Pages

Wednesday, 2 March 2016

Al Risala | March 2016 (الرسالہ،مارچ)

4

-صحیح نقطۂ آغاز

5

- انٹلکچول ایمپاورمینٹ

6

- جذبۂ تعلم

7

- علم کی دوقسمیں

8

- صحیح طرزِ فکر

12

- بلندفکری

13

- پختگی کیا ہے

14

- کامل انسان

15

- مثبت فکر

16

- مثبت سوچ، منفی سوچ

18

- غصہ کا مثبت پہلو

19

- شخصیت کاارتقا

20

- شخصیت کی تعمیر

24

- جانچنے کا معیار

25

- علمی طرزِ استدلال

26

- منطقی طرزِ استدلال

27

- غلط جنرلائزیشن

28

- اختلاف کا مسئلہ

30

- اختلاف کے باوجود

31

- اختلاف ایک برکت

32

- اختلافِ رائے

33

- فکری تعدّد، فکری حریت

34

- ذہنی سانچہ

35

- تنقید کی دوقسمیں

36

- ہلاکت کیا ہے

37

- ذہنی کہر کا مسئلہ

38

- تخلیقی صلاحیت

39

- تخلیقی حل

40

- سکینہ کیا ہے

41

- حاضر دماغی

42

- شکایت بے جا

43

- دوآپشن کے درمیان

44

- تیسرا انتخاب

45

- ذہین انسان کا مسئلہ

46

- مسئلہ کا حل

47

- حقیقت پسندی، معیار پسندی

48

- اپنے آپ کو بچائیے


صحیح نقطۂ آغاز

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے پہلے جب مکہ میں تھے تو وہاں کے سرداروں نے آپ کو حکومت کی پیش کش کی۔انھوں نے کہا:إنْ کنتَ ترید بہِ مُلکاً ملّکناک علینا (اگر تم حکومت چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنے اوپر حاکم بنانے کے لیے تیار ہیں)۔ آپ نے فرمایا: ما أطلب الملک علیکم (میں تمھارے اوپر حکومت نہیں چاہتا)۔البدایة والنہایة، 3/81۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس جواب سے اسلامی تحریک کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اسلامی تحریک کا نقطۂ آغاز (starting point) حکومت یا سیاسی اقتدار نہیں ہے، بلکہ اسلامی تحریک کا اصل نقطۂ آغاز فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا ہے، ایک ایک فرد کے ذہن کی تشکیل نو (re-engineering of the mind) کرنا ہے۔
اسلامی تحریک کا فارمولا دو نکات (points)پر مشتمل ہے— فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا، اور پولٹکل سسٹم کے معاملے میں حالتِ موجودہ کو تسلیم کر لینا:
Change in personality, statusquoism in political system
اسلامی تحریک کی یہی فطری ترتیب ہے۔ اگر اِس ترتیب کو بدل دیا جائے، یعنی اگر پولٹکل سسٹم کو بدلنے سے تحریک کا آغاز کیا جائے تو سوسال کی جدوجہد کے بعد بھی کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ فرد کی تبدیلی سے آغاز کرکے نظام کی تبدیلی تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے۔ لیکن اگر نظام کی تبدیلی سے آغاز کیا جائے تو ایسی تحریک کسی انجام تک پہنچنے والی نہیں۔ ایسی تحریک صرف تباہی میںاضافہ کرے گی، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
فرد کے اندر ذہنی تبدیلی سے تحریک کاآغاز کرنے کی صورت میں فی الفور تحریک کو مثبت آغاز مل جاتا ہے۔ لیکن سسٹم سے آغاز کرنے کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ آخر کار تحریک ایک بند گلی میں پہنچ کر رک جاتی ہے۔ اس کے پیچھے بھی اندھیرا ہوتا ہے اور اس کے آگے بھی اندھیرا۔
واپس اوپر جائیں

انٹلکچول ایمپاورمینٹ

آج کل ایک لفظ بہت استعمال ہوتا ہے، وہ ایمپاور مینٹ(empowerment) کا لفظ ہے۔ایمپاورمینٹ کا مطلب وہی ہے جس کو عربی زبان میں تمکین کہتے ہیں، یعنی طاقت ور بنانا۔ این جی او (NGOs) سے وابستہ لوگ اکثر اِس لفظ کو استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً:
Women empowerment, rural empowerment, Muslim empowerment, etc.
اِس قسم کے ایمپاورمینٹ کی جزئی افادیت ہوسکتی ہے، لیکن زیادہ اہم ایمپاورمینٹ، انٹلکچول ایمپاورمینٹ (intellectual empowerment) ہے۔ یعنی لوگوں کو فکری طاقت دینا، اُن کے اندر معاملہ فہمی کی صلاحیت پیدا کرنا، ان کے اندر آرٹ آف تھنکنگ (art of thinking) پیدا کرنا، ان کو اِس قابل بنانا کہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو سمجھیں، وہ درست منصوبہ بندی کے ساتھ اپنا کام کریں۔ لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا، فارمل ایجوکیشن کے معنوںمیں بھی، اور انفارمل ایجوکیشن کے معنوں میں بھی۔
لوگوں کے اندر سب سے زیادہ کمی یہی ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ صحیح طرزِ فکر کیا ہے اور غلط طرزِ فکر کیا۔ اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ عام طورپر لوگ شکایت کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ وہ اپنی غلط سوچ اور اپنے غلط عمل کی قیمت ادا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کی سازش اور ظلم کی بنا پر ایسا ہورہا ہے۔
اِسی بنا پر لوگوں کا یہ حال ہے کہ جہاں چپ رہنا چاہیے، وہاں وہ بولتے ہیں۔ جہاں اقدام نہ کرنا چاہیے، وہاں وہ چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ جہاں ایڈجسٹ کرنا چاہیے، وہاں وہ لڑنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جن لوگوں سے دوستانہ تعلق قائم کرنا چاہئے، اُن کو وہ اپنا دشمن سمجھ کر اُن سے دور ہوجاتے ہیں۔ وہ خود ساختہ طورپر دوسروں کو اپنا ’’غیر‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ اِس دنیا میں ہرشخص اپنا ہے، کوئی بھی کسی کے لیے غیر نہیں۔ اِسی بنا پر لوگ صبر وتحمل کی اہمیت کو نہیں سمجھتے، حالاں کہ اِس دنیا میں کامیابی کا سب سے زیادہ کار گر فارمولا وہی ہے جس کو صبر وتحمل کہا جاتاہے۔
واپس اوپر جائیں

جذبۂ تعلم

علم کى اہمىت کے بارے مىں اىک حدىثِ رسول اِن الفاظ مىں آئى ہے:من جاءہ الموت وہو یطلب العلم لیحیی بہ الإسلام فبینہ وبین النبیین درجة واحدة فى الجنة (سنن الدارمى، حدیث نمبر354 :) ىعنى جس شخص پر اِس حال مىں موت آئے کہ وہ علم اِس لىے سىکھ رہا ہو، تاکہ وہ اُس کے ذرىعے اسلام کا احىا کرے، تو جنت مىں اُس کے اور پىغمبروں کے درمىان صرف اىک درجے کا فرق ہوگا۔
اِس حدىث کا مطلب بوقتِ مرگ علم سىکھنا نہىں ہے، بلکہ تادمِ مرگ علم کى طلب مىں مشغول رہنا ہے۔ علم کے معاملے مىں اصل تفرىق علم دىن اور علم دنىا کى نہىں، بلکہ ىہ فرق نىت کے اعتبار سے ہے۔ دنىا کا علم بھى عىن علمِ دىن بن سکتا ہے۔
حقىقت ىہ ہے کہ اىک شخص نے اگر دىن کو اپنا مقصدِ حىات بنا لىا ہو، اُس نے پىغمبرانہ مشن کو اپنى زندگى کا نشانہ بنا رکھا ہو تو اس کا ہر علم پىغمبرانہ مشن کے لىے استعمال ہونے لگے گا۔ ہر علم اُس کے ىقىن مىں اضافہ کرے گا اور ہر علم اس کے لىے اس کے مشن کى تقوىت کا ذرىعہ بن جائے گا۔
علم کى طلب کوئى وقتى چىز نہىں ۔ اىک سچا مومن اپنى پورى عمر کے لىے علم کا طالب بن جاتا ہے۔ اگر آدمى کے اندر صحىح معنوں مىں علم کا ذوق ہو تو وہ اپنے ہر تجربے مىں علم کا رزق پاتا رہے گا۔ وہ کسى کتاب کا مطالعہ کرے گا تو اس کا ذوق کتاب کے ہر مضمون کو اس کے لىے حصولِ علم کا ذرىعہ بنا دے گا۔ وہ کسى سے گفتگو کرے گا تو وہ اپنے جذبۂ تعلُّم (spirit of learning) کى بنا پر اُس سے نئى نئى باتىں اخذ کرلے گا۔ وہ کسى چىز کا مشاہدہ کرے گا تو ہر مشاہدے مىں وہ اپنے لىے عبرت کا سامان پالے گا، حتى کہ اگر اس کے اندر علمى ذوق بھر پور طور پر زندہ ہو تو وہ اپنے مثبت ذہن کى بنا پر بے علموں سے بھى علم حاصل کرے گا اور بے ادبوں سے بھى وہ ادب کا کوئى پہلو سىکھ لے گا۔ حصولِ علم کے معاملے مىں اصل اہمىت ذوق کى ہے، نہ کہ محض واقفىت کى۔
واپس اوپر جائیں

علم کی دوقسمیں

علم کی دو قسمیں ہیں — ایک وہ علم جس کا تعلق انسانی فکر اور انسانی زندگی سے ہوتا ہے۔ ایسے علم کو اصطلاح میں علمِ انسانی (humanities) کہا جاتا ہے۔ دوسرا علم وہ ہے جس کا تعلق مادی شعبہ سے ہے۔ ایسے علوم کو سائنسی علوم کہاجاتا ہے۔ دونوں قسم کے علم کے مطالعے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ ایک علم کے طریقے کو دوسرے علم کے معاملے میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
مثلاً سائنسی علوم کی بنیاد ریاضیات (mathematics) پر ہے۔ ایسے علوم میں قطعی استدلال یا ناقابلِ انکار استدلال ممکن ہوتا ہے۔ ان کو دو اور دوچار کی طرح ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اِس لیے سائنسی علوم میں اختلاف نہیں پایا جاتا۔
سائنسی علوم میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ کسی موضوع پر مختلف اہلِ علم کا اتفاقِ رائے حاصل کرلیا جائے۔ مگر علمِ انسانی (humanities) میں اِس قسم کا ریاضیاتی استدلال ممکن نہیں۔ اِس لیے علمِ انسانی کے معاملے میں لازمی اتفاقِ رائے بھی ممکن نہیں۔
دونوں قسم کے علوم میں اِس فرق سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ جو شخص علمِ انسانی یا مذہب کے معاملے میں یقین کا درجہ حاصل کرنا چاہے، اُس کو یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ یہاں سائنسی علوم کی مانند ریاضیاتی استدلال ممکن ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی علوم کا معاملہ ففٹی ففٹی کے اصول پر مبنی ہے۔ پچاس فی صد استدلال (reasoning) اور پچاس فی صد وجدان (intuition)۔
پہلے جزء کا تعلق معلومات (information) سے ہے، اور دوسرا جزء معرفت یا حقیقت شناسی (realization of the truth) سے تعلق رکھتا ہے۔ جو آدمی صرف معلومات کو جانتا ہو، مگر اس کے اندر حقیقت شناسی کی صلاحیت موجود نہ ہو، وہ ہمیشہ ذہنی انتشار (confusion) میں مبتلا رہے گا، وہ کبھی سچائی تک پہنچ نہ سکے گا۔
واپس اوپر جائیں

صحیح طرزِ فکر

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے گفتگو کے دوران کنفیوژن کا ذکر کیا۔ میں نے کہا کہ یہ ایک بے حد اہم مسئلہ ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ 99 فیصد سے زیادہ لوگ کنفیوزڈ تھنکِنگ (confused thinking) میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اس نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں جس کو رائٹ تھنکنگ (right thinking) کہا جاتا ہے۔ رائٹ تھنکنگ دراصل سدادِ فکر (sound thinking) کا دوسرا نام ہے۔ انسان کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ آرٹ آف تھنکنگ میں مہارت حاصل کرے۔ اس کے بغیر اس کی پوری زندگی بے معنی ہو کر رہ جائے گی، فکری اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی۔
کنفیوژن کا یہ مسئلہ صرف انسان کا مسئلہ ہے۔حیوانی دنیا (animal world) اس مسئلے سے آشنا نہیں۔ کوئی بھی حیوان اپنی زندگی کا کورس متعین کرنے کے لیے کبھی کنفیوژن کا شکار نہیں ہوتا۔ چیونٹی سے لے کر شیر تک اورمچھلی سے لے کر چڑیا تک ہر حیوان کارویہ ہمیشہ درست رویہ ہوتا ہے۔ ہر حیوان قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا مالک ہے۔ حیوانات کے اس قابلِ رشک پہلو کو ٹی وی پر اینمل ورلڈ (Animal World) کے پروگرام میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حیوانات معیاری حد تک ٹھیک وہی کرتے ہیں جو کہ ازروئے واقعہ انھیں کرنا چاہیے۔
اس کے مقابلے میںانسان کو دیکھئے تو یہاں بالکل مختلف منظر دکھائی دے گا۔ انسان فکری بے راہ روی کا نمونہ نظر آتا ہے۔ اس فرق کا سبب کیا ہے۔ اس فرق کا بنیادی سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ تنظیمِ فکر(thought management) ہے۔ حیوانات میں تنظیم فکر کامل طورپر موجود ہے۔ جب کہ انسان میں تنظیم فکر کا فقدان ہے۔
یہاں دوبارہ یہ سوال پیداہوتا ہے کہ حیوان اور انسان میں یہ فرق کیوں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حیوان اپنی جبلت (instinct) سے کنٹرول ہوتا ہے، اس کی جبلت اس کے اندر تنظیم فکر کی یقینی ضمانت ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میںانسان ایک آزاد مخلوق ہے۔ انسان آزادانہ طورپر سوچتا ہے اور خود اپنی آزادی (free will) کے تحت رائے قائم کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کو اپنی فکری تنظیم خودہی انجام دینا ہے۔ اس کو خود اپنے فیصلے کے تحت اپنے آپ کو فکری ڈسپلن کا پابند بنانا ہے۔
انسان کے اندر فکری تنظیم (thought management) کا عمل (process) کیوں درست طور پر جاری نہیں رہتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان معلومات کے جنگل کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کے اندر وہ فکری استعداد موجود ہو جس کے ذریعے وہ متعلق (relevant) اور غیر متعلق (irrelevant)کے فرق کو جانے۔ وہ غیر متعلق باتوں کو چھوڑتے ہوئے متعلق باتوں پر اپنی نظر جمائے رہے۔ یہی وہ واحد آرٹ ہے جو انسان کے لیے صحت فکر کا ضامن ہے۔
چند مثالوں سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ اکثر لوگ ڈارون ازم کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ زندگی کا ظہور جب ارتقا (evolution) کے ذریعے ہوا تو اب خدا کو ماننے کی کیا ضرورت۔ مگر یہ صرف مغالطہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ ارتقا کا نظریہ اولاً تو ابھی تک کوئی ثابت شدہ واقعہ نہیں۔اور اگر بالفرض وہ واقعہ ہو تب بھی وہ خالق کے عقیدے کی تردید نہیں۔ نظریۂ ارتقا زیادہ سے زیادہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ خالق کا طریقہ خصوصی تخلیق(special creation) نہیں، بلکہ ارتقائی تخلیق (evolutionary creation) ہے۔ نظریۂ ارتقا کا تعلق تخلیق کے پراسس (process of creation) سے ہے، نہ کہ خود خالق سے۔
اسی طرح کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ اسلام ابدی مذہب نہیںہوسکتا۔ کیوں کہ زندگی کے حالات بدلتے رہـتے ہیں اور بدلے ہوئے حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ لوگوں کو ازسرِ نو رہنمائی دی جائے۔ مگر یہ صرف فکری کنفیوژن کی بات ہے۔ کیوں کہ اسلام اپنے اصل کے اعتبار سے صرف اساسات (basics) کا مجموعہ ہے۔ اور اساسات میں کبھی تبدیلی نہیںہوتی۔ جن چیزوں میںتبدیلی ہوتی ہے وہ غیر اساسی چیزیں (non-basics) ہیں۔ اور غیر اساسی چیزوں میں تبدیلی کے اس مسئلے کے لیے اسلام میں اجتہادکا طریقہ رکھا گیا ہے جو یقینی طورپر اس مسئلے کا مکمل حل ہے۔
بہت سے لوگ مدر ٹریسا کو ماڈل سمجھتے ہیں۔ مگر یہ ادھوری سوچ کا نتیجہ ہے۔ مدر ٹریسا علامت ہے انسان کی جسمانی تکلیف کو دور کرنے کی۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ انسان کی جسمانی تکلیف دور کرنا ایک مفید کام ہونے کے باوجود وہ اصل کام نہیں۔ اس لیے کہ انسان ایک فکری حیوان (thinking animal) ہے۔ جسمانی اعتبارسے صحت مند ہوتے ہی وہ دوسری شدید تر فکری بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مثلاً تکبر، حسد، انتقام، اقتدار پسندی، خود غرضی، عصبیت، بے اعترافی اور سرکشی، وغیرہ۔
تجربہ بتا تا ہے کہ انسان اگر مسائل کے درمیان ہو تو اس کے اندر تواضع (modesty) پرورش پاتی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے نو پرابلم انسان بنا رہتا ہے۔ لوگوں کی جسمانی تکلیف کو دور کرنا صرف ایک جزئی کام ہے۔ زیادہ بڑا کام یہ ہے کہ انسان کے اندر صحیح طرزِ فکر (right thinking) کا مادہ پیدا کیا جائے، اس کو اس کے روحانی ارتقا (spiritual development) میں مدد دی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ مدر ٹریسا اپنے مشن کے ابتدائی مرحلے میں حالت اطمینان میں ـتھیں، مگر وہ اپنے مشن کے آخری مرحلے میں مایوس ہو کر مریں۔ کیوں کہ جب مدر ٹریسا کے ادارے کو کافی شہرت اوردولت مل گئی تو ان کے ’’تندرست‘‘ ساتھیوں نے ان کو ایسی پریشانی میں مبتلا کردیا جس کا تجربہ ان کو اپنے ’’مریض‘ ‘ ساتھیوں سے نہیں ہوا تھا۔
1947 سے پہلے کے دور میں اقبال اور جناح جیسے لوگوں نے یہ سوچا کہ ہندو- مسلم مشترک لینڈ کے مقابلے میں علیحدہ مسلم لینڈ مسلمانوں کے سارے مسائل کا حل ہے۔ مگر جب یہ علیحدہ مسلم لینڈ بن گیا تو معلوم ہوا کہ اس علیحدہ مسلم لینڈ میںاس سے بھی زیادہ مسائل ہیں جتنا کہ ہندو- مسلم مشترک لینڈ میں ہیں، یا ہوسکتے تھے۔ اس اندوہ ناک انجام کا سبب یہ ہے کہ اقبال اور جناح جیسے لوگ اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے کہ پاکیزہ معاشرے کا تعلق پاکیزہ انسان سے ہے۔ پاکیزہ معاشرہ اس طرح نہیں بن سکتا کہ کسی لینڈ کو سیاسی اعتبار سے الگ کرکے اس کا نام پاکیزہ لینڈ رکھ دیا جائے۔
اس معاملے میںانسان کی ایک سنگین غلطی یہ ہے کہ وہ ایک واقعہ کو دوسرے واقعہ سے جوڑ کر نہیں دیکھ پاتا۔ چناں چہ علاحدگی پسندی کی جو سیاست پاکستان کی صورت میں اندوہ ناک حد تک ناکام ہوچکی ہے، اب کشمیر کے مسلمان ٹھیک اسی سیاست کو دہرانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے انجام سے کوئی سبق نہیں لیا۔ حالاں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیر خواہ آزاد کشمیر بنے یا پاکستانی کشمیر، دونوں حالتوں میں اس کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ حالات کے اعتبار سے کشمیر کے لیے بہترین پالیسی یہ تھی کہ وہ تاریخ کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے ہندستان کے ساتھ مل کر رہے۔ ہندو- مسلم مشترک سماج کشمیر کی ترقی کے لیے زیادہ مفید ہے۔
سدادِ فکر کی لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی واقعات کو تقابلی انداز میں دیکھ سکے۔ یہی وہ حکمت ہے جس کو شیکسپئر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
It is in comparison that we understand.
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے میں یہاںایک مثال دوں گا۔ ایمرجنسی کے بعد 1970 میں انڈیا کا جنرل الیکشن ہوا۔ اس وقت جے پرکاش نرائن نے نان کانگریس ازم کی تحریک چلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس راج ملک کی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ انھوں نے نعرہ دیا کہ کانگریس کو ہٹاؤ، ملک میں ٹوٹل ریولیوشن لاؤ۔ ایمرجنسی کی وجہ سے عوام بہت برہم تھے۔ چناں چہ نان کانگریس ازم کا نعرہ کامیاب ہوا اور کانگریس، الیکشن میں بری طرح ہار گئی۔ اس کے بعد نئی دہلی میں جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ حکومتی تبدیلی جے پرکاش نرائن کے پروگرام کے عین مطابق تھی۔
مگر جہاں تک حقیقی سطح پر سماجی اور قومی حالات کا معاملہ ہے اس میں کچھ بھی تبدیلی نہیںآئی، بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوگیا۔ حتیٰ کہ خود جنتا پارٹی کی حکومت اپنا ٹرم پورا نہ کرسکی اور ڈھائی سال کے اندر ہی ختم ہوگئی۔
??™
حقیقت یہ ہے کہ ہر قسم کے بگاڑ کا تعلق سوچ سے ہے۔
اصلاح کا راز یہ ہے کہ انسانی سوچ میں تبدیلی لائی جائے۔
انسانی سوچ کو بدلے بغیر کوئی بھی اصلاح ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بلندفکری

موجودہ دنیا میں آدمی ہر وقت اپنے قریبی حالات میں گھرا رہتا ہے۔ ایسی صورت میں صحیح سوچ کا مالک صرف وہ شخص بنے گا جو اپنے اندر بلند فکری (high thinking) کی صفت پیدا کرے، وہ اپنے قریبی حالات سے اوپر اٹھ کر سوچے، وہ غیر متاثر ذہن کے تحت معاملات پر رائے قائم کرے۔ اِس طرزِ فکر کا فارمولا صرف ایک ہے— اپنی سطح سے اوپر اٹھ کر سوچنا:
To think beyond the limit
آدمی ہمیشہ کچھ لوگوں کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ لوگوں کی طرف سے اس کو بار بار ناخوش گوار قسم کے تجربات پیش آتے ہیں۔ اِن ناخوش گوار تجربات کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے اندر بطور ردّ عمل طرح طرح کے غیر حقیقی جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً غصہ، حسد، نفرت، انتقام، احساسِ برتری، یا احساسِ کم تری، وغیرہ۔ ہر آدمی اِسی قسم کے منفی احساسات کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ یہ احساسات جو ہمیشہ رد عمل کی نفسیات کے تحت پیدا ہوتے ہیں، وہ انسان کو غیر حقیقت پسندانہ سوچ میں مبتلا کردیتے ہیں۔وہ فطرت کے مقرر راستے سے ہٹ کر غیر فطری راستے پر چلنے لگتا ہے۔
اِس دنیا میں کامیابی کا طریقہ صرف یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے، وہ متاثر ذہن کے تحت کوئی فیصلہ نہ کرے۔ وہ اپنے اندر وہ چیز پیدا کرے جس کو غیر متعصبانہ ذہن، یا تخلیقی فکر (creative thinking) کہاجاتاہے۔ ایسا ہی انسان اِس دنیا میں درست انداز میں سوچے گا اور اپنے عمل کی درست منصوبہ بندی کرے گا اورآخر کار کامیابی کی منزل تک پہنچے گا۔
بلند فکری کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ بلند فکری میں جو چیز سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ ڈسٹریکشن (distraction) ہے، یعنی ذہن کا مختلف سمتوں میں منتشر ہوجانا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کوہر قسم کے ذہنی انتشار سے بچائے، تاکہ وہ اپنے اندر صحتِ فکر کو قائم رکھ سکے۔ یہ دراصل صحتِ فکر ہی ہے جو انسان کو حیوان سے ممیز کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

پختگی کیا ہے

انسانوں میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں— ناپختہ ذہن والے، اور پختہ ذہن والے۔ نا پختہ ذہن وہ ہے جو جذباتی طور پر سوچے، جو رومانی خیالات میں جیے، جو اپنی خواہشات کی پیروی کرے، نہ کہ حقائقِ حیات کی۔ اِس کے مقابلے میں پختہ ذہن والا انسان وہ ہے جو اپنے جذبات سے اوپر اٹھ کر حقیقتوں کو سمجھے، جو اپنے ذہنی خول سے باہر آکر چیزوں کو دیکھے اور حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی رائے قائم کرے۔ پختگی (maturity) اِس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی اُن چیزوں کے ساتھ نارمل طریقے سے رہ سکے جن کو وہ بدل نہیں سکتا:
Maturity is the ability to live with things you cannot change.
ہر آدمی اپنی سوچ اور اپنے جذبات کے لحاظ سے ایک مستقل ہستی ہے، وہ اپنے آپ میں ایک کائنات ہے۔ ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ وہ جیسے چاہتا ہے، ویسے دنیا میں رہے۔ وہ اپنے خوابوںکے مطابق ایک پسندیدہ دنیا کی تعمیر کرسکے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان کو ایک ایسی دنیا میں رہنا پڑتا ہے جس کو اس نے خود نہیں بنایا ہے۔ وہ ایک ایسے ماحول میں جینے پر مجبور ہے جس کی تشکیل اس نے خود نہیں کی۔ ایسی حالت میں کسی عورت یا مرد کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے— یا تووہ دنیا سے عدم موافقت کی پالیسی اختیار کرکے خود کشی کرلے، ذہنی خود کشی یا جسمانی خود کشی۔ اس کے لیے دوسرا انتخاب یہ ہے کہ وہ بظاہر غیر مطلوب دنیا کے ساتھ موافقت کرنے کا آرٹ سیکھے، وہ ناممکن سے نہ ٹکرائے اور صرف ممکن کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی گزارے۔
موجودہ دنیا میں ایڈجسٹ مینٹ کی پالیسی ہی واحد قابلِ عمل پالیسی ہے۔ ایڈجسٹ مینٹ کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی اپنی توانائی کو ضائع ہونے سے بچائے۔ وہ غیر ضروری ٹنشن (tension) سے محفوظ رہ کر اپنا مطلوب عمل انجام دے سکے۔ وہ درمیان میںرکے بغیر اپنے سفرکو جاری رکھے، یہاں تک کہ اپنی آخری منزل پر پہنچ جائے۔
واپس اوپر جائیں

کامل انسان

کامل انسان کون ہے۔ کامل انسان وہ ہے جس کے اندر انسانی صفات کامل درجہ میں پائی جاتی ہوں۔ جس کی شخصیت میں اوصافِ آدمیت اپنی کامل صورت میں اکھٹا ہوجائیں۔ جو ان خصوصیات کا عملی نمونہ بن جائے جو امکانی طورپر ہر فرد کے اندر اس کے خالق نے رکھ دی ہیں۔
ایسا انسان متوازن شخصیت کا حامل ہوتا ہے۔ وہ نفسیاتی پیچیدگی سے خالی ہوتا ہے۔ وہ نفس امّارہ (یوسف 53 :)پر نفس لوامہ (القیامة2 :)کو غالب کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ النفس المطمئنۃ (الفجر27 :)کا مصداق بن جاتا ہے۔یہ وہ انسان ہے جو دنیوی چیزوں سے گزر کر حقیقت اعلیٰ میں جینے لگے۔ جو ظاہری اہمیت کی چیزوں سے اوپر اٹھ کر معنوی اہمیت کی چیزوں میں گم ہوجائے، جو ارنا الأشیاء کما ھی کے درجہ میں پہنچ جائے اور چیزوں کو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے دیکھنے لگے، نہ کہ ان کی اس شکل میں جیسا کہ وہ بظاہر دکھائی دیتی ہیں۔
یہ آدمی وہ ہے جو ایک دلیل کے آگے اس طرح جھک جائے جس طرح کوئی شخص طاقت کے آگے جھکتا ہے۔جو بات کو خود بات کے اعتبار سے دیکھے، نہ کہ اس اعتبار سے کہ وہ اس کے موافق ہے یا اس کے خلاف۔ جو اعلیٰ ترین صلاحیت رکھنے کے باوجود آخری حد تک متواضع بن جائے۔ جس کا دل ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہو۔ جو اپنے اور غیر کا فرق کیے بغیر لوگوںسے معاملہ کرسکتا ہو۔ جو ذاتی مفاد اور شخصی محرکات سے آخری حد تک بلند ہو۔ جو اپنی ذات میں جینے کے بجائے برتر حقائق پر جیتاہو۔
ہر انسان کو خدا نے امکانی طورپر انسانِ کامل ہی بنایا ہے۔مگر اس امکانی کاملیت کو ایک واقعی شخصیت میں ظاہر کرنا، یہ ہر شخص کا اپنا کام ہے۔ ہر پیدا ہونے والے انسان کا کیس اسفل سافلین کا کیس بن جاتا ہے۔یہ اس کی اپنی ارادی کوشش ہے جو دوبارہ اس کو احسن تقویم کے درجے تک پہنچاتی ہے۔کامل انسان بننے کا راز کامل تقوی ہے۔ یہ دراصل اللہ کا خوف ہے جو کسی انسان کو کامل انسان بنا دیتا ہے۔ کامل انسان بننے کا کوئی اور طریقہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مثبت فکر

دور اول کے مسلمانوں نے جو بے نظیر کامیابی حاصل کی اس کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ ان میں کا ہر فرد مکمل معنوں میں مثبت سوچ (positive thinking) کا مالک تھا۔ وہ ،قرآن کے مطابق عسر میں یسر کا پہلو تلاش کر لیتا تھا۔ وہ بظاہر شکست کے واقعہ میں فتح کا راز دریافت کر لیتا تھا۔ اس کے لئے پوری دنیا اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ مثبت خوراک کا دستر خوان بن گئی تھی۔ مسلمانوں کا یہی مزاج تقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ انیسویں صدی میں جب مسلم سلطنتیں اہل مغرب کے ہاتھوں ٹوٹ گئیں تو اس کے بعد جو مسلم رہنما اٹھے وہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو چکے تھے۔انہوں نے دور جدید کی مسلم نسلوں کو احتجاجی ذہن میں مبتلا کر دیا۔ ساری دنیا کے مسلمان ، خواص اور عوام دونوں احساس محرومی (persecution complex) میں مبتلا ہوگئے۔ اس نازک تاریخی موقع پر مسلم رہنمائوں کی اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلاہو گئے جس کو انگریزی میں پیرا نوئیا(paranoia) کہاجاتاہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار کر لیںگے اور اگر وہ فلاح کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار نہ کریں گے (الاعراف146 :)
اس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ لوگ منفی پکار کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں، مگر مثبت پکار کی طرف وہ اس طرح نہیں دوڑتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ منفی کلام حال کی زبان میں ہوتا ہے اور مثبت کلام ہمیشہ مستقبل کی زبان میں ، اور تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ مستقبل کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور حال کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت زیادہ۔
اس دنیا میں ہر قسم کی ناکامی کا راز منفی طرز فکر ہے اور ہر قسم کی کامیابی کا راز مثبت طرز فکر۔ منفی طرز فکر ہر قسم کی دینی اور اخلاقی برائیوں کا سر چشمہ ہے اور مثبت طرز فکر اس کے مقابلے میں ہر قسم کے دینی اور دنیوی خیر کا سر چشمہ ۔
واپس اوپر جائیں

مثبت سوچ، منفی سوچ

قرآن کی سورہ الاحزاب میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو ایک ایسی چیز دی گئی ہے، جو سارے زمین وآسمان کو نہیں دی گئی، اور وہ امانت ہے، یہی امانت وہ چیز ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہے۔ امانت سے مراد دراصل وہی چیز ہے جس کو فری تھنکنگ (free-thinking) کہاجاتا ہے، یعنی آزادانہ طورپر سوچنا اور آزادانہ طورپر اپنے عمل کی پلاننگ کرنا۔ اس امانت کی صحیح ادائیگی انسان کو جنت کا مستحق بناتی ہے، اور اس امانت کی ادائیگی میں ناکام ہونا انسان کو جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے (33:72-73)۔
اس موقع پر قرآن میں دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، ظلوم اور جہول، یعنی غیر عادل اور نادان۔ انسان اپنی آزادی کو غلط استعمال کرنے کی بنا پر بہت جلد عدل (justice) سے ہٹ جاتا ہے، اور اسی طرح وہ آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر دانش مندی (wisdom) کے راستے سے ہٹ جاتاہے۔ یہی انحراف (deviation) اس کو جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کی اصلاح کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنی فطرت (nature) سے نہ ہٹے۔ اگر آدمی اپنے آپ پر کنٹرول کرے اور فطرت کے راستے سے نہ ہٹے تو فطرت خود ہی اس کی راہ نما بن جائے گی۔ فطرت سے ہٹنا آدمی کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے، اور فطرت پر قائم رہنا آدمی کو کامیاب بناتا ہے۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی آزمائش اس بات میں ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح انتخاب (right choice) کو لے، وہ اپنے آپ کو غلط انتخاب سے بچائے۔ صحیح انتخاب اور غلط انتخاب کا یہ معاملہ فکر سے بھی تعلق رکھتا ہے، اور عمل سے بھی۔
فکرکے اعتبار سے صحیح انتخاب وہ ہے جس کا نمونہ آغازِحیات کے وقت فرشتوں نے اختیار کیا، اور غلط انتخاب وہ ہے جس کو ابلیس نے اپنا شیوہ بنایا۔ فرشتوں سے جب کہاگیا کہ انسان کے آگے جھک جاؤ تو وہ جھک گئے۔ اس کے برعکس، ابلیس اس پر راضی نہ ہوا۔ اس نے یہ اعتراض کیا کہ انسان کو خلیفة الارض کیوں بنایا گیا۔ یہ اعتراض سلیکٹیو تھنکنگ(selective thinking) کی ایک مثال تھی۔ ابلیس جنوں کا سردار تھا۔ جن کو خدا نے اس سے زیادہ چیز دی تھی، یعنی خلافت کائنات۔ لیکن ابلیس نے اس پہلو کو نظر انداز کیا اور صرف یہ سوچا کہ انسان کو زمین کی خلافت کیوں دی گئی۔
یہی برائی پوری تاریخ میں رائج ہے۔ انسانوں کی ننانوے فیصد سے زیادہ تعدادمنفی سوچ میں پڑی ہوئی ہے، یعنی انتخابی سوچ (selective thinking)۔ ملے ہوئے کو نظر انداز کرنا، اور نہ ملے ہوئے کو مسئلہ بنا کر اس کو اپنی سوچ کا محور بنانا۔
اس معاملے میں مسلمانوں کا استثنا نہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان ساری دنیا میں ہر قسم کے بہترین مواقع پائے ہوئے ہیں، جس طرح دوسرےلوگ ان کو پائے ہوئے ہیں۔ لیکن فطرت کے قانون کے تحت ایسا ہے کہ کوئی چیز ایسی بھی ہے جو مسلمانوں کو نہیں ملی۔ مسلمان یہ کررہے ہیں کہ اسی نہ ملے ہوئے کو اپنی سوچ کا مرکز ومحور بنائے ہوئے ہیں اور ملے ہوئے کو نظر انداز کررکھا ہے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان ساری دنیا میں منفی سوچ کی دلدل میں پڑے ہوئے ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ شکر سے محروم ہیں جو کسی انسان کی سب سے بڑی عبادت ہے۔
مسلمانوں کی اس منفی سوچ کا سبب کیا ہے، وہ ہے 99 فی صد کو نظر انداز کرنا، اور ایک فی صد کو لے کر اپنی رائے بنانا۔ یہ نہایت برا طریقہ ہے۔ یہ اللہ کی سنت کے خلاف ہے۔ جو لوگ اس میں مبتلا ہوں، ان کو اس کی سب سے بڑی قیمت یہ دینی پڑے گی کہ ان کے اندر مثبت شخصیت نہ بنے — مثبت شخصیت سے محرومی کا مطلب ہے اللہ کی رحمت سے محرومی۔
واپس اوپر جائیں

غصہ کا مثبت پہلو

غصہ (anger) کو عام طور پر ایک بری چیز سمجھا جاتاہے۔ لیکن خالق نے کوئی بری چیز پیدا نہیں کی۔ اور غصہ بھی ایک تخلیق ہے۔ اس لئے وہ شرّ محض نہیں ہوسکتا۔غصہ انسانی فطرت کے اندر جاری ہونے والا ایک عمل ہے۔ غصہ اپنے آپ نہیں آتا۔ غصہ آنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی آدمی آپ کو مشتعل کردے۔ غصہ برین اسٹارمنگ (brainstorming) کا ذریعہ ہے۔
جب کسی آدمی کو غصہ آتا ہے تو اس کے دماغ میں غیر معمولی تعداد میں انرجی خارج (release) ہوتی ہے۔ یہ کسی انسان کے لئے ایک بے حد اہم وقت ہوتا ہے۔ اس وقت آدمی کے لئے دو امکانات ہوتے ہیں۔ وہ اپنی خارج شدہ انرجی کو منفی رخ میں ڈائیورٹ (divert) کرے۔ یا وہ اس کو مثبت رخ میں ڈائیورٹ کرے۔
آدمی اگر اپنی انرجی کو منفی رخ میں ڈائیورٹ کرے گا تو اس سے اس کے اندر ٹینشن، نفرت، انتقام حتی کہ تشدد کا مزاج پیداہوجائے گا۔یہ چیزیں بلا شبہہ انسان کی ہلاکت کا ذریعہ ہیں۔ اس کے برعکس اگر انسان اپنی انرجی کو مثبت رخ میں ڈائیورٹ کرے تو اس سے اُس کے اندر ذہنی ارتقا، فکری تخلیقیت، تعمیری مزاج اور مثبت سوچ پیدا ہوگی۔ اور یہ تمام چیزیں انسان کی شخصیت کی اعلی تعمیر کے لئے نہایت ضروری ہیں۔
غصہ کے وقت پیدا ہونے والی انرجی کو مثبت رخ میں ڈائیورٹ کرنے کے لیے کسی مزید کوشش کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل فطرت کے قانون کے تحت آدمی کے اندر اپنے آپ ظہور میں آتا ہے۔ شرط صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ آدمی غصہ کے وقت چپ ہوجائے۔
اگر آدمی اس وقت اِس ذہنی انضباط (intellectual discipline) کا ثبوت دے تو اس کی فطرت خود عمل کرے گی اور غصہ کے وقت خارج ہونے والی انرجی کو اپنے آپ مثبت رخ پر موڑ دے گی۔
واپس اوپر جائیں

شخصیت کاارتقا

قرآن کی ایک اصطلاح تزکیہ ہے۔ انسانی فلاح کا ذریعہ قرآن میں تزکیہ ( 91:9-10) کو بتایا گیاہے۔ قرآن کے مطابق جنت کی اعلی دنیا میں صرف ان افراد کو داخلہ ملے گا جنھوں نے موجودہ دنیا میں اپنا تزکیہ ( 20:76) کیا تھا۔
تزکیہ کا لفظی مطلب تطہیر (purification) ہے۔ جس طرح خام لوہا (ore) مختلف قسم کے شدید مراحل سے گزر کر ایک با معنی مشین کی صورت اختیار کرتاہے، اسی طرح انسان کی شخصیت بھی مختلف قسم کے شدید مراحل سے گزر کر ایک مزکی شخصیت (purified soul) کی صورت اختیار کرتی ہے۔
یہ شدید مراحل کیا ہیں، یہ شدید مراحل وہ ہیں جب کہ انسان کو غیر مطلوب حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ یہ غیر مطلوب حالات وہ مواقع ہیں، جن سے گزرتے ہوئے انسان اپنی شخصیت کی تعمیر کرتاہے۔
جب انسان کی ایگو پر ضرب لگے اور وہ عدل پر قائم رہے، جب انسان کو غصہ آئے اور وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرلے، جب انسان کو کوئی بڑائی ملے لیکن وہ متواضع (modest) بنا رہے، جب انسان کےاندر انتقام کی آگ بھڑکے اور وہ اپنے اندر ہی اندر اس آگ کو بجھا دے، جب انسان کے اندر کسی کے خلاف نفرت جاگ اٹھے اور وہ پھر بھی اس کے لیے اپنی خیر خواہی کو باقی رکھے، جب انسان پر کوئی دباؤ نہ ہو، اس کے باوجود وہ اعتراف (acknowledgement) کا ثبوت دے، وغیرہ۔ یہی وہ مواقع ہیں جو انسان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انسان کے اندر اعلی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔
یہ مواقع معتدل حالات میں پیدا نہیں ہوسکتے، یہ صرف غیر معمولی حالات (abnormal situation) میں پیداہوتے ہیں۔ قرآن کے مطابق اس امتحان میں وہی شخص کامیاب ہوسکتا ہے جس کے اندر صبر کی صفت پائی جائے ( فصلت 35 :)۔
واپس اوپر جائیں

شخصیت کی تعمیر

قرآن کی سورہ نمبر83 میں اہل تکذیب کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ(التطفیف 14 :) یعنی ان کے دلوں پر اُن کے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔ اس آیت میں ایک نفسیاتی معاملہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ان لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے جو ضد اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس معاملہ کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
ان المؤمن اذا أذنب کانت نکتۃ سوداء فی قلبہ فان تاب ونزع واستغفر صقل قلبہ وإن زاد زادت حتی یعلو قلبہ (ابن ماجہ، حدیث نمبر7952۔ مسند احمد ،حدیث نمبر 4244)۔ یعنی مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا دھبہ پڑ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرے اور اُس سے باز آجائےاور استغفار کرے تو اس کا د ل دھبہ سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور اگر گناہ میں مزید اضافہ ہو تودھبہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔
یہ تمثیل کی زبان میں ایک نفسیاتی معاملہ کو بتایا گیا ہے۔ جب کوئی انسان برائی کرے اور پھر وہ جلد ہی متنبہ ہوجائے۔ وہ برائی کرنے کی خواہش کو اپنے دل سے نکال دے تواس کا دل پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ آدمی ایک کے بعد ایک برائی کرتا رہے۔ وہ اپنا محاسبہ کرکے اپنے دل سے اس کے اثرکو زائل نہ کرے تو دھیرے دھیرے اس کا پورا دل بے حسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اب وہ برائیوں ہی میں جینے لگتا ہے اور سچائی کی بات اس کو متاثر نہیں کرتی۔
جدید نفسیاتی مطالعہ نے اس معاملہ کو مزید واضح کیا ہے۔ اب یہ بات ایک پر اسرار عقیدہ نہیں رہی، بلکہ وہ ایک معلوم حقیقت بن گئی ہے۔ اب وہ خالص علمی اعتبار سے انسان کے لیے قابل فہم ہے۔
جدید نفسیاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کے دماغ کے تین بڑے حصے ہیں۔ یہ تینوں حصے ہر عورت اور ہر مرد کے دماغ میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پیدائشی طورپر ہر انسانی دماغ کا حصہ ہیں۔ وہ تین حصے یہ ہیں:
1۔ شعوری ذہن (conscious mind)
2۔ تحت شعور (sub-conscious mind)
3۔ لاشعور (unconscious mind)
تجربہ و تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کوئی بھی خیال جب وہ ایک بار دماغ میں آجائے تو وہ ہمیشہ کے لیے انسانی دماغ کا حصہ بن جاتا ہے، اور جیسا کہ معلوم ہے، انسانی دماغ ہی در اصل انسانی شخصیت کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی خیال انسان کے دماغ میں آجائے تو وہ ہمیشہ کے لیے انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ اس کو اپنی شخصیت سے الگ کرنا چاہے تو وہ اس کو الگ کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔
جب کوئی بات انسان کے دماغ میں آتی ہے، خواہ وہ منفی ہو یا مثبت تو وہ سب سے پہلے دماغ کے شعوری حصہ میں آتی ہے۔اس کو زندہ حافظہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد آدمی جب رات کو سوتا ہے تو فطری عمل کے تحت اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ وہ بات شعوری ذہن سے چل کر ذہن کے تحت الشعور حصہ میںپہنچ جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس کے خیال کے اوپر آدمی کا شعوری کنٹرول صرف پچاس فیصد رہ جاتا ہے۔ پچاس فیصد وہ اس کے شعوری کنٹرول سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ اگلی رات کو سوتا ہے تویہ خیال مزید سفر کرکے ذہن کے لاشعور حصہ میں پہنچ جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس کے بعد یہ خیال اس کے شعوری کنٹرول سے پوری طرح باہر ہو جاتا ہے۔
انسانی ذہن کے یہ تینوں حصے شعور کے اعتبار سے ذہن کی تین حالتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مگر جہاں تک انسانی شخصیت کا تعلق ہے، وہ ہر حال میں یکساں طورپر اُس کا معمول بنی رہتی ہے۔ کوئی خیال جب تک زندہ حافظہ میں ہو تو وہ انسانی شخصیت کا معلوم حصہ ہوتا ہے۔ مگر جب وہ تحت شعور میں پہنچ جائے تو اگر چہ اب بھی وہ مکمل طورپر انسانی شخصیت کا حصہ ہوتا ہے مگر عام حالات میں وہ انسان کے علم میں تازہ نہیں ہوتا۔
یہی روز مرہ کے افکار جو انسان کے ذہن میں آتے ہیں وہی اس کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ جیسے افکار ویسی شخصیت۔ مثبت افکار سے مثبت شخصیت بنے گی۔ لیکن اگر یہ افکار منفی افکار ہوں تو انسان کی شخصیت بھی منفی بنتی چلی جائے گی۔
آج کل یہ حال ہے کہ آپ جس عورت یا مرد سے ملئے ہر ایک کو آپ منفی سوچ میں مبتلا پائیں گے۔ اگر کوئی شخص بظاہر مثبت باتیں کرتا ہوا نظر آئے تب بھی اس کی یہ بات صرف اوپری طور پر ہوگی۔ اگر آپ مزید گفتگو کرکے اس کی اندرونی شخصیت کو جاننے کی کوشش کریں تو آپ پائیں گے کہ اس کی اندرونی شخصیت بھی اُتنی ہی منفی تھی جتنی کہ دوسروں کی شخصیت۔ اس طرح موجودہ زمانہ کا ہر آدمی اپنے آپ کو منفی قبرستان میں دفن کیے ہوئے ہے، اگر چہ اس کو خود بھی اس ہلاکت خیز واقعہ کی خبر نہیں۔ اس میں غالباً مذہبی انسان اور سیکولر انسان میں کوئی فرق نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سب سے بُری شخصیت منفی شخصیت ہے اور سب سے زیادہ اچھی شخصیت وہ ہے جو مثبت شخصیت ہو۔ ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ مثبت شخصیت کی تعمیر کس طرح کی جائے۔ مذکورہ اسلامی تعلیم اور مذکورہ نفسیاتی تحقیق دونوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو اس کی ایک واضح عملی صورت بنتی ہے۔ اس کو یہاں درج کیا جاتا ہے ۔
اس عمل کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی منفی خیال آدمی کے ذہن میں آجائے تو وہ اس کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردے۔ خصوصی تدبیر کے ذریعہ اُس کے منفی پہلو کو مثبت پہلو میں تبدیل کرلے۔ مثلاً وہ غصہ کو فوراً معاف کردے تاکہ اس کا غصہ انتقام کی صورت اختیار نہ کرنے پائے۔ کسی کی ترقی اُس کو پسند نہ آئے تو اُسی وقت وہ اس کو نظر انداز کردے تاکہ وہ اس کی شخصیت میں حسد بن کر شامل نہ ہوسکے، وغیرہ۔
ہر بُرے خیال کے ساتھ فوراً ہی تبدیلی کا یہ عمل کرنا چاہیے۔ اگر اس میں دیر ہوئی تو جلد ہی ایسا ہوگا کہ وہ آدمی کے تحت شعور میں چلا جائے گا۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ اس کے لاشعور میں داخل ہوجائے گا۔ اور جب ایسا ہوگا تو وہ آدمی کی شخصیت کا اس طرح لازمی حصہ بن جائے گا کہ آدمی چاہے بھی تو وہ اس کو اپنے سے جُدا نہ کرسکے۔
لوگ عام طورپر ایسا نہیں کرتے اور اس کی یہ بھیانک قیمت ادا کر رہے ہیں کہ ہر ایک خوبصورت کپڑوں کے پیچھے ایک منفی شخصیت کی لاش لیے ہوتا ہے۔ منفی شخصیت دراصل جہنمی شخصیت ہے۔ جو عورت یا مرد اس ہلاکت خیز انجام سے بچنا چاہتے ہوں ان کو چاہیے کہ وہ مذکورہ عمل کی تصحیح کو اپنی روزانہ کی زندگی میں شامل کرلیں۔ اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی اور حل موجود نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جانچنے کا معیار

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے گفتگو ہوئی۔ گفتگو کا موضوع مصر کی سیاسی صورتِ حال تھی۔ مصر میں الیکشن ہوا اس کے بعد وہاں الاخوان المسلمون کے لیڈر ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے منتخب صدر بن گئے۔ مگر ایک سال کے بعد مصرکی فوج نے ڈاکٹر مرسی کو قیادت سے ہٹادیا۔ اس کے بعد سے مصری فوج اور الاخوان المسلمون کے درمیان متشددانہ ٹکراؤ جاری ہے۔ اِس ٹکراؤ میں صرف جان ومال کا نقصان ہورہا ہے۔ اس کا کوئی مثبت نتیجہ اب تک سامنے نہ آسکا۔ اِس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مذکورہ مسلمان نے کہا کہ الاخوان المسلمون دہشت گرد تنظیم نہیں ہے:
Muslim Brotherhood is not a terrorist organization
میں نے کہا کہ آپ کا یہ تبصرہ درست نہیں۔ آپ کے بیان کے مطابق، الاخوان المسلمون کا کیس اسلام کا کیس ہے۔ وہ مصر میں اسلام لانا چاہتے ہیںاور دشمن طاقتیں ان کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ میں نے کہا کہ قرآن میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ اللہ ہمیشہ اہلِ ایمان کے ساتھ ہوتاہے۔ پھر اگر الاخوان المسلمون کا کیس اسلام کا کیس ہے تو اللہ کی مدد ان کے لیے کیوں نہیں آتی۔ ایسی حالت میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ اللہ نے الاخوان المسلمون کے دشمن کے مقابلے میں ان کی حمایت نہیں کی:
God is not on the side of Muslim Brotherhood.
اللہ نے اِس دنیا کو پیدا کیا ہے، وہی اِس دنیا کو چلا رہا ہے۔ اِس دنیا کا چلانے والا کوئی انسان نہیں ہے، بلکہ اللہ رب العالمین براہِ راست طورپر اِس دنیا کی تنظیم کررہا ہے، اِس لیے دنیا میں پیش آنے والے واقعات کی توجیہہ کے لیے آدمی کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ دنیا کے بارے میں قانونِ خداوندی کو دریافت کرے اور اس کی روشنی میں دنیا میں ہونے والے واقعات کی توجیہہ کرے۔ اِس کے سوا کوئی اور طریقہ انسان کو درست رائے تک نہیں پہنچا سکتا۔ دوسرا طریقہ اندھیرے میں بھٹکنے کا راستہ ہے، نہ کہ روشنی میں سفر کرنے کا راستہ۔
واپس اوپر جائیں

علمی طرزِ استدلال

استدلال کی دو قسمیں ہیں — قیاسی استدلال اور علمی استدلال۔ قیاسی استدلال وہ ہے جس میں ایک مفروضہ کو بنیاد بنا کر اپنی بات ثابت کی گئی ہو۔ مثال کے طور پر ایک شخص یہ کہے کہ مسلمان کا منصب یہ ہے کہ وہ عالمی قیادت حاصل کرے۔ یہ کہہ کر وہ عالمی قیادت کے حصول کی تحریک چلا دے۔ اِس قسم کا استدلال ایک قیاسی استدلال ہے اور اِس بنا پر وہ بے بنیاد استدلال کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ سارے قرآن میں کہیں بھی یہ لکھا ہوا نہیں ہے کہ مسلمان کا منصب عالمی قیادت ہے۔ اِس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ عالمی قیادت کے حصول کی کوشش کریں۔ اِس قسم کا استدلال بھی بے بنیاد ہے اور اِس قسم کے استدلال کو لے کر جو تحریک کھڑی کی جائے، وہ بھی بے بنیاد ۔
علمی استدلال وہ ہے جو کسی ثابت شدہ حقیقت پر قائم ہو۔ مثلاً اگر آپ یہ کہیں کہ مسلمان کا فرضِ منصبی شہادت علی الناس ہے اور اِس بنا پر مسلمانوں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اہلِ عالم کے سامنے دینِ خداوندی کے گواہ بن کر کھڑے ہوں۔ یہ استدلال ایک علمی استدلال کہاجائے گا اور یہ تسلیم کیا جائے گا کہ وہ ایک حقیقی بنیاد پر قائم ہے۔ کیوں کہ اِس استدلال کے حق میں واضح قرآنی آیات (البقرة143، یوسف108) موجود ہیں۔ یہ آیات غیر مشتبہ طور پر ثابت کرتی ہیں کہ مسلمان کا یا امتِ مسلمہ کا منصب یہی ہے۔
دعوی کبھی مبنی بر عقل ہوتا ہے اور کبھی مبنی بر نقل۔ اگر دعوے کا تعلق ایسے معاملے سے ہو جو عقل (reason) سے تعلق رکھتا ہو تو ایسی بات کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ اُس کے حق میں کوئی ایسا عقلی ثبوت (rational proof) دیا جائے جو عقلی تجزیہ کے اصول پر ایک ثابت شدہ حقیقت کی حیثیت رکھتا ہو۔ اِس طرح اگر دعوی نقل سے تعلق رکھتا ہو تو ضروری ہوگا کہ نقل کے مستند ذرائع، یعنی قرآن وسنت کے حوالوں سے وہ غیر مشتبہ طورپر ثابت ہورہا ہو۔ نقل سے متعلق جس دعوے کے حق میں قرآن وسنت کا واضح حوالہ موجود نہ ہو، وہ ایک غیر علمی استدلال مانا جائے گا اور اس کو رد کردیا جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

منطقی طرزِ استدلال

ایک عالم سے گفتگو ہوئی۔ میںنے کہا کہ حدیث میں آیا ہے: استفتِ قلبک (مسند احمد، حدیث نمبر 18006:) یعنی اپنے دل سے پوچھ لو۔ اِس سے معلوم ہوا کہ دین کے تقاضے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ قرآن اور حدیث کے علاوہ ہے، اور وہ کامن سنس (common sense)ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اِس لیے جو چیز فطری تقاضے کے مطابق ہو، وہ بھی اسلام میں داخل سمجھی جائے گی۔ مثال کے طورپر ہر شخص اپنے ماںباپ سے محبت کرتا ہے۔ وہ اس کو دین کے مطابق سمجھتا ہے۔ حالاں کہ قرآن اورحدیث میں کہیں بھی لفظی طور پر یہ لکھا ہوا موجود نہیں ہے کہ— اپنے ماں باپ سے محبت کرو۔انھوں نے میری بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ماں باپ سے محبت کرنے کا حکم قرآن میں موجود ہے، پھر انھوں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: وَقَضَى رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا(الإسراء23:)۔ میں نے کہا کہ اِس آیت سے آپ کا مدعا ثابت نہیںہوتا۔ اِس آیت میں جس چیز کا حکم دیاگیا ہے، وہ ماں باپ کی محبت نہیں ہے، بلکہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک ہے، یعنی ماں باپ کے ساتھ تمام انسانی اور اخلاقی تقاضے پورے کرنا۔ یہ ایک غیرمنطقی استدلال ہے کہ جس آیت میںاخلاقی سلوک کا ذکر ہو، اُس سے قلبی محبت کا حکم نکالا جائے۔
منطقی استدلال کیا ہے۔ منطقی استدلال (logical argument) دراصل درست ریزننگ (correct reasoning) کا نام ہے۔ یعنی وہ استدلال جو حقائق پر مبنی ہو۔ جس میں متعلق (relevant) اور غیر متعلق (irrelevant) کے فرق کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے بات کہی جائے۔ ایسا استدلال جو مخاطب کے مسلّمہ پر مبنی ہو، نہ کہ کسی یک طرفہ مفروضے پر، جس کی بنیاد قطعی امور پر ہو، نہ کہ ظنی امور پر، جو جذباتی طرزِ فکر سے بالکل پاک ہو، جس میں کامل موضوعی فکر (objective thinking) پائی جائے۔ ایسے ہی استدلال کا نام منطقی استدلال ہے۔ اور منطقی استدلال ہی دراصل درست استدلال (correct reasoning)کا درجہ رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

غلط جنرلائزیشن

10 مئی 2007 کی صبح کو میں دہلی سے بمبئی گیا اور 12مئی 2007 کی شام کو واپس آیا۔ ہوائی جہاز میںتمام ضروری سہولتیں موجود تھیں۔ سروس بھی بہتر تھی، لیکن مجھے ذاتی طورپر ایک ’’شکایت‘‘ کا تجربہ ہوا۔ جہاز کی طرف سے جوکھانا دیاگیا اُس میں خِلال(toothpick) موجود نہ تھا۔ میںنے عملے کے دو آدمیوں سے کہا کہ مجھے خلال چاہیے، لیکن وہ شاید بھول گیے اور اُس کو نہ دے سکے۔
اِس واقعہ کو لے کر ایک لمحے کے لیے میرے دل میں خیال آیا کہ یہ ہوائی کمپنی بالکل ناقص ہے۔ اُس میں مسافر کے لیے خلال بھی موجود نہیں۔ لیکن فوراً ہی میں نے محسوس کیا کہ ایسا سوچنا انصاف کے خلاف ہوگا۔ جہاز کے اندر ننّانوے چیزیں بالکل ٹھیک حالت میںتھیں۔ صرف ایک چیز میرے ذوق کے مطابق نہ تھی۔ ایسی حالت میں یہ بالکل غلط ہوگا کہ کوئی شخص ایک جُزئی کمی کو لے کر جہاز کی پوری سروس کو بُرا بتائے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو غلط جنرلائزیشن کہا جاتا ہے۔ قرآن میں اِس کے لیے ’تطفیف‘ ( المطففین1 :)کا لفظ آیا ہے۔
عام طور پر لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ دوسروں پر تبصرہ کرنے کے معاملے میں سخت ناانصافی کرتے ہیں۔ وہ ایک جزئی شکایت کو لے کر اُسے کُلّی بنا دیتے ہیں۔ اُن کا حال یہ ہے کہ وہ جس سے خوش ہوں گے، اُس کی ایک اچھی بات کو لے لیں گے اور اس کی ننّانوے بُری بات کو چھوڑ دیں گے۔ اور جس سے ناخوش ہوں گے، اس کی ایک بُری بات کو لے لیں گے اور اس کی ننّانوے اچھی باتوں کو نظرانداز کردیں گے۔ یہ مزاج غیر انسانی بھی ہے اور غیر اسلامی بھی۔ ایسے لوگ اخلاق کی عدالت میں بھی مجرم ہیں اور خدا کی عدالت میں بھی۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی جب کسی بات کو بیان کرے تو وہ اس کو عین اُسی طرح بیان کرے جیساکہ وہ ہے۔ غلط طورپر کسی بات کو بڑھانا یا غلط طورپر کسی بات کو گھٹانا، دونوں عادتیں سخت مذموم ہیں۔ اِس قسم کی عادت آدمی کے اندر صالح شخصیت کی تعمیر میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف کا مسئلہ

مسلمانوں کے اندر بڑے پیمانے پر مذہبی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلاف بڑھ کر کبھی تشدد کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ عام طورپر سمجھا جاتاہے کہ اِن اختلافات کا سبب مدارس کا نصاب ہے۔ ان کے خیال کے مطابق، اگر مدارس کے نصاب میں اصلاح کردی جائے تو اختلاف کا خاتمہ ہوجائے گا اور لوگوں کے اندر اتحاد واتفاق کی حالت قائم ہوجائے گی۔
مگر یہ اصل صورتِ حال کا کم تر اندازہ (underestimation) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اختلاف کا سبب فطرتِ انسانی میں ہے، نہ کہ مدارس کے نصاب میں۔ پیدائش کے اعتبار سے، ہر مرد مسٹر ڈفرنٹ(Mr. Different) ہوتا ہے اور ہر عورت مس ڈفرنٹ۔
یہی فطری فرق اختلاف کا اصل سبب ہے۔ اگر تمام مدارس کا نصاب ایک کردیا جائے تب بھی اختلاف باقی رہے گا، کیوں کہ خواہ نصاب کی سطح پر اختلاف نہ ہو تب بھی فطرت کی سطح پر اختلاف موجود رہے گا، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
حضرت علی اور حضرت معاویہ دونوں ایک ہی مدرسہ، مدرسۂ نبوت، کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ ابو الحسن اشعری اور واصل بن عطاء دونوں ایک ہی مدرسۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔
موجودہ زمانے میں سرسید احمد خاں اور مولانا قاسم نانوتوی دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا حسین احمد مدنی دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ مولانا سیدسلیمان ندوی اور مولانا مسعود علی ندوی دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔
اصل یہ ہے کہ خواہ دو آدمیوں نے ایک ہی مدرسہ اور ایک ہی نصاب کے تحت تعلیم پائی ہو، لیکن طرز فکر (way of thinking) کی سطح پر ہمیشہ ایک آدمی اور دوسرے آدمی کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ یہی فرق ہے جو اختلاف کا سبب بن جاتا ہے۔ اِس کے بعد وہ بڑھ کر نفرت اور تشدد تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ اختلاف یا فرق چوں کہ فطرتِ انسانی کا حصہ ہے، اِس لیے وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ ایسی حالت میں اختلاف کے مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ ناکام طورپر اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ لوگوں کو اُس اصول کی تعلیم دی جائے جس کو ’’اختلاف کے باوجود اتحاد‘‘ کہاجاتا ہے۔ یعنی رائے (opinion) کی سطح پر اختلاف، سماجی تعلق (social relationship) کی سطح پر اتفاق۔
انسانوں کے طرز فکر میں اختلاف کوئی غیر مطلوب چیز نہیں، بلکہ وہ عین مطلوب ہے۔ کیوں کہ اِس اختلاف کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان ڈسکشن اور ڈائیلاگ ہوتا ہے، اور ڈسکشن اور ڈائیلاگ ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے۔ جہاں ڈسکشن اور ڈائیلاگ نہ ہو، وہاں یقینی طورپر ذہنی جمود (intellectual stagnation) پیدا ہوجائے گا، اور ذہنی جمود سے زیادہ تباہ کن اور کوئی چیز انسان کے لئے نہیں۔
مثبت سوچ
ایک ہندستانی کو پہلی بار جاپان جانے کا موقع ملا۔ ایک روز انھوں نے اپنے جاپانی میزبان سے ازراہِ ہمدردی کہا:’’آپ لوگوں کے ساتھ امریکا نے بڑا ظلم کیا۔ اس نے تاریخ کے پہلے ایٹم بم آپ کے ملک پر گرائے اور آپ کے دو شہروں کو کھنڈر بنادیا۔‘‘
’’نہیں کوئی ظلم نہیں‘‘ جاپانی نے کہا۔ ’’یہ بم تو ہمارے لئے رحمت ثابت ہوئے۔ ہمارے یہ شہر قدیم طرز پر آباد تھے۔ تنگ اور خم دار سڑکیں، فرسودہ مکانات، گندے محلّے، ان کا نام تھا ہیرو شیما اور ناگاساکی۔ معمولی حالات میں ہم نئے طرز پر ان کی تعمیر نہیں کرسکتے تھے۔ مگر جب جنگ نے اچانک ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا تو ہم کو موقع مل گیا اور ہم نے قدیم ملبہ پر انتہائی جدید قسم کے منصوبہ بند شہر آباد کردئیے‘‘۔
مثبت سوچ اسی طرح کام کرتی ہے۔ وہ ہر بربادی میں اپنے لئے نئی تعمیر کے امکانات ڈھونڈھ لیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف کے باوجود

علماءِ سلف کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے درمیان دینی مسائل میں کثرت سے اختلاف پایا جاتا تھا۔ اِس کے باوجود ہر عالم دوسرے عالم کا احترام کرتا تھا۔اِس سلسلے میں یہاں دو واقعات نقل کیے جاتے ہیں: ’’ابن عبد البر نے نقل کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل اور علی بن المدینی کے درمیان ایک مسئلے پر بحث ہوئی اور بحث ایسی ہوئی کہ دونوں طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ آپس میں بد مزگی پیدا ہوجائے گی، لیکن علی بن المدینی واپس جانے لگے تو امام احمد بن حنبل نے ان کے ساتھ اِس درجہ احترام کا معاملہ کیا کہ آگے بڑھ کر ان کی رکاب تھام لی (جامع بیان العلم 2/107)۔
اِسی طرح یونس صدقی امام شافعی کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں۔ ایک دن ایک مسئلے میں استاذ سے خوب بحث ہوئی، پھر جب اگلی ملاقات ہوئی تو امام شافعی نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ کیا یہ بات بہتر نہ ہوگی کہ ہم بھائی بھائی بن کررہیں، خواہ کسی مسئلے میں بھی ہمارے درمیان اتفاق پیدا نہ ہوسکے: ألا یستقیم أن نکون إخواناً وإن لم نتفق فی مسألة‘‘۔ (سیر أعلام النبلاء10/16 ، بحوالہ ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، جون 2014، صفحہ 41)
اِس طرح کے واقعات کا مطلب صرف باہمی احترام (mutual respect) نہیں ہے، بلکہ اِن واقعات میں ایک اور زیادہ بڑا پہلو ہے اور وہ ہے اختلافِ رائے (difference of opinion) کا احترام۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ اختلاف ِ رائے کو علمی پہلو سے دیکھنا، نہ کہ شخصی پہلو سے۔
اختلافِ رائے کا احترام کوئی سادہ بات نہیں، اس کا براہِ راست تعلق ذہنی ارتقا سے ہے۔ جس ماحول میں اختلافِ رائے کو برا نہ سمجھا جائے، وہاں لازماً ڈسکشن کا ماحول ہوگا۔ لوگ علمی دلائل کے ذریعے اپنا اپنا نقطہ نظربیان کریں گے۔ جہاں اختلافِ رائے کو برا سمجھنے کے بجائے اختلافِ رائے کا احترام پایا جاتا ہو، وہاں ذہنی جمود نہ ہوگا، بلکہ ایسے ماحول میں ذہنی ارتقا کا عمل جاری رہے گا اور ذہنی ارتقا بلاشبہہ کسی انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف ایک برکت

عمر بن عبدلعزیز (وفات101 ھ)کو اسلام کی تاریخ میں پانچویں خلیفۂ راشد کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ان کا ایک قول ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے: ما سرنی لو أن أصحاب محمد صلى اللہ علیہ لم یختلفوا، لأنہم لو لم یختلفوا لم تکن رخصة (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر39)۔ یعنی میرے لیے یہ چیز باعث مسرت نہیں کہ اصحاب محمد میں اختلاف نہ ہوتا، اس لیے کہ اگر وہ اختلاف نہ کرتے تو ہم کو رخصت کا فائدہ نہ ملتا۔
عبادتی امور میں صحابہ کا اختلاف بعد کے زمانے میں مختلف فقہی اسکول کا ذریعہ بن گیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ بعد کے علماء نے اختلاف کے معاملے میں ترجیح کا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی مختلف مسالک میں کسی ایک طریقہ کو راجح اور کسی کو مرجوح قرار دینا۔ اس سے فقہ میں مختلف مدرسے بن گیے۔ اور بالآخر امت کے اندر فقہی تشدد پیدا ہوگیا۔
عمر بن عبدالعزیز کا یہ قول ایک حدیث پر مبنی ہے۔ پیغمبراسلام ﷺ نے فرمایا: أصحابی کالنجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم (جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث نمبر 1760)۔ یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو، تم ہدایت پر رہوگے۔
صحابہ کا اختلاف اساسی امور (basics)میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ جزئی امور(non-basics) میں ہے۔ اس طرح کے جزئی امور میں ہمیشہ تنوع (diversity)مطلوب ہوتی ہے۔ اس طرح کے جزئی امور میں توحد (یکسانیت) تلاش کرنا، غیر فطری ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے جزئی اختلاف کو تنوع پر محمول کیا جائے، ان کو توحد کا موضوع نہ بنایا جائے۔ اس اصول کو اختیار کرنے کی صورت میں امت کے اندر اتحاد باقی رہے گا۔ اس کی خلاف ورزی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ امت کے اندر اختلاف و انتشار پیدا ہوجائے گا۔ ایک امت کئی فرقوں میں بٹ جائے گی۔ یہ اختلاف بڑھ کر غلو اور تشدد کی صورت اختیار کرلے گا۔ اسلام کی بعد کے زمانے کی تاریخ اس کی تصدیق کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اختلافِ رائے

ایک بار میری ملاقات ایک مغربی اسکالر سے ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ اہلِ مغرب کی ترقی کا راز کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا — اختلافِ رائے (dissent) کو انسان کا مقدس حق قرار دینا۔ یہ بلاشبہہ ایک درست بات ہے۔
لیکن وہ مغربی فکر کی بات نہیں، وہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ اِس قانون کو ایک حدیث ِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اختلاف أمتی رحمة۔(المقاصد الحسنة، حدیث نمبر39 :)
اختلافِ رائے کا اظہار ہمیشہ تنقید (criticism)کی صورت میں ہوتا ہے۔ مگر تنقید خواہ وہ کسی شخص کے حوالے سے کی گئی ہو، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے مطالعے کی ایک صورت ہوتی ہے۔ تنقید کا اصل مقصد کسی موضوع پر کھلے تبادلہ خیال (open discussion) کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ تنقید کا مقصد یہ ہے کہ مختلف ذہن (mind)دیانت دارانہ طورپر (honestly)اپنے نتیجۂ تحقیق کو بتائیں اور پھر دوسرے لوگ دیانت داری کے ساتھ اُس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ اِس طرح کا آزادانہ تبادلہ خیال ذہنی ارتقا (intellectual development) کا لازمی تقاضا ہے۔
علم اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک لامحدود موضوع ہے۔ یہ بات مذہبی موضوع پر بھی اُسی طرح صادق آتی ہے جس طرح سیکولر موضوع پر۔ اختلافِ رائے بلاشبہہ ایک رحمت ہے۔ اختلافِ رائے ہر حال میں مفید ہے۔ اِس معاملے میں اگر کوئی شرط ہے تو وہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ اختلاف کرنے والا مسلّمہ دلیل کی بنیاد پر اختلاف کرے، وہ الزام تراشی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔
اختلافِ رائے کے فائدے بے شمار ہیں۔ اِس سے مسئلہ زیر بحث کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ اِس سے تخلیقی فکر (creative thinking) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اِس کے ذریعے لوگوں کو موقع ملتاہے کہ وہ دوسرے کے نتیجہ فکر سے فائدہ اٹھائیں۔ اِس سے مسئلہ زیر بحث کے مخفی گوشے سامنے آتے ہیں، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

فکری تعدّد، فکری حریت

اسلام میں فکری آزادی کامل درجے میں پائی جاتی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ فکری آزادی کے بغیر خدا کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) پورا نہیں ہوسکتا۔ انسان کو موجودہ دنیا میں ابتلا (test) کے لیے رکھا گیا ہے اور یہ مقصد صرف اُسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب کہ انسان کو اپنے قول وعمل کی پوری آزادی حاصل ہو۔
اسلام فکری آزادی (intellectual freedom) کو پوری طرح تسلیم کرتا ہے، لیکن فکری تعدد (intellectual diversity) کا تصور اسلام میں نہیں۔ اسلام کے مطابق، ہر آدمی کو یہ حق ہے کہ وہ جس رائے کو چاہے، اختیار کرے، لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر رائے بہ اعتبار حقیقت بھی درست ہے۔ اِس معاملے میں اسلامی تصور یہ ہے کہ بہ اعتبارِ حقیقت تو صرف ایک ہی رائے درست ہے، لیکن بہ اعتبارِ آزادی ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے لیے اِس دنیا میں جس رائے کو چاہے، اختیار کرے۔
ابتلا کے سوا اِس اصول کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ فکری آزادی کے ماحول میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان آزادانہ ڈسکشن ہو اور آزادانہ ڈسکشن سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ سماج کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل (process) جاری رہے۔
فکری آزادی کا تصور انسان کی ذہنی ترقی کے لیے بے حد اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فکری آزادی کے بغیر ذہنی ترقی ممکن نہیں۔ کسی سماج میں فکری آزادی کو ممنوع (taboo) قرار دینا صرف اِس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ سماج فکری جمود(intellectual stagnation) کا شکار ہوجائے۔ لیکن فکری تعدد کے نظریے کو اگر اصولاً درست مان لیا جائے تو اس کے نتیجے میں جو چیز پیدا ہوگی، وہ فکری انتشار (intellectual anarchy) ہے، اور فکری انتشار ایک غیر صحت مند (unhealthy) حالت ہے، فکری انتشار کسی آدمی کو کنفیوژن(confusion)کے سوا کہیں اور نہیں پہنچاتا۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی سانچہ

ہر آدمی کے اندر مختلف حالات کے تحت اس کا ایک مائنڈ سیٹ (mindset)یا ایک ذہنی سانچہ (intellectual mould) بن جاتا ہے۔ آدمی اسی کے مطابق سوچتا ہے، آدمی اسی کے مطابق رائے بناتا ہے۔ حقیقتِ واقعہ خواہ بظاہر کچھ اور ہو، لیکن آدمی کے ذہن میں چیزوں کے بارے میں وہی تصویر بنتی ہے، جو اس کے اپنے ذہنی سانچے کے مطابق ہو۔
انسان کے بارے میںیہ حقیقت قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلَى شَاکِلَتِہِ فَرَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ أَہْدَى سَبِیلًا (الاسراء84 :)یعنی علم الٰہی میں کسی چیز کی نوعیت خواہ کچھ ہو لیکن انسان اپنے خود ساختہ شاکلہ (mindset)کے مطابق چیزوں کے بارے میں رائے قائم کر لیتا ہے۔ اس کمزوری سے وہی شخص بچ سکتا ہے جو اپنے ذہن کو اتنا زیادہ ارتقا یافتہ بنائے کہ وہ چیزوں کو اللہ کی نظر سے دیکھ سکے۔
انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ دنیا میں ہر آدمی ایک سماجی ماحول کے اندر پیدا ہوتا ہے۔اس ماحول میں ہر وقت روزانہ مختلف قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ انسان خواہ چاہے یا نہ چاہے، وہ اپنے ماحول سے اثر قبول کرتا رہتا ہے۔ اس طرح ہر انسان کا کیس ایک متاثر ذہن کا کیس بن جاتا ہے۔ یہ متاثر ذہن دھیرے دھیرے اتنا پختہ ہوجاتا ہے کہ آدمی اسی کو درست سمجھنے لگتا ہے۔
ایسےحالات میں ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ مسلسل طور پر اپنا محاسبہ کرتا رہے۔ وہ دریافت کرتا رہے کہ کیا چیز فطری ہے۔ اوروہ کیا چیز ہے جس کو اس کے ذہن نےماحول کےاثر سے قبول کر لیا ہے۔ اسی ذہنی کوشش کا نام محاسبہ (introspection) ہے۔ یہی محاسبہ کا عمل وہ چیز ہے جو کسی انسان کو اس سے بچاتا ہے کہ آدمی کے اندر غلط قسم کا ذہنی سانچہ بن جائے، اور وہ اس غلط سانچہ کے زیرِ اثر زندگی گزارنے لگے۔اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ آدمی اپنا محاسب آپ بن جائے، وہ اپنی نگرانی خود کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں

تنقید کی دوقسمیں

تنقید (criticism) کا ایک طریقہ یہ ہے کہ زیر تنقید شخص نے جو بات کہی ہے، اس کو اچھی طرح سمجھا جائے اور پھر اس کے اصل نقطۂ نظر کو لے کر اس پر تنقید کی جائے۔ یہ تنقید کا صحیح اور علمی طریقہ ہے۔تنقید کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زیر تنقید شخص نے جو بات کہی ہے، اُس سے خود ساختہ طور پر ایک مفہوم نکالا جائے اور اِسی خود ساختہ مفہوم کو زیر تنقید شخص کی طرف منسوب کرکے اُس پر تنقید کی جائے۔ یہ دوسرا طریقہ تنقید کا غلط اور غیر علمی طریقہ ہے۔
موجودہ زمانے میں، تنقید کا یہ دوسرا طریقہ بہت زیادہ عام ہوگیا ہے۔ موجودہ زمانے میں لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تنقید کو حقوقِ انسانی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ تنقید کرنا، اُن کا ذاتی حق ہے۔ یہ ایک مغالطہ آمیز بات ہے۔ تنقید بلا شبہہ ہر انسان کا حق ہے، لیکن یہ کسی بھی شخص کا حق نہیں کہ وہ زیر تنقید شخص کے کلام سے ایک خود ساختہ مفہوم نکالے اور اِس خود ساختہ مفہوم کو زیر تنقیدشخص کی طرف منسوب کرکے اس پر پُرشور تنقید شروع کردے۔
تنقید دراصل علمی تجزیہ (scientific analysis) کا دوسرا نام ہے۔ تنقید حقیقتاً وہی ہے جو علمی تجزیہ کے اسلوب میں کی جائے۔ جو تنقید علمی تجزیہ سے خالی ہو، وہ بلا شبہہ عیب جوئی اور الزام تراشی کے ہم معنیٰ ہے۔ اِس قسم کی تنقید علمی اعتبار سے بے بنیاد ہے، اور شرعی اعتبار سے بلاشبہہ ایسی تنقید ایک سنگین گناہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
علمی تجزیہ طرفین کے لیے مفید ہے، ناقد کے لیے بھی اور زیر تنقید شخص کے لیے بھی۔ علمی تنقید کے ذریعے ناقد کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ زیرِ بحث موضوع کا ازسرِ نو مطالعہ کرے۔ اِسی طرح زیر تنقید شخص کو اُس سے یہ موقع ملتاہے کہ وہ اپنی رائے کا از سرِ نو جائزہ لے۔ اِس کے برعکس، غیر علمی تنقید اِس طرح کے کسی مثبت فائدے سے مکمل طورپر خالی ہوتی ہے —علمی تنقید ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے، جب کہ غیرعلمی تنقید صرف آدمی کے ذہنی انحطاط کا ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں

ہلاکت کیا ہے

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا سمعت الرجل یقول ہلک الناس فہو أہلکہم (موطا امام مالک، حدیث نمبر1802)۔یعنی جب تم کسی کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ لوگ ہلاک ہوگئے تو سب سے زیادہ ہلاکت میں وہی شخص ہے۔
اِس حدیثِ رسول میں ’ہلک الناس‘اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ ثابت ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول نے خود بھی یہ زبان استعمال کی۔ مثلاً حضرت علی بن ابی طالب نے ایک قاضی سےکہا :ہلکتَ وأہلکتَ (السنن الکبرى للبیہقی، اثرنمبر 20857) یعنیتم خود بھی ہلاک ہوئے اور تم نے دوسروں کو بھی ہلاک کیا۔
اِس حدیث رسول میں جس روش کی مذمت کی گئی ہے، وہ دراصل تنقید برائے تنقید (criticism for the sake of criticism) ہے، یعنی لوگوں کو برا بتانا، لیکن یہ نہ بتانا کہ ان کے لیے صحیح بات کیاہے۔ دوسروں کے خلاف منفی ریمارک دینا، لیکن مثبت نصیحت کا طریقہ اختیار نہ کرنا۔ بے دلیل تنقید کرنا، لیکن مدلل تجزیہ کے ذریعے یہ نہ بتانا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ نفرت کی زبان میں لوگوں کی مذمت کرنا، لیکن خیر خواہی کے انداز میں ان کو نصیحت نہ کرنا۔
بلا دلیل تنقید کا فائدہ تو کچھ نہیں، مگر اس کا نقصان بہت زیادہ ہے۔ بادلیل تنقید سے لوگوں کے اندر محاسبہ (introspection) کا مزاج بنتا ہے۔ اِس کے برعکس، بے دلیل تنقید سے لوگوں کے اندر نفرت اور بے اعترافی کا مزاج بنتا ہے۔ بادلیل تنقید، اصلاح کا ذریعہ ہے۔ اور بے دلیل تنقید صرف فساد کا ذریعہ۔ صالح تنقید وہ ہے جس میں خیر خواہی کا جذبہ پایا جائے۔ جس کا مقصد فریق ثانی کی اصلاح ہو۔ اس کے برعکس غیر صالح تنقید کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ دوسرے کو بے عزت کرنا اور اس کی برائی بیان کرنا۔ صالح تنقید اسلام میں عین مطلوب ہے۔ اِس کے برعکس، غیر صالح تنقید کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی کہر کا مسئلہ

ہندستان کے شمالی حصہ میں سردی کے موسم میں کہر (fog) کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، اِس مسئلے کی بنا پر اِس ایریا کی ٹرینیں یا تو اسٹیشنوں پر رک جاتی ہیں یا وہ نہایت دھیمی رفتار سے چلتی ہیں۔ انڈین ریلوے نے اِس مسئلے کے حل کے لیے ایک آلہ (device) تیار کیا ہے۔ اِس آلے کا نام ہے — فاگ سیف ڈیوائس (fog-safe device)۔ اِس آلے کی تیاری کے بعد ٹرین کے ڈرائیور کے لیے یہ ممکن ہوگیاہے کہ وہ گہرے کہر کے اندر بھی ٹرین کو 60 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلا سکے۔
یہ مادّی کہر (material fog) کا معاملہ ہے۔ اِسی طرح ذہنی کہر (intellectual fog) بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں ہر بولنے اور لکھنے والا آدمی ماحول میں اپنی باتوں کو بکھیر رہا ہے۔ موجودہ زمانے میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے استعمال کی بناپر یہ مسئلہ بے شمار گُنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔ غالباً اِسی ذہنی کہر کو ایک حدیثِ رسول میں ’’فتنةُ الدُّہَیماء‘‘ (سنن أبی داؤد، حدیث نمبر4242 :)کہاگیا ہے، یعنی سخت قسم کا تاریک فتنہ۔
ہر آدمی عملاً اِسی ذہنی کہر کے اندر جی رہا ہے، وہ اُسی کے مطابق سوچتا ہے اور اسی کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بناتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک شخص کس طرح اپنے آپ کو اِس مسئلے سے بچائے۔ افکار کے اندھیرے میں کس طرح وہ اپنے آپ کو صحتِ فکر (right thinking)پر قائم رکھے۔
’فاگ سیف ڈیوائس‘ گویا مادّی مثال کی صورت میں اِس حل کی ایک نشان دہی ہے۔ ہمیں یہ کرنا ہے کہ ہم اپنے آپ کو داخلی طورپر اِس طرح تیار کریں کہ ہم خارجی فاگ سے غیر متاثر رہ کر سوچنے کے قابل ہوجائیں۔ ریلوے کی مادی تدبیر کی طرح ہم میں سے ہر شخص کو ایک نظریاتی تدبیر کرنا ہے۔ قانونِ فطرت کے مطابق، خارجی فاگ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ جو کچھ ممکن ہے، وہ صرف یہ کہ ذاتی تدبیر کے ذریعے آدمی اپنے آپ کو اُس کے بُرے اثرات سے محفوظ کرلے۔
واپس اوپر جائیں

تخلیقی صلاحیت

موجودہ زمانے میں ایک رسرچ اقلیت (minority) اور اکثریت (majority)کے موضوع پر ہوئی ہے۔ اِس تحقیق سے کئی ایسی حقیقتیں سامنے آئی ہیں جو اِس سے پہلے لوگوں کو معلوم نہ تھیں۔ اُن میں سے ایک حقیقت وہ ہے جس کو تخلیقیت (creativity) کہاجاتا ہے، یعنی حالات کے زیر اثر آدمی کے اندر نئی فکری یا عملی خصوصیات کا پیدا ہونا:
Creativity: The ability to produce something new
اصل یہ ہے کہ جب کسی سماج میں دو گروپ ہوں— اقلیتی گروپ، اور اکثریتی گروپ، تو فطری قانون کے مطابق، وہاں چیلنج کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ اِس چیلنج کے نتیجے میں وہاں ایک خاموش عمل (process) جاری ہوتا ہے۔ وہ عمل ہے— اقلیتی گروہ کی تخلیقی صلاحیت کو بڑھانا، اقلیتی گروہ کے اندر طاقت ور داعیہ (incentive) پیدا کرکے اس کو مسلسل ترقی کی طرف لے جانا۔
یہ عمل ہر اُس ملک میں دیکھا جاسکتا ہے، جہاں اقلیت اور اکثریت دونوں قسم کے گروہ موجود ہوں۔ ایسے ماحول میں، اقلیتی گروہ کے اندر تخلیقی صلاحیت پیدا کرنے کا عمل ہر حال میں جاری ہوتا ہے، خواہ اُس کے لیے کوئی براہِ راست کوشش کی گئی ہو، یا نہ کی گئی ہو۔فطرت کے عمل (process) کو اگر روکا نہ جائے تو وہ اپنے آپ جاری ہوتا ہے، اور اپنے آخری انجام تک پہنچتا ہے۔
تخلیقیت (creativity) کے اِس عمل کو روکنے والی چیز صرف ایک ہے، اور وہ ہے اقلیتی گروہ کے اندر متشددانہ مزاج کا پیدا ہونا۔ اقلیتی گروہ کے اندر اگر ایسے ناعاقبت اندیش رہ نما پیدا ہوجائیں جو اپنی جذباتی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے لوگوں کے اندر منفی ذہن (negative thinking) پیدا کرکے اُن کو نفرت اور تشدد کے راستے پر ڈال دیں تو یقینا یہ عمل رک جائے گا۔ بہ صورتِ دیگر، یہ عمل کسی حالت میں رکنے والا نہیں۔ یہ فطرت کا فیصلہ ہے۔ اور فطرت کے فیصلے کو خود کُشی (suicide) کے سوا کوئی اور چیز روکنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تخلیقی حل

موجودہ زمانے میں کمپیوٹرکلچر اور انڈسٹری کے حلقوں میں ایک لفظ بہت استعمال ہوتا ہے، اور وہ ہے — تخلیقی حل (creative solution)یعنی جب کوئی نیا مسئلہ پیش آئے تو اس کے بارے میں ازسرِ نو غور کرنا، نئے انداز سے مسئلے کا حل تلاش کرنا۔ اس طرح جو حل دریافت ہوتا ہے، اس کو تخلیقی حل کہاجاتا ہے۔ تخلیقی طرزِ فکر ایک نیا ذہن دیتاہے، جس کی روشنی میں مسئلے کا زیادہ موثر حل دریافت کیا جاسکے:
A creative solution gives a fresh perspective to a challenging problem.
تخلیقی حل کا اصول صرف کمپیوٹر کا اصول نہیں ہے، بلکہ یہ فطرت کا ایک عام اصول ہے۔ کمپیوٹر کی دنیا میں اِس اصول کا سیکولر استعمال کیا گیاہے۔ یہی اصول خود اسلام میں بھی پوری طرح مطلوب ہے۔ اسلام میں جس چیز کو اجتہاد کہاگیا ہے، اُس سے مراد یہی اصول ہے۔ خواہ مذہب کا دائرہ ہو یا سیکولر دائرہ، ہر دائرے میں بار بار اِس کی ضرورت پیش آتی ہے کہ لوگ کھلے ذہن کے ساتھ از سرِ نو غور کریں۔ وہ تعصب جیسی چیزوں سے بلند ہو کر مسئلے کا نیا اور کارگر حل تلاش کریں۔
تخلیقی ذہن (creative mind)کا مالک کون ہے، یہ وہ انسان ہے جو تعصبات (prejudices) سے خالی ہو، جو چیزوں کے بارے میں بے آمیز انداز میں سوچ سکے، جو آخری حد تک کھلا ذہن (open mind) رکھتا ہو، جو اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر خالص موضوعی (objective) انداز میں رائے قائم کرسکتا ہو۔ یہی وہ انسان ہے جو کسی معاملے میں تخلیقی حل (creative solution) تک پہنچنے میں کامیاب ہوتاہے۔
تعصب کا مزاج تخلیقی ذہن کا پردہ ہے اور بے تعصبی کا مزاج تخلیقی ذہن کو کھول دینے والا ہے۔ اپنے آپ کو کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے والا بنائیے، اپنی فطرت کو ہر حال میں زندہ رکھیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کے ذہن نے مشکل ترین حالات میں بھی مسئلے کا ایک قابلِ عمل حل دریافت کرلیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سکینہ کیا ہے

قرآن میں حدیبیہ معاہدے کے تحت جو آیتیں آئی ہیں، اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ ۭ وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْماً (48:4) یعنی اللہ ہی ہے جس نے اہلِ ایمان کے دلوں میں سکینہ نازل کیا تاکہ اور بڑھ جائے اُن کا ایمان اپنے ایمان کے ساتھ۔ اور اللہ ہی کے ہیں سب لشکر آسمانوں اور زمین کے اور اللہ ہے خبر دار، حکمت والا۔
سکینہ کا لفظی مطلب اطمینان (tranquillity) ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں سکینہ کا مطلب یہ ہے کہ حدیبیہ معاہدے کی شرطیں اگرچہ اصحاب رسول کی مرضی کے خلاف تھیں، لیکن اللہ کے حکم کی بنا پر وہ اُس پر راضی ہوگئے۔ اِس رضامندی کے باعث، اللہ نے اُن پر یہ خصوصی فضل کیا کہ اُن پر اپنی وہ خاص رحمت نازل فرمائی جو اُنھیں قلبی اعتبار سے اُس پر مطمئن کردے اور جس فیصلے پر وہ بظاہر ناگواری کے ساتھ راضی ہوئے تھے، اُس کو اُن کے لیے ایک خوش گوار تجربہ بنادے۔
زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے ساتھ کوئی ناپسندیدہ صورت پیش آتی ہے۔ مثلاً کسی عزیز کی موت، کوئی مالی نقصان، کسی کی طرف سے بے عزتی کا معاملہ، وغیرہ۔ اِس طرح کامعاملہ آدمی کے لیے ہمیشہ صدمہ (shock) کا سبب بنتا ہے۔ لیکن اگر آدمی اللہ کے حکم (البقرة 155:) کی بنا پر صبر کرلے اور رد عمل کا اظہار نہ کرے تو اپنے اِس عمل کی بنا پر وہ اللہ کی خصوصی نصرت کا مستحق بن جاتا ہے، وہ یہ کہ جس چیز کو اُس نے ابتداء ً اپنی طبیعت پر جبر کرکے اختیار کیا تھا، اس کو اس کے لیے ایک خوش گوار واقعہ بنا دیا جائے۔
یہی مطلب ہے ’’ایمان پر ایمان کے اضافہ‘‘ کا، یعنی صبر کے معاملہ کو اطمینان کا معاملہ بنادینا۔ مومن کے دل میں پیدا ہونے والی اِسی کیفیت کو قرآن کی مذکورہ آیت میں ’ازدیادِ ایمان‘ کہاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حاضر دماغی

ایم کے گاندھی (وفات1948)انڈیا کے مشہور پولیٹکل لیڈر تھے۔ ان کا ایک واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار وہ ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ اسٹیشن پر جب وہ ٹرین میں سوار ہوئے تو چلتی ہوئی گاڑی میں ان کا ایک جوتا پاؤں سے نکل کر نیچے گرگیا۔ جوتا چلتی ہوئی ٹرین کے نیچے چلا گیا۔گاندھی نے اس وقت یہ کیا کہ اپنا دوسرا جوتا بھی پاؤں سے نکال کر نیچے گرادیا۔ کسی نے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا۔ گاندھی نے جواب دیا کہ اب وہ جوتا میرے کام کا نہیں تھا، میں نے اس لیے گرادیا کہ جو شخص اس کو پائے ، اس کو دونوں جوتا مل جائے۔ اس طرح وہ جوتے کو اپنے لیے قابلِ استعمال بنا لے گا۔
جوتا جوڑے کی شکل میں کار آمدہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ ایک جوتا گاندھی کے پاس رہتا ، اور دوسرا جوتا کسی پانے والے کے پاس تو وہ جوتا دونوں ہی کے لیے ناقابلِ استعمال ہوجاتا۔ اب جوتا کم از کم ایک شخص کے کام آجائے گا۔ اگر گاندھی دوسرے جوتے کو پاؤں سے نکال کر نہ گراتے تو وہ جوتا نہ گاندھی کے کام کا ہوتا ،نہ کسی دوسرے کے کام کا۔
اس طرح کا موقع ایک بحران (crises) کا موقع ہوتا ہے۔ اکثر لوگ ایسے موقع پر پریشان ہوجاتے ہیں۔اس طرح ان کی محرومی صرف محرومی بن کر رہ جاتی ہے۔ ہر محرومی کے بعد ایک امکان باقی رہتا ہے۔ اگر آدمی حاضر دماغی سے کام لے تو وہ اس آخری موقع کو استعمال کرنے کے قابل ہوجائے گا۔
حاضر دماغی (presence of mind) کا تعلق ہر معاملے سے ہے۔ چھوٹے معاملے سے بھی اور بڑے معاملے سے بھی، گھر کے معاملے سے بھی اور گھر کے باہر کے معاملے سے بھی، انفرادی معاملے سے بھی اوراجتماعی معاملے سے بھی۔ آدمی اگر حاضر دماغی سے کام لے تو وہ ہر نقصان میں فائدہ کا ایک پہلو دریافت کرلے گا، وہ ہر کھونے کو اپنے لیے ایک پانا بنا لےگا۔
واپس اوپر جائیں

شکایت بے جا

برطانیہ کے ایک ممبر پارلیمنٹ اِناک پاویل (Enoch Powell) نے ان سیاسی لیڈروں پر تبصرہ کیا ہے جومیڈیا کی شکایت کرتے ہیں۔اُن کے نزدیک یہ شکایت بے جا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کسی سیاسی لیڈر کی میڈیا سے شکایت ایسی ہی ہے جیسے پانی کے جہاز کا ایک کیپٹن سمندر کی موجوں کی شکایت کرنے لگے:
A politician who complains about the media is like a ship’s captain complaining about the sea.
یہ تبصرہ بالکل درست ہے۔ مگر یہ صرف سیاسی لیڈر اور میڈیاکی بات نہیں، بلکہ وہ ہر انسان کے لیے عام ہے۔ کوئی بھی عورت یا مرد جب کسی کی شکایت کرتے ہیں تو حقیقت کے اعتبار سے اُن کی شکایت ایک بے جا شکایت ہوتی ہے وہ ایک ایسے معاملے کو شکایت کا معاملہ بنالیتے ہیں جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے شکایت کا معاملہ ہی نہیں۔اِس دنیا کا نظام فطرت کے اصول پر قائم ہے۔ فطرت کے اصول کے مطابق کسی انسان کو جس دنیا میں رہنا پڑتا ہے، وہ گویا ایک سمندر ہے۔ اجتماعی زندگی ہمیشہ موجوں سے بھرے ہوئے سمندر جیسی ہوتی ہے۔ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوگا کہ ایک انسان کو موجوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ ان موجوں کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھے۔ وہ موجوں کی شکایت کرنے کے بجائے یہ آرٹ سیکھے کہ وہ کس طرح کامیابی کے ساتھ اِن موجوں سے گزر سکتا ہے۔
زندگی میں موج یا چیلنج کا وجود کوئی برائی نہیں۔ وہ انسان کی بہتری کے لیے ہے، وہ اس لیے ہے کہ انسان کی تربیت کرے، وہ اِس لیے ہے کہ انسان کی عقل میں اضافہ کرے، وہ اِس لیے ہے کہ انسان کو اور زیادہ طاقتور بنائے۔ زندگی میں مشکلات کی حیثیت تجربہ کی ہے، اور تجربہ کے بغیر کبھی کوئی انسان مکمل نہیں ہوسکتا۔آدمی کو چاہئے کہ وہ تجربات سے سیکھے، وہ شکایات کی نفسیات سے آخری حد تک اپنے آپ کو بچائے۔
واپس اوپر جائیں

دوآپشن کے درمیان

مولانا ابو الکلام آزاد (وفات1958:) نے اپنے بارے میں لکھا ہے:
’’زمانے نے میری صلاحیتوں کی قدر نہ کی.....‘‘
مولانا آزاد کے اِس جملے کا مطلب یہ تھا کہ پیدائشی فطرت کے اعتبار سے، وہ اعلی صلاحیت کے مالک تھے، لیکن دوسرے لوگوں نے اُن کو نہیں پہچانا، اِس لیے ان کی صلاحیت پوری طرح استعمال نہ ہوسکی۔مولانا ابو الکلام آزاد کا یہ احساس صرف ایک آدمی کا احساس نہیںہے۔تاریخ میں بہت سے ایسے انسان ہیں جو اپنے احساس کے اعتبار سے غیر استعمال شدہ شخصیت کی حیثیت سے جیے اور اسی احساس کے ساتھ وہ اِس دنیا سے چلے گیے۔ ایسے افراد کو بظاہر دوسرے لوگوں سے شکایت تھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد اپنے اِس احساس کے لیے تمام تر خود ذمہ دار تھے، نہ کہ کوئی دوسرا شخص۔
خالق نے موجودہ دنیا کو جس قانون کے تحت بنایا ہے، اس کے مطابق، کسی انسان کے لیے یہاں صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (option) ہے۔ ایک یہ کہ وہ کسی دوسرے کے بنائے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے آگے سرینڈر کرے، یا وہ اپنے لیے ایک خود تعمیر کردہ دنیا (self-created world) کو تخلیق کرے اور اس کے اندر اپنی مرضی کے مطابق رہے۔ اِن دو کے سواکوئی اور انتخاب کسی شخص کے لیے ممکن نہیں۔
موجودہ دنیا مسابقت (competition) کے اصول پر مبنی ہے۔ اس دنیا میں یہ ناممکن ہے کہ کوئی دوسرا شخص آپ کی قدر وقیمت کو پہچانے، اور وہ آپ کے ساتھ وہ سلوک کرے، جو بطور خود آپ اُس سے چاہتے ہیں۔ ایسا کبھی کسی انسان کے لئے نہیں ہوا۔ صلاحیتوں کو دینے والا اللہ رب العالمین ہے اور صلاحیتوں کا استعمال وہی شخص کرتا ہے جس کو صلاحیت دی گئی ہے۔ دوسرے آدمی سے زیادہ سے زیادہ جو امید کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ آپ کے کیے ہوئے کام کا اعتراف کرے۔اِس دنیا میں کوئی بھی شخص آپ کے حصے کا کام نہیں کرسکتا۔ موجودہ دنیا کے لئے یہ مقولہ بالکل درست ہے— کرو یا مرو Do or die :
واپس اوپر جائیں

تیسرا انتخاب

۱۸۔ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ کو میں نے دہلی اور جے پور کے درمیان سفر کیا۔ سفر کے لیے میرے سامنے دو ممکن صورتیں تھیں، ٹرین یا ہوائی جہاز۔ غیر شعو ری طورپر میرا ذہن یہ بن گیا کہ یا تو ٹرین سے سفر کرنا ہے یا ہوائی جہاز سے۔ ٹرین (شتابدی ایکسپریس) دہلی سے صبح کے وقت جے پور جاتی تھی اور شام کے وقت جے پور سے دہلی آتی تھی۔ ٹرین کا انتخاب کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں ۱۸ دسمبر کی صبح کو جے پور گیا اور ۱۹ دسمبر کی شام کو دہلی واپس آیا۔ اس بنا پر ایسا ہوا کہ ۱۹ دسمبر کا دن میں نے کھو دیا۔ ۱۹ دسمبر کو دہلی میں ایک بہت ضروری پروگرام تھا مگر میںاس میں شرکت نہ کر سکا۔
یہ واقعہ ثنائی طرز فکر (dichotomous thinking)کی بنا پر پیش آیا۔ یعنی صرف دو انتخاب (options) کے درمیان سوچنا۔ بعد کو مجھے احساس ہوا کہ میرے لیے یہاں تیسرا انتخاب بھی تھا۔ وہ یہ کہ میں ۱۸ دسمبر کی صبح کو ٹرین کے ذریعہ جے پور جاؤں ، اور ۱۹ دسمبر کی صبح کو سواری بدل کر ہوائی جہازکے ذریعہ دہلی واپس آؤں۔ ایسی صورت میں میں ۱۹دسمبر کے پروگرام میں بخوبی شریک ہوسکتا تھا۔یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان اکثر ثنائی طرز فکر کا شکار رہتا ہے۔ وہ اپنے مخصوص ذہن کی بنا پر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کے لیے صرف د و صورتوں میں سے ایک صورت کا انتخاب ہے۔ حالاں کہ وہاں ایک تیسری صورت بھی موجود رہتی ہے جو زیادہ مفید ہوتی ہے۔
تاریخ کی بہت سی ناکامیاں اسی ثنائی طرزِ فکر کا نتیجہ تھیں۔ مثلاً بہت سے لوگوں نے اپنے حالات کے ناقص اندازہ کی بنا پر یہ سمجھ لیا کہ ان کے لیے صرف دو ممکن صورتیں ہیں، یا جنگ یاذلت کی زندگی۔ حالاں کہ وہاں تیسری صورت بھی موجود تھی، اور وہ یہ کہ جنگ کو اوائڈ کرکے امن قائم کرنا اور مواقع کو استعمال کرکے اپنے کو مستحکم بنانا۔ اس حکمت کو نہ جاننے کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے غیر ضروری طورپر اپنے کو تباہ کرلیا، حالاں کہ اگر وہ تیسرے انتخاب کو لیتے تو وہ اس کو استعمال کرکے بہت بڑی کامیابی حاصل کرسکتے تھے۔
واپس اوپر جائیں

ذہین انسان کا مسئلہ

لارڈ کرزن (Lord Curzon) 1899سے 1905تک انڈیا میں برٹش وائسرائے تھے۔ وہ نہایت ذہین آدمی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کو اپنا برابر (equal)نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ اکثر ان کا لوگوں سے جھگڑا (quarrel) ہوجاتا تھا۔اپنی آخری عمر میں لارڈ کرزن شدید قسم کی بیماریوں کا شکار ہوئے۔وہ مایوسی کی حالت میں لندن میں 20مارچ 1925کو وفات پاگیے۔بوقت وفات ان کی عمر66 سال تھی ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ جو شخص زیادہ ذہین ہو، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھ لیتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کو اپنا ہم سر دکھائی نہیں دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسروں سے نصیحت لینے اور دوسروں سے سیکھنے کا مزاج اس کے اندر ختم ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے آپ میں جینے لگتا ہے۔ چناں چہ ذہانت کے باوجود وہ کوئی بڑا کام نہیں کرپاتا۔
ذہانت فطرت کا ایک قیمتی تحفہ ہے، مگر ذہین آدمی اسی وقت کوئی بڑا کام کرپاتا ہے کہ جب کہ ذہانت کے ساتھ اس کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پائی جائے۔ جس انسان کے اندر ذہانت ہو، مگر اس کے اندر تواضع نہ ہو، وہ اپنے آپ کو درست طور پر استعمال (utilise) نہیں کرپائے گا۔ اس کو دوسروں سے صرف شکایت ہوگی۔ وہ ہر ایک سے نفرت کرنے لگے گا۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر ذہانت کے ساتھ تواضع کی صفت پائی جائے، وہ اس قابل ہوگا کہ اپنی ذہانت کو بھرپور طور پر استعمال کرے۔ وہ دوسروں کے لیے بڑے پیمانے پر کوئی مفید کام انجام دے۔تواضع وہ ہے جو کہ حقیقی تواضع ہو، نہ کہ ظاہری تواضع۔
ذہانت خالق کی ایک عظیم نعمت ہے، جو کسی انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ مگر صرف ذہانت کافی نہیں۔ ذہانت کسی آدمی کو خالق کی طرف سے ملتی ہے، لیکن دوسری ضروری صفات آدمی کو خود اپنی کوشش سے اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً تواضع کی صفت، دوسروں سے سیکھنے کا جذبہ، دوسروں کے لیے خیرخواہ ہونا،دوسروں سے معتدل انداز میں ملنا، ہر ایک کوقابلِ عزت سمجھنا، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

مسئلہ کا حل

اکثر لوگ منفی نفسیات میں جیتے ہیں۔ وہ مسائل کے حوالہ سے شکایت کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کوئی ایسا نسخہ دریافت کرلیں جو مسائل کو ختم کرنے والا ہو تاکہ انہیں سکون کی زندگی حاصل ہوسکے۔ یہ ذہن فطرت کے قانون کے خلاف ہے، اور جو چیز فطرت کے خلاف ہو وہ کبھی حاصل ہونے والی نہیں۔
مسائل زندگی کا حصہ ہیں، وہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ مسئلہ کا حل مسئلہ کے ساتھ جینا ہے، نہ کہ مسئلہ کو ختم کرکے بے مسئلہ زندگی حاصل کرنا۔ کوئی چیز اُسی وقت تک مسئلہ نظر آتی ہے جب کہ اس کو مسئلہ سمجھا جائے۔ اگر مسئلہ کو زندگی کا لازمی حصہ سمجھ لیا جائے تو اس کے بعد مسئلہ معمول کی چیز بن جائے گا، وہ پریشان کن مسئلہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں بے مسئلہ زندگی اوربا مسئلہ زندگی کے درمیان انتخاب نہیں ہے بلکہ یہاں انسان کے لیے صرف ایک ہی انتخاب ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ بامسئلہ زندگی کو معمول کی چیز سمجھ کر اس پر راضی ہو جائے۔ مسئلہ کے بارے میں وہ اپنی منفی سوچ کو ختم کردے۔
مسئلہ کیا ہے۔ مسئلہ در اصل اجتماعی زندگی کی قیمت ہے۔ انسان اکیلا نہیں رہ سکتا۔ وہ اپنی ساخت کے اعتبار سے مجبور ہے کہ اجتماعی زندگی گذارے اور جب بھی وہ اجتماعی زندگی میں رہے گا تو اس کے ساتھ مسائل بھی ضرور پیش آئیں گے۔ انفرادی زندگی بے مسئلہ زندگی ہوسکتی ہے۔ مگر انفرادی زندگی گذارنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ انسانی تقاضے صرف اجتماعی زندگی میں پورے ہوسکتے ہیں۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کو اجتماعی زندگی کے لازمی جزء کی حیثیت سے قبول کرے۔
مسئلہ زندگی کی سرگرمیوں سے جڑا ہوا ہے۔جہاں سرگرمیاں ہوں گی وہاں مسائل بھی لازمی طورپر پائے جائیں گے۔ مسئلہ کو مسئلہ نہ سمجھنا ہی مسئلہ کا واحد یقینی حل ہے۔مسئلہ کا حل ہمیشہ آدمی کے ذہن میں ہوتا ہے نہ کہ اس کے باہر۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت پسندی، معیار پسندی

ایک دانش مند نے داخلی حکمت اور خارجی حکمت کو بتاتے ہوئے کہاہے— دوسروں کے بارے میں جاننا، دانش مندی ہے۔ اور اپنے بارے میں جاننا، ذہنی بیداری:
Knowing others is wisdom; knowing the self is enlightenment.
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کے لیے دو قسم کی تیاری درکار ہوتی ہے، اپنے اعتبار سے اور دوسروں کے اعتبار سے۔ یہ دونوں ہی تیاری یکساں طورپر ضروری ہے۔ کسی ایک میں تیار ہونا اور دوسرے میں تیار نہ ہونا، آدمی کے لیے کافی نہیں۔
دوسروں کے بارے میں دانش مندی یہ ہے کہ آدمی دوسروں سے وہی امید کرے جو باعتبار حقیقت ممکن ہے۔اِس معاملے میں ضرورت سے زیادہ امید (over-expectation) ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ دوسروں کے بارے میں امید قائم کرتے ہوئے آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے جذبات کو پوری طرح الگ رکھے اور صرف امرِ واقعہ کی بنیاد پر امید قائم کرے۔
جہاں تک اپنی ذات کا تعلق ہے، اِس معاملے میں آدمی کو چاہیے کہ وہ آخری امکان تک جائے۔ وہ آخری حد تک اپنے آپ کو دریافت کرے، وہ آخری حد تک اپنے آپ کو استعمال کرنے کی کوشش کرے، دوسروں کے معاملے میں حقیقت پسندی (realism)مطلوب ہے، اور اپنے معاملے میں معیار پسندی(idealism) ۔
ایک صاحب کو مشورہ دیتے ہوئے میں نے کہا— اپنے گھر کے اندر آپ آیڈیلسٹ (idealist) بنئے، اور گھر سے باہر نکلتے ہی پریکٹکل (practical) بن جائیے۔
اِن دو طرفہ تقاضوں کو نبھانا، ایک مشکل کام ہے۔ اِس دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اِن دو طرفہ تقاضوں کو نبھائیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے معاملے میں حقیقت پسند (realist) ہو اور اپنے معاملے میں معیار پسند(idealist)۔ جس آدمی کے اندر اِس کے برعکس مزاج ہو، وہ اِس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

اپنے آپ کو بچائیے

مدر ٹریسا، مقدونیہ (یورپ) میں 1910 میں پیدا ہوئیں اور 1997کلکتہ میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی سماجی خدمات پر ان کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ ان کو 1979 میں نوبل پرائز دیاگیا۔ لیکن مدر ٹریسا کے بارے میں ان کے سوانح نگار نے لکھا ہے کہ — وہ ذہنی کرب کی حالت میں مریں:
She died in agony.
یہی تقریباً تمام مصلحین (reformers) کا حال ہوا ہے۔ انھوںنے اپنے اصلاحی کام کا آغاز امیدوں کے ساتھ کیا، لیکن جب ان کا آخری وقت آیا تو ہر ایک صرف ناامیدی کی موت مرا۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر مصلح خارجی لوگوں کی اصلاح کو اپنا نشانہ بناتا ہے، اور جب خارجی لوگوں کی اصلاح نہیں ہوتی تو وہ مایوسی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی مطلوب اصلاح کے لیے خود اپنی ذات کو نشانہ بنائے۔ ایسی حالت میں یقینی طورپر ہر شخص کامیاب ہوگا، کوئی بھی شخص مایوسی میں مبتلا نہ ہوگا۔
خارجی اصلاح کو نشانہ بنانا، اپنے آپ میں درست ہے، لیکن آئڈیل معنوں میں خارج کی اصلاح کبھی نہیں ہوتی۔ اِس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے خود اپنی ذات کو نشانہ بنائے۔ دوسرے لوگ کسی انسان کے قبضے میں نہیں ہوتے، لیکن آدمی کی اپنی ذات یقینی طور پر اس کے قبضے میں ہے۔ ہر آدمی کو اپنی ذات پر کامل اختیار حاصل ہے۔ ایسی حالت میں اصلاح کے لیے اپنی ذات کو نشانہ بنانا، قابلِ حصول کو نشانہ بناناہے، اور قابلِ حصول نشانے کو اپنا نشانہ بنانے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا۔
اگر آپ دوسروں کو نہ بچا سکیں تو اپنے آپ کو بچائیے، اپنے آپ کو منفی نفسیات سے مکمل طورپر محفوظ رکھیے، اپنے اندر مثبت شخصیت کی تشکیل کیجئے۔ اگر آپ اپنی ذات کے اوپر کامیاب ہوگئے تو آپ دوسروں کے اوپر بھی ضرور کامیابی حاصل کرلیں گے۔
واپس اوپر جائیں

Tuesday, 2 February 2016

Al Risala | February 2016 (الرسالہ،فروری)

4

-ایمان کے بعد ایمان

5

- بصیرِ زمانہ

6

- موافقِ اسلام دور

9

- سیاسی ایمپائر سے غیر سیاسی ایمپائر تک

12

- دور جنگ کا خاتمہ

14

- منفی سوچ اسلام میں نہیں

23

- صبر کا فلسفہ

26

- حمد کلچر

28

- پیغمبر ِ امن

32

- خاموش تبلیغ

35

- سیاسی غلو

41

- دورِ قدیم، دورِ جدید

42

- دعوت عام، اصلاح امت

43

- امیج بلڈنگ

44

- سوال وجواب

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


ایمان کے بعد ایمان

قرآن میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئےایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا (النساء136 :) یعنی اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ۔ اس آیت کے مطابق اہل ایمان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ایمان کے بعد دوبارہ ایمان لائیں۔ یہ ایمان کے بعد دوبارہ ایمان کیا ہے ، اس کو سمجھنے کے لیے قرآن کی ایک اور آیت کا مطالعہ کیجیے۔ اس دوسری آیت کے الفاظ یہ ہیں: قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُم (الحجرات14 :)یعنی اعراب (بدو) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، کہو کہ تم ایمان نہیں لائے۔ بلکہ یوں کہو کہ ہم نے اسلام قبول کیا، اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔
دونوں آیتوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد ایمان کا مطلب یہ ہے کہ قولی ایمان کو داخل القلب ایمان بنایا جائے۔ کلمۂ ایمان کے تلفظ کو ایک ایسے کلمہ کے درجے تک پہنچایا جائے جو انسان کے لیے یقین اور شعوری بیداری کے ہم معنی بن جائے۔ ایک ایسا ایمان جو انسان کی سوچ میں اس طرح شامل ہوجائے کہ وہ اپنے ہر علم اور ہر تجربے کو حقیقتِ ایمانی میں ڈھال لے۔
یہ مقصد کس طرح حاصل ہوتا ہے۔ اس کا ذریعہ صرف ایک ہے، اور وہ تدبر (ص29 :) ہے۔ یعنی ایمان باللہ اور اس کے متعلقات پر برابر سوچتے رہنا، ہرمعاملے کو اللہ کی ہدایت کی روشنی میں جانچتے رہنا، ہر صبح و شام اپنا بے لاگ محاسبہ کرتے رہنا، کائنات کی نشانیوں میں مسلسل طور پر غور کرتے رہنا، ہر مشاہدہ اور تجربہ سے رزقِ رب (طہ131:) حاصل کرتے رہنا۔ اسی کا نام تدبر ہے۔ اور یہی تدبر اس بات کا ضامن ہے کہ کسی انسان کا قولی ایمان ایک داخل القلب ایمان بن جائے۔ اقرار کے درجے کا ایمان یقین کے درجے کا ایمان بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

بصیرِ زمانہ

ایک طویل حدیث، ابو ذر غفاری نے روایت کی ہے۔ایک سوال کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَعَلَى الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ بَصِیرًا بِزَمَانِہِ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361) ۔ اور عاقل کو چاہیے کہ وہ اپنے زمانے کو جاننے والا ہو۔ اس حدیث میں عاقل سے مراد عاقل مومن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن کے اندر یہ دانش مندی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے زمانے سے پوری طرح باخبر ہو۔ اپنے زمانے سے بے خبر ہونا مومن کے لیے جائز نہیں ہے۔
بصیر زمانہ ہونے کا مقصد کیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مومن اپنے عمل کی صحیح منصوبہ بندی (right planning) کر سکے۔ زمانے سے باخبری کے بغیر اسلامی عمل کی صحیح منصوبہ بندی نہیں ہوسکتی ہے۔ اس بنا پر مومن کو یہ کوشش کرنا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات سے پوری طرح باخبر ہو، ورنہ اس کی سرگرمیاں بے نتیجہ ہوکر رہ جائیں گی۔
مثال کے طور پر مومن اگر ایسے زمانہ میں ہے جو امن کا زمانہ ہے۔ ایسے زمانے میں صرف پر امن منصوبہ بندی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ اگر مومن زمانے کے حالات سے بے خبر ہو، اور وہ امن کے زمانے میں جنگ کی تیاری کرے، اور پھر اپنے زمانے کے لوگوں کے خلاف لڑائی چھیڑ دے تو بلاشبہ اس کا منصوبہ غلط ہوجائے گا۔اپنے جان و مال کو قربان کرنے کے باوجود وہ کوئی مثبت نتیجہ (positive result) حاصل نہ کرسکے گا۔
اسی طرح اگر مومن پرنٹنگ پریس کے زمانے میں ہے، اور وہ ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں کی لائبریری بنا رہا ہے تو اس کا ایسا کرنا عملاً ایک ایسا کام ہوگا جس کا کوئی حقیقی نتیجہ نہیں ۔ اسی طرح اگر مومن ایسے زمانے میں ہے جب کہ اظہارِ رائے کی آزادی ایک مسلمہ حق سمجھا جاتا ہے، اور وہ دوسروں کی اظہارِ رائے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرے تو یہ مطالبہ عملاً کبھی پورا نہ ہوگا۔البتہ وہ معتدل ماحول ختم ہوجائے گا جس میں مومن کے لیے بھی اظہارِ رائے کی یکساں آزادی ہو۔
واپس اوپر جائیں

موافقِ اسلام دور

قرآن و حدیث میں کثرت سے ایسی پیشین گوئیوں کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والا دور، اسلام کے لیے ایک موافق دور بن جائے گا۔ یہ ممکن ہوجائے گا کہ اسلامی دعوت کا مشن موافق حالات میں انجام دیا جاسکے۔ اس سلسلے میں کچھ متعلق آیتیں اور حدیثیں یہاں نقل کی جاتی ہیں۔
1- ایک آیت قرآن میں تین مقام پر آئی ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں: ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَى وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَى الدِّینِ کُلِّہِ(التوبہ 33 :، الفتح 28 :، الصف 9 :) یعنی اسی نے اپنے رسول کو بھیجا ہے ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس کو سارے دین پر غالب کردے۔ اس آیت میں اظہار سے مراد سیاسی اظہار نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب دلائل و براہین کے ذریعے اظہار۔ اِس اظہار سے مراد کوئی وقتی اظہار نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے تاریخ میں ایک ایسا عمل (process )شروع ہوگا جو مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اس انتہا تک پہنچے گا کہ دنیا میں حالات کے لحاظ سے ایک موافق اسلام دور آجائے۔ اہل اسلام کے لیے یہ موقع ہوگا کہ وہ حکیمانہ منصوبہ مندی کے ذریعے اللہ کے دین کو نظریاتی اعتبار سے ایک غالب دین بنادے۔
2- اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (فصلت53 :) یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔ قرآن کی اس آیت میں اُن علمی دلائل کا ذکر ہے جو سائنسی دور میں سامنے آئے۔ اور جو اسلام کے نظریات کو مسلمہ دلائل کے سطح پر ثابت کرنے والے ہیں۔
3۔ اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے:سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَى بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا (الاسراء 1 :)یعنی پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ قرآن کی اس آٰیت میں پیغمبر اسلام کے ایک واقعے کی صورت میں امت کے لیے اس مستقبل کی پیشگی خبر دی گئی ہے جب کہ دنیا میں ہوائی سفر کا دور آجائے گا، اور امتِ محمدی کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ تیز رفتار سفر کے ذریعے ساری دنیا میں اللہ کا پیغام پہنچادے۔
4- اسی طرح ایک لمبی حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں:ولیتمن اللہ ہذا الأمر حتى یسیر الراکب ما بین صنعاء إلى حضرموت، لا یخشى إلا اللہ (مسند احمد، حدیث نمبر21057) یعنی اللہ ضروراس امر کو مکمل کرے گا یہاں تک کہ ایک مسافر صنعاء اور حضرموت کے درمیان سفر کرے گا، اور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہ ہوگا۔ اس حدیثِ رسول میں اس دور کی پیشگی خبر دی گئی ہے جب کہ دنیا میں مذہبی جبر (religious persecution) کا دور مکمل طور پر ختم ہوجائے گا، اور مذہبی آزادی (religious freedom) کا دور مکمل طور پر آجائے گا۔ اور یہ ممکن ہوجائے گا کہ کسی رکاوٹ کے بغیر اسلامی دعوت کا کام ساری دنیا میں بلا خوف کیا جاسکے۔
5- اسی طرح ایک حدیث میں امت کے لیے ایک واقعے کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے: فلم یقاتلوا بسلاح ولم یرموا بسہم قالوا لا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر فیسقط أحد جانبیہاثم یقولوا الثانیة لا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر فیسقط جانبہا الآخر ثم یقولوا الثالثة لا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر فَیُفَرَّجُ لہم فیدخلوہا ۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2920)یعنی وہ کسی ہتھیار سے جنگ نہیں کریں گے، اور نہ کوئی تیر اندازی کریں گے، وہ صرف لا الہ الا اللہ ، اور اللہ اکبر کہیں گے پس قلعے کے ایک جانب کی دیوار گر جائے گی، پھر وہ دوبارہ کہیں گے، لا الہ الا اللہ ، اور اللہ اکبر تو دوسری سمت کی دیوار بھی گر جائے گی، پھر وہ تیسری مرتبہ کہیں گے، لا الہ الا اللہ ، اور اللہ اکبر تو وہ ان کے لیے کھل جائے گا، پس وہ اُس میں داخل ہوجائیں گے۔
اس حدیث میں اُس آنے والے دور کو بتایا گیا ہے جب کہ پر امن جدو جہد (peaceful activism) ہر قسم کی کامیابی کے لیے کافی ہوگی۔
6- اسی طرح ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد فاجر انسان کے ذریعے سے کرے گا۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دور میں اسلام کے لیے موافق حالات اتنے عام ہوجائیں گے کہ سیکولر لوگوں کا عمل بھی اس کےحق میں تائید بن جائے گا۔
7-اس نوعیت کی ایک آیت فرعون کے ذیل میں اس طرح آئی ہے: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً (یونس 92 :) یعنی (اللہ نے فرعون سے کہا کہ)پس آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لئے نشانی بنے۔اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں ایسی نشانیاں ظاہر ہوں گی جو قرآن کے بیانات کی تصدیق کرنے والی ہوں، انھیں میں سے ایک حضرت موسی کے زمانے کے فرعون کی لاش کی دریافت ہے۔ جوآج قاہرہ کے میوزیم میں موجود ہے۔
8- اسی طرح قرآن کی دو آیتیں ہیں: الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ™ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ ™ (الملک 3-4 :) قرآن کی یہ آیتیں  ساتویں صدی عیسوی میں اتریں۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ خدا کی تخلیق میں کوئی فطور (flaw) نہیں ہے۔ بعد کی تحقیقات مسلسل طور پر اس قرآنی دعوے کی تصدیق کرتی جارہی ہیں۔
اس طرح کے بیانات قرآن و حدیث میں کثرت سےموجود ہیں۔ یہ بیانات اسلام کی ابدیت کو بتاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی صداقت ہر دور میں نئے نئے دلائل کے ساتھ ظاہر ہوتی چلی جائے گی۔ اسلام ہمیشہ ایک زندہ مذہب کی حیثیت سے باقی رہے گا۔ اسلام کے ساتھ نہ صرف اس کے پیرؤوں کی بڑی تعداد موجود رہے گی، بلکہ نظری اعتبار سے اسلام ہمیشہ دلیل و حجت کی سطح پر قائم رہے گا۔ اسلام کی یہ حیثیت اسلام کے داعیوں کے لیے ایک بشارت ہے۔
واپس اوپر جائیں

سیاسی ایمپائر سے غیر سیاسی ایمپائر تک

کمیونی کیشن کے اعتبار سے تاریخ کے دو دور ہیں۔ ایک ہے اتصال قریب کا دور، اور دوسرا ہے الاتصال عن بُعد (telecommunication) کا دور۔ جدید کمیونی کیشن (modern communication )سے پہلے جسمانی ذریعے سے اتصال ہوا کرتا تھا۔ جدید کمیونی کیشن کے دور میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ جسمانی دوری کے باوجودبذریعہ آلات اتصالِ بعیدکیا جاسکے۔ اتصالِ بعید کا یہ طریقہ اسلام جیسے دعوتی مشن کے لیے بے حد اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اس دریافت کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ محلی دعوت کو عالمی دعوت کی صورت دی جاسکے۔ یہ تاریخی واقعہ اسلامی مشن کے لیے بے حد اہم تھا۔ اس لیے اس کو پیشگی طور پر پیغمبر کو ایک وقتی معجزہ کی صورت میں دکھایا گیا۔ اس معجزاتی واقعہ کو قرآن کی سورہ نمبر17 میں اِسراء کہا گیاہے۔
اسراء کا لفظی مطلب ہے رات کو سفر کرنا (to travel by night) ۔ یہ لفظ عام طور پر تیز رفتار سفر کے لیے بولا جاتا ہے۔ بعد کے زمانے میں ایسی ٹکنالوجی دریافت ہونے والی تھی جس کے بعددور کا سفر یا دور کی پیغام رسانی عمومی طور پر ممکن ہوجائے۔ اور اس طرح ایک انقلابی واقعہ ظہور میں آئے۔ وہ یہ کہ دعوتِ نبوت جو قدیم تاریخ میں ایک محلی دعوت کی حیثیت رکھتی تھی، وہ جدید ٹکنالوجی کے ذریعےایک عالمی دعوت کی حیثیت اختیار کرلے۔ یہ واقعہ پیغمبرانہ مشن کی نسبت سے ایک انقلابی واقعہ تھا۔ یہ انقلابی واقعہ قدیم زمانے میں لوگوں کے لیےایک ناقابل تصور واقعہ ہوسکتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالی نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک وقتی معجزہ کی صورت میںاس کا تجربہ کرایا جو بعد کے زمانے میں ایک عمومی واقعہ بننے والا تھا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس واقعہ کا تجربہ اس طرح کرایا گیا کہ ہجرت سے ایک سال پہلے 622 عیسوی میں ایک رات کو مکہ سے یروشلم تک کے سفر کا وہ واقعہ پیش آیا جس کو قرآن میں اسراء کہا گیا ہے۔ واضح ہو کہ مکہ سے یروشلم تک کی دوری تقریبا دوہزار کلو میٹر ہے۔
اس سلسلے میں قرآن کی سورہ نمبر 17 میں یہ الفاظ آئے ہیں:سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَى بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا (الاسراء1:) ۔ اس آیت میں لنریہ من آیاتنا میں من تبعیضیہ ہے۔ اس کا ترجمہ اردو مترجمین نے ’’کچھ‘‘کے لفظ سے کیا ہے۔اورشاہ ولی اللہ دہلوی نے درست طور پران الفاظ کا فارسی ترجمہ اس طرح کیا ہے:تا بنمایم اش بعض نشانہائے خود(تاکہ ہم دکھائیں اس کو اپنی نشانیوں میں سے بعض )۔
قرآن کی تفسیر میں جس چیز کو شان نزول کی روایات کہا جاتا ہے، ان میں قیاساًتاریخ بھی شامل ہے۔ یعنی نزولِ قرآن کے وقت جو تاریخ تھی اس کے حوالے سے قرآن کی بعض آیات کو سمجھنا۔ اس اصول کے مطابق غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں من آیاتناسے مراد غالباً مستقبل کاوہ واقعہ ہے جو کمیونی کیشن بذریعہ ٹکنالوجی کی صورت میں بعد کوظہور میں آنے والا تھا۔
ایک مثال
اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا،اسنا (ISNA)کی دعوت پر میرا ایک سفر امریکا کے لیے ہوا۔ 26 اگست 2015 کو دہلی سے روانگی ہوئی۔ تو دہلی سے ایر انڈیا کے ذریعے روانگی ہوئی۔ 9ستمبر2015کو دہلی واپس پہنچا۔ یہ سفر ایک قافلے کی صورت میں تھا۔ اس میں دس آدمی شامل تھے۔ اس سفر کے دوران نیو یارک، واشنگٹن، شکاگو، اور پنسلوانیا میں مختلف پروگرام ہوئے۔
اس سفر کے دوران ایک خاص تجربہ وہ تھاجو 4ستمبر2015 کو پیش آیا۔ شکاگو ایرپورٹ کے پاس ایک ادارہ ٹرکش امریکن سوسائٹی(Turkish American Society) کے نام سے قائم ہے۔ اس سینٹر کے ذمے دار مجھ کو وہاں لے گئے۔ تقریبا ایک دن وہاں ٹھہرنے کا موقع ملا۔ یہ ایک بڑا سینٹر ہے جو امریکا کے ترقیاتی معیار پر قائم کیا گیا ہے۔ یہ فتح اللہ گولن کی تعلیمی تحریک کے مرکز کے طور پر بنایا گیا ہے۔
فتح اللہ گولن کی تحریک ایک غیر سیاسی تحریک ہے۔ اس کے ممبروں کی تعداد تقریبا دو ملین ہے۔ یہ لوگ جدید اسٹینڈرڈ کے مطابق ساری دنیا میں انگریزی اسکول قائم کرتے ہیں۔ ان کے اسکولوں اور تعلیمی مرکزوں کی تعداد مختلف ملکوں میں تقریبا ڈیڑھ ہزار ہے۔ یہ تعلیمی ادارے تقریباً ایک سو ساٹھ ملکوں میں قائم ہیں۔ امریکا میں ان کا جو اسکول ہے وہ امریکا کے دس اعلیٰ اسکولوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
جدید ترکی کا میں عرصہ سے مطالعہ کر رہاہوں۔ پہلی بار ترکی کے لیے میرا سفر مئی 2012 میں ہوا تھا۔ یہ سفر فتح اللہ گولن کے ادارہ کی دعوت پر ہوا تھا۔ دوسری بار امریکا کے سفر کے دوران جدید ترکی کے بارے میں مزید معلومات مجھے حاصل ہوئیں۔اس مطالعے کا ایک پہلو وہ ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ فتح اللہ گولن صاحب اور ان کے ساتھیوں نے دورِ حاضر کے مواقع کو سمجھا، اور خاموش عمل کے ذریعے پوری دنیا میں اپنا ایک ایجوکیشنل ایمپائر قائم کردیا۔
جو لوگ خلافتِ ترکی کے سقوط کو ملت کا ناقابلِ تلافی المیہ سمجھتے ہیں، ان کو معلوم نہیں کہ اس دنیا میں کوئی محرومی ناقابلِ تلافی محرومی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ترکی نے پولٹیکل ایمپائر کو کھویا، مگر اس کے بعد وہاں کے کچھ لوگوں نے زیادہ بڑے پیمانے پر ایجوکیشنل ایمپائر بنالیا۔ امریکا کے لیےمیرا یہ سفر دو ہفتے کے لیے تھا۔ اس دوہفتے کے دوران میری ٹیم کمیونی کیشن کے ذریعے عالمی سطح پر دعوتی کام کرتی رہی۔ میں نے سوچا کہ یہ بھی دعوہ ایمپائر کی مثال ہے۔ اس دعوہ ایمپائر کے امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ یہ کہنا صحیح ہوگا :
Sky is the limit
قدیم زمانے میں کئی سیاسی ایمپائر بنائے گئے۔ ان میں سے ہر سیاسی ایمپائر محدود جغرافی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں کمیونی کیشن کی ترقی نے اس بات کو ممکن بنادیا ہے کہ غیرسیاسی ایمپائر کوپوری دنیا میں قائم کیا جاسکے۔ حتی کہ اگر چاند اور مریخ پر انسان ہوں توماڈرن کمیونی کیشن کے ذریعے اس غیر سیاسی ایمپائر کا دائرہ وہاں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمان عصر حاضر کو سمجھیں ، اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔ یہ وقت کی سب سے زیادہ اہم ضرورت ہے۔
واپس اوپر جائیں

دور جنگ کا خاتمہ

انسان کی تاریخ بظاہر جنگوں کی ایک تاریخ نظرآتی ہے۔ بیسویں صدی سے پہلے یہ جنگ ایک زمانی ضرورت ہو سکتی تھی مگر بیسویں صدی کے بعد انسانی زندگی میں جو انقلاب آیا ہے اُس کے بعد جنگ ایک غیر ضروری چیزبن چکی ہے۔ اب جنگ ایک قسم کا خلاف زمانہ فعل (anachronism) ہے۔وہ سب کچھ جس کو حاصل کرنے کے نام پر پہلے جنگ کی جاتی تھی وہ اب جنگ کے بغیرزیادہ بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ قدیم پُر تشدد ذرائع کے مقابلہ میں جدید پُر امن ذرائع کہیں زیادہ موثر اور نتیجہ خیز حیثیت رکھتے ہیں۔
قدیم زمانہ میں اتنی زیادہ جنگ کیوں ہوتی تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حوصلہ مند لوگوں کو اپنے حوصلہ کی تسکین کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا تھا کہ وہ لڑکر اپنا مقصد حاصل کریں۔ وہ جنگ اس لیے کرتے تھے کہ اُن کے سامنے بظاہر جنگ کا کوئی متبادل (alternative)موجود نہ تھا۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں دو ایسی چیزیں مو جود تھیں جو لوگوں کے لیے جنگ کو گویا ناگزیربنائے ہوئے تھیں۔ ایک، خاندانی بادشاہت اور دوسرے، زرعی اقتصادیات۔
قدیم زمانہ میں ہزاروں سال سے خاندان پر مبنی بادشاہت (family rule)کا طریقہ چلاآرہا تھا۔ اس نظام کی بنا پر ایسا تھاکہ کسی سیاسی حوصلہ مند کے لیے اپنے سیاسی حوصلہ کی تسکین کی صرف ایک ہی صورت تھی۔ یہ کہ وہ موجود خاندانی حکمراں کو قتل یا معزول کر کے اُس کے تخت پر قبضہ کر لے۔ اس طرح ایک خاندان کے بعد دوسرے خاندان کی حکومت کا نظام ہزاروں سال تک دنیا میں چلتا رہا۔
موجودہ زمانہ میں پہلی بار ایساہوا کہ تاریخ میں ایسے انقلابات پیش آئے جن کے نتیجہ میں خاندانی بادشاہت کا نظام ختم ہو گیا اور دنیا میں جمہوری حکمرانی کا نظام قائم ہوا۔اب سیاسی حکمران دَوری انتخابات(periodical election)کے ذریعہ چُنے جانے لگے۔ اس طرح ہر آدمی کے لیے اپنے سیاسی حوصلہ کے نکاس(outlet)کا موقع مل گیا، ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ پُرامن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے یہ کوشش کرے کہ وہ کسی بھی دوسرے شخص کی طرح مقرر میعاد(term)کے لیے سیاسی اقتدار تک پہنچ جائے۔
دوسرا بنیادی فرق وہ ہے جو اقتصادیات کے میدان میں ہوا ہے۔ قدیم زمانہ میں ہزاروں سال سے ایسا تھا کہ اقتصادیات کا سارا انحصار زمین پر مبنی ہوتا تھا۔ جس کے پاس زمین ہے وہ صاحبِ مال ہے۔اور جس کے پاس زمین نہیں وہ صاحبِ مال بھی نہیں۔ مزید یہ کہ قدیم سیاسی نظام کے تحت، زمین کا اصل مالک بادشاہ ہوتا تھا، یا وہ جس کو بادشاہ جاگیر یا عطیہ کے طور پر زمین دے دے۔
ایسی حالت میں کسی اقتصادی حوصلہ مند کو اپنے حوصلہ کی تکمیل کی ایک ہی صورت نظر آتی تھی۔ یہ کہ وہ مالک زمین سے لڑ کر اُس سے زمین کو چھینے اور اُس پر قابض ہو کر اپنے اقتصادی حوصلہ کی تسکین حاصل کرے۔ قدیم زمانہ میں اس اعتبار سے کسی آدمی کے لیے بظاہر صرف دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔یا تو وہ مستقل غریبی پر قانع رہے یا جنگ کر کے زمین پر قبضہ حاصل کرے۔
موجودہ زمانہ میں اس پہلو سے ایک نیا واقعہ ظہور میں آیا ہے جس کو صنعتی انقلاب (industrial revolution)کہا جاتا ہے۔ اس جدید انقلاب نے صورت حال کو یکسر بدل دیا۔ اب ہزاروں بلکہ ان گنت ایسے نئے اقتصادی ذرائع وجود میں آگئے ہیں جن کو استعمال کر کے ہر آدمی بڑی سے بڑی کمائی کر سکتا ہے۔ زمین کا مالک بنے بغیر وہ دولت کا مالک بن سکتا ہے۔ یہ تبدیلی اتنی زیادہ بڑی ہے کہ اُس کو بجا طور پور معاشی انفجار (economic explosion)کہنا درست ہوگا۔
یہ تبدیلی اتنی بڑی ہے کہ اُس نے انسانی زندگی کے سیاسی اور معاشی نظام کو آخری حد تک بدل ڈالا ہے۔ جو کچھ پہلے بظاہر نا ممکن تھا، وہ اب پوری طرح ممکن ہو چکا ہے۔ پہلے جو چیز صرف خیالی نظر آتی تھی، وہ اب واقعہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ سیاسی اور اقتصادی اجارہ داری(monopoly) کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
اس انقلابی تبدیلی کے بعد اب کسی کے لیے جنگ کا کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ کوئی شخص جس اقتصادی یا سیاسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اُس کو وہ جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے، پُر امن طور پر حاصل کر سکتا ہے۔ ایسی حالت میںجنگ کرنے کی کیا ضرورت۔ اب جنگ اور تشدد کا طریقہ کسی آدمی کے لیے اپنی بے شعوری کا اعلان تو ہو سکتا ہے۔ مگر وہ کسی مقصد کے حصول کا کوئی نتیجہ خیز ذریعہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

منفی سوچ اسلام میں نہیں

ایک قوم کے اندر دوسری قوم کے خلاف منفی جذبات اُس وقت پیدا ہوتے ہیں، جب کہ پہلی قوم اپنی کسی مصیبت کا ذمّے دار دوسری قوم کو سمجھ لے۔ مگر اسلام میں اس قسم کی منفی سوچ کی قطعاً گنجایش نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خدا نے قرآن میں حتمی طور پر اعلان کیا ہے کہ جو بھی مصیبت تمہارے اوپر آتی ہے وہ صرف تمہارے اپنے ہی کیے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ (الشوری30:) اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق ، کوئی مصیبت پیش آنے پر صرف یہ کرنا ہے کہ ذاتی احتساب (self-introspection) کر کے اپنی جانب کی کوتاہی کو معلوم کیا جائے جو کہ اصل وجہ ہے۔ اور پھر اس کو درست کیا جائے۔ اِس کے برعکس، اپنی مصیبت کا ذمے دار کسی دوسرے کو قرار دے کر اس کے خلاف نفرت اور انتقام میں مبتلا ہونا، اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں۔
پیغمبرِاسلام کی حدیثوں میں بھی یہ حقیقت مختلف انداز سے بیاں ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث یہ ہے: لازلتم منصورین علیٰ أعدائکم مادمتم متمسّکین بسنّتی،فان خرجتم عن سنتی سلّط ﷲ علیکم من لایخافکم ولایرحکم، حتیّ تعودوا الیٰ سنّتی (صحیح مسلم) یعنی تم اپنے دشمنوں پر اس وقت تک غالب رہوگے جب تک میری سنت کو پکڑے رہوگے۔ اور جب تم میری سنت سے نکل جائوگے تو اﷲ تمہارے اوپر ایسے لوگوںکو مسلّط کردے گا جونہ تم سے ڈرے گا، اور نہ تم پر رحم کرے گا یہاں تک کہ تم میری سنت کی طرف لوٹ آئو۔
قرآن سے مزید معلوم ہوتا ہے کہ دشمن خود مسلمانوں کی اپنی غلطی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اس سے باہر، خارجی مسئلے کی حیثیت سے، دشمن کا کوئی وجود نہیں۔ قرآن کی ایک آیت میں بتایا گیا ہے: وان تصبرواوتتّقوا لایضّرکم کیدھم شیئاً (آلِ عمران120:) یعنی اگر تم صبر کرو، اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ اہلِ ایمان کے لیے اصل مسئلہ، سازش کی موجودگی نہیں ہے بلکہ صبر اور تقویٰ کی غیر موجودگی ہے۔ اگر اہلِ ایمان کے اندر صبر اور تقویٰ کی صفت پائی جائے تو وہ پوری طرح دشمنوں کی سازش سے محفوظ رہیں گے۔ انھیں دوسروں کی طرف سے کوئی گزند پہنچنے والا نہیں۔
اِس اصول کی عملی مثال بھی قرآن میں واضح طور پر موجود ہے۔ ایک مثال غزوۂ اُحد کی ہے۔ پیغمبراسلام کی ہجرت کے تیسرے سال غزوۂ احد پیش آیا۔ اِس غزوہ میں مسلمانوں کوسخت نقصان پہنچا۔ یہ غزوہ واضح طور پر پیغمبرِاسلام کے مخالفین کی زیادتی کی بنا پر پیش آیا۔ اس کا ایک کھُلاہوا ثبوت یہ ہے کہ یہ غزوہ مدینہ کی سرحد پر ہوا۔ یعنی مخالفین اپنے وطن مکّہ سے تین سو میل کا فاصلہ طے کر کے جارحانہ طور پر مدینہ آئے اور مسلمانوں کے وطن پر حملہ کیا۔ لیکن قرآن میں جب غزوۂ احد پر تبصرہ کیا گیا تو اس میں مخالفین کے ظلم اور سازش کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیابلکہ یہ کہاگیا کہ مسلمانوں کی خود اپنی داخلی کوتاہی کے نتیجے میں یہ شدید نقصان انھیں بھُگتنا پڑا۔
غزوۂ احد کے بارے میں قرآن کا یہ تبصرہ، قرآن کی سورہ نمبر3میں اِس طرح آیا ہے:حَتَّى إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْأَمْرِ (آل عمران152: ) ۔یعنی جب تم کمزور پڑ گیے اور معاملے میں اپنے درمیان اختلاف کر لیا۔ قرآن کی اِس آیت میں واضح طور پر مسلمانوںکو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اُحد کی شکست اور نقصان کا ذمے دار وہ دوسروں کو قرار نہ دیں۔ بلکہ خود اپنے آپ کو اس کا ذمّے دار سمجھ کر اپنی اصلاح کریں۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے خدا کے ایک اور قانون کو جاننا بہت ضروری ہے۔ اس قانون کا تعلق مخصوص طور پر اہلِ کتاب سے ہے۔ اس خدائی قانون کا اطلاق، پیغمبرِاسلام کے ظہورسے پہلے، سابق اہلِ کتاب، یہود پر ہوا اور اب اس خدائی قانون کا تعلق مسلم امّت سے ہو گیا ہے جو کہ پیغمبرِآخرالزماںکے ظہور کے بعد اہلِ کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اِس خدائی قانون کے تعلق سے یہود کے ساتھ جو معاملہ ہوا اس کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر17میں اِس طرح آیا ہے:ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں بتا دیا تھا کہ تم دوبارہ زمین (شام) میں خرابی کروگے اور بڑی سرکشی دکھائوگے۔پھر جب ان میں سے پہلا وعدہ آیا تو ہم نے تم پر اپنے بندے بھیجے۔نہایت زور والے۔ وہ گھروں میں گھُس پڑے اوروعدہ پورا ہوکر رہا۔ پھر ہم نے تمہاری باری ان پر لوٹادی اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تم کو زیادہ بڑی جماعت بنا دیا۔ اگر تم اچھا کروگے تو تم اپنے لیے اچھا کروگے اور اگر تم برا کروگے تب بھی اپنے لیے بُرا کروگے۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے بندے بھیجے کہ وہ تمہارے چہرے کو بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں گھُس جائیں۔ جس طرح اس میں پہلی بار گھُسے تھے، اور جس چیز پر ان کا زور چلے اس کو برباد کردیں۔ بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہارے اوپر رحم کرے۔ اور اگر تم پھر وہی کروگے تو ہم بھی وہی کریںگے۔ اور ہم نے جہنم کو منکرین کے لیے قید خانہ بنا دیا ہے۔ (بنی اسرائیل 4-8 :)
اس آیت میں یہود کی تاریخ کے دو ایسے واقعے کا ذکر ہے جب کہ غیر یہودی حکمراں نے یہودی قوم کے اوپر چڑھائی کر کے ان کو سخت تباہی سے دو چار کیا۔ پہلا واقعہ 586قبل مسیح میں (عراق) کے غیر یہودی حکمراں\نبو کَدنضر (Nebuchadnezar)کے ذریعے پیش آیا، اور دوسرا واقعہ70عیسوی میں رومی بادشاہ تیتس(Titus) کے ذریعے۔ مگر قرآن میں ان دونوں واقعات کو ظلم کا واقعہ نہیں بتایا گیا۔ یعنی یہ نہیں کہا گیا کے فلاں ظالم حکمراں نے مظلوم یہودیوں کے اوپر متشددانہ کارروائی کی۔ اس کے برعکس، ان واقعات کو خدا نے اپنی طرف منسوب کیا۔ یعنی یہ کہ وہ خدا کے بندے تھے جو خدا کے منصوبے کی تکمیل کے لیے فلسطین بھیجے گیے۔
قرآن اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ کتاب ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کا معاملہ بھی وہی ہے جو اس سے پہلے یہود کا معاملہ تھا۔ یعنی ایسا ہو سکتا ہے کہ جب مسلمانوں میں بگاڑ آجائے تو خدا اپنے بندوں میں سے کسی بندے کے ذریعے مسلمانوں کے اوپر تنبیہی عذاب بھیجے۔ ایسے وقت میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس کو ظالم کاظلم نہ سمجھیں، بلکہ خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی تنبیہی سزا سمجھیں۔ ایسے موقع پر مسلمانوں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ کسی کو ظالم فرض کرکے اس کے خلاف نفرت اور تشدد کا سلسلہ شروع نہ کریں، ذاتی احتساب کے ذریعے اپنی اصلاح میں لگ جائیں۔
اسلام کے ظہور کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے اندر ذاتی احتساب کی یہی سوچ غالب رہی۔ پرنٹنگ پریس اور میڈیا کے دَور سے پہلے مسلمانوں کے لیے پڑھنے اور مطالعہ کرنے کی چیز زیادہ تر قرآن اور حدیث ہوا کرتا تھا۔ اس لیے ان کی سوچ وہی بنتی تھی جو قرآن اور حدیث کی مذکورہ تعلیم کے مطابق ہو۔ ہر ایسے موقع پر وہ محاسبۂ خویش میں مبتلا ہو جاتے تھے نہ کہ دوسروں کو ملزم ٹھہرا کر ان کے خلاف نفرت اور انتقام کی باتیں کرنے لگیں۔ یہاں اس سلسلے میں پچھلی تاریخ کی دو مثالیں نقل کی جاتی ہیں۔
تیرھویں صدی میں یہ واقعہ ہوا کہ ’ترکستان کے پہاڑی علاقے میں بسنے والے جنگ جو تاتاری قبائل مسلم سلطنت کے حدود میں داخل ہوئے۔ انھوں نے سمرقند سے لے کر حلَب تک پورے علاقے کو تباہ کر دیا۔ ہر طرف آگ اور خون کے مناظر دکھائی دینے لگے۔ بظاہر یہ دوسروں کی طرف سے جارحیت کا معاملہ تھا مگراس زمانے کے علماء نے اس معاملے میں وہ منفی انداز اختیار نہیں کیا جو موجودہ زمانے کے مسلم رہنما اس طرح کے معاملات میں عام طور پر اختیار کیے ہوئے ہیں۔
مشہور مسلم مؤرخ عزّالدین ابن الاثیر (وفات1232:ء) تاتاری حادثے کے زمانے میں موجود تھے۔ انھوں نے خود ذاتی تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر اپنی کتاب ’’الکامل فی التاریخ‘‘ میں اِس واقعہ کی تفصیل بیان کی ہے۔ ابنُ الاثیر نے اس واقعے کی ہولناکی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:’’کون ہے جس کے لیے آسان ہوکہ اسلام اور مسلمانوں کی ہلاکت کی داستان لکھے۔ اور کون ہے جس کے لیے اس کا ذِکر آسان ہو۔ کاش میری ماں نے مجھے نہ جَنا ہوتا، اور کاش میں اس سے پہلے مرگیا ہوتا اور ختم ہو گیا ہوتا۔ اگر کوئی کہے کہ جب آدم پیدا کیے گیے، اس وقت سے لے کر اب تک ایسا حادثہ انسانیت پر نہیں آیا تو یقینا وہ سچا ہوگا۔‘‘
تاہم ابن الاثیر نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی طرح یہ نہیں کیا کہ وہ تاتاری حملہ آوروں کے خلاف نفرت اور انتقام کی بولی بولنے لگیں۔ او ران کو مجرم قرار دے کر ان کو بددعائیں دیں۔ اِس کے برعکس ابن الاثیر نے جو کیاوہ یہ تھا کہ انھوں نے خود مسلمانوں کو اس حادثے کا سبب قراردیا۔ انھوں نے لکھا کہ ایران کے مسلم حکمراں خوار زم شاہ نے تاتاری تاجروں کو قتل کروایا او ران کے مال کو لوٹ لیا۔ یہ خبر جب تاتاری سردار چنگیزخاں کو پہنچی تو اس نے قسم کھا کر اعلان کیا کہ وہ مسلم سلطنت کو تباہ کر کے رہے گا۔چناںچہ اس نے غضب ناک ہوکر سمرقند کی طرف سے مسلم سلطنت پر حملہ کر دیا، جس کی تکمیل اس کے پوتے ہلاکو خاں نے کی۔ (ابن الأثیر،الکامل فی التاریخ، جلد12،صفحہ362)
دوسری مثال لیجیے۔نادر خاں(وفات1747:)ایران کا بادشاہ تھا۔ وہ ظلم اور سخت گیری کے لیے مشہور ہے۔ اس نے 1739میں ہندستان پر حملہ کیا، اور پیش قدمی کرتا ہوا دلّی پہنچ گیا۔ اس نے دلّی میں فتح حاصل کرنے کے بعد یہاں قتلِ عام کروایا۔ اس کا اصل مقصد یہاں سوناچاندی لوٹنا تھا۔ چناںچہ اس نے یہی کیا۔ قتلِ عام کے بعد تختِ طائوس اور کوہِ نور ہیرا اور دوسرے قیمتی اموال لے کر وہ اپنے وطن واپس چلا گیا۔
اِس سنگین واقعے پر بھی اُس وقت کے مسلم علماء کا ردِّعمل موجودہ مسلمانوںجیسا نہیں تھا۔ بلکہ انھوں نے اس کو احتساب کے خانے میں ڈال دیا۔ اس زمانے کے ایک مشہور بزرگ مرزامظہرجانِ جاناں(وفات1586:ء)نے نادر خاں کے واقعے پر اپنا یہ تبصرہ کیا کہ نادرخاں نے جو کچھ کیا وہ نادر خاں کا ظلم نہ تھا بلکہ یہ خود ہمارے اعمال تھے جنھوں نے نادر خاں کی صورت اختیار کرلی:
شامتِ اعمالِ ما، صورتِ نادر گرفت
یہ صرف موجودہ زمانے کی بات ہے کہ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے مذکورہ قسم کے واقعات پر فوراً منفی ردّعمل اختیار کر لیتے ہیں۔ آج کل مسلمانوں کے جس اخبار یا میگزین کو دیکھا جائے تو ہر ایک میں یہ ملے گا کہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے واقعات کو دوسری قوموں کے ظلم کے طور پر پیش کیا جارہا ہوگا۔اس قسم کی منفی رپورٹنگ اتنی عام ہے کہ اس میں غالباًکوئی استثناء نہیں۔
میرے تجربے کے مطابق، منفی رپورٹنگ کا یہ طریقہ زیادہ تر موجودہ زمانے میں پرنٹ میڈیا کا دَور آنے کے بعد شروع ہوا۔ جدید صحافت میں خبروں کی رپورٹنگ کا ایک خاص طریقہ ہے جس کو اُلٹا اَہرام (Inverted Pyramid)کہا جاتا ہے۔ یعنی کسی واقعے کے نقطۂ انتہا سے خبر کی رپورٹنگ کا آغاز کرنا۔
مثلاً نئی دہلی میں دو آدمیوں کے درمیان ایک مالی معاملے میںجھگڑا ہو، وہ بڑھ کر دشمنی بن جائے اور پھر ان میں سے ایک آدمی دوسرے کو مارڈالنے کے درپے ہو جائے۔ وہ اس کا پیچھا کرنے لگے یہاں تک کہ ایک دن وہ اس کو ایک پارک میں تنہا پا جائے اور اس کو قتل کردے۔ اِس واقعے کی خبراگلے دن اخبار میں آئے تو ایسا نہیں ہوگا کہ کہانی کو اس کی واقعاتی ترتیب کے ساتھ بیان کیا جائے اور پھر آخر میں قتل کی بات لکھی جائے۔ اس کے برعکس خبر کا پہلا جملہ یہ ہوگا: نئی دہلی کے پارک میں قتل۔
واقعہ نگاری کا یہ طریقہ فطرت کے خلاف ہے۔ مثلاً قرآن جو کتابِ فطرت ہے اس میں واقعہ نگاری کی ایک مثال سورہ نمبر12میں ملتی ہے۔ اس سورہ میں پیغمبر یوسف کے حالات بتائے گیے ہیں۔مگر اس میںجو اسلوب ہے وہ واقعے کی تاریخی ترتیب کے مطابق ہے۔ واقعہ نگاری کے اس اسلوب میں قاری کا ذہن وہی بنتا ہے جو فطری طور پر اس کا ذہن بننا چاہیے۔ اس کے برعکس مذکورہ صحافتی ترتیب میں قاری کا ذہن غیر فطری ہو جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں واقعہ کا وہ نقشہ نہیں بنتا جو حقیقت کے اعتبار سے تاریخ کا نقشہ ہے۔
رپورٹنگ کے مذکورہ صحافتی طریقے کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہا جاسکتا ہے—کہانی کے نصف ثانی کو نمایاں طور پر بیان کرنا، اور اس کے نصف اوّل کو یا تو غیر مذکور چھوڑدینا یا اس کو ناقص صورت میں بیان کرنا۔ جدید رواج کے مطابق، مسلمانوں کی صحافت میں بھی یہی طریقہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اختیار کر لیا گیا۔ اور پھر وہ اتنا زیادہ عام ہوا کہ موجودہ پریس کے زمانے میں ہرلکھنے اور بولنے والا مسلمان اسی اصول پر لکھنے اور بولنے لگا۔ حالاں کہ یہ غیر فطری طریقہ، اسلام میں نہایت برا سمجھا گیا ہے اور اس کو تطفیف (المطففین1:)کہا گیا ہے۔
رپورٹنگ کے اِس طریقے کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارا مسلم میڈیا، منفی خبروں سے بھر گیا۔ یہی منفی خبریں ہیں جن کو پڑھ کر ساری دنیا کے مسلمانوں کا ذہن منفی بن گیا۔ اور یہی منفی ذہن ہے جو اپنے نقطۂ انتہاء پر پہنچ کر وہ خوف ناک تشدّد بن جاتا ہے، جس کو القاعدہ یا داعش (آئی ایس آئی ایس) یا بوکوحرام، وغیرہ جیسے ناموں سے جانا جاتا ہے۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے1967میں اسرائیل اور مصر کے درمیان جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں مصر کو زبردست شکست ہوئی اور اسرائیل نے پیش قدمی کر کے اپنے رقبے کو بہت زیادہ بڑھا لیا۔ اس واقعے پَر عربی، فارسی، انگریزی اور اُردو زبان میں جو رپورٹیں چھپیں یا اس واقعے پر مسلمانوں کی جو کتابیں شائع ہوئیں ان سب میں متفقہ طور پر ایک ہی بات کہی گئی تھی، اور وہ یہ کہ اسرائیل نے مغربی قوموںسے سازش کر کے ظالمانہ طور پر مصر کے اوپر حملہ کیا اور فلسطین میں اپنی وسیع تر حکومت قائم کرلی۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ یہ اصل کہانی کاصرف نصف آخر ہے۔ کہانی کا نصف اول اس میں شامل نہیں۔ کہانی کے نصف آخر کو سامنے رکھیے تو بظاہر یہ معلوم ہوگا کہ یہ اسرائیل کی طرف سے ایک ظلم کا واقعہ تھا۔ لیکن اگر کہانی کے نصف اول کو شامل کر کے غور کیا جائے تو برعکس طور پر یہ معلوم ہوگا کہ 1967میں جو کچھ ہوا اس کی ذمے داری مکمل طور پر خود عربوں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ خود عرب قیادت کا ایک نادان اقدام تھا جس کی قیمت اسے ذلّت اور بربادی کی شکل میں بھگتنی پڑی۔
1967میںعربوں کے ساتھ جو المیہ پیش آیا اس پر پیغمبرِاسلام کے یہ الفاظ پوری طرح صادق آتے ہیں:لا ینبغی للمسلم أن یذلّ نفسہ، قیل:و کیف یذل نفسہ، قال:یتعرّض من البلاء لمالا یطیق (مسند احمد،حدیث نمبر23444:) یعنی کسی مسلم کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ خود اپنے آپ کو ذلیل کرے- پوچھا گیا کہ کوئی شخص خود اپنے آپ کو کیسے ذلیل کرے گا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ ایک ایسی بَلا سے تعرـض کرے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔ 1967کی جنگ میں عین یہی صورت پیش آئی۔
یہ قصہ نہر سوئزکی کہانی سے شروع ہوتا ہے۔ نہر سوئز کو مغربی کمپنیوں نے بنایا تھا۔ جو مکمل ہو کر نومبر 1869میں جہازرانی کے لیے کھولی گئی۔ نہر سوئزکا ٹھیکہ برطانیہ اور فرانس کی ایک مشترکہ کمپنی کو حاصل تھا۔ نہر سوئز برطانیہ اور فرانس کی مشترک کمپنی کو پٹے کے طور پر دی گئی تھی۔ یہ پٹہّ1968(lease)میں ختم ہو رہا تھا۔ اس کے بعد حسب معاہدہ، نہر سوئز پوری طرح حکومت مصر کی ملکیت میں آجاتی۔ پٹّے کے ختم ہونے سے پہلے بھی مصری حکومت اور مصری عوام کو اس کے ذریعے بہت سے مالی فائدے مل رہے تھے۔
مگر پٹّہ ختم ہونے سے پہلے مصر کے صدر جمال عبدالناصر (وفات1970:) نے تمام عربوں کی تائید سے ایک اشتعال انگیز واقعہ کیا۔29اکتوبر1956کو انھوں نے اچانک یہ اعلان کردیا کہ آج ہم نے نہر سوئز کو نیشنلائز کر لیا۔ اور اب اس کی ساری آمدنی حکومتِ مصر کو حاصل ہوگی۔(12/844)
جمال عبدالناصر کے اقدام پر سارا عرب رقص کر اٹھا۔ مگر برطانیہ اور فرانس کے لیے وہ ایک اشتعال انگیز واقعہ تھا۔ چناںچہ برطانیہ اور فرانس نے خفیہ طور پر اسرائیل کی بہت بڑی مددکی۔ اور اس کے ذریعے مصر پر حملہ کرادیا۔ اس حملے میں مصر کی فوجی طاقت کچل کر رہ گئی۔ اسرائیل نے مزید اطرف کے علاقوں پر قبضہ کر کے اپنے رقبے کو پانچ گُنا بڑھا لیا۔
جمال عبدالناصر اگر اِس معاملے میں12سال انتظار کرتے تو سوئز کمپنی معاہدے کے مطابق، اپنے آپ ختم ہو جاتی۔ مگر ان کے عاجلانہ اقدام نے مصر کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔اور اسرائیل کا رقبہ بہت زیادہ بڑھ گیا۔ جو چیز 1968میں اپنے آپ مل جاتی اس کو 1956میں پیشگی طور پر حاصل کرنے کی کوشش مصر کے حق میں الٹی ثابت ہوئی۔
اِس طرح اس کہانی کے دو حصے ہیں۔ اس کا ایک حصہ وہ ہے جو نہر سوئز کو غیر حکیمانہ طور پر قبضے میں لینے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس کا دوسرا حصہ وہ ہے جو نہر سوئز پر غیر حکیمانہ قبضے کے بعد بطور ردّعمل پیش آیا۔ اگر اس کہانی کے صرف نصف ثانی کو دیکھا جائے تو اسرائیل ظالم اور سرکش دکھائی دے گا۔ لیکن اگر اس کہانی کے نصف اول کو ملا اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ مصر—اسرائیل جنگ کے بعد عربوں کے ساتھ جو بُری صورتِ حال پیش آئی وہ خود عربوں کی اپنی نادانی کا نتیجہ تھی۔اِس معاملے میں عربوں کا کیس عمل کا کیس ہے اور اسرائیل کا کیس ردّعمل کا کیس۔ اسرائیل کا مزید استحکام، دراصل خود عربوں کی اپنی ناعاقبت اندیشانہ پالیسی کی قیمت تھی جو انھوں نے اَدا کی۔—مگرغلط رپورٹنگ کی بنا پر ایسا ہوا کہ تمام مسلمان، اسرائیل سے نفرت میں مبتلا ہو گیے۔ حالاںکہ اصل صورتِ حال کے مطابق، انھیں خود اپنے احتساب میں مصروف ہونا چاہیے تھا۔
ایک تقابلی مثال سے یہ معاملہ بخوبی طور پر سمجھ میں آسکتا ہے۔ یہ مثال وہ ہے جو ہانگ کانگ سے تعلق رکھتی ہے۔برطانی استعمار کے زمانے میں انگریزوںنے ہانگ کانگ کو پٹّے پر 99 سال کے لیے لیا تھا۔ پٹّے کی یہ مدت 1997 میں ختم ہو رہی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانی ایمپائر کمزور ہوا تو چین نے ہانگ کانگ کی واپسی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ مگر چین نے اپنے آپ کو گفت وشنید کی حد تک محدود رکھا۔ اس نے کبھی اس معاملے میں یہ پروگرام نہیں بنایا کہ وہ ہانگ کانگ میں اپنی فوجیں داخل کرکے اس پر قبضہ کرلے۔اگرچہ ہانگ کانگ کا جزیرہ چین سے ملا ہوا ہے۔ برطانوی حکومت سے چین کی یہ گفت و شنید جاری رہی۔ یہاں تک کہ 1997میں جب پٹّے کی مدت پوری ہوئی تو ہانگ کانگ سے برطانیہ کا اقتدار بھی ختم ہو گیا۔ ہانگ کانگ اب چین کے باقاعدہ قبضے میں ہے۔
1967کی جنگ میں، اسرائیل نے فلسطین، اردن، شام اور مصر کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ عربوں (فلسطین، اردن، شام، مصر) نے اِس جنگ میں اپنا قیمتی علاقہ کھو دیا۔ مگر ٹھیک اسی قسم کی صورتِ حال میں ہانگ کانگ میں برعکس نتیجہ سامنے آیا۔ یہاں چین نے ایک قیمتی جزیرے کو اپنے علاقے میں شامل کرلیا۔ عربوں نے اپنی ناعاقبت اندیشانہ منصوبہ بندی کی قیمت ادا کی اور چین نے اپنی حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کی بنا پر قابلِ ذکر فتح حاصل کی۔
مذکورہ تفصیل بتاتی ہے کہ اسرائیل کا مسئلہ دراصل کسی کے ظلم یا سازش کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ خود عربوں کی اپنی نادانیوں کا نتیجہ تھا۔ موجودہ زمانے کا متشددانہ جہاد سب سے زیادہ فلسطین کی زمین سے اُبھرا ہے۔ تمام عرب اور تمام مسلمان اس جہاد کو انصاف کی لڑائی سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ ایک غیر عاقلانہ اقدام کے نقصان کی تلافی، ایک اور غیر عاقلانہ اقدام سے کرنے کے ہم معنیٰ ہے۔ اس قسم کا ہر اقدام فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ خدا کی اس دنیا میں ایسا اقدام کبھی کامیاب ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

صبر کا فلسفہ

پیغمبرِاسلام کی تعلیمات میں صبر (patience) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن میں تقریباً ایک سو دس آیتیں ہیں جن میں صبر کے الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں تک کے صبر ہی پر کامیابی کا مدار رکھا گیا ہے۔ چناںچہ ارشاد ہوا ہے کہ اے لوگو صبر کرو تا کہ تم فلاح پائو (آل عمران200 :) اِسی طرح فرمایا کہ امامت یا لیڈر شپ میں کامیابی کا راز صبر ہے۔ (السجدہ24:)
اِسی حقیقت کو پیغمبر ِاسلام نے اپنی ایک لمبی حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا:اِعلم أنّ النصّر مع الصبر( مسند احمد، حدیث نمبر2803:)یعنی جان لو کہ کامیابی صبر کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔ صبر نہیں تو کامیابی نہیں۔ کامیابی کا درخت ہمیشہ صبر کی زمین پر اُگتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے تمام پیسفسٹ (pacifist) یا پیس فل ایکٹیوسٹ (peaceful activist) اپنے نشانے کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اِس کا مشترک سبب یہ ہے کہ انہوں نے امن کو دریافت کیا مگر وہ صبر کو دریافت نہ کرسکے۔ حالاں کہ صابرانہ روش کے بغیر پُرامن تحریک کو چلانا ممکن نہیں۔
عام طور پر یہ ہوتاہے کہ لوگ کسی کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد پیس فُل ایکٹوزم کے اصول پر اس کے خلاف تحریک چلاتے ہیں۔ کسی گروہ کے مقابلے میں پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر تحریک چلانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے دل میں اس کے خلاف منفی جذبات نہ ہوں، اس کے مقابلے میں آپ مکمل طور پر مثبت نفسیات کے حامل ہوں۔ یہی واحد بنیاد ہے جس کے اوپر پیس فل ایکٹوزم کی سرگرمیاں جاری ہو سکتی ہیں۔ مَدِّ مقابل گروہ کے لیے آپ کے دل میں اگر مثبت جذبات نہ ہوں تو آپ کبھی اپنے پُرامن مشن میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
عملاً یہ ہوتا ہے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے مقابلے میں پُر امن طریقِ کار کی بنیاد پر ایک تحریک اُٹھاتا ہے۔ لیکن فریقِ ثانی کی مفروضہ یا غیر مفروضہ زیادتیوں کا احساس فریقِ اوّل کے خلاف اس کے دل میں نفرت ڈال دیتا ہے۔ یہ نفرت دھیرے دھیرے تشدّد کی صورت اختیار کر لیتی ہے، اور اگر تشدد کے ذریعے مطلوب کامیابی نہ مل رہی ہو تو فریقِ اوّل کے دل میں فریقِ ثانی کے خلاف نفرت کا طوفان اس کو اِس حد تک لے جاتا ہے کہ اس کے خلاف ہر ممکن تخریبی کارروائی شروع کردے، یہاں تک کہ اس کو مٹانے کے لیے اُس قسم کی بھیانک کارروائی کرنے لگے جس کو موجودہ زمانے میں خودکش بمباری (suicide bombing)کہا جاتا ہے۔
پیس فل ایکٹوزم کے سلسلے میں یہ بات غالباً پوری تاریخ میں صرف پیغمبرِاسلام کی زندگی میں ملتی ہے۔ دوسرے مصلحین کی طرح ان کو بھی فریقِ ثانی کی طرف سے سخت قسم کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر آپ نے کبھی اُن کے خلاف نفرت کی زبان استعمال نہیں کی۔ اپنے ساتھیوں کو بھی آپ ہمیشہ نفرت کے احساس سے بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ آپ کی زندگی میںاِس طرح کی مثالیںکثرت سے موجود ہیں۔مثال کے طور پر مکّہ میں پیغمبرِاسلام کے ساتھیوں کا ایک خاندان تھا، جس کو آلِ یاسر کہا جاتا تھا۔ یہ ایک کمزور خاندان تھا۔ چناںچہ آپ کے طاقت ور مخالفین نے اُنہیں مارنا پیٹنا شروع کیا اور کہا کہ پیغمبرکا ساتھ چھوڑ دو۔ پیغمبرِاسلام نے اِس منظر کو دیکھا تو آپ نے زیادتی کرنے والوں کے خلاف کوئی نفرت کا کلمہ نہیں کہابلکہ آپ نے ان سے صرف یہ فرمایا:صبرًا آلَ یاسرفإن موعد کم الجنۃ (سیرت ابنِ ہشام، 1/320) یعنی اے آلِ یاسر صبر کرو، کیوں کہ تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔
جنّت کو صبر کا انعام بتا کر آپ نے اپنے ساتھیوں کو اس کے لیے آمادہ کیا کہ وہ کسی بھی زیادتی پر مشتعل نہ ہوں۔ وہ کسی بھی حال میں فریقِ ثانی کے خلاف اپنے دل میں منفی جذبات کی پرورش نہ کریں۔
یہ پیغمبر ِاسلام کی پالیسی کا نہایت اہم پہلو تھا جس کو آپ نے خدا کی رہنمائی کے مطابق اختیار کیا۔ یعنی مخالفوں کی ہر زیادتی پَر صبر کرنا۔ قرآن میںاِس سلسلے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں، مثلاًقرآن میں پیغمبرکی زبان میں فرمایا: ولنصبرنّ علیٰ ماآ ذیتمونا(ابراہیم12 :) یعنی ہم تمہاری ایذائوں پر صرف صبر ہی کریں گے۔ یہ صبر کوئی سادہ بات نہ تھی۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ فریقِ ثانی کی ظالمانہ کارروائی کے باوجود مثبت سوچ پر قائم رہنا، اپنے آپ کو اِس سے بچانا کہ اپنے ذہن میں فریقِ ثانی کی منفی تصویر بن جائے۔کیوں کے فریقِ اوّل کے دل میں اگر فریقِ ثانی کی منفی تصویر بن جائے تو فریقِ اوّل کبھی فریقِ ثانی کے درمیان پُرامن طریقِ کار کے اصول پر قائم نہیں رہ سکتا۔ صبر کا اصول فریقِ اوّل کو اِس سے بچاتا ہے کہ اس کا ذہن فریقِ ثانی کے بارے میں غیر معتدل ہو جائے۔ پُرامن طریقِ کار(peaceful activism) معتدل ذہن کا اظہار ہے۔ غیر معتدل یا منفی ذہن کبھی پُر امن طریقِ کار کو کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتا۔ صبر کا اصول در اصل اِسی اعتدال یا مثبت مزاج کی برقراری کی ایک یقینی گارنٹی ہے۔
پیغمبر ِاسلام کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ کے ساتھ مخاطب گروہ کی طرف سے مسلسل زیادتیاں کی گئیں، لیکن آپ ہمیشہ سختی کے ساتھ صبر کے اصول پر قائم رہے۔ اور اپنے ساتھیوں کو اِسی کی تلقین کی۔ آپ کی مجلسوں میں کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ مخالفین کے ظلم کا چرچا کیا جائے۔ آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ مخالفین کے ظلم کے حوالے سے ان کے خلاف بددعائیں کریں۔ اِس کے برعکس آپ ہمیشہ ظلم کرنے والوں کے خلاف اچھی دعا کرتے تھے۔ آپ نے اپنے مخالفوں کو کبھی کافر یا دشمن نہیں کہا، بلکہ ہمیشہ ان کے بارے میں انسان کا لفظ بولتے رہے۔ اِس معاملے کی ایک انتہائی مثال یہ ہے کہ ایک بار آپ کے مخالفوں نے پتھر مار کر آپ کو زخمی کردیا، اُس وقت آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:اللھم اھدِ قومی، فإنّھم لا یعلمون۔(شعب الایمان للبہیقی 2/622:) خدایا! میری قوم کو ہدایت دے، کیوں کہ وہ جانتے نہیں۔
یک طرفہ صبر اور خیر خواہی کا طریقہ جو آپ نے عرب میں اختیار فرمایا، وہ اِسی لیے تھا کہ فریقِ ثانی کے بارے میں آپ ، یا آپ کے ساتھیوں کے دل میں شکایت اور نفرت کی نفسیات پیدا نہ ہونے پائے۔ کیوں کہ جو ذہن شکایت اور نفرت لیے ہوئے ہو، وہ اصلاح کا کام درست طور پر نہیں کر سکتا۔
عقل مند آدمی وہ ہے جو ان چیزوں کے ساتھ پرامن طورپر
رہ سکے جن کو وہ بدل نہیں سکتا۔
واپس اوپر جائیں

حمد کلچر

قرآن کی ایک آیت یہ ہے: الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (الفاتحة2:) یعنی ساری حمد اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ یہ آیت دنیا کی زندگی میں اہلِ ایمان کے روز وشب کا حال بتاتی ہے۔اہلِ جنت جب آخرت میں پہنچیں گے اور جنت میں داخل کردئے جائیں گے تو وہاں ان کا مشغلہ کیا ہوگا، اس کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:وَآخِرُ دَعْوَاہُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (یونس10 :) یعنی وہاں ان کی آخری بات یہ ہوگی کہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جو رب ہے سارے جہان کا۔ اہلِ جنت کا ایک اور قول ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (الفاطر34 :) یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے غم کو دور کردیا۔
ان آیتوں پر غور کیجئےتو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ جنت دنیامیں کس طرح زندگی گزاریں گے۔ اور پھر آخرت میں ان کو کس قسم کی زندگی حاصل ہوگی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں بھی ان کی زندگی، حمدِ رب کی زندگی ہوگی، اور آخرت میں بھی ان کے صبح وشام رب العالمین کی حمد میں گزریں گے۔ فرق یہ ہے کہ دنیا میں انھوں نے حمدِ رب کی زندگی دار الکبد (البلد\4 :) میں گزاری ہوگی، آخرت میں ان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ حزَن سے خالی دنیا (الفاطر\34 :) میں اعلی معیاری درجے میں حمدِ رب کی توفیق پائیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں داخلے کی قیمت کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ذہنی طورپر اتنا ارتقا یافتہ بنائےکہ وہ حزَن اورکبَد کے حالات میں بھی اعلی معرفت کی سطح پر زندگی گزارے۔
گویا کہ انسان سے جوچیز اصلاً مطلوب ہے، وہ حمد رب ہے۔ دنیا میں بھی حمد، آخرت میں بھی حمد۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ اللہ کی رحمت (blessing) کا نتیجہ ہے۔ پھر پیدا ہونے کے بعد جس دنیا میں وہ زندگی گزارتا ہے، وہ پوری کی پوری رحمتوں کی دنیا ہے۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے واحد طرزِ زندگی صرف یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ اس حقیقت کو یاد رکھے، وہ ہر موقع (occasion) پر اللہ کی بے پایاں رحمت کا اعتراف کرے۔ اس کی شعوری بیداری اس درجہ تک پہنچ جائے کہ ہر چیز سے اس کو حمد خداوندی کا رزق ملنے لگے۔ یہ حالت ایک اعتبار سے دنیا میں اللہ رب العالمین کا اعتراف ہے۔ یہ اس فطری تقاضے کو پورا کرنا ہے جو تخلیق کے اعتبار سے انسان کے اندر ہونا چاہیے۔ یہی انسان وہ ہے جس نے دنیا میں سچا انسان بن کر زندگی گزاری۔
دنیا میں اس طرح زندگی گزارنے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہی سچا انسان وہ انسان ہے جس کو آخرت کی جنت میں وہ درجہ ملے گا جس کو قرآن میں ان الفاظ بیان کیا گیا ہے: فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُقْتَدِرٍ (القمر55 :)یعنی وہ بیٹھے ہوں گے سچی بیٹھک میں، قدرت والے بادشاہ کے پاس۔ دنیا میں جو لوگ سچائی کی زندگی گزاریں ، ان کو اس کا یہ انعام ملے گا کہ وہ آخرت میں سچائی کی سیٹ (seat of truth) پر بیٹھنے کا اعزاز حاصل کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا سب سے اعلی درجہ یہ ہے کہ وہ معرفت خداوندی میں زندگی گزارے۔ وہ اپنی زندگی کے لمحات اس طرح گزارے کہ وہ مسلسل طور پر اللہ کی نشانیوں کو دریافت کررہاہو۔ آلاء اللہ (wonders of God) بلاشبہ کائنات کی سب سے بڑی چیزیں ہیں۔ سچا انسان وہ ہے جو دنیا کی زندگی میں الاء اللہ میں جیے۔ اور آخرت میں وہ زیادہ اعلی صورت میں الاءاللہ اور حمد الٰہی میں جینے کا مرتبہ پائے۔ قرآن کی ایک آیت یہ ہے: أَلَا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد28 :) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے لیے سب سے زیادہ لذیذ لمحہ (joyous moment)وہ ہے، جب کہ وہ اپنے رب کی قربت حاصل کرے، جب کہ وہ کائنات میں تخلیق کی معنویت کو دریافت کرے، جب کہ اس کا اعلیٰ تصور اس کو فرشتوں کا ہم نشین بنادے، جب کہ وہ اعلی معرفت کا شعوری تجربہ حاصل کرے، جب کہ وہ جنت میں داخل ہونے سے پہلےجنت کی معرفت حاصل کرلے۔
یہی انسان کی حقیقی زندگی ہے۔ یہ زندگی ایک سچے انسان کو دنیا میں ابتدائی طور پر حاصل ہوتی ہے، اور آخرت کی جنت میں یہی زندگی اس کو اپنی اعلی صورت میں حاصل ہوگی۔گویا کہ سچا انسان وہ ہے جو اسی دنیا میں اللہ رب العالمین کے پڑوس میں جینے لگے، یہی وہ زندگی ہے، جو جنت میں اس کو زیادہ اعلی درجے میں حاصل ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر ِ امن

(The Prophet of Peace)
پیغمبرِاسلام محمد بن عبداﷲ بن عبد المطلب کے متعلق مؤرخین نے عام طور پَر اعتراف کیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں اعلیٰ ترین کامیابی حاصل کی۔ مثال کے طور پر برٹش مؤرخ گبن (Edward Gibbon)پیدایش 1737 وفات1794نے اپنی کتاب ’’روما کا عروج و زوال‘‘ میں (The History of the Decline and Fall of the Roman Empire) پیغمبرِاسلام محمد بن عبداﷲ کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے لائے ہوئے انقلاب کو تاریخ کا سب سے زیادہ قابلِ ذکر واقعہ بتایا ہے:
The rise and expansion of Islam was one of the most memorable revolutions which has impressed a new and lasting character on the nations of the globe.
ایم۔این۔ رائے ((1954-1887ایک انڈین لیڈر تھے۔ ان کی کتاب ہسٹاریکل رول آف اسلام (The Historical Role of Islam) پہلی بار دہلی سے 1939میں چھپی۔ اِس کتاب میں وہ لکھتے ہیں: محمد کو تمام پیغمبروں میں سب سے بڑا پیغمبر ماننا چاہیے۔ اسلام کی توسیع تمام معجزوں سے زیادہ بڑا معجزہ ہے:
Mohammad must be recognised as by far the greatest of all prophets, the expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p.4)
امریکا کے ڈاکٹر مائیکل ہارٹ (Michael H. Hart)کی کتاب ’’دی ہنڈریڈ‘‘ (The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History) نیویارک سے 1978میں چھپی۔ اس کتاب میں انہوں نے پوری انسانی تاریخ سے ایک سَو ایسے افراد کی فہرست بنائی ہے جنہوں نے اُن کے مطابق، اعلیٰ کامیابیاں حاصل کیں۔ اس فہرست میں انہوں نے ٹاپ پَر پیغمبرِاسلام محمد بن عبداﷲ کو رکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: وہ تاریخ کے تنہا شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے، مذہبی سطح پَر بھی اور دینوی سطح پَر بھی:
He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.
پیغمبرِاسلام کی اِس عظیم کامیابی کا راز کیا تھا۔ اِس کا راز ایک لفظ میں امن تھا۔ یہ کہنا غالباً صحیح ہوگا کہ پیغمبرِاسلام تاریخ کے سب سے بڑے پیسفسٹ (pacifist)تھے۔ انہوں نے پُر امن طریقہ(peaceful means)کو ایک ناقابلِ تسخیر طاقت کے طور پَر استعمال کیا۔ اِس سلسلے میںقرآن میں آپ کو یہ اصولی ہدایت دی گئی۔قرآن میں ارشاد ہوا ہے:الصُّلح خیر (النساء128:) یعنی نزاعی معاملات میں پُر امن تصفیے کا طریقہ زیادہ نتیجہ خیز طریقہ ہے:
The peaceful method is a far more effective method.
اسی طرح خود پیغمبر ِاسلام نے فرمایا:إنّ ﷲ یعطی علی الرِّفق مالا یعطی علی العُنف (صحیح مسلم، حدیث نمبر2593) یعنی خدا نرمی پروہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا:
God grants to peace what He dose not grant to violence.
پیغمبرِاسلام محمد بن عبداﷲ کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے امن کو ایک مکمل آئیڈیالوجی کے طور پر دریافت کیا۔ آپ نے امن کو ایک ایسے طریقۂ کار کے طور پر دریافت کیا جو ہر صورتِ حال کے لیے موثّر ترین تدبیر کی حیثیت رکھتا تھا۔
ایک مفکّر نے لکھا ہے کہ’’ تاریخ کے تمام انقلابات صرف حکمرانوں کی تبدیلی (coup) تھے، وہ حقیقی معنوں میں انقلاب نہ تھے‘‘۔ یہ بات اگر صحیح ہو تو پیغمبرِاسلام محمد بن عبداﷲ کا نام اِس معاملے میں ایک استثناء مانا جائے گا۔ کیوں کہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپ کے لائے ہوئے انقلاب کے ذریعے وہ تمام انفرادی، سماجی اور سیاسی تبدیلیاں وقوع میں آئیں، جن کے مجموعے کو انقلاب (revolution)کہا جاتا ہے۔
راقم الحروف کا احساس اپنے مطالعے کی بنیاد پر یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام کا انسانی تاریخ میں جو کنٹری بیوشن(contribution)ہے، اُس کے لحاظ سے اُن کا سب سے زیادہ موزوں نام یہی ہو سکتا ہے کہ اُن کو امن کا پیغمبر(Prophet of Peace)کہا جائے۔
تاریخ ایک ایسا ڈسپلن ہے جس میں یہ امکان رہتا ہے کہ مطالعہ کرنے والا ایک سے زیادہ رایوں تک پہنچ جائے۔ تاہم مصنف کا یہ خیال ہے کہ ایسا زیادہ تر محدود مطالعے کی بنا پر ہوتا ہے۔ اگر مطالعہ زیادہ وسیع اور جامع ہو تو تعّددِ آراء کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے۔
ایک مثال سے اِس کی وضاحت ہوگی۔ پیغمبرِاسلام کی زندگی میں کچھ دفاعی لڑائیاں پیش آئیں۔ اِن میں سے ایک دفاعی لڑائی وہ تھی جس کو جنگِ بدر کہا جاتاہے۔ روایات میں آتا ہے کہ جس وقت جنگ کا واقعہ ہُوا، پیغمبرِاسلام میدانِ جنگ سے باہر ایک عَر یش میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اپنے ہاتھ یا لکڑی سے آپ ریت پر کچھ لکیریں کھینچتے ہوئے نظر آئے۔ اِس واقعے کو لے کر ایک مستشرق نے بطورِ خود اس کو جنگ سے منسوب کیا، اور لکھا کہ ’’قائدِاسلام اُس وقت اپنی اگلی جنگ ;کے نقشہ کا منصوبہ بنا رہے تھے‘‘:
The leader of Islam was making his next war plan.
مستشرق نے یہ بات کسی حوالے کے بغیرصرف اپنے قیاس کی بنیاد پر لکھ دی۔ حالاں کہ دوسری روایات میں دیکھا جائے تو خود روایت کی بنیاد پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبرِاسلام اُس وقت کیا کر رہے تھے۔ وہ در اصل یہ نقشہ بنا رہے تھے کہ آئندہ کس طرح امن قائم کیا جائے، چناںچہ دوسری روایت میں بتایا گیا ہے کہ جس وقت بدر کی یہ دفاعی جنگ ہورہی تھی، عَین اُسی وقت خدا کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ خدانے آپ کو امن کا پیغام بھیجا ہے۔ یہ سُن کر پیغمبرِاسلام نے فرمایا: ’’ہوالسلام ومنہ السلام وإ لیہ السلام‘‘ ( البدیہ و النہایہ، جلد 3، صفحہ267) یعنی خدا سلامتی ہے، اور اُسی سے سلامتی ہے، اور اسی کی طرف سلامتی ہے۔اِس دوسری روایت کے مطابق درست طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنگِ بدر کے موقع پر پیغمبرِاسلام اپنا اگلا منصوبۂ امن بنا رہے تھے:
The leader of Islam was making his next peace plan.
پیغمبرِاسلام کو قرآن میں پیغمبر ِرحمت کہا گیا ہے: وما ارسلنٰک إلا رحمة للعالمین (الانبیاء107 :) یعنی پرافٹ آف مرسی۔ پرافٹ آف مرسی ہی کا دوسرانام پرافٹ آف پیس ہے۔ دونوں ایک ہی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے دو مختلف انداز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پیغمبر ِاسلام کا مشن کوئی پولٹیکل مشن نہیں تھا۔ آپ کے مشن کو دوسرے الفاظ میں اسپریچول مشن کہا جاسکتا ہے۔ قرآن میں اس کو تزکیۂ نفس Purification of the Soul) (البقرہ129 :، بتایا گیا ہے، یعنی انسان کو کامل انسان بنانا۔ دوسری جگہ قرآن میںاِس کے لیے النّفس المطمئنة (complex-free soul) الفجر27 :،کے الفاظ آئے ہیں۔
اِس َقسم کا مقصد صرف نصیحت اور تذکیر (persuasion) کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ مقصد ذہن کی تشکیلِ نَو (re-engineering of the mind)کا طالب ہے۔ یہ مقصد صرف انسان کی تفکیری قوت کو بیدار کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے حصول کا ذریعہ سیاسی انقلاب نہیں ہے، بلکہ ذہنی انقلاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبرِاسلام کی تعلیمات تمام تر امن کے تصور پَر مبنی ہیں۔
پیغمبرِ اسلام کی لائی ہوئی کتاب قرآن میں کُل تقریباً6500 آیتیں ہیں۔ اِن آیتوں میں بمشکل چالیس آیتیں ہیں جن میں قِتال یا جنگ کا ذِکر ہے۔ یعنی کُل آیتوں کا ایک فیصد سے بھی کم حصّہ۔ قرآن کی نناّنوے فیصد سے زیادہ آیتیں وہ ہیںجن میںانسان کی قوتِ فکر کو بیدار کیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن گویا آرٹ آف تھنکنگ کے موضوع پَر ایک کتاب ہے، وہ کسی بھی درجے میں آرٹ آف فائٹنگ کی کتاب نہیں۔
پیغمبرِاسلام کی تعلیمات اور آپ کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نہ صرف نظریۂ امن پیش کیا بلکہ آپ نے نہایت کامیابی کے ساتھ پُرامن زندگی کے لیے ایک مکمل طریقِ کار وضع کیا:
He was able to develop a complete methodology of peaceful activism.
پیغمبرِاسلام کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے نہ صرف امن کی ایک آئیڈیالوجی پیش کی ، بلکہ امن کو عمل میں لانے کے لیے وہ ایک مکمل میتھاڈولوجی آف پیس ڈیویلپ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ گویا کہ آپ نظریۂ امن کے آئیڈیا لاگ بھی تھے، اور نظریۂ امن کو عملی انقلاب کی صورت دینے والے بھی۔
واپس اوپر جائیں

خاموش تبلیغ

پیغمبرِاسلام کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ 610عیسوی میں جب آپ نے مشن شروع کیا تو ابتدائی کئی سال تک آپ خاموشی کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں کے ذریعے لوگوں تک اپنی بات پہنچاتے رہے۔ اُس وقت کے مکّہ میں نیز پور ے ملک میں بتوں کو پوجا جاتا تھا۔ بت پرستی کا کلچر ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ پیدائش سے موت تک ہر معاملے میں مشرکانہ رسمیں داخل ہو چکی تھیں۔ ایسی حالت میں دینِ شرک کے بجائے دینِ توحید لے کر اُٹھنا، نزاع اور ٹکرائو کو دعوت دینے کے ہم معنیٰ تھا۔
ایسی حالت میں پیغمبرِاسلام کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔ ایک یہ کہ لوگوں کو کھُلے طورپر توحید کی طرف بلائیں اور کھُلے طور پر شرک کو غلط قراردیں۔ آپ کے لیے دوسرا انتخاب یہ تھا کہ آپ خاموشی کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں کے ذریعے اپنا مشن شروع کریں اور حالات کا اندازہ کرتے ہوے تدریجی طور پر آگے بڑھیں۔ پہلے طریقے میں متشددانہ ٹکرائو کا اندیشہ تھا، اِس لیے آپ نے اس کو چھوڑ دیا۔ اِس کے بجائے آپ نے دوسرے طریقے کو اختیار کرلیا، جو واضح طور پَر امن کا طریقہ تھا۔ جس میں یہ ممکن تھا کہ لوگوں سے ٹکرائو کی صورتِ حال پیدا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھا جاسکے۔
پیغمبرِاسلام کی زندگی میں یہ پیس فل ایکٹوزم کی پہلی مثال تھی۔ اِس طرح آپ نے اپنی پوری تحریک امن کے اصول پر چلائی۔ اِسی حقیقت کو ایک حدیث میں آپ نے اِس طرح فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدوّ، وسلوا ﷲ العافیۃ۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3024 ) یعنی اگر تم کو کسی دشمن کا سامنا پیش آئے تو ایسا نہ کرو کہ ردِّعمل کی نفسیات میں مبتلا ہو کر اس سے لڑ جائو بلکہ امن کے اصولوں کو اختیار کرتے ہوئے دشمنی کے مسئلے کو حل کرو:
Solve the problem of enmity by following the peaceful method.
اِ س طرح آپ پُرامن انداز میں کام کرتے رہے یہاں تک کہ دھیرے دھیرے83آدمی آپ کے مشن میں شامل ہو گیے۔ اُس وقت آپ کے ایک سینئر ساتھی ابو بکر بن ابی قحافہ نے کہا کہ اب ہم کو اعلان کے ساتھ کھُلے عام اپنا کام کرنا چاہیے۔ پیغمبرِاسلام نے کہا کہ نہیں، اے ابو بکر، ابھی ہم تھوڑے ہیں (یا أبا بکر إنّا قلیل) سیرت ابنِ کثیر جلد ۱، صفحہ441۔
لیکن ابو بکر صدیق نے اِس کے باوجود ایسا کیا کہ وہ کعبہ گئےاور وہاں بلند آواز سے اعلان کر کے لوگوں کو بتایا کہ میں پوری طرح محمد کا ساتھی بن گیا ہوں۔ یہ سُن کر مخالفین کی ایک جماعت دَوڑ کر آئی۔ وہ حضرت ابو بکرکو مارنے پیٹنے لگی۔ انھوں نے ان کو اتنا زیادہ مارا کہ وہ زخمی ہوکر گِرپڑے۔ مارنے والوں نے ابوبکر کواُس وقت چھوڑا جب کہ انھوں نے سمجھا کہ اب ان کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
عمر بن الخطّاب آپ کے ساتھیوں میں نہایت طاقت وَر شخص تھے۔ انھوں نے بھی پیغمبرِاسلام سے کہا کہ ہم حق پَر ہیں، پھر ہم کیوں خاموش رہیں۔ ہم اعلان کے ساتھ کھُلے طور پر اپنا کام کریں گے۔ یہ سُن کر پیغمبرِاسلام نے فرمایا: یا عمر إ نا قلیل، قد رأیت ما لقینا (سیرت ابنِ کثیر، جلد1، صفحہ 439)۔ یعنی اے عمر،ہم تھوڑے ہیں، ہمارے ساتھ جو پیش آیا وہ تم نے دیکھ لیا۔
دھیرے دھیرے پیغمبرِاسلام کا مشن پھیلنے لگا۔ آپ کے ساتھیوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ پھر وہ وقت آیا جب کہ مدینہ سے 73آدمی آکر آپ سے ملے، اور بتایا کہ ہم آپ کے مشن میں آپ کے ساتھی ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب آپ مکّہ والوں کی زیادتی کو اور زیادہ برداشت نہ کیجیے۔ ہم کو اجازت دیجیے کہ ہم مکّہ والوں کے خلاف جہاد کریں۔ پیغمبر ِاسلام نے فرمایا: اصبروا، فإنی لم اُومر بالقتال(المواہب اللدنیة، 1/199)یعنی تم صبر کرو،کیوں کہ مجھے لڑائی کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔
پیغمبرِاسلام کی یہ روش بتاتی ہے کہ وہ ہمیشہ عملی نتیجے کو سامنے رکھتے تھے۔ اُن کا یہ ماننا تھا کہ اقدام کو مثبت نتیجے کا حامل ہونا چاہیے، ایسا اقدام جو کائونٹر پروڈکٹیو ـ(counterproductive) ثابت ہو، وہ کوئی اقدام نہیں۔ آپ نتیجہ خیز اقدام(result-oriented action)کے حامی تھے۔
پیغمبرِاسلام کی لائف بتاتی ہے کہ ان کی اسکیم میں اُس قسم کی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ تھی جس کو موجودہ زمانے میں خودکُش بمباری (suicide bombing) کہا جاتا ہے۔ خودکُش بمباری کیا ہے، وہ دراصل مایوسی کا آخری درجہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے مخالف پَر غلبہ حاصل نہیں کرسکتا ، اِس لیے وہ یہ چاہنے لگتا ہے کہ فریقِ ثانی کو محدود نقصان پہنچانے کی خاطر خود اپنے آپ کو ہلاک کرے، او رپھر اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلے کہ میں نے ایسا اِس لیے کیا کہ میں شہید ہو جائوں۔
دشمن کے مقابلے میں خودکش بمباری دراصل یہ ہے کہ آدمی کے سامنے پیس فل ایکشن کا انتخاب کھُلا ہوا ہو مگر نفرت اورانتقام کے جذبات میں مبتلا ہو کر وہ اس کو دیکھنے کے لیے اندھا ہو جائے اور اندھے پن میں وہ خود اپنے کو ہلاک کر ڈالے۔ کوئی بھی صورتِ حال جہاں کوئی شخص خودکُش بمباری کا چوائس لیتا ہے وہاں یقینی طور پر اس کے لیے پُر امن طریقِ کار کا راستہ کھُلا ہوتا ہے۔ مگر وہ اس کو دیکھ نہیں پاتا۔
اصل یہ ہے کہ پُرامن طریقِ کار کا انتخاب لینے کے لیے پہلی ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی کا ذہن نفرت اور انتقام کے جذبات سے خالی ہو۔ وہ غیر متاثر انداز میں واقعات کا تجزیہ کرے۔ پیغمبرِاسلام کے الفاظ میں: وہ چیزوں کو ویسا ہی دیکھ سکے جیسا کے وہ ہیں (أرنا الأ شیاء کما ھی)تفسیر الرازی، 1/119۔ پُرامن عمل ایک مثبت عمل ہے اور مثبت عمل کی اہمیت کو ایک مثبت ذہن ہی سمجھ سکتا ہے،اور اس کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سیاسی غلو

قرآن میں ایک نصیحت اِن الفاظ میں آئی ہے: لاتغلوا فی دینکم(النساء 171:) یعنی تم لوگ اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ پیغمبر ِاسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ غلو مذہبی گروہوں کی ہمیشہ خاص گمراہی رہی ہے۔ چناںچہ آپ نے فرمایا: ایاکم والغلو فی الدین فانما ھلک من کان قبلکم بالغلو فی الدین (مسند احمد، حدیث نمبر 1851) یعنی تم غلو سے بہت زیادہ بچو کیوں کہ پچھلی امتیں اسی لئے ہلاک ہوئیں کہ انھوں نے دین میں غلو کیا۔
غلو کے معنی انتہا پسندی (extremism)کے ہیں۔ غلو دراصل زوال کی علامت ہے۔ کوئی مذہبی گروہ جب زوال کا شکار ہوتا ہے تو اس کے اندر غلو پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً مسیحی گروہ کے بعد کی نسلوں میں ابنیتِ مسیح کا عقیدہ، وغیرہ۔ جیسا کہ معلوم ہے ، حضرت مسیح کی پیدائش معجزاتی انداز میں ہوئی تھی۔ بعد کے مسیحیوں نے اس میں غلو کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے یہ عقیدہ بنا لیا کہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے تھے۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اﷲ وسلم نے فرمایا کہ میرے امت میں بھی وہ ساری خرابیاں پیدا ہو ں گی جو پچھلی امتوں میں ہوئیں، بلکہ پچھلی امتوں سے بھی زیادہ۔ یہی مطلب ہے اس حدیث کا جس میں بتایا گیا ہے کہ پچھلی امتوں میں 72 فرقے ہوئے تھے اور مسلمانوں میں73فرقے ہو جائیں گے۔
اس قسم کے بہت سے اعتقادی غلو، جلی یا خفی انداز میں مسلمانوں کے اندر پیدا ہو گئے ہیں۔ مگر مسلمانوں میں غلو کی اور ایک قسم ہے جو غالباً کسی پچھلی امت میں پائی نہیں گئی۔ شاید اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئے اور تم 73فرقوں میں بٹ جائوگے۔ غلو کی اس اضافی قسم کو سیاسی غلو (political extremism)کہا جاسکتا ہے۔
معلوم تاریخ کے مطابق، کسی پچھلی امت کو وہ سیاسی عظمت نہیں ملی جو مسلمانوں کو ظہور اسلام کے بعد ایک ہزار سال کے دوران حاصل ہوئی۔ سیاسی عظمت عقیدہ کا حصہ نہ تھی بلکہ وہ تاریخ کا حصہ تھی۔ مگر مسلمانوں نے اس میں غلو کیا یہاں تک کہ عملی طور پر اس کو عقیدہ کا حصہ بنا دیا۔ اس طرح مسلمانوں میں سیاسی غلو پیدا ہو گیا۔ اسی غلو کا نتیجہ وہ متشددانہ جہاد ہے، جو آج مسلم دنیا میں پایا جاتا ہے۔
سیاسی عظمت کے دور میں مسلمانوں کے اندر اس معاملہ میں غلو آمیز افکار پیدا ہوئے۔ مثلاً یہ کہ مسلمان خدا کی زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں اور ان کو یہ حق ہے کہ وہ خدا کی نیابت میں تمام قوموں کے اوپر حکومت کریں۔ دین ایک مکمل اسٹیٹ کے ہم معنی ہے، اور دین اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اسٹیٹ کی صورت میں قائم نہ ہو جائے۔ مسلمان افضل گروہ ہے اور دوسری قومیں ان کے مقابلہ میں غیر افضل گروہ۔ اس لئے مسلمان کبھی اس کو برداشت نہیں کرسکتے کہ غیر افضل گروہ ان کے اوپر غالب ہو جائے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری صرف نماز روزہ کی ادائیگی سے پوری نہیں ہوسکتی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی لازمی طور پر ضروری ہے کہ مسلمان خدا کی حاکمیت کا جھنڈا ساری زمین پر گاڑدیں۔
اس قسم کے عقیدہ کا کوئی تعلق خدا کے اتارے ہوئے دین سے نہیں۔ یہ تمام تر سیاسی غلو ہے مگر موجودہ دور کے مسلمان پوری طرح اس سیاسی غلو میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ تقریباً سارے مسلمان اس غلو آمیز سوچ کا شکار ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی شعوری طور پر اس میں مبتلا ہے اور کوئی غیر شعوری طور پر اس کا حصہ بنا ہوا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے پچھلی امتوں کو ان کے پیغمبر کے بعد سیاسی عظمت نہیں ملی اس لئے ان کے یہاں سیاسی غلو کا ظاہرہ وجود میں نہیں آیا۔ ان کے یہاں اعتقادی غلو پیدا ہوا کیوں کہ ان کے حالات کے اعتبار سے اسی قسم کا غلو ان کے درمیان پیدا ہونا ممکن تھا۔
مسلمانوں کا معاملہ استثنائی طور پر مختلف تھا۔ ان کے پاس مذہبی عقائد بھی تھے اوراسی کے ساتھ تاریخی معنوں میں سیاسی عظمت بھی۔ چناںچہ حدیث کے مطابق، ان کے یہاں اعتقادی غلو کے اعتبار سے 72 فرقے بن گئے۔ اسی کے ساتھ حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، ان کے یہاں ایک 73واں فرقہ بھی پیدا ہوا۔ یہ نیا فرقہ سیاسی غلو کرنے والوں کا فرقہ تھا۔ اعتقادی غلو کی برائی مسلمانوں میں تقریباً اتنی ہی ہے جتنی کہ دوسری امتوں میں پائی جاتی ہے مگر اسی کے ساتھ سیاسی غلو نے ان کے معاملہ کو بہت زیادہ سنگین بنا دیا ہے۔
قرآن و حدیث کے مطابق، مسلم امت کا سب سے بڑا فریضہ دعوت ہے۔ یعنی غیر مسلم قوموں میں پُرامن طور پر خداکاپیغام پہنچانا۔ اسی کو قرآن و حدیث میں شھادت علی الناس کہا گیا ہے— مگر موجودہ مسلمان اپنے سیاسی غلو کی بنا پر دعوت اِلی اﷲ کے کام سے تقریباً مکمل طور پر دور ہو گئے ہیں۔ ان کی اس دوری کی سب سے زیادہ خطرناک شکل یہ ہے کہ انھوں نے دوسرے دوسرے کاموں پر دعوت کا لیبل لگا دیا ہے۔ مثلاً مناظرہ (debate)کو دعوت کہنا، سیاسی نظام کے لیے ہنگامہ آرائی کو دعوت کہنا، اصلاح المسلمین کے کام کو دعوت کہنا، کمیونٹی ورک کو دعوت کہنا، وغیرہ۔
آج سب سے زیادہ ضروری کا م یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر دعوت کا شعور پیدا کیا جائے۔ ان کے تعلیمی نظام کو دعوت کے اصول پر قائم کیا جائے۔ ان کو داعی گروہ کی حیثیت سے اٹھایا جائے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انھیں غیر دعوتی سر گرمیوں سے روکا جائے، کیوں کہ اس کے بغیر موثر انداز میں دعوت کا کام نہیں ہو سکتا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ عصمت من الناس کا راز تبلیغ ما انزل اﷲ میں چھپا ہوا ہے (المائدة 67 :)۔یعنی مسلمان اگر دعوت اِلی اﷲ کا کام کریں تو اﷲ ان کی جان و مال کا محافظ بن جائے گا۔ گویا دینی پیغام کا کام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور یہ اﷲ کا ذمہ ہے کہ وہ ان کے مادی مفادات کی حفاظت کرے گا۔
مشہور حدیث میں آیا ہے : إنما الأعمال بالنیات (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1)۔ یعنی عمل کا دارو مدار نیت پر ہے۔ اس حدیث میں نیت سے مراد وہی چیز ہے جس کو عام طور پر روح یا اسپرٹ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میںاگرچہ بہت سے اعمال ہیں۔ جن کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے مگر اسلام میں اصل اہمیت کی چیز عمل کی روح یا اسپرٹ ہے نہ کہ محض اس کا ظاہری فارم۔
دوسری طرف حدیث میں آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعدکے زمانے کے مسلمانوں کے بارے میں فرمایا: لا یبقى من الإسلام إلاإسمہ (شعب الإیمان للبہیقی، حدیث نمبر1763)۔ یعنی اسلام کا صرف نام باقی رہے گا۔ بعد کی مسلم نسلوں میں ایسا ہوگا کہ داخلی روح یا اسپرٹ تو ان میں ختم ہو جائے گی، البتہ اسلامی اعمال کی ظاہری صورت ان کے یہاں باقی رہے گی۔ لوگ اسلام کی اصل حقیقت سے بے بہرہ ہوں گے۔ وہ صرف ظاہری اسلام کو جانیں گے اور اس کا اہتمام کریں گے۔
اس فرق سے غلوکے معاملہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جب کہ اس کی اسپرٹ زندہ تھی تو ساری توجہ روح یا اسپرٹ پر دی جاتی تھی۔ بعد کی نسلوں میں جب زوال آیا تو ظاہری چیزوں کو اہمیت دی جانے لگی۔ یہی ہر معاملہ میں ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر بزنس کلچر میں ایک لفظ بہت بولا جاتا ہے وہ ہے کسٹمر فرینڈلی بیہیویر (customer-friendly behaviour)۔ چناںچہ بزنس مین اپنے کسٹمر کے ساتھ بہت زیادہ دوستانہ آداب کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں گھر کے ادارہ کو دیکھیے۔ کسی گھر میں آپ ماں باپ کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنیں گے کہ ہمارا رویہ اپنی اولاد کے ساتھ سن فرینڈلی (son-friendly) ہوتا ہے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ ماں باپ کے اندر اپنی اولاد کے لیے محبت کی روح اپنے آپ موجود رہتی ہے، اس لیے انھیں اس کی ظاہری نمائش کی ضرورت نہیں۔
بزنس مین کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ بزنس مین کے دل میں اپنے کسٹمر کے لئے کوئی قلبی شفقت اورمحبت نہیں ہوتی۔ اس لئے وہ ظاہری آداب کا خوب اہتمام کرتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جہاں داخلی روح زندہ ہو وہاں ظواہر کا زیادہ اہتمام دکھائی نہیں دے گا لیکن جب داخلی روح موجود نہ رہے تو ظاہری چیزوں کا خوب اہتمام ہوگا۔
یہی وہ انسانی مزاج ہے جو مذہب میں وہ چیز پیدا کرتا ہے جس کا نام غلو ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ غلو یا انتہا پسندی کا معاملہ ہمیشہ ظاہری چیزوں میں کیا جاتا ہے، نہ کہ داخلی حقیقت میں۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مذکورہ پیغمبرانہ پیشین گوئی مکمل طور پر پوری ہو چکی ہے۔ مسلمانوں میں جو غلو پیدا ہوا ہے۔ اس کی ایک قسم وہ ہے جس کو اعتقادی غلو کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً حضرت علی کی تفضیلِ مطلق کا عقیدہ، بزرگوں کے وسیلوں کا عقیدہ ، قبروں کے تقدس کاعقیدہ، وہ عقیدہ جس کو الطاف حسین حالی نے ان الفاظ میں بیان کیا:
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
موجودہ زمانے میں ساری دنیا میں جہاد کے نام پر متشددانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ کچھ لوگ اس میں براہ راست طور پر ملوث ہیں اور کچھ لوگ اس میں اس طرح شریک ہیں کہ وہ اپنی تقریر یا تحریر میں اس کو درست ثابت کرتے ہیں، کچھ اور لوگ ہیں جواس پر خاموشی کا طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں مگر شرعی اصول کے مطابق وہ بھی اس میں شریک ہیں۔ غرض مسلمانوں کا ایک گروہ اس متشددانہ جہاد میں براہ راست طور پر ملوث ہے اور دوسرا گروہ بالواسطہ طور پر۔
یہ سیاسی غلو موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ اس کمزوری نے ان سے وہ تمام انسانی اوصاف چھین لیے ہیں جو کسی قوم کو عزت اور عظمت کا مقام دیتے ہیں۔ مثلاً انسان کی خیرخواہی، آفاقی طرز فکر، مثبت انداز میں سوچنا، زمانہ کی تبدیلیوں کو جاننا، حقیقت پسندی کا مزاج، دوسروں کا اعتراف، داعیانہ اسپرٹ، امن کی اہمیت کو سمجھنا، موضوعی نقطۂ نظر (objective thinking)،وغیرہ۔
اس سیاسی غلو کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مسلمان ماضی کے جنون سے باہر نہ آسکے، وہ حال کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ ماضی میں جنگ فیصلہ کن ہوا کرتی تھی، موجودہ زمانہ میں پرامن وسائل زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں۔ مگر مسلمانوں کو اس کی خبر نہیں۔ ماضی میں زراعات پر مبنی اقتصادیات کا دور تھا۔ اب انڈسٹری پر مبنی اقتصادیات کا دور آچکا ہے مگر مسلمان اس سے بے خبر ہیں۔ ماضی میں جدید کمیو نی کیشن کا کوئی وجود نہ تھا جب کہ آج جدید کمیونی کیشن سب سے بڑی طاقت بن چکی ہے۔ مگر مسلمان اس کو نہیں جانتے۔ ماضی میں تمام ذرائع حکومت کے پاس ہوتے تھے، موجودہ زمانہ اداروں (institutions)کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانہ میں یہ ممکن ہو گیا ہے کہ کوئی گروہ اداروں کے ذریعے ایک متوازی امپائر بنا سکے مگر مسلمانوں کو اس نئی حقیقت کی کوئی خبر نہیں، وغیرہ۔
موجودہ زمانہ میں جو متشددانہ جہاد شروع کیا گیا، وہ ٹیپو سلطان (وفات1799 :) سے لے کر آج تک جاری ہے۔ مگر اس دو سو سالہ جہاد کا کوئی بھی مثبت نتیجہ نہیں۔اس کے باوجود مسلمانوں میں ابھی تک ازسرے نو جائزہ (reassessment)کی کوئی حقیقی تحریک نہیں اٹھ سکی۔ اس کا سبب مسلمانوں کا یہی شعوری پچھڑاپن ہے۔ آج سب سے بڑا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس شعوری پچھڑےپن کو دور کیا جائے، اس کے بغیر صورت حال میں کسی مثبت تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔
تقریباً۷۰ سال پہلے امیر شکیب ارسلان نے ایک کتاب لکھی جس کا ٹائٹل تھا:’’لماذا تأخر المسلمون و تقدم غیر ھم‘‘(مسلمانوں کیوں پیچھے رہ گئے اور دوسری قومیں کیوں آگے ہوگئیں)۔ اس کتاب میں جہادمیں پچھڑنے کو مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب بتایا گیا ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں اس عربی شعر کو نقل کیا تھا:
تاخرتُ استبقی الحیاۃ فلم أجد
لنفسی حیاۃ مثل أن اَتقدّما
میں بقائے حیات کے لئے جنگ سے پیچھے رہا۔ مگر اس میں میں نے اپنے لئے کوئی زندگی نہ پائی۔ زندگی تو صرف آگے بڑھنے والوں کے لئے تھی۔
یہی بات پچھلے دوسو سال سے تمام مسلم رہنما لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ جہادی نظریہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں پھیل گیا۔ حتیٰ کہ جہادی ماڈل ہی عمل کا واحد ماڈل بن گیا۔ لیکن آج نتیجہ کو سامنے رکھ کر سوچیے تو معلوم ہوگا کہ یہ عمل، معکوس نتیجہ(counterproductive)پیدا کرنے والاعمل ثابت ہوا۔ ایسی حالت میں مذکورہ شعر کی بات کو بدل کر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ —میں نے زندگی اور بقاء کے لئے جنگ کا طریقہ اختیار کیا مگر آخر کار معلوم ہوا کہ زندگی اور بقاء تو ان لوگوں کے لیے ہے جو متشددانہ طریقہ کار کے بجائے پرامن طریقہ کار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

دورِ قدیم، دورِ جدید

دورِ قدیم میں طاقت کو واحد معیار کا درجہ حاصل تھا۔ روایتی طور پرطاقت ور آدمی کو یہ حیثیت ملی ہوئی تھی کہ وہ طاقت کے بل پر جہاں چاہے اپنا دبدبہ قائم کرلے۔اور لوگ اس کو درست سمجھ کر قبول کرلیں۔ اس اعتبار سے گویا قدیم دور کا معاشرہ طاقت ور انسان کا معاشرہ تھا۔
موجودہ زمانے میں حقوقِ انسانی (human rights)کی تحریکیں نہایت زور و شور کے ساتھ چلیں۔ یہاں تک کہ دنیا میں عملاً ایک نیا معیار قائم ہوگیا۔ اب حقوق یافتہ طبقہ (privileged class) کا تصور ختم ہوگیا۔ اب ایک نیا دور شروع ہوا ہے جب کہ اصولی طور پر ساری اہمیت جوہرِ ذاتی (merit)کی ہے۔ آج کی دنیا میں ساری اہمیت صرف میرٹ (merit) کو حاصل ہے۔ آج کی دنیا مبنی بر میرٹ (merit-based) دنیا ہے۔ اگر آپ غلطی کرکے کسی کو جواز (justification) نہ دیں تو آپ کو یہ تجربہ پیش آنے والا نہیں کہ آپ اپنی صلاحیت کے اعتبار سے ایک چیز کے حقدار ہوں، پھر بھی وہ چیز آپ کو نہ ملے۔
زمانے کی اس تبدیلی نے آج ایک نیا امکان پیدا کردیا ہے ۔ وہ امکان یہ ہے کہ اگر آپ مکمل طور پر پر امن طریقہ (peaceful method) اختیارکریں تو کوئی آپ پر تشدد کرنے والا نہیں۔ کسی بھی مقام پر آپ کا راستہ رکنے والا نہیں۔ پر امن طریقہ کار کےذریعے آپ جومقصد چاہیں، اس کے لیے آزادانہ طور پر اپنا منصوبہ بنا سکتے ہیں، اور اس کو زیرِ عمل لاسکتے ہیں۔ مثلاً تجارت، تعلیم، دعوت الی اللہ ،وغیرہ۔
یہ امکان خاص طور پر ان لوگوں کے لیے اہم ہے جو تعلیم اور دعوت جیسے تعمیری میدان میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے زمانے میں جبر کا نظام تھا۔ اس لیے تعمیری میدان میں بھی آزادانہ کام کے مواقع حاصل نہ تھے۔ اب یہ رکاوٹ مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے۔ اب ہر انسان اور ہر گروپ کو یہ موقع ہے کہ وہ اپنے تعمیری حوصلوں کو پوری طرح بر روئے کار لاسکیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوت عام، اصلاح امت

جس طرح صلاۃ اور زکاۃ دین کے دو الگ الگ شعبے ہیں، اسی طرح دعوت اور اصلاح دین کے دو الگ الگ شعبے ہیں۔ اگر دعوت عام اور اصلاح امت ، دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے تو دونوں میں سے کسی کا بھی تقاضا پورا نہیںہوگا۔ جس طرح صلاۃ اور زکاۃ دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے تو نہ صلاۃ کا تقاضا پورا ہوگا اور نہ زکاۃ کا۔
اصلاحِ امت دراصل امت کی ایک داخلی ضرورت ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، امت کے اندر ہمیشہ زوال کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ امت کی ہر نسل میں احیاء (revival) کا عمل جاری رہے، امت کی ہر نسل میں دین کی اسپرٹ کو دوبارہ زندہ کیا جاتا رہے۔ یہ امت کے علماء کا ایک مستقل فریضہ ہے۔ لومۃ لائم (المائدہ: 54)کا اندیشہ کیے بغیر اس فریضے کو مسلسل طور پر جاری رکھنا ضروری ہے۔
دعوت الی اللہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں انذار اور تبشیر (النساء 165:) کہا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر قوم اور ہر انسانی گروہ کو مسلسل طور پر یہ بتانا کہ ان کے پیدا کرنے والے نے ان کو کس لیے پیدا کیا ہے۔ خالق کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ ابدی کامیابی کیا ہے، اور ابدی خسران کیا ہے ۔ یہ دین کی عمومی پیغام رسانی کا کام ہے۔
دعوت کے دو خاص تقاضے ہیں جن کو قرآن میں ناصح اور امین (الاعراف: 68) کے الفاظ میں بیا ن کیا گیا ہے۔ یعنی مدعو کے ساتھ کامل خیر خواہی اور دعوت کے معاملے میں پوری دیانت داری۔ اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ دعوت کو مدعو کی قابلِ فہم زبان میں بیان کیا جائے۔ دعوت کو ایسے اسلوب میں بیان کیا جائے جو مدعو کے ذہن کو ایڈریس کرے۔ دعوت محض اعلان (announcement) کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ مدعو کے ساتھ کامل رعایت کا نام ہے۔ داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ یک طرفہ حسنِ تعلق کی روش اختیار کرے۔ تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان اعتدال کی فضا باقی رہے۔
واپس اوپر جائیں

امیج بلڈنگ

موجودہ زمانے میں بعض اسباب کے تحت اسلام کی یہ تصویر( image)بن گئی ہے کہ اسلام ایک تشدد کا مذہب ہے۔ قرآن اپنے ماننے والوں کو جہاد و قتال کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام کے نزدیک امن کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ غلط فہمی کی بات ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں یہ غلط فہمی اتنی زیادہ عام ہوگئی ہے کہ ساری دنیا کے لوگ کسی نہ کسی اعتبار سے اس غلط فہمی کا شکار ہوگیے۔
یہ معاملہ بے حد سنگین ہے۔ اس عالمی صورت حال کی بنا پر آج اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ وہ چیز بن گئی ہے جسے تصویر کو درست کرنا (image-building) کہا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک طرف مسلمانوں کو سختی کے ساتھ اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کا کوئی عمل اس غلط فہمی کی تصدیق نہ بن جائے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ ایسی کتابیں تیار کرکے اس کو ساری دنیا میں پھیلایا جائے، جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے۔ اسلام ہر حال میں امن قائم کرنا چاہتا ہے۔ اسلام اور تشدد دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
الرسالہ مشن کے تحت اس مقصد کے لیے بہت سی کتابیں شائع کی گئی ہیں۔ اور الرسالہ مشن کے تحت ان کتابوں کو عالمی سطح پر پھیلایا جارہا ہے۔ ان کتابوں میں قرآن کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ پولینڈ کے ایک کرسچن اسکالر نے ہمارے یہاں کا چھپا ہوا انگریزی ترجمہ پڑھا تو انھوں نے تعجب آمیز خوشی کے ساتھ کہا کہ اس ترجمےکو پڑھ کر تو مجھے یہ دریافت ہوئی کہ قرآن ایک امن پسند کتاب ہے۔
اس سلسلے کی تازہ کوشش یہ ہے کہ ہمارے ادارے سے ایک نئی انگریزی کتاب شائع ہوئی ہے، جس کا نام دور امن (The Age of Peace) ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ اس کتاب کو حاصل کرکے اس کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں، خاص طور پر انگریزی داں طبقے کے درمیان۔امیج بلڈنگ کے نطقۂ نظر سے یہ کتاب بہت زیادہ اہم ہے۔ اس کتاب کو ادارے سے ربط کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
مولانا صاحب، میں انٹر نیٹ پر آپ کے لکچرس سنتا ہوں اور الرسالہ پڑھتا ہوں۔ اس طرح مجھے دین کی کافی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ مولانا صاحب، میرا آپ سے سوال ہے کہ میں ایک معروف ہاسپٹل میں کمپیوٹر آپریٹر کی جاب کرتاہوں۔ یہاں پر ہندو ساتھی پوجا کا پرشاد کھانے کے لیے دیتےہیں۔ جب میں کھانے سے منع کرتا ہوں یا اسے نہیں لیتا تو وہ ناراض ہوجاتےہیں۔ ایسے موقعے پر میں کیا کروں، ان کو کیسے سمجھاؤںیا کنونس کروں۔(محمد اعجاز حسین، حیدرآباد)
جواب
آپ کا رویہ درست نہیں ۔ یہ کوئی اسلام نہیں ہے کہ آپ لوگوں کے پرشاد کو نہ لیں۔ پرشاد ایک رزقِ خداوندی ہے۔ دوسرا شخص اگر اس کو پرشاد کے نام پر دیتا ہے تو آپ اس کو رزق خداوندی کے نام پر قبول کریں۔ کچھ لوگوں نے پرشاد کو سورہ البقرۃ کی آیت نمبر 173کے تحت غلط بتایا ہے،مگر یہ قیاس مع الفارق ہے۔
صحیح یہ ہے کہ پرشاد کے معاملے کو سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت کے تحت نہ لیا جائے، بلکہ پرشاد کو تالیف قلب کی آیت( التوبہ60 :)کے تحت لیا جائے۔ دعوت امت مسلمہ کا اہم ترین فریضہ ہے۔ اور دعوت کے لیے تالیف قلب ضروری ہے۔ تالیف قلب کے بغیر دعوت کا کام درست طو رپر انجام نہیں دیا جاسکتا ۔
تالیف قلب دراصل مدعو کے حق میں خیر خواہی کا ایک ظاہرہ (phenomenon) ہے۔ داعی اپنے مدعو کا ناصح (الاعراف 68:) ہوتاہے، یعنی خیرخواہ (well-wisher)۔ خیر خواہی کے جذبے کی بنا پر داعی چاہتا ہے کہ وہ ایسا طریقہ اختیار کرے کہ داعی مدعو کے درمیان معتدل تعلقات قائم ہوں۔ تاکہ مدعو داعی کی بات کو سنجیدگی کے ساتھ لے، وہ اس کو نظر انداز نہ کرے۔ داعی کو ہرایسا کام کرنا چاہیے جس سے داعی اور مدعو کے درمیا ن ناصحانہ تعلق قائم ہو۔
سوال
سائنٹفک اسلوب کیا ہے، اس کے لوازمات و متعلقات کیا ہیں، وضاحت کے ساتھ تشریح فرمائیں۔ (فرید احمد، مظفر پور)
جواب
سائنٹفک میتھڈ کے ٹرم کا استعمال علمی دنیا میں سترھویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔ ابتدائی طور پر یہ ٹرم فزیکل سائنس میں استعمال ہوتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فزیکل دنیا کا مطالعہ ریاضیاتی منطق (mathematical logic) کی روشنی میں کیا جائے۔ مثلاً سورج کی روشنی کس رفتار (speed) سے سفر کرتی ہے، اس کو مخصوص آلات کی مدد سے دریافت کرنا،وغیرہ۔
بعد کو سائنٹفک میتھڈ کا ٹرم، انسانیات کےشعبوں میں بھی استعمال ہونے لگا۔ میں ذاتی طور پر سائنٹفک میتھڈ کا ٹرم اسی معنی میں استعمال کرتا ہوں۔ میرا موضوع انسانیات ہے۔میرے نزدیک انسانیات کے شعبوں کا مطالعہ وہی صحیح ہے جس میں مطالعے کے لیےسائنٹفک میتھڈ کو استعمال کیا گیا ہو۔ سائنٹفک میتھڈ دوسرے لفظوں میں وہی ہے جس کو موضوعی اسلوب (objective method) کہا جاتا ہے۔یہ اسلوب ایک مسنون اسلوب ہے۔ حدیث میں اس کے لیے جو الفاظ آئے ہیں ، وہ یہ ہیں: اللہم ارنا الاشیاء کماھی (تفسیر الرازی،1/199)۔یعنی اے اللہ، ہم کو یہ توفیق دے کہ ہم چیزوں کو مطابقِ حقیقت (as it is) دیکھ سکیں۔
مثال کے طور پر موجودہ زمانے میں مسلمان عام طور پر یہ کہتے ہیں کہ تمام قومیں ہماری دشمن ہوگئی ہیں، وہ ہمارے خلاف سازش کرتی ہیں۔ یہ بلاشبہ غیر سائنٹفک اسلوب ہے۔ اس لیےکہ قرآن میں واضح طور پر بتایا گیا ہے: وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا (آل عمران: 120)۔ اس آیت کے مطابق ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ سازش کے مقابلے میں مسلمانوں کا عمل یہ ہونا چاہیے کہ وہ درست منصوبہ بندی کے ذریعے سازش کو اپنے لیے غیر موثر (harmless) بنا دیں، نہ کہ سازش کے نام پر احتجاج (protest)کرنا۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 241 —

نئی کتابیں: صدر اسلامی مرکز کی کتاب مطالعہ سیرت کا سندھی زبان میںترجمہ ’سیرت جو مطالعہ‘ کےنام سے شائع ہوچکاہے۔ سینٹر فار پیس اینڈ اسپریچوالٹی ، حیدرآباد ، پاکستان سے اس کتاب کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں سے سندھی زبان میں صدر اسلامی مرکز کی دوسری کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ مثلا قرآن جو مطالعہ (مطالعۂ قرآن)، حدیث جو مطالعہ (مطالعۂ حدیث)، اور تاریخ جا سبق (تاریخ کا سبق)۔
l صدر اسلامی مرکز کی کتاب دین کی سیاسی تعبیر (خلاصہ تعبیر کی غلطی) کا انگریزی ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔ انگریزی میں اس کا نام ہےThe Political Interpretation of Islam : ۔ اس کتاب کو گڈورڈ بکس سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
l صدر اسلامی مرکز کے انگریزی مضامین کا ایک مجموعہ دی ٹرو فیس آف اسلام (The True Face of Islam) نام سے ہارپر کلین پبلیشر (Harper Collins)نے شائع کیا ہے۔ اس مجموعہ کو سی پی ایس دہلی کے ممبر مسٹر رامش صدیقی نے مرتب کیا ہے۔
میڈیا انٹرویو ز19 :نومبر 2015 کو پاکستان کے مشہور ٹی وی چینل جیو نیوز(GEO News) پاکستان کے سلیم خان صافی نے اپنے مشہور پروگرام جرگا کے لیےصدر اسلامی مرکزکا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا ۔ انٹرویو کے زیادہ تر سوالات کا تعلق مسلمانوں کے موجودہ مسائل سے تھا۔ دورانِ انٹرویو جو بات کہی گئی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ کسی کام کو اس کے نتیجے کے اعتبار سے جانچا جائے گا۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ انٹرویو کے بعد انٹرویور کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ دیا گیا، جسے انھوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
l منصف چینل نئی دہلی کے نمائندہ مسٹر انظر اللہ نےاپنے پروگرام خاص ملاقات کے لیے اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا-دوران انٹرویو جو بات کہی گئی ان میں سے ایک یہ بات تھی کہ سماج میں وقوع پذیر ہونے والی ہر خرابی کا سدباب صرف حکومت کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے سماج کو تیار کرنا ضروری ہے۔ انٹرویو کے بعد ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ دیا گیا، جسے انھوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
ملاقات: بنگلور کی این جی او، دی واک آف ہوپ (The Walk of Hope) کے میڈیا -کمیو نی کیشن کنوینر جناب پی این شاہ نواز صاحب نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات کا مقصد امن کے موضوع پر تبادلۂ خیال کرنا، اور دہلی میں ہونے والے ایک سیمینار کے لیے صدر اسلامی مرکز کو دعوت دینا تھا۔ یہ ملاقات یکم اکتوبر 2015 کو ہوئی۔ اس موقع پر انھیں صدر اسلامی مرکز کی نئی کتاب دی ایج آف پیس اور دوسرے لٹریچر دیے گیے۔
جدید دعوتی امکانات: دورِ جدید میں دعوت کےلیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ساری دنیا اسلام کی بات سننا چاہتی ہے۔ ذیل میں اس کی کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
l 15-19اکتوبر 2015 کو سالٹ لیک سٹی (یوٹاہ، امریکا) میں ورلڈ مذہبی پارلیمنٹ نےکانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں سی پی ایس انٹرنیشنل (یوایس اے) نے کتابوں کا ایک اسٹال لگایا اور شرکاء کے درمیان تقریباً ایک ہزار انگلش ترجمہ قرآن اور ایج آف پیس تقسیم کیا۔ یہ نہایت انوکھا تجربہ تھا۔ ہر شخص حق کا متلاشی تھا۔ اور ہر شخص نے نہایت خوشی اور شکریہ کے ساتھ اس تحفہ کو قبول کیا۔
l 28-30نومبر 2015 کو نئی دہلی میں ٹائمس لٹریری فیسٹول منعقد ہوا۔ اس میں سی پی ایس ممبر مس ماریہ خان نے ’ماڈرن انڈیاز سرچ فار اسپریچولٹی ‘ پر انگریزی زبان میں ایک خطاب کیا۔ اس کے بعد سوال وجواب کا سیشن بھی تھا۔ تمام سامعین نے اس تقریر کو پسند کیا۔ اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے سی پی ایس ٹیم کے ممبران نے مقررین اور سامعین کے درمیان ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچر تقسیم کیے۔یہ پروگرام انڈیا کے مشہور انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا نے آرگنائز کیا تھا۔
5 l نومبر 2015 کو چنمیا مشن نے اپنے فاؤنڈر سوامی چنمیا نندا کے صدی جشن ولادت کے موقع پر ایک پروگرام نئی دہلی کے سری فورٹ میں کیا ۔ اس پروگرام میں مختلف مذاہب و فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی عزت افزائی کی گئی تھی، جن میں سے ایک صدر اسلامی مرکز تھے۔اس موقع پر سی پی ایس ممبران نے مختلف مذاہب کے مذہبی و سیاسی رہنماؤں کو انگلش ترجمۂ قرآن اور صدر اسلامی مرکز کے دعوتی لٹریچر دیے ،جسے تمام لوگوں نے خوشی اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
22 l نومبر2015 کوصدر اسلامی مرکز نے انڈیا میں یہود کے مذہبی رہنما رِبائی مالیکر(Ezekiel Isaac Malekar) کے بیٹے کی شادی میں شرکت کی۔ یہاںدولہےکو بطور تحفہ تذکیر القرآن انگلش ، فیملی لائف اور دوسری کتابیں دی گئیں۔ اس کے علاوہ شادی میں شریک ہونے والے لوگوں کے درمیان انگریزی ترجمۂ قرآن تقسیم کیا گیا۔
l 24-27نومبر 2015 کو میسور میڈیکل کالج کی طرف سے میڈیکل و سوشل سائنس پر پہلی انٹرنیشنل ;کانفرنس سینیٹ بھون، یو ایم او، میں منعقد کی گئی۔ سنٹر فار پیس، بنگلور نے اس پروگرام میں شرکت کی اور قرآن ، اسپرٹ آف اسلام کے علاوہ دوسرے دعوتی لٹریچر شرکاء کے درمیان تقسیم کیے۔
l 5-6نومبر 2015 کو کلکتہ کے پارک گلیکسی میں فیشن-لائف اسٹائل فیسٹیوٹی کا انعقاد ہوا تھا۔ اس میں کلکتہ سی پی ایس ٹیم نے شرکت کی اور شرکاء سے انٹرایکشن کرکے ان کو دعوتی لٹریچر پیش کیا۔
17 l نومبر 2015 کو امیریکن ایمبسی اور وویکا نندا فاؤنڈیشن کے باہمی اشتراک سےنئی دہلی میں ’کاؤنٹرنگ ایکسٹرمزم ‘کے موضوع پر ایک پروگرام منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے انڈیا میں امریکی سفیر مسٹر رچرڈ ورما اسلامی مرکز کے نائب صدر ڈاکٹر ثانی اثنین کا ذکر کیا ، اور کہا کہ ہمارے سماج کو اس طرح کے مزید لوگوںکی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ صدر اسلامی مرکز نے ایک پینل ڈسکشن میں حصہ لیا،جس میں خطاب کے بعد سوال وجواب کا سیشن ہوا۔ لوگوں نے صدر اسلامی مرکز کی تقریر کو بہت زیادہ پسند کیا۔ دوران پروگرام تمام لوگوں کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ دیا گیا۔
پاکستان : سی پی ایس پاکستان نے کراچی انٹرنیشنل بک فیئر(2015)میں شرکت کی اور وہاں ایک اسٹال لگایا۔ بک فیئر میں آنے والے لوگوں نے صدر اسلامی مرکز کی کتابوں میں گہری دلچسپی دکھائی، خاص طورپر دی ایج آف پیس (The Age of Peace) ، پرافٹ آف پیس(The Prophet of Peace) کو لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ اس کے علاوہ بڑی تعدادمیں لوگوں کے درمیان دعوتی لٹریچر تقسیم کیا گیا۔
تقسیم کار :سی پی ایس ممبئی نے اپنی حالیہ ماہانہ میٹنگ میں ممبئی کو تین ڈویزن میں تقسیم کیا ہے —ممبئی ویسٹ، ممبئی سنٹرل اور نوی ممبئی۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ آسانی کے ساتھ صدراسلامی مرکز کی کتابیں (دی ایج آف پیس، پرافٹ آف پیس، وغیرہ) انٹلکچولس میں زیادہ سے زیادہ پہنچائی جائیں۔ لہذا تینوں گروپ کے ممبران نے الگ الگ لوگوں کے درمیان کام کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔
تاثرات : الرسالہ مشن اب انٹرنیشنل پیمانے پرپھیل رہا ہے۔ ذیل میں ایک خط نقل کیا جارہا ہے جوفلپائن سے پروفیسرمس بلنڈا نے لکھاہے۔واضح ہو کہ پروفیسر موصوفہ صدر اسلامی مرکز کے مشن کو بہت پسند کرتی ہیںاور صدر اسلامی مرکز کی کئی کتابوں پر تبصرہ بھی لکھ چکی ہیں :
Dear Rajat, I am glad to let you know that I included Maulana Wahiduddin Khan in the talk I gave this morning to secondary and elementary school social studies teachers about peace education as transformative education.
I do appreciate the fact that you have sent us a lot of copies of The Age of Peace. Henry distributed them to Muslim friends he knows and they do appreciate the book a lot. One copy was also given to his former mentor in philosophy, a Christian man, and he did express his appreciation of the book, saying that he came to know more about Islam through the book
It is wonderful to fulfill the calling of working for peace through education, in line with the goals of the Center for Peace and Spirituality. (Belinda F. Espiritu, University of the Philippines)
واپس اوپر جائیں