Pages

Sunday, 1 July 2012

Al Risala | July 2012 (الرسالہ,جولائی)


خصوصی شمارہ ۔ انسانی تاریخ کی تعبیر

(Interpretation of Human History)
تاریخ کیا ہے، تاریخ گزرے ہوئے ماضی کی سرگزشت کا دوسرا نام ہے۔ تاریخ کے موضوع پر جو کتابیں لکھی جاتی ہیں، وہ عام طور پر گزرے ہوئے واقعات کا ریکارڈ ہوتی ہیں۔ لیکن تاریخ کا ایک ضمنی موضوع وہ ہے جس کو فلسفہ تاریخ (philosophy of history) یا تعبیر تاریخ (interpretation of history) کہا جاتا ہے۔ اِس موضوع کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ انسانی کے واقعات کی ایک ایسی توجیہہ تلاش کی جائے جس میں مختلف واقعات کے درمیان ایک قابلِ فہم ربط دریافت کیاجاسکے۔ تاریخ کے پہلے موضوع (تاریخ نگاری) پر بڑی تعداد میں کتابیں موجود ہیں، لیکن جہاں تک تعبیر تاریخ کے موضوع کا تعلق ہے، اس موضوع پر کوئی ایسی کتاب موجود نہیں جس کو تاریخ کی قابلِ فہم توجیہہ قرار دیا جاسکے۔
اِس کا سبب ڈاکٹر الکسس کیرل نے اپنی کتاب ’’انسان نامعلوم‘‘ (Man the Unknown) میں درست طورپر یہ بتایا ہے کہ تعبیر تاریخ کا موضوع براہِ راست طور پر انسان کی آزادی سے تعلق رکھتاہے۔ انسان قابلِ پیشین گوئی نہیں، اِس لیے اس کے عمل کی کوئی جامع توجیہہ بھی ممکن نہیں۔ ہر انسان آزاد ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے، اِس لیے انسانی تاریخ کی مجموعی تعبیر سخت مشکل کام ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کی تاریخ دو متضاد تقاضوں کے درمیان سفر کرتی ہے۔ اِن دونوں تقاضوں کو آزادی اور جبر (freedom and determinism) کہاجاسکتا ہے۔ میرے علم کے مطابق، کوئی مورخ اِن دو متضاد تقاضوں کے درمیان ربط قائم کرنے کا کوئی اصول دریافت نہ کرسکا، اِس لیے وہ انسانی تاریخ کی کوئی کامیاب تعبیر بھی پیش نہ کرسکا۔
راقم الحروف نے اِس موضوع پر کافی غور وفکر کیا اور تعبیر تاریخ کا اصول دریافت کرنے کی کوشش کی۔ آخر کار مجھے قرآن کی ایک آیت میں یہ اصول دریافت ہوا۔ وہ آیت یہ ہے: وعلی اللہ قصد السبیل ومنہا جائر، ولو شاء لہداکم أجمعین (16: 9) یعنی اللہ کے اوپر ہے (انسانیت کو) صراطِ مستقیم پر قائم رکھنا، اور کچھ راستے منحرف راستے ہیں۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے منصوبۂ تخلیق (creation plan) کے مطابق، انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو مینج (manage) کررہا ہے۔ خدا، انسان کو آزادی بھی دئے ہوئے ہے اور اِسی کے ساتھ وہ اِس کی نگرانی بھی کررہا ہے کہ انسانی قافلہ بھٹک کر صراطِ مستقیم سے بہت دور نہ چلا جائے۔ تاریخ کے بارے میں اِس خدائی اصول کو ایک لفظ میںاِس طرح بیان کیا جاسکتاہے کہ— انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کی تنظیم کرنا:
It is to manage history while maintaining human freedom.
تاریخ اور تعبیر تاریخ
تاریخ سادہ طورپر واقعہ نگاری (narration of events) کا نام ہے۔ تعبیر تاریخ (interpretation of history)کا تعلق فلسفۂ تاریخ سے ہے، یعنی اُن قوانین کو دریافت کرنا جو تاریخ کے عمل میں کام کررہے ہیں۔ اِس سلسلے میں مختلف نظریات پیش کئے گئے ہیں، مگر یہ تمام نظریات محض انسانی قیاس پر مبنی ہیں۔ تاریخ کی صحیح تعبیر وہ ہے جو انسان کے بارے میں خالق کے نقشۂ تخلیق (creation plan)کے مطابق ہو۔
قدیم زمانے میں بادشاہ کو تاریخ کا مرکزی کردار سمجھا جاتا تھا۔ اِس لیے تاریخ عملاً بادشاہوں کی تاریخ بن گئی۔ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے بعد دنیا میں جمہوریت کا دور آیا۔ اب تاریخ کا مرکزی کردار فرد کے بجائے سوسائٹی کو سمجھا جانے لگا۔ اب سماجی افکار کی روشنی میں تاریخ لکھی جانے لگی۔ اِس میں ایک نمایاں نام جرمن مفکر کارل مارکس (وفات: 1883 ) کا ہے۔ مارکس نے تاریخ کا ایک نیا تصور پیش کیا جس کو تاریخی مادیت کہا جاتا ہے۔ یہ تصورِ تاریخ بنیادی طورپر یہ تھا کہ انسان کا شعور تاریخ کی صورت گری نہیںکرتا، بلکہ مادی حالات تاریخ کی صورت گری کرتے ہیں:
The mode of production in material life determines the general character of the social, political, and spiritual process of human life.
تاریخ کا ایک تصور وہ ہے جو نیشن (nation) پر مبنی ہے۔ کسی نیشن کی مختلف سرگرمیوں کے ریکارڈ کو اس کی تاریخ سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً انڈین نیشن کی تاریخ، جرمن نیشن کی تاریخ، وغیرہ۔
ایک اور تاریخی نظریہ وہ ہے جس کو برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (وفات:1975 ) نے پیش کیا۔ اُس نے اِس موضوع پر ایک مکمل کتاب 12 جلدوں میں لکھی جس کا نام یہ ہے:
A Study of History
ٹائن بی نے تاریخ کا یہ تصور پیش کیا کہ تاریخ، تہذیب کے ارتقائی مراحل کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ تہذیبوں کے معمار ہی تاریخ کے معمار ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک زمانے میں رومی تہذیب نے تاریخ سازی کا رول ادا کیا۔ اِس کے بعد مسلم تہذیب، تاریخ ساز تہذیب کی حیثیت سے ابھری۔ اس کے بعد برٹش تہذیب کو تاریخ سازی کا یہ مقام ملا، وغیرہ۔
دوسرا تصورِ تاریخ وہ ہے جس کو مذہبی تاریخ کہا جاتاہے۔ مذہبی تصور تاریخ کو علمی اعتبار سے، کوئی مستند درجہ نہیں ملا، حتی کہ موجودہ زمانے میں اس کو بالکل ناقابلِ حوالہ سمجھ لیا گیا۔انسائکلو پیڈیا برٹینکا کے مقالہ نگار (Patrick Lancaster Gardinar)نے اپنے مقالہ فلسفۂ تاریخ (Philosophy of History) کے تحت لکھاہے کہ — مذہبی اور مابعد الطبیعی قیاسات کی روشنی میں، انسانی تقدیر کے معاملات کی تعبیر کا دور، جدید مورخین کے نزدیک، اب ختم ہوچکا ہے:
The age of religious and metaphysical conjectures concerning the destiny of human affairs had, in their opinion, come to a close (EB. 8/962, 1974)
یہ بات بلا شبہہ بے بنیاد ہے۔ یہ بات اُسی طرح غیر علمی ہے جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کا دور ختم ہوگیا (God is dead) ، یا یہ کہ پیغمبر کی وحی صرف ایک شاعرانہ تجربہ (poetic experience) تھی، یا یہ کہ مذہب کی کوئی بنیاد نہیں، وہ صرف ایک سماجی ظاہرہ (social phenomenon) ہے، وغیرہ۔
خدا کا منصوبۂ تخلیق
اللہ نے ایک معیاری دنیا بنائی۔ یہ دنیا ہر اعتبار سے ایک پرفکٹ دنیا تھی۔ اللہ نے یہ مقدر کیا کہ اِس معیاری دنیا میں ایسے افراد بسائے جائیںجو ہر اعتبار سے معیاری انسان ہوں۔ اِس مقصد کے لیے اللہ نے انسان کو پیدا کرکے اس کو سیارہ ارض پر آباد کیا۔ اس نے انسان کو مکمل آزادی عطا کی۔ موجودہ دنیا اِس منصوبے کے لیے ایک سلیکشن گراؤنڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ تاریخ کے خاتمے پر یہ ہوگا کہ آزادی کا غلط استعمال کرنے والے افراد رد کردئے جائیں گے اور جن افراد نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا، اُن کو منتخب کرکے اُنھیں جنت میںآباد کردیا جائے گا۔ جنت کے تصور کو ملحد مفکرین انسانی تمناؤں کی خوب صورت نظریہ سازی (beautiful idealization of human wishes) کا نام دیتے ہیں۔ مگر زیادہ صحیح یہ ہے کہ جنت کے تصور کو انسانی تاریخ کی خوب صورت تعبیر (beautiful interpretation of human history) کہا جائے۔
یہ ایک پیچیدہ منصوبہ ہے۔ اِس کا ایک جُز یہ ہے کہ انسان کی آزادی پوری طرح برقرار رہے۔ اِس کا دوسرا جز یہ ہے کہ اللہ اس منصوبے کی تکمیل تک اپنے علم کے مطابق، اس کی تنظیم کرتا رہے۔ اِس طرح یہ دو طرفہ تقاضے کو منیج کرنے کا ایک معاملہ ہے۔ تاریخ کی کوئی قابلِ فہم تعبیر صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ تاریخ کو اِس دوطرفہ تقاضے کی روشنی میں دیکھا جائے ۔ تعبیر تاریخ کا یہی درست اصول ہے۔ اِس اصول کو نظر انداز کرنے کے بعد تاریخ کی تعبیر کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہیں۔
انسانی تاریخ کی تعبیر کا کام انسان کرتاہے، مگر انسان کا خالق خود انسان نہیں، انسان کا خالق اللہ ہے۔ اِس لیے تاریخ کی تعبیر کا رہنما اصول (guiding principle) صرف یہ ہوسکتاہے کہ مورخ سب سے پہلے خالق کے منصوبۂ تخلیق (creation plan of the Creator) کو معلوم کرے۔ یہی اِس معاملے میں ماسٹر پرنسپل (master principle)ہے۔ اِس ماسٹر پرنسپل کو ذہن میں رکھے بغیر کوئی شخص تاریخ کی درست تعبیر نہیں کرسکتا — زیر نظر مقالے میں اِسی اصول کی روشنی میں تاریخ کی ایک قابلِ فہم تعبیر تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مطلوب افراد کا انتخاب
خدا کے اِس تخلیقی منصوبہ کا ذکر قرآن کی سورہ البقرہ میں آیا ہے۔ اِن آیات کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میںایسے لوگوں کو بسائے گا جو اُس میں فساد برپا کریں اور خون بہائیں، اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا: میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے سکھادئے آدم کو سارے نام، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے اِن لوگوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے‘‘۔ (2: 30-32)
فرشتوں کو یہ معلوم تھا کہ تمام موجودات مکمل طورپر خدا کے تابع فرمان ہیں، مگر انسان کو آزادی دے کر زمین پر بسایا جارہا ہے۔ ایسی حالت میں یہ ہوگا کہ لوگ آزادی کا غلط استعمال کریں گے اور وہ زمین میں فساد اور خوں ریزی برپا کریں گے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے ایک مظاہرہ کے ذریعے فرشتوں کو بتایا کہ اگر چہ انسانوں کی بڑی تعداد آزادی کا غلط استعمال کرکے مفسد بن جائے گی، لیکن انھیں میں سے ایسے افراد بھی نکلیںگے جو صالح افراد ہوں گے۔ آدم نے فرشتوں کے سامنے انھیں صالح افراد کا تعارف کرایا اور پھر فرشتے مطمئن ہوگئے۔
اصل یہ ہے کہ فرشتے پورے انسانی مجموعے کو دیکھ کر اپنی رائے بنا رہے تھے۔ اللہ نے ایک مظاہرہ کے ذریعے واضح کیا کہ خدائی تخلیق کا نشانہ مجموعہ نہیں ہے، بلکہ افراد ہیں۔ مجموعے کی سطح پر اگرچہ بگاڑ آئے گا، لیکن افراد کی سطح پر ہمیشہ اچھے افراد وجود میں آتے رہیں گے۔ خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، موجودہ دنیا ایک سلیکشن گراؤنڈ (selection ground) ہے، یعنی پورے مجموعے میں سے مطلوب افراد کا انتخاب کرنا۔ تخلیق کا نشانہ یہ نہیں ہے کہ انسان اِسی سیارۂ ارض پر معیاری نظام بنائے، بلکہ تخلیق کا نشانہ یہ ہے کہ ہر دور اور ہر نسل میں سے اُن افراد کو منتخب کیا جائے جو کامل آزادی کے باوجود اپنے آپ کو بطور خود ضابطۂ خداوندی کا پابند بنا لیں۔
تاریخ کے چند اوراق
خالق کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، انسانی تاریخ کے سفر کو چند بڑے ادوار میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ یہ ادوار یا یہ تاریخی مراحل حسب ذیل ہیں:
1 - پہلا دور نبیوں کے ذریعے اعلان کا دور ہے۔ یہ دور حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس دور میں بہت سے پیغمبر آئے، لیکن اُن کا مشن اعلان کے مرحلے تک محدود رہا، وہ انقلاب کے مرحلے تک نہیں پہنچا۔
2 - دوسرا مرحلہ وہ ہے جو حضرت اسماعیل بن ابراہیم سے شروع ہوتاہے۔ اِس مرحلے میں ایک ایسی امت تیار ہوئی جو خدا کی کتاب کی حامل امت بن سکے۔
3 - حاملِ کتاب امت کے وجود میں آنے کے بعد جو اہم واقعہ ہوا، وہ یہ کہ قرآن خدا کی ہدایت کے مستند متن (authentic text) کی حیثیت سے محفوظ ہوگیا۔
4 - اصحاب رسول کے ذریعے تاریخ میں جو نیا دور آیا، اُس کا ایک اہم جُز آزادیٔ رائے (freedom of thought) تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں اِس کا آغاز ایک پراسس (process) کی شکل میں ہوا۔ ہزاروں سال بعد مغربی تہذیب کی صورت میں وہ اپنے کمال کو پہنچا۔
5 - اس تاریخی عمل میں مغربی تہذیب کا ایک سپورٹنگ رول ہے۔ مغربی تہذیب کی حیثیت اِس تاریخی سفر میں ایک سیکولر مؤید (secular supporter) کی ہے۔
6 - دورِ جدید میں سائنس کی حیثیت اِ س تاریخی سفر میں ایک مؤید عنصر (supportive element) کی ہے۔ جدید سائنس نے نیچر کی انفولڈنگ کرکے اُن خدائی نشانیوں کو کھولا جن کو قرآن میںآیات (signs) کہاگیا ہے (41: 53)۔
7 - جدید دور کو ایج آف کمیونکیشن کہاجاتا ہے۔ یہ ایج دراصل موافقِ دعوت ایج ہے۔ گلوبل کمیونکیشن نے پہلی بار گلوبل دعوہ کو ممکن بنادیا ہے۔
8 - پچھلی ہزار سالہ تاریخ میں پہلی بار دعوت الی اللہ کا ایک نیا امکان پیداہوا ہے۔ اس امکان کو جو لوگ استعمال کریں گے، اُن کو حدیث میں اخوانِ رسول کہاگیا ہے(صحیح مسلم)۔اخوانِ رسول کا لفظ فضیلت کو نہیں، بلکہ رول کو بتاتا ہے۔ اصحابِ رسول وہ لوگ تھے جنھوں نے ساتویں صدی میں اُس وقت کے امکانات کو استعمال کیا۔ اخوانِ رسول وہ لوگ ہوں گے جو اکیسویں صدی کے امکانات کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کریں۔
مقصد ِ تخلیق
فلاسفہ اورمفکرین کے یہاں زیر بحث سوالات میں سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ تخلیق کی غایتِ اصلی (raison d’être) کیا ہے۔ سیکولر مفکرین نے اس کا جواب مختلف انداز سے دینے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً یہ کہ تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے خالق خود اپنی تکمیل چاہتا ہے۔ قرآن میںاِس سوال کا جواب ایک آیت میں اِس طرح دیاگیا ہے: وما خلقتُ الجن والإنس إلا لیعبدون (51:56) یعنی میں نے جن اور انس کو صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
صحابی مفسر عبد اللہ بن عباس نے اِس آیت کی تشریح اِس طرح کی ہے کہ اِس آیت میں ’لیعبدون‘ سے مراد ’لیعرفون‘ ہے، یعنی خدا کی عبادت کرنے سے مراد ہے خدا کی معرفت حاصل کرنا۔
خالق کی معرفت کوئی سادہ بات نہیں۔ انسان اپنے خالق کو براہِ راست نہیں دیکھ سکتا، لیکن تخلیق کا مطالعہ اور صاحبِ تخلیق کی کتاب (قرآن) کا مطالعہ کرکے آدمی یقینی طورپر خالق کی عظمتوں کو دریافت کرسکتا ہے۔ تخلیق کی اعلیٰ معنویت خالق کا اعلیٰ تعارف ہے۔ تخلیق کے مطالعے سے آدمی خالق کا جو علم حاصل کرتاہے، اُسی کا نام معرفت ہے۔
کسی آدمی کو جب خالق کی یہ معرفت حاصل ہوتی ہے تو یہ اُس کے لیے سپر تھرل (super thrill) کا ایک تجربہ ہوتا ہے۔ یہ تجربہ آدمی کی شخصیت میں ایک عظیم انقلاب پیدا کردیتا ہے۔ اِس کے بعد فطری طورپر ایسا ہوتاہے کہ آدمی کی سوچ خدا رخی سوچ بن جاتی ہے، آدمی کا کلام خدا رخی کلام بن جاتا ہے، آدمی کا سلوک خدا رخی سلوک بن جاتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں، آدمی کی پوری زندگی خدا کے رنگ میں رنگ جاتی ہے (2: 138) ۔
یہی معرفت مزید وسعت پاکر دعوت الی اللہ بن جاتی ہے۔ دعوت الی اللہ کیا ہے۔ وہ آدمی کی معرفتِ خدا کی توسیع یا اس کا خارجی ظہور ہے۔ جو آدمی گہرائی کے ساتھ خدا کی معرفت حاصل کرے، اس کے اندر شدید طورپر یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اِس معرفت میں دوسروں کو حصے دار بنائے۔ اِسی واقعے کا دوسرا نام دعوت الی اللہ ہے۔
خدا کی معرفت ایک فرد کے اندر متحقق ہوتی ہے، نہ کہ کسی مجموعے کے اندر۔ جب ایک بڑی تعداد خدا کے عارفوں پر مشتمل ہو جائے تو اُس وقت پورے مجموعے یا اس کی بڑی تعداد معرفت کی حامل بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام اصلاً فرد پر مبنی کام ہے، نہ کہ مجموعے پر مبنی کام۔ دعوت الی اللہ کا نشانہ اصلاً کسی سسٹم یا کسی اجتماعی نظام کے وجود میں لانا نہیں ہے، بلکہ فرد فرد کو معرفتِ خداوندی کا حامل بنانا ہے۔ اِس کے بعد جو واقعات پیش آتے ہیں، وہ اصل نشانے کے بالواسطہ نتائج ہیں، نہ کہ اصل نشانہ۔
تاریخ کی با معنی تعبیر
ایک بڑی انڈسٹری قائم کی جائے تو بظاہر اُس میں بہت سے اجزا اور بہت سی سرگرمیاں دکھائی دیں گی، لیکن انڈسٹری کا مقصودِ اصلی صرف ایک ہوگا، اور وہ ہے— کوئی خاص پروڈکٹ (product) نکالنا، یہی پروڈکٹ انڈسٹری کا حقیقی جُز ہوگااور بقیہ تمام چیزیں انڈسٹری کے اضافی اجزا قرار پائیں گے۔ یہی وہ واحد اصول ہے جس پر انڈسٹری کی صحتِ کارکردگی کو جانچا جائے گا۔
یہی معاملہ انسانی تاریخ کا ہے۔ انسانی تاریخ کے بظاہر بہت سے اجزا ہیں۔ اس میں بظاہر بہت سی سرگرمیاں کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن تاریخ کی توجیہہ کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ تاریخ کے معاملے میں خالق کا منصوبہ کیا ہے اور خالق کے منصوبے کے مطابق، اِس عظیم کارخانۂ تاریخ سے کون سا پروڈکٹ نکالنا مقصود ہے۔ اِس کے سوا، کوئی دوسرا نقطۂ نظر تاریخ کی درست توجیہہ میں کار آمد نہیں ہوسکتا۔
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ تاریخ کی مختلف سرگرمیوں کے دوران خالق کو جو پروڈکٹ وجود میں لانا مقصود ہے، وہ صرف ایک ہے۔ اِس پروڈکٹ کو قرآن میں ربانی انسان (3: 79) کہاگیا ہے، یعنی ایک فرد کے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر۔ یہی ربانی افراد خدا کے منصوبۂ تخلیق کی اصل غایت (raison d’être) ہیں۔ جب تک یہ ربانی افراد بنتے رہیں گے، اُس وقت تک تاریخ کے ہنگامے جاری رہیں گے، اور جب اِس قسم کے افراد پیدا ہونا بند ہوجا ئیں تو اِس کے بعد وہ وقت آجائے گا، جب کہ تاریخ کے موجودہ دور کو ختم کرکے اس کے دوسرے دور کا آغاز کردیا جائے۔
خالق کے منصوبے کے مطابق، انسانی تاریخ کو عادلانہ اجتماعی نظام (just social system) کی اصطلاح میں جانچنا درست نہیں۔ خالق کا منصوبہ یہ نہیں ہے کہ موجودہ دنیا میں عادلانہ نظام قائم ہو، بلکہ خالق کا منصوبہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا کی تجربہ گاہ میں عادل افراد پیداہوں اور پھر اِن عادل افراد کو منتخب کرکے اُنھیں یہ موقع دیا جائے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں ابدی طورپر رہ سکیں۔ تاریخ کی بامعنی تعبیر (meaningful interpretation of history) صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ مذکورہ اصول کی روشنی میں تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کوئی دوسرااصول، تاریخ کی معنویت (meaning)کو واضح کرنے کے لیے کار آمد نہیں۔
افراد، نہ کہ مجموعہ
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کی صحیح تعبیر صرف وہ ہے جو خالق کے تخلیقی پلان کی روشنی میں کی جائے۔ تعبیر تاریخ کے اِس موضوع پر، قرآن کو ایک مستند ماخذ کا درجہ حاصل ہے۔ قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خدا کے منصوبۂ تخلیق کے مطابق، تاریخ کی تعبیر کیا ہونا چاہئے۔ پچھلے ادوار میں ہزاروں مورخین پیدا ہوئے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اِن تمام مورخین کی تیار کردہ کتابیں صرف تاریخی واقعات کا دفتر (chronicles) ہیں، وہ انسانی تاریخ کی معنویت کو واضح نہیں کرتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ کتبِ تاریخ کی روشنی میں تاریخ صرف بے معنی واقعات کا ایک جنگل نظر آتی ہے۔ اِسی حقیقت کو انگریزمورخ ایڈورڈ گبن (وفات: 1794 ) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے— انسانیت کی تاریخ، جرائم، حماقت اور بد قسمتی کے رجسٹر سے کچھ ہی زیادہ ہے:
History, which is, indeed, little more than the register of crimes, follies and misfortunes of mankind.
تعبیر تاریخ کے اعتبار سے، سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تمام مورخین تاریخ کو مجموعہ کے اعتبار سے دیکھتے ہیں اور وہ مجموعہ کے اعتبار سے، اس کے حسن وقبح کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مگر خدائی تخلیق کے مطابق،تعبیر تاریخ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مجموعۂ انسانیت کو دیکھ کر تاریخ کی تعبیر نہ کی جائے، بلکہ افرادِ انسانی کو دیکھ کر اس کی تعبیر کی جائے۔ مجموعہ کے اعتبار سے دیکھنے کی صورت میں یہ ہوتا ہے کہ تاریخ کا کوئی عہد عہد زریں (golden age) نظر نہیں آتا۔ لیکن اگر افراد کے اعتبار سے، تاریخ کو دیکھاجائے تو ہر عہد، زریں افراد (golden individuals) کا عہد نظر آئے گا۔
معیاری افراد کا انتخاب
اصل یہ ہے کہ خالق نے موجودہ دنیا کو اِس لیے نہیں بنایا کہ یہاں مجموعہ کی سطح پر معیاری نظام (ideal system) بنایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں ہر انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے، وہ چاہے مصلح بن کر رہے یا مفسد بن کررہے۔ اِس لیے یہاں مجموعہ کی سطح پر کبھی معیاری نظام نہیں بن سکتا۔ معیاری نظام کا مقام صرف جنت ہے اور وہ جنت ہی میں بنے گا۔
موجودہ دنیا دراصل معیاری افراد کا انتخابی میدان (selection ground) ہے۔ یہاں ہر نسل سے معیاری افراد کا انتخاب کیا جارہا ہے۔ مثلاً آدم کی پہلی نسل میں قابیل، قابلِ رد تھا اور ہابیل، قابلِ قبول۔ یہی معاملہ پوری تاریخ میں جاری ہے۔ ہر دور میں اور ہر نسل میں خدا معیاری افراد کو منتخب کررہا ہے اور غیر معیاری افراد کو رد کررہا ہے۔ ردوقبول کے اِسی معاملے کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: ثلّۃ من الأولین وثلّۃ من الآخرین (56: 39-40) یعنی اگلوں میں سے ایک بڑا گروہ اور پچھلوں میں سے بھی ایک بڑا گروہ۔
قابلِ قبول اور قابلِ رد انسانوں کی یہ مطلوب فہرست جب مکمل ہوجائے گی تو اس کے بعد خالق کائنات موجودہ دنیا کو ختم کرکے ایک اور دنیا بنائے گا، جہاں وہ معیاری دنیا ہوگی جس کو جنت کہاجاتاہے۔ قابلِ قبول افراد اِس جنت میں بسا دئے جائیں گے، جہاں وہ ابد تک خوف وحزن سے پاک زندگی گزاریں گے۔ اور ناقابلِ قبول افراد کو رد کرکے کائناتی کوڑے خانے میں ڈال دیاجائے گا، جہاں وہ ابد تک حسرت کی زندگی گزاریں گے۔
معیارِ تاریخ
یہی تاریخ کو دیکھنے کا صحیح معیار ہے۔ اِس معیار سے تاریخ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ فساد کے جنگل میں ہمیشہ اعلیٰ درجے کے صالح افراد پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اِسی جنگل میں آدم کے بیٹے ہابیل بھی تھے جنھوں نے اپنے قاتل سے کہا: لئن بسطتَ إلَیّ یدک لتقتلنی ما أنا بباسط یدی إلیک لأقتلک۔ إنی أخاف اللہ ربّ العالمین (5: 28) یعنی اگر تم مجھ کو قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھاؤگے تو میں تم کو قتل کرنے کے لیے تم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا۔ میں ڈرتا ہوں اللہ سے جو سارے جہان کا رب ہے۔ ہابیل کا یہ قول امن کا قول تھا۔ ہابیل نے اپنی اِس روش سے امن پسندی کی وہ اعلیٰ ترین مثال قائم کی جس کے آگے امن پسندی کا کوئی اور درجہ نہیں۔
اِسی طرح، تاریخ کے اِس جنگل میں ہاجرہ اُمّ اسماعیل جیسی خاتون پیدا ہوئیں۔ انھوں نے ڈھائی ہزار سال پہلے، خدا کے منصوبے کے مطابق، ایک نئی نسل برپا کرنے کے لیے یہ قربانی دی کہ وہ اپنے چھوٹے بچے (اسماعیل) کو لے کر عرب کے صحرا میں آباد ہوگئیں۔ اُس وقت اُن کی زبان سے یہ تاریخی کلمہ نکلا کہ جب خدا کا یہی منصوبہ ہے تو خدا ہم کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا (إذن لا یضیّعنا اللہ)۔ ہاجرہ کی اِسی قربانی کے نتیجے میں بنو اسماعیل کی وہ نسل پیدا ہوئی جو اعلیٰ انسانی اوصاف کی حامل تھی۔ ایک مغربی اسکالر پروفیسر ڈی ایس مارگولیتھ (وفات: 1940 ) نے اِس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے بنو اسماعیل کی اِس نسل کو ہیروؤں کی ایک قوم (a nation of heroes) قرار دیا تھا۔
اِسی طرح، تاریخ کے اِس جنگل میں ابوبکر اور عمر جیسے افراد پیداہوئے جن کو اقتدار ملا، لیکن انھوں نے اپنے آپ کو بگاڑ سے کامل طورپر بچایا۔ مہاتما گاندھی نے ابوبکر ا ور عمر کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ — اگرچہ وہ بہت بڑی سلطنت کے حاکم تھے، مگر انھوںنے فقیروں جیسی زندگی گزاری:
Though, they were masters of vast empire, yet they lived the life of paupers. (Harijan, July 27, 1937)
انسان کو پیدا کرنے والا خداہے۔ خدانے انسان کی فطرت میں جنت کا تصور ودیعت کردیاہے۔ اِسی لیے ہر عورت اور مرد جو پیدا ہوتے ہیں، وہ تمناؤں اور خواہشوں (desires) کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ہر انسان کے اندر فطری طورپر ایک تصوراتی دنیا بسی ہوئی ہے۔ اس اعتبار سے، انسان ایک طالبِ جنت مخلوق (paradise-seeking animal) ہے۔
اِسی فطرت کی بنا پر ایسا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا انسان اپنے لیے ایک معیاری دنیا کی تعمیر میں لگ جاتاہے۔ ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی طاقت اور اپنے تمام وسائل کو ایک ایسی دنیا کے حصول میں لگا دیتاہے، جو اس کے لیے خوشی اور سکون کی دنیا ہو، جہاں اس کو پورے معنوں میں فل فل مینٹ (fulfilment) مل سکے۔مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر آدمی جو اِس دنیا میں آیا، وہ اپنی مطلوب دنیا کی تعمیر میں ناکام رہا، اور مایوسی کی نفسیات میں مر کر اِس دنیا سے چلا گیا۔ اِس عموم میں کسی بھی شخص کا کوئی استثنا نہیں۔ راقم الحروف نے ایک بار انٹرنیٹ کے ذریعے ایسے تقریباً 400 ممتاز افراد کے بارے میں یہ معلوم کیا کہ ان کے آخری ایام کیا تھے۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ بلا استثنا اُن میں سے ہر شخص سخت مایوسی (despair) کی حالت میں مرا۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں جو معیاری دنیا بسی ہوئی ہے، وہ جنت ہے۔ مگر جنت کو پانے کا مقام آخرت ہے، نہ کہ موجودہ دنیا۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جنت میں بسائے جانے کے قابل بنائے۔ مگر ساری تاریخ میں انسان نے یہ کیا کہ ہر ایک موجودہ دنیا ہی میں اپنی جنت کی تعمیر کرنے لگا۔ ایسا کرنا خداکے تخلیقی منصوبے کے خلاف تھا۔ اِس لیے ہر انسان صرف ناکامی کی ایک مثال بن کر رہ گیا۔مفکرین اور مصلحین نے عام طورپر اپنا نشانہ یہ بنا یا کہ وہ اِس دنیا میں انصاف اور انسانی اقدار (human values) کے اعتبار سے ایک معیاری دنیا بنائیں۔ مگر اُن کا نشانہ خدا کے تخلیقی منصوبے کے خلاف تھا، اِس لیے وہ کبھی واقعہ نہ بن سکا۔ خدا کا تخلیقی نشانہ یہ نہیں ہے کہ موجودہ دنیا میں معیاری نظام (ideal system) وجو د میں لایا جائے، بلکہ خدا کا تخلیقی نشانہ یہ ہے کہ معیاری افراد وجود میںآئیں۔ اِس قسم کے معیاری افراد تاریخ میں بکھرے ہوئے ہیں۔ آخرت میں یہ ہوگا کہ اِن افراد کو منتخب کرکے اُنھیں جنت کی معیاری دنیا میں بسادیا جائے گا۔
تعبیر تاریخ کی مثالیں
تاریخ کی تعبیر (interpretation of history) ایک مستقل سبجکٹ ہے، مگر اِس موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں، وہ سب کی سب کنفیوژن کا کیس ہیں۔ میرے علم کے مطابق، کوئی بھی شخص اِس موضوع پر اب تک ایسی کتاب نہ لکھ سکا جس میں انسانی تاریخ کی قابلِ فہم تعبیر پیش کی گئی ہو۔
اِس موضوع پر سب سے زیادہ نمایاں نام غالباً کارل مارکس (وفات: 1883 ) کا ہے۔ اس نے بطور خود تاریخ کی ایک متعین تعبیر دینے کی کوشش کی۔ مارکس کی اِس تعبیر تاریخ کو مادی تعبیر تاریخ (material interpretation of history)یا تاریخی مادیت (historical materialism) کہا جاتا ہے۔ کارل مارکس نے یہ کیا کہ اس نے نیوٹن کے دریافت کردہ قانون فطرت (law of nature) کو انسانی تاریخ پر منطبق کردیا، مگر مارکس کی یہ تعبیر تاریخ پہلی ہی نسل میں اہل علم کے درمیان قابلِ رد قرار پاگئی۔ انسان ایک صاحب اختیار مخلوق ہے۔ اِس کے برعکس، مادہ کوئی ذاتی اختیار نہیں رکھتا۔ ایسی حالت میں ایک کے قانون کو دوسرے کے اوپر چسپاں کرنا قیاس مع الفارق ہے، جو کہ عملاً ممکن نہیں۔
پہلی عالمی جنگ (1914-1918) کا واقعہ اس مارکسی نظریے کی عملی آزمائش تھا۔ یہ نظریہ اِس پہلی ہی آزمائش میں مکمل طور پر رد ہوگیا۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ مشہور کمیونسٹ لیڈر ولادمیر لینن (وفات: 1924 ) نے 1919 میں کمیونسٹ انٹرنیشنل (comintern) قائم کی۔ اُس کا نظریہ تھا کہ ساری دنیا کے مزدور ایک طرف ہیں اور تمام دنیا کے سرمایہ دار ایک طرف۔ اس کے بعد 1939 میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی۔ یہ جنگ جن ملکوں کے درمیان ہوئی، اُن ملکوں کے سربراہ مارکسی تصور کے مطابق، سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ مارکسی تصور کے مطابق، یہ فرض کرلیا گیا کہ اِن ملکوں کے مزدور اپنے ملکوں کی سرمایہ دار حکومتوں کا ساتھ نہیں دیں گے، بلکہ وہ عالمی مزدور طبقہ (class)کا ساتھ دیں گے، مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔ ہر ملک کے مزدوروں نے خود اپنے ملک کی حکومتوں کا ساتھ دیا۔ اِس طرح تاریخی مادیت یا جدلیاتی مادیت کا نظریہ اپنے پہلے ہی تجربے میں ختم ہوگیا۔
اِسی طرح کچھ اور اہل علم نے انسانی تاریخ کو ایک تعبیر دینے کی کوشش کی۔ مگر عملاً وہ بھی کنفیوژن کا شکار ہو کر رہ گئے۔ اِس کی ایک مثال کیمبرج کے پروفیسر ایچ بٹر فیلڈ(H. Butterfield) کی ہے۔ انھوں نے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جو 146 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب 1931میں لندن سے چھپی ہے۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے:
The Whig Interpretation of History
اِس کتاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ کسی یونی ورسل مارل کوڈ (universal moral code) کی روشنی میں پوری تاریخ کو ایک اخلاقی تعبیر دی جائے، مگر خود مصنف نے یہ اعتراف کیا ہے کہ تاریخ کی عملی تصویر کے مطابق، اِس قسم کی تعبیر ممکن نہیں۔
اِسی طرح ایک مثال مشہور برطانی رائٹر جارج برناڈ شا (وفات: 1950 ) کی ہے۔ اِس سلسلے میں اس کی ایک کتاب ’’مین اینڈ سپر مین‘‘ (Man and Superman) ہے۔ اِس کتاب میں اُس نے مفروضہ ارتقائی اصول کی روشنی میں تاریخ کی ایک تعبیر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان لازمی ارتقائی قانون کے مطابق، بشر (man) سے فوق البشر (superman) کی طرف سفر کررہا ہے۔ مگر اس کا یہ نظریہ صرف ایک خیالی کہانی ہے۔ خالص علمی اعتبار سے اس کا کوئی وزن نہیں۔
منفی تصورِ تاریخ
انسانی تاریخ کے بارے میں عام طور پر اہلِ علم کا نقطۂ نظر منفی ہوتا ہے۔ مثلاً مشہور انگریز مورخ ایڈورڈ گبن (Edward Gibbon) نے لکھا ہے کہ — انسانیت کی تاریخ جرائم، حماقت اور بدقسمتی کے رجسٹر سے کچھ ہی زیادہ ہے:
History, which is, indeed, little more than the register of crimes, follies and misfortunes of mankind.
مختلف زبانوں میں جو بڑے بڑے ناول لکھے گئے ہیں،وہ سب کے سب المیہ (tragedy) ہیں،نہ کہ طربیہ (comedy) ۔ انسانی تاریخ کے بارے میں اِس قسم کا منفی تصور کیوں ہے۔ اِس کا سبب دراصل تاریخ کا غیر فطری طریق مطالعہ ہے۔ تاریخ کا فطری طریقِ مطالعہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تاریخ کے بارے میں خالق کے نقشہ (model) کو دریافت کیا جائے، اور اس کے بعد اِس خدائی نقشے کی روشنی میں تاریخ کا جائزہ لیا جائے۔
جو لوگ تاریخ کے بارے میں منفی نقطۂ نظر رکھتے ہیں، اُن سب کی مشترک غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے مفروضہ نقشے کی روشنی میں تاریخ کو سمجھنا چاہتے ہیں، اور جب تاریخ ان کے مفروضہ نقشے کے مطابق، بامعنی نظر نہیں آتی تو وہ تاریخ کے بارے میں منفی سوچ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تاریخ کے بارے میں اِسی منفی نقطۂ نظر کے تحت ایک مغربی مفکر نے کہا کہ —اِس دنیا میں ہر چیز حسین ہے، صرف ایک چیز حسین نہیں، اور وہ انسان ہے:
In this world everything is beautiful except man.
یہ تبصرہ غلط معیار کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے سوا بقیہ دنیا جتنی حسین ہے، اُس سے بھی زیادہ انسانی دنیا حسین ہے۔ انسان مقصدِ کائنات ہے، پھر وہ غیر حسین کیسے ہوسکتا ہے۔ انسانی تاریخ
یہ تبصرہ دراصل ایک غلط معیار کا نتیجہ ہے۔ مذکورہ مبصر نے مادی دنیا کو دیکھا۔ اس کو نظر آیا کہ مادی دنیا میں پورے مجموعے کی سطح پر حسن پایا جاتا ہے۔ اس نے چاہاکہ یہی مجموعی حسن اس کو انسانی دنیا میں بھی نظر آئے۔ جب اُس نے پایا کہ انسانی دنیا میں اِس قسم کا مجموعی حسن نہیں ہے، تو اُس نے مذکورہ قسم کا ریمارک (remark) دے دیا۔
خالق کے منصوبے کے مطابق، انسانی دنیا اور بقیہ مادی دنیا کے درمیان ایک فرق پایا جاتاہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ انسان کے سوا بقیہ کائنات میں مجموعی نظم (collective discipline) درکار ہے، کیوں کہ بقیہ دنیا امتحان (test) کے لیے نہیں پیدا کی گئی ہے، بلکہ وہ انسان کے لیے ایک معاون ذریعے کے طور پر پیدا کی گئی ہے، مجموعی نظم کے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔
اِس کے برعکس، انسان کا معاملہ فرد فرد کا معاملہ ہے۔ یہاں مجموعی حسن مطلوب نہیں، بلکہ یہاں انفرادی حسن مطلوب ہے۔ انسانی دنیا میں ہر فرد کو الگ الگ جانچا جارہا ہے۔ ہر فرد کو الگ الگ یہ موقع دیاجارہاہے کہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو جنت کے معاشرے کا ایک کامیاب ممبر بناسکے۔ اِسی منصوبۂ تخلیق کی بنا پر دونوں کی جانچ کا الگ الگ معیار ہوگا۔ انسان کو فرد کی سطح پر جانچنا چاہئے اور بقیہ کائنات کو مجموعے کی سطح پر۔ حقیقت یہ ہے کہ تخلیق کی دونوں مثالیں شاہ کار ہیں، انسان بھی اور بقیہ کائنات بھی، مگر دونوں کو جانچنے کا معیار ایک دوسرے سے الگ ہے۔
تاریخ کے مطالعے کے بارے میں جو لوگ منفی نقطہ نظر رکھتے ہیں، ان کی مشترک غلطی یہ ہے کہ وہ پورے انسانی معاشرے یا پورے انسانی مجموعے کو دیکھ کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ چوں کہ مجموعے کی سطح پر اُنھیں مطلوب معیاری سماج نظر نہیں آتا، اِس لیے وہ کہہ دیتے ہیں کہ انسانی دنیا میں برائی (evil) کے سوا کچھ اور نہیں، حالاں کہ اُنھیں یہ کہنا چاہیے کہ انسانی دنیا میں اگرچہ مجموعہ کی سطح پر برائی ہے، لیکن افراد کی سطح پر خیر موجود ہے۔مذکورہ منفی سوچ کے تحت ’پرابلم آف اِول‘(problem of evil) جیسا نظریہ وجود میں آیاہے، جو کہ موجودہ زمانے میں عام طورپر اہلِ علم کے ذہن پر چھایا ہوا ہے۔
انسانی دنیا کو مجموعی سطح پر معیاری بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انسانی آزادی کو منسوخ کردیا جائے، کیوں کہ انسانی سماج میں تمام برائیوں کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ انسان کی طرف سے آزادی کا غلط استعمال (misuse of freedom) ہے۔ مگر انسان کی آزادی کو منسوخ کرنا خود خالق کے منصوبے کو منسوخ کرنے کے ہم معنی ہے۔ اِس لیے خالق نے اپنے منصوبے کی اِس طرح تشکیل کی کہ اس نے انسان کے معاملے کو مبنی بر مجموعہ (collective-based) نہیں بنایا، بلکہ اس کو مبنی برفرد(individual-based) بنایا۔ اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، خدا کا کنسرن (concern) یہ نہیں ہے کہ پورے مجموعۂ انسانی میں لازماً معیاری نظام قائم ہو۔ ایسا صرف اُس وقت ہوسکتا تھا جب کہ انسان کی آزادی کو کلی طورپر منسوخ کردیا جاتا، اور خالق کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔
اِس منصوبۂ تخلیق کے مطابق، پورے اجتماع یا پورے مجموعے کی سطح پر معیار (ideal) کا حصول ممکن نہیں، لیکن یہ عین ممکن ہے کہ انسانوں کی بھیڑ میں ایسے معیاری افراد وجود میں آتے رہیں جو اپنی ذات کی سطح پر سچائی کو دریافت کریں اور اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیں، یہی استثنائی افراد خالق کو مطلوب ہیں— یہی مطلب ہے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے مطلوب کے مطابق، تاریخ کو مینج (manage) کرنے کا۔
خالقِ کائنات کی یہ اسکیم قرآن کے مطالعے سے واضح طورپر معلوم ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی سورہ النساء کی دو آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے، یعنی نبی اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ کا علم کافی ہے‘‘ ۔(4: 69-70)
قرآن کے اِس بیان سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کون سے منتخب افراد ہوں گے جن کے مجموعے سے جنت کا معاشرہ وجود میں آئے گا۔ اِن افراد کو بتانے کے لیے یہاں چار الفاظ استعمال کئے گئے ہیں— نبی، صدیق، شاہد، صالح۔ نبی سے مراد صاحب وحی انسان (revealed person) ہے۔ صدیق سے مراد وہ انسان ہے جو حق کے ساتھ اپنے آپ کو اتنا زیادہ وابستہ کرے کہ اس کو پیغمبر کے ساتھ مزاجی مناسبت حاصل ہوجائے۔شہید یا شاہد سے مراد وہ انسان ہے جس کی زندگی میں حق اتنا زیادہ متشکّل ہوجائے کہ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ لوگوں کے درمیان حق کا گواہ بن جائے۔ صالح سے مراد وہ انسان ہے جس کی زندگی میں فکروعمل کی مطابقت کامل درجے میں پائی جائے۔
بنیادی طورپر یہی چار قسم کے افراد ہیں جن کے مجموعے سے وہ معیاری معاشرہ تشکیل پائے گا جس کو جنت کہاجاتاہے۔ اِن افراد کا تعلق کسی ایک زمانے یا کسی ایک معاشرے سے نہیں ہوگا، بلکہ وہ مختلف غیر معیاری معاشروں کے منتخب کئے ہوئے افراد ہوں گے۔ خالق کی اِس اسکیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اِس دنیا میں صرف انفرادی کامیابی (individual achievement) ممکن ہے۔ جہاں تک اجتماعی کامیابی (social achievement) کا تعلق ہے، وہ امتحان کی اس دنیا میں سرے سے ممکن ہی نہیں۔
موجودہ دنیامیں درست روش پر قائم ہونے کے لئے مثبت ذہن ضروری ہے۔ مگر مثبت ذہن کے ساتھ جینا کوئی سادہ بات نہیں۔ مثبت ذہن کے ساتھ جینے کے لئے آدمی کو ایک لازمی امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ ہے دو متضاد رجحانات کو مینج (manage) کرتے ہوئے زندگی گزارنا۔
اصل یہ ہے کہ آدمی پیدائشی طورپر ایک معیار پسند مخلوق ہے، مگر عملاً اس کو ایک غیر معیاری دنیا میں رہنا پڑتاہے۔ اس حقیقت سے شعوری طورپر با خبر ہونا بہت ضروری ہے۔ ورنہ یہ ہوگا کہ اس کا معیار پسند ذہن دنیا کے غیر معیاری تجربات کی بناپر رد عمل کا شکار ہوتا رہے گا اور نتیجۃً وہ مثبت ذہن سے محروم ہوجائے گا، اور مثبت ذہن سے محروم ہونا ہر چیز سے محروم ہونے کے ہم معنی ہے۔
آدمی کو شعوری طورپر یہ جاننا چاہیے کہ اس کا معیار پسند ذہن اس لئے ہے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا کا طالب بنے، نہ یہ کہ وہ اسی موجودہ دنیا میں جنتی زندگی یا جنتی معاشرہ کو حاصل کرنے لگے۔ موجودہ دنیا جنتی انسان بنانے کے لئے ہے، نہ کہ جنتی معاشرہ بنانے کے لئے۔ جو آدمی شعوری طورپر اس راز کو جان لے کہ موجودہ دنیامیں اس کو اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کرنا ہے وہ کامیاب ہوا۔ اور جو آدمی موجودہ دنیا ہی کو جنتی دنیا بنانے کی کوشش میں لگ جائے، وہ ناکام ونامراد رہا۔ کیوں کہ موجودہ دنیا میں جنتی شخصیت بننا تو ممکن ہے، مگر جنتی نظام بننا ممکن نہیں۔
تاریخ کی خدائی تنظیم
قرآن میں تاریخ کا جو تصور پیش کیاگیا ہے، اس کے مطابق، انسانی تاریخ آدم سے شروع ہوتی ہے، جو کہ پہلے انسان (first man) تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اور ان کی بیوی حوا کو پیدا کرکے اُنھیں جنت میں آباد کیا۔ خدا کی طرف سے اُن کو صرف ایک ہدایت دی گئی تھی، وہ یہ کہ : اے آدم، تم اور تمھاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور اس سے کھاؤ آسودگی کے ساتھ، جہاں سے چاہو۔ اور اس درخت کے قریب مت جانا، ورنہ تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے‘‘۔ (2: 35)
آدم کے ساتھ ان کی بیوی کو پیدا کرنے میں اِس بات کا اشارہ تھا کہ انسان کی پیدائش سے اللہ تعالیٰ کو جو چیز مطلوب ہے، وہ صرف ایک انسانی فرد نہیں، بلکہ ایک انسانی نسل ہے۔ انسان کے لیے جنت کا مستحق ہونے کی شرط صرف ایک تھی، یہ کہ وہ خود انضباطی کردار (self-disciplined character) کا پابند رہے، وہ آزادی کا غلط استعمال نہ کرے۔ مگر آدم اور حوا اِس شرط پر پورے نہیں اترے۔ اِس لیے انھیں جنت سے نکال کر سیارۂ ارض پر آباد کردیا گیا۔
اِس کا مطلب یہ تھا کہ پہلے انسان کو یہ موقع دیاگیا تھا کہ انسان عمومی بنیاد (general basis) پر جنت میں رہے، یعنی ہر پیدا ہونے والے عورت اور مرد کو جنت کی زندگی حاصل ہو۔ لیکن جب انسان اِس اعتماد پر پورا نہیں اترا تو اس کے بعد اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان کی آزادی تو برقرار رہے گی، لیکن اب عمومی بنیاد پر نہیں، بلکہ انتخابی بنیاد پر صرف مستحق افراد کو جنت میں داخلہ دیا جائے گا۔ یہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو خدا کی طرف سے مینج (manage) کرنے کا پہلا واقعہ تھا۔
موجودہ زمین اِس تخلیقی مقصد کے لیے سلیکشن گراؤنڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب یہ ہوگا کہ قیامت کے بعد فرشتوں کے ریکارڈ کے مطابق، صرف منتخب عورتوں اور مردوں ، قرآن کے الفاظ میں احسن العمل (67:2) افراد کو، یہ خوش نصیبی حاصل ہوگی کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں آباد ہوسکیں۔
زمین پر لائف سپورٹ سسٹم کا انتظام تو خدا کی طرف سے کیا گیا تھا، مگر انسان کو اپنے قول وعمل کی مکمل آزادی حاصل تھی، لیکن دوبارہ انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا۔ دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ عمومی طورپر انسانی نسل شرک یا فطرت پرستی (nature worship) میں مبتلا ہوگئی۔ گویا کہ پہلے انسان نے ’’درخت‘‘ کا صرف پھل کھایا تھا، اب انسان نے ’’درخت‘‘ کو معبود قرار دے کر اس کی پرستش شروع کردی۔
تاہم منصوبۂ تخلیق (creation plan) کے مطابق، یہ ممکن نہیں تھا کہ انسان کی آزادی کو منسوخ کردیا جائے، اِس لیے اللہ نے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اس کو مینج (manage) کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ اللہ نے یہ کیا کہ انسانوں میں سے کسی فرد کو منتخب کرکے اُس کو اپنا پیغمبر بنایا۔ اُس کو وحی (revelation) کے ذریعے اپنی رہنمائی بھیجی۔ اِن پیغمبروں نے انسانوں کو بتایا کہ عبادت کے قابل صرف ایک اللہ ہے۔ تم ایک اللہ کی عبادت کرو اور خود ساختہ معبودوں کی عبادت چھوڑ دو۔
مگر انسانوں کی بڑی تعداد ایسا نہ کرسکی۔ اللہ کی عبادت کا معاملہ ناقابلِ مشاہدہ (unobservable) ہستی کو معبود بنانے کا معاملہ تھا۔ انسان نے اپنی ظاہر پرستی کی بناپر نیچر کو اپنا معبود بنا لیا، جو کہ اس کے لیے ایک قابلِ مشاہدہ (observable) معبود کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِسی نیچر ورشپ کا دوسرا نام شرک ہے۔
پیغمبروں کی آمد کے باوجود انسان کے لیے آزادیٔ اختیار (freedom of choice) کا موقع بدستور باقی تھا۔ اِس لیے انسان پیغمبروں کا انکار کرتا رہا۔ یہ معاملہ نسل درنسل جاری رہا، یہاں تک کہ شرک انسان کے لیے غالب کلچر بن گیا، تاریخ میں شرک کا تسلسل قائم ہوگیا۔
مشرکانہ کلچر کے عمومی غلبہ کا مزید نتیجہ یہ ہوا کہ وقت کی حکومتوں نے شرک کو اسٹیٹ کے مذہب کے طور پر اختیار کرلیا۔ اِس طرح شرک کو ہر جگہ سیاسی طاقت کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ پہلے اگر شرک سادہ معنوں میں ایک اعتقادی برائی تھی تو اب وہ ایک طاقت ور برائی بن گئی۔ مشرکانہ اقتدار کا کلچر بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ برائی پیدا ہوئی جس کو فرانسیسی مورخ ہنری پرین نے مطلق شہنشاہیت (absolute imperialism) کا نام دیا ہے۔
شرک کی اِسی سیاسی سرپرستی کے نتیجے میں وہ جارحانہ مذہبیت پیدا ہوئی جس کو تاریخ میں، مذہبی جبر (religious persecution) کہا جاتاہے۔ سیاسی حاکموں نے ایسا ماحول قائم کیا جس کے نتیجے میں لوگوں کے لیے صرف ایک ہی آپشن باقی رہا، اور وہ مشرکانہ مذہب تھا۔ توحید کامذہب اختیار کرنے والوں کے لیے یہ انجام مقدر ہوگیا کہ وہ یا تو ریاست کے مذہب کو اختیار کرلیں، یا وہ قتل کردئے جائیں۔ دورِ قدیم کی یہی وہ صورتِ حال ہے جس کی طرف قرآن کی سورہ البروج کی آیات (85: 4-8) میں اشارہ کیاگیا ہے۔
اِس صورت حال سے یہ واضح ہوگیا کہ اب مذہبِ حق کا صرف اعلان کافی نہیں ہے۔ اب پہلی ضرورت یہ ہے کہ مذہب کو سیاسی اقتدار سے جدا کردیا جائے، تاکہ انسان کے لیے آزادی کے ساتھ اپنے عقیدے کا فیصلہ کرنا ممکن ہوجائے۔
تخلیقِ آدم
اللہ تعالیٰ نے پہلے لمبے تدریجی عمل (gradual process) کے ذریعے مادی کائنات بنائی۔ آخر میں اُس نے سیارہ ارض پر انسان کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے آباد کیا۔اللہ تعالیٰ نے جب انسانِ اوّل (آدم) کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اُس وقت اللہ اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا۔ یہ واقعہ قرآن کی سورہ البقرہ میں آیا ہے۔ یہاں متعلق آیات کا ترجمہ نقل کیا جاتا ہے:
’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اُس میں فساد کریں اور خون بہائیں۔ اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا کہ میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔ اوراللہ نے سکھائے آدم کو سارے نام، پھر اُن کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے اُن لوگوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے۔ اللہ نے کہا: اے آدم، ان کو بتاؤ اُن لوگوں کے نام، تو جب آدم نے بتائے اُن کو اُن لوگوں کے نام تو اللہ نے کہا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید کو میں ہی جانتا ہوں، اور مجھ کو معلوم ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو‘‘ (2: 30-33) ۔
یہاں یہ سوال ہے کہ فرشتوں نے آدم کے بارے میں جس شک کا اظہار کیا تھا، وہ کیا تھا، اور اللہ تعالیٰ کے وضاحتی جواب کے بعد فرشتے جس چیز پر مطمئن ہوئے، وہ چیز کیا تھی۔ یہ بات قرآن میں بطور اشارہ موجودہے۔ اِس اشارے کی تفصیل جاننے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا منصوبہ کیا تھا اور وہ کس طرح اپنی تکمیل تک پہنچا۔
یہ اشارہ قرآن کی ایک اور سورہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی سورہ التین میں ارشاد ہوا ہے: لقد خلقنا الإنسان فی أحسن تقویم، ثم رددناہ أسفل سافلین، إلاّ الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات فلہم أجرٌ غیر ممنون (95: 4-6) یعنی ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، پھر اُس کو سب سے نیچے پھینک دیا۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے تو اُن کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ ایک عظیم احسان کا معاملہ کیا جس کو قرآن میں تکریم (17: 70) کہاگیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا، اُس کو کامل آزادی دی، اس کو یہ موقع دیا کہ وہ خود اپنے آزادانہ انتخاب (choice) سے اپنی زندگی کے لیے درست روش کو اختیار کرے۔اور پھر اللہ تعالیٰ یہ کہہ کر اس کے لیے جنت کا فیصلہ کرے کہ یہ تیرے اپنے عمل کی جزا ہے جو تونے دنیا میں کیا۔ مگر انسانوں کی اکثریت نے اِس منصوبۂ الٰہی کو نہیں سمجھا۔ انھوں نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا اور اِس طرح انھوں نے جنت کا استحقاق کھو دیا۔ البتہ اِس عموم میں کچھ مستثنیٰ افراد پیدا ہوئے جنھوں نے اِس منصوبۂ الٰہی کو سمجھا اور اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے انھوں نے اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنالیا۔
اِس قرآنی بیان کی روشنی میں غور کیجئے تو سورہ البقرہ کے مذکورہ بیان کا مطلب یہ ہے کہ فرشتوں نے پوری انسانی نسل (total human race) کو لے کر سوچا تو وہ اِس رائے پر پہنچے کہ کامل آزادی انسان کے اندر بگاڑ پیدا کرے گی۔ وہ ظلم اور فساد جیسے کاموں میں ملوث ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مظاہرہ کی صورت میں اس کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ انسانوں کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے بلا شبہہ اُن کے اندر بگاڑ آئے گا، لیکن اِس مجموعے میں ایسے مستثنیٰ افراد بھی پیدا ہوتے رہیں گے جو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کریں گے، اور اِس طرح وہ ابدی رحمتِ خداوندی کے مستحق قرار پائیں گے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے ایک مظاہرہ کے ذریعے انسانی تاریخ کے اِن مستثنیٰ افراد کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔ یہ دیکھ کر فرشتے مطمئن ہوگئے۔ یہ دیکھ کر فرشتوں نے جانا کہ اُن کا اشکال انسانوں کے پورے مجموعے کی نسبت سے تھا، جب کہ اللہ کا یہ منصوبہ نہیں۔ اللہ کا منصوبہ مبنی بر افراد (individual-based) ہے، وہ مبنی بر مجموعہ (totality-based) نہیں۔
اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم تھا کہ کامل آزادی دینے کی بنا پر انسانی دنیا ظلم وفساد کا جنگل بن جائے گی، مگر اِس عموم میں استثنا بھی ہوگا۔ انسانوں کے پھیلے ہوئے جنگل میں ایسے استثنائی افراد بھی پیدا ہوں گے جو ظلم وفساد کے جنگل میں ربانی پھول کے مانند ہوں گے۔ اللہ کی نظر اِنھیں ربانی پھولوں پر تھی۔ اللہ کو یہ کرنا تھا کہ وہ فرشتوں کے ذریعے پوری انسانی تاریخ کا ریکارڈ تیار کرے، پھر اِن ربانی افراد کو منتخب کرکے اُنھیں انسانوں کی عمومی بھیڑ سے الگ کیا جائے اور پھر ان کو جنت کے ابدی باغوں میں بسایا جائے۔
جنت سادہ معنوں میں کوئی عیش کدہ نہیں۔ جنت وہ اعلیٰ مقام ہے جہاں تاریخ انسانی کے منتخب افراد کا معاشرہ بنایا جائے۔ وہاں اُن کو ہر قسم کا بہترین انفراسٹرکچر (infrastructure) حاصل ہو۔ تاریخ انسانیت کے یہ منتخب افراد یہاں فرشتوں کے تعاون سے ایک برتر تہذیب (super civilization) وجود میں لائیں۔ موجودہ دنیا میں جو تہذیب بنی، وہ قوانین فطرت (laws of nature) کی جزئی دریافت سے بنائی گئی۔ آخرت میں جو مافوق تہذیب بنے گی، وہ کلمات اللہ کی کلّی انفولڈنگ کے ذریعے تشکیل پائے گی۔
اِس معاملے کی مزید وضاحت قرآن کی دوسری آیتوں سے ہوتی ہے۔ اِس سلسلے کی ایک آیت یہ ہے: ولو أن ما فی الأرض من شجرۃ أقلام والبحر یمدّہ من بعدہ سبعۃ ابحر، مانفدت کلمات اللہ، إن اللہ عزیز حکیم (31: 27) یعنی اگر زمین میں جو درخت ہیں، وہ قلم بن جائیں اور سمندر سات مزید سمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔ بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
قرآن کی یہ آیت بظاہر خبر کے اسلوب میں ہے، مگر حقیقت میں وہ انشا ہے، یعنی اِس میں کلمات اللہ کے بارے میں صرف ایک موجود امکان کو نہیں بتایا گیا ہے، بلکہ اُس میں مخصوص قرآنی اسلوب کے تحت یہ بتایاگیا ہے کہ ایک وقت آنے والا ہے جب کہ اِن لامحدود کلمات اللہ کی انفولڈنگ کی جائے۔ یہ کام جنت کے ابدی ماحول میں انجام پا ئے گا۔ وہاں پوری تاریخ بشری کے منتخب افراد اکھٹا ہوں گے اور وہ اعلیٰ ترین مواقع کے درمیان کلمات اللہ کی انفولڈنگ کا کام انجام دیں گے۔ یہ ایک لامحدود کام ہوگا جو ابد تک جاری رہے گا۔ اِس عمل کو قرآن میں شغلِ فاکہ (35: 55) یعنی پُرمسرت سرگرمی (joyful activity) کا نام دیا گیا ہے۔
فردِ انسانی، مجموعۂ انسانی
تاریخ میں جتنے مفکر اور مصلح گزرے ہیں، وہ سب کے سب آئڈیلسٹ (idealist) تھے۔ اُن میں سے ہر ایک پوری انسانیت کی سطح پر معیاری نظام (ideal system)قائم کرنا چاہتا تھا۔قدیم یونان کے فلسفی افلاطون اور ارسطو کا خواب یہ تھا کہ دنیا میں آئڈیل سوسائٹی بنے۔ برٹش فلسفی برٹرینڈرسل چاہتا تھا کہ ایک پرامن دنیا وجود میں آئے۔ انڈیا کے لیڈر مہاتما گاندھی کا نشانہ یہ تھا کہ آزادی کے بعد انڈیا میں مبنی برخدمت سماج (سیواسماج) تشکیل پائے، وغیرہ۔ یہ سب انسانی زندگی کے معیاری تصورات تھے۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ عملاً تمام کے تمام مفکرین اور مصلحین معیاری دنیا (ideal world)کو وجود میں لانے میں ناکام رہے۔
اِس کا سبب یہ تھا کہ ہر مفکر اور ہر مصلح نے اپنے دماغ سے سوچا۔ کسی نے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کہ اِس معاملے میں خالق کی اسکیم (scheme of things) کیا ہے۔ مفکرین اور مصلحین کا منصوبہ خالق کے منصوبے سے مطابقت نہ رکھتا تھا، اِس لیے وہ مکمل طور پر ناکام رہا۔
خالق نے ہر انسان کو آزادیٔ اختیار (freedom of choice) دی ہے۔ یہ آزادیٔ اختیار قیامت سے پہلے، ہر گز منسوخ ہونے والی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِس دنیا میں مجموعۂ انسانی کی سطح پر کسی معیاری نظام کا بننا ممکن نہیں۔ یہاں معیاری فرد تو وجود میں آسکتا ہے، لیکن مجموعے کی سطح پر کوئی معیاری نظام کبھی وجود میں نہیں آسکتا۔ معیاری افراد کا وجود میں آنا تو ممکن ہے، مگر معیاری سماجی نظام کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اِس دنیا میں مجموعۂ انسانیت کی سطح پر کوئی معیاری نظام تو کبھی وجود میں نہ آسکا، لیکن عین اسی وقت ہر زمانے میں فرد (individual) کی سطح پر معیاری انسان وجود میں آتے رہے۔ خالق کے نقشے کے مطابق، یہ ممکن نہیں کہ موجودہ دنیا میں پورے سماج کی سطح پر کوئی معیاری نظام تشکیل پائے۔ لیکن عین اِسی وقت پوری تاریخ میں ایک واقعہ مسلسل پیش آرہا ہے، وہ یہ کہ ہر دور میں معیاری افراد بن رہے ہیں۔ خالق کی اسکیم کے مطابق، جو ہونے والا ہے، وہ یہ کہ مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے اِن معیاری افراد کو چن کر الگ کرلیا جائے اور پھر مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے اِن معیاری افراد کے اجتماع سے ایک آئڈیل سوسائٹی بنائی جائے۔ اِسی معیاری سماج کا نام مذہبی اصطلاح میں جنت (paradise) ہے۔
حضرت نوح کا رول
آدم پہلے انسان تھے اور پہلے نبی بھی۔اُن کو اور ان کی بیوی حوا کو غالباً عراق کے اُس مقام پر بسایا گیا جس کو قدیم زبان میں میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہا جاتاتھا۔ آدم اور حوا کی نسل سے جو لوگ پیدا ہوئے، وہ کئی نسل تک شریعتِ آدم پر قائم رہے، پھر دھیرے دھیرے اُن کے اندر بگاڑ پیدا ہوا اور تقریباً تمام نسل شرک میں مبتلا ہوگئی۔ انھوںنے اپنے بڑوں (وَدّ، سُواع، یغوث، یعوق، نسر) کو اپنا معبود بنالیا۔ پھر اِسی علاقہ (میسوپوٹامیا) میں حضرت نوح پیدا ہوئے۔ انھوںنے لمبی مدت تک نسلِ آدم کو توحید کا پیغام دیا۔ مگر ان کی قوم کے بہت کم لوگ اُن پر ایمان لائے (11: 40) ۔ بعض روایات کے مطابق، ایمان لانے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد 80 تھی۔ اُن کی قوم کے بقیہ تمام افراد اصرار کے ساتھ شرک پر قائم رہے۔
حضرت نوح نے اِسرار واعلان (71: 9) کی تمام صورتیں اختیار کیں۔ لیکن آخر کار اُن پر یہ واضح ہوا کہ معاشرے کی کنڈیشننگ (conditioning) اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ اب قوم کے اندر جو بچہ پیدا ہوگا، وہ آخر کار قوم ہی کے مذہب کو اختیار کرے گا۔ جب بگاڑ اِس حد تک پہنچ چکا تو اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ مومنینِ نوح کو بچا کر بقیہ قوم کو ہلاک کردیا جائے۔
اُس وقت حضرت نوح نے اللہ کے حکم سے ایک بڑی کشتی بنائی۔ اِس کشتی میں ایمان لانے والے 80 مردوں اور عورتوں کو سوار کیاگیا۔ اِس کے بعد اُس علاقے میں ایک سیلاب آیا۔ یہ سیلاب اتنا بڑا تھا کہ اُس علاقے کی پہاڑیاں بھی پانی کے اندر ڈوب گئیں۔ حضرت نوح کی کشتی تیرتی ہوئی جودی پہاڑ پر رُکی (11: 44) ۔ یہ واقعہ تقریباً 5 ہزار سال پہلے پیش آیا۔ اِس پہاڑ کا موجودہ نام ارارات (Mount Ararat) ہے۔ جدید دریافت کے مطابق، وہ مشرقی ترکی میں واقع ہے۔
کسی قوم کو عذاب دینے کا واقعہ تاریخ میں کئی بار پیش آیا ہے، لیکن ایک عظیم سیلاب کے ذریعے عذاب دینے کا واقعہ صرف ایک بار پیش آیا۔ یہ واقعہ بھی خدا کی طرف سے تاریخ کی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس بنا پر یہ ممکن ہوا کہ کشتی میں سوار اہلِ ایمان دور کے علاقے میں پہنچ جائیں۔ چناں چہ یہی بچے ہوئے اہلِ ایمان تھے جن کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں انسان کی آبادیاں قائم ہوئیں۔ حضرت نوح کے زمانے تک انسان کی نسل صرف میسو پوٹامیا (عراق) کے محدود علاقے میں پائی جاتی تھی، لیکن طوفانِ نوح کے بعد انسان کی نسل زمین کے مختلف حصوں میں پھیل گئی۔
تاریخ کے دو دھارے
قرآن کے بیان کے مطابق، انسانی تاریخ کے آغاز ہی سے انسانی زندگی کے دو دھارے بن گئے— ایک، اتباعِ ابلیس کا دھارا، اور دوسرا، اتباعِ ملائکہ کا دھارا۔ زندگی میں ہمیشہ مثبت اور منفی دونوں قسم کے پہلو موجود ہوتے ہیں۔ اتباعِ ابلیس یہ ہے کہ آدمی مثبت پہلو کو نظر انداز کرکے منفی پہلو کو اختیار کرے۔ اس کے برعکس، اتباعِ ملائکہ یہ ہے کہ آدمی منفی پہلو کو نظر اندازکرکے مثبت پہلو پر فوکس کرے۔ پوری انسانی تاریخ اِسی دو قسم کے اتباع کی کہانی ہے۔ ایک روش کو اتباع ابلیس کا کلچر کہہ سکتے ہیں اور دوسری روش کو اتباعِ ملائکہ کا کلچر۔
خالق نے انسان کو مکمل آزادی دے دی ہے، خواہ اِس آزادی کی بنا پر بگاڑ کی وہ صورت پیدا ہوجائے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میںبیان کیا گیا ہے: ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت أیدی الناس (30: 30) ، مگر خالق نے انسان کی آزادی منسوخ نہیں کی، البتہ خالق نے اِس کا اہتمام کیا کہ اصل مقصد تخلیق میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ خالق نے انسان کو آزادی بھی دے دی ہے اور اِسی کے ساتھ وہ تاریخ کو اِس طرح مینج (manage) کررہا ہے کہ مجموعے کی سطح پر بگاڑ کے باوجود مطلوب افراد کی پیدائش کا سلسلہ برابر جاری رہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو تاریخ کی معنویت کو واضح کرتا ہے۔
تاریخ میں ایسے انسانوں کی مثالیں کم ہیں جنھوںنے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا۔ زیادہ مثالیں وہ ہیں، جب کہ انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا۔ بظاہر یہ تاریخ کی ایک منفی تصویر ہے، مگر اِس منفی تصویر کا بھی ایک مثبت پہلو ہے، وہ یہ کہ اِسی ماحول کے دوران وہ حالات پیدا ہوتے ہیں جب کہ انسانوں کا امتحان لے کر مطلوب افراد کا انتخاب کیا جاسکے۔ مزید یہ کہ یہ نظام مطلق معنوں میں شر نہیں ہے، بلکہ اس میں خیر کا بھی ایک پہلو پایا جاتاہے، وہ یہ کہ آزادی کی بنا پر جب ایسا ہوتاہے کہ ہر آدمی اپنی اپنی سرگرمیاں جاری کرتاہے تو اِس سے لوگوں کو طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کو طرح طرح کے نقصانات پیش آتے ہیں۔ یہ سب گویا ایک طرح کا شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) ہوتا ہے۔ اِس طرح کے ناخوش گوار تجربات کی بنا پر افراد کے اندر وہ ذہنی سرگرمیاں جاری ہوتی ہیں جس کو نفسیات کی اصطلاح میں برین اسٹارمنگ (brain storming) کہاجاتاہے— نفسیاتی مطالعے کے مطابق، یہی برین اسٹارمنگ ہر قسم کی ذہنی ترقیوں کا ذریعہ ہے۔
معتدل حالات میں آدمی بڑے بڑے کام نہیں کرتا۔ بڑے بڑے کام صرف اُس وقت کئے جاتے ہیں، جب کہ غیر معتدل حالات پیدا ہوں۔ غیر معتدل حالات کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر شدید قوتِ عمل جاگتی ہے۔ اس کے اندر شدید محرک (strong incentive) پیدا ہوتا ہے۔ یہی شدید محرک تمام بڑے بڑے واقعات کو رونما کرنے کا سبب ہے۔
مثلاً صلیبی جنگوں کے ذریعے وہ حالات پیدا ہوئے جن کے ذریعے اہلِ یورپ میں نیچر کی طاقتوں کی دریافت کا شدید جذبہ پیدا ہوا۔ پہلی عالمی جنگ کے زمانے میں اِسی طرح کاشدید جذبہ پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں ہوا بازی (aviation) کو ترقی ہوئی۔ اِسی طرح دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں وہ شدیدمحرک پیدا ہوا جس کی بنا پر کمیونکیشن کو ترقی ہوئی، وغیرہ۔
نئی منصوبہ بندی
منصوبۂ تخلیق کے مطابق، یہ ممکن نہیں تھا کہ انسان کی آزادی کو منسوخ کیاجائے۔ اِس لیے اب اللہ تعالیٰ نے تاریخ میں بالواسطہ طورپر ایک دخل دیا۔اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک ایسا گروہ پیدا کیا جائے جو مذہب اور سیاسی اقتدار کو ایک دوسرے سے الگ کردے، تاکہ انسانی تاریخ اپنے صحیح رخ پر سفر کرسکے، بغیر اس کے کہ انسانی آزادی کو منسوخ کیاگیاہو۔ اِس نئے منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ انسانوں کا مجموعہ خواہ آزادی کا صحیح استعمال نہ کرنے کی بناپر غلط رخ پرچلتا رہے، لیکن پھر بھی افراد کو یہ موقع حاصل رہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق، صحیح مذہب کو اختیار کرسکیں۔
اِس نئے منصوبے کا آغاز چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم کے ذریعے ہوا۔ حضرت ابراہیم کا مقامِ عمل قدیم عراق تھا۔ یہاں اُس وقت مشرکانہ کلچر کا غلبہ تھا۔ حضرت ابراہیم نے لمبی مدت تک اُنھیں توحید کی دعوت دی، مگر وہ لوگ اپنی کنڈیشننگ کی بنا پر توحید کی فکر کو قبول نہ کرسکے، یہاں تک کہ انھوں نے حضرت ابراہیم کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اِس صورتِ حال کا تقاضا ہوا کہ حضرت ابراہیم اپنے مقامِ عمل کو بدل دیں۔ چناں چہ وہ اپنی اہلیہ ہاجرہ اوراپنے فرزند اسماعیل کو لے کر مکہ کے قریب آگئے جواُس وقت صرف ایک ویران صحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔
اِس صحرائی ماحول میں توالد وتناسل کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں وہ گروہ وجود میں آیا جس کو بنو اسماعیل کہاجاتا ہے۔ صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے ماحول میں ایک نئی قوم بنانے کا یہ عمل تقریباً ڈھائی ہزار سال تک جاری رہا۔ پھر بنو اسماعیل کے اِسی گروہ میں پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب پیدا ہوئے۔ پیغمبر اسلام کی 23 سالہ جدوجہد کے نتیجے میں یہ ہوا کہ بنو اسماعیل کے صالح افراد بڑی تعداد میں آپ کے گرد جمع ہوگئے، یہاں تک کہ وہ گروہ بنا جس کو اصحاب رسول کہاجاتاہے۔
اصحابِ رسول کا زمانۂ عمل ساتویں صدی عیسوی ہے۔ اُن کے ذریعے منصوبہ خداوندی کے مختلف کام انجام پائے۔ مثلاً کتاب الٰہی (قرآن) کا محفوظ ہوجانا۔ دینِ خداوندی کا ایک عملی ماڈل قائم ہوجانا۔ دین خداوندی جو پچھلے انبیا کے زمانے میں زیادہ تر فکری مرحلے تک محدود تھا، وہ اب انقلابی مرحلے میں پہنچ گیا۔ اِن تبدیلیوں کی بنا پر یہ ممکن ہوگیا کہ پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ ختم کردیا جائے۔ تاریخ میں انفرادی پیغمبر کا دور ختم ہوجائے اور اجتماعی امت کا دور شروع ہوجائے ، وغیرہ۔
اللہ کی خصوصی نصرت سے، اصحاب رسول کے ذریعے جو انقلابی کام انجام پایا، اُس کا ایک خاص پہلو وہ تھا جس کا ذکر قرآن کی اِس آیت میں کیاگیا ہے: وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ، ویکون الدین کلّہ للہ (8:39) ۔ اِس آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد وہ جارحانہ نظام ہے جو قدیم طرز کی شہنشاہیت (imperialism) کی سرپرستی میں قائم تھا۔ اِس شہنشاہی نظام نے ایک ایسا نظام قائم کررکھا تھا جو خدا کے تخلیقی منصوبے کی تنسیخ کے ہم معنی تھا، یعنی آزادیٔ فکر کا خاتمہ۔ اِس لیے خدا کو یہ مطلوب تھا کہ اِس جبری شہنشاہی نظام کو توڑ دیا جائے، تاکہ انسانی قافلے کے سفر میں کوئی مصنوعی رکاوٹ حائل نہ رہے۔
ساتویں صدی عیسوی میں اِس جبری شہنشاہیت کے دو بڑے نمائندے تھے — ایک ساسانی ایمپائر (Sassanid Empire) اور دوسرے، رومن ایمپائر یا بازنتینی ایمپائر(Byzantine Empire)۔ یہ دونوں ایمپائر اتنا زیادہ طاقت ور تھے کہ اصحابِ رسول کے ذریعے ان کو مغلوب کرنا عملاً ناممکن تھا۔ عین اُس زمانے میں ایک معاون واقعہ پیش آیا، یعنی دونوں سیاسی چٹانوں کے درمیان باہمی ٹکراؤ۔ چناں چہ دونوں ایمپائر ایک دوسرے سے لڑ گئے۔ پہلے ساسانی ایمپائر نے رومن ایمپائر کو تباہ کیا، اس کے بعد رومن ایمپائر نے ساسانی ایمپائر کا زور توڑ دیا۔ اِس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ خدائی منصوبے کے مطابق، اصحابِ رسول اُن کو مغلوب کرسکیں۔ یہ تاریخی واقعہ پیشگی طورپر منصوبۂ الٰہی میں مقدر کردیا گیا تھا۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کی طرف بائبل میں پیشین گوئی کے طورپر ان الفاظ میں اشارہ کیاگیا تھا — اُس نے نگاہ کی اور قومیں پراگندہ ہوگئیں۔ ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے۔ قدیم ٹیلے جھک گئے:
He looked and startled the nations. And the everlasting mountains were scattered. (Habakkuk, 3: 6)
یہ ساتویں صدی عیسوی کا واقعہ ہے۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ اہلِ اسلام کو وہ سیاسی غلبہ حاصل ہوگیا جو اس سے پہلے صرف اُن سیاسی نظاموں کو حاصل تھا جو مشرکانہ کلچر کی سرپرستی کرتے تھے۔ مسلمانوں کے سیاسی غلبہ کے تحت تاریخ میں ایک نیا عمل (process) شروع ہوا۔ اِس عمل کا نشانہ تھا — فطرت (nature) کو موضوعِ تحقیق (object of investigation) بنانا، جو اَب تک انسان کے لیے صرف موضوعِ پرستش (object of worship) بنی ہوئی تھی۔ انسان کو مکمل آزادی عطا کرکے اس کے لیے ذہنی ارتقا کا راستہ کھولنا، فطرت میں چھپے ہوئے اُن وسائل کو وقوع میں لانا جو عالمی دعوت کو ممکن بنانے والے ہوں، وغیرہ۔
انسانی آزادی کی بنا پر اِس دنیا میں تمام واقعات اسباب کے ماحول میں پیش آتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان علمی تحقیق کا کام خاص طورپر عباسی دور میں شروع ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبے میں مسلمانوں کی عظیم سلطنت قائم ہوچکی تھی۔ اِس بنا پر علمی تحقیق کی طرف مسلمان صرف جزئی طورپر متوجہ ہوسکے۔ مسلمانوں کی توانائی کا بڑا حصہ سیاسی سرگرمیوں میںلگا ہوا تھا۔ ان کی توانائی کا صرف محدود حصہ علمی تحقیق کے میدان میں صرف ہورہا تھا۔ یہ تناسب ناکافی تھا۔ علمی تحقیق کا یہ کام بہت بڑا کام تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ مسلمان اپنی طاقت کو پوری یکسوئی کے ساتھ علمی تحقیق کے میدان میں وقف کردیں۔ مگر سیاسی اقتدار اِس قسم کی علمی یکسوئی میں رکاوٹ بنا ہواتھا۔
اِس کے برعکس، صلیبی جنگوں کے بعد علمی تحقیق کا کام جب یورپ کی مسیحی قوموں میں شر وع ہوا تو سیاسی اقتدار اُن کے لیے رکاوٹ نہ بن سکا، کیوں کہ عملاً وہ اُن کے پاس موجود ہی نہ تھا۔ چناں چہ مسیحی قوموں کے اعلیٰ ذہن بڑی تعداد میں علمی تحقیق کے میدان میں مصروف ہوگئے۔ انھوںنے پوری یکسوئی کے ساتھ علمی تحقیق کا کام شروع کردیا۔
یہ بھی انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو مینج (manage) کرنے کا معاملہ تھا۔ جب خالق نے دیکھا کہ مسلم دنیا کے حالات علمی تحقیق کو زیادہ بڑے پیمانے پر انجام دینے میں رکاوٹ بن رہے ہیں، تو اُس نے علمی تحقیق کے کام کو مسلم دنیا سے نکال کر مسیحی دنیا کی طرف منتقل کردیا، جہاں اِس قسم کی رکاوٹ والے اسباب موجود نہیںتھے۔
مشرق سے مغرب کی طرف
اسلام کا آغاز 610 عیسوی میں ہوا۔ حالات کی موافقت کی بنا پر اس کی توسیع اتنی تیز رفتاری کے ساتھ ہوئی کہ 50 سال کے اندر اہلِ اسلام کا ایک ایمپائر قائم ہوگیا۔ اب یہ مطلوب تھا کہ امتِ محمدی تسخیرِ فطرت اور سماجی انقلا ب کے وہ مطلوب کام انجام دے جس کے لیے اُس کو سیاسی غلبہ عطا کیاگیا تھا۔ مگر مسلمان بہت جلد آپس کے سیاسی ٹکراؤ میں مشغول ہوگئے اور مطلوب کام کی طرف وہ زیادہ پیش قدمی نہ کرسکے۔
اب خدائی منصوبے کے مطابق، تاریخ میں وہ واقعہ پیش آیا۔ جس کو قرآن کی سورہ محمد میں استبدالِ قوم (47: 38) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ استبدال (replacement) کا مطلب یہ تھا کہ مذکورہ منصوبے کی تکمیل کے لیے مسلمانوں کے بجائے ایک اور قوم کو کھڑا کرنا۔ صلیبی جنگوں (Crusades) کے ذریعے استبدال کا یہی معاملہ پیش آیا۔
خلیفہ ثانی عمر فاروق کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ مسلمانوں نے فلسطین کو مسیحیوں سے چھین لیااور اُس پر اپنا اقتدار قائم کرلیا۔ فلسطین مسیحی قوموں کے لیے ایک مقدس سرزمین (holy land) کی حیثیت رکھتا تھا۔ چناں چہ مسیحی قومیں اِس قبضے کو کبھی قبول نہ کرسکیں۔ یہ نزاع باقی رہی، یہاںتک کہ یورپ کی مسیحی سلطنتوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ فوجی کارروائی کے ذریعے وہ شام اور فلسطین کے علاقے کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیں۔
صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ 1095 ء میں شروع ہوا۔ تقریباً 200 سال کے اندر دونوں قوموں کے درمیان وقفے وقفے سے 9 بار خوں ریز لڑائیاں ہوئیں، مگر یورپ کی مسیحی سلطنتوں کی متحدہ کوشش کے باوجود اُن کو زبردست ناکامی ہوئی۔ اِس کے بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ مسلّح جنگ کے ذریعے مسلمانوں کو شکست دینا اُن کے لیے ممکن نہیں۔ چناں چہ مسیحی قوموں میں ایک نیا ذہن شروع ہوا۔ اس نئی جدوجہد کا نام اسپریچول کروسیڈ (spiritual crusades) تھا۔ اسپریچول کروسیڈ سے مراد دراصل انٹلکچول کروسیڈ(intellectual crusades) تھا۔ چناں چہ مسیحی قوموں نے اب اپنی کوششوں کو علمی ترقی کی طرف موڑ دیا۔ یونانی فلسفیوں اور مسلم فلسفیوں کی کتابوں کے ترجمے وسیع پیمانے پر لاتینی زبان میں کئے جانے لگے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ یورپ میں تعلیم اور علمی رسرچ کی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری ہوئیں۔ چناں چہ اِس کی دو مثالیں یہ ہیں کہ ’’اسپریچول کروسیڈ‘‘کے سینٹر کے طورپر 1096 میں برطانیہ میں آکسفورڈ یونی ورسٹی قائم ہوئی اور 1209 میں کیمبرج یونی ورسٹی قائم کی گئی، وغیرہ۔
اس کے بعد چودھویں صدی اور سولھویں صدی عیسوی کے درمیان یورپ میں وہ انقلاب آیا جس کو نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کہاجاتاہے۔ اب اسپریچول کروسیڈس نے مزید ترقی کرکے نیچرل کروسیڈس (natural crusades) کی حیثیت اختیارکرلی۔
مغرب میں اسپریچول کروسیڈ اور نیچرل کروسیڈ ابتداء ً منفی ذہن کے تحت پیدا ہوئی۔ مغربی قوموں کو جس چیز نے ابتداء ً متحرک کیا تھا، وہ یہ تھاکہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار کے میدان میں ہاری ہوئی جنگ کو دوبارہ علم کے میدان میں کامیاب بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ مغرب کی اس منفی نفسیات کو محرک (incentive) کے طورپر استعمال کیا۔ اللہ نے اہلِ مغرب کو اِس کا ذریعہ بنایا کہ وہ نیچر میں چھپے ہوئے اسرار کو دریافت کریں اور ایک ایسی دنیا وجود میں لائیں جو اسلامی مشن کے لیے تائید کا ذریعہ ثابت ہو۔
اہلِ مغرب کے ذریعے یہ تائیدی واقعہ جو اپنی پوری صورت میں بیسویں صدی میں ظہور میں آیا، اس کی پیشگی خبر قرآن کی ایک آیت میں دی گئی تھی: سنریہم اٰیاتنا فی الاٰفاق وفی أنفسہم حتی یتبین لہم أنہ الحق (41: 53) یعنی مستقبل میں ہم اُن کو اپنی آیات دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی۔ یہاںتک کہ اُن کے اوپر یہ آشکارا ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔
اہلِ مغرب کے اِس رول کا تذکرہ حدیث میں بھی بطور پیشین گوئی موجود ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ لیؤیّد ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062 ) یعنی اللہ اِس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے بھی کرے گا۔
اِس حدیث میں ’فاجر‘ کا لفظ سیکولر کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ واقعات سے ظاہر ہوتاہے کہ اِن سیکولر مؤیدین سے مراد مغربی دنیاکے وہ لوگ ہیں جن کی کوششوں سے جدید تہذیب (modern civilization) وجود میں آئی اور اس کے ذریعے آفاق وانفس کی آیات دریافت ہوئیں۔ اہلِ مغرب کے اندر انتقام کی جو نفسیات پیداہوئی، وہ فطری طور پر نہایت شدید تھی۔ اِس شدید محرک کو اللہ نے رموزِ فطرت کی دریافت کے لیے استعمال کیا۔
رموزِ فطرت کی دریافت کا یہ کام ایک بے حد مشکل کام تھا۔ اُس میںاپنے آپ کو ڈیڈی کیٹ (dedicate) کرنے کے لیے نہایت شدید محرک (strong incentive) درکار تھا۔ صلیبی جنگوں میں اہلِ مغرب کی توہین آمیز شکست (humiliating defeat) نے اُن کے اندر یہی شدید محرک پیدا کیا۔ اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں برطانیہ کی ایک سائنٹفک ٹیم نے یہ منصوبہ بنایا کہ وہ انٹارکٹکا (Antarctica) کی دریافت کریں۔ یہ ایک نہایت جان جوکھم کا کام تھا۔ ٹیم کے سربراہ سر ارنسٹ شیکلٹن (Sir Ernest Shackleton) نے 1900ء میں لندن کے اخبار ٹائمس (The Times) میں ایک اشتہار چھپوایا۔ اس کے الفاظ یہ تھے:
“Men wanted for hazardous journey. Small wages, bitter cold, long months of complete darkness, constant dangers, safe return doubtful. Honour and recognition in case of success.”
یعنی ایک پر خطر سفر کے لیے آدمی درکار ہیں۔ بہت کم معاوضہ، شدید ٹھنڈک، لگاتارتاریکی کے لمبے مہینے، مسلسل خطرہ، محفوظ واپسی مشتبہ، کامیابی کی صورت میں عزت اور اعتراف۔
یہ اشتہار جب ٹائمس میں چھپا تو اس میں شرکت کے لیے اتنے زیادہ افراد کی درخواستیں آئیں کہ سلیکشن (selection) کی بنیاد پر اُن میں سے صرف منتخب افراد کو لیا گیا — یہی وہ مجنونانہ اسپرٹ تھی جس نے اہلِ مغرب کو یہ موقع دیا کہ وہ جدید دور کو وجود میں لاسکیں۔
فطرت کا ایک قانون
اہلِ مغرب، اصلاً خدائی دین کے مؤید کے طور پر ابھرے تھے، لیکن رد عمل کی نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمانوںنے اِس خدائی منصوبے کو نہیں سمجھا۔ انھوںنے غیر ضروری طورپر اہلِ مغرب کو اپنا دشمن سمجھ لیا اور اُن سے لڑنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کی دوسو سالہ تاریخ اِس غیر ضروری لڑائی میں ضائع ہوگئی۔
تاریخ کے اِس ارتقائی سفر کو جاری رکھنے کے لیے ہمیشہ ایک قائد درکار ہوتاہے۔ اہلِ مغرب اِسی قسم کے ایک قائد تھے۔ اِس سے پہلے اہلِ اسلام کو قیادت کا یہ موقع ملا تھا۔ موجودہ زمانے میں منصوبۂ الٰہی کے تحت یہ موقع اہلِ مغرب کے حصے میںآیا۔
ساتویں صدی عیسوی میں اصحاب رسول جب ایران میں داخل ہوئے تو اہلِ ایران اُن سے خائف ہوگئے۔ انھوںنے اصحابِ رسول کے طاقت ور داخلے کو دیکھ کر کہا: دیواں آمدند، دیواں آمدند (دیو آگئے، دیو آگئے)۔ اہلِ ایران نے اصحابِ رسول کے داخلے کو منفی معنوں میں لیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ ایک نئی تہذیب کے نقیب (harbinger) تھے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار ایک صحابی رسول ربعی بن عامرنے ایران کے سپہ سالار رستم سے گفتگو کرتے ہوئے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا: اللہ ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادۃ العباد إلی عبادۃ اللہ ( البدایۃ والنہایۃ، 7/46 ) یعنی اللہ نے ہم کو بھیجا ہے، تاکہ وہ جس کو چاہے، ہم اُس کو بندوں کی بندگی سے نکال کر خدا کی عبادت کی طرف لے آئیں۔
ساتویں صدی میں اٹھنے والے اصحاب رسول کی اصل حیثیت یہی تھی کہ وہ اُس زمانے میں ایک نئے دور کے نقیب تھے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ جو گروہ نئے دور کا نقیب بن کر ابھرتا ہے، اس کو دوسروں کے اوپر قیادت (leadership) کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ قیادت کسی سازش یا دشمنی کے سبب وجود میں نہیں آتی، بلکہ وہ فطرت کے لازمی تقاضے کے طور پر وجود میں آتی ہے۔
یہی معاملہ موجودہ زمانے میںاہلِ مغرب کے ساتھ پیش آیا۔ اہلِ مغرب اصلاً ایک نئی تہذیب کے نقیب (harbinger) تھے۔ لیکن فطری تقاضے کے طورپر مزید یہ ہوا کہ اُن کو اپنی ہم عصر قوموں کے اوپر قیادت حاصل ہوگئی۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ وہ اہلِ مغرب کی اس قیادت کو ایک فطری واقعہ سمجھ کر قبول کرلیں، جیسا کہ اِس سے پہلے دنیا کی قوموں نے مسلم قیادت کو قبول کرلیا تھا۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمان اِس راز کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ انھوںنے مغربی تہذیب کو دشمنی اور سازش کا کیس قرار دے دیا۔ وہ اُن سے نفرت کرنے لگے، یہاںتک کہ ہر جگہ وہ اُن سے لڑنے لگے۔ یہ لڑائی جو جہاد کے نام پر کی گئی تھی، وہ قانونِ فطرت کے خلاف تھی، اِس لیے وہ غیر معمولی قربانیوں کے باوجود مکمل طورپرناکام ثابت ہوئی۔ اِس ناکامی کی ذمے داری مکمل طور پر خود مسلمانوں کے اوپر ہے۔ مسلمانوں نے اہلِ مغرب کے خلاف جو جنگ چھیڑی، وہ اُن کے خیال کے مطابق، اہلِ مغرب کے خلاف جنگ تھی، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ منصوبۂ الٰہی کے خلاف جنگ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ مکمل طورپر ناکام ہوئی، اُس کا انجام اِس کے سوا کچھ اور نہیں نکلا کہ مسلمانوں کی تباہی میں مزید اضافہ ہوگیا۔
خلافتِ آدم
قرآن کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے جب آدم (انسانِ اول) کو پیدا کیا، اُس وقت آدم کے علاوہ دو اور مخلوقات تھیں— جن اور ملائکہ۔ اللہ تعالیٰ نے جن اور ملائکہ سے کہا کہ تم آدم کے آگے جھک جاؤ۔ اُس وقت فرشتے آدم کے سامنے جھک گئے، لیکن جنات کا سردار ابلیس نہیں جھکا۔ ابلیس نے کہا کہ میں آدم سے برترہوں، کیوں کہ تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے۔
ایسا کیوں ہوا۔ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زمین بنائی تو پہلے اس کو جنات کے چارج میں دے دیا۔ مگر جنات نے سرکشی کی اور باہم لڑ کر فساد برپا کیا۔ اِس طرح جنات زمین کا انچارج بننے کے لیے نااہل ہوگئے۔ اِس کے بعد اللہ نے جنات کو معزول کردیا اور ان کی جگہ انسان کو پیدا کرکے زمین کو انسان کے چارج میں دے دیا۔ اِس تبدیلی کو جنات نے قبول نہیں کیا، اس لیے جنات کے سردار ابلیس نے آدم کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔
قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان سے پہلے جنات کو پیدا کیا تھا (15:27 (۔ اِس لحاظ سے انسان زمین پر جنات کا جانشین، یعنی خلیفۃ الجن ہے۔ کچھ لوگ خلافت کی آیت (إنی جاعل فی الأرض خلیفۃ) سے یہ نظریہ اخذ کرتے ہیں کہ انسان زمین پر خدا کا خلیفہ (خلیفۃ اللہ) ہے۔ یہ نظریہ بلاشبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ قرآن اور حدیث میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں۔
انسان کو زمین میں خلیفہ بنانے کا مطلب کیا ہے، اِس کو قرآن کی دوسری آیتوں کے مطالعے سے سمجھا جاتاہے۔ یہاں اِس قسم کی دو آیتوں کا ترجمہ نقل کیا جاتاہے:
1 - ’’کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لیے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا، اِس سے پہلے کہ میرے رب کہ باتیں ختم ہوں، اگر چہ ہم اس کے ساتھ اِسی کے مانند اور سمندر ملادیں‘‘ (15: 109)
2 - ’’اور اگر زمین میں جو درخت ہیں، وہ قلم بن جائیں اور سمندر سات مزید سمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں ۔ بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے‘‘۔31:27
قرآن کی اِن آیتوں میں جن لامحدود کلماتِ الٰہی کا بیان ہے، وہ صرف بطور خبر نہیں ہے، بلکہ وہ بطور انشاء ہے۔ اِن آیتوں میں اشارۃً یہ بات بتائی گئی ہے کہ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ کائنات میں چھپے ہوئے اِن کلمات کو دریافت کیا جائے اور ان کو ’’قلم‘‘ سے لکھا جائے، تاکہ انسان اللہ کی عظمتوں سے واقف ہو اور اعلیٰ درجۂ معرفت کے ساتھ الحمد للہ کہہ سکے۔
اللہ کے منصوبے کے مطابق، کلمات اللہ کی دریافت (discovery) اور ان کو قلم بند کرنے کا پراسس (process) موجودہ دنیا میں شروع ہوتا ہے اور آخرت میں دوبارہ جاری رہ کر وہ تکمیل کے منازل طے کرتا ہے۔ موجودہ دنیا میں اِس عمل کے ذریعے ظہور میں آنے والے واقعے کا نام انسانی تہذیب (human civilization) ہے۔ جدید انسانی تہذیب اپنی نوعیت کے اعتبار سے، دراصل، فطرت (nature) میں چھپے ہوئے کلماتِ الٰہی کو دریافت کرنے ہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ عمل ابتدائی طورپر اِسی دنیا میں انجام پاچکا ہے اور اِسی کا نام جدید تہذیب ہے۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن کی اِس آیت میں پیشگی طورپر کیا گیا ہے: سنریہم اٰیاتنا فی الاٰفاق وفی أنفسہم حتی یتبین لہم أنہ الحق (41: 53)۔
کلمات اللہ کے اِس دنیوی اظہار کا کام زیادہ تر سیکولر اہلِ علم نے کیا ہے۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کا ذکر ایک حدیث رسول میںاِن الفاظ میں کیاگیا ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062)۔ اِس حدیث میں، ’’رجل فاجر‘‘ سے مراد موجودہ زمانے کے سیکولر اہلِ علم ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے غیر معمولی محنت کے ذریعے جدید تہذیب کو وجود دیا ہے جو کہ ’’کلمات اللہ‘‘ کی جزئی انفولڈنگ (unfolding) کے ہم معنی ہے۔
کلمات اللہ لامحدود ہیں اور موجودہ دنیا کے امکانات محدود۔ اِس لیے موجودہ دنیا میں کلمات اللہ کی انفولڈنگ صرف محدود طورپر ہی ہوسکتی ہے۔ کلمات اللہ کی کامل انفولڈنگ کے لیے ایک اور وسیع تر دنیا درکار ہے۔ اِسی وسیع تر دنیا کا نام آخرت ہے۔ آخرت میں یہ ہوگا کہ پوری انسانی تاریخ سے، لائق افراد منتخب کئے جائیں گے اور اِن منتخب افراد کو آخرت کی ابدی دنیا میں بسایا جائے گا۔ وہاں یہ منتخب افراد کلمات اللہ کی مزید انفولڈنگ کا کام انجام دیں گے۔ یہ انفولڈنگ ابد تک جاری رہے گی، وہ کبھی ختم نہ ہوگی۔ آخرت میں کلمات اللہ کی انفولڈنگ کے ذریعے ایک برتر تہذیب وجود میں آئے گی۔ اِس کو خدائی تہذیب (divine civilization) کہاجاسکتا ہے۔ کلمات اللہ کی اِس لامحدود انفولڈنگ کو قرآن میں: وأشرقت الأرض بنور ربہا (39: 69) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
قرآن کی پہلی سورہ کی پہلی آیت یہ ہے: الحمد للہ رب العالمین۔ یہ حمد خداوندی کا ابتدائی درجہ ہے جو موجودہ دنیا میں کلمات اللہ کی جزئی انفولڈنگ کے دوران ادا ہوگا۔ٹھیک یہی کلمہ (الحمد للہ رب العالمین) قرآن کی سورہ الزمر میںآیا ہے (39: 75) ۔ سورہ الفاتحہ میں حمدخداوندی کے اُس درجے کا بیان تھا جو کہ دنیا میں کلمات اللہ کی ابتدائی انفولڈنگ کے وقت ادا ہوا۔ اور سورہ الزمر میں اُس حمد خداوندی کا ذکر ہے جو کہ آخرت میں کلمات اللہ کی انتہائی انفولڈنگ کے وقت اہلِ جنت کی زبان سے ادا ہوگا۔
موجودہ دنیا وہ جگہ تھی جہاں انسان کو تمام چیزیں بقدر ضرورت دی گئی تھیں (14: 34) ۔ آخرت کی جنت وہ جگہ ہوگی جہاں اس کے باشندوں کو تمام اعلیٰ نعمتیں درجۂ اشتہاء (41:31) میں حاصل ہوں گی۔ آخرت کی جنت میں یہ تمام نعمتیں اس کے باشندوں کو خدائی میزبانی (divine hospitality) کے طور پر حاصل ہوں گی۔ آخرت میں اہلِ جنت کا سب سے زیادہ محبوب مشغلہ یہ ہوگا کہ وہ لامحدود کلمات اللہ کی بقیہ انفولڈنگ کریںاور ایک برتر تہذیب (super civilization) کو وجود میں لائیں۔ کلمات اللہ کی انفولڈنگ کا یہ کام ابد تک جاری رہے گا۔ اس لیے اہلِ جنت کا دورِ مسرت بھی ابد تک جاری رہے گا، وہ کبھی ختم نہ ہوگا۔
اسلام کی تاریخ
خدا نے انسان کو مکمل آزادی دی ہے۔ اِسی کے ساتھ خدا عام تاریخ کو نیز اسلامی تاریخ کو مینج (manage) کررہاہے، تاکہ تخلیق کا خدائی مقصد یقینی طور پر حاصل ہوتا رہے۔ خدائی سنت کے مطابق، اس مینج مینٹ کی تکمیل ہمیشہ کچھ افراد کے ذریعے ہوتی ہے۔ اِس خدائی مینج مینٹ کی چار بڑی صورتیں ہیں:
1 - ادارتی رول (institutional role)
2 - انقلابی رول (revolutionary role)
3 - علمی رول (academic role)
4 - انفرادی رول (individual role)
ادارتی رول کی ایک معلوم تاریخی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے۔ انھوں نے تقریباً چار ہزار سال پہلے مکہ میں کعبہ (بیت اللہ) کی تعمیر کی۔ یہ کعبہ گویا کہ مذہبِ توحید کا ایک ادارتی مرکز (institutional centre) ہے۔ کعبہ سارے عالم کے موحدین کا مرکز ہے اور قیامت تک وہ موحدین کا مرکز بنا رہے گا۔
خدا کے دین کی لمبی تاریخ میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم (وفات: 632 ء) کا رول ایک انقلابی رول ہے۔ آپ نے تاریخ انسانی کو ایک نئے دور میں داخل کیا۔ اِس انقلابی عمل میںصحابہ اور تابعین کا رول مددگار رول (supporting role) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس انقلاب کے اثرات تاریخ میں آج تک جاری ہیں اور قیامت تک جاری رہیں گے۔
علمی رول یا اکیڈمک رول کی حیثیت سے محدثین کا نام سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ محدثین نے یہ کیا کہ انھوں نے دینِ خداوندی کے دوسرے مستند ماخذ حدیثِ رسول کو اِس طرح مدوّن کردیا کہ وہ بعد کی تمام نسلوں کے لیے خدا کے رسول کی رہنمائی کو جاننے کا قابلِ اعتبار ماخذ بنا۔ ابتدائی دور کے ان محدثین کا زمانہ نویں صدی عیسوی ہے۔
انفرادی رول کی حیثیت سے نمایاں نام اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز (وفات: 720 ء) کا ہے۔ وہ 717 عیسوی میں بنو امیہ کے خلیفہ منتخب ہوئے جن کا دارالسلطنت دمشق تھا۔ ان کی خلافت کی مدت صرف ڈھائی سال ہے۔ انھوں نے اِس مختصر مدت میں ایک بہت بڑا تجدیدی کام کیا، مگر اُن کا یہ رول ایک انفرادی رول تھا جو اُن کی زندگی تک باقی رہا اور ان کی وفات پر عملاً ختم ہوگیا۔
مذکورہ چار تاریخی ماڈل میں ابتدائی تین ماڈل صرف ایک بار کے لیے تھے۔ بعد کی نسلوں کے لیے یہ رہنمائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، لیکن اب ان کا اعادہ ممکن نہیں۔ البتہ چوتھا رول (انفرادی رول) بدستور جاری ہے۔ بعد کی نسلوں میں بھی یہ ممکن ہے کہ اُن کے درمیان کوئی فرد اٹھے اور اپنے حالات کی نسبت سے کوئی مطلوب انفرادی رول ادا کرے۔ مگر اصلاً یہ ایک شخص کا رول ہوگا جو عملاً اس کی شخصی زندگی تک جاری رہے گا اور اس کے بعد ختم ہوجائے گا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی پہلو سے اس کا اثر حسب حالات بعد کے زمانے میں بھی باقی رہے۔
واضح ہو کہ اگر اس قسم کا کوئی فرد اپنے زمانے میں ایک تنظیم بنائے اور وہ تنظیم اس کی وفات کے بعد باقی رہے تو یہ تنظیم اس فرد کے رول کے استمرار (continuation) کے ہم معنی ہوگی، بلکہ وہ ایک ایسے ڈھانچہ کے استمرار کے ہم معنی ہوگا جو متوفیّٰ کے نام پر اس کے بعد بھی جاری رہے گا۔ ایسی کوئی تنظیم بعد کو اگر باقی رہتی ہے تو وہ کسی مادی بنیاد پر باقی رہتی ہے، نہ کہ مشن کی اصل اسپرٹ کی بنیاد پر۔
اخوانِ رسول کا رول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت حدیث کی کتابوں میں اِس طرح آئی ہے: وددتُ أنا قد رأینا إخواننا، قالوا: أولسنا إخوانک یا رسول اللہ، قال: أنتم أصحابی، وإخواننا الذین لم یأتوا بعد (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 249) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ ہم اپنے اخوان (بھائیوں) کو دیکھیں۔ صحابہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے اخوان نہیںہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم میرے اصحاب ہو، ہمارے اخوان وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔
مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی تاریخ میں دو اہم رول مقدر تھے — ایک، اصحابِ رسول کا رول، اور دوسرے، اخوانِ رسول کا رول۔ اصحابِ رسول کا رول یہ تھا کہ وہ انسانی تاریخ میں ایک نئے عمل (process) کا آغاز کریں، ایک ایسا عمل جب کہ قدیم دور ختم ہو اور ایک نیا دور نئے مواقع اور نئے امکانات کے ساتھ ظہور میں آئے۔ اِس بات کو سمجھنے کے لیے اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ پہلے دور سے مراد روایتی دور ہے، اور دوسرے دور سے مراد سائنٹفک دور۔
اصحاب رسول اور اخوانِ رسول دونوں ہی کا نشانہ ایک ہوگا اور وہ ہے دعوت الی اللہ۔ اِس دعوت الی اللہ کے دو بڑے دور ہیں— ایک ہے عالمی کمیونکیشن سے پہلے کا دور۔ دوسرا ہے، عالمی کمیونکیشن کے بعد کا دور۔ اصولی طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عالمی کمیونکیشن کے ظہور سے پہلے جو مواقع تھے ، اصحابِ رسول نے اُن کا بھر پور استعمال کیا۔ بعد کو عالمی کمیونکیشن کے زمانے میں جو مواقعِ دعوت پیدا ہوں گے، اُن کو جو لوگ بھر پور طورپر استعمال کریں، وہی وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں اخوانِ رسول کہاگیا ہے۔اخوانِ رسول کسی پراسرار گروہ کا نام نہیں۔
جنت کی دنیا
انسانی تاریخ ایک عورت اور ایک مرد سے شروع ہوئی، پھر لوگ پیدا ہوتے رہے او ر مرتے رہے۔ اِس طرح یہ سلسلہ نسل درنسل ہزاروں سال سے قائم ہے۔ اکیسویں صدی کے رُبع اوّل میں پورے کرۂ ارض پر انسانوں کی تعداد سات بلین سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اس سے پہلے جو لوگ مرگئے، وہ بھی معدوم نہیں ہوئے، بلکہ وہ آخرت کی دنیا میں بدستور زندہ موجود ہیں۔
جس طرح انسانی تاریخ کا ایک آغاز ہے، اُسی طرح اس کا ایک اختتام بھی ہے۔ انسانی تاریخ کے خاتمے کے بعد ایک اور دنیا بنے گی۔ یہ دنیا کامل معنوں میں ایک معیاری دنیا ہوگی۔ اِس معیاری دنیا میں پوری تاریخ کے منتخب افراد آباد کئے جائیںگے۔ قرآن میں اِس حقیقت کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إن الأرض یرثہا عبادی الصالحون (21: 105) یعنی زمین کے وارث میرے صالح بندے ہوںگے۔
یہ حقیقت پچھلی آسمانی کتابوںمیں بھی بیان ہوئی ہے۔ موجودہ بائبل میں اِس سلسلے میں یہ الفاظ آئے ہیں— بدی کو چھوڑ دے اور نیکی کر اور ہمیشہ تک آباد رہ ، کیوں کہ خداوند انصاف کو پسند کرتا ہے اور وہ اپنے مقدسوں کو ترک نہیں کرتا، وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں،پر شریروں کی نسل کاٹ ڈالی جائے گی۔ صادق زمین کے وارث ہوں گے اوراس میں ہمیشہ آباد رہیں گے:
Depart from evil, and do good; And dwell forevermore. For the Lord loves justice, And does not forsake His saints; They are preserved forever, But the descendants of the wicked shall be cut off. The righteous shall inherit the land, and dwell in it forever. (Psalm 37: 27-29)
قرآن کی بہت سی آیتیں ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ جنت میں کیسا معیاری ماحول ہوگا اور وہاں ہر قسم کے اعلیٰ سامان وافرمقدار میں موجود ہوں گے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وإذا رأیتَ ثَمَّ رأیتَ نعیماً ومُلکاً کبیراً (76:20) یعنی تم جہاں دیکھو گے، وہیں عظیم نعمت اور عظیم بادشاہی دیکھو گے:
Wherever you look, you will see bliss and a great kingdom.
جنت میں اہلِ جنت کے لیے جو اعلیٰ انتظامات ہوں گے، اُن کا خلاصہ قرآن کے اِن الفاظ میں بیان کردیاگیا ہے —نعیم، اور ملکِ کبیر۔ نعیم سے مراد ہر قسم کی نعمتیں (blessings) ہیں۔ انسان جو کچھ چاہے گا، وہ سب وہاں اُس کے لیے کامل صورت میں موجود ہوگا (41: 32) ۔ ملکِ کبیر سے مراد مکمل آزادی ہے، یعنی کسی بھی قسم کی پابندی کے بغیر زندگی گزارنے کا موقع حاصل ہونا۔ اِس مکمل آزادی کی نعمت اُن خوش قسمت افراد کو حاصل ہوگی جنھوں نے موجودہ دنیامیں یہ ثبوت دیا تھا کہ وہ آزادی کے باوجود اپنی آزادی کا صرف صحیح استعمال کرنے والے ہیں۔
جنت کی وسعتوں کو بتاتے ہوئے قرآن میں یہ بات آئی ہے: وسارعوا إلیٰ مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضہا السموات والأرض، أعدت للمتقین (3: 133) یعنی دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی طرح ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک اور آیت کے الفاظ یہ ہیں: وقالوا الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ، وأورثنا الأرض نتبوّأ من الجنۃ حیث نشاء، فنعم أجر العاملین (39: 74) یعنی اہلِ جنت کہیں گے کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کردکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا، ہم جنت میں جہاں چاہیں، مقام کریں۔ پس کیا خوب بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا۔
جنت کی یہ وسعت موجودہ زمانے میں ایک قابلِ فہم واقعہ بن چکی ہے۔ جدید دوربینوں کے مشاہدے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ کائنات کی وسعتوں میں ایسے قابلِ آباد کاری سیارے (habitable planets) بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ صرف ہماری کہکشاں (Milky Way) کے اندر کئی بلین کی تعداد میں اِس طرح کے سیارے موجود ہیں۔
اِس نئی دریافت کو لے کرغور کیا جائے تو جنت کے بارے میں عجیب قسم کا پراہتزاز تصور (thrilling concept) معلوم ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ غالباً جنت بے شمار ہرے بھرے سیاروں کا ایک کائناتی مجمع الجزائر (universal archipelago) ہے۔ تمام جزیرے اپنی اپنی جگہ پر مکمل دنیائیں ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ انتہائی اعلیٰ قسم کے کمیونکیشن کے ذریعے باہم جڑے ہوئے ہیں۔ آخرت کے دور میں شاید ایسا ہوگا کہ ہر جنتی کو زندگی گزارنے کے لیے مستقل دنیائیں حاصل ہوں گی۔ اِسی کے ساتھ وہ دوسرے جنتی باشندوں سے معیاری کمیونکیشن کے ذریعے ہر لمحہ مربوط ہوگا۔ جنت میں ہر قسم کی نعمتیں بھی ہوں گی اور کامل آزادی بھی۔ اِسی کے ساتھ جنت گویا اعلیٰ انسانوں پر مبنی ایک کائناتی سماج ہوگا، جہاں ہر انسان کو کامل معنوں میں فل فل مینٹ (fulfilment) حاصل ہوگا۔
ابدی جنت کی یہ ناقابلِ بیان حد تک اعلیٰ نعمتیں اہلِ جنت کو تمام تر اور یک طرفہ طورپر اللہ کی رحمت کے ذریعے حاصل ہوں گی، لیکن اہلِ جنت کے اعزاز کے لیے اللہ کی طرف سے یہ اعلان کیا جائے گا کہ : وتلک الجنۃ التی أورثتموہا بما کنتم تعملون (43: 72) یعنی یہ وہ جنت ہے جس کے تم مالک بنا دئے گئے ہو، اُس عمل کی وجہ سے جو تم کرتے تھے۔
قرآن کا تصورِ تاریخ
قرآن کے بارے میں ایک لمبی حدیث کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے: کتاب اللہ، فیہ نبأ ما قبلکم، وخبر ما بعدکم (الترمذی، رقم الحدیث:2906) یعنی قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں تم سے پہلے کے لوگوں کی باتیں ہیں اور اس میں تمھارے بعد کے لوگوں کی خبریں ہیں۔ ایک صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود نے قرآن کے بارے میں فرمایا: فیہ علم الأوّلین والاٰخرین (البیہقی، شعب الإیمان، رقم الحدیث: 1808) یعنی قرآن میں پچھلے لوگوں کا بھی علم ہے اور بعد کے لوگوں کا بھی علم ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن جامع معنوں میں انسانی نسلوں کی کوئی تفصیلی تاریخ ہے۔ اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ قرآن میں تاریخِ بشری کے نمائندہ واقعات موجود ہیں، یعنی ایسے تاریخی حوالے جن پر غور کرکے پورے دورِ تاریخ کی ایک جامع تصویر بنائی جاسکتی ہے۔
تاریخ کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ گزرے ہوئے واقعات کا سلسلہ وار بیان (chronicle) ہو۔ یہ تاریخ کا معروف مؤرخانہ تصور ہے۔ تاریخ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ تاریخی واقعات کو اِس اعتبار سے بیان کیا جائے کہ وہ خالق کے نقشۂ تخلیق کو بتانے والا ہو۔ تاریخ کے پہلے تصور میں تمام واقعات کا احاطہ مقصود ہوتاہے۔ تاریخ کے دوسرے تصور میں تاریخ کے صرف منتخب اور نمائندہ اجزا بیان کئے جاتے ہیں۔
یہی دوسرا طریقہ قرآن کے تصورِ تاریخ کے مطابق ہے۔ مگر یہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ تاریخ کے نمائندہ واقعات بھی قرآن میں مروّجہ تاریخی اسلوب میں نہیں ہوتے، وہ صرف حوالہ (reference) کے اسلوب میں ہوتے ہیں۔ اِس معاملے میں قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں جن تاریخی حوالوں کا ذکر کیا جاتا ہے، وہ اشارے کی زبان میں ہوتے ہیں۔ یہ قاری کے اوپر چھوڑ دیاجاتاہے کہ وہ ایسا کرے کہ قرآن کے باہر جو تاریخی ریکارڈ موجود ہے، اُس سے ضروری اجزا لے کر وہ قرآن کے اشارات کی تفصیل کرے۔ وہ بظاہر غیر متعین زبان میں کہی ہوئی بات کو متعین اسلوب میں مدوّن کرے۔
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت آدم کے بعد ان کی نسل میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کے علاقے میں آباد ہوئی۔ یہ نسل شریعتِ آدم پر قائم تھی۔ بعد کے زمانے میں جب اُن کے اندر بگاڑ آیا تو تقریباً پانچ ہزار سال پہلے پیغمبر نوح پیدا ہوئے۔ انھوںنے لمبی مدت تک لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ کچھ افراد نے آپ کی دعوت کومانا، لیکن بیش تر افراد نے اس کو ماننے سے انکار کردیا۔ اِس کے بعد اِس علاقے میں ایک بڑا طوفان آیا۔ اِس موقع پر ایمان لانے والے افراد ایک کشتی کے ذریعے بچا لئے گئے اور بقیہ تمام افراد ہلاک کردئے گئے۔
اِس کشتی کے بارہ میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فأنجیناہ وأصحاب السفینۃ وجعلناہا اٰیۃ للعالمین (29:15) یعنی پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچا لیا۔ اور ہم نے اس کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنادیا۔ قرآن کی ایک اور آیت میں اس واقعے کا ذکر اِن الفاظ میں آیاہے: ولقد ترکناہا اٰیۃً (54:15) اِس آیت کا ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی نے اِن الفاظ میں کیا ہے — اور اس کو ہم نے رہنے دیا نشان کے لیے (We have left it as a sign)
حضرت نوح کا واقعہ ایک پورے دورِ تاریخ سے تعلق رکھتا ہے جو حضرت آدم کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا ایک نمائندہ جُز کشتی ٔ نوح (Noah’s Ark) ہے۔ کشتی ٔ نوح کے بارہ میں قرآن نے بتایا کہ اُس کو اللہ نے عبرت کے طورپر باقی رکھا ہے۔ ساتویں صدی کے ربع اول میں بوقتِ نزولِ قرآن کسی کو اِس کشتی کا علم نہ تھا۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پہاڑوں کے اوپر جمی ہوئی برف بڑے پیمانے پر پگھلنے لگی۔ اس کے بعد ہوائی سروے کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ ترکی کے مشرقی علاقے میں کوہِ ارارات (Mount Ararat) کے اوپر وہ کشتی برف کی موٹی تہ کے نیچے دبی ہوئی موجود تھی جو اکیسویں صدی میں سامنے آگئی۔
قرآن میں کشتی نوح کا ذکر مختصر طورپر موجود تھا۔ اب بعد کو دریافت کردہ معلومات کی روشنی میں یہ ممکن ہوگیا کہ تاریخ بشری کے اس باب کو زیادہ تفصیل کے ساتھ مرتب کیا جائے اور اس کو قرآن کی تاریخی تفہیم کے لیے استعمال کیا جائے۔
اِس قسم کا ایک اور تاریخی حوالہ وہ ہے جو پیغمبر موسیٰ کے دورِ تاریخ سے تعلق رکھتاہے۔ تقریباً تین ہزار سال پہلے مصر میں یہ واقعہ ہوا کہ پیغمبر موسیٰ کے معاصر بادشاہ فرعون کو خدا نے بحرِ قلزم (Red Sea) میں غرق کردیا۔ اس کے بارے میں قرآن میں یہ آیت آئی ہے کہ بوقتِ غرق اللہ نے فرمایا:
فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک اٰیۃ(10:92)یعنی آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے، تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے۔
فرعون کا یہ واقعہ بھی ایک پورے دورِ تاریخ کی علامت ہے۔ مگر ساتویں صدی عیسوی میں جب کہ قرآن نازل ہوا، یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی کہ فرعون کی لاش کہاںمحفوظ ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں یورپ کے کچھ مستشرقین (orientalists) نے دریافت کیا کہ مذکورہ فرعون کی لاش محفوظ حالت میں اہرامِ مصر میں موجود ہے۔ اب یہ لاش اہرامِ مصر سے نکال کر قاہرہ کے میوزیم میں رکھ دی گئی ہے۔ اِس واقعے کی تفصیل ڈاکٹر موریس بکائی کی کتاب (The Bible, The Quran and Science) میں دیکھی جاسکتی ہے۔
قرآن نے انسانی تاریخ کا جو تصور دیا ہے، اس کے مطابق، ایسے علامتی واقعات قرآن میں موجود ہیں جن کو مزید معلوم تاریخ کے اضافے سے از اول تا آخر مدون کیا جاسکتاہے۔ قرآن میں پچھلی تاریخ کے بارے میں علامتی واقعات ملتے ہیں اور بعد کی تاریخ کے بارے میں ایسی پیشین گوئیاں موجود ہیں جو قیامت تک کی پوری تاریخِ انسانی کا احاطہ کررہی ہیں۔ قرآن میں موجود اِن تاریخی حوالوں کی حیثیت صرف عنوانات کی ہے۔ اِن عنوانات کی روشنی میں اگر دیگر حاصل شدہ معلومات کو شامل کیا جائے، تو اس کے ذریعے قرآن کے تصورِ تاریخ کے مطابق، انسانی تاریخ کی پوری تصویر بنائی جاسکتی ہے۔
خلاصۂ کلام
مورخین کے یہاں مختلف قسم کے تاریخی تصورات پائے جاتے ہیں۔مثلاً خاندانی بادشاہت کے اعتبار سے تاریخ کی تدوین، قوموں کے عروج و زوال کے اعتبار سے تاریخ کی تدوین، مختلف تہذیبوں (civilizations) کے اعتبار سے تاریخ کی تدوین، وغیرہ۔ مگر خدائی تصورِ تاریخ (divine concept of history) اِس سے مختلف ہے۔ خدائی تصورِ تاریخ کیا ہے، اس کو قرآن کے مطالعے سے سمجھا جاسکتاہے۔
خدائی تصورِ تاریخ کے مطابق، اللہ نے انسان کو پیداکیا۔ اس کے بعد انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ توالد وتناسل کے ذریعے اپنی تعداد بڑھائے۔ اس کی نسلیں کرۂ ارض (planet earth) کے مختلف حصوں میں آباد ہوں۔ اللہ نے انسان کو مکمل آزای عطا کی۔ اللہ نے انسان کو یہ موقع دیا کہ خواہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا وہ اس کا غلط استعمال کرے، وہ زمین میںاصلاح کرے یا وہ زمین میں فساد برپا کرے، وہ اپنی زندگی کو عدل پر قائم کرے یا بے انصافی پر قائم کرے، حتی کہ انسان کو یہ بھی آزادی حاصل ہے کہ چاہے تو وہ اللہ کا اقرار کرے اور چاہے تو وہ اللہ کا انکار کرکے سرکش بن جائے۔ اللہ کے منصوبے کے مطابق، آزادی کی یہ صورتِ حال قیامت تک جاری رہے گی۔
اِس پورے تاریخی عمل کے دوران اللہ کا مطلوب صرف ایک ہے، اور وہ ہے صالح افراد کا انتخاب۔ یہ افراد وہ ہیں جو ہر قسم کے ہنگاموں کے باوجود اپنے آپ کو آزادی کے صحیح استعمال پر قائم رکھیں، جو اپنی ذہنی قوتوں کو استعمال کرتے ہوئے اور نبیوں کی ہدایت سے استفادہ کرتے ہوئے اللہ کودریافت کریں اور اپنی زندگی کو ہدایتِ الٰہی کے مطابق بنائیں۔ اِسی قسم کے صالح افراد اللہ کو مطلوب ہیں۔ اللہ اپنے خصوصی انتظام کے تحت پوری تاریخ میں مسلسل طورپر ایسے ہی صالح افراد کا انتخاب کررہا ہے۔
آدم سے لے کر قیامت تک کے پورے تاریخی عمل کے دوران اللہ کی سنت یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو منسوخ نہ کیا جائے، البتہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو اِس طرح مینج (manage) کیا جائے کہ اللہ کا اصل مطلوب (صالح افراد کی پیداوار) کا عمل برابر جاری رہے۔
دوسرے مورخین تاریخ کو مجموعے کی صورت میں دیکھتے ہیں، جب کہ خدائی تصور کے مطابق، صحیح یہ ہے کہ تاریخ کو افراد کے اعتبار سے دیکھا جائے۔ انسانی مجموعے کو لے کر تاریخی رائے قائم کرنا مورخین کا طریقہ ہے، جب کہ خدائی تصور کے مطابق، صحیح طریقہ یہ ہے کہ انسانی افراد کو لے کر تاریخ کے بارے میں رائے قائم کی جائے۔ (20 اپریل 2012 )
واپس اوپر جائیں

Friday, 1 June 2012

Al Risala | June 2012 (الرسالہ,جون)

2

-انابت الی اللہ

3

- اللہ کی محبت

4

- کوثر— خیر ِ کثیر

5

- نماز میں خشوع

6

- منصوبۂ خداوندی کی مخالفت

7

- وسیلہ کی حقیقت

10

- صلاۃ وسلام

12

- ایک واقعہ

13

- عجیب اور سبق آموز

14

- دعوتِ قرآن

18

- مسئلہ داخلی ہے، نہ کہ خارجی

21

- امتِ مسلمہ کا احیا

22

- اصلاح کا صحیح طریقہ

23

- مسئلے کا حل

25

- اسلامی تحریک کا ہدف

26

- انسانی ذمّے داری

34

- جذباتی سیاست کا نقصان

35

- مسئلہ یا چیلنج

36

- ایک سبق آموز واقعہ

37

- سوال و جواب

40

- خبر نامہ اسلامی مرکز


انابت الی اللہ

قرآن کی سورہ غافر کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ ہی ہے جو تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے وہ تمھارے لیے رزق نازل کرتاہے۔ اور نصیحت صرف وہی شخص حاصل کرتاہے جو انابت کرنے والا ہو‘‘ ۔(40: 13)
قرآن کی اِس آیت میں تین باتیں کہی گئی ہیں— پہلی بات ہے، نشانیوں (آیات) کا ظاہر ہونا۔ دوسری چیز ہے، اِن نشانیوں سے رزقِ خداوندی کا ملنا۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ رزق صرف اُن افراد کو ملتاہے جن کے اندر انابت کی صفت پائی جائے۔ آیات سے مراد وہ نشانیاں (signs) ہیں جو تخلیق میں ظاہر ہوئی ہیں۔ رزق سے مراد وہ ربانی اسباق (divine lessons) ہیں جو اِن نشانیوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ انابت کا لفظ یہ بتا رہاہے کہ یہ ربانی سبق کن خوش قسمت افراد کو حاصل ہوتا ہے۔
انابت کا لفظی مطلب ہے، بار بار واپس آنا (to return from time to time) ۔ اصل یہ ہے کہ دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے آدمی کے ساتھ بار بار وہ واقعہ پیش آتا ہے جس کو ڈسٹریکشن کہاجاتا ہے، یعنی توجہ کا ہٹ جانا۔ یہی چیز رزق ربانی کے حصول میں اصل رکاوٹ ہے۔ اللہ کی تخلیقات میںاور زندگی کے تجربات میں رزقِ ربانی کے آئٹم ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ انسان اگر سوچے تو وہ ہر وقت اِن چیزوں میں نصیحت کا رزق پاتا رہے گا، لیکن حالات کے تحت بار بار آدمی کی توجہ مطلوب نشانے سے ہٹتی رہتی ہے۔ انسان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اِس ڈسٹریکشن سے بچائے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو قرآن میں منیب (42: 13) کہاگیا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی خواہشیں اُس کو نشانیوں میں غور وفکر سے ہٹا دیتی ہیں۔ کبھی کوئی مسئلہ اس کی توجہ کو موڑ دیتا ہے۔ کبھی شکایت کی نفسیات اس کے لیے ڈسٹریکشن کا سبب بن جاتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ محاسبہ کے ذریعے اپنے آپ کو تمام قسم کے ڈسٹریکشن سے بچائے، تاکہ وہ خدائی نشانیوں (divine signs)سے مسلسل اپنے لیے ایمانی رزق حاصل کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی محبت

قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے: والذین آمنوا أشد حبّا للہ (2: 165) ۔ اِس آیت کے مطابق، اللہ کا مومن بننے کی پہچان یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ کے لیے حبّ شدیدپیدا ہوجائے۔ مذکورہ قرآنی آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ اہلِ ایمان اللہ سے حب شدید کرتے ہیں، بلکہ یہ فرمایا کہ اہلِ ایمان کے اندر اللہ سے حب شدید ہوتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ محبت، جواب (response) کے طور پر کسی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک انسان اللہ کو اپنے سب سے بڑے محسن اور منعم کی حیثیت سے دریافت کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہے کہ اس کے سینے میں اللہ کے لیے محبت کا سمندر موج زن ہوجاتا ہے۔
اِسی کا نام حبّ شدید ہے۔ محبت اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک دریافت (discovery) کا نتیجہ ہے، وہ محض ایک حکم کی رسمی تعمیل نہیں۔
انسان جب اپنے آپ کو احسنِ تقویم (95: 4) کی حیثیت سے دریافت کرتاہے، جب وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ نے اس کے ساتھ تکریم (17: 70) کا معاملہ کیا ہے، جب وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ نے اس کے لیے زمین اور آسمان کو مسخر کردیا ہے، جب وہ ان بے شمار نعمتوں کو دریافت کرتا ہے جن کو لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتا ہے، جب وہ اللہ کے اِس احسان کو دریافت کرتا ہے کہ اُس نے پیغمبر کے ذریعے اس کی ہدایت کا انتظام فرمایا، جب کہ وہ ہدایت سے پوری طرح بے خبر تھا، جب وہ کائناتی پیمانے پر اللہ کی تخلیق اور اس کی ربوبیت کو دریافت کرتا ہے تو اس کے دل میں شکر کا بے پناہ جذبہ امنڈ پڑتا ہے۔ یہی شکرِ الٰہی محبتِ الٰہی، کا منبع ہے۔ اِسی سے انسان کے اندر وہ گہرا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس کو قرآن میں حب شدید کہا گیا ہے۔
اصل بات یہ نہیں ہے کہ محبت کرو، اصل بات یہ ہے کہ اللہ کو اتنے بڑے منعم کی حیثیت سے دریافت کرو کہ تمھارے اندر اللہ کے لیے حب شدید پیدا ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

کوثر— خیر ِ کثیر

قرآن کی سورہ الکوثر (108) کا ترجمہ یہ ہے: ’’ہم نے تم کو کوثر دے دیا۔ پس تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ بے شک تمھارا دشمن ہی بے نام ونشان ہے‘‘۔
کوثر مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس کا مطلب ہے — خیر کثیر۔ خیر کثیرسے کیا مرادہے، اس کی وضاحت قرآن کی دوسری آیت سے ہوتی ہے۔ قرآن کی سورہ البقرہ میں یہ آیت آئی ہے: یؤتی الحکمۃ من یشاء، ومن یؤت الحکمۃ فقد أوتی خیراکثیرا۔ وما یذکر إلاّ أولوا الألباب (2: 269) یعنی اللہ جس کو چاہتاہے، اُس کو حکمت عطا کرتاہے، اور جس کو حکمت دی گئی، اُس کو خیر کثیر دے دیاگیا۔ اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔
قرآن کی اِس آیت میں حکمت سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن کے دوسرے مقام پر معرفت یا عرفانِ حق (5: 83) کہاگیا ہے۔ معرفت کا تعلق عقلی دریافت سے ہے اور یہ معرفت بلاشبہہ کسی مومن کے لیے سب سے بڑی چیز ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت اہلِ مکہ یا اہلِ عرب کے درمیان اگرچہ مذہب کے نام پر مختلف قسم کے مذہبی رسوم (religious rites) موجود تھے، مگر وہ لوگ خدا کی سچی معرفت سے کامل طورپر محروم تھے۔ ایسے ماحول میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبراسلام کو سچی معرفت عطا فرمائی۔ اِس کا ذکر قرآن کی دوسری آیت میں اِن الفاظ میں کیا گیا ہے: ووجدک ضالاّ فہدی (93: 7) ۔
سورہ الکوثر میں صلوٰۃ اور نحر کے الفاظ علامتی طورپر آئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مخالفین کے پروپیگنڈے کو نظر انداز کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اللہ سے تعلق قائم کرو، تاکہ شکر کا جذبہ پوری طرح برقرار رہے۔ ’نحر‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو دعوتی مشن تم کو دیاگیا ہے، قربانی کی سطح پر تم اس مشن کو جاری رکھو۔ مخالفین کی مخالفت تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی، وہ خود ناکام و نامراد ہو کر رہ جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

نماز میں خشوع

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ — فلاح اُن اہلِ ایمان کے لیے ہے جو خشوع کے ساتھ اپنی نماز ادا کرتے ہیں (23: 1) ۔ خشوع کا لفظی مطلب فروتنی ہے، یعنی وہ حالت جو مُحاسب ومُجازی خدا کی یاد سے پیدا ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی دوسری آیت یہ ہے: الذین یظنّون أنہم ملٰقوا ربہم (2: 46) ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ لقائِ رب کے شدید تصور سے انسان کے دل میں جو کیفیت پیدا ہوتی ہے، اُسی کا نام خشوع ہے۔نماز میں خشوع یہ ہے کہ آدمی شعوری طور پر اتنازیادہ بیدار ہو کہ جب وہ نماز کے کلمات اپنی زبان سے ادا کرے تو اِن کلمات کا مفہوم اُس کے ذہن کو متحرک کرتا رہے۔ اس کے اعضا نماز کے ظاہری افعال کو ادا کررہے ہوں اور ا س کا ذہن خدا کے سامنے حاضری کو سوچ کر اندیشہ ناک بنا ہوا ہو، حتی کہ یہ کیفیت اتنی زیادہ شدید ہو کہ اس کے بدن پر خوف سے کپکپی طاری ہوجائے۔ اِس کیفیت کو حاصل کرنے کے لیے شدید محنت درکار ہوتی ہے، اِس لیے نماز کے ساتھ صبر کو شامل کیاگیا ہے (2: 45) ۔
ایک فارسی شاعر نے کہا — رات کو جب میں نماز کی نیت کرکے کھڑا ہوا تو دل میں بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ میرا بچہ صبح کو کیا کھائے گا:
شب چو عقدِ نماز بر بندم چہ خورد بامداد فرزندم
یہ شعر تمثیل کی زبان میں بتا رہا ہے کہ خشوع کی نماز ادا کرنے کے لیے کیا چیز درکار ہے، وہ یہ کہ آدمی کا ذہن کسی اور سوچ میں مبتلا نہ ہو، اپنی سوچ کے اعتبار سے، وہ پوری طرح لقائِ رب پر فوکس کئے ہوئے ہو۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ذہنی فوکس کو ہٹانے والی سب سے طاقت ور چیز منفی سوچ ہے۔ اجتماعی زندگی میں بار بار منفی تجربات پیش آتے ہیں۔آدمی کو چاہئے کہ وہ صبر کی روش اختیار کرتے ہوئے کامل طور پر اپنے آپ کو منفی احساس سے بچائے۔ خشوع کی نماز پڑھنا صرف اُس کے لیے ممکن ہے جو نماز سے پہلے اپنے اندر مثبت سوچ پیدا کرچکا ہو۔ اور ایسا صرف اُس وقت ہوسکتا ہے، جب کہ آدمی اپنے اندر یہ صابرانہ نفسیات پیدا کر لے کہ وہ منفی تجربات کے باوجود اپنے آپ کو مثبت روش پر قائم رکھے۔
واپس اوپر جائیں

منصوبۂ خداوندی کی مخالفت

قدیم مکہ میں جب کہ وہاں کے سردار، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید مخالفت کررہے تھے، اُس وقت قرآن کی سورہ الانعام میں یہ آیت اتری: قد نعلم إنہ لیحزنک الذی یقولون، فإنہم لا یکذبونک ولکنّ الظالمین بٰایات اللہ یجحدون (6: 33) یعنی ہم کو معلوم ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں، اُس سے تم کو رنج ہوتا ہے۔ یہ لوگ تم کو نہیں جھٹلا تے، بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی نشانیوں کا انکار کررہے ہیں۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوتی مشن سادہ طور پر صرف ایک فرد کا معاملہ نہیں ہے، وہ براہِ راست طور پر اللہ کے منصوبے کا معاملہ ہے۔ اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ وہ اپنے بندوں کے لیے ہدایت کا انتظام کرے، اِس لیے اُس نے پیغمبر کے ذریعے اُس دعوتی مشن کو برپا کیا ہے۔ ایسی حالت میں، پیغمبر کے دعوتی مشن کو ناکام بنانے کی کوشش کرنا، اللہ کے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کرنا ہے، اور یہ خدا کی اِس دنیا میں کسی کے لیے ہرگز ممکن نہیں۔
یہ کوئی زمانی معاملہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی دعوت خالص حق کی بنیاد پر اٹھے تو اپنی نوعیت کے اعتبار سے، اُس کا معاملہ بھی یہی ہوگا۔ بظاہر یہ دعوت کسی فرد کے ذریعہ اٹھے گی، مگر اپنی حقیقت کے اعتبارسے، وہ بلاشبہہ اللہ کا ایک منصوبہ ہوگا۔ دوبارہ ایسا ہوگا کہ جو لوگ اِس دعوتی مشن کی مخالفت کریں، وہ بلاشبہہ ناکام رہیں گے، ان کی مخالفانہ تدبیریں یقینی طور پر بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں گی۔
بعد کے دور میں اٹھنے والی دعوتِ حق کی پہچان وہی ہوگی جو دورِ اول میں اِس قسم کی دعوتِ حق کی پہچان تھی، وہ یہ کہ اس کی مخالفت کرنے والے اپنی مخالفت کے حق میں کوئی دلیل نہ پاسکیں گے۔ اُن کی ساری مخالفت بے بنیاد الزام تراشی پر قائم ہوگی، نہ کہ کسی حقیقی دلیل پر۔ دونوں کے درمیان بلا دلیل تکذیب کی یہی مشابہت اِس بات کا ثبوت ہوگی کہ یہ مخالفت، اللہ کے منصوبے کی مخالفت ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ ایک مجرمانہ فعل ہے، نہ کہ کوئی اسلامی فعل۔
واپس اوپر جائیں

وسیلہ کی حقیقت

وسیلہ کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول، ثم صلّوا علیّ، فإنہ من صلّی علیَّ صلاۃ، صلّی اللہ علیہ بہا عشراً، ثم سَلوا للہ لی الوسیلۃ، فإنّہا منزلۃ فی الجنۃ۔ لاتنبغی إلا لعبد من عباد اللہ، وأرجوا أن أکون ہو، فمن سأل لی الوسیلۃ، حلّت لہ الشفاعۃ (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 387, 582 )یعنی جب تم موذن کو سنو تو تم بھی وہی کہو جو موذن نے کہا ہے، پھر میرے لیے دعا کرو۔ جو میرے لیے ایک دعا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس پر اپنی دس رحمتیں بھیجتا ہے۔ پھر تم میرے لیے اللہ سے وسیلہ مانگو، کیوں کہ وسیلہ جنت کا ایک درجہ ہے۔ یہ درجہ اللہ کے بندوں میں سے کسی بندے کو ملتاہے، اور میں امید کرتاہوں کہ میں وہ بندہ ہوں گا۔ جس نے میرے لیے وسیلہ کی دعا کی، اُس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔
1 - وسیلہ کا لفظی مطلب قربت (nearness) ہے۔ یہ لفظ قرآن میں اِسی معنی میں آیا ہے۔ ایک جگہ فرشتوں کی نسبت سے، اور دوسری جگہ انسان کی نسبت سے۔ فرشتوں کی نسبت سے، قرآن میں آیا ہے کہ وہ اللہ کے وسیلہ، یعنی قربت کے طالب رہتے ہیں (17: 57) ۔ اِسی طرح، قرآن میں انسان کی نسبت سے آیا ہے کہ تم اللہ کے وسیلہ، یعنی قربت کے طالب بنو (5: 35) ۔
2 - مذکورہ روایت میں وسیلہ کا لفظ اِسی معنی میں استعمال ہواہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ دعا کرو کہ آپ کو اللہ کاوسیلہ، یعنی اللہ کی قربت حاصل ہو، جو کہ اللہ کی طرف سے کسی انسان کے لیے ایک عظیم رحمت ہے اور جنت میں اس کے درجے کو بڑھانے والی ہے۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: اللہم آت محمداً الوسیلۃ والفضیلۃ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:614 ) یعنی اے اللہ، محمد کو وسیلہ اور فضیلت دے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اِس جملے میں ’فضیلۃ‘ کا لفظ کسی نئے مفہوم کے لیے نہیں ہے۔ وہ وسیلہ کے لفظ ہی کی مزید وضاحت ہے: والفضیلۃ تفسیراً للوسیلۃ (فتح الباری، 2/113)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدایا، تو محمد کو قربت کا درجہ دے جو کہ فضیلت کا ایک درجہ ہے۔
3 - عام طورپر یہ سمجھا جاتاہے کہ وسیلہ سے مراد سفارش (recommendation) ہے، یعنی قیامت میں لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے جنت اور مغفرت حاصل ہوگی۔ وسیلہ کا یہ مفہوم ایک خود ساختہ مفہوم ہے، وہ لفظی طورپر کسی بھی روایت میں موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغفرت تمام تر اللہ کا ایک عطیہ ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں میں اِس بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔
4 - روایت میں ’حلّت لہ الشفاعۃ‘ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی اس کے لیے شفاعت واجب ہوگئی۔ یہاں شفاعت سے مراد سفارش نہیں ہے۔ اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایسا آدمی اپنے عمل کی بنا پر اِس قابل ہوگیا کہ رسول اللہ اس کو پہچانیں اور قیامت میں اس کو اپنی امت کا ایک فرد شمار کریں۔
5 - شفاعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک شخص جو اپنے عمل کے اعتبار سے جنتی نہ ہو، وہ پیغمبرکی سفارش سے جنتی بن جائے گا۔ اصل یہ ہے کہ قیامت کے دن کسی انسان کے اخروی مستقبل کا فیصلہ تمام تر اللہ کی مرضی سے ہوگا، لیکن اُس کے اعلان کا طریقہ یہ ہوگا کہ انبیاء اور دُعاۃ کو بلندمقام (اعراف) پر کھڑا کیاجائے گا۔ انھوں نے جن لوگوں کے اوپر دعوت وشہادت کا کام کیا ہوگا، وہ اُن کو قیامت کے دن صاف طورپر پہچان لیں گے اور ہر ایک کے لیے اللہ کے فیصلے کا اعلان کریں گے۔
6 - وسیلہ (قربت) کوئی پراسرار چیز نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ تعلق باللہ کے دو درجے ہیں— ایک درجۂ اطاعت، اور دوسرا درجۂ قربت۔ مومن کو چاہئے کہ وہ درجۂ قربت میں اللہ سے تعلق قائم کرے، اور اِسی اعلیٰ درجۂ قربت کے لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں دعا کرے۔ اِس دعا کا کوئی تعلق سفارش کے خود ساختہ نظریے سے نہیں ہے۔
7 - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعاو صلاۃ کا معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں۔ وہ صرف اظہارِ تعلق کی ایک صورت ہے۔ ایک انسان جو سچائی کا طالب ہو، لمبی جستجو کے بعد جب اس کو پیغمبراسلام کے ذریعے ہدایت ملے تو فطری طورپر ایسا ہوگا کہ اس کو پیغمبر اسلام سے قلبی تعلق ہوجائے گا اور وہ اِس تعلق کا اعتراف الفاظ کی صورت میں کرے گا۔ اِسی اعتراف کا دوسرا نام درودو صلاۃ ہے۔
8 - حدیثوں کی نوعیت زیادہ تر یہ ہے کہ کوئی واقعہ گزرا تو اُس کی نسبت سے آپ نے لوگوں کو ایک اسلامی تعلیم بتادی۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کسی موقع پر جب مسجد سے اذان کی آواز آئی تو اُس وقت آپ کے پاس جو لوگ موجود تھے، اُن سے آپ نے مذکورہ بات فرمائی۔ آپ کے اِس قول کا مطلب یہ تھا کہ موذن کے کلمات کو سننے والا بھی اُسی طرح دہرائے۔ اُس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ سننے والا مسجد میں حاضر ہو اور نماز کے ذریعے وہ قربتِ الٰہی (96: 19) کا تجربہ کرے۔ اِس طرح اس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اعلیٰ اعتراف کا جذبہ پیدا ہو، جن کے ذریعے عبادت کا یہ نظام اور دوسری تعلیماتِ الٰہیہ حاصل ہوئیں۔ اِسی جذبۂ اعتراف کا یہ ایک اظہار ہے کہ مومن یہ کہے کہ خدایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربت کا درجہ عطا فرما اور آپ کو جنت کے اعلیٰ مقامات پر فائز فرما۔
9 - حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ ’’جو میرے لیے ایک بار دعا کرتا ہے، اللہ اُس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے‘‘۔حدیث کے یہ الفاظ ’’درود‘‘ کی کسی علاحدہ خصوصیت کو نہیںبتارہے ہیں۔ وہ ایک عام سنتِ الٰہی کو بتارہے ہیں، جیسا کہ ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی عمل کا کم ازکم دس گنا اجر دیتا ہے اور عمل کی کیفیاتی قدر کے مطابق، اس کا انعام سات سو گنا تک یا اس سے بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ حدیث کے مذکورہ الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم ایسا کروگے تو تم کو اس کا اجر ملے گا۔ جس کی کم سے کم مقدار دس گنا ہوگی۔ صلاۃ وسلام دراصل پیغمبر کے حق میں ایک مومن کی طرف سے اعتراف کا کلمہ ہے۔ جس کا اعتراف جتنا شدید ہوگا، اتنا ہی اس کا اجر بڑھتا جائے گا۔وسیلہ کا یہ مفہوم قرآن وحدیث کے متن سے بالکل واضح ہے۔ مگر اُس کو سمجھنے کے لیے ایک لازمی شرط ہے، وہ یہ کہ آدمی اپنے روایتی شاکلہ (traditional mindset) کو توڑے۔ وہ خالص علمی انداز میں کھلے ذہن کے ساتھ قرآن وحدیث کا موضوعی (objective) مطالعہ کرے۔ وسیلہ کی مذکورہ تشریح کو سمجھنے کے لیے اِس شرط کو پورا کرنا ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

صلاۃ وسلام

قرآن کی سورہ الاحزاب میں ارشاد ہوا ہے: إن اللّٰہ وملائکتہ یصلّون علی النبی، یاأیہا الذین اٰمنوا صلّوا علیہ وسلّموا تسلیماً (33: 56) یعنی اللہ اور اس کے فرشتے، نبی پر صلاۃ بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو، تم بھی نبی پر صلاۃ وسلام بھیجو۔
’صلاۃ‘ کا لفظ جب اللہ کی نسبت سے بولا جائے تو اس سے مراد رحمت ہوتی ہے۔ اور جب ’صلوۃ‘ کا لفظ بندے کی نسبت سے بولا جائے تو اس سے مراد دعا ہوتی ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسول پر جس مشن کی ذمے داری ڈالی ہے، اُس میں وہ تنہا نہیں ہے، بلکہ اللہ کی رحمتیں اس کے ساتھ ہیں۔ اللہ کے فرشتے بھی اِس مشن میں رسول کی مسلسل تائید کررہے ہیں۔ یہی کام اہلِ ایمان کو بھی کرنا چاہیے۔ اہلِ ایمان کے دل میں رسول کے لیے بہترین جذبات ہونے چاہئیں۔
آیت میں ’صلّوا‘ کے بعد ’وسلّموا تسلیماً‘ کے الفاظ ’صلّوا‘ کی مزید تاکید کو بتا رہے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو چاہئے کہ وہ پیغمبر کے رول کو بھر پور طورپر دریافت کریں۔ جب وہ اِس رول کو شعوری طورپر دریافت کریں گے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ رسول کے لیے سرتاپا اطاعت بن جائیں گے۔ اُن کے دل میں رسول کے لیے صلاۃ وسلام اور اعتراف کے چشمے جاری ہوجائیں گے، جس کا اظہار بار بار الفاظ کی صورت میں ہوگا۔ یہی مطلب ہے صلاۃ وسلام کے اِن الفاظ کا: اللہم صل علی محمد وعلی اٰلِ محمد، کما صلیت علٰی إبراہیم، وعلیٰ اٰل إبراہیم، إنک حمید مجید۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود کوئی پُراسرار چیز نہیں۔ یہ دراصل ایک مومن کی طرف سے آپ کے لئے قلبی اعتراف (heartfelt acknowledgement) ہے۔ رسول اللہﷺکے ذریعہ انسان کو دو انتہائی اہم چیزیں ملی ہیں— ایک، مستند خدائی ہدایت نامہ(authentic divine guidance)۔ اور دوسرا، خدائی ہدایت کا مستند رول ماڈل(authentic role model)۔ یہ دونوں چیزیں رسول کے سوا کہیں اور سے نہیں مل سکتی تھیں۔ایک مومن کو جب اِس حقیقت کا شعور حاصل ہوتا ہے تو اس کے اندر رسول اللہ کے لیے گہرے اعتراف کا جذبہ پیدا ہوتاہے اور پھر اس کی زبان سے بے اختیارانہ طورپر وہ الفاظ نکل جاتے ہیں جن کو صلاۃ وسلام کہا جاتا ہے۔
درود کلمۂ فضیلت نہیں ہے، درود کلمۂ اعتراف ہے۔ ایک شخص پیدا ہو کر اِس دنیا میں آتاہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ میں کیا ہوں اور یہ کائنات کیا ہے۔موت سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اِن سوالات کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے، مگر کہیں بھی اس کو اِن سوالات کا مستند جواب نہیں ملتا۔
آخر کار، وہ اِس دریافت تک پہنچتا ہے کہ پیغمبر آخر الزماں کے ذریعے جو دین انسان کو دیاگیا ہے، وہی اس سوال کا حقیقی جواب ہے۔ یہ دریافت اس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اعتراف کے جذبے سے سرشار کردیتی ہے۔ یہ جذبۂ اعتراف جب لفظوں میں ڈھلتا ہے تو اِسی کا نام صلاۃ وسلام ہے۔
درود یا صلاۃ وسلام یہ نہیں ہے کہ کچھ مخصوص الفاظ کو اپنی زبان سے دہرا دیا جائے یا اُن کی تکرار کی جاتی رہے۔ یہ رسول کے لیے صلاۃ وسلام کا کم تر اندازہ (underestimation) ہے۔ رسول کے لیے صلاۃ وسلام کا آغاز دریافت سے ہوتا ہے۔
ایک مومن پیغمبر کے اِس رول کو دریافت کرتاہے۔ اِس دریافت کے نتیجے میں اس کے اندر اعلیٰ کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ کیفیات لفظوں میں ڈھل جاتی ہیں، اِس کے بعد فطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ مومن، پیغمبر کو اپنا رہنما بنا لیتاہے۔ وہ پیغمبر کے اسوہ (model) کو اختیار کرلیتا ہے۔ وہ پیغمبر کے مشن میں اپنے آپ کو ہمہ تن لگا دیتاہے۔ وہ پیغمبر کے مشن کو اپنا مشن بنا لیتاہے— یہ تمام چیزیں درود وسلام کا لازمی حصہ ہیں، کچھ چیزیں براہِ راست طور پر اس کا حصہ ہیں اور کچھ چیزیں بالواسطہ طورپر اس کا حصہ۔
واپس اوپر جائیں

ایک واقعہ

سلطان غیاث الدین تغلق (وفات:1325 ء) کے دربار میں ایک خاص مسئلے پر شیخ الوقت خواجہ نظام الدین اولیاء (وفات: 1325 ء) اور شیخ الاسلام قاضی جلال الدین کے مابین مناظرہ ہوا۔ اُس وقت اپنے موقف کے حق میں خواجہ نظام الدین نے ایک حدیث رسول کو پیش کرنا چاہا، تو قاضی جلال الدین نے کہا کہ — تم ابو حنیفہ کے مقلد ہو، تمھیں حدیث رسول سے کیا مطلب۔ اگر ابو حنیفہ کا کوئی قول پیش کرسکتے ہو تو پیش کرو: ’’تو مقلدِ ابو حنیفہ ہستی، تُرا با حدیثِ رسول چہ کار۔ قول ابو حنیفہ بیار‘‘۔
اِس کو سن کر خواجہ نظام الدین اولیاء نے یہ کہتے ہوئے مناظرہ ختم کردیا اور دربار سے اٹھ گئے کہ — سبحان اللہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے ہوتے ہوئے مجھ سے ابو حنیفہ کے قول کا مطالبہ کیاجارہا ہے: ’’سبحان اللہ، کہ باوجود قول مصطفوی، از من قولِ ابو حنیفہ می خواہند‘‘۔ (سیر العارفین بحوالہ سہ ماہی مجلہ حکمتِ قرآن، لاہور، جنوری- مارچ 2011 ، صفحہ 9)۔
یہ واقعہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک مثال کی صورت میں دورِ زوال کی امتِ مسلمہ کی تصویر ہے۔ زوال کے دور میں، دوسری امتوں کی طرح امتِ مسلمہ میں بھی یہ واقعہ پیش آیا کہ امت کے شیوخ اور اکابر، دین کا ماخذ بن گئے۔ جس طرح یہود کے دورِ زوال میں یہ ہوا کہ اُن کے احبار اور رہبان (علما اور مشائخ) اُن کے لیے دین کا ماخذ بن گئے۔ تاہم امتِ مسلمہ کے پاس اِس معاملے میں ایک واضح معیار (criterion) موجود ہے، جس کے ذریعے صحیح اور غلط میں فرق کیا جاسکے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، امت میں تین دور قُرون مشہود لہا بالخیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ تین دور یہ ہیں — دورِ رسالت، دور صحابہ، دورِ تابعین۔ اِس معیار کی روشنی میں دیکھئے تو وہ تمام افراد جن کو بعد کے زمانے میں ’’اکابر‘‘ کا درجہ دے دیاگیا، وہ سب قرونِ مشہود لہا بالخیر کے بعد کے افراد ہیں۔ ہم کو حق ہے کہ ان بعد کے لوگوں کی باتوں کو قرآن اور سنت کی روشنی میں جانچیں۔ اگروہ قرآن اور سنت کے مطابق ہوں تو اُن کو لیں، ورنہ ان کو رد کردیں۔
واپس اوپر جائیں

عجیب اور سبق آموز

والٹر ڈی لا میئر (Walter De La Mare) ایک برٹش مصنف ہے۔ وہ 1873 میں پیدا ہوا، اور 1956 میں اس کی وفات ہوئی۔ ڈی لا میئر کی ایک نظم ہے۔ اس کا عنوان مس ٹی (Miss T) ہے۔ اِس نظم کی ایک لائن یہ ہے — یہ بہت زیادہ عجیب بات ہے کہ مس ٹی جو کچھ کھاتی ہے، وہ مس ٹی بن جاتاہے:
It's a very odd thing— as odd can be —
That whatever Miss T eats, turns into Miss T.
’’مس ٹی‘‘ ایک فرضی نام ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ مس ٹی کے باہر دسترخوان پر مختلف قسم کے کھانے ہیں— پھل، سبزی، چاول، دال، وغیرہ۔ یہ چیزیں جب تک باہر ہیں، وہ مختلف غذائی آئٹم ہیں۔ لیکن جب مس ٹی اِن چیزوں کو کھاتی ہے تو وہ اُس کے اندر داخل ہو کر اُس کے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں۔
یہ تبدیلی (conversion) کا ایک واقعہ ہے، جب کہ ایک مادی چیز تبدیل ہو کر ایک شخص کے جسم کا جز بن جاتی ہے۔ تبدیلی کے اِس واقعے کا ایک اور پہلو ہے۔ یہ پہلو شعور سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک با شعور آدمی جب یہ سوچتاہے کہ یہ مادی چیزیں کیسے بنیں، کیوں ایسا ہے کہ دو بہ ظاہر الگ الگ چیزوں میں کامل مطابقت پائی جاتی ہے۔ کس طرح یہ ممکن ہوا کہ یہ تمام چیزیں انسان کے لئے لائف سپورٹ سسٹم (life-support system) کا ذریعہ بن گئیں۔
جب ایک شخص اِس طرح سوچتا ہے تو ہ تخلیق کی معنویت (meaningfulness)کو دریافت کرتاہے۔ وہ تخلیق میں خالق کو دیکھ لیتاہے— یہی وہ تجربہ ہے جو انسان کے لیے ذہنی اور روحانی ارتقا کا ذریعہ ہے۔ مادی چیزیں انسان کے باہر صرف مادی چیزیں ہیں، لیکن انسان کے ذہن میں آکر وہ شعوری ارتقا میں ڈھل جاتی ہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوتِ قرآن

قرآن کی سورہ مریم میں قرآن کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: لتبشر بہ المتقین (19:97)یعنی قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ وہ اہلِ تقویٰ کے لیے بشارت ثابت ہو۔ ’بشارت‘ کا مطلب اچھی خبر (good news) ہے۔ قرآن، خدا کی ایک مستند کتاب ہے۔ قرآن تمام انسانوں کو ایک اچھی خبر دینے والا ہے۔ وہ اچھی خبر یہ ہے کہ انسان اگر دنیا کی محدود زندگی میں حسنِ عمل کا طریقہ اختیار کرے تو وہ موت کے بعد کی زندگی میں ابدی جنت میں جگہ پائے گا۔
یہ اچھی خبر اُن افراد کے لیے ہے جو دنیا کی زندگی میں تقویٰ کی روش اختیار کریں۔ جنت عمومی طورپر ہر انسان کو نہیں ملے گی، وہ صرف اُس انسان کو ملے گی جو دنیا کی زندگی میں تقویٰ کا ثبوت دے(3: 133)۔جنت کی معیاری دنیا میں جگہ پانے کی شرط صرف ایک ہے، اور وہ تقویٰ ہے۔
قرآن کی مذکورہ آیت کے مطابق، جنت کی بشارت متقی انسانوں کے لیے ہے۔ متقی کا لفظی مطلب ہے — ڈرنے والا یا بچنے والا۔ ڈرنا یا بچنا کیا ہے، یہ دراصل حساسیت (sensitivity) کا ایک ظاہرہ ہے۔ جب آدمی کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ باشعور ہوجائے تو فطری طور پر وہ اس کے بارے میں بہت زیادہ حساس (sensitive) ہوجاتاہے۔ انسان کی زندگی میں سب سے بڑا رول اِسی حساسیت کا ہے۔ آدمی جس چیز کے بارے میں حساس نہ ہو، وہ اس کو نظر انداز کرے گا، اور جس چیز کے بارے میں وہ حساس ہو، وہ چیز اس کا کنسرن (concern) بن جائے گی۔ عین اپنے مزاج کے مطابق، اُس کو وہ سب سے زیادہ قابلِ توجہ چیز سمجھنے لگے گا۔
قرآن کا پیغام یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچائے۔ وہ اپنے شعورکو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ اپنی زندگی میں خدا کی اطاعت ہی اُس کا سب سے بڑا کنسرن (sole concern) بن جائے، کوئی دوسری چیز اس کی حساسیت کا مرکز نہ بنے۔
ایسے آدمی کا حال کیا ہوگا، اُس کو قرآن میں مختلف مقامات پر بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ولا تقفُ ما لیس لک بہ علم، إن السمع والبصر والفؤاد کلُّ أولئک کان عنہ مسؤلاً(17:36 ) یعنی تم اُس چیز کے پیرو نہ بنو جس کا تمھیں علم نہیں۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل سب کی، آدمی سے پوچھ ہوگی۔
قرآن کی اِس آیت میں د راصل اُس چیز کا حکم دیاگیا ہے جس کو ایک لفظ میں صحیح طرزِ فکر کہاگیا ہے۔ انسانی زندگی کی درستگی کا سارا مدار اِس پر ہے کہ اس کے اندر صحیح طرز فکر پیدا ہو جائے۔ وہ اپنے قول اور عمل کے معاملے میں اپنے آپ کوپوری طرح قانونِ خداوندی کے مطابق بنالے۔
قرآن کے مطابق، یہی وہ منصوبۂ تخلیق (creation plan) ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کرکے اس کو محدود مدت کے لیے سیارۂ ارض (planet earth) پر بسایا گیا ہے۔ سیارۂ ارض انسان کے لیے کوئی عیش گاہ نہیں ہے، وہ مذکورہ مقصد کے لیے مقامِ انتخاب (selection ground) ہے۔ یہاں وہ افراد چُنے جارہے ہیں جو اپنی اعلیٰ صفات کی بنا پر جنت جیسی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ یہی بات قرآن کی سورہ الملک میں اِن الفاظ میں کہی گئی ہے: الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أیُّکم أحسن عملاً (67:2) یعنی اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا کام کرتاہے:
He created death and life so that He might test you, and find out which of you is best in conduct.
اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں، وہ وسیع تر تقسیم (division) میں دوہیں— مادی دنیا اور انسان۔ مادی دنیا سے مراد وہ پوری وسیع کائنات ہے جس کو نیچر (nature)کہاجاتاہے۔ مادی دنیا مکمل طورپر خدا کے مقرر کئے ہوئے قانون (divine laws) کے تحت کام کررہی ہے۔ وہ خدا کے قانون سے ادنی انحراف نہیں کرتی۔ مگر انسان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انسان پوری کائنات میں ایک استثنا کی حیثیت رکھتا ہے، وہ یہ کہ انسان کو انتخاب کی آزادی (freedom of choice) عطا کی گئی ہے۔ انسان کو کامل اختیار حاصل ہے کہ وہ خود اپنی سوچ کے مطابق، اپنے قول وعمل کا فیصلہ کرے۔ یہ بات قرآن کی مختلف آیتوں میں بتائی گئی ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں، حالاں کہ اُسی کے حکم میں ہے جو کوئی آسمان اور زمین میں ہے، خوشی سے یا ناخوشی سے، اور سب اُسی کی طرف لوٹائے جائیں گے‘‘ (3: 83)۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک اور آیت کا ترجمہ یہ ہے:’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا، تو وہ دین اُس سے ہر گز قبول نہ کیاجائے گا اور وہ آخرت میں ناکام انسانوں میں سے ہوگا‘‘ (3: 85)
قرآن کی اِس آیت میں لفظ ’اسلام‘ (submission) استعمال کیا گیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خالق کی جو اطاعت بقیہ کائنات سے جبری (compulsory) طورپر مطلوب ہے، انسان سے یہ مطلوب ہے کہ اِسی اطاعت کو وہ کامل آزادی کے ساتھ اپنی زندگی میں اختیار کرے۔
انسان کو سننے کی طاقت، دیکھنے کی طاقت اور سوچنے کی طاقت اِس لیے دی گئی ہے، تاکہ انسان اُن کا استعمال کرکے اپنے لیے اُس صحیح روش کو جان سکے جس کو قرآن میں صراطِ مستقیم کہاگیاہے۔ صراطِ مستقیم سے ہٹنا، اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے اپنی ملی ہوئی صلاحیتوں کو درست طور پر استعمال نہیں کیا۔ ایساآدمی اللہ تعالیٰ کے یہاں قابلِ مواخذہ (accountable) قرار پائے گا، کو ئی بھی عذر اُس سے قبول نہیں کیا جائے گا 30: 57) ۔
اِسی طرح حیاتِ انسانی کا ایک اصول یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو کبر (arrogance) کی نفسیات سے بچائے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: ولا تمش فی الأرض مرحاً، إن اللہ لا یحب کلَّ مختال فخور(31: 18) یعنی تم زمین میں اکڑ کر نہ چلو۔ بے شک اللہ کسی اکڑنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
قرآن کی اِس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کے لیے سب سے بُری اخلاقی صفت کیا ہے، وہ کبر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کبر تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے۔ اس کے برعکس، تواضع (modesty) تمام بھلائیوں کا سرچشمہ۔ قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے جو متواضع ہو اور کبر کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو۔
قرآن کی سورہ الفجر میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے ساتھ جو خوش گوار یا نا خوش گوار تجربات پیش آتے ہیں، وہ صرف ابتلا (test) کے لیے ہوتے ہیں، مگر انسان ایسے واقعات کو منفی معنی میں لے لیتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ خوش گوار واقعہ پیش آئے تو وہ ’أکرمن‘ کی نفسیات میںمبتلا ہوجاتا ہے، یعنی احساسِ برتری (superiority complex) کی نفسیات میں۔ اِس کے برعکس، اگر اُس کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آئے تو وہ ’أہانن‘ کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے، یعنی احساسِ کم تری (inferiority complex) کی نفسیات میں (89: 15-16)۔
قرآن کے مطابق، یہ دونوں چیزیں انسان کو ہلاک کرنے والی ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ انسان کے ساتھ کوئی خوش گوار واقعہ پیش آئے، تب بھی وہ اعتدال کی حالت پر قائم رہے۔ اور اگر اس کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آئے، تب بھی وہ اعتدال کی حالت پر قائم رہے۔ جو انسان اِس طرح معتدل شخصیت کا ثبوت دے، اس کو قرآن میں النفس المطمئنۃ (89: 27) کہاگیا ہے، یعنی کامپلکس فری انسان (complex-free soul) ۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کسی انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اُس کو موت کے بعد کی ابدی زندگی میں جنت میں داخلہ مل جائے۔ اِس سلسلے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے: إن ہذا لہو الفوز العظیم۔ لمثل ہذا، فلیعمل العاملون (37: 60-61) یعنی یقینا یہی بڑی کامیابی ہے۔ ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔اِس سے معلوم ہواکہ قرآن کے مطابق، انسان کا گول (goal) کیا ہونا چاہئے، وہ گول صرف ایک ہے، اور وہ جنت ہے۔ جنت سادہ طور پر صرف ایک عیش گاہ نہیں ہے۔ جنت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رب العالمین کا پڑوس ہے، اور بلاشبہہ کسی انسان کے لیے اِس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی کہ اس کو ابدی زندگی میں اپنے رب کا پڑوس (neighbourhood) حاصل ہوجائے۔ جنت کی یہ خصوصیت قرآن کی اِس دعا سے معلوم ہوتی ہے: ربّ ابنِ لی عندک بیتاً فی الجنۃ (66: 11) یعنی اے میرے رب، میرے لیے تو اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے۔
واپس اوپر جائیں

مسئلہ داخلی ہے، نہ کہ خارجی

بعد کے زمانے کے مسلمانوں کے بارے میں ایک حدیث اِن الفاظ میں آئی ہے: یوشک الأمم أن تداعی علیکم کما تداعی الأکَلَۃُ إلی قصعتہا۔ فقال قائلٌ: و من قلۃٍ نحن یومئذ۔ قال بل أنتم یومئذ کثیر، ولکنکم غثاء کغثاء السیل، ولینزعنّ اللہ من صدور عدوکم المہابۃ منکم، ولیقذفنّ فی قلوبکم الوَہْن۔ قیل وما الوہن یا رسول اللہ۔ قال: حب الدنیا وکراہیۃ الموت (أبو داؤد، رقم الحدیث: 4297) حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ زمانہ آنے والا ہے جب کہ قومیں تمھارے اوپر ٹوٹ پڑیں، جس طرح کھانے والے کھانے کے پیالے پر ٹوٹتے ہیں۔ ایک شخص نے کہا، کیا اِس لیے کہ اُس وقت ہم لوگ کم تعداد میں ہوں گے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ اُس وقت تم لوگ بہت زیادہ ہو گے، مگر تم لوگ سیلاب کے جھاگ کی مانند ہوگے، اللہ تمھارے دشمنوں کے دل سے تمھاری ہیبت نکال دے گا، اور تمھارے دلوں میں ’وہن‘ پیدا کردے گا۔ کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول، ’وہن‘ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا کی محبت، اور موت کو ناپسند کرنا۔
اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے کے مسلمانوں میں یہ مسئلہ اگرچہ خارجی اعتبار سے پیداہوگا، لیکن اُس کا اصل سبب تمام تر داخلی ہوگا۔ امت کے اِس داخلی مسئلے کو حدیث میں ’’وہن‘‘ کہاگیا ہے۔ وہن کا لفظی مطلب ہے— ضعف (weakness) ۔
یہ ضعف (کمزوری) کیاہوگا، اِس کو بھی حدیث میں بتادیاگیا ہے۔ وہ یہ کہ اُس زمانے میں مسلمانوں کا کنسرن (concern) یہ نہیں رہے گا کہ وہ دین کے تقاضے پورے کریں۔ اُن کا کنسرن صرف یہ ہوگا کہ وہ دنیا میں مادی اعتبار سے اپنی جگہ بنائیں۔ موت کے بعد پیش آنے والی صورتِ حال اُن کی سرگرمیوں کا مرکز ومحور نہ ہوگی، بلکہ ان کی سرگرمیوں کا مرکز و محور صرف یہ ہوگا کہ وہ موت سے پہلے کی زندگی میں کس طرح مادی کامیابی اور مادی ترقی حاصل کریں۔ ’’دنیا پرستی اور آخرت فراموشی‘‘ کے اسی مزاج کو حدیث میں وہن کہاگیا ہے۔ اِس مزاج کے بعد امتِ مسلمہ سے خدا کی نصرت اٹھ جائے گی، اور خدا کی نصرت اٹھنے ہی کا وہ نتیجہ ہوگا جس کی ایک تصویر مذکورہ روایت میں نظر آتی ہے۔ ایسی حالت میں اِس مسئلے کا حل دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج نہ ہوگا، بلکہ اُس کا حل صرف یہ ہوگا کہ اپنی داخلی حالت کی اصلاح کرکے د وبارہ اپنے آپ کو نصرتِ الٰہی کا مستحق بنایا جائے۔
لوگوں کے دلوںمیں تمھاری ہیبت باقی نہ رہے گی — ہیبت یا مہابت کا ترجمہ عام طور پر خوف کیا جاتاہے، مگر خوف ایک منفی لفظ ہے، جب کہ ہیبت تمام تر ایک مثبت لفظ ہے۔ اِس حدیث میں ہیبت سے مراد سیاسی ہیبت نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد وہ ہیبت ہے جو اعلیٰ قسم کے مثبت اوصاف سے پیدا ہوتی ہے۔ ہیبت سے مراد وہ خوف نہیں ہے جو کسی درندہ جانور کو دیکھ کر آدمی کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ ہیبت یا مہابت سے مراد وہ رعب و دبدبہ (profound reverence) ہے جو کسی فرد یا گروہ کے اندر اُس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ وہ اخلاقی اور نظریاتی اعتبار سے دوسروں کے مقابلے میں برتر حیثیت حاصل کرلے۔قدیم زمانے میں مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلے میں یہ ہیبت حاصل تھی، جب کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے دوسروں کے مقابلے میں اپنی یہ ہیبت مکمل طور پر کھو دی ہے۔ اِس فرق کا سبب یہ نہیں ہے کہ قدیم زمانے میں مسلمانوں کے پاس ’’لشکرِ جر ّار‘‘ کی طاقت موجود تھی، بلکہ اِس کا سبب یہ ہے کہ قدیم زمانے کے مسلمان اپنی نظریاتی برتری، اصول پسندی، نفع بخشی اور اپنی اخلاقی عظمت کے اعتبار سے، دوسروں کے مقابلے میں اعلیٰ سطح پر پہنچے ہوئے تھے۔
اِس حدیث میں بعد کے زمانے کے مسلمانوں کی جس حالت کا ذکر ہے، وہ کوئی پُراسرار بات نہیں، وہ ایک تاریخی حقیقت کا بیان ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، ہر قوم کی بعد کی نسلوں میں زوال (degeneration) آتا ہے۔ اِس معاملے میں مسلمانوں کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔ فطرت کے قانون کے مطابق، ایسا ہوتا ہے کہ دورِ زوال میں پیدا ہونے والی نسلیں مثبت اوصاف سے محروم ہوجاتی ہیں۔ پہلے اگر وہ دوسری قوموں کو دینے والے (giver) تھے، تو اب وہ دوسری قوموں سے لینے والے (taker) بن جاتے ہیں۔ پہلے اگر اُن کے افراد میں اعلیٰ حوصلگی تھی، تو اب اُن کے افراد پست حوصلگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پہلے اگر اُن کے اندر تخلیقی فکر تھی، تو اب اُن کے افراد صرف تقلیدی فکر کے حامل بن جاتے ہیں۔ پہلے اگر ان کے دلوں میں دوسروں کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہوتا تھا، تو اب ان کے دل دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایت کا جنگل بن جاتے ہیں۔ پہلے اگر ان کے اندر صبر وتحمل کے اوصاف تھے، تو اب ان کا حال یہ ہوجاتاہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتعل ہو کر لڑنے لگتے ہیں۔
حدیث میں ’کراہیۃ الموت‘ کا لفظ آیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بعد کے زمانے کے مسلمان موت سے ڈرنے لگیں گے۔اِس کا ثبوت موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی حالت ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر اب وہ وقت مسلّمہ طورپر آچکا ہے جس کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی تھی۔ لیکن اِسی کے ساتھ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ موت سے بالکل بے خوف ہوگئے ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر اُن کی مسلح تنظیمیں قائم ہیں۔ اِن مسلّح تنظیموں میں مسلمان بڑی تعداد میں شریک ہیں۔ وہ جگہ جگہ جہاد کے نام پر مسلح کلچر چلائے ہوئے ہیں۔ بالا کوٹ کے شہیدوں اور علمائِ ہند کی قربانیوں سے لے کر موجودہ فلسطین اور افغانستان تک ہر جگہ مسلمان بڑے پیمانے پر مسلح کلچر چلائے ہوئے ہیں، حتی کہ وہ بے خوف ہو کر خود کش بم باری کرتے ہیں۔ وہ جگہ جگہ پُرتشدد مظاہرے کرتے ہیں، خواہ اس کے جواب میں اُن کو فریق ثانی کی طرف سے بندوق کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑے۔
ایسی حالت میں ’’کراہیتِ موت‘‘ کی تشریح یہ نہیں ہوسکتی کہ مسلمان بعد کے دور میں لڑنا مرنا چھوڑ دیں گے۔ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ بعد کے دور کے مسلمانوں میں دینی زوال کے نتیجے میں مبنی بر موت سوچ ختم ہوجائے گی، آخرت رخی زندگی کا حقیقی تصور اُن کے اندر باقی نہیں رہے گا۔ موت سے وابستہ حقائق، جنت اور جہنم اور فکرِ آخرت جیسی چیزیں ان کی شخصیت کا حصہ نہیں رہیں گی۔اِس حدیثِ رسول سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ’’ہیبت‘‘ کا تعلق تعداد سے نہیں ہے، بلکہ کردار سے ہے۔ تعداد خواہ کتنی ہی زیادہ ہو، وہ مسلمانوں کے لیے عزت ووقار کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ اُس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم افراد میں حقیقتِ موت کا شعور پیدا کیا جائے، جس کا دوسرا نام آخرت رخی سوچ ہے۔ آخرت رخی سوچ ہی سے افراد میں وہ اعلیٰ کردار بنتا ہے جو اُن کو لوگوں کے درمیان عزت ووقار کادرجہ عطا کرتاہے۔
واپس اوپر جائیں

امتِ مسلمہ کا احیا

کچھ بچے ایک جگہ بیٹھ کر کھیل رہے تھے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ تم لوگ کیا کررہے ہو۔ بچوں نے کہا کہ جھوٹ موٹ کھچڑی پکارہے ہیں۔ پوچھنے والے نے کہا کہ جب جھوٹ موٹ ہی پکانا ہے تو کھچڑی کیوں پکاؤ، پلاؤ پکاؤ۔
یہ لطیفہ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ موجودہ زمانے کا ہر رہنما احیائِ ملت کی باتیں کرتاہے، مگر اُن کا احیائِ ملت کا تصور رومانی خواب کے سوا کچھ اورنہیں۔ یہ سب کے سب رہنما ایسی چیزوں کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہیں جو کبھی وقوع میں آنے والی نہیں۔ یہ رہنما عام طور پر درج ذیل قسم کے خوش نما الفاظ بولتے ہیں:
مسلم تہذیب کا احیا (Revival of Muslim Civilization)
مسلم ایمپائر کا احیا (Revival of Muslim Empire)
مسلم خلافت کا احیا (Revival of Muslim Khilafah)
مسلم عظمت کا احیا (Revival of Muslim Glory)
مسلم تاریخ کا احیا (Revival of Muslim History)
یہ نشانے سب کے سب قومی نشانے ہیں اور قومی نشانے کبھی اِس دنیا میں پورے نہیں ہوتے، کیوں کہ قومی نشانوں کو کبھی خدا کی مدد حاصل نہیں ہوتی۔ مسلم امت کا نشانہ صرف ایک ہے، اور وہ دعوت الی اللہ ہے۔ قرآن اور حدیث میں اِس کو ’’شہادت علی الناس‘‘ کہاگیا ہے، یعنی اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچانا۔ یہی دعوت الی اللہ امتِ مسلمہ کا واحد مشن ہے۔ یہ مشن اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک غیر سیاسی مشن ہے، اور اپنے طریقِ کار کے اعتبار سے، پوری طرح ایک پُر امن مشن (peaceful mission)۔ اِس دعوتی مشن کے لیے اللہ کی طرف سے یقینی نصرت کا وعدہ ہے۔ یہ مشن تمام انسانوں کے لیے ہے، نہ کہ کسی خاص قوم کے لیے۔
واپس اوپر جائیں

اصلاح کا صحیح طریقہ

موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے بہت بڑی بڑی تحریکیں اٹھائی گئیں، لیکن ظاہری دھوم کے باوجود مثبت نتیجے کے اعتبار سے اُن کا کوئی حقیقی حاصل نہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اِن تحریکوں کا نقطۂ آغاز (starting point) درست نہ تھا۔ اصلاح کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ سب سے پہلے افراد کا ذہن بنایا جائے۔ خارجی نوعیت کی سرگرمیوں سے آغاز کوئی آغاز نہیں۔
مسلمانوں کی اصلاح کی پہلی شرط یہ ہے کہ ان کے ذہنی شاکلہ (mindset) کو بدلا جائے۔ مائنڈ سیٹ کیا ہے، اس کا مطلب ہے :
A fixed set of attitudes
تاریخی اعتبار سے دیکھئے تو قدیم عرب میں لوگوں کا جو مائنڈ سیٹ تھا، اس کو قبائلی مائنڈ سیٹ (tribal mindset) کہا جاسکتاہے۔
اِس کے بعد دورِ اقتدار آیا۔ اُس زمانے میں، مسلمانوں کے اندر ایک نیا مائنڈ سیٹ بنا۔ اِس کو سیاسی مائنڈ سیٹ (political mindset) کہاجاسکتاہے۔ یہ مائنڈ سیٹ تقریباً اٹھارھویں صدی کے آخر تک چلتا رہا۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں، مسلمانوں کا سیاسی اور تہذیبی دبدبہ ختم ہوگیا۔اِس کے بعد مسلمانوں کے اندر ردِّ عمل کی نفسیات پیدا ہوئی۔ اب ان کے اندر جو مائنڈ سیٹ بنا، اس کو انتقامی مائنڈ سیٹ (revengeful mindset) کہاجاسکتاہے۔
یہی انتقامی مائنڈ سیٹ آج تقریباً تمام دنیا کے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے۔ شکایت، نفرت، تشدد، خود کش بم باری سب اِسی مائنڈ سیٹ کے عملی مظاہر ہیں۔ اب اکیسویں صدی میں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے جو کام کرنا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ اُن کے اندر دوبارہ وہی مائنڈ سیٹ پیدا کیا جا ئے جو رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں پایاجاتاتھا، یعنی دعوتی مائنڈ سیٹ۔ یہی مسلمانوں کی اصلاح کا صحیح آغاز ہے۔ اِسی طرح کام کرنے سے مسلمانوں کے اندر حقیقی نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسئلے کا حل

موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا عام خیال یہ ہے کہ وہ ’’اغیار‘‘ کی سازش اور تشدد کا شکار ہیں۔ مگر قرآن یہ کہتے ہوئے اِس نظریے کو رد کررہا ہے کہ — اللہ ہرگز منکروں کو مومنوں پر کوئی راہ نہیں دے گا:
And never will God allow non-believers to harm the believers. (4:141)
پھر مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والی موجودہ صورتِ حال کا سبب کیا ہے۔ قرآن ایک اور آیت میں اُس کا جواب اِس طرح دیتاہے—اور جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے، وہ تمھارے اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں ہی کے سبب سے ہے:
Whatever misfortune befalls you is of your own-doing (42: 30)
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے ساتھ ’’اغیار‘‘ کی طرف سے جو مسائل پیش آرہے ہیں، اُس کا اصل سبب کیا ہے۔ اِس کا جواب قرآن کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے — اے پیغمبر، جو کچھ تمھارے اوپر تمھارے رب کی طرف سے اترا ہے، تم اس کو لوگوں تک پہنچا دو۔ اور اگرتم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اللہ کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے گا:
O Prophet, deliver whatever has been sent down to you by your Lord. If you do not do so, you will not have conveyed His message. God will protect you from the people. (5: 67)
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ اہلِ ایمان کی عصمت (protection) کا معاملہ دعوت الی اللہ (Dawah work) سے جڑا ہوا ہے، یعنی اہلِ ایمان اگر دعوہ ورک کریں تو اُن کو خدا کی طرف سے پروٹکشن ملا رہے گا۔ اگر وہ دعوہ ورک چھوڑ دیں، تو خدا کا پروٹکشن اُن سے اٹھ جائے گا۔ اہلِ ایمان کے مسائل کا حل نہ پروٹسٹ ہے اور نہ ٹکراؤ۔ اہلِ ایمان کے مسئلے کا واحد حل دعوہ ورک ہے۔ کوئی بھی دوسری تدبیر اِس معاملے میں اہلِ ایمان کے لیے ہرگز کار گر نہیں ہوسکتی:
Dawah work guarantees divine protection of Muslim Ummah.
حدیثِ رسول کے مطابق، موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو عالمی ادخالِ کلمہ کی ذمے داری ادا کرنا تھا، یعنی گلوبل دعوہ ورک۔ اِس گلوبل دعوہ ورک کے لیے ایک گلوبل انفراسٹرکچر درکار تھا۔ مسلمان خود اس گلوبل انفراسٹرکچر کو وجود میں نہ لاسکے۔ اِس کے بعد خدا نے سیکولر قوموں سے یہ کام لیا کہ وہ ایک گلوبل انفراسٹرکچر ڈیولپ کریں۔ سیکولر قوموں کے اِس رول کی پیشین گوئی خود حدیثِ رسول میں کردی گئی تھی۔ چناں چہ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مستقبل میں سیکولر لوگوں کے ذریعے اپنے دین کی تائید کا انتظام کرے گا (إن اللہ لیؤیدہذا الدین بالرجل الفاجر)۔
مسلمانوں کی ناکامی کے بعد سیکولر قوموں کے ذریعے اِس گلوبل انفراسٹرکچر کا وجود میں آنا، اِسی حدیثِ رسول کے مطابق تھا۔ مسلمانوں پر فرض تھا کہ وہ اِس راز کو سمجھیں اور ماڈرن انفراسٹرکچر کو گلوبل دعوہ ورک کے لیے استعمال کریں۔ لیکن بعض اسباب سے مسلمان اِس راز کو نہ سمجھ سکے اور خود ساختہ اِشوز کو لے کر لوگوں سے رقابت (rivalry) قائم کرلی، حتی کہ وہ اُن کے خلاف تشدد کرنے لگے۔
مسلمانوں کی یہ روش خدا کی اسکیم کے خلاف تھی۔ اب مسلمانوں کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں، وہ از سرِ نو اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔
وہ دوسری قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں، نہ کہ اپنا حریف (rival) ۔ وہ جدید تہذیب کے ذریعے حاصل ہونے والے گلوبل انفراسٹرکچر کو لے کر عالمی سطح پر پر امن دعوہ ورک کو انجام دیں۔ مسلمانوں کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔ اِس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں جو مسلمانوں کو موجودہ مسائل سے نجات دلانے والا ہو۔مسلمانوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کے سوا ہر دوسری چیز کو اپنے لیے سکنڈری بنائیں۔ وہ دعوت کو اپنی زندگی کا واحدمشن قرار دیں۔اِس کے بعدہی ان کو دوبارہ خدا کی حفاظت ملے گی۔ اِسی میں اُن کے لیے دنیا کی حفاظت ہے اور اِسی میں ان کے لیے آخرت کی نجات مقدر ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی تحریک کا ہدف

تبلیغی جماعت کے سابق امیر مولانا انعام الحسن کاندھلوی (وفات: 1996 ء) نے کہا تھا کہ: ہماری تبلیغی تحریک ایک مسجد وار تحریک ہے۔ مولانا انعام الحسن کاندھلوی کا یہ قول تبلیغی جماعت کی صحیح تصویر کو بتاتا ہے۔ تبلیغی جماعت کی تحریک اصلاً مسلمانوں کی دینی اصلاح کی تحریک ہے، جومسجدوں کو بنیاد بنا کر چلائی جارہی ہے۔ مسجدوار تحریک کا مطلب ہے — مسجد اورینٹڈ موومنٹ (Masjid-oriented movement)۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر جو تحریکیں اٹھیں، وہ مختلف پہلوؤں سے اِسی قسم کی تحریکیں تھیں — مسجدوار تحریک، مدرسہ وار تحریک، ملت وار تحریک، تحفظ وار تحریک، مناظرہ وار تحریک، فخروار تحریک، سیاست وار تحریک، وغیرہ۔ اِس قسم کی تحریکوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے جو انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے درمیان پھیلا ہوا ہے، اور اکیسویں صدی میں بھی اس قسم کی تحریکوں کا تسلسل جاری ہے۔
تحریکوں کی اِس طویل فہرست میں صرف ایک تحریک ہے جو غیر موجود ہے، اور وہ ہے دعوت وار تحریک۔ دعوت وار تحریک کے لیے قرآن میں دعوت الی اللہ کا لفظ آیا ہے، یعنی خدا کے بندوں کو خداکی طرف بلانا، تمام انسانوں کو خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) سے آگاہ کرنا۔ قرآن میں اِس دعوت وار تحریک کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً اِنذار، تبشیر، وغیرہ۔
دعوت الی اللہ، امتِ مسلمہ کا سب سے بڑا مشن ہے۔ یہی تمام پیغمبروں کا مشن تھا۔ یہی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن تھا۔ یہی اب امتِ محمدی کا مشن ہے۔ اِسی دعوتی مشن کی انجام دہی پر امتِ محمدی کا امتِ محمدی ہونا متحقق ہوتاہے۔ امت اگر اِس دعوتی مشن کو انجام نہ دے تو اللہ کی نظر میں ٍٔ اس کا امتِ محمدی ہونا مشتبہ ہوجائے گا۔ مزید یہ کہ یہ دعوتی مشن فرض علی الکفایۃ نہیں ہے، بلکہ وہ فرضِ عین ہے۔ امت کا ہر فرد جس طرح عبادت کو اپنے لیے فرض سمجھتاہے، اسی طرح امت کے ہر فرد کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق، اِس دعوتی مشن میں اپنے آپ کو شریک کرے۔
واپس اوپر جائیں

انسانی ذمّے داری

(Human Responsibility)
رسپانسبلٹی (responsibility) سے مراد وہی چیز ہے جس کو ڈیوٹی (duty) کہاجاتاہے۔ کہا جاتاہے کہ — انسان ایک سماجی حیوان ہے:
Man is a social animal
اِس کا مطلب یہ ہے کہ سوسائٹی کا ممبر ہونے کی حیثیت سے ہر فرد کے اوپر اپنی سوسائٹی کی نسبت سے کچھ ذمے داریاں ہیں (Individual’s duty towards his society) ۔
اِسی کے ساتھ انسان، نیچر کا ایک حصہ ہے۔ اِس اعتبار سے، ہر انسان کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ نیچر کے معاملے میں اپنی ڈیوٹی کو ادا کرے۔ اِس طرح، انسانی ذمے داری کے دو پہلو ہیں— ایک، سوسائٹی کی نسبت سے۔ اور دوسرا، نیچر کی نسبت سے۔ انسانی ذمے داری کا یہ تصور مذہبی تعلیمات کا اہم حصہ ہے۔
تمام مذاہب میں انسان کی اِن دونوں ذمے داریوں کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔ اِس طرح، اسلام میں بھی اِن دونوں پہلوؤں کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔
رسپانسبلٹی اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اعتراف (acknowledgement) کا دوسرا نام ہے۔ آپ کو دوسروں سے جو کچھ ملتا ہے، آپ عملی طورپر اس کا اعتراف کرنا چاہیں تو اِسی سے وہ کردار وجودمیں آتاہے جس کو انسانی ذمے داری کہا جاتا ہے۔
سوسائٹی کی نسبت سے فرد کی ذمے داری
پہلے سوسائٹی کو لیجئے۔ پچھلے زمانے میں سوسائٹی سے مراد آپ کا قریبی سماج ہوتا تھا۔ اب ہم الکٹرانک دور میںجی رہے ہیں، اِس لیے اب سوسائٹی کا لفظ وسیع ترسماج کے ہم معنی بن گیا ہے۔ اب سوسائٹی سے مراد قریبی سوسائٹی بھی ہے، اور الکٹرانک سوسائٹی بھی۔
سماجی زندگی کا اخلاقی معیار یہ ہے کہ ہر فرد اپنی سوسائٹی میں اُس کا دینے والا ممبر (giver member) بن کررہے۔ وہ سوسائٹی میں اِس طرح رہے کہ اُس سے دوسروں کو کچھ نفع مل رہاہو۔ وہ سوسائٹی کے حق میں اپنی ڈیوٹی کو ادا کرے۔ مثلاً وہ دوسروں کے لیے کوئی پرابلم پیدا نہ کرے۔ وہ دوسروں سے کئے ہوئے عہد کو لازماً پورا کرے۔ وہ دوسروں کے جان ومال میں اُنھیں کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ وہ سماج میں ایک قابل پیشین گوئی کردار والا انسان (predictable character) بن کر رہے، یعنی سماج اُس سے جائز طور پر جو امید رکھے، اُس امید میںوہ پورا اترے۔
ایک واقعہ اِس معاملے کو اچھی طرح واضح (illustrate) کرتاہے۔شکاگو (Chicago) امریکا کا ایک شہر ہے۔ شکاگو کے لفظی معنی جنگلی پیاز (wild onion) کے ہیں۔ پہلے یہ شہر اپنی گندگی اور جرائم اور ناقص مکانات کے لیے مشہور تھا۔ اِس لیے اس کا یہ نام پڑ گیا۔ آج شکاگو ایک اعلیٰ درجے کا خوب صورت شہر ہے۔
شکاگو کی جدید تاریخ رچرڈڈیلی (Richard J. Daley) کی طرف منسوب ہے۔ وہ 1902 میں پیدا ہوا، اور 1976 میں اس کی وفات ہوئی۔ 1955 میں وہ شکاگو کا میئر منتخب ہوا، اور آخر عمر تک وہ شکاگو کا میئر رہا۔ میئر بننے کے بعد اس نے از سرِ نو شہر کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ اس نے قدیم شکاگو کو ہر اعتبار سے نیا شکاگو بنا دیا۔
رچرڈ ڈیلی کی کامیابی کا خاص راز یہ تھا کہ اس نے شکاگو کی جدید تعمیر کو وہاں کے باشندوں میں سے ہر ایک کا ذاتی مسئلہ بنا دیا۔ اُس نے ہر ایک کے اندر یہ ذہن پیدا کیا کہ یہ کام مجھے کرنا ہے، اور میں ہی اس کو انجام دوں گا۔ اس نے شکاگو میں بسنے والے ہر شخص کو یہ ماٹو دیا— میںاِس کو کروں گا:
I will do it.
ایک فرد کے لیے سماج میں جینے کے دو اصول ہیں— ایک، یہ کہ وہ سماجی ذمے داریوں کو اپنے اوپر لے۔ دوسرا، یہ کہ وہ سماجی ذمے داریوں کو دوسروں کے اوپر ڈالے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایک ہے، آئی ول ڈو اسپرٹ (I will do spirit) کے ساتھ سماج میں رہنا۔ اور دوسرا ہے، دے وِل ڈو اِٹ اسپرٹ (They will do it spirit) کے ساتھ سماج میں رہنا۔ اِن دونوں طریقوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ جس سماج کے افراد آئی ول ڈو اٹ اسپرٹ (I will do it spirit) کے ساتھ رہیں، وہ سماج ترقی کرے گا۔ اس کے ہر شعبے درست طورپر کام کریں گے۔ اِس کے برعکس، جس سماج کے افراد دے وِل ڈو اِٹ اسپرٹ (They will do it spirit) کے ساتھ رہیں، وہ سماج غیر ترقی یافتہ سماج ہوگا۔ ایسے سماج کے ہر شعبے بگاڑ کا شکار ہوجائیں گے۔ آئی ول ڈو اٹ (I will do it) ذمے دار شخصیت کی علامت ہے اور دے وِل ڈو اِٹ (They will do it) غیر ذمے دار شخصیت کی علامت۔
سماجی رسپانسبلٹی کا تصور ہر فرد کو ڈیوٹی کانشس (duty-conscious) بناتا ہے۔ ایسے سماج میں ہر فرد اس کا گور ممبر (giver member) بن کر رہنے کی کوشش کرتا ہے، نہ کہ صرف ٹیکر ممبر (taker member)۔ اِس کے برعکس، جس سماج میں لوگوں کے اندر رسپانسبلٹی کا احساس نہ ہو، وہاں کا ہر فرد رائٹ کانشس (right-conscious) بن جائے گا۔ ایسے سماج کا ہر فرد، سماج سے اپنے لیے لینا چاہے گا، لیکن خود سماج کو دینے کی اسپرٹ اس کے اندر موجود نہ ہوگی۔
رسپانسبلٹی پر مبنی سماجی اخلاقیات کی معقولیت کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ سماج اپنے وسیع تر مفہوم میں، ہر فرد کو بہت زیادہ دے رہاہے۔ کوئی فرد سماج کو جو کچھ دیتاہے، وہ اُس سے بہت کم ہے جو اُس کو سماج سے مل رہا ہے۔ کوئی فرد اگر پورے معنوں میں سماج کا گور ممبر بن جائے، تب بھی سماج کے لیے اُس کا عطیہ ایک فی صد سے بھی کم ہوگا، جب کہ سماج نے اس کو جو کچھ دیاہے، وہ 99 فی صد سے زیادہ ہے۔ اس لیے کسی فرد کے لیے سماجی اخلاقیات میں کوتاہی کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس اصول کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ — جو شخص انسان کا معترف نہ ہو، وہ خدا کا معترف بھی نہیں ہوسکتا (من لم یشکر الناس، لم یشکر اللہ)۔
سوسائٹی صرف اُس قریبی مجموعۂ انسانیت کا نام نہیں ہے جہاں ایک فرد پیداہوتا ہے، بلکہ سوسائٹی ایک طویل سلسلۂ تاریخ کانام ہے۔ سوسا ئٹی کا دائرہ، پہلے انسان (آدم) سے لے کر، آج کے انسان تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس پورے مجموعۂ انسانیت نے اپنی لمبی تاریخ کے دوران جو کچھ کیا ہے، اس کو تہذیب کا ارتقا کہا جاتاہے۔ تہذیب کے اِس ارتقا میںہر فرد اپنا حصہ پارہا ہے۔ آج ایک فرد جس مہذب دنیا (civilized world) میں رہ رہا ہے، وہ دنیا ہمیشہ سے موجود نہ تھی۔ وہ پوری انسانیت کی لمبی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
ایک وقت تھا کہ انسان اپنے پیروں پر چلتا تھا، پھر لمبے تجرے کے بعد انسان نے پہیہ بنایا۔ اِس طرح، انسان کے لیے پاؤں پر چلنے کے بجائے گاڑی سے چلنے کا دور شروع ہوا۔ پھر انسان نے لمبے تجربے کے بعد کشتی بنائی۔ اِس طرح دریاؤں اور سمندروں کو بحفاظت پار کرنے کا دور شروع ہوا۔ پھر لمبے تجربے کے بعد انسان نے اسٹیم پاور دریافت کیا۔ اِس کے بعد ریلوے ٹرین اور اسٹیم شپ کا دور شروع ہوا۔ پھر انسان نے لمبے تجربے کے بعد کار بنائی اور انسان تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرنے کے دور میں پہنچا۔ پھر انسان نے لمبے تجربے کے بعد ہوائی جہاز بنایا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ انسان فضا میں تیز رفتاری کے ساتھ اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچے اور جنگل اور پہاڑ اور سمندر اور بستیاں کوئی بھی چیز اُس کے سفر میں رکاوٹ ثابت نہ ہوں۔
یہ انسانیت کی جدوجہد کے صرف ایک پہلو کی چھوٹی سی مثال ہے۔ اِس طرح پورا مجموعہ انسانیت ہزاروں سال تک مسلسل جدوجہد کرتا رہا، یہاں تک کہ لاکھوں کی تعداد میں زندگی کے بے شمار سامان وجود میں آئے، جن کے مجموعے کو تہذیب (civilization) کہاجاتا ہے۔ موجودہ تہذیب کو وجود میں لانے میں پورے مجموعۂ انسانیت کا حصہ ہے۔ ایک سُوئی (needle)سے لے کر ایک ترقی یافتہ شہر تک، ہر چیز میں براہِ راست طورپر پوری انسانیت کی مجموعی جدوجہد اور قربانی شامل ہے۔
یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جو انسانی رسپانسبلٹی کی اخلاقی بنیاد ہے۔ جب ایک فرد اِس حقیقت کو دریافت کرتاہے کہ آج وہ جس ترقی یافتہ دنیا میں رہ رہا ہے ، اُس کو وجود میں لانے کے لیے پوری انسانیت اس میں شریک ہے، اِس معاملے میں وہ پوری انسانیت کا مقروض ہے۔ جب ایک شخص اِس تاریخی حقیقت کا اعتراف کرکے اس کے مطابق، زندگی گزارے تو اِسی کا نام سوسائٹی کے حق میں اپنی ذمے داری کو ادا کرنا ہے۔ گویا کہ انسانی رسپانسبلٹی ایک اعتبار سے، پوری نوعِ انسانی (mankind) کے کنٹری بیوشن (contribution)کا اعتراف ہے، اور دوسرے اعتبار سے، وہ اپنے انفرادی دائرے میں اس کی محدود قیمت ادا کرنا ہے۔
انسانی ذمے داری کی اِسی نوعیت کی بنا پر قرآن میں اس کو انسان کی طرف سے انسان کو اس کے حقوق ادا کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: إن اللہ یأمرکم أن تؤدّوا الأمانات إلی أہلہا:
God commands you to hand back your trusts to their rightful owners. (4: 58)
اسلام کے اِس تصور (concept) کے مطابق، ایک فرد جب انسانی سماج کے حق میں اپنی ذمے داریوں کو ادا کرتا ہے تو وہ دوسروں کو کچھ دیتا نہیں ہے، وہ صرف یہ کرتا ہے کہ دوسروں سے ملے ہوئے میں سے کچھ حصے کو وہ اُن کی طرف لوٹاتا ہے۔ یہ تصور ہر فرد کے اندر اپنی ذمے داری کو ادا کرنے کے لیے طاقت ور محرک (strong incentive) پیدا کرتاہے، اتنا زیادہ طاقت ور محرک کہ اس سے زیادہ طاقت ور محرک اور کوئی نہیں۔
نیچر کی نسبت سے فردکی ذمے داری
انسانی ذمے داری کا دوسرا پہلو وہ ہے جو نیچر سے تعلق رکھتا ہے۔ نیچر سے مراد پورا عالمِ مادیت (entire physical world) ہے۔ یہ عالم جس کے اندر انسان اپنے آپ کو پاتا ہے، وہ انسان کے لیے اتنا زیادہ موزوں ہے جیسے کہ وہ اُسی کے لیے بنایا گیا ہو۔ اِسی لیے ایک سائنس داںنے اس کو کسٹم میڈ ورلڈ (custom-made world) کہا ہے۔ اِس دنیا کے اندر انسان کی ضرورت کی تمام چیزیں نہایت متناسب انداز میں موجود ہیں۔ اِسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: واٰتاکم من کل ما سألتموہ:
God has given you all that you asked of Him. (14:34)
انھیں تمام چیزوں کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کے بغیر موجودہ دنیا میں انسان کی زندگی ممکن ہی نہ ہوتی۔
ہماری یہ موافق دنیا اتفاقاً اِس طرح نہیں بن گئی ہے۔ اُس کو بنانے والے نے اُس کو بلا شبہہ شعوری منصوبے کے تحت اِس طرح بنایا ہے کہ وہ ہر پہلو سے عین ہماری ضرورتوں کے موافق ہے۔ اِس طرح کی ایک موافق دنیا ہم خود وجود میں نہیں لاسکتے تھے۔ یہ دنیا ہم کو خالق کی طرف سے انتہائی استثنائی طورپر بطور خصوصی عطیہ دی گئی ہے۔قرآن میں موجودہ دنیا کے اِس پہلو کا ذکر کرتے ہوئے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ تم فطری حالت پر باقی رکھتے ہوئے اس کا استعمال کرو، تم اُس میں ہر گز کوئی بگاڑ پیدا نہ کرو۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے— ولا تفسدوا فی الأرض بعد إصلاحہا:
Do not corrupt the land after it has been set in order (7: 85)
قرآن کی اِس آیت کے مطابق، ہماری دنیا ایک اصلاح یافتہ دنیا ہے۔ وہ پیشگی طورپر انسان کی ضرورتوں کے مطابق، بنائی گئی ہے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اِس دنیا کو اپنی ضرورتوں کے لیے استعمال کرے، لیکن کسی انسان کو یا کسی انسانی مجموعے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دنیا کے فطری نظام کو بگاڑے۔ وہ دنیا کے فطری نظام میں کوئی ایسی تبدیلی پیدا کرے جس کے بعد وہ اگلی نسلوں کے لیے قابلِ استعمال نہ رہے۔ یہ انسان کی وہ ذمے داری ہے جو نیچر کے اعتبار سے، انسان کے اوپر عائد ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن میں یہ ہدایت دی گئی ہے— کلوا واشربوا ولا تسرفوا :
Eat and drink, but do not be wasteful (7: 31)
مثلاً انسان کو یہ حق ہے کہ وہ زمین میں واقع پانی کے ذخیرے کو استعمال کرے، لیکن اُس کو یہ حق نہیں کہ وہ پانی میں کسی قسم کی آلودگی (pollution) پیدا کرکے اس کو انسان کے لیے ناقابلِ استعمال بنا دے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ زمین کی سطح پر اُگے ہوئے درختوں کو استعمال کرے، لیکن اس کو یہ حق نہیں کہ وہ زمین کے درختوں کو کاٹ کر زمین کی ہریالی (greenery)کو ختم کردے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ زمین کی زرخیزی کو زراعت کے لیے استعمال کرے، لیکن اس کو یہ حق نہیں کہ وہ زمین کے غلط استعمال سے اس کو ناقابلِ پیداوار بنادے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ زمین کی فضا کو استعمال کرے، لیکن انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے کسی غیر فطری عمل کے ذریعے وہ خرابی (evil) پیدا کرے جس کو فضائی کثافت کہاجاتاہے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ یہاں اپنی انڈسٹری لگائے، مگر اس کو یہ حق نہیں کہ وہ یہاں ایسی انڈسٹری لگائے جو اوزون کے زندگی بخش غلاف (layer) کو ڈیمیج کردے، وغیرہ۔
نیچر انسان کے لیے ایک بے حد قیمتی تحفہ ہے جو انسان کو بالکل فری دیاگیا ہے، لیکن انسان اِس نیچر کا مالک نہیں، وہ اُس کا امین ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ نیچر کے بارے میں خالق کے منصوبے کو جانے اور وہ اس کو خالق کے منصوبے کے مطابق، استعمال کرے۔
خالق کا وہ منصوبہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ خالق نے نیچر کی تمام چیزوں کو انسانی خواہش کے مطابق (according to human greed) نہیں بنایا، بلکہ خالق نے نیچر کی تمام چیزوں کوانسانی ضرورت کے مطابق (according to human need) بنایا ہے۔ اِسی حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے— إناّ کلّ شیٔ خلقناہ بقدر :
We have created everything in due measure (54: 49)
یہ تخلیقی منصوبہ انسان کے لیے لازم کرتاہے کہ وہ ایک طرف، اپنی حقیقی ضرورتوں کا تعین کرے اور دوسری طرف، وہ نیچر کی چیزوں کو اُن کی تخلیقی نوعیت کے اعتبار سے جانے، پھر وہ اِن دو طرفہ تقاضوں کے مطابق، اپنی زندگی کی پلاننگ کرے۔ اِس کے برعکس، انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی خواہش کی بنیاد پر نیچر کا اندھا دھند استعمال کرے، کیوں کہ ایسا کرنے سے نیچر کا متناسب نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی خواہشیں (desires) لامحدود ہیں۔ اِس کے برعکس، نیچر کی تمام چیزیں محدود ہیں۔ ایسی حالت میں انسان اگر خواہشوں (desires) کی بنیاد پر اپنا پلان بنائے، تو اس کا پلان خالق کے پلان کے مطابق نہ ہوگا۔انسان اِس قسم کے ٹکراؤ کا تحمل نہیں کرسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی مشین دو کاگ (cog) پر چل رہی ہے— ایک، ہیومن کاگ (human cog) اور دوسرا، ڈوائن کاگ (divine cog) ۔ ڈوائن کاگ کی اپنی ایک مقرر رفتار (pace) ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے کاگ کو بھی اُسی رفتار پر چلائے جو ڈوائن کاگ کی رفتار ہے۔ یہ واضح ہے کہ ڈوائن کاگ طاقت ور (strong) ہے اور ہیومن کاگ کمزور(weak) ۔ اگر انسان اپنے کاگ کی رفتار کو اپنی خواہش کے مطابق، چلانے لگے تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ ڈوائن کاگ تو اپنی جگہ باقی رہے گا، لیکن ہیومن کاگ یقینی طورپر ٹوٹ جائے گا۔ اِس کے نتیجے میں انسان کی زندگی ایسی تباہی سے دوچار ہوگی جس کی تلافی کسی بھی حال میں ممکن نہیں۔
خلاصۂ کلام
ہیومن رسپانسبلٹی کا مطلب ہے — ہیومن ڈیوٹی۔ حضرت مسیح نے کہا تھا:
Render therefore to Caesar the things that are Caesar’s, and to God the things that are God’s. (Luke 20: 25)
یہی بات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں کہی ہے— أدّوا إلیہم حقہم، وسلوا اللہ حقکم (صحیح البخاری: رقم الحدیث: 7052 ):
Give to them what is due to them. And ask your dues from God.
یہ دونوں اقوال، فرد اور سوسائٹی کے درمیان صحیح تعلق کو بتاتے ہیں۔ فرد اور سوسائٹی کے درمیان صحت مند تعلق اُس وقت قائم ہوتاہے جب کہ فرد کے اندر رسپانسبلٹی کی اسپرٹ پوری طرح زندہ ہو۔ جب ایسا ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فرد کا فوکس اپنی ذمے داریوں پر ہوگا۔ فرد یہ چاہے گا کہ سوسائٹی کا جو حق اُس کے اوپر آتا ہے، اس کو وہ پوری طرح ادا کرے۔جہاں تک فرد کے اپنے حقوق کی بات ہے، وہ کسی مطالبے سے نہیں ملتے، بلکہ وہ خود اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے ملتے ہیں۔ یہی اسپرٹ آف رسپانسبلٹی اِس بات کی ضامن ہے کہ فرد اور سماج کے درمیان ٹکراؤ کی صورتِ حال نہ پیدا ہو۔ صحت مند سرگرمیوں کے درمیان دونوں کا ارتقا فطری انداز میں جاری رہے۔ (20 دسمبر 2011)
واپس اوپر جائیں

جذباتی سیاست کا نقصان

1947 کے بعد کشمیر کی ریاست انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک نزاعی اشو بن گئی۔اب بے شمار نقصانات کے بعد پاکستان نے اِس معاملے میں دانش مندانہ پالیسی اختیار کی ہے۔پاکستانی حکومت نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ انڈیا کو موسٹ فیورڈ نیشن (Most-Favoured Nation) کا درجہ دے دیا جائے۔ اِس کی رپورٹ میڈیا میں آچکی ہے(ملاحظہ ہو، ہندستان ٹائمس، 1 مارچ 2012، صفحہ 15)۔ اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا نے پاکستان کو 1996 میں موسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ دے دیا تھا۔ اِس کے جوا ب میں پاکستان کو بھی یہی کرنا چاہیے تھا، مگر پاکستانی لیڈروں نے ایسا کرنے میں بہت دیر کی۔ وہ ڈرتے تھے کہ کشمیر کے بارے میں حساس پاکستانی عوام اِس کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کریں گے۔
اِس واقعے میں لیڈر شپ کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ لیڈر شپ کو کبھی ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ وہ کسی اِشو پر جذباتی انداز اختیار کرے، وہ اس کے بارے میں ہائی پروفائل میں بولنے لگے۔ اِس قسم کا طریقہ لیڈر شپ کے لیے ایک غیر دانش مندانہ طریقہ ہے، کیوں کہ عوام کو اگر ایک بار جذباتی تقریریں کرکے بھڑکا دیا جائے تو وہ حقیقت پسندانہ مزاج کھودیتے ہیں۔ اِس کے بعد خواہ حالات کتنے ہی بگڑ جائیں، وہ یوٹرن (U Turn) لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اُن کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ — خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے، لیکن ہم اِس مسئلے پر مفاہمت نہیں کریں گے۔
اِس قسم کا مزاج کسی قوم کی ترقی کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں جذباتی انداز کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ اجتماعی زندگی نام ہے — اپنی سوچ اور فریقِ ثانی کی سوچ کے درمیان ایڈجسٹمنٹ تلاش کرنے کا۔ اجتماعی زندگی کے معاملات یک طرفہ بنیاد پر طے نہیں ہوتے، بلکہ وہ دو طرفہ بنیاد پر طے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں جذباتی سیاست کا طریقہ ایک سنگین رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اجتماعی زندگی کے معاملات یا تو فریقِ ثانی کی رعایت کے ذریعے حل ہوتے ہیں، یا وہ کبھی حل نہیں ہوتے۔
واپس اوپر جائیں

مسئلہ یا چیلنج

زندگی میں ہمیشہ ناموافق حالات پیش آتے ہیں۔ اِس طرح کے ناموافق حالات کا تجربہ ہر ایک کو ہوتا ہے، خواہ وہ عام آدمی ہو یا کوئی بڑی حیثیت والا آدمی۔ اِس میں کسی بھی شخص کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔
ناموافق حالات اُسی طرح زندگی کا حصہ ہیں جس طرح بھوک اور پیاس زندگی کا حصہ ہیں۔ ناموافق صورت حال کو اگر مسئلہ (problem) کہاجائے تو اِس سے منفی ذہن بنے گا۔ آدمی مایوسی کی نفسیات کا شکار ہوجائے گا۔ وہ پیش آمدہ مسئلے کو ایک غیر مطلوب صورت حال سمجھے گا۔ وہ اس کے مقابلے میں، مثبت منصوبہ بندی نہ کرسکے گا۔
صحیح بات یہ ہے کہ مسئلے کو ایک چیلنج سمجھا جائے۔ مسئلہ کا لفظ اگر ایک منفی لفظ ہے تو چیلنج کا لفظ ایک مثبت لفظ۔ چیلنج کیا ہے، چیلنج ایک مشکل صورتِ حال ہے جو کسی آدمی کی استعداد کا امتحان ہوتی ہے:
Challenge: a difficult task that tests somebody’s ability.
جب آپ کسی صورت حال کو چیلنج کی نظر سے دیکھیں تو آپ کے اندر مقابلے کا ذہن پیدا ہوگا۔ آپ کی ساری توجہ اِس پر لگ جائے گی کہ آپ پیش آمدہ صورتِ حال کو بے لاگ انداز سے دیکھیں اور اس کے مطابق، دانش مندانہ منصوبہ بندی کریں۔
یہ سوچ آپ کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرے گی۔ اِس سے آپ کے اندر شکایت کے بجائے مقابلے کا ذہن پیدا ہوگا۔ ایسا نہیں ہوگا کہ آپ کسی کو پیش آمدہ صورتِ حال کا ذمّے دار قر ار دے کر اس سے نفرت کرنے لگیں۔ آپ کسی دوسرے کی تخریب میں اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے، بلکہ آپ مکمل طورپر اپنی تعمیر میں لگ جائیںگے۔ آپ ایسا نہیں کریں گے کہ کسی کو اپنا دشمن قرار دے کر اس کے خلاف تقریر وتحریر کے ہنگامے کھڑے کریں۔ آپ ایسے کسی معاملے کو فطرت کے نظام کے تحت پیش آنے والا واقعہ سمجھیں گے، نہ کہ کسی دشمن کی سازش کے تحت پیش آنے والا واقعہ۔
واپس اوپر جائیں

ایک سبق آموز واقعہ

حکیم اجمل خاں (وفات: 1927 ) نے دہلی میں ’’ہندستانی دواخانہ‘‘ قائم کیا تھا۔ اِس دوا خانے میں ایک صاحب معمولی ملازم تھے۔ ان کی تنخواہ پندرہ روپئے ماہانہ تھی۔ اُن کا نام حافظ عبد المجید تھا۔ انھوں نے بعد کو ہندستانی دواخانہ چھوڑ دیا اور دواؤں کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی۔ اس دکان کا نام ’’ہمدرد دواخانہ‘‘ تھا۔ان کا انتقال 1922 میں ہوا جب کہ ان کی عمر صرف 40 سال تھی۔
حافظ عبد المجید صاحب کے دو بیٹے تھے۔ یہ وہی دو بیٹے ہیں جو بعد کو حکیم عبد الحمید (وفات:1999 ) اور حکیم محمد سعید (1998) کے نام سے مشہور ہوئے۔ دونوں نے بعد کو غیر معمولی ترقی کی۔ دونوں نے ہمدرد ایمپائر اور ہمددر یونی ورسٹی قائم کی۔ حکیم عبد الحمید نے دہلی میں اور حکیم محمد سعید نے کراچی (پاکستان )میں۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ ترقی کے لیے اصل چیز جو درکار ہے، وہ محنت ہے۔ عام طورپر لوگ ایسے آدمی کو خوش قسمت سمجھتے ہیں جو خوش حال گھرانے میں پیدا ہوا ہو، لیکن ایسے خوش قسمت لوگ کبھی کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیتے۔ بڑا کارنامہ ہمیشہ اُن لوگوں نے انجام دیا ہے جو معمولی حالات میں پیدا ہوئے، جن کو پیدا ہوتے ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔آسان حالات آدمی کی قوتِ عمل کو گھٹاتے ہیں اور مشکل حالات آدمی کی قوتِ عمل کو بڑھاتے ہیں— زیادہ خوش قسمت انسان وہ ہے جو مشکل حالات میں پیدا ہو، نہ کہ آسان حالات میں۔
مشکل حالات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اُس سے آدمی کے اندر عمل کا محرک (incentive) پیدا ہوتا ہے۔ اُس کے اندر یہ زبردست خواہش جاگتی ہے کہ میں اپنے حالات کو بدلوں، میں اپنے ’نہیں‘ کو ’ہے‘ بناؤں، میں ایسا عمل کروں جس کے ذریعے یہ ہو کہ میرا مستقبل میرے حال سے بہتر ہوسکے۔
زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت محرکِ عمل کی ہے، اور محرک عمل ہمیشہ مشکل حالات میں پیدا ہوتاہے، نہ کہ آسان حالات میں۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

میں نے آپ کی کتاب ’’اسلام دورِ جدید کا خالق‘‘ کا مطالعہ کیا ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آج جو سائنسی اور ٹکنیکل ترقی ہورہی ہے، اس کا آغاز اسلام نے کیاہے۔ اسلام سے پہلے فطرت کو مقدس سمجھنے کی وجہ سے اس کو تحقیق وریسرچ کا موضوع نہیں بنایا گیا۔ اسلام نے ساتویں صدی میں آکر اس تقدس کو ختم کیا اور فطرت کی تحقیق و تسخیر کا دروازہ کھولا۔ اس طرح انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ فطرت کی آزادانہ تحقیق کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ لیکن ایک دن میں ماحولیات پر ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس میں ماحولیات کے بگڑنے کی اہم وجہ فطرت کو ریسرچ وتحقیق کا موضوع بنانا بتایا گیا ہے:
At present we are not adhering to the old tradition properly. Hence man has become one of the factors for the present day environmental problems. The ancient people respected nature and also understood the value of nature. They worshipped the earth, fire, air, water and sky. (Environmental Education, HS 1st year, TN Textbook corporation, 2009, p. 3)
آپ نے جو بتایا، وہ بالکل حقیقت ہے، اور اس کتاب میں ماحولیاتی مسائل کی جو وجہ بتائی جارہی ہے وہ بھی بظاہر درست معلوم ہوتی ہے۔ براہِ کرم، میرے کنفیوژن کو دور کریں۔ (فرہاد احمد سلفی، بنگلور)
جواب
یہ صحیح ہے کہ موجودہ زمانے میں ماحولیاتی مسائل (ecological problem) پیدا ہوئے ہیں، مگر اِن مسائل کا سبب فطرت کا مطالعہ نہیںہے، بلکہ وہ چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں کنزیومرزم (consumerism) کہاجاتا ہے۔ اور دونوں کے درمیان بنیادی فرق ہے۔
کنزیومر گڈس (consumer goods)سے مراد اصلاً اشیائِ صرف ہیں، لیکن موجودہ زمانے میں نئی ٹکنالوجی کے تحت جو صنعتیں قائم ہوئیں، اُن کی ترقی کے لیے یہ نظریہ وضع کیا گیاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اشیائِ صرف استعمال کریں، تاکہ صنعت کو زیادہ سے زیادہ ترقی حاصل ہو:
Consumerism: advocacy of a high rate of consumption and spending as a basis for a sound economy.
اشیائِ صَرف (consumer goods) میں اضافے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر ایک نیا نظام وضع ہوا۔ یہ بینکوں سے اندھا دھند قرض کا نظام تھا۔ لوگوں کو یہ موقع دیاگیا کہ وہ نقد خریداری کا انتظار نہ کریں، بلکہ بینکوں سے سودی قرض لے کر وہ حسب خواہش جو چیز چاہیں، حاصل کریں — اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قدیم زمانے کا مبنی بر ضرورت سماج (need-based society) ختم ہوگیا اور اس کی جگہ مبنی بر حرص سماج (greed-based society) وجود میں آیا۔
مگر یہ سادہ معاملہ نہ تھا۔ اِس کے نتیجے میں وہ بھیانک مسئلہ پیدا ہوا جس کو ضرورت سے زیادہ کاربن اخراج (carbon emission) کہاجاتا ہے۔ جدید صنعتی دور سے پہلے بھی کاربن کا اخراج ہوتا تھا، لیکن وہ فضا کے اندر جذب ہوجاتا تھا اور انسان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنتا تھا۔ لیکن جدید صنعتی نظام اور بڑھے ہوئے کنزیومرزم کی بنا پر وہ مصنوعی مسئلہ پیدا ہوا ہے جس کو گرین ہاؤس گیس (greenhouse gas) کہاجاتا ہے، یعنی فضا میں مضر گیس کا نقصان دہ حد تک بڑھ جانا:
The problem of the gradual rise in temperature of the earth’s atmosphere, caused by an increase of gases, such as carbon dioxide in the air surrounding the earth, which trap the heat of the sun.
فطرت کو تحقیق کا موضوع بنانا ایک خالص علمی اور نظری کام تھا۔ یہ کام خواہ کتنا ہی زیادہ کیا جائے، اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا، مگر جدید صنعت کے ظہور کے بعد معیارِ زندگی میں مصنوعی اضافہ اور اشیائِ صرف کے اندھا دھند استعمال کے نتیجے میں وہ مسائل پیدا ہوئے جن کو ماحولیاتی مسائل کہاجاتا ہے۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ فطرت کی تحقیق کو لامحدود طورپر جاری رکھتے ہوئے صنعتی سرگرمیوں پر کنٹرول قائم کیا جائے۔
سوال
الرسالہ مشن کو سمجھنے کے لیے اردو زبان کی اہمیت کیا ہے، اس کو واضح فرمائیں۔ (عظیم الدین، لکھنؤ)
جواب
ہمارے دعوتی مشن سے جو لوگ جڑے ہوئے ہیں، اُن لوگوں کی ایک بڑی تعدادہے جو انگریزی کتابوں یا ٹی وی اور نیٹ پر میری تقریروں کے ذریعے ہمارے دعوتی مشن سے متعارف ہوئی ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ الرسالہ مشن کو پوری طرح جاننے کے لیے ماہ نامہ الرسالہ کا مسلسل مطالعہ بہت ضروری ہے۔ جو لوگ اردو جانتے ہیں، ان کے لیے ماہ نامہ الرسالہ ایک طاقت ور ذہنی غذا کی حیثیت رکھتا ہے، وہ ان کے لیے مسلسل طورپر ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے۔
افراد کے پاس یہ عذر ہے کہ ہم اردو نہیں جانتے یا اردو کم جانتے ہیں، مگر یہ کوئی عذر نہیں۔ اصل ضرورت شوق کی ہے۔ اگر شوق ہو تو اردو زبان سیکھنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ مثلاً مہاراشٹریہ (ناندیڑ) کے کشن جَیونت راؤ پاٹل کے ایک دوست عثمان چاؤش (وفات: 2006 ) تھے۔ انھوں نے مسٹر کشن پاٹل کو الرسالہ کے کچھ مضامین پڑھ کر سنائے۔ اِن مضامین کو سن کر کشن راؤ پاٹل کے اندر اتنا زیادہ شوق پیدا ہوا کہ انھوںنے مسلسل محنت کرکے اردو زبان سیکھ ڈالی۔ اب وہ الرسالہ کے مسلسل قاری ہیں۔
تاریخ میں اِس نوعیت کی بہت سی مثالیں ہیں۔ مثلاً مولانا عنایت رسول چریّا کوٹی (وفات: 1902) نے بائبل کو عبرانی زبان میں پڑھنے کے لیے عبرانی زبان سیکھی۔ شری آروبندو گھوش (وفات: 1950 ) نے رابندر ناـتھ ٹیگور (وفات: 1941 ) کی کتاب ’’گیتانجلی‘‘کو بنگلہ زبان میں پڑھنے کے لیے بنگلہ زبان سیکھی۔ آج کل لوگ جاب کے لیے کثرت سے انگریزی فرانسیسی اور جرمن زبان سیکھ رہے ہیں، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز — 216

1 - جنوری2012 میں برطانیہ سے 610 صفحات کی ایک کتاب چھپی ہے۔ اس کا نام یہ ہے: Why Peace ۔ اس کو ایک امریکی مصنف ڈاکٹر مارک گٹ مین (Marc Guttman) نے ایڈٹ کیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں صدر اسلامی مرکز کا ایک مقالہ حسب ذیل عنوان سے شامل کیا ہے:
Peace versus Interventionism (p. 454)
2 - جنوری 2012 کے پہلے ہفتے میں بیڑمہاراشٹریہ میں مراٹھا سیوا سنگ کا سہ روزہ اجلاس ہوا۔ یہاں حلقہ الرسالہ مہاراشٹریہ سے وابستہ ساتھیوں نے مسٹر محمد الطاف انعام دار (الطاف بک ڈپو، بیڑ) کے تعاون سے ایک بک اسٹال لگایا۔ یہاں سے بڑے پیمانے پر برادرانِ وطن نے قرآن کے ہندی، انگریزی اور مراٹھی تراجم حاصل کیے۔ وزٹرس کو مختلف زبانوں میں دعوتی پمفلٹس بطور ہدیہ دئے گئے۔
3 - امریکا اور ترکی کے اسکالرز کا ایک وفد 2 فروری 2012 کو اسلامی مرکز میں آیا۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز نے اسلام اور امن عالم کے موضوع پر انگریزی زبان میں ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔وفد کے اراکین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
4 - سی پی ایس کے آڈی ٹوریم (نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) میں 4 فروری 2012 کو ’دعوہ ایمپائر‘ کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز نے سی پی ایس ٹیم کو خصوصی طورپر خطاب کیا۔ یہ خطاب سی پی ایس کے ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دیکھا جاسکتاہے۔
5 - لبرٹی انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) کی طرف سے 14 فروری 2012 کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں انڈیا اور انڈیا سے باہر کے معروف صحافی اور مصنف شریک تھے۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Freedom to Express
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس ڈسکشن میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ حاضرین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
6 - نئی دہلی کے ادارہ انٹر فیتھ کولیشن فار پیس (ICP) اور اسلامک اسٹڈیز اسوسی ایشن (ISA) کی طرف سے 11 فروری 2012 کو انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے کانفرنس ہال میں ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام کا موضوع یہ تھا:
Perspectives on Peacemaking: Muslims and Christians in Constructive conversation.
اِس میں دو اسپیکر تھے — صدر اسلامی مرکز اور امریکن پروفیسر لیفبر (Fr. Leo D. Lefebure) ۔ یہاں صدر اسلامی مرکز نے موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ آخر میں حاضرین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
7 - بلجیم کی ایمبسی(نئی دہلی) کے دو ڈپلومیٹ نے 21 فروری 2012 کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی:
Antoine Evrard
Minister Councellor, Embassy of the Kingdom of Belgium
Jochen Anthierens
First Secretary, Embassy of the Kingdom of Belgium
انھوں نے ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی۔ اُن کا عام تصور یہ تھا کہ ہندستان کے مسلمان یہاں مظلومیت کی زندگی گزاررہے ہیں۔ اُن کے ساتھ یہاں امتیاز (discrimination) برتا جارہا ہے۔ فرقہ وارانہ فساد میںمسلمان مارے جاتے ہیں۔ اُن کو سرکای سروس نہیں دی جاتی، وغیرہ۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ صرف ایک غلط فہمی ہے۔ اِس کا سبب سلیکٹیو رپورٹنگ (selective reporting) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندستان کے مسلمان ہر اعتبار سے یہاں 57 مسلم ملکوں سے بھی زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ یہ گفتگو انگریزی زبان میں تھی۔
8 - نئی دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے آڈیٹوریم میں 22 فروری 2012 کو ادارہ منہاج القرآن (گجرات) کی طرف سے ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں ڈاکٹر طاہر القادری (مقیم کینڈا) نے شرکت کی۔ اِس موقع پر سی پی ایس کے ممبران نے یہاں حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیا۔ اِسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری کو صدر اسلامی مرکز کی اردو اور انگریزی کتابوں کا ایک منتخب سیٹ دیاگیا۔
9 - اورنگ آباد (بہار) میں 20 فروری 2012 کو نیشنل ہاکر فیڈریشن (NHF) کی طرف سے ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں مقامی لوگوں کے علاوہ، انڈیا کے مختلف مقامات سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ الرسالہ مشن سے وابستہ مسٹر ابوالحکم محمد دانیال اپنے ساتھیوں کے ساتھ اِس پروگرام میں شریک ہوئے۔یہاں لوگوں کو اردو، ہندی، انگریزی میں دعوتی لٹریچر کے علاوہ قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ اِسی طرح 26-27 فروری 2012 کو مذکورہ ساتھیوں نے پٹنہ ہولی فیملی ہاسپٹل میں جاکر وہاں لوگوں کے ساتھ انٹریکشن کیا اور ان کو مطالعے کے لیے دعوتی لٹریچر دیا۔
10 - جیک ہیون (Jeik Hyun MA) 22 فروری 2012 کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آئے۔ وہ ہوائی (Hawai) کے ایسٹ ویسٹ سنٹر کے ایشین پیسفک پروگرام (APLP) کے تحت، مختلف مذاہب میں امن کے تصور کے موضوع پر رسرچ کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے اسلام کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔
11 - نئی دہلی کے پرگتی میدان میں 25 فروری تا 4 مارچ 2012 کے درمیان ورلڈ بک فئر تھا۔ اِس میں گڈ ورڈ بکس نے اپنے دو اسٹال لگائے۔ اِس موقع پر وزٹرس کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی پمفلٹس بطور ہدیہ دئے گئے۔
12 - پٹنہ (بہار) میں 15-26 مارچ 2012 کے درمیان ایک بک فئر (Book Fair) ہوا۔یہاں پٹنہ کے سنٹر فار پیس کی طرف سے ایک دعوتی اسٹال لگایا گیا۔ یہاں بہار اور جھارکھنڈ ٹیم کے افراد — مسٹر محمد دانیال، ڈاکٹر ظہیر، ڈاکٹر ضاء الدین اور مسٹر انور امام غزالی اور ان کی ٹیم کے ساتھیوں نے اپنا بھر پور تعاون دیا۔ یہاں انٹریکشن کے دوران لوگوں کو القرآن مشن (Al-Quran Mission)سے متعارف کیاگیا اور ان کو بطور ہدیہ دعوتی پمفلٹس دئے گئے۔ اسی طرح 18 مارچ 2012 کو دانا پور (پٹنہ، بہار) میں ایک تقریب نکاح میں سنٹر فار پیس (بہاروجھارکھنڈ) کی طرف سے ایک اسٹال لگایا گیا۔ یہاں لوگوں کو قرآن کے تراجم اور دعوتی پمفلٹس بطور ہدیہ دئے گئے۔
13 - ٹورنٹو (کینڈا) کے سینٹ مائیکل ہاسپٹل (St. Michael’s Hospital) میں 27 فروری 2012 کو سی پی ایس (نئی دہلی) کی طرف سے انگریزی ترجمہ قرآن کے نسخے بھیجے گئے۔ یہ دعوتی میٹریل ہاسپٹل میں زیر علاج افراد اور اسٹاف کے لوگوں کو بطور ہدیہ دیاگیا۔ انھوں نے اس کو بخوشی قبول کیا۔
14 - یکم مارچ 2012 کو صدر اسلامی مرکز نے سی پی ایس کی بنگلور ٹیم کے لیے ایک خصوصی ٹیلی فونک خطاب کیا۔ بعد کو سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ خطاب کا موضوع تھا: داعی کی ذمے داریاں۔
15 - انڈیا اور انڈیا کے باہر سی پی ایس کے تحت بڑے پیمانے پر دعوتی کام ہو رہا ہے۔ ماہ نامہ الرسالہ میں اِس دعوتی کام کی صرف جزئی رپورٹ شائع ہوتی ہے۔مختلف مقامات پر ہمارے ساتھی پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں اور وہاں انٹریکشن کے دوران وہ لوگوں کو دعوتی لٹریچر اور قرآن کا ترجمہ برائے مطالعہ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سہارن پور (یوپی) کے حلقہ الرسالہ کے تحت جاری دعوتی سرگرمیوں کی ایک منتخب رپورٹ یہاں درج کی جاتی ہے:
ک درونا چاریہ کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں 12 فروری 2012 کو سائنس کامپٹیشن کا ایک پروگرام ہوا۔ اس کی دعوت پر ڈاکٹر محمد اسلم خان نے بطور چیف گیسٹ اس میں شرکت کی اور یہاں طلبا اور اساتذہ کو خطاب کیا۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
ک سہارن پور کی ٹیم نے 14 فروری 2012 کو کرنال گرلس کالج اور امبالا کالج کا دورہ کیا۔ اِس موقع پر انھوں نے وہاں کے طلبا اوراساتذہ نیز وہاں کے مشہور مقامی اشخاص سے دعوتی ملاقات کی۔ مثلاً مان سنگھ ایڈوکیٹ، وغیرہ۔ اِس موقع پر کرنال گرلس کالج کی پرنسپل ڈاکٹر موہنی کو صدر اسلامی مرکز کی کتابیں دی گئیں۔
ک مولانا سلمان حسینی ندوی نے 2 مارچ 2012 کو سہارن پور کا دورہ کیا۔ یہاں ڈاکٹر محمد اسلم خان نے مولانا سلمان حسینی کی دعوت پر مدرسہ مظاہر العلوم کے باہر سٹی گیٹ ہاؤس میں ان سے ملاقات کی۔ اور ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابیں بطور ہدیہ پیش کیں۔یہاں مظاہرالعلوم کے طلبا اور اساتذہ کو بھی دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
ک سوامی امر پال سنگھ کی دعوت پر سہارن پور ٹیم کے ساتھیوں نے 9 مارچ 2012 کو گنگوہ اور ناگوڑ کے مختلف پروگرام میں شرکت کی۔ یہاں انٹرفیتھ کے موضوع پر ایک خصوصی پروگرام ہوا۔ جس میں ہمارے ساتھیوں کے علاوہ مقامی ہندوؤں نے بھی شرکت کی اور سی پی ایس کی انٹرفیتھ ایکٹوٹی کو اپنا تعاون دینے کا وعدہ کیا۔
ک سہارن پور کے قدیم چرچ سینٹ تھامس(St. Thomas) میں 29 مارچ 2012 کو ایک آل انڈیا پروگرام ہوا۔ یہاں جیون جیوتی بال وکاس سنٹر کا افتتاح تھا۔ اس کی دعوت پر ہمارے ساتھیوں نے اس میں شرکت کی۔ یہ ایک بڑا پروگرام تھا۔ اِس پروگرام میں انڈیا کے مختلف مقامات کے چرچ کے نمائندے شریک تھے۔ سہارن پور چرچ کے فادر ڈینئل نے اپنی تقریر میں کہا کہ سی پی ایس کا لٹریچر امن کی اشاعت کے لیے بنیادی فکر ی مواد کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ یہاں حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
ک سہارن پور کے پیس ہال میں 25 مارچ 2012 کو ایک دعوہ میٹ تھی۔ اِس میں جناب طارق عبد اللہ رام پوری، گنگوہ گروکل کے سوامی امر پال سنگھ آریہ اور ڈاکٹر انور جمال دیوبندی کے علاوہ، ندوۃ العلما، لکھنؤ اور دار العلوم دیوبند اور مظاہر العلوم کے مختلف علما نے شرکت کی۔ اِس موقع پر حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
16 - میرٹھ (یوپی) کے پی پی ہال (آبو لین، کینٹ) میں 11 مارچ 2012 کو قرآن کے موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی۔ اِس موقع پر میرٹھ کے حلقہ الرسالہ کے ساتھیوں مولانا محمد عرفان قاسمی، ڈاکٹر ساجد صدیقی، وغیرہ نے بڑے پیمانے پر قرآن کا اردو، ہندی اور انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر حاضرین کو بطور ہدیہ پیش کیا۔
17 - نئی دہلی کی میڈیا کمپنی (Agnus Dei) کی نمائندہ مز گریما تیواری نے 19 مارچ 2012 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Islam and Spirituality
18 - پنگوئن بکس، انڈیا کی 25 ویں سال گرہ کے موقع پر نئی دہلی کے انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر میں 25 مارچ 2012 کو ایک آل انڈیا پروگرام ہوا۔ یہاں سی پی ایس (نئی دہلی) کی طرف سے حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
19 - بنگلہ دیش کے مشہور مصنف اور صحافی مسٹر شہر یار کبیر (Shahriar Kabir) نے 28 مارچ 2012 کو مسلم ملٹنسی کے موضوع پر ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ مسٹر شہریار کو دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
20 - اپریل 2012 کے دوسرے ہفتے میں مولانا محمد ذکوان ندوی نے لکھنؤ کا سفر کیا۔ وہ اپنے ساتھ دعوتی لٹریچر خرید کر لے گئے تھے۔ انھوں نے لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا، خاص طورپر علما کو ’’کتاب معرفت‘‘ بطور ہدیہ پیش کی۔
21 - صدر اسلامی مرکز کے مضامین اردو اخبارات میں شائع ہورہے ہیں۔ اِس سلسلے میں 10 اپریل 2012 کو روزنامہ راشٹریہ سہارا میں ایک مفصل مضمون ’’حاکمانہ ماڈل، دعوتی ماڈل‘‘ شائع ہوا۔ اِسی طرح صدر اسلامی مرکز اور سی پی ایس (نئی دہلی) کے ممبران کے مضامین انگریزی اخبارات ٹائمس آف انڈیا، وغیرہ میں برابر شائع ہو رہے ہیں۔ یہ مضامین سی پی ایس کے ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
22 - استنبول(ترکی) کے ادارہ سلام ورلڈ (Salam World) کی ٹیم نے 11 اپریل 2012 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اسلام اور امنِ عالم کے موضوع پر تھا۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میںتھا۔
23 - ڈی او ایس سوسائٹی (Delhi Optholmological Society) کی طرف سے نئی دہلی کے ہوٹل سمراٹ اشوک (چنکیا پوری) میں 6-8 اپریل 2012 کو ایک آل انڈیا کانفرنس ہوئی۔ اِس موقع پر سی پی ایس (نئی دہلی) کی طرف سے کانفرنس میں ایک ہزار سے زیادہ ڈاکٹروں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
24 - ترکی ٹی وی کے نمائندہ مسٹر عثمان انالن کی ٹیم نے 18 اپریل 2012 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیوانٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا موضوع یہ تھا — اسلام اور عصر حاضر۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔ سوالات کے دوران موضوع کی وضاحت کی گئی۔ یہ انٹرویو ترکی میں نشر کیا جائے گا۔
25 - لندن (Earl Court) میں 16-18 اپریل 2012 کو لندن بک فئر ہوا۔ اِس موقع پر تحریک ترسیل قرآن (نیویارک) اور گڈورڈ بکس (نئی دہلی) کے تعاون سے وزٹرس کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
26 - قرآن کے انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر کے متعلق قارئین کے چند تاثرات ملاحظہ ہوں:
ک Dawah work and the Al-Risala Mission have successfully been started here in Kolkata. Copies of the Quran and other dawah literature were distributed at the International Book Fair in Kolkata. The distribution of literature was also done in Ghazipur, (U.P) and Vaishali (Bihar). People, particularly the non-Muslims showed great interest. Our members here are also doing this work on a one-to-one basis. We hope, it will yield results, Insha Allah. A friend, Md. Aslam Ansari, who is an employee at the Indian Railways, gave a copy of the Quran and some Hindi literature to one of his senior colleagues, Mr. Baldeo Singh Randhar, Chief Office Superintendent (Mechanical Diesel). He is very popular in the office for his jovial and humorous attitude. But after going through the literature he has become extremely serious, to the surprise of his colleagues. They even asked our friend as to what he had given him that had brought about such tremendous change in a person like him. (Mohammed Abdullah, Kolkata Team)
ک I am over 90. I hail from Kashmir and am settled in Gurgaon. The thought of taking the liberty of writing to you came to my mind immediately after I came across your booklet Peace in Kashmir, which I read on your website. I could not help rating it as the first realistic version of the Kashmir dispute. It is indeed thought-provoking. (Muhammad Amin Chishti, Gurgaon, Haryana)
ک I would like to express my sincere gratitude to Maulana Wahiduddin Khan, for delivering the keynote address and participating in the discussion held at the Liberty Institute on the topic, Freedom to Express. His clear thinking, I am sure, cleared a lot of misconceptions which some people may have had about Islam. Almost everyone I spoke to at the end acknowledged that they were most impressed by Maulana’s sincerity and knowledge. (Barun Mitra, Liberty Institute, New Delhi)
ک I am a Chaplain in a prison in the United States. The Center for Peace and Spirituality in Bensalem, Philadelphia, has sent us a box of paperback translations of the Quran by Maulana Wahiduddin Khan, and a box of study booklets by Maulana W. Khan. Thank you very much for these generous and helpful donations. The inmates in this facility will benefit greatly by your contribution. (Richard Tinker, Chaplain, Oklahoma, USA)
ک Brother, there is a great need for copies of the Quran in Ghana. Many of these requests come from non-Muslims or new Muslims. We have sent this list to individuals and organizations that have helped Voice of Islam provide such a service to those in need in Ghana. We wish to thank you for your efforts and support in our humble efforts and encourage you to continue your support in the future. (Mohammad Thompson, Voice of Islam Trust, Auckland, New Zealand)
27 - نظام الدین ویسٹ مارکیٹ (نئی دہلی) کے کمیونٹی سنٹر میں 24 اپریل 2012 کو مسٹر وجے ستپال (52 سال) کے انتقال پر ایک تعزیتی پروگرام (اٹھالا) ہوا ۔ اِس موقع پر حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
28 - یوجی سی (UGC) اور سروجنی نائڈو سنٹر فار ومنس اسٹڈیز (SNCWS) کے تعاون سے 24 اپریل 2012 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) میں ایک پروگرام ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Capacity Building Workshop of Women Managers in Higher Education.
اس میں خصوصاً اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو اور کرسچن خواتین نے شرکت کی۔ اِس پروگرام کا آغاز سی پی ایس (نئی دہلی) کی ممبرمز عائشہ نے قرآن کی تلاوت سے کیا۔ اس کے بعد مز سعدیہ خان نے ان آیات کا انگریزی ترجمہ پڑھا۔ قرآن کے ترجمہ اور تلاوت کو سن کر نان مسلم شرکا نے اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا۔مثلاً سروجنی نائڈو سنٹر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر مز بلبل دھر نے کہا کہ قرآن کو سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اِسی طرح پروفیسر منی ایس تھامس (PIO) نے کہا:
The recitation of the Quran was mind boggling. It stirred our souls.
اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ہمارے ساتھی اِس تجربے سے فائدہ اٹھائیں اور حسب موقع وہ قرآن کے منتخب حصے کی تلاوت اور ترجمہ سنانے کے بعد لوگوں کو قرآن کا ترجمہ دیں۔
29 - کشمیر کے مختلف مقامات پر ہمارے ساتھی بڑے پیمانے پر وہاں کے نان مسلم ٹورسٹس (tourists) اور مقامی لوگوں کے درمیان دعوت کا کام کررہے ہیں۔ اِس سلسلے میں یہ لوگ وہاں کی انڈین آرمی اور دیگر اعلیٰ سرکاری افسران تک دعوتی پیغام پہنچا رہے ہیں۔ یہ لوگ کشمیر کے مختلف سیاحتی مقامات مثلاً پارک، وغیرہ میں جاکر انٹر یکشن کے دوران لوگوں کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر برائے مطالعہ دیتے ہیں۔مثلاًکشمیر یونی ورسٹی میں اردو پمفلٹ ’’شاہ ہمدان مشن‘‘ کی ایک ہزار کاپیاں طلبا اور اساتذہ کو دی گئیں۔ اِسی طرح جنرل حسنین کو ’’صبح کشمیر‘‘ کا خصوصی شمارہ دیاگیا۔ اس کو انھوں نے خوشی کے ساتھ لیا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔
30 - مسٹر ہارون شیخ(ممبئی) کے تعاون سے گھانا(مغربی افریقہ) میں ایک دعوتی ٹیم تیار ہوگئی ہے۔ یہ لوگ افریقہ میں بڑے پیمانے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ پہنچارہے ہیں۔دعوتی مقصد کے لیے رابطہ قائم کریں:
Mr. Siraj, Tel. +23326566740
Mr. Teslim Braimah, Tel. +233243720702
31 - مسٹر خرم قریشی کے تعاون سے انڈیا اور انڈیا سے باہر کے ملکوں میں الرسالہ کے لوگ منظم ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اپنے مقام پر ہفتہ وار یا ماہانہ میٹنگ کرتے ہیں اور اپنے علاقے میں دعوت کے کام کو منظم کرتے ہیں۔
32 - برمنگھم (برطانیہ) میں مسٹر شمشاد محمد خان کے تعاون سے اُن کے ادارہ آئی پی سی آئی (IPCI) کے تحت اسلامک ایگزبیشن کا ایک مستقل پروگرام جاری ہے۔ یہ ایگزبیشن موبائل اور پرماننٹ دونوں طریقے پر ہورہی ہے۔ اس کے تحت برطانیہ میں بڑے پیمانے پر وہاں کے مختلف طبقوں میں اسلام کے تعارف کا پروگرام کیا جاتاہے۔ ادارے کی طرف سے زائرین کو صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن بطور ہدیہ پیش کیا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
www.islamic-exhibition.org
33 - امریکا کے لیے صدر اسلامی مرکز کے ٹیلی فونی خطاب کا سلسلہ جاری ہے۔ موضوعات مع تاریخ درج ہیں:
Feb 19 Islam Ki Surbulandi (Ascendency of Islam)
March 16 Philosophy, Religion and Science
April 1 Importance of Sincerity
April 15 The Concept of Tawassum in Islam
34 - ایک خط: 11 مارچ 2012 کو آپ کا ویکلی لکچر بذریعہ انٹرنٹ سن کر فارغ ہوا تو میں بیٹھاہوا سوچ میں گم تھا اور اللہ سے سچی ہدایت کی دعائیں کررہا تھا۔ اچانک دعا جیسی کیفیت ہونے لگی،چناں چہ میں نے بہت سی دعائیں کیں۔ اُس وقت ایک عجیب دعا میرے ذہن میں آئی۔میں نے اپنی پوری زندگی میں اس قسم کی دعا کبھی نہیں کی تھی، اور نہ ایسا کبھی سوچا تھا۔ میں اللہ سے اس کی معرفت کے لئے دعا کررہا تھا کہ میں نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے خدا، میں ایک کمزور انسان ہوں، میری کچھ بھی حیثیت نہیں ہے۔ میں ایک عاجز انسان ہوں جو کسی بھی چیز کے قابل نہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ میری ماں میری اس حیثیت کے باوجود ایسا نہیں کرے گی کہ وہ مجھے اکیلا چھوڑدے، وہ مجھے پریشان حال دیکھے پھر بھی وہ انجان بنی رہے۔ میری ماں مجھ کو اپنے سینے سے لگا لے گی۔ یہ ایک ماں کا حال ہے۔ پھر میں نے خدا سے کہا کہ بے شک، میں تیری معرفت کے لائق انسان نہیں، میرے پاس وہ اہلیت نہیں جو تیری معرفت کے لائق ہو۔ لیکن ایک ماں کا یہ حال ہوتا ہے تو، جوستر ماں سے زیادہ محبت کرتا ہے،کیا تو مجھے اپنی معرفت سے نہیں نوازے گا۔ کیا تو مجھے صرف اس لئے اپنی معرفت سے محروم رکھے گا کہ میں اس لائق نہیں۔ میرا دل یہ کہہ رہا تھا کہ ایسا نہیںہوسکتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ سوچ سوچ کر میں رورہا تھا اور اللہ کی معرفت کے لئے دعا کررہا تھا۔ یہ سلسلہ تقریبا دس منٹ تک جاری رہا۔ اس وقت میں نے اللہ سے اور بھی دعائیں مانگی۔ ایک دعا یہ تھی کہ اے اللہ، الرسالہ مشن خالص تیری دریافت پر کھڑا ہواہے۔ کیا تو اس کی حفاظت نہیں کرے گا۔ پھر میں نے کہا کہ اے اللہ، سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہے۔ اگر تو انھیں سمجھ دے تو لوگ سمجھ جائیں گے۔ اے اللہ، تو ان سب لوگوں کو ہدایت عطا فرما دے جو آج تیرے مشن کے مخالف بنے ہوئے ہیں۔ (مولاناعبد الباسط عمری، قطر)
واپس اوپر جائیں