Pages

Monday, 1 October 2012

Al Risala | October 2012 (الرسالہ,اکتوبر)

2

- ذہنی ارتقا کی اہمیت

3

- صداقت کی پہچان

4

- عقل کا مسئلہ

6

- گاڈ پارٹکل کیا ہے

11

- مثبت شخصیت، منفی شخصیت

مشینی باربرداری

- حیوانی باربرداری، 

13

- قرآن کی تلاوت، قرآن کی دعوت

14

- ضمیر کی آزادی

18

- اہلِ ایمان کا غلبہ

19

- حق کو باطل ثابت کرنا

22

- ایک عمومی فتنہ

24

- موت کی یاد: ایک صحت مند عمل

26

- سماجی قبولیت یا نفاذِ قانون

28

- یہ بے خبرانسان

29

- ایک عبرت ناک واقعہ

30

- شیطان کی سنت

31

- ناقابلِ معافی جُرم

32

- اسلام کے نام پر غیر اسلام

33

- جائز فضول خرچی

34

- مواقع کی بربادی

35

- اِحیاءِ سنت

38

- بھولا ہوا سبق

39

- کامیابی کا راز

40

- سُستی کی شکایت

41

- حقیقت پسندی

42

- سوال وجواب

43

- خبرنامہ اسلامی مرکز


ذہنی ارتقا کی اہمیت

قرآن کی سورہ طٰہٰ میں ایک دعا کا حکم ان الفاظ میں دیاگیا ہے: قل ربّ زدنی علماً (114: 20) یعنی تم کہو کہ اے میرے رب، میرا علم زیادہ کردے۔ اِس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا ان الفاظ میں آئی ہے: اللہم انفعنی بما علّمتنی، وعلِّمنی ما ینفعنی، وزدنی علما(تفسیر ابن کثیر، 3/167) یعنی اے اللہ جو علم تو نے مجھے دیا ہے، اس کو تو میرے لیے نافع بنا، اور مجھے وہ علم دے جو میرے لیے نفع بخش ہو، اور میرے علم میں اضافہ کر۔
اِس آیت اور اِس حدیثِ رسول میں جو بات بتائی گئی ہے، اس کو اگر لفظ بدل کر کہا جائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ اِس سے مراد ذہنی ارتقا (intellectual development) ہے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن میں آدمی کو بنیادی علم دے دیاگیا ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اِس علم کی روشنی میں مزید غور کرے اور اپنے علم میں برابر اضافہ کرتا رہے۔
علم میںاضافے کا مطلب ہے قرآن کے اشارات میں تفصیل کا اضافہ کرنا، بدلے ہوئے حالات میں قرآن کے انطباق (application) کو از سرِ نو دریافت کرنا، قرآن میں بتائی ہوئی نشانیوں (signs)کو نئی دریافتوں کے ذریعے مزید واضح کرنا، قرآن میں جو کچھ سطور (lines) میں بیان کیا گیا ہے، اُس پر غور کرکے اس کے بین السطور (between the lines) کو دریافت کرنا۔ قرآن میں فکری ارتقا اور تزکیۂ روحانی کے جو اصول بتائے گئے ہیں، اُن کی اِس طرح تعبیر کرنا کہ وہ ہر دور کے ذہنِ انسانی کو ایڈریس کرسکے، وغیرہ-
علم میں اضافے سے مراد ذہنی ارتقا میں اضافہ ہے، یعنی وہ علم جو آدمی کی معرفت کو بڑھائے، جو آخرت پسندانہ ذہن پیدا کرے، جو غیبی حقائق پر یقین میں مزید اضافہ کرے، جو قرآن کے اندر چھپی ہوئی نئی نئی حقیقتوں کو آدمی کے اوپر کھولنے والاہو۔ اِس طرح علم میں اضافہ آدمی کے ایمان میں اضافے کا ذریعہ ثابت ہوگا، اور ایمان میں اضافہ ایک ایسی چیز ہے جس کی کبھی کوئی حد نہیں آتی۔
واپس اوپر جائیں

صداقت کی پہچان

قرآن کی سورہ ص میں ارشاد ہوا ہے: قل ما أسئلکم علیہ من أجر، وما أنا من المتکلفین- یعنی کہو کہ میں اِس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں:
Say, ‘I do not ask you for any recompense for this, nor am I of those who are given to affectation’. (38:87)
قرآن کی اِس آیت میں پیغمبر کی پہچان کے لیے دو موضوعی معیار (objective criteria) بتائے گئے ہیں- یہ دونوں معیار بلاشبہہ کامل طورپر پیغمبر کی زندگی میں موجود تھے، اور یہی واقعہ اِس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ جس شخص نے پیغمبری کا دعوی کیا ہے، وہ بلاشبہہ اللہ کا سچا پیغمبر ہے-
میں اپنے کام پر تم سے اجر نہیں مانگتا — اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں تم سے اجر کا مطالبہ نہیں کرتا- اِس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اِس مشن کو کسی دنیوی غرض کے لیے نہیں شروع کیا ہے، میرے اِس مشن کا محرک (incentive) صرف آخرت ہے، دولت، شہرت، مقبولیت، جیسی چیزیں میرے عمل کا محرک نہیں- یہ بات یہاں بطور دعوی نہیں ہے، بلکہ وہ اِس معنی میں ہے کہ تمھارے سامنے میری پوری زندگی ہے- تم میری زندگی میں کوئی ایسی مثال نہیں پاؤگے جس سے ظاہر ہوتاہو کہ دنیوی نوعیت کی کوئی چیز میرا مقصود ہے- میری پوری زند گی اِس بات کا ثبوت ہے کہ میرا مقصود صرف آخرت ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں-
دوسری بات یہ فرمائی کہ میں متکلِّف (تکلّف کرنے والا)نہیں ہوں- یہ دعوی نہیں ہے، بلکہ وہ دلیل ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ میرا لہجہ، میرا بول، میرا اندازِ کلام واضح طور پربتاتا ہے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں، وہ میرے دل کی حقیقی آواز ہے — — یہ معیار جو پیغمبر کی صداقت کو جانچنے کے لیے بتایا گیاہے، وہی بعد کے دور کے داعیوں کے لیے بھی واحد خارجی معیار ہے- سچا داعی وہ ہے جس کے اندر یہ دونوں صفتیں پوری طرح پائی جاتی ہوں-
واپس اوپر جائیں

عقل کا مسئلہ

عقل (reason) کیا ہے- عقل خالق کا ایک قیمتی عطیہ ہے- حدیث میں آیا ہے کہ — اللہ تعالی نے سب سے افضل چیز جو پیدا کی، وہ عقل ہے (ما خلق اللہ خلقاً أکرم علیہ من العقل)- حقیقت یہ ہے کہ انسان کے تمام کمالات کا انحصار عقل پر اور عقل کے استعمال پر ہے، عقل کے بغیر کوئی بھی انسانی ترقی ممکن نہیں-عقل نہ ہو تو انسان پتھر کے ایک اسٹیچو کی مانند ہوجائے گا- وہ نہ حق کو حق سمجھ سکے گا اور نہ باطل کو باطل-
عقل بذاتِ خود معیار (criterion) نہیں ہے- عقل، فہم وادراک کی صلاحیت (ability) ہے- عقل کی حیثیت آلہ یا فیکلٹی (faculty) کی ہے، عقل کی حیثیت مستقل بالذات جج کی نہیں- عقل، حقائق سے نتیجہ اخذ کرنے کی استعداد کا نام ہے:
Reason: The intellectual faculty by which conclusions are drawn from premises.
عقل (reason) اور وحی (revelation) کو ایک دوسرے کا حریف بتانا بلاشبہہ ایک غلطی ہے- حقیقت یہ ہے کہ وحی ایک مستقل ذریعہ علم ہے، جب کہ عقل بذاتِ خود کوئی ذریعہ علم نہیں- خود وحی کی صحت پر جب کوئی شخص یقین کرتاہے تو وہ بھی یہی کرتاہے کہ وہ اپنی خداداد عقل کو استعمال کرکے اُس پر غور کرتاہے اور پھر یقین کے درجے میں پہنچ کر وہ وحی کی صداقت کو دریافت کرتا ہے- اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ عقل، وحی کی مددگار ہے، نہ کہ وحی کی مدِّ مقابل-
عقل، خالق کی دی ہوئی ایک فطری صلاحیت ہے، عقل کسی کی ذاتی ایجاد نہیں- اِس معاملے میں غلطی کا آغاز یہاں سے ہوا کہ دوسری تمام چیزوں کی طرح عقل کے معاملے میں بھی کچھ لوگوں نے عقل کا غلو آمیز تصور (extreme version) پیش کیا- انھوں نے انتہا پسندی کا طریقہ اختیار کرتےہوئے خود ساختہ طورپر یہ دعوی کیا کہ عقل بذاتِ خود حصولِ علم کا معیاری ذریعہ ہے- مذہبی طبقے نے اِس تصورِ عقل کو درست سمجھ لیا اور وہ غیر ضروری طورپر عقل یا عقلی غوروفکر کو مذہب کا مخالف سمجھنے لگے اور وہ اِس طرح کی غیرعلمی باتیں کرنے لگے کہ —عقل کا دائرہ الگ ہے اور وحی کا دائرہ الگ- عقل کا دائرہ وہاں پر ختم ہوجاتاہے، جہاں سے وحی کا آغاز ہوتاہے، وغیرہ- اصل یہ ہے کہ عقل الگ ہے اور عقل پرستی الگ-
قرآن میں ’عقل‘کا مادّہ (root)تقریباً 50 بار استعمال ہوا ہے- قرآن میں بار بار عقل کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہاگیا ہے کہ اپنی عقل کے ذریعے وحی کی صداقت کو دریافت کرو- مثال کے طور پر قرآن کی سورہ یوسف میں یہ آیت آئی ہے: إنا أنزلناہ قرآناً عربیاً لعلکم تعقلون (2:12) یعنی ہم نے اِس کتاب کو عربی قرآن بنا کر اتارا ہے، تاکہ تم سمجھو:
We have sent down the Quran in Arabic, so that you may understand (by applying reason).
اِسی طرح قرآن میں بتایاگیا ہے کہ تم اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے نبوت کی صداقت کو دریافت کرو(16: 10)، وغیرہ-انسان کو فطری طور پر مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں- اُنھیں میں سے ایک صلاحیت، عقل ہے- مثلاً پاؤں کے اندر چلنے کی صلاحیت، ہاتھ کے اندر پکڑنے کی صلاحیت، آنکھ کے اندر دیکھنے کی صلاحیت- کان کے اندر سننے کی صلاحیت، وغیرہ- اِسی طرح انسان کو عقل دی گئی ہے جو سوچنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے- اِسی کے ساتھ انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے- انسان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا وہ اُس کا غلط استعمال کرے، اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ کان اور آنکھ کا صحیح استعمال بھی ہے اور اس کا غلط استعمال بھی-
عقل انسان کو اِس لیے دی گئی ہے کہ وہ ڈاٹا (data) جمع کرکے اور پھر حاصل شدہ ڈاٹا کا تجزیہ کرکے صحیح علم تک پہنچنے کی کوشش کرے- تاہم عقل بذاتِ خود علم کا ذریعہ نہیں، اِس لیے عقل صحیح فیصلہ تک بھی پہنچ سکتی ہے اور غلط فیصلے تک بھی- جو لوگ عقل کو بذاتِ خود علم کا ذریعہ سمجھتے ہیں، وہ دراصل عقلی مدرسہ فکر (school of thought) کے انتہا پسند (extremists) لوگ ہیں- ایسے انتہا پسند لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، حتی کہ خود مذہب اور عقیدے کے دائرے میں بھی-
واپس اوپر جائیں

گاڈ پارٹکل کیا ہے

گاڈ پارٹکل (God Particle) کیا ہے- گاڈ پارٹکل کا مطلب خدائی ذرہ نہیں، گاڈ پارٹکل دراصل ایک سائنسی مسئلے کی سائنسی تشریح (scientific description) ہے- گاڈ پارٹکل کا تصور دراصل خدا کا مشینی بدل (mechanical substitute of God) ہے- گاڈ پارٹکل کی دریافت کا براہِ راست طورپر مذہبی عقیدے سے کوئی تعلق نہیں-
God Particle: The Standard Model of physics is used by scientists to explain the building blocks of the universe. According to this model the universe began with a big bang. The Big Bang theory is widely accepted within the scientific community. This theory states that 13.7 billion years ago the universe was in the shape of a very dense and compact cosmic ball. Then an explosion occurred in this compact ball, and all its constituents started flying apart with the speed of light. All the particles released from this cosmic ball were drifting apart from each other at the speed of light, which is the maximum speed of any object in the universe. Everything in the universe is made up of atoms. These atoms are in turn made up of electrons and protons. But, after the explosion of the Big Bang, electrons and protons were speeding away from each other. These particles could bind together to form atoms only if they their speed was decreased. And their speed could be decreased only by being given mass. This is why the Higgs boson is so important. Higgs boson is a subatomic particle. Physicists say its job is to give mass to the particles that make up atoms. Atoms then combined to form molecules, then molecules combined to form compounds, and these compounds gave rise to all the constituents of the universe as it exists today. If the Higgs boson were taken away, the particles which make up atoms, would have zipped through the cosmos at the speed of light, unable to join together to form the atoms that make up everything in the universe, from planets to people. Then all creation would be unthinkable.
4 جولائی 2012 کو سائنس دانوں نے ایک دریافت کا اعلان کیا- اس کو نیرڈسکوری (near discovery)کہاجاتاہے- یہ دراصل ایک سب ایٹمک پارٹکل (sub-atomic particle) کی دریافت ہے جس کے بارے میں پچھلے تقریباً 50 سال سے رسرچ ہورہی تھی- اِسی درمیان 1993 میں ایک امریکی سائنس داں لیان لیڈرمین (Leon Lederman) نے ایک کتاب تیار کی- اس کا ٹائٹل اس نے گاڈ ڈیم پارٹکل (Goddamn Particle)تجویز کیا-اُس وقت تک یہ پارٹکل ایک پراسرار پارٹکل بنا ہوا تھا-لیان لیڈر مین اپنی کتاب میں اِس پارٹکل کا کوئی واضح تصور نہیں دے سکا تھا- اس نے جھنجھلاہٹ میں اپنی اِس کتاب کا نام ’گاڈڈیم پارٹکل‘ رکھ دیا-’گاڈڈیم‘ ایک بگڑا ہوا نام ہے- اردو میں کہتے ہیں خدا کی لعنت- خراب موسم ہو تو کہا جائے گا،گاڈ ڈیم ویدر (Goddamn weather)- پبلشر کو کتاب کا یہ نام پسند نہیں آیا- اس نے بطور خود ’ڈیم‘ کا لفظ نکال دیا اور کتاب کو ’گاڈ پارٹکل‘ کے نام سے چھاپ دیا- اُس وقت سے عوامی طورپر اِس ذرے کو گاڈ پارٹکل کہاجانے لگا- تاہم سائنس دانوں کے نزدیک اِس ذرّے کا نام ہگس بوزان (Higgs Boson) ہے-
بوزان کا لفظ دراصل ’بوس‘ کے نام سے لیا گیا ہے- ستیندرناتھ بوس (SN Bose) ایک انڈین سائنس داں تھے- ان کی وفات 1974میں ہوئی- انھوں نے 1924 میں ’سب ایٹمک پارٹکل‘(behaviour of subatomic particles) کے بارے میں ایک پیپر تیار کیا تھا- اس پیپرکو البرٹ آئن سٹائن (وفات: 1955) اور دوسرے سائنس دانوں نے بہت پسند کیا تھا- اُس وقت سے اِس پارٹکل کا نام بوزان (boson)پڑ گیا ہے- اِس مخصوص پارٹکل کو ’بوزان‘ کا نام سب سے پہلے برٹش سائنس داں پال ڈیراک (Paul Dirac) نے دیا تھا-
اسکاٹ لینڈ کے ایک سائنس داں پیٹر ہگس (Peter Higgs) نے 1964 میں اِس موضوع پر زیادہ واضح انداز میں ایک مفصل پیپر تیار کیا ، جس کا ٹائٹل یہ تھا:
Broken Symmetries and the Masses of Gauge Bosons
اس وقت سے زیر ِ تلاش پارٹکل کو ہگس بوزان کہاجانے لگا-
سائنسی نقطہ نظر سے ہگس بوزان کی اہمیت بہت زیادہ تھی، اِس لیے وہ ساری دنیا کے سائنس دانوں کے لیے تلاش کا موضوع بن گیا- آخر کار 1998 میں اِس موضوع کی تحقیق کے لئے ایک خصوصی سرنگ بنائی گئی- اِس سرنگ کو ایک یورپین ادارہ نے تیار کیا تھا- اس کا نام یہ ہے:
European Oganization for Nuclear Research
اِس سرنگ کا نام یہ تھا — لارج ہیڈرون کولائڈر(Large Hadron Collider) - اِس پروجیکٹ میں دنیا کے ایک سو ملک شریک ہوئے اور 10 ہزار سائنس دانوں اور انجینئروں نے اِس میں کام کیا- 4 جولائی 2012 کو اس پروجیکٹ کے نتیجہ (result) کا اعلان کیا گیا- سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ اِس تحقیق میں وہ ’نیر ڈسکوری‘ تک پہنچ گئے ہیں-
’ہگس بوزان‘ دراصل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل کا ایک گم شدہ پارٹکل ہے جو اِس بات کی توجیہہ کرتا ہے کہ ابتدائی انفجار کے بعد کائنات کیسے وجود میں آئی- فزکس کے اسٹینڈر ماڈل کو سائنس داں کائنات کے بلڈنگ بلاک (building block) کی توجیہہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں- اِس ماڈل کے مطابق، کائنات کا آغاز بگ بینگ سے ہوا- بگ بینگ کا نظریہ سائنس دانوں کے نزدیک عمومی طورپر تسلیم کرلیا گیا ہے- یہ نظریہ بتاتا ہے کہ 13 بلین سال پہلے کائنات ایک بہت بڑے کاسمک بال کی صورت میں تھی- کائنات کے تمام پارٹکل اس کے اندر شدت سے باہم پیوست تھے- پھر اِس کاسمک بال میں ایک انفجار ہوا اور اس کے تمام اجزا چاروں طرف روشنی کی رفتار سے سفر کرنے لگے- روشنی کی رفتار معلوم طورپر سب سے زیادہ ہے جو ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سکنڈ ہوتی ہے- کاسمک بال سے جو پارٹکل خارج ہوئے، وہ نہایت تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور بھاگ رہے تھے-ہر چیز جو اِس کائنات میں ہے، وہ ایٹم سے بنی ہے- یہ تمام ایٹم الیکٹران اور پروٹان کے ملنے سے بنتے ہیں- ضرورت تھی کہ یہ تمام پارٹکل باہم ملیں، لیکن بگ بینگ کے انفجار کے بعد الیکٹران اور پروٹان بھاگ رہے تھے، کیوں کہ اُن میں کمیت (mass) نہیں تھی- یہ ذرات باہم مل کر ایٹم کو صرف اُس وقت بنا سکتے تھے جب کہ ان کی رفتار کم ہو، اور ان کی رفتار صرف اُس وقت کم ہوسکتی تھی جب کہ ان کے اندر کمیت پیدا ہوجائے-
ہگس بوزان کی اہمیت یہ ہےکہ وہ اِس سائنسی مسئلے کا جواب فراہم کرتاہے- ہگس بوزان ایک سب ایٹمک پارٹکل کا نام ہے- سائنس دانوں کے مطابق، ہگس بوزان کا کام یہ ہے کہ وہ ایٹم کے پارٹکل کو کمیت عطا کرے- اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایٹم مل کر مالی کیول (molecule) بنائیں اور پھر مالی کیول کے بننے سے کمپاؤنڈ بنے- پھر کمپاؤنڈ کے ملنے سے وہ تمام چیزیں بنتی ہیں جوکہ اِس وقت کائنات میں موجود ہیں-اگر ہگس بوزان نہ ہوتے تو پارٹکل میں کمیت پیدا نہ ہوتی جو کہ باہم مل کر ایٹم بناتے ہیں- اِس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ تمام پارٹکل روشنی کی رفتار سے خلا میں سفر کرنے لگتے، پھر یہ ناممکن ہوجاتا کہ وہ باہم مل کر ایٹم بنائیں اور اس کے بعد کائنات کی تمام چیزیں وجود میں آئیں، ستاروں سے لے کر سیاروں تک اور غیر ذی روح اشیا سے لے کر ذی روح اشیا تک-
قرآن کی تصدیق
قرآن کی سورہ النساء میں ارشاد ہواہے: أفلا یتدبرون القرآن، ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً (4:82) یعنی کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے، اگر یہ (قرآن) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اُس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے-
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا- یہ سائنس کی دریافتوں سے بہت پہلے کا زمانہ تھا- اِس قبل دریافت زمانے میں قرآن کی اِس آیت کا اترنا گویا یہ دعوی کرنا تھا کہ بعد کی دریافت شدہ حقیقتیں قرآن کے عین مطابق ہوں گی، قرآنی بیانات اور دریافتوں کے درمیان کبھی عدم مطابقت (inconsistency) نہ ہوگی- اِس طرح یہ واقعہ اِس بات کی تصدیق ہوگا کہ قرآن عالم الغیب کی کتاب ہے، کیوں کہ عالم الغیب کے سوا کوئی بھی پیشگی طورپر اِن حقیقتوں کو نہیں سمجھ سکتا تھا-
اِس اعتبار سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بگ بینگ کا تصور اور ہگس بوزان کا تصور پیشگی طورپر قرآن میں موجود تھا- اِس سلسلے میں قرآن کی سورہ الانبیاء کی درج ذیل آیت کا مطالعہ کیجئے: أولم یر الذین کفروا أن السماوات والأرض کانتا رتقاً ففتقناہما، وجعلنا من المائ کل شیئ حیّ، أفلا یؤمنون (21:30) یعنی کیا انکار کرنےوالوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے اُن کو کھول دیا- اور ہم نے پانی سے ہر جان دار چیز کو بنایا- کیا پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے-
قرآن کی اِس آیت میں تخلیق کے تین مرحلوں کا ذکر ہے — پہلے مرحلے کو ’رتق‘ کہاگیا ہے- رتق کا مطلب ہےمنضم الأجزاء یعنی کائنات کے تمام پارٹکل کا باہم جڑاہوا ہونا- اِس میں کاسمک بال کی طرف اشارہ ملتا ہے- دوسرے مرحلے کو قرآن میں ’فتق‘ سے تعبیر کیا گیاہے- فتق کا مطلب ہے: الفصل بین المتصلین، یعنی باہم ملی ہوئی چیزوں کا ایک دوسرے سے الگ ہوجانا- اس میں بگ بینگ کے واقعے کی طرف اشارہ ہے- اِس کے بعد تیسرے مرحلے میں پانی (الماء) کے بننے کا ذکر ہے- یہاں پانی کا ذکر علامتی طورپر ہے، یعنی پانی اور دوسری تمام چیزیں-
پانی ایک جوہری مادہ(substance) ہے- اِس طرح کے بہت سے جوہری مادّے کائنات میں پائے جاتے ہیں- پانی ہائڈروجن کے دو ایٹم اور آکسیجن کے ایک ایٹم کے ملنے سے بنتا ہے- یہی معاملہ دوسری تمام مادّی چیزوں کا ہے- ہر چیز ایٹم کے ملنے سے بنی ہے اور ایٹم اُس وقت بنا جب کہ اس کے پارٹکل میں کمیت (mass) پیدا ہوئی- اِس طرح، اِس آیت میں پانی کا ذکر کرکے اِس نوعیت کی دوسری تمام مادی چیزوں کی طرف اشارہ کردیاگیا ہے، یعنی ’فتق‘کے واقعے کے بعد تمام پارٹکل میں کمیت کا پیداہونا اور پھر پارٹکل کا مجتمع ہو کر تمام چیزوں کا وجود میں آنا-
قرآن، سائنس کی کتاب نہیں ہے، البتہ قرآن میں مظاہر فطرت کے بہت سے حوالے دئے گئے ہیں جو کہ سائنس کا موضوع تحقیق ہیں- قرآن کا مقصد صرف یہ ہے کہ فطرت میں موجود آیات (signs) کا حوالہ دے کر قرآن کی آئڈیالوجی کو علمی طورپر ثابت کرنا- اِس طرح قرآن میں فطرت کے بہت سے مظاہر کے متفرق حوالے (fragmentary references)دئے گئے ہیں- اِن حوالوں کے بارے میں قدیم زمانے میں کچھ معلوم نہ تھا- گویا کہ قرآن میں یہ حوالے مستقبل کی انسانی نسلوں کو شامل کرتے ہوئے دئے گئے تھے- اِس طرح انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ قرآن کے اِن حوالوں کا تقابل بعد کے حالات سے کرکے قرآن کی صداقت کی تصدیق حاصل کرے-
واپس اوپر جائیں

مثبت شخصیت، منفی شخصیت

اسلامی فقہ کا یہ مسئلہ ہے کہ اگر ایک ٹب پاکیزہ پانی ہو، اُس میں گندگی کا ایک قطرہ ڈال دیا جائے تو ٹب کا پورا پانی گندا ہو جائے گا- اِس کے برعکس، اگر ایک ٹب گندا پانی ہو اور اس میں ایک قطرہ پاک پانی ڈال دیا جائے تو اُس سے وہ پانی پاک نہیں ہوجائے گا، بلکہ وہ بدستور گندا رہے گا- یہ ایک خارجی نوعیت کی مادی مثال ہے- یہی معاملہ انسان کی داخلی شخصیت کا ہے-
ایک شخص کے ذہن میں اگر 99 مثبت آئٹم ہوں اور صرف ایک منفی آئٹم اس کے اندر داخل ہوجائے تو یہی منفی آئٹم غالب آجائے گااور آدمی کی پوری شخصیت منفی شخصیت بن جائے گی- یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ مثبت سوچ کسی درجے میں بھی منفی سوچ کو قبول نہیں کرتی- آدمی کی شخصیت یا تو صد فی صد مثبت شخصیت ہوگی، یا وہ سرے سے مثبت شخصیت ہی نہ ہوگی-
یہ ایک اہم نفسیاتی اصول (psychological principle)ہے جو آدمی اپنے اندر مثبت شخصیت (positive personality) کی تعمیر کرنا چاہتا ہے، اُس کو لازمی طورپر یہ کرنا ہے کہ وہ سختی کے ساتھ اپنا محاسب بن جائے- وہ ہر وقت اِس بات کی نگرانی کرتا رہے کہ اس کے ذہن میں ادنی درجے میں بھی کوئی منفی سوچ داخل نہ ہو- شکایت یا نفرت کا کوئی ایک آئٹم بھی اگر اس کے اندر موجود ہے تو وہ ڈھونڈ کر اس کو باہر نکال دے- اِس معاملے میں وہ خود اپنا نگراں بن جائے-
تعمیر شخصیت کا یہ ایک مستقل عمل ہے جو ہر آدمی کو ہر صبح وشام انجام دینا ہے- کوئی بھی دوسرا عمل اِس معاملے میں غفلت کی تلافی نہیں بن سکتا-
یاد رکھنا چاہیے کہ مثبت شخصیت ہی ربانی شخصیت ہے اور ربانی شخصیت ہی وہ شخصیت ہے جس کو آخرت کے دورِ حیات میں جنت میں داخلہ ملے گا- منفی شخصیت رکھنے والے لوگ بلاشبہہ جنت میں داخلے کے لیے غیر مستحق قرار پائیں گے-
واپس اوپر جائیں

حیوانی باربرداری، مشینی باربرداری

ترکی کی ’’جامع سلیمانیہ‘‘ ایک مشہور تاریخی مسجد ہے- اس کو ترکی کے مشہور عثمانی خلیفہ سلیمان اعظم نے سولھویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا تھا- اِس مسجد کی تعمیر میں دنیا کے مختلف مقامات کے قیمتی پتھر استعمال کئے گئے ہیں- کہاجاتا ہے کہ یہ پتھر دور کے مقام سے بیل گاڑیوں پر رکھ کر یہاں لائے جاتے تھے- بعض مرتبہ زیادہ وزنی پتھروں کو منتقل کرنے کے لیے بیلوں کی دس جوڑیوں پر مشتمل بیل گاڑیاں استعمال کی جاتی تھیں-
یہ حیوانی بار برداری کے زمانے کا واقعہ ہے- اب ہم ایک نئے دور میں ہیں- اِس نئے دور کو مشینی بار برداری کا دور کہا جاسکتا ہے- دور کی اِس تبدیلی نے انسان کے لیے غیر معمولی سہولتیں پیدا کردی ہیں- اِن نئی سہولتوں کا مزید پہلو یہ ہے کہ قدیم زمانے میں دس جوڑیوں کے بیل سے چلنے والی گاڑی کا استعمال صرف کسی بادشاہ کے لئے ممکن ہوتا تھا، مگر موجودہ زمانے میں مشینی بار برداری سے فائدہ اٹھانا ہر عورت اورمرد کے لیے ممکن ہوگیاہے-
موجودہ زمانے میں انسان کے لیے غیر معمولی نوعیت کی جو عمومی سہولتیں پیداہوئی ہیں، مذکورہ واقعہ اِس نوعیت کی صرف ایک چھوٹی مثال ہے- موجودہ زمانہ گویا سہولتوں کے انفجار (explosion) کا زمانہ ہے- موجودہ زمانے میںمختلف نوعیت کی بے شمار سہولتیں وجود میں آئی ہیں- ہر آدمی ان سہولتوں کو دیکھتا ہے اور ان کا تجربہ کرتاہے- یہ سہولتیں ہر آدمی کے لیے پوری طرح ایک معلوم واقعہ ہیں- مگر عجیب بات ہے کہ لوگوں کی زبان پر نہ اُن انسانوں کا اعتراف ہے جنھوں نے غیر معمولی محنت کے بعد ان سہولتوں کو واقعہ بنایا اور نہ لوگوں کی زبان پر اُس خالق کا اعتراف دکھائی دیتاہے جس نے موجودہ دنیا میں یہ امکانات رکھے تھے، تاکہ کچھ انسان اٹھیں اور اِن امکانات کو واقعہ بنادیں — جو شخص انسانوں کا شکر گزار نہیں، وہ خدا کا شکر گزار بھی نہیں ہوسکتا (من لم یشکر الناس، لم یشکر اللہ)-
واپس اوپر جائیں

قرآن کی تلاوت، قرآن کی دعوت

استانبول (ترکی) کے مشہور توپ کاپی پیلیس (Topkapi Palace)میوزیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کئی چیزیں موجود ہیں- مثلاً دو تلواریں، جبّہ، مقوقس کے نام آپ کا مکتوب، وغیرہ- سلطان سلیم نے اِن چیزوں کے لیے یہاں ایک مخصوص کمرہ بنوایاتھا- اِس کمرے میں وہ خود اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتے تھے- اِس کے علاوہ، انھوں نے اِس کمرے میں مختلف حفاظِ قرآن کو مقرر کیا تھا جو چوبیس گھنٹے یہاں قرآن کی تلاوت کرتے تھے- حفاظ کی ڈیوٹیاں مقرر تھیں- چناں چہ وہ باری باری یہاں آکر قرآن کی تلاوت کرتے رہتے تھے-
اِس قسم کی تلاوتِ قرآن صرف بعد کے زمانے کی پیداوار ہے- رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں اِس قسم کی تلاوتِ قرآن کا کوئی وجود نہ تھا- رسول اور اصحاب رسول، قرآن کو کتاب دعوت کے طور پر استعمال کرتےتھے، نہ کہ صرف کتاب تلاوت کے طورپر- حقیقت یہ ہے کہ قرآن رہنمائی کے لیے اترا ہے- وہ اس لیے نہیں اتارا گیا کہ اس کو ’’برکت‘‘ کے طورپر صبح وشام پڑھا جاتا رہے-
قرآن کے سلسلے میں اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ اُس پر ایمان رکھنے والے اُس سے اپنی زندگی کے لیے رہنمائی حاصل کریں اور پھر دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ تیار کرکے اس کو تمام انسانوں تک پہنچائیں- اِن کے سوا قرآن کا کوئی بھی دوسرا استعمال کرنے سے اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا- قرآن کا احترام کرنا یا قرآن کو خوب صورت کپڑے میں لپیٹ کر رکھنا، یا شب وروز قرآن کی تلاوت کرنا، اِس قسم کا کوئی بھی عمل قرآن کا حق ادا کرنے کے لیے کافی نہیں-
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ امت بعد کے زمانے میں قرآن کو کتابِ مہجور (25:30) بنادے گی- اِس کا مطلب یہی ہے-قرآن جب نہ کتاب ہدایت رہے اور نہ کتابِ دعوت، تو یہی وہ حالت ہے جس کو ’’کتاب مہجور‘‘ بنا دینا کہاگیا ہے — قرآن ;کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اپنے لیے کتابِ ہدایت ہے اور دوسروں کے لیے کتابِ دعوت-
واپس اوپر جائیں

ضمیر کی آزادی

خدا کی تخلیقی اسکیم میں انسانی آزادی کے تصور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ انسان کو اِس دنیا میں امتحان کے لیے رکھا گیاہے، اور آزادی کے بغیر امتحان ممکن نہیں۔ انسان کا مستقبل تمام تر اِس پر منحصر ہے کہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتاہے، یا وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتاہے۔ اگر انسان کی آزاد فکری پر روک لگادی جائے تو اس کے بعد امتحان کا تصور بے معنی ہو جاتاہے۔
قرآن میں واضح لفظوں میں ارشاد ہوا ہے: لا إکراہ فی الدین، قد تبین الرشد من الغیّ، فمن یکفر بالطاغوت ویؤمن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقیٰ، لاانفصام لہا۔ واللہ سمیع علیم(256: 2) یعنی دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔ ہدایت، گمراہی سے الگ ہوچکی ہے۔ پس جو شخص شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے، اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیا جو ٹوٹنے والا نہیں۔ اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
اِسی طرح قرآن میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: فذکّر إنما أنت مذکّر۔ لستَ علیہم بمصیطر۔ إلا من تولی وکفر۔ فیعذبہ اللہ العذاب الأکبر۔ إن إلینا إیابہم۔ ثم إن علینا حسابہم(21-26: 88)یعنی (اے پیغمبر) تم بس یاد دہانی کرو، تم بس یاد دہانی کرنے والے ہو۔ تم اُن پر داروغہ نہیں۔ مگر جس شخص نے روگردانی کی اور انکار کیا، تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا۔ ہماری ہی طرف ہے ان کی واپسی، پھر ہمارے ہی ذمے ہے اُن کا حساب لینا۔
اِس طرح کی قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان کو اِس بات کی کامل آزادی دی گئی ہے کہ وہ جس طرح چاہے، سوچے او ر جس طرح چاہے، بولے اور لکھے۔یہ آزادی انسان کو اُس وقت تک حاصل رہتی ہے جب تک کہ وہ دوسرے انسانوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ اسلام میں سماجی جرم (social crime) کا تصور ہے، مگر اسلام میں فکر ی جرم (thought crime) کا کوئی تصور نہیں۔
لندن سے 406 صفحات پر مشتمل ایک کتاب چھپی ہے۔ کتاب کا نام اور مصنف کانام یہ ہے:
Richard Dawkins, The God Delusion (2006)
کتاب کے مصنف نے افغانستان کے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے، جب کہ ایک افغانی شخص (عبد الرحمن) نے اپنا مذہب بدل دیا۔ اُس نے اسلام کو چھوڑ کر مسیحی مذہب اختیار کر لیا۔ اِس پر افغانستان کی عدالت میں اس کے لیے موت کی سزا سنائی گئی۔ اِس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے:
It is still an article of constitution of 'liberated' Afghanistan that the penalty for apostasy is death. Apostasy, remember, doesn't mean actual harm to persons or property. It is pure thought crime, to use George Orwell's 1984 terminology, and the official punishment for it under Islamic law is death. (p. 287)
یعنی اب بھی آزاد افغانستان کے قانون کا ایک حصہ یہ ہے کہ ارتداد کی سزا قتل ہے۔ یاد رکھئے کہ ارتداد کا مطلب کسی انسان کو یا کسی کی پراپرٹی کو حقیقی نقصان پہنچانا نہیں ہے۔ 1984 میں انگلش آتھر جارج آرویل کی وضع کردہ اصطلاح کو لیتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک خالص ’فکری جرم‘ ہے، اور اسلام کے قانون کے مطابق، اِس جرم کی مسلّمہ سزا قتل ہے۔
یہ صرف غلط فہمی کا ایک معاملہ ہے۔ مصنف نے افغانستان میں ہونے والے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے اور اُس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس قانون کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں۔ یہ بعد کے کچھ فقہا کا مسلک ہے، نہ کہ قرآن اور سنت کا مسلک۔ اسلام کے قانون کا مستند ماخذ صرف قرآن وسنت ہے، کوئی بھی دوسری چیز اسلام میں قانون کا ماخذ نہیں۔
جدید مغربی فکر میں آزادی کو خیر اعلیٰ (summum bonum) سمجھا جاتاہے۔ مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ آزادیٔ فکر کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ اِس کے برعکس، وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں صرف محدود آزادی کا تصور ہے، اِس لیے اسلام دورِ جدید کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ یہ بات صرف غلط فہمی پر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں آزادی کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ مغربی تہذیب میں۔ اور یہ بالکل فطری بات ہے، کیوں کہ اسلام کے مطابق، انسان کو موجودہ دنیا میں امتحان (test) کے لیے رکھا گیاہے۔ امتحان کے لیے آزادی لازمی طورپر ضروری ہے۔ آزادی کے بغیر امتحان ممکن نہیں، اِس لیے آزادی خود خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) کا ایک لازمی حصہ ہے۔
اسلام میں آزادی ہر انسان کا مطلق حق ہے، لیکن وہ ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ یہ شرط وہی ہے جو خود مغربی تہذیب کا مسلّمہ ہے، یعنی انسان کو آزادی صرف اپنے ذاتی دائرے میں حاصل ہے۔ آدمی کی آزادی اُس وقت ختم ہوجاتی ہے، جب کہ وہ دوسرے کے لیے ضرر رساں (harmful) بن جائے۔
اِس کے علاوہ، اسلام میں آزادی ایک اور لحاظ سے بھی ہے۔ خالق نے اِس دنیا میں ہر چیز کو امکان (potential)کے طور پر پیدا کیا۔ اِس امکان کو واقعہ بنانے کا کام انسان کو خود کرنا ہے۔ مثلاً خالق نے خام لوہا (ore) بنایا۔ خام لوہے کو مشین کی صورت دینا، یہ انسان کا اپنا کام ہے۔ یہ تمام تر ترقیاں صرف اُس وقت حاصل ہوسکتی ہیں جب کہ انسان کے اندر آزادانہ طورپر ذہنی سرگرمیاں جاری ہوں۔ اِس مصلحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان کو اِس دنیا میں کامل آزادی حاصل ہو۔
تاہم اسلام میں جرم کی دو قسمیں ہیں— جرم بہ مقابلہ انسان (crime vis-à-vis man) اور جرم بہ مقابلہ خدا (crime vis-à-vis God) ۔ دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ جہاں تک انسان کا معاملہ ہے، ہر انسان کو دوسرے انسان کے مقابلے میں مکمل طورپر فکری آزادی حاصل ہے۔ اُس کا معاملہ صرف اُس وقت قابلِ مواخذہ یا قابلِ سزا (punishable) بنے گا، جب کہ وہ دوسرے انسان کے لیے عملی طورپر جارح بن جائے۔
مگر خدا کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ کوئی شخص خدا کو عملی جراحت نہیں پہنچا سکتا۔ خداکے معاملے میں جرم یہ ہے کہ وہ خدا کے تخلیقی منصوبے کے خلاف رویہ اختیار کرے، وہ خدا کی بتائی ہوئی صراطِ مستقیم کا اتباع نہ کرے۔ اِس میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان خدا کے معاملے میں غلط عقیدہ بنائے۔ مثلاً خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانا، انسان کو خدا کا بیٹا قرار دینا، خدا کے پیغمبر کا انکار کرنا، وغیرہ۔ یہ سب چیزیں اگر چہ تھاٹ کرائم (thought crime) کی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن وہ خدا کے نزدیک، قابلِ سزا کرائم (punishable crime) ہیں۔ ایسے لوگ اگر اِسی حال میں مریں تو بلاشبہہ وہ خداکی سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔لیکن جرم بہ مقابلۂ خدا کے معاملے میں، سزا کا اختیار صرف خدا کو ہے، جو کہ آخرت میں کسی انسان کو دی جائے گی۔ جرم بہ مقابلہ انسان کے بارے میں فیصلہ کرنا، انسانی عدالت کا کام ہے۔ لیکن جرم بہ مقابلہ خدا کا تعلق انسانی عدالت سے نہیں۔ ایسے معاملے میں انسان کو صرف پرامن دعوت وتبلیغ کاحق ہے، نہ کہ عملی سزا کا حق۔
اسلام میں آزادیٔ ضمیر (freedom of conscience)کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہے جتنی کہ کسی دوسرے نظامِ فکر میں۔ البتہ اسلامی نظامِ فکر اور سیکولر نظامِ فکر میں اِس اعتبار سے ایک فرق پایا جاتا ہے۔سیکولر نظامِ فکر میں آزادیٔ ضمیر کو مطلق (absolute) حیثیت حاصل ہے، یعنی سیکولر نظامِ فکر کے مطابق، ایک شخص کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز کو مطلق معنوں میں صداقت سمجھے، مگر اسلامی نظام فکر میں ایسا نہیں۔ اسلامی نظامِ فکر کے مطابق، صداقت (truth) کا معیار کسی کے ضمیر کی آواز نہیں ہے، بلکہ اس کا معیاروحی الٰہی ہے۔ جو تصور وحی الٰہی کے مطابق ہو، وہی درست تصور ہے۔ اور جو تصور وحی الٰہی سے مطابقت نہ رکھتا ہو، وہ انسان کا ذاتی واہمہ (obsession) یا کنڈیشننگ کا نتیجہ ہے، نہ کہ مطلق معنوں میں صداقت۔
آزادی ضمیر سے وابستہ یہ سوال بھی ہے کہ اظہارِ خیال کی آزادی کا حکم کیا ہے۔ اِس معاملے میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ انسان کو اظہارِ خیال کی آزادی کا کلی حق حاصل ہے۔ آدمی جب تک دوسرے انسان کے لیے جارح نہ بنے، اس کو کامل معنوں میںاظہار خیال کی آزادی حاصل رہے گی۔مگر اسلام کے مطابق، انسانی زندگی کے دومرحلے ہیں— موت سے پہلے، اور موت کے بعد۔ اظہارِ خیال کی کامل آزادی کا حق صرف موت سے قبل کی دنیا کے لیے ہے۔ موت کے بعد کی دنیا میں خدا یہ فیصلہ کرے گا کہ کس نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا اور کس نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا۔ پھر اس کے بعد ہر ایک کے لیے اس کے دنیوی ریکارڈ کے مطابق، انعام یا سزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

اہلِ ایمان کا غلبہ

قرآن کی سورہ آل عمران میں غزوۂ احد(3 ہجری) پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: ولا تہنوا ولا تحزنوا، وأنتم الأعلون إن کنتم مؤمنین (139: 3) یعنی ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو، تم ہی غالب رہوگے، اگر تم مومن ہو۔ قرآن کی اِس آیت کے سیاق وسباق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کا تعلق اللہ کی سنت سے ہے، نہ کہ مومنین کی فضیلت سے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مومنین اپنی گروہی فضیلت کی بناپر لازماً کامیاب ہوںگے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کا جو گروہ اللہ کی سنت پر قائم ہوگا، وہ ضرور اللہ کی نصرت کا مستحق ٹھہرے گا اور اِس بنا پر وہ لازماً کامیاب ہوگا۔
اِس آیت میں جن مومنین کا ذکر ہے، اُس سے مراد اصحابِ رسول ہیں۔ اصحابِ رسول ایک خدائی مقصد کے لیے اٹھے تھے، یعنی دعوت الی اللہ کا مشن۔ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ اس کا پیغام تمام انسانوں تک پہنچایا جائے۔ اصحابِ رسول کا مشن یہی دعوت الی اللہ تھا۔ اصحابِ رسول کو جو لڑائی پیش آئی، وہ خود اصحابِ رسول کے اقدام کی بنا پر نہ تھی، بلکہ وہ تمام تر فریقِ ثانی کی جارحیت کی بناپر پیش آئی۔ جو اہلِ ایمان اِس طرح کے خدائی مشن کے لیے اٹھیں اور اس کے تقاضے کو پورا کریں، وہ اِس جدوجہد میں کسی قومی مفاد کو شامل نہ کریں تو وہ لازماً اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔
اِس کامیابی کا تعلق نہ سیاسی اقتدار سے ہے اور نہ قومی مفادات سے۔ اِس کا تعلق تمام تر اِس بات سے ہے کہ اہلِ ایمان کا گروہ جس کام کے لیے اٹھے، وہ کوئی قومی کام نہ ہو، بلکہ وہ تمام تر اللہ تعالیٰ کا مطلوب کام ہو۔ مثلاً مسلم اقتدار کے لیے اٹھنا ایک قومی کام ہے۔ اِس کے برعکس، دعوت الی اللہ کے لیے اٹھنا ایک خدائی کام ہے—— قرآن کی مذکورہ آیت میں جس کامیابی کا وعدہ کیاگیا ہے، اُس کا تعلق قومی کام سے نہیں، بلکہ خدائی کام سے ہے۔ اہلِ ایمان کی اِ س کامیابی کا مطلب خدائی نشانے کا پورا ہونا ہے، نہ کہ مسلمانوں کے قومی مقاصد کا حاصل ہونا۔
واپس اوپر جائیں

حق کو باطل ثابت کرنا

قرآن کی سورہ الکہف کی ایک آیت یہ ہے: وما نرسل المرسلین إلا مبشرین ومنذرین، ویجادل الذین کفروا بالباطل لیدحضوا بہ الحق، واتخذوا اٰیاتی وما أنذروا ہُزوا (56: 18)یعنی رسولوں کو ہم صرف خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجتے ہیں۔ اور منکر لوگ بے بنیاد باتوں کو لے کر جھگڑا کرتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے وہ حق کو باطل ثابت کردیں۔اور انھوں نے میری نشانیوں کو اور جن چیزوں سے ان کو ڈرایا گیا، اُس کو مذاق بنادیا۔
اِس آیت میں ’دحض‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دحض کا لفظی مطلب ابطال (refutation) ہے، یعنی حق کو باطل قرار دینا۔ حق کے مقابلے میں یہ طریقہ ہمیشہ دنیا میں رائج رہاہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ قدیم زمانے میں جارحانہ دحض کا طریقہ رائج تھا، اور اب غیر جارحانہ دحض کا طریقہ پایا جاتاہے۔
اِس معاملے کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ امریکاکے ایک کمپیوٹر اسپیشلسٹ مسٹر ڈیوڈ (David Coppedge) جوناسا (NASA) میں ایک بڑی پوسٹ پر تھے، اُن کو سروس سے نکال دیاگیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ تخلیق کے بارے میں انٹیلی جنٹ ڈزائن (intelligent design) کے تصور کو مانتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ — تخلیق میں ضرور ایک بالاتر طاقت کا ہاتھ ہے، کیوں کہ زندگی اتنی زیادہ پیچیدہ ہے کہ وہ تنہا ارتقائی عمل کے ذریعے وجود میں نہیں آسکتی۔
ایک امریکی اسکالر جان ویسٹ (John West) نے اِس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیوڈ کا ریمارک ڈارون کے نظریہ ارتقا کو مشتبہ ثابت کرتاہے، جب کہ ماڈرن طبقے کا یہ حال ہے کہ اس نے ایسے کسی بھی شخص کے خلاف عملاً ایک جنگ چھیڑ رکھی ہے جو ڈارون سے اختلاف کرے:
There is basically a war on anyone who dissents from Darwin.
Did Nasa Sack Specialist Over ‘Intelligent Design’?
LOS ANGELES: Nasa’s Jet Propulsion Laboratory has landed robotic explorers on the surface of Mars, sent probes to outer planets and operates a worldwide network of antennas that communicates with interplanetary spacecraft. Its latest mission is defending itself in a workplace lawsuit filed by a former computer specialist who claims he was demoted - and then let go - for promoting his views on intelligent design, the belief that a higher power must have had a hand in creation because life is too complex to have developed through evolution alone. David Coppedge, who worked as a “team lead” on the Cassini mission exploring Saturn and its many moons, alleges that he was discriminated against because he engaged his co-workers in conversations about intelligent design and handed out DVDs on the idea while at work. Coppedge lost his “team lead" title in 2009 and was let go last year after 15 years on the mission. Opening statements are expected to begin on Monday in the Los Angeles Superior Court after two years of legal wrangling. “It’s part of a pattern . There is basically a war on anyone who dissents from Darwin and we've seen that for several years,” said John West, associate director of the Center for Science and Culture at the Seattle-based Discovery Institute. The National Center for Science Education, which rejects intelligent design as thinly veiled creationism, is also watching the case. “It would be unfortunate if the court took what seems to be a fairly straightforward employment law case and allowed it to become this tangled mess of trying to adjudicate scientific matters,” said Josh Rosenau, NCSE's programs and policy director. “It looks a pretty straightforward case. The mission was winding down and he was laid off.” Coppedge’s attorney, William Becker, says his client was singled out by his bosses as they perceived his belief in intelligent design to be religious. Coppedge had a reputation around JPL as an evangelical Christian. (The Times of India, New Delhi, March 13, 2012, p. 17)
امریکا کے پارلیامنٹ ہاؤس کے باہر یہ جملہ لکھا ہوا ہے کہ — ہم صرف خدا پر بھروسہ کرتے ہیں(In God We Trust) ۔ یہی امریکا کے ہر ڈالر پر لکھا ہوا ہوتا ہے۔ مگر مذکورہ واقعہ بتاتا ہے کہ امریکا کے مروّجہ نظام میں خدا کا تصور اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک اجنبی تصور ہے۔ خدا کا لفظ امریکا کی ڈکشنری میں ضرور پایا جاتا ہے، مگر خدا باعتبار حقیقت امریکی زندگی سے مکمل طورپر خارج ہے۔
یہ دو عملی (dualism) آج ساری دنیا کا کلچر ہے، سیکولر لوگوں کا بھی اور مذہبی لوگوں کا بھی، حتی کہ مسلمانوں کا بھی اِس میں کوئی استثنا نہیں۔ آج تمام لوگوں کا یہ حال ہے کہ خدا اُن کے یہاں صرف ایک رسمی عقیدہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ رسمی عقیدہ کے باہر لوگوں کی جو عملی زندگی ہے، وہ مکمل طورپر دنیوی مصلحت (material interest) پر قائم ہے۔ اِس قسم کے مذہب اور لامذہبیت میں اپنی حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک عمومی فتنہ

قرآن کی سورہ الانفال میں ارشاد ہوا ہے: واتقوا فتنۃً لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصّۃ(8:25) یعنی ڈرو اُس فتنے سے جو خاص اُنھیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے غلط کاری کے مرتکب ہوئے ہیں:
Beware of an affliction that will not smite exclusively those among you who have done wrong.
قرآن کی اِس آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد خدائی فتنہ نہیں ہے، بلکہ انسانی فتنہ ہے، یعنی اشتعال کی وہ صورتِ حال جو ایک انسان یا بعض انسانوں کے ناعاقبت اندیشانہ عمل کے ذریعے پیداہوئی ہو۔ اِس طرح کی صورتِ حال جب کسی سماج میں پیدا ہو جائے تو اُس کے بعد وہاں جو شورش برپا ہوگی، اس کا برا انجام انتخابی طور پر پیش نہیں آئے گا، بلکہ اس کا برا انجام عمومی طورپر پورے سماج کو بھگتنا پڑے گا۔
مثال کے طورپر ایک شہر میں غیر مسلموں کی ایک عبادت گاہ ہے۔ وہاں لاؤڈاسپیکر پر اُن کا کوئی پروگرام ہورہا ہے۔ اب اگر کچھ مسلمانوں کو اِس پر شکایت پیدا ہو، وہ غیر مسلم عبادت گاہ میں جاکر اُن سے لاؤڈاسپیکر بند کرنے کے لیے کہیں، مگر وہ لوگ اس کو بند نہ کریں۔ اِس پر مسلمان غصہ ہوجائیں اوروہ اُن کے لاؤڈاسپیکر کو توڑ کر پھینک دیں، تو یہ معاملہ کسی حد پر نہیں رکے گا، بلکہ جب یہ خبر پھیلے گی تو غیر مسلموں کی پوری کمیونٹی شدید رد عمل کا شکار ہو جائے گی۔ وہ مسلم کمیونٹی کے خلاف جذباتی کارروائی کرے گی۔ اِس کارروائی کا نشانہ صرف وہی مسلمان نہیں بنیں گے جنھوں نے لاؤڈاسپیکر کو توڑا تھا، بلکہ اس مقام کی پوری مسلم کمیونٹی اس کی زد میں آجائے گی۔
اِسی طرح مثلاً غیر مسلموں کا ایک جلوس نکلتا ہے۔ وہ ایسی سڑک سے گزرنا چاہتا ہے جہاں مسلمانوں کی مسجد واقع ہے۔ اب کچھ مسلمان سامنے آجاتے ہیں۔ وہ جلوس والوں سے یہ مانگ کرتے ہیں کہ تم لوگ اپنے جلوس کا راستہ بدلو۔ اِس سے ہماری مسجد کی بے حرمتی ہوگی۔ اب مسلمان پولس سے یہ مانگ کرتے ہیں کہ وہ مداخلت کرے اور جلوس کی روٹ (route) کو بدلوائے۔ مگر پولس، مسلمانوں کی مانگ کے مطابق، جلوس کی روٹ کو نہیں بدلواتی۔ اب مسلمان مزید غصہ ہوجاتے ہیں۔ وہ پولس پر پتھر مارتے ہیں۔ اس کے بعد پولس مشتعل ہوجاتی ہے۔ وہ مسلمانوں کی بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلاتی ہے۔ پولس کی اس گولی کا شکار وہ مسلمان ہوتے ہیں جنھوںنے پولس کو پتھر مارا، اور وہ بھی جنھوں نے پولس کو پتھر نہیں مارا۔
یہی معاملہ اُن مقامات کا ہے جہاں زیادہ بڑے پیمانے پر یہ صورتِ حال پیش آرہی ہے۔ مثلاً کشمیر اور فلسطین، وغیرہ۔ اِن مقامات پر بھی یہی ہوتا ہے کہ پہلے مسلمان، پولس یا فوج پر پتھر مارتے ہیں۔ اس کے بعد پولس یا فوج مسلمانوں کے اوپر گولی چلاتی ہے یا ہوائی جہاز سے وہ ان کے اوپر بم گراتی ہے۔ اِس طرح کے واقعات میں عملاً یہی ہوتا ہے کہ جو مسلمان براہِ راست طورپر اِس فعل میں ملوث نہیں ہوتے، وہ بھی جوابی کارروائی میں فوج کی گولی ا ور بم کا نشانہ بنتے ہیں،یعنی ملوث ہونے والے مسلمان بھی اور ملوث نہ ہونے والے مسلمان بھی۔ اِس طرح کے تمام واقعات پر قرآن کی مذکورہ آیت چسپاں ہوتی ہے۔ ایسے واقعات کو لے کر یہ احتجاج کرنا کہ فریقِ ثانی کی جوابی کارروائی میں قصور وار مسلمان اور غیر قصوروار مسلمان دونوں زد میں آئے، اور یہ انسانی حقوق (human rights) کے خلاف ہے۔ اِس طرح کا احتجاج سرتا سر باطل ہے۔ قرآن ایسے کسی احتجاج کی تصدیق نہیں کرتا۔ اِس طرح کے واقعات میں ایسا ہونا بالکل فطری ہے کہ قصور وار کے ساتھ غیر قصور وار بھی مارے جائیں۔
قرآنی اصول کے مطابق، اِس طرح کے معاملے میں وہ لوگ ذمے دار قرار پاتے ہیں جنھوں نے ابتدائی طورپر اشتعال انگیزی کی کارروائی کی(13: 9)۔ اِس آیت کے مطابق، مسلم رہنماؤں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ مسلم معاشرے میں اشتعال کا ماحول پیدا نہ ہونے دیں، نہ یہ کہ اشتعال کے بعد کے واقعات کو لے کر وہ شکایت اور احتجاج کا ہنگامہ برپا کریں۔ ایسی روش کا دہرا نقصان ہے۔ ایک یہ کہ ایسے لوگ خدا کے غضب کا شکار ہوں، مزیدیہ کہ صورت حال کی کبھی اصلاح نہ ہو، اور وہ ہمیشہ ’’ذلت اور مسکنت‘‘ (2:61) کے اِسی حال میں مبتلا رہیں۔
واپس اوپر جائیں

موت کی یاد: ایک صحت مند عمل

ایک اسٹڈی کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ موت کے بارے میں سوچنا ایک اچھی عادت ہے۔ وہ تندرستی کے لیے مفید ہے۔ اِس کا یہ فائدہ ہے کہ آدمی اپنی ترجیحات اور اپنے نشانے کو دوبارہ قائم کرتاہے۔ ایک نئے سائنسی تجزیے میں بتایاگیاہے کہ اگر آدمی کسی قبرستان سے گزرے، تب بھی وہ غیر شعوری طور اُس سے سبق لیتاہے اور اس کے اندر مثبت تبدیلی آتی ہے اور اس کے اندر دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اِس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ موت کے بارے میں سوچنا خطرناک ہے، اِس سے تخریبی ذہن پیدا ہوتا ہے۔ موت کی یاد سے تعصب اور تشدد کا جذبہ ابھرتاہے۔
Thinking about death boosts health
Thinking about death can actually be a good thing as an awareness of mortality can improve physical health and help in prioritizing one’s goals and values, as new study has revealed. According to a new analysis of recent scientific studies, even non-conscious thinking about death like walking by a cemetery could prompt positive changes and promote helping others. Past research suggests that thinking about death is destructive and dangerous, fuelling everything from prejudice and greed to violence. (The Times of India, New Delhi, April 21, 2012, p. 21)
عام طورپر یہ سمجھا جاتاتھا کہ موت کے بارے میں سوچنے سے عمل کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے۔ اِس سے آدمی کے اندر منفی سوچ پیدا ہوتی ہے، مگر یہ صرف ایک قیاسی بات تھی۔ اِس مسئلے کا باقاعدہ علمی مطالعہ کیاگیا تو معلوم ہوا کہ معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موت کے بارے میں سوچنا ایک اچھی عادت ہے۔ اِس سے آدمی کے اندر صحت مند صفات پیدا ہوتی ہیں۔
قرآن میں آیا ہے: کل نفس ذائقۃ الموت (185: 3) یعنی ہر شخص کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اِس سلسلے میں ایک حدیثِ رسول اِن الفاظ میں آئی ہے: أکثروا ذکر ہادم اللذات، الموت (الترمذی، رقم الحدیث: 2307 )یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو، وہ لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے۔ موت کی یاد حقیقتِ حیات کی یاد ہے۔ موت کی یاد آدمی کو بتاتی ہے کہ اس کے پاس لامحدود وقت نہیں۔ کسی بھی لمحہ وہ وقت آسکتا ہے، جب کہ اس کی موجودہ زندگی ختم ہوجائے۔
اِس طرح موت کی یاد آدمی کے اندر جلدی کا احساس (sense of urgency) پیدا کرتی ہے۔ آدمی کے اندر یہ محرک (incentive) پیدا ہوتاہے کہ وہ اپنے کام کو جلد پورا کرے، کیوں کہ کچھ معلوم نہیں کہ کب وقت ہوجائے اور کام کرنے کا موقع باقی نہ رہے۔ اِس طرح موت کی یاد آدمی کو منصوبہ بند عمل کرنے پر ابھارتی ہے۔ اور منصوبہ بند عمل بلا شبہہ زندگی میں سب سے بڑی چیز ہے۔
موت کی یاد آدمی کے اندر ذہنی بیداری (intellectual awakening) کی صفت پیدا کرتی ہے۔ موت کی یاد آدمی کی چھپی ہوئی ذہنی صلاحیتوں کو جگاتی ہے۔ موت آدمی کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے۔
اسلامی نظریہ حیات کے مطابق، موت کی یاد کا فائدہ بے شمار گُنا بڑھ جاتا ہے۔ اسلامی نظریۂ حیات بتاتا ہے کہ آدمی کی زندگی موت پر ختم نہیں ہوتی۔ موت کے بعد ایک اور زندگی ہے جو کہ ابدی طورپر قائم رہنے والی ہے۔ آدمی موت سے پہلے کے دور حیات میں جیسا عمل کرے گا، اُسی کے مطابق، وہ موت کے بعد کے دورِ حیات میں کامیاب یا ناکام رہے گا۔ یہ احساس آدمی کے اندر مقصدیت کا شعور پیدا کرتا ہے۔ وہ زیادہ با معنی انداز میں زندگی گزارنے کے قابل بن جاتا ہے۔
عام تصور کے مطابق، موت کی یاد صرف موت کی یاد ہے، یعنی خاتمہ حیات کی یاد- لیکن اسلامی تصورِ حیات کے مطابق، موت کی یاد کا مطلب یہ ہے کہ آدمی بعد از موت دورِ حیات کے لیے تیاری کرے- وہ آج کی زندگی کو ایک موقع (opportunity) سمجھے، جب کہ وہ بعد کو آنے والے ابدی دورِ حیات کے لیے عمل کرسکتا ہے- یہ تصورِ موت آدمی کو اِس حقیقت کی یاد دلاتاہے کہ –— زندگی صرف ایک بار ملتی ہے- اب یہ آدمی کے اپنے اوپر ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کامیاب بناتا ہے یا ناکام- وہ اِس پہلے اور آخری موقع کو استعمال کرتا ہے یا وہ اُس کو کھو دیتا ہے-
واپس اوپر جائیں

سماجی قبولیت یا نفاذِ قانون

قرآن کی سورہ البقرہ میں اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہوئے اُن کو ایک ہدایت اِس طرح دی گئی ہے—– اے ایمان والو، اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے نقشِ قدم پر مت چلو۔ شیطان تمھارا کھلا ہوا دشمن ہے(208: 2)-
قرآن کی اِس آیت کے مطابق، ہر صاحبِ ایمان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ پوری طرح اسلام میں داخل ہوجائے۔ اُس پر موت آئے تو اِس حال میں آئے کہ وہ مکمل معنوں میں، اسلام میں داخل ہوچکا ہو۔ جیسا کہ قرآن کی دوسری آیت میں ارشاد ہوا ہے: ولا تموتن إلّا وأنتم مسلمون (102: 3) یعنی تم کو موت نہ آئے، مگر اِس حال میں کہ تم مسلم ہو۔
آیت کایہ مفہوم تقاضا کرتاہے کہ اِس آیت کو مومن کی اپنی ذات کے اعتبار سے لیا جائے، نہ کہ اجتماعی نظام کے اعتبار سے۔ کیوں کہ مومن کی اپنی زندگی پوری طرح اس کے اختیار میں ہوتی ہیں۔ وہ اِس پر قادر ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کو پوری طرح اللہ کے رنگ میں رنگ لے (صبغۃ اللہ، ومَن أحسن مِن اللہ صبغۃ)۔ اُس کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ انفرادی اعتبارسے، اپنے آپ کو اسلامائز کرلے۔ مگر اجتماعی نظام کا معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہے۔ اجتماعی نظام میں خدا کے دین کو کامل طورپر داخل کرنا صرف اُس وقت ممکن ہوتا ہے، جب کہ اجتماعی زندگی کا ہر فرد اُس سے اتفاق کرلے۔ تاریخ میں کبھی اِس قسم کا اجتماعی اتفاق پیش نہیں آیا۔ اِسی لیے اجتماعی زندگی (socio-political life) میں کبھی کامل معنوں میں، اسلام کو داخل کرنا بھی ممکن نہیں ہوا۔ تاریخ میں کامل افراد تو بار بار پیدا ہوتے رہے، مگر کامل معنوں میںاجتماعی نظام کبھی وجود میں نہیں آیا۔
ایسی حالت میں اگر قرآن کی مذکورہ آیت کو اِس معنی میں لیاجائے کہ اُس سے مراد اجتماعی نظام میں خدا کے دین کا کامل داخلہ ہے تو اِس سے یہ لازم آئے گا کہ اللہ نے اہلِ ایمان کو ایک ایسا حکم دیا جس پر عمل کرنا سرے سے ممکن ہی نہ تھا۔ ایسی حالت میںاہلِ ایمان کے حصے میں صرف یہ آئے گا کہ وہ ہر زمانے میں لڑ لڑ کر اپنے آپ کو ہلاک کرتے رہیں اور کبھی مطلوب منزل تک نہ پہنچ سکیں۔
انڈیا کے ایک عالم نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے لیے حصولِ اقتدار اور خلافت کا قیام ضروری ہے، کیوں کہ اس کے بغیر اسلامی احکام نافذ نہیں ہوسکتے۔ اِس سلسلے میں انھوں نے ایک دلیل یہ دی ہے کہ صرف قانون بنا دینے یا صرف وعظ ونصیحت سے برائیاں دور نہیں ہوتیں۔ قانون کے نفاذ کے لیے قوتِ نافذہ ضروری ہے، اور قوتِ نافذہ، سلطان (نظامِ خلافت) ہی ہوسکتا ہے۔حضرت عثمان کا قول ہے کہ— جو برائی قرآن سے دور نہیں ہوتی، اسے اللہ تعالیٰ سلطان (حکومت) کے ذریعے دور کردیتاہے (إن اللہ یزع بالسلطان، ما لا یزع بالقرآن)۔
یہ غیر سنجیدہ استدلال کی ایک مثال ہے۔ صاحب مضمون اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرتے تو ان کی سمجھ میں آتا کہ حضرت عثمان کے پاس اقتدار تو اپنی کامل صورت میں موجود تھا۔ اِس کے باوجود، عین اُنھیں کے زمانے میں مسلم معاشرے میں اتنا خلل آیا کہ لاقانونیت کی صورت پیدا ہوگئی، اور حضرت عثمان خلیفہ ہونے کے باوجود اس پر قابو نہ پاسکے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان کا یہ قول صرف محدود معنی (limited sense) میں ہے، نہ کہ مطلق معنی (absolute sense) میں۔ حضرت عثمان کے اِس قول میں سرے سے یہ بات موجود نہیں کہ مسلمان سیاسی تحریک چلا کر اقتدار پر قبضہ کریں، تاکہ وہ قوانین اسلامی کا نفاذ (enforcement) کرسکیں۔
کسی قانون کے نفاذ کے لیے صرف سیاسی قوت کافی نہیں۔ اصل یہ ہے کہ اِس معاملے میں سیاسی قوت کا رول صرف پچاس فی صد ہے، بقیہ پچاس فی صد کا تعلق سماجی قبولیت (social acceptance) سے ہے۔ جس سماج میں قبولیت کا مادہ موجود نہ ہو، وہاں محض سیاسی قوت کے ذریعے کسی قانون کا نفاذ نہیں ہوسکتا۔ ایسی حالت میں، پہلا کام افراد کے اندر قبولیت کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ اِس کے برعکس، قوتِ نفاذ (enforcement power) کے حصول کے نام پر سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے کی تحریک چلانا گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے (putting the cart before the horse) کے مصداق ہے۔ یہ ایک غیر فطری طریقہ ہے۔ اِس دنیا میں کوئی با معنی نتیجہ صرف فطری طریقے سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ غیر فطری طریقے سے۔
واپس اوپر جائیں

یہ بے خبرانسان

راجیش کھنہ انڈیا کی فلم انڈسٹری (بالی ووڈ) سے تعلق رکھتے تھے- وہ پہلی فلمی شخصیت ہیں جن کو سپر اسٹار (super star) کا ٹائٹل دیاگیا- جس زمانے میں راجیش کھنہ اپنے پروفیشن میں عروج پر تھے، انھوں نے کہا تھا کہ — میں خدا کے بعد سب سے بڑی ہستی ہوں:
Being at the top, Rajesh Khanna once said, is a feeling of being next to God.
عجیب بات ہے کہ جس سال راجیش کھنہ کی پیدائش ہوئی، اُسی سال مشہور امریکی باکسر محمد علی کلے(Muhammad Ali Clay) کی پیدائش ہوئی، یعنی 1942 میں- محمد علی کلے کو باکسنگ (boxing) میں بہت بڑا درجہ ملا- وہ باکسنگ کے عالمی چیمپین بن گئے- اُس وقت انھوں نے کہا تھا کہ — میں بادشاہِ عالم ہوں، میں سب سے بڑا ہوں:
I am the king of the world, I am the greatest.
مگر دونوں کا انجام یکساں طورپر برعکس صورت میں ہوا- راجیش کھنہ لمبی بیماری کے نتیجے میں آخرکار ہڈی کا ڈھانچہ بن گئے اور صرف 69 سال کی عمر میں18 جولائی 2012 کو ان کا انتقال ہوگیا- محمد علی کلے ابھی زندہ ہیں، لیکن طویل مدت سے وہ پارکنسن کی بیماری (Parkinson's syndrome) میں مبتلا ہیں- اب وہ بالکل معذور (disabled) ہو کر وھیل چیر پر اپنی زندگی کے آخری لمحات گزار رہے ہیں-
یہی ہمیشہ سے انسان کا حال رہا ہے- جب بھی کسی کو غیر معمولی حیثیت یا کوئی بڑی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو قرآن کے الفاظ میں، وہ ’أکرمن‘ کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتاہے- وہ خدا کا شکر کرنے کے بجائے اپنے آپ کو خدا کا ہم سر سمجھ لیتا ہے- تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے لوگ ہمیشہ حقیر ہو کر مرتے ہیں، مگر عجیب بات ہے کہ بعد کے انسان پچھلے انسانوں کے انجام سے سبق نہیں لیتے-
واپس اوپر جائیں

ایک عبرت ناک واقعہ

فردوسی (وفات: 1020 ء) قدیم ایران کا سب سے بڑا شاعر سمجھا جاتا ہے- اس کی کتاب ’’شاہ نامہ‘‘ بہت مشہور ہے- مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914 ء) نے اپنی کتاب شعر العجم (جلد اول) میں فردوسی کا تذکرہ کیا ہے-مولانا شبلی، فردوسی سے اتنا زیادہ متاثر تھے کہ انھوں نے اس کے ایک مصرعہ کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ مصرعہ ایک لشکرِ جرار کی طاقت رکھتا ہے- فردوسی کا وہ مصرعہ یہ ہے:
مجنبا مرا، تا نہ جنبد زمیں
(مجھ کو نہ ہلاؤ، ورنہ ساری زمین ہل جائے گی)
سلطان محمود غزنوی، فردوسی کے شاہ نامہ سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے 60 ہزار درہم (بصورتِ نیل) اس کے پاس بھیجا- یہ انعام فردوسی کو شاہی اونٹوں پر طوس (ایران) بھیجا گیا تھا- بتایا جاتا ہے کہ جب انعام سے لدے ہوئے یہ اونٹ شہر کے ایک گیٹ میں داخل ہوئے تو اُس وقت فردوسی کا جنازہ شہر کے دوسرے گیٹ سے شہر کے باہر نکالا جا رہا تھا:
The indigo reached Tus in safety; but as the camels were entering the town by one gate, Firdowsi’s bier was being carried out through another. (EB. 7/234)
فردوسی کا یہ واقعہ علامتی طورپر ہر انسان کا واقعہ ہے- موجودہ دنیا میں ہر انسان کے ساتھ یہ ہورہا ہے کہ وہ عمل کرتا ہے اور ہر قسم کی کوشش کے بعد وہ آخر کار اپنا ایک ’’شاہ نامہ‘‘ تیار کرلیتاہے- پھر وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ اپنے تیار کردہ شاہ نامہ کی بنیادپر دنیا سے اپنا کوئی بڑا انعام پائے، عین اُس وقت اس کی موت کا وقت آجاتا ہے-
موت کے بعد وہ اپنے لگائے ہوئے باغ کا پھل کھانے کے بجائے عالمِ آخرت میں پہنچا دیا جاتا ہے، جہاں وہ خود تو ہوگا، لیکن وہاں نہ اُس کا شاہ نامہ اس کے ساتھ ہوگااور نہ اس کا حاصل کیا ہوا انعام-
واپس اوپر جائیں

شیطان کی سنت

قرآن کے مطابق، تخلیقِ آدم کے وقت ابلیس کو نعوذ باللہ خدا سے اختلاف ہوگیا- ابلیس نے اپنے اختلاف کو صرف اختلاف کے درجے میں نہیں رکھا، بلکہ اس کو عداوت تک پہنچا دیا- اُس نے یہ منفی منصوبہ بنایا کہ وہ تمام بندوں کو خدا کے خلاف کردے- اس کا یہ منفی منصوبہ قرآن میں اِن الفاظ میں نقل کیاگیا ہے: قال فبما أغویتنی لأقعدن لہم صراطک المستقیم- ثم لاٰتینہم من بین أیدیہم ومن خلفہم وعن أیمانہم وعن شمائلہم، ولا تجد أکثرہم شاکرین (7:17) یعنی ابلیس نے خدا سے کہا کہ تو نے مجھ کو گمراہ کیا ہے، میں بھی لوگوں کے لیے تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا- پھر میں اُن پر آؤں گا، اُن کے سامنے سےاور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے، اور تو اُن میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا-
انسانوں کے درمیان اختلاف کی دو صورتیں ہیں — ایک، یہ کہ اختلاف جب پیدا ہو تو اُس کو اپنی ذات کی حد تک محدود رکھا جائے- دوسرے، یہ کہ اختلاف پیدا ہونے کے بعد آدمی فریقِ ثانی کا دشمن بن جائے گا، وہ ہر جگہ اس کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرے، وہ کوشش کرے کہ کوئی اس کا ساتھ نہ دے اور کوئی اس کا تعاون نہ کرے- پہلی قسم کے اختلاف میں کوئی حرج نہیں، لیکن دوسرا اختلاف صرف شیطان کی پیروی ہے- جو لوگ ایسا کریں، وہ یہ خطرہ (risk) لے رہے ہیں کہ اللہ کے یہاں اُن کا شمار حزب الشیطان (58: 19) میں کیا جائے-
ایک انسان کا دوسرے انسان سے اختلاف ہونا ایک فطری بات ہے، لیکن اختلاف پیدا ہونے کے بعد فریقِ ثانی کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنا، لوگوں کو اس کا ساتھ دینے سے روکنا، اس کی معاشی بنیاد کو تباہ کرنے کی کوشش کرنا، اس کے عقیدہ اور نیت کو نشانہ بنانا، اس کے خلاف بے دلیل الزام تراشی کرنا، یہ سب بلا شبہہ شیطانی کام ہے- جو لوگ ایسا کریں، ان کا کیس ابتاعِ شیطان کا کیس ہے، خواہ بظاہر وہ اپنے کیس کو کتنا ہی زیادہ مقدس صورت میں بیان کرتے ہوں-
واپس اوپر جائیں

ناقابلِ معافی جُرم

ایک حدیثِ قدسی کے مطابق، اللہ تعالی نے فرمایا: الکبریاءُ رِدائی، والعظمة إزاری، فمن نازعنی واحداً منہما قذفتہ فی النار (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 3570)یعنی کبر میری چادر ہے، اور عظمت میری ازا ر ہے، پس ان دونوں میں سے کسی میں جو شخص مجھ سے نزاع کرے گا، میں اُس کو آگ میں پھینک دوں گا
اِس حدیث میں تمثیل کی زبان میں بتایا گیاہے کہ ہر قسم کی بڑائی اور ہرقسم کی برتری صرف ایک خدا کا حق ہے- جو شخص اس معاملہ میں کلی یا جزئی طورپر خدا کا ہمسربننا چاہے، وہ نہ صرف دنیا میں ذلیل ہوگا، بلکہ آخرت میں اُس کو شدید تر عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا-
مثال کے طورپر خدا کی عظمت وکبریائی کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہی عزت دینے والا ہے اور وہی ذلت دینے والا، وہی کسی کو رزق دیتا ہے اور وہی کسی کو رزق سے محروم کردیتا ہے- اس کے سوا کسی کو یہ طاقت نہیں کہ کسی کوکچھ دے یا اس سے کوئی چیز چھین لے-
مثلاً ایک شخص کو کسی آدمی پر غصہ آگیا- یہ غصہ انتقام تک پہنچ گیا، یہاں تک کہ وہ اِس کے درپے ہوگیا کہ مذکورہ آدمی کو بے عزت کرے، وہ اُس کے رزق کا ذریعہ اس سے چھین لے، وہ اس کو اس کے ماحول میں بے جگہ بنادے- کسی شخص کی طرف اِس قسم کی تخریبی کوشش خدا کی عظمت وکبریائی سے گویا نزاع کرنا ہے- یہ نعوذ باللہ، خدا کے اختیارات کو اُس سے چھیننے کی جسارت کے ہم معنی ہے-
اِس قسم کا فعل حد درجہ سنگین ہے- جو شخص ایسا کرنے کی کوشش کرے، وہ بظاہر اپنے حریف کے ساتھ یہ فعل کررہا ہے ہوتا ہے، مگر حدیث کی زبان میں، وہ براہِ راست خدا سے نزاع کررہا ہے- وہ خدا کے اُس نظام میں دخل دینے کی کوشش کررہاہے جس میں خدا نے کسی کسی دوسرے کو شرک نہیں کیا- یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے، خدا کی خدائی میں شریک بننے کی کوشش کرنا ہے، اور خدا کی خدائی میں شریک بننے کی کوشش بلا شبہہ ایک ایسا جرم ہے جو ہر گز قابلِ معافی نہیں-
واپس اوپر جائیں

اسلام کے نام پر غیر اسلام

مارچ 2012 کا واقعہ ہے۔ ایک انتہا پسند ہندو لیڈر انڈیا کے ایک شہر میں پہنچے۔ وہاں ان کی تقریر ہوئی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ مکہ کاکعبہ اصل میں بتوں کا مندر تھا۔ مسلمانوں نے قبضہ کرکے اُس کو اپنی مسجد بنا لیا۔ اِس تقریر پر وہاں کے مسلمان مشتعل ہوگئے۔ انھوں نے وہاں جلوس نکالا، پُر جوش نعرے لگائے۔ اِس کے نتیجے میں وہاں ہندو مسلم فساد ہوگیا۔ مقامی لوگوں کو جان ومال کا کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
مسلمانوں کا یہ رد عمل سرتاسر ایک قومی رد عمل تھا، اُس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اِن مسلمانوں کے اندر اگر صحیح ذہن ہوتا تو وہ سوچتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب 610 عیسوی میں توحید کا مشن شروع کیا تو اُس وقت عملاً ایسا تھا کہ کعبہ میں کئی سو کی تعداد میں بت رکھے ہوئے تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس پر مشتعل نہیں ہوئے، بلکہ پُرامن انداز میں آپ لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اِس طرح کی بے بنیاد تقریر پر مشتعل نہ ہوں، بلکہ اُسے نظر انداز کردیں، وہ اِس واقعہ کو ایک موقع (opportunity) کے طورپر استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچائیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ مسلمان کس طرح پیغمبر کے نام پر غیرپیغمبرانہ روش کا ارتکاب کررہے ہیں۔ وہ اسلام کے نام پر ایسی تحریکیں چلاتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، ایسے مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ معاملہ اِسی دنیا میں ختم نہیں ہوجائے گا۔ آخرت میں اُن سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے ایسا دین کہاں سے ایجاد کرلیا جس کو اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعے بھیجا نہیں تھا —اِس طرح کی غوغائی سیاست بلا شبہہ اسلام کے خلاف ہے، اُس کوکبھی خدا کی نصرت ملنے والی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اِس قسم کے ہنگامے ہر جگہ صرف مسلمانوں کے حالات کو بگاڑنے کا سبب بن رہے ہیں، نہ کہ حالات کو درست کرنے کاسبب۔
واپس اوپر جائیں

جائز فضول خرچی

کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر بہت زیادہ خرچ کرنے کا مزاج ہوتا ہے- وہ لوگوں کو خوب دیتے ہیں اور خوب کھلاتے پلاتے ہیں- اِس طرح کی عادت کو عام طورپر سخاوت کہاجاتاہے- لوگ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی بہت سخی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سخاوت نہیں، بلکہ فضول خرچی ہے- ایسے لوگوں کے لیے صحیح لفظ فضول خرچ ہے، نہ کہ سخی-
قرآن میں صحیح خرچ کا ایک معیار بتایا گیاہے- وہ معیار یہ ہے: الذین یؤتون ما اٰتوا وقلوبہم وجلة أنہم إلى ربہم راجعون (23: 60) یعنی وہ لوگ جو دیتے ہیں، تو جو کچھ وہ دیتے ہیں، اِس طرح دیتے ہیں کہ ان کے دل کانپ رہے ہوتے ہیں کہ انھیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے-
قرآن کی یہ آیت خرچ کے معاملے میں ایک حتمی معیار کو بتا رہی ہے- اگر خرچ کرنےوالے کا حال یہ ہو کہ دوسرے کو دیتے ہوئے وہ اپنی محرومی کو یاد کررہا ہو- دوسروں کو دیتے ہوئے اس کو یہ خیال ستا رہا ہو کہ دنیامیں تو میں دوسرے کو کھلانے کی پوزیشن میں ہوں، لیکن آخرت کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کہ وہاں میرا کیا حال ہوگا- وہ دوسرے کو ٹھنڈا مشروب پلا رہا ہو اور خود اس کا اپنا حال یہ ہو کہ آخرت کی یاد میں اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوں- اُس کو یہ یاد ستارہی ہو کہ دنیا میں تو میں الید العُلیا (دینے والا ہاتھ) ہوں، آخرت میں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں الید السُّفلى (لینے والا) بن جاؤں-
جن لوگوں کا خرچ مذکورہ نوعیت کا خرچ ہو، وہی اللہ کے یہاں سخی کا درجہ پائیں گے- اور جن لوگوں کا معاملہ اِس کے برعکس ہو، جن لوگوں کا خرچ محض مزاج یا عادت (habit)کے تحت ہورہا ہو، جو اپنی ذاتی تسکین کے لیے خرچ کرتے ہوں، اُن کا کیس بلاشبہہ فضول خرچی کا کیس ہے-
ایسے لوگ دنیا والوںکے درمیان اگرچہ سخی کی حیثیت سے مشہور ہوں، لیکن آخرت میں وہ صرف ایک فضول خرچ انسان کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے،جن کو قرآن میں ابلیس کا بھائی قرار دیاگیا ہے(17:27)-
واپس اوپر جائیں

مواقع کی بربادی

نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (2 جولائی 2012 ) میں بتایا گیا ہے کہ ناروے (Norway)کے ایک نوجوان نے اسلام قبول کیا- اس کے بعد اس نے اپنا نام عبد الرحمن رکھا- القاعدہ کے لوگ اس کو ناروے سے یمن لے گئے- وہاں اس کی تربیت کی گئی- اُس کو ایک منصوبے کے لیے تیار کیاگیا جس کا مقصدتھا ایک امریکی ہوائی جہاز کو بم سے اڑانا- خبر میں بتایا گیا ہےکہ القاعدہ مغربی مسلمانوں کو رکروٹ (recruit)کرکے ان کے اندر انقلابی ذہن پیدا کرتا ہے، پھر ان کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے، کیوں کہ ایسے لوگوں کے لیے  ائرپورٹ کی سیکورٹی سے بچ نکلنا آسان ہوتا ہے:
Al-Qaida is seeking to recruit radicalised westerners in an attempt to evade airport security. (p. 14)
مغربی ملکوں میں بڑی تعداد میں لوگ اسلام قبول کررہے ہیں- اِن لوگوں کا اصل استعمال یہ ہے کہ اُن کو ان کے ہم قوموں میں مزید اشاعتِ اسلام کے لیے استعمال کیا جائے، مگر بعض مسلم تنظیمیں اِس معاملے میں ایک نہایت غلط رول ادا کررہی ہیں- یہ مسلم تنظیمیں اپنے دائرے میں لے کر ان لوگوں کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتی ہیں- اِس طرح ایک عظیم امکان ضائع ہورہا ہے-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں مختلف قسم کے غیر دعوتی گروپ قائم ہیں- مثلاً مبنی برفضائل گروپ، مبنی بر مسائل گروپ، مبنی بر عسکریت گروپ، وغیرہ- جب کسی مغربی ملک میں کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی گروپ اُس کو اپنے فولڈ میں شامل کرلیتا ہے اور پھر دھیرے دھرے اس کا حال وہی ہوجاتاہے جس کو ایک فارسی شاعر نے اپنے ان الفاظ میں بیان کیا تھا:
ہر چیز کہ در کانِ نمک رفت، نمک شد
مسلمانوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو مواقعِ دعوت کی بربادی سے بچائیں، ورنہ خدا کے نزدیک وہ ، ’صد عن سبیل اللہ‘ (43: 37) کا مصداق قرار پائیں گے-
واپس اوپر جائیں

اِحیاءِ سنت

دین کا نام کبھی دنیا سے ختم نہیں ہوتا- جو چیز دنیا سے ختم ہوتی ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی سنت ہے- ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من تمسک بسنّتی عند فساد أمتی، فلہ أجر مأة شہید (تاریخ الإسلام للذہبی، رقم الحدیث: 3097) یعنی میری امت میں بگاڑ کے وقت جس نے میری سنت کو پکڑا، اس کے لیے سو شہیدوں کا اجر ہے-
اسلام کی راہ میں لڑ کر اپنی جان دے دینا ایک ایسا عمل ہے جس کا اللہ تعالی کے یہاں بڑا انعام ہے- مگر بگاڑ کے زمانے میں اپنے آپ کو سچے دین پر قائم کرنے کا اجر اس سے سو گنا زیادہ بتایا گیاہے- اِس کی وجہ یہ ہے کہ اول الذکر اپنے آپ کو ایک دن قربان کرتاہے جب کہ ثانی الذکر کو ہر روز اپنے آپ کو قربان کرنا پڑتاہے-
امت کے اندر جب بگاڑ آتاہے تو اُس وقت یہ حال ہوجاتا ہے کہ ایک بگڑے ہوئے مذہب کا نام دین بن جاتاہے- سارے دینی ادارے، تمام دینی اعزازات اِسی بگڑے ہوئے مذہب سے وابستہ ہوجاتے ہیں- دین کے تمام شعبوں میںایسے لوگ قبضہ پالیتے ہیں جو دین کو تجارت بناچکے ہوتے ہیں- خواص اپنے مصالح کی بنا پر، اور عوام اپنی جہالت کی بنا پر، اِسی بگڑے ہوئے دین کومضبوطی سے پکڑے ہوئے ہوتے ہیں- ایسی حالت میں جب کوئی بندہ خدا کے سچے اور بے آمیز دین کو لے کر اٹھتا ہے، تو سارے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اُس شخص کا دین اِن کے اپنے دین کو بے اعتبار بنا رہا ہے- وہ فوراً اُس کےمخالف بن جاتے ہیں- اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رسولِ خدا والے طریقہ کو پکڑنے والا آدمی خود اپنے معاشرے میں بے جگہ ہوجاتاہے، وہ سب کے درمیان ایک غیر مطلوب شخص بن جاتا ہے-
بگاڑ کے زمانے میں یہ ہوتا ہے کہ وقتی اور رسمی عملیات کو لوگ جنت کا ٹکٹ سمجھ لیتے ہیں، اِس کے مقابلے میں سنتِ رسول کو پکڑنے والا آدمی حقیقی اعمال پر جنت کا مدار رکھتاہے- لوگ مذہبی مناظرے اور سیاسی مجادلے کے مشغلوں کو دینی کارنامہ سمجھنے لگتے ہیں، وہ بتاتا ہے کہ صبر اور قربانی کے طریقوں کو اختیار کرنے کا نام دین ہے- لوگ اپنے دنیوی ہنگاموں کو دین کا عنوان دئے ہوئے ہوتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ آخرت کے لیے جینے اور مرنے کانام دین ہے- لوگ احبار ورُہبان کے دین کو پکڑے ہوئے ہوتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ دین وہ ہے جو خدا اور رسول سے ملا ہو- لوگ اپنے بزرگوں کے ارشادات وملفوظات سے لپٹے ہوئے ہوتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ قرآن وسنت والے دین کو اپنا دین بناؤ- لوگ قصے کہانیوں کے ذریعے اپنا ایک دینی ایڈیشن تیار کرکے اس کی تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ اِس کے بجائے محکم آیات اور ثابت شدہ سنتِ رسول پر اپنے دین کی بنیاد رکھو- لوگ اپنے طورپر مختلف قسم کی مذہبی موشگافیاں ایجاد کرتے ہیں اور اس کو دین کا قائم مقام بنا لیتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ اُس صاف اور سیدھے دین کو اختیار کرو جو خدا اور رسول نے بتایا ہے اور جو اصحابِ رسول کے ذریعے ہم کو پہنچا ہے-
جو شخص اِس قسم کا دین بگڑے ہوئے زمانے میں لے کر اٹھے، وہ لوگوں کی نظر میں کافر اور مشرک سے بھی زیادہ مبغوض ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ اُن کی دینی حیثیت کو بے بنیاد ثابت کرتاہے- اِس سے ان کو اپنی قیادت پر ضرب پڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے- اِس سے ان کے معاشی مفادات درہم برہم ہوتے ہیں- اِس سے ان کی گدّیاں چھنتی ہوئی نظر آتی ہیں- اُس کوماننا اپنے آپ کو جمے ہوئے مفادات سے محروم کرنے کے ہم معنی بن جاتاہے- ایسا شخص ایک طرف عوام کی عافیت کوش زندگی کے لیے تازیانہ بن جاتاہے اور دوسری طرف، خواص کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اُن کے ’’شہ سوارِ اسلام‘‘ ہونے کو مشتبہ بنا رہا ہے- یہ چیزیں اُس شخص کو اتنی بے شمارقسم کی مخالفتوں اور مشکلات میں مبتلا کردیتی ہیں کہ اُس کے مقابلے میں ایک دن میدانِ جنگ میں لڑ کر مرجانا کوئی حقیقت نہیں رکھتا-
اِن مخالفتوں میں سب سے زیادہ شدید مخالفت اُن قائدین کی طرف سے سامنے آتی ہے جو دین کے نام پر دنیوی فائدے حاصل کیے ہوئے ہوتے ہیں- اُن کی قیادت کا راز صحیح دین کا علَم بردار بننا نہیں ہوتا- وہ یہ کرتے ہیں کہ بگاڑ کے زمانے میں پائی جانے والی دینی شکلوں میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں- کوئی کسی ادارے کی گدی پر بیٹھ جاتا ہے، کوئی دینی جشنوں اور تقریبوں میں خطابت کا جوہر دکھاکر مرجعِ خلائق بن جاتا ہے- کوئی دین کو رائج الوقت پیمانوں میں ڈھال کر لوگوں کے درمیان مقبولیت حاصل کرلیتاہے- کوئی گزری ہوئی مقدس شخصیتوں کا سہارا لے کر اُن کے نام پر اپنا کاروبار چلا رہا ہوتا ہے- کوئی دین کے ایسے سستے نسخوں کی کامیاب تجارت کررہا ہوتاہے جس میں لوگوں کو اپنی زندگی کا ڈھانچہ بدلے بغیر جنت کی بشارتیں مل رہی ہوں— صحیح دینی دعوت کا اٹھنا اِس قسم کے تمام لوگوں کے لیے چیلنج بن جاتاہے- اُس کے فروغ میں ان کو اپنا عزت واقتدار مٹتا ہوا نظر آتا ہے- مزیدیہ کہ ایک عرصہ تک عزت واستقبال کے جلو میں رہنے کے نتیجے میں ان کے اندرایک قسم کا دینی کبر پیدا ہوجاتاہے- وہ اپنی ذات کو اور دین کو ہم معنی سمجھ لیتے ہیں- فطری طورپر وہ ایک ایسے شخص کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو اُن کی امتیازی حیثیت کو بے اعتبار ثابت کرے-
اعاظم واکابر کی یہ مخالفت سچے دین کے علم بردار کے لیے انتہائی شدید مسائل پیدا کردیتی ہے-وقت کے دینی حلقوں کی طرف سے اس کا بائکاٹ کیا جاتا ہے- اس کی بے دینی کے فتوے دئے جاتے ہیں- اس کی معاشیات کو برباد کیا جاتا ہے- اس کو ماحول میں بے جگہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے- اس کے خلاف ہر قسم کی معاندانہ کارروائی کو جائزسمجھ لیا جاتاہے- اکابرِ قوم کی مخالفت سے اصاغرِ قوم کو مزید جرأت ہوتی ہے، بالآخر یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ اپنی قوم کے اندر رہنا اس کے لیے انگاروں کے درمیان رہنے کے ہم معنٰی بن جاتاہے-اِن حالات میں ’’فسادِ امت‘‘ کے وقت ’’سنتِ رسول‘‘ کو زندہ کرنے کے لیے اٹھنا اتنی بے پناہ مشکلات کا سبب بن جاتا ہے جو سوبار قتل ہونے کے برابر ہے- اِسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے شخص کے لیے اللہ کے یہاں سو شہیدوں کا اجر ہے-
جس طرح خدا کی کوئی حد نہیں، اسی طرح خدا کے دین کی راہ میں آگے بڑھنے کی بھی کوئی حد نہیں- خدا کا دین گویا دنیا میں رزقِ الہی کا ایک عظیم دسترخوان ہے- اِس رزق کا سب سے بڑا حصہ اُسی کو ملتا ہے جو اِس راہ میں اپنے آپ کو مٹانے کے لیے تیار ہو- یہ عزت وشہرت کا اسٹیج نہیں، یہ بربادی کےمقامات ہیں- اِن مقامات کو طے کرنا بلا شبہہ سولی پر چڑھنے سے زیادہ سخت ہے- مگر اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آدمی دین کو اُس کی اعلی سطح پر اُس وقت تک پانہیں سکتا جب تک وہ قربانیوں کی قیمت پر دین کو حاصل کرنے کے لیے تیار نہ ہو-(35: 41)
واپس اوپر جائیں

بھولا ہوا سبق

اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک (وفات: 717 ء) کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ خلیفہ بنائے جانے سے پہلے اپنا زیادہ وقت دمشق کی مسجد میں گزارتا تھا اور قرآن پڑھتا رہتاتھا۔ چناں چہ اس کو فاختۂ مسجد(حمامۃ المسجد) کہاجاتا تھا۔ جس دن اس کے پیش رو خلیفہ کی وفات ہوئی، اُس دن بھی وہ حسب معمول مسجد میں تھا اور وہاں قرآن پڑھ رہا تھا۔ اُس وقت سلطنت کا ایک ذمہ دار آدمی مسجد میں سلیمان بن عبد الملک کے پاس آیا اور اس کو یہ خبر دی کہ آج سے آپ خلیفہ ہیں۔ اس کے بعد فوراً سلیمان بن عبد الملک اٹھا اور قرآن کو مسجد کے طاق پر رکھا اور کہا: ہذا فراق بینی وبینک (آج سے میرے اور تمھارے درمیان جدائی ہے)۔
عجیب بات ہے کہ یہ انفرادی واقعہ بعد کو پوری امتِ مسلمہ کے لیے ایک عمومی واقعہ بن گیا۔ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں اہلِ ایمان کا سب سے بڑا مشن دعوت الی اللہ تھا۔
بعد کو جب مسلمانوں کی سلطنت قائم ہوگئی اور ان کا ایمپائر بن گیا تو تقریباً پوری امت نے دعوت الی اللہ کو خیر باد کہہ دیا اور سیاسی اقتدار کو انھوںنے اپنی زندگی کا واحد کنسرن (supreme concern) بنا لیا۔
تقریباً ہزار سال بعد اٹھارھویں صدی کے آخر میں، مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر عملاً ختم ہوگیا، مگر دوبارہ وہی حال ہوا کہ مسلمان دعوت الی اللہ کو اپنا مشن نہ بنا سکے۔ اب اُن کا واحد کنسرن یہ بن گیا کہ مفروضہ دشمنوں یا مفروضہ غاصبوں سے لڑ کر دوبارہ وہ اپنے سیاسی عہد کو واپس لائیں۔
یہ مسلم تاریخ کا خلاصہ ہے۔ مسلم تاریخ اب اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی ہے، لیکن اب بھی یہی حال ہے کہ دعوت الی اللہ مسلمانوں یا مسلم رہنماؤں کا مشن نہیں۔ یہی بلاشبہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اُن کو دوبارہ دعوت الی اللہ کو اپنا مشن بنانا ہوگا۔ اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو اُن کے لیے دنیا کی کامیابی بھی مشتبہ ہے اور آخرت کی کامیابی بھی مشتبہ۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا راز

7 مئی 2012 کا واقعہ ہے- میں ایک بیرونی سفر سے واپس آیا- دہلی ائرپورٹ پر ایک نوجوان نے مجھ کو وھیل چیر پر بٹھا کر باہر پہنچایا- جب ہم لوگ ائرپورٹ کے باہر گیٹ پر پہنچے تو میرے ایک ساتھی نے اپنی جیب سے ایک نوٹ نکالا اور اُس نوجوان کو دینے لگے- نوجوان نے نوٹ لینے سے انکار کیا- اس نے کہا کہ مجھ کو تو آپ کا آشیرواد چاہئے- میرا امتحان (exam) ہونے والا ہے، میں اس میں پاس ہوجاؤں- میں نے اُس کے سرپر ہاتھ رکھا اوراس کے لئے دعا کی- وہ خوش ہو کر واپس چلا گیا-
اِس چھوٹے سے واقعے میں بہت بڑا سبق ہے- حقیقت یہ ہے کہ کسی دوسرےکا دیا ہوا مال، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، کسی کو کامیاب نہیں بناتا- کامیابی کا راز خود اپنی محنت ہے- یہی بات ایک حدیث رسول میں اِن الفاظ میں آئی ہے: ما أکل أحدطعاماً قطُّ خیراً مِن أن یأکل من عمل یدہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:1941) یعنی کسی آدمی نے کبھی اِس سے اچھا کھانا نہیں کھایا کہ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھائے-
عطیہ کے طورپر ملا ہوا مال آدمی کی ایک ضرورت کو پورا کرسکتا ہے، لیکن اِس طرح کا مال آدمی کی شخصیت کے ارتقا کا ذریعہ نہیں بن سکتا- ایسامال آدمی کے لیے ایزی منی (easy money) کی حیثیت رکھتا ہے، اور ایزی منی کبھی کسی کے لیے ترقی کا ذریعہ نہیں بنی-
اپنی محنت سے کمایا ہوا مال آدمی کے اندر اعلی اخلاقی صفات پیدا کرتا ہے- مثلاً خود اعتمادی، عملی تجربہ، ذہنی ارتقا، ہارڈ ورک (hardwork)اور سنجیدگی، وغیرہ- مزید یہ کہ آدمی جب اپنی محنت سے کھاتا ہے تو وہ مال کی اہمیت کو سمجھتا ہے- اس کی وجہ سے اس کے اندر سادگی کا مزاج پیدا ہوتا ہے- وہ اسراف سے بچ جاتا ہے- اس کے اندر یہ ذہن بنتا ہے کہ جس مال کو میں نے محنت کرکے کمایا ہے، اُس مال کو مجھے صرف مفید کام میں خرچ کرنا چاہیے- اِسی طرح وہ اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر دوسروںکے دکھ درد کو زیادہ بہتر طورپر سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے، وغیرہ-
واپس اوپر جائیں

سُستی کی شکایت

ایک صاحب نے کہا کہ میرے اندر سستی (laziness) بہت زیادہ ہے۔ جب میں کتاب کا مطالعہ کرتاہوں تو جلد ہی اکتاہٹ (boredom) پیدا ہوجاتی ہے اور میں کتاب کو بند کرکے رکھ دیتا ہوں۔ میں نے کہا کہ جب آپ اپنے بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو کیا اُس وقت بھی آپ کے اندر یہی سستی پیدا ہوتی ہے۔انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ پھر اصل مسئلہ سستی کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ انٹرسٹ (interest) کا ہے۔ آپ کو سنجیدہ مطالعہ یا سنجیدہ غور وفکر سے دلچسپی نہیں۔ آپ تفریح کو پسند کرتے ہیں، اِسی لیے آپ کو سنجیدہ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے سستی آجاتی ہے، لیکن جب آپ اپنے بچوں یا اپنے دوستوں میں ہوتے ہیںتو اُس وقت آپ کو سستی نہیںآتی۔
میں نے کہا کہ یہ کسی فطری کمزوری کی بات نہیں۔ یہ آپ کے طرزِ فکر کا معاملہ ہے۔ آپ اپنے طرز فکر کو بدلئے۔ اہم اور غیر اہم کے معاملے میں آپ اپنی سوچ پر نظر ثانی کیجئے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ آپ اپنے ذہن کی ری انجینئرنگ (re-engineering of mind) کیجئے۔
میں نے کہا کہ آپ سب سے پہلے یہ جانیے کہ وقت کے استعمال کا معیار کیا ہے۔ وہ کون سا پیمانہ ہے جس سے ناپ کر ہم یہ سمجھیں کہ ہم نے اپنے وقت کا صحیح استعمال کیا یا غلط استعمال کیا۔ وہ پیمانہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے آپ کے علم (learning) میں اضافہ ہو، آپ کوئی حکمت (wisdom) کی بات دریافت کرسکیں۔ اِس لحاظ سے اگر آپ جانچیں تو آپ پائیں گے کہ ایک گھنٹہ اگر آپ نے کسی سنجیدہ کتاب کے مطالعے میں صرف کیا تو اُس سے آپ کو کوئی نہ کوئی حکمت کی بات ملے گی۔ اس کے برعکس، اگر آپ سطحی تفریحات میں ایک گھنٹہ گزاریں تو اس کے ذریعے آپ کوئی حکمت کی بات جاننے میں ناکام رہیں گے۔ میںنے کہا کہ آپ اِس اصول کو لے کر اپنے اوقات کی تنظیم کیجئے۔ وقت کے اُسی استعمال کو درست سمجھئے جس کے ذریعے آپ کو اپنے ذہنی ارتقا میں مدد ملی ہو۔ یہی محاسبہ ہے اور اسی کے ذریعے آپ اپنے کو وقت اور توانائی کے ضیاع سے بچا سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت پسندی

ایک عرب شاعر ابو الطیب المتنبّی(وفات: 965 ء) کا شعر ہے — آدمی جو کچھ چاہتا ہے، وہ سب اس کو ملتانہیں۔ ہوائیں اُس رخ پر چلتی ہیں جس کو کشتیاں نہ چاہتی ہوں:
ما کلُّ ما یتمنّی المرءُ یدرکہ تجری الریاحُ بما لا تشتہی السُّفُنُ
اِس شعر میں زندگی کی ایک حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ انسان کے باہر جو دنیا ہے، وہ انسان کی خواہشوں کے تابع نہیں۔ دنیا کا نظام فطرت کے قوانین (laws of nature)کے تحت چل رہاہے، نہ کہ انسان کی خواہشات (desires)کے تحت۔ انسان کو اختیار ہے کہ وہ جس چیز کی چاہے، خواہش کرے، لیکن انسان کو یہ اختیار نہیں کہ وہ دنیا میں قائم شدہ نظامِ فطرت کو خود اپنی خواہش کے تابع کرلے۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی انسان کے لیے کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے، وہ یہ کہ وہ اپنی زندگی کا منصوبہ صرف اپنی خواہش کی بنیاد پر نہ بنائے، وہ قوانینِ فطرت کو دریافت کرے اور فطرت کے قانون سے موافقت کرتے ہوئے وہ اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔
اِس سے معلوم ہوا کہ جب بھی کسی شخص یا گروہ کا منصوبہ ناکام ہوجائے تو اس کو پیشگی طورپر یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی ناکامی کا سبب کسی غیر کی سازش (conspiracy) نہیں، بلکہ اس کی ناکامی کا سبب خود اپنی غلط منصوبہ بندی ہے۔
ناکامی کی صورت میں دوسروں کی شکایت کرنا صرف اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی کا ذمے دار خود اپنے آپ کو سمجھے، نہ کہ کسی دوسرے فرد یا گروہ کو۔ وہ اپنی ناکامی کا سبب اپنی غلط منصوبہ بندی میں تلاش کرے، نہ کہ دوسروں کی سازش میں۔کامیابی کا یہی اصول فرد کے لیے بھی ہے، اور یہی وہ اصول ہے جس پر چل کر اِس دنیا میں کوئی گروہ کامیاب ہوسکتا ہے— اِس دنیا میں کامیابی کا راز فطرت سے موافقت میں ہے، نہ کہ فطرت سے عدم موافقت میں۔
واپس اوپر جائیں

سوال

الرسالہ مارچ 2011 کے مضمون ’’اللہ سے محبت‘‘ میں درج کردہ حدیث: ’’خلق اللہ آدم على صورتہ‘‘ قرآن کی آیت ’’لیس کمثلہ شیئ‘‘ (11: 42) کے خلاف معلوم ہوتی ہے- براہِ کرم، اس کی وضاحت فرمائیں- (ڈاکٹر محمد افضل منہاس، پاکستان)
جواب
’’خلق اللہ آدم على صورتہ‘‘ کی حدیث صحیح البخاری (رقم الحدیث: 6227) میں آئی ہے- اس کی صحت میں کوئی شک نہیں- اصل یہ ہے کہ اِس حدیث میں ’صورة‘ کا لفظ ظاہری صورت (form) کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ صفت (quality) کے معنی میں ہے- خود قرآن میں اللہ کے لیے اِس قسم کے الفاظ آئے ہیں- مثلاً ’وجہ‘ (55: 27) ، اور ’ید‘ (48:10) ، وغیرہ- یہاں بھی یہ الفاظ ظاہری صورت کے معنی میں نہیں ہیں، بلکہ وہ صفت کے معنی میں ہیں-
قرآن اور حدیث دونوں میں جو بات کہی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو خصوصی صلاحیتیں دی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں دیں- یہ وہ صلاحیتیں ہیں جو اللہ کے اندر اپنی کامل صورت میں موجود ہیں- مزید یہ کہ یہ اعلی صلاحیتیں اللہ کے اندر اس کی ذاتی صفت کے طور پر ہیں، جب کہ انسان کو جو محدود صلاحیتیں دی گئی ہیں، وہ صرف عطیہ کی حیثیت رکھتی ہیں-
جہاں تک قرآن کی آیت: لیس کمثلہ شیئ (11: 42) کا تعلق ہے، اُس کا صحیح مطلب وہ ہے جو ابو محمد الواسطی (وفات: 1341ء)کے حوالے سے اِن الفاظ میں نقل کیاگیا ہے: لیس کذاتہ ذات، ولا کاسمہ اسم، ولا کفعلہ فعل، ولا کصفتہ صفة، إلا من جہة موافقة اللفظ (القرطبی، 9/16) یعنی اللہ کی ذات جیسی کوئی ذات نہیں، نہ اس کے اسم جیساکوئی اسم ہے، نہ اس کے فعل جیساکسی کا فعل ہے، نہ اس کی صفت جیسی کسی کی صفت ہے، سوا لفظی موافقت کے اعتبارسے-
مثلاً انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو قدرت حاصل ہے، مگر اللہ کی قدرت اور انسان کی قدرت کے درمیان صرف لفظی مشابہت ہے، نہ کہ حقیقی مشابہت-
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز 218—

1- اندراگاندھی نیشنل اوپن یونی ورسٹی (نئی دہلی) میں 3 جون 2012 کو ڈپلوما اردو ٹیچر ٹریننگ (DUTT) کا امتحان ہوا- اِس میں ’تاریخ اور اردو کا ارتقا‘ (History and Evolution of Urdu) کے پیپر میں ایک سوال یہ کیاگیا تھا: ’’کسی ایسے اردو رسالے کا ذکر کریں جس نے اردو پڑھنے والے لوگوں کا مزاج حقیقت پسندی کا بنایا ہو‘‘- طلبا نے اس کے جوا ب میں ماہ نامہ الرسالہ (نئی دہلی) کا نام لکھا- اِس جواب پر طلبا کو پورا نمبر دیاگیا- — اس سے اندازہ ہوتاہے کہ الرسالہ اب وقت کی آواز بن چکا ہے-
-2 مظفر نگر (سہارن پور) کے نمائش گراؤنڈ میں 4-20 جون 2012 کے درمیان ایک سالانہ نمائش لگائی گئی-اِس موقع پر الرسالہ کے مقامی ساتھیوں مسٹر محمد انس اور مولانا عاصم قاسمی نے یہاں ایک دعوتی بک اسٹال لگایا- یہاں سے بڑی تعداد میں غیر مسلم حضرات نے قرآن کے تراجم اور دعوتی لٹریچر حاصل کیا اور اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا- ایک صاحب نے کہا کہ: ’’میں نے اپنے جاننے والے کئی مسلمانوں سے قرآن مانگا، مگر انھوں نے مجھ کو قرآن نہیں دیا- آج یہاں سے قرآن کا ترجمہ حاصل کرکے میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھ رہا ہوں‘‘-
-3 دہرا دون (یوپی) میں 27 جون 2012 کو تعلیم کے موضوع پر ایک آل انڈیا کانفرنس ہوئی- اِس میں ملک کے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی- اِس موقع پر کانفرنس میں، اور دہرادون کے مختلف اجتماعی مقامات (شاپنگ سنٹر، وغیرہ) میں، حلقہ الرسالہ (سہارن پور) کے ساتھیوں نے لوگوں کو قرآن کے انگریزی تراجم پیش کیے-
-4 ادارہ المورد (لاہور، پاکستان) نے حال میں اپنا ایک ویب ٹی وی (www.al-mawrid.org) لانچ کیا ہے- المورد نے اپنے ویب ٹی وی پر سی پی ایس (نئی دہلی) کی اجازت سے صدر اسلامی مرکز کے لکچرز بھی شامل کیے ہیں-
-5 یونائٹیڈ نیوز آف انڈیا (نئی دہلی) کی ٹی وی ٹیم نے 29 جون 2012 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا- اس کے انٹرویور مسٹر عالم تھے- انٹرویو کا موضوع ’’اسلام کی تعلیمات‘‘ تھا-
-6 بھارتیہ ودّیا بھون (نئی دہلی) میں 5جولائی 2012 کو ایک سمپوزیم ہوا- اس کا موضوع یہ تھا:
A Symposium on Health & Happiness
یہ سمپوزیم ڈاکٹر کرن سنگھ کی صدارت میں ہوا- اِس میں 9 مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی اور اپنے مذہب کے مطابق، صحت کے اصول بتائے- اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس پروگرام میں شرکت اور انگریزی میں اصولِ صحت کے موضوع پر ایک تقریر کی- حاضرین کو سی پی ایس (نئی دہلی) کی طرف سے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا-
-7 سہارن پور کے حلقہ الرسالہ کی طرف سے وہاں کے ’’پیس ہال‘‘ میں 29 جولائی 2012 (9رمضان 1433ہجری) کو روزہ افطار کے موقع پر ایک بڑا پروگرام کیاگیا- اِس میں بڑی تعداد میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مختلف اداروں اور تحریکات کے لوگوں نے شرکت کی- اِس موقع پر حاضرین کو تذکیر القرآن (اردو) اور دیگر دعوتی لٹریچر دیاگیا- لوگوں نے اس کو شوق سے لیا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا- شہر قاضی جناب ندیم اختر نے اپنے خطاب میں کہا کہ سی پی ایس اور الرسالہ کے تحت جو دعوتی اور تربیتی کام ہورہا ہے، وہ بہت قابلِ قدر ہے-
-8 ٹائمس آف انڈیا (جون 8 ، 2012 ) میں اسپیکنگ ٹری کے تحت شائع شدہ ایک مضمون (Meaning of Love of God) پر قارئین کے چند تاثرات یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
— •I learnt that love is that which develops on realizing what someone (in this case God) has done for me: God has given us this infrastructure life support system for the upkeep of all bodies. As you rightly said, this universe has been custom made by God for humans, therefore it is essential that we love God. (Narendra Tirumale)
— Great article about love, specially its two dimensions: theoretical and practical. In terms of the theoretical dimension, love means love of God and in terms of the society, love means love of all beings. (Abha Mishra)
-9 قرآن کے انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر کے متعلق قارئین کے چند تاثرات ملاحظہ ہوں:
— I started reading English version of The Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan . I have only finished the introduction part of it. The way you have introduced it is simply owesome. Infact, I don’t have words to express what I want to say on that Introduction part. I got answers to many of my questions in it. Thanks for making it so simple and easy for people like me who actually want to read and understand it but can’t do that out of the mere fear of Arabic language. (Heena, Delhi)
— I am the Chaplain at the Cumberland County Jail in Portland, Maine USA. The complimentary copies of the Quran that we received from your company are almost gone. Many inmates have been most grateful to have received a copy. I am writing in hopes that you will consider another donation of the Quran, for we are in need of more copies. (Reverend Jeffrey McIlwain, Chaplain, Cumberland County Sheriff's Office, Portland, USA)
— 12th Mother Teresa International Award Ceremony was held on 28th April, 2012 at Rabindra Sadan Auditorium, Kolkata. The PSF Kolkata availed the opportunity of Dawah work in the said event among eminent intellectuals and dignitaries. The team distributed the Quran, and other English literatures. Justice Shyamal Sen and Mr. Ashoke Mohan Chakraborty expressed their indepth gratitude after getting the spiritual gift. When the team was distributing the books, it seemed that everyone on the stage was waiting for the Quran. An awardee in saffron clad after thanking the team member, observed that he was so eager to read the Quran for so long, now he has got the opportunity to do so. One of the recipient of the award, Ms Papiya Ghosal who was also given a Quran, later phoned Maulana Mohd Sahfique Qasmi and said, she was going through the book and shall disturb him frequently if there is something which needs interpretation. (Mohd. Abdullah, PSF -Peace and Spirituality Forum- Kolkata)
— This is to inform you that the copies of the Qur'an in English have reached us. We already distributed some to the foreign participants in an academic program here in Sarajevo. I am really glad that we met and that I got the opportunity to listen and talk at least shortly to Maulana in Turkey (May 2012). As for the translation of the Qur'an, yes, our Center can help distribute it in Bosnia and the South Eastern Europe. (Dr. Ahmet Alibasic, The Faculty of Islamic Studies in Sarajevo, Bosnia& Herzegovina)
— •The governor of Tripura Dr. Dnyandeo Yashwantrao Patil travelled with me from Agartala to Kolkata on 25th june 2012 on flight AI 744. I had presented to him Quran and Reality of Life, he appreciated it very much. At 11 'o clock at night, I got a call from the governor himself and he thanked me once again for giving him the literature and said that he liked The Reality of Life very much and the verses of the Quran were very impressive and that he would use them in his speeches. He gave me an open invitation to be a guest at Rajniwas in Tripura and said that he would like to discuss about peace and& spirituality in more detail personally. (Khurram Quraishi, Delhi, Pilot Air India)
— •I would like to share with you the experience of one of our Kolkata Team members, Mr. Aftab Alam. He is a Special Revenue Officer in the Department of Land and land Reforms, Govt. of West Bengal. Recently, during his posting in District Maldah in West Bengal, he availed the opportunity of Dawah Work and gifted the English translation of Quran to Mr. Khagendra Nath Dew, ADM (LR) and other officers there. All accepted the gift with great pleasure and gratitude. When an Assistant Teacher of Bamangola High School was given the gift of the Quran, his pleasure knew no bounds; he warmly shook hands with our friend and expressed his gratitude. (Mohd. Abdullah, PSF, Kolkata Team)
— •I found cps international around a year ago, I have foud my thought pattern is paralell with the Maulanas and irrespect him alot and have humbly been spreading his lectures in my own community. I listen religiulously to the Sunday lecture of Maulanas upto ten times before the next sunday lecture. I have distibuted 51 copies of Tazkir ul Quran and over 20 copies of Islam Ek Ta’rufu. (Dr Alia Faruqui, Pakistan)
— The Prophet of Peace should be made compulsory education for every student in India of course in a condensed form. Nobody had given me this version until now. I have passed it on to Dr. Ananda Thejus who is a doctor in theology and a good friend of mine. (• Mrs. Susan Cherian, Fathima Sarah, Bangalore)
— •I have always been an avid reader and came to Maulana sahab's writings purely by Allah's wish. I researched about Maulana sahab's writings, read his writings in the forms of books/articles, listened to a lot of his audio/video lectures posted on his website. For me all this was like a discovery. I have produced many research papers in my engineering field. After reading Maulana sahab's writings and listening to him, I get the same feeling of joy, discovery and amazement which I get when I find something new for my research work. Though I am thousands of miles away from him, I revere him, love him for the sake of Allah and have very high regard for him in my heart. I listen to his every weekly lecture dutifully, read his weekly articles and daily blogs. All this is like food to me, I can't survive without. I wish to carry forward the mission of Maualan sahab in recent times. (Abul Hasan, University of Calgary, Calgary, AB, Canada)
-10 ایک خط: مولانا محترم، 24جون 2012 کو میں دہلی میں تھا اور میں نے آپ کے لکچر میں شرکت کی جس کا عنوان تھا :پولٹکل ایکٹوزم یا فیوٹائل ایکٹوزم (Political Activism or Futile Activism)- آپ کے لیکچر سے اسلام کے کئی اہم پہلو واضح ہوئے جس کو سن کر میں تھرلنگ کے احساس میں ڈوب گیا- آپ کے لکچر کو سن کر جو باتیں میں نے سمجھی ہیں وہ یہ ہیں— مسلمان دو سوسال سے سیاسی ایمپائر کی بازیابی کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، حالاں کہ اُس سے بھی کئی گنا زیادہ بڑا ایمپائر ہمارے پاس موجود ہےاور وہ ہے دعوہ ایمپائر، اور دعوہ ایمپائر کی موجودگی کے بعد کسی اور ایمپائر کی ضرورت نہیں- کیوں کہ امتِ مسلمہ کی ذمہ داری حاملِ قرآن ہونے کی حیثیت سے دعوت الی اللہ ہے- ایسی حالت میں فیوٹائل ایکٹوزم کی کیا ضرورت، اللہ نے ہمیں دعوہ ایمپائر کے روپ میں گلوبل ایمپائر دے دیاہے- اب سارے دروازے کھلے ہوئے ہیں- اب ہمارے لئے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ ہم گلوبل دعوت کے لیے جدوجہد کریں- دوسری اہم بات یہ تھی کہ قرآن کے مطابق، ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم خود قسط یعنی عدل کو اپنائیں نہ کہ قسط کو نافذ کرنے کے لیے پرتشدد تحریک چلائیں- اب ہمارے لئے ٹکراؤ کا کوئی جواز نہیں- ہمارے لئے اب صحیح طور پر صرف ایک ہی انتخاب ہے، وہ یہ کہ دعوہ ایمپائر اور اظہار رائے کی آزادی جیسے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے ہم خدا کےپیغام کو ساری انسانیت تک پہنچا دیں، مولانا، دعوہ ایمپائر کے اِس تصور نے میرے اندر ایک نئی روح بھر دی ہے- (حافظ ابو الحکم محمد دانیال، بی ایس سی، پٹنہ، بہار)
واپس اوپر جائیں

Saturday, 1 September 2012

Al Risala | September 2012 (الرسالہ,ستمبر)


خصوصی شمارہ ۔ ترکی کا سفر

راقم الحروف کا ایک سفر ترکی کے لیے ہوا۔ یکم مئی 2012 کی صبح کو دہلی سے روانگی ہوئی اور 7مئی 2012 کی صبح کو دہلی واپسی ہوئی۔ یہ نئے تجربات سے بھرا ہوا ایک سفر تھا۔ اِس سفر کی مختصر روداد یہاں درج کی جاتی ہے۔ اِس سفر میں میرے ساتھ حسب ذیل افراد تھے — مسٹر رجت ملہوترا، مولانا محمد ذکوان ند وی، ڈاکٹر فریدہ خانم۔
ترکی میں ایک غیر سیاسی تحریک ہے۔ اس کو سوشیوایجوکیشنل (Socio-educational) تحریک کہا جاسکتا ہے۔ یہ تحریک دنیا کے تقریباً 90 ملک میںکام کررہی ہے۔ اِس تحریک کے بانی اور قائد استاد محمد فتح اللہ گولن (M. Fethullah Gülen) ہیں۔ موجودہ سفر اسی تحریک کی دعوت پر ترکی کے سرحدی شہر غازی عین تیپ (Gazentep) میں منعقد ایک انٹرنیشنل کانفرنس کے لیے ہوا۔ کانفرنس کی بنیادی تھیم یہ تھی —— السراج النبویّ ینیر درب البشریة الحائرة:
Solutions for Social Challenges — The Prophet's Way
کانفرنس میں شرکت کے لیے رسمی طور\پر ہم کو جو دعوت نامہ ملا، وہ عربی مجلہ ’حراء‘ کی طرف سے تھا۔ یہ ایک علمی، فکری اور ثقافتی مجلہ ہے۔ وہ ایک دو ماہی (bi-monthly) مجلہ ہے جو استانبول (ترکی) سے نکلتا ہے۔ گولن تحریک کے تحت اِس طرح کے کئی میگزین مختلف عالمی زبانوں میں شائع کئے جاتے ہیں۔
یکم مئی 2012 کو صبح سویرے دہلی سے روانگی ہوئی۔ روانگی سے پہلے دہلی کے ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے جب سنا کہ میں ترکی جارہا ہوں تو انھوں نے کہا کہ —— ترکی میں صرف اپنے لوگ رہتے ہیں یا وہاں غیر قوم کے لوگ بھی ہیں۔یہ ایک غیر سیاسی اور دین دار مسلمان تھے۔ انھوں نے جو بات کہی، اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سوچ کیا ہے۔ وہ دنیا کو دو قسم کے لوگوں میں بانٹے ہوئے ہیں — اپنے لوگ اور غیر لوگ۔ اِس مزاج نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں سے عام انسانوں کے لیے خیر خواہی چھین لی ہے۔ اِسی نفسیات کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر دعوتی ذہن کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اگر کوئی شخص بظاہر دعوت کا نام لیتاہے تو وہ بھی اس کے لیے عام طورپر نام نہاد مسلم ایمپاورمینٹ (Muslim empowerment) کا ایک حصہ ہوتا ہے۔
گھر سے ائرپورٹ تک کا سفر بہت جلد طے ہوگیا۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ ہم لوگ گھر سے صبح کو 3 بجے نکلے تھے۔ اِس بنا پر اُس وقت روڈ پر کہیں بھی ریڈ لائٹ نہیں تھی۔ ہم لوگوں کو دہلی سے اندراگاندھی انٹرنیشنل ائرپورٹ کے ٹرمنل نمبر 3 سے روانہ ہونا تھا۔ اِس ٹرمنل کی تعمیر حال میں ہوئی ہے۔ وہ تقریباً یورپین معیار کا ہے۔ یہ پرائیوٹائزیشن (privatization) کا کرشمہ ہے جس کا آغاز سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ (وفات: 2004 ) کے زمانے میں ہوا۔
نئے ائر پورٹ کی ایک قابلِ ذکر بات یہ ہےکہ یہاں ایک نہایت خوب صورت پریئر روم (Prayer Room) بنایا گیاہے۔ اس کا نام اگرچہ پریئر ر وم ہے، مگر حقیقت میں وہ مسجد ہے۔ اس کے دو الگ الگ حصے ہیں۔ ایک حصہ مردوں کی عبادت کے لیےاور دوسرا حصہ خواتین کی عبادت کے لیے۔ ہمارے ساتھیوں نے وہاں فجر کی نماز ادا کی اور مسجد میں قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹس برائے مطالعہ رکھ دیے۔
ائر پورٹ کے ایک حصے میں ایک بڑے سائز کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اس پر انگریزی میں جلی حرفوں میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے — ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا:
It has never been done before!
بورڈ لگانے والوں نے کسی اورمفہوم میں یہ بورڈ لگایا تھا، مگر یہ بات زیادہ بڑے پیمانے پر جدید دعوتی مواقع پر صادق آتی ہے۔ مثلاً مذہبی آزادی، عالمی اسفار، ماڈرن کمیونکیشن اور ملٹی میڈیا، وغیرہ۔مذہبی مردم شماری کے ایک امریکی ادارہ (US Religion Census) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ — امریکا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے:
The Fastest Growing Religion in America is Islam.
حالیہ برسوں میں اِس قسم کی خبریں بار بار آتی رہیں۔ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ، اِس کا سبب یہی جدید دعوتی مواقع ہیں۔ جدید دعوتی مواقع نے ہمارے لیے اسلام کی پُرامن اشاعت کے نئے مواقع کھول دئے ہیں۔
دہلی ائر پورٹ پر پہنچ کر دومزید ہم سفر مل گئے — مسٹر علی اکیز(Ali Akkiz) ا ور پروفیسر زبیراحمدفاروقی۔ دونوں کی ہم راہی ہمارے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔ پروفیسر زبیر احمد فاروقی اِس کانفرنس میں مندوب (delegate) کی حیثیت سے جارہے تھے، اور مسٹر علی اکیز ترکی ہمارےمعاون کی حیثیت سے۔ مگر مسٹر علی ہمارے لیے معاون پلس ثابت ہوئے۔ ان کی وجہ سے یہ سفر ہم لوگوں کے لیے بہت آسان ہوگیا۔
پروفیسر زبیر احمد فاروقی (67 سال) جون پور (یوپی) کے رہنے والے ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم دار العلوم دیوبند میں ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے عربی تقریر وتحریر میں مہارت حاصل کی۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کے عربی ڈپارٹمنٹ میں ہیڈ رہ چکے ہیں۔ اُن سے میں نے پوچھا کہ عربی زبان میں مہارت کا راز کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنون۔ آدمی جب جنون کی حدتک کسی چیز کا طالب بن جائے تو وہ ضرور اس کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ایک اور سوال میں نے ان سے یہ کیا کہ فیملی لائف کو کامیاب بنانے کا راز کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ایڈجسٹمنٹ (adjustment) ۔
مسٹر علی اکیز (35 سال)کی مادری زبان ترکی ہے۔ اس کے علاوہ وہ انگریزی زبان سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ ہمارے ساتھی مختلف موضوعات پر برابر اُن سے تبادلہ خیال کرتے رہے۔
ہمارے ساتھ سفر میں ذاتی بیگ کے علاوہ، 5 بڑے بڑے کارٹن (carton) تھے۔ اِس میں دعوتی لٹریچرپیک کیا گیا تھا۔ چیک اِن (check-in) کے کاؤنٹر پر ائر پورٹ کے آدمی نے پوچھا کہ اِس کے اندر کیا ہے۔ہمارے ساتھی نے کہا کہ —— اسپریچول بکس (spiritual books)۔ اس نے مزید کوئی سوال نہیں کیا، بلکہ فوراً اوکے (ok) کہہ کر اس کو چیک اِن کردیا۔
اِس واقعے میں ہمارے لیے ایک سبق تھا۔ پچھلے زمانے میں اِس قسم کا معاملہ صرف رائل پیکٹ (royal packet) کے ساتھ کیا جاتاتھا۔ یہ دور جدید کا خاصہ ہےکہ اب وہی معاملہ مزید اضافے کے ساتھ اسپریچول پیکٹ کے ساتھ کیا جاتاہے — ہمارے ساتھیوں نے یہاں ائر پورٹ کے عملہ کو ہندی اور انگریزی میں چھپا ہوا دعوتی پمفلٹ دیا۔ اس کو لوگوں نے ’تھینک یو‘ کہہ کر بخوشی قبول کیا۔
دہلی سے استانبول (Istanbul) کا سفر ٹرکش ائرلائنز (Turkish Airlines) کی فلائٹ نمبر 0717کے ذریعے طے ہوا۔ یہ تقریباً 7 گھنٹے کا سفر تھا۔ دہلی اور استانبول کے درمیان ڈھائی گھنٹے کا فرق ہے، یعنی جب دہلی میں 12 بج رہےہوں گے تو اُس وقت استانبول میں ساڑھے نو بج رہے ہوں گے۔ ٹرکش ائرلائنز کی ہر چیز جدید معیار کے مطابق نظر آئی۔ جہاز جب مجھ کو لے کر فضا میں تیز رفتاری کے ساتھ اڑ رہا تھا، اُس وقت مجھ کو قرآن کی یہ آیت یاد آئی: ولقد کرّمنا بنی آدم، وحملناہم فی البر والبحر(70:17)۔
اِس آیت میں فضائی سفر اپنے آپ میں شامل ہے۔ میں نے سوچا کہ ابتدائی دور ہی میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے گھوڑا پیدا کردیا۔ گھوڑا گویا کہ قدرتی طورپر ایک کسٹم میڈ (custom made) سواری کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے بعد انسانی ذہن سفر کے نئے نئے طریقوں کو دریافت کرتا رہا، یہاں تک کہ ہوائی جہاز کے ذریعہ سفر کا زمانہ آگیا۔ تمام مخلوقات میں یہ صرف انسان ہے جس کے ساتھ اللہ نے اِس خصوصی ’’تکریم‘‘ کا معاملہ کیا ہے۔
راستے میں ٹرکش ائر لائنز کی فلائٹ میگزین (Sky Life) کا شمارہ مئی 2012 مطالعے کے لیے موجود تھا۔ اس کے ایک صفحے پر ترکی اور انگریزی زبان میں یہ اشتہار درج تھا:
Your ideas are important to us... to help us serve you better, please fill in the form at the back of the magazine. Your opinions and suggestions will be given careful consideration.
یہ جدید دور کے تجارتی اخلاق کی ایک مثال ہے۔ اِس کو کسٹمر فرینڈلی کلچر (customer-friendly culture) کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح دعوت الیٰ اللہ کے لیے بھی مدعو فرینڈلی کلچر (Mad‘u-friendly culture) درکار ہے۔ دعوت کا کام صرف اعلان کا کام نہیں ہے، بلکہ وہ خیر خواہانہ اعلان کا کام ہے۔ مدعو کی کامل رعایت کے بغیر دعوت الی اللہ کا کام درست طورپر انجام نہیں پاسکتا۔
راستے میں دورانِ پرواز جب کھانا دیاگیا تو اس سے پہلے خوب صورت چھپا ہوا مینو (Menu) دیا گیا۔ اس پر لکھا ہوا تھا— بادلوں کے اوپر ہمارے رستوراں میں آپ کا سواگت ہے:
Welcome to our restaurant above the clouds!
اِس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ یہ جنتی مہمان نوازی کی ایک جھلک ہے۔ یہ اعلیٰ مہمان نوازی (high hospitality) دنیا میں غیر معیاری صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ آخرت میں وہ اللہ کے منتخب بندوں کو معیاری صورت میں حاصل ہوگی۔
کھانـے میں جو چیزیں دی گئی تھیں، اُن میں سے ایک ترکی میوہ ہیزیل نٹ(Hazelnut) تھا۔ اس کے پیکٹ پر لکھا ہوا تھا : Miracle Nut یعنی معجزاتی میوہ۔ اس کو دیکھ کر ہمارے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے کہا کہ عارف انسان کے لیے اِس دنیا کی ہر چیز معجزہ (miracle) ہے، حتیٰ کہ ایک پارٹکل بھی معجزاتی پارٹکل (miracle particle) ہے۔ یہ شعور اگر آدمی کے اندر بیدار ہو تو ا س کو ہر چیز، خواہ بظاہر وہ چھوٹی ہو یا بڑی، ایک معجزاتی رحمت نظر آئے گی۔
دہلی سے استانبول کا سفر 7 گھنٹے کا نان اسٹاپ سفر تھا۔ عام حالت میں اِس قسم کا طویل سفر بہت اکتادینے والا ہوتا ہے، مگر اللہ کے فضل سے جہاز کے اندر مجھے نیند آگئی اور جب نیند کھلی تو جہاز میںاعلان ہورہا تھا کہ ہم بہت جلد استانبول کے ائر پورٹ پر اترنے والے ہیں۔ نیند کو قرآن میں سُبات (78:9)کہاگیا ہے، یعنی راحت (repose) کا ذریعہ۔ حقیقت یہ ہے کہ نیند انسان کے لیے ایک عجیب نعمت ہے۔ میڈیکل سائنس اب تک یہ دریافت نہ کرسکی کہ نیند کیوں آتی ہے۔
گفتگو کے دوران ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914) نے 120 سال پہلے مئی 1892 میں انڈیا سے ترکی کا سفر کیا تھا۔ وہ بمبئی سے اسٹیم شپ کے ذریعے روانہ ہوئے اور 22 دن سفر کرنے کے بعد استانبول پہنچے۔ اِس کے مقابلے میں ہمارا سفر صرف 7 گھنٹے میں مکمل ہوگیا۔ یہ واقعہ علامتی طور پر بتاتا ہے کہ پچھلے 120 سال کے اندر اللہ تعالی نے ہمارے لیے کتنے بڑے بڑے مواقع کھول دئے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ مواقع اِس لیے کھلے تھے کہ مسلمان اُس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور جدید ذرائع کو استعمال کرتےہوئے دعوت الی اللہ کا کام عالمی سطح پر انجام دیں، مگر عجیب بات ہے کہ مسلمان اکیسویں صدی میں بھی اِس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ وہ نہ حقیقی معنوں میں اللہ کا شکر ادا کرسکے اور نہ انھوں نے جدید ذرائع کو استعمال کرتےہوئے دعوت الی اللہ کا کام انجام دیا۔
ٹرکش ائر لائنز جس سے ہم لوگ سفر کر رہے تھے، اُس کی سروس بالکل یورپی معیار کی تھی۔ پوری پرواز نہایت پرسکون رہی۔ آخر میں لینڈنگ بھی پوری طرح اسموتھ لینڈنگ (smooth landing) تھی۔ راستے میں ہمارے ساتھیوں نے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ جہاز کا پائلٹ اپنی کیبن میں تھا۔ جہاز کے ایک اسٹاف کے ذریعہ اس کو قرآن کا انگریزی ترجمہ بھیجا گیا۔ استانبول کے ائرپورٹ پر پائلٹ نے کیبن سے باہر نکل کر ہمارے ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا۔
استانبول کے انٹرنیشنل ائر پورٹ کا نام اتاترک ائر پورٹ ہے۔ وہ ترکی کے یورپین سائڈ (Thrace) میں واقع ہے۔ ائر پورٹ پر لمبا راستہ طے کرنے کے لیے میں وھیل چیئر استعمال کرتا ہوں۔ ائر پورٹ پر میں نے دیکھا کہ یہاں اس کا ایک پورا ڈپارٹمنٹ قائم ہے۔ صرف ایک مسافر کو جہاز سے اتار کر باہر پہنچانے کے لیے جدید طرز کی مخصوص گاڑیاں ہیں جن کو ہینڈل کرنےکے لیے کئی آدمیوں کا عملہ (staff)ہے۔اِن لوگوں نے جس طرح ہوائی جہاز سے اتار کر مجھ کو ائر پورٹ کے باہر کھڑی ہوئی گاڑی تک پہنچایا، وہ پورا معاملہ ورک کلچر(work culture) کا اعلی نمونہ تھا۔ یہ سب ترکی کے اُس وسٹرنائزیشن(westernization) کا نتیجہ ہے جس کو مذہبی مسلمان عام طورپر مغرب زدگی کا نام دیتے ہیں۔
کانفرنس کے منتظمین نے ہم لوگوں کے لیے ایک مخصوص گاڑی رزرو (reserve) کررکھی تھی۔ یہ گاڑی شروع سے آخر تک ہمارے استعمال میں رہی۔ میں نے دیکھا کہ ہمارا ترکی ڈرائیور عام ہندستانی ڈارئیور سے بالکل مختلف تھا۔ وہ کوئی غیر ضروری بات نہیں کرتا تھا۔ اِس گاڑی کے ذریعے ہم لوگ مسٹر علی کے ہم راہ ائر پورٹ سے ہوٹل کے لیے روانہ ہوئے۔ سڑکیں بہت کشادہ اور ہموار تھیں۔ سڑکوں پر ہندستان جیسا رش (rush)نظر نہیں آیا۔ سڑک کے دونوں طرف جدید طرز کی کثیر منزلہ خوب صورت عمارتیں نظر آئیں۔ جگہ جگہ سرسبز علاقے دکھائی دے رہے تھے۔ سڑک کے دونوں طرف کثرت سے مسجدوں کے بلند مینار دکھائی دے رہے تھے۔
میرا اندازہ ہے کہ ترکی میں جو اعلی انفراسٹرکچر ہے، وہ غالباً دوسرے کسی مسلم ملک میں موجود نہیں۔ ترکی کی شہری پلاننگ بظاہر مغربی طرز کی ہے، لیکن ترکی کے شہروں اور مغربی ملکوں کے شہروں میں ایک نمایاں فرق نظر آتا ہے، وہ یہ کہ مغربی ملک کے ایک شہر میں بلڈنگیں ہوں گی، لیکن مسجد کے مینار وہاں دکھائی نہیں دیںگے ۔ لیکن ترکی میں جدید طرز کی بلڈنگوں کے ساتھ ترکی طرز کے مینار دونوں کے درمیان فرق کو نمایاں کررہے ہیں۔ استانبول کا شہر ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہے، اِس لیے اس کے مختلف حصوں میں بہت زیادہ نشیب وفراز پایا جاتا ہے۔
ترکی، شرقِ اوسط کا ایک ملک ہے۔ وہ جزئی طورپر ایشیا میں واقع ہے اور جزئی طور پر یورپ میں۔ دو براعظم کے درمیان اُس کا واقع ہونا اس کی تاریخ بنانے میں ایک مرکزی عامل ہے، اس کے کلچر میں اور اس کی سیاست میں۔ عام طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ ترکی، مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتاہے:
Turkey is a country of the Middle East lying partly in Asia and partly in Europe. Its location in two continents has been a central factor in its history, culture and politics. Turkey has often been called a bridge between East and West (EB. 18/782)
ترکی کے ایشیائی حصے کو اناطولیہ (Anatolia)اور اس کے یورپی حصے کو تھریس (Thrace) کہاجاتاہے۔اِس طرح ترکی گویا مشرقی تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان ایک سنگم (junction) کا کام کررہا ہے۔ترکی کا یہ مخصوص جغرافیہ علامتی طور پر بتاتا ہے کہ ترکی کا مشن کیا ہے۔ وہ مشن ہے— مشرق سے ملی ہوئی خدائی ہدایت کو اہلِ مغرب تک پہنچانا۔
استانبول کے جس ہوٹل (Sözbir Royal Residency) میں ہمارا قیام تھا، وہ آبنائے باسفورس کے کنارے ہے۔ یہ ہوٹل ایشین سائڈ (Anatolia)میں واقع ہے۔ ہماری گاڑی باسفورس کے اوپر بنے ہوئے اُس جدیدطرز کے پل سے گزری جس کو 1973میں برٹش انجینئروں نے تعمیر کیا تھا۔ یہ ایک لمبا اور کشادہ پل ہے۔باسفورس کا یہ پل ترکی کے یورپی حصے کو ترکی کے ایشین حصے سے جوڑتا ہے۔ ائر پورٹ سے ہوٹل تک کا یہ راستہ 45 منٹ میں طے ہوا۔
ہوٹل میں میں جس کمرہ (suite) میں تھا، اس میں ہر قسم کا آرام وراحت کا سامنا تھا، لیکن مجھے کسی چیز سے کوئی دل چسپی نہیں تھی، حتی کہ میں نے اس کے جدید طرز کے باتھ روم میں کبھی غسل بھی نہیں کیا۔ یہاں میری ساری دل چسپی صرف ایک چیز سے تھی اور وہ تھی کمرے کی پشت پر لگے ہوئے شیشے کے پاس بیٹھ کر باسفورس کا منظر دیکھنا۔
باسفورس (Bosphorus) ایک ابنائے (strait) ہے۔ باسفورس بحرِ اسود(Black Sea) اور بحرِ مرمرا(Sea of Marmara)کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے۔آبنائے باسفورس 1452 عیسوی میں ترکوں کے قبضے میں آیا۔ آبنائے باسفورس میرے لیے فطرت کے حسن کا اتھاہ منظر تھا۔ سمندر کا پانی، اُس میں چلتی ہوئی اسٹیم بوٹ، اس کےاوپر اڑتے ہوئے پرندے، ہواؤں سے ہلتے ہوئے سرسبز درخت، آسمان کا منظر، سورج کی روشنی، یہ تمام چیزیں مل کر ایمان افروز منظر کا نمونہ بنی ہوئی تھیں۔ میں جب بھی کمرے میں ہوتا، اس کو دیکھ کر خالق کو اور اس کی تخلیق کو یاد کرتا رہتا۔
دوپہر کا کھانا ہم لوگوں نے اِسی ہوٹل میں کھایا۔ کھانا سادہ تھا اور مغربی ذوق کے مطابق، مرچ مسالے سے خالی۔یہاں وجیٹیرین فوڈ اور نان ویجٹیرین فوڈ دونوں موجود تھے، مگر میں نے اپنی عادت کے مطابق، صرف ویجیٹیرین فوڈ لیا۔
ترکی میں غالباً سگریٹ اسموکنگ کا کافی رواج ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ وہ لوگ اندر کمرے میں یا لوگوں کے درمیان اسموکنگ(smoking) نہیں کرتے، وہ جاکر کھلے ایریا میں اسموکنگ کرتے ہیں۔یہ طریقہ ترکی میں کئی جگہ نظرآیا۔ ہوٹل میں بھی یہی منظر دکھائی دیا۔ آج کل سگریٹ کے ہر پیکٹ پر یہ قانونی وارننگ (statutory warning) لکھی رہتی ہے کہ— سگریٹ پینا صحت کے لیے مضر ہے:
Cigarette smoking is injurious to health.
اِس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب سگریٹ بنانے والی کمپنیاں جانتی ہیں کہ سگریٹ پینا صحت کے لیے مضر ہے، تو وہ سگریٹ سازی کا کام کیوں کرتی ہیں۔اِس کا سبب موجودہ زمانے میں آزادی کا لامحدود تصور ہے۔ اِس بنا پر حکومت نہ سگریٹ ساز کمپنیوں پر پابندی لگاتی ہے اور نہ سگریٹ نوشوں کو وہ جبراً روک سکتی ہے۔ لامحدود آزادی کے اِس تصور پر ایک امریکی اسکالر نے کہا تھا— ہم آزادی کا تحمل نہیں کرسکتے:
We cannot afford freedom
انڈیا میں میرے جاننے والوں میں ایک صاحب کو تمباکو اور سگریٹ نوشی کی عادت تھی۔ لوگوں کی نصیحت سے وہ سگریٹ چھوڑ نہیں پاتے تھے۔ مجھ کو معلوم ہوا تو میں نے کہا کہ سگریٹ پینا کوئی سادہ بات نہیں۔ سگریٹ پینے والا آدمی فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوجاتا ہے، اور جو شخص فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوجائے، وہ اسپریچول ڈیولپمینٹ سے محروم ہوجائے گا۔ کیا آپ اِس کا تحمل کرسکتے ہیں کہ آپ اسپریچول ڈیولپمینٹ سے محرومی میں جئیں اور اِسی حالت میں مر کر دنیا سے آخرت کی طرف چلے جائیں۔ میری بات کا اُن پر بہت اثر ہوا۔ انھوں نے اُسی دن سے سگریٹ پینا چھوڑ دیا۔
عصر کی نماز کے بعد ہم لوگ مسٹر علی کے ساتھ استانبول کے ایک خاص مقام کو دیکھنے کے لیے گئے۔ اس کا نام یہ ہے — چمل جہ (Camlica)۔ یہ استانبول کی سب سے اونچی پہاڑی ہے۔ وہ سطح سمندرسے 267 میٹر بلندہے۔یہاں سے شہر کا بیش تر حصہ دکھائی دیتاہے۔ یکم مئی 2012 کو لیبر ڈے (Labour Day) تھا، اِس بنا پر یہاں لوگوں کی کافی بھیڑ نظر آئی۔ میں نے مسٹر علی سے پوچھا کہ آپ کا ملک مشرق اور مغرب دونوں حصوں میں واقع ہے۔ آپ اپنے کو مشرقی سمجھتے ہیں یا مغربی۔ انھو ں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ — مائنڈ سے یورپین اور ہارٹ سے ایشین۔
عام طور پر لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ جب وہ کسی سے ملتے ہیں تو ہمیشہ اپنی بات سناتے ہیں، لیکن میرا مزاج اِس سے مختلف ہے۔ میں یہ کرتا ہوں کہ دوسروں سے باربار سوال کرکے ان کی بات سنتا ہوں، یہی میں نے یہاں بھی کیا۔ مسٹر علی سے میں بار بار سوال کرتا رہا اور ان کی باتیں سنتا رہا۔ میں نے پایا کہ مسٹر علی کا حافظہ بہت اچھا ہے۔ اُن کو بہت سے واقعات یاد ہیں۔ تاریخ سے ان کو خصوصی دل چسپی ہے۔ وہ ترکی کے علاوہ، انگریزی اور رشین زبان جانتے ہیں۔ آج کل وہ عربی اور اردو زبان سیکھ رہے ہیں۔
اِس سلسلے میں گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ ترکی میں ایک مقولہ ہے — ایک زبان، ایک انسان۔ دوزبان، دو انسان۔تین زبان تین انسان:
Bir lisan bir insan, iki lisan iki insan, Üç insan üç insan
مابعد اتاترک دور (post-Atatürk period) پر گفتگو کرتے ہوئے مسٹر علی اکیز نے کہا کہ ترکی میں اِس دور میں دو خاص ترک مفکر پیدا ہوئے۔ دونوں کی سوچ غیر سیاسی اور تعمیری سوچ ہے — بدیع الزماں سعید نورسی (وفات: 1960) نے ترکوں کو نئے دور میں زندگی کی تعمیر کے لیے ایک فکر دیا۔ اور استاذ فتح اللہ گولن (پیدایش: 1941 ) نے اِس فکر کو ایک باقاعدہ عمل کی صورت دی۔ میں نے کہا کہ جہاں تک میرا خیال ہے، گولن تحریک کو سوشیو ایجوکیشنل تحریک (socio-educational movement) کہا جاسکتا ہے۔مسٹر علی نے اِس سے اتفاق کیا۔
ترکی میںآج غروب شام کو 8 بجے تھا۔ مغرب کے بعد ہم نے یہاں رات کا کھانا (dinner) کھایا۔ یہاں ایک خوب صورت ریستوراں تھا۔ اِس طرح کے ریستوراں میں اکثر کافی شور رہتا ہے، مگر یہاں ہمیں شور کا تجربہ نہیں ہوا۔
گفتگو کے دوران مسٹر علی سے میں نے کہا کہ نومبر 2008میں میں اپنے بعض ساتھیوں کے ہم راہ قبرص (Cyprus) گیا تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ قبرص کے مشرقی حصے پر، جو کہ قبرص کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہے، اس پر ترکوں کا قبضہ ہے۔ یہ قبضہ 1974 سے قائم ہے۔ اِس کی وجہ سے قبرص کے مسیحی لوگوں میں ترکی کے خلاف منفی جذبات پائے جاتے ہیں۔ میں نے کہا قبرص پر اِس قبضے کو میںترکی کے لیے ایک سیاسی بوجھ (political liability) سمجھتا ہوں، وہ جدید ترکی کے لیے کوئی قیمتی اثاثہ (asset)نہیں۔ترکی کو چاہیے کہ وہ قبرص میں اپنے قبضے کو چھوڑ دے اور اس کے بعد وہاں پُرامن انداز میں دعوہ ورک کرے۔ مسٹر علی نے اِس رائے کی اہمیت کو تسلیم کیا۔
گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ دعوت کو عام طور پر لوگ تبدیلئ مذہب (conversion) کے ہم معنی سمجھتے ہیں، مگر یہ درست نہیں۔ دعوت دراصل نظریے کا ایکسچینج (exchange of thought) ہے۔ ہر ایک کو یہ حق ہے کہ وہ سچائی کے بارے میں اپنی دریافت (discovery)کو پُرامن طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ داعی کو جاننا چاہیے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں دعوت کا کام کررہا ہے جہاں ہر ایک کو خود خدا کی طرف سے مکمل آزادی (total freedom) حاصل ہے۔ کوئی داعی ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ مدعو کی آزادی کو اُس سے چھین لے۔ ایسی حالت میں دعوہ ورک ففٹی ففٹی کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی پچاس فی صد داعی کی طرف سے دعوت اور پچاس فی صد مدعو کی طرف سے قبولیت (acceptance)۔ میں نے مزید کہا کہ پوری تاریخ عملی طورپر ناکامی کی تاریخ نظر آتی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ لوگوں نے قابلِ حصول اور ناقابلِ حصول کے درمیان فرق نہیں کیا۔ انھوں نے ناقابلِ حصول کو اپنا نشانہ بنا لیا، حالاں کہ انھیں صرف قابلِ حصول کو اپنا نشانہ بنانا چاہیے۔ میں نے کہا کہ اِس دنیا میں آئڈیل (ideal) کا حصول ممکن نہیں۔ جو آدمی آئڈیل کا طالب ہو، اس کو چاہیے کہ وہ آخرت کے لیے عمل کرے۔
چمل جہ (Camlica)سے روانہ ہو کر ہم لوگ رات کو 10بجے ہوٹل پہنچے۔ یہاں ایک مجلس میں میں نے اپنے ساتھیوں سے گفتگو کرتےہوئے اپنا ایک تاثر اِس طرح بیان کیا۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں کمائی کے مواقع بہت بڑھ گئے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں ساری دنیا میں ایک ظاہرہ دکھائی دیتاہے، وہ ہے ذہنی ارتقا کا رک جانا۔ موجودہ زمانے میں فکری اعتبار سے، اعلی درجے کے لوگ پیدا نہیں ہورہے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اِس زمانے میں تقریباً ہر آدمی پروفیشنل (professional) بناہوا ہے۔ اِس طرح کے لوگوں کو ایک شخص نے حیوانِ کاسب (earning animal) کا نام دیا تھا۔ اِس کلچر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگوں کا ذہنی ارتقا رک گیا ہے۔ اِس مسئلے کو ایک لفظ میں ذہنی بونا پن (intellectual dwarfism) کہاجاسکتا ہے۔
اگلے دن 2 مئی 2012 کی صبح کو 9 بجے ہوٹل سے گولن تحریک کے تحت قائم اکیڈمی (Akademi) کے لیے روانگی ہوئی۔ ہوٹل سے اکیڈمی بذریعے کار 15 منٹ کے فاصلے پر تھی۔ یہاں صبح کا ناشتہ کیاگیا۔ اِس دوران ہر ایک نے مختصر انداز میں اپنا تعارف پیش کیا۔ میں نے اپنے بارے میں کہا کہ میں ایک صوفی داعی ہوں، یعنی مزاج کے اعتبار سے صوفی اور اپنے مشن کے اعتبار سے داعی۔ یہاں اکیڈمی کے ارکان کے علاوہ، افریقہ کے مختلف ملکوں کے نمائندہ افراد اور الجزائر کے لوگ بھی موجود تھے۔یہ لوگ کانفرنس میں شرکت کے لیے ترکی آئے تھے۔
ناشتے کے بعد یہاں میری ایک تقریر ہوئی۔ اِس کا موضوع تھا —’’اسلام میں حکمت (wisdom) کی اہمیت‘‘ ۔ میں نے انگریزی زبان میں تقریر کی۔ اُس کا عربی ترجمہ اُسی وقت پروفیسر زبیر احمد فاروقی نے کیا۔ پروفیسر زبیراحمد فاروقی عربی سے انگریزی اور انگریزی سے عربی ترجمے کے اکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں۔
اِس تقریر میں میں نے ایک بات یہ کہی کہ قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، عسر کے ساتھ ہمیشہ یسر موجود ہوتا ہے (فإن مع العسر یسراً، إن مع العسر یسراً)۔ اِس لیے تم عسر (problem) کو نظر انداز کرو اور یسر (opportunity)کو دریافت کرکے اس کو استعمال کرو۔ میںنے کہا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان عام طورپر عسر کے اعلان کو سب سے بڑا کام سمجھتے ہیں۔ اِس کی ایک مثال دیتے ہوئے میں نے کہا کہ ایک عرب عالم عبد الرحمن الحبنکہ نے ایک کتاب شائع کی ہے۔ اس کا ٹائٹل یہ ہے: الأفاعی الثلاثة (تین بڑے سانپ)۔
میں نے تقابلی طورپر کہا کہ حضرت موسی کو جادوگروں کے سانپ کو دیکھ کر خوف لاحق ہوا۔ اُس وقت اللہ تعالی نے کہا کہ تم اپنا عصا ڈال دو، وہ اس سانپ کونگل جائے گا(7:117)۔ میں کہا کہ خاتم النبیین کی امت کے پاس بھی ایک عصا ہے اور وہ قرآن ہے۔ قرآن ہر زمانے کے ’’افاعی‘‘ کو نگل جانے کے لیے کافی ہے، مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان اِس حقیقت سے بے خبر ہیں۔
یہ 45 منٹ کی تقریر تھی۔ مجلہ حراء کے مدیر مسٹر نوزادصواش اِس پروگرام کو کوآرڈی نیٹ کررہے تھے۔ انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: نقتبس الحکمة من داعیة الحکمة۔
تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام آدھ گھنٹے تک جای رہا۔ لوگوں نے مختلف سوالات کئے۔ڈاکٹر محمد موسی باباعمی (جنرل ڈائریکٹر معہد المناہج، الجزائر) نے ایک سوال کیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے اپنی تقریر میں قرآن کو ’کتاب الثورة‘ کہا ہے۔ اِس کا کیا مطلب ہے۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ قرآن بلاشبہہ ایک انقلابی کتاب ہے، لیکن وہ فکری معنوں میں انقلابی کتاب ہے، نہ کہ سیاسی معنوں میں۔ قرآن آدمی کو ایک آئڈیالوجی دیتا ہے اور یہ آئڈیالوجی مبنی بر فطرت ہونے کی وجہ سے انسان کے مائنڈ کو ایڈریس کرتی ہے۔ اِس طرح قرآن، آدمی کے اندر ایک فکری بھونچال پیدا کرکے اس کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔
اِس پروگرام کے بعد اکیڈمی کے اوپری منزل کے ایک غُرفہ (upper chamber) میں ایک مخصوص نشست ہوئی۔ یہ ایک کانفرنس روم تھا۔ اس کی دیوار میں چاروں طرف بڑے بڑے شیشے لگے ہوئے تھے جہاں سے استانبول شہر کا خوب صورت منظر دکھائی دے رہا تھا۔ اِس پروگرام میں مجلہ ’’حراء‘‘ کے ایڈیٹر مسٹر نوزاد صواش نے عربی زبان میں گولن تحریک کا مختصر تعارف پیش کیا، اور تحریک کی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا۔انھوں نے کہا کہ گولن تحریک کا مقصد ہے— غیر سیاسی دائرے میں رہتے ہوئے سماجی خدمت اور تعلیم کا فروغ۔
مسٹر نوزاد صواش استاد محمد فتح اللہ گولن کے براہِ راست شاگردوں میں سے ہیں۔ انھوں نے استاد فتح اللہ گولن کے بارے میں کئی باتیں بتائیں۔ مثلاً انھوں نے کہا کہ استاذ کا حافظہ بہت اچھا ہے۔ ان کے اندر فوٹو گریفک میموری (photographic memory) پائی جاتی ہے۔ اِسی طرح وہ ایک اعتدال پسند آدمی ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ استاذ فتح اللہ ایک حوصلہ مند (ambitious) طبیعت کے آدمی ہیں۔ کسی ایک حد پر رکنے کے بجا ئے ہمیشہ ان کی نگاہ آگے کی طرف رہتی ہے۔ مثلاً انھوں نے بتایا کہ ہم لوگوں نے مختلف زبانوں میں کئی ٹی وی چینل شروع کیے۔ ہم نے استاذ فتح اللہ گولن کو جب اِس کی خبر دی تو انھوں نے کہا کہ ابھی ہم میڈیا کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ ہم کو اسی پر اکتفا نہیں کرنا ہے، بلکہ ہم کو ابھی اِس میدان میں بہت آگے بڑھنا ہے۔ اِس سلسلے میں مسٹر نوزادصواش نے کہا کہ: لا یفرح الأستاذ من الإنجاز، بل یتطلع دائما إلى الإنجازات۔ اِس میٹنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کانفرنس کا پروگرام کیاہوگا۔
یہاں کئی عرب فضلا سے ملاقات ہوئی۔ مثلاً کویت کے عربی مجلہ : الوعی الإسلامی (1965) کے مدیر فیصل یوسف احمد العلی، اور دکتور محمد وائل الحنبلی الدمشقی۔ ملاقات کے دوران فیصل یوسف العلی نے بتایا کہ وہ میری کتاب الاسلام یتحدی پڑھ چکے ہیں۔الحنبلی اِس وقت ترکی کے جامعہ سلجوق میں حدیث کے موضوع پر توسیعی لیکچر دے رہے ہیں۔
اِس موقع پر میں نے آدھ گھنٹے کی ایک تقریر کی۔ میری تقریر انگریزی زبان میں تھی۔ پروفیسر زبیر احمد فاروقی نے میری تقریر کا ترجمہ عربی زبان میں کیا۔ میں نے اپنی تقریر میں جو باتیں کہیں، اُن میں سے دو باتیں یہ تھیں— ایک یہ کہ اسلام کے مقابلے میں عصری تحدیات میرا اصل موضوع ہے۔ میری کتابیں زیادہ تر اِسی موضوع پر ہیں، براہِ راست یا بالواسطہ۔ دوسری بات میں نے ایک حدیثِ رسول کو لے کر کہی جو کہ اِن الفاظ میںآئی ہے: إن اللہ یرفع بہذا القرآن أقواماً ویضع بہ آخرین (سنن الدارمی، رقم الحدیث: 3365 )
میں نے کہا کہ اِس حدیث میں ’’رفع‘‘ سے مراد سیاسی رفع نہیں ہے، بلکہ نظریاتی رفع ہے۔ قرآن کی یہ اہمیت موجودہ سائنسی زمانے میں اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر قسم کی ترقیات کے باوجود شعوری یا غیر شعوری طور پر آج کا انسان حقیقت کی تلاش میں ہے۔ قرآن واحد کتاب ہے جس کا موضوع یہی ہے کہ انسان کو زندگی کی حقیقت بتائی جائےاور اس کو خدا کے تخلیقی پلان سے آگاہ کیا جائے۔ موجودہ زمانے میں اسلامی مشن کا سب سے بڑا آئٹم یہی ہے کہ قرآن کو لوگوں کی قابلِ فہم زبان میں اُن تک پہنچایا جائے۔
یہ اکیڈمی جدید طرزِ تعمیر کے مطابق بنائی گئی ہے۔ یہاں ایک مسجد، کانفرنس ہال، لائبریری اور مختلف آفس اور رہائشی کمرے بنے ہوئے ہیں۔ عربی مجلّہ ’’حراء‘‘ اور ترکی مجلہ ’’ینی امید‘‘ (امید ِ نو) کا دفتر بھی اِسی اکیڈمی میں ہے۔ یہاں کام کرنے والے افراد زیادہ تر ترک ہیں۔ یہ لوگ ترکی کے علاوہ، عربی زبان بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہاں کے متعدد اراکین جامع ازہر (قاہرہ) کے تعلیم یافتہ ہیں۔
اکیڈمی کی لائبریری میں میری کتاب الاسلام یتحدی کا ترکی ایڈیشن موجود تھا۔ عربی سے ترکی زبان میں اس کا ترجمہ مسٹر عاکف نوری نے کیا ہے، جو استانبول سے پہلی بار 1977میں شائع ہوا۔اِس کے بعد سے اب تک الاسلام یتحدى کے کئی ترکی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
اکیڈمی میں ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم لوگ سما ہاسپٹل (Sema Hospital) کے لیے روانہ ہوئے۔ منتظمین نے سماہاسپٹل کے معائنے کا یہ پروگرام صرف ہم لوگوں کے لیے بنایا تھا۔ یہ ہاسپٹل گولن گروپ کے تحت چلائے جانے والے اسپتالوں میں سے ایک ہے۔اکیڈمی سے ہاسپٹل تک بذریعہ کار آدھ گھنٹے کا راستہ تھا۔ یہ ہاسپٹل بحرِ مرمرا (Sea of Marmara) کے ساحل پر واقع ہے۔ وہ جدید طرز تعمیر کے مطابق بنایا گیا ہے۔ اس میں تمام میڈیکل شعبے موجود ہیں۔ اُس کا عملہ (staff) سب کا سب ترک ماہرین پر مشتمل ہے۔ پورا ہاسپٹل نہایت صاف اور نہایت منظم دکھائی دیا۔ اِس ہاسپٹل کا جائے وقوع فطرت کے ماحول میں ہے۔ اس کے ایک طرف بحرِ مرمرا ہے اور دوسری طرف خوب صورت گارڈن۔ وہ ہاسپٹل سے زیادہ ایک صحت گاہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کو دیکھ کر میں نے کہا کہ:
It is more than a hospital.
یہاں ہم لوگوں کو دوپہر کا کھانا (lunch) کھانا تھا۔سامنے واقع ایک ڈائننگ ہال میں ہم لوگوں نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد ہاسپٹل کے چیئر مین مسٹر مصطفی Mustafa Özcan)) نے گولن تحریک کے بارے میں مختصر طورپر بتایا۔ انھوں نے کہا کہ گولن تحریک کا ماٹو تین چیزیں ہیں : اللہ کا خوف، اللہ کی عظمت، اللہ کی محبت(مخافة اللہ،  مہابة اللہ، محبة اللہ)۔
مسٹر مصطفی ترکی زبان میں بول رہے تھے۔ اس کا انگریزی ترجمہ اُن کے سکریٹری مسٹریوجل دُراک (Yugel Durak) نے کیا۔ اِس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے میرے ایک ساتھی نے کہا کہ اگریہ سوچا جائے کہ اِس قسم کاترجمہ انسان کے سواکوئی دوسری مخلوق نہیں کرسکتی تو یہ واقعہ بلاشبہہ خدا کی عظمت اور خدا کے شکر کا ایک پُراہتزاز تجربہ (thrilling experience) بن جائے گا۔
پروگرام کے آخر میں ہاسپٹل کے چیئرمین مسٹر مصطفی نے خود اپنے ہاتھ سے ہماری ٹیم کے ہر فرد کو گفٹ آئٹم دئے۔ اِس میں استاذ محمد فتح اللہ گولن کی عربی اورانگریزی کتابوں کا ایک سیٹ اور رسٹ واچ (wrist watch) شامل تھی۔ اِس موقع پر انھوں نے بڑے سائز کا ایک میمنٹو (memento) پیش کیا۔ اِس میں سِلور حروف (silver letters) میں آیت الکرسی اور قرآن کی کچھ آیتیں لکھی ہوئی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ اِس میمنٹوکو ہم خود اپنے ساتھی مسٹر علی اکیز کے ذریعے آپ کے آفس میں پہنچوادیں گے، آپ کو خود اُس کو یہاں سے دہلی لے جانا نہیں پڑے گا۔
سما ہاسپٹل سے روانہ ہو کر ہم لوگ شام کوہوٹل واپس آگئے۔ یہاں کچھ دیر قیام کرنے کے بعد دوبارہ شام کو 8 بجے ایک پروگرام کے لیے ہوٹل سے روانہ ہوئے۔ استانبول میں گولن تحریک کے تحت مؤسسة الفرات التربویة التعلیمیة (Firat Education Centre) کے نام سے ایک بڑا تعلیمی سنٹر قائم ہے۔ یہ جدید طرز کی ایک کئی منزلہ عمارت ہے۔ اِس عمارت کی پانچویں منزل پر کانفرنس میں شریک ہونے والے مختلف ملکوں کے نمائندہ افراد کی ملاقات کا ایک پروگرام تھا۔ استانبول میں استاذ محمد فتح اللہ گولن کا قیام اِسی منزل پر ہوتا ہے۔
یہاں پہنچ کر ہم لوگوں نے مغرب کی نماز ادا کی۔ مغرب کی نماز ہمارے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے پڑھائی۔ نماز کے بعد یہاں کئی لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ مثلاً شیخ ابراہیم صالح الحسین (نائجیریا، افریقہ)، شیخ عبد الناصر ابو الفیصل (رئیس الجامعة، جامعة العلوم الاسلامیہ العالمیة، اردن) سب لوگوں نے کہا کہ ہم نے آپ کی کتاب الاسلام یتحدی پڑھی ہے۔
نماز کے بعد اِسی تعلیمی سنٹر میں ترکی کے ایک ٹی وی چینل (Samanyolu TV) نے میرا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا جو ترکی میں نشر کیاگیا۔ انھوں نے خاص طورپر تین چیزوں کے بارے میں پوچھا— استاذ فتح اللہ گولن، ترکی اور دعوت الی اللہ۔ استاذفتح اللہ کے بارے میں میں نے کہا کہ میرے مطالعے کے مطابق،استاذ گولن بلا شبہہ ایک تخلیقی مفکر ہیں۔ اِسی طرح میں نے بتایا کہ ترکی مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ترکی کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ مشرق کے ربانی وزڈم کو مغرب کے لوگوں تک پہنچائے۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔ ہمارے ساتھیوں نے چینل کے لوگوں کو ہمارے یہاں کا چھپا ہوا دعوتی لٹریچر دیا۔
انٹرویو کے بعد اِسی مرکز میں شام کے کھانے (dinner) کا انتظام تھا۔ کھانے سے فراغت کے بعد ہم لوگوں کو ایک ہال میں لے جایاگیا۔ یہاںدیوار پرلگے ہوئے ایک بڑے اسکرین پر استاذ فتح اللہ گولن کا ایک ویڈیو دکھایا گیا۔ یہ ان کی ایک پرانی تقریر کا ویڈیو تھا۔یہ تقریر ترکی زبان میں تھی، جس کا عربی ترجمہ اسکرین پر ساتھ ساتھ آرہا تھا۔
یہ تقریر قرآن کے موضوع پر تھی۔ تقریر کا اسلوب واعظانہ تھا، مگر وہ مسحور کن تھا۔ اس میں باڈی لینگویج (body language) کا بہت زیادہ استعمال پایا جاتا تھا۔ تقریر کے دوران مقرر خود بھی رورہے تھے اور حاضرین کی طرف سے بھی بلند آ واز سے رونے کی آواز آرہی تھی۔ تقریر کے دوران انھوں نے قرآن کا ایک نسخہ اپنے ہاتھ میں اٹھایا اور اُس کودکھاتے ہوئے حاضرین سے کہا کہ تم نے خدا کی کتاب کو یتیم بنا دیا۔ تقریر کے دوران انھوں نے ایک حدیثِ رسول سنائی جس کے الفاظ یہ تھے: یأتی على الناس زمان، القرآن فی وادٍ، وہم فی وادٍ غیرہ (کنز العمال، رقم الحدیث: 29118) یعنی لوگوں کے اوپر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ قرآن کسی اور وادی میں ہوگا اور لوگ قرآن کے سوا کسی اور وادی میں ہوں گے۔
پروگرام کے خاتمے پر ہم لوگوں کو وہ کمرہ دکھایا گیا جس میں استاذ فتح اللہ گولن قیام کرتے ہیں، جب کہ وہ استانبول آتے ہیں۔ آج کل وہ امریکا میں مقیم ہیں۔ یہ کمرہ بالکل سادہ تھا۔ وہاں کی نمایاں چیز صرف کتابیں تھیں جو ترتیب کے ساتھ دیوار کی الماری میں رکھی ہوئی تھیں۔ یہ کتابیں عربی اور ترکی زبان میں تھیں۔یہاں ہال کےاندر دیوار پر ایک خوب صورت طغری لگا ہوا تھا۔ اِس میں ایک لمبی روایت خطِ ثلث میں جلی قلم سے لکھی ہوئی تھی۔اِس روایت کا ایک حصہ یہ تھا: لا تشغلوا أنفسکم بالدعاء على الملوک (مجمع الزوائد 5/242) یعنی تم حکمرانوں کے خلاف بد دعا کا طریقہ اختیار نہ کرو۔
عشا کی نماز کے بعد ہم لوگ اِس تعلیمی سنٹر سے روانہ ہو کر ہوٹل آگئے۔ اِس وقت یہاں سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ ٹمپریچر گھٹ کر 12 ڈگری ہوگیا تھا، جب کہ آج دوپہر میں یہاں کا ٹمپریچر 20 ڈگری تھا۔
3 مئی 2012 کی صبح کو ہوٹل پر ناشتہ کیا گیا۔اِس کے بعد ساڑھے نو بجے ہم لوگ استانبول کے اُس مقام کو دیکھنے کے لئے روانہ ہوگئے جہاں جامع ایوب ہے۔ یہاں ایک بڑا کامپلکس تعمیر کیاگیا ہے۔ اِس کے اندر حضرت ابو ایوب انصاری کا مقبرہ ہے۔ یہ مقام ترکی کے مغربی حصہ(Thrace) میں واقع ہے۔ کامپلکس کے باہر ایک وسیع احاطہ ہے جس کا فرش سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے۔ اِس کے باہر مارکیٹ اور کئی اوپن رستوراںکھلے ہوئے ہیں۔
یہ کامپلکس تین چیزوں پر مشتمل ہے— جامع ایوب، مزارِ ایوب، قبرستانِ ایوب۔ کامپلکس کے اندر ایک بڑے کمرے میں حضرت ایوب کی قبر ہے۔ یہاں اُس وقت کچھ تعمیری کام ہورہا تھا، اِس لیے باہر لگی ہوئی ایک جالی سے ہم لوگوں نے قبر کو دیکھا۔ یہ ایک اونچی قبر تھی جو ہرے رنگ کے کپڑے سے ڈھکی ہوئی تھی۔ جالی کے ایک طرف ترکی زبان میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے: Duâ Kapisi ۔ ہمارے ساتھی مسٹر علی نے بتایا کہ اِس کا مطلب ہے: دعا کا در وازہ۔ میں نے دیکھا کہ ترکی لوگ اور دوسرے زائرین یہاں آتے تھے اور خاموشی سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرکے چلے جاتے تھے۔
مقبرے کے سامنے ایک چھوٹا سا احاطہ ہے۔ اس میں ایک قدیم درخت لگا ہوا ہے۔ یہ درخت 5 سوسال پرانا ہے۔ اس کو سلطان محمد فاتح نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا۔ اِس احاطے کے سامنے قدیم طرز کی ایک بڑی مسجد ہے۔ اِس کو سلطان محمد فاتح نے 1458عیسوی میں بنوایا تھا۔ میں نے اور میرے ساتھیوں نے اِس مسجد میں دورکعت نماز اداکی۔ میں نے نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ اُس وقت خیال آیا کہ اب سے 14 سوسال پہلے عرب کی ایک جماعت کس طرح یہاں آئی اور کس طرح انھوں نے یہاں دین ِ اسلام کی اشاعت کی۔ یہ سوچتے ہوئے میرا دل بھر آیا۔ اُس وقت آنسوؤں کے ساتھ میری زبان سے یہ دعا نکلی— خدایا، تو مجھ کو اور میرے مشن میں ساتھ دینے والے تمام مردوں اور عورتوں کو صحابہ کے اُس دعوتی قافلے میں شامل فرما۔ وما ذلک على اللہ بعزیز۔
مسجد کے اندر کچھ عورتیں اور مرد بھی ذکر ودعا میں مشغول نظر آئے۔ مسجد کے عقبی حصے میں ایک قبرستان ہے۔ یہاں بہت سے ترک علما اور کچھ مشہور عثمانی خاندان کے حکمرانوں کی قبریں ہیں۔
ترکی میں عثمانی خلافت (Ottoman Empire) 1299 ء میں قائم ہوئی، اور 1924 ء میں عملاً وہ ختم ہوگئی۔ ترکی میں سلطان محمد فاتح (وفات: 1481 (کے وقت سے یہ طریقہ رائج تھا کہ جب کوئی سلطان تخت نشیں ہوتا تو اُس وقت جامع ایوب (مقبرہ حضرت ایوب انصاری) پر اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کی جاتی۔ یہاں شیخ الاسلام (مفتیٔ اعظم قسطنطنیہ) خاندانِ عثمانی کے بانی سلطان عثمان خان (وفات: 1326 ) کی تاریخی تلوار اس کی کمر میں حمائل کرتے۔ یہ شاہی رسم سلطان کی تاج پوشی کا لازمی حصہ تھی۔
حضرت ابو ایوب کا پورا نام خالد بن کلیب بن ثعلبہ ہے۔ ان کا تعلق مدینہ کے بنی نجار قبیلے سے تھا۔ وہ مدینہ میں رہتے تھے۔ انھوں نے بدر و احد اور خندق اور دوسرے تمام غزوات میں شرکت کی۔ وہ ایک بہادر انسان تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 622 میں جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو ابتداء ً آپ نے ابوایوب انصاری کے گھر میں قیام کیا۔ حضرت معاویہ کے زمانے میں حضرت ابو ایوب انصاری یزید بن معاویہ کے ساتھ صحابہ کے ایک قافلے میں قسطنطنیہ کے لیے دعوتی مہم پر روانہ ہوئے۔ اُس وقت اُن کی عمر تقریباً 80 سال تھی۔ صحابہ کے اِس قافلے میں دوسرے صحابہ کے علاوہ، حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت حسن اور حسین بھی شامل تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاری راستے میں بیمار ہوگئے۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کو وصیت کی کہ اگر راستے میں میری موت آجائے تب بھی مجھ کو اپنے ساتھ منزل (ارضِ روم، قسطنطنیہ) لے جانا اور وہیں مجھ کو دفن کرنا۔ چناں چہ انتقال کے بعد ان کی تدفین قسطنطنیہ (استانبول) میں کی گئی۔ یہ 52 ہجری (672 عیسوی) کا واقعہ ہے۔
جامع ایوب کو دیکھنے کے بعد ہم لوگ استانبول کی ایک تاریخی مسجد کو دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔ اس کا نام رستم پاشا (Rustem Pasha Mosque) ہے۔
The Rüstem Pasha Mosque is an Ottoman mosque located in Strawmat Weavers Market in the Tahtakale neighborhood, of the Eminönü district of Istanbul, Turkey. The Rüstem Pasha Mosque was designed by Ottoman imperial architect Mimar Sinan . Rüstem Pasha died in July 1561 and the mosque was built after his death from around 1561 until 1563.
یہاں مسجد کے امام صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ یہاں کے دیگر ائمہ مساجد کی طرح کوٹ پتلون پہنے ہوئے تھے۔ تاہم مزاج کے اعتبار سے وہ نہایت سادہ تھے۔ ہم لوگوں کی تواضع کے لیے انھوں نے چائے کے ساتھ بھنی ہوئی مونگ پھلی پیش کی۔مجھے ان کی یہ سادہ تواضع بہت پسند آئی۔ سادہ تواضع ہی اسلام کی اسپرٹ کے مطابق ہے، مگر موجودہ زمانے میں سادہ تواضع کا طریقہ مسلمانوں میں تقریباً معدوم ہوچکا ہے۔
سی پی ایس کے ایک ممبر ڈاکٹر ثانی اثنین خاں اِس سے پہلے استانبول آئے تھے۔ انھوں نے امام صاحب کو ہمارے یہاں سے چھپے ہوئے انگریزی ترجمۂ قرآن کی کاپیاں دی تھیں۔ ہم وہاں پہنچے تو یہ ترجمۂ قرآن وہاں مسجد کے گیٹ پر ایک اونچی جگہ پر رکھا ہوا نظر آیا۔ اِس مسجد میں سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ یہ سیاح بھیڑ لگا کر قرآن کاانگریزی ترجمہ یہاں سے لے رہے تھے۔ استانبول کے ایک بڑے پریس (Imak Offset)نے یہ پیش کش کی ہے کہ ڈسٹری بیوشن کے لیے جتنے بھی انگریزی ترجمۂ قرآن کی ضرورت ہوگی، وہ اُس کو نو پرافٹ، نولاس (no profit, no loss) کی بنیاد پر چھاپ کر دیں گے۔
مسجد کے امام اسماعیل(Ismail Karakelle) ترجمہ قرآن کو پھیلانے کا کام نہایت ذوق وشوق سے کررہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے وہ سیاحوں کو قرآن اپنے ہاتھ سے دیتے تھے تو سیاح کم دلچسپی لیتے تھے، پھر انھوں نے یہ کیا کہ قرآن کے سائز کا ایک خوب صورت بیگ بنایا او ر اس میں قرآن کا نسخہ رکھ دیا۔ یہ بیگ سیاحوں کے ذوق کا ہے، اِس لئے وہ اس کو بخوشی لے لیتے ہیں۔ جس مقام پر قرآن کے نسخے رکھے گئے ہیں، وہاں پر بڑے حروف میں یہ الفاظ لکھ دئے گئے ہیں:
Free Spiritual Gift
امام صاحب نے کہا کہ ہم اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ حکومتی سطح پر ایک وقف بنادیا جائے، تاکہ اس کے تحت ترکی کے ہر تاریخی مقام پر سیاحوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا جاسکے۔ رستم پاشا مسجد میں جب میں آیا تو میں نے دیکھا کہ یہاں مختلف ملکوں کے سیاح بڑی تعداد میں آرہے ہیںاور جب وہ مسجد کو دیکھ کر واپس ہوتے ہیں تو ہر ایک کے ہاتھ میں قرآن کا ایک نسخہ ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر میں نے کہا کہ یہ مسجد پہلے صرف ایک عبادت خانہ تھی، مگر اب وہ ’مسجد پلس‘ ہوگئی ہے۔ وہ مسجد کے ساتھ قرآن ڈسٹری بیوشن کا ایک عالمی سنٹر بن گئی ہے۔ امام صاحب نے بتایا کہ مسجد کے علاوہ بھی وہ یہاں قرآن کا ترجمہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً حال میں استانبول کے ایک مقام پر سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں غیر ملکی لوگ بھی شامل تھے۔ اِس موقع پر انھوں نے ایک ہزار لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیا۔
امام صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے ایک بات یہ کہی کہ ایک رپورٹ کے مطابق، 2011 میں 31 ملین سے زیادہ غیر ملکی سیاح ترکی میں آئے۔ یہ لوگ معروف معنوں میں صرف سیاح نہیں، بلکہ وہ ہمارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ملک سے نکل کر یہاں آتے ہیں اور ہمارے دروازےپر آکر دستک دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے حاملینِ قرآن، ہم یہاں ہیں، لاؤ تم ہم کو خدا کا وہ کلام دو جو تم کو پیغمبر اسلام کے ذریعے ملا ہے۔ امام صاحب نے میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ آنے والے سیاح نہ صرف یہ کہ ہمارے ملک میں آکر ہم کو دستک دے رہے ہیں،بلکہ وہ ہماری مسجدوں میں داخل ہو کر ہم سے پوچھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے اور قرآن کیا ہے۔
میں نے کہا کہ اِس طرح کا دعوتی ماحول ہر مسلم ملک میں موجود ہے، مگر مذہب کے نام پر ہونے والی باہمی لڑائیوں نے وہاں کے مسلمانوں کو دعوتی مزاج سے محروم کر رکھا ہے، جب کہ ترکی میں کمال آپریشن کے بعد آنے والے کھلے پن (openness) کی وجہ سے یہاں دعوت کے موافق ماحول موجود ہے۔
ترکی میں کثرت سے لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔چناں چہ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ:
’’ترکی میں سیاحت یا ملازمت کی غرض سے آنے والے غیر مسلم ہر دن اپنے اطراف میں آباد مساجد سے پانچ دفعہ اذان کی آواز سن کر اس سے متاثر ہوتے ہیں اور دینِ اسلام کے بارے میں مزید معلومات کے حصول کی جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔ چناں چہ اب صورتِ حال یہ ہے کہ غیر ملکی افراد کی قابلِ ذکر تعداد مقامی دار الافتا کے دفتر میں اسلام قبول کرنے کا اعلان کرنے کی غرض سے آنے لگی ہے، جن میں اکثریت خواتین پر مشتمل ہے۔ چناں چہ ترکی حکومت کے شعبہ برائے اسلامی امور کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق، پچھلے ایک سال میں 634 غیر ملکی افراد اسلام قبول کرچکے ہیں، جن میں 467 خواتین ہیں۔ اِن افراد کی عمر 30 تا 35 سال بتائی گئی ہے۔ ان کا تعلق جرمنی، ہالینڈ، فرانس، چین، برازیل، امریکا، رومانیہ اور اسٹونیا سے بتایا جاتا ہے۔یہاں کے مفتی علی مراشلیگل نے بتایا کہ اسلام کی جانب ان کے رجحان کا آغاز عموماً اذان کی آواز کا سننا ہوتا ہے، دوسرے مرحلے میں مسجد کے امام سے رابطہ، قرآن مجید کا مطالعہ اور پھر اسلام کے قبول کرنے کا اعلان ہوتا ہے‘‘۔ (پندرہ روزہ تعمیر حیات، لکھنؤ، 25مئی 2012، صفحہ 19)
یہ واقعہ فطرت کی اہمیت کو بتاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر فطری طورپر یہ جذبہ شامل ہے کہ وہ سچائی کی تلاش کرے۔ یہ فطری طلب گویا پیشگی طورپر ہر انسان کے لیے سچائی کو اس کا مطلوب بنائے ہوئے ہے۔ جیسے ہی کسی انسان کو سچائی اپنی بے آمیز صورت میں ملتی ہے، وہ اس کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر فوراً قبول کرلیتاہے — اسلام دینِ فطرت ہے اور بلاشبہہ یہی اسلام کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
رستم پاشا مسجد سےنکل کر ہم لوگ استانبول کے مشہور سائنسی میوزیم کو دیکھنے کے لئے گئے۔ اس میوزیم کا نام یہ ہے:
The Istanbul Museum of the History of Science and Technology in Islam.
یہ میوزیم ایک بڑے رقبے میں واقعہ ہے۔ اِس کا نام گل خانہ پارک (Rose Garden) ہے۔ یہ ایک وسیع اور پر فضا مقام ہے۔ یہاں پارک میں چنار کے درخت کثرت سے موجود ہیں۔ یہ میوزیم ایک ترکی سلطان کے قدیم محل میں بنایا گیا ہے۔ اِس کے اندر مسلمانوں کی سائنٹفک اور ٹکنکل ترقی کے نمونے موجود ہیں، جوکہ ساتویں صدی عیسوی سے لے کر سترھویں صدی عیسوی کے دور تک محیط ہیں۔
اِس میوزیم کو مشہور ترکی اسکالرڈاکٹر فواد سیزگین (Fuat Sezgin) نے 2008 میں قائم کیا ہے۔ ڈاکٹر فواد سیزگین 1924 میں پیدا ہوئے۔ 1961 میں وہ استانبول سے جرمنی منتقل ہوگئے۔ اُس وقت سے اب تک وہ فرینکفرٹ یونی ورسٹی (Johann Wolfgang Goethe University) میں ہسٹری آف نیچرل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے ترکی کے علاوہ، جرمنی میں ہسٹری آف عرب اسلامک سائنس کے موضوع پر 1982میں ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کیا ہے۔ ڈاکٹر فواد سیزگین کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی مشہور کتاب ’’تاریخ التراث العربی‘‘ ہے۔
اِس تاریخی میوزیم کے تعارفی پملفٹ کے آخر میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
Thanks to this Museum, Istanbul has been enriched by yet another bridge between East and West, one which explores the deep historical relationship of the scientific traditions in eastern and western cultures.
ترکی کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک کلچرل برج (cultural bridge) ہے۔ اِس کے علاوہ، اُس کا زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ وہ مشرق کے وزڈم (wisdom) کو مغرب تک پہنچانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے تحت قائم کردہ القرآن مشن (Al۔Quran Mission) اِسی تعلق کو زندہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
استانبول کے اِس تاریخی میوزیم کو دیکھ کر میں نے کہا کہ ڈاکٹر فواد سیزگین اور ان کے ساتھیو ںنے بلا شبہہ ایک بہت بڑا کام انجام دیا ہے۔ انھوں نے علم کے معاملے میں مسلمانوں کے تاریخی کنٹری بیوشن کو بتایا ہے۔ یہ میوزیم عملی طورپر بتاتا ہے کہ مسلمانوں نے قدیم اورجدید سائنس کے درمیان کس طرح پُل کا کام انجام دیا۔
سائنس میوزیم دیکھنے کے بعد ہم لوگ ایک ریستوراں (Can Kurtaran) کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ نئے انداز کا ایک اوپن ریستوراں ہے جو بحرِ مرمرا کے کنارے واقع ہے۔ اِسی ریستوراں کے قریب وہ تاریخی مسجد واقع ہے جس کو آیا صوفیہ اور مسجد سلطان احمد کہاجاتاہے۔ اِس ریستوراں میں ہم لوگوں نے دوپہر کا کھانا کھایا۔
کھانے سے پہلے اپنے میزبان (مسٹر علی اکیز) کے سامنے میں نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم لوگ اِس وقت 6 آدمی ہیں۔ آپ صرف 4 کھانا منگوائیے۔ وہ ہم سب کے لیے کافی ہوجائےگا۔ حدیث میں آیا ہے: طعام الواحد یکفی الاثنین (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2059) مگر یہ بات عام رواج کے خلاف تھی، اِس لیے میری تجویز کے خلاف زیادہ کھانا آگیا۔
اِس معاملے میں ایک طریقہ یہ ہے کہ کھانا بقدر ضرورت منگایا جائے، تاکہ وہ ضائع نہ ہو۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جو امریکا میں رائج ہے۔ وہاں لوگ بچے ہوئے کھانے کو رکھ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اگلے وقت ا س کو استعمال کرتے ہیں، اس کے لیے میزبان اور ہوٹل دونوں نہایت خوشی سے ایک خوب صورت بیگ مہیا کردیتے ہیں۔
یہاں ترکی کے ایک پبلشر اور مصنف مسٹر محمد امین اپنے والد کے ساتھ مجھ سے ملنے کے لیے آگئے تھے۔ وہ کھانے میں شریک رہے اور آخر میں کھانے کا بل بھی انھوں نے ادا کیا۔ بعد کو انھوں نے مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو استانبول میں واقع اپنے گھر پر آنے کی دعوت دی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ میری ایک کتاب کا ترجمہ انھوں نے ترکی زبان میں چھاپا ہے۔ انھوں نے کتاب کا مضمون بتایا، لیکن کتاب کا نام ان کو یاد نہیں تھا۔ اُس وقت کھانے کی میز پر بیٹھے بیٹھے میرے ایک ساتھی مسٹر رجت ملہوترانے ڈاکٹر ثانی اثنین خاں کو دہلی ٹیلی فون کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اِس کتاب کا اصل نام ’نحو البعث الإسلامی‘ ہے۔
اِس تجربے کے بعد میں نے کہا کہ استانبول اور دہلی کے درمیان تقریباً 5 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ یہ جدید ٹکنالوجی کا کرشمہ ہے کہ اتنی دوری کے باوجود ایک لمحے میں دونوں کے درمیان گفتگو ہوگئی۔ میں نے کہا کہ اِس طرح کی بے شمار نعمتیں ہیں جو اللہ تعالی نے اِس دور میں ظاہر کی ہیں۔ مگر اِن نعمتوں پر خدا کا شکر کرنے والا کوئی انسان دکھائی نہیں دیتا، نہ مسلمانوں میں اور نہ دوسرے لوگوں میں۔ مسلمان اپنے قومی ذہن کی بنا پر حقیقی شکر سے محروم ہیں اور دوسرے لوگ اپنے تفریحی ذہن کی بناپر۔میں نے کہا اللہ کے عطیات پر آدمی اگر شکر کا رسپانس نہ دے سکے، تو وہ اِس آیت کا مصداق بن کر رہ جائے گا: یتمتعون ویأکلون کما تأکل الأنعام (12 :47)
3 مئی 2012 کو استانبول کے دوسرے تاریخی مقامات کو دیکھنے کا پروگرام تھا، مگر بعض وجوہ سے آج اس پروگرام کو ملتوی کردیاگیا۔ چناں چہ ہم لوگ ریستوراں سے روانہ ہو کر 5بجے شام کو ہوٹل آگئے۔راستےمیں گاڑی کے اندر میں نے اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1924 میں جب ترکی میں عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا تو ساری دنیا کے مسلمانوں نے اس کو ’’اسلام دشمنوں کی سازش‘‘ کے معنی میں لیا، حالاں کہ وہ قانونِ فطرت کا ایک معاملہ تھا۔ وہ اِس بات کا اشارہ تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان سیاسی رول کے بجائے دعوتی رول ادا کرنے کی تیاری کریں۔ مگر مسلمان، فطرت کے اِس اشارے کو سمجھ نہ سکے اور سارا وقت شکایت اور احتجاج میںضائع ہوگیا۔ جس طرح سورج کا نکلنا اِس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ لوگ نئے دن میں نیا کام کریں۔ اِسی طرح خلافت کے سیاسی ادارے کا خاتمہ اِس بات کا اشارہ تھا کہ مسلمان نئے مواقع کو سمجھیں اور دورِ جدید میں ان کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کریں۔
ترکی میں ہم لوگوں کے لیے ہر قسم کی سہولتوں کا انتظام تھا، لیکن حقیقی سکون پھر بھی حاصل نہیں تھا۔ اِس پر بات کرتے ہوئے میرے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے کہا کہ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ — انسان غیرِ جنت کا تحمل بھی نہیں کرسکتا، پھر وہ جہنم کا تحمل کیسے کرسکے گا۔ یہ صورتِ حال بلاشبہہ ایک عظیم دعا کے لیے پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) کی حیثیت رکھتی ہے، اور وہ ہے— جنت کی دعا۔ مومن وہ ہے جس کو دنیا کا ہر خوش گوار تجربہ جنت کی یاد دلائے اور ہر ناخوش گوار تجربہ اس کے اندر جہنم سے پناہ مانگنے کا شدید جذبہ پیدا کردے۔
3 مئی 2012کو ہم لوگ واپس ہو کر اپنے ہوٹل پہنچے۔ یہاں ہم نے عصر کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد ہم لوگ اپنے کمرے کے اُس حصے میں بیٹھ گئے جہاں سے باسفورس کا منظر نہایت صاف دکھائی دیتا تھا۔ اُس وقت میں نے گفتگو کے دوران اپنے ساتھیوں سے کچھ باتیں کہیں جس کو انھوں نے اُسی وقت ریکارڈ کرلیا۔ یہ باتیں زیادہ تر تذکیری اور دعوتی نوعیت کی تھیں۔
ایک بات میں نے یہ کہی کہ مجھے آج کی مسلم دنیا میں دو مقامات ایسے دکھائی دے رہے ہیں جہاں سے اسلام کے حق میں دو بڑے واقعات ہونے والے ہیں — ایک، کشمیر اور دوسرا، ترکی۔ کشمیرسے اسلام کے مذہب امن ہونے کا اعلان، اور ترکی سے اسلام کی عالمی اشاعت۔ آج اسلام کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے۔ موجودہ زمانے میں اسلام کی عمومی امیج (image)یہ بن گئی ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔ یہ میڈیا کا پروپیگنڈہ نہیں ہے، بلکہ خود مسلمانوں کی غلط روش کے نتیجے میں ایساہوا ہے۔ انھیں میں سے ایک کشمیر کے مسلمان ہیں۔کشمیر کے مسلمان نادان لیڈروں کے فریب میں آگئے اور انھوں نے اسلام کے نام پر کشمیر میں تشدد کلچر چلادیا۔ اب اگر کشمیر کے مسلمان کھلے طور پر اعلان کردیں کہ ہم کو گمراہ کیا گیا تھا۔ اسلام پورے معنوں میں امن کا مذہب ہے اور ہم نے اپنی سابق روش کو چھوڑ کر پرامن اسلام پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے، تو اُن کا یہ اعلان بلاشبہہ اسلام کی امیج کو درست کردے گااور اس کے بعد کشمیر میں اسلامی دعوت کے نئے راستے کھل جائیں گے۔ اس موضوع پر حال میں میری ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اردو میں اِس کا نام ’’صبحِ کشمیر‘‘ ہے اور انگریزی میں اس کا نام یہ ہے:
Dawn over Kashmir
دوسرا مقام ترکی ہے۔ ترکی میں میرے اندازے کے مطابق، وہ حالات پوری طرح تیار ہیں، جب کہ ترکی اسلامی دعوت کا عالمی مرکز بنے۔ اِس موضوع پر ان شاء اللہ، میری ایک مستقل کتاب چھپنے والی ہے۔ اس کا نام یہ ہوگا: Turkey Rediscovered
جب میں حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر کے سامنے کھڑا تھا، اُس وقت مجھے یہ بتایا گیا کہ ترکی میں اور بھی بہت سے صحابہ کی قبریں ہیں۔ اُس وقت میرے دل کی عجیب کیفیت ہوئی۔ مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آئی: لمثل ہذا، فلیعمل العاملون (61 :37)۔
میں نے کہا کہ خدایا، یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے عمل کے نتیجے میں جنت کا استحقاق حاصل کیا۔ میرے پاس تو کوئی عمل نہیں، پھر میرا کیا انجام ہوگا۔ اُ س وقت مجھے قرآن کی ایک اور آیت یاد آئی۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں: وفی أموالہم حق للسائل والمحروم (19 : 51)۔ میں نے کہا کہ خدایا، تو نے بندوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ حق داروں کے علاوہ، سائل کو بھی اُن کا حصہ دیں۔ تیرا قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں عمل کرنے والے کو بھی ملے اور سائل کو بھی ملے۔ میں تیری رحمت سے امید کرتا ہوں کہ تو میرے ساتھ یہی سلوک کرےگا۔ میں اپنے عمل کی بنیاد پر جس چیز کا مستحق نہیں ہوں، اس کو تو میرے سوال کی بنیاد پر مجھے دے دے گا۔
پھر میں نے کہا کہ قرآن کی مذکورہ آیت (لمثل ہذا، فلیعمل العاملون) میں غالباً یہ بات بھی شامل ہے کہ: لمثل ہذا، فلیسئل السائلون— جنت کا استحقاق صرف دو چیزوں سے ہوتا ہے، حقیقی عمل، یا حقیقی دعا۔ اِس کے سوا کوئی تیسری چیز آدمی کو جنت کا مستحق بنانے والی نہیں۔
میرا تجربہ ہے کہ پوری امت ایک غلطی میں مبتلا ہے۔ اور وہ جنت کا کم تر اندازہ کرنا۔ لوگ ایسی چیزو ں کو جنت کی قیمت سمجھے ہوئے ہیں جن کا جنت کے حصول سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً صلوة التسبیح پڑھنے پر جنت، مسلم گھر میں پیدا ہونے پر جنت، کسی بزرگ کا دامن تھام لینے پر جنت، کسی درگاہ کے ’’دروازۂ جنت‘‘ سے گزر جانے پر جنت، کسی مقدس قبرستان میں دفن ہونے پر جنت۔ کلمہ گوئی پر جنت، مفروضہ دشمن کے خلاف لڑنے پر جنت، مسلمانوں کے قومی کلچر کو اختیار کرلینے پر جنت، وغیرہ۔ اِس ذہن کی ایک علامتی مثال ایک شاعر کا یہ شعر ہے:
نوکِ خامہ سے کھول لیں گے سہیل بابِ فردوس گر کھلا نہ ہوا
یہ محض ایک تخیلاتی شعر ہے، حصولِ جنت کے معاملے سے اِس کا کوئی تعلق نہیں — جنت کا دروازہ کسی انسان کے لیے اس کے ’’نوکِ خامہ‘‘ سے نہیں کھلے گا، بلکہ وہ صرف اللہ کی رحمت سے کھلے گا۔
3مئی 2012کی شام کا کھانا ہم لوگوں نے ہوٹل میں کھایا۔ کھانے کی میز پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ عرب اسپرنگ (Arab Spring) کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔میں نے کہا کہ یہ اصطلاح خود عربوں نے نہیں بنائی ہے، بلکہ امریکیوں نے بنائی ہے۔ عرب لوگ اِس کو ’’نہضة إسلامیة‘‘ کہتے ہیں، یعنی اسلامی بیداری (Islamic resurgence) ۔مگر میں دونوں ہی کو خوش فہمی سمجھتا ہوں۔آج کل جو کچھ عرب ملکوں میں ہورہا ہے، وہ نہ عرب اسپرنگ ہے اورنہ اسلامک رسرجینس۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف رد عمل کی ایک سیاست ہے۔ اور منفی رد عمل سے کبھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔ عرب ملکوں کا موجودہ ہنگامہ صرف ایک اینٹی اسٹیبلشمینٹ (anti-establishment) ہنگامہ ہے، وہ ہر گز کوئی پرواسلام (pro-Islam) تحریک نہیں۔
ایک مجلس میں گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں عرب ملکوں میں اسلام کے نام پر مختلف سرگرمیاں جاری ہیں، اِن سرگرمیوں کو ایک لفظ میں ’صحوة إسلامیة‘ کہا جاتا ہے، یعنی اسلامی بیداری۔ مگر میرے اندازےکے مطابق، یہ صحوة إسلامیة نہیں ہے، بلکہ وہ صحوة قومیة ہے۔ اِن سرگرمیوں کا حقیقی اسلام سے کوئی تعلقنہیں۔
میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں عام طورپر ایسا ہوگیا ہے کہ اسلام اور مسلمان کو ہم معنی الفاظ کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اپنی قومی سرگرمیوں کو صرف قومی نام دیں، وہ ان کو اسلام کا نام نہ دیں۔ قومی سرگرمیوں کو اسلام کا نام دینے سے خدا کا دین بدنام ہوتا ہے اور خدا کے دین کو بدنام کرنا بلا شبہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کا یہ قومی مزاج بہت قدیم زمانے سے چلا آرہاہے۔ حافظ شیرازی چودھویں صدی عیسوی کے ایک ایرانی شاعر تھے۔ یہی شکایت انھوں نے اپنے زمانے کے لوگوں کے بارے میں اِن الفاظ میں کی تھی:
حافظا، مے خور ورندی کن وخوش باش ولے دامِ تزویر مکن چوں دگراں قرآن را
4 مئی 2012 کی صبح کو ہم لوگوں نے ہوٹل میں ناشتہ کیا۔ ناشتے کے بعد ہم لوگ ساڑھے نو بجے فاتح کالج کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ بذریعہ کار 45 منٹ کا راستہ تھا۔
یہ کالج گولن تحریک کے تحت چلایا جارہا ہے۔ یہ کالج استانبول کے ایک کھلے ہوئے ایریا میں واقع ہے۔ اس کا کیمپس کافی بڑا ہے۔ یہ کالج جدید طرز کی 6 منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ کالج کے تعارف نامے میں اس کی بابت یہ الفاظ درج تھے:
Fatih College — our school, which is the new campus of Fatih College, started in the 2010-2011 academic year and it has pre-school, primary school, Anatolian High Schools and Science High Schools within. Our school offers a wide range of educational facilities in areas such as social and sport development to the students in modern conditions with the latest technology.
کالج کی بلڈنگ کی آخری منزل پر ایک وسیع کانفرنس ہال بنایا گیاہے۔ یہاں کالج کی طرف سے ایک پروگرام ہوا۔یہاں کالج کے افراد کے علاوہ، کانفرنس میں آنے والے کچھ شرکا بھی موجود تھے۔ اِس مجلس کے آغاز میں کالج کے ڈائریکٹر مسٹر اوغورتمبول (Ugur Tombul)نے کالج کا مختصر تعارف پیش کیا۔ اِس ذیل میں انھوں نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ یہ کالج آپ کا کالج ہے۔ یہ شہر آپ کا شہر ہے۔ انھوں نے کہا کہ کالج کا مقصد ایسی نسل تیار کرنا ہے جو اسلامی معتقدات پر قائم ہو اور اِسی کے ساتھ وہ انسانیت کی خدمت کرنے والی ہو۔
کالج میں ابتداء ً مہمانوں کی تواضع کے لیے زمزم اور کھجور پیش کی گئی۔ اس کے بعد کچھ تازہ پھل دئے گئے۔ اس کو دیکھ کر ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ عام طور پر لوگوں کا یہ حال ہےکہ وہ آبِ زمزم کا ایک ایک قطرہ پی لیتے ہیں، جب کہ عام پانی کے معاملے میں وہ ایسا نہیں کرتے، حالاں کہ دونوں پانی یکساں طور پر اللہ کی عظیم نعمتیں ہیں۔
استاذ فتح اللہ گولن نے سب سے زیادہ زور تعلیم (education)پر دیا ہے۔ یہ بلاشبہہ صحیح اسٹارٹنگ پوائنٹ (right starting point)ہے۔ اِس کے حوالے سے میں نے ایک مجلس میں کہا کہ یہ بلاشبہہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ استاذ فتح اللہ گولن کے اندر صحیح طرز فکر پایا جاتا ہے۔
یہاں سب سے پہلے مجھ کو بولنے کا موقع ملا۔ میں نے تعلیم کے موضوع پر انگریزی زبان میں 15منٹ کی ایک مختصر تقریر کی۔ اِس کا بر وقت عربی ترجمہ پروفیسر زبیر احمد فاروقی نے کیا۔ اِس کے بعد مجلس کے دوسرے شرکا نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
4 مئی 2012 کو جمعہ کا دن تھا۔ کالج کے پروگرام کے بعد ہم لوگ گولن تحریک کے تحت نکلنے والے اخبار زمن (Zaman) کے آفس میں گئے۔ ا س کا آفس جدید طرز کے ایک بڑے کامپلکس میں واقعہ ہے۔ یہ اخبار ترکی کا مشہور اخبار ہے۔ اس کا سرکولیشن ایک ملین ہے۔ زمن کے دفتر کی کئی منزلہ عمارت کی ایک منزل پر مسجد بنائی گئی ہے۔ یہ جدید طرز کی ایک کشادہ اور خوب صورت مسجد تھی۔ مسجد کے ایک حصے میں عورتوں کے لیے نماز کا انتظام تھا۔ یہاں نمازیوں کی تعداد کافی تھی، پوری مسجد بھری ہوئی تھی۔ یہ سب کے سب لوگ اخبار (زمن) کے اسٹاف کے لوگ تھے۔امام سے لے کر مقتدی تک سب کے سب کوٹ پتلون پہنے ہوئے تھے۔ترکی کے سفر سے پہلے ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ کمال اتاترک نے ترکوں کے لیے ہیٹ (hat) پہننے کو قانونی طورپر لازم قرار دے دیاتھا، مگر ہم کو اپنے سفر میں کوئی ترک ہیٹ پہنے ہوئے نظر نہیں آیا، نہ مسجد کے اندر، نہ مسجد کے باہر۔ ان کے سروں پر نہ ہیٹ ہوتا تھا اور نہ قدیم ترکی ٹوپی۔
اخبار زمن کے اِس کیمپس میں پرنٹنگ پریس بھی موجود ہے۔ یہاں سے اخبار کے علاوہ، استاد فتح اللہ گولن کی کتابیں انتہائی اعلی معیار پر چھپی ہیں۔ اس پبلشر کا نام یہ ہے: دار النیل للنشر۔
جمعہ کی نماز کے بعد زمن اخبار کے وسیع ہال میں دوپہر کا کھانا (lunch) کھایا گیا۔ کھانے کے دوران کانفرنس میں آنے والے مختلف شرکا سے ملاقات ہوئی۔ مثلاً مفتی مصر شیخ علی جمعہ، وغیرہ۔ مولانا محمد ذکوان ندوی نے ان کو میری کتاب ’الإسلام یتحدى‘ اور ’الدعوة إلى اللہ‘ کا ایک نسخہ پیش کیا۔ ’الاسلام یتحدى‘ کو دیکھ کر انھوں نے کہا کہ میں اِس کتاب کو 35سال پہلے پڑھ چکا ہوں۔ واضح ہو کہ ’الاسلام یتحدى‘ کا عربی ایڈیشن پہلی بار 1969 میں @کویت سے چھپا تھا۔ یہاں کئی عرب علما سے ملاقات ہوئی۔ اِن میں سے بعض لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ’الاسلام یتحدى‘ کےبعد میری دوسری کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔ میرے ساتھی نے ان کو بتایا کہ ایسا نہیں ہے۔ ’الاسلام یتحدى‘ کے بعد میری دوسری کئی کتابیں مختلف زبانوں میں چھپ چکی ہیں۔ خاص طور پر میری تفسیر ’تذکیر القرآن‘ کا عربی ایڈیشن 3جلدوں میں مصر کے ادارہ دار الوفا (منصورہ) سے 2008میں چھپ گیا ہے۔
تذکیر القرآن کا یہ عربی ایڈیشن تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ اِس ادارے نے راقم الحروف کی ایک اور کتاب ’’خاتونِ اسلام‘‘ کا عربی ترجمہ (المرأۃ بین شریعۃ الإسلام وحضارۃ الغرب) شائع کیا ہے۔ ادارے کا مکمل پتہ یہ ہے:
دار الوفاء للطباعۃ والنشر والتوزیع، جمہوریۃ مصر العربیۃ، المنصورۃ
ش- الإمام محمد عبدہ المواجہۃ لکلیۃ الآداب، ص ب: 230
Tel: +2050 22 56 230, Fax: +20502260 974
e.mail: darelwafa@hotmail.com
www.darelwafaa.com
دار الوفا (مصر) کا اپنا ویب سائٹ ہے۔ اِس ویب سائٹ پر تذکیر القرآن کے عربی ایڈیشن کا تعارف اِن الفاظ میں دیکھا جاسکتا ہے:
Ÿ إن الغرض الرئیسی من ہذا التفسیر بصفۃ خاصۃ، ہو (التذکیر بالقرآن) ومن حیث أن القرآن نفسہ إنما جاء من أجل تحقیق ہذہ الغایۃ، أی التذکیر و الموعظۃ، فإن الجانب الذی أولاہ المؤلف القسط الاوفر من إتمامہ، فی طرح مضامین ہذا التفسیر ہو أن یجد فی القاری منہلا فیاضا أومرتعا خصبا یضمن لہ اشباع حاجتہ إلی التذکیر والاعتبار والاتعاظ۔
Ÿ وحاول المؤلف اتباع اسلوب الفقرات فی طرح مضامین ہذا التفسیر أی أنہ عمد إلی فقرۃ من فقرات القرآن، ثم تناول ما یندرج تحتہا من فکرۃ أو توجیہ معنوی بالتفسیر والإیضاح کموضوع متسلسل، وذلک حرصا منہ علی ألاتنقطع من القاریٔ سلسلۃ المعانی والمفاہیم المطروحۃ خلال قراء تہ فی فقرۃ تفسیریۃ معینۃ، ولکی یتمکن من التزود المستمر المتواصل (بالغذاء التذکیری) للقرآن الکریم۔
Ÿ ولقد توخی المؤلف الشیخ وحید الدین خان فی إعداد (تذکیر القرآن) من الحکمۃ، ما جعل کل فقرۃ من فقراتہ، مستقلۃ بذاتہا، وذلک لاحتوائہا علی فکرۃ قرآنیۃ واضحۃ محدّدۃ، فسواء قرأ القاری صفحۃ واحدۃ من التفسیر، أم قرأ مجموعۃ کبیرۃ من الصفحات، فإنہ لا یکد ینتہی من قراء تہ إلا ویکون قد ظفر بنصیب من (الموعظۃ القرآنیۃ) علی أیۃ حال۔
= وقد توخی الایجاز إلی الحد الممکن، غیر عارض للتفاصیل المتصلۃ بالجانب اللغوی، أو الجانب الفقہی أو الجانب الکلامی، أو ما إلی ذلک من الجوانب والوجوہ الأخری للمدلول القرآنی، وإنما الشیٔ الذی جعلہ نصب عینیہ،ہو أن یتسم تفسیر القرآن بطابع من البساطۃ التی یتمیز بہا القرآن نفسہ، فإن القرآن، من جہۃ یعکس جلال اللہ وعظمتہ، ومن جہۃ أخری، ہو مراٰۃ تنعکس علیہ عبودیۃ الإنسان بجمیع نواحیہا، وہذہ ہی النقاط الجوہریۃ التی یتمحور حولہا ہذا التفسیر، ویحاول تجلیتہا بأسلوب موجز وبسیط، بعیدا عن التعقیدات الفنیۃ۔
تذکیر القرآن کا یہ عربی ترجمہ مولانا ابوصالح انیس لقمان ندوی نے کیا ہے۔ وہ مالے گاؤں (مہاراشٹر)میں 1965 میں پیدا ہوئے۔ اب وہ ابو ظبی (عرب امارات) میں رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو عربی زبان سے عشق ہے۔ عربی کے علاوہ، وہ انگریزی زبان میں بھی لکھنے پڑھنے اور بولنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
اِس عربی تفسیر کے کئی سیٹ گولن تحریک کے اداروں کی لائبریری کے لیے دئے گئے۔ نیز میری تین کتابوں کا ایک سیٹ استاذ فتح اللہ گولن کو میرے دستخط سے بھجوایا گیا— التذکیر القویم، الإسلام یتحدى، الدعوة إلى اللہ۔
ترکی کی جس کانفرنس کے لیے ہم لوگ آئے تھے، اس کا انعقاد ترکی کے ایک دوسرے سرحدی شہر غازی عین تیپ (Gazentep) میں کیاگیا تھا۔ استانبول میں ہمارا قیام پیشگی طورپر اِس لیے تھا کہ ہم اِس تاریخی شہر کو دیکھیں اور یہاں کے تعلیمی اور سماجی اداروں کا براہِ راست طورپر مشاہدہ کرسکیں۔ عام طورپر کانفرنس کے شرکا کو براہِ راست غازی عین تیپپہنچنا تھا۔ چناں چہ اخبار زمن کے آفس سے ہم لوگ سیدھے کمال اتاترک کے ڈومسٹک ائر پورٹ گئے۔ یہاں سے ائر پورٹ صرف 15 منٹ کے فاصلے پر تھا۔ائرپورٹ پر کافی بھیڑ نظر آئی۔ یہاں سیکورٹی کا انتظام سخت تھا۔ مختلف مراحل پر بار بار چیکنگ ہوتی رہی۔ تاہم یہ سب جدید طرز کے آلات کے ذریعے بہت منظم انداز میں ہورہا تھا۔ ایک ترک ساتھی نے اِس کو دیکھ کر کہا کہ ترکی میں امریکا سے زیادہ، لوگ امن کے بارے میں حساس واقع ہوئے ہیں۔
یہاں ہمارے ساتھیوں نے ائر پورٹ کے عملہ کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ ہمارے ساتھ ترکی زبان میں چھپا ہوا ایک خوب صورت پمفلٹ تھا، وہ بھی یہاں لوگوں کو دیاگیا۔اس کا عنوان یہ تھا— اکیسویں صدی میں ترکی کا رول 21. Yüzyılda Tükiye’nin Rolü) (ائر پورٹ پر افریقہ سے آئے ہوئے کچھ علما سے ملاقات ہوئی۔ یہ انڈیا کے رہنے والے تھے، مگر وہ افریقہ (زامبیا) میں مقیم ہیں۔ ہمارے ساتھی نے ان کودعوتی پمفلٹ اور ’کتاب معرفت‘ دی۔ اس کو انھوں نے خوشی کے ساتھ لیا۔ ان میں سے کئی لوگوں نے بتایا کہ وہ ماہ نامہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔
ائر پورٹ کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ہم لوگ جہاز میں داخل ہوئے۔ یہ ٹرکش ائرلائنز (TK-2224)کا نسبتاً ایک چھوٹا جہاز تھا۔ استانبول سے غازی عین تیپکا فاصلہ تقریباً ساڑھے آٹھ سو کلومیٹر (848.27) ہے۔ سوا گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم لوگ غازی عین تیپکے ائرپورٹ پر اتر گئے۔ یہ ایک چھوٹا اور خوب صورت ائر پورٹ تھا۔ فضا میں بادل تھے اور ائر پورٹ کے چاروں طرف دور دور تک پہاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں۔
ائر پورٹ سے بذیعہ کار ہم لوگ شہر کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ راستہ تقریباً 45 منٹ میں طے ہوا۔ غازی عین تیپمیں ہمارا قیام یہاں کے مشہور ہوٹل توجان (Tugcan)میں تھا۔ لیکن پہلے ہم لوگ اوغورپلازا ہوٹل(Uğur Plaza) میں گئے۔ یہاں مغرب کی نماز کے بعد ڈنر (dinner) کا انتظام تھا۔ ڈنر کے بعد ہم لوگ توجان ہوٹل چلے گئے جہاں ہمارا قیام تھا۔ یہ ہوٹل بذریعہ کار یہاں سے 10 منٹ کے فاصلے پر تھا۔
یہ جدید طرز کا ایک ملٹی اسٹوری ہوٹل تھا۔ یہاں ہوٹل کے پانچویں فلور پر ہم کو ایک سویٹ (suite) میں ٹھہرایا گیا۔ ہمارے ساتھیوں کے قیام کے لیے اِس ہوٹل کے فرسٹ فلور پر ڈبل بیڈ کا ایک دوسرا روم دیاگیا تھا۔ ہوٹل میں ہر قسم کی راحت کا سامان موجود تھا، لیکن مجھے اِس قسم کے سامانوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ میں اپنے سادہ انداز میں ہوٹل میں رہا اور پھر واپس آگیا۔
5 مئی 2012 کو صبح کا ناشتہ اِسی ہوٹل میں تھا۔ کانفرنس کے تمام شرکا نے ایک بڑے ہال میں میزوں کے گرد بیٹھ کر ناشتہ کیا۔یہ پورا ہال کھانے کے مختلف آئٹم سے بھرا ہوا تھا، مگر میں نے اپنی عادت کے مطابق، ناشتے کے لیے صرف دو چیزیں لیں۔ شہد اور براؤن بریڈ۔
ناشتے کے بعد ہم لوگ شہر کے اُس مقام پر گئے جہاں کانفرنس کی کارروائی کا انتظام تھا۔ یہ جدید طرز کا ایک انتہائی وسیع ہال تھا۔ یہاں رسپشن کے پاس کئی بک اسٹال تھے۔ ہمارے ساتھی کئی کارٹن میں ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتابیں لے گئے تھے۔ مثلاً قرآن کا انگریزی ترجمہ اور عربی اور انگریزی کی دوسری کتابیں۔ اِن میں ترکی زبان میں چھپا ہوا ایک پمفلٹ تھا جو اِسی موقع کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ تمام مطبوعات رسپشن کاؤنٹر کے سامنے لگی ہوئی میزوں پر رکھ دی گئیں۔ کانفرنس کے شرکا اور مقامی لوگوں نے یہاں سے مفت کتابیں حاصل کیں۔ یہ کتابیں ہاٹ کیک کی طرح تھوڑی ہی دیر میں ختم ہوگئیں۔
5 مئی 2012 کی صبح کو 11 بجے کانفرنس کا آغاز یہاں کے ایک اجتماعی سنٹر (Sehit Kamil Culture and Congress Centre)میںہوا۔ سب سے پہلے ایک نوجوان ترک قاری نے قرآن کی تلاوت سے کانفرنس کا آغاز کیا۔ یہ تلاوت مصری لہجے میںتھی۔ انھوں نے تلاوت کے لیے سورہ احزاب کی آیات 21-27 اور 36-48 کا انتخاب کیا تھا۔
قرأت کے بعد کانفرس کے ناظم مسٹر کمال گولن (Kemal Gülen) نے کانفرنس کا اور اس کے پروگرام کا تعارف کرایا۔ ان کی تقریر ترکی زبان میں تھی۔ اِس کانفرنس کا اہتمام مجلہ ’حراء‘ کی طرف سے کیاگیا تھا۔ چناں چہ تعارفی تقریر کے بعد مجلہ ’حراء‘ کے ایڈیٹر مسٹر نوزاد صواش کی تقریر ہوئی۔ انھوں نے کانفرنس کے مقاصد کی مزید وضاحت کی۔
اِس کانفرنس میں مجھے افتتاحی تقریر (inaugural address) کا موقع دیاگیا۔ میں نے انگریزی میں 15 منٹ کی ایک تقریر کی۔ تقریر کا موضوع دعوت الی اللہ تھا۔ اُس وقت میں شدید کیفیت میں تھا۔ مجھے خود نہیں معلوم کہ میں نے کیا کہا، لیکن سننے والوں کا بیان ہے کہ تقریر کے دوران میں خود بھی روتا رہا اور سامعین بھی روتے رہے۔
تقریر کے بعد کئی لوگوں کے تبصرے سامنے آئے۔ کانفرنس کے کوآرڈینیٹر (co-ordinator)مسٹر کمال گولن نے اپنی تقریر کے دوران میرے بارے میں کہا کہ— اسٹیج پر ان کی موجودگی اپنے آپ میں ایک خاموش خطاب تھا۔ اُن کو دیکھ کر مجھے حضرت ابو ایوب انصاری یاد آگئے، کیوں کہ وہ جب ترکی آئے تھے تو وہ بھی اِسی طرح بوڑھے تھے، اُس وقت اُن کی عمر 80 سال ہوچکی تھی۔ اِسی طرح حراء میگزین کے ایڈیٹر مسٹر نوزاد صواش نے گفتگو کے دوران مجھ سے کہا کہ کانفرنس کو آپ ہی نے شروع کیا اور وہ آپ ہی پر ختم ہوگئی۔ انھوں نے کہا کہ کانفرنس میں آپ کا خطاب سننے کے بعد ہم نے سوچا کہ کانفرنس کو ختم کرکے اب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں، کیوں کہ جو کچھ کہنا تھا وہ آپ نے کہہ دیا۔ اِسی طرح ایک ترک اسکالر نے کہا کہ:
You were the hero of this conference.
کانفرنس کے خاتمے پر ابھی میں اسٹیج ہی پر تھا کہ لوگ ہجوم کرکے میرے پاس آگئے۔ کوئی آٹوگراف لے رہا تھا، کوئی میرے ساتھ تصویر کھنچوارہا تھا، کوئی میری کتاب پر میرے دستخط لینا چاہتا تھا۔ یہ صورت حال دیر تک باقی رہی۔ ترکی کے ایجوکیشن منسٹر ڈاکٹر محمد گورمازبھی وہاں موجود تھے۔ وہ عربی بول رہے تھے۔
خطاب کے بعد وہ میرے پاس آئے اور انھوں نے کہا کہ آپ نے اپنی تقریر میں حضرت ابو ایوب انصاری کا جو حوالہ دیا، اس نے مجھ کو گہرے طور پر متاثر کیا ہے۔ انھو ں نے کہا کہ وہ میری عربی کتابیں پڑھ چکے ہیں— ترکی کے لوگوں نے جس اعلی اعتراف کا مظاہرہ کیا، وہ بلاشبہہ ان کے زندہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
میرے ساتھی نے یاد دلایا کہ میں نے اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ جب میں استانبول میں حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر کے پاس کھڑا تھا تو وہاں مجھے ایک خاموش آواز سنائی دی۔ یہ آواز خاموش تھی، لیکن وہ بہت زیادہ واضح تھی۔ وہ آواز یہ تھی کہ اے امتِ محمد، تم کہاں ہو۔ ہم نے  ماقبل کمیونکیشن دور میں خدا کا پیغام یہاں تک پہنچایا تھا۔ اب تم اٹھو اور آگے بڑھ کر اِس پیغام کو مابعد کمیونکیشن دور کی مدد سے پوری دنیا میں پہنچا دو۔ ہم نے قدیم دنیا کے انسانوں تک خدا کا پیغام پہنچایا تھا، تم جدید دنیا کے انسانوں تک خدا کا پیغامِ رحمت پہنچا دو۔
کانفرنس ہال سے ہم لوگ نکلے تو یہاں استانبول کے ٹی وی چینل الترکیہ (TRT) کی ٹیم موجود تھی۔ اس ٹیم کے نمائندہ مسٹر جمیل جوموش تھے۔ انھوں نے میرا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اُن کے سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان جن مسائل سے دوچار ہیں، ان کا حل کیا ہے۔ میں نے کہا کہ مسائل (problem)زندگی کا حصہ ہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ مسائل کو نظر انداز کیا جائے اور مواقع (opportunities) کو استعمال کیا جائے:
Ignore the problems, avail the opportunities.
مسٹر جمیل جوموش نے دورانِ گفتگو سوال کیا کہ کیا استاذ فتح اللہ گولن سے آپ کی ملاقات ہوئی ہے۔ میں نے کہا نہیں، البتہ میں نے ان کی بعض کتابیں دیکھی ہیں۔ میں ان کی قدر کرتاہوں۔وہ ایک مخلص اور تعمیر پسند لیڈر ہیں۔
کانفرنس مجموعی طورپر دو دن تک جاری رہی، لیکن میں اور میرے ساتھی اس کے صرف پہلے سیشن (افتتاحی اجلاس) میں شریک رہے۔ کانفرنس ہال سے نکلنے کے بعد ہم لوگوں کو اوغور پلازا ہوٹل لے جایاگیا جہاں دوپہر کے کھانے کا انتظام تھا۔
یہاں ہوٹل میں مختلف ملکوں کے کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ اُن میں سے ایک مسٹر احمد (Ahmet Alibasic) تھے۔ وہ بوسنیا سے اِس کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ مجھ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ بہت پہلے سے میری کتابیں پڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے انگریزی زبان میں چھپی ہوئی ایک کتاب دی۔ یہ کتاب 615 صفحات پر مشتمل ہے۔ اِس کتاب کو 5 مصنفین نے مشترک طورپر ایڈٹ کیا ہے۔ اِس کتاب کا نام یہ تھا:
Yearbook of Muslims in Europe, (Vol. 3, Brill, Leiden-2011)
پروفیسر احمد کتاب کے 5 ایڈیٹروں میں سے ایک ہیں۔ اُن کے بارے میں کتاب میں یہ الفاظ درج ہیں:
Ahmet Alibasic is a lecturer at the Faculty of Islamic Studies, University of Sarajevo, and Director of the Center for Advanced Studies in Sarajevo. He was educated in Kaula Lumpur (Islamic Studies, political sciences, and Islamic civilization). He also served as the first director of the Interreligious Institute in Sarajevo (2007-2008).
مسٹر احمد سے دعوت کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ بوسنیا میں اور یورپ کے دوسرے حصوں میں قرآن کا ترجمہ زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ مسٹر احمد کو ہمارے یہاں کا چھپا ہوا انگریزی ترجمہ قرآن دیا گیا۔ اِس کو انھوں نے بہت پسند کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں یہاں سے جانے کے بعد منظم طورپر اِس کے لیے کام کروں گا کہ یورپ میں اور خاص طورپر بوسنیا میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اِس ترجمہ قرآن کو پہنچایا جائے۔
کھانے سے فارغ ہو کر ہم لوگ اپنے ہوٹل واپس آگئے۔ یہاں کچھ دیر قیام کرنے کے بعد ہم لوگوں کو دوبارہ اوغور پلازا ہوٹل لے جایاگیا ہے۔ یہاں مغرب کے بعد شام کا کھانا (dinner) تھا۔ اِس کے ساتھ یہاں کانفرنس کی ایک نشست بھی ہوئی۔ کھانے کے بعد کانفرنس کے مختلف شرکا نے مختصراً یہاں خطاب کیا۔ ان میں سے ایک تیونس کے ملیح المرعشی تھے۔ انھوں نے پر جوش انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہا: نحن نرید أن نعید مجد الأمّة الإسلامیة فی العصر الحاضر (ہم چاہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں امتِ اسلامیہ کی عظمت کو ہم دوبارہ واپس لائیں)۔
یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام مسلم رہنماؤں او ر دانش وروں کا ذہن ہے۔ وہ ملتِ مسلمہ کی ’’عظمتِ رفتہ‘‘ کو دوبارہ واپس لانے کی باتیں کرتے ہیں۔ اِس طرح کی باتیں سن کر میں سوچتا ہوں کہ وہ کون سی عظمت ہے جس کو یہ لوگ واپس لانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک مادّی آسودگی اور دینی سرگرمیوں کی بات ہے، وہ بلا شبہہ مسلمانوں کو پچھلے ادوار کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ حاصل ہے۔ حتی کہ سیاست کے اعتبار سے بھی ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں کی 58 حکومتیں ہیں۔ دعوت کے مواقع بھی پچھلے ادوار کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ حاصل ہیں، پھر وہ کون سی عظمت ہے جس کے کھونےپر موجودہ زمانے کے مسلمان فریاد وماتم میں مبتلا ہیں۔ وہ صرف ایک ہے اور وہ نام نہاد پولٹکل ایمپائر ہے۔ پچھلے پولٹکل ایمپائر کے زمانے میں مسلمانوں کو جو کچھ حاصل تھا، اُس سے بھی بہت زیادہ آج مسلمانوں کو حاصل ہے۔ پھر یہ فریاد وماتم کس لیے۔ یہ صرف ابلیس کی تزئین ہے۔ ابلیس چاہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو شکر کے جذبات سے محروم کرکے اُنھیں ناشکری کے جذبات میں مبتلا کردے، تاکہ اُس کا وہ چیلنج پورا ہو جو اُس نے اِن الفاظ میں کیا تھا: ولا تجد أکثرہم شاکرین (7:17)۔
اِس سلسلے میں ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ تاریخ کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر اُس سے بالکل مختلف ہے جس میں آج کل کے تقریباً تمام مسلم مقررین اور محررین مبتلا ہیں۔اسلامی نقطہ نظر کے اعتبار سے، صحیح یہ ہے کہ تاریخ کو مواقع (opportunities) کے اعتبار سے دیکھا جائے، نہ کہ مسائل (problems) کے اعتبار سے۔ مسائل کو نظر انداز کرنا اور مواقع کو استعمال کرنا، یہی سنتِ رسول ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اِس اہم ترین سنتِ رسول کا شعور موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں مفقود ہوگیا ہے۔
ترکی کے وزیر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر محمد گورماز (Dr. Mehmet Görmez) بھی اِس پروگرام میں شریک تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ ہم لوگوں کے ساتھ ایک عام آدمی کی طرح رہتے ہیں۔ لفٹ (lift)میں بھی وہ عام آدمی کی طرح آتے جاتے ہیں۔ اُن کے ساتھ کوئی سکیورٹی موجود نہیں۔ یہ سادگی ترکی کے سوا کسی بھی مسلم ملک میں موجود نہیں۔
یہ فرق کیوں ہے۔ اِس فرق کا سبب وہی بدنام آپریشن ہے جس کو کمال ازم (Kemalism) کہاجاتا ہے۔ کمال اتاترک (وفات: 1938 ( کی امیج (image)علما کے درمیان یہ ہے کہ وہ ایک اسلام دشمن انسان تھا، مگر ایسا نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ کمال اتاترک نے فرسودہ مشرقی کلچر کے تحت پیدا شدہ جمود (stagnation)کو ختم کرکے اس کی جگہ وہ کلچر رائج کیا جو خود اس کی اپنی زبان میں ’’سائنٹفک کلچر‘‘ تھا۔ اِسی سائنٹفک کلچر کا یہ نتیجہ ہےکہ ترکی واحد ملک ہے جہاں مغرب کی ترقی یافتہ قوموں کی وہ خصوصیات پائی جاتی ہیں جس کے معترف خود ہمارے علما ہیں۔ مثلاً ڈسپلن، وقت کی پابندی، ورک کلچر، وغیرہ۔
ترکی کے اِس سفر کے دوران ایک عجیب تجربہ یہ ہوا کہ یہاں کمال اتاترک کی نہ کوئی تعریف کرنے والا ملا اور نہ تنقید کرنے والا۔ میں نے ایک تعلیم یافتہ ترک سے اتاترک کے بارے میںسوال کیا، مگر انھوں نے اِس موضوع پر کچھ زیادہ گفتگو نہیں کی۔ اگر یہی موجودہ ترکوں کا مزاج ہے تو وہ نہایت درست مزاج ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی کو بھلانا اور ساری توجہ حال پر مرتکز کردینا۔ یہ بلاشبہہ وہی مزاج ہے جس کو تعمیر پسندانہ مزاج کہا جاتا ہے۔
6 مئی 2012 کی صبح کو غازی عین تیپ سے استانبول کے لیے روانگی تھی۔ چناں چہ ناشتے کے بعد ہم لوگ ائر پورٹ کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہوٹل سے ائر پورٹ تک کا سفر 45منٹ میں طے ہوا۔ راستے میں مختلف مقامات پر ہرے بھرے درختوں کی قطاریں دکھائی دیں۔یہ انجیر اور زیتون اور پِستہ (Pistachio)کے درخت تھے۔
علامہ بدر الدین العینی نویں صدی ہجری کے مشہور محدثین میں سے ہیں۔ ان کی پیدائش 762ہجری میں اسی شہر غازی عین تیپ میں ہوئی۔ بعد کو وہ قاہرہ (مصر) میں مقیم ہوگئے اور یہیں 855 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ غازی عین تیپ کی نسبت سے ان کو ’’العینی‘‘ کہاجاتا ہے۔ علامہ العینی کی بہت سی کتابیں ہیں۔ ان میں سب سے مشہور کتاب بخاری کی شرح عمدة القاری فی شرح البخاری ہے جو 11 جلدوں میں چھپ کر شائع ہوگئی ہے۔
غازی عین تیپ سے صبح کو ساڑھے آٹھ بجے ٹرکش ائرلائنز کی فلائٹ نمبر 2221 کے ذریعے استانبول کے لیے روانگی ہوئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم لوگ استانبول کے ائر پورٹ پر پہنچ گئے۔ ائر پورٹ سے روانہ ہو کر ہم لوگ سب سے پہلے اناطولو ایجنسی (Anadolu Ajansi) گئے۔ یہ ایک سرکاری نیوز ایجنسی ہے۔ اس کو 92 سال پہلے کمال اتاترک نے 1920 میں قائم کیا تھا۔ اس کی بلڈنگ بہت بڑی اور نہایت منظم تھی۔ اس کا ہر حصہ نہایت صاف ستھرا تھا۔ انڈیا میں ورلڈ اسٹینڈرڈ (world standard) کی بات بہت کی جاتی ہے، لیکن عملاً یہاں کوئی بھی چیز ورلڈ اسٹینڈرڈ کے مطابق نہیں، لیکن ترکی میں ہر چیز ورلڈ اسٹینڈرڈ کے مطابق نظر آئی۔
اناطولو ایجنسی میں ایک پوری ٹیم نے میرا ویڈیوانٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔ وہ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔انٹرویور مسٹر توران ترکی (Turan Kislakci)تھے۔ وہ اِس ایجنسی کے عربی نیوز شعبہ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ انھوں نے جو سوالات کئے، اُن سے اندازہ ہوتاتھا کہ وہ میری زندگی اور میرے مشن سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انٹرویو کا موضوع اصلاً ’’اسلام اور ماڈرن تہذیب‘‘ تھا، لیکن سوالات کے اعتبار سے یہ ایک جامع انٹرویوتھا۔ سوالات کے دوران جو موضوعات زیر بحث آئے، اُن میں سے کچھ یہ تھے — اسلام اور عصرِ حاضر، سیکولرزم ، ڈیموکریسی، عرب اسپرنگ، اسلامی حکومت، شیعہ سنی اختلافات، تقسیمِ ہند، اسلام میں عورت کا مقام، دورِ جدید میں دعوت الی اللہ کے امکانات، وغیرہ۔
ایک سوال اتاترک کے کمال ازم (Kemalism) کے بارے میں تھا۔ میں نے کہا کہ اتاترک کا کیس اسلام دشمنی کا کیس نہیں تھا۔ اتاترک کا آپریشن دراصل جمود اور فرسودہ مسلم کلچر کے خلاف تھا جو آخری زمانے میں خلافت عثمانی کے زوال کے نتیجے میں پیدا ہوگیا تھا۔ میں نے کہا:
The case of Ataturk was not one of modernization of Islam, instead it was one of Islamization of Modernism.
ترکی کے جدید ڈیولپ مینٹ میں مصطفی کمال اتاترک (وفات: 1938 ) کا ابتدائی رول ہے۔ کمال اتاترک فطری طورپر ایک جرأت مند اور باعزم آدمی تھے۔ یہ کمال اتاترک ہی تھے جو ترکی میں ریڈیکل ریفارم (radical reform) لے آئے۔ مثلا رومن رسم الخط کو ترکی زبان کا رسم الخط بنانا، مغربی طرزِ تعلیم کو ترکی میں رائج کرنا، وغیرہ۔ اِن انقلابی تبدیلیوں کے پیچھے کمال اتاترک کا نظریہ کیا تھا، وہ اصولی طورپر اُن کے اِس مشہور قول میں ملتا ہے — سائنس انسانی زندگی کی سب سے زیادہ قابلِ اعتماد رہنما ہے:
Science is the most reliable guide in life (EB/2/257)
کمال اتاترک جو تبدیلیاں لائے، اُن کو مخالفِ اسلام (anti-Islam) کہنا درست نہ ہوگا۔ زیادہ صحیح طورپر اتاترک کا مشن مخالفِ جمود (anti-stagnation) مشن تھا۔
ترکی میں کمال اتاترک کی ریڈیکل کارروائیوں کے نتیجے میں بہت سی مثبت چیزیں پیدا ہوئیں۔ مثلاً طویل جمود کا ٹوٹنا، لوگوں میں اوپن نیس (openness)کا آنا، جدید تعلیم کا فروغ، مغربی کلچر سے ڈائنا مزم (dynamism) کا آنا،مثبت سیکولر قدروں (positive secular values) کو فروغ، جدید وسائل کو رواج دینا، ترکی زبان کے لیے رومن رسم الخط اختیار کرنے کی بنا پر کمپیوٹر کی تیز رفتار ترقی کا ممکن ہوجانا، عالمی انٹریکشن (global interaction) کا عمومی پھیلاؤ، حقیقت پسندانہ طرزِ فکر (realistic thinking) کا رواج، علاحدگی پسندی (separatism) کا خاتمہ، ہر شعبے میں جدید کاری (modernization) ، وغیرہ۔
مصطفی کمال اتاترک کوئی مذہبی انسان نہیں تھے، وہ صرف ایک سیکولر انسان تھے۔ مگر ترکی میں جو انقلابی تبدیلیاں ان کے ذریعے وجود میں آئیں، وہ باعتبار نتیجہ ایسی تھیں جن سے اسلامی دعوت کے نئے مواقع کھل گئے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا انکار کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ مسٹر توران نے میرے جوابات سے اتفاق کیا۔
اناطولو ایجنسی کے پروگرام سے فارغ ہونے کے بعد ہم لوگ توپ کاپی پیلیس میوزیم دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔ توپ کاپی پیلیس (Topkapi Palace)عثمانی خلفا کا محل تھا۔ اب اُس کو میوزیم بنا دیاگیا ہے۔ یہ میوزیم ایک بہت بڑے قلعہ کی صورت میں ہے۔ اس کے بہت سے حصے ہیں۔ اس کو چند گھنٹوں میں دیکھا نہیں جاسکتا۔ہم نے اس کے کچھ حصوں کو دیکھا۔ یہاں مسلم دورِ تاریخ کے نوادرات بہت کثرت سے موجود ہیں۔ یہ میوزیم اپنے بیش قیمت تاریخی نوادرات کی وجہ سے دنیا کے مشہور ترین میوزیم میں شمار ہوتا ہے۔
اِس میوزیم میں جو چیزیں رکھی گئی ہیں، ان میں سے چند چیزیں یہ تھیں —— رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب چیزیں۔ مثلاً آپ کا جبہ، آپ کی دو تلواریں، شاہِ مقوقس کے نام آپ کا مکتوب، وغیرہ۔ تاریخی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں عباسی خلفا کے پاس موجود تھیں۔ چناں چہ 1517 میں مملوک سلطنت کو شکست دینے کے بعد جب عثمانی سلطان سلیم اول (وفات: 1520 ء) کو ’’خادم الحرمین الشریفین‘‘ کا لقب دیاگیا، اُس وقت مصر میں مقیم آخری عباسی خلیفہ المتوکل علی اللہ الثالث (وفات: 1543 ء) کی طرف سے سلطان سلیم کو ’’خلافت‘‘ کا منصب بھی عطا کردیاگیا۔ اِسی کے ساتھ المتوکل نے سلطان سلیم کو مذکورہ تاریخی چیزیں بھی سندِ خلافت کے طورپر دے دیں۔ اِس کے بعد سے عثمانی سلاطین کو ’’خلیفہ‘‘ کہاجانے لگا۔ اُس وقت سے یہ تاریخی چیزیں استانبول کے توپ کاپی پیلیس میں موجود ہیں۔ اِس کے علاوہ، اِس میوزیم میں عثمانی سلاطین کی بہت سی یادگاریں، لائبریری اور مختلف بادشاہوں کے شاہی تخت بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ایرانی بادشاہ اسماعیل صفوی کا تخت، وغیرہ۔
اس کے بعد ہم لوگ استانبول میں اپنے آخری پروگرام کے لیے روانہ ہوگئے۔ یہ مسٹر محمدامین ترکی (Mehmet Emin Baspehlivan) کی دعوت پر اُن کے گھر جانا تھا۔ مسٹر محمد امین پبلشر بھی ہیں اور اِسی کے ساتھ مصنف بھی۔ انھوں نے ہماری بعض کتابیں ترکی زبان میں شائع کی ہیں۔ ان کے ادارے کا نام یہ ہے: Excellence Publishing Ltd. STI
مسٹر محمد امین استانبول کی ایک پاش کالونی میں رہتے ہیں۔ یہ ایک نہایت صاف ستھری کالونی تھی، دہلی کی کسی پاش (posh) کالونی سے بہتر۔ یہاں ہم لوگوں نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ اس کے بعد فیملی کی سطح پر گھر کے ایک ہال میں مختصر پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں میں نے دعوت الی اللہ کی اہمیت کے بارے میں کچھ باتیں کہیں۔ آدھ گھنٹے کے خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔یہاں میں انگریزی میں گفتگو کررہا تھا۔ مسٹر علی اکیز ترکی زبان میں اس کا ترجمہ کررہے تھے۔
گھر کی ایک خاتون نے سوال کیا کہ آپ قرآن کے ترجمے کو لوگوں کے درمیان ڈسٹری بیوٹ (distribute)کرنے پر بہت زور دیتے ہیں۔ کیا صرف قرآن ڈسٹری بیوٹ کرنے سے دعوت کا حق ادا ہوجائے گا۔
اِس کے جواب میں میں نے کہا کہ ہاں، قرآن مکمل دعوت ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ دعوت کا مقصد کنورژن (conversion) نہیں ہے۔ دعوت کا مقصد انذار وتبشیر (19:97) ہے، یعنی خدائی ہدایت نامے کو لوگوں تک پہنچا دینا، اور قرآن پہنچانے کے بعد یہ کام بلاشبہہ اصولی طورپر انجام پا جاتا ہے۔ داعی کا کام خدا کے پیغام کو پُرامن انداز میں مدعو تک پہنچا دینا ہے۔ اِس کے بعد یہ مدعو کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کے بارے میں کیا رسپانس دیتا ہے۔
مسٹر امین کا گھر بظاہر ایک ماڈرن گھر تھا، لیکن اُن کے مزاج میں سادگی اور دین داری تھی۔ ان کی بیوی اور ان کی والدہ دونوں حافظِ قرآن تھیں۔ انھوں نے قرآن کا ایک حصہ پڑھنے کی درخواست کی۔ چناں چہ ہمارے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے قرآن کی سورہ الم نشرح (94)کی تلاوت کی۔ اس کے بعد میں نے اِس سورہ کی تشریح کی۔ میں نے ایک بات یہ کہی کہ اِس دنیا کا نظام اِس طرح بنایا گیاہے کہ یہاں عسر کے ساتھ یسر بھی لازماً موجود رہتا ہے۔
گھر کی ایک خاتون نے یہ سوال کیا کہ ڈفرنس کو مینج (manage) کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اس کا طریقہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ ڈفرنس کو فطرت کا ایک حصہ سمجھا جائے۔ ڈفرنس کو لے کر شدید طورپر حساس ہونے کے بجائے، اس کے بارے میں وہی طریقہ اختیار کیا جائے جس کو اِس مشہور مقولے میں بیان کیا گیا ہے: Take it easy ۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈفرنس کوئی مسئلہ نہیں، یہ لوگوں کی اپنی حساسیت ہے جس نے ڈفرنس کو غیر ضروری طورپر ایک مسئلہ بنا دیا ہے۔
مسٹر امین کے گھر سے اتاترک انٹرنیشنل ائرپورٹ کے لیے روانگی ہوئی۔ ائر پورٹ یہاں سے قریب تھا۔ ائر پورٹ پر چیکنگ معمول کے مطابق تھی۔ مسٹر علی اکیز بار بار منع کرنے کے باوجود ائرپورٹ کے اندر آخری گیٹ تک ہمارے ساتھ رہے اور ہر مرحلے میں ہماری مدد کرتے رہے۔ آج کا پورا دن ہمارے لیے ایک ہیکٹک دن (hectic day) تھا، لیکن مسٹر علی آخر تک نہایت خوش دلی کے ساتھ غازی عین تیپ سے استانبول ائر پورٹ تک کے تمام مراحل میں ہمارا ساتھ دیتے رہے۔
جدید ترکی میں یہ مزاج ہم نے ہر جگہ دیکھا۔ اِن لوگوں کے اندر وہ چیز عام طورپرپائی جاتی ہے جس کو ورک کلچر (work culture) کہاجاتا ہے۔ اِسی کے ساتھ اِن لوگوں میں شرافت اور فراخ دلی اور سادگی جیسے اخلاقی اوصاف عام طورپر دیکھنے میں آئے۔
واپسی کے سفر میں جہاز کے اندر کچھ چیزیں مطالعے کے لئے موجود تھیں۔ اُن میں سے ایک مشہور ترک اخبار زمن (Zaman) تھا۔ اس کا انگریزی ایڈیشن ٹوڈیز زمن (Today's Zaman) کے نام سے نکلتا ہے۔ اس کے شمارہ 6مئی 2012 میں ایک مضمون اِس عنوان کے تحت تھا:
Book Reading: Not Appropriate As A Punishment
مضمون نگار کا نام یہ تھا— Erol Yilmaz ۔ مضمون میں بتایا گیا تھا کہ ترکی کی عدالت نے پچھلے دس سال سے ایک نیا تجربہ شروع کیاہے، وہ ہے چھوٹے جرائم (minor crimes) پر مطالعہ کتب کی سزادینا۔ مضمون میں بتایا گیا تھا کہ اِس قسم کے بعض جرائم مثلاً عورتوں پر تشدد، وغیرہ پر یہ سزا دینا کہ وہ ایک مدت تک صرف کتابوں کا مطالعہ کریں، یعنی قید خانے کے بجائے، وہ دارالمطالعہ میں زندگی گزاریں:
So the punishment took place not in any sort of prison but rather in what is referred to in developed countries as "people's university", or the public library. (p. 4)
جہاز کے اندر رات کو حسب معمول نیند آگئی۔ فلائٹ نہایت ہموار (smooth) تھی۔ 7گھنٹے کا راستہ سوتے ہوئے گزر گیا۔ 7 مئی 2012 کی صبح کو ساڑھے چار بجے ہم لوگ دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائرپورٹ پر پہنچ گئے۔
جب میں ائر پورٹ کے باہر اُس مقام پر پہنچا، جہاں مجھ کو نظام الدین جانے کے لئے کار پر بیٹھنا تھا، ہمارے ساتھ ائر پورٹ کا ایک ہندو کارکن تھا جو ہماری وھیل چیئر کو چلارہا تھا۔ ہمارے ایک ساتھی نے اس کو کچھ رقم دینا چاہا، مگر اس نے لینے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو تو آپ کا آشیرواد چاہئے۔ میں ایک ایگزام (امتحان) میں بیٹھنے والا ہوں۔ مجھے آشیرواد دیجئے کہ میں اپنے ایگزام میں پاس ہوجاؤں۔ میں نے نوجوان کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کے لیے دعا کی۔ ہمارے ساتھی نے اُس کو ہندی زبان میں چھپا ہوا ایک پمفلٹ دیا۔
دہلی کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے سب سے پہلا جو تجربہ ہوا، وہ ہوائی کثافت (air pollution) کاتجربہ تھا۔ ترکی میں موسم نہایت خوش گوار تھا اور ہوائی کثافت بہت کم تھی، لیکن دہلی میں ہوائی کثافت اتنی زیادہ تھی کہ سانس لینا دشوار ہورہا تھا۔ اِس فر ق کو اگر بلین ٹائم بڑھا دیا جائے تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ آخرت کی جہنم کیا ہوگی اور آخرت کی جنت کیا۔
(یہ سفر نامہ مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے تیار کیاگیا)
واپس اوپر جائیں