Pages

Sunday, 1 February 2015

Al Risala | February 2015 (الرسالہ،فروری)

4

-انسان کی تخلیق

5

- ایمانی زندگی کے 10 مراحل

6

- نزاع سے کامل پرہیز

7

- ذات، مشن

8

- قتلِ انسان

10

- جہاد یا قبائلی کلچر کی توسیع

14

- عذر میں جینا

15

- قرآن کی اشاعت

16

- دعا کی قبولیت کا معاملہ

17

- معلوم حق

18

- مواقع کی دنیا

19

- اختلاف کا معاملہ

20

- کلام کی دو قسمیں

21

- امانت،خیانت

22

- نصرتِ خداوندی

23

- تقابل کی غلطی

24

- دعوة اِن ایکشن

26

- خدا : یقین کا سرچشمہ

28

- کلْب کلچر

29

- اعتقادی کاملیت، عملی رخصت

30

- اٹلی اور اسپین کا دعوتی سفر

45

- اعلیٰ ترقی کا راز

46

- خبر نامہ اسلامی مرکز


انسان کی تخلیق

قرآن کی سورہ التین میں تخلیقِ انسانی کے معاملے کو ان الفاظ میں بیان کیاگیاہے:وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ ۝ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ ۝ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ۝ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۝ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ ۝ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ ۝ فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ ۝ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ ۝ (95:1-8) یعنی قسم ہے تین کی اور زیتون کی۔اور طورِسینا کی۔ اور اِس امن والے شہر کی۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر اس کو سب سے نیچے پھینک دیا۔ لیکن جولوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے تو ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔ تو اب کیا ہے جس سے تم بدلہ ملنے کو جھٹلاتے ہو۔ کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں۔
قرآن کی اس سورہ میں احسن تقویم سے مراد یہ ہے کہ انسان کو نہایت اعلیٰ ذوق (high taste) کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے- انسان کے اندر جو احساس لذت (sense of enjoyment) ہے، وہ کسی بھی دوسری مخلوق میں نہیں، نہ جمادات میں، نہ نباتات میں، نہ حیوانات میں-
اسفل سافلین میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے تخلیقی ساخت کے اعتبارسے اعلیٰ تسکین (satisfaction) کا طالب ہے- لیکن انسان کو اس دنیا میں کوئی بھی چیز اس کی طلب کے مطابق نہیں ملتی- اس دنیا میں انسان کو مسلسل طورپر عدم تشفی (unfulfillment)کی حالت میں جینا پڑتاہے- گویا کہ انسان ایک ایسا طالب ہے جس کا مطلوب اس کو حاصل نہیں-خدا کے احسن الخالقین ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ یقیناً احکم الحاکمین بھی ہے- اس پہلو پر غور کرنے سے اس معاملے کی حکمت معلوم ہوتی ہے- وہ یہ کہ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اس فرق کو سمجھے- وہ اس تخلیقی حکمت کو دریافت کرے، اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگی کی تشکیل کرے- جو آدمی اس معرفت کا ثبوت دے، اس کے لئے آخرت کی ابدی دنیا میں اجر غیر ممنون (unending reward) مقدر کیا گیاہے-
واپس اوپر جائیں

ایمانی زندگی کے 10 مراحل

قرآن کی سورہ آل عمران کا آخری رکوع (190-200) کا مطالعہ کیجئے تو ایک انسان کی ایمانی زندگی کے 10 مراحل سامنے آتے ہیں- یہ 10 مراحل بالترتیب حسب ذیل ہیں:
1- اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ — عقل کو استعمال کرتے ہوئے آیات تخلیق میں مسلسل غوروفکر (continuous contemplation) کی زندگی گزارنا-
2- رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا — حقیقت کی شعور ی دریافت (discovery) ، اس دریافت کے مطابق اس کا درست رسپانس (right response) دینا-
3- وقت کے منادئ ایمان کو پہچاننا، اس کا بھر پور ساتھ دینا، تمام فکری حجابات (intellectual conditioning)کو توڑ کر-
4- رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ — تاریخ میں بننے والے سچے انسانوں کی فہرست میں شامل ہونا، ان کے ساتھ حسن رفاقت کا متمنی ہونا-
5- الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا — دریافت کردہ سچائی کے ساتھ مکمل شرکت(total involvement)، زندگی کے سابق پیٹرن کو چھوڑ کر نیا پیٹرن اختیار کرنا-
6- وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ — غیر مصالحانہ انداز (uncompromising stand) اختیار کرنا، کسی چیز کو عذر (excuse)نہ بنانا-
7- وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ — ایمانی زندگی کے لئے ہر قیمت (price) دینے کے لئے تیار رہنا، قربانی (sacrifice) کی حد تک قائم رہنا-
8- وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا — ایمانی مشن کے لئے سنجیدہ جدوجہد (sincere struggle) کرنا، اس راہ میں اپنی آخری کوشش صرف کردینا-
9- وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ — جنت کی بشارت، جنت کے حصول کو اپنا واحد مرکز توجہ (sole concern) بنا لینا-
10- اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا — کامل صبر کا مزاج پیدا ہوجانا- ہر ڈسٹریکشن (distraction) سے بچتے ہوئے ایمانی سفر کی منزل طے کرنا-
واپس اوپر جائیں

نزاع سے کامل پرہیز

قرآن کی سورہ الحج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰى رَبِّکَ(22:67) یعنی وہ ہر گز اِس امر میں تم سے نزاع نہ کریں اور اُنھیں اپنے رب کی طرف بلاؤ- اِس آیت میں دعوت الی اللہ کا اسلوب بتایا گیاہے- وہ یہ کہ نزاعی امور کو نظر انداز کرتے ہوئے لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بلاؤ- دعوت الی اللہ کے مسئلے کو ہرگز نزاع کا مسئلہ نہ بننے دو-
دوسروں کو خطاب کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ نزاعی امور (controversial points) کو موضوع کلام بنایا جائے- مثلاً سیاسی اور سماجی حقوق کو لے کر تحریک چلائی جائے- یہ خدا کے نزدیک ایک غیر مطلوب طریقہ ہے- یہ طریقِ کار احتجاج سے شروع ہوتا ہے، اور آخر کار تشدد تک پہنچ جاتا ہے- اِس طریقِ کار کا کوئی مثبت فائدہ نہیں-
اِس کے برعکس جب انسان کی فطرت کو ایڈریس کیا جائے تو وہ تمام تر غیر نزاعی بنیاد پر انسان کو مخاطب کرنا ہوتا ہے- ایسی حالت میں آدمی مجبور ہوتاہے کہ وہ دعوت کو خود اپنی فطرت کی آواز سمجھے، اور اُس پر کھلے دل کے ساتھ غور کرے- یہی وہ فطری طریقہ ہے کہ جس کو قرآن میں دوسرے مقام پر وَقُلْ لَّھُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا (4:63)کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی لوگوں کو ایسے انداز میں خطاب کرو جو اُن کی فطرت کو ایڈریس کرنے والا ہو، جو اُن کو خود اپنی فطرت کی آواز معلوم ہو، جس کو وہ خود اپنی بات سمجھ کر قبول کرلیں-
اجتماعی زندگی میں نزاع کا طریقہ اختیار کیا جائے تو اس سے صرف مسائل میں اضافہ ہوگا- نزاع ہمیشہ نفرت اور تشدد کا باعث بنتا ہے- نزاع کا طریقہ کبھی کسی خیر کا سبب نہیں بنتا- یہ بات جس طرح دوسرے پہلوؤں سے صحیح ہے، اسی طرح وہ دعوت کے پہلو سے بھی درست ہے- دعوت کے مواقع صرف اس وقت کھلتے ہیں جب کہ نزاع کی صورت حال کو یک طرفہ طورپر ختم کردیا جائے- اس دنیا میں نزاع کا خاتمہ دعوت کا آغاز ہے- نزاع اور دعوت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے-
واپس اوپر جائیں

ذات، مشن

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اسوہ حضرت عائشہ نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: وما انتقم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم لنفسہ إلا أن تنتہک حرمة اللہ، فینتقم للہ بہا- (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3560) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا - البتہ اگر خدائی حرمت کو پامال کیا جاتا تو آپ اللہ کے لیے اس کا انتقام لیتے تھے-
اِس روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت معلوم ہوتی ہے اور وہ ہے ذات اور مشن میں فرق کرنا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ اگر کوئی شخص ایسی بات کہتا جس کاتعلق آپ کی ذات سے ہو تو آپ اس کو نظر انداز فرماتے تھے، لیکن اگر کوئی ایسی بات کہی جائے جس کا تعلق آپ کے پیغمبرانہ مشن سے ہو تو آپ شدت کے ساتھ اُس کا نوٹس لیتے تھے، اور یہ کوشش فرماتے تھےکہ اس کی وجہ سے آپ کے مشن پر کوئی برا اثر نہ پڑے-
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مخالفین ایک ایسی بات کہتے ہیں جو بظاہر داعی کے بارے میں ہوتی ہے، لیکن اپنے اثرات کے اعتبار سے اس کی زد داعی کے مشن پر پڑتی ہے- ایسے موقع پر داعی خاموش نہیں رہتا، بلکہ پرامن انداز میں وہ اس کا دفعیہ کرتاہے، تاکہ مشن کو نقصان سے بچایا جاسکے-
مشن ایک اجتماعی ظاہرہ ہے، اور ذات کا معاملہ ایک انفرادی معاملہ - افراد کے مجموعے سے مشن وجود میں آتاہے، لیکن حکمت کا تقاضا ہے کہ مشن سے وابستہ حضرات، اِس فرق کو سمجھیں- وہ اپنی ذات کو مشن کے تحت سمجھیں، نہ کہ مشن کو اپنی ذات کے تحت- جس مشن کے افراد اِس فرق کو ملحوظ نہ رکھیں، وہ مشن کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر رہیں گے- اِس کے نتیجہ میں وہ اپنی ذات کا بھی نقصان کریںگے، اور مشن کا نقصان بھی-
واپس اوپر جائیں

قتلِ انسان

قرآن کی سورہ المائدة میں قتلِ انسان کا حکم بتایا گیاہے- آیت کے الفاظ یہ ہیں: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢابِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ۭوَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا (5:32)- یعنی جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے آدمیوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایاتو گویا اس نے سارے آدمیوں کو بچا لیا-
خدا کی شریعت میں سب سے زیادہ سنگین جرم (serious crime) یہ ہے کہ کسی حقیقی سبب کے بغیر ایک انسان دوسرے انسان کو قتل کردے- ایسے ایک انسانی قتل کو قرآن میں سارے انسانوں کو قتل کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے- اس کا سبب یہ ہے کہ ایسا ایک واقعہ قتلِ انسانی کی حرمت کے بارے میں لوگوں کی حساسیت کو ختم کردیتا ہے- خدائی شریعت کے مطابق یہ مطلوب ہے کہ انسانی قتل کی حرمت کے بارے میں لوگ آخری حد تک حساس ہوں- مگر جب کسی مسلّمہ سبب (accepted reason) کے بغیر کسی کو قتل کردیا جائے تو لوگوں کے اندر احساس حرمت کا خاتمہ ہوجاتا ہے-
انسان کو پیدا کرنے والا، انسان نہیں ہے، بلکہ یہ خدا ہے جس نے انسان کو پیداکیا ہے- ایسی حالت میں کسی انسان کو ہر گز یہ حق نہیں ہے کہ وہ خدا کے پیدا کئے ہوئے انسان کو قتل کردے- اس قسم کا قتل صرف اس وقت جائز ہوسکتا ہے جب کہ خود خدا کی شریعت کے مطابق اس کا جواز ثابت ہوتا ہو- کوئی دوسرا عذر اس قسم کے فعل کو جائز ثابت نہیں کرتا- قاتل کا کوئی خود ساختہ عذر ہرگز ایسے فعل کے لئے کافی نہیں-
یہ فطرت کا عام اصول ہے- انسان نے پانی کو پیدا نہیں کیا، اس بنا پر انسان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ پانی کا ایک قطرہ بھی ضائع کرے- انسان نے غذا کو پیدا نہیں کیا، اس بنا پر انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ چاول کا ایک دانہ بھی ضائع کرے- یہی اصول شدید تر انداز میں انسان کے لئے ہے- کسی انسان نے انسان کو پیدا نہیں کیا، اس لئے کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایک انسان کو اس کی زندگی سے محروم کردے-
قتلِ انسان کا معاملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے-انسان کا قتل دراصل خالق کے منصوبہ کا قتل ہے- انسان تخلیق کا سب سے زیادہ نادر نمونہ ہے- خالق نے اس نادر نمونے کو یقینا کسی عظیم مقصد کے تحت بنایا ہے- ہر انسان جو پیداہوتاہے، وہ ایک عظیم مقصد کے لئے پیداہوتا ہے- ایسی حالت میں کسی انسان کو قتل کرنا- سادہ طورپر ایک انسان کو قتل کرنے کے ہم معنی نہیں ہے، بلکہ وہ خود خالق کے تخلیقی منصوبے کو قتل کرنے کے ہم معنی ہے-
جب ایک انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ اس لئے پیداہوتا ہے کہ وہ اِس دنیا میں زندگی گزارے- وہ یہاں خالق کے منصوبہ کی تکمیل کرے- وہ اپنے بارے میں خالق کی امیدوں کو پورا کرے- ایک انسان کا پیدا ہونا اتنا ہی اہم ہے جتنا ایک درخت کا اگنا- ایک درخت جب اگتا ہے تو وہ اس لئے اگتا ہے کہ وہ باغِ عالم میں نمو (grow) کرے۔ وہ بڑھ کر پورا درخت بنے، اور دنیا والوں کو پھول اور پھل کا تحفہ دے- ایسے درخت کو کاٹنا اگر ایک درجہ کا جرم ہے تو انسان کو قتل کرنا ہزار بلین سے بھی زیادہ بڑے درجے کا جرم ہے-
انسان کو زندگی دینا کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ با حیات رہ کر اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرے، وہ اپنے مقصد تخلیق کو دریافت کرے، پھر اس کے مطابق وہ اپنے لئے ایک عملی منصوبہ بنائے، پھر حقیقت پسندانہ انداز میں اس کو مکمل کرنے کی کوشش کرے، وہ اپنے سماج کا ایک مفید عنصر بنے، وہ تاریخ انسانی کے اس باب کو لکھے، جو اس کے خالق نے اس کے لئے مقدر کیا ہے-
واپس اوپر جائیں

جہاد یا قبائلی کلچر کی توسیع

اسلام کے ابتدائی دور میں سن آٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوا-اس کے بعد عرب کے قبائل افواج (النصر: 1) کی صورت میں اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے- افواج سے مراد عمومی قبول اسلام (mass conversion) ہے۔ اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تاریخی بات ان الفاظ میں فرمائی تھی: عن جابر قال سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول: إن الناس دخلوا فی دین اللہ افواجا وسیخرجون منہ افواجا (مسند احمد: 14696) جابر بن عبد اللہ کہتےہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئے، اور عن قریب وہ فوج در فوج اس سے نکل جائیں گے-
جابر بن عبد اللہ مشہور صحابی ہیں- ان کی وفات 78ھ میں ہوئی- انھوں نے جنگ صفین (37ھ) کا زمانہ دیکھا تھا، جب کہ مسلمان علی اور معاویہ کی قیادت میں دو گروہوں میں بٹ گئے تھے، اور آپس میں خون ریزجنگ کی تھی- یہ مسلم تاریخ کی پہلی سول وار (civil war) تھی- اس جنگ میں دونوں فریق کے جو لوگ قتل ہوئے، ان کی مجموعی تعداد تقریباً ستر ہزار تھی (البدایة والنہایة، ابن کثیر، 7/274)-
مذکورہ حدیث کے راوی جابر بن عبد اللہ ہیں- جابر بن عبد اللہ کے ایک پڑوسی کہتے ہیں کہ میں ایک سفر سے واپس آیا، اس وقت جابر بن عبد اللہ مجھ سے ملنے کے لئے آئے- انھوں نے امت کے افتراق اور باہمی جنگ کا ذکر کیا- اس پر جابر بن عبد اللہ روپڑے، انھوں نے روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث بیان کی-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کے اندر افتراق اور بگاڑ کے واقعات کیوں پیش آئے- اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ لوگوں کی نیتوںمیں فساد آگیا تھا، یا ان کے اندر اخلاص ختم ہوگیا تھا- اس صورت حال کا واحد سبب وہ ظاہرہ ہے، جس کو کنڈیشننگ (conditioning) کہا جاتاہے-
کنڈیشننگ وہی چیز ہے، جس کو عرب کے ایک قدیم مقولہ میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا تھا: من شبّ على شیٔ شاب علیہ (منار القاری شرح مختصر صحیح البخاری: صفحہ 60) یعنی آدمی جس چیز پر جوان ہوتا ہے، اسی پر وہ بوڑھا ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جوانی کی عمر میں جس ماحول میں آدمی کی کنڈیشننگ ہوتی ہے، اس کا اثر اس کی زندگی میںآخری وقت تک باقی رہتا ہے-
یہ حقیقت ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: کل مولود یولد على الفطرة فأبواہ یہودانہ، أو ینصرانہ، أو یمجسانہ (صحیح البخاری: 1385) یعنی ہر پیدا ہونے والا فطرت صحیح پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی بنادیتے ہیں، یا نصرانی بنا دیتے ہیں یا مجوسی بنادیتے ہیں-
مسلم نسلوں میں بعد کے زمانے میں جوبگاڑ پیداہوا، ان سب کا اصل سبب یہی کنڈیشننگ کا معاملہ تھا- عمومی قبولیت اسلام (mass conversion) کی بنا پر لوگ بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے- دور پریس سے پہلے تعلیم وتربیت کا نظام موجود نہ تھا- چنانچہ ایسا ہوا کہ لوگ کلمہ پڑھ کر اسلام کے دائرے میں داخل ہوگئے، لیکن تربیتی نظام نہ ہونے کی بنا پر ان کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) نہ ہوسکی- وہ مذہب کے اعتبار سے مسلم تھے، لیکن کلچر کے اعتبار سے وہ قدیم کلچرل روایات میں بدستور جیتے رہے- کثرت سے احادیث میں یہ پیشگی خبر دی گئی تھی کہ جلد ہی لوگوں کے اندر بگاڑ پیدا ہوجائے گا- اس بگاڑ کا سبب عام طورپر فتنہ کو سمجھا جاتا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس کا سبب کنڈیشننگ کا معاملہ تھا، یعنی اپنے قدیم مائنڈ سیٹ (mindset) کے زیر اثر کام کرنا-
مثال کے طور پر ایک حدیث رسول مختلف کتب حدیث میں آئی ہے- یہ حدیث رسول تنبیہ (warning)کی زبان میں ہے- اُس کے الفاظ یہ ہیں: أفلا ترجعوا بعدی ضلالاً، یضرب بعضکم رقاب بعض (صحیح البخاری: 4406) یعنی آگاہ، میرے بعد تم لوگ لوٹ کر گمراہ نہ ہوجانا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو-
اِس حدیث رسول میں ترجعوا کا لفظ ہے، یعنی سابقہ حالت کی طرف لوٹ جانا- یہ سابقہ حالت وہی تھی، جس سے نکل کر وہ اسلام میں داخل ہوئے تھے، یعنی قبائلی کلچر (tribal culture) اسلام سے پہلے یہ لوگ قبائل کلچر میں جیتے تھے- قبائلی کلچر میں ہر آدمی کے پاس تلوارہوتی تھی- قبائلی کلچر میں پرامن تبادلۂ خیال (peaceful discussion) کا طریقہ رائج نہ تھا- وہ لوگ اختلاف کا حل صرف یہ سمجھتے تھے کہ لڑ کر اس کو طے کیا جائے-
مزید یہ کہ لڑائی سے مسئلہ ختم نہیں ہوتا تھا- کیوں کہ ہارنے والے فریق کےاندر انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا تھا- اس طرح عملاً قبائلی دور مسلسل جنگ (chain war) کا دور بن گیا تھا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ تم لوگوں کے اندر فطری طورپر اختلاف پیداہوں گے، مگر اس کو پرامن گفتگو کے ذریعہ حل کرنا، ایسا ہرگز نہ کرنا کہ قبائلی کنڈیشننگ (tribal conditioning) کی بنا پر اختلاف کو عذر بنا کر دوبارہ تم آپس میں لڑنا شروع کردو-
تاریخ بتاتی ہےکہ اہلِ ایمان کی کنڈیشننگ باقی رہی، کیوں کہ اس زمانہ میں اس کی ڈی کنڈیشننگ کا کوئی نظام موجود نہ تھا- چنانچہ نہ صرف باہمی جنگ بلکہ ہر اعتبار سے قدیم روایات مسلمانوں کے اندر واپس آگئیں-
قدیم روایات کی یہ واپسی ان مسلمانوں کے ذریعہ ہوئی، جن کا حال یہ تھا کہ اقرار کلمہ کے اعتبار سے وہ مسلمان ہو کر مسلم سماج میں داخل ہوچکے تھے، لیکن کنڈیشننگ کی بنا پر ان کا مائنڈسیٹ یا قرآن کے الفاظ میں شاکلہ ( 17:24) اب بھی وہی تھا، جو قبل اسلام زمانے میں ان کے اندر بنا تھا- یہ معاملہ صرف عرب کے نومسلموں کا نہ تھا، بلکہ ان تمام نومسلموں کا تھا، جو بعد کے زمانے میں مختلف ملکوں میں بڑی تعداد میں اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے رہے-
ماضی کی طرف رجوع (return to past) کا یہ معاملہ مختلف اعتبار سے پیش آیا- مثلاً اسی بنا پر ایسا ہوا کہ خلفاء اربعہ کے بعد مسلمانوں میں خاندانی سلطنت (dynasty) کا دور آگیا، جو پھر کبھی ختم نہ ہوا- اسی طرح اسلامی عبادت مکمل طورپر مبنی بر فارم(form based) بن گئی، اسی طرح یہ ہوا کہ مسلم تاریخ سیاسی پیٹرن (political pattern) پر لکھی جانے لگی، وغیرہ-
اس معاملہ کی سب سے زیادہ غیر مطلوب مثال وہ ہے جو مذکورہ حدیث کے مطابق جنگ وتشدد کی صورت میں پیش آئی- مسلمانوں کے اندر بعد کے زمانے میں جنگ وتشدد کا جو سلسلہ شروع ہوا اور جو آج تک جاری ہے، وہ دراصل اسی کنڈیشننگ کی بنا پر ہے- یہ معاملہ ایک لفظ میں جہاد کے نام پر قدیم قبائلی کلچر کی واپسی کا معاملہ ہے:
Jihad or expansion of tribal culture.
واپس اوپر جائیں

عذر میں جینا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: نعمتان مغبون فیہا کثیر من الناس: الصحة والفراغ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 6412) یعنی دو نعمتیں ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ دھوکے میں رہتے ہیں، وہ ہیں صحت اور فرصت- یعنی آدمی دنیا کے کاموں کی وجہ سے آخرت کو بھولا رہتاہے اور سوچتا ہے کہ جب صحت ہوگی تو آخرت کا کام کر لوں گا، اور جب فرصت ہوگی تب آخرت کا کام کرلوں گا-
اِس حدیث کا مطلب یہ ہےکہ انسان اپنی دنیا پسندی کی وجہ سے پہلے یہ کرتا ہے کہ وہ غیر فطری عادتوں کی بنا پر اپنی صحت خراب کرلیتاہے، اور پھر صحت کو عذر (excuse) بناکر یہ سوچتا رہتا ہے کہ جب صحت ٹھیک ہوجائے گی تب آخرت کا کام کرلوں گا- اِسی طرح وہ پہلے اپنے آپ کو غیر ضروری کاموں میں مشغول کرلیتاہے، اورپھر سوچتا رہتاہے کہ جب فرصت ملے گی تب آخرت کا کام کرلوں گا-
صحیح طریقہ یہ ہےکہ آدمی اپنے آپ کو غیر فطری عادتوں سے بچائے، تاکہ اُس کی صحت درست ہو- اِسی طرح وہ غیر ضروری مشغولیتوں سے بچے، تاکہ آخرت کا کام کرنے کے لئے اُس کے پاس کافی وقت ہو-
زندگی میں منصوبہ بندی (planning) کی اہمیت بہت زیادہ ہے، اگر آدمی سوچ سمجھ کر منصوبہ بند زندگی گزارے تو فطرت کے قانون کے مطابق، اُس کی صحت بھی درست رہے گی، اور اُس کے پاس کافی وقت موجود ہوگا- اِس طرح اُس کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ زندگی کے معاملات کو گہرائی کے ساتھ سمجھے، اور ایسی زندگی گزارے جو اُس کی آخرت کے لیے مفید ہو-
جو آدمی ایسا نہ کرے اور اپنے مسائل کو لے کر عذر پیش کرتا رہے، تو وہ ایک دہری غلطی میں مبتلا ہے — غلط انداز میں زندگی گزارنا اور پھر اُس کو درست ثابت کرنے کے لیے عذرات پیش کرنا-
واپس اوپر جائیں

قرآن کی اشاعت

قرآن میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا ہے: فَذَکِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ ؀ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ ؀ اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَکَفَرَ ؀ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ ؀ اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَہُمْ ؀ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ ؀( 88:21-26) یعنی پس تم یاد دہانی کرو، تم بس یاددہانی کرنے والے ہو- تم ان پر داروغہ نہیں- مگر جس نے رو گردانی کی اور انکار کیا، تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا- ہماری ہی طرف ان کی واپسی ہے- پھر ہمارے ذمہ ہے ان سے حساب لینا-
اِس آیت میں ’ذَکِّرْ‘ کا لفظ آیا ہے- اِس کا مطلب قرآن کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتا ہے- اِس دوسری آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں: ۣ فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ (50:45) یعنی پس تم قرآن کے ذریعہ اُس شخص کو نصیحت کرو جو میرے ڈرانے سے ڈرے- اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوتی کام یہ ہے کہ قرآن کو لوگوں تک پہنچایا جائے- عربوں کو عربی زبان میں، اور د وسری قوموں کوان کی اپنی قابل فہم زبانوں میں- قرآن میں آیا ہےکہ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ ۭ (14:4) اور ہم نے جو پیغمبر بھی بھیجا اس کی مخاطب قوم کی زبان میں بھیجا-
ابتدائی دور میں، جب کہ دعوت کا کام عربوں تک محدود تھا- اُس وقت عربی قرآن کو لوگوں تک پہنچانا کافی تھا- مگر اب جب کہ دعوت کا کام دنیا کی تمام قوموں سے متعلق ہوگیاہے- اب اہلِ ایمان پر فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ ہرقوم کی زبان میں قرآن کا ترجمہ تیار کریں اور منظم انداز میں اُس کو تمام قوموں تک پہنچائیں- اب یہ کافی نہیں کہ عربی قرآن کو چھاپا جائے اور اُس کو لوگوں تک پہنچادیا جائے- آج اگر مسلمان ایسا کریں کہ وہ قرآن کو آرٹ پیپر پر بہترین انداز میں چھاپیں، وہ اعلی معیار کے مطابق، اس کی جلد بندی کریں، وہ سونے اور چاندی کے کام سےاُس کو خوشنما بنائیں، پھر وہ قرآن کا یہ نسخہ دوسری قوموں کو دیں تو ایسے قرآن کو لوگ صرف ایک گفٹ آئٹم سمجھیں گے، نہ کہ اپنے لیے گائڈ بک- اِس قسم کا خوبصورت عربی قرآن لوگوں کو دینے سے مسلمانوں کی دعوتی ذمہ داری ہرگز ادا نہیں ہوسکتی-
واپس اوپر جائیں

دعا کی قبولیت کا معاملہ

روایت میں آتا ہے کہ مکی دورمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوشخصوں کے بارے میں ہدایت کی دعا کی - اس دعا کے الفاظ یہ تھے: اللہم اعزَّ الإسلام بأحب ہذین الرجلین إلیک بعمرو بن ہشام أو بعمر بن الخطاب (الترمذی، رقم الحدیث: 3681) یعنی اے اللہ، اِن دو شخصوں میں سے اپنے محبوب تر شخص کے ذریعہ اسلام کو طاقت دے، عمروبن ہشام یا عمر بن خطاب-
اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبولِ حق سے پہلے ہی کوئی شخص اللہ کو محبوب بن جاتاہے- اِس روایت میں محبوبیت سے مراد طالب ہدایت ہونا ہے- دعا کا مطلب یہ ہے کہ دونوں میں سے جس شخص کے اندر ہدایت کی طلب پائی جاتی ہو، اُس کو اسلام کی توفیق دے، اور اس کو اسلام کے لیے حامی وناصر بنادے-
اللہ کی محبت اس شخص کے لیے ہے جو حق کو قبول کرے- ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص قبولِ حق سے پہلے اللہ کا محبوب بندہ بن جائے- کوئی شخص قبول حق سے پہلے اپنی جس صلاحیت کی بنا پر اللہ کی نظر عنایت کا مستحق بنتا ہے، وہ یہ ہے کہ اُس کے اندر حق کی تلاش کا جذبہ موجود ہے یا نہیں- اگر کوئی شخص حق کا طالب نہ ہو تو وہ اللہ کی نظرِ عنایت کا مستحق نہیں بنے گا، لیکن جس شخص کے اندر حق کی طلب پائی جائے، اس کو ضرور اللہ کی مدد پہنچے گی- اللہ کی عنایت سے اس کو حق قبول کرنے کی توفیق حاصل ہوگی- پھر ایسا ہوگا کہ جو چیز پہلے اس کے دل میں طلب کے درجہ میں تھی، اب وہ اس کے لیے اعلان کی صورت حاصل کرلے گی-اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَلَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ (8:23) یعنی اور اگر اللہ کو ان کے بارے میں خیر کا علم ہوتا تو وہ ان کو ضرور سننے کی توفیق دیتا- قرآن کی اس آیت میں خیر سے مراد حق کی طلب ہے- ایک انسان کو اللہ کی مدد کا استحقاق ہمیشہ اُس کی اپنی طلب پر ہوتا ہے- جس آدمی کے اندر حق کی طلب پائی جائے، اس کو ضرور اللہ کی توفیق حاصل ہوگی، اور وہ حق کو قبول کرکے اپنی طلب کی تکمیل کرے گا- اس کے برعکس جو آدمی خود حق کا طالب نہ ہو، اس کو محض دعا کے ذریعہ قبول حق کا درجہ نہیں مل سکتا-
واپس اوپر جائیں

معلوم حق

قرآن کی سورہ المعارج میں اہل ایمان کی ایک صفت ان الفاظ میں بتائی گئی ہے: وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ ؀ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ(70:24-25) یعنی اور جن کے مالوں میں متعین حق ہےسائل اور محروم کا-
سائل اور محروم کا ایک حق وہ ہے جو قانونی طورپر معلوم ہوتاہے- اسی معلوم حق کو شریعت میں زکوة کہاگیاہے- اس حق کی ادائیگی کے معاملے میں ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: تؤخذ من أغنیائہم وترد على فقرائھم (البخاری، رقم الحدیث: 1395 )یعنی ان کے مال والوں سے لینا اور ان کے بے مال والوں کی طرف لوٹانا-
یہ معلوم حق کا ابتدائی مفہوم ہے- لیکن معلوم حق کا ایک اور مفہوم ہے، جو غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے- وہ یہ کہ سائل کو باروزگار بنانا تاکہ وہ خود اپنی کمائی سے اپنی ضرورت کو پورا کرسکے- اسی طرح محروم کا معلوم حق یہ ہے کہ اُس کے اِس تقاضے کو پورا کیاجائے کہ وہ بھی سماجی زندگی میں برابر کا درجہ پاسکے-
محروم کے اس معلوم حق کو پورا کرنے کے لئے مسلمانوں نے تو کچھ نہیں کیا، البتہ مغرب کے سیکولر لوگوں نے اس معاملے میں اتنا زیادہ کیا کہ اس کو ایک مستقل شعبہ کی حیثیت دے دی- قدیم زمانے میں ایسے لوگوں کو ناقص الاعضاء (disabled)کہا جاتا تھا- اہل مغرب نے چاہا کہ ایسے لوگوں سے احساس کم تری کو ختم کریں- تحقیق سے معلوم ہوا کہ ناقص الاعضا افراد بھی کسی اور پہلو سے امکانی طورپر غیر ناقص ہوتے ہیں- چنانچہ 1980 میں ان کے لیے ایک نیا ٹرم وضع کیا گیا جس کو ڈفرینٹلی ایبلڈ(differently abled)کہا جاتا ہے- موجودہ زمانے میں اس قسم کے لوگوں کے لیے ایسے طریقے دریافت کیے گئے ہیں جن کو اختیار کرکے ناقص الاعضا شخص بھی نارمل زندگی گزارسکتا ہے-
واپس اوپر جائیں

مواقع کی دنیا

خدا کے نقشہ تخلیق (creation plan) کے مطابق موجودہ دنیا انسان کے لئے دارالابتلا (67:2) ہے، یعنی مقام امتحان (testing ground) - مگر سوال یہ ہے کہ انسان کا یہ امتحان کس لئے ہے-
وہ امتحان برائے امتحان نہیں ہے بلکہ وہ اس لئے ہے کہ دنیا کے مختلف حالات سے گزرتے ہوئے ہر فرد کے رسپانس (response) کا ریکارڈ تیار کیا جائے، اور یہ دیکھا جائے کہ ان میں سے کون ہے جو جنت کی ابدی دنیا میں بسانے کے لئے مستحق امیدوار (deserving candidate) کی حیثیت رکھتا ہے-
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ دنیا انسان کے لئے مواقع کی دنیا (world of opportunities) ہے- ایک اعتبار سے اس کو امتحان کی جگہ (testing ground) کہاجائے گا، لیکن دوسرے اعتبار سے بلا شبہہ اس کا نام مواقع کی جگہ (opportunity ground) ہے-
اہل جنت کی صفات کو قرآن میں اور حدیث میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے- اس کے مطابق جنتی انسان کی مطلوب صفات یہ ہیں کہ وہ حقیقت کا اعتراف کرنے والا انسان ہو، اس کے اندر کامل معنوں میں مثبت سوچ (positive thinking) پائی جاتی ہو، وہ دوسروں کے لئے مسائل (nuisance) پیدا نہ کرے، وہ معاشرے کے اندر پرامن ممبر بن کر رہنے والا ہو، اس کے دل میں ہرایک کے لئے کامل ہمدردی پائی جاتی ہو، وہ تواضع (modesty) کی صفت کا حامل ہو، وہ کامل معنوں میں ایک سچا انسان ہو، وغیرہ-
موجودہ دنیا کے مختلف حالات کے درمیان رہتے ہوئے جو یہ ثابت کرے کہ وہ ان اعلیٰ صفات کا حامل انسان ہے، اس کو منتخب کرکے جنت کی ابدی دنیا میں بسایا جائے گا-
واپس اوپر جائیں

اختلاف کا معاملہ

قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَکُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ (49:6) یعنی اے ایمان والو، اگر کوئی فاسق تمھارے پاس خبر لائے تو تم اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانی سے کوئی نقصان پہنچا دو، پھر تم کو اپنے کئے پر پچھتانا پڑے-
قرآن کی اس آیت میں اجتماعی زندگی کا ایک اصول بتایا گیا ہے- وہ یہ کہ جب کوئی شخص کوئی اختلافی بات کہے تو سننے والے کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ وہ اس کو بدنیتی کا معاملہ سمجھ لے، اور کہنے والے کو برا آدمی سمجھنے لگے- اس کے بجائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملے کو تحقیق کا معاملہ سمجھا جائے نہ کہ کسی شخص کے بارے میں رائے قائم کرنے کا معاملہ- کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا صرف اتمام حجت کے بعدجائز ہے، اس سے پہلے نہیں-
اصل یہ ہے کہ شکایت یا اختلاف کا سبب اکثر حالات میں بے خبری اور غلط فہمی ہوتا ہے- لوگ معاملے کے بارے میں صحیح معلومات نہ ہونے کی بنا پر ایک مخالفانہ رائے قائم کرلیتے ہیں- کسی کے بارے میں اس طرح رائے قائم کرنا درست نہیں- اسلامی تعلیم کے مطابق، اتمام حجت سے پہلے تحقیق ہے، اور اتمام حجت کے بعد رائے قائم کرنا-
اجتماعی زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف شکایت ہوجاتی ہے- یہ شکایت بڑھتے بڑھتے نفرت بن جاتی ہے، اور نفرت کے بعد مزید برائیاں پیدا ہوتی ہیں- مثلاً ایک دوسرے کو بدنام کرنا، ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کرنا، ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ لینا- اس قسم کی اجتماعی خرابیوں کا سبب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ تحقیق کے بغیر رائے قائم کرلیتے ہیں، وہ جو کچھ سنتے ہیں، اس کو درست سمجھ لیـتے ہیں- اس طریقے کا نتیجہ بے حد سنگین ہے— دنیا میں ندامت اور آخرت میں مواخذہ-
واپس اوپر جائیں

کلام کی دو قسمیں

قرآن کے مطابق کلام کی دو قسمیں ہیں- ایک ہے قول بلیغ (4:63) اور دوسری قسم وہ ہے جس کو قرآن میں قولِ مُعجِب (2:204) کہا گیاہے-
قول بلیغ سے مراد وہ کلام ہے، جو آدمی کے ذہن کو ایڈریس (address) کرنے والا ہو، جوآدمی کو نئی سوچ میں ڈال دے- قول مُعْجِب سے مراد وہ کلام ہے، جس کو سن کر آدمی کہہ اٹھے ونڈر فل اسپیچ (wonderful speech)- لوگ اس کے کلام کی خوب تعریف کریں، لیکن اس کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں کوئی انقلاب نہ آئے-
جو شخص قول بلیغ کی زبان میں کلام کرے، اس کے گرد لوگوں کی بھیڑ اکٹھا نہیں ہوتی، اس کو عمومی مقبولیت حاصل نہیں ہوتی- البتہ ایسا ہوتاہے کہ جو افراد سنجیدہ ذہن رکھتے ہوں، جو سچائی کے متلاشی ہوں، ایسے افراد کو قول بلیغ سے اپنے لئے غذا ملتی ہے، ان کی غفلت ٹوٹتی ہے، ان کے اندر نیا تفکیری عمل (thinking process) شروع ہوجاتاہے، وہ چیزوں پر ازسر نو غور کرنے لگتے ہیں، ان کا رائے قائم کرنے کا طریقہ بدل جاتا ہے- اب تک اگر وہ اپنی ذات کے لئے جی رہے تھے تو اب وہ حق کے لئے جینے والے بن جاتے ہیں- ان کے اندر ایک نیا مزاج ڈیولپ ہوتا ہے جس میں بولنا کم ہوتا ہے اور سوچنا زیادہ- دوسرے پر تنقید کم ہوتی ہے اور اپنی اصلاح کے بارے میں فکر کرنا زیادہ-
قول مُعْجِب کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے- قول معجب کا معاملہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک لفظی مہارت کا معاملہ ہوتاہے- ایسے افراد عوام پسند بولی بولنے کے ماہر ہوتے ہیں، ان کی باتیں سن کر لوگ تالیاں بجاتے ہیں، لوگوں کے درمیان ان کا خوب چرچا ہوتا ہے، لیکن حقیقی نتیجہ کے اعتبار سے دیکھئے تو آپ کو ظاہری بھیڑ کے درمیان معنوی سناٹا نظر آئے گا- قول معجب کی تعریفیں تو خوب ہوں گی لیکن برسوں کے ہنگامے کے باوجود وہاں کوئی ایک فرد بھی ایسا نظر نہ آئے گا جس کے اندر کوئی حقیقی تبدیلی آئی ہو- قول بلیغ سے محاسبہ خویش پیدا ہوتا ہے، اور قول مُعْجِب سے صرف قصیدہ خوانی-
واپس اوپر جائیں

امانت، خیانت

قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (8:27) یعنی اے ایمان والو، خیانت نہ کرواللہ اور رسول کی اور خیانت نہ کرو اپنی امانتوں میں حالانکہ تم جانتے ہو- قرآن کی یہ آیت اہل ایمان کے لئے ایک بنیادی حکم کی حیثیت رکھتی ہے-
خیانت کا لفظ امانت کی ضد ہے- اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے امانت کا مطلب آنسٹی(honesty) ہے، اور خیانت کا مطلب ڈس آنسٹی (dishonesty)- با اصول انسان کی سب سے بڑی صفت آنسٹی ہے، اور بے اصول انسان کی سب سے بڑی صفت ڈس آنسٹی- یہ دو الفاظ کسی انسان کی پوری زندگی کا خلاصہ ہیں- حقیقی معنوں میں انسان وہی ہے جو اپنے کیریکٹر کے اعتبار سے ایک آنسٹ انسان (honest man) ہو- اس کے مقابلے میں وہ انسان ایک غیر انسان ہے، جو اپنے کیریکٹر کے اعتبار سے ایک ڈس آنسٹ انسان ہو-
آنسٹ انسان کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ ایک قابلِ پیشین گوئی کیرکٹر (predictable character) کا حامل ہوتا ہے- اس کے بارے میں کوئی شخص پیشگی طورپر یہ جان سکتا ہے کہ وہ اپنے قول اور اپنے عمل کے اعتبار سے کیسا انسان ہے، وہ ایک قابلِ اعتماد انسان ہے یا ایک ناقابلِ اعتماد انسان-
اس کے مقابلے میں ڈس آنسٹ انسان اپنی صفات کے اعتبار سے اس کے برعکس انسان ہوتا ہے- اس کے قول وفعل کے بارےمیں کوئی پیشگی رائے قائم نہیں کی جاسکتی- یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ جب اس سے کوئی معاملہ پیش آئے گا تو وہ کس قسم کا انسان ثابت ہوگا- وہ اپنے کردار کے اعتبار سے ایک بے اصول انسان ہوتاہے، اللہ کی نسبت سے بھی اور انسان کی نسبت سے بھی- وہ اپنے ظاہر کے اعتبار سے انسان ہوتاہے لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے غیر انسان-
واپس اوپر جائیں

نصرتِ خداوندی

قرآن کی سورہ الروم میں اللہ کی ایک سنت کوان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِہِمْ فَجَــاۗءُوْہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَانْتَـقَمْنَا مِنَ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا ۭ وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ(30:47)یعنی اور ہم نے تم سے پہلے رسولوں کو بھیجا ان کی قوم کی طرف- پس وہ ان کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے تو ہم نے ان لوگوں سے انتقام لیا جنھوں نے جرم کیا تھا اور ہم پر یہ حق ہے کہ ہم اہلِ ایمان کی مدد کریں-
قرآن کی اس آیت میں پیغمبروں کے حوالے سے اللہ کی ایک سنت کو بیان کیا گیاہے- اس سنت کا تعلق ایسے اہلِ ایمان سے ہے جو دعوت الی اللہ کا کام کرنے کے لئے اٹھیں- ایسے لوگ ایک خدائی مشن (divine mission)کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں، وہ اللہ کے کنسرن (concern) کو اپنا کنسرن بناتے ہیں، وہ اپنے لئے جینے کے بجائے اللہ کے لئے جینے والے  بنتے ہیں، وہ اپنے آپ کو اللہ کے کام کے لئے وقف کردیتے ہیں، ایسے لوگ اپنے عمل سے اس حقیقت کا ثبوت دیتے ہیں کہ ان کا انحصار تمام تر اللہ پر ہوچکا ہے-
ایسے لوگ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اللہ کے خاص بندے بن جاتے ہیں، ان کا پورا وجود اس بات کی سفارش (recommendation) بن جاتا ہے کہ اللہ ان کی طرف خصوصی توجہ فرمائے- اُن کے معاملے کو اللہ اپنا معاملہ قرار دے دے- اللہ اور بندے کے درمیان یہی خصوصی تعلق ہے، جس کو مذکورہ آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ دین کے داعیوں کا اللہ کے اوپر یہ حق (due) ہے کہ وہ ان کی خصوصی مدد کرے-
جب کوئی شخص اپنے آپ کو اللہ کے مشن میں پوری طرح وقف کردے تو اس کے بعد فطری طورپر ایسا ہوتاہے کہ ایسے شخص کی زبان سے دعا کے ایسے کلمات نکلتے ہیں جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والے ہوں، جو اس کے لئے اللہ کی خصوصی مدد کو لازم بنا دیں-
واپس اوپر جائیں

تقابل کی غلطی

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیس لابن آدم حق فی سوى ہذہ الخصال بیت یسکنہ وثوب یواری عورتہ وجِلف الخبز والماء(الترمذی، رقم الحدیث: 2341) یعنی اِس دنیا میں انسان کا حق صرف چند ہے- ایک گھر جس میں وہ رہے اور ایک کپڑا جو اُس کی سترپوشی کرے اور روٹی کا ایک ٹکڑا اور پانی-یہ حدیث رسول بتاتی ہے کہ دنیا میں سامانِ حیات کا معیار کیا ہے، یعنی حقیقی ضرورت کے اعتبار سے وہ کیا چیز ہے جو اگر انسان کو مل جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کو کافی سمجھے- اگر یہ معیار آدمی کے ذہن میں نہ رہے، اس کے برعکس آدمی کا معیار یہ ہو کہ اِس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے پاس ایک عالی شان محل (palace) ہو تو وہ بقدر ضرورت گھر پر قانع نہ ہوگا، وہ اپنی ساری توجہ محل کو حاصل کرنے میں لگا دے گا، محل کے بغیر وہ اپنے آپ کو بے گھر (homeless) سمجھتا رہے گا-
یہی معاملہ قوم کا ہے- اگر کوئی قوم بطور خود یہ سمجھ لے کہ اس کی قومی زندگی کے لیے سیاسی اقتدار لازمی طورپر ضروری ہے تو اس کو سیاسی اقتدار سے کم درجے کی چیز بے حقیقت معلوم ہوگی- ایسی قوم کو سیاسی اقتدار سے باہر ہزاروں چیزیں حاصل ہوں گی، لیکن ایسی قوم کے لوگ اقتدار سے محرومی کے غم میں پڑے رہیں گے، حتی کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اِس مفروضہ معیار کے حصول کے لیے ناکام لڑائی شروع کردیں اور نتیجةً اپنی تباہی میں کچھ اور اضافہ کرلیں-
موجودہ زمانہ میں مسلمان عام طور پر احساس محرومی کا شکارہیں- حالانکہ یہ دور وہ تھا جب کہ وہ احساس یافت میں جینے والے ہوں اور زیادہ سے زیادہ اللہ کا شکر کریں- مسلمانوں کی موجودہ حالت کا واحد سبب یہ ہے کہ انھوں نے بطور خود اسلام کا غلط معیار بنا رکھا ہے- وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو، تب اسلام زندہ ہے، ورنہ اسلام زندہ نہیں- اِس جوش میں وہ اِس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ آج بھی پچاس سے زیادہ ملکوں میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار ہے، لیکن ان کو یہ کھلی حقیقت نظر نہیں آتی-
واپس اوپر جائیں

دعوة اِن ایکشن

6 اکتوبر 2014 کی صبح کو موبائل پر ایک میسج آیا- یہ میسج محبوب بھائی (ممبئی) نے بھیجا تھا- ممبئی کی سی پی ایس ٹیم حال میں ناندیڑ گئی تھی- یہ میسج اسی وزٹ کے بارے میں تھا- میسج میںانھوں نے لکھا تھا:
We have very encouraging news from Nanded. Today the first monthly Dawah Meet was held at Abdur Rahman Chaus’s house after Isha prayer. Six people participated in this first meeting. Besides other things they discussed plans to meet mad‘us in Nanded and surrounding areas. Monthly meets have started at almost all places visited by the CPS Mumbai team, alhamdulillah. (Mob. 9619163993)
ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران محبوب بھائی نے بتایا کہ ہم لوگوں نے مہاراشٹر میں دعوتی اسفار کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس کے دوران ایک عجیب تجربہ سامنے آیا - ہماری ٹیم جس مقام پر جاتی ہے، وہاں الرسالہ کے قارئین بڑی تعداد میں جمع ہوجاتے ہیں، اور باقاعدہ دعوتی سرگرمی شروع کردیتے ہیں- ہر جگہ ہفتہ وار اجتماع، یا ماہانہ اجتماع کیا جانے لگا ہے- انھوںنے کہا کہ ہماری ٹیم جہاں جاتی ہے، وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ اگر ممبئی کی ٹیم ہمارے یہاں آکر کام کرسکتی ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے-
مقابلہ (competition) کی اسپرٹ، ایک صحت مند اسپرٹ ہے- اس کو قرآن میں تَنافُس (83:26) کہاگیاہے- یہ انسان کی ایک اعلیٰ خصوصیت ہے- ضرورت ہے کہ اس کو ہر جگہ استعمال کیا جائے- الرسالہ کے قارئین کا حلقہ تقریباً ہر مقام پر موجود ہے- ہر اسٹیٹ میںایسا ہونا چاہئے کہ مرکزی شہر کی سی پی ایس ٹیم مختلف مقامات پر جائے، اور قارئین الرسالہ کو جمع کرے- اس طرح لوگوں کے اندر ایک نئی بیداری پیدا ہوجائے گی-
قرآن میں السائحون اور سائحات کے الفاظ ان لوگوں کے لئے آئے ہیں جو سفری سرگرمیوں کے ذریعہ دعوت کا کام کرتے ہیں- آج کل کی زبان میں اس کو دعوہ اِن ایکشن (Dawah in action) کہاجاسکتا ہے- دعوت کے کام کو بڑھانے کے لئے یہ طریقہ بہت ضروری ہے- مقامی طورپر کام کرنا بھی ایک کام ہے، لیکن جب آپ سفر کرکے دوسرے مقامات پر جائیں تو اس کے ذریعہ دعوتی کام میں اضافہ ہوتا ہے- دعوت کا مشن نئی وسعت اختیار کرلیتا ہے-
موجودہ زمانہ کمیونی کیشن (communication) کا زمانہ ہے- سفر کی جدید سہولتیں اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے دعوہ ان ایکشن کے کام کے لئے عالمی راہیں کھول دی ہیں- اب ضرورت ہےکہ اس کام کو مزید اضافہ کے ساتھ زندہ کیا جائے، جس کو قرآن میں سیاحت کہاگیا ہے-
سیاحت صرف یہ نہیں ہے کہ دعوت کے پروگر ام کے تحت آپ کہیں جائیں، بلکہ الرسالہ مشن کے ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے بیگ میں لٹریچر رکھے، وہ جب بھی کسی سے ملے تو اس کو تحفہ کے طورپر ایک کتاب پیش کرے- موجودہ زمانے میں ملاقات کے مواقع بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں- انسان جب بھی کسی کام کے لئے نکلتاہے تو ہمیشہ اس کو جگہ جگہ نئے افراد ملتے ہیں- یہ تمام افراد آپ کو دعوتی کام کا موقع دے رہے ہیں-
آپ کو چاہئے کہ دعوتی لٹریچر ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں، اور ہر ملاقات کے موقع پر لوگوں کو اسے دیتے رہیں، یہ کام قریبی سفروں میں بھی کرنا ہے، اور دور کے سفروں میں بھی-
واپس اوپر جائیں

خدا : یقین کا سرچشمہ

God— A Source of Conviction
اگر آپ کے پاس کائناتی دوربین ہو اور آپ کائنات کے کسی مقام پر کھڑے ہو کر کائنات کا مشاہدہ کریں تو سب سے پہلے آپ کی نظر اس استثنائی planet پر جائے گی جس کا نام زمین ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ مکمل طورپر ایک lifeless دنیا میں زمین کا tiny planet زندگی اور زندگی کو sustain کرنے والے ہر قسم کے سامان سے بھر پور ہے۔ یہ نادر استثنائی منظر آپ کو ایک حیرتناک کیفیت میں مبتلا کردے گا۔
پھر آپ دیکھیں گے کہ زمین اپنے چاند اور دوسرے planets کے ساتھ مسلسل حرکت میں ہے۔ اس کی ایک گردش اپنے axis پر ہور ہی ہے ، اس حرکت کے ساتھ ساتھ بیضوی دائرہ میں وہ مسلسل طورپر سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ پھر یہ پورا سولر سسٹم کہکشاں کی عظیم پلیٹ پر وسیع تر دائرہ میں تیزی سے گھوم رہا ہے۔ پھر پورا کہکشانی نظام خلا میں دوسری بہت سی کہکشاؤں کے ساتھ ایک اور وسیع دائرہ میں مسلسل طورپر حرکت میں ہے۔
اتھاہ space میں ستاروں اور سیاروں کی یہ گردش آپ کو دہشت ناک حد تک عجیب معلوم ہوگی۔ پھر آپ جب دیکھیں گے کہ unbelievable حد تک آگ کے بڑے بڑے الاؤ جن کو ستارے کہا جاتا ہے، countlessتعداد میں ادھر ادھر تیزی سے دوڑ رہے ہیں اور ان کے درمیان ہماری زمین ایک چھوٹے ذرّے کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ یہ سارا منظر آپ کو اتنا دہشت ناک حد تک عجیب معلوم ہوگا کہ آپ کو اپنا وجود اس کے سامنے بالکل بے قیمت اور حقیر دکھائی دینے لگے گا۔
یہ تجربہ آپ کو بیک وقت دو چیزوں کی دریافت کرائے گا۔ ایک یہ کہ اس دنیا کا ایک طاقتور خدا ہے جو اس کا Creator بھی ہے اور اس کا Sustainer بھی۔ اگر آپ اپنے چشم تصور میںاِس کائناتی منظر کو لے آئیں تو آپ کا دل پکار اٹھے گا کہ کائنات خود اپنے آپ میں اپنے خالق کا ایک بین ثبوت ہے۔ اس کے بعد کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں۔ دوسرے یہ کہ انسان اس کائنات میںایک عاجز اور حقیر مخلوق ہے- خدا انسان کی ایک ایسی لازمی ضرورت ہے جس کے بغیر اس کا کوئی وجود ہی ممکن نہیں۔
یہ بلاشبہہ زندگی کی سب سے زیادہ اہم حقیقت ہے۔ اس حقیقت کا ادراک جب آدمی کو ہوجائے تو وہ بے اختیار انہ طورپر خدا کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ پکار اٹھتا ہے کہ خدایا میری مدد فرما۔ تیری مدد کے بغیر میرا کوئی بھی کام بننے والا نہیں۔
اتھاہ کائنات میں خدا انسان کا سہارا ہے۔وہ انسان کی کشتی کو سہارا دے کر اس کو ساحل تک پہنچانے والا ہے۔ خدا کا عقیدہ انسان کے لیے سب کچھ ہے۔ اس عقیدہ کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں۔
انسان کے عجز (helplessness) کا احساس جو کائنات کو دیکھ کر ہوتا ہے وہی ہر آدمی کو اپنی روز مرّہ کی زندگی میں بھی لازمی طور پر پیش آتا ہے۔ ہر عورت اور مرد بار بار اس تجربہ سے گزرتے ہیں کہ انہیں محسوس ہوتاہے کہ وہ محدودیت limitation) (کا شکار ہیں۔ وہ جو کچھ چاہتے ہیں اس کو وہ پا نہیں سکتے۔ ان کی زندگی بار بار ایسے احوال میں پھنس جاتی ہے جہاں وہ اپنے آپ کوبے بس helpless) (محسوس کرنے لگتے ہیں- اسی کے ساتھ نقصان کا خوف، بیماری اور حادثہ اور بڑھاپا اور موت کا تجربہ بتاتا ہے کہ ہر آدمی اپنے سے برتر کسی طاقت کا محتاج ہے۔ ایک superior power کی مدد کے بغیر وہ اپنے کو کامیاب نہیں بنا سکتا۔ یہ احساس گویا خدا کے وجود کا ایک نفسیاتی ثبوت ہے ۔ ہر آدمی لازمی طورپر اس نفسیاتی تجربہ سے دوچار ہوتا ہے۔ ہر آدمی خود اپنے اندر خدا کے وجود کی یقینی گواہی پارہا ہے۔
ہر آدمی کی فطرت مستقل طورپر اس کو یہ آواز دے رہی ہے کہ تم کو ایک خدا کی ضرورت ہے۔ خدا کے بغیر تمہاری زندگی مکمل نہیں ہوسکتی۔خدا کی مدد کے بغیر تم اپنے آپ کو کامیاب نہیں بنا سکتے۔
واپس اوپر جائیں

کلْب کلچر

قرآن کی سورہ الاعراف میںایک انسانی صفت کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیاہے:وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَلٰکِنَّہٗٓ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ ۚ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ اَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَثْ ۭ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ(7:176)یعنی اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے- مگر وہ زمین کا ہورہا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کرنے لگا- پس اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر بوجھ لادے تب بھی ہانپے اور اگر چھوڑ دے تب بھی ہانپے- یہ مثال ان لوگوں کی ہے جنھوںنے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، پس تم یہ احوال ان کو سناؤ تاکہ وہ سوچیں-
ہانپنے کا فعل (panting)کو ئی انسان اس وقت کرتاہے جب کہ اس پر بوجھ لدا ہوا ہو- لیکن کلْب (dog) اپنی فطری بناوٹ کی وجہ سے ہر حال میں ہانپتاہے، خواہ اس کے اوپر بوجھ ہو یا بوجھ نہ ہو- کلب کی اس فطری صفت کی مثال کو لے کر انسان کی ایک اخلاقی حالت کو بیان کیاگیاہے- وہ یہ کہ انسان اگر خواہش (desire) کا اتباع کرے تو اس کا حال کیا ہوتا ہے، اور اگر وہ خدا کی ہدایت (guidance) کا اتباع کرےتو اس کا حال کیا ہوتا ہے- خدائی ہدایت کا اتباع کرنے والا ہمیشہ ایک حالت پر رہتاہے، اور وہ شکر کی حالت ہے- خدائی ہدایت کی اتباع کرنے والا ہمیشہ شکر کے احساس میں جیتاہے، خواہ دنیا کا سامان اس کو کم ملے یا زیادہ-
اس کے برعکس حال اس انسان کا ہوتا ہے جو اتباعِ ہویٰ (خواہش کی پیروی) میں مبتلا ہوجائے- چوںکہ تخلیقی نقشے کے مطابق انسان کی خواہش لامحدود ہے، اور دنیا کی چیزیں محدود ہیں- اس بنا پر خواہش کی اتباع کرنے والے انسان کا حال یہ ہوگا کہ وہ ہر حال میں ہانپتا رہے گا، یعنی دنیا میں کم ملے تب بھی وہ شکر سے خالی ہوگا، اور اگر اس کو دنیا میں بظاہر زیادہ ملے تب بھی وہ شکر سے خالی رہے گا- حقیقت یہ ہے کہ خواہش کی تکمیل صرف آخرت میں ہوگی، موجودہ دنیا میں خواہش کی تکمیل ہونے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں

اعتقادی کاملیت، عملی رخصت

انسان کی زندگی کے دو پہلو ہیں، ایک ذہنی اور دوسرا عملی- ایک انسان کی ذہنی زندگی (intellectual life)اور دوسری عملی زندگی (practical life) - دونوں اگرچہ انسانی زندگی کا حصہ ہیں، مگر دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے مختلف ہیں-ذہنی اور فکری اعتبار سے یہ ممکن ہوتاہے کہ آدمی اپنے اندر معیاری سوچ پیداکرے- وہ چیزوں کے بارے میں معیار کے اعتبار سے رائے قائم کرے- قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ذہنی اور فکری اعتبار سے انسان سے اعلی معیار مطلوب ہے، اس معاملہ میں اعلی معیار سے کم تر کوئی حالت اللہ کے یہاں قابل قبول نہیںہوسکتی- اس سلسلہ کی ایک رہنما آیت یہ ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ ۭوَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا (4:116) یعنی بے شک اللہ اِس کو نہیں بخشے گا کہ اُس کا شریک ٹھہرایاجائے اور اِس کے سوا کو بخش دے گا جس کے لیے چاہے گا- اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا وہ بہک کر بہت دور جاپڑا- اس آیت میں شرک سے مراد صرف بت پرستی نہیں ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک اللہ کے سوا کسی بھی اعتبار سے کسی کو اپنا کنسرن (concern) بنانا-
انسانی زندگی کا دوسرا پہلو وہ ہے، جس کو عملی پہلو کہاجاسکتا ہے- یہ ایک ایسا پہلو ہے، جس میں ہمیشہ کامل معیار پر قائم رہنا ممکن نہیں ہوتا- اس لئے عملی معاملہ میں رخصت (concession) کا امکان رکھا گیاہے- اس سلسلہ میں قرآن کی ایک رہنما آیت یہ ہے: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ۭ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (39:53) یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے- قرآن کی اس آیت میں ذنب سے مراد عملی کوتاہی ہے- اگر کوئی انسان اعتقادی اعتبار سے کامل ہوتو اِس کا امکان ہے کہ عملی اعتبار سے اس کا عذر قبول کرتے ہوئے اس کو معاف کردیا جائے-
واپس اوپر جائیں

اٹلی اور اسپین کا دعوتی سفر

گڈورڈ بکس اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت بڑے پیمانے پر ترجمہ قرآن کی نشر واشاعت کا کام ہورہا ہے- اِس سلسلے میں مقامی پروگراموں کے علاوہ، اسفار کے ذریعے بھی ملک اور ملک کے باہر کے مختلف مقامات پر یہ کام کیا جاتا ہے- اِس سلسلے میں نومبر 2014 میں میرایورپ اور ایشیا کے مختلف ملکوں کا سفر ہوا— اٹلی، اسپین، ترکی اور دبئی-
میرے اٹلی کے سفر کا محرک ایک پروگرام تھا- یہ پروگرام 17 جولائی 2014 کو اسلامی مرکز (نئی دہلی) میں ہوا- اِس میں اٹلی کے اسپریچول رہنما مسٹر ماریو (Mario)کی قیادت میں اٹلی کے 90 مسیحی خواتین و حضرات شامل تھے- اِس موقع پر امن اور اسلام اور اسپریچویلٹی کے موضوع پر مولانا وحیدالدین خاں کی ایک تقریر ہوئی- پروگرام کے خاتمے پر اٹیلین گروپ کے تمام خواتین وحضرات کودعوتی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا-لیکن مجھے یہ احساس ہوا کہ اطالوی (Italian)زبان میں ترجمہ قرآن ان کے لیے زیادہ قابلِ فہم ثابت ہوگا- اُس وقت میرے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوا کہ اردو، ہندی، انگریزی، وغیرہ کے بعد اب ضرورت ہے کہ اطالوی اور دوسری یورپی زبانوں میں بھی قرآن کا ترجمہ شائع کیا جائے-اِس سلسلے میں تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اطالوی زبان میں قرآن کے کئی تراجم موجود ہیں- اُن میں سب سے معروف ترجمہ وہ ہے جو اٹلی کے ایک نو مسلم مسٹر حمزہ (Hamza Roberto Piccardo) نے تیار کیا ہے- چناںچہ میں نے ارادہ کیا کہ یورپ کے سفر کے دوران مترجم سے ضرور ملاقات کی جائے اور اُن سے اِس ترجمے کی اشاعت کی اجازت حاصل کرکے اس کو شائع کیا جائے-
میرے اندر اٹلی جانے کا ابتدائی محرک اپریل 2014 میں پیدا ہوا تھا- اُس وقت میں پیرس میں تھا- یہاں اٹلی کے چند مسلمانوں سے ملاقات ہوئی — ابراہیم شبانی، فواد سلیم اور عزّالدین- مسٹر ابراہیم شبانی اٹلی میں ایک ادارے کے ذمہ دار ہیں- اس ادارے کا نام یہ ہے:
المرکز الاسلامی بسیستو-میلانو(Centro Islamico di Sesto S.G. Milano)
اِسی طرح مسٹر سلیم فواد اور مسٹر عز الدین (Izzeddin Elzir)اٹلی کے ایک بڑے اسلامی ادارہ سے منسلک ہیں- اِس ادارے کا نام یہ ہے:
اتحاد الہیئات الإسلامیة فی إیطالیا
(Unione Delle Comunita Islamiche d’ Italia)
اِن حضرات سے دعوتی موضوع پر بات ہوئی تھی- انھوں نے مجھے اٹلی آنے کی دعوت دی تھی اور کہا تھا کہ آپ اٹلی آکر دیکھیں، پھر ان شاء اللہ وہاں کے ماحول کو سامنے رکھ کر اٹلی میں دعوتی کام کو منظم کیا جاسکتا ہے-تاہم 2 نومبر 2014 کے اِس سفر میں جب میں اٹلی پہنچا تو اُن لوگوںسے ملاقات نہ ہوسکی-اس وقت وہ لوگ کسی پروگرام کے تحت شہر سے باہر گئے ہوئے تھے-
31 اکتوبر 2014 کو نئی دہلی سے اٹلی کے لیے میرا سفر وایا فرانس ہوا- سفر کے دوران ایک دعوتی تجربہ پیش آیا- پیرس کے ایرپورٹ پر میں نے ائرفرانس کی ایک خاتون اسٹاف کو ریلٹی آف لائف (Reality of Life)کی ایک کاپی پیش کی- تھوڑی دیر کے بعد مذکورہ خاتون میرے پاس آئیں- اُس وقت ریلٹی آف لائف ان کے ہاتھ میں تھی- انھوں نے اس بک لٹ کا غالباً ایک حصہ پڑھ لیا تھا- انھوں نے مجھ کو مخاطب کرتے ہوئے اِن الفاظ میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا:
This is what I actually wanted to read. I liked it so much that I will cherish this book for the whole of my life.
پیرس سے مجھے اٹلی کے شہر میلان (Milan) کے لیے روانہ ہونا تھا- یہاں مجھے مسٹر حمزہ سے ملنا تھا- تاہم میلان جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے خاندان میں کسی شخص کی وفات ہوگئی ہے- اس کی وجہ سے وہ شہر میں نہیں ہیں، لہذا اِس وقت اُن سے ملاقات نہیں ہوسکتی- چنانچہ ان کے بیٹے مسٹر داؤد (Davide Piccardo) سے ملاقات ہوئی- گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ قرآن کے اِس ترجمے کی عمومی اشاعت کے حق میں نہیں ہیں-چنانچہ گفتگو کے باوجود ہمارے یہاں سے قرآن کے اٹیلین ترجمے کی اشاعت کی اجازت نہ مل سکی-
تاہم میلان کے اِس سفر کا ایک فائدہ یہ ہواکہ یہاں کے ایک اسلامک سنٹر (مریم مسجد) کو دیکھنے کا اتفاق ہوا- اِس سنٹر کی مسجد میں ایک عرب مسٹر ابراہیم امام ہیں- ان سے ملاقات ہوئی- انھوں نے مسجد کے مختلف شعبے دکھائے- میں نے کہا کہ میں اطالوی زبان میں قرآن کا ترجمہ کرانا چاہتا ہوں- انھوں نے کہا کہ یہاں ایک مقامی خاتون مترجم عائشہ روڈولفی (Aicha Rodolfi) ہیں- اگر آپ اُن سے رابطہ کریں تو شاید اِس سلسلے میں وہ آپ کی رہنمائی کرسکیں-
چناں چہ میں نے محترمہ عائشہ روڈولفی سے رابطہ کرکے اُن سے ملاقات کی- ان سے ملنے کے لئے میں اٹلی کے دوسرے شہر (Castelfranco Emilia)گیا- وہ ایک نو مسلم خاتون ہیں-انھوں نے بتایا کہ پہلے وہ ایک فیشن ماڈل تھیں- بعد کو وہ قرآن کی تعلیمات سے متاثر ہوئیں اور انھوں نے اسلام قبول کرلیا- اس کے بعد ان کی والدہ نے بھی اسلام قبول کرلیا-
عائشہ روڈولفی کے گھر پر ان کی والدہ اور مسٹر حسین سے ملاقات ہوئی- گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ یہ لوگ یہاں بڑے پیمانے پر دعوہ ورک کررہے ہیں- انھوں نے بتایا کہ وہ اسٹریٹ دعوہ (Street Dawah) کے طریقے پر دعوت کا کام کرتے ہیں- اِس سلسلے میں وہ خاص طورپر تعارفِ اسلام کے موضوع پر سعودی عرب سے چھپے ہوئے پمفلٹس لوگوں کو دیتے ہیں- عائشہ روڈولفی نے بتایا کہ اِن پمفلٹس میں عام طورپر شرک وبدعات، توحید اور حلال وحرام کی باتیں بیان کی گئی ہیں- تاہم اِن کتابوں کا اسلوب یہاں کی جدید نسل کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتا- انھوں نے کہا کہ اگر اس سے بہتر اسلوب میں کوئی لٹریچر ہم کو مل جائے تو ہم اس کو پھیلائیں گے-
عائشہ روڈولفی کو میں نے اپنے یہاں کی چھپی ہوئی کتابیں — ترجمہ قرآن، پمفلٹس، وغیرہ دکھائیں- انھوں نے اِس کو دیکھا اور پسندکیا- انھوں نے کہا کہ اس لٹریچر کا ہم اطالوی زبان میں ترجمہ کریں گے -آپ اس کو انڈیا سے شائع کرکے ہمیں بھیج دیں، تاکہ ہم یہاں بڑے پیمانے پر لوگوں تک اس کو پہنچا سکیں- میں نے کہا ضرور،آپ اس کا ترجمہ کریں، یہی ہمارا اصل مقصد ہے- انھوں نے کہا کہ ان شاء اللہ ہم ’’اسٹریٹ دعوہ‘‘ کے تحت اٹلی کے ہر شہر میں اِس لٹریچر کو پھیلانے کی کوشش کریں گے-
اٹلی سے روانہ ہوکر 3 نومبر 2014کو مجھے اسپین جانا تھا- اسپین کا سفر بھی دراصل قرآن کے اسپینی ترجمے کی اشاعت کے لیے تھا- اِس کا اصل محرک یہ تھا کہ خواجہ کلیم الدین صاحب (امریکا) کافی عرصے سے مجھ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ امریکا میں، خاص طورپر ساؤتھ امریکا کے ملکوں میں قرآن کے اسپینش ترجمے کی بہت ضرورت ہے، کیوں کہ اسپین کے علاوہ ساؤتھ امریکا کے ملکوں میں بھی اسپینش زبان بولی جاتی ہے-مثلاً میکسکو، ارجنٹائنا، کولمبیا، پناما، کیوبا، چلی، پیرو، وینزولا ، وغیرہ میں عام طور پر اسپینش (Spanish) زبان بولی جاتی ہے- کلیم الدین صاحب کا کہنا تھا کہ اگر اسپینش زبان میں قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر تیار ہوجائے تو ساؤتھ امریکا میں بڑے پیمانے پر اس کے ذریعے دعوہ ورک کیا جاسکتا ہے-
جب میں نے اِس سلسلے میں جاننا چاہا تو معلوم ہوا کہ اسپینش زبان میں قرآن کے چارترجمے موجود ہیں- ان میں سب سے معروف ترجمہ وہ ہے جس کو غرناطہ(Granada)کے مسٹر عبدالغنی (Abdul Ghani Melara Navio) نے تیار کیا ہے- یہ ترجمہ شاہ فہد قرآن کامپلیکس ،مدینہ سے بھی شائع ہوچکا ہے- کافی تلاش کے بعد غرناطہ کے مسٹر لقمان نیٹو (Luqman Nieto) کے ذریعے مترجم موصوف کا نمبر معلوم ہوا-چناں چہ اُن سے ملاقات کے لیے میں نے غرناطہ جانے کا ارادہ کرلیا-
چنانچہ پہلے میں اٹلی سے اسپین کے شہر مالقہ (Malaga) گیا- یہ غرناطہ سے قریب ایک تاریخی شہر ہے- یہاں انٹرنیشنل ائرپورٹ بھی ہے- مالقہ بھی اسلامی سلطنت کا حصہ تھا، اس لئے یہاں مسلم دور کی کافی عمارتیں موجود ہیں- مالقہ سے غرناطہ کے لئے ائرپورٹ سے ڈائریکٹ بس جاتی ہے- چناں چہ میں یہاں سے بذریعہ بس تقریباً ڈھائی گھنٹے میں غرناطہ پہنچ گیا- سفر کے دوران ہر طرف خوب صورت مناظر دکھائی دے رہے تھے- دریا، پہاڑ، سبزہ، وغیرہ- یہاں کی مٹی سرخ رنگ کی تھی- اس میں ہر طرف دور تک پھیلے ہوئے زیتون کے سرسبز وشاداب باغات ایک عجیب منظر پیش کررہے تھے-
غرناطہ پہنچ کر میں نے مسٹر عبد الغنی کو فون کیا- وہ میرے ہوٹل کے قریب ہی رہتے ہیں- چنانچہ بیس منٹ کے اندر وہ ہوٹل پہنچ گئے- تقریباً دو گھنٹے کی گفتگو کے بعد وہ اپنا لیپ ٹاپ لے کر آئے اور اُس پر مختلف چیزیں مجھ کو دکھانے لگے- مثلاً انھوں نے اپنے اسپینش ترجمہ قرآن پر تفسیری نوٹس لکھے ہیں، وہ انھوں نے مجھے دکھائے- مسٹر عبد الغنی عربی زبان وادب کے اچھے اسکالر ہیں- اِس وقت ان کی عمر تقریباً 70 سال ہوچکی ہے- انھوں نے بتایا کہ وہ غرناطہ کے ایک مسیحی خاندان میں پیداہوئے- تاہم اللہ کی توفیق سے 1979 میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا-انھوںنے بتایا کہ 1970 کے زمانے میں یہاں مراکو سے ایک مسلم صوفی آئے تھے- اُن کی دعوت وتبلیغ سے متاثر ہو کر بڑی تعداد میں یہاں کے مسیحی لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا- انھوں نے بتایا کہ میںبھی انھیں لوگوں میں سے ایک ہوں جو اُس وقت مذکورہ صوفی کی دعوت سے متاثر ہوکر اسلام میں داخل ہوئےتھے-
دیر تک اُن سے امن اور جہاد وغیرہ کے موضوع پر بات ہوتی رہی- گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ ہماری امن اور جہاد کی آئڈیالوجی سے اتفاق نہیں رکھتے- گفتگو کے دوران ایک بات انھوں نے یہ کہی کہ قرآن کو مفت نہیں دینا چاہئے- اِس سے قرآن کی اہمیت لوگوں کی نظر میں کم ہوجاتی ہے- اِسی طرح گفتگو کے دوران غیر مسلموں کے لیے وہ بار بار ’’کفار‘‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے- میں نے کہا کہ غیر مسلموں کے لیے کفار کا لفظ استعمال کرنا درست نہیں- غیر مسلم ہمارے مدعو ہیں- میں نے کہا کہ ہم بھی انسان ہیں اور وہ بھی انسان -اِس اعتبار سے اُن کے لیے کفار کے بجائے ’’مدعو‘‘ کا لفظ استعمال کرنا درست ہوگا-میں نے ان سے اپنے یہاں سے قرآن کے اسپینش ترجمے کی اشاعت کی اجازت مانگی، اور اس کے لئے بطور رائلٹی ان کو ایک خطیر رقم کی پیش کش بھی کی، مگر وہ اس ;کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے-
آخر میں میں نے اُن کو اپنے یہاں کا چھپا ہوا دعوتی لٹریچر دیا- مثلاً قرآن کا انگریزی ترجمہ، تذکیر القرآن (انگریزی) اور پرافٹ آف پیس، وغیرہ- اِس کو انھوں نے شکریے کے ساتھ قبول کیااور کہا کہ مولانا وحید الدین خاں کا یہ ترجمہ میرے پاس پہلے سے موجود ہے-پچھلے سال ہم نے غرناطہ کی مسجد کے لئے قرآن اور دوسری تعارفی کتابیں بھیجی تھیں جو کہ وہاں تقسیم کی گئیں-
غرناطہ کے ایک اور ادارے میں جانے کا اتفاق ہوا- اس ادارے کا نام یہ ہے:
وقف الأندلس للتربیة والتعلیم (Fundación Educativa al-Andalus)
اِس ادارے کے ذمے دارمسٹر مضطر (M. Mujtar Medinilla) ہیں- وہ ایک اسپینی مسلم ہیں-ایک جرمن مسلمان مسٹر احمد (Ahmad Gross)کے ساتھ مل کر وہ اِس ادارے کو چلا رہے ہیں-اِس ادارے کے تحت تعلیم وتربیت کے علاوہ دعوتی کام بھی ہوتا ہے-یہ لوگ وہاں ایک بڑا اسلامی اسکول بھی قائم کرنے والے ہیں-
مسٹر ادریس (Idris Medinilla) مسٹر مضطر کے بیٹے ہیں- وہ مجھ کو غرناطہ کے ایک اور سینٹر میں لے گئے- اس کا نام یہ ہے:
مرکز الدراسات الإسلامیة(Centro de Estudios Islámicos)
یہ غرناطہ میں ایک بڑا دعوتی مرکز ہے- یہاں لوگ کثرت سے آکر اسلام قبول کرتے ہیں- اِسی طرح سیاح، خاص طور پر مسیحی حضرات بڑی تعداد میں اسلام کو جاننے کے لئے یہاں آتے رہتے ہیں- یہاں ایک بڑی لائبریری ہے- اِسی طرح یہاں ایک وسیع اور خوبصورت لیکچر ہال بھی ہے-اس ہال میں اسلام کے مختلف موضوعات پر پروگرام ہوتے رہتے ہیں-
غرناطہ میں مولانا وحید الدین خاں کے ترجمہ قرآن کے اسپینش ایڈیشن کی تیاری کے متعلق مسٹر لقمان نیٹو (مترجم اسپینش) سے بات ہوئی- پہلے انھوںنے کہا کہ میں اسپینش زبان میں اس کا ترجمہ کرنے کی کوشش کروں گا- تاہم بعد کو انھوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ قرآن کا ترجمہ آسان کام نہیں ہے، یہ ایک بہت بڑی ذمے داری کا کام ہے- میں اپنے آپ کو اِس کا اہل نہیں پاتا- اِس لیے میں اِس کام کے لیے معذرت خواہ ہوں-اسپین میں جن اداروں میں جانے کا اتفاق ہوا، اُن میں سے ایک مقامی اخبار کا آفس تھا- یہاں سے اسپینش زبان میں ایک پندرہ روزہ اخبار نکلتاہے- اس کا نام یہ ہے:
Islam Hoy (Islam Today)
یہاں اخبار کے ایڈیٹر سے بھی ملاقات ہوئی- اِس اخبار کے کئی ایڈیشن دیکھے- معلوم ہوا کہ یہ سب مسلم قومی ذہن کی نمائندگی کررہے ہیں- اِسی طرح یہاںمدرسہ ایڈیشن (Madrasa Edition) کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ ہے- اس کے انچارج مذکورہ اسپینی نوجوان مسٹر ادریس (Idris Medinilla)ہیں-مسٹر ادریس سے دعوتی موضوع پر بات ہوئی- انھوںنے دعوتی کام میں اپنی دلچسپی ظاہر کی- انھوںنے کہا کہ آپ ہمیں اسپینش زبان میں اپنا لٹریچر دیجئے- ان شاء اللہ ہم اس کو یہاں کے مقامی لوگوں کے درمیان پھیلائیں گے-
4 نومبر 2014 کو غرناطہ میں الحمراء (Alhambra Palace)دیکھنے کا پروگرام تھا- چناں چہ اس کا پیشگی ٹکٹ لے کر میں وہاں گیا- غرناطہ (Granada) اسپین کے جنوب میں واقع ایک قدیم تاریخی شہر ہے- غرناطہ کی شہرت کی اصل وجہ یہاں موجود قصر الحمراء ہے- 1492 تک غرناطہ مسلم اسپین کی آخری ریاست تھا- مسلم دورِ حکومت میںالحمراء قلعہ اور محل دونوں تھا، جس طرح دہلی کا لال قلعہ ہے- الحمراء 889 اور 1358 عیسوی کے دوران مختلف مراحل میں بنایا گیا- الحمراء آج بھی اسپین میں زائرین کا مرکزِ توجہ بنا ہوا ہے- الحمراء اسپین کا سب سے بڑا سیاحتی مقام ہے- الحمراء صرف ایک محل نہیں ہے، وہ نہایت وسیع باغات کے درمیان ایک پہاڑ پر واقع شاہی اقامت گاہ ہے- الحمراء کا رقبہ 740 میٹر لمبا اور تقریباً 200 میٹر چوڑا ہے-
الحمراء غیر معمولی طورپر ایک بے حد خوب صورت مقام ہے-الحمراء کو مکمل طورپر دیکھنے کے لیے ایک پورا دن مطلوب تھا، مگر وقت کم ہونے کی وجہ سے میں جلد ہی اس کے ایک حصے کو دیکھ کر واپس آگیا- یہاں زائرین کو میں نے دعوتی لٹریچر دیا-
غرناطہ کے ایک اور سینٹر میں جانے کا اتفاق ہوا- یہ ادارہ الحمراء کے سامنے ایک اونچی پہاڑی پر واقع ہے- یہاں ایک خوب صورت مسجد ہے- اس سینٹر کانام یہ ہے :
Grand Mosque of Granada
یہ مسجد یہاں کے نو مسلم حضرات نے تقریباً تیس سال پہلے تعمیر کی تھی-یہاں میں نے ظہر کی نماز ادا کی - سینٹر میںکچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی جو اسپین میں دعوتی کام کرتے ہیں- معلوم ہوا کہ یہاں روزانہ تقریباً 500 زائرین آتے ہیں- یہاں سے الحمراء کا منظر نہایت دلکش نظر آتاہے- یہاں ایک مکتبہ (bookshop) بھی ہے- اس میں تعارفِ اسلام کے موضوع پر کتابیں موجود ہیں- یہاں سینٹر کی مسجد کے ذمہ داران سے ملاقات ہوئی- میں نے ان کو اپنے یہاں کا چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹ What is Islam کا اسپینش ایڈیشن (¿Qué es el Islam?) دیا-ان لوگوں نے کہا کہ اگر آپ ہمیں قرآن کے تراجم اور کتابچے بھیجیں گے تو ہم ان کو یہاں سیاحوں (tourists)کے درمیان پھیلائیں گے-
غرناطہ سے فارغ ہوکر میں قرطبہ کے لیے روانہ ہوا- یہ ٹرین کے ذریعے تقریباً دو گھنٹے کا سفر تھا- قرطبہ (Cordoba) اسپین کاایک قدیم شہر ہے- 711 عیسوی میں مسلمانوں نے اس کو فتح کیا اور 756 میں اس کو اپنا دار السلطنت بنایا- اس کے بعد پندرھویں صدی عیسوی تک وہ مسلم اسپین کا دارالسلطنت بنا رہا- دسویں صدی میں قرطبہ یورپ کا سب سے بڑا شہر تھا- اس کی حیثیت ایک قسم کے عالمی کلچرل سنٹر کی ہوگئی تھی-
قرطبہ میں اسپین کے مسلم دورِ حکومت (711-1492) کی بہت سی یادگاریں پائی جاتی ہیں- اِن میں مسجد قرطبہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے- یہ مسجد بارہ ہزار مربع میٹر کے رقبے میں واقع ہے- اِس میںتقریباً بارہ سو ستون ہیں- اب اس کوچرچ میں تبدیل کردیاگیا ہے-
مسجد قرطبہ کے وسیع صحن میں ہر طرف خوب صورت فوارے جاری تھے اور مختلف قسم کے درخت لگے ہوئے تھے- اِن درختوں میں پھل لٹکے ہوئے تھے-
مسلم اقتدار کے خاتمہ کے بعد مسجد قرطبہ کو عیسائیوں نے چرچ میں تبدیل کردیا ہے- اس معاملے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ اسپین میں ایک مسیحی پیشوا سینٹ ونسنٹ (Saint Vincent Ferrer) گزرا ہے- مسیحیوں نے ا س کے نام پر قرطبہ میں دریا کے کنارے ایک چرچ تعمیر کیا تھا- اس علاقہ پر سیاسی قبضہ کے بعد مسلمانوں نے عین اسی چرچ کی جگہ مسجدبنادی- اس طرح اس مسجد کے ساتھ غیرضروری طورپر نزاع کی حالت قائم ہوگئی- کہا جاتا ہے کہ بعد کو 786عیسوی میں سلطان عبد الرحمن الداخل نے عیسائیوں کو راضی کرکے اس جگہ کو خرید لیا اور وہاں مزید توسیع کے ساتھ عظیم مسجد قرطبہ کی تعمیر کی- اس تعمیر پر دو سال میں 80 ہزار دینار خرچ ہوئے- عیسائیوں کو جب دوبارہ سیاسی غلبہ ملا تو انھوں نے مسجد کے توسیعی حصہ کو چھوڑ دیا-تاہم سینٹ ونسنٹ چرچ کی ابتدائی جگہ کو دوبارہ انھوں نے گرجا میں تبدیل کردیا-
مسجد قرطبہ کے قریب ایک اسلامی سینٹر تھا-اس میں مسجد کے علاوہ ایک ادارہ بھی قائم ہے- میں اس ادارے میں گیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت یہاں ترکی حکومت کے تعاون سے ریسٹوریشن (restoration) کا کام چل رہا ہے، اس وجہ سے یہ ادارہ فی الحال بند ہے- یہ ایک بڑا ادارہ تھا جس میں مسجد اور اسلامک سینٹرقائم ہے- اس ادارے کا پورا نام یہ ہے:
مسجد الأندلسیین (Mezquita De Los Andaluces)
الجامعة الإسلامیة الدولیة ابن رشد-الأندلس
(Universidad Islamica Internacional Averroes De Al-Andalus)
قرطبہ میں ایک اور اسلامی سینٹر ہے- اس سینٹر کو اسپین کے ایک مسلمان مسٹرمحمدحنیف (Hanif Esccudero Uribe) کے والد نے تقریباً 25 سال پہلے قائم کیا تھا- اس ادارے میں کئی کام ہوتے ہیں- خاص طورپر یہاں کھانے پینے کی چیزوں کے لئے حلال سرٹیفکیشن (Halal Certification)جاری کیا جاتا ہے- میں اس ادارے میں گیاتو یہاں اسٹاف کے ایک ممبر مسٹر سعید (Said Bouzraal) سے ملاقات ہوئی-مسٹر سعید اس ادارے کے اشاعتی شعبے میں ایڈیٹرہیں- یہاں سے اسپینش زبان میں کئی اہم کتابیںچھپی ہیں- یہاں سے معروف مترجم اور مفسر محمد اسد کا اسپینش ترجمہ قرآن بھی شائع ہواہے- میں نے اپنے یہاں سے اس کی اشاعت کی اجازت چاہی، مگر اس کی اجازت نہ مل سکی-
مسٹر حنیف نے بتایا کہ ہمارے مرکز میں اسپین کے مختلف شہروں کے مسلمان آتے ہیں-وہ یہاں کا دعوتی لٹریچرلے کر دعوتی کام کرتے ہیں-میں نے اپنے یہاں سے چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹس مسٹر حنیف کو دیا- انھوں نے اس کو پسند کیا اور کہا کہ آپ ہم کو یہ لٹریچر مزید بھیجیں، تاکہ ہم اس کو یہاں دعوتی مقصد کے لیے استعمال کرسکیں-
قرطبہ پہنچ کر مجھ کو قاضی منذر القرطبی کا ایک واقعہ یاد آگیا- اسپین کے سلطان عبد الرحمن ناصر نے جب قرطبہ میں الزہراء کا محل تعمیر کرلیا تو ایک دن وہ اپنے سونے کے تخت پر بیٹھا- دربار میں بڑے بڑے لوگ جمع تھے-سلطان نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم نے سنا ہے کہ کبھی کسی نے ایسا عالی شان محل بنایا ہو- درباریوں نے خوب تعریف کی، مگر قاضی منذر سرجھکائے بیٹھے رہے-آخر میں سلطان نے قاضی منذر سے بولنے کے لیے کہا- قاضی منذر روپڑے- انھوں نے کہا: خدا کی قسم، میرا یہ گمان نہیں تھا کہ شیطان تمھارے اوپر اتنا زیادہ قابو پالے گا کہ وہ تم کو کافروں کے درجہ تک پہنچا دے- سلطان نے کہا کہ دیکھئے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور کیسے آپ مجھے کافروں کے درجہ تک پہنچا رہے ہیں- اس کے بعد قاضی منذر نے قرآن سے سورہ الزخرف کی آیات 33-35 پڑھیں- ان آیتوں کو سن کر سلطان شدید طورپر متاثر ہوا اور رونے لگا- اس نے قاضی منذر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ آپ کو بہتر جزا عطا فرمائے اور مسلمانوں میں آپ جیسے بہت لوگ پیدا کرے-
قرطبہ کے بعد مجھے میڈرڈ (Madrid) جانا تھا-یہ سفر میں نے ٹرین کے ذریعہ طے کیا-یہ ایک تیز رفتار ٹرین تھی جس کے ذریعے میں تقریباً چارگھنٹے میں قرطبہ سے میڈرڈ پہنچ گیا-میڈرڈ میں سعودی عرب کے تعاون سے ایک عظیم الشان مسجد اور اسلامی مرکز تعمیر کیا گیا ہے- اس کانام یہ ہے:
المرکز الثقافی الإسلامی بمدرید(Centro Cultural Islamico De Madrid)
یہاں میں نے ظہر کی نماز ادا کی- اس سینٹرمیں اسلام کے مختلف پہلوؤں، مثلاً سیرتِ رسول وغیرہ کے موضوع پر ایک مستقل نمائش (Exhibition) کا اہتمام کیا گیا ہے- اِس سینٹر کو دیکھنے کے لیے کثرت سے زائرین یہاں آتے ہیں- یہاں زائرین کے درمیان بڑے پیمانے پر دعوتی کام کیا جاتا ہے-اسی طرح دعوتی مقصد کے تحت ’’ڈسکور اسلام‘‘ کے عنوان سے یہاں ایک پروگرام چلایا جاتاہے- اس کا نام یہ ہے:
اکتشف الإسلام (Descubra El Islam)
اس سینٹر کے عرب ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی- میں نے ان کو الاسلام یتحدی اور اپنے یہاں کاچھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹ What is Islam کا اسپینش ایڈیشن (¿Qué es el Islam) دیا-اس کو انھوں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا-
7 نومبر 2014کو اسپین سے روانہ ہو کر مجھ کو ترکی جانا تھا- یہاں 8-10 نومبر کے درمیان ایک بک فیر (Istanbul International Book Fair)ہورہا تھا- یہ ایک بہت بڑا بک فیر تھا- یہاں ترکی کے کئی بڑے پبلشرز اور پبلشنگ گروپ سے ملاقات ہوئی — تماس (Timas)، کائنات(Kaynak)، نسیل(Nesil)اور تسارم (Tasarim) ،وغیرہ-
اِن لوگوں کو میں نے مولانا وحید الدین خاں کا انگریزی ترجمہ قرآن (پاکٹ سائز( دکھایا - مسٹر راشد(Rasit Tibet)نے اِس کو بہت پسند کیا- انھوں نے کہا کہ ترکی زبان میں اسی طرح کا ترجمہ قرآن شائع کرنے کی ضرورت ہے- انھوں نے کہا کہ یہاں بھی عام طورپر یہی رواج ہے کہ لوگ صرف قرآن کا عربی متن پڑھ لیتے ہیں،قرآن کو سمجھ کر اس کی تلاوت کرنے سے عموماً لوگ غافل ہیں- اِس لیے اگر اِس طرح کا ایک پاکٹ سائز ترجمہ قرآن یہاں کی مقامی زبان میں شائع کردیا جائے تو وہ فہم قرآن کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا-
یہاں ترکی کے ایک اور پبلشر (Bahar Publication) کےڈائریکٹر مسٹر محمد (Mehmet Baspehlivan)سے ملاقات ہوئی- انھوں نے مولانا وحید الدین خاں کی ایک کتاب ترکی زبان میں شائع کی ہے-اِس کے علاوہ، وہ تذکیر القرآن کا ترکی ایڈیشن بھی شائع کرنا چاہتے ہیں- ترکی کے سفر (مئی 2012) میں مولانا اُن کے گھر بھی گئے تھے اور وہاں ایک مختصر نشست ہوئی تھی-
اِس سفر میں استانبول (ترکی) کی مسجد رستم پاشا (Rustem Pasha Mosque) کے امام سے ملاقات ہوئی- مسجد رستم پاشا ایک تاریخی مسجد ہے- اِس مسجد کی تعمیر سولھویں صدی عیسوی میں ہوئی تھی- اِس مسجد کی تعمیر میں استعمال کیے گئے ٹائلس (tiles) دنیا میں سب سے خوب صورت مانے جاتے ہیں- اِس لیے یہاں بہت زیادہ سیاح (tourists)آتے ہیں-
اس مسجد کے امام اسماعیل (Ismail Karakelle)سے تقریباً چار سال پہلے ترکی کے ایک سفر میں میری ملاقات ہوئی تھی- اُس وقت اُن سے زائرین کے درمیان مولانا وحید الدین خاں کے انگریزی ترجمہ قرآن کے ڈسٹری بیوشن کی بات ہوئی تھی- انھوں نے اس سے دلچسپی ظاہر کی- چنانچہ میں نے اُن کو ترکی کے ایک پریس (Imak Printers) سے چھپوا کر اس کی تیس ہزار کاپیاں ان کو مسجد میں آنے والے زائرین کےدرمیان ڈسٹری بیوٹ کرنے کے لیے دی تھیں- اس کے بعد سے یہاں مسلسل قرآن ڈسٹری بیوشن کا کام جاری ہے- اب کچھ مقامی اہلِ خیر کے تعاون سے ترکی ہی میں ہمارا انگریزی ترجمہ قرآن چھاپ کر لوگوں کو دیا جاتا ہے- اب تک اِس ترجمے کی ایک لاکھ 80 ہزار کاپیاں زائرین کے درمیان تقسیم کی جاچکی ہیں-
ترکی سے مجھے 11 نومبر 2014 کو دبئی جانا تھا- یہاں شارجہ میں ایک بک فیر (Sharjah International Book Fair) تھا- یہاں پرہمارا بھی اسٹال تھا جس کو بک لینڈ کے لوگ مینج کررہے تھے- یہ ایک بہت بڑا بک فیر تھا- اِس میں کثرت سے عالمِ عرب کے تقریباً تمام بڑے پبلشرز آتے ہیں- اِس کے علاوہ یہاں انڈین پبلشرز بھی بہت بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں- تاہم یہاں انڈین پبلشرز کے اسٹال پر بہت زیادہ بھیڑ ہوتی ہے- خاص طورپر ساؤتھ انڈیا کے لوگ بہت زیادہ یہاں کے اسٹال پروزٹ کرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر یہاں سے کتابیں خریدتے ہیں- اِس موقع پر وزٹرس کے درمیان بھی ہمارے یہاں سے چھپے ہوئے قرآن کے انگریزی ترجمے اور دعوتی پمفلٹس تقسیم کیے گئے- اس کو لوگوں نے شوق سے لیا-
دبئی میں ہمارے کئی ساتھی قرآن ڈسٹری بیوشن کا کام کررہے ہیں- خاص طورپر مز سیما جلال، مسٹر جاوید خطیب، مسٹر سلیم عبد الرحمن- اِن لوگوں نے حال میں قرآن ڈسٹری بیوشن کا ایک پروگرام (100 Quran for 100 Hotels)بنایا تھا- اِس کے تحت دبئی کے ایک سو بڑے ہوٹلوں کے رسیپشن (reception)پر ہمارے یہاں کا چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ ایک خوب صورت اسٹینڈ کے ساتھ رکھوایا گیا- دبئی ایک عالمی سیاحتی اور تجارتی مرکز ہے- اِس لیےیہاں دنیا کے ہر مقام سے بکثرت سیاح آتے ہیں- چناں چہ دبئی اوقاف کے تعاون سے دبئی میوزیم (متحف دبئى) میں بھی قرآن ڈسٹری بیوشن کا کام شروع کیا گیا ہے- میوزیم کے ایگزٹ گیٹ (exit gate)پر ایک ریک (rack) میں ہمارے یہاں کا چھپا ہوا قرآن کا ترجمہ رکھا ہوا ہے- اِس ریک پر یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں: خذ ہدیتک(Take Your Gift) -میوزیم سے جاتے ہوئے سیاح عام طور پر یہاں سے اس کو لے لیتے ہیں- میوزیم کے سیکورٹی گارڈ نے بتایا کہ ہم ریک میں قرآن کا ترجمہ رکھتے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں اس کی تمام کاپیاں ختم ہوجاتی ہیں-
اِس کے علاوہ دبئی کے کچھ اور بڑے ہوٹلوں کے کمروںمیں بھی قرآن کا ترجمہ رکھوایا گیاہے- مثلاً ناوٹل(Novotel Al Barsha) اور جُمیرا بیچ ہوٹل، وغیرہ- یہاں ہوٹل کے ہر کمرے میں ہمارے ساتھیوں نے قرآن کا انگریزی ترجمہ رکھوایا ہے- اِس کے علاوہ جُمیرا مسجداور البدیة مسجد میں بھی ہمارے یہاں کا چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ رکھاگیا ہے، تاکہ اس کو یہاں آنے والے سیاحوں کے درمیان تقسیم کیا جاسکے-
دبئی کے سفر سے واپسی پر میرے پاس ترجمہ قرآن کی صرف ایک کاپی موجودتھی- میں سوچ رہا تھا کہ اس کااستعمال کیسے کیا جائے- اِس کے بعد جہاز میں ایک امریکی خاتون سے ملاقات ہوئی- وہ ایک بڑے گروپ کے ساتھ انڈیا آرہی تھیں-اُن سے دیر تک اسلام کے موضوع پر باتیں ہوتی رہیں- آخر میں میں نے ان کو قرآن کا یہ ترجمہ اور کچھ دعوتی پمفلٹس دئے- انھوں نے خوشی کے ساتھ اِس کو لیا اور کہا میں اس کو ضرور پڑھوں گی- اِس سے اندازہ ہوا کہ آدمی کو ہر وقت اپنے پاس قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر رکھنا چاہئے-کسی بھی وقت کوئی شخص مل سکتا ہے جس کو قرآن کا ترجمہ دے کر اُس تک خدا کا پیغام پہنچایا جاسکے- (ثانی اثنین خان)
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ ترقی کا راز

دنیا کے 100 ارب پتی (billionaires) افراد کا سروے کیاگیا ہے- اِس سروے میں پایا گیا ہے کہ اکثر ارب پتی ایسے ہیں جو وراثت کے طورپر ارب پتی نہیں بنے- اُن کو کسی حکومت یا کسی ادارے کی طرف سے کوئی سپورٹ بھی نہیں ملا- انھوںنے صرف اپنی ذاتی کوشش سے اعلیٰ ترقی حاصل کی-اُن میں سے اکثر نے غریبی کی حالت سے آغاز کیا اور پھر ترقی کرتے ہوئے وہ ارب پتی بن گئے-
اِس واقعے سے فطرت کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ محرومی صرف محرومی نہیں ہے، وہ آدمی کو ایک بہت بڑی چیز دیتی ہے اور وہ ہے طاقت ور محرک(incentive)- فطرت کے قانون کے مطابق، یہ ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو محرومی کی حالت میں پاتا ہے، اس کے اندر آگے بڑھنے کا ایک طاقت ور جذبہ پیدا ہوجاتا ہے- یہ داخلی جذبہ اس کو مسلسل طورپر متحرک رکھتاہے، یہاں تک کہ وہ اس کو کامیابی کی اعلیٰ منزل تک پہنچا دیتا ہے:
Being deprived creates strong motivation.
کسی انسان کے لیے سب سے بڑی چیز خارجی فیور (favour) نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے سب سے بڑی چیز داخلی محرک ہے- فیور سے آدمی کے اندر قناعت (contentment) پیدا ہوتا ہے اور جس آدمی کو فیور نہ ملے، اس کے اندر عدم آسودگی (discontentment)کی نفسیات پیدا ہوتی ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ عدم آسودگی کی نفسیات آدمی کو با عمل بناتی ہے، جب کہ آسودگی کی نفسیات اس کو بے عملی میں مبتلا کردیتی ہے-
Out of the world’s 100 richest people today, 27% are heirs and 73% are self-made. Of the self-made, 18% have no college degree, and 36% are children of poor parents, but some billionaires had neither degree nor wealthy parents. (Sunday Times of India, New Delhi, August 18, 2013, p. 12)
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 231

1- 13 جون 2014کو سہارن پور سی پی ایس ٹیم نے آل انڈیا ہینڈی کیپڈ ریہاب لیٹیشن پروگرام میں شرکت کی اور اس پروگرام میں شرکت کے لئے آئے ہوئے سیاستداں اور سماجی ورکروں کے درمیان قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔
2- 15 جون 2014کو نیشنل میڈیکل کالج سہارنپورنے اسپرنگ بیل اسکول کے ساتھ مل کر ایک بلڈ ڈونیشن کیمپ کا انعقاد کیا تھا۔ اس پروگرام میں سی پی ایس سہارن پور نے تمام ڈاکٹر، نرسوں، اور بلڈ ڈونرس کو قرآن کا ترجمہ اور دوسرے دعوتی لٹریچر دئے۔
3- 28-29 جون 2014کو انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمس نے مہاراجہ پیلیس میں دو روزہ پروگرام آرگنائز کیا تھا — اس میں سی پی ایس سہارن پور نے تمام شرکاء کو قرآن کا ترجمہ اور دیگر دعوتی لٹریچر کا تحفہ دیا۔ حاضرین میں سہارن پور کے کمشنر بطور چیف گیسٹ موجود تھے۔
4- بڑی خوشی کی بات ہے کہ صدر اسلامی مرکز کی انگریزی کتاب دی ٹرو جہاد (The True Jihad) کا عربی ترجمہ 'الجہاد الحق کے نام سے شائع ہوچکا ہے، جسے سعودی عرب کے مکتبہ العبیکان نے شائع کیا ہے۔ اور انڈونیشی ترجمہ کا کام چل رہا ہے۔
5- ایم ایس رمیاہ انسٹیٹیوٹ آف ٹکنالوجی، بنگلورو میں آئی آئی ٹی کھڑگپور ، مغربی بنگال کی جانب سے روبوٹ ٹکنالوجی پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی تھی، جس میں ایک چھوٹا سا پروگرام سماج میں امن کے متعلق بھی تھا۔ آرگنائزر کی دعوت پر سینٹر فار پیس بنگلور کی جانب سے مس سارہ فاطمہ نے اس پروگرام میں اسلام میں امن اور سی پی ایس کے ذریعہ اس تعلق سے ہورہی کوششوں پر ایک لکچر دیا۔ لکچر کے بعد تمام حاضرین کو قرآن اور پیس کے موضوع پر لٹریچر دیا گیا۔ یہ پروگرام 12 ستمبر 2014کو ہوا تھا۔
6- 27 اکتوبر 2014کو کیلی فورنیا، امریکا سے انڈیا آئے ہوئے اسٹوڈنٹ کے ایک گروپ کو صدر اسلامی مرکز نے اسلام میں امن کی اہمیت پر خطاب کیا۔ خطاب کے بعد سوال و جواب کا پروگرام بھی ہوا۔ آخرمیں تمام مہمانوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک ایک سیٹ بطور تحفہ دیا گیا۔
7- بڑی خوشی کی بات ہے کہ ملیشیا میں صدر اسلامی مرکز کا قرآن طبع ہوچکا ہے۔ یہ قرآن وہاں آنے والے ٹورسٹوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ گڈورڈ بکس، دہلی کے ملیشیا ڈسٹری بیوٹر سہیم انٹرپرائزز نے اس قرآن کو ملیشیا میں طبع کیاہے۔
8- 1نومبر 2014 کو سویڈن کی امیا (Umea) یونیورسٹی کے پروفیسر مسٹر تھامس لنڈگرن نے صدر اسلامی مرکز کا ایک مفصل انٹرویو لیا۔ یہ انٹر ویو صدر اسلامی مر کز کی زندگی اور مشن پر تھا۔ پروفیسر موصوف اس سے پہلے بھی مولاناکا انٹرویو کر چکے ہیں۔
11- 10نومبر 2014 کو کولکاتا ٹیم نے خواتین کا ایک خصوصی پروگرام کیا۔ مس سعدیہ انجم نے یہ پروگرام چلایا۔آخری میں تمام حاضر ہونے والی خواتین کو ترجمہ قرآن اور صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ دیا گیا۔
12- 11نومبر 2014 کو سی پی ایس دہلی کی ایک ٹیم نے ودیا جیوتی کالج، دہلی کےایک پروگرام میں حصہ لیا۔یہ پروگرام کالج کے طلبہ کے لئےتھا۔ اس کا موضوع تھا کرشچن مسلم ڈائیلاگ۔ پروگرام کے بعد تمام حاضرین کو قرآن کا انگلش ترجمہ اور صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ دیا گیا۔جسے تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
13- گڈورڈ بکس (Goodword Books)کی جانب سے ثانی اثنین خان نے 31 اکتوبر تا10نومبر 2014کو اٹلی، اسپین، ترکی اور دبئی کا دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ کیسے عام کیا جائے۔ یہ دورہ کافی امید افزا رہا۔اِس دورے کی تفصیلی روداد صفحہ 30-44 پردیکھی جاسکتی ہے-
14- 11نومبر 2014 کو ڈاکٹر فریدہ خانم نے پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ کی دعوت پر وہاں کا دو روزہ دورہ کیا۔ دورہ کا مقصدیونیورسٹی میں منعقد ہونے والے انٹرفیتھ پروگرام میں مذہب اسلام پرایک لکچر دیناتھا۔ تمام لوگوں نے لکچر کو بہت پسند کیا۔ اس دوران ان کے درمیان قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر تقسیم کئے گئے، جو انھوں نے بہت ہی خوشی اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ بعض ذمہ داروں نے بتایا کہ پنجابی زبان میں قرآن کی زبردست ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے انھوں نے سی پی ایس سے شائع ہونے والے ترجمۂ قرآن کا پنجابی زبان میں ٹرانسلیشن شروع کردیاہے-
15- سی پی ایس کا دعوتی مشن اب تائیوان میں شروع ہو چکا ہے۔ ذیل میں وہاں کے داعی کا ایک پیغام نقل کیا جارہا ہے:
I am very pleased to receive this message and I can assure you it had always been my wish to convey the message of Islam to people, especially to my colleagues. I will be very happy to take up this responsibility to work for the cause of God. Initially, I can support myself financially and also hope to include more people in this work. By the Grace of God, I may also find sponsors later on. But, I really want to spend the little I have in the cause of God, so that I can find it multiplied with my Lord. By the Grace of God, everything will go smoothly. (Adama Ceesay, Taiwan)
16- ذیل میں کچھ دعوتی تاثرات وتجربات نقل کئے جارہے ہیں:
— Respected Maulana Sahab, I have been reading your literature for a long time now and it has changed my life and thinking. I have reached two conclusions:
1: The Muslim world must understand that reasons for their “zawal” are not external “sazish” but rather Muslims themselves are responsible for it.
2: The Muslim movement should work on dawah and knowledge, and leave the government to the politicians. It gives me great pleasure that your hard, intelligent and persistent work is bringing Muslims all over the world to the realization of this point that the reason for our backwardness is not “sazish” against the Muslims, rather Muslims themselves are responsible for it. I pray and I am sure that soon the Muslim ulama and intelligentsia would realize that they should not work to change the government system, rather they should confine themselves to dawah and ilm (Jan Muhammad, Canada)
— —I received an envelope from the Centre for Peace, Bangalore. Upon opening it, I was amazed to find the magazine, Spirit of Islam by one of my favourite scholars, Maulana Wahiduddin Khan. I have been following many of the articles of Maulana in The Times of India, and some months back I even ordered a copy of the Quran from the Centre for Peace and Spirituality. I am writing to you to appreciate the work that you all are doing. I think this is one of the best works to earn the Hereafter. I am very thankful for what you have given me and I will subscribe myself to the monthly magazine. Much thanks again for the work you are doing, and please let me know if there is anything I can do for this cause. (Asim Nabi, Aligarh, U.P. (
واپس اوپر جائیں

Thursday, 1 January 2015

Al Risala | January 2015 (الرسالہ،جنوری)

4

-حکمت ِ قرآن

5

- قرآن، کتابِ تدبر

6

- محبت خداوندی

7

- داخل القلب ایمان

8

- ہدایت ، دین ِحق

10

- اللہ کی نعمتیں

11

- انسانی خیر خواہی

12

- جنت کی زندگی

14

- دانش مند کون

15

- تاریخی انتخاب

16

- خدا کی نشانیاں

17

- انصاف کا طریقہ

18

- اعلیٰ اخلاق

19

- موت کا واقعہ

20

- ;کلمات اللہ کا اظہار

21

- دشمن میں دوست

22

- شکر کی نفسیات میں جینا

23

- مشکل کے ساتھ آسانی

24

- مسائل کی دنیا

25

- شخصیت کاارتقا

26

- قرآن کو کتابِ مہجور بنانا

28

- ذہنی سکون

29

- تاریخ کا قانون

30

- انسان کی تخلیق

31

- قرآن کی زبان

32

- اعلیٰ انسان

33

- غیب پر یقین

34

- مزکىّٰ شخصیت

35

- زوجین کا اصول

36

- امت ِ وسط

37

- ربانی زندگی

38

- ایک اجتماعی حکم

39

- غیر سیاسی مشن

40

- کامیاب تدبیر ِکار

41

- توبہ کا طریقہ

42

- عمل بقدر استطاعت

43

- سیئہ کا حسنہ بن جانا

44

- امن کلچر

45

- تشدد کا خاتمہ

46

- زوالِ امت، اصلاحِ امت

48

- مبنی برشوریٰ نظام


حکمت ِ قرآن

قرآن میں کل ایک سو چودہ سورتیں ہیں- آیات قرآنی کی تعداد تقریباً ساڑھے چھ ہزار ہے- قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں قانونی احکام کی آیتیں بہت کم ملیں گی- آیتوں کی زیادہ تعداد وہ ہے جن میں حکمت یا نصیحت کی باتیں ہیں- یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن، کتابِ حکمت (book of wisdom) ہے، نہ کہ کتابِ احکام(book of commandment)-
اِس سلسلہ میں قرآن کی یہ آیت ایک رہنما آیت کی حیثیت رکھتی ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (38:29) یعنی یہ ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں- اس آیت سے قرآن کا اسلوب معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ ہدایت انسانی کے بنیادی اصولوں (fundamentals) کوبتانا تاکہ لوگ اس کی روشنی میں تخلیقِ خداوندی اور حیاتِ انسانی کے معاملات پر غور کریں اور اپنے لیے صراطِ مستقیم (right path) کو معلوم کریں-
قرآن کا مقصد قانونی دفعات کو بتانا نہیں ہے، بلکہ انسان کی قوت فہم کو متحرک کرنا ہے، تاکہ انسان کے اندر ذہنی ارتقا (intellectual development) کا عمل جاری ہو- قرآن میں اِس سلسلہ میں چھ ہم معنی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں — عقل، فؤاد، قلب، لُب، حِجْر، نُہی- یہ تمام الفاظ ذہن (mind) کے لیے استعمال ہوتے ہیں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا نشانہ انسان کا ذہن (mind) ہے- قرآن کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے اندر تفکر اور تدبر کی صلاحیت کو زندہ کیا جائے- انسان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ ذاتی سوچ (self-thinking) کے ذریعہ اپنے آپ کو ایک ارتقا یافتہ شخصیت (developed personality) کی صورت میں تعمیر کرے-
قرآن کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو غیب میں اپنے خالق کا مشاہدہ کرنے والا بنائے، تاکہ وہ شہود میں اپنے خالق کا مشاہدہ کرسکے-
واپس اوپر جائیں

قرآن، کتابِ تدبر

قرآن کی سورہ صٓ کی ایک آیت یہ ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (38:29)یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں- اس سے معلوم ہوا کہ قرآن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک فکری کتاب ہے، نہ کہ قانون وضوابط کی کتاب-
Quran is a book of thought, not a book of commandment.
اللہ نے انسان کو ذہن (mind) عطا کیا ہے، جو کہ لامحدود فکری صلاحیت کا مالک ہے- لیکن ذہن کو اپنے تفکیری عمل (intellectual process) کو درست طورپر جاری کرنے کے لیے ایک فکری گائڈ(intellectual guide) درکار تھی- قرآن اسی قسم کا ایک فکری گائڈ ہے، جو اس بات کا ضامن ہے کہ انسان کا تفکیری عمل بھٹکے بغیر درست سمت میں چلتا رہے- دنیا کی زندگی میں انسان کی سرگرمیوں کے لیے مختلف سمتیں ہیں- انسان ان سمتوں کو جان سکتا ہے، لیکن اپنی محدودیت کی بنا پر وہ اس پر قادر نہیں کہ وہ یہ جانے کہ اس کی سرگرمیوں کے فطری حدود کیا ہیں- اس کی سرگرمیوں کے لیے درست رخ کیا ہے- فطرت کے قانون کے مطابق کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے، اور کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں- زندگی کے راستوں میں اس کو کہاں تک چلنا ہے، اور کہاں ضرورت ہے کہ وہ اپنے قدم کو روک دے-
قرآن، آدمی کے لیے یہی گائڈ بک ہے- قرآن میں قانونی احکام کی تفصیل نہیں- قرآن کا سارا خطاب عقل (reason) سے ہے- قرآن کا نشانہ یہ ہے کہ انسان کی عقل کو تربیت دے کر اس کو اس قابل بنائے کہ وہ خود اپنی ذاتی فکر (self-thinking) کے ذریعہ اپنے اندر مطلوب ربانی شخصیت کی تعمیر کرے-
واپس اوپر جائیں

محبت خداوندی

قرآن کی سورہ البقرة میں اہلِ ایمان کی ایک صفت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ ۭ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ۭ (2:165) یعنی اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں- ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہئے- اور جو ایمان والے ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں-
قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ انسان کے اندر حب شدید (strong affection) صرف ایک اللہ کے لیے ہونا چاہئے- یہ حب شدید سادہ طور پر صرف عقیدہ کا معاملہ نہیں ہے- یہ دراصل اللہ کی اعلی معرفت کا معاملہ ہے- جب انسان کو گہرے مطالعہ اور گہرے تدبر کے نتیجہ میں اللہ کی اعلی دریافت ہوتی ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے تمام اعلی جذبات (sentiments) اللہ سے وابستہ ہو جاتے ہیں- وہ اپنے اندر اور اپنے باہر، ہر طرف اللہ کی عظمت (glory) کو دیکھنے لگتا ہے- وہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ ہر آن اس پر نعمتوں کی بارش کررہا ہے- یہ احساسات اس پر اتنی شدت سےطاری ہوتے ہیں کہ اللہ اس کو اپنا سب کچھ نظر آنے لگتا ہے- یہی وہ چیز ہے، جس کو مذکورہ آیت میں حبِّ شدید سے تعبیر کیاگیا ہے-
یہ حب شدید صرف ایک قلبی تعلق کا معاملہ نہیں ہے، وہ ایک ایسا تجربہ ہے جو آدمی کی پوری زندگی کے رخ کو بدل دیتا ہے، وہ آدمی کو ایک نئی راہ عمل عطا کرتا ہے، وہ آدمی کی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بن جاتا ہے- اللہ سے حب شدید کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی سوچ تمام تر اللہ کی تابع ہوجاتی ہے- ایسا انسان اللہ کے مشن کو اپنا مشن بنا لیتا ہے- وہ اللہ کے لیے جینے والا اور اللہ کے لیے مرنے والا بن جاتا ہے-آیت میں اللہ سے حب شدید کو خبر کے صیغے میں بتایا گیا ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان کے اندر اپنے خالق سے حبّ شدید ذاتی دریافت (self discovery) کے طور پر پیدا ہوتی ہے، نہ کہ ایک خارجی حکم کی قانونی پیروی کے طورپر-
واپس اوپر جائیں

داخل القلب ایمان

ایمان لانے والوں کے بارے میں قرآن کا ایک بیان یہ ہے: قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ۭ (49:14) یعنی اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، کہو کہ تم ایمان نہیں لائے- بلکہ یوں کہو کہ ہم نے اسلام قبول کیا، اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا-
اسلام کا آغاز کلمہ ایمان کے اقرار سے شروع ہوتا ہے، مگر اللہ کے نزدیک اتنا ہی کافی نہیں- آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِس لسانی سطح کے ایمان کو عقلی سطح کا ایمان بنائے- یہ گویا کلمہ گوئی کے بعد اس کی تکمیل ہے- اسی تکمیلی ایمان کو قرآن میں داخل القلب ایمان کہا گیاہے- اس آیت میں قلب سے مراد دل (heart) نہیں بلکہ قلب سے مراد ذہن (mind) ہے- داخل القلب ایمان کوئی پراسرار واقعہ نہیں، وہ مکمل معنوں میں ایک شعوری ارتقا کا معاملہ ہے-
اصل یہ ہے کہ قبول اسلام کے بعد انسان کی زندگی میں ایک فکری عمل (intellectual process) شروع ہوتا ہے جو اس کی آخری عمر تک جاری رہتا ہے -وہ قرآن میں تدبر کرتا ہے، وہ سنت رسول کا مطالعہ کرتاہے، وہ اپنے ہر تجربہ اور مشاہدہ پر غور وفکر کرتاہے، وہ زندگی کے تمام معاملات کا تجزیہ (analysis) کرتاہے- یہ ایک مسلسل تفکیری عمل ہے، جو شعور کی سطح پر مسلسل جاری رہتاہے-
اس عمل کو ایک لفظ میں مومنانہ غور وفکر کا عمل کہا جاسکتا ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر ایک ارتقا یافتہ ذہن (developed mind) تیار ہوتا ہے- اس طرح آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ ہر تجربہ کو اپنے ایمان کی غذا بنالے، وہ ہر کرائسس کو مینیج(manage)کرکے اس کو بے اثر کردے، وہ ہر منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کرلے، وہ ہر اختلاف پر غور کرکے اپنے اتحاد کو بدستور باقی رکھے-
واپس اوپر جائیں

ہدایت ، دین ِحق

قرآن کی سورہ التوبہ میں ایک تاریخی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۙ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (9:33)۔ یعنی اسی نے اپنے رسول کو بھیجا ہے ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس کو سارے دین پر غالب کردے، خواہ یہ شرک کرنے والوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔
قرآن کی اس آیت میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں، ہدیٰ اور دین حق۔ یہ دونوں لفظ ایک ہی حقیقت کے دو مختلف پہلو ہیں۔ ہدیٰ سے مراد خدا کا محفوظ ہدایت نامہ(preserved book of divine guidance)ہے، اور دین حق سے مراد اس حقیقت الہٰی کا ایک ثابت شدہ واقعہ (established fact) ہونا۔
جہاں تک ہدیٰ کا تعلق ہے، وہ نزول کے وقت ہی سے ایک محفوظ ہدایت نامہ ہے۔ اس میں اس اعتبار سے کسی اضافہ کی ضرورت نہیں۔ مگر جہاں تک اس کے دوسرے پہلو کا معاملہ ہے، وہ ایک لمبے تاریخی عمل کے دوران اپنی آخری تکمیل تک پہنچے گا۔اس عمل میں وہ لوگ بھی حصہ لیں گے، جو صاحب ایمان ہیں، اور وہ لوگ بھی بالواسطہ طور پر اس کا حصہ بنیں گے جو ایمان کا دعویٰ نہیں رکھتے۔
خدائی ہدایت کے محفوظ ہو نے کا معاملہ قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (15:9)۔ یعنی یہ یاددہانی (قرآن) ہم نے اتاری، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ قرآن کے متن کی یہ حفاظت اتنی کامل صورت میں ہوئی ہے کہ اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ حفاظت اولاً حفظ (memorization) کے ذریعہ ہوئی، اس کے بعد کاغذ پر کتاب کی صورت میںہوئی۔ اب یہ حفاظت مزید اضافہ کےساتھ انٹر نیٹ کے ذریعہ ہو رہی ہے۔
اس معاملے کا دوسرا پہلو، یعنی ہدایت ربانی (دین حق) کا براہین و حجج کے ذریعہ آخری حد تک مدلل ہونا بھی اب ایک واقعہ بن چکا ہے۔ اس واقعہ کی پیشگی اطلاع قرآن کی اس آیت میں دی گئی تھی: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (41:53) یعنی ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں جس چیز کو اظہارِ دین کہا گیا ہے، اس سے مراد یہی اظہار ہے۔ یہاں اظہار ِ دین میں کسی پولٹیکل غلبہ کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس سے وہ غلبہ مراد ہے، جو آئڈیالوجی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ یعنی حجج و براہین (عقلی دلائل) کے ذریعہ غلبہ۔ اظہار ِ دین بذریعہ دلائل کے دو دور ہیں، روایتی دور اور سائنسی دور۔ قدیم دور روایتی دور تھا۔ اس دور میں علما اور متکلمین نے اپنے زمانے کے عقلی معیار کے مطابق قرآن کومدلل بنایا، یہاں تک کہ ان کے معاصرین کو قرآن کی صداقت پر کوئی شبہ باقی نہ رہا۔
موجودہ زمانہ سائنس کا زمانہ ہے، اس دور کو عقل کا دور (age of reason) کہا جاتا ہے۔ اس دور میں بھی یہ واقعہ پیش آچکا ہے کہ جو نئے حقائق ظاہر ہوئے ہیں، انہوں نے کسی بھی درجہ میں قرآن کی صداقت کو مشتبہ نہیں کیا ہے، بلکہ انھوں نے قرآن کی صداقت کو از سرِ نو مزید مدلل بنا دیا ہے۔
موجودہ زمانہ علم کے انفجار (knowledge explosion) کا زمانہ ہے۔ نئی تحقیقات کے ذریعہ جو ڈاٹا (data)حاصل ہوا ہے، اس نے غور و فکر کے دائرے کو بہت بڑھا دیا ہے۔ اس طرح جو فریم ورک بنا ہے، وہ تمام تر ایک نیا اور وسیع تر فریم ورک ہے۔ اس نئے فریم ورک نے صرف یہ کیا ہے کہ اس نے اللہ کے دین کو زیادہ سمجھنے اور اس کو زیادہ یقین کے ساتھ اختیار کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی نعمتیں

قرآن کی سورہ نمبر 102 میں قیامت کا ذکر ہے- اس کے بعد یہ آیت آئی ہے: ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم (التکاثر: 8) یعنی پھر اس دن یقیناً تم سے نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا- اِس آیت میں نعمت (divine blessing) سے مراد وہ تمام مادی چیزیں ہیں، جن کے درمیان انسان زندگی گزارتا ہے، جن کے مجموعہ کو عام طورپر لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتا ہے- یہ ایک حقیقت ہےکہ ہر نعمت کے ساتھ جواب دہی (accountability) کا تصور شامل ہے- نعمت کا ملنا اپنے آپ میں اس بات کا ایک خاموش اعلان ہے کہ ایک دن آنے والا ہے، جب کہ انسان سے یہ پوچھا جائے گا کہ اس نے ان نعمتوں کے لیے منعم (giver) کا اعتراف کیا یا نہیں-
مگر یہ صرف خارجی نعمتوں کی بات نہیں- انسان کو اس کی اپنی ذات میں جو اعلی صفات دی گئی ہیں، وہ بھی اس کے لیے خدا کی نعمتیں ہیں- ان نعمتوں کے بارے میں بھی انسان سے پوچھا جائے گا کہ اس نے دنیا کی زندگی میں ان کا استعمال کس طرح کیا:
How did you utilize the qualities given to you by God?
انسان کو اس کی ذات کے اعتبار سے یا خارجی دنیا کے اعتبار سے جو چیزیں ملی ہیں، ان میں سے ہر چیز اس کے لیے عظیم نعمت (great blessing) ہے- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ چیزوں کو فار گرانٹیڈ (for granted) نہ لے، بلکہ وہ ان کو شعوری طورپر دریافت کرے- وہ ان نعمتوں کے لیے کامل معنوں میں خالق کا اعتراف کرے- وہ ان خدا داد نعمتوں کو نہ ضائع کرے، اور نہ ان کا غلط استعمال کرے، بلکہ وہ ان کا صحیح استعمال کرے- وہ دانش مندانہ منصوبہ (wise planning) کے ذریعہ ان کا درست استعمال کرے- اس معاملہ میں وہ خالق کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کو جانے، اور وہ اس کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتے ہوئے ان کا وہی استعمال کرے جو خالق کو مطلوب ہے- یہی کامیابی کا واحد راز ہے-
واپس اوپر جائیں

انسانی خیر خواہی

قرآن کی سورہ الاعراف میں پیغمبر کی زبان سے اپنے مدعو کے لئے یہ الفاظ آئے ہیں: وَاَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ (7:68)۔ یعنی اور میں تمھارا خیر خواہ اور امین ہوں۔ پیغمبر کی یہ خیر خواہی صرف اپنی قوم کے لئے نہیں ہوتی، بلکہ اس کی خیر خواہی تمام انسانوں کے لئے ہوتی ہے:
Well wishing for all mankind
خدا کی طرف سے جو پیغمبر دنیا میں آئے، ان سب کا مشن ایک تھا۔ اس پیغمبرانہ مشن کے دو بنیادی نکتے تھے،ایک اللہ کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنانا، اور بلاتفریق ہر انسان کا خیرخواہ ہونا۔ یہی مشن پچھلے تمام پیغمبروں کا تھا، اور پیغمبر آخر الزماں محمد ﷺ کا مشن بھی۔ اب امت محمدی کو ہر زمانے میں اسی مشن کو زندہ رکھنا ہے۔
اللہ کو اپنا کنسرن بنانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے شعور کو اتنا بیدار کرے کہ وہ دریافت (discovery) کے درجہ میں اللہ رب العالمین کی معرفت حاصل کرے۔ یہ معرفت اتنی زیادہ گہری ہو کہ وہ انسان کے پورے وجود کو اپنے رنگ میں رنگ لے۔ انسان کی پوری شخصیت اسی معرفت میں ڈھل جائے۔ اس کی سوچ اور اس کا قول و عمل اس کے عین مطابق ہو جائے۔ یہی وہ عارفانہ شخصیت ہے جس کو قرآن میں ربانی شخصیت (3:79)کہا گیا ہے۔
انسانی خیر خواہی وہ بنیادی اصول ہے، جس پر تمام انسانی تعلقات کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ اِس کے ذریعہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر انسان دوستی (human friendly behaviour) کا کردار بنتا ہے۔ سماج کا ہر فرد سماج کے لئے دینے والا ممبر (giver member) بن جاتا ہے۔ اپنی اصول پسندی کی بنا پر سماج کا ہر فرد قابل پیشین گوئی کردار (predictable character)کا حامل بن جاتا ہے۔ ہر انسان کے اندریہ مزاج پرورش پاتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرے ، جو سلوک وہ دوسروں سے اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی زندگی

قرآن کی سورہ فصلت میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت کے لئے جنت کی زندگی کیسی ہوگی۔ اس سلسلہ میں فرشتوں کی زبان سے ان کے لئے یہ الفاظ آئے ہیں: وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ (41:31)۔ یعنی اور تمھارے لئے وہاں وہ سب ہے، جس کو تمھارا دل چاہے، اور تمھارے لئے وہاں وہ سب ہے، جس کو تم طلب کرو۔
قرآن کی اس آیت میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں— اشتہاء اور ادعاء۔ اشتہاء کا مطلب ہے چاہنا (to desire)، اور ادعاء کا مطلب ہے طلب کرنا (to demand)۔ یہ دونوں الفاظ جنت کی دو مختلف نعمتوں کو بتارہے ہیں، اور وہ ہیں مادی نعمت اور فکری نعمت۔ اشتہاء میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں، جن کا تعلق مادی خواہش (material desire) سے ہے، اور ادعاء میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں ، جن کا تعلق ذہنی طلب (intellectual demand) سے ہے۔ جنت میں یہ دونوں قسم کی نعمتیں اہل جنت کو کامل درجے میں حاصل ہوں گی۔جب کہ موجودہ دنیا میں ان چیزوں کا حصول صرف محدود طور پر ممکن ہوتا ہے۔
انسان کی جو مادی خواہشیں ہیں، وہ اسے موجودہ دنیا میں بھی حاصل ہیں، لیکن صرف محدود طور پر۔ انسان اپنے پیدائشی مزاج کے اعتبار سے یہ چاہتا ہے کہ اس کی ہر خواہش اس کو لامحدود طور پر حاصل ہو۔ لیکن موجودہ عارضی دنیا میں خواہشات کی لامحدود تسکین ممکن نہیں۔ جنت میں یہ محدودیت ختم ہو جائے گی۔ جنت ایک لامحدود دنیا ہوگی۔ اس لئے وہاں اہل جنت کے لئے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ اپنی ہر خواہش کی تکمیل لامحدود طور پر حاصل کر سکیں۔یہی معاملہ انسان کی ذہنی طلب (intellectual demand)کا ہے۔ انسان کے اندر تفکیر (thinking) کی صلاحیت ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے تفکیری عمل (thinking process) کو لا محدود طور پر جاری کر سکے۔ مگر موجودہ دنیا میں جو دستیاب فریم ورک (available framework)ہے، وہ محدود فریم ورک ہے۔ اس لئے یہاں وہ اپنے تفکیری عمل کو صرف محدود طور پر جاری کر سکتا ہے- جنت میں یہ محدودیت ختم ہو جائے گی، اس لئے جنت میں اہل جنت کے لئے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ اپنے تفکیری عمل کو لا محدود طور پر جاری کر سکے۔
موجودہ دنیا میں ان کا تفکیری عمل زمان و مکان کے اندر (within space and time) جاری ہوتا ہے۔ جنت کی لامحدود دنیا میں ان کے تفکیری عمل کا زمان و مکان کے ما وراء (beyond space and time) جاری ہونا ممکن ہو جائے گا۔ موجودہ محدود دنیا میں یہ فکری نعمت ممکن نہیں، مگر جنت کی لامحدود دنیا میں یہ انوکھی فکری نعمت اہل جنت کے لئے آخری حد تک قابل حصول ہو جائے گی۔اسی طرح انسان کی ایک اور فکری طلب یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے درمیان رہے، جن کی ویو لینتھ (wavelength) ایک ہو، جو اپنے ذوق اور اپنی عادات کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کے حامل ہوں۔ ایسے اعلیٰ افراد پر مشتمل معیاری سماج (ideal society) موجودہ دنیا میں کبھی بن نہیں سکتا۔ موجودہ دنیا میں اعلیٰ افراد کا حصول ممکن ہے، لیکن اجتماعی سطح پر اعلیٰ سماج کا حصول ممکن نہیں۔
جنت، اہل حق کی اِسی طلب کا جواب ہے۔ جنت میں یہ ہوگا کہ اللہ اپنی قدرت سے پوری تاریخ کے منتخب اعلیٰ افراد کو یکجا کردے گا۔ اس بنا پر جنت حسن رفاقت کا سماج (النساء: 69) بن جائے گا۔ اس طرح جنت میں اہلِ جنت کی یہ طلب پوری ہو جائے گی۔ یہ منتخب افراد جنت میں اپنی پسند کا وہ اجتماعی ماحول اعلیٰ صورت میں پالیں گے، جو ان کا اجتماعی مطلوب تھا، لیکن دنیا کی زندگی میں اس کو پانا ان کے لئے ممکن نہ ہو سکا۔ آخرت میں اللہ کی خصوصی عنایت سے یہ ناممکن چیز ان کے لئے ممکن ہوجائے گی۔
جنت کی اسی نادر صفت کی بنا پر، جنت کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ۝۰ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (32:17) یعنی کوئی نہیں جانتا کہ ان لوگوں کے لئے ان کے اعمال کے صلہ میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے۔ اسی طرح ایک حدیث قدسی میں جنت کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: أعددت لعبادی الصالحین : ما لا عین رأت ، ولا أذن سمعت ، ولا خطر على قلب بشر (صحیح البخاری :3244) یعنی میں نے اپنے صالح بندوں کے لئے ایسی چیز تیار کر رکھی ہے، جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، اور نہ کسی کان نے سنا، اور نہ کسی دل میں اس کا خیال گزرا۔
واپس اوپر جائیں

دانش مند کون

قرآن کی سورہ النحل میں شہد کی مکھی (bee) کی مثال دی گئی ہے کہ وہ کس طرح سفر کرکے آتی ہے، اور پھول سے اس کا رس (nectar)لے کر واپس چلی جاتی ہے-اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ( 16:69) یعنی بے شک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو غور کرتے ہیں-
قرآن کی اس آیت میں نشانی سے مراد یہ ہے کہ اس واقعہ میں اہلِ فکرکے لیے سبق ہے- اس مثال میں ایک مادی واقعہ کے ذریعہ ایک غیر مادی سبق (non-material lesson) دیاگیا ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کوچاہئے کہ وہ شہد کی مکھی کی طرح ہر تجربہ سے ایک حکمت کی بات اخذ کرے-
To extract wisdom from every experience.
جس طرح شہد کی مکھی یہ کرتی ہے کہ وہ آس پاس کی دوسری تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے صرف ایک چیز کو دیکھتی ہے، اور وہ پھول کے اندر پایا جانے والا نکٹر کنٹنٹ (nectar content) ہے- اسی طرح دنیا کی تمام مادی چیزوں کے اندر ایک اسپریچول کنٹنٹ (spiritual content) موجود ہوتا ہے -
آدمی کو اتنا زیادہ تیار ذہن (prepared mind) ہونا چاہئے کہ وہ جس چیز کو دیکھے، اس پر جو تجربہ گزرے، ہر چیز سے اس کے سبق والے جزء کو اخذ کرلے- وہ آس پاس کی دوسری تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے صرف ایک چیز پر فوکس کرے، اور وہ چیزوں کے اندر سبق کا پہلو ہے- وہ چیزوں کے اندر سے ان کے سبق کے پہلو کو لے، اور اس کے بعد زندگی کے سفر میں آگے بڑھ جائے- جو شخص سبق کے اس پہلو کو لے سکے، وہی دانش مندآدمی ہے، اسی کے اندر اس اعلی شخصیت کی تعمیر ہوگی جس کو دانش مند شخصیت کہاجاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

تاریخی انتخاب

انسان کے بارے میں خدا کے تخلیقی نقشہ کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (67:2) یعنی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون حسن عمل والا ہے:
He created death and life so that He might test you, and find out which of you is best in conduct.
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کے بارے میں اس کے خالق کا تخلیقی نقشہ یہ ہے کہ عورت ا ور مرد کو مختلف حالات میں زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے، اور پھر ان افراد کا انتخاب کیا جائے جو زندگی کے مختلف احوال کے درمیان یہ ثابت کرتے ہوںکہ وہ اپنے قول وعمل میں اعلیٰ معیار پر قائم رہنے والے ہیں-
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے بارے میں خالق کا منصوبہ مبنی بر فرد منصوبہ ہے، نہ کہ مبنی بر مجموعہ منصوبہ- اِس نقشہ تخلیق کے مطابق پوری تاریخ سے ایسے افراد منتخب کیے جارہے ہیں، جو ہر آزمائش کے بعد حسن عمل کے معیار پر پورے اتریں- ایسے جو افراد پائے جائیں، ان کو پوری تاریخ سے منتخب کرلیا جائے گا، اور پھر ان منتخب افراد کو جنت کی معیاری دنیا میں بسادیا جائے گا، جہاں وہ ابدی طور پر خوشیوں کی زندگی گزاریںگے-
خالق کا تخلیقی منصوبہ یہ نہیں ہے کہ دنیا میں معیاری نظام قائم کیا جائے- حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں معیاری نظام (ideal system) کا قائم ہونا ممکن نہیں- یہاں صرف معیاری افراد بن سکتےہیں- یہی معیاری افراد خالق کا اصل مطلوب ہیں-
تاریخ کے خاتمہ پر ان معیاری افراد کو پورے انسانی مجموعہ سے منتخب کرلیا جائے گا- جنت انھیں منتخب افراد کے سماج کا نام ہے-
واپس اوپر جائیں

خدا کی نشانیاں

قرآن میں خالق کے ایک منصوبہ کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ۭ(41:53)یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خودان کے اندر بھی- یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے-
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں وسیع پیمانےپر خدائی صداقت کی نشانیاں (signs) موجود تھیں، لیکن وہ بالقوہ (potential) حالت میں پائی جاتی تھیں- خدا کو یہ مطلوب تھا کہ اِس بالقوہ کو بالفعل (actual) بنایا جائے- جب ایسا ہوگا تو قرآن کا پیغام سائنسی طور پر ایک ثابت شدہ پیغام بن جائے گا-
مذکورہ آیت میں اس واقعہ کو اللہ کی طرف منسوب کیاگیا ہے- مگر یہ اسلوب کی بات ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں کچھ ایسے افراد اٹھیں گے جو اس امکان کو واقعہ بنائیں گے، اور اس طرح یہ ہوگاکہ قرآن کی آئیڈیالوجی صرف ایک نظری صداقت نہ رہے گی بلکہ وہ علمی طورپر ایک ثابت شدہ صداقت (established fact) بن جائے گی-
فطرت (nature) کے اندر چھپے ہوئے اس امکان کو واقعہ بنانے کا کام انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مکمل طورپر انجام پاچکا ہے- یہ واقعہ مغرب کے سائنس دانوں نے اپنی تحقیقات کے ذریعہ انجام دیا ہے- قرآن میں جو چیزیں بطور اشارہ بیان کی گئی تھیں، وہ اب معلوم حقیقت بن چکی ہیں- اب عالمِ اصغر (micro world)اور عالم اکبر (macro world) دونوں کے اندر چھپی ہوئی نشانیاں پوری طرح انسان کے علم میں آچکی ہیں- دور جدید کا یہی واقعہ ہے جس کی پیشگی خبر قرآن میں کی گئی تھی- یہ سائنسی واقعہ ایک تائید ِ دین کا واقعہ ہے- حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کے حق میں یہ تائیدی واقعہ زیادہ تر سیکولر اہلِ علم کے ذریعہ انجام پائے گا- (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 3062)
واپس اوپر جائیں

انصاف کا طریقہ

قرآن کی سورہ الحدیدکی ایک آیت یہ ہے: لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۚ( 57:25) یعنی ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ اتاری کتاب اور ترازو، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں-
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ خالق کے نقشہ کے مطابق انصاف پیروی کرنے کی چیز ہے، نہ کہ نافذ کرنےکی چیز:
Justice is a subject of following rather than a subject of implementation.
اصل یہ ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے مکمل آزادی عطا کی ہے- انسان کوئی کام اسی وقت کرتاہے جب کہ وہ خود اس کو کرنا چاہتا ہو- جس کام کے لیے آدمی کے اندر محرک (incentive) موجود نہ ہو، اس کو قانونی حکم یا سیاسی طاقت کے ذریعہ اس کے درمیان نافذ نہیں کیا جاسکتا-
یہ بلا شبہہ ایک مطلوب چیز ہے کہ لوگ اپنے قول وعمل میں انصاف (justice) کی پیروی کریں- وہی سماج ایک بہتر سماج ہے جس کے افراد کے اندر یہ اسپرٹ زندہ ہو- لیکن یہ اسپرٹ تعلیم وتربیت کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے، نہ کہ سیاسی طاقت کے ذریعہ- اس لیے قرآن کا سارا زور اس پر ہے کہ افراد کے اندر انصاف کا شعور پیدا کیا جائے، افراد کے اندر انصاف پر عمل کرنے کا داعیہ (incentive) پیداکیا جائے-انصاف کو اگر افراد کی تعلیم وتربیت کاموضوع بنایا جائے تو ایسی کوشش ہمیشہ مطلوب نتیجہ تک پہنچے گی- لیکن اگر انصاف کو طاقت کے زور پر نفاذ(implementation) کا موضوع بنایا جائے تو اس کے نتیجہ میں جو چیز وجود میں آئے گی، وہ انصاف نہ ہوگا بلکہ صرف ظلم وفساد ہوگا- اس دنیا میں کوئی چیز صرف اس وقت درست طور پر حاصل کی جاسکتی ہے، جب اس کو خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan)کے مطابق حاصل کرنے کی کوشش کی جائے- کوئی دوسرا طریقہ اس دنیا میں نتیجہ خیز ہونے والا نہیں-
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ اخلاق

قرآن کی سورہ القلم میں پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَإنَّکَ لَعَلٰٓی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ( 68:4) یعنی اور بے شک تم ایک اعلیٰ اخلاق پر ہو- قرآن کی اس آیت میں پیغمبر کے حوالے سے تمام انسانوں کو بتایا گیا ہے کہ ہر عورت اور مرد کو چاہئے کہ وہ اس دنیا میں اعلیٰ اخلاق کے ساتھ رہے-
Living with a high level of character
اعلیٰ اخلاق کیاہے- اس سے مراد اعلیٰ انسانی اوصاف ہیں- اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا نشانہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ایک ترقی یافتہ شخصیت (developed personality) کی تعمیر کرے- پیدائشی طورپر انسان کے اندر تمام اعلیٰ اوصاف موجود ہیں- مگر وہ پوٹینشیل (potential)کے روپ میں ہیں- یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے فطری پوٹینشیل کو ایک عملی واقعہ بنائے-
یہ کام اعلیٰ اخلاق کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے- اس دنیا میں انسان کو مسائل کے درمیان رہنا پڑتاہے- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ان مسائل کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھے- انسان کو اس دنیا میں بار بار منفی تجربات (negative experiences) پیش آتے ہیں- ضرورت ہے کہ انسان اس منفی تجربہ کو مثبت تجربہ بنائے- اس دنیا میںانسان کو طرح طرح کے نقصان اٹھانے پڑتے ہیں، انسان کو چاہئے کہ وہ ان نقصانات کو بھلائے، اور ہر بار نئے حوصلہ کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرے- اس دنیا میں انسان کو وہ نہیں ملتا جس کو وہ چاہتا ہے، ایسی حالت میں انسان کو چاہئے کہ وہ ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ (art of adjustment) سیکھے-
انہی اوصاف کا نام اعلیٰ اخلاق (high morality)ہے- یہی اس دنیا میں انسان کے لیے مقرر نقشۂ حیات ہے-آدمی کو چاہئے کہ وہ اس مقرر نقشۂ حیات کی کامل پیروی کرے- یہی اِس دنیا میں کامیابی کا واحد راستہ ہے-
واپس اوپر جائیں

موت کا واقعہ

قرآن کی کئی آیتوں میںموت کا ذکر ہے- ایک آیت یہ ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(29:57) یعنی ہر انسان کو موت کا مزہ چکھناہے- پھر تم ہماری طرف لوٹائے جاؤگے:
Every soul will taste death and then to Us you shall return.
موت ہر آدمی کے لیے ایک لازمی تجربہ ہے- موت کیا ہے؟ موت، آدمی اور اس کی بنائی ہوئی دنیا کے درمیان کامل انقطاع (total detachment) کردینے والی ہے، ایک ایسا انقطاع جس کے بعد انسان کے لیے اپنی دنیا کی طرف دوبارہ لوٹنا ممکن نہ ہوگا- یہ موت کے واقعہ کا ایک ایسا پہلو ہے جو ہر عورت اور مرد کو ہلا دینے والا ہے- انسان کی اوسط عمر تقریباً ستر سال ہے- ہر آدمی عملاً اپنی عمر کا صرف ایک استعمال کرتا ہے، اور وہ ہے اپنے لیے یہاں ایک دنیا بنانا- مگر موت ایک لمحہ کے اندر آدمی کو اس کی بنائی ہوئی دنیاسے جدا کردیتی ہے-
موت ہر آدمی کے لیے ایک جبری یاد دہانی (compulsory reminder) ہے، اس بات کی یاد دہانی کہ انسان کی منزل (destination) کوئی اور ہے- موجودہ دنیا سے اس کا جبری انخلاء (compulsory eviction)ہونے والا ہے- اس کے بعد وہ اپنے خالق کی طرف لوٹایا جائے گا- وہ جہاں سے آیا تھا وہیں وہ دوبارہ چلا جائے گا-
قرآن اسی حتمی واقعہ (fatal event) کو یاد دلانے والی کتاب ہے، کچھ آیتوں میں براہِ راست طورپر، تو کچھ آیتوں میں بالواسطہ طورپر- قرآن کا پیغام یہ ہے کہ اپنی زندگی کے اس حتمی واقعہ کو بہت زیادہ یاد کرو- یہاں تک کہ تمھاری سوچ موت رخی سوچ بن جائے، نہ کہ حیات رخی سوچ- تم قبل ازموت دور (pre-death period) میں بعد ازموت دور (post-death period) کے لیے تیاری کو اپنا مقصد حیات بنا لو-قرآن سے اسی مسلسل تعلق کو حدیث میں تعاہد کہاگیاہے-
واپس اوپر جائیں

کلمات اللہ کا اظہار

قرآن کی دو آیتوں میں ایک مشترک مفہوم بیان ہوا ہے- ان میں سے ایک آیت یہ ہے: وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (31:27) یعنی اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزید سمندروں کے ساتھ،روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی- بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے-
قرآن کی اِس آیت اور دوسری ہم مضمون آیت (18:109) میں جس حقیقت کا بیان ہے وہ کوئی پراسرار خبر نہیں، بلکہ وہ ایک ایسا واقعہ ہے، جس کو ’’قلم‘‘ کے ذریعہ پیش آنا ہے، اور وہ ہے کلمات اللہ کو دریافت کرکے ان کو قلم بند کرنا- وہ ظاہرہ جس کو موجودہ دنیا میں جدید تہذیب (modern civilization) کہاجاتا ہے، وہ اسی کلمات اللہ کی انفولڈنگ (unfolding)کا آغاز ہے- کلمات اللہ کی بقیہ انفولڈنگ کا تسلسل جنت میں جاری رہے گا- یہ بلا شبہہ اہل جنت کا سب سے زیادہ لذیذ مشغلہ ہوگا- کلمات اللہ یا آلاء اللہ کی تعداد لامحدود ہے، اس لیے تہذیب کا یہ جنتی فیز(phase) ابد تک جاری رہے گا-
موجودہ دنیوی تہذیب کے مقابلہ میں یہ جنتی تہذیب کادور ہوگا- انسان کی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے لیے سب سے زیادہ تھرلنگ تجربہ (thrilling experience) وہ ہے جس کو دریافت (discovery) کہاجاتا ہے- کلمات اللہ کی دریافت اور ان کو اعلیٰ وسائل کے ذریعہ مرتب کرنا، یہی وہ غیر معمولی عمل ہے جس کو قرآن میں شغل فاکہہ (36:55) کہاگیا ہے، یعنی لذیذ مشغلہ (enjoyable activities) - یہ لذیذ ’’قلمی عمل‘‘ کوئی سادہ عمل نہ ہوگا، وہ جنت کی معیاری دنیا کے انتہائی اعلیٰ وسائل کے ذریعہ انجام پائے گا- جنت کا آئیڈیل ماحول اور جنت کے معیاری وسائل اس کام کو اہلِ جنت کے لیے ناقابلِ قیاس حد تک پر مسرت بنا دیں گے-
واپس اوپر جائیں

دشمن میں دوست

قرآن کی سورہ فصلت میں زندگی کا ایک قانون ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَةٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ( 41:34) یعنی اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کرو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی قریبی دوست-
قرآن کی اس آیت کے مطابق کوئی انسان پیدائشی طورپر دوست یا دشمن نہیں ہوتا، بلکہ حالات کے تحت وہ کسی کا دوست اور کسی کا دشمن بن جاتاہے- دوستی اور دشمنی سب حالات پر منحصر ہے، اور حالات کو بنانے والا انسان ہے- کوئی آدمی اپنے گرد جیسے حالات بنائے گا، اس کے مطابق دوسروں کے ساتھ اس کے تعلقات قائم ہوں گے-اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بظاہر آپ کا دشمن ہے، وہ امکانی طورپر آپ کا دوست ہے- انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ ایک موجود امکان کو واقعہ بنائے- اس کے بعد وہ دیکھے گا کہ جس شخص کو وہ اپنا دشمن سمجھے ہوئے تھا، وہ اس کا قریبی دوست بن گیا ہے-
Every enemy is your potential friend, you have to turn this potential into actual.
لوگوں کو اپنا دشمن سمجھنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی نفرت اور شکایت میں جینے لگتا ہے- اس کے ذہن میں منفی سوچ (negative thinking)آجاتی ہے- آخر کار یہ ہوتاہے کہ وہ مثبت سوچ (positive thinking) سے محروم ہوجاتا ہے، جب کہ مثبت سوچ ہر قسم کی انسانی ترقیوں کے لیے پہلی شرط ہے- اس دنیا میں اعلی ترقی صرف اس انسان کو ملتی ہے، جو دوسروں کے بارے میں خیر خواہی (well wishing) کی نفسیات میں جیتاہو- جو دوسروں کو اپنا سمجھے نہ کہ غیر، جو دوسروں کو اپنی قوم کا حصہ سمجھے نہ کہ غیر قوم کا حصہ، جو دوسروں کے لیے وہی چاہے جو وہ خود اپنے لیے چاہتا ہے، اور یہ تمام چیزیں صرف مثبت ذہن کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں-
واپس اوپر جائیں

شکر کی نفسیات میں جینا

مسلمان ہر روز اپنی نماز میں قرآن کی یہ آیت پڑھتے ہیں: الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (1:1) یعنی ساری حمد صرف اللہ کے لیے ہے جوسارے عالَم کا رب ہے- حمد کی حقیقت شکر ہے- ساری حمد اللہ کے لیے ہے ،کا مطلب یہ ہے کہ سارا شکر اللہ کے لیے ہے-
قرآن کی اس آیت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اس کو صرف زبان سے پڑھ دیا جائے، بلکہ وہ ایک تربیت کا کلمہ ہے- وہ ہر روز مسلمان کو ایک حقیقت کی یاد دلاتاہے- وہ یہ کہ انسان کو چاہئے کہ وہ روزانہ پیش آنے والے واقعات پر غور کرے- وہ واقعات کی ایسی مثبت توجیہہ (positive explanation) تلاش کرے، جو اس کو ہر حال میں شکر کرنے والا انسان بنا دے، وہ ہردن اس احساس سے بھرا رہے کہ کائنات کا خالق ایک نہایت مہربان خالق ہے، وہ ہر وقت خالق کے لیے اور تمام انسانوں کے لیے شکر واعتراف کا رسپانس (response) دیتا رہے-
قرآن کی یہ آیت مومن کی حقیقی تصویر کو بتارہی ہے- سچا مومن وہ ہے جو الحمد للّٰہ کی نفسیات میں جیے- اس کے برعکس جو انسان لا حَمدَ للّٰہ کی نفسیات میں جیتا ہو، وہ سچا مومن نہیں- وہ زبان سے تو الحمد للّٰہ کہتا ہے، لیکن اس کا دل عملاً یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ لا حَمدَ للّٰہ- یہ نفسیات منافقت کی نفسیات ہے، نہ کہ ایمان کی نفسیات-
اس معاملہ کا تعلق حالات کی توجیہہ سے ہے- جو آدمی حالات کی مثبت توجیہہ کرے، وہ الحمد للّٰہ کی نفسیات میں جیے گا، اور جو آدمی حالات کی مثبت توجیہہ نہ کرسکے، وہ لاحَمدَ لِلّٰہ کی نفسیات میں جینے والا انسان بن جائے گا- الحمد للّٰہشکر کا کلمہ ہے اور لاحَمدَ لِلّٰہ ناشکری کا کلمہ-گویا کہ الحمد للّٰہکہنے سے پہلے ایک اور چیز مطلوب ہے،اور وہ ہے الحمد للّٰہکی شعوری معرفت-جو آدمی الحمد للّٰہکہنے سے پہلے اس کی شعوری معرفت حاصل کرچکا ہو، وہی درست طورپر الحمد للہ کہے گا، اور جو آدمی اس شعوری معرفت سے خالی ہو، اس کی زندگی میں الحمد للہ ایک حقیقت کے طورپر شامل نہیں ہوسکتا-
واپس اوپر جائیں

مشکل کے ساتھ آسانی

قرآن میں فطرت کا ایک قانون ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے: فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۝ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (94:5-6)یعنی پس مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے- یعنی زندگی میں ہر پرابلم کے ساتھ نیا موقع (opportunity) ہے- یہ دونوں چیزیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتیں-
قرآن کی اس آیت میں مع العسر کا لفظ ہے نہ کہ بعد العسر کا لفظ- اس کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ پہلے مشکل آتی ہے، اس کے بعد آسانی آتی ہے- بلکہ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو عین اسی وقت اور اسی کے ساتھ آسانی بھی ضرور آتی ہے- دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسئلہ جب آتاہے تو اپنے ساتھ مواقع بھی ضرور لاتا ہے:
With every problem, there are opportunities.
فطرت کا یہ اصول، ایک عام اصول ہے- وہ فرد کے لیے بھی ہے اور قوم کے لیے بھی-فرد اور قوم دونوں کو ایسا کرنا چاہئے کہ جب ان کی زندگی میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ رد عمل (reaction) کا طریقہ اختیار نہ کرے، بلکہ مشکل کو ایک نارمل واقعہ سمجھے اور ساری توجہ اس بات پر لگادے کہ فطرت کے نظام کے مطابق وہ کون سے مواقع ہیں جو اس مشکل کے ساتھ ہمارے لیے آئے ہیں-
آدمی کو فطرت کے اس قانون کا شعور ہو تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ پیش آمدہ صورت حال میں کبھی منفی سوچ میں مبتلا نہ ہوگا، اور نہ مایوسی کا شکار ہوگا- وہ ہر حال میں اپنے اعتدال کو باقی رکھے گا- وہ ہر حال میں نارمل ذہن کے ساتھ حالات پر غور کرے گا، اور نئے مواقع کو استعمال کرکے ان کو اَویل (avail) کرے گا، اور بہت جلد ایک نئی ترقی کی اونچائی پر پہنچ جائے گا-موجودہ زمانے میں جو لوگ ٹکراؤ کا کلچر چلارہے ہیں ا ن کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انھوں نے مسائل کو دریافت کیا، لیکن وہ مواقع کو دریافت نہ کرسکے- اگر وہ اس کو جانتے تو اپنی ساری توانائی مواقع کے استعمال میں لگا دیتے-
واپس اوپر جائیں

مسائل کی دنیا

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ زمین وآسمان (کائنات) کو اللہ نے بہترین تخلیق پر پیدا کیا ہے - ساری کائنات میں تم کہیں کوئی نقص یا فطور (flaw)نہیں پاؤگے( 67:3) - ایک طرف کائنات کے بارے میں قرآن کا یہ بیان ہے، اور دوسری طرف انسان کے بارے میں قرآن بتاتا ہے کہ انسان کو مشقت یا کبد ( 90:4) میں پیدا کیا گیا - پوری تاریخ کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ انسان کا کیس خسر (العصر) کا کیس ہے، یعنی گھاٹا (loss) کا کیس- انسانی دنیا اور بقیہ دنیا میں یہ فرق کیوں-
حقیقت یہ ہے کہ انسانی وجود سے لے کر عالم کائنات تک پوری تخلیق بہترین تخلیق پر پیدا کی گئی ہے- خالق کی تخلیق میں creation کے اعتبار سےپورے عالم کائنات میں کہیں کوئی ذاتی نقص (defect) موجود نہیں- نقص یا فساد (evil) صرف انسانی سماج میں پایا جاتاہے، جسے انسان خود اپنی سرگرمیوں سے وجود میں لاتاہے- اس کا سبب یہ ہے کہ انسان پیدائشی طورپر آزاد ہے- یہ انسانی آزادی کا غلط استعمال ہے، جس کی وجہ سے انسانی دنیا میں وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو فلاسفہ خرابی کا مسئلہ (problem of evil) کہتے ہیں-
انسانی دنیا کا مسائل کی دنیا (world of problems) ہونا کوئی نقص کی بات نہیں- اس معاملہ کا ایک مثبت پہلو (positive aspect) ہے- ان مسائل کی وجہ سے دنیا میں چیلنج کی صورت حال پیدا ہوتی ہےاور تمام انسانی ترقیاں ہمیشہ چیلنج کے ذریعہ ظہور میں آتی ہیں- انسان کو اس کے خالق نے لامحدود پوٹینشیل (potential) کے ساتھ پیدا کیا ہے- اس پوٹینشیل کو ایکچول(actual) بنانا صرف چیلنج کے حالات میں ممکن ہے- اگر چیلنج نہ ہو تو انسان کی شخصیت میں چھپے ہوئے امکانات ظہور میں نہیں آئیں گے، انسانی ارتقا کا عمل مکمل طورپر رک جائے گا، انسان اپنی تکمیل سے محروم رہ جائے گا-
واپس اوپر جائیں

شخصیت کاارتقا

قرآن کی ایک اصطلاح تزکیہ ہے- انسانی فلاح کا ذریعہ قرآن میں تزکیہ ( 91:9-10) کو بتایا گیاہے- قرآن کے مطابق جنت کی اعلی دنیا میں صرف ان افراد کو داخلہ ملے گا جنھوں نے موجودہ دنیا میں اپنا تزکیہ ( 20:76) کیا تھا-
تزکیہ کا لفظی مطلب تطہیر (purification) ہے- جس طرح خام لوہا (ore) مختلف قسم کے شدید مراحل سے گزر کر ایک با معنی مشین کی صورت اختیار کرتاہے، اسی طرح انسان کی شخصیت بھی مختلف قسم کے شدید مراحل سے گزر کر ایک مزکی شخصیت (purified soul) کی صورت اختیار کرتی ہے-
یہ شدید مراحل کیا ہیں، یہ شدید مراحل وہ ہیں جب کہ انسان کو غیر مطلوب حالات سے سابقہ پیش آتا ہے- یہ غیر مطلوب حالات وہ مواقع ہیں، جن سے گزرتے ہوئے انسان اپنی شخصیت کی تعمیر کرتاہے-
جب انسان کی ایگو پر ضرب لگے اور وہ عدل پر قائم رہے، جب انسان کو غصہ آئے اور وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرلے، جب انسان کو کوئی بڑائی ملے لیکن وہ متواضع (modest) بنا رہے، جب انسان کےاندر انتقام کی آگ بھڑکے اور وہ اپنے اندر ہی اندر اس آگ کو بجھا دے، جب انسان کے اندر کسی کے خلاف نفرت جاگ اٹھے اور وہ پھر بھی اس کے لیے اپنی خیر خواہی کو باقی رکھے، جب انسان پر کوئی دباؤ نہ ہو، اس کے باوجود وہ اعتراف (acknowledgement) کا ثبوت دے، وغیرہ- یہی وہ مواقع ہیں جو انسان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انسان کے اندر اعلی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں-
یہ مواقع معتدل حالات میں پیدا نہیں ہوسکتے، یہ صرف غیر معمولی حالات (abnormal situation) میں پیداہوتے ہیں- قرآن کے مطابق اس امتحان میں وہی شخص کامیاب ہوسکتا ہے جس کے اندر صبر کی صفت پائی جائے ( 41:35)-
واپس اوپر جائیں

قرآن کو کتابِ مہجور بنانا

قرآن کی سورہ الفرقان کی ایک آیت یہ ہے: وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا (25:30) یعنی اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو ایک چھوڑی ہوئی کتاب بنادیا-
قیامت میں ہر پیغمبر اپنی امت کے بارے میں شہادت دے گا- مذکورہ آیت میں اُس شہادت کا ذکر ہے، جو پیغمبر اسلام اپنی امت کی بعد کی حالت کے بارے میں قیامت میں دیں گے- آپ قیامت میں بتائیں گے کہ میں نے اپنی امت کو قرآن پر قائم کیا تھا- لیکن بعد کے زمانے میں میری امت نے قرآن کو ایک چھوڑی ہوئی کتاب (discarded book) بنا دیا- ایسا اس لئے ہوگا تاکہ امت کے بگاڑ کا الزام پیغمبر پر نہ آئے- یہ کوئی انوکھی بات نہیں - یہ وہی بات ہے، جو ہر امت کے ساتھ پیش آئی، اور امتِ محمدی کے ساتھ بھی اس کے دور زوال میں پیش آئے گی-یہ قیامت کا ایک معاملہ ہے، اس کو پیشگی طورپر یہاں ذکر کیا گیا تاکہ لوگ متنبہ ہوں، اور اگر مجموعہ نہیں تو کم ازکم افراد اس انجام سے اپنے کو بچالیں-بعد کے زمانے میں امت محمدی کا عین یہی حال ہوا- رسول اللہ نےامت کے تین ادوار کو قرون مشہود لہا بالخیر کہا تھا، یعنی دورِ رسالت، دورِ صحابہ، دورِ تابعی- اس کے بعد دھیرے دھیرے امت کےاندر فقہ کا ڈیولپمنٹ ہوا- اب امت محمدی جس دین پر کھڑی ہوئی ہے، وہ عملاً قرآن کا دین نہیں ہے بلکہ فقہ کا دین ہے- امت نے قرآن کے دین کو چھوڑ کر فقہ کا دین اختیار کرلیا ہے-
مثلاً قرآن کا مطالعہ کیجئے تو اس میں عبادت خشوع اور تقوی کی چیز نظر آئے گی، یعنی روح (spirit) کی چیز- لیکن بعد کو وضع ہونے والی فقہ میں عبادت مکمل طورپر ایک مبنی بر فارم عمل (form based practice)بن گئی- قرآن کے مطابق ساری دنیا دارالانسان تھی، لیکن فقہ میں دنیا کو دو حصوں میں بانٹ دیاگیا— دار الکفر، دارالحرب- قرآن میں جہاد ،جہاد بالقرآن (25:52) کا نام ہے، مگر فقہ نے جہاد کو جہاد بالسیف کے ہم معنی بنا دیا-
یہی معاملہ پورے فقہی نظام کا ہے- قرآن میں تفکر اور تدبر اور تعقل کو اہم ترین درجہ دیاگیا ہے، لیکن فقہ میں اس مضمون کا کوئی باب موجود نہیں- قرآن کے اعتبار سے معرفت اور دعوت دین کا ستون ہے، مگر فقہ میں معرفت اور دعوت کے ابواب حذف ہیں- فقہ میںاتفاق رائے سے یہ مسئلہ وضع کیاگیا کہ شاتم رسول کو بطور حد قتل کردیا جائے، مگر قرآن میں سرے سے اس مسئلہ کا کوئی ذکر نہیں- فقہ میں یہ قانونی دفع شامل کی گئی کہ ارتداد کرنے والے کو قتل کردیا جائے، مگر قرآن میں کوئی ایسا حکم سرے سے موجود نہیں، وغیرہ-
یہ فقہ رسول اللہ کے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد عباسی دور میں ڈیولپ ہوئی- اس فقہ کے واضعین کو امام اور مجتہد کہاجانے لگا- اعلان کے ساتھ یا بلا اعلان، یہ سمجھا جانے لگا کہ فقہا نے قرآن کے احکام کو فقہ میں تفصیل کے ساتھ مدون کردیا ہے- اب امت کو اپنا دین فقہ سے اخذ کرنا ہے- اس طرح بعد کو تیار ہونے والی فقہ، دین کا ماخذ بن گئی، اور قرآن عملاً برکت اور تلاوت کی کتاب بن گیا-
یہی وہ صورت حال ہے جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں اس طرح بیان کیاگیاہے کہ قیامت میں جب تمام پیغمبر اپنی اپنی امتوں کے بارے میں یہ بتائیں گے کہ انھوںنے اپنی امت کو وہی دین دیا تھا جو اللہ نے ان پر نازل کیا تھا، لیکن بعد کے زمانے میں امت نے دین کا ایک خود ساختہ ورژن (version)تیار کرلیا، اور دین کے نام پر اس پر قائم ہوگئے- یہی معاملہ خود پیغمبر اسلام کے ساتھ پیش آئے گا- حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے اپنی امت کے بارے میں فرمایا: لتتبعن سنن من کان قبلکم (صحیح البخاری: 7320)- یہ ایک پیشگی خبر تھی جو حرف بحرف پوری ہوئی- امت محمدی نے اپنے زوال کے دور میں وہی کیا، جو پچھلے پیغمبروں کی امتوں نے اپنے زوال کے زمانے میں کیا تھا- البتہ یہاں ایک فرق ہے، وہ یہ کہ پیغمبر اسلام کا لایا ہوا قرآن پوری طرح محفوظ ہے، آپ کی سنت بھی پوری طرح محفوظ ہے- اس طرح یہ امکان ہمیشہ باقی رہے گا کہ قرآن وسنت کے مطالعہ سے دین محمدی کو دوبارہ دریافت کیاجائے، اور اس کو اصل صورت میں اختیار کیا جائے- قرآن وسنت کا محفوظ ہونا، اس بات کی ضمانت ہے کہ مجموعہ کی سطح پر خواہ بگاڑ آجائے، لیکن افراد کی سطح پر ہمیشہ امت میں ایسے افراد موجود رہیں گے، جو اصل دین کو دوبارہ دریافت کریں، اور اس کے کامل پیرو بن جائیں-
واپس اوپر جائیں

ذہنی سکون

قرآن کی سورہ الرعد کی ایک آیت یہ ہے: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ۭ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ( 13:28) یعنی وہ لوگ جو ایمان لائےاور جن کے دل اللہ کی یاد سے مطمئن ہوتے ہیں- سنو، اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے- قرآن کی اس آیت میں اطمینان قلب سے مراد ذہنی سکون (peace of mind) ہے- انسان جب ذہنی سکون سے محروم ہوتا ہے تو اس کا سبب صرف ایک ہوتاہے، اور وہ ہے خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) پر راضی نہ ہونا- انسان جب خدا کے تخلیقی نقشہ پر راضی ہوجائے تو اسی کا نام ذہنی سکون ہے، اور جب خدا کے تخلیقی نقشہ پر راضی نہ ہو تو اس سے وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو ذہنی سکون سے محرومی کہاجاتا ہے-
اصل یہ ہے کہ انسان ایک آزاد مخلوق ہے- اس کے اندر ذاتی سوچ (self-thinking) کی صلاحیت پائی جاتی ہے- وہ چاہتا ہے کہ دنیا اس کی سوچ سے مطابقت کرے- وہ اپنی خواہش کے مطابق ایک دنیا بنائے، اور اس کے اندر وہ زندگی گزارے-مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا- اس لیے وہ ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوجاتاہے- انسان کے سوا جو دنیا ہے، اس میں ہر جگہ امن (peace) پایا جاتاہے- اس کا سبب یہ ہے کہ بقیہ دنیا مکمل طورپر خالق کے آگے سرینڈر کئے ہوئے ہے- انسان اپنی آزادی کی بنا پر خالق کے آگے سرینڈر کرنا نہیں چاہتا، یہی غیر مطابقت وہ چیز ہے جو انسان کو اطمینانِ قلب سے محروم کردیتی ہے-
اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ انسان اپنے شعور کو اتنا زیادہ ترقی یافتہ بنائے کہ وہ خدائی تخلیق کی حکمت کو سمجھ سکے- اس کا ذاتی شعور خدا کے برتر شعور سے ہم آہنگ ہوجائے- جو آدمی ذہنی ارتقا (intellectual development)کی اس سطح تک پہنچ جائے، وہ کائنات کی اس حقیقت (reality) کو شعوری طورپر دریافت کرلے گا اور پھر وہ بھی اسی طرح خالق کے آگے سرینڈر کردے گا جس طرح بقیہ کائنات خالق کے آگے سرینڈر کئے ہوئے ہے- یہی وہ روش ہے جس کے نتیجہ کا نام اطمینان قلب یا ذہنی سکون ہے-
واپس اوپر جائیں

تاریخ کا قانون

انسانی تاریخ کے بارے میں خدا وند عالم کا ایک قانون ہے- اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ ۭ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ۚ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَاۗءَ ۭ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ (3:140) یعنی اگر تم کو کوئی زخم پہنچے تو مقابل قوم کو بھی ویسا ہی زخم پہنچا ہے، اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہـتے ہیں، تاکہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو گواہ بنائے اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا-
اِس آیت میں اس صورت حال کا ذکر ہے کہ فتح وشکست یا غلبہ اور مغلوبیت کے معاملہ کے حالات کبھی یکساں نہیں ہوتے- کبھی ایک قوم کو غلبہ ملتاہے اور کبھی دوسری قوم کو- یہ اتفاقی بات نہیں ہے- یہ خالق کے انتظام کا معاملہ ہے- انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، خالق انسانی تاریخ کا اس طرح نظم کررہا ہے:
Managing history while maintaining human freedom
اصل یہ ہےکہ دوسری چیزوں کی طرح غلبہ بھی امتحان کا ایک پرچہ ہے- چنانچہ کبھی ایک گروہ کو غلبہ دے کر اس کا امتحان لیا جاتا ہے، اور کبھی دوسرے گروہ کو- غلبہ کے معاملہ میں کسی ایک گروہ کی اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوسکتی-
اگر کسی ایک گروہ کو مستقل طورپر غلبہ دے دیا جائے تو اس کے اندر جمود (stagnation) پیدا ہوجائے گا- اس طرح انسانی زندگی میں ترقی کا عمل (process of development) رک جائے گا- اس لیے خود خالق کی طرف سے ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں جو قیادت کو بدلتے رہتے ہیں- انسان کو چاہیے کہ وہ اس معاملہ کو خدائی فیصلہ سمجھ کر اس کو قبول کرے- وہ غلبہ کو بھی امتحان سمجھے اور مغلوبیت کو بھی امتحان-
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق

اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تواس وقت اللہ اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا، اس کا ایک حصہ یہ تھا: قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاۗءَ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْن (2:30) یعنی فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اس میں فساد کریں اور خون بہائیں- اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں- اللہ نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے-
اللہ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے زمین پر آباد کیا- اس وقت فرشتوں کے اندر یہ شبہہ پیدا ہوا کہ جب انسان کو آزادی حاصل ہوگی تو اس کو آزادی کے غلط استعمال کی بھی آزادی ہوگی،اور جب ایسا ہوگا تو اس زمین میں فساد اور خون ریزی جیسے واقعات پیش آئیں گے، جو بظاہر کائنات کے مجموعی نقشہ کے خلاف ہوگا- اللہ نے جو جواب دیا اس سے تخلیق کی حکمت معلوم ہوتی ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی نظر مجموعہ انسانی پر تھی، مگر اللہ کی نظر افراد انسانی پر-
اس جواب کا مطلب یہ تھاکہ اللہ کا تخلیقی منصوبہ باعتبار مجموعہ نہیں ہے، بلکہ باعتبار افراد ہے- مجموعہ کے اعتبار سے بلا شبہہ ایسا ہوگا کہ انسانوں کے اندر فساد جیسے واقعات پیش آئیں گے- لیکن اسی مجموعہ کے اندر ایسے افراد بھی پیدا ہوں گے، جو آزادی کے باوجود خود اپنے فیصلہ سے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کریں، اور یہی افراد اصل مطلوب خداوندی ہیں-
فساد اور خون ریزی کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ بظاہر منفی واقعات ہیں، لیکن یہ منفی واقعات لوگوں کے ذہن کو جگائیں گے، وہ لوگوں کے اندر تفکیری عمل (intellectual process) جاری کریں گے- وہ لوگوں کو موقع دیں گے کہ وہ اپنے ذہنی امکانات کو بروئے کار لائیں اور اپنے اندر اس اعلیٰ شخصیت کی تعمیر کریںجس کو قرآن میں مزکیّٰ شخصیت (purified personality) کہا گیاہے-
واپس اوپر جائیں

قرآن کی زبان

قرآن کی 29 سورتوں میں کچھ حروف آئے ہیں، جن کو حروف مقطعات کہاجاتا ہے- قَطّعَ کے معنی ہیں: ٹکڑے ٹکڑے کرنا (to cut, to separate, to divide) - یہ حروف مقطعات دراصل عربی زبان کے حروف تہجی (alphabets) ہیں-
حروف مقطعات کا مطلب یہ ہے کہ قرآن انسانی زبان میںہے نہ کہ ملاٴ اعلیٰ کی زبان میں- وہ علامتی طورپر بتاتے ہیں کہ قرآن اپنی زبان کے اعتبار سے ایک انسانی زبان (26:195) میں اتارا گیا ہے- قرآن پر اسی طرح تدبر کرو، جس طرح تم کسی انسانی زبان کے کلام میںتدبر کرتے ہو- مگر تفسیر بالرائے کے انتہا پسندانہ تصور کی بنا پر لوگوں نے قرآنی آیات پر کھلا تدبر نہیں کیا- اس بنا پر وہ قرآن کے عمیق معانی تک نہ پہنچ سکے- انھوں نے قرآن کی زبان کو پراسرار سمجھ لیا- اس ذہن کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن ان کے لیے ایک مقدس کتابِ برکت بن کر رہ گیا- صحیح یہ ہے کہ قرآن میں کھلا تدبر کیا جائے- البتہ یہ تدبر لازمی طورپر متقیانہ تدبر ہونا چاہئے-
مثال کے طورپر سورہ النحل کی پانچ آیتوں ، 4 تا 8، کو لیجئے، ان آیتوں میں پہلے انسان کی تخلیق کا ذکر ہے، اس کے بعد اگلی آیتوں میں کچھ قدرتی سواریوں کا ذکر ہے- آخر میں غیر معلوم تخلیق کی طرف اشارہ کیاگیا ہے- اگر آپ ان آیتوں کو صرف مقدس آیات کے طورپر لیں تو آپ پر اُن کے گہرے معانی نہیں کھلیں گے- اس کے برعکس، اگر آپ اس کو انسانی زبان کا ایک کلام سمجھ کر تدبر کریں تو آپ پر ایسے معانی کھلیں گے، جو آپ کے لیے تعلق باللہ کا اعلیٰ تجربہ بن جائیں-غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ان آیتوں میں اللہ کی تین رحمتوں کا ذکر ہے- پہلے اللہ کی اِس رحمت کا کہ اس نے انسان کو پیدا کیا، اُس کے بعد چند علامتی مثالوں کے ذریعہ اللہ کی اِس رحمت کا کہ اس نے انسان کے لیے اس دنیا میں مکمل قسم کا لائف سپورٹ سسٹم (life support system) رکھ دیا، آخر میں یخلق ما لا تعلمون کے الفاظ میں اللہ کی اُس رحمت کی طرف اشارہ ہے، جس کو صنعتی تہذیب (industrial civilization) کہاجاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ انسان

قرآن کی سورہ نمبر 2 میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یُؤْتِی الْحِکْمَةَ مَنْ یَّشَاۗءُ ۚ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ۭوَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ (البقرة: 269) یعنی وہ جس کو چاہتا ہے حکمت دے دیتا ہے اور جس کو حکمت ملی اس کو بڑی دولت مل گئی- اور نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں-قرآن کی اس آیت کے مطابق انسان کے لیے سب سے بڑی چیز حکمت (wisdom) ہے- حکمت کے بغیر انسان ایک حیوان کی مانند ہے- یہ حکمت ہی ہے جو انسان کو حیوان سے برتر درجہ عطا کرتی ہے-
حکمت کے ذریعہ انسان، ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرنا جانتا ہے- حکمت کے ذریعہ یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ فیس ویلو (face value) سے آگے جاکر چیزوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھ سکے- انسان کی تمام ترقیوں کا راز منصوبہ بندی (planning) میں ہے، اور درست منصوبہ بندی حکمت کے بغیر نہیں ہوسکتی-
کسی انسان کی زندگی میں پہلے ذہنی ارتقا (intellectual development) آتا ہے- اس کے بعد اس کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیدا ہوتی ہے، جس کو حکمت (wisdom)کہا جاتا ہے- وہ اس قابل ہوجاتاہے کہ حدیث کے الفاظ میں، چیزوں کو ویسے ہی دیکھے جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں (اللہم ارنا الأشیاء کما ہی)-
حکمت آدمی کےاندر وہ صفت پیدا کرتی ہے جس کوحقیقت پسندانہ نقطہ نظر (realistic approach) کہا جاتا ہے- اس کے اندر فخر اور گھمنڈ کی سوچ ختم ہوجاتی ہے- وہ ایک متواضع انسان (modest man) بن جاتا ہے- اس کے اندر صبر (patience)کی صفت پیدا ہوجاتی ہے- وہ تشدد کے مقابلہ میں امن (peace) کی اہمیت کو شعوری طورپر جان لیتاہے- یہی وہ صفات ہیں جو انسان کو اعلیٰ انسان بناتی ہیں-
واپس اوپر جائیں

غیب پر یقین

قرآن کی سورہ نمبر 2 کی شروع کی آیات یہ ہیں: ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ٻ فِیْہِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ ۝ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (البقرة: 2-3 ) یعنی یہ اللہ کی کتاب ہے- اِس میں کوئی شک نہیں- یہ ہدایت ہے متقیوں کے لیے، جو ایمان لاتے ہیں غیب پر- قرآن کی اِس آیت میں ایمان بالغیب کا مطلب سادہ طور پر یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی زبان سے آمنتُ بالغیب کہہ دے، بلکہ یہ ہےکہ آدمی غیب کے بارے میں عقلی طورپر (rationally) اُسی طرح یقین کرسکے جس طرح وہ شہود پر یقین کرتاہے-
غیب پر ایمان لاناایک اعلیٰ ذہنی ارتقا (high level of intellectual development) کا معاملہ ہے- ایک انسان اپنی فطری طاقتوں کو استعمال کرتا ہے، وہ اپنے بارے میں اور کائنات کے بارے میں مسلسل طورپر غور وفکر کرتا ہے، وہ کتاب وسنت کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتا ہے، وہ زندگی کے تجربات اور مشاہدات سے مسلسل طورپر گہرا سبق لیتا رہتا ہے، وہ خدا کی نشانیوں (آیات) پر غور کرکے تخلیق کے گہرے رموز تک پہنچنے کی کوشش کرتاہے- اس طرح اس قابل ہوجاتا ہے کہ اپنے ذہنی ارتقا کی بنا پر وہ نہ دکھائی دینے والی چیزوں پر بھی اسی طرح یقین کرسکے، جس طرح کوئی شخص دکھائی دینے والی چیزوں پر یقین کرتا ہے-
غیب (unseen) پر ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے غیب پر ایمان نہیں ہے، بلکہ وہ یہ ہے کہ آدمی کی تفکیری صلاحیت اتنی زیادہ بلند ہوجائے کہ اس کے لیے غیب اور شہود میں کوئی فرق باقی نہ رہے- وہ غیبی حقیقتوں کو اتنی گہرائی کے ساتھ دریافت کرلے کہ اپنے شعور کے اعتبار سے اس کے لیے ان حقیقتوں کو نہ ماننابالکل غیر ممکن ہوجائے- ایمان بالغیب دراصل غیب کو ماننے کا نام نہیں بلکہ وہ شعور کا وہ ارتقائی درجہ ہے، جہاں باعتبار حقیقت اس کے لیے ایمان بالغیب اور ایمان بالشہود میں کوئی فرق باقی نہ رہے-
واپس اوپر جائیں

مزکىّٰ شخصیت

قرآن میںاہلِ جنت کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیاہے:جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ۭ وَذٰلِکَ جَزٰۗؤُا مَنْ تَزَکّٰى ( 20:67) یعنی ان کے لیے ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی- وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بدلہ ہے اس شخص کا جو اپنا تزکیہ کرے- قرآن کی اِس آیت کے مطابق، جنت ان افراد کے لیے ہے، جو اپنے اندر پاکیزہ شخصیت کی تعمیرکریں:
Paradise is for purified soul
تزکیہ سے مراد کوئی پراسرار عمل نہیں ہے- تزکیہ ایک معلوم واقعہ ہے- قرآن میں جس تزکیہ کا ذکر ہے، وہ پراسرار معنوں میں کوئی دل پر مبنی (heart based) عمل نہیں، بلکہ وہ ایک مبنی برذہن (mind based) عمل ہے- تزکیہ ایک مسلسل شعوری عمل ہے، جس کے ذریعہ آدمی مسلسل غوروفکر کے ذریعہ اپنے ذہن کی تعمیر نو (re-engineering of mind)کرتا ہے-
انسان کےاندر غیر معمولی فکری صلاحیت پائی جاتی ہے- ایمان آدمی کے اندر اس فکری صلاحیت کو بیدار کرتاہے- ایمان کے بعد آدمی کے اندر ایک زندہ شعور جاگتا ہے، جس کے تحت وہ فکر وتدبر کی ایک نئی زندگی شروع کرتا ہے، وہ ہر قسم کی ذہنی سرگرمیوں کے ذریعہ اپنے شعور کو ارتقا یافتہ شعور بناتاہے- وہ اپنی شخصیت کو ایک اعلیٰ ربانی شخصیت میں تبدیل کرتاہے-
کسی انسان کو جنت میں داخلہ مقداری عمل کی بنیاد پر نہیں ملے گا بلکہ جنت صرف اس انسان کو ملے گی، جس نے باعتبار کیفیت (in terms of quality) اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کیا- یہی جنت میں داخلہ کی شرط ہے- مزید یہ کہ جنت میں داخلہ بربنائے استحقاق ہوگا، نہ کہ بربنائے سفارش-تزکیہ کا تعلق کسی محدود مدتی کورس سے نہیں ہے، تزکیہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، جو انسان کی پوری زندگی میں کسی وقفہ کے بغیر جاری رہتا ہے-
واپس اوپر جائیں

زوجین کا اصول

قرآن کی سورہ الذاریات میں تخلیق کے اصول کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ( 51:49) یعنی اور ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا تاکہ تم نصیحت حاصل کرو-
مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کائنات میں ہر چیز، خواہ وہ مادی ہو یا غیر مادی، اس کا ایک زوج (pair) موجود ہے- جیسے مادی ذرات میں پازیٹو پارٹیکل کے ساتھ نیگیٹو پارٹیکل، نباتات میں میل پلانٹ (male plant) کے ساتھ فیمیل پلانٹ(female plant)، حیوانات میں ہی انیمل (he animal) کے ساتھ شی اینمل(she animal) موجود ہیں- اسی طرح انسان کی دنیا میں بھی عورت کے ساتھ مرد پیدا کیے گیے ہیں-
مگر انسان کا معاملہ دوسری مخلوقات سے مختلف ہے- انسان کے لیے زوجین کی پیدائش کافی نہیں- انسان اس کے سوا بھی ایک اور چیز کا طالب ہے- انسان اپنی نفسیات کے اعتبار سے زوجین کے سوا ایک اور چیز چاہتا ہے- اس کو دوسرے الفاظ میں انسان کا فطری ہیبی ٹیٹ (habitat) کہاجاسکتاہے- موجودہ دنیا انسان کے لیے اس کا ہیبی ٹیٹ نہیں- انسان ہر اعتبار سے ایک کامل دنیا چاہتا ہے، مگر موجودہ دنیا کسی بھی اعتبار سے کامل دنیا نہیں-
اس دنیا میں انسان کے سوا جو چیزیں ہیں، ان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے اور دنیا کے درمیان کامل مطابقت پائی جاتی ہے- لیکن انسان کا معاملہ مختلف ہے، انسان اور دنیا کے درمیان مطابقت موجود نہیں- یہ عدم مطابقت پوری کائنات میں ایک استثنائی واقعہ ہے- انسانی زندگی کا یہ استثنائی پہلو تقاضا کرتاہے کہ انسان کو اس کی مطلوب دنیا حاصل ہو- اسی مطلوب دنیا کا نام جنت ہے جو انسان کے لیے اس کے مطلوب مسکن کی حیثیت رکھتی ہے- جنت کا امکان اپنے آپ میں جنت کے وجود کا ثبوت ہے-
واپس اوپر جائیں

امت ِ وسط

قرآن کی ایک آیت میں امت محمدی کی ذمہ داری کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ۭ (2:143) یعنی اور اس طرح ہم نے تم کو امت وسط بنادیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا-
قرآن کی اس آیت میں امت محمدی کی نیابتی حیثیت کو بتایا گیاہے- ختم نبوت کے بعد امت محمدی مقام نبوت پر ہے- اس کی حیثیت امت وسط، بیچ کی امت (middle ummah) کی ہے، یعنی قرآن وسنت کی صورت میں اس کو جو دین پیغمبر اسلام سے ملا ہے، اس کو وہ قیامت تک تمام انسانوں تک پہنچاتی رہے-
یہ در میانی رول امت محمدی کی لازمی ذمہ داری ہے- اسی رول کی ادائیگی پر امت محمدی کا امت محمدی ہونا متحقق ہوتاہے- اگر امت محمدی اپنا یہ رول ادا نہ کرے تو اس کا امت محمدی ہونا ہی مشتبہ ہوجائے گا- یہی دعوتی رول امت محمدی کا اصل منصبی فریضہ ہے- کوئی دوسرا کام، خواہ وہ کتنا ہی زیادہ کیاگیا ہو، وہ اس رول کا بدل نہیں بن سکتا-
اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس رول کے تقاضے کو پوری ذمہ داری کے ساتھ اداکیا جائے- مثلاً ہمیشہ مدعو کا خیر خواہ بنے رہنا، مدعو کے ساتھ حریفانہ کش مکش سے کامل طورپر پرہیز کرنا، قرآن وسنت کے پیغام کو اس طرح پیش کرنا جو لوگوں کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو، مدعو سے کسی حال میں اجر کا طالب نہ ہونا، مدعو کے ساتھ کسی بھی قسم کی مطالباتی مہم کو کامل طورپر ترک کردینا، اپنے اور مدعو کے درمیان ہر قیمت پر امن کا ماحول قائم رکھنا، وغیرہ- اسی دعوتی ذمہ داری کی ادائیگی پر امت محمدی کے مستقبل کا انحصار ہے- اسی پر دنیا میں بھی ان کے لیے کامیابی ہے اور اسی پر آخرت میں بھی ان کے لیے کامیابی ہے-
واپس اوپر جائیں

ربانی زندگی

قرآن کی سورہ آل عمران میں اہلِ ایمان کی زندگی کا نقشہ ان الفاظ میں بتایا گیا: کونوا ربانیین (3:79) یعنی تم ربانی زندگی اختیار کرو(adopt Rab oriented life) -
انسان کی زندگی اس کے ذہن (mind) کے تحت ہوتی ہے- کوئی انسان جیسا سوچتا ہے، ویسا ہی وہ کرتاہے- اس اعتبار سے ہر عورت اور مرد کا ایک نقطہ نظر (way of thinking) ہوتا ہے- یہی نقطہ نظر اس کی زندگی میں مرکزی رول ادا کرتاہے- کونوا ربانیین کا مطلب یہ ہے کہ رب رخی (Rab oriented) زندگی اختیار کرو، تمھاری سوچ کا فوکس صرف ایک رب العالمین ہو-
آیت میں یہ نہیں کہاگیا ہے کہ دنیا میں ربانی نظام قائم کرو، بلکہ یہ کہاگیا ہے کہ اپنی ذات کے اعتبار سے ربانی زندگی اختیار کرو- یہ ایک انفرادی حکم ہے، جو ہر عورت اور مرد سے مطلوب ہے، اس کا سیاست اور حکومت سے کوئی تعلق نہیں-
ربانی زندگی آدمی کے ذہن سے شروع ہوتی ہے- آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ مطالعہ اور تدبر کے ذریعہ زندگی کی حقیقت کو دریافت کرے، وہ رب العالمین کی اعلی معرفت حاصل کرے، وہ اپنی زندگی کو خدائی معیار کے مطابق بامقصد زندگی بنائے، وہ اپنی پوری زندگی کو اللہ کے رنگ میں رنگ دے-
ربانی زندگی کی اساس ہمیشہ معرفت خداوندی پر قائم ہوتی ہے- ربانی زندگی میں کسی انسان کا واحد کنسرن (sole concern)یہ ہوتاہے کہ وہ اللہ کی مرضی کے مطابق سوچے، وہ اللہ کی مرضی کے مطابق بولے، اس کا پورا کردار اللہ کی مرضی میں ڈھلا ہوا ہو، یہ اصول اس کی زندگی کا رہنما اصول بن جائے کہ اس کو اپنے ہر قول اور اپنے ہر عمل کا جواب آخرت میں دینا ہے، جہاں اللہ کی عدالت قائم ہوگی- دنیا کے نقصان کے بجائے آخرت کا نفع نقصان اس کی توجہات کا مرکز بن جائے-
ربانی زندگی سے مراد کوئی ظاہری شکل وصورت کا نام نہیں- ربانی زندگی اسپرٹ پر مبنی زندگی کا نام ہے، نہ کہ کسی فارم یا وضع قطع پر مبنی زندگی کا نام-
واپس اوپر جائیں

ایک اجتماعی حکم

قرآن میں اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہوئے یہ حکم دیاگیا ہے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ (6:108) یعنی اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، ان کو سب وشتم نہ کرو، ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو سب وشتم کرنے لگیں گے-
قرآن کی اِس آیت میں ایک اہم اجتماعی اصول بتایا گیاہے-وہ یہ کہ اہلِ ایمان کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ دوسروں کے برے سلوک کی شکایت کریں، بلکہ انھیں یہ کرنا چاہئے کہ وہ شکایت کے اسباب کو اپنی طرف سے ختم کردیں- ایسے معاملات میں اہلِ ایمان احتساب غیر کے بجائے احتساب خویش کا طریقہ اختیار کریں، وہ دوسروں کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے اپنے حصے کی غلطی کو تلاش کریں، اور وہ اس کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائیں-
شکایت کوئی یک طرفہ رویہ نہیں- جب بھی کوئی شحص یا گروہ دوسرے کی شکایت کرتاہے تو ایسی ہر شکایت کے پیچھے ہمیشہ کوئی رد عمل کا واقعہ ہوتاہے- اس معاملہ میں قرآن نے یہ حکم دیا ہے کہ — تم اپنی طرف کے عمل (action) سے بچو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم فریقِ ثانی کے رد عمل (reaction) سے بچ جاؤگے-قرآن کی اس ہدایت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب بھی تم کو کسی سے شکایت ہو تو ایسا مت کرو کہ تم فوراً دوسرے کے خلاف شکایت کا ہنگامہ کھڑا کردو- اس کے بجائے تم کو یہ کرنا چاہئے کہ خود اپنے اندر ان اسباب کو تلاش کرو، جو براہِ راست یا بالواسطہ طورپر فریق ثانی کی اِس روش کا سبب بن رہےہیں-
اجتماعی زندگی میں اصلاح کا یہی واحد طریقہ ہے— اپنے حصہ کی غلطی کو درست کرو- دوسرا فریق اپنے آپ اپنے حصہ کی غلطی کی اصلاح کرلے گا- اجتماعی زندگی میں ہر قابل شکایت بات کسی اشتعال کی بنا پر پیدا ہوتی ہے- ضرورت ہے کہ اجتماعی زندگی میں نگرانی کا یہ ماحول موجود ہو کہ کوئی فرد اشتعال انگیزی کی کوئی کارروائی نہ کرنے پائے- یہی وہ طریقہ ہے جس کو اختیار کرنے سے کسی سماج میں امن کا ماحول قائم ہوتا ہے-
واپس اوپر جائیں

غیر سیاسی مشن

قرآن کی سورہ الغاشیہ میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے یہ ہدایت دی گئی ہے: فَذَکِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ ؀ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ ؀ اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَکَفَرَ ؀ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ ؀ اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَہُمْ ؀ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ ؀ (88:21-26) یعنی پس تم یاددہانی کرو، تم صرف یاددہانی کرنے والے ہو- تم ان پر داروغہ نہیں- مگر جس نے روگردانی کی اور انکار کیا- تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا- ہماری ہی طرف ان کی واپسی ہے- پھر ہمارے ذمہ ہے ان سے حساب لینا-
قرآن کی اس آیت کا خطاب صرف پیغمبر سے نہیں ہے، بلکہ اس کا خطاب ہرداعی سے ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت آخری حدتک ایک پرامن نصیحت کا نام ہے، نہ کہ حاکمانہ طورپر کسی نظریہ کو نافذ کرنے کا نام- اس حقیقت کو حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور کے ایک عامل کے نام ایک خط میں اس طرح لکھا تھا: ان اللہ إنما بعث محمدا صلى اللہ علیہ وسلم داعیا، ولم یبعثہ جابیا(البدایة والنہایة لابن کثیر، 9/188) یعنی اللہ نے بے شک اپنے پیغمبر کو داعی بنا کر بھیجا ہے، اس نے پیغمبر کو ٹیکس وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا-
پیغمبر کا مشن، پرامن دعوت کا مشن ہے- پیغمبر کے مشن کا تعلق نہ سیاست سے ہے اور نہ حکومت سے-پیغمبر کا مشن یہ ہے کہ پرامن طریقہ کار کے ذریعہ لوگوں کو بتایا جائے کہ موجودہ دنیا میں ان کو کس قسم کی زندگی گزارنی چاہئے، جو ان کی آخرت کی زندگی کو کامیاب کرنے والی ہو- جس کے نتیجہ میں وہ دنیا میں اللہ کی مدد کے مستحق قرار پائیں، اور آخرت میں ان کو جنت کے باغوں میں داخل کیا جائے- جہاں وہ ابدی طورپر حزن اور خوف سے پاک زندگی گزاریں- پیغمبر کا مشن قرآن کے الفاظ میں انذار اور تبشیر کا مشن ہے، یعنی اللہ کی پکڑ سے بچانا اور اللہ کے انعام کی خوش خبری دینا- پیغمبر کا مشن اصلاً دنیا میں کوئی سیاسی نظام قائم کرنے کا مشن نہیں ہے- پیغمبر کا مشن افراد کو ایڈریس کرنے کا مشن ہے- پیغمبر کا مشن یہ ہے کہ ہر فرد اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے مطابق بنائے، تاکہ وہ ابدی طور پر اللہ کی رحمتوں کا مستحق قرار پائے-
واپس اوپر جائیں

کامیاب تدبیر ِکار

کسی مقصد کے حصول کے لیے قرآن کا بتایا ہوا طریقہ کیا ہے، یہ بات قرآن کی سورہ النحل کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے: قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَاَتَى اللّٰہُ بُنْیَانَہُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَیْہِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِہِمْ وَاَتٰىہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ ( 16:26) یعنی ان سے پہلے والوں نے بھی تدبیر یں کیں- پھر اللہ ان کی عمارت پر بنیادوں سے آیا، پس چھت اوپر سے ان کے اوپر گر پڑی اور ان پر عذاب وہاں سے آگیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا-
Those who were before them did also plan, but Allah came upon their structure at the very foundations, so that the roof fell down upon them from above them; and the punishment came upon from where they knew not.
اس آیت میں تمثیل کے اسلوب میں بتایا گیا ہے کہ مقصد کے حصول کا موثر طریقہ کیا ہے- وہ یہ کہ عمارت کے ظاہری ڈھانچے کو نشانہ نہ بنایا جائے، بلکہ اس کی بنیاد پر عمل کیا جائے- اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 ء میں مکہ میں توحید کا مشن شروع کیا- اس وقت کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے ـتھے، مگر پیغمبر اسلام نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی پر کوئی احتجاج نہیں کیا، اور نہ بتوں کو توڑنے کی کوشش کی-
آپ نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف یہ کیا کہ پرامن طور پر نظریہ توحید کی اشاعت شروع کردی- دوسرے لفظوں میں یہ کہ عمارت کو مظاہر شرک سے پاک کرنے کے بجائے دلوں کو شرک سے پاک کرنا- جس کو قرآن میں تطہیر ثیاب ( 74:4) کہاگیا ہے- یہ تدبیر کامیاب ہوئی اور 20 سال سے بھی کم مدت میں پرامن طورپر کعبہ بتوں سے پاک ہوگیا— یہی اصول کسی معاملہ میں حقیقی کامیابی حاصل کرنے کا فطری طریقہ ہے-
واپس اوپر جائیں

توبہ کا طریقہ

انسان کی تخلیق اس طرح ہوئی ہے کہ وہ بار بار غلطی کرتاہے- خدائی شریعت میں اس کا حل تو بہ ہے، یعنی غلطی کرنے کے بعد پلٹنا اور دوبارہ اپنے کو اصلاح یافتہ بنانا- اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰۗىِٕکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًا ( 4:17) یعنی توبہ ، جس کو قبول کرنا اللہ کے ذمہ ہے، وہ ان لوگوں کی ہے جو بری حرکت نادانی سے کربیٹھتے ہیں- پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں- وہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول کرتاہے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے-
قرآن کی اِس آیت کے مطابق توبہ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ توبۂ قریب (repentance without delay) ہو- جو توبہ دیر میں کی جائے، وہ توبہ کا صحیح طریقہ نہیں- توبۂ قریب فطرت کے نظام کے مطابق ہے، جب کہ توبۂ بعید فطرت کے نظام کے مطابق نہیں-
خالق نے انسان کے اندر ایک صلاحیت رکھی ہے، اس کو ضمیر (conscience) کہاجاتا ہے- آدمی جب غلطی کرتاہے تو اس کے فوراً بعد اس کا ضمیر متحرک ہوجاتا ہے- آدمی کو شدید طورپر اپنی غلطی کا احساس ہونے لگتا ہے، مگر یہ احساس ہمیشہ یکساں طورپر باقی نہیں رہتا- شروع میں یہ احساس نہایت شدید ہوتا ہے، پھر دھیرے دھیرے وہ کمزور ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ اگر توبہ میں زیادہ دیر کی جائے تو ندامت کا احساس عملاً ختم ہوجائے گا- آدمی کے اندر اصلاح کا طاقتور محرک باقی نہ رہے گا- جاننے کے اعتبار سے وہ اپنی غلطی کو جانے گا، لیکن اس ضرورت کا احساس اس کے اندر باقی نہ رہے گا کہ وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرے-
پہلے اگر اس کا کیس زندہ ضمیر کا تھا تو بعد کو اس کا کیس مردہ ضمیر کا کیس بن جائے گا- آدمی کو چاہیے کہ وہ فطرت کے اس نظام کو سمجھے، وہ غلطی کے بعد فوراً کھلی توبہ کرے- اگر اس نے توبہ میں دیر کی تو توبہ کا احساس ہی اس کے اندر باقی نہ رہے گا-
واپس اوپر جائیں

عمل بقدر استطاعت

قرآن کی سورہ التغابن میںایک حکم ان الفاظ میں دیاگیا ہے:فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ ۭ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ( 64:16) یعنی پس تم اللہ سے ڈرو جہاں تک ہوسکے، اور سنو اور مانو اور خرچ کرو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اور جو شخص دل کی تنگی سے محفوظ رہا تو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں-
’’عمل بقدر استطاعت‘‘ کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے- زندگی کا یہی واحد فطری اصول ہے- انسان جب دنیا میں کوئی عمل کرنا چاہتا ہے تو یہ ہمیشہ ففٹی ففٹی کا معاملہ ہوتاہے- انسان اتنا ہی کرسکتاہے، جتنا خارجی حالات اس سے موافقت کریں- خارجی حالات کی موافقت کے بغیر کوئی شخص کوئی کام نہیں کرسکتا-
اپنی ذات کے لیے آدمی صد فی صد کی اصطلاح (term) میں سوچ سکتا ہے، لیکن جب معاملہ سماج کا ہو تو عملاً یہ ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی صد فی صد کو اپنا نشانہ بنائے- اس لیے اس دنیا کے لیے فطری اصول یہ ہے کہ— اپنی ذات کے معاملے میں معیار پسند بنئے اور سماج کے معاملے میں عملی امکان کے مطابق منصوبہ بنائیے:
Idealism at individual level, Pragmatism at social level.
اپنی ذات کے معاملے میں آدمی کو خود سوچنا ہے، اور خود ہی اس کو اپنی زندگی میںاختیار کرنا ہے- اس لیے انفرادی معاملے میں معیار پسندی ممکن ہوتی ہے، مگر جب معاملہ سماجی یا اجتماعی ہو تو کسی کے لیے اتنا ہی کام کرنا ممکن ہوتاہے، جتنا دوسرے لوگ اس سے موافقت کریں- اس لیے ضروری ہے کہ جب معاملہ سماج کا ہو تو آدی پریگمیٹک (pragmatic) بن جائے- اس کے خلاف کرنے کا نتیجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتاہے— مقصد تو حاصل نہ ہو، البتہ لوگوں کے اندر ایسا ٹکراؤ شروع ہوجائے جو کبھی ختم نہ ہوسکے-
واپس اوپر جائیں

سیئہ کا حسنہ بن جانا

قرآن کی سورہ الفرقان میں اہلِ ایمان کے ساتھ پیش آنے والے ایک معاملے کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَـیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (25:70) یعنی، مگر جو شخص توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا- اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے-
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ فرمانِ خداوندی کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ قانونِ خداوندی کی بات ہے- یعنی انسان جب ایمان اور عمل صالح اور توبہ کی زندگی اختیار کرتا ہے، اور اس دوران اس سے کسی سیئہ (evil deed)کا صدور ہوتا ہے تو قانون فطرت کے مطابق اس کے اوپر ایسی کیفیات گزرتی ہیں جس کے نتیجے میں اس کا سیئہ (evil deed) اس کے لیے حسنہ (good deed) کی صورت اختیار کرلیتاہے-
اس آیت میں اس انسان کا ذکر ہے جس کو معرفت کے درجہ میں ایمان حاصل ہوا- اس کا یہ ایمان اتنا طاقت ور تھا کہ اس کی زندگی میں ایک عملی انقلاب آگیا- ایسے آدمی سے اگر کبھی انسانی کمزوری کی بنا پر کسی برائی کا صدور ہوگا تو یہ اس کے لیے کوئی سادہ بات نہ ہوگی- بہت جلد ایسا ہوگا کہ اس کے اندر شدید ندامت (repentance) کا جذبہ پیداہوگا- وہ یہ سوچ کر تڑپ اٹھے گا کہ مجھ سے اپنے رب کے معاملے میں تفریط کا معاملہ ہوگیا ( 39:56)-
ایسا آدمی برائی کے صدور کے بعد تڑپے گا، وہ روئے گا، وہ دعائیں کرے گا، برائی کا احساس اس کی شخصیت میں ایک زلزلہ پیدا کردے گا- اس کی رات اور اس کے دن توبہ کی کیفیات میں گزرنے لگیں گے- اِن چیزوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرے گی، اس کے اندر ایک عزم بیدار ہوگا، اس کے تعلق باللہ میں ایک نیا دور آجائے گا- یہی وہ واقعہ ہے جس کو مذکورہ آیت میں تبدیل سیئہ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے-
واپس اوپر جائیں

امن کلچر

قرآن کا مطلوب کلچر، امن کلچر ہے- یہ بات قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتی ہے: الصُّلْحُ خَیْر (4:128) یعنی صلح بہتر ہے- اس آیت میں صلح کا لفظ باعتبار نتیجہ ہے- صلح (reconciliation) ایک تدبیر ہے- اس کا نتیجہ ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ فریقین کے درمیان امن کی حالت قائم ہوجاتی ہے، اورامن کے لازمی نتیجہ کے طورپر مواقع (opportunities)کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں-
اجتماعی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت، مواقع کی ہوتی ہے- تمام مقاصد، خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی، ہمیشہ موجودمواقع کو استعمال (avail) کرکے حاصل ہوتے ہیں- فقہ کا ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ مالا یتم الواجب إلا بہ فہو واجب (موسوعة الفقہیة، کویت: 1/73) یعنی جس چیز کے بغیر واجب کی ادائیگی نہ ہو سکے، وہ بھی واجب ہے-
انسان ہمیشہ کسی مجتمع (society) کے اندر رہتا ہے- کوئی شخص کسی شرعی مقصد کی تکمیل صرف اس وقت کرسکتا ہے، جب کہ سماج کے اندر امن کا ماحول ہو- امن کے بغیر کسی مقصد کی تکمیل عملاً ممکن نہیں- شرعی مقصد کی حیثیت اگر فرض کی ہے تو امن کی حیثیت وسیلہ کی- مذکورہ اصول کے مطابق اہلِ ایمان کے اوپر فرض ہے کہ وہ ہمیشہ سماج کے اندر امن کا ماحول قائم رکھیں- مگر امن کا مسئلہ نفاذ (implementation) کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ وہ اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان آخری حد تک امن مخالف سرگرمی سے اپنے آپ کو بچائیں-
یہ ایک عظیم حکمت (wisdom)کی بات ہے- اس حکمت کو ملحوظ رکھنے پر ہی تمام کامیابیوں کا انحصار ہے- جس طرح ایک شرعی فریضہ اہلِ ایمان کی ذاتی ذمہ داری ہوتی ہے اسی طرح یکساں طورپر اہلِ ایمان کی یہ بھی ذاتی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قیمت پر امن کا ماحول برقرار رکھیں (establishing peace at any cost) - اس معاملے میں وہ کسی بھی عذر کو عذر نہ بنائیں-
واپس اوپر جائیں

تشدد کا خاتمہ

قدیم عرب میں قرآن کے ذریعہ جس طرح تشدد کا خاتمہ ہوا، اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا ۚ وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ۭ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ ( 3:103) یعنی اور اللہ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے- پھر اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی- پس تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے- اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا- اس طرح اللہ تمھارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ پاؤ-
قرآن عرب میں ساتویں صدی کے نصف اول میںاترا- اس وقت عرب میں مختلف قبائل آباد تھے- ان کے درمیان مستقل طورپر قبائلی جنگ (tribal war) جاری رہتی تھی- لڑائی کی نفسیات یہ ہے کہ جو فریق ہارتا ہے، وہ اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا- بلکہ اس کے اندر انتقام (revenge) کا جذبہ ابھر آتا ہے- اس طرح ہر شکست کے بعد انتقامی لڑائی جاری رہتی ہے- اس انتقامی کلچر کی بنا پر عرب میں مسلسل جنگ (chain war) کا ماحول قائم ہوگیا تھا-
اسی مسلسل جنگ کو قرآن میں آگ کا گڑھا کہاگیا ہے- اس آگ کے گڑھے سے نکلنے کا طریقہ قرآن میں یہ بتایا گیا کہ اہلِ ایمان یک طرفہ طور پر جنگ کا خاتمہ کردیں- اس کے بعد فریق ثانی اپنے آپ جنگ سے رک جائے گا، اور عملاً جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا- چنانچہ اس وقت کے اہلِ ایمان نے یہی کیا- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے بعد عرب میں مسلسل جنگ کا خاتمہ ہوگیا-
جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کا یہی واحد کامیاب فارمولا ہے- کسی سماج میں جنگ کا ماحول دو طرفہ بنیاد (bilateral basis) پر کبھی ختم نہیں ہوتا- جنگ کا خاتمہ صرف یک طرفہ بنیاد (unilateral basis)پر ہوتا ہے، نہ کہ دوطرفہ بنیاد پر-
واپس اوپر جائیں

زوالِ امت، اصلاحِ امت

روایت میں آیا ہے کہ مکی دور میں اہل مکہ اور یہود کے درمیان ایک مکالمہ ہوا- اس کے بعد سورہ التوبہ کی آیت نمبر 19 نازل ہوئی- وہ مکالمہ یہ تھا : قیل إن المشرکین قالوا للیہود، نحن سقاةالحجاج وعمار المسجد الحرام- فنحن أفضل أم محمد وأصحابہ؟ فقالت الیہود لہم أنتم أفضل (التفسیر الکبیر، الرازی) یعنی کہا جاتا ہے کہ مکہ کے مشرکین نے یہود مدینہ سے کہا کہ ہم حاجیوں کو پانی پلانے والے اور مسجد حرام کا انتظام کرنے والے ہیں- پس ہم زیادہ افضل ہیں یا محمد اور ان کے اصحاب- یہود نے ان سے کہا کہ تم لوگ افضل ہو-
اس واقعہ کے بعد قرآن کی یہ آیت اتری: اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ ِ ۭ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ ۭوَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (9:19) یعنی کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد حرام کے انتظام کرنے کو برابر کردیااس شخص کے جو اللہ اور آخرت پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا-اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے- اور اللہ ظالم لوگوں کو راہ نہیں دکھاتا-
قرآن کی اس آیت میں ایک واقعہ کے حوالے سے ایک اصولی بات بتائی گئی ہے- وہ یہ کہ کسی امت کا زوال یافتہ ہونا کیا ہے، اور یہ کہ جب کوئی امت دینی اعتبار سے اپنے زوال کے دور میں پہنچ جائے تو اس وقت اس کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے مصلح کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے- اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دور زوال میں دین کا جو بگڑا ہوا فارم ان کے یہاں پایا جاتا ہے، اسی کو وہ اصل دین سمجھ لیتے ہیں-قدیم مکہ کے مشرکین، معروف قومی معنوں میں مشرکین نہ تھے، بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ملت ابراہیم کا زوال یافتہ حصہ تھے- اپنے طریقہ میں کنڈیشننگ کی وجہ سے وہ سمجھتے تھے کہ جو بگڑا ہوا دین ان کے یہاں ہے، وہی عین دین ابراہیم ہے- اسی یقین کی بنا پر انھوں نے یہود مدینہ سے مذکورہ سوال کیا، اور یہود چوںکہ خود بھی اپنے زوال کی بنا پر دین موسی کی ایک بگڑی ہوئی صورت پر قائم تھے، اس معاملہ میں ان کی نفسیات بھی وہی تھی، جو مکہ والوں کی نفسیات تھی- اس لئے انھوں نے کہہ دیا کہ تمھارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعتبار سے دین ابراہیمی کے مجدد تھے- آپ مکہ کے لوگوں کے درمیان دوبارہ اصل دین ابراہیمی کو زندہ کرنا چاہتے تھے- آیت کے الفاظ کمن آمن باللہ والیوم الآخر دراصل پیغمبر کے طریق اصلاح کو بتارہے ہیں،اور وہ یہ کہ آپ کا طریقہ ایمان کو زندہ کرنا تھا-
اس معاملہ کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ قدیم اہل مکہ اپنے دینی زوال کی بنا پر ایک بے روح مذہب (spiritless religion) پر قائم تھے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان جو کام کیا، وہ گویا با روح مذہب (spiritful religion) کو ان کے درمیان زندہ کرنا تھا-ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت سے مراد یہی اسپرٹ والا مذہب ہے-
قرآن کی یہ آیت ایک تاریخی حوالے کے ذریعہ یہ بتارہی ہے کہ امت مسلمہ جب اپنے دورِ زوال میں پہنچے گی تو اس کا کیا حال ہوگا، اور اس کے درمیان دوبارہ احیا (revival) کا کام کس طرح کرنا چاہئے- اس آیت میں زوال یافتہ امت کی تصویر بھی ہے، اور یہ بات بھی کہ دورِ زوال کے بعد دورِ عروج میں لانے کے لیے مصلح کو کیا کرنا چاہئے-
دورِ زوال میں ایسا نہیں ہوتا کہ امت اپنے دین سے بے تعلق ہوجائے، اپنے خیال کے مطابق وہ پوری طرح دین پر قائم ہوتی ہے، لیکن یہ دین محض ایک بے روح اعمال (spiritless form) کا ایک دین ہوتا ہے- ایسا دین اللہ کو مطلوب نہیں- اللہ کو وہ دین مطلوب ہے جو ایک زندہ دین ہو، اور پوری طرح ربانی اسپرٹ پر قائم ہو-
زوال کے دور میں مصلحین کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ اسپرٹ سے خالی دین کو دوبارہ اسپرٹ سے بھرا ہوا دین بنائیں، وہ بے روح ڈھانچہ (spiritless form) کو دوبارہ باروح ڈھانچہ (spiritful form) بنادیں-
واپس اوپر جائیں

مبنی برشوریٰ نظام

قرآن کی سورہ الشوریٰ کی ایک آیت یہ ہے: وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۠ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَیْنَہُمْ ۠ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ (42:38) یعنی اور وہ جنھوں نے اپنے رب کی دعوت کوقبول کیا اور نماز قائم کی اور ان کا نظام شوری پر ہے، اور ہم نے جو کچھ انھیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں-قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق فرد (individual) اور اجتماع (society) کے لیے خدا کا پسندیدہ طریقہ کیا ہے- وہ یہ کہ انفرادی عقیدہ کے معاملے میں آئیڈیل مطلوب ہے اور سماجی نظام کے معاملہ میں پریکٹکل (practical)- ہر فرد سے یہ مطلوب ہے کہ وہ مطالعہ اور تحقیق کے ذریعہ سچائی کو دریافت کرے، اور جب اس کو سچائی کی دریافت ہوجائے تو وہ اپنی ذات کے اعتبار سے پوری طرح اس کو اختیار کرلے- اس معاملہ میں کسی فرد سے عذر (excuse) قبول نہیں کیا جائے گا-اجتماع (society) کا معاملہ اس سے مختلف ہے- اجتماع بہت سے افراد کے مجموعے کا نام ہے- ہر فرد آزادانہ طورپر سوچتا ہے، ہر فرد آزادانہ طورپر رائے قائم کرتاہے- اس بنا پر اجتماعی معاملے میں کامل اتفاق رائے کبھی ممکن نہیں ہوتا- اس کا عملی حل صرف یہ ہے کہ اجتماعی معاملہ کو مشورہ (consultation)پر مبنی قرار دیا جائے- دوسرے الفاظ میں یہ کہ اجتماعی معاملہ میں فیصلہ کثرت رائے کی بنا پر ہوگا، نہ کہ کامل اتفاق رائے کی بنا پر-موجودہ زمانہ میں اسی اجتماعی اصول کو جمہوریت (democracy) کہاجاتاہے- ڈیموکریسی دراصل اکثریت کی حکومت (majority rule)کا نام ہے- جمہوریت کے تحت اکثریت کی رائے  بذریعہ الیکشن معلوم کی جاتی ہے- جمہوری نظام یہ ہے کہ الیکشن کی بنیاد پر اکثریت کے نمائندہ کو محدود مدت کے لیے حکومت (انتظامیہ) کا کام چلانے کا موقع دیا جاتاہے- محدود مدت (ٹرم) کے خاتمہ پر دوبارہ الیکشن ہو، اور اسی طرح بار بار الیکشن کے ذریعہ فیصلہ کیا جاتا رہے- یہی اس معاملہ میں اسلام کا طریقہ ہے-
واپس اوپر جائیں