Pages

Tuesday, 1 March 2011

Al Risala | March 2011 (الرسالہ،مارچ)

2

-اللہ سے محبت

3

- جنت کا استحقاق

4

- ہدایت اورضلالت

5

- سب سے بڑی یقین دہانی

6

- گروہی ہدایت

7

- تدبر قرآن

8

- مذہبی مضاہاۃ، سیاسی مضاہاۃ

10

- قومی مذہب

11

- قرآن فاتحِ عالم

12

- جہاد کیا ہے

13

- ابنِ تیمیہ کا موقف

14

- احیائِ اسلام

15

- مسلم تاریخ کے تین دور

16

- امتِ محمدی کی ذمے داری

17

- دعوت، دعا

18

- مطالباتی سیاست کا نقصان

19

- غیر ِ خدا میں جینا

20

- رزرویشن کے بغیر

21

- ڈی کنڈیشننگ کا طریقہ

22

- اتباعِ یہود کا کیس

26

- حق کی تلاش

27

- افرادِ کار کی تیاری

28

- شتمِ رسول کا مسئلہ

32

- تحفظِ نبوت، تحفظِ کارِ نبوت

33

- اعتماد کی اہمیت

34

- کھونے میں پانا

35

- صحیح مشورہ، غلط مشورہ

36

- ایک عام کمزوری

37

- سوال وجواب

38

- خبرنامہ اسلامی مرکز


اللہ سے محبت

قرآن کی سورہ البقرہ میں بتایا گیا ہے کہ اللہ پر ایمان لانے والے، اللہ سے شدید محبت رکھتے ہیں (2: 165)۔ اِس آیت میں محبت ِ الٰہی سے کیا مراد ہے۔ صوفیا اس کو عشقِ الٰہی کے معنی میں لیتے ہیں۔ علماء کا عام طور پر ماننا یہ ہے کہ محبتِ الٰہی سے مراد اطاعتِ الٰہی ہے۔ مگر اِن دونوں تفسیروں میں محبت کا اصل مفہوم نہیں آتا۔ محبت دراصل کسی کے ساتھ نہایت گہرے قلبی میلان کا نام ہے، یعنی :
Strong affection, deep emotional attachment.
اللہ کے ساتھ یہ گہرا قلبی میلان اُس انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے جو اللہ کے اعلیٰ انعامات کو شعوری طور پر دریافت کرے۔ اللہ نے انسان کو پیدا کیا جب کہ اس کا کوئی وجود نہ تھا (19: 9)۔ اللہ نے انسان کو بہترین صورت عطا فرمائی(40: 64) ، اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا (خلق اللہ آدم علی صورتہ)۔ انسان کو اللہ نے رہنے کے لیے زمین دی، جہاں استثنائی طورپر اس کی ضرورت کی تمام چیزیں موجود تھیں، انسان کے لیے اللہ نے جنت کی صورت میں ایک معیاری دنیا (perfect world) بنائی، انسان کے لیے اللہ تعالی ٰ نے ایک معیاری جنت بنائی، جہاں اس کو پورا فل فلمینٹ حاصل ہو۔ اللہ نے انسان کو عقل دی جو حدیث کے مطابق، تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ اکرم واشرف چیز ہے (ما خلق اللہ خلقاً أکرم علیہ من العقل)، اللہ نے انسانوں کے اندر استثنائی طورپر مودَّت پیدا کی جس کی وجہ سے خاندان اور سماج جیسی چیز وجود میں آتی ہے (30: 21) ۔ اِن سب پر مزید یہ کہ اللہ نے انسان کو استثنائی طور پر شعور دیا جس سے وہ انعامات ِ الٰہی کو جانے۔اللہ نے استثنائی طورپر انسان کو احساسِ لذت (sense of pleasure) دیا، جس سے وہ انعامات سے پوری طرح محظوظ ہوسکے۔
اِس طرح کے بے شمار انعامات ہیں جو اللہ نے انسان کو عطا کیے ہیں۔ جب آدمی اِن بے شمار انعاماتِ الٰہی کو سوچتا ہے تو ا س کے اندر وہی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں حبِّ شدید (2: 165) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا استحقاق

قرآن کی سورہ ابراہیم میں ارشاد ہوا ہے: لئن شکرتم لأزیدنکم (14: 7) یعنی اگر تم دنیا میں اللہ کے عطیات پر شکر کروگے تو تم کو آخرت میں خدا کے عطیات دئے جائیں گے۔
حقیقی شکر سب سے بڑا عمل ہے۔ شکر تمام عبادات کا خلاصہ ہے۔ جو آدمی دنیا کی زندگی میں حقیقی معنوں میں شکر گزاری کا ثبوت دے، وہ آخرت میں دوبارہ خدا کی نعمتوں سے سرفراز کیاجائے گا۔ حقیقی شکر کسی آدمی کو جنت کا مستحق بناتا ہے۔ جنت میں صرف اعلیٰ روحیں داخل کی جائیں گی، اور اعلیٰ روح وہ ہے جو حمد اور شکر کی کیفیات سے بنی ہو۔ اِس اعلیٰ روح کو جنت کے ابدی باغوں میں بسایا جائے گا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت والے جب جنت میں داخل کر دئے جائیں گے تو وہ کہیں گے: الحمد للہ الذی أذہب عنا الحزَن(35: 34) یعنی اللہ کا شکر ہے جس نے حزن کو ہم سے دو رکردیا۔
دنیا کی زندگی میں ہر آدمی کا ایک لمحۂ حزن یا زمانۂ حزَن ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ اس حزن (sorrow)سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ جو آدمی اپنے اِس زمانہ حزن کو اور پھر زمانہ فرحت کو دریافت کرے اور پھر وہ یہ کہہ اٹھے کہ خدایا، تونے دنیا میں میرے حزن کو دور کردیا، اِسی طرح تو آخرت میں میرے حزن کو دور کردے۔ جوآدمی سچے احساس کے ساتھ یہ بات کہے تو یہ بات اس کے لیے ان شاء اللہ جنت میں داخلے کا ٹکٹ بن جائے گی۔ دنیا کی نعمتوں کا اعتراف اس کو آخرت کی نعمتوں کا مستحق بنادے گا۔
اِس قسم کا قول کوئی سادہ قول نہیں۔ اِس کے لیے گہری شعوری بیداری درکار ہے۔ جوآدمی اپنے اندر اِس قسم کی شعوری بیداری پیدا کرے، اُسی کے دل سے اِس قسم کے کلمات نکلتے ہیں جو اس کے لیے جنت میں داخلے کا استحقاق بن جائیں۔ گہری شعوری بیداری کے بغیر کسی شخص کو یہ توفیق ملنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ہدایت اورضلالت

قرآن کی سورہ الاعراف میں ارشاد ہوا ہے: وإن یروا سبیلَ الرُّشدِ لا یتخذوہ سبیلاً، وإن یروا سبیل الغیِّ یتخذوہ سبیلاً (7:146) یعنی اُن کا حال یہ ہے کہ اگر وہ ہدایت کا راستہ دیکھیںتو وہ اُس کو نہ اپنائیں گے اور اگر وہ گم راہی کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اپنا لیں گے۔
اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کا تعلق کسی خاص قوم سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اہلِ کتاب گروہ کی حالتِ زوال سے ہے۔ جب کوئی قوم یا امت اِس حال کو پہنچتی ہے تو اس کے اندر زوال یافتہ نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ اُس کا ذہن وہی بن جاتا ہے جس کا ذکر مذکورہ آیت میں کیاگیا۔
ایسی قوم غیر حقیقت پسندانہ افکار وخیالات میں جینے لگتی ہے۔ اس بنا پر ایسے لوگ اس کے درمیان مقبول ہوجاتے ہیں جو ہائی پروفائل(high profile) میں بولتے ہوں، لو پروفائل (low profile) میں بولنے والا آدمی ان کے درمیان مقبول نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ خود احتسابی (introspection) کو پسند نہیں کرتے، البتہ دوسروں کے خلاف بولنا ان کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ پر امن کام ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ اِ س کے برعکس، تشدد اور ٹکراؤ کی باتیں ان کو بہت اپیل کرتی ہیں۔ دوسروں کا خیر خواہ ہونااُن کے لیے اجنبی بن جاتا ہے۔ وہ اُن لوگوں کی باتوں کو بہت شوق سے سنتے ہیں جو انھیں دوسروں کے ظلم اور سازش کی کہانیاں سنائیں۔ ان کو عمل اور جدوجہد سے رغبت نہیں ہوتی، اِس لیے وہ مطالباتی نعروں کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں، وغیرہ۔
یہ سب زوال یافتہ نفسیات کے مظاہر ہیں۔ جو قوم بھی زوال کی حالت کو پہنچ جائے، اس کا انجام یہی ہوگا، خواہ وہ یہود ہوں یا مسلمان۔ زوال یافتہ نفسیات لوگوں کے اندر بے عملی اور جذباتیت کا مزاج پیدا کردیتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو رُشد (ہدایت) کی بات اپیل نہیں کرتی، البتہ غیّ (گمراہی) کی بات کی طرف وہ تیزی سے دوڑتے ہیں۔ ایسے لوگ کبھی خدا کی رحمتوں میں حصہ پانے والے نہیں۔ ایسی قوم کی اصلاح کا آغاز صرف یہ ہے کہ اس کے اندر اپنی حالت پر نظر ثانی کا مزاج پیدا کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی یقین دہانی

قرآن کی سورہ الحجر میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: فاصدع بما تُؤمر وأعرض عن المشرکین۔ إنا کفیناک المستہزئین (15: 94-95) یعنی جس چیز کا تم کو حکم دیاگیا ہے، اُس کو تم واضح طور پر لوگوں کو سنادو، اور مشرکوں سے اعراض کرو۔ ہم تمھاری طرف سے استہزا کرنے والوں کے لیے کافی ہیں۔قرآن کی یہ آیت پیغمبر کے واسطے سے ہر اُس شخص کو خطاب کررہی ہے جو پیغمبر کے طریقے پر دعوت الی اللہ کا کام کرے۔ خدا نے نصرت کا جو خصوصی وعدہ اِس آیت میں پیغمبر سے کیا ہے، وہی وعدہ یکساں طورپر ہر داعی کے لیے بھی ہے۔ جو داعی بھی قرآن میں بتائی ہوئی شرطوں کو پورا کرے گا، وہ اِس وعدۂ الٰہی کا مستحق بن جائے گا، استہزا (mockery) کرنے والوں کا استہزا کچھ بھی اس کے دعوتی مشن کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔
قرآن میں بتائی ہوئی یہ شرطیں دو ہیں —ایک، کسی کمی یا بیشی کے بغیر پیغمبرانہ دعوت پر کھڑا ہونا۔ دوسرے، مخالفین کی منفی باتوں سے مکمل طورپر اعراض کرنا۔ داعی اگر یہ دوشرطیں پوری کردے تو بلاشبہہ وہ مذکورہ نصرتِ الٰہی کا مستحق بن جائے گا۔
نصرت کا یہ معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ جب حق کو اُس کی خالص صورت میں پیش کیا جائے تو لوگوں کو وہ اُن کی فطرت کے عین مطابق نظر آتا ہے۔ لوگوں کا خوداپنا دل گواہی دینے لگتا ہے کہ یہ بلاشبہہ سچائی ہے۔ ایسی حالت میں، داعی اگر مخالفین سے نہ الجھے تو گویا کہ وہ مخاطَبین کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی فطرت کی آواز کو کسی رکاوٹ کے بغیر سنتے رہیں۔ اِس طرح یہ ہوتا ہے کہ داعی جو جواب لوگوں کو دینا چاہتا ہے، وہ زیادہ بہتر طورپر مخاطبین کی خود اپنی فطرت کی طرف سے اُن کو مل جاتا ہے۔ یہی مطلب ہے اِس کا کہ —اگر تم اعراض کرو تو اللہ تمھاری طرف سے استہزا کرنے والوں کے لیے کافی ہوجائے گا۔ یہ داعی کے لیے اُس کے مشن کے سلسلے میں ایک ایسی یقین دہانی (assurance) ہے جس سے بڑی یقین دہانی بلاشبہہ اور کوئی نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں

گروہی ہدایت

قرآن کی سورہ البقرہ میںارشاد ہوا ہے: وقالوا کونو ہوداً أو نصاریٰ تہتدوا، قل بل ملّۃ إبراہیم حنیفاً، وما کان من المشرکین (2:135) یعنی وہ کہتے ہیں کہ یہودی یا نصرانی بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔ کہو کہ نہیں، بلکہ ابراہیم کا دین (اختیارکرو) جو اللہ کی طرف یکسو تھا، اور وہ شریک کرنے والوں میں نہ تھا۔
قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کوئی امت جب اپنے دورِ زوال (de-generation) میں پہنچتی ہے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے۔ ایسی امت ہدایت (guidance) کو گروہ (community) سے وابستہ کردیتی ہے، نہ کہ اصولی تعلیمات سے۔ یہود ونصاریٰ کا یہی حال اپنے دورِ زوال میں ہوا۔ انھوں نے گروہ کو دین کے ہم معنیٰ سمجھ لیا۔ ان کا عقیدہ یہ ہو گیا کہ وہ ایک نجات یافتہ گروہ ہیں، ہدایت کا معیار یہ ہے کہ آدمی اُن کے گروہ کے ساتھ وابستہ رہے۔ مذکورہ آیت میں ملتِ ابراہیم سے مراد دین ابراہیم ہے۔ گویا کہ یہاں تقابل گروہی ہدایت اور اصولی ہدایت کے درمیان کیاگیا ہے۔
اِس اصول کا تعلق صرف قدیم امتوں، یہودونصاریٰ، سے نہیں ہے، بلکہ بعد کی امت، مسلم امت، بھی یکساں طورپر اس کی مخاطب ہے۔ مسلم امت اگر شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھ لے کہ مسلمان اور اسلام دونوں ایک ہیں۔ وہ یہ عقیدہ بنالے کہ صرف گروہی اعتبار سے جو لوگ مسلم جماعت میں شامل ہیں، وہ اپنے آپ ہدایت پر ہیں اور اُن کے لیے نجات یقینی ہے تو یہ عقیدہ بھی اتنا ہی زیادہ غلط ہوگا جتنا کہ یہودیوں اور مسیحیوں کا عقیدہ۔
خدا کا دین ہمیشہ اصول پر قائم ہوتا ہے، یعنی اللہ سے شدید محبت اور اللہ سے شدید خوف۔ جو لوگ اپنی زندگی میں اِس اصول کو پوری طرح اختیار کریں، وہ خدا کے یہاں ہدایت یاب قرار پائیںگے۔ کسی نسلی جماعت یا کلچرل گروہ سے وابستہ ہونا ہدایت یاب ہونے کا ثبوت نہیں۔ ہدایت کا یہی معیار (criterion)ماضی کے لیے بھی ہے اور ہدایت کا یہی معیارحال کے لیے بھی۔
واپس اوپر جائیں

تدبر قرآن

قرآن کی سورہ ص میں بتایا گیا ہے کہ: کتاب أنزلناہ إلیک مبارک لیدبَّروا اٰیاتہ ولیتذکر أولو الألباب (38: 29) یعنی یہ قرآن ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اُس سے نصیحت حاصل کریں۔
اِس آیت میں تدبر سے مراد تفکر ہے۔ تفکر کیا ہے، تفکر دراصل عقل کو استعمال کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو پڑھتے ہوئے اپنی عقل کو کھلا رکھو، کیوں کہ عقلی غور وفکر کے ذریعے ہی کسی کو قرآن سے معنوی نصیحت ملتی ہے، نہ کہ محض لفظی تلاوت سے۔
اِس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی جب قرآن کی تلاوت کرے تو اُس وقت وہ اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اس کی تلاوت کرے۔ اسی طرح جب وہ نماز میں قرآن کا کوئی حصہ پڑھے تو وہاں بھی وہ اپنی عقل و فہم کو کھلا رکھتے ہوئیقرآن کی تلاوت کرے۔
کوئی شخص جب اِس طرح قرآن کی تلاوت کرے گا تو بار بار ایسا ہوگا کہ قرآن کی کوئی آیت یا قرآن کا کو ئی لفظ اس کی عقل کو اسٹرائک (strike) کرے گا۔ ایسے موقع پر آدمی کو چاہیے کہ وہ ٹھہر کر اُس پر غور کرے۔ اِس طرح اس کو قرآن سے نصیحت کی غذا ملتی رہے گی۔
مثال کے طورپر قرآن کو پڑھتے ہوئے یہ آیت آپ کے سامنے آئی: فأثابہم اللہ بما قالوا جنات تجری من تحتہا الأنہار (5: 85) ۔ اِس آیت کو پڑھتے ہوے آپ کو یہ حدیث یاد آئی: مَن قال لا إلٰہ إلا اللہ، دخل الجنۃ ( الطبرانی، رقم الحدیث: 2447 )۔
اس کے بعد آپ نے سوچا کہ دونوں آیتوں میں مطابقت کیا ہے ۔ پھر غور کرنے کے بعد آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ حدیث میں جس ’’قول‘‘ کا ذکر آیا ہے، اس کی تشریح قرآن سے ہوتی ہے، یعنی حدیث میں جس قول پر جنت کا وعدہ کیاگیا ہے، اُس سے مراد قولِ معرفت ہے، نہ کہ محض لفظی قول۔ یہی وہ چیز ہے جس کو تدبر اورتفکر (contemplation) کہاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مذہبی مضاہاۃ، سیاسی مضاہاۃ

یہود ونصاریٰ اپنے دورِ زوال میں جن برائیوں میں مبتلا ہوئے، اُن میں سے ایک برائی وہ ہے جس کو قرآن میں مُضاہاۃ (9: 30) کہاگیا ہے۔ مضاہاۃ کے لفظی معنی مشابہت (imitation) کے ہیں، یعنی غیر دینی طریقے کو دینی نام دے کر اختیار کرلینا۔ مثلاً غیر دینی لوگوں کے یہاں خدا کی پرستش کے بجائے بت کی پرستش کا رواج ہے، اِس سے متاثر ہو کر اس روش کو اختیار کرلینا، مگر اس کو بزرگوں کی پیروی کا نام دے دینا، وغیرہ۔
مضاہاۃ کی ایک صورت وہ ہے جس کو مذہبی مضاہاۃ (religious imitation) کہا جاسکتا ہے۔ بدعت کے تمام طریقے اِسی مذہبی مضاہاۃ کی فہرست میں شامل ہیں۔ بدعت، مجرد بدعت کانام نہیں ہے۔ بدعت در اصل یہ ہے کہ غیر دینی طریقے کو دینی نام دے کر اُس کو اختیار کرلیا جائے۔
موجودہ زمانے میں مضاہاۃ کی ایک اور قسم بہت بڑے پیمانے پر ظاہر ہوئی ہے۔ اس کو سیاسی مضاہاۃ (political imitation) کہاجاسکتا ہے، یعنی سیکولر پارٹیوں اور سیکولر تحریکوں کے طریقے کو اسلامی نام دے کر اس کو اسلامی عمل کے طور پر اختیار کرلینا۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے احتجاج (protest) کے طریقے کو بہت بڑے پیمانے پر اختیار کر لیا ہے۔ یہ بلا شبہہ سیاسی بدعت یا سیاسی مضاہاۃ ہے۔ مثلاً اسلامی مسائل کے نام پر احتجاجی بیانات، احتجاجی مظاہرے، احتجاجی کانفرنسیں، احتجاجی ریلی، احتجاجی دھرنا، احتجاجی نعرے، وغیرہ۔
احتجاج (protest) بلاشبہہ سیکولرزم کا طریقہ ہے، وہ اسلام کا طریقہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مقدس کعبہ کو عملاً بت خانہ بنا دیا گیا تھا، مگر آپ نے اُس پر احتجاج نہیںکیا۔ اِسی طرح تیرہ سالہ مکی دور میں رسول اور اصحابِ رسول پر ہر قسم کے مظالم کئے گئے، لیکن آپ نے اِس پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ دار الندوہ میںآپ کے خلاف بائکاٹ کی تجویزپاس کی گئی، مگر آپ نے اس کے خلاف احتجاج نہیں کیا۔ آپ کو اور آپ کے اصحاب کو اپنے وطن سے نکلنے پر مجبور کیاگیا، لیکن آپ نے اس پر احتجاج نہیں کیا، وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ احتجاج (protest) اپنے آپ میں سر تاسر ایک غیراسلامی طریقہ ہے۔ احتجاج کو خوب صورت نام دے کر اس کو اسلامی نہیں بنایا جاسکتا۔ مثلاً پُر امن احتجاج، دینی احتجاج، اپنے حق کے لیے احتجاج، حکمراں کے ظلم کے خلاف احتجاج، پیغمبر کی شان میں گستاخی کے خلاف احتجاج، عبادت خانے کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج، اسلام کی توہین کے خلاف احتجاج، وغیرہ۔
اِس مضاہاۃ یا مشابہتِ غیر کی نفسیات کیا ہے۔اِس کا جواب قرآن کی اِس آیت میں ملتا ہے: تشابہت قلوبہم (2: 118) یعنی سوچ کی سطح پر مشابہت۔ دور زوال میں حاملِ کتاب امتوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ اُن کے اندر دینِ خداوندی پر مبنی سوچ ختم ہوجاتی ہے۔ خدائی طرزِ فکر ان کے ذہن میں زندہ تصورکے طور پر باقی نہیں رہتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آس پاس کے غیر دینی افکار سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ خدائی ماڈل عملاً اُن کے لیے ایک غیر معلوم چیز بن جاتا ہے۔ وہ غیر خدائی ماڈل کو دینی ٹائٹل دے کر اختیار کرلیتے ہیں۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں مضاہاۃ کی دونوں قسمیں مکمل طور پر آچکی ہیں، مذہبی مضاہاۃ بھی اور سیاسی مضاہاۃ بھی۔ مسلمانوں کے اندر طرح طرح کی جو مبتدعانہ رسمیں ہیں، وہ سب اِس مذہبی مضاہاۃ کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً جنم اشٹمی کی جگہ میلاد النبی، ہنومان چالیسہ کی جگہ قرآن خوانی، وغیرہ۔
موجودہ زمانے کے مسلمان ساری دنیا میں ملی سیاست کے نام سے جو سرگرمیاں جاری کئے ہوئے ہیں، وہ سب کی سب بلا استثنا سیاسی مضاہاۃ کا نتیجہ ہیں۔ ملی سیاست یا اسلامی سیاست کے نام پر موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے بہت بڑے پیمانے پر غیر اسلام کو اسلامائز کررکھا ہے۔
یہ نام نہاد اسلامی سیاست اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہودی سیاست ہے۔ اس کا کوئی فائدہ مسلمانوں کو نہ دنیا میں ملنے والا ہے اور نہ آخرت میں۔ مسلمانوں کے کرنے کا کام دعوت ہے، نہ کہ سیاست۔ مسلمان جب تک مضاہاۃکے یہودی طریقے کو چھوڑ کر دعوت کا طریقہ اختیار نہ کریں، اُس وقت تک وہ خدا کی رحمت سے محروم رہیں گے، دعوت الی اللہ کے بغیر ان کو ہر گز خداکی نصرت ملنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

قومی مذہب

یہود نے اپنے دورِ زوال میں جو روش اختیار کی تھی، اس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: من الذین ہادُوا یحرّفون الکلم عن مواضعہ (4: 46) یعنی یہود میں سے ایک گروہ (یہودی علماء اور قائدین) کلام کو اس کے موقع ومحل سے ہٹا دیتا ہے۔
اس آیت کی تشریح مفسر القرطبی نے اِن الفاظ میں کی ہے: یتأوّلونہ علی غیر تأویلہ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سیاق (context) کو بدل کر کلامِ الٰہی کی تشریح کرتے ہیں۔
اِس معاملے کی ایک مثال اصولی نجات کو گروہی نجات کے ہم معنیٰ بنانا ہے ۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے: وقالوا کونوا ہوداً أونصاریٰ تہتدوا، قل بل ملّۃَ إبراہیم حنیفاً (2: 135) یعنی وہ کہتے ہیں کہ یہودی یا نصرانی بنو تو ہدایت یاب ہوگے۔کہو، بلکہ ابراہیم کے دین کی پیروی کرو۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودکی اصل گمراہی کیا تھی۔ یہود کی اصل گمراہی یہ تھی کہ انھوں نے اصولی دین کو قومی دین کے ہم معنیٰ بنا لیا تھا۔ ایک لفظ میں، اُن کا کیس خدائی مذہب کو ملّی بنانا (communalization of divine religion) تھا۔
یہ دراصل دورِ زوال کا ظاہرہ ہے۔ جب کسی اہلِ کتاب گروہ پر زوال آتا ہے تو اُس کا حال یہی ہوجاتا ہے۔ وہ خدائی مذہب کو اپنی قومی خواہشوں پر ڈھال لیتا ہے۔ وہ خدائی مذہب کی ایسی تاویل کرتا ہے جو اس کے قومی مزاج کے مطابق ہو۔
یہی حال موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا ہوا ہے۔ انھوں نے خود ساختہ تاویل (interpretation)کے ذریعے اصولی نجات کو گروہی نجات کے ہم معنی بنا لیا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا اسلام عملاً قومی اسلام (communalized Islam) بن گیا ہے۔ وہ اسلام کی تعلیمات کو ایسے الفاظ میں بیان کرتے ہیں جو اُن کی ملی خواہشوں کے مطابق ہوں۔ اِس قسم کا خود ساختہ مذہب اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہونے والا نہیں، نہ یہودیوں سے اور نہ مسلمانوں سے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن فاتحِ عالم

خلیفہ ثانی عمر فاروق کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنّ اللہ یرفع بہذا القرآن أقواما ویضع بہ آخرین ( الدارمی، رقم الحدیث: 3365 ) یعنی اللہ اِس قرآن کے ذریعے ایک قوم کو اٹھاتا ہے اور اُسی کے ذریعے وہ دوسری قوم کو گراتا ہے۔ یہ اصول امتِ مسلمہ کی ابتدائی تاریخ میں پوری طرح ایک واقعہ بن چکا ہے۔ مورخین نے عام طور پر اِس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ مثال کے طورپر پروفیسر فلپ ہٹی (وفات:1978 ) نے اپنی کتاب تاریخ عرب (The History of the Arabs) میں تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاری قبائل کے قبولِ اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ — مسلمانوں کے مذہب نے وہاں فتح حاصل کرلی، جہاں اُن کی تلوار ناکام ہوچکی تھی:
The religion of Muslims has conquered, where their arms had failed.
قرآن ایک آئڈیالوجی کی کتاب (book of ideology) ہے۔ اس کے مقابلے میں، تلوار مادی طاقت کی علامت ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ تلوار کے مقابلے میں قرآن زیادہ طاقت ور ہے۔ تلوارکی فتح، مفتوح کے خاتمہ کی قیمت پر ہوتی ہے، جب کہ قرآن آدمی کے دل ودماغ کو مسخر کرکے اس کو آپ کا ساتھی بنا دیتا ہے۔ تلوار کی فتح صرف میدانِ جنگ کی فتح ہے، اور قرآن کی فتح خود انسان کی فتح ، اور جب انسان فتح ہوجائے تو گویا سب کچھ فتح ہوگیا۔
قرآن، خدا کا محفوظ ہدایت نامہ ہے۔ قرآن آدمی کی فطرت کو ایڈریس کرتا ہے۔ قرآن آدمی کی تلاش کا جواب ہے۔ قرآن آدمی کو دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز بتاتا ہے۔ مزید یہ کہ قرآن صرف ایک نظریاتی کتاب نہیں، بلکہ اس کی پشت پر ایک واقعاتی تاریخ موجود ہے جو اس کی تسخیری طاقت کی تصدیق کرتی ہے۔ قرآن نظریہ بھی ہے اور تاریخ بھی۔ اِن باتوں نے قرآن کو ابدی طور پر ایک ناقابلِ تسخیر کتاب بنا دیا ہے۔جو لوگ قرآن کی دعوت کو لے کر اٹھیں، اُن کے لیے کسی اور طاقت کی ضرورت نہیں۔ قرآن اپنے آپ میںاُن کی تمام دعوتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے کافی ہے۔ قرآن فاتحِ انسان بھی ہے اور فاتحِ عالم بھی۔
واپس اوپر جائیں

جہاد کیا ہے

جہاد کیا ہے۔ جہاد کے لفظی معنی کوشش (struggle) کے ہیں۔ اِس میںمبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے، یعنی بہت زیادہ کوشش کرنا۔ قرآن اور حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا لفظ تقریباً اُسی معنی میں استعمال ہوا ہے جس معنی میں آج کل مشن (mission) کا لفظ بولا جاتا ہے۔ مشن کا مطلب ہے — کسی تعمیری مقصد کے لیے سنجیدہ جدوجہد:
Dedicated effort towards a constructive goal.
قرآن میں اِس سلسلے میں یہ آیت آئی ہے: وجاہدوا فی اللہ حق جہادہ، ہو اجتباکم (22: 78) ۔ اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں جہاد کا تعلق اُس مخصوص مشن کے لیے ہے جس کے لیے اہل ایمان کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ مشن شہادت علی الناس (22: 78) کا مشن ہے۔ اس آیت میں شہادت سے مراد دعوت ہے، یعنی خدا کے پیدا کئے ہوئے انسانوں تک خدا کا پیغام پہنچانا۔ یہی دعوت ہے اور یہی دعوتی مشن وہ نشانہ ہے جس کے لیے اہل ایمان کو بھر پور کوشش کرنا چاہیے۔ اپنی زندگی، اپنا وقت، اپنا پیسہ، اپنے وسائل ہر چیز کو اِس مشن میں لگا دینا چاہیے۔
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آ ئی ہے: الجہاد ماضٍ منذ بعثنی اللہ إلی أن یقاتل آخر أمتی الدجال، لا یبطلہ جَور جائر ولا عدل عادلٍ( سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 2532 )
اِس روایت کے مطابق، جہاد سے مراد ایک ایسا عمل ہے جو عادل حکمراں کے زمانے میں بھی جاری رہے۔ ایسا عمل صرف پُرامن دعوتی مشن ہوسکتا ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق، دجال سے جو مقابلہ ہوگا، وہ بھی اسلحہ کے ذریعہ نہیں، بلکہ حجت (argument) کے ذریعہ ہوگا(إن یخرج وأنا فیکم فأنا حجیجہ دونکم)۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاد پرامن دعوتی مشن کا نام ہے۔ دوسری کوئی چیز اس کا صرف اضافی جز (relative part) ہے، نہ کہ حقیقی جز۔
واپس اوپر جائیں

ابنِ تیمیہ کا موقف

موجودہ زمانے کے مسلمان مختلف ملکوں میں مسلّح تحریکیں چلا رہے ہیں۔ یہ تمام تحریکیں غیرحکومتی تنظیموں (NGOs) کے تحت چلائی جارہی ہیں۔ ایسے افراد کو غیر ریاستی ایکٹر (non-state actors) کہاجاتا ہے۔ یہ لوگ اپنی مسلح تحریکوں کے جواز کے لیے ابن تیمیہ کے فتوے کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابن تیمیہ کے زمانے میں تاتاری جارحیت کا مسئلہ پیداہوا تو ابن تیمیہ نے فتوی ٰ دیا کہ مسلمان اُن کے خلاف لڑیں۔اِسی طرح ہم اپنے زمانے کی جارح طاقتوں سے لڑ رہے ہیں۔یہ حوالہ غلط ہے۔ یہ درست ہے کہ ابن تیمیہ (وفات: 728ھ؍1328ء) کے زمانے میں تاتاری حملے کا مسئلہ پیدا ہوا۔ تاتاریوں نے بغداد کے آخری خلیفہ المستعصمکو1258 ء میں ہلاک کردیا۔ اِس کے بعد مسلح تاتاری مسلم شہروں میں پھیل گئے اور بڑے پیمانے پر وہاں قتل وغارت گری کرنے لگے۔ یہ ابن تیمیہ کا زمانہ تھا۔ انھوں نے مصر وشام کے مسلمانوں سے کہا کہ تم لوگ تاتاری جارحیت کا مقابلہ کرو۔ مگر ابن تیمیہ کا طریقہ یہ نہیں تھا کہ وہ غیر ریاستی عوام کو تاتاریوں سے لڑنے کا فتویٰ دیں۔ اُس وقت اب بھی شام میں مسلم حکمراں ابن النحاس اور مصر کا حکمراں سلطان محمد بن قلاؤون موجود تھا۔ ابن تیمیہ دونوں مسلم حکمرانوں سے ملے اور دونوں کو تاتاریوں کی جارحیت کے خلاف جنگ کے لیے ابھارا۔ اِسی کے ساتھ انھوں نے مصر وشام کی مسجدوں میں تقریریں کرکے مسلم عوام سے کہا تم لوگ اِس دفاعی مہم میں ان مسلم حکمرانوں کا ساتھ دو (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر، جلد 14 )۔
حقیقت یہ ہے کہ جارح کے خلاف مسلح دفاع صرف ریاست کا کام ہے، وہ عوام کا کام نہیں (الرحیل للإمام)۔ ابن تیمیہ نے اُس وقت کے سلطان سے تاتای جارحیت کا دفاع کرنے کے لیے کہا تھا۔انھوںنے یہ نہیں کہا تھا کہ عوام بذاتِ خود لڑنا شروع کردیں، جیساکہ موجودہ زمانے کے مسلمان کررہے ہیں۔ اسلام میں غیر ریاستی تنظیموں کو صرف پر امن جدوجہد کا حق ہے، مسلح جدوجہد کا حق ہر گز اُن کو حاصل نہیں۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے اور یہی ابن تیمیہ کا موقف بھی۔
واپس اوپر جائیں

احیاءِ اسلام

موجودہ زمانے میں احیائِ اسلام سے کیا مراد ہے۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو قدیم روایتی زمین کے مقابلے میں جدید سائنسی زمین پر کھڑا کیا جائے، تاکہ اسلام آج کے ذہن کے لیے قابلِ فہم ہوسکے، وہ لوگوں کو عصر حاضر سے ریلیونٹ (relevant) نظر آئے۔
موجودہ زمانے میں اسلام کے احیاء کے لیے جو کام مطلوب ہے، اُس کام کو بنیادی طورپر حسب ذیل تین عنوانات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
1 ۔ مبنی بر ذہن روحانیت(mind-based spirituality)
2 ۔ مبنی بر عقل استدلال (reason-based argument)
3۔ مبنی بر امن عمل(peace-based activism)
مبنی بر ذہن روحانیت سے مراد یہ ہے کہ روحانیت یا تزکیہ کو مراقبہ (meditation) کے بجائے فکر وتدبر پر قائم کرنا۔مراقبہ قلب کو مرکز بنا کر کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، تدبر عقلی غور وفکر کی سطح پر انجام دیا جاتا ہے۔ اس لیے قرآن میں تفکر اور تدبر پر بہت زیادہ زور دیاگیا ہے۔
مبنی برعقل استدلال سے مراد وہی چیز ہے جس کو سائنسی استدلال کہا جاتا ہے، یعنی قیاسات وتمثیلات کے بجائے معلوم حقائق کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر ثابت کرنا۔ یہی موجودہ زمانے میں استدلال کا علمی طور پر مسلّم طریقہ ہے۔مبنی برامن عمل کا مطلب ہے تشدد سے مکمل طورپر بچتے ہوئے صرف پر امن ذرائع (peaceful means)سے اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کرنا۔ یہی موجودہ زمانے میں مقصد کے حصول کا زیادہ موثر طریقہ ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلّح طریقہ تخریب کے لیے کارگر ہوسکتاہے، مگر تعمیر کے لیے وہ کارگر نہیں۔اِس معاملے کی تفصیل کے لیے ہمارے یہاں کی مطبوعہ کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔ مثلاً انسان کی منزل، مذہب اور سائنس، امنِ عالم اور پیغمبر امن (Prophet of Peace) ، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

مسلم تاریخ کے تین دور

تعدیل (equation) کے اعتبار سے، مسلم تاریخ کے تین دور ہیں — پہلا دور وہ ہے جو رسول اور اصحاب رسول کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرا دور وہ ہے جب کہ مسلمانوں نے دنیا میں اپنا ایمپائر بنا لیا تھا۔ یہ دور آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر سترھویں صدی عیسوی تک جاری رہا۔ تیسرا دور وہ ہے جس کو نوآبادیاتی دور (Colonial Period)کہاجاتا ہے۔ یہ دور اٹھارھویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔ یہ دور بیسویں صدی کے وسط میں عملاً ختم ہوگیا، لیکن نفسیاتی اعتبار سے، موجودہ زمانے کے مسلمان اب بھی اسی کے اثرات کے تحت جی رہے ہیں۔
مسلم تاریخ کے پہلے دور میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان جو تعدیل (equation) تھی، وہ داعی- مدعو کی تعدیل تھی۔ اِس دور میں مسلمان مثبت نفسیات میں جیتے تھے۔ دوسری قومیں ان کے لیے خیر خواہی (نُصح) کا موضوع بنی ہوئی تھیں۔ دوسرے دور میں یہ تعدیل بدل گئی۔ اب مسلمانوں اور دوسری قوموں کے درمیان حاکم -محکوم کی تعدیل قائم ہوئی۔ اِس تعدیل کے دور میں مسلمان احساسِ برتری کا شکار ہوگئے، وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنے آپ کو برتر سمجھنے لگے۔ مسلم تاریخ کا تیسرا دور وہ ہے جب کہ نو آبادیاتی طاقتوں نے مسلمانوں کے سیاسی ایمپائر کا خاتمہ کردیا۔ اب مسلمانوں کے درمیان تعدیل کا تیسرا دور آیا۔ اب مسلمان اپنے آپ کو مظلوم اور دوسری قوموں کو ظالم سمجھنے لگے۔
اِس تیسرے دور کی آمد پر مسلمان عام طو رپر منفی نفسیات کا شکار ہوگئے۔ اِس د ور میں مسلمانوں کے اندر تلخی اور شکایت اور احتجاج (protest) کا مزاج پیدا ہوگیا۔ یہ مزاج بڑھتے بڑھـتے اُس انتہا پسندانہ رد عمل تک پہنچ گیا جس کو تشدد (violence) کہا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان عام طور پر اِسی تیسرے دور میں جی رہے ہیں۔ یہ دور، دوسرے لفظوں میں، نفسیاتی خودکشی (psychological suicide)کا دور ہے۔ آج سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کو اِس مہلک نفسیات سے باہر نکالا جائے۔
واپس اوپر جائیں

امتِ محمدی کی ذمے داری

اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ ہر زمانے کے انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچتا رہے (25: 1) ۔ پیغام رسانی کا یہ سلسلہ آدم سے لے کر پیغمبر آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جاری رہا ۔ اِس پیغام رسانی کا مقصد یہ تھا کہ جن لوگوں کے اندر حق کی طلب ہے، وہ حق کو پالیں۔ اور جو لوگ حق کے طالب نہیں، اُن کا منکر ہونا ایک ثابت شدہ واقعہ بن جائے۔ اِسی بنیاد پر آخرت کی عدالت میں دونوں فریقوں کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ کیا جائے گا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ساتویں صدی کے رُبع اول میںآئے۔ آپ آخری پیغمبر تھے۔ آپ کے بعد اللہ کی طرف سے کوئی اور پیغمبر آنے والا نہیں (33: 40) ۔ ختمِ نبوت کا یہ معاملہ کسی پُر اسرار سبب سے نہیں ہوا، اس کا سبب صرف یہ تھا کہ خدا کا کلام قرآن محفوظ ہوگیا (15:9) ، اور اب یہ کافی ہوگیا کہ ہر زمانہ اور ہر نسل کے لوگوں تک اِس محفوظ قرآن کو پہنچا دیا جائے۔ گویا کہ اب قرآن، پیغمبر کا قائم مقام ہے۔ ختم نبوت کے بعد تحفظِ نبوت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ نبوت کو مسلسل ہر دور میں جاری رکھنے کا مسئلہ ہے۔ اِس کی عملی صورت یہ ہے کہ قرآن کا ترجمہ ہر زبان میں چھاپ کر لوگوں تک پہنچایا جائے اور مسلسل پہنچایا جاتا رہے۔
یہی امتِ محمدی کی اصل ذمے داری ہے۔ امتِ محمدی کا اللہ کی نظر میں امتِ محمدی قرار پانا، اِسی پر موقوف ہے کہ پیغام رسانی کا یہ کام کسی وقفے کے بغیر ہر دورِ تاریخ میں جاری رہے۔ پیغامِ نبوت کے اِس تبلیغِ عام کے مشن میںامتِ محمدی کے ہر فرد کو شریک ہونا ہے، حتی کہ اگر کوئی شخص علم نہ رکھتا ہو تو وہ قرآن کے چھپے ہوئے ترجمے حاصل کرکے اُسے لوگوں تک پہنچائے۔ ملت کے کسی فرد کا امتِ محمدی کا فرد ہونا، اِسی دعوتی کام کی ادائیگی پر موقوف ہے۔ جو لوگ اِس دعوتی کام کو انجام نہ دیں، وہ بلا شبہہ ایک انتہائی سنگین خطرہ مول لے رہے ہیں، وہ یہ کہ حشر کے میدان میںاُن سے یہ کہہ دیاجائے کہ تم امتِ محمدی سے الگ ہوجاؤ، امت محمدی سے تمھارا تعلق نہیں۔امتِ محمدی کا فرد ہونے کے لیے جو چیز لازمی ہے، وہ خود ساختہ محمدی عشق نہیں ہے، بلکہ محمدی مشن میں اپنے آپ کو شریک کرنا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت، دعا

ہمارے مشن کے ایک صاحب جو دعوتی کام کرتے ہیں، انھوں نے پوچھا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایک شخص تک دعوت پہنچانا چاہتے ہیں، لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص دعوت کو قبول کرنے والا نہیں ہے۔ ایسی حالت میں ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ دعوت کا فارمولا یہ ہے — جہاں دعوت کے مواقع ہوں، وہاں دعوہ ورک (Dawah work) ، اور جہاں بظاہر دعوت کے مواقع دکھائی نہ دیں، وہاں دعا ورک (Dua work)
لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب ان کا کوئی ذاتی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں اور مسئلے کے حل کے لیے خدا سے دعا کرتے ہیں، لیکن دعوتی کام (Dawah work) کے معاملے میں وہ دعا کی اہمیت سے بے خبر ہیں۔ حالاں کہ دعا کا تعلق جس طرح دوسری تمام چیزوں سے ہے، اُسی طرح اس کا تعلق دعوت سے بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دعا، دعوت کے لیے لازمی جز کی حیثیت رکھتی ہے۔ دعا کے بغیر دعوت کا کام موثر طورپر انجام نہیں دیا جاسکتا۔
دعا کا تعلق صرف مدعو سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق داعی سے بھی ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ مسلسل طورپر خود اپنے لیے دعا کرتا رہے۔ وہ اللہ سے برابر موثر دعوت کی توفیق مانگتا رہے۔ وہ بار بار اِس کے لیے دعا کرتا رہے کہ اللہ اس کے لیے ایسے اسباب مہیا کردے جس کے ذریعے وہ دعوت کاکام زیادہ بہتر طورپر انجام دے سکے۔
یہی معاملہ مدعو کا ہے۔ داعی اپنے مدعو کا بہت زیادہ خیر خواہ ہوتا ہے۔ خیر خواہی کا یہ جذبہ اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے مدعو کے حق میں برابر دعا کرتا رہے۔ دعوت کو قبول کرنا ہمیشہ اللہ کی توفیق سے ہوتا ہے۔ اللہ کی توفیق ہی سے کسی انسان کا دل حق کو قبول کرنے کے لیے کھلتا ہے۔ اللہ کی توفیق ہی سے کسی کی کنڈیشننگ ٹوٹتی ہے۔ اللہ کی توفیق ہی سے یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص دعوت پر سنجیدگی سے غور کرے۔ یہ تمام چیزیں تقاضا کرتی ہیں کہ داعی ہمیشہ اپنے مدعو کے لیے اللہ سے دعا کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

مطالباتی سیاست کا نقصان

پچھلے سو سال کے درمیان مسلمانوں نے مختلف ملکوںمیں بہت سی سیاسی تحریکیں چلائیں۔ اِن تمام تحریکوں کو اگرایک نام دینا ہو تو وہ یہ ہوگا — مطالباتی سیاست، یعنی اپنے حقوق (rights) کو حاصل کرنے کے لیے مطالبہ (demand) اور احتجاج (protest) کی بنیاد پر عوامی تحریکیں چلانا، خواہ پر امن انداز میں یا تشدد کے انداز میں۔ اِن مطالباتی تحریکوں سے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو کوئی مثبت فائدہ نہیں ہوا، البتہ اِس کے نتیجے میں اُن کو ایسے نقصانات ہوئے جن کی تلافی بظاہر ممکن نہیں۔
مطالباتی سیاست، فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، اِس دنیا میںکسی فرد یا قوم کو جو کچھ ملتا ہے، وہ صرف استحقاق (deservation) کی بنیاد پر ملتا ہے۔ مطالبہ اور شکایت اور احتجاج جیسی تحریکوں کے ذریعے اِس دنیا میں کسی کو کچھ ملنے والا نہیں۔ اِس قسم کی کوئی تحریک صرف اپنے نقصان میں اضافہ کے ہم معنی ہے، نہ کہ نقصان کو دور کرنے کے ہم معنیٰ۔
دوسرا اس سے بھی زیادہ بڑا نقصان یہ ہے کہ مطالباتی سیاست نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو ایک عظیم نعمت سے محروم کردیا۔ یہ نعمت دعا ہے، یعنی حقیقی جذبۂ طلب کے تحت پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ سے مانگنا۔ مطالباتی سیاست اِس قسم کی دعا کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے(33: 4) ، اِس لیے جب آپ انسان کو نشانہ بنا کر اس کے مقابلے میں مطالباتی تحریک چلائیں تو فطری طور پر یہ ہوتا ہے کہ آپ کے اندر خدا سے مانگنے کی اسپرٹ پیدا نہیں ہوتی۔ ایسے انسان کے پاس خدا سے مانگنے کے لیے صرف رٹے ہوئے الفاظ باقی رہتے ہیں، اور رٹے ہوئے الفاظ کا نام دعا نہیں۔ دعا کی اسپرٹ (spirit)یہ ہے کہ— آدمی، خدا کو دینے والے (giver) کی حیثیت سے دریافت کرے اور پھر دل کی گہرائیوں کے ساتھ وہ خدا کے سامنے طالب بن جائے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اِس قسم کی حقیقی دعا سے محروم ہیں، اور اِس کا سب سے بڑا سبب یہی مطالباتی سیاست ہے۔
واپس اوپر جائیں

غیر ِ خدا میں جینا

موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا کیس ایک لفظ میں یہ ہے کہ —وہ خدا میں جینے والے نہیں بنے، وہ غیر خدا میں جی رہے ہیں۔ یہی واحد وجہ ہے جس نے تمام مسلمانوں کو منفی سوچ (negative thinking) میں مبتلا کردیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں منفی سوچ اتنی زیادہ عام ہے کہ مشکل ہی سے اس میں کسی عورت یا مرد کا استثنا نظر آئے گا۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا لکھنا اور بولنا، سب کا سب ان کی منفی سوچ کا اظہار ہے۔
منفی سوچ کا سبب کیا ہے۔ منفی سوچ دراصل شکایت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ ہر مسلمان کسی نہ کسی کے خلاف شکایت کا جذبہ لئے ہوئے ہے —فلاں نے زمین پر قبضہ کرلیا، فلاں نے اپنی فوجیں مسلم ملک میں اتار دیں، فلاں نے اسلام کی بے حرمتی کردی، فلاں نے ہم کو انصاف نہیں دیا، فلاں ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے، وغیرہ۔ہر مسلمان اِس قسم کی شکایتوں میں جیتا ہے۔ اِنھیں شکایتوں نے ہر مسلمان کو منفی سوچ میں مبتلا کردیا ہے۔ مگر منفی سوچ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ منفی سوچ کا مطلب دراصل یہ ہے کہ —انسان نے کسی اور چیز کو وہ اہمیت دے دی جو اہمیت اُسے خدا کو دینا چاہیے:
Making one's concern something else other than God.
خدا کو پانا سب سے بڑی چیز کو پانا ہے۔ جس آدمی کو خدا کی دریافت (discovery) ہوجائے، اس کی سوچ اتنی زیادہ بلند ہوجاتی ہے کہ ہر دوسری چیز اس کی نظر میں حقیر بن جاتی ہے۔ کسی چیز کا کھونا یا پانا دونوں اس کی نظر میں یکساں ہوجاتے ہیں۔ وہ اِس نفسیات میں جینے لگتا ہے کہ — تم جو چیز چاہو مجھ سے چھین لو، لیکن تم خدا کو مجھ سے نہیں چھین سکتے:
You can take away from me whatever you want to, but you cannot take God away from me!
یہ نفسیات ایک مومن کو انتہائی حد تک مثبت سوچ (positive thnking) والا انسان بنا دیتی ہے۔ کسی کے خلاف نفرت کا ایک ذرہ بھی اس کے اندر باقی نہیں رہتا۔
واپس اوپر جائیں

رزرویشن کے بغیر

یوپی بورڈ کے انٹر میڈیٹ امتحانات(مارچ 2010) میں 10 طلبا نے ٹاپ کیا ہے۔ ٹاپ کرنے والے اِن طلبا میں دو مسلمان طالب علم ہیں۔ اُن کے نام یہ ہیں — انشا سیفی، محمد حسن سلمانی۔ (روزنامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، 28 مئی 2010، صفحہ 8)
ہمارے رہنما یہ کہتے تھے مسلمانوں کے لیے تعلیم گاہوں میں رزرویشن (reservation) ضروری ہے۔ رزرویشن کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ لیکن تجربہ بتارہا ہے کہ ترقی کے لیے رزرویشن سے زیادہ یقینی ذریعہ محنت ہے۔ 1947 کے بعد تمام مسلم رہنما، مسلم نوجوانوں کو یہ بتا رہے تھے کہ انڈیا اُن کے لیے ایک پرابلم کنٹری (problem country) ہے۔ تقریباً 50 سال تک مسلمان اِس منفی ذہن میں مبتلا رہے۔ اب مسلمانوں نے حالات کے تحت یہ دریافت کرلیا ہے کہ انڈیا میں اُن کے لیے ہر قسم کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ اِس دریافت نے اب مسلمانوں کے اندر نیا جوش پیدا کردیا ہے۔ وہ کوشش کرکے ہر میدان میں تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ترقی کرنے کی خواہش ہر انسان کے اندر فطری طورپر موجود رہتی ہے۔ اگر انسان کو غلط رہنمائی کرکے مایوسی میں مبتلا نہ کیاجائے، تو وہ خود اپنے فطری جذبے کے تحت کوشش کے راستے پر چل پڑے گا اور محنت کرکے وہ کامیابی تک پہنچ جائے گا۔
سب سے بڑی رہنمائی یہ ہے کہ انسان کے اندر اپنے ماحول کے بارے میں مایوسی کا جذبہ نہ پیدا کیا جائے۔ اِس قسم کی قیادت جھوٹی قیادت ہے۔ سچی قیادت وہ ہے جو انسان کے اندر امید پیدا کرے،جو حوصلہ بڑھانے والی باتیں کرے، جو مسائل (problems) کے بجائے مواقع (opportunities) کی نشان دہی کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کے پاس صرف مایوسی پیدا کرنے والی خبریں ہوں، اُس پر فرض ہے کہ وہ چپ رہے— خدا کی اِس دنیا میں بولنے کا حق صرف اُس آدمی کو ہے جو لوگوں کو امید کی روشنی دکھائے۔
واپس اوپر جائیں

ڈی کنڈیشننگ کا طریقہ

ہر آدمی کسی ماحول میں پیدا ہوتاہے۔ یہی ماحول ہر آدمی کا ذہن بناتا ہے۔ ذہنی تاثر پذیری کے اِسی عمل کو کنڈیشننگ (conditioning) کہاجاتاہے۔ یہی بلا استثنا ہر آدمی کا معاملہ ہے۔ ہر آدمی کا ذہن کنڈیشنڈ ذہن (conditioned mind) ہے۔ یہی ہر آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ کنڈیشننگ ہر آدمی کو فطرت سے ہٹا دیتی ہے۔ اِس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ ہر آدمی کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کرکے اس کو فطرت کی طرف واپس لایا جائے۔
اِس ڈی کنڈیشننگ کا صرف ایک طریقہ ہے، اوروہ محاسبہ (introspection) ہے، یعنی سخت انداز میں مسلسل طورپر اپنی اصلاح کا عمل جاری رکھنا۔ کسی آدمی کی یہ اصلاح دو طریقے سے ہوتی ہے — یا تو وہ دوسرے شخص کی سخت تنقید کو برداشت کرے، یعنی خارجی ہیمرنگ (hammering) کو کھلے ذہن کے ساتھ قبول کرے۔ وہ برا مانے بغیر دوسرے شخص کی سخت تنقید کو سن کر اپنے آپ پر نظر ثانی (reassessment) کا عمل کرے۔
اس ڈی کنڈیشننگ کا دوسرا طریقہ وہ ہے جس کو شدید خود احتسابی (self-hammering) کہاجاسکتا ہے، یعنی آدمی اپنے آپ کو دشمن جیسی نظر سے دیکھے۔ وہ ہر صبح وشام اپنا جائزہ لیتا رہے، وہ اپنی ہر غلطی کو شدت کے ساتھ محسوس کرے اور اس کو لے کر اپنا سخت محاسبہ کرے، وہ اپنے اوپر بے رحمانہ تنقید (merciless hammering) کرتا رہے، کسی معاملے میں وہ ہر گز اپنے آپ کو رعایت نہ دے، وہ دوسرے کو الزام دینے کے بجائے ہمیشہ خود اپنے آپ کو ملزم ٹھہرائے، وہ اپنے بارے میں اتنا سخت ناقد بن جائے جیسے کہ وہ اپنا ذبیحہ کررہا ہے۔
ڈی کنڈیشننگ کے یہی دو ممکن طریقے ہیں— آدمی یا تو دوسرے کی بے رحمانہ تنقید کو برداشت کرے، یا وہ خود اپنا بے رحم ناقد بن جائے۔ جو آدمی دوسروں سے میٹھی بات سننا چاہے اور خود ہمیشہ اپنی رعایت کرتا رہے، ایسا آدمی ہمیشہ کنڈیشننگ میں جئے گا، اس کی کبھی ڈی کنڈیشننگ ہونے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اتباعِ یہود کا کیس

ڈاکٹر محمد اقبال (وفات: 1938 ) بر صغیر ہند کے عظیم مسلم مفکر مانے جاتے ہیں۔ انھوں نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے بارے میں کئی باتیں لکھی ہیں۔ اُن کاایک مصرعہ یہ ہے:
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود!
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہود کی جو صفات آئی ہیں، اُن میں سے ایک ہے —اپنے کو مظلوم بتا کر دوسروں کے ظلم پر احتجاج کرنا۔ یہ بلاشبہہ یہود کی صفت ہے۔ اِس مزاج سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان اِسی یہودی مزاج کا شکار ہیں۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہود کے اندر جب دینی بگاڑ آیاتو انھوں نے دعوتی ذمے داری کو چھوڑ دیا (3: 187) ، وہ دوسروں کی طرح صرف ایک قوم بن کر رہ گئے۔ اِس غفلت کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے یہود پر اپنی تنبیہات (warnings) بھیجیں۔ یہ تنبیہات آسمان سے نہیں آئی تھیں، بلکہ وہ اسباب کی صورت میں انسانوں کے ذریعے اُن پر بھیجی گئی تھیں (17: 5) ۔ مثلاً بابل (عراق) کے حکمراں بخت نصر (Nebuchadnezzar) کے ذریعے 586 قبل مسیح میں، اور رومی حکمراں ٹائٹس (Titus) کے ذریعے 70 عیسوی میں۔
مگر یہودی علماء اور قائدین(religious leaders) نے یہ کیا کہ ایسے تمام واقعات کو انھوں نے خدائی تنبیہہ کے بجائے انسانی ظلم کے خانے میں ڈال دیا۔ یہودی لٹریچر اِس قسم کی داستانوں سے بھرا ہوا ہے۔ اِس پر یہودی علماء نے کثرت سے کتابیں لکھی ہیں۔ مثلاً:
Hasidic Tales of the Holocausts, by Eliach Y, New York, 1982
یہودی علماء کی اِس روش کی بنا پر ایسا ہوا کہ جن واقعات کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اُن سے متنبہ ہو کر خدا کی طرف رجوع کریں، اِس کے بجائے انھو ںنے یہ کیا کہ اِن واقعات کو کچھ انسانوں کی طرف منسوب کرکے انھوں نے اُن لوگوںکے خلاف شکایت (complaint) اور احتجاج (protest) کا ایک پورا کلچر چلا دیا۔ یہ شکایتی کلچر اتنا بڑھا کہ لغت (dictionary) میں باقاعدہ ایسے الفاظ شامل ہوگئے جو یہود کے اوپر دوسروں کے ظلم کو بتانے کے لیے وضع ہوئے تھے۔ گویا کہ ظلمِ یہود کی ایک مستقل ڈکشنری تیار ہوگئی، ظلم یہود کا اتنا زیادہ چرچا ہوا کہ وہ لٹریچر کا ایک جز بن گیا۔
یہودی لٹریچر کا مطالعہ کرکے اُن الفاظ واصطلاحات کو معلوم کیا جاسکتا ہے جو کثرتِ استعمال سے لٹریچر کا جز بن گئے، حتی کہ وہ ڈکشنری میں شامل ہوگئے۔ اِن میںسے کچھ الفاظ یہ ہیں:
Pogrom: Organized killing of Jews
Holocaust: Killing of millions of Jews by the Nazis,
Diaspora: Dispersion of the Jews after the Babylonian exile,
Ghetto: Jewish Slum outside the city as a sign of discrimination.
حدیث میں آیا ہے کہ بعد کے زمانے کے مسلمان یہود کے طریقے کی پیروی کریں گے۔ (لتتبعن شبراً بشبرٍ وذراعاً بذراعٍ)۔ یہ اتباعِ یہود صرف سحروعملیات جیسی چیزوں میں نہیں ہوگا، بلکہ وہ مذکورہ قسم کی سنتِ یہود کے بارے میں بھی ہوگا۔ یہود میں یہ خرابیاں زوال (degeneration) کے نتیجے میں آئی تھیں۔ یہی خرابیاں دوبارہ زوال کے نتیجے میں خود مسلمانوں کے اندر بھی یقینی طورپر پیداہوں گی۔موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہ خرابی عمومی طورپر پیدا ہوچکی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان، عرب اور غیر عرب دونوں آخری حد تک اِ س کا شکار ہوچکے ہیں۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تقریباً تمام لکھنے اور بولنے والے صرف ایک کام کررہے ہیں، اور وہ ہے اپنے مسائل کا الزام دوسروں پر عائد کرکے ان کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان برپا کرنا۔ ہر ایک کو مسلم مسائل کے پیچھے ’’اغیار‘‘ کی سازش اور دشمنی دکھائی دیتی ہے۔
یہ بلا شبہہ یہودی روش ہے۔ صحیح یہ ہے کہ مسلمان اِس روش سے توبہ کریں، وہ خود اپنے اوپر نظر ثانی کریں۔ وہ اِس صورتِ حال کو خدا کا انتباہ (warning) قراردے کر خود اپنی کمیوں اور کمزوریوں کو دریافت کریں اور ساری توجہ خود اپنی اصلاح پر لگا دیں، نہ کہ مفروضہ ظالموں کے خلاف ہنگامہ آرائی کرکے وہ خدا کے غضب میں مزید اضافہ کریں۔ اِس کے بغیر اُن کے حالات ہر گز بدلنے والے نہیں۔
خدائی انتباہ کے معاملے کو مفروضہ دشمنوں کی طرف منسوب کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک واقعہ کو غلط طورپر کسی اور سے منسوب کرنا ہے۔ اِس قسم کا مزاج کسی فرد یا قوم کو بہت بڑا فکری نقصان پہنچاتا ہے، اور وہ ہے معاملات کے صحیح تجزیہ (analysis) سے محرومی۔ کامیاب منصوبہ بندی ہمیشہ صحیح تجزیہ پر مبنی ہوتی ہے۔ جب صحیح تجزیہ نہ ہو تو کامیاب منصوبہ بندی بھی عملاً ناممکن ہوجاتی ہے۔
مثال کے طورپر 1948 میں بال فور کمیشن (Balfour Commission) کے تحت، فلسطین کی تقسیم عمل میں آئی۔ فلسطین کا تقریباً نصف حصہ یہود کو ملا، اور تقریباً نصف حصہ عرب مسلمانوں کو دیاگیا۔ بظاہر یہ واقعہ انسان کے ذریعہ پیش آیا، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ اُسی قسم کا ایک خدائی معاملہ تھا جو اِس سے پہلے اِسی ارضِ فلسطین میں یہود کے ساتھ پیش آیا تھا۔ دونوں کے درمیان ظاہری صورت کے اعتبار سے فرق ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے، اُن کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
ماضی میں یہود کے ساتھ جب ایسا واقعہ پیش آیا تو انھوںنے اس کو خدائی واقعہ کے بجائے انسانی واقعہ سمجھا۔ انھوں نے یہ کیا کہ متعلق انسانوں کو اپنا دشمن قرار دے دیا، وہ اُن کے خلاف منفی سوچ اور منفی سرگرمیوں میں مبتلا ہوگئے۔ جو واقعہ اُن سے خدا کی طرف رجوع کا تقاضا کررہا تھا، وہ اُن کے غیر حقیقی رسپانس کے نتیجے میں اُن کے لیے خدا سے مزید دوری کا سبب بن گیا۔
ٹھیک یہی معاملہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا۔ 1948 کے بعد مسلمان، عرب اور غیر عرب دونوں نے وہی غیر حقیقی رسپانس دیا جو اِس سے پہلے یہود نے دیا تھا۔ ذاتی محاسبہ کے بجائے انھوں نے یہ کیا کہ انھوں نے یہود اور یہود کے مفروضہ حلیفوں کے خلاف ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ اِس کا نتیجہ فطری طور پر برعکس صورت میں نکلا۔ 1948 میں جو کچھ اُنھیں ملا تھا، 60 برس سے زیادہ مدت کی غیر معمولی قربانیوں کے باوجود انھوں نے اس کو بھی کھو دیا۔ آج تحریکِ فلسطین اپنے آپ کو ایک ایسے مقام پر پارہی ہے جہاں اس کے پاس مایوسی اور محرومی کے سوا اور کوئی سرمایہ نہیں۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی تعداد ایک بلین سے زیادہ ہے۔ 57ملکوں میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار قائم ہے۔ اِس کے علاوہ، دنیا کے تقریباً ہر ملک میں مسلمان موجود ہیں۔ ہر جگہ وہ ایک ہی قسم کی بولی بول رہے ہیں، اور وہ یہ کہ— ہم دشمنوں کے محاصرہ (seige) میں ہیں، ہمارے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں، عالمی میڈیا ہماری تصویر بگاڑنے میں مصروف ہے، ہمارے ساتھ ہر جگہ امتیاز کا سلوک کیا جاتا ہے، ہم کو دوسرے درجے کا شہری (second class citizen) بنا دیا گیا ہے، وغیرہ۔
اِس قسم کی تمام باتیں بلا شبہہ سنتِ یہود کی پیروی ہیں۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے خدا کے دین کو دین ِ مہجور (25: 30) بنا دیا ہے، انھوں نے دعوت الی اللہ کی ذمے داری کو ترک کردیا ہے، انھوںنے اسلام کی اسپرٹ کو بھلا دیا ہے، وہ اسلام کو صرف بطور فارم لیے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنی قومی سرگرمیوں کو اسلام کا نام دے رکھاہے، وہ انسانوں سے نفرت کرتے ہیں، جب کہ اُنھیں انسانوں کا خیر خواہ بننا چاہیے تھا، آج کے مسلمانوں کا کنسرن (concern) خدا نہیں ہے، بلکہ وہی مادی مفادات ہیں جو دوسری قوموں کا کنسرن بنے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی سوچ تمام تر دنیا رُخی سوچ بنی ہوئی ہے، جب کہ اس کو خدا رخی سوچ بننا چاہیے، اسلام اب اُن کے لیے فخر(pride) کا موضوع ہے، نہ کہ اتباع کا موضوع، مسلم معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر عملاً ختم ہوگیاہے، مسلمانوں کے تقریباً تمام لکھنے اور بولنے والے عملاً اپنی قوم کے ترجمان ہیں، نہ کہ خدا کے دین کے ترجمان، وغیرہ۔
یہ تمام چیزیں مسلمانوں کے زوال کی کھلی علامت ہیں۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہور ہا ہے، وہ سب اُن کے اِسی زوال کی بنا پر خدا کی تنبیہات ہیں، نہ کہ انسانوں کا ظلم۔ مگر مسلمان اِن واقعات کو انسانوں کی طرف منسوب کرکے ان کے خلاف چیخ وپکار میں مشغول ہیں۔ مسلمانوں پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اِس منفی روش کو مکمل طور پرختم کردیں۔ وہ دوسروں سے نفرت کو چھوڑ دیں اور خود اپنی کوتاہیوں کی اصلاح کریں، یہی مسلمانوں کے تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ اِس کے سوا دوسری ہر چیز صرف اُن کی تباہی میں اضافہ کرے گی، وہ ان کی فلاح کا سبب بننے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

حق کی تلاش

امریکی صحافی الون ٹافلر (Alvin Toffler) کی ایک مشہور کتاب ہے۔ اس کا نام یہ ہے — فیوچر شاک:Future Shock
یہ کتاب پہلی بار 1970 میں چھپی۔ اب تک اس کے 5 ملین سے زیادہ نسخے ساری دنیا میں فروخت ہوچکے ہیں، نیز دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے بھی شائع ہوچکے ہیں۔
الون ٹافلر نے اپنی کتاب میں ایک سیمنار (seminar)کا واقعہ لکھا ہے۔ اِس سیمنار میں کنارے کی سیٹ پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ جب سب لوگ بول چکے تو آخر میں وہ آدمی اٹھا۔ اس نے کہا — میرا نام چارلس اسٹین ہے۔ میں تمام عمر سوئی کے ایک کارخانے میں کام کرتا رہا ہوں۔ میری عمر 77 سال ہے۔ میں وہ چیز پانا چاہتا ہوں جو میں اپنی نوجوانی کی عمر میں نہ پاسکا۔ میں مستقبل کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ میں ایک تعلیم یافتہ انسان کی حیثیت سے مرنا چاہتا ہوں:
My name is Charles Stein. I am a needle worker all my life. I am seventy-seven years old, and I want to get what I did not get in my youth. I want to know about the future. I want to die an educated man. (page 427)
گہرائی کے ساتھ غور کیجئے تو مذکورہ آدمی کا مسئلہ حقیقۃً معرفت یا ادراکِ حقیقت تھا، نہ کہ سادہ طورپر صرف ایجوکیشن۔ گویا کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میں ایک صاحبِ معرفت انسان (realized man) کی حیثیت سے مرنا چاہتا ہوں۔
یہی ہر انسان کی نفسیات ہے۔ ہر انسان اِس نفسیات میں جی رہا ہے کہ وہ حقیقت کا ادراک نہ کرسکا۔ گویا کہ ہر انسان اِس تلاش میں ہے کہ وہ یہ جان سکے کہ سچائی کیا ہے۔
ہر انسان معرفت کی تلاش میں ہے۔ خوش قسمت انسان وہ ہے جو معرفت کو پالے۔ اُس پر موت آئے تواِس حال میں آئے کہ وہ ایک صاحبِ معرفت انسان بن چکا ہو۔
واپس اوپر جائیں

افرادِ کار کی تیاری

ایک مسلم رہنما نے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا— میرا مقصد عصرِ حاضر کے اعتبار سے، افرادِ کار کی تیاری ہے۔ اِس جلسے میں ایک مسلم نوجوان موجود تھا۔ بعدکو یہ نوجوان مذکورہ مسلم رہنما سے ملا۔ اس نے کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرتا ہوں۔ مجھ کو آپ اپنے مطلوب انسان کی حیثیت سے تیار کیجئے، مگر مذکورہ مسلم رہنما نے نوجوان کی اِس پیش کش پر دھیان نہیں دیا۔ انھوں نے کہا کہ —تم تو صرف ایک شخص ہو۔ جب اِس طرح کے کئی لوگ اکھٹا ہوجائیں گے، اُس وقت میں افراد کی تیاری کے بارے میں اپنا پروگرام شروع کروں گا۔موجودہ زمانے میں بہت سے لوگوں نے یہ کہا کہ وہ عصر حاضر کے اعتبار سے، افرادِ کار تیار کرنا چاہتے ہیں، لیکن اِن میں سے کوئی شخص مطلوب انداز میںیہ کام نہ کرسکا۔ مذکورہ واقعہ بتاتا ہے کہ اِس کا سبب کیا ہے۔ یہ تمام لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ بھیڑ (crowd) کے سامنے تقریریں کرکے افرادِ کار تیار کریں، حالاں کہ افرادِ کار کی تیاری بھیڑ کو خطاب کرنے سے نہیں ہوتی۔ اُس کا طریقہ صرف ایک ہے اور وہ ہے— فرد پر فوکس کرنا، فرد کی نسبت سے سوچنا اور فرد کی نسبت سے تربیت کا پروگرام بنانا۔اصل یہ ہے کہ رہنما سب سے پہلے افراد کے ذہن کو بخوبی طورپر سمجھنے کی کوشش کرے، وہ افراد کے ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے سب سے پہلے خود اپنے آپ کو تیار کرے۔ رہنما جب اِس طرح اپنے آپ کو تیار کر کے بولے گا تو اس کی زبان قولِ بلیغ (4: 63) کی زبان بن جائے گی، اس کی بات ہر ذہن کو ایڈریس کرے گی، اس کی بات ہر فرد کے اندر یہ داعیہ پیدا کرے گی کہ وہ اپنے آپ کو تیار کرکے مطلوب انسان بنائے۔ یہی وہ طرز خطاب ہے جس کے ذریعے افرادِ کار کو تیار کیا جاسکتا ہے۔
اِس کے برعکس، جو لوگ بھیڑ کو لے کر سوچتے ہیں، جو اپنے آس پاس بھیڑ دیکھنا چاہتے ہیں، اُن کا طرزِ خطاب فطری طورپر جذباتی ہوجاتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر ایسی بات بولنے لگتے ہیں جو بھیڑ کو خوش کرے۔ اِس عوامی طرزِ خطاب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کا ذہنی ارتقا رک جاتا ہے، اور جس آدمی کا خود اپنا ذہنی ارتقا رک جائے، وہ ہر گز افرادِ کار کی تیاری کا عمل انجام نہیں دے سکتا۔
واپس اوپر جائیں

شتمِ رسول کا مسئلہ

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر مسٹر سلمان تاثیر (عمر 66 سال) کو اسلام آباد میں 4 جنوری 2011 کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ اخباری اطلاع کے مطابق، ان کو گولی مارنے والا خود اُن کا باڈی گارڈ ممتاز حسین قادری (عمر 26سال) تھا۔ اس نے گورنر کے اوپر سرکاری گن سے فائرنگ کی۔ اِس حملے میں گورنر پنجاب کو 6 گولیاں لگیں۔ وہ فوراً ہی ہلاک ہوگئے۔ پولس نے قاتل کو گرفتار کرلیا۔ پولس کا کہنا ہے کہ قاتل کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ حراست میں لیے گئے ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ اُس نے یہ حملہ اِس لیے کیا کہ گورنر پنجاب نے پاکستان کے ناموسِ رسالت قانون کو ایک کالا قانون کہا تھا۔ (روزنامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، 5 جنوری، صفحہ 12 ؛ ٹائمس آف انڈیا، نئی دہلی، 5 جنوری 2011 ، صفحہ 1 )۔
اِس طرح کسی فرد کا کسی شخص کو گولی مار کر ہلاک کرنا بلا شبہہ اسلام میں حرام ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ناموسِ رسالت کا قانون ایک بے بنیاد قانون ہے۔ اگر کوئی شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وہ فعل کرے جس کو سب وشتم کہا جاتا ہے، تب بھی اس کا جواب دلیل سے دیا جائے گا، نہ کہ گولی سے۔ بالفرض اگر ایسا کوئی قانون ہو، تب بھی شاتمِ کے خلاف کوئی عام آدمی کارروائی نہیں کرسکتا۔ وہ صرف یہ کرسکتا ہے کہ وہ ایسے شاتم کے معاملے میں عدالت سے رجوع کرے اور پھر باقاعدہ عدالتی کارروائی کے بعد عدالت جو فیصلہ کرے، اس کے مطابق، اس پر عمل کیا جائے۔
موجودہ زمانے کے مسلمان ہر جگہ شتمِ رسول (blasphemy) کے نام پر اِسی قسم کے رد عمل کا مظاہرہ کررہے ہیں، کہیں جلوس اور مظاہرے کی صورت میں اور کہیں شاتم کو قتل کرنے کی صورت میں۔ اس کے نتیجے میں مفروضہ شتم تو بند نہیں ہوا، البتہ اسلام بہت زیادہ بدنام ہوگیا۔ جو لوگ کسی کو شاتمِ رسول قرار دے کر اُس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، وہ خود شاتم سے بھی زیادہ بڑے مجرم ہیں۔ ایسے لوگ کسی بھی حال میں خدا کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔
سزا کا تعلق خدا سے
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں داعی الی اللہ (33: 46) کہاگیا ہے۔ اِس دعوتی مشن کو انجام دینے کے لیے آپ کو قرآن میں جو ہدایت دی گئیں، اُن میں سے ایک ہدایت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: فاصدع بما تؤمر وأعرض عن المشرکین۔ إنا کفیناک المستہزئین (15: 94-95) یعنی جس چیز کا تم کو حکم ملا ہے، اس کو تم واضح طورپر لوگوں کے سامنے بیان کردو، اور مشرکوں سے اعراض کرو۔ ہم تمھاری طرف سے اِن استہزا کرنے والوں کے لیے کافی ہیں۔
اِن آیات کو اس کے سببِ نزول کے اعتبار سے دیکھئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ داعی کو اپنی ساری توجہ دعوت کے کام میں لگانا چاہیے۔ اِس کے بعد اگر ایسا ہوتا ہے کہ مدعو گروہ کی طرف سے منفی رد عمل سامنے آتا ہے، وہ داعی کا مذاق اڑاتے ہیں، وہ داعی کا سب وشتم کرتے ہیں، وہ داعی کو لوگوں کی نظر میں گھٹانے کے لیے توہین واستہزا کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، تو ایسی حالت میں داعی کو چاہیے کہ وہ رد عمل کی نفسیات سے بچتے ہوئے یک طرفہ اعراض کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ اپنی دعوت کو مزید مدلل کرنے کی کوشش کرے، حتی کہ وہ ایسے لوگوں کی اصلاح کے لیے اپنے رب سے دعا کرے۔ وہ کہے کہ خدایا، تو اِن مخالفین کو میرا ساتھی بنادے، تو ان کو اپنی رحمت کے سائے میں لے لے۔ اِس کے بعد جہاں تک استہزا کرنے والوں کے استہزا کا معاملہ ہے، وہ اس کو پوری طرح خدا پر چھوڑ دے۔ داعی کا کام صرف پر امن دعوت ہے، اس کا کام لوگوں کو سزا دینا نہیں(88: 21-22) ۔
سب وشتم کی حیثیت در اصل آزادی کے غلط استعمال کی ہے۔ سب وشتم کی حیثیت جرم مستوجبِ سزا (cognizable offense) کی نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ شاتم کو پُرامن نصیحت کی جائے گی، اُس کو مجرم قرار دے کر اس کو جسمانی سزا نہیں دی جائے گی۔ اِس معاملے میں نصیحت کا تعلق داعی سے ہے اور سزا کا تعلق خدا سے۔ داعی اگر شاتم کو سزا دینے کی کوشش کرے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ خدا کے کام کو اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہتا ہے، اور ایسا کرنا بلا شبہہ ایک سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
عفوودرگزر کا حکم
قرآن کی سورہ الجاثیہ میں ایک آیت آئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: قل للذین آمنوا، یغفروا للذین لا یرجون أیّام اللہ، لیجزیَ قوماً بما کانوا یکسبون (45: 14) یعنی ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اُن لوگوں کے ساتھ عفو ودرگزر کا معاملہ کریں جو ایّام اللہ کے ظہور کی توقع نہیں رکھتے، تاکہ اللہ ایک قوم کو اُس چیز کا پورا بدلہ دے جو وہ کرتی رہی ہے۔
قرآن کی اِس آیت کی تشریح میں مفسر القرطبی نے لکھا ہے: نزلت الآیۃ بسبب أن رجلاً من قریش شتمَ عمر بن الخطاب، فہمّ أن یبطش بہ (تفسیر القرطبی 16/161 ) یعنی یہ آیت اِس واقعے کے بعد اتری کہ قریش کے ایک آدمی نے عمر بن الخطاب کا سب وشتم کیا۔ عمر نے چاہا کہ وہ اس کو پکڑیں اور ماریں۔ اِس موقع پر قرآن میں یہ ہدایت اتری۔
قرآن کی اِس آیت سے اور اِس قسم کی دوسری آیتوں سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ سب وشتم کا معاملہ قانونی سزا (legal punishment) کا معاملہ نہیں ہے۔ کوئی شخص نعوذ باللہ، خدا کا استہزاء کرے، وہ صحابہ کا استہزا کرے، وہ قرآن کا استہزا کرے، تو اِس بنیاد پر اُس کو قانونی مجرم قرار دے کر قانونی سزا نہیں دی جائے گی۔ اِس معاملے میں سزا کا تعلق تمام تر اللہ سے ہے۔ اللہ اپنے علم کے مطابق، ایسے لوگوں کو جو سزا دینا چاہے گا، وہ سزا دے گا۔ ایسے معاملے میں کسی شخص کو سزا دینا اسلام کی حمایت کے نام پر اسلام کے ساتھ بدترین عداوت کے ہم معنیٰ ہے۔
سب وشتم کے معاملے میں مسلمانوں کو جو کرنا ہے، وہ یہ کہ وہ ایسے شخص کے لیے دعا کریں، وہ اُس سے مل کر اُس کو نصیحت کریں، وہ اس کو دلائل کے ذریعے مطمئن کرنے کی کوشش کریں، وہ اس کی اصلاح کی پر امن جدوجہدکریں، وہ اس کو جسمانی سزا دینے کا کام اپنے ذمے نہ لیں۔ مومن کی حیثیت اِس دنیا میں داعی کی ہے، نہ کہ داروغہ (88: 21-22) کی۔
شتم اور ارتداد
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام میں شتمِ رسول کی سزا قتل ہے۔ اِسی طرح یہ سمجھا جاتاہے کہ اسلام میں ارتداد (apostasy) کی سزا قتل ہے۔ شتم اور ارتداد کی اِس سزا کو حد (legal punishment) کادرجہ دیا جاتاہے اور سمجھا جاتا ہے کہ شاتم یا مرتَد کو بطور حد قتل کیا جائے گا (یُقتل حدًّا)۔
یہ قانون اسلام کے بعد کی تاریخ میں عباسی دور (750-1258ء) کے فقہاء نے بنایا، مگر اصل اسلامی ماخذ میں اِس قسم کا کوئی حکم موجود نہیں ۔ اِس لیے عین جائز ہے کہ اس حکم کو کالعدم سمجھا جائے اور اس کو غیر اسلامی قرار دے کر رد کردیا جائے۔
اسلامی تاریخ کے مکی دور میں جو اہلِ ایمان ہجرت کرکے حبش (Abyssinia) گئے تھے، اُن میں سے ایک شخص کا نام عبید اللہ بن جحش تھا۔ حبش ایک عیسائی ملک تھا۔ وہاں جاکر عبید اللہ بن جحش عیسائی مذہب سے متاثر ہوئے اور اعلان کے ساتھ اسلام کو چھوڑ دیا۔ یہ واضح طورپر ارتداد کا ایک واقعہ تھا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ عبید اللہ بن جحش مرتد ہوگئے ہیں، اُن کو بطورحد قتل کردو۔ اِس واقعے سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ شریعتِ محمدی میں ارتداد کی سزا قتل نہیں ہے۔ اِسی طرح مدینہ میں ایک شخص تھا۔ اس کا نام عبد اللہ بن اُبی تھا۔ یہ شخص کھلے طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شتم کرتا تھا، لیکن رسول اللہ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ عبد اللہ بن ابی نے شتم رسول کے جرم کا ارتکاب کیا ہے، اِس لیے اس کو بطور حد قتل کردو۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں سماجی جرم (social crime) پر سزا ہے، اسلام میں اعتقادی جرم (ideological crime)پر کوئی سزا نہیں۔شاتم اور مرتد کے لیے تبلیغ ونصیحت ہے، نہ کہ قتل کا حکم۔
واپس اوپر جائیں

تحفظِ نبوت، تحفظِ کارِ نبوت

موجودہ زمانے میں مسلم تنظیمیں اور مسلم ادارے جگہ جگہ تحفظِ ختمِ نبوت کے نام سے جلسے کررہے ہیں۔ اِن موقعوں پر مسلمانوں کی بھیڑ اکھٹا ہوتی ہے، مقررین پر جوش تقریریں کرتے ہیں۔ وہاں یہ اعلان کیاجاتاہے کہ ہم ہر قیمت پر ختمِ نبوت کا تحفظ کریں گے۔مگر اِس قسم کے جلسے اور تقریریں سراسر بے معنی ہیں۔ ان کا تعلق نہ اسلام سے ہے اور نہ عقل سے۔
قرآن میں اعلان کیا گیا تھا کہ اللہ خاتم النبیین کی حفاظت فرمائے گا (5:67) ۔ اللہ اپنے آخری کلام قرآن کو ہمیشہ محفوظ رکھے گا(15: 9)۔ اللہ کا یہ فیصلہ پورا ہوا۔ دنیا میں ایسے حالات پیدا ہوئے جس کے بعد خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم پوری طرح محفوظ ہوگئی۔ قرآن پرنٹنگ پریس کے زمانے میں پہنچ کر آخری طور پر محفوظ ہوگیا۔ اب مسئلہ ختم نبوت کے تحفظ کا نہیں ہے، بلکہ اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ کارِ نبوت (دعوت الی اللہ) کو ہر زمانے میں مسلسل طورپر جاری رکھا جائے۔
کارِ نبوت سے مراد وہی کام ہے جس کو قرآن میں تبلیغ ما انزل اللہ (5:67) کہاگیا ہے۔ پیغمبراسلام کا مشن در اصل دعوتی مشن تھا۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اِس دعوتی مشن کو ہر قوم میں اور ہر زمانے میں جاری رکھیں۔ وہ دعوت وتبلیغ کے کام میں پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم مقامی کریں۔ یہی کرنے کا اصل کام ہے اور یہی امتِ محمدی کی اصل ذمے داری۔
اصل یہ ہے کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا، لیکن پیغام نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔ اب مسلمانوں کی ذمے داری یہ نہیں ہے کہ وہ نعت خوانی کریں، یا گستاخِ رسول کو قتل کریں، یا تحفظ ختم نبوت کے جلسے کریں۔ یہ سب غیر متعلق کام ہے، اصل کام یہ ہے کہ تمام انسانوں تک خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے قرآن کو پہنچایا جائے، ہر زمانے کے لوگوں کو اس کے پیغام سے باخبر کیا جائے— تحفظ، خدا کا کام ہے اور دعوت اہلِ اسلام کا کام۔
واپس اوپر جائیں

اعتماد کی اہمیت

سماجی زندگی میں اعتماد (trust) کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ یہ کسی آدمی کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہے کہ وہ لوگوں کی نظر میں قابلِ اعتماد بن جائے۔ اِس قسم کا اعتماد کسی کو بہت دیر میں حاصل ہوتا ہے۔ لمبے تجربات کے بعد ہی کسی شخص کو یہ درجہ ملتا ہے کہ وہ لوگوں کی نظر میں ایک قابلِ اعتماد انسان بن سکے۔
کچھ لوگوں کا یہ مزاج ہوتاہے کہ وہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر پیسہ کمانا چاہتے ہیں، وہ جھوٹ بول کر لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی میں کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ بڑی کامیابی ہمیشہ سچائی کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے۔ دھوکا ایک بار کام آسکتا ہے، لیکن سچائی ہزار بار کام آتی ہے۔ دھوکے کی حد ہے، مگر سچائی کی کوئی حد نہیں۔
جو لوگ خوش نما باتیں کرکے پیسہ کمانا چاہتے ہیں، وہ بہت جلد لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہوجاتے ہیں۔ آخر کار اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ لوگ ان کی باتوں پر بھروسہ نہیں کرتے، لوگ اُن سے معاملہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں، لوگوں کو ان کی باتوں پر یقین نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ چند بار کچھ حاصل کرلیتے ہیں، لیکن بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اُن سے کٹ جاتے ہیں۔ لوگوں کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ اِن سے دور رہو۔
کامیابی کیا ہے۔ کامیابی ہمیشہ دوسروں کی قیمت پر ہوتی ہے۔ مثبت بنیاد پر دوسروں سے فائدہ اٹھانے ہی کا دوسرا نام کامیابی ہے۔ لیکن دوسروں سے فائدہ اٹھانا، صرف اُس کے لیے ممکن ہوتا ہے جو خود بھی دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ دوسروں سے فائدہ لینا ہمیشہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔ یہ ایک دوطرفہ (bilateral)معاملہ ہے۔ جو آدمی دوسروں کو کوئی حقیقی فائدہ نہ پہنچائے اور یک طرفہ طورپر خود دوسروں سے فائدہ لینا چاہے، اس کے لیے اِس دنیا میں صرف یہ انجام مقدر ہے کہ وہ کبھی کامیابی اور ترقی (success)حاصل نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

کھونے میں پانا

انڈیا میں سول سروس کے امتحانات میں سب سے بڑا امتحان آئی اے ایس (IAS) سمجھتا جاتا ہے۔ یہ وہی امتحان ہے جس کو 1947 سے پہلے آئی سی ایس (ICS) کہاجاتا تھا۔ 2010 میں پورے انڈیا سے چار لاکھ امیدوار اِس امتحان میں شریک ہوئے۔ مئی 2010 میں اِس کا رزلٹ شائع ہوا ہے۔ اِس کے مطابق، آئی اے ایس کے اِس امتحان میں کشمیر کے ایک مسلم نوجوان ڈاکٹر شاہ فیصل (26 سال) نے ٹاپ کا درجہ حاصل کیا ہے۔
اِس کہانی کا ایک سبق آموز پہلو یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہ فیصل کے والد غلام رسول شاہ کپواڑہ کے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ وہ اسکول کے ایک ٹیچر تھے۔ ایک بار کچھ ملٹنٹ وہاں آئے اور ان کے گھر میں ٹھہرنے کی فرمائش کی۔ غلام رسول شاہ نے ان کو اپنے گھر میںٹھہرانے سے انکار کردیا۔ اِس پر ملٹنٹ غصہ ہو گئے اور انھوں نے غلام رسول شاہ کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
اِس کے بعد حالات کے دباؤ کے تحت ڈاکٹر شاہ فیصل کی فیملی گاؤں چھوڑکر سری نگر آگئی۔یہاں ان کے لیے، ان کی ماں کے الفاظ میں، ایک ہی آپشن تھا، اور وہ تھا سخت محنت اور یکسوئی (hard work and dedication) ۔ شاہ فیصل کے باپ کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا، اُس نے ان کو عمل کا ایک نیا محرک(incentive) دے دیا۔ وہ زیادہ سنجیدہ اور زیادہ محنتی بن گئے۔ باپ کی ناگہانی موت نے اُن کو ایک نئی زندگی دے دی۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (7مئی 2010 ) کے رپورٹر نے درست طور پر لکھا ہے کہ — یہ دراصل ایک المیہ تھا جس نے شاہ فیصل کے خاندان کے لیے وسیع تر دنیا کی طرف ایک کھڑکی کھول دی:
It was the tragedy that opened a window to the wider world for the family (p. 1)
آدمی اگر مایوس نہ ہو تو ہر محرومی اس کے لیے ایک نئی یافت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

صحیح مشورہ، غلط مشورہ

افراد کی زندگی میں اور قوموں کی زندگی میں بار بار ایسے معاملات پیش آتے ہیں جن کے مقابلے میں ایک سے زیادہ روش کو اختیار کرنا ممکن ہوتا ہے۔ مثلاً کسی نزاع (controversy) کے موقع پر یہ فیصلہ لینا کہ اس کے مقابلے کے لیے پُرامن طریقِ کار اختیار کیا جائے یا پرتشدد طریقِ کار، معاملہ کو یک طرفہ بنیاد پر ختم کردیا جائے، یا اس کو دوطرفہ بنیاد پر ختم کیا جائے، خاموشی اختیار کرلی جائے، یا فعّال رول ادا کیا جائے، صبر کا طریقہ اختیار کیا جائے، یا ٹکراؤ کا طریقہ، معاملے کو ہر قیمت پر فوراً ختم کردیا جائے یا ا س کے مقابلے میں کوئی لمبی کارروائی کی جائے، وغیرہ۔
ہر ایسے موقع پر دو قسم کے مشیر (advisors)سامنے آتے ہیں— صحیح مشورہ دینے والے اور غلط مشورہ دینے والے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ صاحبِ معاملہ شخص اکثر غلط مشورے کو لے لیتا ہے اور صحیح مشورے کو چھوڑ دیتا ہے۔ اِس کی مثالیں ماضی میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں اور حال میں بھی۔ سوال یہ ہے کہ کیوں ایسا ہے کہ انسان اپنے معاملات میں صحیح مشورے کو قبول نہیں کرپاتا، وہ اکثر غلط مشورے کو مان لیتاہے۔ اس کا نتیجہ بعد کو نقصان کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ جب کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو آدمی کے اوپر جذبات غالب آجاتے ہیں، وہ خالص عقلی (rational)انداز میں نہیں سوچ پاتا۔ اِس بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اُس وقت صحیح مشورے کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتا، وہ جذبات کے زیر اثر، غلط مشورے کو لے لیتا ہے، اگر چہ بعد کو اس کا نتیجہ مزید نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑے۔ جب بھی کسی کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آئے تو وہ اپنے متاثر ذہن کی بنا پر اُس کے بارے میں صحیح رائے نہیں قائم کرپاتا۔ مگر جو شخص معاملے سے الگ ہے، وہ اِس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ وہ غیر جانب دارانہ انداز میں سوچے اور صحیح رائے دے سکے۔ ایسی حالت میںصاحبِ معاملہ کو چاہیے کہ دوسرا شخص اگر سنجیدہ ہے تو وہ اُس کی رائے پر دھیان دے اور اگر بے لاگ جائزے میں اس کی رائے درست نظر آئے تو وہ اس کو قبول کرلے۔
واپس اوپر جائیں

ایک عام کمزوری

ایک عوامی مثل ہے — عقل بڑی کہ بھینس۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ گاؤں میں رہنے والا ایک جاہل آدمی جب بھینس کو دیکھتا ہے تو وہ اس کو ایک بھاری بھرکم چیز نظر آتی ہے۔ وہ بھینس کو بڑی چیز سمجھ لیتا ہے۔ عقل (wisdom) کی اہمیت اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ ظاہری علم کی بنا پر یہ سمجھ لیتا ہے کہ بھینس ایک بڑی چیز ہے۔ اِس کے مقابلے میں عقل محض ایک چھوٹی چیز۔
یہ محض گاؤں کے ایک جاہل آدمی کی بات نہیں، یہی شہروں میں رہنے والے تعلیم یافتہ لوگوں کی بات بھی ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ سیاسی اقتدار کو بڑی چیز سمجھتے ہیں۔ وہ بڑی بڑی بلڈنگوں میں قائم ہونے والے ادارے کو بڑی چیز سمجھتے ہیں۔ جس اجتماع میں عوام کی بھیڑ اکھٹا ہو جائے، اس کو وہ بڑا اجتماع سمجھتے ہیں۔ جس آدمی کے پاس شان دار مکان ہو اور اس کے گیٹ کے باہر کاریں کھڑی ہوئی ہوں، وہ اس کو بڑا آدمی سمجھ لیتے ہیں۔ جواخبار میں چھپے اور ٹی وی میں نظر آئے، اس کو وہ بڑی شخصیات (celebrities) میں شمار کرنے لگتے ہیں۔ جو آدمی اسٹیج پر پُرجوش خطابت کرے اور جس کو سن کر سامعین تالیاں بجائیں، اس کو لوگ بڑا مقرر سمجھ لیتے ہیں۔ جو آدمی سڑک پر چلے تو اس کے پیچھے گاڑیوں کا کارواں(motorcade) چل رہا ہو، اس کو وہ معزز انسان سمجھ لیتے ہیں، وغیرہ۔
یہ ایک عمومی کمزوری ہے۔ یہی کمزوری کسی بڑے کام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی بڑا کام ہمیشہ چھوٹے آغاز (humble beginning) سے شروع ہوتا ہے۔ جو لوگ چھوٹے آغاز کی اہمیت کو نہ جانیں، ان کے درمیان کوئی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا۔
بڑے کام کے لیے ہمیشہ لوگوں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن جب چھوٹے آغاز کے لیے لوگ اپنا تعاون (co-operation) نہ دیں تو اُن کے درمیان بڑے کام کا آغاز ہی نہیں ہوسکتا۔ اِس قسم کا مزاج کسی بڑے کام کے لیے ایک مستقل رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ لیکن روایات میںآتا ہے کہ بعد کے زمانے میں امت کے اندر وہی بگاڑ پیدا ہوجائے گا جو پچھلے اہلِ کتاب (یہود ونصاریٰ) کے اندر پیدا ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے تو پھر ایسا کس طرح ممکن ہے کہ امت کے اندر وہی بگاڑ پیداہوجائے جو سابق اہلِ کتاب کے اندر پیداہوا تھا (حافظ ابو الحکم محمد دانیال، پٹنہ، بہار)
جواب
یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے (15: 9) ، لیکن اِس حفاظت کا تعلق دینِ اسلام کی حفاظت سے ہے، نہ کہ مسلم قوم کی حفاظت سے (5: 3) ۔ دینِ اسلام کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ دین کا متن (text) پوری طرح محفوظ رہے گا، تاکہ ہر زمانے میں ہدایت کا طالب اُس سے ہدایت پاسکے۔ لیکن جہاں تک مسلم قوم کا تعلق ہے، وہ اُسی طرح حالتِ امتحان میں ہے جس طرح دوسری قومیں حالتِ امتحان میں ہیں۔ اِس سلسلے میں جتنی بھی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں، وہ سب صراحت کے ساتھ بتاتی ہیں کہ دین کا معاملہ اور قوم کا معاملہ ایک دوسرے سے بالکل الگ ہے۔ ختمِ نبوت کا تقاضا ہے کہ دین کا متن قیامت تک محفوظ رہے۔ مگر جہاں تک مسلم قوم کا معاملہ ہے، اُس کے لیے عروج وزوال (rise & fall) کا وہی عام قانون ہے جو دوسری اہلِ کتاب امتوں کے لیے ہمیشہ سے رہا ہے۔ اِس معاملے میں کسی قوم کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔
کچھ لوگوں نے غلط طورپر یہ نظریہ بنایا ہے کہ جس طرح دین ایک محفوظ دین ہے، اُسی طرح مسلم امت بھی ایک محفوظ امت ہے۔ مگر یہ ایک خود ساختہ نظریہ ہے، اِس کی کوئی اصل قرآن اور حدیث میں موجود نہیں۔ مثال کے طورپر امت کی محفوظیت کا نظریہ اِس روایت سے نکالا جاتا ہے کہ: إنَّ أمتی لاتجتمع علی الضلالۃ ( ذخیرۃ الحفاظ للقیسرانی، 1/364 ) مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ امت کی اکثریت ضلالت سے محفوظ رہے گی۔ یہ حدیث افراد کی نسبت سے ہے، نہ کہ مجموعہ کی نسبت سے، یعنی امت کے عام بگاڑ کے زمانے میں بھی کچھ ایسے افراد ہوں گے جوعمومی بگاڑ کے زمانے میں بھی ہدایت پر قائم رہیں گے۔ اِسی لیے ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: أن تستجمعوا کلُّکم علی الضلالۃ(مسند إسحاق بن راہوَیہ، رقم الحدیث: 363 ) یعنی بعد کے زمانے میں جب امت میں عام بگاڑ آجائے گا تو اُس وقت بھی کچھ افراد اِس عمومی بگاڑ سے محفوظ رہیں گے۔
سوال
عرض ہے کہ ہندستان کے مخصوص حالات میں مسلمانوں کو ان کی سیاسی زندگی میں قرآن اور حدیث سے کیا رہنمائی ملتی ہے براہِ کرم، واضح فرمائیں۔(محمد یحییٰ ارسلانی قاسمی، پالم کالونی، نئی دہلی)
جواب
اس معاملے میں قرآن اور حدیث کی رہنمائی یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ہندستان کے مسلمان بلکہ ساری دنیا کے مسلمان سیاست کو مکمل طورپر چھوڑ دیں اور وہ صرف غیر سیاسی دائرے میں کام کریں۔ مثلاً تعلیم، دعوت، تجارت اور تعمیر، وغیرہ۔ کام کا تعین ہمیشہ حالات کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ کسی مفروضہ معیار کے اعتبار سے۔ حالات کا لحاظ کئے بغیر کسی مفروضہ معیار کو لے کر جو کام شروع کیا جائے، وہ صرف بے نتیجہ ٹکراؤ پیدا کرے گا، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
موجودہ زمانے کے مسلمان ہر جگہ اپنے سیاسی ذہن کے تحت اپنی سرگرمیاں جاری کئے ہوئے ہیں۔ چوں کہ حالات موافق نہیں ہیں، اِس لیے اِن سیاسی سرگرمیوں کے نتیجے میں اُن کو جو چیز ملی ہے، وہ صرف یہ ہے — شکایت، احتجاج، نفرت، منفی سوچ اور تشدد، وغیرہ۔ اِس طرح کی تمام چیزیں صرف یک طرفہ طورپر مسلمانوں کے نقصان کا باعث ہیں، وہ اُن کو کوئی مثبت نتیجہ دینے والی نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قدیم مکہ میں سیاسی اقتدار کی پیش کش کی گئی۔ مکہ کے معاصر سرداروں نے آپ سے کہا: إن ترید مُلکاً، ملّکناک علینا (اگر آپ اقتدار چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اقتدار دینے کے لیے تیار ہیں) آپ نے اِس سیاسی پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: ما أطلب الملک علیکم ( السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، 1/296 ) یعنی میں تمھارے اوپر اقتدار کا طالب نہیں: I seek not sovereignty over you.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت کے مکی حالات کے اعتبار سے یہ فیصلہ کیا۔ آج کل کی زبان میں کہا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ آپ نے سیاسی عمل (political activism) کے بجائے دعوتی عمل (dawah activism) کا طریقہ اختیار فرمایا۔ اس اعتبار سے، یہ کہنا صحیح ہوگا کہ — آپ نے نتیجے کو سامنے رکھ کر اپنا منصوبہ بنایا، نہ کہ مفروضہ معیار کو سامنے رکھ کر۔
اِس معاملے میں دوسری مثال حضرت یوسف علیہ السلام کی ہے۔ اگر مسلمانوں کا یہ خیال ہو کہ اُن کے لیے موجودہ حالات میں سیاست میں حصہ لینا ضروری ہے، کیوں کہ یہ جمہوری دور ہے اور جمہوری دور میں اگر کوئی گروہ ملک کی سیاسی سرگرمیوں میں شامل نہ ہو تو وہ پولٹکل ایلینیشن (political alienation) میں مبتلا ہوجائے گا، یعنی ایسا گروہ سیاسی اعتبار سے الگ تھلگ ہو کر رہ جائے گا۔ اِس دوسری حالت میں اُن کے لیے سنتِ یوسفی کا نمونہ موجود ہے۔ سنتِ یوسفی جیل میں جانے کا نام نہیں ہے، بلکہ سنتِ یوسفی دراصل سیاسی مصالحت (political adjustment) کا نام ہے۔ قرآن کے مطابق، حضرت یوسف کے زمانے میں مصر کا بادشاہ مشرک تھا۔ وہ شراب پیتا تھا۔ ملک میں اِسی مشرک بادشاہ کا قانون نافذ تھا۔ اِس کے باوجود حضرت یوسف نے مصالحت کا انداز اختیار کرتے ہوئے بادشاہ کے سیاسی نظام میں شرکت قبول کرلی۔ سیاست کا یہ طریقہ موجودہ زمانے میں ہر مسلمان کے لیے کھلا ہوا ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ قرآن اور سنت میں اُن کے لیے واضح سیاسی رہنمائی موجود نہیں۔ اصل یہ ہے کہ وہ اپنے فخر پسندانہ مزاج کی بنا پر سیاسی سرکشی کو سیاست سمجھتے ہیں، اور چوں کہ کسی ملک میں ان کے لیے سیاسی سرکشی کے مواقع حاصل نہیں، اِس لیے وہ شعوری یا غیرشعوری طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن اور سنت میں ان کے لیے سیاسی رہنمائی موجود نہیں۔ اِس معاملے میں اصل مسئلہ مسلمانوں کے خود ساختہ سیاسی شاکلہ (political framework) کو توڑنا ہے۔ موجودہ سیاسی شاکلہ کی موجودگی میں قرآن اور سنت کی رہنمائی مسلمانوں کی سمجھ میں آنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 209

1 - نئی دہلی میں 3-14 اکتوبر 2010 کے درمیان کامن ویلتھ گیم (CWG-2010)کا انعقاد ہوا۔ گیم کے دوران بڑے پیمانے پر کھلاڑیوں اور شرکا کو سی پی ایس کی طرف سے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ ہمارے ساتھی جو کھیل گاؤں (نئی دہلی) میں دعوتی لٹریچر لے کر گئے تھے، ان میں سے ایک ساتھی نے اِس سلسلے میں سی پی ایس کے ایک ممبر سے اِن الفاظ میں اپنا تاثر بیان کیا:
Glory be to God, all the things are turning out very well beyond imagination and the distribution is in full swing.
2 - نئی دہلی کے اسلامک کلچرل سنٹر میں اردو پریس کلب (نئی دہلی) کی طرف سے 15 اکتوبر2010 کو ایک سیمنار ہوا۔ اِس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے۔ اس کا عنوان یہ تھا — نیشنل ازم کو کیسے فروغ دیا جائے:
How to Promote Nationalism
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس سیمنار (seminar)میں شرکت کی اور موضوع پر 15 منٹ کی ایک تقریر کی۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ حبّ وطن انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اِس معاملے میں مسلمانوں کے اندر نیا ذہن نوآبادیاتی دور میں پان اسلام ازم (Pan-Islamism) کی تحریک کے تحت پیدا ہوا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ قومیت کا تعلق مذہب سے ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی (وفات: 1957 )نے اِس نقطۂ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ— فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں:
In present age, nationhood is based on homeland.
مگر اِس بیان سے مسلمانوں کا ذہن بدل نہ سکا، کیوں کہ مسلم علماء نے یہ کہہ دیا کہ مولانا مدنی نے جو کچھ کہا، وہ انشا نہ تھی، بلکہ خبر تھی۔ ضرورت ہے کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کے ذہن کی اصلاح کی جائے، ورنہ مسلمان ہر ملک میں غیر وفادار بن کر رہ جائیں گے۔
3 - الرسالہ مشن سے وابستہ ایک ساتھی نے امام حرم مکی شیخ عبد الرحمن السدیس سے ایک خصوصی پروگرام کے دوران مکہ میں ان کے گھر پر ملاقات کی۔ ملاقات کے وقت انھوں نے دیکھا کہ امام حرم کے مطالعے کی میز پر صدر اسلامی مرکز کی کتاب الإسلام یتحدی رکھی ہوئی ہے۔ ہمارے ساتھی نے امام صاحب سے پوچھا کہ آپ شیخ وحید الدین کو جانتے ہیں۔ امام حرم نے کہا کہ شیخ وحیدالدین دورِ جدید کے عظیم داعی اور مفکر ہیں، ان سے کون ناواقف ہوسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دعوتِ اسلامی کے احیاء اور اسلام اور دورِ جدید کی نسبت سے شیخ وحید الدین نے جو کام کیا ہے، وہ بلا شبہہ ایک تجدیدی کام ہے۔ ہمارے ساتھی نے ان کوبتایا کہ شیخ وحید الدین کی تفسیر کا عربی ایڈیشن مصر سے شائع ہوچکا ہے۔ اِس سلسلے میں تذکیر القرآن (عربی) کا ایک سیٹ امام حرم کو صدر اسلامی مرکز کی طرف سے حسب ذیل خط کے ساتھ (22 اکتوبر 2010) کو دستی طورپر روانہ کیا گیا:
إلی فضیلۃ الشیخ د؍عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللّہ وبرکاتہ
فیطیب لی أن أرفق طیہ نسخۃ من ’’التذکیر القویم فی تفسیر القرآن الحکیم‘‘ (3 مجلدات) وہو أہم وأضخم ما نقل إلی العربیۃ من مؤلفاتی أخیراً. وقد قام بترجمتہ من لغۃ الأردو الأخ أبوصالح أنیس لقمان الندوی وتولی تقدیمہ ونشرہ الأستاذ د؍عبد الحلیم عویس من دار الوفاء القاہریۃ منذ حوالی سنۃ ونصف.
وإذا کان کتابی ’’الإسلام یتحدی‘‘ موجہاً إلی العقل المعاصر عامۃ لإثبات أحقیۃ مبادیٔ الإسلام وخلود رسالتہ فی مواجہۃ تیارات الفکر العلمانی الحدیث؛ فإننی حاولت من خلال تفسیری المتواضع ہذا أن أذکّر المسلمین خاصۃ وہم أمناء علی کتاب اللّٰہ برسالتہم ومسؤولیتہم تجاہہ. ومن ثم یدور ہذا التفسیر حول نقطۃٍ مرکزیۃ ہی ’’الدعوۃ‘‘ والتی تجدونہا مناسبۃ فی کل سطر من سطورہ. فالقرآن الکریم ہو کتاب ’’الدعوۃ إلی اللہ‘‘ أولاً وأخیراً. والامۃ الإسلامیۃ ہی قبل کل شـیئ وبعد کل شیئ’’أمۃ دعوۃ‘‘ وبالتالی علیہا أن تلتمس کل الطرق الحکیمۃ والسلمیۃ المتاحۃ وکل الأسالیب المعاصرۃ والفعالۃ لأجل تبلیغ دعوۃ القرآن إلی البشریۃ جمعاء.
وإننی إذ أہدی ہذا الکتاب إلی فضیلتکم؛ راجیاً أن یحظی بحسن القبول عندکم؛ أسأل اللّٰہ تعالی أن یوفقنا جمیعاً إلی السعی الحثیث الجاد لإدخال کلمتہ إلی کل بیت ’’مدر أو وبر‘‘؛ کما ورد فی حدیث مسند الإمام أحمد. (أخوکم فی اللہ وحید الدین خان)
4 - حکومتِ شارجہ (عرب امارات) کی جانب سے شارجہ ایکسپو سنٹر میں 26 اکتوبر تا 6 نومبر 2010 کے درمیان ایک انٹرنیشنل بک فیر منعقد ہوا۔ اس کا افتتاح شارجہ کے حکمراں دکتور السلطان بن محمد علی القاسمی (71سال) نے کیا۔ اِس بک فیر میں نئی دہلی کے گڈ ورڈ بکس نے حصہ لیا۔ اسٹال پر بڑی تعداد میں لوگ آئے۔ انھوںنے خاص طورپر، صدر اسلامی مرکز کے انگریزی ترجمہ قرآن اور پرافٹ آف پیس کو بے حد پسند کیا اور اس کو شوق سے خریدا۔
5 -یکم نومبر 2010 کو مولانا مکرم حسین قاسمی اور مولانا محمد ذکوان ندوی نے لکھنؤ کے ایک عقدِ نکاح میں شرکت کی۔ یہاں انھوں نے لوگوں کو ماہ نامہ الرسالہ اور دعوتی لٹریچر برائے مطالعہ دیا۔اس موقع پر بہرائچ (یوپی) کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوؤں کو قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ جیوتی وسترالے کے مالک مسٹر شرما نے قرآن کو دیکھ کر اپنی غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ — لمبے عرصے سے میں قرآن کو پڑھنا چاہتا تھا، مگر اب تک میں اس کو حاصل نہ کرسکا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اب میں ضرور قرآن کو پڑھوں گا۔
6 -دور درشن (نئی دہلی) کے اردو ٹی وی چینل کی ٹیم نے 10 نومبر 2010 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو حج اور قربانی کے موضوع پر تھا۔ سوالات کے دوران موضوع کی وضاحت کی گئی۔
7 - نظام الدین ویسٹ (نئی دہلی) کے کمیونٹی سنٹر میں 14 نومبر 2010 کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام کمیونٹی کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کو ایک اعزازی ایوارڈ دینے کے لیے کیاگیا تھا۔ اِس موقع پر بڑی تعداد میں ہندو اورمسلم افراد موجود تھے۔ ان لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
8 - وائی ایم سی اے (Young Men’s Christian Association) کی طرف سے 17 نومبر2010 کو اس کے کیمپس گول مارکیٹ (نئی دہلی) میں ایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار حقوق اطفال (child rights) کے موضوع پر تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلام کی روشنی میں موضوع پر انگریزی زبان میں آدھ گھنٹہ تقریرکی۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
9 - خان مارکیٹ (نئی دہلی) میں 22 نومبر 2010 کو ہمارے ساتھیوں نے وہاں جاکر لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ لوگوں نے اس کو بے حد شوق سے لیا۔
10 - نئی دہلی کے سینٹ ایگنلس فادر اسکول (St. Agnel’s Father School) میں 23 نومبر 2010 کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام کیرلا کے اسوسی ایشین آف کرسچن فلاسفرس آف انڈیا (ACPI) کی طرف سے شائع کردہ انسائکلوپیڈیا آف فلاسفی (دو جلدیں) کے افتتاح کے موقع پر کیاگیاتھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں علم کی اہمیت پر ایک تقریر کی۔ پروگرام کے صدر سپریم کورٹ کے جسٹس مارکنڈے کاٹجو (Makandey Katju)تھے۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
Maulana Wahiduddin Khan is a role model for India.
اِس پروگرام میں انڈیا کے مختلف کرسچن اسکولوں کے پرنسپل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو اور مسیحی افراد شریک تھے۔ان لوگوں کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
11 -سی پی ایس کے کچھ لوگ 24 نومبر 2010 کو نئی دہلی کے لال قلعہ گئے۔ اِس موقع پر انھوں نے وہاں کے زائرین (visitors) کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
12 -روڑکی (اتراکھنڈ) کے آئی آئی ٹی کالج میں 28 نومبر 2010 کو مسٹر ساجد انور نے سی پی ایس کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کے دعوتی لٹریچر کے لیے ایک بک کارنر (Book Corner)قائم کیا۔ انھوں نے یہاں کے طلبا اور اساتذہ کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
13 -سہارن پور سی پی ایس برانچ نے 28 نومبر 2010 کو ایک دعوتی پروگرام کیا۔ اِس میں بطور چیف گیسٹ سوامی چنمیہ آنند (صدر، وویکا نند ٹرسٹ، گروکل، ہری دوار) کو بلایا گیا تھا۔ اِس پروگرام کا موضوع امن اور اسلام تھا۔ اِس پروگرام میں اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات نے شرکت کی۔ ان لوگوں کو قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ سوامی پریم وکرم نے اپنے لوگوں کو بطور خود قرآن کا ترجمہ دیا۔ اِس موقع پر سوامی اگنی ویش نے صدر اسلامی مرکز کی تفسیر تذکیر القرآن کا ہندی ترجمہ حاصل کیا۔
14 -نئی دہلی کے سائی انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ) میں 29 نومبر 2010 کو اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ تقریر کا موضوع یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
صدر اسلامی مرکز نے انگریزی زبان میں موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں انڈیا کے مختلف اسکولوں کے پرنسپل نے شرکت کی۔ یہاں لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
15 - پستک میلہ سمیتی (نئی دہلی) کی جانب سے جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی کے تاریخی گراؤنڈ جے پال سنگھ اسٹیڈیم میں 3 دسمبر سے 12 دسمبر 2010 کے درمیان ایک نیشنل بک فیر منعقد ہوا۔ اِس بک فیر میں نئی دہلی سے گڈ وڈ بکس نے حصہ لیا۔ بڑی تعداد میں وزٹرس اسٹال پر آئے۔ بک اسٹال کا انتظام شاہ عمران حسن نے سنبھالا۔
16 - نئی دہلی کے بھائی ویر سنگھ ساہتیہ سدن (گول مارکیٹ) کے ہال میں 8 دسمبر 2010 کو ایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار گورنمنٹ آف انڈیا کے ڈپارٹمنٹ آف کلچر کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اِس کا موضوع یہ تھا:
International Seminar on Guru Granth Sahab.
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں اسلام کے تعارف پر ایک تقریر کی۔ اِس سیمنار میں سِکھ کمیونٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ سی پی ایس کی طرف سے ان لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
17 -کشمیر کے انگریزی میگزین (Kashmir Scan) کی نمائندہ مزسماء ثابت نے 16 دسمبر 2010 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع صدر اسلامی مرکز کی زندگی اور اُن کا مشن تھا۔ سوالات کے دوران تفصیل سے دونوں پہلوؤں کے بارے میں بتایا گیا۔
18 - ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) میں مسلسل صدر اسلامی مرکز کے مضامین شائع ہورہے ہیں۔ اس سلسلے میں قارئین کے تاثرات سی پی ایس کو موصول ہوتے ہیں۔ یہاں اُن میں سے دو تاثرات نقل کئے جاتے ہیں:
I have gone through the ‘Speaking Tree’ column of Times of India with the caption ‘Big Birds of the Storm’ (TOI, Dec. 23, 2010) Your ability to present the cardinal truths in simple language is commendable. I specially appreciate your efferots to enlighten the common man with such great rich spiritual practices which would enhance universal brother-hood and eternal peace in the world. Please accept my sincerest gratitude for the superior job you are doing in the interest of mankind. (Naresh Garg, Managing Trustee, Delhi)
ک Thank you very much for such a beautiful article! Today what I learned from this article was very inspiring for me.Many people tried to explain me how to maintain calmness, but I could not maintain, and this article ('Big Birds of the Storm) did such a work that none ever did anytime! This article was really very good and very inspiring, I will really forward this article (Big Birds of the Storm) to schools and colleges. (Sagar Agarwal, Delhi)
19 - قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر بڑے پیمانے پر غیر مسلموں کے درمیان پھیلایا جارہا ہے۔ لوگ خوشی کے ساتھ اس کو قبول کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہاں اُن میں سے چند تاثرات نقل کئے جاتے ہیں:
ک I feel so indebted for the great gift I have been waiting, The Quran I just received today at midday, may God bless you abundantly and your team for this great mission, I was not able to read Quran as many I came across were in either Arabic or Roman but now I can read on my own. I am so happy. (Hillary Olola, Homabay, Nairobi, Kenya)
ک I have a great regard for the religion of Islam and particularly, for Maulana Wahiduddin Khan, who interprets the Holy Quran, the Sahih Hadith & the life of the Prophet Muhammad in the most simple and practical manner. (Srinivasan Balakrishnan, Jamshedpur, Jharkhand)
ک I truly believe that Maulana Wahiduddin Khan's understanding of Islam is wonderful and truly beneficial, he is one of the reasons that I have fell in love with Islam all over again. He will most definitely be one of the scholars I continue to read, and if his methodology was firmly promoted all over the world, I believe that many of those Muslims with ideological political agendas can come to see the truth of Islam and Prophet Message, insha Allah. I love Maulana Wahiduddin Khan's understanding of the ahl-Kitab and the respect he shows for other religions. May Allah continue to bless Maulana Wahiduddin Khan and I look forward to becoming a student of his teachings and methodologies. Maulana Wahiduddin Khan’s understanding of true Islam is what the world needs! (Mike Westerfield, Panama, Florida, USA)
ک Maulana Wahiduddin Khan is one of the Islamic scholars that caused Islam to be presented in the modern era. The sole reason behind this is that he presented Islam in a logical and scholarly way. (Muhammad Bilal, Pakistan)
20 - سی پی ایس کی طرف سے مختلف لائبریریوں کو اسلامی کتابیں بھیجی جارہی ہیں۔ لوگ اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول کرکے اپنی لائبریری میں جگہ دیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں یہاں ایک خط نقل کیا جارہا ہے:
ک Thank you very much for sending us a set of books from the Centre for Peace and Spirituality International, authored by Maulana Wahiduddin Khan. After the customary review by the Library Book Selection committee, it will be added to our library for utilization of our readers. It is indeed a pleasure to add such well-written books to our library. (Br. Vidyachitanya, Ramakrishna Mission Library, New Delhi)
21 - سی پی ایس کی طرف سے معروف اجتماعی مقامات — ہوٹل، ہاسپٹل، ریلوے اسٹیشن، ائرپورٹ، وغیرہ پر قرآن کے اسٹینڈ رکھے جارہے ہیں۔ لوگ یہاں سے بخوشی قرآن کا انگریزی ترجمہ حاصل کرتے ہیں۔
22 - القرآن انسٹی ٹیوٹ (امین آباد، لکھنؤ) کی طرف سے بڑے پیمانے پر صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قراژن غیر مسلموں تک پہنچایا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تمام معاونین کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
23 - حلقہ الرسالہ (بمبئی) کے ساتھیوں نے نومبر 2010 میں ایک مخصوص دعوتی پروگرام بنایاہے۔ یہ ممبئی کی فلم انڈسٹری میں کام کرنے والے اسٹارس (film stars) اور نمائندہ لوگوں سے دعوتی ملاقات کا پروگرام ہے۔ یہ لوگ فرداً فرداً انڈسٹری کے لوگوں سے مل کر ان کو دعوتی لٹریچر پہنچا رہے ہیں۔ انڈسٹری کے کئی اردو داں حضرات نے اپنے پتے پر ماہ نامہ الرسالہ بھی جاری کیا ہے۔ مثلاً مسٹر قادر خان، وغیرہ۔
24 - نئی دہلی کے ٹی وی چینل زی سلام کے اسٹوڈیو میں 24 جولائی 2010 سے صدر اسلامی مرکز کے اسلامی پروگرام کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے۔ اس پروگرام کی اینکر مز شگفتہ یاسمین صاحبہ ہیں۔ دسمبر 2010 تک 35 مختلف اسلامی موضوعات پر صدر اسلامی مرکز کے پروگرام ریکارڈ ہو کر نشر ہوچکے ہیں۔ یہ پروگرام سوال وجواب کی شکل میں ہوتا ہے۔
25 - عربی زبان کے مشہور مصری ادیب اور مصنف ڈاکٹر عبد الصبور شاہین (82 سال) کا 26 ستمبر2010 کو قاہرہ میں انتقال ہوگیا۔ صدر اسلامی مرکز کی کتاب الإسلام یتحدی کا عربی ترجمہ اُنھیں کے براہِ راست تعاون سے تیار کیاگیا تھا۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کے حسب ذیل مضمون میں اِس معاملے کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے:
Dr. Abdussabour Shahin (1928-2010)
While hastily turning the pages of the Kuwaiti magazine Al-Mujtama‘ last week, a familiar face stopped me - it was the image of my and millions’ dear teacher Dr Abdussabour Shahin, but the news printed along the photograph was shocking: he died on 26 September 2010 and was buried in Cairo next day after the funeral prayer at his beloved ‘Amr Ibn Al-‘Aas mosque, Egypt’s first mosque built after the Islamic conquest. He had delivered Friday sermons in this very mosque for years until stopped by the authorities. Dr Abdussabour was one of the greatest names in the contemporary Middle East - a teacher, philosopher and linguist. Author of over 70 books, some multi-volume, he was a familiar face on Arabic channels and in Islamic conferences. He was professor of linguistics in Cairo University’s Darul Uloom College and taught in a number of Arabic universities on deputation. He was elected to the Majlis Shoura, the upper house of Egyptian parliament. But the exceptional honour he received was to be the Imam Jumu‘ah of ‘Amr ibn Al-‘Aas mosque where great personalities, like Shaikh Muhammad Al-Ghazali, had traditionally delivered the Friday sermon attended by tens of thousands of people who used to travel to that mosque from various corners of Cairo and nearby Giza. He was a master of French language too and translated many books of the Algerian thinker Malek Bennabi as well as the epoch-making book of Abdullah Draz on morals in Islam. I consider him my real teacher in life. Although I studied in Darul Uloom, but he did not teach me there as he taught in the Arabic department while I was in the department of Islamic history. I had wanted to translated my father’s book, Ilm-e Jadeed ka challenge’ (God Arises) and asked the great ‘alim Shaikh Abdullatif Draz who was a former Vice Chancellor of Al-Azhar and treated me like his son. His suggestion was to go to Dr Abdussabour Shahin as he was the best person for this job. He at once phoned Dr Shahin who, in turn, readily agreed. This was in the early days of 1968. Next, I went to see him with the translation of a few pages of the book. He did not like the translation but liked the content. His disapproval of my translation was repeated again and again and I used to tell him that next day I will bring a better translation. His pet reply was: ‘No, it will be the same again’. Then he used to ask me to explain to him reading the original and he himself used to write those lines. Thus, we continued this onerous task for perhaps eight or nine months with barely a page or so completed in a day. I
used to go to him every evening by trolley bus all the way from Abbasia to his flat on the Qasr al-'Aini Street - a distance of may be 45 minutes each way, spend two-three hours with him and then return to my hostel by around midnight. Thus the book was completed. He soon went to teach in Kuwait University and took the manuscript with him. Soon, the book was published in best possible way titled Al-Islam Yatahadda which made waves in the Arab world and still continues to do four decades later. It helped thwart the secular and westernization onslaught and paved the way for Islamic revival in the Middle East. I soon left Cairo for Libya and from there moved to UK but kept in touch with my teacher who taught me what Arabic is. If I know any amount of Arabic writing, perhaps the best in the Subcontinent, the credit goes to him alone. He was very particular about words and expressions. He was a brave, fearless and highly eloquent Muslim thinker who did not shy away from expressing himself in most difficult situations. I last saw him last year in Makkah during the Dialogue Conference held by King Abdullah. He looked frail, yet attentive and loving as ever. He embraced me, saying ‘‘Habibi’’ - my dear… That was the last time I saw him. May Allah fill his grave with light and award him for his services to Islam and Muslims who will remember him for long. (by Dr. Zafarul Islam Khan, The Milli Gazette, New Delhi, 1-15 Novermber 2010, . 16)
واپس اوپر جائیں

Saturday, 1 January 2011

Al Risala | January 2011 (الرسالہ،جنوری)

2

-ہدایت کا اصول

3

- ذلت او ر مسکنت

4

- امتِ محمدی کی حیثیت

5

- مُقری کا رول

7

- سیاسی حقیقت پسندی

8

- دعاء کیا ہے

9

- دعوت کاحوصلہ

10

- لڑ کر مر جانااسلام نہیں

11

- امن کی طاقت زیادہ

12

- سچائی کی تلاش

13

- مغرب میں بسنے والے مسلمان

14

- طبقۂ عوام، طبقۂ خواص

15

- دعوت اور اصلاح کا فرق

16

- تاریخِ بشری کے پانچ دور

20

- عظیم ترین انقلاب

21

- تعارفِ قرآن

30

- مسئلہ کا حل

33

- مال کی حقیقت

34

- امریکا: دوست یا دشمن

35

- صلاحیت کے بغیر اقدام

36

- تیسرا آپشن نہیں

37

- ذہنی ارتقاء

38

- تاریخ کا قانون

39

- سوال وجواب

45

- خبر نامہ اسلامی مرکز


ہدایت کا اصول

قرآن کی سورہ الانفال میں ارشاد ہوا ہے: ولو علم اللہ فیہم خیراً لأسمعہم، ولو أسمعہم لتولّوا وہم معرضون(8: 23) یعنی اگر اللہ جانتا اُن میں کچھ بھلائی تو وہ ضرور اُن کو سنا دیتا، اور اگر وہ اب اُن کو سنادے تو وہ ضرور بھاگیں گے منہ پھیر کر:
If God had found any good in them, He would certainly have made them hear; they will turn away in aversion. (8: 23)
قرآن کی اِس آیت میں جو بات اللہ کی نسبت سے کہی گئی ہے، وہ در اصل انسان کی نسبت سے ہے۔ اِس آیت میں ہدایت ملنے یا نہ ملنے کا اصول بتایا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہدایت عملی طور پر ہر ایک کے سامنے آتی ہے، لیکن اس کی قبولیت کا تعلق ہمیشہ طلبِ حق سے ہوتا ہے۔ جو شخص پہلے سے طالب (seeker)ہو، وہ فوراً ہدایت کو پہچان لیتا ہے اور اس کو دل سے قبول کرلیتا ہے۔
لیکن جس آدمی کے اندر طلب کا گہرا جذبہ موجود نہ ہو، وہ ہدایت کو پہچاننے میںناکام رہے گا، اس کا کنفیوژن اس کے لیے ہدایت کو قبول کرنے میں مانع بن جائے گیا۔
ہدایت کا سارا معاملہ سچی طلب پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر آدمی کے اندر سچی طلب موجودنہ ہو تو ہدایت اس کے سامنے آئے گی، لیکن کسی نہ کسی عذر کی بنا پر وہ اس کو قبول کرنے سے محروم رہے گا۔
طلب اگرچہ ایک فطری چیز ہے، لیکن آدمی ایساکرتا ہے کہ وہ حق کے سوا دوسری چیزوں کو اہمیت دینے لگتا ہے، مثلاً ذاتی یا قومی مصلحتوں کو۔ یہ مزاج آدمی کے اوپر اِس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ حق کو بے آمیز صورت میں دیکھ نہیں پاتا۔
یہ صورت حال اس کو کنفیوژن میں مبتلا کردیتی ہے ، اور کنفیوژن بلا شبہہ قبول حق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے— حق کا سچا طالب وہ ہے جو اِس سے پہلے غیر ِ حق کی نفی کرچکا ہو۔ یہی انسان حق کا طالب ہے اور ایسے ہی انسان کو خدا کی طرف سے حق کی توفیق ملتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذلت او ر مسکنت

قرآن کی سورہ البقرہ میں یہود کے حوالے سے ایک قانونِ فطرت بتایاگیا ہے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں: ضُربت علیہم الذلۃ والمسکنۃ وباؤوا بغضب من اللّٰہ(2: 61) یعنی اُن پر ذلت اور مسکنت ڈال دی گئی اور وہ غضب الٰہی کے مستحق ہوگئے۔
قرآن کی اِس آیت میں ’’ذلت اور مسکنت‘‘ کا لفظ نفسیاتی معنی میں ہے۔ یہ وہ حالت ہے جب کہ آدمی بظاہر ذلیل نہ ہو، اس کے باوجود وہ اپنی داخلی نفسیات کی بنا پر اپنے آپ کو ذلیل محسوس کرے۔ وہ بظاہر محتاج نہ ہو، لیکن اِس کے باوجود وہ اپنی داخلی نفسیات کی بنا پر اپنے آپ کو محتاج محسوس کرے ۔قرآن کی مذکورہ آیت میں اُن کی اِسی نفسیاتی حالت کا ذکر ہے، نہ کہ اُن کی واقعی حالت کا۔
یہ نفسیاتی حالت اُس قوم کے اندر پیدا ہوجاتی ہے جو اپنے عقیدے اور اپنی تاریخ کی بنا پر اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگے، جس کے یہاں اعتقادی طورپرخیر الملل اور افضل الامم کا تصور پایا جاتا ہو۔ اِسی کے ساتھ وہ اپنی گزشتہ تاریخ کی بنا پر عظمتِ رفتہ (past glory) کی یادوں میں جینے والی ہو۔ جو قوم اِس نفسیات میں مبتلا ہو، اس کے اندر فرضی فخر (false pride) کا ذہن بن جاتاہے، اور یہی فرضی فخر ہے جس کی بنا پر نفسیاتی ذلت اور نفسیاتی مسکنت کا ذہن کسی قوم میں پیدا ہوجاتا ہے۔
فرضی فخر کی یہ نفسیات نمایاں طور پر دو مذہبی گروہوں میں پیدا ہوئی— ایک، یہود اور دوسرے، مسلمان۔ پہلے زمانے میں یہود اِس نفسیات میں مبتلا ہوئے تھے اور موجودہ زمانے میں مسلمان اِس نفسیات کا شکار ہیں۔ موجودہ زمانے میں مسلمان ایک بلین سے زیادہ ہیں، 57 ملکوں میں ان کی حکومت ہے۔ مادی اعتبار سے، ان کو ہر چیز حاصل ہے۔ اِس کے باوجود ہر مسلمان من حیث القوم ذلت اور مسکنت کی نفسیات میں جی رہا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ اُن کو اپنے فرضی فخر (false pride)سے کم نظر آتاہے — فرضی فخر کی یہی نفسیات موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے تمام مسائل کا اصل سبب ہے۔
واپس اوپر جائیں

امتِ محمدی کی حیثیت

انسان کی تخلیق کے بعد اُس کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نظام قائم کیا کہ مسلسل ان کی طرف پیغمبر بھیجے (23: 44)۔ مگر اِس ہدایت رسانی کے لیے ہر قوم اور ہر نسل میں پیغمبر نہیں بھیجے گئے۔ بلکہ ایک منتخب قوم میں پیغمبر بھیجے گئے، اِس قوم کی یہ ذمہ داری قرار پائی کہ وہ اپنے پیغمبر کے ذریعہ ہدایت ِ ربانی کو حاصل کرے اور پھر پیغمبر کی نیابت میں دوسری قوموں تک اِس ہدایت کو مسلسل پہنچاتی رہے۔ پیغمبروں کی آمد کا یہ سلسلہ قائم رہا، یہاں تک کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیغمبروں کی بعثت کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔قرآن میں بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ تم کو ہم نے سارے عالم پر فضیلت دی (2: 47)۔ اِس آیت میں ہدایت الٰہی کے اِسی نظام کا ذکر ہے۔ امتِ محمدی سے پہلے اللہ تعالیٰ نے امتِ یہود کو اِس عمل کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو پیغمبر آئے، وہ یہود یا بنی اسرائیل میں آئے۔ اُس وقت یہود کی یہ ذمّے داری تھی کہ وہ اپنے پیغمبروں سے ہدایت الٰہی کو حاصل کریں اوراس کو دوسری قوموں تک پہنچاتے رہیں۔ مگر بعد کے زمانے میں یہود کے اندر بگاڑ آگیا۔ یہ بگاڑ اِس حد تک پہنچا کہ وہ پیغمبرانہ نصیحت کو سننے پر راضی نہ ہوئے، حتی کہ وہ آخری اسرائیلی پیغمبر حضرت مسیح کے قتل کے درپے ہوگئے۔ اِس کے بعد اُن سے مذکورہ فضیلت چھین لی گئی، اور یہ فضیلت امتِ محمدی کو دے دی گئی۔قرآن میں امتِ محمدی کو خیر امت (3: 110) کہاگیا ہے، اور حدیث میں اُن کے لیے فضیلت کے الفاظ آئے ہیں (مسند احمد، جلد 5، صفحہ 383 )۔ اِس سے مراد یہی ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے امتِ محمدی کو اُس ذمے داری کے لیے منتخب فرمایا ہے جو ذمے داری پہلے یہود کو دی گئی تھی۔ پہلے جس اعتبار سے، یہو د کی حیثیت منتخب امت کی تھی، اب اُسی اعتبار سے، امتِ محمدی کی حیثیت ایک منتخب امت کی ہے۔ امتِ محمدی کا فرضِ منصبی یہ ہے کہ وہ سارے عالم کے اوپر دعوت الی اللہ کا کام کرے اور ہر جنریشن میں اس کو جاری رکھے۔ اِس عملِ دعوت کو چھوڑنے کے بعد امتِ محمدی کی منتخب حیثیت اُسی طرح ختم ہوجائے گی جس طرح اِس سے پہلے امت یہود کی حیثیت ختم ہوگئی تھی۔
واپس اوپر جائیں

مُقری کا رول

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر 610 عیسوی میں قرآن کا پہلا حصہ اترا۔ اس کا پہلا لفظ یہ تھا: اقرأ،یعنی اے پیغمبر، تم مُقری بن جاؤ، مقری کے لفظی معنی ہیں پڑھ کر سنانے والا (reciter) اس آیت کے نزول کے فوراً بعد یہ ہوا کہ پیغمبر اسلام مقری بن گئے۔ اُس وقت آپ مکہ میں تھے۔ آپ جہاں بھی دیکھتے کہ کچھ لوگ اکھٹا ہیں، آپ وہاں جاتے اور قرآن کے نازل شدہ حصہ کو انھیں پڑھ کر سناتے، چناں چہ روایتوں میں آتا ہے کہ: عرض علیہم الإسلام، وتلا علیہم القرآن۔
پیغمبر اسلام کے اصحاب نے بھی اِسی طریقہ کو اختیار کرلیا، ہر صحابی عملاً مقری بن گیا۔ انٹریکشن (interaction) کے دوران جب بھی کوئی صحابی کچھ لوگوں کو پاتا، وہ مقری بن کر ان کو قرآن کے حصے پڑھ کر سناتا۔ مقری کا لفظ اگر چہ مکی دور میں استعمال نہیں ہوا، یہ لفظ پہلی بار اس وقت استعمال ہوا جب ہجرت سے کچھ پہلے ایک صحابی (مصعب بن عمیر) مکہ سے مدینہ بھیجے گئے، وہ وہاں یہی کرتے تھے کہ جس مقام پر وہ دیکھتے کہ کچھ اہل مدینہ اکھٹا ہیں، وہاں وہ چلے جاتے اور قرآن کا کچھ حصہ انھیں پڑھ کر سناتے۔ یہی ان کا دعوہ ورک تھا ، مدینہ میں ان کو مقری کہا جانے لگا، یعنی داعی۔یہی دعوت کا اصل کام ہے، یعنی قرآن کو پڑھ کر سنانا، رسول اور اصحاب رسول کے زمانہ میں پرنٹنگ پریس وجود میں نہیں آیا تھا، اُس وقت کسی مومن کے لیے مقری یا داعی بننے کی ایک ہی ممکن صورت تھی، یہ کہ وہ قرآن کو یاد کرے، اور حافظہ کی مدد سے قرآن کے حصے لوگوں کو پڑھ کر سنائے۔
حدیث میں دو گروہوں کا خاص طورپر ذکر کیا گیا ہے، ایک اصحاب رسول اور دوسرے اخوانِ رسول۔ غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اصحابِ رسول سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر اہلِ ایمان ہیں، انھوںنے رسول اللہ سے براہِ راست قرآن کو سنا، اور اس کو یاد کرلیا، پھر وہ حسبِ موقع لوگوں کو قرآن کے مختلف حصے پڑھ کر سناتے رہے، اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ہر صحابی مقری تھا، مہاجر صحابہ بھی اور انصار صحابہ بھی۔ دعوت الی اللہ کا بنیادی طور پر یہی معیاری ماڈل ہے۔ قرون مشہود لہا بالخیر تک یہ ماڈل عملاً قائم رہا، لیکن بعد کے زمانے میں مختلف اسباب سے یہ ہوا کہ دعوت کا تصور شعوری یا غیر شعوری طورپر ملت کے ذہن سے حذف ہوگیا، اس کے بعد بھی اگر چہ اسلام خود اپنے زور پر پھیلتا رہا، لیکن جہاں تک مدوّن عربی لٹریچر کا تعلق ہے، اس میں دعوت کا شعور یکسر مفقود نظر آتا ہے۔
حدیث کے مطابق، ظہورِ اسلام کے ایک ہزار سال بعد ایک گروہ پیدا ہوگا، اِس گروہ کا نام حدیث میں اخوانِ رسول (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ) بتایا گیا ہے، یعنی دورِ آخر میں اصحاب رسول والا رول ادا کرنے والا گروہ۔ یہ وہ خوش قسمت لوگ ہوں گے جو بعد کے زمانے میں دوبارہ مقری کے رول کو دریافت کریں گے اور اس کو بھر پور طورپر انجام دیں گے۔
اس اعتبار سے تاریخ کو دو دور میں تقسیم کیا جاسکتا ہے — پرنٹنگ پریس سے پہلے کا دور، اور پرنٹنگ پریس کے بعد کا دور۔پرنٹنگ پریس سے پہلے کے دور میں مقری کا رول یہ تھا کہ قرآن کو حافظہ کی مدد سے یاد کرلینا اور اس کو پڑھ کر لوگوں کو سنانا، پرنٹنگ پریس کے وجود میں آنے کے بعد فطری طور پر مقری کا رول یہ ہوگا کہ وہ قرآن کے مطبوعہ نسخے تیار کریں اور اس کو لوگوں کے درمیان تقسیم (distribute) کریں۔ پرنٹنگ پریس کے دور سے پہلے اس رول کا نام مقری تھا، اور پرنٹنگ پریس کے ظہور میں آنے کے بعد اس رول کا نام ڈسٹری بیوٹر (distributer) ہوگا۔ یہ تقسیم اور ڈسٹری بیوشن کوئی سادہ کام نہیں، یہ ایک عظیم نوعیت کی پُرامن مہم ہے۔ قدیم زمانے میں اِس مہم کے تحت مقری کلچر وجود میں آیا تھا، اب پریس کے دور میں اس مہم کے تحت دوبارہ ایک ڈسٹری بیوشن کلچر وجود میں آئے گا۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانے میں یہ ہوگا کہ دنیا کے تمام گھروں میں اللہ تعالیٰ اسلام کا کلمہ داخل کردے گا۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس حدیث میںادخال ِ کلمہ سے مراد ادخالِ قرآن ہے۔ آخری دنوں میں یہ عالمی واقعہ اخوانِ رسول کے ذریعہ پیش آئے گا۔ اصحاب رسول دورِ اول کے مقری بنے تھے، اخوانِ رسول دورِ آخر کے مقری ہوںگے۔ پرنٹنگ پریس سے پہلے کے زمانے میں اصحاب رسول نے قرآن کو پڑھ کر سنانے کے ذریعہ مقری کا رول ادا کیا تھا۔ آخری زمانے میں اخوان رسول، مقری کا یہی رول اِس طرح ادا کریں گے کہ وہ قرآن کے مطبوعہ نسخے ساری دنیا میں پہنچادیں گے۔
واپس اوپر جائیں

سیاسی حقیقت پسندی

حدیث کی کتابوں میں کثرت سے ایسی روایتیں آئی ہیں جن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ ہدایت دی کہ تم کسی بھی حال میں حکمرانوں سے ٹکراؤنہ کرنا۔ اگر تم سیاسی بگاڑ دیکھو تو اُس سے اعراض کرتے ہوئے غیر سیاسی دائرے میں اپنا کام جاری رکھنا۔ یہ روایتیں احادیث کے مجموعے میں کتاب الفتن کے تحت دیکھی جاسکتی ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہدایت ایک اہم حکمت (wisdom) پر مبنی ہے، وہ یہ کہ قانونِ فطرت کے تحت اِس دنیا میں کبھی معیاری سیاسی نظام نہیں بن سکتا۔ جو نظام جب بھی بنے گا، وہ یقینی طورپر آئڈیل سے کم ہوگا۔ ایسی حالت میں پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) یہ ہے کہ لوگ سیاسی نظام کے معاملے میں معیار سے کم (less than ideal) پر راضی ہوجائیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں مستقل سیاسی ٹکراؤ جاری رہے گا اور کبھی امن اور اعتدال کی حالت قائم نہ ہوگی، جب کہ تعمیری کام کرنے کے لیے امن اور اعتدال کی حالت لازمی طورپر ضروری ہے۔
موجودہ زمانے میں اس کی ایک مثال مصر ہے۔ اسلام پسند عرب لیڈر سیاسی بگاڑ کے نام پر شاہ فاروق بن فواد (وفات:1965 ) کے خلاف ہوگئے، حتی کہ فوج کی مدد سے انھوںنے 1952 میں شاہ کو مصر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد جنرل نجیب محمد (وفات: 1984) مصر کے صدر بنائے گئے اور دوبارہ اختلافات شروع ہوگئے، یہاں تک کہ 1952 میں ان کو عہدے سے معزول کرکے ہاؤس اریسٹ کردیاگیا ۔ اس کے بعد جمال عبد الناصر مصر کے صدر بنے، مگر اسلام پسند لیڈروں سے ان کا ٹکراؤ اور زیادہ بڑھ گیا، یہ ٹکراؤ جاری رہا، یہاں تک کہ 1970 میں 52 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد محمد انور السادات مصر کے صدر بنے یہاں تک کہ 1981 میںان کو گولی مار دی گئی۔ اس کے بعد سے حسنی مبارک مصر کے صدر ہیں، اور حال یہ ہے کہ اسلام پسند عربوں سے ان کا سیاسی اختلاف بدستور جاری ہے — تقریباً 60 سال کی نام نہاد اسلامی سیاست نے مصر کو تباہی کے سوا کچھ اور نہیں دیا ۔
واپس اوپر جائیں

دعاء کیا ہے

دعاء کوئی سادہ چیز نہیں، دعا دراصل خدا کو انووک (invoke) کرنا ہے۔ دعاء گویا کہ خدا کی قدرت کو مخاطب کرنا ہے ۔ بلاشبہہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک سچی دعا جب ایک عاجز انسان کی زبان سے نکلتی ہے تو بلا شبہہ وہ خدا کی غیرت کے لیے ایک چیلنج کے ہم معنی ہوتی ہے۔ جب ایک عاجز انسان حقیقی سائل بن کر اللہ کے آگے اپنا ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ اپنے مسئلے کو اللہ کا مسئلہ بنا دیتا ہے۔ اُس وقت گویا اللہ کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس کو خالی ہاتھ لوٹا دے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیثِ رسول میںاِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إن اللہ حییّ کریم یستحیی إذا رفع الرجل إلیہ یدیہ أن یردہما صفرا خائبتین (الترمذی ،رقم الحدیث: 3556 )
دعاء کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ الخ جیسی دعائیں یاد کرلے اور اس کو پڑھتا رہے۔ دوسری زیادہ موثر صورت یہ ہے کہ کسی واقعے کو پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بنا کر دعاء کی جائے۔ مثلاً برٹش دور میں لکھنؤ میںایک کلکٹر تھے۔ ان کا نام صدیق حسن (آئی سی ایس) تھا۔ انھوں نے اُس زمانے کے ایک ڈاکو سُکھوا کو پکڑا اور اس کو ہتھکڑی لگا کر ڈاک بنگلہ کے ایک کمرے میں بند کردیا۔یہ سخت سردی کا زمانہ تھا۔ رات کے وقت صدیق حسین صاحب راؤنڈ پر نکلے تو اُن کو دیکھ کر سکھوا ڈاکو نے کہا: جنٹ صاحب، آپ کا سکھوا سردی کھارا ہے۔ یہ سن کر صدیق حسن صاحب اپنے کمرے میں گئے اور خود اپنا کمبل لا کر سکھوا ڈاکو کو اڑھا دیا۔
اِس واقعے کو لے کر کوئی کہے کہ خدایا، سکھوا ایک مجرم تھا۔ اِسی کے ساتھ وہ ایک عاجز انسان تھا۔ کلکٹر نے سکھوا کے عاجز ہونے کی حیثیت کو اس کے مجرم ہونے کی حیثیت سے الگ کرکے دیکھا اور پھر اس کے ساتھ مہربانی کا معاملہ کیا۔ تو بھی میرے ساتھ اِسی طرح کا معاملہ فرما۔ میرے قصور وار ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کراور عاجز ہونے کی حیثیت سے میرے ساتھ رحمت کا معاملہ فرما۔ اگر کوئی بندہ اِس طرح کہے تو عین ممکن ہے کہ اللہ اس کی التجا کو قبول کرتے ہوئے اس کو معاف کردے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کاحوصلہ

21 اپریل 2010 کو ایک واقعہ ہوا۔ نئی دہلی کے تین مورتی آڈیٹوریم میں سسٹینیبل ڈیولپمینٹ(Sustainable Development) کے موضوع پر ایک سیمنار تھا۔ اس سیمنار میں ٹاپ کے لوگ آئے ہوئے تھے۔ ایک بڑے لیڈر بھی اس میں موجود تھے۔ انھوںنے موضوع پر تقریر کی اور اسٹیج سے اٹھ کر باہر جانے لگے جہاں ان کی گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ ہماری ٹیم کے لوگ وہاں قرآن کا انگریزی ترجمہ لے کر گئے تھے اور لوگوں کو دے رہے تھے۔
ٹیم کی ایک ممبر سعدیہ خان نے جب دیکھا کہ مذکورہ لیڈر باہر جارہے ہیں تو وہ قرآن کا نسخہ اپنے ہاتھ میں لے کر تیزی سے بڑھیں، تاکہ وہ اس کو مذکورہ ہندو لیڈر کو دے دیں، مگر مذکورہ لیڈر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ چلتے ہوئے گاڑی تک پہنچ گیے۔ سعدیہ خان جب وہاں پہنچیں تو منظر یہ تھا کہ ان کے ساتھیوں نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور مذکورہ لیڈر گاڑی کے اندر داخل ہوگئے۔ دروازہ ابھی پورا بند نہیں ہوا تھا کہ سعدیہ خان تقریباً چلا کر بولیں — ایکسکیوز می سر(Excuse me, sir)
مذکورہ لیڈر آواز سن کر ایک لمحہ کے لیے رک گئے۔ اتنے میں سعدیہ خان نے قرآن کا ایک نسخہ ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا—سر، یہ آپ کے لیے ہے:
This is for you, sir
سعدیہ خان کے اندر یہ غیر معمولی حوصلہ کہاں سے آیا، اس کا راز قرآن تھا۔ کوئی اور کتاب سعدیہ خان کے اندر یہ حوصلہ نہیں پیدا کرسکتی تھی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑا سرمایہ اس کا حوصلہ (courage) ہوتا ہے۔ قرآن بلا شبہہ سب سے بڑا سرمایۂ حوصلہ ہے۔ داعی وہ ہے جو قرآن کو اِس حیثیت سے دریافت کرلے— دعوت، مسلمان کا سب سے بڑا فریضہ ہے اور قرآن کتابِ دعوت ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے حوصلے کا سب سے بڑا سر چشمہ۔
واپس اوپر جائیں

لڑ کر مر جانااسلام نہیں

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ جس چیز کی کمی ہے، وہ صبر وتحمل ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان ہر جگہ اِس کمی کی بھاری قیمت دے رہے ہیں۔ انھوںنے کہا — کوئی ہمارے گھر میں گھس آئے تو کیا اُس وقت بھی ہم صبر کریں گے۔ میںنے کہا کہ ہاں۔ پھر میں نے اُن کو ایک حدیث سنائی۔ میںنے کہا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو فتنے کے دور میں ٹکراؤ سے منع کیا۔ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا اُس وقت بھی جب کہ ایک شخص میرے گھر میں داخل ہوجائے اور مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھائے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ اُس وقت تم آدم کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے کی طرح بن جاؤ (سنن أبی داؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب فی النہی عن السعی فی الفتنۃ)۔اِس حدیث کو سننے کے بعد مذکورہ مسلمان دوبارہ بحث کرنے لگے۔ میں نے کہا کہ آپ کا یہ طریقہ صحیح نہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اِس حدیث کو سننے کے بعد آپ یہ سوچیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے تو ضرور اس کے اندر کوئی حکمت (wisdom) ہوگی، اور پھر غور کرکے اُس حکمت کو دریافت کریں۔
غور کیجئے تو اس حدیث کے اندر بہت بڑی حکمت موجود ہے، وہ یہ کہ اِس قسم کی صورتِ حال پیش آنے کے بعد تم ردّ عمل کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ یہ سوچو کہ تمھارے اقدام کا نتیجہ (result) کیا ہوگا۔ اقدام سے پہلے آدمی کو ہمیشہ اپنے اقدام کے نتیجے پر غور کرنا چاہیے۔ اگر مثبت نتیجہ پیدا کرنا ممکن ہو تو اقدام کرنا چاہیے، ورنہ اقدام سے باز رہنا چاہیے۔ باز رہنے کا مطلب بے عملی نہیں ہے، بلکہ سوچ سمجھ کر عمل کرنا ہے، یعنی جب ٹکراؤ کا معکوس نتیجہ نکلنے والا ہو تو آدمی کو چاہیے کہ وہ پُرامن طریق کار کو اختیار کرتے ہوئے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اسلام میں لڑکر مرجانا نہیں ہے، اسلام میں یہ ہے کہ آدمی تعمیری عمل کرکے مثبت نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

امن کی طاقت زیادہ

2 دسمبر 2009 کی شام کو ایک تعلیم یافتہ مسلمان مسٹر جے ایم بٹ (عمر 60 سال) سے ملاقات ہوئی۔ وہ الرسالہ مشن سے پوری طرح متفق ہیں۔ وہ آج کل افغانستان میں پشتو کے علاقے میں رہتے ہیں۔ وہ وہاں اسلام اور امن کے موضوع پر کام کررہے ہیں۔ وہ پشتو اور فارسی زبان اچھی طرح جانتے ہیں۔ اِس لیے وہ کامیابی کے ساتھ وہاں پُر امن دعوت کا مشن پھیلا رہے ہیں۔
انھوںنے بتایا کہ ایک بار ان کی ملاقات کچھ افغانی انتہا پسندوں سے ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے افغانی انتہا پسندوں سے کہا کہ آپ لوگ خود کش بم باری کیوں کرتے ہیں۔ افغانی انتہاپسندوں نے کہاکہ ہمارے دشمن کے پاس جو ہتھیار ہے، اُس کا جواب ہمارے پاس نہیں، اِس لیے ہم مجبور ہو کر خود کش بم باری کرتے ہیں۔انھوںنے کہا کہ معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ آپ کے پاس جو ہتھیار ہے، اس کا جواب اُن کے پاس نہیں۔ فارسی زبان میں یہ گفتگو اِس طرح تھی:
جوابِ اسلحۂ آنہا پیشِ ما نیست،جوابِ اسلحۂ شُما پیشِ آنہا نیست
انھوں نے کہا کہ آپ تشدد کی طاقت استعمال کررہے ہیں، لیکن اسلام کے مطابق، امن کی طاقت اُس سے زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّ اللہ یعطی علی الرّفق، مالا یعطی علی العنف (صحیح مسلم، کتاب البرّ والصلۃ) یعنی خدا پُرامن عمل پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ متشددانہ عمل پر نہیں دیتا۔ اِس معاملے کی عملی مثال اسلام کی ابتدائی تاریخ میں موجود ہے۔ احد کا غزوہ 3 ہجری میں پیش آیا۔
اِس میں مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس کے بعد 6ہجری میں آپ نے فریقِ ثانی سے امن کا معاہدہ کرلیا، جو معاہدۂ حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ گویا وائلنٹ ایکٹوزم کے بجائے پیس فل ایکٹوزم کو اختیار کرنا تھا۔ اِس کا نتیجہ، قرآن کے الفاظ میں، فتحِ مبین (48: 1)کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ متشددانہ بم پر نظریاتی بم کی برتری کی ایک مثال ہے۔
واپس اوپر جائیں

سچائی کی تلاش

ایک انگریزحقیقت کی تلاش میںتھا۔ اِس سلسلے میں اُس نے بہت سی کتابیں پڑھیں۔ ایک کتاب میں اُس نے پڑھا کہ سب سے بڑی عبادت زندہ لوگوں کی خدمت ہے۔ پھر اس کو معلوم ہوا کہ خدمت کے سب سے زیادہ مستحق حیوانات ہیں۔
چناں چہ اس انگریز نے حیوانات کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ آخر کار وہ ہندستان آگیا۔ اب یہ انگریز اور اس کی بیوی دونوں نئی دہلی میںرہتے ہیں۔ ان کے گھر کے وسیع احاطے میں دس گدھے پلے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ان گدھوں کی خدمت کرتے ہیں۔
ہمارے ایک ساتھی تلاش کرتے ہوئے اس کے گھر پہنچے۔ وہاں انھوں نے دیکھا کہ وہ بیٹھا ہوا ایک گدھے کی ڈریسنگ (dressing) کررہا ہے۔ ہمارے ساتھی جرأت کرکے اس کے پاس گئے۔ ہمارے ساتھی ان کے پاس قرآن کے انگریزی ترجمہ کی ایک کاپی تھی۔
مذکورہ آدمی سے ہمارے ساتھی نے کہا،کیا میں یہ قرآن آپ کو دے سکتاہوں۔ وہ انگریز کھڑا ہوگیا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے قرآن کی کاپی اپنے ہاتھ میں لے لی اور کہا کہ — میں ہمیشہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ سچائی کا دوسرا نقطۂ نظر کیا ہے:
I always wanted to know another version of truth.
اِس قول کو جنرلائز کیا جائے تو اِس میں بیش تر انسانوں کی کہانی چھپی ہوئی ہے۔ وہ لوگ جو کسی چیز کو سچائی سمجھ کر اُسے لئے ہوئے ہیں، وہ سب غیر مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اِس احساس میں رہتے ہیں کہ سچائی شاید کچھ اور ہے، کیوں کہ موجودہ سچائی ان کے مائنڈ کو ایڈریس نہیں کررہی ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے اندر سچائی کی طلب پیشگی طورپر موجود ہے۔ وہ اِس طلب کے تحت کسی نہ کسی چیز کو بطور سچائی لے لیتا ہے، لیکن وہ ہمیشہ بے اطمینانی کی نفسیات میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتا رہتا ہے کہ حقیقی سچائی شاید کچھ اور ہے جس کو اُسے پانا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

مغرب میں بسنے والے مسلمان

20 جون 2010 کو ایک ویڈیو کانفرنسنگ تھی۔ راقم الحروف نے دہلی سے امریکا کے ایک آڈینس کو خطاب کیا۔ یہ خطاب انگریزی زبان میں تھا۔ اس خطاب کا موضوع یہ تھا:
How to do effective dawah work in the Western World.
میں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مغربی ملکوں میں مؤثر دعوتی کام کی پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمان اپنے اندر داعیانہ طرز فکر پیدا کریں۔ اِس وقت مختلف مغربی ملکوں میں دس ملین سے زیادہ مسلمان جاکر آباد ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے پچھلے مائنڈ سیٹ (mindset) کے ساتھ وہاں رہتے ہیں۔ وہ مشرقی گیم کو مغربی فیلڈ میں کھیلنا چاہتے ہیں:
They are playing eastern game in the western court.
یہ طریقہ اسلامی نقطۂ نظر سے سراسر باطل ہے۔ مغربی ملکوں میں بسے ہوئے مسلمانوں کو یہ جاننا چاہیے کہ اُن کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ اُن کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ وہ مغربی قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں۔ وہ اُن سے نفرت کرنا یک طرفہ طورپر چھوڑ دیں۔ مزید یہ کہ یہ چھوڑنا اصولی طورپر ہو، نہ کہ منافقانہ طورپر۔ یہ مسلمان اگر ایسا کریں کہ ان کے دل میں تو نفرت ہو، لیکن وہ اسٹیج پر یا میڈیا میں مختلف بولی بولیں، تو یہ ان کے جرم میں مزید اضافے کے ہم معنی ہوگا۔
مغربی دنیا میں بسنے والے مسلمان جب مغربی قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں گے تو اس کے بعد لازمی طورپر ان کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرے گی۔ ان کی سوچ مثبت سوچ بنے گی، ان کا بول خیر خواہانہ بول بن جائے گا، اُن کا کردار ایک با مقصد انسان کاکردار ہوگا۔ وہ مغربی ملکوں میں حریف اور رقیب کے طورپر نہیں رہیں گے، بلکہ داعی اور مبلغ بن کر رہیں گے۔ وہ ایک مشن کے حامل بن جائیں گے، اُن کو وہ ٹارگیٹ (target) مل جائے گا جو ایک سچے مومن کا ٹارگیٹ ہے، یعنی تمام انسانوں کو خدائی سچائی سے آگاہ کرنا۔
واپس اوپر جائیں

طبقۂ عوام، طبقۂ خواص

کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ وہ تبلیغ کے میدان میں کام کررہے ہیں۔ ان کے عمل کا میدان مسلم عوام ہیں۔ گفتگو کے دوران میںنے کہا کہ آپ لوگ عوام کے درمیان کام کررہے ہیں اور خواص کے طبقے کو چھوڑے ہوئے ہیں، حالاں کہ دعوت و تبلیغ کا پہلا نشانہ خواص کا طبقہ ہوتا ہے جس کو قرآن میں ملاء قوم کہا گیاہے۔ انھوںنے کہا کہ مسلم عوام میں ارتداد کا خطرہ پھیل گیا تھا، اِس لیے ہم نے مسلم عوام کو اپنے تبلیغی کام کا میدان بنایا۔
میںنے کہا کہ موجودہ زمانے میں ارتداد کا خطرہ خود مسلم خواص میں بھی شدت سے پیدا ہوگیا ہے۔اِس خطرے کی نشان دہی مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (وفات: 1999 ) نے اپنی کتاب ’’ردّۃ ولاأبا بکر لہا‘‘ میں کی تھی جو 1959 میں لکھنؤ سے چھپی تھی۔ اِس کتاب میں بتایا گیا تھا کہ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں ایک سنگین خطرہ پیدا ہوگیا ہے جس کو انھوں نے ذہنی ارتداد کا نام دیا تھا۔
میںنے ان لوگوں کو اپنے یہاں کی چھپی ہوئی کچھ کتابیں دیں۔ میںنے ان کو مشورہ دیا کہ آپ عوام کے طبقے میں جو کام کررہے ہیں، اُس کو کرتے رہیے۔
تاہم اِسی کے ساتھ آپ یہ کیجیے کہ آپ اپنے بیگ میں ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتابیں رکھیے اور جب بھی کوئی تعلیم یافتہ مسلمان ملے تو اس کو یہ کتابیں بطور ہدیہ پیش کردیجئے۔ اِس طرح آپ اپنی دونوں قسم کی تبلیغی ذمے داریوں کو ادا کرنے لگیں گے، مسلم عوام میں تقریر اور بیان کے ذریعے اور مسلم خواص میں لٹریچر کے ذریعے۔
میں نے کہا کہ یہ کتابیں آپ کے لیے ایک تبلیغی مددگار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مسلم عوام میں براہِ راست اپنے موجودہ نظام کے ذریعے، اور مسلم خواص میں اِن کتابوں کی تقسیم کے ذریعے۔ انھوں نے اِس مشورے کی اہمیت کو مانا اور کہا کہ ہم ان شاء اللہ اِس مشورے کے مطابق عمل کریں گے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت اور اصلاح کا فرق

دعوت اور اصلاح دونوں بظاہر ایک قسم کے کام ہیں، لیکن دونوں کے درمیان ایک نوعی فرق پایا جاتا ہے — اصلاح ایک روایتی عمل ہے، اور دعوت اس کے مقابلے میں ایک تخلیقی عمل۔ روایتی عمل کسی گروہ کے موجود ذہن کی بنیاد پر چلتا ہے۔
یہ گروہ اگر ایک زوال یافتہ گروہ ہو تو پھر اس کی اصلاح کا عمل بھی اسی کے ہم سطح ہوجائے گا، یعنی وہ گروہ کے زوال یافتہ ذہن کو فیڈ(feed) کرے گا۔ اِسی بنا پر روایتی اصلاح کا کام کرنے والوں کے گرد بہت جلد ایک بھیڑ اکھٹا ہوجاتی ہے، لیکن اس بھیڑ کے اندر کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آتی۔ اس بھیڑ کی حیثیت ٹھیک وہی ہوتی ہے جس کو حدیث میں غُثاء (جھاگ)کہاگیا ہے، یعنی بظاہر بہت سے لوگ مگر حقیقت کے اعتبار سے ایک شخص بھی نہیں۔
دعوت کا عمل، اس کے مقابلے میں ایک تخلیقی(creative) عمل ہے۔ دعوت کے عمل میں داعی وقت کے رجحانات کو پڑھتا ہے، وہ دعوت کو ایسے اسلوب (idiom) میں بیان کرتا ہے، جس سے مدعو کا ذہن ایڈریس (address) ہوسکے۔
دعوت کاعمل ایک اجتہادی عمل ہے۔ دعوت کا عمل خود داعی کی دریافت سے شروع ہوتا ہے۔ یہ دریافت داعی کو ایک نئی اسلامی شخصیت بنا دیتی ہے، پھر داعی کوشش کرتا ہے کہ وہ مدعو کو بھی دریافت کا تجربہ کرائے، وہ مدعو کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا کرے، وہ مدعو کے اندر چھپے ہوئے فطری شعور کو جگائے، وہ مدعو کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ حقیقت کو ایک خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality)کے طورپر پائے، نہ کہ سنی سنائی بات کے طور پر۔
دعوت اور اصلاح کے درمیان اس فرق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اصلاح شروع سے آخر تک ایک بے روح عمل بنا رہتا ہے اور دعوت شروع سے آخر تک ایک زندہ اور تخلیقی عمل— دعوت ایک انقلابی عمل ہے، اور داعی ایک انقلابی انسان۔
واپس اوپر جائیں

تاریخِ بشری کے پانچ دور

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیداکیا اور اس کو خصوصی اہتمام کے ساتھ سیارۂ ارض (planet earth) پر بسایا۔انسان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلسل پیغمبر بھیجے۔اِس سلسلۂ نبوت کے آخری پیغمبر محمد ﷺ تھے۔ اِس کے بعددعوت الی اللہ کی تاریخ مختلف اَدوار سے گزرتی رہی۔ اکیسویں صدی عیسوی میں وہ اپنے آخری دور میں پہنچ چکی ہے۔ اِس آخری دور کے خاتمہ کے بعد قیامت برپا ہوگی اور پھر تاریخ بشری کا وہ تکمیلی دور شروع ہوجائے گا جس کو جنت کا دور کہاگیا ہے۔ انسانی تاریخ کے یہ پانچ ادوار حسب ذیل ہیں:
1 - اعلان حق (proclamation of divine truth)
2 - اظہارِ دین (reprocessing of hisotry)
3 - تائید دین (supporting role)
4 - ادخالِ کلمہ (global dawah)
5 - دورِ جنت(age of eternal paradise)
دعوت کی نسبت سے تاریخ بشری کا پہلا دور آدم سے شروع ہوا، جو کہ پہلے انسان (first man) بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ اِس پہلے دورکا خاتمہ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور پر ہوا۔ آپ نے 610 عیسوی میں اپنی نبوت کاآغاز کیا۔ اِس پہلے دور میں جو کام انجام پایا، وہ بنیادی طورپر یہ تھا کہ ہر نسل کے انسانوں کو وحی پر مبنی سچائی سے آگاہ کردیا جائے۔
آخری پیغمبر کے زمانے میں خدا کی کتاب (قرآن) مکمل طورپر ایک محفوظ کتاب (preserved book) بن گئی۔ بعد کے دور میں یہ محفوظ کتاب، ہدایت کے حصول کے لیے پیغمبر کا بدل بن گئی۔ اِس لیے پیغمبر آخر الزماں کے بعد کوئی پیغمبر اللہ کی طرف سے بھیجا نہیں گیا۔
اظہار دین
دوسرے دور کے کام کو قرآن میںاظہارِ دین (48: 28) کہاگیا ہے۔ یہ کام بنیادی طورپر ساتویں صدی عیسوی میں اصحابِ رسول کی طاقت ور ٹیم کے ذریعے انجام پایا۔ اصحابِ رسول جن کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ تھی، انھوں نے ، اور اِس کے بعد تابعین کی جماعت نے اِس کام کو بخوبی طورپر انجام دیا۔ اِس کام کی خصوصی اہمیت کو اگر مذہبی اصطلاح میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ انھوں نے دورِ شرک کو ختم کرکے دورِ توحید کا آغاز کیا۔ اور اگر اِس کام کو سیکولر اصطلاح میں بیان کیاجائے تو یہ کہا جائے گا کہ انھوںنے توہم پرستی (superstition) کے دور کو ختم کیا اور سائنس کے دور کا آغاز کیا۔
صحابہ اور تابعین کے اِس عمل کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انھوںنے اپنی زندگی میں سارے واقعے کو براہِ راست طورپر انجام دے دیا۔ ان کے رول کی اصل اہمیت یہ ہے کہ انھوںنے انسانی تاریخ میں ایک نیا پراسس (process) شروع کیا۔ یہ پراسس تقریباً ایک ہزار سال میں اپنی آخری تکمیل (culmination) تک پہنچا۔ اِس کے نتیجے میں دنیا میں دعوت کے موافق حالات پیدا ہوئے۔ مثلاً مذہبی آزادی آئی، جمہوریت کا زمانہ آیا، حقیقت پسندی، بالفاظ دیگر سائنسی طرز فکر کا رواج شروع ہوا، وغیرہ۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے درمیان ظہور میں آنے والا سائنسی انقلاب دراصل اُسی پراسس کی تکمیل ہے جو ساتویں صدی عیسوی میں صحابہ اور تابعین کے ذریعے عرب میں شروع ہوااور پھر بتدریج وہ یورپ تک پہنچا۔
تائید دین
اِس تاریخی عمل کا تیسرا دور وہ ہے جس کو حدیث میں تائید ِ دین کہاگیا ہے۔ مذکورہ کام کی انجام دہی کے بعد اب ضرورت تھی کہ خدائی سچائی کو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچا دیا جائے۔ مگر اِس عالمی دعوت کی انجام دہی کے لیے امتحان کی اِس دنیا میں اسباب کی ضرورت تھی۔ خصوصی طورپر ایسے مواصلاتی ذرائع جن کی مدد سے پیغام رسانی کے کام کو عالمی سطح پر انجام دینا ممکن ہوجائے۔
عالمی دعوت کے لیے ایسے مواصلاتی نظام کو وجود میںلانے کا کام مسلمان انجام نہ دے سکے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اِس مقصد کے لیے مغرب کی غیر مسلم قوموں کو استعمال کیا۔ یہ گویا کہ وہی طریقہ ہے جس کو موجودہ زمانے میں آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہاجاتا ہے۔ مغربی قوموں نے لمبی جدوجہد کے بعد ایک نیادور پیدا کیا۔ یہ دور مواصلاتی دور (age of communication) ہے جو عالمی پیغام رسانی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔ اِن موافق اسباب کی فراہمی کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کو استعمال کرکے خداکے کلام کو ساری دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچا دیا جائے۔ آؤٹ سورسنگ کے اِس طریقے کو حدیث میں پیشگی طورپر بتادیاگیا تھا۔ ایک طویل حدیث میں اِس اصول کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إن اللہ لیؤیّد ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب: إن اللہ لیؤیّد ہذا الدین بالرجل الفاجر ) یعنی اللہ بے شک اِس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے بھی کرے گا۔
ادخالِ کلمہ
ادخالِ کلمہ سے مراد وہ وہ دعوتی عمل ہے جس کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: لا یبقیٰ علی ظہر الأرض بیتُ مدر ولا وبر إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃَ الاسلام، بعزّ عزیز وذُلّ ذلیل (مسند احمد، جلد 6، صفحہ 4 ) یعنی زمین کی سطح پر کوئی چھوٹا گھر یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر اللہ اُس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کردے گا، عزت والے کی عزت کے ساتھ اور ذلت والے کی ذلت کے ساتھ(willingly or unwillingly) ۔
پچھلی صدیوں میں خدا کا دین مستند متن (authentic text) کے اعتبار سے پوری طرح محفوظ ہوگیا۔ اِس کے بعد دنیامیںمذہبی آزادی کا دور اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ قائم ہوگیا۔ اِس کے بعداگلا کام یہ ہوا کہ دنیا میں جدید مواصلات(modern communication) کا زمانہ پوری طرح آگیا۔ اِن موافق اسباب کے ظہور کے بعد اب اکیسویں صدی میں آخری طور پر جو کام انجام پانا ہے، وہ یہ کہ ادخالِ کلمہ کی پیشین گوئی پوری ہو اور جدید مواصلاتی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے خدا کا کلام تمام دنیا کے مردوں اور عورتوں تک پہنچ جائے۔
تاریخِ دعوت کے پہلے دور کا کام (اعلانِ حق) خدا کے پیغمبروں کے ذریعے انجام پایا۔ دوسرے دور کا کام (اظہاردین) بنیادی طور پر اُن لوگوں نے انجام دیا جن کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ تیسرے دور کا کام (تائید دین) اُن لوگوں نے انجام دیا جن کو ہم سائنس دانوں کے گروہ (scientific community)کے نام سے جانتے ہیں۔ چوتھے دور کے کام (ادخالِ کلمہ) کو اکیسویں صدی عیسوی میں انجام پانا ہے۔ جو اہلِ ایمان تاریخِ دعوت کے اِس تقاضے کو سمجھیں اور اس کو درست طورپر انجام دیں، وہ حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، اللہ کے یہاں اخوانِ رسول کا درجہ پائیں گے۔ اِسی چوتھے کام کی انجام دہی پر تاریخ کا خاتمہ ہوجائے گا۔
ابدی جنت کا دور
اکیسویں صدی عیسوی میں واضح طورپر ایسے آثار پیدا ہوچکے ہیں جو تقریباً یقینی طورپر بتاتے ہیں کہ قیامت بالکل قریب آچکی ہے۔ غالباً اکیسویں صدی ہی میں وہ وقت آجائے گا، جب کہ اسرافیل کا صور پھونکا جائے اور انسانی تاریخ دورِ امتحان سے نکل کر دورِ انجام تک پہنچ جائے۔ اِس کے بعد وہ ابدی دور شروع ہوگا جب کہ امتحان میں پورا اترنے والے لوگ جنت کی معیاری دنیا میں داخل کردئے جائیں، اور امتحان میں ناکام ہونے والے لوگ جہنم کی پُرعذاب زندگی میں رہنے کے لیے مجبور کردئے جائیں، جہاں وہ ابدی طورپر حسرت ویاس میں پڑے رہیں۔
واپس اوپر جائیں

عظیم ترین انقلاب

اسلام، تاریخ کا ایک عظیم ترین انقلاب تھا، لیکن اِس حقیقت کو نہ مسلم اہلِ علم نے سمجھا اور نہ غیرمسلم اہلِ علم نے۔ مسلمانوں نے پیغمبر اسلام ﷺکو صرف اپنے قومی فخر کے طور پر دریافت کیا۔ ڈاکٹر مائیکل ہارٹ صرف یہ دریافت کرسکے کہ رسول اللہ تاریخ کے سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے:
Muhammad was the supremely successful man in history.
ساتویں صدی عیسوی میں پیش آنے والااسلامی انقلاب دراصل مبنی بر توحید انقلاب تھا۔ اِس سے پہلے کی پوری تاریخ میں انسانی زندگی کا نظام شرک پر مبنی نظام ہوا کرتا تھا۔ اسلامی انقلاب نے پہلی بار مبنی بر شرک نظام کو توڑا اور اس کی جگہ تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا جس کو توحید پر مبنی دور کہا جاسکتا ہے۔ بعد کی صدیوں میں انسانی زندگی میں جو تعمیری واقعات ہوئے، وہ اِسی انقلاب کا براہِ راست یا بالواسطہ نتیجہ تھے، خواہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مذہبی ہوں یا سیکولر۔
یہ انقلاب اصلاً ایک نظری اور اعتقادی انقلاب تھا۔ اس کے اندر اعلیٰ معرفت کا سامان تھا، اس کے اندر ربانی غذائیں چھپی ہوئی تھیں، اس کے اندر وہ تمام اجزا موجود تھے جن کے ذریعے انسانی شخصیت کا مثبت ارتقا کیا جاسکے۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ انسان اپنی مادّی خواہشوں کے پیچھے دوڑ پڑا۔ اس نے اِس انقلاب کے سیکولر پہلو کو لیا اور اور اس کے مذہبی اور روحانی پہلو کو چھوڑ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسانی تاریخ شرک کے دور سے نکل کر الحاد کے راستے پر چل پڑی۔
اب وقت آگیا ہے کہ اِس غلطی کی تصحیح کی جائے۔ انسانی تاریخ کو دوبارہ الحاد کے راستے سے ہٹا کر توحید کے راستے پر لایا جائے، تاکہ انسان اُن نعمتوں کو پاسکے جو اُس کے لیے اِس دنیا میں مقدر کی گئی ہیں، یعنی خالق کی اعلیٰ معرفت، انسانی شخصیت کا ربانی ارتقاء، اعترافِ الٰہی کے اعلیٰ تجربات کو پانا، حقیقی معنوں میں ایک روحانی سائنس کو وجود میں لانا، اُس ربانی انسان کی تشکیل جو آخرت کی زندگی میں جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

تعارفِ قرآن

قرآن، خدا کی کتاب ہے۔قرآن ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں خدا کی طرف سے محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب پر عربی زبان میں اترا۔ قرآن اپنی اصل عربی زبان میں اب تک محفوظ ہے۔ قرآن، پورے معنوں میں، ایک محفوظ خدائی کتاب ہے۔ قرآن کے متن(text) میں نہ کوئی کمی ہوئی ہے اور نہ کوئی اضافہ۔
قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ اُس میں انسان کا خالق براہِ راست انسان سے خطاب کرتا ہے۔ قرآن کا پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ اُس کا خالق براہِ راست طورپر اس سے ہم کلام ہو کر کہہ رہا ہے کہ—اے انسان، یہ تیرا خدا ہے جو تیری قابلِ فہم زبان میں تجھ کو خطاب کررہا ہے۔ تو اس کلام کو سن اور اس کی اتباع کر۔ اِس اتباع میں تیری نجات ہے۔ اِس اتباع کے ذریعے تو اپنی زندگی کو حقیقی معنوں میں کامیاب بنا سکتا ہے۔
قرآن میں چھوٹی، بڑی 114 سورتیں ہیں۔ اُس کی آیتوں کی تعداد مجموعی طورپر 6236 ہے۔ قرآن کی ہر سورہ کے شروع میں (بہ استثنائِ سورہ التوبہ) یہ جملہ ہوتا ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم (شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے)۔ اِس طرح، قرآن کی ہر سورہ اور مجموعی طورپر پورا قرآن یہ بتاتا ہے کہ قرآن، خدا کی صفتِ رحمت کا اظہار ہے۔ قرآن کا نزول رحمتِ الٰہی کا نزول ہے۔ تاہم یہ رحمت بارش کی طرح نہیں ہے کہ اُس کا فائدہ اپنے آپ ہر عورت اور مرد کو مل جائے۔ قرآن کا فائدہ صرف اُس انسان کو ملے گا جو کامل سنجیدگی کے ساتھ اُس پر غور کرے، جو طالب بن کر اُس میں اپنے لیے ہدایت تلاش کرے۔
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میں اترا۔ اُس وقت کاغذ وجود میں آچکا تھا۔ یہ کاغذ بعض مخصوص درختوں کے ریشے سے لے کر دستی صنعت کے طورپر بنایا جاتا تھا۔ اُس کو پپائرس (Papyrus) کہا جاتا ہے۔ قرآن کا کوئی حصہ جب بھی اُترتا تو اُس کو اس کاغذ پر لکھ لیا جاتا تھا۔ اِس کاغذ کو عربی زبان میں قِرطاس (6: 7)کہاجاتا ہے۔ اِسی کے ساتھ لوگ قرآن کو اپنے حافظے میں محفوظ کرلیتے تھے۔ کیوں کہ اُس وقت قرآن ہی واحد اسلامی لٹریچر تھا۔ قرآن کو نمازوں میں پڑھا جاتا تھا اور دعوہ ورک کے تحت اس کو لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔ اِس طرح قرآن بیک وقت لکھا بھی جاتا رہا اور اِسی کے ساتھ اس کو یاد بھی کیا جاتا رہا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانے تک قرآن کو محفوظ کرنے کا یہی طریقہ جاری رہا۔ آپ کی وفات 632عیسوی میں ہوئی، اس کے بعد ابوبکر صدیق اسلام کے پہلے خلیفہ بنے۔ انھوں نے باقاعدہ اہتمام کے تحت، قرآن کا ایک مجلد نسخہ بنایا۔ یہ نسخہ قدیم زمانے کے کاغذ یا قرطاس پر بنایا گیا تھا۔ یہ مجلد قرآن چوکور صورت میں تھا۔ چناںچہ اس کو رَبعہ (square) کہا جاتا تھا۔ اِس طرح قرآن، خلیفۂ اول کے زمانے میں مجلد کتاب کی صورت میں محفوظ ہوگیا۔ تیسرے خلیفہ عثمان بن عفّان کے زمانے میں اِس مجلد قرآن کے مزید نسخے تیار کیے گیے اور اس کو مختلف شہروں میں بھیج دیاگیا۔ یہ نسخے شہر کی جامع مسجدوں میں موجود رہتے تھے۔ لوگ اُن کو پڑھتے بھی تھے اور اُن سے مزید نسخے تیار کرتے تھے۔
کتابتِ قرآن کا یہ سلسلہ انیسویں صدی عیسوی تک جاری رہا۔ انیسویں صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا اور ساتھ ہی کاغذ بھی جدید صنعتی طریقے پر بڑی تعداد میں تیار کیا جانے لگا۔ اِس طرح انیسویں صدی میں قرآن کو باقاعدہ طورپر پرنٹنگ پریس کے ذریعے چھاپنے کا آغاز ہوگیا۔ چھپائی کے طریقوں میں مسلسل ترقی ہوتی رہی۔ اِسی کے ساتھ قرآن کے مطبوعہ نسخے بھی زیادہ بہتر طورپر تیار ہونے لگے۔ اب قرآن کے مطبوعہ نسخے اتنے زیادہ عام ہوگیے ہیں کہ وہ ہر گھر میں اور ہر مسجد میں اور ہر لائبریری میں اور ہر مارکیٹ میں اِس طرح وافرمقدا رمیں موجود ہیں کہ ہر انسان قرآن کے چھپے ہوئے خوب صورت نسخے حاصل کرسکتا ہے، خواہ وہ کُرۂ ارض کے کسی بھی مقام پر ہو۔آج قرآن کا ایک مطبوعہ نسخہ اُسی نسخہ (ربعہ) کی عین نقل (true copy) ہوتا ہے جو اسلام کے ابتدائی زمانے میں خلیفہ اوّل ابو بکر صدیق نے خصوصی اہتمام کے ذریعے تیار کرایا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن خدائی تنبیہ کی ایک کتاب ہے۔ وہ اَسباق اور نصیحت کا ایک مجموعہ ہے۔ قرآن، عام طرزِ تصنیف کے مطابق تیار نہیںہوا۔ زیادہ صحیح طورپر قرآن ایک بُک آف وزڈم ہے۔ قرآن کا مقصود یہ ہے کہ قرآن کو پڑھنے والا اگر قرآن کا صرف ایک صفحہ پڑھے، یا وہ اُس کا صرف ایک جملہ سُنے تب بھی اُس کو اُس میںایک مسیج مل جائے۔
قرآن ایک اعتبار سے، مُنعم کی طرف سے انعام کی یاد دہانی ہے۔ خدا نے انسان کو استثنائی اوصاف کے ساتھ پیدا کیا۔ پھر اُس کو زمین جیسے سیارے پر بسایا، جہاں انسان کے لیے ہر قسم کا لائف سپورٹ سسٹم موجود ہے۔ قرآن کا مقصود یہ ہے کہ انسان، فطرت کے اِن انعامات سے استفادہ کرتے ہوئے منعم کو یاد رکھے۔ وہ انعامات کے خالق کا اعتراف کرے۔ انعامات کو استعمال کرتے ہوئے منعم کا اعتراف کرنا اور اُس کے تقاضے پورے کرنا، یہی ابدی جنت کا سرٹفکٹ ہے۔ اور انعامات کو استعمال کرتے ہوئے منعم کو فراموش کردینا، آدمی کو جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے۔ قرآن در اصل اِسی سب سے بڑی حقیقت کی یاد دہانی ہے۔
قرآن کا اسلوبِ بیان بھی ایک منفرد اسلوبِ بیان ہے۔ قرآن کے اسلوبِ کلام کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اُس کا اسلوب ایک شاہانہ اسلوب ہے۔ قرآن کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتاہے جیسے اُس کا مصنف ایک ایسے برتر مقام پر ہے جہاں سے وہ ساری انسانیت کو دیکھ رہا ہے۔ ساری انسانیت اُس کا کنسرن ہے۔ وہ اپنے مقامِ عظمت سے پوری انسانیت کو خطاب کررہا ہے۔ البتہ اِس خطاب کے دوران اُس کا رخ کبھی ایک گروہ کی طرف مُڑ جاتا ہے اور کبھی دوسرے گروہ کی طرف۔
قرآن کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اُس کا قاری کسی بھی لمحہ اُس کے مصنف سے کنسلٹ کرسکتا ہے۔ قرآن کا مصنف خدا ہے۔ وہ ایک زندہ خدا ہے۔ وہ سارے انسانوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ وہ براہِ راست طورپر ہر انسان کی بات کو سنتا ہے اور اُس کا جواب دیتا ہے۔ اِس لیے قرآن کے قاری کے لیے ہر لمحہ یہ ممکن ہے کہ وہ خدا سے ربط قائم کرسکے۔ وہ خدا سے پوچھے اور خدا سے اپنے سوال کا جواب پالے۔
قرآن خالقِ کائنات کا تعارف ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ ایک خدا ہے جس نے اِس کائنات کو پیدا کیا۔ وہی اُس کو مسلسل طورپر سنبھالے ہوئے ہے۔ وہ قادرِ مطلق ہے۔ انسان کا ماضی، حال اور مستقبل تنہا اُسی کے قبضے میں ہے۔ وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ ابدی ہے۔ اس کے قبضۂ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔
خالق کے تعارف کے بعد قرآن میں خصوصی طورپر جو چیز بتائی گئی ہے، وہ خدا کی تخلیق کے بارے میں ہے۔قرآن کا موضوع یہ ہے کہ وہ خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) سے انسان کو باخبر کرے۔ قرآن، آدمی کو وہ چیز بتاتا ہے جس کو وہ اپنی کوشش سے نہیں جان سکتا تھا۔ قرآن آدمی کے اِن بنیادی سوالات کا جواب دیتا ہے کہ — میں کون ہوں، میری پیدائش کا مقصد کیا ہے، اِس دنیا سے میرے تعلق کی نوعیت کیا ہے جہاں میں اپنے آپ کو پاتا ہوں، زندگی کیا ہے، اور موت کیا ۔ موت سے پہلے مجھے کیا کرنا ہے، اور موت کے بعد میرے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ وہ کیا روش ہے جو مجھ کو ناکام بناتی ہے، اور وہ کیا روش ہے جو مجھ کو کامیابی عطا کرتی ہے۔ اِن سوالات کا تعلق خدا کے تخلیقی پلان سے ہے، اور قرآن کا مقصد یہی ہے کہ وہ انسان کو خدا کے اِس تخلیقی پلان سے آگاہ کرے۔
اِس اعتبار سے، پیغمبر کا تعلق براہِ راست طورپر قرآن سے جُڑا ہوا ہے۔ پیغمبر یہ کرتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی کتاب کو پوری امانت کے ساتھ انسان تک پہنچا دیتا ہے۔پھر پیغمبر یہ کرتا ہے کہ وہ خدا کی رہ نمائی میں لوگوں کے درمیان اپنی پوری زندگی اِس طرح گزارتا ہے کہ وہ لوگوں کے لیے قرآن کا ایک عملی مظاہرہ (demonstration) بن جاتا ہے۔ قرآن اگر آئڈیالوجی کی کتاب ہے تو پیغمبر اِس آئڈیا لوجی کی ایک عملی تصویرہے۔ قرآن کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی قرآن کو پڑھنے کے ساتھ، پیغمبر کے کلام اورپیغمبر کی زندگی کا مطالعہ کرے۔
قرآن کے بیان کے مطابق، انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ مگر انسان کی زندگی کو دو مختلف دوروں میں تقسیم کردیا گیا ہے — موت سے پہلے کا دوراور موت کے بعد کا دور — موت کے پہلے کا دور عمل کا دور ہے، اور موت کے بعد کا دور اپنے عمل کا انجام پانے کا دور۔
موجودہ دنیا میں انسان اپنے آپ کو مکمل طورپر آزاد پاتا ہے۔ مگر یہ آزادی برائے انعام نہیں ہے، بلکہ وہ برائے امتحان ہے۔ موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں انسان کو آزادی دے کر یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون اپنے آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ اپنی آزادی کو صحیح طورپر استعمال کرنا، گویا خود سے اپنے آپ کو خدائی ڈسپلن میں رکھنا ہے۔ ایسے لوگ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں ابدی جنتوں میں جگہ پائیں گے، اور جو لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کریں، وہ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں جہنّم میں ڈال دیے جائیں گے۔ جنت، ابدی راحتوں کی جگہ ہے، اور جہنم، ابدی مصیبتوں کی جگہ۔
موجودہ دنیا انسان کے لیے ایک بے حد موافق دنیا ہے، یہاں کامل طورپر اُس چیز کا انتظام کیاگیا ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتاہے۔ مگر قرآن کے مطابق، یہ دنیا ہمیشہ اِسی طرح رہنے والی نہیں۔ قرآن میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ دنیا کے خالق نے جس طرح ہر عورت اور مرد کی ایک عمر مقرر کردی ہے، اِسی طرح اِس دنیا کی بھی ایک مقرر عمر ہے۔ یہ سیارۂ زمین اور یہ شمسی نظام ہمیشہ اِسی طرح رہنے والے نہیں۔ قرآن میں واضح طورپر بتایا گیاہے کہ خدائی عمل کے مطابق، جب مقرر مدت پوری ہوگی تو اس دنیا کواور اِس کے پورے نظام کو توڑ دیا جائے گا۔ اِس کے بعد، خدا اپنی قدرت سے ایک اور دنیا بنائے گا۔ یہ دوسری دنیا ایک کامل اور ابدی دنیا ہوگی۔ اِس دوسری دنیا کے قوانین موجودہ دنیا سے مختلف ہوں گے۔
موجودہ دنیا میں انسان کو آزادی ملی ہوئی ہے، لیکن اگلی دنیا براہِ راست خدا کے کنٹرول میں ہوگی۔ اِس دوسری دنیا میںخدا عدل (justice) کو مکمل طورپر قائم کرے گا۔ اِس دوسری دنیا میں وہ تمام حقیقتیں کھل کر سامنے آجائیںگی جو موجودہ دنیا میں مصلحتِ امتحان کی بنا پر چھپی ہوئی تھیں۔
جو لوگ قرآن کے ذریعے سچائی کو دریافت کریں، اُن کو قرآن عمل کا دو نکاتی پروگرام دیتا ہے — اپنی زندگی میں خدا کی ہدایت کی کامل پیروی، اور دوسرے انسانوں کو اِس معلوم خدائی ہدایت سے باخبر کرنا۔
خدائی ہدایت کی پیروی کا آغاز معرفت یا خدائی حقیقت کی دریافت سے ہوتا ہے۔ ایک آدمی جب قرآن کے ذریعے سچائی کو دریافت کرتا ہے تو اُس کے اندر ایک ذہنی انقلاب برپا ہوتا ہے۔ اس کی سوچ بدل جاتی ہے۔ اس کے چاہنے اور نہ چاہنے کا معیار تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس کی زندگی اندر سے باہر تک ایک نئے ربانی نقشے میں ڈھل جاتی ہے۔
معرفتِ خداوندی کا یہ اظہار جن صورتوں میں ہوتاہے، اُس کو ذکر اورعبادت اور اخلاقِ حسنہ اور متقیانہ زندگی جیسے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ سچائی کی دریافت کوئی میکانیکل دریافت نہیں ہے، سچائی کی دریافت حقیقتِ حیات کی دریافت ہے۔ اور جس انسان کو زندگی کی حقیقت معلوم ہوجائے، وہ خود اپنی فطرت کے زور پر ایک نیا انسان بن جاتا ہے۔ سچائی کی دریافت کسی انسان کے لیے ایک جنم کے بعد دوسرا جنم لینا ہے۔ یہ نیا جنم ایک ایسے نمو پذیر درخت کے مانند ہے جو ہمیشہ بڑھتا رہے، جس کی ترقی کا سفر کبھی ختم نہ ہو۔
قرآن کے ذریعے جو لوگ سچائی کو دریافت کریں، ان کے عملی پروگرام کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کو قرآن میں دعوت الی اللہ کہاگیا ہے، یعنی خدائی سچائی سے دوسروں کو باخبر کرنا۔ یہ دعوتی عمل ایک بے حد سنجیدہ عمل ہے۔ وہ کامل ڈیڈی کیشن کا طالب ہے۔ اِسی پہلو سے اس کو جہاد بھی کہاگیا ہے۔ قرآن میں مومنینِ قرآن کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ: وجاہدہم بہ جہاداً کبیرا (25: 52) یعنی قرآن کے ذریعے تم دوسروں سے جہادِ کبیر کرو۔
قرآن کے مطابق، جہاد کامل طورپر ایک غیر سیاسی عمل ہے۔ جہاد ایک ایسا عمل ہے جو شروع سے آخر تک کامل طور پر پُرامن طریقے سے انجام دیا جاتا ہے۔ دعوتی جہاد کا نشانہ انسان کے دل کو اور اس کے دماغ کو بدلنا ہے۔ اور دل ودماغ میں تبدیلی صرف پرامن تبلیغ کے ذریعے ہوتی ہے، نہ کہ کسی قسم کے جبر یا تشدد کے ذریعے۔
قرآن کی کچھ آیتوں میں قتال (جنگ) کا حکم بھی آیا ہے۔ تاہم قرآن کے مطابق، جنگ کی صرف ایک ہی جائز صورت ہے اور وہ دفاع کی صورت ہے۔ دفاع (defence) کے سوا، کسی بھی دوسرے سبب کی بنا پر جنگ کرنا جائز نہیں۔ قرآن کے مطابق، زندگی میں امن کی حیثیت ایک عموم (rule) کی ہے، اور جنگ کی حیثیت صرف ایک نادر استثنا (rare exception) کی۔
قرآن میں جنگ سے متعلق کچھ آیتیں ہیں جو پورے قرآن کے مقابلے میں اُس کا ایک فی صد سے بھی کم حصہ ہیں۔ یہ آیتیں قرآن کے ابدی حکم کو نہیں بتاتیں، بلکہ وہ صرف ایک وقتی تدبیر کو بتاتی ہیں۔ یہ آیتیں اُس وقت اتریں ، جب کہ مومنین اور غیر مومنین کے درمیان حالتِ جنگ (state of war) قائم ہوگئی تھی۔ یہ حالت جنگ مخالف گروہ کی طرف سے مسلّح حملے کی بنا پر قائم ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ اِن حملوں کے مقابلے میں کسی نہ کسی تدبیر سے اعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ اِس طرح وہ ہمیشہ اِن حملوں کو ٹالتے رہے۔ صرف چند بار ایساہوا کہ اعراض کی ہر کوشش ناکام ہوگئی اور مجبورانہ طورپر جنگ کے میدان میں مقابلے کا طریقہ اختیار کیاگیا۔
خدا نے انسان کو اِس دنیا میں کامل آزادی عطا کی ہے۔ یہی آزادی انسانی سماج میں مختلف قسم کے مسئلے پیدا کرتی ہے۔ لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ کوئی اشتعال انگیز بات کرتا ہے جس سے دوسروں کو غصہ آجاتا ہے۔ کسی سے دوسرے کو نقصان پہنچتا ہے، اس کے نتیجے میں دوسرے شخص کے اندر انتقام کا جذبہ جاگتا ہے۔ کوئی شخص کسی ذاتی سبب سے دوسرے سے نفرت کرتا ہے۔ اِس بنا پر دوسرا شخص بھی اُس سے جوابی نفرت کرنے لگتا ہے۔ یہ منفی تجربات کبھی اتنا زیادہ شدید ہوجاتے ہیں کہ ایک شخص یا دوسرے شخص کے درمیان، یا ایک گروہ یا دوسرے گروہ کے درمیان دشمنی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسا ہر انسانی سماج میں ہوتاہے۔ ایسی حالت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔
اِس صورتِ حال کے بارے میں قرآن واضح طورپر یہ ہدایت دیتا ہے کہ لوگ ردّ عمل کا شکار نہ ہوں۔ وہ منفی رویّے کا جواب منفی رویّے سے نہ دیں، بلکہ وہ اس کا جواب مثبت انداز میں دیں۔ اِس مثبت جواب کو قرآن میں صبر اور اِعراض کہا گیا ہے۔
مثلاً قرآن میں مومنینِ قرآن کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ جب اُنھیں کسی کے اوپر غصہ آتا ہے تو وہ اس کو معاف کردیتے ہیں (42: 37)۔ قرآن کی اِس ہدایت کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں ایک انسان کو دوسرے انسان سے جو تکلیف پہنچتی ہے، وہ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق ہے۔ خدا نے انسان کو آزادی دی ہے، اِس لیے اُس کو یہ موقع ملتاہے کہ وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کر کے دوسرے شخص کو نقصان پہنچائے۔ یہ صورت حال خدا کی قائم کردہ ہے، اِس لیے وہ قیامت سے پہلے ختم ہونے والی نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اِس صورتِ حال کو فطری صورتِ حال سمجھے اور رد عمل کا اظہار نہ کرے، بلکہ وہ اس کو اوائڈ کرتے ہوئے اپنی مطلوب زندگی گزارے۔ اِس صورت ِ حال کو بدلنا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں، اس لیے اِس دنیا میں انسان کے لیے اعراض (avoidance) کے سوا کوئی اور چوائس بھی نہیں۔
اِس سماجی صورتِ حال کی آخری صورت وہ ہے جس کو دشمنی کہاجاتا ہے۔ دشمنی کی صورت ِ حال کے مقابلے کے لیے بھی قرآن اِسی مثبت رویّے کی تلقین کرتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: ’’اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اُس سے بہتر ہو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا‘‘ (41: 34)قرآن کی اس آیت کے مطابق،دشمنی کوئی ابدی چیز نہیں۔ ہر دشمن آپ کا امکانی دوست (potential friend) ہے۔ اِس لیے مومنینِ قرآن کو چاہیے کو وہ اِس امکان کو واقعہ بنائیں، وہ اپنے حسنِ عمل سے، دشمن کو دوستی میں تبدیل کردیں۔
سماج کا ایک ظاہرہ یہ بھی ہے کہ اُس کے اندر ہمیشہ مختلف افکار ونظریات کے لوگ رہتے ہیں، ایسے لوگ جن کا کلچر اور مذہب ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ ایسے سماج میں پرامن طورپر رہنے کا فارمولا کیا ہے۔ ایسے سماج کے لیے پُرامن فارمولا قرآن میں اِس طرح دیا گیا ہے — تمھارے لیے تمھارا دین ہے، اور میرے لیے میرا دین (109: 6) ۔
قرآن کی اِس آیت کے مطابق، کثیر مذہبی سماج (multi-religious society)میں پُر امن طورپر رہنے کا فارمولا یہ ہے کہ — ایک کو اپناؤ اور دوسرے کا احترام کرو:
Follow one, and respect all.
قرآن کا مطلوب انسان ربانی انسان (3: 79)ہے، یعنی وہ انسان جو اِس دنیا میں رب والا انسان بنے۔ جوخدا رخی زندگی گزارے۔ ربانی انسان بننے کے اِسی پراسس کو قرآن میں تزکیہ (2:129) کہاگیا ہے۔ قرآن کے مطابق، جنت اُنھیں افراد کے لیے ہے جو اِس دنیا میں اپنا تزکیہ کریں، جو مزکّیٰ انسان بن کر اگلی دنیا میں داخل ہوں (20: 76) ۔
تزکیہ کے معنیٰ ہیں — تطہیر (purification) ، یعنی اپنی شخصیت کو نامطلوب چیزوں سے پاک کرنا۔ شخصیت کو پاک کرنے کا یہ عمل ایک مسلسل عمل ہے۔ وہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ایک مومنِ قرآن کے اندر یہ عمل اس کی زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔پیدائشی طورپر ہر انسان مسٹر نیچر ہوتاہے، مگر دنیا کی زندگی میں روزانہ ایسے تجربات ہوتے ہیں جو اس کی فطری شخصیت کے اوپر منفی دھبے ڈالتے رہتے ہیں، غصہ اور نفرت اور حسد اور لالچ اور تعصب او رکبر اور بے اعترافی اور انتقام، یہ سب یہی منفی دھبے ہیں، جو انسان کی فطری شخصیت کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ بے لاگ محاسبہ (introspection) کے ذریعے اپنا تزکیہ کرتا رہے۔ وہ آلودہ شخصیت کو فطری شخصیت بناتا رہے۔ ہر آدمی کا ماحول اُس کو ایک کنڈیشنڈ (conditioned) انسان بنا دیتا ہے۔ اب ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے دوبارہ اپنے آپ کو مسٹر نیچر بنائے۔ اِس مسٹر نیچر کا قرآنی نام ربّانی انسان ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں وہ لوگ جائیں گے جو موجودہ دنیا میں اپنا تزکیہ کریں (20:76) ۔ اِس تزکیہ کے بغیر کوئی عورت یا مرد جنت میں داخل ہونے والے نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسئلہ کا حل

اکیسویں صدی عیسوی سنگین مسائل کی صدی ہے۔ اِن میں سے دو مسئلے بہت بنیادی ہیں— ایک ہے فطرت کے توازن میں بگاڑ(natural disorder) ، اور دوسرا ہے سوشل انارکی (social anarchy)۔ اِن دونوں مسائل کا مشترک پہلو یہ ہے کہ دونوں ہی انسانوں کے پیدا کردہ (man-made) مسائل ہیں۔ اگر اِن مسائل کو حل کرنا ہے تو ا س کی صرف ایک صورت ہے ا ور وہ یہ کہ انسان اپنی روش کو بدلے۔ بصورتِ دیگر، اِن مسائل کا مہلک انجام یقینی ہے۔
اصل یہ ہے کہ خالق نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس کو موجودہ زمین پر بسایا۔ خالق نے اپنے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کو ایک بنیادی ہدایت دی، وہ یہ کہ خالق نے انسانی عمل کے لیے کچھ حدود مقرر کردیے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان حدود کی پابندی کرے۔ یہ بات ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے: وحدَّ حُدوداً فلا تعتدوہا (جامع العلوم والحکم 2/150 ) یعنی اللہ نے کچھ حدیں مقرر کردی ہیں، تم ان سے تجاوز نہ کرو:
O man, God has set certain limits for you. Don't cross those limits.
یہ بات انسان کو اس کی پہلی ہی نسل میں بتا دی گئی تھی۔ خالق نے جب آدم کو پہلے انسان کی حیثیت سے پیدا کیا تو ان کو اور ان کی بیوی حوا کو جنت میں بسایا۔ اُن سے کہاگیا کہ تم جنت میں ہر قسم کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے آزاد ہو، مگر اُس کے فلاں درخت تک مت جاؤ۔ قرآن کے مطابق، ایک عرصے کے بعد ایسا ہوا کہ آدم اپنی حد سے تجاوز کرتے ہوئے اُس درخت تک گئے اور اس کا پھل کھالیا۔ اس کے بعد دونوں جنت سے نکال کر موجودہ زمین پر آباد کردئے گیے۔ زمین پر آدم اور ان کی بیوی کو آزادی حاصل تھی، لیکن یہ صرف محدود آزادی تھی۔ آزادی کو لامحدود طورپر حاصل کرنے کی صورت میں دوبارہ یہ اندیشہ تھا کہ زمین اُن سے چھن جائے۔
خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے دوبارہ انسان کو یہ ہدایت دی کہ زمین کو تمھیں اصلاح یافتہ صورت میں دیاگیا ہے، تم اس میں فساد برپا نہ کرنا: ولا تفسدوا فی الأرض بعد اصلاحہا (7: 85)۔ اکیسویں صدی میں جو بگاڑ سامنے آیا ہے، ا س کا سبب یہی ہے کہ انسان نے اپنی حد سے تجاوز کیا اور اس کے نتیجے میں اس نے اصلاح یافتہ زمین کو فساد میں مبتلا کردیا۔
ماحولیات کا مسئلہ
موجودہ زمانے میں ماحولیات (ecology) کا جو مسئلہ پیدا ہوا ہے، وہ براہِ راست طورپر اِسی ’’فساد‘‘ کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمین کو انسان کے لیے صرف عارضی قیام گاہ کے طورپر پیدا کیا ہے۔ اِس لیے یہاں جو بھی وسائل ہیں، وہ سب محدود مقدار میں ہیں۔ موجودہ زمانے میں جب جدید ٹکنالوجی آئی تو انسان نے اِن وسائل کو لامحدود طورپر استعمال کرنا شروع کردیا۔ اِس کے نتیجے میں وہ ظاہرہ پیدا ہوا جس کو زیادہ اخراجِ کاربن (excess carbon emission) کہا جاتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں مختلف سنگین مسائل پیدا ہوئے۔ مثلاً گلوبل وارمنگ، ائر پلوشن، واٹر پلوشن، وغیرہ۔اِس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ انسان اپنے لائف اسٹائل کو بدلے۔ وہ فطرت کے نقشے کے مطابق، سادہ لائف اسٹائل کو اختیار کرے۔
سوشل انارکی
سوشل انارکی کیا ہے۔ وہ انسانی آزادی کا غلط استعمال ہے۔ انسان اپنی آزادی کو اگر محدود طورپر استعمال کرے تو اس سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی، لیکن اگر وہ اپنی آزادی کو لامحدود طورپر استعمال کرنے لگے تو اس کے بعد لازماً وہی چیز پیدا ہوگی جس کو سوشل انارکی کہا جاتا ہے۔ امریکا سے ایک کتاب چھپی ہے۔ اس کے مصنف پروفیسر بی ایف اسکنر(B F Skinner) ہیں۔ کتاب کا ٹائٹل یہ ہے:) (Freedom and Dignity۔ اِس کتاب میں مصنف نے لامحدود آزادی کے نظریے پر تنقید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ — ہم لامحدود آزادی کا تحمل نہیں کرسکتے:
We can't afford unlimited freedom.
ایک واقعہ اِس معاملے کو بخوبی طورپر واضح کرتا ہے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے جب امریکا کو آزادی ملی تو ایک امریکی شخص بہت خوش ہوا۔ وہ اپنے گھر سے نکل کر قریب کی ایک سڑک پر چل رہا تھا۔ خوشی میں وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو بہت زیادہ ہلا رہا تھا۔ اِس دوران وہاں سے ایک اور امریکی شخص گزرا۔ اُس وقت یہ ہوا کہ پہلے شخص کا ہاتھ دوسرے شخص کی ناک پر لگ گیا۔ دوسرے شخص نے کہا — یہ تم نے کیا کیا، تم نے کیوں میری ناک پر مارا۔ پہلے شخص نے جواب دیا کہ امریکا آج آزاد ہے، میں آزاد ہوں کہ جو چاہوں کروں۔ دوسرے شخص نے کہا کہ — تمھاری آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے:
Your freedom ends, where my nose begins.
یہ فطرت کا ایک اصول ہے۔ یہاں انسان کو آزادی حاصل ہے، لیکن یہ آزادی ایک محدود آزادی ہے۔ انسان اگر اپنی آزادی کو لامحدو طور پر استعمال کرنے لگے تو اس کا نتیجہ لازماً اجتماعی بگاڑ کی صورت میں ظاہر ہوگا۔جدید انسان کی غلطی یہ ہے کہ اس نے آزادی کو عظیم ترین خیر (summum bonum) سمجھ لیا۔ اِس کے نتیجے میں کامل آزادی (total freedom) کا نظریہ پیداہوا۔ یہی وہ نظریہ ہے جو موجودہ سوشل انارکی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اِس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ انسان دوبارہ لامحدود آزادی سے محدود آزادی کی طرف واپس جائے۔اِس کے سوا اِس مسئلے کا دوسرا اور کوئی حل موجود نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مال کی حقیقت

کہا جاتا ہے کہ بل گیٹس (Bill Gates) دورِ جدید کا سب سے بڑا دولت مند آدمی ہے۔ اِس وقت اس کی عمر 54 سال ہے اور وہ 34 بلین اسٹرلنگ پاؤنڈ کا مالک ہے۔ مگر وہ اپنی دولت اپنے تین بچوں کو نہیں دینا چاہتا، کیوں کہ اس کو اندیشہ ہے کہ اس کے بچے اتنی بڑی دولت پاکر بگڑ جائیں گے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا، 21 ستمبر 2010 کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس نے کہا کہ — وہ نہیں چاہتے کہ وہ اپنی دولت سے ایک خاندانی مملکت قائم کریں۔ وہ اپنی دولت کو اپنے بچوں کے لیے نہیں چھوڑیں گے:
He is not interested in using his billions to LAUNCH a dynasty and would not leave his fortune to his children. (The Times of India, New Delhi, p. 20)
جس آدمی کے پاس مال نہ ہو، وہ مال کو سب سے بڑی چیز سمجھتا ہے۔ وہ اپنا پورا وقت اور اپنی پوری توانائی مال کے حصول میں لگا دیتا ہے۔ لیکن جب وہ مال کو پالیتا ہے تو اس کے بعد وہ دریافت کرتاہے کہ مال بہت سے ناقابلِ حل مسائل لے کر آیا ہے۔ مال نے اس کو خوشی نہیں دی، البتہ اس نے اس کی زندگی میں بہت سے نئے مسائل کا اضافہ کردیا۔ مال، ملنے سے پہلے ایک خوش نما گول (goal) ہے، لیکن مال، ملنے کے بعد صرف مسائل کا مجموعہ بن جاتا ہے۔
قرآن میں مال کو انسان کے لیے قیام (4: 4) کا ذریعہ بتایا گیا ہے، یعنی مال انسان کی مادی ضرورتیں پورا کرنے کے لیے ہے، مال انسان کے لیے مقصد حیات نہیں۔ مال کی اِس حقیقت کو جو انسان مال کے حصول سے پہلے جان لے، وہ ایک دانش مند انسان ہے، اور جو آدمی مال کی اِس حقیقت کو مال کے حصول کے بعد جانے ، وہ بلا شبہہ ایک غیر دانش مند انسان ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اِس معاملے میں وہ دوسروں کے تجربے سے سبق لے۔ وہ اِس کا انتظار نہ کرے کہ یہ تجربہ خود اس کے اوپر گزرے، اس کے بعد وہ اس سے سبق حاصل کرے گا۔
واپس اوپر جائیں

امریکا: دوست یا دشمن

امریکا کے عراق پر حملے سے پہلے عام طور پر مسلمانوں میں امریکا کے بارے میں اچھی رائے تھی۔ اُس وقت عرب لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے تھے کہ: أمریکا صدیق کبیر (امریکا ایک بڑا دوست ہے) لیکن بعد کے زمانے میں جب امریکا کی فوجوں نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیا تو اس کے بعد لوگوں کی رائے بدل گئی۔ اب عرب عام طور پر یہ کہنے لگے کہ: أمریکا عدوّ الاسلام رقم واحد (امریکا اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے)۔ امریکا کے بارے میں یہ منفی رائے دنیا بھر کے تمام مسلمانوں میں پائی جاتی ہے، خواہ وہ عرب ہوں یا غیر عرب۔ یہ سوچ موجودہ دنیا میں قابلِ عمل نہیں، چناں چہ اِس سوچ نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو امریکا کے بارے میں دو عملی میں مبتلا کردیا ہے، یعنی امریکا کو برا سمجھنا اور اسی کے ساتھ امریکا سے مادی فائدہ اٹھانا۔مسلمانوں کا یہ ذہن قرآنی ذہن نہیں ہے۔ قرآن کی سورہ المائدہ میں ایک آیت آئی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: کسی گروہ کی دشمنی تم کو اِس پر نہ آمادہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو، یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے (5: 8)۔
اِس آیت کا تقاضا ہے کہ امریکا کے معاملے میں مسلمان انصاف سے کام لیں اور حقیقت پسندانہ رائے قائم کریں۔ مثلاً مسلمانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ کیوں ایسا ہے کہ امریکا نے عراق پر بم باری کی، لیکن وہی امریکا سعودی عرب کی بھر پور حمایت کرتا ہے۔ امریکا ایک طرف اسرائیل کی مدد کرتا ہے اور دوسری طرف وہی امریکا پاکستان کو غیر معمولی مدد دے رہا ہے۔ جارج بش سینئر کے د ور سے پہلے امریکا میں ایک بھی مسجد نہیں تھی اور آج امریکا میں ایک ہزار سے زیادہ مسجدیں (اسلامک سنٹر) ہیں۔ امریکا میں اسلام کے نام پر جتنی سرگرمیاں ہوتی ہیں، اتنی سرگرمیاں غالباً کسی مسلم ملک میں بھی نہیں، وغیرہ۔
اس تقابل پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ امریکا کا کیس نہ اینٹی اسلام کیس ہے اور نہ پرومسلم کیس، بلکہ اس کا کیس پروامریکا (pro-America) کیس ہے، یعنی امریکا جو کچھ کررہا ہے، وہ اپنے قومی مفاد کے لیے کررہا ہے، نہ کہ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی کے لیے۔
واپس اوپر جائیں

صلاحیت کے بغیر اقدام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں5 ہجری میں وہ واقعہ پیش آیا جس کو غزوۂ خندق کہا جاتا ہے۔اُس وقت حفاظت کی غرض سے عورتوں اور بچوں کو ایک حصن (قلعہ) میں رکھا گیا تھا۔ اس کی نگرانی پر حسان بن ثابت انصاری مقرر کیے گیے تھے۔ صفیہ بنت عبد المطلب کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ قلعہ کے پاس ایک یہودی آگیا ہے اور مشتبہ انداز میں وہاں گھوم رہا ہے۔ میں نے حسان سے کہا کہ اِس یہودی سے ہمیں خطرہ محسوس ہورہا ہے، اِس کو مار کر یہاں سے بھگاؤ۔ حسان نے جواب دیا: یغفر اللہ لک یا ابنۃ عبد المطلب، واللّٰہ لقد عرفتِ ما أنا بصاحب ہذا (سیرت ابن ہشام، جلد 3، صفحہ 246) یعنی اے عبد المطلب کی بیٹی، اللہ تم کو معاف کرے، بخدا تم کو یہ معلوم ہے کہ میں اِس کام کا آدمی نہیں۔ حسان بن ثابت انصاری (وفات: 54ھ) ایک صحابیٔ رسول تھے۔ اِس اعتبار سے، ان کا مذکورہ واقعہ ایک اسلامی نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح صحابہ کے دوسرے واقعات ہمارے لیے نمونہ ہیں، اُسی طرح حسان بن ثابت کا مذکورہ واقعہ بھی ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔ وہ نمونہ یہ ہے کہ آدمی کوئی ایسی ذمے داری ہر گز قبول نہ کرے جس کے لیے وہ اپنے آپ کو اہل نہ پاتا ہو۔ اِس لیے کہ نا اہلی کے باوجود اگر وہ کسی اجتماعی ذمے داری کو قبول کرتا ہے تو وہ صرف بگاڑ میں اضافے کا باعث بنے گا۔مثال کے طورپر ایک شخص مخلص ہے، مگر وہ سیاست کا تجربہ نہیں رکھتا، تو اس کو ہر گز سیاست کے میدان میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ ایک شخص روایتی عالم ہے، لیکن اس نے جدیدیات کا براہِ راست مطالعہ نہیں کیا ہے تو اس کو جدید طبقے کی رہنمائی کا کام نہیں سنبھالنا چاہیے۔ ایک شخص کی تربیت درس وتدریس کے ماحول میں ہوئی ہے تو اس کو تحریکِ جہاد کا رہنما نہیں بننا چاہیے۔ ایک شخص صرف مسجد اور مدرسے کے ماحول کو جانتا ہے تو اس کو عالمی قیادت کے اسٹیج پر نہیں آنا چاہیے۔ ایسے ہر موقع پر اخلاص کا تقاضا ہے کہ آدمی یہ کہہ دے کہ: ما أنا بصاحب ہذا (میں اِس کام کا اہل نہیں)۔ نااہلی کے باوجود رہنمائی کے میدان میں داخل ہونا، بلاشبہہ ایک مجرمانہ فعل ہے۔ کسی آدمی کا مخلص ہونا، ایسے احمقانہ اقدام کے لیے ہرگز کوئی عذر نہیں بن سکتا۔
واپس اوپر جائیں

تیسرا آپشن نہیں

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ اسلام کو میں سچا مذہب مانتا ہوں ، لیکن میرے کچھ شبہات ہیں۔ مثلاً معجزہ کی عقلی توجیہہ میری سمجھ میں نہیں آتی ۔ اِسی طرح پانچ وقت کی نماز کا قرآن میں مجھے ثبوت نہیں ملتا، وغیرہ۔ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ اپنے اِن خیالات کو دوسروں سے بیان کرتے رہتے ہیں۔
میںنے اُن سے جو باتیں کہیں، اُن میں سے ایک یہ تھی کہ میرا یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے کو ابھی صرف ایک اسٹوڈنٹ سمجھئے۔ آپ یہ سمجھیں کہ آپ ایک متلاشی (seeker) ہیں اور باتوں کو گہرائی کے ساتھ جاننے کے لیے اسٹڈی کررہے ہیں۔ اِس بارے میں جب تک آپ کی رسرچ مسلمہ علمی معیار پر مکمل نہ ہوجائے، آپ ہر گز اِن باتوں کی چرچا دوسروں سے نہ کریں۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ کا کیس فتنہ پردازی کا کیس بن جائے گا، نہ کہ تلاشِ حق کا کیس، اور فتنہ پردازی بلا شبہہ اتنی زیادہ بری چیز ہے کہ کوئی سنجیدہ آدمی اُس کا تحمل نہیں کرسکتا۔
میں نے کہا کہ متلاشی (seeker) بننا، ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ سچائی کا متلاشی بننا اور اس کے لیے تحقیق کرنا، یہ بلاشبہہ ہر انسان کا حق ہے۔ لیکن یہ کسی کا حق نہیں کہ وہ گہرے مطالعے کے بغیر بڑی بڑی باتیں بولنے لگے ۔ حق کی تلاش اگر علمی دیانت داری ہے، تو تلاش کا حق ادا کیے بغیر اُس پر غیرذمے دارانہ کلام کرنا، علمی بددیانتی (intellectual dishonesty) کی حیثیت رکھتاہے۔
میںنے کہا کہ آپ کے لیے دو میں سے ایک کا آپشن (option) ہے— یا تو آپ خاموش رہیں، اپنی بات کو اپنے دل میں رکھیں، دوسروں سے نہ کہیں۔ یا آپ اتنا زیادہ مطالعہ اور رسرچ کریں کہ خالص علمی اور سائنسی معیار پر ایک بیان (statement) دینے کے قابل ہوجائیں۔ اِس وقت آپ جو کررہے ہیں، وہ تھرڈ آپشن (third option) ہے، اورکسی کے لیے تھرڈ آپشن لینا، دینی اعتبار سے ناجائز ہے اور علمی اعتبار سے غیرمعقول۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی ارتقاء

ذہنی ارتقا(intellectual development) بلا شبہہ کسی انسان کی سب سے زیادہ اہم ضرورت ہے۔ ذہنی ارتقا ہی کے ذریعہ ایک انسان کامل انسان بنتا ہے۔ ذہنی ارتقا ہی کے ذریعے ایک شخص اپنی بالقوہ (potential) صلاحیتوں کو بالفعل (actual) بنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ذہنی ارتقا ہی کے ذریعے آدمی حیوانیت کے درجے سے بلند ہو کر انسانیت کے درجے تک پہنچتا ہے۔ ذہنی ارتقا ہی کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی شخص حقیقی معنوں میں خدا کا مطلوب بندہ بن سکے۔
ذہنی ارتقا کوئی نئی چیز نہیں، یہ عین وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں اِزدیادِ ایمان (48: 4)کا لفظ آیا ہے۔ ایمان کا آغاز حقیقت کی دریافت سے ہوتا ہے۔ حقیقت کوئی محدود چیز نہیں، وہ لامحدود حد تک وسیع ہے۔
ایمان کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے حقیقت کی کائناتی وسعتوں میںاپنا سفر شروع کردیا ہے۔ یہ سفر نئی نئی دریافتوں کے ساتھ مسلسل جاری رہتا ہے۔ اِس سفر کا آغاز ہے، لیکن اِس سفر کا کوئی خاتمہ نہیں۔ گویا کہ یہ ایک پراسس (process) ہے۔ ازدیادِ ایمان اور ذہنی ارتقا دونوں اِسی پراسس کے دو نام ہیں۔ یہ دونوں نام الفاظ کے اعتبار سے الگ ہیں، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے دونوں ایک ہیں۔ ایمان، ازدیاد کے بغیر ایک جامد ایمان ہے، لیکن ازدیاد کے ساتھ ایمان لامتناہی معنوں میں ایک زندہ چیز بن جاتا ہے۔
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے بعد فوراً ہی اس کا جسمانی ارتقا (physical development) شروع ہوجاتاہے۔ یہ ارتقائی عمل ایک بچے کو بڑا انسان بنا دیتا ہے۔ یہی معاملہ ذہنی ارتقا کا ہے۔ ذہنی ارتقا بھی پیدائش کے فوراً بعد شروع ہو جاتا ہے، مگر دونوں میں ایک فرق ہے۔ جسمانی ارتقا کی ایک معلوم حد ہے، لیکن ذہنی ارتقا کی کوئی معلوم حد نہیں۔ حقیقت کی حد کبھی ختم نہیں ہوتی، اِسی طرح ذہنی ارتقا کی حد بھی کبھی ختم ہونے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کا قانون

تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاری قبائل کوہستانی علاقے سے نکلے۔ وہ بارہ ہزار کی تعداد میں تھے۔ انھوں نے عباسی سلطنت پر حملہ کیا اور اس کا خاتمہ کردیا۔ انھوںنے سمر قند سے لے کر حلب تک زبردست تباہی برپا کی۔ مورخ ابن اثیر (وفات:1234ء) اُس وقت زندہ تھے۔ انھوںنے اِس تباہی کو براہِ راست طورپر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ اپنا تاثر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: لقد بُلی الاسلام والمسلمون فی ہذہ المدۃ بمصائب لم یبتل بہا أحدٌ من الأمم (الکامل فی التاریخ، جلد 12، صفحہ 360 ) یعنی اسلام اور مسلمان اِس زمانے میں ایسی مصیبتوں میں مبتلا ہوئے جیسی مصیبت میں کبھی کوئی قوم مبتلا نہیں ہوئی۔
مورخ ابن اثیر بعد کے حالات دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہے۔ اگر وہ زندہ رہتے اور بعد کے حالات دیکھتے تو یقینا وہ کہتے کہ تاریخ کو بنانا کسی قوم کے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ وہ براہِ راست خدا کے ہاتھ میں ہے۔ چناں چہ وہاں یہ واقعہ ہوا کہ نصف صدی کے اندر اسلام کی صداقت غالب آئی اور تاتاریوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔ اِس کے بعد یہی تاتاری تھے جس کی اگلی نسلوں نے مسلم دنیا میں ڈھائی جانے والی مسجدوں کو دوبارہ تعمیر کیا اور عظیم ترک خلافت قائم کی۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا کا نظام تبدیلی کے اصول پر قائم ہے۔ اِس دنیا کے لیے اس کے خالق نے یہ مقدر کردیا ہے کہ یہاں ہر عسر کے بعد یسر آئے، ہر ناکامی کے بعد دوبارہ کامیابی کا دروازہ کھلے۔ ہر شام کے بعد دوبارہ نئی شان کے ساتھ آفتاب نکلے۔
یہ ایک ایسا ابدی قانون ہے جس میں کبھی فرق نہیں آتا۔مزید یہ کہ اِس قانون کا تعلق صرف اہلِ اسلام سے نہیںہے، بلکہ اس کا تعلق تمام انسانوں سے ہے۔ تمام انسانوں کے لیے ان کے رب نے یہ مقدر کردیا ہے کہ اُن پر مختلف قسم کے حالات گزریں، تاکہ وہ اپنے رب کو ہمیشہ دریافت کرتے رہیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
آپ نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا کہ موجودہ زمانے میں دعوت کی نسبت سے دو بڑے کام ضروری ہیں— جدید سائنسی دریافتوں کا اسلام کے ساتھ تعلق ثابت کرنا، اور عصری اسلوب میں اسلام کا تعارف۔ براہِ کرم، اِن دونوں پہلوؤں کی وضاحت فرمائیں (ابو الحکم محمد دانیال، پٹنہ، بہار)
جواب
موجودہ زمانے میں دعوتِ اسلام کی نسبت سے دو بڑے کام مطلوب ہیں۔ اِن دونوں کاموں کی انجام دہی کے بغیر موجودہ زمانے میں دین کا اظہار نہیں ہوسکتا۔ وہ دو کام یہ ہیں:
1 - جدید علمی دریافتوں کا اسلام کے ساتھ ریلیونس (relevance) بتانا۔ موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات کے ذریعے جو نئی علمی حقیقتیں دریافت ہوئی ہیں، وہ اسلام کی حقانیت کو از سرِ نو مدلّل کرتی ہیں۔ ابتدائی طورپر یہ دریافتیں اسلام سے الگ معلوم ہوتی ہیں، لیکن جب اُن کو اسلامی عقائد سے وابستہ کرکے دیکھا جائے تو وہ اسلام کے حق میں ایک مسلّمہ علمی دلیل بن جاتی ہیں۔ مثال کے طورپر مشہو ر برٹش سائنس داں اسٹفن ہاکنگ(Stephen Hawking) کی دریافت کردہ سنگل اسٹرنگ تھیوری (single-string theory) عقیدۂ توحید کے لیے ایک قطعی سائنسی بنیاد فراہم کرتی ہے۔
اِسی طرح ایک اور مثال مشہور جرمن سائنس داں آئن سٹائن (وفات:1955 ) کا نظریۂ اضافیت (Theory of Relativity) ہے۔ نظریہ اضافیت بتاتا ہے کہ انسانی علم کی نسبت سے یہاں کوئی مطلق فریم ورک موجود نہیں:
No absolute frame of reference exists.
یہ سائنسی دریافت اسلام کی نسبت سے بہت اہم ہے۔ یہ دریافت اسلام کے عقیدۂ وحی کے حق میں سائنسی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اِس دریافت کے مطابق، انسان علمِ کلّی تک نہیں پہنچ سکتا، جب کہ علمِ کلّی کا حصول انسان کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اِس طرح یہ نظریہ یہ ثابت کرتاہے کہ انسان کو علم کلّی تک پہنچنے کے لیے وحی (رسالت) پر اعتماد کرنا لازمی طورپر ضروری ہے۔ اسٹفن ہاکنگ کی دریافت اگر عقیدۂ توحید کے لیے علمی بنیاد فراہم کرتی ہے، تو آئن اسٹائن کی دریافت عقیدۂ رسالت کے حق میں علمی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا کہ جدید سائنس اسلام کا جدید علمِ کلام (theology) ہے۔
2 - دوسرا اہم کام یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو اِس طرح بیان کیا جائے کہ وہ جدید دور سے ریلیونٹ (relevant) معلوم ہونے لگے۔ بظاہر اسلام کی تعلیمات الگ ہیں اور جدید دور کے تقاضے الگ۔ لیکن جب اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب (modern idiom) میں بیان کردیا جائے تو وہ پوری طرح جدید دور سے ریلیونٹ دکھائی دینے لگے گی۔ہمارے ادارے سے چھپا ہوا پورا لٹریچر اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اگر اس کو مختلف زبانوں میں چھاپ کر دنیا میں پھیلا دیا جائے تو ان شاء اللہ یہی لٹریچر وقت کی اِس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوجائے گا۔
سوال
بخاری کی ایک حدیث ہے کہ ’’دوزخ سال میں دو بار سانس لیتی ہے۔ ایک بار وہ اندرسانس لیتی ہے، یعنی کھینچتی ہے اور ایک بار وہ اس کو باہر چھوڑتی ہے۔ جب وہ سانس اندر لیتی ہے تو زمین پر سردی پڑتی ہے اور جب وہ باہر چھوڑتی ہے تو زمین پر گرمی پڑتی ہے‘‘۔ سائنسی تحقیقات کی روشنی میں یہ حدیث سمجھ میں نہیں آتی۔ امسال (2009) سردی پڑی ہی نہیں۔ ایسی حالت میں یہ حدیث ایک معمّہ سے کم نظر نہیںآتی۔ براہِ کرم، اس حدیث کے بارے میں میری رہنمائی فرمائیں۔ (شعیب اعظم، بھوپال)
جواب
صحیح البخاری کی یہ روایت تمثیل کی زبان میں ہے۔ یہ روایت نصیحت کے لیے ہے، نہ کہ بیانِ واقعہ کے لیے۔ اصل یہ ہے کہ جہنم میں سخت سردی بھی ہے اور سخت گرمی بھی ۔ مذکورہ روایت کا مطلب یہ ہے کہ جب تم کو سخت سردی کا تجربہ ہوتو تم یاد کرو کہ جب دنیا کی سردی اتنی تکلیف دہ ہے تو جہنم کی سردی کتنی زیادہ تکلیف دہ ہوگی۔ اِسی طرح جب تم کو دنیا کی گرمی کا تجربہ ہو تو تم سوچو کہ جب دنیا کی گرمی اتنی تکلیف دہ ہے تو جہنم کی گرمی کتنی زیادہ تکلیف دہ ہوگی۔ اِس قسم کی اور بھی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ وہ سب بطور تمثیل ہیں، نہ کہ بطور بیانِ واقعہ۔
سوال
آپ نے ’’تذکیر القرآن‘‘ (26: 204-212) میں تشریح کے تحت درج کیا ہے کہ: ’’پیغمبر کی سطح پر جب دعوت ظاہر ہوتی ہے تو وہ اپنی آخری کامل صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کا انکار کرنے والی قوم پر خدا کا عذاب آنا لازمی ہوجاتا ہے‘‘ (صفحہ 1048 )۔ آپ نے اپنی تشریح میں کئی جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ پیغمبروں کے ذریعہ اتمامِ حجت کے بعد مخاطب قوم جینے کا حق کھو دیتی ہے۔ اقوام کی تاریخ آپ کی تشریح کی شہادت دیتی ہے، مگر یہود کا معاملہ مستثنیٰ نظر آتا ہے۔ حالاں کہ قوم یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جھٹلایا، مگر پھر بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے جینے کا حق نہیں چھینا۔ اس کا کیا جواز ہے (رستم علی، پٹنہ،بہار)
جواب
پیغمبر کے ذریعے اتمامِ حجت کے بعد مدعو قوم پر ضرور عذاب آتا ہے، لیکن اس کی صورت ہمیشہ یکساں نہیں ہوتی۔ حضرت مسیح کے ذریعے اتمامِ حجت کے بعد یہود بھی اِس قانونِ الٰہی کی گرفت میں آئے، لیکن اُن کے ساتھ عذابِ مستأصل کا معاملہ نہیں کیا گیا، بلکہ وہ معاملہ کیاگیا جس کو قرآن میںاِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ضُربت علیہم الذلّۃ والمسکنۃ (2: 61) ۔ اِس آیت میں ذلت اور مسکنت سے مراد مادّی ذلت اور مسکنت نہیں ہے، بلکہ نفسیاتی ذلت اور مسکنت ہے۔ مزید یہ کہ مسلمان اگر حدیث کی پیش گوئی کے مطابق، یہود کے طریقے کا اتباع کرنے لگیں، تو وہ بھی اِس قانونِ الٰہی کی گرفت میںآجائیں گے۔
سوال
حدیث میں آیا ہے کہ آخری زمانے میں ایک شخص اٹھے گا، جو المہدی ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا المہدی کوئی سیاسی لیڈر ہوںگے، نیزیہ کہ کیا المہدی انوکھی اور پر اسرار شخصیت کے حامل ہوں گے کہ ان کو دیکھتے ہی تمام مسلمان ان کو پہچان کر متفقہ طو ر پر اُن کے ساتھی بن جائیں گے۔ براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں۔ (شاہ عمران حسن، نئی دہلی)
جواب
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دور آخر میں امتِ محمدی کے اندر ایک شخص اٹھے گا۔ حدیث میں اس کو المہدی کہاگیا ہے۔ ابو داؤد کی ایک روایت میں المہدی کا رول اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: یملأ الأرضَ قسطاً وعداً کما مُلئت جوراً وظلماً (کتاب المہدی،رقم الحدیث: 2485 ) یعنی مہدی زمین کو قسط اور عدل سے بھر دے گا، جیسا کہ اِس سے پہلے وہ جوروظلم سے بھر دی گئی تھی۔
اِس حدیث میں جو بات کہیں گئی ہے، وہ سیاسی اقتدار کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ نظریاتی توسیع کے معنی میں ہے۔ یہی بات حدیث کے دونوں حصوں کے بارے میں درست ہے، یعنی ایسا نہیں ہوگا کہ مہدی سے پہلے ساری زمین پر ظلم وجور کا سیاسی اقتدار قائم ہوگا اور مہدی اس کے بجائے ساری زمین پر قسط وعدل کا اقتدار قائم کردے گا۔ اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مہدی سے پہلے دنیا میں غلط نظریے کی عمومی اشاعت ہوجائے گی۔ مہدی اِس کے بجائے یہ کرے گا کہ وہ دنیا میں صحیح نظریے کی عمومی اشاعت کرنے میں کامیاب ہوگا۔ اِس اعتبار سے، حدیث کی تشریح اِن الفاظ میں کرنا درست ہے: یملأ الأرض قسطاً وعدلاً بکلمۃ الحق کما ملئت جوراً وظلماً بکلمۃ الباطل۔
المہدی کوئی انوکھی چیز نہیں ہوگا، وہ عام مصلحین کی طرح ایک مصلح ہوگا۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ عام مصلحین اور مجدد ین عالمی کمیونکیشن (global communication) سے پہلے پیدا ہوئے، جب کہ المہدی کی امتیازی صفت یہ ہوگی کہ وہ عالمی کمیونکیشن کے زمانے میں پیداہوگا۔ اِس بنا پر اس کی دعوتی اور فکری جدوجہد کا دائرہ عالمی بن جائے گا، جب کہ اِس سے پہلے کے مصلحین اور مجددین کا دائرہ صرف محلّی اور مقامی ہوا کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ المہدی کا ظہور قانونِ فطرت کے مطابق ہوگا،اور قانونِ فطرت کے مطابق ہی اِس معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ ہجرت سے پہلے، نبوت کے دسویں سال، مکہ سے طائف گئے۔ طائف اُس زمانے کا ایک خوش حال شہر تھا۔ اُس وقت وہاں کے تمام لوگ بت پرست تھے آپ نے طائف کے تین سرداروں سے ملاقات کی اور بتایا کہ خدا نے مجھے اپنا رسول بنایا ہے۔ اِس کے بعد اِن سرداروں نے آپ کا مذاق اڑایا اور آپ کی توہین کی۔ ایک سردار نے کہا: أما وجد اللّٰہ أحداً أرسلہ غیرک (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، 2/149 ) یعنی کیا اللہ نے کسی اور کو نہیں پایا کہ وہ اُس کو اپنا پیغمبر بنا کر بھیجے۔
یہی اپنے زمانے میں خدا کے تمام پیغمبروں کا حال ہوا ہے۔ ہر ایک کو ان کے معاصرین نے کم سمجھا، اور اُن کا استہزاء (36: 30) کیا۔ اِس معاملے میں کسی بھی پیغمبر کا، حتی کہ پیغمبر اسلام کا بھی کوئی استثناء نہیں ہے۔ لوگ پیغمبروں کو ان کے بعد کے زمانے کے حوالے سے پہچانتے ہیں۔ پیغمبروں کو پہچاننے والا صرف وہ شخص ہے جو اُن کو اُن کے ابتدائی زمانہ یا ان کے معاصر زمانہ کے اعتبار سے دیکھ سکے۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسانی تاریخ کے آخری زمانے میں مہدی اور مسیح آئیںگے، لیکن وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر مہدی اور مسیح کو ایک مستثنیٰ شخصیت مانتے ہیں۔ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ مہدی اور مسیح جب آئیں گے تو آتے ہی اُن کی تاج پوشی کی جائے گی اور تمام مسلمان متفقہ طورپر ان کو اپنا سردار بنالیں گے۔ بطور واقعہ جو کچھ ہونے والا ہے، وہ اِس کے بالکل برعکس ہے۔ قدیم زمانے کے یہود پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے، مگر ان کا حال یہ ہوا کہ جب پیغمبر آئے تو وہ ان کا انکار کرنے والے بن گئے (2: 89) ۔ یقینی طورپر یہی واقعہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا ہے۔ مہدی اور مسیح جب ظاہر ہوں گے تو موجودہ مسلمان یقینی طورپر ان کا انکار کرنے والے بن جائیں گے۔
سوال
ایک حدیث رسول کے مطابق، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان والوں کے لیے یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ آل محمد کو بقدر کفاف روزی دے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے اس قسم کی دعا کیوںکی، حالاں کہ مال بھی کسب آخرت کے وسائل میں سے ہے۔ براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں۔ (عبد الباسط عمری، دوحہ، قطر)
جواب
یہ حدیث صحیح البخاری میںاِن الفاظ میں آئی ہے: اللہم ارزق آل محمد قوتاً (کتاب الرقاق)۔ اس کے علاوہ، مذکورہ حدیث صحیح مسلم، الترمذی، النسائی اور ابن ماجہ میں حسب ذیل الفاظ میں آئی ہے: اللہم اجعل رزق آل محمد قوتاً۔ دونوں روایتوں کا مفہوم ایک ہی ہے، یعنی اے اللہ، آل محمد کا رزق بقدر قُوت یا بقدر کفاف عطا فرما۔ اِس کا مطلب ہے گزارہ (sustenance) کے بقدر روزی۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کم مال والا ہونا افضل ہے اور زیادہ مال والا ہونا غیر افضل ہے۔ یہ بات دراصل عملی پہلو کے اعتبار سے کہی گئی ہے، نہ کہ اصولی اعتبار سے۔
مال کو قرآن میں قیام (4: 5) کہاگیا ہے، یعنی زندگی کے لیے مددگار(supporter) ۔ اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ زیادہ مال دے اور وہ اس کو امورِ خیر میں لگائے، وہ اس کو دعوت الی اللہ کے کام میں استعمال کرے تو بلا شبہہ ایسا مال ایک نعمت ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ زیادہ مال پاکر آدمی اس کو اپنی مادی سہولتوں میں اضافے کے لیے استعمال کرے تو ایسا مال اس کے لیے غیر مطلوب بن جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ خاندان کے لیے جو دعاء فرمائی، وہ اعلیٰ معیار کی نسبت سے نہ تھی، بلکہ عملی (practical) تقاضے کی بنا پر تھی۔ کیوں کہ ننانوے فی صد سے زیادہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ زیادہ مال کو عیش وعشرت میں اضافے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اِس لیے آپ نے مذکورہ قسم کی دعا فرمائی۔ یہ دعاء مطلق معنی میں نہیںہے، اِس لیے حدیث میںآیا ہے کہ: نعم المال الصالح للرجل الصالح (اچھا مال اچھے آدمی کے لیے بہترین سرمایہ ہے)۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز 208 —

1 - صدر اسلامی مرکز کی نئی کتاب ’’پرافٹ آف پیس‘‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان بڑے پیمانے پر پڑھی جارہی ہے۔ قارئین مسلسل اپنے تاثرات بھیج رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں یہاں صرف دو تاثر نقل کیے جاتے ہیں:
ک Just finished the book. I was reading carefully compared to the fiction books. Hats off to Maulana for penning such book. It's an eye opner. (Sunil Hazra, Mumbai)
ک Dear Maulana Wahiduddin Khan Sahib,
It was a priviledge meeting you today. We are always inspired by your wisdom, spirituality and grace. I am also grateful to you for giving me a copy of each of your books: The Prophet of Peace and The Quran. These books are a blessing for me.(Tara Gandhi Bhattacharjee, Gandhi Smriti, New Delhi)
2 - پنڈت دیانند سرسوتی کے یومِ پیدائش کے موقع پر 4 اکتوبر 2010 کو وید مندر (سہارن پور) میں ایک فنکشن ہوا۔ اِس کی صدارت پنڈت اوم پرکاش شرما کررہے تھے جو الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ انھوں نے اپنے صدارتی خطبہ میں واضح طورپر صدر اسلامی مرکز کی خدمات کا اعتراف کیا۔ انھوں نے کہا کہ مولانا وہ انسان ہیں جو سچائی کا پیغام ساری دنیا کو پہنچارہے ہیں۔ اِس پروگرام میں اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اِس موقع پر سی پی ایس سہارن پور کی طرف حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
3 - منسٹری آف ہیومن رسورسیز اینڈ ڈیولپمنٹ (نئی دہلی) کی طرف سے5 اکتوبر 2010 کو دہرادون میں ایجوکیشن کے موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی۔ اِس کا نفرنس میں ہندو، مسلم اور عیسائی تینوں طبقے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک تھے۔ اِس موقع پر سی پی ایس سہارن پور کی ٹیم نے حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ کانفرنس میں شریک کچھ مسیحی حضرات نے قرآن کے مزید نسخے طلب کیے جو اُن کو اگلے دن بذریعہ ڈاک بھیج دئے گئے۔ ڈاکٹر وی ایس راٹھور نے سی پی ایس کی ٹیم سے کہا کہ آپ لوگ بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ آپ ہماری ایجوکیشنل سوسائٹی (ہلدوانی) میں آئیے۔ ہم آپ کو وہاں کے خصوصی گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرائیں گے۔ آپ لوگ یہاں آکر لوگوں کو قرآن کا تحفہ دیجئے۔
4 - نئی دہلی کے لودھی گارڈن میں 9 اکتوبر 2010 کی شام کو سی پی ایس کی طرف سے اسپریچول آؤٹنگ (Spiritual Outing) کے طورپر ایک تربیتی پروگرام کیاگیا۔ اِس پروگرام میں سی پی ایس دہلی کے علاوہ، کشمیر، سہارن پور، کرناٹک اور تمل ناڈو کے کچھ ساتھیوں نے شرکت کی۔گارڈن کے فطری ماحول میں صدراسلامی مرکز نے ایک تقریر کی ۔ اِس کا عنوان یہ تھا: ’’سوچنے کی باتیں‘‘۔ یہ ایک تربیتی تقریر تھی جو جنت کی دریافت اور دعوت سے متعلق تھی۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے گارڈن میںموجودغیر مسلم حضرات کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
5 - سی پی ایس کی طرف سے مسلسل لوگوں کو دعوتی لٹریچر پہنچایا جارہا ہے۔ لوگ اس سلسلے میں اپنے تاثرات (feedback) روانہ کررہے ہیں۔ یہاں اِس طرح کے صرف تین تاثرات نقل کیے جارہے ہیں:
ک I had an opportunity to attend the International Conference on Glass Coating, ICCG8, held in Braunchweig, Germany, from 13th to18th June 2010. This is being held at an interval of every 2 years. With the grace of God I could use this conference for Dawah purpose. Dawah work started with the journey itself and continued till end of the journey. At the Mumbai Airport the dawah literatures in Marathi and English were given to persons at the airport and to my co-traveler. During the conference I carried with me the copies of The Quran (English Translation) and The Prophet of Peace and also the booklets The Reality of Life and Man Made Global Warming. I met people and after the professional discussions presented them with the above books. The people with whom I had some acquaintance before the Quran and The Prophet of Peace were given in the first meeting. I found this method of Dawah very helpful. Alhamdulillah I could reach highly qualified people during the conference such as Scientists, Directors, Lecturers, Research scholars and Professionals from various fields. This was a unique experience for me. Doing Dawah work in a new country among new people and in a new environment was a really unique experience. For some of them whom I could not give in person the books were posted before leaving Germany. All of the recipients accepted the books with appreciation. During the return journey I presented the books to my senior colleagues and to the airport officials. (Sajid Anwar, Roorki, Uttrakhand)
ک Thank you very much for sending me a copy of the Holy Quran. I pray that Allah gives you more resources and energy. (Mahamud Ahmed, Rovaniemi, Finland)
ک Thank you for sharing the 2 booklets to me. I already read the Reality of Life and found the explanation and points important enough for each one of us to understand. I will share this with my children to begin with. (Anand Mehta, Chief Executiv, ISRA Vision India Pvt Ltd)
واپس اوپر جائیں