Pages

Wednesday, 1 October 2014

Al Risala | October 2014 (الرسالہ،اکتوبر)

2

-عید ِ اضحی کا پیغام

4

- حج: ایک انتباہ

5

- اللہ اکبر، اللہ اکبر

6

- اخلاص کیا ہے

7

- نشانی عقل والوں کے لیے

8

- خدا کا تصور

9

- اجماع، رائے جمہور

10

- کامیاب انسانوں کی ناکامی

11

- ہیرا

12

- فقہی معاملے میں توسع

13

- تخلیق آدم

14

- ڈسکوری، ری ڈسکوری

15

- پرمسرت زندگی کا راز

16

- جوہر شناسی

17

- زندگی اور موت

18

- تنبیہہِ خداوندی یاظلمِ انسانی

19

- بڑھاپے سے سبق لینا

20

- توبہ قریب

21

- روح القدس کا تصور

22

- اختلاف کا مسئلہ

24

- فیملی کلچر کا نقصان

25

- سکینہ، فتح

26

- قریش کلچر

28

- اپنی حد کو جانیے

29

- موت کا تجربہ

30

- خاندان کی اہمیت

31

- جانچ کا معیار

32

- چھ بینگ

33

- ایک انسانی کمزوری

34

- اسلامی تعلیمات کے دو حصے

35

- غصہ کا مثبت پہلو

36

- تکاثر سے قبر تک

37

- دلیل یا شوشہ

38

- ہلاکت کیا ہے

39

- تلاوت کا فائدہ

40

- فکری اعتدال

41

- توازن یا ترجیح

42

- تہذیب یا دعوت

43

- ایک اہم کتاب

44

- خبر نامہ اسلامی مرکز


عید ِ اضحی کا پیغام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ تمھارے باپ ابراہیم کا طریقہ (ماہذہ الأضاحی، قال: سنّۃ أبیکم إبراہیم (مسند احمد،رقم الحدیث: 18797؛ ابن ماجہ، رقم الحدیث: 3127)۔ اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ عید ِاضحی کی حقیقت کیاہے، وہ ہے —حضرت ابراہیم کے طریقے کو علامتی طورپر انجام دے کر اُس کو عملی اعتبار سے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا عہد کرنا۔
عید اضحی ہر سال ماہِ ذو الحجہ کی مخصوص تاریخوں میں دہرائی جاتی ہے۔ وہ دراصل حج کی عالمی عبادت کاحصہ ہے۔ حج پورے معنوں میں، حضرت ابراہیم کی زندگی کا علامتی اعادہ (symbolic performance) ہے۔ اِس کا ایک حصہ وہ ہے جو ہر مقام پر عید ِ اضحی کی شکل میں جزئی طورپر انجام دیا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم کا مشن عالمی دعوتی مشن تھا۔ آپ نے اِس مشن کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کیا ۔ آپ نے اپنے اہلِ خاندان کو اِسی کام میں لگایا۔ آپ نے اِس دعوتی مشن کے مرکز کے طورپر کعبہ کی تعمیر کی اور اُس کا طواف کیا۔ آپ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرکے بتایا کہ دنیا میں میری دوڑ دھوپ تمام تراللہ کے لیے ہوگی۔ آپ نے قربانی کرکے اپنے اندر اِس عزم کو پیدا کیا کہ آپ اپنی زندگی کو پوری طرح، اللہ کے کام کے لیے وقف کریں گے۔ آپ نے احرام کی شکل میں سادہ کپڑے پہنے جو اِس بات کی علامت تھے کہ ان کی زندگی مکمل طور سادہ زندگی ہوگی۔ آپ نے شیطان کو کنکریاں مار کر اِس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے آپ کو شیطان کے بہکاوے سے آخری حد تک بچائیں گے، وغیرہ۔
اِسی ابراہیمی طریقِ زندگی کو جزئی طور پرہر سال عید ِ اضحی کے موقع پر تمام مسلمان اپنے اپنے مقام پر دہراتے ہیں۔ اِس طرح یہ عید ِ اضحی، حضرت ابراہیم کے طریقِ حیات کو اپنی زندگی میںاپنانے کا ایک سالانہ عہد ہے۔ یہی وہ نمونہ ہے جس کو سامنے رکھ کر ہر شخص کو یہ جانچنا چاہیے کہ اُس نے عید ِ اضحی کے دن کو صحیح طور پر منایا، یا صحیح طورپر نہیں منایا۔
عید اضحی کے دن مسلمان اپنے قریب کے لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہ ملاقاتیں گویا اُس دعوتی سرگرمی کی تجدید ہیں جو حضرت ابراہیم نے اپنے وقت کی آباد دنیا میں انجام دیں۔ اِسی طرح آج ہر مسلمان کو اپنے زمانے کے لوگوں کے درمیان دعوتی ذمے داریوں کو ادا کرنا ہے۔ پھرہر جگہ کے مسلمان اللہُ أکْبَرُ اللہُ أکْبَرُ، لاَ إلٰہَ إلاّ اللہُ وَاللہُ أکْبَرُ، اللہُ أکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُکہتے ہوئے مسجدوں میں جاتے ہیں اور وہاں دو رکعت نمازِ عید ادا کرتے ہیں اور امام کا خطبہ سنتے ہیں۔ یہ اپنے اندر اِس روح کو زندہ کرنا ہے کہ میں خدا کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوں، اور یہ کہ میری پوری زندگی عبادت اور اطاعت کی زندگی ہوگی۔ اِسی کے ساتھ امام کے پیچھے نماز ادا کرنا اور نماز کے بعد خطبہ سننا، اِس بات کا عہد ہے کہ میںاِس دنیامیں اجتماعی زندگی گزاروں گا، نہ کہ متفرق زندگی۔
عید ِ اضحی کے دن قربانی کی جاتی ہے۔ اِس قربانی کے وقت یہ کلمات ادا کیے جاتے ہیں:اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(الأنعام:161 ) یعنی بے شک، میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہوگا۔
قربانی کے وقت ادا کیے جانے والے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ قربانی کی اصل روح یا اس کی اصل حقیقت کیا ہے۔ قربانی دراصل ایک علامتی عہد (symbolic covenant)ہے۔ اِس علامتی عہد کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ عید اضحی کے دن آدمی علامتی طورپر یہ عہد کرتا ہے کہ اس کی زندگی پورے معنوں میں، خدا رخی زندگی (God-oriented life) ہوگی۔ وہ اپنی زندگی میںعبادتِ الٰہی کو اُس کے تمام تقاضوں کے ساتھ شامل کرے گا۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے مشن میں وقف کرے گا۔ وہ دنیا میں سرگرم ہوگا تو خدا کے مشن کے لیے سرگرم ہوگا۔ اُس پر موت آئے گی تو اِس حال میں آئے گی کہ اُس نے اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے مشن میں لگا رکھا تھا، وہ پورے معنوںمیں خداوند ِ عالم کا بندہ بناہوا تھا۔ اُس کا جینا خدا کے لیے جینا تھا، نہ کہ خود اپنے لیے جینا۔
واپس اوپر جائیں

حج: ایک انتباہ

حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یأتی علی الناس زمانٌ یحجّ أغنیاء الناس للنزاہۃ، وأوساطہم للتّجارۃ، وقرّاؤہم للرّیاء والسُمعۃ، وفقراء ہم للمسئلۃ (کنز العُمّال، رقم الحدیث: 12362 ) یعنی لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا، جب کہ مال دار لوگ تفریح کے لیے حج کریں گے، اور اُن کے درمیانی درجے کے لوگ تجارت کے لیے حج کریں گے، اور ان کے علماء دکھاوے اور شہرت کے لیے حج کریں گے، اور ان کے غریب لوگ مانگنے کے لیے حج کریں گے۔
یہ حدیث بہت ڈرا دینے والی ہے۔ اس کی روشنی میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو خاص طور پر اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ اُنھیں غور کرنا چاہیے کہ اُن کا حج اِس حدیثِ رسول کا مصداق تونہیں بن گیا ہے۔ مال دار لوگ سوچیں کہ ان کے حج میں تقویٰ کی اسپرٹ ہے ، یا سیر و تفریح (outing) کی اسپرٹ۔ عام لوگ یہ سوچیں کہ وہ دینی فائدے کے لیے حج کرنے جاتے ہیں یا تجارتی فائدے کے لیے۔ علماء غور کریں کہ وہ عبدیت کا سبق لینے کے لیے بیت اللہ جاتے ہیں، یا اپنی پیشوایانہ حیثیت کو بلند کرنے کے لیے۔ اِسی طرح غریب لوگ سوچیں کہ حج کو انھوں نے خدا سے مانگنے کا ذریعہ بنایا ہے، یا انسانوں سے مانگنے کا ذریعہ۔
اِس حدیثِ رسول میں پیشین گوئی کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ امت پر جب زوال آئے گا تو اُس وقت لوگوں کا حال کیا ہوگا۔ دورِ عروج میں امت کا حال یہ ہوتا ہے کہ دین کا روحانی پہلو غالب رہتا ہے اور اس کا مادّی پہلو دبا ہوا ہوتا ہے۔ دورِ زوال میں برعکس طورپر یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان دین کا روحانی پہلو دب جاتا ہے اور اس کا مادّی پہلو ہر طرف نمایاں ہوجاتا ہے۔ پہلے دور میں، تقویٰ کی حیثیت اصل کی ہوتی ہے اور مادّی چیزیں صرف ضرورت کے درجے میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس، دورِزوال میں مادی چیزیں اصل بن جاتی ہیں اور کچھ ظاہری اور نمائشی چیزوں کا نام تقویٰ بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ حج اور عمرہ کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور اسلام کی دوسری عبادات کے ساتھ بھی۔
واپس اوپر جائیں

اللہ اکبر، اللہ اکبر

اللہ اکبر نماز کا سب سے زیادہ اہم حصہ ہے- اذان اور نماز دونوں ملا کر دیکھا جائے تو پانچ وقت کی نمازوں میں اللہ اکبر کا کلمہ روزانہ تقریباً تین سو بار دہرایا جاتا ہے، یعنی ہر پانچ منٹ کے بعد ایک بار- گویا ایک مسلمان اپنی پوری زندگی میں سب سے زیادہ جوکلمہ سنتا یا بولتا ہے، وہ اللہ اکبر کا کلمہ ہے، یعنی اللہ سب سے بڑا ہے-
اِس سے معلوم ہوا کہ دینِ اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت اِس بات کی ہے کہ ایک مسلمان، اللہ کی عظمت کو دریافت کرے- اللہ کی عظمت اس کے شعور کا سب سے زیادہ اہم حصہ ہو- اللہ کی عظمت اس کے تفکیری عمل (thinking process) میں اِس طرح شامل ہوجائے کہ وہ کسی بھی حال میں اللہ کی عظمت کے احساس سے غافل نہ ہو-
اللہ اکبر کا کلمہ کسی انسان کی زندگی میں ایک شاہ ضرب (master stroke)کی حیثیت رکھتا ہے- اگر حقیقی معنوں میں کسی انسان کو اللہ کی دریافت ہوجائے تو اس کے بعد اس کی زندگی میں سب سے بڑا مثبت بھونچال آجائے گا- وہ پورے معنوں میں ایک نیا انسان بن جائے گا- اللہ اس کی سوچ کا واحد مرکز بن جائے گا- اس کی زندگی پورے معنوں میں ایک خدا رخی زندگی بن جائے گی-
ایسے انسان کا معاملہ یہ ہوگا کہ اللہ اس کا سپریم کنسرن (supreme concern) بن جائے گا- اللہ کے سوا ہر چیز اس کی زندگی میں سکنڈری حیثیت اختیار کرلے گی- اس کے اندر مادی طرز فکر کا خاتمہ ہوجائے گا- اس کی سوچ قومی سوچ کے بجائے اصولی سوچ بن جائے گی- وہ آخرت کی کامیابی کا حریص بن جائے گا- وہ منفی سوچ سے مکمل طورپر پاک ہوجائے گا- اس کی شخصیت کامل معنوں میں ایک متواضع (modest)شخصیت بن جائے گی- اس کے اندر سے کبر (arrogance) کا خاتمہ ہوجائے گا — اللہ اکبر ایک اعتبار سے عقیدہ ہے اور دوسرے اعتبار سے وہ ایک شخص کی زندگی کا کامل طریقہ-حقیقت یہ ہے کہ اللہ اکبر خلاصۂ ایمان ہے-
واپس اوپر جائیں

اخلاص کیا ہے

اخلاص کے معنی ہیں خالص (pure) ہونا، ملاوٹ سے پاک ہونا- سیکولراصطلاح میں جس چیز کو سنجیدگی (sincerity) کہا جاتا ہے، دینی اصطلاح میں اُس کا نام اخلاص ہے- اخلاص تمام دینی اعمال کی لازمی شرط ہے- جودینی عمل اخلاص کے ساتھ کیا جائے، وہی عمل دینی عمل ہے اور جس دینی عمل میں اخلاص نہ پایا جائے، وہ بظاہر دینی عمل ہونے کے باوجود دینی اعتبار سے بے قیمت ہو جائے گا-
اصل یہ ہے کہ انسان کا ذہن ایک وسیع جنگل ہے- انسانی ذہن کے اندر طرح طرح کے تقاضے، طرح طرح کی خواہشیں، طرح طرح کے دواعی (motivations) ہمیشہ موجود ہوتے ہیں- اِس واقعے کی بنا پر انسان کے اندر وہ کمزور ی پیدا ہو جاتی ہے جس کو متعصبانہ طرز فکر (biased-thinking) کہا جاتا ہے- ایسی حالت میں اخلاص یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو تمام فکری ملاوٹوں سے بچائے اور انتہائی حد تک بے آمیزانداز میں اپنی رائے قائم کرے-مثال کے طورپر شہد کی مکھی جب پھولوں سے شہد نکال کر اس کو اپنے چھتے میں جمع کرتی ہے تو وہ کامل خالص پن (purity) کے ساتھ یہ کام انجام دیتی ہے، لیکن ایک تاجر جب اس شہد میں ملاوٹ کرکے اس کو بیچتا ہے تو وہ اس کو غیر خالص بنا دیتا ہے-
یہی معاملہ تمام دینی اور اخلاقی عمل کا ہے- اگر آدمی ایک دینی کام صرف اللہ کے لیے کرے تو وہ اللہ کی نظر میں صاحبِ اخلاص قرار پائے گا- اِس کے برعکس، اگر وہ دینی یا اخلاقی کام کو اِس طرح کرے کہ وہ اِس میں کسی اور ذاتی غرض کو شامل کردے، مثلاً شہرت یا لوگوں کی نظر میں نیک نامی یا کوئی ذاتی مفاد، وغیرہ- اگر کسی شخص کے بظاہر دینی عمل میں اِس طرح کا ذاتی محرک شامل ہوجائے تو اس کا عمل غیر مخلصانہ عمل بن جائے گا- اللہ کی نظر میں ایسے عمل کی کوئی قیمت نہ ہوگی- تاہم اخلاص کا کوئی خارجی معیار نہیں، اخلاص تمام تر داخلی نیت کا معاملہ ہے- اس کو یا تو انسان خود سمجھ سکتا ہے، یا اللہ جو دلوں کی حالت کو جاننے والا ہے-
واپس اوپر جائیں

نشانی عقل والوں کے لیے

ابوالعتاہیہ (وفات: 825ء) عبا سی دور کے ایک عرب شاعر ہیں- اُن کا ایک شعر یہ ہے— ہر چیز میں اس کے لیے ایک نشانی ہے جو بتاتی ہے کہ وہ ایک ہے:
وفی کلّ شیء لہ آیة تدلّ على أنہ الواحد
یہ شعر بجائے خود ایک اچھا شعر ہے، لیکن چیزوں میں نشانیوں (signs) کا موجود ہونا اپنے آپ میں نصیحت کے لیے کافی نہیں- نصیحت کے لیے ضروری ہے کہ چیزوں کو دیکھنے والا صاحبِ عقل ہو- اِسی لیے قرآن میں زمین اور آسمان کی نشانیوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ کہاگیا ہے کہ: لآیات لقوم یعقلون (2:164) یعنی اِن نشانیوں سے نصیحت صرف اُن لوگوں کو ملتی ہے جو عقل والے ہوں-
عقل سے مراد سوچنے کی صلاحیت ہے، یعنی چیزوں کو سادہ طورپر نہ لینا، بلکہ اُن پر غور کرنا- قرآن میں آیا ہے کہ: وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَ (12:105) یعنی آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر اُن کا گزر ہوتارہتا ہے اور وہ اُن سے اعراض کرتے ہیں-
اعراض کا مطلب ہے روگردانی کرنا- آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ بار بار نشانیوں (signs) کو دیکھتے ہیں، مگر وہ اس پر دھیان نہیں دیتے، وہ اُس پر زیادہ غور نہیں کرتے، وہ اُس سے سبق لینے کی کوشش نہیں کرتے- نشانیاں بلا شبہہ اپنی ذات میں نشانیاں ہیں، لیکن وہ زندگی کے لیے سبق آموز صرف اُس وقت بنتی ہیں جب کہ آدمی ٹھہر کر ان کے بارے میں سوچے، وہ چیزوں کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرے-
نشانیوں سے مراد کوئی محدود چیز نہیں ہے- ہر مشاہدہ اور ہر تجربہ ایک نشانی ہے- ہر واقعے میں نشانی کا ایک پہلو ہے- آدمی کو چاہیے کہ وہ نشانیوں کو دریافت کرے اور اُن کے ذریعے اپنے فکری رزق (intellectual food) کا سامان کرے-
واپس اوپر جائیں

خدا کا تصور

سیکولر فکر رکھنے والے متعدد اہلِ علم نے یہ بات کہی ہے کہ خدا کا کوئی حقیقی وجود نہیں، وہ انسانی ذہن کی تخلیق ہے — خدا، انسان کی ایک عظیم ایجاد ہے:
God is a great invention by man
یہ صرف ایک ورڈ پلے (word play) ہے- زیادہ درست بات یہ ہے کہ اِس طرح کہاجائے کہ — انسان، خدا کی ایک عظیم تخلیق ہے:
Man is a great creation by God
خدا کے وجود کے بارے میں میں علمی غوروفکر سب سے پہلے فلسفہ میں شروع ہوا- فلسفہ اِس معاملے میں کسی حتمی انجام تک نہ پہنچ سکا- گلیلیو اور نیوٹن کے بعد غوروفکر کا سائنسی انداز شروع ہوا- سائنس کا موضوع اگرچہ خالق نہیں تھا، بلکہ اس کے اپنے الفاظ میں، نیچر(nature) تھا- مگر نیچر کیا ہے- نیچر تخلیق کا دوسرا نام ہے- گویا سائنس کا موضوع ہے — خالق کے حوالے کے بغیر مخلوق کا مطالعہ کرنا- سائنسی مطالعے  میں پہلے، نیوٹن کے زمانے میں، یہ مان لیا گیا تھا کہ دنیا ایک میکانکل ڈزائن (mechanical design) ہے- اس کے بعد ردر فورڈ (Ernest Rutherford) کے زمانے میں معلوم ہوا کہ دنیا ایک میننگ فل ڈزائن (meaningful design)ہے- اِس کے بعد فریڈ ہائل (Fred Hoyle) کا زمانہ آیا، جب کہ یہ دریافت ہواکہ دنیا ایک انٹیلجنٹ ڈزائن (intelligent design) ہے-
اِن دریافتوں کو سامنے رکھ کر غور کیاجائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ خدا کا وجود علمی طورپر دریافت ہوچکا ہے- اب سارا معاملہ صرف تسمیہ (nomenclature) کا ہے، یعنی یہ کہ اِس دریافت شدہ حقیقت کا نام کیا ہو- فلسفیوں نے اِ س حقیقت کو ورلڈ اسپرٹ (world spirit) کہا تھا- سائنس اِس کو انٹیلجنٹ ڈزائن کہہ رہی ہے- اہلِ مذہب کی زبان میں اِسی حقیقت کا نام خدا (God) ہے-سائنس نے صرف تخلیق کو دریافت کیا، لیکن تخلیق کے دریافت کے ساتھ ہی خالق اپنے آپ دریافت ہوجاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

اجماع، رائے جمہور

اسلام میں مصدر شرعی کی حیثیت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے— قرآن اور سنت- قرآن اور سنت دونوں ابدی طورپر شرعی مصدر کی حیثیت رکھتے ہیں- قرآن اِس لیے کہ وہ اللہ کا کلام ہے اور سنت اِس لیے کہ وہ اللہ کے پیغمبر کا کلام یا اس کا عمل ہے- قرآن اور سنت کے سوا کسی اور چیز کو یہ درجہ حاصل نہیں-
تیسری چیز وہ ہے جس کو قرآن میں استنباط (4:83) اور حدیث میں اجتہاد کہاگیا ہے- استنباط یا اجتہاد اسلام کی عملی ضرورت ہے- بدلے ہوئے حالات میں اسلام کے ابدی اصولوں کا انطباقِ نو (re-application) درکار ہوتا ہے- اجماع یا رائے جمہور اِس انطباق کی دو عملی صورتیں ہیں-
بعد کے زمانے میں جب کوئی نئی صورتِ حال پیش آئے تو علماءِ اسلام کو یہ کرنا ہوگاکہ وہ اُس پر کام کریں اور استنباط یا اجتہاد کے ذریعے یہ معلوم کریں کہ بدلے ہوئے حالات میں اسلام کی تعلیم کو کس طرح منطبق (apply) کیا جاسکتا ہے- علماء کی یہ رائے اگر کامل اتفاق (consensus)سے بنی ہو تو اس کو اجماع کہا جائے گا اور اگر وہ اکثریت (majority)کی رائے پر بنی ہو تو اس کو رائے جمہور کہا جائے گا- تاہم اجماع یا رائے جمہور دونوں میں سے کوئی بھی ابدی نہیں-
حقیقت یہ ہے کہ دین میں قرآن اور سنت کی حیثیت مطلق مرجع (absolute reference) کی ہے- قرآن وسنت کی تعلیمات اصولاً ہمیشہ اور ہر دور میں قابلِ اتباع رہیں گی- اُن میں حالات کے اعتبار سے، نئی تشریح یا نئی تاویل تو کی جاسکتی ہے، لیکن اُن کا حکمِ شرعی ہونا ہمیشہ یکساں طورپر مطلوب ہوگا- مگر جہاں تک اجماع یا رائے جمہور کی بات ہے، وہ عملی تقاضا (practical reason) کی بنا پر دین کا حصہ ہیں، یعنی جب تک وہ حالات باقی ہیں، جن میں کوئی مسئلہ اجماعی یا جمہوری طورپر بنایا گیا تھا، اُس وقت تک وہ بھی باقی رہیں گے، اور جب حالات بدل جائیں توضرورت ہوگی کہ ازسرِ نو اُن کا حکم متعین کیاجائے-
واپس اوپر جائیں

کامیاب انسانوں کی ناکامی

عظیم ہاشم پریم جی (پیدائش: 1945) دنیا کے عظیم ترین صنعت کاروں میں سے ایک ہیں- اُن کو ایک نہایت کامیاب انسان (super achiever) سمجھا جاتا ہے- انھوں نے ایک بار کہا کہ — زندگی کے بارے میں سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب آپ اس کو سمجھنے لگتے ہیں تو وہ ختم ہونے کے قریب ہوجاتی ہے-
زندگی کے بارے میں اس قسم کا تاثر اکثر کامیاب لوگوں نے بیان کیا ہے- اصل یہ ہے کہ انسان کی عمرمحدود ہے، لیکن اس کی خواہشیں (desires) لامحدود ہیں- آدمی پختگی کی عمر کو پہنچ کر جب اپنی زندگی شروع کرتا ہے تو اس کو طرح طرح کے تجربات پیش آتے ہیں، منفی تجربات بھی اور مثبت تجربات بھی- لرننگ (learning) کے مختلف احوال سے گزرتے ہوئے وہ ایک ایسے مقام پر پہنچتا ہے جب کہ وہ محسوس کرتاہے کہ اب میں زیادہ بہتر طورپر اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کرسکتا ہوں، عین اُس وقت اس کو محسوس ہوتاہے کہ اب میں بوڑھا ہوگیا یا میری موت کا وقت قریب آگیا-
اِس مرحلے میں پہنچ کر اس کا یقین (conviction) مایوسی (frustration) میں تبدیل ہوجاتاہے- اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اپنی آخری منزل تک پہنچے بغیر میرا خاتمہ ہورہا ہے- اس احساس کو رابندر ناتھ ٹیگور نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا— میری ساری عمر بینا (ستار) کے تاروں کو سلجھانے میں بیت گئی- جو انتم گیت میں گانا چاہتا تھا، وہ میں نہ گا سکا-
ہر انسان حوصلے کے ساتھ اپنی زندگی شروع کرتاہے اور پھر مایوسی کے ساتھ وہ مرجاتا ہے- اِس المیہ کا سبب صرف ایک ہے — فانی دنیا میں اُس چیز کو پانے کی کوشش کرنا جو صرف آخرت کی ابدی دنیا میں ملنے والی ہے- آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی شروع کرنے سے پہلے خالق کے تخلیقی نقشے کو جانے- اِس دنیا میں حقیقی کامیابی صرف اُس انسان کے لیے مقدر ہے جو خالق کے نقشے کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کرے-
واپس اوپر جائیں

ہیرا

ہیرا (diamond) سب سے زیادہ قیمتی دھات ہے- ہیرا خالص کاربن ہوتا ہے- اس میں وہی بنیادی اجزا ہوتے ہیں جو کوئلے میں پائے جاتے ہیں- قدرتی ہیرا تیار ہونے میں کئی سو سال لگتے ہیں- ہیرا جب نکالا جاتا ہے تو وہ ایک کھردری معدنیات کے مشابہ ہوتا ہے- تراش خراش کے بعد وہ قیمتی ہیرے کی شکل میں بن کر تیار ہوتاہے- نگینہ بنانے میں عام طور پر 35 سے 60 فی صد حصہ صاف کرنے میں کاٹ دیا جاتا ہے- (روزنامہ منصف، حیدرآباد، دکن، 11 جون 2013)
جو ہیرے کامعاملہ ہے، وہی فطرت کے مطابق، انسان کا معاملہ بھی ہے- ہیرے کی طرح انسان بھی ایک پوٹنشل کے روپ میں پیدا ہوتا ہے- اِس پوٹنشل کو ایکچول بنانا انسان کا اپنا کام ہے۔ جو شخص اِس راز کو جانے اور اپنے امکان کو واقعہ بنانے کی کوشش کرے، وہی ’ہیرا انسان‘ ہے- اور جو آدمی ایسا نہ کرسکے، اس کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ہیرے کے ٹکڑے کو کوڑے خانے میں ڈال دیا جائے-
ہر انسان کے اندر ایک امکانی شخصیت ہوتی ہے- یہ شخصیت کسی انسان کو فطرت کی طرف سے عطا کی جاتی ہے- اِس شخصیت کا ارتقا اپنے آپ نہیں ہوسکتا- یہ کام آدمی کو خود کرنا ہے- یہی آدمی کا اصل امتحان ہے- بعض انسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیلف میڈ مین (self-made man) تھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والے انسان کا کیس یہی ہے-
ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اُس شخصیت (personality) کو دریافت کرے جو فطرت کی طرف سے اُس کو ملی ہے- یہ شخصیت گویا ایک ناتراشیدہ ہیرا ہے- ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اِس ناتراشیدہ انسان کو دریافت کرے اور پھر دانش مندانہ منصوبے کے ذریعے وہ اِس ناتراشیدہ ہیرے کو تراشیدہ ہیرا بنائے- جو شخص اِس عمل میں ناکام رہے، اس کے لیے نہ دنیا میں کوئی جگہ ہے اور نہ آخرت میں کوئی جگہ-
واپس اوپر جائیں

فقہی معاملے میں توسع

حج کی روایتوں میں سے ایک روایت یہ ہے کہ اہلِ مدینہ نے عبد اللہ بن عباس سے ایک عورت کے بارے میں پوچھا کہ اس نے (زمانۂ حج میں) طواف کیا، پھر وہ حائضہ ہوگئی- انھوںنے کہا کہ وہ مدینہ واپس چلی جائے- اہلِ مدینہ نے کہا ہم ایسا نہیں کریں گے کہ ہم آپ کے قول کو لیں اور زید بن ثابت الانصاری کے قول کو چھوڑ دیں: لانأخذ بقولک وندع قول زید (صحیح البخاری، کتاب الحج، رقم الحدیث: 1758-1759 )
عبد اللہ بن عباس اور زید بن ثابت دونوں صحابی تھے، لیکن مذکورہ مسئلے میں دونوں کے درمیان اختلاف تھا- عبد اللہ بن عباس کا کہنا یہ تھا کہ مذکورہ کیس میں عورت کے لیے رخصت ہے کہ وہ طواف وداع کیے بغیر اپنے گھر واپس چلی جائے- لیکن زید بن ثابت انصاری کا مسلک یہ تھا کہ ایسی عورت کو حیض کے بعد سات دن قیام کرنا چاہیے اور پھر طواف وداع کرکے اپنے گھر واپس جانا چاہیے-
رائے کے اس اختلاف کے باوجود دنوں صحابہ کے درمیان یا اُن کے پیروؤں کے درمیان وہ غیر مطلوب اختلاف پیدا نہیں ہوا جو موجودہ زمانے میں اِس طرح کی صورتِ حال میں پایا جاتا ہے- اِس کا سبب مسلک میں اختلاف کو برداشت کرنا نہیں تھا، بلکہ اِس کا سبب مسلک میں توسع (diversity) تھا، یعنی یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک ہے- مذکورہ عورت اگر حیض کے بعد طوافِ وداع کے بغیر واپس چلی جائے تو اس کو اِس کی رخصت ہے اور اگر وہ ٹھہر جائے اور ایک ہفتے کے بعد طوافِ وداع کرکے واپس جائے، تب بھی ٹھیک-فقہی مسلک میں اختلاف ہمیشہ جزئی نوعیت کا ہوتاہے، اور جزئی نوعیت کے اختلاف میں ہمیشہ توسع مطلوب ہوتاہے، نہ کہ توحد، یعنی ایک مسلک درست ہے اور دوسرا مسلک غلط- یہی وہ حقیقت ہے جو کہ حدیث میں اِن الفاظ میں بتائی گئی ہے: فبأیّہم اقتدیتم، اہتدیتم (مشکاة المصابیح، رقم الحدیث: 6018)-فقہی مسائل میں اختلاف مسلک کو توسع پر محمول کرنا چاہئے، نہ یہ کہ ایک مسلک صحیح ہے، اور دوسرا مسلک غلط۔
واپس اوپر جائیں

تخلیق آدم

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن أنس أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال لما صوّر اللہ آدم فی الجنة ترکہ ماشاء اللہ أن یترکہ فجعل ابلیس یطیف بہ ینظر ما ہو فلما رآہ أجوف عرف أنہ خلق خلقا لا یتمالک (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 6815) یعنی جب اللہ نے جنت میں انسان کی ساخت بنائی تو اللہ نے اس کو ایک مدت کے لیے وہاں باقی رکھا۔ پھر ابلیس آیا۔ وہ آدم کا مطالعہ کرنے لگا کہ وہ کیا ہے۔ پھر اس نے دیکھا کہ وہ اجوف (hollow) ہے۔ اس نے جان لیا کہ آدم کی تخلیق اِس طرح ہوئی ہے کہ اس کے اندر تمالک کی صفت نہیں۔
اِس حدیث کے بارے میں التور بشتی نے لکھا ہے کہ’’ہذا الحدیث مشکل جدا‘‘(یہ حدیث بے حد مشکل ہے) لیکن محدث ابن جوزی نے ایک بات لکھی ہے جو گویا اِس حدیث کو سمجھنے کے لیے کلید کی حیثیت رکھتی ہے: الأجوف ضعیف الصبر ( کشف المشکل من حدیث الصحیحین لابن الجوزی 1716 / 2138)۔ مذکورہ حدیث میں تمالک کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تمالک کا مطلب ہے — سیلف کنٹرول، یعنی اپنے آپ پر قابو رکھنا۔ ابلیس کی یہ تشخیص نہایت درست تھی اور اِس کا پہلا مظاہرہ اِس طرح ہوا کہ جنت میں آدم اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے۔ انھوں نے واضح ہدایت کے باوجود جنت کے ممنوعہ درخت (forbidden tree) کا پھل کھالیا۔ تمالک میں اِس ناکامی کا نتیجہ یہ ہوا کہ آدم کو جنت سے نکال کر موجودہ زمین پر بھیج دیاگیا-
ابلیس نے انسان کی اِس کمزوری کو پہلے ہی دن دریافت کرلیا تھا۔ اُس نے یہ جان لیا تھا کہ انسان کو صراطِ مستقیم سے ہٹانے کا سب سے زیادہ کارگر طریقہ یہ ہے کہ اس کو ایسی خواہشوں میں مبتلا کیاجائے جہاں وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے منحرف ہوجائے-
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو ابلیس کا مقابلہ کرنا ہے۔ اِس مقابلے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ابلیس کے وسوسے کو پہچانے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں تذکّر (7:201) کہاگیا ہے ۔ اس معاملے میں شیطان کی زد سے بچنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ آدمی اپنے اندر تذکر کی صفت پیدا کرے-
واپس اوپر جائیں

ڈسکوری، ری ڈسکوری

قرآن کی سورہ آل عمران کی ایک آیت میں بتایا گیا ہےکہ — جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں نے تم کو کتاب اور حکمت دی، پھر تمھارے پاس پیغمبر آئے جو سچا ثابت کرے اُن پیشین گوئیوں کو جو تمھارے پاس ہیں تو تم اُس پر ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد کر وگے۔ اللہ نے کہا: کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا عہد قبول کیا۔ انھوں نے کہا: ہم اقرار کرتے ہیں۔ فرمایا: اب گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں۔ (3:81)
قرآن کی اِس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حق پر وہ ایمان مطلوب ہے جو معرفت کے درجے میں ہو۔ پیغمبر کے معاصرین میں سے جو لوگ پیغمبر پر ایمان لاتے ہیں، وہ معرفت کے درجے میں سچائی کو دریافت کرکے اس کو قبول کرتے ہیں۔ لیکن پیغمبر کی امت اپنے بعد کے زمانے میں صرف پیدائشی ایمان پر قائم ہوجاتی ہے۔ یہ پیدائشی ایمان اللہ کو مطلوب نہیں، اِس لیے بعد کے زمانے میں ضروری ہوجاتا ہے کہ امت معرفت والے ایمان کا ثبوت دے-
مثلاً قدیم زمانے میں امتِ موسی کے لیے ضروری تھا کہ وہ حضرت مسیح کی سطح پر دوبارہ معرفت والے ایمان کا ثبوت دیں۔ اِسی طرح امتِ مسیح کے لیے ضروری تھا کہ وہ حضرت محمد کی سطح پر ایمان کی شعوری دریافت کریں اور دوبارہ اپنے آپ کو معرفت والے ایمان پر قائم کریں-
اب ختمِ نبوت کے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہیں، لیکن مذکورہ قانون بدستور باقی ہے۔ بعد کے زمانے میں امتِ مسلمہ کی نجات کے لیے پیدائشی ایمان کافی نہیں ہوسکتا۔ امت کے افراد کو بعد کے زمانے میں دوبارہ معرفت والے ایمان کا ثبوت دینا ہے۔ اُن کو یہ کرنا ہے کہ وہ غور وفکر کے ذریعے دینِ خداوندی کو دوبارہ زندہ شعور کی سطح پر دریافت کریں۔ اِس سے کم کوئی چیز اللہ کے یہاں قابلِ قبول نہیں ہوسکتی-بعد کے زمانے میں غیر اہلِ ایمان کو ڈسکوری کی سطح پر خدا کے دین کو پانا ہے، اور اہلِ ایمان کوری ڈسکوری کی سطح پر-
واپس اوپر جائیں

پرمسرت زندگی کا راز

امریکا کے ایک جرنل (The Journal of Positive Psychology)کے شمارہ 19 دسمبر 2012 میں ایک ریسرچ کے نتائج چھپے ہیں۔ یہ ریسرچ امریکا کے د و اسکالرس (academics) نے کی ہے۔ اُن کے نام یہ ہیں:
Yuna L Ferguson, Kennon M Sheldon
اِس ریسرچ میں خوش رہنے کا راز بتایا گیا ہے۔ انھوں نے اپنے تجربات کے ذریعے یہ پایا ہے کہ جو لوگ پرمسرت میوزک (happy music) سنتے ہیں، وہ اپنی زندگی میں خوش رہتے ہیں، اِن میں وہ لوگ زیادہ خوش پائے گئے جنھوں نے باقاعدہ طورپر خوش رہنے کی کوشش کی:
Those who actively tried to feel happier reported the highest level of positive mood afterwards.
پرمسرت میوزک سن کر خوش رہنے کا یہ طریقہ فطرت کے مطابق نہیں، یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہی چیز ہے جس کو غم غلط کرنے کا طریقہ کہاجاتا ہے۔ فطرت کے تخلیقی نقشے کے مطابق، صحیح طریقہ یہ ہے کہ زندگی کے مسائل کو چیلنج (challenge) کے طورپر لیا جائے۔
انسان کی زندگی مسائل سے بھری ہوئی ہے۔ یہ مسائل اِس لیے نہیں آتے کہ کسی مصنوعی تدبیر سے اُن کو بھلا دیا جائے، بلکہ یہ مسائل اِس لیے آتے ہیں کہ ان کو چیلنج سمجھ کر ان کا سامنا کیاجائے۔ اِس طرح آدمی کے ذہن میں ایک قسم کا فکری سنگھرش (intellectual struggle) وجود میں آتا ہے۔ اِس کے ذریعے آدمی کی تخلیقیت (creativity)میں اضافہ ہوتاہے، اس کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری ہوتا ہے، اس کے ذریعے آدمی کا جمود (stagnation) ٹوٹتاہے، اس کے اندر حرکت اور فعالیت پیداہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پرمسرت زندگی کا راز ذہنی ارتقا ءمیں ہے، نہ کہ پرمسرت میوزک سننے میں-
واپس اوپر جائیں

جوہر شناسی

کہاجاتا ہے کہ 1847 میں ایک آدمی نے ایک بچے کے پاس ایک عجیب قسم کا پتھر دیکھا۔ یہ بچہ ہوپ ٹاؤن (Hopetown) جو دریائے اورنج پرواقع ہے،کے ایک کھیت میں کھیل رہا تھا۔ یہ بظاہر ایک گول پتھر تھا۔ اُس شخص نے یہ پتھر بچے کے ہاتھ سے لے کر جب ایک جوہر شناس کو دکھایا تو معلوم ہوا کہ وہ ہیرا (diamond)ہے۔ یہ پتھر 2.122قیراط وزنی تھا۔ اِس ہیرے کو پیرس کی ایک نمائش میں بھی دکھایا گیا(روزنامہ منصف، حیدرآباد، 11 جون 2013 )-
جس طرح پتھر کے معاملے میں جوہر شناسی مطلوب ہے، اسی طرح انسان کے معاملے میں بھی جوہر شناسی مطلوب ہے۔ بے شمار انسان پیدا ہو کر دنیا میں آتے ہیں، لیکن سب یکساں قابلیت کے نہیں ہوتے۔ اُن میں بعض افراد ایسے ہوتے ہیںجو امکانی طورپر خصوصی صلاحیت لے کر پیدا ہوئے ہوں۔ لیکن یہ صلاحیت ایک چھپی ہوئی صلاحیت ہوتی ہے، وہ آواز دے کر اپنے آپ کو نہیں بتاتی۔ ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی جوہر شناس ان کی چھپی ہوئی صلاحیت کو پہچانے اور اس کو اظہارکا موقع دے-
کسی آدمی کے جوہر کو پہچاننے کی دو صورتیں ہیں — ایک، یہ کہ آدمی اتنا زیادہ خود شناس ہو کہ وہ خود اپنے آپ کو پہچان لے، یا اس کو کوئی ایسا قدر داں مل جائے جو اس کے جوہر کو پہچانے اور اس کے لیے وہ بوسٹر (booster) بن جائے۔ یہ دونوں نہایت مشکل کام ہیں۔ خود شناس بننے کے لیے کامل درجے کی حقیقت پسندی درکار ہے اور جوہر شناس بننے کے لیے کامل درجے کی خیرخواہی-
تجربہ بتاتاہے کہ یہ دونوں صفتیں لوگوں کے اندر بہت کم پائی جاتی ہیں۔ اِس بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اعلی صلاحیت کے افراد پیدا ہوتے ہیں، لیکن وہ دنیا میں اپنا استعمال نہیں پاتے، کبھی اِس لیے کہ وہ خود اپنے آپ کو دریافت نہیں کرپاتے اور کبھی اِس لیے کہ دنیا میں اُن کو کوئی سچا خیر خواہ حاصل نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسا امتحان ہے جس میں اکثر لوگ ناکام ثابت ہوئے ہیں-
واپس اوپر جائیں

زندگی اور موت

الرسالہ مشن سے وابستہ ایک خاتون کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا۔ روڈ ایکسیڈینٹ میں ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ اُن سے گفتگو کرتےہوئے میں نے کہا کہ اِس معاملے کو آپ قرآن کی دو آیتوں کی روشنی میں دیکھئے(2:155)، (3:185)۔ اِس کے مطابق، موت اللہ کا ایک فیصلہ ہے۔ زندگی بھی اللہ کے فیصلے سے وجود میں آتی ہے اور موت بھی اللہ کے فیصلے سے وقوع میں آتی ہے-
حقیقت یہ ہے کہ موت کوئی ’’حادثہ‘‘ نہیں، موت ایک امتحان (test) ہے۔ موت کو اگر حادثہ (accident) سمجھا جائے تو اُس سے غم کی نفسیات پیدا ہوتی ہے۔ اِس کے برعکس، موت کو اگر امتحان سمجھا جائے تو آدمی کے اندر ایک نیا عزم جاگ اٹھے گا-وہ سمجھے گا کہ اب تک میرا امتحان زندگی کے ذریعے ہورہا تھا، اب میرا امتحان موت کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ میری کامیابی یہ ہے کہ میں اِس معاملے کو امتحان کی نظر سے دیکھوں اور اس میں پورا اترنے کی کوشش کروں-
کسی کی موت خواہ وہ حادثے کے طور پر ہو یا بیماری کے طورپر، وہ کبھی بے وقت نہیں آتی۔ ہرانسان جو اِس دنیا میں پیداہوتا ہے، وہ امتحان کے لیے پیداہوتا ہے۔ ہر ایک کے لیے امتحان کی ایک مدت مقرر ہے۔ یہ مقرر مدت پوری ہوتے ہی موت کا فرشتہ آتا ہے اور اس کی روح قبض کرکے اس کو آخرت کی دنیا میں پہنچا دیتا ہے-
آدمی کو چاہیے کہ وہ موت کے معاملے میں حقیقت پسند بنے۔ وہ موت کو ایک اٹل حقیقت کے طورپر تسلیم کرے۔ وہ موت کو اپنے لیے سبق کا ذریعہ بنائے، نہ کہ غم اور افسوس کا ذریعہ-
موت کو حدیث میں ’’ہادم اللذات‘‘ (مسند احمد، رقم الحدیث: 7925)کہاگیا ہے، یعنی لذتوں کو ڈھادینے والا واقعہ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کو موت کا حقیقی ادراک ہوجائے، وہ آخری حد تک سنجیدہ ہوجائے گا۔ وہ آج (today) کے بجائے کل (tomorrow) کو اپنا نشانہ (goal) بنا لے گا۔ اس کی زندگی مکمل طورپر آخرت رخی زندگی بن جائے گی-
واپس اوپر جائیں

تنبیہہِ خداوندی یاظلمِ انسانی

موجودہ زمانے کے تمام مسلم رہنما متفقہ طورپر اعلان کررہے ہیں کہ تمام دنیا کے مسلمان غیرمسلم قوموںکی طرف سے ظلم کا شکار ہورہے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ایک غلط رہنمائی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے ساتھ جو ناموافق حالات پیش آرہے ہیں، وہ قرآن کے مطابق، تنبیہہ خداوندی کی حیثیت رکھتے ہیں، جیساکہ اِس سے پہلے یہود کے ساتھ پیش آیا۔ یہ واقعات چوں کہ بظاہر کچھ انسانوں کی طرف سے پیش آتے ہیں، اِس لیے ہمارے رہنماؤں نے اِن واقعات کو مفروضہ ظالموں کے ساتھ منسوب کرکے اُن کے خلاف احتجاج اور جوابی تشدد شروع کردیا۔ اگر وہ اِن واقعات کو خدا کی تنبیہات (warnings) سمجھتے تو وہ مسلمانوں کو داخلی اصلاح کی طرف متوجہ کرتے۔ اس کے بعد ایسا ہوتا کہ مسلمان اصلاحِ خویش میں مشغول ہوجاتے، نہ کہ شکایت غیر میں-
موجودہ صورت ِ حال میں قرآن کی یہ آیت ایک خدائی رہنما کی حیثیت رکھتی ہے: فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَہُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (6:43) یعنی جب ہماری طرف سے اُن پر سختی آئی تو وہ کیوں نہ گڑگڑائے، بلکہ ان کے دل سخت ہوگئے اور شیطان اُن کے عمل کو ان کی نظر میں خوش نما کرکے دکھاتاہے-
اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب قوم کے اندر بگاڑ آیا تو اللہ کی طرف سے تنبیہات آئیں۔ اُس وقت چاہیے تھا کہ قوم کے اندر محاسبہ کا جذبہ پیدا ہوتا اور وہ اصلاحِ خویش کی طرف متوجہ ہوجاتے، لیکن عملاً یہ ہوا کہ انھوں نے خود ساختہ توجیہات کے ذریعے اس کو مفروضہ ظالموں کا ظلم قرار دے دیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنی غلط سوچ میں اور زیادہ پختہ ہوگئے۔ تنبیہ خداوندی کو ظلمِ انسانی قرار دینا ہمیشہ شیطان کی تزئین کے تحت ہوتاہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہنما جو کچھ کر رہے ہیں، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہی نامطلوب تزئین ہے-تنبیہہ ِ خداوندی کو ظلمِ انسانی سمجھنا، بلاشبہہ ایک تباہ کن غلطی ہے-
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے سے سبق لینا

انسانی زندگی کا ایک ظاہرہ وہ ہے جس کو بڑھاپا کہاجاتاہے۔ بڑھاپا کوئی غیر مطلوب چیز نہیں۔ بڑھاپے کی عمر میں انسان کے لئے ایک موقع موجود ہوتا ہے، یعنی نصیحت لینا۔ قرآن کی سورہ الفاطر میں یہ بات ان الفاظ میں آئی ہے: اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ (35:37) یعنی کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا-
انسان اس دنیا میں محدود عمر کے لئے پیدا ہوتا ہے۔ چناں چہ پیدا ہوتے ہی انسان کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوجاتا ہے۔ تقریباً 35 سال تک اس کا گراف اوپر کی طرف جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ نیچے جانا شروع ہوتا ہے۔ ادھیڑ عمر، بڑھاپا، آخر میں موت ۔ اس درمیان میں اس کو مختلف قسم کے نقصان پیش آتے ہیں۔ مثلاً بیماری، حادثہ، طرح طرح کے مسائل، وغیرہ-
اس طرح آدمی سے ایک ایک چیز چھنتی رہتی ہے۔ پہلے جوانی، پھر صحت، پھر سکون، وغیرہ۔ یہاں تک کہ موت کا وقت آتا ہے۔ اور آدمی کی ہر وہ چیز، جس کو وہ اپنا سمجھتا تھا، یہاں تک کہ اس کا اپنا جسمانی وجود بھی اس سے چھن جاتا ہے۔ اس کے بعد جو چیز باقی رہتی ہے وہ صرف انا (ego)ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں-
موت کا تجربہ کسی انسان کے لئے سب سے زیادہ سنگین تجربہ ہے۔ اس تجربہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنے قبل ازموت مرحلۂ حیات میں جو کمایا تھا وہ اس سے ابدی طورپر چھن گیا۔ اِس کے آگےبعد ازموت مرحلۂ حیات کا معاملہ ہے۔ اس دوسرے مرحلہ میں آدمی کو صرف وہ چیز کام آئے گی جو اس نے عمل صالح کی صورت میں اپنے آگے کے لئے بھیجی۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (59:18) یعنی اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا-بڑھاپا برائے سبق ہے، بڑھاپا برائے شکایت نہیں-
واپس اوپر جائیں

توبہ قریب

قرآن کی سورہ النساء میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰۗىِٕکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًا (4:14) یعنی توبہ جس کو قبول کرنا اللہ کے ذمہ ہے وہ ان لوگوں کی ہے جو بری حرکت نادانی سے کربیٹھتے ہیں، پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ وہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول کرتاہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
توبہ کا لفظی مطلب ہے لوٹنا۔ یعنی غلطی کرنے کے بعد اصلاح کی طرف لوٹنا۔ قرآن کے مطابق توبہ کی دو صورتیں ہیں، توبہ قریب اور توبہ بعید-قرآن کے مطابق مطلوب توبہ وہ ہے جو توبۂ قریب ہو۔ توبہ بعید اللہ کے نزدیک مطلوب توبہ نہیں۔ توبہ قریب ایمانی حساسیت کی علامت ہے اور توبہ بعید ایمانی بے حسی کی علامت -توبۂ قریب یہ ہے کہ آدمی کے اندر غلطی کرنے کے بعد شدید قسم کی ندامت (repentance) پیداہو۔ وہ فوراً غلطی کے بعد متنبہ ہوجائے۔ اس کے اندر احساس خطا اتنی شدت کے ساتھ ابھرے کہ وہ اس کا تحمل نہ کرسکے کہ غلطی کے بعد اپنی حالت پر مطمئن بنا رہے۔ شدیداحساس خطا کے ساتھ وہ بلاتاخیر غلطی کی تلافی کرنے کی طرف دوڑ پڑے-
غلطی کے مختلف صورتیں ہیں۔ غلطی اگر مادی نوعیت کی ہے تو وہ جلدسے جلد متعلق شخص کے مالی نقصان کی تلافی کرے۔ اور غلطی اگر اخلاقی نوعیت کی ہے تو وہ فوراً بہتر اخلاقی سلوک کے ساتھ اس کی تلافی کی کوشش کرے-اس معاملہ\ میں سب سے زیادہ سنگین صورت وہ ہے، جب کہ غلطی کی نوعیت ایسی ہو، جس میں اس کی ضرورت ہو کہ غلطی کرنے والا متعلق شخص سے مل کر اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور کھلے طورپر اس سے معافی مانگے۔ اس قسم کی توبہ کسی انسان پر بہت شاق گزرتی ہے۔ کیوں کہ اس میں آدمی کی بڑائی ختم ہوتی ہے۔ اس کا برتری کا جذبہ منہدم ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے سامنے چھوٹا بنانا پڑتا ہے، جس کے مقابلہ میں اس نے اپنے آپ کو بڑا فرض کرلیا تھا۔ توبہ کی یہ قسم نفی خویش (self negation) کی قیمت پر ہوتا ہے۔ اور نفی خویش بلا شبہہ کسی انسان کے لئے سب سے زیادہ سخت بات ہے-
واپس اوپر جائیں

روح القدس کا تصور

قرآن کی سورہ البقرہ میں حضرت مسیح کے حوالے سے یہ الفاظ آئے ہیں: وَاٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُس(2:87) یعنی ہم نے عیسی بن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے اس کی تائید کی-
روح القدس کا لفظی مطلب مقدس روح (Holy Spirit) ہے۔ یہ اللہ تعالی کی ایک خصوصی نصرت ہے جو کسی بندے کے اوپر فرشتوں کے ذریعے آتی ہے۔ یہی خصوصی نصرت تھی جو حضرت مسیح پر آئی۔ اِس خصوصی نصرت نے حضرت مسیح کو اِس قابل بنایا کہ وہ اپنے مخالفوں کے ہجوم میں رہتے ہوئے اپنے خدائی مشن کی تکمیل کرسکیں-
روح القدس کا تعلق شخصی طورپر خصائصِ نبوت سے نہیں ہے، وہ حق کے داعی کے لیے اللہ کی خصوصی نصرت کا معاملہ ہے۔ اِس خصوصی نصرت کے استحقاق کا اصول یہ ہے کہ جب کوئی شخص بے آمیز حق کی دعوت کے لیے اٹھے، وہ اِس دعوت کے بارے میں اتنا زیادہ سنجیدہ ہو کہ اپنا سب کچھ اس کے لیے وقف کردے، لیکن قلتِ وسائل کی بنا پر وہ محسوس کرے کہ وہ اپنے مشن کی تکمیل کے معاملے میں آخری حد تک عاجز (helpless) ہوگیاہے-اِس احساسِ عجز کے ساتھ وہ اللہ سے دعائیں کرنے لگے-
مزید یہ کہ خود اللہ کے علم میں یہ بات ہو کہ یہ بندہ واقعی معنوں میں اللہ کے لیے کھڑا ہوا ہے، وہ اپنی طرف سے ساری کوشش کے باوجود واقعةً عاجز ثابت ہو رہاہے-جب اللہ کے علم محیط میں ایک داعی کی یہ حیثیت متحقق ہوجائے تو اُس وقت اللہ اپنے مشن کی تکمیل کے لیے فرشتوں کو یہ حکم دیتاہےکہ اِس بندے کی خصوصی مدد کرو، تاکہ وہ اپنے دعوتی مشن کو اس کی تکمیل تک پہنچا سکے۔ اسی خصوصی نصرت کا نام روح القدس کی تائید ہے-روح القدس، اپنی حقیقت کے اعتبار سے، نصرت کا معاملہ ہے، نہ کہ کرامت کا معاملہ- (12 جون 2014)
واپس اوپر جائیں

اختلاف کا مسئلہ

مسلمانوں کے اندر بڑے پیمانے پر مذہبی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلاف بڑھ کر کبھی تشدد کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ عام طورپر سمجھا جاتاہے کہ اِن اختلافات کا سبب مدارس کا نصاب ہے۔ ان کے خیال کے مطابق، اگر مدارس کے نصاب میں اصلاح کردی جائے تو اختلاف کا خاتمہ ہوجائے گا اور لوگوں کے اندر اتحاد واتفاق کی حالت قائم ہوجائے گی۔
مگر یہ اصل صورتِ حال کا کم تر اندازہ (underestimation) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اختلاف کا سبب فطرتِ انسانی میں ہے، نہ کہ مدارس کے نصاب میں۔ پیدائش کے اعتبار سے، ہر مرد مسٹر ڈفرنٹ(Mr. Different) ہوتا ہے اور ہر عورت مس ڈفرنٹ۔
یہی فطری فرق اختلاف کا اصل سبب ہے۔ اگر تمام مدارس کا نصاب ایک کردیا جائے تب بھی اختلاف باقی رہے گا، کیوں کہ خواہ نصاب کی سطح پر اختلاف نہ ہو تب بھی فطرت کی سطح پر اختلاف موجود رہے گا، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں-
حضرت علی اور حضرت معاویہ دونوں ایک ہی مدرسہ، مدرسۂ نبوت، کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ ابو الحسن اشعری اور واصل بن عطا دونوں ایک ہی مدرسے کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔
موجودہ زمانے میں سرسید احمد خاں اور مولانا قاسم نانوتوی دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا حسین احمد مدنی دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ مولانا سیدسلیمان ندوی اور مولانا مسعود علی ندوی دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا-
اصل یہ ہے کہ خواہ دو آدمیوں نے ایک ہی مدرسہ اور ایک ہی نصاب کے تحت تعلیم پائی ہو، لیکن طرز فکر (way of thinking) کی سطح پر ہمیشہ ایک آدمی اور دوسرے آدمی کے درمیان فرق ہوتا ہے- یہی فرق ہے جو اختلاف کا سبب بن جاتا ہے- اِس کے بعد وہ بڑھ کر نفرت اور تشدد تک پہنچ جاتا ہے- یہ اختلاف یا فرق چوں کہ فطرتِ انسانی کا حصہ ہے، اِس لیے وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں- ایسی حالت میں اختلاف کے مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ ناکام طورپر اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ لوگوں کو اُس اصول کی تعلیم دی جائے جس کو ’’اختلاف کے باوجود اتحاد‘‘ کہاجاتا ہے، یعنی رائے (opinion) کی سطح پر اختلاف، لیکن سماجی تعلق (social relationship) کی سطح پر اتفاق-
انسانوں کے طرز فکر میں اختلاف کوئی غیر مطلوب چیز نہیں، بلکہ وہ عین مطلوب ہے- کیوں کہ اِس اختلاف کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان ڈسکشن اور ڈائیلاگ ہوتا ہے، اور ڈسکشن اور ڈائیلاگ ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے- جہاں ڈسکشن اور ڈائیلاگ نہ ہو، وہاں یقینی طورپر ذہنی جمود (intellectual stagnation) پیدا ہوجائے گا، اور ذہنی جمود سے زیادہ تباہ کن اور کوئی چیز انسان کے لئے نہیں-
واپس اوپر جائیں

فیملی کلچر کا نقصان

موجودہ زمانے میں خاص طورپر اورمشرقی دنیا میں عام طورپر لوگوں کے درمیان ایک ہی کلچر کا رواج ہے اور وہ فیملی کلچر ہے، یعنی پیسہ کمانا اور گھر والوں کے تقاضے پورا کرنا۔ لوگوں کو صرف یہی ایک ماڈل معلوم ہے، اِس کے سوا کسی اور ماڈل کا اُنھیں علم نہیں-
اِس فیملی کلچر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ عملاً تحمیق خاندان (befooling of family) کے ہم معنی بن گیا ہے-اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کی سوچ کا دائرہ بہت محدود ہوگیاہے۔ اُن کا ذہن صرف اپنی مادی ضرورتوں کے محدود دائرے میں کام کرتاہے۔ وہ اِس کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ وہ اِس محدود دائرے کے باہر سوچیں۔ ان کے یہاں کتابوں کے مطالعے کا ماحول نہیں ہوتا۔ اُن کے یہاں سنجیدہ تبادلہ خیال (serious discussion)کا رواج نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں یہ کلچر نہیں ہوتا کہ وہ رشتےداروں کے علاوہ لوگوں سے ملیں اور اُن سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو جاب کے لیے یا تفریح کے لیے یا شاپنگ کے لیے۔ اِس قسم کی چیزوں کے علاوہ، ان کے یہاں ذہنی ارتقا کا کوئی تصور نہیں-
اِس فیملی کلچر کا نقصان یہ ہے کہ لوگ بظاہر مادی اعتبار سے آسودہ زندگی گزار رہے ہیں، لیکن عملاً وہ فکری پس ماندگی (intellectual backwardness) کا شکار ہیں۔ اُن سے کسی سنجیدہ موضوع پر بات کیجئے تو فوراً معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اندر کوئی علمی سوچ نہیں، اُن کو حقائقِ عالم کی معرفت نہیں، زندگی کے زیادہ بڑے مسائل کے بارے میں ان کی کوئی رائے نہیں۔ بظاہر وہ انسان نظر آئیںگے، لیکن عملاً وہ صرف ایک خوش پوش حیوان (well-dressed animal) کی مانند ہوں گے-
خاندانی زندگی کی تشکیل اِس طرح ہونی چاہیے کہ وہ لوگوں کے لیے اُن کے ذہنی ارتقا (intellectual development) میں مددگار ہو، نہ کہ لوگوںکے ذہنی ارتقاء کے لیے وہ ایک مستقل رکاوٹ بن جائے-
واپس اوپر جائیں

سکینہ، فتح

قرآن کی سورہ الفتح میں زمانہ رسالت کے اُس واقعے کا ذکر ہے جس کو معاہدہ حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ اِس معاہدے کے وقت رسو ل اور اصحابِ رسول کو حدیبیہ سے بظاہر ناکام لوٹنا پڑا تھا۔ لیکن اِس معاہدے کے بعد یہ ہوا کہ رسول اور اصحابِ رسول صرف دو سال کے اندر دوبارہ فاتحانہ انداز میں مکہ میں داخل ہوئے-
ظاہری حالات کے اعتبار سے اصحابِ رسول بوقت معاہدہ سخت پریشان تھے۔ اُس وقت قرآن میں یہ آیت اتری: فَجَــعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا (48:27)۔ قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مطلوب فتح (فتح مکہ) اُس وقت ایک بعید فتح کی حیثیت رکھتی تھی، لیکن اللہ نے اپنی رحمت خاص سے اصحابِ رسول کو ایک فتحِ قریب (near victory) عطا کردی-
یہ فتحِ قریب کیا تھی، اِس کا جواب خود قرآن کی اِس سورہ میں موجود ہے۔ اِس آیت کے الفاظ یہ ہیں: فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَةَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا (48:18) یعنی پس اُس نے اُن پر سکینت نازل فرمائی اور ان کو ایک قریبی فتح دے دی۔ یہاں فتحِ قریب سے مراد سکینہ ہے اور فتح بعید سے مراد فتحِ مکہ۔ فتحِ مکہ اگر خارجی فتح تھی تو سکینہ ایک داخلی فتح (internal victory)-
سکینہ کے لفظی معنی اطمینان(tranquillity) کے ہیں۔ یہاں سکینہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو ذہنی اطمینان (peace of mind) کہاجاتا ہے۔ یہ سکینہ اللہ کی خصوصی مدد ہے، جو مشکل اوقات میں اہلِ ایمان کے اوپر نازل ہوتی ہے۔ مشکل اوقات حقیقتاً مشکل نہیں ہوتے، بلکہ وہ ایک فطری تاخیر ہے جو منصوبۂ الٰہی کے تحت پیش آتی ہے۔ اِس تاخیر(delay) کو بآسانی گوارا کرنے کے لیے اہلِ ایمان کو اللہ کی طرف سے سکینہ حاصل ہوتا ہے۔ معاہدہ حدیبیہ کے وقت اصحابِ رسول پر جو سخت حالات گزررہے تھے، اس کو سکینہ کے نزول نے آسان کردیا۔ اللہ کی یہ مدد ہر مومن فرد اور ہر مومن گروہ کے لیے ضرورآتی ہے، بشرطیکہ اس کا کیس حقیقی معنوں میں منصوبۂ الٰہی کے مطابق ہو- (21 اپریل 2014)
واپس اوپر جائیں

قریش کلچر

قرآن کی سورہ قریش میں قریش کی نسبت سے اللہ کی ایک سنت بیان کی گئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ ۝ اٖلٰفِہِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاۗءِ وَالصَّیْفِ ۝ فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ ۝ الَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ ڏ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ ۝ (106:1-4)یعنی اِس واسطے کہ قریش مانوس ہوئے، جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس، تو اُن کوچاہیے کہ وہ اُس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے اُن کو بھوک میں کھانا دیا اور خوف سے اُن کو امن دیا-
قدیم مکہ میں قبیلۂ قریش کوسرداری کا مقام حاصل تھا۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ وہ کعبہ کے متولی تھے۔ کعبہ کی اہمیت یہ تھی کہ اس میں عرب کے تمام قبائل کے بت رکھے ہوئے تھے، اِس لیےکعبہ تمام عرب قبائل کا مقدس ترین مرکز بن گیا تھا-
قدیم زمانے میں معاشیات کا انحصار زراعت پر تھا، لیکن مکہ میں کوئی زراعت نہ تھی۔ قریش کے لوگ کچھ روایتی سامان کی تجارت کرتے تھے۔ اِس مقصد کے لیے وہ تجارتی اسفار کرتے تھے-اُن کا تجارتی قافلہ سردی کے موسم میں یمن کی طرف جاتا تھا۔ اور گرمی کے موسم میں شام کے علاقے کی طرف۔ قدیم زمانے میں اِس قسم کے قافلوں کو ہمیشہ ڈاکوؤں کا خطرہ رہتا تھا۔ لیکن قریش کے قافلے اِس قسم کے خطرات سے محفوظ تھے، کیوں کہ کعبہ کے خادم اور متولی ہونے کی بنا پر اُن کو عرب کے قبائل میں عزت کا مقام حاصل تھا۔ ایسے موقع پر کسی قریش کی حفاظت کے لیے یہ کافی تھا کہ وہ رہزنوں سے یہ کہہ دے کہ: أنا من حَرَم اللہ-
قرآن کی اِس سورہ میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ صرف قدیم زمانے کے قریش کا ایک معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ کی ایک سنت کا معاملہ ہے۔ یہ دراصل اللہ کے عطیات کا ذکر کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو ہر زمانے میں مختلف قسم کی سہولتیں عطا فرماتا ہے، تاکہ وہ اللہ کے شکر کرنےوالے بنیں اور اللہ کی عبادت کے تقاضوں کو پورا کریں۔ قدیم زمانے میں قریش کو جو اقتصادی نعمت حاصل تھی، وہ آج کے انسان کو لاکھوں گنا اضافے کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ قدیم زمانے میں کچھ روایتی سامانوں کی صرف محدود تجارت ہوسکتی تھی۔ باربرداری (transportation) کے لیے بھی صرف اونٹ اور خچر کا ذریعہ دستیاب تھا-مگر موجودہ زمانے میں صنعتی انقلاب نے صورتِ حال کو بالکل بدل دیا ہے۔ موجودہ زمانے کو اقتصادی انفجار(economic explosion) کہاجاتا ہے۔ اب تجارت کی بے شمار صورتیں وجود میں آگئی ہیں۔ اب ہر انسان کے لیے کمائی کے لامحدود ذرائع کھل گئے ہیں-
موجودہ زمانے میں اقتصادی ترقی کے جو مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ قریش کے زمانے کے اقتصادیات (economics) سے اُن کو کوئی نسبت نہیں۔ یہی معاملہ راستوں کے تحفظ کا بھی ہے۔ قدیم زمانے میں اجتماعی تحفظ کا کوئی نظام موجود نہ تھا، ہر شخص اپنے تحفظ کا خود ذمے دار ہوتا تھا۔ اِسی صورتِ حال کی بنا پر قدیم زمانے میں وہ مسئلہ پیدا ہوا جس کو رہزنی (robbery)کہا جاتا ہے-
برطانی فلسفی جرمی بنتھام (Jeremy Bentham d. 1832)غالباً پہلا شخص تھا جس نے اجتماعی تحفظ کی اہمیت پر زور دیا۔ انگلینڈ میں انیسویں صدی میں پاپولیشن ایکسپلوزن ہوا۔ اس کے بعد وہاں کی سوسائٹی میں جرائم بڑھ گئے۔ اُس وقت وہاں کے ذمے داروں نے محسوس کیا کہ سماجی تحفظ کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے۔ چنانچہ 1829 میں لندن میں ایک سرکاری تنظیم قائم کی گئی۔ اس کا نام یہ تھا:
Metropolitan Police Services
یہ دنیا میں پولیس کی پہلی سرکاری تنظیم تھی۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے ہر ملک کی حکومت نے اس کو اختیار کرلیا۔ اِسی انتظام کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہم جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ہم کو یقین ہوتا ہے کہ سرکاری طورپر قائم شدہ پولیس کا انتظام ہماری حفاظت کرے گا، ملک کے اندر بھی اور ملک کے باہر بھی۔ یہ انتظام اُس سے لاکھوں گنا بڑا ہے جو قدیم زمانے میں قریش کو کعبہ کے متولی ہونے کی بنا پر حاصل تھا۔ قریش کو قدیم زمانے میں اللہ کی جو نعمت حاصل تھی، وہ موجودہ زمانے کے انسان کو بہت زیادہ اضافے کے ساتھ عطا ہوئی ہے۔ ساتویں صدی عیسوی کے قریش کو جو نوازش محدود سطح پر حاصل تھی، وہ موجودہ زمانے میں لامحدود سطح پر عالمی دائرے میں حاصل ہوگئی ہے۔ اس کا تقاضہ ہے کہ آج انسان زیادہ بڑے پیمانے پر اللہ کا شکر ادا کرے اور زیادہ بڑے درجے میں وہ عبادتِ الٰہی کی ذمے داریوں کو پورا کرے-
واپس اوپر جائیں

اپنی حد کو جانیے

ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ترقی کرے، ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کرے۔ لوگوں کے اِس مزاج کی بنا پر یہ مقولہ بنا ہے کہ — آسمان ہی اس کی حد ہے:
Sky is the limit
یہ مقولہ بہت مشہور ہے۔ لیکن وہ ایک غیر فطری مقولہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی صلاحیتیں بہت محدود ہیں، انسان اپنی محدود یت (limitations)کی وجہ سے ایک حد تک ہی آگے جاسکتا ہے، اس کے بعد نہیں۔ مذکورہ قسم کے مقولے کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ آدمی اپنے نشانے کو نہ پائے، البتہ وہ شدید قسم کی مایوسی میں مبتلا ہوجائے، یہاں تک کہ اِسی مایوسی کی حالت میں وہ اِس دنیا سے چلا جائے-
انسان کے لیے صحیح نشانہ ’’آسمان‘‘ نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنی فطری حد کو جانے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ ایسی حالت میں کسی انسان کے لیے صحیح نشانہ یہ ہے کہ وہ خود اپنے اعتبار سے اپنا نشانہ مقرر کرے، وہ یہ کہے کہ:
Stress is the limit
یعنی انسان کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، لیکن جب اس کو محسوس ہو کہ وہ ذہنی تناؤ (stress) کا شکار ہورہاہے تو وہ سمجھے کہ یہاں میری حد آگئی۔ اس کے عمل کی حد اس کا شوق یا اس کا حوصلہ نہ ہو، بلکہ ذہنی سکون (peace of mind) ہو-
انسان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بھر پور طور پر استعمال کرسکے۔ جب تک وہ ذہنی تناؤ سے بچا ہوا ہے، اُس وقت تک اس کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنی فطری حد کے اندر ہےاور جب وہ دیکھے کہ میں ذہنی تناؤ کا شکار ہو رہا ہوں تو وہ جان لے کہ اب میری حد آگئی۔ اب مجھے توقف کرنا چاہیے، نہ کہ ناکام طور پر آگے بڑھنا۔ اس دنیا میں آدمی جو کچھ پاسکتا ہے، وہ فطرت کے دائرے کے اندر پاسکتا ہے، اس کے باہر نہیں-
واپس اوپر جائیں

موت کا تجربہ

ایک حدیث رسول اِن الفاظ میں آئی ہے: أکثروا ذکر ہادم اللذات الموت(صحیح ابن حبان، رقم الحدیث: 2992) یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو جو لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے۔ موت ہر شخص کے لیے ایک بھیانک تجربہ ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر آدمی اپنی زندگی کی تعمیر کرتا ہے۔ ہر آدمی اپنی بساط کے مطابق، اپنے لئے ایک چھوٹا یا بڑا محل بناتا ہے۔ ہر آدمی اپنی تمام کوشش کر کے اپنی ایک دنیا تعمیر کرتا ہے، لیکن بہت جلد وہ وقت آتاہے جب کہ موت اس کا خاتمہ کردیتی ہے۔ موت ہر انسان کے لیے اس کی بنائی ہوئی دنیا کی نفی (nullification) کے ہم معنی ہے-
اگر آدمی کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ ہو تو موت کی یاد ہی اس کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔ اس کا دنیا پرستانہ ذہن ختم ہو جائے اور وہ کامل اعتبار سے،آخرت پسند انسان بن جائے۔ دنیا کی تمام خرابیوں کی جڑ صرف ایک ہے اور وہ ہے موت کو حذف کرکے سوچنا۔ اور تمام اچھائیوں کا سرچشمہ یہ ہے کہ آدمی اِس احساس کے ساتھ جئے کہ وہ ایک دن مرنے والا ہے اور اپنی زندگی کا حساب دینے کے لیے رب العالمین کے سامنے پیش ہونے والا ہے۔ موت سے غفلت آدمی کو غیر سنجیدہ بناتی ہے اور موت کا یقین آدمی کو آخری حد تک سنجیدہ بنا دیتاہے-
موت کا تصور انسان سے سرکشی کا جذبہ چھین لیتاہے۔ موت کا تصور آدمی کو یاد لاتاہے کہ وہ صرف ایک عاجز مخلوق ہے۔ موت آدمی کو انسانِ اصلی (man-cut to size) بناتی ہے۔ موت آدمی کے اندر سے بڑائی کا جذبہ چھین لیتی ہے۔ موت کی یاد آدمی کو آخری حد تک متواضع (modest) بنا دیتی ہے۔ یہ صفات آدمی کے اندر ایک داخلی محرک پیدا کردیتی ہیں جو بلاشبہ انسان کی اصلاح کا سب سے زیادہ طاقت ور ذریعہ ہے۔
موت کی یاد آدمی کو اپنی زندگی کے بارے میں آخری حد تک ذمہ دار بنادیتی ہے۔ موت کی یاد بلاشبہہ انسان کے لیے سب سے بڑی مصلح کی حیثیت رکھتی ہے-
واپس اوپر جائیں

خاندان کی اہمیت

خاندان (family) وسیع تر انسانیت کا ایک یونٹ ہے۔ خاندان کے اندر محدود دائرے میں وہ تمام حالات پیش آتے ہیں جو وسیع تر انسانیت کے اندر زیادہ بڑے پیمانے پر پیش آتے ہیں۔ اِس اعتبار سے، خاندان ہر ایک کے لیے گویا ایک تربیتی اسکول ہے۔ ہر آدمی اپنے خاندان کے اندر اُن تمام باتوں کو سیکھ سکتا ہے جو دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ مگر اِس کی ایک شرط ہے، وہ یہ کہ آدمی خاندان پرستی کا شکار نہ ہو۔ وہ اپنے خاندان کو بھی اُس نظر سے دیکھے جس طرح کوئی شخص دوسرے انسانوں کو دیکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جتنے مختلف قسم کے کیریکٹر ہیں، وہ سب کیریکٹر ہر آدمی کے اپنے خاندان کے افراد میں موجود ہوتے ہیں۔خاندان ہر آدمی کے لیے روایتی ’’جامِ جمشید‘‘ کی مانند ہے۔ خاندان کے آئینے میں آدمی ہر قسم کے اخلاق کا نمونہ دیکھ سکتا ہے۔ اِس طرح ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے خاندان اور رشتے داروں کو دیکھ کر زندگی کا تجربہ حاصل کرے اور اپنی زندگی کی حقیقت پسندانہ انداز میں منصوبہ بندی (planning) کرے-
مگر بہت کم ایسے افراد ہیں جو اِس قریبی امکان سے فائدے اٹھاتے ہیں۔ اِس محرومی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے لوگوں کے اندر موضوعی طرزِ فکر کا نہ ہونا۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں بہت جلد متعصبانہ طرز فکر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اُن کو اپنے گھر والوں کی غلطی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ خاندان سے باہر کے افراد کے بارے میں غیر ہمدردانہ انداز میں سوچتے ہیں اور اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں ہمدردانہ انداز میں۔ وہ خاندان سے باہر کے افراد کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے خاندان کے افراد کو دوسری نظر سے-اِس طرح اُن کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ نہ اپنوں کی زندگی سے سبق حاصل کرتے ہیں اور نہ دوسروں کی زندگی سے کوئی نصیحت حاصل کرتے ہیں-
واپس اوپر جائیں

جانچ کا معیار

ایک شخص جب شعوری طورپر ایمان کو اختیار کرتا ہے تو اس کے بعد یہ بھی اس کے ایمان کا ایک لازمی تقاضا ہوتا ہے کہ وہ دین کے کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کرے، خاص طورپر دعوت الی اللہ کے کام کے لیے۔ اِسی کا نام دینی مشن ہے۔ ایمان اگر کسی انسان کی داخلی صفت ہے تو دینی کام اس کی ایک خارجی صفت-دینی مشن کے معاملے میں اصل معیار یہ نہیں ہے کہ آپ نے مقدار (quantity) کے اعتبار سے کتنا کام کیا، بلکہ اس کا اصل معیار یہ ہے کہ آپ نے اپنے کام کے دوران خود اپنے لیے کیا پایا۔ دینی مشن کے معاملے میں خارجی مقدار کی حیثیت اضافی ہے اور داخلی یافت (internal realization) کی حیثیت حقیقی-
دین کے احکام خواہ وہ انفرادی ہوں یا بظاہر ان کی نوعیت اجتماعی ہو، دونوں حالتوں میں کسی حکم کا پہلا نشانہ ہمیشہ فرد ہوتا ہے۔ ہر دینی حکم کے معاملے میں پہلے یہ دیکھنا ہے کہ ایک فرد نے اس کو کتنا اپنایا، اس کی تعمیل کے دوران ایک فرد کو کتنا ربانی رزق ملا۔ اپنی شخصیت کی تعمیر کے اعتبار سے، اس کو کیا ملا اور کیا نہیں ملا-
کوئی مومن خواہ وہ اکیلا ہو یا وہ اجتماعی زندگی کے اندرہو، ہر حال میں اس کو سب سے پہلے اپنا محاسبہ کرناچاہیے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جانچ کر دیکھے کہ کسی دینی عمل یا کسی دینی سرگرمی کے دوران اس کو اپنی ذات کے لیے کیا ملا۔ اپنی ذات کی نسبت سے اس نے کیا پایا اور کیا کھویا-
ہر آدمی کے لیے اِس دنیا میں جانچ کا ایک ہی معیار ہے اور وہ ہے اپنی ذات۔ ہر آدمی کا سب سے بڑا کنسرن یہ ہونا چاہئے کہ اس کے اپنے اندر ذہنی یا روحانی ارتقا ہو۔ وہ اپنے آپ کو شیطان سے دور لے جائے۔ وہ اپنے آپ کو فرشتوں کا ہم نشیں بنائے۔ وہ اپنے آپ کو اِس طرح تیار کرے کہ آخرت میں وہ جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے۔ آخرت میں وہ اللہ کی پکڑ سے بچ جائے اور اللہ کی رحمتوں میں حصے دار بنے-
واپس اوپر جائیں

چھ بینگ

بیسویں صدی کے آغاز میں اُس فلکیاتی واقعہ کی دریافت ہوئی جس کو عام طورپر بگ بینگ (Big Bang) کہا جاتا ہے۔ اِس واقعے کو یہ نام برٹش سائنس داں فریڈ ہائل (Fred Hoyle) نے دیا تھا جس کی وفات 2001 میں ہوئی۔ بگ بینگ کے بعد خلا میں جو واقعات پیش آئے، اُن میں سے ایک واقعہ وہ ہے جس کو سولرسسٹم (solar system) کہا جاتا ہے۔ سولر سسٹم کو ایک امریکی سائنس داں الان باس (Alan Boss) نے لٹل بینگ (Little Bang)کا نام دیا۔ اس کی پیدائش 1951 میں ہوئی-
تسمیہ (nomenclature) کے اِس اصول کو لے کر میں نے سوچا تو میری سمجھ میں آیا کہ پوری تاریخ میں چھ قسم کے بینگ جیسے واقعات پیش آئے ہیں۔ وہ چھ بینگ یہ ہیں:
1. Big Bang (بگ بینگ)
2. Little Bang (شمسی نظام)
3. Water Bang (واٹر بینگ)
4. Plant Bang (پلانٹ بینگ)
5. Animal Bang (اینمل بینگ)
6. Human Bang (ہیومن بینگ)
سائنس دانوں نے کائنات میں اِس طرح کے چھ ادوار کی نشان دہی نہیں کی ہے، لیکن سائنس نے کائنات کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں، اُن کو لے کر جب غور کیا جائے تو بظاہر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ کائنات میں تخلیق کا جو عمل ہوا ہے، اُس کے غالباً یہی چھ ادوار ہیں۔ اب تک کی سائنسی معلومات اِس تقسیمِ ادوار کی بظاہر تصدیق کرتی ہیں-اِس اعتبار سے چھ ادوار کی تقسیم بالواسطہ طور پر ایک سائنسی تقسیم ہے-
واپس اوپر جائیں

ایک انسانی کمزوری

قرآن کی سورہ المومن میں ارشاد ہوا ہے: وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَـنَاجِرِ کٰظِمِیْنَ ڛ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلَا شَفِیْعٍ یُّــطَاعُ ۝ یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ(40:18-19) یعنی اُن کو قریب آنے والی مصیبت کے دن سے ڈراؤ جب کہ دل حلق تک آپہنچیں گے، وہ غم سے بھرے ہوئے ہوں گے۔ ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے۔ اللہ نگاہوں کی خیانت کو جانتا ہے اور وہ اُن باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو سینے چھپائے ہوئے ہیں-
اِس آیت میں نگاہ کی خیانت اور دل کا اخفا، دونوں انسان کی ایک کمزوری کو بتاتے ہیں۔ اِس کی وضاحت ضحاک بن مزاحم (وفات: 723 ء) نے اپنے ایک قول میںاِس طرح کی ہے: ہی قول الإنسان: ما رأیتُ وقد رأى، أو رأیت وما رأى (تفسیر القرطبی: 15/303) یعنی اِس سے مراد انسان کا یہ قول ہے جب کہ وہ کہے کہ میں نے نہیں دیکھا، حالانکہ اس نے دیکھا ہو۔ وہ کہے کہ میں نے دیکھا، حالانکہ اس نے نہ دیکھا ہو-اِس سے مراد دراصل وہی چیز ہے جس کو ذہنی بددیانتی (intellectual dishonesty) کہاجاتا ہے۔ یہ کمزوری عورتوں اور مردوں کے درمیان بہت عام ہے۔ لوگ اکثر ایسا کرتے ہیں کہ جو بات اُن کے تصور کے خلاف جاتی ہو، اس کو شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ اِس طرح بیان کردیتے ہیں جیسے کہ وہ ماننے کے قابل ہی نہیں-
اِس کے برعکس، صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر ذہنی دیانت داری (intellectual honesty) کی صفت موجود ہو۔ اس کا ضمیر (conscience) اتنا زیادہ زندہ ہو کہ وہ اِس بات کا تحمل نہ کرسکے کہ وہ ایک ثابت شدہ بات کا انکار کرے اور ایک غیر ثابت شدہ بات کو اپنائے ہوئے ہو۔ ذہنی بددیانتی بلاشبہہ کسی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے، اور ذہنی دیانت داری بلا شبہہ کسی انسان کی سب سے بڑی طاقت۔ پہلا انسان ایک مردہ انسان ہے اور دوسرا انسان ایک زندہ انسان-
واپس اوپر جائیں

اسلامی تعلیمات کے دو حصے

علما کی ہمیشہ یہ روش رہی ہے کہ وہ دین میں کسی ادنی انحراف کو برداشت نہیں کرتے۔ جب بھی وہ دیکھتے ہیں کہ کچھ مسلمان دین کے کسی معاملے میںانحراف کی روش اختیار کررہے ہیںتو وہ اس کے خلاف انکارِ منکر کے اصول پر زبان وقلم کے ذریعے سخت کارروائی کرتے ہیں۔ مگر اُن کا یہ انکارِ منکر دین کی اُن تعلیمات کے معاملے میں ہوتا ہے جن کا تعلق عقیدہ اور عبادت جیسی چیزوں سے ہے۔ اِس کے علاوہ، دین کا ایک اور پہلو ہے، مگر اِس دوسرے پہلو کے بارے میں علما نے ہمیشہ بالکل مختلف روش اختیار کی-
دین کے اِس دوسرے پہلو کی ایک واضح مثال وہ ہے جس کا تعلق حکومت سے ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ قرآن میں حکومت کے معاملےمیں شوری (42:38) کا اصول بتایا گیا تھا، یعنی حکومت کے معاملے کو مسلمانوں کے اجتماعی مشورے سے طے کرنا۔ یہ حکم واضح طور پر خاندانی حکومت (dynasty) کے خلاف ہے-مگر تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت معاویہ کے زمانہ (20-60 ہجری) میں حکومت کے ادارے کو خاندانی ادارے کی حیثیت دے دی گئی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ مسلم معاشرے میں صحابہ اور تابعین بڑی تعداد میں موجود تھے، مگر اِن تمام لوگوں نے تقریباً بلا اختلاف اسلام میں اِس بظاہر انحراف کو قبول کرلیا۔ اِس کے بعد خاندانی حکومت کا یہی طریقہ عملاً رائج ہو گیا۔ بنو امیہ کے دور اور بنو عباس کے دور سے لے کر مغل سلطنت اور ترکی کی عثمانی خلافت تک بلا انقطاع ہر جگہ یہی طریقہ جاری رہا-
بات صرف اتنی ہی نہیں، بلکہ بعد کے زمانے میں اِس میں مزید اضافہ ہوا۔ تمام علما نے اِس پر اجماع کرلیا کہ قائم شدہ مسلم حکومت کو تسلیم کیاجائے گا، اس کے خلاف خروج حرام ہوگا۔ (اس معاملے کی وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو: امام نووی کی شرح صحیح مسلم، جلد 12، صفحہ 229)
یہ کوئی سادہ یا اتفاقی بات نہیں۔ یہ دراصل اسلام کے ایک اہم اصول پر مبنی ہے، وہ یہ کہ اسلام کی تعلیمات کے دو مختلف حصے ہیں۔ ایک حصے کو اسلام کا حقیقی حصہ (real part)کہاجاسکتا ہے اور دوسرے حصے کو اسلام کا اضافی حصہ(relative part) کہاجاسکتا ہے۔ عقیدہ اور عبادت جیسی تعلیمات کا تعلق اسلام کے حقیقی حصے سے ہے اور حکومت یا حکومتی نظام کا تعلق اسلام کے اضافی حصے سے-
واپس اوپر جائیں

غصہ کا مثبت پہلو

غصہ (anger) کو عام طور پر ایک بری چیز سمجھا جاتاہے۔ لیکن خالق نے کوئی بری چیز پیدا نہیں کی۔ اور غصہ بھی ایک تخلیق ہے۔ اس لئے وہ شرّ محض نہیں ہوسکتا-غصہ انسانی فطرت کے اندر جاری ہونے والا ایک عمل ہے۔ غصہ اپنے آپ نہیں آتا۔ غصہ آنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی آدمی آپ کو مشتعل کردے۔ غصہ برین اسٹارمنگ (brain storming) کا ذریعہ ہے۔
جب کسی آدمی کو غصہ آتا ہے تو اس کے دماغ میں غیر معمولی تعداد میں انرجی خارج (release) ہوتی ہے۔ یہ کسی انسان کے لئے ایک بے حد اہم وقت ہوتا ہے۔ اس وقت آدمی کے لئے دو امکانات ہوتے ہیں۔ وہ اپنی خارج شدہ انرجی کو منفی رخ میں ڈائیورٹ (divert) کرے۔ یا وہ اس کو مثبت رخ میں ڈائیورٹ کردے-
آدمی اگر اپنی انرجی کو منفی رخ میں ڈائیورٹ کرے گا تو اس سے اس کے اندر ٹینشن، نفرت، انتقام حتی کہ تشدد کا مزاج پیداہوجائے گا-یہ چیزیں بلا شبہہ انسان کی ہلاکت کا ذریعہ ہیں۔ اس کے برعکس اگر انسان اپنی انرجی کو مثبت رخ میں ڈائیورٹ کرے تو اس سے اُس کے اندر ذہنی ارتقا، فکری تخلیقیت، تعمیری مزاج اور مثبت سوچ پیدا ہوگی۔ اور یہ تمام چیزیں انسان کی شخصیت کی اعلی تعمیر کے لئے نہایت ضروری ہیں-
غصہ کے وقت پیدا ہونے والی انرجی کو مثبت رخ میں ڈائیورٹ کرنے کے لیے کسی مزید کوشش کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل فطرت کے قانون کے تحت آدمی کے اندر اپنے آپ ظہور میں آتا ہے۔ شرط صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ آدمی غصہ کے وقت چپ ہوجائے۔ اگر آدمی اس وقت اِس ذہنی انضباط (intellectual discipline) کا ثبوت دے تو اس کی فطرت خود عمل کرے گی اور غصہ کے وقت خارج ہونے والی انرجی کو اپنے آپ مثبت رخ پر موڑ دے گی-
واپس اوپر جائیں

تکاثر سے قبر تک

قرآن کی سورہ التکاثر میں انسان کی ایک عمومی حالت کو ان الفاظ میں بتایا گیاہے: اَلْہٰىکُمُ التَّکَاثُرُ ۝ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (102:1-2) یعنی زیادہ سے زیادہ کی حرص نے تم کو غفلت میں رکھا، یہاں تک کہ تم قبروں میں جاپہنچے-
انسان کا حال یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے۔ وہ اِسی عمل میں مشغول رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کی موت آجاتی ہے۔ وہ دنیا سے اس احساس کے ساتھ چلا جاتا ہے کہ اس نے جس چیز کے حصول کو اپنا نشانہ بنایا تھا، اس کو وہ حاصل نہ کرسکا-
حقیقت یہ ہے کہ مال برائے ضرورت کی ایک حد ہے۔ اِس کے برعکس مال برائے مال کی کوئی حد نہیں۔ اگر انسان ضرورت کے لئے مال حاصل کرنا چاہے تو ایک حد پر پہنچ کر اس کو اطمینان حاصل ہوجائے گا۔ لیکن انسان اگر مال برائے مال کو اپنی زندگی کا نشانہ بنائے تو اس کی طلب کی کبھی کوئی حد نہیں آئے گی۔ انسان بے اطمینانی کی حالت میں جیے گا، اور بے اطمینانی کی حالت میں مر جائے گا-
امریکا کے مشہور دولت مند بل گیٹس (Bill Gates) نے اپنی زندگی کا مقصد یہ بنایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرے۔ انھوںنے ایسا ہی کیا۔ یہاں تک کہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ دولت مند آدمی بن گئے۔ لیکن آخر میں ان کو محسوس ہوا کہ میری ضرورت تو محدود ہے۔ پھر اس کثیر دولت کا کیا استعمال۔ انھوں نے اپنے ایک لکچر میں کہا کہ:
Once you get beyond a million dollars, it is the same hamburger.
یعنی تم خواہ کتنی ہی زیادہ دولت حاصل کرلو، مگر تمھاری ضرورت تو بدستور وہی سینڈوچ رہے گی- یہ ہر اُس آدمی کا انجام ہوتا ہے، جو زیادہ دولت کمانے کو اپنا نشانہ بنائے- آخرمیں عدم اطمینان کے سوا کچھ اور اُس کے حصے میں آنے والا نہیں-
واپس اوپر جائیں

دلیل یا شوشہ

ایک بت پرست شخص سے ایک مسلمان نے قرآن کے حوالے سے کہا کہ آپ غیر اللہ کو حاجت روائی کے لیے مت پکارا کریں۔ کیوں کہ قرآن (22:73) میں بتایا گیا ہےکہ سارے بت مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے، اور اگر ایک مکھی اُن سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اُس کو مکھی سے واپس بھی نہیں لے سکتے۔ بت پرست شخص نے جواب دیا کہ ہم لوگ بتوں سے مکھیاں پیدا کرانا نہیں چاہتے۔ اور اگر کوئی مکھی ان بتوں سے کوئی چیز چھین لے جائے تو اِس سے ان کا کیا نقصان ہوتا ہے، وہ تو خزانوں کے مالک ہیں-
بت پرست شخص کی یہ بات دلیل نہیں ہے بلکہ وہ ایک شوشہ ہے۔ قرآن میں جو بات کہی گئی ہے وہ تمثیل کی زبان میں ہے۔ اس کا مقصد، مکھی کا معاملہ بتانا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مقصد مفروضہ اصنام کی کمزوری کو بتاناہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے مفروضہ اصنام کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ وہ بارش برساتے ہیں، وہ انسان کو اولاد دیتے ہیں، وہ انسان کے مسائل کو حل کرتے ہیں۔ یہ سب بے بنیاد مفروضات ہیں۔ اِن مفروضات کی کوئی حقیقت نہیں۔ اِس مثال میں مکھی کا لفظ کمزوری کی علامت کے طورپر آیا ہے، نہ کہ مکھی جیسے ایک حیوان کو بتانے کے لیے-
لوگوں میں اِس طرح کا کمزور استدلال بہت عام ہے۔ لوگ عام طورپر دلیل کا جواب دلیل سے دینا نہیں جانتے۔ وہ اکثر ایسا کرتےہیں کہ دلیل کے جواب میں ایک غیر متعلق مثال بیان کردیں گے۔ وہ صاحب دلیل کے خلاف عیب جوئی کی زبان استعمال کریں گے۔ وہ دعوی کی زبان بولیں گے ، حالاں کہ دعوی کی زبان سے کوئی با ت ثابت نہیں ہوتی-
دلیل کے بجائے شوشے کا طریقہ اتنا وسیع ہے کہ اگر کوئی شخص چاہے تو قرآن او ر حدیث کے معاملے میں بھی، وہ اُس کو استعمال کرسکتا ہے، مگر شوشہ محض ایک جوک (joke) ہے، وہ ہرگز کوئی دلیل نہیں-
واپس اوپر جائیں

ہلاکت کیا ہے

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا سمعت الرجل یقول ہلک الناس فہو أہلکہم (موطأ الإمام مالک، رقم الحدیث: 1802) یعنی جب تم کسی کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ لوگ ہلاک ہوگئے تو سب سے زیادہ ہلاکت میں وہی شخص ہے-
اِس حدیثِ رسول میں ’ہلک الناس‘ اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ ثابت ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول نے خود بھی یہ زبان استعمال کی۔ مثلاً حضرت علی بن ابی طالب نے ایک خطیب کو دیکھا تو کہا کہ: ہلکتَ وأہلکتَ (تم خود بھی ہلاک ہوئے اور تم نے دوسروں کو بھی ہلاک کیا)۔
اِس حدیث رسول میں جس روش کی مذمت کی گئی ہے، وہ دراصل تنقید برائے تنقید (criticism for the sake of criticism) ہے، یعنی لوگوں کو برا بتانا، لیکن یہ نہ بتانا کہ ان کے لیے صحیح بات کیاہے۔ دوسروں کے خلاف منفی ریمارک دینا، لیکن مثبت نصیحت کا طریقہ اختیار نہ کرنا۔ بے دلیل تنقید کرنا، لیکن مدلل تجزیہ کے ذریعے یہ نہ بتانا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ نفرت کی زبان میں لوگوں کی مذمت کرنا، لیکن خیر خواہی کے انداز میں ان کو نصیحت نہ کرنا-
بلا دلیل تنقید کا فائدہ تو کچھ نہیں، مگر اس کا نقصان بہت زیادہ ہے۔ بادلیل تنقید سے لوگوں کے اندر محاسبہ (introspection) کا مزاج بنتا ہے۔ اِس کے برعکس، بے دلیل تنقید سے لوگوں کے اندر نفرت اور بے اعترافی کا مزاج بنتا ہے۔ بادلیل تنقید، اصلاح کا ذریعہ ہے۔ اور بے دلیل تنقید صرف فساد کا ذریعہ۔
صالح تنقید وہ ہے جس میں خیر خواہی کا جذبہ پایا جائے۔ جس کا مقصد فریق ثانی کی اصلاح ہو۔ اس کے برعکس غیر صالح تنقید کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ دوسرے کو بے عزت کرنا اور اس کی برائی بیان کرنا۔ صالح تنقید اسلام میں عین مطلوب ہے۔ اِس کے برعکس، غیر صالح تنقید کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں-
واپس اوپر جائیں

تلاوت کا فائدہ

ایک بار ایک سفر میں ایک صاحب میرے ساتھ تھے۔ میں نے دیکھا کہ اُن کے پاس پاکٹ سائز کا ایک معرى قرآن ہے۔ جہاں موقع ملتا ہے، وہ اس کی تلاوت کرنے لگتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میرا یہ معمول تقریباً پندرہ سال سے ہے۔ اِس طرح ہر مہینے میں ایک بار میں پورا قرآن پڑھ لیتاہوں۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ ماشاء اللہ روزانہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ آپ بتائیے کہ قرآن کا خلاصہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اِس اعتبار سے کبھی غور نہیں کیا۔ میں قرآن کو ثواب کی نیت سے پڑھتا ہوں-یہی عام طورپر لوگوں کا حال ہے۔ لوگ قرآن کو پڑھتے ہیں، لیکن اُن کا پڑھنا برائے تلاوت ہوتا ہے، برائے تدبر نہیں ہوتا۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر عام طورپر اسی قسم کی تلاوتِ قرآن کا رواج ہے۔ مگر اصحابِ رسول کے زمانے میں اِس قسم کی تلاوت قرآن کا رواج نہ تھا۔ ایک بار حضرت عائشہ سے ایسے کچھ لوگوں کا ذکر کیاگیا جو معنوی تدبر کے بغیر صرف الفاظ کی تلاوت کے طورپر قرآن کو پڑھتے تھے۔ حضرت عائشہ نے یہ سن کر کہا: اولئک قرءوا ولم یقرءوا (شعب الإیمان، رقم الحدیث: 1925) یعنی انھوں نے قرآن کو پڑھا، مگر انھوں نے قرآن کو نہیں پڑھا-
اِس سلسلہ میں قرآن میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ اِس پہلو سے قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (38:29) یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے۔ جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اِس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اِس سے نصیحت حاصل کریں-قرآن کے نزول کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگ اس کو تبرک کے طورپر لیں۔ اور اُس سے پراسرار ثواب حاصل کریں۔ بلکہ قرآن کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ اس کی آیتوں پر غور کیا جائے۔ اِس سے زندگی کے اصول معلوم کئے جائیں۔ اُس سے کامیابی اور ناکامی کا راز دریافت کیا جائے۔ اُس سے امتوں کے عروج وزوال کا قانون دریافت کیا جائے۔ قرآن سے رہنمائی حاصل کرکے اپنے آپ کو اس طرح تیار کیا جائے جو آدمی کو اللہ کی رحمت وسعادت کا مستحق بنائے-
واپس اوپر جائیں

فکری اعتدال

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر الأمور أوساطہا (شعب الإیمان للبیہقی، رقم الحدیث: 3605 ) یعنی معاملات میں سب سے بہتر طریقہ درمیانی طریقہ ہے-
اِس حدیثِ رسول میں زندگی کا ایک نہایت اہم اصول بتایا گیا ہے۔ اِس اصول کی اہمیت ہر انسان کے لیے ہے۔ یہ اصول کسی انسان کے ذہنی ارتقا کے لیے بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس حدیث رسول کو سمجھنے کے لیے ایک اصول کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، وہ یہ کہ اِس میں ’خیر الأمور‘ کا لفظ آیا ہے، اس میں ’خیر الأفکار‘ کا لفظ نہیں آیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اِس حدیث میں جس توسط کا ذکر ہے، اس کا تعلق فکری چیزوں سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق عملی چیزوں سے ہے، یعنی آدمی کو چاہیے کہ وہ عملی معاملات میں توسط کا طریقہ اختیار کرے، لیکن فکری معاملات کی نوعیت اِس سے مختلف ہے-
توسط اور اعتدال دونوں تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں۔ عملی زندگی میں توسط اور اعتدال کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اعتدال پسندی کا بالمقابل لفظ انتہا پسندی ہے۔ اعتدال پسندی سے اجتماعی زندگی میں امن قائم ہوتا ہے اور انتہاپسندی سے اجتماعی زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے۔ اِس لیے اجتماعی زندگی کا بہترین اصول یہ ہے کہ اس کو توسط اور اعتدال پر قائم کیا جائے-
لیکن فکر کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ فکر کسی آدمی کا ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ فکر کے معاملے میں آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی عقل اور اپنے ضمیر پر چلے۔ اِس لیے صحیح یہ ہے کہ آدمی عملی نوعیت کے اجتماعی معاملات میں آخری حد تک مصالحانہ انداز (compromising attitude) اختیار کرے اور فکر کے معاملے میں آدمی آخری حد تک غیرمصالحانہ انداز (uncompromising attitude) اختیار کرے-یہی اسلام کا طریقہ بھی ہے اور یہی دانش مندی کا طریقہ بھی-(12 جنوری، 2014)
واپس اوپر جائیں

توازن یا ترجیح

ماہ نامہ الرسالہ کے مضامین میں اکثر روحانیت (spirituality) پر زور دیا جاتا ہے- ایک صاحب جو ماہ نامہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں، اِن مضامین کو پڑھنے کے بعد ای میل کے ذریعے اُن کا ایک سوال موصول ہوا ہے- انھوں نے یہ سوال کیا ہے کہ — زندگی کے مادی تقاضے بھی ہیں اور روحانی تقاضے بھی، پھر دونوں تقاضوں کے درمیان توازن (balance) کس طرح قائم کیا جائے:
How can one maintain a balance between spirituality and materialism.
جواب یہ ہے کہ توازن کا اصول غیر فطری اصول ہے- اکثر لوگ ’’توازن‘‘ کے تصور میںالجھے رہتے ہیں،چناں چہ وہ کبھی اپنی زندگی کے مختلف تقاضوں کے درمیان توازن قائم نہیں کرپاتے- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ٹنشن (tension)کا شکار ہوجاتے ہیں- توازن کا اصول غیر فطری ہونے کی وجہ سے ایک ناقابلِ حصول چیز ہے، اور جو چیز ناقابلِ حصول ہو، اس کے بارے میں صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ اس کو علیٰ حالہ قبول کرلیا جائے-
فطری قانون کے مطابق، زندگی کا نظام ترجیح (priority) کے اصول پر قائم ہے، یعنی زندگی کے ایک تقاضے کو اولین (primary) اہمیت دینا اور دوسرے تقاضے کو ثانوی (secondary) درجے پر رکھنا- اِس معاملے میں یہی واحد قابلِ عمل فارمولا ہے- اِس کے سوا کوئی دوسرا فارمولا سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں-
روحانیت اور مادیت کے معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ترجیح کا اصول اختیار کیا جائے ، یعنی روحانیت کو اولین حیثیت دی جائے اور مادیت کو ثانوی حیثیت- اِس معاملے میں یہی حقیقت پسندی ہے- جو آدمی اِس حقیقت کو نہ مانے، اُس کو اِس کی بھاری قیمت دینی پڑے گی، وہ یہ کہ ایسا شخص ہمیشہ ٹنشن میں جئے گا، وہ ہمیشہ ذہنی سکون (peace of mind) سے محروم رہے گا-
واپس اوپر جائیں

تہذیب یا دعوت

فواد سیزگین (پیدائش: 1924) ترکی کے مشہور اسکالر ہیں۔ وہ ترکی زبان کے علاوہ ، عربی، انگریزی اور جرمن زبان پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ اُن کےاستاد ہیلمٹ رٹر(Helmut Ritter) نے اُن سے کہا تھاکہ اگر تم واقعی اسکالر بننا چاہتے ہو تو روزانہ17 گھنٹے مطالعہ کرو۔ چناں چہ فواد سیزگین اپنا بیش تر وقت مطالعہ کتب میں گزارتے ہیں، حتی کہ اپنی فیملی سے بات کرنے کے لیے اُن کے پاس روزانہ بمشکل دس منٹ ہوتے ہیں-فواد سیزگین کے مطالعے کا موضوع مسلم تہذیب کی تاریخ ہے۔ اِس موضوع پر انھوں نے بہت سے تحقیقی کام کیے ہیں۔ اِس کے علاوہ ترکی اور جرمنی میں انھوں نے اِس موضوع پر ادارے بھی قائم کیے ہیں، فواد سیزگین نے اپنی تحقیق کے ذریعے بہت سی نئی باتیں دریافت کی ہیں۔ مثلاً انھوں نے لکھا ہے کہ کولمبس (وفات: 1504) سے بہت پہلے مسلمانوں نے امریکا کو دریافت کرلیا تھا، وغیرہ-
مسلم تہذیب کا موضوع کسی آدمی کو ایک یونی ورسٹی میں پروفیسر بنا سکتا ہے، لیکن اللہ رب العالمین کے تخلیقی پلان کے مطابق، کسی تہذیب کے علمی مطالعے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو خدا کی ابدی جنت کا مستحق بنائے اور لوگوں کو اِس حقیقت سے باخبر کرے-
مثلاً اِس اعتبار سے، اہمیت کی بات یہ نہیں ہے کہ کس نے امریکی براعظم کو پہلے دریافت کیا اور کون وہاں بعد کو پہنچا۔ رب العالمین کے تخلیقی پلان کے مطابق، اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ اہلِ امریکا کو کس نے خدا کا پیغام پہنچایا اور کون اِس فرض کی ادائیگی میں ناکام رہا-
اِس معاملے میں صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ چیزوں کو رب العالمین کے نقشہ تخلیق کے اعتبار سے دیکھا جائے، رب العالمین کے نقشہ تخلیق کے مطابق، زندگی کی منصوبہ بندی کی جائے، رب العالمین کے نقشہ تخلیق کے مطابق، چیزوں کی اہمیت متعین کی جائے اور رب العالمین کے نقشہ تخلیق کے مطابق، اِس دنیا میں اصل اہمیت دعوت الی اللہ کی ہے، نہ کہ کسی موضوع کا علمی مطالعہ وتحقیق۔ تہذیب کا موضوع صرف ایک دنیوی موضوع ہے، جب کہ خالق کے نزدیک اصل اہمیت کا موضوع وہ ہے جس کا تعلق آخرت کی ابدی زندگی سے ہو-
واپس اوپر جائیں

ایک اہم کتاب

مستشرقین کے جواب میں موجودہ زمانے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ مگر ان کا اصل جواب یہ ہے کہ علوم اسلام پر ایسی اعلی کتابیں تیار کی جائیں جو اپنی تحقیق اور معلومات کے اعتبار سے مستشرقین کی باتوں کا مثبت جواب بن جائیں۔ اس سلسلے میں یہاں ہم عظیم ترکی عالم فواد سیزگین (Fuad Sezgin) کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جنھوںنے اس میدان میں انتہائی قابل قدر کام انجام دیا ہے۔ موصوف نے 25 سالہ مطالعے کے بعد حسب ذیل کتاب جرمن زبان میں تیار کی ہے:
Geshichte des Arabischen, Schrifttums, Leiden, 1967
اِس کتاب کا معیاری عربی ترجمہ دکتور محمود فہمی حجازی اور دکتور فہمی ابوالفضل نے کیا ہے۔ اس کا نام تاریخ التراث العربی ہے۔ وہ تین جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کو الہیئة المصریة العامہ للکتاب، قاہرہ نے 1978 میںشائع کیا ہے۔ پہلی جلد تین حصوں پر مشتمل ہے اور اسی طرح دوسری جلدبھی:
المجلد الاول: (1) علوم القرآن (2) علم الحدیث
(3) التدوین التاریخی الى غایة سنة 430 ہجریة تقریباً
المجلد الثانی: (1) الفقہ (2) العقائد (3) التصوف الی غایة سنة 430 ہجریة تقریباً
کتاب کی تیسری جلد تاریخ شعر عربی سے متعلق ہے-
ہر فصل کے شروع میں نہایت قیمتی مقدمہ ہے جس میں خالص علمی اور تاریخی انداز میں متعلق فصل کا تعارف ہے۔ اس کے بعد صحابہ سے لے کر پانچویں صدی ہجری کے ابتدائی نصف تک اُن اسلامی شخصیت کے حالات اور کارنامہ کا محققانہ تذکرہ ہے جو ان موضوعات پر مستند حوالہ کی حیثیت رکھتی ہیں-
یہ کتاب بلا شبہہ اپنی قسم کی واحد کتاب ہے اور اس قابل ہے کہ تمام اسلامی اداروں کے کتب خانوں میں کتب حوالہ کی الماری میں موجود ہو۔ اس موضوع پر ماضی میں متعدد قیمتی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثلاً ابن الندیم کی الفہرست (377) طاش کبری زادہ (968ھ) کی مفتاح السعادة۔ حاجی خلیفہ (1067ھ) کی کشف الظنون۔ اسماعیل البغدادی ( 1339ھ) کی ہدیة العارفین، وغیرہ-
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز — 228

1.13 -15 جون 2014 کو بنگلور میں ایک دعوہ میٹ ہوئی۔ اِس دعوہ میٹ میں الرسالہ مشن سے وابستہ انڈیا کےتقریبا86 ایکٹیوممبران شریک ہوئے- اِس موقع پردعوت اور تربیت کےموضوع پرصدر اسلامی مرکز کےکئی پروگرام ہوئے- اِس کےعلاوہ حاضرین نے اپنے تاثرات بیان کیےاور دعوہ ورک کی پلاننگ کی- اس پروگرام کے درمیان صدر اسلامی مرکز کی نئی کتاب اظہارِ دین کا اجرا بھی عمل میں آیا۔یہ دعوہ میٹ بنگلور کے باہر نیچرل ماحول میں بنے ہوئےہوٹل وستار میں ہوئی ۔ مز سارہ فاطمہ نے مقامی ٹیم کےتعاون سے اس پروگرام کو آرگنائز کیاتھا-اِس دعوہ میٹ کے لکچرز کو اس لنک پر سنا جاسکتا ہے:
http://alquranmission.org/podcasts.aspx
2.20 جون 2014 کو زی نیوز نے عراقی کرائسس پر صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویوکے دوران موضوع سے متعلق سوالات کا جواب دیاگیا- گفتگو کے دوران ایک بات یہ کہی گئی کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ جمہوریت کتنی اہم چیز ہے۔ اس لیے ضرورت یہ ہےکہ انہیں اس بارے میں ایجوکیٹ کیا جائے، تبھی اس قسم کے جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں۔
3. 25 جون 2014 کو نیوز چینل آج تک اور ہڈ لائن کے ایک رپورٹر نے ایک انٹرویو لیا۔ انٹر ویو اس بات پر تھا کہ موجودہ عراقی کرائسس کے موقع پر ہندوستان سےشیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کااپنے مذہبی مقامات کی حفاظت کے لیے عراق جا نا کیسا ہے۔ صدر اسلامی مرکز نے یہ کہا کہ ان کا وہاں جانا ریزلٹ کے اعتبار سےٹھیک نہیں ہوگا، اگرچہ وہ پیس کےنام پر جائیں۔ شیعہ جائیں گے تو سنی ری ایکٹ کریں گے، اور سنی جائیں گےتو شیعہ۔یہ انٹرویو ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں تھا۔ان دونوں انٹرویوز کو CPS International کی ویب سائٹ پر سنا جا سکتا ہے۔
http://cpsglobal.org/podcast/maulanas-interactions
4. ٹائمس آف انڈیا گروپ کے اسپریچول اخبار اسپیکنگ ٹری کی جانب سے 12-13 جولائی 2014 کو ایک پروگرام آرگنائز کیا گیا۔ اس پروگرام میں صدر اسلامی مرکز نے افتتاحی خطاب کیا۔ تقریر کے بعد کچھ سامعین نے سوال کیے، جس کا صدر اسلامی مرکزنے تشفی بخش جواب دیا۔ اس دو روزہ پروگرام میں سی پی ایس دہلی فیلڈ ٹیم نے شرکت کے لیے آنے والوں کے درمیان قرآن اور دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔ یہ پروگرام انڈیا ہیبی ٹیٹ سینٹر دہلی میں ہوا تھا۔
5. الرسالہ مشن کا کام اب ساؤتھ انڈیا کی ریاست کیرلا میں بھی شروع ہوگیا ہے۔ 19 جولائی 2014 کو کالیکٹ میں ایک سینٹر کا افتتاح عمل میں آیا، جس کا نام سینٹر فار پیس رکھا گیا ہے۔ کیرلا میں الرسالہ مشن سے وابستہ مسٹر شبیر علی نے مقامی ساتھیوں کے تعاون سے اس کو شروع کیا ہے۔
6. 26-28 جون 2014 کو صدر اسلامی مرکز نے اپنے فیملی ممبرس اور سی پی ایس کی ایک ٹیم کے ہمراہ لکھنؤ اور فیض آباد کا سفر کیا، اور وہاں دعوۃ میٹ کی۔ اِس موقع پردعوت اور تربیت کےموضوع پرصدر اسلامی مرکز کےکئی پروگرام ہوئے-جس سے مقامی ساتھیوں کو ایک بوسٹ (boost) ملا۔انہوں نے نئے جذبے کے ساتھ اور زیادہ دعوتی کام کرنے کا عہد کیا ہے۔
7. 17 جولائی 2014 کو اٹلی کے اسپریچول گرو مسٹر ماریو اپنے 90 ڈسائپل کے ساتھ سی پی ایس تشریف لائے۔ اس مناسبت سے صدر اسلامی مرکز نے ان کے درمیان ایک تقریر کی۔ اس کے بعدسوال و جواب کی نششت رہی۔ پروگرام کے آخر میں رمضان کی مناسبت سےتمام لوگوں کی افطار پارٹی ہوئی اور انہیں قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ جس کو تمام لوگوں نے بخوشی قبول کیا۔
8. انڈین کلچر اور ہیریٹیج کی آن لائن اوپن انسائیکلوپیڈیا Sahapedia کی نمائندہ مز نہاریکا گپتا نے 24جولائی 2014کو رمضان اور عید الفطر پر صدر اسلامی مرکزاور سی پی ایس کے ممبران کے انٹرویو لئے۔ دوران انٹرویو صدر اسلامی مرکز نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ رمضان کا بنیادی مقصد انسان میں تقوی ، شکر اور صبر کی صفت پیدا کرناہے۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔
9. 29 جولائی 2014 کو صدر اسلامی مرکز نے عید کے موقع پرایک خطاب کیا۔ اس کا عنوان تھا— —عید کا پیغام۔ یہ پروگرام G-10، نظام الدین ویسٹ میں ہوا۔ اور سی پی ایس ٹیم دہلی کے ممبران اس میں شریک ہوئے۔
10. انڈیااورانڈیاسےباہرکےمختلف مقامات پر ہمارے ساتھی بڑےپیمانےپرقرآن اور دعوتی لٹریچر کی اشاعت کا کام کر رہے ہیں- اب دعوتی کا م کا ایک تخلیقی طریقہ انہوں نے تلاش کیا ہے، اسٹریٹ دعوۃ۔ وہ یہ کہ کسی روڈ کے کنارے، جہاں پبلک کی آمد و رفت رہتی ہے، وہ ایک اسٹال لگا کر پر امن انداز میں لوگوں کو قرآن کا ترجمہ اور دیگر دعوتی لٹریچر دیتے ہیں۔ لوگ بڑے شوق سے اور شکریہ کے ساتھ اسے لیتے ہیں-
11. مختلف قسم کے دعوتی تجربات وتاثرات کا ایک حصہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں کے درمیان فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم کا چرچا ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اسرائیل میں موجود کچھ سنجیدہ عرب مسلمان مقامی یہود اور ٹورسٹوں کے درمیان منظم انداز میں دعوتی کام کر رہے ہیں۔ یہ دعوتی کام الرسالہ مشن کے تعاون سے ہو رہاہے۔ انہوں نے ثانی اثنین خان کو ایک پیغام بھیجا ہے جو یہاں درج کیا جارہا ہے۔ یعنی اللہ کی مدد اور آپ کی کتابوں سے دعوتی کام دن بدن پھیلتا اور مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ یہاں لوگ آپ کے دعوتی لٹریچر سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں:
اللہ یحفظک اخی ویحفظ والدک الشیخ وحید الدین خان وقل لہ اننا نحبکم باللہ ، وبفضل اللہ اولا وارسال الکتب والمصحف المترجم تتطور الدعوہ بشکل قوی ، ورسالہ الى والدک ان الکثیر من الذین اسلموا تاثروا من طریقة عرض فکرة الاسلام فی الکتیب ۔ وکل عام وانتم بخیر -
— I received a copy of the Quran, and started reading it and I realized how I wasted my life without it. My cousin who is working as Circle Inspector in AP Police, needs a copy of Quran in English. Can you please send it to him? Dua ki Darkhasth. (Samiulla. AP)
— I live in the UK and I am trying to get a copy of an English translation of the Quran in Braille for a blind non-Muslim who is interested in learning about Islam. How can I get hold of MaulanaWahiduddin Khan’s English Translation of the Quran in Braille?? Is it available in the UK?? Thanks! (Nassar Hameed)
واپس اوپر جائیں

Monday, 1 September 2014

Al Risala | September 2014 (الرسالہ،ستمبر)

2

-خدا کا اشارہ پڑھئے

3

- معرفت اور عبادت

4

- سکینہ کیا ہے

5

- دورِ زوال کا ایک ظاہرہ

6

- دلیل، الزام تراشی

7

- توکل کی حقیقت

8

- شاکلۂ انسانی کا مسئلہ

9

- آبا پرستی

10

- اسٹریٹ دعوة یا دعوة اکسپلوزن

12

- وحدت، تنوع

13

- الاخوان المسلمون

15

- کائنات کی توجیہ

17

- کائنات کی وسعت

19

- زندگی اور موت

20

- سبق کی اہمیت

21

- آخرت سے غفلت کیوں؟

22

- عقیدہ آخرت کی طاقت

23

- علم ومعرفت کا حریص

24

- منصوبۂ خداوندی

26

- جانچنے کا معیار

27

- خیر ِ امت یا زوال یافتہ امت

32

- ذاتی عقل، علمی عقل

37

- انسانی وجود کی با معنی توجیہ

39

- مسلم فلسفہ، مسلم الہیات

40

- زندگی کی حقیقت

42

- علمی طرزِ استدلال

43

- علم کی دوقسمیں

44

- سوال وجواب


خدا کا اشارہ پڑھئے

مئی 2014 میں انڈیا کا 16واں جنرل الیکشن ہوا- اس الیکشن میں مسلمانوں نے اپنی ساری طاقت لگا دی کہ بی جے پی اس الیکشن میں کامیاب نہ ہونے پائے، جس کو وہ بطور خود اپنا دشمن سمجھتے ہیں- ایک مسلم اخبار نے اس معاملے میں مسلمانوں کے موقف (stand) کو بتاتے ہوئے درست طورپر لکھا ہے کہ اس الیکشن میں تمام مسلمانوں کا واحد مقصد یہ تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روک دیں-
In this election the prime mission of the whole (Muslim) community was to stop BJP from coming to power, at any cost.
مسلمانوں کے تمام چھوٹے اور بڑے رہنما اِس معاملے میں متفق الرائے ہوگئے تھے- لیکن الیکشن کا نتیجہ مسلمانوں کی کوششوں کے بالکل خلاف نکلا- بی جے پی ہمیشہ سے زیادہ بڑی طاقت بن کر ابھری- حتی کہ بی جے پی کا جو لیڈر تمام مسلمانوں کی نظر میں سب سے زیادہ غیر مطلوب (unwanted) تھا، وہی انڈیا کا پرائم منسٹر بن گیا-
مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے اس واقعہ پر تبصرہ کررہے ہیں- مگر سب کا تبصرہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بلا استثنا سیاسی تبصرہ ہے- لیکن اِس معاملے میں سیاسی تبصرہ صرف ایک غلطی پر دوسری غلطی کا اضافہ ہے- صحیح یہ ہے کہ اس واقعہ کو خدائی زاویہ سے دیکھا جائے- اس معاملہ میں خداکے اشارہ کو پڑھا جائے۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی مرضی کے عین خلاف پیش آنے والا یہ واقعہ اپنے اندر ایک عظیم خدائی وارننگ رکھتا ہے- وہ مسلمانوں سے کہہ رہا ہے کہ اے مسلمانو، سیاسی طریق کار کو چھوڑو- اور دعوتی طریق کار کو اختیار کرو- سیاسی طریق کار میں تم کو کچھ ملنے والا نہیں کیوں کہ سیاسی طریقِ کار پر کبھی خدا کی نصرت نہیں آتی- البتہ اگر تم دعوتی طریق کار اختیار کرو، تو تم کو وہ سب کچھ مل جائے گا جو تم کو اپنی ملّی زندگی کے لئے اِس دنیا میں درکار ہے-
واپس اوپر جائیں

معرفت اور عبادت

روایات میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما عرفناک حق معرفتک (روح المعانی، سورة الأنعام: 91) یعنی اے اللہ، ہم اُس طرح تیری معرفت حاصل نہ کرسکے جو کہ تیری معرفت کا حق ہے- اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ما عبد ناک حق عبادتک (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث:1730) یعنی اے اللہ، ہم تیری عبادت اُس طرح نہ کرسکے جس طرح تیری عبادت کرنے کا حق ہے-
معرفت اور عبادت کی اصل حقیقت عجز ہے- کوئی انسان جب معرفت کا اعلی ادراک کرتاہے، یا کوئی انسان جب عبادت کے آخری درجے تک پہنچتا ہے تو وہ یہ دریافت کرتا ہے کہ انسان عاجز مطلق (all-powerless)ہے اور خدا قادرِ مطلق (all-powerful) - یہی دریافت معرفت اور عبادت کا نقطۂ انتہا (culmination) ہے-
معرفت اور عبادت کا ایک پہلو وہ ہے جو انسان کی نسبت سے ہے اور دوسرا پہلو وہ ہے جو اللہ کی نسبت سےہے- انسان کی نسبت سے عارف یا عابد کا احساس ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ وہ معرفت اور عبادت کا حق ادا نہ کرسکا، اور اللہ کی نسبت سے اُس کا احساس ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ اِس سے بلند ہے کہ کوئی انسان کامل طورپر اس کی معرفت اور عبادت کا حق ادا کرسکے-
یہ احساسِ عجز ہر سچے مومن کے اندر لازمی طورپر موجود ہوتا ہے- اِس میں کسی فرد کا کوئی استثنا نہیں، حتی کہ اِس معاملے میں کسی پیغمبر کا بھی کوئی استثنا (exception) نہیں-
یہی وہ مقام ہے جو خالق کو مخلوق سے الگ کرتا ہے- اِس معاملے میں، کسی بھی قسم کی شرکت دین ِ خداوندی میں ناقابلِ قبول ہے- اسلام میں سب سے بڑی حقیقت توحید کی معرفت ہے- توحید کی اعلی معرفت اپنے آپ شرک کی نفی کردیتی ہے- توحید کی اعلی معرفت کے بغیر اعلی مومنانہ شخصیت کی تعمیر ممکن نہیں-
واپس اوپر جائیں

سکینہ کیا ہے

قرآن میں حدیبیہ معاہدے کے تحت جو آیتیں آئی ہیں، اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ ۭ وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْماً (48:4) یعنی اللہ ہی ہے جس نے اہلِ ایمان کے دلوں میں سکینہ نازل کیا تاکہ اور بڑھ جائے اُن کا ایمان اپنے ایمان کے ساتھ- اور اللہ ہی کے ہیں سب لشکر آسمانوں اور زمین کے اور اللہ ہے خبر دار، حکمت والا-
سکینہ کا لفظی مطلب اطمینان (tranquility) ہے- قرآن کی اِس آیت میں سکینہ کا مطلب یہ ہے کہ حدیبیہ معاہدے کی شرطیں اگرچہ اصحاب رسول کی مرضی کے خلاف تھیں، لیکن اللہ کے حکم کی بنا پر وہ اُس پر راضی ہوگئے- اِس رضامندی کے باعث، اللہ نے اُن پر یہ خصوصی فضل کیا کہ اُن پر اپنی وہ خاص رحمت نازل فرمائی جو اُنھیں قلبی اعتبار سے اُس پر مطمئن کردے اور جس فیصلے پر وہ بظاہر ناگواری کے ساتھ راضی ہوئے تھے، اُس کو اُن کے لیے ایک خوش گوار تجربہ بنادے-
زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے ساتھ کوئی ناپسندیدہ صورت پیش آتی ہے- مثلاً کسی عزیز کی موت، کوئی مالی نقصان، کسی کی طرف سے بے عزتی کا معاملہ، وغیرہ- اِس طرح کامعاملہ آدمی کے لیے ہمیشہ صدمہ (shock) کا سبب بنتا ہے- لیکن اگر آدمی اللہ کے حکم (2:155) کی بنا پر صبر کرلے اور رد عمل کا اظہار نہ کرے تو اپنے اِس عمل کی بنا پر وہ اللہ کی خصوصی نصرت کا مستحق بن جاتا ہے، وہ یہ کہ جس چیز کو اُس نے ابتداء ً اپنی طبیعت پر جبر کرکے اختیار کیا تھا، اس کو اس کے لیے ایک خوش گوار واقعہ بنا دیا جائے-
یہی مطلب ہے ’’ایمان پر ایمان کے اضافہ‘‘ کا، یعنی صبر کے معاملہ کو اطمینان کا معاملہ بنادینا- مومن کے دل میں پیدا ہونے والی اِسی کیفیت کو قرآن کی مذکورہ آیت میں ’ازدیادِ ایمان‘ کہاگیا ہے-
واپس اوپر جائیں

دورِ زوال کا ایک ظاہرہ

قرآن کی سورہ آل عمران کی ایک آیت یہ ہے: مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا ۭ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (3:67) یعنی ابراہیم نہ یہودی تھا اور نہ نصرانی، بلکہ وہ حنیف مسلم تھا اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا-
قرآن کی اِس آیت کا مقصد حضرت ابراہیم کی براءت نہیں ہے، یعنی اس کا مقصد یہ بتانا نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم یہودی یا نصرانی یا مشرک نہ تھے۔ بلکہ اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہودی، نصرانی یا مشرک، تینوں گروہ جو حضرت ابراہیم کو اپنے اکابر میں شمار کرتے تھے اور یہ کہ وہ حضرت ابراہیم کے دین پر ہیں، اُن کا ایسا سمجھنا ہرگز درست نہیں۔
اپنے دورِ زوال میں انھوں نے یہ کیا کہ خود ساختہ طورپر اپنے مذہب کا ایک ماڈل بنا لیا۔ وہ درحقیقت اپنے خود ساختہ مذہبی ماڈل پر قائم تھے، لیکن غلط طور پر وہ اس کو حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کیے ہوئے تھے۔ اِس طرح غلط انتساب کے ذریعے وہ یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ جس مذہب پر ہیں، وہ وہی مذہب ہے جو اپنے زمانے میں حضرت ابراہیم کا مذہب تھا-
کسی امت پر جب زوال کا دور آتا ہے تو اس کے اندر ہمیشہ یہی نفسیات پیدا ہوجاتی ہیں- اِس میں کسی امت کا کوئی استثنا نہیں- موجودہ زمانے میں مسلم امت کا بھی یہی حال ہوا ہے- انھوں نے خدا کے دین کا ایک خود ساختہ ایڈیشن تیار کیا ہواہے-
یہ ماڈل ایک قومی ماڈل ہے، نہ کہ پیغمبرانہ ماڈل- صرفلفظی انتساب کے ذریعے وہ اِس ماڈل کو اپنے پیغمبر کی طرف منسوب کیے ہوئے ہیں، حالاں کہ اُن کے اِس قومی ماڈل کا پیغمبر کے ماڈل سے کوئی تعلق نہیں- کسی امت کے اندر بعد کے زمانے میں یہ مزاج اپنی قومی روش کی تبریر (justification) کی بنا پر پیدا ہوتا ہے- وہ اِس لیے پیدا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی قومی روش کو عین پیغمبرانہ روش ثابت کرسکیں-
واپس اوپر جائیں

دلیل، الزام تراشی

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آدم کی تخلیق کے وقت ابلیس نے انحراف کا طریقہ اختیار کیا- اِس کے بعد خدا اور ابلیس کے درمیان ایک مکالمہ ہوا- اِس مکالمے کے دوران ابلیس نے جو باتیں کہیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی: قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ(15:39) یعنی ابلیس نے کہا کہ اے میرے رب، تو نے مجھے بہکایا- قرآن کی اِس آیت میں إغوا کا لفظ ہے- إغوا کا مطلب ہے بہکانا (to mislead, to misguide)- ابلیس نے خدا کی نسبت سے جو بات کہی، وہ بلاشبہہ ایک جھوٹا الزام تھا، وہ کوئی ثابت شدہ دلیل نہ تھی-
اِس مثال سے ابلیس یا شیطان کا ایک طریقہ معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اختلاف کے وقت اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے دلیل نہ دینا، بلکہ فریقِ ثانی پر جھوٹ باندھنا اور اُس پر الزام لگانا- اِس طریقے کو اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور وہ یہ اعتراف بھی نہیں کرنا چاہتا کہ فریقِ ثانی کا موقف صحیح ہے اور اس کا اپنا موقف غلط- اِس لیے وہ جھوٹ کا سہارا لیتا ہے- وہ الزام تراشی (allegation)کا طریقہ اختیار کرکے غلط طورپر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اس کی مخالفت درست ہے-
یہ طریقہ بلا شبہہ شیطان کا طریقہ ہے- جو لوگ ایسا کریں، وہ قرآن کے الفاظ میں، شیطان کے بھائی (إخوان الشیاطین) قرار پائیںگے- جب بھی آپ کو کسی سے اختلاف ہو تو آپ کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ مسلّمہ دلائل کے ذریعے اپنے موقف کو واضح کریں-
اِس کے برعکس، اگر آپ ایسا کریں کہ دلیل سے اپنے موقف کو ثابت نہ کرسکیں اور جھوٹے الزام لگا کر فریقِ ثانی کو بدنام کریں تو یہ ایک بے حد خطرناک پوزیشن ہے- ایسا کرنے کی صورت میں شدید اندیشہ ہے کہ آپ اللہ کے یہاں شیطان کے بھائی قرار پائیں اور اللہ کی رحمتوں سے آپ کو محروم کر دیا جائے-
واپس اوپر جائیں

توکل کی حقیقت

قرآن کی سورہ الطلاق میں توکل کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ (65:3) یعنی جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے گا، اللہ اُس کے لیے کافی ہے-
توکل علی اللہ اسلام کی ایک نہایت اہم تعلیم ہے- مگر توکل علی اللہ کیا ہے، یہ بظاہر ایک مبہم بات نظر آتی ہے- اِس سلسلے میں ایک حدیث کے مطالعے سے اِس معاملے کی پوری وضاحت ہوجاتی ہے- حدیث کی کتابوں میں ایک ر وایت اِن الفاظ میں آئی ہے: عن عمر بن الخطاب قال: سمعتُ رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: لو أنکم توکلّون على اللہ حق توکّلہ، لرزقکم کما یرزق الطیر، تغدوا خماصا وتروح بطانا (الترمذی، رقم الحدیث:2344) یعنی عمر بن الخطاب کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم اللہ پر توکل کرو جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے، تو اللہ تم کو اُسی طرح رزق دے گا جس طرح وہ چڑیا کو رزق دیتا ہے- چڑیا خالی پیٹ نکلتی ہے اور بھرے پیٹ کے ساتھ واپس آتی ہے-
حدیث میں توکل کے ساتھ ’’حقِ توکلہ‘‘ کا اضافہ ہے- حقِ توکل سے مراد شرائطِ توکل ہے- اِس کی وضاحت چڑیا کی مثال سے ہوتی ہے- چڑیا ایسا نہیں کرتی کہ وہ بھروسہ کرتے ہوئے اپنے گھونسلے میں بیٹھی رہے، بلکہ چڑیا ایسا کرتی ہے کہ وہ سوچتی ہے- وہ منصوبہ بناتی ہے- وہ اپنی آنکھ سے دیکھتی ہے اور اپنے پروں سے اڑتی ہے- اِس طرح وہ اُس مقام پر پہنچتی ہے جہاں فطری طورپر اُس کا رزق موجود ہو-
اِس کا مطلب یہ ہے کہ چڑیا جب اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح استعمال کرتی ہے، اپنی عقل اور سمجھ سے بھر پور طور پر کام لیتے ہوئے مبنی بر فطرت منصوبہ بناتی ہے اور اس کے لیے اپنی حاصل شدہ توانائی خرچ کرتی ہے، تو اُس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ دنیا سے اُس کو وہ رزق ملے جو خالق نے اُس کے لیے مقدر کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

شاکلۂ انسانی کا مسئلہ

شاکلہ کا مسئلہ کیا ہے- اس کے بارے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: قل کل یعمل علی شاکلتہ، فربکم أعلم بمن ہو أہدی سبیلا(17:84)یعنی کہو کہ ہر کوئی اپنے اپنے طریقے پر عمل کررہا ہے، اب تمھارا رب ہی جانتا ہے کہ کون زیادہ ٹھیک راستے پرہے-
شاکلہ کے لفظی معنی طریقہ کے ہیں- شاکلہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں مائنڈ سٹ (mindset) کہا جاتا ہے- آیت کا مطلب یہ ہے کہ حالات کے اعتبار سے ہر انسان کا ایک شاکلہ (mindset) بن جاتا ہے- وہ اسی کے مطابق سوچتا ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتا ہے- اب سوال یہ ہے کہ کس کا شاکلہ صحیح شاکلہ ہے- اس کوجانچنے کی مستند صورت یہ ہے کہ انسان کے بارے میں خالق کی بیان کردہ گائڈ لائن (guide line) کو معلوم کیا جائے اور اس گائڈلائن کو معیار (criterion) بنا کر اس کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے کہ کس کا شاکلہ درست ہے اور کس کا شاکلہ درست نہیں-
انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے شاکلہ کو درست شاکلہ بنائے- یہ فائدہ گہرے تدبر کے ذریعے حاصل ہوتا ہے- گہرا تدبر آدمی کو ایک طرف درست معلومات دیتا ہے اور دوسری طرف وہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی ڈی کنڈیشننگ کرسکے- اِس طرح شاکلہ کی تصحیح یا شاکلہ سازی کا ایک لمبا عمل شروع ہوتا ہے- اِس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی اپنے شخصی شاکلہ کو خدائی شاکلہ کے مطابق بنائے- اِس عمل کو ایک لفظ میں، تعمیرِ شاکلہ کہاجاسکتا ہے- تعمیر ِ شاکلہ کے بغیر آدمی کے اندر صحیح سوچ (right thinking)نہیں آتی اور جس آدمی کے اندر صحیح سوچ نہ ہو، وہ واقعات کا صحیح تجزیہ نہیں کرسکے گا- وہ اپنے عمل کی صحیح منصوبہ بندی میں ناکام رہے گا- حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کے لیے اپنی زندگی کا صحیح آغاز یہ ہے کہ وہ اپنے شاکلہ کو درست شاکلہ بنائے- وہ حالات سے بنے ہوئے شاکلہ پر نہ ٹھہرے، بلکہ بے لاگ غور وفکر کے ذریعے اپنے اندر صحیح تفکیر (right thinking)کی صلاحیت پیدا کرے-
واپس اوپر جائیں

آبا پرستی

پچھلے زمانے کی منکر قوموں کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا ایک قول قرآن میں اِن الفاظ میں نقل کیاگیا ہے: بَلْ قَالُـوْٓا اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓی اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِہِمْ مُّہْتَدُوْنَ (43:22) یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم اُن کے پیچھے چل رہے ہیں-قرآن کی اِس آیت میں ’آباء‘سے مراد قومی اکابر ہیں،اورپیچھے چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اِن اکابر نے سوچنے کا جو ٹرینڈ (trend) دیا ہے، ہم اُس پر چلے جارہے ہیں- یہی ہر قوم کا حال ہوتا ہے- کسی قوم کے اکابر سوچنے کا جو انداز پیدا کردیتے ہیں، بعد کے لوگ اُسی پر چلتے رہتے ہیں، وہ اس کی نظرِثانی کی ضرورت نہیں سمجھتے-
اِس کی ایک مثال امتِ مسلمہ میں یہ ہے کہ نوآبادیات (colonialism)کے دور میں جومسلم رہنما پیدا ہوئے، اُن کے اندر رد عمل (reaction) کے تحت ایک ذہن بنا- اُس زمانے کی ان کی تقریریں اور تحریریں تمام تر منفی سوچ کی حامل بن گئیں- بعد کی مسلم نسلوں میں یہی منفی طرز فکر چل پڑا- موجودہ زمانے کے مسلمان عام طورپر مغرب کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں- یہ اِسی آیت کا مصداق ہے- موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ نوآبادیاتی دور کی اِس سوچ پر نظر ثانی کی جائے، لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ سوچنے کے اِسی قدیم ماڈل کو درست سمجھتے ہیں، وہ اِس کے لیے تیار نہیں کہ وہ اپنی روایتی منفی سوچ کو بدلیں اور ازسرِ نو مثبت انداز میں اپنے فکر کی تشکیل کریں-
’’اکابر کا طریقہ‘‘ یا ’’منہج ِ سلف‘‘ جیسے الفاظ جو بعد کے زمانے میں مسلمانوں میں رائج ہوئے، وہ دراصل آبا پرستی ہی کے خوب صورت نام ہیں، وہ آبا پرستی ہی کی مختلف تعبیریں ہیں، لیکن اِس طرح کی خوب صورت تعبیرات سے اصل حقیقت بدلی نہیں جاسکتی-
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے لیے، کوئی نیا صحیح آغاز صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب کہ وہ منہج اکابر کے نام پر ماضی پرستی کو چھوڑیں اور قرآن وسنت کی روشنی میں ازسرنو، اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں- اس کے سوا کوئی اورتدبیر ان کے لئے کارگر ہونے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں

اسٹریٹ دعوة یا دعوة اکسپلوزن

جہاں انسان ہے وہاں دعوت ہے— اِس اصول کوالرسالہ مشن کے لوگوں نے مختلف صورتوں میں دریافت کیا ہے۔ وہ ہر ایسے موقع پر پہنچ کر وہاں بک اسٹال لگاتے ہیں جہاں انسان ہوں،اور اس کے ذریعہ وہ قرآن کا ترجمہ اور دوسری کتابیں لوگوں تک پہنچارہے ہیں- انھیں طریقوں میں سے ایک طریقہ وہ ہے جس کو اسٹریٹ دعوة کا نام دیاگیا ہے- الرسالہ مشن کے لوگ مختلف مقامات پر اسٹریٹ دعوة کا یہ طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں- وہ اُس کے ذریعہ دعوت حق کو پھیلانے کا کام کررہے ہیں- اسٹریٹ دعوة کا مطلب ہے روڈ کے کنارے بک اسٹال لگانا اور پرامن اندازمیں لوگوں تک لٹریچر کے ذریعے حق کا پیغام پہنچانا-
اسٹریٹ دعوة کا طریقہ صرف دعوت کا ایک طریقہ نہیں، وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت بھی ہے- سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ تھا کہ آپ عرب کے اسواق میں جاتے اور وہاں لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے- اسواق کا لفظ سوق (بازار) کی جمع ہے- آج کل کی زبان میں اس کو قبائلی تیوہار (Tribal Festival) کہاجاسکتا ہے- اِس موقع پر قبیلہ کے لوگ جمع ہوتے، اور قبائلی رسمیں ادا کرتے- جو لوگ اسٹریٹ دعوة کا کام کررہے ہیں، ان کو، ان شاء اللہ، اِس سنتِ رسول کی پیروی کا ثواب ملے گا-
ضرورت ہے کہ اسٹریٹ دعوة کے طریقہ کو ہر جگہ پھیلایا جائے-اسٹریٹ دعوة کے ذریعہ ہرجگہ کے لوگوں تک پہنچا جائے- اسٹریٹ دعوة کے مواقع ہر جگہ موجود ہیں- ہر شہر اور ہر بستی میں اِس طریقہ کو اختیار کیا جاسکتا ہے- اسٹریٹ دعوة، دعوت کی توسیع (extension) ہے- اسٹریٹ دعوة، روڈشو (road show)کا اسلامائزیشن ہے-
موجودہ زمانہ کمیونی کیشن کا زمانہ ہے- اس تقاضہ کے تحت ساری دنیا میں ہرجگہ سڑکیں بنائی گئی ہیں- ان سڑکوں پر رات دن انسانوں کاسفر جاری رہتاہے- ہر وقت لوگ سڑکوں پر متحرک رہتے ہیں- یہ ایک نیا ظاہرہ (phenomenon) ہے- اس کو ہیومنٹی آن دی موو(humanity on the move) کہا جاسکتا ہے-
الرسالہ مشن کے لوگوں نے اس عصری تقاضے کی دعوتی اہمیت کو سمجھا- وہ یہ کررہے ہیں کہ دوسرے ذرائع کے علاوہ سڑکوں کو بھی وہ دعوت کے لئے استعمال کررہے ہیں- جگہ جگہ روڈ کے کنارے وہ بک اسٹال لگاتے ہیں اور اس کے ذریعہ وہ قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر بڑے پیمانہ پر لوگوں کے درمیان پھیلا رہے ہیں- اس طریقے کے امکانات بہت زیادہ ہیں- اس کے عمومی امکانات کو دیکھتے ہوئے اِس کو دعوة اکسپلوزن کہاجاسکتا ہے-
موجودہ زمانہ میں ہر وقت انسانیت کا قافلہ سڑکوں پر رواں دواں رہتا ہے- دعوتی نقطہ نظر سے یہ سارے انسان مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں- ان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان کو سچائی کا پیغام پہنچایا جائے- سچائی کا پیغام ایک نان پولیٹکل (non-political) اور نان کمیونل (non-communal) پیغام ہے- وہ مکمل معنوں میں ایک پرامن پیغام (peaceful message) ہے- وہ ہر ایک کی اپنی ضرورت ہے- اس مشن کی یہ نوعیت اس کو آخری حد تک بے مسئلہ مشن (no problem mission) بنا دیتی ہے- یہ مشن تمام تر ایک دینے والا مشن (giver mission) ہے، نہ کہ لینے والا مشن-
ضرورت ہے کہ اس طریقہ کو آخری حد تک عام کیا جائے- یہاں تک کہ کوئی گزرگاہ ایسی نہ بچے، جہاں گزرنے والے انسانوں کو سچائی کا پیغام پہنچانے کے لیے ایک بک اسٹال موجود نہ ہو-
دعوت الی اللہ کا کام ایک تخلیقی کام (creative work) ہے- داعی کو اتنا زیادہ با شعور ہونا چاہئے کہ وہ خود سوچے اور خود منصوبہ بنائے- انسانی حالات اتنے زیادہ مختلف ہوتے ہیں کہ اُن کی کوئی گنتی نہیں کی جاسکتی ، اِس لئے کوئی لگا بندھا نقشہ، دعوت کے لئے کافی نہیں ہوسکتا- کارگر دعوت اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے، جب کہ داعی کے اندر خود فکری (self-thinking) کی صلاحیت موجود ہو- وہ حالات کے مطابق نیا نقشۂ کار بنا سکے-
واپس اوپر جائیں

وحدت، تنوع

وسیع تقسیم کے اعتبار سے، علوم کی دو قسمیں ہیں — علومِ طبیعی (physical sciences) اور علوم انسانی (human sciences)- علوم طبیعی کی بنیاد تجرباتی علم (experimental knowledge) پر ہے، اِس لیے علومِ طبیعی میں قطعیت (certainty)تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے- علومِ انسانی میں تجرباتی علم جیسی بنیاد قابلِ حصول نہیں، اِسی بنا پر یہ صورتِ حال نظر آتی ہے کہ جو لوگ علومِ انسانی کے شعبے میں کام کرتے ہیں، اُن کے درمیان ہمیشہ رائے کا اختلاف پیدا ہوجاتا ہے- علومِ طبیعی کی طرح علومِ انسانی میں قطعیت تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا-
یہی وہ مسئلہ ہے جس کی بناپر اللہ تعالی نے وحی (revelation) کا سلسلہ قائم کیا- مبنی بر وحی علم (revealed knowledge)ہم کو وہ یقینی بنیاد عطاکرتا ہے جو انسانی موضوعات کے معاملے میں ایک مسلّمہ بنیاد (axiom) کی حیثیت رکھتی ہے- وحی کے ذریعے ہم کو ایسے قطعی مسلّمات حاصل ہوجاتے ہیں جن پر غور وفکر کرکے انسانی زندگی کا قابلِ اعتماد نقشہ بنایا جاسکے-
تاہم یہاں ایک فرق ہے- علومِ طبیعی میں ہمیشہ ایک پہلو ہوتا ہے، یعنی یہ کہ ظاہر کے اعتبار سے کسی چیز کا نقشہ (structure) کیا ہے- لیکن علومِ انسانی کا معاملہ اِس سے مختلف ہے- یہاں ہمیشہ چیزوں کے دو پہلو ہوتے ہیں —ایک، اسپرٹ اور دوسرے، فارم(form) - اِسی بنا پر وحی الہی میں چیزوں کیتقسیم دو طرح سے کردی گئی ہے — اسپرٹ اور فارم-
وحی الہی کے مطابق، اسپرٹ میں وحدت مطلوب ہے- اِس کے برعکس، فارم کے معاملے میں تنوع (diversity) کو مطلوب کا درجہ دیا گیا ہے- اِس تقسیم کے مطابق، تقوی (divine consciousness) کو اسپرٹ کا درجہ دیاگیا ہے، اور عبادت ،اخلاق اور معاملات کے شعبوں میں اصولی طورپر تنوع کو تسلیم کیا گیا ہے-اسلام ایک مبنی بر وحی مذہب ہے- اسلام کے نقشے میں اِسی اصول کو اختیار کیاگیا ہے-
واپس اوپر جائیں

الاخوان المسلمون

الاخوان المسلمون کے بانی حسن البنا تھے- انھوں نے 1928میں اِس تحریک کو قائم کیا- اِس مدت میں پوری عرب دنیا براہِ راست طورپر اور بقیہ دنیا بالواسطہ طورپر الاخوان المسلمون کی حقانیت پر متحد ہوگئی- لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ صدر جمال عبدالناصر(وفات: 1971) کے زمانے سے لے کر جنرل السیسی تک مسلسل طورپر اُن کے خلاف وہ واقعہ ہو رہا ہے جس کو تمام مسلم رہنما اور تمام مسلم علماء ظلم قرار دیتے ہیں- اِس معاملے میں مجھے اپنے سوا کسی اور کا استثنا(exception) معلوم نہیں-
لیکن ظلم کا یہ نظریہ یقینی طورپر قرآن کی تردید ہے- قرآن میں بار بار یہ بات بتائی گئی ہے کہ اللہ اُن لوگوںکی ضرور نصرت کرتا ہے جو حق کے راستے پر چلنے والے ہوں- ایسی حالت میں سوال یہ نہیں ہے کہ اہلِ حق پر ظلم ہورہا ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ظلم کے باوجود اللہ کی نصرت کیوں نہیں آرہی ہے؟
مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کو ایک سال کے بعد 3 جولائی 2013 کو ختم کردیا گیا- اس کے بعد مصر سے مختلف قسم کی خبریں آتی رہیں- تازہ خبر یہ ہے کہ مصر کی طالبات نے ایک مہم چلائی ہے جس کا نام ہے— طالبات ضد الانقلاب- اِس مہم کا عنوان یہ ہے: صلاة الفجر، بدایة النصر- یعنی فجر کی نماز نصرت الہی کا آغاز ہے- (ملاحظہ ہو: تعمیرحیات، لکھنؤ، 25 اپریل 2014، صفحہ: 15)
اِس سلسلے میں سوال یہ ہے کہ رپورٹ کے مطابق، الاخوان المسلمون کے تمام عورت اور مرد نمازوں کی پابندی کرتے ہیں- اِس میں بلا شبہہ فجر کی نماز بھی شامل ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عمل الاخوان المسلمون کے آغاز ہی سے اس کے اندر جاری ہے، پھر اللہ کی نصرت کیوں نہیں آئی؟
یہ تجربہ بتاتا ہے کہ الاخوان المسلمون کا کیس وہ نہیں ہے جس کو اخوانی حضرات نے بطور خود سمجھا ہے، بلکہ اُن کا کیس وہ ہے جو ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں: عن عائشة قالت دخل علی النبی صلى اللہ علیہ وسلم فعرفت فی وجہہ أن قد حضرہ شیء، فتوضأ وما کلّم أحداً فلصقت بالحجرة أسمع ما یقول فقعد على المنبر فحمدا للہ وأثنى علیہ، وقال: أیہا الناس، إن اللہ تعالى یقول لکم مروا بالمعروف وانہوا عن المنکر قبل أن تدعوا فلا أجیب لکم وتسألونی فلا أعطیکم وتستنصرونی فلا أنصرکم، فما زاد علیہن حتى نزل (صحیح ابن حبان، رقم الحدیث: 290) یعنی حضرت عائشہ سے روایت ہے- وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے - میں نے آپ کے چہرے کو دیکھ کر محسوس کیا کہ کوئی بات پیش آئی ہے- پھر آپ نے وضو کیا اور آپ نے کسی سے بات نہیں کی- چناں چہ میں حجرے کی دیوار کے پاس کھڑی ہو کر سننے لگی کہ آپ کیا کہتے ہیں- پھر آپ ممبر پر کھڑے ہوئے اور حمدوثنا کے بعد فرمایا: اے لوگو، اللہ تم سے کہتا ہے کہ تم معروف کا حکم کرو اور منکر سے روکو، اِس سے پہلے کہ تم مجھ سے دعا کروں اور میں تمھاری دعا قبول نہ کروں، اور تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمھاری حاجت روائی نہ کروں،اور تم مجھ سے مدد طلب کرو اور میں تمھاری نصرت نہ کروں- آپ نے اِس کے بعد مزید کچھ نہیں فرمایا اور منبر سے اتر گئے-
اِس حدیث رسول پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں امتِ مسلمہ کے اُس دورِ زوال کا ذکر ہے جب کہ امت صراطِ مستقیم سے ہٹ چکی ہوگی، لیکن قانونِ فطرت کے مطابق، ان کے اندر نماز اور دعا کا کلچر بظاہر باقی رہے گا- جب امت کا یہ حال ہوجائے تو اُس وقت علماء کا کام یہ ہوگا کہ وہ اس کو دوبارہ صراطِ مستقیم پر لانے کی کوشش کریں- دعا اور عبادت کے ظاہر کلچر کی بنا پر ایسا نہیں ہوسکتا کہ اُن پر اللہ کی نصرت آجائے-
اِس اصول کے مطابق، الاخوان المسلمون کا کیس یہ ہے کہ اُن پر امر بالمعروف کے تقاضے پورے کیے جائیں، نہ کہ دعا ونماز کے نام پر قومی کلچر کا احیا- الاخوان المسلمون کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اساس غلط طورپر سیاسی اسلام پر رکھی گئی ہے- ان کی تمام سرگرمیاں اِسی کا اظہار ہیں-یہی ان کی اصل غلطی ہے- الاخوان المسلمون پر اللہ کی نصرت اِسی اصولی غلطی کی اصلاح پر آئے گی، کوئی اور تدبیر اُن کو نصرتِ الہی کا مستحق بنانے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں

کائنات کی توجیہ

طبیعیات کے جدیدمطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ تقریباً 14 بلین سال پہلے خلا میں ایک دھماکہ ہوا جس کو بگ بینگ کہاجاتاہے- یہ کائنات کا آغاز تھا- مطالعہ مزید بتاتاہے کہ دھماکے کے بعد ایک سیکنڈ کے اندر ایک اور واقعہ ہوا جس نے ذروں کو نہایت تیز رفتاری کے ساتھ خلا کی وسعت میں پھیلا دیا- اس کے بعد تدریجی طور پر موجودہ کائنات بنی-
یہ انوکھے واقعات کیسے پیش آئے- اتفاق (accident) جیسے الفاظ اس کی توجیہ نہیں کرسکتے- یہ ایک بے حد بامعنی واقعہ تھا اور صرف ایک بامعنی توجیہ (meaningful explanation) ہی اِس واقعے کی تشریح کرسکتی ہے- حقیقت یہ ہے کہ اِس قسم کی دریافتیں انسان کو معرفتِ الہی کے عین دروازے تک پہنچا چکی ہیں- اب صرف اتنا ہی باقی ہے کہ لفظی طورپر اس کا اعتراف کرلیا جائے-
Universe Origins: Giant Boost for Big Bang Theory
London: An international team of astrophysicists has discovered the signal left in the sky by the super-rapid expansion of space that would have occurred fractions of a second after everything came into being following the Big Bang. Announcing their finding over a global press call, scientists from Harvard Smithsonian Centre for Astrophysics said researchers from the BICEP2 (Background Imaging of Cosmic Extragalactic Polarization) collaboration have found this first direct evidence for this cosmic inflation, a theory pioneered by Prof Alan Guth among others. Almost 14 billion years ago the universe burst into existence in an extraordinary event that initiated the Big Bang, they said. It has been theorized that in the first fleeting fraction of a second the universe expanded exponentially in what is described as the first tremors of the Big Bang, stretching far beyond the view of our best telescopes. Their data also represents the first images of gravitational waves or ripples in space-time. The team analysed their data for more than three years in an effort to rule out any errors.They also considered whether dust in our galaxy could produce the observed pattern, but the data suggest this is highly unlikely. Harvard theorist Avi Loeb said, This work offers new insights into some of our most basic questions: Why do we exist? How did the universe begin? These results are not only a smoking gun for inflation, they also tell us when inflation took place and how powerful the process was. These ground breaking results came from observations by the BICEP2 telescope of the cosmic microwave background a faint glow left over from the Big Bang.
(The Times of India, New Delhi, March 19, 2014, p. 23)
واپس اوپر جائیں

کائنات کی وسعت

جب سے خلا کے دور بینی مشاہدے کا دور آیا ہے، بار بار نئی کہکشاؤں اور نئے ستاروں کا انکشاف ہوتا رہتا ہے- حال میں اِس قسم کا ایک نیا خلائی انکشاف سامنے آیا ہے- مغربی سائنس دانوں کی ایک ٹیم جو فرانس کی رصد گاہ (Cote d’Azur Observatory) کے تحت خلائی مشاہدہ کررہی تھی، اُس نے ایک ایسا نیا ستارہ دریافت کیا ہے جو ہمارے سورج سے تیرہ سو گنا بڑا ہے اور زمین سے بارہ ہزار سال نور کے فاصلے پر واقع ہے- وہ سورج سے تقریباً ایک میلین گنا زیادہ روشن ہے-
خورد بین اور دوربین جیسے آلات کی دریافت سے پہلے انسان کو دنیا کے عجائبات کے بارے میں بہت کم معلوم تھا- بیسویں صدی کا زمانہ معلوماتی انفجار (knowledge explosion) کا زمانہ ہے- اِس دور میں کائنات کے بارے میں بے شمار انوکھی باتیں دریافت ہوئیں جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے-
اب وہ وقت آگیا ہے کہ انسان خالق کی معرفت کو زیادہ بڑے پیمانے پر دریافت کرے- وہ خالق کی عظمتوں کا نیا برتر ادراک حاصل کرے- وہ آیات اللہ (signs of God)، آلاء اللہ (wonders of God) کے نئے پہلوؤں کو دریافت کرے- وہ عظمتِ خداوندی کے نئے احساس کے تحت کہہ اٹھے— الحمد للہ رب العالمین-
ایک حدیث میں قرآن کے بارے میں آیا ہے: لا تنقضی عجائبہ (قرآن کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے)- یہ عجائب کتاب کے عجائب نہیں، بلکہ وہ صاحب کتاب کے عجائب ہیں- بعد کے زمانے کی تمام کائناتی دریافتیں اِسی پیشین گوئی کی تفصیل ہیں، وہ خالق کی لا محدود عظمت کا بیان ہیں-
اِس خلائی دریافت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ نیا دریافت شدہ ستارہ اور سورج دونوں ایک ہی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں- نیا دریافت شدہ ستارہ جس طرح ایک ستارہ ہے، اُسی طرح سورج بھی ایک ستارہ ہے- البتہ نیا دریافت شدہ ستارہ سورج کے مقابلے میں تیرہ سو گنا زیادہ بڑاہے- اگر ایسا ہوتا کہ نیا دریافت شدہ ستارہ سورج کی جگہ پر ہوتا اور سورج نئے ستارے کی جگہ پر، تو زمین پر اتنی زیادہ گرمی ہوتی کہ زندگی کی کوئی بھی قسم یہاں موجود نہ ہوتی، نہ پانی ہوتا اور نہ نباتات حیوانات اور نہ انسان-
ستاروں کی یہ پوزیشن نہایت بامعنی ہے- قرآن میں اِس خلائی حقیقت کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: فلا أقسم بمواقع النجوم، وإنہ لقسم لو تعلمون عظیم (56:75-76) یعنی پس نہیں، میں قسم کھاتاہوں ستاروں کے مواقع کی- اور اگر تم جانو یہ بہت بڑی قسم ہے-
اِس آیت میں قسم کا مطلب گواہی ہے- اور مواقع کا مطلب وقوع (placement) ہے، یعنی وسیع خلا میں ستاروں کو نہایت درست مقام پر رکھنا ایک عظیم شہادت ہے جو خالق کی بے پناہ قدرت اور بے پناہ حکمت کو بتاتی ہے- وسیع خلا میں ستاروں کا وقوع اتفاقاً نہیں ہوسکتا- یہ بامعنی وقوع(meaningful placement) گواہی دے رہا ہے کہ اِس کائنات کا خالق ایک عظیم ہستی ہے اور اس نے عظیم قدرت کے ذریعے یہ نظام قائم کیا ہے- اِس عظیم کائناتی واقعے کی اِس کے سوا کوئی اور توجیہہ ممکن نہیں-
Found: A yellow star that is 1,300 times bigger than Sun
The largest ever yellow star,measuring 1,300 times the size of our Sun,has been discovered nearly 12,000 light-years from Earth.The star,dubbed HR 5171 A, located in the constellation Centaurus is the largest known member of the family of yellow stars to which our Sun belongs.It is also one of the 10 largest stars found so far 50% larger than the famous red supergiant Betelgeuse and about one million times brighter than the Sun.The team led by Oliver Chesneau of the Cote dAzur Observatory in Nice,France,found that the yellow hypergiant star is much bigger,measuring 1,300 times the diameter of the Sun. (The Times of India, New Delhi, 14 March, 2014, p. 19)
واپس اوپر جائیں

زندگی اور موت

گوپی ناتھ منڈے انڈیا کے مشہور لیڈر تھے- انڈیا کی نئی حکومت میں مرکزی وزیر کی حیثیت سے اُن کا تقرر ہوچکا تھا- 4 جون 2014 کو وہ نئی دہلی میں اپنا عہدہ سنبھالنے والے تھے، مگر اُس سے صرف ایک دن پہلے 3 جون کو نئی دہلی میں روڈ ایکسیڈنٹ کے ایک واقعے میں ان کی وفات ہوگئی- بوقت وفات ان کی عمر 64 سال تھی-
یہ صرف ایک شخص کا معاملہ نہیں- ہر آدمی جو اِس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، خواہ وہ کتنی ہی بڑی پوزیشن حاصل کرلے، اُس کو بہر حال اِس دنیا میں جینے کا محدود وقت ملتاہے- علامتی طورپر اس کو ’’64 سال‘‘ کہہ سکتے ہیں- مگر عجیب بات ہے کہ کوئی بھی شخص شعوری طورپر اِس حقیقت کو نہیں جانتا-
گوپی ناتھ منڈے کے ساتھ جس دن مذکورہ واقعہ پیش آیا، اس وقت وہ ایک وکٹری ریلی (victory rally) میں شرکت کے لیے جارہے تھے، لیکن شرکت سے پہلے ان کی زندگی کا آخری لمحہ آگیا- یہی معاملہ اِس دنیا میں ہر شخص کا ہے- ہر آدمی بطور خود کسی ’’وکٹری ریلی‘‘ میں شرکت کے لیے سفرکررہا ہے، لیکن اپنی مطلوب منزل پر پہنچنے سے پہلے اس کا آخری وقت آجاتاہے- وہ اپنی فتح کا جشن منائے بغیر اچانک آخرت کی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے، ایسی حالت میں جب کہ اس نے آخرت کی دنیا کے لیے کوئی تیاری نہیں کی تھی-
اعدادوشمار کے مطابق، ہر دن ساری دنیا میں ایک لاکھ سے زیادہ آدمی مر جاتے ہیں- ہر مرنے والا اپنے پیچھے ایک خاموش پیغام چھوڑ جاتا ہے- ہر مرنے والا اپنے بعد جینے والوں کو یہ خاموش پیغام دیتا ہے— اے جینے والو، موت کی تیاری کرو- اے دنیا کی تعمیر کرنے والو، آخرت کی تعمیر کی کوشش کرو- اے بے خبری میںجینے والو، اپنے آپ کو باخبر جینے والا بناؤ- اے دنیا میں اپنی حیثیت تلاش کرنے والو، آخرت کی جنت کے لیے اپنے آپ کو مستحق بناؤ-یہی زندگی کی اصل حقیقت ہے- جو لوگ اِس سے باخبر ہوں ، وہی علم والے ہیں اور جو لوگ اس سے باخبر نہ ہوں، اُن کا علم سے کوئی تعلق نہیں-
واپس اوپر جائیں

سبق کی اہمیت

ولیم ہنری بِل گیٹس (William Henry Bill Gates III, b. 1955) مشہور امریکی دولت مند ہے- اس نے اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں کہا کہ— اپنی خوشی کا جشن منانا اچھا ہے، مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنی ناکامی سے سبق سیکھیں:
It is fine to celebrate success, but it is more important to heed lessons of failure.
کامیابی کا جشن منانا صرف پائے ہوئے کو لے کر اُس پر خوش ہونا ہے- اِس کے برعکس، جب آپ اپنی ناکامی پر غور کرکے اُس سے سبق حاصل کریں تو اِس سے آپ کو بہت سے نئے فائدے حاصل ہوتے ہیں- مثلاً ذہنی ارتقا (intellectual development) ، مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے زیادہ کارگر اصول کی دریافت ، تخلیقی فکر (creative thinking) میں اضافہ، وغیرہ-
ناکامی کو عام طورپر لوگ منفی معنی میں لیتے ہیں، مگر ہر ناکامی میں ہمیشہ کوئی مثبت پہلو چھپا ہوا ہوتا ہے- وہ یہ کہ ہر ناکامی آپ کے لیے ایک یاد دہانی (reminder) ہے- ناکامی کے واقعے کو اگر معتدل ذہن کے ساتھ لیا جائے تو آدمی ناکامی کا واقعہ پیش آنے کے بعد مایوس نہیں ہوگا- بلکہ وہ اُس پر غور کرے گا کہ اس کے منصوبے میں کہاں غلطی ہوگئی- اِس طرح کی سوچ آدمی کو اس کی غلطی سے باخبر کرے گی- اِس طرح وہ اِس قابل ہوجائے گا کہ اپنی اگلی منصوبہ بندی زیادہ درست طورپر کرے اور زیادہ صحیح طریقہ اختیار کرکے ماضی کی ناکامی کو مستقبل کی کامیابی میں تبدیل کردے- حقیقت یہ ہے کہ ہر منفی تجربے میں ایک مثبت پہلو موجود ہوتاہے- اِس مثبت پہلو کو دریافت کیجئے اور پھر آپ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوں گے-زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت، اِس بات کی ہے کہ آدمی سبق لینا سیکھے-آدمی کو ذہنی طورپر اتنا زیادہ تیار ہونا چاہئے کہ جب کوئی صورت حال اُس کے سامنے آئے تو وہ فوراً اُس کے اندر چھپے ہوئے سبق کے پہلو کو دریافت کرلے-
واپس اوپر جائیں

آخرت سے غفلت کیوں؟

قرآن کی سورہ الروم میں ایک آیت اِن الفاظ میں آئی ہے:یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ښ وَہُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ ہُمْ غٰفِلُوْنَ (30:7) یعنی وہ دنیا کی زندگی کے صرف ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے بے خبر ہیں-
یہ واقعہ کیسے پیش آتا ہے کہ انسان آخرت سے غافل ہوجاتا ہے- اس کا سبب یہ ہے کہ انسان ہر لمحہ اپنے آپ کو ایک دنیا میں پاتاہے- اُس کا ہر تجربہ بتاتا ہے کہ وہ آخرت کے سوا ایک اور دنیا کے اندر ہے- اس کے تمام تعلقات اِسی معلوم دنیا کے ساتھ ہوتے ہیں- صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک اس کی پوری زندگی اِسی دنیا کے اندر گزرتی ہے- اِس طرح وہ موجودہ دنیا کے ساتھ اتنا زیادہ مانوس ہوجاتا ہے کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھ لیتا ہے کہ بظاہر جو کچھ ہے، وہی کُل دنیا ہے، اِس کے آگے اور کچھ نہیں، حتی کے وہ لوگ جو رسمی عقیدے کے طورپر آخرت کومانتے ہیں، وہ بھی عملاً پوری طرح اِس کا مصداق ہوتے ہیں-
ایسی حالت میں آخرت پر زندہ یقین صرف اُس شخص کو حاصل ہوسکتا ہے جو اپنے اندر تجریدی فکر (detached thinking) پیدا کرے، یعنی دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے الگ ہو کر سوچنا، جسمانی اعتبار سے بظاہر اِسی دنیا میں ہونا، لیکن سوچ کے اعتبار سے آخرت کی دنیا میں پہنچ جانا- یہی تجریدی فکر کا طریقہ واحد طریقہ ہے جو کسی آدمی کو آخرت کی یاد میں جینے والا بنا سکتا ہے- یہی آخرت رخی سوچ وہ چیز ہے جس سے آدمی کے اندر حقیقی معنوں میں ربانی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے- اِس کے سوا کوئی اور طریقہ ربانی شخصیت کی تعمیر کا نہیں-
ربانی انسان بننے کی شرط صرف یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ’النفس المطمئنة‘ (complex free soul) بنائے(89:27)- ایسے ہی انسان کو اللہ کی توفیق حاصل ہوتی ہے اور یہ صرف اللہ کی توفیق ہے جو کسی انسان کو ربانی انسان بناتی ہے-
واپس اوپر جائیں

عقیدہ آخرت کی طاقت

قدیم عراق کا سلجوقی حکمراں ملک شاہ (وفات: 1092ء) کا ایک واقعہ ہے- ایک دن ملک شاہ گھوڑے پر سوار ہو کر ایک پل سے گزر رہا تھا - اس کے سامنے ایک بوڑھی عورت آکر کھڑی ہوگئی- اس کے لڑکے کو ملک شاہ کے کسی سپاہی نے بیگار کے طورپر پکڑ لیا تھا- بوڑھی عورت نے سلطان کو مخاطب کرتے ہوئے اس سے فریاد کی اور کہا کہ تمھارا ایک سپاہی میرے لڑکے کو بلاوجہ پکڑ لے گیا ہے، سلطان نے کہا کہ تم دربار میں استغاثہ پیش کرو- بوڑھی عور ت نے کہا کہ ملک شاہ! میرا فیصلہ تم کو اِسی وقت اور اِسی پل پر کرنا ہوگا، یا پھر کل اُس پل (پل صراط) پر فیصلہ ہوگا- بوڑھی عورت کی یہ بات سن کر سلطان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور اس نے اُسی وقت اس کی فریاد رسی کی- (مجلہ الشارق، اعظم گڑھ، مارچ، اپریل 2014)
آخرت کا عقیدہ بلا شبہہ تمام دوسرے عقائد سے زیادہ بڑا انقلابی عقیدہ ہے- جس آدمی کو آخرت کی دریافت ہوجائے، وہ اِس عقیدے کی دریافت کے بعد ویسا نہیں رہے گا جیسا کہ وہ اِس عقیدے کی دریافت سے پہلے تھا- آخرت کی دریافت کا واقعہ اس کے لیے ایک بھونچال بن جائے گا- اِس دریافت کے لازمی نتیجے کے طورپر اس کی سوچ بدل جائے گی، اس کا مزاج بدل جائے گا، اس کے بولنے کا انداز بدل جائے گا، لوگوں کے ساتھ اس کا سلوک بدل جائے گا، غرض، زندگی کے ہر پہلو کے اعتبار سے وہ ایک نیا انسان بن جائے گا-
اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ایک ایسا معاشرہ تیار کیا جائے، جس کے افراد آخرت کے عقیدے پر زندہ یقین رکھتے ہوں، تو ایسے معاشرے کے ہر فرد کے پاس ایک ایسی طاقت ہوگی جو بظاہر دکھائی نہیں دے گی، لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے وہ ایک ناقابلِ تسخیر طاقت ہوگی- ایسے معاشرے میں کسی آدمی کو آخرت کی عدالت کی یاد دلانا اُس کے لیے گن اور بم سے زیادہ موثر ہوگا- آخرت کا عقیدہ ایک کمزور آدمی کو بھی سب سے بڑی طاقت کا مالک بنا دیتا ہے-
واپس اوپر جائیں

علم ومعرفت کا حریص

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منہومان لا یشبعان: منہوم فی العلم لا یشبع منہ،منہوم فی الدنیا لا یشبع منہا( المستدرک للحاکم، رقم الحدیث: 312 ) یعنی دو قسم کے حریص ہیں جو کبھی آسودہ نہیں ہوتے— ایک علم کا حریص جو کبھی اُس سے آسودہ نہیں ہوتا، اور دوسرا دنیا کا حریص جو کبھی اس سے آسودہ نہیں ہوتا-
’منہوم‘ کا مطلب حریص (greedy) ہے، اور علم سے مراد علمِ معرفت ہے- اِس حدیث رسول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح طالب دنیا کبھی دنیا کے معاملے میں آسودہ نہیں ہوتا، خواہ وہ کتنا ہی زیادہ اس کو حاصل کرلے- یہی معاملہ طالب علم ومعرفت کا ہے جو آدمی حقیقی معنوں میں علم ومعرفت کا طالب ہو، وہ کبھی اُس سے آسودہ نہیں ہوگا، خواہ وہ کتنا ہی زیادہ اس کو حاصل کرلے-
تاہم دونوں قسم کی طلب میں ایک فرق ہے- طالب دنیا خواہ کتنا ہی زیادہ دنیا کی چیزیں اکھٹا کرلے، اس کو کبھی ذہنی سکون (peace of mind) حاصل نہیں ہوسکتا- کیوں کہ انسان کے اندر فطری طورپر جو طلب رکھی گئی ہے، وہ معرفتِ خداوندی کی طلب ہے- جو آدمی اپنی اِس طلب کو حصولِ دنیا میں لگاتاہے، وہ اپنی فطری طلب کا غلط استعمال کرتا ہے- اِس کے برعکس، جو آدمی اپنی فطری طلب کو حصولِ علم ومعرفت میں لگائے، وہ اپنی فطری طلب کا صحیح استعمال کرتا ہے- اِس لیے  عدم قناعت (discontent) کے باوجود اس کو ہمیشہ ایک اعلی قسم کا ذہنی اور روحانی سکون (intellectual satisfaction) حاصل رہتاہے-
بہ اعتبارِ فطرت جو چیز انسان کا مطلوب نہ ہو، وہ خواہ کم ملے یا زیادہ، ہر حال میں انسان کی فطرت اس سے غیر مطمئن رہے گی- اِس کے برعکس، جو چیز انسان کی فطری طلب ہو، وہ انسان کو کم ملے تب بھی وہ اس کے لیے اطمینان کا ذریعہ بنے گی اور اگر زیادہ ملے تب بھی وہ اس کے لیے اطمینان کا ذریعہ ثابت ہوگی- (9 اپریل 2014)
واپس اوپر جائیں

منصوبۂ خداوندی

خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب نے 15 ہجری (636ء) میں مدینہ سے فلسطین کا سفر کیا تھا- اِس سفر کے بارے میں ایک روایت ہے جس کو مؤرخ الطبری نے اِن الفاظ میں نقل کیا ہے: لما استمد أہل الشام عمر على أہل فلسطین، استخلف علیا، وخرج ممدا لہم، فقال علی: أین تخرج بنفسک! إنک ترید عدوا کلبا، فقال: إنی أبادر بجہاد العدو موت العباس، إنکم لو قد فقدتم العباس لانتقض بکم الشر کما ینتقض أول الحبل(تاریخ الأمم والملوک للطبری: 248/2 ) یعنی عدی بن سہل سے روایت ہے- وہ کہتے ہیں کہ جب اہلِ شام نے فلسطین والوں کے خلاف عمر سے مدد طلب کی تو آپ نے (مدینہ میں) علی کو اپنا جانشین بنایا اور ان کی مدد کے لیے روانہ ہوئے- علی نے کہا: آپ خود کہاں جارہے ہیں، آپ ایک سخت دشمن کا قصد کررہے ہیں- عمر نے کہا کہ میں عباس کی موت سے پہلے جلد دشمن سے جہاد کرنا چاہتا ہوں، کیوں کہ اگر تم نے عباس کو کھو دیا تو شر تمھارے درمیان اُسی طرح پھیل جائے گا جس طرح رسی کی پہلی گرہ کھل جاتی ہے-
اِس روایت کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ حضرت عمر نے اِس معاملے میں حضرت عباس بن عبد المطلب کا حوالہ کیوں دیا- غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ حضرت عمر فاروق کی ایک اجتہادی رائے تھی- ان کی زندگی کے مختلف واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ وہ اہلِ بیتِ رسول کو خصوصی اہمیت دیتے تھے-مثلاً انھوں نے اپنے دورِ خلافت میں اہلِ بیت کا وظیفہ دوسروں سے زیادہ مقرر کیا- قحط کے زمانے میں انھوں نے حضرت عباس کا واسطہ دے کر اللہ تعالی سے بارش کی دعا کی، وغیرہ-
حضرت عمر فاروق کی یہ رائے بلاشبہ ان کی ذاتی رائے تھی- مزید یہ کہ یہ خاتم النبیین کے بارے میں منصوبہ الہی کا کم تر اندازہ (under estimation)کے ہم معنی تھا- قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تکمیل ;کاتعلق براہِ راست منصوبۂ الہی سے تھا، نہ کہ اہلِ بیت سے-چنانچہ قرآن میں اِ س سلسلے میں مختلف آیتیں آئی ہیں، اِس سلسلے میں ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون (61:8)-
حضرت عباس بن عبد المطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے- ان کی وفات 32 ہجری (653ء) میں ہوئی- تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے بعد اعداءِ اسلام کی طرف سے مسلسل مخالفانہ واقعات پیش آتے رہے جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے- لیکن اِن مخالفانہ سرگرمیوں کے باوجود اسلام اپنی اصل حالت پر قائم ہے- اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے خود اسلام کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے-
اہلِ بیت کا احترام اپنی جگہ مسلَّم ہے، لیکن تاریخ میں اللہ کی منصوبہ بندی ہرگز کسی شخص یا خاندان کی بنیاد پر نہیں ہوتی، بلکہ وہ برتر انسانی مصالح کی بنیاد پر ہوتی ہے- خاتم النبیین کے ظہور کے بعد اللہ تعالی کو یہ مطلوب تھا کہ خدا کا دین ابدی طورپر قائم ہوجائے- قرآن وسنت کا متن محفوظ ہوجائے- دین کا ایک مستند ماڈل وجود میں آجائے- قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لیے یہ ممکن ہوجائے کہ جو شخص ہدایت الہی کو جاننا چاہے، وہ بلا اشتباہ اُس کو جان سکے-
یہ تاریخ کے بارے میں اللہ کا منصوبہ تھا- اِس منصوبے کو اس طرح مکمل ہونا تھاکہ انسان کی آزادی برقرار رہے اور دین کی حفاظت کا مقصد بھی پوری طرح حاصل ہوجائے- دوسرے الفاظ میں یہ کہ اعدا (مخالفین) کی سرگرمیوں کو آزادانہ طورپر باقی رکھتے ہوئے دین کے بارے میں اللہ کے منصوبے کو تکمیل تک پہنچانا- یہ واقعہ منصوبہ خداوندی کے مطابق، پوری طرح انجام پایا-
یہ خدا کے منصوبے کا کم تر اندازہ ہوگاکہ اس کی تکمیل کے لیے کسی فرد یا خاندان کی موجودگی کو ضروری سمجھا جائے- فرد یا خاندان کے لیے اللہ کا قانون الگ ہے اور اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے اللہ کا قانون الگ- دونوں کو ایک دوسرے سے ملا کر نہیں دیکھا جاسکتا- (26 مارچ 2014)
واپس اوپر جائیں

جانچنے کا معیار

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے گفتگو ہوئی- گفتگو کا موضوع مصر کی سیاسی صورتِ حال تھی- مصر میں الیکشن ہوا اس کے بعد وہاں الاخوان المسلمون کے لیڈر ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے منتخب صدر بن گئے- مگر ایک سال کے بعد مصرکی فوج نے ڈاکٹر مرسی کو قیادت سے ہٹادیا- اس کے بعد سے مصری فوج اور الاخوان المسلمون کے درمیان متشددانہ ٹکراؤ جاری ہے- اِس ٹکراؤ میں صرف جان ومال کا نقصان ہورہا ہے- اس کا کوئی مثبت نتیجہ اب تک سامنے نہ آسکا- اِس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مذکورہ مسلمان نے کہا کہ الاخوان المسلمون دہشت گرد تنظیم نہیں ہے:
Muslim Brotherhood is not a terrorist organization
میں نے کہا کہ آپ کا یہ تبصرہ درست نہیں- آپ کے بیان کے مطابق، الاخوان المسلمون کا کیس اسلام کا کیس ہے- وہ مصر میں اسلام لانا چاہتے ہیںاور دشمن طاقتیں ان کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں- میں نے کہا کہ قرآن میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ اللہ ہمیشہ اہلِ ایمان کے ساتھ ہوتاہے- پھر اگر الاخوان المسلمون کا کیس اسلام کا کیس ہے تو اللہ کی مدد ان کے لیے کیوں نہیں آتی- ایسی حالت میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ اللہ نے الاخوان المسلمون کے دشمن کے مقابلے میں ان کی حمایت نہیں کی:
God is not at the side of Muslim Brotherhood.
اللہ نے اِس دنیا کو پیدا کیا ہے، وہی اِس دنیا کو چلا رہا ہے- اِس دنیا کا چلانے والا کوئی انسان نہیں ہے، بلکہ اللہ رب العالمین براہِ راست طورپر اِس دنیا کی تنظیم کررہا ہے، اِس لیے دنیا میں پیش آنے والے واقعات کی توجیہہ کے لیے آدمی کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ دنیا کے بارے میں قانونِ خداوندی کو دریافت کرے اور اس کی روشنی میں دنیا میں ہونے والے واقعات کی توجیہہ کرے- اِس کے سوا کوئی اور طریقہ انسان کو درست رائے تک نہیں پہنچا سکتا- دوسرا طریقہ اندھیرے میں بھٹکنے کا راستہ ہے، نہ کہ روشنی میں سفر کرنے کا راستہ-
واپس اوپر جائیں

خیر ِ امت یا زوال یافتہ امت

حدیث میں امتِ مسلمہ کے بارے میں آیا ہے کہ: لتتبعن سنن من کان قبلکم (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2669) - اِس حدیث کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ تم پچھلی امتوںکے راستے پر چلوگے- اِس حدیث میں دراصل قانونِ زوال کو بتایا گیاہے- اِس کا مطلب یہ ہےکہ امتِ مسلمہ اپنے بعد کے زمانے میں اُسی طرح زوال کا شکار ہوگی جس طرح دوسری امتیں زوال کا شکار ہوچکی ہیں- زوال کا قانون اتنا زیادہ عام ہے کہ اس میں کسی امت کا کوئی استثنا نہیں-
یہی معاملہ قرآن کی دو آیتوں میں اِس طرح بتایا گیاہے: اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ۙ وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ ۭ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ ؀اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُـحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا ۭ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ (57:16-17)یعنی کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے اور اُس حق کے آگے جھک جائیں جو نازل ہوچکا ہے- اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر اُن پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے- اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں- جان لو کہ اللہ زمین کو زندگی دیتاہے اس کی موت کے بعد، ہم نے تمھارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو-
قرآن کی اِن آیات میں بتایا گیا ہےکہ امتوں میں ’طولِ اَمد‘ کے بعد قساوت پیدا ہو جاتی ہے، یعنی امت کی بعد کی نسلوں میں دینی زوال آجاتا ہے- زوال کا مطلب ہے ظاہری ڈھانچے کا باقی رہنا اور داخلی اسپرٹ کا ختم ہوجانا- مذکورہ آیت میں اِسی حالتِ زوال کو فسق سے تعبیر کیا گیا ہے-
’فسق‘ کے مادّے سے مختلف الفاظ بنے ہیں- اُن میں سے ایک فویسقة ہے جو فاسقة کی تصغیر ہے- چوہیا کو فویسقة اِس لیے کہاجاتاہے کہ وہ اپنے آپ کو بِل میں چھپائے رہتی ہے- اِس سے فاسق آدمی کا کردار معلوم ہوتاہے- فسق دراصل عملی کفر کا نام ہے- فسق اور کفر میں یہ فرق ہے کہ فسق کے کیس میں آدمی زبان سے انکار نہیں کرتا، مگر اپنے عمل سے وہ انکار کی روش پر قائم رہتا ہے- اِس کے برعکس، کفر کے کیس میں آدمی زبان سے بھی انکار کرتاہے اور عمل کے اعتبار سے بھی وہ انکار کی روش پر قائم ہوتاہے-
فسق کا لفظ درست طورپر امت کی حالتِ زوال کو بتاتا ہے- کسی امت پر جب زوال آتاہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ وہ کھلے طورپر اپنے دین کا انکار کرنے لگے- یہود پر جب زوال آیا تو انھوں نے کبھی اِس قسم کا انکار نہیں کیا، اور نہ امتِ مسلمہ کبھی اِس طرح انکار کرے گی- عملاً جو ہوتا ہے، وہ یہ کہ امت کے لوگ خود ساختہ طورپر دین کا ایسا ماڈل بنالیتے ہیں جو اُن کی زوال یافتہ حالت پر پوری طرح منطبق ہوتا ہو، جس میں اُن کو اپنی زوال یافتہ حالت عین دینی حالت دکھائی دے-
اِس خود ساختہ ماڈل کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مبنی براسپرٹ دین کو مبنی بر فارم دین کی صورت میں ڈھال لیا جاتا ہے- قومی سرگرمیوں کو دینی اصطلاح میں بیان کیاجاتا ہے- لوگ عملاً اپنی خواہش پر چلنے لگتے ہیں، لیکن دین کے نام پر کچھ رسمی چیزوں کی دھوم مچا کر وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنے دین پر عمل کررہے ہیں- ان کی زندگی پوری طرح دنیا دارانہ ہوتی ہے، لیکن دین کے نام پر کچھ ظاہری کام کرکے وہ مطمئن ہوجاتے ہیں کہ وہ اب بھی پوری طرح دین پر قائم ہیں، وغیرہ-
فسق کو ایک لفظ میں، غیر اسلامی کو اسلامی بنانا (Islamization of non-Islam) کہاجاسکتا ہے- اِس فاسقانہ روش کی آخری صورت یہ ہے کہ لوگوں کے اندر سرکشی کا مزاج آجاتاہے- دین کے خود ساختہ ماڈل کو اختیار کرکے وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر سمجھ لیتے ہیں کہ ہم اصلِ دین پر قائم ہیں- یہ فرضی یقین (false conviction) اُن کو ہر برائی کے لیے سرکش بنا دیتا ہے- یہ وہ حالت ہے جو ایسے لوگوںکو آمادہ کرتی ہے کہ وہ جس کو اپنا مخالف سمجھیں، اُس کو جڑ سے اکھاڑ نے کے لیے ہر غلط کارروائی کو اپنے لیے جائز ٹھہرالیں-
اصلاح کا طریقہ
مذکورہ قرآنی آیتوں میں سے دوسری آیت یہ بتاتی ہے کہ جب امت کا یہ حال ہوجائے تو اُس وقت اس کی اصلاح کے لیے کیا کرنا چاہئے- آیت کے مطابق، اُس وقت ایک مصلح کو وہی کرنا چاہیے جو ایک کسان کسی مردہ زمین کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اختیار کرتاہے، یعنی پہلے زمین کو تیار کرنا اور اس کے بعد اس میں فصل اگانا- اِسی طرح امت کے زوال کے بعد ایک مصلح کو یہ کرنا ہے کہ وہ امت کے اندر دوبارہ معرفتِ دین پیدا کرے، وہ امت کے افراد میں دوبارہ ذہنی بیداری لائے، امت کے افراد جو پیدائشی دین پر کھڑے ہوئے ہیں، ان کے لیے دین کو اُن کی از سرِ نو دریافت (rediscovery) بنادے، وغیرہ-
موجودہ زمانے کے مسلمان مکمل طورپر اِس زوال کی حالت پر پہنچ چکےہیں- ان کے اندر بظاہر کچھ دینی شکلیں دکھائی دیتی ہیں، لیکن ان کے افراد روحِ دین سے خالی ہیں- یہی وہ مسلمان ہیں جن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ اُن کی مسجدیں بھر ہوئی ہوں گی، لیکن وہ ہدایت کے اعتبار سے خالی ہوں گی(مساجدہم عامرة، وہی خراب من الہدى)جامع الأحادیث للسیوطی، 13182- ایک اور حدیث میں بتایا گیا ہے کہ بظاہر مسلمان ایک بڑی بھیڑ کی شکل میں ہوں گے، لیکن ان کے اندر ایک بھی خاشع شخص موجود نہیں ہوگا( حتى لا ترى فیہا خاشعا)کنز العمال، 5890- اِن مسلمانوں کے درمیان اصلاحی کام کا آغاز اُن کو خیرِ امت فرض کرکے نہیں ہوسکتا- ان کے درمیان موثر اصلاحی کام صرف اس طرح ہوسکتاہے کہ پہلے ان کو زوال یافتہ امت تسلیم کیا جائے اور پھر بالکل آغاز سے ان کی اصلاح کی منصوبہ بندی کی جائے، یعنی تجویز سے پہلے تشخیص-
قرآنی سورتوں کی ترتیب
قرآن کی سورتوں کی موجودہ ترتیب کا نہایت گہرا تعلق امت کی اصلاح کے مسئلے سے ہے- جیساکہ معلوم ہے، قرآن کی سورتوں کی موجودہ ترتیب اُن کے نزول کی ترتیب کے مطابق نہیں ہے، بلکہ وہ اس سے مختلف ہے- عمومی طورپر یہ کہاجاسکتاہے کہ مکہ میں قرآن کی جو سورتیں نازل ہوئیں، اُن کو ترتیب میں مصحف کے آخر میں رکھ دیا گیا، اور جو سورتیں بعد کو مدینہ میں اتریں، ان کو ترتیب میں مصحف کے ابتدائی حصے میں رکھ دیاگیا- ترتیب میں یہ تبدیلی اتفاقی نہیں ہے، بلکہ اس کو بالقصد طورپر اختیار کیا گیا ہے-
اصل یہ ہے کہ مکی دور میں جب قرآن اترنا شروع ہوااُس وقت امتِ مسلمہ بحیثیت ’’امت‘‘ موجود نہ تھی- اُس وقت مکہ میں اور اطرافِ مکہ میں دعوت کا کام کیاگیا- اِس کے نتیجے میں لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے، یہاں تک کہ وہ گروہ تیار ہوا جس کو امتِ مسلمہ کہا جاتاہے- گویا کہ مکی دور میں اسلام کا سفر غیر اسلام سے اسلام کی طرف یا غیر امتِ مسلمہ سے امتِ مسلمہ کی طرف ہوا-
لیکن مدنی دور میں یہ ہوا کہ عملاً وہ گروہ وجود میں آگیا جس کو امتِ مسلمہ کہاجاتا ہے- جب امتِ مسلمہ کے نام سے ایک امت وجود میں آگئی تو اب تاریخ کے سفرکی نوعیت بد ل گئی- پہلے یہ ہوا تھا کہ تاریخ کا سفر امتِ غیر مسلمہ سے امتِ مسلمہ کی طرف ہوا تھا، لیکن امت بننے کے بعدایک نیا تاریخی عمل (process) شروع ہوگیا، اور وہ تھا— عروج سے زوال کی طرف یا تشکیلِ امت سے امت کے تنزّل(degeneration) کی طرف-
مکی د ور میں اسلام کی دعوت کا طریقِ کار یہ تھا کہ اسلام کے نہ ماننے والوں کو اسلام کی اہمیت بتا کر انھیں اسلام کی طرف راغب کیا جائے- لیکن مدنی دور کے بعد یہ ہونے والا تھا کہ صرف تین نسل (قرونِ ثلاثہ) کے بعد امت میں زوال کا دور آجائے- قانونِ فطرت کے مطابق، یہ تبدیلی لازم تھی- اِس کے لیے ضرورت تھی کہ امت کے مصلحین کو یہ بتایا جائے کہ امت کے زوال (degeneration) کے بعد امت کے احیاء ِ نو (regeneration)کا طریقِ کار کیا ہوگا-
یہی وہ حکمت ہے جس کی بنا پر قرآن کی سورتوں کی وہ ترتیب اختیار کی گئی جس کو توقیفی ترتیب کہاجاتا ہے- یہ ترتیب اتفاقی نہیں، بلکہ وہ خود فرشتۂ وحی (جبرئیل) کی ہدایت کے مطابق کی گئی- اِس حکمتِ ترتیب میں یہ ہوا کہ عمومی طورپر مدنی سورتوں کو مصحف میں پہلے رکھ دیاگیا ا ور مکی سورتوں کو مؤخر کردیا گیا-اِس ترتیب کی حکمت بالکل واضح ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے تو وہاں صرف مشرک قبیلے آباد تھے، لیکن جب آپ نبوت کے 13 سال کے بعد ہجرت کرکے مدینہ گئے تو یہاں کی صورتِ حال مختلف تھی- مدینہ کی آبادی کا تناسب اِس طرح تھا کہ دو عرب قبیلےتھے: اوس اور خزرج، اور تین یہودی قبیلے تھے: بنو نضیر، بنو قضاعہ، بنو قینُقاع-
اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کےمخاطبین میں ایک نیا مخاطب گروہ (یہود) وجود میں آگیا- اب ایسا ہواکہ مسلسل طورپر یہود سے انٹرایکشن ہونے لگا- یہود کے سامنے آپ دینِ اسلام پیش کرنے لگے- یہود کے سوالات کا جواب دیا جانے لگا- یہود، جن کی حیثیت امتِ موسی کی تھی، اُن کے احوال برابر قرآن میں زیر بحث آنے لگے- اِسی کا نتیجہ ہے کہ مدنی سورتوں کا بڑا حصہ یہود ونصاری کے تذکرے پر مشتمل ہے-
یہ یہود ونصاری کون تھے- وہ دراصل دورِ قدیم کی زوال یافتہ امت تھے- یہود ونصاری کے حال میں امتِ مسلمہ کا مستقبل دکھائی دیتا تھا- اِسی لیے قرآن کی مصحفی ترتیب میں مدنی سورتوں کو پہلے کردیا گیا، کیو ں کہ انھیں زوال یافتہ حالات کی روشنی میں وہ لائحہ عمل تیار ہونا تھا جو امتِ مسلمہ کی بعد کی نسلوں کی اصلاح کے لیے درکار تھا-
اِس کا مطلب یہ تھا کہ بعد کی مسلم نسلوں کو خیر امت فرض کرکے کام کا آغاز نہیں کرنا ہے، بلکہ اِس واقعے کو تسلیم کرکے اس کے اندر اصلاح کا کام کرنا ہے کہ یہ امت زوال کے اُس مرحلے میں پہنچ چکی ہے جہاں یہود ونصاری پہنچے تھے- اِس بنا پر اُن کی اصلاح کے لیے وہی اسلوب اختیار کرنا ہے جو قرآن کی سورہ الحدید کی مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے، یعنی پہلے امت میں ذہنی بیداری لانا اور اس کے بعد اس کی عملی اصلاح کرنا-
واپس اوپر جائیں

ذاتی عقل، علمی عقل

2 مارچ 2009 کو نئی دہلی کے انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ) میں ایک سیمنار ہوا- اِس سیمنار میں جدید تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے- اس کا موضوع آزادی اظہار رائے (freedom of expression) تھا- اِس موضوع کے تحت، اِس سیمنار میں حسب ذیل سوال پر مذاکرہ ہوا:
Is Quran subject to Rational Scrutiny?
سیمنار کی دعوت پر راقم الحروف نے بھی اس میں شرکت کی- میںنے دیکھا کہ کانفرنس کے تمام شرکاء پرجوش طورپر اِس نظریے کی وکالت کررہے ہیں کہ قرآن کوئی منزَّہ عن الخطاء کتاب (infallible book) نہیں ہے- ہم کو یہ حق ہونا چاہئے کہ ہم اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے قرآن پر فکری تنقید کرسکیں-
اِس مذاکرہ اور اِس قسم کے دوسرے مذاکروں میں شرکت کے بعد میرا احساس یہ ہے کہ لوگ عقل (reason) کا لفظ تو بہت بولتے ہیں، لیکن لوگوں کو شاید یہ نہیں معلوم کہ عقل کے حدود کیا ہیں اور عقل کے استعمال سے کیا مراد ہے- اصل یہ ہے کہ عقل کے استعمال کی دو صورتیں ہیں- ایک ہے، ذاتی عقل (personal reason) کے تحت بولنا- اور دوسرا ہے، علمی طورپر ثابت شدہ حقائق کی روشنی میں عقل کا استعمال کرنا- علمی اعتبار سے ذاتی عقل کی کوئی اہمیت نہیں، عقل کا صرف وہی استعمال درست ہے جو ثابت شدہ حقائق کی بنیاد پر کیاگیا ہو:
One's reason is only the capacity to understand. Reason itself is not an authority. The scientific method in this regard is that if one has some idea, one has to examine it on the basis of scientifically established facts. Only after this, one's idea will be regarded as correct. Otherwise, it is simply personal reason or pure reason. In this sense, reason is of two kinds:
1. Reason verified by scientific facts.
2. Reason unsupported by such verification.
مذکورہ سیمنار میں، میںنے یہ بات کہی تو وہاں کوئی شخص اس کو رد نہ کرسکا- تاہم ایک صاحب نے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی عقل سے کوئی رائے بنائے تو اس کی قدروقیمت کیا ہے-
What, if any, is the validity of reason unsupported by scientific verification?
میں نے کہا کہ محض ذاتی عقل کی بنیاد پر جورائے قائم کی جائے، وہ دوسروں کے لئے ناقابلِ قبول ہوگی- کسی شخص کی ذاتی رائے دوسروں کے لئے اسی وقت قابلِ قبول ہوسکتی ہے جب کہ وہ ثابت کرے کہ اس کی رائے مسلّمہ علمی بنیاد پر قائم ہے:
Personal reason unsupported by scientific data is invalid. If one wishes to follow his personal reason, he may do so. But he certainly should not expect that others will subscribe to such kind of thought. If you want to convince others you will have to substantiate your personal views on the basis of scientifically established data.
قرآن کی صداقت
میرے تجربے کے مطابق، قرآن کے ذیل میں ریشنل اسکروٹنی (rational scrutiny) کا لفظ ایک غیر متعلق (irrelevant) لفظ ہے- قرآن کے ذیل میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کے لیے ریشنل اسٹڈی (rational study) کا لفظ استعمال کیا جائے- قرآن نے اِس معاملے میں مطالعے کا جو اصول مقرر کیا ہے، وہ بلا شبہہ ایک علمی اصول ہے-
اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: لو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیرا (4:82) یعنی اگر یہ (قرآن) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس کے اندر بڑا اختلاف پاتے-
اِس آیت کے مطابق، قرآن کی صداقت(veracity) کو جاننے کا معیار یہ ہے کہ قرآن کے بیانات کو علمی مسلّمات (scientific facts) سے تقابل کرکے دیکھا جائے- اگر دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہ ہو تو وہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی صداقت عقلی معیار پر ثابت ہورہی ہے- یہی قرآن کے عقلی مطالعے کا واحد طریقہ ہے-
قرآن کے بیان کا ایک حصہ وہ ہے جس میں زمین وآسمان، یعنی فزیکل ورلڈ(physical world) کے بارے میں کچھ بیانات دئے گئے- یہ موضوع،قرآن اور سائنس کے درمیان مشترک ہے- قرآن پر عقلی غور وفکر کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ مشترک موضوعات میں قرآن نے جو حوالے دئے ہیں، وہ سائنس کے مسلمات سے مطابقت رکھتے ہیں یا اُس سے ٹکرارہے ہیں- راقم الحروف نے اِس حیثیت سے تفصیلی مطالعہ کیا ہے- میں نے اپنی دوسری کتابوں (مذہب اور جدید چیلنج، عقلیات اسلام، وغیرہ) میں مثالوں کے ذریعہ یہ واضح کیا ہے کہ اِن مشترک موضوعات میں قرآن کے بیان اور سائنس کے بیان میں کوئی ٹکراؤ نہیں-
یہ واقعہ قرآن کی صداقت (veracity) کا ایک عقلی ثبوت ہے- مشترک موضوعات میں قرآن کے بیان کے درست ہونے سے ہم کو یہ قرینہ (probability)ملتا ہے کہ ہم یہ قیاس کرسکیں کہ غیر مشترک موضوعات میں بھی قرآن کے بیانات درست ہیں- اِس طریقِ استدلال کو سائنس میں معقول (valid) قرار دیا گیا ہے اور اِس کو استدلال بذریعہ احتمال (argument from probability) کہاجاتا ہے، یعنی معلوم دنیا کے بارے میں قرآن کے بیانات کے درست ثابت ہونے سے یہ قرینہ ملتا ہے کہ غیر معلوم دنیا کے بارے میں بھی قرآن کے بیانات احتمالی طورپر (probably) درست ہیں- اِس اصولِ استدلال کے بارے میں مزید معلومات کے لیے حسب ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں-
Science and the Unseen World by Arthur Eddington
Human Knowledge by Bertrand Russell
علم کی دو قسمیں
عقل کا استعمال کسی خلا میں نہیں ہوتا، بلکہ وہ موجودہ دنیا میں ہوتاہے جس دنیاکے اندر ہم زندگی گزارتے ہیں، مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا کی تمام چیزیں ایک قسم کی نہیں ہیں، بلکہ یہاںتنوع (diversity)پایا جاتا ہے- چنانچہ فلاسفہ نے علم کی دوقسمیں کی ہیں — چیزوں کا علم(knowledge of things)، سچائی کا علم (knowledge of truths) -
انسان کے پاس صرف ایک ہی ذریعہ ہے جس سے وہ اِن علوم تک پہنچ سکتا ہے اور وہ عقل (reason) ہے- آدمی اپنی عقل کو استعمال کرکے دونوں قسموں کے علم تک رسائی حاصل کرسکتا ہے- انسان کےپاس ذاتی طورپر، عقل کے سوا، کوئی دوسرا ذریعہ نہیں جس سے وہ اِن علوم سے واقفیت حاصل کرسکے-
تاہم جس طرح علوم کی دو قسمیں ہیں، اُسی طرح عقل کے استعمال کی بھی دو قسمیں ہیں- جہاں تک چیزوں کو جاننے کا معاملہ ہے، اُن کے سلسلے میں مشاہدہ (observation) اور تجربہ (experience) کے ذریعہ کو استعمال کرنا ممکن ہے، طبیعی علوم (physical sciences) کے مطالعے کا دائرہ چیزیں (things) ہیں، اِس لیے طبیعی علوم میں اصلاً مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ کو استعمال کیا جاتا ہے-
اب سوال یہ ہے کہ علم کا دوسرا دائرہ، یعنی سچائیوںتک کس طرح پہنچا جائے- موجودہ زمانے کے علماءِ سائنس کا اِس پر اتفاق ہے کہ وہ چیز جس کو سچائی کہا جاتا ہے، اُس تک پہنچنے کا صرف ایک ذریعہ ہے اور وہ استنباط (inference) ہے، یعنی مشاہداتی حقائق کے حوالے سے، غیر مشاہداتی حقائق کے علم تک پہنچنا-
بیسویں صدی کے نصف اول تک طبیعی سائنس (physical science) کی دنیا میں عام طورپر یہ سمجھا جاتا تھا کہ علم وہی ہے جو مشاہداتی ذرائع سے معلوم ہو- لیکن علم کا سفر جب عالمِ کبیر (macro world)سے گزر کر عالمِ صغیر (micro world) تک پہنچا تو یہ مفروضہ ٹوٹ گیا- اب یہ تسلیم کرلیا گیا کہ استنباط بھی علم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، شرط یہ ہے کہ وہ مسلّمہ علمی قواعد کی بنیاد پر کیاگیا ہو- یہی وہ مقام ہے جہاں عقلی طریقِ مطالعہ اور اسلامی طریقِ مطالعہ کا فرق ختم ہوجاتا ہے- عقلی طریقِ مطالعہ، اسلام کے مطالعے کے لیے بھی اتنا ہی مفید بن جاتا ہے جتنا کہ دوسرے علوم کے لیے-
اسلام کے عقائد کا تعلق عالمِ غیب (unseen world) سے ہے، اِس لیے بظاہر وہ عقلی مطالعے سے باہر کی چیز معلوم ہوتا ہے، لیکن استنباط کو مستندطریقِ مطالعہ ماننے کے بعد یہ فرق باقی نہیں رہتا- مثال کے طورپر وحی (revelation) کو لیجیے- اسلام کےمطابق، قرآن وحی پر مبنی ایک کتاب ہے- وحی مشاہدے سے باہر کی چیز ہے، اِس بنا پر بیسویں صدی کے نصف اول تک یہ سمجھا جاتا تھاکہ قرآن صرف ایک عقیدے کی کتاب ہے، اس کی صداقت کو عقلی بنیاد پر ثابت نہیں کیا جاسکتا- لیکن اب جب کہ استنباطی استدلال کو مستند استدلال سمجھا جاچکا ہے، اب اصولی طورپر یہ فرق باقی نہیں رہا-
قرآن میں ایسے بیانات موجود ہیں جو استنباطی اصول کے مطابق، یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن کا تعلق ایک ایسے ماخذ (source) سے ہے جو انسانی علم سے ماورا اپناوجود رکھتا ہے- اس معاملے کی ایک مثال وہ ہے جو قدیم مصر کے فرعون (Pharaoh Ramesses II) کے جسم سے تعلق رکھتا ہے-(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: راقم الحروف کی کتاب ’’عظمتِ قرآن‘‘ )
واپس اوپر جائیں

انسانی وجود کی با معنی توجیہ

ایک شخص کہتا ہےکہ چاند کا سائز ہمارے ایک فٹ بال کے حجم کے برابر ہے- دوسرا شخص کہتا ہے کہ چاند کا سائز ہماری زمین کے چوتھائی حجم کے برابر ہے- اِن دو مختلف بیانات میںسے کون سا بیان درست ہے- اِس کو جاننے کے لیے ہمارے پاس ایک قابلِ اعتماد معیار (criterion) موجود ہے- یہ سائنٹفک معیار ہے- اِس سائنٹفک معیار کو منطبق کرکے ہم حتمی طورپر معلوم کرسکتے ہیں کہ دونوں میںسے پہلا بیان نادرست ہے اور صرف دوسرا بیان درست ہے-
اب دوسری مثال لیجئے- فرانس کے مشہور فلسفی رینے ڈیکارٹ (Rene Descartes) نے کہا تھا کہ — میں سوچتا ہوں، اِس لیے میں ہوں:
I think, therefore, I exist.
وجودی فلسفہ (existentialism) کے بانی جین پال سارترے (Jean Paul Sartre) نے اِس تصور کو الٹ دیا- اس نے کہا کہ — میں ہوں، اِس لیے میں سوچتا ہوں:
I exist, therefore, I think.
ڈیکارٹ اور سارترے کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں- پھر کیسے فیصلہ کیا جائے کہ دونوں میں سے کون سا بیان د رست ہے اور کون سا بیان درست نہیں- اِس دوسری مثال کے معاملے میں سائنٹفک معیا ر قابلِ انطباق نہیں- تاہم یہاں ایک اور متبادل معیار موجود ہے جس کو منطبق کرکے ہم اِس دوسرے معاملے میں بھی درست جواب حاصل کرسکتے ہیں-
برٹرنڈرسل (وفات: 1970) نے درست طورپر لکھا ہےکہ علم کی دو قسمیں ہیں — چیزوں کا علم (knowledge of things) ، اور سچائیوں کا علم (knowledge of truths) - چیزوں کے علم کے معاملے میں ہمیشہ فزیکل کرائٹیرین (physical criterion)قابلِ انطباق (applicable) ہوتا ہے- لیکن جہاں تک سچائی کا معاملہ ہے، اُس میں فزیکل کرائٹیرین قابلِ انطباق نہیں- تاہم سچائی کے علم کے معاملے میں فیصلہ کرنے کے لیے ایک اور کرائٹیرین موجود ہے، وہ ترجیح (preference) کا کرائٹیرین ہے، یعنی دو امکانات میں سے کسی ایک امکان کو اضافی قرینہ کی بنیاد پر ترجیح دینا-
مذکورہ فلسفیانہ بحث میں ہمارے سامنے دو رائیں (proposition) موجود ہیں- ایک، ڈیکارٹ اور دوسرے، سارترے کی رائے- دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ ان میں انسانی زندگی کی کوئی با معنی توجیہہ نہیں ملتی- اِس اعتبار سے، دونوں کے اوپر البرٹ کامو (Albert Camus)کا تبصرہ یکساں طورپر صادق آتا ہے- اُس نے انسانی زندگی کے بارے میں کہا کہ — ہم سب اِس لغو دنیا میں کیوں ہیں ، کیا صرف مرنے کے لیے-
ڈیکارٹ اور سارترے کے مذکورہ اقوال اِس بنیادی سوال کا جواب نہیں دیتے کہ انسانی وجود کا مقصد کیا ہے- انسان کس طرح اپنی زندگی کو کامیاب بنا سکتا ہے- موت سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا- ایسی حالت میں اُس دوسری رائے کو ترجیح کے اصول کی بنیاد پردرست مانا جائے گا جس میں انسانی زندگی کی بامعنی توجیہہ پائی جاتی ہو- یہ رائے وہی ہے جو وحی (revelation) کے ذریعے معلوم ہوتی ہے- یہ رائے زندگی کی بامعنی توجیہہ پیش کرتی ہے اور یہ معنویت اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہی رائے درست ہے-
وحی پر مبنی اِس رائے کے مطابق، اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ — میں ایک خالق کی تخلیق ہوں- یہی خالق ہے جس نے مجھ کو وجود دیا ہے- یہی خالق ہے جس نے مجھ کو سوچنے کی طاقت دی ہے- اِس خالق کی رحمت کے بغیر میرا کوئی وجود نہیں:
I am a creation of a Creator. It was this Creator Who gave me existence. It was this Creator Who gave me thinking power. I was nothing without the blessing of this Creator.
واپس اوپر جائیں

مسلم فلسفہ، مسلم الہیات

مسلم الہیات (Muslim Theology) اور مسلم فلسفہ (Muslim Philosophy) دونوں معروف اصطلاحیں ہیں، لیکن دونوں میں ایک فرق ہے- مسلم الہیات کی اصطلاح ایک علمی اصطلاح ہے، جب کہ مسلم فلسفہ کی اصطلاح کوئی علمی اصطلاح نہیں-الہیات مبنی بر وحی علم کا نام ہے، جب کہ فلسفہ ایک ایسے علم کا نام ہے جو مکمل طورپر مبنی بر عقل (reason-based) ہوتا ہے- اسلام میں عقل کو وحی کے تابع قرار دیاگیا ہے، جب کہ فلسفہ میں عقل کو مکمل طور پر آزاد سمجھا جاتا ہے-
فلسفہ ایک مستقل علمی شعبہ ہے- تاریخ کے بڑے بڑے دماغ فلسفہ کے موضوع پر غور وفکر کرتے رہے ہیں- فلسفہ کی تعریف (definition) یہ ہے — کائنات کی حقیقت کی تلاش آزاد طورپر صرف عقل کی روشنی میں:
Pursuit of the ultimate nature of the universe purely through rational analysis.
یہ فلسفیانہ تصور اسلام کے تصورِ علم کے مطابق نہیں- اسلام کے تصور کے مطابق، انسان اپنے آزاد عقلی غور فکر کے ذریعے صرف محدود علم تک پہنچ سکتا ہے، کلی حقیقت تک نہیں(17:85)- فلسفہ کا تصورِ علم اِس کے بالکل مختلف ہے- فلسفہ اِس تصورِ علم پر مبنی ہے کہ انسان اپنی عقل کے ذریعے تمام حقیقتوں تک پہنچ سکتا ہے، حقیقتِ کائنات کی دریافت صرف عقل کے ذریعے ممکن ہے-
عباسی دور میں مسلم فلسفہ وجود میں آیا- مسلم فلسفہ کا تصور صرف مرعوبانہ ذہن کی پیداوار تھا، کیوں کہ اُس زمانے میں فلسفہ کو سب سے بڑا علم (Queen of Art) سمجھا جاتا تھا- حقیقت یہ کہ اسلام میں فلسفہ نہیں، بلکہ الہیات ہے- اسلام میں علمِ کلام، اِسی مقصد کے لیے وجود میں آیا تھا، لیکن قدیم زمانے سے مسلم متکلمین اپنے غیر سائنسی ذہن کی بنا پر اس کو صحیح نہج پر ڈیولپ (develop) نہ کرسکے-
واپس اوپر جائیں

زندگی کی حقیقت

مطالعہ بتاتا ہے کہ ہماری دنیا جوڑے (pairs) کے اصول پر بنی ہے۔ یہاں ہر چیز جوڑے جوڑے کی صورت میں ہے— الکٹران اور پروٹان، میل پلانٹ اور فی میل پلانٹ (male plant- female plant)، ہی اینمل اور شی اینمل (he animal-she animal) عورت اور مرد، اسی طرح خود دنیا (world) جوڑے کی صورت میں ہے، نیگٹیو ورلڈاور پازیٹیو ورلڈ۔
دنیا کا ایک جوڑا وہ ہے، جو آئیڈیل اور پرفیکٹ ہے۔ وہ ہر قسم کی محدودیت (limitations)سے پاک ہے۔ وہاں انسان کی تمام تمنائیں اپنی کامل صورت میں پوری ہوں گی۔ یہ کامل دنیا صرف منتخب لوگوں کو استحقاق (merit) کی بنیاد پر ملے گی۔ استحقاق کے بغیر کوئی اس دنیا میں داخلہ پانے والا نہیں۔
موجودہ دنیا اسی منصوبہ کا ابتدائی اور عارضی حصہ ہے۔ اس منصوبہ کے تحت، موجودہ دنیا انتخابی میدان (selective ground) کے طورپر بنائی گئی ہے۔ یہاں جو لوگ پیداکئے جاتے ہیں، وہ اس لیے پیدا کئے جاتے ہیں، تاکہ یہاں کے حالات میں رکھ کر دیکھا جائے کہ ان میں سے کون اگلی کامل دینا میں بسائے جانے کا اہل ہے اور کون اس کا اہل نہیں۔ اہل افراد کو منتخب کرکے اگلی کامل دنیا میں ہمیشہ کے لیے آباد کردیا جائے گا اور بقیہ لوگ جو اس جانچ میں پورے نہیں اتریں گے وہ قابلِ رد (rejected lot) قرار پائیں گے۔
لوگوں کا یہ انتخاب (selection) کس بنیاد پر ہوگا۔ خالق کے منصوبہ کے مطابق، اس کی بنیاد صرف ایک ہے، وہ یہ کہ کس نے آزادی کا غلط استعمال کیا اور کس نے اس کا صحیح استعمال کیا۔ ملی ہوئی آزادی کا صحیح استعمال یا غلط استعمال ہی وہ واحد معیار ہے جس کے مطابق، لوگوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
خالق کے منصوبہ کے مطابق، صحیح انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو ماحول کی کنڈیشننگ سے بچائے۔ جو خالق کے بتائے ہوئے نقشہ کے مطابق زندگی گزارے، جو موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں، موت کے بعد کے مرحلۂ حیات کے مطابق، اپنے آپ کو تیار کرے۔
موجودہ دنیا میں ہر عورت اور مرد اسی جانچ (test) پر ہیں۔ خالق کے منصوبہ کے مطابق ہرعورت اور مرد کا ریکارڈ تیار کیا جارہا ہے۔ جب تاریخ کے خاتمہ پر انسان کا اگلا دور شروع ہوگا، اس وقت انسانوں کا خالق ظاہر ہو کر سامنے آجائے گا۔
یہ فیصلہ کا دن ہوگا۔ اس وقت تمام پیدا ہونے والے عورت اورمرد خالق کے سامنے حاضر کئے جائیں گے۔ اس وقت خالق اپنے تیار کئے ہوئے ریکارڈ کے مطابق، ہر ایک کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ یہ فیصلہ تمام تر انصاف کی بنیاد پر ہوگا۔ اور پھر کسی کو ابدی جنت میں آباد کیا جائے گا اور کسی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ حالات بتاتے ہیں کہ یہ آنے والا دن بہت قریب آچکا ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے جب کہ انسان جاگے اور آنے والے ابدی دورِ حیات کی تیاری کرے۔
واپس اوپر جائیں

علمی طرزِ استدلال

استدلال کی دو قسمیں ہیں — قیاسی استدلال اور علمی استدلال- قیاسی استدلال وہ ہے جس میں ایک مفروضہ کو بنیاد بنا کر اپنی بات ثابت کی گئی ہو- مثال کے طور پر ایک شخص یہ کہے کہ مسلمان کا منصب یہ ہے کہ وہ عالمی قیادت حاصل کرے- یہ کہہ کر وہ عالمی قیادت کے حصول کی تحریک چلا دے-اِس قسم کا استدلال ایک قیاسی استدلال ہے اور اِس بنا پر وہ بے بنیاد استدلال کی حیثیت رکھتا ہے- کیوں کہ سارے قرآن میں کہیں بھی یہ لکھا ہوا نہیں ہے کہ مسلمان کا منصب عالمی قیادت ہے- اِس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ عالمی قیادت کے حصول کی کوشش کریں- اِس قسم کا استدلال بھی بے بنیاد ہے اور اِس قسم کے استدلال کو لے کر جو تحریک کھڑی کی جائے، وہ بھی بے بنیاد -
علمی استدلال وہ ہے جو کسی ثابت شدہ حقیقت پر قائم ہو- مثلاً اگر آپ یہ کہیں کہ مسلمان کا فرضِ منصبی شہادت علی الناس ہے اور اِس بنا پر مسلمانوں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اہلِ عالم کے سامنے دینِ خداوندی کے گواہ بن کر کھڑے ہوں- یہ استدلال ایک علمی استدلال کہاجائے گا اور یہ تسلیم کیا جائے گا کہ وہ ایک حقیقی بنیاد پر قائم ہے- کیوں کہ اِس استدلال کے حق میں واضح قرآنی آیات موجود ہیں- یہ آیات غیر مشتبہ طور پر ثابت کرتی ہیں کہ مسلمان کا یا امتِ مسلمہ کا منصب یہی ہے-
دعوی کبھی مبنی بر عقل ہوتا ہے اور کبھی مبنی بر نقل- اگر دعوے کا تعلق ایسے معاملے سے ہو جو عقل (reason) سے تعلق رکھتا ہو تو ایسی بات کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ اُس کے حق میں کوئی ایسا عقلی ثبوت (rational proof) دیا جائے جو عقلی تجزیہ کے اصول پر ایک ثابت شدہ حقیقت کی حیثیت رکھتا ہو- اِس طرح اگر دعوی نقل سے تعلق رکھتا ہو تو ضروری ہوگا کہ نقل کے مستند ذرائع، یعنی قرآن وسنت کے حوالوں سے وہ غیر مشتبہ طورپر ثابت ہورہا ہو- نقل سے متعلق جس دعوے کے حق میں قرآن وسنت کا واضح حوالہ موجود نہ ہو، وہ ایک غیر علمی استدلال مانا جائے گا اور اس کو رد کردیا جائے گا-
واپس اوپر جائیں

علم کی دوقسمیں

علم کی دو قسمیں ہیں — ایک وہ علم جس کا تعلق انسانی فکر اور انسانی زندگی سے ہوتا ہے- ایسے علم کو اصطلاح میں علمِ انسانی (humanities) کہا جاتا ہے- دوسرا علم وہ ہے جس کا تعلق مادی شعبہ سے ہے- ایسے علوم کو سائنسی علوم کہاجاتا ہے- دونوں قسم کے علم کے مطالعے کے طریقے الگ الگ ہیں- ایک علم کے طریقے کو دوسرے علم کے معاملے میں استعمال نہیں کیا جاسکتا-
مثلاً سائنسی علوم کی بنیاد ریاضیات (mathematics) پر ہے- ایسے علوم میں قطعی استدلال یا ناقابلِ انکار استدلال ممکن ہوتا ہے- ان کو دو اور دوچار کی طرح ثابت کیا جاسکتا ہے- اِس لیے سائنسی علوم میں اختلاف نہیں پایا جاتا-
سائنسی علوم میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ کسی موضوع پر مختلف اہلِ علم کا اتفاقِ رائے حاصل کرلیا جائے- مگر علمِ انسانی (humanities) میں اِس قسم کا ریاضیاتی استدلال ممکن نہیں- اِس لیے علمِ انسانی کے معاملے میں لازمی اتفاقِ رائے بھی ممکن نہیں-
دونوں قسم کے علوم میں اِس فرق سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ جو شخص علمِ انسانی یا مذہب کے معاملے میں یقین کا درجہ حاصل کرنا چاہے، اُس کو یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ یہاں سائنسی علوم کی مانند ریاضیاتی استدلال ممکن ہوجائے گا- حقیقت یہ ہے کہ انسانی علوم کا معاملہ ففٹی ففٹی کے اصول پر مبنی ہے- پچاس فی صد استدلال (reasoning) اور پچاس فی صد وجدان (intuition)-
پہلے جزء کا تعلق معلومات (information) سے ہے، اور دوسرا جزء معرفت یا حقیقت شناسی (realization of truth) سے تعلق رکھتا ہے- جو آدمی صرف معلومات کو جانتا ہو، مگر اس کے اندر حقیقت شناسی کی صلاحیت موجود نہ ہو، وہ ہمیشہ ذہنی انتشار (confusion) میں مبتلا رہے گا، وہ کبھی سچائی تک پہنچ نہ سکے گا-
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
آپ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ— ’’ قرآن ایک اعتبار سے، کتاب وحی ہے اور دوسرے  اعتبارسے کتابِ انقلاب ہے- پہلے اعتبارسے، وہ رہنما اصول (guiding principles) کا مجموعہ ہے اور دوسرے اعتبار سے، اس کے ذریعے ایک ایسا عمل (process) جاری ہوا جو اپنے تکمیلی مرحلے میں پہنچ کر معرفتِ اعلی کا ذریعہ بن گیا‘‘-اِس کی مزید وضاحت فرمائیں-(ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کے حسب ذیل دو ارشادات کا مطالعہ کیجئے:
1- اَلْیَوْمَ اَ کْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (5:3) یعنی آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو پورا کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا-
2- وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ سَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ فَتَعْرِفُوْنَہَا(27:93) یعنی کہو کہ تمام حمد اللہ کے لیے ہے- وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم اُن کو پہچان لوگے-
قرآن کی اِن آیتوں میں ایک خاص فرق ہے، وہ یہ کہ پہلی آیت میں جو بات کہی گئی ہے،وہ صیغۂ حال (present tense)میں ہے- اور دوسری بات صیغۂ استقبال (future tense) میں کہی گئی ہے- اِس فرق سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ ایک ایسی بات ہے جو نزولِ قرآن کے زمانے میں حاصل ہوگئی- اِس کے برعکس، دوسری آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بعد کے زمانے میں حاصل ہوگی، یعنی آفاق وانفس میں ظہورِ آیات-
سوال
الرسالہ میں آپ بار بار لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو سیاسی ماڈل کے بجائے دعوتی ماڈل اختیار کرنا چاہیے- دعوتی ماڈل سے آپ کی مراد کیاہے، اِس کو واضح فرمائیں-(محمد امان اللہ، دہلی)
جواب
آج کل یہ حال ہے کہ جس شخص کے دل میں بھی کام کا جذبہ پیداہوتا ہے، وہ فوراً سیاسی انداز میں کام کرنا شروع کردیتاہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کام کا سیاسی ماڈل بہت زیادہ معروف ہوگیا ہے۔ اِس بنا پر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ سیاسی ماڈل کے سوا کسی اور ماڈل کا تصور نہیں کرپاتے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ کام کا سب سے زیادہ بہتر، اور سب سے زیادہ نتیجہ خیز ماڈل وہ ہے جس کو دعوتی ماڈل کہاجاسکتا ہے۔ دعوتی ماڈل سے مراد نظریاتی ماڈل ہے، یعنی ایک فکر یا ایک آئڈیالوجی کی بنیاد پر پُرامن جدوجہد کرنا۔ انسان ایک سوچنے والا وجود (thinking being)ہے۔ اِس لیے فکری ماڈل فوراً اس کو اپیل کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ داعی کے پاس اگر ایک حقیقی آئڈیالوجی ہو تو وہ انتہائی حد تک طاقت ور بن جائے گا۔ حقیقت پر مبنی فکر گویا ایک نظریاتی بم (ideological bomb) کی حیثیت رکھتا ہے، جو تمام طاقت ور چیزوں سے زیادہ طاقت ور ہے۔
سوال
الرسالہ میں آپ نے کئی بار لکھا ہے کہ مسلمانوں کو اپوزیشن کی سیاست سے بچنا چاہیے- براہِ کرم، اِس معاملے کی مزید وضاحت فرمائیں (محمدشارق، سری نگر)
جواب
سیاست چلتی ہے ٹکراؤ پر— یہ مقولہ سیاست یا پولٹکل ایکٹوزم (political activism) کو درست طور پر بتاتا ہے ۔ سیاست ٹکراؤ کا کلچر ہے۔ سیاست میں ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مد مقابل (rival) بنا کر اُس کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔ ابتداء ً یہ مہم پرامن طورپر شروع ہوتی ہے۔ بعد کو دھیرے دھیرے وہ نفرت اور تشدد اور جنگ تک پہنچ جاتی ہے، حتی کہ جب مقصد حاصل نہیں ہوتا تو وہ خودکش بم باری (suicide bombing) جیسی تباہ کن صورتِ حال اختیار کرلیتی ہے۔
اپوزیشن کی سیاست (politics of opposition) بلاشبہہ شیطان کی سنت ہے۔ آدم کی تخلیق کے وقت ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں جو روش اختیار کی اور جس طرح اُس نے آدم کے آگے جھکنے سے انکار کیا، وہ آج کل کی زبان میں گویا اپوزیشن کی سیاست تھی۔ اِس روش کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیطان ابدی طورپر اللہ کی رحمت سے محروم ہوگیا۔ اُس کے لیے یہ مقدر ہوگیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے نفرت اور عداوت میں جئے اور کبھی وہ اُس سے نکل نہ سکے۔ابلیس کا یہ انجام انسانی نسلوں کے لیے ایک سبق ہے۔ انسانوں میں سے جو لوگ اپوزیشن کی سیاست کریں، وہ ابلیس کی اِسی سنت پر چل رہے ہیں۔ اپوزیشن کی سیاست دوسرے لفظوں میں، منفی سیاست ہے، اور منفی سیاست سے کبھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا، نہ سیاسی لیڈروں کے لیے اور نہ اُن لوگوں کے لیے جو ایسے لیڈروں کا ساتھ دیں۔کشمیر اور دوسرے مقامات کے مسلمان جو اپوزیشن کی سیاست میں مشغول ہیں، وہ ایسا کرکے ایک بہت بڑا رِسک (risk) لے رہے ہیں۔ یہ اللہ کی رحمت سے محرومی کا رِسک (خطرہ) ہے۔ اور بلاشبہہ اللہ کی رحمت سے محرومی اتنی بری چیز ہے کہ اُس سے زیادہ بری چیز اور کوئی نہیں۔
سوال
پیغمبر کے زمانے کے لوگوں کو پیغمبر کی صحبت کے ذریعے اللہ کی معرفت مل گئی تھی- سوال یہ ہے کہ پیغمبر کے بعد کے لوگوں کو یہ معرفت کیسے حاصل ہوگی- (ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
کسی انسان کی سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ وہ اللہ کی معرفت حاصل کرے- اللہ کی معرفت کوئی پراسرار چیز نہیں- یہ علمِ انسانی (human knowledge) کا اعلی ترین درجہ ہے- جس آدمی کو حقیقی معنوں میں اللہ کی معرفت حاصل ہوجائے، وہ اس کی پوری زندگی میں شامل ہوجائے گی- وہ فکر سے لے کر عمل تک اس کی پوری شخصیت کی تشکیل کرے گی-غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معرفت کے دو درجے ہیں — ایک ہے مبنی بر صحبت معرفت اور دوسرا ہے مبنی بر علم معرفت- پیغمبر کی زندگی میں جو لوگ پیغمبر پر ایمان لاتے ہیں، ان کو صحبتِ رسول کے ذریعے اللہ کی معرفت کا رزق حاصل ہوتا ہے- پیغمبر کے بعد بھی معرفت کی حیثیت ایک اعلی ایمانی مطلوب کی ہوتی ہے، لیکن پیغمبر کے بعد معرفت کے حصول کا ذریعہ علم ہے- علمِ وحی بھی اور علمِ انسانی بھی-
واپس اوپر جائیں