Pages

Thursday, 1 January 2015

Al Risala | January 2015 (الرسالہ،جنوری)

4

-حکمت ِ قرآن

5

- قرآن، کتابِ تدبر

6

- محبت خداوندی

7

- داخل القلب ایمان

8

- ہدایت ، دین ِحق

10

- اللہ کی نعمتیں

11

- انسانی خیر خواہی

12

- جنت کی زندگی

14

- دانش مند کون

15

- تاریخی انتخاب

16

- خدا کی نشانیاں

17

- انصاف کا طریقہ

18

- اعلیٰ اخلاق

19

- موت کا واقعہ

20

- ;کلمات اللہ کا اظہار

21

- دشمن میں دوست

22

- شکر کی نفسیات میں جینا

23

- مشکل کے ساتھ آسانی

24

- مسائل کی دنیا

25

- شخصیت کاارتقا

26

- قرآن کو کتابِ مہجور بنانا

28

- ذہنی سکون

29

- تاریخ کا قانون

30

- انسان کی تخلیق

31

- قرآن کی زبان

32

- اعلیٰ انسان

33

- غیب پر یقین

34

- مزکىّٰ شخصیت

35

- زوجین کا اصول

36

- امت ِ وسط

37

- ربانی زندگی

38

- ایک اجتماعی حکم

39

- غیر سیاسی مشن

40

- کامیاب تدبیر ِکار

41

- توبہ کا طریقہ

42

- عمل بقدر استطاعت

43

- سیئہ کا حسنہ بن جانا

44

- امن کلچر

45

- تشدد کا خاتمہ

46

- زوالِ امت، اصلاحِ امت

48

- مبنی برشوریٰ نظام


حکمت ِ قرآن

قرآن میں کل ایک سو چودہ سورتیں ہیں- آیات قرآنی کی تعداد تقریباً ساڑھے چھ ہزار ہے- قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں قانونی احکام کی آیتیں بہت کم ملیں گی- آیتوں کی زیادہ تعداد وہ ہے جن میں حکمت یا نصیحت کی باتیں ہیں- یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن، کتابِ حکمت (book of wisdom) ہے، نہ کہ کتابِ احکام(book of commandment)-
اِس سلسلہ میں قرآن کی یہ آیت ایک رہنما آیت کی حیثیت رکھتی ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (38:29) یعنی یہ ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں- اس آیت سے قرآن کا اسلوب معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ ہدایت انسانی کے بنیادی اصولوں (fundamentals) کوبتانا تاکہ لوگ اس کی روشنی میں تخلیقِ خداوندی اور حیاتِ انسانی کے معاملات پر غور کریں اور اپنے لیے صراطِ مستقیم (right path) کو معلوم کریں-
قرآن کا مقصد قانونی دفعات کو بتانا نہیں ہے، بلکہ انسان کی قوت فہم کو متحرک کرنا ہے، تاکہ انسان کے اندر ذہنی ارتقا (intellectual development) کا عمل جاری ہو- قرآن میں اِس سلسلہ میں چھ ہم معنی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں — عقل، فؤاد، قلب، لُب، حِجْر، نُہی- یہ تمام الفاظ ذہن (mind) کے لیے استعمال ہوتے ہیں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا نشانہ انسان کا ذہن (mind) ہے- قرآن کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے اندر تفکر اور تدبر کی صلاحیت کو زندہ کیا جائے- انسان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ ذاتی سوچ (self-thinking) کے ذریعہ اپنے آپ کو ایک ارتقا یافتہ شخصیت (developed personality) کی صورت میں تعمیر کرے-
قرآن کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو غیب میں اپنے خالق کا مشاہدہ کرنے والا بنائے، تاکہ وہ شہود میں اپنے خالق کا مشاہدہ کرسکے-
واپس اوپر جائیں

قرآن، کتابِ تدبر

قرآن کی سورہ صٓ کی ایک آیت یہ ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (38:29)یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں- اس سے معلوم ہوا کہ قرآن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک فکری کتاب ہے، نہ کہ قانون وضوابط کی کتاب-
Quran is a book of thought, not a book of commandment.
اللہ نے انسان کو ذہن (mind) عطا کیا ہے، جو کہ لامحدود فکری صلاحیت کا مالک ہے- لیکن ذہن کو اپنے تفکیری عمل (intellectual process) کو درست طورپر جاری کرنے کے لیے ایک فکری گائڈ(intellectual guide) درکار تھی- قرآن اسی قسم کا ایک فکری گائڈ ہے، جو اس بات کا ضامن ہے کہ انسان کا تفکیری عمل بھٹکے بغیر درست سمت میں چلتا رہے- دنیا کی زندگی میں انسان کی سرگرمیوں کے لیے مختلف سمتیں ہیں- انسان ان سمتوں کو جان سکتا ہے، لیکن اپنی محدودیت کی بنا پر وہ اس پر قادر نہیں کہ وہ یہ جانے کہ اس کی سرگرمیوں کے فطری حدود کیا ہیں- اس کی سرگرمیوں کے لیے درست رخ کیا ہے- فطرت کے قانون کے مطابق کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے، اور کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں- زندگی کے راستوں میں اس کو کہاں تک چلنا ہے، اور کہاں ضرورت ہے کہ وہ اپنے قدم کو روک دے-
قرآن، آدمی کے لیے یہی گائڈ بک ہے- قرآن میں قانونی احکام کی تفصیل نہیں- قرآن کا سارا خطاب عقل (reason) سے ہے- قرآن کا نشانہ یہ ہے کہ انسان کی عقل کو تربیت دے کر اس کو اس قابل بنائے کہ وہ خود اپنی ذاتی فکر (self-thinking) کے ذریعہ اپنے اندر مطلوب ربانی شخصیت کی تعمیر کرے-
واپس اوپر جائیں

محبت خداوندی

قرآن کی سورہ البقرة میں اہلِ ایمان کی ایک صفت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ ۭ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ۭ (2:165) یعنی اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں- ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہئے- اور جو ایمان والے ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں-
قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ انسان کے اندر حب شدید (strong affection) صرف ایک اللہ کے لیے ہونا چاہئے- یہ حب شدید سادہ طور پر صرف عقیدہ کا معاملہ نہیں ہے- یہ دراصل اللہ کی اعلی معرفت کا معاملہ ہے- جب انسان کو گہرے مطالعہ اور گہرے تدبر کے نتیجہ میں اللہ کی اعلی دریافت ہوتی ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے تمام اعلی جذبات (sentiments) اللہ سے وابستہ ہو جاتے ہیں- وہ اپنے اندر اور اپنے باہر، ہر طرف اللہ کی عظمت (glory) کو دیکھنے لگتا ہے- وہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ ہر آن اس پر نعمتوں کی بارش کررہا ہے- یہ احساسات اس پر اتنی شدت سےطاری ہوتے ہیں کہ اللہ اس کو اپنا سب کچھ نظر آنے لگتا ہے- یہی وہ چیز ہے، جس کو مذکورہ آیت میں حبِّ شدید سے تعبیر کیاگیا ہے-
یہ حب شدید صرف ایک قلبی تعلق کا معاملہ نہیں ہے، وہ ایک ایسا تجربہ ہے جو آدمی کی پوری زندگی کے رخ کو بدل دیتا ہے، وہ آدمی کو ایک نئی راہ عمل عطا کرتا ہے، وہ آدمی کی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بن جاتا ہے- اللہ سے حب شدید کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی سوچ تمام تر اللہ کی تابع ہوجاتی ہے- ایسا انسان اللہ کے مشن کو اپنا مشن بنا لیتا ہے- وہ اللہ کے لیے جینے والا اور اللہ کے لیے مرنے والا بن جاتا ہے-آیت میں اللہ سے حب شدید کو خبر کے صیغے میں بتایا گیا ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان کے اندر اپنے خالق سے حبّ شدید ذاتی دریافت (self discovery) کے طور پر پیدا ہوتی ہے، نہ کہ ایک خارجی حکم کی قانونی پیروی کے طورپر-
واپس اوپر جائیں

داخل القلب ایمان

ایمان لانے والوں کے بارے میں قرآن کا ایک بیان یہ ہے: قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ۭ (49:14) یعنی اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، کہو کہ تم ایمان نہیں لائے- بلکہ یوں کہو کہ ہم نے اسلام قبول کیا، اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا-
اسلام کا آغاز کلمہ ایمان کے اقرار سے شروع ہوتا ہے، مگر اللہ کے نزدیک اتنا ہی کافی نہیں- آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِس لسانی سطح کے ایمان کو عقلی سطح کا ایمان بنائے- یہ گویا کلمہ گوئی کے بعد اس کی تکمیل ہے- اسی تکمیلی ایمان کو قرآن میں داخل القلب ایمان کہا گیاہے- اس آیت میں قلب سے مراد دل (heart) نہیں بلکہ قلب سے مراد ذہن (mind) ہے- داخل القلب ایمان کوئی پراسرار واقعہ نہیں، وہ مکمل معنوں میں ایک شعوری ارتقا کا معاملہ ہے-
اصل یہ ہے کہ قبول اسلام کے بعد انسان کی زندگی میں ایک فکری عمل (intellectual process) شروع ہوتا ہے جو اس کی آخری عمر تک جاری رہتا ہے -وہ قرآن میں تدبر کرتا ہے، وہ سنت رسول کا مطالعہ کرتاہے، وہ اپنے ہر تجربہ اور مشاہدہ پر غور وفکر کرتاہے، وہ زندگی کے تمام معاملات کا تجزیہ (analysis) کرتاہے- یہ ایک مسلسل تفکیری عمل ہے، جو شعور کی سطح پر مسلسل جاری رہتاہے-
اس عمل کو ایک لفظ میں مومنانہ غور وفکر کا عمل کہا جاسکتا ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر ایک ارتقا یافتہ ذہن (developed mind) تیار ہوتا ہے- اس طرح آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ ہر تجربہ کو اپنے ایمان کی غذا بنالے، وہ ہر کرائسس کو مینیج(manage)کرکے اس کو بے اثر کردے، وہ ہر منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کرلے، وہ ہر اختلاف پر غور کرکے اپنے اتحاد کو بدستور باقی رکھے-
واپس اوپر جائیں

ہدایت ، دین ِحق

قرآن کی سورہ التوبہ میں ایک تاریخی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۙ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (9:33)۔ یعنی اسی نے اپنے رسول کو بھیجا ہے ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس کو سارے دین پر غالب کردے، خواہ یہ شرک کرنے والوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔
قرآن کی اس آیت میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں، ہدیٰ اور دین حق۔ یہ دونوں لفظ ایک ہی حقیقت کے دو مختلف پہلو ہیں۔ ہدیٰ سے مراد خدا کا محفوظ ہدایت نامہ(preserved book of divine guidance)ہے، اور دین حق سے مراد اس حقیقت الہٰی کا ایک ثابت شدہ واقعہ (established fact) ہونا۔
جہاں تک ہدیٰ کا تعلق ہے، وہ نزول کے وقت ہی سے ایک محفوظ ہدایت نامہ ہے۔ اس میں اس اعتبار سے کسی اضافہ کی ضرورت نہیں۔ مگر جہاں تک اس کے دوسرے پہلو کا معاملہ ہے، وہ ایک لمبے تاریخی عمل کے دوران اپنی آخری تکمیل تک پہنچے گا۔اس عمل میں وہ لوگ بھی حصہ لیں گے، جو صاحب ایمان ہیں، اور وہ لوگ بھی بالواسطہ طور پر اس کا حصہ بنیں گے جو ایمان کا دعویٰ نہیں رکھتے۔
خدائی ہدایت کے محفوظ ہو نے کا معاملہ قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (15:9)۔ یعنی یہ یاددہانی (قرآن) ہم نے اتاری، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ قرآن کے متن کی یہ حفاظت اتنی کامل صورت میں ہوئی ہے کہ اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ حفاظت اولاً حفظ (memorization) کے ذریعہ ہوئی، اس کے بعد کاغذ پر کتاب کی صورت میںہوئی۔ اب یہ حفاظت مزید اضافہ کےساتھ انٹر نیٹ کے ذریعہ ہو رہی ہے۔
اس معاملے کا دوسرا پہلو، یعنی ہدایت ربانی (دین حق) کا براہین و حجج کے ذریعہ آخری حد تک مدلل ہونا بھی اب ایک واقعہ بن چکا ہے۔ اس واقعہ کی پیشگی اطلاع قرآن کی اس آیت میں دی گئی تھی: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (41:53) یعنی ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں جس چیز کو اظہارِ دین کہا گیا ہے، اس سے مراد یہی اظہار ہے۔ یہاں اظہار ِ دین میں کسی پولٹیکل غلبہ کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس سے وہ غلبہ مراد ہے، جو آئڈیالوجی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ یعنی حجج و براہین (عقلی دلائل) کے ذریعہ غلبہ۔ اظہار ِ دین بذریعہ دلائل کے دو دور ہیں، روایتی دور اور سائنسی دور۔ قدیم دور روایتی دور تھا۔ اس دور میں علما اور متکلمین نے اپنے زمانے کے عقلی معیار کے مطابق قرآن کومدلل بنایا، یہاں تک کہ ان کے معاصرین کو قرآن کی صداقت پر کوئی شبہ باقی نہ رہا۔
موجودہ زمانہ سائنس کا زمانہ ہے، اس دور کو عقل کا دور (age of reason) کہا جاتا ہے۔ اس دور میں بھی یہ واقعہ پیش آچکا ہے کہ جو نئے حقائق ظاہر ہوئے ہیں، انہوں نے کسی بھی درجہ میں قرآن کی صداقت کو مشتبہ نہیں کیا ہے، بلکہ انھوں نے قرآن کی صداقت کو از سرِ نو مزید مدلل بنا دیا ہے۔
موجودہ زمانہ علم کے انفجار (knowledge explosion) کا زمانہ ہے۔ نئی تحقیقات کے ذریعہ جو ڈاٹا (data)حاصل ہوا ہے، اس نے غور و فکر کے دائرے کو بہت بڑھا دیا ہے۔ اس طرح جو فریم ورک بنا ہے، وہ تمام تر ایک نیا اور وسیع تر فریم ورک ہے۔ اس نئے فریم ورک نے صرف یہ کیا ہے کہ اس نے اللہ کے دین کو زیادہ سمجھنے اور اس کو زیادہ یقین کے ساتھ اختیار کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی نعمتیں

قرآن کی سورہ نمبر 102 میں قیامت کا ذکر ہے- اس کے بعد یہ آیت آئی ہے: ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم (التکاثر: 8) یعنی پھر اس دن یقیناً تم سے نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا- اِس آیت میں نعمت (divine blessing) سے مراد وہ تمام مادی چیزیں ہیں، جن کے درمیان انسان زندگی گزارتا ہے، جن کے مجموعہ کو عام طورپر لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتا ہے- یہ ایک حقیقت ہےکہ ہر نعمت کے ساتھ جواب دہی (accountability) کا تصور شامل ہے- نعمت کا ملنا اپنے آپ میں اس بات کا ایک خاموش اعلان ہے کہ ایک دن آنے والا ہے، جب کہ انسان سے یہ پوچھا جائے گا کہ اس نے ان نعمتوں کے لیے منعم (giver) کا اعتراف کیا یا نہیں-
مگر یہ صرف خارجی نعمتوں کی بات نہیں- انسان کو اس کی اپنی ذات میں جو اعلی صفات دی گئی ہیں، وہ بھی اس کے لیے خدا کی نعمتیں ہیں- ان نعمتوں کے بارے میں بھی انسان سے پوچھا جائے گا کہ اس نے دنیا کی زندگی میں ان کا استعمال کس طرح کیا:
How did you utilize the qualities given to you by God?
انسان کو اس کی ذات کے اعتبار سے یا خارجی دنیا کے اعتبار سے جو چیزیں ملی ہیں، ان میں سے ہر چیز اس کے لیے عظیم نعمت (great blessing) ہے- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ چیزوں کو فار گرانٹیڈ (for granted) نہ لے، بلکہ وہ ان کو شعوری طورپر دریافت کرے- وہ ان نعمتوں کے لیے کامل معنوں میں خالق کا اعتراف کرے- وہ ان خدا داد نعمتوں کو نہ ضائع کرے، اور نہ ان کا غلط استعمال کرے، بلکہ وہ ان کا صحیح استعمال کرے- وہ دانش مندانہ منصوبہ (wise planning) کے ذریعہ ان کا درست استعمال کرے- اس معاملہ میں وہ خالق کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کو جانے، اور وہ اس کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتے ہوئے ان کا وہی استعمال کرے جو خالق کو مطلوب ہے- یہی کامیابی کا واحد راز ہے-
واپس اوپر جائیں

انسانی خیر خواہی

قرآن کی سورہ الاعراف میں پیغمبر کی زبان سے اپنے مدعو کے لئے یہ الفاظ آئے ہیں: وَاَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ (7:68)۔ یعنی اور میں تمھارا خیر خواہ اور امین ہوں۔ پیغمبر کی یہ خیر خواہی صرف اپنی قوم کے لئے نہیں ہوتی، بلکہ اس کی خیر خواہی تمام انسانوں کے لئے ہوتی ہے:
Well wishing for all mankind
خدا کی طرف سے جو پیغمبر دنیا میں آئے، ان سب کا مشن ایک تھا۔ اس پیغمبرانہ مشن کے دو بنیادی نکتے تھے،ایک اللہ کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنانا، اور بلاتفریق ہر انسان کا خیرخواہ ہونا۔ یہی مشن پچھلے تمام پیغمبروں کا تھا، اور پیغمبر آخر الزماں محمد ﷺ کا مشن بھی۔ اب امت محمدی کو ہر زمانے میں اسی مشن کو زندہ رکھنا ہے۔
اللہ کو اپنا کنسرن بنانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے شعور کو اتنا بیدار کرے کہ وہ دریافت (discovery) کے درجہ میں اللہ رب العالمین کی معرفت حاصل کرے۔ یہ معرفت اتنی زیادہ گہری ہو کہ وہ انسان کے پورے وجود کو اپنے رنگ میں رنگ لے۔ انسان کی پوری شخصیت اسی معرفت میں ڈھل جائے۔ اس کی سوچ اور اس کا قول و عمل اس کے عین مطابق ہو جائے۔ یہی وہ عارفانہ شخصیت ہے جس کو قرآن میں ربانی شخصیت (3:79)کہا گیا ہے۔
انسانی خیر خواہی وہ بنیادی اصول ہے، جس پر تمام انسانی تعلقات کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ اِس کے ذریعہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر انسان دوستی (human friendly behaviour) کا کردار بنتا ہے۔ سماج کا ہر فرد سماج کے لئے دینے والا ممبر (giver member) بن جاتا ہے۔ اپنی اصول پسندی کی بنا پر سماج کا ہر فرد قابل پیشین گوئی کردار (predictable character)کا حامل بن جاتا ہے۔ ہر انسان کے اندریہ مزاج پرورش پاتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرے ، جو سلوک وہ دوسروں سے اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی زندگی

قرآن کی سورہ فصلت میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت کے لئے جنت کی زندگی کیسی ہوگی۔ اس سلسلہ میں فرشتوں کی زبان سے ان کے لئے یہ الفاظ آئے ہیں: وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ (41:31)۔ یعنی اور تمھارے لئے وہاں وہ سب ہے، جس کو تمھارا دل چاہے، اور تمھارے لئے وہاں وہ سب ہے، جس کو تم طلب کرو۔
قرآن کی اس آیت میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں— اشتہاء اور ادعاء۔ اشتہاء کا مطلب ہے چاہنا (to desire)، اور ادعاء کا مطلب ہے طلب کرنا (to demand)۔ یہ دونوں الفاظ جنت کی دو مختلف نعمتوں کو بتارہے ہیں، اور وہ ہیں مادی نعمت اور فکری نعمت۔ اشتہاء میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں، جن کا تعلق مادی خواہش (material desire) سے ہے، اور ادعاء میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں ، جن کا تعلق ذہنی طلب (intellectual demand) سے ہے۔ جنت میں یہ دونوں قسم کی نعمتیں اہل جنت کو کامل درجے میں حاصل ہوں گی۔جب کہ موجودہ دنیا میں ان چیزوں کا حصول صرف محدود طور پر ممکن ہوتا ہے۔
انسان کی جو مادی خواہشیں ہیں، وہ اسے موجودہ دنیا میں بھی حاصل ہیں، لیکن صرف محدود طور پر۔ انسان اپنے پیدائشی مزاج کے اعتبار سے یہ چاہتا ہے کہ اس کی ہر خواہش اس کو لامحدود طور پر حاصل ہو۔ لیکن موجودہ عارضی دنیا میں خواہشات کی لامحدود تسکین ممکن نہیں۔ جنت میں یہ محدودیت ختم ہو جائے گی۔ جنت ایک لامحدود دنیا ہوگی۔ اس لئے وہاں اہل جنت کے لئے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ اپنی ہر خواہش کی تکمیل لامحدود طور پر حاصل کر سکیں۔یہی معاملہ انسان کی ذہنی طلب (intellectual demand)کا ہے۔ انسان کے اندر تفکیر (thinking) کی صلاحیت ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے تفکیری عمل (thinking process) کو لا محدود طور پر جاری کر سکے۔ مگر موجودہ دنیا میں جو دستیاب فریم ورک (available framework)ہے، وہ محدود فریم ورک ہے۔ اس لئے یہاں وہ اپنے تفکیری عمل کو صرف محدود طور پر جاری کر سکتا ہے- جنت میں یہ محدودیت ختم ہو جائے گی، اس لئے جنت میں اہل جنت کے لئے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ اپنے تفکیری عمل کو لا محدود طور پر جاری کر سکے۔
موجودہ دنیا میں ان کا تفکیری عمل زمان و مکان کے اندر (within space and time) جاری ہوتا ہے۔ جنت کی لامحدود دنیا میں ان کے تفکیری عمل کا زمان و مکان کے ما وراء (beyond space and time) جاری ہونا ممکن ہو جائے گا۔ موجودہ محدود دنیا میں یہ فکری نعمت ممکن نہیں، مگر جنت کی لامحدود دنیا میں یہ انوکھی فکری نعمت اہل جنت کے لئے آخری حد تک قابل حصول ہو جائے گی۔اسی طرح انسان کی ایک اور فکری طلب یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے درمیان رہے، جن کی ویو لینتھ (wavelength) ایک ہو، جو اپنے ذوق اور اپنی عادات کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کے حامل ہوں۔ ایسے اعلیٰ افراد پر مشتمل معیاری سماج (ideal society) موجودہ دنیا میں کبھی بن نہیں سکتا۔ موجودہ دنیا میں اعلیٰ افراد کا حصول ممکن ہے، لیکن اجتماعی سطح پر اعلیٰ سماج کا حصول ممکن نہیں۔
جنت، اہل حق کی اِسی طلب کا جواب ہے۔ جنت میں یہ ہوگا کہ اللہ اپنی قدرت سے پوری تاریخ کے منتخب اعلیٰ افراد کو یکجا کردے گا۔ اس بنا پر جنت حسن رفاقت کا سماج (النساء: 69) بن جائے گا۔ اس طرح جنت میں اہلِ جنت کی یہ طلب پوری ہو جائے گی۔ یہ منتخب افراد جنت میں اپنی پسند کا وہ اجتماعی ماحول اعلیٰ صورت میں پالیں گے، جو ان کا اجتماعی مطلوب تھا، لیکن دنیا کی زندگی میں اس کو پانا ان کے لئے ممکن نہ ہو سکا۔ آخرت میں اللہ کی خصوصی عنایت سے یہ ناممکن چیز ان کے لئے ممکن ہوجائے گی۔
جنت کی اسی نادر صفت کی بنا پر، جنت کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ۝۰ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (32:17) یعنی کوئی نہیں جانتا کہ ان لوگوں کے لئے ان کے اعمال کے صلہ میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے۔ اسی طرح ایک حدیث قدسی میں جنت کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: أعددت لعبادی الصالحین : ما لا عین رأت ، ولا أذن سمعت ، ولا خطر على قلب بشر (صحیح البخاری :3244) یعنی میں نے اپنے صالح بندوں کے لئے ایسی چیز تیار کر رکھی ہے، جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، اور نہ کسی کان نے سنا، اور نہ کسی دل میں اس کا خیال گزرا۔
واپس اوپر جائیں

دانش مند کون

قرآن کی سورہ النحل میں شہد کی مکھی (bee) کی مثال دی گئی ہے کہ وہ کس طرح سفر کرکے آتی ہے، اور پھول سے اس کا رس (nectar)لے کر واپس چلی جاتی ہے-اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ( 16:69) یعنی بے شک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو غور کرتے ہیں-
قرآن کی اس آیت میں نشانی سے مراد یہ ہے کہ اس واقعہ میں اہلِ فکرکے لیے سبق ہے- اس مثال میں ایک مادی واقعہ کے ذریعہ ایک غیر مادی سبق (non-material lesson) دیاگیا ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کوچاہئے کہ وہ شہد کی مکھی کی طرح ہر تجربہ سے ایک حکمت کی بات اخذ کرے-
To extract wisdom from every experience.
جس طرح شہد کی مکھی یہ کرتی ہے کہ وہ آس پاس کی دوسری تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے صرف ایک چیز کو دیکھتی ہے، اور وہ پھول کے اندر پایا جانے والا نکٹر کنٹنٹ (nectar content) ہے- اسی طرح دنیا کی تمام مادی چیزوں کے اندر ایک اسپریچول کنٹنٹ (spiritual content) موجود ہوتا ہے -
آدمی کو اتنا زیادہ تیار ذہن (prepared mind) ہونا چاہئے کہ وہ جس چیز کو دیکھے، اس پر جو تجربہ گزرے، ہر چیز سے اس کے سبق والے جزء کو اخذ کرلے- وہ آس پاس کی دوسری تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے صرف ایک چیز پر فوکس کرے، اور وہ چیزوں کے اندر سبق کا پہلو ہے- وہ چیزوں کے اندر سے ان کے سبق کے پہلو کو لے، اور اس کے بعد زندگی کے سفر میں آگے بڑھ جائے- جو شخص سبق کے اس پہلو کو لے سکے، وہی دانش مندآدمی ہے، اسی کے اندر اس اعلی شخصیت کی تعمیر ہوگی جس کو دانش مند شخصیت کہاجاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

تاریخی انتخاب

انسان کے بارے میں خدا کے تخلیقی نقشہ کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (67:2) یعنی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون حسن عمل والا ہے:
He created death and life so that He might test you, and find out which of you is best in conduct.
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کے بارے میں اس کے خالق کا تخلیقی نقشہ یہ ہے کہ عورت ا ور مرد کو مختلف حالات میں زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے، اور پھر ان افراد کا انتخاب کیا جائے جو زندگی کے مختلف احوال کے درمیان یہ ثابت کرتے ہوںکہ وہ اپنے قول وعمل میں اعلیٰ معیار پر قائم رہنے والے ہیں-
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے بارے میں خالق کا منصوبہ مبنی بر فرد منصوبہ ہے، نہ کہ مبنی بر مجموعہ منصوبہ- اِس نقشہ تخلیق کے مطابق پوری تاریخ سے ایسے افراد منتخب کیے جارہے ہیں، جو ہر آزمائش کے بعد حسن عمل کے معیار پر پورے اتریں- ایسے جو افراد پائے جائیں، ان کو پوری تاریخ سے منتخب کرلیا جائے گا، اور پھر ان منتخب افراد کو جنت کی معیاری دنیا میں بسادیا جائے گا، جہاں وہ ابدی طور پر خوشیوں کی زندگی گزاریںگے-
خالق کا تخلیقی منصوبہ یہ نہیں ہے کہ دنیا میں معیاری نظام قائم کیا جائے- حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں معیاری نظام (ideal system) کا قائم ہونا ممکن نہیں- یہاں صرف معیاری افراد بن سکتےہیں- یہی معیاری افراد خالق کا اصل مطلوب ہیں-
تاریخ کے خاتمہ پر ان معیاری افراد کو پورے انسانی مجموعہ سے منتخب کرلیا جائے گا- جنت انھیں منتخب افراد کے سماج کا نام ہے-
واپس اوپر جائیں

خدا کی نشانیاں

قرآن میں خالق کے ایک منصوبہ کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ۭ(41:53)یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خودان کے اندر بھی- یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے-
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں وسیع پیمانےپر خدائی صداقت کی نشانیاں (signs) موجود تھیں، لیکن وہ بالقوہ (potential) حالت میں پائی جاتی تھیں- خدا کو یہ مطلوب تھا کہ اِس بالقوہ کو بالفعل (actual) بنایا جائے- جب ایسا ہوگا تو قرآن کا پیغام سائنسی طور پر ایک ثابت شدہ پیغام بن جائے گا-
مذکورہ آیت میں اس واقعہ کو اللہ کی طرف منسوب کیاگیا ہے- مگر یہ اسلوب کی بات ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں کچھ ایسے افراد اٹھیں گے جو اس امکان کو واقعہ بنائیں گے، اور اس طرح یہ ہوگاکہ قرآن کی آئیڈیالوجی صرف ایک نظری صداقت نہ رہے گی بلکہ وہ علمی طورپر ایک ثابت شدہ صداقت (established fact) بن جائے گی-
فطرت (nature) کے اندر چھپے ہوئے اس امکان کو واقعہ بنانے کا کام انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مکمل طورپر انجام پاچکا ہے- یہ واقعہ مغرب کے سائنس دانوں نے اپنی تحقیقات کے ذریعہ انجام دیا ہے- قرآن میں جو چیزیں بطور اشارہ بیان کی گئی تھیں، وہ اب معلوم حقیقت بن چکی ہیں- اب عالمِ اصغر (micro world)اور عالم اکبر (macro world) دونوں کے اندر چھپی ہوئی نشانیاں پوری طرح انسان کے علم میں آچکی ہیں- دور جدید کا یہی واقعہ ہے جس کی پیشگی خبر قرآن میں کی گئی تھی- یہ سائنسی واقعہ ایک تائید ِ دین کا واقعہ ہے- حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کے حق میں یہ تائیدی واقعہ زیادہ تر سیکولر اہلِ علم کے ذریعہ انجام پائے گا- (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 3062)
واپس اوپر جائیں

انصاف کا طریقہ

قرآن کی سورہ الحدیدکی ایک آیت یہ ہے: لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۚ( 57:25) یعنی ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ اتاری کتاب اور ترازو، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں-
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ خالق کے نقشہ کے مطابق انصاف پیروی کرنے کی چیز ہے، نہ کہ نافذ کرنےکی چیز:
Justice is a subject of following rather than a subject of implementation.
اصل یہ ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے مکمل آزادی عطا کی ہے- انسان کوئی کام اسی وقت کرتاہے جب کہ وہ خود اس کو کرنا چاہتا ہو- جس کام کے لیے آدمی کے اندر محرک (incentive) موجود نہ ہو، اس کو قانونی حکم یا سیاسی طاقت کے ذریعہ اس کے درمیان نافذ نہیں کیا جاسکتا-
یہ بلا شبہہ ایک مطلوب چیز ہے کہ لوگ اپنے قول وعمل میں انصاف (justice) کی پیروی کریں- وہی سماج ایک بہتر سماج ہے جس کے افراد کے اندر یہ اسپرٹ زندہ ہو- لیکن یہ اسپرٹ تعلیم وتربیت کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے، نہ کہ سیاسی طاقت کے ذریعہ- اس لیے قرآن کا سارا زور اس پر ہے کہ افراد کے اندر انصاف کا شعور پیدا کیا جائے، افراد کے اندر انصاف پر عمل کرنے کا داعیہ (incentive) پیداکیا جائے-انصاف کو اگر افراد کی تعلیم وتربیت کاموضوع بنایا جائے تو ایسی کوشش ہمیشہ مطلوب نتیجہ تک پہنچے گی- لیکن اگر انصاف کو طاقت کے زور پر نفاذ(implementation) کا موضوع بنایا جائے تو اس کے نتیجہ میں جو چیز وجود میں آئے گی، وہ انصاف نہ ہوگا بلکہ صرف ظلم وفساد ہوگا- اس دنیا میں کوئی چیز صرف اس وقت درست طور پر حاصل کی جاسکتی ہے، جب اس کو خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan)کے مطابق حاصل کرنے کی کوشش کی جائے- کوئی دوسرا طریقہ اس دنیا میں نتیجہ خیز ہونے والا نہیں-
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ اخلاق

قرآن کی سورہ القلم میں پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَإنَّکَ لَعَلٰٓی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ( 68:4) یعنی اور بے شک تم ایک اعلیٰ اخلاق پر ہو- قرآن کی اس آیت میں پیغمبر کے حوالے سے تمام انسانوں کو بتایا گیا ہے کہ ہر عورت اور مرد کو چاہئے کہ وہ اس دنیا میں اعلیٰ اخلاق کے ساتھ رہے-
Living with a high level of character
اعلیٰ اخلاق کیاہے- اس سے مراد اعلیٰ انسانی اوصاف ہیں- اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا نشانہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ایک ترقی یافتہ شخصیت (developed personality) کی تعمیر کرے- پیدائشی طورپر انسان کے اندر تمام اعلیٰ اوصاف موجود ہیں- مگر وہ پوٹینشیل (potential)کے روپ میں ہیں- یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے فطری پوٹینشیل کو ایک عملی واقعہ بنائے-
یہ کام اعلیٰ اخلاق کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے- اس دنیا میں انسان کو مسائل کے درمیان رہنا پڑتاہے- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ان مسائل کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھے- انسان کو اس دنیا میں بار بار منفی تجربات (negative experiences) پیش آتے ہیں- ضرورت ہے کہ انسان اس منفی تجربہ کو مثبت تجربہ بنائے- اس دنیا میںانسان کو طرح طرح کے نقصان اٹھانے پڑتے ہیں، انسان کو چاہئے کہ وہ ان نقصانات کو بھلائے، اور ہر بار نئے حوصلہ کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرے- اس دنیا میں انسان کو وہ نہیں ملتا جس کو وہ چاہتا ہے، ایسی حالت میں انسان کو چاہئے کہ وہ ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ (art of adjustment) سیکھے-
انہی اوصاف کا نام اعلیٰ اخلاق (high morality)ہے- یہی اس دنیا میں انسان کے لیے مقرر نقشۂ حیات ہے-آدمی کو چاہئے کہ وہ اس مقرر نقشۂ حیات کی کامل پیروی کرے- یہی اِس دنیا میں کامیابی کا واحد راستہ ہے-
واپس اوپر جائیں

موت کا واقعہ

قرآن کی کئی آیتوں میںموت کا ذکر ہے- ایک آیت یہ ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(29:57) یعنی ہر انسان کو موت کا مزہ چکھناہے- پھر تم ہماری طرف لوٹائے جاؤگے:
Every soul will taste death and then to Us you shall return.
موت ہر آدمی کے لیے ایک لازمی تجربہ ہے- موت کیا ہے؟ موت، آدمی اور اس کی بنائی ہوئی دنیا کے درمیان کامل انقطاع (total detachment) کردینے والی ہے، ایک ایسا انقطاع جس کے بعد انسان کے لیے اپنی دنیا کی طرف دوبارہ لوٹنا ممکن نہ ہوگا- یہ موت کے واقعہ کا ایک ایسا پہلو ہے جو ہر عورت اور مرد کو ہلا دینے والا ہے- انسان کی اوسط عمر تقریباً ستر سال ہے- ہر آدمی عملاً اپنی عمر کا صرف ایک استعمال کرتا ہے، اور وہ ہے اپنے لیے یہاں ایک دنیا بنانا- مگر موت ایک لمحہ کے اندر آدمی کو اس کی بنائی ہوئی دنیاسے جدا کردیتی ہے-
موت ہر آدمی کے لیے ایک جبری یاد دہانی (compulsory reminder) ہے، اس بات کی یاد دہانی کہ انسان کی منزل (destination) کوئی اور ہے- موجودہ دنیا سے اس کا جبری انخلاء (compulsory eviction)ہونے والا ہے- اس کے بعد وہ اپنے خالق کی طرف لوٹایا جائے گا- وہ جہاں سے آیا تھا وہیں وہ دوبارہ چلا جائے گا-
قرآن اسی حتمی واقعہ (fatal event) کو یاد دلانے والی کتاب ہے، کچھ آیتوں میں براہِ راست طورپر، تو کچھ آیتوں میں بالواسطہ طورپر- قرآن کا پیغام یہ ہے کہ اپنی زندگی کے اس حتمی واقعہ کو بہت زیادہ یاد کرو- یہاں تک کہ تمھاری سوچ موت رخی سوچ بن جائے، نہ کہ حیات رخی سوچ- تم قبل ازموت دور (pre-death period) میں بعد ازموت دور (post-death period) کے لیے تیاری کو اپنا مقصد حیات بنا لو-قرآن سے اسی مسلسل تعلق کو حدیث میں تعاہد کہاگیاہے-
واپس اوپر جائیں

کلمات اللہ کا اظہار

قرآن کی دو آیتوں میں ایک مشترک مفہوم بیان ہوا ہے- ان میں سے ایک آیت یہ ہے: وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (31:27) یعنی اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزید سمندروں کے ساتھ،روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی- بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے-
قرآن کی اِس آیت اور دوسری ہم مضمون آیت (18:109) میں جس حقیقت کا بیان ہے وہ کوئی پراسرار خبر نہیں، بلکہ وہ ایک ایسا واقعہ ہے، جس کو ’’قلم‘‘ کے ذریعہ پیش آنا ہے، اور وہ ہے کلمات اللہ کو دریافت کرکے ان کو قلم بند کرنا- وہ ظاہرہ جس کو موجودہ دنیا میں جدید تہذیب (modern civilization) کہاجاتا ہے، وہ اسی کلمات اللہ کی انفولڈنگ (unfolding)کا آغاز ہے- کلمات اللہ کی بقیہ انفولڈنگ کا تسلسل جنت میں جاری رہے گا- یہ بلا شبہہ اہل جنت کا سب سے زیادہ لذیذ مشغلہ ہوگا- کلمات اللہ یا آلاء اللہ کی تعداد لامحدود ہے، اس لیے تہذیب کا یہ جنتی فیز(phase) ابد تک جاری رہے گا-
موجودہ دنیوی تہذیب کے مقابلہ میں یہ جنتی تہذیب کادور ہوگا- انسان کی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے لیے سب سے زیادہ تھرلنگ تجربہ (thrilling experience) وہ ہے جس کو دریافت (discovery) کہاجاتا ہے- کلمات اللہ کی دریافت اور ان کو اعلیٰ وسائل کے ذریعہ مرتب کرنا، یہی وہ غیر معمولی عمل ہے جس کو قرآن میں شغل فاکہہ (36:55) کہاگیا ہے، یعنی لذیذ مشغلہ (enjoyable activities) - یہ لذیذ ’’قلمی عمل‘‘ کوئی سادہ عمل نہ ہوگا، وہ جنت کی معیاری دنیا کے انتہائی اعلیٰ وسائل کے ذریعہ انجام پائے گا- جنت کا آئیڈیل ماحول اور جنت کے معیاری وسائل اس کام کو اہلِ جنت کے لیے ناقابلِ قیاس حد تک پر مسرت بنا دیں گے-
واپس اوپر جائیں

دشمن میں دوست

قرآن کی سورہ فصلت میں زندگی کا ایک قانون ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَةٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ( 41:34) یعنی اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کرو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی قریبی دوست-
قرآن کی اس آیت کے مطابق کوئی انسان پیدائشی طورپر دوست یا دشمن نہیں ہوتا، بلکہ حالات کے تحت وہ کسی کا دوست اور کسی کا دشمن بن جاتاہے- دوستی اور دشمنی سب حالات پر منحصر ہے، اور حالات کو بنانے والا انسان ہے- کوئی آدمی اپنے گرد جیسے حالات بنائے گا، اس کے مطابق دوسروں کے ساتھ اس کے تعلقات قائم ہوں گے-اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بظاہر آپ کا دشمن ہے، وہ امکانی طورپر آپ کا دوست ہے- انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ ایک موجود امکان کو واقعہ بنائے- اس کے بعد وہ دیکھے گا کہ جس شخص کو وہ اپنا دشمن سمجھے ہوئے تھا، وہ اس کا قریبی دوست بن گیا ہے-
Every enemy is your potential friend, you have to turn this potential into actual.
لوگوں کو اپنا دشمن سمجھنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی نفرت اور شکایت میں جینے لگتا ہے- اس کے ذہن میں منفی سوچ (negative thinking)آجاتی ہے- آخر کار یہ ہوتاہے کہ وہ مثبت سوچ (positive thinking) سے محروم ہوجاتا ہے، جب کہ مثبت سوچ ہر قسم کی انسانی ترقیوں کے لیے پہلی شرط ہے- اس دنیا میں اعلی ترقی صرف اس انسان کو ملتی ہے، جو دوسروں کے بارے میں خیر خواہی (well wishing) کی نفسیات میں جیتاہو- جو دوسروں کو اپنا سمجھے نہ کہ غیر، جو دوسروں کو اپنی قوم کا حصہ سمجھے نہ کہ غیر قوم کا حصہ، جو دوسروں کے لیے وہی چاہے جو وہ خود اپنے لیے چاہتا ہے، اور یہ تمام چیزیں صرف مثبت ذہن کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں-
واپس اوپر جائیں

شکر کی نفسیات میں جینا

مسلمان ہر روز اپنی نماز میں قرآن کی یہ آیت پڑھتے ہیں: الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (1:1) یعنی ساری حمد صرف اللہ کے لیے ہے جوسارے عالَم کا رب ہے- حمد کی حقیقت شکر ہے- ساری حمد اللہ کے لیے ہے ،کا مطلب یہ ہے کہ سارا شکر اللہ کے لیے ہے-
قرآن کی اس آیت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اس کو صرف زبان سے پڑھ دیا جائے، بلکہ وہ ایک تربیت کا کلمہ ہے- وہ ہر روز مسلمان کو ایک حقیقت کی یاد دلاتاہے- وہ یہ کہ انسان کو چاہئے کہ وہ روزانہ پیش آنے والے واقعات پر غور کرے- وہ واقعات کی ایسی مثبت توجیہہ (positive explanation) تلاش کرے، جو اس کو ہر حال میں شکر کرنے والا انسان بنا دے، وہ ہردن اس احساس سے بھرا رہے کہ کائنات کا خالق ایک نہایت مہربان خالق ہے، وہ ہر وقت خالق کے لیے اور تمام انسانوں کے لیے شکر واعتراف کا رسپانس (response) دیتا رہے-
قرآن کی یہ آیت مومن کی حقیقی تصویر کو بتارہی ہے- سچا مومن وہ ہے جو الحمد للّٰہ کی نفسیات میں جیے- اس کے برعکس جو انسان لا حَمدَ للّٰہ کی نفسیات میں جیتا ہو، وہ سچا مومن نہیں- وہ زبان سے تو الحمد للّٰہ کہتا ہے، لیکن اس کا دل عملاً یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ لا حَمدَ للّٰہ- یہ نفسیات منافقت کی نفسیات ہے، نہ کہ ایمان کی نفسیات-
اس معاملہ کا تعلق حالات کی توجیہہ سے ہے- جو آدمی حالات کی مثبت توجیہہ کرے، وہ الحمد للّٰہ کی نفسیات میں جیے گا، اور جو آدمی حالات کی مثبت توجیہہ نہ کرسکے، وہ لاحَمدَ لِلّٰہ کی نفسیات میں جینے والا انسان بن جائے گا- الحمد للّٰہشکر کا کلمہ ہے اور لاحَمدَ لِلّٰہ ناشکری کا کلمہ-گویا کہ الحمد للّٰہکہنے سے پہلے ایک اور چیز مطلوب ہے،اور وہ ہے الحمد للّٰہکی شعوری معرفت-جو آدمی الحمد للّٰہکہنے سے پہلے اس کی شعوری معرفت حاصل کرچکا ہو، وہی درست طورپر الحمد للہ کہے گا، اور جو آدمی اس شعوری معرفت سے خالی ہو، اس کی زندگی میں الحمد للہ ایک حقیقت کے طورپر شامل نہیں ہوسکتا-
واپس اوپر جائیں

مشکل کے ساتھ آسانی

قرآن میں فطرت کا ایک قانون ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے: فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۝ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (94:5-6)یعنی پس مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے- یعنی زندگی میں ہر پرابلم کے ساتھ نیا موقع (opportunity) ہے- یہ دونوں چیزیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتیں-
قرآن کی اس آیت میں مع العسر کا لفظ ہے نہ کہ بعد العسر کا لفظ- اس کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ پہلے مشکل آتی ہے، اس کے بعد آسانی آتی ہے- بلکہ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو عین اسی وقت اور اسی کے ساتھ آسانی بھی ضرور آتی ہے- دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسئلہ جب آتاہے تو اپنے ساتھ مواقع بھی ضرور لاتا ہے:
With every problem, there are opportunities.
فطرت کا یہ اصول، ایک عام اصول ہے- وہ فرد کے لیے بھی ہے اور قوم کے لیے بھی-فرد اور قوم دونوں کو ایسا کرنا چاہئے کہ جب ان کی زندگی میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ رد عمل (reaction) کا طریقہ اختیار نہ کرے، بلکہ مشکل کو ایک نارمل واقعہ سمجھے اور ساری توجہ اس بات پر لگادے کہ فطرت کے نظام کے مطابق وہ کون سے مواقع ہیں جو اس مشکل کے ساتھ ہمارے لیے آئے ہیں-
آدمی کو فطرت کے اس قانون کا شعور ہو تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ پیش آمدہ صورت حال میں کبھی منفی سوچ میں مبتلا نہ ہوگا، اور نہ مایوسی کا شکار ہوگا- وہ ہر حال میں اپنے اعتدال کو باقی رکھے گا- وہ ہر حال میں نارمل ذہن کے ساتھ حالات پر غور کرے گا، اور نئے مواقع کو استعمال کرکے ان کو اَویل (avail) کرے گا، اور بہت جلد ایک نئی ترقی کی اونچائی پر پہنچ جائے گا-موجودہ زمانے میں جو لوگ ٹکراؤ کا کلچر چلارہے ہیں ا ن کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انھوں نے مسائل کو دریافت کیا، لیکن وہ مواقع کو دریافت نہ کرسکے- اگر وہ اس کو جانتے تو اپنی ساری توانائی مواقع کے استعمال میں لگا دیتے-
واپس اوپر جائیں

مسائل کی دنیا

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ زمین وآسمان (کائنات) کو اللہ نے بہترین تخلیق پر پیدا کیا ہے - ساری کائنات میں تم کہیں کوئی نقص یا فطور (flaw)نہیں پاؤگے( 67:3) - ایک طرف کائنات کے بارے میں قرآن کا یہ بیان ہے، اور دوسری طرف انسان کے بارے میں قرآن بتاتا ہے کہ انسان کو مشقت یا کبد ( 90:4) میں پیدا کیا گیا - پوری تاریخ کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ انسان کا کیس خسر (العصر) کا کیس ہے، یعنی گھاٹا (loss) کا کیس- انسانی دنیا اور بقیہ دنیا میں یہ فرق کیوں-
حقیقت یہ ہے کہ انسانی وجود سے لے کر عالم کائنات تک پوری تخلیق بہترین تخلیق پر پیدا کی گئی ہے- خالق کی تخلیق میں creation کے اعتبار سےپورے عالم کائنات میں کہیں کوئی ذاتی نقص (defect) موجود نہیں- نقص یا فساد (evil) صرف انسانی سماج میں پایا جاتاہے، جسے انسان خود اپنی سرگرمیوں سے وجود میں لاتاہے- اس کا سبب یہ ہے کہ انسان پیدائشی طورپر آزاد ہے- یہ انسانی آزادی کا غلط استعمال ہے، جس کی وجہ سے انسانی دنیا میں وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو فلاسفہ خرابی کا مسئلہ (problem of evil) کہتے ہیں-
انسانی دنیا کا مسائل کی دنیا (world of problems) ہونا کوئی نقص کی بات نہیں- اس معاملہ کا ایک مثبت پہلو (positive aspect) ہے- ان مسائل کی وجہ سے دنیا میں چیلنج کی صورت حال پیدا ہوتی ہےاور تمام انسانی ترقیاں ہمیشہ چیلنج کے ذریعہ ظہور میں آتی ہیں- انسان کو اس کے خالق نے لامحدود پوٹینشیل (potential) کے ساتھ پیدا کیا ہے- اس پوٹینشیل کو ایکچول(actual) بنانا صرف چیلنج کے حالات میں ممکن ہے- اگر چیلنج نہ ہو تو انسان کی شخصیت میں چھپے ہوئے امکانات ظہور میں نہیں آئیں گے، انسانی ارتقا کا عمل مکمل طورپر رک جائے گا، انسان اپنی تکمیل سے محروم رہ جائے گا-
واپس اوپر جائیں

شخصیت کاارتقا

قرآن کی ایک اصطلاح تزکیہ ہے- انسانی فلاح کا ذریعہ قرآن میں تزکیہ ( 91:9-10) کو بتایا گیاہے- قرآن کے مطابق جنت کی اعلی دنیا میں صرف ان افراد کو داخلہ ملے گا جنھوں نے موجودہ دنیا میں اپنا تزکیہ ( 20:76) کیا تھا-
تزکیہ کا لفظی مطلب تطہیر (purification) ہے- جس طرح خام لوہا (ore) مختلف قسم کے شدید مراحل سے گزر کر ایک با معنی مشین کی صورت اختیار کرتاہے، اسی طرح انسان کی شخصیت بھی مختلف قسم کے شدید مراحل سے گزر کر ایک مزکی شخصیت (purified soul) کی صورت اختیار کرتی ہے-
یہ شدید مراحل کیا ہیں، یہ شدید مراحل وہ ہیں جب کہ انسان کو غیر مطلوب حالات سے سابقہ پیش آتا ہے- یہ غیر مطلوب حالات وہ مواقع ہیں، جن سے گزرتے ہوئے انسان اپنی شخصیت کی تعمیر کرتاہے-
جب انسان کی ایگو پر ضرب لگے اور وہ عدل پر قائم رہے، جب انسان کو غصہ آئے اور وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرلے، جب انسان کو کوئی بڑائی ملے لیکن وہ متواضع (modest) بنا رہے، جب انسان کےاندر انتقام کی آگ بھڑکے اور وہ اپنے اندر ہی اندر اس آگ کو بجھا دے، جب انسان کے اندر کسی کے خلاف نفرت جاگ اٹھے اور وہ پھر بھی اس کے لیے اپنی خیر خواہی کو باقی رکھے، جب انسان پر کوئی دباؤ نہ ہو، اس کے باوجود وہ اعتراف (acknowledgement) کا ثبوت دے، وغیرہ- یہی وہ مواقع ہیں جو انسان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انسان کے اندر اعلی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں-
یہ مواقع معتدل حالات میں پیدا نہیں ہوسکتے، یہ صرف غیر معمولی حالات (abnormal situation) میں پیداہوتے ہیں- قرآن کے مطابق اس امتحان میں وہی شخص کامیاب ہوسکتا ہے جس کے اندر صبر کی صفت پائی جائے ( 41:35)-
واپس اوپر جائیں

قرآن کو کتابِ مہجور بنانا

قرآن کی سورہ الفرقان کی ایک آیت یہ ہے: وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا (25:30) یعنی اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو ایک چھوڑی ہوئی کتاب بنادیا-
قیامت میں ہر پیغمبر اپنی امت کے بارے میں شہادت دے گا- مذکورہ آیت میں اُس شہادت کا ذکر ہے، جو پیغمبر اسلام اپنی امت کی بعد کی حالت کے بارے میں قیامت میں دیں گے- آپ قیامت میں بتائیں گے کہ میں نے اپنی امت کو قرآن پر قائم کیا تھا- لیکن بعد کے زمانے میں میری امت نے قرآن کو ایک چھوڑی ہوئی کتاب (discarded book) بنا دیا- ایسا اس لئے ہوگا تاکہ امت کے بگاڑ کا الزام پیغمبر پر نہ آئے- یہ کوئی انوکھی بات نہیں - یہ وہی بات ہے، جو ہر امت کے ساتھ پیش آئی، اور امتِ محمدی کے ساتھ بھی اس کے دور زوال میں پیش آئے گی-یہ قیامت کا ایک معاملہ ہے، اس کو پیشگی طورپر یہاں ذکر کیا گیا تاکہ لوگ متنبہ ہوں، اور اگر مجموعہ نہیں تو کم ازکم افراد اس انجام سے اپنے کو بچالیں-بعد کے زمانے میں امت محمدی کا عین یہی حال ہوا- رسول اللہ نےامت کے تین ادوار کو قرون مشہود لہا بالخیر کہا تھا، یعنی دورِ رسالت، دورِ صحابہ، دورِ تابعی- اس کے بعد دھیرے دھیرے امت کےاندر فقہ کا ڈیولپمنٹ ہوا- اب امت محمدی جس دین پر کھڑی ہوئی ہے، وہ عملاً قرآن کا دین نہیں ہے بلکہ فقہ کا دین ہے- امت نے قرآن کے دین کو چھوڑ کر فقہ کا دین اختیار کرلیا ہے-
مثلاً قرآن کا مطالعہ کیجئے تو اس میں عبادت خشوع اور تقوی کی چیز نظر آئے گی، یعنی روح (spirit) کی چیز- لیکن بعد کو وضع ہونے والی فقہ میں عبادت مکمل طورپر ایک مبنی بر فارم عمل (form based practice)بن گئی- قرآن کے مطابق ساری دنیا دارالانسان تھی، لیکن فقہ میں دنیا کو دو حصوں میں بانٹ دیاگیا— دار الکفر، دارالحرب- قرآن میں جہاد ،جہاد بالقرآن (25:52) کا نام ہے، مگر فقہ نے جہاد کو جہاد بالسیف کے ہم معنی بنا دیا-
یہی معاملہ پورے فقہی نظام کا ہے- قرآن میں تفکر اور تدبر اور تعقل کو اہم ترین درجہ دیاگیا ہے، لیکن فقہ میں اس مضمون کا کوئی باب موجود نہیں- قرآن کے اعتبار سے معرفت اور دعوت دین کا ستون ہے، مگر فقہ میں معرفت اور دعوت کے ابواب حذف ہیں- فقہ میںاتفاق رائے سے یہ مسئلہ وضع کیاگیا کہ شاتم رسول کو بطور حد قتل کردیا جائے، مگر قرآن میں سرے سے اس مسئلہ کا کوئی ذکر نہیں- فقہ میں یہ قانونی دفع شامل کی گئی کہ ارتداد کرنے والے کو قتل کردیا جائے، مگر قرآن میں کوئی ایسا حکم سرے سے موجود نہیں، وغیرہ-
یہ فقہ رسول اللہ کے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد عباسی دور میں ڈیولپ ہوئی- اس فقہ کے واضعین کو امام اور مجتہد کہاجانے لگا- اعلان کے ساتھ یا بلا اعلان، یہ سمجھا جانے لگا کہ فقہا نے قرآن کے احکام کو فقہ میں تفصیل کے ساتھ مدون کردیا ہے- اب امت کو اپنا دین فقہ سے اخذ کرنا ہے- اس طرح بعد کو تیار ہونے والی فقہ، دین کا ماخذ بن گئی، اور قرآن عملاً برکت اور تلاوت کی کتاب بن گیا-
یہی وہ صورت حال ہے جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں اس طرح بیان کیاگیاہے کہ قیامت میں جب تمام پیغمبر اپنی اپنی امتوں کے بارے میں یہ بتائیں گے کہ انھوںنے اپنی امت کو وہی دین دیا تھا جو اللہ نے ان پر نازل کیا تھا، لیکن بعد کے زمانے میں امت نے دین کا ایک خود ساختہ ورژن (version)تیار کرلیا، اور دین کے نام پر اس پر قائم ہوگئے- یہی معاملہ خود پیغمبر اسلام کے ساتھ پیش آئے گا- حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے اپنی امت کے بارے میں فرمایا: لتتبعن سنن من کان قبلکم (صحیح البخاری: 7320)- یہ ایک پیشگی خبر تھی جو حرف بحرف پوری ہوئی- امت محمدی نے اپنے زوال کے دور میں وہی کیا، جو پچھلے پیغمبروں کی امتوں نے اپنے زوال کے زمانے میں کیا تھا- البتہ یہاں ایک فرق ہے، وہ یہ کہ پیغمبر اسلام کا لایا ہوا قرآن پوری طرح محفوظ ہے، آپ کی سنت بھی پوری طرح محفوظ ہے- اس طرح یہ امکان ہمیشہ باقی رہے گا کہ قرآن وسنت کے مطالعہ سے دین محمدی کو دوبارہ دریافت کیاجائے، اور اس کو اصل صورت میں اختیار کیا جائے- قرآن وسنت کا محفوظ ہونا، اس بات کی ضمانت ہے کہ مجموعہ کی سطح پر خواہ بگاڑ آجائے، لیکن افراد کی سطح پر ہمیشہ امت میں ایسے افراد موجود رہیں گے، جو اصل دین کو دوبارہ دریافت کریں، اور اس کے کامل پیرو بن جائیں-
واپس اوپر جائیں

ذہنی سکون

قرآن کی سورہ الرعد کی ایک آیت یہ ہے: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ۭ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ( 13:28) یعنی وہ لوگ جو ایمان لائےاور جن کے دل اللہ کی یاد سے مطمئن ہوتے ہیں- سنو، اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے- قرآن کی اس آیت میں اطمینان قلب سے مراد ذہنی سکون (peace of mind) ہے- انسان جب ذہنی سکون سے محروم ہوتا ہے تو اس کا سبب صرف ایک ہوتاہے، اور وہ ہے خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) پر راضی نہ ہونا- انسان جب خدا کے تخلیقی نقشہ پر راضی ہوجائے تو اسی کا نام ذہنی سکون ہے، اور جب خدا کے تخلیقی نقشہ پر راضی نہ ہو تو اس سے وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو ذہنی سکون سے محرومی کہاجاتا ہے-
اصل یہ ہے کہ انسان ایک آزاد مخلوق ہے- اس کے اندر ذاتی سوچ (self-thinking) کی صلاحیت پائی جاتی ہے- وہ چاہتا ہے کہ دنیا اس کی سوچ سے مطابقت کرے- وہ اپنی خواہش کے مطابق ایک دنیا بنائے، اور اس کے اندر وہ زندگی گزارے-مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا- اس لیے وہ ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوجاتاہے- انسان کے سوا جو دنیا ہے، اس میں ہر جگہ امن (peace) پایا جاتاہے- اس کا سبب یہ ہے کہ بقیہ دنیا مکمل طورپر خالق کے آگے سرینڈر کئے ہوئے ہے- انسان اپنی آزادی کی بنا پر خالق کے آگے سرینڈر کرنا نہیں چاہتا، یہی غیر مطابقت وہ چیز ہے جو انسان کو اطمینانِ قلب سے محروم کردیتی ہے-
اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ انسان اپنے شعور کو اتنا زیادہ ترقی یافتہ بنائے کہ وہ خدائی تخلیق کی حکمت کو سمجھ سکے- اس کا ذاتی شعور خدا کے برتر شعور سے ہم آہنگ ہوجائے- جو آدمی ذہنی ارتقا (intellectual development)کی اس سطح تک پہنچ جائے، وہ کائنات کی اس حقیقت (reality) کو شعوری طورپر دریافت کرلے گا اور پھر وہ بھی اسی طرح خالق کے آگے سرینڈر کردے گا جس طرح بقیہ کائنات خالق کے آگے سرینڈر کئے ہوئے ہے- یہی وہ روش ہے جس کے نتیجہ کا نام اطمینان قلب یا ذہنی سکون ہے-
واپس اوپر جائیں

تاریخ کا قانون

انسانی تاریخ کے بارے میں خدا وند عالم کا ایک قانون ہے- اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ ۭ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ۚ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَاۗءَ ۭ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ (3:140) یعنی اگر تم کو کوئی زخم پہنچے تو مقابل قوم کو بھی ویسا ہی زخم پہنچا ہے، اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہـتے ہیں، تاکہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو گواہ بنائے اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا-
اِس آیت میں اس صورت حال کا ذکر ہے کہ فتح وشکست یا غلبہ اور مغلوبیت کے معاملہ کے حالات کبھی یکساں نہیں ہوتے- کبھی ایک قوم کو غلبہ ملتاہے اور کبھی دوسری قوم کو- یہ اتفاقی بات نہیں ہے- یہ خالق کے انتظام کا معاملہ ہے- انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، خالق انسانی تاریخ کا اس طرح نظم کررہا ہے:
Managing history while maintaining human freedom
اصل یہ ہےکہ دوسری چیزوں کی طرح غلبہ بھی امتحان کا ایک پرچہ ہے- چنانچہ کبھی ایک گروہ کو غلبہ دے کر اس کا امتحان لیا جاتا ہے، اور کبھی دوسرے گروہ کو- غلبہ کے معاملہ میں کسی ایک گروہ کی اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوسکتی-
اگر کسی ایک گروہ کو مستقل طورپر غلبہ دے دیا جائے تو اس کے اندر جمود (stagnation) پیدا ہوجائے گا- اس طرح انسانی زندگی میں ترقی کا عمل (process of development) رک جائے گا- اس لیے خود خالق کی طرف سے ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں جو قیادت کو بدلتے رہتے ہیں- انسان کو چاہیے کہ وہ اس معاملہ کو خدائی فیصلہ سمجھ کر اس کو قبول کرے- وہ غلبہ کو بھی امتحان سمجھے اور مغلوبیت کو بھی امتحان-
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق

اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تواس وقت اللہ اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا، اس کا ایک حصہ یہ تھا: قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاۗءَ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْن (2:30) یعنی فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اس میں فساد کریں اور خون بہائیں- اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں- اللہ نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے-
اللہ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے زمین پر آباد کیا- اس وقت فرشتوں کے اندر یہ شبہہ پیدا ہوا کہ جب انسان کو آزادی حاصل ہوگی تو اس کو آزادی کے غلط استعمال کی بھی آزادی ہوگی،اور جب ایسا ہوگا تو اس زمین میں فساد اور خون ریزی جیسے واقعات پیش آئیں گے، جو بظاہر کائنات کے مجموعی نقشہ کے خلاف ہوگا- اللہ نے جو جواب دیا اس سے تخلیق کی حکمت معلوم ہوتی ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی نظر مجموعہ انسانی پر تھی، مگر اللہ کی نظر افراد انسانی پر-
اس جواب کا مطلب یہ تھاکہ اللہ کا تخلیقی منصوبہ باعتبار مجموعہ نہیں ہے، بلکہ باعتبار افراد ہے- مجموعہ کے اعتبار سے بلا شبہہ ایسا ہوگا کہ انسانوں کے اندر فساد جیسے واقعات پیش آئیں گے- لیکن اسی مجموعہ کے اندر ایسے افراد بھی پیدا ہوں گے، جو آزادی کے باوجود خود اپنے فیصلہ سے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کریں، اور یہی افراد اصل مطلوب خداوندی ہیں-
فساد اور خون ریزی کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ بظاہر منفی واقعات ہیں، لیکن یہ منفی واقعات لوگوں کے ذہن کو جگائیں گے، وہ لوگوں کے اندر تفکیری عمل (intellectual process) جاری کریں گے- وہ لوگوں کو موقع دیں گے کہ وہ اپنے ذہنی امکانات کو بروئے کار لائیں اور اپنے اندر اس اعلیٰ شخصیت کی تعمیر کریںجس کو قرآن میں مزکیّٰ شخصیت (purified personality) کہا گیاہے-
واپس اوپر جائیں

قرآن کی زبان

قرآن کی 29 سورتوں میں کچھ حروف آئے ہیں، جن کو حروف مقطعات کہاجاتا ہے- قَطّعَ کے معنی ہیں: ٹکڑے ٹکڑے کرنا (to cut, to separate, to divide) - یہ حروف مقطعات دراصل عربی زبان کے حروف تہجی (alphabets) ہیں-
حروف مقطعات کا مطلب یہ ہے کہ قرآن انسانی زبان میںہے نہ کہ ملاٴ اعلیٰ کی زبان میں- وہ علامتی طورپر بتاتے ہیں کہ قرآن اپنی زبان کے اعتبار سے ایک انسانی زبان (26:195) میں اتارا گیا ہے- قرآن پر اسی طرح تدبر کرو، جس طرح تم کسی انسانی زبان کے کلام میںتدبر کرتے ہو- مگر تفسیر بالرائے کے انتہا پسندانہ تصور کی بنا پر لوگوں نے قرآنی آیات پر کھلا تدبر نہیں کیا- اس بنا پر وہ قرآن کے عمیق معانی تک نہ پہنچ سکے- انھوں نے قرآن کی زبان کو پراسرار سمجھ لیا- اس ذہن کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن ان کے لیے ایک مقدس کتابِ برکت بن کر رہ گیا- صحیح یہ ہے کہ قرآن میں کھلا تدبر کیا جائے- البتہ یہ تدبر لازمی طورپر متقیانہ تدبر ہونا چاہئے-
مثال کے طورپر سورہ النحل کی پانچ آیتوں ، 4 تا 8، کو لیجئے، ان آیتوں میں پہلے انسان کی تخلیق کا ذکر ہے، اس کے بعد اگلی آیتوں میں کچھ قدرتی سواریوں کا ذکر ہے- آخر میں غیر معلوم تخلیق کی طرف اشارہ کیاگیا ہے- اگر آپ ان آیتوں کو صرف مقدس آیات کے طورپر لیں تو آپ پر اُن کے گہرے معانی نہیں کھلیں گے- اس کے برعکس، اگر آپ اس کو انسانی زبان کا ایک کلام سمجھ کر تدبر کریں تو آپ پر ایسے معانی کھلیں گے، جو آپ کے لیے تعلق باللہ کا اعلیٰ تجربہ بن جائیں-غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ان آیتوں میں اللہ کی تین رحمتوں کا ذکر ہے- پہلے اللہ کی اِس رحمت کا کہ اس نے انسان کو پیدا کیا، اُس کے بعد چند علامتی مثالوں کے ذریعہ اللہ کی اِس رحمت کا کہ اس نے انسان کے لیے اس دنیا میں مکمل قسم کا لائف سپورٹ سسٹم (life support system) رکھ دیا، آخر میں یخلق ما لا تعلمون کے الفاظ میں اللہ کی اُس رحمت کی طرف اشارہ ہے، جس کو صنعتی تہذیب (industrial civilization) کہاجاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ انسان

قرآن کی سورہ نمبر 2 میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یُؤْتِی الْحِکْمَةَ مَنْ یَّشَاۗءُ ۚ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ۭوَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ (البقرة: 269) یعنی وہ جس کو چاہتا ہے حکمت دے دیتا ہے اور جس کو حکمت ملی اس کو بڑی دولت مل گئی- اور نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں-قرآن کی اس آیت کے مطابق انسان کے لیے سب سے بڑی چیز حکمت (wisdom) ہے- حکمت کے بغیر انسان ایک حیوان کی مانند ہے- یہ حکمت ہی ہے جو انسان کو حیوان سے برتر درجہ عطا کرتی ہے-
حکمت کے ذریعہ انسان، ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرنا جانتا ہے- حکمت کے ذریعہ یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ فیس ویلو (face value) سے آگے جاکر چیزوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھ سکے- انسان کی تمام ترقیوں کا راز منصوبہ بندی (planning) میں ہے، اور درست منصوبہ بندی حکمت کے بغیر نہیں ہوسکتی-
کسی انسان کی زندگی میں پہلے ذہنی ارتقا (intellectual development) آتا ہے- اس کے بعد اس کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیدا ہوتی ہے، جس کو حکمت (wisdom)کہا جاتا ہے- وہ اس قابل ہوجاتاہے کہ حدیث کے الفاظ میں، چیزوں کو ویسے ہی دیکھے جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں (اللہم ارنا الأشیاء کما ہی)-
حکمت آدمی کےاندر وہ صفت پیدا کرتی ہے جس کوحقیقت پسندانہ نقطہ نظر (realistic approach) کہا جاتا ہے- اس کے اندر فخر اور گھمنڈ کی سوچ ختم ہوجاتی ہے- وہ ایک متواضع انسان (modest man) بن جاتا ہے- اس کے اندر صبر (patience)کی صفت پیدا ہوجاتی ہے- وہ تشدد کے مقابلہ میں امن (peace) کی اہمیت کو شعوری طورپر جان لیتاہے- یہی وہ صفات ہیں جو انسان کو اعلیٰ انسان بناتی ہیں-
واپس اوپر جائیں

غیب پر یقین

قرآن کی سورہ نمبر 2 کی شروع کی آیات یہ ہیں: ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ٻ فِیْہِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ ۝ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (البقرة: 2-3 ) یعنی یہ اللہ کی کتاب ہے- اِس میں کوئی شک نہیں- یہ ہدایت ہے متقیوں کے لیے، جو ایمان لاتے ہیں غیب پر- قرآن کی اِس آیت میں ایمان بالغیب کا مطلب سادہ طور پر یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی زبان سے آمنتُ بالغیب کہہ دے، بلکہ یہ ہےکہ آدمی غیب کے بارے میں عقلی طورپر (rationally) اُسی طرح یقین کرسکے جس طرح وہ شہود پر یقین کرتاہے-
غیب پر ایمان لاناایک اعلیٰ ذہنی ارتقا (high level of intellectual development) کا معاملہ ہے- ایک انسان اپنی فطری طاقتوں کو استعمال کرتا ہے، وہ اپنے بارے میں اور کائنات کے بارے میں مسلسل طورپر غور وفکر کرتا ہے، وہ کتاب وسنت کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتا ہے، وہ زندگی کے تجربات اور مشاہدات سے مسلسل طورپر گہرا سبق لیتا رہتا ہے، وہ خدا کی نشانیوں (آیات) پر غور کرکے تخلیق کے گہرے رموز تک پہنچنے کی کوشش کرتاہے- اس طرح اس قابل ہوجاتا ہے کہ اپنے ذہنی ارتقا کی بنا پر وہ نہ دکھائی دینے والی چیزوں پر بھی اسی طرح یقین کرسکے، جس طرح کوئی شخص دکھائی دینے والی چیزوں پر یقین کرتا ہے-
غیب (unseen) پر ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے غیب پر ایمان نہیں ہے، بلکہ وہ یہ ہے کہ آدمی کی تفکیری صلاحیت اتنی زیادہ بلند ہوجائے کہ اس کے لیے غیب اور شہود میں کوئی فرق باقی نہ رہے- وہ غیبی حقیقتوں کو اتنی گہرائی کے ساتھ دریافت کرلے کہ اپنے شعور کے اعتبار سے اس کے لیے ان حقیقتوں کو نہ ماننابالکل غیر ممکن ہوجائے- ایمان بالغیب دراصل غیب کو ماننے کا نام نہیں بلکہ وہ شعور کا وہ ارتقائی درجہ ہے، جہاں باعتبار حقیقت اس کے لیے ایمان بالغیب اور ایمان بالشہود میں کوئی فرق باقی نہ رہے-
واپس اوپر جائیں

مزکىّٰ شخصیت

قرآن میںاہلِ جنت کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیاہے:جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ۭ وَذٰلِکَ جَزٰۗؤُا مَنْ تَزَکّٰى ( 20:67) یعنی ان کے لیے ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی- وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بدلہ ہے اس شخص کا جو اپنا تزکیہ کرے- قرآن کی اِس آیت کے مطابق، جنت ان افراد کے لیے ہے، جو اپنے اندر پاکیزہ شخصیت کی تعمیرکریں:
Paradise is for purified soul
تزکیہ سے مراد کوئی پراسرار عمل نہیں ہے- تزکیہ ایک معلوم واقعہ ہے- قرآن میں جس تزکیہ کا ذکر ہے، وہ پراسرار معنوں میں کوئی دل پر مبنی (heart based) عمل نہیں، بلکہ وہ ایک مبنی برذہن (mind based) عمل ہے- تزکیہ ایک مسلسل شعوری عمل ہے، جس کے ذریعہ آدمی مسلسل غوروفکر کے ذریعہ اپنے ذہن کی تعمیر نو (re-engineering of mind)کرتا ہے-
انسان کےاندر غیر معمولی فکری صلاحیت پائی جاتی ہے- ایمان آدمی کے اندر اس فکری صلاحیت کو بیدار کرتاہے- ایمان کے بعد آدمی کے اندر ایک زندہ شعور جاگتا ہے، جس کے تحت وہ فکر وتدبر کی ایک نئی زندگی شروع کرتا ہے، وہ ہر قسم کی ذہنی سرگرمیوں کے ذریعہ اپنے شعور کو ارتقا یافتہ شعور بناتاہے- وہ اپنی شخصیت کو ایک اعلیٰ ربانی شخصیت میں تبدیل کرتاہے-
کسی انسان کو جنت میں داخلہ مقداری عمل کی بنیاد پر نہیں ملے گا بلکہ جنت صرف اس انسان کو ملے گی، جس نے باعتبار کیفیت (in terms of quality) اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کیا- یہی جنت میں داخلہ کی شرط ہے- مزید یہ کہ جنت میں داخلہ بربنائے استحقاق ہوگا، نہ کہ بربنائے سفارش-تزکیہ کا تعلق کسی محدود مدتی کورس سے نہیں ہے، تزکیہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، جو انسان کی پوری زندگی میں کسی وقفہ کے بغیر جاری رہتا ہے-
واپس اوپر جائیں

زوجین کا اصول

قرآن کی سورہ الذاریات میں تخلیق کے اصول کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ( 51:49) یعنی اور ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا تاکہ تم نصیحت حاصل کرو-
مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کائنات میں ہر چیز، خواہ وہ مادی ہو یا غیر مادی، اس کا ایک زوج (pair) موجود ہے- جیسے مادی ذرات میں پازیٹو پارٹیکل کے ساتھ نیگیٹو پارٹیکل، نباتات میں میل پلانٹ (male plant) کے ساتھ فیمیل پلانٹ(female plant)، حیوانات میں ہی انیمل (he animal) کے ساتھ شی اینمل(she animal) موجود ہیں- اسی طرح انسان کی دنیا میں بھی عورت کے ساتھ مرد پیدا کیے گیے ہیں-
مگر انسان کا معاملہ دوسری مخلوقات سے مختلف ہے- انسان کے لیے زوجین کی پیدائش کافی نہیں- انسان اس کے سوا بھی ایک اور چیز کا طالب ہے- انسان اپنی نفسیات کے اعتبار سے زوجین کے سوا ایک اور چیز چاہتا ہے- اس کو دوسرے الفاظ میں انسان کا فطری ہیبی ٹیٹ (habitat) کہاجاسکتاہے- موجودہ دنیا انسان کے لیے اس کا ہیبی ٹیٹ نہیں- انسان ہر اعتبار سے ایک کامل دنیا چاہتا ہے، مگر موجودہ دنیا کسی بھی اعتبار سے کامل دنیا نہیں-
اس دنیا میں انسان کے سوا جو چیزیں ہیں، ان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے اور دنیا کے درمیان کامل مطابقت پائی جاتی ہے- لیکن انسان کا معاملہ مختلف ہے، انسان اور دنیا کے درمیان مطابقت موجود نہیں- یہ عدم مطابقت پوری کائنات میں ایک استثنائی واقعہ ہے- انسانی زندگی کا یہ استثنائی پہلو تقاضا کرتاہے کہ انسان کو اس کی مطلوب دنیا حاصل ہو- اسی مطلوب دنیا کا نام جنت ہے جو انسان کے لیے اس کے مطلوب مسکن کی حیثیت رکھتی ہے- جنت کا امکان اپنے آپ میں جنت کے وجود کا ثبوت ہے-
واپس اوپر جائیں

امت ِ وسط

قرآن کی ایک آیت میں امت محمدی کی ذمہ داری کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ۭ (2:143) یعنی اور اس طرح ہم نے تم کو امت وسط بنادیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا-
قرآن کی اس آیت میں امت محمدی کی نیابتی حیثیت کو بتایا گیاہے- ختم نبوت کے بعد امت محمدی مقام نبوت پر ہے- اس کی حیثیت امت وسط، بیچ کی امت (middle ummah) کی ہے، یعنی قرآن وسنت کی صورت میں اس کو جو دین پیغمبر اسلام سے ملا ہے، اس کو وہ قیامت تک تمام انسانوں تک پہنچاتی رہے-
یہ در میانی رول امت محمدی کی لازمی ذمہ داری ہے- اسی رول کی ادائیگی پر امت محمدی کا امت محمدی ہونا متحقق ہوتاہے- اگر امت محمدی اپنا یہ رول ادا نہ کرے تو اس کا امت محمدی ہونا ہی مشتبہ ہوجائے گا- یہی دعوتی رول امت محمدی کا اصل منصبی فریضہ ہے- کوئی دوسرا کام، خواہ وہ کتنا ہی زیادہ کیاگیا ہو، وہ اس رول کا بدل نہیں بن سکتا-
اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس رول کے تقاضے کو پوری ذمہ داری کے ساتھ اداکیا جائے- مثلاً ہمیشہ مدعو کا خیر خواہ بنے رہنا، مدعو کے ساتھ حریفانہ کش مکش سے کامل طورپر پرہیز کرنا، قرآن وسنت کے پیغام کو اس طرح پیش کرنا جو لوگوں کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو، مدعو سے کسی حال میں اجر کا طالب نہ ہونا، مدعو کے ساتھ کسی بھی قسم کی مطالباتی مہم کو کامل طورپر ترک کردینا، اپنے اور مدعو کے درمیان ہر قیمت پر امن کا ماحول قائم رکھنا، وغیرہ- اسی دعوتی ذمہ داری کی ادائیگی پر امت محمدی کے مستقبل کا انحصار ہے- اسی پر دنیا میں بھی ان کے لیے کامیابی ہے اور اسی پر آخرت میں بھی ان کے لیے کامیابی ہے-
واپس اوپر جائیں

ربانی زندگی

قرآن کی سورہ آل عمران میں اہلِ ایمان کی زندگی کا نقشہ ان الفاظ میں بتایا گیا: کونوا ربانیین (3:79) یعنی تم ربانی زندگی اختیار کرو(adopt Rab oriented life) -
انسان کی زندگی اس کے ذہن (mind) کے تحت ہوتی ہے- کوئی انسان جیسا سوچتا ہے، ویسا ہی وہ کرتاہے- اس اعتبار سے ہر عورت اور مرد کا ایک نقطہ نظر (way of thinking) ہوتا ہے- یہی نقطہ نظر اس کی زندگی میں مرکزی رول ادا کرتاہے- کونوا ربانیین کا مطلب یہ ہے کہ رب رخی (Rab oriented) زندگی اختیار کرو، تمھاری سوچ کا فوکس صرف ایک رب العالمین ہو-
آیت میں یہ نہیں کہاگیا ہے کہ دنیا میں ربانی نظام قائم کرو، بلکہ یہ کہاگیا ہے کہ اپنی ذات کے اعتبار سے ربانی زندگی اختیار کرو- یہ ایک انفرادی حکم ہے، جو ہر عورت اور مرد سے مطلوب ہے، اس کا سیاست اور حکومت سے کوئی تعلق نہیں-
ربانی زندگی آدمی کے ذہن سے شروع ہوتی ہے- آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ مطالعہ اور تدبر کے ذریعہ زندگی کی حقیقت کو دریافت کرے، وہ رب العالمین کی اعلی معرفت حاصل کرے، وہ اپنی زندگی کو خدائی معیار کے مطابق بامقصد زندگی بنائے، وہ اپنی پوری زندگی کو اللہ کے رنگ میں رنگ دے-
ربانی زندگی کی اساس ہمیشہ معرفت خداوندی پر قائم ہوتی ہے- ربانی زندگی میں کسی انسان کا واحد کنسرن (sole concern)یہ ہوتاہے کہ وہ اللہ کی مرضی کے مطابق سوچے، وہ اللہ کی مرضی کے مطابق بولے، اس کا پورا کردار اللہ کی مرضی میں ڈھلا ہوا ہو، یہ اصول اس کی زندگی کا رہنما اصول بن جائے کہ اس کو اپنے ہر قول اور اپنے ہر عمل کا جواب آخرت میں دینا ہے، جہاں اللہ کی عدالت قائم ہوگی- دنیا کے نقصان کے بجائے آخرت کا نفع نقصان اس کی توجہات کا مرکز بن جائے-
ربانی زندگی سے مراد کوئی ظاہری شکل وصورت کا نام نہیں- ربانی زندگی اسپرٹ پر مبنی زندگی کا نام ہے، نہ کہ کسی فارم یا وضع قطع پر مبنی زندگی کا نام-
واپس اوپر جائیں

ایک اجتماعی حکم

قرآن میں اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہوئے یہ حکم دیاگیا ہے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ (6:108) یعنی اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، ان کو سب وشتم نہ کرو، ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو سب وشتم کرنے لگیں گے-
قرآن کی اِس آیت میں ایک اہم اجتماعی اصول بتایا گیاہے-وہ یہ کہ اہلِ ایمان کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ دوسروں کے برے سلوک کی شکایت کریں، بلکہ انھیں یہ کرنا چاہئے کہ وہ شکایت کے اسباب کو اپنی طرف سے ختم کردیں- ایسے معاملات میں اہلِ ایمان احتساب غیر کے بجائے احتساب خویش کا طریقہ اختیار کریں، وہ دوسروں کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے اپنے حصے کی غلطی کو تلاش کریں، اور وہ اس کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائیں-
شکایت کوئی یک طرفہ رویہ نہیں- جب بھی کوئی شحص یا گروہ دوسرے کی شکایت کرتاہے تو ایسی ہر شکایت کے پیچھے ہمیشہ کوئی رد عمل کا واقعہ ہوتاہے- اس معاملہ میں قرآن نے یہ حکم دیا ہے کہ — تم اپنی طرف کے عمل (action) سے بچو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم فریقِ ثانی کے رد عمل (reaction) سے بچ جاؤگے-قرآن کی اس ہدایت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب بھی تم کو کسی سے شکایت ہو تو ایسا مت کرو کہ تم فوراً دوسرے کے خلاف شکایت کا ہنگامہ کھڑا کردو- اس کے بجائے تم کو یہ کرنا چاہئے کہ خود اپنے اندر ان اسباب کو تلاش کرو، جو براہِ راست یا بالواسطہ طورپر فریق ثانی کی اِس روش کا سبب بن رہےہیں-
اجتماعی زندگی میں اصلاح کا یہی واحد طریقہ ہے— اپنے حصہ کی غلطی کو درست کرو- دوسرا فریق اپنے آپ اپنے حصہ کی غلطی کی اصلاح کرلے گا- اجتماعی زندگی میں ہر قابل شکایت بات کسی اشتعال کی بنا پر پیدا ہوتی ہے- ضرورت ہے کہ اجتماعی زندگی میں نگرانی کا یہ ماحول موجود ہو کہ کوئی فرد اشتعال انگیزی کی کوئی کارروائی نہ کرنے پائے- یہی وہ طریقہ ہے جس کو اختیار کرنے سے کسی سماج میں امن کا ماحول قائم ہوتا ہے-
واپس اوپر جائیں

غیر سیاسی مشن

قرآن کی سورہ الغاشیہ میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے یہ ہدایت دی گئی ہے: فَذَکِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ ؀ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ ؀ اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَکَفَرَ ؀ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ ؀ اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَہُمْ ؀ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ ؀ (88:21-26) یعنی پس تم یاددہانی کرو، تم صرف یاددہانی کرنے والے ہو- تم ان پر داروغہ نہیں- مگر جس نے روگردانی کی اور انکار کیا- تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا- ہماری ہی طرف ان کی واپسی ہے- پھر ہمارے ذمہ ہے ان سے حساب لینا-
قرآن کی اس آیت کا خطاب صرف پیغمبر سے نہیں ہے، بلکہ اس کا خطاب ہرداعی سے ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت آخری حدتک ایک پرامن نصیحت کا نام ہے، نہ کہ حاکمانہ طورپر کسی نظریہ کو نافذ کرنے کا نام- اس حقیقت کو حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور کے ایک عامل کے نام ایک خط میں اس طرح لکھا تھا: ان اللہ إنما بعث محمدا صلى اللہ علیہ وسلم داعیا، ولم یبعثہ جابیا(البدایة والنہایة لابن کثیر، 9/188) یعنی اللہ نے بے شک اپنے پیغمبر کو داعی بنا کر بھیجا ہے، اس نے پیغمبر کو ٹیکس وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا-
پیغمبر کا مشن، پرامن دعوت کا مشن ہے- پیغمبر کے مشن کا تعلق نہ سیاست سے ہے اور نہ حکومت سے-پیغمبر کا مشن یہ ہے کہ پرامن طریقہ کار کے ذریعہ لوگوں کو بتایا جائے کہ موجودہ دنیا میں ان کو کس قسم کی زندگی گزارنی چاہئے، جو ان کی آخرت کی زندگی کو کامیاب کرنے والی ہو- جس کے نتیجہ میں وہ دنیا میں اللہ کی مدد کے مستحق قرار پائیں، اور آخرت میں ان کو جنت کے باغوں میں داخل کیا جائے- جہاں وہ ابدی طورپر حزن اور خوف سے پاک زندگی گزاریں- پیغمبر کا مشن قرآن کے الفاظ میں انذار اور تبشیر کا مشن ہے، یعنی اللہ کی پکڑ سے بچانا اور اللہ کے انعام کی خوش خبری دینا- پیغمبر کا مشن اصلاً دنیا میں کوئی سیاسی نظام قائم کرنے کا مشن نہیں ہے- پیغمبر کا مشن افراد کو ایڈریس کرنے کا مشن ہے- پیغمبر کا مشن یہ ہے کہ ہر فرد اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے مطابق بنائے، تاکہ وہ ابدی طور پر اللہ کی رحمتوں کا مستحق قرار پائے-
واپس اوپر جائیں

کامیاب تدبیر ِکار

کسی مقصد کے حصول کے لیے قرآن کا بتایا ہوا طریقہ کیا ہے، یہ بات قرآن کی سورہ النحل کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے: قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَاَتَى اللّٰہُ بُنْیَانَہُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَیْہِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِہِمْ وَاَتٰىہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ ( 16:26) یعنی ان سے پہلے والوں نے بھی تدبیر یں کیں- پھر اللہ ان کی عمارت پر بنیادوں سے آیا، پس چھت اوپر سے ان کے اوپر گر پڑی اور ان پر عذاب وہاں سے آگیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا-
Those who were before them did also plan, but Allah came upon their structure at the very foundations, so that the roof fell down upon them from above them; and the punishment came upon from where they knew not.
اس آیت میں تمثیل کے اسلوب میں بتایا گیا ہے کہ مقصد کے حصول کا موثر طریقہ کیا ہے- وہ یہ کہ عمارت کے ظاہری ڈھانچے کو نشانہ نہ بنایا جائے، بلکہ اس کی بنیاد پر عمل کیا جائے- اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 ء میں مکہ میں توحید کا مشن شروع کیا- اس وقت کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے ـتھے، مگر پیغمبر اسلام نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی پر کوئی احتجاج نہیں کیا، اور نہ بتوں کو توڑنے کی کوشش کی-
آپ نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف یہ کیا کہ پرامن طور پر نظریہ توحید کی اشاعت شروع کردی- دوسرے لفظوں میں یہ کہ عمارت کو مظاہر شرک سے پاک کرنے کے بجائے دلوں کو شرک سے پاک کرنا- جس کو قرآن میں تطہیر ثیاب ( 74:4) کہاگیا ہے- یہ تدبیر کامیاب ہوئی اور 20 سال سے بھی کم مدت میں پرامن طورپر کعبہ بتوں سے پاک ہوگیا— یہی اصول کسی معاملہ میں حقیقی کامیابی حاصل کرنے کا فطری طریقہ ہے-
واپس اوپر جائیں

توبہ کا طریقہ

انسان کی تخلیق اس طرح ہوئی ہے کہ وہ بار بار غلطی کرتاہے- خدائی شریعت میں اس کا حل تو بہ ہے، یعنی غلطی کرنے کے بعد پلٹنا اور دوبارہ اپنے کو اصلاح یافتہ بنانا- اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰۗىِٕکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًا ( 4:17) یعنی توبہ ، جس کو قبول کرنا اللہ کے ذمہ ہے، وہ ان لوگوں کی ہے جو بری حرکت نادانی سے کربیٹھتے ہیں- پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں- وہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول کرتاہے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے-
قرآن کی اِس آیت کے مطابق توبہ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ توبۂ قریب (repentance without delay) ہو- جو توبہ دیر میں کی جائے، وہ توبہ کا صحیح طریقہ نہیں- توبۂ قریب فطرت کے نظام کے مطابق ہے، جب کہ توبۂ بعید فطرت کے نظام کے مطابق نہیں-
خالق نے انسان کے اندر ایک صلاحیت رکھی ہے، اس کو ضمیر (conscience) کہاجاتا ہے- آدمی جب غلطی کرتاہے تو اس کے فوراً بعد اس کا ضمیر متحرک ہوجاتا ہے- آدمی کو شدید طورپر اپنی غلطی کا احساس ہونے لگتا ہے، مگر یہ احساس ہمیشہ یکساں طورپر باقی نہیں رہتا- شروع میں یہ احساس نہایت شدید ہوتا ہے، پھر دھیرے دھیرے وہ کمزور ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ اگر توبہ میں زیادہ دیر کی جائے تو ندامت کا احساس عملاً ختم ہوجائے گا- آدمی کے اندر اصلاح کا طاقتور محرک باقی نہ رہے گا- جاننے کے اعتبار سے وہ اپنی غلطی کو جانے گا، لیکن اس ضرورت کا احساس اس کے اندر باقی نہ رہے گا کہ وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرے-
پہلے اگر اس کا کیس زندہ ضمیر کا تھا تو بعد کو اس کا کیس مردہ ضمیر کا کیس بن جائے گا- آدمی کو چاہیے کہ وہ فطرت کے اس نظام کو سمجھے، وہ غلطی کے بعد فوراً کھلی توبہ کرے- اگر اس نے توبہ میں دیر کی تو توبہ کا احساس ہی اس کے اندر باقی نہ رہے گا-
واپس اوپر جائیں

عمل بقدر استطاعت

قرآن کی سورہ التغابن میںایک حکم ان الفاظ میں دیاگیا ہے:فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ ۭ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ( 64:16) یعنی پس تم اللہ سے ڈرو جہاں تک ہوسکے، اور سنو اور مانو اور خرچ کرو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اور جو شخص دل کی تنگی سے محفوظ رہا تو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں-
’’عمل بقدر استطاعت‘‘ کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے- زندگی کا یہی واحد فطری اصول ہے- انسان جب دنیا میں کوئی عمل کرنا چاہتا ہے تو یہ ہمیشہ ففٹی ففٹی کا معاملہ ہوتاہے- انسان اتنا ہی کرسکتاہے، جتنا خارجی حالات اس سے موافقت کریں- خارجی حالات کی موافقت کے بغیر کوئی شخص کوئی کام نہیں کرسکتا-
اپنی ذات کے لیے آدمی صد فی صد کی اصطلاح (term) میں سوچ سکتا ہے، لیکن جب معاملہ سماج کا ہو تو عملاً یہ ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی صد فی صد کو اپنا نشانہ بنائے- اس لیے اس دنیا کے لیے فطری اصول یہ ہے کہ— اپنی ذات کے معاملے میں معیار پسند بنئے اور سماج کے معاملے میں عملی امکان کے مطابق منصوبہ بنائیے:
Idealism at individual level, Pragmatism at social level.
اپنی ذات کے معاملے میں آدمی کو خود سوچنا ہے، اور خود ہی اس کو اپنی زندگی میںاختیار کرنا ہے- اس لیے انفرادی معاملے میں معیار پسندی ممکن ہوتی ہے، مگر جب معاملہ سماجی یا اجتماعی ہو تو کسی کے لیے اتنا ہی کام کرنا ممکن ہوتاہے، جتنا دوسرے لوگ اس سے موافقت کریں- اس لیے ضروری ہے کہ جب معاملہ سماج کا ہو تو آدی پریگمیٹک (pragmatic) بن جائے- اس کے خلاف کرنے کا نتیجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتاہے— مقصد تو حاصل نہ ہو، البتہ لوگوں کے اندر ایسا ٹکراؤ شروع ہوجائے جو کبھی ختم نہ ہوسکے-
واپس اوپر جائیں

سیئہ کا حسنہ بن جانا

قرآن کی سورہ الفرقان میں اہلِ ایمان کے ساتھ پیش آنے والے ایک معاملے کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَـیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (25:70) یعنی، مگر جو شخص توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا- اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے-
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ فرمانِ خداوندی کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ قانونِ خداوندی کی بات ہے- یعنی انسان جب ایمان اور عمل صالح اور توبہ کی زندگی اختیار کرتا ہے، اور اس دوران اس سے کسی سیئہ (evil deed)کا صدور ہوتا ہے تو قانون فطرت کے مطابق اس کے اوپر ایسی کیفیات گزرتی ہیں جس کے نتیجے میں اس کا سیئہ (evil deed) اس کے لیے حسنہ (good deed) کی صورت اختیار کرلیتاہے-
اس آیت میں اس انسان کا ذکر ہے جس کو معرفت کے درجہ میں ایمان حاصل ہوا- اس کا یہ ایمان اتنا طاقت ور تھا کہ اس کی زندگی میں ایک عملی انقلاب آگیا- ایسے آدمی سے اگر کبھی انسانی کمزوری کی بنا پر کسی برائی کا صدور ہوگا تو یہ اس کے لیے کوئی سادہ بات نہ ہوگی- بہت جلد ایسا ہوگا کہ اس کے اندر شدید ندامت (repentance) کا جذبہ پیداہوگا- وہ یہ سوچ کر تڑپ اٹھے گا کہ مجھ سے اپنے رب کے معاملے میں تفریط کا معاملہ ہوگیا ( 39:56)-
ایسا آدمی برائی کے صدور کے بعد تڑپے گا، وہ روئے گا، وہ دعائیں کرے گا، برائی کا احساس اس کی شخصیت میں ایک زلزلہ پیدا کردے گا- اس کی رات اور اس کے دن توبہ کی کیفیات میں گزرنے لگیں گے- اِن چیزوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرے گی، اس کے اندر ایک عزم بیدار ہوگا، اس کے تعلق باللہ میں ایک نیا دور آجائے گا- یہی وہ واقعہ ہے جس کو مذکورہ آیت میں تبدیل سیئہ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے-
واپس اوپر جائیں

امن کلچر

قرآن کا مطلوب کلچر، امن کلچر ہے- یہ بات قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتی ہے: الصُّلْحُ خَیْر (4:128) یعنی صلح بہتر ہے- اس آیت میں صلح کا لفظ باعتبار نتیجہ ہے- صلح (reconciliation) ایک تدبیر ہے- اس کا نتیجہ ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ فریقین کے درمیان امن کی حالت قائم ہوجاتی ہے، اورامن کے لازمی نتیجہ کے طورپر مواقع (opportunities)کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں-
اجتماعی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت، مواقع کی ہوتی ہے- تمام مقاصد، خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی، ہمیشہ موجودمواقع کو استعمال (avail) کرکے حاصل ہوتے ہیں- فقہ کا ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ مالا یتم الواجب إلا بہ فہو واجب (موسوعة الفقہیة، کویت: 1/73) یعنی جس چیز کے بغیر واجب کی ادائیگی نہ ہو سکے، وہ بھی واجب ہے-
انسان ہمیشہ کسی مجتمع (society) کے اندر رہتا ہے- کوئی شخص کسی شرعی مقصد کی تکمیل صرف اس وقت کرسکتا ہے، جب کہ سماج کے اندر امن کا ماحول ہو- امن کے بغیر کسی مقصد کی تکمیل عملاً ممکن نہیں- شرعی مقصد کی حیثیت اگر فرض کی ہے تو امن کی حیثیت وسیلہ کی- مذکورہ اصول کے مطابق اہلِ ایمان کے اوپر فرض ہے کہ وہ ہمیشہ سماج کے اندر امن کا ماحول قائم رکھیں- مگر امن کا مسئلہ نفاذ (implementation) کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ وہ اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان آخری حد تک امن مخالف سرگرمی سے اپنے آپ کو بچائیں-
یہ ایک عظیم حکمت (wisdom)کی بات ہے- اس حکمت کو ملحوظ رکھنے پر ہی تمام کامیابیوں کا انحصار ہے- جس طرح ایک شرعی فریضہ اہلِ ایمان کی ذاتی ذمہ داری ہوتی ہے اسی طرح یکساں طورپر اہلِ ایمان کی یہ بھی ذاتی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قیمت پر امن کا ماحول برقرار رکھیں (establishing peace at any cost) - اس معاملے میں وہ کسی بھی عذر کو عذر نہ بنائیں-
واپس اوپر جائیں

تشدد کا خاتمہ

قدیم عرب میں قرآن کے ذریعہ جس طرح تشدد کا خاتمہ ہوا، اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا ۚ وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ۭ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ ( 3:103) یعنی اور اللہ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے- پھر اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی- پس تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے- اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا- اس طرح اللہ تمھارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ پاؤ-
قرآن عرب میں ساتویں صدی کے نصف اول میںاترا- اس وقت عرب میں مختلف قبائل آباد تھے- ان کے درمیان مستقل طورپر قبائلی جنگ (tribal war) جاری رہتی تھی- لڑائی کی نفسیات یہ ہے کہ جو فریق ہارتا ہے، وہ اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا- بلکہ اس کے اندر انتقام (revenge) کا جذبہ ابھر آتا ہے- اس طرح ہر شکست کے بعد انتقامی لڑائی جاری رہتی ہے- اس انتقامی کلچر کی بنا پر عرب میں مسلسل جنگ (chain war) کا ماحول قائم ہوگیا تھا-
اسی مسلسل جنگ کو قرآن میں آگ کا گڑھا کہاگیا ہے- اس آگ کے گڑھے سے نکلنے کا طریقہ قرآن میں یہ بتایا گیا کہ اہلِ ایمان یک طرفہ طور پر جنگ کا خاتمہ کردیں- اس کے بعد فریق ثانی اپنے آپ جنگ سے رک جائے گا، اور عملاً جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا- چنانچہ اس وقت کے اہلِ ایمان نے یہی کیا- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے بعد عرب میں مسلسل جنگ کا خاتمہ ہوگیا-
جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کا یہی واحد کامیاب فارمولا ہے- کسی سماج میں جنگ کا ماحول دو طرفہ بنیاد (bilateral basis) پر کبھی ختم نہیں ہوتا- جنگ کا خاتمہ صرف یک طرفہ بنیاد (unilateral basis)پر ہوتا ہے، نہ کہ دوطرفہ بنیاد پر-
واپس اوپر جائیں

زوالِ امت، اصلاحِ امت

روایت میں آیا ہے کہ مکی دور میں اہل مکہ اور یہود کے درمیان ایک مکالمہ ہوا- اس کے بعد سورہ التوبہ کی آیت نمبر 19 نازل ہوئی- وہ مکالمہ یہ تھا : قیل إن المشرکین قالوا للیہود، نحن سقاةالحجاج وعمار المسجد الحرام- فنحن أفضل أم محمد وأصحابہ؟ فقالت الیہود لہم أنتم أفضل (التفسیر الکبیر، الرازی) یعنی کہا جاتا ہے کہ مکہ کے مشرکین نے یہود مدینہ سے کہا کہ ہم حاجیوں کو پانی پلانے والے اور مسجد حرام کا انتظام کرنے والے ہیں- پس ہم زیادہ افضل ہیں یا محمد اور ان کے اصحاب- یہود نے ان سے کہا کہ تم لوگ افضل ہو-
اس واقعہ کے بعد قرآن کی یہ آیت اتری: اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ ِ ۭ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ ۭوَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (9:19) یعنی کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد حرام کے انتظام کرنے کو برابر کردیااس شخص کے جو اللہ اور آخرت پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا-اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے- اور اللہ ظالم لوگوں کو راہ نہیں دکھاتا-
قرآن کی اس آیت میں ایک واقعہ کے حوالے سے ایک اصولی بات بتائی گئی ہے- وہ یہ کہ کسی امت کا زوال یافتہ ہونا کیا ہے، اور یہ کہ جب کوئی امت دینی اعتبار سے اپنے زوال کے دور میں پہنچ جائے تو اس وقت اس کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے مصلح کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے- اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دور زوال میں دین کا جو بگڑا ہوا فارم ان کے یہاں پایا جاتا ہے، اسی کو وہ اصل دین سمجھ لیتے ہیں-قدیم مکہ کے مشرکین، معروف قومی معنوں میں مشرکین نہ تھے، بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ملت ابراہیم کا زوال یافتہ حصہ تھے- اپنے طریقہ میں کنڈیشننگ کی وجہ سے وہ سمجھتے تھے کہ جو بگڑا ہوا دین ان کے یہاں ہے، وہی عین دین ابراہیم ہے- اسی یقین کی بنا پر انھوں نے یہود مدینہ سے مذکورہ سوال کیا، اور یہود چوںکہ خود بھی اپنے زوال کی بنا پر دین موسی کی ایک بگڑی ہوئی صورت پر قائم تھے، اس معاملہ میں ان کی نفسیات بھی وہی تھی، جو مکہ والوں کی نفسیات تھی- اس لئے انھوں نے کہہ دیا کہ تمھارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعتبار سے دین ابراہیمی کے مجدد تھے- آپ مکہ کے لوگوں کے درمیان دوبارہ اصل دین ابراہیمی کو زندہ کرنا چاہتے تھے- آیت کے الفاظ کمن آمن باللہ والیوم الآخر دراصل پیغمبر کے طریق اصلاح کو بتارہے ہیں،اور وہ یہ کہ آپ کا طریقہ ایمان کو زندہ کرنا تھا-
اس معاملہ کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ قدیم اہل مکہ اپنے دینی زوال کی بنا پر ایک بے روح مذہب (spiritless religion) پر قائم تھے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان جو کام کیا، وہ گویا با روح مذہب (spiritful religion) کو ان کے درمیان زندہ کرنا تھا-ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت سے مراد یہی اسپرٹ والا مذہب ہے-
قرآن کی یہ آیت ایک تاریخی حوالے کے ذریعہ یہ بتارہی ہے کہ امت مسلمہ جب اپنے دورِ زوال میں پہنچے گی تو اس کا کیا حال ہوگا، اور اس کے درمیان دوبارہ احیا (revival) کا کام کس طرح کرنا چاہئے- اس آیت میں زوال یافتہ امت کی تصویر بھی ہے، اور یہ بات بھی کہ دورِ زوال کے بعد دورِ عروج میں لانے کے لیے مصلح کو کیا کرنا چاہئے-
دورِ زوال میں ایسا نہیں ہوتا کہ امت اپنے دین سے بے تعلق ہوجائے، اپنے خیال کے مطابق وہ پوری طرح دین پر قائم ہوتی ہے، لیکن یہ دین محض ایک بے روح اعمال (spiritless form) کا ایک دین ہوتا ہے- ایسا دین اللہ کو مطلوب نہیں- اللہ کو وہ دین مطلوب ہے جو ایک زندہ دین ہو، اور پوری طرح ربانی اسپرٹ پر قائم ہو-
زوال کے دور میں مصلحین کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ اسپرٹ سے خالی دین کو دوبارہ اسپرٹ سے بھرا ہوا دین بنائیں، وہ بے روح ڈھانچہ (spiritless form) کو دوبارہ باروح ڈھانچہ (spiritful form) بنادیں-
واپس اوپر جائیں

مبنی برشوریٰ نظام

قرآن کی سورہ الشوریٰ کی ایک آیت یہ ہے: وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۠ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَیْنَہُمْ ۠ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ (42:38) یعنی اور وہ جنھوں نے اپنے رب کی دعوت کوقبول کیا اور نماز قائم کی اور ان کا نظام شوری پر ہے، اور ہم نے جو کچھ انھیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں-قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق فرد (individual) اور اجتماع (society) کے لیے خدا کا پسندیدہ طریقہ کیا ہے- وہ یہ کہ انفرادی عقیدہ کے معاملے میں آئیڈیل مطلوب ہے اور سماجی نظام کے معاملہ میں پریکٹکل (practical)- ہر فرد سے یہ مطلوب ہے کہ وہ مطالعہ اور تحقیق کے ذریعہ سچائی کو دریافت کرے، اور جب اس کو سچائی کی دریافت ہوجائے تو وہ اپنی ذات کے اعتبار سے پوری طرح اس کو اختیار کرلے- اس معاملہ میں کسی فرد سے عذر (excuse) قبول نہیں کیا جائے گا-اجتماع (society) کا معاملہ اس سے مختلف ہے- اجتماع بہت سے افراد کے مجموعے کا نام ہے- ہر فرد آزادانہ طورپر سوچتا ہے، ہر فرد آزادانہ طورپر رائے قائم کرتاہے- اس بنا پر اجتماعی معاملے میں کامل اتفاق رائے کبھی ممکن نہیں ہوتا- اس کا عملی حل صرف یہ ہے کہ اجتماعی معاملہ کو مشورہ (consultation)پر مبنی قرار دیا جائے- دوسرے الفاظ میں یہ کہ اجتماعی معاملہ میں فیصلہ کثرت رائے کی بنا پر ہوگا، نہ کہ کامل اتفاق رائے کی بنا پر-موجودہ زمانہ میں اسی اجتماعی اصول کو جمہوریت (democracy) کہاجاتاہے- ڈیموکریسی دراصل اکثریت کی حکومت (majority rule)کا نام ہے- جمہوریت کے تحت اکثریت کی رائے  بذریعہ الیکشن معلوم کی جاتی ہے- جمہوری نظام یہ ہے کہ الیکشن کی بنیاد پر اکثریت کے نمائندہ کو محدود مدت کے لیے حکومت (انتظامیہ) کا کام چلانے کا موقع دیا جاتاہے- محدود مدت (ٹرم) کے خاتمہ پر دوبارہ الیکشن ہو، اور اسی طرح بار بار الیکشن کے ذریعہ فیصلہ کیا جاتا رہے- یہی اس معاملہ میں اسلام کا طریقہ ہے-
واپس اوپر جائیں

Monday, 1 December 2014

Al Risala | December 2014 (الرسالہ،دسمبر)

2

-استثنائی دنیا

3

- دورِمعرفت

4

- پیغمبر کا رول

5

- انسان کی تخلیق کس لیے

7

- ایک حدیث ِ رسول

8

- اصحابِ رسول کا نمونہ

10

- فطرت کا عطیہ

11

- آلاء اللہ کا مطلب

12

- ایک آزمائش

13

- دعوت کی توسیع

15

- ہدایت اور ضلالت

17

- ایک انسانی کمزوری

18

- خدا کی سنت

19

- دو ذمّے داری

21

- فریکونسی کا مسئلہ

22

- پیغمبر کا اُسوہ

24

- الرسالہ مشن کا دوسرا دور

26

- امت ِ مسلمہ کا کیس

27

- غلو کیا ہے

28

- حیاتِ انسانی کی توجیہہ

29

- ترتیبِ قرآن

30

- پیغمبر متّبعِ قرآن

31

- غلبہ، اہلِ حق کے لیے

32

- تنقید یا الزام تراشی

33

- آخر میں قبر

34

- دینی نہیں بلکہ قومی

37

- زندگی المیہ کیوں

38

- ٹماٹر یا لال بیگن

39

- دعوتی اسپرٹ

40

- شکایت کا نقصان

41

- وقت کا سرمایہ

42

- اسپرٹ آف اسلام

43

- سوال وجواب

45

- خبر نامہ اسلامی مرکز


استثنائی دنیا

قرآن کی سورہ نمبر 95 میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ ۝ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ ۝ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ۝ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین: 1-4) اس سورہ میںتین، زیتون، طور سینین اور بلد امین، یہ سب علامتی الفاظ ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کرہ ارض (planet earth)جہاں پھل دار درخت ہیں، سرسبز پہاڑ ہیں، اور پررونق شہر آباد ہیں، وہ ایک حقیقت کی گواہی دے رہے ہیں- وہ یہ کہ یہ زمین جس پر انسان کو آباد کیاگیا ہے، ایک استثنا ئی سیارہ (exceptional planet) ہے- اس قسم کی دنیا وسیع کائنات میں کہیں موجود نہیں- پھر اس زمین پر انسان کو بسایا گیا ہے، ایسا انسان جس قسم کی کوئی دوسری مخلوق ساری کائنات میں کہیں موجود نہیں-
اِس غیر معمولی اہتمام کے باوجود اس دنیا میں ایک انوکھا تضاد (strange contradiction) پایا جاتا ہے-وہ یہ کہ انسان بظاہر سب سے اعلی مخلوق ہے- لیکن عملاً اس دنیا میں اس کو جن حالات کے درمیان رہنا پڑتا ہے وہ اس کے لئے اسفل سافلین (lowest of the low) کی حیثیت رکھتا ہے- یہ استثناء (exception) اور یہ تضاد (contradiction) ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے- وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ یہ پکار رہا ہے کہ اس انوکھی صورتِ حال کی توجیہہ کیا ہے- اس صورت ِحال کی درست توجیہہ کے بغیر یہ دنیا ایک ناقابل فہم ظاہرہ (unexplainable phenomenon) بن جاتی ہے-سورہ کی اگلی آیتوںمیں اسی سوال کا جواب ہے-
سورہ کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں اور عمل صالح کریں تو ان کے لئے آخرت کی دنیا میں کبھی ختم نہ ہونے والا اجر (unending reward) ہے- اس آیت میں ایمان سے مراد سچائی کی دریافت ہے، اور عمل صالح سے مراد یہ ہے کہ آدمی اس دریافت کردہ سچائی کے مطابق عمل کرے- جو لوگ اس کا ثبوت دیں، وہ برے انجام سے بچ جائیں گے اور خالق عالم کی طرف سے اعلی انعام کے مستحق قرار پائیں گے-
واپس اوپر جائیں

دورِمعرفت

حضرت ابوذرغفاری کہتے ہیں کہ کوئی چڑیابھی اگر فضا میں اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ہم کو ایک علم کی یاد دلاتے تھے(وما یقلب طائر جناحیہ فی السماء إلا ذکر لنا منہ علماً) الطبقات الکبرى لابن سعد 2/354-
بلاشبہہ چڑیا کا فضا میں اڑنا قدرت الہی کی ایک عظیم نشانی ہے- قدیم زمانہ میں قدرت الہی کی اس نشانی (sign) کو صرف پراسرار عقیدہ کے تحت سمجھا جاسکتا تھا، مگر آج اس کو ایک سائنسی حقیقت کے طورپرسمجھا جاسکتا ہے- اب سائنسی دور میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج جب ایک ہوائی جہازفضا میں اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتا ہے تو اس کے لئے ہوائی جہاز سے باہر ایک بہت بڑا انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے- ٹیک آف (takeoff) کے مقام پر بھی اور لینڈنگ (landing)کے مقام پر بھی-
اِس انفراسٹرکچر کے بغیر کوئی جہاز ایک مقام سے دوسرے مقام پر نہیں پہنچ سکتا- مگر چڑیا کو فضا میں اڑنے کے لئے کسی خارجی انفراسٹرکچر کی ضرورت نہیں- وہ اپنے آپ ایک جگہ سے اڑتی ہے اور فضا میں تیرتی ہوئی دوسری جگہ اتر جاتی ہے- یہ بلاشبہہ رب العالمین کی ایک عظیم نشانی ہے-
موجودہ زمانہ میں سائنسی ترقیوں نے ایک بہت بڑا کام انجام دیا ہے- اس نے چیزو ں کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ایک نیا فریم ورک دیا ہے- اِس سائنسی فریم ورک کی بنا پر یہ ممکن ہوگیا ہے کہ جو چیز پہلے صرف پراسرار طورپر مانی جاتی تھی، اس کو اب مسلّمہ عقلی بنیاد(rationally accepted base) پر سمجھا جاسکتا ہے- اس زمانی تبدیلی نے معرفت اور یقین کے لئے ایک نیا لامتناہی میدان کھول دیا ہے-
اس جدید سائنسی دور کی پیشین گوئی قرآن میں ساتویں صدی عیسوی میں ان الفاظ میں کی گئی تھی: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (فصلت: 53) یعنی آئندہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفا ق میں بھی اور ان کے اپنے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یہ حق ہے-
واپس اوپر جائیں

پیغمبر کا رول

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے- عن أبی ہریرة، قال جلس جبریل إلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم، فنظر إلى السماء، فإذا ملک ینزل، فقال جبریل: إن ہذا الملک ما نزل منذ یوم خلق، قبل الساعة، فلما نزل قال: یا محمد، أرسلنی إلیک ربک: أفملکا نبیا یجعلک، أو عبدا رسولا؟ قال جبریل: تواضع لربک یا محمد- قال: بل عبداً رسولاً- (مسند احمد: 7160) یعنی ابوہریرہ کہتے ہیں کہ جبریل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے- پھر انھوں نے آسمان کی طرف دیکھا- تو ایک فرشتہ اوپر سے اترا- جبریل نے کہا کہ یہ فرشتہ جب سے اس کو پیدا کیاگیا، وہ اس سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا- جب وہ فرشتہ آگیا تو فرشتہ نے کہا کہ اے محمد، آپ کے رب نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے- آپ کو وہ بادشاہ پیغمبربنائے یا بندہ پیغمبر- جبریل نے کہا کہ اے محمد اپنے رب کے لئے تواضع کا طریقہ اختیار کیجئے- آپ نے کہا کہ میں عبد پیغمبر بننا پسند کرتاہوں-
اس حدیث کا تعلق صرف پیغمبر کی ذات سے نہیں ہے- بلکہ اپنے عمومی انطباق کے اعتبار سے یہ حدیث، ابدی طورپر داعئ دین کے رول کو بتاتی ہے- اور وہ یہ کہ اس دنیا میں داعی کا رول ایک پولیٹکل رول نہیں ہے، بلکہ وہ ایک غیر سیاسی (non-political) رول ہے-
اسلام ایک پرامن مذہب ہے، اور اسلامی دعوت ایک پرامن دعوت- اسلامی مشن کوئی پولیٹکل مشن نہیں- اسلامی مشن کا مقصد یہ ہے کہ پرامن ذرائع کو استعمال کرکے انسان کو بتایا جائے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے- وہ کس طرح ابدی کامیابی کو حاصل کرسکتا ہے- مزید یہ کہ دنیا کی زندگی میں، وہ کون سا طریقۂ حیات اختیار کرے، جو اُس کے لیے مقصد زندگی کے حصول میں رکاوٹ نہ بنے- اسلامی دعوت اِس لئے ہوتی ہے کہ وہ انسان کے لئے آسانی پیدا کرے- وہ انسان کو غیر ضروری مشکل سے بچائے- مذکورہ حدیث میں مومنانہ زندگی یا داعیانہ زندگی کی اِسی حقیقت کو بتایا گیا ہے- اِس حدیث کا تعلق سنت رسول سے ہے، نہ کہ فضیلت رسول سے-
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق کس لیے

قرآن کی سورہ الذاریات میں انسان کے مقصد ِ تخلیق کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیاہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ؀ مَآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ ؀ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ ؀ فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِہِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِ ؀ فَوَیْلٌ لِّـلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ یَّوْمِہِمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ (51:56-60) یعنی اور میںنے جنّ اور انسان کوصرف اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھ کو کھلائیں۔ بے شک اللہ ہی روزی دینے والا،زور آور،زبردست ہے۔ پس جن لوگوں نے ظلم کیا، ان کا ڈول بھرچکا ہے، جیسے ان کے ساتھیوں کے ڈول بھرے تھے،پس وہ جلدی نہ کریں۔ پس منکروں کے لیے خرابی ہے ان کے اس دن سے جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ;کے شاگرد مجاہدنے ’لیعبد ون‘ کی تفسیر ’لیعرفونی‘ (تفسیر القرطبی) سے کی ہے- اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اِس آیت میں عبادت سے مراد شکلِ عبادت نہیں ہے، بلکہ روحِ عبادت ہے- یہاں عبادت سے مراد فارم نہیں ہے، بلکہ عبادت کی اسپرٹ ہے، اور بلاشبہہ عبادت کی اسپرٹ وہی ہے جس کو معرفت (realization)کہا جاتا ہے-
اب یہ سوال ہے کہ معرفت سے مراد کس چیز کی معرفت ہے- ایک لفظ میں، اِس سے مراد ہے اپنے اور اپنے خالق کے درمیان پائی جانے والی حیثیتِ واقعی کو دریافت کرنا- اِس حیثیت ِ واقعی کے دو پہلو ہیں — ایک ہے بندے کی نسبت سے اور دوسرا ہے خالق کی نسبت سے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ اِس بات کو درجۂ معرفت میں جاننا کہ انسان عاجزِ مطلق (all powerless)ہے اور خدا قادرِ مطلق (all powerful) - خدا پورے معنوں میں دینے والا (giver) ہے اور انسان پورے معنوں میں لینے والا (taker) -
عبادت کی یہ حقیقت قرآن کی مذکورہ آیات میں بتادی گئی ہے- آیت کے اگلے الفاظ یہ ہیں: مَآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ ؀اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ - اِس آیت کے دو حصے ہیں — پہلا حصہ ہے: مَآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ - اِس کا مطلب یہ ہےکہ انسان کامل معنوں میں رزق کا محتاج ہے، یعنی یک طرفہ طورپر لینے والا، اور اللہ کامل معنوںمیں رازق ہے، یعنی یک طرفہ طورپر دینے والا- مذکورہ سلسلۂ آیات کے آخری الفاظ (فَوَیْلٌ لِّـلَّذِیْنَ کَفَرُوْا الخ) بتاتے ہیں کہ یہ معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں، وہ جزا اور سزا کے ابدی قانون سے جڑا ہوا ہے، یعنی جو شخص حقیقی معنوں میں تخلیق کے مقصد کو پورا کرے، اس کے لیے جنت ہے اور جو شخص اِس امتحان میں ناکام ہوجائے، اس کے لیے جہنم-
واپس اوپر جائیں

ایک حدیث ِ رسول

مسند امام احمد میں مرویات عبد اللہ بن عمر کے باب کے تحت، ایک روایت ہے: قال جاء رجل إلى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم- فقال: یا رسولَ اللہ، إنی اقرأ القرآن فلا أجد قلبی یعقِل علیہ؟ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: إن قلبَک حُشِیَ الإیمانَ، وإن الإیمان یُعْطَى العبدَ قبل القرآن (مسند احمد: 6604) یعنی وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا- اس نے کہا کہ اے خدا کے رسول، میں قرآن کو پڑھتا ہوں- مگر قرآن میری سمجھ میں نہیں آتا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارا دل ایک ایمان سے بھرا ہوا ہے- اور ایمان کسی بندے کو قرآن سے پہلے دیا جاتا ہے-
اِس حدیث میںایمان کا لفظ دوبار آیا ہے مگر دونوں جگہ وہ الگ الگ معنی میں ہے-پہلے ایمان سے مراد اس آدمی کے جاہلی افکار ہیں- جو بظاہر قبول اسلام کے باوجود ابھی تک اس کے دماغ میں بھرے ہوئے تھے- دوسرے ایمان سے مراد وہ حقیقی ایمان ہے جو قبول اسلام کے بعد کسی انسان کو اللہ کی توفیق سے ملتا ہے- یہی دوسرا ایمان وہ ہے جو کسی آدمی کے لئے قرآن کو سمجھنے میں معاون بنتا ہے-
اِس حدیث کا مطلب اگر لفظ بدل کر بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ مذکورہ شخص نے اگرچہ بظاہر اسلام قبول کرلیا تھا لیکن اس کی سابقہ کنڈیشننگ ابھی تک ٹوٹی نہیں تھی- جس بنا پر اس کا ذہن قرآن کو سمجھ نہیں پاتا تھا- آپ نے فرمایا کہ پہلے تم اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) کرو- اس طرح تم ایک تیار ذہن (prepared mind) بن جاؤگے، اور پھر قرآن کو سمجھنا تمھارے لئے آسان ہوجائے گا-کسی موضوع (subject) کودرست طورپر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نے اس کے مطابق اپنے ذہن کو تیار کیا ہو- جو آدمی مطالعہ سے پہلے تیار ذہن (prepared mind) کی حیثیت نہ رکھتا ہو، وہ کوئی بھی کتاب درست طورپر سمجھ نہیں سکتا، نہ مذہبی کتاب اور نہ غیر مذہبی کتاب-یہی معاملہ قرآن کا بھی ہے-
واپس اوپر جائیں

اصحابِ رسول کا نمونہ

المعجم الاوسط للطبرانی (باب المیم: 5124) میں صحابہ کے بارے میں ایک روایت آئی ہے- اس کو مفسر ابن کثیر نےاپنی تفسیرکی کتاب میں سورہ العصر کی تفسیر کے تحت نقل کیا ہے- اس روایت کے راوی ایک صحابی عبد اللہ بن حصن ہیں- وہ کہتے ہیں : کان الرجلان من أصحاب النبی صلى اللہ علیہ وسلم،اذا التقیا لم یتفرقا حتى یقرأ أحدہما على الآخر: ’’والعصر إن الإنسان لفی خسر‘‘، ثم یسلّم أحدہما على الآخر- یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو آدمی اگر باہم ملتے تو وہ جدا نہیں ہوتے تھے، یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے شخص کو سورہ العصر پڑھ کر سناتا، پھر دونوں ایک دوسرے کو سلام کرکے رخصت ہوتے-
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا طریقہ تھا- اِس کا تقابل (comparison) موجودہ زمانے کے مسلمانوں سے کیجئے- موجودہ زمانے کے مسلمان جب باہم ملتے ہیں تو خواہ وہ دو ہوں یا دو سے زیادہ ہوں، وہ عام طورپر مفروضہ دشمنوں کے ظلم کا چرچا کرتے ہیں-
مثلاً فلسطین میں عربوں کے اوپر اسرائیل کا ظلم، ہندوستان میں مسلم دشمن پارٹی کا اقتدار میں آنا، 11 ستمبر 2001 کے بعد امریکا میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک، مغربی ملکوں میں اسلام فوبیا (Islamophobia) کے مبالغہ آمیز قصے، غیر مسلم اخبار وں میں مسلمانوں کے خلاف چھپنے والی خبریں، غیر مسلم قوموں کی مسلمانوں کے خلاف سازشیں، حکومت کے اداروں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب، وغیرہ-
وہ واقعات جن کو موجودہ زمانے کے مسلمان ’’ظلم وتعصب‘‘ کہتے ہیں، وہ سب کے سب مزید اضافہ کے ساتھ اصحاب رسول کے زمانے میں موجود تھے، لیکن اصحاب رسول ان کا چرچا نہیں کرتے تھے- وہ ہمیشہ ان باتوں کا چرچا کرتے تھے جن کو قرآن میں قابلِ ذکر بتایا گیاہے-
اصحابِ رسول اور موجودہ زمانے مسلمانوں کے درمیان یہ جو فرق ہے اُس سے معلوم ہوتاہے کہ کیوں ایسا ہے کہ اصحابِ رسول کامیاب تھے، اور موجودہ زمانے کے مسلمان ناکام ہیں- کیوں ایسا ہوا کہ اصحابِ رسول پر اللہ کی نصرت نازل ہوئی- جب کہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ کوششیں کرتے ہیں لیکن ان کی کوششیں نتیجہ خیز نہیں ہوتیں، وہ جان ومال کی قربانی دیتے ہیں لیکن ان کی قربانیاں رائیگاں چلی جاتی ہیں- وہ مسجدوں میں اور بڑے بڑے جلسوں میں دعائیں کرتے ہیں لیکن ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں- وہ خیر امت ہونے کا دعوی کرتے ہیں، لیکن عملی صورت حال کے اعتبار سے ان کی حالت اِس کے برعکس ہے-
امام مالک بن انس (وفات: 795ء) کا ایک بامعنی قول اِن الفاظ میں آیا ہے: لن یصلح آخر ہذہ الأمة، إلا بما صلح بہ أولہا (احکام الجنائز للألبانی: 198) یعنی امت مسلمہ کے آخری گروہ کے حالات بھی صرف اسی طرح درست ہوں گے جس طرح امت کے ابتدائی گروہ کے حالات درست ہوئے تھے-
یہی اِس معاملہ میں اصل رہنما اصول ہے-موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو امام مالک ابن انس کے اِس قول کو اپنا رہنما بنانا ہوگا- اِس کے سوا کوئی دوسری تدبیر اُن کے کام آنے والی نہیں- خواہ یہ تدبیریں کتنی ہی زیادہ مقدار میں کی جائیں- پرشور اخبار ی بیانات، جلسہ جلوس کے ہنگامے، بد دعاؤں اور قنوت نازلہ کا اہتمام، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر نفرت اور غصہ کی دھوم مچانا، اور سوسائڈبامبنگ(suicide bombing) کے ذریعہ اپنے آپ کو ہلاک کرنا، مفروضہ مسلم دشمن تاجروں کا بائیکاٹ، یرغمال(hostage) بنانے کا طریقہ، وغیرہ- ان طریقوں کو اختیار کرنے سے نہ اب تک کچھ ہوا ہے، اور نہ آئندہ کچھ ہونے والا ہے-
یہ تمام طریقے صرف اپنے غصہ کا اظہار ہیں- اور اس دنیا میں غصے کے اظہار سے کبھی کسی کو کچھ نہیں ملتا- مطلوب نتیجہ صرف درست منصوبہ بندی کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے، نہ کہ نفرت اور غصہ کا اظہار کرنے سے-
واپس اوپر جائیں

فطرت کا عطیہ

ایک حدیث ِ رسول میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کو اللہ کے سامنے 5 سوالوں کے جواب دینے ہوں گے: لاتزول قدم ابن آدم یوم القیامة من عند ربہ حتى یُسئل عن خمس(قیامت کے دن انسان کے قدم اس کے رب کے سامنے سے اس وقت تک نہ ہٹیں گے جب تک کہ وہ پانچ باتوں کا جواب نہ دے لے) ان پانچ باتوں میں سے ایک یہ ہے: عن شبابہ فیما ابلاہ (الترمذی، رقم الحدیث: 2416) جوانی کس چیز پر گزاری-
بظاہر اس حدیث میں یہ ہے کہ اپنی جوانی کیسے گزاری- لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اس کو تخلیق کے اعتبار سے جو خاص صلاحیت عطا کی اس کو کہاں استعمال کیا- ہر عورت یا مرد جو پیدا ہو کر اس زمین پر آتا ہے، وہ اپنے اندر ایک خاص صلاحیت (unique quality) لے کر آتا ہے، خالق کو یہ مطلوب ہے کہ ہر ایک اپنی اِس صلاحیت کو دریافت کرے، اور اِس صلاحیت کو خدائی نقشہ کے مطابق بھر پور طورپر استعمال کرے- جو عورت یا مرد ایسا نہ کرے وہ یقینی طورپر آخرت میں اللہ کے یہاں پکڑے جائیں گے- آخرت میں ہر ایک کا معاملہ اس بنیاد پر ہوگا کہ اس نے اپنی خداداد صلاحیت (God given quality) کو صحیح طورپر استعمال کیا یا نہیں-جوانسان اِس زمین پر پیدا ہوتا ہے، اُس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دریافت کرے- وہ اِس دنیا میں اپنے رول کو سمجھے، اور اللہ کی ہدایت کے مطابق، اپنے اِس رول (کر دار) کو پوری سنجیدگی کے ساتھ ادا کرے-
جو شخص ایسا کرے، اُس کے لیے موت کے بعد آنے والی دنیا میں ابدی جنت ہے، اور جو شخص ایسا نہ کرے، اُس کے لیے دنیا میں بھی ناکامی ہے، اور آخرت میں بھی ناکامی- جس شخص نے اپنے لیے فطرت کے عطیے کو جانا، وہ ایک کامیاب انسان ہے- اِس کے برعکس جس شخص نے اپنے بارے میں فطرت کے عطیہ کو نہیں جانا، وہ خالق کے نزدیک اندھا بہرا ہے- ایسے عورت یا مرد کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں-
واپس اوپر جائیں

آلاء اللہ کا مطلب

قرآن کی سورہ نمبر 55 میں ایک آیت 31 بار آئی ہے: فبأیّ آلاء ربّکما تکذبان (سورہ الرحمن) یعنی تم دونوں اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے- اِس آیت میں ’آلاء‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے- آلاء کی واحد إلِیٌّ ہے- عربی لغت میں عام طورپر اِس کے معنی ’’نعمت‘‘ بتائے گئے ہیں، مگر اِس سے مراد عام نعمت نہیں ہے- اِس سے مراد وہ نعمت ہے جو تحیر خیز حد تک عظیم ہو- قرآن میں آلاء کا لفظ دراصل پُراستعجاب نعمتوں (wondrous bounties) کے لیے استعمال ہوا ہے-
سورہ الرحمن میںاللہ کی مختلف نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے- اور اُس کے بعد بار بار یہ آیت آئی ہے کہ تم اللہ کی کِن کِن نعمتوں کو جھٹلاؤگے- اِس آیت میں آلاء سے مراد پُراستعجاب نعمتیں ہیں، اور جھٹلانا (تکذیب) کا مطلب ہے اُس کو نظر انداز کرنا اور اپنے آپ کو اُس کا معترف نہ بنانا-
یہی موجودہ دنیا میں انسانوں کی اکثریت کا حال ہے- وہ ہر وقت اللہ کی انتہائی عظیم نعمتوں کو دیکھتے ہیں، لیکن اُن پر غور نہیں کرتے- وہ اُن کو فار گرانٹیڈ (for granted) لیتے رہتے ہیں- اِس بناپر ایسا ہوتا ہے کہ پُراستعجاب نعمتیں بھی اُن کو غیر اہم نظر آتی ہیں- اِن نعمتوں کے مقابلہ میں جو رسپانس (response) اُن کو دینا چاہئے، اُس کو دینے سے وہ قاصر رہتے ہیں-
یہی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے- انسان کو عقل اِس لیے دی گئی کہ وہ اِن نعمتوں کو دیکھ کر اُن پر غور کرے، وہ اُن کا اعلی اعتراف کرے، وہ اِن نعمتوں کے خالق کے آگے پوری طرح جھک جائے- مگر انسان ایسا نہیں کرتا- انسان کی یہ حقیقت فراموشی معاف نہیں کی جائے گی- اِس فراموش رویہ کی بنا پر آخرت میں، اُس کی سخت پکڑ ہوگی- البتہ جو لوگ اپنی عقل کو استعمال کریں اور حقیقت شناسی کی زندگی گزاریں، وہ آخرت میں اُس کااعلی انعام پائیں گے- ایمانی زندگی دراصل عارفانہ زندگی کا دوسرا نام ہے- عارفانہ زندگی یہ ہے کہ آدمی اللہ کی نعمتوں کو دریافت کرے، اور شکر واعتراف کے جذبے کے ساتھ زندگی گزارے-
واپس اوپر جائیں

ایک آزمائش

قرآن کی سورہ نمبر 29 میں آزمائش کے ایک معاملہ کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ ۭ وَلَىِٕنْ جَاۗءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ ۭ اَوَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ (العنکبوت: 10) یعنی لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے- پھر اللہ کی راہ میں اُس کو جب کوئی آزمائش پیش آتی ہے تو وہ انسانی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیتاہے- اور اگر تمھارے رب کی طرف سے کوئی مدد آجائے تو وہ کہیں گے کہ ہم تو تمھارے ساتھ تھے- کیا اللہ اس سے اچھی طرح باخبر نہیں جو لوگوں کے دلوںمیں ہے- قرآن کی اس آیت میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے ، جو اپنے آپ کو مومن اور مسلم تو سمجھتے ہیں لیکن شعوری اعتبار سے وہ زیادہ پختہ نہیں ہوئے- اُن کا ذہنی ارتقا اِس درجہ کا نہیں ہوتا کہ وہ پیش آمدہ صورت حال کو کتاب اللہ کی روشنی میں جانچیں- وہ شبہہ پیدا کرنے والے واقعہ کا تجزیہ (analysis)کرکے اُس کی اصل نوعیت کو سمجھیں اور اپنے یقین کو بدستور برقرار رکھیں-
داعی کے ذریعہ دین کی دعوت اٹھے اور ایک شخص ابتدائی طورپر اُس کو حق سمجھ کر اُس کا ساتھی بن جائے- تب بھی قانونِ فطرت کے مطابق التباس کا عنصر (element of doubt)کا امکان باقی رہے گا- مثلاً اجتماعی زندگی کی بنا پر شکایت کے مواقع پیدا ہوں گے، دوسروں کی طرف سے بربنائے غلط فہمی مخالفتیں کی جائیں گی، حالات کے تحت آزمائش کی صورتیں پیدا ہوں گی، وقت کے بڑے اُس کے دشمن بن جائیں گے- ایسی صورت میں اگر آدمی کے اندر شعوری پختگی موجود ہو تو وہ انسانی آزمائشوں کا کتاب اللہ کی روشنی میں تجزیہ کرسکے گا، اور اِس طرح اپنے یقین کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگا-
اِس کے برعکس، اگر آدمی کے اندر شعوری پختگی نہ ہو تو وہ حالات کو دیکھ کر مشتبہ ہوجائے گا- وہ غلط طورپر یہ سمجھنے لگے گا کہ آزمائش کی جو صورت پیش آرہی ہے، اُس کی نوعیت انسان کی آزمائش کی نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ کی تنبیہہ ہے، اور اس بنا پر ہے کہ میں نے شاید ایک ایسے راستے کو اختیار کرلیا ہے، جو اللہ کا مطلوب راستہ نہیں- اس طرح وہ شبہہ میں پڑ کر داعی حق کا ساتھ چھوڑ دے گا-
واپس اوپر جائیں

دعوت کی توسیع

کسی مشن کے دو دور ہوتے ہیں— استحکام (consolidation) اور توسیع (expansion) - الرسالہ کا دعوتی مشن اللہ کے فضل سے استحکام کے دور سے گزر کر اب توسیع کے دور میں داخل ہوگیاہے- نہ صرف انڈیا میں بلکہ دوسرے ملکوں میں بار بار اس کی مثالیں سامنے آرہی ہیں-
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 13 اکتوبر 2014 کی صبح کو ممبئی سے محبوب بھائی (Mob: 9619163993) کا ٹیلیفون آیا- ممبئی میں پہلے شہر میں دعوتی کام شروع ہوا، اس کے بعد ممبئی کی ٹیم نے مہاراشٹر اسٹیٹ کے دوسرے مقامات کے لئے دعوتی سفر شروع کیا- یہ منصوبہ کامیاب رہا- اب ممبئی کی ٹیم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ دعوتی توسیع کے اس کام کو ملکی سطح پر چلائیں گے- اس نئے پروگرام کے تحت ممبئی کی ٹیم جلد ہی کلکتہ جانے والی ہے- اس خبر پر مجھے بہت خوشی ہوئی، اور میں نے ان کے لئے دعائیں کیں- خاص بات یہ ہے کہ یہ تمام پروگرام وہ لوگ کسی مرکزی ہدایت کے بغیر کررہے ہیں- یہ کسی مشن کے زندہ مشن ہونے کا ثبوت ہے-
میں نے محبوب بھائی سے کہا کہ آپ لوگ اسی طرح دعوتی توسیع کے میدان میں آگے بڑھئے، اِن شاء اللہ جلد ہی وہ وقت آئے گا جب کہ آپ لوگ عالمی (global) سطح پر دعوت کا یہ کام انجام دیں گے- میں نے کہا کہ حیدرآباد میں ہمارے ایک ساتھی بابو بھائی (وفات: 1987) تھے، الرسالہ مشن سے ان کو نہایت گہرا تعلق تھا- وہ اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے کہ دعوت کا منصوبہ آپ لوگ بنائیے، پیسہ مجھ سے لے جائیے- میں نے کہا کہ یہی بات بے شمار گنا زیادہ بڑے پیمانے پر اللہ رب العالمین کے لئے درست ہے- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ داعیانِ حق کی مدد کرتا ہے-
قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ولینصرن اللہ من ینصرہ (الحج: 40) اور بے شک اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے-قرآن کی اس آیت میں اللہ کی جس نصرت کا ذکر ہے، اس سے مراد دعوت الی اللہ ہے- دعوت الی اللہ، اللہ رب العالمین کا سب سے زیادہ محبوب کام ہے- اس بناپر اس کام کو اللہ نے اپنی مدد کرنا بتایا ہے-
دعوت الی اللہ کے کام کو اللہ کی مدد کرنا بتایا گیاہے، اس پہلو سے غور کیجئے تو یہ کہنا درست ہوگاکہ قرآن کی اس آیت کے ذریعہ اللہ یہ اعلان کررہا ہے کہ— اے بندے، تو دعوت کی پلاننگ کر، مددگار اسباب میری طرف سے تمھارے اوپر انڈیل دئے جائیں گے- محبوب بھائی سے میں نے کہا کہ ممبئی کو انڈیاکی کمرشیل راجدھانی کہاجاتا ہے- شاید اللہ نے یہ مقدر کردیا ہو کہ ممبئی دعوت الی اللہ کے کام کی دعوتی راجدھانی بنے- موجودہ کمیونی کیشن کے زمانے میں یہ بات پوری طرح ممکن ہے- اس کے ممکن ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں-
الرسالہ کا دعوتی مشن پورے معنوں میں ایک مشن ہے، لیکن اس کی کوئی فارمل تنظیم (formal organisation) نہیں- اس مشن سے وابستہ لوگ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، اور ہر ایک ذاتی جذبہ (self spirit) کے تحت کام کررہا ہے- ہر ایک اس طرح کی سرگرمی کے ساتھ کام کررہا ہے، گویا کہ یہ اس کا ذاتی کام ہے-
ابتدائی زمانے کا واقعہ ہے، میں ایک عرب ملک میں تھا، وہاں ایک عرب شیخ نے پوچھا کہ آپ کا برنامج (پروگرام) کیا ہے- میں نے کہا: برنامجنا ہو إعداد المبرمجین (ہمارا پروگرام، پروگرام ساز انسان بناناہے)-
اللہ کے فضل سے آج یہ بات واقعہ بن چکی ہے- الرسالہ مشن کے افراد مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں- معروف معنوں میں ان کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں- وہ رسمی طورپر کسی مرکزی ہدایت سے بندھے ہوئے نہیں- اس کے باوجود ہر ایک سرگرم ہے-
اس کا سبب یہ ہے کہ الرسالہ مشن کوئی سیاسی مشن نہیں- الرسالہ مشن لوگوں کو جنت کی طرف بلانے کا مشن ہے- الرسالہ مشن قرآن کی اِس آیت کی یاددہانی ہے کہ لمثل ہذا فلیعمل العاملون (الصافات: 61)- اس جنتی نشانہ نے الرسالہ مشن کو ہر ایک کے لئے اس کے ذاتی انٹرسٹ کی چیز بنا دیا ہے-
واپس اوپر جائیں

ہدایت اور ضلالت

قرآن بلاشبہہ کتابِ ہدایت ہے- قرآن بتاتا ہے کہ اِس دنیا میں انسان کے لیے صراطِ مستقیم کیا ہے- لیکن اِسی کے ساتھ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قرآن سے ہدایت پانے کا انحصار اِس پر ہے کہ آدمی خود ہدایت کا طالب ہے یا نہیں- اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: یضل بہ کثیرا ویہدی بہ کثیراً وما یضل بہ إلا الفاسقین (2:26) یعنی اللہ قرآن کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو اس کے ذریعے سے راہ دکھاتا ہے- اور وہ گمراہ کرتا ہے، اِس کے ذریعے اُن لوگوں کو جو نافرمانی کرنے والے ہیں-
یہاں یہ سوال ہے کہ ایک ہی کتاب (قرآن) کس طرح ہدایت کا ذریعہ بھی بنتی ہے اور ضلالت کا ذریعہ بھی- یہ معاملہ اُس وقت سمجھ میں آتا ہے جب کہ یہ ذہن میں رکھا جائے کہ قرآن کا موضوع کیا ہے- یہ فرق موضوع (subject)کے فرق کی بنا پر پیدا ہوتا ہے-
علمی اعتبار سے، موضوع کی دو قسمیں ہیں— ایک سائنسی موضوع اور دوسرا انسانیاتی موضوع- سائنسی موضوع میں ریاضیات مدارِ استدلال ہوتی ہے- ریاضیات میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی، اور اگر کوئی شخص اختلاف کرے تو نہایت آسانی کے ساتھ اس کو سٹل (settle) کیاجاسکتا ہے- لیکن انسانیات (humanities)کا معاملہ اِس سے مختلف ہے- یہاں ہمیشہ اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے، اور اگر کوئی شخص اختلاف کرے تو اس کو ختم کرنے کی کوئی حتمی بنیاد نہیں ہوتی-
مثال کے طورپر قرآن میں ہے: السارق والسارقة فاقطعوا أیدیہما(5:38)- بظاہر یہ ایک حکم ہے، لیکن لوگوں نے مختلف انداز میں اس کی تاویل کی ہے- مثلاً کوئی کہتا ہے کہ اُس سے مراد ہر سارق (چور) ہے اور کوئی کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف عادی سارق ہے- کوئی کہتا ہے کہ سارق کی صرف انگلی کاٹنا کافی ہے اور کوئی کہتا ہے کہ اس کا پورا ہاتھ کاٹنا ضروری ہے- کوئی کہتا ہے کہ اِس آیت میں ’’قطعِ ید‘‘ کا لفظ اپنے حقیقی معنی میں ہے اور کوئی کہتا ہے کہ قطعِ ید سے مراد علامتی قطع ہے، نہ کہ حقیقی قطع، وغیرہ-
قرآن کی آیتوں کی تاویل میں اِس قسم کا اختلاف ہمیشہ ممکن رہتا ہے- ایساکوئی فارمولا نہیں جس سے اِس تفسیری تعدّد کو حتمی طور پر ختم کردیا جائے، جس طرح دو اور دو چار کے معاملے میں ممکن ہوتا ہے- قرآن کے معاملے میں حتمی تاویل ایک انفرادی معاملہ ہے، یعنی جو شخص کسی تاویل کومان لے، وہ اس کے لیے حتمی تاویل بن جائے گی، ورنہ نہیں-
قرآن کے کلام کی نوعیت کسی کمی کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ وہ عین مطلوب ہے- واقعہ یہ ہے کہ قرآن صرف بیانِ حقیقت (statement of fact) نہیں ہے، بلکہ وہ انسان کی سنجیدگی کا امتحان بھی ہے- قرآن اگر دو اور دو چار کی زبان میں ہوتا تو اس کے قاری کا امتحان نہیں ہوسکتا تھا- ایسی صورت میں قرآن میں جبر (compulsion)کا عنصر شامل ہوجاتا، اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جبر اور آزادانہ امتحان (test)دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے-
اصل یہ ہے کہ قرآن حقیقتِ واقعہ کا ایک اظہار ہے- اب جو شخص حقیقت کا سچا متلاشی ہو، یعنی وہ اِس معاملے میں آخری حد تک سنجیدہ ہو کہ اس کو سچائی کو دریافت کرنا ہے،اس کا یہ احساس ہو کہ اگر وہ سچائی کو دریافت کیے بغیر مرجائے تو اس کی موت ایک بد ترین قسم کی ناکام موت ہوگی، تب وہ ضرور سچائی کو پالے گا-
کسی شخص کے اندر اِس ذہن کا موجود ہونا اپنے آپ میں اِس بات کی ضمانت ہے کہ حقیقت جب اس کے سامنے ظاہر ہو تو وہ اس کے انکار کا تحمل نہ کرسکے- وہ اپنے سدادِ فکر (sound thinking) کی بنا پر التباس کے عناصر (elements of doubt) کا تجزیہ کرکے ان کو اپنے لیے غیر موثر بنادے- ایسا شخص کبھی گمراہ نہ ہوگا- اس کا حال اُس انسان جیسا ہو جائے گا جس کے سامنے حقیقت آئے تو وہ فوراً اس کو پہچان لے- یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں تمثیل کی زبان میں یکاد زیتہا یضیئ ولو لم تمسسہ نار (24:35) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے- (24 جون 2014 )
واپس اوپر جائیں

ایک انسانی کمزوری

انسان کی یہ ایک عام کمزوری ہے کہ وہ ملےہوئے کو اپنے خانہ میں ڈال لیتا ہے اور نہ ملے ہوئے کو دوسرے کے خانہ میں- اس کا مہلک نتیجہ (disastrous result) یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بارے میں بیجا فخر (false pride)میں مبتلا ہوجاتاہے اور دوسرے کے بارے میں بیجا شکایت (false complaint) میں-اس کے بجائے یہ ہونا چاہئے کہ آدمی ملی ہوئی چیز کو عطیۂ الہی (divine gift) سمجھے اور نہ ملی ہوئی چیز کو اپنی کوتاہی کے خانہ میں ڈال دے- یہ دونوںعادتیں انسانی شخصیت کی تعمیر میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں- ایک عادت سے انسان کے اندر مثبت شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے، اور دوسری عادت سے، اس کے اندر منفی شخصیت بنتی ہے، اور اِس دنیا میں منفی شخصیت سے بری کوئی چیز نہیں-
اِس مسئلہ کا حل یہ ہےکہ آدمی مطالعہ اور غور وفکر کے ذریعہ اپنی معرفت کو بڑھائے-وہ اپنے آپ کو حقیقت شناسی کی وسعت تک پہنچائے- اس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اللہم أرنا الأشیاء کما ہی (خدایا، مجھ کو اس قابل بنا کہ میں چیزوں کو ویسا ہی دیکھوں، جیسا کہ وہ ہیں)
آدمی کی یہ کمزوری ہے کہ وہ چیزوں کو ایز اٹ از (as it is) نہیں دیکھ پاتا- وہ اپنے بارے  میں ضرورت سے زیادہ اندازہ (overestimation) کرتاہے- اور دوسروں کے بارے میں ضرورت سے کم اندازہ (underestimation) میں مبتلا رہتا ہے- یہ غیر حقیقت پسندانہ مزاج نہایت مہلک ہے- جو لوگ اِس غیر حقیقت پسندانہ مزاج کا شکار ہوں، اُن کے لیے یہ اندیشہ ہے کہ وہ دنیا میں ناکام ہوجائیں، اور آخرت میں بھی ناکام-
صحیح یہ ہے کہ آدمی کے اندر اپنے بارے میں تواضع (modesty) کا مزاج ہو- یعنی اپنے آپ کو کم سمجھے، اور دوسروں کے بارے میں، اُس کے اندر اعتراف (acknowledgement) کا مزاج ہو- یہی مزاج اس دنیا میں، آدمی کی کامیابی کا ضامن ہے-
واپس اوپر جائیں

خدا کی سنت

تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے مطابق، خدا کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ خود واقعات کو ظہور میں لائے۔ خدا انسان کے لیے موقع (opportunity)فراہم کرتاہے۔ یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اِس موقع کو استعمال کرکے واقعے کو ظہور میں لائے۔ مثلاً خدا اپنے نظام کے تحت بارش برساتا ہے، وہ براہِ راست طورپر فصل نہیں اگاتا۔ یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ بارش سے پیدا شدہ موقع کو استعمال کرے اور زمین پر فصل اگائے-یہی معاملہ دعوت الی اللہ کا ہے۔ دعوت اہلِ ایمان پر فرض ہے، مگر ایسا نہیں ہوگا کہ اللہ اپنے فرشتوں کو زمین پر بھیجے اور فرشتے براہِ راست طورپر دعوت کا کام انجام دیں۔ یہ اہلِ ایمان کی اپنی ذمے داری ہے کہ وہ مواقع (opportunity) کو پہچانیں اور ان کو استعمال کریں-مثال کے طورپر دعوت الی اللہ کا کام قدیم زمانے میں صرف مقامی طورپر ہوسکتا تھا، کیوں کہ اُس وقت عالمی ذرائع موجود نہ تھے، مگر موجودہ زمانے میں عالمی مواصلات (global communication) کے ذرائع وجود میں آگئے ہیں۔ یہ تبدیلی اِس بات کا اشارہ ہے کہ قدیم زمانے میں دعوت اگر مقامی اعتبار سے فرض ہوتی تھی تو اب دعوت اہلِ ایمان کے لئے ایک عالمی فریضہ بن چکی ہے-
قدیم زمانے میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا موجود نہیں تھا۔ عالمی جغرافیہ کا علم بھی لوگوں کو نہ تھا۔ آمد ورفت کے ذرائع بھی نہایت محدود تھے۔ اِن اسباب کی بنا پر قدیم زمانے میں مقامی دعوت سے بھی دعوت کا فریضہ ادا ہوجاتا تھا، مگر موجودہ زمانے میں یہ چیز لازمی فریضہ بن چکی ہے کہ اہلِ ایمان جدید عالمی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے حق کی دعوت کو عالمی سطح پر پہنچائیں۔ مزید یہ کہ دعوت صرف اعلان (announcement)کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے حکمت اور خیرخواہی کے تقاضوں کی رعایت بھی ضروری ہے۔ اِس لیے موجودہ زمانے میں اہلِ ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ دونوں کام انجام دیں— اہلِ عالم تک اللہ کے پیغام کو پہنچانا اور اہلِ عالم کے لیے کامل طورپر خیر خواہ بننا-
واپس اوپر جائیں

دو ذمّے داری

آخرت کی نجات کے لیے کیا شرائط ہیں۔ اس کی دو شرطیں ہیں۔ ایک شرط وہ ہے جو مومن ہونے کی حیثیت سے آپ سے مطلوب ہے۔ دوسری شرط وہ ہے جو خاتم النبیین کا امتی ہونے کی حیثیت سے آپ کے اوپر عائد ہوتی ہے۔پہلی شرط کا خلاصہ اس دعا میں ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: نرجو رحمتک ونخشی عذابک(کنز العمال: 21948) یعنی ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت کی نجات اس کے لیے ہے جو درجۂ رجاء میں خدا کی رحمت کا حریص ہو، اور درجۂ خشیت میں خدا کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہو۔
ایک شخص اگر اپنے بیٹے کے لیے بہتر مستقبل کا حریص ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ وہ صرف زبان سے اس مفہوم کا جملہ بولتاہے۔ اس کے لیے کچھ ظاہری کارروائی کردیتا ہے۔ بلکہ جو شخص فی الواقع اپنے بیٹے کے لیے بہتر مستقبل چاہتا ہو وہ اس کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا نشانہ بنالے گا، وہ رات اور دن اسی کے لیے سوچے گا، وہ اپنے وقت اور اپنے مال اور اپنے تمام اثاثے کا بہترین استعمال یہ سمجھے گا کہ ان کو بیٹے کے مستقبل کی تعمیر میں لگا دے۔
اسی طرح جو شخص حقیقی معنوں میں خدا کی رحمت کا اور اس کی جنت کا حریص بن جائے، وہ اس کو کافی نہیں سمجھ سکتا کہ مخصوص اوقات میں اس مفہوم کے الفاظ اپنی زبان سے دہرادے۔ یا وقتی طورپر کچھ رسمی اعمال ادا کردیا کرے۔ اس کے برعکس، اس کا معاملہ یہ ہوگا کہ خدا کی رحمت اور جنت کا حریص بننا اس کی پوری شخصیت کے اوپر چھا جائے گا۔ اس کی سوچ اور اس کے جذبات اسی رخ پر چلنے لگیں گے۔ وہ اپنے تمام اثاثے کو اس کام کے لیے وقف کردے گا کہ وہ ان کے ذریعہ سے اپنے لئے جنت کے حصول کو یقینی بنا سکے۔
اس سلسلے میں دوسری شرط وہ ہے جو خاتم النبیین کا امتی ہونے کی حیثیت سے مسلمان پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی، مگر اسی کے ساتھ دوسری سنگین حقیقت یہ ہے کہ کارِ نبوت کی ذمے داری بدستور باقی ہے، اور یہ کام بعد کی نسلوں کے اوپر، آپ کے امتیوں کو اُسی طرح کرنا ہے جس طرح پیغمبر آخر الزماں نے اپنی ہم عصر نسل کے اوپر کیا تھا۔
اسی عمل کا نام دعوت الی اللہ ہے۔ مسلمان کے اوپر لازم ہے کہ وہ اس دعوتی کام کو اس کے تمام تقاضوں کے ساتھ انجام دے، ورنہ سخت اندیشہ ہے کہ وہ قیامت میں خدا کی پکڑ کی زد میں آجائے۔
مسلمان ہونا کوئی فخر کی بات نہیں، بلکہ وہ ذمہ داری کی بات ہے- جو شخص مسلمان ہونے کی ذمے داری کو اداکرے، وہی مسلمان ہے، اور جو شخص مسلمان ہونے کی ذمے داری کو ادا نہ کرے، اس کے لئے سخت اندیشہ ہے کہ وہ اللہ کے یہاں ایک ناقابلِ قبول انسان ٹھہرے، وہ اللہ کے یہاں مومن ومسلم کی حیثیت سے قبول نہ کیا جائے-
واپس اوپر جائیں

فریکونسی کا مسئلہ

اگر آپ کے پاس ریڈیو سیٹ تو ہو، لیکن ریڈیو اسٹیشن سے جس فریکونسی (frequency) پر پیغام نشر ہورہا ہے، آپ کا ریڈیوسیٹ اس فریکونسی (frequency) پر کام نہ کرتا ہو تو آپ کے لئے وہ سیٹ بے کارہے- جب تک آپ اپنے ریڈیو سیٹ کو مطلوبہ فریکونسی (frequency)پر نہیں لائیں گے، آپ ریڈیو اسٹیشن کی نشریات سے استفادہ نہیں کرسکتے- (ماہ نامہ الشریعہ، پاکستان، مارچ 2005)
یہی معاملہ ربانی نشریات کا ہے- اس دنیا میں ہر لمحہ ربانی پیغام نشر ہورہا ہے، ہر لمحہ یہ خاموش آواز آرہی ہے کہ کیا کوئی سننے والا ہے جو سنے، کیا کوئی نصیحت لینے والا ہے جو نصیحت لے- اگر آپ کا ذہن پہلے سے ان ربانی نشریات کو اخذ کرنے کے لیے تیار ہو تو آپ کا ذہن ان ربانی نشریات کو قبول کرے گا، اور اگر آپ کا ذہن تیار نہ ہو تو ربانی نشریات آئیں گی، اور آپ کے پاس سے گزر جائیں گی، لیکن آپ اس کو اخذ کرنے سے محروم رہیں گے-
اِس دنیا میں ہر آدمی کو اپنے آپ کو شعوری طورپر تیار کرنا ہے- ہر آدمی کو ربانی نشریات کے لیے آخذ(recipient) بننا ہے- دنیا میں روحانی ترقی کا یہی واحد ذریعہ ہے- اِسی سے انسان کے اندر وہ شخصیت بنتی ہے، جس کو مزکیّٰ شخصیت (purified personality) کہاگیا ہے- جس آدمی کے اندر ربانی نشریات کو اخذ کرنے کا یہ مادہ نہ ہو، وہ کبھی روحانی اعتبار سے ترقی نہیں کرسکتا-
قرآن میںاس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَلَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ (الانفال: 23) اور اگر اللہ ان میں خیر کو جانتا تو وہ ضرور ان کو سناتا -یہاں جوبات متعدی کے صیغے (transitive form)میں کہی گئی ہے، وہ لازم کے صیغے (intransitive form)میں مطلوب ہے، یعنی اگر ان کے اندر صلاحیت ہوتی تو وہ ضرور ہدایت کو پالیتے- گویا کہ یہ مسئلہ فقدانِ صلاحیت کا ہے، نہ کہ فقدانِ ہدایت کا-(20 جون 2014)
واپس اوپر جائیں

پیغمبر کا اُسوہ

قرآن کی سورہ نمبر 12 میں حضرت یوسف کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اِس قصے کو قرآن میں احسن القصص (یوسف: 2) کہاگیا ہے۔ اِس قصے کے ’احسن القصص‘ ہونے کے کئی پہلو ہوسکتے ہیں، لیکن اُس کا ایک پہلو، حضرت یوسف کا وہ طریقِ کار ہے جو انھوںنے بادشاہِ وقت کے معاملے میں اختیار کیا۔
اِس طریقِ معاملہ کو قرآن میں اس طرح بتایا گیا ہے کہ بادشاہِ مصر نے حضرت یوسف کی شخصی صلاحیت سے متاثر ہو کر اُن سے کہاکہ تم کو میری سلطنت کے خزائن پر اختیار ہوگا، تاہم جہاں تک ملک کے قانونی نظام کا تعلق ہے، اُس میںحسبِ سابق، بادشاہ کا قانون جاری رہے گا۔ اِس بات کو بائبل میںاِس طرح بیان کیاگیا ہے:
’’اور فرعون (شاہِ مصر) نے یوسف سے کہا: چوں کہ خدانے تجھے یہ سب کچھ سمجھا دیا ہے، اِس لیے تیری مانند دانشور اور عقل مند کوئی نہیں۔ سو، تو میرے گھر کا مختار ہوگا، اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا‘‘۔ (پیدائش41: 39-40 )
حضرت یوسف کے زمانے میں مصر کا جو بادشاہ تھا، وہ مُنفعل مزاج کا آدمی تھا۔ عام بادشاہوں کی طرح وہ جارحانہ مزاج کا انسان نہ تھا۔ چناں چہ وہ راضی ہوگیا کہ تخت کا مالک وہ رہے، لیکن اُمورِ سلطنت کو حضرت یوسف انجام دیں۔ حضرت یوسف نے بادشاہ کی اِس پیش کَش کو قبول کرلیا۔ بادشاہ کے برائے نام اقتدار کے تحت، وہ اپنا پیغمبرانہ مشن چلاتے رہے۔
قرآن کے مطابق، ہر پیغمبر کا عمل ہمارے لیے یکساں طورپر درست نمونہ ہے۔ (الأنعام: 90) اِس بنا پر حضرت یوسف کا نمونہ بھی ہمارے لیے اتنا ہی قابلِ اتّباع ہے،جتنا کہ پیغمبر اسلام یا اورکوئی پیغمبر کا نمونہ۔ یہ نمونہ اِس اصول پر مبنی ہے کہ اگر سیاسی حاکم اصل مشن میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے تو اُس سے ٹکراؤ نہیںکیا جائے گا۔ بلکہ اُس کو تسلیم کرتے ہوئے اُس کے تحت، اپنے کام کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔
حضرت یوسف کو یہ موقع اِس لیے ملا تھا کہ ان کا مُعاصر بادشاہ منفعل مزاج کا آدمی تھا۔ موجودہ زمانے میں اب یہ معاملہ کسی کے شخصی مزاج کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ یوسفی اصول اب عالمی طورپر تسلیم شدہ اصول (universally accepted norm) کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔ اب اس دورِ آزادی میںتمام حکمرانوں نے یہ مان لیا ہے کہ وہ اپنے مخصوص سیاسی دائرے کے باہر کسی معاملے میں تعرّض نہیں کریں گے۔ لوگوں کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ جس طرح چاہیں اپنے امور کی تنظیم کریں، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ وہ دوسروں کے خلاف تشدد کا کوئی فعل نہیں کریں گے۔
حضرت یوسف کے زمانے میں جو چیز استثنائی موقع کی حیثیت رکھتی تھی، وہ اب عمومی موقع کی حیثیت حاصل کرچکی ہے۔ اِس موقع کو دعوتِ حق کے لیے استعمال کرنا، پیغمبر کے طریقے کی پیروی ہے۔ اور اِس کے خلاف عمل کرنا، پیغمبر کے طریقے سے انحراف کے ہم معنیٰ ہے۔
واپس اوپر جائیں

الرسالہ مشن کا دوسرا دور

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کا آغاز مکہ میں کیا- تیرہ سال کے بعد آپ نے مکہ سے ہجرت کیا اور مدینہ میں قیام فرمایا- جب آپ مدینہ کی سرحد پر پہنچے، اس وقت اہلِ مدینہ کے ایک گروہ نے آگے بڑھ کر آپ کا استقبال کیا- اس وقت آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر بھی تھے- دونوں کو خطاب کرتے ہوئے اہلِ مدینہ نے کہا: أدخلا آمنَین مطاعَین(مسند احمد، رقم الحدیث: 12234) یعنی آپ دونوں مدینہ میں داخل ہوجائیں ، آپ دونوں کے لیے یہاں امن ہے، اور آپ دونوں ہمارے لیے قابلِ اتباع ہیں-
مدینہ میں اس حیثیت سے آپ کا استقبال کیوں کر ممکن ہوا- وہ قبل از ہجرت عمل کی بنا پر ممکن ہوا تھا- ہجرت سے پہلے کچھ اصحاب مدینہ گئے، وہاں وہ لوگوں کے سامنے قرآن کی دعوت پیش کرتےرہے- اس وقت مطبوعہ قرآن موجود نہ تھا، اس لئے وہ اپنے حافظہ سے لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے رہے- اس بنا پر وہ وہاں مقری کہے جاتے تھے- یہ گویا ہجرت سے پہلے ابتدائی تیاری کا معاملہ تھا- اس ابتدائی تیاری کے نتیجہ میں یہ ہوا کہ مدینہ میں اسلام گھر گھر میں داخل ہوگیا- جیساکہ روایت میں آیا ہے: لم تبق دار من دور الأنصار إلا وفیہا ذکر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم (السیرة النبویة لابن کثیر : 2/179) یعنی مدینہ کے گھروں میں سے کوئی گھر نہ بچا، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا نہ ہورہا ہو-
یہ معاملہ جو مدینہ میں پیش آیا، وہ بھی رسول اور اصحابِ رسول کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے- کوئی دعوتی مشن اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے، جب کہ اس کے افراد اس سنت پر منظم انداز میں عمل کریں- وہ مشن سے پہلے قبل ِ مشن (pre-mission) کی اہمیت کو سمجھیں، اور اس پر عمل کریں- یہ عمل صرف اس وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب کہ وہ پرامن ہو اور اس کو مکمل طورپر لو پروفائل (low profile) کے انداز میں انجام دیا جائے-
اللہ کے فضل سے الرسالہ مشن کے ساتھ ایسےہی معاملہ پیش آیا- اسلامی مرکز1970 میں قائم ہوا- اس کے بعد ماہ نامہ الرسالہ 1976 میں جاری ہوا- اس طرح یہ دعوتی مشن تقریباً چالیس سال تک برابر چلتا رہا- اس کے بعد اس کے معاون کے طور پر الرسالہ انگریزی، فروری 1984 میں جاری ہوا جو کہ اب ماہ نامہ اسپرٹ آف اسلام کی صورت میں بنگلور سے نکل رہا ہے- اس درمیان دوسرے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ بھی بقدر امکان کام ہوتا رہا-
یہ گویا ابتدائی تیاری کا عمل تھا، جو تقریباً چالیس سال تک جاری رہا- اس مسلسل کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ہر جگہ ایسے لوگ قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں، جو پابندی کے ساتھ الرسالہ کا مطالعہ کررہے ہیں- نیز انھوں نے الرسالہ مشن کے تحت شائع ہونے والی کتابوں کو بھی وسیع پیمانے پر پڑھا ہے- ایسے افراد اور ایسے حلقے نہ صرف انڈیا میں، بلکہ مختلف ملکوں میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں-
اللہ کا شکر ہے کہ انڈیا کے اندر اور انڈیا کے باہر ایسے لوگ وسیع پیمانے پر متحرک ہوگئے ہیں- وہ ہر جگہ مختلف طریقوں سے اس مشن کو آگے بڑھارہے ہیں- خاص بات یہ ہے کہ یہ کام کسی مرکزی ہدایت یا کنٹرول کے بغیر خود اپنے جذبہ (spirit) کے ساتھ ہورہاہے- ہرجگہ بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو لأجل اللہ (for the sake of God) اس کام کو انجام دے رہے ہیں- وہ جدیدحالات کے لحاظ سے نئے طریقوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کررہے ہیں- یہ کام انتہائی حد تک غیر سیاسی (non-political) انداز میں انجام دیا جارہا ہے-
یہ گویا مذکورہ سنت رسول کا احیاء ہے- دونوں کے درمیان اگر فرق ہے تو وہ صرف ظاہر کے اعتبار سے ہے، نہ کہ اسپرٹ کے اعتبار سے- اس سنت پر عمل، قدیم زمانے میں اُس وقت کے حالات کے مطابق کیا گیا تھا- موجودہ زمانے میں اِس سنت پر عمل، جدید حالات کے اعتبار سے انجام پا رہا ہے- اس سنت پر عمل کا نتیجہ پہلے قدیم حالات کے اعتبار سے ظاہر ہوا تھا- موجودہ زمانے میں اس سنت پر عمل کا نتیجہ جدید حالات کے اعتبار سے پیش آرہاہے-
واپس اوپر جائیں

امت ِ مسلمہ کا کیس

ڈاکٹر محمود احمد غازی (وفات : 2010 ) نے 2 جنوری 2005 کو ایک تقریر کی - اِس تقریر کا اہتمام الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ (پاکستان) نے کیا تھا- اِس تقریر کا عنوان یہ تھا: مغرب کا فکری وتہذیبی چیلنج اور علماء کی ذمہ داریاں‘‘- یہ تقریر 22 صفحات پر مشتمل ہے- تقریر کا آخری پیراگراف یہ ہے:
’’اپنی اِس تلخ نوائی کو میں ایک فارسی شعر پر ختم کرتا ہوں، فارسی کا شعر ہے:
نوائے من ازاں پُرسوز وبے باک وغم انگیز است
کہ خاشاکم درِ شعلہ افتاد وبادِ صبح دم تیز است
یعنی میں اِس لیے تلخ باتیں کررہا ہوں کہ میرے آشیانے کو آگ لگ گئی ہے، اور ہوا تیز ہے اور مجھے جلدی بچانے کی ضرورت ہے- امرِ واقعہ یہی ہے کہ آشیانے کو آگ لگ چکی ہے اور بادِ صبح دم تیز ہے- آشیانہ جل جانے کا خطرہ ہے اور بہت جلد اس کو بچانے کی ضرورت ہے‘‘- (ماہ نامہ الشریعہ، مارچ 2005)
موجودہ زمانے کے تمام علماء اور مسلم رہنما اِسی قسم کی منفی بات کرتے ہیں- ہر ایک کو امتِ محمدی کا ’’آشیانہ‘‘ جلتا ہوا دکھائی دیتا ہے- یہ طرزِ فکر یقینی طورپر غیر اسلامی ہے، کیوں کہ وہ اسوۂ محمدی کے خلاف ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول کا زمانہ ہے- جب آپ کی بعثت ہوئی تو مکہ پر مشرکین کا قبضہ تھا- کعبہ کو عملاً بت خانہ بنا دیا گیا تھا- مدینہ پر یہودیوں کا دبدبہ قائم تھا- جزیرہ نمائے عرب کے اطراف میں بازنطینی حکومت اور ساسانی حکومت قائم تھی جو کھلے طورپر اسلام کی حریف (rival) بنی ہوئی تھی- اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک دعوتی مکتوب ایک صحابی کے ذریعے ایران کے حکمراں کسری کے پاس بھیجا-اس نے آپ کے مکتوب کو پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا: یکتب إلیّ بہذا وہو عبدی (البدایة والنہایة: 4/307) یعنی وہ میرے پاس ایسا خط بھیجتا ہے، حالاں کہ وہ میرا غلام ہے- یہ حالات اُن حالات سے ہزاروں گنا زیادہ شدید تھے جو موجودہ زمانے میں مسلمانوں کوپیش آرہے ہیں، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اُن کو لے کر منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا- ایسی حالت میں مسلم رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں، نہ کہ وہ دوسروں کے خلاف احتجاج کریں-
واپس اوپر جائیں

غلو کیا ہے

غلو کا لفظی مطلب ہے انتہاپسندی(extremism) ،یعنی کسی حکم شرعی میں مطلوب حد سے تجاوز کرنا- حد سے تجاوز کرنے کی یہ سوچ کب پیدا ہوتی ہے- یہ دراصل شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis) کا نتیجہ ہوتا ہے، یعنی جس چیز پر جتنا زور دینا چاہئے، اس پر اس سے زیادہ زور دینا -مثلاً اسلام میں سیاست کا مقام صرف جزئی یا اضافی ہے، مگر اس کو اتنا بڑھانا کہ سیاست ہی کی بنیاد پر پورے دین کی تعبیر وتشریح کی جائے، یہ حد سے تجاوز کرنا ہے اور اس تجاوز کو غلو کہا جائے گا-
اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئےایک صاحب نے کہا کہ آپ دعوت اور متعلقات دعوت پر اتنا زور دیتے ہیں، وہ بھی غلو کی تعریف میں آتا ہے- میں نے کہا کہ ہر گز نہیں- دعوت الی اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ پیغمبر کی اہم ترین سنت ہے- حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کی بعثت ہی اس کے لئے ہوئی- مگر موجودہ زمانے میں یہ ہوا کہ مدعو قوموں کو مسلمانوں نے اپنا رقیب یا حریف (rival) سمجھ لیا- اس بنا پر ان کے اندر دعوت کا محرک (incentive)ختم ہوگیا- اس لئے ہم اس سنت نبوی کو زندہ کرنے کے لئے اس پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں- اس کو ایمفیسس (emphasis) کہاجائے گا، نہ کہ شفٹ آف ایمفیسس(shift of emphasis) -
غلو کبھی اصل دین میں نہیں ہوتا، غلو جب بھی ہوتا ہے، وہ ظواہر دین میں ہوتا ہے- اصل دین میں شدتِ بیان ہمیشہ مطلوب ہوتی ہے- اصل دین میں یہ شدتِ بیان خود قرآنی اسلوب ہے، اور یہی اسلوب ہم کو احادیث میں ملتا ہے-
اصل دین میں شدتِ بیان کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے آدمی کے اندر روحِ دین زندہ ہوتی ہے، اور روحِ دین کے زندہ ہونے سے دین کے تمام پہلو اپنے آپ زندہ ہوجاتے ہیں- روح دین میں شدت کا طریقہ ہی مطلوب طریقہ ہے، البتہ جو ظواہر دین ہیں، ان میں شدت کے بجائے نرمی کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے- اسی فرق کو جاننے کا نام حکمتِ دین ہے-
واپس اوپر جائیں

حیاتِ انسانی کی توجیہہ

انسان کے بارے میں سوچنے کے دو طریقے ہیں— ایک ہے فرد(individual) کو لے کر سوچنا اور دوسرا ہے اجتماعی نظام (social system) کو لے کر سوچنا- اگر آپ یہ بتانا چاہیں کہ ایک انسان اپنی انفرادی سطح پر کس طرح سوچے، عقیدہ اور عمل کے اعتبار سے اس کا نشانہ کیا ہو- اِس طرح اگر آپ کسی شخص کے انفرادی رویّے کے بارے میں ایک نقطہ نظر متعین کرنا چاہیں تو آپ بآسانی اس کا تعین کرسکتے ہیں- کوئی شخص خواہ اس کو مانے یا نہ مانے، لیکن جہاں تک آپ کے نقطہ نظر کی بات ہے، وہ کسی کنفیوزن کے بغیر ایک واضح بات ہوگی-
اجتماعی نظام یا مجموعہ کا معاملہ اِس سے مختلف ہے- اجتماعی نظام کی کوئی واحد صورت بنانا ممکن نہیں، کیوں کہ اجتماعی نظام کا کوئی قابل عمل نقشہ صرف اس وقت بن سکتا ہے جب کہ ہر شخص اُس کو یکساں طورپر مانے- مگر انسان کی اجتماعی زندگی کی تشکیل اِس طرح ممکن نہیں ہوتی، اِس لیے انسان کی اجتماعی زندگی کا کامل معنوں میں کوئی یکساں نظام بنانا بھی ممکن نہیں-
ایسی حالت میں ضروری ہے کہ زندگی کے دونوں شعبوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے- فرد کے معاملہ کو آئیڈیل سے جانچا جائے- لیکن جہاں تک اجتماعی زندگی کا معاملہ ہے، اُس کے معاملہ میں آئیڈیل کے بجائے یہ دیکھا جائے کہ عملاً کیا چیز ممکن ہے اور کیا چیز ممکن نہیں- ایک فرد سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ تم اِس طرح رہو، لیکن مجموعے پر اس کو عملاً نافذ کرنا ممکن نہیں- جو لوگ یہ غلطی کریں کہ وہ فرد اور مجموعہ دونوں کو ایک معیار (yardstick)سے جانچیں، وہ یقیناً مایوسی کا شکار ہوجائیں گے، وہ کبھی اپنے عمل کی صحیح منصوبہ بندی نہ کرسکیں گے-فرد اور اجتماع کی یہ تقسیم بے حد اہم ہے- کوئی تحریک اسی وقت نتیجہ خیز ہوسکتی ہے، جس میں اس فرق کو ملحوظ رکھا گیا ہو- جس تحریک میں اس فرق کو ملحوظ نہ رکھا جائے، وہ تحریک عملاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے گی- ظاہری دھوم کے باوجود وہ سماج کو کوئی مثبت چیز نہ دےسکے گی- کسی عمل کے درست ہونے کا معیار یہ ہے کہ اس کو نتیجہ کے اعتبار سے جانچا جائے-
واپس اوپر جائیں

ترتیبِ قرآن

قرآن 23 سال کی مدت میں نجماً نجماً (قسط وار) اترا- قرآن میں پہلے وہ سورتیں نازل ہوئیں جن کو مکی سورتیں کہاجاتا ہے- اس کے بعد قرآن کی وہ سورتیں نازل ہوئیں جن کو مدنی سورتیں کہاجاتا ہے- لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں قرآن کو جس انداز میں مرتب کرکے امت کے حوالے کیا، وہ نزولی ترتیب سے مختلف تھا- یہاں یہ سوال ہے کہ کیوں ایسا ہے کہ قرآن میں تلاوت کی ترتیب اُس سے مختلف ہے جو نزول کے اعتبار سے اُس کی ترتیب تھی-
اِس کا سبب یہ ہے کہ قرآن کوئی تاریخ کی کتاب نہیں ہے- قرآن اصلاحِ انسانیت کی کتاب ہے- اِسی اصلاح کی حکمت کی بنا پر، ابتدائی دور میں قرآن اپنے معاصر حالات (contemporary situation)کے اعتبار سے اترا- لیکن بعد کو اُس کی ترتیب،ابدی حالات کے اعتبار سے کی گئی- یعنی وہ حالات جو بعد کے زمانے میں انسانیت کو پیش آنے والے تھے-
ترتیب کا یہ فرق بالکل فطری ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکہ اور مدینہ کے جو حالات تھے، اُن حالات کی نسبت سے قرآن کی آیتیں اور سو رتیں وقت وقت پر اترتی رہیں- لیکن قرآن ساری انسانیت کے لیے ہے- نزول کے اعتبار سے اُس میں معاصر حالات کی رعایت تھی- مگر موجودہ ترتیب میں وہ اِس طرح مرتب کیا گیا ہےکہ وہ بعد کے حالات پر منطبق ہوتا رہے-
مثال کے طور پر، بعد کے زمانے میں عملی طورپر ایسا ہونے والا تھا کہ امت ِ مسلمہ قرآن کی مخاطب بن جائے، اِس لئے موجودہ مصحف میں اُن سورتوں کو مقدم کردیاگیا ہے، جن میں زوال یا فتہ یہود کا ذکر تھا، تاکہ مسلمان اپنے دور زوال میں یہود کے حالات سے سبق لیں اور اپنی اصلاح کرسکیں، حالانکہ یہ سورتیں مدنی سورتیں تھیں، جو کہ بعد کے زمانے میں نازل ہوئیں-
واپس اوپر جائیں

پیغمبر متّبعِ قرآن

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا کلام لفظی طورپر پیغمبر کے اوپر اترا- اِسی کے ساتھ پیغمبر کو یہ حکم دیاگیا کہ تم خود سب سے پہلے اُس کے پیرو بنو (الانعام: 14)- فرمایا کہ اتبع ما أوحی إلیک من ربک (الانعام: 106) یعنی تم اُس چیز کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تم پر وحی کی جارہی ہے-
اب سوال یہ ہے کہ قرآن کا لفظی ریکارڈ تو مصحف کی صورت میں موجود ہے-دوسری چیز یعنی پیغمبر کا اتباعِ قرآن، اُس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ جیساکہ معلوم ہے، خودقرآن میں پیغمبر کے اتباعِ قرآن کا ریکارڈ نہیں- پھر یہ ریکارڈکہاں ہے- یہ ریکارڈ واضح طورپر احادیث کے اُس ذخیرہ میں ہے، جس کو سنت رسول کہا جاتا ہے، اور جس کو قرآن میں اسوۂ رسول (الاحزاب: 21) بتایا گیاہے-
قرآن، دینِ الہی کے نظریاتی حصہ کی وضاحت ہے- لیکن قرآن صرف ایک نظریہ کی کتاب نہیں- قرآن میں بار بار کہاگیا ہے کہ اے لوگو، قرآن کی اتباع کرو- اتباع کرنے کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے کہ اُس کا ایک عملی نمونہ (role model) موجود ہو- تمام قرائن کے مطابق، یہ عملی نمونہ وہی ہے جو رسول کی سنت کی شکل میں حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہے- سنت رسول کے سوا، کوئی اور چیز تعلیمات قرآن کے لیے عملی ماڈل نہیں بن سکتی-
حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ نے اپنا کلام اتارا، تو عین اُس کے فطری تقاضے کے مطابق ضروری تھا کہ اُس کا ایک عملی ماڈل بھی موجود ہو- عملی ماڈل کے بغیر قرآن کی حیثیت ایک مجرد نظریاتی کتاب کی ہوجائے گی- اُس کی حیثیت انسان کے لیے ایک رہنما کتاب (گائڈ بک) کی نہ ہوگی- حالانکہ اگر ایسا ہو کہ قرآن مجرد معنوں میں صرف ایک نظریاتی کتاب ہو، انسان کے لیے یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو کہ مستند طورپر اُس کی انطباقی صورت (applied version) کہاں ہے، تو ایسی حالت میں قرآن اُس کے لیے عملاً ایک گائڈ بک نہیں بن سکتا-
واپس اوپر جائیں

غلبہ، اہلِ حق کے لیے

حضرت موسی کے زمانے میں، جب بنی اسرائیل سے کہاگیا کہ تم فلسطین میں داخل ہوجاؤ تو اِس پر بنی اسرائیل کے درمیان تذبذب ہوا- اس وقت بنی اسرائیل کے ایک صاحبِ ایمان نے اپنی قوم سے کہا کہ: ادْخُلُوْا عَلَیْہِمُ الْبَابَ ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ ۚ وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (المائدة: 23) انھوں نے کہا کہ تم شہر میں داخل ہوجاؤ، جب تم اس میں داخل ہوجاؤگے تو تم ہی غالب ہوگے، اور اللہ پر بھروسہ کرو اگر تم مومن ہو-
اِس آیت میں ’’دخول پر غلبہ‘‘ کے جس معاملہ کا ذکر ہے، وہ صر ف بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک عمومی اصول ہے- عمومی اعتبار سے اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ حق کی برتر آئیڈیالوجی اِس بات کی ضامن ہوتی ہےکہ وہ ہرجگہ ان کے لیے غلبہ کا ذریعہ بن جائے- اسلام کے دورِ اول میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں داخل ہوئے تو قرآن کی آئیڈیالوجی ان کے لیے پرامن غلبہ کا ضامن بن گئی-
وسیع تر انطباق (extended application) کے اعتبار سے یہ اصول موجودہ زمانہ میں مزید اضافہ کے ساتھ صادق آتا ہے-موجودہ زمانے کا ایک نیا ظاہرہ وہ ہے، جس کو کانفرنس کہتے ہیں- یہ اجتماعات موجودہ زمانے میں ہر جگہ بڑے پیمانے پر ہورہے ہیں- امن کانفرنس، انٹرفیتھ ڈائیلاگ، اور اسی طرح عید ملن اور روزہ افطار جیسے بہت سے اجتماعات ہیں، جو برابر مختلف عنوانات کے تحت ہوتے رہتے ہیں- ان اجتماعات میں تعلیم یافتہ لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں-
اس قسم کے اجتماعات، حق کے داعیوں کے لیے عظیم مواقع کی حیثیت رکھتے ہیں- وہ ان میں شریک ہو کر لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں، اور اس طرح کے معروف عنوانات کے تحت وہ خود بھی اپنی طرف سے ایسے اجتماعات کا انتظام کرسکتے ہیں- ان کی بر تر آئیڈیالوجی اس بات کی ضامن ہے کہ وہ ہر جگہ غالب رہیں گے-
واپس اوپر جائیں

تنقید یا الزام تراشی

کسی شخص کو غلط بتانے کے لیے جب آپ کے پاس کوئی دلیل نہ ہو بلکہ صرف الزام ہو تو سمجھ لیجیے کہ آپ خود غلطی پر ہیں— عقل اور اسلام دونوں کا تقاضا ہے کہ آدمی کسی کے خلاف بولے تو صرف اُس وقت بولے، جب کہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے اُس کے پاس کوئی حقیقی دلیل ہو- اگر اُس کے پاس حقیقی دلیل نہیں ہے، اور وہ عیب زنی اور الزام تراشی کی زبان میں اپنی بات پیش کررہا ہے تو یہ بلا شبہہ ایک عظیم گناہ ہے-وہ انسان کو قتل کرنے کے ہم معنی ہے- ایسے شخص سے آخرت میں کہا جائے گا کہ تم دوسرے کے خلاف جو الزام لگاتے تھے، اُس کو دلیل سے ثابت کرو اور جب وہ اپنی بات کو دلیل سے ثابت نہ کرسکے گا تو اُس سے کہا جائے گا کہ جو الزام تم نے دوسرے کے اوپر لگایا تھا، اُس کی سخت تر سزا تم خود بھگتنے کے لیے تیار ہو جاؤ-
عیب زنی اور الزام تراشی کے لیے، صحیح لفظ کردار کشی (character assassination) ہے- کسی کے خلاف الزام تراشی کرنا، اُس کو کردار کے اعتبار سے قتل کرنے کے ہم معنی ہے- یہ جسمانی قتل سے کم گناہ نہیں- حدیث میں آتا ہے کہ ایک مومن پر دوسرے مومن کی تین چیزیں حرام ہیں- اُس کا خون، اُس کا مال، اور اُس کی عزت(کل المسلم على المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ) صحیح مسلم، رقم الحدیث: 6706- اِس حدیث میں بظاہر مسلم کا لفظ ہے- لیکن وسیع تر انطباق کے اعتبار سے، اس کا تعلق ہر انسان ،ہر عورت اور ہر مرد سے ہے- جو آدمی اِس بات کو جانتا ہو کہ آخر کار اُس کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے، وہ اِس معاملہ میں کانپ اٹھے گا- وہ اِس حرام فعل سے، اُس سے بھی زیادہ بچےگا جتنا کہ کوئی شخص سانپ اور بچھو سے بچتا ہے-
تنقید (criticism) ہر انسان کا ایک جائز حق ہے- مگر تنقید کو لازماً مبنی بر دلیل ہونا چاہئے- جس تنقید کے ساتھ دلیل شامل نہ ہو، وہ سخت گناہ ہے- علمی تنقید بلا شبہہ ایک خیر ہے، مگر غیر علمی تنقید بلاشبہہ ایک شر-
واپس اوپر جائیں

آخر میں قبر

قرآن کی سورہ نمبر 102 میں انسان کے لئے ایک نہایت نصیحت کی بات کہی گئی ہے- وہ یہ کہ انسان ساری کوشش کرکے دولت کا ڈھیر اکٹھا کرتا ہے مگر آخر میں اس کے اپنے حصہ میں جوچیز آتی ہے وہ صرف قبر کا گڑھا ہے (سورہ التکاثر)- یہ تبصرہ انسان کی پوری تاریخ پر درست ثابت ہوتا ہے- اس دنیا میں ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ وہ بظاہر بہت زیادہ حاصل کرتا ہے، لیکن عملاً اس کے اپنے حصہ میں بہت تھوڑا آتا ہے-
اس معاملہ کی ایک عبرت انگیز مثال یہ ہے کہ امریکا کے مشہور دولت مند بل گیٹس (Bill Gates) نے اتنا زیادہ کمایا کہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ دولت مند انسان بن گئے، لیکن آخر میں ان کو محسوس ہوا کہ یہ ساری دولت صرف ایک خارجی ڈھیر ہے- اُن کے اپنے لئے ایک ’’سینڈوچ‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں- انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا:
I can understande wanting to have a million dollars... but once you get beyond that, I have to tell you, it’s the same hamburger.
ایک شخص کتنا ہی بڑا محل بنائے، اس کے اپنے حصہ میں محل کا صرف ایک کمرہ آتا ہے- کوئی بادشاہ کتنی ہی بڑی سلطنت قائم کرے اس کے بیٹھنے کے لئے صرف ایک تخت ہوتا ہے- کوئی شخص عالمی شہرت کا مالک بن جائے لیکن عملاً اس کے رہنے کے لئے ایک چھوٹی سی دنیا ہوتی ہے، وغیرہ- ایسی حالت میں حقیقت پسندی یہ ہے کہ آدمی جنت کو اپنی منزل بنائے نہ کہ دنیا کی کسی چیز کو-
دنیا کے اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان کا آخری مقام صرف قبر نظر آتا ہے، لیکن آخرت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان کے لئے کامیابی کی ایک ایسی دنیا کھلی ہوئی ہے، جس کی کوئی حد نہیں- عقل مند وہ ہے جو دنیا سے بقدر ضرورت لے، اور اپنے حوصلوں اور تمناؤں کا نشانہ آخرت کو بنائے- یہی کسی انسان کے لئے حقیقت پسندی بھی ہے اور دانش مندی بھی-
واپس اوپر جائیں

دینی نہیں بلکہ قومی

قرآن کی سورہ نمبر 3 میں تاریخ کے ایک معاملہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ ۭ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ۚ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَاۗءَ ۭ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ (آل عمران: 140) یعنی اگر تم کو کوئی زخم پہنچے تو قوم کو بھی ویسا ہی زخم پہنچا ہے- اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں، تاکہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو گواہ بنائے اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا-
قرآن کی اِس آیت کا مرکزی نقطہ (central point) بین الناس کے لفظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے- یہاں بین الناس سے مراد بین الأقوام ہے- یعنی اِس آیت میں، لوگوں کے ساتھ پیش آنے والے، اُس واقعے کا ذکر ہے جو اُن کے درمیان قومی بنیاد پر پیش آتے ہیں- یعنی قانون فطرت کے مطابق، اِس دنیا کا نظام مسابقت (competition) کے اصول پر قائم ہے- مذکورہ آیت میں، زمانۂ رسول کے دو واقعے کا ذکر ہے— بدر اور احد- بدر کے واقعہ میں مشرک قوم کو نقصان اٹھانا پڑا تھا، اُحد کے واقعہ میں موحد قوم کو نقصان اٹھانا پڑا- اِس طرح کے واقعات فطرت کے قانون کے مطابق، ہمیشہ ہر قوم کے ساتھ پیش آتے ہیں- لوگوں کو چاہئے کہ وہ ایسے واقعے کو صحیح تناظر (right perspective) میں دیکھیں- اِس سے وہ اپنے آپ کو منفی سوچ سے بچا سکیں گے-
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے، اُن کو بھی اِسی قانون فطرت کی روشنی میں دیکھنا چاہیے- اِس طرح مسلمانوں کے اندر حقیقت پسندانہ مزاج (realistic approach) پیدا ہوگا- وہ اپنے آپ کو اِس سے بچا سکیں گے کہ اِن واقعات کو لے کر اُن کے اندر منفی سوچ پیدا ہوجائے، اور پھر وہ اپنے عمل کی مثبت منصوبہ بندی (positive planning) کرنے میں ناکام ہوجائیں-
مثلاً انیسویں صدی میں مسلمانوں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ مغرب کی نوآبادیاتی قومیں ایشیا اور افریقہ میں پھیل گئیں، اور انھوںنے مسلمانوں کے قومی دبدبہ کو ختم کردیا- اِس پر تمام دنیا کے مسلمان مغربی قوموں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے- اگر اِس معاملہ کو وہ قرآنی معیار سے دیکھتے تو وہ کہتے کہ اِس سے پہلے مسلم قوموں نے دوسری قوموں کے اوپر اپنا دبدبہ قائم کیا تھا- اب تاریخ کے قانون کے مطابق، دوسری قوموں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ مسلمانوں کے اوپر اپنا دبدبہ قائم کریں- مسلمان اگر اس طرح سوچتے تو وہ نئے حالات کے مطابق، اپنے عمل کی حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کرتے- لیکن مسلمان اِس تاریخی قانون سے بے خبر رہے- نتیجہ یہ ہوا کہ پوری مسلم دنیا مغربی قوموں کے خلاف نفرت میں مبتلا ہو کررہ گئی-
1948میں یہ واقعہ پیش آیا کہ یہود نے نئے حالات سے فائدہ اٹھایا اور فلسطین کے نصف حصے پر اپنی حکومت قائم کرلی- جس پر مسلمان مشتعل ہوگئے-وہ اسرائیل کے خلاف بے نتیجہ قسم کی منفی کارروائیوں میں مشغول ہوگئے، حالاں کہ اگر وہ سوچتے کہ اِس سے پہلے، سیکڑوں سال تک مسلم قوم نے فلسطین پر اپنی حکومت قائم کررکھی تھی- اب اگر یہود قوم کو موقع ملا ہے تو وہ قوموں کے بارے میں تاریخی قانون کی بنا پر پیش آیا ہے-
مسلمان اگر اِس طرح سوچتے تو اُن کے اندر حقیقت پسندانہ فکر پیدا ہوتی- وہ نئے حالات کے لحاظ سے اپنے عمل کا نتیجہ خیز منصوبہ بناتے، لیکن عملا یہ ہوا کہ انھوں نے منفی کارروائیوں میں مبتلا ہو کر صرف اپنے نقصان میں مزید اضافہ کرلیا-
اِسی طرح ہندوستان میں یہ واقعہ پیش آیا کہ 6 دسمبر 1992 کو ہندؤوں کا ایک مشتعل گروہ اجودھیا میں داخل ہو ا، اور بابری مسجد کی عمارت کو ڈھا دیا- اس وقت مسلمان اگر یہ سوچتے کہ اس سے پہلے 1001ء میں مسلم سلطان نے سومناتھ میں ہندوؤں کے مندر کو ڈھا دیا تھا، اُس کے بعد انتقامی طورپر اجودھیا کا واقعہ پیش آیا- مسلمان اگر اِس طرح سوچتے تو اُن کے اندر مثبت طرز فکر پیدا ہوتا، وہ حقیقت پسندانہ اور نتیجہ خیز (result oriented) انداز میں اپنے عمل کا منصوبہ بناتے، اور پھر یقینی طورپر کامیاب رہتے، لیکن انھوںنے اپنے ناعاقبت اندیش لیڈروں کی رہنمائی میں بے فائدہ قسم کی منفی کارروائیاں شروع کردیں- اُن کا یہ طریقہ فطری طورپر کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوا- مسلمانوں کے حصے میں مزید نقصان کے سوا کچھ اور نہ آیا-
حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان مذکورہ قسم کے جو واقعات پیش آتے ہیں- وہ ہمیشہ قومی بنیاد پر ہوتے ہیں- اُن کا دین اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے- اسی طرح یہ عقیدہ بنانا غلط ہے کہ فلاں قوم ہماری دشمن قوم ہے، وہ ہمارے خلاف سازشیں کرتی ہیں- اِس لئے اس قسم کے واقعات پیش آرہے ہیں- اِس قسم کے تمام خیالات تاریخ کے بارے میں فطرت کے قوانین سے بے خبری کا نتیجہ ہیں- یہ واقعات قوموں کے درمیان مسابقت کی بنا پر پیش آتے ہیں، نہ کہ سازش اور عداوت کی بنا پر-
اِس طرح کے واقعات کو اگر حقیقت پسندانہ ذہن سے دیکھا جائے تو لوگوں کے اندر مثبت طرز فکر (positive thinking) پیدا ہوگی- اور بلا شبہہ وہ اِس قابل ہوجائیں گے کہ ہر ناکامی کے بعد اپنے لئے نتیجہ خیز منصوبہ بنائیں، اور ہر ناکامی کے بعد دوبارہ کامیابی حاصل کرلیں- اِس کے برعکس، اگر تاریخ کے واقعات کو خود ساختہ ذہن کے ساتھ دیکھا جائے تو لوگوں کے اندر منفی طرز فکر (negative thinking)پیدا ہوگی- وہ رد عمل (reaction) کی نفسیات کا شکار ہوجائیں گے، اور غیر حقیقت پسندانہ عمل میں مبتلا ہو کر ایسی کارروائی کریں گے جو باعتبار نتیجہ صرف ان کے نقصان میں اضافہ کرنے والی ہو-
واپس اوپر جائیں

زندگی المیہ کیوں

شیلے (P. B. Shelley) ایک انگریز شاعر تھا- اس کی وفات 1822 میں ہوئی- وہ پُردرد شاعری کے لیے مشہور ہے- اس کا ایک شعر یہ ہے— ہمارے سب سے زیادہ شیریں نغمے وہ ہیں جو سب سے زیادہ غم ناک خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں:
Our sweetest songs are those that tell of saddest thought
ایسا کیوں ہے؟ اِس کا سبب یہ ہے کہ بیشتر لوگ اِس احساس میں جیتے ہیں کہ زندگی اُن کے لیے ایک المناک تجربہ تھی- وہ جو کچھ پانا چاہتے تھے، اُس کو وہ نہ پاسکے- وہ اپنے آپ کو شعوری یا غیرشعوری طورپر ایک ناکام انسان سمجھتے ہیں- اس صورت حال کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ کوئی درناک نغمہ سنتے ہیں، یا کوئی درد ناک کہانی پڑھتے ہیں، تو وہ اپنی محروم نفسیات کی بنا پر اُس کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہیں- ان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ حقیقت واقعہ کا بیان ہے- اِس کے برعکس جب وہ بظاہر کوئی پرمسرت نغمہ سنتے ہیں یا پرمسرت کہانی پڑھتے ہیں تو وہ اس کو اپنے احساس کی بنا پر شعوری یا غیرشعوری طورپر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ایک غیر واقعی بات ہے-لوگوں کی اِس نفسیات کا سبب کیا ہے؟ اُس کا سبب یہ ہے کہ لوگ خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کو سمجھے بغیر، اپنی زندگی کا منصوبہ بناتے ہیں- وہ اپنے لئے ایک ایسی چیز پانا چاہتے ہیں جس کا حصول خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، اِس دنیا میں ممکن نہیں- یہی تضاد، مذکورہ صورتِ حال کا اصل سبب ہے-
خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، موجود دنیا میں انسان اپنے لیے صرف بقدر ضرورت پاسکتا ہے، اِس سے زیادہ نہیں- ایسی حالت میںانسان اگر بقدر ضرورت پر قناعت کرے، تو وہ مذکورہ نفسیات سے بچ سکتا ہے- خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق انسان کو چاہئے کہ وہ موجودہ دنیا میں صرف بقدر ضرورت چاہے، اور اس سے زیادہ کو آخرت کی چیز سمجھے— یہی موجودہ دنیا میں پرسکون زندگی کا واحد راز ہے- فطری زندگی کا نام پر مسرت زندگی ہے اور غیر فطری زندگی کا نام مسرت سے خالی زندگی-
واپس اوپر جائیں

ٹماٹر یا لال بیگن

’’میرے خاندان کے ایک بزرگ تھے، حافظ محمد اسماعیل، جو بڑے عالم اور محدث تھے- مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے والد تھے اور رشتے میں میرے والد کے چچاتھے- انھوں نے اپنی زندگی میں کسی انگریز کی شکل نہیں دیکھی، انگریزی کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا- اور اپنے گھر میں کسی کو انگریزی کا لفظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی- ہندستان میں پہلے شاید ٹماٹر نہیں ہوتا تھا، بعد میں جب یہاں ٹماٹر آیا تو یہ لفظ شاید انگریزی کے لفظ tomato کی اردو شکل تھی- حافظ اسماعیل صاحب ٹماٹر کا لفظ استعمال نہیں کرتے تھے اور اگر کوئی بولتا تھا تو اس پر ناخوشی کا اظہار کرتے تھے- انھوں نے اس کا نام لال بیگن رکھا ہوا تھا- میرے والد صاحب بتاتے تھے کہ ایک دن گھر میں انھوں نے پوچھا کہ سالن میں کیا ڈالا ہے؟ ان سے کہا گیا کہ ٹماٹر ڈالا گیا ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے کہ نصرانیت میرے گھر میں گھس آئی؟ اس کو لال بینگن کیوں نہیں کہتے‘‘؟ (روایت ڈاکٹر محمود احمد غازی، ماہ نامہ ’الشریعہ‘، مارچ 2005، صفحہ 9)
نو آبادیاتی دور میں یہ منفی سوچ مسلمانوں میں عام تھی- میرے برادرِ بزرگ مولانا اقبال احمد خاں سہیل نے اپنے ایک مضمون میں انگریزوں کی برائی بتاتے ہوئے لکھا تھا کہ — اُن کی زبان میں لالہ، پاپی(poppy)بن جاتا ہے اور الہ آباد، آل بَیڈ(all bad) بن جاتا ہے، وغیرہ-
انگریز یا مغرب کے خلاف اِس نفرت کا نقصان دوسروں کو تو کچھ نہیں پہنچا، لیکن خود مسلمانوں کو اپنی اِس منفی سوچ کی بنا پر بھاری قیمت دینی پڑی-اِس نقصان کے دو خاص پہلو تھے— ایک یہ کہ مسلمان جدید تعلیم اور جدید ٹکنالوجی کو اختیار نہ کرنے کی بنا پر زندگی کی دوڑ میں دوسری قوموں سے پچھڑ گئے- دوسرا اِس سے زیادہ بڑا نقصان یہ تھا کہ جو لوگ ان کے مدعو تھے، اُن کو انھوں نے اپنا دشمن سمجھ لیا- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر یہ جذبہ آخری حد تک ختم ہوگیاکہ وہ غیر مسلموں کو اللہ کا پیغام پہنچائیں-
واپس اوپر جائیں

دعوتی اسپرٹ

بیگم اختر (وفات: 1974) انڈیا کی ایک مشہور مغنیہ (singer) تھیں- ان کو اپنے پروفیشن سے عشق کے درجہ کا تعلق تھا- انھوں نے ایک بار اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ— ایک بھی اگر کہیں سننے والا ہے تو اس کو ڈھونڈو اور جاکر اس کو سناؤ-
یہ ایک آرٹسٹ کی اسپرٹ ہے- یہی وہ اسپرٹ ہے جو ایک آرٹسٹ کو ایک بڑا آرٹسٹ بناتی ہے- جس آرٹسٹ کے اندر یہ اسپرٹ نہ ہو وہ کبھی بڑا آرٹسٹ نہیں بن سکتا-
دین کا داعی بھی گویا ایک ڈوائن آرٹسٹ ہوتا ہے- سچا داعی وہ ہے جس کے اندر یہ اسپرٹ اعلی درجہ میں موجود ہو- اس کا مطلب یہ ہے کہ داعی کی نظر کمّیت (quantity) پر نہیں بلکہ کیفیت (quality) پر ہونی چاہئے-
داعی کے اندر اگر یہ اسپرٹ ہے، تو وہ کبھی مایوس نہیں ہوگا- وہ ہمیشہ پرامید (hopeful) رہے گا- اگر اُس کو ایک انسان ایسا مل جائے، جو متلاشی (seeker) ہو- تو وہ اُس ایک انسان کو اتنا زیادہ اہمیت دے گا، جیسے کہ وہی اس کے لئے ساری انسانیت ہے- سچا داعی وہ ہے جو ایک انسان کو بھی سارے انسانوں کے برابر سمجھے- جو ایک انسان پر بھی اتنا زیادہ محنت کرے، جتنا کوئی شخص ساری دنیا کے انسانوں پر محنت کرے گا-
سچے داعی کی نظر اپنی ذمہ داری پر ہوتی ہے- وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اُس کے سامنے انسانوں کی ایک بھیڑ ہے، یا صرف ایک انسان ہے- وہ یہ نہیں سوچتا کہ اُس کو اپنے دعوتی عمل کا کوئی اجر ملے گا یا نہیں- وہ یہ نہیں سوچتا کہ لوگ اُس کی بات مانیں گے یا نہیں مانیں گے- سچا داعی صرف اللہ کے لئے کام کرتا ہے نہ کہ دنیا کے وقتی فائدوں کے لئے- ایسا ہی داعی، سچا داعی ہے- اور یہی وہ داعی ہے جس کو آخرت کی ابدی جنت میں داخلہ ملے گا-اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے کہ جس نے ایک شخص کو زندگی دی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی دے دی (المائدة: 32)-
واپس اوپر جائیں

شکایت کا نقصان

شکایت (complaint) نہایت مہلک چیز ہے- تمام اجتماعی خرابیاں ہمیشہ شکایت کی بنا پر پیدا ہوتی ہیں- جب دویا زیادہ آدمی ایک ساتھ رہیں، تو اُن کے درمیان لازماً ایسے اختلاف پیدا ہوتے ہیں، جو شکایت بن جاتے ہیں- پھر یہ شکایت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے دور ہوجاتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کو برا سمجھنے لگتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں- یہ حالت اگر دیر تک باقی رہے، تو دو افراد یا دو گروہوں کے درمیان ایسی نفرت پیدا ہوجاتی ہے جو پھر کبھی ختم نہیں ہوتی-
شکایت کا واحد حل یہ ہے کہ اُس کو سنجیدگی کے ساتھ نہ لیاجائے، بلکہ اُس کو بھلادیا جائے- شکایت پیدا ہو تو آدمی کو چاہئے کہ وہ نہ تو اُس کی تحقیق کرے اور نہ اس کو یاد رکھے، بلکہ یک طرفہ طورپر اُس کو بھلا دے- اجتماعی زندگی میں شکایت کا پیدا ہونا فطری ہے- لیکن شکایت کے مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ اس کی پوچھ گچھ کی جائے، اور اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے- موجودہ دنیا میں شکایت کا خاتمہ ممکن نہیں- یہاں عملاً صرف یہ ہوسکتا ہے کہ شکایت کو یاد نہ رکھا جائے، اُس کا چرچا نہ کیا جائے، اُس کو تعلقات کی بنیاد نہ بنایا جائے، شکایت کے مسئلے کا یہی واحد حل ہے- عملی اعتبار سے شکایت کے مسئلے کا دوسرا کوئی حل نہیں- جو آدمی چاہتا ہو کہ وہ مثبت ذہن کے ساتھ اِس دنیا میں رہے، اور مثبت ذہن کے ساتھ اِس دنیا سے چلا جائے، اُس کے لیے اِس کے سوا کوئی اور صورت عملاً ممکن نہیں-
شکایت کا معاملہ ہمیشہ ایک پیچیدہ معاملہ ہوتاہے- اِس لئے شکایت کا عملی حل (practical solution) صرف یہ ہے کہ شکایت کو بحث کا موضوع نہ بنایا جائےبلکہ اس کو ایک ایسی چیز سمجھا جائے، جس کا حل اُس کو بھلا دینا ہے، نہ کہ یہ دیکھنا کہ وہ صحیح ہے یا غلط-تجربہ بتاتا ہے کہ پوچھ گچھ سے شکایت ختم نہیں ہوتی، بلکہ اکثر زیادہ پیچیدہ ہوجاتی ہے- ایسی حالت میںشکایت کا عملی حل یہی ہے کہ اس کو بھلا دیا جائے-
واپس اوپر جائیں

وقت کا سرمایہ

وقت کسی انسان کا سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے- وقت ہر انسان کو ملتا ہے، لیکن وقت کو پانے والا وہ ہے جس نے ملے ہوئے وقت کو استعمال کیا- کسی نے درست طور پر کہا ہے کہ— کھویا ہوا مال دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن کھویا ہوا وقت دوبارہ حاصل کرنا ممکن نہیں- اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے وقت کو نہایت ہوشمندی کے ساتھ استعمال کرے:
Money lost can be earned again, but lost time is lost forever. So use your time judiciously.
جس طرح یہ بات غلط ہے کہ آدمی اپنے وقت کو ضائع کردے، اسی طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ آدمی اپنے وقت کو بے فائدہ کاموں میں استعمال کرے- صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے وقت کو ایسے کام کے لئے استعمال کرے جو اس کو فائدہ پہنچانے والا ہو- وقت ایک خارجی چیز ہے- وقت کا تعین کلنڈر کے ساتھ ہوتا ہے- لیکن وقت کا درست استعمال ایک داخلی صفت ہے-
آدمی داخلی طورپر جتنا زیادہ تیار ہو اتنا ہی زیادہ وہ وقت کا مفید استعمال کرسکتا ہے-وقت کا سب سے زیادہ نازک پہلو یہ ہے کہ وقت ایک محدود لمحے کا نام ہے- محدود لمحے کے لیے آپ کو وقت حاصل ہوتا ہے- محدود لمحے کے ختم ہونے کے بعد وقت کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے- اِس حقیقت کو ایک اردو شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
وقت کے معاملہ میں انسان کو یہ کرناہے کہ وہ وقت کے صحیح استعمال اور وقت کے غلط استعمال کے درمیان فرق کرے- وہ وقت کے غلط استعمال سے اُسی طرح بچے، جس طرح کوئی شخص حرام چیز سے بچتا ہے- وقت کے غلط استعمال کے بارے میں شدید حساسیت ہی وہ چیز ہے جو آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے وقت کو بھر پور طور پر استعمال کرے-
واپس اوپر جائیں

اسپرٹ آف اسلام

الرسالہ مشن کا انگریزی ترجمان
الرسالہ مشن کا انگریزی ترجمان اسپرٹ آف اسلام (Spirit of Islam) کے نام سے بنگلور سے نکل رہا ہے- یہ ماہ نامہ جنوری 2013 سے شائع کیا جارہا ہے- وہ ہر اعتبار سے ایک معیاری میگزین ہے- انگریزی زبان کی حیثیت انٹرنیشنل زبان کی ہے- یہ بے حد ضروری ہے کہ الرسالہ مشن کے پرامن افکار کو انگریزی داں طبقہ میں وسیع پیمانہ پر پھیلایا جائے- یہ بلا شبہہ وقت کی اہم ضرورت ہے- اس مقصد کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ الرسالہ مشن سے وابستہ ہر فرد اسپرٹ آف اسلام کی ایجنسی لے، حتی کہ جو لوگ انگریزی نہ جانتے ہوں وہ بھی اسپرٹ آف اسلام کی ایجنسی ضرور لیں، اور اس کو انگریزی داں طبقہ تک پھیلائیں- انگریزی داں طبقہ، وقت کا کار فرما طبقہ ہے- الرسالہ کے پرامن مشن سے اس کو واقف کرانا لازمی طورپر ضروری ہے-
اس کی عملی صورت یہ ہے کہ الرسالہ مشن سے وابستہ ہر فرد اسپرٹ آف اسلام کی ایجنسی لے- ایجنسی کے لیے کم سے کم تعداد دس شمارہ کی ہے، زیادہ تعداد کی کوئی حد نہیں- ایجنسی لینے والے کے نام اسپرٹ آف اسلام کی مقرر تعداد بذریعہ وی پی روانہ ہوگی- صاحب ایجنسی کو یہ کرنا ہے کہ وہ ان شماروں کو اپنے قریبی حلقہ میں بذریعہ قیمت لوگوں تک پہنچائیں- صاحب استطاعت افراد اس ماہنامہ کو فری تقسیم کرسکتے ہیں- اسپرٹ آف اسلام کی ایجنسی لینا، اپنے آپ کو اِس دعوتی مشن میں شریک کرنا ہے، جو وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے-
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
قرآن کی ایک آیت میں ہے کہ: اے پیغمبر، جو کچھ تمھارے اوپر تمھارے رب کی طرف سے اترا ہے، تم اس کو پہنچادو- اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اللہ کے پیغام کو نہیں پہنچایا- اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے گا (5:67)- اِس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ نے اپنے نبیوں کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے- اِس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ نبیوں کو ستایا گیا، حتی کہ بہت سے نبیوں کو قتل بھی کردیاگیا- ایسی حالت میں، ’’واللہ یعصمک من الناس‘‘ کا مطلب کیا ہوگا- (عبد اللطیف، پاکستان)
جواب
قرآن کی اِس آیت میں بلاشبہہ پیغمبروں کے لیے اور داعیانِ حق کے لیے حفاظت کا وعدہ ہے، لیکن حفاظت کا یہ وعدہ ذات کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ مشن کے اعتبار سے ہے- اِس وعدے کا مطلب یہ ہے کہ کسی پیغمبر کا جو مشن ہے وہ لازماً پورا ہو کر رہتاہے- اللہ کی حفاظت اِس بات کی گارنٹی ہوتی ہے کہ اس کو اللہ کی مدد حاصل ہو، اور اللہ کی مدد سے وہ تکمیل تک پہنچے-تکمیل سے مراد کسی عملی نظام کا قائم کرنا نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد ابلاغ اور انذار وتبشیر ہے-
اِس حفاظت کے باوجود دوسروں کے لیے یہ موقع باقی رہتا ہے کہ وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرکے پیغمبر یا داعی کو بظاہر کوئی نقصان پہنچائیں- مگر اِس نقصان کا تعلق آزمائش کے قانون سے ہے، نہ کہ ’’عصمت من الناس‘‘ کے قانون سے-
سوال
آپ نے اپنی کتاب ’’امن عالم‘‘ صفحہ 7 میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ ’’ألا وإن فی الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد کلہ وإذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وہی القلب‘‘- پھر آپ نے آگے بیان کیا ہے کہ علامہ ابن حجر نے اس سے استدلال کیا ہے کہ عقل قلب میں ہوتی ہے اور آپ نے کہا کہ مگر یہ بات درست نہیں، اس حدیث میں قلب سے مراد مرکز تفکیر نہیں ہے بلکہ مرکز دورانِ خون ہے۔قلب اور جسد کا ذکر اس حدیث میں بطور تمثیل ہے- اس کی وضاحت فرمائیں- (فیضان صدیقی، کیرالا)
جواب
قلب کا لفظ دل (heart)کے معنی میں بھی آتا ہے- لیکن اسی کے ساتھ قلب کا لفظ دماغ (mind) کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے- قرآن فزیالوجی کی کتاب نہیں، قرآن تفکر اور تدبر کی کتاب ہے- اِس لیے قرآن میں قلب کو ذہن کے معنی میں لیاجائے گا- قرآنی آیات میں قلب کودل کے معنی میں لینا صحیح نہیں-
قلب کا لفظ عربی زبان میں عام طورپر عقل یا ذہن کے معنی میں استعمال ہوتاہے- عربی زبان کی مشہور لغت لسان العرب میں قلب کے لفظ کے تحت یہ الفاظ درج ہیں: وقد یعبر بالقلب عن العقل- قال الفراء فی قولہ تعالی: إن فی ذلک لذکری لمن کا لہ قلب، أـی عقل- قال الفراء: وجائز فی العربیة أن تقول: مالک قلب، وما قلب معک؛ تقول: ما عقلک معک، وأین ذہب قلبک؟ أی أین ذہب عقلک؟ وقال غیرہ- لمن کان لہ قلب أی تفہم وتدبر (لسان العرب: 1/687)-
ترجمہ: قلب کی تعبیر عقل سے بھی کی جاتی ہے- فراء نے کہا کہ قرآن کی آیت ’إن فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب‘ میں قلب سے مراد عقل ہے- فراء نے کہا کہ عربی میں یہ کہنا درست ہے کہ تمھارےاندر قلب نہیں، اور تمھارا قلب تمھارے ساتھ نہیں- اس کا مطلب ہے تمھارے اندر عقل نہیں- اور تمھارا قلب کہاں گیا؟ یعنی تمھاری عقل کہاں گئی- دوسرے اہلِ لغت نے بھی کہا ہے کہ قرآن کی آیت لمن کان لہ قلب میں قلب سے مراد سوچنا اور غور کرنا ہے-
قرآن میں قلب کا لفظ جہاں جہاں آیا ہے، ہر جگہ وہ تدبر اور تفکر کے سیاق میں آیا ہے- اس لئے ان آیتوں میں قلب سے مراد ذہن یا عقل لیاجائے گا، نہ کہ دل بمعنی ہارٹ(heart) -
دل کو سوچنے والادل (thinking heart) کے معنی میں لینا، ایک قدیم توہماتی نظریہ تھا- اس کا قرآن سے یا حدیث سے کوئی تعلق نہیں- موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات سے یہ تصور غلط ثابت ہوچکا ہے کہ دل سوچنے اور غور کرنے کا مرکز ہے-
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 230

1- سی پی ایس سہارن پور کی ا یک ٹیم 19 جون 2014 کو سہارن پور سینٹرل جیل گئی، اور قیدیوں کےدرمیان 200 قرآن کے ترجمے اور دوسرے دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔اس تقسیم میں چیف جیلر مسٹر سکسینہ خود شریک ہوئے، اور انھوں نے کہا کہ قرآن اور مولاناوحید الدین خاںکی کتابیں ہر ایک کے لئے مشعل راہ ہیں۔ مسز الپنا تلوار (صدر، بی جے پی خواتین سیل)، اور مسز ممتا ارورا (سماجی کارکن) ، ڈاکٹرذوالفان، ڈاکٹر ٹی اے چوہان، ایڈووکیٹ انیس صدیقی، مسٹر محسن بلال، مسٹر عمار خان، وغیرہ اس پروگرام میں شریک ہوئے۔ (ڈاکٹر محمداسلم خان، سہارن پور)
2- کشمیر سی پی ایس کی ایک ٹیم 23-31 اگست 2014کو سری نگر میں لگنے والے بک فیر میں گڈورڈ بکس کے ساتھ شریک ہوئی۔ یہاں انھوں نے قرآن کا ترجمہ اور دوسری اسلامی کتابیں بڑی تعداد میں لوگوں کے درمیان تقسیم کیا۔ نیشنل بک ٹرسٹ (این بی ٹی) نے نیشنل قومی کونسل برائے فروغ اردو (این سی پی یو ایل) کے اشتراک سے یہ بک فیر آرگنائز کیا تھا۔
3- ممبئی سی پی ایس ٹیم نے 30 اور 31 ۱گست 2014 کو امراوتی ، مہاراشٹرا کا دعوتی دورہ کیا ۔ اس دورے کے دو اہم مقاصد تھے، ماہنامہ الرسالہ کے قارئین کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر دعوتی کام کرنا، اور امراوتی کے انٹلکچول لوگوں سے ملاقات۔ پہلے مقصد کے تحت وہاں الرسالہ کے قارئین کی ایک بڑی تعداد سے ملاقات ہوئی۔ ان تمام لوگوں نے مولانا توفیق ندوی صاحب کو اپنا امیر بنایا ہے، اور نئے حوصلے کے ساتھ مشن کا کام کرنے کا عہد کیا ہے۔دوسرے مقصد کے تحت جن لوگوں سے ملاقات ہوئی ، ان میں ایک اہم مسٹر اشوک رانا ہیں، جو ایک کالج میں پروفیسر ہیں اورانھوں نےتقریباً 50کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان سے تین گھنٹے سے زیادہ خدا کے منصوبۂ تخلیق سے متعلق گفتگو ہوئی،اس گفتگو سے وہ کافی متاثر ہوئے۔ گفتگو کے بعد انھیں قرآن کا ترجمہ اور دوسری کتابیں دی گئیں، انگریزی ماہنامہ اسپرٹ آف اسلام (بنگلور) ان کے نام سے جاری کیا گیا ہے۔ (محبوب ہنتگی، ممبئی)
4- سی پی ایس دہلی کی کی ایک ٹیم نےودیا جیوتی کالج آف تھیولوجی، نئی دہلی کی دعوت پر کالج کے طلبہ کو اسلام کے بارے میں انگریزی زبان میں لکچر دیا۔ یہ پروگرام 5 ستمبر 2014 کو ہوا ۔ اس میں مسٹر رجت ملہوترا نے الرسالہ اور سی پی ایس مشن پرتقریر کی، مس سعدیہ خان نے اسلام میں جہاد کے عنوان پر لکچر دیا، مس ماریہ خان کا عنوان تھا: مذہب کا مطالعہ اسلامی نقطہ نظر سے، اور مس صوفیہ خان نے اسلام اور امن کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ تقریروں کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ چلا۔ پروگرام کے آخر میں تمام طلبہ کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلام کے تعارف پر مشتمل لٹریچر بطور ہدیہ دیا گیا۔
5- دہلی کے پرگتی میدان میں 11-14 ستمبر 2014 کو عالیشان پاکستان کے نام سے ایک لائف اسٹائل نمائش لگی تھی۔ یہ نمائش ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھاریٹی آف پاکستان (TDAP)اور فکّی کے تعاون سے پاکستانی تاجروں کے لئے منعقد کی گئی تھی ۔ سی پی ایس دہلی کی ایک ٹیم نے اس نمائش میں شرکت کرنے والے 150 سے زیادہ پاکستانی تاجروں کے درمیان قرآن کا ترجمہ اور دوسرے دعوتی لٹریچر تقسیم کیے۔ تمام پاکستانی مہمانوں نے اسے حیرت اور خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
6- مشہور بدھسٹ رہنما ایچ ایچ دلائی لامہ کی جانب سے21-22 ستمبر 2014 کو نئی دہلی میں ایک میٹنگ منعقد کی گئی تھی، جس کا عنوان تھا: Diverse Spiritual Traditions in India۔ اس پروگرام میں صدراسلامی مرکز نے شرکت کی اور Inter-Religious Understanding and Human Values کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر سے پہلےایک مخصوص میٹنگ ہوئی جس میں ملک کے الگ الگ علاقوں سے آئے ہوئےمختلف مذہبی رہنماؤں نے اس پر بات چیت کی کہ مذہبی افہام و تفہیم اور رواداری کو کس طرح بڑھاوا دیا جائے۔
7- ای ٹی وی اردو چینل کی ایک ٹیم 23ستمبر 2014 کو اسلامی مرکز، دہلی کے آفس میں آئی،انھوں نے صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا، حج۔ انٹر ویو کے بعد نامہ نگارمسٹر شاہ نواز کو صدر اسلامی مرکز کی کچھ کتابیں بطور تحفہ دی گئیں، جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔.
8- ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ، حیدرآباد کی جانب سے 29 ستمبر 2014 سے 4 اکتوبر 2014 تک اسلام اور انٹرفیتھ ریلیشن پر ایک پروگرام ہوا۔ اس میں سی پی ایس حیدرآباد کی طرف سے مولانا فیاض الدین عمری اور جناب ذیشان یوسف نے 3 اکتوبر کو اسلام میں پیس اور جہاد کے موضوع پر خطاب کیا۔ پروگرام میں تقریبا 50 اہل علم اور کرسچن پریسٹ شریک ہوئے ۔ تمام لوگوں نے اسلام میں پیس اور جہاد کے موضوع پر اس تقریر کو بہت پسند کیا۔ سی پی ایس حیدرآباد نے پروگرام میں ایک بک اسٹال بھی لگایا تھا، جس سے کافی تعداد میں لوگوں نے ترجمۂ قرآن اور دوسری اسلامی کتابیں حاصل کیں۔
9- عید الاضحی کے دن 6 اکتوبر 2014 کوصدر اسلامی مرکز نے عید کی مناسبت سے ایک تقریر کی، جس کا عنوان ’عید الاضحی کا پیغام‘تھا۔ تقریر کے بعد صدر اسلامی مرکزنےاپنی کتاب What is Islam کے جرمن ورژن کا اجرا کیا۔ اس کتاب کو گڈورڈ بکس (دہلی) نے جرمن زبان میں ترجمہ کرکے شائع کیا ہے۔ یہ پروگرام G-10 ، نظام الدین ویسٹ ، نئی دہلی میں منعقد ہوا- اس پروگرام میں سی پی ایس (دہلی) کے ممبران نے شرکت کی۔ اس تقریر کو مندرجہ ذیل لنک پر آن لائن سنا جا سکتا ہے:
http://cpsglobal.org/content/message-eid-al-adha-october-6-2014
10- مختلف قسم کے دعوتی تجربات وتاثرات کا ایک حصہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
— فیکلٹی آف ہیومنٹیز، مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی (رام پور) کے ڈین ڈاکٹر آر آر اگروال آزاد، سی پی ایس کے لٹریچر کوپچھلے کئی سالوں سے خرید کر لوگوں کے درمیان تقسیم کر رہے ہیں۔ ابھی حال میں انھوں نے بڑی تعداد میں ترجمہ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر خریدا ہے۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز کی کتاب گاڈ ارئزز، یونیورسٹی کے فاؤنڈر اور چانسلر مسٹرمحمد اعظم خان (سینئر وزیر حکومت یوپی) کو دیا تھا، جس کا ذکر منسٹر موصوف نے بطور خاص مجھ سے کیا ہے۔ (ڈاکٹر محمداسلم خان، سہارن پور)
— میرا ایک دوست کچھ خدا کے انکار کرنے والوں کی وجہ سے اس شک میں پڑگیا کہ کہیں دینِ اسلام ایک دھوکا تو نہیں۔تو میں نے مذہب اور جدید چیلنج کا انگریزی ورزن گاڈ ارائزز (God Arises) اسے پڑھنے کے لئے دیا۔ اس نے اس کتاب کوبالکل غیر جانبدار (neutral) مائنڈ سے پڑھا، ایسے کہ گویا وہ مسلم نہیں ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اس نے اسلام کو ری ڈسکور کیا۔ (محمد انس، مظفرنگر)
— Grace Fellowship Church in Atlanta, USA buys copies of the English Quran from Kaleem Sahab regularly and distributes them to people.
— Some comments by seeker people :
“My name is John and I am seeking knowledge on Islam. If there is any way, shape or form that you could please help, I would greatly appreciate it.” — John Perkit, California
“Dear Sir, I wish to know more about the Quran by reading the translated version in the English language. I am 53 years of age, and in my community we have many religions. I believe it is very important to educate oneself in learning about others, whether it be studying language or religion.” — Michael Leads, Philadelphia
The hundreds of comments like the ones above which we receive, looking for the Quran online, proves the point that Muslims should devote themselves fully to disseminate God’s message among the people all over the world. (Khaja Kaleemuddin, Pennsylvania, USA)
واپس اوپر جائیں