Pages

Monday, 2 January 2012

Al Risala | January 2012 (الرسالہ,جنوری)

2

-امر یکا کا سفر (قسط 1–)

37

- عاشورا کا روزہ

38

- معرفت کے دو پہلو

39

- شکر قلیل، شکر کثیر

40

- محبت الٰہی سے محرومی کیوں

41

- خدا کا پڑوس

42

- موت کی حقیقت

43

- سب سے بڑی بے خبری

44

- دعوت الی اللہ کی ذمے داری

45

- الرسالہ ایک مشن

46

- ایک تاثر


امریکا کا سفر

امریکا (USA) کے لیے میرا پہلا سفر نومبر 1983 میں ہوا تھا۔ اس کے بعد بار بار امریکا کا سفر ہوتا رہا۔ اِن سفروں کی روداد ماہ نامہ الرسالہ میں شائع ہوچکی ہے۔ موجودہ سفر جون 2011 میں ہوا۔ اِس سفر میں میرے کئی ساتھی میرے ہم راہ تھے۔ اِس سفر کی مختصر روداد ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
یہ سفر امریکا میں مقیم الرسالہ مشن سے وابستہ گروپ کی دعوت پر ہوا۔ اِس گروپ کے صدر خواجہ کلیم الدین صاحب ہیں۔ اِس سفر کے لیے تقریباً ایک سال سے کلیم الدین صاحب کا اصرار تھا۔ 15 جون 2011 کو یہ سفر شروع ہوا، اور 6 جولائی 2011 کو سفر سے واپسی ہوئی۔
15 جون 2011 کی شام کو ہم لوگ دہلی ائر پورٹ پر پہنچے۔ میں وہاں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ میرے ساتھی فوراً ہی دعوتی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے۔ انھوں نے ائر پورٹ کے عملہ (staff) کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ اُن کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے ہاتھ میں کتاب لے کر یہ کہتے ہوئے لوگوں کو پیش کرتے— یہ آپ کے لیے ایک اسپریچول گفٹ ہے:
This is a spiritual gift for you.
ائر پورٹ کے مراحل سے گزرتے ہوئے ہم لوگ جہاز کے اندر داخل ہوئے۔ یہ ائر انڈیا کا جہاز تھا جو درمیان میں رکے بغیر دہلی سے نیو یارک (امریکا) جاتا ہے۔ جہاز کے اندر میرے ساتھیوں نے اپنا دعوتی مشن جاری رکھا۔ انھوں نے جہاز کے اندر کئی لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا۔ جہاز کے پائلٹ اور جہاز کے عملہ کو بھی قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
جہاز کے اندر ایک ہندو ائر ہاسٹس کو ہمارے ساتھی نے قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ اس نے کہا کہ اِس سے پہلے حج کی فلائٹ میں ایک مسلمان نے مجھ کو قرآن کا عربی نسخہ دیاتھا۔ میں بہت چاہتی تھی کہ میں انگریزی زبان میں قرآن کا ترجمہ پڑھوں۔ آج قرآن کا انگریزی ترجمہ پاکر مجھ کو بہت خوشی ہورہی ہے۔ مذکورہ ائر ہاسٹس جب قرآن لے کر گئی تو ایک دوسری ائر ہاسٹس آئی۔ اس نے ہمارے ساتھی سے کہا کہ مجھے بھی قرآن کی ایک کاپی چاہیے۔ اس نے ہمارے ساتھی کا نام پوچھا۔ ’’رجت ملہوترا‘‘ نام سن کر اس کو تعجب ہوا۔ اس نے مسٹر رجت ملہوترا (Rajat Malhotra) سے کہا کہ آپ کیسے قرآن دے رہے ہیں۔ مسٹررجت نے کہا کہ میں سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کا ایک ممبر ہوں۔ سی پی ایس کے تحت ہم، لوگوں کو پیس اور اسپریچولٹی کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔
ائر انڈیا کی فلائٹ دہلی سے نیویارک کے لیے براہِ راست فلائٹ ہے۔ دہلی سے نیویارک کا فاصلہ تقریباً 12 ہزار کیلومیٹر ہے۔ یہ 15 گھنٹے کی فلائٹ تھی۔ کچھ لوگوں نے دہلی میں کہا تھا کہ یہ آپ کے لیے ایک ٹائر سم (tiresome) سفر ہوگا۔ مگر جہاز کے اندر نیند آگئی۔ اس کی وجہ سے وقت بہ آسانی گزر گیا— نیند انسان کے لیے ایک عجیب نعمت ہے، سفر میں بھی اور حضر میں بھی۔ قرآن میں اِس حقیقت کی طرف اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: وجعلنا نومکم سُباتاً (78:9) یعنی ہم نے نیند کو بنایا تمھاری تکان رفع کرنے کے لیے۔
راستے میں جہاز کے اندر مختلف اخبارات برائے مطالعہ موجود تھے۔ دہلی سے چھپنے والے ایک اخبار میں یہ خبر تھی کہ ہماچل پردیش کے ایک اہم علاقے میں ایک وی آئی پی (VIP)کی بیٹی کو گھر بنانے کے لیے زمین دی گئی۔ چوں کہ عام قانون کے تحت یہ زمین نہیں دی جاسکتی تھی، اس لیے قانون میں تبدیلی کرکے ان کو یہ زمین دی گئی۔
یہ عام بات ہے کہ ماں باپ اپنی اولاد کی فرمائش کو رد نہیں کرپاتے۔ ماں باپ اِسی کو محبت سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو فیور (favour) دیتے رہیں۔ مگر یہ ایک تباہ کن مزاج ہے۔ بچوں کے بگاڑنے کا سب سے بڑا سبب بلا شبہہ اِسی قسم کی نام نہاد پدرانہ شفقت ہے۔ انڈیا کے بڑھے ہوئے کرپشن کا سب سے بڑا سبب یہی اولاد نوازی ہے۔
جہاز فضا میں بلند ہو کر 35 ہزار فٹ کی بلندی پر تیزی سے پرواز کرنے لگا۔ کوئی زمینی سواری اس طرح تیزی سے نہیں چل سکتی، کیوں کہ باربار راستے میں مختلف قسم کی رکاوٹیں آتی ہیں جو اس کے سفرکو کھنڈت کرتی رہتی ہیں۔ لیکن ہوائی جہاز کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ تمام رکاوٹوں سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ وہ اونچی بلڈنگوں اور پہاڑوں سے بھی اوپر چلاجاتا ہے۔ اِس لیے جہاز کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ مسلسل اپنی پرواز کو جاری رکھ سکے۔ میںنے سوچا کہ یہی انسان کا معاملہ بھی ہے۔ انسان بھی اپنے ذہنی سفر (intellectual journey) کو اُسی وقت کامیابی کے ساتھ جاری رکھ سکتا ہے، جب کہ وہ زندگی میں پیش آنے والے مختلف مسائل میں نہ الجھے، وہ تمام مسائل سے اوپر اٹھ جائے۔ایسا ہی انسان اپنے ذہنی ارتقا کے سفر کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھ سکتاہے۔
اُس وقت فضا میں بادل تھے۔ جہاز بادلوں سے گزرتا ہوا آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ ہوائی جہاز کے اسٹاف کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ہمارا جہاز جلد ہی نیویارک کے ائر پورٹ پر اترنے والا ہے۔ جہاز کا ایک ائرپورٹ سے ٹیک آف کرکے ہوا میں اڑنا اور پھر دوسرے ائر پورٹ پر لینڈ کرنا، ٹکنالوجی کا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر مجھ کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ در اصل فرشتے تھے جنھوںنے جہاز کو دہلی سے اڑایا اور آخر کار اس کو نیویارک کے ائر پورٹ پر اتار دیا۔
نیویارک کا ائر پورٹ بہت بڑا ائر پورٹ ہے اس کے اندر مختلف مقامات پر اِس طرح کے جملے لکھے ہوئے تھے۔ مثلاًایک جملہ یہ تھا— گلوبل وارمنگ سے لڑنے کے لیے ساتھ دیجئے:
Let’s join hands to fight global warming.
آج کل ائرپورٹ پر رینڈم چیکنگ ہوتی ہے۔ اِس کے تحت ائر پورٹ پر ہمارے دو ساتھیوںکو روک دیا گیا۔ کچھ دیر تک پوچھ گچھ کرنے کے بعد آخر کار ان کو چھوڑ دیاگیا۔
اِسی قسم کا ایک واقعہ میرے ساتھ پیش آیا۔ میرے سر پر پگڑی تھی۔ چیکنگ کرنے والے آدمی نے میری پگڑی کی طرف اشارہ کیا۔ میںنے فوراً اپنی پگڑی اتاردی۔ اس نے مسکرا کر کہا— اوکے۔ اِسی طرح چیک کرنے والے آدمی نے میرا جوتا اتروانا چاہا۔ میں نے فوراً اپنا جوتا اتار دیا۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا، آگے جائیے۔
اس طرح کی چیکنگ پر اکثر لوگ غصہ ہو جاتے ہیں۔ ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ہم تو کوئی مجرم نہیں ہیں، پھر ہماری چیکنگ کیوں۔ مگر یہ سوچ درست نہیں۔ چیک کرنے والے کو اگر پیشگی طورپر یہ معلوم ہوکہ مجرم کون ہے تو وہ اس کی چیکنگ کرنے کے بجائے اس کو گرفتار کرکے پولس کے حوالے کردے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس قسم کی چیکنگ ہمیشہ عمومی اصول کی بنا پر ہوتی ہے، وہ شخصی علم کی بنا پر نہیں ہوتی۔ اِس لیے اِس طرح کے واقعے پر مشتعل ہونا درست نہیں۔
16 جون 2011 کو ہم لوگ ائر پورٹ سے باہر آئے۔ یہاں دو صاحبان ہمارا انتظار کررہے تھے — خواجہ کلیم الدین (ایم ایس سی)، اور ڈاکٹر وقار عالم۔ دونوں صاحبان ہمارے دعوتی مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر وقار عالم نیویارک میں رہتے ہیں۔ ائر پورٹ سے ہم لوگ دو گاڑیوں پر روانہ ہوئے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہم لوگ ڈاکٹر وقار عالم کے گھر پہنچے۔ یہ ایک پر فضا مقام تھا۔ یہاں ہم لوگوں نے ناشتہ کیا۔ اس کے بعد اہلِ خانہ اور اپنے ساتھیوں کی مختصر نشست میں کچھ باتیں ہوئیں۔
ڈاکٹر وقار عالم کی اہلیہ کا نام نصرت فاطمہ ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کو امریکا میں دوسروں کی طرح تنہائی (loneliness) کا احساس ہوتا ہوگا۔ میں نے کہا کہ آپ اگر تسبیح فاطمہ کی اسپرٹ کو اپنے اندر شامل کرلیں تو آپ کا گھر فرشتوں سے بھرا رہے گا۔ میںنے کہا کہ تسبیح فاطمہ کوئی پراسرار چیزنہیں۔ تسبیح فاطمہ کا مطلب ہے —فرشتوں کو اپنا مددگار بنانا۔
ڈاکٹر وقار عالم کی لڑکی سائکالوجی کا کورس کررہی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ امریکا میں اِس کورس کے لئے جاب کے مواقع کیسے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بہت زیادہ۔ اُن سے بات کرتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کہ امریکا میں نفسیاتی علاج کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ میں نے کہا کہ اِس کاسبب مادی دنیا سے مایوسی ہے۔ پہلے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ مادی ترقی ان کو سکون دے گی، لیکن مادی ترقی کے باوجود ان کو سکون نہیں ملا۔ اس صورت حال نے امریکا میںنفسیاتی علاج کی ضرورت بہت زیادہ بڑھا دی ہے۔
نیویارک میں مختصر قیام کے بعد ہمارا قافلہ فلیڈیلفیا (Philadelphia) کے لیے روانہ ہوا۔ یہ پورا سفر اِس طرح گزرا جیسے کہ ہم لوگ سرسبز وادی (green valley) کے درمیان سے گزر رہے ہوں۔ یہ 6 لین کی نہایت عمدہ سڑک تھی۔ سڑک کے دونوں طرف درختوں کی گھنی قطاریں تھیں۔ ہوائی کثافت (air pollution)بہت کم تھی۔
فطرت کے اِن مناظر کو دیکھ کر میں نے کہا کہ مومن کے لیے یہ مناظر ایک کائناتی سامانِ معرفت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر آدمی کے اندر عارفانہ ذہن پیدا ہوچکا ہو تو اس کے لیے یہ پورا سفر ایک ربانی تجربہ بن جائے گا۔ وہ تخلیق کے مناظر میں خالق کی موجودگی (presence) کا تجربہ کرے گا۔ اس کے لیے یہ پورا سفر سفرِ معرفت بن جائے گا۔
تقریباً 2 گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد ہم لوگ فلیڈیلفیا میں خواجہ کلیم الدین کے مکان پر پہنچے۔ اُن کا یہ مکان شہر سے دور ایک دیہی علاقہ (countryside) میں واقع ہے جس کا نام بن سلیم (Bensalem)ہے۔ امریکا میں دیہی علاقے نہایت صاف ستھرے اور پر فضا ہوتے ہیں۔ لوگ عام طورپر شہروں میں بزنس یا جاب کرتے ہیں اور دیہی علاقے میں گھر لے کر یہاں رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہاں کے دیہی علاقوں میں وہ تمام سہولتیں پوری طرح موجود ہوتی ہیں جو بڑے بڑے شہروں میں پائی جاتی ہیں۔
اس سفر کا پہلا اجتماع 16 جون 2011کی شام کو خواجہ کلیم الدین صاحب کے مکان پر ہوا۔ یہ ایک پر فضا اور وسیع مکان تھا۔ یہاں الرسالہ مشن سے وابستہ افراد، عورت اور مرد، دور دور سے آئے۔ اِس موقع پر میں نے دعوت کے موضوع پر آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ میں نے کہا کہ اگر آپ کو سچا داعی بننا ہے تو اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ اپنے دل کو مدعو کی نفرت سے پاک کریں۔ داعی اور مدعو کے درمیان معتدل ماحول کے بغیر دعوت کا کام کرنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں، داعی کو یک طرفہ صبرو اعراض کی تعلیم دی گئی ہے۔تقریر کے بعد حاضرین کو بولنے کا موقع دیاگیا۔ ہر ایک نے دعوتی مشن کی نسبت سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
میںنے کہا کہ امریکا میں دعوت کے کام کو منظم طور پر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ لوگ اپنے درمیان ایک شخص کو امیر مقرر کریں۔ مشورہ کے بعد یہ طے ہوا کہ خواجہ کلیم الدین صاحب امریکا کے دعوتی حلقے کے امیر ہوں گے۔ مزید یہ طے ہوا کہ دعوتی مشن سے وابستہ افراد کا ماہانہ اجتماع کیا جائے۔ یہ اجتماع اگر لوگوں کے جمع ہونے کی صورت میں نہ ہوسکے تو الیکٹرانک اجتماع کیا جائے، یعنی ٹیلی فونی رابطہ کے ذریعہ، جس کو عام طورپر ٹیلی فون کانفرنسنگ کہاجاتا ہے۔
اِس موقع پر میں نے کہا کہ اجتماعی کوشش کے بغیر کوئی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا، اور اجتماعیت کو برقرار رکھنے کے لیے باہمی اتحاد ضروری ہے۔ میںنے کہاکہ آپ لوگوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ آپ ہر حال میں اپنے ساتھیوں کے درمیان اتحاد کو قائم رکھیں، کسی بھی عذر کی بنا پر اتحاد کوتوڑنا آپ کے لیے جائز نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ میں سے ہر شخص اپنے اندر ’’رائے کی قربانی‘‘ کا حوصلہ پیدا کرے۔ رائے کی قربانی کے بغیر اتحاد کو برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ آپ باہمی اتحاد کے ساتھ دعوت کا کام کریں۔ اگر کسی معاملے میں ساتھیوں کی رائے مختلف ہو توآپ لوگ باہم مشورہ اور کھلا ڈسکشن کریں۔ اگر اِس ڈسکشن سے اتفاقِ رائے ہوجائے تو بہتر ہے۔ اگر مشورہ اور ڈسکشن کے باوجود کسی رائے پر تمام ساتھیوں کااتفاق نہ ہوسکے تو اُس وقت اپنے ذمے دار کے مشورے پر عمل کریں۔ آپ کا ذمے دار جو رائے دے، اُس پر سب لوگ متفق ہو کر باہمی تعاون سے کام کریں۔ اجتماعی زندگی میں اِس کے سوا اتحاد کا اور کوئی فارمولا نہیں۔
16 جون 2011 کو فجر کی نماز خواجہ کلیم الدین صاحب کی رہائش گاہ پر ادا کی گئی۔ اِس میں میرے ساتھی اور کلیم الدین صاحب کے اہلِ خانہ شریک ہوئے۔ نماز کے بعد میں نے کچھ تربیتی باتیں کہیں۔ مثلًاً یہ کہ انسان (آدم) کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو جنت میںبسایا، لیکن شجرِ ممنوعہ کا پھل کھانے کے بعد اس کو موجودہ زمین پر بھیج دیا گیا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو پہلے یہ موقع دیاگیا تھا کہ اس کی نسل عمومی طور پر جنت میں داخلہ پائے، لیکن آدم کی روش سے یہ بات سامنے آئی کہ جنت انسان کو عمومی بنیاد پر نہیں، بلکہ انتخابی بنیاد پر دی جانی چاہئے۔ اِس لیے انسان کو موجودہ زمین پر بسایا گیا۔ اب وہی انسان جنت میں جائے گا جو اپنے عمل سے اس کا استحقاق ثابت کرے۔
ایک بات میں نے یہ کہی کہ انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ پیدائشی طورپر ایک آئڈیل دنیا کا طالب ہے۔ اِس آئڈیل دنیا کا دوسرانام جنت (Paradise) ہے۔ انسان کی اِس نفسیات میں ایک اہم سراغ (clue) موجود ہے، اور وہ جنت کا وجودہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ— طالب کا وجود مطلوب کی موجودگی کاایک فطری ثبوت ہے۔
یہاں کے زمانہ قیام میں برابر لوگوںسے ملاقاتیں اور گفتگو ئیں ہوتی رہیں۔ اِس طرح مختلف قسم کے تجربات پیش آئے۔ مثلاً ایک ملاقات میں ایک صاحب نے کہا کہ میں ایک سنی فیملی سے تعلق رکھتا ہوں۔ میری بیوی شیعہ خاندان میں پیدا ہوئیں۔ بعد کو ہم دونوں نے آپ کا لٹریچر پڑھا۔ اب ہم دونوں نہ شیعہ ہیں اور نہ سنی۔ اب ہم صرف مسلمان ہیں۔
ایک صاحب نے کہا آپ بڑی عمر کے لوگوں کی اصلاح کا کام کررہے ہیں۔زیادہ مفید طریقہ یہ ہے کہ آپ اسکول کھول لیں اور ابتدائی عمر سے اصلاح کا کام شروع کریں۔ انھوںنے کہا :
Catch them at tender age.
میں نے کہا کہ یہ نظریہ عملاً غلط ثابت ہوچکا ہے۔ بہت سے لوگوں نے یہ کام کیا اور بچوں کو لے کر انھیں اسکولوں میں پڑھایا، لیکن اس کا مطلوب نتیجہ نہ نکل سکا۔ اِس لیے آپ کو چاہیے کہ آپ نتیجہ (result) کی بنیاد پر اپنی رائے بنائیں، نہ کہ محض تصوراتی نظریے کی بنیاد پر۔ میں نے کہا کہ اصل کام ذہن کی تشکیل (intellectual engineering) ہے، جو کہ صرف پختگی (maturity) کی عمر میں کی جاسکتی ہے۔ناپختگی (immaturity) کی عمر میں ذہن کی مطلوب تشکیل ممکن نہیں۔
مسٹر ندیم کاظمی امریکا کے ایک معروف شخص ہیں جو عرصے سے ملّی ورک میں مشغول ہیں۔ میںنے گفتگو کے دوران دعوتی کام کی اہمیت بتائی۔ میںنے کہا کہ فارمل ایجوکیشن (formal education) صرف پروفیشن کی نسبت سے ہے۔ جہاں تک شخصیت سازی کا تعلق ہے، اس کے لیے صرف انفارمل ایجوکیشن (informal education) ہی مفید ہوسکتی ہے۔ ان کو ہمارے یہاں کا مطبوعہ انگریزی لٹریچر دیاگیا۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ آپ قرآن کا ڈسٹری بیوشن کررہے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ایک اچھا کام ہے، لیکن یہ ڈسٹری بیوشن دعوت کے نام پر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مذہبی ہم آہنگی (interfaith harmony) کے نام پر ہونا چاہیے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ ہم قرآن کا ڈسٹری بیوشن دعوت کے عنوان سے کررہے ہیں، آپ اس کام کو مذہبی ہم آہنگی کے نام سے کرنا شروع کردیجئے۔ آپ تجویز مت پیش کیجئے، بلکہ عملاً خود اِس کام کو شروع کردیجئے۔
16 جون 2011کی شام کو ڈیوڈ شینک (Rev. David Shenk) اپنی اہلیہ کے ساتھ ملاقات کے لیے آئے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ مسلم- کرسچن ڈائلاگ کے موضوع پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ اپنی اِ س کتاب میں وہ 52 ایسے سوالات کے جوابات دے رہے ہیں، جو کہ عیسائیت کے بارے میں لوگ عام طورپر پوچھتے ہیں۔
میں نے مسٹر ڈیوڈ سے ایک سوال پوچھا۔ میںنے کہا کہ اتنا زیادہ کوشش کے باوجود مسلم-کرسچن ڈائلاگ نا کام کیوں ہے۔ پھر میں نے کہا کہ میں ایسے کئی ڈائلاگ میں شریک ہوا ہوں۔ میںنے پایا ہے کہ اکثر لوگ ڈبیٹ(debate) اور ڈائلاگ میں فرق نہیں کرتے۔ وہ ڈائلاگ کے نام پر سیمنار کرتے ہیں اور پھر وہاں ڈبیٹ کرنے لگتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ڈائلاگ کا مقصد کامن گراؤنڈ تلاش کرنا ہوتا ہے، جب کہ ڈبیٹ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی سے مقابلہ میں اپنی برتری کو ثابت کیاجائے۔ سب سے پہلے اِس سوچ کو بدلنا چاہیے۔ اِس کے بعد ہی کوئی ڈائلاگ مفیدہوسکتا ہے۔
مسٹر ڈیوڈ نے بتایا کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ریورنڈ (Reverend) کا ٹائٹل استعمال نہیں کرتے۔انھوں نے کہا کہ خدا کی نظر میں سب برابر ہیں۔ جب ہم خدا کے یہاں پہنچیں گے تو وہاں ہم ’’ریورنڈ‘‘ نہیں کہے جائیں گے۔
انھوں نے اپنی نئی کتاب (Time in Mogadishu) دی۔ جاتے وقت انھوںنے کہا:
You are a group of scholars.
16 جون 2011 کی شام کو مغرب کی نماز میں سورہ الفیل اور سورہ قریش پڑھی گئی۔ نماز کے بعد دونوں سورتوں کی روشنی میں، میں نے بتایا کہ اِن سورتوں میں داعی گروہ کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے، وہ یہ کہ خدا نہ صرف داعی گروہ کی مدد کرے گا، بلکہ وہ اس گروہ کی بھی مدد کرے گا جو ابھی صرف پوٹنشیل داعی گروہ کی حیثیت رکھتا ہو، حتی کہ اگر اسباب کے اعتبار سے، اس کی حفاظت کے مواقع نہ ہوں تو خدا ایسے گروہ کو اپنی خصوصی نصرت کے ذریعے بچائے گا، جیساکہ بنو اسماعیل، جو کہ پوٹنشیل داعی گروہ کی حیثیت رکھتے تھے، ان کو واقعۂ فیل کے وقت خدا کی خصوصی نصرت کے ذریعے بچایا گیا۔
ایک اسلام پسند مسلمان نے گفتگو کے دوران کہا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات (complete code of life) ہے۔ میںنے کہا کہ اسلام کی یہ تعبیر درست نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل اسپرٹ ہے جو ہمارے پورے وجود کو اللہ کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ اِس کے بعد میں نے مذکورہ مسلمان کو صحابی رسول صعصعہ بن معاویہ کا واقعہ سنایا۔ روایت کے مطابق، صعصعہ بن معاویہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ نے ان کو سورہ الزلزال سنائی، یہاں تک کہ آپ تلاوت کرتے ہوئے اِس آیت پر پہنچے: فمن یعمل مثقال ذرۃٍ خیراً یرہ، ومن یعمل مثقال ذرّۃ شراً یرہ(99: 7-8)۔ صعصعہ بن معاویہ نے اِس آیت کو سن کر کہا: حسبی أن لا أسمع غیرہا (اِس کے بعد میں کچھ اور نہ سنوں، تب بھی یہ میرے لیے کافی ہے)۔
مذکورہ آیت صرف محاسبۂ آخرت کی آیت تھی، مگر صحابی رسول کو اِسی ایک آیت میں پورا اسلام مل گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مکمل آئڈیالوجی کانام مکمل اسلام ہے، نہ کہ مکمل کوڈ کا۔ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات کا نام دینا، اسلام کو ایک مینول فارم (manual form) کی حیثیت دینا ہے۔
خواجہ کلیم الدین صاحب کے گھر پر روزانہ ہماری تربیتی مجلسیں ہوتی تھیں۔ روزانہ مختلف اوقات میں، میں کسی تربیتی نکتے پر نصیحت کے انداز میں گفتگو کرتا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ ہمارے ساتھیوں میں سے بعض افراد شاپنگ یا سائٹ سیئنگ (sight seeing) کے لیے شہر چلے گئے، اور وہ اس تربیتی مجلس میں شریک نہ ہوسکے۔ وہ جب واپس آئے تو میں نے اُن سے کہا کہ آپ لوگ اِس کو معمولی بات سمجھ رہے ہیں، مگر یہ ایک نہایت سنگین بات ہے۔ جو لوگ معمولی عذر (excuses) کی بناپر اِس مجلس میں شریک نہیں ہوئے، وہ فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوگئے۔فرشتوں کی صحبت کوئی سادہ بات نہیں۔ فرشتوں کی صحبت سے انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرتی ہے۔ یہی خدائی انعام ہے۔ یہ خدائی انعام اِسی دنیا سے شروع ہوجاتا ہے اور وہ آخرت تک چلا جاتا ہے۔
ایک گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ شہید جب آخرت میں اپنا اجر دیکھے گا تو وہ یہ تمنا کرے گا کہ کاش، میں 100 بار شہید ہوتا۔ میں نے کہا کہ یہ بات صرف معروف شہادت کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ دعوتِ دین کی راہ میں دی جانے والی ہر قربانی پر صادق آتی ہے۔
ایک گفتگو کے دوران میں نے کچھ مسلمانوں سے کہا کہ اہلِ ایمان کے لیے دہرا اجر کی بشارت دی گئی ہے، مگر یہ کوئی فضیلت نہیں۔ یہ اہلِ ایمان کی دہری ذمے داری کے سبب سے ہے۔ ایک، مومن ہونے کی نسبت سے، اور دوسری، امتِ محمدی کا فرد ہونے کی نسبت سے۔ پیغمبر آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بعد کی انسانی نسلوں تک خدا کا پیغام پہنچائے۔ نبی کا آنا اگرچہ اب ختم ہوگیا ہے، مگر نبی کا مشن ختم نہیں ہوا۔ اگر ایک مسلمان نماز، روزہ نہ کرے تو ا س کا مسلمان ہونا مشتبہ ہے۔ اِسی طرح اگر وہ دعوت کا کام نہ کرے تو اس کا امتِ محمدی میں شامل ہونا مشتبہ قرار پائے گا۔
میں نے کہا کہ قیامت میں اگر امتِ محمدی کے گروپ میں شامل نہ کیاگیا تو اُس وقت ہمارا حال کیا ہوگا۔ روایات میں آیا ہے کہ کچھ لوگوںکو فرشتے پکڑ کر جہنم کی طرف لے جارہے ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو اِس حال میں دیکھ کر کہیں گے کہ یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ فرشتے کہیں گے کہ نہیں، اِن لوگوں نے آپ کے بعد آپ کے دین کو چھوڑ دیا تھا۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ انگریزی کے علاوہ، مقامی زبانوں میں کیا کام کررہے ہیں۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں مقامی زبانوں کے لوگ بھی زیادہ تر مقامی زبانوں کے علاوہ، انگریزی زبان میں پڑھتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں عام طورپر تعلیم یافتہ طبقے کے مطالعے کی زبان انگریزی ہے۔ یہی تعلیم یافتہ طبقہ ملائِ قوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس لیے ہم نے خاص طورپر انگریزی زبان کو اپنی دعوت کی توسیع واشاعت کا ذریعہ بنایا ہے۔ ہم یہ پسندکرتے ہیں کہ سی پی ایس انٹرنیشنل سے وابستہ افراد زیادہ سے زیادہ انگریزی زبان ہی میں کام کریں:
The official language of CPS is English.
میں نے اپنے تجربے میں پایا کہ امریکا کے لوگ بہت زیادہ پریکٹکل ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ اختلاف کو فوراً ختم کردو اور آگے بڑھو۔ ایسے موقع پر ایک امریکی فوراً یہ کہہ دے گا:
Let’s move on, everything is ok!
آج کل دنیا میں ایمپاورمینٹ (empowerment) کا بہت زیادہ چرچا ہے۔ مثلاً ویمن ایمپاورمینٹ، کمیونٹی ایمپاورمینٹ، مسلم ایمپاور مینٹ، وغیرہ۔ اِس کا ذکر کرتے ہوئے میں نے کہا کہ— سب سے زیادہ ضروری اسپریچول ایمپاور مینٹ ہے:
The most important empowerment is spiritual empowerment.
ایک صاحب نے پوچھا کہ اسپریچول ایمپاورمینٹ کا فارمولا کیا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ فارمولا بہت سادہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ — منفی باتوں کو نظر انداز کیجئے اور ہر معاملے میں مثبت پہلو کو دریافت کرنے کی کوشش کیجئے:
Ignore negative experiences, and try to find positive items in everything.
امریکا میں جو تارکینِ وطن (immigrants) ہیں، وہ عام طورپر فخر کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ امریکا کو تاریکنِ وطن نے ترقی دی ہے۔ ایک موقع پر کچھ اِس قسم کے لوگوں نے یہ بات کہی۔ میں نے کہا کہ یہ صرف آپ لوگوں کی خوش فہمی ہے۔ اگر آپ لوگ ایسے ہی تھے تو آپ لوگوں نے خود اپنے ملکوں کو ترقی کیوں نہیں دی۔ پھر میں نے کہا کہ امریکاکی خاص صفت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ صرف میرٹ (merit)کی بنیاد پر فیصلہ کرتاہے۔ یہاں کے ہر فرد کو یقین ہوتا ہے کہ اگر اس نے محنت کرکے اپنا جوہر دکھایا تو اس کو ضرور ترقی ملے گی۔ میں نے کہا کہ:
It was Mr. Incentive who developed America and not Mr. Immigrant.
ایک موقع پر کچھ لوگوں سے جنت کا ذکر ہوا۔ میں نے کہا کہ قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ویُدخلہم الجنۃ عرفہا لہم (46:6) ۔ جنت کی یہ پہچان کہاں ہوتی ہے۔ یہ پہچان اِسی دنیا میں ہوتی ہے۔ میں نے کہا امریکا میں ڈیولپمنٹ کاجوکام ہوا ہے، وہ گویا اِسی قسم کا ایک کام ہے۔ میں جب امریکا کے خوب صورت شہروں کو دیکھتاہوں تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ:
America is an introductory version of paradise.
17 جون 2011 کوجمعہ کا دن تھا۔ ہم لوگوں نے فلیڈیلفیا کی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی۔ امام صاحب نے انگریزی میں خطبہ دیا۔ اِس خطبے میں انھوںنے غیر مسلموں کے لیے بد دعا کی اور عربی زبان میں اِس طرح کے الفاظ کہے: اللہم أہلک الکفرۃ والیہود والمشرکین۔
میں نے سوچا کہ بات یہ ہے کہ مفروضہ دشمنوں کے لیے بددعا میں مسٹر اور مولوی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ مشرق سے مغرب تک تقریباً ہر مسلمان اِس میں مشغول ہے۔ اگر وہ منہ سے بد دعا نہیں کرتا تو وہ اپنے دل میں منفی خیال لئے ہوئے ہے۔
ایک مجلس میں کچھ لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان مغربی قوموں کے لیے نگیٹیو (negative) ہوگئے ہیں، اِس لیے وہ اِن قوموں کو اپنا مدعو نہ بنا سکے۔ مغرب میں دعوت الی اللہ کے غیر معمولی امکانات موجود ہیں، مگرمذکورہ منفی نفسیات کی بنا پر یہ امکانات واقعہ نہ بن سکے۔ کچھ لوگ بطور خود قرآن کو پڑھ کر اسلام قبول کرلیتے ہیں، لیکن خود مسلمانوں کے اندر حقیقی معنوں میں غیر مسلموں کے لیے کوئی دعوتی عمل موجود نہیں۔ امریکا میں مسلمانوں کی فلاح کے نام پر بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں، لیکن غیر مسلموں میں دعوت کے لیے حقیقی معنوں میں کوئی تحریک موجود نہیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ قرآن میں بہت زیادہ تکرار (repetition) ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تکرار نہیں ہے، بلکہ وہ ایک پہلو کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت ہے۔مثلاً قرآن میں آدم اور ابلیس کا قصہ کئی بار بیان ہوا ہے۔ لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ہر بار اس کا ذکر کسی نئے پہلو سے کیا گیاہے۔
ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ انسان کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو مائنڈ دیاگیا ہے۔ یہ مائنڈ حکمت (wisdom) کو دریافت کرنے کا لامتناہی خزانہ ہے۔ حیوانات اِس حکمت کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ میں نے کہا کہ:
Animal plus wisdom is man. Man plus wisdom is super animal.
18 جون 2011 کی صبح کو ہم لوگوں نے خواجہ کلیم الدین صاحب کی رہائش گاہ پر فجر کی نماز ادا کی۔ نماز سے فراغت کے بعد لوگ بیٹھ گئے۔ میںنے کہا کہ حدیث میں آیا ہے: مَن صلی الصبح فہو فی ذمۃ اللہ (جس نے صبح کی نماز ادا کی، وہ اللہ کے ذمے میں آگیا)۔ میںنے کہا کہ یہ کوئی پراسرار بات نہیں، بلکہ یہ ایک معلوم بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ نماز آدمی کے اندر جو صفات پیدا کرتی ہے، وہ اس کے لیے ایک طرف شیطان سے اور دوسری طرف سماج سے حفاظت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مثال کے طورپر نماز کے شروع میں یہ کلمہ ادا کیا جاتا ہے: اللہ اکبر۔ یہ دراصل تواضع (modesty) کا سبق ہے۔ اِسی طرح نماز کے خاتمہ پر کہاجاتا ہے: السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ نماز اہلِ ایمان کے اندر دوسروں کے لیے سلامتی (peace) کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ یہ دونوں صفات اخلاقی اعتبار سے بے حد اہم ہیں۔ جس آدمی کے اندر تواضع ہو، اور دوسروں کے لیے اُس کے دل میں سلامتی کا جذبہ ہو، ایسا آدمی اپنے آپ سماج کا سب سے زیادہ مطلوب انسان بن جائے گا۔ اس کا یہ کردار اِس بات کا ضامن بن جائے گا کہ وہ کسی بھی سماج میں ایک با عزت شہری بن کر رہ سکے۔
ایک بار میں نے انڈیا کے ایک مسلم پروفیسرکا سفر نامہ پڑھا۔ یہ بیرونی ملک کا سفر نامہ تھا۔ اِس میں انھوں نے اپنا ایک تجربہ اِس طرح بیان کیا تھا کہ وہاں ٹرین کے ایک سفر میں ایک مسافر نے میوہ جات اور چائے کافی سے ہماری ضیافت کی۔ ہم نے بھی ان کو تحفے میں ہندستانی چائے اور قلم پیش کیا۔ یہ ہماری عادت ہے کہ میں جب بھی غیر ممالک میں جاتاہوں تو کچھ یہاں کی چیزیں ساتھ لے کر جاتا ہوں، تاکہ نئے احباب کو کچھ تحفہ پیش کرسکوں۔
لیکن میرے ساتھ جو لوگ سفر میں آئے تھے، ان کے اندر دعوتی مزاج تھا۔ چناں چہ پورے سفر میں اُن کا یہ حال تھا کہ جب بھی وہ کسی کو دیکھتے تو وہ یہ کوشش کرتے کہ اس کو قرآن کا ترجمہ یا کوئی اور اسلامی پمفلٹ بطور تحفہ پیش کریں۔ یہ سلسلہ دہلی ائر پورٹ سے شروع ہوا، اس کے بعد برابر پورے سفر میں جاری رہا۔ مسلمانوں کے اندر اگر دعوتی مزاج ہو تو یقینا وہ جان لیں گے کہ ان کے پاس دوسروں کو پیش کرنے کے لیے جو سب سے بڑی چیز ہے، وہ قرآن ہے۔
18 جون 2011 کی صبح کو خواجہ کلیم الدین صاحب کی رہائش گاہ پر فجر کی نماز کے بعد مجلس میں کئی لوگ جمع ہوگئے۔ یہاں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ یہاں جو باتیں ہوئیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کی قرآن (3: 64)میں کلمۂ سواء (religious common ground) کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ ایک عمومی اصول ہے۔ اس کو جنرلائز کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ موجودہ زمانے میں داعی اور مدعو کے درمیان امن (peace) کی حیثیت اِسی کلمہ سواء کی ہے۔ آج کے حالات میں ہم کو چاہیے کہ امن کو کامن گراؤنڈ بنا کر لوگوں کے درمیان دعوہ ورک کریں۔
امریکا میں یہ رواج ہے کہ لوگ کار کے ذریعے لمبی لمبی دوری کا سفر کرتے ہیں۔ اِس کے مطابق، امریکا کے زمانہ قیام میں مختلف مقامات پر بہت سے پروگرام بنائے گئے۔ اِن تمام مقامات پر مجھ کو کار کے ذریعے جانا تھا۔ یہ پروگرام زیادہ تر لوگوں کے گھروں پر تھے۔ اِس میں زیادہ تر یہ ہوتا تھا کہ صاحب خانہ کے یہاں پروگرام کے ساتھ کھانے کا بھی انتظام ہوتا تھا۔ لوگ وہاں جمع ہو کر کھانا کھاتے اور پھر پروگرام میں شریک ہوتے۔
فلیڈیلفیا کے سینٹ پال چرچ کی دعوت پر 18 جون 2011 کو وہاں مجھے ایک تقریر کرنے کا موقع ملا۔حاضرین میں چند یہودی سامعین تھے اور زیادہ تر مسیحی۔ مجھے تقریر کا جو موضوع دیاگیا تھا، وہ یہ تھا:
Peaceful Activism in Islam.
میں نے قرآن اور حدیث کے حوالے سے انگریزی زبان میں اِس موضوع پر ایک تقریر کی۔ آخر میں سوال وجواب کا پروگرام تھا۔ ایک کرسچن فادر نے سوال کیا کہ عیسی مسیح نے کہا ہے کہ — اپنے دشمن سے محبت کرو: Love your enemies (Luke 6:35)
انھوں نے کہا کہ کیا قرآن میں بھی اِس طرح کی کوئی تعلیم پائی جاتی ہے۔ میں نے کہا کہ ہاں۔ پھر میں نے قرآن کی سورہ حم السجدہ کی وہ آیت پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے:
Good and evil deeds are not equal. Repel evil with what is better; then you will see that one who was once your enemy has become your dearest friend. (41: 34)
اِس کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ قرآن کی اِس آیت کے مطابق، کوئی دشمن ابدی دشمن نہیں ہے۔ ہر دشمن ایک امکانی دوست (potential friend) ہے۔ اِس لیے ہم کو چاہیے کہ ہم اِس امکان کو واقعہ بنائیں۔ ہم اپنے مثبت رویّے سے اپنے دشمن کو اپنا دوست بنا لیں۔
سینٹ پال چرچ میں حاضرین کے لیے دوپہر کے کھانے کا انتظام تھا۔ یہ نہایت سادہ ویجٹیرین کھانا تھا۔ کھانا زیادہ تھا اس لیے وہ کافی بچ گیا۔ آخر میں منتظمین نے حاضرین کو چھوٹے چھوٹے بیگ دئے اور کہا کہ آپ لوگ اِس کھانے کو اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں۔
امریکی کلچر میں ایک خاص بات یہ ہے کہ امریکی لوگ کسی معاملے میں تکلف نہیں کرتے۔ اِس معاملے میںامریکی کلچر، برٹش کلچر کے برعکس ہے۔ امریکی کلچر میں بے تکلفی کی ایک عجیب مثال یہ ہے کہ یہاں جب کوئی شخص لنچ (lunch) یا ڈنر (dinner) دیتا ہے تو بچے ہوئے کھانے کو پیک کرکے آنے والوں کے حوالے کردیتا ہے، تاکہ وہ گھر جاکر اس کو استعمال کرسکیں۔ یہ یہاں کا عام رواج ہے۔ مسلم گھروں میں بھی میں نے یہی کلچر دیکھا کہ وہ آنے والوں کو کھانا پیک کرکے دے دیتے ہیں۔ اِس طرح یہاں کھانا ضائع نہیں ہوتا۔
19 جون 2011 کو میری لینڈ (Maryland State)میں میرے دو پروگرام ہوئے۔ فلیڈیلفیا سے میری لینڈ کا سفر بذریعہ کار دوگھنٹے میں طے ہوا۔ اِن سفروں کے لیے خواجہ کلیم الدین صاحب نے ایک بڑی گاڑی کا انتظام کیا تھا جس میں ہمارے تمام ساتھی بیٹھ جاتے تھے۔ ایک لمبی سیٹ پر میںلیٹ کر سفر کرتا تھا۔ سفرکے دوران میں سوگیا تھا۔ میرے ایک ساتھی نے مجھ کو جگادیا۔ انھوں نے کہا کہ کراچی سے مولاناعبداللطیف صاحب کا ٹیلی فون آیا ہے، وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ سوتے ہوئے آدمی کو جگانا نہیں چاہئے۔ میرے ساتھی نے کہا — ساری (sorry) ۔ میں نے کہا کہ یہ ’’ساری‘‘ کی بات نہیں۔ یہ ایک اصول کو جاننے کی بات ہے، وہ یہ کہ جب کوئی شخص سورہا ہو تو اُس وقت اُس کو نہ جگائیے۔ بعد کو جب وہ اٹھے تو اُس وقت آپ کو اس سے جو کہنا ہے، وہ کہئے۔
میری لینڈ میں میرے دو پروگرام تھے۔ایک مز گل زیبا کی رہائش گاہ پر، اور دوسرا میری لینڈ کی مسجد میں۔ مز گل زیبا کے مکان پر سینئر افراد کے علاوہ نوجوان افراد بھی اکھٹا تھے۔ مز گل زیبا کے بیٹے ہارون (12 سال) کو میں نے کچھ نصیحت کے کلمات کہے۔ پھر ان کی ڈائری پر میں نے یہ الفاظ لکھ دئے:
Make Islam your mission, and make learning your profession.
میری لینڈ اسٹیٹ کی مسجد میں جو پروگرام تھا، اس کا عنوان یہ تھا:
Islam and Modern Age
یہاں موضوع کی مناسبت سے میں نے کچھ باتیں کہیں۔ آخر میں سوال وجواب ہوا۔ یہ تمام توضیحی سوالات تھے۔ کسی نے کوئی تنقیدی سوال نہیں کیا۔ ایک سوال اسوۂ رسول پر تھا۔ میں نے کہا کہ اسوۂ رسول کا معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم کو چاہیے کہ ہم رسول اللہ کی سیرت کا مطالعہ کریں اور آپ کے طریقے کو اپنی زندگی میں ڈھالیں۔ مثلاً رسول اللہ نے نماز کے بارے میں فرمایا: صلوا کما رأیتمونی أصلّی۔ اِس اصول کا تعلق صرف نماز سے نہیں ہے، بلکہ زندگی میں پیش آنے والے تمام معاملات سے ہے۔ اِس حدیث کا توسیعی مطلب یہ ہوگا: اعملوا کما رأیتمونی أعمل(جس طرح تم مجھ کو عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہو، اسی طرح تم بھی عمل کرو)۔
میری لینڈ کی ایک مجلس میں ایک مسلمان تاجر سے ملاقات ہوئی۔ وہ امریکا میں کتابوں کی نشر و اشاعت کا کام کرتے ہیں۔ انھوں نے قرآن کا ایک انگریزی ترجمہ شائع کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ آپ کا ترجمہ دیکھنے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب میں آپ ہی کے ترجمے کو پھیلاؤں گا، کیوں کہ مختلف پہلوؤ ںسے یہ ترجمہ زیادہ بہتر ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک سروے کے مطابق، اِس ترجمہ قرآن کو پڑھ کر ہر سال تقریباً 300 امریکن اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ انھوںنے بتایا کہ ابھی حال ہی میں ایک بڑے عہدے پر فائز امریکن بھی اِس ترجمہ قرآن کو پڑھ کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔
بالٹیمور میں ایک اسلامی ادارہ قائم ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
Islamic Society of Baltimore (ISB)
اِس سوسائٹی کے تحت بالٹیمور کی جامع مسجد میں 19 جون 2011 کی شام کو ایک پروگرام رکھا گیا۔ یہ ایک جدید طرز کی کافی بڑی مسجد تھی۔ اِس میں نمازیوں کے لیے ہر طرح کی سہولت موجود تھی۔ اِس پروگرام کا اشتہار چھاپ کر لوگوں کو پیشگی طورپر اِس کی اطلاع کردی گئی تھی۔ اِس پروگرام کے لیے تقریر کا عنوان یہ تھا: Islam in the Modern Age
اِس موضوع پر انگریزی زبان میں 45 منٹ کی ایک تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔
امریکا میں عام طور پر رواج ہے کہ لوگ یہاں مغرب سے پہلے شام کا کھانا (dinner) کھاتے ہیں۔ کھانے کے بعد مغرب کی نماز ہوتی ہے اور اس کے بعد پروگرام شروع ہوتا ہے، جو کہ دیر تک چلتا ہے۔ بالٹیمور کی مسجد میں بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ پروگرام عصر کے بعد شروع ہوا، اور رات کو دس بجے کے بعد عشا کی نماز پر اس کا خاتمہ ہوا۔ پروگرام کے بعد مز گل زیبا نے تمام شرکا کو الرسالہ اردو اور انگریزی کی کاپیاں برائے مطالعہ پیش کیں۔ اِس کے بعد ہم لوگ میری لینڈ واپس آگئے۔ یہاں ہم لوگوں کا قیام مز گل زیبا کے مکان پر تھا۔ صبح کو میری لینڈ سے فلیڈیلفیا کے لیے واپسی ہوئی۔
20 جون 2011 کو خواجہ کلیم الدین صاحب کے گھر پر حسب معمول اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک تربیتی نشست ہوئی۔ خواجہ کلیم الدین ایک اسکول میں ٹیچر ہیں۔ آج وہ اپنے اسکول چلے گئے، اِس لیے آج کوئی خارجی پروگرام نہیں تھا۔ آج کی مجلس میں مجھ سے تربیت اولاد کے بارے میں سوال کیا گیا۔ میں نے لوگوں کو یہ حدیث رسول سنائی: ما نحل والد ولدہ من نُحل أفضل من أدب حسنٍ (مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 4977 ) یعنی کسی والد کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرے۔
میں نے کہا کہ یہاں تربیت سے مراد یہ ہے کہ اولاد کو صحیح اسلامی زندگی گزارنے کے لیے تیار کیا جائے۔ اِس میں عبادت کے علاوہ تمام اخلاقی اوصاف شامل ہیں۔ مثلاً ڈسپلن، حکمت (wisdom) اور زندگی کے اصول، وغیرہ۔
خواجہ کلیم الدین صاحب کے گھر کے باہر سڑک کے پاس ایک بڑے قسم کا ڈسٹ بن (dustbin) رکھا ہوا تھا۔ میںنے قریب جاکر دیکھا تو اس پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
Waste Management
امریکا میں کوڑا (waste) اٹھانے کا طریقہ یہ ہے کہ گھر والے خود اپنے گھر کا کوڑا نکال کر اپنے گھر کے باہر رکھے ہوئے ایک بند ڈسٹ بن(dustbin) میں رکھ دیتے ہیں۔ بعد کو ایک بند گاڑی آتی ہے اور اس کوڑے کو وہاں سے اٹھا کر لے جاتی ہے۔
ایک مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ ہر گز نہیں۔ اصل یہ ہے کہ مسلمان اپنی نادانی کی قیمت ادا کرتے ہیں:
Muslims are paying the price of their own unrealistic policies.
مثلاً سڑک پر جب ہندوؤں کا جلوس نکلتا ہے تو مسلمان غیر ضروری طور پر اُن لوگوں سے یہ مانگ کرتے ہیں کہ جلوس کا راستہ بدلو۔ اِس پر دونوں فرقوں کے درمیان ٹکراؤ ہوتا ہے اور فرقہ وارانہ فساد کی نوبت آجاتی ہے۔ ایسی حالت میں عقل کا تقاضا یہ ہے کہ آپ جلوس کو نہ روکیں، وہ خاموشی سے گزر جائے گا اور فرقہ وارانہ فساد نہیں بھڑکے گا۔ مگر مسلمان عام طورپر ہر جگہ عقل کے اِس امتحان میں ناکام ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔
ایک صاحب نے بعض منکرینِ حدیث کا تذکرہ کیا۔ میں نے کہا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن ہمارے لیے کافی ہے، وہ بلاشبہہ غلطی میں مبتلا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث، حکمتِ اسلام کا خزانہ ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ قرآن میں دینی احکام کا اصولی علم دیا گیا ہے اور اس کی تفصیلات حدیث سے معلوم ہوتی ہیں۔ یہ بات بجائے خود صحیح ہے، لیکن اِس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ حدیث، ربانی حکمت (divine wisdom) کو جاننے کا واحد مستند ذریعہ ہے۔
امریکا کے زمانۂ قیام میں خواجہ کلیم الدین صاحب کی لڑکی مز انعم (18 سال) سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے بتایا کہ مئی 2011 میں وہ کالج کے ایک تعلیمی پروگرام میں ساؤتھ افریقہ گئیں۔ وہاں انھیں چند شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔انھوں نے ساؤتھ افریقہ کے بارے میں چند باتیں بتائیں۔ ایک بات انھوںنے یہ بتائی کہ ساؤتھ افریقہ میں حقوق انسانی (Human Rights) کے تحفظ کے لیے بہت سے قانون بنائے گئے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو قانونی طورپر ہر قسم کا حق دیاگیا ہے۔ مثال کے طورپر یہاں کے قانون کے مطابق، ایک وہ حق بھی ہے جس کو رائٹ ٹوپریگننسی (Right to Pregnancy) کہاجاتا ہے۔ اس کو سن کر میں نے کہا کہ یہ موجودہ زمانے کا کمال سمجھا جاتا ہے کہ اس نے ہر ملک میں حقوق انسانی کے قوانین بنائے۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ باعتبار نتیجہ اس قانون سازی کے بعد کیا ہوا۔ میڈیا کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک میں حقوق انسانی کے قوانین جس طرح کاغذ پر لکھے ہوئے ہیں، اس طرح وہ حقیقی انسانی زندگی میں واقعہ نہیں بنے۔
اصل یہ ہے کہ حقوق انسانی کا تحفظ قانون سازی کے ذریعہ نہیں ہوتا، بلکہ ذہن سازی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اس معاملے کا تعلق ایجوکیشنل ایکٹوزم سے ہے، نہ کہ لیگل ایکٹوزم سے۔ عجیب بات ہے کہ ساری دنیا میں حقوق انسانی کے نام پر ہیومن رائٹس ایکٹوزم کی دھوم ہے۔ آج کی دنیا کا ایک تلخ پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ایجوکیشن کو پروفیشنل سے وابستہ کردیاگیا ہے، تعمیر شخصیت جدید ایجوکیشن کا موضوع نہیں۔
خواجہ کلیم الدین صاحب، حیدرآباد (انڈیا) میں 1952 میں پیدا ہوئے۔ انھوںنے عثمانیہ یونی ورسٹی (حیدرآباد)سے بی ایس سی اور بھوپال یونی ورسٹی سے ایم ایس سی (کیمسٹری) کی ڈگری لی۔ اِس کے بعد وہ 1982 میں نائجیریا (افریقہ) چلے گئے۔ اس کے بعد وہ 1989 میں نائجیریا سے امریکا منتقل ہوگئے۔ اپنے پروفیشن کے اعتبار سے وہ اسکول ٹیچر ہیں، اور مشن کے اعتبار سے وہ پوری طرح دعوت الی اللہ کے مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔خواجہ کلیم الدین صاحب ماہ نامہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ وہ الرسالہ کے پہلے شمارہ (اکتوبر 1976) سے اس کا برابر مطالعہ کررہے ہیں۔ جب وہ نائجیریا میں تھے، اُس وقت انھوں نے خود اپنی کوشش سے الرسالہ کا انگریزی ایڈیشن نکالنا شروع کیا تھا۔ اب کلیم الدین صاحب مستقل طورپر امریکا میں مقیم ہیں اور اپنے ساتھیوں کے تعاون سے وہ دعوت کا کام اتنے بڑے پیمانے پر کررہے ہیں کہ حالیہ سفر میں جب میں نے قریب سے اُن کے کام کو دیکھاتو میں نے کہا کہ آپ نے تو امریکا میں دعوہ انڈسٹری قائم کردی۔
خواجہ کلیم الدین صاحب ’الرسالہ فورم انٹرنیشنل‘ (Al-Risala Forum International) کے تحت یہاں دعوتی کام کررہے ہیں۔ ادارے کا پتہ حسب ذیل ہے:
Al-Risala Forum International
2665 Byberry Road, Bensalem, PA 1920 (USA)
Tel: 617-960-7156, email: kkaleemuddin@gmail.com
Website: www.alrisala.ecrater.org
امریکا میں ان کے پاس ایک نہایت کشادہ گھر ہے۔ انھوںنے اپنے پورے گھر کو دعوہ سنٹر بنا رکھا ہے۔ خواجہ کلیم الدین صاحب مختلف پہلوؤں سے جو دعوتی کام کررہے ہیں، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ انھوںنے الرسالہ مشن کو انٹرنیٹ کے دور میں داخل کیا۔ انھوں نے بطور خود الرسالہ کی ویب سائٹ (www.alrisala.org) بنائی۔ اِس ویب سائٹ پر انھو ں نے ماہ نامہ الرسالہ کے شمارے اور مطبوعات الرسالہ کو صوتی (audio)اور بصری (visual) انداز میں اپ لوڈ کردیا ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا میں بڑے پیمانے پر اس کے ذریعے دعوتی کام ہورہا ہے۔ امریکا کا موجودہ سفر خواجہ کلیم الدین صاحب اور ان کے ساتھیوں ہی کی کوشش سے عمل میں آیا۔
اِس سفر کی دریافتوں میں سے ایک دریافت مسز تسنیم تھیں۔ وہ خواجہ کلیم الدین کی اہلیہ ہیں اور عجیب وغریب صلاحیتوں کی مالک ہیں۔ وہ گھر کا پورا کام کرتے ہوئے مسلسل طورپر دعوہ ورک کرتی ہیں۔ امریکا میں ان کے بہت سے رشتے دار ہیں۔ ان سب کو وہ دعوہ ورک کے لیے ٹیلی فون پر انکریج (encourage) کرتی رہتی ہیں اور ان کو دعوہ لٹریچر بھیجتی رہتی ہیں۔ وہ پورے معنوں میں خواجہ کلیم الدین صاحب کی دعوہ پارٹنر ہیں۔
مجھے اِس سلسلے میں کئی تجربے ہوئے۔ ایک بار میں کار کے ذریعے ایک مقام سے دوسرے مقام پر جارہا تھا۔ راستے میں ہم ایک ریسٹ ایریا (Rest Area) پر رکے۔ یہاں ایک امریکی مسلمان اپنی اہلیہ کے ساتھ مل گئے۔ مسز تسنیم نے ان سے باقاعدہ گفتگو کی اور ان کو کتابیں دیں ۔ بعد کو ان کا ٹیلی فون آیا اور مسز تسنیم کی دعوت پر وہ اپنی اہلیہ اور اپنے دو بچوں کے ساتھ ان کے گھر پر ملنے آئے۔
21 جون 2011 کو ہم لوگ بذریعہ کار یارڈلے (Yardley) پہنچے۔ یہاں ڈاکٹر انیس میمن کے گھر پر ایک پروگرام رکھا گیا تھا۔ حسب معمول مغرب سے پہلے شام کا کھاناکھایا گیا۔ اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی گئی، پھر میری تقریر ہوئی۔ اِس پروگرام میں مردوں کے علاوہ، عورتیں بھی کافی تعداد میں موجود تھیں۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ ڈاکٹر انیس میمن ہمارے دعوتی مشن میں شامل ہیں۔ وہ اپنے کلینک میں ہمارے یہاں کا چھپا ہوا ترجمہ قرآن اور ریلٹی آف لائف کی کاپیاں رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ہر مریض (patient) کو قرآن کا ترجمہ اور ریلٹی آف لائف بطور اسپریچول گفٹ (spiritual gift) پیش کرتے ہیں۔یہاں ایک موقع پرکچھ غیر مسلم حضرات کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا۔ ایک صاحب نے اِس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا— وہ (ترجمہ) قرآن آگیا جس کا لمبی مدت سے انتظار تھا:
Here comes the much awaited Quran.
قرآن کے بارے میں یہ تجربہ ہمارے ساتھیوں کو بار بار پیش آیا ہے۔ جب لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا جاتا ہے تو وہ اس کو اِس طرح لیتے ہیں جیسے کہ وہ پہلے سے اس کے منتظر تھے۔
ایک صاحب 40 سال پہلے امریکا میں آئے تھے۔ یہاں انھوں نے بزنس کے علاوہ، کئی ملی کام کئے۔ مثلاً مسلم لڑکیوں کے لیے اسکول کا قیام، وغیرہ۔ پہلے وہ اپنے کاموں کے بارے میں بہت زیادہ پُرامید تھے، مگر معلوم ہوا کہ نتیجے کو دیکھ کر وہ مایوس ہوگئے، یہاں تک کہ اب وہ امریکا کو چھوڑ کر اپنے سابق وطن پاکستان واپس چلے گئے۔ مجھے بتایا گیا کہ وہا ںانھوں نے ایک یتیم خانہ قائم کیا ہے اور سوشل ورک (social work) کررہے ہیں۔
میرے علم کے مطابق، یہ تجربہ بہت عام ہے۔ میں انڈیا کے اندر اور انڈیا کے باہر کئی ایسے مسلمانوں کو جانتاہوں جنھوں نے ملی ورک شروع کیا۔ ابتدا میں وہ اپنے کام سے بہت پُرامید تھے، لیکن بعد کو جب انھوں نے نتیجہ (result)دیکھا تو وہ اپنے کام کے بارے میں مایوس ہوگئے اور آخر تک اِسی مایوسی کے عالم میں پڑے رہے۔اِس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے یہاںمیں نے ایک صاحب سے کہا کہ اِس قسم کا حادثہ صرف ملی ورک میں پیش آتا ہے، دعوہ ورک میں نہیں۔ اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ ملی ورک اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک ایسا کام ہے جس میں ہمیشہ نتیجہ (result) مطلوب ہوتا ہے، مگر دعوہ ورک کا نشانہ نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ تبلیغ ہوتا ہے، یعنی مدعو تک اپنی بات کو پہنچادینا۔ اِسی حقیقت کو قرآن کی اِس آیت میںبیان کیاگیا ہے: فذکّر إنما أنت مذکّر، لست علیہم بمصیطر۔
یہاں سفر کے دوران ایک بار کراچی سے مولاناعبد اللطیف صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ وہ اور ان کے ساتھی پاکستان کے مختلف مقامات پر بڑے پیمانے پر دعوتی کام کررہے ہیں۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ ہر مہینے ماہ نامہ الرسالہ پاکستان سے چھاپ کر شائع کرتے ہیں۔ عبد اللطیف صاحب نے پوچھا کہ امریکا کے سفر میں آپ کے ساتھ کتنے آدمی ہیں۔ میں نے کہا کہ ہمارے ساتھ صرف اتنے ہی آدمی نہیں ہیں جو دہلی سے آئے ہیں، بلکہ وہ اُس سے بہت زیادہ ہیں، یہ فرشتے ہیں۔ ہمارے ساتھ فرشتوں کی ایک فوج ہے۔ جو لوگ تخریبی کام کرتے ہیں، اُن کے ساتھ شیطان کی فوج ہوتی ہے۔ ہم دعوتی کام کررہے ہیں، اِس لیے ہمارے ساتھ فرشتوں کی فوج ہے۔
جب میں امریکا میں تھا تو انڈیا سے میرے ایک ساتھی نے نئی دہلی کے ایک اردو ماہ نامہ (جولائی 2011) میں چھپا ہوا ایک مضمون بذریعہ ای میل مجھ کو بھیجا۔ یہ مضمون 4 صفحہ پر مشتمل تھا۔ اِس مضمون میں میرے بارے میں یہ الفاظ درج ہیں:
’’مثبت مثبت کی رٹ لگاتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ نفسیاتی طور پر منفی ذہنیت مولانا پر مسلط ہوگئی۔ اب انھیں اپنے علاوہ، پوری تاریخ اسلام میں کہیں بھی کوئی قابلِ قدر شخصیت یا تحریک نظر نہیں آتی۔ مثبت مثبت کی رٹ کے ساتھ تاریخِ اسلام، شخصیاتِ اسلام اور ماضی وحال کے مسلمانوں میں کیڑے نکالنا مولانا کا محبوب مشغلہ بن گیا‘‘ (صفحہ 61 )
اِس قسم کی بات کئی لوگوں نے میرے بارے میں کہی یا لکھی ہے۔ میں نے اُن لوگوں سے کہا کہ آپ متعین حوالے کے ساتھ بتائیں کہ میں نے اِن الفاظ میں اِس طرح کی بات کہاں لکھی ہے۔ لیکن اُن میں سے کسی نے میری اپنی تحریر کے حوالے سے اِس کا کوئی ثبوت نہیںدیا۔ اصل یہ ہے کہ میری تحریریں تجزیاتی انداز میں ہوتی ہیں۔ مگر اپنے غیر علمی ذہن کی بنا پر لوگ اس کو سمجھ نہیں پاتے، وہ علمی تحلیل وتجزیہ کو تعییب اور تنقیص کے ہم معنی سمجھ لیتے ہیں۔
امریکا میں کچھ ایسے مسلمان ہیں جنھوں نے شروع میں الرسالہ مشن کا ساتھ دیا، مگر دھیرے دھیرے وہ اس سے الگ ہوگئے۔ ایسے لوگوں سے گفتگو کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ لوگ ملی ذہن کے لوگ تھے۔ ان کی سوچ مسلم اورینٹیڈ (Muslim-oriented)سوچ تھی۔ وہ الرسالہ مشن سے یہ سوچ کر قریب ہوئے کہ یہ گویامسلم ایمپاور منٹ کا ایک مشن ہے۔ دھیرے دھیرے جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ انسان اورینٹیڈ مشن ہے اور اس کا خاص نشانہ غیر مسلموں میں قرآن کا پیغام پہنچانا ہے تو وہ اِس سے دور ہوگئے۔ یہ لوگ دوسرے اکثر مسلمانوں کی طرح ملی کام کو کام سمجھنے والے تھے۔ ان کے نزدیک دوسرے لوگ ان کی نظر میں صرف ’’غیر قوم‘‘ یا ’’اغیار‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسے کئی لوگ میرے تجربے میں آئے ہیں، انڈیا میں بھی اور انڈیا کے باہر بھی۔
ہمارے کچھ ساتھی خواجہ کلیم الدین صاحب کے ساتھ فلیڈیلفیا کے پوسٹ آفس گئے۔ خواجہ کلیم الدین صاحب 11 کارٹن باکس لے کر وہاں گئے تھے۔ ہر باکس میں 100 قرآن تھے۔ یہ قرآن کینیڈا، کیلی فورنیا اور امریکا کے دوسرے شہروں کے لیے بذریعہ ڈاک روانہ کئے گئے۔ امریکا میں کئی شہروں میں دعوہ ورک ہو رہا ہے۔ اُن کے لیے فلیڈیلفیا کے دعوہ سینٹر سے برابر قرآن بھیجا جاتا ہے۔ خواجہ کلیم الدین صاحب کی یہ دعوتی سرگرمیاں امریکا اور کینیڈا دونوں ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ روزانہ دعوت کے مختلف کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ خواجہ کلیم الدین صاحب کے گھر پر یہ منظر دیکھ کر میں نے کہا کہ—آپ نے تو یہاں ایک دعوہ انڈسٹری کھول دی ہے۔
امریکا کے لیے میرا یہ دسواں سفر تھا۔ اِس بار میرا سفر نسبتاً زیادہ لمبا رہا۔ بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں، بہت سے لوگوں کے گھروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرا عام تجربہ یہ تھا کہ یہاں کے لوگ بظاہر پُرراحت زندگی گزاررہے ہیں، لیکن یہاں عام طورپر یہ حال ہے کہ جب بھی اُن سے کسی سنجیدہ موضوع پر بات ہوتی ہے تو اچانک معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذہنی بونے پن (intellectual dwarfism) کا شکار ہیں۔ گویا کہ ہر عورت اور مرد زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ :
Here, I am comfortable physically, but here I am deprived intellectually.
ذہنی ارتقا سے اِس محرومی کا راز کیا ہے۔ اِس کا راز یہ ہے کہ امریکا کا کلچر جبری مادیت (compulsory materialism) کا کلچر ہے۔ یہاں کے انسان کے پاس زندگی کے روحانی پہلو کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں، اور فطرت کا قانون ہے کہ زندگی کے جس پہلو کو لمبی مدت تک غیراستعمال شدہ حالت میں رکھا جائے، وہ معطّل ہو کر رہ جاتا ہے۔
کہاجاتا ہے کہ بادشاہ بابر جب کشمیر گیا اور اس نے وہاں کے فطری حسن کو دیکھا تو اس نے کہا:
اگر فردوس برروئے زمین است ہمین است وہمین است و ہمیں است
لیکن بابر (وفات: 1530 )کا یہ قول غالباً امریکا کے خوبصورت شہروں پر زیادہ صادق آتا ہے۔ امریکا میں فطرت کے مناظر بہت زیادہ ہیں۔ پھر یہاں کے مناظر کو خوب صورت تر بنا کر ان کے درمیان خوب صورت شہر بسائے گئے ہیں۔ اس طرح امریکا کے شہروں کے بارے میں زیادہ درست طورپر یہ کہاجاسکتا ہے کہ امریکا میں فطرت کے مناظر کے درمیان بنے ہوئے یہ خوب صورت شہر گویا ’مساکن طیبۃ فی جنات عدن‘کا ایک بعید تعارف ہیں۔
لیکن دو ہفتہ سے زیادہ امریکا میں قیام اور یہاں کے مختلف شہروں میں بار بار جانے کے بعد میں نے دریافت کیا کہ امریکا کو اگر جنت سے تشبیہہ دی جائے تو امریکا کی جنت، جنت مع الحزن کا مصداق ہوگی اور آخرت کی جنت، جنت بغیر الحزن کا مصداق۔
قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہواہے: یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات(2:276) یعنی اللہ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کوبڑھاتا ہے۔ اِس آیت کو مفسرین عام طور پر in terms of money لیتے رہے، یعنی ربا (سود) میں کمائی گھٹتی ہے اور غیر ربا اکانومی میں اقتصادیات بڑھتی ہے۔ امریکا کے سفر میں مجھے جو باتیں سمجھ میں آئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ یہ تفسیر جدید انسان کے لیے قابل فہم نہیں۔ کیوں کہ وہ دیکھتا ہے کہ مبنی بر ربا اکانومی میںخوب مادی ترقی ہو رہی ہے۔
ایک مسلمان جو ایک ایشیائی ملک سے یہا ں آکر آباد ہوئے ہیں، ان سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ امریکا کی سوسائٹی میں ہرآدمی سود کے نظام میں جکڑا ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ تو بہت اچھا ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے لیے ممکن ہوتا ہے کہ ہم زندگی شروع کرتے ہی تمام چیزیں حاصل کرلیں۔ یہاں اگر آپ کو جاب مل جائے تو آپ بینک سے سودی قرض لے کر اچانک سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں، گھر، کار، بچوں کی تعلیم، وغیرہ۔ اس کے بعد کمائی کا ایک حصہ سود کی قسط کی شکل میں دیتے رہئے اور تمام مادّی سامان سے فائدہ اٹھاتے رہئے۔
میں برابر سوچتارہا کہ اس آیت کی وہ تفسیر کیا ہے جس سے آج کا ذہن ایڈریس ہو سکتا ہو، جس سے آج کے ذہن کو مطمئن کیا جاسکے۔ پھر میری سمجھ میں آیا کہ یہاں جس برکت کا ذکر ہے، اس سے مرادغالباً ذہنی ترقی اور اسپریچول ترقی ہے۔
ربا (interest) کیا ہے۔ ربا دراصل مور منی (more money) کلچر کی سب سے زیادہ خودغرضانہ شکل ہے۔ ربا کے نظام میں جو کلچر فروغ پاتا ہے، اس میں سارا زور زندگی کے مادی پہلو پر ہوتاہے۔ اس میں ذہنی ارتقا یا روحانی ارتقا کا کوئی خانہ نہیں ہوتا۔ اِس طرح ربا کے نظام کے تحت جو ترقی ہوتی ہے، وہ یک طرفہ ترقی (one sided development) ہوتی ہے۔ اِس نظام کے تحت لوگ جسمانی اعتبار سے شان دار دکھائی دیتے ہیں، وہ اچھے اچھے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں، لیکن ذہنی اور روحانی ارتقا کے اعتبار سے عام طور پر وہ پس ماندگی کی آخری حد تک پہنچے ہوتے ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہمارے موجودہ پروگرام میں ایک صاحب کینڈا سے آئے تھے۔ انھوںنے کہا کہ کینڈا میں میں جس آفس میں کام کرتا ہوں، وہاں بہت سے یہودی اور عیسائی ہوتے ہیں۔ وہ لوگ ایک سوال یہ کرتے ہیں کہ تمھارے قرآن میں انجیر اور زیتون کا چرچا کیاگیا ہے۔ ہمارے کینڈا میں بہت سے اچھے اچھے پھل ہوتے ہیں، لیکن ان کا تمھارے قرآن میں کوئی ذکر نہیں۔ پھر ہم کینڈا کے لوگ کیسے تمھارے قرآن کو مانیں۔ قرآن عرب اور شام کے لیے تھا، وہ امریکا اور کینڈا کے لیے نہیں۔ اس قسم کا سوال وجواب صرف اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل رک گیا ہے۔ ذہنی اعتبار سے ترقی یافتہ آدمی اِس قسم کا سوال نہیں کرسکتا۔
امریکا کے زمانۂ قیام میں یہاں مجھ کو شہروں کے علاوہ دیہات (countryside) میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے دیکھا کہ چیزوں کا جو معیار (standard) شہر میں ہے، وہی دیہات میں بھی ہے۔ مثلاً مکان، سڑک، بجلی وغیرہ کا نظام۔ ان معاملات میں یہاں شہر اور دیہات میں کوئی فرق نہیں۔ اصل یہ ہے کہ امریکا میں چیزوں کی معیاربندی (standardization) کی گئی ہے، جب کہ انڈیا جیسے ملکوں میں ابھی تک چیزوں کی معیار بندی نہیں ہوئی ہے۔
امریکا کی ایک صفت یہ ہے کہ یہاں ہر چیز اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب مسابقت(competition) ہے۔ یہاں ہر کام کے لیے پرائیویٹ کمپنیاں ہوتی ہیں۔ ان کے درمیان سخت مقابلہ کا ماحول قائم رہتا ہے۔ اِس سے ہر کمپنی یہ چاہتی ہے کہ وہ کارکردگی کا اعلیٰ معیار پیش کرے، تاکہ وہ عوام میں مقبولیت حاصل کرسکے۔
یہاں کے ایک پروگرام میں ایک صاحب آئے۔ ان کی گود میں ان کی چھوٹی بچی تھی۔ وہ مسلسل اپنی چھوٹی بچی میں مشغول تھے وہ اگر چہ بظاہر ہمارے پروگرام میں شریک تھے، مگر ان کا سارا دھیان اپنی بچی میں لگا ہوا تھا۔ اس کا اندازہ مجھے اُس وقت ہوا جب کہ میں نے اپنی ایک بات کو ان سے دہرانے کے لیے کہا تو وہ اس کو صحیح طریقہ پرنہ دہرا سکے۔ میں نے کہا کہ ہیومنزم (Humanism) کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس کی فلاسفی ہے— خدا کی سیٹ پر انسان کوبٹھانا:
Transfer of seat from God to man.
میں نے کہا کہ اِسی کا نام شرک ہے، اور یہی فعل ہر زمانے میں ہوا ہے۔ ہر زمانے میں اور آج بھی انسان کسی نہ کسی غیر خدا کو خدا کے مقام پر بٹھاتا رہا۔ کسی نہ کسی غیر خدا کو کوئی انسان اپنا سول کنسرن (sole concern) بناتا رہا۔ مثلاً:
Transfer of seat from God to Nature
Transfer of seat from God to King
Transfer of seat from God to Holymen
Transfer of seat from God to Dollar
Transfer of seat from God to Self
Transfer of seat from God to Children
23 جون 2011 کی صبح کو یہاںکے ایک بلیک مسلم ملاقات کے لیے آئے۔ انھوںنے ہمارے ساتھ فجر کی نماز پڑھی۔ ان کا نام رفیق فرینڈ تھا۔ اس کے بعد ان سے ڈسکشن ہوا۔ انھوں نے کہا کہ میں انٹرنٹ پر آپ کی تحریریں پڑھتا ہوں۔ آپ ہمیشہ آئڈیالوجی پر زور دیتے ہیں، آپ سسٹم کی بات نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ اسلام کا اصل مشن دعوت ہے۔ دعوت کا مطلب ہے توحید کی آئڈیالوجی کو لوگوں تک پہنچانا۔ جہاں تک سوشل سسٹم کی بات ہے، وہ تمام تر حالات پر موقوف ہے۔ ہمارا کام افراد کی ذہن سازی کا کام ہے۔سوشل سسٹم ہمارا نشانہ نہیں۔
امریکا کے زمانہ قیام میں روزانہ لوگ مختلف قسم کے سوالات کرتے تھے اور میںان کا جواب دیتا تھا۔ مثلاً ایک صاحب نے کہا کہ یہاں ہم کو حلال میٹ نہیں ملتا تو ہم کیا کریں۔ میںنے کہا کہ مچھلی، انڈا اور سبزی ،دال کھائیے اور اگر میٹ آپ کے لیے ضروری ہے تو آپ امریکا کو چھوڑ کر اپنے ملک واپس چلے جائیے۔
ایک صاحب نے کہا کہ یہاں کی سوسائٹی میں ہمارے بچے بگڑ رہے ہیں۔ ہم کیا کریں۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ سوسائٹی کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں، لیکن میرے نزدیک خود آپ لوگ اِس بگاڑ کے ذمے دار ہیں۔آپ لوگوں نے یہاں آکر صرف ایک کام کیا اور وہ تھا ڈالر کمانا۔ ڈالر کما کر آپ نے اپنے بچوں کی خوب پیمپرنگ(pampering) کی۔ اور پیمپرنگ بچوں کو صرف بگاڑتی ہے۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ اب اصلاح کا آغاز یہ ہے کہ آپ خود اپنے آپ کو بدلیں۔ بچوں کو یا سوسائٹی کو ذمے دار ٹھہرانے سے کوئی فائدہ نہیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ میری بیٹی ایک عیسائی لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ میں کیا کروں۔ میں نے کہا کہ اِس معاملے میں فتویٰ کی زبان کاکوئی فائدہ نہیں۔ آپ حرام وحلال کی زبان بولیں گے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ آپ اپنی لڑکی کو بتائیے کہ اِس طرح کی شادی کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ اس طرح کی شادیوں کا انجام ہمیشہ طلاق ہوتا ہے، پھر ایسی شادی سے کیا فائدہ۔ شادی پوری زندگی کا ایک معاملہ ہے، وہ کوئی وقتی معاملہ نہیں۔
امریکا کے صدر براک اوباما نے 22 جون 2011 کی شام کو 13 منٹ کی ایک تقریر کی جو ٹی وی پر ہر جگہ سنائی گئی۔ اس تقریر میں انھوں نے کہا کہ افغانستان کے اندر ہمارا مشن پورا ہوچکا ہے۔ ہم اپنی 33 ہزار فوج کو سال بھر کے اندر واپس بلالیں گے۔ انھوںنے کہا کہ القاعدہ نے ہمارے خلاف یہ بات پھیلائی تھی کہ امریکا نے اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے:
America is at war with Islam
عجیب بات ہے کہ القاعدہ کا یہ نظریہ سارے مسلمانوں میں پھیل گیا۔ تقریباً ہر مسلمان امریکا سے نفرت کرنے لگا۔ عرب کے لوگ کہنے لگے کہ: أمریکا عدوالإسلام رقم واحد۔ مگر کسی نے حقائق کی روشنی میں اس کا تجزیہ نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ڈائرکٹ یا انڈائرکٹ طور پر امریکا کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کا جو کام ہورہا ہے، وہ تمام مسلم ملکوں سے بھی زیادہ ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ تاریخ میں ہمیشہ انسان بے بنیاد پروپیگنڈے کا شکار ہوا ہے۔ اس کا پہلا واقعہ آدم اور ابلیس کی صورت میں ہوا۔ابلیس نے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ آدمی کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ تم کو جنت کی اصل نعمت دی ہی نہیں گئی۔ آدم اس سے متاثر ہوئے اور انھوںنے شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا۔ آدم کو جنت میں 99 فی صد سے زیادہ نعمتیں ملی ہوئی تھیں۔ شجر ممنوعہ کی حیثیت ایک فی صدسے بھی کم تھی۔ مگر جھوٹے پروپیگنڈے کے نتیجے میں آدم 99 فی صد سے زیادہ کو بھول گئے اور ایک فی صد سے کم پر ان کا دھیان چلا گیا۔ شیطان کا یہ فتنہ آج بھی تمام دنیا میں جاری ہے۔
ایک تعلیم یافتہ مسیحی سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے اپنا ایک پمفلٹ دیا۔ اس کا ٹائٹل یہ تھا:
Have You Been Rescued By the Lifeguard of the Universe?
اس پمفلٹ کے صفحہ 13 پر بتایا گیا تھا کہ مسیحی عقیدہ کی حیثیت لائف گارڈ (lifeguard) کی ہے۔ زندگی میں جب بحران آتا ہے تو اس کے ذریعہ آپ نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ جس طرح پانی کے طوفان میں لائف گارڈ آپ کو بچا لیتا ہے، اسی طرح مسیحی عقیدہ، آخرت میں آپ کے لیے لائف گارڈ کا کام دے گا، وہ آپ کے لیے نجات کا ذریعہ بن جائے گا۔
مسیحی حضرا ت کے یہاں حضرت مسیح کا تصور مُنَجَِّی کاتصور ہے، یعنی نجات دینے والا۔اس نظریہ کو بتاتے ہوئے پمفلٹ کے صفحہ 9 پر یہ الفاظ درج ہیں:
When I have leaks in my plumbing, I need a plumber. When electrical things quit, I need an electrician. When my marriage doesn’t work, I need a counselor. When the car breaks down, I need a mechanic. When finances fail, I need an advisor. When I am sick, I need a doctor. When I sink, I need a savior.
یہ پورا استدلال تمثیل پر قائم ہے۔ تمثیل کے ذریعہ استدلال قدیم روایتی زمانہ میں عام تھا۔ خاص طور پر تمام مذاہب تمثیلی استدلال پر قائم تھے۔ سائنس کے ذریعہ جو فکری انقلاب آیا، اس نے تمثیلی استدلال کو بے بنیاد ثابت کردیا۔ موجودہ زمانہ میں کہاجاتا ہے کہ :
Analogy is the weakest form of argument.
موجودہ زمانہ میں علمی شعبوں میں تمثیلی استدلال کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ مگر مذہب کے دائرہ میں تمثیلی استدلال کا طریقہ بدستور رائج ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ صرف ’’شردھالو‘‘ قسم کے لوگ مذہب کے دائرہ میں آتے ہیں، ذہین اور تعلیم یافتہ افراد مذہب میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ جدید انسان کو مذہب کے دائرہ میں لانے کے لیے مبنی بر عقل مذہب کی ضرورت ہے۔ مبنی بر تمثیل مذہب اس زمانہ کے انسان کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
فلیڈیلفیا میں ہماری قیام گاہ جس روڈ پر تھی، اس کے سامنے سڑک کی دوسری طرف ایک وسیع کامپلیکس تھا۔ یہ کامپلیکس خصوصی طورپر سینئر سٹی زن کے لیے مخصوص تھا۔ اس کے سامنے وسیع لان تھا۔ اس لان میں فوارہ تھا اور کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ہمارے ایک ساتھی ٹہلتے ہوئے وہاں تک پہنچ گئے اور لان کے کنارے واک کرنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد اندر سے ایک آدمی آیا اور اس نے نرم لہجے میں کہا:
You know, this is private property.
اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ جگہ صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جو یہاں رہتے ہیں، باہر والوں کے لیے نہیں۔ امریکی معاشرہ بہت زیادہ رائٹ کانشس (right-conscious) معاشرہ ہے۔ ان کے یہاں حقوقِ انسانی کا جو تصور ہے، اس میں کسی کے پرائیویٹ دائرہ میں داخل ہونا جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ چناں چہ کامپلیکس کے بیرونی حصے میں اس مضمون کے بورڈ جگہ جگہ لگے ہوئے تھے:
Trespassers will be prosecuted.
پرائیویسی (privacy) کا یہ اصول پُرعافیت زندگی کے لیے بہت اچھا ہے، لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس میں انٹریکشن (interaction)کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے اور انٹریکشن ذہنی ارتقا کے لیے بہت ضروری ہے۔
18 جون 2011 کو فلیڈیلفیا کے سینٹ پال چرچ میں جو پروگرام ہوا تھا، اس میں مسٹر لاری سنائڈر (Larry Snider) بھی موجود تھے۔ انھوںنے سوال وجواب میں حصہ لیا تھا اور میری تقریر پر پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد 23 جون 2011 کی شام کو وہ اپنی اہلیہ ڈانا (Donna) کے ساتھ میری قیام گاہ پر ملاقات کے لیے آئے۔ اُن سے دیر تک گفتگو ہوئی۔ پھر ان کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دوسری اسلامی کتابیں برائے مطالعہ دی گئیں۔ اِس کو انھوں نے خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
ہم لوگوں سے ملاقات کرکے مسٹر لاری سنائڈر بہت متاثر ہوئے۔ چناں چہ بعد کو انھوںنے فلیڈیلفیا کے ایک مقامی نیوز پیپر (بکس کاؤنٹی ٹائمس) میں ’’اسلام اور پیس‘‘ کے موضوع پر ایک مضمون شائع کیا۔ مسٹر لاری سنائڈر کا یہ مضمون اگلے صفحات میں نقل کیا جاتا ہے۔
Islam: A Religion of Peace
Since our journey of discovery, our 20 Christian, Muslim, Jewish and Unitarian clergy and lay leaders have shared their experiences with more than150 audiences, and we have hosted key individuals and institutional representatives from Israel and the West Bank who shared their knowledge. This year, we began a continuing series of facilitated interfaith conversations at area houses of worship, bringing the public together to discuss the core of their faith and to safely learn about the beliefs of others. Soon after our return in 2008, I met Kaleem, aka Khaja Kaleemuddin, a teacher, and began to hear about his mentor, Maulana Wahiduddin Khan, an Indian scholar and spiritual leader who has written dozens of books on the meaning of the Quran and the role of Islam in the world today. Kaleem always had examples of the Maulana's writing to hand out to all who were interested at our events, and to introduce people to his message. I read some of his articles and began to look carefully at his books. The message was both positive and vitally important to all of us, that Islam is a religion of peace and that terrorism and jihad are against the central principals enunciated in the Quran. It turned out that my friend Kaleem operates a distribution center for the writings and spiritual guidance of Maulana Wahiduddin Khan in the United States. It's right here in Bensalem, and is known as the Centre for Peace and Spirituality. Kaleem told me that the Maulana, an Indian term of honor equivalent to sheikh, would be visiting the United States and coming to Bucks County as a base for his travels in America. Kaleem arranged speaking engagements locally at St. Paul's Episcopal Church in Philadelphia and at the Zubaida Foundation here in Yardley. These local presentations would supplement a major address at the national convention of the Islamic Society of North America in Rosemont, Ill., as well as speeches in Washington and New York City. I looked forward to seeing and hearing this extraordinary spiritual leader - who has received numerous awards from his own government and the international community - at Rev. Cliff Cutler's St. Paul's Church on June 18th. When I got there, I realized that Maulana Wahiduddin Khan traveled with his family and his primary disciple from New Delhi and that his children, (the Maulana is 85 years old), are all serious students of religion and politics with his granddaughters actively completing advanced degrees. After a brief introduction, Maulana Wahiduddin Khan began to speak in English while being recorded for a future video release. His words were simple and powerful, and it became clear that this man is truly a messenger of peace on a journey to teach all people that Islam is a religion of peace. He said that “No war is permitted in Islam except when it is attacked, and only a state can go to war. That is an accepted principal of Islam . The Quran says that if you kill a single person, then you have killed all mankind.” He spoke about a visit to Palestine: “I visited Palestine and asked,“Why are you not interested in peace?” ‘We want peace with justice,’ was the reply. I said, “You are wrong. Peace is not justice. Peace opens the door to justice. It gives you the opportunity. First of all establish peace . . . then you have to avail the opportunities.” He went on to talk about Islamic extremism and terror. “Modern militancy among Muslim countries cannot be ended by conflict. You have to develop a personal bond. You have to change their mind. Without changing the mind, you cannot eliminate violence. My mission is the same. By the grace of God, I’ve change the minds of thousands and thousands of Muslims.” The Maulana went on to take questions, including one about the similarity between the Christian instruction to love your neighbor and a Muslim directive from the Quran. The Maulana quoted from his translation of the Quran, chapter 41:34: “Good and evil deeds are not equal. Repel evil with what is better; then you will see that one who was once your enemy has become your dearest friend.” I must tell you that I read every day about war and peace and the results of religious extremism. The organization I represent is a vehicle to bring people together to begin to understand each other, to recognize the humanity in all religions, and to build relationships that encourage us to walk together on a path of peace. I have been overwhelmed by the message of the Maulana at a time when so many of us have only seen Islam as a religion of violence. His message is an antidote to the violence, and his teaching represents a means to transform the extremism that threatens all religions and all democracies - and that frankly, after 9/11, scares the hell out of us all. You can go to the website listed above and read his writings. Order his books, including his translation of the Quran, which is available in paperback and easy to read, and his incredible “The Prophet of Peace,” which I am now reading. Meeting this man, hearing his words and realizing how critical they are in our battle to defeat Muslim extremism and all extremism, is like a breath of fresh air filling me with hope and renewing my faith in the future. (Bucks County Courier Times, Friday July 1, 2011)
ایک صاحب ماہ نامہ الرسالہ کے قاری ہیں۔ انھوںنے کہا کہ آپ ولیمہ اور شادی کے مروّجہ فنکشن کے خلاف ہیں، تو کیا ہم لوگوں کو اس طرح کے فنکشن میں نہیں جانا چاہیے۔ میںنے کہا کہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ اصولاً میںشادی اور ولیمہ کی دھوم کو اسراف سمجھتا ہوں، اور قرآن کے مطابق، اسراف بلاشبہہ ایک شیطانی کام ہے(17: 27)۔ لیکن جب لوگوں کا حال یہ ہو کہ اس مسئلہ کو جانتے ہوئے وہ شادی میں دھوم مچائیں اور اس میں ہمیں بلائیں تو میرا مسلک یہ ہے کہ دعوتی نقطۂ نظر سے اس میں ہم کو جانا چاہیے۔ ہم وہاں اس طرح جائیں کہ ہمارے پاس دعوتی لٹریچر ہو اور اس کو وہاں تقسیم کیا جائے۔ کیوں کہ جو لوگ وہاں اکھٹا ہوئے ہیں، وہ کسی دوسرے طریقہ سے ہمیں نہیں مل سکتے۔ انھوںنے کہا کہ کیا اس فائدے کے پیش نظر ہم کو بھی اس طرح کے فنکشن کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ دوسروں کے فنکشن میں جانا دعوت ہے، اگر ہم خود اس طرح کے فنکشن کریں تو یہ اسراف بن جائے گا۔ہمیں ایک معاملے اور دوسرے معاملے میں فرق کرنا چاہیے۔
امریکا میں سفر کے دوران بار بار مختلف مقامات سے الرسالہ مشن کے ساتھیوں کے ٹیلی فون مل رہے تھے۔ مثلاً پاکستان سے عبد اللطیف صاحب کا، کیلی فورنیا سے ڈاکٹر مزمل صدیقی کا، وغیرہ۔ وہ لوگ برابر سفر کے احوال پوچھتے رہتے تھے۔ یہ ایک نیا ظاہرہ ہے جو جدید کمیونکیشن کے ذریعے ممکن ہوا ہے۔ قدیم زمانے میں یہ ممکن نہیں تھا کہ آدمی سفر میں ہو اور دور دراز مقام سے اس کا ربط قائم رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عجیب نعمت ہے۔ یہ امکان صرف اِس لیے پیدا ہوا ہے کہ اللہ کو ماننے والے لوگ ایک منظم منصوبے کے تحت ساری دنیا میں خدا کا پیغام پہنچا سکیں۔
23 جون 2011 کو ہم لوگ باوا محی الدین فیلو شپ فارم دیکھنے کے لیے گئے۔ یہ فارم شہر سے دور ایک پہاڑی علاقہ (Chester County) میں واقع ہے۔ یہاں باوا محمد رحیم محی الدین (وفات: 1986 ) کا مزار واقع ہے۔ باوا محی الدین ایک صوفی تھے۔ وہ سری لنکا کے رہنے والے تھے۔ 1971 میں وہ اپنے کچھ مریدین کی دعوت پر امریکا آئے۔ اس کے بعد وہ امریکا ہی میں مقیم ہوگئے۔ یہاں انھوں نے صوفیانہ طرز پر کام شروع کردیا۔ ان کے مریدوں میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں۔ اِس فارم کے انچارج مسٹر مائیکل گرین ہیں۔ یہاں کی مسجد میں ہم لوگوں نے نماز ادا کی۔ نماز کے بعد میں نے اسلام اور روحانیت کے موضوع پر آدھ گھنٹے تقریر کی۔ پرگرام کے بعد یہاں لوگوں نے سادہ ویجٹیرین کھانا کھایا۔ یہاں صوفی طرز پر صرف ویجٹیرین کھانے کا رواج ہے۔ ہمارے ساتھیوں نے باوا محی الدین فارم میں آئے ہوئے زائرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ یہاں کی لائبریری میں ہمارے یہاں کا چھپا ہوا لٹریچر رکھاگیا۔ اِس فارم میں ہم لوگ کئی گھنٹے تک رہے۔ یہ ایک خوب صورت فارم تھا۔ یہاں ہر طرف سبزہ، گارڈن اور خوش رنگ پھول لگے ہوئے تھے۔
24 جون 2011 کی صبح کو میری رہائش گاہ پر الرسالہ کے قارئین اور ہمارے دعوتی مشن سے وابستہ لوگوں کی میٹنگ ہوئی۔ مذکورہ واقعہ کے پس منظر میں میں نے کہا کہ امریکا کے سفر میں مجھے قرآن کی ایک سورہ کا جدید ریلونس (relevance) سمجھ میں آیا۔ سورہ الفیل میں جس واقعہ کا ذکر ہے، وہ صرف ایک وقتی واقعہ نہیں ہے۔ اس میں ایک مخصوص ریفرنس میں اللہ کی ایک سنت کا بیان ہے۔ اور وہ یہ کہ حق کی دعوت کو لے کر اٹھنے والے کی مدد نہ صرف معمول کے اسباب کے ذریعہ کی جاتی ہے، بلکہ اگر ضرورت ہو تو غیر معمولی اسباب کے تحت بھی اس کی مدد کی جاتی ہے۔ میںنے کہا کہ 570 ء میں ابرہہ کے حملہ کے وقت اللہ تعالیٰ نے چڑیوں کے جھنڈ کے ذریعے حق کی مدد فرمائی۔ موجودہ زمانے میں یہی مدد انسانوں کے جھنڈ کے ذریعہ کی جارہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا مشن خالص دعوتی مشن ہے۔لیکن خلاف واقعہ طورپر ہمارے خلاف اتنا زیادہ منفی پروپیگنڈا کیا گیا کہ ساری دنیا میں لوگ ہمارے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے۔ یہ طاقت ور منفی پروپیگنڈا بلا شبہہ ویسا ہی تھا جیسا کہ ابرہہ کا کعبہ پر حملہ۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے چڑیوں کے جھنڈ کے ذریعہ ابرہہ کے حملہ کو ناکام کردیا تھا۔ موجودہ زمانہ میں یہی مدد اس طرح ہورہی ہے کہ ہمارے دعوتی مشن کی پشت پر اللہ تعالیٰ نے ایک مضبوط ٹیم فراہم کردی۔ اس ٹیم کے افراد صرف وہی نہیں ہیں جو امریکا کے سفر میں میرے ساتھ ہیں، بلکہ دنیا میں ہر جگہ ایسے افراد پیدا ہوچکے ہیں جو کسی مادی انٹرسٹ کے بغیر دعوتی مشن میں اپنا رول ادا کررہے ہیں۔ یہ لوگ اتنے زیادہ با شعور ہیں کہ کوئی بھی پروپیگنڈا ان کو کسی شبہہ یا غلط فہمی میں مبتلا نہیں کرسکتا۔
مسٹر فائق فاروقی (کمیونکیشن انجینئر) کیلی فورنیا میں رہتے ہیں۔ وہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں، نیز انھوں نے ہماری اکثر کتابیں پڑھی ہیں۔ وہ 6 گھنٹے کے ہوائی جہاز کے سفر کے بعد ہمارے پروگرام میں شرکت کے لیے فلیڈیلفیا آئے۔ وہ لاہور کے رہنے والے ہیں۔ وہ شروع سے آخر تک ہمارے پروگرام میں شریک رہے۔ مسٹر فائق کے والدین لاہور میں رہتے ہیں۔ آج کل وہ اُن سے ملنے کے لیے کیلی فورنیا آئے ہوئے ہیں۔ اُن کی خواہش تھی کہ فائق صاحب اپنے والدین کے ساتھ کیلی فورنیا میں ٹھہریں۔ لیکن اِس کے باوجود مسٹر فائق پروگرام میں شرکت کے لیے آئے۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے الرسالہ میں لکھا تھا کہ داعی کے لیے ضروری ہے کہ مشن کو وہ پرائمری بنائے اور دوسری چیزوں کو سکنڈری۔ اِسی اصول پر عمل کرتے ہوئے میں یہاں آگیا۔
مسٹر فائق جب ملاقات کے لیے آئے تو ابتدا میں وہ بہت زیادہ سوالات کرتے تھے۔ میں نے کہا کہ جواب دینے سے آپ کے سوالات ختم نہیں ہوں گے۔ آپ پڑھئے اور سنئے۔ پھر میں نے اُن کے سرپر ہاتھ رکھ کر دعا کی۔ اِس کے بعد وہ میری ہر مجلس میں شریک رہتے تھے، لیکن سوالات نہیں کرتے تھے۔ مسٹر فائق نے کئی مجلسوں میں شرکت کے بعد کہا کہ اب میرا دل ہلکا ہوگیا۔ مجھ کو ذہنی سکون حاصل ہوگیا۔ میرے تمام سوالا ت اپنے آپ ختم ہوگئے۔ میں نے کہا کہ جب سوالات ختم ہوجائیں، تب کنفیوژن فری مائنڈ (confusion-free mind)بنتا ہے اور سچائی کے لیے آدمی کا سینہ کھل جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عاشورا کا روزہ

محرم کی دسویں تاریخ کے روزہ کو عاشورا کا روزہ کہا جاتا ہے۔ کچھ مسلمان اِس روزے کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں اور اِس دن اہتمام کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں۔ روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشورا کے روزے کی وہ اہمیت نہیں ہے جو عام طورپر مسلمانوں کے درمیان رواجی طورپر پائی جاتی ہے۔ وہ صرف ایک مستحب روزہ ہے، جیسا کہ دوسرے بہت سے مستحبّات۔
روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے تو وہاں اہلِ مکہ کے درمیان دورِ جاہلیت سے ایک رواج چلا آرہا تھا، اور وہ عاشورا کا روزہ تھا۔ وہ اِس کو حضرت ابراہیم سے منسوب کئے ہوئے تھے۔ مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِس رواج کے تحت عاشورا کا روزہ رکھا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ آئے تو یہاں اُس وقت یہود بڑی تعداد میں آباد تھے۔ یہود بھی عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے۔ وہ اس کو حضرت موسیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ یہود کے اِس رواج کے تحت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مدینہ میں عاشورا کا روزہ رکھا۔
اِس سے معلوم ہوا کہ عاشو را کا روزہ دوسرے مذہبی گروہ کے رواج کے تحت تھا، مکہ میں مشرکین کے قدیم رواج کے تحت، اور مدینہ میں یہود کے قدیم رواج کے تحت۔ یہاں یہ سوال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک شریعت لائے تھے، پھر آپ نے دوسرے مذہبی گروہوں کے رواج کے تحت کیوں عاشورا کا روزہ رکھا۔ یہ دراصل تالیفِ قلب کی عظیم حکمت کے تحت تھا۔ چناں چہ ابن حجر العسقلانی نے اِس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: أن یکون ذلک استئلافاً للیہود کما استألفہم باستقبال قبلتہم (فتح الباری، کتاب الصوم، با ب صیام یوم عاشوراء) حقیقت یہ ہے کہ عاشورا کے روزے کا معاملہ کسی دن کی فضیلت کی بنا پر نہیں تھا، بلکہ وہ تالیفِ قلب کے لیے تھا۔ مکہ میں قیام کے دوران آپ نے مشرکینِ مکہ کی تالیفِ قلب کے لیے اُن کے رواج کے تحت اُسی دن روزہ رکھا۔ اور مدینہ میں یہود کی تالیفِ قلب کے تحت، آپ نے اُن کے رواج کے مطابق وہاں روزہ رکھا۔
واپس اوپر جائیں

معرفت کے دو پہلو

خداکی معرفت کے دو پہلو ہیں —محبت، اور خشیت۔ خدا ایک طرف رحیم ہے، اور دوسری طرف وہ عادل ہے۔ انسان جب خدا کی بے پایاں رحمت کوسوچتا ہے تو اس کے اندر وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں: أشد حبّا للہ (2: 165) کہا گیا ہے، یعنی اللہ سے بہت زیادہ محبت کرنے والے۔اِسی طرح جب ایک انسان خدا کے عادل ہونے کو سوچتا ہے تو اس کے اندر وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں: ولم یخش إلا اللہ (9: 18) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
مومن کی شخصیت اِنھیں دوکیفیات کے ذریعے بنتی ہے۔ ایک طرف، وہ اپنے رب سے بہت زیادہ محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف، وہ اپنے رب سے بہت زیادہ ڈرنے والا ہوتاہے۔ خدا کی محبت ایک ایسی محبت ہے جو سراپا درد سے بھری ہوتی ہے۔ اِسی طرح خدا سے خوف ایک ایسا خوف ہے جو محبت کے جذبات سے معمور ہوتاہے۔ یہ ایک ایسا تعلق ہے جس میںآدمی جس ہستی سے پانے کی امید رکھتا ہے، اُسی ہستی کے بارے میں اس کو یہ اندیشہ بھی ہوتا ہے کہ وہ کہیں اپنی رحمتوں سے اس کو محروم نہ کردے۔ یہ محبت اور خوف کا ایک ایسا امتزاج ہے جس کو محسوس کیاجاسکتا ہے، لیکن اس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
یہی اعلیٰ معرفت کی پہچان ہے۔ اعلیٰ معرفت سکون بھی ہے اور تڑپ بھی۔اعلیٰ معرفت امید بھی ہے اور خوف بھی۔ اعلیٰ معرفت یقین بھی ہے اور بے یقینی بھی۔ اعلیٰ معرفت قربت بھی ہے اور دوری بھی۔ اعلیٰ معرفت ایک ایسا مقام ہے جہاں بندے کو کبھی یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ منزل پر پہنچ گیا اور کبھی اس کو یہ شبہہ ہوتا ہے کہ وہ ابھی راستے میں سرگرداں ہے۔ کبھی وہ اِس احساس سے دوچار ہوتا ہے کہ وہ فل اسٹاپ (full stop) تک پہنچ گیا، اور کبھی وہ اِس شک میں مبتلا رہتاہے کہ ابھی وہ کاما (comma)کے مرحلے سے گزر رہا ہے — محبت اور خشیت کی اِنھیں کیفیات کا نام معرفت ہے۔
واپس اوپر جائیں

شکر ِقلیل، شکر ِکثیر

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من لم یشکر القلیل، لم یشکر الکثیر (مسند احمد، جلد 4 ، صفحہ 278 ) یعنی جو شخص کم پر شکر نہیں کرے گا، وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرے گا۔ اِس حدیثِ رسول میں فطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے، وہ قانون یہ ہے کہ چھوٹے واقعے کو یاد کرنے سے بڑے بڑے واقعات ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں۔
نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ میں بہت سے الگ الگ فائل (files) ہوتے ہیں۔ مثلاً محبت کا فائل، نفرت کا فائل، اعتراف (acknowledgement)کا فائل، ظلم کا فائل، وغیرہ۔ جوچیزیں انسان کے تجربے اورمشاہدے میں آتی ہیں،اُن کو دماغ الگ الگ ان کے متعلق فائل میں ڈالتا رہتا ہے۔ آدمی جب کسی ایک واقعے سے متاثر ہو تو اُس وقت انسان کا دماغ ٹریگر (trigger) ہوجاتاہے اور پھر فوری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اُس نوعیت کا فائل کھل جاتا ہے اور اس نوعیت کے تمام واقعات آدمی کے ذہن میںتازہ ہوجاتے ہیں۔
فطرت کا یہ قانون شکر اور اعتراف کے معاملے میں بھی بے احد اہمیت رکھتا ہے۔ مثلاً آج آپ کو ایک موبائل ملا۔ اُس سے آپ نے دور کے ایک شخص سے بات کی۔ اُس وقت آپ نے سوچا کہ پہلے زمانے میں مجھ کو دوسرے کسی آدمی سے ربط کرنے میں کتنی مشکل پیش آتی تھی، اِس پر آپ نے گہرے تاثر کے ساتھ خدا کا شکر ادا کیا تو اس کے بعد فوراً یہ ہوگا کہ آپ کا دماغ ٹریگر ہوجائے گا۔ اُسی وقت دماغ کا وہ فائل کھل جائے گا جس میں آپ کی پوری زندگی میں پیش آنے والے شکر واعتراف کے تمام آئٹم (item) محفوظ ہیں۔فطرت کے اِس نظام کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ شکر کے چھوٹے واقعے کی یاد، شکر کے دوسرے تمام واقعات یاد دلا دیتی ہے۔ اِس طرح شکر کا چھوٹا واقعہ بڑے شکر کا سبب بن جاتاہے، یہاں تک کہ آدمی کے دل میں شکر کا چشمہ جاری ہوجاتا ہے۔ شکر کا احساس خدا سے آدمی کے تعلق کو بڑھاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اعلیٰ معرفت کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

محبت الٰہی سے محرومی کیوں

قرآن کے مطابق، خدا کی اعلیٰ معرفت صرف اُس شخص کو ملتی ہے جس کو اللہ سے اعلیٰ تعلق قائم ہوجائے۔ اللہ سے اعلیٰ تعلق کی پہچان یہ ہے کہ انسان کو اللہ سے حبّ شدید (2: 165) اور اللہ سے خوفِ شدید (9: 18) پیدا ہوجائے۔
جب کسی انسان کو اللہ کے ساتھ اِس قسم کا گہرا تعلق پیدا ہوجائے تو اس کے اندر ذکرِ کثیر (33: 41)کی صفت پیدا ہوجاتی ہے، یعنی اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنا، اللہ کے لیے بہت زیادہ سوچنا۔ اللہ کے ساتھ تعلق میں اگر ایک فی صد بھی کمی آجائے تو ایسے انسان کو اللہ کی اعلیٰ معرفت حاصل نہیں ہوگی۔
یہود کا حال بعد کے زمانے میں یہ ہوا کہ ان کا گہرا تعلق اللہ سے نہ رہا، بلکہ اپنے اَحبار اور رُہبان سے ہوگیا۔ اِس کے نتیجے میں وہ اللہ کی اعلیٰ معرفت سے محروم ہوگئے۔ یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا حال ہے۔ مسلمانوں کے ہر گروہ کے کچھ بڑے (bigs) ہیں اور ان کا گہرا تعلق اپنے اِنھیں بڑوں سے ہے، نہ کہ خداوند ذوالجلال سے۔
اپنے اِن بڑوں کو انھوں نے مقدس نام دے رکھے ہیں۔ مثلاً اکابر، اسلاف، مشائخ، بزرگانِ دین، وغیرہ۔مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے اِنھیں مفروضہ بڑوں سے گہرا قلبی تعلق رکھتے ہیں۔ اِس گہرے قلبی تعلق کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے اِن بڑوں کے خلاف علمی تنقید کو بالکل پسند نہیں کرتے۔
یہ غیر خدا کے ساتھ حب شدید کا تعلق قائم کرنا ہے او ر جو لوگ کسی غیر خدا کے ساتھ حب شدید کی نفسیات میں مبتلا ہوں، وہ کبھی اللہ کی محبت کی توفیق نہیں پاتے۔ ایسے لوگوں کے حصے میں صرف رسمی عقیدہ آتاہے، نہ کہ اعلیٰ ایمان باللہ جو آدمی کو اعلیٰ معرفت تک پہنچانے والا ہو—محبت الٰہی کی ایک قیمت ہے، اور یہ قیمت ادا کئے بغیر کسی کو اللہ کی محبت حاصل نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا پڑوس

جنت کیا ہے، جنت دراصل خداکے پڑوس میں رہنے کا نام ہے (66:11) ۔ موت سے پہلے کی دنیا میں مومن احساس کے اعتبار سے، خدا کے پڑوس میں جیتا ہے۔ موت کے بعد کی دنیا میں مومن واقعہ کے طورپر خدا کے پڑوس میں زندگی گزارے گا۔
خدا بلا شبہہ تمام خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔ اِس لیے کسی انسان کو حقیقی سکون صرف خدا کے پڑوس میں مل سکتا ہے، اِس سے کم تر درجے کی کوئی چیز انسان کے لیے حقیقی سکون کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔
موجودہ دنیا دراصل اسی قسم کے انسانوں کا انتخابی مقام (selection ground) ہے۔ یہاں اُن انسانوں کو چنا جارہا ہے جو اپنی صفات کے اعتبار سے، خدا کے پڑوس میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ جن کی سوچ، جن کی سرگرمیاں، جن کے جذبات، جن کا سلوک، جن کے معاملات اُس اعلیٰ اخلاقی معیار پر پورے اتریں جو خدا کا پڑوسی بننے کے لیے مطلوب ہیں۔ یہی لوگ اِس عزت کے لیے منتخب کئے جائیں گے۔ یہ انتخاب فرشتوں کے ریکارڈ کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
آخرت کی ابدی زندگی میں کسی کو خدا کے پڑوس میں رہنے کی یہ خوش قسمتی تمام تر ذاتی خصوصیت (merit) کی بنیاد پر حاصل ہوگی۔
خدا کا پڑوس گویا کہ ایک کائناتی باغ ہے۔ اِس کائناتی باغ میں صرف خدائی معیار پر پورااترنے والے لوگ ہی جگہ پائیں گے۔خدائی معیار سے کم تر کوئی چیز کسی آدمی کو اِس کائناتی باغ میں جگہ دینے والی نہیں۔
یہ وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے دنیا کی زندگی میں صرف خدا کواپنا واحد کنسرن (supreme concern) بنایا ہو، جن کی سوچ اور جن کے جذبات تمام تر خدا کے لیے وقف ہوگئے ہوں جن کی صبح بھی خدا کی یاد سے معمور ہو اور جن کی شام بھی خدا کی یاد سے معمور۔ یہی وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو خدا کے پڑوس میں رہنے کے لیے منتخب کئے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

موت کی حقیقت

قرآن کی سورہ آل عمران میں آیا ہے: کل نفس ذائقۃ الموت (3: 185) یعنی ہر انسان موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے۔ انسان دنیا کے ذائقوں میں جیتا ہے، مگر آخر کار جو ذائقہ انسان کے لیے مقدر ہے، وہ موت کا ذائقہ ہے۔ موت کا ذائقہ اتنا زیادہ تلخ ہے کہ وہ دوسرے تمام ذائقوں کو منہدم کردینے والا ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: أکثروا ذکر ہادم اللذات، الموت (الترمذی، کتاب الزہد) یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے۔
ذائقہ یا لذت کا لفظ یہاں کسی محدود معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ وسیع تر معنوں میں ہے۔ آدمی ایک لذت پسند مخلوق (pleasure-seeking animal) ہے۔ ہر چیز میں اس کو لذت محسوس ہوتی ہے۔ کھانے پینے میں، اچھا کپڑا پہننے میں، اچھا گھر بنانے میں، اچھی سواریوں پر سفر کرنے میں، تفریح کی مجلسوں میں شریک ہونے میں، شہرت اور اقتدار کی سیٹ پر بیٹھے میں، وغیرہ۔
اِس قسم کی تمام چیزوں میں آدمی کو بے پناہ لذت ملتی ہے۔ وہ اِن لذتوں میں گم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر وہ حقیقۃً یہ سوچے کہ موت کے آتے ہی اچانک یہ تمام لذتیں اس سے چھن جائیں گی، تو اس کی زندگی بالکل بدل جائے۔ مثلاً جب کوئی شخص دوسرے انسان کی عیب زنی کرتا ہے تو غیر شعوری طورپر اس کو یہ خوشی حاصل ہوتی ہے کہ میں ایک بے عیب انسان ہوں۔ جب کوئی انسان کسی کو ذلیل کرتاہے تو یہ اس کے لیے اس کی انا (ego) کی تسکین کا باعث ہوتاہے۔ کوئی شخص ناحق طورپر کسی کے مال وجائداد پر قبضہ کرتاہے تو وہ اس کو اپنی ہوشیاری سمجھ کر اطمینان حاصل کرتاہے۔
اِس قسم کی مختلف صورتیں ہیں جن پر عمل کرکے انسان کو خوشی اور فخر (pride)کا احساس ہوتاہے۔ وہ اپنے آپ کو کامیاب انسان سمجھ لیتاہے۔ لیکن اگر اس کو یقین ہو کہ موت کا فرشتہ کسی بھی وقت آئے گا، اور اچانک اس کی زندگی کا خاتمہ کردے گا، اِس حقیقت کا احساس اگر کسی کو حقیقی طورپر ہوجائے تو وہ محسوس کرے گا کہ موت سے پہلے ہی اس کی موت واقع ہوچکی ہے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی بے خبری

مرنے والے مرگئے— یہ سب کو معلوم ہے۔ مگر ایک اور خبر ایسی ہے جو کسی کو معلوم نہیں، وہ یہ کہ مجھے بھی ایک دن مرنا ہے۔ ایک دن میرا بھی وہی انجام ہونے والا ہے جو انجام دوسروں کا ہوچکا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ لوگ دوسروں کو ہر روز مرتا ہوا دیکھتے ہیں، لیکن خود اپنے آپ کو وہ اُس سے الگ (exempt) کر لیتے ہیں۔ گویا کہ ہر آدمی بلا اعلان اپنی زبانِ حال سے یہ کہہ رہا ہے کہ — دوسروں کو مرنا تھا، وہ مرگئے، لیکن میں تو مرنے والا نہیں۔
یہ بے خبری ایک ہلاکت خیز بے خبری ہے۔ یہ وہ انوکھی بے خبری ہے جس کو شتر مرغ کی عادت (ostrich habit) کہا جاتاہے۔ کوئی شخص اپنی موت کے بارے میں سوچے یا نہ سوچے، موت بہر حال اس کی طرف دوڑی چلی آرہی ہے۔
موت گویا کہ ایک انفرادی زلزلہ ہے۔ زلزلہ اعلان کے بغیر آتا ہے۔ اِسی طرح موت بھی اعلان کے بغیر آتی ہے۔ زلزلے کے مقابلے میں ہر آدمی بے بس ہے۔ اِسی طرح موت کے مقابلے میںبھی ہر آدمی بالکل بے بس ہے۔ موت آچانک آتی ہے اور وہ آدمی کے خیالی محل کو مکمل طور پر ڈھا دیتی ہے۔ انسان اگر یہ چاہے کہ وہ موت کو روک دے تو ایسا ہونے والا نہیں۔ موت کا اپنا قانون ہے، جو انسان کی مرضی کے بغیر اپنا کام کرتاہے۔
اس صورت ِ حال کا تقاضا ہے کہ ہر آدمی موت کے بارے میں بے حد حساس ہو۔ وہ ہر لمحہ موت کو یاد کرتا رہے۔ ہر روز جب شام آئے تو وہ محسوس کرے کہ اب اس کے لیے اگلی صبح مقدر نہیں۔ ہر روز جب وہ اپنے بستر پر سوئے تو اس کا احساس یہ ہو کہ اب دوبارہ اِس دنیا میں میری نیند کھلنے والی نہیں۔ یہ احساس اگر آدمی کو ہوجائے تو وہ آخری حد تک ہل جائے گا۔ اس کے لیے جینا سادہ معنوں میں صرف جینا نہ رہے گا، بلکہ وہ موت کا انتظار بن جائے گا— خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو موت کے اچانک حملے سے پہلے موت سے با خبر ہوجائیں، وہ موت کے آنے سے پہلے اس کے لیے تیاری کرلیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوت الی اللہ کی ذمّے داری

مارچ 1978 میں میرا ایک سفر جموں وکشمیر کے لیے ہوا تھا۔ اِس سفر میں میری ملاقات مرزا محمداعظم صاحب (راجوری) سے ہوئی۔ وہ راجوری میں فارسٹر (forester) تھے۔ وہ باہر سے جب کبھی گھر آتے تو اپنے بچوں کے لیے مٹھائی اور پھل وغیرہ لاتے۔ ستمبر 1975 کے ایک دن وہ گھر میں داخل ہوئے تو کسی وجہ سے وہ بچوں کے لیے کچھ نہ لاسکے۔ حسب معمول بچے اُن کے گرد جمع ہوگئے۔ جب معلوم ہوا کہ وہ کوئی کھانے پینے کی چیز نہیں لائے تو بچوں کو جھٹکا لگا۔ اُن کے چھ سالہ بچے ارشد محمود طارق نے اپنی پہاڑی زبان میں کہا:
اگر تُساں اَساں وسطے کجھ نی آندہ، پھر تُس کُمھانے وسطے آئے!
(اگر آپ ہمارے لیے کھانے کی کوئی چیز نہیں لائے تو پھر آپ گھر کس لیے آئے ہیں)۔
یہ صرف ایک شخص کا واقعہ نہیں، یہ ہم میںسے ہر ایک پر منطبق ہوتا ہے۔ ہر آدمی جو خدا پر ایمان لائے، ایمان کے ساتھ ہی اس کی یہ ذمے داری بن جاتی ہے کہ وہ دعوت وشہادت کا کام انجام دے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا کام قرار دیا ہے۔ قرآن میں اِس کو اللہ کی مدد کرنا کہاگہا ہے (61: 14)۔ایک صاحب ایمان اگر موت سے پہلے کی زندگی میں دعوت و شہادت کا کام نہ کرے تو وہ یہ سنگین خطرہ مول لے رہا ہے کہ آخرت میں جب اُس کا سامنا اللہ سے ہو تو اللہ یہ کہہ دے کہ — جو کام میں نے تمھارے سپرد کیا تھا، اُس کو تم نے انجام نہیں دیا، پھر تم یہاں کس لیے آئے ہو:
If you failed to perform the task I assigned you, then why did you come here?
یہ سنگین لمحہ ہر ایک کے سامنے آخرت میں پیش آنے والا ہے۔ اِس کا تقاضا ہے کہ ہر صاحبِ ایمان اپنی توانائی کا سب سے بڑا حصہ دعوت الی اللہ کے کام میں لگائے، تاکہ وہ اِس انجام سے بچ جائے کہ آخرت میں اللہ اُس کو نظر انداز کردے، جس طرح اُس نے دنیا میں اللہ کے کام کو نظر انداز کردیاتھا۔
واپس اوپر جائیں

الرسالہ — ایک مشن

ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ وہ ماہ نامہ الرسالہ (نئی دہلی) کے مستقل قاری ہیں۔ میں نے اُن سے الرسالہ کے بارے میں اُن کا تاثر پوچھا۔ انھوںنے کہا کہ لوگ عام طورپر چیزوں کو اُس کے فیس ویلو (face-value) پر لیتے ہیں۔ وہ ظاہر کے اعتبار سے، چیزوں کے بارے میں اپنی رائے بناتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ الرسالہ کو بھی عام طرز کا ایک رسالہ سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ وہ رسالہ پلس ہے۔ الرسالہ یا میگزین کے لفظ سے لوگجس چیز کو جانتے ہیں، وہ صرف ایک صحافتی مجموعہ ہے۔ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ الرسالہ ایک مشن ہے، نہ کہ معروف معنوں میں، صرف ایک مجلہ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ماہ نامہ الرسالہ صرف ایک مجلہ نہیں، بلکہ وہ ایک مشن ہے۔ غالباً الرسالہ کو پڑھنے والوں میں بہت ہی کم ایسے افراد ہوں گے جو اِس حقیقت کو سمجھتے ہوں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ جب کسی چیز کا کوئی معروف ماڈل بن جائے تو لوگ اُس نوعیت کی کسی چیز کو اُسی معروف ماڈل پر قیاس کرکے اُس کے بارے میں رائے بنا تے ہیں۔رسالہ یا پیریڈیکل (periodical) کا ایک معروف ماڈل ماحول میں موجود ہے۔
لوگ اِسی معروف ماڈل پر قیاس کرتے ہوئے الرسالہ کو بھی صرف ایک پیریڈیکل سمجھ لیتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ الرسالہ، صحافت کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک استثنائی مجلہ ہے۔ الرسالہ ایک مشن کا نمائندہ ہے۔ ایک شخص پورے مہینے ماہی ٔ بے آب کی طرح تڑپتا ہے، اس کے بعد الرسالہ جیسا ایک پرچہ وجود میں آتا ہے۔
لوگوں نے نہ تو الرسالہ جیساکوئی مجلہ پڑھا اور نہ صاحبِ الرسالہ جیسے کسی مین آف مشن (man of mission) سے کبھی ان کی ملاقات ہوئی۔ اِس لیے لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ الرسالہ کو پڑھ کر بھی الرسالہ کو سمجھ نہیں پاتے۔
واپس اوپر جائیں

ایک تاثر

مسٹر کشن جیونت راؤ پاٹل (پیدائش: 1943 ) ناندیڑ (مہاراشٹر) کے رہنے والے ہیں۔ وہ 1976 سے الرسالہ پابندی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ ان کے پاس الرسالہ کی مکمل فائلیں موجود ہیں۔ انھوںنے صرف الرسالہ پڑھنے کے لیے اردو زبان سیکھی۔ یکم مئی 2011 کو اُن سے نئی دہلی میں ملاقات ہوئی۔ میںنے اُن سے الرسالہ کے بارے میں اُن کا تاثر پوچھا۔ انھوںنے کہا —الرسالہ پڑھنے سے پہلے، میں بول کر سوچتا تھا۔ اب میں سوچ کر بولتا ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے ایک مسلمان پروفیسر نے اُن سے پوچھا کہ آپ کی مصروفیت کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ موت کی تیاری۔
اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماہ نامہ الرسالہ جو لوگ گہرائی کے ساتھ پڑھتے ہیں، اُن کے اندر کس قسم کا مزاج بنتا ہے۔ اِس مزاج کو ایک لفظ میں سنجیدگی (sincerity) کہہ سکتے ہیں۔ الرسالہ کا مقصد لوگوں کے اندر صالح سوچ پیدا کرنا ہے، اور جب کسی آدمی کے اندر صالح سوچ پیدا ہوجائے تو اس کا حال وہی ہوگا جس کا ایک نمونہ اوپر کی مثال میں نظر آتاہے۔
ماہ نامہ الرسالہ میں نہ فخر (pride) کی باتیں ہوتی ہیںاور نہ شکایت (complaint) کی باتیں۔ الرسالہ میں نہ مسلمانوں کے قومی مسائل کا تذکرہ ہوتا ہے اور نہ الرسالہ میں مسلم ایمپاورمنٹ (Muslim empowerment) کی باتیںہوتیں۔
ماہ نامہ الرسالہ میں صرف خدا اور آخرت کی باتیں ہوتی ہیں۔ ایسی تحریروں کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ قاری کے اندر شکایت اور احتجاج (protest)کا ذہن نہ پیدا ہو، بلکہ اس کے اندر خود احتسابی (self-introspection) کا مزاج پیداہو۔ اللہ کے فضل سے، الرسالہ کے قار ئین میں اِسی قسم کا مزاج پیدا ہورہا ہے۔ الرسالہ لوگوں کے اندر مثبت سوچ پیدا کرتاہے، اور مثبت سوچ بلاشبہہ تمام خوبیوں اور بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

Thursday, 1 December 2011

Al Risala | December 2011 (الرسالہ،دسمبر)

2

-اہلِ جنت کے دو گروہ

3

- جنت کا سودا

4

- خدا اور بندہ

5

- قابلِ رشک افراد

6

- فہرستِ آرزو

7

- جنت کا تصور

8

- فرد، ریاست

9

- قرآن مین

10

- اعلیٰ شکر

11

- امیج کا مسئلہ

12

- مذہب اور عقلیات

26

- ّ جنت : ایک آفاقی تصور

34

- اعتماد کی اہمیت

35

- تجارت کا اصول

36

- اچانک ترقی، تدریجی ترقی

37

- ترجیح کا مسئلہ

38

- سوال وجواب

43

- خبرنامہ اسلامی مرکز— 214


اہلِ جنت کے دو گروہ

قرآن کی سورہ الواقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ جنت کے دو بڑے طبقے ہوں گے۔ ایک، السابقون (سبقت کرنے والے) اور دوسرے، اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) پہلے گروہ کے لیے آخرت میں شاہانہ انعامات ہیں، اور دوسرے گروہ کے لیے عام انعامات (56: 10-27) ۔
درجہ اول اور درجہ دوم میں، یہ فرق کس بنیاد پر ہوگا۔ قرآن کے مطابق، اس کی وجہ فتح (57: 10) ہے۔ جو لوگ فتح سے پہلے کے دور میں حق کو مانیں اور اس کا ساتھ دیں، وہ السابقون کا درجہ پائیں گے۔ اور جو لوگ فتح کے بعد کے دور میں حق کو قبول کریں اور اس کے ساتھی بنیں، وہ اصحاب الیمین کے گروہ میں جگہ پائیں گے۔ یہ محض زمانے کا فرق نہیں، بلکہ نوعیتِ ایمان کا فرق ہے۔
حق جب ظاہر ہوتا ہے تو ابتداء ً وہ مجرّد صورت میں ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت ایک ایسی نظری حقیقت کی ہوتی ہے جس کی پشت پر دلائل کی طاقت کے سوا کوئی اور طاقت موجود نہ ہو۔ بعد کے زمانے میں جب حق کی دعوت فتح و غلبہ کے مرحلے میں داخل ہوجاتی ہے تو اُس وقت حق کی حیثیت صرف نظری صداقت کی نہیں ہوتی، اب ہر آنکھ والے کو حق ایک ٹھوس واقعہ کی صورت میں دکھائی دینے لگتا ہے۔
پہلے دور میں حق کو لفظی دلیل سے پہچاننا تھا، دوسرے دور میں حق کی اہمیت کو منوانے کے لیے کھلے ہوئے واقعات موجود ہوتے ہیں۔ پہلے دور میں حق کو مانتے ہی آدمی اپنے ماحول کے اندر اجنبی بن جاتا تھا، دوسرے دور میں حق کے ساتھ وابستہ ہونا آدمی کو عزت اور مقبولیت کا مقام دیتا ہے۔ پہلے دور میں حق کا ساتھ دینے والا صرف کھوتا ہے، دوسرے دور میں حق کا ساتھ مزید پانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ پہلے دور میں بنیاد کے نیچے دفن ہونا پڑا تھا، دوسرے دور میں گنبد کی بلندیاں مل جاتی ہیں جن کے اوپر آدمی کھڑا ہوسکے۔ معرفت کا یہی وہ فرق ہے جس کی بنا پر پہلے مرحلے میں حق کا ساتھ دینے والے کے لیے درجۂ اول کا مقام ہے اور دوسرے مرحلے میں حق کا ساتھ دینے والے کے لیے درجۂ ثانی کا مقام۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا سودا

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من خاف أدلج، ومن أدلج بلغ المنزل۔ ألا، إن سلعۃ اللہ غالیۃٌ۔ ألا، إنّ سلعۃ اللہ الجنۃ (الترمذی، رقم الحدیث: 2388 ) یعنی جس کو اندیشہ ہوتا ہے، وہ سفر میں اِدلاج کرتا ہے۔ اور جو ادلاج کرتا ہے، وہ منزل پر پہنچتا ہے۔ سن لو، اللہ کا سودا بہت قیمتی ہے۔ سن لو، اللہ کا سودا جنت ہے۔
’ادلاج‘ کا مطلب ہے — رات کے اندھیرے میں سفر شروع کرنا۔ قدیم عرب میں یہ رواج تھا کہ مسافر رات کے اندھیرے سے اپنا سفر شروع کرتا تھا، تاکہ صبح کو دھوپ تیز ہونے سے پہلے وہ اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ یہ صحرائی سفر کا طریقہ تھا، کیوں کہ صحرائی سفر میں یہ اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آدمی تیز دھوپ کی زد میں آجائے تو وہ خود بھی مرجائے گا اور اس کا اونٹ بھی ہلاک ہوجائے گا۔
جنت کے طالب کا معاملہ بھی یہی ہے۔ جنت کے طالب کو نہایت دور اندیشی کے ساتھ اپنا منصوبہ بناناہے۔ اس کو اتنی زیادہ تیاری کے ساتھ جنت کے سفر پر روانہ ہونا ہے کہ کوئی قابلِ قیاس یا ناقابلِ قیاس عذر (excuse) اس کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ کوئی بھی چیز اس کو درمیانی راستے سے منحرف نہ کردے۔ کوئی بھی چیز اس کو سیدھے راستے سے ہٹانے والی ثابت نہ ہو۔
ایک تاجر دنیا کے تجارتی سودے کے لیے آخری حد تک اہتمام کرتا ہے۔ خدا کا سودا جو کہ جنت ہے، وہ تمام سودوں سے زیادہ قیمتی سودا ہے۔ اِس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ جنت کے سفر کی منصوبہ بندی میں آخری حد تک اہتمام کرے، جس طرح وہ دنیا کے سفر میں منصوبہ بندی (planning) کا اہتمام کرتاہے۔ وہ اپنے آپ کو ہر طرح غفلت کا شکار ہونے سے بچائے— جنت کسی انسان کو حقیقی عمل کی بنیاد پر ملے گی، نہ کہ محض خوش فہمیوں کی بنیاد پر۔
منصوبہ بند عمل کامیابی کا ذریعہ ہے۔ دنیا کی کامیابی منصوبہ بند عمل کے ذریعہ ممکن ہوتی ہے۔ اِسی طرح آخرت کی کامیابی بھی منصوبہ بند عمل (Akhirat-oriented planning) کے ذریعہ ہی ممکن ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

خدا اور بندہ

علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔ ان کے پاس سواری کے لیے ایک جانور لایا گیا۔ جب انھوں نے اپنا پاؤں اس کے رکاب میں رکھا تو کہا : بسم اللہ۔ پھر جب وہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو کہا: الحمد للہ، سبحان الذی سخر لنا ہذا وما کنا لہ مقرنین وإنّا إلیٰ ربنا لمنقلبون۔ اس کے بعد انھوں نے تین بار اللہ کی حمد کی اور تین بار اللہ کی تکبیر کی۔ پھر کہا: سُبحانک لا إلٰہ إلا أنت قد ظلمت نفسی فاغفرلی۔راوی کہتے ہیں کہ ا س کے بعد حضرت علی ہنس پڑے۔ میںنے پوچھا کہ اے امیر المومنین، آپ کس بات پر ہنسے۔انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نے سوار ہوتے ہوئے وہی کہا جو میں نے کہا۔ پھر آپ ہنس پڑے۔ میںنے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، آپ کیوں ہنسے۔ آپ نے فرمایا: یعجب الربُّ تبارک وتعالیٰ من عبدہ إذا قال ربّ اغفرلی۔ ویقول علم عبدی أنہ لا یغفر الذنوب غیری۔ (تفسیر ابن کثیر، 4/124 ) بندہ جب کہتا ہے کہ اے میرے رب، مجھے بخش دے تو اللہ تعالیٰ اس پر تعجب کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے اس کو جانا کہ میرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں۔
رَبِّ اغْفِرلی (میرے رب، مجھے بخش دے) کہنا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک عظیم ترین دریافت کے نتیجے میں ظاہر ہونے والا کلمہ ہے، جو ایک مومن کی زبان سے نکل پڑتا ہے۔یہ کلمہ کسی کی زبان سے اُس وقت نکلتا ہے جب کہ وہ غیب کے پردے کو پھاڑ کر خدا کی موجودگی (presence of God) کو دریافت کرے۔ یہ آزادی کے باوجود اس بات کا اقرار ہے کہ میں اپنی آزادی کو بے قید استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ یہ حشر کو دیکھے بغیر حشر کے واقعہ پر یقین لانا ہے۔ یہ اعمال کے اخروی نتائج کی حقیقت کا اُس وقت اقرار کرنا ہے جب کہ ابھی وہ ظاہر نہیں ہوئے۔ یہ خدا کے ظہور سے پہلے خدا کے جلال وجبروت کے آگے جھک جانا ہے۔ یہ کلمہ، معرفت کا کلمہ ہے، اور معرفت بلاشبہہ اِس دنیا کا سب سے بڑا عمل ہے۔
واپس اوپر جائیں

قابلِ رشک افراد

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے۔ سنن البیہقی کے الفاظ یہ ہیں: ألا أخبرکم عن أقوام لیسوا بأنبیائَ ولا شہدائَ یغبطہم یوم القیامۃ الأنبیائُ والشہداء بمنازلہم من اللہ عزّوجلّ علی منابر من نور یکونون علیہا۔ قالوا: مَن ہم۔ قال: الذین یحبِّبُون عباد اللہ إلی اللہ، ویحبِّبُون اللہ إلی عبادہ، وہم یمشون علی الأرض نُصحاء (شعب الإیمان، رقم الحدیث: 405 ) یعنی کیا میں تم کو بتاؤں ایسے لوگوں کے بارے میں جو نہ پیغمبر ہوں گے اور نہ شہید، لیکن قیامت کے دن پیغمبراور شہید ان پر رشک کریں گے، اُن کے اُس درجے کی وجہ سے جو اللہ کے یہاں ان کو حاصل ہوگا۔ وہ وہاں نور کے ممبروں پر ہوں گے۔ پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ ہوں گے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو اللہ کے بندوں کو اللہ سے محبت کرنے والا بنائیں، اور اُن کو اِس قابل بنائیں کہ اللہ اُن سے محبت کرے اور وہ زمین پر چلیں لوگوں کا ناصح (well-wisher)بن کر۔
انبیاء کے لیے قابلِ رشک بننے والے یہ کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کو اِس طرح دریافت کریں کہ اللہ اُن کا محبوب بن جائے۔ وہ اللہ کی محبت میں جینے لگیں۔اللہ سے بڑی کوئی ذات نہیں، اِس لیے اللہ کی محبت سے بڑا کوئی عمل نہیں ہوسکتا۔ جب کسی انسان کا یہ حال ہوگا تو وہ دوسروں کو بھی وہی اعلیٰ ترین چیز دینے کی کوشش کرے گا جو اُس نے خود اپنے لیے پائی ہے۔ وہ اپنی ساری توانائی کو استعمال کرکے یہ کوشش کرے گا کہ دوسرے لوگ بھی خدا کو اُس کی اُس اعلیٰ حیثیت میں دریافت کریں جب کہ خدا کی معرفت اُن کے دلوںمیں اتر جائے، جب کہ خدا اُن کے لیے وہ ہستی بن جائے جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتے ہوں، جب کہ خدا کی ذات اُن کے لیے وہ اعلیٰ ہستی بن جائے جو اُن کے تمام قلبی جذبات کا مرکز ہو۔ جو لوگ اِس طرح اللہ کو اپنا محبوب بنالیں تو ایسے لوگ خود بھی اللہ کے محبوب بندے بن جاتے ہیں— یہی ایمان کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

فہرستِ آرزو

کلیری سمپسن (Cleary Simpson) امریکا کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ مختلف قسم کے وقتی جاب کرتی رہیں۔یہاں تک کہ ان کی تمناؤں کے مطابق، اُن کو امریکا کے ٹائم میگزین میں اپنی پسند کا کام مل گیا۔ اس وقت وہ ٹائم میگزین کے دفتر (نیویارک) میں ڈائرکٹر (Advertising Sales Director) ہیں۔
ٹائم کے شمارہ 5 اگست 1991 (صفحہ 4 ) میں مذکورہ خاتون کا ہنستا ہوا پُر ابتہاج فوٹو چھپا ہے۔وہ اِس عہدے کے ملنے پر انتہائی خوش ہیں۔ تصویر کے نیچے اُن کا پر مسرت تاثر اِن لفظوں میں درج ہے— ٹائم کے لیے کام کرنا ہمیشہ سے میری فہرستِ آرزو پر تھا:
Working for Time was always on my wish list.
ہر آدمی کسی چیز کو سب سے بڑی چیز سمجھتا ہے، وہ اس کی تمنا میں جیتا ہے، وہ اس کا خواب دیکھتا ہے، وہ اِس انتظار میں رہتا ہے کہ کب وہ دن آئے جب کہ وہ اپنی اِس محبوب چیز کو پالے۔ یہ چیز اس کی فہرستِ آرزو میں سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ درج ہوتی ہے۔ موجودہ دنیا میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں جس کے لیے کوئی نہ کوئی چیز اِس طرح مرکزِ تمنا بنی ہوئی نہ ہو۔
مومن وہ ہے جس نے جنت کو اپنی فہرستِ آرزو (wish list) میں لکھ رکھا ہو، یعنی ابدی اور معیاری نعمتوں کی وہ دنیا جہاں وہ اپنے رب کو دیکھے گا، جہاں سچے انسانوں سے اس کی ملاقات ہوگی، جہاں وہ خدا کی رحمتوں کے سائے میں زندگی گزارے گا، وہ دنیا جو لغو اور تاثیم (56: 25) سے پاک ہوگی، جہاں صَخب (شور) اور نصب (تکان) کو ختم کردیا جائے گا، جس کا ماحول چاروں طرف حمد اور سلامتی سے بھراہوا ہوگا(56: 26) ، جہاں خوف اور حزن (35: 34) کو حذف کیا جاچکا ہوگا، جہاں ایسی آزادی ہوگی جس پر کوئی قید نہیں (76: 20) ، جہاں ایسی لذتیں ہوں گی جن کے ساتھ محدودیت (limitations) شامل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا تصور

توفیق الحکیم (وفات: 1987 ) مصر کے معروف ادیب تھے۔ خود اپنے بیان کے مطابق، وہ فکری تضاد میں مبتلا تھے۔ انھوںنے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ: إنی أعیش فی الظاہر کما یعیش الناس فی ہذہ البلاد۔ أما فی الباطن، فما زالت اٰلہتی وعقائدی ومثلی العُلیا۔ کل آلامی مرجعہا ہذا التناقض بین حیاتی الظاہرۃ وحیاتی الباطنۃ (بظاہر میں ایسی ہی زندگی گزار رہا ہوں جیسا کہ عام لوگ اِن شہروں میں زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن میرے باطن میں میرے کچھ معبود وعقائد اور بلند آئڈیلز ہیں۔ میرے سارے کرب کا سبب میری ظاہری اور باطنی زندگی کا یہی تناقص ہے)۔
توفیق الحکیم نے لکھا ہے کہ: إنی لا أستطیع أن أعیش فی جنۃ لا أطّلع فیہا (’’أنا‘‘ لعباس محمود العقّاد، صفحہ 126)یعنی اگر جنت میں مجھ کو اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کا موقع نہ ملا، تو ایسی جنت میں قیام میرے لیے ناممکن ہوجائے گا۔
توفیق الحکیم اور اِس طرح کے دوسرے لوگوں کے ذہن میں جنت کا جو تصور ہے، وہ یہ کہ جنت صرف ایک عیش کدہ ہے۔ ذہین انسان کو اِس قسم کا تصورِ جنت زیادہ اپیل نہیں کرتا، کیوں کہ جسمانی راحت کے علاوہ، انسان کی ایک اور ضرورت ہے، اور وہ عقلی تسکین ہے۔ ہمارے علماء اور واعظین عام طورپر جنت کا جو تصور دیتے ہیں، اُس میں یہ ہوتا ہے کہ جنت میں آرام وراحت کا سامان تو وافرمقدار میں ہوگا، لیکن وہاں عقل ودانش کی تسکین کا کوئی سامان نہیں ہوگا۔ جدید ذہن کو جنت کا یہ تصور اپیل نہیں کرتا۔ وہ اس کو اپنی حقیقی طلب سے کم تر سمجھ کر نظر انداز کردیتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جنت میںآرام وراحت کا سامان تو صرف اہلِ جنت کی ضیافت کے لیے ہوگا۔ اہلِ جنت کا اصل مشغلہ تو یہ ہوگا کہ وہ کلمات اللہ (31: 27)کو اَن فولڈ کرکے ایک بر تر تہذیب (super civilization) کو وجود میں لائیں گے۔ یہ ایک ربانی تہذیب (divine civilization)یہ ایک پر مسرت ذہنی اور فکری سرگرمی (intellectual activities)کا دور ہوگاجو ابدی طورپر جاری رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

فرد، ریاست

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صلّوا کما رأیتمونی أصلی (متفق علیہ؛ مشکاۃ، رقم الحدیث 638 ) یعنی نماز اُس طرح پڑھو جیسا کہ تم مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ یہ آپ نے نماز کے بارے میں فرمایا۔ لیکن اِسی طرح آپ نے حکومت کے بارے میں نہیں فرمایا کہ— تم میری حکومت کے نمونے کو دیکھو اور تم بھی اُسی طرح حکومت قائم کرو۔ جو الفاظ آپ نے نماز کے بارے میں فرمائے، وہ الفاظ آپ نے حکومت کے بارے میں نہیں فرمائے۔
اِس فرق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فرد کا معاملہ الگ ہے اور ریاست کا معاملہ الگ۔ انفرادی رویہ (individual conduct) کے معاملے میں ہمارے سامنے ایک آئڈیل ماڈل ہے اور وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کاماڈل ہے۔ ہر مومن کو اپنے انفرادی رویے کے معاملے میں معیار پسند (idealist) ہونا چاہئے۔ اس کو ہمیشہ یہ کوشش کرنا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو پیغمبر کے نمونے پر ڈھالے، لیکن سیاسی ڈھانچہ (political set up) کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ سیاسی یا حکومتی ڈھانچے کے معاملے میں ہمیشہ موجود اجتماعی حالات (statusquo)کو دیکھا جائے گا اور اس کی رعایت کرتے ہوئے سیاسی ڈھانچہ بنایا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں خلیفہ کے تقرر کے معاملے کا کوئی ایک ماڈل نہیں۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت عمر بن عبد العزیز۔ اسلام میں یہ پانچ معیاری خلفا مانے گئے ہیں۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، پانچوں کے تقرر کا معاملہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
بعد کے زمانے کے فقہاء نے دار الاسلام کے نام سے ایک سیاسی ماڈل وضع کیا۔ یہ ایک اجتہادی معاملہ تھا جو درست نہ تھا۔ چناں چہ بعد کے زمانے میں لوگوں نے دارالاسلام کو معیار بنا کر اپنے زمانے کی حکومتوں کو جانچنا شروع کیا اور جب حکومتی نظام کو اس کے مطابق نہیں پایا تو وہ حکمرانوں سے لڑنے لگے۔ اِس قسم کی لڑائیاں بلا شبہہ اسلام کے خلاف تھیں۔ کیوں کہ اسلام میں ڈھانچے کا تعین حالات کے اعتبار سے کیا جائے گا، نہ کہ کسی پیشگی طورپر وضع کردہ معیاری ماڈل سے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن مین

خواجہ کلیم الدین صاحب امریکا میںرہتے ہیں۔ وہ ہمارے دعوتی مشن سے وابستہ ہیں۔ وہ امریکا میں بڑے پیمانے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ پھیلارہے ہیں۔ دوسرے مختلف اشاعتی طریقوں کے علاوہ، اُن کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ انٹرنیٹ کے ذریعہ لوگوں کے پتے حاصل کرتے ہیں۔ وہ اُن سے ٹیلی فون کے ذریعے ربط قائم کرتے ہیں۔ پھر وہ پوسٹ کے ذریعے لوگوں کو انگریزی ترجمہ قرآن کے نسخے بھیجتے ہیں۔ بذریعہ پوسٹ قرآن بھیجنے کا یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔
خواجہ کلیم الدین صاحب کے گھر کے پاس جو پوسٹ آفس ہے، اس کے کارکن باربار کے تجربے کے بعد خواجہ کلیم الدین صاحب کو قرآن مین (Quran man) کہنے لگے ہیں۔ پوسٹ آفس والوں کے لیے یہی خواجہ کلیم الدین کی پہچان بن گئی ہے۔ خواجہ کلیم الدین صاحب جب قرآن کے پیکٹ لے امریکا کے مقامی کر پوسٹ آفس میں جاتے ہیں تو اُن کو دیکھ کر پوسٹ آفس کے کارکن کہتے ہیں کہ — دیکھو، قرآن مین آگیا:
Here comes the Quran man.
یہ گویا تاریخ کا اعادہ ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب قرآن نازل ہوا، اُس وقت اصحابِ رسول کا طریقہ یہ تھا کہ وہ عرب کے اندر اور عرب کے باہر لوگوں سے مل کر اُن کو قرآن سنانے لگے۔ وہ قرآن کے مُقری (پڑھ کر سنانے والے) بن گئے۔ یہ پرنٹنگ پریس کے زمانے سے قبل کی بات ہے۔ اب پرنٹنگ پریس کے زمانے میں داعی کو قدیم طرز کا مقری نہیں بننا ہے، بلکہ اس کو قرآن کا ڈسٹری بیوٹر (distributer) بننا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں یہی داعی کی شناخت تھی۔ اکیسویں صدی عیسوی میں بھی یہی داعی کی شناخت ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ پچھلے دور میں اُن کو مقری قرآن کا لقب ملا تھا۔ اب موجودہ دور میں اُن کو قرآن مین کہاجاتا ہے۔ یہ دور کا فرق ہے، نہ کہ حقیقتِ واقعہ کا فرق۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ شکر

شیطانی اغوا کا اصل نشانہ یہ ہے کہ وہ انسان کو شکر کے راستے سے ہٹا دے (7: 17)۔ ہدایت اور گم راہی دونوں کا اصل خلاصہ یہی ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ آدمی شکر کے احساس میں جینے والا ہو۔ اِس کے مقابلے میں، گم راہی یہ ہے کہ آدمی کا دل شکر کے جذبات سے خالی ہوجائے۔ شیطان یہی کام ہمیشہ کرتا رہا ہے، لیکن بعد کے زمانے میں شیطان کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ لوگوں کو زیادہ بڑے پیمانے پر شکر ِ خداوندی کے راستے سے ہٹا سکے۔ اِسی لیے حدیث میںاِس فتنے کو دجّال یا دجّالیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
شکر کیا ہے۔ شکر دراصل، خدا کی نعمتوں کے اعتراف (acknowledgement) کا دوسرا نام ہے۔ یہ شکر ہر زمانے میں انسان سے مطلوب تھا۔ پچھلے زمانے میں بھی اور موجودہ زمانے میں بھی۔ کسی انعام پر مُنعم کا اعتراف کرنا، ایک فطری انسانی جذبہ ہے۔ لیکن اعتراف کے لیے ہمیشہ کسی پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً جب آپ کھانے کی کوئی چیز کھاتے ہیں، تو آپ کو فوڈ آئٹم کی صورت میں شکر، یا اعتراف کا ایک پوائنٹ آف ریفرنس مل جاتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ خدایا، تیرا شکرہے کہ تو نے مجھے یہ چیز کھانے کے لیے عطا کی۔
لیکن ایک شخص جو جدید علمِ نباتات (Botany) اور جدید علمِ زراعت (Agriculture) اور جدید علمِ باغ بانی (Horticulture) سے واقف ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ کسی فوڈ آئٹم کی معنویت کو ہزاروں گُنا زیادہ اہمیت کے ساتھ دریافت کرسکے۔ اِس طرح اس کا احساسِ شکر، عام انسان کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ جب وہ کہے گا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے کھانے کے لیے یہ فوڈ آئٹم دیا، تو وہ ایک عظیم اہتزاز (super thrill) کے جذبے کے تحت، وہ الفاظ بولے گا جس کا تجربہ پہلے کسی انسان کو نہیں ہوسکتا تھا۔پہلا شخص جس حقیقت کو صرف ذائقہ لسانی کی سطح پر جانے گا، دوسرا شخص اس کو وسیع تر علمِ سائنس کی سطح پر دریافت کرے گا۔ پہلے شخص کا اعتراف اگر ایک سادہ اعتراف ہوگا، تو دوسرے شخص کا اعتراف ایک ہمالیائی اعتراف بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

امیج کا مسئلہ

سی پی ایس (نئی دہلی) کی ایک خاتون ممبر مز نغمہ صدیقی نے جون 2011 میں دہلی سے امریکا کا سفر کیا۔ جہاز میں ان کی ملاقات ایک تعلیم یافتہ مسیحی شخص سے ہوئی۔ نغمہ صدیقی نے اُن کے سامنے سادہ اور پُرامن اندازمیں اسلام کا تعارف پیش کیا۔ گفتگو کے بعد مذکورہ مسیحی شخص نے کہا — تمھاری بات مسلمان جیسی بات نہیں ہے، بلکہ تمھاری بات ایک مسیحی جیسی بات ہے:
You don’t talk like a Muslim. You talk like a Christian.
مذکورہ مسیحی نے ایسا کیوں کہا۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ اب تک وہ جن مسلمانوں سے ملا تھا، وہ اسلام کو سیاسی انداز میں پیش کرتے تھے۔ وہ شکایت کی بولی بولتے تھے۔ وہ مسلمانوں کے تشدد کو ظلم کے خلاف جہاد بتا کر اُس کو درست قرار دیتے تھے۔ اِس کے برعکس، نغمہ صدیقی نے جو بات کی، وہ تمام ترمثبت انداز میں تھی، وہ کسی بھی قسم کے منفی جذبے سے خالی مکمل طورپر تھی۔ یہ مذکورہ مسیحی کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ اِسی احساس کے تحت اُس نے مذکورہ جملہ کہا۔
موجودہ زمانے میں اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ امیج (image) کا مسئلہ ہے۔ مسلمان قومی سرگرمیوں میں مشغول ہیں اور وہ اس کو اسلام کا نام دئے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی اِس غلط روش نے ساری دنیا میں اسلام کی تصویر بگاڑ دی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اس روش کو بدلیں، ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کی سخت پکڑ میں آجائیں گے۔
قومی سیاست اور تشدد اپنے آپ میں بھی غلط ہے، اور جب قومی سیاست کو اسلامی سیاست کہاجائے اور تشدد کو اسلامی جہاد بتایا جائے تو غلطی صرف غلطی نہیں رہتی، بلکہ وہ سرکشی کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوںکا کیس صرف غلطی کا کیس نہیں ہے، بلکہ وہ سرکشی کا کیس ہے۔ یہ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا منکر ہے اور اِس منکَر کا انکار بلاشبہہ مسلم رہنماؤں کے لیے سب سے بڑے فریضے کی حیثیت رکھتاہے۔
واپس اوپر جائیں

مذہب اور عقلیات

قدیم ترین زمانے سے مذہب کے دائرے میں یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ مذہب کے عقائد کو عقلی اصولوں کے مطابق، صحیح ثابت کیا جائے۔ مذہب میں چوں کہ خدا کے عقیدے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اِس لیے فطری طورپر بڑے بڑے دماغ اِس میں مصروف رہے ہیں کہ وہ عقلی دلائل کی بنیاد پر خدا کے وجود کو ثابت شدہ بنائیں۔ خدا ہماری دنیا کا خالق اور مالک ہے۔ اِس اعتبار سے بلا شبہہ یہ تمام کاموں میںسب سے زیادہ بڑا کام ہے کہ خدا کے وجود کو انسانی عقل کے معیار پر ثابت شدہ بنایا جائے۔ انسان ہمیشہ عقل کی روشنی میں سوچتا ہے، اِس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ انسان اپنی عقل کے معیار پر خدا کی معرفت حاصل کرے، تاکہ خدا کے بارے میں وہ اُس اعلیٰ یقین کا درجہ پاسکے جو خداوندِ عالم کی نسبت سے مطلوب ہے۔
مگر عجیب بات ہے کہ پوری انسانی تاریخ اِس معاملے میں ایک مایوس کُن تصویر پیش کرتی ہے۔ بڑے بڑے دماغوں کی کوششوں کے باوجود یہ مقصد اپنے مطلوب معیار پر حاصل نہ ہوسکا۔ اِس کا دوسرا عظیم تر نقصان یہ ہے کہ پوری تاریخ میں، کچھ استثنائی افراد کو چھوڑ کر، عام طورپر انسان خدا کی اعلیٰ معرفت سے محروم رہا ہے۔ خدا کا نام لینے والے تو بے شمار تعداد میں موجود رہے ہیں، اور آج بھی موجودہیں، لیکن وہ انسان جو خدا کی اعلیٰ معرفت سے بہرہ ور ہو، جس کو خدا کی معرفت اُس اعلیٰ درجے میں حاصل ہو، جو سینے کے اندر ایک طوفان برپا کردیتی ہے، جو دل ودماغ کے اندر ایک زلزلہ کے ہم معنیٰ بن جاتی ہے، جب کہ انسان کی زبان سے حمدِ خداوندی کا وہ کلمہ نکلے جو کائناتی میزان کو بھر دینے والا ہو، انسانی تاریخ، تھوڑے سے افراد کو چھوڑ کر، ایسے خدا پرست افراد سے خالی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان کو اس کے اعلیٰ معیارِ عقل پر خدا کے عقیدہ کو اس کے لیے قابلِ ادراک نہ بنایا جاسکا۔
مذہب اور عقلیات کی یہ کہانی فلاسفہ (philosophers) سے شروع ہوتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے دماغ فلسفیانہ غوروفکر میں مشغول رہے ہیں۔ اِن لوگوں نے چاہا کہ وہ خدا کے عقیدے کو اعلیٰ تعقّل کی سطح پر قابلِ فہم بنائیں۔ لیکن وہ سب کے سب اِس مقصد میں ناکام رہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اِن فلسفیوں کے پاس غور وفکر کے لیے جو فریم ورک (framework) تھا، وہ ایک محدود فریم ورک تھا۔ اِس محدود فریم ورک کے تحت، اُنھیں خداکے عقیدے کو ایک ثابت شدہ حقیقت بنانا تھا، لیکن اُن کا محدود فریم ورک، خدا کو اپنے تصور میں لانے کے لیے بالکل ناکافی تھا۔ اِس لیے غیر معمولی فکری کوشش کے باوجود، وہ خدا کے بارے میں اعلیٰ معرفت کا شعور دینے میں ناکام رہے۔
مثال کے طورپر تمام فلاسفہ کا مشترک ذہن اپنے فلسفیانہ فریم ورک کی بنا پر یہ تھا کہ وہ اعلیٰ حقیقت کو ایک غیر شخصی وجود (impersonal being) تصور کرتے تھے۔ اِس بنا پر انھوں نے خدا کو عالمی روح(world spirit) یا عالمی تصور (world idea) جیسا نام دیا۔ مثلاً برکلے اورکانٹ اور ہیگل، وغیرہ۔ اِس تصور کے تحت، وہ فلسفیانہ فکر پیدا ہوا، جس کو آئڈیل ازم(idealism) کہاجاتا ہے۔ فلسفیانہ الٰہیات(philosophical theology) کا دوسرا نام آئیڈیل ازم ہے۔
اِس کے بعد ساتویں صدی عیسوی میں اسلام کا دور آیا۔ عباسی خلافت کے زمانے میں ایک نیا علم پیداہوا، جوعلمِ کلام(theology) کہاجاتاہے۔ جو لوگ اِس علم میں مشغول ہوئے، وہ متکلمین (theologists) کے نام سے مشہورہیں۔ متکلمین اسلام کے اِس گروہ نے ازسرِ نو یہ کوشش کی کہ وہ مذہبی عقیدہ، یا خدائی عقیدہ کو عقل کی اصطلاحوں میں بیان کریں۔ لیکن ان کی کم زوری یہ تھی کہ اُن کے پاس فریم ورک کے نام سے جو چیز موجود تھی، وہ دوبارہ یونانی منطق (Greek logic) تھی۔
یونانی منطق، دراصل قیاسی منطق (syllogism) کا دوسرا نام ہے۔ یہ منطق کا وہ طریقہ ہے، جو سائنسی منطق (scientific logic) کے ظہور میںآنے سے پہلے استعمال ہوتا تھا۔ مسلم متکلمین کے پاس دلیل قائم کرنے کے لیے یہی قدیم منطق قابلِ حصول تھی۔ یہ منطق، تعقل پسند انسان کو مطمئن کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ اِس بنا پر مسلم متکلمین بھی عقلیاتِ اسلام کے سفر کو زیادہ آگے نہ بڑھا سکے۔ وہ بھی اِس معاملے میں اُسی طرح ناکام ثابت ہوئے، جس طرح اُن سے پہلے فلاسفہ (philosophers) اِس معاملے میں ناکام ثابت ہوچکے تھے۔
اِس کے بعد انیسویں صدی اوربیسوی صدی میں جدید سائنس (modern science)کا زمانہ آیا۔ اِس زمانے میں فطرت میں چھپے ہوئے نئے حقائق دریافت ہوئے۔ اِن حقائق نے تاریخ میں پہلی بار وہ علمی بنیاد فراہم کی، جس کی مدد سے الٰہیات (theology) کو ازسرِ نو سائنسی الٰہیات (scientific theology) کے طورپر مرتب کیا جاسکے۔ سائنسی الٰہیات کے ظہور نے اِس بات کو آخری حد تک ممکن بنا دیا کہ خدا پرستانہ عقائد کو خود اُس علمی معیار پر مدلل کیا جاسکے، جس کو انسان کے نزدیک مسلّمہ عقلی معیار کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔
مگر عجیب بات ہے کہ یہ جدید سائنسی امکان اپنی اعلیٰ ترین صورت میں سامنے آیا، لیکن اُس کو الٰہیات کے شعبے میںاستعمال نہ کیا جاسکا۔ جدید سائنس کے ظہور کے بعد علم کے سیکڑوں شعبوں میںایک انقلاب آگیا۔ ہر شعبے میں یہ کوشش کی گئی کہ علوم کو جدید سائنسی معیار پر ڈیولپ کیا جاسکے۔ علمِ خلیّات (cytology) سے لے کر علمِ فلکیات (astronomy) تک بے شمار علمی شعبوں کو سائنسی ترقی کا درجہ ملا، لیکن الٰہیات کا علم اِس اعتبار سے ایک مستثنیٰ علم بنا رہا۔
بیسویں صدی ، سائنس کی زبردست سرگرمیوں کی صدی ہے، مگر الٰہیات کے اعتبار سے یہ صدی کسی حقیقی سرگرمی سے خالی نظر آتی ہے۔ میرے علم کے مطابق، بیسویں صدی میں دو ایسے آدمی اٹھے، جو ایک طرف تو پورے معنوں میں سائنٹسٹ تھے، اور دوسری طرف، بظاہر وہ اِس بات کا شعور رکھتے تھے کہ اب وقت آگیا ہے کہ الٰہیات کو جدید سائنس کی بنیاد پر مرتب کیا جائے۔ اور اِس طرح، الٰہیات کو وہی درجہ دے دیا جائے جو درجہ دوسرے علومِ انسانی کو حاصل ہے۔ یہ دو آدمی حسب ذیل تھے:
سرجیمز جینزSir James Jeans (1877-1946)
ڈاکٹر عبد السلام Dr. Abdus-Salam (1926-1996)
سر جیمز جینز اور ڈاکٹر عبد السلام، دونوں نے جدید الٰہیات کے موضوع پر کچھ جُزئی، لیکن اہم کام انجام دیا۔ مثلاً سر جیمزجینز نے اپنی کتاب (The Mysterious Universe, 1930) میں خالص سائنسی تجزیہ (Scientific analysis)کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کائنات اتنی زیادہ با معنیٰ ہے کہ وہ الل ٹپ (at random) طورپر وجود میں نہیں آسکتی، یقینا وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وجود میںآئی ہے۔ سر جیمز جینز نے لکھا ہے کہ کائنات کا خالق ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical mind) معلوم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عبد السلام ایک پروفیشنل سائنٹسٹ تھے۔ نظریاتی فزکس (theoretical physics) میںانھوں نے کیمبرج یونی ورسٹی (لندن) سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ جدید الٰہیات کے اعتبار سے اُن کا کام بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ جس ریسرچ پر اُن کو فزکس کا نوبل پرائز (1979) ملا، وہ الٰہیات کے اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ زیر نظر موضوع پر ڈاکٹر عبد السلام کی ایک کتاب (Ideal and Realities) ہے، جو پہلی بار 1984 میں چھپی ۔
سرآئزک نیوٹن (وفات: 1727 ) کے زمانے سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ چار بنیادی طاقتیں (forces) ہیں، جو پوری کائنات کو کنٹرول کرتی ہیں۔ آئن سٹائن (وفات: 1955 ) نے اِس تعداد کو گھٹانا چاہا، لیکن وہ اِس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے خالص ریاضیاتی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں چار نہیں ہیں، بلکہ تین ہیں۔ اِس تحقیق پر اُن کو فزکس کا نوبل پرائز دیاگیا۔ بعد کو نظریاتی فزکس کے مشہوربرٹش پروفیسر اسٹفین ہاکنگ (پیدائش: 1942 )نے اِس تعداد کو مزید گھٹایا، اور یہ ثابت کیا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقت صرف ایک ہے۔ اِس طاقت کو انھوں نے واحد ڈور(single string) کا نام دیا۔
اِس طرح خالص سائنٹفک ریسرچ کے ذریعے یہ ثابت ہوا کہ کائنات میں تعدّد (plurality) نہیں ہے، بلکہ توحید (oneness) ہے۔ گویا کہ کائنات کا نیچر مؤحّدانہ (monotheistic) ہے، اس کا نیچر مشرکانہ (polytheistic) نہیں ہے۔ اِس سائنٹفک تحقیق میں ڈاکٹر عبد السلام کا بہت بڑا حصہ ہے۔ انھوں نے پہلی بار ’’چار طاقتوں‘‘ کے نظریے کو توڑا، اور سائنسی طورپر ’’ایک طاقت‘‘ کو ماننے کا راستہ ہموار کیا۔
سرجیمز جینز اور ڈاکٹر عبدالسلام، دونوں یہ صلاحیت رکھتے تھے کہ وہ سائنسی الٰہیات (scientific theology) کو مرتب کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیں۔ لیکن دونوں اِس موضوع پر صرف جُزئی کام کرسکے، وہ اِس موضوع کا تکمیلی باب نہ لکھ سکے۔بظاہر دونوں کا عذر ایک تھا۔ دونوں ہی اپنی اکیڈمک سرگرمیوں اور پروفیشنل مشغولیت سے اتنا زیادہ وابستہ رہے کہ اُن کو سائنسی الٰہیات کے موضوع پر مزید کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ موضوع، دوسرے تمام اہم موضوعات کی طرح، مکمل ڈیڈی کیشن (dedication) کا تقاضا کرتا ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی اِس کام کی یہ ضروری قیمت نہ دے سکا۔ اِس لیے دونوں میں سے ہرایک اِس کام کو انجام دینے سے قاصر رہا۔
اسلام کو عقلی بنیاد (rational basis) دینے کے لیے کچھ اور لوگوں نے کتابیں تصنیف کیں۔ لیکن اصل ضرورت کے اعتبار سے یہ کتابیں کسی حقیقی اہمیت کی حامل نہ تھیں۔ اصل مقصد جدید سائنٹفک مائنڈ کو ایڈریس کرنا تھا، مگر اِن کتابوں سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوا۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
1 - حجۃ اللہ البالغۃ،شاہ ولی اللہ دہلوی
2 - تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ڈاکٹر محمد اقبال
(The Reconstruction of Religious Thought in Islam)
3 - قصّۃ الإیمان، بین العلم والفلسفۃ والقرآن، شیخ ندیم الجسر
4 - قرآن اور علمِ جدید، ڈاکٹر محمد رفیع الدین
میں نے اِن کتابوں کا، اور اِس طرح کے دوسرے بہت سے مضامین اور مقالات کا مطالعہ کیا۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ یہ تمام کتابیں اصل مسئلے کی نسبت سے بہت ناقص ہیں۔ وہ ایک طاقت ور چیلنج کا صرف کم زور جواب ہیں۔ یہاں پہنچ کر میرے اندر ایک نیا احساس جنم لینے لگا۔ میںنے کئی ایسے خواب دیکھے، جو اِس بات کا اشارہ تھے کہ غالباً قضائِ الٰہی کا یہ فیصلہ ہے کہ اپنی تمام کم زوریوں کے باوجود، میں اِس خدمت کو انجام دوں۔
موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہنما کسی نہ کسی ردّ عمل کے تحت اٹھے۔ ان کی زندگی کا کورس رد عمل کی نفسیات کے تحت بنا۔ مگر میرا معاملہ ایک استثنائی معاملہ تھا۔ کسی قسم کے رد عمل نے میری زندگی کا کورس متعین نہیں کیا، بلکہ فطرت کا ایک واقعہ تھا، جس نے میری زندگی کا رخ متعین کیا۔
یہ واقعہ 27 جولائی 1955 کو پیش آیا۔ اُس وقت میںاعظم گڑھ (یوپی) میںتھا۔ اِس سال اُس علاقے میں نہایت شدید بارش ہوئی تھی۔ قریبی ندی ٹونس (Tons River)کا پانی پھیل کر شہر کی آبادی تک پہنچ گیا۔ برٹش دور میں یہاں 1871 میں شہر کے کنارے ایک بہت بڑا بند بنایا گیا تھا۔ یہی بند سیلاب سے حفاظت کا واحدذریعہ تھا۔ مگر اِس سال سیلاب کا پانی اتنا زیادہ بڑھا کہ لال ڈِگی کا یہ بند اُس کو روکنے کے لیے ناکافی ثابت ہوا۔ یہ میرے لیے ایک بھیانک تجربہ تھا۔ اِس تجربے کو میں نے اُسی زمانے میں قلم بند کیا تھا جو اخبار ’’دعوت‘‘ (نئی دہلی) کے شمارہ 5 ستمبر 1955 میں چھپا تھا۔ اُس میں، میںنے اپنے اِس مشاہدے کو اِن الفاظ میں لکھا تھا:
’’26اور 27 جولائی 1955 کی درمیانی رات کو ضلع کلکٹر (اعظم گڑھ) کی طرف سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے یہ اعلان ہوا— ’’لال ڈگی کا بند ابھی ٹوٹنا چاہتا ہے۔ آپ لوگ اپنی جانوں کو بچانے کے لیے اونچی جگہوں پر چلے جائیں‘‘۔ اُس وقت رات کے ایک بجے تھے۔ سارا شہر جاگ اٹھا اور عجیب سنسنی پھیل گئی۔ لوگ اپنے کچے اور پکے گھروں سے نکل کر بند کی طرف دوڑے۔ سیکڑوں آدمیوں نے پھاوڑا اور بوریا لے کر اُس جگہ مٹی ڈالنی شروع کردی، جہاں سے بند پھٹ گیاتھا۔ ایسے ایسے لوگ جنھوں نے شاید زمین پر کبھی ننگے پاؤں قدم بھی نہ رکھا ہوگا، وہ اپنے سروں پر مٹی کا ٹوکرا لے کر ڈھو رہے تھے۔ درجنوں پیٹرومیکس کی روشنی میں ساری رات کام ہوا اور دوسرے دن دوپہر تک ہوتا رہا۔ بالآخر انجینئر نے کہہ دیا کہ اب بند قابو سے باہر ہے۔ آخر کار بارہ بجے دن کے بعد بند ٹوٹ گیا اور پانی سڑکوں پر بہنے لگا۔ سارے شہر میں کہرام مچ گیا۔ دکانیں بند ہوگئیں۔ لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف بھاگ رہے تھے اور پانی ان کے پیچھے اِس طرح دوڑ رہا تھا کہ گویا وہ اُن کا پیچھا کررہا ہے۔ زندگی کے مسائل سمٹ کر بس سیلاب کے گرد جمع ہوگئے ، اور چند دنوں کے لیے شہر میں قیامت کا منظر دکھائی دینے لگا۔‘‘ (قرآن کا مطلوب انسان، صفحہ 61 )
فطرت کا یہ واقعہ میرے لیے قیامت کی یاد دہانی کے ہم معنیٰ تھا۔ یہ گویا، بڑی قیامت سے پہلے چھوٹی قیامت تھی جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ اِس واقعے کو دیکھ کر جو تاثر میرے اوپر ہوا، وہ میری پوری زندگی پر چھا گیا۔ اِس کے بعد میری تقریروں اور تحریروں میں اِنذارِ آخرت کا پہلو نمایاں وصف کے طورپر شامل ہوگیا۔ میرے استاد مولانا امین احسن اصلاحی (وفات: 1998 ) سے ایک شخص نے پوچھا کہ قرآن کا خلاصہ کیا ہے۔ انھوںنے جواب دیا کہ— سرگذشتِ انذار۔ میںسمجھتا ہوں کہ یہ بات بلا شبہہ د رست ہے، اور جو لوگ میری تقریر اور تحریر سے واقف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میری تقریر اور تحریر میں یہی انداز غالب نظر آتا ہے۔
اِسی طرح میری زندگی میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ اِس واقعے نے میری تحریر میں سائنسی اسلوب کو گہرائی کے ساتھ شامل کردیا۔ فروری 1955 کا واقعہ ہے۔ لکھنؤ کے امین الدولہ پارک میں جماعتِ اسلامی ہند کے زیر اہتمام ایک اجتماع ہوا۔ اِس موقع پر اسلام کے عقلی اثبات پر راقم الحروف کی ایک تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد جب اعلان کیا گیا کہ وہ چھپی ہوئی صورت میں یہاں بک اسٹال پر موجود ہے، تو انسانوں کا ایک ہجوم اُس کو لینے کے لیے اسٹال پر ٹوٹ پڑا۔ تقریر کے مطبوعہ نسخے ہاٹ کیک (hot cake)کی طرح فروخت ہوگئے۔ بعدکو یہ تقریر پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوئی۔ اردو میںاُس کا نام تھا ’’نئے عہد کے دروازے پر‘‘، ہندی میں ’’نو یُک کے پرویش دُوار پر‘‘ اور انگریزی میں:
On the Threshold of a New Era
اِس مقالے کی ترتیب کے دوران میںنے جومطالعہ کیا، اُس سے دعوت کا ایک پہلو زیادہ واضح ہو کر سامنے آیا، وہ یہ کہ جدید سائنسی دریافتوں نے جو نیا مواد (data) فراہم کیا ہے، وہ ہم کو موقع دیتا ہے کہ ہم زیادہ مدلل اور موثر انداز میں دعوتِ حق کا کام کرسکیں۔ اِس اعتبار سے دیکھئے تو سائنس گویا کہ اسلام کا علمِ کلام (theology) ہے۔ سائنسی دریافتوں نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ حق کی دعوت کو ایسے اسلوب میں پیش کیا جائے، جو جدید انسان کے لیے قولِ بلیغ (4: 63) کے ہم معنیٰ بن جائے۔
اِسی زمانے میں مجھ پر قرآن کی ایک آیت کا مفہوم زیادہ واضح انداز میں کھُلا۔ یہ آیت قرآن کی سورہ حم السجدہ میں ہے، مگر عجیب بات ہے کہ پچھلے زمانے میں قرآن کی تفسیریں کثیر تعداد میں لکھی گئیں، لیکن اِس آیت کی گہری معنویت مفسرین سے اوجھل رہی۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’عن قریب لوگوں کو ہم دکھائیں گے اپنی نشانیاں، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی، یہاں تک کہ اُن پر یہ کھل جائے گا کہ یہ قرآن حق ہے‘‘ (41: 63) ۔قرآن کی اِس آیت میں دراصل اُس دور کی پیشین گوئی ہے جس کو جدید سائنسی دور کہاجاتا ہے۔ جدید سائنس میں فطرت (nature) کو مطالعے کا موضوع بنایا گیا۔ یہ فطرت پوری کی پوری، خدا کی تخلیق ہے۔ اِس تخلیق کے اندر خالق کی نشانیاں (signs of God)بے شمار تعداد میں موجود تھیں، مگر وہ مخفی انداز میں تھیں۔ جدید سائنس (modern science) نے اِن نشانیوں کو کھولا، یہاں تک کہ یہ نشانیاں انسانی معلومات کے دائرے میںآگئیں۔
فطرت کی اِن نشانیوں کے دوپہلو تھے۔ ایک، اُن کا ظہور۔ اور دوسرے، تبیینِ حق کے لیے اُن کا استعمال۔ اِس معاملے میں پہلا کام سائنس دانوں کو کرنا تھا۔انھوں نے غیر معمولی کوشش کے ذریعے اِس کام کو بھر پور طور پرانجام دے دیا۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی، اِنھیں سائنسی دریافتوں کی صدی ہے۔ یہ دریافتیں کتابوں کی صورت میںچھپ کر ہر جگہ پھیل گئیں۔اِس کے بعد اِس سلسلے میں دوسرا کام یہ تھا کہ مسلم علماء اور اہلِ علم اِن معلومات سے واقفیت حاصل کریں اورمطلوب علمی انداز میں یہ بتائیں کہ یہ معلومات کس طرح اسلامی عقائد کے لیے استدلال کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ قرآن کی پیشگی خبر کے باوجود دورِ جدید میں اٹھنے والے مسلم علماء اور اہلِ علم اِس جدید امکان سے بے خبر رہے اور نتیجۃً وہ اُس کو تبیین حق کے لیے استعمال بھی نہ کرسکے۔
حدیث میں خواب کو نبوت کا چھیالیسواں درجہ بتایاگیا ہے، یعنی ختمِ نبوت کے بعد بھی الہامِ خداوندی کا ایک درجہ باقی ہے جس کے ذریعے خدا اپنے بندوں کو خصوصی رہنمائی دیتا رہتا ہے۔ یہ خواب کا ذریعہ ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ مجھ پر بہت سی باتیں خواب کے ذریعے کھلیں۔ یہ بات بھی مجھ پر خواب کے ذریعہ واضح ہوئی کہ تبیینِ حق کے اِس اہم کام کے لیے مجھ کو اٹھنا ہے، اپنے تمام تر عجز کے باوجود اللہ کے بھروسے پر مجھ کو یہ کام انجام دینا ہے۔ اِسی ذیل کا ایک تجربہ وہ ہے جو گویا کہ مجھے بین النوم والیقظہ پیش آیا:
ستمبر 1963 کی 21 تاریخ تھی۔ راقم الحروف ندوہ (لکھنؤ) کی مسجد میں تھا اور ظہر کی سنتیں پڑھ کر جماعت کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ ذہن میں یہ خیال گھوم رہا تھا کہ اسلام کے تعارف کے لئے آج ایک ایسی کتاب کی ضرورت ہے جو وقت کی زبان اور اسلوب میں لکھی گئی ہو اور جدید انسان کو مطالعہ کے لئے دی جاسکے۔ ’’کاش اللہ تعالیٰ مجھے اِس کتاب کے لکھنے کی توفیق دے‘‘۔ یہ تمنا بے ساختہ دعا کی شکل میں میری زبان سے نکلی اور اس کے بعد یکایک یہ انگریزی لفظ میری زبان پر تھا: God Arises
یہ گویا کتاب کا نام تھا جو اچانک میرے ذہن میں وارد ہوا۔ اِس سے پہلے کبھی یہ فقرہ میرے ذہن میںنہیں آیا تھا، حتی کی کتاب کے نام کی حیثیت سے اس کی معنویت بھی اس وقت پوری طرح مجھ پر واضح نہ تھی۔ شام کو عصر کی نماز کے بعد میںحسب معمول نریندر دیو لائبریری گیا جو ندوہ کے قریب دریائے گومتی کے کنارے واقع ہے۔ وہاں ویبسٹر (Webster)کی لغت میں لفظ arises کے استعمالات دیکھے تو معلوم ہوا کہ یہ لفظ بائبل کی ایک آیت میں استعمال ہوا ہے۔ پورا فقرہ یہ ہے:
Let God arise, let His enemies be scattered,
Let them also that hate Him flee before Him,
As smoke is driven away, so drive them away;
As wax melteth before the fire, so let the
Wicked perish at the presence of God.
(Psalms 68: 1-2)
خدا اٹھے۔ اس کے دشمن تتر بتر ہوں۔ وہ جو اس کا کینہ رکھتے ہیں، اس کے حضور سے بھاگیں۔ جس طرح دھواں پراگندہ ہوتا ہے، اسی طرح تو انھیں پراگندہ کر۔ جس طرح موم آگ پر پگھلتا ہے، شریر خدا کے حضور فناہوں۔
زبور کی یہ دعا حقیقۃً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیشین گوئی ہے۔ یہ اسی منصوبۂ الٰہی کا ذکر ہے جو قرآن میں سورہ صف (آیت: 8-9) اور سورہ فتح (آیت: 28) میں وارد ہوا ہے۔ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ جس عظیم الشان سطح پر اپنے دین کا اظہار کرنے والا تھا، اسرائیلی پیغمبر (داؤد) کی زبان سے بشکل دعا اس کو کہلایا گیا۔ حضرت داؤد نبی آخر الزماں سے ڈیڑھ ہزار برس قبل پیداہوئے تھے۔
اِس طرح گویا اذان اور اقامت کے درمیان مسجد کے اس تجربے میں مجھ کو کتاب کا نام اور اس کا موضوع دونوں بتادیا گیا۔ عمر کی چھٹی دہائی میں پہنچنے کے بعد میری بہترین تمنا یہ تھی کہ میںاسلام پر ایک کتاب تیار کرسکوں جو اردو اور عربی کے علاوہ انگریزی میں God Arises کے نام سے شائع ہو۔
مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو پکار رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ — اے میری امت، خداکے دین کو، وقت کے افکار کی طرف سے بہت بڑا چیلنج در پیش ہے۔ اٹھو، اور اِس چیلنج کا موثر جواب دے کر، خدا کے دین کو دوبارہ سرفرازی عطا کرو۔
عالمِ تصور میں مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ پیغمبر نے بار بار اپنی امت کو پکارا، لیکن امت کا کوئی شخص نہیں اٹھا، جو اس پکار پر لبیک کہے۔ آخر کار، میں اپنے عاجز قدموں کے ساتھ اٹھتا ہوں، اور کہتا ہوں کہ اے اللہ کے رسول، اگر چہ میںآپ کا ایک کم زور امتی ہوں، لیکن میںخدا کے بھروسے پر اِس کام کو انجام دوں گا، اور پھر خدا کے رسول، دوبارہ وہی بات کہتے ہیں جو آپ نے مکہ میں اُس وقت کہی تھی، جب کہ آپ کی پکار کے بعد بڑوں میں سے کوئی نہیں اٹھا، اور بنو ہاشم کے ایک نوجوان نے کہا تھا کہ میںآپ کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوں۔ اُس وقت آپ نے فرمایا: أنتَ یا علی، أنتَ یا علی۔
عالمِ تصور میں، خدا کے رسول کا یہ جواب پاکر میرا حوصلہ بڑھا، اور میں نے طے کرلیا کہ مجھے یہ کام انجام دینا ہے۔ میرا سہارا صرف ایک احساس تھا، جو حضرت مسیح کے الفاظ میں یہ تھا— انسان سے تو یہ کام نہیں ہوسکتا، مگر خدا سے ہوسکتا ہے۔
میں نے جب یہ فیصلہ کیا کہ مجھے سائنسی دریافتوں کی مدد سے جدید اسلامی لٹریچر تیار کرنا ہے، تو یہ میرے لیے کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا۔ یہ میرے جیسے انسان کے لیے ہمالیہ پہاڑ کو اپنے سر پر اٹھانے سے زیادہ مشکل تھا۔ اِس مقصد کے لیے مجھے انگریزی زبان میں بھر پور قدرت حاصل کرنا تھا۔ جدید افکار (modern thought) کو سمجھنے کے لیے مختلف علوم کو گہرائی کے ساتھ پڑھنا تھا۔ جدید الحاد کا موقف کیا ہے، اس کو براہِ راست مطالعے کے ذریعے جاننا تھا۔
اُس زمانے میں، میںنے مختلف شہروں کے سفر کیے۔ مختلف شخصیتوں سے ملاقاتیں کیں۔ مختلف لائبریروں سے کتابیں حاصل کیں۔ اُس زمانے میں میری دیوانگی کا عالم یہ تھا کہ میں ہر وقت پڑھتا رہتا تھایہاں تک کہ راستہ چلتے ہوئے کتاب میرے ہاتھ میں ہوتی تھی اور میں اس کو کھول کر پڑھتا رہتا تھا۔ میری ماں زیب النسا (وفات: 1985 ) اکثر یہ کہتی تھیں کہ یہ شخص کسی نہ کسی دن سڑک پر چلتے ہوئے کسی گاڑی سے ٹکرا جائے گا اور سڑک ہی پر اس کی موت واقع ہوجائے گی۔ میرے اِس دیوانہ وار مطالعے کی کسی نے بھی حوصلہ افزائی نہیں کی، لیکن میں ہر چیز سے بے پروا ہو کر اپنے کام میں لگا رہا۔
آزادیٔ ہند (1947) کے بارے میں ایک کتاب ہے جو دو مصنفین نے مشترک طورپر لکھی تھی۔اِن میں سے ایک شخص برطانیہ کا تھا، اور دوسرا فرانس کا۔ اِس کتاب کا نام ہے۔ آدھی رات کی آزادی(Freedom at Midnight) ۔
اپنی اِس کتاب کی تیاری میں مذکورہ دونوں مصنفین نے بے شمار چیزوں کا مطالعہ کیا۔ کتاب کے چھپنے کے بعد ایک انٹرویو میںانھوںنے کہا تھا:
We lived like hermits, and we produced ‘Freedom at Midnight’
اسلام پر عصری اسلوب (modern idiom) میں کتاب تیار کرنے کے لیے میرا بھی یہی حال ہوا۔ مذکورہ مثال کو لیتے ہوئے میںیہ کہوں گا کہ — میںنے رہبان کی مانند زندگی گزاری، اور میں نے خدا کے موضوع پر اپنی کتاب تیار کی:
I lived like hermit, and I produced my book on God.
جیسا کہ عرض کیاگیا، موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات کے ذریعے فطرت کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں، وہ گویا کہ خدائی نشانیاں ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ آفاق اور انفس میںایاتِ الہی کے ظہور کے ہم معنیٰ ہیں (41: 53) ۔ اِس سلسلے میں اپنے مطالعے کے نتائج کو میںنے اپنی مختلف کتابوں میںتفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہاں مختصر طورپر چند مثالیں درج کی جاتی ہیں
1 - قدیم فلاسفہ اپنے فلسفیانہ فریم ورک کی بنا پر شخصی خدا (personal God) کے طورپر خدا کا ادراک نہیں کرپاتے تھے۔ چناں چہ انھوںنے خدا کو غیر شخصی خدا (impersonal God) بتایا۔ مگر غیر شخصی خدا صرف ایک خیالی خدا تھا، وہ (cosmic rays) یا قوتِ کشش(gravity) کے مانند تھا۔ خدا کے عقیدے کی حیثیت سے اس کی کوئی معنویت نہ تھی۔
لیکن سائنس کی تحقیقات کے بعد ایک نئی دنیا انسان کے سامنے آئی، ایک ایسی دنیا جو لازمی طورپر یہ تقاضا کررہی تھی کہ کائنات کے وجود و بقا کے پیچھے ایک زندہ شعور ہے، نہ کہ صرف مادّی عمل۔ اِس طرح سائنس دانوں نے خدا کا نام لیے بغیر، خدا جیسی ایک ہستی کا اعتراف کرلیا۔ اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے درج ذیل کتاب کا مطالعہ کیجئے:
Sir Fred Hoyle, The Intelligent Universe (1983)
اِس طرح، غیر شخصی خدا (Impersonal God) کے فلسفیانہ قیاس کے لیے کوئی علمی بنیاد (Scientific base) باقی نہ رہی۔ سائنس کی نئی دریافتوں نے بتایا کہ خالص علمی اور عقلی اعتبار سے شخصی خدا (personal God) کا تصور زیادہ قابل فہم ہے۔
2 - یہی معاملہ علّۃ العِلل (cause of the causes) کا ہے۔ قدیم متکلمین نے درست طورپر خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے علّۃ العلل کا نظریہ پیش کیا تھا، لیکن ہزار برس پہلے کے زمانے میں جو معلومات انسان کو حاصل تھیں، اُن کے مطابق، علّۃ العلل کی حیثیت صرف ایک قیاس کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن بیسویں صدی عیسوی میں فلکیاتی تحقیقات کے دوران ایک نئی دریافت ہوئی، جس کو بگ بینگ کہاجاتا ہے۔ بگ بینگ کا نظریہ اب ایک ثابت شدہ نظریہ بن گیا ہے۔
بگ بینگ کے نظریے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ تقریباً پندرہ بلین سال پہلے ایک کائناتی گولا (cosmic ball) تھا۔ یہ کائناتی گولا موجودہ کائنات کے تمام ذرات (particles) پر مشتمل تھا۔ اِس کاسمک بال کے باہر، ہر طرف صرف خلا پایا جاتا تھا۔ پھر اچانک ایک وقتِ خاص پر اِس کاسمک بال کے اندر ایک انفجار (explosion) ہوا اور پھر دفعتاً اس کے اَن گنت ذرات وسیع خلا میں پھیل گئے۔ پھر دھیرے دھیرے لمبے عمل کے دوران موجودہ کائنات بنی۔
بگ بینگ کی اِس دریافت کے بعد قدیم متکلمین کا علۃ العلل کا نظریہ محض قیاسی نظریہ نہیں رہا، بلکہ وہ ایک ایسا نظریہ بن گیا ہے، جس کی پشت پر ایک خالص سائنسی بنیاد موجود ہے۔ کاسمک بال میں انفجار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی خارجی عامل (factor) موجود تھا جس کی مداخلت سے یہ انفجار وجود میں آیا۔ کیوں کہ طبیعیاتی قوانین کے مطابق، خود بخود یا کسی داخلی سبب سے ایسا انفجار ہر گز ممکن نہ تھا۔ اِس طرح، علّۃ العلل کا نظریہ اب ایک ثابت شدہ نظریہ بن چکا ہے، نہ کہ صرف ایک قیاسی نظریہ۔
3 - کائنات میں بظاہر بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔ اِس تنوع کی بنا پر شرک کا عقیدہ پیدا ہوا۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ جب تخلیق میں تنوع ہے، تو اس کا خالق بھی کئی ہونا چاہیے۔ نیوٹن کے زمانے میں یہ نظریہ قائم کیاگیا کہ چار طاقتیں ہیں جو پورے عالم کو کنٹرول کرتی ہیں۔ وہ چار طاقتیں ہیں:
1 - قوتِ کشش (gravitational force)
2 - برقی مقناطیسی قوت(electromagnetic force)
3 - طاقت ور نیوکلیر قوت(strong nuclear force)
4 - کم زور نیو کلیر قوت(weak nuclear force)
یہ قدیم سائنسی نظریہ بظاہر شرک کے عقیدے کی موافقت کررہا تھا۔ لیکن سائنس داں اِس قسم کے چار نظریے پر مطمئن نہ تھے۔ ان کو نظر آتا تھا کہ کائنات میںبہت زیادہ ہم آہنگی (harmony) پائی جاتی ہے۔ ایسی ہم آہنگ کائنات میںچار طاقتوں کا نظریہ انھیں بے جوڑ نظر آتا تھا۔ چناں چہ سائنس دانوں کی تحقیق جاری رہی، یہاں تک کہ یہ ثابت ہوگیا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقت صرف ایک ہے۔ اِس دریافت کو سنگل اسٹرنگ تھیوری (single string theory) کہاجاتا ہے۔
اِس جدید سائنسی دریافت نے شرک (polytheism) کے نظریے کا علمی طورپر خاتمہ کردیا۔ اب علم اور عقل کی بنیاد صرف توحید (monotheism)کے نظریے کو حاصل ہے۔ اب توحید کا نظریہ ایک ثابت شدہ سائنسی نظریے کی حیثیت رکھتا ہے، نہ کہ سادہ طور پر صرف ایک مذہبی عقیدہ۔
4 - قدیم زمانے میں علمائِ الٰہیات، خدا کے وجود کو اِس طرح ثابت کرتے تھے کہ — کائنات کا مطالعہ بتاتاہے کہ یہاں ہر چیز میںکامل ڈزائن پایا جاتا ہے۔ اور جہاں ڈزائن (design) ہو، وہاں ڈزائنر (designer) کا وجود بھی اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے:
When there is a design, there is a designer. and when the designer is proved, God is also proved.
یہ استدلال خالص منطقی اعتبار سے ایک درست استدلال تھا، لیکن قدیم زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ یہ ثانوی (secondary) درجے کا استدلال ہے۔ وہ اوّل درجے کا استدلال نہیں۔ کیوں کہ یہ استدلال ایک استنباط (inference) پر مبنی تھا، نہ کہ براہِ راست مشاہدے کی بنیاد پر۔
سائنسی تحقیق جب تک عالمِ کبیر (macro world) تک محدود تھی، اُس وقت تک یہ استدلال بظاہر درست نظر آتا تھا۔ کیوںکہ اُس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ تمام حقیقی چیزیں اپنا مادّی جسم رکھتی ہیں، اِس بنا پر وہ قابلِ مشاہدہ (visible) ہیں۔ گویا کہ جو چیز دور بین یا خورد بین کے ذریعے نہ دیکھی جاسکتی ہو، وہ کوئی حقیقی چیز بھی نہیں۔لیکن بیسویں صدی میں سائنس کی تحقیقات، عالمِ کبیر سے گزر کر عالمِ صغیر (microworld) تک پہنچ گئیں۔ یہ سائنس کی دنیا میں ایک عظیم انقلاب تھا۔ اِس کے بعد یہ ثابت ہوا کہ یہاں ایسی چیز بھی موجود ہوسکتی ہے، جونہ خورد بین سے دیکھی جاسکے اور نہ دور بین سے۔ اِس طرح کی چیزوں کو مشاہداتی ذرائع سے معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی چیز کے وجود کو صرف استنباط (inference) کے ذرائع سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
سائنس کی اِس ترقی کے بعد یہ ہوا کہ معقول استدلال (valid argument) کا قدیم تصور ختم ہوگیا ۔ اب علمی طورپر یہ مان لیا گیا کہ استنباطی استدلال (inferential argument) بھی اتنا ہی معقول (valid) ہے، جتنا کہ براہِ راست مشاہدے کی بنیاد پر قائم کیا ہوا استدلال۔
واپس اوپر جائیں

ّ جنت : ایک آفاقی تصور

پیراڈائز (جنت) کا تصور تمام انسانی سماجوں میں پایا گیا ہے۔ پیراڈائز تمام عورتوں اور مردوں کا ایک عالمی خواب ہے۔ ہر انسان جو پیدا ہوتا ہے، وہ ایک خوب صورت دنیا کا تصور لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اِسی کو پیراڈائز کہاگیا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان ایک متلاشی ٔ جنت حیوان (Paradise-seeking animal) ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ پیراڈائز کا تصور ہر سماج میں اور ہر کلچر میں ہمیشہ پایا گیا ہے۔ اِس اعتبار سے پیراڈائز ایک عالمی لفظ ہے۔ معمولی تغیر کے ساتھ وہ ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ قرآن کا لفظ فردوس (18: 107)بھی خود پیراڈائز ہی کی ایک معرّب(Arabicized) صورت ہے۔ ذیل میں چندزبانوں کی مثالیں درج کی جاتی ہیں، جس سے پیراڈائز کی عالمی نوعیت کا اندازہ ہوگا:
Avesta : Pairidaêza Persian : Firdaus
Greek : Paradeisas Latin : Paradisus
French : Paradis English : Paradise
Hebrew : Pardes Akkadian : Pardesu
Aramaic : Pardaysa Sanskrit : Paradesha
Arabic : Firdaus
پیراڈائز (جنت) کا تصور انسانی فطرت میںاتنا زیادہ پیوست ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جُدا نہیں کیا جاسکتا۔ پیراڈائز کو پانا، ہر عورت اور مرد کا مشترک خواب ہے، خواہ شعوری طور پر ہو یا غیر شعوری طور پر۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر عورت اور مرد نے عالمِ تصور میں ایک انتہائی خوب صورت دنیا کو پہلے سے دیکھا ہے، اور اب وہ اِس دیکھی ہوئی جنت کو عملی طور پر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انسان کی اِس خواہش کے تحت، پیراڈائز کے تقریباً ایک درجن ماڈل بن گئے ہیں۔ ہر انسان اپنے اِس معلوم ماڈل کو واقعاتی طورپر حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے۔
پیراڈائز کا مطالعہ میری پوری زندگی میں شامل رہا ہے۔ تاریخ میں پیراڈائز کے جتنے ماڈل بنائے گئے ہیں، تقریباً اُن سب کو میںنے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے اپنے طویل مطالعے اور تجربے کے بعد پایا ہے کہ پیراڈائز کا صرف وہی ماڈل مطابقِ فطرت ماڈل ہے جو قرآن میں ملتا ہے۔ بقیہ تمام ماڈل یا تو فطرت سے مطابقت نہیں رکھتے، یا وہ صرف جزئی طورپر فطرت کے مطابق ہیں۔ اور یہ دونوں حالتیں اُن کو ناقابلِ قبول قرار دے دیتی ہیں۔
اِس فہرست میں صرف قرآن کا ماڈل واحد قابلِ قبول ماڈل ہے۔ اِسی لیے قرآن میں سچے انسانوں کی بابت یہ ارشاد ہوا ہے کہ خدا اُن کو ایسی جنت میں داخل کرے گا جس کی اُس نے اُنھیں خوب پہچان کرادی ہے: ویُدخلہم الجنّۃ عرّفہا لہم (47: 6) ۔
جنت کے معروف ماڈلوں میں سے کون سا ماڈل درست ہے، اس کا معیار وہی اصول ہے جس کو اِس طرح کے معاملات میں سائنس میں استعمال کیا جاتا ہے، یعنی اصولِ مطابقت (principle of corroboration)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نظریے کی صحت کو معلوم کرنے کے لیے یہ کیا جائے گا کہ اُس کو تمام متعلق(relevant) واقعات یا مظاہر کی نسبت سے جانچا جائے گا۔ اگر یہ نظریہ تمام متعلق چیزوں سے مطابقت (corroborate) کررہا ہو تو اس کو درست مان لیا جائے گا اور اگر کوئی ایک واقعہ بھی اس نظریے سے مطابق نہ کرے تو اس نظریے کو غلط قرار دے کر اُس کو رد کر دیا جائے گا۔
یہی واحد اصول ہے جس کی روشنی میں پیراڈائز کے مختلف تصورات کا مطالعہ کرکے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اُن میں سے کون سا نظریہ درست نظریہ ہے۔ذیل میںاِسی اصول کی روشنی میں پیراڈائز کے مختلف ماڈلوں کا مطالعہ کیا جاتاہے۔ اِس مطالعے سے واضح ہوجائے گا کہ سائنٹفک طریقِ مطالعہ کے مطابق، اِن میں سے کون سا ماڈل علمی طورپر قابلِ قبول ماڈل ہے۔
بدھسٹ ماڈل
سب سے پہلے بُدھسٹ ماڈل (Buddhist model) کو لیجئے۔ بدھ ازم میں اگرچہ مہایانا (Mahayana) اسکول کو چھوڑ کر، بقیہ کسی اسکول میں پیراڈائز کا لفظ استعمال نہیں کیاجاتا ہے۔ لیکن اصولی طور پر بدھ ازم میں پیراڈائز کا تصور موجود ہے۔ بدھ ازم کے نظریے کے مطابق، انسان پُنر جنم (re-birth) کے ذریعے لمبا ارتقائی سفر کرتا ہے۔اِس ارتقائی سفر کے دوران وہ ہر قسم کی خواہشوں سے مکت ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ انسانی ارتقا کی آخری منزل پر پہنچ جاتا ہے، جو بدھسٹ نظریے کے مطابق، ابدی سعادت (eternal bliss) کی منزل ہے۔
مگر یہ بدھسٹ ماڈل واضح طور پر انسانی فطرت کے مطابق نہیں۔ انسان ایک باشعور مخلوق ہے۔ انسان کے لیے اعلیٰ یافت وہی ہوسکتی ہے جو شعور کی سطح پر اُس کو ملے، لیکن بدھسٹ ماڈل میں لاکھوں سال کا پورا سفر، اور آخری منزل سب بے شعوری کی حالت میں طے ہوتے ہیں۔ انسان نہ تو حالتِ سفر میں شعوری طورپر اِس عمل (process) سے باخبر رہتا ہے اور نہ وہ سفر کے خاتمے پر شعوری طورپر اس کا تجربہ کرتاہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ بدھسٹ ماڈل انسان کے لیے ناخوش گوار باتوں سے بے خبری کا سُکھ (blissful ignorance) ہے، وہ انسان کے لیے حقیقی معنوں میں مطلوب سعادت نہیں۔
یہودی ماڈل
اس کے بعد یہودی ماڈل (Jewish model) کو لیجئے۔ اِس ماڈل میں اگر چہ پیراڈائز کا تصور موجود ہے، لیکن اس کا نقص یہ ہے کہ موجودہ یہودیت کے مطابق، اس کی بنیاد ایک مخصوص نسل پر رکھی گئی ہے۔ موجودہ یہود یت کا ماننا ہے کہ یہودی نسل ایک منتخب گروہ (chosen people) کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی منتخب گروہ پیراڈائز کا حق دار ہے۔ یہ تصور انسان کی آفاقی فطرت کے بالکل خلاف ہے۔ اِس لیے علمی اعتبار سے وہ درست نہیں قرار پاسکتا۔
مسیحی ماڈل
یہی معاملہ کرسچن ماڈل (Christian model) کا ہے۔ موجودہ مسیحیت میں پیراڈائز کے وجود کو مانا گیا ہے۔ لیکن موجودہ مسیحیت کے مطابق، پیراڈائز کا استحقاق عقیدۂ کفّارہ (atonement) سے جڑا ہوا ہے، یعنی آدمی کی خطا کے بعد تمام انسان پیدائشی طورپر گنہ گار اور پیراڈائز سے محروم ہوچکے ہیں۔ اب پیراڈائز صرف ان عورتوں اور مردوں کے لیے ہے، جو اِس عقیدے کو مانیں کہ مسیح مصلوب ہو کر اُن کی طرف سے ان کے تمام گناہوں کا کفّارہ بن گئے ہیں۔
موجودہ مسیحیت کا یہ تصور بھی انسانی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پیدائشی گناہ (original sin) کا نظریہ ایک فلسفیانہ نکتہ تو ہوسکتا ہے، لیکن وہ انسان کی فطرت کے اعتبار سے بالکل اجنبی ہے۔ انسان کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ جو شخص کوئی بُرا عمل کرے، وہی اپنے عمل کی سزا بھگتے۔ گناہ کوئی اور شخص کرے اور اس کی گنہ گاری پیدائشی طور پر کسی اور شخص تک پہنچ جائے، یہ وراثتی گنہ گاری (hereditary sin) ہے۔ اور ورثتی گنہ گاری کا نظریہ انسانی فطرت سے ہر گز مطابقت نہیں رکھتا۔
تہذیبی ماڈل
اِسی طرح ایک ماڈل وہ ہے جس کو تہذیبی ماڈل (civilizational model) کہاجاسکتا ہے۔ تہذیب (civilization) سے مراد ہے — سماجی ترقی کا برتر مرحلہ:
An advanced stage or system of social development.
موجودہ زمانے میں جب تہذیبی ترقی یہاں تک پہنچی کہ نئی قسم کی ٹکنالوجی اور نئی قسم کی ترقی انسان کی دست رس میں آگئی، تو یہ سمجھا جانے لگا کہ اب پیراڈائز کے لیے ایک اور دنیا کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب اِسی دنیا میں انسان اپنی پیراڈائز آپ بنا سکتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان اب اِس پوزیشن میں ہوگیا ہے کہ وہ اپنی پیراڈائز آپ بنا سکے۔ لیکن جلد ہی یہ خواب منتشر ہوگیا۔ بیسویں صدی عیسوی کے آخر میں پہنچ کر یہ معلوم ہوا کہ پیراڈائز کو تعمیر کرنے والی انڈسٹری اپنے آخری اسٹیج میں پہنچ کر ایک نئے قسم کا جہنم وجود میں لانے کا سبب بن رہی ہے۔ اس نئے جہنم کا نام موجودہ زمانے میں گرین ہاؤس گیس (green house gas) ہے، یعنی دنیا کا ایسی مضر گیسوں سے بھر جانا جس میں انسان کی زندگی ہی ممکن نہ رہے۔
اِس تجربے نے بتایا کہ پیراڈائز کو وجود میں لانے کے لیے بے کثافت انڈسٹری (pollution free industry) درکار ہے، اور تمام تجربات بتاتے ہیں کہ بے کثافت انڈسٹری کو وجود میں لانا انسان کے لیے سرے سے ممکن ہی نہیں۔ اس طرح تہذیبی جنت (civilization paradise) کا نظریہ، پیراڈائز کو وجود میں لانے سے پہلے ہی اپنی آخری ناکامی کے ساتھ ختم ہوگیا۔
بھلاوہ کلچر
پیراڈائز کے معاملے میں ایک اور قسم کا تصور بہت اہم ہے۔ اس کو تمثیل کی زبان میں آسٹرچ پیراڈائز (ostrich paradise) کہاجاسکتاہے۔ یہ اُن لوگوں کا تصور ہے جن کے سامنے پیراڈائز کی بات کہی جائے تو وہ اپنا یہ فارمولاپیش کردیں گے— آج کی بات آج، کل کی بات کل۔ اُن کا کہنا ہے کہ ابھی اور آج جو کچھ مل رہاہے، اُس کو حاصل کرو۔ ایک لفظ میں اُن کا فارمولا یہ ہے:
right here, right now
ان کی زندگی اِس نظریے پر مبنی ہے کہ— محنت سے پیسہ کماؤ اور عیش کی زندگی گزارو:
work, hard, party hard
اِس نظریے کی صحت کو جانچنے کے لیے ہمیں اس کو نتیجہ (result) کے نقطۂ نظر سے دیکھنا ہوگا، اور جب نتیجے کے پہلو سے اِس نظریے کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں۔ جولوگ اِس قسم کے الفاظ بولتے ہیں، وہ خود اِس کا مثبت نتیجہ حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ بظاہر یہ خوب صورت الفاظ ہر ایک کے لیے صرف منفی نتیجہ لے کر سامنے آئے ہیں۔
اِس قسم کے لوگ زیادہ پیسہ کماتے ہیں، مگر زیادہ پیسہ صرف ان کے لائف اسٹائل اور ان کی غذائی عادت (food habit) کو بگاڑ دیتا ہے، جس کے نتیجے میں شوگر، بلڈ پریشر اور کینسر جیسی مہلک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ زیادہ پیسہ کما کر یہ لوگ اپنا اسٹریس (stress) دور کرنے کے لیے آؤٹنگ پر جاتے ہیں، لیکن جب وہ اپنی آؤٹنگ سے لوٹتے ہیں تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک نیا مسئلہ ہالی ڈے اسٹریس (holiday stress) کی صورت میں لے کر واپس آئے ہیں۔
زیادہ پیسہ کما کر وہ اپنی شاپنگ کو بڑھاتے ہیں، لیکن اُس کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ سطحی چیزوں میں اپنی مشغولیت کی وجہ سے اُس چیز سے محروم ہوجاتے ہیں، جس کو اعلیٰ سوچ (high thinking) کہاجاتاہے۔ زیادہ پیسہ کما کر وہ لَو افئر (love affair) کا کلچر چلاتے ہیں، لیکن اس کا نتیجہ برعکس طورپر ہیٹ افئر (hate affair) کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کا آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے لوگ فیملی لائف کی خوشی سے یک سر محروم ہو کر رہ جاتے ہیں، وغیرہ۔
بالفرض اِس قسم کا کوئی انسان اپنے نظریے کے منفی انجام سے بچ جائے، تب بھی یہ واقعہ تو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ لازمی طور پر پیش آتا ہے کہ وہ سو سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی بوڑھا ہو کر بستر پر پڑجاتا ہے اور اس کا انجام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اسپتال میں داخل ہوجائے اور پھر اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک دن اِس دنیا سے چلا جائے۔
اِس کی ایک مثال 12 جنوری 2008 کے اخبارات میں سامنے آئی ہے۔ نیوزی لینڈ کے سرایڈمنڈ ہیلیری نہایت طاقت ور انسان تھے۔ جب وہ کوہ پیمائی کرتے ہوئے دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ایورسٹ (Everest) پر پہنچ گئے تو ساری دنیا کے اخباروں میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ یہ خبر چھپی۔ وہ فاتحِ ایورسٹ کہے جانے لگے۔ جب انھوںنے ایورسٹ کی چوٹی پر قدم رکھا تھا تو اس وقت اُن کی زبان سے یہ پُر فخر الفاظ نکلے تھے:
To my great delight, I realized we were on top of Mount Everest and the whole world spread out below us. (The Times of India, New Delhi, January 12, 2008, p. 12)
لیکن 11 جنوری 2008 کو جب 88 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا تو وہ اسپتال کے بستر پر ایک نہایت کم زور انسان کی حیثیت سے پڑے ہوئے تھے اور ان کے سامنے اس کے سوا کوئی اور انتخاب(option) نہ تھا کہ موت کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے وہ اپنے تمام اثاثے اور اپنی تمام تمناؤں کے ساتھ اِس دنیا کو چھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں چلے جائیں، جس کا سامنا کرنے کے لیے اُن کے پاس بظاہر کچھ بھی موجود نہ تھا۔
قرآنی ماڈل
اب پیراڈائز کے بارے میں قرآنی ماڈل (Quranic model) کو لیجئے۔ اِس معاملے میں قرآن کا ماڈل، خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) پر مبنی ہے۔ قرآن کے مطابق، خداوندِ عالم کا تخلیقی پلان اور پیراڈائز دونوں ایک دوسرے سے پوری طرح جُڑے ہوئے ہیں۔ اِسی لیے قرآن کے مطابق، پیراڈائز کے معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو خداوندِ عالم کے تخلیقی پلان کی روشنی میں سمجھا جائے۔
قرآن، خدا کی کتاب ہے۔ وہ پوری طرح اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔ قرآن کے مطابق، خدا نے انسان کو بنایا اور اس کو موجودہ زمین پر آباد کیا۔ یہ آباد کاری بطور امتحان تھی، نہ کہ بطور انعام، یعنی یہ آبادکاری اِس لیے تھی کہ دنیا کی عارضی زندگی میں انسان اپنے آپ کو پیراڈائز کا اہل ثابت کرے اور پھر موت کے بعد آنے والی اگلی دنیا میں اس کو اس کے عمل کے مطابق، پیراڈائز میں بسایا جائے۔
اِس اعتبار سے موجودہ دنیا گویا کہ ایک انتخابی میدان(selection ground)ہے۔ یہاں آدمی کو مختلف قسم کے احوال میں رکھ کر جانچا جارہا ہے کہ کون اپنے عمل سے اِس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہے۔ جو لوگ اِس جانچ میں پورے اتریں، ان کو منتخب کرکے جنت کی ابدی دنیا میں داخل کردیا جائے گا۔ اور جو لوگ اِس جانچ میں ناکام ہوگئے، اُن کو ابدی طورپر کائنات کے کوڑے خانے (جہنم) میں ڈال دیا جائے گا۔
قرآن کے مطابق، یہ جنت ابدی ہوگی اور اِسی کے ساتھ ایک معیاری اور آئڈیل جنت۔ یہاں یہ ممکن ہوگا کہ انسان ہر قسم کے خوف اور ہر قسم کے حزن سے بچ کر زندگی گزارے۔ جنت کی یہ دنیاہر قسم کے ناموافق حالات (disadvantages) اور ہر قسم کی محدودیت (limitations) سے خالی ہوگی۔ یہاں انسان وہ سب کچھ پالے گا جس کی تمنا وہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔
جنت کی اِس دنیا میںآدمی کی تمام خواہشیں (desires) پوری ہوں گی۔یہاں اُس کو مکمل فلفل مینٹ (fulfilment) حاصل ہوگا۔ موجودہ دنیا میں بھی اگر چہ تمام اچھی چیزیں موجود ہیں، لیکن یہ دنیا ایک غیر معیاری دنیا (imperfect world) ہے، جب کہ جنت کی دنیا ہر اعتبار سے ایک معیاری دنیا (perfect world) ہوگی۔ جنت کی دنیا میں نہ شور ہوگا اور نہ کسی قسم کی کثافت۔ یہ دنیا ہر قسم کی منفی باتوں سے خالی ہوگی۔موجودہ دنیا ایک ناقص دنیا ہے، اور جنت ایک کامل دنیا ہوگی۔ اور کسی معاملے میں ناقص نمونے کا وجود میںآنا، اپنے آپ اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کامل نمونہ بھی وجود میں آسکتا ہے۔ یہی ہے جنت کا قرآنی ماڈل۔ یہ ماڈل بلا شبہہ فطرت کے تقاضے سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ وہ تمام متعلق مظاہر سے مطابقت (corroborate) کر رہا ہے۔
پیراڈائز کے قرآنی ماڈل کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اُس میں آدمی کامل شعور کے ساتھ اور اپنے مائنڈ کی اعلیٰ ترقیاتی سطح پرجئے گا۔ یہ جنت انسان کے لیے نہ کوئی محدود دنیا ہوگی اور نہ ایسا ہوگا کہ وہ شعور سے کم تر کسی سطح پر اُس کو حاصل ہوگی۔
پیراڈائز کے بارے میں قرآنی ماڈل کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ کوئی پراسرار (mysterious) جگہ نہیں ہوگی، بلکہ وہ ہماری دنیا جیسی ایک جگہ ہوگی۔ قرآن میںواضح طورپر بتایا گیاہے کہ جنت میں وہ تمام اچھی چیزیں اہلِ جنت کو ملیں گی، جو اُنھیں دنیا کی زندگی میں ملی تھیں، مگر یہ تمام چیزیں نہایت اعلیٰ صورت میں ہوں گی۔ اِسی طرح جنت میں اس کے باشندوں کو ہر قسم کی سرگرمیوں کا موقع ہوگا، مگر یہ سرگرمیاں اوّل سے آخر تک پُرکیف ہوں گی۔ وہاں نہ کوئی بورڈم ہوگا اور نہ کوئی تکان۔ مزید یہ کہ دنیا میں آدمی چیزوں سے محظوظ ہونے کی بہت کم طاقت رکھتاہے۔جنت میں ایسا ہوگا کہ وہاں کے باشندوں کو چیزوں سے انجوائے کرنے کی لامحدود طاقت حاصل ہوگی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ پیراڈائز کے قرآنی ماڈل میںانسان، خدا کے پڑوس میں رہنے کا موقع پالے گا، جو کہ ہر قسم کی خوبیوں اور ہر قسم کے کمالات کا اتھاہ خزانہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

اعتماد کی اہمیت

سماجی زندگی میں اعتماد (trust) کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ یہ کسی آدمی کے لیے بہت بڑا سرمایہ (asset) ہے کہ وہ لوگوں کی نظر میں قابلِ اعتماد بن جائے۔ اِس قسم کا اعتماد کسی انسان کو بہت دیر میں حاصل ہوتا ہے۔ لمبے تجربات کے بعد ہی کسی شخص کو یہ درجہ ملتا ہے کہ وہ لوگوں کی نظرمیں ایک قابلِ اعتماد انسان بن سکے۔
کچھ لوگوں کا یہ مزاج ہوتاہے کہ وہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر پیسہ کمانا چاہتے ہیں، وہ جھوٹ بول کر لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی میں کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ بڑی کامیابی ہمیشہ سچائی کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے۔ دھوکا ایک بار کام آسکتا ہے، لیکن سچائی ہزار بار کام آتی ہے۔ دھوکے کی حد ہے، مگر سچائی کی کوئی حد نہیں۔
جو لوگ خوش نما باتیں کرکے پیسہ کمانا چاہتے ہیں، وہ بہت جلد لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہوجاتے ہیں۔ آخر کار اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ لوگ ان کی باتوں پر بھروسہ نہیں کرتے، لوگ اُن سے معاملہ (dealing) کرنا چھوڑ دیتے ہیں، لوگوں کو ان کی باتوں پر یقین نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ چند بار کچھ حاصل کرلیتے ہیں، لیکن بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اُن سے کٹ جاتے ہیں۔ اِس قسم کے انسانوں کے متعلق لوگوں کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ اِن سے دور رہو۔
کامیابی کیا ہے۔ کامیابی ہمیشہ دوسروں کی قیمت پر ہوتی ہے۔ دوسروں سے فائدہ اٹھانے ہی کا دوسرا نام کامیابی ہے۔ لیکن دوسروں سے فائدہ اٹھانا، صرف اُس کے لیے ممکن ہوتا ہے جو خود بھی دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ دوسروں سے فائدہ لینا ہمیشہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے بعد ہی ممکن ہوتاہے۔ یہ ایک دو طرفہ (bilateral) معاملہ ہے۔ جو آدمی دوسروں کوکوئی حقیقی فائدہ نہ پہنچائے اور یک طرفہ طورپر (unilaterally) وہ خود دوسروں سے فائدہ لینا چاہے، اس کے لیے اِس دنیا میں صرف یہ انجام مقدر ہے کہ وہ کبھی کامیابی اور ترقی حاصل نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

تجارت کا اصول

انڈیا کے ایک مسلم نوجوان کا واقعہ ہے۔ انھوں نے شہر میں ایک دکان کھولی۔ وہ وہاں بیٹھنے لگے۔ ایک دن اُن کے دادا اُن کی دکان پر آئے۔ اُس وقت مذکورہ نوجوان اپنی دکان پر بیٹھے ہوئے ایک کتاب پڑھ رہے تھے۔ اُن کے دادا نے ان کے ہاتھ سے کتاب چھین لی اور کہا— یہ دکان ہے، یہ لائبریری نہیں۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ تجارت کا اصول کیا ہے اور تجارت میں کامیابی کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ جب آدمی تجارت کرے تو تجارت ہی کو وہ اپنا سب کچھ بنا لے، وہ تجارت کے سوا ہر دوسری چیز کو ثانوی (secondary) بنا دے۔ یورپ میں مقیم ایک کامیاب تاجر نے اپنے بارے میں کہا کہ جب میں اپنی دکان پر ہوتا ہوں تو اُس وقت میں دوسری ہر چیز کو بھول جاتا ہوں۔ اُس وقت دکان ہی میرا سول کنسرن (sole concern) بن جاتی ہے۔
علم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ — علم تم کو اپنا جز صرف اُس وقت دیتا ہے، جب کہ تم اپنا سب کچھ اُسے دے دو (العلم لا یعطیک جزئَ ہ، حتی تعطیہ کُلَّک)۔ یہ بات تجارت کے بارے میں مزید اضافے کے ساتھ درست ہے۔ علم کو اگر آپ اپنا سب کچھ نہ دیں تو آپ کو صرف جزئی نقصان ہوگا، اور اگر آپ تجارت کو اپنا سب کچھ نہ دیں تو آپ کا سارا سرمایہ ہی ختم ہوجائے گا۔
قدیم زمانے میں، تجارت صرف ایک سادہ کاروبار کی حیثیت رکھتی تھی۔ اُس وقت کوئی شخص جزئی عمل کرکے بھی تاجر بن سکتا تھا، لیکن موجودہ زمانے میں تجارت ایک پیچیدہ کام بن چکی ہے۔ اب تجارت میں کامیابی کے لیے صرف جزئی عمل کافی نہیں۔ موجودہ زمانے کی تجارت اُس میں کلّی شرکت کے بغیر ممکن نہیں، یہ اصول چھوٹے تاجروں کے لیے بھی ہے اور بڑے تاجروں کے لیے بھی۔ جو آدمی تجارت کی اِس شرط کو پورا نہ کرسکتا ہو، اُس کو چاہیے کہ وہ ہر گز تجارت نہ کرے۔ وہ کوئی دوسرا معاشی کام کرے۔ مثلاً کسی ادارے کی ملازمت، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

اچانک ترقی، تدریجی ترقی

اکثر نوجوانوں کا یہ ذہن ہوتا ہے کہ انھیں کوئی ایسا شارٹ کٹ (shortcut) مل جائے جس کے ذریعے وہ اچانک کوئی بڑی ترقی حاصل کرلیں، لیکن حقیقی دنیا میں ایسا کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں۔ چناں چہ ایسے نوجوانوں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی کوئی بڑی ترقی حاصل نہیں کرپاتے۔ اُن کو حقیقت کا علم صرف اُس وقت ہوتا ہے جب کہ اُن کے لیے کام کرنے کا وقت ختم ہوگیا ہو۔ اِسی حقیقت کو ایک شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
زیست کا راز کھلا، گردشِ ایام کے بعد اِس کہانی کا تو آغاز تھا، انجام کے بعد
فطرت کے قانون کے مطابق، اِس دنیا میں کوئی بڑی ترقی صرف تدریجی (gradual) طور پر حاصل ہوتی ہے۔ آدمی کو ابتدا میں معمولی کامیابی پر راضی ہونا پڑتا ہے۔ اِس کے بعد وہ دھیرے دھیرے ترقی کرتے ہوئے بڑی کامیابی تک پہنچتاہے۔ اِس دنیا میں ہر ترقی سے پہلے معمولی کامیابی ہے اور آخر میں بڑی کامیابی۔
ہر نوجوان کو یہ جاننا چاہیے کہ خداکی بنائی ہوئی یہ دنیا اس کی امنگوں (ambitions) پر نہیں چل رہی ہے، بلکہ وہ خود اپنے قوانین پر چل رہی ہے۔ اِس دنیا میں کسی شخص کے لیے کامیابی اور ترقی کا صرف ایک ہی فارمولا ہے، وہ یہ کہ آدمی فطرت کے قانون کو جانے اور اس سے مطابقت کرتے ہوئے وہ آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ اِس کے سوا ہر دوسرا فارمولا بے بنیاد ہے، وہ کسی شخص کو کسی حقیقی انجام تک پہنچانے والا نہیں۔ درخت ہمیشہ بیج سے شروع ہوکر بڑا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اچانک اس کو بڑے بڑے درختوں کا باغ حاصل ہوجائے تو ایسی چھلانگ اِس دنیا میں ممکن نہیں۔ درخت کا سفر جب بھی شروع ہوگا، بیج سے شروع ہو گا ، نہ کہ پورے درخت سے۔ یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔ انسان بھی اِس دنیا میں درخت کے مانند بڑھتا ہے۔ درخت گویا کہ فطرت کی طرف سے ایک مظاہرہ (demonstration) ہے جو بتاتا ہے کہ ترقی چاہنے والوں کو ترقی کا سفر کس طرح طے کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

ترجیح کا مسئلہ

ایک تعلیم یافتہ مسلمان اپنے بچوں کے ساتھ یورپ کے ایک ملک میں رہتے ہیں۔ ایک بار وہ اپنے بچوں کو لے کر دہلی آئے۔ انھوںنے کہا کہ میں الرسالہ کا قاری ہوں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کی صحبت میں بیٹھ کر آپ سے مزید کچھ سیکھوں، مگر اگلے دن وہ کئی دنوں کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ چلے گئے، تاکہ اُنھیں تاریخی عمارات اور یادگاریں دکھائیں۔ میں نے اِ س کا سبب پوچھا تو انھوںنے مسکراتے ہوئے کہا کہ میرے بچے میرے بغیر انجوائے (enjoy) نہیں کرسکتے، اس لیے مجھے اُن کے ساتھ جانا پڑا۔یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام والدین کا حال ہے۔اِن والدین میں کچھ وہ ہیں جو اعلان کے ساتھ سیکولر ہیں۔ کچھ دوسرے لوگ ہیں جو بہ ظاہر دین دار ہیں، لیکن دین ان کی ترجیح (preority) نہیں۔ جب بھی دین اور فیملی کے درمیان کسی اکی کا چوائس (choice) لینے کا سوال ہوتا ہے تو فوراً اُن کی فیملی ان کا چوائس بن جاتی ہے۔ ایسے موقع پر وہ دین کو اُسی طرح بھول جاتے ہیں، جیسے کہ وہ اُن کی فہرست حیات میں شامل ہی نہیں۔
اِسی کا نام اولاد پرستی ہے، اور اِس اولاد پرستی میں باریش لوگ بھی اتنا ہی مبتلا ہیں، جتنا کہ بے ریش لوگ۔ بے ریش گروہ اور باریش گروہ کے درمیان ظاہر کے اعتبار سے ضرور فرق ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان بظاہر کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔فطرت کی تقسیم میں والدین کو اپنے بچوں کا ’’امام‘‘ بننا تھا، لیکن عملاً وہ خود اپنے بچوں کے ’’مقتدی‘‘ بنے ہوئے ہیں۔
قرآن میں اولاد کو فتنہ (8: 28) بتایاگیا ہے، یعنی آزمائش (test) کا ذریعہ۔ اولاد فتنہ کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اولاد کے لیے اُن کے دل میں بہت زیادہ محبت ہوتی ہے۔ اِس بڑھی ہوئی محبت کی بنا پر اولاد اپنے والدین کے لیے فتنہ بن جاتی ہے۔ اِس معاملے میں آزمائش یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کے حق میں اپنی بڑھی ہوئی محبت کو کنٹرول کریں۔ وہ ایسا نہ کریں کہ اولاد کے ساتھ اپنی محبت کو عذر (excuse) بنائیں، بلکہ وہ یہ کریں کہ اس فطری تعلق کے باوجود وہ اپنی محبت کو خدا کے لیے خاص کردیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
میرے تجربہ کے مطابق، امریکا کے مسلمانوں میں آج کل ایک لفظ بہت زیادہ رائج ہے، وہ ہے— اہلِ سنت والجماعت۔ اس لفظ کا مفہوم اُن کے نزدیک یہ ہے کہ مسلم ملت عمومی طورپر جس مسلک پر قائم ہے، وہ درست مسلک ہے۔ براہِ کرم واضح فرمائیں کہ اہلِ سنت والجماعت سے کیا مراد ہے۔ اور کیا اہلِ سنت والجماعت کا مذکورہ مفہوم درست ہے۔ (خواجہ کلیم الدین، امریکا)
جواب
اہلِ سنت والجماعت کا مذکورہ مفہوم درست نہیں۔ ذیل میں اِس سوال کی مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’أہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کا لفظ پہلی بار عبد اللہ بن عباس نے استعمال کیا( تفسیر ابن کثیر، جلد 1، صفحہ 390) ۔ ’’الجماعۃ‘‘ کے بارے میں مزید یہ کہاگیا ہے کہ اس سے مراد ایک بڑا مجموعہ نہیں، بلکہ اِس سے وہ لوگ مراد ہیں جو حق پر قائم ہیں، حتی کہ اگر صرف ایک شخص بھی حق پر قائم ہے تو وہ حدیث میں بیان کردہ ’’الجماعۃ‘‘ کا مصداق ہے۔ ابن مسعود نے فرمایا ہے : ’’الجماعۃ: ما وافق الحق إن کنتَ وحدک‘‘۔ ’’ولو کان التمسک شخصاً واحداً‘‘ (إغاثۃ اللہفان لابن قیم الجوزیۃ، 1/69 )
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل السنۃ والجماعۃ سے مراد وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: ما أنا علیہ وأصحابی، یعنی صحابہ اور دوسرے وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی سچی پیروی کرنے والے ہیں، یعنی متبعینِ سنت اور اصحابِ رسول۔
سوال
حق کی معرفت کے لیے کیا صرف مطالعہ کی کثرت کافی ہے یا اِس کے لیے کوئی ا ور چیز درکار ہے۔ براہِ کرم ، اس سوال کی وضاحت فرمائیں ۔(عدنان خان، نئی دہلی)
جواب
میں کچھ ایسے افراد سے واقف ہوں جو حق کے متلاشی (seeker) تھے۔ انھوںنے بہت زیادہ مطالعہ کیا، بلکہ وہ ساری عمر مطالعہ ہی کرتے رہے۔ مگر بیش تر لوگ حق تک نہ پہنچ سکے، وہ کنفیوژن کا شکار ہو کر رہ گئے۔اپنے تجربے سے میں نے یہ جانا ہے کہ زیادہ مطالعے کا پلس پوائنٹ بھی ہے اور مائنس پوائنٹ بھی۔ اگر آدمی کے اندر تجزیہ (analysis) کی صلاحیت ہو، تو اس کا زیادہ مطالعہ اُس کو سچائی تک پہنچا دے گا۔ اور اگر اس کے اندر تجزیہ کی صلاحیت نہ ہو، تو اُس کا زیادہ مطالعہ صرف اس کے کنفیوژن میں اضافہ کرے گا۔مجھے ایک ایسے شخص کا علم ہے جس نے بہت زیادہ مطالعہ کیا اور پھر وہ سچائی تک پہنچا، کیوں کہ اس کے اندر تجزیہ کی صلاحیت تھی۔ یہ ایک بنگالی ہندو، ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیاتھے۔ انھوں نے گہرے مطالعے کے بعد اسلام قبول کرلیا۔ اِس کے برعکس مثال، ڈاکٹر رادھا کرشنن کی ہے۔ انھوںنے بہت زیادہ مطالعہ کیا، لیکن وہ سچائی تک نہ پہنچ سکے۔ آخر میں ان کا حافظہ ختم ہوگیا تھا، وہ کسی کو پہچانتے نہ تھے۔ اُن کا کیس میڈنیس (madness) کا کیس بن گیا۔ اِسی حال میں وہ مرگئے۔ ان کا یہ حال اِس لیے ہوا کہ ان کے اندر تجزیہ کی صلاحیت نہ تھی۔ میں نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں۔ ان کی انگریزی بہت اچھی تھی، لیکن اِن کتابوں میں کنفیوژن کے سوا اور کچھ نہیں۔
سوال
پاکستان کے بعض علماء اور مجاہدین کا کہنا ہے کہ حدیث میں مذکور ’’غزوۂ ہند‘‘ کی روایت سے مراد انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ ہے۔ براہِ کرم، اِس روایت کے الفاظ اور اس کے مفہوم کو واضح فرمائیں (بلال احمد، پاکستان)۔
جواب
یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ سنن البیہقی کے متعلق الفاظ یہ ہیں: عصابتان من أمتی أحرزہما اللہ من النار: عصابۃ تغزو الہند (السنن الکبری للبیہقی، رقم الحدیث: 17118) یعنی میری امت کے دو گروہ ہیں جن کو اللہ نے آگ سے بچالیا ہے—ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جو ہند میں غزوہ کرے گا۔
یہ بات بلاشبہہ درست ہے کہ پاکستان کے بعض انتہا پسند لوگ اپنی اُس لڑائی کو اِس روایت کا مصداق سمجھتے ہیں جو انھوںنے انڈیا کے خلاف چھیڑ رکھی ہے۔ مگر یہ سرتا سر ایک بے بنیاد بات ہے۔ پاکستانی لیڈروں نے 1947 سے پہلے دو قومی نظریے کے نام پر ہندوؤں سے نظریاتی لڑائی چھیڑی، مگر وہ اِس میں ہار گئے۔ تقسیم کے بعد جو پاکستان اُن کو ملا، اُس کو قائد پاکستان مسٹر محمد علی جناح نے کٹا پھٹا پاکستان (truncated Pakistan) کہاتھا۔ اِس کے بعد پاکستان نے بار بار انڈیا سے لڑائی کی، مگر وہ ہر بار ناکام رہا— 1948 میں قبائل کے ذریعے کشمیر پر حملہ، 1965 میں باقاعدہ ہندستان پر حملہ، 1971 میں بنگلہ دیش کی لڑائی، اس کے بعد 1999 میں کارگل کی لڑائی، نیز کشمیر میں 1971 کے بعد سے مسلسل طورپر، پراکسی وار(proxy war) کا جنگی سلسلہ جو اب تک جاری ہے۔ اِن تمام جنگوں میں انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کو مکمل طورپر شکست ہوئی۔
اِس لمبے تجربے سے دو بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے— ایک، یہ کہ اِس حدیث میں ’’غزوۃ‘‘ سے مراد مسلح جنگ نہیں ہے۔ اگر اِس سے مراد مسلح جنگ ہوتی تو مذکورہ جنگ میں مسلمان ضرور کامیاب ہوجاتے۔ دوسری بات یہ کہ اِس حدیث میں ’’عصابۃ‘‘ سے مراد پاکستانی لوگ ہرگز نہیں ہوسکتے۔ کیوںکہ پاکستانی لوگ انڈیا کے خلاف بار بار اقدام کے باوجود یک طرفہ طورپر شکست کھارہے ہیں۔ اِس سے ثابت ہوتاہے کہ اِس معاملے میں پاکستان کو اللہ کی نصرت حاصل نہیں۔
سوال
علماء اور اہلِ مدارس کے لیے الرسالہ مشن کی اہمیت کیا ہے۔ براہِ کرم، اِس کو واضح فرمائیں (مولانا سید اقبال احمد عمری، عمر آباد، تمل ناڈو)۔
جواب
جدید تعلیم یافتہ طبقے کے علاوہ، ہمارے دعوتی مشن کے اصل مخاطب علماء اور مدارسِ عربیہ کے لوگ ہیں، کیوں کہ امکانی طورپر وہ قرآن اور حدیث پر مبنی مشن کے لیے تیار ذہن (prepared mind) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس کی شرط صرف ایک ہے، وہ یہ کہ مدارسِ عربیہ کے لوگ اپنی ڈی کنڈیشننگ کرسکیں۔ سیکولر اداروں میں پڑھے ہوئے لوگ ہمارے دعوتی مشن کو بھر پور طور پر سمجھ نہیں سکتے۔ وہ اُن اصطلاحوں سے مانوس نہیں ہوتے جن میں ہم کلام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ گہرے علمی اور خالص دینی موضوعات پر میں صرف ان لوگوں سے گفتگو کرپاتا ہوں جن کا تعلیمی بیک گراؤنڈ عربی ہو۔ کیوں کہ جن لوگوںکا تعلیمی بیک گراؤنڈ عربی نہ ہو، اُن سے دینی موضوعات پر بات کرتے ہوئے ان کی ایک حد آجاتی ہے اور ان سے گفتگو جاری نہیں رہ پاتی۔اہلِ مدارس کی ڈی کنڈیشننگ کیا ہے، وہ اصلاً صرف ایک ہے، یہ کہ وہ شخصیت پرستی کے خول سے باہر آجائیں۔ وہ چیزوں کو اپنے اکابر کے بجائے اصول کی حیثیت سے دیکھنے لگیں۔ اہلِ مدارس اگر ایسا کرسکیں تو اُن کے لیے اعلیٰ معرفت کا دروازہ پوری طرح کھل جائے گا۔ اہلِ مدارس کو دوسروں کے مقابلے میں، دوچیزیں خصوصی طورپر حاصل رہتی ہیں— ایک، حقائقِ دینیہ سے مانوس ہونا۔ اور دوسرے اصطلاحاتِ دینیہ سے آشنا ہونا۔
مزید یہ کہ حدیث کے مطابق، ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو (أن یکون بصیرا بزمانہ)۔ علماء اور اہلِ مدارس، دینی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے باعث، اسلام کے روایتی علم سے آشنا ہوتے ہیں۔ لیکن عام طورپر وہ اُس صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں جس کو مذکورہ حدیث رسول میں ’’بصیرتِ زمانہ‘‘ کہاگیا ہے، یعنی اپنے زمانے سے باخبر ہونا۔ ایسی حالت میں علماء اور اہلِ مدارس کے لیے ضروری ہے کہ وہ الرسالہ مشن کے تحت تیار کردہ لٹریچر کا مطالعہ کریں۔ کیوں کہ یہ لٹریچر بصیرتِ زمانہ کی اِسی کمی کی تلافی کے لیے تیار کیا گیاہے۔
سوال
مسلم امت کے بحران کے موضوع پر ایک کتاب نگاہ سے گزری۔ میںنے اِس کتاب کو کئی بار پڑھا، مگر اِس کتاب میں متعین طورپر نہ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کیاچیز ہے جس کو ’’امت کا بحران‘‘ کہاجاتاہے، اور نہ اِس بحران کا کوئی متعین لائحہ عمل اِس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔ پوری کتاب بیانیہ انداز میں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصنف متعین زبان (specific language) میں کلام کرنا جانتے ہی نہیں، وہ صرف طویل اِدّعائی اسلوب کلام سے واقف ہیں۔موجودہ زمانے میں امت کا بحران کیا ہے اور اس بحران سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے، براہِ کرم، اس سوال کی وضاحت فرمائیں۔ (ابوالحکم محمد دانیال، پٹنہ)
جواب
مسلم امت کا بحران موجودہ زمانے کا ایک اہم موضوع ہے۔ اِس موضوع کی تحقیق اور اس کی درست توجیہہ ہی کے ذریعے یہ ممکن ہے کہ دورِ جدید میں امت کے لیے صحیح لائحہ عمل (line of action) متعین کیاجائے۔ اِس لحاظ سے یہ موضوع، احیائِ امت کے لیے بنیادی موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ مسئلہ (problem) زندگی کا لازمی جز ہے۔ جب مسئلہ پیدا ہواور آپ بروقت اس کا درست حل دریافت کرلیں تو مسئلہ آپ کے لیے مسئلہ نہیں رہے گا، بلکہ وہ عملاً آپ کے سفرِ ترقی کا نیا زینہ بن جائے گا۔ اِس کے برعکس، اگر آپ مسئلے کا درست حل دریافت کرنے میں ناکام رہیں تو مسئلہ آپ کے لیے ایک غیر حل شدہ مسئلہ (unsolved problem) بن جائے گا۔ غیر حل شدہ مسئلے سے پیدا ہونے والی اِسی صورت حال کا دوسرا نام بحران (crisis) ہے۔
مسلم امت کے موجودہ بحران کی اصل جڑ یہ ہے کہ دورِ جدید میں مغربی قوموں کی طرف سے اُس کو نئے قسم کے چیلنج پیش آئے۔ اپنے قدیم ذہن کی بنا پر مسلم رہنما اِس چیلنج کی نوعیت کو سمجھ نہ سکے اور غیر ضروری طور پر اپنے روایتی ہتھیاروں کے ذریعے اس سے لڑائی شروع کردی۔ طویل قربانی کے بعد جب اُنھیں اِس جنگ میں ناکامی ہوئی تو اب وہ آخری چارۂ کار کے طور پر مفروضہ دشمن کے خلاف خودکش بم باری کرنے لگے۔ اِس کا نتیجہ تباہی میں اضافے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
اب کرنے کا کام یہ ہے کہ ٹکراؤ کی سیاست کو مکمل طورپر موقوف کردیا جائے اور خالص غیرجانب دارانہ انداز میں پورے معاملے کی ازسرِ نو تحقیق کی جائے اور پھر مبنی بر حقیقت لائحہ عمل طے کیا جائے۔ اِس لائحہ عمل کی درستگی کا معیار صرف ایک ہوگا، اور وہ یہ کہ اس پر عمل کرنے سے مثبت نتیجہ برآمد ہونے والا ہو۔ ٹکراؤ کی سیاست کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے مقصدِ اصلی کو بھول گئے ، اور وہ دعوت الی اللہ ہے۔ دعوت الی اللہ مسلم امت کا واحد نشانہ ہے۔ اِسی نشانے کو اختیار کرنے کی صورت میں، اُن کے کام بنیں گے، اور اِس نشانے کو چھوڑنے کی صورت میں، اُن کے تمام کام بگڑ جائیں گے۔ امت کا موجودہ بحران اِسی کا ایک نتیجہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 214

1 - برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ اس ادارے کا نام یہ ہے:
Tony Blair Faith Foundation
اِس ادارے کا صدر دفتر لندن میں ہے۔ اس ادارے کی طرف سے نئی دہلی کے ہوٹل تاج محل میں 27 ستمبر 2011 کو ایک سیمنار ہوا۔ اِس میں تمام مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اورانٹرفیتھ (interfaith) کے موضوع پر انگریزی زبان میں ایک تقریر کی۔ اِس موقع پر مسٹر ٹونی بلیئر اور سیمنار کے دوسرے شرکاء کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
2 - امریکا کے لیے صدر اسلامی مرکز کے ٹیلی فونی خطاب کا سلسلہ جاری ہے۔ پروگرام کی تفصیل درج ذیل ہے:
2 اکتوبر 2011 ، موضوع:Prophetic Guidance for the Modern Man
16 اکتوبر 2011 ، موضوع: Freedom of Conscience in Islam
یہ خطاب آدھ گھنٹے پر مشتمل تھے۔ آخر میں سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس کو امریکا کے مختلف شہروں میں سنا گیا۔
3 ۔ فرینکفرٹ (جرمنی) میں 12-16 اکتوبر 2011 کے درمیان ایک بک فیئر ہوا۔ اِس میں گڈ ورڈ بکس (نئی دہلی) نے حصہ لیا۔ یہاں کافی تعداد میں وزیٹرس آئے۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں یہاں سے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر حاصل کیا۔ اِس موقع پر انگریزی پمفلٹ (The Reality of Life) کا جرمن ترجمہ ایک بک لٹ کی صورت میں لوگوں کو دیاگیا۔یہاں معلوم ہوا کہ پیرس (فرانس) کے پبلشر (Librairie Al-Azhar) کے تحت، صدر اسلامی مرکز کی دو کتابیں —پیغمبر انقلاب ا ور عظمتِ قرآن— فرانسیسی زبان میں شائع ہوچکی ہیں، اور مزید دوسری کتابوں کا فرانسیسی ترجمہ جلد شائع ہونے والا ہے۔
4 - برہما کماری مشن کی طرف سے اس کی 75 ویں جبلی (Platinum Jubilee) کے موقع پر اس کے کئی پروگرام انڈیا اور انڈیا کے باہر کے مقامات پر ہوئے۔اِس سلسلے میں نئی دہلی کے پچھم وہار میں 12 اکتوبر 2011 کو ہوٹل ریڈی سن بلو (Radisson Blu) کے آڈی ٹوریم میں ایک پروگرام ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے کئی افراد کے ساتھ اِس میں شرکت کی اور حسب ذیل موضوع پر ایک تقریر کی:
Spirituality for Universal Brotherhood.
تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ اِس طرح کے تمام دعوتی موقعوں پر سی پی ایس کے ممبران اپنی طرف سے دعوتی لٹریچر خرید کر لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔
5 - مہاویر جینتی کے موقع پر 12 اکتوبر 2011 کو مہاویر کالج (گیتا کالونی، نئی دہلی ) میں وہاں کے طلبا اور اساتذہ کو سی پی ایس دہلی فیلڈ ٹیم کی طرف سے 200 ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا۔
6 - سویڈن (یورپ) میں ایک ادارہ ’’مرکز البحوث الإسلامیۃ‘‘ قائم ہے۔ اس کے ڈائرکٹر عبد الحق الترکمانی ہیں۔ وہ صدر اسلامی مرکز کی تحریروں کے بہت قدر داں ہیں۔ وہ اپنے ادارے سے صدر اسلامی مرکز کی دو کتابیں— تعبیر کی غلطی، اور دین کی سیاسی تعبیر، عربی زبان میں چھاپنا چاہتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ان کا خط یہاں نقل کیا جاتاہے:
العلامۃ والمفکر والبحاثۃ العالمی الکبیر مولانا وحید الدین خان، حفظہ اللہ تعالیٰ ورعاہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
أمّا بعدُ: فإنّی أدعو اللہ تعالیٰ أن تصلکم رسالتی ہذہ وأنتم بخیرٍ وعافیۃ فی الدین والدّنیا، وأن یجزیکم خیراً علی ما بذلتموہ خلال مسیرتکم العلمیّۃ الحافلۃ فی نصرۃ الإسلام، وبیان حقیقۃ التوحید والعبادۃ للّٰہ الواحد الأحد، ونفی الشرک والوثنیۃ۔ وأن یبارک فی عمرکم، ویوفّقکم لما فیہ مرضاتہ من صدق الإیمان وخشیتہ ومراقبتہ والالتزام بأحکام دینہ، ویحسن خاتمتکم علی التوحید والسنۃ۔أنا کاتب وباحث فی العلوم الشرعیۃ۔ أصلی من ترکمان العراق، وقد انتقلت إلی السوید منذ سنۃ (1997)، وأسست ہنا (مرکز البحوث الإسلامیۃ) لخدمۃ العلوم الشرعیۃ والدعوۃ إلی اللہ تعالی۔ إننی معجب جدًّا بکتبکم التی قرأتہا باللغۃ العربیۃ، وأہمہا کتابان، الأول: (التفسیر السیاسی للدین)، والثانی: (خطأ فی تفسیر الدین)؛ فقد قدّمتم للأمّۃ وللأجیال القادمۃ انجازاً علمیًّا وفکریًّا مہماً فی الکشف عن خطر التفسیر الجدید للدین، فأدّیتم بذلک واجبکم أمام اللہ تعالیٰ، وأحسنتم فی النصیحۃ والتحذیر، جزاکم اللہ خیراً، وجعل ما لقیتم من الإساء ۃ من المتعصبین والمتحزِّبین فی میزان حسناتکم، بمنّہ وکرمہ۔إنّ عملکم الموفَّق لم یکن لحدثٍ عابرٍ ولا لشأنٍ عارضٍ، وإنما لقضیَّۃٍ مرکزیَّۃٍ تتعلَّق بدین الأمۃ وعقیدتہا ورسالتہا۔ لہذا فإنّ الحاجۃ إلیہ ما زالت قائمۃ، وستستمرُّ ما بقی التفسیر المنحرف للدین وحقائقہ۔ ومن ہنا فانَّنی أکتب إلی حضرتکم راجیًا منکم منحی إذنًا بطباعۃ ونشر الکتابین باللغۃ العربیۃ۔ وأتعہد لکم بإخراج الکتابین فی طبعۃ أنیقۃٍ، بکلِّ دقّۃٍ وأمانۃٍ، وسأکتفی بکتابۃ مقدمۃ دراسیۃ لکل کتاب۔ وہذا المشروع خیریٌّ دعویٌّ ولیس لہ أیُّ ہدفٍ مادِّی۔ کما أرجو منکم التفضل بتزویدی بآخر طبعۃ من الکتابین باللغۃ الإنکلیزیۃ أو الأردیۃ۔ ویسرنی أن أہدیکم نسخۃ من کتابی: (الدخول فی أمان غیر المسلمین وآثارہ فی الفقہ الإسلامی)۔وتفضلوا بقبول وافر الشکر والتقدیر، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ (عبد الحق الترکمانی)۔ اس خط کے مطابق، مطلوبہ کتابیں موصوف کے پتے پر روانہ کردی گئی ہیں۔
7 - ویٹکن (اٹلی) کے تحت 27 اکتوبر 2011 کو ویٹکن میں حسب ذیل موضوع کے تحت ایک انٹرنیشنل سیمنارہوا : World Day of Prayer for Peace
اس میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو شرکت کی دعوت دی گئی۔صدر اسلامی مرکز کو بھی اِس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ مگر بعض وجوہ سے وہ اس میں شرکت نہ کرسکے۔ البتہ اس موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا مقالہ اور مطبوعہ لٹریچر ان کو بھیج دیا گیاہے۔
-8 ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) اور انگریزی کے دیگر اخبار اور میگزین میں مسلسل صدر اسلامی مرکز کے مضامین شائع ہورہے ہیں۔ یہ تمام مضامین سی پی ایس انٹرنیشنل کے ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں ٹائمس آف انڈیا (16 ستمبر 2011) میں صدر اسلامی مرکز کے شائع شدہ مضمون “How to Eradicate Corruption” پر قارئین کے چند تاثرات نقل کئے جاتے ہیں:
“Very correct and beautifully said. The materialistic way of life has to be modified and education at the early stages should be appropriately programmed.” - Alekhacharan Tripa
“Well said Maulana ji. We live in a society, which is predominantly materialistic. Our materialistic life-style is an impediment to our spiritual evolution. There are myriads of temptations that are all around us which tempt us to corruption...” - Pran Rangan
“Very valid thoughts. An evolved mind will result in evolved actions for the maximum welfare of maximum people - superseding personal whims and fancies. High moral rectitude, in a way, comes naturally to most spiritually aware persons...” - Rupa Anand
“Absolute facts projected in article. Spirituality is individualistic and materialism is a mass activity. Therefore corruption which starts in mind can be stopped only by changing the Mind or the way of thinking of groups and individuals...” - Upendra Solapurkar
“A very thoughtful Blog, indeed! As said rightly by him, corruption can be eradicated by changing the value system in the field of education at school level itself, slowly and steadily.” - Shakuntala Vibhute
“Maulana Wahiduddin Khan has very impressively commented on spirituality for routing out corruption. By that he means genuine spirituality not hypocritical spirituality as is found with many people, politicians and even many spiritual gurus. He has very rightly said, any genuinely spiritual person can be known by his own predictable character as well as concern and empathy for others. This concern and empathy for others in addition to spirituality that can rout out corruption.” - Amiya Kumar Satpat
“To me, there was total clarity. The Message was, do not be passive, try to spread spirituality as much as possible. This will lead to more evolved beings, and corruption will become less and less...” Ramesh Jeswani
9 - قرآن کے انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر کے متعلق قارئین کے چند تاثرات ملاحظہ ہوں:
I am deeply impressed by the logic and explanation of Moulana Wahiduddin Khan. I am postgraduate student of Politics and International Studies. The way he communicates is simple but full of sincerity and compassion. May he live long. I feel great regard for him. We need such kind of human beings on this earth—peace loving! I love such people! (Tasawar Hussain, Endcliffe England)
I am fully engrossed and enjoying every word and message from the Quran. On page 76 now, and looking forward to the rest. Thanks for gifting this wonderful translation of the Quran. I am eternally grateful. (Rock Furtado, Ritan Books, New Delhi)
I belong to such a profession where weeping is cowardice. So, I have such strong nerves that I never became emotional but my eyes became wet perhaps first time in my life when Stuthi Malhotra gave her introduction in “Dawah Meet-Kashmir” on 5th Feb, 2011 and I wept badly on the introduction of Rajat Malhotra. The couple unanimously said that they would not have been in the “Dawah Meet” had Maulana’s thinking been similar to those Muslims who believe that Quran will be disgraced if given to non Muslims. I have similar experience in my own vicinity where highly educated Muslims stopped me from gifting Quran to Non-Muslim students. (Firdous Dar, Sopore, Kashmir)
Today ( September 29, 2011), I attended a conference organized by the Uttrakhand Chapter of Indian Society For Training & Development. The Department of Management Studies [DoMS] of IIT Roorkee was the organizer. I utilized this opportunity for Dawah and some copies of the Quran were given to senior management and Professors from various industries and other institutes including IIT. Almost everybody accepted the Quran with great love, respect and affection. (Sajid Anwar, Head-Manufacturing, Asahi India Glass Ltd.)
واپس اوپر جائیں