Pages

Saturday, 1 February 2014

Al Risala | February 2014 (الرسالہ،فروری)

2

-ایمان بالغیب

5

- کلام میں وضوح

8

- امت کا دورِ زوال

10

- اسکالر اور مفکر کا فرق

13

- ذہنی کہر کا مسئلہ

14

- پروفیشنل رائٹنگ، پروفیشنل قیادت

15

- حدیبیہ انقلاب

27

- تاریخِ مذہب

45

- تخلیقی حل

46

- خود اعتمادی

47

- انانیت یا انفرادیت


ایمان بالغیب

قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے: الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (2:3) یعنی ہدایت یاب لوگ وہ ہیں جو غیب پرایمان رکھتے ہوں- غیب پر ایمان کا معاملہ سادہ طورپر صرف عقیدے کا معاملہ نہیں ہے، وہ براہِ راست طورپر ہدایت کے معاملے سے جڑا ہوا ہے- جس آدمی کے اندر ایمان بالغیب کی صفت ہو، اُسی کو ہدایت ملے گی- جو آدمی ایمان بالغیب کی صفت سے محروم ہو، اس کو کبھی ہدایت ملنے والی نہیں- جب تمام حقیقتیں غیب میں ہو ں تو اعلی حقیقت کی دریافت کا معاملہ اس سلسلے میں استثنا (exception) نہیں ہوسکتا-
غیب کا لفظ عربی زبان میں صرف غیر مشہود (unseen)کے معنی میں نہیں ہے- غیب کا لفظ ایسی چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو اگرچہ غیر مشہود ہو، مگر وہ غیر موجود نہ ہو، یعنی جب ایک چیز موجود ہوتے ہوئے دکھائی نہ دے تو اس کے لیے غیب کا لفظ بولا جائے گا- اللہ کا معاملہ یہی ہے- اللہ اگر چہ بہ ظاہر غیب میں ہے، مگر بہ اعتبار حقیقت ، وہ تمام موجود چیزوں سے زیادہ موجود ہے- اِس آیت میں ایمان بالغیب سے اصلاً ایمان باللہ مراد ہے، مگر تبعاً اِس میں وہ تمام متعلقاتِ ایمان شامل ہیں جن پر ایک مومن کے لیے ایمان لانا ضروری ہے- مثلاً وحی، ملائکہ، جنت اور جہنم، وغیرہ-
اصل یہ ہے کہ ہم چیزوں کو دو طریقوں سے جانتے ہیں — ایک، مشاہدہ (observation)، اور دوسرا استنباط (inference)- سائنسی اعتبار سے، یہ دونوں طریقے یکساں طورپر معتبر ہیں- اعتباریت (validity) کے لحاظ سے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں-
موجودہ زمانے میں سائنس کو علمی مطالعے کا ایک معتبر ذریعہ سمجھا جاتا ہے- سائنس کے دو حصے ہیں — ایک ہے، نظری سائنس (theoretical science) ، اور دوسرا ہے، فنی سائنس (technical science)- سائنسی مطالعے کے مطابق، فنی سائنس کا دائرہ بہت محدود ہے- فنی سائنس کے ذریعے چیزوں کے صرف ظواہر (appearance)کو دیکھا جاسکتا ہے، لیکن تمام چیزیں جو بہ ظاہر دکھائی دیتی ہیں، وہ اپنے آخری تجزیے میں غیر مرئی (unseen) ہوجاتی ہیں- مثلاً آپ پھول کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن پھول کی خوشبو کو آپ نہیں دیکھ سکتے- پھول کی خوشبو کو کسی بھی خورد بین (microscope) یا دور بین (telescope) کے ذریعے دیکھنا ممکن نہیں- حالاں کہ جس طرح پھول کا وجود ہے، اِسی طرح پھول کی خوشبو کا بھی وجود ہے-
سائنسی مطالعے کے مطابق، تمام چیزیں آخر کار ایٹم کا مجموعہ ہیں، اور ایٹم اپنے آخری تجزیے میں الیکٹران (electron) کا مجموعہ ہے- ایک سائنس داں نےاِس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پوری کائنات ناقابلِ مشاہدہ الیکٹران کا مجنونانہ رقص (mad dance of electrons) ہے- ایک اور سائنس داں نے کائنات کی ا ِسی غیر مرئی حیثیت کی بنا پر کائنات کو امکان کی لہروں (waves of probability) سے تعبیر کیا ہے-
اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگاکہ صرف بہ ظاہر غیر مشہود خالق (Creator) ہی غیب میں نہیں ہے، بلکہ بہ ظاہر مشہود تخلیق (creature) بھی حالتِ غیب میں ہے- برٹش سائنس داں سر آرتھر ایڈنگٹن (وفات: 1944) نے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے، اس کتاب کا نام یہ ہے:
Science and The Unseen World, by A. S. Eddington, Macmillan, 1929, pages 91
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہم جن چیزوں کو دیکھتے ہیں، ہم اُن کے صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں، چیزوں کی اصل حقیقت ہمارے لیے پھر بھی غیر مشہود رہتی ہے- یہی معاملہ خدا کا ہے- خدا اپنی ذات کے اعتبار سے، بہ ظاہر غیر مشہود ہے، لیکن اپنی تخلیق کے اعتبار سے، خدا ہمارے لیے مشہود بن جاتا ہے- تخلیق کا موجود ہونااپنے آپ میں خالق کے موجود ہونے کا ثبوت ہے- کائنات اتنی زیادہ با معنی (meaningful) ہے کہ خالق کو مانے بغیر اس کی توجیہہ سرے سے ممکن ہی نہیں-
اللہ رب العالمین کا حالتِ غیب میں ہونا ایک اعتبار سے امتحان (test) کی مصلحت کی بنا پر ہے- اللہ اگر عیاناً دکھائی دے تو امتحان کی مصلحت ختم ہوجائے گی- اللہ غیب میں ہے، اِسی لیے اُس پر ایمان ہمارے لیے ایک امتحانی پرچہ (test paper) ہے- اللہ اگر شہود میںہوتا تو اس پر ایمان لانا انسان کے لیے اس کے امتحان کا پرچہ نہ بنتا- اللہ کا اور اس سے متعلق ایمانیات کا غیب میں ہونا انسان کے لیے ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ اسی کی وجہ سے انسان کے ذہن میں غور وفکر کا عمل (process of thinking)جاری ہوتا ہے- اِسی کی بنا پر ایسا ہے کہ ہمارے لیے تدبر کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا میدان موجود ہے- اِسی بنا پر ایسا ممکن ہوتا ہے کہ ہم اللہ کو دریافت (discovery) کے درجے میں پائیں- اِسی بنا پر یہ ممکن ہے کہ خدا کی معرفت ہمارے لیے ایک خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality) ہو، اور بلاشبہہ یہ ایک واقعہ ہے کہ خود دریافت کردہ حقیقت سے زیادہ بڑی کوئی اور چیز اِس دنیا میں نہیں- اللہ کا اور اُس سے متعلق ایمانیات کا انسان کے لیے غیب میں ہونا، انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ایک لامتناہی ذریعہ (endless source) کی حیثیت رکھتا ہے-
ہدایت کے لیے ایمان بالغیب کی شرط کوئی تحکُّمی (arbitrary) شرط نہیں ہے، بلکہ وہ انسان جیسی مخلوق کے لیے ایک نہایت معقول شرط ہے- کسی بھی بڑی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ بیدار شعور (awekened mind) درکار ہوتا ہے- جس انسان کا شعور بیدار ہو، وہی اِس قابل ہوتا ہے کہ وہ کسی بڑی حقیقت کو سمجھ سکے- خدا بلا شبہہ سب سے بڑی حقیقت ہے، اِس لیے خدا پر ایمان یا خدا کی معرفت حقیقی طورپر صرف اُس انسان کو حاصل ہوگی جو مطالعہ اور غوروفکر کے ذریعے اپنے شعور کو بیدار کرچکا ہو- جس انسان کا شعور بیدار نہ ہو، وہ گویا ذہنی اندھے پن (intellectual blindness)میں مبتلا ہے، اور بلا شبہہ ذہنی اندھے پن کے ساتھ خداوند عالم کی معرفت کسی انسان کو نہیں مل سکتی-
واپس اوپر جائیں

کلام میں وضوح

تقریر یا تحریر کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اندر وضوح (clarity) ہو، یعنی اُس کو سننے یا پڑھنے کے بعد مقرر یا محرر کا مدعا بلا اشتباہ سمجھ میں آجائے- کلام کا وضوح یہ ہے کہ اُس کے اندر کنفیوژن (confusion) نہ ہو، جو بہ آسانی قابلِ فہم (easily understandable) ہو-
دنیا میں جو چیزیں ہیں، وہ سب ملی ہوئی حالت میں ہیں،مادی چیزیں بھی اور تصورات (ideas)بھی- مگر دونوں میں ایک فرق ہے- مادی چیزوں کو فطرت نے خود اپنی طرف سے الگ الگ کر رکھا ہے، مگر تصورات کے معاملے میں الگ الگ کرنے کا کام انسان کو خود کرنا ہوتا ہے- سائنس میں چیزیں اپنے آپ ممیَّز ہوجاتی ہیں ، جب کہ انسانیات (humanities)میں چیزوں کو غوروفکر کے ذریعے ممیز کرنا ہوتا ہے- سائنس سے مراد علومِ طبیعی (physical sciences)ہیں- اور انسانیات سے مراد وہ علوم ہیں جن کا تعلق انسان سے ہے، مثلاً مذہب، روحانیت، سماجی علوم، وغیرہ-
یہ ایک عام تجربہ ہے کہ جب ایک شخص سائنس کا کوئی مسئلہ بیان کرتا ہے تو اُس میں وضوح (clarity) موجود ہوتا ہے- لیکن جب ایک شخص کوئی ایسا مسئلہ بیان کرتا ہے جس کا تعلق انسانیات سے ہو، تو اس میں وضوح موجود نہیں ہوتا- یہاں ہر شخص کی تحریر میں کنفیوژن پیدا ہوجاتا ہے، خواہ وہ مذہبی موضوعات پر کلام کرنے والے لوگ ہوں یا سیکولر موضوعات پر کلام کرنے والے لوگ- اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ سائنسی موضوعات میں چیزیں خود فطرت کے نظام کے تحت الگ الگ ہوتی ہیں، اِس لیے آدمی تعین کے ساتھ اُن چیزوں کو ممیز کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے-
مثلاً دودھ میں کثرت سے بیکٹیریا شامل رہتے ہیں- بظاہر خالی آنکھ سے وہ دکھائی نہیں دیتے، لیکن جب دودھ کے ایک قطرہ کو خوردبین (microscope) کے شیشے کے نیچے رکھا جائے تو صاف طورپر نظر آتا ہے کہ دودھ کے اندر بے شمار تعداد میں بیکٹیریا موجود ہیں- اِسی طرح ہماری قریبی کہکشاں (milky way) بظاہر خالی آنکھ سے دیکھنے میں سفید دھاری کے مانند نظر آتی ہے، لیکن جب اُس کو دور بین (telescope) کے شیشے کے ذریعے دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ یہ بے شمار الگ الگ ستارے ہیں جو دوری کی بنا پر باہم ملے ہوئے نظر آتے ہیں-
تصورات کا معاملہ اِس سے مختلف ہے- تصورات انسان کے ذہن میں ہمیشہ مخلوط (mixture) صورت میں موجود ہوتے ہیں- انسانی ذہن ہمیشہ مختلف موضوعات سے متعلق تصورات کا ایک جنگل بنا ہوا ہوتا ہے- جب کوئی انسان کسی موضوع پر کلام کرتا ہے تو اس کے اندر یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ مختلف تصورات کو سارٹ آؤٹ کرکے اپنے نقطہ نظر کو ممیز صورت میں پیش کرسکے- اِس عمل میں فطرت مدد نہیں کرتی- یہ کام آدمی کو خود اپنے قوتِ تجزیہ (power of analysis) کے ذریعے کرناہوتا ہے- آدمی کے اندر اگر تجزیہ کی اعلی صلاحیت موجود نہ ہو تو یقینی طورپر اس کے کلام میں کنفیوژن پیدا ہو جائے گا، اُس کا کلام وضوح (clarity) کی صفت سے خالی ہوگا-
مثال کے طورپراسلام کا موضوع مدرسے میں بھی پڑھایا جاتا ہے اور یونی ورسٹی میں بھی، مگر دونوں کے درمیان ایک واضح فرق ہے- مدرسے کے نصاب میں اسلام کی تعلیم بطور عقیدہ(belief) شامل ہوتی ہے- اِس کے برعکس، یونی ورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز (Islamic studiese) کا نصاب ایک تاریخی ظاہرہ (historical phenomenon) کے طور پر پڑھایا جاتا ہے- جو شخص مدرسہ ایجوکیشن اور یونی ورسٹی ایجوکیشن کے اِس فرق کو نہ سمجھے، وہ جب اِس موضوع پر کلام کرے گا تو اس کے کلام میں کنفیوژن پیدا ہوجائے گا-یہی معاملہ آزادی اظہارِ خیال (freedom of expression) کا ہے- اِس معاملے میں مشرقی اور مغربی تصور کے درمیان فرق ہے- اب اگر مشرقی تصور کو لے کر کوئی شخص اِس موضوع پر کلام کرے تو اپنے تصور کی بنا پر وہ یہ کرے گا کہ وہ آزادی اظہارِ خیال کے ایک واقعے کو اسلام دشمنی پر محمول کرے گا اور اِس طرح اس کے کلام میں کنفیوژن پیدا ہوجائے گا-
انسانی تصورات کے موضوع پر جو شخص اظہارِ خیال کرے، اس کا کلام کنفیوژن سے کس طرح پاک ہو- اِس کا جواب یہ ہے کہ انسانی تصورات کے معاملے میں خود انسان کو وہ کام کرنا پڑتا ہے جو مادّی موضوعات میں فطرت کی طرف سے انجام دیاجاتا ہے، یعنی تصورات کے موضوع پر کلام کرنے والا اپنے اندر خود اپنی کوشش سے اتنی زیادہ تجزیاتی طاقت پیدا کرے کہ وہ خود اپنے ذہن میں چیزوں کو سارٹ آؤٹ (sortout) کرسکے- اِس معاملے میں اس کا ذہن اتنا زیادہ بیدار ہو کہ وہ چیزوں کے فرق کو فوراً محسوس کر لے، وہ مختلف قسم کے تصورات کو اُسی طرح ایک دوسرے سے ممیز کرسکے جس طرح ایک جوہری پتھر کے مختلف ٹکڑوں کو بظاہر ہم شکل ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے ممیز کرلیتا ہے-
اِس مقصد کے لیے آدمی کو اپنے اندر کامل معنوں میں وہ صلاحیت پیدا کرنی ہوتی ہے جس کو موضوعی طرزِ فکر (objective thinking) کہاجاتا ہے- یہ صفت صرف اُس شخص کے اندر ہوتی ہے جو اپنے آپ کو ہر قسم کی جانب داری سے خالی کرلے، جو اپنے آپ کو ہر قسم کے تعصبات (prejudices) سے پاک کرلے، جو اپنے آپ کو ہر قسم کے ڈسٹریکشن (distraction) سے بچائے، جس کا کیس پورے معنوں میں ڈی کنڈیشنڈ (de-conditioned) انسان کا کیس بن چکا ہو، جو اپنے آپ کو ہر قسم کی مصلحتوں سے اوپر اٹھا سکے، جو اپنے اندر آخری حد تک حقیقت پسندی کا مزاج پیدا کرلے- شعوری ارتقا کی بنا پر جس کا حال یہ ہو کہ اس کے لیے ساری اہمیت صرف اُس چیز کی ہوجائےجو امر ِ واقعہ کے طورپر درست ہو، جس کے نزدیک ساری اہمیت صرف سچائی کی ہو، نہ کہ کسی اور چیز کی-
یہ صفت سیکولر لوگوں میں بھی ہوسکتی ہے، لیکن کامل معنوں میں نہیں- اِس صفت کا کامل ظہور صرف اُس شخص کے اندر ہوسکتا ہے جو ایک متقی انسان ہو- اللہ کے خوف نے جس کو آخری حد تک کٹ ٹو سائز (cut to size)انسان بنادیا ہو- اِس بنا پر راقم الحروف کا احساس یہ ہے کہ کلام میں وضوح پیدا کرنے کے لیے صرف علم کافی نہیں، اُس کے لیے تقوی کی صفت لازمی طورپر ضروری ہے- تقوی کے بغیر صرف علم کی بنیاد پر کسی شخص کے کلام میں جزئی طورپر وضوح کی صفت پیدا ہوسکتی ہے، کامل طورپر نہیں- علم اور تقوی، دونوں صفتیں جب ایک شخص کے اندر جمع ہوں تو اس کے بعد وہ چیز وجود میں آتی ہے جس کو کلام میں وضوح (clarity)کہا جاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

امت کا دورِ زوال

امتِ مسلمہ کے دورِ زوال کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں بہت سی روایتیں آئی ہیں- یہ روایتیں گویا پیشگی تنبیہ (advance warning) کی حیثیت رکھتی ہیں- اِن روایتوں کا مقصد یہ ہے کہ امت کے رہنما پیشگی طورپر زوال کی علامتوں کو جان لیں اور اُن کی اصلاح کے لیے سرگرم ہوجائیں- اگر چہ اِس معاملے میں امتِ مسلمہ کا حال بھی عملاً وہی ہوا جو پچھلی امتوں کا ہوا تھا، یعنی پیشگی تنبیہات کے باوجود اصلاحِ حال میں ناکامی-
اِس سلسلے میں حدیث کی کتابوں میں جو روایتیں آئی ہیں، اُن میں سے ایک روایت یہ ہے: لینقضنّ عرى الإسلام عروة عروة- فکلما انتقضت عروة، تشبّث الناس بالتی تلیہا- وأولہن نقضا الحکم، وآخرہن الصلاة (مسند أحمد: 251/5 ) یعنی اسلام کے حلقے (زنجیر) ٹوٹتے رہیں گے، ایک کے بعد دوسری کڑی- جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ باقی ماندہ کڑی سے جڑ جائیں گے- پہلی کڑی جو ٹوٹے گی، وہ ’الحکم‘ ہے اور آخری کڑی جو ٹوٹے گی ، وہ ’الصلاة‘ ہے-
موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کے درمیان جو انقلابی رہنما پیدا ہوئے، انھوں نے دورِ زوال میں پیش آنے والی خرابی کی وہ تشخیص کی جس کو ’’دین اور سیاست کے درمیان جدائی‘‘ کہاجاتا ہے- اِس غلط تشخیص کی بناپر ساری امت بے نتیجہ طورپر سیاسی ہنگامہ آرائی میں مشغول ہوگئی- صحیح بات یہ ہے کہ دورِ زوال میں امت کے اندر جو خرابی پیدا ہوتی ہے، وہ دین اور سیاست کے درمیان جدائی نہیں ہے، بلکہ وہ دین اور مظاہرِ دین کے مابین جدائی ہے، یعنی دین کی اصل روح کا مفقود ہوجانا اور دین کی ظاہری شکلوں کا باقی رہنا- اِس تفریق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امت کے درمیان بظاہر دین کے نام پر طرح طرح کی سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں، لیکن دین اپنی حقیقت کے اعتبار سے، عملاً موجود نہیں ہوتا- اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بظاہر دین داری کے باوجود مسلمان دین کی اُن رحمتوں اور برکتوں سے  محروم ہوجاتے ہیں جو سچے اہلِ دین کے لیے مقدر کی گئی ہیں-
کسی امت کے اوپر زوال کا دور اچانک نہیں آتا، بلکہ تدریجی (gradual)طور پر آتا ہے- تدریجی زوال کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ دھیرے دھیرے اُس سے مانوس ہو جاتے ہیں، وہ زوال کی حالت ہی کو درست حالت سمجھنے لگتے ہیں- اِس زوال کو دوسرے الفاظ میں، تدریجی تحویل (gradual shift) کہا جاسکتا ہے، یعنی ایک حالت سے دوسری حالت تک پہنچ جانا- مذکورہ حدیث میں ’’عُروةً، عُروةً‘‘ تبدیلی کا لفظ آیا ہے- اِس حدیث میں دراصل تمثیل کی زبان میں اِسی تدریجی تحویل کو بتایا گیا ہے- اِس تحویل کی کچھ صورتیں یہاں درج کی جاتی ہیں:
آئڈیالاجکل اسلام سے کلچرل اسلام کی طرف اسپرٹ سے فارم کی طرف
تدبر قرآن سے تلاوتِ قرآن کی طرف تخلیقیت سے تقلید کی طرف
مخلصانہ دین داری سے ظاہر داری کی طرف امت سے سیاست کی طرف
امن سے تشدد کی طرف جہاد سے قتال کی طرف
آخرت پسندی سے دنیا پرستی کی طرف خاموش عمل سے شور وغل کی طرف
حقیقت پسندی سے تصنع کی طرف سادگی سے تکلفات کی طرف
دورِ زوال میں اِن تبدیلیوں کی بنا پر دینِ خداوندی کا وہ حال ہوجاتا ہے جس کو ایک حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: لا یبقى من الإسلام إلا إسمہ، ولا یبقى من القرآن إلا رسمہ (البیہقی فی شعب الإیمان، رقم الحدیث: 1908) یعنی دورِ زوال میں اسلام کا صرف نام باقی رہے گا اور قرآن کا صرف رسم الخط باقی رہے گا-
اِس حالتِ زوال کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح کہاجاسکتا ہے کہ قِشر (shell) کا باقی رہنا اور مغز (kernel) کا عملاً باقی نہ رہنا- دورِ زوال میں امت کی اصلاح کا صحیح طریقہ صرف ایک ہے اور وہ ہے— حکیمانہ دعوت وتبلیغ کے ذریعے امت کو دوبارہ قشر کی حالت سے مغز کی حالت کی طرف لے جانا-
واپس اوپر جائیں

اسکالر اور مفکر کا فرق

اسکالر (scholar)اور مفکر (thinker)کا فرق ایک لفظ میں یہ ہے کہ اسکالر کتابی علم کی بنیاد پر بنتا ہے اور مفکر تخلیقی علم کی بنیاد پر- اسکالر کی تشکیل کتب خانے میں ہوتی ہے اور مفکر کی تشکیل کا دائرہ پوری کائنات تک وسیع ہوتا ہے- اسکالر کی کامیابی یہ ہے کہ وہ پروفیشنل معیار (professional criterion) پر پورا اترے- اِس کے برعکس، مفکر اپنا معیار خود بناتا ہے، وہ کسی پروفیشنل معیار کا پابند نہیں ہوتا —— روایتی عالم کا نام اسکالر ہے اور تخلیقی اسکالر کا نام مفکر-
اسکالر کو بہت جلد مروَّجہ اداروں میں کوئی سیٹ (seat) حاصل ہوجاتی ہے، لیکن مفکر کا معاملہ اِس کے برعکس ہوتا ہے- مفکر کسی خارجی مولڈ(mould)کا پابند نہیں ہوتا، اِس لیے وہ کسی مروجہ ادارے کے لیے قابلِ قبول بھی نہیں ہوتا- اسکالر کی کامیابی یہ ہے کہ وہ مروجہ اداروں کی شرائط پر پورا اترے- مثلاً اس کو ایک سے زیادہ زبانوں پر قدرت حاصل ہو، وہ روایتی علم میں مہارت رکھتا ہو، اس کے اندر کامل موضوعیت (objectivity) پائی جاتی ہو، وہ انتہا پسندانہ سوچ سے مکمل طورپر خالی ہو-
مفکر کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ تخلیقی تفکیر(creative thinking) کا حامل ہو- غیر مذہبی دائرے میں مفکر کی ایک مثال کارل مارکس (وفات: 1883ء) ہے- بہ اعتبارِ حقیقت، کارل مارکس کا فکر درست نہ تھا، لیکن کارل مارکس کو سیکولر حلقے میں مسلّم طورپر مفکر کادرجہ دیا جاتا ہے-مسلم تاریخ میں، میرے علم کے مطابق، صرف ایک شخص ہے جس کو پورے معنوں میں، مفکر کہاجاسکتا ہے اور وہ عبدالرحمن بن خلدون (وفات: 1406ء) ہے، تاہم عبد الرحمن بن خلدون کو اسلامی مفکرکا ٹائٹل نہیں دیا جاسکتا- زیادہ درست بات یہ ہے کہ وہ ایک سوشل مفکر (social thinker) تھا-
موجودہ زمانے میں بہت سے مسلمان ہیں جن کو اسلامی مفکر کہا جاتا ہے، لیکن میرے اندازے کے مطابق، اُن میں سے کوئی بھی شخص حقیقی معنوں میں اسلامی مفکر نہیں- اِن میں سے ہرشخص کا کیس یہ ہے کہ وہ روایتی علم سے باخبر تھا، لیکن اس کو جدید دور کی بصیرت حاصل نہ تھی- ایسی حالت میں یہ لوگ اس کے اہل ہی نہ تھے کہ وہ دورِ جدید میں مفکر کا رول ادا کرسکیں-
مفکر کی تعریف (definition) یہ کی جاتی ہے کہ —مفکر وہ ہے جو حقائق ِمتفرقہ کو حقیقت ِواحدہ میں تبدیل کرسکے، وہ بکھری ہوئی حقیقتوں کو داخلی طورپر ایک ہم آہنگ کُل (inter-related whole)بناسکے-اپنی اِسی خصوصیت کی بناپر مفکر کے لیے یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ کسی زمانے کے حالات کی ایسی تعبیر کرسکے جس میں لوگ غیر مشتبہ طورپر اپنا واحد نشانہ پالیں- مختلف قسم کے منفی پہلوؤں کے درمیان وہ یہ دریافت کرسکیں کہ مثبت طرزِ فکر(positive way of thinking) کی تشکیل وہ کس طرح کرسکتے ہیں-
قانونِ فطرت کے مطابق ایسا ہے کہ دنیا ہمیشہ افکار کا جنگل بنی رہتی ہے- یہ افکار ہمیشہ متضاد پہلوؤں کے حامل ہوتے ہیں- مختلف رنگ کے پتھروں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن ہے، لیکن مختلف نوعیت کے افکار کو ایک دوسرے سے الگ کرنا بلاشبہہ مشکل ترین کام ہے- مفکر کی اہم ترین صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ چیزوں کو سارٹ آؤٹ (sort out) کرسکے، وہ مختلف اور متفرق اجزا کے ڈھیر میں پائے جانے والے مطلوب جُز اور غیر مطلوب جز کو ایک دوسرے سے الگ کرسکے-
یہی وہ صلاحیت ہے جو ایک مفکر کے اندر مبنی بر فوکس سوچ (focused-thinking) پیدا کرتی ہے- مثال کے طورپر امتِ مسلمہ کی حالت کو دیکھئے - موجو دہ زمانے میں امت مختلف قسم کے خارجی مسائل میں گھری ہوئی ہے— اسرائیل کا مسئلہ، مسلم ممالک میں امریکا کی دراندازی، قرآن اور پیغمبر اسلام کے خلاف پروپیگنڈا، مسلمانوں کے بارے میں میڈیا کی منفی روش، ہندو ریوائلزم (Hindu revivalism) ، مغربی تہذیب کا چیلنج، اسلامی شریعت میں دوسروں کی مداخلت، مسلم دشمنوں کی سازش، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مستشرقین کے اعتراضات، وغیرہ-
اِن تمام مسائل کو لے کر اگر ایک ہمہ گیر جدوجہد شروع کی جائے تو ایسی ہمہ گیر جدوجہد صرف ایک نتیجہ پیدا کرے گی اور وہ ہے — احتجاجی صحافت یا احتجاجی قیادت- اِس طرح کی نام نہاد ہمہ گیر جدوجہد اگر ہزار سال تک جاری رہے، تب بھی اُس سے کوئی مثبت نتیجہ پیدا ہونے والا نہیں- اِس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ فریقِ ثانی کا تو کچھ نقصان نہیں ہوگا، البتہ مسلمان نفرت اور تشدد کے دلدل میں پھنس کر خود اپنی ہلاکت میں اضافہ کرلیں گے، اس کے سوا کچھ اور نہیں-
ایسی حالت میں مفکر کا کام یہ ہے کہ وہ چیزوں کو سارٹ آؤٹ کرے- وہ متفرقات کے جنگل میں وحدت کا نکتہ دریافت کرے- اِس دریافت کے بعد ہی یہ ممکن ہوگاکہ امت اپنے عمل کے لیے صحیح نقطۂ آغاز (right starting point) پالے- صحیح نقطہ آغاز کی دریافت کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ امت درست سمت میں اپنا سفر شروع کرے اور پھر مطلوب منزل تک پہنچ جائے-
اِس معاملے میں قرآن وسنت کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ حالات میں امت کے لیے صحیح نقطۂ آغاز صرف ایک ہے اور وہ دعوت الی اللہ ہے- دعوت الی اللہ کا صحیح نقطہ آغاز ہونا قرآن وسنت سے واضح طورپر ثابت ہے(74:2)-
اِس طرح کے معاملے میں مثبت نشانہ دریافت کرنے سے بھی زیادہ ضروری یہ ہوتا ہے کہ نشانۂ عمل کے منفی پہلوؤں کو دریافت کیا جائے، یعنی ’’کیا کرنا ہے‘‘ کے ساتھ یہ جاننا کہ ’’کیا نہیں کرنا ہے‘‘- جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ وہ صرف ’’کیا کرنا ہے‘‘ کو جانیں، مگر وہ ’’کیا نہیں کرنا ہے‘‘ سے بے خبر رہیں، ایسے لوگوں کے لیے صرف یہ انجام مقدر ہے کہ وہ کسی انجام تک نہ پہنچیں، خواہ انھوں نے بطور خود عمل اور قربانی کا پہاڑ کھڑا کردیا ہو-
واپس اوپر جائیں

ذہنی کہر کا مسئلہ

ہندستان کے شمالی حصہ میں سردی کے موسم میں کہر (fog) کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، اِس مسئلے کی بنا پر اِس ایریا کی ٹرینیں یا تو اسٹیشنوں پر رک جاتی ہیں یا وہ نہایت دھیمی رفتار سے چلتی ہیں- انڈین ریلوے نے اِس مسئلے کے حل کے لیے ایک آلہ (device) تیار کیا ہے- اِس آلے کا نام ہے — فاگ سیف ڈیوائس (fog-safe device)- اِس آلے کی تیاری کے بعد ٹرین کے ڈرائیور کے لیے یہ ممکن ہوگیاہے کہ وہ گہرے کہر کے اندر بھی ٹرین کو 60 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلا سکے-
یہ مادّی کہر (material fog) کا معاملہ ہے- اِسی طرح ذہنی کہر (intellectual fog)بھی ہوتا ہے- دنیا میں ہر بولنے اور لکھنے والا آدمی ماحول میں اپنی باتوں کو بکھیر رہا ہے- موجودہ زمانے میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے استعمال کی بناپر یہ مسئلہ بے شمار گُنا زیادہ بڑھ گیا ہے- غالباً اِسی ذہنی کہر کو ایک حدیثِ رسول میں ’’فتنةُ الدُّہَیماء‘‘ (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 4242)کہاگیا ہے، یعنی سخت قسم کا تاریک فتنہ-
ہر آدمی عملاً اِسی ذہنی کہر کے اندر جی رہا ہے، وہ اُسی کے مطابق سوچتا ہے اور اسی کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بناتا ہے- اب سوال یہ ہے کہ ایک شخص کس طرح اپنے آپ کو اِس مسئلے سے بچائے- افکار کے اندھیرے میں کس طرح وہ اپنے آپ کو صحتِ فکر (right thinking)پر قائم رکھے-
’فاگ سیف ڈیوائس‘ گویا مادّی مثال کی صورت میں اِس حل کی ایک نشان دہی ہے- ہمیں یہ کرنا ہے کہ ہم اپنے آپ کو داخلی طورپر اِس طرح تیار کریں کہ ہم خارجی فاگ سے غیر متاثر رہ کر سوچنے کے قابل ہوجائیں- ریلوے کی مادی تدبیر کی طرح ہم میں سے ہر شخص کو ایک نظریاتی تدبیر کرنا ہے- قانونِ فطرت کے مطابق، خارجی فاگ کبھی ختم ہونے والا نہیں- جو کچھ ممکن ہے، وہ صرف یہ کہ ذاتی تدبیر کے ذریعے آدمی اپنے آپ کو اُس کے بُرے اثرات سے محفوظ کرلے-
واپس اوپر جائیں

پروفیشنل رائٹنگ، پروفیشنل قیادت

موجودہ زمانے میں جو نئی چیزیں پیدا ہوئیں، اُن میں سے ایک وہ ہے جس کو پروفیشنل ازم (professionalism)کہاجاتاہے، یعنی بطور پیشہ (profession)کسی کام کو کرنا- نئے حالات کے نتیجے میںجو چیزیں و جود میں آئی ہیں، اُن میں سے دو چیزیں یہ ہیں — پروفیشنل جنرل ازم اور پروفیشنل لیڈرشپ- یہ وہ لوگ ہیں جو جنرل ازم یا لیڈر شپ کو بطورپروفیشن اختیار کرتے ہیں، نہ کہ بطور مشن- یہی وہ پروفیشنل لوگ ہیں جو موجودہ زمانے کے مسائل کے اصل ذمے دار ہیں-
اپنے ذہنی افتاد کے اعتبار سے، اُن کا نشانہ یہ نہیں ہوتا کہ مسئلے کا حقیقی حل کیا ہے، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ مسئلے کے حوالے سے وہ کون سی بات کہہ سکتے ہیں جو عوام کو زیادہ پسند آئے- پروفیشنل صحافیوں اور پروفیشنل لیڈروں کا ذہن عام طورپر یہی ہوتا ہے، خواہ وہ شعوری طور پر ہو یا غیر شعوری طورپر-
اپنے پروفیشنل مزاج کی بناپر یہ لوگ ہمیشہ آئڈیل (ideal)کی بات کرتے ہیں- اُن کو اِس سے بحث نہیں ہوتی کہ عملی طورپر کیا چیز ممکن ہے اور کیا چیز ممکن نہیں-
ان کے پاس ہمیشہ ایک تصوراتی قسم کا معیاری پیمانہ (ideal yardstick) ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ ہر چیز کو ناپتے رہتے ہیں-مثلاً وہ کہتے ہیں کہ — یہ حقوقِ انسانی (human rights) کی خلاف ورزی ہے، یہاں انتظامیہ (administration) نے اپنی ذمے داری ادا نہیں کی، یہاں اتھارٹیز نے امتیازی سلوک (discrimination) کا معاملہ کیا، یہاں قانون کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے، یہاں انصاف (justice) کا طریقہ نہیں اپنایاگیا، یہاں پولس نے اپنی ذمے داری ادا نہیں کی، یہاں سِوک سوسائٹی (civic society) کے نمائندوں کو کام کرنے کا موقع نہیں دیاگیا، یہاں لوگوں کے ساتھ دہرے معیار (double standard) کا طریقہ اختیار کیاگیا، وغیرہ- یہ وہ لوگ ہیں جو قوّال ہیں، مگر فعال نہیں اور اِسی قسم کے غیر فعّال قوالوں نے آج کی دنیا میں تمام مسائل پیدا کررکھے ہیں-
واپس اوپر جائیں

حدیبیہ انقلاب

قدیم ترین زمانے سے انسان کا یہ ذہن رہا ہے کہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کا سب سے زیادہ طاقت ور ذریعہ جنگ ہے- عربی زبان کی ایک قدیم مثل ہے: الحرب أنفى للحرب- انگریزی زبان میں کہا جاتا ہے — وار فار پیس (war for peace)، یعنی پُرامن مقصد حاصل کرنا ہے تو جنگ کرو- فارسی کے ایک قدیم شاعر نے کہا تھا کہ جو شخص تلوار چلاتا ہے، اُسی کے نام کا سکہ چلتا ہے:
ہر کہ شمشیر زند، سکّہ بہ نامش خوانند
مگر تاریخ کا تجربہ برعکس طور پر یہ بتاتا ہے کہ جنگ سے کبھی کسی نے کوئی مثبت فائدہ حاصل نہیں کیا- ہمیشہ یہ ہوا ہے کہ جنگ میں جو فریق ہارتا ہے، وہ اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہارنے والے فریق کے اندر انتقام (revenge) کی نفسیات جاگ اٹھتی ہے- وہ دوبارہ اپنی قوتوں کو مجتمع کرتا ہے اور فاتح فریق کے خلاف انتقامی جنگ چھیڑ دیتاہے- یہی واقعہ بار بار ہوتا رہتا ہے- اِس طرح عملاً یہ ہوتا ہے کہ جنگ سے ہمیشہ ایک دورِ برائی (vicious circle) قائم ہوجاتا ہے:
war-defeat-revenge, war-defeat-revenge
مسلم تاریخ بھی اِس معاملے میں استثنا (exception) کی مثال نہیں- اسلام کی ابتدائی تاریخ بتاتی ہے کہ 2 ہجری میں بدر کی لڑائی پیش آئی- اِس جنگ میں اہلِ ایمان کو مکمل فتح حاصل ہوئی- انھوں نے فریقِ ثانی کے 70 افراد کو قتل کردیا، لیکن مسئلہ ختم نہیں ہوا- عملاً یہ ہوا کہ شکست خوردہ فریق انتقامی نفسیات میں مبتلا ہوگیا- مکہ لوٹ کر اس نے نئی جنگ کی تیاری شروع کردی اور پھر 3 ہجری میں اس نے انتقامی جذبے کے تحت مدینہ پر حملہ کردیا- اس کے نتیجے میں وہ جنگ پیش آئی جس کو جنگ احد کہاجاتا ہے- جنگ احدمیں اہلِ ایمان کو شکست ہوئی اور فریق ِ مخالف نے اِس جنگ میں اہلِ ایمان کے 70 افراد کو قتل کردیا- جنگ کے خاتمے پر فریقِ مخالف کے سردار ابو سفیان نے ایک پہاڑی کے اوپر کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہا: یوم بیوم بدر (آج ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا)-
تجربہ بتاتا ہے کہ پوری تاریخ میں اربابِ کار اِس حقیقت سے بے خبر رہے کہ انسان کی انتقامی نفسیات اِس میں رکاوٹ ہے کہ جنگ کے ذریعے کوئی مثبت مقصد حاصل کیا جاسکے- ایسی حالت میں قابلِ عمل طریقہ صرف یہ ہے کہ جنگ کے بجائے صلح کا طریقہ اختیار کیا جائے- صلح کا فائدہ یہ ہے کہ فریقین کے درمیان پر امن ماحول قائم ہوجاتا ہے- اِس طرح یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ حالات کے اندر چھپے ہوئے مواقع کو دریافت کرکے انھیں استعمال کیا جائے- اِس مصالحانہ پالیسی کے تحت کامیابی کا حصول پوری طرح ممکن ہوجاتا ہے، کیوں کہ مواقع کے استعمال ہی کا دوسرا نام کامیابی ہے-
خدائی منصوبہ بندی
اِس معاملے میں انسان کو صحیح رہنمائی دینے کے لیے اللہ نے تاریخ میں مداخلت کا فیصلہ کیا- یہ واقعہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں پیش آیا- اللہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس کا ذریعہ بنایا- اِس کا آغاز ایک خواب سے ہوا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت مدینہ میں تھے- یہاں آپ نے ایک خواب دیکھا- اِس خواب کے مطابق، آپ ذوالقعدہ 6 ہجری میں اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے- اِس کے بعد مختلف واقعات پیش آئے- آخر کار طویل گفت وشنید (negotiation)کے بعد فریقین کے درمیان وہ معاہدہ طے پایا جس کو تاریخ میں معاہدہ حدیبیہ (Hudaibia Agreement)کہاجاتا ہے-یہ معاہدہ اپنی تفصیلات کے اعتبار سے، کئی شرطوں پر مشتمل تھا، لیکن اس کی بنیادی شرط صرف ایک تھی، وہ یہ کہ دس سال تک دونوں فریقوں کے درمیان کوئی جنگ نہ ہوگی- اِس شرط کے الفاظ یہ تھے: ہذا ما صالح علیہ محمد بن عبد اللہ سہیل بن عمرو اصطلحا على وضع الحرب عن الناس عشر سنین، یأمن فیہن الناس ویکف بعضہم عن بعض (سیرة ابن کثیر: 3/321) یعنی یہ وہ معاہدہ ہےجو محمد بن عبد اللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان طے ہوا- دونوں اِس پر رضامند ہوئے کہ دونوں کے درمیان دس سال تک جنگ نہیں ہوگی-
معاہدہ حدیبیہ دراصل دس سال کے لیے ایک ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا- مگر دونوں فریقوں کے درمیان اُس وقت دشمنی کا جو ماحول تھا، اُس کے اعتبار سے اِس قسم کا معاہدہ ایک ایسا معاہدہ تھا جو عملاً ناممکن نظر آتا تھا- چناں چہ بظاہر یہ ناممکن چیز صرف اُس وقت ممکن ہوئی، جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فریقِ ثانی کی کڑی شرطوں کو یک طرفہ طورپر منظور کرلیا-مثلاً ایک شرط یہ تھی کہ مکہ کا کوئی شخص اگر اسلام قبول کرکے مدینہ آئے تو اس کو دوبارہ مکہ والوں کی طرف لوٹانا ہوگا- اِس کے برعکس، مدینے کا کوئی شخص اگر مکہ چلا جائے تو اہلِ مکہ کو حق ہوگا کہ وہ اس کو مکہ میں روک لیں اور دوبارہ اس کو مدینہ واپس نہ کریں- اِسی طرح اِس معاہدے کی ایک شرط یہ تھی کہ تمام اہلِ ایمان اِس سال حدیبیہ سے مدینہ واپس چلے جائیں، وہ عمرہ کے لیے مکہ میں داخل نہ ہوں-
معاہدہ حدیبیہ ایک کاغذ پر لکھا گیا تھا-حضرت علی بن ابی طالب اس کی کتابت کررہے تھے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق، انھوں نے پہلا جملہ یہ لکھا: ہذا ما صالح علیہ محمد رسول اللہ- فریقِ ثانی کے نمائندہ سہیل بن عمرو نے اِس پر اعتراض کیا- انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے، اِس لیے آپ صرف ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ لکھیے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے کہا کہ تم کاغذ پر ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ مٹا دو اور صرف ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ لکھو- حضرت علی کاغذ سے ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ مٹانے پر راضی نہ ہوئے- اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کو اپنے ہاتھ سے کاغذ سے مٹا دیا-اِس معاہدے کی تکمیل کے بعد رسول اور اصحاب رسول مدینہ واپس آگئے-اِس معاہدے سے پہلے دونوں فریقوں کے درمیان مسلسل طور پر ایک حالت ِ جنگ (state of war) قائم تھی- اِس بنا پر اسلام کا دعوتی مشن عملاً تقریباً متروک ہوکر رہ گیا تھا- معاہدہ حدیبیہ کے بعد یہ ہوا کہ دونوں فریقوں کے درمیان مکمل امن قائم ہوگیا- اب پیغمبراور آپ کے اصحاب نے دعوت کا نیا منصوبہ بنایا- انھوں نے منظم انداز میں مدینہ کے اطراف میں مسلسل طورپر دعوتی کام شروع کردیا- عرب کے مختلف علاقوں میں آباد قبائل کے درمیان وفود بھیج کر دعوتی کام کیا جانے لگا، حتی کہ عرب کے باہر جو حکومتیں قائم تھیں، اُن کے یہاں دعوتی وفود بھیجے جانے لگے- خود مکہ میں رشتے داروں کے ذریعے آمد ورفت جاری ہوگئی- اِس طرح خود مکہ میں توحید کی آواز پہنچنے لگی-
پرامن ماحول میں اِس طرح دعوتی سرگرمیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ کثرت سے اسلام کے حلقے میں داخل ہونے لگے، یہاں تک کہ صرف دو سال کے اندر اہلِ ایمان کی تعداد اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ یہ ممکن ہوگیا کہ جنگ کے بغیر خوداہلِ ایمان کی تعداد اسلام کی فتح کے لیے کافی ہوجائے- چناں چہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموش منصوبہ بندی کے تحت دس ہزار اصحاب کے ساتھ مکہ کی طرف مارچ کیا - اِس طرح کسی جنگ کے بغیر مکہ پر اہلِ ایمان کا غلبہ قائم ہوگیا- توحید کی آواز انسانی فطرت کی آواز ہے- اگر معتدل ماحول میں دعوتی کام ہو تو پرامن دعوت ہی لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے کے لیے کافی ہوجائے-روایات میں آیا ہے کہ جب اچانک ایک صبح کو اہلِ مکہ نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دس ہزار اصحاب کے ساتھ مکہ میں داخل ہوگئے ہیں تو مکہ کے سردار ابو سفیان نے یہ اعلان کردیا: یا معشر قریش، ہذا محمد قد جاءکم فیما لا قِبل لکم بہ، فمن دخل دار أبی سفیان فہو آمن (سیرة ابن ہشام: 4/23 ) یعنی اے قریش کے لوگو، یہ محمد ہیں جو اِس طرح مکہ میں داخل ہوگئےہیں کہ تمھارے اندر اُن کے مقابلے کی طاقت نہیں-
معاہدۂ حدیبیہ کے نتیجے میں جو تاریخی واقعہ پیش آیا، اس کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں آیا ہے: اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ ۝ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا (110:1-2) یعنی جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح، اور تم لوگوں کو دیکھو کہ وہ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہورہے ہیں-قرآن کی اِس آیت میں ’نصر اللہ‘ سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے مقام پر نصرِ عزیز (48:1-2) کہاگیا ہے- ’یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا ‘ کے الفاظ میں اُس واقعے کا ذکر ہے جو معاہدہ حدیبیہ کے بعد پیش آیا- لوگ اتنی بڑی تعداد میں اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے کہ ان کی کثرتِ تعداد ہی فتح کا سبب بن گئی-
حکمتِ حدیبیہ
نزاع (conflict) کے معاملے میں انسان قدیم زمانے سے صرف یہ جانتا تھا کہ ایسے معاملے میں صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (choice) ہوتا ہے — جنگ یا پسپائی- مگر انسان کی یہ سوچ ثنائی طرزِ فکر (dichotomous thinking) پر مبنی تھی- قانونِ فطرت کے مطابق، یہاں ایک اور انتخاب ممکن تھا جس سے پوری تاریخ میں انسان بے خبر رہا-وہ انتخاب یہ تھا کہ یک طرفہ صلح کے ذریعے امن قائم کیا جائے اور پھر حکیمانہ منصوبہ بندی کے ذریعے موجود مواقع (opportunities) کو بھر پور طورپر استعمال (avail) کیا جائے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ نہ فریقِ ثانی سے ٹکراؤ کیا جائے اور نہ پسپائی کا طریقہ اختیار کیا جائے، بلکہ خاموش منصوبہ بندی کے ذریعے امن کی طاقت (power of peace) کو استعمال کیا جائے- حدیبیہ کے تاریخی واقعے کے تحت اللہ تعالی نے رسول اور اصحاب رسول کے ذریعے اِس حکمت کا عملی مظاہرہ (practical demonstration) کروایا-
مگر یہ تاریخ کا عجیب سانحہ ہے کہ حکمتِ حدیبیہ کے کامیاب مظاہرے کے باوجود مسلم اور غیر مسلم دونوں اِس عظیم حقیقت سے بے خبر رہے- تاریخ میں حکمت حدیبیہ کو صرف ایک بار استعمال کیا گیا، نہ اُس سے پہلے اور نہ اس کے بعد- انسان ہمیشہ امن کے بارے میں سوچتا رہا ہے، حتی کہ امن باقاعدہ مطالعے کاایک مستقل موضوع بن گیا ہے جس کو پیسفزم (pacifism)کہا جاتا ہے- اِس موضوع پر کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں- اِس موضوع پر ایک انسائکلوپیڈیا بھی تیار کی گئی ہے جس کا نام انسائکلو پیڈیا آف پیسفزم (Encyclopaedia of Pacifism) ہے، مگر اب تک کوئی قابلِ عمل نظریۂ امن (ideology of peace) دریافت نہ ہوسکا-
روسی مصنف لیوٹالسٹائے(وفات: 1910) کی امن کے موضوع پر ایک مشہور کتاب ہے- ورلڈ لٹریچر میں وہ ٹاپ کی کتاب سمجھی جاتی ہے- اس نے بتایا ہے کہ امن کا قیام صرف عالمی محبت (universal love) کے تصور پر قائم ہوسکتا ہے- اُس کی اِس روسی کتاب کا ترجمہ مختلف عالمی زبانوں میں ہوا ہے- انگریزی ترجمے کا ٹائٹل یہ ہے —:
War and Peace, by LeoTolstoy—1865
مگر جیساکہ معلوم ہے، ٹالسٹائے کی کتاب صرف ایک ناول ہے، یعنی وہ فکشن کے پیرایے میں لکھی گئی ہے، اور کوئی فکشن حقیقی زندگی (real life) کے لیے گائڈ بک نہیں بن سکتا-
قرآن کا بیان
معاہدہ حدیبیہ ذوالقعدہ 6 ہجری میں طے پایا- اس کے فوراً بعد قرآن کی سورہ الفتح نازل ہوئی- اِس سورہ کی ابتدائی تین آیتیں یہ تھیں: اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ۝ لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِیْمًا ۝ وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَــصْرًا عَزِیْزًا (48:1-3) یعنی بے شک ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دے دی تاکہ اللہ تمھاری اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کردے اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کردے اور تم کو سیدھا راستہ دکھائے اور تم کو زبردست مدد عطا کرے-
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ الفتح دورانِ سفر اُس وقت اتری جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاہدہ حدیبیہ کی تکمیل کے بعد حدیبیہ سے مدینہ جارے تھے- اُس وقت جو واقعہ ہوا تھا، وہ صرف معاہدۂ امن تھا- جہاں تک فتح کی بات ہے، وہ ابھی مستقبل کی چیز بنی ہوئی تھی- پھر کیوں ایسا ہوا کہ ماضی کے صیغے میں ارشاد ہوا کہ ہم نے تم کو فتح دے دی، کھلی ہوئی فتح- یہ اسلوب دراصل امن کی اہمیت بتانے کے لیے تھا- اس کا مطلب یہ تھا کہ جب حقیقی معنوں میں پرامن طریقہ (peaceful method) اختیار کیاجائے، تو اُس کے بعد موافق نتیجے کا نکلنا یقینی ہوجاتا ہے-اس کے بعد فرمایا کہ ’لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ ‘ اِس آیت میں ’ذنب‘ کا لفظ ہے- ’ذنب‘ کے لفظی معنی گناہ (sin) کے ہوتے ہیں- مگر یہاں ’دنب‘ کا لفظ اپنے معروف معنی کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ شدتِ اظہار کے لیے استعمال ہوا ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ کر یک طرفہ امن کی طرف رہنمائی کی تو تمھارے اندر اِس کے درست ہونے پر شک کیوں پیدا ہوا-
جیسا کہ روایات میں آیا ہے، صحابہ نے اِس معاہدے پر برہمی کا اظہار کیا تھا- حضرت عمر فاروق نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ: لم نعطی الدنیة فی دیننا (ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا طریقہ کیوں اختیار کریں)- اِسی طرح یہاں’ مغفرت‘ سے مراد معروف معنی میں بخشش (salvation)نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ تحریک توحید کے دوران اہلِ ایمان سے تدبیر کے اعتبار سے جو خطائیں ہوئیں، اُن کو موثر نہ ہونے دینا، اِن تدبیری خطاؤں کے باوجود آخری کامیابی کو یقینی بنانا-
آیت میں واحد کا صیغہ (لیغفر لک) استعمال کیا گیا ہے- اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، مگر یہ خطاب نمائندہ ہونے کے اعتبار سے ہے، یعنی اُس وقت رسول کی حیثیت جماعتِ مسلمین کے نمائندہ کی تھی- گویا اِس آیت میں رسول کو خطاب کرتے ہوئے پوری جماعتِ مسلمین کو مخاطب بنایا گیا ہے- بہ اعتبار حقیقت، اس سے مراد اُس وقت کے اہلِ ایمان کی پوری جماعت ہے- اِس تفسیر کا ایک قرینہ یہ ہے کہ قرآن میں اِس معاملے کو ’إنا فتحنا لک‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، حالاں کہ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ یہ فتح پیغمبر اسلام کی شخصی فتح نہ تھی، وہ اس وقت کی تمام جماعتِ مومنین کی اجتماعی فتح تھی- اِس کا دوسرا قرینہ یہ ہے کہ آگے اِسی سورہ کی آیت نمبر 5 میں جمع کے الفاظ آئے ہیں- (48:8)
اِس آیت میں اتمامِ نعمت سے مراد وہ چیز نہیں ہے جس کو دوسرے مقام پر اکمالِ دین (6:3) کہاگیا ہے- سورہ الفتح میں اتمامِ نعمت سے مراد وہ حکیمانہ تدبیر ہے جس کی تلقین حدیبیہ کے معاملے میں اللہ کی طرف سے کی گئی تھی- آگے فرمایا کہ ’ویہدیک صراطا مستقیما‘- اِس آیت میں صراطِ مستقیم کا لفظ ایک مختلف معنی میں آیا ہے- سورہ الفاتحہ میں صراطِ مستقیم سے مراد انفرادی صراطِ مستقیم ہے اور سورہ الفتح میں صراطِ مستقیم سے مراد اجتماعی صراطِ مستقیم -آخر میں فرمایا کہ: وَیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَــصْرًا عَزِیْزًا- اِس آیت میں نصرِ عزیز سے مراد عام فتح نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد وہ فتح ہے جو مکمل طورپر پُرامن تدبیر کے ذریعے حاصل ہو، جیساکہ معاہدۂ حدیبیہ کے بعد پیش آیا، نصرِ عزیز کا یہ مفہوم قرآن کی سورہ النصر (110) سے مزید واضح ہوتا ہے- اِس سورہ میں ’نصر اللہ‘ کا لفظ آیا ہے- یہ ’نصر اللہ‘ (خدائی فتح) کس طرح حاصل ہوئی- واضح طورپر وہ اُس پُرامن تدبیر ِحکمت کے ذریعے حاصل ہوئی جو معاہدہ حدیبیہ کے وقت اختیار کی گئی تھی-
حدیبیہ کلچر
معاہدہ حدیبیہ سادہ طور پر صرف ایک معاہدہ نہ تھا- معاہدہ حدیبیہ کے ذریعے انسان کے اوپر ایک عظیم حکمت (wisdom) کو کھولا گیا، یعنی یہ حکمت کہ اجتماعی زندگی میں کامیابی کا طریقہ کیا ہے-پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں 2 ہجری میں بدر کی لڑائی پیش آئی- اِس لڑائی میں اہلِ ایمان کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی، لیکن اِس کے صرف ایک سال بعد احد کی لڑائی پیش آئی- اِس لڑائی میں فریقِ ثانی نے زبردست کامیابی حاصل کی- انھوں نے لڑائی کے میدان میں اہلِ ایمان کے 70 آدمیوں کو ہلاک کردیا- ایسا انتقامی نفسیات کی بنا پر ہوا- بدر کی لڑائی اہلِ ایمان کے لیے فتح تھی، لیکن فریقِ ثانی کے لیے وہ انتقام کے ہم معنی بن گئی:
Battle of Badr was victory for Muslims and revenge for the other party.
اِس تجربے سے معلوم ہوا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں-جنگ میں کامیابی صرف اُس وقت مسئلے کا حل بن سکتی ہے جب کہ فریقِ ثانی اپنی شکست (defeat) کو تسلیم کرے- مگر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ہارا ہوا فریق اپنی ہار کو نہیں مانتا، بلکہ اس کے اندر انتقام کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں- اِس بنا پر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جنگ کبھی مسئلے کو ختم کرنے والی ثابت نہیں ہوتی-اِس بنا پر اللہ کی رہنمائی کے تحت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مسئلے کے حل کا ایک نیا طریقہ اختیار کیا- اِس طریقے کو حکمتِ حدیبیہ کہہ سکتے ہیں- حدیبیہ کا معاہدہ ایک ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا، جو فریقِ ثانی کی شرطوں کو یک طرفہ طور پر مان کر انجام پایا تھا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم معاہدے کو مکمل کرنے کے بعد حدیبیہ سے مدینہ کی طرف واپس لوٹے- سفرکے دوران آپ پر سورہ الفتح نازل ہوئی- آپ کے اصحاب معاہدہ حدیبیہ پر خوش نہ تھے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورہ الفتح اپنے اصحاب کو سنائی تو صحابہ کو اِس کے بارے میں تردد ہوا- حضرت عمر فاروق نے تعجب کے ساتھ کہا: أوفتح ہو یا رسول اللہ؟ قال: نعم، والذی نفسی بیدہ إنہ لفتح- (اے خدا کے رسول، کیا یہ فتح ہے- آپ نے فرمایا کہ ہاں، اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، بے شک وہ فتح ہے)- ایک اور شخص نے کہا کہ: ما ہذا بفتح (یہ تو کوئی فتح نہیں)- اِس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بل ہوأعظم الفتوح (وہ فتح ہے، بلکہ وہ تمام فتحوں سے زیادہ بڑی فتح ہے) تفسیر القرطبی: 16/260
معاہدہ حدیبیہ جیسے ایک معاہدے کو قرآن میں فتح مبین کیوں کہاگیا ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں فرمایا کہ یہ ایک عظیم فتح ہے، حالاں کہ آیت کے نزول کے وقت عملی طورپر ’فتح‘ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا- حقیقت یہ ہے کہ یہ تبصرہ سیاسی فتح کے معنی میں نہ تھا، بلکہ وہ اِس معنی میں تھا کہ اِس معاہدے کے نتیجے میں اہلِ ایمان کو اپنے حریف کے اوپر بالادستی حاصل ہوگئی، یعنی اہلِ ایمان اپنے حریف کے مقابلے میں ایڈوانٹج کی پوزیشن میں آگئے-
معاہدہ حدیبیہ کے وقت فریقِ ثانی کے پاس صرف تلوار کی طاقت تھی- اِس معاہدے نے فریقِ ثانی کو پابند کردیا کہ وہ اپنی تلوار کو اہلِ ایمان کے خلاف استعمال نہ کرے- اِس طرح گویا اہلِ ایمان کے مقابلے میں، فریقِ ثانی خود تو بے طاقت ہو کر رہ گیا- لیکن اہلِ ایمان کے پاس تلوار کے سوا ایک اور چیز تھی جو فریقِ ثانی کے پاس نہ تھی اور وہ ہے نظریہ توحید(ideology of Tawhid)- یہ نظریاتی طاقت پوری طرح قابلِ استعمال تھی - معاہدہ حدیبیہ کے بعد یہ ہوا کہ فریقِ ثانی عملی طورپر کچھ کرنے کے قابل نہ رہا- اِس کے برعکس، امن کے قیام کی بنا پر اہلِ ایمان کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اپنی پوری طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی آئڈیالوجی کی بھر پور تبلیغ کریں-
چناں چہ ایسا ہی ہوا- ایک طرف فریقِ ثانی اِس پر مجبور ہوگیا کہ وہ اہلِ ایمان کے خلاف اپنی تلوار نہ استعمال کرے اور دوسری طرف اہلِ ایمان کامل آزادی کے ماحول میں نظریہ توحید کی تبلیغ واشاعت میں ہمہ تن مشغول ہوگئے- انھوں نے عرب کے تمام شہروں اور قبیلوں میں توحید کا پیغام پہنچانا شروع کردیا، حتی کہ عرب کے باہر جو ممالک تھے، اُن کے باشندوں تک بھی وہ اسلام کا پیغام پہنچانے لگے- اِسی حکمتِ حدیبیہ کا یہ نتیجہ ـتھا کہ صرف دو سال میں پورا عرب اسلام میں داخل ہوگیا-
حدیبیہ پالیسی کا فائدہ صرف یہ نہ تھا کہ ساتویں صدی عیسوی میں عرب کے ملک میں اسلام کو یہ کامیابی حاصل ہوئی کہ مختصر مدت میں وہاں ایک غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) آگیا- اس کا دوسرا عظیم فائدہ یہ ہوا کہ حدیبیہ پالیسی کے ذریعے عرب میں جو انقلاب آیا، اُس نے انسانی تاریخ میں پہلی بار ایک نیا عمل (process) جاری کردیا- یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتا ہوا موجودہ دور تک پہنچا- اِس اعتبار سے، موجودہ دور کو حدیبیہ پر اسس کا نقطہ انتہا کہاجاسکتا ہے-
حدیبیہ حکمت کیا تھی- حدیبیہ حکمت مختصر طورپر یہ تھی کہ جنگی ٹکراؤ کو بند کرکے امن کا ماحول قائم کرنا اور پھر پُرامن کوشش کے ذریعے اسلام کے فطری پیغام (natural message) کو لوگوں تک پہنچانا- موجودہ زمانے میں انسانی تعلقات کے درمیان جو تبدیلیاں ہوئی ہیں، اس کے بعد یہی حدیبیہ کلچر تمام قوموں کے اتفاق کے ساتھ ساری دنیا میں رائج ہوگیا ہے- اِس اعتبار سے، موجودہ دور کو دورِ حدیبیہ (age of Hudaibia) کہا جاسکتا ہے- پچھلے دور میں حدیبیہ کلچر صرف مقامی طورپر آیا تھا- موجودہ زمانے میں حدیبیہ کلچر کسی قربانی کے بغیر عالمی سطح پر قائم ہوگیا ہے-
اقوامِ متحدہ کا قیام
اقوامِ متحدہ (UNO) 1945 میں قائم ہوئی- اِس ادارے کا خاص مقصد عالمی امن کا قیام تھا- دنیا کے تمام ممالک باقاعدہ طورپر اس کے ممبر بنے- اِس بین اقوامی ادارے کا ہیڈ کوارٹر نیویارک (امریکا) میں قائم ہے-اِس عالمی ادارے کے تحت تمام ملکوں کے اتفاق سے ایک چارٹر (charter) تیار کیا گیا، جس کو اقوامِ متحدہ کا منشور (Charter of the United Nations) کہا جاتا ہے- اِس چارٹر کے تحت تمام قوموں کے اتفاق سے ایک قرار داد طے پائی جو دفعہ 2 (4)کے طورپر اِس چارٹر میں شامل ہے-اقوامِ متحدہ کے اِس چارٹر کی دفعہ کے تحت تمام قوموں کے اتفاق سے یہ طے پایا کہ — تمام ممبر ممالک بین اقوامی تعلقاتی میں اِس کے پابند ہیں کہ وہ کسی ریاست کو اس کے استحکام یا اس کی سیاسی آزادی کے معاملے میںدھمکی نہیں دیں گے اور نہ اس کے خلاف طاقت کا استعمال کریں گے:
All Members shall refrain in their international relations from the threat or use of force against the territorial integrity or political independence of any state.
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی یہ دفعہ اپنی حیثیت کے اعتبار سے، عین وہی ہے جو معاہدہ حدیبیہ کے وقت طے پائی تھی- مزید یہ کہ ساتویں صدی میں معاہدہ حدیبیہ کے وقت فریقِ ثانی کی جن شرطوں کو یک طرفہ طورپر ماننا پڑا تھا، بیسویں صدی میں تمام قوموں نے اِن شرطوں کو بطور خود حذف کردیا- موجودہ زمانے میں اہلِ ایمان کو اِس چارٹر کے مطابق، خود حالات کے تحت، عالمی امن حاصل ہوگیا ہے- اِسی کے ساتھ موجودہ زمانے میں مزید اضافے کے ساتھ وہ تمام امکانات اور مواقع پوری طرح کھل گئے ہیں جو دعوت الی اللہ کے عالمی مشن کے لیے ضروری ہیں- مثلاً مذہبی آزادی، کھلا پن (openness) ، عالمی کمیونیکیشن، آزادانہ آمد ورفت، پرنٹنگ پریس، وغیرہ-
سورہ الفتح جو معاہدہ حدیبیہ کے بعد اتری تھی، اُس کا خاتمہ اِس آیت پر ہوا ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۭ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَیْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا ۡ سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ٻ وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ۾ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَــظَ فَاسْتَوٰى عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ ۭ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا (48:29)یعنی محمد، اللہ کے رسول اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں، وہ منکروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں- تم اُن کو رکوع میں اور سجدے میں دیکھو گے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی کی طلب میں لگے رہتے ہیں- اُن کی نشانی ان کے چہروں پر ہے، سجدے کے اثر سے- ان کی یہ مثال تورات میں ہے- اور انجیل میں اُن کی مثال یہ ہے کہ جیسے کھیتی- اس نے اپنا انکھوا نکالا، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ اور موٹا ہوا، پھر وہ اپنـے تنے پر کھڑا ہوگیا- وہ کسانوں کو بھلا لگتا ہے، تاکہ اللہ اُن سے منکرین کو غصہ دلائے- اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا، اللہ نے اُن سے معافی اور بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے-
قرآن کی سورہ الفتح کے خاتمے کے یہ الفاظ تمثیل کی زبان میں ایک اہم تاریخی حقیقت کو بتارہے ہیں، وہ یہ کہ معاہدۂ حدیبیہ جو ذوالقعدہ 6 ہجری میں پیش آیا، وہ کوئی وقتی اور محلّی چیز نہ تھا، بلکہ وہ ایک عظیم عمل (process) کا آغاز تھا، جس کے تکمیلی مرحلے پر ایک عالمی انقلاب آنے والا تھا- یہ انقلاب تدریجی طورپر آیا اور بیسویں صدی عیسوی میں اس کی تکمیل ہوئی-
اِس عالمی انقلاب سے مرادوہی چیز ہے جس کو ہم نے دور حدیبیہ (age of Hudaibia) کہا ہے- معاہدہ حدیبیہ کا خلاصہ یہ تھا کہ فریقِ ثانی کی شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان کر امن قائم کرنا اور پھر تمام موجود مواقع کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کرنا- یہ موافق حالات جو قدیم زمانے میں رسول اور اصحابِ رسول کی قربانیوں کے ذریعے ظہور میں آئے تھے، وہ اب عالمی تبدیلیوں کے نتیجے میں خود زمانی تقاضے کے تحت مزید اضافے کے ساتھ حاصل ہوگئے ہیں- یہ جدید موافق حالات جن اسباب کے ذریعے ظہور میں آئے، وہ وہی ہیں جن کو مغربی تہذیب ، جمہوری افکار، اقوامِ متحدہ، وغیرہ کہاجاتا ہے- یہ بظاہر سیکولر انقلابات تھے، لیکن اللہ نے اِن بظاہر سیکولر انقلابات کو دین کی تائید کا ذریعہ بنادیا-
خلاصہ کلام
ساتویں صدی عیسوی میں حدیبیہ معاہدے کا جو موافق نتیجہ ظاہر ہوا تھا، اس کو قرآن میں ’فتحِ مبین‘ کہاگیا ہے- حدیبیہ معاہدہ کوئی پراسرار چیز نہ تھی، وہ ایک معلوم حکیمانہ تدبیر تھی- ساتویں صدی عیسوی میں اِس تدبیر کو صرف محدود طورپر استعمال کیا جاسکتا تھا- وہ بھی اِس طرح کہ رسول اور اصحابِ رسول کو یہ قربانی دینی پڑی تھی کہ وہ فریق ثانی کی شرطوں کو یک طرفہ طورپرمان لیں، حتی کہ لفظ ’’رسول اللہ‘‘ کو وہ معاہدے کی دستاویز سے مٹا دیں- مگر بعد کو اللہ کی مدد سے جو حالات پیدا ہوئے، اُس کے بعد ایسا ہوا کہ حدیبیہ انقلاب وسیع تر معنی میں ایک عالمی انقلاب بن گیا-
حدیبیہ معاہدے کے ذریعے جو امکانات صرف دس سال کے لیے حاصل کیے گئے تھے، موجودہ زمانے میں انھوں نے مستقل طورپر عالمی اصول (universal norm) کی حیثیت حاصل کرلی ہے- اب نہ دوسروں کی شرطوں کو ماننے کی ضرورت ہے اور نہ کسی دستاویز سے ’’رسول اللہ‘‘ کے لفظ کو مٹانے کی ضرورت- حدیبیہ معاہدے کے بعد اہلِ ایمان کو کام کے جو مواقع ملے تھے، وہ اب مزید اضافے کے ساتھ اُن کو حاصل ہوچکے ہیں- ضرورت صرف یہ ہے کہ اِن مواقع کو دریافت کیا جائے اور دانش مندی کے ساتھ اس کو استعمال کیا جائے - (31 اگست 2013)
واپس اوپر جائیں

تاریخِ مذہب
مذہب (religion) انسان کے لیے ویسا ہی ہے، جیسے بقیہ کائنات کے لیے قانونِ فطرت (law of nature)۔ بقیہ کائنات فطرت کے لازمی قوانین کے تحت کنٹرول ہورہی ہے۔ اِس کے برعکس، انسان ایک آزاد مخلوق ہے- انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ مذہب کے خداداد اصولوں کے تحت اپنی زندگی کو خود منظم کرے۔ آزادی کے اِسی صحیح یا غلط استعمال پر انسان کے مستقبل کا انحصار ہے۔ اِس اعتبار سے مذہب کی تعریف یہ ہوگی کہ — مذہب نام ہے خدائی قوانین کی بنیاد پر انسانی زندگی کی تنظیم کا۔
موجودہ زمانے میں علمِ انسانیات (anthropology) کے نام سے ایک مستقل شعبۂ علم وجود میں آیا ہے۔اِس علم کے تحت، ہر دور کے انسانی سماجوں کا مطالعہ کیاگیا ہے۔ اِس مطالعے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ہر زمانے کے سماج میں انسان کے اندر خدا کا عقیدہ پایا جاتا تھا، یعنی ایک ایسی فوق الطبیعی ہستی(supernatural being) کا عقیدہ، جو قائم بالذات (self-existent) ہے، جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا، جو تمام عالمِ موجودات کو کنٹرول کررہی ہے، جس کے قبضۂ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔ قرآن کی سورہ اخلاص (112)میں خدا کی صفات کا ذکر اِس طرح کیاگیا ہے:
’’کہو، وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ۔ اور کوئی اس کے برابر کا نہیں‘‘۔
آدم کی تخلیق
انسان ارتقائی طور پر نہیںپیدا ہوا، بلکہ وہ پہلے ہی دن کامل انسان کے طورپر وجود میں آیا۔ یہ خدا کی تخلیق تھی۔خدا اس پر قادر ہے کہ وہ لاشَے سے شَے کو پیدا کرے۔ اس نے انسان کو وجود عطاکیا، جب کہ اِس سے پہلے وہ مکمل طورپر معدوم تھا(19:9)۔ اس پہلے کامل انسان کا نام آدم ہے۔ خدا نے انسان کو پیدا کرکے اُس کو باغوں والی ایک دنیا میں بسایا، جس کو قرآن میں ’’جنت‘‘ کہاگیا ہے۔ اِس جنت میںآدم کو پوری آزادی حاصل تھی، البتہ اس میں ایک درخت کو خدا نے شجرۂ ممنوعہ (forbidden tree) کی حیثیت دے دی۔ خدا نے آدم سے کہا کہ تم کو اور تمھاری بیوی کو یہاں ہرقسم کی آزادی حاصل ہے، لیکن تم لوگ اس ممنوعہ درخت کا پھل نہ کھانا۔
آدم جس دنیا میں تھے، وہاںاُن کے ساتھ شیطان بھی کسی پہلو سے موجود تھا۔ شیطان نے آدم اور ان کی بیوی دونوں کو بہکایا۔ اس نے کہا کہ یہ شجرۂ ممنوعہ دراصل شجرۂ خُلد، یا ہمیشگی کا درخت (tree of eternity) ہے۔ ابھی تم لوگوں کو صرف زندگی ملی ہے، ابھی تم کو ابدیت حاصل نہیں ہوئی۔ اگر تم اِس درخت کا پھل کھا لو تو اس کے بعد یہ ہوگا کہ تم کو زندگی کے ساتھ ابدیت بھی مل جائے گی۔ اس کے بعد تم باغوں کی اِس دنیا میں ہمیشہ کے لیے رہ سکتے ہو۔
آدم اور حوا دونوں اِس بہکاوے میںآگئے۔ انھوںنے ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا۔ قرآن کے مطابق، اُن کا یہ عمل خدا کے حکم کی خلاف ورزی (20:121)تھا۔ چناں چہ پھل کھاتے ہی اچانک ایسا ہوا کہ دونوں خدا کی رحمت سے محروم ہوگئے۔ خدا کی رحمت کا لباس اُن سے اُتر گیا۔ وہ اپنے آپ کو بے بسی کی حالت میںپانے لگے۔انسان کی تاریخ میں یہ گم راہی کا سب سے پہلا واقعہ تھا۔ گم راہی کیا ہے۔ گم راہی دارصل حق کے راستے سے انحراف (deviation) کا نام ہے۔ خدانے انسان کو پیدا کرکے اس کے لیے ایک درست راستہ (صراطِ مستقیم) مقرر کردیا۔ اِس راستے پر چلنے کا نام حق کا اتباع ہے، اور اس راستے سے ہٹنے کا نام حق سے انحراف ہے۔ انسان کی پوری تاریخ دراصل اِسی اتّباع اور انحراف کی مختلف شکلوں کا دوسرا نام ہے۔
غلط تسمیہ
شجرۂ ممنوعہ (forbidden tree) کا مذکورہ واقعہ بتاتا ہے کہ حق کے راستے سے ہٹنے کا سبب کیا ہوتا ہے۔ اس کا سبب ہمیشہ صرف ایک ہوتا ہے، اور وہ ہے غلط تسمیہ(wrong nomenclature)۔ آدمی، شیطان کے وسوسے کا شکار ہو کر ہمیشہ یہ کرتا رہتا ہے کہ جو چیز خدا کی مقرر صراطِ مستقیم کے خلاف ہے، اس کو وہ ایک دل فریب نام دے کر اپنے لیے جائز کرلیتا ہے۔
اِسی حقیقت کو پیغمبر یوسف نے اپنے جیل کے مشرک ساتھیوں سے ایک دعوتی گفتگو کے دوران اِس طرح بیان کیا تھا: ’’تم خدا کے سوا جن کو پوجتے ہو، وہ صرف نام ہیں، جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے اُس کے لیے کوئی دلیل نہیں اتاری‘‘ (12:40) ۔ گم راہی کا سارا معاملہ اِسی غلط تسمیہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اِس حقیقت کو ایک حدیثِ رسول میں شراب کے حوالے سے اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لیستحلّنّ طائفۃٌ من أمّتی الخمر بإسم یسمونھا إیّاہ (مسند احمد، جلد 5 ، صفحہ 318) یعنی میری امت کا ایک گروہ ضرور شراب کو اپنے لیے حلال کرلے گا۔وہ شراب کا ایک اور نام رکھیں گے اور اِس طرح وہ اس کو جائز کرلیں گے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کو جب اس کے پیدا کرنے والے نے پیدا کیا تو اُسی وقت اس کی فطرت میںنہایت گہرائی کے ساتھ اچھے اور بُرے کی تمیز رکھ دی۔ ہر پیدا ہونے والا انسان پیدائشی طورپر اپنے اندر یہ گہرا شعور لیے ہوئے ہوتا ہے کہ فلاں چیز اچھی ہے اور فلاں چیز بُری، فلاں چیز صحیح ہے اور فلاں چیز غلط۔ آدمی اپنے اندر چھپے ہوئے اِس احساسِ فطرت کاانکار نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان بُرائی کے نام پر بُرائی نہیںکرپاتا۔ جب بھی کوئی انسان برائی کرنا چاہتا ہے تو وہ یہ کرتا ہے کہ پہلے وہ اُس برائی کا نام بدلتا ہے، وہ اُس برائی کو بطور خود ایک اچھا نام دیتا ہے۔ اِس طرح وہ اپنے آپ کو اِس فرضی اطمینان میں مبتلا کرلیتا ہے کہ میں جو کچھ کررہا ہوں، وہ کوئی بُرا کام نہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، غلط تسمیہ کے اس طریقے کا آغاز انسانی تاریخ میں سب سے پہلے شیطان نے اِس طرح کیا کہ اس نے شجرۂ ممنوعہ کا نام شجرۂ خلد رکھ دیا اور پھر آدم اور حوا کو راضی کیا کہ وہ اِس درخت کا پھل کھالیں۔ تاریخ میںتقریباً تمام بُرائیاں اِسی غلط تسمیہ کے تحت اختیار کی گئی ہیں۔ موجودہ زمانے میں جس چیز کو لَو اَفئر (love affair) کہاجاتا ہے، وہ کیا ہے۔ وہ دراصل سیکس افئر (sex affair) کا خوب صورت نام ہے۔
غلط تسمیہ کی مثالیں موجودہ زمانے میںبہت زیادہ عام ہوچکی ہیں۔ جدید میڈیا میں ہر روز اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ مثلاً نئی دہلی کے انگریزی روز نامہ ٹائمس آف انڈیا (یکم نومبر 2007) کے ضمیمہ ’دہلی ٹائمس‘ کے صفحۂ اول پر ایک رنگین تصویر ہے۔ اِس تصویر میں ایک لڑکی برائے نام کپڑا پہنے ہوئے کھڑی ہے۔ اِس باتصویر خبر کے اوپر اخبار نے یہ عنوان قائم کیا ہے— سارہ ایک پُراعتماد لڑکی ہے:
Sarah is a Confident Girl.
ساری تاریخ میںانسان اِسی غلط تسمیہ کا سہارا لے کر بُرائیوں کا ارتکاب کرتا رہا ہے۔ تاریخ میں جو برائیاں نظر آتی ہیں، وہ تقریباً سب کی سب براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اِسی غلط تسمیہ کی مثالیں ہیں۔ اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں ہم کچھ مثالوں کا ذکر کریں گے۔
غلط تسمیہ کی مثالیں
خدا نے جب انسان کو پیدا کیا تو اُس نے یہ کیا کہ ایک طرف، انسان کی فطرت میں حق اور ناحق کا احساس پیدائشی طور پر رکھ دیا۔ یہ احساس انسان کے لا شعور میں پیوست تھا۔ اب ضرورت یہ تھی کہ اِس لا شعور کو شعور کے خانے میں لایا جائے ۔ اِس مقصد کے لیے بطور رہنما یا مددگار، خدا نے پیغمبر بھیجنے شروع کیے۔ یہ پیغمبر ہر زمانے میں اور ہر گروہ میں آئے۔ ان کو خدا نے وحی کے ذریعے ہدایت پہنچائی، اور ان کے ذمّے یہ کام سپرد ہوا کہ وہ تعلیم اور تلقین کے ذریعے انسان کے ذہن کو بیدار کریں۔ وہ انسان کو اِس قابل بنائیں کہ جو کچھ اس کے لاشعور میںہے، اس کو وہ شعور کے درجے میں دریافت کرلے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیرکرے۔
دنیا کی زندگی چوں کہ امتحان کی زندگی ہے، اس لیے یہاں دو قسم کی طاقتیں مسلسل طور پرکام کرتی رہتی ہیں۔ ایک طرف، پیغمبر جو انسان کو سچائی کا راستہ دکھاتے ہیں، اور دوسری طرف شیطان ہے جو انسان کو بہکا کر اس کو گم راہی کے راستے پر ڈالنا چاہتا ہے۔ شیطان کا طریقہ اب بھی وہی ہے جو اُس نے اِس سے پہلے آدم اور حوا کے ساتھ اختیا رکیا تھا، یعنی غلط تسمیہ کے ذریعے یہ کوشش کرنا کہ انسان بُرائی کو بھلائی کے روپ میں دیکھنے لگے۔شیطان کے اِس عمل کو قرآن میں تزئین (fair-seeming) کہاگیا ہے ( 15:39) -پیغمبروں نے ہمیشہ انسان کو یہ بتایا کہ خدا ایک ہے۔ وہی اکیلا خالق اور مالک ہے۔ تم لوگ اُس کو مانو اور اُسی کی عبادت کرو۔ خدا کے رسولوں کا یہ پیغام، انسان کی فطرت کے عین مطابق تھا۔ انسان کی اپنی فطرت بھی رسولوں کے اِس پیغام کی مکمل تائید کررہی تھی۔ اِس بنا پر انسان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ خدا کے وجود کا انکار کردے۔ یہاں شیطان کی ترغیب کے تحت، انسان نے انحراف (deviation) کا طریقہ اختیار کیا۔
یہ انحراف زیادہ تر غلط تسمیہ کے اصول پر مبنی تھا۔ چناں چہ انسان نے کہا کہ ہم خدا کو مانتے ہیں، لیکن خدا نے اپنے مختلف شرکا (partners) مقرر کردیےہیں۔ اب ہمارا تعلق براہِ راست خدا سے نہیں، بلکہ اِنھیں شرکا سے ہے۔ ہم شرکا کے ذریعے خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔ جن کووہ شرکا کہہ رہے تھے، وہ دراصل ان کے اپنے مفروضہ نام تھے، لیکن اِن مفروضہ ناموں کو حقیقی قرار دینے کے لیے انھوںنے یہ کیا کہ ان کو شریکِ خدا (partners of God) کا نام دے دیا۔قدیم زمانے سے لے کر اب تک تمام مشرکین نے یہی کیا ہے کہ انھوں نے بطور خود کچھ مفروضہ نام گھڑے۔ مثلاً روشنی کا خدا، بارش کا خدا، زندگی کا خدا، موت کا خدا، طاقت کا خدا، دولت کا خدا، وغیرہ۔ اِس طرح کے مفروضہ خداؤں کاکوئی وجود نہیں، لیکن اس کو موجود بتانے کے لیے بطور خود اس کا ایک نام وضع کیا اور اِس نام کے تحت یہ عقیدہ بنا لیا کہ خدا کا ایک پارٹنر وہ ہے جو بارش، وغیرہ کا انتظام کرتا ہے۔
شرک در اصل خدا کو مانتے ہوئے، اس کے لیے شرکا (partner) بنانے کا نام ہے۔ اِسی کو اصطلاح میں تعدّدِ اٰلہہ کا نظریہ (polytheism) کہاجاتا ہے۔ تاریخ کے پہلے دور میں شرک کی یہی قسم ساری دنیا میں رائج ہوگئی۔ اس کے بعد اس کا دوسرا دور آیا۔ اِس دوسرے دور کو فلسفیوں کا دور کہا جاسکتا ہے۔ یہ دور ابتداء ً یونانی فلسفیوں کے درمیان شروع ہوا، اور اس کے بعد شرک کے ایک فلسفے کے طور پر وہ مختلف مذاہب کے درمیان پھیل گیا۔ اِس کو ایک لفظ میں فلسفیانہ شرک کہاجاسکتا ہے۔
یہ فلسفیانہ شرک کیا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو اصطلاحی طورپر وحدتِ وجود (monism) کہاجاتا ہے۔ وحدتِ وجود، خدا کو مانتے ہوئے عملاً اس کے انکار کے ہم معنیٰ ہے۔ یہ ذہن بھی شیطان نے غلط تسمیہ کی تزئین کے ذریعے انسان کے اندر پیدا کیا۔ وحدتِ وجود کے مشرکانہ فلسفے کی اگر وضاحت کی جائے تو وہ یہ ہوگی کہ — ہم خدا کے وجود کو مانتے ہیں، ہم اس کا انکار نہیں کرتے۔ ہم نے صرف یہ کیا ہے کہ اِس سے پہلے، خدا کو ایک محدود وجود کی شکل دے دی گئی تھی، ہم نے خدا کے وجود کو ایک توسیعی مفہوم دے دیاہے:
According to the monotheistic concept, God was believed to be a localized person. The monistic theory has made God an all pervading spirit.
وحدتِ وجود کا تصور اپنی حقیقت کے اعتبار سے خدا کے انکار کے ہم معنیٰ ہے، لیکن اس کے اوپر خوب صورت الفاظ کا پردہ ڈال دیاگیا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ خدا کو ماننا، محض ایک فلسفیانہ تصور کو ماننا نہیں ہے، بلکہ ایک زندہ اور قادر مطلق خدا کو ماننا ہے، یعنی ایک ایسا خدا جس کا ایک حقیقی وجود ہے، جو دیکھتا ہی اور سنتا ہے، جو تخلق کرتاہے۔ اِسی کے ساتھ وہ محاسِب اور مُجازی ہے۔ وہ روزِ حساب (day of judgement) کا مالک ہے، وغیرہ۔
اِس حقیقت کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ نظریۂ توحید کے مطابق، خدا نہ صرف ایک وجود ہے، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ ہر قسم کی صفاتِ کمال کا مالک بھی ہے۔ لیکن وحدتُ وجود کے فلسفے میں یہ ہوتا ہے کہ خدا صرف ایک مجرد تصور (abstract concept) بن جاتا ہے۔ ایک ایسا مجرد تصور جو تمام صفاتِ خداوندی سے خالی ہے۔ وحدتِ وجود کے تصور میں خدا ایسا ہی ہوجاتا ہے، جیسے کہ کاسمِک ریز(cosmic rays)، یا زمین کی قوتِ کشش۔ ایسے خداکی عملی طورپر کوئی معنویت نہیں۔ اُس کا ہونا بھی ویسا ہی ہے، جیسا کہ اس کا نہ ہونا۔
عقیدۂ خدا کے معاملے میںتیسری خوش نما گمراہی وہ ہے جس کو حیاتیاتی ارتقا (organic evolution) کہاجاتا ہے۔ ارتقا کا نظریہ اگر چہ بہت پہلے سے فلسفیوں کے یہاں موجود تھا، لیکن اِس نظریے کو پہلی بار جس نے ایک باقاعدہ ڈسپلن کی صورت میں پیش کیا، وہ چارلس ڈارون (وفات: 1802ء) ہے۔ اِس سلسلے میں چارلس ڈارون نے دو کتابیں لکھیں، جن کے نام یہ ہیں:
On the Origin of Species (1859)
The Descent of Man (1871)
ڈارون نے اپنا نظریۂ ارتقا صرف حیاتیاتی معنوں میں پیش کیا تھا، یعنی حیوانات اور انسان کس طرح اُس کے خیال کے مطابق، ارتقائی عمل کے ذریعے وجود میں آئے۔ لیکن بعد کو دوسرے علما نے اِس نظریے کو توسیع دی اور ارتقائی طریقِ مطالعہ، دوسرے تمام شعبوں میں بھی استعمال کیا جانے لگا۔ حیاتیاتی ارتقا کا نظریہ، خالص سائنسی اعتبار سے، اب تک ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے۔ اعلیٰ سائنسی ذہن ا س کو صرف ایک کام چلاؤ نظریہ (workable theory) مانتے ہیں۔ تاہم اِس وقت ہمیں نظریۂ ارتقا کے اِس خالص علمی پہلو کے بارے میں کوئی بحث نہیں کرنا ہے۔ اِس وقت ہم نظریۂ ارتقا کے صرف اُس پہلو کو لینا چاہتے ہیں، جس کا تعلق الٰہیات کے موضوع سے ہے۔
اِس پہلو سے غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ نظریۂ ارتقا، شر ک کی تیسری قسم ہے جس کو سائنسی شرک کہاجاسکتا ہے۔ اِس نظریے میںخدا کا انکار کیے بغیر، خدا کو عملی اعتبار سے غیر موثر بنا دیاگیا ہے۔ بظاہر ڈارون نے اپنی کتاب (The Origin of Species) میں خدا کے وجود کا اقرار کیا ہے، لیکن یہ اقرار صرف علامتی معنیٰ میں ہے، ورنہ ڈارون کے بتائے ہوئے حیاتیاتی ڈرامے میں خدا کا کوئی رول نہیں۔
چارلس ڈارون نے اپنی کتاب اصلُ الانواع(The Origin of Species) میں زندگی کو طویل ارتقائی عمل کا نتیجہ بتایا ہے۔ اس نے اپنی کتاب میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ میں خدا کے وجود کونہیں مانتا۔ اِس کے برعکس، اس کی اِس کتاب میں ایک سے زیادہ مرتبہ خدا(God) کا حوالہ آیا ہے۔ اپنی اِس کتاب کا خاتمہ اُس نے اِن سطروں پر کیا ہے— خالق نے ابتدا میں زندگی کی ایک، یا کئی شکلیں پیدا کیں اور پھر اُس سے بہت سی انواعِ حیات وجود میں آگئیں۔ تخلیق کا یہ تصور کتنا عظیم ہے:
There is grandeur in this view of life, with its several powers, having been originally breathed by the Creator into a few forms or into one.
ارتقا کے نظریے میںدوبارہ یہ کیا گیا ہے کہ خدا کو مان کر خدا کو ایسی حیثیت دے دی گئی ہے، جس میں خدا عملی اعتبار سے کامل طورپر غیر موثر ہوجاتا ہے۔ اِس نظریے کے مطابق، حیاتِ انسانی اور تاریخِ تہذیب میں خدا کا حصہ صرف اتنا ہے کہ اُس نے آغاز میں کسی نہ کسی طورپر ایک ناقابلِ مشاہدہ جُرثومۂ حیات(amoeba) کو پیدا کیا۔ اس کے بعد انسان کے سفرِ حیات یا اس کی تاریخ پر خداکا کوئی کنٹرول نہیں۔ اِس تاریخ کے خاتمے پر بھی خدا کا کوئی رول نہیں ہے۔کیوں کہ اِس تصور میں خدا نہ روزِ جزا کا مالک ہے، اور نہ وہ انسانوں کو جزا اور سزا دینے والا ہے۔ واضح بات ہے کہ ایسے خدا کو ماننا بھی ویسا ہی ہے، جیسا کہ اس کو نہ ماننا۔ عملی اعتبار سے دونوں تصورات میں کوئی فرق نہیں۔
بعض حضرات مثلاً ایک الجزائری عالم نے اپنی عربی کتاب’’قصّۃ الإیمان بین الفلسفۃ والعلم والقرآن‘‘ میںنظریۂ ارتقا کو بطور واقعہ تسلیم کیا ہے۔ اِسی طرح، پاکستان کے ایک اسکالر نے اپنی کتاب ’’قرآن اور علم جدید‘‘ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا اور زندگی کے بارے میں قرآن کے بیان میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔ میںاِس نقطۂ نظر کو علمی اعتبار سے درست نہیں سمجھتا۔ جہاں تک الٰہیاتی پہلو کا تعلق ہے، یہ نظریہ بلا شبہہ خدا کے انکار کے ہم معنٰی ہے، اور ڈارون کے نظریے کی اشاعت کے بعد مغربی دنیامیں عملاً یہی پیش آیا۔
عقیدۂ توحید کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ خدا کے تصور کو کسی نہ کسی طورپر ایک بعید مفروضے کی حیثیت سے مان لیا جائے۔ اِس قسم کے تمام تصورات میں خدا کی حیثیت صرف ایک علامتی وجود کی بن کر رہ جاتی ہے، نہ کہ حقیقی وجود کی۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننا وہی قابلِ اعتبار ہے جس میں خدا کو تصورِتوحید کے مطابق مانا گیا ہو۔ اس کے سوا کسی اور حیثیت سے خدا کو ماننا عملاً خدا کے انکار کے ہم معنٰی ہے۔ کیوں کہ قدرتِ کاملہ کے بغیر خدا کے وجود کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔
سائنس کے ظہور کے بعد تاریخ میںایک نیا دور آیا، جس کو مٹیریل ازم یا مادّی تہذیب کا دَور کہا جاتا ہے۔ اِس دور میں بھی کچھ انتہا پسند ملحدوں کو چھوڑ کر، خدا کے وجود کا انکار نہیں کیا گیا۔ اِس دور میںبھی یہی ہوا کہ خدا کو علامتی حیثیت دیتے ہوئے الٰہیات سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات کی ایسی خوب صورت توجیہیں کی گئیں، جس کے بعد خدا کا وجود محض ایک مفروضہ بن کر رہ جائے، حقیقی اعتبار سے انسانی زندگی میں خدا کی کوئی حیثیت باقی نہ رہے۔
مثال کے طورپر موجود زمانے میں جو تحقیقات کی گئیں، ان کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ سیارۂ زمین کے اوپر استثنائی طور پر ایسے موافقِ زندگی حالات موجود ہیں جو پوری کائنات میںکسی بھی کُرہ پر موجود نہیں۔ اِس کو آج کل کی زبان میں لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کا لفظ بظاہر ایک سادہ لفظ معلوم ہوتا ہے، لیکن جدید تصورِ حیات کی روشنی میں دیکھیے تو یہ بھی غلط تسمیہ کی ایک مثال ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو براہِ راست یا بالواسطہ طورپر زندگی کی بقا اور ترقی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہیں۔ اِنھیں چیزوں کے لیے قرآن میںیہ الفاظ آئے ہیں:وَاٰتٰىکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا(14:34)
یہ حقیقت پہلے بھی انسان کو مجمل طورپر معلوم تھی، لیکن موجودہ زمانے میں سائنس نے اِس حقیقت کو نہایت تفصیل کے ساتھ دریافت کیا ہے۔ اِن چیزوں کی تفصیل اتنی زیادہ ہے کہ ان کی گنتی نہیں کی جاسکتی۔ مثلاً سورج سے آنے والی روشنی اور حرارت، زمین کی متناسب قوتِ کشش، آکسیجن کی سپلائی کا حیرت انگیز نظام، پانی کا عظیم ذخیرہ اور بارش کا کائناتی نظام، زمین پر سبزہ اور حیوانات اور غذائی اشیاجیسے بے شمار اسباب ۔ اِس قسم کی اَن گنت چیزیں زمین پر موجود ہیں، جن کے بغیر زمین پر نہ زندگی کی بقا ممکن ہے اور نہ تہذیب کی ترقی۔
مگر خدائی مذہب کے مطابق، یہ تمام چیزیں اصلاً صرف لائف سپورٹ سسٹم کے طورپر نہیں ہیں، بلکہ وہ ٹسٹ سپورٹ سسٹم (test support system) کے طورپر ہیں۔ خالق کے منصوبے کے مطابق، اِن چیزوں کی جو حیثیت ہے، وہ ٹسٹ سپورٹ سسٹم کی ہے، نہ کہ صرف لائف سپورٹ سسٹم کی۔ خالق کے منصوبے کے مطابق ، یہ دنیا مقامِ امتحان (testing ground) کے طورپر بنائی گئی ہے۔ یہاں انسان کو جو آزادی ملی ہوئی ہے، وہ اُس کو نہ حق (right)کے طورپر ملی ہے اور نہ انعام کے طورپر، بلکہ وہ صرف امتحان کے طورپر ملی ہے۔ انسان اِس دنیا میں امتحان کی حالت میں ہے۔ یہ امتحان موت کے لمحے تک باقی رہتا ہے۔ انسان کو آج جو زندگی بخش چیزیں حاصل ہیں، وہ صرف اِس لیے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی اور اپنی سرگرمیوں کو باقی رکھتے ہوئے اپنا امتحان دے سکے۔ موت وہ لمحہ ہے، جب کہ امتحان کی یہ مدت ختم ہوجاتی ہے۔ اِس لیے یہ تمام اشیائِ حیات بھی صرف موت کے وقت تک اس کا ساتھ دیتی ہیں۔ اِس کے بعد انسان مکمل طورپر اِن چیزوں سے جُدا ہوجاتا ہے۔
خالق کے نقشے کے مطابق، انسان کی زندگی دو مرحلوں میں تقسیم ہے۔ قبل ازموت مرحلۂ حیات(pre-death period) اور بعد از موت مرحلۂ حیات(post-death period) آج زمین کے اوپر انسان کو جو چیزیں ملی ہوئی ہیں، وہ چوں کہ صرف دورانِ امتحان تک کے لیے ہیں، اِس لیے امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی یہ تمام چیزیں اُس سے مکمل طورپر چھن جائیں گی۔ اِس کے بعد انسان اپنے آپ کو روزِ حساب میں پائے گا۔ وہاں خدا اس کو اس کے سابقہ ریکارڈ کے مطابق، یا تو جنت میں داخل کرے گا، یا جہنم میں ڈال دے گا۔ جنت والے لوگ مزید اضافے کے ساتھ اِن چیزوں کو دوبارہ پالیں گے، اور جہنم والے لوگ ہمیشہ کے لیے اِن چیزوں سے محروم ہو کر رہ جائیں گے۔
انسانی زندگی کی اِس نوعیت کو دیکھیے تو لائف سپورٹ سسٹم کا لفظ، ایک اعتبار سے، غلط تسمیہ کی ایک مثال نظرآتا ہے۔ خالق کے منصوبے کی روشنی میں اِن چیزوں کو زیادہ صحیح طورپر ٹسٹ سپورٹ سسٹم کہاجانا چاہیے، یعنی وہ چیزیں جو انسان کو وقتی طورپر اس لیے دی گئی ہیں، تاکہ وہ اِس مرحلۂ امتحان میں اپنی زندگی کو باقی رکھتے ہوئے مطلوب خدائی امتحان دے سکے۔
لائف سپورٹ سسٹم اپنے آپ میںایک درست لفظ ہے۔ اِس سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کی بدولت انسان کو اِس زمین پر بقا اور ارتقا کا موقع ملتا ہے۔ لیکن یہ چیزیں انسان کی اپنی پیدا کی ہوئی نہیں ہیں۔ وہ انسان کو کسی حق کی بنا پر بھی نہیں ملی ہیں۔ یہ تمام چیزیں سر تا سر خدا کا انعام ہیں۔ ہر انعام کا ایک مُنعم ہوتا ہے اور اِن چیزوں کا بھی ایک منعم ہے، یعنی اُن کو دینے والا (giver) ۔
لائف سپورٹ سسٹم کا تصور موجودہ کلچر کے پس منظر میں یہ ہوا کہ انعام کو منعم سے الگ کردیا گیا:
It detached the blessing from the Giver of blessing.
یہ واقعہ جو پیش آیا، وہ کوئی سادہ معاملہ نہ تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ بھیانک گمراہی پیش آئی کہ محاسبہ اور مواخذہ (accountability) کا تصور لوگوں کے ذہن سے نکل گیا۔ لوگوں نے زندگی کا مقصد بس یہ سمجھ لیا کہ پیسہ کماؤ اور چیزوں کو بازار سے خرید کر کے عیش و آرام کی زندگی گزارو۔ چیزوں کو صرف لائف سپورٹ سسٹم کے طورپر لینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے چیزوں سے استفادہ تو کیا، لیکن انھوںنے اِس معاملے میں اپنی کوئی ذمے داری نہیں سمجھی، جس کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان ایک ایسے کلچر کو فروغ حاصل ہوا جو اِس مشہور مقولے پر مبنی تھا— کھاؤ، پیو اور خوش رہو:
Eat, drink and be merry.
اِس کے برعکس، اگر چیزوں کے معاملے میں یہ تصور ہوتا کہ یہ سب چیزیں ٹسٹ سپورٹ سسٹم (Test Support System) کی حیثیت رکھتی ہیں، یعنی ان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ یہ چیزیں انجوائے(enjoy) کرنے کے لیے نہیں دی گئی ہیں، بلکہ وہ صرف اِس لیے دی گئی ہیں کہ انسان زندہ رہ کر اپنا امتحان دے سکے۔ ان چیزوں کی نوعیت وہی ہے جیسے امتحان ہال کی نوعیت ہوتی ہے۔ کوئی اسٹوڈنٹ جب تک امتحان ہال میں اپنا ٹسٹ کررہا ہے، اُس وقت تک وہ امتحان ہال کی چیزوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی اسٹوڈنٹ کے لیے امتحان ہال کی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ختم ہوجاتی ہے۔
ٹھیک یہی معاملہ موجودہ دنیا میں انسان کا ہے۔ موجودہ دنیا کی حیثیت ایک بڑے امتحان ہال کی ہے۔ اس کے اندر وہ تمام چیزیں رکھی گئی ہیں جس کی ضرورت ایک اسٹوڈنٹ کو امتحان دینے کے سلسلے میں پیش آتی ہے۔ یہ چیزیں امتحان ختم تو سامان سے فائدہ اٹھانے کا وقت بھی ختم۔
ٹسٹ سپورٹ سسٹم کا یہ تصور آدمی کو پوری طرح ہلادیتا ہے۔ وہ آخری حد تک اس کو سنجیدہ بنا دیتا ہے۔ چیزوں کو اِس حیثیت سے لینے کے بعد، آدمی ان چیزوں کو ذمے داری کا معاملہ سمجھنے لگتا ہے، نہ کہ صرف انجوائے کرنے کی چیز- منعم کے تصور کے بغیر انعام کو لینا، آدمی کو سرکش اور غیر ذمے دار بناتا ہے۔ اس کے برعکس، منعم کے تصور کے ساتھ انعام کو لینا، آدمی کو ماڈسٹ اور ذمے دار بنا دیتا ہے۔
دین ِ اسلام
علماء ِ مذاہب کے نزدیک دنیا میںایک درجن بڑے مذاہب (major religions) پائے جاتے ہیں۔ اُنھیں میں سے ایک مذہب اسلام ہے۔ مسلم ذہن عام طورپر یہ سمجھتا ہے کہ اسلام تمام مذاہب میںسب سے زیادہ افضل مذہب (superior religion) ہے۔ قرآن اور حدیث کے مطابق، یہ نظریہ سرتا سر بے بنیاد ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان صرف ایک فرق پایا جاتا ہے۔ اور وہ تاریخی معنوں میں ہے، یعنی اسلام مکمل طورپر ایک محفوظ مذہب (preserved relgion) ہے، جب کہ دوسرے تمام مذاہب تاریخی اعتبار سے غیر محفوظ مذہب (unpreserved religion) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی دوسرے مذہب کا نہ اوریجنل متن پوری طرح محفوظ ہے اور نہ اس کی تعلیمات اپنی اصل صورت میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرے تمام مذاہب بعد کو وجود میں آنے والی کلرجی (clergy) کی پیداوار ہیں، نہ کہ اس کے اصل بانی کی وراثت۔
اِس تبدیلی، یا غیر محفوظیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ دیگر مذاہب سے مذہب کی اصل تعلیم ہی حذف ہوگئی۔ مذہب کی اصل تعلیم یہ ہے کہ انسان، خدا کے سامنے جواب دہ (accountable) ہے۔ قرآن میںیہ بات انتہائی واضح طورپر موجود ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ابتدائی وحی اُتری، اس میں پہلے ہی دن یہ حقیقت موجود تھی۔ چناں چہ شروع میںاترنے والی سورہ المدثر میںکہاگیا : یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ۝ قُمْ فَاَنْذِرْ (74:1-2)یعنی اے پیغمبر، اٹھو اور تمام انسانوں کو یہ وارننگ دے دو کہ وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہیں اور بہت جلد حساب کا ایک دن آنے والا ہے، جب کہ تمام لوگوں سے اُن کے قول اور عمل کا حساب لیا جائے گا اور ہر ایک کو اس کے اپنے ریکارڈ کے مطابق، یا تو جنت میںجگہ ملے گی، یا جہنم میں۔
یہودی مذہب
لیکن یہی اہم ترین تعلیم بقیہ تمام مذاہب میںبعد کے زمانے میں حذف ہوگئی۔ مثلاً یہودی مذہب میں بعد کے زمانے میں، یہودی علما کی خود ساختہ تشریحات کے تحت، یہ عقیدہ یہودی مذہب میں شامل ہوگیاکہ جنت اور جہنم کا معاملہ نسلی معاملہ ہے، یعنی غیر یہودی نسل سب کی سب جہنم میں جائے گی اور یہودی نسل سب کی سب جنت میں۔ اِس عقیدے نے یہودیوں کو روزِ حساب (day of judgement) کے معاملے میں کامل طورپر بے خوف بنا دیا۔ حالاں کہ اِس قسم کی بے خوفی، خدا کے اصل دین کی منسوخی کے ہم معنی تھی۔
یہودی مذہب میںاِس بگاڑ کا حوالہ قرآن میںواضح طورپر موجود ہے۔ مثلاً سورہ البقرہ میں یہود کی بابت ارشاد ہوا ہے: ’’یہود کہتے ہیں کہ جہنم کی آگ ہم کو ہر گز نہیں چھوئے گی، بجز چند دنوں کے‘‘ (2:80) اِسی طرح قرآن کی سورہ المائدہ میں یہود کی بابت ارشاد ہوا ہے: ’’اور یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں‘‘ (5:18)۔
قرآن کی اِن دونوں آیتوں کی تشریح میں مولانا عبد الماجد دریابادی (وفات: 1977 ) نے جو کچھ لکھا ہے، اس کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں: ’’یہودی ماخذ سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا بنی اسرائیل اپنے کو آتش دوزخ کی زد سے بالکل ہی باہر اور محفوظ سمجھ رہے تھے۔ چناں چہ جیوش انسایکلوپیڈیا میں یہ عقیدہ یوں نقل ہوا ہے: ’’آتشِ دوزخ، گنہ گارانِ قومِ یہود کو چھوئے گی بھی نہیں۔ اِس لیے کہ وہ درِ جہنم پر پہنچتے ہی اپنے گناہوں کا اقرار کرلیں گے اور خدا کے پاس واپس آجائیں گے‘‘ (جلد 5، صفحہ 583 )۔ اور یہود کے بڑے مقدس نوشتہ ’تالمود‘ کے انتخابات کا جو مجموعہ انگریزی میں ڈاکٹر کوہن(Kohen) کا مرتب کیا ہوا “Every Man’s Library Series” میں شائع ہوا ہے، اس میں یوں آیا ہے: قیامت کے دن ابراہیم ؑ درِ دوزخ پر تشریف رکھتے ہوں گے اور کسی مختون اسرائیلی کو اُس میں نہ گرنے دیں گے (صفحہ 404 )۔ جہنم کی آگ اسرائیلی گنہ گاروں پر کوئی قدرت نہیں رکھتی ((405۔ حاصل یہ کہ بنی اسرائیل اپنی قوم کو خدا کی لاڈلی اور دُلاری سمجھے ہوئے تھے اور اس پر حد سے زیادہ نازاں تھے‘‘ -(تفسیر ماجدی، مطبوعہ لاہور2001،صفحہ 32)۔
موجودہ محرّف اور مسخ شدہ بائبل میںاِس قسم کے حوالے موجود ہیں: خداوند نے یوں فرمایا ہے کہ اسرائیل میرا بیٹا، بلکہ میرا پلوٹھا ہے (خروج4: 22 ) تم خداوند، اپنے خدا کے فرزند ہو (استثنا 1:14) جب اسرائیل لڑکا تھا، میںنے اِس کو عزیز رکھا اور اپنے بیٹے کو مصر سے بلایا (ہوسیع 1: 11)۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا (جلد 6، صفحہ 15) میں بھی اِنھیں عقائد کی تکرار موجود ہے: جتنوں نے اُسے قبول کیا، اُس نے اُنھیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا (یوحنا 12:1 ) جتنے خدا کی روح کی ہدایت سے ملتے ہیں، وہی خدا کے بیٹے ہیں (رومیوں14: 8 ) -مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مولانا عبد الماجد دریابادی کی انگریزی تفسیر(صفحہ 245 )۔
مسیحی مذہب
حضرت مسیح کی اصل تعلیمات عین وہی تھیں جو دوسرے تمام پیغمبروں کی تعلیمات تھیں، لیکن حضرت مسیح کے بعد مسیحی چرچ نے خود ساختہ تشریحات کے تحت، حضرت مسیح کی تعلیمات کو بدل دیا۔ آج جس چیز کو مسیحیت کہا جاتا ہے، وہ حضرت مسیح کا مذہب نہیں، بلکہ وہ مسیحی چرچ کا اپنا بنایا ہوا مذہب ہے۔ مسیحی مذہب کے اِس مسیحی ایڈیشن کا آغاز سینٹ پال (St. Paul) سے ہوا۔
سینٹ پال مشہور مسیحی مبلغ ہیں۔ اُن کو مسیحیت کے مذہبی نظام میںاتنی زیادہ اہمیت ملی کہ ’’عہد نامہ جدید‘‘ میں اناجیلِ اربعہ کے ساتھ، سینٹ پال کے خطوط (Epistles) بھی شامل کیے گئے۔ سینٹ پال کی وفات، حضرت مسیح کے بعد 67 عیسوی میں ہوئی۔ مسیحیت کا موجودہ مذہبی نظام زیادہ تر سینٹ پال کے نظریات پر قائم ہے:
Epistles, attributed to St. Paul, contain fundamental statements of Christian doctrine.
اِس کے بعد 325 عیسوی میں مشہور نیقیا کاؤنسل (Nicaea Council) منعقد ہوئی۔ اِس کا انتظام، قسطنطین اوّل (Constantine I) نے کیا تھا۔ اس کاؤنسل میںمسیحی چرچ کے ذمے داران شریک تھے۔ اِس کاؤنس میں جو باتیں طے ہوئیں، وہی آج مسیحی چرچ کی بنیاد ہیں۔
مسیحی چرچ کے موجودہ اعتقادی نظام میں کَفّارہ (atonement) کے عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اِس عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح، انسانوں کی طرف سے کفارہ بن کر مصلوب ہوگیے۔ مسیحی چرچ کے اِس عقیدے کے مطابق، انسانِ اوّل (آدم) نے جب ممنوعہ درخت کا پھل کھایا تو یہ گناہ کا ایک فعل تھا۔ اِس کے نتیجے میں سارے انسان پیدائشی طور پر گنہ گار بن گئے۔ اِس کو مسیحی عقیدے میں گناہِ اوّل (original sin) کہا جاتا ہے:
The innate depravity which, in Christian theology, is held to be inherent in mankind as a direct result of Adam's sin of rebellion and which, in Roman Catholicism, is held to have resulted in the loss of sanctifying grace.
کفّارہ (atonement) کے اِس عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح، جو مسیحی عقیدے کے مطابق، سولی پر چڑھا دیے گئے، اِس طرح اپنے آپ کو قربان کرکے انھوں نے تمام انسانوں کو پیدائشی گنہ گاری سے بَری کردیا:
The effect of Jesus's sufferings and death in redeeming mankind, and bringing about the reconciliation of God to man.
کفّارہ (atonement) کے اِس عقیدے کے مطابق، اب کسی انسان کی نجات کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ حضرت مسیح پر اِس حیثیت سے ایمان لائے کہ وہ اس کی نجات کے لیے مصلوب ہوگئے۔ اب نجات صرف اُس انسان کے لیے ہے جو حضرت مسیح کی اِس مصلوبیت پر ایمان لائے۔ جو لوگ مصلوبیت کے اِس عقیدے کااقرار نہ کریں، اُن کے لیے نجات کی کوئی صورت نہیں۔کفارے کا یہ عقیدہ، عقلی اعتبار سے ایک ناقابلِ فہم عقیدہ ہے، حتیٰ کہ وہ موجودہ بائبل (نیا عہدنامہ) کے اندر بھی واضح طورپر موجود نہیں۔ لیکن مسیحی چرچ کی بنیاد اِس عقیدے پر قائم ہے۔
کفارے کا یہ عقیدہ ہر قسم کے اخلاقی محرّک کا خاتمہ کردیتا ہے۔ اِس عقیدے کے مطابق، نجات کی شرط عملِ صالح نہیںہے، بلکہ کفّارۂ مسیح کے عقیدے کو ماننا ہے۔ ایسی حالت میں اِس عقیدے کو ماننے کے بعد کوئی شخص نیک عمل کیوں کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیحی چرچ کے مطابق، جس مذہب کا نام مسیحی مذہب ہے، اس میں اخلاقیات کے لیے کوئی محرک (incentive) سرے سے موجود نہیں۔ اب اگر مسیحی لوگ کچھ اخلاقی عمل کرتے ہیں تو وہ اپنی فطرت کے زور پر کرتے ہیں، نہ کہ اپنے مذہبی عقیدے کے زور پر، اِس عقیدے نے مذہب کی اہم ترین تعلیم، خدا کے سامنے جواب دہی (accountability) کا سرے سے خاتمہ کردیا ہے۔
آرین مذاہب
اِس کے بعد آرِین مذاہب کو لیجیے۔ آرین مذاہب میںمشترک طورپر کرم کا نظریہ (karma theory) پایا جاتا ہے۔ اِس کو آوا گمَن، یا پُنر جنم بھی کہتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے عمل کے مطابق، دوبارہ جنم لے کر اِسی موجودہ دنیا میں آتا ہے۔ پچھلے جنم میں اگراُس نے اچھا کام کیا تھا تو اگلے جنم میں وہ اچھے انسان کے روپ میں پیدا ہوتا ہے، اور اگر اس نے پچھلے جنم بُرا کیا تھا تو اگلے جنم میں وہ برے انسان، یا حیوان کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ پیدائش اور دوبارہ پیدائش (rebirth) کایہ سلسلہ 82 لاکھ سال تک جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ انسان کو ’نِروان‘ مل جاتا ہے، یعنی اس کے وجود کا قطرہ حقیقت کے سمندر میں جاکر مل جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ پراسس (process) اسباب وعلل (cause and effect) کے اصول پر قائم ہے۔ اسباب و علل کے مخفی قانون کے تحت، یہ پراسس مسلسل چلتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی آخری انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ نظریہ بھی آدمی کو عمل کے محرک سے محروم کردیتا ہے۔ یہ نظریہ آدمی کو ایک تخیلاتی فلسفہ (imaginative philosophy) کے سوا اور کچھ نہیں دیتا۔ اِس نظریے میںنہ اچھا عمل کرنے کا کوئی محرک ہے اور نہ بُرے عمل سے بچنے کا کوئی خوف۔ انسانی زندگی میں اِس نظریے کا کوئی بھی تعمیری رول نہیں۔
یہ نظریہ بتاتا ہے کہ آدمی اپنے اچھے، یا بُرے عمل کا انجام پانے کے لیے اِس موجودہ دنیا میں بار بار واپس آتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آج جو لوگ زمین کے اوپر زندہ حالت میں موجود ہیں، وہ سب کے سب اس سے پہلے پیدا ہو کر اِس دنیا میں آئے تھے۔ موجودہ انسانی آبادی نئے انسانوں کی آبادی نہیں ہے، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو پیدا ہو کر اِس سے پہلے اِس دنیا میں آچکے تھے، اور اب وہ دوبارہ لوٹ کر اِس دنیا میںآئے ہیں۔
یہ تصور ایک خیالی نظریہ (imaginative theory) پر قائم ہے، اس کی پشت پر کوئی بھی علمی، یا عقلی دلیل موجودنہیں۔ اس تصور کے مطابق، اسباب و علل کا جو واقعہ پیش آتا ہے، وہ اُسی انسان کے اوپر پیش آتا ہے جو بار بار پیدا ہورہا ہے اور بار بار مررہا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ مرنے والا کوئی اور شخص ہو اور اس کے بعد پیداہونے والا کوئی دوسرا شخص۔ اگر دونوں شخصیتوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے تو ’کرم‘ کا نظریہ ہی بے معنیٰ ہو کر رہ جائے گا۔
حیاتیاتی سائنس (biological science) کی تحقیقات کے مطابق، یادداشت، یا حافظہ (memory) انسان کی شخصیت کا لازمی جُز ہے۔ سِگمنڈ فرائڈ اور دوسرے علمائِ نفسیات نے ثابت کیا ہے کہ حافظہ انسانی شخصیت کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہے۔ انسانی جسم کے سیل (cells) مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں۔ پرانا سیل ٹوٹتا ہے اور اس کی جگہ نیا سیل لے لیتا ہے۔ سیل کی تبدیلی (replacement) کا یہ عمل مسلسل ساری عمر جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ کچھ سالوں میں جسم کے تمام سیل بدل جاتے ہیں، اور نئے سیل کے ساتھ نیا جسم وجود میں آجاتاہے۔
جسم کی اِس تبدیلی کے باوجود انسان کا حافظہ بدستور اپنی اصل حالت میں باقی رہتا ہے۔ حافظے کے اندر ادنیٰ درجے میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ایسی حالت میں یہ ہونا چاہیے کہ جس طرح موت سے پہلے کی جسمانی تبدیلی سے، انسان کا حافظہ اس کی شخصیت سے جُدا نہیںہوتا، اِسی طرح موت کے بعد کی جسمانی تبدیلی سے بھی آدمی کے حافظے کو اس کی شخصیت سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک سائنسی طورپر ثابت شدہ حقیقت ہے، جس کا انکار کسی بھی طرح ممکن نہیں۔
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ مفروضہ (کرما تھیوری) کے مطابق، جو انسان موت کے بعد بار بار پیدا ہورہے ہیں، وہ سب کے سب اپنے سابقہ حافظے کے بغیر پیدا ہورہے ہیں۔ اِن میںسے کسی بھی عورت یا مرد کو اپنے ماضی کی زندگی یاد نہیں۔ حالاں کہ حیاتیاتی قانون کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اِس قانون کے مطابق، ہر ایک کے حافظے میںاس کی پچھلی زندگی مکمل طور پر محفوظ ہونا چاہیے، جو کہ بطور واقعہ موجود نہیں۔ موجودہ زمانے میں سائنسی مطالعے نے جس طرح بہت سے دوسرے مفروضات کو بے بنیاد ثابت کیا ہے، اِسی طرح مذکورہ مفروضہ بھی اب ایک بے بنیاد مفروضہ ثابت ہوچکا ہے۔ حیاتیاتی سائنس کا جدید مطالعہ اِس مفروضے کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ گوتم بُدھ نے جب تَپَسِّیا کے دوران اپنا دھیان لگایا تھا تو اِس میں انھوں نے اپنی باطنی نظر سے اپنے تمام پچھلے جنموں کو دیکھ لیا تھا، مگر یہ صرف ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوںنے اپنے دھیان کے دوران خود اپنے فرضی تصورات کو محسوس کیا تھا، نہ کہ حقیقی معنوں میں اپنی زندگی کی تاریخ کو۔ سائنسی طریقے کے مطابق، اِس قسم کا دعویٰ بلا شبہہ قابلِ رد ہے۔ اِس لیے کہ وہ قابلِ تصدیق (verifiable) یا قابلِ اِعادہ (repeatable) نہیں۔ اور جو نظریہ قابلِ تصدیق یا قابلِ اعادہ نہ ہو، وہ سائنس کے قائم کردہ اصول کی بنا پر قطعیت کے ساتھ قابلِ رد قرار پاتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے سوا دوسرے تمام مذہبی نظریات صرف مفروضہ نظریات ہیں۔ اِن سب کے اندر یہ مشترک کمی پائی جاتی ہے کہ وہ انسانی اخلاقیات کے لیے طاقت ور محرک (strong incentive) نہیں دیتے۔ اور جو مذہب انسانی اخلاقیات کے لیے طاقت ور محرک فراہم نہ کرے، وہ صرف ایک مفروضہ فلسفہ ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی خدائی مذہب۔(2007)
واپس اوپر جائیں

تخلیقی حل

موجودہ زمانے میں کمپیوٹرکلچر اور انڈسٹری کے حلقوں میں ایک لفظ بہت استعمال ہوتا ہے، اور وہ ہے — تخلیقی حل (creative solution)یعنی جب کوئی نیا مسئلہ پیش آئے تو اس کے بارے میں ازسرِ نو غور کرنا، نئے انداز سے مسئلے کا حل تلاش کرنا- اس طرح جو حل دریافت ہوتا ہے، اس کو تخلیقی حل کہاجاتا ہے- تخلیقی طرزِ فکر ایک نیا ذہن دیتاہے، جس کی روشنی میں مسئلے کا زیادہ موثر حل دریافت کیا جاسکے:
A creative solution gives a fresh perspective to a challenging problem.
تخلیقی حل کا اصول صرف کمپیوٹر کا اصول نہیں ہے، بلکہ یہ فطرت کا ایک عام اصول ہے- کمپیوٹر کی دنیا میں اِس اصول کا سیکولر استعمال کیا گیاہے- یہی اصول خود اسلام میں بھی پوری طرح مطلوب ہے- اسلام میں جس چیز کو اجتہاد کہاگیا ہے، اُس سے مراد یہی اصول ہے- خواہ مذہب کا دائرہ ہو یا سیکولر دائرہ، ہر دائرے میں بار بار اِس کی ضرورت پیش آتی ہے کہ لوگ کھلے ذہن کے ساتھ از سرِ نو غور کریں- وہ تعصب جیسی چیزوں سے بلند ہو کر مسئلے کا نیا اور کارگر حل تلاش کریں-
تخلیقی ذہن (creative mind)کا مالک کون ہے، یہ وہ انسان ہے جو تعصبات (prejudices) سے خالی ہو، جو چیزوں کے بارے میں بے آمیز انداز میں سوچ سکے، جو آخری حد تک کھلا ذہن (open mind) رکھتا ہو، جو اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر خالص موضوعی (objective) انداز میں رائے قائم کرسکتا ہو- یہی وہ انسان ہے جو کسی معاملے میں تخلیقی حل (creative solution) تک پہنچنے میں کامیاب ہوتاہے-
تعصب کا مزاج تخلیقی ذہن کا پردہ ہے اور بے تعصبی کا مزاج تخلیقی ذہن کو کھول دینے والا ہے- اپنے آپ کو کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے والا بنائیے، اپنی فطرت کو ہر حال میں زندہ رکھیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کے ذہن نے مشکل ترین حالات میں بھی مسئلے کا ایک قابلِ عمل حل دریافت کرلیا ہے-
واپس اوپر جائیں

خود اعتمادی

خود اعتمادی (self-confidence) ایک اعلی انسانی صفت ہے، یعنی اپنے آپ پر بھروسہ ہونا- ذاتی عزم کے تحت کوئی اقدام کرنا، اندیشوں کے بجائے امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا منصوبہ بنانا، مسائل (problem) کو نظر انداز کرکے مواقع (opportunities) کو دریافت کرکے اُن کی بنیاد پر عملی اقدام کرنا— انھیں چیزوں کا نام خود اعتمادی ہے، اور خود اعتمادی بلاشبہہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کی لازمی شرط ہے-
خود اعتمادی زندگی کی علامت ہے اور خود اعتمادی کا نہ ہونا موت کی علامت- لیکن خود اعتمادی کا ایک منفی پہلو (minus-point) بھی ہے، اور یہ منفی پہلو بڑی سے بڑی خود اعتمادی کو بے نتیجہ بلکہ ہلاکت خیز بنا سکتی ہے- خود اعتمادی کا یہ منفی پہلو وہ ہے جس کو بے جا اعتماد (over-confidence) کہاجاتاہے-
آپ کے راستے میں اگر ایک چھوٹی نہر ہے اور آپ اس کے ایک کنارے سے چھلانگ لگا کر اس کے دوسری طرف پہنچ جائیں تو یہ خود اعتمادی ہے، لیکن اگر آپ کے راستے میںایک بڑا دریا ہے اور آپ اس کے ایک کنارے سے چھلانگ لگادیں تو آپ اس کے دوسرے کنارے پر نہیں پہنچیں گے، بلکہ آپ دریا میں گر کر ہلاک ہوجائیں گے-
اِس دنیا میں ہر آدمی دو چیزوں کے درمیان ہے- اس کی اپنی ذات اور خارجی حالات- گویا کہ یہ ففٹی ففٹی کا معاملہ ہے- کسی کام کی کامیابی میں آپ کا حصہ پچاس فی صد ہوتا ہے اور بقیہ پچاس فی صد حصہ خارجی حالات کا ہوتاہے-
آپ کو چاہئے کہ عملی اقدام سے قبل آپ دونوں پہلوؤں کو دیکھیں- اگر آپ صرف اپنے ذاتی شوق کو دیکھیں اور خارجی حالات کو ملحوظ نہ رکھیں تو یقینی طورپر آپ کا منصوبہ ناکام ہوجائے گا اور پھر آپ دوسروں کی شکایت کریں گے، حالاں کہ ناکامی کا سبب خود آپ ہوں گے، نہ کہ کوئی دوسرا انسان-
واپس اوپر جائیں

انانیت یا انفرادیت

ادب کی ایک قسم وہ ہے جس کو انانیتی ادب (egoistic literature)کہا جاتا ہے،یعنی وہ ادب جس میں مصنف نے ’میں‘ (ego) کو مرکزی حیثیت دے کر اپنے ادب کی تخلیق کی ہو- انانیت دراصل انفرادیت کا منفی نام (negative term) ہے- انفرادیت ہر انسان کی ایک فطری صفت ہے- اِس فطری صفت کا غلط استعمال اس کو انانیت بنا دیتا ہے، جو مزید اضافے کے ساتھ کبر (arrogance) کی صورت اختیار کرلیتا ہے-
حدیث میں آیا ہے کہ: خلق اللہ آدم على صورتہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5759)- اِس حدیث میں ’’صورت‘‘ سے مراد حلیہ (appearance) نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ اپنی ذات میں ایک منفرد ہستی ہے، اِسی طرح انسان اپنی ذات میں ایک منفرد ہستی ہے- فرق صرف یہ ہے کہ اللہ کی ہستی لامحدود ہے اور انسان کی ہستی محدود- اللہ کا وجود بالذات (self-existent)ہے، جب کہ انسان اللہ کے پیدا کرنے سے پیدا ہوا ہے-
انسان کے ساتھ اللہ کی سب سے بڑی عنایت (blessing) یہ ہے کہ اللہ نے اس کو ایک مستقل ہستی کے طورپر پیدا کیا ہے، ایک ایسی ہستی جو ستاروں اور سیاروں، پہاڑوں اور سمندروں سے الگ اپنا ایک ذاتی وجود رکھتی ہے- کسی انسان کی یہ دریافت اس کی سب سے بڑی دریافت ہے- یہ دریافت اگر عبدیت پر قائم ہو تو وہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے، اور اگر یہ دریافت عبدیت سے جدا ہوجائے تو وہ انسان کے لیے سب سے بڑی نقمت (wrath)بن جائے گی- اسی دریافت کی بنیاد پر آدمی کی پوری شخصیت بنتی ہے- یہ دریافت اگر کامیاب ہو تو اس کے نتیجے میں آدمی کے اندر مثبت شخصیت بنتی ہے، اور اگر یہ دریافت کامیاب نہ ہو تو اس کے نتیجے میں آدمی کے اندر منفی شخصیت بنے گی — آخرت کی ابدی دنیا میں مثبت شخصیت (خدا پرست شخصیت) کے لیے جنت ہے اور منفی شخصیت (خدا فراموش شخصیت) کے لیے جہنم-
واپس اوپر جائیں

Wednesday, 1 January 2014

Al Risala | January 2014 (الرسالہ،جنوری)

2

-فہمِ قرآن کی ایک شرط

3

- امت کا زوال

4

- تقدیرکامسئلہ

5

- ضرورت، نہ کہ فضیلت

6

- خدا ا ور بندہ

7

- قرآن اور نماز

8

- برعکس انجام

9

- سورہ التین کا پیغام

15

- خلافت کا تصور

26

- دورِ مسائل کا خاتمہ

31

- اسلام اکیسویں صدی میں

39

- کامیابی کا اصول

40

- سوال وجواب

44

- خبرنامہ اسلامی مرکز — 225


فہمِ قرآن کی ایک شرط

فہمِ قرآن کی ایک ضرورت یہ ہے کہ آدمی عربی زبان جانتا ہو، وہ شانِ نزول کی روایتوں سے واقف ہو، وغیرہ- اِس طرح کی باتیں بلاشبہہ قرآن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں- لیکن یہ قرآن فہمی کا ابتدائی درجہ ہے- قرآن فہمی کا دوسرا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ قاری کے اندر وہ چیز پیدا ہوچکی ہو جس کو تیار ذہن (prepared mind) کہاجاتا ہے- ابتدائی درجےکا فہمِ قرآن بھی مفید ہے، لیکن فہمِ قرآن کا اعلی درجہ صرف اُس شخص کے حصے میں آتا ہے جو تیار ذہن کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرے-
اِس ذہنی تیاری کو قرآن فہمی کی پیشگی شرط (pre-condition)کہا جاسکتا ہے-یہ ذہنی تیاری مطالعہ اور غور وفکر اور تبادلہ خیال (discussion)، وغیرہ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے- اِس طرح کی ذہنی سرگرمیوں کے ذریعے آدمی کو مزید معلومات حاصل ہوتی ہیں جو قرآن کی آیتوں کو سمجھنے میں مددگار بنتی ہیں، اِس سے آدمی کے اندر ایک ذوق (taste) ڈیولپ (develop) ہوتا ہے- اِس کے ذریعے آدمی کے اندر ایک پرکھ پیدا ہوتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کا ذہن ذوقی طورپر یہ بتاتا رہتا ہے کہ کسی آیت کا کیا مطلب درست ہے اور کیا مطلب درست نہیں-
معروف قرآنی علوم آدمی کو صرف قرآن فہمی کے فنی پہلوؤں سے آگاہ کرتے ہیں- اِس کے مقابلے میں، ذہنی تیاری آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ معرفت کے پہلو سے قرآن کے گہرے معانی (deep meanings)کا ادراک کرسکے-
یہ ایک حقیقت ہے کہ تیار ذہن والا آدمی قرآن کے ربانی پہلوؤں کا ادراک کرلیتا ہے- ایسے آدمی کو قرآن میں حب الہی اور خشیت ِ الہی کی غذا ملنے لگتی ہے- اُس کے اندر وہ صفت پیدا ہوتی ہے جس کو ذہنی ارتقا کہاجاتا ہے، اُس کے لیے قرآن کا مطالعہ اللہ سے ملاقات کا لمحہ بن جاتا ہے- ایسے آدمی کے لیے قرآن کا مطالعہ ایک تخلیقی مطالعہ (creative study) ہوتا ہے، جو اُس کے لیے قرآن میں نیے نیے معانی کی دریافت کا ذریعہ بن جاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

امت کا زوال

حضرت ابو امامہ الباہلی کی ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لینقضنّ عرى الإسلام عروة عروة- فکلما انتقضت عروة، تثبّت الناس بالتی تلیہا- وأولہن نقضا الحکم، وآخرہن الصلاة (مسند احمد: 251/5 ) یعنی اسلام کے حلقے (زنجیر) ٹوٹتے رہیں گے، ایک کے بعد دوسری کڑی- جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ باقی ماندہ کڑی سے جڑ جائیں گے- پہلی کڑی جو ٹوٹے گی، وہ ’الحکم‘ ہے اور آخری کڑی جو ٹوٹے گی ، وہ ’الصلاة‘ ہے-
حُکم (اقتدار) اور صلاة (نماز) دونوں کا ایک ڈھانچہ (form) ہے اور ایک اس کی روح (spirit)- اِس حدیث میں جس چیز کے ٹوٹنے کا ذکر ہے، وہ حکم اور صلاة کی اسپرٹ ہے، نہ کہ اس کا ظاہری فارم، کیوں کہ کسی بھی امت میں اِن چیزوں کی صرف داخلی اسپرٹ مفقود ہوتی ہے، نہ کہ اس کا ظاہری ڈھانچہ-حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق، جب امت مسلمہ پر زوال آئے گا تو ایسا نہیں ہوگا کہ وہ صفحۂ ہستی سے مٹ جائے، بلکہ یہ ہوگاکہ بظاہر اس کا ڈھانچہ تو موجود ہوگا، مگرداخلی حقیقت مفقود ہوچکی ہوگی-
گویا اسلام کا قِشر (چھلکا) موجود ہوگا، لیکن اسلام کا مغز موجود نہ ہوگا- مثلاً ظاہری اعتبار سے، مسلم حکومت موجود ہوگی، لیکن اقامتِ عدل موجود نہ ہوگا، جو کہ حکومت کا اصل مقصود ہوتا ہے- اِسی طرح نماز کا ظاہری ڈھانچہ تو موجود ہوگا، لیکن نمازیوں کے اندر خشوع کی کیفیت موجود نہ ہوگی، جو کہ نماز کی اصل حقیقت ہے- اِسی طرح بظاہر دین کے نام پر بہت سی سرگرمیاں جاری ہوں گی، لیکن یہ سرگرمیاں قومی کلچر کی سرگرمیاں ہوں گی، نہ کہ حقیقی معنوں میں دین ِ خداوندی کی سرگرمیاں-کوئی امت کبھی ظاہری معنوں میں نہیں مٹتی- دورِ زوال میں جو واقعہ پیش آتا ہے، وہ صرف یہ ہوتا ہے کہ معنوی اعتبار سے، امت کمزور یا بے روح ہوجائے-
واپس اوپر جائیں

تقدیرکامسئلہ

تقدیر (destiny) کیا ہے- عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اِس دنیا میں ہر چیز پیشگی طور پر مقدر (pre-determined)ہے- کسی آدمی کو وہی ملے گا جو اس کے لیے پیشگی طورپر لکھ دیاگیا ہے، نہ اُس سے زیادہ نہ اُس سے کم- اصولی طورپر یہ بات درست ہے، لیکن اس کو جس معنی میں لیا جاتا ہے، وہ درست نہیں- حقیقت یہ ہے کہ چیزوں کے مقدر ہونے کا مطلب انسان کے مستقبل کا پیشگی طورپر فیصلہ نہیں ہے، بلکہ اِس اصول کا پیشگی فیصلہ کرنا ہے کہ کس نقشۂ عمل کو اختیار کرکے کوئی شخص اپنامستقبل بنا سکتا ہے- گویا خود مستقبل مقدر نہیں ہے، بلکہ مستقبل سازی کے لیے تدبیر ِ کار کو مقدر کردیا گیا ہے- یہ تدبیر کار بلا شبہہ حتمی ہے، لیکن انجام کے معنی میں کسی کا مستقبل پیشگی طورپر حتمی نہیں-
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے موجودہ دنیا کو صرف تخلیق نہیں کیا ہے، بلکہ اس نے اپنے تخلیقی نقشہ) (creation planکے مطابق، یہ بھی مقدر کردیا ہے کہ آدمی کی کامیابی کے لیے صحیح اور فطری طریق کار کیا ہے- اِس معاملے میں آدمی کے لیے کوئی دوسرا چوائس(choice) لینا ممکن ہی نہیں- یہی وہ حقیقت ہے جس کو تقدیر الٰہی کہاجاتا ہے-
اِس معاملے کی ایک مثال کی یہ حدیث ہے: إن اللہ یعطی على الرفق، ما لا یعطی على العنف (صحیح مسلم، رقم الحدیث:2593 ) یعنی اللہ نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا- اِس حدیث میں یعطی کا ترجمہ بظاہر عطا کرنا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اس کا مطلب ہے عطا ہونا، یعنی اس دنیا میں اللہ تعالی نے فطرت کا جو نظام بنایا ہے، اس کے تحت یہاں صرف مبنی بر رفق عمل نتیجہ خیز ہوتا ہے- مبنی برعُنف عمل یہاں کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوتا-
اصل یہ ہے کہ انسان اپنا مستقبل خود تعمیر کرتا ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے، لیکن تعمیرِ خویش کا یہ کام ہمیشہ فطرت کے نقشے کے مطابق انجام پاتاہے- فطرت کے نقشے سے انحراف کرکے اس دنیا میں کوئی شخص اپنے لیے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا-
واپس اوپر جائیں

ضرورت، نہ کہ فضیلت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت، حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- اِس کے مطابق، پیغمبر اسلام نے فرمایا: لقد کان فیما قبلکم من الأمم ناس محدَّثون، فإن یک فی أمتی أحد فإنہ عمر (صحیح البخاری، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، رقم الحدیث: 3689) یعنی تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں، اُن میں محدَّث افراد ہوتے تھے- اگر میری امت میں ایسا کوئی شخص ہوگا تو وہ عمر ہیں-
اِس حدیثِ رسول میں حضرت عمر فاروق کا حوالہ اِس معنی میں نہیں ہے کہ صرف وہی ایک شخص ہیں جو کہ امتِ مسلمہ میں ’مُحدَّث‘ ہوں گے (فتح الباری: 62/7 )- محدث کا معاملہ کسی شخص کی پراسرار فضیلت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک دینی ضرورت کا معاملہ ہے- اِس اعتبار سے، وہ ایک سنتِ الہی ہے-پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے زمانے میں فترہ کے وقت محدَّث پیداہوتے تھے، یعنی دو نبیوں کے درمیان وقفہ (interval of time) کے زمانے میں، اور خاتم الانبیا کے ظہور کے بعد، حسب حالات، قیامت تک محدّث افراد کا ظہور ہوتا رہے گا-
اصل یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ دین کی تعلیمات کا از سرِ نو انطباق معلوم کیا جائے- یہ کام امت کا کوئی عالم انجام دیتا ہے- ایسے ہی شخص کو مجتہد یا محدَّث کہاجاتا ہے- یہ صرف ایک دینی خدمت ہے- کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ یہ دعوی کرے کہ میں مجتہد ہوں یا میں محدّث ہوں-
محدّث کا رول اللہ کی توفیق سے انجام پاتا ہے- یہ توفیق صرف اُس شخص کو ملتی ہے جواپنے علم اور اپنے تقوی کے ذریعے خود کو اس خدمت کا اہل ثابت کرے- محدث سے مراد مُلہَم شخص (inspired person) ہے- کون شخص محدّث ہے، اس کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے- خود کوئی شخص یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ میں محدّث ہوں- پیغمبر اپنے کام کا آغاز دعوے سے کرتا ہے، محدَّث کو ہر گزیہ حق نہیں کہ وہ اِس قسم کا کوئی دعوی کرے-
واپس اوپر جائیں

خدا ا ور بندہ

مولانا شاہ حکیم اختر (2013-1924) ایک صوفی عالم تھے- وہ مولانا عبد الغنی پھول پوری کے خلیفہ تھے- وہ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ: ’’بارہ سال کی عمر تھی- جنگل کی ایک مسجد میں جاکر نماز پڑھتا اور آسمان کی طرف دیکھ کر مولانا روم کا یہ شعر پڑھتا جاتا اور روتا جاتا:
سینہ خواہم شرح شرح از فراق تا بگویم شرح از دردِ اشتیاق
ترجمہ: اے اللہ، میں آپ کی جدائی کے غم میں اپنا سینہ ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہتا ہوں، تاکہ میں آپ کی محبت کے دردِ اشتیاق کی شرح بیان کرسکوں‘‘- (ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، جولائی- اگست 2013، صفحہ: 7) - اللہ سے محبت بلا شبہہ مطلوب ہے، لیکن یہ محبت ذاتی نوعیت کے عشق وعاشقی کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ اِس معنی میں ہے کہ انسان اللہ کے رحیم وکریم ہونے کو دریافت کرے اور اس کے نتیجے میں وہ حمد اور شکر کی اعلی کیفیات سے سرشار ہوجائے، وہ معرفتِ خداوندی میں جینے لگے، اس کے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کا عمل (process) شروع ہوجائے-
جب ایسا ہوگا تو آدمی کو اس کا ایک فائدہ یہ ملے گا کہ اس کے اندر وہ ربانی شخصیت بنے گی جو جنت میں داخلے کی مستحق قرار پائےاور وہ اللہ کی قربت کا تجربہ کرے- اس کے صبح وشام فرشتوں کی صحبت میں بسر ہونے لگیں گے، اس کے اندر حکمت کا ’اِنبات‘ ہونے لگے گا، جیساکہ حدیث میں آیا ہے (ما زہدعبد فی الدنیا إلا أنبت اللہ فی قلبہ الحکمة)-
اِس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کے اندر شدت کے ساتھ دعوت الی اللہ کا جذبہ پیدا ہوجائے گا- وہ اِس مقصد کے لیے سرگرم ہوجائے گا کہ اللہ کے بندوں کو وہ اللہ کا پیغام پہنچا دے- اس کی اپنی معرفت اُس وقت تک مشتبہ نظر آئے گی، جب تک کہ وہ دوسروں کے لیے بھی اِسی ربانی تجربے کا حریص نہ بن جائے- اس کو اپنی جنت اُس وقت تک مشتبہ دکھائی دے گی، جب تک کہ وہ دوسروں کے لیے جنت کا دروازہ کھولنے میں اپنی ساری طاقت نہ لگا دے-
واپس اوپر جائیں

قرآن اور نماز

ڈاکٹر سنجے رائے سمستی پور، بہار میں پیدا ہوئے- 21 اگست 2013 کو ایک سڑک حادثے میں ان کا انتقال ہوگیا- انتقال کے وقت ان کی عمر 40 سال تھی- انھوں نے 1996 میں اسلام قبول کرلیا- وہ ایک پابند ِ صوم وصلاة نوجوان تھے- انھوں نے ایک بار اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ: ’’اللہ سے بات کرنا چاہو تو قرآن پڑھا کرو، اور اللہ سے ملاقات کرنا چاہو تو تہجد پڑھا کرو‘‘-
(ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، اکتوبر 2013، صفحہ: 7)
یہ کوئی خوش عقیدگی (wishful thinking)کی بات نہیںہے، بلکہ وہ ایک حقیقت ہے- یہ ایک واقعہ ہے کہ قرآن کو پڑھنا گویا اللہ سے ہم کلام ہونا ہے اور عبادت میں مشغول ہونا وہ لمحہ ہے جب کہ ایک بندہ اپنے رب سے ملاقات کا تجربہ کرتا ہے- لیکن قرآن اور نماز کا یہ فائدہ اس کے ظاہری فارم میں نہیں ہے، بلکہ وہ اس کی اسپرٹ میں ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ آپ قرآن کے الفاظ کو اپنی زبان سے دہرائیں تو خود بخود آپ کو اللہ سے ہم کلامی کا تجربہ ہونے لگے، یا آپ نماز کے فارم کو دہرائیں تو نماز کی صورت کا دہرانا بجائے خود اللہ سے ملاقات کا ذریعہ بن جائے- یہ دونوں فائدے کسی کو بہ اعتبار اسپرٹ ملتے ہیں، نہ کہ بہ اعتبار فارم-
اصل یہ ہے کہ جب ایک انسان حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے، پھر وہ اللہ کی توفیق سے سچائی کو پالیتا ہے، پھر اس کو معرفت کے درجے میں ایمان حاصل ہوجاتا ہے، اللہ کی یاد اس کے شعوری عمل (thought process) میں شامل ہوجاتی ہے، وہ صبح وشام خدائی حقیقتوں کی دریافت کرتا رہتا ہے، اس کا کیس ایک ربانی انسان کا کیس بن جاتا ہے، قرآن کی تلاوت یانماز سے پہلے وہ ایک تیار ذہن (prepared mind) بن چکا ہوتا ہے- ایسا انسان جب تدبر کے ساتھ قرآن کو پڑھتا ہے یا وہ نماز ادا کرتا ہے تو اس کو بلا شبہہ ان اعلی کیفیات کا تجربہ ہوتا ہے جیسے کہ وہ اللہ سے ہم کلام ہے، جیسے کہ وہ اللہ سے ملاقات کررہا ہے(تعبد اللہ کأنک تراہ)-
واپس اوپر جائیں

برعکس انجام

2 اپریل 2006 کو ڈاکٹر محمد اقبال کے ’’یومِ وفات‘‘ کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویزن (لاہور) کے اسٹوڈیو میں ایک پینل ڈسکشن کا اہتمام کیا گیا- اِس میں ملک کے نامور اہلِ علم ودانش شریک ہوئے- اِس پروگرام کا موضوع اقبال کے خطبات:
The Reconstruction of Religious Thought in Islam
پر اظہار خیال تھا- دوسرے اہلِ علم کے علاوہ، ڈاکٹر جاوید اقبال نےمرکزی مقرر کی حیثیت سے اس پروگرام میں شرکت کی- ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ: ’’سب سے بڑی بات جو ہم نے اچیو (achieve) کی ہے، وہ پاکستان کا کری ایشن (creation) ہے‘‘- انھوں نے مزید کہا کہ ہم جوہری طاقت (neuclearpower) ہیں- یہ بھی بڑی اچیومینٹ (achievement) ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے ٹھیک کیا ہے‘‘- (شش ماہی مجلہ ’’اقبال ریویو‘‘، صفحہ: 85 ، اپریل 2013، اقبال اکیڈمی، حیدر آباد، انڈیا)
1947 سے پہلے جب پاکستان کی تحریک چل رہی تھی، ہر طرف مسلمان یہ نعرے لگا رہے تھے کہ — پاکستان کا مطلب کیا، لا إلہ إلا اللہ- اِس نعرے کا مطلب بظاہر یہ تھا کہ پاکستان کی طاقت اسلام کا نظریہ ہے، یعنی اسلام کی پرامن آیڈیالوجی (peaceful ideology)، مگر 60 سال سے زیادہ مدت گزرنے کے بعد پاکستان کے دانش ور یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی طاقت ایٹم بم ہے-اِس ذہن کی مزید توسیع یہ ہے کہ پاکستانی سماج میں گن کلچر اور بم کلچر کو زبردست فروغ حاصل ہوا جو آخر کار خود کش بم باری تک پہنچا- آج کی دنیا کی نظر میں پاکستان کی تصویر ایک تشدد پسند ملک کی تصویر ہے، نہ کہ پرامن اسلام پسندکی تصویر- ایک عالمی سروے کے مطابق، سنگاپور دنیا کا سب سے زیادہ پر امن ملک ہے اور پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ پر تشدد ملک— نظریۂ پاکستان کا یہ برعکس انجام شاید جدید تاریخ کا سب سے زیادہ عجیب واقعہ ہے-
واپس اوپر جائیں

سورہ التین کا پیغام

قرآن کی سورہ التین میں اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) کو بتایا گیا ہے- اِ س سورہ کا متن اور ترجمہ یہ ہے: ۝وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ ۝ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ ۝ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ۝ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۝ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ ۝ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ ۝ فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ ۝ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ (95:1-8) یعنی قسم ہے تین کی اور زیتون کی اور طورِسینا کی اور اس امن والے شہر کی۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر اس کو سب سے نیچے پھینک دیا۔ لیکن جولوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے تو ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔تو اب کیا ہے جس سے تم بدلہ ملنے کو جھٹلاتے ہو۔ کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں۔قرآن کے اِس بیان کے مطابق، انسان کو بہترین شخصیت کے ساتھ پیدا کیا گیا، لیکن اس کے بعد انسان کو ایک ایسی دنیا میں ڈال دیا گیاجو انسان جیسی مخلوق کے لیے اسفل سافلین کی حیثیت رکھتی تھی:
We have created man in the best of mould, then We cast him down as the lowest of the low.
اسفل سافلین میں ڈالنے سے کیا مراد ہے-اِس کا جواب قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آدم اور اُن کی بیوی حوا کو پیدا کرنے کے بعد پہلے جنت میں رکھا گیا - اس کے بعد اُن کو (اور ان کی نسلوں کو)موجودہ دنیا (planet earth)میں منتقل کردیاگیا - اِس سلسلے میں آیت کے الفاظ یہ ہیں: قُلْنَا اہْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعًا (2:38) یعنی ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اترو (زمین پر)-قرآن کی اِن دونوں آیتوں میں ایک گہری مشابہت ہے- ’’رددنا‘‘ اور ’’اہبطوا‘‘ دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں- اِ س لفظی مشابہت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسفل سافلین سے مراد یہی موجودہ زمین ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو جنتی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ، پھر اس کو ایک مخصوص منصوبے کے تحت سیارۂ زمین کے اوپر بسا دیاگیا جو کہ تخلیق کے اعتبار سے، جنتی انسان کا ہیبی ٹیٹ (habitat) نہ تھا- اسفل سافلین سے مراد کوئی پراسرار چیز نہیں، اس سے مرادموجودہ زمین ہے جو انسان جیسی مخلوق کا مسکن (habitat)نہیں-
ہیبی ٹیٹ کی اہمیت
ہیبی ٹیٹ کیا ہے- ہیبی ٹیٹ ایک ارضیاتی اصطلاح ہے- اِس سے مراد وہ جغرافی مقام ہے جو کسی حیوان یا کسی پودے کے لیے فطری طورپر موزوں ہو:
Habitat: The natural abode of an animal or plant.
گویا ہیبی ٹیٹ زمین کا وہ مخصوص علاقہ ہے جو کسی جان دار مخلوق کے لیے موزوں جاے قیام کی حیثیت رکھتا ہو، جہاں وہ حالات موجودہوں جس میں کوئی جان دار مخلوق بھر پور طور پر نشوونما پاسکے-
اخروی حقیقتوں کو قابلِ فہم بنانے کے لیے خالق نے دنیا کی زندگی میں حیوانات کے ہیبی ٹیٹ کا ظاہرہ (phenomenon) قائم کیا ہے- حیوانات اپنے ہیبی ٹیٹ میں پرسکون طورپر رہتے ہیں- ہیبی ٹیٹ کے باہر ان کو سکون نہیں ملتا- اس کی ایک مثال مچھلی ہے- مچھلی ایک جان دار مخلوق ہے اور اس کا فطری ہیبی ٹیٹ پانی ہے- مچھلی پانی کے اندر پرسکون طورپر رہتی ہے، لیکن اگر مچھلی کو پانی کے باہر رکھ دیا جائے، مثلاً کسی محل میں، کسی گارڈن میں، کسی صوفہ سیٹ پر، کسی کار یا ہوائی جہاز میں تو ہر جگہ وہ تڑپتی رہے گی- لیکن جیسے ہی آپ اس کو دریا یا سمندر میں ڈالیں، وہ فوراً پرسکون ہو کر اس میں تیرنے لگے گی- اِس کا سبب یہ ہے کہ مچھلی اپنی ساخت کے اعتبار سے ہوا سے آکسیجن نہیں لے سکتی- مچھلی کے لیے آکسیجن حاصل کرنے کا ذریعہ صرف تحلیل شدہ آکسیجن (dissolved oxygen) ہے جو پانی کے اندر فطری طورپر موجود ہوتا ہے-
موجودہ دنیا انسان کا ہیبی ٹیٹ نہیں- انسان کے خالق نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا ہے، جب کہ موجودہ دنیا اِس کے مطابق نہیں- انسان اور اس کے رہائشی سیارہ کے درمیان اِسی تبایُن (disparity)کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ زمین انسان کا فطری ہیبی ٹیٹ نہیں- انسان کو اِس دنیا میں اُس مچھلی کی طرح رہنا پڑتا ہے جو پانی کے باہر کسی غیر آبی جگہ پر ہو-اگرچہ اِس دنیا میںپھل اور میوے ہیں، اگر چہ اِس دنیا میں سرسبز پہاڑ ہیں، اگر چہ اِس دنیا میں متمدن آبادیاں ہیں، پھر بھی انسان کو اِس دنیا میں ذہنی سکون حاصل نہیں- انسان اپنی زندگی کے اِس تباین پر غور کرے تو وہ ایک عظیم حقیقت کو دریافت کرے گا، وہ یہ کہ موجودہ دنیا اس کا ہیبی ٹیٹ نہیں-
اسفل سافلین کیا ہے
اِس نکتے کو ذہن میں رکھ کر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اسفل سافلین سے مراد کوئی پراسرار چیز نہیں ہے- اس سے مراد یہی موجودہ زمین ہے- موجودہ زمین کا اسفل سافلین ہونا خود زمین کی نسبت سے نہیں، بلکہ وہ انسان کی نسبت سے ہے- انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے، معیار پسند ہے- موجودہ زمین چوں کہ ہر اعتبار سے آئڈیل سے کم (less than ideal) ہے، اِس لیے عملاًوہ انسان جیسی مخلوق کے لیے اسفل سافلین بن جاتی ہے-اِس نکتے کی وضاحت کے بعد سورہ التین کا پورا مفہوم واضح ہوجاتاہے- اِس سورہ کے ابتدائی الفاظ علامتی الفاظ ہیں- اِس میں انجیر اور زیتون کے الفاظ سے زمین کی روئیدگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جس کی بنا پر یہاں پھل اور اناج جیسی چیزیں پیدا ہوتی ہیں- جبلِ طورسے مراد زمین کے لیے پہاڑوں کی وہ اہمیت ہے جس کا ذکر قرآن کے مختلف مقامات پر کیاگیا ہے- بلدِ امین سے مراد موجودہ زمین کی وہ صلاحیت ہے جس کی بنا پر یہاں شہر آباد ہوتے ہیں اور انسانی تہذیب ظہور میں آتی ہے-
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمین ایک استثنائی کرہ ہے- یہاں جو حالات ہیں، وہ کائنات کے کسی اور کرہ پر موجودنہیں- مگر یہاں ایک فرق ہے، وہ یہ کہ انسان اپنی ذات میں ایک معیار پسند مخلوق ہے، جب کہ موجودہ زمین دار الامتحان کے طورپر بنائی گئی ہے، اِس لیے وہ انسانی معیار کے مطابق نہیں- یہی وجہ ہے کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے عملاً دار الکبد بن جاتی ہے، یعنی ایک ایسی دنیا جہاں انسان کو چین اور سکون حاصل نہیں-یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان ایک عدم مطابقت (disparity) پائی جاتی ہے- موجودہ زمین پر انسان کی حیثیت ایک ایسے طالب کی ہے جس کا مطلوب اس کو یہاں حاصل نہیں -یہ صورت حال بتاتی ہے کہ انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان ایک عدم مطابقت (disparity) پائی جاتی ہے- موجودہ زمین پر انسان کی حیثیت ایک ایسے طالب کی ہے جس کا مطلوب اس کو یہاں حاصل نہیں- یہی وجہ ہے کہ اِس زمین پر پیدا ہونے والے تمام عورت اور مرد بے سکونی کی زندگی گزارتے ہیں اور اِسی حال میں مر جاتے ہیں- یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیاہے: اللہم لا عیش إلا عیش الآخرة ( صحیح مسلم، رقم الحدیث:1805 ) یعنی انسان کو اس کی مطلوب زندگی تو صرف آخرت میں مل سکتی ہے-
قرآن کی اِس سورہ میں اسفل سافلین کا لفظ خارجی حالات کی نسبت سے نہیں آیا ہے، بلکہ وہ انسان کی اپنی داخلی نفسیات کی نسبت سے آیا ہے، یعنی ایک ایسی مخلوق جو اپنی تخلیق کے اعتبار سے، احسنِ تقویم ہے، اس کے لیے یہ دنیا عملاً اسفل سافلین کے ہم معنی بن جاتی ہے- انسان کے لیے یہاں رہنا ایسا ہی ہے جیسے مچھلی کا پانی کے باہر رہنا-
انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان یہ عدم مطابقت ایک سراغ (clue)ہے- وہ عدم مطابقت یہ ہے کہ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے، جس ہیبی ٹیٹ کا طالب ہے، زمین اس کے لیے وہ ہیبی ٹیٹ نہیں- یہ عدم مطابقت انسانی زندگی کا ایک ایسا پہلو ہے جس پر غور کرکے انسان ایک عظیم حقیقت کو دریافت کرسکتا ہے، یعنی یہ حقیقت کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اپنے آپ کو کامیاب بنانے کے لیے اس کو کیا کرنا چاہئے-
سورہ کے اگلے الفاظ اِسی بات کا جواب ہیں- سورہ کے اگلے الفاظ یہ ہیں: اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ -یعنی جو لوگ اللہ کے تخلیقی منصوبے کو دریافت کریں اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تشکیل کر یں تو موت کے بعد وہ ایک ایسی دنیا (جنت) میں داخل کیے جائیں گے، جو اُن کا مطلوب ہیبی ٹیٹ ہوگا اور اِس بنا پر وہاں عدم مطابقت کا مسئلہ باقی نہ رہے گا- اِس دنیا میں اُن کو اپنی مطلوب زندگی مل جائے گی جس کو قرآن میں غیر ممنون اجر (unending award) کہاگیا ہے-
اجر غیر ممنون
قرآن کی اِس آیت میں ’اجرِ غیر ممنون‘ کا لفظ ایک ذو معنی لفظ ہے، یعنی بلاغت کے اصول کے مطابق، اِس لفظ میں مذکور معنی کے ساتھ ایک غیر مذکور معنی بھی پوشیدہ ہے، یعنی اجر غیر ممنون کے ساتھ اجرِ ممنون کا تصور، یا غیر منقطع اجر کے ساتھ منقطع اجر کا تصور-
اِس آیت میں آخرت کےاجر کو غیر ممنون (غیر منقطع) اجر بتایا گیا ہے- یہ لفظ دنیا کے اجر کے مقابلے میں آیا ہے، کیوں کہ دنیا کااجر ممنون (منقطع) اجر ہے اور آخرت کااجر، غیر ممنون (غیر منقطع) اجر ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ دنیا کا اجر عارضی اجر ہے اور آخرت کا اجر ابدی اجر-یہ فرق بے حد اہم ہے- حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے اجر کا ممنون (منقطع) اجر ہونا ہی وہ چیز ہے جو دنیا کو اسفل سافلین بنا دیتا ہے، کیوں کہ انسان کا معیار پسند ذہن معیار سے کم پر راضی نہیں ہوتا- انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے صرف معیار پر مطمئن ہوسکتاہے، معیار سے کم پر مطمئن ہونا بہ اعتبار مزاج اس کے لیے ممکن نہیں- انسان کا یہی مزاج ہے جو موجودہ دنیا کو اس کے لیے دار الکبد بنا دیتاہے- موجودہ دنیا مطلق معنوں میں دار الکبد نہیں ہے- انسان کے معیار پسندانہ ذہن کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا اس کو ایک ایسی جگہ محسوس ہونے لگتی ہے جو گویا کہ اس کے لیے دار الکبد ہو- اللہ نے دنیا کو دار الکبد کے طورپر پیدا نہیں کیا ہے، یہ انسان کا اپنا مزاج ہے جس کی بنا پر دنیا اس کو دار الکبد نظر آتی ہے- یہ معاملہ انسان کی نسبت سے ہے، نہ کہ تخلیق کی نسبت سے-
سورہ کے آخر میں فرمایا: اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ -اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں جو عدم مطابقت ہے یا طالب کو اس کا مطلوب حاصل نہیں، یہ خالق کی حکیمانہ شان کے خلاف ہے- لازماً ایسا ہونا چاہیے کہ خالق کی حکیمانہ شان کا ظہور ہو، اِس عدم مطابقت کا خاتمہ ہو اور طالب کو اس کا مطلوب مل جائے- آخرت اِسی شانِ خداوندی کے ظہور کا دن ہے-
خلاصۂ کلام
سورہ التین میں جو بات ’رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ‘ کے الفاظ میں کہی گئی ہے، وہی بات دوسری سورتوں میں دوسرے الفاظ میں کہی گئی ہے- مثلاً لَقَدْ خَلَقْنَا الْانْسَانَ فِیْٓ کَبِد اور إنَّ الإنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ وغیرہ- قرآن کے الفاظ پوری انسانی تاریخ پر منطبق ہوتے ہیں- اول دن سے اب تک جو عورت یا مرد اس کرۂ ارض پر پیداہوئے، اُن سب کے ساتھ یہی واقعہ پیش آ ٓیا کہ آخر کار وہ محدود مدت کے بعد مر گئے اور اُن کی بنائی ہوئی دنیا بالکل اجڑ گئی- اِس معاملے میں کسی بھی انسان کا کوئی استثنا نہیں-
تاریخ کا یہ تجربہ ایک سوالیہ نشان ہے، بلکہ سب سے بڑا سوالیہ نشان، وہ یہ کہ انسان احسنِ تقویم کی حیثیت سے پیدا ہوتا ہے- وہ تمام مخلوقات میں افضل مخلوق اور مکرم مخلوق ہے- انسان واحد مخلوق ہے جو اپنی ساخت کے اعتبار سے، معیار پسند (idealist)اور کمال پسند (perfectionist) واقع ہوا ہے-یہ انسانی شخصیت کا ایک پہلو ہے- اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان جس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، وہ اس کا ہیبی ٹیٹ نہیں- ایک سائنس داں کے الفاظ میں، بظاہر ایسا محسوس ہوتاہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے نہیں بنائی گئی تھی:
It appears that man has strayed into a world that was not made for him.
انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان یہ عدم مطابقت ہر عورت اور مرد کے لیے دعوتِ فکر کی حیثیت رکھتی ہے- اگر آدمی حقیقی معنوں میں حق کا متلاشی ہو تو انسانی زندگی کا یہ پہلو اس کے لیے ایک ایسا سراغ (clue) بن جائے گا جس پر غور کرتے ہوئے وہ زندگی کی اصل حقیقت کو دریافت کرلے- اِس دریافت کے بعد اس کو معلوم ہوگا کہ موجودہ دنیا اس کے لیے صرف ایک عارضی قیام گاہ ہے، وہ اس کا ہیبی ٹیٹ نہیں- انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اِس کا مستحق بنائے کہ موت کے بعد اس کو ابدی جنت میں داخلہ ملے جو کہ انسان کا اصل ہیبی ٹیٹ ہے-(5ستمبر 2013)
واپس اوپر جائیں

خلافت کا تصور

قرآن کی سورہ البقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے جب انسان کو پیدا کیا تو اللہ اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا- اِس مکالمے کے دوران اللہ نے انسان کی پیدائش کا مقصد اِس طرح بیان کیا: وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰۗىِٕکَةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِیْفَةً ( 2:30) یعنی یاد کرو اُس وقت کو جب کہ تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں-
’خلافت‘ کے لغوی معنی ہیں: بعد کو آنا- ’خلیفہ‘ کا مطلب ہے: کسی کے بعد اس کی جگہ پر آنے والا، یعنی جانشین (successor)- خلیفہ کا اصل لفظی مطلب یہی ہے، لیکن اِس طرح کسی کے بعد جو شخص جانشین بنتا ہے، وہ عام طورپر صاحبِ اقتدار ہوتا ہے، اس لیے استعمال میں خلیفہ کا لفظ مجرد طورپر صاحبِ اقتدار کے لیے بولا جانے لگا، خواہ ایسا شخص جانشین کے طورپر صاحبِ اقتدار بنا ہو یا جانشینی کے بغیر اس کو یہ پوزیشن حاصل ہوگئی ہو-
قرآن کی اِس آیت میں خلیفہ کا لفظ اِسی دوسرے مفہوم میں استعمال ہوا ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر ایک بااختیار مخلوق کی حیثیت سے آباد کیا- ایک عارضی مدت کے لیے زمین انسان کے چارج میں دے دی گئی- نظامِ فطرت کے مطابق، اگرچہ زمین کا انتظام انسان چلا رہے ہیں جس طرح کائنات کے دوسرے حصوں کا انتظام فرشتے چلارہے ہیں- لیکن محدود معنی میں زمین انسان کے چارج میں ہے- قیامت تک کے لیے انسان کو کامل اختیار ہے کہ وہ اپنے دائرے میں زمین پر آزاد مخلوق کی حیثیت سے زندگی گزارے، خواہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا غلط استعمال-
قرآن فہمی کا ایک اصول یہ ہے : القرآن یفسر بعضُہ بعضا (قرآن کا ایک حصہ اُس کے دوسرے حصے کی تفسیر کرتاہے)- اِس اصول کے مطابق، غور کیا جائے تو قرآن کی متعدد آیتوں سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کو خلیفہ بنانے کا مطلب کیا ہے- اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِی الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ (10:14)-
اصل یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالی نے ایک کامل مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا- اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے، پہلا انسان اتنا ہی کامل تھا، جتنا کہ اکیسویں صدی کا انسان- لیکن جس سیارہ ارض (planet earth) پر انسان کو بسایا گیا، وہاں تمام چیزیں موجود تھیں، لیکن یہ چیزیں زیادہ تر بالقوہ (potential) طور پر موجود تھیں- اب یہ انسان کا کام تھاکہ وہ اِس بالقوہ کو بالفعل (actual) بنائے- پوری انسانی تاریخ اِس معاملے کی تصویر ہے- وہ بالقوہ سے بالفعل کی طرف سفر کررہی ہے-
اِس سفر کے لیے انسانی زبان میں سب سے زیادہ موزوں لفظ تہذیب ہے- پوری انسانی تاریخ، آدم سے لے کر قیامت تک، اِسی تہذیبی سفر کا دوسرا نام ہے- خالق نے کرہ ارض کو تہذیب کے مقام یا مقر (abode of civilization) کے طورپر بنایا- انسان کا کام یہ تھا کہ وہ اِس پوٹنشیل تہذیب (potential civilization) کو ایکچول تہذیب (actual civilization)کی صورت میں ڈیولپ کرے — اِسی رول کو انجام دینے والے کا نام خلیفہ ہے، خواہ وہ مذہبی انسان ہو یا سیکولر انسان-
تہذیب کا لفظ عام طورپر مادی ترقی کے معنی میں بولا جاتا ہے- معروف تصور کے مطابق، تہذیب کا مطلب ہے — سوشل ، کلچرل اور سائنٹفک ترقی کا اعلی مرحلہ- مگر تہذیب کی یہ تعریف ایک محدود تعریف ہے- تہذیب کے تصور کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے پس منظر میں دیکھا جائے- چوں کہ تہذیب کے معمار خود سے کوئی چیز تخلیق نہیں کرتے، وہ خالق کے پیدا کردہ ذرائع (natural resources) یا انفراسٹرکچر کو استعمال کرتے ہوئے تہذیب کا سفر جاری کرتے ہیں- گویا کہ تہذیب کے تمام انسانی معمار، خالق کے کارندے ہیں- وہ خدا کے تخلیقی منصوبے کو واقعے کی صورت دے رہے ہیں-
تہذیب کا یہ سفر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ربانی تہذیب کا سفر ہے- وہ انسان کو اُس منزل کی طرف لے جانے والا ہے جہاں وہ حمدِ الہی اور شکر ِ خداوندی کا اعلی تجربہ کرے، جہاں وہ ربانی معرفت کے اعلی مراتب کو حاصل کرسکے- مگر یہ کام چوں کہ انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے انجام دیا جارہا ہے، اِس لیے لوگ اس کی معنویت کو سمجھنے سے قاصر رہے- تہذیب کے اِس سفر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی انسانی آزادی سے پیدا ہونے والی خرابیوں (evils) کو الگ کرکے یہ دیکھ سکے کہ خدا کس طرح انسانی تاریخ کو مینیج کررہا ہے- انسانی تاریخ کو بامعنی طورپر سمجھنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مبصر، انسانی عنصر کو الگ کرکے تاریخ میں عمل کرنے والے خدائی عنصر کو دیکھ سکے-
ایک جائزہ
اللہ نے انسان کو کامل آزادی عطا فرمائی ہے- یہ آزادی اِس لیے ہے تاکہ انسان خود سے چیزوں کو دریافت کرے، وہ اپنے اندر ایک خود تعمیر کردہ شخصیت (self-developed personality) بنائے- انسان کبھی اپنی آزادی کو صحیح استعمال کرتا ہے اور کبھی غلط استعمال- لیکن اللہ اپنی قوتِ قاہرہ کے ذریعے تاریخ کو مینیج کرتے ہوئے اُس کو اُس منزل کی طرف لے جارہا ہے جو اس کی اصل منزل ہے، یعنی معرفتِ خداوندی (realization of God) کی تکمیل-
اللہ نے انسانیت کے آغاز سے پیغمبروں کو بھیجنے کا جو سلسلہ جاری کیا، وہ اِس لیے تھا کہ پیغمبر، انسان کو خدا کے تخلیقی منصوبے سے باخبر کریں اور یہ کوشش کریں کہ انسانی تہذیب کا سفر صحیح رخ (right direction) میں جاری رہے-مگر تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان اپنی آزادی کو استعمال کرنے میں زیادہ ذمے دار ثابت نہیں ہوا- بہت جلد ایسا ہوا کہ تاریخ عمومی طورپر توحید کے راستے سے ہٹ کر شرک کے راستے پر چل پڑی- اس کا سبب یہ تھا کہ انسان نے پایا کہ پیغمبر جس اللہ کی خبر دے رہے ہیں، وہ اللہ اس کو دکھائی نہیں دیتا، البتہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوقات ہر طرف دکھائی دے رہی ہیں- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان نے نہ دکھائی دینے والے خدا کو چھوڑ کر، دکھائی دینے والی چیزوں کو اپنا خدا سمجھ لیا-
یہ واقعہ کس طرح ہوا، اس کا اشارہ قرآن کے اِن الفاظ میں ملتا ہے: ہَذا رَبِّی ہَذا أَکْبَرُ (6:78) یعنی ہر وہ چیز جو بظاہر بڑی (great) دکھائی دے، اس کو خدا یا شریکِ خدا سمجھ لینا- اِسی سے قدیم تاریخ میں شرک کی وہ صورت پیدا ہوئی جس کو مظاہر فطرت کی پرستش (nature worship) کہا جاتا ہے- فطرت پرستی کا یہ نظریہ لوگوں میں بہت مقبول ہوا- اِس کا سبب یہ تھا کہ پچھلے زمانے کے تمام بادشاہ فطرت پرستی کو اپنے لیےموزوں (convenient)سمجھ کر اِس مذہب کی سرپرستی کرنے لگے- انھوں نے اِسی مشرکانہ مذہب سے اپنے لیے حق حکم رانی (mandate) لینا شروع کردیا- اِس طرح ایسا ہوا کہ قدیم زمانے میں ساری دنیا میں شرک کو سرکاری مذہب (official religion) کی حیثیت حاصل ہوگئی-شرک اور سیاسی اقتدار کے اِسی تعلق (nexus) کے نتیجے میں قدیم زمانے میں شرک کو ساری دنیا میں دبدبہ حاصل ہوگیا- شرک کا یہ دبدبہ مذہبِ توحید کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ تھا- شرک کے اِسی دبدبے کو قرآن میں فتنہ (8:29) کہاگیا ہے-
شخصی حکومت
قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے ساری دنیا میں حکومت کا وہ نظام قائم تھا جس کو شخصی بادشاہت (Monarchy)کہا جاتا ہے- شخصی بادشاہت بہت جلد شخصیت پرستی (personality cult)میں تبدیل ہوجاتی تھی- اور پھر شخصیت پرستی رفتہ رفتہ بت پرستی (idol worship) کی صورت اختیار کرلیتی تھی-یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایسا ہوا کہ شخصی حکومتیں آخر کار مشرکانہ حکومتیں بن گئیں- اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت موسی کے معاصر بادشاہ فرعون نے کہا کہ :أنا ربکم الأعلى (79:24) -
قدیم زمانے میں شخصی حکومت کا نظام سب سے بڑی برائی (greatest evil) بن کر ابھرا- یہ انسانی آزادی کا سب سے زیادہ سنگین استعمال تھا- دنیا میں اِس نظام کو جمہوری انقلاب کے ذریعے سیاسی طور پر ختم کیا گیا- آخرت میں باعتبار حقیقت اُس کی مجرمانہ حیثیت کا اعلان کیا جائے گا- یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یقبض اللہ تبارک وتعالى الأرض یوم القیامة ویطوی السماء بیمینہ ثم یقول أنا الملک، أین ملوک الأرض(صحیح مسلم ،رقم الحدیث: 4994) -
خلافت کے تین دور
قرآن میں خلافت کے معنی ’’اسلامی خلافت‘‘ کے نہیں ہیں- قرآن کے مطابق، وہ تمام لوگ خلائف فی الأرض (10:14) ہیں جن کو مختلف زمانوں میں بااختیار رول ملا، خواہ وہ اپنے عقیدے کے اعتبار سے، مذہبی ہوں یا غیر مذہبی- تاریخ میں جن لوگوں کو باری باری خلافتِ ارضی کا رول ادا کرنے کا موقع ملا، اُن کو تین گر وہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے-
1- مشرکین کی خلافت— یہ دور قدیم زمانے سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک جاری رہا-
2- موحدین کی خلافت— یہ مسلم سلاطین کا دور ہے- یہ دور تقریباً آٹھویں صدی سے لے کر اٹھارھویں صدی تک قائم رہا-
3- سیکولر لوگوں کی خلافت — یہ دور انیسویں صدی عیسوی میں شروع ہوا اور اب تک قائم ہے-
قدیم زمانے میں جن مشرک گروہوں کو خلافتِ ارضی کا رول ادا کرنے کا موقع ملا، انھوںنے اپنی آزادی کا نہایت غلط استعمال کیا- ان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے ناحق طورپر ساری دنیا میں جبر کی حکومت (despotic rule) کا نظام قائم کردیا- اِس دور میں انسان کو مذہبی آزادی حاصل نہ تھی- اِس دور میں ہر جگہ وہ کلچر قائم تھا جس کو مذہبی تشدد کا دور کہا جاتا ہے-
اِس مشرکانہ دور میں آزادانہ سوچ (free thinking) کا خاتمہ ہوگیا تھا- اِس بنا پر فکری ارتقا کا عمل پوری طرح ختم ہوگیا تھا- علم کی ترقی عملاً ناممکن ہوگئی تھی- اِس کا ایک شدید نقصان یہ تھا کہ فطرت (nature) میں تحقیق کا کام پوری طرح رک گیاتھا- اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ انسان فطرت میں چھپے ہوئے قوانین کو دریافت کرے، تاکہ انسان پر اعلی معرفت کے دروازے کھلیں، دعوتی عمل کو زیادہ موثر طورپر انجام دینا ممکن ہوجائے- مگر مشرکانہ اقتدار کے زمانے میں اِس قسم کا عمل پوری طرح بند ہوگیا تھا- اللہ نے کثیر تعداد میں پیغمبر بھیجے، تاکہ وہ انسان کو بتائیں کہ وہ اپنی آزادی کو غلط استعمال کرکے اللہ کے منصوبے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے- لیکن پیغمبروں کی پُرامن دعوتی کوشش عملاً غیر موثر ہوگئی-
اِس کے بعد اللہ تعالی نے اپنے تخلیقی منصوبے کی بنا پر انسان کی آزادی کو تو ختم نہیں کیا، البتہ یہ فیصلہ کیا کہ خلافتِ ارضی کا رول مشرکین سے چھین لیا جائے اور اس کو موحدین کے حوالے کردیا جائے- یہی خدائی فیصلہ تھا جس کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں آیا ہے: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (8:29)-قرآن کی اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کو اگر لفظ بدل کر کہا جائے تو وہ یہ ہوگی کہ دورِ شرک اپنے وجود کا جواز ختم کرچکا ہے، اس کو توڑ کر دورِ توحید کا آغاز کرو، تاکہ انسان کے اوپر اللہ کی ابدی رحمتوں کے دروازے کھلیں-
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اور آپ کے پیروؤں نے واقعتاً ایسا ہی کیا- پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں نے دورِ قدیم کی تقریباً پوری آباد دنیا میں وہ کام کیا جس کو ایک مبصر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے کہ — پیغمبر اور اُن کے پیروؤں نے قدیم زمانے کے پورے سیاسی نقشے کو بدل دیا-
اِس طرح خلافتِ ارضی کا رول مسلمانوں یا موحدین کے ہاتھ میں آگیا- مسلمانوں نے اِس عہد میں جو رول ادا کیا، وہ کوئی نظام قائم کرنا نہ تھا- حقیقت یہ ہے کہ نظام قائم کرنا امتِ مسلمہ کا نشانہ ہی نہیں-مسلم عہد میں جو کام انجام پایا، اس کے دو بڑے پہلو تھے — ایک تھا دنیا میں آزادی کا دور لانا اور دوسرے، علومِ فطرت کے انکشاف کا دروازہ کھولنا-
قرآن میں کہا گیا تھا کہ: أمرہم شوری بینہم (42:38) - یہ آیت کسی محدود معنی میں نہیں ہے- اِس آیت میں دراصل ایک مطلوب عالمی انقلاب کی خبر دی گئی ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ دنیا سے شخصی حکومت کا دور ختم ہو اور اس کے بجائے جمہوری حکومتوں کا دور آئے، تاکہ انسان کو یہ موقع ملے کہ وہ آزادی کے ساتھ سوچ سکے، تاکہ انسان کے پوٹنشیل کی انفولڈنگ ہو، تاکہ انسان کو فطرت کے رموز کی دریافت کا موقع ملے، تاکہ ربانی تہذیب کو قلم بند کرنے کا وہ دور شروع ہو جس کا ذکر قرآن میں اِن شاہانہ الفاظ میں کیا گیاہے: وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (31:27)
جمہوریت کا دور
دورِ جمہوریت دراصل دورِ آزادی کا دوسرا نام ہے-اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق، زمین پر آزادانہ ماحول کا باقی رہنا بے حد ضرو ری ہے- انسان سے جو رول مطلوب ہے، وہ صرف آزادی کے ماحول میں ممکن ہے- جمہوریت کا یہ دور مسلم عہد میں شروع ہوا- وہ پراسس کے روپ میں آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ 1789میں انقلابِ فرانس کی صورت میں اس کی تکمیل ہوئی-
جمہوریت (democracy) انسانی تاریخ کا ایک عظیم مرحلہ ہے- اِس دور میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ آزادی اور امن انسان کا اپنا چوائس (choice) بن گیاہے- اِس سے پہلے ایسا تھا کہ کسی انسان کو آزادی اور امن صرف اُس وقت ملتا تھا، جب کہ حاکمِ وقت اس کو بطور عطیہ اُسے دے دے- اب یہ معاملہ کسی دینے والے کا عطیہ نہیں رہا، بلکہ وہ ہر انسان کا مطلوب حق (absolute right) بن چکا ہے- کسی بھی شخص یا گروہ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اِس حق کو آپ سے چھین لے-
موجودہ زمانے میں بہت سے لوگ ملیں گے جو یہ شکایت کریں گے کہ اُن کو آزادی اور امن کے ماحول میں کام کرنے کے مواقع حاصل نہیں- ایسے لوگ بلا شبہہ زندگی کے راز سے بے خبر ہیں- موجودہ زمانے میں آزادی اور امن کی جو نعمت ملی ہے، اس کو استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اِس حکمت کو جانے کہ اس کو اپنے عمل کے لیے ایسا نشانہ مقرر کرنا ہے جو دوسرے سے ٹکراؤ کیے بغیر جاری کیا جاسکے- اگر آپ اپنے لیے ایسا نشانہ مقرر کریں جو دوسروں کی زندگی میں خلل ڈالنے والا ہو تو آپ کے حصے میں صرف شکایت اور پروٹسٹ آئے گا، لیکن اگر آپ اپنے عمل کے لیے ایسا نشانہ مقرر کریں جو کسی حال میں دوسروں کے لیے مسئلہ (problem) نہ بنے، تو آپ ساری عمر کام کرتے رہیں گے اور کبھی آپ کو د وسروں کے خلاف شکایت نہ ہوگی-
یہی وہ راز ہے جو قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیا ہے: الصلح خیر (4:128)- اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم ایسا نشانہ مقرر کرو جس میں دوسروں سے ٹکراؤ نہ پیش آتا ہو- اگر تم ایسا کروگے تو تمھارے لیے اِس دنیا میں خیر ہی خیر ہوگا- تمھارے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ تم دوسروں کے خلاف شکایت سے محفوظ رہتے ہوئے اپنے کام کو مکمل کرو- جو آدمی شکایت کی زبان بولے، وہ صرف یہ اعلان کررہا ہے کہ اس نے اپنے لیے غلط نشانے کا انتخاب کیا تھا- یہ معاملہ خود اپنے نشانے کی غلطی کا معاملہ ہے، نہ کہ دوسروں کے ظلم یا دشمنی کا معاملہ-
مسلم دورِ سلطنت میں دوسرا جو بڑا کام ہوا، وہ یہ کہ فطرت کو پرستش کے موضوع سے ہٹا کر تحقیق کا موضوع بنا دیا گیا- یہ عمل بھی تدریجی طورپر جاری ہوا اور آخر کار اُس علمی انقلاب تک پہنچا جس کو سائنسی انقلاب (scientific revolution) کہاجاتا ہے- اِس سائنسی انقلاب نے اُس پیشین گوئی کو واقعہ بنادیا جس کی خبر قرآن میں اِن الفاظ میں دی گئی تھی: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ(41:53)- موجودہ زمانے میں جمہوری انقلاب اور سائنسی انقلاب کی صورت میں جو انقلابات ظہور میں آئے، وہ پوری طرح اسلام کے حق میں تھے-
یہ ایک حقیقت ہے کہ جدید دور (modern age)پورے معنوں میں ایک موافقِ اسلام دور ہے- اِس دور کا آغاز مسلمانوں کے سیاسی عروج کے زمانے میں ہوا، لیکن اِس دور کی تکمیل تاریخ کے اُس تیسرے دور میں ہوئی جس کو اوپر کی تقسیم میں ’’سیکولر لوگوں کی خلافت‘‘ کہاگیا ہے-
امتِ مسلمہ کا نیا رول
قرآن کی سورہ آل عمران میں فطرت کے ایک اصول کو اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِیَدِکَ الْخَیْرُ ۭ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(3:26) یعنی تم کہو، اے اللہ، سلطنت کے مالک، تو جس کو چاہے، سلطنت دے اور جس سے چاہے، سلطنت چھین لے- اور تو جس کو چاہے، عزت دے اور جس کو چاہے، ذلیل کرے- تیرے ہاتھ میں ہے سب خوبی- بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے-
اِس کا مطلب یہ ہے کہ خلافتِ ارضی کسی گروہ کی اجارہ داری (monopoly) نہیں- یہ ایک رول ہے جس کو اللہ اپنے منصوبے کے تحت کبھی ایک گروہ کو دیتاہے، کبھی دوسرے گروہ کو- جب کسی گروہ کو خلافتِ ارضی ملے تو اس کو یہ دریافت کرنا چاہیے کہ اس کو یہ رول کس مقصد کے لیے دیاگیا ہے- اور جب اُس سے خلافتِ ارضی چھین لی جائے تو اُس وقت بھی اس کو جاننا چاہئے کہ یہ منصب کیوں اُس سے چھینا گیا- اِس حقیقت سے بے خبری کا یقینی نقصان یہ ہے کہ متعلقہ گروہ کو اللہ کی نصرت نہ ملے اور نتیجةً وہ ہر اعتبار سے ناکام ہو کر رہ جائے-
آٹھویں صدی عیسوی میں مسلم ایمپائر قائم ہوا- یہ اِس بات کی علامت تھی کہ اب خلافتِ ارضی کا رول مسلمانوں کو دیا گیا ہے- وہ رول یہ تھا کہ دنیا سے قدیم طرز کی بادشاہت (kingship) کا خاتمہ کردیا جائے- یہ کام مسلمانوں کے ذریعے عالمی پیمانے پر انجام پایا- صدیوں تک مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ وہ جس ملک میں داخل ہوئے، وہاں انھوں نے قدیم طرز کی سیاسی آمریت کا خاتمہ کردیا-لیکن پھر وہ وقت آیا کہ مسلم سلطنتوں کا زوال شروع ہوا- انیسویں صدی کا آغاز مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے خاتمے کا اعلان تھا- پوری دنیا میں ایک کے بعد ایک، مسلم سلطنتیں مغربی اقوام سے مغلوب ہو کر رہ گئیں- اِس کے بعد مسلمانوں نے بڑے پیمانے پریہ کوشش کی کہ وہ اپنی سیاسی عظمت کو دوبارہ حاصل کرسکیں، لیکن دو سو سالہ جدوجہد کے باوجود وہ اپنی ان کوششوں میں مکمل طور پر ناکام رہے-
یہ کوئی سادہ واقعہ نہ تھا- یہ عملاً مسلمانوں کے رول میں تبدیلی کا اعلان تھا-اٹھارھویں صدی میں مسلمانوں کا سیاسی رول ختم ہو چکا تھا- اب اُن سے جو رول مطلوب تھا، وہ دوسرا رول تھا، اور وہ تھا — جدید امکانات کو استعمال کرکے عالمی سطح پر دینِ خداوندی کی اشاعت- دورِ جدید میں اللہ نے اپنی مصلحت کے تحت اہل مغرب کو یہ موقع دیا کہ وہ نئے وسائل کی دریافت کرکے اُن کو عام کریں- اہلِ مغرب کے ذریعے دنیا میں پہلی بار وہ چیزیں آئیں جو عالمی دعوت کے لیے ضروری ہیں- مثلاً مذہبی آزادی، کھلا پن، عالمی آمد ورفت، پرنٹنگ پریس، عالمی کمیونکیشن، وغیرہ-
یہ نئے حالات اِس بات کا اشارہ تھے کہ اب امتِ مسلمہ کا رول بدل گیا ہے- اب اُن کا رول یہ ہے کہ نئے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے وہ اسلام کے فطری پیغام کو تمام قوموں اور تمام انسانوں تک پہنچا دیں- مگر عجیب بات ہے کہ تقریباً پوری امت اِس عظیم حقیقت سے بے خبر رہی- انھوں نے رول کی اِس تبدیلی کو نہیں سمجھا- وہ اپنی گزری ہوئی سیاسی عظمت کی واپسی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنے مفروضہ دشمنوں سے لڑائی کرتے رہے- یہ عمل خدائی منصوبے کے خلاف تھا، اِس لیے اس کو خدا کی مدد حاصل نہیں ہوئی اور وہ مکمل طور پر ناکام ہوگیا-امتِ مسلمہ کے اِس نئے رول کو حدیث میں بطور پیشین گوئی اِن الفاظ میں بیان کردیا گیا تھا: لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام -
رول کی تبدیلی
انیسویں اور بیسویں صدی نے امت مسلمہ کو ایک نئے دور میں پہنچا دیا- نئے دور کے حالات بتارہے تھے کہ امتِ مسلمہ کا رول اب بدل گیا ہے اور وہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے — عالمی دعوت - مگر نئے دور کے مسلم رہنما ناقابلِ فہم طورپر جدید دور سے بے خبر رہے- چناں چہ وہ امتِ مسلمہ کو اس کا نیا رول بھی نہ بتا سکے- نئے دور میں امتِ مسلمہ کی بہت بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ امت دور جدید میںاپنے اِس نئے رول سے بے خبر ہوگئی- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری امت کا کیس اُس قوم کا کیس بن گیا جو اپنی سمتِ سفر (direction) سے بے خبر ہوگئی ہو-
یہ زمانہ وہ تھا جب کہ امت اپنے دور زوال میں پہنچ چکی تھی- اِس دور میں امت کے تقریباً تمام رہنماؤں نے ایک ہی کام کیا، وہ ایسی باتیں لکھنے اور بولنے لگے جو امت کی زوال یافتہ نفسیات سے مطابقت رکھتی تھی، لیکن وہ یقینی طورپر خدا کے تخلیقی نقشے کے خلاف تھی- انیسویں صدی اور بیسویں صدی امتِ مسلمہ کے لیے زبردست سرگرمیوں کی صدی ہے، مگر یہ سرگرمیاں خود ساختہ قومی رول کے لیے تھیں، نہ کہ خدا کے مطلوب رول کے لیے- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت اپنی سرگرمیوں میں خدا کی نصرت سے محروم ہوگئی- اِس دور میں اُس نے جو نشانے مقرر کیے، وہ سب قومی نشانے تھے جو زوال یافتہ نفسیات کے تحت بنے تھے- اِس بنا پر اِن نشانوں کے لیے یہی مقدر تھا کہ وہ پورے نہ ہوں-
اِس قومی ناکامی کے بعد دوسری زیادہ بڑی ناکامی سامنے آئی، وہ یہ کہ پوری امت منفی نفسیات میں مبتلا ہوگئی— مایوسی، منفی سوچ، شکایت اور پروٹسٹ کا ذہن، مشتعل مزاجی، تشدد، ساری دنیا کو اپنا دشمن سمجھ لینا، ہر طرف سازش دکھائی دینا، گن کلچر اور بم کلچر اور آخر میں احساس ناکامی کی بدترین صورت، یعنی خود کش بم باری-اکیسویں صدی میں امتِ مسلمہ کی یہ ایک عمومی تصویر ہے- اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ پوری قوم تشدد کی نفسیات میں مبتلا ہوگئی، اِس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگوں کا کیس فعال تشدد (active violence) کا کیس ہے اور کچھ لوگوں کا کیس منفعل تشدد (passive violence) کا کیس ہے-
یہ ایک عمومی بربادی کی حالت ہے- امت کو اس بربادی سے نکالنے کی صورت صرف یہ ہے کہ اس کے اندر سے منفی سوچ کو مکمل طورپر ختم کیاجائے اور اس کے اندر مکمل طورپر مثبت سوچ (positive thinking) لائی جائے، اس کو تیار کیا جائے کہ وہ دوبارہ اپنے اصل مشن پر کھڑی ہوجائے، یعنی دعوت الی اللہ کا مشن- اِس معاملے میں کوئی بھی عذر (excuse) قابل قبول نہیں ہوسکتا-
دعوہ ایمپائر
قدیم زمانے میں مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر قائم تھا- آج بھی تمام مسلمان اِسی ماضی کی واپسی کا خواب دیکھ رہے ہیں- مگر یہ ایک قسم کی خلافِ زمانہ بات (anachronism) ہے- مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تاریخ کے بارے میں اللہ کے منصوبے کو سمجھیں اور اس کے مطابق، اپنے عمل کا نقشہ بنائیں- حقیقت یہ ہے کہ اب سیاسی ایمپائر بنانے کا زمانہ ختم ہوگیا، لیکن امتِ مسلمہ کے لیے ایک اور زیادہ بڑا موقع پوری طرح کھل چکا ہے اور وہ ہے پُرامن اسلامی دعوت کا عالمی ایمپائر قائم کرنا-اِس قسم کے دعوہ ایمپائر کا امکان ایک حدیثِ رسول میں پیشگی طورپر بتادیاگیا ہے- مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا: کلمة واحدة تعطونہا، تملکون بہا العرب، وتدین لکم بہا العجم (البدایة والنہایة: 3/123 ) یعنی میں تم کو ایک ایسے کلمہ کی طرف بلاتا ہوں جس کے ذریعے تم عرب کے مالک بن جاؤگے اور عجم تمھاری اطاعت کریں گے-
قدیم زمانے میں سیاسی ایمپائر بنانے کے لیے بڑی بڑی لڑائیاں ہوئیں، لوگوں کو جانوں کی قربانیاں دینی پڑیں، مگر آج اسلام کا دعوہ ایمپائر یا آئڈیا لاجکل ایمپائر بنانے کے لیے کسی لڑائی کی ضرورت نہیں- نئے حالات میں پوری طرح ممکن ہوگیا ہے کہ اسلام کا پرامن دعوہ ایمپائر بنایا جائے اور دنیا اس کے خلاف مزاحمت کرنے کے بجائے اس کے ساتھ اپنا بھر پور تعاون پیش کرے-(20 ستمبر 2013)
واپس اوپر جائیں

دورِ مسائل کا خاتمہ

قرآن کی سورہ البقرہ کے آخر میں اُس وقت کے اہلِ ایمان کی زبان سے ایک دعا نقل ہوئی ہے- اِس دعا کا ایک حصہ یہ ہے:رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا (2:286)یعنی اے ہمارے رب، ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا بوجھ تونے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر-
اِس دعا میں ’إصر‘ کا لفظ آیا ہے- اصر کا مطلب بوجھ (burden) ہے-اِس بوجھ سے مراد کوئی محدود بوجھ نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد وہ ناموافق عالمی حالات ہیں جو ہزاروں برس سے چلے آرہے تھے- اِسی اصر کو قرآن میں دوسرے مقام پر ’فتنہ‘ کہاگیا ہے اور حکم ہوا ہے: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (8:39)- قرآن کی مذکورہ آیت میں’إصر‘ سے مراد قدیم شرائع نہیں، بلکہ وہ قدیم حالات ہیں جو اہلِ توحید کے لیے رکاوٹ بنے ہوئے تھے-
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں جس کلچر کا عمومی طور پر دبدبہ تھا، وہ شرک ا ور شخصی بادشاہت کے تحت بنا تھا- اِس کلچر نے مذہبی آزادی کا خاتمہ کردیا تھا- اسی بنا پر پچھلے زمانے میں اہلِ ایمان کو ستایا گیا- اِسی بنا پر ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھیوں کو ستایا گیا اور ان کے خلاف جنگیں چھیڑی گئیں- اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ خدائی دین کے خلاف اِن ناموافق اسباب کا خاتمہ ہو اور عالمی سطح پر ایسے حالات پیدا ہوں جب کہ ایک انسان پوری آزادی کے ساتھ اللہ کے دین کی پیر وی کرسکے-
اِس حقیقت کو قرآن کی ایک اور آیت میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدا(48:(28- قرآن کی اِس طرح کی آیتوں سے مراد ایک عظیم انقلاب ہے- مگر اِس سے مراد کوئی سیاسی یا حکومتی انقلاب نہیں- اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں سے لڑ کر ’’اسلامی حکومت‘‘ قائم کرو- اِس سے مراد مکمل طورپر ایک غیر سیاسی انقلاب ہے، یعنی ایک ایسا انقلاب جس کے بعد تمام مواقع (opportunities) اہلِ ایمان کے لیے کھل جائے- اہلِ ایمان کے لیے یہ ممکن ہوجائے کہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر دینِ توحید کی پیروی کریں اور کسی رکاوٹ کے بغیر دعوت الی اللہ کا کام کرسکیں اِس انقلاب سے مراد بہ اعتبار مواقع (in terms of opportunities) انقلاب ہے، نہ کہ بہ اعتبار سیاسی اقتدار (in terms of political power) انقلاب-
اسلامی حکومت کا تصور
اسلامی حکومت یا خدائی حکومت کا تصور قرآن میں سرتاسر اجنبی (alien) ہے- حقیقت یہ ہے کہ حکومت انسان کی ہوتی ہے، نہ کہ اسلام کی- اِس لیے قرآن میں جہاں حکومت کا ذکر ہے، وہاں اُس کو انسان سے منسوب کیا گیا ہے- مثلاً : اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ ((22:41)- اور وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ (24:55)-حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، یہ اللہ کا مطلوب ہی نہیں کہ دنیا میں ہمیشہ اہلِ ایمان کی حکومت قائم رہے یا لوگوں سے لڑ کر حکومت پر قبضہ کیا جائے، تاکہ دنیا میں نظامِ حکومت قائم کیا جاسکے- اِس قسم کا سیاسی نشانہ اللہ نے کبھی نہیں دیا- اللہ کو جو چیز مطلوب ہے، وہ صرف یہ کہ عمل کے مواقع ہمیشہ کھلے رہیں- ہر شخص کے لیے یہ ممکن ہو کہ وہ آزادانہ طورپر دین کے انفرادی تقاضوں کو پورا کرسکے- یہی اللہ کا اصل مطلوب ہے اور قرآن میں جو انقلاب برپا کرنے کا حکم دیاگیا ہے، اُس سے مراد یہی غیر سیاسی انقلاب ہے-
اقامتِ نظام، اقامتِ مواقع
اللہ کے تخلیقی پلان کے مطابق، دنیا میں جو چیز مطلوب ہے، وہ اقامتِ نظام نہیں، بلکہ اقامتِ مواقع ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ایک مقرر قسم کا سوشیو پولٹکل (socio-politicial) نظام ہے اور اہلِ ایمان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اِس نظام کو اُس کے تمام اطراف وجوانب کے ساتھ زمین پر قائم کریں- دین کا یہ مبنی بر نظام تصور (system-based concept) سرتاسر ایک مبتدعانہ تصورہے- اِس قسم کا تصورِ دین صرف کچھ لوگوں کے خود اپنے ذہن کی پیدوار ہے، خدا اور رسول کے دین سے اُس کا کوئی تعلق نہیں- اِس قسم کا تصورِ دین وہی چیز ہےجس کو مضاہات (9:30) کہاگیا ہے-
اللہ کے نقشۂ تخلیق کے مطابق، اصل مطلوب چیز یہ ہے کہ ہر قسم کے مواقع پوری طرح کھلے ہوئے ہوں، ہر انسان کو مکمل آزادی ہو کہ وہ دین کے معاملے میں جس طرح چاہے اپنی قوتوں کو استعمال کرے- قدیم زمانے میں جارحانہ شرک، مذہبی جبر اور استبدادی حکومت (despotism) کا نظام قائم تھا- ہزاروںسال کی روایات کے نتیجے میں یہ ذہن لوگوں کے اوپر اِس طرح چھاگیا کہ وہ اس کے خلاف سوچ نہیں پاتےتھے- پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کو جو انقلاب برپا کرنے کا حکم دیاگیا تھا، وہ یہ تھا کہ جدوجہد کرکے اِس دور کو ختم کرو اور وہ حالات برپا کرو جب کہ ہر ایک کو مکمل آزادی حاصل ہوجائے اور ہر ایک کے لیے تمام مواقع یکساں طورپر کھل جائیں-
پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کے ذریعے ساتویں صدی میں جو انقلاب آیا، اُس کی اصل حقیقت یہی تھی- وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، حکومت یا خلافت قائم کرنا نہ تھا، بلکہ یہ تھا کہ ہدایت کے تمام مواقع تمام انسانوں کے لیے کھل جائیں، دینِ خداوندی کے معاملے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے- اسلام کے دورِ اول میں پیش آنے والا یہی وہ انقلابی واقعہ ہے جس کا ذکر فرانسیسی مورخ ہنری پرین نے اِن الفاظ میں کیا ہے — اسلام نے زمین کے نقشے کو بدل دیا - روایتی دورِ تاریخ کا خاتمہ کردیاگیا.
اِ س معاملے میں اللہ تعالی کو جو انقلاب مطلوب تھا، وہ ایک نسل یا دو نسل میں انجام نہیں پاسکتا تھا، اِس لیے اِس انقلاب کو تاریخ میں ایک پراسس کے روپ میں جاری کیا گیا- مزید یہ کہ اِس عمل میں صرف مسلمان نہیں، بلکہ سیکولر قومیں بھی شریک ہوئیں- اِس طرح یہ تاریخی عمل چلتا رہا- آخر کار انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مغرب میں اس کی تکمیل ہوئی- موجودہ مغربی تہذیب اِسی عمل کا نقطۂ انتہا ہے- حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے تاریخ میں پہلی بار ایسا کیا ہے کہ جو دنیا مسائل سے بھری ہوئی تھی، وہ ہر اعتبار سے کھلے ہوئے مواقع میں تبدیل ہوگئی-
دین کا اصل مطلوب یہ نہیں ہے کہ موجودہ دنیا میں معیاری اجتماعی نظام بنایا جائے- معیاری معاشرہ یا معیاری اجتماعی نظام کی جگہ جنت ہے، نہ کہ موجودہ زمین- اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، موجودہ دنیا میں جو چیز مطلوب ہے، وہ انفرادی سطح پر شخصیت کی تعمیر ہے، یعنی ایسے افراد کا وجود میں آنا جو اپنے اعلی اوصاف کے اعتبار سے، جنت میں داخلے کے مستحق قرار پائیں-
جنت کی دنیا
جنت کیا ہے، قرآن کے مطابق، جنت وہ وسیع دنیا ہے جس کا کیمپس پوری کائنات کے برابر ہوگا- جنت وہ معیاری جگہ ہے جہاں تمام محدودیتیں (limitations) اور نامواقف اسباب (disadvantages)ختم ہوجائیں گے- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان اِس قابل ہوگاکہ وہ زمان ومکاں سے ماورا چیزوں کا احاطہ کرسکے- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان براہِ راست طورپر اللہ رب العالمین کو دیکھے گا اور اس سے کلام کرے گا- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کی نگاہ پوری انسانی تاریخ کا احاطہ کرسکے گی- جنت وہ جگہ ہے جہاں پوری تاریخ کے تمام منتخب بندے یکجا کیے جائیں گے- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ اعلی معیاری مناظر کا مشاہدہ کرے، وہ اعلی معیاری نغموں کو سنے، وہ اعلی معیاری ذائقوں کا ٹیسٹ لے سکے- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کا لامحدود دماغ انفولڈ (unfold) ہوگا- جنت وہ جگہ ہے جہاں آلاء اللہ اور کلمات اللہ کو قلم بند کیا جائے گا- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کو کامل معنوں میں فل فل مینٹ لے گا- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کو اللہ کی قربت حاصل ہوگی- جنت وہ جگہ ہے جہاں ہر قسم کی اعلی سرگرمیاں موجود ہوں گی، لیکن یہ تمام سرگرمیاں معیاری معنوں میں پرمسرت سرگرمیاں (joyful activities) ہوں گی، وغیرہ-
جنتی شخصیت
اِس طرح کی معیاری دنیا (perfect world) میں قیام کے لیے اعلی ترین سطح کے تیار افراد درکار ہیں- صرف اعلی سطح کی تیار شدہ شخصیت ہی اِس قابل ہے کہ اس کو جنت جیسی دنیا میں جگہ ملے- موجودہ دنیا اِسی قسم کی اعلی شخصیتوں کے بننے کا مقام ہے- اِس قسم کی اعلی شخصیت کسی کو پیدائشی طور پر نہیں ملتی- یہ ہر انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اِس معاملے میں اپنے آپ کو باشعور بنائے اور پھر پورے اہتمام کے ساتھ وہ اپنے اندراِس قسم کے انسان کی تشکیل کرے-
مذکورہ قسم کی جنتی شخصیت بلا شبہہ صرف ایک صاحبِ ایمان کے اندر بنتی ہے، مگر صاحبِ ایمان سے مراد وہ شخص ہے جس کو معرفت کےدرجے میں ایمان حاصل ہو، وہ اپنے اندر اتنا زیادہ تخلیقی فکر پیدا کرے کہ وہ خود دریافت کردہ معرفت(self-discovered realization) پر کھڑا ہوسکے- اس کے اندر وہ آفاقی ذہن پایا جائے جو ساری کائنات کو اپنے ربانی رزق کا دستر خوان بنا سکے، جس کی مثبت سوچ(positive thinking) اتنی بڑی ہوئی ہو کہ وہ منفی آئٹم (negative item) کو بھی مثبت آئٹم (positive item) میں تبدیل کرسکے- اس کا عبادتی شعور اتنا ترقی یافتہ ہو کہ وہ اِس طرح اللہ کی عبادت کرے، جیسے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے-
انسان کی تخلیق کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (67:2) - قرآن کی اِس آیت کے مطابق، موجودہ دنیا میں انسان کو اِس لیے بسایا گیا ہے کہ یہاں احسن العمل افراد کا انتخاب کیا جاسکے- یہ عمل پوری انسانی تاریخ میں جاری ہے- خدائی نظام کے تحت اِس دنیا میں ہر فرد کا مکمل ریکارڈ تیارکیا جارہا ہے- اِس مقصد کے لیے انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے- کیوں کہ آزادی کے ماحول ہی میں یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کون شخص احسن العمل تھا اور کون شخص احسن العمل نہ تھا-قدیم زمانے میں مذہبی جبر کا جو نظام قائم تھا، وہ اِس میں رکاوٹ تھا کہ کوئی فرد آزادانہ طورپر اپنی شخصیت کی مثبت تعمیر کرے اور اپنے آپ کو احسن العمل بنائے- یہ نظام، اللہ کے تخلیقی منصوبے کے خلاف تھا- اِس لیے قرآن میں اس کو فتنہ کہاگیا ہے اور اہلِ ایمان کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کی خصوصی مدد کے ذریعے اِس ناموافق نظام کو توڑ دیں، تاکہ ہر انسان کو یہ موقع مل جائے کہ وہ اگر چاہے تواپنے آپ کو احسن العمل کی حیثیت سے تیار کرے -(13 ستمبر 2013)
واپس اوپر جائیں

اسلام اکیسویں صدی میں

اکیسویں صدی غالباً تہذیبی ارتقا کا نقطۂ انتہا (culmination) ہے- انسانی تہذیب مختلف مراحل سے گزرتےہوئے اب غالباً اپنے آخری مرحلے میں پہنچ چکی ہے- بظاہر حالات اب تہذیب کے سفر کا کوئی مزید مرحلہ باقی نہیں-
پیغمبرانہ مشن میں ارتقا (evolution) کا کوئی تصور نہیں- پیغمبرانہ مشن اپنی آئڈیالوجی کے اعتبار سے، ہمیشہ ایک ہی تھا اور آخر تک ایک ہی رہے گا، البتہ دعوتی طریقِ کار کے اعتبار سے، وہ ایک ارتقا پذیر واقعہ ہے- نئے حالات ہمیشہ نئے مواقع پیدا کرتے ہیں اور داعی کا کام یہ ہے کہ وہ اِن نئے مواقع کو دریافت کرے اور اُن کو بھر پور طور پر دعوت الی اللہ کے کام میں استعمال کرے-
اسلام کی تکمیل کے دو پہلو
اسلام کی تکمیل کے دو پہلو ہیں — ایک، وہ جس کو قرآن میں دین کی تکمیل (5:3) کہاگیا ہے- قرآن کی مذکورہ آیت میں ’’تکمیل‘‘ سے مراد احکامِ دین کی فہرست کی تکمیل نہیں ہے اور نہ اُس سے یہ مرادہے کہ کوئی ارتقائی ترتیب ہے اور 10 ہجری میں یہ ارتقائی ترتیب مکمل ہوگئی- اِس سے مراد صرف آیاتِ قرآنی کے نزول کی تکمیل ہے- اِس سے مراد عملاً وہی چیز ہے جس کو قرآن کی دوسری سورہ میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (15:9)-
تکمیل کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق دین کی تکمیل سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق دعوت کی اشاعت اور توسیع سے ہے- اِس دوسرے پہلو کا ذکر قرآن میں اشارةً آیا ہے- یہ اشارہ قرآن کی اِس آیت میں موجود ہے: قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَکْبَرُ شَہَادَةً ۭ قُلِ اللّٰہُ ڐ شَہِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ ۣوَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَ (6:19)یعنی پوچھو کہ سب سے بڑا گواہ کون ہے- کہو، اللہ- وہ میرے اور تمھارے درمیان گواہ ہے- اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے، تاکہ میں تم کو اس سے خبردار کردوں اور وہ بھی جن کو یہ (قرآن) پہنچے-
اِس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اِس قرآن کے ذریعے سے اپنے معاصرین کو آگاہ کرے اور بعد کے زمانے میں پیغمبر کے ماننے والے اگلی نسلوں کو ہردور میں اُس سے آگاہ کرتے رہیں- دعوت کایہ عمل مسلسل طور پر قیامت تک جاری رہے گا-دعوت الی اللہ کی اِس عالمی تکمیل کا ذکر ایک حدیثِ رسول (لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام)میں زیادہ واضح طورپر آیا ہے- - دعوت الی اللہ کی عالمی اشاعت کے لیے عالمی ذرائع مواصلات درکار تھے، جو کہ ساتویں صدی عیسوی میںقابلِ حصول نہ تھے- اِس لیے دعوت الی اللہ کی تکمیل کو مستقبل میں پیش آنے والے واقعے کی حیثیت سے بطور پیشین گوئی (prediction) بیان کیا گیا ہے-
دورِ آخر کے دُعاة
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اِن الفاظ میں آئی ہے: عبادلیسوا بأنبیاء ولا شہداء یغبطہم النبیون والشہداء لمقعدہم وقربہم من اللہ یوم القیامة (مسند احمد: 5/341 ) یعنی اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جو نہ پیغمبر ہوں گے اور نہ شہید، مگر قیامت کے دن انبیااور شہدا بھی اُن پررشک کریں گے، اللہ سے اُن کے قرب کی بناپر-
اِس حدیثِ رسول میں غبطة (envy) کا لفظ اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے، یعنی اس کا مقصد مذکورہ افراد کی پراسرار فضیلت بیان کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ دراصل تحیر خیز پسندیدگی (wondrous appreciation) کے معنی میں ہے، یعنی وہ لوگ اگر چہ پیغمبرکے امتی ہوں گے، لیکن پیغمبر کی ہدایت کا اتباع کرتےہوئے اُن کے ذریعے کچھ ایسے کام انجام پائیں گے جو پچھلی پوری تاریخِ نبوت میں انجام نہیں پایا تھا-
یہ معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں، غور کرکے اس کو سمجھا جاسکتا ہے- اصل یہ ہے کہ دینِ خداوندی میں جو چیز مطلوب ہیں، وہ بہ تمام وکمال وجود میں آچکی ہیں — وحی الہی کے ذریعے آئی ہوئی ہدایت کا پوری طرح محفوظ ہوجانا، پیغمبر کی صورت میں انسان کی زندگی کا ایک رول ماڈل (role model) تیار ہوجانا، دینِ خداوندی کی تاریخ کا ایک مستند ریکارڈ وجود میں آجانا، مذہبی جبر کا ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانا، دورِ بادشاہت میں ہر چیز پر جو شخصی کنٹرول قائم تھا، اس کا ختم ہو کر دورِ جمہوریت آجانا، جب کہ انسانی سرگرمیوں کے تمام مواقع پوری طرح کھل گیے، وغیرہ-پیغمبرانہ مشن کے تحت یہ تمام چیزیں مطلوب تھیں جو کہ مکمل طورپر حاصل ہوگئیں-
مگر ایک مطلوب ایسا تھا جو پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کی تاریخ کے دوران پوری طرح حاصل نہیں ہواتھا، اور وہ ہے دعوتِ خداوندی کی عالمی اشاعت- قرآن میں کہا گیاہے کہ اللہ نے یہ کتاب اِس لیے بھیجی ہے، تاکہ وہ تمام اہلِ عالم تک پہنچے اور تمام لوگوں کے لیے آگاہی کا ذریعہ بنے (25:1)- مگر جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبرانہ تاریخ کے دور میں یہ عالمی مطلوب پوری طرح واقعہ نہ بن سکا- اِس کا فطری سبب یہ تھاکہ دین کی عالمی اشاعت کے لیے عالمی مواصلات کی ضرورت ہے، اور عالمی مواصلات کے یہ ذرائع پچھلے زمانے میں موجود ہی نہ تھے-
اِس پہلو سے غور کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مذکورہ حدیثِ رسول میں جن خوش قسمت لوگوں کا ذکر ہے، وہ سچے اہلِ ایمان کی وہ جماعت ہے جو دورِ مواصلات میں دینِ خداوندی کے اِس دعوتی نشانے کو اس کی آخری تکمیل تک پہنچائے گی کہ اُس سے روئے زمین پر بسنے والے تمام مرد اور عورت باخبر ہوجائیں- قیامت میں کوئی فرد یا گروہ ایسا نہ رہے کہ جو جائز طورپر یہ کہہ سکے کہ: إنا کنا عن ہذا غافلین (7:172)- تاریخ انسانی کے دورِ آخر میں اللہ کی توفیق سے جو اہلِ ایمان اِس دعوتی نشانے کو پورا کریں گے، وہی غالباً وہ لوگ ہیں جن کا ذکر مذکورہ حدیثِ رسول میں کیا گیا ہے-
ٹیم اسپرٹ
وہ گروہ جس کو آخرت میں قربِ خداوندی کی نسبت سے اتنا بڑا درجہ ملے گا کہ انبیا اور شہدا بھی اُن پر رشک کریں گے، ان کی وہ صفتِ خاص کیا ہوگی جو اُن کو قربت کے اِس مقام تک پہنچائے گی- اِس صفت کا ذکر مذکورہ حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں آیا ہے: المتحابون فی(اللہ کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے والے)-اِس حدیث رسول میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کی ذات سے محبت کرنے والے، بلکہ یہ فرمایا کہ اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والے- گویا اِس کا مطلب یہ ہے کہ خالص اللہ کے کاز (cause) کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے- اس معاملے کو مزید واضح کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جو — اللہ کے مشن کی خاطر صرف اللہ کے لیے باہم مجتمع ہوجائیں، جن کی ٹیم اسپرٹ اتنی بڑھی ہوئی ہوکہ ٹیم کا ہر فرد اُن کے لیے ایک محبوب ساتھی بن جائے-
دعوت کا عالمی نشانہ صرف ٹیم ورک کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے اور کسی مادی انٹرسٹ کے بغیر ٹیم ورک ایک بے حد مشکل کام ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ ٹیم ورک کا مطلب اجتماعی ورک ہے اور اجتماعی زندگی میں لازماً شکایت اور اختلاف کی صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں- ایسی حالت میں صرف اعلی درجے کی محبت الہی یا تعلق باللہ ہی آدمی کو مشن سے وابستہ رکھ سکتا ہے-
اِس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ خلیفہ ثانی عمر فاروق کے زمانے میں ایک جنگ پیش آئی جس کو تاریخ میں جنگ یرموک (13 ہجری) کہاجاتا ہے- اِس جنگ میں اہلِ ایمان کو کامیابی حاصل ہوئی- اِس جنگ میں خالد بن الولید سپہ سالار تھے- جنگ کے آخری مرحلے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ خلیفہ ثانی عمر فاروق نے کسی وجہ سے خالد بن الولید کو سپہ سالاری کے منصب سے ہٹا دیا اور ان کو عام سپاہی کا درجہ دے دیا- فوج کے کچھ لوگ خالد بن الولید سے ملے اور اِس واقعے پر اپنی عدم رضامندی کا اظہار کیا- خالد بن الولید نے ان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا: إنی لا أقاتل فی سبیل عمر، ولکن أقاتل فی سبیل ربّ عمر (یعنی میں عمر کی راہ میں جنگ نہیں کرتا، بلکہ میں عمر کے رب کی راہ میں جنگ کرتاہوں) -
عالمی دعوتی مشن بہت بڑا دعوتی مشن ہے-اِس قسم کا مشن صرف ایسے لوگوں کے ذریعے کامیابی کے ساتھ انجام پاسکتا ہے جو پورے معنی میں ٹیم اسپرٹ کے ساتھ اکھٹا ہوئے ہوں- دعوتی مشن ایک ایسا مشن ہے جس میں کسی بھی قسم کا مادی یا ذاتی انٹرسٹ شامل نہیں- دعوتی ٹیم کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے افراد کے اندر مادی انٹرسٹ کا کوئی اعلی بدل موجود ہو- یہ بدل صرف ایک ہے اور وہ ہے اللہ کے ساتھ غیر متزلزل محبت- اللہ سے یہی گہرا تعلق اس بات کا ضامن ہے کہ ٹیم کے افراد بنیانِ مرصوص (61:4) کی طرح باہم جڑے رہیں- کوئی بھی شکایت اُن کی ٹیم اسپرٹ میں خلل ڈالنے والی نہ ہو-
اِس معاملے کی ایک مثبت مثال وہ ہے جو خالد بن الولید کے حوالے سے اوپر بیان کی گئی ہے- اِس کی مزید وضاحت کے لیے ایک متقابل مثال یہاں درج کی جاتی ہے- یہ مثال سعد بن عبادہ الانصاری کی ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کو خلیفہ منتخب کیا گیا- سعد بن عبادہ انصاری کو اِس پر اختلاف ہوا- وہ مدینے کے بڑے سرداروں میں سے تھے- ان کی شکایت ایک سیاسی شکایت تھی- یہ شکایت اتنی بڑھی کہ انھوں نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت پر بیعت نہیں کی- انھوں نے کبھی اپنی رائے سے رجوع نہیں کیا، یہاں تک کہ وہ اصحابِ رسول کی جماعت سے الگ ہو کر شام چلے گئے اور وہیں 14 ہجری میں ان کا انتقال ہوگیا-
ٹیم ورک کے اندر لازمی طورپر آپس میں شکایت اور اختلاف پیدا ہوتا ہے- ایسی حالت میں ٹیم ورک کی کامیابی کی شرط صرف یہ ہے کہ ٹیم کے افراد کے اندر یہ ناقابلِ شکست عزم پایا جاتا ہو کہ وہ کسی بھی عذر کو عذر نہیں بنائیں گے، وہ اللہ کی خاطر ہر حال میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے ساتھ جڑے رہیں گے- اللہ کے کاز کے لیے آپس میں محبت کرنے والے شکایت کا کوئی منفی اثر نہیں لیں گے- اِس کے برعکس، جن لوگوں کے اندر یہ صفت نہ ہو، وہ شکایت سے بددل ہو کر ٹیم سے دور ہوجائیں گے-
دین ِ خداوندی کے دو تقاضے
اسلام کا اصل خارجی نشانہ دعوت الی اللہ ہے- اہلِ اسلام کا یہی ابدی مشن ہے کہ وہ پُرامن طورپر اللہ کے دین کا پیغام ہر دور کے انسانوں تک پہنچاتے رہیں- اِس دعوتی مشن کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے — تائیدی انفراسٹرکچر (supporting infrastructure) اور توجیہی لٹریچر (explanatory literature) -
تائیدی انفراسٹرکچر
قدیم زمانہ بادشاہت کا زمانہ تھا- قدیم زمانے میں صرف ایک چیز تھی جس سے تائیدی انفراسٹرکچر کا فائدہ حاصل ہوتا تھا، اور وہ تھا پولٹکل انفراسٹرکچر، یعنی سیاسی اقتدار کی سرپرستی حاصل ہونا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو انبیا آئے، اُن کو سیاسی اقتدار کی سرپرستی حاصل نہ تھی، اس لیے اُن کے زمانے میں دعوتِ خداوندی کو استحکام کا درجہ بھی نہ مل سکا- پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعے اللہ تعالی نے تاریخ میں پہلی بار ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کے نتیجے میں خود اہلِ اسلام کا سیاسی اقتدار قائم ہوگیا اور اِس طرح دعوت الی اللہ کے کام کے لیے سیاسی اقتدار کی سطح پر وہ تائیدی انفراسٹرکچر قائم ہوا جو کہ دعوتی مشن کے لیے مطلوب تھا-
لیکن اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق، سیاسی اقتدار کسی ایک گروہ کی اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوسکتا، اِس لیے فطری طورپر ایسا ہونا تھا کہ یہ سیاسی سرپرستی ابدی طور پر قائم نہ رہے- اِس لیے تقریباً ایک ہزار سال کے بعد تاریخ میں ایک نیا انقلاب آیا- اِس انقلاب کو جمہوری انقلاب (democratic revolution) کہاجاتا ہے- قانونِ فطرت کے مطابق، جمہوری انقلاب ایک تاریخی عمل کے تحت وجود میں آیا- اِس عمل کا نقطہ انتہا انقلاب فرانس ہے-
جمہوری انقلاب محدود معنوں میں صرف ایک سیاسی ڈھانچے کی تبدیلی کے ہم معنی نہ تھا، بلکہ اپنے اثرات کے اعتبار سے، وہ ایک مکمل انقلاب (total revolution) تھا- اِس کے نتیجے میں آخر کار تاریخ میں ایک نیا دور وجود میں آیا- اِس دور میں تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ زندگی کے تمام مواقع ہر انسان کے لیے یکساں طورپر کھل گئے- فرد کی آزادی کو خیر اعلی کا درجہ حاصل ہوگیا، ہر انسان کا یہ غیر مشروط حق تسلیم کرلیا گیا کہ وہ پر امن رہتے ہوئے جو چاہے کرے-
انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں جمہوریت (democracy)ایک مسلمہ عالمی اصول (universal norm) بن گئی- دعوت الی اللہ کے مشن کے لیے دورِ جمہوریت بہت زیادہ با معنی تھا- اِس کا مطلب یہ تھا کہ دعوتی مشن کے لیے جو تائیدی انفراسٹرکچر درکار ہے، اس کے لیے اب مسلم اقتدار کی ضرورت نہیں- اب خود عالمی نظام زیادہ بہتر طورپر وہ تائیدی انفراسٹرکچر فراہم کررہاہے جو دعوت الی اللہ کے عالمی مشن کے لیے مطلوب ہے-
توجیہی لٹریچر
دعوت الی اللہ کے مشن کی اصل نظریاتی بنیاد صرف قرآن اور سنت ہے- قرآن اور سنت کے سوا کوئی چیز نہیں جو اِس مشن کی نظریاتی بنیاد بن سکے- لیکن اِس کے ساتھ ایک اور چیز ہے جو علمی اعتبار سے اس کی لازمی ضرورت ہے- یہ قرآن اور سنت کی بنیاد پر تیار کیا جانے والا توجیہی لٹریچر ہے-
عباسی دور میں مسلم علما نے جو لٹریچر تیار کیا، وہ اِس معاملے کی پہلی مثال ہے- یہ لٹریچر اُس دور کے فقہا اور علما نے تیار کیا تھا- جلدہی اِس لٹریچر کو مستند پیٹرن (authentic pattern) کی حیثیت حاصل ہوگئی- بعد کے زمانے میں جو اسلامی کتابیں لکھی گئیں، وہ اِس پیٹرن پر لکھی گئیں- یہ لٹریچر اُس زمانے میں تیار کیا گیا جب کہ زمین کے بڑے حصے میں مسلمانوں کی سلطنتیں قائم تھیں- اِس ماحول میں ایسا ہوا کہ یہ لٹریچر براہِ راست یا بالواسطہ طورپر سیاسی پیٹرن میں ڈھل گیا-
مثال کے طور پر اِسی دور میں وہ کتابیں لکھی گئیں جن میں یہ کہاگیا تھاکہ شتمِ رسول کی سزا قتل ہے- تمام فقہا نے یہ قانون وضع کردیا کہ شاتم کو بطور حد قتل کیا جائے گا (یُقتل حدا)- اِسی طرح ارتداد (apostasy) کی سزا قتل قرار پائی- اِن قوانین کا ماخذ قرآن وسنت میں موجود نہ تھا، وہ صرف دورِ سلطنت کے سیاسی ماحول کی پیداوار تھے- اِسی طرح اِس دور میں بہت سے مسائل اور قوانین وضع کیے گئے جو صرف وقت کے سیاسی ماحول کی پیداوار تھے- مثلاً دار الاسلام اور دار الکفرکی اصطلاحیں،ذمی اور غیر ذمی کے قوانین، وغیرہ-
اسلامی دعوت کی نظریاتی بنیاد (قرآن وسنت) ہمیشہ ایک ہی رہے گی، لیکن اس کاتوجیہی لٹریچر ہمیشہ ایک نہیں رہ سکتا- کیوں کہ توجیہی لٹریچر کا تعلق ابدی حقائق سے نہیں ہے، بلکہ حالاتِ زمانہ سے ہے- قدیم زمانے میں جو توجیہی لٹریچر تیار ہوا تھا، وہ قدیم سیاسی حالات کے اعتبار سے تھا- اب اس کی حیثیت کلاسکل لٹریچر (classical literature) کی ہوچکی ہے- آج کے حالات کے اعتبار سے اس کا ریلونس (relevance) تقریباً ختم ہوچکا ہے- اب نئے حالات کے اعتبار سے نیا توجیہی لٹریچر درکار ہے جو جدید ذہن کو ایڈریس کرسکے-
آج اسلام کے دعوتی مشن کے لیے ایسا لٹریچر درکار ہے جو روحِ عصر (spirit of the age) کے مطابق ہو- صرف ایسا لٹریچر ہی جدید ذہن کو ایڈریس کرسکتا ہے اور لوگوں کو یہ یقین عطا کرسکتا ہے کہ اسلام میں آج کے انسان کے لیے بھی اُسی طرح قابلِ اعتماد رہنمائی موجود ہے جس طرح قدیم انسان نے اس میں اپنے لیے قابلِ اعتماد رہنمائی پائی تھی-
موجودہ زمانے میںاسلام کے لیے جو نیا توجیہی لٹریچر درکار ہے، اس کی چند خصوصیات ہیں- اول یہ کہ وہ اپنے دلائل کے اعتبار سے مبنی بر عقل (reason based) ہو- قدیم روایتی طریقہ آج کے لیے کار آمد نہیں- دوسرے یہ کہ اس کا اپروچ یونی ورسل اپروچ (universal approach) ہو- قدیم انداز کا گروہی اپروچ (sectarian approach) آج کے انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے- تیسری بات یہ کہ اِس لٹریچر کو مکمل طورپر پیس فل (peaceful) لٹریچر ہونا چاہئے- کوئی ایسا لٹریچر جس کے اندر براہِ راست یا بالواسطہ طورپر تشدد (violence) کا فکر موجود ہو، وہ آج کے انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا— آخرت میں قابلِ رشک درجہ اُس گروہ کو ملے گا جو اِن تقاضوں کے مطابق، اکیسویں صدی میں دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دے- (13 جولائی 2013)
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا اصول

کچھ نوجوانوں سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ — زندگی کا نظام آپ کی خواہش پر نہیں چلتا، زندگی کا نظام فطرت کے قانون (law of nature) پر چلتا ہے- زندگی میں ’’میں‘‘ کا حصہ صرف ایک فی صد ہے اور ’’تم‘‘ کا حصہ ننانوے فی صد:
In life, ‘I’ works 1 percent, and ‘You’ works 99 percent.
میں نے کہا کہ جب آپ سماج میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں آپ اکیلے نہیں ہوتے، بلکہ آپ کو بے شمار دوسرے لوگوں کے درمیان کام کرنا ہوتاہے- ہر جگہ یہی تناسب ہوتا ہے کہ آپ صرف ایک فی صد ہوتے ہیں اور بقیہ لوگ ننانوے فی صد-اگر آپ اجتماعی زندگی کے اِس راز کوجانیں تو آپ کامیاب ہوں گے، اور اگر آپ اِس راز کو نہ جانیں تو آپ کا انجام صرف یہ ہوگاکہ ساری زندگی ٹنشن میں جئیں گے اور ٹنشن میں مرجائیں گے-
میں نے کہا کہ زندگی کی اِس نوعیت کی بنا پر یہ کہنا صحیح ہوگاکہ زندگی میں کامیابی کا اہم ترین اصول صرف ایک ہے، اور وہ ایڈجسٹمنٹ (adjustment) ہے، یعنی دوسروں سے موافقت کرکے زندگی گزارنا- ایڈجسٹ مینٹ کوئی مقدس عقیدہ نہیں، وہ صرف ایک عملی اصول ہے جس کو پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کہاجاتا ہے-
میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو میری نصیحت ہے کہ آپ اپنی ذاتی زندگی اپنے اختیار کردہ اصول کی بنیاد پر گزارئیے، لیکن جب آپ لوگوں کے درمیان ہوں تو مکمل طورپر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرتےہوئے اپنا کام کیجئے، یعنی اپنی ذات کی نسبت سے بااصول (man of principle) اور دوسروں کی نسبت سے پریکٹکل (practical)-کامیابی کا کوئی رومانٹک فارمولا (romantic formula) نہیں ہے- اِس دنیا میں کامیابی کا صرف ایک اصول ہے، اور وہ ہے — حقائق کی رعایت کرنا، اپنے منصوبے کو دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے بنانا-
واپس اوپر جائیں

@@@سوال

ماہ نامہ الرسالہ، نومبر 2013کے شمارے میں آپ نے ’’تعاہد کیاہے‘‘ کے عنوان کے تحت ایک بات یہ لکھی ہے کہ: ’’تم قرآن میں نئے نئے معانی تلاش کرتے رہو‘‘- براہِ کرم، اس کی وضاحت فرمائیں- (ڈاکٹر محمد رفیق بہاؔر، سری نگر، کشمیر)
جواب
آپ کے اِس سوال کا جواب خود قرآن میں موجود ہے- مثلاً آپ قرآن کی سورہ ص کی اِس آیت کا مطالعہ فرمائیں: کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُواْ آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُواْ ٱلأَلْبَابِ(38:39)-اِس آیتسے معلوم ہوا کہ قرآن کی آیتوںکا ایک مطلب وہ ہے جو الفاظ کے ترجمے سے معلوم ہوتاہے- قرآن کا دوسرا مطلب وہ ہے جو عقلی غوروفکر کے ذریعے معلوم ہوتا ہے- گویا قرآن کے فہم کی دو سطحیں ہیں — ایک، لفظی اور دوسرے، معنوی- یہی بات حدیث میں اِن الفاظ میں بتائی گئی ہے: لکل آیة منہا ظہر وبطن (صحیح ابن حبان، رقم الحدیث: 75 ) یعنی قرآن کی ہر آیت کا ایک لفظی مفہوم ہے اور اس کا دوسرا مفہوم وہ ہے جو اُس کے بین السطو رمیں پایا جاتا ہے، جس کو صرف تدبر کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے- اِسی حقیقت کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: لا تنقضی عجائبہ (المستدرک للحاکم،رقم الحدیث:2040)یعنی قرآن کے عجائب (wonders) کبھی ختم نہ ہوں گے-
مثلاً قرآن میں پانی کے بارے یہ آیت آئی ہے: وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً مُّبٰرَکًا (50:9)- آپ نے قرآن کی اِس آیت کو پڑھا تو اس کا پہلا مفہوم آپ کے ذہن میں یہ آیا کہ پانی اللہ کا ایک بابرکت عطیہ ہے، پھر آپ نے سوچا کہ پانی کیسے آپ کو ملا- اِس طرح آپ نے بارش کے نظام کو دریافت کیا، پھر مزید آپ نے یہ سوچا کہ پانی جب سمندر میں تھا تو وہ ’نمکین‘ تھا، پھر بارش کے ذریعے آپ کو ’میٹھا‘پانی کیسے ملا- اِس طرح آپ اِس واقعے تک پہنچے کہ فطرت میں ازالۂ نمک (desalination) کا آفاقی نظام قائم ہے- اِس طرح جب آپ سوچیں گے تو آپ کے ذہن میں ایک چین ری ایکشن (chain reaction)کا عمل (process) جاری ہوجائے گا اور آپ ایک کے بعد ایک ، نیے معانی کو دریافت کرتے رہیں گے- یہی وہ حقیقت ہے کو جس کو الرسالہ کے مذکورہ مضمون میں بیان کیا گیا ہے-
سوال
آپ نے کشمیر کی نسبت سے کافی لکھا ہے- یہ کشمیریوں کے ساتھ آپ کی خیر خواہی کی دلیل ہے- آپ نے ’’کشمیر میں امن‘‘ (Peace in Kashmir)اور ’’صبح کشمیر‘‘ (Dawn Over Kashmir) نام کی کتابوں کو تحریر کرکے کشمیریوں کو صحیح رہنمائی دی ہے- ایک اگر historical document ہے تو دوسری ideological document ہے- دونوں تحریروں میں تاریخ اور مذہب کی حقیقی تصویر پیش کی گئی ہے-میں کشمیر کے gun culture میں جوان ہوا، لہذا میں کشمیر کے صوفی کلچر سے عملاً بے خبر ہوں- البتہ میرے والد بتاتے ہیں کہ’’میں جب اپنے بچپن کو یاد کرتاہوں تو کشمیر کی موجودہ صورت حال مجھے ایک خواب نظر آتی ہے- جب گاؤں میں ہمارا کوئی مہمان آتا تھا تو اس کی تواضع کے لئے ہم مرغ ذبح کرتے تھے، لیکن مرغ ذبح کرنے کے لیے ہمیں مشکل ہی سے کوئی آدمی ملتا تھا- اکثر لوگوں کے پاس چاقو تک نہ ہوتا تھا- لوگ جانور کو مارنے سے کتراتے تھے، کسی انسان کو تکلیف دینے کوتو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘‘-ایک روز میں نے کیڑے مار دواچھڑکی - صبح کو میرے والد نے مجھے بلایا- مرے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا — — یہ کیا قتل ہے-‘‘میں اِس رحم دلی کے مزاج کو یاد کرکے آج روتا ہوں- یہ ایک شخص کی کہانی نہیں، بلکہ یہی کشمیریوں کی فطرت تھی جس کو عرف عام میں ہم ’’کشمیریت‘‘ سے یاد کرتے ہیں-جہاں تک میں نے آپ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے، کشمیر کی نسبت سے آپ کا مشن کشمیر کو دوبارہ اپنے فطری حالت پر لاناہے‘ تاکہ ہم دنیا کو امن وسلامتی (اسلام) کا پیغام دے سکیں- برائے مہربانی مزید رہنمائی سے نوازیں- (انجینئر سید عابد حسین، بڈگام، کشمیر)
جواب
کشمیر کا مسئلہ ہو یا اِس قسم کے دوسرے مسائل، ہر ایک کا سبب صرف ایک ہے، وہ یہ کہ لوگ محدود طورپر صرف اُس مسئلے کو لے کر سوچتے ہیں جس سے وہ عملاً دوچار ہیں- وہ اِن مسائل سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتے- یہ اوپر اٹھ کر سوچنا وہی چیز ہے جس کو قرآن میں خلقِ عظیم (68:4) کہاگیا ہے- خلقِ عظیم کا لفظی مطلب ہے برتر کردار، لیکن برتر کردار برتر آئڈیالوجی سے پیدا ہوتا ہے، برتر آئڈیالوجی نہیں تو برتر کردار بھی نہیں-
مومن کے لیے برتر آئڈیالوجی صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی دوسری چیزوں کو لے کر سوچنے کے بجائے اللہ رب العالمین کو لے کر سوچے-اس کے اندر خدا رخی سوچ (God-oriented thinking) آجائے- موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کےاندر خدا رخی سوچ نہیں، وہ صرف اپنے معاشی اور سیاسی مسائل کو جانتے ہیں- ان کی موجودہ سوچ اِسی کی بنیاد پر بنی ہے- یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان اللہ کی نصرت سے محروم ہوگئے ہیں- ان کے پاس صرف شکایت کی زبان ہے، ان کے پاس شکر کی زبان نہیں-
موجودہ زمانے میں عالمی سطح پر مسلمانوں کے دو بڑے مسئلے ہیں — کشمیر کا مسئلہ اور فلسطین کا مسئلہ- غیر معمولی قربانیوں کے باوجود یہ دونوں مسئلے عملاً لاینحل مسئلے بنے ہوئے ہیں- اِن دونوں مسائل کا حل اگر موجودہ قسم کی کوششوں سے ممکن ہوتا تو اب تک وہ ہوچکا ہوتا- لیکن 60 سال سے زیادہ مدت کی غیر معمولی کوششوں کے باوجود یہ دونوں مسئلے کسی بھی درجے میں حل نہیں ہوئے- ایسی حالت میں کشمیریوں اور عربوں دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں- اِس کے سوا ہر دوسری تدبیر صرف نقصان میں اضافہ کرے گی، وہ کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرنے والی نہیں-
کشمیر کے مسلمان اب تک دو چیزوں کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے تھے — آزاد کشمیر یا پاکستانی کشمیر- مگر یہ دونوں نشانے قومی سوچ پر بنے ہیں، نہ کہ خدائی سوچ پر- صحیح یہ ہے کہ کشمیر کے مسلمان اپنی سوچ پر نظر ثانی کریں اور یہ کہیں کہ ہمارا نشانہ نہ آزاد کشمیر ہے اور نہ پاکستانی کشمیر، ہمارا نشانہ صرف خدائی کشمیر (divine Kashmir) ہے- خدائی کشمیر کو اپنا نشانہ بنانے کا مطلب ہے— خدا والی سوچ کے تحت اپنے عمل کا نقشہ بنانا-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مکہ میں ہوئی تو آپ نے وہاں یہ اشو نہیں کھڑا کیا کہ مکہ سیاسی طورپر کس کے قبضے میں ہو- اِس کے برعکس، آپ نے یہ کیا کہ صورتِ موجودہ (statusquo) کو تسلیم کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کا کام شروع کردیا- کشمیریوں کو بھی اِسی نہج پر کام کرنا ہے- کشمیریوں کو یہ کرنا ہے کہ جموں وکشمیر میں جو سیاسی اسٹیٹس کو (political statusquo) بن گیا ہے، وہ اُس سے ٹکراؤ نہ کریں، بلکہ اس کو تسلیم کرتے ہوئے وہ اپنی ساری کوشش پُرامن دعوت الی اللہ کے کام میں لگا دیں-
یہی وہ سنت ہے جو عربوں کو فلسطین میں اختیار کرنا ہے- فلسطین میں عربوں کے کرنے کا واحد کام یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنی متشددانہ تحریک کو مکمل طورپر ختم کردیں- وہ یک طرفہ طورپر ٹکراؤ کی پالیسی کو چھوڑ دیں اور اپنی ساری طاقت پرامن دعوت میں لگا دیں- فلسطین میں دعوت الی اللہ کے عظیم مواقع ہیں، اسرائیل کے درمیان بھی اور سیاحوں (tourists) کے درمیان بھی جو دنیا بھر سے بکثرت روزانہ فلسطین کے علاقے میں آتے ہیں-
دعوت الی اللہ کا کام اہلِ ایمان کا اصل مشن ہے- اِسی مشن کی ادائیگی پر اُن کو اللہ کی نصرتیں حاصل ہوں گی- موجودہ زمانے کے مسلمان جن چیزوں کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں، اُس مسئلے کا حل اللہ کی نصرت کے ذریعے ممکن ہے، نہ کہ محض ذاتی کوشش کے ذریعے، اور اللہ کی نصرت صرف اُن لوگوں کو ملتی ہے جو دعوت الی اللہ کا کام کریں- یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیا ہے: وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ (22:40)-
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 225

1- گڈورڈ بکس اور سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے تعاون سے ہندستان اور ہندستان سے باہر کے ملکوں میں خاص طور پرانگریزی ترجمہ قرآن کے ذریعے دعوتی کام جاری ہے- ہمارے ساتھی مختلف مقامات پر ترجمہ قرآن کی توسیع واشاعت کا کام کررہے ہیں- مثلاً اِس سلسلے میں 30 اگست 2013 کو ترکی (استنبول) کی سلطان احمد اور رستم پاشا مسجد کو دہلی سے انگریزی ترجمہ قرآن کی دس ہزار کاپیاں بھیجی گئیں-
2- ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی)کے علاوہ دوسرے انگریزی اخبار وجرائد میں صدر اسلامی مرکز کے مضامین اور انٹرویو مسلسل شائع ہورہے ہیں- اس کی تفصیل یہاں درج کی جاتی ہے-
What Went Wrong with Muslims? Sep. 2, 2013 (www.tehelka.com)
Islamophobia or Muslim-Phobia, Sep. 16, 2013 (www.newageislam.com)
Violent Conflicts in the Muslim World, Nov. 16, 2013
(www.pakistanchristianpost.com)
3- فلپائن کے دارالسلطنت منیلا (Manila) میں 15-11 ستمبر 2013 کے دوران ایک انٹرنیشنل بک فیر ہوا- گڈورڈ بکس نے بھی اِس میں شرکت کی- یہاں بڑے پیمانے پر دعوتی کام ہوا اور لوگوں کو "What is Islam?" اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا- اِس بک فیر کی تفصیلی روداد کے لیے ملاحظہ ہو:
http://archive.org/download/RoleOfUmmahISeptember222013
4- کرناٹک اردو اکادمی (بنگلور) میں 14-22ستمبر 2013 کے دوران ایک نیشنل بک فیر ہوا- گڈورڈ بکس نے اس میں حصہ لیا- اسٹال کا انتظام مسٹر فرقان نے سنبھالا- یہاں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے لٹریچر حاصل کیا-
5- سہارن پور میں ہمارے ساتھی مختلف انداز سے دعوتی کام کررہے ہیں- مثلاً 15 ستمبر 2013 کو مقامی ٹیم نے ہندی روزنامہ دینک جاگرن میں پیس ہال سے مفت ترجمہ قرآن حاصل کرنے کا اشتہار دیا- اس کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کی ڈمانڈ شروع ہوگئی- چناں چہ یہاں سے براہِ راست ترجمہ قرآن حاصل کرنے کے علاوہ بذریعہ ڈاک بھی لوگوں کو ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچر روانہ کیا جارہا ہے- اِسی طرح 20 ستمبر 2013 کو مقامی ٹیم کے ممبران نے سہارن پور شہر میں انٹریکشن کا ایک پروگرام بنایا- اِس کے تحت انھوں نے مختلف مقامات پر لوگوں سے مل کر اسلام کا تعارف پیش کیا- اِسی طرح سہارن پور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 5-4 کے اسٹال پر قرآن کے ہندی اور انگریزی تراجم برائے فروخت فراہم کئےگئے- سہارن پور میں ’’آہوجا بک ڈپو‘‘ سے بھی قرآن کا ترجمہ حاصل کیا جاسکتا ہے-
6- اشوکا ہوٹل (نئی دہلی)میں 23 ستمبر 2013 کو ہیلتھ اور میڈیکل ٹورزم (Health and Medical Tourism) کے موضوع پر ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی- اس کی دعوت پر ہمارے ساتھیوں نے اس میں شرکت کی- اِس موقع پر سی پی ایس کی دعوہ فیلڈ ٹیم (DFT) کے ممبران نے کانفرنس میں مختلف ممالک سے آئے ہوئے ڈیلی گیٹس سے ملاقات کرکے ان کو دعوتی لٹریچر دیا — ترجمہ قرآن، آئڈیالوجی آف پیس، وغیرہ- اِسی طرح ہوٹل کے تھرڈ فلور پر انڈوچائنا اکانمک فورم کی طرف سے اسکلنگ انڈیا (Skilling India) کے موضوع پر ہونے والی ایک انٹرنیشنل کانفرنس کے دوران تقریباً 200 لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا-
7- اسلامی مرکز میں مختلف مقامات سے دعوتی ٹیم کے ممبران حسب پروگرام دہلی آتے ہیں- اِس سلسلے میں 20 ستمبر 2013 کو سی پی ایس کلکتہ ٹیم کے ممبران دہلی آئے- دہلی میں تین روزہ قیام کے دوران اُن سے دعوتی اور تربیتی موضوعات پر گفتگو ہوئی اور کلکتہ اور بنگال میں زیادہ موثر انداز میں دعوتی کام کی منصوبہ بندی کی گئی-
8- مدھیہ پردیش کے مشہور تاریخی مقام چتر کوٹ میں 25 ستمبر 2013 کو دین دیال رسرچ انسٹی ٹیوٹ کے تحت ایک نیشنل سیمنار ہوا- یہ سیمنار سوامی وویکانند کی لائف اور ان کے مشن کے موضوع پر تھا- اِس کی دعوت پر سی پی ایس کی طرف سے مولانا محمد ذکوان ندوی نے اس میں شرکت کی اور موضوع پر آدھ گھنٹہ تقریر کی- اِس سیمنار میں لکھنؤ سے سی پی ایس کے بعض دوسرے ممبران نے بھی شرکت کی- یہاں سی پی ایس کی طرف سے تمام حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ خاص طور پر ہندی میں چھپا ہوا دعوتی لٹریچر دیا گیا-حاضرین نے اس کو شوق سے لیا-
9- سنٹر فار پیس (بہار، جھارکھنڈ) کی ٹیم کے چند ممبران نے 6 اکتوبر 2013 کو بہار کے ضلع گیا کا دعوتی دورہ کیا- اِس دورے کا مقصد تھا بہار اور جھارکھنڈ کے قارئین الرسالہ سے ربط قائم کرکے مقامی طور پر دعوتی کام کی منصوبہ بندی کرنا- اِس موقع پر گیا میں مسٹر ابو الحکم محمد دانیال (پٹنہ) نے دعوت الی اللہ کے موضوع پر ایک تقریر کی- تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا اور بہار وجھارکھنڈ میں دعوتی کام کی منصوبہ بندی کی گئی-
10- ساؤتھ انڈیا سے حسب معمول عمری گروپ کی دہلی آمد پر 5 اکتوبر 2013 کو Discover Your Role کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کاایک خصوصی خطاب ہوا-یہ خطاب سی پی ایس کے ویب سائٹ پر موجود ہے-
11- فرینکفرٹ (جرمنی) میں 13-9 اکتوبر 2013 کے درمیان ایک انٹرنیشنل بک فیر ہوا- اِس میں گڈورڈ بکس نے بھی حصہ لیا- یہاں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلامی لٹریچر حاصل کیا- یہاں زائرین کو قرآن کا انگریزی اور جرمن ترجمہ دیاگیا- اِس بک فیر کی تفصیلی روداد کے لیے ملاحظہ ہو:
http://archive.org/download/ThePropheticExampleIOctober202013
12- لاہور (پاکستان)کے سنٹر فار ڈائلاگ اینڈ ایکشن فارمین کرسچن کالج کے نائب ریکٹر مسٹر چارلس (Charles M. Ramsay) نے 14 اکتوبر 2013 کو سی پی ایس کے ہفتے وار لکچر میں شرکت کی- اس کے بعد اگلے دن وہ صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آئے- گفتگو کا موضوع قرآن اور بائبل کا تقابلی مطالعہ تھا- اِس موقع پر مسٹر چارلس کو دعوتی لٹریچر ا ور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا-
13- سی پی ایس کے مقامی ممبران ٹی وی چینلز اور دوسرے طریقوں کے ذریعے کلکتہ اور مغربی بنگال میں دعوتی کام کررہے ہیں- مثلاً 13 اکتوبر 2013 کو ٹیم کے ممبران نے کلکتہ کے ’الحمد اسکول‘ کے طلبا اور اساتذہ کے ساتھ انٹریکشن کا ایک پروگرام کیا- یہاں انھوں نے دعوتی اور تربیتی گفتگو کے علاوہ، اُن کو دعوتی لٹریچر بھی دیا-
14- الجامعہ الاسلامیہ (شانتا پورم، کیرلا) کے اساتذہ کی خواہش پر جامعہ کی لائبریری کے لیے سی پی ایس کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ 15 اکتوبر 2013 کو بذریعہ ڈاک روانہ کیاگیا-
15- سہارن پور کی مکہ مسجد میں 19 اکتوبر 2013 کو مسٹر عمار خان کے نکاح کے موقع پر حاضرین کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا، نیز مکہ مسجد کے لیے صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ بھی پیش کیا گیا-
16- عرب امارات میں ہمارے ساتھی مختلف مقامات پر دعوتی کام کررہے ہیں- اِس سلسلے میں 22 اکتوبر 2013 کو دبئی کے مشہور ہوٹل(Novetel) نے گڈورڈ بکس سے قرآن کے انگریزی ترجمہ کی کئی سو کاپیاں خریدیں، تاکہ اُن کو ہوٹل کے ہر روم میں مہمانوں کے لیے رکھا جاسکے-
17- سروودے سماج سمیتی (وردھا، مہاراشٹر) کی طرف سے آگرہ (یوپی) میں 23 اکتوبر 2013 کو ایک آل انڈیا پروگرام ہوا- اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے یہاں آدھ گھنٹے کی ایک تقریر کی- یہ تقریر ہمارے ویب سائٹ (www.archive.org/download/InauguralAddressAt45thSarvodayaSamajSammelan)پر موجود ہے- یہاں انڈیا کے مختلف مقامات سے تعلیم یافتہ لوگ آئے تھے- اِن کودعوتی لٹریچردیاگیا-
18- مسٹر محمد احمد (نئی دہلی) اکتوبر 2013 میں تبلیغی جماعت کے ساتھ پٹیالا (پنجاب) گئے- سفر کے دوران انھوں نے مقامی طورپر مختلف غیر مسلم حضرات سے رابطہ کیا- گفتگو کے دوران انھوں نے محسوس کیا کہ اِن حضرات کا مائنڈ سی پی ایس (نئی دہلی) کے دعوتی لٹریچر کے ذریعے ایڈریس کیا جاسکتا ہے- چناں چہ ان کی درخواست پر سی پی ایس کی طرف سے مسٹر منجیت سنگھ موکھا کو ہندی اور انگریزی کتابوں کا ایک سٹ بذریعہ ڈاک روانہ کیاگیا- مسٹر منجیت سنگھ نے اس کو اپنے مقامی ساتھیوں کے درمیان تقسیم کیا- لوگوں نے اس کو خوشی کے ساتھ لیا-
19- 6-16 نومبر 2013 کے درمیان شارجہ (عرب امارات) میں ایک انٹرنیشنل بک فیر ہوا- گڈورڈ بکس نے بھی اِس میں حصہ لیا- اسٹال کا انتظام نئی دہلی سے مسٹر عدنان خان نے سنبھالا- یہ بک فیر ہراعتبار سےبہت کامیاب رہا-
20- سہارن پور کے سی سی آئی ایم کے پریڈیزنٹ ڈاکٹر وید پرکاش تیاگی کے یہاں 17 نومبر 2013 کی شام کو ایک تقریب تھی- اِس موقع پر ٹیم کے ممبران نے ملک کے مختلف مقامات سے آئے ہوئے مہمانوںکو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا- اِس موقع پر ڈاکٹر اُدے سنگھ پنڈیر نے حاضرین سے درخواست کی کہ وہ قرآن کا ضرور مطالعہ کریں-
21- قاہرہ (مصر) کے ادارہ تنویر للنشر والإعلام کے ڈائریکٹر عبد الرحمن ابو ذکری نے 16 نومبر 2013 کو صدر اسلامی مرکز سے ایک تفصیلی ملاقات کی-گفتگوکا موضوع تھا — اسلام اور سیاست- گفتگو کے دوران صدر اسلامی مرکز نے ایک بات یہ کہی کہ اسلام میں سیاسی اقتدار کی حیثیت اضافی (relative) ہے، نہ کہ حقیقی- اسلامی تعلیمات کے مطابق، سیاسی اقتدار ایک ’امرِ موعود‘ ہے، وہ ’امرِ مقصود‘ نہیں(24:55)-اِس سلسلے میں 17 نومبر 2013 کی شام کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ڈنر کا ایک پروگرام کیاگیا- اِس موقع پر سی پی ایس کے ممبران نے مسٹر عبد الرحمن سے دعوتی موضوع پر گفتگو کی- آخرمیں اُن کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک منتخب سٹ دیاگیا -
22- سہارن پور کے اسٹیٹ منسٹر راج پال فند پوری کے یہاں 19 نومبر 2013 کو ایک تقریب کے موقع پر ٹیم کے ممبران نے وہاں آنے والے تمام حاضرین کو قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ بطور تحفہ پیش کیا-
23- آسٹریلیا میں ہمارے ساتھی مختلف مقامات پر دعوتی کام کررہے ہیں- اِس سلسلے میں ہمارے کچھ ساتھیوں نے 3 نومبر 2013 کو ملبارن (Melbourne) کے ایک مقامی اسکول (بیت الحکمة) کے طلبا اور اساتذہ کے ساتھ دعوتی انٹریکشن کا ایک پروگرام کیا- اِس موقع پر اسٹاف کے لوگوں کو دعوتی بروشرز اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا-
24- سی پی ایس کے تحت دنیا کے مختلف ممالک میں دعوتی کام ہورہا ہے- اس سلسلے میں پاکستان کے حلقہ الرسالہ کے احباب نے دعوتی مقصد کے لیے ایک نیا ویب سائٹ (cpspakistan.org)تیار کیا ہے.
25- ہمارے ساتھی مختلف مقامات پر دعوتی کام کررہے ہیں- اِس سلسلے میں یہاںایک تاثر نقل کیا جاتا ہے:
Thanks be to Allah for a very successful trip to Pondicherry and Chennai. In Pondicherry met three students from the University. they took us to their university. It is a very very huge campus with very beautiful gardens and beautiful buildings. One particular department consists of International students. An educational institute and a student are very touching scenes for me. When Maulana said that Paradise is a place of joyful activities, my happiness knew no bounds for learning is what is a joyful activity for me and no one before had described Paradise in this manner. Inshallah these students are going to go ahead with a few ideas I have given them regarding Dawah work in the University. I gave them some Dawah material. Regarding Goodword Bookstore in Chennai it is beautiful, the white shelves, white walls neat and pleasing arrangement of books, the location, everything speaks of the beautiful and pure intentions of everyone who is involved in this. A seed has grown into a tree. While sitting there I was reminded of this quote, The tallest of Oaks have grown from the smallest of seeds. Let us all just do this one simple work of sowing a eed in one heart, or one place and Allah's angels will do the rest.
(Fathima Sarah, Bangalore)
واپس اوپر جائیں