Pages

Sunday, 2 October 2016

Al Risala | October 2016 (الرسالہ،اکتوبر)

4

-تدبر کلچر

7

- قرآن کا موضوع

10

- دو قسم کی آزمائشیں

12

- پیغمبر اور اس کی تاریخ

14

- جنگ کے تین دور

17

- اسلام: زیرو وائلنس کلچر

18

- ایکسپٹنس آف ریالٹی

20

- فیصلہ کی بنیاد

21

- اسلام اور محبت انسانی

24

- اسلام کا رول ماڈل

28

- پیرویٔ اسلام، تنفیذِ اسلام

31

- ترکِ رُجز

34

- دعوت، ڈیبیٹ

41

- آخرت میں بے جگہ

42

- زندگی کے تجربات

44

- توسط اور اعتدال

45

- خبر نامہ اسلامی مرکز


تدبر کلچر

قرآن کی سورہ نمبر 38 کی آیت (نمبر29) ہے: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ۔یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں ۔
قرآن، کتابِ تدبر ہے۔ قرآن کی بیشتر آیتوں میں یہ بات کہی گئی ہے کہ خدا کی کتاب میں تدبر کرو، زمین و آسمان میں تدبر کرو، کائنات میں پھیلی ہوئی آیتوں (signs) میں تدبر کرو۔ جو لوگ ایسا نہ کریں، ان کے بارے میں قرآن میں سخت تنبیہہ آئی ہے،مثلا فرمایا:لَہُمْ قُلُوبٌ لَا یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لَا یَسْمَعُونَ بِہَا أُولَئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُولَئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ (7:179) یعنی ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ، ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ، ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ۔ وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے، بلکہ ان سے بھی زیادہ بےراہ۔ یہی لوگ ہیں غافل۔
تدبر(contemplation) کیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ خدا کی کتاب میں اور خدا کی تخلیق میں حکمت کے پہلو چھپے ہوئے ہیں، غور کرکے حکمت کے ان پہلوؤںکو دریافت کرنا، اور اس کے مطابق اپنی شخصیت کی تعمیر کرنا، یہ تدبر کی تعلیم کا خلاصہ ہے۔تدبر اور تفکر کی اہمیت ا تنی زیادہ ہے کہ اس کے بغیر آدمی، حیوان کی مانند بن جاتا ہے۔انسان وہی ہے جس کے اندر تدبر کی صفت موجود ہو۔
تدبر کرکے معانی کی دریافت کرناکیا ہے۔ اس کوقرآن میں ایک مادی تمثیل کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ تمثیل یہ ہے:وَأَوْحَى رَبُّکَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِی مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُونَ۔ ثُمَّ کُلِی مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِی سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا یَخْرُجُ مِنْ بُطُونِہَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ فِیہِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَةً لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ (16:68-69)یعنی اور تمھارے رب نے شہد کی مکھی پر وحی کیا کہ پہاڑوں اور درختوں اور جہاں ٹٹیاں باندھتے ہیں ان میں گھر بنا۔ پھر ہر قسم کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چل۔ اس کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے، اس کے رنگ مختلف ہیں ، اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے۔ بےشک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو غور کرتے ہیں ۔
قرآن کی اس آیت میں ایک مادی مثال کی صورت میں تدبر کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔شہد کی مکھی کا کام یہ ہے کہ وہ پھولوں سے اس کا نِکٹر، اکسٹریکٹ (extract) کرے،اور پھر ان کو جمع کرکے شہد بنائے۔ شہد کی مکھی جو اپنے چھتے سے نکلتی ہے تو اس کو بظاہر غیر شہد کےطویل جنگل کے درمیان لمبا سفر کرنا پڑتا ہے۔وہ نہایت ہنر مندی کے ساتھ ایسا کرتی ہے کہ دوسری تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے پھول کے پاس پہنچتی ہے۔ پھول کے اندر بہت کم مقدار میں ایک میٹھا رس موجود ہوتا ہے، جس کو نِکٹر (nectar) کہتے ہیں۔ وہ ہر پھول سے صرف اس کے نِکٹر کو لیتی ہے، اور اس کے بعد اپنے چھتے کی طرف چلی جاتی ہے۔
یہی تدبر ہے۔ انسان کو جس دنیا میں جینا پڑتا ہے، وہ گویا ایک عالمی جنگل ہے، اس جنگل میں ہر جگہ حکمت و معرفت کا نِکٹر (nectar) چھپا ہوا ہے، تدبر کی صفت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دنیا کے جنگل میں ڈسٹریکٹ (distract) نہ ہو۔ وہ غور و فکر کرکے حکمت و معرفت کے چھپے ہوئے نکٹر کو دریافت کرے، اور اس کے ذریعے اپنے آپ کو وہ انسان بنائے، جس کو صاحبِ معرفت انسان (realized person) کہا جاتا ہے۔جو آدمی تدبر کی اس صلاحیت سے خالی ہو، اس کے لئے یہ دنیا جھاڑ جھنکارکی مانند ہو گی۔تدبر کی صفت انسان کو انسان بناتی ہے، اور تدبر سے محرومی انسان کو حیوان بنادیتی ہے۔موجودہ زمانے کا وہ ظاہرہ جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔ اس تہذیب کے بے شمار اجزا ہیں۔بظاہر یہ بھی ایک وسیع جنگل کی مانند ہے۔ جن لوگوں کے اندر تدبر کی صلاحیت نہ ہو، وہ اس تہذیب کو ایک جنگل کی صورت میں دیکھیں گے۔ اور جن لوگوں کے اندر حقیقی معنوں میں تدبر کی صلاحیت ہو،وہ شہد کی مکھی کی مانندتہذیب کے اس جنگل میں حکمت کا نِکٹر دریافت کرلیں گے، اور پھران کو دکھائی دے گا کہ جدید تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے خالق کی ایک نعمت ہے، وہ دینِ حق کے لئےایک عظیم مؤید (supporter) کی حیثیت رکھتی ہے۔
جن لوگوں کے اندر تدبر کی صلاحیت نہ ہو، ان کو دکھائی دے گا کہ یہ تہذیب برائی کا ایک جنگل ہے۔ اس میں الحاد (atheism)ہے، اس میں برہنگی (nudity) ہے، اس میں انارکی (anarchy)ہے، اس میں کرپشن (corruption) ہے، اس میں اکسپلائٹیشن (exploitation) ہے، اس میں لادینی کلچر ہے، وغیرہ۔ یہ کہہ کر وہ اس تہذیب کے دشمن ہو جائیں گے۔ لیکن جن لوگوں کا ذہن بیدار ہو، جن کو تدبر کی صلاحیت ملی ہو، وہ غور و فکر کرکے اس تہذیب میں چھپے ہوئےحکمت و معرفت کے نِکٹر کو دریافت کریں گے۔ اور پھر ان کو نظر آئے گا کہ یہ تہذیب ایک خدائی نصرت ہے، جس کے ظہور کے لئے اللہ نے مغرب کے سیکولر لوگوں کو استعمال کیا ۔
اصحابِ تدبر کو نظر آئے گا کہ اس تہذیب کے ذریعے سائنس وجود میں آئی، اور سائنسی دریافتوں کی بنا پر خدا کی کتاب کے بہت سے اشارے قابلِ فہم بن گئے، اس تہذیب کے ذریعے یہ ہوا کہ فکری آزادی انسان کا ناقابلِ تنسیخ حق (right) قرار پایا، اس تہذیب کے ذریعے پہلی بار پرنٹنگ پریس اور کمیونی کیشن کا دور آیا، جس نے دین کی تبلیغ کے لئے عالمی امکانات کھول دیے، اس تہذیب کے ذریعے پہلی بار تمام قوموں نے متفقہ طور پر امن (peace) کو ایک یونیورسل اصول (universal norm) کی حیثیت دے دی،اس تہذیب کی وجہ سے پہلی بار دنیا میں کھلا پن (openness) کا دور آیا جس نے ہمیشہ کے لئے مذہبی جبر (religious persecution ) کا خاتمہ کردیا۔
تدبر دین کا خلاصہ ہے، تدبر حکمت کے خزانوں کو کھولتا ہے، تدبر انسان کے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تدبر کے ذریعے آدمی اس قابل بنتا ہے کہ وہ جھاڑ جھنکار کے جنگل کو باغ کی صورت میں دیکھے۔ وہ منفی واقعات کو مثبت تجربے میں تبدیل کرسکے، وہ غیب میں چھپی ہوئی معرفت کو دریافت کرلے۔ تدبر انسان کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ تدبر کے ساتھ انسان، انسان ہے، اور تدبر کے بغیر وہ انسان کی صورت میں صرف حیوان ۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا موضوع

قرآن میں کل تقریبا 6600 آیتیں ہیں۔ قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں بہت کم ایسی آیتیں ہیں جواحکام سے تعلق رکھتی ہیں۔ قرآن کی بیشتر آیتیں وہ ہیں جن میںاللہ کی تخلیقات کا بیان ہے۔ جن کو قرآن میں آیات اللہ، کلمات اللہ، آلاء اللہ جیسے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔قرآن میں بار بار کہا گیا ہے کہ اللہ کی نشانیوں پر غور کرو، اور ان سے معرفت کا رزق حاصل کرو۔قرآن کی پہلی آیت یہ ہے: اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (الفاتحہ 1:)۔ قرآن کا پورا مجموعہ گویا اس آیت کی تفسیر ہے۔
اس مطالعے کے مطابق قرآن احکام کی کتاب نہیں ہے، بلکہ وہ معرفت کی کتاب ہے۔بعد کے زمانے میں قرآن کے مطالعے کے معاملے میں سب سے بڑا انحراف یہ ہوا کہ قرآن کی یہ خصوصیت علمائے امت کے ذہن سے اوجھل ہوگئی۔ وہ قرآن کو ایک کتابِ احکام کے طور پر دیکھنے لگے۔ جب کہ اصل حقیقت یہ تھی کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس میں اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کو بتایا گیا ہے۔اصل حقیقت کے اعتبار سے قرآن کی حیثیت کتابِ معرفت کی ہے،لیکن امت کے بعد کے زمانے میں قرآن کو کتاب احکام کی حیثیت دے دی گئی — امت کے تمام بگاڑ کا اصل سبب یہی انحراف ہے۔یہ انحراف عباسی دور میں قرآن کے فقہی مطالعے کی صورت میں پیدا ہوا۔اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ قرآن کو فقہی احکام کے ماخذ کے طور پر دیکھا جانے لگا۔بیسویں صدی کا یہ واقعہ اسی ذہن کی توسیع ہے ۔ اس دور میں ایسے علماء اور مفکرین پیدا ہوئے، جو قرآن کونظام (system) کے ماخذ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کے مطالعے کا نقطۂ آغاز (starting point) بدل گیا۔
یہ وہی ظاہرہ ہے جس کو حدیث میں اتباع یہود (البخاری، حدیث نمبر 3456) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اس حدیث میں یہود کا اتباع سے مراد، زوال یافتہ امت کا اتباع ہے۔دورِ زوال میں یہود کے علماء نے موسوی دین کو موسوی شریعت کی حیثیت دے دی۔تورات اور تالمود کے حوالے سے ا نھوں نےایک مجموعہ ٔ احکام تیار کیا ، اور دین موسیٰ کے نام پر اسی کا چرچا کرنے لگے۔چنانچہ بعد کے زمانے میں یہودیت کا جوورزن (version) تیار ہوا وہ تمام ترقوانین (laws) پر مبنی تھا۔یہودیت کے اس ورزن میںمعرفت اور دعوت جیسی چیزیں تمام تر حذف ہوگئیں۔یہی واقعہ امت مسلمہ کے درمیان پیش آیا۔اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے علماء اور رہنماکے یہاں جس دین کا چرچا ہے، اس میں معرفت اور دعوت جیسی اصل تعلیمات حذف ہوگئی ہیں، اس کے بجائے سارا زور قوانین اور احکام پر دیا جارہا ہے، جس کو بطور خود وہ اسلامی نظام کا نام دیتے ہیں۔ اسلام کو بطور سیاسی اور سماجی نظام پیش کرنا ، ان کا واحد نشانہ بن گیا ہے، اور معرفت اور دعوت جیسی چیزیں ان کے یہاں بھی اسی طرح حذف ہوگئی ہیں، جس طرح وہ اس سے پہلے یہود کے یہاں حذف ہوگئی تھیں۔
اس انحراف کو پولیٹیکل انٹرپریٹیشن آف اسلام یا مبنی بر نظام اسلام (system-based Islam) کہا جا سکتا ہے۔اس تصور دین کا نتیجہ ہے کہ امت میں ایک ابدی قسم کے ٹکڑاؤ کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ یہ ٹکڑاؤابتدائی طور پردوسروں کو اپنا حریف (rival) سمجھنے کی صورت میں شروع ہوتا ہے، اور پھر بڑھ کر تشدد اور جنگ اور خود کش بمباری تک پہنچ جاتا ہے۔قرآن کو اگر کتابِ معرفت کے طور پر لیا جائے تواس کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ قرآن کی آیتوں میں تدبر کرو، قرآن کے ذریعے خالق کی معرفت حاصل کرو، اور پھر خالق کی معرفت میں جینے والے بن جاؤ،یعنی وہ انسان جس کو قرآن میں ربانی انسان (آل عمران79:) کہا گیا ہے۔گویا قرآن اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے ہدایت خداوندی کی پیروی (following)کا نام ہے۔ مگر قرآن کی نظامی یا قانونی تعبیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن عملی نفاذ (implementation) کی کتاب بن گیا۔ اب امت کا نشانہ یہ قرار پایا کہ وہ موجودہ قانونی اور سیاسی نظام کو لڑکر بدلے، اور اس کی جگہ وہ قانونی اور سیاسی نظام نافذ کرے جس کو بطور خود اس نے اسلامی نظام کا درجہ دےد یا ہے۔
قرآن و سنت کے مطالعے کا یہی غلط اسلوب ہے جس نے عملاً دین اسلام کو دین یہود بنا دیا۔ دین اسلام کا اصل نشانہ کامل معنوں میں ایک پر امن نشانہ تھا۔ اس نشانے کا مرکزی تصور اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ پر مبنی پر امن کلچر وجود میں لانا ہے۔ لیکن دورِ زوال کی یہودیت کی اتباع کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام سیاست کا موضوع بن گیا۔لوگ اسلام کے سیاسی نظام کو قائم کرنے کے نام پر دوسری قوموں سے لڑنے لگے۔اور جب لڑائی کے باوجود مفروضہ سیاسی نظام قائم نہیں ہوا تو انھوں نے فتوی دیا کہ خود کش بمباری (suicide bombing) کے ذریعے مفروضہ باطل نظام کو ڈی اسٹبلائز (destabilize) کیاجائے۔ یہ فتویٰ سراسر غلط فتوی تھا۔ کیوں کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق خودکشی یقینی طور پر ایک حرام فعل تھا۔ خود کشی کے ذریعے مرنے والا شخص ابدی طور پر جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔البخاری کی ایک روایت میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے کے ایک مسلمان نے ایک غزوہ میں شرکت کی ۔ وہ مخالفین اسلام کے مقابلے میں لڑا، اور بظاہر بڑے بڑے جہادی کارنامے انجام دیے، مگر آخر میں زخموں کی تاب نہ لاکر خودکشی کرکے اپنا خاتمہ کرلیا۔اس خودکشی کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنہ من أھل النار (البخاری، حدیث نمبر 2898 )۔ پیغمبرِ اسلام کے یہ الفاظ ہر اس شخص پر صادق آتے ہیں، جو خود کشی کرکے اپنے آپ کو ہلاک کرے۔کوئی شخص اگر اسلامی مفاد کے نام پر خودکشی کرے تب بھی وہ اس معاملے میںمستثنی نہیں قرار پائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں تحریک (movement) صرف دو مقصد کے لئے چلائی جائے گی، ایک معرفت اور دوسرے دعوت۔کسی اسلامی تحریک کا پہلا نشانہ یہ ہوگا کہ ایسے افراد پیدا ہوں جو معرفتِ رب میں جینے والے ہوں، جو الحمد للہ کلچر کو اپنی ذاتی زندگی میں اختیار کریں۔ اسی عمل کے نتیجے میں وہ شخصیت بنتی ہے جس کو قرآن میں مزکیٰ شخصیت (طہ 76 :) کہا گیا ہے۔ مزکی شخصیت والے افراد ہی وہ افراد ہیں، جن کو آخرت میں جنت کے ابدی باغوں میں جگہ ملے گی۔اس کے بعد اسلامی تحریک کا دوسرا نشانہ وہ ہے جس کو دعوت الی اللہ کہا گیا ہے۔ یعنی پرامن انداز میں تمام انسانوں کو اللہ کا پیغام پہنچانا۔ دعوت مکمل طور پر ایک غیر سیاسی مشن ہے، اس کا سیاست سے یا ٹکڑاؤ سے کوئی تعلق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دو قسم کی آزمائشیں

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان کے لئے ابتلاء (test) کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جس کا ذکر سورہ البقرۃ میں ان الفاظ میں آیا ہے:وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَةٌ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن (2:155-156)۔ اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں جس ابتلا کا ذکر ہے، وہ ابتلاء بقدر شیٔ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس سے مراد ابتلاء عام ہے جو ہر پیدا ہونے والے انسان کو ضرور پیش آتا ہے۔ اس ابتلاء عام میں کسی کا کوئی استثناء (exception)نہیں۔
دوسرا ابتلاء وہ ہے جس کو ابتلاء خاص کہا جاسکتا ہے۔ اس ابتلاء کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر 33 میں ان الفاظ میں آیا ہے:ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا (الاحزاب 11:)۔ اس ابتلاء شدید کا ذکر قرآن میں غزوۂ احزاب کے ذیل میں آیا ہے۔ دونوں کے اسلوب میں فرق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نقصان بقدرِ شئ سے مراد عام نقصان ہے، جو کسی نہ کسی اعتبار سے ہر پیدا ہونے والے انسان کو پہنچتا ہے، خواہ وہ مومن ہو یا غیر مومن۔ لیکن ابتلاء شدید ایک خصوصی ابتلاء ہے، جس کا تعلق دعوتِ توحید کے مشن سے ہے۔ابتلاء کا یہ معاملہ اہل ایمان کے ساتھ پیش آتا ہے ، یعنی وہ لوگ جو توحید کے مشن کو اپنا مشن بنائیں۔
اس معاملے کی مزید وضاحت قرآن کی ایک اور آیت سے ملتی ہے، یہ آیت اصحابِ رسول کی دعا کی صورت میں قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے:رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا (2:286) ۔ ہمارے رب، ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا بوجھ تو نے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔ اس آیت میں دعا کی صورت میں دراصل اللہ تعالیٰ کے ایک فیصلے کا اعلان ہے، وہ یہ کہ انسانی تاریخ کو مینیج (manage) کر کے حالات میں ایسی تبدیلی لانا جس کے بعد یہ ممکن ہوجائے کہ توحید کی دعوت کا مشن جو اصحابِ رسول کے دور سے پہلے شدید مخالفت کے ماحول میں کرنا پڑتا تھا، وہ موافقت کے ماحول میں کرنا ممکن ہو جائے۔
اس معاملے کو غزوۂ احزاب کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ غزوۂ احزاب جو 5 ھ میں ہوا تھا، اس میں اہل توحید اور اہل شرک کے درمیان ایک لمبی خندق کھودی گئی تھی۔ اس خندق کی بنا پر دونوں فریقوں کے درمیان ایک حاجب (buffer)قائم ہو گیا، جس نے دونوں کے درمیان جنگ کے امکان کو ختم کردیا۔ اسی طرح موجودہ زمانے میں اقوامِ متحدہ (UNO)کی عالمی تنظیم نے زیادہ بڑے پیمانے پر ایک حاجب (buffer) قائم کردیا ہے، جس نے تاریخ میں پہلی بار اس کو ممکن بنادیا ہے کہ توحید کا مشن عالمی سطح پر پر امن انداز میں چلایا جائے اور دونوں فریقوں کے درمیان کسی ٹکڑاؤ کی نوبت نہ آئے۔
آزادی نہ کہ اختیار
اس دنیا میں انسان کو آزادی حاصل ہے، مگر اس کو اختیار حاصل نہیں— انسان اگر اس حقیقت کو سمجھ لے تو وہ کبھی سرکشی نہ کرے۔
ایک شخص کسی کو بے عزت کرنے کے لیے اپنی زبان کھول سکتا ہے، مگر کسی کا بے عزت ہونا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خود خدا اس کے لیے بےعزتی کا فیصلہ نہ کرے۔ ایک شخص کسی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا سکتا ہے۔ مگر وہ اس وقت تک کسی کو قتل نہیں کرسکتا جب تک اسی شخص کے ہاتھ سے اس کی موت مقدر نہ کردی گئی ہو۔ ایک شخص کسی کی جائداد پر قبضہ کرنے کی سازش کرسکتا، مگر اس کی سازش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک خدا اپنی کسی مصلحت کے تحت اس کے حق میں ایسا فیصلہ نہ کردے۔(ڈائری، 1983)
واپس اوپر جائیں

پیغمبر اور اس کی تاریخ

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید کا مشن تھا۔ آپ اپنی پوری عمر اسی مشن کے لیے پُرامن طور پر کام کرتے رہے۔ توحید (oneness of God) کا عقیدہ، اسلام میں کلیدی عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے۔توحید گویا اسلام کے درخت کا بیج (seed) ہے۔ جس آدمی کو توحید کی معرفت ہوجائے اس آدمی کی پوری زندگی صبغۃ اللہ (البقرۃ : 138)کی عملی تصویر بن جائے گی۔
پیغمبر ِ اسلام نے 23 سال تک اپنے مشن کے لیے کام کیا، تقریبا نصف حصہ مکہ میں اور بقیہ نصف مدینہ میں۔ اس مدت میں مختلف قسم کے تاریخی واقعات پیش آئے۔ یہ تاریخی واقعات اسلام کی آئڈیالوجی کا حصہ نہ تھے، بلکہ وہ زمانی سبب (age factor) کی بنا پر آپ کی زندگی کا حصہ بنے۔ توحید کی آئڈیالوجی آپ کے مشن کا اصل حصہ (real part)تھی، اور تاریخی عامل کے تحت جو واقعات پیش آئے، وہ آپ کے مشن کا اضافی حصہ (relative part)تھے۔
مگربعد کے زمانےکے علماء نے شعوری یا غیر شعوری طور پر، اس فرق کو ملحوظ نہ رکھا۔ مثلا آپ کے مکی دور میں کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے، رسول اللہ نے بتوں کے مسئلے پر قریش سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ بلکہ آپ نے یہی کیا کہ بتوں کی موجودگی کو عملا نظر انداز کرتے ہوئےلوگوں کے سامنے پر امن طور پر قرآن کا پیغام پہنچاتے رہے۔بعد کے علماء نے اس حکمت کو نہیں سمجھا، وہ مسئلہ (problem) کو نشانہ بناکر اس سے لڑتے رہے۔انھوں نے ایسا نہیں کیا کہ پرابلم کو نظر انداز کرکے پرامن دعوت کا کام کریں۔
اسی قسم کی ایک مثال صلح حدیبیہ (Hudaybiya Agreement)ہے ۔ صلح حدیبیہ پیغمبرِ اسلام کی ایک سنت ہے۔ یہ سنت بتاتی ہے کہ فریقِ ثانی کی یک طرفہ شرطوں کو مانتے ہوئے، ان سے صلح کرلو، تاکہ دعوت کے مواقع تمھارے لیے کھل جائیں۔ دورِجدید کے علماء کے لیے باربار حدیبیہ جیسی صورت پیش آئی، لیکن انھوں نے اس معاملے میں اِس پیغمبرانہ سنت پر عمل نہیں کیا۔ موجودہ زمانے میں نو آبادیات (colonialism)اور صہیونیت (Zionism)اس کی واضح مثالیں ہیں۔
لیکن یہی علماء رسول اللہ کی سنت جہاد کو دھوم کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ وہ غیر متعلق دلائل اور خود ساختہ تعبیرات کے ذریعے یہ ثابت کرتے ہیں کہ جہاد (بمعنی قتال) کی سنت سب سے بڑی سنت ہے۔ اس پر ہمیں ہر حال میں عمل کرناہے، خواہ ہمارے لوگ قتل کیے جائیں، اور ہماری جائدادوں کو تباہ کیا جائے۔ اس فرق کا سبب کیا ہے۔کیا وجہ ہے کہ یہ علماء سنت کعبہ اور سنت حدیبیہ کو یک سر چھوڑے ہوئے ہیں، لیکن سنت جہاد (بمعنی قتال ) کو ہر قیمت پر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ حتی کی اس معاملے میں انھوں نے خودکش بمباری (suicide bombing) تک کو جائز کر رکھا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں علماء اور مسلم رہنما ؤں کے ذہن سے اسلام کا دعوتی مشن حذف ہوگیا۔ اسلام کا اصل مشن دعوت الی اللہ ہے۔ بقیہ تمام چیزیں اسی مشن کی نسبت سے اسلام کا حصہ بنتی ہیں۔ لیکن بعد کے زمانے کے علماء دعوت کے فریضہ سے عملاً بے خبر ہوگیے۔ اسی بے خبری کا یہ نتیجہ ہے کہ اسلام کی بعد کی لٹریری تاریخ (literary history)میںکوئی قابلِ ذکر کتاب دعوت الی اللہ کے موضوع پرموجود نہیں۔ فقہائے اسلام میں سے کسی فقیہ نے دعوت الی اللہ کے موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی۔ الغزالی ، ابن تیمیہ، عزالدین عبد السلام سے لے کر شاہ ولی اللہ دہلوی تک کسی نے بھی دعوت الی اللہ کے موضوع پر معلوم طور پرکوئی کتاب نہیں لکھی۔ جب کہ پوری لٹریری تاریخ میں تقریبا ہر شخص جہاد و قتال کے موضوع پر لکھتا اور بولتا رہا ہے۔
اس عمومی غفلت کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بعد کے دور کے تقریبا تمام علماء اور فقہاء، اسلام کے مشن کے بارے میں عمومی سطح پر ایک اجتہادی خطا کا شکار ہوگیے۔ وہ یہ کہ انھوں دعوت کواسلام کانشانہ سمجھنے کے بجائے، امتِ مسلمہ کے سیاسی غلبہ کو اسلام کا نشانہ سمجھ لیا۔ دعوت الی اللہ کا نشانہ پر امن جدو جہد کا مزاج بناتا ہے۔ جب کہ سیاسی غلبہ کا نشانہ جنگ و قتال کو امت مسلمہ کا نشانہ بنادیتا ہے۔ یہ نشانہ بلاشبہ پیغمبر کے نشانے کے مطابق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جنگ کے تین دور

انسان پیدائشی طور پر خود پسند (egoist by birth) ہے۔ وہ دنیا کو اپنی پسند کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے۔دوسرے کا اعتراف کرنا انسان کے مزاج کے خلاف ہے۔انسان کی یہی وہ صفت ہے، جس سے مختلف قسم کے سماجی ٹکراؤ (social conflict ) پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سماجی ٹکراؤ جب تشدد کی حد تک پہنچ جائے تو اسی کو جنگ کہا جاتا ہے۔انسان کے اسی مزاج کی بنا پرتاریخ میں ہمیشہ ٹکراؤ کا ماحول قائم رہا ہے، نفرت، تشدد، جنگ سب اسی کی مختلف صورتیں ہیں۔
اس اعتبار سے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر جنگ کے تین دور ہیں، سیاسی جنگ (political war)، طبقاتی جنگ (class war)اور نظریاتی جنگ (ideological war)۔ قدیم تاریخ کا لمبا دور سیاسی لڑائیوں کا دور ہے۔یہ سیاسی لڑائیاں بنیادی طور پر زمینی علاقہ (territory) پر قبضہ کے لئے ہوتی تھیں۔انیسویں صدی میںکمیونزم (communism) کے عنوان کے تحت جنگ کی نئی صورت پیدا ہوئی ۔کمیونسٹ مفکرین نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہر قسم کی برائی کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ سماجی تقسیم ہے۔اس تقسیم کو ختم کرکے بے طبقاتی سماج (classless society) بنادی جائے توایک ایسا سماج وجود میں آئے گا جو ہر قسم کی برائیوں سے پاک ہوگا۔یہ نظریہ لوگوں کے درمیان کافی مقبول ہوا، یہاں تک کہ کمیونسٹ پارٹی کو یہ موقع ملا کہ وہ 1917 میں روس میں اپنی پہلی حکومت قائم کریں۔ جس نے بعد کو توسیع پاکر ایک سوپر پاور کی صورت اختیار کر لی، جس کوسوویت روس کہا جاتا تھا۔اس کے بعد دنیا میں مسلسل قسم کےدو متحارب بلاک (warring blocks )بن گئے۔ایک کی نمائندگی سوویت روس کر رہا تھا، اور دوسرے کی نمائندگی یو ایس اے (USA)۔ دو بڑی طاقتوں کا یہ ٹکراؤ 1991 میں ختم ہوا، جب کہ سویت یونین ٹوٹ گیا۔
سوویت یونین کے خاتمہ کے ساتھ عملا طبقاتی جنگ کا خاتمہ بھی ہوگیا۔ لیکن کمیونسٹ تحریک کے اثر سے ایک نیا فکری دور پیدا ہوا، جس کو نظریاتی جنگ کا دور کہا جاسکتا ہے۔نظریاتی جنگ کا یہ دورعمومی طور پر مقبول نہ ہو سکا لیکن بیسویں صدی کے مسلمانوں میں اس کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس صدی میں کچھ ایسے مسلم مفکرین پیدا ہوئے جنھوں نے اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کی۔یہ سیاسی فکر عرب اور نان عرب ، دونوں علاقوں میں تیزی سے پھیل گیا۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام ایک مکمل نظام (complete system ) ہے۔ امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس نظام کوساری دنیا میں قائم کریں۔اسلامی نظام کے سوا جو نظام دنیا میں رائج ہے، وہ طاغوتی نظام ہے۔امت مسلمہ کا نصب العین یہ ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس طاغوتی نظام کی تمام صورتوں کا خاتمہ کریں، اوراس کی جگہ عملاساری دنیا میں اسلام کا نظام قائم کردیں۔
بیسویں صدی میںاس مقصد کے تحت عرب دنیا اور غیر عرب دنیا میں بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں، ان تحریکوں نے پہلے لٹریچر کے ذریعے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔جب انھوں نے دیکھا کہ لٹریچر کے ذریعے غالب قوتوں کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے تو انھوں نے الیکشن کے ذریعے ان قوتوں کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی ، مگر وہ الیکشن کے ذریعےبھی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ اس کے بعد انھوں نے غالب طاقتوںکے خلاف متشددانہ جنگ شروع کردی۔ مگر یہاں بھی ان کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔عظیم قربانیوں کے باوجود ان کے لئے یہ ممکن نہ ہوسکا کہ وہ غالب طاقتوں کو اقتدار سے ہٹائیں، اور اپنا سیاسی غلبہ قائم کرکے عالمی اسلامی حکومت کی طرف اپنا مارچ شروع کردیں۔
اس ناکامی کے بعد ان کے اندر ایک تیسرا مہلک دور شروع ہوا، جس کو عام طور پر خود کش بمباری (suicide bombing) کہا جاتا ہے، یعنی خود کو ہلاک کرکے اپنے مفروضہ دشمن کے زور کو توڑنا، اور اس کو ڈی اسٹیبلائز (de-stabilize) کرنا۔اسلام کے نام پر نظریاتی جنگ کا یہی وہ دور ہے جو اکیسویں صدی میں جاری ہے۔اس دور کی ایک مثال 11ستمبر2001 کا وہ واقعہ ہے ،جب کہ کچھ مسلم نوجوانوںنے اپنے آپ کو ہلاک کرکے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹرکو تباہ کیا۔
یہاں یہ سوال ہے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر کا نظریہ عملی ناکامی کے باوجود ختم کیوں نہیں ہوا، جیسا کہ دوسرے نظریات عملی طور پر ناممکن ثابت ہونے کے بعد ختم ہوگئے۔کیوں ایسا ہے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر کا نظریہ عملا ناکام ہونے کے باجود بدستور جاری ہے۔اُس کا سبب یہ ہے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کرنے والوں نے اپنی اس تعبیر کو عقیدہ کا مسئلہ بنا دیا۔ قدیم تاریخ میں جنگ ہمیشہ دنیاوی نشانہ کی بنیاد پر ہوتی تھی۔جب لوگوں نے دیکھا کہ ان کا دنیاوی نشانہ ناقابل حصول بن چکا ہے۔ جمہوریت (democracy)، اور اقوام متحدہ (UNO) نے عملا اس کو ناممکن بنا دیاکہ کوئی قوم دوسری قوم کے علاقہ (territory) پر مستقل قبضہ قائم کرسکے، تو اس کے بعد عملا سیاسی جنگ کے دور کا خاتمہ ہوگیا۔ اسی طرح پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ نے ثابت کردیا کہ انسانوں کی طبقاتی تقسیم صرف ایک مفروضہ ہے، وہ کوئی قابلِ عمل نظریہ نہیں تو اس کے بعد کمیونزم کی عالمی تنظیم (کمیونسٹ انٹرنیشنل)ایک ناقابل عمل نظریہ کی حیثیت سے ختم ہوگیا، اور اسی کے ساتھ طبقاتی جنگ کا نظریہ بھی ۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کا نظریہ پیش کرنے والوں کے نزدیک اسلام ایک مکمل نظام صرف اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ ان کے نزدیک ایک متبادل سوشیو پولیٹیکل سسٹم ہے۔ بلکہ اسی کے اوپر اہل ایمان کی ابدی نجات کا انحصار ہے، یعنی ان کو کامیاب بنانے کے لئے یہی واحد نصب العین ہے۔ یعنی اگر وہ اسلام کو ایک مکمل نظام کی حیثیت سے قائم کرنے کی کوشش کریں تو ان کے لئے آخرت میں ابدی جنت ہے، اور اگر وہ ایسا نہ کریں توان کے لئے ابدی جہنم۔اسلام کی اس سیاسی تعبیر کے مطابق اہل ایمان کے لئے صرف دو میں سے ایک کا آپشن (option ) رہ گیا، یا تو اسلام کے عالمی نظام کو عملا قائم کر ڈالنا، یا اس نشانے کو حاصل کرنے کے لئے وہ غیر مختتم طور پر ٹکراؤ کو جاری رکھیں۔باعتبار عقیدہ ان دو کےسوا کوئی تیسرا آپشن ان کے لئے ممکن نہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر کے مطابق یہ معاملہ جنگ ورسس آیڈیالوجی کا معاملہ ہے، وہ جنگ ورسس جنگ کا معاملہ نہیں۔ آپ جنگ کرکے ان کو ہلاک کرسکتے ہیں، لیکن اس کے بعد جو لوگ بچیں گے، وہ بدستور اسی راستے پر چلتے رہیں گے۔ کیوںکہ ان کے نزدیک اس مقدس جنگ میں ہلاک ہوناجنت میںفوری داخلہ (instant entry) کا معاملہ ہے، نہ کہ معروف معنوں میں ہلاکت کا معاملہ۔اپنے عقیدے کے اعتبار سے وہ سمجھتے ہیں کہ ہلاک کرنے والوں نے ان کو ہلاک نہیں کیا، بلکہ شہید کا درجہ دے کر ان کی منزل مقصود، جنت میں پہنچا دیا۔
واپس اوپر جائیں

اسلام: زیرو وائلنس کلچر

قرآن اسلام کا مستند ٹیکسٹ ہے۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا مقصد فرد کا ارتقا ہے، اور فرد کا ارتقا صرف امن کے حالات میں ممکن ہو تا ہے۔مثلاقرآن میں ہے:الصُّلْحُ خَیْرٌ(4:128)۔ یعنی صلح بہتر ہے۔صلح سے مراد امن ہے۔اور خیر کا لفظ یہاں طریقہ (method) کے معنی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس معاشرہ میں امن کے حالات ہوں وہاں وہ مواقع (opportunities) موجود ہوں گے جن کو استعمال کر کے ایک فرد کے لئے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ مطلوب انداز میں اپنی شخصیت کا ارتقا کرسکے۔اس لحاظ سے امن اسلام میں خیر اعلی (summum bonum) کی حیثیت رکھتا ہے۔
قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق ایک مقصد کے تحت ہوئی ہے۔ وہ یہ کہ انسان اپنے اندر امن پسند شخصیت کی تعمیر کرے۔ اسلام کے لئے امن صرف ایک مجرد تصور نہیں، بلکہ اس کے ساتھ عذاب اور ثواب کا قانون جڑا ہوا ہے۔ یعنی جو فرد اپنے اندر امن پسند شخصیت بنائے اس کے لئے آخرت میں ابدی ثواب، دارالسلام (یونس 25:) ہے، اور جو فرد اپنے اندر امن پسند شخصیت کی تعمیر میں ناکام رہے، اس کے لئے آخرت میں ابدی عذاب ہے۔
اسلام کی یہ تعلیم امن پسندی کے ساتھ لزوم (compulsion) کا تصور شامل کر دیتی ہے۔ امن کے ساتھ سزا و جزا کے تصور کو شامل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امن کی خلاف ورزی پر لازمی سزا (inescapable punishment) ہے اور امن کا طریقہ اختیار کرنے پر لازمی انعام (guaranteed reward) ۔ ان دونوں انجام کا تعلق آخرت کی ابدی دنیا سے ہے، یعنی سزا بھی ابدی اور انعام بھی ابدی۔دنیا کےکسی قانونی نظام میں ابدیت کا یہ تصور شامل نہیں ہے، اس لئے دنیا کے کسی قانونی نظام میں امن پسندی کے لئے وہ طاقت ور محرک (strong incentive) موجودنہیں جو اسلام کی تعلیمات میں پایا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایکسپٹنس آف ریالٹی

اسلام کا لفظی مطلب ہے سرنڈر کرنا(to surrender)۔ یہ سرنڈر تمام تر سلف چائس (self choice) پر مبنی ہوتا ہے۔ یعنی ایک شخص کسی بھی قسم کے دباؤ کے بغیر ذاتی فیصلہ کے تحت اسلام کو اپنا چائس بناتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام کا مطلب ہے حقیقتِ واقعہ کو دریافت کرکے اس کو ماننا۔
Islam means the acceptance of reality.
قرآن میں بار بار اس حقیقت کو دہرایا گیا ہے کہ اسلام میں کوئی زبردستی نہیں، یہ ہر آدمی کے ذاتی چائس کا معاملہ ہے۔ مثلا اس معاملہ میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:فَمَنْ شَاۗءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْیَکْفُرْ(18:29)۔ یعنی جو شخص چاہے مانے اور جو شخص چاہے اس کا انکار کردے۔ وہی اسلام معتبر اسلام ہے جو آزادانہ فیصلہ کے تحت اختیار کیا گیا ہو۔ جبری اسلام کی کوئی قیمت اللہ کے یہاں نہیں۔ اسلام کی تمام تعلیمات اسی اصول پر مبنی ہیں۔ توحید، رسالت، آخرت، جنت اور دوزخ، سب میں آزادی کا یہی تصور شامل ہے۔
حقیقتِ واقعہ کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی اپنےذاتی مطالعہ اور آزادانہ غور و فکر کے ذریعہ اسلام کی آئڈیالوجی کو شعوری طور پر دریافت کرتا ہے۔ یہ دریافت اس کے اندر ذہنی بھونچال پیدا کرتی ہے۔ پھر ایک حقیقت واقعہ کے طور پر وہ اس کا اعتراف کرتا ہے، اور اپنی زندگی کو اس حقیقت کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ یہ سب کچھ اول سے آخر تک آزادانہ ذاتی فیصلہ کے تحت ہوتا ہے۔ اس پہلو سے یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ اسلام اعترافِ حقیقت (acceptance of reality) کا نام ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام میں تشدد (violence) کا کوئی مقام نہیں۔ اسلام اور تشدد دونوں متضاد چیز یںہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس حقیقت کو اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اسلام سر تا سر پیروی (following) کا مذہب ہے، نہ کہ نفاذ (implementation) کا مذہب۔ جو لوگ اسلام کے نام پر تشدد کرتے ہیں، وہ غلط طور پر پیروی کے لفظ کو نفاذ کے معنی میں لے لیتے ہیں۔ مثلا قرآن میں کہا گیا کہ اے لوگو، تم توحید کے پیرو (follower) بنو۔ قرآن کی یہ بات لازم کے صیغہ ( intransitive verb) میں ہے۔ اور لازم کے صیغہ میں اس کو لینے کی صورت میں اس میں کسی اعتبار سے بھی تشدد کا کوئی پہلو شامل نہیں ہوتا۔ لیکن جب قرآن کی اس تعلیم کو لازم کے صیغہ میں لینے کے بجائے اس کو بدل کر متعدی کے صیغہ(transitive verb) میں لیا جائے تو قرآن کی یہ پر امن تعلیم عملا مبنی بر تشدد تعلیم بن جائے گی۔ یعنی اس کا مطلب یہ بن جائے گاکہ توحید کو طاقت کے زور پر نافذ کرو، لوگوں سے لڑ کر ان کو موحد بناؤ۔
امن (peace) اور تشدد (violence) دونوں کی حیثیت نظریہ کی نہیں ہے، بلکہ طریقہ (method) کی ہے۔امن بھی ایک طریقہ ہے اور تشدد بھی ایک طریقہ۔ یہ دراصل نشانہ (target) ہے، جو کسی آئیڈیالوجی کو پرامن آیڈیالوجی یا پر تشدد آیڈیالوجی بناتا ہے۔اگر آپ کا نشانہ یہ ہو کہ لوگ ایک دوسرے سے محبت کریں تو آپ اپنے مقصد کے حصول کے لئے امن کا طریقہ اختیار کریں گے۔ کیوں کہ محبت صرف پر امن نصیحت کے ذریعہ پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر آپ کا نشانہ سیاسی اقتدار (political rule) قائم کرنا ہے تو آپ تشدد کا طریقہ اختیار کریں گے۔ کیوں کہ لوگوں کے اوپر سیاسی اقتدار صرف طاقت کے ذریعہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
خبرنامہ الرسالہ مشن کی دعوتی سرگرمیوں کا ریکارڈ ہے۔ اس لیے مشن کے تمام ساتھیوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے تاثرات یا اہم دعوتی سرگرمیوں کا ریکارڈ ضروری تفصیل کے ساتھ روانہ فرمائیں، مثلاً تاریخ، مقام، اہم شخصیت کے ساتھ انٹریکشن کی صورت میں اس کا مکمل نام اور تعارف، دعوتی کام کی نوعیت کی وضاحت، کسی ادارے میں پروگرام کی صورت میں ادارے کا نام اور پروگرام کا موضوع،وغیر ہ، تاکہ اس کو خبرنامہ کے تحت شامل کیا جاسکے۔تفصیلات بذریعہ ای میل یا واٹس ایپ پر روانہ فرمائیں:
feedback@cpsglobal.org, Whatsapp. +91-9999944119
واپس اوپر جائیں

فیصلہ کی بنیاد

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ربیع الاول 10 ھ کو مدینہ میں ہوئی۔ وفات سے چند مہینہ پہلے 9 ھ میں آپ نے حج ادا فرمایا۔ اس موقع پر آپ نے امت کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا تھا:ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بہما:کتاب اللہ وسنة نبیہ (موطا امام مالک، حدیث نمبر1874) ۔یعنی میں نے تمھارے درمیان دو امر چھوڑے ہیں، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے، جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہوگے، اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی کی سنت۔ملا علی قاری نے امر کا مطلب بتایا ہے حَکَم (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ، بیروت، 2002،1/269)۔ یعنی فیصلہ کرنے والا۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ امر سے مراد معیار (criterion) ہے۔ بعد کے زمانے میں جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود موجود نہ ہوں گے، اس وقت امت کو یہ کرنا ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ پیش آئے تو وہ قرآن اور سنت میں اس مسئلے کا جواب تلاش کرے، اور جو جواب قرآن و سنت میں ملے ، اس کو کسی عذر کے بغیر قبول کرلے۔
مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب کوئی گروہ ان کو اپنا دشمن نظر آئے تو فواً اس کے خلاف لڑنا شروع کردے۔ بلکہ انھیں اس کا جواب قرآن و سنت میں تلاش کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کریں تو انھیں قرآن میں اس کی واضح رہنمائی ملے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک رہنما آیت کا ترجمہ یہ ہے: بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (41:34)۔
اس آیت کے مطابق، کوئی گروہ مسلمانوں کا دشمن نہیں ہے۔ اس کے برعکس، پیدائشی طور پر ہر گروہ مسلمانوں کے لیے امکانی دوست کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس معاملے میں مسلمانوں کی منصوبہ بندی یہ ہونا چاہیے کہ وہ بالقوۃ (potential) دوست کو بالفعل (actual) دوست بنائے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام اور محبت انسانی

ایک بار میں امریکا کے سفر پر تھا۔ وہاں مجھے سینٹ پال چرچ کے ایک پروگرام میں انوائٹ کیا گیا۔ میں نے اسلام اور امن کے موضوع پر تقریر کی۔ تقریر کے خاتمہ پر ایک مسیحی اسکالر نے سوال کیا کہ مسیحیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے دشمنوں سے محبت کرو:
Love your enemy (Matthew 5:44)
انھوں نے کہا کہ آپ قرآن کی کوئی ایسی آیت بتا سکتے ہیں، جس میں اسی قسم کی مثبت تعلیم دی گئی ہو۔ میں نے کہا کہ ہاں ایسی آیت موجود ہے۔ پھر میں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَةٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ۔ (41:34) یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں ، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہو گیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
میں نے کہا کہ دشمن سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان سے محبت کرو، خواہ بظاہر وہ تم کو اپنا دشمن نظر آتا ہو۔قرآن میں مزید یہ اضافہ ہے کہ دشمن سے اگر تم برا سلوک کرو تو اس کا نتیجہ منفی ردعمل کی صورت میں ظاہر ہوگا۔اس کے برعکس، اگر تم اپنے دشمن سے اچھا سلوک کرو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن کا ضمیر بیدا ر ہوگا، وہ تمھارے ساتھ اپنے تعلق کو درست کر لےگا۔مزید یہ کہ اگر دشمن کے رویہ کے بنا پر تمھارے اندر منفی ردعمل پیدا ہوتو اس کو شیطان کا وسوسہ سمجھو، اور اپنے آپ کو ہر حال میں یک طرفہ حسنِ سلوک کے اصول پر قائم رکھو۔
یہی اسلام کی اصل تعلیم ہے۔اسلام میں اجتماعی تعلق کو صبر کے اصول پر قائم کیا گیا ہے۔ صبر کا مطلب ہے،یک طرفہ حسنِ سلوک۔ یعنی فریقِ ثانی کی طرف سے اگر برا سلوک کیا جائے تب بھی یک طرفہ طور پر اس کے ساتھ اچھے سلوک کا معاملہ کرنا۔
اس تعلیم کے مطابق اسلام میںتشدد کے لئے کوئی عذر، معقول عذر نہیں۔اسلام کی تعلیم کے مطابق اہل ایمان پر فرض ہے کہ وہ ہر حال میں دوسروں کے ساتھ پر امن روش اختیار کرے۔وہ کسی بھی چیز کو عذر بنا کر تشدد کا رویہ اختیار نہ کرے۔اسلام کے مطابق تشدد کی شریعت شیطان کی شریعت ہے،تشدد کی شریعت اسلام کی شریعت نہیں۔اس دنیا میں انسان کو آزادی حاصل ہے۔ اس بنا پر ہر انسان بشمول مسلم کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ نزاع کے موقع پرامن کا طریقہ چھوڑ کر تشدد کا طریقہ اختیار کرے، لیکن خدا کے قانون کے مطابق اس کا ایسا کرنا اپنی آزادی کا غلط استعمال ہوگا،اور آزادی کا غلط استعمال اللہ کے نزدیک قابلِ قبول نہیں۔ خواہ آزادی کا یہ غلط استعمال مسلم نے کیا ہو یا غیر مسلم نے۔تشدد کا ہر طریقہ اللہ کی دی ہوئی آزادی کا غلط استعمال ہے۔ اجتماعی معاملات میں کسی انسان کے لئے صرف ایک آپشن (option) ہے، اور وہ امن کا آپشن ہے۔اسلام کے مطابق تشدد کوئی آپشن ہی نہیں۔
محبت کا معاملہ صرف اخلاق کا معاملہ نہیں۔ محبت کا تعلق براہِ راست خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) سے ہے۔ انسان کے بارے میں اس کے خالق کا جو منصوبہ ہے، وہ صرف اس طرح پورا ہو سکتا ہے، جب کہ انسانوں کے درمیان نارمل تعلق قائم ہوں۔ نارمل تعلق کے ماحول میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ ہر انسان فطرت کی سطح پر اپنی شخصیت کی تعمیر کر سکے۔کسی انسان کو یہ موقع نہ رہے کہ وہ کہہ سکے کہ فلاں عذر کی بنا پر اس کواپنی شخصیت کی تعمیر کا موقع نہیں ملا۔تشدد لوگوں کو عذر کا موقع دیتا ہے۔اس کے برعکس، امن کا ماحول لوگوں کے لئے یہ امکان ختم کردیتا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے مواخذہ کے وقت کوئی عذر پیش کر سکے۔
ذمہ دار کون (Who is to blame?)
موجودہ زمانے میں مسلمان تشدد (terrorism) کے جن واقعات میں ملوث ہیں، ان کے بارے میں ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ واقعات تو رد عمل (reaction) کے طور پر ہو رہے ہیں۔مسلمانوں کے خلاف جو نا انصافی کی جارہی ہےاس کا فطری نتیجہ ہے کہ مسلمان کے اندر ردعمل کی نفسیات پیدا ہو۔ اور یہ ردعمل بڑھتے بڑھتے تشدد ، حتی کہ خود کش بمباری تک پہنچ جائے۔ مثلا فلسطین میں اسرائیل عربوں پر ظلم کر رہا ہے، ایسی حالت میںعربوں کے اندر اس کا ردعمل پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔
یہ دلیل سر تا سر غیر اسلامی ہے۔اسلام میں رد عمل (reaction) کا کوئی تصور موجود نہیں۔اس طرح کے نزاعی معاملات میں اسلام کی تعلیمات صبر کے اصول پر قائم ہیں۔قرآن کے بالکل شروع میں سورہ المدثر نازل ہوئی۔ اس میں پیغمبر کو یہ حکم دیا گیا : وَلِرَبِّکَ فَاصْبرِ (74:7)۔ قرآن کا بیشتر حصہ ساتویں صدی کے ربع اول میں اترا۔ اس زمانے میں عرب میں ٹرائبل کلچر قائم تھا۔ اس بنا پر اس زمانے میں پیغمبر اور پیغمبر کے متبعین پر ہر قسم کی زیادتیاں کی گئیں۔ مگر قرآن میں ہمیشہ یہ حکم دیا گیا کہ تم صبر کی روش پر قائم رہو۔
صبر کوئی بے عملی کی تعلیم نہیں۔ صبر کا مطلب ہےاللہ کے تخلیقی نقشہ سے مطابقت کرنا۔اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق ہر انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔اس آزادی میں واضح طور پر آزادی کا غلط استعمال بھی شامل ہے۔جس چیز کو ایک فریق ظلم کہتا ہے، وہ دوسرے فریق کے لئے اپنی خداد اد آزادی کا غلط استعمال ہے۔ ایسی حالت میں ظلم کے خلاف شکایت یا احتجاج کرناانسان کے خلاف شکایت یا احتجاج نہیں ہے، بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ خدا کے تخلیقی منصوبہ کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔اور جب معاملہ خدا کے تخلیقی منصوبے کا ہو تو انسان کے لئے اس کے خلاف پروٹیسٹ کا آپشن نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں انسان کے لئے ایک ہی آپشن ہے، اور وہ ہےمبنی بر صبر پلاننگ۔یعنی ری ایکشن کے بغیر پر امن طور پر حالات کو مینیج (manage)کرنا، تشدد کے بغیر پر امن انداز میں معاملے کا حل تلاش کرنا۔
آخرت وہ دنیا ہے جہاں صرف امر حق میں قیمت ہو، امر غیر حق جہاں بے قیمت ہوکر رہ جائے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کا رول ماڈل

اسلام کا رول ماڈل عملی اعتبار سے توسع کے اصول پر مبنی ہے، نہ کہ توحد کے اصول پر۔ یعنی اسلام کے رول ماڈل کے دو پہلو ہیں۔ ایک، فرد کے اعتبار سے، اور دوسرا، مجتمع (society) کے اعتبار سے۔اسلام کے رول ماڈل کو فکری اعتبار سے سمجھنے کے لئے، یہ اصول بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس اصول کو سامنے رکھ کر اسلام کے رول ماڈل کو متعین کیا جائے تو اس کا تعین نہایت آسان ہوگا۔اس کے برعکس، اس اصول کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو اسلام کے رول ماڈل کو سمجھنا آخری حد تک مشکل بن جاتا ہے۔ اسلام کا رول ماڈل فرد کی نسبت سے ذاتی اختیار (individual choice) پرمبنی ہے۔ اس کے مقابلے میں اجتماعی اعتبار سے اسلام کا رول ماڈل اجتماعی اختیار (social choice) پر مبنی ہے۔ اسلا م کے رول ماڈل کے بارے میں یہ تفریق بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔
فرد کے اعتبار سے اسلام کا رول ماڈل یہ ہے کہ ہر فرد مطالعہ اور غور و فکر کے ذریعہ اسلام کے آئڈیل کو دریافت کرے، اور اپنی ذات کو اس آئڈیل کے مطابق بنائے۔ مثلا عقیدہ کے بارے میں کامل توحید، رسالت کے بارے میں پیغمبر ِ اسلام کو خاتم النبیین سمجھنا، وغیرہ۔ کسی فرد کا واحد نشانہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ فرد کے بارے میں اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات کو اپنی ذاتی زندگی کے لئے واحد معیار سمجھے ، اور اپنے آپ کو ذاتی اعتبار سے کامل طور پر اس معیار کے مطابق بنانے کی کوشش کرے۔
اسلام کے رول ماڈل کا دوسرا پہلو وہ ہے جو اجتماعی زندگی (social life) سے تعلق رکھتا ہے۔ سوشل لائف کے بارے میں اسلام کا رول ماڈل کسی واحد فارم پر مبنی نہیں ہے، بلکہ وہ پریکٹیکل وزڈم (practical wisdom) پر مبنی ہے، یعنی کسی وقت خاص میں جو اجتماعی ماڈل عمومی طور پر لوگوں کے لئے قابلِ قبول (acceptable)ہو، اس پر اجتماعی نظام کی تشکیل کرنا۔ گویا اسلام کی تعلیم کے مطابق فرد کے لئے نظریاتی اعتبار سے ایک غیر متغیر معیاری ماڈل ہے۔ اس کے برعکس، اجتماعی زندگی کے لئےاس طرح کا واحد غیر متغیر ماڈل نہیں۔ فرد کے معاملے میں اسلام کا رول ماڈل معیار پر مبنی ہے، اور اجتماعی زندگی کے اعتبار سے اسلام کا رول ماڈل معاشرے کے وسع (acceptability) پر مبنی ہے۔ اسلام کے رول ماڈل کے بارے میں اس دوگونہ اصول کو ماننے کے بعد ہر قسم کے ٹکڑاؤ کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ کسی شخص کو اپنی ذات کے معاملے میں کامل اختیار حاصل ہے۔ ہر شخص اپنی انفرادی زندگی میں، بلانزاع ، اپنے اختیار کردہ ماڈل کو اختیار کرسکتا ہے۔
ٹکڑاؤ اور تشدد کی تمام صورتیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں، جب کہ اجتماعی زندگی میں توسع کے بجائے توحد کے اصول کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیوں کہ فطرت کے نظام کے مطابق ہر انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ جب ایسا کیا جائے کہ اجتماعی زندگی کے لئےہر حال میں ایک ناقابل تغیر ماڈل کو نافذ کرنے کی کوشش کی جائے تو لازمی طور پر ایک گروہ کا دوسرے گروہ سے ٹکڑاؤ پیدا ہوجائے گا۔مثلا حاکم (ruler) اور غیر حاکم (ruled) کے درمیان۔ اجتماعی زندگی کے بارے میں اس اصول کو قرآن میںأَمْرُہُمْ شُورَى بَیْنَہُمْ (42:38) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں شوری کے اس اصول نے ایک باقاعدہ تنظیم (institutionalized form) کی حیثیت اختیار کر لی ہے، جس کو جمہوریت (democracy) کہا جاتا ہے۔
فرد کے معاملے میں معیار پسندی اور اجتماعی زندگی کے معاملے میں جمہوریت کا طریقہ عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔ اس طریقہ کو غلط طورپر ویٹیکنائزیشن (Vaticanization)یا مذہب اور سیاست کی علاحدگی کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ طریقہ مذہب اور سیاست کی علاحدگی کا طریقہ نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقت کے اعتراف (acceptance of reality) کا طریقہ ہے۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے انسانی سماج میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔اس کے مقابلے میں دوسرا طریقہ عملا ناقابلِ عمل طریقہ ہے۔ کیوں کہ مذہب اور سیاست کو ایک کرنے کے نام پر سماج میں ابدی ٹکڑاؤ کا ماحول قائم کرنے کے مترادف ہے۔ ایک ایسا ٹکڑاؤ جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ویٹیکنزم اپنی حقیقت کے اعتبار سے ناممکن کے مقابلے میں ممکن کا آپشن لینے کا نام ہے، نہ کہ مذہب اور سیاست کی علاحدگی کا نام۔
مشن کی حیثیت سے اسلام کا نشانہ فرد ہے ، نہ کہ سسٹم۔ایک لفظ میں اسلامی مشن کا نشانہ فرد کا اسلامائزیشن ہے، سسٹم کو اسلامائز کرنا اسلام کا نشانہ نہیں۔زندگی کے بارے میں اسلام کی اسکیم (scheme of things) یہ ہے کہ ہر فرد کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی شخصیت کا ارتقا کر کے اپنے آپ کو جنتی انسان بنائے۔اسی نشانے کی بنا پر اسلام میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ سماج کو شوریٰ کے اصول پر مبنی قرار دیا گیا، یعنی سماجی حقائق (social realities) کی بنیاد پر ۔
سماج میں فطرت کے اصول کے مطابق ہمیشہ مفادات کا ٹکڑاؤ پایا جاتا ہے، سماج میں اگر ایسا ہو کہ ایک گروہ اپنے سسٹم کو معیار کی حیثیت دے کر اسی کی بنیاد پر پورے سماج کی تشکیل کرنا چاہے تو لازما مختلف گروہوں کے درمیان ٹکڑاؤ پیش آئے گا۔ یہ ٹکڑاؤ بڑھ کر نفرت اور تشدد کی صورت اختیار کر لے گی، اور پھر یہ ٹکڑاؤ کبھی ختم نہ ہوگا۔سسٹم کو کسی وحدانی اصول پر قائم کیا جائے توسماج میں کبھی امن قائم ہونے والا نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے نشانے کے مطابق جنتی شخصیت کی تعمیر صرف امن کے حالات میں بنتی ہے، نفرت اور تشدد کے حالات میں نہیں۔
اس بنا پر اجتماعی سسٹم کے معاملے میں اسلام نے پریکٹیکل وزڈم (practical wisdom) کے اصول کو اختیار کیا ہے۔ یعنی ایسی پالیسی اختیار کرنا ، جو سماجی امن کی یقینی ضمانت ہو۔اس قسم کی یقینی ضمانت صرف اس وقت ممکن ہے، جب کہ سماج کے معاملہ میں ایڈجسٹمنٹ کا اصول اختیار کیا جائے۔اسلام کی ابتدائی تاریخ میں حدیبیہ اگریمنٹ اسی قسم کے ایڈجسٹمنٹ کی ایک مثال ہے۔ اس وقت پیغمبر ِ اسلام نے یک طرفہ ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر فریقِ ثانی سے امن کا معاہدہ کر لیا، اور پھر اس کے بعدفطری طورپرسماج میں وہ معتدل ماحول قائم ہوگیا، جس کے اندر اسلام کا اصل مشن (Islamization of the individual) کا عمل (process) کامیابی کے ساتھ جاری رکھا جاسکے۔
اس معاملے کو سمجھنا اس وقت زیادہ آسان ہوجا تا ہے جب کہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے کہ اسلام کا مشن پر امن دعوت کا مشن ہے،اسلام کا مشن کسی پولیٹیکل سسٹم کو نافذ کرنے کا مشن نہیں۔ اسلام کا دعوتی مشن صرف اس وقت کامیابی کے ساتھ چل سکتا ہے، جب کہ سماج میں اعتدال کا ماحول ہو۔ اور اعتدال کا ماحول قائم کرنے کی واحد صورت صرف یہ ہے کہ فرد اور اجتماع کے معاملے میں فرق کیا جائے۔ فرد کے معاملہ میں آئڈیل کا اصول اختیار کیا جائے، اور سوشیو-پولیٹیکل سسٹم (socio-political system) کے معاملہ میں جمہوریت کا اصول۔
حقیقت، نہ کہ ظواہر
کعبہ کے اوپر غلاف اوڑھانے کا رواج قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کعبہ کے اوپرپہلا غلاف خود حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اوڑھایا تھا۔ اگر چہ یہ بات تاریخی معیار پر ثابت شدہ نہیں۔
قریش اپنے دور میں کعبہ کو غلاف اوڑھاتے رہے۔ فتح مکہ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کا موقع نہیں تھا۔ بعد کو جب مکہ فتح ہوا، اس وقت رسول صلی اللہ علیہ کے لیے موقع تھا کہ آپ کعبہ پر نیا غلاف ڈالیں۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔فتح مکہ کے بعد بھی آپ نے اسی غلاف کو باقی رکھا جو قریش (بالفاظ دیگر مشرکین)نے کعبہ کو اوڑھایا تھا۔
اس کے بعد ایسا ہوا کہ ایک عرب خاتون کعبہ کوخوشبو دینے کے لیے کسی خوشبودار چیز کی دھونی دے رہی تھی۔ اس دھونی دینے کے عمل کے دوران کعبہ کے غلاف کو آگ لگ گئی اور وہ جل گیا۔ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی کپڑے کا ایک غلاف اس کے اوپر اوڑھایا۔ آپ کے بعد خلفاء کے درمیان اس کی سنت جاری رہی۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اسلام میں حقیقت کی اہمیت ہے، نہ کہ ظواہر کی۔(ڈائری، 1983)
واپس اوپر جائیں

پیرویٔ اسلام، تنفیذِ اسلام

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں امت کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: ترکتُ فیکم أمرینِ لن تضلّوا ما تَمَسّکتم بہما (مؤطا امام مالک، حدیث نمبر1874 )۔ یعنی میں نے تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، تم گمراہ نہ ہوگے، جب تک ان دونوں کو پکڑے رہو گے۔اس حدیث میں تمسک کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، تمسک کا مطلب ہے مضبوطی سے پکڑنا (holding fast)۔ یہی امت کے افراد کی اصل ذمے داری ہے۔امت محمدی کے ہر فرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ دین کو دریافت کرے،وہ مطالعہ اور تدبر کے ذریعے اپنی معرفت کی تکمیل کرے، اور اس طرح اپنے آپ کو پوری طرح دین کا پیرو بنالے۔امت کے افراد جب تک تمسک بالکتاب والسنہ کے اس اصول کو پکڑے رہیں گے، وہ کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔
اس کے برعکس جب ایسا ہو کہ امت اس تعلیم کو لازم کے صیغہ ( intransitive verb) میں لینے کے بجائے متعدی کے صیغہ ( transitive verb) میں لینے لگے، یعنی متمسک بنو کے بجائے متمسک بناؤ۔ تو اس کے بعد ضلالت کا آغاز ہو جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دین کی پیروی اختیار کرو کا نظریہ لوگوں کو ہدایت پر قائم کرتا ہے، اور دین کی تنفیذ کرو کا نظریہ لوگوں کو ضلالت کے راستے میں ڈال دیتا ہے۔موجودہ زمانے میں امت کے اندر جو تشدد پیدا ہوا اس کا سبب یہی ہے۔
بیسویں صدی میں کچھ ایسے مسلم رہنما اٹھے جنھوں نے اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation) پیش کی ۔ انھوں نے قرآن و سنت کی خود ساختہ تشریح کرکے یہ نظریہ بنایا کہ اسلام ایک مکمل نظام (complete system) ہے۔ اور امت کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اس نظام کو مکمل اعتبار سے زمین پر نافذ کرے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ جو دین مبنی بر فرد دین تھا، اس کو مبنی بر نظام (system-based) بنادیا۔
مگر یہ سادہ بات نہ تھی۔ جب بھی آپ دین کو پیروی کے بجائے تنفیذ کا موضوع بنائیں گے تو فوراً تشدد شروع ہوجائے گا۔کیوں کہ یہاں پہلے سے کچھ لوگ ہوں گے جو تنفیذ کے اداروں پر قابض ہوں گے۔ اب آپ کا ذہن یہ کہے گا کہ مجھے ان قابض افراد کو ہٹانا ہے، ان کو قوتِ نافذہ کے مقام سے ہٹائے بغیر میں اپنی پسند کا نظام نافذ نہیں کرسکتا۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ امت کے لئے دنیا اپنے اور غیر (we and they) میں تقسیم ہوگئی۔اس طرح امت کے اندر دوسروں کو اپنا دشمن سمجھنے کا مزاج پیدا ہوا۔وہ اپنے مفروضہ دشمنوں کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگے۔
اس طرح اسلام کی سیاسی تعبیر ابتداءاً ایک نظریے کی حیثیت رکھتی تھی، لیکن دھیرے دھیرے وہ عملاًایک متشددانہ نظریہ بن گئی۔اس کے نتیجے میں مفروضہ دشمنوں کے خلاف جنگ شروع ہوگئی۔ اور جب جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تو امت کے اندر نفرت کا ایک پورا جنگل اُگ آیا۔فطری طور پر وہ اپنی نفرت میں اتنے اندھے ہوگئے کہ وہ اپنے مفروضہ دشمنوں کو شکست دینے کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہوگئے، خواہ جائز ہو یا ناجائز۔ اسی نفرت کا ایک ظاہرہ وہ ہے جس کو خود کش بمباری (suicide bombing)کہا جاتا ہے۔ خودکش بمباری بلاشبہ ایک حرام فعل ہے، لیکن لوگوں نے اس کو استشہاد (طلب شہادت ) کا نام دے کر جائز کرلیا۔قرآن و سنت کے مطابق جو فعل جہنم میں لے جانے والا تھا، اس کو خودساختہ طور پر یہ حیثیت دے دی کہ وہ ان کو سیدھا جنت میں لے جانے والا ہے۔
موجودہ زمانے میں جو مسلم تشدد (Muslim militancy) پیدا ہوا، وہ اسی سیاسی تعبیر دین کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ موجودہ مسلم تشدد کو جوابی تشدد سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔اس کو ختم کرنے کے لئے جوابی آیڈیالوجی درکار ہے۔جوابی تشدد ان کو صرف ہلاک کر سکتا ہے، مگر اپنے مفروضہ عقیدے کے مطابق یہ سمجھتے رہیں گے کہ وہ شہید ہوکر جنت میں جارہے ہیں۔ یعنی پرتشدد کارروائی کے ذریعے اس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے خاتمے کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طاقت ور دلیل کے ذریعے بتایا جائے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر ایک باطل تعبیر ہے۔ اسلام کی اصل تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ مسلم تشدد کو ختم کرنے کے لئے ایک نظریاتی مہم درکار ہے۔ اس کے سوا کوئی اور چیز اس کا خاتمہ کرنے والی نہیں۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ دورِ آخر میں امت کے اندر ایک بے حد خطرناک فتنہ پیدا ہوگا، یہ ایک دجالیت کا فتنہ ہوگا۔دجالیت سے مراد یہی پرفریب تعبیرِ دین ہے۔ اس نظریے کو دجالی فتنہ اس لئے کہا گیا کہ اس باطل نظریے کو ایسے خوشنما الفاظ میں پیش کیا جائے گا کہ لوگ اس کو باطل سمجھنے سے عاجز رہیں گے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجالیت سے مراد دجالی نظریہ ہے۔ وہ دجالی نظریہ یہ ہے کہ اسلام کو مکمل نظام کا خوبصورت نام دے کر لوگوں کو دھوکے میں ڈالاجائے، اور اس طرح لوگوں کے اندر یہ ذہن بنایا جائے کہ اسلام ذاتی پیروی کا دین نہیں ہے بلکہ وہ انقلابی دین ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کو زمین پر مکمل معنوں میں نافذ کیا جائے۔
اس طرح اسلام معرفت کا دین نہ رہا بلکہ وہ جنگ کا دین بن گیا۔یہی دجالیت موجودہ زمانے میں مسلم تشدد کا اصل سبب ہے۔ اس تشدد کو صرف اس وقت ختم کیا جا سکتا ہے ، جب کہ لوگوں کو دلیل کے ذریعے یہ بتایا جائے کہ مکمل نظام کا نظریہ ایک پرفریب دجالی نظریہ ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اس دجالی نظریے کا ایک خطرناک نتیجہ یہ ہوا کہ امت سے دعوت کا مزاج ختم ہوگیا۔ اصل دینی تصور کے مطابق امت مسلمہ داعی ہے اور دوسری قومیں مدعو ۔ اب داعی اور مدعو کے بجائے حریف اور دشمن کی نسبت قائم ہو گئی۔اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ امت کا اصل مشن دعوت الی اللہ عملاً حذف ہوگیا۔ کیوں کہ دعوت کے لئے نصح (خیرخواہی) کا ذہن درکار ہے۔ دشمنی اور دعوت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
واپس اوپر جائیں

ترکِ رُجز

قرآن کی سورہ المدثر اسلام کے ابتدائی زمانے میں اتری۔ اس میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے انذار کا حکم دیا گیا۔انذار سے مراد وہی چیز ہے، جس کو دعوت الی اللہ کہا جاتا ہے۔ اس حکم کے ساتھ اس کا طریقہ (method) بھی بتادیا گیا۔ وہ طریقہ یہ تھا کہ رُجز کے معاملے کو نظر انداز کرتے ہوئے دعوت کا کام کرو(دیکھیے سورہ المدثر، آیات 2-5)۔
رُجز کے لفظی معنی گندگی کے ہیں۔ قرآن میں دوسرے مقام پر اس مفہوم کے لئے رِجس (22:30) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب آیت کے مطابق یہ ہے کہ بت پرستی کو چھوڑ دو۔لیکن سورہ المدثر میں جس رُجز کو چھوڑ نے کا حکم دیا گیا ہے، اس کا تعلق خود پیغمبر کی ذات سےہے۔ پیغمبر نے کبھی بت پرستی نہیں کی۔ پھر پیغمبر کے لئے رُجز کو چھوڑ دینے کا مطلب کیا ہے۔
اس کی وضاحت پیغمبر کی عملی تاریخ سے ہوتی ہے۔ پیغمبر نے عرب میں دعوت الی اللہ کا کام کیا۔ اس وقت وہاں مختلف قسم کی برائیاں موجود تھیں۔ مثلا کعبہ میں 360 بتوں کی موجودگی، مکہ کے لوگوں کا شراب پینا، وغیرہ۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برائیوں کو جانا ، مگر اُن سےعملی ٹکڑاؤ نہیں کیا۔ اس کے برعکس آپ نے یہ کیا کہ وقت کی برائیوں سے ٹکڑاؤ نہ کرتے ہوئے، پر امن انداز میں اپنا دعوتی مشن جاری کیا۔ پیغمبرِ اسلام کا عملی نمونہ قرآن کی آیت کی تفسیر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ — قوم کی عملی برائیوں سے اعراض کرو، اور مثبت ذہن کے ساتھ پرامن دعوت کا کام کرو۔
سورہ المدثر کی یہ آیت اسلامی مشن کا ایک اہم اصول بتاتی ہے۔وہ یہ کہ اسلامی مشن کا طریقِ کار کیا ہونا چاہئے۔یہ طریقِ کار اس اصول پر مبنی ہے کہ وقت کی عملی برائیوں سے اعراض کرنا ، اور اسلام کی آئڈیالوجی کی پرامن اندازمیں اشاعت کرنا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کو اختیار کرنے کے بعد اہل ایمان کو اللہ کی نصرت ملتی ہے۔ اگر اس اصول کو اختیار نہ کیا جائے تو ایسے لوگوں کو کبھی اللہ کی نصرت ملنے والی نہیں۔
موجودہ زمانے میں اس اصول کے انطباق (application) کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہے، جتنا کہ اس کی اہمیت اسلام کے دورِ اول میں تھی۔ اصل یہ ہےکہ انسان کو خالق نے مکمل آزادی دی ہے۔ اس آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر ہر زمانے میں سماجی اور سیاسی برائیاں لازماً موجود رہتی ہیں۔سماجی اور سیاسی برائیوں سے پاک ماحول اس دنیا میں کبھی ممکن نہیں۔ایسی حالت میں داعی کا طریقہ کیا ہونا چاہئے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ سماجی اور سیاسی برائیوں سے اعراض کرتے ہوئے ، مواقع کو دریافت کرنا، اور ان مواقع کا استعمال کرتے ہوئے، پر امن طور پر دعوتی مشن جاری کرنا۔
مثلاً انڈیا میںاکثریتی فرقہ ایسی کارروائیاں کرتا ہے، جس پر یہاں کے مسلمان برہم ہوتے ہیں، اور ٹکڑاؤ کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ سرتاسر غلط ہے۔ پیغمبر کی سنت کے مطابق صحیح طریقہ یہ ہے کہ اکثریتی فرقہ کی ناموافق باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک میں پرامن دعوت کا کام کیا جائے۔انڈیا کے مسلمان اس پیغمبرانہ سنت کو اختیار نہ کرسکے۔ اس لئے یہاں کے مسلمانوں کا مزاج منفی ہوگیا، اور اس کی قیمت یہ دینی پڑی کہ مسلمان اس ملک میں دعوت الی اللہ کا مطلوب فریضہ انجام دینے سے محروم رہے۔
اسی طرح اُس دنیا کا معاملہ ہے، جس کو سیکولر دنیا کہا جاتا ہے۔سیکولر لوگ فریڈم آف اکسپریشن (freedom of expression) میں یقین رکھتے ہیں۔ اس بنا پر وہ ہر معاملے میں آزادانہ طور پر اظہارِ خیال کرتے ہیں۔یہ آزادانہ اظہارِ رائے کبھی پیغمبرِ اسلام کے بارے میں بھی ہوتا ہے۔ مسلمان اس پر مشتعل ہوجاتے ہیں، اور اس کو شتم ِرسول (blasphemy)کا نام دے کر اس کے خلاف لڑنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنی اس روش کی یہ بھاری قیمت دینی پڑتی ہے کہ ان کےاور سیکولر طبقے کے درمیان معتدل تعلق قائم نہیں ہوتا۔ اس بنا پر مسلمان، سیکولر لوگوں کے درمیان وہ کام نہیں کر پاتے، جو ان کے اوپر فرض کے درجے میں ضروری ہے۔ یعنی دعوت الی اللہ۔
یہی معاملہ مغربی قوموں کا ہے۔ مغربی قوموں میں جو کلچر رائج ہوا ہے، وہ مسلمانوں کو اسلامی اقدار کے خلاف نظر آتا ہے۔ اس بنا پر مسلمان مغربی قوموں کے خلاف نفرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ نفرت ان کو مثبت سوچ (positive thinking) سے محروم کردیتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمان اور مغربی قوموں کے درمیان داعی اور مدعو کا معتدل رشتہ قائم نہیں ہوتا۔ اس بناپر یہ ہوتا ہے کہ مسلمان مغربی قوموں کے مقابلے میں دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دینے سے محروم ہوجاتے ہیں۔
یہی معاملہ امریکا کا ہے۔ہر قوم کی طرح امریکا کے اپنے قومی مفادات ہیں۔امریکا اپنے قومی مفاد کے تحت اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔اس واقعے کی بنا پر ساری دنیا کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ امریکا کو عدو الاسلام رقم واحد کہتے ہیں۔ یعنی امریکا اسلام کا دشمن نمبر ایک (enemy number one) ہے۔ اس منفی ذہن کی بنا پر ساری دنیا کے مسلمان امریکا کے خلاف تشدد کو جائز قرار دیے ہوئے ہیں۔وہ امریکا سے معتدل تعلق قائم نہ کرسکے۔اس کا یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے کہ وہ امریکا کو ایک مدعو ملک کا درجہ نہیں دے سکے۔وہ امریکا کے اوپر اپنے دعوتی فریضے کو انجام دینے سے محروم رہے۔
سورہ المدثر میں جس پیغمبرانہ اصول کو بتایا گیا، وہ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں ایک نامعلوم اصول بنا ہوا ہے۔مسلم علماء اور مسلم رہنما کبھی اس اصول کو دریافت نہ کرسکے کہ اسلام کے مشن کے لئے ضروری ہے کہ رُجز کو اوائڈ کرتے ہوئے، پرامن انداز میں اسلامی مشن کو جاری کیا جائے۔اس اصول سے بے خبری کی بنا پر مسلمان یہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی رُجز کو دیکھ کر مشتعل ہوجاتے ہیں۔ وہ لوگوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ جس کا آخری نتیجہ تشدد اور ٹکڑاؤ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ پیغمبرانہ سنت کے مطابق یہ ایک بےحد سنگین غلطی ہے۔ اس کے نقصانات اتنے زیادہ ہیںکہ جن کی کوئی گنتی نہیں۔ اس انحراف میں دنیا کی بھی تباہی ہے، اور آخرت کی بھی ۔
رُجز کا ظاہرہ، دراصل آزادی کے غلط استعمال کا ظاہرہ ہے۔ انسان کو یہ آزادی خود خالق نے دی ہے۔ اس آزادی کے غلط استعمال پر خالق آخرت میںیقیناً ان کی گرفت کرے گا،لیکن کسی اور کو یہ حق نہیں کہ وہ آزادی کے غلط استعمال کے حوالے سے لوگوں کے اوپرداروغہ بن جائے۔ایسا کرنا خدا کے دائرہ (domain) میں داخل ہونا ہے۔ اور کسی مخلوق کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ خدا کے دائرہ میں داخل ہوجائے۔ ایسا کرنا خود اپنے آپ کو مجرم کے مقام پر کھڑا کرنا ہے۔ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں ناکامی ہے، اور آخرت میں شدید مواخذے کا اندیشہ۔
واپس اوپر جائیں

دعوت، ڈیبیٹ

قرآن میں اہل ایمان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ گفتگو میں جدال احسن کا طریقہ اختیار کریں(النحل، 125)، وہ جدال غیر احسن کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ جدال احسن کیا ہے، اور جدال غیراحسن کیا ہے۔ جدال احسن سے مراد ناصحانہ دعوت (sympathetic dawah)ہے۔ اور جدال غیراحسن سے مراد مخاصمانہ مناظرہ (aggressive debate)ہے۔ اہل ایمان کا مشن دعوت الی اللہ ہے۔ یعنی اللہ کے پیغام کو پر امن طور پر تمام انسانوں تک پہنچانا۔ مگر یہ کام مکمل طور پر پر امن انداز میں ہونا چاہیے، نہ کہ کسی قسم کے ٹکراؤ کے انداز میں۔
مخاصمانہ مناظرہ (aggressive debate) کیسے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا ایک معلوم تاریخی سبب ہے۔ مخاصمانہ مناظرہ دراصل ایک دعوتی امکان کے غلط استعمال سے پیداہوتا ہے۔ اس دعوتی امکان کو اگر قرآن کی تعلیم کے مطابق نصح (خیرخواہی) کےانداز میں استعمال کیاجائے تو پر امن دعوہ ورک وجود میں آتا ہے۔ اور اگر اس امکان کا غلط استعمال کیا جائے تو اس سے وہ چیز پیدا ہوتی ہے، جس کو مخاصمانہ مناظرہ (aggressive debate) کہاجاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ خاتم النبیین سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مختلف پیغمبر بھیجے۔ مثلا حضرت عیسی اور حضرت موسی، وغیرہ۔ ان پیغمبروں کے اوپر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل کی تاکہ وہ انسانوں کے لیے ان کی دنیا کی زندگی میں رہنما کتاب (guide book) بنے۔ مگر قدیم زمانہ میں پرنٹنگ پریس نہ ہونے کی بنا پر یہ خدائی کتابیں اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ رہیں، ان کے متن (text) میں طرح طرح کی تبدیلیاں ہوگئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کی زمین پر کوئی ایسی کتاب باقی نہ رہی جس کے ذریعہ انسان اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے، اور یہ جانے کہ خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God)کے مطابق انسان کا مقصد حیات (purpose of life) کیا ہے۔ اس وقت اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا آخری رسول (the Final Prophet) دنیا میں بھیجے۔ اور اس کے اوپر ساتویں صدی کے ربع اول میں اپنی وہ کتاب اتارے جس کو آج ہم قرآن کےنام سے جانتے ہیں۔
قرآن کے بعد چوں کہ کوئی اور پیغمبر آنے والا نہ تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انتہائی اہتمام کیا کہ قرآن کامل طور پر محفوظ کتاب کی حیثیت سے باقی رہے، قرآن کے متن (text)میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی ہرگز ہونے نہ پائے۔ اس مقصد کے لیے ابتدائی زمانہ ، صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے اہل ایمان نے اس معاملہ میں مکمل کوششیں کیں۔
انھوں نے قرآن کو ایک طرف مکمل طور پر یاد کرکےاپنے ذہن میں محفوظ کرلیا، اور روزانہ تلاوت کی صورت میں اس کو اپنے ذہن میں پختہ کرتے رہے۔ دوسری طرف ایسے لوگ بڑی تعداد میں پیدا ہوئے، جنھوں نے کتابت کے فن کو سیکھا، اور قدیم زمانہ کے کاغذ پر لکھ کر قرآن کی کتابت شدہ جلدیں (copies) تیار کیں، اور ان کو بڑے پیمانے پر اس وقت کی دنیا میں پھیلادیا۔ یہ گویا حفاظت قرآن کا یک دہرا انتظام (double system of preservation) تھا، جو قرآن کی کامل حفاظت کا ضامن تھا۔
ساتویں صدی سے لے کر 15 ویں صدی تک یہ طریقہ مسلسل جاری رہا۔ یہاں تک کہ ساری دنیا میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے حافظ پیدا ہوگیے۔ اور اسی کے ساتھ بڑی تعداد میں کتابت شدہ قرآن کی جلدیں ہر جگہ پھیل گئیں۔ یہ سلسلہ 15 ویں صدی عیسوی تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ گوٹن برگ (Johannes Gutenberg)کے بعد سولہویں صدی میں پرنٹنگ پریس کا زمانہ آگیا۔ یہاں تک کہ قرآن کے مطبوعہ نسخے رفتہ رفتہ ساری دنیا میں پھیل گیے۔ پرنٹنگ پریس کے بعد قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری زیادہ بہتر طور پر پرنٹنگ پریس نے لے لی، جو اس سے پہلے حافظین قرآن اور کاتبین قرآن نے لے رکھی تھی۔
قرآن کی صورت میں خدا کے ہدایت نامہ کا ایک محفوظ ورزن (version) وجود میں آنے کے بعد عملاً مذہبی دنیا میں یہ صورت حال ہوگئی کہ ایک طرف محفوظ قرآن تھا، اور دوسری طرف غیر محفوظ بائبل(اور دوسری مذہبی کتابیں)۔ قرآن میں کوئی ایک بھی غلطی موجود نہ تھی۔ جب کہ بائبل میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف قسم کی غلطیاں موجود تھیں۔ اس تقابل (comparison)کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف قرآن تھا۔ جس کا کیس حفاظت کی بنا پر ایک طاقت ور (strong) کیس تھا۔ اور دوسری طرف بائبل تھی، جس کا کیس عدم حفاظت کی بنا پر ایک کمزور (weak) کیس تھا۔ قرآن میںکسی قسم کی غلطی نکالنا انسان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ دوسری طرف بائبل کا یہ حال تھا کہ کوئی بھی شخص جو بائبل کو پڑھے، تو وہ اس کے متن (text ) کے اندر بآسانی طرح طرح کی غلطیوں کی نشاندہی کرسکتا تھا۔ دونوں کتابوں میں فرق کی یہی صورت حال ہے، جس نے بعد کے زمانہ میں مذہبی دنیا میں ایک نیا ظاہرہ پیدا کیا، جس کو مناظرہ (debate) کہا جاتا ہے۔ اس واقعہ نے مسلم دنیا میں کچھ لوگوں کو یہ موقع دیا کہ وہ بائبل کا مطالعہ کرکے بائبل کی غلطیاں نکالیں اور اس کا تقابل قرآن سے کرکے اسٹیج پر لفظی پہلوانی کا کرتب دکھائیں، اور عوام میں سستی شہرت (cheap popularity)حاصل کریں۔
مناظرہ بازی کلچر (debate culture) ابتداءاً 8 ویں صدی میں شروع ہوا۔ انیسویں صدی کے حالات میں اس کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا۔اس زمانے میں انڈیا میں محمد رحمت اللہ کیرانوی (1818-1891)پیدا ہوئے۔ انھوں نے عیسائیوں سےمناظرہ کے موضوع پر اظہارالحق نامی کتاب لکھی ۔ یہ کتاب اس موضوع پربہت مشہور ہوئی۔ اس کے بعد مذہبی آزادی اور میڈیا کا زمانہ آیا تو مناظرہ بازی کلچر اپنی آخری حد پر پہنچ گیا۔ اب ایسے مناظر (debater) پیدا ہوئے جو جدید کمیونی کیشن کی مدد سے ساری دنیا میں دیکھے اور سنے جانے لگے۔
خاتم النبیین کے بعد ایک نیا عمل (process) شروع ہوا، جس کے نتیجہ میں وہ زمانہ آیا جب کہ مذہبی دنیا میں ایک طرف محفوظ قرآن تھا اور دوسری طرف غیر محفوظ بائبل۔ یہ فرق (disparity) دعوت الی اللہ کے کام کے لیے ایک عظیم تحفہ تھا۔ اب اہل ایمان کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ جدال احسن کے طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے، قرآن کو ساری دنیا میں پھیلادیں۔ یہ گویا قرآن کے لیے بلامقابلہ کامیابی (unopposed victory) کا معاملہ تھا۔ دعوت کی شرط نصح (خیر خواہی ) اور امن (peace) کو اختیار کرتے ہوئے، یہ ممکن ہو گیا کہ اللہ کا کلام دنیا کے ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں پہنچ جائے۔ مگر عین اس وقت شیطان نے ایک منفی تدبیر کرکے سارے ماحول کو خراب کردیا۔ اب غیر سنجیدہ قسم کے مناظر اٹھے، انھوں نے یہ کیا کہ دوسری مذہبی کتابوں کی کمیاں اور خامیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں۔ ان لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی بھیڑ اکٹھا کریں، اور للکارنے والے انداز میں دوسرے مذہب کی کمیاں اور خامیاں بتائیں اور اپنے مذہب کی برتری کو establishکریں۔اس طریقے میں مناظر کو ذاتی شہرت ملتی تھی، لیکن مثبت دعوت کے امکانات پوری طرح ختم ہوجاتے تھے۔
قرآن کے مطابق، دعوت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو ایسے اسلوب میں بیان کیا جائے جو مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو (النساء63:)۔ مگر مناظر پہلوانوں نے اس کے برعکس یہ کیا کہ اپنی برتری (superiority) کو ثابت کریں۔ وہ قرآن کے علاوہ دوسری کتابوں میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی خامیاں نکالیں اور ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں۔ اور ناصحانہ انداز کے بجائے للکارنے والے انداز میں بولیں۔ اس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اندر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی۔ جب کہ اصل کام یہ تھا کہ معتدل ماحول بنایا جائے تاکہ لوگ غیر متعصبانہ (unbiased) طور پر قرآن کا مطالعہ کرسکیں۔
مناظر (debater) کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسری مذہبی کتابوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کو سن کو مسلمان خوش ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔ اس قسم کاا نداز سخت گناہ کی بات ہے۔ استہزاء ایک ایسی چیز ہے جو بہت آسان ہے۔ آپ کسی بھی چیز کا استہزاء کرسکتے ہیں، حتی کہ خود قرآن کا بھی۔ یہ بات قرآن میں واضح طور پر بتائی گئی ہے۔ قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: وَإِذَا عَلِمَ مِنْ آیَاتِنَا شَیْئًا اتَّخَذَہَا ہُزُوًا أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُہِینٌ (45:9)۔ یعنی اور جب وہ ہماری آیتوں میں سے کسی چیز کی خبر پاتا ہے تو وہ اس کو مذاق بنا لیتا ہے۔ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے:
When he learns something of Our revelations, he derides them: for such there will be humiliating torment.
یہاں یہ سوال ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے، جو غلطیوں سے پوری طرح پاک ہے۔ پھر انسان اس کے اندر استہزاء کے قابل آیتیں کیسے پاتا ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ استہزاء کہیں باہر نہیں ہوتا، بلکہ وہ آدمی کے مائنڈ میں موجود ہوتا ہے۔ استہزاء ایک غیر سنجیدہ (non-serious) آدمی کی صفت ہے۔ جو آدمی غیر سنجیدہ ہو، اس کا دماغ مواخذہ (accountability) کے احساس سے خالی ہوتا ہے۔ وہ اپنے غیر سنجیدہ مزاج کی بنا پر کسی بھی کتاب میں استہزاء کے آئٹم پالیتا ہے۔ حتی کہ خود قرآن میں بھی۔ ایسے لوگ گویا استہزاء کے تاجر ہیں۔ وہ ہر چیز میں استہزاء کا پہلو نکال لیتے ہیں۔ اور اسٹیج پر لوگوں کی بھیڑ اکٹھا کرکے ایسی تقریریں کرتے ہیں، جن کو سن کر لوگ تالیاں بجائیں۔
اس معاملہ کی متوازی مثال سے یہ حقیقت مزید واضح ہوتی ہے۔ مثلا صحافت (journalism) کو لیجیے۔ صحافت اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک تعمیری شعبہ ہے۔ وہ اپنے آپ میں ایک مثبت ذریعہ (positive medium) ہے۔ مگر کچھ لوگ جو سنجیدگی کا مزاج نہ رکھتے ہوں، وہ صحافت کو ایک منفی شعبہ بنادیتے ہیں۔ یہ نگیٹیو شعبہ وہی ہے، جس کو زرد صحافت (yellow journalism) کہا جاتا ہے۔ ا س قسم کے صحافی سیلیکٹو نیوز کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ نیوز ورلڈ سے ایسے آئٹم منتخب کرتے ہیں، جن کو سنسنی خیز (sensational) معنی پہنائے جاسکیں۔ اور پھر اس کو اپنے بزنس کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
یہی کام مناظر کرتا ہے۔ وہ زیر تنقید مذہبی کتاب سے منتخب (selective) آئٹم لیتا ہے، وہ گڈ (good) آئٹم کو چھوڑ کر ایسے آئٹم لیتا ہے جس کو منفی معنی دیا جاسکے۔ مثلا بائبل میں بہت سی مثبت تعلیمات ہیں، مگر مناظر اس طرح کی آیتوں کو نظر انداز کرکے ایسے آئٹم ڈھونڈ کر نکالے گا، جس کو استہزاء کا موضوع بنایاجاسکے، اور پھر اس کو استہزاء کے انداز میں بیان کرے گا، جس کو سن کر دوسرے مذہب کے لوگ تومشتعل ہوں، مگر مسلمان اس کو سن کرتالیاں بجائیں۔ اس کو قرآن میں استہزائی کردار کہا گیا ہے۔
قرآن کا طریقہ تالیف قلب کا طریقہ ہے (التوبہ60:)۔ یعنی دل کو نرم کرنے کا طریقہ (softening of the heart) ۔ تالیف قلب کے طریقہ میں مخاطب کے عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بات کہی جاتی ہے۔ اس کے برعکس، مناظرہ (debate) میں ایسا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے جو کھلی تحقیر (public humiliation) کے ہم معنی ہو۔ چناں چہ ایسا طریقہ باعتبار نتیجہ ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive)ثابت ہوتا ہے۔ یعنی اسلام کے نام پر لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا، لوگوں کے اندر ایسا ذہن بنانا جو اسلام کا مطالعہ objective طور پر کرنے کےقابل نہ رہے۔
دعوت کا تقاضا یہ ہے کہ داعی کے اندرمدعو کےلیے ہمدردانہ ذہن موجود ہو۔ جب تک مدعو کو یہ یقین نہ ہو کہ متکلم اس کا آخری حد تک خیر خواہ ہے، اس وقت تک اس کے اندر سنجیدہ انداز میں داعی کی بات سننے کے لیے آمادگی نہیں ہوگی۔رسول اللہ کا رویہ ہمیشہ دوسروں کے ساتھ تالیف قلب کے اصول پر قائم ہوتا تھا۔ اور آپ اپنے اصحاب کو اسی بات کی تلقین کرتے تھے۔ مثال کے طور پر آپ نے ایک بار اپنے اصحاب کو دعوت کا طریقہ بتاتے ہوئے کہا: بشروا ولا تنفروا، ویسروا ولا تعسروا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1732)۔ تم کلام کرتے ہوئے لوگوں کو بشارت دو، ان کو متنفر نہ کرو۔ تم ان کے لیےآسانی پیدا کرو، مشکل پیدا نہ کرو ۔
جو مسلمان مناظرہ (debate) کرتے ہیں، وہ اپنے کام کو اسلام کی دعوت کا کام بتاتے ہیں۔ مگر یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ قرآن و حدیث میں دعوت کا جو طریقہ بتایا گیا ہے، وہ سراسر غیر مناظرانہ انداز کا طریقہ ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم مصر میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی اور حضرت ہارون کو اس وقت کے بادشاہ مصر، فرعون کے دربار میں بھیجا تو دونوں کو ان الفاظ میں ہدایت دی: اذْہَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّہُ طَغَى ۔ فَقُولَا لَہُ قَوْلًا لَیِّنًا لَعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَى (20:43-44) یعنی تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ پس اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔
قول لین(kind word) ایک جامع لفظ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مدعو کی روش سے قطع نظر ، یک طرفہ طور پر اس کے ساتھ نرم گفتاری کا انداز اختیار کرنا ہے۔ یہ نرم گفتاری دل سے ہونا چاہیے ، نہ کہ لپ سروس (lip service) کے طور پر۔ داعی کے اندر حقیقی معنوں میں نرم گفتاری اسی وقت آتی ہے۔ جب کہ وہ دل سے مدعو کا خیر خواہ ہو۔ پھر جیسا کہ قرآن کے الفاظ سے واضح ہے،داعی کے اندر نرم گفتاری کا یہ انداز یک طرفہ ہونا چاہیے۔ مدعو خواہ سخت کلامی کا انداز اختیار کرے، پھر بھی داعی کو نرم کلامی کی روش پر قائم رہنا چاہیے۔
یہ مسلم مناظرین جو مناظرہ کااسٹیج قائم کرتے ہیں، اور بائبل (اور دوسری مذہبی کتابوں ) کے خلاف فاتحانہ تقریریں کرکے مسلم عوام کو خوش کرتے ہیں، یہ ان کا کوئی ذاتی کمال نہیں۔ یہ دراصل قرآن کے مقابلے میں دوسری مذہبی کتابوں میں تحریف کا نتیجہ ہے۔ یہ تحریف ہم کو موقع دیتی ہے، کہ ہم قرآن کی دعوت کو انتہائی خیر خواہی کے انداز میں پیش کریں۔ اس کے برعکس، اس صورتِ حال کو لے کر مناظرہ کی مجلسیں قائم کرنا، ایک قسم کا مذہبی استحصال (exploitation)ہے، جو اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل قبول نہیں۔
سچائی کا معیار
ایک شخص نے حضرت عمر سے کہا کہ فلاں شخص بہت سچا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: کیا تم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے، یا کیا تم نے اس کو کسی معاملے میں امین بنایا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ حضرت عمر نے کہا: پھر تم اس کی تعریف نہ کرو، کیوں کہ تم کو اس کے بارہ میں کوئی علم نہیں۔
حضرت عمر کے اس قول کے مطابق، آدمی کی سچائی کا معیار وضو اور نماز جیسے اعمال نہیں ہیں۔ وضو اور نماز بلاشبہ اہم ہیں۔ مگر وہ کسی کی سچائی کا براہ راست ثبوت نہیں۔سچائی کا براہ راست ثبوت یہ ہے کہ عملی تجربات پر آدمی پورا اترے۔ جب آدمی کچھ لوگوں کے ساتھ سفر کرتا ہے، جب اس کو کوئی امانت سونپی جاتی ہے۔ اس وقت اس کا عمل بتاتا ہے کہ وہ فی الواقع کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

آخرت میں بے جگہ

دانش مند آدمی ہمیشہ مستقبل کا انجام دیکھ کر اپنے عمل کا منصوبہ بناتا ہے۔ اس معنی میں ایک فارسی شاعر کا شعر ہے کہ آدمی ایسا کام کیوں کرے، جس کا نتیجہ بعد کو شرمندگی کی صورت میں نکلے:
کجا کار کند عاقل کہ بعد آید پشیمانی
ایک مرتبہ میری بات ایک کمپنی کے مینیجر سے ہورہی تھی۔ میں نے کہا کہ زندگی میں کامیابی کے لیے محنت سب سے زیادہ ضروری ہے۔ مینیجر نے کہا کہ یہ پرانے زمانے کا اصول ہے۔ موجودہ زمانہ ایک نیا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں کامیابی کے لیے آدمی کے اندر پروفیشنل مہارت (professional expertise) ضروری ہے۔ مینیجر کی اس بات کو لے کر میں سوچنے لگا تو مجھے ایک بہت بڑی حقیقت دریافت ہوئی۔ میں نے سوچا کہ موجودہ دنیا میں کچھ چیزیں اہمیت رکھتی ہیں۔ لیکن آخرت کا دور ایک مختلف دور ہوگا۔ جو لوگ آخرت کے دور میں اس طرح داخل ہوں کہ انھوں نے اپنے آپ کو وہاں کے تقاضوں کے مطابق تیار نہ کیا ہو تو وہ وہاں کامل طور پر بے جگہ ہوجائیں گے۔ ان کو آخرت کے دور حیات میں حسرت کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہوگا۔
مثلا جو لوگ برتری کی تقریر کرنے کے ماہر ہوں، وہ لوگ آخرت کی دنیا میں بے زبان (speechless) ہوجائیں گے۔ کیوں کہ وہاں صرف ایک ہی زبان کی قیمت ہوگی، اور وہ ہے تواضع (modesty) کی زبان۔جو لوگ غیر خدا کی بڑائی میں جیتے ہوں، وہ آخرت کے دور میں بالکل بے قیمت ہوجائیں گے۔ کیوں کہ آخرت کے دور میں صرف ان لوگوں کو مقام ملے گا، جو خدا کی بڑائی میں جینے والے ہوں۔ جو لوگ نفرت (hate)کے الفاظ بولنے کے ماہر ہوں، وہ آخرت کے دور میں اپنی قیمت کھودیں گے۔ کیوں کہ آخرت میں محبت انسانی کا کلچر ہوگا، نہ کہ نفرت انسانی کا کلچر۔اس فرق کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آج کی دنیا میں جو لوگ بڑے دکھائی دیتے ہیں، وہ کل آنے والی دنیا کے دور حیات میں آخری حد تک چھوٹے دکھا ئی دینے لگیں گے۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کے تجربات

ہر انسان کو اپنی زندگی میں تین قسم کے تجربات پیش آتے ہیں۔جو آدمی ان تجربات پر غور کرے، وہ زندگی کی حقیقت کو دریافت کر لے گا۔وہ اپنی زندگی کی درست منصوبہ بندی میں کامیاب رہے گا، وہ جان لے گا کہ زندگی کاآغاز کیا ہے اور زندگی کا انجام کیا ۔ہر انسان کو زندگی ایک دینے والے کی طرف سے ملتی ہے،لیکن زندگی کی منصوبہ بندی (planning) ہر آدمی کو خود کرنا ہے۔ اور درست منصوبہ بندی کا راز یہی ہے کہ آدمی اپنی زندگی کی حقیقت کو جانے۔
پہلا تجربہ ، اس کا اپنا وجود (existence) ہے۔ یعنی اس کا عدم سے وجود میں آنا۔ ایک شخص جو یکم جنوری کو پیدا ہوا، یکم دسمبر کو اس کا وجود نہ تھا۔ آدمی کا غیر موجود سے موجود ہوجانا، یہ پہلا انوکھا واقعہ ہے، جو آدمی کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ سوچنے کا یہ عمل اس کو اس حقیقت تک پہنچاتا ہے کہ یہاں ایک خالق ہے، اور میں اس کی مخلوق ہوں۔ اپنی پیدا ئش سے صرف ایک سال پہلے میں اپنے وجود سے مکمل طور پر بے خبر تھا۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ میں اپنے کو پیداکرلوں۔ یہ حقیقت ہر انسان کے لیے اپنے خالق کی معرفت کا ذریعہ ہے۔
دوسرا تجربہ یہ ہے کہ آدمی جب پیدا ہوکر موجودہ زمین (planet earth)پر اپنے آپ کو پاتا ہے تو وہ حیرت انگیز طور پر یہ دریافت کرتا ہے کہ موجودہ دنیا اس کے لیے ایک کسٹم میڈ ورلڈ ہے۔ اس کے لیے زمین پر وہ تمام چیزیں موجود ہیں، جو اس کے لیے لائف سپورٹ سسٹم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ تجربہ آدمی کو بتاتا ہے کہ اس کا جو خالق ہے، وہی اس کا رازق بھی ہے۔ جو اس کو پیدا کرنے والا ہے، وہی اس کو سب کچھ دینے والا بھی ہے۔
اس کے بعد تیسرا تجربہ آدمی کو یہ پیش آتا ہے کہ اس دنیا میں ایک محدود مدت ، مثلا اسّی سال جینے کے بعد وہ مرجاتا ہے۔ موت اس دنیامیںایک ایسا تجربہ ہے جو ہر آدمی کے ساتھ لازما پیش آتا ہے۔ جس طرح پہلا اور دوسرا تجربہ آدمی کے لیے دومثبت تجربات ہیں، اسی طرح تیسرا تجربہ بھی اس کے لیے بلاشبہ ایک مثبت تجربہ ہے۔ پچھلے تجربات کے دوران آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے لیےاِس دنیا میں سب کچھ ہے، لیکن اس کا ہیبیٹیٹ (habitat) یہاں موجود نہیں ہے۔ یہ تجربہ انسان کو بتاتا ہے کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں، بلکہ وہ ایک سفر ہے جو انسان کو نان ہیبیٹیٹ سے ہیبیٹیٹ تک پہنچانے والا ہے۔
اس حقیقت حیات کی دریافت انسا ن کو جنت کا مستحق بناتی ہے۔ یہ دریافت آدمی کو یہ استحقاق عطا کرتی ہے کہ وہ اپنے ابدی ہیبیٹیٹ (habitat) میں داخلہ پائے جس کو جنت کہا گیا ہے۔ یہ دریافت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ حقیقت واقعہ کے مطابق اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ وہ زندگی کی گاڑی ایسی سمت میں نہ دوڑائے، جس کے آخر میں کھڈ کے سوا اور کچھ نہ ہو۔
تجربہ ہر آدمی کو پیش آتا ہے۔ تجربہ گویا زندگی کا عملی مطالعہ ہے۔ لائبریری کا مطالعہ آپ کو نظری حقیقت تک پہنچاتا ہے۔ لیکن اگر آپ اپنے تجربات کا گہرا مطالعہ کرسکیں تو آپ کا تجربہ آپ کے لیے حقیقت حیات کی معرفت کا ذریعہ بن جائے گا۔ آپ اس قابل بن جائیں گے کہ حقیقت واقعہ کی بنیاد پر اپنے عمل کا نقشہ بنائیں۔ اور زندگی کی صحیح شاہراہ پر اپنا سفر شروع کرسکیں۔ جو لوگ ایسا کرسکیں، وہی ا س دنیا میں اعلی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
ہر آدمی جو پیدا ہوکر اس دنیا میں آتا ہے، وہ تمناؤں اور حوصلوں کی ایک دنیااپنے ساتھ لاتا ہے۔ لیکن صرف تمناؤں کے پیچھے دوڑنا کوئی عقل مندی نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی اپنی تمنا اور خارجی حقیقت کے درمیان مطابقت تلاش کرے۔ اور اس کی بنیاد پر اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔ جو آدمی اپنی حوصلوں کو جانے لیکن وہ خارجی حقائق سے بے خبر ہو، وہ کبھی اعلیٰ کامیابی کی منزل تک پہنچنے والا نہیں۔ زندگی کا معاملہ کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ہے۔ گاگ وھیل کبھی ایک کاگ پر نہیں چلتی۔ اس کے لیے دونوں کاگ کی حرکت ضروری ہے۔ اسی طرح زندگی کبھی یک طرفہ بنیاد پر سفر نہیں کرتی۔ زندگی کے کامیاب سفر کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کا ذاتی کاگ فطرت کے خارجی کاگ کے ساتھ مطابقت کرے۔
واپس اوپر جائیں

توسط اور اعتدال

ایک حدیث میں آیا ہے :خیر الأمور أوساطہا(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر6176)۔ یعنی معاملات میں بہترین روش درمیانی روش ہے۔ دین میں اعتدال کی بہت اہمیت ہے، مگر اعتدال کی اہمیت با اعتبار ابدی اصول نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت عملی حکمت (practical wisdom)کی بنا پر ہے۔ دوسرے الفاظ میںاعتدال کا مسئلہ عقیدہ کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ عملی ضرورت کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلہ میں دو باتیں بے حد اہم ہیں۔
ایک یہ کہ اعتدال کا تعلق عقائد سے نہیں ہے بلکہ معاملات سے ہے۔ اعتدال اصولی معاملات میں نہیں ہوتا بلکہ اعتدال عملی معاملات میں ہوتا ہے۔ جہاںتک اصول یا عقیدہ کا معاملہ ہے اس میںہمیشہ معیار (ideal) مطلوب ہوتاہے۔ اور معیار کے معاملہ میں سچائی صرف ایک ہوتی ہے۔ اس میں کوئی متوسط راستہ یا غیر متوسط راستہ نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اعتدال کی اہمیت عملی ضرورت کی بنا پر ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان کو فکر کی آزادی حاصل ہے۔ اس بنا پر انسانوں کے درمیان عملی اختلافات پیدا ہوتےہیں۔ ان اختلافات کو ختم کرنا اور سارے انسانوں کوایک طریقہ کا پابند بنانا ممکن نہیںہوتا۔ اس بنا پر یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس طرح کے معاملہ میںاعتدال وتوازن (balance) کا طریقہ اختیارکرو کہ لوگوں کے درمیان ٹکراؤ نہ ہو اور زندگی کا نظام پرامن انداز میں چلتا رہے۔
عقیدہ کا معاملہ ہمیشہ ایک ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ عقیدہ کے معاملے میں آدمی اپنے ذاتی فیصلہ کے مطابق ایک اصول کو اختیار کرسکتا ہے۔ لیکن عملی معاملہ ایک اجتماعی معاملہ ہوتا ہے۔ عملی معاملہ ہمیشہ کئی افراد سے متعلق ہوجاتا ہے۔ اس لیے زندگی گزارنے کے لیےکامیاب فارمولا یہ ہے کہ آدمی اپنے عقیدہ کے معاملہ آئڈیلسٹ (idealist)بنے، اور اجتماعی زندگی میں لوگوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے پریگمیٹک (pragmatic) بن جائے۔ اس طرح زندگی کا دونوں پہلو پرامن طور پر چلتا رہے گا۔انفرادی زندگی معیار پسندی کے اصول پر، اور اجتماعی زندگی لوگوں کے رعایت کے اصول پر۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 245

1۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ سی پی ایس مشن کے تحت تامل اور ملیالم زبان میں قرآن کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔ اور حال ہی میں صدر اسلامی مرکز نے ان دونوں تراجم قرآن کا اجراء کیا ہے۔ یہ دونوں ترجمے بالترتیب تامل ناڈو اور کیرالہ ٹیم نے تیار کیے ہیں۔ ان کو بالترتیب ان سینٹروں، تامل ناڈو(09790853944)، کیرالا (08129538666)کے علاوہ گڈورڈ بکس دہلی سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
2۔ خواتین دعاۃ: الرسالہ مشن کی توسیع اور ترقی میں بہت بڑا ہاتھ خواتین کا ہے۔ حال کے دنوں میں خواتین نے جو دعوتی کام کیا۔ ان میں سے چند کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے:
—18 — جون 2016 کو دہلی سی پی ایس ٹیم کی مز نغمہ صدیقی اور مسٹرفراز خان نے’ریلیجس کواگسسٹینس اینڈ رسپکٹ فار ڈائورسٹی‘ (Religious Coexistence and Respect for Diversity)کے عنوان پر ایک بین مذاہب کانفرنس میں شرکت کی۔ اس پروگرام کا انعقاد لوٹس ٹمپل (نئی دہلی) میں کیا گیا تھا۔ جن اہم شخصیات نے اس پروگرام میں شرکت کی، ان میں سے کچھ یہ ہیں پدم شری ڈاکٹر جے ایس راجپوت( سابق ڈائرکٹر این سی ای آر ٹی )، ڈاکٹر مارکنڈے رائے (اقوام متحدہ)، پروفیسر ہیما راگھون، پروفیسر طاہر محمود سابق چیئر مین نیشنل مائنارٹی کمیشن، وغیرہ ۔ سی پی ایس ٹیم کی جانب سے آخر میں انگریزی ترجمہ قرآن، ایج آف پیس، قرآنک وزڈم شرکاء کے درمیان تقسیم کیے گیے۔
— سی پی ایس پاکستان کی ممبر مس شبینہ ادیب تذکیر القرآن پر مبنی ہفتہ واری قرآن کلاس چلارہی ہیں۔ اب تک انھوں نے قرآن کی ساتویں سورہ ترجمہ کے ساتھ مکمل کرلیا ہے۔ حال میں ہوئے کلاس میں انھوں نے تذکیر القرآن سے خاص پوائنٹ بتائے۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ دلیل خدا کی نمائندہ ہے۔ دلیل کے آگے نہ جھکنا تکبر ہے اور تکبر خدا کے نزدیک سب سے بڑا شرک ہے، وغیرہ۔
—مس سیما جلال یو اے ای ، بطور خاص دبئی میں سرگرمی سے دعوتی کام کررہی ہیں۔ ان کی نگرانی میں وہاں کے ہوٹلوں اور سیاحتی مراکز میں صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن بڑے پیمانے پر سیاحوں کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن دبئی اوقاف سےمنظور شدہ (approved)ہے۔
— 19 جولائی 2016 کو آل انڈیا ماڑواری مہیلا سمیتی کی جانب سے ویزن 2016 کے نام سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کے افتتاحی پروگرام میں کولکاتا سی پی ایس ٹیم کی مس شبینہ علی نے شرکت کی اور تمام حاضرین کو انگریزی ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر دیا۔ جن لوگوں کو یہ اسپریچول گفٹ دیا، ان میں قابل ذکر نام یہ ہیں۔ انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سورو گانگولی کی اہلیہ مس ڈونا گانگولی ، مسٹر بشمبھر نیوار (ڈائرکٹر تازہ ٹی وی)، اور مس آشا مہیشوری، آنریری سکریٹری مہیلا سمیتی، وغیرہ۔ ان تمام لوگوں نے اس مشن کو سراہا اور بہت ہی خوشی کے ساتھ دعوتی تحفہ قبول کیا۔
— خواجہ کلیم الدین صاحب (امریکا) کی اطلاع کے مطابق، اریلا اسٹراس ،ٹیکساس میں رہائش پذیر ایک خاتون ہیں۔ وہ اپنے علاقے میں قرآن تقسیم کرتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں:
Here we are setting up our table for guests to look at the Quran during Ramadan. We open up our home for our neighbors to come over and get a copy of the Quran to learn about Islam. Due to my being home bound for health reasons this is my contribution to help others learn. (Ariella S, Texas, USA)
— 30 جولائی 2016 کو مسلمانوں کے ایک قدیم ادارہ انجمن حمایت اسلام چنئی کی 125 سالہ تقریبات کی مناسبت سے ایک اجلاس بعنوان ’مشترکہ سماج میں مسلمان کا کردار‘ منعقد کیا گیا۔ اس پروگرام میں ڈاکٹر فریدہ خانم چیر پرسن سی پی ایس انٹرنیشل اور ڈاکٹر نجمہ صدیقی، سینیر ممبر سی پی ایس دہلی نے شرکت کی۔ ڈاکٹر فریدہ خانم نے انگلش میں بعنوان ’رول آف مسلمس اِن اے ڈائیورس سوسائٹی‘ایک تقریر کی۔ اور ڈاکٹرنجمہ صدیقی نے ’دی روڈ میپ فار ایکسیلنس اِن ایجوکیشن ٹوڈے‘ کے عنوان سے اپنا خطاب کیا۔ دوسرے مقررین میں مولانا محمود مدنی صاحب (جنرل سکریٹری ، جمعیة علمائے ہند) اور پروفیسر خواجہ شاہد، نئی دہلی بھی تھے۔ سی پی ایس تامل ناڈو کی ٹیم نے اس پروگرام میں اپنا ایک اسٹال لگایا، جس کے ذریعہ آنے والے لوگوں کے درمیان دعوتی لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ اس کے علاوہ ان دونوں نے سی پی ایس تامل ناڈو کے تحت مختلف پروگراموں میں حصہ لیا۔
— 2جولائی 2016کو ہوٹل دی رائل پلازا، نئی دہلی میں ترکی کی این جی او، انڈیا لاگ فاؤنڈیشن نے سرودھرم سمواد کے اشتراک سے ایک انٹرفیتھ افطار پارٹی کا انعقاد کیا ۔ اس پروگرام میں صدر اسلامی مرکز کا پیغام لوگوں کو پڑھ کر سنایا گیا۔ سی پی ایس ممبر ماریہ خان نے ’’تشدد کے خاتمہ میں مذہب کے رول‘‘کےعنوان پر ایک خطاب کیا۔ آخر میں شرکاء کے درمیان دعوہ لٹریچر تقسیم کیا گیا۔
— 6 جولائی 2016 کو تبت ہاؤس میں دلائی لاما کی 81ویں یوم ولادت کے موقع پر ایک بین مذاہب دعائیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس موقع پر سی پی ایس ممبر ماریہ خان بھی شریک ہوئیں اور اس میں انھوں نے شرکاء سے خطاب کیا۔ اس خطاب کو شرکاء نے کافی پسند کیا۔ آخر میں لوگوں کے درمیان دعوہ لٹریچر تقسیم کیا گیا جسے شرکاء نے نہایت خوشی سے قبول کیا۔
3۔ دبئی میں مصر کے ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ وہ سی پی ایس دبئی سے قرآن لے جاتے ہیں اور اپنے کسٹمر میں اس کو تقسیم کرتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں وہ بہت زیادہ سرگرم ہوگئے اور عام دنوں سے زیادہ قرآن رمضان میں تقسیم کیا۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ گفتگو کے دوران اپنے کسٹمر کو اسلام کا تعارف کراتے ہیں اور پھر ان کو قرآن پیش کرتے ہیں۔
4۔ دبئی میں واقع فائیو اسٹار ہوٹل جُمَیرا نے صدر اسلامی مرکز کے انگلش ترجمہ قرآن کی 130 کاپیاں حاصل کیں تاکہ وہ انھیں اپنے ہوٹل کے کمروں میں آنے والے کسٹمرس کے لیے رکھ سکیں۔
5۔ گیا سے ملنے والی خبر کے مطابق، گیامیں جناب عظیم الدین ضیفی اور مختار احمد اور مجاہد حسین وغیرہ برادران وطن اور آنے والے سیاحوں کے درمیان دعوتی کام کررہے ہیں۔ یہ مختلف مقامات پر جاکر ان کو ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیتے ہیں۔ جسے تمام لوگ خوشی سے قبول کرتے ہیں۔
6۔ چنئی کے لوئلا کالج میں انٹرنیشنل برادر ہڈ پر ایک پروگرام کیا گیا۔ یہ پروگرام 3جون 2016کو ہوا تھا۔اس میں چنئی ٹیم کی طرف سے مولانا اقبال احمد عمری اور مولانا اسرارالحسن عمری نے شرکت کی اور شرکاء پروگرام کے درمیان انگریزی ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر تقسیم کیا۔
7۔ پاکستان میں الرسالہ مشن کا کام اب منظم انداز میں ہونے لگا ہے۔ اسی کے تحت25 جون 2016 کو صدر اسلامی مرکز نے پاکستان میں موجود سی پی ایس کے ممبران سے آن لائن خطاب کیا۔ اس خطاب کا عنوان تھا ’پرسنالٹی ڈیولپمنٹ‘۔ پاکستان میں موجود الرسالہ مشن سے وابستہ افراد نے اس خطاب کو سنا اور پسند کیا۔
8۔ 26 جون 2016 کو روزنامہ دینک جاگرن (ہندی) اور روزنامہ انقلاب (اردو) کے اشتراک سے پیس ہال (سی پی ایس، سہارن پور) میں ایک افطار پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں کیبنٹ منسٹر (یوپی حکومت) جناب سنجے گرگ، سابق وزراء، ایڈیشنل کمشنر، اے ڈی ایم ای، اے ڈی ایم ایف، شہر قاضی مسٹر ندیم، مولانا شاہد مظاہری صاحب (مظاہر العلوم) اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ سماجی لیڈران نے بھی شرکت کی۔مغرب کی نماز کے بعد الرسالہ کا انگریزی ایڈیشن ’اسپرٹ آف اسلام‘ ، ریلٹی آف لائف، آخری سفر اور پیغمبراسلام صلى اللہ علیہ وسلم کی سیرت (ہندی) شرکاء کے درمیان اسپریچول گفٹ کے طور پر تقسیم کی گئیں۔
9۔ یکم جولائی تا 10 جولائی 2016 کو مرکزی حکومت کے شعبہ نیویلی لیجینیٹ کارپوریشن لمیٹیڈ (the Neyveli lignite corporation Ltd)کے تحت انیسویں کتاب میلے کا انعقاد ہوا۔ اس میں گڈورڈبکس چنئی (Chennai Goodword Books) نے شرکت کی۔ گڈورڈ کے اسٹال پر کافی تعداد میں لوگ آئے اور دوسری کتابوں کے علاوہ بڑی تعداد میں دعوتی لٹریچر حاصل کیا۔
10۔ 11 جولائی 2016 کو گاندھی گلوبل فیملی (نئی دہلی) نے صدر اسلامی مرکز کو مہاتما گاندھی سیوا میڈل سے نوازا۔ یہ میڈل صدر اسلامی مرکز کو ان کی قیام گاہ (نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) میں عالمی سطح پر امن کے فروغ میں ان کی کوششوں کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔ یہ اعزاز دنیا کے کئی رہنماؤں بشمول دلائی لاما کو بھی دیا جا چکا ہے۔ آخر میں وفد کے تمام لوگوں کو انگریزی ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر دیا گیا۔
11۔ 15، 18اور 21 جولائی کو چنئی میں ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔ یہ پروگرام مدراس یونیورسٹی میں تھا۔ چنئی سی پی ایس ٹیم کے ممبران نے جناب اقبال عمری کی سربراہی میں اس میں شرکت کی اور صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن اوردیگر دعوتی لٹریچر اہم شخصیات کے درمیان تقسیم کئے۔جن لوگوں نے شرکت کی ان میں چند قابل ذکر نام یہ ہیں — سری متھ کماراسوامی تھمبیرن سوامی جی (دھام پور مٹھ)، مسٹر جونیچی فوکاؤریسرچر/ ایوائزر کلچراینڈ انفارمیشن افیئرس، کنسولیٹ جنرل آف جاپان اِن چنئی، مِس پورن پیمول سگندھا ونیجا، ساؤتھ کورین کاؤنسلیٹ اِن چنئی، مسٹرفلورنٹ چالس پریرا (کلیگنر ٹی وی) ، وغیرہ۔ سبھی حضرات نے بہت ہی خوشی اور شکریہ کے ساتھ قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر کو قبول کیا۔
12۔ دعوت بذریعہ تالیف قلب : جولائی 2016کے مہینے میں سی پی ایس سہارن پور کے ڈاکٹر محمد اسلم خان نے کانوڑیوں کے لیے فری علاج کیمپ کا انعقاد کیا تھا۔ اس کے تحت انھوں نےجہاں ایک طرف جسمانی علاج کیا، وہیں روحانی علاج کے لیے ان کے درمیان ترجمہ قرآن، اسپرٹ آف اسلام اور ستیہ کی کھوج وغیرہ دعوتی لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ اس کام میں ان کے ساتھ ضلع امن و تحفظ کمیٹی کے صدر ڈاکٹر وائی ایل دھیر، کانوڑی سَنگھ کے ممبر جناب جے ویر رانا، وغیرہ موجود تھے۔
13۔ جیون سنجیونی انسٹی ٹیوٹ سانگلی مہاراشٹر، ایک NGO ہے جو بچوں کی شخصیت کے ارتقاءکے لیے مختلف اسکولوں میں سیمینار کا انعقاد کرتی ہے ۔ اس سلسلے میں اس NGO کے پروجیکٹ آفیسر اعجاز شیخ صاحب اور مراٹھی دور درشن کے نیوز ریڈر، جیش دیشمکھ صاحب نے30 جولائی 2016 کو ایم ایم ربانی جونیئر کالج کامٹی کا دورہ کیا ۔ اس دورہ کا مقصد بچوں میں مثبت سوچ پیدا کرنا تھا ۔ اس موقع پر کالج کے جونیر ٹیچراور ناگپور و کامٹی الرسالہ ٹیم کے ممبر، ساجد احمد خان صاحب نے مراٹھی قرآن اور The Age of Peace ان دونوں صاحبان کو یہ کہہ کر پیش کیا کہ’’مثبت سوچ پیدا کرنے کے لئے مولانا وحید الدین خان صاحب، دہلی کا لٹریچر آپ کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوگا ۔‘‘ ان دونوں صاحبان نے اسے انتہائی خوشی سے قبول کیا ۔ جیش دیشمکھ صاحب نے کہا کہ ’’آج آپ نے ایسی کتابیں دی ہیں جس سے بہتر تحفہ کسی نے نہیں دیا ۔ یہ خدا کی مرضی تھی کہ ہم یہاں آئیں اور اس کے پیغام کو حاصل کریں۔ ‘‘
14۔ سی پی ایس سہارنپور کے جناب اسلم خاں کو سہارنپور ضلع انتظامیہ نے اعزاز سے نوازا۔ یہ اعزاز ان کو ضلع میں امن سکون قائم رکھنے میں تعاون کے اعتراف میں دیاگیا۔ اس موقع پر امن اور قومی بھائی چارے کے قیام میں سی پی ایس کی کاوشوں کا اعتراف کیاگیا۔
واپس اوپر جائیں

Friday, 2 September 2016

Al Risala | September 2016 (الرسالہ،ستمبر)

4

-عید الاضحی

5

- ایمان کی درستگی

6

- اہل جنت کی صفت

7

- اللہ کی رحمت

8

- اتباع رسول

9

- پوشیدہ جنت

10

- خدا کا عقیدہ

11

- ذہنی ارتقاء

12

- دورِ آخر کی اصلاح

13

- دین کا تسلسل

14

- حکمت کا سرا

15

- اسلام کی معرفت

16

- انسان کی تلاش

19

- ترجمۂ قرآن کی اشاعت

20

- دعویٰ کی زبان

21

- خیر کا قانون

22

- سکنڈ چانس

23

- دعوت کا معیار

24

- پر امن دعوت

25

- اسلام کا عالمی پیغام

26

- بے آمیز دعوت کی ذمہ داری

28

- حالات کی زبان

29

- خدائی منصوبہ

30

- اختلاف ایک رحمت

31

- پرسکون زندگی کا راز

32

- سنی ہوئی بات کی تحقیق

33

- سازش کا نظریہ

44

- سازش بے اثر

35

- باہمی تعاون کا نظام

36

- عورت اور مرد کا فرق

37

- مثبت سوچ کی ضرورت

38

- مادر وطن

39

- موت کا شعوری ادراک نہیں

40

- کائناتی نشانیاں

41

- فیصلہ تک پہنچنا

42

- نئی منصوبہ بندی

43

- مبنی بر معرفت کلام

44

- انتظار کیجیے

45

- حکمت

46

- ہر صورتِ حال بہتر

47

- ٹکنالوجی کا کمال

48

- سوال و جواب


عید الاضحی

عید الاضحی حضرت اسماعیل بن ابراہیم کی قربانی کی یادگار ہے۔ اس قربانی کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِینُ ۔ وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ۔ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْآخِرِینَ (37:106-108)۔یعنی یقیناً یہ ایک کھلی ہوئی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی کے عوض اس کو چھڑا لیا۔ اور ہم نے اس پر پچھلوں میں ایک گروہ کو چھوڑا۔
قرآن کی اس آیت میں چھڑانے سے مراد وہی واقعہ ہے جو عملا پیش آیا۔ یعنی حضرت اسماعیل کو جسمانی ذبح کے بجائے، اس بات کے لیے قبول کرلیا گیا کہ وہ توحید کے مشن میں ڈیزرٹ تھراپی (desert therapy)کے کورس سے اپنے آپ کو گزاریں، اور اس کے بعد ایک نئی نسل تیار کریں۔ یہ منصوبۂ الٰہی بلاشبہ ایک عظیم امتحان کا معاملہ تھا۔ ہر سال جو عید الاضحی منائی جاتی ہے ، وہ اس لیے ہے کہ بعد کے اہل ایمان اس دن یہ عہد کریں کہ وہ آئندہ اس قربانی کو جاری رکھیں گے۔ تاکہ توحید کا مشن ابراہیمی پیٹرن پر قیامت تک جاری رہے۔
بعد کے زمانے میں اس پیٹرن کو دہرانے کا معاملہ باعتبار صورت نہیں ہوگا، بلکہ باعتبارِ حقیقت ہوگا۔ مثلا موجودہ زمانے میں تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد خاندانی تعمیر میں کام آئے۔ لیکن حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیم کا نمونہ بتاتا ہے کہ ہر خاندان اپنے نوجوانوں کو اس مقصد کے لیے تیار کرے کہ وہ توحید کا مشن اپنے زمانے کے حالات میں ہمیشہ جاری رکھیں۔ یہ منصوبہ ہر حال میں جاری رکھنا ہے، خواہ اس کے لیے جو بھی قربانی ادا کرنا پڑے۔ عید الاضحی کا دن تیوہار کا دن نہیں ہے، بلکہ وہ مذکورہ معنوں میں عہد کا ایک دن ہے۔
قربانی کی حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ تم دو، تاکہ جو کچھ تمھارے باہر ہےوہ تم کو مل سکے۔ قربانی اس بات کا سبق ہے کہ اگر تم کچھ پانا چاہتے ہو تو کھونے کا حوصلہ پیدا کرو۔
واپس اوپر جائیں

ایمان کی درستگی

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن أنس بن مالک قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم :لایستقیم إیمان عبد حتى یستقیم قلبہ (مسند احمد، حدیث نمبر13048)۔ انس بن مالک سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس کا قلب درست نہ ہو۔
اس حدیث میں قلب سے مراد دل (heart) نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد عقل (reason) ہے۔کسی آدمی کو ایمان اس وقت حاصل ہوجاتا ہے، جب کہ وہ کلمۂ توحید کا اقرار کرے۔ مگر ایمان کی درستگی ، بالفاظ دیگر ایمان کی تکمیل صرف اس وقت ہوسکتی ہے، جب کہ آدمی اپنے ایمان کو اس طرح ترقی دے کہ وہ اس کی عقل کو پوری طرح مطمئن کرنے والا ایمان بن جائے۔ایمان صرف کلمہ کی ادائیگی والا ایمان نہ رہے، بلکہ وہ اس کے تفکیری عمل (thinking process) میں پوری طرح شامل ہوجائے۔
ایمان جب فکری عمل کا حصہ بن جائے تو وہ انسان کی پوری شخصیت کی تعمیر کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایسے آدمی کا زاویۂ نظر (angle of vision) بدل جاتا ہے۔ اس کی سوچ ، خدا رخی سوچ (God-oriented thinking)بن جاتی ہے۔ دینی اصطلاح میں اس معاملے کو تزکیہ کہا جاتا ہے۔ تزکیہ دراصل ذہنی ارتقا کا دوسرا نام ہے۔
انسان کی شخصیت اس کی سوچ کے تابع ہوتی ہے۔ سوچ کا تعلق آدمی کی پوری زندگی سے ہوتا ہے۔ جب ایمان سوچ پر مبنی ایمان بن جائے تو آدمی اسی سوچ کے مطابق ہر چیز کا تجزیہ کرتا ہے۔ وہ اسی کے مطابق، کسی چیز کو رد اور کسی چیز کو قبول کرتا ہے۔ وہ اسی کے مطابق اپنی زندگی کا سفر طے کرتا ہے۔ اس کے صبح و شام اسی کے مطابق گزرنے لگتے ہیں۔ اس کی پوری زندگی اسی کے تابع بن جاتی ہے۔ آپ اپنی سوچ کو درست کیجیے، اور آپ کی پوری زندگی درست ہوجائے گی۔
واپس اوپر جائیں

اہل جنت کی صفت

پیغمبر اسلام کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:عن أبی ہریرة، عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم، قال:یدخل الجنة أقوام، أفئدتہم مثل أفئدة الطیر(صحیح مسلم، حدیث نمبر2840) یعنی جنت میں ایسے لوگ داخل ہوں گے، جن کے دل چڑیوں کے دل کے مانند ہوں گے۔
چڑیا کی مثال یہاں بہت بامعنی ہے۔ اس کی تشریح قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے جس میں اہل جنت کے بارے میں بتایا گیا ہے :وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِہِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِینَ (15:47)۔یعنی اور ان کے سینوں کی کدورتیں ہم نکال دیں گے، سب بھائی بھائی کی طرح رہیں گے، تختوں پر آمنے سامنے۔
چڑیا اللہ کی انوکھی مخلوق ہے۔چڑیا ایک ایسی مخلوق ہے جس کا دل مکمل طور پر حسد اور بغض سے خالی ہوتا ہے۔ چڑیا کا دل منفی جذبات سے پاک ہوتا ہے۔ چڑیا نفرت اور حسد جیسے جذبات سے نا آشنا ہوتی ہے۔ چڑیا کا دل ردعمل (reaction) کی نفسیات سےناآشنا ہوتا ہے۔اس اعتبار سے چڑیا اہل جنت کی مثال بن گئی ہے۔ اہل جنت اپنے ذہنی اور روحانی ارتقا کی بنا پر ایسے انسان ہوں گے جو ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہوں۔ ان کی نظر میں ہر جنتی انسان ان کے حقیقی بھائی کی مانند ہوگا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں داخلے کی شرط کیا ہے۔ جنت ایک ایسی معیاری سوسائٹی ہوگی۔ جہاں صرف وہ لوگ داخلہ پائیں گے، جنھوں نے دنیا کی زندگی میں یہ ثبوت دیا تھا کہ وہ جنتی معاشرہ کی اعلی شرطوں پر پورا اتررہے ہیں۔ وہ اپنی سوچ اور اپنے عمل کے اعتبار سے مثبت انسان ہیں۔ وہ اس اعلی سوسائٹی میں رہنے کے قابل ہیں جو تاریخ کے ان منتخب افراد کی سوسائٹی ہوگی جن کو نبی، اور صادق، اورصالح اور، حق کی گواہی دینے والے (النساء69 :)کہا گیا ہے۔جنت کسی مرد یا عورت کو ذاتی صفت کی بنا پر ملے گی، نہ کہ کسی اور کی سفارش کی بنا پر۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی رحمت

قرآن میں اللہ کی صفت کو بتاتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:کَتَبَ عَلَى نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ (6:12) یعنی اللہ نے اپنے اوپر رحمت کو لکھ دیاہے۔ یعنی اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ جو بھی معاملہ کرے گا وہ اعلی رحمت کے مطابق ہوگا۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ کبھی اور کسی معاملہ میں رحمت کے خلاف معاملہ نہیں کرے گا۔اس رحمت کو خود اختیار کردہ اخلاقیات (self-imposed ethics) کہاجاسکتا ہے۔ اس خود اختیار کردہ اخلاقیات کو قرآن میں امانت (الاحزاب: 72) کہاگیا ہے۔ یعنی اللہ نےانسان کو پیداکرکے اس دنیامیں رکھااور اس کو کامل آزادی دے دی۔ یہ کامل آزادی ایک انتہائی انوکھا اختیار ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ کامل آزادی کے باوجود اپنی آزادی کو ڈسپلن (discipline) کے اندر استعمال کرے۔قرآن میں اس کی ایک حکمت اس طرح بیان کی گئی ہے: اگر تم صبرکرو اور تقوی اختیار کرو تو ان کی سازش تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی(آل عمران120 :)۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اگر تمھارے اندر صبر اور تقوی ہوتو تمہارے خلاف لوگوں کی سازش کا خاتمہ ہوجائے گا۔ بلکہ صرف یہ فرمایا کہ اگر تمھارے اندر صبر اور تقوی ہو تو لوگوں کی سازش تمھارے لئے ضرر رساں (harmful) نہیں بنے گی، وہ تمھارے لئے غیر موثر ہوجائے گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ فطرت کے قانون کےمطابق سازش کا وجود کبھی ختم نہ ہوگا ۔البتہ دانشمندانہ روش کے ذریعہ دوسروں کی سازش کو اپنے لئے بے اثر بنایا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر آپ کو یہ شکایت ہے کہ پولیس آپ کے خلاف ہے اور وہ آپ پر گولی چلاتی ہے تو اس معاملہ کا مطالعہ کیجئے۔ گہرے مطالعہ کے ذریعہ آپ دریافت کریں گے کہ پولیس کبھی ایسا نہیں کرتی کہ وہ خود سے آپ کے اوپر گولی چلائے۔ ہمیشہ ایسا ہوگا کہ آپ بے صبر ہو کر پولیس کو پتھر ماریں گے اس کے بعد پولیس جوابی کارروائی کے طورپر آپ کے اوپر گولی چلائے گی۔ اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ آپ بے صبر ہو کر پولیس کو پتھر نہ ماریں۔اس کے بعد یقیناًپولیس آپ پر گولی بھی نہیں چلائے گی۔
واپس اوپر جائیں

اتباع رسول

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:فوالذی نفسی بیدہ، لا یؤمن أحدکم حتى أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ وزاد فی روایۃ:والناس أجمعین(صحیح البخاری، حدیث نمبر14-15) یعنی اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتایہاں تک کہ میں اس کے لیے سب سے زیادہ محبوب بن جاؤں،اس کے والد سے اور اس کی اولاد سے۔ ایک اور روایت میں اضافہ ہے:اور تمام انسانوں سے ۔
اس حدیث میں محبت رسول سے مراد کیا ہے۔ اس کی وضاحت قرآن کی ایک آیت سے ہوتی ہے۔ وہ آیت یہ ہے:قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ (3:31)۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت رسول سے مراد اتباع رسول ہے۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں محبتِ رسول کا لفظ رسول کے مشن کے معنی میں آیا ہے۔ یعنی توحید کا مشن جو پیغمبر کی رہنمائی میں چل رہا تھا، اس سے اہل ایمان کو جذباتی تعلق (emotional attachment)ہونا چاہیے، ورنہ وہ آخری وقت تک اس پر قائم نہیں رہ سکتا۔
پیغمبرِ اسلام نے یہ بات مدینہ میں اس وقت فرمائی تھی، جب کہ بیرونی حملہ کی بنا پرجنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کچھ لوگ ، اپنے والدین، اپنے اولاد، اپنے رشتے داروں، اور اپنے خاندان، اورمال، اور تجارت،جائدادسےمحبت کی بنا پر یہ چاہنے لگے تھے کہ ان کو جنگ میں شرکت نہ کرنا پڑے۔ان حالات میں سورہ التوبہ کی آیت نمبر 24 نازل ہوئی۔ اور پیغمبراسلام نے وہ بات فرمائی جو مذکورہ حدیث میں موجود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مومن کے اندر ذاتی محبت اللہ سے ہونی چاہیے(البقرۃ165 :)۔ رسول سے اہل ایمان کی محبت مقصدی محبت ہوتی ہے، نہ کہ ذاتی محبت۔ یہ حقیقت ایک حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے:أحبوا اللہ لما یغذوکم من نعمہ وأحبونی بحب اللہ(سنن الترمذی، حدیث نمبر3789 :)۔
واپس اوپر جائیں

پوشیدہ جنت

قرآن میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ دنیا میں جو لوگ ایمان والی زندگی گزاریں، ان کے لیے آخرت کی زندگی میں جنت کا انعام ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ۔(32:17) تو کسی کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں کے لیے ان کے اعمال کے صلہ میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔
قرآن کی اس آیت میںاُخفی لہم کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ اس کا لفظی مطلب ہےان کے لیے چھپا کر رکھنا (kept hidden for them)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت مستقبل میں بنائی جانے والی دنیا نہیں ہے، بلکہ آج ہی بنائی ہوئی موجود ہے۔ جس طرح ہماری زمین (planet earth) ایک بالفعل موجود دنیا ہے، اسی طرح جنت ایک ایسی دنیا ہے جو بالفعل موجود ہے۔
سیارۂ ارض کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ شمسی نظام (solar system) کا ایک سیارہ ہے، جو ہمارے لیے بذریعہ دوربین (telescope) قابلِ مشاہدہ ہے۔ لیکن جنت اس طرح ہمارے لیے قابل مشاہدہ نہیں۔ کسی بھی دوربین کے ذریعہ ہم جنت کو دیکھ نہیں سکتے۔ البتہ سائنسی دریافت نے ہمارے لیے ایک قیاس کا موقع فراہم کیا ہے۔ سائنسی دریافت یہ کہتی ہے کہ اسپیس کا بڑا حصہ ڈارک میٹر (dark matter) کی صورت میں ہے۔ یعنی وہ اسپیس میں موجود ہے، لیکن ہم اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔ اب جنت پر یقین کرنے کے لیے یہ قیاس قائم کیا جاسکتا ہے کہ جنت کی دنیا غالباً ڈارک میٹر کے درمیان اسپیس میں کسی مقام پر چھپی ہوئی موجود ہو۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز جوڑے کی شکل میں پیدا کی گئی ہے۔ اس میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہماری زمین کا بھی ایک جوڑا (pair) ہے۔ اسی سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ دوسری دنیا موجودہ زمین کی تکمیل ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی بھی انسان کی آرزوئیں پوری نہیں ہوتیں۔ یہاں کسی بھی انسان کو اس کی خواہش کے اعتبار سے فُل فِل منٹ (fulfilment) نہیں ملتا۔ یہ صورتِ حال اس بات کا قرینہ ہے کہ یہی دوسری دنیا شاید وہ دنیا ہے جس کو ابدی جنت کا نام دیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا عقیدہ

ایک تحقیقاتی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ ہم پیدائشی طور پر خدا میں عقیدہ رکھنے والی مخلوق ہیں۔ (we are born believers) انسان کی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک برتر ہستی کا تصور اس کے اندر فطری طور پر موجودہے۔ یہ تصور اتنا قوی ہے کہ کوئی بھی تربیت اس کو ختم نہیں کرسکتی۔ اس حقیقت کو نفسیات کے ایک عالم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
Belief in God is hardwired in our brain
یہ تحقیق ٹائمس آن لائن میں چھپی ہے، جس کو نئی دہلی کے اخبار ٹائمس آف انڈیا، نے اپنے شمارہ 8 ستمبر 2009 نے نقل کیا ہے۔مگر ماہرین کی رپورٹ میں غلط طور پر انسان کی اس خصوصیت کو نظریہ ارتقا سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ انسان کے ذہن کی یہ پروگرامنگ بذریعہ ارتقا ہوئی ہے، تاکہ اپنے اس عقیدہ کی بنا پر انسان جہد للبقا ءکے عمل میں زیادہ بہتر مواقع پاسکے:
Human beings are programmed by evolution to believe in God, because it gives them a better chance of survival.
یہ سرتاسر ایک غیر منطقی بات ہے۔ تحقیق سے جو بات ثابت ہوئی ہے وہ یہ کہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر فوق الطبیعی عقیدہ (supernatural belief)موجود ہوتا ہے۔ کوئی مرد یا عورت اس سے خالی نہیں۔ مگر یہ بات سر تاسر غیر ثابت شدہ ہے کہ یہ عقیدہ کسی مفروضہ ارتقا (evolution) کے ذریعے انسان کے اندر خود بخود پیدا ہوا ہے۔
موجودہ زمانے میں مختلف شعبوں میں علمی تحقیقات کی گئی ہیں۔ ہر شعبے کے تحقیقاتی نتائج اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ انسان پیدائشی طور پر ایک بر تر ہستی کا عقیدہ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ذہن ہر انسان کو کسی نہ کسی پہلو سے مذہبی بنا دیتا ہے۔ حتی کہ جو لوگ بظاہر ملحد (atheist) سمجھے جاتے ہیں، ان کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں بھی یہ تصور موجود ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی ارتقاء

قرآن کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو توبہ کہا گیا ہے۔ حدیث کے الفاظ میں توبہ کی اصل حقیقت ندامت (repentance) ہے(مسند احمد، حدیث نمبر3568:)۔ توبہ کرنے والے کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فَأُولَئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ (25:70)۔ یعنی اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا۔
اس کے مطابق ، توبہ ایک ایسی چیز ہے جس سے سیٔہ (برائی) حسنہ (نیکی) میں بدل جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو سچے ایمان والے ہوں ،وہ جب غلطی کرتے ہیں تو اس کے بعد ان کے اندر شدید ندامت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ندامت ان کے لیے ایک ذہنی صدمہ (intellectual shock) بن جاتی ہے۔ ان کے ذہن میں ایک شدید ہل چل پیدا ہوتی ہے۔ اس ذہنی ہل چل کے ذریعے ان کے اندر ایک تخلیقیت (creativity) جاگتی ہے۔ ان کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری ہوجاتا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق ، اس عمل (process) کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے— غلطی، اس کے بعد ندامت، اور پھر نتیجۃً ذہنی ارتقا:
Mistake + repentance = intellectual development
اجتماعی زندگی میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کی بات دوسرے شخص کے اندر غصہ پیدا کرتی ہے۔ اس وقت انسان دو امکان (options)کے درمیان رہتا ہے۔ یا وہ فرشتے کی آواز کو سنے اور اس کی پیروی کرے، یا وہ شیطان کی آواز کو سنے اور اس کے پیچھے چلنے لگے۔ فرشتے کی آواز سننے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر محاسبہ (introspection) کا عمل جاگتا ہے۔ وہ اپنے اوپر نظر ثانی کرنے لگتا ہے۔ اس طرح آدمی کے اندر خود احتسابی کا عمل جاگتا ہے، جو باعتبارِ نتیجہ ذہنی ارتقا کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کو وہ حقیقتیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں، جو اس سے پہلے اس کے لیے لامعلوم بنی ہوئی تھیں۔ اس کے مقابلے میں جو شخص رد عمل کا شکار ہوجائے، اس کا وہ حال ہوگا جو قرآن کی اس آیت میں بیان ہوا ہے (الاعراف 202 :)۔
واپس اوپر جائیں

دورِ آخر کی اصلاح

مالک ابن انس(وفات179ھ) تبع تابعی اپنے شیخ وہب ابن کیسان (وفات 127ھ) تابعی کے بارے میں بتاتے ہیں : کان وہب بن کیسان یقعد إلینا، ثم لا یقوم أبدا حتى یقول لنا إنہ لا یصلح آخر ہذہ الأمة إلا ما أصلح أولہا(مسند الموطا للجوہری، حدیث نمبر783 :)یعنی وہب ابن کیسان ہماری مجلس میں آتے ، تو اٹھنے سے پہلے ہمیشہ یہ بات کہتے، بے شک اس امت کے آخر کی بھی اسی سے اصلاح ہوگی جس نے اس کے اول کی اصلاح کی تھی۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصول ابتداء ً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بتایا، پھر صحابہ سے یہ بات تابعین کو ملی ، پھر تابعین سے یہ بات تبع تابعین تک پہنچی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اصول کی صداقت میں کوئی شک نہیں۔
اب غور کیجیے کہ امت مسلمہ کا اول کیا تھا، اور اس کا آخر کیا ۔ امت مسلمہ کا اول دور وہ تھا جب کہ اس کے اندر قرآن پڑھا اور پڑھایا جاتا تھا۔ حدیث اور سنت کا چرچا تھا۔ صحابہ اور تابعین کی مجلسیں جگہ جگہ قائم تھیں۔ یہ تھا امت کا دورِ اول۔ اس دور کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ امت کا وہ آئڈیل دور ہے جب کہ اسلام اپنی اصل حالت پر قائم تھا۔
اس کے بعد وہ دور آیا جب کہ امت کے اندر ایک اور چیزکا اضافہ ہوا۔ اور وہ بعد کو بننے والی تاریخ تھی۔ اس تاریخ میں وہ تمام اجزاء موجود تھے، جو کسی قوم کی تاریخ میں شامل ہوتے ہیں۔ اس میں سیاسی اقتدار تھا، جنگ تھی، قومی تصورات تھے، فاتح اور مفتوح (ruler and ruled)کے مساوات (equation)،ہمسایہ قوموں سے تعلقات، وغیرہ۔
اس معاملےکو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دورِ اول مبنی بر دعوت دور تھا۔ اور بعد کا دور مبنی بر سیاست دور بن گیا۔ پہلے دور میں اہل ایمان اصولی اسلام پر قائم تھے، بعد کے دور میں وہ ایک قومی مذہب پر قائم ہوگیے۔ یہی اس معاملے کا خلاصہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

دین کا تسلسل

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:یحمل ہذا العلم من کل خلف عدولہ، ینفون عنہ تحریف الغالین، وانتحال المبطلین، وتأویل الجاہلین (شرح مشکل الآثار، حدیث نمبر3884:)۔ یعنی اس علم کے حامل ہر نسل میں اس کے عادل لوگ ہوں گے، جو غلو کرنے والوں کی تحریف سے اس کو محفوظ رکھیں گے،اہل باطل کے انحراف سے اس کو پاک رکھیں گے، اور کم علم لوگوں کی غلط تاویلات سے اس کوبچائیں گے۔
اس حدیث رسول میں امت کے اہل علم کی ایک ذمہ داری بتائی گئی ہے۔ ہر دور میں امت کے اہل علم کا یہ فریضہ ہوگا کہ وہ گہرے مطالعہ کے ذریعہ غلوپسندوں (extremists)کی غلطیوں کو دریافت کریں ، اور انتہاپسندانہ تصور دین کے مقابلے میں صحیح تصور دین کو پیش کریں۔ وہ دین سے انحراف کو جانیں ، اور منحرفانہ تشریح کے بجائے درست تشریح لوگوں کو دوبارہ بتائیں۔ وہ کم علم لوگوں کی قرآن و سنت کی غلط تاویل کو بولیں، اور درست تاویل کو دوبارہ قائم کریں۔
پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و سنت پر مبنی جو دین امت کو دیا، اس کا متن تو محفوظ ہے۔ اور ہمیشہ محفوظ رہے گا، لیکن امت کی بعد کی نسلوں میں جو لوگ امت کا حصہ بنیں گے، وہ اپنے قدیم مائنڈ سیٹ (mindset) اور زمانی افکار کی بنا پر اصل دین سے انحراف میں مبتلا ہوجائیں گے۔ وہ بظاہر قرآن و سنت کا نام لیں گے۔ لیکن ان کی باتوں میں غیر اہل دین کا فکر شامل ہوجائےگا۔ اس لیے ہر دور میں ضرورت ہوگی کہ امت کے اندر ایسے صالح اہل علم پیدا ہوں جو اسلام کو دوبارہ اس کی اصل صورت میں زندہ کرتے رہیں۔یہ حدیث رسول اس عمل کو بتاتی ہے، جس کے ذریعے امت میں دین کے صحیح تصور کا تسلسل قائم رہے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت عملی اعتبار سے ہر گمراہی سے بچی رہے گی۔ یہ بات فکری اور نظریاتی اعتبار سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اسلام کا متن (text) محفوظ ہےاسی طرح اسلام کا درست تصور بھی ہمیشہ محفوظ رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

حکمت کا سرا

عبد اللہ ابن مسعود کے بارے میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:أنہ کان یقول فی خطبتہ :خیر الزاد التقوى ورأس الحکمة مخافة اللہ عز وجل (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 728:) یعنی وہ اپنے خطبے میں کہا کرتے تھے: سب سے بہتر زاد راہ تقویٰ ہے، اور حکمت کا سرا اللہ عزوجل کا خوف ہے۔
حکمت (wisdom) کا تعلق خوف خدا سے کیا ہے۔ وہ باعتبار نتیجہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ خوف خدا آدمی کو انسانِ حقیقی (man cut to size) بناتا ہے۔ جو انسان ایسا انسان بن جائے اس کے اندر فطری طور پر تواضع (modesty) پیدا ہوتی ہے۔ اور تواضع ہر قسم کی خوبیوں کا سر چشمہ ہے۔ تواضع آدمی کوپورے معنوں میں حقیقت پسند بنادیتی ہے۔اور جو آدمی حقیقت پسند ہو، وہ اس کا تحمل نہیں کر سکتا کہ غیر دانش مندانہ طریقہ اختیار کرے۔ دانائی (wisdom) اس صلاحیت کانام ہے کہ آدمی کسی معاملے میں غیر متعلق کو الگ کرکے متعلق کو دریافت کرسکے:
Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.
آدمی کے اندر اگر تواضع نہ ہو تو وہ غیر ذمہ دارانہ انداز میں فیصلہ کرے گا۔ لیکن جس آدمی کے اندر تواضع ہو ، وہ انتہائی سنجیدہ ہوجائے گا۔ وہ اس کا تحمل نہ کرسکے گا کہ متعلق اور غیر متعلق یا نتیجہ خیز اور بے نتیجہ یا قابلِ عمل اور ناقابلِ عمل کے فرق کو ملحوظ نہ رکھے۔ وہ جذباتی انداز میں سوچے، اور اندھا دھند طریقہ پر فیصلہ کرے۔ خوفِ خدا سے خالی انسان، غیر ذمہ دار انسان ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر خوفِ خدا ہو وہ انتہائی حد تک ذمہ دار انسان بن جا ئے گا۔ یہ احساسِ ذمہ داری اس کو ایک دانش مند انسان بنادے گی۔اس بنا پر اللہ سے ڈرنے والا انسان ایک دانش مند انسان ہوتا ہے۔
صاحب حکمت وہ ہے جو چیزوں کے بارے میں ایز اٹ از (as it is) انداز میں سوچ سکے، وہ کسی ملاوٹ کے بغیر چیزوں کے بارے میں بے لاگ رائے قائم کرے۔ یہی انسان حکمت والا انسان ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کی معرفت

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبی ہریرة، قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:بدأ الإسلام غریبا، وسیعود کما بدأ غریبا، فطوبى للغرباء(صحیح مسلم، حدیث نمبر232:- [145])۔یعنی اسلام جب شروع ہوا تو وہ اجنبی تھا۔ اور دوبارہ وہ اجنبی ہوجائے گا، تو مبارک باد ہے اجنبی لوگوں کے لئے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ مسلمان اپنے دورِ زوال میں پہنچ جائیں۔ اس حقیقت کو حدیث میں مختلف طریقہ سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک حدیث رسول کے الفاظ یہ : یوشک أن یأتی على الناس زمان لا یبقى من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقى من القرآن إلا رسمہ، مساجدہم عامرة وہی خراب من الہدى(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر1763:) ۔یعنی قریب ہے کہ لوگوں پر وہ زمانہ آئے جب کہ اسلام کا صرف نام باقی رہے، اورقرآن کا صرف رسم الخط باقی رہے، اس وقت ان کی مسجدیں بظاہر بھری ہوں گی، لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گی۔
کسی امت پر عروج کے بعد زوال کا آنا، قانونِ فطرت کے تحت ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ اس واقعہ میں ایک بڑی رحمت ہے - یہ لوگوں کو یہ موقع دینا ہے کہ وہ دوبارہ دورِ اول والےایمان کا تجربہ کریں۔ وہ دوبارہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) پر کھڑے ہوں۔ اس بات کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ وقت وہ ہوتا ہے جب کہ ایک طرف یہ کرنا ہے کہ لوگوں کے لیےاسلام کو ان کی دریافت (discovery) بنایا جائے، اور دوسری طرف داخلی اعتبار سے یہ کرنا ہے کہ لوگوں کے لیے اسلام کو دریافت نو (re-discovery) بنایا جائے۔اسلام کی اصل بنیاد معرفت پر ہے۔ معرفت کے بغیر اسلام ایک ظاہری ڈھانچہ بن جائے گا۔ جس کی کوئی قیمت اللہ کے نزدیک نہ ہوگی۔ معرفت سے مراد داخلی اسپرٹ(spirit) ہے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی تلاش

قرآن (سورۃ العصر)کے مطابق، تاریخ گواہ ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے۔ یعنی انسان ہمیشہ احساسِ محرومی (sense of loss) میں جیتا ہے۔ اس معاملے میں کسی انسان کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔ منکرینِ خدااس واقعے کو منفی معنی میں لیتے ہیں۔ وہ اس کوپرابلم آف ایوِل (problem of evil)کہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی قادرِ مطلق خدا ہے تو موجودہ دنیا میں اس قسم کی برائیاں (evils) کیوں۔
یہ زاویۂ نظر (angle of vision) میں فرق کا معاملہ ہے۔ یہ لوگ انسانی تاریخ کو اپنے خود ساختہ زاویۂ نظر (self-styled angle of vision) سے دیکھتے ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ اس واقعے کو خالق کے اپنے تخلیقی نقشہ (creation plan)کی روشنی میں دیکھا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی دنیا کی یہ صورتِ حال کوئی مسئلہ نہیں ، بلکہ وہ انسان کے لیے خالق کی ایک رحمت (blessing) ہے۔
اصل یہ ہے کہ خالق کے نقشے کے مطابق، موجودہ دنیا انسان کی عارضی قیام گاہ ہے۔ انسان کی اصل اور ابدی قیام گاہ آخرت ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو فل فِل مینٹ (fulfilment) نہ ملے۔ یہ گویا جبر (compulsion) میں ڈال کر انسان کے اندر یہ سوچ پیدا کرنا ہے کہ وہ موجودہ دنیا کو اپنی منزلِ مقصود نہ سمجھے بلکہ اپنی خواہش (desire) کی تکمیل کے لیے وہ ہمیشہ ایک متبادل (alternative)کی تلاش میں رہے۔ اور بطور نتیجہ اخروی جنت کو اپنا منزلِ مقصود بنائے۔
یثرب کی مثال
یہی واقعہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یثرب (مدینہ) کی طرف ہجرت کی صورت میں پیش آیا۔ پیغمبر اسلام نے اپنا مشن 610 عیسوی میں مکہ میں شروع کیا۔ مکہ میں آپ کو موافق حالات نہیں ملے۔چناں چہ تیرہ سال بعد آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ آپ کی ہجرت سے پانچ سال قبل یثرب (مدینہ) میںوہ جنگ ہوئی جس کو عرب کی تاریخ میں یومِ بُعاث کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں مدینہ کے دونوں عرب قبائل، اوس اور خزرج کے بڑے بڑے سردار مارے گیے۔
اس جنگ کے بعد اہل مدینہ میں ایک نئی سوچ پیدا ہوئی۔ وہ اپنے لیے ایک متبادل (alternative) کے متلاشی بن گیے۔ انھوں نے سنجیدگی کے ساتھ محسوس کیا کہ ہمارا قبائلی کلچر ہمارے لیے مسئلہ ہے۔ ہمیں ایک اور کلچر کی ضرورت ہے جس کے تحت ہم ایک ایسا فارمولا پالیں، جو ہم کو پرامن طور پر رہنے کے قابل بنائے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو حضرت عائشہ نے ان الفاظ میں بیان کیا : کان یوم بعاث، یوما قدمہ اللہ لرسولہ صلى اللہ علیہ وسلم(صحیح البخاری، حدیث نمبر3777:) ۔ یعنی جنگ بعاث کے بعد اہل مدینہ میں ایک نیا ذہن پیدا ہوا ۔ وہ پیغمبر اسلام کی دعوت کو اپنے لیے بہترین متبادل سمجھ کر اس کو قبول کرنے کےلیے تیارہوگیے۔ چناں چہ جب 622 ء میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق خاص ابوبکر صدیق کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوئے تو اہل مدینہ نے یہ کہہ کر استقبال کیا: اُدخلا آمنَین مطاعَین (مسند احمد ، حدیث نمبر12234)۔ یعنی آپ دونوں مدینہ میں داخل ہوں امن کے ساتھ ، ہم آپ دونوں کی اطاعت قبول کرتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ عملاً ایسا ہی ہوا۔ پر امن اسلام جس کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے تھے، وہ اہل مدینہ کے لیے واقعۃً ایک متبادل (alternative) بن گیا۔ اس کے بعد اہل مدینہ نے وہ عظیم کا م انجام دیا، جس کی بنا پر وہ انصاراللہ (اللہ کے مددگار) کہے گیے۔
پاکستان کی مثال
پاکستان 1947 میں بنا۔ اس کی منزل اس کے اپنے اعلان کے مطابق یہ تھی: پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ۔ مگر عملاً اس کا نتیجہ برعکس صورت میں نکلا۔ ساٹھ سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود لوگوں کی نظر میں پاکستان ایک ناکام ریاست (failed state) ہے۔ پاکستان کے شہری یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ خود اپنے ملک میں امن کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔
پاکستان کو بڑے بڑے لیڈر ملے— محمد اقبال، محمد علی جناح، سید ابو الاعلیٰ مودودی، شبیر احمد عثمانی، وغیرہ۔ پاکستان کے لوگوں نے اپنے ان رہنماؤں کا مکمل ساتھ دیا۔ مگر طوفانی سرگرمیوں کے باوجود نتیجہ کے اعتبار سے پاکستانیوں کو کچھ نہیں ملا۔ پاکستان بڑی بڑی امیدوں کے ساتھ بنا تھا۔ لیکن نتیجہ دیکھ کر پاکستانیوں کی اکثریت کو اپنے ملک سے مایوسی ہوئی۔ وہ اپنا ملک چھوڑ کر باہر جانے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستانی ڈائسپورا (diaspora) کی تعداد تقریبا اسی لاکھ ہے:
According to the Pakistani Government, there are around 8 million Pakistani people living abroad.
اگر پاکستان کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت پاکستان کا تمام باشعور طبقہ ایک متبادل (alternative) کی تلاش میں ہے۔ وہ ایک ایسے متبادل کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، جو ان کو امن اور ترقی کا راستہ دکھائے، جو اپنے ملک کے بارے میں ان کے خوابوں کی تکمیل بن سکے۔
اس معاملے پر اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کے سابق صدر جنرل محمد ایوب خاں (وفات 1974 :) نے اس معاملے میں پاکستانی رہنماؤ ں کو ایک نہایت درست اور حقیقت پسندانہ مشورہ دیا تھا۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودوی سے کہا تھا کہ وہ پولیٹکل ایکٹوزم (political activism) کا طریقہ چھوڑ دیں۔ وہ اس کے برعکس، ایجوکیشنل ایکٹوزم (educational activism)کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ پاکستان کو جدید معیار کا ایک تعلیم یافتہ معاشرہ بنائیں۔ یہ ایک دانش مندانہ مشورہ تھا۔ کیوں کہ کوئی بھی ترقی ہمیشہ ایک تیار معاشرہ (prepared society) میں ہوتی ہے۔ اور موجودہ زمانے میں تیار معاشرہ بنانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ قوم کو اعلی معیار کی جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ اس ابتدائی تیاری کے بغیر کوئی بھی تعمیری کام کسی ملک میں نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں اسی چیز کا فقدان ہے، اور پاکستانیوں کا ضمیر اسی مفقودچیز کی تلاش میں ہے۔
واپس اوپر جائیں

ترجمۂ قرآن کی اشاعت

قرآن ایک الہامی کتاب (revealed book) ہے۔ قرآن واحد مستند آسمانی صحیفہ ہے۔ قرآن خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کو جاننے کا واحد ذریعہ ہے۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کو پڑھنا، ہر آدمی کی لازمی ذمہ داری ہے۔ جو شخص قرآن کو پڑھے بغیر مرجائے، وہ گویابے خبری کی زندگی جیا اور بے خبری کی موت مرگیا۔
قرآن کی اہمیت کا تقاضا تھا کہ اس کی حفاظت کا کامل اہتمام کیا جائے۔ امت نے قرآن کی حفاظت کا یہ کام بلا شبہ آخری حد تک انجام دیا ہے۔ اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے، وہ اللہ کا بھیجا ہوا وہی قرآن ہےجو فرشتہ جبریل کے ذریعے لفظی طور پر اتارا گیا، اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لفظی طور پر اخذ کرکے امت کو دیا ۔
یہ قرآن کے عربی متن کی حفاظت کا معاملہ ہے۔ مگر جہاں تک قرآن کے معانی کی اشاعت کا تعلق ہے، وہ ایک ایسا کام ہے جس کو کرنا ابھی باقی ہے۔ عربی متن بلاشبہ محفوظ ہے، اور وہ پرنٹنگ پریس کے زمانے میں بے شمار تعداد میں چھپ کر ہر گھر اور ہر ادارے میں پہنچ چکا ہے۔ لیکن دنیا کی بڑی آبادی ابھی اس سے بے خبر ہے کہ قرآن میں اس کو جو پیغام دیا گیا ہے، وہ پیغام کیا ہے۔
قرآن کے مطابق، اللہ کی یہ سنت ہے کہ اس کا پیغام ہر قوم کو اس کی اپنی زبان میں پہنچے(ابراہیم4:)۔ مگر قرآن کے معاملے میں ابھی تک یہ کام مکمل صورت میں نہیں ہوا ہے۔امت کی یہ لازمی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کی ہر زندہ زبان میں قرآن کا قابلِ فہم ترجمہ تیارکرے، او ر پیس فل طریقۂ کار کے ذریعے اس کو لوگوں تک پہنچائے۔ جو لوگ اس ذمہ داری کو انجام دیں، وہ بلاشبہ اللہ کی اس نصرت کے مستحق قرار پائیں گے جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں کیا گیا ہے: وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ ۔(22:40) اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے۔حقیقت یہ ہے کہ آج اس سے بڑا کوئی اور کام نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعویٰ کی زبان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے موقع پر کہا تھا : انا النبی لا کذب (صحیح البخاری، حدیث نمبر2864)۔ یعنی میں نبی ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ یہ محض دعوی کی زبان نہیں تھی، بلکہ وہ ایک حقیقت واقعہ کا اعلان تھا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہےجس کا ذکر قرآن (المنافقون1 :)میں موجود ہے۔ اسی طرح جبریل فرشتہ نے ظاہر ہو کر براہ راست طور پر کہا تھا:یا محمد أبشر! فإنک نبی ہذہ الأمة (سیرۃ ابن کثیر، بیروت، 1976، 1/407)۔ یعنی اے محمد ، بشارت ہو، کیوں کہ تم بلاشبہ اس امت کے نبی ہو۔
مگر کسی غیر نبی کو دین کے معاملے میں اس طرح دعوی کی زبان بولنا جائز نہیں۔ کوئی اور شخص نہیں کہہ سکتا کہ میں مہدی ہوں، میں مسیح موعود ہوں، میں مجدد ہوں، وغیرہ۔ حتی کہ کسی شخص کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ کہے کہ میری توبہ، توبہ نصوح ہے، میرا حج، حج مبرور ہے، میں ایک نجات یافتہ انسان ہوں، وغیرہ۔اس قسم کے کلام کا حق صرف اللہ رب العالمین کو ہے۔ کوئی شخص اس قسم کی بات کہے تو وہ بلاشبہ ایک ایسی بات ہوگی، جس کا حق اللہ نے کسی کو نہیں دیا۔
دین کے بارے میں اس طرح کا کلام صرف اللہ عالم الغیب کے لیے سزاوار ہے، اور یہ واقعہ دنیا میں بھی ہونے والا نہیں، یہ صرف آخرت میںہوگا ، جب کہ اللہ رب العالمین اپنے علم کے مطابق، ہر عورت اور مرد کے لیےیہ اعلان کرے گا کہ اس کا درجہ دین میں کیا تھا، اور آخرت میں اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانے والا ہے۔
اس طرح کے دینی معاملے میں خواب یا کشف کا بھی ہرگزکوئی اعتبار نہیں۔ اگر کوئی شخص اس قسم کاکوئی خواب دیکھے یا کسی دوسرے شخص کو اس کے بارے اس نوعیت کا کوئی خواب نظر آئے تو وہ بھی خواب دیکھنے والے کا ایک شخصی معاملہ ہوگا، ایسا خواب ہرگز دوسرو ں کے لیے کوئی حجت نہیں۔ دین کی بنیاد وحی الٰہی پر ہے،نہ کہ کسی انسان کے قول پر۔
واپس اوپر جائیں

خیر کا قانون

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین، وإنما أنا قاسم واللہ یعطی (صحیح البخاری، حدیث نمبر71) یعنی اللہ جس کے لیے خیر کا ارادہ کرتا ہے، وہ اس کو دین کا فہم عطا کردیتا ہے۔ میرا کا م تقسیم کرنا ہے، اور دینے والا صرف خدا ہے۔اس حدیثِ رسول میں خیر کے عطیے کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ یہ کوئی پر اسرار بات نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ فطرت کے معلوم قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ دین کی گہری سمجھ بلاشبہ بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ نعمت صرف اس انسان کو ملتی ہے جو اس کا استحقاق پیدا کرے۔
دین میں گہری سمجھ کسی کو بلاشبہ اللہ کی توفیق سے ملتی ہے، لیکن اس توفیق کی ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ آدمی اپنے آپ کو وعایہ (container) بنائے۔ وہ اپنے ذہن کی اس طرح تربیت کرے کہ وہ چیزوں کو اس کے صحیح رخ سے لے، وہ چیزوں کو غلط رخ سے لینے والا نہ بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم ایک نعمت ہے جو ہر لمحہ خدا کی طرف سے انسانوں کے اوپر آتی رہتی ہے، لیکن اس نعمت کو وہی انسان اخذ کرپاتا ہے، جس نے پہلے سے اپنے آپ کو اخذ کرنے والا بنایا ہو۔
یہ وہ انسان ہے جو لوگوں کے درمیان اس طرح رہے کہ وہ لوگوں کی باتوں سے کوئی برا اثر نہ لے، وہ منفی تجربات کے باوجود اپنے مثبت مزاج کو باقی رکھے۔ اخلاقی برائیاں ہمیشہ سماجی تعلقات کے دوران پیدا ہوتی ہیں۔ سماجی تعلقات کے دوران کوئی انسان اپنے مثبت ذہن کی بنا پر گہری فہم تک پہنچ جاتا ہے، اور کوئی شخص اپنے منفی ذہن کی بناپرحقیقت کے فہم سے دور ہوجاتا ہے۔
خیرکا عطیہ ہمیشہ اللہ کی طرف سے آتا ہے، لیکن اخذ کی صلاحیت وہ چیز ہے جس کوانسان خود اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔ جس انسان نے اپنے اندر اخذ کی صلاحیت پیدا کرلی، اس کو ضرور اللہ کی طرف سے خیر کی نعمت ملے گی، اور جس انسان نے اپنے اندر مطلوب صلاحیت پیدا نہیں کی ، اس کو کبھی خیر کی نعمت ملنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سکنڈ چانس

مغفرت کے بارے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بے شک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔ یہ بات ایک اور آیت میں ان الفاظ میں آئی ہے:فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّہَ یَتُوبُ عَلَیْہِ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ(5:39)۔ پھر جس نے اپنے ظلم کے بعد توبہ کی اور اصلاح کرلی تو اللہ بے شک اس پر توجہ کرے گا۔ اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
اس طرح کی آیتوں میں جو بات کہی گئی ہے۔ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل کے دو درجے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی عمل صالح کرے اور وہ ذَنب (sin)سے بچا ہوا ہو۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی ایمان قبول کرکے اسلامی زندگی گزارے، لیکن اسی کے ساتھ وہ کبھی ذَنب میں بھی مبتلا ہوجائے۔ پہلاآدمی وہ ہے جس نے فرسٹ چانس (first chance) کو اَوِیل کیا۔
دوسری قسم کے مومن کا کیس سکنڈ چانس (second chance) کو اویل (avail) کرنے کا کیس ہے۔ اور یہ توبہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ یعنی آدمی ایمان کے باوجودکبھی گناہ میں مبتلا ہوجائے۔ پھر اس کو انتباہ ہو، وہ توبہ کرے، اور ندامت (repentance) کے احساس کے ساتھ اللہ سے معافی مانگے۔ یہ دوسرا شخص بھی اللہ کی رحمت میں اپنا حصہ پائے گا۔ اس کا کیس اللہ کے قانون کے مطابق، سکنڈ چانس کو اَوِیل کرنے کا کیس ہوگا۔
اللہ کے قانون کے مطابق، توبہ خود بھی ایک عمل صالح ہے۔ توبہ یہ ہےکہ گناہ کرنے کے بعد آدمی اللہ کی طرف رجوع کرے، اس کے اندر ندامت کا جذبہ پیدا ہو، غلطی اس کے احساس کو جگائے، وہ نئی اسپرٹ کے ساتھ اللہ کی طرف دوڑ پڑے، اس کا مردہ ایمان دوبارہ زندہ ایمان بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کا معیار

موجودہ زمانےمیں اسلام کی دعوت اور اشاعت کے لیے کافی کام ہورہا ہے۔ لیکن ایک میدان ابھی تک باقی ہے، اور وہ ہے:
To present Islam at the modern intellectual level
یعنی آج کے فکری مستوی پر اسلام کوقابل فہم ( understandable) بنانا۔ دعوت کا کام میرے نزدیک صرف تبلیغ کاکام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ مدعو کے لیے اسلام کو قابل فہم (understandable) بنایا جائے۔ اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ اسلام کو اس اسلوب میں پیش کیا جائے، جو مدعو کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ دعوت کے بارے میںاسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا(النساء 63:)۔یعنی اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔
یہ کام وقت کا سب سے بڑا کام ہے۔ مگر اس کام کو موثر طور پر کرنے کے لیے ایک قربانی درکار ہے۔ وہ یہ کہ داعی کوالٹی (quality) کو کام سمجھے ، نہ کہ کوانٹٹی (quantity) کو۔ اگر آپ جدید دور کے چند آدمی کو اسلام کی سچائی پر مطمئن کرسکیں تو بلاشبہ یہ آپ کے لیے بہت بڑا rewardable کام ہوگا۔
دعوت کا معیار قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ مدعو کے پاس اس کے بعد کوئی حجت یا عذر باقی نہ رہے(النساء163:)۔ دعوت کا یہ معیار بتاتا ہے کہ دعوت کو مدعو کے فکری مستویٰ کے مطابق کیا جانا چاہیے۔ اس کے بغیر جو دعوتی کام کیا جائے وہ مدعو کے لیے حجت نہیں بن سکتا۔ مثلا ًآپ قرآن کو ساری قوموں کے درمیان ڈسٹری بیوٹ کریں ، لیکن یہ قرآن صرف عربی زبان میں ہو تو وہ مدعو کے لیے حجت نہیں بن سکتا۔ حجت کے درجے کا دعوتی کام وہی ہے جو مدعو کی قابل فہم زبان میں ہو۔ زبان کے اعتبار سے بھی اور اسلوب (idiom)کے اعتبار سے بھی۔
واپس اوپر جائیں

پر امن دعوت

مورخ ابن اثیر نےاپنی کتاب میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ابن ابی طالب کو یمن بھیجا۔ اس سے پہلے آپ نے خالد بن ولید کو ان کے درمیان بھیجا تھا تاکہ وہ ان کو اسلام کی طرف بلائیں، مگر انھوں نے آپ کی دعوت پر لبیک نہیں کہا۔ اس کے بعد آپ نے علی ابن ابی طالب کو بھیجا۔ اور ان کو یہ ہدایت دی کہ وہ اہل یمن کو خالد اور ان کے ساتھی کے نقصان کا تاوان اداکریں(وأمرہ أن یعقل خالدا ومن شاء من أصحابہ)۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔پھر انھوں  نے اہل یمن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد قبیلۂ ہمدان کے تمام لوگوں نے ایک ہی دن میںاسلام قبول کرلیا۔ انھوں نے یہ واقعہ لکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ اہل ہمدان پر سلامتی ہو۔ایسا آپ نے تین بار کہا۔ پھراسی طرح دیگر اہل یمن نے اسلام قبول کرلیا۔اس واقعے کی خبرانھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھ کر بھیجی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر کے طور پر اللہ تعالی کو سجدہ کیا۔ (الکامل فی التاریخ، جلد2، صفحہ300، بیروت ، 1979)
خالد بن الولید عسکری مزاج کے آدمی تھے۔ اپنے اس مزاج کی بنا پر انھوں نے اہل یمن کے ساتھ سختی کا معاملہ کیا۔ رسول اللہ نے اس رویہ کو درست نہیں قرار دیا۔ بلکہ اس کی تلافی کا انتظام فرمایا۔ تلافی کے معاملے کا مثبت اثر ہوا۔ اہل یمن کا دل نرم ہوگیا۔ انھوں نے پہلے اسلام کو قبول نہیں کیا تھا۔ لیکن اب انھوں نے اسلام کی قبولیت کا اعلان کردیا۔
دعوت الی اللہ کا کام ایک ایسا کام ہے جو ہمیشہ نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس کو پرامن انداز میں انجام دیا جائے، اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے، مدعو کی طرف سے اگر کوئی ناموافق رویہ سامنے آئے تو مدعو کے ساتھ یک طرفہ نرمی کا معاملہ کیا جائے،مدعو کے مقابلے میں ہمیشہ مثبت رویہ اختیار کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کا عالمی پیغام

قرآن کی پہلی آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ رب العالمین(الفاتحہ1:) ہے۔ یعنی اللہ یکساں طور پر تمام انسانوں کا رب ہے۔ وہ صرف مسلم قوم کا رب نہیں۔ قرآن کو آپ پڑھیں تو آپ کو ملے گا کہ قرآن کا خطاب ایک عالمی خطاب ہے۔ چناں چہ قرآن میں آپ کو ملے گا کہ أیہا الناس، أیہاالإنسان ، یا بنی آدم جیسے الفاظ استعمال کیے گیے ہیں۔
کسی امت میں یہ نفسیات اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ اس کے اندر اسلام کا تصور گھٹ کر قومی مذہب کا تصور بن جائے۔ اس وقت امت کے اندر یہ ذہن بن جاتا ہے کہ ہم مسلم ہیں ، اور بقیہ لوگ کافر ہیں۔ اس وقت حق وباطل کا معیار یہ بن جاتا ہے کہ آدمی قومی اعتبار سے کس گروہ سے وابستہ ہے۔ ایک گروہ سے وابستگی دین دار ہونے کی علامت ہوتی ہے، اور دوسرے گروہ سے وابستگی بے دینی کی علامت۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کہ دین ایک قومی کلچر بن جائے، نہ کہ خداوند عالم کا بھیجا ہوا دین۔
جب کسی قوم پر زوال کا یہ وقت آتا ہے تو اس وقت سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اسلام کا آفاقی تصور ختم ہوجاتا ہے۔ اب لوگوں کے اندر یہ جذبہ نہیں ہوتا کہ وہ اسلام کو تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ بلکہ اس وقت لوگوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ بن جاتے ہیں۔ ہر گروہ اپنے تصورِدین کی حفاظت میں لگ جاتا ہے۔ ہر گروہ اپنے گروہی مسلک کو حق سمجھتا ہے۔ اس طرح مذہبی تعصب کی وہ برائی پیدا ہوتی ہے جس کے بعد لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان دین کا نام موجود ہوتا ہے، لیکن دین کی حقیقت غائب ہوجاتی ہے۔
جب زوال کا یہ دور آتا ہے تو ظاہری چیزوں کی دھوم بڑھ جاتی ہے۔ لوگ ظاہری چیزوں کی دھوم دیکھ کر سمجھنے لگتے ہیں کہ دین زندہ ہے۔ حالاں کہ اسپرٹ کے اعتبار سے دین کا کوئی وجود نہیں ہوتا، جب کہ اسپرٹ ہی دین کی اصل حقیقت ہے۔
واپس اوپر جائیں

بے آمیز دعوت کی ذمہ داری

روایات میں آیا ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ کو غم کی حالت میں دیکھا تو انھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، آپ پربڑھاپے کے آثار نظر آنے لگے (قد شبت) ۔ آپ نے فرمایا : شیبتی ہود واخواتہا (البحر الزخار، حدیث نمبر 92:)۔ اس حدیث پر اور دوسری متعلق روایات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کا یہ غم نبوت کی دعوتی ذمہ داری کی بنا پر تھا۔
دعوت کی ذمہ داری خدائی پیغام رسانی کی ذمہ داری ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ یہ کام کامل حد تک بے آمیز طریقہ سے کیا جائے۔ اس میں کسی بھی قسم کے قومی یا مادی یا سیاسی پہلو کی آمیزش نہ کی جائے۔ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری کا یہی وہ پہلو ہے جس نےرسول اللہ کو اتنا غم گین بنا دیا کہ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ آپ قبل از وقت بوڑھے ہوگئے ہیں۔
دعوتی ذمہ داری کے اس پہلو کا ذکر قرآن میں مختلف انداز سے آیا ہے۔ یہاں اس سلسلے میں قرآن کے دو حصوں کا ترجمہ نقل کیا جاتا ہے:
1۔ پس تم جمے رہو جیسا کہ تم کو حکم ہوا ہے اور وہ بھی جنھوں نے تمھارے ساتھ توبہ کی ہے اور حد سے نہ بڑھو بیشک وہ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو۔اور ان کی طرف نہ جھکو جنھوں نے ظلم کیا، ورنہ تم کو آگ پکڑ لے گی اور اللہ کے سوا تمھارا کوئی مدد گار نہیں، پھر تم کہیں مدد نہ پائو گے۔ (11:112-13)
2۔ اور قریب تھا کہ یہ لوگ فتنہ میں ڈال کر تم کو اس سے ہٹادیں جو ہم نے تم پر وحی کی ہے، تاکہ تم اس کے سوا ہماری طرف غلط بات منسوب کرو اور تب وہ تم کو اپنا دوست بنالیتے۔ اور اگر ہم نے تم کو جمائے نہ رکھا ہوتا تو قریب تھا کہ تم ان کی طرف کچھ جھک پڑو۔ پھر ہم تم کو زندگی اور موت دونوں کا دہرا (عذاب) چکھاتے۔ اس کے بعد تم ہمارے مقابلہ میں اپنا کوئی مدد گار نہ پاتے۔ (17:73-75)
قرآن وحدیث کے متعلق حوالوں پر غور کرنے کے بعد یہ بات واضح طورپر سمجھ میں آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبل از بڑھاپے کا سبب صرف ایک تھا۔ اور وہ یہ احساس تھا کہ دعوت الی اللہ کا کام اللہ رب العالمین کی نمائندگی کا کام ہے۔ اس کام کا لازمی تقاضا ہے کہ اس کو آخری حد تک بے آمیزحالت کے ساتھ انجام دیا جائے، کوئی دوسرا پہلو اس میں ہرگز شامل نہ کیا جائے۔
سورہ ہود کی آیات میں رسول اللہ کے ساتھ دیگر اہلِ ایمان کو بھی شامل کیا گیا ہے اور دونوں کے لیے یکساں طورپر یہ وارننگ ہے کہ: وَلَا تَرْکَنُوا إِلَى الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ (11:13)۔ اس اسلوب سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ یہاں جس معاملے کا ذکر ہے، وہ ایک ایسی ذمہ داری کا معاملہ ہے جو پیغمبر اور پیغمبر کی امت سے یکساں طورپر مطلوب ہے۔ کیوں کہ پیغمبر آخر الزماں کے بعد دعوت کا کام موقوف نہیں ہوتا، بلکہ امت وسط (البقرة143:) کے ذریعہ قیامت تک مسلسل طورپر جاری رہنے والا ہے۔
اصل یہ ہے کہ داعی اپنا دعوتی کام کسی خالی جزیرے میں نہیں کرتا، بلکہ وہ اس کام کو عوام کے درمیان انجام دیتا ہے۔ اس بنا پر دعوت کے عمل کے دوران مختلف قسم کے تقاضے باربار سامنے آتے ہیں۔مثلاً قومی تقاضا،گر وہی تقاضا ، مادی تقاضا، سیاسی تقاضا، وغیرہ۔ اس قسم کے تقاضے بار بار یہ دعوت دیتے ہیں کہ داعی ان کی رعایت کرے۔ تاکہ دعوت کا کام بلا رکاوٹ انجام دیا جاسکے۔ لیکن اللہ کی منشا یہ ہوتی ہے کہ خدائی تقاضے کے سوا کسی بھی تقاضے کا کوئی اعتبار نہ کیا جائے، بلکہ تمام تر خدائی تقاضے کو اہمیت دیتے ہوئے دعوت کا کام اپنی خالص اور بے آمیز صورت میں جاری رکھا جائے۔ دعوت إلی اللہ کی یہ شرط دعوت کے کام کو ایک ایسا گراں بار کام بنادیتی ہے کہ داعی سے اس کا سکون چھن جائے اور وہ لوگوں کو قبل از وقت بوڑھا نظر آنے لگے۔دعوت کا کام ایک خالص حق کا کام ہے۔ اس معاملے میں خدائی تقاضا (divine consideration)کے سوا کسی اور تقاضے (consideration)کی رعایت جائز نہیں۔ دعوت کے کام کو بظاہر انسان انجام دیتا ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے دعوت کا کام ایک خدائی کام ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ دعوت کے کام کو انتہائی حد تک پوری ذمہ داری کے ساتھ انجام دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

حالات کی زبان

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ (2:186) ۔ یعنی اور جب میرے بندے تم سے میری بابت پوچھیں تو میں نزدیک ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے، تو چاہئے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے رب سے الفاظ کی زبان میں سوال کرتا ہے، لیکن اس کا رب اس کا جواب حالات کی زبان میں دیتا ہے۔ ان حالات کو الفاظ کی زبان دینا خود انسان کا اپنا کام ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خالص مومنانہ ذہن کے ساتھ حالات کا مطالعہ کرے۔ اس کو یقینا اپنے سوال کا خدائی جواب مل جائے گا، کبھی فوراً اور کبھی دیر میں۔
سنت اللہ کے مطابق، اللہ کا جواب کسی غیر پیغمبر پر لفظوں میں نہیں آتا۔ بلکہ وہ حالات کی زبان میں آتا ہے۔ کبھی خود اپنے حالات کے ذریعے، کبھی دوسروں کے حالات کے ذریعے۔ یہ جواب انسان کو کان سے سنائی نہیں دیتا، البتہ عقل کے استعمال کے ذریعے وہ اس کو جان لیتا ہے۔ اللہ کے اس طریقہ میں انسان کے لیے بہت بڑی رحمت ہے۔ اگر اللہ کا جواب الفاظ کی صورت میں آئے تو وہ انسان کے لیے سخت مواخذے کا ذریعہ بن جائے گا۔ حالات کی زبان میں آنے کی بنا پر وہ انسان کے لیے اجتہاد کا مسئلہ ہوتا ہے ۔ انسان کے لیے یہ گنجائش ہوتی ہے کہ اگر وہ اس کو سمجھنے میں غلطی کرے تو اس کا معاملہ اجتہادی خطا کا معاملہ بن جائے۔
اللہ کا جو جواب انسان کے پاس اس طرح آتا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ آدمی متعصبانہ فکر (biased thinking) سے پاک ہو۔ وہ کھلے ذہن کے ساتھ چیزوں کو دیکھے، اور کھلے طور پران کے بارے میں اپنی رائے بنائے۔
واپس اوپر جائیں

خدائی منصوبہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن میں تم سے پہلے کے حالات کا ذکر ہے اور اس میں تمہارے بعد کے حالات کا بیان ہے ( سنن الترمذی، حدیث نمبر2906)۔قرآن میں ماضی اور مستقبل کا حوالہ کس لئے ہے۔ وہ اس لئے ہے تاکہ اہلِ ایمان تاریخ کے بارےمیں خدا کےمنصوبہ (scheme of things) کو سمجھیں اور اس کے مطابق اپنے عمل کی درست منصوبہ بندی (right planning) کریں۔ یہی سب سے بڑی حکمت (wisdom) ہے۔ اور یہ حکمت تدبر (غور وفکر) کے ذریعہ سمجھ میں آتی ہے۔ قرآن اور تاریخ میں غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ نے پہلے اپنے پیغمبر پر ہدایت نازل فرمائی۔ اس کے بعد تاریخ میں ایک عمل (process) شروع ہوا۔ پہلے قرآن کو محفوظ کیاگیا۔ اسی کے ساتھ حدیث اورعلوم اسلامی کی تدوین ہوئی۔ یہ کام کئی سو سال تک مسلم اقتدار کےتحت جاری رہا۔ یہاں تک کہ قرآن اور قرآنی علوم پوری طرح محفوظ ہوگئے۔ ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں کا دینی نظام غیر سیاسی دائرہ میں قائم ہوگیا۔
ظہور اسلام کے تقریباً ہزار سال بعد سیکولر تہذیب کے ذریعہ تائید دین کا دور شروع ہوا۔ اس عمل کے دوران دنیا میں ایک موافق اسلام دور آیا۔ اس دور میں ہر قسم کے وہ فکری اور عملی مواقع دستیاب ہوگئے جو اسلام کے عالمی دعوتی مشن کی تکمیل کے لئے ضروری تھے۔ بیسویں صدی میں یہ منصوبہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ اب دنیا میں نظری اور عملی دونوں اعتبار سے کامل طورپر وہ مواقع پیدا ہوچکے ہیں جو اسلام کو اس نشانہ کی تکمیل کے لئے ضروری تھے جن کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیاگیا ہے: تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا(25:1) ۔اب اکیسویں صدی میں خدائی منصوبہ کے مطابق اہلِ ایمان کو صرف ایک کام کرنا ہے۔ اور وہ ہے خدا کی کتاب کو دنیا کی ہر زبان میں ساری قوموں تک پہنچانا۔اس کے لیے تمام کھلے مواقع (opportunities)کو پرامن طور پر استعمال کرنا۔ اسی عمل پر مسلمانوں کی تمام کامیابیوں کا انحصار ہے۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف ایک رحمت

ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:اختلاف أمتی رحمة (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر39)۔ یعنی میری امت کا اختلاف ایک رحمت ہے۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف سمجھی جاتی ہے۔ لیکن معنی کے اعتبار سے وہ قوی ہے۔ اس حدیث میں ایک فطری حقیقت کو بتایا گیا ہے۔
اختلاف (difference)کسی گروہ کا مسئلہ نہیں، اختلاف ایک فطری امر ہے۔ انسانوں کے درمیان ہمیشہ اختلافات ہوتے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے بھی اور سیکولر اعتبار سے بھی۔ کوئی سماج کبھی رائے کے اختلاف سے خالی نہیں ہوتا۔
رائے کے اختلاف کو اگر فطری درجہ میں رکھا جائے تو وہ لوگوں کے لیے ایک رحمت (blessing) ثابت ہوگا۔ صحیح یہ ہے کہ اختلاف پیش آنے پر تحمل کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اختلاف کو ڈسکشن کا موضوع بنایا جائے۔ ایسا کرنے سے اختلاف لوگوں کے اندر ذہنی ارتقا (intellectual development)کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس سے لوگوں کی تخلیقیت (creativity)میں اضافہ ہوگا۔درست طور پر کہا جاتا ہے کہ جہاں لوگ ایک ہی انداز میں سوچیں، وہاں لوگوں کے اندر بلند فکری نہیں ہوگی:
Where everyone thinks alike, no one thinks very much
رائے کا اختلاف ہر زمانے میں امت کے اندر موجود رہا ہے۔ رائے کا اختلاف مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب کہ کوئی گروہ اختلاف میں غلو کا طریقہ اختیار کرے۔غلو کے بغیر اختلاف ایک رحمت ہے۔ جب کہ غلو کے ساتھ اختلاف ایک فتنہ بن جاتا ہے۔ مثلاامت میں ہمیشہ عقائد کے معاملے میں اختلاف پایا جاتا رہا، اسی طرح فقہی مسائل میں بھی ہمیشہ اختلاف رہا ہے۔ یہ اختلاف کبھی مسئلہ نہیں بنا۔ البتہ بعض اوقات جب کسی گروہ نے اختلاف کو غلو کے درجے تک پہنچایا تو اختلاف مسئلہ بن گیا۔
واپس اوپر جائیں

پرسکون زندگی کا راز

پرسکون زندگی کا راز کم پر راضی ہونا ہے نہ کہ زیادہ کی تلاش میں رہنا۔ کم کی حد ہے لیکن زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ اس لئے ایسا ہوتا ہے کہ کم پر راضی ہونے والے کو پرسکون زندگی مل سکتی ہے لیکن زیادہ کی تلاش کرنے والا کبھی پرسکون زندگی حاصل نہیں کرسکتا۔مذہب کی اصطلاح میں کم پر راضی ہونے کا نام ’’قناعت ہے اور زیادہ کی تلاش میں رہنے کا نام ’’حرص ‘‘۔ ان ہی دو لفظوں میں زندگی کی پوری کہانی چھپی ہوئی ہے۔
جو آدمی اس حقیقت کو جان لے وہی عارف ہے اور جو آدمی اس حقیقت سے بے خبر رہے وہی وہ انسان ہے جس کو اس دنیا میں معرفت حاصل نہیں ہوئی۔پر سکون زندگی در اصل اعتراف حقیقت (acceptance of reality) کا دوسرا نام ہے۔ آپ حالات کے اعتبار سے جن حقائق کے درمیان ہیں، اگر آپ ان حقائق (realities) کو جانیں اور ان کے مطابق اپنے عمل کا نقشہ بنائیں تو یقیناً آپ کامیاب رہیں گے۔ اس کے برعکس، اگر آپ صرف اپنی خواہشوں کو جانتے ہوں ، اگر آپ کو صرف اپنی تمناؤ ں کا علم ہو تو آپ حقائق سے بے خبر ہوجائیں گے۔ ایسی حالت میں آپ کی منصوبہ بندی مبنی بر حقیقت منصبوبہ بندی نہ ہوگی۔ ایسی منصوبہ بندی کا لازمی نتیجہ صرف ناکامی ہے۔
اگر آپ کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ نہ ہو اور اس بنا پر آپ ایسے راستے پر چل پڑیں جو حقیقتِ واقعہ کے خلاف ہو تو اس کے بعد دوسری غلطی ہر گز مت کیجیے۔ یعنی اپنی ناکامی کا الزام دوسرے پر ڈال کر کسی مفروضہ دشمن کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان بلند کرنا۔ زندگی میں ہمیشہ نیا منصوبہ بنانا ممکن ہوتا ہے۔ لیکن نیا منصوبہ صرف وہ لوگ بنا سکتے ہیں جو شکایت اور احتجاج کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی ہوں۔ اگر آپ زندگی میں ناکام رہیں تو ہمیشہ اس کا سبب اپنے اندر تلاش کیجیے۔ کسی تاخیر کے بغیر یہ اعتراف کیجیے کہ آپ نے غلطی کی ہے۔ غلطی کا اعتراف نئی کامیابی کا دروازہ کھولتا ہے۔ اور اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرنا، آدمی کو اس رسک (risk) میں مبتلا کردیتا ہے کہ وہ کبھی کامیابی سے دوچار نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

سنی ہوئی بات کی تحقیق

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:کفى بالمرء کذبا أن یحدّث بکل ما سمع (صحیح مسلم، حدیث نمبر 5)یعنی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ جس بات کو سنے ، اس کو وہ اسی طرح لوگوں سےبیان کرنے لگے۔ اس حدیثِ رسول میں بات کےغیر مطلوب طریقے کو بیان کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بات کا مطلوب طریقہ کیا ہے۔
یہ مطلوب طریقہ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 49 میں یہ اصول اس طرح بیان کیا گیاہے:یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَاءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ (الحجرات6 :) قرآن کی اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ بات کو سننے کے بعد اس کو اسی طرح بیان نہ کیا جائے، بلکہ پہلے اس کی تبیین کی جائے۔ تبیین کا مطلب مکمل تحقیق (strict inquiry) ہے۔ بات کو سن کر اسی طرح لوگوںسےبیان کرنا، جھوٹےآدمی کی پہچان ہے، اور بات کو سننے کے بعد ، اس کی تحقیق (strict inquiry) کرنا، سچے آدمی کی پہچان ہے۔
انسان کی سب سے بڑی صفت سنجیدگی (sincerity)ہے۔ جس صفت کو مذہبی زبان میں تقوی کہا جاتا ہے، اسی صفت کا دوسرا نام سنجیدگی ہے۔ ایک سنجیدہ انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کسی بات کو سنے تو وہ بلا تحقیق اس کو بیان کرنے لگے۔ سنجیدہ انسان کے اندر جو مزاج بنتا ہے، وہ مزاج اس طرح بات کرنے میں ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ بات آدمی کی پہچان ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالے جو اس کی پہچان کو بگاڑنے والی ہو۔
اگر کہی ہوئی بات ایک اچھی بات ہوتو اس کو بلا تحقیق دہرانے میں کوئی ہرج نہیں ۔ لیکن اگر کہی ہوئی بات ایک ایسی بات ہے جو کسی شخص کی تصویر (image) کو مشتبہ کرنے والی ہےتو ایسی بات کو تحقیق کے بغیر ہر گز بیان نہیں کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

سازش کا نظریہ

آج کل مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے متفقہ طور پر ایک ہی بات بول رہے ہیں ۔ وہ یہ کہ غیر مسلم قومیں مسلمانوں کی دشمن بن گئی ہیں، ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ یہ باتیں اتنی زیادہ کہی جارہی ہیں کہ ان کو سننا اور پڑھنا میرے جیسے انسان کے لیے ایک سزا کے برابر ہے۔ اس لیے کہ قرآن و حدیث کے مطالعہ کے مطابق ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ باتیں کسی سازشی قوم کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ خود مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے کی بے دانشی کو ثابت کرتی ہیں۔
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہیں:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا (3:120)۔ قرآن کی یہ آیت مسلمانوں کو خطاب کررہی ہے۔ اور یہ بتاتی ہے کہ دوسروں کی سازش تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی، بلکہ خود اپنی کمزوری تم کو نقصان پہنچائے گی۔ ایسی حالت میں اغیار کی سازش کا نظریہ صرف اس بات کاثبوت ہے کہ لکھنے اور بولنے والا شخص قرآن سے مکمل طور پر بے خبر ہے۔ قرآن کے مطابق، اللہ نے ابلیس اور اس کی قوم کو پوری چھوٹ دی ہے کہ وہ انسان کے خلاف جو کچھ کرنا چاہے، آزادی کے ساتھ کرے۔ مثلاً ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور ان میں سے جس پر تیرا بس چلے، تو اپنی آواز سے ان کا قدم اکھاڑ دے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا اور ان کے مال اور اولاد میں ان کا ساجھی بن جا اور ان سے وعدہ کر۔ اور شیطان کا وعدہ ایک دھوکہ کے سوا اور کچھ نہیں۔بے شک جو عباد اللہ ہیں ان پر تیراسلطان نہیں چلے گا اور تیرا رب کار سازی کے لئے کافی ہے (17:64-65)۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، مسلمانوں کے لیے اصل کام دوسروں کے خلاف شکایت کرنا نہیں ہے، بلکہ خود اپنے آپ کو عباد اللہ بنانا ہے۔ مسلمانوں کے جو لکھنے اور بولنے والے لوگ ہیں، ان سب کو یہ چاہیے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ عبادا للہ کی شرطیں کیا ہیں، اور مسلمانوں کو ان شرطوں کے مطابق عبادا للہ بنائیں۔
واپس اوپر جائیں

سازش بے اثر

عام طور پر لوگ سازش کے خلاف شکایت کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سازش کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ اس کے خلاف احتجاج(protest) کیا جائے، اس کے خلاف جوابی کارروائی کی جائے۔مگر قرآن میں سازش کے مسئلے کا جو حل بتایا گیا ہے، وہ اس قسم کا رد عمل (reaction) نہیں ہے، بلکہ وہ صرف پرامن تدبیر ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا (3:120)۔یعنی اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو ان کی کوئی مخالفانہ تدبیر تم کو نقصان نہ پہنچا سکے گی۔
کید (evil scheme)کیا ہے۔ وہ دراصل کسی انسان یا قوم کا اپنی آزادی کا غلط استعمال (misuse) کرنا ہے۔ آزادی انسان کو خالق کی طرف سے دی گئی ہے۔ یہ انسان کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط استعمال کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص یا قوم آپ کے نزدیک اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے تو آپ اس سے اس کی آزادی کو چھین نہیں سکتے۔ اس لیے آپ کے لیے صرف ایک موقع ہے۔ وہ یہ کہ حالات سے ٹکراؤ کرنے کے بجائے حالات کو پر امن طور پر مینج (manage)کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے سوا ہر کوشش بے فائدہ ہے۔ وہ کسی کو اس کے مطلوب انجام تک پہنچانے والی نہیں ۔
سازش یا مخالفانہ تدبیر کو آپ اپنی جوابی تدبیر سے غیر موثر بناسکتے ہیں۔ مگر اس کو ختم کرنا آپ کے لیے کسی حال میں ممکن نہیں۔ اس دنیا میں ہر ایک کو اپنا امتحان دیناہے ۔ یہ امتحان صرف آزادانہ ماحول میں ہوسکتا ہے۔ یہ معاملہ کسی قوم کا معاملہ نہیں ، بلکہ وہ براہ راست خالقِ کائنات کا معاملہ ہے۔ اور کون ہے جو خالق کائنات کے مقرر کیے ہوئے کورس کا خاتمہ کرسکے۔یہ اعلان کرنا کہ فلاں قوم ہماری دشمن ہے، فلاں قوم ہمارے خلاف سازش کررہی ہے، فلاں قوم اسلاموفوبیا میں مبتلا ہے، یہ سب بے حقیقت الفاظ میں۔
واپس اوپر جائیں

باہمی تعاون کا نظام

قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: مستقبل میں ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یہ حق ہے۔ اور کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے۔ (41:53)
قرآن کی اس آیت میں سنریہمکا لفظ ہے۔ اس میں متکلم کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔یعنی ہم دکھائیں گے۔ لیکن یہ اسلوب کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے کچھ بندوں کو کھڑا کرے گا، وہ زمین و آسمان میں تحقیق کریں گے۔ پھر وہ تحقیق کے ذریعے ایسی علمی حقیقتیں دریافت کریں گے جوعقلی بنیاد (rational ground) پر اسلام کی صداقت کو ثابت شدہ بنانے والے ہوں۔
فطرت کے قانون کے مطابق زندگی کا نظام باہمی وابستگی (interdependence) یا باہمی تعاون کے اصول پر قائم ہے۔ اس دنیا میںدینی واقعات بھی اسی اصول پرظاہر ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اللہ اس دین کی تائید فاجر انسان (سیکولر انسان) کے ذریعے بھی کرے گا۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)جس واقعہ کو قرآن میں متکلم کے صیغہ میں بیان کیا گیا تھا، اس کو حدیث میں غائب کے صیغہ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے تفہیمِ قرآن میں حدیث کا رول معلوم ہوتا ہے۔ حدیث قرآن کے اجمال کو مفصل کرتی ہے۔ حدیث قرآن کے اصولی بیان کو تعین کی زبان میں واضح کرتی ہے۔ تمام ترقیاں ، خواہ وہ دینی ہوں یا سیکولر، وہ ہمیشہ اسی باہمی وابستگی کے اصول پر انجام پاتی ہیں۔ مثلاً اسلام نے جمہوریت کا آغاز کیا لیکن اس کی تکمیل فرانس میں ہوئی۔ اسلام نے مذہبی رکاوٹوں کو ختم کرنے کا آغاز کیا لیکن اس کی تکمیل جدید تہذیب کے ذریعے ہوئی۔ اسلام نے انسانی غلامی کے خاتمے کا آغاز کیا لیکن اس کی تکمیل امریکا میں ہوئی۔ اسلام نے سائنسی دور کا آغاز کیا لیکن اس کی تکمیل مغربی دنیا میں ہوئی، وغیرہ۔ آغاز کے بعد تکمیل کا یہ کام تاریخی عمل (historical process)کے ذریعے انجام تک پہنچا۔
واپس اوپر جائیں

عورت اور مرد کا فرق

ایک روایت صحیح البخاری، صحیح مسلم،سنن ابوداود، سنن الترمذی، اور مسند احمد وغیرہ کتب حدیث میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: ما رأیت من ناقصات عقل ودین أذہب للب الرجل الحازم من إحداکن۔ (حدیث نمبر304) ۔یعنی میں نے نہیں دیکھا کہ عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود ایک عورت عقل والے مرد کی عقل پر غالب آجائے۔عورت کے بارے میں ناقص کا لفظ قرآن میں کہیں نہیں آیا ہے۔ اس لیے اس حدیث کا لفظی معنی نہیں لیا جائے گا بلکہ اس کی تاویل کی جائے گی۔ اصل یہ ہے کہ اس حدیث میں ناقص ، کم ہونے کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ فرق (different) کے معنی میں ہے۔
اصل یہ ہے کہ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، عورت اور مرد دونوں کے درمیان تخلیقی فرق رکھا گیا ہے۔ مگر یہ فرق رتبہ کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ رول کے اعتبار سے ہے۔ کیوں کہ سماج میں عورت اور مرد کا رول تخلیقی نقشے کے مطابق ایک درجے میں الگ الگ ہے۔ اس لیے دونوں کے درمیان ان کے رول کے مطابق فرق رکھا گیا ہے۔
اسلام کی تعلیم کےمطابق، عورت اور مرد کے درمیان رتبہ (status) کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں، دونوں یکساں طور پر آدم کی اولاد ہیں۔ لیکن سماج میں ہمیشہ مختلف قسم کے کام ہوتے ہیں۔ سماج کا ہر کام نہ ہر مرد کرسکتا ہے، اور نہ ہر عورت۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر عورت یا ہر مرد کو اس کی صلاحیت یا استعداد کے اعتبار سے کام دیا جائے۔ اس طرح ہر کام معیاری درجے میں انجام پائے گا۔ اس کے برعکس، اگر ہر عورت اور ہر مرد کو ایک ہی کام میں لگا دیا جائے تو کوئی بھی کام اعلی صورت میں انجام نہیں دیا جاسکتا ۔ اس بنا پر اسلام میں عورت اور مرد کے درمیان تقسیم کار کے اصول کو اختیار کیا گیا ہے، نہ کہ یکسانیت کار کے اصول کو۔تاریخ کے ہر دور میں عملاً عورت اور مرد کے درمیان یہ اصول اختیار کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مثبت سوچ کی ضرورت

ایک مسلم رائٹر کا مضمون نظر سے گزرا۔ یہ مضمون انڈیا کے مسلم مسائل کے بارے میں ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیںکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمان اس ملک میں امتیاز کا سامنا کررہے ہیں،ملازمتوں میں اور داخلوں میں، نیز فرقہ وارانہ تشدد کے وقت:
There is no denying that Muslims face discrimination in jobs and admissions and also communal violence.
عام طور پر مسلمانوںکا لکھنے اور بولنے والا طبقہ اسی قسم کی بات لکھتا اور بولتا ہے۔ لیکن ایسے لوگ مسلمانوں کی خدمت نہیں کررہے ہیں۔ ان کی یہ باتیں باعتبار نتیجہ حوصلہ شکنی کی باتیں ہیں۔ جب کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر صورتِ حال میں ہمیشہ ایسی بات کہی جائے جو حوصلہ افزائی کے ہم معنی ہو۔
امتیاز (discrimination) کیا ہے۔ وہ ایک فطری صورتِ حال کو منفی اصطلاح میں بیان کرنا ہے۔ ہمارے لکھنے اور بولنے والے جس چیز کو امتیاز کہتے ہیں، وہ دراصل چیلنج کی صورتِ حال ہے۔ یہ دنیا کا قانون ہے کہ یہاں ہمیشہ اجتماعی زندگی میںچیلنج اور مسابقت کی صورتِ حال قائم رہتی ہے۔ اس کی بنا پر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں اور کچھ لوگ پیچھے ہوجاتے ہیں۔مگر یہ ایک وقتی صورتِ حال ہے، وہ مستقل طور پر قائم رہنے والی نہیں۔
انسان کبھی اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ فطرت کا ایک ابدی قانون ہے۔ اس بنا پر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ پیچھے رہ جانے والوں کے اندر داعیہ (incentive) جاگتا ہے۔ وہ عام حالات کے مقابلے میں زیادہ کوشش کرنے لگتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے والا پیچھے ہوجاتا ہے، اور پیچھے رہ جانے والا آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہ عمل ہر سماج میں اور ہمیشہ جاری رہتا ہے۔یہ فطرت کا ایک قانون ہے، اورکوئی بھی اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ فطرت کے قانون کو بدل دے۔مثال کے طور اس ملک میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور ڈاکٹر عبد الکلام جب پیدا ہوئے تو وہ ایک پچھڑے ہوئے انسان تھے، مگر بعد کے زمانے میںلوگوں نے دیکھا کہ وہ دونوں افراد اگلی صف میں جگہ حاصل کرچکے تھے۔
واپس اوپر جائیں

مادر وطن

ایک صاحب نے سوال کیا کہ انڈیا کو مادرِ وطن کہنا جائز ہے یا ناجائز۔ میں نے کہا کہ مادرِ وطن کو جائز- ناجائز کی اصطلاح میں بیان کرنا اس کو غیر ضروری طور پر شرعی مسئلہ بنانا ہے۔ یہ انتہاپسندی (extremism) ہے کہ ہر چیز کو جائز- ناجائز کا مسئلہ بنایا جائے۔ اس مزاج کو شریعت میں غلو کہا گیا ہے۔ اور قرآن و سنت میں غلو کی ممانعت کی گئی ہے۔
ایک شخص (وابصۃالاسدی) رسول اللہ کے پاس آئے۔ وہ بہت سا سوال کرنا چاہتے تھے۔ رسول اللہ نے ان کے تمام سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ استفتِ قلبک (مسند احمد، حدیث نمبر18006)۔ یعنی اپنے دل سے فتویٰ پوچھو۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ہر بات کو شرعی مسئلہ نہ بنائو۔ بلکہ اپنی فطرت کی آواز کی پیروی کرو۔ جو لوگ انڈیا کو مادرِ وطن کہتے ہیں۔ وہ اس معنی میں نہیں کہتے کہ وہ اسی جغرافیہ کے بطن سے پیدا ہوکر نکلے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ استعارہ (metaphor)کی زبان ہے۔ اصل یہ ہے کہ مادر وطن سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے الفاظ میں مسقط الراس، مقامِ پیدائش (home land)، برتھ پلیس (birth place) ، وغیرہ کہا جاتا ہے۔
اگر بالفرض کچھ لوگ مادر وطن کا لفظ اس معنی میں بولیں کہ وہ وطن کے پیٹ سے اسی طرح پیدا ہوئے ہیں، جس طرح کوئی شخص ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ تو یہ ان کا اپنا معاملہ ہوگا نہ کہ آپ کا معاملہ۔ آپ مادرِ وطن کا لفظ اپنے مفہوم میں بولیے۔ دوسرے لوگوں کو چھوڑ دیجیے کہ وہ کس معنی میں اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی زندگی کی ایک حکمت ہے کہ کسی بات کو اس کی منطقی حد (logical end) تک نہ پہنچایا جائے۔ بلکہ اس کو معروف مفہوم کے اعتبار سے لیا جائے۔
مادر وطن (بھارت ماتا) کی اصطلاح انیسویں صدی کے آخری زمانے میں شروع کی گئی۔ یہ آزادی کی تحریک چلانے والے لیڈروں نے سیاسی مقصد کے تحت استعمال کیا تھا۔ اس اصطلاح کا کوئی مذہبی پس منظر نہیں۔
واپس اوپر جائیں

موت کا شعوری ادراک نہیں

لوگوں کو موت کا علم ہے، لیکن انھیں موت کا شعوری ادراک نہیں۔ وہ موت کو جانتے ہیں ، لیکن انھوں نے یقین کے درجے میں موت کو دریافت نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایسی زندگی گزاررہے ہیں جیسے کہ موت ان کے لیے آنے والی نہیں۔ موت کسی انسان کی زندگی کا سب سے زیادہ بھیانک واقعہ ہے۔ لوگ اگر شعوری طور پر اس حقیقت کو جانیں تو ان کی ساری توجہ موت کی طرف ہوجائے گی۔ موت سے پہلے کی زندگی ان کے لیے صرف ایک ذمے داری بن جائے گی، اور موت کے بعد کا معاملہ ان کے لیےسب سے زیادہ اہم معاملہ بن جائے گا۔
موت کے معاملے میں اس عمومی غفلت کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کے ساتھ ہر لمحہ طرح طرح کے حالات پیش آتے ہیں۔ یہ حالات انسان کو ہر لمحہ اپنی طرف مشغول کیے رہتے ہیں۔ اس کی زندگی ایک ڈسٹریکٹید (distracted) زندگی بن جاتی ہے۔ اس بنا پر انسان کو یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ موت کے بارے میں سوچے۔ موت کے بارے میں سوچنا صرف اس انسان کے لیے ممکن ہے جو اپنے آپ کو ڈسٹرکشن سے بچائے۔ چوں کہ انسان ایسا نہیں کرتا اس لیے موت کے بارے میں اس کی غفلت بھی ختم نہیں ہوتی۔ موت کے بارے میں انسان کی غفلت صرف اس وقت ختم ہوتی ہے جب اس کے سامنے موت کا فرشتہ آکر کھڑا ہوجائے، موت کے فرشتے کے سوا کوئی اور چیز اس کو دکھائی نہ دے۔انسان کی یہی مشغول زندگی اس کے لیے موت کو صرف ایک دور کی خبر بنادیتی ہے، موت اس کی زندگی میں یقین کا درجہ حاصل نہیں کرتی۔ ہر آدمی موت سے اس طرح دوچار ہوتا ہے کہ وہ اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیںہوتا۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن کو کچھ دیر کے لیے مشغولیت سے خالی کرے۔ وہ یکسوئی کے ساتھ موت کو یاد کرے۔ موت کے بارے میں جو آیتیں یا حدیثیں آئی ہیں، ان کا مطالعہ کرے۔ اس کے سوا کوئی اور چیز نہیں جو انسان کو موت کے بارے میں حقیقت شناس بنا سکے۔
واپس اوپر جائیں

کائناتی نشانیاں

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز میں کوئی آیت (نشانی) ہوتی ہے۔اہل عقل کو چاہیے کہ وہ ان نشانیوں سے سبق لے۔ نشانیوں سے سبق لینا یہی تزکیہ یا شخصیت کی تعمیر کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ مثلا آپ ایک باغ میں ہیں، وہاں شہد کی ایک مکھی آتی ہے۔ وہ پھولوں پر بیٹھتی ہے۔ وہ خاموشی کے ساتھ پھولوں کا نکٹر (nectar) لیتی ہے اور پھر وہ اڑجاتی ہے۔
اس واقعے میں بہت بڑی نشانی ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ نشانی خود پھول کا جزء ہے۔ یعنی جس طرح پھول کے اندر رنگ اور مہک ہے، اسی طرح اس کے اندر نشانی بھی اس کے ایک لازمی حصے کے طور پر موجود ہے۔ یہ نشانی انسان کے ذہن کے اندر ہوتی ہے ،نہ کہ پھول کے اندر۔ آپ کے اندر اگر سوچنےکی صلاحیت ہے تو آپ سوچ کر اس نشانی کو اخذ کریں گے۔ اور اگر آپ کے اند رسوچنے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ نشانی بھی آپ کے لیے ایک غیر موجود چیز بن جائے گی۔
اگر آپ کا ذہن ایک تیار ذہن (prepared mind) ہو۔ اور مکھی کو دیکھ کر آپ سوچنا شروع کردیں تو آپ مکھی کے حوالے سے اپنے لیےایک عظیم حقیقت کو دریافت کریں گے۔ وہ یہ کہ جس طرح پھولوں میں نکٹر ہوتا ہے، اسی طرح دنیا کی چیزوں میں نصیحت کا کوئی نہ کوئی پہلو چھپا ہوتا ہے۔ نصیحت کا یہ پہلو مادی اعتبار سے چیزوں کا جزء نہیں ہوتا۔ لیکن آپ اپنے عقل کو استعمال کرکے اس کو دریافت کرسکتے ہیں۔ مثلا شہد کی مکھی جب باغ میں آئی تو اس وقت باغ میں بہت سی چیزیں موجود تھیں— گھاس ، مٹی، لکڑی ، کانٹا ، کیڑے مکوڑے ،وغیرہ۔ لیکن مکھی نے ان تمام چیزوں کو یکسر نظر انداز کیا۔ اس نے صرف ایک کام کیا۔ وہ تھا نکٹر کو لینا اور پھروہاں سے اڑجانا۔ اگر آپ غور کریں تو اس میں آپ کے لیے نصیحت ہے۔وہ یہ کہ زندگی میں بہت سے منفی پہلو ہوتے ہیں، تم کو چاہیے کہ منفی پہلو کو نظر انداز کرو، اور مثبت پہلو کو لے کر اپنی زندگی کی تعمیر کرو۔
واپس اوپر جائیں

فیصلہ تک پہنچنا

زندگی کے بیشتر معاملات انسان کے لیے پوری طرح کلیر (clear) نہیں ہوتے۔ اکثر حالات میںا نسان ففٹی ففٹی کے درمیان ہوتا ہے۔ یعنی ففٹی پرسنٹ ہاں ، اور ففٹی پرسنٹ نہیں۔ ایسے حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہو جو اس کی اس بے یقینی کی حالت کو ختم کرے، اور اس کو یقین کے ساتھ فیصلہ تک پہنچنے کا راستہ دکھائے۔ ایک دانش مند اور تجربہ کار (advisor) کا یہی رول ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس قسم کا مشیر نرمی کی زبان نہیں بولتا، بلکہ وہ شدت اور تاکید کی زبان بولتا ہے۔ دانش مند مشیر اگر نرمی کی زبان بولے تو زیر مشورہ آدمی جہاں پہلے تھا، وہیں بدستور باقی رہے گا۔ لیکن دانش مند مشیر جب زور و تاکید کے ساتھ ایک بات کہتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زیرِ مشورہ شخص کا ذہن ہل جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں ففٹی ففٹی کی جو مساوات (equation) تھی وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ بے یقینیت (uncertainty) کی حالت 49 پرسنٹ ہوجاتی ہے۔ اور یقینیت کی حالت 51 پرسنٹ۔
زندگی کے اسی مسئلے کی بنا پر ہر زمانے میں گرو یا مرشد کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں اس کے لیے ایکسپرٹ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ کسی کو گرو یا مرشد بنانا عملی ضرورت کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص دوسروں کے مقابلے میں افضل حیثیت رکھتا ہے۔ یہ معاملہ عملی ضرورت کی بنا پر ہے ، نہ کہ تقدس یا افضلیت کی بنا پر۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر سماج میں بعض افراد اپنے تجربہ یا اپنے علم کی بنا پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اہل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ فطری طور پر اپنے سماج میں ممتاز حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ اگر لوگ حسد کے جذبے سے خالی ہوں تو بآسانی ایسا ہوگا کہ ایسے افراد گرو یا مرشد کا درجہ حاصل کرلیں گے۔ حسد کا جذبہ اعتراف (acknowledgement) کی راہ میں مانع بن جاتا ہے۔ اس لیے اس معاملہ میں اصل ضرورت یہ ہے کہ لوگوں کو حسد کے جذبے سے پاک بنایا جائے۔
واپس اوپر جائیں

نئی منصوبہ بندی

نئی منصوبہ بندی (re-planning) ہمیشہ یک طرفہ بنیاد (unilateral base)پر کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے نئی منصوبہ بندی عملاً ایک قربانی (sacrifice) کا عمل بن جاتا ہے۔ نئی منصوبہ بندی کے لیے انسان کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ ردّ عمل (reaction) سے اپنے آپ کو بچائے۔ وہ کسی چیز کو وقار (prestige) کا مسئلہ نہ بنائے۔ وہ پیچھے ہٹنے کو اسی طرح قبول کرے جس طرح وہ اقدام کو قبول کئے ہوئے تھا۔ وہ کامل طورپر غیر جانب دارانہ انداز سے سوچے اور حقیقتِ واقعہ کی بنیاد پر ایک فیصلہ لے۔ وہ ہار اور جیت کی نفسیات سے اوپر اٹھ کر اپنی راہِ عمل متعین کرے۔ یہی نئی منصوبہ بندی ہے اور اس قسم کی منصوبہ بندی قربانی کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔پیغمبر اسلام کے زمانے میں حدیبیہ پالیسی اسی قسم کی ایک نئی منصوبہ بندی تھی۔ مگر مسلمان بعد کے زمانے میں اپنے رسول کے اس اسوہ کو بھول گئے۔حدیبیہ پالیسی کا مقصد یہ تھا کہ نئے حالات کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنانا۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں اہل ایمان کو نئے حالات سے سابقہ پیش آیا۔ اب ضرورت تھی کہ اپنی جدو جہد کو زیادہ موثر اور نتیجہ خیز بنانے کےلیے نیا نقشہ کار بنایا جائے۔
نیا نقشہ کار بنانے کے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ صورت حال کو خالص غیر جذباتی انداز میں دیکھا جائے۔’’دشمن‘‘ اور’’سازش‘‘ جیسی اصطلاحات کو ترک کرکے از سر نو غور کیا جائے۔ اور تمام لوگوں کو انسان سمجھ کر ان سے معاملہ کیا جائے۔ اس قسم کا غیر متعصبانہ ذہن نئی منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے۔ پیغمبر اسلام اگر ہجرت کے بعد یہ اعلان کرتے کہ مکہ والے ہمارے دشمن ہیں تو آپ وہ اعلیٰ منصوبہ نہ بناسکتے جس کو قرآن میں فتح مبین کہا گیا ہے۔جو لوگ دشمنی اور سازش کی اصطلاح میں سوچیں ، وہ اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ ان کا ذہن ماضی کے حالات میں اٹکا ہوا ہے۔ ایسے لوگ نئے امکانات کو سمجھنے میں ناکام رہیں گے۔ اس بنا پر وہ وقت کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بھی نہ بنا سکیں گے۔جو لوگ حالات کےمطابق درست منصوبہ بندی نہ کرسکیں، ان کے حصے میں صرف بے فائدہ شکایت آئے گی، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مبنی بر معرفت کلام

انسانی کلام کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان جس موضوع پر کلام کرے، اس کی پوری معرفت اس کو حاصل ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ معرفت کے بغیر آدمی لکھنا اور بولنا شروع کردے۔ پہلی صورت میں انسان کے کلام میں وضوح (clarity) ہوگی۔ اس کے برعکس، دوسری صورت میں انسان کا کلام وضوح (clarity) سے خالی ہوگا، اس کا کلام کنفیوژن کا کلام ہوگا۔
مثلا اگر آپ ایک عمارت میں ہیں۔ یہ عمارت ایک عبادت خانہ کی عمارت ہے۔ اب اگر آپ کو یہ معرفت حاصل ہو کہ یہ بلڈنگ عبادت خانہ ہے۔ تو اس کے بارے میں آپ کا کلام ایک واضح کلام ہوگا۔ اس کے برعکس، اگر آپ اس بلڈنگ کو کچھ اور سمجھ لیںتو اس کے بارے میں آپ کا کلام کنفیوژن سے بھرا ہواکلام بن جائے گا۔
آپ کو اگر تقریر یا تحریر کے میدان میں کوئی رول ادا کرنا ہے تو آپ کو چاہیے کہ سب سے پہلے متعین موضوع کا گہرا مطالعہ کریں۔ اس موضوع کے بارے میں اتنی معلومات حاصل کریں کہ آپ معرفت کے درجے میں اس موضوع کو سمجھنے لگیں۔ معرفت کے بغیر کلام کرناصرف وقت ضائع کرنا ہے، اپنا بھی اور دوسروں کا بھی۔ کیوں کہ ایسی صورت میں آپ موضوع کا حق ادا کرنے سے قاصر رہیں گے۔ اور سننے یا پڑھنے والوں کو کوئی فکری غذا دینے میں ناکام رہیں گے۔
معرفت کیا چیز ہے۔ وہ اس مشہور قصے سے معلوم ہوتی ہے، جو سات آدمی اور ہاتھی کے عنوان سے مشہور ہے۔اس قصےمیں سات اندھے آدمیوں نے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ ہاتھی کیا ہے۔ ان میں سے ہر شخص یہ بتانے میں ناکام رہا تھا کہ ہاتھی واقعۃًکیا چیز ہے۔ یہی انجام اس مقرر یا محرر کا ہوگا جو معرفت کے بغیر بولنا اور لکھنا شروع کردے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ پہلے بولنے اور لکھنے کی شرط کو پورا کرے۔ اس کے بعد وہ بولنا یا لکھنا شروع کرے۔ اس معاملے میں شرط پورا کرنا یہی ہے کہ معرفت کے درجے میں موضوع پر درک حاصل کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

انتظار کیجیے

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ دس سال پہلے میں آپ سے ملا تھا۔ اس وقت میں ایک مسئلے سے دوچار تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اس کو کس طرح حل کروں۔ میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے کہا: مسئلے کو انتظار کے خانے میں ڈال دیجیے۔ میں نے آپ کے اس مشورہ کو پکڑلیا۔ اور آج میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرا نہ صرف مسئلہ حل ہوا، بلکہ اس کے بعد میرے لیے ترقی کا نیا دروازہ کھل گیا۔
اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب ان کی زندگی میں کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو وہ فوراً ردعمل (reaction) کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ردعمل کی نفسیات کے تحت وہ منفی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، البتہ وہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتو اپنے آپ کو ردعمل کی نفسیات سے بچائیے۔ پختگی (maturity) کا ثبوت دیتے ہوئے صرف یہ کیجیے کہ معاملے کو انتظار کے خانے میں ڈال دیجیے۔
اصل یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق ، حالات کبھی یکساں نہیں رہتے۔ آدمی اگر جلد بازی میں حالات کو نہ بگاڑے تو عین ممکن ہے کہ حالات کا رخ اس کے موافق ہوجائے اور جو مسئلہ پہلےناقابلِ حل بناہوا تھا، وہ خود حالات کی تبدیلی کے نتیجے میں آسانی کے ساتھ حل ہوجائے۔
جس چیز کو زمانہ کہا جاتا ہے، وہ دراصل انسانی تاریخ ہے۔ انسانی تاریخ نہ کسی کی دوست ہے اور نہ کسی کی دشمن۔ انسانی تاریخ فطرت کی شاہراہ پر چل رہی ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ تاریخ کے سفر کو سمجھے، اور اس کےمطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔ اگر کسی کے اندر اس معاملے میں گہری بصیرت نہ ہو تو اس کے لیے دوسرا آپشن (option) یہ ہے کہ وہ اللہ کی مدد کا طالب بنتے ہوئےاپنے آپ کو حالات کے رخ پر ڈال دے۔ وہ ہرگز ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کرے۔یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

حکمت

حکمت، دانائی اور وزڈم (wisdom) تینوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ وزڈم مسلمہ طور پر سب سے بڑی انسانی صفت ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ وزڈم کی کوئی واضح تعریف (definition) ڈکشنری میں موجود نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وزڈم کوئی انڈیپنڈنٹ آئٹم نہیں۔ وزڈم دراصل پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کا دوسرا نام ہے۔ وزڈم دراصل اِس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی کسی مسئلہ کے متعلق اور غیر متعلق پہلو کو سمجھے اور غیر متعلق کو الگ کرکے متعلق کو دریافت کرسکے:
Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.
اس بات کو ایک مفکر نے اس طرح بیان کیا ہے — دانش مند انسان وہ ہے جو چیزوں کے اضافی پہلو کو جانے:
A wise man is one who knows the relative aspect of things.
عام طورپر لوگ چیزوں کو صحیح اور غلط کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔ ان کو جو چیز صحیح (right) نظر آئے اس کو لینا چاہتے ہیں اور جو بظاہر غلط (wrong) دکھائی دے اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ وزڈم نہیں ہے۔ وزڈم یہ ہے کہ آدمی چیزوں کو بہ اعتبار نتیجہ دیکھے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں آدمی کے لئے انتخاب اکثر گڈ (good)اور بیڈ (bad)کے درمیان نہیں ہوتا بلکہ کم برائی (lesser evil) اور بڑی برائی (greater evil) کے درمیان ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں دانش مندی یہ ہے کہ آدمی زیادہ بڑی برائی کے مقابلے میں کم برائی کا انتخاب کرے، اسی کا نام وزڈم ہے۔
معلومات اور وزڈم ایک چیز نہیں۔ اگر کسی انسان کے پاس بہت زیادہ معلومات ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ وزڈم یا حکمت کا بھی مالک ہے۔ معلومات کا تعلق حافظہ (memory) سے ہے۔ جس آدمی کا حافظہ اچھا ہو، اس کی یادداشت میں بہت زیادہ باتیں محفوظ رہتی ہیں۔ لیکن وزڈم کا زیادہ تعلق قوت تجزیہ (power of analysis) سے ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہر صورتِ حال بہتر

مشہور صحابیٔ رسول حضرت علی بن ابی طالب کا قول ہے: الخیر فیما وقع۔ یعنی جو ہوگیا، وہی بہتر ہے۔
Whatever happened, happened for the good.
حضرت علی کا یہ قول فطرت کے قانو ن کو بتاتا ہے۔وہ یہ کہ دنیا میں مواقع کی تعداد بے شمار ہے۔ اگر ایک موقع کھوجائے تو آدمی کے اندر محرومی کا احساس نہیں ہونا چاہیے۔ اس کو یہ امید کرنا چاہیے کہ ایک موقع کھونے کے بعد جلد ہی اس کو دوسرا موقع مل جائے گا، اس طرح اس کی زندگی کا سفر رکے بغیر جاری رہے گا۔
یہ صرف ایک قول نہیں ہے بلکہ فطرت کا ایک عام قانون ہے۔ یہ مومن و غیر مومن سب کے لیے ہے۔ اگر آدمی اس حقیقت کو دھیان میں رکھے تو وہ کبھی مایوس نہیں ہوگا۔ وہ ہر ناکامی کو وقتی سمجھے گا۔ ہر ناکامی کے بعد وہ ا پنی کوشش کو جاری رکھے گا، یہاں تک کہ وہ کامیاب ہوجائے گا۔ یہ بات کوئی پراسرار بات نہیں۔ یہ فطرت کا ایک معلوم قانون ہے۔
خالق نے دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں مواقع (opportunities) اتنے زیادہ ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ کچھ مواقع ایسے ہیں، جو بظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ اور زیادہ مواقع ایسے ہیں، جو موجود رہتے ہیں لیکن وہ ظاہری طور پر دکھائی نہیں دیتے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ پر امید رہے۔ وہ ناموافق حالات میں بھی مواقع کی تلاش جاری رکھے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر یہ استعداد پیدا کرے کہ وہ مواقع کو اپنے حق میں استعمال کرسکے، مواقع جس ہنر (skill) کا تقاضا کریں، وہ ہنر اپنے اندر پیدا کریں۔
مواقع کو وہی لوگ کامیابی کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں، جن کے اندر مواقع کو استعمال کرنے کے لیے ضروری لیاقت موجود ہو۔ لیاقت کے بغیر مواقع کا کامیاب استعمال ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ٹکنالوجی کا کمال

ماہنامہ الرسالہ 1976 میں جاری ہوا۔ یہ غالبا دنیا کا واحد ماہنامہ ہے جو صرف ایک شخص کی تحریروں پر نکلتا ہے۔ ایک شخص کی زبان ، اور ایک شخص کے فکر (thought) کے سوا کسی دوسرے کا کوئی ڈائرکٹ کنٹری بیوشن اس میں نہیں ہوتا۔
کچھ سالوں سے مَیں الرسالہ کے مضامین اپنے ہاتھ سے نہیں لکھتا ،بلکہ میں الرسالہ کے مضامین کوڈکٹیٹ (dictate) کرتا ہوں۔ پہلے یہ تھا کہ کوئی صاحب اس کو ہاتھ سے لکھتے، پھر اس کو کاتب کے حوالے کیا جاتا، پھر تصحیح مراحل سے گزر کو وہ مطبوعہ الرسالہ کی صورت میںلوگوں کے سامنے آتا۔
لیکن اب جدید ٹکنالوجی نے اس معاملے کوبہت آسان بنادیا ہے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ میں مضمون کے الفاظ بولتاہوں اور کوئی صاحب فوراً کے فوراً اس کو ٹائپ کرتے ہیں۔ اس درمیان میں کسی ریفرنس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ بھی ٹائپ کرنے والے صاحب فوراً کے فوراً کمپیوٹرمیں موجود ڈیجیٹل لائبریری یا انٹرنیٹ سے نکال دیتے ہیں، اور اس کو مضمون میں اسی وقت شامل کردیا جاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں ٹکنالوجی اللہ تعالی کی عجیب نعمت ہے۔ مذکورہ بات اس نعمت کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں، جب کہ ٹکنالوجی کی مدد سے الرسالہ مشن کو عالمی سطح پر چلایا جارہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے مادہ (matter) کو حکم دے دیا ہے کہ تم انسان کی ہدایت پرچلو۔ انسان کی ہدایت پر اس کی آواز کو یہاں سے وہاں پہنچاؤ۔ اس کی ہدایت پر اس کے تمام معاملات کو انجام دو۔ میری پیدائش 1925 میں ہوئی۔ اس لحاظ سے مجھے ذاتی طور پر یہ تجربہ ہے کہ قدیم زمانے میں کیا تھا اور موجودہ زمانے میں کیا ہے۔ اس بنا پر میرے لیے موجودہ زمانے کی ہر چیز شکر کا آئٹم بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال

ایک حدیث ہے: اللہم إنی أسألک علما نافعا ورزقا طیبا وعملا متقبلا(مسند احمد، حدیث نمبر 26602) میرا سوال یہ ہے کہ علم نافع اور غیر نافع کا معیار کیا ہے؟ (حافظ سید اقبال احمد عمری)
جواب
نافع ہونے کا دو معیار ہے۔ دنیا کے اعتبار سے نافع ہونا، اور آخرت کے اعتبار سے نافع ہونا۔ مگر زیادہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد معروف معنوں میں علم دنیااور علم دین نہیں ہے۔ بلکہ اس کا خطاب خود صاحب علم سے ہے۔ کسی علم کا نافع یا غیر نافع ہونا ، اس پر منحصر ہےکہ صاحب علم اس کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ گویا نافعیت کا معیار علم کا استعمال ہے، نہ کہ خود علم۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا علم بھی غیر نافع بن جاتا ہے کہ اگر اس کو دنیوی مفاد کے لیے استعمال کیا جائے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں: من تعلم علما مما یبتغى بہ وجہ اللہ عز وجل لا یتعلمہ إلا لیصیب بہ عرضا من الدنیا، لم یجد عرف الجنة یوم القیامة یعنی ریحہا (سنن ابوداوود، حدیث نمبر3664) یعنی جس نے ایسا علم سیکھاجس سے اللہ کی رضا حاصل کی جاتی ہے، مگر اس نے یہ علم صرف دنیا حاصل کرنے کے لیے سیکھا تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔ اصل یہ ہے کہ ہر علم ایک کار آمد علم ہے۔ اس کا استعمال اس کو اچھا یا برا بناتا ہے۔اس لحاظ سے اصل اہمیت استعمال کی ہے ، نہ کہ علم کے قسم کی۔اسی حقیقت کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: انما الاعمال بالنیات (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1)یعنی عمل کا دار ومدار نیت پر ہے۔ آخرت کی نیت سے حاصل کیا ہوا علم نافع ہے، اور دنیاکی نیت سے حاصل کیا ہوا علم غیرنافع ہے۔
واپس اوپر جائیں