Pages

Thursday, 1 May 2014

Al Risala | May 2014 (الرسالہ،مئی)

2

-تواصی بالحق،تواصی بالصبر

3

- انسان کی تخلیق

4

- شخصیت کی تعمیر

5

- جنت کے باغوںمیں

6

- حکمت کا راز

7

- دعا کی قبولیت

8

- لامحدود صلاحیت

10

- خواہش پر کنٹرول

11

- جنت کی نرسری

24

- احیاءِ امت

33

- اسلام اور دورِ جدید

39

- شتمِ رسول کا مسئلہ

43

- نتیجے کا فقدان

46

- اختلافِ رائے

47

- موت کا پیغام


تواصی بالحق،تواصی بالصبر

قرآن کی سورہ العصر میں اہلِ ایمان کی صفت بتاتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں: وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر (103:3) یعنی وہ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے والے ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرنے والے ہوتے ہیں-
قرآن کی اِس آیت میں حق سے مراد اہلِ ایمان کی داخلی صفت ہے اور صبر سے مراد اہلِ ایمان کی وہ صفت ہے جس کا تعلق خارجی حالات سے ہے- ایمان کے معاملے میں اصل مطلوب چیز حق کی اتباع ہے- مومن وہ ہے جو حق کو شعوری طورپر دریافت کرے اور پھر عملاً اُس پر قائم ہوجائے-
مگر یہ فیصلہ کوئی سادہ فیصلہ نہیں- جب ایک شخص اتباعِ حق کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ فیصلہ ایک ایسی دنیا میں ہوتا ہے جہاں طرح طرح کے مسائل ہیں- کبھی کوئی خارجی چیز اس کی خواہش (desire) یا اس کی انا (ego) کو بھڑکاتی ہے اور اس کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی خواہش سے متاثر ہو کر حق کے راستے سے ہٹ جائے- اِسی طرح کبھی خارجی مشکلات سے اس کے ارادے میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اس کو دوبارہ ثابت قدمی پر آمادہ کیا جائے-
یہی وہ مواقع ہیں جوتواصی کی ضرورت پیدا کرتے ہیں- ایسے مواقع پر اہلِ ایمان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سچے مددگار بن جائیں- وہ خیر خواہانہ نصیحت کے ذریعے ایک دوسرے کو سنبھالیں- ایسے مواقع پر وہ ایک دوسرے کو درست مشورہ دے کر یہ کوشش کریں کہ اُن کا ساتھی حق سے منحرف نہ ہونے پائے، وہ صبر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بدستور حق پر قائم رہے- تواصی کا مطلب باہمی نصیحت یا باہمی مشورہ ہے-
مشورہ کی کچھ لازمی شرطیںہیں — ایک یہ کہ وہ مبنی بر خیر خواہی مشورہ ہو اور دوسرے یہ کہ وہ عملی طورپر ایک ممکن العمل مشورہ ہو- حقیقی تواصی وہی ہے جس میں یہ شرطیں پائی جائیں- تواصی بالحق سے مراد نظری معاملے میں تواصی ہے اور تواصی بالصبر سے مراد عملی معاملے میں تواصی-
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق

انسان کے مقصد ِ تخلیق کے بارے میں قرآن میں مختلف آیتیں آئی ہیں- اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ (23:115) یعنی کیا تم نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ہم نے تم کو بے مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤگے-
انسان کو اس کے پیدا کرنے والے نے بہترین صورت (40:64) پر پیدا کیا ہے- انسان ساری کائنات میں ایک مکرم مخلوق (17:70) کی حیثیت رکھتا ہے- انسان کواس کے پیدا کرنے والے نے بہترین صلاحیتیں عطا کی ہیں (95:4)- انسان کو استثنائی طورپر عقل دی گئی ہے جو کسی بھی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں (68:23)-
حقیقت یہ ہےکہ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے، ایک انتہائی با معنی مخلوق ہے- انسان کی تخلیق میں ایک انتہائی ذہین ڈیزائن (intelligent design) پائی جاتی ہے- اِس تخلیق میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ انسان سے اس کے خالق کو اِس دنیا میں ایک مثبت کردار (positive role) مطلوب ہے مگر عجیب بات ہے کہ عام طورپر انسان اس کے برعکس منفی کردار ادا کرتا رہا ہے- یہ بلاشبہہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سوال ہے-
اِس سوال کا جواب ایک حدیثِ رسول کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے: أکثروا ذکر ہادم اللذات الموت (الترمذی، رقم الحدیث:2307) یعنی تم موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے- اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان وقتی لذتوں میں گم ہوکر اُس اعلی رول کو اداکرنے میں ناکام رہتا ہے جو اس کے لیے اس کی صلاحیت کے اعتبار سے مقدر کیا گیا ہے- انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اِس معاملے میں اپنے شعور کو بیدار کرے- وہ خالق کے اِس اشارے کو سمجھے کہ اگر میں نے خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، اپنے آپ کو خدائی مشن سے لگایا جو کہ میری صلاحیتوں کا اصل استعمال ہے تو اس کے بعد میری زندگی کی تمام ضرورتوں کی اعلی تکمیل خود خالق کی طرف سے کی جائے گی-
واپس اوپر جائیں

شخصیت کی تعمیر

ایک مومن کا سب سے بڑا کنسرن (concern) یہ ہوتاہے کہ آخرت میں اس کو جنت میں داخلہ ملے، وہ اپنی ابدی زندگی میں جنت کا باشندہ بن کر رہ سکے۔ جنت میں داخلہ کس کو ملے گا، اِس سوال کا جواب قرآن میں اِن الفاظ میں دیاگیا ہے: ذلک جزاء من تزکیّٰ (20:76)یعنی جنت اس کے لیے ہے جو اپنا تزکیہ کرے۔
تزکیہ کوئی پراسرار چیز نہیں۔ تزکیہ کے حصول کا اصل ذریعہ مثبت طرزِ فکر ہے۔ مثبت طرزِ فکر سے آدمی کے اندر مثبت شخصیت بنتی ہے، اور مثبت شخصیت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اس کو فرشتوں کی صحبت حاصل ہو۔ اِس طرح کسی آدمی کے اندر تزکیہ کا پراسس (process) شروع ہوتا ہے۔ وہ فرشتوں کی صحبت میں تزکیہ کا سفر کرتا رہتا ہے، یہی سفر اس کے اندر مزکیّٰ شخصیت (purified soul) کی تعمیر کرتا ہے، اور یہی مزکیّٰ شخصیت ہے جو کسی آدمی کو جنت میں داخلے کا مستحق بناتی ہے۔ موت سے پہلے جنتی شخصیت کی تیاری ہے اور موت کے بعد اس تیار شدہ شخصیت کا جنت میں داخلہ۔
نفرت اور تشدد کا ماحول تزکیہ کے عمل کے لیے قاتل (killer) کی حیثیت رکھتا ہے۔ نفرت اور تشدد کے ماحول میں شخصیت کے تزکیہ کے عمل کا جاری ہونا ممکن نہیں۔ جس آدمی کے اندر جنت کی طلب ہو، اس کو پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر سے نفرت کومٹائے، وہ تشدد کو ہر قیمت پر ختم کرے۔ جہاں نفرت اور تشدد سے پاک یہ ماحول بنے گا، وہیں یہ ممکن ہوگا کہ تزکیہ کا مثبت عمل جاری ہو، اور اُس مثبت شخصیت کی تعمیر ہو جو جنت میں داخلے کی مستحق قرار پائے۔
جنت، خدا کے پڑوس کا دوسرا نام ہے۔ خدا کے پڑوس میں ایسا انسان کبھی نہیں بسایا جائے گا جس کے اندر نفرت اور تشدد کا مزاج پایا جاتا ہو۔ جو آدمی جنت کا حریص ہو، جو آدمی خدا کے پڑوس میں جینے کی تمنا رکھتا ہو، اس کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر سے نفرت اور تشدد کا مکمل خاتمہ کرے۔ موجودہ دنیا میں تشدد جہنم کا نمائندہ ہے اور امن جنت کا نمائندہ۔
واپس اوپر جائیں

جنت کے باغوںمیں

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں اِس طرح آئی ہے: عن أنس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إذا مررتم بریاض الجنّۃ فارتعوا۔ قالوا: وما ریاض الجنۃ۔ قال: حِلَق الذّکر (سنن الترمذی، رقم الحدیث: 3431 ) یعنی حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو چرنے کی کوشش کرو۔ سوال کیا گیا کہ جنت کے باغات کیا ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ذکر کے حلقے۔
اِس حدیث میں ’حِلَقُ الذکر‘ کا لفظ علامتی معنی (symbolic sense) میں ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر جگہ تمھارے لیے جنتی تجربے کے مواقع موجود ہیں۔ اِن مواقع کو پہچانو اور اُن کو استعمال کرو۔ اِس طرح دنیا میں تمھاری پوری زندگی جنت کا تجربہ بن جائے گی:
Make your living in this world like living in Paradise.
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا کو جنت کے متشابہ(similar) بنایا گیا ہے(2:25) ، یعنی موجودہ دنیا میں وہ تمام اجزا محدود طورپر موجود ہیں جو جنت میں لامحدود طورپر موجود ہوں گے۔ موجودہ دنیا جنت کا امپرفیکٹ ورژن (imperfect version) ہے، اور جنت موجودہ دنیا کا پرفیکٹ ورژن (perfect version)۔ جس انسان کو موجودہ دنیا کی اِس متشابہ ِ جنت حیثیت کی دریافت ہوجائے، وہ موجودہ دنیا میں جنت کا تجربہ کرنے لگے گا۔ اُس انسان کے لیے موجودہ دنیا گویا کہ جنت کی چراگاہ بن جائے گی، اُس کو موجودہ دنیا کے ہر تجربے میں جنت کی غذا ملنے لگے گی۔
یہ سارا معاملہ ایمانی شعور کی بیداری کا معاملہ ہے۔ جس آدمی کے اندر ایمانی شعور پوری طرح بیدار ہوجائے، اُس کا یہ حال ہوجائے گا جیسے کہ وہ جنت کے باغوں میں واک (walk) کررہا ہے۔ ایسے آدمی کے لیے موت کا مطلب یہ ہوگا جیسے کہ کوئی شخص اپنے گھر کے ایک کمرے سے نکل کر اس کے دوسرے کمرے میں داخل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

حکمت کا راز

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رأس الحکمة مخافة اللہ (الجامع الصغیر للسیوطی، رقم الحدیث: 4361) یعنی اللہ کا خوف حکمت کا سرا ہے-
یہ حدیثِ رسول انسانی فطرت کی ایک حقیقت کو بتاتی ہے- وہ حقیقت یہ ہے کہ حکمت (wisdom) کسی کے اندر صرف کتابوں کے مطالعے کے ذریعے نہیں آتی، حکمت کے لیے ایک اور چیز لازمی طورپر ضروری ہے اور وہ اللہ کا خوف ہے- خوفِ خدا کے بغیر آدمی صاحبِ علم تو بن سکتا ہے، لیکن وہ صاحبِ حکمت نہیں بن سکتا- اِس کا سبب یہ ہے کہ حکمت کے لیے معلومات کے علاوہ، ایک اور چیز ضروری ہے اور وہ کامل حقیقت پسندی (realistic approach) ہے- کامل حقیقت پسندی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی تواضع (modesty) کی اُس آخری حد پر پہنچ چکا ہو جس کو کٹ ٹو سائز (cut to size) کہاجاتا ہےاور کٹ ٹو سائز انسان (man cut to size) کو وجود میں لانے کا راز صرف ایک ہے اور وہ کامل معنوں میں اللہ کا خوف ہے-
کوئی انسان جب دوسرے انسانوں کے درمیان ہوتا ہے تو ہر انسان اُس کو اپنے ہی جیسا ایک انسان دکھائی دیتا ہے- اِس بنا پر کسی انسان کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ دوسرے انسان کو کٹ ٹو سائز انسان بنا سکے- یہ واقعہ صرف قادرِ مطلق خدا پر کامل ایمان کے ذریعے حاصل ہوتا ہے- انسان کی اِس فطرت کی بنا پر اِس معاملے میں صحیح فارمولا یہ ہے کہ — قادرِ مطلق خدا پر یقین سے انسان کا کٹ ٹو سائز ہونا، کٹ ٹو سائز انسان کے اندر کامل درجے میں حقیقت پسندی کا آنا اور کامل حقیقت کی بنا پر چیزوں کو ویسا ہی دیکھنا جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں- یہی وہ حقیقت پسندانہ سوچ ہے جس کے نتیجے کا نام حکمت (wisdom) ہے- کسی انسان کے اندر یہ صفت ہمیشہ خدا کی نسبت سے پیدا ہوتی ہے، لیکن انسان چوں کہ سماج کے اندر رہتا ہے، اِس لیے اِس صفت کا عملی ظہور انسانی کی نسبت سے ہوتا ہے- انسان کی نسبت سے اِس صفت کے ظہور ہی کا دوسرا نام حکمت ہے-
واپس اوپر جائیں

دعا کی قبولیت

ایک مسلم نوجوان نے کہا کہ میرے بہت سے مسائل ہیں- میں اُن مسائل کے لیے اللہ سے بہت دعا کرتا ہوں، لیکن میری دعا قبول نہیں ہوتی- اِس طرح دعا کرتے ہوئے مجھے کئی سال گزر گئے، مگر میراکوئی مسئلہ حل نہ ہوا- میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اب میں کیا کروں-
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مادی مسائل کے لیے اللہ سے دعا کرتے ہیں، پھر جب وہ دیکھتے ہیں کہ اُن کا مسئلہ ان کی خواہش کے مطابق حل نہیں ہوا تو وہ مایوسی میں مبتلا ہوجاتے ہیں- دعا بلاشبہہ ایک اعلی عبادت ہے، مگر جہاں تک دعا کی قبولیت کا سوال ہے، اس کا انحصار اللہ کی مرضی پر ہے، نہ کہ بندے کی خواہش پر-
اصل یہ ہے کہ دنیا کی جو مادی چیزیں ہیں، وہ سب کی سب امتحان کے پرچے (test papers) ہیں- کسی انسان کو کن امتحانی پرچوں کے ساتھ آزماناہے، اس کا فیصلہ اللہ کی طرف سے کیا جاتا ہے، نہ کہ انسان کی خواہش کی بنیاد پر- کوئی طالب علم اگر یہ چاہے کہ اس کے امتحان کا پرچہ اس کی مرضی کے مطابق اس کو دیا جائے تو ایسا ہونا ممکن نہیں، کیوں کہ امتحانی پرچے کے معاملے میں سارا فیصلہ تعلیمی ادارے کے ذمے داروں کی طرف سے کیا جاتا ہے، طالب علم کی خواہش کی بنیاد پر اس کا فیصلہ نہیں ہوتا-
ایسی حالت میں دعا کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی دعائیں تو خوب کرے، لیکن دعا کی قبولیت کے معاملے کو وہ تمام تر اللہ کے اوپر ڈال دے- اگر کسی آدمی کی دعا بظاہر قبول نہیں ہورہی ہے تو اس کو یقین کرنا چاہیے کہ یہی اللہ کی مرضی ہے- اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کسی بندے کے لیے خیر کیا ہے- انسان صرف اپنی خواہشوں کو جانتا ہے، نہ یہ کہ اس کا خیر کس چیز میں ہے-
آدمی کو چاہیے کہ وہ ملے ہوئے پر راضی رہے اور نہ ملے ہوئے کے بارے میں وہ یہ دعا کرے کہ خدایا، تو میرے لیے خیر کا فیصلہ فرما (اللہم خرلی واختر لی)-
واپس اوپر جائیں

لامحدود صلاحیت

انسان کے اندر لامحدود صلاحیت ہے- ایک جدید تحقیق کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ انسان اگر اپنی آنکھوں کو بند کرکے سوچے تو اس کے اندر ایک نئی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے- اُس وقت وہ زیادہ بہتر طورپر معلومات کو جذب کرنے کے قابل ہوجاتا ہے:
One can absorb information better by closing one’s eyes.
یہ تحقیق اور اِس طرح کی دوسری تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ انسان کے اندر اللہ تعالی نے لامحدود صلاحیتیں رکھیں ہیں- قدیم زمانے میں معذور افراد کے لیے اندھا اور گونگا اور بہرا اور لولا اور لنگڑا جیسے الفاظ بولے جاتے تھے-
اِس طرح کے الفاظ سے یہ تاثر قائم ہوتا تھا کہ معذوری صرف معذوری ہے- ایسے لوگوں کے لیے ہر زبان میں ناکارہ یا اپاہج (disabled) جیسے الفاظ استعمال ہوتے ـتھے، مگر جدید تحقیقات کے بعد اب ایسے افراد کو مختلف طورپر اہل (differently-abled)شخص کہاجاتا ہے-
یہ فطرت کا نظام ہے- جب کوئی شخص اپنے کسی جسمانی عضو کو کھو دیتا ہے تو اس کے اندر نئ صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں- بظاہر جسمانی معذوری کے باوجود وہ بڑے بڑے کام انجام دیتا — ٹامس الوایڈیسن، لوئی بریل، ہیلن کلر، اسٹفن ہاکنگ، وغیرہ اِسی کی مثالیں ہیں:
Close eyes to absorb information
Want some important piece of information to sink in.? Closing your eyes might do the trick. Researchers from University of Edinburgh found that a few minutes of 'wakeful resting' allows information to be absorbed and it works best with verbal information rather than numbers. (The Times of India, New Delhi, July 25, 2012, p. 19)
فطرت کے اِس قانون پر غور کیجئے تو اِس سے ایک حدیثِ قدسی کی معنویت سمجھ میں آتی ہے- اِس کے الفاظ یہ ہیں: إذا ابتلیتُ عبدی بحبیبتیہ فصبر، عوضتہ منہما الجنة (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5653) یعنی جب میں اپنے ایک بندے کو ابتلا میں ڈالتا ہوں اور اس کی دونوں آنکھیں لے لیتا ہوں، پھر وہ صبر کرتا ہے، تو اِس صبر کے بدلے میں اس کو جنت دے دیتا ہوں-
اِس روایت میں ابتلا کا لفظ آیا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس کا مطلب تجربہ (experience) ہے، یعنی جب کسی بندے کو بینائی سے محرومی کا تجربہ ہوتا ہے، پھر وہ مایوسی کے بجائے صبر کرلیتا ہے-
صبر کا مطلب برداشت ہے، لیکن یہاں صبر کا مطلب یہ ہے کہ وہ بینائی سے محرومی کے اِس تجربے کو مثبت معنی (positive sense) میں لیتا ہے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ذہنی صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں- اِس کے اندر چھپے ہوئے امکانات انفولڈ(unfold) ہونے لگتے ہیں-
اِس قسم کا مثبت تجربہ اُس انسان کو پیش آتا ہے جس کا شعور بیدار ہو- فطرت کے قانون کے مطابق، اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بروئے کار آنے لگتی ہیں- معذوری کے باوجود وہ بڑے بڑے کام انجام دینے کے قابل ہوجاتا ہے- اِس طرح کے افراد کی مثالیں قدیم تاریخ میں بھی موجود ہیں اور جدید تاریخ میں بھی -
واپس اوپر جائیں

خواہش پر کنٹرول

خواہش (desire) ہر انسان کی ایک فطری صفت ہے- کوئی عورت یا مرد خواہش کی نفسیات سے خالی نہیں- تاہم خواہش کوئی برائی (evil) نہیں، یعنی خواہش اپنے آپ میں برائی نہیں ہے، بلکہ خواہش کا غلط استعمال اس کو برا بنا دیتا ہے-انسان کے اندر سب سے بڑی صفت محرک (incentive) ہے- ہر عمل کی جڑمیں ایک محرک ہوتا ہے- اگر کسی انسان کے اندر محرک نہ پایا جائے تو وہ کوئی کام نہیں کرسکتا- یہ محرک تمام تر خواہش کی پیداوار ہے- یہ خواہش ہے جو انسان کے اندر محرک پیداکرتی ہے- خواہش نہیں تو محرک نہیں اور محرک نہیں تو کوئی عمل نہیں-اِس معاملے میں انسان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنی خواہش کو کنٹرول کرے- وہ اپنی خواہش کو غلط رخ کی طرف جانے سے روکے- مثلاً کھانے میں وہ سادہ کھانا کھائے اور لذیذ کھانے سے پرہیز کرے- کوئی عمل کرے تو خدمت کے جذبے سے کرے، نہ کہ شہرت (fame) حاصل کرنے کے لیے- کپڑا پہنے تو ستر پوشی کے لیے پہنے، نہ کہ خوش نمائی کے لیے- پیسہ کمائے تو صرف ضرورت پوری کرنے کے لیے، نہ کہ دولت کا ڈھیر اکھٹا کرنے کے لیے- گھر بنائے تو رہائشی ضرورت کے لیے، نہ کہ شان وشوکت کے اظہار کے لیے-یہی خواہش پر کنٹرول ہے-
خواہش پر کنٹرول کا مقصد اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچانا ہے- جب آدمی اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچاتا ہے تو اس کے بعد اُس کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ذہنی اور روحانی ترقی میں مشغول ہوسکے، وہ اپنی شخصیت کے ارتقا کے اعلی تر مقصد کو حاصل کرسکے-خواہش پر کنٹرول صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو مطالعہ اور غوروفکر کے ذریعے اپنے مقصد ِ تخلیق کو دریافت کرے- اِس دریافت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی عارضی دنیا کی وقتی لذتوں سے اوپر اٹھ جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو اُس ربانی شخصیت کی تشکیل میں لگا دیتا ہے جو دنیا میں اللہ کی مرضی پر چلے اور آخرت میں اللہ کی ابدی جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے — —خواہش پر کنٹرول آدمی کو اعلی انسان بناتا ہے- اِس کے برعکس، خواہش کی پیروی کرنے والا آدمی حیوانیت کی سطح پر پہنچ جاتا ہے- — —
واپس اوپر جائیں

جنت کی نرسری

کسی انسان کے لیے اِس دنیا میں سب سے پہلی جاننے کی چیز یہ ہے کہ وہ یہ دریافت کرے کہ جس ہستی نے انسان کو اور اس دنیا کو بنایا ہے، اس کی اسکیم آف تھنگس (scheme of things)کیا ہے- قرآن خداکی کتاب ہے- قرآن کے مطالعے سے جو چیز معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ خدا نے سب سے پہلے ایک وسیع اور معیاری دنیا بنائی جس کا نام جنت (Paradise)ہے- پھر اس نے انسان کو پیدا کیا اور انسان کو اس جنت میں بسایا-
انسان کو خدا نے مکمل آزادی (freedom of choice) عطا کی- انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ خالق کا اعتراف کرے، وہ خود اپنے اختیار سے سلف ڈسپلنڈ (self disciplined) زندگی گزارے- لیکن انسان اِس امتحان میں پورا نہیں اترا- اُس نے آزاد ی کا غلط استعمال کیا- اس کے بعد خدا نے انسان کے بارے میں دوسرا اصول مقرر کیا- پہلے انسان کو عمومی بنیاد (general basis) پر جنت میں بسایا گیا تھا، لیکن جب انسان مقرر کردہ معیار پر پورا نہیں اترا تو اس کے بعد خدا نے یہ طے کیا کہ انسان کے لیے جنت کا فیصلہ انتخابی بنیاد (selective basis) پر کیا جائے، یعنی صرف اُن افراد کو جنت میں آباد کیا جائے جو سلف ڈسپلن (self discipline) کے مطلوب معیار پر پورے اتریں-اس مقصد کے لئے خدا نے ابدی جنت کے سوا ایک اور عارضی دنیا بنائی-
یہ عارضی دنیا ہمارا موجودہ سیارۂ ارض (planet earth) ہے- سیارۂ ارض گویاابدی جنت کو فیڈ (feed) کرنے کے لئے عارضی قسم کی ایک زندہ نرسری (living nursery) ہے- اس سیارۂ ارض پر انسان گویا پودے (plants) کی مانند اگائے جاتے ہیں- اُن کو یہاں کے مختلف حالات میں محدود مدت کے لئے زندگی گزارنے کا موقع دیا جاتا ہے- اِس مدت میں انسان فرشتوں کے سپروژن (supervision) میں ہوتا ہے- فرشتے مسلسل واچ (watch)کرتے ہیں کہ کوئی انسان مختلف حالات میں کس قسم کا رسپانس (response)دے رہا ہے اور اپنے اندر کس قسم کی پرسنالٹی کی تشکیل کررہا ہے- پھر جو فرد (individual)اپنے قول وعمل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مطلوب معیار کے مطابق ہے، اس کو عارضی نرسری سے نکال کر جنت کی ابدی باغ میں نصب کردیا جاتا ہے، تاکہ وہ وہاں جنت کے ماحول میں فروغ پائے اور ابدی طورپر ترقی کا سفر طے کرتا رہے- موت وہ دن ہے جب کہ کسی فرد کو سیارۂ ارض سے ٹرانسفر کرکے ابدی جنت میں پہنچا دیا جائے-
دو دنیائیں
قرآن کی سورہ الذاریات میں تخلیق کا ایک اصول اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (51:49) یعنی ہم نے ہر چیز کو جوڑے جوڑے پیدا کیا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو-
فطرت کا یہ نظام ہے کہ یہاں تمام چیزیں جوڑے جوڑے کی صورت میں پیدا کی گئی ہیں- اِسی طرح موجودہ دنیا بھی دو دنیا (pair world)کی صورت میں بنائی گئی ہے- سیارۂ ارض (planet earth) اس کا ایک جوڑا ہے- اس کا دوسرا جوڑا آخرت کی دنیا ہے، جہاں جنت (Paradise) واقع ہے- جنت موجودہ دنیا کا تکمیلی حصہ (complementary part) ہے- جنت کے بغیر موجودہ دنیا ناقابلِ فہم ہے، لیکن جنت کے ساتھ وہ پوری طرح قابلِ فہم بن جاتی ہے-
جنت کی نرسری
خالق نے ایک عظیم دنیا بنائی- یہ دنیا ہر لحاظ سے آئڈیل اور پرفکٹ تھی- اِس دنیا کا نام جنت ہے- قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنت آدم کی تخلیق سے پہلے بنائی گئی(2:35)- اس کے بعد خالق نے چاہا کہ وہ اُن عورتوں اور مردوں کا انتخاب کرے جو اِس جنتی دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہوں- اِس مقصد کے لیے خالق نے سیارہ ارض بنایا - یہ سیارہ ارض گویا جنتی دنیا کی نرسری (nursery) ہے- نرسری اُس مقام کو کہا جاتا ہے جہاں پودے اگائے جائیں اور پھر منتخب پودوں کو وہاں سے نکال کر اُن کو باغ میں نصب کیا جائے:
Nursery: A place where plants are reared for transplantation.
موجودہ زمین اِسی قسم کی ایک نرسری ہے- یہاں مسلسل طورپر انسان پیدا کیے جارہے ہیں- زمین پر وہ تمام حالات رکھے گئے ہیں جو نرسری کی حیثیت سے اس کے تقاضے پورے کرنے والے ہیں- ہر عورت اور مرد اپنے عمل سے اپنے اندر مثبت شخصیت یا منفی شخصیت کی تعمیر کررہے ہیں- موت وہ وقت ہے جب کہ ایک ’’پودا‘‘ اپنی مدت پوری کرنے پر نرسری سے اکھاڑ دیاجائے، پھر اگر وہ نا مطلوب شخصیت بنا ہے تو اس کو رد کردیا جائے اور اگر اس نے اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کی ہے تو اس کو وہاں سے نکال کر جنت میں بسا دیا جائے — موجودہ دنیا اِس لیے ہے، تاکہ یہاں ایک فرد اپنے آپ کو اسپریچول شخصیت کی حیثیت سے تیار (develop) کرے اور پھر جنت میں وہ اسپریچول تہذیب کا ابدی حصہ بن جائے-
جنت کی دنیا انسان کی اصل منزل ہے- موجودہ عارضی دنیا نرسری (nursery) کی مانند ہے- یہاں پیدا ہونے والے عورت اور مرد کی حیثیت گویا نرسری کے پودے کی ہے- اِس محدود مدت میں جو ’’پودے‘‘ صحت مندی کا ثبوت نہ دیں، ان کو اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا اور جو ’’پودے‘‘ اپنی نشوو نما کے دوران صحت مند ثابت ہوں، اُن کو باعزت طورپر موجودہ عارضی دنیا سے منتقل کرکے آخرت کی ابدی دنیا میں پہنچا دیا جائے گا، یعنی جنت کی دنیا میں-اِس حقیقت کو ایک اور آیت میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ (67:2) یعنی اللہ، جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا، تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا عمل کرتا ہے-
اِس کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر بے شمار عورت اور مرد پیدا ہوتے ہیں- وہ محدود مدت تک زندگی گزار کر مرجاتے ہیں، یہ ساری بھیڑ خالق کا مطلوب نہیں- خالق کا مطلوب صرف وہ فرد ہے جو اِس امتحانی دورِ حیات میں یہ ثابت کرے کہ وہ پورے معنوں میں احسن العمل (best in deeds) ہے- زمین کی حیثیت نرسری کی ہے، اِس لیے یہاں ہر قسم کے پودے اگتےہیں- لیکن جنت کی حیثیت مطلوب منزل کی ہے، اِس لیے وہاں صرف وہی استثنائی افراد بسائے جائیں گے جن کو اُن کے ریکارڈ کی بنیاد پر منتخب کیا جائے-
موجودہ دنیا میں جو انسان پیدا ہوتا ہے، وہ گویا نرسری کا ایک پودا ہے-ایک محدود مدت تک وہ اِس ابتدائی دنیا میں رہتا ہے- اِس دوران اُس کے ساتھ مختلف قسم کے حالات گزرتےہیں- یہ حالات گویا اُس کے لیے تربیتی کورس (training course) ہیں- یہ حالات اس کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کرے- موت اِس تربیتی کورس کے خاتمے کا اعلان ہے- جو انسان اِس ملی ہوئی مدت کے دوران اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کرلے، اس کو نرسری سے نکال کر دوسری دنیا میں ابدی طورپر بسا دیا جاتا ہے- اور جو لوگ مطلوب انداز میں اپنی تعمیر نہ کرسکیں، اُن کو نرسری سے نکال کر باہر پھینک دیا جائے گا-
اِس دنیا کے لیے خالق کا نشانہ اجتماعی نہیں ہے، بلکہ انفرادی ہے- اِس اعتبار سے، یہ کہنا درست ہوگا کہ موجودہ دنیا تعمیر نظام کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ تعمیر شخصیت کے لیے ہے- یہاں صرف تعمیرِ شخصیت ممکن ہے، آئڈیل معنوں میں تعمیرِ نظام یہاں سرے سے ممکن ہی نہیں-انسانی زندگی کی یہی تعبیر صحیح تعبیر ہے- اِس کے صحیح ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اس کو ماننے کی صورت میں زندگی کے تمام سوالات کا قابلِ فہم جواب مل جاتا ہے:
With this description of human life, everything falls into place.
ایک حدیث
تخلیق کا یہ منصوبہ قرآن وحدیث میں مختلف انداز سے بتایا گیا ہے- ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں الفاظ کے معمولی فرق کےساتھ آئی ہے- اِس سلسلے کی دو روایتیں یہ ہیں:
1- عن ابن مسعود قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: لقیتُ إبراہیم لیلة أسرى بی- فقال یا محمد، أقرئ أمتک منی السلام، وأخبرہم أن الجنة طیبة التربة، عذبة الماء، وأنہا قیعان، وأن غراسہا: سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر- (سنن الترمذی، رقم الحدیث: 105)
حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ معراج کی رات میں میری ملاقات حضرت ابراہیم سے ہوئی- انھوں نے کہا کہ اے محمد، اپنی امت کو میرا سلام پہنچا دو- اور اُن کو بتاؤ کہ جنت کی مٹی بہت پاکیزہ مٹی ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے اور وہ ایک ہموار میدان ہے - اس کا پودا سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر ہے-
2- عن أبی أیوب الأنصاری أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم لیلة أسری بہ مرّ على إبراہیم، فقال من معک یا جبریل، قال: ہذا محمد- فقال لہ إبراہیم: مُر أمتک فلیکثروا من غراس الجنة، فإن تربتہا طیبة وأرضہا واسعة- قال: وما غراس الجنة، قال: لا حول ولا قوة إلا باللہ- (مسند أحمد، رقم الحدیث:7966 )
حضرت ابو ایوب انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات میں حضرت ابراہیم کے پاس سے گزرے- انھوں نے کہا کہ اے جبریل، یہ تمھارے ساتھ کون ہیں- جبریل نے کہا کہ یہ محمد ہیں- حضرت ابراہیم نے آپ سے کہا کہ اپنی امت کو بتاؤ کہ وہ جنت میں کثرت سے پودے لگائیں، کیوں کہ جنت کی مٹی بہت پاکیزہ ہے اور اس کی زمین بہت وسیع ہے- آپ نے پوچھا کہ جنت کا پودا کیا ہے؟ حضرت ابراہیم نے کہا کہ: لاحول ولا قوة إلا باللہ-
مذکورہ روایات میںجنت کے لیے دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں— قیعان اور ارضِ واسعہ- دونوں کا مفہوم ایک ہے، یعنی وسیع اور ہموار زمین- یہ تمثیل کی زبان میں جنت کی اصل حقیقت کا بیان ہے- اِس معاملے کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ نے یہ چاہا کہ وہ ایک اعلی مخلوق پیدا کرے اور پھر اِس مخلوق کو وہ اپنی اعلی ترین نعمت سے نوازے- اِس منصوبے کے تحت، اللہ نے ایک معیاری دنیا بنائی- یہ دنیا اپنی وسعت کے اعتبار سے، اپنے آپ میں ایک مکمل کائنات تھی- اِس میں ہر قسم کے اعلی امکانات رکھے گئے تھے- اِس میں نہ صرف ہر قسم کی نعمتیں تھیں، بلکہ اس میں اعلی ترقی کے ابدی مواقع موجود تھے-
اس کے بعد اللہ نے انسان کو پیداکیا اور اس کو مکمل آزادی عطا کی- جنت اِسی انسان کے فطری ہیبی ٹیٹ (natural habitat) کے طورپر بنائی گئی ہے- اِس جنت میں انسان کا داخلہ انتخاب (selection) کی بنیاد پر مقرر کیا گیا- موجودہ سیارہ ارض اِس مقصد کے لیے سلیکشن گراؤنڈ یا نرسری کی حیثیت رکھتاہے- انسان کو پیدا کرکے اس کو مکمل آزادی دے دی گئی ہے- آزادی کے اِس ماحول میں جو عورت یا مرد اپنے آپ کو جنت کی دنیا میں بسائے جانے کا مستحق ثابت کریں، اُن کو منتخب کرکے یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ جنت میں آباد ہو کر مزید ترقی کی منزلیں طے کریں- اِس کے برعکس، جو افراد زمینی زندگی کے امتحان میں ناکام ہوجائیں، اُن کو رد کرکے کائناتی کوڑے خانے میں پھینک دیا جائے-
مذکورہ حدیثِ رسول میں تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ جنت کا معاملہ کیا ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ جنت اللہ کے سچے بندوں کے رہنے کی بہترین جگہ ہے- وہ ایک عالی شان رہائش گاہ ہے، مگر اپنی ابتدائی صورت میں وہ ایک غیر آباد جگہ ہے-
اِس ابدی جنت کی آبادکاری کے لیے اللہ تعالی نے یہ انتظام کیا کہ موجود سیارہ ارض کو ایک نرسری یا سلیکشن گراؤنڈ کے طورپر بنایا- موجودہ زمین پر جو عورت اور مرد پیدا ہوتے ہیں، وہ گویا نرسری میں لگائے جانے والے پودے ہیں- ان پودوں میں جو پودا یہ ثابت کرے گا کہ وہ صحت مند پودا (healthy plant) ہے، اس کو دنیا کی نرسری سے نکال کر جنت کے زیادہ بہتر اور ابدی مقام پر نصب کردیا جائے گا، تاکہ وہ وہاں کے بہتر ماحول میں پرورش پاکر مزید ترقی کرے اور ابدی طورپر جنت کے شاداب باغ کا حصہ بن جائے-
اِس حدیث میں جن کلمات (سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر، ولا حول ولا قوة إلا باللہ) کا ذکر ہے، وہ بہ اعتبار لفظ مرادنہیں ہیں، بلکہ وہ باعتبارِ معنی مراد ہیں، یعنی اِن الفاظ میں جس آئڈیالوجی کا ذکر ہے، یہ الفاظ جس معرفت کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ جس طرزِ فکر (way of thinking) کو بتاتے ہیں، اُس کے مطابق، اپنی سوچ کو بنانا، اس کے مطابق، اپنی شخصیت کی تعمیر کرنا، اِن کلمات کی اسپرٹ کو پنے دل ودماغ میں اتارنا، یہاں تک کہ آدمی ربانی صفات والا انسان بن جائے- جو آدمی قبل از موت دورِ حیات میں اِن کلمات کے تقاضے کے مطابق، اپنے آپ کو ڈھالے گا، وہ بعد از موت دورِ حیات میں خدا کے اُس باغ میں بسنے کا مستحق قرار پائے گا جس کو جنت (Paradise)کہاجاتا ہے-
قرآن میں جنت کا ذکر تفصیل کے ساتھ آیا ہے- قرآن ایک اعتبار سے، جنت کا تعارف ہے- یہ تعارف اتنے موثر انداز میں ہے کہ اس کو پڑھنے والا آدمی گویا جنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے- اگر آپ اِس اعتبار سے، قرآن کا تتبع کریں اور جنت کی آیتوں کو یکجا کرکےاس کا مطالعہ کریں تو آپ کے اندر شدید طورپر یہ جذبہ ابھرے گا کہ آپ جنت کو اپنی منزل بنالیں، آپ کی تمام سرگرمیوں کا رخ جنت کی طرف ہوجائے گا- جیسا کہ قرآن میںارشاد ہوا ہے: لِمِثْلِ ہَذَا فَلِیَعْمَلِ الْعَامِلُونَ (37:61)-
ابدی عمر، ابدی صحت، ابدی امن
قرآن اور حدیث میں جنت اور اہلِ جنت کا تذکرہ نہایت تفصیل کے ساتھ آیا ہے- اِس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں ابدی طورپر ہر قسم کی نعمتیں کمال درجے میں موجود ہوں گی- وہاں انسان کی ہر اشتہا (desire) کی تکمیل کا سامان ہوگا- وہاں انسان کو کامل معنوں میں فل فِل مینٹ (fulfilment) حاصل ہوگا- جنت میں انسان کے لیے یہ موقع ہوگا کہ وہ مسلسل طورپر وہاں کی نعمتوں کو انجوائے کرے اور کبھی بورڈم کا شکار نہ ہو- جنت ہر اعتبار سے اہلِ جنت کے لیے آئڈیل اور پرفکٹ دنیا ہوگی-
مگر اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے موجودہ وجود کے ساتھ جنت کی نعمتوں سے حقیقی معنوں میں محظوظ نہیں ہوسکتا- اِس لیے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو جو وجود ملا ہے، وہ ہر اعتبار سے، ایک محدود وجود ہے— اِس وجود پر بڑھاپا آتا ہے،یہ وجود بیماری اور حادثات سے دوچار ہوتا ہے، یہ وجود زوال (de-generation) کا شکار ہوتا ہے، اِس وجود پر موت طاری ہوتی ہے، اِس وجود کے آرگن (organs) کمز ور وناکارہ ہوتے رہتے ہیں، اِس وجود پر نیند اور تھکاوٹ طاری ہوتی ہے، اِس وجود کے حواس (senses) معطل ہوتے رہتے ہیں، وغیرہ-
ایسی حالت میں انسان کو اگر جنت اِس طرح ملے کہ جنت میں ہر قسم کا سامانِ عیش تو کامل طورپر موجود ہو، لیکن انسان کا وجود یہی موجودہ دنیا والا وجود ہو، جو کہ ہر قسم کی کمزوریوں (weaknesses)کا شکار ہوتا ہے، اس کو ہر قسم کی محدودیت (limitations) لاحق ہوتی ہے، اس کو بدستور جسمانی زوال (physical degeneration) پیش آتا رہے، جیساکہ وہ اِس دنیا میں پیش آتاتھا- اگر ایسا ہو تو انسان کے لیے جنت اینٹ پتھر کا ایک ڈھیر بن جائے گی، وہ اس کے لیے لذت اور خوشی کی جگہ ثابت نہ ہوگی- جنت انسان کے لیے صرف اُس وقت جنت ہے جب کہ وہ خود جنت سے انجوائے کرنے کی طاقت رکھتا ہو-
اگر انسان کے اپنے اندر جنت سے انجوائے کرنے کی طاقت نہ ہو تو جنت اس کے لیے بلاشبہہ ایک مصیبت خانہ ہوگی، نہ کہ کوئی عیش خانہ- جنت اسی طرح اس کے لیے ایک دار الکبد ہوگی ، جیسا کہ موجودہ دنیا اس کے لیے دار الکبدتھی- اِس کا تقاضا ہے کہ اہلِ جنت کو آخرت میں جنت کے ساتھ ایک نیا وجود بھی عطا کیا جائے، ایسا وجود جو ابدی عمر رکھتا ہو، اس کو ایسی صحت ملے جو بھر پور صحت (health in full swing) کی حامل ہو-
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص موجودہ دنیا کی زندگی میں اپنے آپ کو ر وحانی اعتبار سے، مطہَّر شخصیت (spiritually purified personality) کی حیثیت سے ڈیولپ (develop) کرے، اس کو آخرت میں اللہ کے خصوصی عطیہ کے طو رپر جسمانی اعتبار سے، مطہَّر شخصیت (physically purified personality) حاصل ہوگی- ایسی شخصیت اپنی اعلی صلاحیتوں کے اعتبار سے، کامل صفات کی حامل ہوگی- وہ اِس قابل ہوگی کہ جنت کی نعمتوں سے بھر پور طور پر حظ (enjoyment) حاصل کرے، وہ کسی بھی پہلو سے محدودیت (limitation) اور ڈس ایڈوانٹج (disadvantage) میں مبتلا نہ ہو، وہ ابدی طورپر کامل فل فل مینٹ (fulfilment) کے احساس میں جیتا رہے-
چناں چہ حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جنتی انسان ہمیشہ جوانی کی عمر (youth age) میں رہیں گے، جیسے کہ وہ صرف 30 سال کی عمر کے ہوں- وہ ہر اُس جسمانی کمزوری (physical weakness) سے مکمل طورپر پاک ہوں گے جو دنیا کی زندگی میں اُن کے جسم کا لازمی حصہ تھی-
اِسی طرح جنت کےباشندے ہر قسم کی جسمانی کمی سے پاک ہوں گے- مثلاً وہ کبھی بیمار نہیں ہوں گے-اُن کو بول وبر از کی حاجت نہ ہوگی- اہلِ جنت کو جو جسم ملے گا، وہ ایسا جسم ہوگا جو ابدی طورپر شباب کی حالت میں رہے گا- اس پر نیند اور تھکاوٹ اور بڑھاپا طاری نہیں ہوگا- جنت میں اہلِ جنت کو خطاب کرکے یہ اعلان کیا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ صحت مند رہوگے، کبھی بیمار نہ ہوگے- اب تم ہمیشہ زندہ رہوں گے، کبھی تم پر موت نہ آئے گی- اب تم ہمیشہ جوان رہوگے، کبھی تم بوڑھے نہ ہوگے- اب تم ہمیشہ خوش حال رہوگے، کبھی تنگی میں مبتلا نہ ہوگے، وغیرہ- (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مشکاة المصابیح: جلد 3، کتاب أحوال القیامة وبدء الخلق، باب صفة الجنة وأہلہا)
حقیقت یہ ہے کہ جنت اور انسان دونوں ایک دوسرے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں- جنت مکمل طورپر انسان کے مطابقِ حال ہے اور انسان مکمل طورپر جنت کے مطابقِ حال- جنت انسان کا ہیبی ٹیٹ (habitat) ہے اور انسان جنت کا مطلوب باشندہ (citizen)- انسان کے بغیر جنت کا وجود ادھورا ہے اور جنت کے بغیر انسان کا وجود ادھورا- دونوں ایک دوسرے کے لیے طالب اور مطلوب کی حیثیت رکھتے ہیں- جنت کے بغیر انسان کی زندگی بے معنی ہے اور انسان کے بغیر جنت کے وجود کی کوئی معنویت نہیں- یہ طالب اور مطلوب دونوں آخرت میں اکھٹا کیے جائیں گے اور اس کے بعد ابدی طورپر ایک دورِ کمال شروع ہوگا، جس کی خوشیاں کبھی ختم نہ ہوں گی، اور نہ اس کی رونق پر کبھی زوال آئے گا- یہ جنت انسان کا انتظار کررہی ہے، لیکن اِس جنت میں داخلہ صرف اُس انسان کو ملے گا جو اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کرے-
کلماتِ ذکر کی حقیقت
مذکورہ روایات میں پانچ کلمات کا ذکر ہے- وہ کلمات یہ ہیں — سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر، ولا حول ولا قوة إلا باللہ- اِن کلمات کے جو الفاظ ہیں، وہ محض الفاظ نہیں ہیں، بلکہ وہ گہرے معانی کو بتارہے ہیں اور یہ الفاظ اپنے اِنھیں گہرے معانی کے اعتبار سے مطلوب ہیں، نہ کہ محض الفاظ کے اعتبار سے، یعنی اُن کا فائدہ محض اُن کی لفظی تکرار میں نہیں ہے، بلکہ ان کی اسپرٹ یا ان کی معنویت کو اپنانے میں ہے-
لا حول ولا قوة کیا ہے- وہ اِس حقیقت کا اظہار ہے کہ اللہ تمام طاقتوں کا مالک (all-powerful) ہے-’سبحان اللہ‘ کیا ہے سبحان اللہ اِس حقیقت کی دریافت ہے کہ خدا ہر قسم کے عیب اور نقص سے کامل طورپر پاک ہے- الحمد للہ کیا ہے- الحمد للہ دراصل یہ ہے کہ ایک صاحبِ معرفت آدمی اللہ کے کمالات کو دریافت کرکے اس کا شعوری اعتراف کرے- لا إلہ إلا اللہ کیا ہے- لا إلہ إلا اللہ دراصل تمام معبودوں کو رد کرکے اللہ کو معبود ِ حقیقی کے طورپر دریافت کرنے کا دوسرا نام ہے- اللہ أکبرکیا ہے- یہ وہ عارفانہ کلمہ ہے جو ایک شخص کی زبان سے اُس وقت بے تابانہ طور پر نکل پڑتا ہے، جب کہ وہ تدبر کے نتیجے میں اللہ کے مقامِ عظمت کو دریافت کرے-
یہ کلمات دراصل ذکر ِ الہی کے کلمات ہیں- ذکر کی حقیقت معرفت ہے اور معرفتِ الہی بلا شبہہ سب سے بڑی نیکی (virtue) ہے- لیکن معرفت کوئی سادہ چیز نہیں- معرفت سے پہلے دریافت ہے- دریافت سے پہلے تدبر ہے، تدبر سے پہلے یکسوئی (concentration) ہے، یکسوئی سے پہلے سنجیدگی ہے- آدمی سب سے پہلے سنجیدگی کا ثبوت دیتاہے، پھر وہ اپنے ذہن کو غیر متعلق چیزوں سے یکسو کرتاہے، اس کے بعد وہ غور وفکر کرتاہے، جس کو تدبر کہا جاتا ہے- تدبر اس کو دریافت تک پہنچاتا ہے اور دریافت معرفت تک-سنجیدہ تفکر کے ان مراحل سے گزر نے کے بعد جب کسی انسان کو اللہ رب العالمین کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں ایک فکری بھونچال آتا ہے، اس کے اندر حقیقت شناسی کا ایک سیلاب امنڈپڑتا ہے- یہ ربانی کیفیت جب ایک انسان کی زبان سے بے تابانہ طورپر ظاہر ہوتی ہے تو اسی کا نام ذکر الہی ہے-
یہ کلمات دراصل اُس شعوری عمل (intellectual process) کو بتاتے ہیں جو ایک صاحب ِ ایمان کے اندر موجودہ دنیا میں جاری ہوتاہے- موجودہ دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے ایک صاحبِ ایمان پر مختلف احوال اور تجربات گزرتے ہیں- اگر اس کے اندر ایمانی شعور زندہ ہو تو یہ تمام احوال وتجربات اس کے لیے رزقِ رب کا ذریعہ بنتے رہیں گے- آخر کار وہ اُس مطلوب انسان کا درجہ حاصل کر لے گا جو آخرت کی جنت میں داخلے کے لیے ایک مستحق امیدوار (deserving candidate) کی حیثیت رکھتا ہے-
قرآن کا موضوع
قرآن خالقِ کائنات کی کتاب ہے- قرآن کا موضوع (subject) یہ ہے کہ انسان کے بارے میں اللہ کے تخلیقی منصوبہ سے اس کو آگاہ کیا جائے- قرآن کے تمام بیانات براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اِسی معاملے کی وضاحت ہیں- مثلاً قرآن کی سورہ ابراہیم میں بتایا گیاہے کہ انسان دو قسم کے ہوتے ہیں— ایک انسان وہ ہے جو اپنی زندگی کی تعمیر ’کلمۂ طیبہ‘ (14:24) کی بنیاد پر کرے اور دوسرا انسان وہ ہے جو ’کلمہ خبیثہ‘ (14:26) کی بنیاد پر اپنے آپ کو کھڑا کرے- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جو انسان اپنی زندگی کی تعمیر ’کلمۂ طیبہ‘ کی بنیاد پر کرے، وہ موجودہ دنیا میں بھی اپنا رزق پائے گا اور موت کے بعد کی زندگی میںاس کو اعلی مقامات حاصل ہوں گے- اِس کے برعکس، جو آدمی ’کلمۂ خبیثہ‘ کو اپنی زندگی کی بنیاد بنائے، اس کو استحکام حاصل نہیں ہوگا، اس کو غیر صحت مند پودے کی طرح اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا، وہ جنت میں داخلے کے لیے نا اہل قرار پائے گا-
تاریخ کا یہ عجیب المیہ ہے کہ انسانوں کی بڑی اکثریت نے اِس تخلیقی حکمت کو نظر انداز کیا ، انھوں نے اپنے آپ کو آخرت کے اعتبار سے نہیں بنایا، وہ موجودہ دنیا کی ظاہری چیزوں میں پھنس کر رہ گئے- اِسی حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إن ہؤلاء یحبون العاجلة ویذرون وراءہم یوما ثقیلا (76:27)-
تاریخ کا تجربہ
تاریخ کے ہر دور میں تمام سوچنے والے انسان ایک ہی آبسیشن (obsession) میں مبتلا رہے ہیں — موجودہ دنیا کو کس طرح بہتر دنیا بنایا جائے- ہر دور کے انسانوں کا یہ ایک مشترک خواب رہا ہے- مذہبی لوگ اپنے اِس خواب کے لیے صالح نظام کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور سیکولر لوگ اس کو آئڈیل سسٹم کا نام دیتے ہیں- تاریخ میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، خواہ وہ فکشن ہو یا نان فکشن ، تقریباً ان سب کا خلاصہ یہی ہے- کوئی کتاب براہِ راست طورپر اِس موضوع پر لکھی گئی ہے اور کوئی کتاب بالواسطہ طورپر اِس موضوع سے متعلق ہے-
یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ تاریخ کی تمام سرگرمیوں کا نشانہ (goal) عملاً یہی ایک تھا- مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِس سلسلے کی تمام انسانی سرگرمیاں نتیجے کے اعتبار سے، ناکام ہوکر رہ گئیں، کوئی بھی کوشش اپنے مطلوب نشانے تک نہیں پہنچی، نہ سیکولر لوگ اپنا مفروضہ آئڈیل سسٹم بنا سکے اور نہ مذہبی لوگ اپنا مذکورہ صالح نظام بنانے میں کامیاب ہوئے- یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سوا ل ہے- اِس سوال کا جواب معلوم کرنا خود انسان کے وجود کی معنویت کو معلوم کرنا ہے اور بلا شبہہ اِس سے بڑی کوئی دریافت (discovery) نہیں ہوسکتی کہ انسانی وجود کی معنویت کو حقیقی طورپر دریافت کیا جائے-سیکولر مفکرین اور مذہبی مصلحین کی اِس عمومی ناکامی کا سبب یہ ہے کہ ان کا منصوبہ خالق کے منصوبہ تخلیق سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، اور جو منصوبہ خالق کے تخلیقی نقشےکے مطابق نہ ہو، اس کے لیے اِس دنیا میں ناکامی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں-خالق کے منصوبے کے مطابق، یہ دنیا ایک جوڑا دنیا (pair world) کی صورت میں بنائی گئی ہے- ایک دنیا دوسری دنیا کا تکملہ (complement) ہے- اِس تخلیقی منصوبے کے مطابق، کرۂ ارض (planet earth) کی حیثیت ایک وقتی نرسری (nursery) کی ہے، اور دوسری دنیا کی حیثیت ایک ابدی باغ (eternal garden) کی ، جس کو معروف طورپر جنت (Paradise) کہاجاتا ہے-
خلاصۂ کلام
قرآن میں جنت کی تخلیق کے لیے ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے- مثلاً : أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْن (3:133) یعنی جنت اہلِ تقوی کے لیے تیار کی گئی ہے- اور فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ (32:17) یعنی کسی کو نہیں معلوم کہ اُن کے لیے اُن کے اعمال کے صلے میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے، وغیرہ-
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے اپنے منصوبے کے مطابق، پہلے جنت کی دنیا بنائی- اس کے بعد اہلِ جنت کا انتخاب کرنے کے لیے موجودہ سیارۂ ارض کو بنایا، جو کہ دراصل جنت کی ابدی دنیا کے لیے ایک عارضی نرسری کی حیثیت رکھتا تھا- اِس عارضی نرسری میں عورت اورمرد محدود مدت کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں- منصوبہ تخلیق کے مطابق، جب انسانوں کی تعداد پوری ہوجائے گی، اُس وقت سیارہ ارض پر قیامت کا زلزلہ آئے گا اور اس کی موجودہ حیثیت کا خاتمہ ہوجائے گا-
انسان کو موجودہ دنیا میں بسنے کے لیے صرف محدود قت ملتا ہے- موجودہ دنیا میں انسان کی عمر کا اوسط تقریباً 70 سال ہے- اِس مدت میں جو افراد اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں، اُن کو موت کے بعد لے جاکر جنت کی دنیا میں آباد کردیا جاتا ہے اور جو عورت یا مرد اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر میں ناکام رہتے ہیں، اُن کو ’’خبیث پودے‘‘ کی مانند اکھاڑ کر پھینک دیاجاتا ہے- زمین کی صورت میں جو نرسری بنائی گئی ہے، وہ صرف عارضی مدت کے لیے ہے، اور جنت کی صورت میں جو معیاری دنیا بنائی گئی ہے، وہ ابدی ہے، وہ کبھی ختم ہونے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں

احیاءِ امت

قرآن میں بتایا گیاہے کہ طولِ امد کے نتیجے میں امتوں کے اندر قساوت (57:16) پیدا ہوجاتی ہے، یعنی ہر امت کی بعد کی نسلوں میں زوال آتا ہے-امت میں زوال کے بعد احیا (57:17) کے لیے کیا کرنا چاہیے، قرآن میں اس کا ایک ماڈل حضرت موسی کی مثال کی صورت میں بتایا گیاہے- قرآن کے مطابق، جس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک مستند ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے، اِسی طرح حضرت موسی اور دوسرے پیغمبروں کی زندگی بھی اہلِ ایمان کے لیے ایک قابلِ تقلید ماڈل ہے (6:90)-
حضرت موسی ایک اسرائیلی پیغمبر تھے- وہ قدیم مصر میں پیدا ہوئے- اُن کا زمانہ تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے- ان کے حالات تفصیل کے ساتھ قرآن، اور بائبل میں موجود ہیں- اِس کے مطالعے سے جہاں دوسری باتیں معلوم ہوتی ہیں، وہیںیہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایک زوال یافتہ امت کو زوال کی حالت سے نکالنے کے لیے عملی طورپر کیا کرنا چاہئے-
اللہ کی طرف سے حضرت موسی کو دو کام سپرد ہوا تھا — ایک طرف، فرعون کے سامنے اللہ کا پیغام پہنچانا اور دوسری طرف، بنی اسرائیل کو زوال کی حالت سے نکالنے کی تدبیر کرنا- انھوں نے یہ دونوں کام پوری طرح انجام دیا- انھوں نے ایک طرف، فرعون اور اس کی قوم کے سامنے اللہ کی حجت تمام کی اور دوسری طرف، بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر صحرائے سینا میں لے گئے- اِس کا مقصد زوال یافتہ قوم کی اصلاح کرنا تھا-
فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسی کے پیغام کو ماننے سے انکار کردیا- اتمامِ حجت کے بعد اللہ نے اُن کے ساتھ اُسی انجام کا فیصلہ کیا جو اِس طرح کی دوسری قوموں کے ساتھ اللہ کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے، یعنی اُن کی کامل ہلاکت- چناں چہ فرعون، اس کی فوجی طاقت، اس کے درباری سب کے سب بیک وقت سمندر میں غرق کردئے گئے-
ایک تخمینے کے مطابق، اُس وقت مصر کی کُل آبادی تین ملین سے کچھ زیادہ تھی- اِس آبادی میں بنی اسرائیل کی تعداد تقریباً ایک چوتھائی حصے پر مشتمل تھی- اگر حضرت موسی کے نزدیک بنی اسرائیل کے احیاءِ نو کا طریقہ یہ ہوتا کہ اُن کو حکومت دلائی جائے یا ملک میں اُن کے سیاسی ادارے قائم کیے جائیں، تو فرعون کی غرقابی کے بعد اِس منصوبے کو عمل میں لانے کا وقت اس کے لیے بہترین وقت تھا-غرقابی کا واقعہ پیش آنے کے بعد فرعون کی سیاسی اور فوجی طاقت ختم ہوچکی تھی- جادوگروں کا طبقہ حضرت موسی کے دین کو اختیار کرچکا تھا-
اِس طرح کے واقعات کے نتیجے میں پورے مصر میں حضرت موسی اور ان کی قوم کا دبدبہ قائم ہوچکا تھا- اِس طرح حالات پوری طرح تیار ہوچکے تھے کہ حضرت موسی مصر کی حکومت پر قبضہ کرلیں اور سیاسی اقتدار کے ذریعے بنی اسرائیل کے احیاءِ نو کا کام کریں-
مگر حضرت موسی نے ایسا نہیں کیا- اِس کے برعکس، حضرت موسی نے جو کچھ کیا، وہ یہ تھاکہ انھوں نے مصر کو چھوڑ دیااور بنی اسرائیل کی پوری جمعیت کو لے کر صحرائے سینا میں چلے گئے، جہاں مشقت کی زندگی کے سوا بنی اسرائیل کے لیے کچھ اور نہ تھا- اِس واقعے کا حوالہ قرآن کی سورہ المائدہ کی آیت نمبر 26 میں دیاگیا ہے-اِس صحرائی ماحول میں بنی اسرائیل چالیس سال (1400-1440 قبل مسیح) تک سخت مشقت کی زندگی گزارتے رہے، یہاں تک کہ ایسا ہوا کہ اُن میں جو زیادہ عمر کے لوگ تھے، وہ سب مر گئے اور جو نوجوان تھے، وہ صحرا کے پُرمشقت ماحول میں تربیت پاکر ایک نئی زندہ قوم کی صورت میں ابھرے- بنی اسرائیل کی یہی تربیت یافتہ نسل تھی جس نے بعد کے دور میں تاریخی کارنامے انجام دئے-
بنی اسرائیل کے ساتھ جو طریقہ اختیار کیا گیا، اُس کو صحرائی طریقِ علاج (desert therapy) کہا جاسکتا ہے- صحرائی علاج کا یہ طریقہ اِس سے پہلے بنو اسماعیل کے ساتھ اختیار کیا گیا تھا- وہ عرب کے صحرا میں تربیت پاکر تیار ہوئے اور پھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر ایک طاقت ور ٹیم کی صورت میں انھوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دئے-
امت مسلمہ کا کیس
قانونِ فطرت کے مطابق، امت مسلمہ کی بعد کی نسلوں میں وہی زوال آنا مقدر تھا جو اِس سے پہلے بنی اسرائیل پر آیا- زوال کی یہ حالت اپنی آخری صورت میں انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں کھل کر سامنے آگئی-
اب امت کے رہنماؤں کو وہی کرنا تھا جو اِس سے پہلے حضرت موسی نے اپنی قوم کے ساتھ کیا تھا، یعنی زمانے کے اعتبار سے امت کو ایک تربیتی کورس سے گزارنا ، تاکہ اُن پر قرآن کی یہ آیت صادق آجائے: لِیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَنْ بَیِّنَةٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ(8:42)- اِس کا مطلب یہ ہےکہ امت کے جو ناقابلِ اصلاح افراد ہیں، وہ ختم ہوجائیں اور جو قابلِ اصلاح افراد ہیں، وہ بیدار ہو کر مطلوب رول ادا کرنے کے قابل ہوسکیں-
غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ موجودہ زمانے میں اِس طریقِ علاج کا بہترین میدان وہ تھا جس کو سیکولر تعلیم کا نظام کہاجاتا ہے- یہی تعلیمی نظام مکمل طورپر مسابقت (competition)کے اصول پر قائم تھا- یہاں دوسری قوموں کی طرف سے چیلنج کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا تھا- یہاں کا فارمولا یہ تھا کہ — مقابلہ کرکے زندہ رہو یا مرجاؤ:
Compete or perish
اِس اعتبار سے، موجودہ زمانے کا سیکولر تعلیمی نظام گویا تعلیمی طریقِ علاج (educational therapy)کا میدان بن گیا تھا- ضرورت تھی کہ قوم کے تمام نوجوانوں کو اِس طریقِ علاج کے پراسس سے گزارا جائے- لیکن مسلمانوں کے علما اور رہنماؤں نے اِس حکمت کو نہیں سمجھا- انھوں نے اِس معاملے کی حکمت سے بے خبر رہتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ یہ تعلیمی نظام تمام تر اینٹی مسلم نظام ہے- چناں چہ کسی نے اِس نظام کو ’قتل گاہ‘ قرار دیا- اور کسی نے اس کو ’ذہنی ارتداد‘ کا کارخانہ قرار دیا، وغیرہ-
موجودہ سیکولر تعلیمی نظام میں چیلنج اور مسابقت کا مطلوب ماحول پوری طرح موجود تھا- لیکن اس میں ایک چیز مفقود تھی، وہ تھی مسلم نوجوانوں کی دینی تعلیم وتربیت- اِس مسئلے کا حل قرآن میں، بنی اسرائیل کے حوالے سے اِن الفاظ میں موجود تھا: وَاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَةً (10:86) یعنی اپنے گھروں کو مذہبی تعلیم وتربیت کا مرکز بنا دو-
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو یہی کرنا تھا- وہ یہ کہ مدرسے کی تعلیم کے علاوہ، مسلم نوجوانوں کی باقاعدہ تعلیم (formal education)وہ سیکولر تعلیم گاہوں میں دلوائیں اور اِسی کے ساتھ وہ اپنے گھروں کو انفارمل ایجوکیشن (informal education) کا مرکز بنادیں- تاکہ دونوں تقاضے بحسن وخوبی پورے ہوسکیں-
مگر مسلم رہنماؤں نے اِس کے برعکس، یہ کیا کہ انھوں نے قومی بنیاد پر مسلمانوں کے الگ تعلیمی ادارے قائم کیے- یہ تعلیمی ادارے، جہاں صرف مسلمانوں کے لیے تعلیم کا انتظام تھا، وہ فطری طور پر مسابقت اور چیلنج سے خالی تھے- نتیجہ یہ ہوا کہ بہت جلد یہ ادارے مسلم گھیٹو (Muslim ghetto) بن کر رہ گئے-
موجودہ زمانے کے مسلمان اپنے زوال کی بنا پر اِس قابل نہیں رہے تھے کہ وہ خود اپنے الگ قومی ادارے چلائیں- اِس طرح کے ادارے قائم کرنے کا مطلب یہ تھاکہ زوال یافتہ افراد کو حقیقی لیاقت کے بغیر، بڑی بڑی پوزیشن دے دی جائے- چناں چہ اِن اداروں میں اسلام تو نہیں آیا، البتہ ایک زوال یافتہ قوم کا قومی کلچر فروغ پانے لگا- یہی حال اُن ملکوں کا ہوا جو اسلام کے نام پر بنائے گئے تھے- اِن ملکوں میں زوال یافتہ افراد کو اچانک بڑے بڑے عہدے مل گئے اور انھوں نے پورے ملک کو زوال یافتہ کلچر کا جنگل بنادیا-
زوال کی آخری مثال
دورِ زوال کے بارے میں حدیث میں بہت سے انتباہات آئے ہیں- اُن میں سے ایک انتباہ وہ ہے جو اِس حدیثِ رسول میں ملتاہے: لا ترجعوا بعدی کفاراً، یضرب بعضکم رقاب بعض (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1739) یعنی میرے بعد تم کافر نہ ہوجانا کہ ایک شخص دوسرے شخص کی گردنیں مارنے لگے- اِس حدیث میں ’’کفار‘‘ کا لفظ فقہی معنی میں نہیں ہے، یہ دراصل تہدیدی زبان (language of hammering) ہے- یہاں شدت کے انداز میں بتایا گیاہےکہ زوال جب اپنی آخری حد تک پہنچتا ہے تو امت کا حال کیا ہوتا ہے- اُس وقت لوگوں کے اندر خوفِ خدا کا خاتمہ ہوجاتا ہے- اِسی بے خوف نفسیات کی بنا پر وہ ایسا فعل کرنے کے لیے جری ہوجاتے ہیں جو قرآن کی صراحت کے مطابق، مبینہ طور پر ایک جہنمی فعل (4:93) ہے، یعنی ایک مومن کا دوسرے مومن کو ناحق قتل کرنا-
جدید تعلیم کی اہمیت
جدید تعلیمی نظام کو سیکولر نظامِ تعلیم کہاجاتا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ جدید تعلیم نئے دور کا نظامِ تعلیم تھا- وہ نئے دور کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وجود میں آیا تھا- اس کا سیکولر پہلو اس کا اضافی (relative) پہلو ہے، نہ کہ حقیقی (real) پہلو-اصل یہ ہےکہ موجودہ زمانے میں جو نئی دریافتیں ہوئیں، اُس نے زندگی کے ہر شعبے میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کردیں- اِن تبدیلیوں کا تعلق براہِ راست طورپر انسان کی عملی زندگی سے تھا- دورِ جدید میں زندگی کے تمام شعبے مکمل طورپر بدل گئے- اِن شعبوں کو چلانے کے لیے نئے ماہرین اور نئے تربیت یافتہ افراد درکار تھے- جدید تعلیمی نظام گویا اِنھیں جدید قسم کے افراد کو تیار کرنے کا کارخانہ تھا- کسی قوم کے لیے اِس تعلیمی نظام سے علاحدگی کا مطلب یہ تھاکہ اُس قوم کے پاس موجودہ دور کے اِس جدید نقشۂ حیات کو چلانے کے لیے افرادِ کار موجود نہ ہوں-
موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کا کیس یہی ہے- اپنے قائدین کی رہنمائی میں امت نے یہ غلطی کی کہ وہ جدید تعلیمی اداروں کی عصری اہمیت کو سمجھ نہ سکے- انھوں نے اپنے نوجوانوں کو اِس تعلیمی نظام سے دور رکھا- نتیجہ یہ ہوا کہ پوری امت دورِ جدید میں بے جگہ (displaced) ہو کر رہ گئی— موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی مبینہ پس ماندگی کا اصل سبب یہی ہے-
افراد، نہ کہ مجموعہ
موجودہ زمانے میں مسلم علما اور رہنماؤں نے بہت سی تحریکیں چلائیں، لیکن ہر تحریک اپنے مطلوب نشانے کو حاصل کرنے میں ناکام رہی- اِس ناکامی کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ہر ایک نے غلط مفروضے سے اپنے کام کا آغاز کیا- انھوںنے موجودہ مسلمانوں کو ’’خیر ِ امت‘‘ فرض کرلیا اور اِسی مفروضے پر وہ اپنی منصوبہ بندی کرنے لگے، حالاں کہ موجودہ مسلمان صرف ایک زوال یافتہ گروہ بن چکے تھے-
یہ ایک مشترک غلطی تھی جس میں یہ تمام حضرات مبتلا رہے- اِس بنا پر اُن کا حال اُس معمار جیسا ہوگیا جو کچی اینٹوں کو پختہ اینٹ سمجھ کر قلعے کی تعمیر شروع کردے- ایسے معمار کا یقینی انجام صرف یہ ہے کہ اس کا قلعہ کبھی تعمیر نہ ہوسکے-
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے- وہ یہ کہ کوئی زوال یافتہ قوم دوبارہ اس طرح اصلاح قبول نہیں کرتی کہ پوری قوم بطور مجموعہ اصلاح یافتہ ہوجائے(21:95)- ایسا نہ ماضی میں کبھی ہوا اور آئندہ کبھی ہوسکتا ہے- اِس بنا پر اصلاح کے کام میں خواہ پورے مجموعے کو خطاب کیا گیا ہو، لیکن ہمیشہ کچھ افراد ہی اُس سے اصلاح قبول کرتے ہیں- اِس لیے تحریک کی کامیابی کا معیار ہمیشہ افرادِ قوم ہوتے ہیں، نہ کہ مجموعۂ قوم-
انگریزی تعلیم
ٹی بی میکالے (Thomas Babington Macaulay)ایک انگریز مورخ اور سیاست داں تھا- وہ 1800 میں پیدا ہوا، اور 1859 میں اس کا انتقال ہوا- وہ 1835 میں انڈیا آیا- اُس وقت کی برٹش حکومت میں اس کو ایک بڑا عہدے دار بنایا گیا- اس نے ایک تعلیمی نظریہ وضع کیا جس کو میکال ازم (Macaulayism) کہاجاتا ہے- اس کا مقصد تھا ملک میں اینگلی سائزڈ انڈین (anglicised Indians) کا ایک نیا طبقہ پیدا کرنا-
لارڈ میکالے سے پہلے انڈیا کی آفیشیل زبان فارسی تھی- لارڈمیکالے کی کوششوں سے ایسا ہوا کہ 1938 میں انگریزی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیاگیا- اِس کے بعد ملک کے اسکولوں میں انگریزی زبان ذریعہ تعلیم قرار پائی-
لارڈ میکالے کا کہنا تھاکہ — اس سے ایک نئی نسل پیدا ہوگی جو کہ پیدائش کے اعتبار سے ہندستانی اور اپنے ذہن کے اعتبار سے انگریز ہوگی:
So that a generation may arise which is Indian in birth and English in thought.
لارڈ میکالے نے جب یہ کہا تو اس کے خلاف سخت ہنگامہ کیاگیا، خاص طور پر مسلم رہنما انگریزی تعلیم کے شدید مخالف ہوگئے، حتی کہ انھوںنے کہا کہ انگریزی تعلیم گاہیں مسلمانوں کے لیے قتل گاہ کی حیثیت رکھتی ہیں-مگر یہ سب غیر ضروری اندیشے تھے- عملاً جو کچھ ہونے والا تھا، وہ صرف یہ کہ اِن درس گاہوں میں تعلیم پانے کی وجہ سے کٹر پن ختم ہوجائے اور لوگوں کے اندرکھلا پن آجائے- اپنے نتیجے کے اعتبار سے دیکھئے تو لارڈ میکالے کا قول ایک لفظی تبدیلی کے ساتھ دراصل یہ تھا:
So that a generation may arise which is Indian in birth and liberal in thought.
چناںچہ تجربہ بتاتا ہے کہ اِن انگریزی اداروں میں تعلیم پائے ہوئے مسلم نوجوانوں میں سے بہت سے ایسے تھے جو بعد کو بہترین مسلمان بنے- مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو انھیں انگریزی اداروں سے بہترین افراد حاصل ہوئے، وغیرہ-اِس معاملے میں اصل قابلِ لحاظ بات یہ نہیں ہے کہ لارڈ میکالے یا برٹش حکمرانوں نے بطور خود کس نظریے کے تحت انگریزی تعلیم گاہیں بنائیں، بلکہ اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ باعتبار نتیجہ ان کا انجام کیا ہوا، اوریہ کہ یہاں سے کس قسم کے لوگ تعلیم پاکر نکلے-
انگریزی تعلیم حقیقتاً برٹش تعلیم نہ تھی، بلکہ وہ جدید علم (modern learning) کے حصول کا ذریعہ تھی- ماڈرن ایجوکیشن اپنی حیثیت کے اعتبار سے نہ پروبرٹش (pro-British)تھی اور نہ اینٹی مسلم، وہ صرف جدید علوم تک پہنچنے کا ایک ذریعہ تھی- ’’انگریزی تعلیم‘‘ کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اندر ذہنی جمود ٹوٹا، ان کے اندر کھلا پن آیا، ان کے اندر متعصبانہ طرز فکر (biased thinking) کا خاتمہ ہوا، وہ چیزوں کو موضوعی انداز (objective way) میں دیکھنے لگے، ان کے اندر کٹر پن ختم ہوگیا، ان کے اندر چیزوں کو عقل (reason)کے معیار پر جانچنے کا مزاج پیداہوگیا، وغیرہ-
یہ تمام چیزیں عین دینِ حق کے موافق تھیں، کیوں کہ دین حق انسانی فطرت کےعین مطابق ہے، وہ عقل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے- دین حق کے راستے میں اگر کوئی چیز ر کاوٹ ہے تو وہ صرف متعصبانہ طرز فکر ہے- کسی بھی طریقے سے اگر متعصبانہ طرز فکر کو ختم کردیا جائے تو دینِ حق اور انسان کے درمیان حائل فکر ی دیوار اپنے آپ منہدم ہوجائے گی- اس کے بعد انسان اِس قابل ہوجائے گا کہ وہ حقیقت کو اس کی بے آمیز صورت میں دیکھ سکے-
انگریزی تعلیم یا سیکولر تعلیم کے ذریعے یہی واقعہ پیش آیا- اِس تعلیم کے ذریعے بہت سے نوجوان اِس قابل ہوگئے کہ وہ حقیقت کو دریافت کرکے اس کو قبول کرلیں- موجودہ زمانے میں اِس طرح کی مثالیں ہر مقام پر دیکھی جاسکتی ہیں— قدیم زمانہ قیاسی استدلال کا زمانہ تھا- موجودہ زمانہ سائنسی استدلال کا زمانہ ہے- آج کے انسان کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے کے لیے سائنسی استدلال کی ضرورت ہے- انگریزی تعلیم نے اِسی دروازے کو کھولا تھا-
صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی نئی صورتِ حال پیش آئے تو اگر چہ وہ بظاہر عُسر دکھائی دیتی ہو تب بھی آپ اس کے اندر یُسر تلاش کریں- ہر نئی صورتِ حال ہمیشہ نئے مواقع کو لاتی ہے- ایسی حالت میں اصل کام صرف یہ ہے کہ مواقع کو دریافت کرکےان کو اپنے حق میں استعمال کیا جائے-
واپس اوپر جائیں

اسلام اور دورِ جدید

تاریخ کے بارے میں اللہ کا ایک منصوبہ قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (8:39) -
اِس معاملے کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ نے موجودہ کرۂ ارض کو بنایا اور یہ مقدر کردیا کہ اس کی نعمتیں (blessings) یکساں طور پر تمام انسانوں کو حاصل ہوں (55:10)- تاریخ انسانی کی ابتدا میں ایک عرصے تک یہ صورتِ حال قائم رہی- اس کے بعد دھیرے دھیرے دنیا میں شخصی حکمرانی کا نظام آگیا- یہ سیاسی کلچر طاقت کے زور پر قائم ہوا اور پھر پوری انسانی تاریخ میں پھیل گیا-
یہ سیاسی اجارہ داری (political monopoly) اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے خلاف تھی- اِس نظام نے انسانی آزادی کو بہت زیادہ محدود کردیا، جب کہ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ انسان پوری طرح آزاد رہے- اِس نظام کے تحت یہ ہوا کہ ایک طبقے کو ہر اعتبار سے مراعاتی طبقہ (privileged class) کا درجہ مل گیا، جب کہ بیش تر لوگ اُس سے محروم رہے- اِس نظام نے اپنے تحفظ کے لیے مختلف قسم کی پابندیاں لوگوں پر عائد کردیں- انھیں میں سے ایک چیز وہ بھی تھی جس کو مذہبی جبر (religious persecution) کہا جاتا ہے-
اِس سیاسی نظام کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کے پیدا کردہ تمام مواقع پر ایک محدود طبقے کی اجارہ داری قائم ہو اور بیش تر لوگ اِس سے محروم ہوجائیں کہ وہ آزادانہ طور پر وہ کام کرسکیں جو نظامِ تخلیق کے مطابق، اُن سے مطلوب ہے-ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا- اُس وقت تک سیاسی اجارہ داری کا یہ نظام لوگوں کے اوپر اپنی گرفت(grip) پوری طرح مضبوط کرچکا تھا- یہ صورتِ حال اللہ کے تخلیقی منصوبہ کے سراسر خلاف تھی- اِس نظام کے تحت یہ ممکن نہیں رہا تھا کہ انسانی شخصیت کے فطری امکانات (potentials)انفولڈ (unfold) ہوں، زمین کے فطری امکانات دریافت ہوں اور وہ چیز وجود میں آئے جس کو تہذیب (civilization) کہاجاتا ہے-
اُس وقت رسول اور اصحابِ رسول کو یہ حکم دیاگیا کہ وہ اِس غیر فطری نظام کا خاتمہ کردیں، تاکہ انسان کے اوپر اللہ کی تمام امکانی سعادتوں کے دروازے کھل سکیں- اُس وقت عرب کے پڑوس میں دوبڑی سلطنتیں قائم تھیں — ایک، ساسانی ایمپائر (Sassanid Empire)اور دوسری، بازنتینی ایمپائر (Byzantine Empire)- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اِن سلطنتوں کے سربراہوں کے نام خطوط روانہ کیے- اس کا مطلب یہ تھا کہ پہلے مرحلے میں یہ کوشش کی گئی کہ یہ حکمراں پُرامن فہمائش کے ذریعے اپنی اصلاح کرلیں- جب اِن حکمرانوں کے اوپرپُر امن فہمائش کارگر نہیں ہوئی تو اس کے بعد یہ حکم دیاگیا کہ اِن حکمرانوں کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے- یہ فوجی کارروائی گویا انسانوں کے ذریعے ایک خدائی آپریشن (divine operation) تھا جو اللہ کی خصوصی مدد کے ذریعے کامل طور پر انجام پایا-یہ خدائی آپریشن کسی وقتی مقصد کے لیے نہ تھا- اُس کانشانہ یہ تھا کہ ایک تاریخی نظام کاخاتمہ کرکے دنیا میں دوسرے تاریخی نظام کو وجود میں لایا جائے- اِس قسم کا منصوبہ صرف ایک لمبے عمل (long-term process) کے ذریعے بروئے کار لایا جاسکتا تھا، چناں چہ ایسا ہی ہوا-
سب سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ ہوا کہ ملکِ عرب میں قبائلی حکمرانی کو ختم کیا گیا- اِس کے بعد خلافتِ راشدہ کے زمانے میں ایشیاا فریقہ کے درمیان قائم شدہ دو بڑی سلطنتوں — ساسانی ایمپائر اور بازنتینی ایمپائر — کا خاتمہ کیا گیا- یہ دونوں واقعات غیر معمولی قربانیوں کے ذریعے پیش آئے-یہ تاریخ بشری کا ایک عظیم سیاسی انقلاب تھا جس کا ذکر بائبل میں اِن الفاظ میں آیا ہے — اُس نے نگاہ کی اور قومیں پراگندہ ہوگئیں- ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے- قدیم ٹیلے جھک گئے:
He looked and startled the nations. And the everlasting mountains were scattered. (Habakkuk 3:6)
تاہم اللہ تعالی کو تاریخ میں جو نیا دور لانا تھا، اس کے لیے اتنا ہی کافی نہ تھا- اِس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ سیاسی اجارہ داری کے نظام کو عالمی سطح پر ختم کردیا جائے- منصوبۂ الہی کا یہ دوسرا مرحلہ مسلم مجاہدین کے ذریعے انجام پایا- جیساکہ معلوم ہے، اس کے بعد بنو امیہ کے دور اور بنو عباس کے دور اور دوسری مسلم سلطنتوں کے دور میں یہ ہوا کہ دنیا کے تقریباً پورے آباد حصے میں مسلم مجاہدین نے قدیم طرز کے سیاسی نظام کو توڑ ڈالا-اِس عمل کی تکمیل انیسویں صدی عیسوی میں یورپ میں ہوئی- اِس زمانے میں بڑے بڑے سیاسی مفکرین (political thinkers) پیدا ہوئے- مثلاً روسو، وغیرہ- اِن لوگوں نے قدیم زمانے کے جابر حکمرانوں (despotic kings)کے خلاف طاقت ور کتابیں لکھیں- یہ کتابیں چھپ کر پورے یورپ میں پھیل گئیں- اِس کے بعد عملی انقلاب کے لیے بڑی بڑی سیاسی تحریکیں اٹھیں- اِس کی تکمیل 1879 میں ہوئی، جب کہ وہ تاریخی واقعہ پیش آیا جس کو فر نچ انقلاب (French Revolution)کہاجاتا ہے- اِس کے بعد قدیم طرز کا بادشاہی نظام عملاً ختم ہوگیا اور دنیا میں بڑے پیمانے پر جمہوری نظام قائم ہوگیا-
سائنس کا دور
قدیم بادشاہی نظام میں آزادانہ سوچ کا ماحول موجود نہ تھا- بادشاہ ہر نئی فکر کو کچل دیتے تھے- مثال کے طورپر رومن ایمپائر تقریباً دو ہزار سال تک قائم رہا- مگر اِس طویل مدت میں کوئی سائنسی دریافت نہ ہوسکی- موجودہ زمانے میں جمہوریت کا دور آیا تو انسان کو مکمل معنوں میں فکری آزادی حاصل ہوگئی- اب فطرت (nature) میں آزادانہ تحقیق کا عمل شروع ہوگیا- اِس کے نتیجے میں فطرت میں چھپے ہوئے قوانین دریافت ہونے لگے، یہاں تک کہ وہ دور پیدا ہوگیا جس کو جدید سائنسی دور کہا جاتا ہے-
جدید سائنس کے دو پہلو ہیں — نظری سائنس (theoretical science)اور انطباقی سائنس (applied science)- نظری سائنس میں تحقیقات کے ذریعے عالم فطرت کے اُن مخفی قوانین کا ایک حصہ دریافت ہوا جس کو قرآن میں آیات اللہ (signs of God) کہا گیا ہے- اِن قوانین کی دریافت کا یہ عظیم فائدہ ہوا کہ دینِ خداوندی کے معتقدات مسلّمہ انسانی علم کی بنیاد پر ثابت شدہ بن گئے- (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مذہب اور جدید چیلنج)
سیکولر زم کا نظریہ
قدیم سیاسی نظام میں بادشاہ کو مطلق اختیار حاصل ہوتا تھا- جدید جمہوریت میں اِس کی گنجائش باقی نہ رہی- اس کے بعد حالات کے تحت ایک نیا نظریہ پیدا ہوا جس کو سیکولرزم کہاجاتا ہے- سیکولرازم کا مطلب لادینیت نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ملکی انتظام کے سوا دوسرے امور میں اسٹیٹ کا رویہ عدم مداخلت (non-interference)کا ہوگا-
یہ ایک دوررس انقلابی واقعہ تھا جو تاریخ میں پہلی بار پیش آیا- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زندگی کے تمام غیر سیاسی شعبے مثلاً مذہب، تعلیم، اقتصادیات، وغیرہ حکومت کی گرفت سے آزاد ہوگئے- اب لوگوں کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اِن غیر سیاسی شعبوں میں آزادانہ طورپر اپنے منصوبے کی تکمیل کرسکیں-اسلام کے نقطۂ نظر سے بلاشبہہ یہ ایک عظیم واقعہ تھا- یہ گویا سنتِ حدیبیہ کا عالمی احیا تھا-
ساتویں صدی عیسوی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فائدہ اِس طرح حاصل ہوا تھا کہ آپ کو فریقِ ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طورپر ماننا پڑا تھا- موجودہ زمانے میں حدیبیہ جیسے فائدے مزید اضافے کے ساتھ غیر مشروط طورپر حاصل ہوگئےہیں- اب اگر کوئی شرط ہے تو وہ صرف یہ کہ اہلِ ایمان کسی کے خلاف تشدد (violence)نہ کریں- مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ کوئی شرط نہیں، کیوں کہ اہلِ ایمان اپنے عقیدے کے تحت پہلے ہی سے تشدد کو قابلِ ترک قرار دئے ہوئے ہیں-
جدید ٹکنالوجی
انطباقی سائنس کے ذریعے موجودہ زمانے میں انسان کو ایک عظیم نعمت حاصل ہوئی ہے، یعنی جدید ٹکنالوجی - جدید ٹکنالوجی کے بے شمار فائدے ہیں- یہ فائدے عملاً تمام انسانوں کے لیے عام ہیں، لیکن اہلِ ایمان کے لیے وہ ہزاروں گنا زیادہ بڑے فائدے کی حیثیت رکھتے ہیں- کیوں کہ اہلِ ایمان اِس ٹکنالوجی کی مدد سے اپنی دنیا کی بھی پر امن تعمیر کرسکتے ہیں، اسی کے ساتھ وہ تعلیم دین اور دعوت الی اللہ کے کام میں اِس ٹکنالوجی کو استعمال کرسکتے ہیں اور اِس طرح وہ اُس ربانی کام کو انجام دے سکتے ہیں جو اُن کے لیے آخرت کی ابدی سعادتوں کا دروازہ کھولنے والا ہے-
اقوامِ متحدہ
قدیم زمانے میں انسانی آبادی مختلف الگ الگ حصوں میں بٹی ہوئی تھی- اُس وقت وہ وسائل موجود نہ تھے جس کے ذریعے یہ ممکن ہو کہ دنیا کے تمام انسانوں کی عالمی تنظیم قائم کی جاسکے- موجودہ زمانے میں نئے حالات نے ساری دنیا کو ایک گلوبل ولیج (global village) کی حیثیت دے دی ہے- اب زمین کے ایک کونے میں بسنے والا انسان زمین کے دوسرے کونے میں بسنے والے انسان سے کامل طور پر مربوط ہے- حالات کے اِس نئے تقاضے کے تحت 1920 میں ایک عالمی تنظیم قائم ہوئی جس کا نام لیگ آف نیشنس(League of Nations)تھا- اِس کے بعد 1945 میں زیادہ بڑے پیمانے پر ایک اور عالمی تنظیم قائم ہوئی جس کا نام اقوامِ متحدہ ہے- اقوامِ متحدہ اپنے مختلف اداروں کے ساتھ اب ایک مستحکم عالمی تنظیم بن چکی ہے اور اس میں دنیا کے تمام ممالک شامل ہیں جن کی تعداد تقریباً دوسو ہے-
اقوامِ متحدہ موجودہ زمانے میں ایک بین اقوامی نعمت (international blessing) کی حیثیت رکھتی ہیں- اس کے بہت سے اجتماعی فائدے ہیں- مثلاً موجودہ زمانے میں اقوامِ متحدہ کے عالمی پلیٹ فارم کی بنا پر تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ دنیا کے تمام ملکوں نے باقاعدہ طورپر اور سرکاری طور پر یہ تسلیم کرلیا کہ ان کے شہریوں کو مکمل معنوں میں مذہبی آزادی حاصل ہوگی- آزادی کے اِس حق کے ذریعے موجودہ زمانے میں کام کے ایسے مواقع (opportunities)کے دروازے کھل گئے ہیں جو اِس سے پہلے پوری تاریخ میں انسان کے اوپر یکسر بند پڑے ہوئے تھے-اقوامِ متحدہ کے ذریعے حاصل ہونے والے انسانی حقوق بلاشبہہ ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتے ہیں- اِس نعمت سے بے خبر صرف وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اپنی قومی خواہشوں میں جیتے ہوں اور اُس کو خود ساختہ طور پر معیار کا درجہ دئے ہوئے ہوں-
خلاصہ کلام
موجودہ زمانے میں دنیا کے نظام میں جو دور رس تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، وہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے لائے جانے والے انقلاب کا منتہا (culmination) ہیں- ساتویں صدی عیسوی میں رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے عرب اور اطراف عرب میں جو انقلاب آیا، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک تاریخی انفجار (historical explosion) کے ہم معنی تھا-
یہ اللہ کا ایک منصوبہ تھا جس کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا عمل (process) شروع ہوا- یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بیسویں صدی عیسوی میں اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا- اِس انقلاب کا مقصد دنیا میں کوئی معیاری نظام (ideal system) قائم کرنا نہ تھا، بلکہ یہ تھا کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، انسان کی آزادی کو پوری طرح برقرار رکھتے ہوئے دنیا میں ایسا ماحول قائم کیا جائے جس میں اللہ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز ہر انسان کے لیے ہوجائے-
اِسی کے ساتھ دینی نقطۂ نظر سے یہ مطلوب تھا کہ اہلِ ایمان کے لیے ایک طرف یہ ممکن ہوجائے کہ وہ کھلے طورپر اعلی معرفت کے درجات طے کرسکیں اور اِسی کے ساتھ اُن کو اِس بات کی کامل آزادی حاصل ہو کہ وہ دعوت الی اللہ کے پر امن کام کو آخری حد تک انجام دے سکیں-
یہ تمام مطلوب فائدے موجودہ زمانے میں کامل طورپر حاصل ہوگئے ہیں- اب انسان کے اوپر حصولِ معرفت کے بھی تمام دروازے کھل چکےہیں اوردعوتی عمل کے تمام مواقع بھی- یہ کام اتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہے کہ یہ کہنا کسی مبالغے کے بغیر درست ہے کہ — دورِ جدید اسلام کا دور ہے- اکیسویں صدی میں قرآن کی وہ پیشین گوئی آخری حد تک پوری ہو چکی ہے جو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کی گئی تھی: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (48:28) یعنی اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ اُس کو تمام دینوں پر غالب کردے، اور اللہ کافی گواہ ہے-
قرآن کی اِس آیت میں وقتی اعتبار سے کسی سیاسی واقعے کا ذکر نہیں ہے، اِس میں اللہ کے ایک تاریخی منصوبے کا ذکر ہے جس کو ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہونا تھا اور پھر لمبے عمل کے بعد اپنی تکمیل تک پہنچنا تھا- بیسویں صدی عیسوی میں یہ خدائی منصوبہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا- اب اہلِ ایمان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اِن عالمی مواقع کو جانیں اور ان کو بھر پور طورپر استعمال کریں-
واپس اوپر جائیں

شتمِ رسول کا مسئلہ

قرآن، اسلام کی سب سے زیادہ مستند کتاب (source book) ہے- قرآن میں کچھ ایسے جرائم کا ذکر ہے جو قرآن کے نزدیک، قابلِ سزا جرم (punishable crime) کی حیثیت رکھتے ہیں- قرآن میں جہاں اِس قسم کے جرائم کا ذکر ہے، وہیں واضح الفاظ میں ان کی سزا کا بھی ذکر ہے-
اِس کی ایک مثال وہ جرم ہے جس کو اسلام میں ’قذَف‘ کہاجاتاہے- اِس سلسلے میں قرآن کی متعلق آیت یہ ہے: والذین یرمون المحصنات ثم لم یأتوا بأربعة شہداء فاجلدواہم ثمانین جلدة (24:4) یعنی جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر وہ چار گواہ نہ لائیں، تو اُن کو اسّی کوڑے مارو-
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک پاک دامن عورت کی عصمت پر کوئی شخص بے ثبوت الزام لگائے تو وہ قرآن کی نظر میں ایک ایسا مجرم بن جاتا ہے جس کو عدالتی کارروائی کے بعد جسمانی سزا (physical punishment)دی جائے- اِس معاملے میں قرآن نے جب جرم کا ذکر کیا تو اُسی وقت اس کی متعین سزا کا بھی ذکر کردیا-
اب دوسرے پہلو سے غور کیجئے- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے زمانوں میں اللہ تعالی نے ہر قوم اور ہر بستی میں لگاتار پیغمبر بھیجے(23:44)- قرآن مزید یہ بتاتا ہے کہ اِن تمام پیغمبروں کے ساتھ اُن کے معاصرین نے وہی منفی روش شدیدتر انداز میں اختیار کی جس کا ذکر قرآن کی مذکورہ آیت میں پاک دامن خواتین کی نسبت سے کیاگیا ہے- مثلاً قرآن میں فرمایا کہ: یا حسرةً على العباد، ما یأتیہم من رسول إلا کانوا بہ یستہزؤن (36:30) یعنی بندوں پر افسوس ہے، جو رسول بھی ان کے پاس آیا، وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے-
قرآن میں دوسو سے زیادہ ایسی آیتیں ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبروں کے معاصرین نے مسلسل طورپر وہی فعل کیا جس کو آج کل ’’اہانتِ رسول‘‘ کہاجاتا ہے- کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کو کذاب (40: 24) کہا، کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کو مجنون (15:6) کہا، کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کو مفتری (16:101) کہا، کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کو سفیہ (7:66) کہا، کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کا استہزا کیا(36:30)، وغیرہ- قرآن میں کثرت سے اِس قسم کے توہین آمیز کلمات کا ذکر ہے، لیکن قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ ایسے لوگوں کو کوڑے مارو یا ان کو قتل کردو، قرآن میں ایسی کسی سزا کا مطلق ذکر موجود نہیں-
اِس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کی توہین سزا کا موضوع نہیں ہے، بلکہ وہ دعوت کا موضوع ہے، یعنی جو شخص ’’توہینِ رسالت‘‘ کا ارتکاب کرے، اس کو جسمانی سزا نہیں دی جائے گی، بلکہ دلیل کی زبان میں اس سے ایسی بات کہی جائے گی جس سے اس کا ذہن ایڈریس ہو- دوسرے لفظوں میں یہ کہ ’’توہینِ رسالت‘‘ کا ارتکاب کرنے والوں کو دلیل کی زبان میں خطاب کرکے ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی، نہ کہ اُن کو قتل کرنا یاکوڑے مارنا-
اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: أولئک الذین یعلم اللہ ما فی قلوبہم، فأعرض عنہم، وعظہم، وقل لہم فی أنفسہم قولاً بلیغاً (4:63) یعنی اُن کے دلوں میں جوکچھ ہے، اللہ اُس سے خوب واقف ہے-پس تم ان سے اعراض کرو اور ان کو نصیحت کرواور ان سے ایسی بات کہو جو اُن کے دلوں میں اتر جائے-
اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے خلاف جو لوگ منفی روش اختیار کرتے ہیں، اُن کو سزا دینا اللہ کا کام ہے، جو اُن کے دلوں کے حال کو جانتا ہے- تمھاری ذمے داری یہ ہے کہ تم اُن کی ایذا رسانی کو نظر انداز کرتےہوئے ان سے دردمندانہ نصیحت کا معاملہ کرو، تم ان کو ایسے موثر انداز میں نصیحت کرو جو اُن کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی ہو-
اِس معاملے کی ایک مثال قرآن کی سورہ الغاشیہ ہے- اس کی متعلق آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’کیا وہ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیا گیا، اور زمین کو کہ وہ کس طرح بچھائی گئی- پس تم یاددہانی کرو، تم صرف یاد دہانی کرنے والے ہو، تم اُن پر داروغہ نہیں- مگر جس نے روگردانی کی اور انکار کیا، تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا- ہماری ہی طرف ان کی واپسی ہے، پھر ہمارے ذمے ہے ان کا حساب لینا‘‘- (88: 17-26)-
قرآن کی اِن آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا وہ اسلوب کیا ہے جس کی تلقین پیغمبر کو کی گئی تھی- وہ اسلوب یہ ہے کہ لوگوں کو دلائل کے ذریعے خطاب کیا جائے- دین کی صداقت پر ان کو عقلی طورپر مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے- مخاطَب کے منفی رد عمل کے باوجود دعوت کا یہی مثبت اسلوب آخر وقت تک جاری رہے گا- داعی کا یہ کام نہیں کہ وہ ان کے اوپر داروغہ بن کر ان کو سزا دینے لگے- اس کے بعد جہاں تک سزا وجزا کا معاملہ ہے، اس کا تعلق تمام تر اللہ سے ہے- قیامت میں اللہ ہر ایک کو اکھٹا کرے گا اور پھر ہر ایک کے عمل کے مطابق، اس کے لیے جزا یا سزا کا فیصلہ فرمائے گا-
اِس معاملے کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جو شخص رسول کے خلاف سب وشتم کرے، اس کو ایسا کرنے سے روکو اور اگر وہ نہ رکے تو اس کو سخت سزا دو- اِس کے برعکس، قرآن میں اہلِ ایمان کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ تم فریقِ ثانی کے خلاف سب وشتم نہ کرو- اِس سلسلے میں قرآن کی متعلق آیت یہ ہے: ولاتسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدواً بغیر علم (6:108) یعنی اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، تم ان کو سب وشتم نہ کرو، ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو سب وشتم کرنے لگیں گے-
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کا یہ کام نہیں کہ وہ میڈیا واچ (media watch) قائم کرکے ایسے لوگوں کی تلاش کریں جس نے ان کے خیال کے مطابق، سب وشتم کا فعل کیا ہے اور پھر اس کو ہر قیمت پر قتل ڈالیں- اِس کے برعکس، قرآن یہ تعلیم دیتا ہے کہ اہلِ ایمان آخری حد تک ایسی کسی روش سے بچیں جس کا نتیجہ یہ ہو کہ لوگ مشتعل ہوجائیں اور وہ دین ِ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف سب وشتم جیسا معاملہ کریں- گویا کہ قرآن کی ہدایت کے مطابق، اِس معاملے کی ذمے داری خود اہلِ ایمان کو اپنے اوپر لینا ہے، نہ کہ اس کو دوسروں کے اوپر ڈال کر ان کی سزا کا مطالبہ کرنا-
اِس اعتبار سے دیکھئے تو موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی روش قرآن کی تعلیم کے عین خلاف ہے- مسلمان یہ کررہے ہیں کہ جب بھی کوئی شخص اُن کے خیال کے مطابق، تقریر یا تحریر کے ذریعے ’’اہانتِ رسول‘‘ کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ فوراً مشتعل ہو کر اس کے خلاف جلوس نکالتے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ— اُن تمام لوگوں کی گردن ماردو جو پیغمبر کی توہین کرتے ہیں:
Behead all those who insult the Prophet.
جو لوگ اِس قسم کے اشتعال انگیز جلوس نکالتے ہیں اور مفروضہ ’’مرتکبینِ اہانت‘‘ کے قتل کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ خود سب سے بڑی اہانت کا ارتکاب کرتےرہے ہیں- اُن کی اِن متشددانہ کارروائیوں کا یہ سنگین نتیجہ ہوا ہے کہ آج کا انسان یہ یقین کرنے لگا ہے کہ اسلام تہذیب سے پہلے کا دین ہے- اسلام انسان کی آزادانہ سوچ پر پابندی لگاتا ہے، اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو فکری جرم (thought-crime) میں یقین رکھتاہے، اسلام تشدد کا مذہب ہے، وغیرہ— موجودہ زمانے میں اسلام کی اِس منفی تصویر (negative image) کے ذمے دار تمام تر خود مسلمان ہیں، اور اس طرح اسلام کی تصویر بگاڑنا بلاشبہ تمام جرائم میں سب سے بڑے جرم کی حیثیت رکھتاہے-(2012)
واپس اوپر جائیں

نتیجے کا فقدان

گوٹن برگ کو پرنٹنگ ٹکنالوجی کا موجد سمجھا جاتا ہے- وہ 1398 میں جرمنی میں پیدا ہوا، اور1468 میں اس کا انتقال ہوا- اس کی ایجاد نے تاریخ میں پہلی بار طباعتی انقلاب پیدا کیا:
Johannes Gutenberg was a German gloldsmith who invented the mechanical movable type printing machine that sparked the printing Revolution.
نپولین (Napoleon) نے 1798 میں مصر پر حملہ کیا- وہ اپنے ساتھ پرنٹنگ پریس بھی مصر لے گیا تھا- اِس کے بعد مسلم دنیا میں طباعت کا طریقہ رائج ہونے لگا- انیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک ساری مسلم دنیا میں پرنٹنگ پریس کا طریقہ عام ہوچکا تھا- دورِ طباعت سے پہلے قرآن ہاتھ سے لکھاجاتا تھا- اُس وقت حافظِ قرآن زیادہ ہوتے تھے اور کتابت شدہ قرآن کے نسخے بہت کم ہوا کرتے تھے- طباعتی دور میں اِس کے برعکس، قرآن کے مطبوعہ نسخے بہت عام ہوگئے، اِ س کے بعد درسِ قرآن اور مطالعہ قرآن کا رواج بہت بڑھ گیا- بیسویں صدی کے آغاز میں یہ حال ہوا کہ مسلم دنیا میں کوئی گھر، کوئی مدرسہ، کوئی ادارہ ایسا نہ رہا جہاں قرآن کا چرچا نہ ہورہا ہو- رشید رضا مصری (وفات: 1935) کی ناتمام عربی تفسیر المنار، سید قطب (وفات: 1966) کی عربی تفسیر فی ظلال القرآن، عبداللہ یوسف علی (وفات: 1953) کی انگریزی تفسیر ، سید ابو الاعلی مودودی (وفات: 1979) کی اردو تفسیر تفہیم القرآن، وغیرہ اِس کی مثالیں ہیں-
اِس طرح کے ترجمے اور تفسیریں مختلف زبانوں میں چھپ کر شائع ہوئیں- لاکھوں کی تعداد میں قرآنی مطبوعات مختلف زبانوں میں چھپ کر ہرجگہ پھیل رہی ہیں- اِن تمام کوششوں کا واحد نشانہ یہ تھاکہ قرآنی ذہن رکھنے والے افراد پیدا ہوں، لیکن راقم الحروف کی معلومات کے مطابق، مطلوب قرآنی افراد کا کہیں وجود نہیں- اپنے اِسی طرح کے ایک تجربے کو میں نے اپنے ایک مضمون میں اِس عنوان کے تحت شائع کیا تھا — بھیڑ کے درمیان سناٹا-
نتیجہ (result) کے اِس فقدان کا سبب کیا ہے- کیا وجہ ہے کہ یہ تمام قرآنی سرگرمیاں حضرت عائشہ کے اِس قول کا مصداق بن رہی ہیں: أولئک قرؤا ولم یقرؤا (انھوں نے قرآن کو پڑھا، مگر انھوں نے قرآن کو نہیں پڑھا)- اِس معاملے کی مزید توضیح ایک حدیث رسول سے ہوتی ہے- جبیر بن نفیر سے منقول ہے کہ عوف بن مالک الاشجعی کہتے ہیں کہ ایک روز ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے- آپ نے آسمان کی طرف نگاہ کی اور فرمایا: ’’وہ وقت آنے والا ہے جب کہ علم اٹھا لیا جائے گا‘‘- انصارمیں سے ایک شخص زیادہ بن لبید نے کہا: اے خدا کے رسول، کیا علم ہم سے اٹھا لیا جائے گا، حالاں کہ ہمارے درمیان خدا کی کتاب ہے اور ہم اپنے بچوں ا ور عورتوں کو اس کی تعلیم دے رہے ہیں- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم کو مدینہ کا سمجھ دار آدمی سمجھتا تھا- یہود ونصاری کیا تورات وانجیل نہیں پڑھتے، پھر بھی اس کی باتوں پر اُن کا عمل نہیں ہے- جبیربن نفیر کی ملاقات شداد بن اوس سے ہوئی- انھوںنے اُن کو یہ حدیث سنائی- انھوں نے کہا کہ عوف نے سچ کہا- پھر شداد نے کہا: جانتے ہو، علم کا اٹھ جانا کیا ہے- انھوںنے کہا کہ نہیں- شداد نے کہا: اس کے برتن کا چلا جانا (ذہاب أوعیتہ)-
اِس حدیث میں یہ الفاظ بہت بامعنی ہیں کہ — علم اٹھا لیا جائے گا- یہاں علم سے مراد انطباق (application) کا علم ہے- یعنی قرآن کو اپنے حالات پر منطبق کئے بغیر مجرد انداز میں پڑھنا- موجودہ زمانے میں جو واقعہ پیش آیا ، وہ یہی تھا- قرآن کو لوگ غیر انطباقی انداز (non-applied way) میں پڑھنے لگے، وہ قرآن کو انطباقی انداز (applied way) میں نہ پڑھ سکے- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کو پڑھنے کے باوجود ان کا ذہن ایڈریس نہ ہوسکا- اِس قسم کا درسِ قرآن یا مطالعہ قرآن آدمی کو خوش عقیدگی تو دے سکتا ہے، لیکن اُس سے مطلوب قرآنی افراد پیدا نہیں ہوسکتے- مذکورہ روایت میں برتن (أوعیة) سے مراد یہ صلاحیت ہے کہ آدمی اپنے حالات کے اعتبار سے قرآن کا انطباق دریافت کرسکے-
اِس معاملے کی ایک مثال قرآن کی ایک آیت ہے جو اُس وقت نازل ہوئی جب کہ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مخالفانہ پروپیگنڈے کیے جارہے تھے- وہ آیت یہ تھی: ورفعنا لک ذکرک (94:4) یعنی اِس پروپیگنڈے نے لوگوں کے درمیان پیغمبرانہ مشن کا چرچا بہت زیادہ بڑھا دیا ہے- لوگوں کے اندر فطری طورپر آپ کے مشن کے بارے میں تجسس (curiosity)پیدا ہوگیا ہے- اِس طرح مخالفانہ پروپیگنڈے نے آپ کے لیے دعوت کا ایک مزید موقع (opportunity)پیدا کردیاہے- آپ لوگوں کے درمیان ایک متعارف شخصیت بن گئے، لوگ آپ کے مشن کے بارے میں سوال کرنے لگے، لوگوں کے اندر بڑے پیمانے پر یہ ذہن پیدا ہوا کہ پیغمبر کا مشن کیا ہے-
مسلمانوں کو عام طور پر قرآن کی مذکورہ سورہ (الانشر اح) یاد ہے- نمازوں میں عام طورپر اِس سورہ کی تلاوت کی جاتی ہے- لیکن موجودہ زمانے کے مسلمان اِ س سورہ کا عصری انطباق دریافت نہ کرسکے- یہ عصری انطباق کیا ہے، وہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں بڑے پیمانے پر پیغمبر کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے اُس واقعے کو دہرایا گیا جو دورِ اول میں پیش آیا تھا- منفی پروپیگنڈے سے ہماری مراد وہی چیز ہے جس کو عام طورپر ’’رسول کی شان میں گستاخی‘‘ کہاجاتا ہے- ’’گستاخی‘‘ کا یہ واقعہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے، تعارف یا پبلسٹی (publicity) کے ہم معنی تھا- اس نے بڑے پیمانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مشن کے بارے میں تجسس کا ذہن پیدا کردیا تھا، مگر دورِ جدید کے مسلمان اصولِ انطباق سے ناواقفیت کی بنا پر اِس واقعے کو مثبت معنوں میں نہ لے سکے- وہ صرف اس کو منفی معنوںمیں لے کر اس کے خلاف غوغائی تحریکیں چلانے لگے-
یہاں اس کی چند مثالیں نقل کی جاتی ہیں— ستمبر 1988 میں سلمان رشدی کی کتاب (The Satanic Verses) کےخلاف ہنگامہ، ستمبر 2005 میں ڈنمارک کے اخبار میں شائع شدہ کارٹون کے خلاف ہنگامہ، جولائی 2010 میںامریکا کے پادری ٹیری جونس کے خلاف ہنگامہ ، ستمبر 2012 میں ’’انوسینس آف مسلمس‘ (Innocence of Muslims)کے نام سے امریکا میں بننے والی فلم کے خلاف ہنگامہ، وغیرہ-
اِس سلسلے میں سی پی ایس انٹرنیشنل(نئی دہلی) کا تجربہ قابلِ نقل ہے- پچھلے برسوں میں جب مذکورہ حالات پیداہوئے تو سی پی ایس کے لوگوں نے برسوں کی محنت کے بعد انگریزی زبان میں قرآن کا ایک ایسا ترجمہ تیار کیا جو وقت کے اسلوب میں ہو اور بہ آسانی قابلِ فہم (easily understandable) ہو- پھر اس ترجمے کو خوب صورت انداز میں چھاپ کرانھوں نے دنیا کے مختلف ملکوں میں وہاں کے غیر مسلموں کے درمیان بڑے پیمانے پر تقسیم کرنا شروع کردیا- یہ کام نہایت منظم انداز میں 2008 سے جاری ہے- سی پی ایس کے افراد کا مشترک تجربہ یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی غیر مسلم کو قرآن کا انگریزی ترجمہ یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ — سر،یہ آپ کے لیے اسپریچول گفٹ ہے (Sir, this is a spiritual gift for you!) تو وہ بہت شوق سے اُس کو اِس طرح لیتا ہے جیسے کہ وہ بہت پہلے سے قرآن کا انتظار کررہا تھا-
یہ قرآن کے انطباقِ نو (reapplication)کی ایک مثال ہے- اِس طرح کے انطباقِ نو کے مواقع موجودہ زمانے میں کثرت سے موجود ہیں، مگر مذکورہ روایت کے الفاظ میں، ’’أوعیة‘‘ کی غیرموجودگی کی بنا پر ان کا استعمال ممکن نہ ہوسکا- حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا سب سے بڑا مشن دعوت الی اللہ ہے- وہ چیز جس کو مخالفانہ پروپیگنڈہ کہاجاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، دعوت کے لیے نئے مواقع پیداہونے کے ہم معنی ہے- اگر صحیح شعور زندہ ہو تو مسلمان ایسے ہر موقع کو غوغائی تحریک کے بجائے دعوتی مقصد کے لیے استعمال کریں- اِس طرح وہ منفی واقعات کو مثبت نتیجے کی صورت دینے میں کامیاب ہوجائیں گے- یہی وہ اعلی بصیرت ہے جس کو قرآن میں حکمت اور حدیث میں فراستِ مومن کے الفاظ سے تعبیر کیاگیا ہے-
واپس اوپر جائیں

اختلافِ رائے

ایک بار میری ملاقات ایک مغربی اسکالر سے ہوئی- میں نے پوچھا کہ اہلِ مغرب کی ترقی کا راز کیا ہے- انھوں نے جواب دیا — اختلافِ رائے (dissent) کو انسان کا مقدس حق قرار دینا- یہ بلاشبہہ ایک درست بات ہے-
لیکن وہ مغربی فکر کی بات نہیں، وہ فطرت کا ایک قانون ہے- اِس قانون کو ایک حدیث ِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اختلاف أمتی رحمة-
اختلافِ رائے کا اظہار ہمیشہ تنقید (criticism)کی صورت میں ہوتا ہے- مگر تنقید خواہ وہ کسی شخص کے حوالے سے کی گئی ہو، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے مطالعے کی ایک صورت ہوتی ہے- تنقید کا اصل مقصد کسی موضوع پر کھلے تبادلہ خیال (open discussion) کا آغاز کرنا ہوتا ہے- تنقید کا مقصد یہ ہے کہ مختلف ذہن (mind)دیانت دارانہ طورپر (honestly)اپنے نتیجۂ تحقیق کو بتائیں اور پھر دوسرے لوگ دیانت داری کے ساتھ اُس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں- اِس طرح کا آزادانہ تبادلہ خیال ذہنی ارتقا (intellectual development) کا لازمی تقاضا ہے-
علم اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک لامحدود موضوع ہے- یہ بات مذہبی موضوع پر بھی اُسی طرح صادق آتی ہے جس طرح سیکولر موضوع پر- اختلافِ رائے بلاشبہہ ایک رحمت ہے- اختلافِ رائے ہر حال میں مفید ہے- اِس معاملے میں اگر کوئی شرط ہے تو وہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ اختلاف کرنے والا مسلّمہ دلیل کی بنیاد پر اختلاف کرے، وہ الزام تراشی کا طریقہ اختیار نہ کرے-
اختلافِ رائے کے فائدے بے شمار ہیں- اِس سے مسئلہ زیر بحث کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں- اِس سے تخلیقی فکر (creative thinking) میں اضافہ ہوتا ہے- اِس کے ذریعے لوگوں کو موقع ملتاہے کہ وہ دوسرے کے نتیجہ فکر سے فائدہ اٹھائیں- اِس سے مسئلہ زیر بحث کے مخفی گوشے سامنے آتے ہیں، وغیرہ-
واپس اوپر جائیں

موت کا پیغام

معروف ہندستانی صحافی خشونت سنگھ 20 مارچ 2014 کو نئی دہلی میں انتقال کرگئے- بہ وقت انتقال ان کی عمر 99 سال تھی- دنیوی اعتبار سے وہ ایک کامیاب انسان تھے- شہرت، دولت، پوزیشن، اعزاز ہر چیز انھیں حاصل تھی- وہ ایک بہت بڑے مکان میں رہتے تھے- لیکن انتقال کے وقت سب کچھ اُن سے چھوٹ گیا- دوسرے انسانوں کی طرح وہ بھی اپنی بڑائی (greatness) کا کوئی حصہ اپنے ساتھ نہیں لے گئے-
یہی ہر انسان کی کہانی ہے- موت اُس حقیقت کو یاد دلاتی ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ولقد جئتمونا فرادی کما خلقناکم أول مرّة، وترکتم ما خوّلناکم وراء ظہورکم (6:94) یعنی تم ہمارے پاس اکیلے آگئے جیسا کہ ہم نے تم کو پہلی بار پیداکیا تھا، اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا، وہ سب کچھ تم اپنے پیچھے چھوڑ آئے-
قدیم مصر کے بادشاہ فرعون نے کہا تھا : أنا ربکم الأعلى (79:24) یعنی میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں- شعوری یا غیر شعوری طورپر ہر آدمی اِس احساس میں جیتا ہے- ہر آدمی کسی نہ کسی بڑائی کو اپنی بڑائی سمجھتا ہے- موت اِس احساس کی نفی کرتی ہے- موت یہ بتاتی ہے کہ انسان کے پاس جو بڑائی ہے، وہ اس کے وجود کا حصہ نہیں، انسان کی ہر بڑائی ایک خارجی بڑائی ہے- موت اسی حقیقت کی عملی یاد دہانی ہے- سب سے بڑی حقیقت جو انسان کو جاننا چاہیے، وہ یہ کہ اللہ کی بڑائی اس کے اپنے وجود کا حصہ ہے، وہ کبھی اس کے وجو د سے جدا ہونے والی نہیں- اِس کے برعکس، انسان کی بڑائی اس کے وجود کا حصہ نہیں-
موت سے پہلے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی بڑائی خود اس کے وجود کا حصہ ہے، لیکن موت آتے ہی دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں- اب انسان الگ رہتا ہے اور اس کی بڑائی الگ- انسان دنیا سے آخرت کی طرف اِس طرح سفر کرتا ہے کہ اُس کا سب کچھ ہمیشہ کے لیے اِسی دنیا میں چھوٹ جاتاہے-
واپس اوپر جائیں

Tuesday, 1 April 2014

Al Risala | April 2014 (الرسالہ،اپریل)

2

- مقبولیت کا معیار

3

- یہود کی ایک روش

4

- کلامِ جاہلیت اور فہمِ قرآن

6

- مسلسل تلاش

7

- میں نہیں جانتا

8

- ماضی اور حال

9

- مسلم سیرت نگار

13

- ہارون رشید کا ایک واقعہ

14

- اظہارِ دین

26

- انتظار نہیں

28

- جنتی تہذیب

35

- سوال و جواب

42

- خبرنامہ اسلامی مرکز


مقبولیت کا معیار

قرآن کی سورہ المائدہ میں یہود کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاۗؤُہٗ ۭقُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ ۭ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ (5:18) یعنی یہود ونصاری کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں- تم کہو کہ پھر خدا تمھارے گناہوں پر تم کو سزا کیوں دیتاہے- نہیں، بلکہ تم بھی اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق میں سے ایک بشر ہو-
قرآن کی اِس آیت میں عذاب کا لفظ آسمانی عذاب کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ یہود کے ساتھ غیر یہودی قوموں کی طرف سے پیش آنے والے ’’مظالم‘‘ کے بارے میں ہے- اِس نوعیت کی دو مثالیں سورہ بنی اسرائیل میں مذکور ہیں- (ملاحظہ ہو: 17:4-7)-
سورہ المائدہ کی مذکورہ آیت میں یہود کے حوالے سے ایک خدائی قانون کو بتایا گیا ہے- اِس قانون کا تعلق جس طرح امتِ یہود سے تھا، اُسی طرح اس کا تعلق بعد کی امت سے بھی ہوگا- اِس قانون کے معاملے میں کسی امت کا کوئی استثنا نہیں-
اِس قانونِ الہی کو موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر منطبق کیجئے- موجودہ زمانے کے مسلمان تقریباً دو سو سال سے اُس سیاست کو اختیار کیے ہوئے ہیں جس کو احتجاجی سیاست کہا جاسکتا ہے- اُن کو شکایت ہے کہ دوسری قومیں ان کے خلاف ظلم کررہی ہیں-
اِن’’ظالموں‘‘ کے خلاف مسلمان مسلسل جہاد کررہے ہیں- مگر نتیجہ (result) کے اعتبار سے دیکھئے تو موجودہ مسلمانوں کا یہ منفی جہاد مکمل طورپر ناکام ہے- اُن کی بد دعائیں قبول نہیں ہوئیں، ان کے ہتھیار موثر ثابت نہیں ہوئے، اُن کی جانی اور مالی قربانیاں حبطِ اعمال کا شکار ہوگئیں- قرآن کی مذکورہ آیت میں جو معیار بتایا گیاہے، اس کی روشنی میں دیکھئے تو یہ کوئی سادہ بات نہیں- وہ اِس بات کی علامت ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو اللہ کی نصرت حاصل نہیں ہوئی، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کی نصرت کے بغیر اِس دنیا میں کسی شخص یا گروہ کوکامیابی ملنے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں

یہود کی ایک روش

یہود کی ایک روش کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیاہے: تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا(6:91) یعنی یہود کو جو آسمانی کتاب دی گئی تھی، اس کو انھوں نے ورق ورق کردیا- کچھ کو ظاہر کیا اور زیادہ کو ظاہر نہیں کیا-
اِس آیت میں ’قرطاس‘ سے مراد کاغذ یعنی ایک مادی چیز ہے اور جس چیز کو انھوں نے ظاہر کیا اور چھپایا، وہ ایک معنوی چیز تھی- اِس آیت میں بظاہر ایک مادی تقطیع کا ذکر ہے، لیکن اس سے مراد مادی تقطیع نہیں، بلکہ معنوی تقطیع ہے-
یہ وہ واقعہ ہے جو یہود کے دورِ زوال میں پیش آیا، وہ تقطیع (separation)یہ تھی کہ انھوں نے دینِ خداوندی کی اسپرٹ کو اس کے فارم سے جدا کردیا- ان کے علما اور مشائخ (احبار ورہبان) دینِ خداوندی کے فارم کا خوب چرچا کرتے تھے، لیکن دین ِ خداوندی کی اسپرٹ کا کوئی چرچا ان کے یہاں نہیں تھا- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین ِ خداوندی جو اصلاً مبنی بر اسپرٹ دین تھا، وہ عملاً مبنی بر فارم (form-based) دین بن گیا-
یہ جو کچھ ہوا، وہ اصلاً ’’یہودیت‘‘ کا ظاہرہ نہیں تھا، بلکہ وہ دورِ زوال کا ظاہرہ تھا- ہر امت کے ساتھ اس کے دورِ زوال میں یہی واقعہ پیش آتا ہے، حتی کہ خود امتِ مسلمہ کے ساتھ بھی-
قرآن کی اِس آیت کا شانِ نزول جاننا ہو تو آپ بائبل کا مطالعہ کیجئے- بائبل کے مطالعے سے یہ بات تفصیل کے ساتھ معلوم ہوتی ہے کہ یہود نے تعلیماتِ الہیہ میں اِس قسم کی تقطیع کردی تھی- وہ دین ِخداوندی کے معنوی پہلو کو چھوڑے ہوئے تھے اور دین کے ظاہری پہلو کو اِس طرح بیان کرتے تھے جیسے کہ وہی اصل دین ہے-
یہی وہ حقیقت ہے جس کو حضرت مسیح نے تمثیل کی زبان میں اِن الفاظ میں بیان کیا تھا: اے اندھے راہ بتانے والو، تم مچھر کو چھانتے ہو اور اونٹ کو نگل جاتے ہو(Matthew 22: 1 ) -
واپس اوپر جائیں

کلامِ جاہلیت اور فہمِ قرآن

عرب میں اسلام سے پہلے جو دور تھا، اُس کو جاہلیت کا دور کہا جاتا ہے- اِس دور میں عرب قبائل میں شعر وشاعری کا رواج تھا- عام طورپر لوگ شعر کی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے- یہ اشعار ابتداء ً مخطوطات کی شکل میں تھے- چھپائی کازمانہ آیا، تو اِن اشعار کے مجموعے کتابی شکل میں چھپ کر عام ہوگئے- مثال کے طورپر دیوان الحماسہ، جمہرةُ اشعار العرب، سبعہ معلّقہ کے شعرا کے دواوین، وغیرہ- اسلام کے ظہور کے بعد عرب میں شعر وشاعری کا زور ختم ہوگیا-
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن فہمی کا اصل ذریعہ یہی کلام ِ عرب ہے- قرآن اِسی عربی زبان میں اترا تھا، اِس لیے قرآن کو سمجھنے کے لیے سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ دورِ جاہلیت کے شعرا کے کلام کو گہرائی کے ساتھ پڑھا جائے اور اِس سے عربی اسالیب کو سمجھا جائے، اِس کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن نہیں- یہ لوگ اِس حد تک جاتے ہیں کہ پوری تاریخ میں کسی نے قرآن کو نہیں سمجھا، کیوں کہ انھوں نے عرب جاہلیت کے کلام کو بنیاد بنا کر قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی- یہ بلاشبہ ایک بے اصل بات ہے-
اِس نظریے کو درست ماننے کے لیے یہ فرض کرنا پڑے گا کہ نزولِ قرآن کے وقت وہ عربی زبان ختم ہوگئی تھی جس میں قرآن اتارا گیا تھا- اِس بنا پر دورِ اوّل کے جن لوگوں نے قرآن کی تفسیر کی، وہ اصل عربی زبان سے ناواقف ہوچکے تھے- یہ بات بداہةً غلط ہے- جیسا کہ معلوم ہے، دورِ اول میں جوتفسیریں لکھی گئیں، وہ احادیثِ رسول اور صحابہ وتابعین کے اقوال پر مبنی ہوتی تھیں- یہ سب لوگ وہ تھے جن کی مادری زبان وہی عربی تھی جس میں قرآن اتارا گیا- جس زبان کو آج کا کوئی عالم ، قدیم اشعارِ عرب کو پڑھ کر جانتا ہے، اس کو براہِ راست طورپر دورِ اول کے لوگ خود اُس ماحول سے جان لیتے تھے جس میں وہ پیدا ہوئے تھے- یہی عربی زبان ان کی مادری زبان تھی-
قرآن فہمی کے لیے کلامِ عرب کا مطالعہ جزئی طورپر درست ہے، مگر اس کو اساسی اہمیت کا درجہ دینا درست نہیں- اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ قرآن فہمی کے اصول کو خود قرآن سے اخذ کیا جائے، نہ کہ ذاتی مفروضات کے ذریعے- قرآن جس طرح اسلام کی تعلیمات کو جاننے کا ذریعہ ہے، اُسی طرح وہ اِس بات کو جاننے کا ذریعہ بھی ہے کہ قرآن کے لیے بنیادی طورپر کن چیزوں کی اہمیت ہے-
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ وہ عربی مبین (26:195) کی زبان میں اترا، دوسری طرف قرآن میں اس کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: بَلْ ہُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ (29:49)- قرآن کے اِن بیانات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے —-لسانِ عرب اور لسانِ فطرت- قرآن کے طالب علم کو ایک طرف یہ کرنا ہے کہ وہ اُس عربی مبین سے واقف ہو جو رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں عربوں کے درمیان بولی اور سمجھی جاتی تھی، خاص طورپر قبیلہ قریش کی زبان- قرآن کسی لسانِ ماضی میں نہیں اترا، بلکہ وہ لسانِ حال میں اترا، اور یہ لسانِ حال عملاً وہی تھی جو خاص طور پر قریش کے درمیان رائج تھی- یہ عربی مبین قرآن وحدیث میں ممارست کی بنا پر اہلِ حجاز کے درمیان اب بھی عملاً موجود ہے-
اِس سلسلے میں دوسری چیز انسان کی وہ فطرت ہے جس پر اللہ نے اُس کو پیدا کیا ہے (30:30)- قرآن اپنے الفاظ کے اعتبار سے عربی زبان میں ہے، لیکن اپنے خطاب کے اعتبار سے، وہ انسان کی فطرت کو ایڈریس کرتاہے- اِس لیے قرآن فہمی کے لیے دوسری اہم ضرورت یہ ہے کہ قرآن کے طالبِ علم کے اندر فطرت شناسی کا مادہ موجود ہو- اس کے اندر یہ صلاحیت پائی جاتی ہو کہ وہ انسان کی فطرت، بہ الفاظ دیگر نفسیاتِ انسانی کو گہرائی کے ساتھ جانتا ہو- قرآن فہمی کے لیے یہ دونوں چیزیں یکساں طور پر ضروری ہیں-
قرآن کو اس کے گہرے معانی کے ساتھ سمجھنے کے لیے نہ تنہا عربی زبان کافی ہوسکتی ہے اور نہ تنہا فطرتِ انسانی سے واقفیت- عربی زبان سے واقفیت آدمی کے اندر متن شناسی کی صلاحیت پیدا کرتی ہے اور فطرتِ انسانی سے واقفیت آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتی ہے کہ وہ قرآن کے معانی تک رسائی حاصل کرسکے- فطرتِ انسانی سے واقفیت کے بغیر لسانی مہارت صرف ایک فنی مہارت ہے اور محض فنی مہارت قرآن فہمی کے لیے ہرگز کافی نہیں-
واپس اوپر جائیں

مسلسل تلاش

ایک مفکر (thinker) کا ایک با معنی قول اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہےکہ— انسان کی زندگی ’کاما‘ سے بھری ہوئی ہے، زندگی میں کبھی ’فل اسٹاپ‘ نہیں آتا:
Life is full of ‘commas’, there is no ‘fullstop’ in life.
یہ قول زیادہ بہتر طور پر ذہنی ارتقا کے معاملے میں صادق آتا ہے- انسان کا ذہن اپنے اندر لامحدود صلاحیت رکھتا ہے- یہ صلاحیتیں مسلسل طور پر انفولڈ (unfold) ہوتی رہتی ہیں- یہ ایک لامتناہی عمل (unending process) ہے- آدمی کا ذہن اگر کہیں اٹکا ہوا نہ ہو تو یہ عمل اس کے اندر اپنے آپ جاری رہے گا- انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی پوری عمر کے لیے متعلم اور متلاشی (seeker) بنا رہے، وہ کھلے ذہن کے ساتھ چیزوں کو دیکھے، وہ بلا تفریق ہر چیز کا مطالعہ کرے، وہ کسی تعصب کے بغیر لوگوں کے ساتھ انٹریکشن کرے، وہ اپنے آپ کو ہمیشہ طالب سمجھے، اس کی تلاش ایک ایسی تلاش ہو جو ہمیشہ جاری رہے، اُس کے لیے کبھی فل اسٹاپ نہ آئے-ابدی طلب کا یہ مزاج مومن کے اندر کامل معنوں میں پایا جاتا ہے- مومن کے لیے صرف اللہ کے کلام کی حیثیت فائنل ورڈ (final word) کی ہوتی ہے، اللہ کے سوا کسی اور کو یہ درجہ حاصل نہیں- اِس کا مطلب یہ ہے کہ مومن کا ذہن اُس طرزِ فکر سے بالکل خالی ہوتا ہے جس کو دورِ جاہلیت کے ایک شاعر عنترہ العبسی (وفات: 600ء) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے کہ — شعرا نے پیوند لگانے کے بقدر بھی کوئی جگہ باقی نہیں چھوڑی:
ہل غَادَرَ الشعراءُ من مُتَرَدَّمِ
یعنی جو کچھ کہنے کی بات تھی، وہ سب کہی جا چکی ہے، اب اُس پر نقد یا اضافے کی کوئی گنجائش باقی نہیں- یہ ذہن آدمی کے اندر سے تخلیقیت (creativity) کو ختم کردیتا ہے- اِس کے فطری نتیجے کے طورپر ایسی سوچ رکھنے والے  لوگ ذہنی جمود کا شکار ہوجاتے ہیں- مومن اِس قسم کی متعصبانہ سوچ سے مکمل طورپر خالی ہوتا ہے، اِس لیے اُس کے ذہن میں فکری ارتقا کا عمل کبھی نہیں رکتا، وہ زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہتا ہے-
واپس اوپر جائیں

میں نہیں جانتا

عبد اللہ بن وہب مصری (وفات: 197ھ) مالکی فقیہ اور محدث ہیں- وہ بیس سال تک امام مالک کی صحبت میں رہے (صحب الإمام مالک عشرین سنة)- انھوں نے ایک بار کہاکہ: لو شئت أن أملأ ألواحی من قول مالک بن أنس ’’لاأدری‘‘ فعلتُ- (مجلة الوعی الإسلامی، کویت، فروری 2014، صفحہ: 97) یعنی مالک بن انس ’’میں نہیں جانتا‘‘اتنا کہتے تھے کہ اگر میں چاہوں تو میں اپنی تختیوں کو اُن کے اس قول سے بھر دوں کہ ’’میں نہیں جانتا‘‘-
یہ کہنا کہ ’’میں نہیں جانتا‘‘ (لاأدری) کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک گہری حکمت (deep wisdom) کی بات ہے- ’’میں نہیں جانتا‘‘ کہنا ایک عظیم نفسیاتی حقیقت کی علامت ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک سوچنے والا انسان ہے، وہ مسلسل طورپر غور وفکر میں مشغول ہے- جو آدمی نہ بولے، وہ سوچ رہا ہے- جو آدمی جواب نہ دے، وہ سوال پر غور کررہا ہے-
کسی آدمی کے لیے فطرت کا سب سے بڑا تحفہ اس کا ذہن ہے- کسی آدمی کے لیے سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ اس کے ذہن میں مسلسل طور پر تفکیری عمل (thinking process) جاری رہے- تفکیری عمل سے آدمی کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) آتی ہے، اُس کے اندر مسلسل طورپر ذہنی ارتقا (intellectual development)کا عمل جاری رہتا ہے-
یہی ذہنی ارتقا وہ چیز ہے جو انسان کی تمام اعلی ترقیوں کی ضامن ہے- ذہنی ارتقا انسان کو انسان بناتا ہے- جس شخص کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری نہ ہو، وہ بظاہر انسان ہوگا، لیکن بہ اعتبار حقیقت وہ حیوان کی مانند بن کر رہ جائے گا-
کم بولنے کا مطلب ہے زیادہ سوچنا- میں نہیں جانتا کا مطلب ہے زیادہ غور کرنا- اِسی طرح چپ رہنا زیادہ سنجیدگی (sincerity)کی علامت ہے — یہی وہ صفات ہیں جو ایک عام انسان کو اعلی انسان بناتی ہیں-
واپس اوپر جائیں

ماضی اور حال

احیاءِ ملت کے سلسلے میں عام طورپر یہ بات کہی جاتی ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو دوبارہ زندہ ملت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اُن کو ان کا ماضی یاد دلایا جائے- کہاجاتا ہے کہ — اقوام وملل کی تاریخ اِس بات پر گواہ ہے کہ جو قوم اپنے ماضی سے کٹ جائے، وہ کبھی کامیابی حاصل نہیں کر پاتی- اِس نقطہ نظر کےمطابق، موجودہ مسلمانوں کا احیاءِ نو اِس لیے نہیں ہوا کہ اس کے رہنماؤں نے اُن کارشتہ ماضی سے نہیں جوڑا-
یہ ایک خلافِ واقعہ بات ہے- حقیقت اِس کے برعکس یہ ہے کہ پچھلے دو سوسال میں پوری مسلم دنیا میں جو رہنما اٹھے، اُن سب نے بلا استثنا یہی ایک کام کیا کہ انھوں نے مسلمانوں کو ان کے ماضی کی تاریخ مبالغہ آمیز اندازمیں یاد دلائی، تاکہ حال میں انھیں اِس گزری ہوئی تاریخ کے اعادے پر ابھارا جائے- مگر عملاً یہ تدبیر سر تاسر ناکام رہی- اِس سلسلے میں مسلم رہنماؤں کی تمام کوششیں بے نتیجہ ہو کر رہ گئیں-
ایسی حالت میں اصل سوال ماضی کی تدبیر پر نظر ثانی کرنے کا ہے، نہ کہ مذکورہ قسم کی پر جوش تحریر وتقریر کرنے کا- مگر عجیب بات ہے کہ اکیسویں صدی کے تمام مسلم رہنما تقریباً وہی بات کہہ رہے ہیں جس کی ایک مثال مذکورہ نقطہ نظر میں پائی جاتی ہے-
ایسا کیوں ہے- اِس کا سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے — فقدانِ نتیجہ کو فقدانِ عمل کے ہم معنی سمجھ لینا، کیوں کہ پچھلی دو سو سالہ کوششوں کا کوئی مطلوب نتیجہ نہیں نکلا، اِس لیے ہمارے رہنما مزید بے شعوری کا ثبوت دیتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کے لیے مطلوب عمل نہیں کیاگیا-
اِس معاملے میں رہنماؤں کی اصل غلطی یہ ہے کہ اُن کی تشخیص درست نہ تھی، کسی قوم کی تعمیر کا راز یہ ہے کہ اس کو حال سے باخبر کیا جائے- ماضی کی کہانیاں سنانے کا کوئی فائدہ نہیں- ماضی کی کہانیوں سے صرف فرضی فخر (false pride) کا مزاج بنتا ہے، جب کہ حال کے بارے میں باشعور ہونے سے عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، یعنی وقت کے چیلنج کو سمجھنا اور اس کے مطابق، منصوبہ بند جدوجہد کرنا-
واپس اوپر جائیں

مسلم سیرت نگار

مولانا سید سلیمان ندوی (وفات: 1953) مشہور عالم اور مصنف تھے- ان کے صاحب زادے ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے دارالعلوم ندوة العلما (لکھنؤ) میں اپنے والد کے بارے میں ایک تقریر کی- انھوں نے بتایا کہ مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنے مرشد مولانا اشرف علی تھانوی کے نام ایک خط میں اپنے بارے میں لکھا تھاکہ: ’’یورپ کے مذہبی وعلمی حملوں کے مقابلے میں، اسلام کی خدمت کا ولولہ ہے، اور اب تک پچیس برس کا زمانہ اِنھیں مشاغل میں گزرا‘‘- (ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، فروری 2010، صفحہ 37)
اِن الفاظ میں جس ذہن کا بیان ہے، وہی ذہن موجودہ زمانے کے تمام مسلم علما کے اندر پایا جاتا ہے، عرب علما کے اندر بھی اور غیر علما کے اندر بھی-وہ یہ کہ موجودہ زمانے کے مسلم علما نے مغرب کو صرف اِس حیثیت سے جانا کہ وہ اسلام کے خلاف حملوں کا مرتکب ہے- حالاں کہ یہ تمام تر خود مسلم علما کی اپنی منفی سوچ کا نتیجہ تھا، وہ مغرب کی اسلام دشمنی کا نتیجہ نہ تھا-
مغربی قوتوں کی نسبت سے دوسرے دو اہم پہلو تھے جن سے مسلم علما بالکل بے خبر رہے- ایک یہ کہ مغربی لوگ بالفرض اگر اسلام یا مسلمانوں کے بارے میں مخالفانہ جذبات رکھتے ہوں، تب بھی ان کی حیثیت مدعو کی ہے- ہمارا فرض ہے کہ ہم مغربی قوموں کے مخالفانہ رویّے کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کو مثبت انداز میں اسلام کی دعوت پہنچائیں، اور انسانی خیر خواہی کے جذبے سے ان کی اصلاح کے طالب ہوں-
اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارے علما نے مغربی اقوام کو صرف نوآبادیاتی اقوام کے ہم معنی سمجھ لیا، حالاںکہ اِن اقوام کی ایک اور حیثیت تھی جو اِس سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی تھی، وہ یہ کہ اِن مغربی اقوام نے تاریخ میں پہلی بار اُس علم کو پیدا کیا جس کو جدید سائنس کہاجاتا ہے- جدید طبیعی سائنس اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے عین وہی چیز تھی جس کو قرآن میں آفاق وانفس (41:53) کی آیات کا ظہور بتایا گیا ہے- یہ آیتیں (signs) اسلامی دعوت کے حق میں عظیم تائید کے ہم معنی تھیں، مگر علما نے اِن آیتوں (نشانیوں) کو نہ تو سمجھا اور نہ ان کو اسلامی دعوت کے حق میں استعمال کیا-
پرنٹنگ پریس کے زمانے میں مسلم سیرت نگاروں نے کثرت سے سیرت پر کتابیں لکھیں ہیں- یہ کتابیں مختلف زبانوں میں شائع ہوئی ہیں- لیکن ان کا جائزہ لیجئے تو غالباً سیرت کے موضوع پر کوئی ایک قابلِ ذکر کتاب ایسی نہیں ہے جس میں پیغمبر کی داعیانہ حیثیت کو بنیادی حیثیت سے نمایاں کیاگیا ہو- جس میں رسول اللہ کے اسوۂ دعوت کو اصل حیثیت دے کر بیان کیاگیا ہو- یہ ایک ایسی کمی ہے جو موجودہ زمانے کے تمام مسلم سیرت نگاروں کے یہاں پائی جاتی ہے- اس کا سبب بظاہر یہ ہے کہ ان سیرت نگاروں نے سیرت رسول کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے نہیں کیا کہ وہ آپ کے اصل داعیانہ منصب کو اجاگر کریں-
اِسی معاملے کو میں نے اپنے ایک تجربے سے سمجھا ہے- میں1964-66 کے دوران لکھنؤمیں تھا- میرا معمول تھا کہ میں روزانہ شام کو آچاریہ نریندر دیو لائبریری جاتا جو وہاں گومتی ندی کے کنارے واقع تھی- اس لائبریری کی اوپری منزل پر ایک ہال تھا- اس میں بہت سی میزیں تھیں- ان میزوں کے اوپر انگلش اور ہندی کے تمام اخبارات رکھے جاتے تھے- میں دیکھتا تھا کہ نوجوان لڑکے بڑی تعداد میں وہاں آتے اور دیر تک اخباروں کو الٹ پلٹ کردیکھتے- میں نے ایک روز اُن میں سے بعض لڑکوں سے گفتگو کی اور ملک کے سیاسی حالات پر اُن کا نقطہ نظر جاننا چاہا، مگر معلوم ہواکہ وہ سیاسی یا نیشنل موضوعات سے بے خبر تھے- ان موضوعات پر وہ اپنی کوئی رائے نہ دے سکے-مزید تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ یہ نوجوان حقیقةً اخبار پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ اخبار میں جاب کے اشتہارات پڑھنے کے لئے آتے ہیں- چناںچہ وہ اخبارات میں امپلائمنٹ کالم (employment column) کو دیکھتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں-
تقریباً یہی حال مسلم سیرت نگاروں کا ہے- وہ جس ذہن(mindset) کو لے کر سیرت کی کتابیں پڑھتے ہیں، وہ اصلاً دعوت کا ذہن نہیں ہوتا- اس لئے انھیں اپنے ذہن کے مطابق زیادہ تر دوسری چیزیں ملتی ہیں اور اس کو وہ نمایاں طورپر بیان کرتے ہیں- مثلاً مصر کے حسین ہیکل کے ذہن پرمستشرقین کی باتوں کا غلبہ تھا چنانچہ سیرت کے موضوع پر ان کی عربی کتاب ’حیات محمد‘ کا تقریباً نصف حصہ مستشرقین کے جوابات پر مشتمل ہے-
تقریباً یہی معاملہ دوسرے مسلم سیرت نگاروں کا ہے- جنھوں نے فخر کی نفسیات کے تحت سیرت کا مطالعہ کیا، انھوں نے سیرت کو فخر کے انداز میں بیان کیا- جو مولفین سیاسی ذہن کے مالک تھے، انھوں نے سیرت کو سیاست وحکومت کے نمونہ (pattern) پر ڈھال دیا- جو لوگ فقہی مسائل کو اہمیت دیتے تھے، انھوں نے رسول اللہ کی سیرت کو ایک قسم کی فقہی سیرت بنا دیا- جو لوگ کرامات اور معجزات کا مزاج رکھتے تھے، انھوں نے سیرت رسول کو اس طرح مرتب کیا کہ سیرت کی کتاب کرامات اور معجزات کا مجموعہ بن گئی- جہاں تک دعوت کا سوال ہے ،وہ جزئی طورپر نسبتاً غیر اہم انداز میں ضرور موجود ہے، لیکن اس طرح نہیں کہ قاری جب سیرت کی کتاب کو پڑھ کر ختم کرے تو اس کے اندر یہ سوچ پیدا ہوجائے کہ میرے لیےپیغمبر اسلام کی پیروی کا سب سے بڑا خارجی میدان یہ ہے کہ میں آپ کے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچاؤں- دوسری قوموں کو مدعو سمجھوں اور ان کے خلاف شکایتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ پوری خیر خواہی کرتے ہوئے پیغام رسانی کا کام انجام دوں-
ڈاکٹر سید سلمان ندوی کی معلوماتی تقریر میں جو باتیں کہی گئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914) نے اپنے مرض الموت کے آخری دنوں میں اپنے شاگرد مولانا سیدسلیمان ندوی کو بلایا اور اُن سے کہا کہ ’’سیرت میری تمام عمر کی کمائی ہے- سب کام چھوڑ کر سیرت تیار کرو-‘‘ (صفحہ 28)- مولانا شبلی نعمانی کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عقیدت تھی، اس کا اظہار ان کی کتاب ’’سیرت النبی‘‘ میں سرنامہ کے اِن الفاظ سے ہوتا ہے: ایک گدائے بے نوا شہنشاہِ کونین کے دربار میں اخلاص وعقیدت کی نذر لے کر آیا ہے: زچشمم آستیں بردار وگوہر را تماشا کن!
مولانا سید سلیمان ند وی نے اپنی کتاب ’’حیاتِ شبلی‘‘ میں استاذ کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’انھوں نے اپنی زندگی میں اور اپنی زندگی کے بعد بھی بہ شکلِ وصیت اس کو (مجھ کو) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرکارِ اقدس میں، جہاں وہ سب سے آخر میں پہنچے تھے، سب سے اول پہنچایا‘‘(صفحہ 28)
مولانا شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی- دونوں نے سیرتِ رسول کے موضوع پر اپنی زندگیاں وقف کردیں، لیکن عجیب بات ہے کہ دونوں میں سے کسی نے بھی اِس حقیقت کو نہیں سمجھا کہ رسول اللہ کی اصل حیثیت یہ تھی کہ وہ اللہ کا پیغام پہنچانے والے تھے- وہ تمام انسانیت کے لیے بشیر و نذیر تھے- رسول اللہ کے ساتھ محبت کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ کی سنتِ دعوت کو زندہ کیا جائے، لیکن مولانا شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی دونوں جذبۂـ محبت کے باوجود جذبۂ دعوت سے خالی رہے-
یہی دوسرے مسلم علما اور مسلم رہنماؤں کا حال ہے- وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی حد تک تعلق کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ہر ایک کا یہ حال ہوا کہ وہ اِس بات سے بے خبر رہا کہ رسول اللہ سے تعلق کا اصل تقاضا کیا ہے، وہ بلا شبہہ یہی ہے کہ رسول اللہ کی سنت ِ دعوت کو زندہ کیا جائے اور ہر دور کے انسانوںکو اس کا مخاطب بنایا جائے-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ رسول اللہ کے دعوتی مشن کو ہر دور میں زندہ رکھا جائے- یہی دعوتی فریضہ ہے جس کو نہ مسلم سیرت نگاروں نے سمجھا اور نہ اُس کے لیے کوئی کام کیا-
واپس اوپر جائیں

ہارون رشید کا ایک واقعہ

ہارون رشید عباسی دور کا پانچواں خلیفہ ہے- وہ 766 میں پیدا ہوا اور 809 میں اس کی وفات ہوئی- اس کا ایک واقعہ حسب ذیل الفاظ میں نقل کیاگیا ہے:
’’وذُکر أن یہودیاً کانت لہ حاجة عندہارون الرشید، فاختلف إلى بابہ سنةً ، فلم یقض حاجتہ، فوقف یوماً على الباب- فلما خرج ہارون سعى حتى وقف بین یدیہ وقال: اتق اللہ یا أمیر المؤمنین، فنزل ہارون عن دابتہ وخرّ ساجداً- فلما رفع راسہ أمر بحاجتہ فقضیت- فلما رجع قیل لہ: یا أمیر المؤمنین، نزلت عن دابتک لقول یہودیّ- قال: لا، ولکن تذکرتُ قولَ اللہ تعالى: وإذا قیل لہ اتق اللہ أخذتہ العزة بالإثم، فحسبہ جہنم، ولبئس المہاد‘‘- (تفسیر القرطبی، 19/3 )
ترجمہ: کہا جاتا ہے کہ ایک یہودی تھا جس کو ہارون رشید سے ایک کام تھا- وہ شخص اِس کام کے لیے خلیفہ کے دروازے پر ایک سال تک جاتا رہا، مگر خلیفہ نے اس کی ضرورت پوری نہ کی، پھر ایک دن وہ یہودی، خلیفہ کے دروازے پر کھڑا ہوگیا- جب ہارون رشید باہر نکلا تو وہ شخص تیزی سے آکر خلیفہ کے سامنے کھڑا ہوگیا، اور کہاکہ اے امیر المومنین، اللہ سے ڈرئیے-
یہ سن کر ہارون رشید اپنی سواری سے اترا اور سجدے میں گر پڑا- پھر ہارون رشید نے سجدے سے سراٹھایا اور اس نے حکم دیا اور یہودی کی ضرورت پوری کردی گئی- پھر جب ہارون رشید لوٹا تو اس سے کہا گیا کہ اے امیر المومنین، کیا آپ ایک یہودی کے قول پر اپنی سواری سے اتر گئے- ہارون رشید نے کہا کہ نہیں، بلکہ مجھے اللہ تعالی کا یہ قول یاد آیا: وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمُ ۭ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ (2:206)یعنی جب اُس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر تو وقار اُس کو گناہ پر جما دیتا ہے- پس ایسے شخص کے لیے جہنم کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے-
واپس اوپر جائیں

اظہارِ دین

اللہ کا ایک خصوصی منصوبہ قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (48:28) یعنی اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ اُس کو تمام ادیان پر غالب کردے اور اللہ کافی گواہ ہے- یہ آیت قرآن کی تین سورتوں میں آئی ہے- ایک سورہ میں مزید یہ الفاظ آئے ہیں: وَیَاْبَى اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ 9:32))-
قرآن کی اِس آیت میں ’ہدی‘ سے مراد آئڈیالوجی (divine ideology)ہے اور ’دین‘ سے مراد اِس آئڈیالوجی پر مبنی طریقِ زندگی(way of life)ہے- اللہ نے ہر دور میں پیغمبروں کے ذریعے ہدایت اور دین بھیجا، لیکن اس کے بعد انسان اُس میں تبدیلی کرتا رہا، یہاں تک کہ دینِ خداوندی کا اصل ورزن (original version) باقی نہیں رہا، بلکہ دینِ خداوندی کے نام پر ایک خود ساختہ انسانی ورزن وجود میں آگیا- اس کے بعد اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ابدی طورپر دینِ خداوندی کا صحیح ورزن وجود میں آئےاور اس کو تاریخ میں پوری طرح محفوظ کردیاجائے-
تمام ادیان پر اظہار ِ دین کا مطلب کسی قسم کا سیاسی غلبہ نہیں ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ دینِ خداوندی کی تصویر بے آمیز صورت میں انسان کے سامنے آجائے- اِسی طرح اتمامِ نور کا مطلب بھی کسی سیاسی نظام کا نفاذ نہیں، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدائی دین کی تصویر کو بگاڑنا چاہتا ہے، مگر اللہ کا یہ حتمی فیصلہ ہے کہ وہ خدائی دین کو اس کی اصل صورت میں محفوظ کردے- اللہ نے انسان کو مکمل آزادی عطا کی ہے- اللہ نے اپنی سنت کے مطابق، انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے حفاظتِ دین کے اِس منصوبے کو انجام دیا-
فکری بنیاد کی اہمیت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں ہوا- آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ صحابہ کی صورت میں ایک طاقت ور ٹیم بنائیں- اِس طرح آپ نے اور آپ کے اصحاب نے غیر معمولی محنت کے ذریعے وہ کام انجام دیا جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں اظہارِ دین کہاگیا ہے، یعنی خدا کے دین کو اس کی اصل صورت میں مبرہن کردینا- مگر یہ کوئی سادہ معاملہ نہ تھا- لوگوں کے درمیان اِس کی قبولیت کے لیے ضروری تھا کہ اس کے لیے موافق فکری بنیاد (intellectual base) موجود ہو- ہزاروں سال کے مذہبی بگاڑ کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان یہ موافق فکری بنیاد موجود نہ تھی، اِس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے اپنے زمانے میں کامیابی کے ساتھ دینِ خداوندی کو اس کی اصل صورت میں قائم کیا،مگر ایک محدود مدت کے بعد خود امتِ مسلمہ کے درمیان مذہب کا قدیم تصور واپس آگیا- یہ محدود مدت امت کی ابتدائی تین نسلوں تک باقی رہی-
یہی وہ واقعہ ہے جس کو ایک حدیث رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:إن الناس دخلوا فی دین اللہ أفواجاً وسیخرجون منہ أفواجاً (مسند أحمد، رقم الحدیث : 14696) یعنی لوگ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہوئے اور عن قریب وہ فوج در فوج خدا کے دین سے نکل جائیں گے- اِس حدیث رسول میں جو پیشین گوئی کی گئی ہے، وہ محدود طورپر صرف مکہ یا عرب کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ وہ پوری تاریخ کے بارے میں ہے-
اصل یہ ہے کہ اسلام نے دینِ خداوندی کی جو تصویر پیش کی تھی، وہ ایک انقلابی تصویر تھی- اُس زمانے میں مذہب کے بارے میں جو عمومی شاکلہ پایا جاتا تھا، وہ اس کے مطابق نہ تھا- اس لیے ابتدائی تین نسلوں کے بعد قدیم مذہبی شاکلہ عملاً دوبارہ لوگوں کے درمیان واپس آگیا- دوبارہ ایسا ہو ا کہ خدا کا دین اپنی اصل صورت کے بجائے ایک بدلی ہوئی صورت پر قائم ہوگیا- اسلام کا نام اور اسلام کی اصطلاحیں ضرور باقی رہیں، لیکن اسلام کی حقیقت تقریباً غیرموجود ہوگئی- یہی مطلب ہے اُس حدیث رسول کا جس میں بتایا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں اسلام کا صرف نام باقی رہے گا اور قرآن کا صرف رسم الخط: ’’لا یبقى من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقى من القرآن إلا رسمہ‘‘- (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، رقم الحدیث: 1763)-
چند مثالیں
اسلام سے پہلے خدا کا عقیدہ ایک رسمی قسم کا مبنی بر قلب (heart-based)عقیدہ تھا، اسلام نے خدا کے عقیدہ کو ایک زندہ شعور کے طورپر مبنی بر ذہن (mind-based) عقیدے کی حیثیت سے زندہ کیا، لیکن وقت کا عمومی شاکلہ اِس کے موافق نہ تھا، اِس لیے بہت جلد ایسا ہوا کہ مسلمانوں کے درمیان خدا کا عقیدہ زندہ عقلی شعور کے طورپر باقی نہ رہا- وہ دوبارہ مبنی بر قلب قسم کا رسمی عقیدہ بن کر رہ گیا-
اسلام سے پہلے ہر مذہب میں عبادت کا تصور موجود تھا، لیکن ان کی عبادت محض ایک مبنی بر فارم عمل بنی ہوئی تھی- اسلام نے دوبارہ عبادت کو مبنی بر اسپرٹ (spirit-based)عبادت کی حیثیت سے زندہ کیا، لیکن چند نسلوں کے بعد دوبارہ قدیم مزاج واپس آگیا اور خدا کی عبادت محض کچھ رسمی اعمال کا مجموعہ بن کر رہ گئی- یہی معاملہ پیغمبر کے عقیدہ (رسالت) کا بھی تھا- پچھلی امتوں نے بعدکے زمانے میں اپنے پیغمبروں کو اتنا زیادہ بڑھایا کہ خدا اور پیغمبر میں صرف نام کا فرق باقی رہا- یہی وہ برائی ہے جس کو پیغمبر اسلام نے پیشگی طورپر اِن الفاظ میں بیان فرمایا تھا: لا تطرونی کما أطرت النصارى عیسى بن مریم (صحیح البخاری، رقم الحدیث:3445 (
بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان فضیلت کے نام پر ایسے عقیدے رائج ہوئے جس کے بعد عملاً پیغمبر اسلام کی تصویر بھی وہی بن گئی جو پچھلی امتوں کے یہاں رائج تھی، یعنی خدا اور پیغمبر کے درمیان صرف نام کا فرق باقی رہا-
اِسی طرح پچھلے مذاہب میں مقدس جنگ (holy war) کا تصور تھا- اسلام نے اِس تصور کو ختم کیا- اسلام میں قتال اور جہاد کو ایک دوسرے سے الگ کردیاگیا- قتال صرف دفاعی جنگ کے لیے مخصوص ہوگیا اور جہاد کو پرامن دعوتی جدوجہد (25:52) کے ہم معنی قرار دیاگیا- لیکن بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان قتال کو جہاد کا عنوان دے دیاگیا- اِس طرح مقدس جنگ کا تصور مسلمانوں کے درمیان دوبارہ لوٹ آیا-
اِسی طرح اسلام میں اجتماعی نظام کو شوری (42:38) کے تابع کیاگیا تھا، یعنی کسی خارجی معیار کے بجائےلوگوں کی عمومی رائے کی بنیاد پر اجتماعی نظام کا فیصلہ کرنا- لیکن بعد کے زمانے میں قدیم خاندانی حکمرانی (dynasty) کا طریقہ واپس آگیا- شخصی حکمرانی کا یہ ذہن بعد کے زمانے کے مسلمانوں پر اتنا زیادہ غالب ہوا کہ اگر کسی مسلم ملک میں بظاہر جمہوریت کو اختیار کیاگیا تو وہ بھی عملاً آمریت (dictatorship) بن کر رہ گئی-
اِسی طرح اسلام میںقدیم تصور کے برعکس، مذہبی آزادی کو اختیار کیا گیا، لیکن چند نسلوں کے بعد عملاً اس کا بھی خاتمہ ہوگیا- اِس کے مظاہر آج بھی مسلمانوں کے اندر مختلف صورتوں میں دیکھے جاسکتے ہیں- مثلاً فرقہ وارانہ تشدد، تکفیر کے فتوے، مرتد اور شاتمِ رسول کے لیے سزائے قتل، وغیرہ- اِس قسم کے تمام مظاہر بلا شبہہ قدیم زمانے کے مذہبی جبر کی نئی صورتیں ہیں-
متوازی عمل
امتِ مسلمہ کے بعد کے دور میں یہ تمام خرابیاں اِس لیے پیدا ہوئیں کہ اسلام کی انقلابی اصلاحات کے حق میں فکری بنیاد موجود نہ تھی- اسلام نے مذہب کو دوبارہ اس کی اصل خدائی صورت میں زندہ کیا، لیکن زمانی عامل (age factor) اِن اصلاحات کے موافق نہ تھا- قانونِ فطرت کے مطابق، فکری بنیاد اچانک وجود میں نہیں آتی، بلکہ وہ لمبے تدریجی عمل کے بعد وجود میں آتی ہے- یہ نہایت مشکل منصوبہ ہے، کیوں کہ انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے اس کو وجود میں لانا پڑتا ہے- اِس لیے اللہ نے اِس منصوبے کو ظہور میں لانے کے لیے تاریخ میں ایک متوازی عمل (parallel process) جاری کیا- فکری بنیاد کو ظہور میں لانے کا یہ متوازی عمل تقریباً ہزار سال تک جاری رہا، یہاں تک کہ وہ بیسویں صدی عیسوی میں اپنی تکمیل تک پہنچا- اِس عمل کا آغاز پیغمبر اور اُن کے اَتباع (followers)نے کیا اورآخرکار اس کی تکمیل ہزار سال بعد اہلِ مغرب کے ذریعے انجام پائی-
استبدالِ قوم
قرآن میں فطرت کے جو قوانین بتائے گئے ہیں، اُن میں سے ایک قانون وہ ہے جس کو استبدال (replacement) کہاگیا ہے- اِس سلسلے میں قرآن کی آیت کے الفاظ یہ ہیں: وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ (47:38) یعنی اگر تم پھر جاؤ تو اللہ تمھاری جگہ دوسری قوم کولے آئے گا، پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے:
If you turn back, He will bring in your place another people, who will not be like you.
استبدالِ قوم کا یہ قانون فطرت کا ایک عمومی قانون ہے- اس کا تعلق مذہبی قوم سے بھی ہے اور غیر مذہبی قوم سے بھی- اسلام کی انقلابی اصلاحات کے لیے جس فکری بنیاد کی ضرورت تھی، اس کو مسلمان پورے طورپر وجود میں نہ لاسکے- مسلمان بعد کے زمانے میں قدیم مذہبی تصورات کے زیر اثر آچکے تھے- اِس بنا پر وہ اس مقصد کے لیے اہل نہ تھے- چناں چہ اللہ کا یہ فیصلہ ہوا کہ اِس متوازی رول کاذریعہ وہ ایک ایسی قوم کو بنائے جو اِس عمل کو اس کی تکمیل تک پہنچا سکے-
اہلِ مغرب کا تائیدی رول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کے طورپر یہ بات بتادی تھی کہ اللہ تعالی ایک سیکولر قوم سے دین کی تائید کا کام لے گا (إن اللہ لیؤیدہذا الدین بالرجل الفاجر)- اہل مغرب کی تاریخ کا غیر جانب دارانہ مطالعہ بتاتا ہے کہ اہلِ مغرب نے جو تہذیب برپا کی اور جس کو مغربی تہذیب کہاجاتا ہے، وہ سیکولر مغرب کے ذریعے اِسی تائید دین کی مثال ہے-
یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی تہذیب کے ذریعے جو نئے علوم اور نئے حالات پیدا ہوئے، وہ اپنے عملی نتیجے کے اعتبار سے، اسلام کے حق میں فکری بنیاد فراہم کرنے والے تھے، تاکہ رسول اور اصحابِ رسول کا جاری کردہ عمل اپنے تکمیلی مرحلے تک پہنچ سکے- اس تکمیلی عمل کے چند پہلو یہاں بیان کیے جاتے ہیں:
1- جدید تہذیب کے تحت جو میڈیکل سائنس وجود میں آئی، اس نے تاریخ میں پہلی بار اُس نظریے کو ختم کردیا جس کو سوچنے والا دل (thinking heart) کہاجاتا تھا- اب یہ پوری طرح ثابت ہوگیا ہے کہ دل انسانی جسم میں صرف گردشِ خون (circulation of blood) کا ذریعہ ہے- اِس معاملے میں جدید میڈیکل سائنس یہاں تک پہنچی ہے کہ اُس نے مصنوعی دل (artificial heart) تیار کیا- ایسے مریض جن کے دل عملاً نان فنکشنل (non-functional)ہونے والے تھے، اُن کے جسم میں ڈاکٹروں نے مصنوعی دل نصب کردیا- یہ مصنوعی دل عملاً فطری دل کا بدل بن گیا- ایسے مریضوں کا دل عملاً معطل تھا، اُن کے جسم میں دل کی جگہ ایک مادی ڈیوائس (material device) نصب کیا گیا، اس کے باوجود اُن کا دماغ پہلے کی طرح کام کررہا تھا- اُن کا حافظہ، اُن کے سوچنے کی صلاحیت، کسی کمی کے بغیر، پہلے کی طرح برقرار تھی- اِس طرح تجرباتی طورپر ثابت ہوگیا کہ تفکیر کے عمل (thinking process) کا تعلق انسان کے دل سے نہیں ہے، بلکہ اس کے دماغ سے ہے-
یہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے جس سے قدیم زمانے کا انسان مکمل طورپر بے خبر تھا-اسلام میں معرفت کو قدیم تصور کے برعکس، دل کے بجائےدماغ پر مبنی قرار دیاگیا- قرآن میں دماغ (mind)کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں- مثلاً قلب، فواد، عقل، لُب،حِجر، نُہى- واضح ہو کہ قلب کا لفظ عربی زبان میں عقل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے (لسان العرب: 687/1)- غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں اِس سلسلے میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ سب تفکیری عضو (thinking organ) کے معنی میں ہیں، قرآن میں گردشِ خون کے ذریعے کے طورپر کسی عضو کا ذکر نہیں-پچھلے ہزار سال کے دوران مسلمانوں میں فکری ارتقا نہ ہوسکا- اِس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان فکری عمل کا سرچشمہ غلط طور پر دل کو قرار دیےہوئے تھے- جدیددریافت نے یہ راستہ کھول دیا ہے کہ مسلمانوں میں فکری ارتقا کا عمل حقیقی سطح پر جاری ہوسکے-
قدیم زمانے میں تمام مذاہب میں معرفت حق (realization of truth) کا منبع (source) دل کو سمجھاجاتا تھا- اِس لیے قدیم زمانے میں مراقبہ (meditation) کے طریقے رائج ہوئے، مگر اِن طریقوں کے ذریعے قدیم زمانے کے لوگوں کو کبھی حقیقی معنوں میں معرفتِ حق کا تجربہ نہیں ہوا، کیوں کہ دل صرف گردشِ خون کا ذریعہ تھا- معرفت صرف تفکیر اور تدبر کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے، جس کا مرکز انسان کا دماغ ہے- دل سے اِس کا کوئی تعلق نہیں-
رسول اور اصحابِ رسول کے مختصر زمانے کے بعد خود امتِ مسلمہ میں یہی دل پر مبنی تصورِ معرفت دوبارہ لوٹ آیا-یہی وجہ ہے کہ پچھلے ہزار سال کے دوران امتِ مسلمہ حقیقی معرفت سے تقریباً محروم رہی- موجودہ زمانے میں جدید میڈیکل سائنس کے ذریعے جو نیا دور آیا، اُس نے پہلی بار یہ کیا کہ دل پر مبنی معرفت کے افسانہ (myth) کو ختم کردیا- اب تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوگیا کہ مبنی بر ذہن (mind-based)معرفت کو ڈیولپ کیا جائے اور معرفت الہی کے اعلی درجات تک پہنچنے کی کوشش کی جائے-اِس اعتبار سے، جدید میڈیکل سائنس قدیم نظریے کی تصحیح کی حیثیت رکھتی ہے-
2- قدیم زمانے میں ساری دنیا میں مطلق العنان بادشاہت (despotism) کا طریقہ رائج تھا- اِس سیاسی کلچر کے تحت ساری دنیا میں مذہبی جبر کا کلچر عام تھا- جدید مغربی تہذیب کے تحت پہلی بار ایسا ہوا کہ دنیا میں جمہوریت کا زمانہ آیا- جمہوریت ایک اعتبار سے، سیاسی طاقت کی عدم مرکزیت (decentralization) کا کلچر ہے- اِس کلچر کے تحت مذہب کے معاملے کو سیاسی اقتدار سے الگ کردیا گیا- اِس طرح تاریخ میں پہلی بار مذہبی آزادی کو ایک مسلّمہ بین اقوامی اصول (international norm) کے طورپر مان لیاگیا اور اقوامِ متحدہ (UNO) کے تحت تمام قوموں نے اس کی متفقہ تصدیق کردی- اسلام ایک دعوتی مشن ہے اور اسلام کے دعوتی مشن کی عالمی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ دنیا میں مذہبی آزادی کو ایک مسلّمہ بین اقوامی اصول کے طور پر مان لیا گیا ہو- یہ واقعہ پہلی بار مغربی تہذیب کے دور میں کامل طورپر انجام پایا ہے-
3- قدیم زمانے میں مذہب کی بنیاد صرف عقیدہ (belief) ہوا کرتا تھا- انسان ایک عقلی وجود (rational being) ہے- ضرورت تھی کہ انسان کو ایسا مذہب دیا جائے جو اس کے عقلی ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو- لیکن اِس مقصد کے لیے عقلی ڈیٹا (rational data) درکار تھا جو کہ قدیم زمانے میں دستیاب نہ تھا- مغربی تہذیب کے تحت پیدا ہونے والی سائنس نے فطرت (nature) میں تحقیق کے ذریعے یہ عقلی ڈیٹا فراہم کیا- اِس طرح تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ دینِ خداوندی کے عقائد کو عقلی بنیاد (rational ground) پر قابلِ فہم (understandable) بنایا جاسکے-اِس حقیقت کا اعلان قرآن مجید میں پیشگی طورپر اِن الفاظ میں کیا گیا تھا: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ(41:53)-
قرآن کی اِس آیت میں ’آفاق اور انفس‘ سے مراد تمام وہ مادی اور غیر مادی تخلیقات ہیں جو وسیع کائنات میں پائی جاتی ہیں- اِس پورے مجموعے کو فطرت (nature) کہاجاتا ہے- فطرت کی اِس دنیا میں بے شمار ربانی نشانیاں (signs of God)موجود تھیں- ضرورت تھی کہ اِن نشانیوں کو دریافت کیا جائے، تاکہ امرِ حق خود انسانی مسلّمات کی بنیاد پر مدلل ہوسکے- خدائی نشانیوں کی انفولڈنگ کا یہ کام ہزاروں سال سے نہیں ہوا تھا- موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب نے پہلی بار سائنسی تحقیقات کے ذریعے اِن نشانیوں کو کھولا اور اُن کو انسان کے لیے ایک معلوم واقعہ بنایا- یہ موافق دلائل فطرت (nature) میں آیاتِ الہی کے طورپر موجود تھے، وہ مخفی حالت میں تھے- مغربی سائنس نے قوانینِ فطرت کے نام سے جن حقائق کو دریافت کیا ہے، وہ دراصل یہی دلائل ہیں- اِس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کے علمِ کلام (theology) کو قیاسات کے بجائے برہانیات کی بنیاد پر قائم کی جائے-
4- قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا- اُس وقت قرآن میں یہ کہاگیا تھا کہ: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْراً (25:1)- اِس آیت کے مطابق، یہ مطلوب تھا کہ قرآن کی تعلیمات کو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچایا جائے- مگر قدیم زمانے میں عملاً ایسا ہونا ممکن نہ تھا- اِس عالمی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری تھا کہ پوری دنیا کا جغرافیہ معلوم ہو- پرنٹنگ پریس اور کمیونکیشن کا دور دنیا میں آجائے، ساری دنیا میں بہ آسانی سفر کرنا ممکن ہوجائے، لوگوں کے درمیان کھلا پن (openness) کی فضا موجود ہو، ترقی یافتہ زبانیں دنیا میں پائی جاتی ہوں، وغیرہ-
عالمی دعوت کو ممکن بنانے کے لیے یہ تمام چیزیں لازمی طورپر ضروری ہیں- قدیم زمانے میں یہ اسباب موجود نہ تھے، اِس لیے قدیم زمانے میں اسلام کی عالمی اشاعت کا یہ نشانہ عملاً پورا نہیں ہوسکتا تھا- انیسویں صدی کے بعد کے زمانے میں پہلی بار یہ اسباب حاصل ہوئے ہیں اور اِن اسباب کا حصول براہِ راست مغربی تہذیب کے ذریعے ممکن ہوا ہے-
5- قرآن اصلاً ایک کتابِ دعوت ہے، لیکن دعوت کی نکات کو مدلل کرنے کے لیے قرآن میں بہت سے حوالے دئے گئے ہیں جن کا تعلق تاریخ یا عالمِ فطرت سے ہے- مگر ساتویں صدی کے ربع اول میں اِن حوالوں کی ضروری تفصیلات معلوم نہ تھیں- اِس بنا پر قرآن کے یہ حوالے عملاً صرف عقیدہ کا مسئلہ (matter of belief) بنے ہوئے تھے- اِس قسم کی مثالیں قرآن میں بڑی تعداد میں موجود ہیں- مثلاً قرآن میں کائنات کے آغاز کے لیے ایک حوالہ یہ ہے: اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا (21:30)- اِسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان جب بطنِ ماد ر میں ہوتا ہے تو وہ تین پردوں (فی ظلمات ثلاث) کے درمیان ہوتا ہے (39:6)- اِسی طرح قرآن میں فرعون کے جسم کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَةً(10:92)- قرآن میں کثرت سے اِس طرح کے حوالے پائے جاتے ہیں- ضرورت تھی کہ اُن کےمتعلق تاریخی اور سائنسی معلومات دریافت کی جائیں، تاکہ قرآن کے یہ بیانات انسان کے لیے پوری طرح قابلِ فہم ہوجائیں- یہ کام بھی پہلی بار مغربی علوم کے ذریعے انجام پایا ہے-
6- قدیم زمانے میں مذہبی جبر عام تھا- اِس بنا پر دعوتِ حق کا کام معتدل انداز میں نہیں ہوسکتا تھا- یہ صورتِ حال ایک سیاسی سبب کی بنا پر تھی- قدیم زمانے کے حکمراں اپنا حقِ حکمرانی (mandate) مذہب کی بنیاد پر حاصل کرتے تھے، اِس لیے وہ اِس کو برداشت نہیں کرتے تھے کہ اُن کے علاقے میں سلطنت کے مذہب کے سوا کوئی اور مذہب پایا جائے- مذکورہ آیت میں اظہارِ دین کا ایک پہلو یہ تھا کہ حقِ حکمرانی کے معاملے کو مذہب سے جدا کردیا جائے- دورِ اول میں جو اسلامی انقلاب آیا، اُس نے تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری کیا- یورپ کی جمہوریت اِسی عمل کی تکمیل ہے- مغربی جمہوریت نے یہ کیا کہ حقِ حکمرانی کے معاملے کو مذہب سے الگ کرکے اس کو عوامی رائے سے وابستہ کردیا- اِس کے نتیجے کے طور پر دنیا میں پہلی بار مذہبی امن کا دور آگیا- اِس دور کی باقاعدہ تکمیل اقوامِ متحدہ کی صورت میں ہوئی- جس کے تحت مذہب کے معاملے میں تشدد کو بطور اصول ممنوع قرار دے دیا گیا- یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے گویا دورِ جدید میں حکمتِ حدیبیہ کی عالمی توسیع ہے جو اسلامی دعوت کے حق میں ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتی ہے-
7- مغربی دنیا کے سیکولر اہلِ علم نے اسلام کا مطالعہ اپنے اصول کے مطابق، خالص موضوعی انداز میں کیا- اِس بنا پر وہ اسلام کے کئی ایسے پہلو کو دریافت کرسکے جو مسلم اہلِ علم سے اعتقادی مطالعے کی بنا پر مخفی تھے- مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن کے سلسلے میں غیر معمولی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا- اِس مقابلے میں پیغمبر اسلام کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی- اِس کامیابی کو مسلم اہلِ علم عام طورپر ’’فضیلت رسول‘‘ کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں- اِس کامیابی کو فضیلتِ رسول کے خانے میں ڈالنے کا نقصان یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو اس سے کوئی سبق نہیں ملا- اِس طریقِ مطالعہ سے عام مسلمانوں کو صرف فخر کی غذا ملی- وہ اپنے پیغمبر کو ’’فخر ِ موجودات‘‘ کہنے لگے-
لیکن مغرب کے سیکولر اہلِ علم نے اِن واقعات کا تجزیہ غیر جانب دارانہ ذہن کے ساتھ کیا تو انھوں نے ایک ایسی حقیقت دریافت کی جس میں تمام مسلمانوں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے کامیابی کا اعلی اصول موجود تھا- مثلاً ایک برٹش رائٹر (E.E. Kellet)نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے کے تحت لکھا ہے کہ — انھوں نے مشکلات کا مقابلہ اِس عزم کے ساتھ کیا کہ وہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑیں:
He faced adversity with the determination to wring success out of failure.
یہ صرف ایک تاریخی تجزیہ نہیں، اِس سے زندگی کا ایک اہم اصول دریافت ہوتا ہے، وہ یہ کہ انسان کو اُن کے خالق نے ایک انوکھی صلاحیت کے ساتھ پیدا ;کیاہے، اور وہ ہے اپنے مائنس کو اپنے پلس میں تبدیل کرلینا-
انسانی شخصیت کا یہ امکان (potential)فطرت کا ایک عظیم عطیہ ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعے اِس انسانی فطرت کا ایک کامیاب مظاہرہ کیا، مگر مسلمان اپنے عقیدت مندانہ مطالعے کی بنا پر اِس پہلو کو بطور سنتِ رسول اپنی زندگیوں میں شامل نہ کرسکے- مغربی سیرت نگاروں نے سیرت نبوی کے اِس پہلو کو دریافت کرکے مسلمانوں کو یہ موقع دیا کہ وہ اس کو اختیار کریں اور اس کے ذریعے اپنے منصوبوں کو حقائق کی بنیاد پر قائم کرکے اس کو کامیاب بنائیں-
شہادتِ اعظم
مغربی تہذیب کا دینِ خداوندی کے حق میں سب سے بڑا تائیدی رول یہ ہے کہ اس نے اہلِ اسلام کے لیے وہ ضروری اسباب فراہم کیے جن کو استعمال کرکے وہ دورِ آخر کے اُس اہم ترین رول کو کامیابی کے ساتھ ادا کرسکیں، جس کو حدیث میں شہادتِ اعظم کہا گیا ہے- شہادتِ اعظم سے مراد دعوتِ اعظم ہے- اِس دعوتِ اعظم کے دو پہلو ہیں — نظری اعتبار سے، اس کا اعلی حجت (superior reason) پر قائم ہونا، اور وسعت کے اعتبار سے، اس کے دائرے کا عالمی (global)ہونا-
صحیح مسلم میں ایک لمبی روایت آئی ہے- اِس روایت میں دورِ آخر کے ایک اہم رول کا ذکر بطور پیشین گوئی کیاگیا ہے- اِس کی بابت حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: ہذا أعظم الناس شہادة عند رب العالمین (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 5230) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ رب العالمین کے نزدیک سب سے بڑی شہادت ہوگی-
اِس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں ’شہادت‘ سے مراد جسمانی قتل نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد نظریاتی معنوں میں ایک عظیم دعوتی رول ہے جو دورِ آخر میں انجام پائے گا- غالباً اِس سے مراد انسانی تاریخ کے آخری زمانے کا ایک فائنل دعوتی رول ہے- اِس دعوتی رول کی صراحت اگر چہ حدیث میں موجود نہیں ہے، لیکن قرآن وحدیث میں ایسے اشارات موجود ہیں جن پر غور کرکے اِس رول کو متعین کیا جاسکتا ہے-
1- شہادتِ اعظم کے نظری پہلو کو سمجھنے کے لیے قرآن کی اِس آیت سے رہنمائی ملتی ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَق (41:53)- قرآن کی اِس آیت میں ’آیات‘ سے مراد تخلیق میں چھپی ہوئی نشانیاں ہیں- ان نشانیوں کو موجودہ زمانے میں مغربی سائنس دانوں نے غیر معمولی تحقیق کے ذریعے دریافت کیا- اِس طرح دینِ خداوندی کی تاریخ میں ایک نیا دور آگیا- قبل از سائنس دور (pre-scientific era)میں جو ایمان پیغمبروں کے بتائے ہوئے عقیدہ (belief) کی حیثیت رکھتا تھا، وہ بعد از سائنس دور(post-scientific era) میں خود انسان کے اپنے دریافت کردہ علوم کے تحت ایک ثابت شدہ حقیقت بن گیا-
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم زمانے میں کائنات ایک پر اسرار ظاہرہ بنی ہوئی تھی-قدیم زمانے میں نہ عالمِ اکبر (macro world) کو دیکھنے کے لیے دور بین موجود تھی اور نہ عالمِ اصغر (micro world) کو دیکھنے کے لیے خورد بین دستیاب تھی- موجودہ زمانے میں اعلی سائنسی نوعیت کے مشاہدے اور تجربے کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ کائنات میں نہایت اعلی درجے کی ذہین ڈیزائن موجود ہے- یہ دریافت اِس مذہبی تصورکو یقینی بنادیتی ہے کہ یہ کائنات ایک باشعور خالق کی ایک باشعور تخلیق ہے- ( ملاحظہ ہو:(The Intelligent Universe by Fred Hoyle
2- شہادت کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق عالمی دعوت (global dawah) سے ہے- اسلام اول دن سے سارے انسانوں کے لیے ایک دین ِ رحمت کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن اسلام کے پیغام کو سارے انسانوں تک پہنچانا قدیم زمانے میں ذ رائع کے اعتبارسے عملاً ممکن نہ تھا- موجودہ زمانے میں مغربی سائنس نے پہلی بار اُن تمام ذرائع کو انسان کی دسترس میں دے دیا جن کو استعمال کرکے اسلام کی عالمی دعوت کو ایک واقعہ بنایا جاسکتا ہے-
اِس کی ایک مثال موجودہ زمانے میں اُس ذریعے کی ایجاد ہے جس کو الیکٹرانک کمیونکیشن کہاجاتا ہے- یہ دریافت اب نہایت ترقی یافتہ سائنس بن چکی ہے- اِس دریافت کا ایک جز موبائل فون ہے- اِس دریافت کے تحت موجودہ زمانے میں وہ آلہ تیار ہوگیا ہے جس کو اسمارٹ فون (smartphone) کہاجاتاہے- یہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ہر آدمی اس کو اپنی جیب میں رکھ سکتا ہے- اسمارٹ فون میں بظاہر لامحدود گنجائش (capacity) ہوتی ہے-
موجودہ زمانے میں تمام بڑے بڑے ادارے اپنے کتابوں کو اپ لوڈ کرکے انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون پر ڈال رہے ہیں- اِس دریافت نے ایک نئے دعوتی امکان کو واقعہ بنا دیا ہے- اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ قرآن کے ترجمے مختلف زبانوں میں تیار کیے جائے- یہ ترجمے ایسی زبان میں ہوں جو قاری کے لیے بہ آسانی قابلِ فہم ہوں- پھر قرآن کے اِن ترجموں کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا جائے اِس کے بعد زمین پر بسنے والے ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ اپنی جیب سے اسمارٹ فون نکالے اور اس کے ایک سوئچ کو ٹچ کرے اور پورے قرآن کا ترجمہ اس کی اپنی قابلِ فہم زبان میں اس کے سامنے آجائے-دعوت کا یہ عالمی ذریعہ آج مغربی سائنس کی بناپر عملاً ایک واقعہ بن چکا ہے-
غالباً دورِ آخر کایہی وہ دعوتی امکان ہے جس کا ذکر بطور پیشین گوئی ایک حدیثِ رسول (لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام بعز عزیز وذل ذلیل)میں کیا گیا ہے-اِس حدیث میں ’کلمۂ اسلام‘ سے مراد قرآن ہے- یہ ایک قابلِ غور بات ہے کہ حدیث میں ’إدخال الکلمة فی کل القلوب‘ کا لفظ نہیں آیا ہے، بلکہ حدیث میں ’إدخال الکلمة فی کل البیوت‘ کا لفظ آیا ہے- اِس کا مطلب واضح طورپر یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کہ کرۂ ارض پر بسنے والے تمام لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں، بلکہ جو واقعہ ہوگا، وہ یہ کہ ہرچھوٹے بڑے گھر میں جہاں کوئی انسان رہتا ہے، وہاں قرآن داخل ہوجائے گا، خواہ انسان چاہے یا نہ چاہے- مذکورہ حدیث کے آخر میں عزت اور 'ذلت کے الفاظ اپنے لفظی معنی میں نہیں ہیں، بلکہ وہ اِسی معنی میں ہیں کہ آدمی چاہے یا نہ چاہے، ہر حال میں ایسا ہوگا کہ خدا کا کلام اس کے گھر میں داخل ہوجائے گا —انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی ایجاد کے بعد یہی واقعہ اپنی کامل صورت میں عملاً ظہور میں آگیا ہے- (2014)
واپس اوپر جائیں

انتظار نہیں

ایک صاحب نے کہا کہ میں الرسالہ کا قاری ہوں- مجھے الرسالہ کے دعوتی نقطہ نظر سے مکمل اتفاق ہے- میری عمر 63 سال ہے- میرے پانچ بچے ہیں- دعا کیجئے کہ میں اپنے بچوں کی ذمے داریوں سے فارغ ہوجاؤں- اِس کے بعدمیرا ارادہ ہےکہ میں اصحابِ صفہ کی طرح اپنی زندگی کا ہر لمحہ بالکل دین کی خدمت میں گزاروں گا-
یہاںاصحابِ صفہ کا حوالہ درست نہیں- اصحابِ صفہ نے ایسا نہیں کیا تھا کہ پہلے وہ اپنی اولاد کی ذمے داریوں سے فارغ ہوئے- اُس کے بعد وہ دین کی خدمت میں لگ گئے- اِس کے برعکس، اصحابِ صفہ کا معاملہ یہ تھا کہ جب انھیں سچائی کی دریافت ہوئی تو فوراً ہی انھوں نے اپنی زندگی سچائی کے لیے وقف کردی- انھوںنے اپنی دنیوی ذمے داریوں کو اللہ پرڈال دیا اور اپنے آپ کو دین کی ذمے داری اداکرنے کے لیے وقف کردیا-
دریافت حق میں کوئی انتظار نہیں ہوتا- جس آدمی کو حق کی دریافت ہوجائے، وہ اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کسی عذر (excuse) کو لے کر انتظار کی پالیسی اختیار کرے- حق کی دریافت کے بعد وہ فی الفور اپنے آپ کو حق کے راستے پر ڈال دے گا-
اِس معاملے میں جو شخص کسی عذر کا حوالہ دے یا وہ انتظار کی پالیس اختیار کیے ہوئے ہو، اس کے بارے میں کہاجائے گا کہ اُس نے ابھی حق کو پایا ہی نہیں- اُس نے کسی اور چیز کو پایا ہے اور غلطی سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اُس نے حق کو پالیا ہے-
حق بلا شبہہ تمام چیزوں میں سب سے بڑی چیز ہے- حق کو پانے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اُس چیز کو دریافت کرلیا جو اُس کے لیے سب سے بڑی چیز کی حیثیت رکھتی ہے- ایسا انسان عذر کو بھول جائے گا- انتظار کی پالیسی اختیار کرنا اُس کو ایسا لگے گا جیسے اُس نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لیا ہو-
واپس اوپر جائیں

بحران کے وقت

16 مئی 2011 کا واقعہ ہے۔ کیتھے پیسفک ائرویز(Cathay Pacific Airways) کا ایک جہاز (Airbus, 330) سنگاپور سے جکارتا (انڈونیشیا) جارہا تھا۔ اِس جہاز میں 136 مسافر سوار تھے۔ راستے میں جہاز کے ایک انجن میں آگ لگ گئی۔ پائلٹ نے جہاز کو دوبارہ واپس لاکر سنگاپور میں اتار دیا۔
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (17 مئی 2011 ) میں اِس خبر کو دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ایک مسافر نے گھبرا کر جہاز کی کھڑکی کے باہر دیکھا۔ وہ چلایا کہ — میں آگ دیکھ رہا ہوں، میں آگ دیکھ رہا ہوں۔ ہمارے پیچھے بیٹھے ہوئے مسافر یہ دعا کررہے تھے— خدایا، ہمارے جہاز کو بچا- خدایا، ہم کو اپنی حفاظت عطا فرما:
‘I see fire! I see fire!’ “Behind us, passengers were praying: ‘God, save our flight! Give us your protection!” (The Times of India, New Delhi, May 17, 2011)
تجربہ بتاتا ہے کہ آدمی جب کسی بحرانی صورتِ حال سے دوچار ہوتاہے، جب وہ محسوس کرتاہے کہ وہ پیش آمدہ صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے بالکل عاجز (helpless)ہے۔ اُس وقت وہ بے تابانہ طورپر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ اِس کی ایک مثال مذکورہ واقعے میں ملتی ہے۔
اِس طرح کے بحران (crisis) کے واقعات آدمی کی زندگی میں بار بار پیش آتے ہیں۔ اِس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ خدا کا تصور انسان کی فطرت میں پیوست (interroven)ہے۔ ہر انسان کو امکانی طورپر (potentially) خدا کی معرفت حاصل ہے۔
دعوت الی اللہ کا مقصد اِسی امکان کو واقعہ بنانا ہے۔ دعوت انسانی شخصیت کے الگ کوئی چیز نہیں، وہ اس کی اپنی شخصیت ہی کا ایک حصہ ہے۔ اِسی لیے آدمی جب اپنی اِس فطرت کو دریافت کرلیتاہے تو وہ توحید کی دعوت کو اِس طرح قبول کرلیتا جیسے کہ وہ اس کی اپنی چیز تھی۔
واپس اوپر جائیں

جنتی تہذیب

قرآن کی سورہ یاسین میں اہلِ جنت کے ذکر کے تحت یہ الفاظ آئے ہیں: اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰکِــہُوْنَ (36:55) یعنی بے شک، اہلِ جنت آج ایک عظیم مشغلے میں ہوں گے، خوش —— ہر آئینہ اہلِ بہشت امروز درکارے باشند، شاداں:
Surely the dwellers of Paradise shall on that day be in an occupation quite happy.
آخرت میں سچے اہلِ ایمان کو جنت میں داخلہ ملے گا- وہاں وہ ابدی طورپر خوشیوں کی زندگی گزاریں گے- جنت ہر اعتبار سے، پرفکٹ (perfect) ہوگی-وہاں ہر اعتبار سے، اہلِ جنت کے لیے فل فل مینٹ (fulfilment) کا سامان ہوگا- وہاں اہلِ جنت نہ کبھی حزن کا شکار ہوں گے اور نہ وہ کبھی اکتاہٹ (boredom) میں مبتلا ہوں گے-
تاہم جنت صرف آرام وعیش کی جگہ نہ ہوگی، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ اہلِ جنت کے لیے ایک اعلی ترین سرگرمی کا مقام ہوگا- مذکورہ آیت میں اِس حقیقت کو بتانے کے لیے ’شغل‘ کا لفظ آیا ہے- شغل کے لفظی معنی مشغلہ (activity) کے ہیں- شغل کا لفظ اِس آیت میں نکرہ استعمال ہوا ہے- نحوی قاعدے کے مطابق، تنکیر برائے تفخیم ہوتی ہے- اِس لیے یہاں شغل سے مراد ہے ایک عظیم مشغلہ-
اِس عظیم مشغلہ سے کس قسم کا مشغلہ مراد ہے- غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اِس سے مراد وہی مشغلہ ہے جو دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے عظیم مشغلہ تھا- یہی مشغلہ بہت زیادہ اضافہ کے ساتھ آخرت میں بھی ابدی طورپر جاری رہے گا- اِس مشغلہ کو دنیا میں قوانینِ فطرت کی دریافت (discovery of natural laws) کہاجاتاہے، اِسی کو قرآن میں کلمات اللہ (31:27) کہاگیا ہے- دنیا میں کلمات اللہ کی دریافت ابتدائی طورپر ہوئی تھی- آخرت میں دوبارہ ’کلمات اللہ‘ کی دریافت ابدی طورپر اور غیر مختتم طورپر جاری رہے گی-
قرآن میں بتایا گیاہے کہ اللہ کے کلمات ناقابلِ قیاس حد تک زیادہ ہیں، اتنے زیادہ کہ اگر اُن کو لکھا جائے تو وہ ضبطِ تحریر میں نہ آسکیں- اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (31:27) یعنی اگر زمین میں جو درخت ہیں، وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزیدسمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے- بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے-
’کلمات اللہ‘ کا لفظی مطلب ہے اللہ کی باتیں (words of God)- اللہ کا کلمہ سادہ طورپر صرف کلمہ نہیں ہوتا، وہ ایک محکم فیصلہ یا اٹل قانون ہوتا ہے- کلمات اللہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مختلف مقامات پر ’امرِ رب‘ یا ’امر اللہ‘ کہاگیا ہے- دوسرے الفاظ میں، اس کو قوانینِ الہیہ (divine laws) کہاجاسکتا ہے- موجودہ زمانے میں اہلِ سائنس اِس واقعے کو قوانینِ فطرت (laws of nature) کہتے ہیں-
یہی قوانینِ الہیہ یا قوانینِ فطرت ہیں جن کی بنیاد پر کائنات کی تخلیق ہوئی اور یہی قوانین ہیں جن کے تحت نہایت محکم انداز میں کائنات کا پورا نظام مسلسل طورپر چل رہاہے- یہی قوانین انسان کے لیے اس کی تمام فکری اور عملی ترقیوں کا ماخذ ہیں- اِنھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان معرفت حاصل کرتا ہے- اِنھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان تخلیق کی معنویت کو دریافت کرتاہے- انھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان اللہ کی عظمت (glory) سے آشنا ہوتا ہے- انھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان کےاندر وہ صفات پیدا ہوتی ہیں جن کو اللہ کے لیے حبّ شدید اور خوفِ شدید کہاجاتا ہے- انھیں قوانین پر تدبرکرکے آدمی اپنے اندر وہ ربانی شخصیت پیدا کرتا ہے جو اللہ کو مطلوب ہے- یہ قوانین الہیہ اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ انسان ابد تک اُن میں تدبر کرتا رہے اور وہ کبھی ختم نہ ہوں-
یہی قوانین یا قوانینِ فطرت ہی تمام علوم کا خزانہ ہیں- موجودہ زمانے میں جس ظاہرے کو تہذیب (civilization)کہا جاتا ہے، وہ اِنھیں قوانین الہیہ یا قوانین فطرت کی جزئی دریافت کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے- سائنس کے علوم تمام تر اِنھیں قوانین میں غور وفکر کے ذریعے حاصل ہوئے ہیں- یہی قوانین، حکمت (wisdom) کا خزانہ ہیں- حقیقت ہے کہ اِن قوانین کے ساتھ انسان انسان ہے- اگر اِن قوانین کو انسان سے جدا کردیا جائے تو انسان صرف ایک حیوان بن کر رہ جائے گا- جو چیز انسان کو انسان بناتی ہے، وہ اس کی صرف یہ خصوصیت ہے کہ وہ فطرت کے قوانین کو دریافت کرکے اُن کو اپنے لیے استعمال کرتاہے-
امریکی مصنف الون ٹافلر (Alvin Toffler) کی ایک کتاب ’فیوچر شاک‘ (Future Shock) ہے، جوپہلی بار 1970میں امریکا سے شائع ہوئی- اس نے اِس کتاب میں کہا تھا کہ ہمارا انڈسٹریل ایج (industrial age) مزید ترقی کرکے اب سپر انڈسٹریل ایج (super industrial age) میں داخل ہونے والا ہے- مغربی مصنف نے اپنی یہ پیشین گوئی بیسویں صدی میں کی تھی، لیکن صدی کے آخر میں اس کا یہ خواب منتشر ہوگیا-ماحولیاتی مسائل (ecological problems) نے بتایا کہ زمین پر انسانی تہذیب کی آخر حد آچکی ہے- اِس زمین پر انسانی تہذیب کا سفر مزید آگے جاری رہنے والا نہیں-
تہذیب کیا ہے- تہذیب تمام تر قوانین فطرت پر مبنی ایک ظاہرہ ہے- قوانینِ فطرت سے الگ تہذیب کا کوئی وجود نہیں- جب یہ واقعہ ہے کہ قوانینِ الہیہ یا قوانین فطرت کی کوئی حد نہیں تو لازمی طورپر یہ بھی ہونا چاہئے کہ تہذیب کی ترقی کی کوئی حد نہ ہو، تہذیب کی ترقی کا سفر ابدی طورپر جاری رہے-یہی وہ مقام ہے جہاں قرآن ہم کو رہنمائی دیتا ہے- قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ تہذیبِ انسانی کا سفر موجودہ دنیا کے دورِ حیات میں ختم نہ ہوگا، بلکہ وہ مزید ترقی کے ساتھ زیادہ اعلی صورت میں آخرت کے ابدی دورِ حیات میں جاری رہے گا-
قرآن میں یہ بات، نعوذ باللہ، بطور بوسٹنگ (boasting) نہیں ہے، بلکہ وہ بطور پیشین گوئی ہے، یعنی اِس قرآنی بیان میں دراصل یہ اعلان کیاگیا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب کہ تہذیب کا نامکمل سفر اپنی تکمیل کو پہنچے- موجودہ دنیا میں ’کلمات اللہ‘ کا جو اظہار جزئی صورت میں ہواہے، آخرت کی دنیا میں اس کا اظہار کامل صورت میں ہوگا-
قرآن یہ خوش خبری دیتاہے کہ انسانی تہذیب کا سفر ادھورا نہیں رہے گا، بلکہ وہ مزید ترقی کے ساتھ آئندہ بھی جاری رہے گا- ارتقا کا جو موقع انسان کو حیاتِ دنیا میں نہیں ملا تھا، وہ آخرت کی زندگی میں مزید اضافے کے ساتھ اس کو حاصل ہوجائے گا-
تہذیب کے دو دور
تہذیب کے دو دور جن کا ذکر اوپر کیاگیا، اُن کا حوالہ قرآن میں صراحتاً موجود ہے- تہذیب کا پہلا دور جو قوانینِ فطرت کی جزئی دریافت کے ذریعے موجودہ دنیا میں ظہور میں آئے گا، اس کا ذکر قرآن کی سورہ حم السجدہ میں اِن الفاظ میں آیا ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (41:53) یعنی عن قریب ہم اُن کو اپنی نشانیاں (signs) دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی، یہاں تک کہ اُن پر پوری طرح آشکارا ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے-
قرآن کی اِس آیت میں قوانینِ الہیہ پر مبنی تہذیب کے اُس دور کا ذکر ہے جو موجودہ دنیا میں پیش آنے والا تھا- قرآن کی یہ پیشین گوئی انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں سائنس کے ظہور کی صورت میں واقعہ بن چکی ہے- سائنس کی دریافتوں نے یہ کیا ہے کہ آفاق وانفس میں جو خدائی نشانیاں (signs of God) موجود تھیں، اُن کو جزئی طورپر دریافت کیا اور اِس طرح انسان کے لیے تبیینِ حق کے نئے مواقع کھول دئے - اِن دریافتوں کے ذریعے انسان کو ایک نیا فریم ورک (framework) ملا- اِس کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا کہ انسان خالص علمی اور عقلی سطح پر اللہ کی معرفت حاصل کرے-
قوانینِ الہیہ پر مبنی تہذیب کا دوسرا عظیم تر ظہور آخرت کے دورِ حیات میں پیش آئے گا- تہذیب کے اِس دوسرے دور کو ربانی تہذیب کہاجاسکتا ہے- یہ دور اپنے تمام کمالات کے ساتھ ابدی طورپر جاری رہے گا- اِس دوسرے دورِ تہذیب کا ذکر قرآن کی سورہ الکہف میں اِن الفاظ میں آیا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ؁ خَالِدِیْنَ فِیْہَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا ؁ قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا (18:107-109) یعنی بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے عملِ صالح کیا، اُن کے لیے فردوس کے باغوں کی ضیافت ہے- اِس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہ وہاں سے نکلنا نہ چاہیں گے- کہوکہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لیے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا، اِس سے پہلے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں ، اگر چہ ہم اس کے ساتھ اسی کی مانند اور سمندر ملا دیں-
قرآن کی اِن آیات پر غور کیجئے- سب سے پہلے فرمایا کہ ’’جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیا‘‘، یعنی جن لوگوں نے دریافت کی سطح پر اللہ کی معرفت حاصل کی اور پھر اس معرفت کے مطابق، اپنی عملی زندگی کو ربانی زندگی بنا دیا- اس کے بعد فرمایا کہ ’’اُن کے لیے فردوس کے باغوں کی ضیافت ہے‘‘، یعنی آخرت میں اُن کو اللہ کے آفاقی گیسٹ ہاؤس (universal guesthouse) میں ابدی طورپر رہنے کا موقع دیا جائے گا- اِس کے بعد فرمایا کہ ’’اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہ وہاں سے نکلنا نہ چاہیں گے‘‘-
انسان کا مزاج یہ ہے کہ اگر اس کو یکساں قسم کی مادی نعمتیں دی جائیں تو یہ نعمتیں خواہ کتنی ہی زیادہ ہوں، کچھ دنوں کے بعد وہ ان کی یکسانیت کی بناپر بورڈم (boredom) کا شکار ہوجائے گا، وہ اُن سے محظوظ نہ ہوسکے گا- اِس کے بعد فرمایا کہ ’’وہ جنت سے نکلنا نہ چاہیں گے‘‘- اِس طرح کی کیفت پیدا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اہلِ جنت کو مادی نعمتوں کے سوا ایک اور چیز حاصل ہو اور وہ ہے — بار بار نئی چیزوں کا ملنا، بار بار نئی دریافتوں کا تجربہ پیش آنا ، مسلسل طورپر فکر ی ارتقاکا جاری رہنا جن کی بنا پر اہلِ جنت کی تخلیقیت (creativity)کبھی ختم نہ ہوگی- اہلِ جنت کی شخصیت میں یہ ارتقا معرفت ِ خداوندی میں ارتقا کے ذریعے پیش آئے گا-
جنت میں تخلیقی سرگرمیوں (creative activities) کے جو اتھاہ مواقع ہوں گے،اُن کو آیت کے اگلے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، اور وہ ہے اہلِ جنت کے ذریعے ’کلمات اللہ‘ کی ابدی انفولڈنگ (eternal unfolding)- قرآن کے مطابق، ’کلمات اللہ‘ کی تعداد لا محدود ہے- سائنس کے ذریعے اِن ’کلمات اللہ‘ کا جزئی ظہور (partial unfolding) ہوا، جس کے نتیجے میں دنیا کی تہذیب وجود میں آئی- آخرت میں اہلِ جنت کے ذریعے ’کلمات اللہ‘ کا کامل ظہور ہوگا- اِس کے نتیجے میں وہ دورِ کمال وجود میں آئے گا جس کو جنتی تہذیب کہا جاتا ہے-
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان جو یہاں پیدا ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو تیاری میں لگا دیتا ہے- ہر آدمی اپنے اندر کسی نہ کسی شعبے کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے- ہر آدمی آخری حد تک یہ کوشش کرتاہے کہ اس کے اندر کوئی خاص ہنر مندی (skill)، کوئی خاص لیاقت(qualification) ، کوئی خاص مہارت (expertise) پائی جائے، تاکہ وہ موجودہ دنیا میں قائم شدہ تہذیب کے نقشے میں کوئی اعلی مقام حاصل کرسکے- ہر عورت اور مرد زندگی کی اِس حقیقت کو جانتے ہیں اور اس کے لیے پوری طرح سرگرم رہتے ہیں-
یہی معاملہ آخرت میں بننے والی بلند تر تہذیب کا ہے- وہاں بھی سرگرمیاں ہوں گی، وہاں بھی مناصب ہوں گے ، وہاں بھی ہر قسم کے اعلی شعبے ہوں گے- جنتی دنیا کے ان اعلی مواقع کو حاصل کرنے کے لیے بھی تیار ذہن اور تربیت یافتہ افراد درکار ہیں-موجودہ دنیا ایک اعتبار سے، اِسی اعلی تیاری کی تربیت گاہ ہے-
موجودہ دنیا کے حالات میں لوگوں کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اندر وہ ربانی صلاحیت پیدا کریں جو اُن کو اِس قابل بنائے کہ وہ آخرت میں بننے والی برتر تہذیب کے مناصب کے لیے منتخب کیے جاسکیں اور پھر ابدی طورپر نہ صرف آرام وعیش کی زندگی گزاریں، بلکہ ایک ایسے تہذیبی سفر کا حصہ بن جائیں جس کی ترقیاں کبھی ختم نہ ہوں- یہ لا محدودخوشی (endless pleasure) کی زندگی ہوگی، جو اللہ کی خصوصی رحمت سے اہلِ جنت کو حاصل ہوگی-
موجودہ دنیا میں کسی آدمی کو جو عزت کا مقام ملتا ہے، وہ اِس بنیاد پر ملتا ہے کہ اس نے تہذیب کے تقاضوں کے مطابق، اپنے آپ کو کتنا تیار کیا ہے- یہی معاملہ آخرت کی جنتی تہذیب میں بھی ہوگا- موجودہ دنیا کی تہذیب میں ہر آدمی کو ڈاکٹر، انجینئر، اسکالر اور ٹکنکل اکسپرٹ، وغیرہ کی نسبت سے مقام ملتاہے- آخرت میں عارف ، متقی اور خاشع، وغیرہ کی نسبت سے اس کو مقام حاصل ہوگا- دنیا میں آدمی کو دنیوی تقاضے کے مطابق تیاری کی نسبت سے اپنا مقامِ استعمال ملتا ہے- آخرت میں ہر آدمی کو ربانی تقاضے کے مطابق تیاری کی نسبت سے اپنا مقامِ استعمال ملے گا-
خلاصۂ کلام
تہذیب (civilization) کیا ہے-تہذیب، اپنی حقیقت کے اعتبار سے، کلماتِ الہیہ کے ظہور کا نام ہے- قیامت سے پہلے کے دورِ حیات میں یہ ظہور جزئی طور پر ہوگا اور قیامت کے بعد کے دورِ حیات میں کامل طور پر- موجودہ دنیا میں انسان کو آزادی حاصل تھی، اِس لیے موجودہ دنیا میں کلماتِ الہیہ کے جزئی ظہور سے جو تہذیب بنی، اس میں انسانی فساد کی بنا پر منفی اجزا شامل ہوگئے- لیکن آخرت میں کلماتِ الہیہ کے کامل ظہور سے جو تہذیب وجود میں آئے گی، وہ انسانی فساد سے پوری طرح پاک ہوگی- اِس لیے آخرت میں ظہور میں آنے والی تہذیب تمام تر مثبت اجزا پر مبنی ہوگی- اِسی لیے اس کو جنتی تہذیب کہاگیا ہے-
قرآن میں جنت کے حوالے سے ارشاد ہوا ہے کہ : لِمِثْلِ ہَذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُوْنَ (37:61) یعنی انسان کو چاہیے کہ وہ موجودہ دنیا کو ایک موقع (opportunity) کے طورپر لے- وہ اپنے آپ کو اِس اعتبار سے تیار کرے کہ وہ آخرت میں بننے والی جنتی تہذیب میں اپنے لیے باعزت جگہ پاسکے- اِسی لیے کہا گیا ہے کہ موجودہ دنیا دار العمل ہے اور آخرت کی دنیا دار الجزا- (2013)
سوال و جواب
سوال
میں الرسالہ کا ایک قاری ہوں- براہِ کرم حسب ذیل تین سوالات کی وضاحت کرکے شکریے کا موقع عنایت فرمائیں:
1- قرآن کا اسلوب شذراتی ہے، یا قرآن ایک منظّم کلام ہے؟
2- مشن کلچر اور اکیڈمک کلچر کے درمیان کیا فرق ہے؟
3- توحید اور تزکیہ کا مفہوم کیا ہے؟
(ایک قاری الرسالہ، اسلام آباد، پاکستان)
جواب
1- قرآن کو سنتے یا پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس میں ترتیب کا انداز نہیں، بلکہ عام طورپر فریگمنٹری (fragmentary)انداز ہے- قرآن کے اسلوب کے بارے میں بہت سے اہلِ علم کے سامنے یہ سوال رہا ہے- مولانا حمید الدین فراہی (وفات: 1930 ) نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پورا قرآن ایک منظم کلام ہے-
ذاتی طورپر میرا خیال یہ ہے کہ قرآن ایک مجموعۂ شذرات کی صورت میں ہے- قرآن کے مقصد کے اعتبار سے یہی اسلوب زیادہ مفید ہے- قرآن کا مقصد ذہنِ انسان کی تعمیر ہے- یہ فائدہ صرف ترکیزی فکر (focused thinking) سے حاصل ہوسکتا ہے- شذراتی اسلوب سے ترکیزی فکر کا فائدہ بخوبی طور پر حاصل ہوتا ہے- لمبی مسلسل عبارت میں فوکس پھیل جاتا ہے، جب کہ چھوٹے چھوٹے شذرات کی صورت میں ذہن کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ایک پوائنٹ پر فوکس کرکے غور وفکر کرے- میرے ذاتی تجربے کے مطابق، ذہن سازی یا فکری تشکیل کا فائدہ شذراتی انداز سے حاصل ہوتا ہے- چناں چہ جب میں نے 1976 میں ماہ نامہ الرسالہ نکالا تو اس کو بھی اِسی شذراتی اسلوب میں نکالا، یعنی ہرصفحے میں ایک سوچنے والی بات-
مولانا حمید الدین فراہی کا ماننا تھا کہ نظمِ قرآن فہمِ قرآن کی کلید ہے- وہ اِس موضوع پر نظام القرآن کے نام سے ایک تفسیر لکھ رہے تھے، مگر وہ اس کو مکمل نہ کرسکے- لیکن ان کے شاگر دِ رشید مولانا امین احسن اصلاحی (وفات: 1997)نے اِسی اسلوب پر ایک مکمل تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ لکھی جو 9 جلدوں پر مشتمل ہے-
نظم کو فہمِ قرآن کا ایک پہلو کہاجاسکتا ہے، لیکن اُس کو فہمِ قرآن کی کلید کہنا درست نہیں، جب آپ قرآن کا مطالعہ اِس طرح کریں کہ آپ کا ذہن نظم بین الآیات اور نظم بین السُّوَر پر لگاہوا ہو تو فطری طور پر آپ کے ذہن کا فوکس پھیل جائے گا- اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ قرآن کی فوکسڈ اسٹڈی (focused study) نہ کرسکیں گے، اِس طریقِ مطالعہ میں آپ کو قرآن کے کچھ فنی پہلو تو ملیں گے، لیکن تقوی کا پہلو حذف ہوجائے گا جو کہ مطالعہ قرآن کا اصل مقصود ہے-
2- مشن کلچر اور اکیڈمک کلچر دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں- اکیڈمک کلچر تنوع (diversity) پر قائم ہوتا ہے- اِس کے برعکس، مشن کلچر توحُّد پر قائم ہوتا ہے- علمی اور تحقیقی ادارے میں افکار کا تنوع ایک قابلِ قبول بات ہوتی ہے، لیکن مشن کا مزاج افکار کے تنوع کو برداشت نہیں کرتا- اِس کی مثال یہ ہے کہ تبلیغی جماعت نے مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا محمد منظور نعمانی کو برداشت نہیں کیا، حالاں کہ دونوں اصولی طورپر تبلیغ سے اتفاق رکھتے تھے- اِسی طرح جماعتِ اسلامی ہند نے ڈاکٹر عبد الحق انصاری اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو قبول (accept) نہیں کیا، حالاں کہ دونوں اصولی طورپر جماعت اسلامی سے اتفاق کرتے تھے- یہ کلچر مذہبی مشن کا بھی ہے اور سیکولر مشن کا بھی- مثلاً گاندھی کو برتر از کانگریس (greater than Congress)کہاجاتا تھا- جواہر لال نہرو نے اپنی آٹو بایوگرافی میں لکھا ہے کہ کانگریس کمیٹی میں بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ گاندھی جی کے نقطہ نظرسے ہم لوگوں کو اتفاق نہیں ہوتا تھا- اُس وقت گاندھی جی ایک جملہ بولتے تھے- اس کے بعدسب لوگ اُن سے متفق ہوجاتے تھے- وہ جملہ یہ ہوتا تھا:
Thus my inner sight speaks.
اِس بنا پر میری یہ رائے ہے کہ مشن میں وہی آدمی شرکت کرے جو مشن کلچر کے اِس مبنی بر توحّد تصور کو مانتا ہو- اگر کسی شخص کے اندر یہ مزاج نہ ہو تو اُس کو ہرگز مشن میں شریک نہیں ہونا چاہیے-
3- اسلامی تعلیمات میں دو چیزیں سب سے زیادہ اہم ہیں — توحید اور تزکیہ- توحید اللہ کی نسبت سے ہے اور تزکیہ بندے کی نسبت سے- اِن دونوں کے دو درجے ہیں- ایک ابتدائی درجہ اور دوسرا اعلی درجہ- میرے اپنے مطالعے کے مطابق، خواصِ صحابہ اِن دونوں کے معاملے میں اعلی درجے تک پہنچے تھے- لیکن امت کی بعد کی تاریخ میں، میرے علم کے مطابق، شاید کوئی بھی شخص اِن دونوں معاملات میں اعلی درجے تک نہ پہنچ سکا- یہ رائے میں نے بعد کے لوگوں کی اُن تحریروں سے قائم کی ہے جو کتابوں میں موجود ہیں-توحید کا اعلی معیار یہ ہے کہ بندے کے اندر اللہ سے حبِ شدید اور خوفِ شدید پیدا ہوجائے- میرے علم کے مطابق، امت کے بعد کے افراد میں خوفِ شدید کی مثالیں تو ملتی ہیں، لیکن حب شدید کی مثالیں نہیں ملتیں-
تزکیہ کی بنیاد معرفت ہے- جتنا زیادہ معرفت اتنا زیادہ تزکیہ- میرے علم کے مطابق، بعد کے زمانےکے لوگوں نے اعلی درجے کی معرفت ِ ربّانی کا تجربہ نہیں کیا- تزکیہ پر جو کتابیں یا مضامین لکھے گئے ہیں، اُن میں فنی بحثیں تو بہت ہیں، لیکن اُن میں عارفانہ تجزیہ نہیں- تزکیہ کا موضوع انسانی نفسیات سے جڑا ہوا ہے- اِس لیے تزکیہ کا اعلی ادراک وہی شخص کرسکتا ہے جو انسانی نفسیات کو گہرائی کے ساتھ جانتا ہو-
سوال
مجھے 1998سے آپ کی کتب اور الرسالہ سے استفادے کا موقع مل رہا ہے۔ الحمد للہ آپ کی تحریروں سے بے بہا ایمانی و روحانی، علمی و فکری و اخلاقی منفعت حاصل کرتا رہا ہوں۔ آپ کا لٹریچر میرے بہترین فکری و عملی رہنمائوں میں سے ہے۔ بالخصوص اس میں روحانیت و ربانیت کی جو غیرمعمولی غذا ہے، اُس سے میرے اندر بندگی اور مالکِ کائنات کے استحضار کا گہرا ذوق بیدار ہوا ہے جو میری زندگی میں سب سے زیادہ قیمتی اثاثہ ہے۔ اس کے علاوہ دینِ انسانیت کی وسعت و سمائیت کا جو ادراک آپ کی تشریحات سے ملتا اور زندگی کے روز مرہ واقعات سے دنیا و آخرت کی گہری حقیقتوں کی یاددہانی کا جو داعیہ بیدار ہوتا ہے اور اِس کے علاوہ عمل و کردار و اخلاق سے متعلقہ دیگر فوائد جو میسر آتے ہیں، اُس پر میں بس بارگاہِ ربُ العزت میں یہ دعا کرسکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پوری امت و ملت و انسانیت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے- آمین۔
دسمبر 2013 کا الرسالہ دیکھا۔ اُس میں صفحہ 7 پر یہ تذکرہ ہے کہ ابو بکر صدیق نے صحابہ کے مشورے سے قرآن کو ایک جلد کی صورت میں تیار کرانے کے لیے کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت کو مقرر کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر موریس بکائی کے الفاظ میں ڈبل چیکنگ سسٹم کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے پورا قرآن مرتب کیا۔ کتابتِ قرآن کی تکمیل کے بعد اِن اوراق کی ایک جلد بنائی گئی۔ یہ جلد چوکور صورت میں تھی، اِس لیے اس کا نام رَبعہ رکھا گیا، یعنی چوکور سائز کی کتاب۔ اِس رَبعہ کو ایک مستند نسخے کے طور پر حضرت حفصہ کے گھر رکھوادیا گیا۔ اِس رَبعہ کی تیاری کے لیے قرآن کے جو متفرق اجزا اکھٹا کیے گئے تھے، اُن کا ایک ڈھیر مسجد ِ نبوی میں موجود تھا۔ صحابہ کے مشورے سے اس پورے ڈھیر کو اُس کے مالکان کو واپس نہیں کیا گیا، بلکہ اُن سب کو جلاکر ختم کردیا گیا۔
اِس کے بعد صفحہ 8 پر حضرت عثمان کے زمانے میں اختلافِ قرأت کا حوالہ آیا ہے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے صحابہ نے بطورِ خود لکھ کر قرآن کے اپنے اپنے مجموعے تیار کررکھے تھے جن میں بہت سے فرق موجود تھے۔ ان نسخوں کی وجہ سے حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں قرأت قرآن کے بارے میں لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ کوئی شخص ایک انداز سے قرآن پڑھتا، اور کوئی شخص دوسرے انداز سے۔ اس لیے حضرت عثمان نے ابو بکر صدیق کے زمانے کا تیار کردہ مستند نسخہ حضرت حفصہ کے گھر سے منگوایا۔ اُس کی بہت سی نقلیں تیار کرائیں۔ مسلم ممالک کے مرکزی شہروں میں قرآن کی یہ مستند نقلیں اور معیاری نسخے بھجوائے اور پھر صحابہ کے جمع کردہ نسخوں میں قرأت ِ قرآن میں فرق کا جو مسئلہ موجود تھا، اُس کا حل یہ نکالا کہ اِن تمام غیر سرکاری نسخوں کو اکھٹا کروایا اور پھر صحابہ کی موجودگی میں اُن کو جلاکر ختم کردیا۔
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کی رائے میں اختلافِ قرأت کا مسئلہ ہے کیا؟ ہمارے ہاں اس حوالے سے جو روایات پائی جاتی ہیں اور پھر ہمارے مدارس میں سبعہ یا عشرہ قرأت جو پڑھائی جاتی ہیں، کیا اُن کو تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے؟ اور کیا اِس طرح معنوی پہلو سے قرآن کے مطالب میں جو فرق واقع ہوتا ہو، خواہ وہ بظاہر بالکل معمولی سا ہی ہو، اِس سے قرآن کی حتمیت و حاکمیت اور لاریبَ فیہ کی حیثیت میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوتا؟ (اسفند یار عظمت، پاکستان)
جواب
حدیث کی مختلف کتابوں میںایک روایت آئی ہے۔ اِس کو قرأتِ سبعہ کی روایت کہاجاتا ہے۔ اِس کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ مختلف عرب قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔اِن قبائل کی زبان مشترک طورپر عربی تھی، لیکن ہر ایک کا لہجہ الگ الگ تھا، جیسا کہ ہر زبان میںہوتا ہے۔ جب قرآن لوگوں کے درمیان پھیلا تو ہر ایک اپنے اپنے قبیلے کی زبان میں اُس کو پڑھنے لگا۔
اِس پر لوگوں کے درمیان اختلافات ہوئے۔ لوگ، رسول اللہ ﷺسے ایک لہجے میں قرآن کو سنتے تھے اور صحابہ اس کو دہراتے تو وہ مختلف لہجات میں اس کو دہراتے۔ یہ اختلاف بعض اوقات شدت اختیار کرلیتے تھے، یہاں تک کہ عمر فاروق نے ایک بار ایک صحابی کو اپنے سے مختلف لہجے میں قرآن کو پڑھتے ہوئے سنا تو انھوں نے کہا: کذبتَ۔
جب یہ اختلاف بڑھا تو لوگ اِس مسئلے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔آپ نے ہر ایک کے قرآن کو پڑھوا کر سنا اور پھر ہر ایک کے لہجے کی تصویب فرمائی (فأیّ ذلک قرأتم أصبتم، فلا تماروا فیہ) آپ نے کہا کہ تم جس طرح پڑھتے ہو، اُسی طرح پڑھو، کیوں کہ قرآن سات لہجوں میں اتارا گیا ہے (إنما أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح الباری لابن حجر العسقلانی، جلد 8 ، صفحہ 639۔
اِس سلسلے کی مختلف روایات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سات قرأت کا مطلب، سات مطلوب قرأت نہیں ہے، بلکہ سات رعایتی قرأت ہے۔ قرآن کی مطلوب قرأت صرف وہی ہے جو قبیلۂ قریش کے لہجے کے مطابق ہے۔ کیوں کہ عرب میں قریش کا لہجہ ہی اسٹینڈرڈ لہجہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ زبان کا لہجہ ابتدائی عمر میں بن جاتا ہے۔ کوئی آدمی بعد کی عمر میں اپنے لہجے کو بدلنے پر قادر نہیں ہوتا۔ اِس لیے یہ فیصلہ ہوا کہ جہاں تک قرآن کی کتابت کا معاملہ ہے، اُس کو قریش کے اسٹینڈرڈ لہجے کے مطابق لکھا جائے گا، البتہ رعایتی طورپر لوگوں کو اجازت ہوگی کہ لوگ اپنے اپنے قبیلے کے لہجے کے مطابق، قرآن کو پڑھیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مذکورہ حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: فاقرؤا ما تیسرمنہ۔
سوال
عرض ہے کہ میرا ایک پوتا ’سیف احمد سیف‘ امریکا میں ہے- اس کی عمر چھ سال ہے- وہ جدید تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کررہا ہے- حال ہی میں اس نے اپنے والدین سے ایک سوال کیا- تناظر یہ تھا کہ والدین بچے کے سامنے اللہ تعالی کی قدرت وقوت کے بارے میں گفتگو کررہے تھے- بچےنے دفعتاً یہ سوال پوچھا:
But where does Allah get all these powers from?
انھوں نے یہ سوال مجھے بھیجا ہے- میں الرسالہ پڑھتا ہوں- آپ ’’سوال وجواب‘‘ کے کالم میں لوگوں کے سوالات کے جوابات لکھتے ہیں- میں اسی کالم کے حوالے سے یہ سوال آپ کی خدمت میں ارسال کررہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ ایسا جواب مل جائے گا جس سے وہ بچہ مطمئن ہوسکے- جو جواب آپ تحریر فرمائیں گے، میں اسے امریکابھیج دوں گا- اور دوسرے قارئین بھی اس سے استفادہ کرسکیں گے- (عزیز احمد، اسوسییٹ پروفیسر ریٹائرڈ، ایس ایس وی کالج، ہاپوڑ، یوپی)
جواب
یہ سوال ایک غیر منطقی (illogical)سوال ہے- منطقی طورپر اِس معاملے میں اصل مسئلہ ایک موجود واقعے کی توجیہہ (explanation)کا ہے، نہ کہ خود موجود واقعے کا سبب تلاش کرنے کا- اِس معاملے میں بعد موجود واقعہ (post-existing event)پر غور کرنے سے کنفیوزن ختم ہوتا ہے، جب کہ قبل موجود واقعہ (pre-existing event) صرف کنفیوزن کو بڑھاتا ہے- اِس معاملے میں یہی نقطہ نظر علمی نقطہ نظر (scientific outlook)ہے- ہماری اصل ضرورت کنفوزن کو ختم کرنا ہے، اِس معاملے میں موجود کی توجیہہ تلاش کرنے سے کنفیوزن ختم ہوتا ہے اور موجود کا سبب تلاش کرنے سے کنفیوزن میں اضافہ ہوجاتاہے-
یہ ایک تسلیم شدہ اصول ہے کہ سائنٹفک طرز فکر ہی صحیح طرزِ فکر ہے- کوانٹم تھیوری (quantum theory) کے مطابق، سائنس کا جدید ترین موقف یہ ہے کہ انسان کسی معاملے میں صرف احتمال (probability) تک پہنچ سکتا ہے-
مذکورہ سوال اِس اصولِ عام سے الگ نہیں- اگراِس سائنسی اصول کو مان لیا جائے تو بلاشبہہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدا کی صفات پر ایمان کے معاملے میں یہ سائنسی اصول پوری طرح منطبق ہوتا ہے، کیوں کہ یہاں زیر بحث معاملے کی توجیہہ کے لیے کوئی دوسرا احتمال یا قرینہ موجود نہیں- سائنسی اصول کے مطابق، جب کوئی دوسرا احتمال یا قرینہ موجود نہ ہو توپہلا احتمال یا قرینہ اپنے آپ ثابت شدہ بن جاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 226

1- عثمانیہ یونی ورسٹی (حیدرآباد) میں حسب ذیل موضوع کے تحت 29 - 28 نومبر 2013 کو ایک سیمنار ہوا:
Building Peace Through Earning And Understanding
A Buddhist initiative of dialogue with Hinduism and with Islam
Organised jointly by World Buddhist Culture Trust and OUCIP
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے دہلی سے سی پی ایس کے 9ممبران کے ساتھ اس میں شرکت کی- اِس موقع پر عثمانیہ یونی ورسٹی میں قارئین الرسالہ کی طرف سے ایک چار روزہ (27-30 نومبر 2013)حیدرآباد دعوہ میٹ (Dawah Meet) کی گئی- اِس دعوہ میٹ میں الرسالہ سے وابستہ ساؤتھ انڈیا کے تقریباً 65 ایکٹیو ممبران شریک ہوئے- بعض دوسرے مقامات کے کچھ لوگوں نے بھی اِس میں شرکت کی- اِن لوگوں نے اپنے قیام وطعام کا انتظام عثمانیہ یونی ورسٹی ہی کے گیسٹ ہاؤس میں کیا تھا- اِس موقع پر دعوت اور تربیت کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کے کئی پروگرام ہوئے- اِس کے علاوہ حاضرین نے اپنے تاثرات بیان کیے اور دعوہ ورک کی پلاننگ کی- اِس دعوہ میٹ کو عمری برادران نے حیدرآباد کی مقامی ٹیم کے تعاون سے آرگنائز کیا تھا-
2- ممبئی (باندرا کُرلا کامپلکس) میں 29 نومبر 2013 سے 3 دسمبر 2014کے درمیان ایک نیشنل بک فیر منعقد ہوا- اِس میں گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے بھی اپنا اسٹال لگایا- یہاں اسٹال کا انتظام مسٹر احمد خان نے سنبھالا-
3- مسٹر سراج الدین قریشی کی طرف سے 30 نومبر 2013 کو وجے واڑہ (آندھرا پردیش) میں واقع اُن کے دو ہوٹلوں میں قرآن کے انگریزی ترجمےکے نسخے رکھے گئے — ہوٹل سورن پیلیس کے 50 روم میں، اور ہوٹل گیٹ وے میں 108 نسخے رکھےگئے-
4- مہاراشٹریہ اسٹیٹ اردو اکادمی کی طرف سے دسمبر 2013 میں انڈیا کی 100 مختلف اردو اکیڈمی اور ادبی اداروں کے نام پر ایک سال کے لیے ماہ نامہ الرسالہ جاری کیاگیا -
5- حیدرآباد کے این ٹی آراسٹیڈیم میں  7-15 دسمبر 2013 کو ایک نیشنل بک فیر ہوا- اِس میں گڈورڈبکس نے بھی اپنا اسٹال لگایا- یہاںاسٹال کا انتظام مسٹر محمد احمد خان نے سنبھالا - اِس کے علاوہ، الرسالہ سے وابستہ مقامی ٹیم کے ممبران نے دعوتی لٹریچر کی تقسیم میں اپنا خصوصی تعاون دیا-
6- سویڈن کی اُمیایونی ورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر مسٹر ماتیاس (Mattias Dahlkvist) نے 7 دسمبر 2013 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا- یہ انٹرویو اسلام اور امن کے موضوع پر تھا-
7- پٹنہ (بہار) کے شری کرشنا میموریل ہال میں 15 دسمبر 2013 کو فیوچر پاور (Future Power) کے موضوع پر ایک انٹرنیشنل سیمنار ہوا- اِس سلسلے میں پروگرام کے دوسرے دن (16 دسمبر 2013) کو یہاں ایک خصوصی ڈسکشن ہوا- اِس پروگرام میں سی پی ایس کے نمائندہ مسٹر ابو الحکم محمد دانیال کو بھی مدعو کیاگیا تھا- یہ ایک ٹاک شو تھا- اِس شو میں ملک وبیرونِ ملک سے چار لوگ شریک تھے- انٹرویو کے دوران مسٹر دانیال نے اسلام میں امن کی اہمیت کے متعلق تفصیلی وضاحت کی- اِس موقع پر پروگرام کے خصوصی مہمانوں کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا-
8- منسٹری آف ایجوکیشن افغانستان کی طرف سے کابل میں 17 دسمبر 2013 کو ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی- یہ کانفرنس ایجوکیشن (Importance of Education) کے موضوع پر تھی- اِس کی دعوت پر ڈاکٹر فریدہ خانم نے اِس کانفرنس میں شرکت کی اور موضوع پر ایک پیپر پیش کیا- افغانستان میں بھی دوسرے مقامات کی طرح قارئین الرسالہ کا ایک حلقہ موجود ہے- یہاں ان لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی- یہ لوگ الرسالہ مطبوعات خاص طورپر ’’تذکیر القرآن‘‘ کا پشتوزبان میںترجمہ کررہے ہیں- اِس موقع پر کانفرنس کے شرکا کو دعوتی لٹریچر دیاگیا-
9- انڈیا اور انڈیا سے باہر کے مختلف مقامات پر ہمارے ساتھی بڑے پیمانے پر قرآن اور دعوتی لٹریچر کی اشاعت کا کام کررہے ہیں- اِس سلسلے میں سہارن پور (یوپی) میں بھی کافی دعوتی کام ہورہا ہے- یہاں بھی ہمارے ساتھی ڈاکٹر محمد اسلم خاں کی سرپرستی میں مختلف مقامات — اجتماعات اور تقریبات کے موقعوں پر قرآن اور دعوتی لٹریچر کی اشاعت کررہے ہیں- مثلاً 25 دسمبر 2013کو کرسمس کے موقع پر وہاں کے چرچ میں جاکر قرآن کا ترجمہ دیاگیا- اِسی طرح 28 دسمبر 2013 کو سہارن پور کے ڈسٹرکٹ پولوشن آفیسر مسٹر راجیو سری واستو کو قرآن کا ترجمہ دیاگیا- مسٹر راجیو نے سورہ الرحمن کا ترجمہ پڑھنے کے بعد کہا کہ — اِس کو پڑھنے کے بعد کوئی بھی انسان اپنے پروردگار کا ناشکرگزار نہیں بن سکتا-
10- نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر کے آڈی ٹوریم میں 5 جنوری 2014 کو سیرت النبی کے موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی- یہ پروگرام ادارہ عاشقانِ رسول (نئی دہلی) کی طرف سے کیاگیا تھا- اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ممبران کے ساتھ اس میں شرکت کی اور موضوع پر آدھ گھنٹے کی ایک تقریر کی- اِس موقعے پر سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو قرآن کے تراجم اور دعوتی پمفلٹس دئے گئے-
11- مالے گاؤں (مہاراشٹر) میں 3-12 جنوری 2014 کے دوران ایک انٹرنیشنل بک فیر ہوا- اِس میں گڈورڈبکس نے بھی اپنا اسٹال لگایا- یہ بک فیر دعوتی اعتبار سے بہت کامیاب رہا- اسٹال کا انتظام مسٹر احمد خان نے سنبھالا- الرسالہ سے وابستہ مقامی ٹیم کے ممبران نے اِس موقع پر اپنا بھر پور تعاون دیا-
12- ہمارے کچھ ساتھیوں، مسٹرشاہد علی اور مسز عصمت، وغیرہ نے 15 جنوری 2014 کو اجمیر کی درگاہ میں جاکر وہاں کے ذمہ داروں اور زائرین کو قرآن کا ترجمہ دیا- اِس کو انھوں نے بخوشی قبول کیا-
13- جے پور لٹریچر فیسٹول (17-21جنوری 2014)کے موقع پر ہمارے ساتھیوں نے انڈیا کے مختلف مقامات سے آکر فیسٹول میں لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا- یہاں تقریباً پانچ ہزار لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا- فیسٹول میں جے پور کے مقامی ممبرانِ الرسالہ نے اپنا بھرپور تعاون دیا- اِس لٹریچر فیسٹول میںبعض ہندو نوجوانوں نے بھی قرآن ڈسٹری بیوشن میںبھر پور حصہ لیا:
I was part of the team which did dawah work at the Jaipur Literature Festival. I was really happy to see the curiosity of people exhibited in learning about Islam, regardless of their ethnic background. What kept me energetic in the joy of gifting the Quran was the gratitude people showed to the CPS volunteers. People used to smile and thank as if they were in need of the Quran since a very long time. (Sohaib Khan, Lucknow)
13- نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (انیکسی) میں 24 جنوری 2014 کی شام کوایک خصوصی پروگرام ہوا- یہ پروگرام عرب عالم اور محقق عبد الحق الترکمانی کی دہلی آمد کی مناسبت سے رکھا گیا تھا- عبد الحق الترکمانی صدر اسلامی مرکز کی عربی مطبوعات، مثلاً التذکیر القویم فی تفسیر القرآن الحکیم اور خطأ فی التفسیر، وغیرہ کو ایڈٹ کرکے دوبارہ شائع کررہے ہیں- انھوں نے دہلی کا سفر صرف صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے کیا تھا- اِس سلسلے میں مختلف اوقات میں وہ تین دن تک صدر اسلامی مرکز سے ان کی زندگی اور مشن کے متعلق انٹرویو لیتے رہے- 24 جنوری 2014 کی شام کے پروگرام میں عبد الحق الترکمانی نے اِس سفر سے متعلق مختصر وضاحت کی- اِس موقع پر سی پی ایس کے ممبران نے اپنے تاثرات بتائے اور مولانا محمد ذکوان ندوی نے عربی زبان میں ایک تقریر کی- آخر میں صدر اسلامی مرکز نے انگریزی زبان میں اپنے مشن کا مختصر تعارف پیش کیا- عبد الحق الترکمانی عربی کے علاوہ، انگریزی اور سویڈش زبان سے بھی واقف ہیں- اِس پروگرام میں ساؤتھ انڈیا سے بھی ہمارے دو ساتھی — مولانافیاض الدین عمری (کرناٹک) اور مولانا اقبال احمد عمری (تمل ناڈو) شریک تھے-
14- مختلف قسم کے دعوتی تجربات وتاثرات کا ایک حصہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
— On November 22, 2013, I was in a training program with few senior people from Indonesia. In a conversation during break time, a gentleman by the name of Anis mentioned that they had been looking for an English translation of the Quran. It is strange but true that these people had not read the Quran for the last many years. I had a few copies of the Quran and immediately handed it out to them along with a copy of the book, The Prophet of Peace. (Sailesh Malhotra, Singapore)
— I went yesterday to pick up the box of the Quran translations provided by you. I am so grateful for this great opportunity. I will forever be grateful to you. You can count me on your list of new Quran distributors. (Gnama Griffin, USA)
— I too am a member of the CPS. I too am spreading the message of Islam through the magazine, Spirit of Islam. I feel very glad to let you all know that our magazine has reached Patiala, Ludhiana and Leh. (Zakeena, Amritsar)
— On Jan 10, 2013, a German Christian delegation visited the Parliament House mosque. An interactive programme was organized and conducted by CPS member Sadia Khan. Maria Khan gave an introduction to Islam, which was followed by questions and answers. The German Quran translation and the booklet What is Islam were distributed to all. (Maria Khan, Delhi)
— I received a package of books, including the Quran, from you today. As a member of the science faculty at Bryn Athyn College, an institution devoted to faith-learning integration in a New Church perspective, I will share these books with my colleagues. (Allen J. Bedford, Dean of Academics and Faculty, USA)
— I have again given away my copy of the Quran . I like it so much better than any other translation. I do not like to give people the other translations. So, I keep ending up with no Quran for myself. If I could buy some, I would be so happy to keep them with me when people are interested to know about Islam. (Laura Stanbery, Quinlan, Texas)
— I have established two libraries of Maulana's books in restaurants frequented by Indian and Pakistani people. People are actively reading books there, and also taking them home. I will be starting two more libraries in a nearby city of Springfield. (Laeeq Ahmad, Khan, USA)
— I have read a few different English versions of the Quran, but this one is the best I have read to date. The English structure is easy to understand. I really loved this translation. There is also an explanation and commentary section in the back of the book which makes up about one half of the book. It is easily referenced during the reading of the verses. Definitely a keeper. Nice work ! (Review on the Quran ranslation on Amazon.com by Mark M from Grand Rapids, USA)
— Republic Day was celebrated on 26th January by Bazm-e-Adab at Dr.Shaikh Bunkar Colony Kamptee (M.S.) On the occasion Tringa was unfurled by Mr.Vijay Vasudeo Wasnik. Mr.Radhesham Hatwar, Vice President, Siv Sena, Nagpur Dist. presided over the function. On this occasion Mohammad Irfan Rasheedi distributed Pavitra Quran among the non-muslims. They took it with great interest.
I am a retired government servant from Pakistan. I luckily got a copy of the Quran as a gift from Mr Shamshad Khan, IPIC, Birmingham. Two days back I completed the first study of this Quran, translated by Maulana Wahiduddin Khan. It is a wonderful and a very appropriate translation. The commentary is even more praiseworthy. I have studied many English translations, but I enjoyed reading this one the most. This commentary is different and unique in style. (Col. Muhammad Shahbaz, Pakistan )
واپس اوپر جائیں