرح، سچی دعا کی توفیق اُس انسان کو ملتی ہے جو اپنے شعور کو اتنا زیادہ ترقی دے کہ وہ خدا کی قدرتِ کاملہ کے مقابلے میں، اپنے عجزِ کامل کو دریافت کرے۔ شعور کی اِسی سطح پر پہنچ کر کسی کو وہ دعا حاصل ہوتی ہے جس کو سچی دعا کہاجاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سچی دعا اور سچا عمل دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ سچی دعا میں سچا عمل شامل ہے، اور سچا عمل ہمیشہ سچی دعا کی زمین پر پیدا ہوتا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے، سچے عمل اور سچی دعا کو ایک دوسرے الگ نہیں کیا جاسکتا۔سچا عمل دراصل، حقیقی عمل کا دوسرا نام ہے۔ اور سچی دعا حقیقی دعا کا دوسرا نام۔
واپس اوپر جائیں

معرفتِ اعلیٰ

اعلیٰ معرفت ہمیشہ اعلیٰ سوچ(high thinking) کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ خدا کے بارے میں، خدا کے کلام کے بارے میں، خداکی تخلیقات کے بارے میں، آدمی جتنا زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچے، اتنا ہی زیادہ گہری معرفت تک وہ پہنچے گا۔ معرفت کا فامولا ایک لفظ میں یہ ہے— جتنی گہری سوچ، اتنی ہی گہری معرفت۔
قرآن میں اِس گہری سوچ کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً تفکّر، تدبّر، توسم اور تعقل، وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز کے اندر غور وفکر کا سامان موجود ہے، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی۔ اگر چیزوں کو سادہ طورپر نہ لیا جائے، بلکہ اُن پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو ہر چیز آدمی کے لیے معرفت کی غذا بن جائے گی۔ اِسی حقیقت کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
برگِ درختانِ سبز، در نظرِ ہوشیار ہر ورقے دفترے است، معرفتِ کردگار
مثلاً آدمی روزانہ زمین پر چلتا ہے، مگر وہ سوچتا نہیں۔ اگر وہ سوچے تو یہ چلنا اس کے لیے معرفت کا خزانہ بن جائے۔ زمین پر چلنا بظاہر ایک سادہ بات ہے، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ چلنے کا یہ واقعہ خالق کا ایک انوکھا معجزہ ہے۔ یہ چلنا اِس لیے ممکن ہوتاہے کہ بے شمار اسباب نہایت ہم آہنگی کے ساتھ ہماری مدد کررہے ہوتے ہیں— زمین کی بے حد متوازن قوت کشش (well balanced gravity) ، ہمارے جسم کے اوپر چاروں طرف سے ہوا کا دباؤ۔ ہواکا یہ دباؤ ہمارے جسم کے ہر مربع انچ پر تقریباً آٹھ کلو گرام کے برابر ہوتا ہے، اور پورے جسم پر مجموعی طور پر تقریباً 10 ہزار کلو گرام کے برابر۔ جب انسان زمین پر چلتا ہے تو اُس کو غیر منقطع طورپر مسلسل آکسیجن فراہم کیا جارہا ہوتا ہے، وسیع خلا سے سورج ہماری راہوں کو روشن کرتا رہتا ہے۔ اِس طرح کے ان گنت اسباب ہیں جو براہِ راست یا بالواسطہ طورپر ہمارے مدد گار بنے رہتے ہیں، تب یہ ممکن ہوتا ہے کہ انسان زمین پر چلے اور کامیابی کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ ہماری دنیا میںاِس طرح کی بے شمار چیزیں ہیں۔ اِن چیزوں پر غوروفکر کرنا ہی اعلیٰ معرفت کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

بے ادبی کا تصور

ایک شہر میں، میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے یہاں گیا۔ وہ ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اُس سے ملاہوا غیر مسلموں کا فلیٹ تھا۔ مسلمان نے کہا کہ ہم لوگ اِس گھر میں پریشان رہتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اِس گھر میں کچھ آسیب کا اثر ہے۔ میں نے کہا کہ یہ سب توہم پرستی (superstition) ہے۔ پھر میں نے اُن سے قرآن مانگا، تاکہ اِس معاملے میں، میںاُن کو قرآن کی ایک آیت دکھاؤں۔ معلوم ہوا کہ ان کے گھر میں قرآن کا کوئی نسخہ موجودنہیں ہے۔ میںنے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے۔ صاحبِ خانہ نے جواب دیا کہ پہلے یہاں قرآن کا ایک نسخہ موجود تھا، پھر ہم نے اُس کو بے ادبی کے ڈر سے مسجد میں رکھوا دیا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ قرآن کے بارے میں موجود زمانے کے مسلمانوں کا مزاج کیا ہے۔ قرآن کو وہ شعو ری طورپر اپنے لیے رہ نمائی کی کتاب نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن ایک مقدس کتاب ہے اور اُس کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اُس کو مفروضہ ’’بے ادبی‘‘ سے بچایا جائے۔
بے ادبی کیا ہے۔ مسلم تصور کے مطابق، بے ادبی یہ ہے کہ قرآننیچے ہو اور آپ اوپر بیٹھ جائیں۔ وضو کیے بغیر کوئی شخص قرآن کو چھولے۔ کوئی غیر مسلم، قرآن کو اٹھا کر اُسے دیکھنے لگے۔ قرآن غلاف میں لپٹا ہوا نہ ہو۔ قرآن ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر جائے۔ قرآنکھلا ہو ا رہ جائے، کیوں کہ ایسا ہوگا تو شیطان اس کو پڑھے گا۔ قرآن کے اوپر کوئی اور کتاب، یا کوئی اور چیز رکھ دی جائے، وغیرہ۔
یہ سب بے اصل باتیں ہیں۔ اِن خود ساختہ نظریات نے مسلمانوں کو قرآن سے دور کردیا ہے۔ قرآن کا حق یہ ہے کہ قرآن کو پڑھا جائے۔ اُس سے نصیحت لی جائے۔ اُس سے اپنے معاملات میں رہ نمائی حاصل کی جائے۔ قرآن پر غور کیا جائے اور اس کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ اُس سے اپنی زندگی میں روشنی حاصل کی جائے— قرآن، ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے اور یہی اُس کا حق ہے کہ لوگ اُس سے ہدایت حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں

موت ایک یاد دہانی

ایک دن میںاپنے معاصرین (contemporaries) کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ افراد جو میرے زمانے میں پیداہوئے، جن کے ساتھ میںنے زندگی کا سفر طے کیا، جن کے ساتھ میں زمین پر چلتا پھرتا رہا— مسٹر اے کو میںنے زندہ حالت میں دیکھا تھا، مگر آج وہ اِس دنیا میں نہیں ہیں۔ مسٹر بی، مسٹر سی، مسٹر ڈی، مسٹر ای، سب کا یہی انجام ہوچکا ہے۔اِس طرح میں اپنے جاننے والوںمیں سے ایک ایک شخص کو یاد کرتا رہا۔ مجھے یاد آیا کہ یہ سارے لوگ اب وفات پاچکے ہیں۔ یہاں تک کہ پچھلے دنوں مجھے خبر ملی کہ مسٹر وائی کی بھی وفات ہوگئی۔ میں گہری سوچ میں پڑ گیا۔ میری زبان سے نکلا کہ —میری باری بہت قریب آگئی:
The countdown has reached the last but one number.
پھر میں نے سوچا کہ یہ معاملہ صرف میرا ذاتی معاملہ نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہی معاملہ ہر عورت اور مرد کا معاملہ ہے۔ ہر ایک روزانہ دیکھ رہا ہے کہ اس کے آس پاس کے لوگ مرتے جارہے ہیں۔ میڈیا کے ذریعہ ہر ایک، دور دور کے لوگوں کے بارے میں بھی اِسی طرح موت کی خبریں سنتا رہتا ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ کوئی شخص یہی بات خود اپنے بارے میں نہیں سوچتا۔ کوئی عورت یا مرد سنجیدگی کے ساتھ یہ غور نہیں کرتا کہ اِسی طرح میں خود بھی بہت جلد مرنے والا ہوں۔ وہ موت سے پہلے کی زندگی کے مسائل کے بارے میں تو ہر وقت سوچتا ہے،لیکن موت کے بعد کے مسائل کے بارے میں کوئی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔جاننے کے باوجود نہ جاننے کے اِس عجیب ظاہرہ کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر عورت ا ور مرد اپنے ڈی این اے (DNA) سے کنٹرول ہوتا ہے۔ آدمی اپنا ہر چھوٹا یا بڑا کام ڈی این اے کی رہ نمائی میں کرتا ہے۔ مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ زندگی کے بارے میں تو ہر ایک کے ڈی این اے میں سب کچھ تفصیل کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ مگر ایک بات کسی کے ڈی این اے میں سرے سے درج نہیں۔ اور وہ موت(death) کا معاملہ ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات تو ڈی این اے کے کوڈ میں درج ہیں۔ اُنھیں کی مسلسل طور پر ڈی کوڈنگ (de-coding) ہوتی رہتی ہے، مگر موت کا تعلق ڈی این اے سے نہیں۔ ہر ایک کی موت براہِ راست طورپر خالق کے حکم سے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک کے لیے موت کا وقت الگ الگ ہے۔ لوگوں کی موت کا کوئی یکساں وقت نہیں۔
انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ موت کے بارے میں خود شعوری (self-consciousness)کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرے۔ وہ اِس معاملے میں اپنے ڈی این اے سے باہر آکر سوچے۔ ایسا کرنے کی صورت ہی میں آدمی موت کی حقیقت کو اپنے ذہن میں تازہ کرے گا۔ ایسا کرنے کی صورت ہی میں یہ ممکن ہوگا کہ وہ موت کے سنگین معاملے کو سمجھے۔ وہ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں موت کے بعد کے دورِ حیات کی تیاری کرے۔
انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ ڈی این اے اس ابدیت (eternity) کی تصدیق کرتا ہے۔ مگر خالق نے اپنے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کی طویل زندگی کو دو دوروں میں بانٹ دیا ہے— موت سے پہلے کا دورِ حیات، اور موت کے بعد کا دورِ حیات۔ اِس کری ایشن پلان کے مطابق، موت سے پہلے کا مختصر دورِ حیات امتحان (test) کے لیے ہے۔ اور موت کے بعد کا طویل تر دورِ حیات ٹسٹ پیریڈ کے ریکارڈ کے مطابق، اپنے عمل کا ابدی انجام پانے کے لیے۔
اِس وقت تمام لوگ وقتی خوشی (right here, right now)کے تصور کے تحت جی رہے ہیں۔ وہ حال رخی (present-oriented) زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن اگر انھیں حقیقتِ واقعہ کا شعور ہوجائے تو ان کی زندگی کا نقشہ بالکل بدل جائے۔ اب آنے والادن ان کا سب سے بڑا کنسرن بن جائے۔ ہر ایک مستقبل رخی(future-oriented) زندگی گزارنے لگے۔ حال رخی زندگی، تعمیر ِ دنیا کے اصول پر قائم ہے، جب کہ مستقبل رخی زندگی آخرت کے لیے تیاری کے اصول پر قائم ہوتی ہے— جو لوگ اِس حقیقت کو جان لیں، وہی کامیاب ہیں اور جو لوگ اِس حقیقت سے بے خبر رہیں، وہی ناکام۔
واپس اوپر جائیں

انسان اور شیطان

انسان کے اندر بیک وقت دو قسم کے جذبات ہیں— دوستی کا جذبہ، اور دشمنی کا جذبہ۔ یہ دونوں جذبات فطری ہیں اور وہ ہر عورت اور مرد کے اندر پیدائشی طورپر پائے جاتے ہیں، کوئی بھی شخص اِن جذبات سے خالی نہیں۔
مگر اِن دونوں جذبات کے استعمال کا رخ الگ الگ ہے۔ دوستی کا جذبہ، انسان کے لیے ہے اور دشمنی کاجذبہ شیطان کے لیے۔ شیطان اوّل دن سے انسان کا دشمن ہے۔ مگر انسان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انسان پیدائشی طورپر دوسرے انسانوں کا دشمن نہیں۔ یہ دراصل شیطان ہے جو انسان کو انسان کا دشمن بنا دیتا ہے۔ شیطان کی ساری کوشش یہ ہے کہ انسان کے اندر دشمنی کے جو جذبات ہیں، وہ ان کو پھیر کر انسان کی طرف کردے۔ وہ شیطان کا دشمن بننے کے بجائے انسان کا دشمن بن جائے۔
یہی انسان کا امتحان ہے۔ جب کبھی کسی عورت یا مرد کو محسوس ہو کہ اس کے اندر کسی انسان کے لیے دشمنی کے جذبات پیدا ہورہے ہیں تو وہ اس کو شیطان کا وسوسہ سمجھے اور فوراً ہی کوشش کر کے اپنے منفی احساسات کو مثبت احساس میں تبدیل کرے۔قرآن کی سورہ نمبر 5 میں بتایا گیا ہے کہ: إنما یرید الشیطان أن یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء (المائدۃ: 91 ) یعنی شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ وہ تمھارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے:
Satan seeks to stir up enmity and hatred among you (5: 19).
دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف شکایت کے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔ اِس قسم کے مواقع شیطان کو انسان کے اندر داخل ہونے کا راستہ دے دیتے ہیں۔ اب شیطان یہ کرتا ہے کہ وہ اِن شکایتی اسباب کو خوب بڑھاتا ہے، وہ شکایت کو نفرت تک پہنچا دیتا ہے اور پھر نفرت کو تشدد تک۔ انسان کو چاہیے کہ وہ شیطان کو یہ موقع نہ دے کہ وہ اِن منفی لمحات کو اپنے حق میںاستعمال کرے اور ایک انسان کو دوسرے انسان کے خلاف بھڑکا دے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو شیطان کا معمول (object) بننے سے بچائے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی قیمت

جنت خدا کی بنائی ہوئی ایک انوکھی دنیا ہے۔ جنت میں اعلیٰ معیار کی حد تک ہر قسم کی راحت اور خوشی موجود ہے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کو ہرقسم کا فُل فِل مینٹ(fulfillment) ہمیشہ کے لیے حاصل ہوگا (حٰمٓ السجدۃ: 31 )۔
جنت کی یہ انوکھی دنیا کس کو ملے گی۔ جنت کی یہ دنیا موت کے بعد کی ابدی زندگی میںاس عورت یا مرد کو ملے گی جو اس کی قیمت ادا کرے۔ جنت اُس کے لیے ہے جو حقیقی معنوں میں ربانی انسان یا خدا والا انسان بن جائے، جو بظاہر خدا سے دور ہوتے ہوئے معرفت کی سطح پر خدا سے قریب ہوجائے۔ جنت خدا کے پڑوس کا نام ہے۔ آخرت کی دنیا میں خدا کا پڑوس صرف اُس شخص کو ملے گا جو آخرت سے پہلے کی دنیا میں خدا کے پڑوس میںجینے لگے۔
انسان اپنے آپ کو پیدا کئے جانے کی صورت میں دیکھتا ہے، خدا کو اُسے لم یلد ولم یولد کی صورت میں دریافت (discover) کرنا ہے۔ موجودہ دنیامیں انسان دیکھ کر چیزوں کے اوپر یقین کرتا ہے، خدا کے اوپر اس کو دیکھے بغیر یقین کرنا ہے۔ انسان مال اور اولاد جیسی چیزوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اس کو خدا کے ساتھ ایسا تعلق قائم کرنا ہے، جب کہ وہ سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے لگے اور سب سے زیادہ خدا سے محبت کرنے لگے۔
انسان آج کی چیزوں میں جیتا ہے اور وہ آج کی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے، جنت اُس انسان کے لیے ہے جو آج کی چیزوں سے اوپر اٹھ جائے اور صرف ایک خدا کو اپنا سپریم کنسرن بنالے۔ انسان کا یہ حال ہے کہ وہ بھر پور دل چسپی کا تعلق اپنے لوگوں سے رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ اس کا تعلق صرف رسمی اور ظاہری سطح پر ہوتا ہے، ایسے لوگوں کو جنت میں داخلہ ملنے والا نہیں۔ جنت میں داخلہ صرف وہ لوگ پائیں گے جن کا حال یہ ہوجائے کہ خدا کے سوا دوسری تمام چیزوں سے ان کا تعلق صرف دنیوی ضرورت کے طورپر ہو اور دل چسپی اور قلبی لگاؤ کے اعتبار سے ان کا تعلق تمام تر خدا سے ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

شادابی لوٹ آ ئی

دہلی میںمیری رہائش گاہ کے پاس ایک درخت ہے۔ اس کو میں اسپریچول ٹری (spiritual tree) کہتا ہوں۔ اس کے نیچے میںدیر تک بیٹھتا ہوں۔ اس سے مجھے روحانی سکون ملتا ہے۔
برسات کے موسم سے پہلے یہ درخت بالکل سوکھ گیا تھا۔ بظاہر وہ ٹھنٹھ (stem) دکھائی دیتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ درخت کی عمر شاید ختم ہوگئی ہے، وہ دوبارہ شاداب ہونے والا نہیں، مگر برسات کا موسم آنے کے بعد وہ دوبارہ ہرا ہونے لگا۔ اس کی شاخوں پر ہری پتیاں نکلنے لگیں، یہاںتک کہ اگست کے آخر تک دوبارہ وہ پوری طرح ہرا بھرا ہوگیا۔اس کی شادابی مکمل طورپر لوٹ آئی۔
یہ تمثیل کے روپ میں انسان کے لیے ایک سبق ہے۔ انسان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ انسان کی روحانی زندگی کے لیے ضرورت ہے کہ اس کو ’’پانی‘‘ ملتا رہے۔ جو انسان اس پانی سے محروم جائے، اس کی شخصیت سوکھے درخت جیسی ہو جائے گی۔
انسانی زندگی کے لیے یہ حیات بخش پانی خدائی فیضان (divine inspiration)ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ خدا وند ِذوالجلال سے مسلسل روحانی ربط قائم رکھے۔ اسی ربط سے اس کو شادابی ملے گی۔ یہ ربط کسی وجہ سے ٹوٹ جائے تو وہ سوکھے درخت کی مانند ہو کر رہ جائے گا۔
خداوندذوالجلال سے اِس ربط کا ذریعہ ذکر ہے۔خداوند ِ ذوالجلال کو یاد کرنا کیا ہے۔ وہ کسی قسم کے اوراد کا نام نہیں ہے۔ وہ مختلف حالات میں اس کو بار بار یاد کرنا ہے۔ مثلاً مذکورہ قسم کے درخت کو آپ نے دیکھا تو اُس کے اندر آپ کو خدا کا کرشمہ نظر آیا۔ آپ نے تڑپتے ہوئے دل کے ساتھ کہا کہ خدایا: تو نے جس طرح اِس درخت کو شاداب کیا ہے، اُسی طرح تو مجھے بھی شاداب کردے۔ میں ایک سوکھا ہوا درخت ہوں، تو اپنے فیضانِ رحمت سے مجھ کو ایک شاداب درخت بنا دے—اِس تجربے کا تعلق کسی ایک چیز سے نہیں، اس کا تعلق تمام چیزوں سے ہے۔ اِس دنیا کی ہر چیز میں یہی ربانی غذا موجود ہے۔ دانش مند انسان وہ ہے جو اِس ربانی غذا کو لیتے ہوئے اِس دنیا میں زندگی گزارے۔
واپس اوپر جائیں

انعام، یا آزمائش

ایک صنعتی شہر کا واقعہ ہے۔ وہاں کے ایک مسلم نوجوان نے ٹکنکل ایجوکیشن حاصل کی ۔ اِس کے بعد ان کو مقامی طورپر ایک اچھا جاب (job)مل گیا۔ اِس درمیان ان کا ربط ایک دینی حلقے سے قائم ہوا۔ انھوںنے دینی کتابیں پڑھیں اور دینی شخصیتوں سے استفادہ کیا۔ وہ کافی متاثر ہوئے، یہاںتک کہ انھوںنے رو کر کہا کہ — میںنے اپنی عمر کا ایک حصہ ضائع کردیا۔ کاش، یہ دینی ماحول مجھے اور پہلے مل گیا ہوتا۔
اِس کے بعد مذکورہ نوجوان کے اندر ایک تبدیلی واقع ہوئی۔ مذکورہ نوجوان کے ایک رشتے دار ایک ’’فارین‘‘ کنٹری میں رہتے تھے۔ انھوں نے ان کے لیے ہوائی جہاز کا ایک ٹکٹ بھیج دیا اور کہا کہ تم وزٹ ویزا (visit visa) لے کر یہاں میرے پاس آجاؤ اور جاب ہنٹنگ (job hunting) کرو۔ ہوسکتا ہے، تم کو یہاں زیادہ اچھا جاب مل جائے۔ اِس کے بعد نوجوان کا ذہن بدل گیا۔ وہ پہلی فرصت میں باہر کے ملک میں جاب ہنٹنگ کے لیے چلے گئے۔
یہ کسی ایک نوجوان کی بات نہیں۔ یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام لوگوں کا حال ہے۔ بظاہر ایک آدمی دین داری کی بات کرے گا۔ وہ اسلام کو اپنی منزل بتائے گا۔ لیکن اگر اس کو کسی قسم کی مادّی ترقی (worldly progress)حاصل ہوجائے، تو اچانک وہ بدل جائے گا۔ وہ تمام باتوں کو بھلاکر مادّی ترقی ہی کو اپنا سب کچھ بنا لے گا۔
ایسے کسی آدمی کے سامنے جب کوئی مادّی ترقی کا موقع آتا ہے، تو وہ اس کے لیے کوئی انعام کی بات نہیں ہوتی، بلکہ وہ تمام تر اس کی آزمائش (test) کے لیے ہوتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ تمام لوگ اُس کو انعام کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں، تمام لوگ اِس خدائی آزمائش میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ دین داری کسی رُٹین کا نام نہیں، دین دار وہ ہے جو اِس جانچ (test) میں پورا اُترے— اپنے دین کی حفاظت کیجئے، ورنہ شیطان کسی بھی وقت اس کو اچک لے جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

دین یا کلچر

ایک مستشرق (orientalist) نے مختلف مذاہب کا مطالعہ کیا، پھر اُس نے ایک کتاب لکھی۔ اِس کتاب میں اُس نے اپنے مطالعہ کا خلاصہ بتاتے ہوئے کہا کہ— ہر مذہب کاآغاز ایک آئڈیالوجی کے طور پر ہوتا ہے، لیکن بعد کی نسلوں میں وہ صرف ایک کلچر بن کر رہ جاتا ہے:
Every religion begins as an ideology, but after some generations it is reduced to a culture.
یہ ایک حقیقت ہے کہ بعد کے زمانے میں ہر مذہب کا یہی حال ہوا ہے۔ تاہم یہ صرف دوسرے مذاہب کا معاملہ نہیں، یہی معاملہ خود اسلام کے ساتھ بھی بعد کے زمانے میں پیش آیا ہے۔ اسلام اپنے متن (text) کے لحاظ سے بلاشبہ ایک محفوظ مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیمات آج بھی پوری طرح محفوظ حالت میں موجود ہیں، لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، موجودہ زمانے کے مسلمان عملاً مذکورہ عمومی صورتِ حال کا مصداق بن چکے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان جس ’’دین‘‘ پر ہیں، وہ دراصل ایک کلچر ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں خدا کابھیجا ہوا دین۔
دین کا تعلق وحیِ الٰہی سے ہے، اور جہاں تک کلچر کا تعلق ہے، وہ جغرافی حالات کے اعتبار سے بنتا ہے۔ بعد کے زمانے میں جو قومیں اسلام میں داخل ہوئیں، ان کا اپنا ایک علاقائی کلچر تھا۔ اِن قوموں نے جب اسلام کو اختیار کیا، تو انھوں نے اسلام کے کلمہ کو تو لے لیا، مگر اپنے کلچر کو نہیں چھوڑا۔ انھوںنے صرف یہ کیا کہ قدیم کلچر کو اسلامائز (Islamize) کرکے اُس کو کم و بیش اپنی زندگیوں میںباقی رکھا— یہ صورتِ حال تقریباً ہر جگہ پائی جاتی ہے۔
یہ احیائِ اسلام کا موضوع ہے۔ اوراِس احیاء کی ضرورت ہر ملک اور ہر علاقے میں پائی جاتی ہے۔ ایک صبر آزما کوشش ہی کے ذریعے احیائِ اسلام کے اِس کام کو انجام دیا جاسکتا ہے— آج خود مسلمانوں کو اسلامائز کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ خارجی دنیا کو اسلامائز کرنے کی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میںاِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یٰأیّہا الذین آمنوا، آمنوا (النساء: 136 )
واپس اوپر جائیں

فخر اور شکر

ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے پُر اعتماد لہجے میں کہا کہ — میں پورے فخر اور شکر کے ساتھ کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے فلاں دینی ماحول میں پیدا کیا، اور اس نے مجھے فلاں ادارے میں تعلیم وتربیت حاصل کرنے کا موقع عطا فرمایا، وغیرہ۔
یہ کسی ایک شخص کی بات نہیں۔ اِس قسم کی بات بہت سے لوگ اپنے اپنے انداز میں کہتے ہیں۔ یہ الفاظ بظاہر خوب صورت معلوم ہوتے ہیں، لیکن وہ انتہائی بے معنیٰ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فخر اور شکر دونوں دو مختلف جذبات ہیں۔ جہاں فخر ہوگا، وہاں شکر نہیں ہوگا اور جہاں شکر ہوگا، وہاں فخر نہیں ہوگا۔ جو لوگ ایسے الفاظ بولیں، ان کے اندر فخر تو ہوسکتا ہے، لیکن حقیقی شکر کا جذبہ ان کے اندر ہرگز موجود نہیں ہوسکتا۔
شکر کیا ہے۔ شکر دراصل، خداوند ِ ذوالجلال کی نعمتوں کا اعتراف ہے۔ خداوند ِ ذوالجلال کی نعمت کا احساس فوراً ہی آدمی کے اندر اپنی بے مائگی کا احساس پیدا کردیتا ہے اور اپنی بے مائگی کے احساس کے بعد کوئی شخص کبھی فخر کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اِس قسم کے احساس کے بعد آدمی اپنے آپ کو ’’بے کچھ‘‘ کے مقام پر پاتا ہے اور خداوندذوالجلال کو ’’سب کچھ‘‘ کے مقام پر۔ جو آدمی اس قسم کی نفسیات کا حامل ہو، اس کے لیے فخر ایک مضحکہ خیز لفظ بن جائے گا۔ ایسا آدمی سب کچھ بھول کر شکر ِ خداوندی کے اُس جذبے سے سرشار ہوجائے گا، جس کے اندر ذاتی فخر جیسی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ شکر کی توفیق ہمیشہ عجز کامل کی سطح پر ہوتی ہے جس آدمی کے اندر عجز کامل کی اعلیٰ ربانی صفت نہ ہو، وہ شکر کا تجربہ بھی نہیں کرسکتا۔
فخر کے ساتھ شکر کا لفظ بولنا، بتاتا ہے کہ ایسا آدمی، امتحان کی اصطلاح میں، مائنس مارکنگ (minus marking) کا مستحق ہے۔ ایسا کہنے والا شخص اِس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ فخر اور شکر دونوں کی اصل حقیقت سے بے خبر ہے۔ وہ نہ فخر کی نفسیات کو جانتا ہے اور نہ شکر کی نفسیات کو۔ اگر وہ دونوں کی حقیقت سے باخبر ہوتا تو وہ اِس طرح، فخر اور شکر کے متضاد الفاظ کو ایک ساتھ نہ بولتا۔ حقیقت یہ ہے کہ شکر ہمیشہ نفیِ فخر کی زمین پر پیدا ہوتا ہے، نہ کہ اثباتِ فخر کی زمین پر۔
واپس اوپر جائیں

بے نتیجہ بھیڑ

میں نے ایک مشہور مسلم اسپیکر کا انٹرویو پڑھا۔ اِس انٹرویو میں انھوںنے پُر مسرت انداز میں اپنے ایک پروگرام کا ذکر کیا تھا۔ انھوںنے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ — منتظمین نے مجھ سے بتایا تھا کہ وہ اِس پبلک لیکچر میںتین ہزار لوگوں کی شرکت کی امیدرکھتے ہیں، لیکن ماشاء اللہ، وہاں تقریباً بیس ہزار آدمی تھے جنھوں نے لیکچر میں شرکت کی:
The organizers had told me that they expected around three thousand for the public lecture, but masha allah, there were some twenty thousand who attended the lecture. (The Muslims World League Journal, April 2008, p. 16).
عام طورپر لوگوں کا رجحان یہ ہے کہ وہ بھیڑ (crowd) کو جلسے کی کامیابی کا معیار سمجھتے ہیں، حالاں کہ کسی جلسے کی کامیابی کا معیار وہ نتیجہ ہے جو افراد کی سطح پر ظاہر ہوتا ہے۔ میںنے باربار اِس کا تجربہ کیا ہے کہ جو لوگ بھیڑ والے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں، اُن سے جب پوچھا جائے تو وہ شان دار الفاظ میں جلسے کی تعریف کریں گے، لیکن اگر اُن سے یہ سوال کیا جائے کہ تم ذاتی طورپر وہاں سے کیا پیغام لے کر لوٹے، یعنی تمھارا اپنا ٹیک اوے (take away) کیا تھا۔ اِس سوال کے جواب میں آدمی کے پاس کچھ بھی کہنے کے لیے نہیں ہوتا۔ وہ بار بار جوش کے ساتھ یہ کہے گا کہ ہم کو بہت کچھ ملا، لیکن اگر پوچھا جائے کہ متعین (specific) طورپر کوئی ایک بات بتاؤ، تو وہ اِس کے جواب میں کچھ بھی نہیں بتا پاتا۔
ایسا کیوں ہے۔ ایسا اِس لیے ہے کہ فرد کی نفسیات الگ ہوتی ہے، اور مجمع کی نفسیات الگ۔ اگر آپ ایک، یا چند آدمی سے براہِ راست طورپر کوئی بات کہیں، تو وہ آدمی اپنے آپ کو اس کا مخاطب سمجھے گا اور بات کو بخوبی طورپر پکڑے گا، لیکن جب ایک مقرر شان دار اسٹیج پر لاؤڈاسپیکر کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور ایک بھیڑ کو مخاطب کرتا ہے، تو ایسے عمومی ماحول میں مقرر کی بات فضا میں بکھر جاتی ہے۔ کوئی بھی ایک شخص اپنے آپ کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتا۔ اِس لیے اِس قسم کی بھیڑ میں کسی فرد کا مائنڈ ایڈریس نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم یہ منظر دیکھتے ہیں کہ جب سے پریس اور اسٹیج اور میڈیا کا زمانہ آیا ہے، بڑے بڑے مقرر پیدا ہوئے۔ انھوںنے ہزاروں مواقع پر شان دار ماحول میں بڑی بڑی بھیڑ کو خطاب کیا ہے، لیکن نتیجے کے اعتبار سے یہ تمام خطابات صفر کے درجے میں بے نتیجہ رہے۔ اِس طرح کے خطابات کے نتیجے میں چند انسان بھی بن کر تیار نہیں ہوئے۔ ایسے مقرریں کو خود تو مقبولیت حال ہوجاتی ہے، لیکن جن لوگوں کی بھیڑ کو وہ خطاب کرتے ہیں، وہ لوگ بدستور اپنی سابقہ حالت پر پڑے رہتے ہیں۔
اِسی قسم کے ایک مشہور مقرر کے بارے میں میں جانتا ہوں۔ وہ پچاس سال تک بڑی بڑی بھیڑ کو خطاب کرتے رہے، لیکن آخر عمر میںاُن کو محسوس ہوا کہ وہ شان دار خطابات کے باوجود چند آدمی کو بھی اپنا حقیقی ساتھی نہ بنا سکے۔ وہ بھیڑ کے اندر اپنے آپ کو تنہا پاتے تھے۔ اپنی عمر کے آخری زمانے میں اپنے ایک قریبی ساتھی کے نام انھوں نے ایک نجی خط (personal letter) میں اپنے اِس غم انگیز احساس کا ذکر کیا اور اپنے آپ کو اِس شعر کا مصداق بتایا:
وہ محرومِ تمنا کیوں نہ سوئے آسماں دیکھے کہ جو لمحہ بہ لمحہ اپنی کوشش رائگاں دیکھے
اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ بھیڑ کو ایڈریس کرنے کے بجائے، افراد کو ایڈریس کیاجائے۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے لوگوں کے اندر حقیقی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ایک ایسا پولٹکل لیڈر جس کی ضرورت صرف یہ ہو کہ الیکشن کے وقتی موقع پر لوگ اس کو ووٹ دے دیں، وہ ضرور بھیڑ کو اہمیت دے سکتا ہے۔ لیکن ایک حقیقی مُصلح (reformer) کے لیے ضروری ہے کہ وہ فرد فرد کی اصلاح کرکے اپنی ایک ٹیم بنائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی اصول کے مطابق، اپنی ایک ٹیم بنائی تھی جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ اصحاب، یا صحابہ دراصل ٹیم کا دوسرا نام ہے۔ یہ ٹیم سازی بھی ایک عظیم سنتِ رسول ہے۔ امت کے مصلحین کو ہر زمانے میں یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنی مقبولیت کی قربانی دے کر اِس قسم کی ٹیم بنائیں یہ ٹیم ہی مشن کے تسلسل کی ضامن ہے۔ بھیڑ صرف ایک وقتی نمائش ہے۔ مستقل فائدہ صرف ٹیم کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بھیڑ کا طریقہ صرف ایک سیاسی طریقہ ہے، وہ اسلام کا طریقہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

کشمیر کا خواب

ایک مسلم نوجوان شاہ عمران حسن (پیدائش: 1982 ) اگست 2008 میں کشمیر گئے۔ وہاں وہ تین ہفتہ رہے۔ ان کی عادت ہے کہ وہ روزانہ اپنی ڈائری لکھتے ہیں۔ وہ کشمیر سے واپس آئے تو انھوںنے مجھ کو اپنی ڈائری دکھائی۔ ان کی اِس ڈائری کا ایک اندراج یہ تھا:
’’4 اگست 2008 کی ایک رات کو میرا قیام ادارہ ’’اپنا گھر‘‘ میں تھا۔ وہاں ادارے کے ایک طالب علم جاوید احمد (19 سال) بھی موجود تھے۔ صبح کو میں بیدار ہوا تو جاوید احمد نے ماہ نامہ الرسالہ سے متعلق اپنا ایک خواب بیان کیا، جو اُنھیں کے الفاظ میں اِس طرح تھا: ’’میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص ہے۔ اس کے چہرے پر ہلکی ہلکی سفید داڑھی ہے۔ وہ ان پڑھ ہے۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ — مجھے الرسالہ کا ممبر بناؤ ، مجھے الرسالہ کا ممبر بناؤ۔‘‘
اِس خواب میں مذکورہ بوڑھا آدمی گویا کہ کشمیر کی روح ہے۔ کشمیر کی روح چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ جو منفی افکار میرے درمیان پھیلائے جارہے ہیں، اُن سے میں بے زار ہوں، ان کو بند کرو۔ میرے درمیان الرسالہ کو پھیلاؤ، میرے درمیان الرسالہ والے مثبت افکار کو عام کرو۔
کشمیر میں اکتوبر 1989 میں متشددانہ جہاد کا آغاز ہوا۔ یہ سلسلہ مختلف صورتوں میں، تادمِ تحریر جاری ہے۔ اِس نام نہاد جہاد کے دوران کشمیر میں جان و مال کا بے حساب نقصان ہوا ہے۔ اِس خود ساختہ جہاد نے کشمیر کو تباہی کے سوا اور کچھ نہیں دیا۔
اب کشمیر کی سلامتی کی صرف ایک صورت ہے، اور وہ یہ ہے کہ کشمیر میںاُن افکار کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے جس کا پیغام ماہ نامہ الرسالہ میں مسلسل طورپر دیا جارہا ہے۔ اِسی میں کشمیر کے لیے زندگی ہے۔ اِس کے سوا جو کچھ ہے، وہ موت اور تباہی کے سوا کچھ اور نہیں۔ نام نہاد کشمیری تحریک سے کچھ لیڈروں کو فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن خود کشمیر یا کشمیری عوام کا اس میں کچھ فائدہ نہیں— اب آخری وقت آگیا ہے کہ اِس معاملے میں نظر ثانی کی جائے اور جذباتیت کو چھوڑ کر حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

مقامِ نزاع سے پیچھے ہٹنا

تجربہ بتاتا ہے کہ جب دو فریقوں کے درمیان کسی مسئلے پر نزاع پیدا ہوجائے ، تو آگے جانے کا راستہ ہمیشہ بند ہوجاتا ہے۔ البتہ پیچھے لوٹنے کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ ایسے موقع پر آگے بڑھنے کی کوشش کرنا، صرف اپنے نقصان میں اضافہ کرنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر آدمی کے لیے صرف ایک ہی چوائس باقی رہتا ہے، اور وہ یو ٹرن (U-Turn) کا چوائس ہے، یعنی پیچھے کی طرف لوٹ جانا۔
ایسے موقع پر پیچھے کی طرف لوٹنے کا مطلب پسپائی نہیں، بلکہ یہ تدبیر کا ایک معاملہ ہے۔ یہ پیچھے ہٹ کر دوبارہ آگے بڑھنے کی ایک تدبیر ہے۔ عقل مند آدمی ہمیشہ ایسے موقع پر یوٹرن کا چوائس لیتا ہے۔ مثال کے طورپر 1799 میں سلطان ٹیپو اور انگریزوں کے درمیان نزاع پیدا ہوئی۔ سلطان ٹیپو نے یوٹرن کا چوائس نہیں لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی پوریسلطنت تباہ ہوگئی۔ اِس کے برعکس، حیدرآباد کی مسلم ریاست نے اِسی طرح کی صورتِ حال میں، انگریزوں کے مقابلے میں یوٹرن کا چوائس لے لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سو سال تک کامیابی کے ساتھ باقی رہی۔
عقل مند انسان وہ ہے جو نزاع کی صورتِ حال کو تجربہ کے خانے میں ڈالے۔ وہ نتیجہ (result) کی بنیاد پر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ وہ اپنے جذبات کو اپنا رہ نما نہ بنائے، بلکہ عملی حالات کی بنیاد پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے ۔ وہ پیچھے کی طرف مارچ کرنے کو بھی اتنا ہی اہم سمجھے، جتنا کہ اِس سے پہلے وہ آگے کی طرف مارچ کو اہم سمجھے ہوئے تھا۔
ایسا کرنے والا آج کے دن کو کھو کر، کل کے دن کو پالیتا ہے اور جو ایسا نہ کرے، وہ آج کے دن کو بھی کھوئے گا اور کل کے دن کو بھی۔ زندگی میںاکثر ایساہوتا ہے کہ پیش قدمی کا راستہ پچھلے مقام پر ہوتا ہے، مگر آدمی اُس کو اگلے مقام پر ڈھونڈنے لگتا ہے۔ حالاں کہ قانونِ فطرت کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں — مقامِ نزاع سے پیچھے ہٹنا، دانش مندی بھی ہے اور بہادری بھی۔ اس کے برعکس، مقامِ نزاع پر ٹکراؤ شروع کردینا، نہ دانش مندی ہے اور نہ بہادری۔
واپس اوپر جائیں

ردّ ِعمل اسلام میں نہیں

بہت سے لوگ جنگ اور تشدد میںمبتلا ہیں، انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ اُن سے کہا جائے کہ تم یہ تباہ کُن کام کیوں کررہے ہو، تو وہ یہ جواب دیں گے کہ— یہ تو ایک فطری ردّ عمل ہے۔ جب کسی گروہ کے خلاف ظلم اور نا انصافی کا واقعہ پیش آئے گا، تو اس کے اندر ضرور جوابی ردّ عمل (reaction) پیدا ہوگا۔ وہ گن اور بم استعمال کرے گا۔ یہاںتک کہ آخر کار وہ خوکُش بم باری (suicide bombing) کا طریقہ اختیار کرے گا۔ اگر ہمارے متشددانہ ردّ عمل کو ختم کرنا ہے، تو فریقِ ثانی کی طرف سے کیے جانے والے ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنا ہوگا، ورنہ ہماری طرف سے متشددانہ کارروائیوں کا سلسلہ برابر جاری رہے گا۔ ردّ عمل (reaction) کو ختم کرنا ہے تو پہلے عمل (action) کو ختم کیجیے۔ اِس معاملے میںیک طرفہ نصیحت سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔
ردّ عمل کا یہ فلسفہ سرتاسر غیر فطری ہے۔ ایسے لوگوں کی اصل غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ذہنوں میں عمل کا غلط معیار قائم کرلیا ہے۔ عمل کا صحیح معیار یہ ہے کہ عمل کے بعد پیش آنے والے نتیجہ (result) کو دیکھا جائے۔ صحیح عمل کی پہچان یہ ہے کہ وہ عمل کرنے والوں کے لیے مفید نتیجہ پیدا کرے۔ جو عمل مفید نتیجہ پیدا نہ کرے، وہ سرے سے قابلِ ترک ہے۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ کوئی عمل یا تو مفید نتیجہ پیدا کرتا ہے، یا وہ عمل کرنے والوں کے لیے کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوتا ہے۔ اِس معاملے میں تیسری کوئی صورت نہیں۔ عملی اقدام وہی درست ہے جو نتیجہ خیز ہو۔ جو عملی اقدام نتیجہ خیز نہ ہو، وہ صرف اپنی تباہی میںاضافے کے ہم معنیٰ ہے، اور اپنی تباہی میں اضافہ کبھی کسی دانش مند کا کام نہیں ہوسکتا۔
کسی عمل کے مقابلے میں جذباتی ردّ عمل، اُس عمل کا جواب نہیں۔ عمل کا حقیقی جواب یہ ہے کہ پہلے صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے، مثبت ذہن کے ساتھ نتیجہ خیز منصوبہ بندی کی جائے، پھر ٹکراؤ کے بجائے تعمیر کے اصول پر اپنے عمل کا آغاز کیا جائے۔ یہی صحیح اسلامی طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

نفرت کا بم

ہر آدمی کے اندر ایک شیطان چھپا ہوا ہے۔ یہ شیطان، نفرت کا بم (hate bomb)ہے۔ ہر آدمی امکانی طورپر نفرت کا بم اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ نفرت کا یہ بم عام حالات میں، انسان کے اندر سویا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی طرح اُس کو جگا دیا جائے، تو اچانک وہ بے پناہ ہو کر بھڑک اٹھتا ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اِس معاملے میں کسی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
اِس صورتِ حال کا مطلب دوسرے لفظوں میں، یہ ہے کہ ہر انسان ایک انتہائی آتش گیر (highly inflammable) مادّہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی سماج میں اگر دس ہزار آدمی ہیں، تو وہ گویا کہ دس ہزار چلتے پھرتے آتش گیر مادّے کا مجموعہ ہیں۔ یہ دراصل ذاتی مفاد (personal interest) ہے جو لوگوں کو مزاجاً متشدد ہونے کے باوجود، مجبورانہ طور پر امن پسند بنائے رہتا ہے۔ ایسی صورت میں قیادت (leadership) کا کام ایک بے حد مشکل کام ہے۔ جس قائد کے پاس صرف شکایت اور احتجاج کا نعرہ ہو، اُس کو ہر گز میدان میںنہیں آنا چاہیے۔ کیوں کہ اس کا منفی نعرہ لوگوں کو بھڑکائے گا اور آخرکار، سماج کا وہ حال ہوجائے گا، جیسے ایک مقام پر بہت سے آتش گیر مادّے ہوں اور وہ اچانک بھڑک اٹھیں۔
قائد پر لازم ہے کہ اگر اس کے پاس محبت کا نعرہ ہے، تب تو وہ اپنی تحریک لے کر سماج میں آئے۔ اور اگر اُس کے پاس صرف نفرت اور شکایت کی باتیں ہوں، تو اس کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اجتماعی تحریک ہر گز نہ شرو ع کرے۔ اس کے بجائے، وہ اپنے آپ کو اپنے گھر کے اندر محصور کرلے۔ یہی اس کے لیے نجات کی واحد صورت ہے۔
اجتماعی تحریکیں دو قسم کی ہوتی ہیں— مثبت تحریک، اور منفی تحریک۔ مثبت تحریک وہ ہے جو ذاتی ذمّے داری (duty) کی بنیاد پر اٹھائی جائے۔ ایسی تحریک ایک صالح تحریک ہے۔ منفی تحریک وہ ہے جو حقوق طلبی اور احتجاج کی بنیاد پر اٹھائی جائے۔ ایسی تحریک ایک غیر صالح تحریک ہے۔ صالح تحریک کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نکلتا ہے، اور غیر صالح تحریک ہمیشہ بُرے انجام پر ختم ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

منفی تأثر، مثبت تأثر

ایک صاحب نے ایم بی اے (ماسٹر آف بزنس ایڈ منسٹریشن) کاکورس کیا۔ اِس کے بعد اُن کو دہلی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میںاچھی سروس مل گئی۔ انھوں نے اِس سروس کی بنیاد پر ہاؤس لون لے کر اپنا ایک گھر بنا لیا۔ اِسی طرح انھوں نے کار لون لے کر اپنے لیے ایک کار حاصل کرلی۔بظاہر اُن کے معاملات درست تھے۔ ایک عرصے کے بعد وہ مجھ سے ملے۔ وہ اُس وقت غصے میں تھے۔ انھوںنے بتایا کہ کمپنی والوں نے میرے ساتھ ایک بے انصافی کی ہے۔ انھوں نے میرے ایک جونیئر کا پروموشن کردیا۔ میں اس کے مقابلے میں سینئر تھا، مگر میرا پروموشن نہیں ہوا۔ میں اِس کو برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے کہا کہ اِسی کمپنی کی ملازمت کی وجہ سے شہر میں آپ کا گھر ہوگیا اور آپ کو کار مل گئی۔ اِس کا آپ نے کبھی اعتراف نہیں کیا، اور آپ کا پروموشن نہیں ہوا تو آپ اِس پر غصہ ہورہے ہیں۔
یہی عام طورپر تمام عورتوں اور مردوں کا مزاج ہوتا ہے۔ وہ اپنے موافق باتوں کا چرچا نہیں کرتے، لیکن اُن کے مخالف کوئی بات ہوجائے، تو وہ اس کا چرچا خوب کرتے ہیں۔ یہ مزاج انسانی شخصیت کے لیے قاتل ہے۔ ہر انسان کو بہت زیادہ اِس مزاج سے بچنا چاہئے۔
انسان کا مزاج یہ ہے کہ اگر سو میںننانوے مثبت باتیں ہوں، تووہ اس کی شخصیت کا حصہ نہیں بنیں گی، لیکن اگر ایک منفی بات ہو تووہی اس کی شخصیت کا حصہ بن جائے گی۔ پانی کے گلاس میں اگر آپ پتھر کا ایک ٹکڑا ڈالیں تو وہ صرف ایک ٹکڑا بن کر پانی میں رہے گا، لیکن اگر آپ اس کے اندر رنگ ڈال دیں تو رنگ پورے پانی میں پھیل جائے گا۔ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان جب کسی واقعے سے منفی تاثر لے گاتو وہ تاثر اس کی پوری شخصیت کا حصہ بن جائے گا، لیکن اُس کے ساتھ کوئی مثبت واقعہ پیش آئے تو وہ اس کی شخصیت کا صرف ایک محدود جز بن کر پڑا رہے گا۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ منفی تاثر فوراً انسان کے فعّال حافظے کا جز بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، مثبت تاثر بہت جلد فراموشی کے خانے میںچلا جاتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ جب کوئی منفی تاثرپیش آئے تو فوراً وہ اس کو بھلا دے، ورنہ اس کو منفی شخصیت کی صورت میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
واپس اوپر جائیں

دولت کافی نہیں

امریکا کے بل گیٹس (Bill Gates) کو سافٹ وئرجائنٹ (software giant)کہاجاتا ہے۔اُ ن کے پاس کوئی بڑی تعلیمی ڈگری نہیں۔ وہ امریکا کی ہارورڈ یونی ورسٹی میں پڑھ رہے تھے، پھر انھوں نے فراغت سے پہلے تعلیم چھوڑ دی، مگر جلد ہی وہ کرۂ ارض کے سب سے زیادہ دولت مند انسان بن گئے۔ 1999 میں ان کی دولت کا اندازہ ایک سو بلین ڈالر سے زیادہ تھا:
The Harvard dropout was the wealthiest person on the planet for years worth more than $ 100 billion in 1999.
کمپیوٹر ٹکنالوجی میںانھو ںنے نئی ترقیاں کیں۔ ان کا کاروبار ساری دنیا میں اتنا بڑھا کہ وہ کمپیوٹر کنگ کہے جانے لگے۔ لیکن یہ ترقیاں ان کو قلبی سکون نہ دے سکیں۔ اب انھوں نے انسانی مواسات (philanthropy) کو اپنا میدان بنانے کا فیصلہ کیا۔ اِس سلسلے میں انھو ںنے ایک ادارہ قائم کیا اور اپنی دولت کا تقریباً آدھا حصہ اس میں دے دیا۔ اِس ادارے کا نام یہ ہے:
Bill and Melinda Gates Foundation
27 جون 2008 کو جب کہ ان کی عمر 52 سال تھی، انھوں نے کمپیوٹر بزنس سے رٹائر ہونے کا اعلان کردیا۔ اب وہ اپنی بقیہ زندگی زیادہ تر، صحت اور تعلیم کے میدان میں صرف کریں گے اور اپنی کمپنی سے صرف رسمی تعلق باقی رکھیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی مادّی سامان یا مادّی ترقی، انسان کو حقیقی سکون نہیں دے سکتی۔ موجودہ دنیا کو اس کے بنانے والے نے اِس لیے نہیں بنایاکہ یہاں انسان اپنی تمام خواہشیں پوری کرے اور پورے معنوں میں وہ فل فل مینٹ (fulfillment) حاصل کرے۔
موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ وہ صرف اِس لیے ہے کہ انسان اپنی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے اعلیٰ ربانی مقصد میں اپنی توانائی صرف کرے، تاکہ وہ آخرت میں خدا کے ابدی انعام (reward)کا مستحق ٹھہرے۔
واپس اوپر جائیں

مادّی ترقی، روحانی موت

نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ’ہندو‘ (The Hindu) کے شمارہ 2 ستمبر 2008 میں ایک سبق آموز رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ مشہور کھلاڑی ابھنو بندرا (Abhinav Bindra) کے بارے میں ہے۔ابھنو بندرا ایک ہندستانی کھلاڑی ہیں۔ بیجنگ (چین)میں ہونے والے اولمپک گیم (اگست 2008 ) میںانھوںنے شوٹنگ میں گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔ اُن کے بارے میں مذکورہ رپورٹ حسب ذیل عنوان کے تحت اخبارمیں شائع ہوئی ہے— میں صرف ہارا ہواایک انسان ہوں:
I am quite a loser
رپورٹ کے مطابق، ابھنو بندرا نے کہا کہ — وہ اپنے آپ کو زندگی میں ایک ہارا ہوا انسان (loser) سمجھتے ہیں، کیوں کہ انھوں نے شوٹنگ کے سوا کچھ اور نہیں کیا۔ میری تمام زندگی شوٹنگ میں گزری۔ میںنے اپنی زندگی میں کچھ نہیں کیا۔ میں صرف ایک کھونے والا انسان ہوں۔ میں صرف سوتا ہوں اور دوڑتا ہوں اور شوٹنگ کے سوا کچھ اور نہیں کرتا۔ بندرا نے یہ بات بی بی سی کے تحت ’’ایک ملاقات‘‘ کے پروگرام میں کہی۔ انھوں نے کہا کہ اسپورٹ، زندگی کا صرف ایک حصہ ہے۔ زندگی میں اور بھی بہت سی چیزیں ہیں، لیکن میں نے کچھ اور نہیں کیا:
New Delhi: Abhinav Bindra says he considers himself a “loser” in life, as he has done nothing except shooting at ranges. “All my life has been shooting. I have done nothing in my life. I am quite a loser. I just sleep, run and do nothing except shooting.” Bindra told BBC’s “Ek Mulaqat” programme. “Sport is one part of life. There are so many other things to life, but I have done nothing”, he added. — PTI (p. 22)
انسانی شخصیت کے دو حصے ہیں— مادّی حصہ، اور روحانی حصہ۔ آدمی اگر اپنی شخصیت کے صرف مادّی حصے کو فیڈ (feed) کرے، تو وہ مذکورہ قسم کے احساسِ محرومی کا شکار رہے گا۔ اور اگر مادّی حصے کے ساتھ، وہ اپنی شخصیت کے روحانی حصے کو بھی فیڈ کرے، تو وہ کبھی احساسِ محرومی کا شکار نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

شخصیت کی تعمیر

خدا، انسان کا خالق ہے۔ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے انسان جو کچھ ہے، وہ تمام تر خدائی تخلیق کا نتیجہ ہے۔ لیکن موجودہ دنیا میں انسان کی جو شخصیت بنتی ہے، وہ انسان کی خود اپنی تعمیر کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان پچاس فی صد، خدا کی تخلیق ہے اور پچاس فی صدخود اپنی تعمیر:
Every human being is fifty percent God-made, and fifty percent self-made.
انسان فطری طور پر ہر قسم کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن یہ صلاحیتیں اس کے اندر بالقوہ(potential) کے طورپر ہوتی ہیں۔ اِس بالقوہ کو بالفعل (actual) بنانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ یہ ایک عظیم موقع(opportunity) ہے جو ہر عورت اورہر مرد کو ملی ہوئی ہے۔ یہ تمام تر انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے بالقوہ کو بالفعل بنائے، یا اس کے بغیر ہی ایک ناکام انسان کے طورپر مرجائے۔
بالقوہ کو بالفعل بنانا ایک مسلسل عمل (process) ہے جو تاحیات جاری رہتا ہے۔ اِس عمل کا آغاز سنجیدہ غور وفکر سے ہوتاہے۔ سنجیدہ غور وفکر کے ذریعے آدمی سچائی کی معرفت تک پہنچتا ہے۔ اس کے بعد آدمی کو ہر دن اپنا محاسبہ (introspection) کرنا پڑتا ہے۔ اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کو تلاش کرے اور ان کی اصلاح کرکے اپنے اندر ذہنی اور روحانی ارتقا کے عمل کوجاری رکھے۔
شخصیت کی تعمیر (prsonality building)کا یہ عمل آدمی خود کرتا ہے، لیکن اِس عمل کو درست طورپر جاری رکھنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کو مسلسل طورپر خدا کی مدد حاصل رہے۔ اِس مدد کے حصول کا ذریعہ دعا ہے۔ دعا میں جینے والا آدمی ہی اپنی شخصیت کی تعمیر میںکامیاب ہوتا ہے۔ دعا کے بغیر یہ کام اپنی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ خام لوہا (ore) کی مانند ہوتا ہے۔ ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے خام لوہے کوترقی دے کر اسٹیل (steel) بنائے۔ یہ کام ہر ایک کو کرنا ہے۔ اِس میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت پسندانہ عمل، یا چھلانگ

ایک صاحب نے ایک دکان کھولی۔ دکان سے اتنی آمدنی ہوتی تھی کہ اُن کا ضروری خرچ چل جائے۔ مگر انھوں نے اپنے گھر کا خرچ بڑھالیا۔ اِس سے مسئلہ پیدا ہوا۔ اب انھوں نے بینک سے قرض لیا، تاکہ اپنی آمدنی کو بڑھائیں۔ مگر قرض کے بعدان کی مشکلات اور زیادہ بڑھ گئیں۔ یہ ان کے لیے ایک چھلانگ تھی، جو نتیجے کے اعتبار سے الٹی ثابت ہوئی۔ اگر وہ یہ کرتے کہ اپنے خرچ پر کنٹرول کرتے اور محنت کرکے دھیرے دھیرے ترقی کی کوشش کرتے، تو وہ چند سال میںکامیاب ہوسکتے تھے۔ مگر اچانک ترقی کی کوشش اُن کے لیے ایک ایسی چھلانگ تھی جس نے مسئلہ حل کرنے کے بجائے، مسئلے میں اور زیادہ اضافہ کردیا۔
چھلانگ کا طریقہ جس طرح فرد کے لیے نقصان دہ ہے، اِسی طرح وہ قوموں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ عراق کے اوپر امریکا کا حملہ(2003) اِسی قسم کی ایک چھلانگ تھا۔ سپرپاور ہونے کے باوجود یہ حملہ امریکا کے لیے الٹا نتیجہ پیدا کرنے والا ثابت ہوا۔
حملہ شروع ہونے سے دو سال پہلے، میں نے اِس موضوع پر ایک انٹرویو دیا تھا، جو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (16 ستمبر2001 ) میں چھپا تھا۔ اِس انٹرویومیں، میںنے پیشگی طورپر کہا تھا کہ — امریکا نے اگر عراق پر حملہ کیا، تو وہ اُس کے لیے الٹا نتیجہ پیدا کرنے والا ثابت ہوگا:
US aggression would be counter-productive.
چناں چہ اِس حملے کے بعد امریکا سخت مشکلوں کا شکار ہوگیا۔ عراق پر حملہ، امریکا کے لیے ایک بہت بڑے دلدل میںکودنے کے ہم معنٰی ثابت ہوا۔
کام کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حقیقت پسندانہ منصوبے کے تحت عمل کیا جائے۔ چھلانگ کا طریقہ ہرگز اختیارنہ کیا جائے۔ حقیقت پسندانہ عمل میں انسان کی رہ نما اس کی عقل ہوتی ہے، اور چھلانگ کا عمل ہمیشہ جذبات کے زیر اثر پیش آتا ہے۔ عقل سے سوچ کر کیا ہوا عمل ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے، اور جذبات کے تحت کئے جانے والے عمل کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

زیادہ ذہین، زیادہ دُور

انسانوں میںفطری طورپر کچھ لوگ زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور کچھ لوگ کم ذہین۔ پوری تاریخ کا یہ تجربہ ہے کہ زیادہ ذہین لوگوں میں بہت کم ایسے افراد ہوتے ہیں جو خدا کے دین کی طرف راغب ہوں ۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ ہر زمانے میں صرف کم تر ذہانت کے لوگ اپنے آپ کو دینی کام میں لگاتے ہیں۔ زیادہ ذہانت رکھنے والے لوگوں میں بہت کم ایسے افراد نکلے جو اپنی صلاحیتوں کو حقیقی معنوں میں، خدا کے دین کے لیے وقف کرسکیں۔
ایسا کیوں ہے، اِس کا سبب وہی ہے جس کو قرآن میں حبِّ عاجلہ (القیامۃ:20 ) کہاگیا ہے، یعنی فوری فائدہ(immediate gain) کی کشش۔ زیادہ ذہین لوگ بہت جلد منی مارکیٹ (money market) میں اپنے لیے ایک نفع بخش جاب (job) پالیتے ہیں، جب کہ دینی کام کا فائدہ آخرت سے جڑا ہوا ہے۔ منی مارکیٹ میں ان کو فوراً دولت اور شہرت اور اقتدار ملتا ہوا نظر آتا ہے، جب کہ دینی کام میں اُنھیں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے عمل کا انعام پانے کے لیے اُنھیں موت کے بعد آنے والی دنیا کا انتظار کرنا پڑے گا ۔ تاریخ کے اِس تجربے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جو شخص زیادہ ذہین ہوتاہے، وہ عملی طورپر اتنا ہی زیادہ نادان ثابت ہوتا ہے۔ ایسے افراد وقتی فائدے کی خاطر، ابدی فائدے کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ دنیا کی جھوٹی خوشی کے بدلے، جنت کی سچی خوشی سے خود کو محروم کرلیتے ہیں۔
زیادہ ذہین آدمی کی ایک کم زوری یہ ہے کہ وہ انانیت پسند (egoist) ہوتا ہے اور دینی کام میں انانیت پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دینی کام ہمیشہ تواضع (modesty) کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ فخر اور برتری کی بنیاد پر۔ زیادہ ذہین لوگ اپنی انا کو کچل نہیں پاتے، اِس لیے وہ دینی کام سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کرپاتے ۔ دینی کام دراصل، خدائی کام ہے۔ دینی کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو خدا کے مقابلے میں اپنے آپ کو پوری طرح سرینڈر کیے ہوئے ہوں۔ اِس مزاج میںادنی کمی بھی کسی آدمی کو دینی کام کے لیے نااہل (incompetent) بنادیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ماضی میں جینا

لوگوں سے بات کیجیے تو اکثر لوگ، بلکہ شاید سبھی لوگ کسی نہ کسی کے خلاف کوئی شکایت لے کر منفی احساسات میں مبتلا رہتے ہیں۔ پورے معنوں میں مثبت سوچ(positive thinking) والا آدمی شاید کوئی بھی آج کی دنیا میں موجود نہیں۔
اِس قسم کی سوچ آدمی کے اندر منفی شخصیت (negative personality) پیدا کرتی ہے۔ اور منفی شخصیت کسی بھی عورت یامرد کے لیے خود کُشی سے کم نہیں۔ عام خود کشی اگر جسمانی خود کشی (physical suicide) ہے، تو منفی سوچ بلاشبہہ نفسیاتی خود کشی (psychological suicide) ہے۔
اِس معاملے میں لوگوں سے پوچھ گچھ(scrutiny) کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ان کی شکایت کسی نہ کسی ایسے واقعے پر مبنی ہے جس کا تعلق گزرے ہوئے ماضی سے ہے۔ لوگوں کی یہ ایک تباہ کن عادت ہے کہ اگر اُن کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آجائے، تو وہ دوسروں سے اس کا چرچا کرتے ہیں، وہ ہمیشہ اس کو اپنی یاد (memory)میں لیے رہتے ہیں۔ یہی عادت کسی عورت یا مرد کے اندر منفی شخصیت کی تشکیل کا سب سے بڑا سبب ہے۔
ہر عورت اور ہر مرد کو چاہیے کہ جب بھی اس کے ساتھ کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش آئے، تو اُسی وقت وہ اس کو فراموشی کے خانے میں ڈال دے۔ وہ ہرگز دوسروںسے اس کا چرچا نہ کرے، بلکہ وہ کوشش کرکے ناخوش گوار واقعہ کے کسی خوش گوار پہلو کو تلاش کرے۔ اِس طرح وہ ایک منفی تجربے کو، مثبت تجربے میں تبدیل کردے، ٹھیک اُسی طرح جیسے ایک مسافر کے پاؤں میںکانٹا چبھ جائے، تو وہ اُسی وقت اس کانٹے کو نکال کر باہرپھینک دیتا ہے۔ وہ اس کو اپنی زندہ یادداشت (living memory) کا جز نہیں بناتا۔
دانش مند انسان وہ ہے جو ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا دے۔ وہ اپنے ذہن کو ماضی کی ناخو ش گوار یادوں کا جنگل نہ بننے دے۔ اِس دنیا میں کامیاب زندگی کی اِس کے سوا کوئی اور صورت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
میں ایک جدید تعلیم یافتہ مسلمان ہوں۔ میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہوںاورروزہ بھی رکھتا ہوں، لیکن یہ تراویح جو ہر سال پڑھی جاتی ہے، اس کا کوئی فائدہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں (ایک قاری، الرسالہ، حیدر آباد)
جواب
تراویح کوئی رسم نہیں ہے۔تراویح دراصل، قرآن کا اجتماعی مطالعہ (collective study) ہے۔ تراویح کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی حالت میں کھڑے ہو کر قرآن کو سنا جائے اور اس کا اجتماعی مطالعہ کیا جائے۔تراویح کی بہترین صورت یہ ہے کہ کسی دن قرآن کا جو حصہ پڑھا جانے والا ہو، تمام نمازی پیشگی طورپر قرآن کے اُس حصے کا ترجمہ پڑھیں اور اس کے مضمون کو اپنے ذہن میں بٹھائیں۔ اِس کے بعد وہ مسجد میں جاکر تراویح پڑھیں۔ اِس طرح جب وہ تراویح پڑھیں گے تو وہ قرآن کو سنیں گے بھی اور اُس پر غور بھی کریں گے۔ یہ اُن کے لیے قرآن کا ایک اجتماعی مطالعہ ہوگا جس سے انھیں غیرمعمولی فائدے حاصل ہوں گے۔حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب زیادہ لوگ جمع ہو کر اللہ کا ذکر کریں اور اللہ کا چرچا کریں تو اُس وقت وہاں فرشتے بہت زیادہ تعداد میں آجاتے ہیں۔ فرشتوں کی آمد سے اُس مقام پر ایک روحانی ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ تراویح، اِسی قسم کا ایک اجتماعی ذکر اور اجتماعی مطالعہ قرآن ہے۔ اُس کو اگر صحیح طورپر انجام دیا جائے تو اُس سے غیر معمولی فوائد حاصل ہوںگے۔
سوال
میری عمر اس وقت 48 سال ہے۔ میری تعلیم ایک دینی مدرسے میں ہوئی۔ تعلیمی زندگی میں مدرسے کے اندر کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ میںاس ماحول سے متنفّرہوگیا، نہ صرف اس ماحول سے بلکہ مذہب کے تعلق سے ایسی بیزاری ہوئی کہ روزہ نماز بھی چھوڑ دیا۔ برسوں یہ سلسلہ چلتا رہا پھر ایک دوست کے ذریعے ماہ نامہ الرسالہ سے تعارف ہوا۔ الرسالہ کے مضامین پسند آئے۔ لیکن اس لیے نہیں کہ اس میں معرفت والا دین بتایا گیا ہے، بلکہ اس لیے کہ اس میں ڈھیر ساری معلومات ہوتی ہیں جس کے سہارے مختلف لوگوں سے بحث کی جاسکتی ہے،لیکن کب تک؟سچائی سر چڑھ کر بولتی ہے۔ الرسالہ کے مضامین نے دھیرے دھیرے متاثر کرنا شروع کردیا۔ اور میں نے سنجیدگی سے الرسالہ کی باتوں پر غور کرنا شروع کیا۔ میں نے پایا کہ یہ واحد ذریعہ ہے دین کو سمجھنے کا۔ اورخداکی توفیق سے یہ سمجھ میں آیا کہ اللہ اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے۔
میںآپ کی تحریک (دعوت الی اللہ) سے پوری طرح متفق ہوں اور چاہتاہوں کہ اس تحریک میں اپنا حصہ ادا کرکے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا کفّارہ ادا کر سکوں۔ گو کہ میں روحانی اعتبار سے خود کو انتہائی کمزور پاتا ہوں۔ میری شدید خواہش ہے کہ کم ازکم چالیس 40 دن آپ کے زیر سایہ رہنے کا موقع ملے، تاکہ میری کنڈیشننگ ٹوٹے اور میں اپنی ڈی کنڈیشننگ کرسکوں۔ میری خواہش ہے کہ میں دوبارہ آپ کے ذریعہ کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کروں اور آپ کے زیر سایہ کچھ دن تربیت حاصل کرسکوں۔
میرے ساتھیوںکا مختصر تعارف حسب ذیل ہے:
1 - حافظ صلاح الدین عمر 25 سال
انھوںنے تعلیمی فراغت کے بعد پانچ سال تک ایک مسجد میں امامت کی۔ تبلیغی جماعت سے وابستہ رہے، لیکن روایتی شاکلہ (framework)سے مطمئن نہیں تھے۔ آخر انھوںنے سب کچھ چھوڑ دیا۔ اور ایک کارخانے میں مینجر ہیں۔ الرسالہ مشن سے پوری طرح اتفاق رکھتے ہیں۔
2 - شفیق بھائی (میڈیکل اسٹور کے مالک) الرسالہ سے اتفاق رکھتے ہیں، لیکن بابری مسجد جیسے موضوع پر وہ آپ کے موقف سے مطمئن نہیں۔
3 - مسٹر سہراب اعظمی (اعظمی بیکری)یہ سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں۔ میں نے اُن سے بارہا کہا کہ دین کے کاموں میں آگے آئیں، اللہ آپ کی دنیا و آخرت دونوں کو بہتر کرے گا۔ وہ الرسالہ کو پسند کرتے ہیں لیکن اُن کا اختلاف اس بات پر ہے کہ مولانا، مسلمانوں کو مکی زندگی کی ترغیب دیتے ہیں، جب کہ اس وقت مسلمانوں کو مدنی زندگی کے قیام کی کوشش کرنا چاہیے۔ میںنے اُن کو دلائل سے مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ مکی زندگی کے بغیر مدنی زندگی کا تصور ہی فضول ہے۔
4 - جاوید اکبر صاحب (ریٹائرڈ گورنمنٹ سرونٹ) یہ الرسالہ مشن اور دوسری تحریکوں میں فرق کرنا ہی نہیں جانتے ۔وہ دونوں کو یکساں سمجھتے ہیں۔
5 - مولانا مسعود۔ یہ جھاڑ پھونک کرتے ہیں۔ وہ میری باتوں کے جواب میں الٹے سیدھے سوال کرکے اُلجھا دیتے ہیں۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ انسان کے تین جسم ہیں— روح، جسم اور نفس۔ مرنے کے بعدروح، اللہ کے پاس چلی جائے گی کیوں کہ وہ پاک ہے اور جسم مٹی میں مل جائے گا، عذاب نفس کو ہوگا۔ جواب میں میں نے کہا کہ روح، جسم اور نفس کے مجموعے کا نام انسان ہے اور اپنے عمل کا وہی ذمہ دار ہے (محمد سلیم، حافظ صلاح الدین، مالے گاؤں)۔
جواب
1 - یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ کو ہمارے مشن سے پورا اتفاق ہے۔ ہمارے مشن میں حصہ لینے کی صورت یہ ہے کہ آپ اپنے مقام پر، اپنی استطاعت کے بقدر، بلا تاخیر کام شروع کردیں۔ مثلاً آپ ایک لائبریری قائم کریں۔ ہم خیال لوگوں کو لے کر ہفتے وار اجتماع کریں۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو الرسالہ کا قاری بنائیں اور ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتابیں اور پمفلٹ لوگوں کے درمیان پھیلائیں۔ حسب مقدور دعوتی کام کریں۔
2 - آپ جانتے ہیں کہ موجودہ زمانہ کمیونکیشن کا زمانہ ہے۔ آج کمیونکیشن کے ذریعے وہ فائدہ بالواسطہ طورپر حاصل کیا جاسکتا ہے جو پچھلے زمانے میں براہِ راست طورپر صحبت کے ذریعے حاصل ہوتا تھا۔ ملک کے اندر اور ملک کے باہر کئی افراد اِس طرح کام کررہے ہیں۔ وہ بار بار ٹیلی فون کے ذریعے تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ وہ اپنے یہاں ٹیلی فونی خطاب کا انتظام کرتے ہیں۔ وہ ماڈرن کمیونکیشن کے ذریعے مسلسل طورپر ربط میں رہتے ہیں۔ اِس طرح وہ دور رہتے ہوئے صحبت کا فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ آپ بھی یہی طریقہ اختیار کرسکتے ہیں۔
3 - آپ کے ساتھیوں کے بارے میں میرا قیاس ہے کہ وہ الرسالہ کو صرف ایک بار پڑھ لیتے ہیں۔ اِس لیے ان کا ذہن ابھی تک صاف نہیں ہوا۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ تذکیر القرآن کو اور دوسری کتابوں کو بار بار پڑھیں۔ اِس کے بعد اُن کے تمام اشکالات اپنے آپ ختم ہوجائیں گے۔
4 - مکی اور مدنی زندگی کے بارے میں آپ نے ایک صاحب کا جواشکال نقل کیا ہے، وہ بھی مطالعے کی کمی کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ ہماری کتابوں کو غور کے ساتھ پڑھیں، تو ان کا اشکال بھی اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ لوگوں کے تصور کے مطابق، مکی زندگی پُر امن دعوت کی علامت ہے، اور مدنی زندگی مسلّح جہاد کی علامت۔ پچھلے دو سو سال سے ساری دنیا کے مسلمان جگہ جگہ مسلح جہاد کررہے ہیں۔ یہ جہاد اب تک جاری ہے، لیکن بے شمار قربانیوں کے باوجود اِس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
ہمارا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میںمسلح جہاد کے مواقع یک سر مفقود ہیں، جب کہ پُر امن دعوت کے مواقع پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں بلاشبہہ یہ بدترین نادانی ہے کہ پرامن دعوت کے مواقع کو استعمال نہ کیا جائے اور جہاد کے نام سے تباہ کن سرگرمیاں جاری رکھی جائیں۔ خود آپ کے ساتھی اور ان کے جیسے بہت سے لوگ عملاً اِسی طریقے کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وہ پُر امن مواقع کے درمیان اپنا کام کررہے ہیں، نہ کہ متشددانہ ماحول کے درمیان۔
5 - الرسالہ مشن اور دوسری تحریکوں میںایک واضح فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ الرسالہ مشن خالص دعوتی تحریک ہے، جب کہ دوسری تحریکیں ملّی تحریک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دعوتی تحریک وہ ہے جو انسانیتِ عامہ کے لیے اِنذار و تبشیر کی بنیاد پر اٹھے، جوکسی قومی یا مادّی مفاد کے بغیر، خدا کے ابدی پیغام کو بے آمیز انداز میں لوگوں کی قابلِ فہم زبان میںاُن کو پہنچائے۔ یہ پیغمبرانہ نوعیت کا کام ہے۔ اور یہ کام موجودہ زمانے میں صرف الرسالہ مشن کے تحت انجام پارہا ہے۔
ملی تحریکوں کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ اُن میںسے کسی کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو فخر کی غذا فراہم کی جائے، کسی کا مقصد ہے سیاسی اقتدار کو قائم کرنا، کوئی مسلمانوں کی مادّی یا اقتصادی خدمت کررہا ہے، کوئی مسلمانوں کے قومی مطالبات کو لے کر احتجاجی مہم چلا رہا ہے، کوئی مسلمانوں کی ملی اور روایتی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہتا ہے، وغیرہ۔ اِس قسم کے کاموں کو ملی خدمت تو کہا جاسکتا ہے، لیکن اُن کو دعوت الی اللہ کا کام نہیں کہا جاسکتا۔
7 - آپ کے جو ساتھی انسان کو روح اور جسم اور نفس میں تقسیم کرتے ہیں، اور اِس تقسیم کی بنیاد پر اپنا نظریے پیش کرتے ہیں، اُن سے آپ کوئی اور بحث نہ کریں، اُن سے آپ صرف یہ پوچھیے کہ اُن کے اِس نظریہ کا ماخذ قرآ ن میں کہاں ہے۔ اپنے نظریے کے ثبوت میں جب تک وہ کوئی صریح آیت نہ پیش کریں، اُن سے آپ امام احمد کی زبان میں کہیے: إیتونی شیئا من کتاب اللہ حتی أقول۔
سوال
عرض ہے کہ مجھے یہاںایک ساتھی مل گیا ہے، دعوتی کام کرنے کے لیے۔ میرے اِس ساتھی کا نام عبد القیوم شیخ محبوب ہے۔ وہ ناندیڑ کے رہنے والے ہیں۔ میرے ساتھی کا کہنا ہے کہ مجھے اپنی زندگی کے لیے رات دن کام کرنے کا نصاب قرآن اور حدیث کی روشنی میں بتائیے۔ اُن کے اِس کہنے پر میں نے اپنی معلومات کے مطابق، اُن سے کہا کہ اِس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم الرسالہ مشن سے جُڑجائیں، تاہم اُن کو میری اِس بات پر سو فی صد اطمینان نہیںہو رہا ہے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ میںاُن کو کس طرح مطمئن کرسکتا ہوں۔ اِس بارے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں۔ (کِشن جیونت راؤ پاٹل، مکھیڑ، ناندیڑ، مہاراشٹر)۔
جواب
یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ کو اپنے مقام پر ایک ساتھی مل گیا۔ اب آپ دونوں مل کر مشن کواچھی طرح چلا سکتے ہیں۔ آپ دونوں کو میری یہ نصیحت ہے کہ آپ خالص غیر تنقیدی انداز میں کام کریں، کسی بھی حال میں آپ تنقیدی انداز نہ اختیار کریں۔ عام لوگوں کے لیے تنقید کا طریقہ ہر گز جائز نہیں۔آپ دونوں کامل طورپر صبر کا فارمولا اختیار کریں۔ صبر کا فارمولا یہ ہے کہ— پوری طرح مثبت انداز میںکام کیا جائے، کسی بھی حال میں منفی انداز نہ اختیار کیا جائے۔
آپ کے ساتھی کاکہنا ہے کہ اُن کو چوبیس گھنٹے کی دینی مشغولیت کے لیے ایک نصاب چاہیے۔ زندگی کے لیے اِس قسم کا نصاب بتانے کی چیز نہیں ہے، بلکہ وہ دریافت کرنے کی چیز ہے۔ آپ کے ساتھی اگر فی الواقع ایسا ہمہ وقتی نصاب چاہتے ہیں، تو اُن کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ گہرا مطالعہ کریں۔ وہ تذکیر القرآن کو بار بار پڑھیں۔ وہ مطالعۂ سیرت اور پیغمبر انقلاب کا بار بار مطالعہ کریں۔ وہ ماہ نامہ الرسالہ کا بار بار مطالعہ کریں۔ وہ ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتابوں کا باربار گہرا مطالعہ کریں۔ اِس طرح کے گہرے مطالعے کے بعد اُن کو اپنے آپ وہ چیز حاصل ہوجائے گی جس کو وہ ہمہ وقتی نصاب کہتے ہیں۔ اِس قسم کا نصاب پوچھ کر جاننے کی چیز نہیں ہے، بلکہ وہ مطالعہ کے ذریعے دریافت کرنے کی چیز ہے۔
عملی پروگرام کے اعتبار سے، سب سے پہلے آپ لوگوں کو صرف ایک کام کرنا ہے، وہ یہ کہ آپ اپنے مقام پر مطبوعاتِ الرسالہ پر مشتمل ایک لائبریری قائم کریں۔ اور لوگوں کو آمادہ کریں کہ وہ اس لائبریری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ اِس کے علاوہ، کسی دن ایک مقرر وقت پر آپ لوگ ہفتے وار اجتماع کریں۔ اِس اجتماع میںالرسالہ مشن سے وابستہ افراد کو اکھٹا کریں۔ اُن میں سے کوئی شخص ایک ہفتے تک باقاعدہ تیاری اور گہرے مطالعے کے بعد لوگوں کے سامنے دعوتی اور تربیتی موضوعات پر گفتگو کرے، یا حاضرین کی نسبت سے، وہ اِس موضوع پر اُن کے سامنے ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کسی کتاب کو پڑھ کر سنائے۔ اجتماع کے بعد دعوت کے کام کو مزید آگے بڑھانے کے لیے باہمی مشورہ کیا جائے۔ اِس پروگرام میں بنیادی چیز صرف ایک ہے، اوروہ ہے ماہ نامہ الرسالہ اور یہاں سے چھپے ہوئے دعوتی لٹریچر کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا۔اگر اِس طرح، سنجیدگی اور کامل صبر کے ساتھ کام کیا جائے، تو ان شاء اللہ چند دنوں میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور اللہ تعالی کام کے مزید راستے کھول دے گا۔
سوال
الرسالہ مشن سے وابستہ کچھ افراد کی جانب سے صاحب ِالرسالہ کی جانب منسوب کرتے ہوئے یہ بات مستقل طورپر سننے میں آرہی ہے کہ مسلمانوں یا کم ازکم مولویوں کو سی پی ایس کا پیغام نہ پہنچایا جائے۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ کیا صاحب الرسالہ کی جانب منسوب کی گئی یہ بات درست ہے یا پھر یہ غلط نمائندگی کا کیس ہے۔ براہِ کرم اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں(شکیل احمد، سہارن پور)۔
جواب
مذکورہ بات اگر کسی نے کہی ہے تو وہ بلا شبہہ ہماری غلط نمائندگی ہے۔ ہمارا نقطۂ نظر ہرگز وہ نہیں ہے جو مذکورہ الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ ہمارا مشن دعوت کا مشن ہے، اور دعوت کے مشن میں مذکورہ قسم کی تفریق درست نہیں ہوتی۔ دعوت کا طریقہ یہ ہے کہ ہر ایک کو مخاطب کیا جائے، البتہ اِس خطاب میں افراد کے مزاج اور علمی معیار کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
اِس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ دعوتی عمل میںمناظرہ (debate) نہیں کیا جاتا۔ مناظرہ، دعوت کی اسپرٹ کے خلاف ہے اگر داعی یہ محسوس کرے کہ وہ خود زیادہ موثر گفتگو کرنے کی پوزیشن میںنہیں ہے، تو اس کو چاہیے کہ وہ مدعو کو دعوتی لٹریچر دینے پر اکتفا کرے، وہ بے فائدہ بحث و مباحثہ سے اپنے آپ کو بچائے۔
آپ کا یہ طریقہ نہایت مستحسن طریقہ ہے کہ آپ نے ہمارے بارے میں جو بات سنی، اس کو براہِ راست طورپر ہمارے پا س لکھ کراس کی تحقیق کی۔ آپ نے ایسا نہیں کیا کہ سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق بیان کرنے لگیں۔ اِس بارے میں ہر شخص کو یہ حدیث یاد رکھنا چاہیے: کفیٰ بالمرء کذباً أن یحدّث بکل ما سمع(صحیح مسلم) یعنی کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق دوسروں سے بیان کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 189

1 - جون-جولائی 2008 میں گڈورڈ بکس (نئی دہلی) کی طرف سے شاہ عمران حسن کا صوبہ گجرات (انڈیا) کا سفر ہوا۔ یہ سفر تقریباً ایک ماہ پر مشتمل تھا۔ شاہ عمران حسن نے اطلاع دی ہے کہ گجرات کے دو بڑے شہروں، احمد آباد اور سورت میں، بڑی تعداد میں لوگ ماہ نامہ الرسالہ کے ممبر بنے ۔ احمد آباد اور سورت میں حلقہ الرسالہ سے وابستہ احباب نے اپنا پوراتعاون دیا۔مسٹر الطاف ایم رفعت گجراتی زبان کے رائٹر (writer) ہیں۔ انھوںنے صدر اسلامی مرکز کی کتاب ’’انسان اپنے آپ کو پہچان‘‘ کا ترجمہ گجراتی زبان میں کیا ہے۔ جلد ہی یہ کتاب گڈ ورڈ بکس سے شائع ہوگی۔ اس کا گجراتی نام یہ ہے: Manav Olakh Tari Jaat Ne (مانو آلوکھ تاری جات نی)
2 - الرسالہ مشن کے دعوتی پروگرام کے تحت کشمیر کا سفر ہوا۔ یہ سفر 30 جولائی 2008 کو شروع ہوا اور 31 اگست کوواپسی ہوئی۔ ہمارے پاس الرسالہ کی کاپیاں اورمولانا وحیدالدین خاں کی20 مختلف موضوعات پر CDs تھیں۔ بڑی تعداد میں لوگ ماہ نامہ الرسالہ کے Subscriber بنے اور CDsحاصل کیں۔ وادی کشمیر میں بہت زیادہ لوگ الرسالہ مشن سے وابستہ ہیں اور وہ اس کو پھیلانے میں تگ و دو کر رہے ہیں۔ (شاہ عمران حسن)۔
3 - دور درشن (نئی دہلی) کی ٹیم اور زی نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے 29 جولائی 2008 کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ٹی وی کی ان دونوں ٹیموں کا موضوع ایک تھا اور وہ تھا حالیہ دونوں میں بنگلور اور احمد آباد وغیرہ میںبم دھماکے کے واقعات۔ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ اس قسم کے بم دھماکے اسلامی شریعت میں مکمل طورپر حرام ہیں۔ یہ جہاد نہیں ہے بلکہ فساد ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ ایک معصوم انسان کو مارنا اتنا بڑا جرم ہے جیسے کہ سارے انسانوں کو مارڈالنا(المائدۃ: 32) تاہم ان واقعات کی صرف مذمت کرنا کافی نہیں ضرورت ہے کہ جو لوگ اس طرح کے واقعات میںملوث ہیں، ان کو عبرت ناک سزا (deterrent punishment) دی جائے۔ سزا کے بغیر اس قسم کے جرائم بند ہونے والے نہیں۔
4 - 30 جولائی 2008 کو اسلامی مرکز (نئی دہلی) کے آڈی ٹوریم میںایک پریس کانفرنس ہوئی۔ اِس کانفرنس میںمختلف ملکی اور غیرملکی ٹی وی اور اخبار کے نمائندے شریک تھے۔ سب سے پہلے صدر اسلامی مرکز نے ’’اسلام اور دہشت گردی‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔خطاب کے بعد سوال وجواب ہوا۔ اورپرسنل انٹرویو کی صورت میں ٹی وی اور اخبار کے نمائندوں کے سامنے اسلام کا نقطۂ نظر واضح کیاگیا۔ آخر میں تمام نمائندوں کے درمیان اسلامی لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ پریس کانفرنس کی پوری کارروائی انگریزی زبان میں ہوئی۔ مختلف نمائندوں کی تعداد تقریباً بیس تھی۔میڈیا میںاِس کو نمایاں طورپر کور (cover) کیاگیا ہے۔ انگریزی رپورٹنگ کا ایک حصہ یہاںنقل کیا جاتاہے:
1. New Delhi, July 30 - A leading Muslim scholar Wednesday said a new ideology and stricter laws are needed to counter the militant face of Islam.
‘Violence begins from mind and every violence has an ideology. The solution is to counter it by evolving another counter-ideology,’ said Maulana Wahiduddin Khan at a press conference organised by Centre for Peace and Spirituality here Wednesday. ‘We need to dispel their wrong notions and tell them that killing innocent people in the name of Jihad will send them to hell and not heaven,’ he said. Maulana Wahiduddin Khan is a noted Islamic scholar and has authored more than 200 books on Islam. He established the Islamic centre in 1970 and CPS International in 2001 for bringing out the true face of Islam and to promote peace among nations. ‘After 60 years of freedom, we are - living under the shadow of bomb. My vocabulary fails to give me appropriate words to condemn the inhuman act of bomb blasts in Bangalore and Ahmedabad,’ said Maulana Wednesday. ‘One needs to differentiate between Islam and Muslim. You need to judge Muslim in the light of Islam, and not vice versa,’ he added. ‘When Islam came into the world in 7th century, there were only two literatures, Quran - and Hadith -. Muslims had a huge empire in the world and for nearly 1,000 years during their rule other literature was developed which was, however, influenced by political ideas,’ he added. ‘It was during this time that Muslims developed a psyche of supremacy, considering their Prophet as superior among all messengers of gods and their religion supreme among all others. However, this is nowhere written in Quran,’ said Maulana. ‘They entered modern period with this legacy but the condition today is not same and they don't have the same empire. This has led to Muslims living in despair and frustration, trying for political supremacy. Now out of frustrations, they have started suicide bombings,’ Maulana stated. He suggested that Muslim leaders and reformers take on the baton and educate their brethren all over the world. (IANS)
2. NEW DELHI, July 31 (Bernama) -- A renowned Indian Muslim scholar has urged Muslim leaders to promote counter-ideology to stem terrorism, as mere condemnation will not stop the growing menace, which continues to rear its ugly head in all corners of the earth. “All the educated people, both religious and secular, are engaged in condemning this act (terrorism).” “And this is not a new phenomenon. I can say that we are engaged in this kind of condemnation for half a century. This has failed to yield positive result,” Maulana Wahiduddin Khan, president of the New Delhi Islamic Centre, told reporters. “We have to tell Muslims that according to Islamic Shariah, this kind of violence is haram (unlawful). Islamic ideology is completely based on peaceful method. We have to introduce this ideology to the misguided Muslims,” hesaid. India needed to reassess its strategy to discover the root cause of this violent culture that is threatening the entire country. (BERNAMA)
5 - صدر اسلامی مرکز کی ایک نئی کتاب’حکمت اسلام‘ کے نام سے چھپ کر گڈورڈ بکس (نئی دہلی) سے شائع ہوگئی ہے۔ یہ کتاب 348 صفحات پر مشتمل ہے۔ اِس کتاب میں اسلامی تعلیمات کا مطالعہ حکیمانہ پہلو سے کیاگیا ہے۔ اِس کتاب میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام ہر دور کے انسان کے مائنڈ کو ایڈریس کرتا ہے۔ وہ ہر دور کے عقلی معیار پر پورا اترتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

Thursday, 2 October 2008

Al Risala | October 2008 (الرسالہ،اکتوبر)

2

- روزہ:شکر اور تقویٰ کی تربیت

4

- روزہ: اسلام کا ایک رکن

5

- روزہ کی حقیقت

6

- ایمان اور احتساب

7

- روزہ: عجز کی تربیت

8

- روزہ کی عظمت

10

- صبر کا مہینہ

11

- روزہ اور انسانی ہمدردی

12

- روزہ اور دعا

13

- لامحدود اجر

14

- موافقِ اصلاح ماحول

15

- روزہ اور اخلاقی ڈسپلن

16

- رمضان میں خطاؤں کی معانی

17

- اسپرٹ، نہ کہ فارم

18

- رحمتِ الٰہی کا مستحق کون

19

- حلال سے روزہ، حرام سے افطار

20

- حقیقتِ صوم

21

- نیت کی اہمیت

22

- روزہ: ایک زندہ عمل

23

- دورِ زوال کا ظاہرہ

24

- فارم اور اسپرٹ کا فرق

26

- روزہ اور تزکیہ نفس

27

- بے روح عبادت

28

- قولِ زور، عملِ زور

29

- روزہ کو چھوڑنا

30

- اسپرٹ، یا ٹکنکل مسائل

31

- روزہ اور قیام لیل

32

- روزہ اور قرآن

33

- روزہ اور تراویح

34

- ختم قرآن، یا تدبر قرآن

35

- روزہ: خدا کی یاد کا ذریعہ

36

- روزہ اور اعتکاف

38

- عبادت کا اظہار

39

- حالتِ محرومی کی دریافت

40

- حساسیت کی سطح پر

41

- اللہ کے زیر حکم ہونے کا تجربہ

42

- جذباتِ شکر کی بیداری

43

- روزہ دارانہ زندگی

44

- روزہ کا تعلق پوری زندگی سے

45

- مسائل رمضان

46

- انعام کی رات

47

- عید الفطر کا دن


روزہ: شکر اور تقویٰ کی تربیت

قرآن کی سورہ نمبر 2 میں صومِ رمضان کے احکام آئے ہیں۔ اِن آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح وہ تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تا کہ تم متقی بنو،گنتی کے چند دن۔ پھر جو کوئی تم میں بیمار ہو، یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرلے۔ اور جو لوگ اُسے بہ مشقت برداشت کرسکیں، تو ایک روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے، جو شخص مزید نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے۔ اور تم روزہ رکھو تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم جانو۔ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا ، ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور کھلی نشانیاں راستے کی، اور حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا۔ پس تم میں جو شخص اِس مہینے کو پائے، وہ اس کے روزے رکھے۔ اور جو بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اُس کیگنتی پوری کرلے۔ اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے، وہ تمھارے ساتھ سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اور وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کر لو اور اللہ کی بڑائی کرو اِس بات پر کہ اُس نے تم کو راہ بتائی اور تاکہ تم اللہ کے شکر گزار بنو‘‘ (البقرۃ: 183-185 )۔
روزہ بیک وقت دو چیزوں کی تربیت ہے۔ایک، شکر اور دوسر ے، تقویٰ۔ کھانا اور پانی اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں، مگر عام حالات میں آدمی کو اِس کا احساس نہیں ہوتا۔ روزے میں جب آدمی دن بھر اِن چیزوں سے رُکا رہتا ہے اور سورج ڈوبنے کے بعد شدید بھوک، پیاس کی حالت میں وہ کھانا کھاتا ہے اور پانی پیتا ہے، تو اُس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کھانا اور پانی، اللہ کی کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ اِس تجربے سے آدمی کے اندر اپنے رب کے شکر کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
دو سری طرف، روزہ آدمی کے لیے تقویٰ کی تربیت ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی دنیا کی زندگی میں خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچے، وہ اُن چیزوں سے رکا رہے جن سے خدا نے اُس کوروکا ہے اور وہ وہی کرے جس کے کرنے کی خدا نے اس کو اجازت دی ہے۔ روزے میں صرف رات کو کھانا اور دن کو کھانا، پینا چھوڑ دینا، گویا اللہ کو اپنے اوپر نگراں بنانے کی مشق ہے۔ مومن کی پوری زندگی ایک قسم کی روزہ دارانہ زندگی ہے۔ رمضان کے مہینے میں وقتی طور پر چند چیزوں کو چھڑا کر، آدمی کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ساری عمر کے لیے اُن چیزوں کو چھوڑ دے جو اُس کے رب کو ناپسند ہیں۔
قرآن، بندے کے اوپر اللہ کا انعام ہے اور روزہ بندے کی طرف سے اِس انعام کا عملی اعتراف۔ روزے کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو اللہ کی شکر گزاری کے قابل بناتا ہے اور اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق، دنیا میں متقیانہ زندگی گزارسکے۔
روزہ رکھنے سے دل کے اندر نرمی اورشکستگی آتی ہے۔ اِس طرح، روزہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ اُن کیفیتوں کو محسوس کرسکے جو اللہ کو اپنے بندوں سے مطلوب ہیں۔ روزے کی پُرمشقت تربیت، آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ اللہ کی شکر گزاری میںاس کا دل تڑپے، اور اللہ کے خوف سے اس کے اندر کپکپی پیدا ہو— جب آدمی اِس نفسیاتی حالت کو پہنچتا ہے، اُسی وقت وہ اِس قابل بنتا ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر ایسا شکر ادا کرے جس میں اُس کے د ل کی دھڑکنیں شامل ہوں، وہ ایسے تقویٰ کا تجربہ کرے جو اُس کے بدن کے رونگٹے کھڑے کردے، وہ اللہ کو ایک ایسے بڑے کی حیثیت سے پائے جس میں اس کا اپنا وجود بالکل چھوٹا ہوگیاہو۔
رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ اور قرآن کے درمیان گہرا تعلق ہے، وہ تعلق یہ ہے کہ قرآن اپنے ماننے والوںکو ایک مشن دیتا ہے، دعوت الی اللہ کا مشن ۔ اِس دعوتی مشن کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے صبر وتحمل کی لازمی طورپر ضرورت ہے۔ روزہ اِسی صبر کی تربیت کا ذریعہ ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ — رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے (ہوشہر الصبر، البیہقی، جلد 2، صفحہ 305)۔ دعوت الی اللہ کا مشن صرف وہی لوگ کامیابی کے ساتھ چلاسکتے ہیں جواس کو یک طرفہ صبر کے ساتھ چلانے کے لیے تیار ہوں۔ روزہ آدمی کے اندر اِسی یک طرفہ صبر کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اِس طرح، روزے کا تربیتی مہینہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ صبر وتحمل کے ساتھ دعوت الی اللہ کے مشن کو چلائے اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچا سکے۔
واپس اوپر جائیں

روزہ :اسلام کا ایک رُکن

حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بُنی الإسلام علی خمس: شہادۃِ أن لا إلٰہ إلاّ اللّٰہ وأن محمداً عبدُہ ورسولُہ، وإقام الصلاۃِ وإیتاء الزکاۃ والحجّ وصوم رمضان (صحیح البخاری، کتاب الإیمان، باب: الإیمان) یعنی پانچ چیزیں اسلام کی بنیاد ہیں— اِس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ محمد، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، اور زکات ادا کرنا، اور حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا۔
اِس حدیث میں پانچ چیزوں کو اسلام کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ پہلی چیز کلمۂ شہادت ہے جو اسلام کے اعتقادی رکن کی حیثیت رکھتاہے۔ دوسری چیز ہے، نماز کو قائم کرنا۔ تیسری چیز ہے، اپنے مال میں سے زکات دینا۔ چوتھی چیز ہے، حج ادا کرنا۔ اور پانچویں چیز ہے، رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا۔
اسلام کو اگر ایک عمارت سے تشبیہہدی جائے تو اِس عمارت کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے۔ اِن میں سے ایک روزہ ہے۔ روزے کی حقیقت صبر ہے۔ روزے کا مقصد آدمی کے اندر صبر وتحمل کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ صبر اسلامی زندگی کی لازمی ضرورت ہے۔ صبر کے بغیر کوئی شخص اسلام پر قائم نہیں رہ سکتا— نفس کی خواہشوں کے مقابلے میں صبر، شیطان کے بہکاوے کے مقابلے میں صبر، لوگوں کی ایذاؤں کے مقابلے میں صبر، جان ومال کے نقصان کے مقابلے میں صبر، ناخوش گوار تجربات کے مقابلے میں صبر، محرومی کے واقعات پر صبر، مصیبتوں کے مقابلے میں صبر، وغیرہ۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بار بار منفی تجربات پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں مثبت نفسیات کے ساتھ دنیا میں رہنا صرف اُس انسان کے لیے ممکن ہے جو صبر کے ساتھ دنیا میں رہنے کے لیے تیار ہو۔ روزہ اِسی صبر کی تربیت ہے۔ سچا روزہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ ناخوش گوار واقعات سے غیرمتاثر رہ کر زندگی گزارے، وہ منفی تجربات کے باوجود مثبت سوچ (positive thinking)پر قائم رہے۔ صبر آدمی کو حوصلہ مند بناتا ہے۔ اور روزہ اِسی قسم کی حوصلہ مندانہ زندگی کی تربیت ہے۔
واپس اوپر جائیں

روزہ کی حقیقت

روزہ کے لیے عربی لفظ صوم ہے۔ صوم کے معنیٰ ہیں، رُکنا(abstinance)۔ زندگی میں صرف اقدام کی اہمیت نہیںہوتی، بلکہ رُکنا بھی زندگی میںایک بے حد اہم پالیسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقدام اگر خارجی توسیع کی علامت ہے تو رُکنا داخلی استحکام کی علامت۔ اور زندگی کی حقیقی تعمیر کے لیے بلا شبہہ دونوں ہی یکساں طورپر ضروری ہیں۔
مشہور صحابی خالد بن الولید کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سیف اللہ کا لقب عطا کیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پیغمبر اسلام نے خالد بن الولید کو یہ لقب کسی اقدام یا جنگی پیش قدمی پر نہیں دیا تھا، بلکہ آپ نے سیف اللہ کا لقب اُنھیں اُس وقت دیا تھا جب کہ غزوۂ مُوتہ (8 ہجری) کے موقع پر انھوں نے یک طرفہ طورپر اپنی تلوار میان میں رکھ لی تھی اور تمام صحابہ کو جنگ کے میدان سے ہٹا کر مدینہ واپس آگئے تھے۔
روزہ اس بات کا سبق ہے کہ تم چند دنوں کے لیے کھانا چھوڑ دو، تاکہ تم بقیہ دنوں میں زیادہ اچھے کھانے والے بنو۔ تم چند دنوں کے لیے اپنی سرگرمیوں کو داخلی تعمیر کے محاذ پر لگا دو، تاکہ اس کے بعد تم زیادہ بہتر طورپر خارجی سرگرمی کے قابل بن جاؤ۔ چند دنوں کے لئے تم اپنے بولنے پر پابندی لگا لو، تاکہ اس کے بعد تم زیادہ بہتر بولنے والے بن سکو۔ چند دنوں کے لیے تم اپنے مقام پر ٹھہر جاؤ، تاکہ اس کے بعد تم کامیاب پیش قدمی کے قابل بن سکو۔
روزے کا مہینہ مومن کے لیے تیاری کا مہینہ ہے— اپنی سوچ کے معیار کو بلند کرنا، اپنی عبادت میںتقویٰ کی اسپرٹ بڑھانا ، اپنی روحانیت میںاضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ اللہ کی قربت حاصل کرنا، بھوک اور سیری کا تجربہ کرکے اپنے اندر شکر کا احساس جگانا، مادی مشغولیت کو کم کرکے آخرت کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ ہونا، خارجی سفر کو روک کر داخلی سفر کی طرف رواں ہونا، ایک مہینے کے تربیتی کورس سے گزر کر پورے ایک سال کے لیے شکر و تقویٰ کی غذا حاصل کر لینا، وغیرہ۔یہی روزے کا مقصد ہے اوریہی روزے کی مقبولیت کا اصل معیاربھی۔
واپس اوپر جائیں

ایمان اور احتساب

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن صام رمضان إیماناً واحتساباً، غُفِر لہ ما تقدم من ذنبہ، ومن قام رمضان إیماناً واحتساباً غُفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔ ومن قام لیلۃَ الْقدر إیمانًا واحتسابًا غُفر لہ ما تقدم من ذنبہ(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب: من صام رمضان) یعنی جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ جس نے رمضان کے مہینے میں ایمان اور احتساب کے ساتھ قیامِ لیل کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ اور جس نے شب ِ قدر میںایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
اِس حدیث میں رمضان کی تین عبادتوں کا ذکر ہے۔ تینوں کے ساتھ حدیث میں ’ایمان‘ اور ’احتساب‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ایمان سے مراد اللہ پر عارفانہ یقین ہے۔ اور احتساب (anticipation of God’s reward)سے مراد خالص رضائِ الہی کے حصول اور طلب اجر کی نیت سے عمل کرنا ہے(طلب الأجر من اللہ تعالیٰ، لا لقصد اٰخر من ریاء أو نحوہ)۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ روزہ اور دوسری عبادات کو صرف اس کے ظاہری فارم (form) کے اعتبار سے نہ کرنا، بلکہ اس کی سچی روح (spirit) کے ساتھ اس کو انجام دینا۔
ایمان اور احتساب کے ساتھ ادا کیا جانے والا یہ روزہ اور عبادت وہ ہے جس میں بندہ گویا کہ آنسوؤں سے وضو کرتا ہے، جس میں بھوک کا مطلب یہ ہوتا ہے، گویا کہ آدمی نے اپنے اور اللہ کے درمیان سے ہر دوسری چیز کو ہٹا دیا ہے، جس میں رکوع اور سجدہ خدا کی موجودگی (presence of God) کا تجربہ کرنے کے ہم معنیٰ ہوتا ہے، جس میںانسان الہامی الفاظ میں دعا کرنے لگتا ہے— جو شخص اِن اعلیٰ ربانی کیفیات کے ساتھ روزہ اور عبادت کا تجربہ کرے، وہی وہ انسان ہے جو رمضان کے مہینے سے اِس طرح نکلتا ہے کہ اس کے تمام گناہ معاف ہوچکے ہوتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

روزہ :عجز کی تربیت

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ روزہ تمھارے اوپر اس لیے فرض کیا گیا، تاکہ تمھارے اندر خدا کا ڈر پیدا ہو (البقرۃ: 183) خدا سے ڈرنا کیا ہے۔ خدا سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا کی عظمت کے مقابلے میں اپنے عجز کا اعتراف کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ عجز کا اعتراف ہی ایمان کا آغاز ہے۔ جب کسی آدمی کو خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو اُس کے اندر سب سے زیادہ جو احساس پیدا ہوتا ہے، وہ یہی عجز ہے۔ خدا پر ایمان در اصل خدا کی بے پناہ عظمت کو دریافت کرنا ہے۔ اور جو آدمی خدا کی بے پناہ عظمت کو دریافت کرے، اس کا حال یہ ہوگا کہ وہ عجز کے احساس میں ڈوب جائے گا۔ اُس کے اندر جو سب سے بڑی صفت پیدا ہوگی، وہ یہی عجز کی صفت ہے۔
ایمان، خدا کی معرفت کا دوسرا نام ہے، اُس خدا کی معرفت جو اتھاہ کائنات کا خالق و مالک ہے، جو حیرت ناک قدرت کے ساتھ اس اتھاہ کائنات کو کنٹرول کررہا ہے۔ یہ شعور جس عورت یا مرد کے اندر پیدا ہو جائے، اُس کا حال یہی ہوگا کہ اس کو تمام عظمتیںخدا کی طرف دکھائی دیں گی اور اپنی طرف اس کو عجز کے سوا کچھ اور دکھائی نہ دے گا۔
عجز سادہ طور پر صرف ایک احساس کا نام نہیں ہے، عجز کسی انسان کی زندگی میں سب سے بڑی قوتِ محرکہ (motivational force)ہے۔ عجز آدمی کی پوری شخصیت میں ایک بھونچال پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ عجز آدمی کے ذہن و فکر میں کامل انقلاب برپاکردیتا ہے۔
عجز کے احساس کاتعلق خدا سے ہے، مگر جب کسی آدمی کے اندر حقیقی معنوں میں عجز کا احساس پیدا ہوجائے تو انسانی تعلقات میں بھی اس کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ جو آدمی اپنے آپ کو خدا کے سامنے عاجز بناتا ہے، وہ اپنی اسی اسپرٹ کے تحت انسانوں کے سامنے متواضع (modest)بن جاتا ہے۔عجز، خدا کی نسبت سے عجز ہے اور انسان کی نسبت سے تواضع۔
واپس اوپر جائیں

روزہ کی عظمت

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کے بارے میں فرمایا: کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر أمثالھا إلی سبع مأۃ ضعف، قال اﷲ تعالیٰ: إلا الصوم، فإنہ لی وأنا أجزی بہ، یدع شہوتہ وطعامہ من أجلی، للصائم فرحتان: فرحۃ عند فطرہ، و فرحۃ عند لقاء ربہ، و لخُلوف فم الصائم أطیب عند اﷲ من ریح المسک، والصیام جُنۃ، و إذا کان یوم صوم أحدکم فلا یرفُث و لایصخَب، فإن سابّہ أحد أو قاتلہ فلیقل: إنی امرؤ صائم (صحیح مسلم، کتاب الصّیام، باب: فضل الصیام)۔
انسان کے ہر عمل کی نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مگر روزہ، پس وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ دار میرے لئے اپنی شہوت کو اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی اس کے افطارکے وقت، اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ اور روزہ دار کے منہ سے نکلنے والی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ اور روزہ ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ نہ بد گوئی کرے اور نہ جھگڑا کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا اس سے لڑائی کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں۔
یہ روایت صحیحین میں اور حدیث کی دوسری کتابوں میں آئی ہے۔اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ روزہ اللہ کے لئے ہے، اس کا مطلب کیا ہے۔ اس کا جواب قرآن سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں روزہ کا حکم دیتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا، ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور کھلی نشانیاں راستہ کی اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا۔ پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے (البقرۃ: 185)۔ اس کے مطابق، نزول قرآن کے مہینہ میں روزہ رکھنے کا حکم اس لیے دیا گیا کہ لوگ خصوصی تربیت کے ذریعہ اپنے آپ کو تیار کریں کہ وہ قرآن کے حامل اور مبلغ بن سکیں۔
قرآن کو تمام لوگوں تک پہنچانا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے ایسے انسان درکار ہیں جو اپنی ذات کے لئے جینے والے نہ ہوں، بلکہ وہ تمام تر اللہ کے لیے جینے والے ہوں۔ جن میں یہ حوصلہ ہو کہ وہ ایک ربانی مشن کے لئے اپنی خواہشات پرر وک لگادیں۔ جو پر رونق زندگی کے بجائے خشک زندگی پر راضی ہوجائیں۔ جن کے اندر یہ برداشت ہو کہ وہ لوگوں کی منفی باتوں کا بھی مثبت جواب دے سکیں۔ جو شعوری اعتبار سے اتنا بلند ہوں کہ لوگوں کی مخالفتیں ان کو قرآنی مشن سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
قرآن کے پیغام ہدایت کو اللہ کے تمام بندوں تک پہنچانا خالص اللہ کا کام ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی دنیوی فائدہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس کو صرف اپنا کام قرار دیا اور اس پر خصوصی انعام کا اعلان فرمایا۔
جو لوگ قرآن کا علم حاصل کریں، وہ اپنے اندر داعیانہ کردار پیدا کریں، وہ قرآن کے پیغام کو لوگوں کے لیے قابلِ قبول بنانے میں اپنی ساری کوشش صرف کر ڈالیں ، جو یک طرفہ طورپر اس ذمہ داری کو قبول کریں کہ انھیں ہر قسم کی ناخوش گواریوں کو برداشت کرنا ہے، تا کہ اللہ کا پیغام لوگوں کے لیے قابل قبول ہو سکے، حتی کہ اس مقصد کے لیے وہ بھوک اور پیاس کی مشقت برداشت کرنے کے لیے راضی ہو جائیںـــایسے لوگ اللہ کے خاص بندے ہیں، وہ اس کے مستحق ہیں کہ اللہ اُن پر اپنی خصوصی نوازشوں کی بارش کرے۔
روزے دار کا اللہ کے لیے اپنی خواہشوں کو چھوڑنا یہ ہے کہ وہ ذاتی کامیابی کے بجائے اللہ کے دعوتی مشن کو اپنا مقصد بنائے۔ وہ خدا کی کتاب کے نزول کے مہینہ میں خصوصی تربیتی کورس کے ذریعہ اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کرے کہ وہ خدا کے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچائے گا۔ وہ قرآن کی دعوت وتبلیغ کو اپنی زندگی کا مشن بنائے گا، نہ کہ ذاتی مفاد کے حصول کو۔ اس کی زندگی کا مرکز و محور قرآن ہوگا اور صرف قرآن۔
واپس اوپر جائیں

صبر کا مہینہ

حضرت سلمان فارسی کی ایک روایت حدیث کی کتابوںمیں آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ— شعبان کے مہنیے کے آخری دن، رسول اللہ ﷺنے ہم کو خطاب فرمایا۔ یہ ایک تفصیلی حدیث ہے۔ اس کے کچھ حصے یہ ہیں: یا أیہا الناس، قد أظلّکم شہرٌ عظیمٌ، شہرٌ مبارکٌ، شہرٌ فیہ لیلۃٌ خیر من ألف شہر، جعل اللہ صیامہ فریضۃً وقیام لیلہ تطوّعا… ہو شہر الصبر، والصبرثوابُہ الجنّۃ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، جلد2 ، صفحہ 305 ) یعنی اے لوگو، ایک عظیم مہینہ تمھارے اوپر سایہ فگن ہورہا ہے۔ یہ ایک بابرکت مہینہ ہے۔ اللہ نے اِس مہینے کے روزے کو فرض قرار دیا ہے اور اِس مہینے کی رات می ںقیام کو تطوع قرار دیا ہے…رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے۔ اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔
’’صبر کا مہینہ‘‘ کا مطلب ہے — مشقت کا مہینہ۔ رمضان کے مہینے میں آدمی کو اپنے معمولات کو توڑنا پڑتا ہے۔ اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ پیاس کے باوجود پانی نہ پئے، اور بھوک کے باوجود کھانا نہ کھائے، وہ اپنی خواہشات (desires) کو کنٹرول میں رکھے۔ رمضان کو اگر درست طور پر گزارا جائے توپورا کا پورا مہینہ مشقتوں کا مہینہ بن جائے گا۔ سچے روزہ دار کے لیے رمضان کا مہینہ مسلسل صبر کا مہینہ ہے، دن کے اوقات میں بھی اور رات کے اوقات میں بھی۔
جو عمل صبر کی قیمت پر کیا جائے، وہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قیمتی عمل ہوتاہے۔ عام حالات میں انسان جو عمل کرتا ہے، اُس میںاُس کی شخصیت کا صرف جزئی حصہ شامل ہوتا ہے۔ لیکن جس عمل کو انجام دینے کے لیے صبر کرنا پڑے، اُس میں آدمی کی پوری شخصیت فعّال (active)طورپر شامل ہوجاتی ہے۔ یہی فرق ہے جس کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ عام عمل کے مقابلے میں، صابرانہ عمل کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اس بنا پر اُس کی جزا بھی۔ رمضان کو پانے والا وہ ہے جس کے لیے رمضان کا مہینہ حقیقی معنوںمیں صابرانہ زندگی کی تیاری کا مہینہ بن جائے، ایسی صابرانہ زندگی جو پورے سال کے لیے آدمی کو صبر کے راستے پر قائم رکھنے والی بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

روزہ اور انسانی ہمدردی

حضرت سلمان فارسی سے ایک طویل روایت آئی ہے۔ اِس روایت میں رمضان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ آئے ہیں: ہو شہر المواساۃ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، باب فی الصیام، فصل فی فضائل شہر رمضان) یعنی رمضان کا مہینہ انسانی ہمدردی کا مہینہ ہے۔
مذکورہ حدیثِ رسول میں رمضان کو مواسات (philanthropy) کا مہینہ کہا گیاہے۔ مواسات کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے ساتھ مالی، یا غیر مالی مدد کا معاملہ کیا جائے۔ اِس کے لیے قرآن میں ’مَرحمۃ‘ (البلد: 17 ) کا لفظ آیا ہے۔ مرحمہ کے معنیٰ بھی تقریباً وہی ہیں جو مواسات کے معنی ہیں، یعنی انسان کے ساتھ ہمدردی اور مہربانی کا معاملہ کرنا (الرحمۃُ علی الخَلق) ۔ مواسات ایک اخلاقی فریضہ ہے جو ہمیشہ اور ہر حال میں اہلِ ایمان سے مطلوب ہوتا ہے، لیکن رمضان کے مہینے میں اِس اخلاقی ذمے داری کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
رمضان کے مہینے میںروزہ رکھنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اندر انسانی ہمدردی کے احساس کو جگاتا ہے۔ روزہ گویا کہ اُس محتاجی کی حالت کو اختیاری طورپر اپنے اوپر طاری کرناہے جو دوسروں کے ساتھ مجبورانہ طورپر پیش آتی ہے۔ اِس طرح، روزہ یہ کرتا ہے کہ وہ ایک اخلاقی ذمّے داری کو روزے دار کے لیے اُس کا ایک ذاتی تجربہ بنا دیتاہے۔ اِس ذاتی تجربے کی بنا پر وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ انسانی ہمدردی کے معاملے کو سمجھتا ہے اور اُس پر عمل کرنے کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے۔
روزہ ایک طرف، انسان کے اندر اللہ سے تعلق کو بڑھاتا ہے، اور دوسری طرف، وہ روزے دار کے اندر انسانی خدمت کا جذبہ مزید اضافے کے ساتھ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ رمضان کے مہینے کے بعد انسان زیادہ بہتر طورپر خدا کا عبادت گزار بن جاتا ہے اور اِسی کے ساتھ وہ زیادہ بہتر طورپر انسان کا خدمت گزار بھی۔روزہ ایک اعتبار سے، عبادت ِ خداندی کا تجربہ ہے اور دوسرے اعتبار سے، خدمتِ انسانی کی تربیت کا ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں

روزہ اور دعا

قرآن کی سورہ نمبر 2 میں اللہ تعالیٰ نے دعا کے متعلق ارشاد فرمایا ہے: وإذا سألک عبادی عنّی فإنی قریب ، أجیب دعوۃ الدّاع إذا دعانِ فلیستجیبوا لی ولیؤمنوا بی لعلہم یرشد ون (البقرۃ: 186 )۔ یعنی جب میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو میں نزدیک ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے۔ تو چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
دعا کسی قسم کے متعین الفاظ کو دہرانے کا نام نہیں، دعادراصل دل کی پکار کا نام ہے۔ جب کسی انسان کے دل میں اعلیٰ ربانی جذبات پیدا ہوں اور وہ دل کی گہرائیوں کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگے، تو یہی وہ چیز ہے جس کو اسلام میں دعا کہاگیا ہے۔ اِس قسم کی دعا اُس انسان کے اندر سے نکلتی ہے جو دل شکستگی کے تجربے سے دوچار ہو۔ اور روزے کی مشقت آدمی کو اِسی دل شکستگی کا تجربہ کراتی ہے۔ اِس طرح ، آدمی اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ مطلوب نوعیت کی سچی دعا کرسکے۔حقیقی دعا وہ ہے جس میں عجز کا تجربہ شامل ہوجائے۔
خدا، انسان کے بالکل قریب ہے۔ وہ ہر لمحہ انسان کے قریب رہتا ہے، لیکن اِس قربتِ الہٰی کاتجربہ صرف اُس انسان کو ہوتا ہے جو عاجزانہ روح کے ساتھ اللہ کو پکارے۔ حقیقی روزہ آدمی کو اِسی عجز اور عبدیت کا تجربہ کراتا ہے۔ اِس طرح، سچا روزہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ خدا کی قربت کا تجربہ کرے، وہحقیقی معنوں میں خداسے دعا کرنے والا بن جائے۔
سچی دعا وہ ہے جس کے ساتھ سچا عمل شامل ہو۔ سچے عمل سے مراد مطابقِ دعا عمل ہے۔ سچی دعا اور سچے عمل کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ جس آدمی کو خدا کی سچی قربت ملے، وہ یقینا ایک باعمل انسان بن جائے گا۔ اور باعمل انسان ہی وہ انسان ہے جس کی دعا اللہ تک پہنچتی ہے اور قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ جس دعا کے ساتھ مطابقِ دعا عمل شامل نہ ہو، وہ دعا قابلِ رد ہے، نہ کہ قابلِ قبول۔
واپس اوپر جائیں

لامحدود اجر

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلُّ عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃُ بعشر أمثالہا إلی سبع مأۃ ضِعْف، قال اللہ تعالی: إلاّ الصوم، فإنہ لی وأنا أَجزی بہ، یَدَع شہوتہ وطعامَہ من أجلی (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب: فضل الصیام) یعنی انسان کے ہر عمل کا اجر، دس گُنا سے لے کر سات سوگنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: سوائے روزہ کے، کیوں کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ بندہ اپنی خواہش کو اور اپنے کھانے کو میرے لیے چھوڑتا ہے۔
انسان جب کوئی صالح عمل کرتا ہے، تو اللہ کی رحمت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اُس کے عمل کا اجر اُس کو زیادہ بڑھا کر دیا جائے۔ عام حالات میںآدمی کے اجر میں یہ اضافہ دس گنا سے سات سو گنا تک ہوتا ہے، لیکن روزہ ایک ایسا عمل ہے جس کا اجر ایک سچے روزے دار کو بے حساب گنا اضافے کے ساتھ دیا جاتا ہے۔
صالحعمل کی دو قسمیں ہیں۔ ایک، وہ جو نارمل حالت میں کیا جائے۔ مثلاً معمول کے مطابق، پانچ وقت کی نماز ادا کرنا، یا سال پورا ہونے پر اپنے مال میں سے زکات نکالنا۔ ذی الحجہ کا مہینہ آنے پر حج کی عبادت کو انجام دینا، وغیرہ۔ یہ عبادتیں وہ ہیں جو معمول کے حالات میں ادا کی جاتی ہیں۔ اِن پر بھی بلا شبہہ اجر ملتا ہے، لیکن ان کا اجر،اضافے کے باوجود، ایک محدود اجر ہوتا ہے، نہ کہ لامحدود اجر۔
عبادت کی دوسری قسم وہ ہے جو غیر معمولی حالات میں ادا کی جاتی ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جس میں انسان کو ایک قسم کے بھونچال سے دوچار ہونا پڑتا ہے، جس میںآدمی کو خود اپنے خلاف جہاد کرنا پڑتا ہے، جس میں آدمی کو اپنی خواہشوں (desires)سے لڑ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے، یہ وہ عبادت ہے جو قربانی (sacrifice) کی سطح پر ادا کی جاتی ہے۔ پہلی قسم کی عبادت اگر ہموار راستے کا سفر ہے، تو دوسری قسم کی عبادت پہاڑ کی چڑھائی کے ہم معنیٰ۔ یہی وہ فرق ہے جس کی بنا پر دوسری قسم کی عبادت کا اجر پہلی قسم کی عبادت کے مقابلے میں، بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ایک، معمول کی عبادت ہے اور دوسری، غیر معمولی حالات میں کی ہوئی عبادت۔
واپس اوپر جائیں

موافقِ اصلاح ماحول

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا کان أوّلُ لیلۃٍ من شہر رمضان، صُفّدت الشیاطینُ ومَرَدۃُ الجنّ، وغُلّقت أبواب النّار فلم یُفتح منہا بابٌ۔ وفُتحت أبواب الجنّۃ فلم یُغلق منہا باب۔ وینادی مُنادٍ: یا باغیَ الخیرِ أقبِلْ، ویا باغی الشرّ أقصِرْ۔ وللّٰہ عُتقاء من النار، وذلک کلّ لیلۃ ( الترمذی،کتاب الصوم، باب: فضل شہر رمضان) یعنی جب رمضان کے مہینے کی پہلی رات آتی ہے، تو شیاطین اور بھٹکانے والے سرکش جن قید کردیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا۔ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اُس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ — اے خیر کے طالب، آگے بڑھ اور اے شر کے طالب، رک جا۔ اور اللہ لوگوں کو جہنم سے بَری کرتاہے، اور ایسا ہر رات کو ہوتا ہے۔
اِس حدیث میں ایک مخصوص اسلوب میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ رمضان کا مہینہ اپنے اعمال کے اعتبارسے، روزے داروں کے لیے ایک موافقِ اصلاح ماحول پیدا کرتاہے۔ جو لوگ اِس ماحول سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھائیں، وہ اللہ کی رحمت کے نتیجے میں جنت سے قریب ہوجائیں گے اور وہ جہنم سے دور ہوجائیں گے۔ ان کے اندر ایسی شخصیت کی تعمیر ہوگی جو اُن کے لیے رمضان کی برکتوں کے حصول کا ذریعہ بن جائے گی۔
رمضان میںزیادہ سے زیادہ، قرآن کا چرچا ہوتاہے۔ رمضان میں، اللہ کے ذکر اور اللہ کی عبادت میںاضافہ ہوجاتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں کم کھانا، کم سونا، مادّی چیزوں میںکم سے کم مشغول ہونا، اِس قسم کی چیزیں رمضان میں بڑے پیمانے پردین کے موافق ماحول پیدا کردیتی ہیں۔ اِس ماحول کا حقیقی فائدہ اُن لوگوں کے حصے میں آتا ہے جو اِس موقع کو اپنی اصلاح کے لیے استعمال کریں۔رمضان کا یہ فائدہ کسی کو اپنی استعداد کی بنیاد پر ملتا ہے، نہ کہ کسی مہینے کی پُراسرار فضیلت کی بنیاد پر۔
واپس اوپر جائیں

روزہ اور اخلاقی ڈسپلن

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إذا کان یومُ صومِ أحدکم فلا یرفُث، ولا یَصخَب، فإن سابَّہ أحدٌ أوقاتلہ فلیقل: إنّی امرئٌ صائم(البخاری، کتاب الصوم) یعنی جب تم میں سے کسی شخص کے روزے کا دن ہو تو وہ بے ہودہ گوئی نہ کرے اورنہ شور کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے، یا اُس سے لڑائی کرے تو وہ کہہ دے کہ میںایک روزے دار آدمی ہوں۔
اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ صرف کھانا اور پینا چھوڑ دینے کا نام نہیں ہے، بلکہ روزے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی بُرے اخلاق کوچھوڑ دے، وہ کسی معاملے میں شور و غل کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ یہاں تک کہ اگر دوسرا شخص اُس کو اشتعال دلائے، تب بھی وہ ایسا نہ کرے کہ وہ مشتعل ہو کر خود بھی وہی کرنے لگے جو دوسرا شخص اس کے خلاف کررہا ہے۔
اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روزہ صرف ایک رسمی عمل کا نام نہیں ہے، بلکہ روزے کا مقصد آدمی کے اندر گہری اسپرٹ پیدا کرنا ہے، ایسی اسپرٹ جو اس کی سوچ کو بدل دے، جو اس کے مزاج میں تبدیلی پیداکردے، جو اس کے کردار میںانقلاب برپاکردے ۔ سچاروزے دار وہ ہے جس کا روزہ اس کی پوری شخصیت کو ربانی شخصیت بنادے۔
سچا روزہ انسان کو آخری حد تک ایک سنجیدہ انسان بنا دیتا ہے۔ اس کی زندگی کے ہر پہلو میں سنجیدگی کا رنگ غالب آجاتاہے۔ اس کا یہ مزاج اتنا گہرا ہوتا ہے کہ دوسروں کا اشتعال انگیز رویّہ بھی اس کو سنجیدگی کے راستے سے نہیں ہٹاتا۔ وہ سماج کا ایک پُر سکون ممبر (peaceful member)ہوتا ہے، وہ سماج میں لوگوں کے لیے کسی طرح کا کوئی پرابلم کھڑا کرنے کا سبب نہیں بنتا۔ سچا روزے دار ایک متواضع (modest)انسان ہوتا ہے، نہ کہ سرکش انسان۔سچا روزے دار اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں کو تو چھوڑے، لیکن وہ بُرے اخلاق کو نہ چھوڑے۔ وہ کھانے پینے کے معاملے میں اپنے معمول کو بدلے، لیکن وہ اپنی زندگی کی روش میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔
واپس اوپر جائیں

رمضان میں خطاؤں کی معافی

حضرت ابو سعید الخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ صام رمضان وعرَفَ حدودَہ، وتحفَّظَ مما کان ینبغی لہ أن یتحفّظ منہ، کُفّر ما قبلہ (مسند احمد، جلد 3 ، صفحہ 55 ) یعنی جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور اُس کی حدود کو پہچانا، اور جن چیزوں سے بچنا ضروری تھا، اُس نے روزے میںاُن چیزوں سے اپنے آپ کو بچایا، تو ایسا روزہ اس کے لیے اس کی خطاؤں کی معافی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
رمضان کا مہینہ دراصل محاسبہ (introspection) کا مہینہ ہے۔ سچا روزہ، آدمی کے اندر محاسبہ کی نفسیات کو جگاتا ہے۔ وہ اپنے ماضی اور اپنے حال کا جائزہ لینے لگتا ہے۔ روزہ آدمی کے اندر مزید اضافے کے ساتھ یہ احساس بیدار کرتا ہے کہ وہ مرنے والا ہے اور مرنے کے بعد وہ خدا کے سامنے کھڑا ہونے والا ہے۔ اِس احساس کے تحت، وہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ قیامت کی عدالت میں پیش ہونے سے پہلے اپنا حساب کرلے، تاکہ وہ آخرت میں خدا کی پکڑ سے بچ جائے۔
رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنا، بلا شبہہ آدمی کی خطاؤں کی معافی کا ذریعہ ہے، مگر خطاؤں کی یہ معافی پُر اسرار طورپر خود بخود نہیں ہوتی، یہ اُس شعوری عمل کے ذریعے ہوتی ہے جس کو شریعت میں محاسبہ کہاگیا ہے۔ روزہ آدمی کے اندر شدت کے ساتھ محاسبہ کی نفسیات جگاتا ہے۔ آدمی ایک ایک کرکے اپنی خطاؤں کو یاد کرتا ہے اور اپنی تنہائیوں میں اُس پر وہ خدا سے معافی کی دعائیں کرتا ہے۔ یہ احساس اُس پر اتنی شدت کے ساتھ طاری ہوتاہے کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔
دراصل روزے دار کے یہی آنسو ہیںجو خدا کی رحمت کے تحت، اُس کی خطاؤں کو دھودیتے ہیں۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خطاؤں کی معافی، کیفیات سے بھرے ہوئے روزے کا نتیجہ ہوتی ہے، نہ کہ سالانہ رسم کے طورپر بے روح روزے داری کا نتیجہ۔
واپس اوپر جائیں

اسپرٹ، نہ کہ فارم

حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاء ثلاثۃُ رَہْطٍ إلی بیوتِ أزواج النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم یسألون عن عبادۃ النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فلمّا أُخبروا کأنہم تقالُّوہا۔ فقالوا: وأین نحن من النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قد غفر اللّٰہ لہ ما تقدم من ذنبہ وما تأخر۔ قال أحدُہم: أمّا أنا، فأُصلّی اللیلَ أبداً، وقال اٰخر: أنا أصوم الدہرَ ولا أُفْطِر، وقال اٰخر: أنا أعتزل النسائَ فلا أتزوّج أبداً، فجاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: أنتم الّذین قلتم کذا وکذا، أما واللہ إنّی لأخشاکم للّٰہ وأتقاکم لہ، لٰکنّی أصوم وأفطر، وأصَلّی وأرقُد، وأتزوّج النساء، فمن رغب عن سنّتی فلیس منّی (صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب: الترغیب فی النکاح) ۔
یعنی صحابہ میں سے تین شخص ازواجِ رسول کے گھر پر آئے۔ انھوںنے آپ کی ازواج سے آپ کی عبادت کے بارے میں پوچھا۔ جب اُن کو آپ کی عبادت کے بارے میں بتایا گیا، تو گویا کہ انھوںنے اس کو کم سمجھا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقابلہ، اللہ نے آپ کی اگلی اور پچھلی خطاؤں کو بخش دیا ہے۔ اُن میں سے ایک نے کہا: میںتو اپنی رات کو ہمیشہ نماز پڑھنے میں گزاروں گا۔ دوسرے نے کہا: میںہمیشہ روزہ رکھوںگا۔ اور تیسرے نے کہا: میں ہمیشہ عورتوں سے دور رہوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ اِسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے۔ آپ نے فرمایا: کیا تمھیں لوگوں نے ایسا اور ایسا کہا ہے۔ میں، خدا کی قسم، تم میں سب سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں اور تم میں سب سے زیادہ خدا کا تقویٰ رکھنے والا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور روزہ نہیں بھی رکھتا، اور میں قیامِ لیل بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جو میری سنت سے اعراض کرے، وہ مجھ سے نہیں۔
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کا تعلق کیفیت سے ہے، نہ کہ کمیت سے۔ یہی معاملہ روزے کا ہے۔ اللہ کے نزدیک اصل اہمیت روزے کی اسپرٹ کی ہے، نہ کہ اس کے ظاہری فارم کی۔
واپس اوپر جائیں

رحمتِ الٰہی کا مستحق کون

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا دخل شہرُ رمضان فُتحت أبواب السماء۔ وفی روایۃ: فُتحت أبواب الجنّۃ، وغُلّقت أبواب جہنّم، وسُلسِلت الشیاطین۔ وفی روایۃ: فُتحت أبواب الرحمۃ (صحیح البخاری، کتاب الصّوم، باب: ہل یُقال رمضان) یعنی جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اور دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
اِس حدیث میں جنت اور جہنم، یا شیاطین کی نسبت سے جو بات کہی گئی ہے،وہ دراصل تمثیل کی زبان (symbolic language) میں ہے۔ کلام کا اصل مقصود وہی ہے جس کو ’فتحت أبواب الرحمۃ‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی رحمت کے دروازوں کا کھل جانا، یا رحمتِ خداوندی کے حصول کے مواقع میںاضافہ ہوجانا۔
رمضان کے مہینے کے یہ فوائد جو اِس حدیث میں بیان کیے گئے ہیں، وہ پُراسرار طورپر خود بخود مل جانے والے فوائد نہیں ہیں، بلکہ وہ پوری طرح معلوم فوائد ہیں۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میںاگر اس کی مطلوب اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھا جائے، تو ایسا روزہ آدمی کے لیے اُن فوائد کے حصول کا سبب بن جاتا ہے، جن کا ذکر مذکورہ حدیث میں کیا گیا ، یعنی ر وزے دار کے اندر اُن صفات کا پیدا ہونا جو اس کو خدا کی رحمت کا مستحق بنادیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ صرف فارم کے اعتبار سے روزہ رکھیں، اُن کا روزہ اُس حدیثِ رسول کا مصداق ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ— کچھ روزے دار وہ ہیں جن کو اپنے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ اور نہیں ملتا (کم من صائمٍ لیس لہ من صیامہ إلا الجوع والعطش۔النسائی، ابن ماجہ)۔
واپس اوپر جائیں

حلال سے روزہ، حرام سے اِفطار

حضرت انس بن مالک کہتے ہیںکہ دو عورتوں نے روزہ رکھا اور دونوں نے ایک ساتھ بیٹھ کر دوسروں کی غیبت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے بارے میں معلوم ہوا، تو آپ نے فرمایا: إنّہما لم یصوما، وکیف صام مَن ظلَّ ہذا الیوم یأکل لُحومَ الناس۔یعنی اُن دونوں نے روزہ نہیں رکھا۔ بھلااُس کاروزہ کیسے ہوگا جو روزہ رکھے اور غیبت کرکے لوگوں کا گوشت کھائے۔ ایک اور روایت میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: إن ہاتَین صامتا عمّا أحلّ اللہ لہما وأفطرَتا علی ما حرّم اللّٰہ علیہما (مجمع الزوائد، کتاب الصیام، باب الغیبۃ للصائم) یعنی انھوں نے اُس چیز سے روزہ رکھا جو اللہ نے اُن کے لیے حلال کیا تھا، اور پھر انھوںنے اُس چیز سے افطار کرلیا جواللہ نے اُن کے لیے حرام کیا تھا۔
اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے میں صرف یہ حرام نہیں ہے کہ آدمی دن کے اوقات میں کھانا کھالے اور پانی پی لے، اِس کے سوا بھی کچھ چیزیں حرام ہیں اور وہ روزے کو باطل کرنے والی ہیں۔ مثلاً دوسروں کی برائی بیان کرنا۔جو آدمی روزہ رکھے اور کھانے پینے کی چیزوںسے بچا رہے، لیکن اِسی کے ساتھ وہ دوسروں کی برائی بیان کرے، تو اُس کا روزہ مطلوب روزہ نہ ہوگا، اُس کا روزہ صرف بھوکا اور پیاسا رہنے کے ہم معنی ہوگا۔
روزہ توڑنے کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی روزہ رکھتے ہوئے جان بوجھ کر مادّی ممنوعات پر عمل کرنے کا ارتکاب کرے، مثلاً وہ کھانا کھالے، یا پانی پی لے۔ اِسی طرح، روحانی اور اخلاقی اعتبار سے بھی کچھ ممنوعات ہیں، مثلاً دوسروں کی بُرائی اور غیبت کرنا۔ اگر آدمی روزہ رکھ کر روحانی اور اخلاقی ممنوعات کا ارتکاب کرے، تو ایسے ارتکاب سے بھی اس کا روزہ باطل ہوجائے گا، بظاہر روزہ رکھ کر بھی وہ روزے کے ثواب سے محروم رہے گا۔روزہ غذائی پرہیزگاری کا نام بھی ہے، اور اخلاقی پرہیزگاری کا نام بھی۔ روزے میںاخلاقی پرہیزبھی اُسی طرح ضروری ہے، جس طرح غذائی پرہیز۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت ِصوم

قرآن اور حدیث میں روزہ کے لیے صوم کا لفظ آیا ہے۔ صوم کے لفظی معنیٰ ہیں— رُکنا (abstinence) ، کسی چیز سے پرہیز کرنا۔ انسان جیسی مخلوق کے لیے اِس کی بے حد اہمیت ہے۔ انسان کا معاملہ ففٹی پرسنٹ رکنا ہے، اور ففٹی پرسنٹ کرنا۔ آدمی جب ایک غیر مطلوب چیز سے رکتا ہے، اُسی وقت وہ ایک مطلوب کام کو کرپاتا ہے۔ یہی وہ ضروری استعداد ہے جس کی تربیت انسان کو روزے کے ذریعے دی جاتی ہے۔
مثلاً توحید کو لیجیے۔ انسان جب غیر اللہ کو بڑا بنانے سے اپنے کو روکتا ہے، اُس کے بعد ہی اس کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ اللہ کو اپنا بڑا بنا سکے۔ ۔ انسان جب غیر پیغمبرانہ رہ نمائی کو چھوڑتا ہے، اس کے بعد ہی وہ پیغمبرانہ رہ نمائی کو قبول کرتا ہے۔ انسان جب قرآن کے سوا دوسری کتابوں کے غیر مستند ہونے کو دریافت کرتاہے، اس کے بعد ہی وہ قرآن کو مستند ہدایت نامہ کی حیثیت سے اختیار کرتا ہے۔
اِسی طرح، انسان جب شیطان کی صحبت کو ترک کرتا ہے، اس کے بعد ہی وہ اپنے آپ کو فرشتوں کی صحبت کے قابل بناتا ہے۔ انسان جب اپنی خواہش کی پیروی کو ترک کرتا ہے، اس کے بعد ہی وہ مرضیاتِ الہی کی پیروی کے قابل بنتا ہے۔ انسان جب اپنے اندر سے فخر وغرور کے مزاج کو ختم کرتا ہے، اس کے بعد ہی وہ تواضع (modesty) کے مزاج کا حامل بنتا ہے۔ انسان جب اپنے مال میں اِسراف سے کامل پرہیز کرتا ہے، اس کے بعد ہی وہ سادگی اور قناعت کے طریقے کو اپناتا ہے۔ انسان جب غیر ذمے دارانہ روش کو ترک کرتا ہے، اس کے بعد ہی وہ اِس قابل بنتا ہے کہ وہ سنجیدگی اور متانت کی روش کو اپنی روش بنا سکے۔
ترک واختیار کا یہ معاملہ پوری زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس طریقے کو اختیار کیے بغیر کوئی شخص اپنی زندگی کو اسلامی زندگی نہیں بنا سکتا۔ روزے کے ذریعے آدمی کے اندر یہی اسپرٹ پیدا کرنا مقصود ہے۔ جو آدمی ’’ترک‘‘ کے اِس اصول کو نہ مانے، وہ ’’اختیار‘‘ کی سعادت کا تجربہ بھی نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں

نیت کی اہمیت

حضرت حفصہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من لم یُجمعِ الصیامَ قبلَ الفجر فلاصیامَ لہ (التّرمذی، کتاب الصوم، باب: لا صیامَ لمن لم یعزم) یعنی جس شخص نے طلوعِ فجر سے پہلے، روزہ رکھنے کا پختہ عزم نہیںکیا، اس کا روزہ نہیں۔
اِس حدیثِ رسول سے روزے کے عمل میںنیت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ روزے کا وقت شروع ہونے سے پہلے آدمی کو چاہیے کہ وہ شعوری طورپر اپنے اندر یہ ارادہ پیدا کرے کہ میرا آنے والا دن روزے کا دن ہوگا۔ گویا کہ باقاعدہ ارادے کے بغیر صرف بھوکا رہ جانے کا نام روزہ نہیں۔
دوسرے شرعی اعمال کی طرح، روزہ ایک باشعور دینی عمل ہے، یعنی ایک ایسا عمل جس کو آدمی زندہ شعور کے ساتھ انجام دے۔ عمل کے دوران وہ اُسی کے لیے سوچے، وہ اُسی کی کیفیات میںجیے، وہ اُن ربانی احساسات کو اپنے اوپر طاری کرے جو روزے کے دنوں میں ایک مومن سے خدا کو مطلوب ہیں۔ گویا کہ اس کا روزہ صرف جسمانی روزہ نہ ہو، بلکہ اُس کا شعور اور اس کے جذبات بھی اُس کے عمل کی روح کی حیثیت سے اس میں شامل ہوگئے ہوں۔
ایک سچا مومن جب زندہ نیت کے ساتھ اپنے روزے کا آغاز کرتا ہے، تو اس کی سوچ بھی اُسی رخ پر متحرک ہوجاتی ہے۔ وہ روزے کے بارے میں سوچتا ہے۔ بھوک اور پیاس کے تجربات کے دوران وہ اعلیٰ روحانی حقیقتوں کا تجربہ کرتا رہتا ہے۔ جب وہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے ، یا نماز ادا کرتا ہے، تو اس کی روزہ دارانہ زندگی اس کی تلاوت اور اس کی نماز میں ایک نئی روح پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ روزے کی حالت میں دن گزارنا اور قیام کی حالت میں رات گزارنا، اس کے لیے خدا سے خصوصی قربت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ حقیقی روزہ وہ ہے جو آدمی کی پوری زندگی کو روزہ رخی زندگی (Roza-oriented life) بنادے۔
واپس اوپر جائیں

روزہ: ایک زندہ عمل

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن نَسِیَ وہو صائم فأکل أو شرب، فلیُتِمَّ صومَہ۔ فإنما أطعمہ اللہ وسقاہ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب: أکلُ النّاسی) یعنی جو شخص روزہ رکھے اور وہ بھول کر کچھ کھالے یا پی لے، تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا روزہ پورا کرے، کیوں کہ یہ اللہ ہے جس نے اس کو کھلایا اور پلایا۔
روزہ اگر خالص قانونی نوعیت کی چیز ہو تو بظاہر ایسا ہونا چاہیے کہ اگر کوئی شخص روزے کی حالت میں ہو اور دن کے اوقات میں کبھی وہ بھول کر کچھ کھالے یا پی لے، تو اس کا روزہ ٹوٹ جانا چاہیے۔ روزہ اگر صرف ایک ظاہری صورت کا نام ہو تودن کے وقت کچھ کھانے یا پینے سے ہر حال میں اس کا روزہ ٹوٹ جانا چاہیے، خواہ اس نے جان کر کھایا ہو، یا بھول کر کھایا ہو۔ قانونی نوعیت کی چیزوں کے بارے میں مشہور مقولہ ہے کہ — قانون سے بے خبری کسی کے لیے عذر نہیں:
Ignorance of law has no excuse.
پھر کیا وجہ ہے کہ حدیث میں یہ بتایا گیاہے کہ بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ روزہ کوئی ٹکنکل نوعیت کا قانونی فعل نہیں، روزہ ایک زندہ انسان کا عمل ہے۔ زندہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اگر اُس سے کوئی غلطی ہوجائے تو فوراً اس کے اندر ایک نئی سوچ جاگ اٹھتی ہے۔ یہ نئی سوچ اس کی بھول کو ایک مثبت عمل بنا دیتی ہے۔ وہ اِس بھول میں اپنے عجز اور خدا کی قدرت کو دریافت کرلیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ انسان کتنا زیادہ کم زور ہے، اُس کے مقابلے میں خدا کتنا زیادہ قوی اور عزیز ہے کہ وہ کبھی کسی چیز کو نہیں بھولتا (لایضلُّ ربّی ولا ینسیٰ)۔ یہ دریافت ایک زندہ انسان کو خدا سے اور زیادہ قریب کردیتی ہے۔ وہ مزید اضافے کے ساتھ خدا کی رحمتوں کا مستحق بن جاتا ہے—جو غلطی، معرفت میں اضافے کا سبب بن جائے، وہ غلطی نہیں ہے، بلکہ وہ ایک زندہ ربانی تجربہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

دورِ ز وال کا ظاہرہ

حضرت ابو ذر غفاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تزال أمّتی بخیر ما عَجَّلُوا الإفطارَ وأخَّرُوا السَّحور(مسند احمد، جلد 5، صفحہ 147) یعنی میری امت کے لوگ اُس وقت تک خیر پر قائم رہیں گے جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کریں گے اور سحری میں تاخیر کریں گے۔
اِس حدیث میں خیر سے مراد دین کی روح (spirit) ہے۔ اِس حدیث کے مطابق، رمضان کے مہینے میںافطار میں تعجیل اور سحری میں تاخیر اِس بات کی علامت ہے کہ امت خیر پر ہے، یعنی امت کے اندر دین کی حقیقی روح زندہ ہے۔ اور جب معاملہ اِس کے برعکس ہوجائے، یعنی لوگ افطار میں ’’احتیاطی تاخیر‘‘ کرنے لگیں، اور وہ سحری میں ’’احتیاطی تعجیل‘‘ کرنے لگیں، تو یہ اِس بات کی علامت ہوگی کہ امت کے اندر سے خیر نکل گیا ہے، یعنی امت دین کی روح (spirit) پر قائم نہیںہے، بلکہ وہ صرف دین کی شکل (form) پر قائم ہے۔ اور اِس قسم کی حالت اللہ کے نزدیک مطلوب حالت نہیں۔ تعجیل یا تاخیر سے مراد تعجیل یا تاخیر نہیں ہے، بلکہ وقت کی ٹھیک ٹھیک پابندی ہے۔
افطار میں دیر کرنے کا مزاج کیوں ہوتا ہے، اور سحری میں جلدی کرنے کا مزاج کب پیدا ہوتا ہے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ امت کے افراد میں روحِ دین باقی نہ رہے، وہ محض شکل کی بجاآوری کو دین سمجھنے لگیں۔ ’’احتیاط‘‘ کا ذہن ہمیشہ ظاہری صورت، یا فارم کے بارے میں پیدا ہوتا ہے۔ لوگ ظاہری صورت کے اہتمام کو اہم چیز سمجھنے لگتے ہیں۔ ظاہری پہلو میں کمی اُن کے نزدیک، دین کو ناقص بناتی ہے، اور ظاہری پہلو میں اضافہ کرکے وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے دین کو کامل کرلیا۔ مذکورہ حدیث میں اِسی زوال یافتہ مزاج کی نشان دہی کی گئی ہے۔
زندہ دین داری، آدمی کو اسپرٹ کانشس (spirit-conscious) بناتی ہے، اورجب زندہ دین داری باقی نہ رہے، تو لوگ فارم کانشس (form-conscious) بن جاتے ہیں۔ اِ س حقیقت کا تعلق، صرف روزے سے نہیںہے، بلکہ تمام دینی اعمال سے ہے۔
واپس اوپر جائیں

فارم اور اسپرٹ کا فرق

قرآن کی سورہ نمبر 2 میں رمضان کے مہینے میں روزے کا حکم ایک پورے رکوع میںبیان ہوا ہے۔ اِس میں روزے کے بارے میں دو قسم کی رخصتوں کا ذکر ہے۔ ایک رخصت (concession) مستقل رخصت ہے جو اِن الفاظ میں بیان ہوئی ہے: وعلی الذین یطیقونہ فدیۃٌ طعامُ مسکین (البقرۃ: 184 ) یعنی جو لوگ اُسے مشکل ہی سے برداشت کرسکیں، اُن کے ذمّے فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا (ترجمہ: مولانا عبد الماجد دریابادی)۔ اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی عذرِ شرعی کی بنیاد پر مستقل طورپر روزہ رکھنے کے قابل نہ رہیں، ایسے لوگوں کے لیے شریعت میں یہ رخصت ہے کہ وہ رمضان کے مہینے میں روزہ نہ رکھیں اور روزہ کے بجائے اُس کے کفارہ کے طورپر اُس کا فدیہ ادا کریں۔
رخصت کی دوسری صورت، قرآن میں اِن الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ومَن کان مریضاً أو علی سفرٍ فعدّۃٌ من أیامٍ اُخر (البقرۃ: 185 ) یعنی جو کوئی بیمار ہو، یا سفر میں ہو تو اُس کو گنتی پوری کرنی چاہیے اور دنوں میں۔ یہ عارضی رخصت کا معاملہ ہے، یعنی آدمی روزہ رکھنے کے قابل ہواور وقتی طورپر اُس کو عذرِ شرعی لاحق ہو جائے، تو وہ عذر کے بقدرروزہ چھوڑ دے اور رمضان کے بعد اپنے چھوٹے ہوئے روزے کو دوبارہ پورا کرلے۔
اِن دو رخصتوں کے بیان کے بعد قرآن میں یہ آیت آئی ہے: یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العُسر، ولتکملوا العدّۃ ولتکبّروا اللّٰہ علی ما ہداکم، ولعلّکم تشکرون (البقرۃ:185 ) یعنی اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے، وہ تم پر دشواری نہیں چاہتا، اور چاہتا ہے کہ تم تعداد پوری کرو اور تاکہ تم بڑائی کرو اللہ کی، اِس بات پرکہ اُس نے تم کو ہدایت دی اور تاکہ تم اُس کا شکر ادا کرو۔
قرآن کی اِن آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی احکام کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ وہ ہے جو متعلقہ حکم کے فارم کی حیثیت رکھتا ہے۔ روزے کا فارم یہ ہے کہ آدمی دن کے اوقات میں کھانا، پینا اور دوسری ممنوعات کو ترک کردے۔ روزے کی اسپرٹ تکبیر اور شکر ہے، یعنی آدمی کے اندر اللہ کی کبریائی کا احساس طاری ہونا، اور اللہ کے انعامات پر گہرے شکر کا جذبہ پیدا ہونا۔
مذکورہ آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں فارم اور اسپرٹ کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ اِس فرق کو مذکورہ آیت میں ’عُسر‘ اور ’یُسر‘ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اگر روزے کے فارم کو مطلق حیثیت دے کر، اُس کو ہر حال میں لازم کردیا جائے تو یہ اہلِ ایمان کے لیے عُسر (دشواری) کا باعث ہوجائے گا، اِس لیے فارم کے معاملے میں عسر کے بجائے، یُسر (آسانی) کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے، یعنی رخصت کا طریقہ۔
مگر جہاں تک دینی احکام کے دوسرے پہلو، یعنی اسپرٹ کا معاملہ ہے، اُس میں کسی قسم کی رخصت نہیں، اسپرٹ کا پہلو ہر حال میں اور مطلق طورپر اہلِ ایمان سے مطلوب ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جب فارم کی ادائیگی میں عُسر (دشواری) کی صورت پیدا ہوئے جائے، تو اُس وقت شریعت کا تقاضا ہوگا کہ فارم کے معاملے میں ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کیا جائے، تاکہ اسپرٹ کا پہلو کسی نَقص کے بغیر مسلسل طورپر باقی رہے۔
روزے میں بھوک، پیاس کا تعلق فارم سے ہے، اس لیے اُس میں رخصت کا طریقہ اختیار کیاگیا۔ اِس کے مقابلے میں، تکبیرِ رب اور شکر الٰہی کا تعلق، روزے کی اسپرٹ سے ہے، اِس لیے اس کو مطلق حیثیت دے کر مسلسل طورپر باقی رکھا گیا ہے۔
یہ اسلامی شریعت کا ایک اہم اصول ہے۔ اِس اصول کا تعلق، صرف روزے سے نہیں، بلکہ دوسرے تمام دینی معاملات سے بھی ہے۔ جب بھی ایسا ہو کہ کسی دینی حکم کی ادائیگی میں عُسر کا مسئلہ پیدا ہوجائے تو اُس وقت متعلقہ حکم کے فارم میں ایڈجسٹ مینٹ کیا جائے گا، تاکہ متعلقہ حکم سے جو اسپرٹ مطلوب ہے، وہ اسپرٹ کسی قسم کے خلل کے بغیر پوری طرح باقی رہے۔
یہ شریعت کا ایک تخلیقی اصول (creative principle) ہے۔ یہ اصول اِس بات کا ضامن ہے کہ شریعت کی اصل روح مسلسل طورپر اہلِ ایمان کے درمیان باقی رہے، اور اُس میں کسی بھی حال میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔
واپس اوپر جائیں

روزہ اور تزکیۂ نفس

روزہ ایک سچے انسان کے لیے ایک قسم کی یاد دہانی (reminder) ہے، اِس بات کی یاددہانی کہ— تم خدا کی دنیا میں ہو۔ تم ایک ایسی دنیا میں ہو جس کو خدا نے بنایا ہے۔ اِس دنیا کے مالک تم نہیںہو، بلکہ خدا اُس کا مالک ہے۔ یہاں تم اپنی مرضی کے ساتھ نہیں رہ سکتے، یہاں تم اپنی مرضی سے نہیں کھاسکتے، یہاں تم اپنی مرضی سے نہیں پی سکتے، یہاںتم اپنی مرضی سے نہیں بول سکتے، یہاں تم کو خدا کی مرضی کے مطابق رہنا ہے، نہ کہ خود اپنی مرضی کے مطابق،
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس قسم کی روزہ دارانہ زندگی صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ انسان، خدا کو معرفت (realization) کے درجے میں پائے۔ وہ اِس حقیقت کو دریافت کرے کہ خدا کی اِس دنیا میں بے قید زندگی گزارنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ خدا کی اِس دنیا میں کامیابی کا راز پابند زندگی میںہے، نہ کہ بے قید زندگی میں۔
رمضان کا مہینہ در حقیقت تزکیۂ نفس (purification of soul)کا مہینہ ہے۔ رمضان کے مہینے کا یہ تقاضا ہے کہ آدمی اپنی زندگی پر پھر سے غور(reassessment) کرے، وہ اپنے معاملات کا ازسرِ نو جائزہ لے، وہ اپنی دینی اور دعوتی زندگی کی ازسرِ نو منصوبہ بندی (replanning) کرے، وہ اپنے دل ودماغ کی پھر سے تطہیر کرے، وہ اپنے اندر ایک نئی شخصیت کی تعمیر کرے، وہ دینی اور روحانی اعتبار سے، پورے معنوں میں، اپنا اوور ہال(overhaul) کرے۔
یہی تزکیۂ نفس ہے اور یہی رمضان کا اصل مقصد ہے۔ جو شخص اِس طرح رمضان کے شب و روز گزارے، وہی وہ شخص ہے جس نے رمضان کے مہینے کو پایا۔ اُسی شخص کا روزہ حقیقی روزہ ہے جو اِس معنیٰ میںاُس کے لیے تزکیۂ نفس کا ذریعہ بن جائے۔تزکیۂ نفس مومن کے لیے ایک مستقل عمل ہے۔ وہ مومن کی زندگی میں روزانہ جاری رہتا ہے۔ لیکن رمضان کے مہینے میں مزید شدت کے ساتھ تزکیۂ نفس کے اِس عمل کو انجام دینا ممکن ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بے روح عبادت

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کَم مِن صائمٍ لیس لہ من صیامہ إلاّ الظَّمَأ، وکم من قائمٍ لیس لہ من قیامہ إلا السَّہرَ (سنن الدّارمی، کتاب الصوم) یعنی بہت سے روزے دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزے سے( بھوک اور)پیاس کے سوا اور کچھ نہیں ملتا، اور بہت سے قیامِ لیل کرنے والے وہ ہیں جن کو اپنے قیامِ لیل سے ،جاگنے کے سوا کچھ اور نہیں ملتا۔
روزے میں ترکِ طعام،روزے کی ایک ظاہری صورت ہے۔ اِسی طرح، رمضان کی راتوں میں قیام کرنا اس کی ایک ظاہری صورت ہے، مگر ہر ظاہری صورت کے ساتھ ایک حقیقت شامل رہتی ہے۔ جس چیز کا حال یہ ہو کہ اُس میں اُس کی ظاہری صورت موجود ہو، لیکن اس کی داخلی حقیقت اُس میں نہ پائی جاتی ہو، تو ایسی چیز کی کوئی قیمت نہیں۔ اس کی مثال ایسے پھل کی ہے جس کا ظاہری چھلکا تو موجود ہو، لیکن اس کے اندر کا مغز ا س میں نہ پایا جاتا ہو۔
روزے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کے اندر خوفِ خدا کی صفت پیدا ہو، اس کے اندر تقویٰ کا شعور جاگے، ا س کے اندر اخلاقی ڈسپلن پایا جائے، وہ حقیقی معنوں میں اپنے خالق اور رازق کا شکر کرنے والا بن جائے۔ یہی روزے کا اصل مقصد ہے اور کسی کے روزے کو اِسی اعتبار سے جانچا جائے گا کہ اس کے اندر روزے کی یہ مطلوب صفات پیدا ہوئیں یا نہیں۔اِسی طرح، روزے کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ مومن کو قرآن سے وابستہ کیا جائے۔ اِسی لیے روزے کے مہینے میں مختلف انداز سے، قرآن کا زیادہ سے زیادہ چرچا کیا جاتا ہے۔ سچا روزہ آدمی کے اندر گہرائی اور سنجیدگی پیدا کرتا ہے۔ اِس طرح کے ذہن کو لے کر آدمی جب قرآن کو سنتا ہے اور پڑھتا ہے تو وہ عام دنوںسے زیادہ، قرآن سے نصیحت لینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو کسی کے روزے کو جانچنے کا اصل معیار ہیں۔جس آدمی کے روزے میں یہ داخلی کیفیات شامل نہ ہوں، اُس کا روزہ ایک بے روح روزہ ہے، نہ کہ حقیقی روزہ۔
واپس اوپر جائیں

قولِ زُور، عملِ زُور

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن لم یَدعْ قولَ الزّور والعملَ بہ، فلیس للّٰہ حاجۃٌ فی أن یَدَعَ طعامَہ وشرابَہ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب: من لم یدع قول الزور والعمل بہ) یعنی جو شخص جھوٹ بولنااور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ کو اِس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور اپنا پانی چھوڑ دے۔
روزہ بظاہر مخصوص اوقات میں کھانا اور پینا چھوڑ دینے کا نام ہے، مگر کھانے اور پینے کا یہ ترک ایک علامتی ترک (symbolic abstinence)ہے۔ روزہ کے مہینے میں چند چیزوں کو چھوڑ کر روزے دار اپنے آپ کو اِس مقصد کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ خدا کی منع کی ہوئی تمام چیزوں کو چھوڑ دے۔ گویا کہ ترکِ طعام اگر جسمانی روزہ ہے تو ترکِ مَنہیَّات، روحانی روزہ۔ جس آدمی کی زندگی میں ترکِ طعام ہو، لیکن اس کی زندگی میں ترکِ منہیات نہ ہو، تو اس کا روزہ خدا کے یہاں قبولیت کا درجہ پانے والا نہیں۔
دین میں دو قسم کی تعلیمات شامل ہیں۔ ایک، وہ جن میں کسی چیز کے کرنے کا حکم دیاگیا ہے اور دوسرے، وہ جن میں کسی چیز کے چھوڑنے کا حکم دیاگیا ہے۔ روزہ ترکِ منہیات والی تعلیمات کے لیے تربیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ روزہ کے مہینے میں وقتی طورپر کچھ چیزوں کے ترک کا حکم دے کر یہ سبق دیا جاتا ہے کہ اِسی طرح پورے سال دوسری تمام منہیات کو ترک کردینا ہے، اِس کے بغیر دین کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔
اِن منہیّات (prohibitions) میں سے ایک چیز وہ ہے جس کو حدیث میں، جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا کہاگیا ہے۔ جھوٹ بولنا یہ ہے کہ آدمی کسی چیز کے بارے میں خلافِ واقعہ بیان دے۔ مثلاً وہ رات کے وقت کو دن کا وقت بتائے۔ اِسی طرح، جھوٹ پر عمل کرنا یہ ہے کہ آدمی ایک غلط کام کرے اور وہ اس کو خلافِ واقعہ طورپر صحیح کانام دے۔ وہ اپنے ذاتی انٹرسٹ کے لیے ایک کام کرے اور لوگوں کو بتائے کہ میں یہ کام خالص حق کے لیے کررہا ہوں۔ جو لوگ اِس طرح کے جھوٹ میں مبتلا ہوں، اُن کا روزہ خدا کے یہاں قابلِ رد قرار پائے گا، نہ کہ قابلِ قبول۔
واپس اوپر جائیں

روزہ کو چھوڑنا

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن أفطر یوماً من رمضان من غیر رُخصۃٍ ولا مَرَضٍ، لم یقضِ عنہ صومُ الدّہر کُلّہ وإن صامہ (التّرمذی،کتاب الصوم، باب الإفطار متعمّداً) یعنی جو شخص رمضان کے دنوں میں کسی دن روزہ ترک کردے، جب کہ اُس کے لیے کوئی شرعی عذر اور بیماری نہ ہو، تو اس کے بعد خواہ وہ ساری عمر روزے رکھے، وہ اس کے لیے رمضان میں چھوڑے ہوئے روزے کا بدل نہیںہوسکتا۔
رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی اہمیت یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ اُس کا حکم دیا ہے۔ ایسی حالت میں رمضان کے کسی ایک روزے کو بھی قصداً چھوڑنااپنی نوعیت کے اعتبار سے نہایت سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس کے بعد آدمی اگر ساری عمر روزہ رکھے، تو وہ اس کے اپنے فیصلے کے تحت ہوگا، نہ کہ براہِ راست حکمِ خداوندی کی تعمیل میں۔ اور بلاشبہہ کوئی بھی دوسرا عمل، خدا کے حکم کی قصداً خلاف ورزی کی تلافی نہیں بن سکتا۔
اِس دنیا میں پانی کا جو ذخیرہ ہے، اس کی ایک ایک بوند کا مالک خداہے۔ اِس دنیا میں مختلف قسم کی جو غذائیں ہیں، ان کا غیر مشترک مالک بھی صرف ایک خدا ہے۔ اِس قسم کی تمام چیزیں جو دنیا میں موجود ہیں، ان کو پیدا کرنے والا بھی خدا ہے اور یہ بھی خدا وند ِ ذوالجلال ہی ہے جو یہ تمام چیزیں انسان کو عطا کرتا ہے۔
ایسی حالت میں جب خدا خودیہ حکم دے کہ فلاں مہینے کے دنوں میں تم میرا پانی اور میری پیداکی ہوئی غذائیں استعمال نہیں کروگے، تو یہ انسان کی انسانیت کے سر تا سر خلاف ہے کہ وہ رزق کے خالق و مالک کی ممانعت کے باوجود اس کے دیے ہوئے رزق کا ایک دانہ بھی استعمال کرے۔ حکمِ خداوندی کی ایسی خلاف ورزی کے بعد انسان اپنے آپ کو اِس دنیا میں بے جگہ بنالیتا ہے۔ اِس کے بعد وہ انسان کی سطح سے گر کر غیر انسان کی سطح پر آجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسپرٹ، یا ٹکنکل مسائل

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا سمع النّدائَ أحدُکم والإنائُ علیٰ یدہ، فلا یضعْہ حتی یقضی حاجتَہ منہ(مسند احمد، جلد5 ، صفحہ 431 ) یعنی تم میں سے جب کوئی (روزے دار) فجر کی اذان کی آواز سنے اور کھانے کا برتن اُس کے ہاتھ میں ہو، تو وہ اُس وقت تک اس کو اپنے منہ سے نہ ہٹائے، جب تک کہ وہ اپنی حاجت پوری نہ کرلے۔
اِس حدیثِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص سحری کررہا ہے۔ ابھی وہ اپنی سحری پوری نہیں کرسکا تھا کہ اس کو فجر کی اذان کی آواز سنائی دی۔ اگر کبھی ایسا ہوجائے تو وہ ایسا نہ کرے کہ وہ فوراً کھانا یا پینا چھوڑ دے، بلکہ اس کو چاہیے کہ وہ اپنی سحری کو پورا کرلے۔ اور پھر فجر کی نماز کے لیے مسجد میں جائے۔
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کسی ٹکنکل (technical)عمل کانام نہیں ہے۔ روزے میں ٹکنکل مسائل کی حیثیت ثانوی (secondary) ہے۔ روزے میں اصل اہمیت اس کی روح یا اس کی اسپرٹ کی ہے۔ جس عمل میں روح پر زور دیا جائے، اُس میں ٹکنکل مسائل کا درجہ وہی ہوجائے گا جس کی ایک علامتی مثال مذکورہ حدیث میں نظر آتی ہے۔
روزہ جیسے زندہ عمل میں ٹکنکل مسائل پر زور دینا، ہمیشہ اِس قیمت پر ہوتا ہے کہ اس کی اسپرٹ کا پہلو مجروح ہوجائے۔ اِسی معاملے کو واضح کرنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بات ارشاد فرمائی۔ اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تمھارا سارا دھیان روزے کی اسپرٹ پر ہونا چاہیے، نہ کہ اس کے ٹکنکل مسائل پر۔ اسلامی عبادات میں سب سے زیادہ اُس کی اسپرٹ کی اہمیت ہوتی ہے، نہ کہ اس کے ٹکنکل مسائل کی۔روزہ اگر ٹکنکل نوعیت کا کوئی عمل ہوتا، تو اذان کی آواز سنتے ہی کھانے پینے کو فوراً چھوڑدینا لازم ہوجاتا۔مگر اِس معاملے میں رخصت دینے سے معلوم ہوا کہ عبادت میںاس کی روح، اس کا اصل حصہ ہے اور اس کا فارم اس کا اضافی حصہ۔
واپس اوپر جائیں

روزہ اور قیامِ لیل

حدیث میں بتایا گیاہے کہ رمضان کے مہینے میں قیام لیل ایک اہم عبادت ہے (مَن قام رمضانَ إیماناً و احتساباً غُفرلہ ما تقدّم من ذنبہ، صحیح البخاری، کتاب الصوم) قیام لیل سے مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی ساری رات کھڑے ہو کر نماز پڑھتا رہے۔ قیام لیل کا مطلب رات کے محدود اوقات میں نماز پڑھنا ہے، نہ کہ ساری رات جاگ کر نماز پڑھنا۔
قیامِ لیل کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی عشا کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سوجائے، پھر اپنی فطری نیند پوری کرنے کے بعد رات کے آخری حصے میں وہ فجر سے پہلے اٹھے۔ اُس وقت کے پر سکون لمحے میں وہ وضو کرکے نماز کے لیے کھڑا ہوجائے اور حسب توفیق، کچھ رکعتیں قرآن کی لمبی قرأت کے ساتھ پڑھے۔ اور پھر اِلحاح اور دعا پر اِس نماز کو ختم کرے۔ رات کی یہی وہ نماز ہے جس کو تہجد (الإسراء: 79 ) یاقیامِ لیل کہا گیا ہے۔
اہلِ ایمان چوبیس گھنٹے کے دوران روزانہ پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ یہ نماز اجتماعی نماز (congregational prayer) ہے۔ اِس کے اپنے خصوصی فائدے ہیں۔ اِسی لیے اُس کو شریعت میں فرض قرار دیا گیاہے۔ یہ اجتماعی نماز بیک وقت عبادت بھی ہے اور اِسی کے ساتھ وہ امت میںاتحاد قائم رکھنے کا ایک ذریعہ بھی۔
تاہم مومن فطری طور پر اپنے اندر ایک اور نماز کی طلب پاتا ہے، یہ انفرادی نماز ہے، یعنی وہ نماز جب کہ مومن اپنی تنہائیوں میںاللہ کے سامنے اپنی عبودیت کا اظہار کرے، ایک ایسا لمحہ جہاں صرف وہ ہو اور اس کا رب ہو، جب کہ اُس پر وہ تجربہ گزرے جس کو حدیث میں ’یُناجی ربَّہ‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی اپنے رب کے ساتھ سرگوشی۔ رات کے پچھلے پہر کے پرسکون لمحے میں اِس قسم کی انفرادی عبادت کرنا، یہی تہجد اور قیامِ لیل ہے۔ تہجد کی یہ نماز رمضان کے مہینے میں خصوصی طورپر مطلوب ہے اور سال کی بقیہ راتوں میں عمومی طورپر۔
واپس اوپر جائیں

روزہ اور قرآن

قرآن کی سورہ نمبر 2 میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو رمضان کے مہینے میں اتارا (البقرۃ: 185 ) ۔اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میںاور رمضان کے مہینے میں خصوصی مناسبت ہے۔ رمضان کے مہینے میں روزہ کے عمل کے ذریعے رزقِ مادّی کی اہمیت کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔ روزے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اندر رزقِ مادّی کے بارے میں حقیقی شکر کا جذبہ پیدا ہو۔
قرآن ، انسان کے لیے رزقِ روحانی کا دستر خوان ہے (القرآن مأدُبۃ اللہ فی الأرض)۔ قرآن کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ انسان رزقِ روحانی کی اہمیت کو محسوس کرے اور قرآن سے دریافت کرکے اُس کو وہ اپنی زندگی میں شامل کرے، وہ زیادہ سے زیادہ قرآن میںتدبر کرکے اپنا ذہنی تزکیہ کرے۔
رمضان میں پورے مہینہ روزہ رکھا جاتا ہے اور ذکر وعبادت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اِس طرح، رمضان کا مہینہ پورے معنوں میں ایک روحانی مہینہ بن جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں قرآن کی تلاوت کرنا، تراویح میں قرآن کو سننا، مختلف صورتوں میں قرآن کا چرچا کرنا، یہ چیزیں لوگوں کو یہ موقع دیتی ہیں کہ وہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ قرآن سے قریب ہوں، وہ زیادہ سے زیادہ قرآن کو سمجھیں۔ رمضان کا مہینہ، تاریخی اعتبار سے، قرآن کے نزول کا مہینہ ہے، اور تربیت کے اعتبار سے وہ قرآن کو اپنے دل و دماغ میں اتارنے کا مہینہ۔
قرآن میںارشاد ہوا ہے: لا یمسُّہُ إلاّ المُطَہَّرون (الواقعۃ:79 )۔ اِس آیت میں تلاوتِ قرآن کے لیے وضو کا مسئلہ بیان نہیں ہوا ہے، بلکہ یہاں فہمِ قرآن کے لیے تطہیر ِنفس کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ اِس آیت کی صحیح تشریح وہ ہے جو امام راغب الاصفہانی (وفات: 1108 ء) نے کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: أی إنّہ لا یبلغ حقائقَ معرفتہ إلاّ مَنْ طہَّر نفسَہ (المفردات فیغریب القرآن) یعنی صرف وہ شخص قرآن کے حقائق کا ادراک کرسکے گا جو اپنے نفس کی تطہیر کرے، صرف فنّی مہارت، قرآن کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں، اور روزہ اِسی تطہیر نفس کا ایک موثّر ذریعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

روزہ اور تراویح

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قراء ۃُ القرآن فی الصلاۃ أفضلُ من قراء ۃ القرآن فی غیر الصلاۃ (البیہقی، جلد2 صفحہ413 ) یعنی نماز کے بغیر قرآن پڑھنے کے مقابلے میں، نماز کی حالت میں قرآن پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔
تراویح کیا ہے۔ تراویح یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں حالتِ نماز میںکھڑے ہوکر قرآن کو سنا جائے۔ یہی تراویح کی اصل حقیقت ہے، اور حضرت عائشہ کی مذکورہ روایت سے اِس طریقے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تراویح کا عام رواج نہ تھا۔ بعد کے زمانے میں تراویح کا رواج بڑھ گیا۔ نہ صرف عرب میں، بلکہ ساری دنیا میں، عشاکی نماز کے بعد تراویح کی نماز بڑے پیمانے پر پڑھی جانے لگی۔
تراویح کے اِس عمومی رواج کا ایک مزید سبب یہ تھا کہ بعد کے زمانے میں حفاظتِ قرآن کی سرگرمیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ لوگ بہت زیادہ قرآن کو یاد کرنے لگے۔ اِس ماحول میںفطری طورپر ایسا ہوا کہ رمضان کی راتوں میںتراویح کے دوران پورے قرآن کو پڑھنے اور سننے کا عمومی رواج ہوگیا۔اِس طرح ایسا ہوا کہ پرنٹنگ پریس (printing press)کے دور سے پہلے تراویح، قرآن کی حفاظت کا ایک موثر ذریعہ بنی رہی۔
تراویح میں یہ ہوتا ہے کہ ایک حافظِ قرآن، امام کی جگہ پر کھڑا ہو کر مختلف رکعتوں میں بلند آواز کے ساتھ قرآن پڑھتا ہے۔ اور تمام مقتدی، امام کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں اور وہ خاموشی کے ساتھ قرآن کو سنتے ہیں۔ قرآن کو سنتے ہوئے فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کا ذہن، قرآن کے معانی پر سوچنے لگتا ہے۔ اِس طرح، تراویح گویا کہ اجتماعی تدبر ِ قرآن کا ایک طریقہ ہے۔ تراویح کو اگر صرف ایک سالانہ رسم کے طورپر نہ ادا کیا جائے، بلکہ اُس کو قرآنپر اجتماعی غور وفکر کا موقع سمجھا جائے تو تراویح، امت کے اندر قرآنیفکر کی بیداری کا ایک انقلابی ذریعہ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

ِختم قرآن، یا تدبّر ِقرآن

رمضان کے مہنیے میں ہر جگہ ختم قرآن کا اہتمام کیاجاتا ہے۔ روزانہ تلاوت میں پڑھ کرقرآن کو ختم کرنا، تراویح میں ِقرآن کو ختم کرنا، وغیرہ۔ اِس کی آخری صورت وہ ہے جس کو ’شبینہ‘ کہاجاتا ہے، یعنی ایک رات میں تراویح کے دوران پورے قرآن کو ختم کرنا۔ اِس قسم کا ختم قرآن یقینی طورپر رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں موجود نہ تھا۔ یہی واقعہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہ صرف ایک بدعت ہے، نہ کہ کوئی مطلوب اسلامی عمل۔
حدیث سے ثابت ہے کہ بدعت کے ذریعے کبھی خیر کا ظہور نہیںہوسکتا (مسند احمد، جلد 4 ، صفحہ 105) ۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیامیں رمضان کے مہینے میں قرآن کو ختم کرنے کی دھوم ہوتی ہے، لیکن کہیں بھی اِس قسم کا ختم قرآن، لوگوں کے اندر قرآنی اسپرٹ کو زندہ کرنے کا ذریعہ نہیںبنتا۔ قرآن کی سورہ نمبر 38 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کتاب أنزلناہ إلیک مبارک لیدّبّروا اٰیاتہ ولیتذکر اولوا الألباب (صٓ: 29 ) یعنی قرآن ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اُس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اُس سے نصیحت حاصل کریں۔
اِس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد انسانی عقل کو ایڈریس کرنا ہے، تاکہ انسان سوچے اور وہ اُس کے گہرے معانیتک پہنچ سکے۔ اِس طرح کی آیتیں قرآن میں کثرت سے ہیں، لیکن سارے قرآن میں کوئی ایک آیت بھی ایسی موجود نہیں جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ تم اُس کے الفاظ کو دہرا کر اُس کو ختم کرتے رہو اور کم سے کم مدت میں قرآن کو ختم کرکے اُس کا جشن مناؤ۔
رمضان کا مہینہ، قرآن پر غور کرنے کا مہینہ ہے، نہ کہ اس کے الفاظ کو تیز رفتاری کے ساتھ دہرا کر اُس کو ختم کرنے کا مہینہ۔ قرآن ، انسان کے لئے ایک ربانی غذا ہے، نہ کہ محض لسانی ورزش کا ذریعہ۔ یہ قرآن کی تصغیر (underestimation) ہے کہ اُس کو شبینہ جیسی خود ساختہ رسموں کا موضوع بنادیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

روزہ: خدا کی یاد کا ذریعہ

قرآن کی سورہ نمبر 14 میںاللہ تعالی نے انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: واٰتاکم من کلّ ما سألتموہ (إبراہیم: 34 ) یعنی اللہ نے تم کو وہ سب کچھ دیا جس کا تم نے اُس سے سوال کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی فطرت اپنی تخلیق کے اعتبار سے جن جن چیزوں کی طالب تھی، وہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو کامل طورپر عطا کردیں۔
اب ایک مومن کا تصور کیجیے۔ روزہ کے مہینے میں اُس نے اپنا پورا دن بھوک، پیاس میں گزارا۔ اس کے بعد شام ہوئی اور افطار کا وقت آیا، تو اس کے سامنے کھانے اور پینے کی چیزیں رکھی گئیں، اُن کو دیکھ کر مومن کو قرآن کی مذکورہ آیت یاد آئی۔ اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ اس نے کہا کہ —خدایا، تو نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے کہ تو نے انسان کو وہ سب کچھ دیا جس کا اس نے تجھ سے سوال کیا۔ یہ تیری رحمت کا اظہار ہے اور یقینا اِس رحمت میں انسانی فطرت کا کوئی سوال ایسا نہیں ہو سکتا جو پورا نہ ہوا ہو۔
خدایا، انسان کی فطرت نے پانی مانگا، تو نے اُس کو پانی عطا کیا۔ انسان کی فطرت نے کھانا مانگا، تونے اس کو کھانا عطاکیا۔ انسان کی فطرت نے ہوا او ر روشنی کا سوال کیا، تو نے اس کو ہوا اور روشنی عطا فرمائی۔ اِسی طرح، مادّی ضرورت کی تمام چیزیں تو نے انسان کو بھر پور طور پر عطا فرمائیں۔
خدایا، انسانی فطرت اپنی تخلیق کے اعتبار سے، اِسی طرح ایک اور چیز کی طالب ہے، اور وہ ہے تیری غیر مادّی رحمتیں۔ وہ یہ کہ انسان گناہ کرے اور تو اس کو معاف کردے۔ انسان سے کوتاہیاں سرزد ہوں اور تو اُن کی تلافی فرمائے۔ انسان صراطِ مستقیم سے بھٹک جائے اور تو اس کو دوبارہ صراطِ مستقیم پر قائم کردے۔ انسان اپنے عمل کے اعتبار سے جنت کا مستحق نہ ہو، لیکن تو اس کو اپنی رحمتِ خاص سے جنت میں داخلہ عطافرمادے—یہ اللہ کی رحمت سے بعید ہے کہ وہ انسانی فطرت کی مادّی طلب کو پورا کرے اور وہ اس کی فطرت کی غیر مادّی طلب کو پورا کیے بغیر چھوڑ دے۔
واپس اوپر جائیں

روزہ اور اعتکاف

رمضان کے مہینے میں، عام طورپر آخری عشرہ میں، مسجد کے اندر اعتکاف کیاجاتا ہے۔ جو لوگ اعتکاف کرتے ہیں، وہ اِن دنوں میں دوسرے تعلقات کو منقطع کرکے مسجد میں بیٹھ جاتے ہیں۔ناگزیر انسانی ضرورت کے سوا، وہ کسی اور مقصد سے باہر نہیں نکلتے۔ مسجد میں خلوت نشیں ہوکر ، وہ اپنا زیادہ وقت عبادت اور ذکر اور دعا اور تلاوتِ قرآن میں گزارتے ہیں۔
اعتکاف کا لفظی مطلب — خلوت نشینی (seclusion) ہے۔ یہ اعتکاف کس لیے کیا جاتا ہے۔ حدیث میں اعتکاف کرنے والے کے بارے میں آیا ہے کہ: ہو یعتکف الذُّنوب ( مشکاۃ المصابیح ، رقم : 2108 ) یعنی وہ گناہوں سے اعتکاف کرتا ہے۔ گناہوں سے اعتکاف کرنے کا مطلب کیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے محدث ناصر الدین الالبانی (وفات : 1999 ) نے لکھا ہے کہ : أی یحتبس عن الذّنُوب (مشکاۃ، جلد 1 ، صفحہ 650 ) یعنی وہ اپنے آپ کو گناہوں سے روک لیتا ہے۔ اعتکاف کا مطلب سادہ طور پر صرف گناہ سے رکنا نہیںہے، بلکہ روزے کی اسپرٹ کو بھر پور طورپر اپنانے کے لیے اپنے آپ کو خلوت نشیں بنا لینا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اعتکاف کا مطلب ہے— اپنے آپ کو مواقعِ گناہ سے ہٹا کر پوری طرح عملِ خیر میں مشغول کرلینا۔
اِس پر غور کرتے ہوئے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اعتکاف کا اصل مقصد اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچانا ہے۔ گناہ خود بھی ایک قسم کا ڈسٹریکشن ہے۔ فطرت کی صراطِ مستقیم سے ہٹنا، آدمی کو گناہ کی طرف لے جاتا ہے۔ اعتکاف ایک خصوصی تدبیر ہے جس کے ذریعہ آدمی چند دنوں کے لیے مجبوری کی حالت پیدا کرکے اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچاتا ہے، تاکہ وہ بعد کے دنوں میںاختیارانہ طورپر اپنے آپ کو ہر قسم کے ڈسٹریکشن سے بچا کر صراطِ مستقیم پر قائم رہنے والا انسان بناسکے۔
ترک واختیار کایہ معاملہ پوری زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس طریقے کو اختیار کیے بغیر، کوئی شخص اپنی زندگی کو اسلامی زندگی نہیں بنا سکتا۔ روزے کے ذریعے آدمی کے اندر یہی اسپرٹ پیدا کرنا مقصود ہے۔
اعتکاف بظاہر اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لیے خاص کرنے کا نام ہے۔ لیکن اسلام میں عبادت اور رَہبانیت (Monasticism) میں فرق کیا گیاہے۔ اسلام کے مطابق،رہبانیت ایک قسم کا غلو ہے اور غلو اسلام میں جائز نہیں (لاغلو فی الإسلام)۔ایک صحابی ٔ رسول کا حسب ذیل واقعہ اِس معاملے میں شریعت کی صحیح روح کو بتاتا ہے:
طَبرانی اور بیہقی نے حضرت عبد اللہ بنِ عباس کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ روایت کے مطابق، حضرت عبد اللہ بن عباس، مدینہ کی مسجد ِ نبوی میںاعتکاف کی حالت میں تھے۔ اُن کے پاس ایک آدمی آیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ عبد اللہ بن عباس نے کہا: تم مجھ کو افسردہ اور غمگین دکھائی دیتے ہو۔ اُس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول کے چچا زاد بھائی، میرے اوپر فلاں شخص کا حق ہے، اور اِس صاحبِ قبر (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی عزت کی قسم، میںاُس کی ادائیگی پر قادر نہیں۔ عبد اللہ بن عباس نے کہا: کیا میں تمھارے بارے میں اُس آدمی سے بات کروں(أفلا أکلّمہ فیک)۔ اُس شخص نے کہا: ہاں، اگر آپ پسند فرمائیں۔ اِس کے بعد عبد اللہ بن عباس نے اپنے جوتے پہنے اور مسجد سے باہر نکل کر روانہ ہوگئے۔ اُس آدمی نے کہا: شاید آپ بھول گئے کہ آپ اِس وقت حالتِ اعتکاف میں ہیں۔ عبد اللہ بن عباس نے کہا: نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے (اور یہ کہتے ہوئے عبداللہ بن عباس کی آنکھوں میں آنسو آگئے) کہ: مَن مشیٰ فی حاجۃِ أخیہ وبلغ فیہا، کان خیراً لہ من اعتکاف عشْرِ سنین (الترغیب، والترہیب، کتاب الصوم، جلد 2، صفحہ 96) یعنی جو شخص اپنے بھائی کی حاجت براری کے لیے چلا اور اُس نے اُس کے لیے کوشش کی، تو یہ اُس کے لیے دس سال کے اعتکاف سے بہتر ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس کے اِس واقعے سے اسلامی عبادت ا ور اعتکاف کی روح معلوم ہوتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ بوقتِ ضرورت عبادت کے فارم میں ایڈجسٹ مینٹ کیا جائے گا، لیکن عبادت کی روح کو ہر حال میں باقی رکھا جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

عبادت کا اظہار

حضرت نُفیع بن حارث ابوبکرہ الثقفی سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یقولنّ أحدکم إنّی صُمتُ رمضان کُلّّہ، وقمتہ کلّہ (سنن أبی داؤد، کتاب الصّوم) یعنی تم میں سے کو ئی شخص ہر گز یہ نہ کہے کہ میں نے ماہِ رمضان کے پورے روزے رکھے، اور میں نے رمضان کی تمام راتوں میں قیام کیا۔ اِس حدیث کو بیان کرنے کے بعد راوی نے کہا: لا أدری، أَخَشِی التزکیۃَ علیٰ أمتہ، أوقال: لا بُدّ مِن نومٍ أو غفلۃ (مسند احمد، جلد5، صفحہ 48 ) یعنی میںنہیں جانتا کہ آپ نے ایسا اپنی امت پراُس کے اظہارِتزکیہ کرنے کے خوف سے کہا، یا نیند یا غفلت کے خوف سے۔
اِس حدیث کا مطلب یہ نہیںہے کہ رمضان میں تمام روزے رکھنا آدمی کے لیے ضروری نہیں ہے، یا قیامِ لیل ضروری نہیں۔ اِس حدیث میں فوکس حقیقتاً خود صیام اور قیام پر نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے سامنے اپنے صیام اور قیام کا اظہار کرنے پر ہے۔ عبادت کے بارے میں اِس قسم کا اظہار، اخلاص کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔آدمی جب خداوند ِ ذوالجلال کی عبادت کرتا ہے تو اس کے اندر عجز کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ عظمتِ خداوندی کے احساس کی بنا پر اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس کایہ احساس پورے معنوں میں حقیقی ہوتا ہے، نہ کہ مصنوعی۔
ایک آدمی اگر لوگوں کے سامنے یہ کہے کہ — الحمد للہ میرے تمام روزے پورے ہوئے، ماشاء اللہ میںنے رمضان کی تمام راتوں میں قیام کیا، تو یہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ کہنے والے نے عبادت کو صرف اس کے فارم کی سطح پر پایا ہے، نہ کہ اسپرٹ کی سطح پر۔ عبادت کا فارم چوں کہ ایک معلوم چیز ہوتی ہے، اِس لیے اس کے فارم کے بارے میں ایسا کہا جاسکتا ہے۔ لیکن عبادت کی روح ایک داخلی چیز ہے، اس کاحقیقی علم اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں۔ اس لیے جس شخص نے عبادت کو اس کی اسپرٹ کی سطح پایا ہو، وہ ہمیشہ اپنی عبادت کے بارے میں اندیشے میں مبتلا رہے گا۔ اس کو یہ احساس ہوگا کہ معلوم نہیں، خدا کے نزدیک میری عبادت مطلوب عبادت تھی یا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

حالتِ محرومی کی دریافت

حضرت ابو ذر غفاری سے ایک طویل روایت نقل ہوئی ہے۔ یہ حدیث ِ قُدسی ہے۔ اس حدیث کا ایک حصہ یہ ہے: یا عبادی، کلّکم جائعٌ إلاّ من أطعمتُہ، فاستطْعِمُونی أُطْعِمْکم (صحیح مسلم، کتاب البرّ، باب: تحریم الظلم) یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے بندو، تم میں سے ہر شخص بھوکا ہے، سوا اُس شخص کے جس کو میںکھلاؤں۔ پس تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تم کو کھانا دوں گا۔
اِس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ عین وہی بات ہے جو روزے سے مطلوب ہے۔ روزے کا مقصد آدمی کے اندر یہ زندہ شعور پیدا کرنا ہے کہ رزق کا دینے والا صرف خدا ہے، خدا اگر رزق نہ دے تو کہیں اور سے انسان کو رزق ملنے والا نہیں۔
روزے میں یہ ہوتاہے کہ آدمی صبح سے شام تک اپنے آپ کو کھانے سے دور رکھتاہے۔ اِس طرح، وہ اِس حقیقت کا تجربہ کرتا ہے کہ وہ خود رزق کا مالک نہیں۔ اِس کے بعد شام کو جب اس کے سامنے کھانا آتا ہے، تو وہ اس کو خدا کی طرف سے دیا ہوا رزق سمجھ کر کھاتا ہے۔ اُس وقت وہ یہ کہہ اٹھتا ہے کہ— خدایا، میں بھوکا تھا، تیرا شکر کہ تو نے مجھے کھانا دیا اور اِس طرح اپنی رحمتِ خاص سے میری محرومی کی تلافی کا انتظام فرمایا۔
رمضان کے مہینے میں دن کا وقت آدمی کو اُس کے محروم ہونے کا تجربہ کراتا ہے، اور رات کا وقت اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے کا تجربہ۔ اِس دنیا کا نظام اِس طرح بنا ہے کہ بظاہر یہاں ایک کے دینے سے دوسرے کو ملتا ہے۔ لیکن صاحبِ معرفت انسان وہ ہے جو اِس ظاہر سے اوپر اٹھ جائے، وہ بظاہر انسان کی طرف سے ملنے والی چیز کو خدا کی طرف ملنے والی چیز سمجھنے لگے۔ جو شخص اِس حالتِ احتیاج کو دریافت کرے، وہی وہ انسان ہے جس کو حقیقی روزہ ملا، اس کا روزہ اس کے لیے رحمتِ الٰہی کے دروازے کھولنے کا ذریعہ بن گیا۔
واپس اوپر جائیں

حسّاسیت کی سطح پر

غذا انسان کی ایک لازمی ضرورت ہے، لیکن متوازن غذا (balanced diet) کا نام صحیح غذا ہے۔ متوازن غذا وہ ہے جس میں حسب ذیل اجزا شامل ہوں— کاربو ہائڈریٹ، پروٹین، فَیٹ، وٹامن، منرل سالٹ، فائبر:
A balanced diet is one which contains carbohydrate, protein, fat, vitamins, mineral salts and fibre in the correct proportions.
اگر آپ غذا کے موضوع پر کوئی کتاب پڑھیںاور اُس سے متوازن غذا کا علم حاصل کرکے اپنی فہرستِ طعام (menu) بنائیںاور اس کے مطابق کھانا کھائیں، تو یہ علم کی بنیاد پر غذا کی دریافت ہوگی۔ لیکن جب آپ بھوک سے تڑپ رہے ہوں اور اِس حالت میں کھانا کھا کر غذا کی اہمیت کو جانیں، تو یہ حساسیت (sensitiveness) کی سطح پر غذا کی اہمیت کو دریافت کرنا ہوتا ہے۔
دونوں صورتوں میںانسان، کھانے کی چیز کو اپنی خوراک بناتا ہے، لیکن دونوں میںاتنا زیادہ فرق ہے کہ پہلی صورت کا مطلب اگر کھانے سے صرف پیٹ بھرنا ہے، تو دوسری صورت کا مطلب کھانے سے معرفتِ خداوندی کا تجربہ حاصل کرنا۔
سچا روزہ، آدمی کو یہی ربانی نعمت عطا کرتاہے سچے روزہ کے ذریعے آدمی، رازقِ حقیقی کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ سچاروزہ کسی آدمی کے لیے غذا کو اعلیٰ معرفت کا ذریعہ بنادیتا ہے۔ عام حالت میں خوراک صرف مادّی خوراک ہے، لیکن روزہ اِس خوراک کو ایک سچے مومن کے لیے کامل معنوں میں ایک روحانی خوراک بنادیتا ہے، ایک ایسی خوراک جو اُس کے لیے رازقِ حقیقی کی دریافت کے ہم معنیٰ بن جائے، جو اُس کو سچائی کے اعلیٰ مقام پر کھڑا کردے۔
جو آدمی حساسیت کی سطح پر غذا کی اہمیت کو در یافت کرے، اُسی کا روزہ روزہ ہے۔ اِس کے بغیر روزہ ایک حیوانی عمل ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں انسانی عمل۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کے زیر حکم ہونے کا تجربہ

روزہ آدمی کو یہ تجربہ کراتا ہے کہ وہ خدائے برتر کے ماتحت ہے۔ روزہ کے دوران آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کے خلاف، اللہ کے حکم کو اپنے اوپر نافذ کرتا ہے۔ اس طرح وہ شعوری طورپر اس حقیقت کا تجربہ کرتا ہے کہ — میں خداوند ِ ذوالجلال کے ماتحت ہوں۔
رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کا یہ سب سے بڑا تجربہ ہے۔اس طرح گویا کہ ایک بھولا ہوا انسان اپنے رب کے بارے میں زندہ شعورحاصل کرتا ہے۔ وہ لمبی غفلت کے بعد اپنے خالق اور مالک کو دریافت کرتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو اپنے ذہن میں تازہ کرتا ہے کہ یہاں ایک عظیم خدا ہے جو میرا معبود ہے اور میںاس کا ایک عاجز بندہ ہوں۔ میںاِس دنیا میں آزاد نہیں ہوں، بلکہ میں ایک عظیم ہستی کے حکم کے ماتحت ہوں۔ مجھے اس عظیم ہستی کی اطاعت کرنا ہے، حتی کہ اس وقت بھی جب کہ اس کی اطاعت کے لئے اپنی خواہشوں کو دبانا پڑے،اپنی آزادی کو ختم کرنا پڑے، اختیار رکھتے ہوئے خود اپنے ارادے سے اپنے آپ کو محکوم بنالینا پڑے—یہ رمضان کے روزہ کا سب سے بڑا پہلو ہے اور اسی کو قرآن میں تقویٰ کہاگیا ہے۔ تقویٰ کا مطلب خدا شناسی (God-consciousness) ہے اور روزہ اس خدا شناسی کو بیدار کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ۔روزے کا عمل جسمانی سطح پر کیا جاتا ہے، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ذہنی اور روحانی سطح پر کیا جانے والا ایک عمل ہے۔ روزہ آدمی کے شعور کو تجربہ بناتا ہے۔ روزہ آدمی کے اندر گہرے احساس کو بیدار کرتاہے۔ روزہ آدمی کے اندر چھپے ہوئے ربانی جذبات کو متحرک کرتا ہے۔ روزہ آدمی کی سوئی ہوئی روح کو جگا کر اس کو خدا سے قربت کا تجربہ کراتا ہے۔ روزہ قادرِ مطلق کے مقابلے میں،اپنے عاجز ِ مطلق ہونے کے واقعاتی ادراک کا سبب بنتا ہے۔
روزہ، آدمی کے قلب و دماغ کی تطہیر کا ذریعہ ہے۔ روزہ متقیانہ زندگی کا ایک سالانہ ریہرسل (rehearsal) ہے۔ روزہ ایک تطہیری کورس ہے، جس سے گزر کر آدمی دوبارہ اُس پاکیزہ فطری حالت پر پہنچ جاتا ہے جب کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔
واپس اوپر جائیں

جذباتِ شکر کی بیداری

حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھ کر شام کو پانی سے افطار کیا تو آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: ذہب الظماء وابتلّت العروق وثبت الأجر إن شاء اللّٰہ (سنن أبی داؤد، کتاب الصیام، باب القول عند الإفطار) یعنی پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہوگئیں اور روزے کا اجر ان شاء اللہ ثابت ہوگیا۔
پانی ایک غیر معمولی قسم کی نعمت ہے۔ پانی پر انسانی زندگی کا انحصار ہے۔ پانی نہیں تو زندگی نہیں۔ مگر عام حالات میں پانی کی اِس خصوصی نعمت کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر ایک آدمی جب روزہ رکھ کر سارے دن پانی کا استعمال نہ کرے اور اُس پر پیاس کا تجربہ گزرے، اُس وقت جب آدمی پانی پیتا ہے تو اس کو محسوس ہوتا ہے کہ پانی کیسی عجیب نعمت ہے۔
اُس وقت آدمی کے تمام احساسات جاگ اٹھتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ کس طرح دو گیسوں کے ملنے سے سیال (liquid)پانی بن گیا۔ اتھاہ مقدارمیں پانی کے ذخیرے زمین کے اوپر جمع ہوگئے، پھر پانی سے زندگی کی تمام ضرورتیں پوری ہوگئیں۔ انھیں میں سے ایک یہ ہے کہ پانی آدمی کی پیاس کو بجھاکر اس کے لیے زندگی کا سبب بنتا ہے۔یہ احساسات جب جاگتے ہیں تو نہ صرف یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی پیاس بجھتی ہے، بلکہ اِسی کے ساتھ شکر ِخداوندی کا ایک دریا آدمی کے اندر رواں ہوجاتا ہے۔
اللہ، انسان کا منعمِ حقیقی ہے۔ اللہ نے انسانوں کو ان گنت نعمتیں عطا کی ہیں۔ ان نعمتوں پر اللہ کا حقیقی شکر ادا کرنا، اللہ کی سب سے بڑی عبادت ہے۔ روزہ کے ذریعہ جب انسان کے اندران نعمتوں کا احساس جگایا جاتا ہے تو آدمی کا شعور بیدار ہوجاتا ہے۔ وہ غفلت سے باہر آجاتا ہے۔ وہ احساسِ نعمت سے سرشار ہوکر حقیقی معنوں میں اللہ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے۔روزہ ،جذباتِ شکر کی بیداری کا ذریعہ ہے۔ انسان ہر وقت انعاماتِ خداوندی کے سمندر میںرہتا ہے، مگر عام حالات میں اس کو ان نعمتوں کا زندہ احساس نہیںہوتا۔ روزہ آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اِن نعمتوں کو ازسرِ نو دریافت کرکے اپنے رب کی اعلیٰ معرفت حاصل کرے۔
واپس اوپر جائیں

روزہ دارانہ زندگی

ایک فارسی شاعر نے روزہ اور رمضان کے بارے میں اپنے تجربات کو اِن الفاظ میں بیان کیاہے— روزے کا مقصد لوگوں کے اندر ریاضت کا مزاجپیدا کرنا تھا، مگر رمضان آیا تو ریاضت کے بجائے، لوگوں کے یہاں کھانے پینے کی دھوم میں اور اضافہ ہوگیا:
تن پروریِ خَلق فُزوں شد، نہ ریاضت جُز گرمی ٔ افطار، نہ دارد رمضاں ہیچ
رمضان کے مہینے میں یہ منظر ہر جگہ دکھائی دیتا ہے، مشرق اور مغرب اور عرب اورعجم کے درمیان اس معاملے میں کوئی فرق نہیں۔ ہر جگہ رمضان کا مہینہ کھانے پینے کی مزید سرگرمیوں کا مہینہ بن گیا ہے۔ایسا کیوںہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ صرف اُن لوگوں کے لیے روزے کا مہینہ بنتا ہے جو سال بھر روزہ دارانہ زندگی (Roza-oriented life)گزار رہے ہوں۔ جو لوگ سال کے بقیہ مہینوں میں غیر روزہ داربنے ہوئے ہوں، ان کے درمیان جب، رمضان کا مہینہ آئے گا تووہ اُسی کلچر میں اضافے کا سبب بنے گا جس کلچر میں وہ اس سے پہلے زندگی گزار رہے تھے۔
آج کل لوگوں کی زندگی کا مقصد یہ بن گیا ہے کہ — خوب کماؤ اور اچھے اچھے کھانے کھاؤ۔ یہی تقریباً تمام لوگوں کی سوچ ہے اور یہی عملی طورپر لوگوں کا کلچر ہے۔ اسی قسم کی زندگی کے وہ پوری طرح عادی بنے ہوئے ہیں، وہ اس کے سوا زندگی کے کسی اور پیٹرن کو جانتے ہی نہیں۔ ایسی حالت میں جب ان کے درمیان رمضان کا مہینہ آتا ہے تو وہ ان کے کھانے پینے کے کلچر کی ایک توسیع کے ہم معنی ہوتا ہے۔ رمضان ان کے اُسی ذوق میں مزید اضافہ کردیتا ہے جس کے وہ اب تک عادی بنے ہوئے تھے۔ یہی سبب ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتاہے تو وہ ان کے لیے صرف افطار اور سحری کی دھوم کے ہم معنیٰ بن جاتا ہے۔ رمضان کا مہینہ اس لیے آتا ہے، تاکہ لوگوں کے اندر سادگی اور قناعت کا مزاج پیداہو۔ لوگوں کا اشتغال انسانوں کے درمیان کم ہو، اور اللہ کے ساتھ ان کے تعلق میں اضافہ ہوجائے، مگر عملاً یہ سب نہیں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ سال بھر روزہ دارانہ زندگی گزاریں، وہی رمضان کے مہینے میں سچے روزے دار بنیں گے۔
واپس اوپر جائیں

روزہ کا تعلق پوری زندگی سے

رمضان کے مہینے کا روزہ کسی قسم کی سالانہ رسم (annual custom) نہیں، وہ ایک زندہ تخلیقی (creative)عمل ہے۔ روزے کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ روزے کا مقصد دراصل یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی روزہ رخی زندگی (Roza-oriented life) بن جائے۔
روزے کی اصل حقیقت خواہشات (desires) پر روک لگانا ہے۔ اسی کو حدیث میں یَدَع شہوتَہ (خواہش کو چھوڑنا) بتایا گیا ہے۔ پیاس ایک خواہش ہے، بھوک ایک خواہش ہے، نیند ایک خواہش ہے،معمول کے مطابق زندگی گزارنا ایک خواہش ہے۔ روزے کے مہینوں میں ان سب خواہشوں پر قانوناً روک لگائی جاتی ہے،تاکہ آدمی اسی طرح اپنی دوسری خواہشوں پر ارادتاً روک لگائے۔ وہ خود اپنے فیصلے کے تحت ایک پابند زندگی گزارنے لگے۔
انسان کی زندگی میں جتنے بھی اعمال ہیں، ان سب میں ففٹی ففٹی کا تناسب ہے، یعنی ففٹی پرسنٹ کسی چیز سے رکنا ہے، اور اس کا ففٹی پرسنٹ کسی چیز پرعمل کرنا۔ اسلامی شریعت میں إلاّ اللّٰہسے پہلے لا إلٰہ آتاہے۔ منفی اور ایجابی پہلو کا یہی تناسب تمام دینی اعمال میں پایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو روزے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنی تمام خواہشات پر بریک لگائے، تاکہ وہ اِس دنیا میں اپنے آپ کو مطلوب اعمال پر قائم کرسکے۔
تمثیل کی زبان میں کہاجائے تو روزے کی حیثیت انسانی زندگی میں انجن میں لگے ہوئے بریک (brake) جیسی ہے۔ بریک گاڑی کے انجن کو قابو میں رکھتا ہے،اسی لیے گاڑی درست طورپر اپنا سفر طے کرتی ہے۔ اگر کسی انجن میں بریک نہ ہو تو انجن درست طورپر کام نہیں کرے گا۔
یہی معاملہ مومن کی زندگی میں روزے کا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ روزے کو اپنی زندگی میں بریک کا مقام دے ، تاکہ وہ خدا کے راستے پر درست طورپر اپنا سفر طے کرسکے۔اُسی آدمی کا روزہ حقیقی روزہ ہے جس کا روزہ اس کے لیے ممنوعاتِ خداوندی کے مقابلے میں بریک کے ہم معنی بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

مسائلِ رمضان

مسائلِ رمضان سے مراد، رمضان یا روزے کے فقہی یا قانونی مسائل ہیں۔ اِن مسائل کا چرچا ہر مسجد اور ہر مدرسے میں ہوتا ہے، اِس بنا پر لوگ عام طورپر روزہ اور رمضان کے فقہی مسائل سے واقف ہوتے ہیں۔ اِسی واقفیت کا یہ نتیجہ ہے کہ لوگ ہر سال رمضان کے مہینے میں آسانی کے ساتھ روزہ رکھتے ہیںاور اُس کے ضروری احکام کی پابندی کرتے ہیں۔ اِس لیے اِن مسائل کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں، البتہ یہاں اس کے کچھ بنیادی پہلوؤں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
روزے کا وقت طلوعِ فجر سے شروع ہوتا ہے اورغروبِ آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے۔ روزہ ہر بالغ عورت اور مرد پر فرض ہے، الا یہ کہ اُس کو کوئی ایسا عذر لاحق ہو جس کو شریعت میںمعتبر ماناگیا ہو۔ روزے کا آغاز نیت سے ہوتا ہے۔ یہ نیت آدمی کو طلوعِ فجر سے پہلے، یا سحری کھانے کے وقت کرناچاہیے۔
رمضان کے مہینے میںاگر کوئی شخص سفر کرے، یا بیمار ہوجائے تو وہ رخصت کے طورپر اُن دنوں میں روزہ ترک کرسکتا ہے۔ لیکن اُس کو رمضان کے بعد چھوٹے ہوئے دنوں کے بقدر روزہ رکھ کر اس کی تکمیل کرنی ہوگی۔ البتہ اگر کوئی شخص بڑھاپے، یا کسی طبّی سبب سے مستقل طورپر معذور ہوجائے اور روزہ رکھنا اُس کے لیے ممکن نہ رہے تو وہ روزہ ترک کردے اور کفارہ کے طورپر مساکین کو کھانا کھلادے، یعنی ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کے دو وقت کے کھانے کا انتظام کرنا۔
شریعت، آدمی کے اوپر کوئی غیر فطری پابندی عائد نہیں کرتی۔ روزے میں دن کے اوقات میں کھانے پینے اور دیگر ممنوعات کے باوجود، رات کے اوقات میں اُس کی اجازت، سحری اور افطار کا وقتجاننے کے لیے کیلنڈر کا پابند کرنے کے بجائے، عام مشاہدے کو بنیاد قرار دینا، اِسی قسم کی چیزیں ہیں۔ جزئی تفصیلات میں بندوں کو گنجائش دیتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے عمومی حدیں واضح فرمادی ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اِن مقرر حدوں کا پوری طرح پابند رہے اور تفصیلی جزئیات میں وہ اُس روش کو اختیار کرے جو تقویٰ کی اسپرٹ کے مطابق ہے۔
واپس اوپر جائیں

انعام کی رات

حضرت ابو ہریرہ کی ایک طویل روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ اِس روایت کا ایک حصہ یہ ہے: یُغفر لہم فی اٰخر لیلۃ من رمضان۔ قیل: یا رسول اللہ، أہی لیلۃ القدر۔ قال: لا، ولکنّ العاملَ إنّما یُوفی أجرہ إذا قضیٰ عملہ (مسند احمد، جلد 2، صفحہ 292) یعنی رمضان کی آخری رات میں روزے دار بندوں اور بندیوں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ کہاگیا کہ اے اللہ کے رسول، کیا اِس رات سے مراد شبِ قدر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ عمل کرنے والا جب عمل کرتا ہے، تو عمل کے پورا ہونے کے بعداُس کو اُس کاپورا اجر دے دیا جاتا ہے۔
اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امتِ محمدی کے وہ افراد جو روزے کی مطلوب اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھیں، مہینے کی آخری رات میں ان کے عمل کا پورا اجر ان کے ریکارڈ میں لکھ دیا جاتاہے ۔ رمضان کے مہینے کی اِس آخری رات کو دوسری حدیث میں ’لیلۃ الجائزۃ‘ (البیہقی) کہاگیا ہے، یعنی انعام کی رات۔ ہر نیک عمل پر اللہ اپنے بندوں کو انعام دیتا ہے۔ رمضان کی عبادت کی اہمیت کی بناپر اس حدیث میں اس کے انعام کا ذکر خصوصی انداز میں کیا گیا۔
عام طورپر ایسا ہوتاہے کہ جب رمضان کا مہینہ ختم ہوجاتا ہے، تو عید سے پہلے کی رات کو لوگ غفلت میں یا تماشے میں گزارتے ہیں۔ وہ اس میں شاپنگ کی دھوم مچاتے ہیں۔ یہ حدیث اِس قسم کی غفلت کے لیے ایک انتباہ (warning) کی حیثیت رکھتی ہے۔انعام کی اِس رات کا بہتر استعمال یہ ہے کہ اُس رات کو زیادہ سے زیادہ دعا اور عبادت میں گزارا جائے، اور پورے مہینے کا محاسبہ کیا جائے، اور نئے سال کی دوبارہ منصوبہ بندی کی جائے۔ اِس رات کو مسرفانہ شاپنگ جیسی چیزوں میں گزارنا، اِس بابرکت موقع کا ضیاع بھی ہے اور اُس کی ناقدری بھی۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ رمضان کے مہینے کو اُس کی مطلوب اسپرٹ کے ساتھ گزاریں، وہ کبھی اِس کا تحمل نہیں کرسکتے کہ رمضان کی آخری رات کو وہ غفلت اور تماشے میں گزار دیں۔ ان کے لیے مہینے کی آخری رات دعا اور عبادت کی رات ہوگی، نہ کہ غفلت کی رات۔
واپس اوپر جائیں

عید الفطر کا دن

رمضان اور روزہ اور عید الفطر کے بارے میں حضرت انس بن مالک سے ایک طویل روایت نقل ہوئی ہے۔ اُس روایت کا ایک حصہ یہ ہے:
’’… فإذا کان یومُ عیدِہم، یعنی یومَ فِطرہم، باہیٰ بہم ملائکتَہ، فقال: ملائکتی، ماجزائُ أجیرٍ وفّیٰ عملَہ۔ قالوا: ربّنا، جزائُہ أن یُوفّیٰ أجرُہ۔ قال: ملائکتی، عبیدی وإمائی قضَوا فریضتی علیہم، ثمّ خرجوا یعُجُّون إلی الدّعاء، وعزّتی وجَلالِی وکَرمی وعُلوّی وارْتفاعِ مکانی لأجیبنَّہم۔ فیقول: ارجعوا فقد غفرتُ لکم، وبدّلتُ سیّئاتکم حسنات۔ قال: فیرجعون مغفوراً لہم۔ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، باب الصیام، فصل فی لیلۃ العید ویومہما)۔
یعنی جب عید کا دن آتا ہے، یعنی عید الفطر کا دن، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے روزے دار بندوں اور بندیوںپر فخر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: اے میرے فرشتو، اُس کی جزا کیا ہے جس نے اپنے عمل کو پورا کردیا۔ فرشتے کہتے ہیںکہ اے ہمارے رب، اُس کی جزا یہ ہے کہ اُس کو اُس کے عمل کا پورا بدلہ دے دیا جائے۔خدا کہتاہے کہ اے میرے فرشتو، میرے بندو ں اور میری بندیوں نے میرے اُس فرض کو ادا کردیاجو اُن پر عائد تھا، پھر وہ نکلے ہیں دعا کے ساتھ مجھ کو پکارتے ہوئے۔ میری عزت اور میرے جلال کی قسم ، میرے کرم ، میرے عُلو ِ شان اور میرے بلند مقام کی قسم، میں ضرور اُن کی پکار کو سنوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: تم لوگ واپس جاؤ، میں نے تم کو بخش دیا اور میں نے تمھارے سیّاٰت کو حسنات میں تبدیل کر دیا۔ پس وہ لوگ اِس طرح لوٹتے ہیں کہ اُن کی مغفرت ہوچکی ہوتی ہے۔
رمضان کے خاتمے کے بعد عید الفطر کا دن ایک عظیم خوش خبری بن کر آتا ہے، ابدی انعام کی خوش خبری۔ یہ ابدی انعام اللہ کے اُن بندوں اور بندیوںکے لیے ہے جو رمضان کے مہینے میں مطلوب روزے کے ذریعے اپنے لیے اُس کا استحقاق ثابت کریں۔
واپس اوپر جائیں