Pages

Saturday, 1 April 2017

Al Risala | Apr 2017 (الرسالہ، اپریل)

1

-توبہ کی نفسیات

2

- عافیت کی دعا

3

- رسول سے تعلق

4

- گفتگو کے اصول

5

- عدم اطمینان

6

- اختلاط کی اہمیت

7

- غضب، رحمت

8

- تزکیہ کیا ہے

9

- شرک کیا ہے

10

- عقل سے محرومی

11

- اصلاح اور محاسبہ

12

- دعا، قبولیتِ دعا

13

- فروغ وسائل انسانی

14

- کنڈیشننگ کا مسئلہ

15

- قابل عمل طریقِ کار

16

- عہد اسلام

17

- قتل کی سزا

18

- حضرت عائشہ کا نکاح

19

- دجالیت کیا ہے

20

- تاجر کا معاملہ

21

- دین میں غلو

22

- فقہ الاقلیات

23

- عورت کی تخلیق

24

- غلطی کا اعتراف

25

- تجربہ کی دنیا

26

- دیباچہ

27

- سوال و جواب

28

- خبرنامہ اسلامی مرکز


توبہ کی نفسیات

انسان کی نفسیات میں اس کے خالق نے ایک خصوصیت رکھی ہے، جس کو عام طور پر ندامت (repentance) کہا جاتا ہے۔ یہ خصوصیت ایک سچے مومن کے اندر مزید اضافہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ خصوصیت انسان کے لیے ایک عجیب رحمت ہے۔ اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:فَأُولَئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ (25:70)۔یعنی اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا:
Allah will change their evil deeds into good deeds
یہ معاملہ جو اہل ایمان کے ساتھ پیش آتا ہے، وہ صرف ’’برائی‘‘ کی بنا پر نہیں ہوتا، بلکہ اس شدید ندامت کی بنا پر ہوتا ہے، جو برائی کرنے کے بعد ان کے اندر پیدا ہوئی ہو۔ ندامت (repentance) کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ آدمی کے اندر اس بات کا شدید جذبہ پیدا کرتی ہے کہ آدمی اپنی اصلاح کرے، اور برائی کے بعد مزید شدت کے ساتھ بھلائی کا راستہ اختیار کرے۔ ندامت کے ذریعہ پیش آنے والایہی مثبت جذبہ ہے جو اللہ کے قانون کے مطابق برائی کو بھلائی میں تبدیل کردیتا ہے۔
برائی کی ایک صورت وہ ہے جب کہ کوئی آدمی جب برائی کرنے کے بعد اسی پر قائم ہوجائے ۔ ایسے آدمی کی برائی اس کو اور زیادہ برا بنا دیتی ہے۔ لیکن جس آدمی کا یہ حال ہو کہ برائی کرنے کے بعد اس کے اندر انٹراسپکشن (introspection) پیدا ہو ۔ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اب مجھے دوبارہ برائی نہیں کرنا ہے، بلکہ اس کے برعکس ،مجھے بھلائی کے راستے پر مزید اضافہ کے ساتھ چلنا ہے۔ تو ایسے آدمی کے لیے اس کی برائی برعکس طور پر بھلائی کا محرک بن جاتی ہے۔ وہ مزید اضافہ کے ساتھ بھلائی کے راستے پر چلنے لگتا ہے۔ یہی وہ صفت ہے جو ایک سچے مومن کی برائی کو بھلائی میں بدل دیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

عافیت کی دعا

عافیت سے متعلق کئی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت یہ ہے: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:من فُتِح لہ منکم باب الدعاء فُتِحت لہ أبواب الرحمة، وما سُئِل اللہُ شیئا یعنی أحب إلیہ من أن یسأل العافیة(سنن الترمذی، حدیث نمبر3548)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کےلیے دعا کے دروازے کھولے گئے اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے عافیت مانگنا ہر چیز مانگنے سے زیادہ محبوب ہے ۔
اس دنیا میں انسان کو اگرچہ اختیار دیا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاملات میں انسان کا دخل ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ رب العالمین کا دخل ننانوے فیصد سے بھی زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے لیے اللہ سے دعا کرنا بہت زیادہ اہم ہے۔ جس انسان کو یہ حقیقت دریافت ہوگئی، اور وہ اس پر قائم ہوگیا، وہ بلاشبہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں آجائے گا۔
اس دنیا میں انسان کے لیے پہلی رحمت کی چیز ایمان ہے۔ یعنی حقیقت حیات کی دریافت۔ اس کے بعد جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، وہ عافیت ہے۔ عافیت سے مراد وہی چیز ہے جس کو عام طور پر اچھی صحت (good health) کہا جاتا ہے۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک کمزور مخلوق ہے۔ صحت و عافیت میں معمولی خلل انسان کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ جس انسان کو صحت و عافیت حاصل نہ ہو وہ کوئی بھی کام صحیح شکل میں نہیں کرسکتا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ سے بہت زیادہ دعا کرے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو درست طور پر ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔مگر یاد کیے ہوئے عربی الفاظ کو دہرانے کا نام دعا نہیں ہے، سچی دعا وہ ہے جو معرفت کی دعا ہو۔ جو دل کی گہرائیوں سے نکلے، نہ کہ لفظی تکرار کے طور پر۔ایسی دعا بلاشبہ اللہ تک پہنچتی ہے، اور وہ اللہ کے یہاں قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

رسول سے تعلق

ایک صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ— اللہ سے حب شدید مطلوب ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے جو چیز مطلوب ہے، وہ صرف اتباع ہے، یا اتباع کے ساتھ emotional attachment بھی۔
اس کو جواب یہ ہے کہ رسول اللہ سے جو اتباع مطلوب ہے وہ سادہ اتباع نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ نے انسان کو ایک ایسی صراط مستقیم دکھائی، جو انسان کو جنت تک پہنچانے والی ہے۔ اس طرح کا عطیہ اپنے آپ میں صاحب عطیہ کے بارے میں ایموشنل اٹیچمنٹ پیدا کرتا ہے۔ یہ ایموشنل اٹیچمنٹ ذاتی فضیلت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ کےکنٹری بیوشن کی بنا پر ہے۔یعنی پیغمبر سے ہم کو جو ہدایت ملتی ہے، جب انسان کو اس ہدایت کا گہرا شعور حاصل ہوتاہے تو اپنے آپ اس کو رسول اللہ سے ایموشنل اٹیچمنٹ پیدا ہوجاتا ہے۔ذاتی فضیلت صرف اللہ کا حصہ ہے، جو کہ واجب الوجود ہے۔ بقیہ تمام انسان اللہ کے پیدا کیے ہوئے ہیں، بشمول پیغمبر ۔ اس اعتبار سے ذاتی فضیلت صرف اللہ رب العالمین کو حاصل ہے۔ ذاتی فضیلت کے معنی میں اللہ کا کوئی شریک نہیں۔ بقیہ انسانوں کا درجہ اس کے عمل سے متعین ہوتا ہے، نہ کہ ذاتی فضلیت کی بنا پر۔
اللہ سے محبت اس اعتبار سے مطلوب ہے کہ اللہ نے ہم کو پیدا کیا، اسی سے ہم کو تمام چیزیں ملی ہیں۔ اس کے مقابلے میں رسول سے ایموشنل اٹیچمنٹ اس اعتبار سے پیدا ہوتا ہے کہ رسول نے بے پناہ قربانی کے بعد اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا یا کہ اللہ ان پر اپنی وحی اتارے، اور ان کو یہ توفیق دے کہ وہ اسوۂ حسنہ بن کر تمام انسانوں کے لیے ایمانی زندگی کا ماڈل بن جائے۔ ایموشنل اٹیچمنٹ بہت اہم ہے۔ لیکن مطلق نوعیت کا ایموشنل اٹیچمنٹ ایک مومن کو صرف اللہ کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ مطلق نوعیت کے ایموشنل اٹیچمنٹ میں کوئی اللہ کا شریک نہیں۔ اسی حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:إنما أنا قاسم واللہ یعطی (صحیح البخاری، حدیث نمبر71)۔
واپس اوپر جائیں

گفتگو کے اصول

مشہور صحابی عبد اللہ ابن مسعود کا ایک قول ان الفاظ میں آیا ہے: ما أنت بمحدث قوما حدیثا لا تبلغہ عقولُہم، إلا کان لبعضہم فتنة (صحیح مسلم، مقدمہ، 1/11)۔ یعنی اگر تم کسی جماعت کو ایسی بات بتاؤ جو ان کے عقلوں تک نہ پہنچے تو یہ ان میں سے کچھ لوگوں کے لیے فتنہ کا سبب بن جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کلام اور سامع کے معیار فہم میں مطابقت ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر آج کا زمانہ عقلی زمانہ (the age of reason)ہے۔ اگر آپ ایک درست بات قدیم روایتی انداز میں کہیں تو ایسی بات آج کے انسان کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ عدم فہم کی بنا پر، وہ اس کا منکر بن سکتا ہے۔ حالاں کہ اگر بات کو ایسے اسلوب میں کہا جائے جو مخاطب کے لیے قابل فہم (understandable) ہو تو عین ممکن ہے کہ وہ اس کو قبول کرلے۔
مثال کے طور پر اگر آپ یہ کہیں کہ مستشرقین (orientalist) اسلام کےدشمن ہیں تو یہ بات آج کے ایک تعلیم یافتہ انسان کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ وہ آپ کی بات کو بے اصل سمجھ کر رد کردے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ یہ کہیں کہ مستشرقین کا نقطہ نظر موضوعی (objective)ہوتا ہے۔ اس لیے وہ صرف اس بات کو سمجھ پاتے ہیں جو موضوعی استدلال (objective reasoning) پر مبنی ہو۔ اس کے برعکس جو بات اعتقادی (subjective) انداز میں کہی جائے، وہ ان کے لیے قابل فہم نہیں ہوتی۔ اس لیے ان کا ذہن ایسی بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنی بات کو اس انداز میں کہیں تو آج کا تعلیم یافتہ انسان اس کو قبول کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہ کرے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے اس اصول کے مطابق کلام کو ایسے اسلوب میں ہونا چاہیے جو مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ گفتگو میں جتنی اہمیت صحت کلام کی ہے، اتنی ہی اہمیت اس میں اسلوب کلام کی بھی ہے۔
واپس اوپر جائیں

عدم اطمینان

ایک شخص نے ان بڑے بڑے اسکالرس پر ریسرچ کیا ہے، جو اپنی کسی بڑی دریافت کی بنا پر نوبل پرائز کے لیے منتخب ہوئے۔ اس نے لکھا ہے کہ میں نے یہ پایا کہ ان اسکالرس میں ایک چیز مشترک تھی۔ وہ تھی عدم قناعت (discontentment) ۔وہ علم کے بارے میں کسی حد پر نہیں رکتے تھے۔ اس لیے ان کی ترقی مسلسل جاری رہی۔
بڑے بڑے اہل علم کی جو عدم قناعت علم کے بارے میں ہوتی ہے، وہی عدم قناعت مومن کے اندرمعرفت کے بارے میں ہوتی ہے۔ مومن آخر دم تک معرفت خداوندی کے معاملے میں غیرقانع رہتا ہے، اس لیے اس کی معرفت برابر بڑھتی رہتی ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔
اہل ایمان کے بارے میں یہی وہ حقیقت ہے، جو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَنْ یَشْبَعَ الْمُؤْمِنُ مِنْ خَیْرٍ یَسْمَعُہُ حَتَّى یَکُونَ مُنْتَہَاہُ الجَنَّةُ(سنن الترمذی، حدیث نمبر2686)۔مسند شہاب القضاعی کی روایت (نمبر897) میں خیر اور مومن کے بجائے علم اورعالم کا لفظ آیا ہے۔ یعنی ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مؤمن(عالم)خیر (اور علم)کی باتیں سننے سے کبھی سیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کی انتہاء جنت پر ہوتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کی نسبت سے دین کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے معرفت کا پہلو، اور دوسرا ہے دینداری کا فارم ۔ فارم ہمیشہ معلوم ہوتا ہے۔ کچھ افعال انجام دینے کے بعد اس کی حد آجاتی ہے۔ اور جب کسی چیز کی حد آجائے تو ایسے انسان کے اندر عدم اطمینان کی کیفیت پائی نہیں جائے گی، وہ جو کچھ کررہا ہے، وہ اس پر قانع ہوجائے گا۔
مگر معرفت لامتناہی چیز ہے۔ آدمی کتنا ہی زیادہ معرفت حاصل کرلے،اس کے اندر مزید حصول کا جذبہ کبھی ختم نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

اختلاط کی اہمیت

ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:المؤمن الذی یخالط الناس ویصبر على أذاہم، أعظم أجرا من الذی لا یخالط الناس ولا یصبر على أذاہم۔ (مسند احمد، حدیث نمبر23098) یعنی وہ مومن جو لوگوں سے میل جول رکھتا ہے، اور ان کی اذیت پر صبر کرتا ہے، اس کا اجر اس سے زیادہ ہے جو لوگوں سے میل جول نہیں رکھتا، اور ان کی اذیت پر صبر نہیں کرتا۔اس حدیث میں اختلاط کا مطلب میل جول (interaction) ہے۔ ایک شارح حدیث نے اس کی شرح کرتے ہوئے کہا کہ إن الخلطة أفضل من العزلة (تحفۃ الاحوذی7/177) یعنی تنہائی کی زندگی کے مقابلے میں میل جول کی زندگی زیادہ افضل ہے۔ اختلاط کی زندگی کا افضل ہونا صرف اخلاق کے معنی میں نہیں ہے۔ اس سے زیادہ وہ شخصیت کی تعمیر (personality development) کے معنی میں ہے۔
یہ فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ انسان کے اندر سنجیدگی ہو۔ اس کے اندر سوچنے اور نصیحت لینے کا مزاج ہو۔تو ہر اختلاط اس کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔لوگوں سے انٹرایکشن کے درمیان اس کو طرح طرح کے تجربات پیش آتے ہیں۔وہ لوگوں سے نئی نئی باتیں سیکھتا ہے۔ اختلاط کے دوران اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی فکری اصلاح کرے۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ لوگوں کی معلومات سے اپنے علم میں اضافہ کرے۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی فکری محدودیت کو عالمی فکر میں تبدیل کرسکے۔انٹرایکشن کا یہ فائدہ اس انسان کو ملتا ہے جس کے اندر سیکھنے کا مزاج (spirit of learning) ہو۔ جوباتوں کو غیر متعصبانہ انداز میں دیکھ سکے۔ وہ جو کچھ سنے اس کو آبجکٹیو (objective) انداز میں لے، نہ کہ سبجکٹیو (subjective) انداز میں ۔ اس کے اندر اعتراف کا مادہ ہو۔ وہ کسی رائے کو سچائی کے اعتبار سے دیکھے، نہ یہ کہ وہ کس شخص کی رائے ہے۔ وہ پورے معنوں میں نفسِ مطمئنہ (complex-free soul) کی حیثیت رکھتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

غضب، رحمت

اللہ کی صفت غضب بھی ہے اور رحمت بھی۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ اللہ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ اس کو اپنے غضب کا تجربہ کرائے تو یہ بلاشبہ اللہ رب العالمین کا ایک کمتر اندازہ (underestimation) ہوگا۔زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ اللہ رب العالمین اس کو اپنی رحمت کا تجربہ کرائے۔ یہی تصور اللہ رب العالمین کی شان کے مطابق ہے۔
اسی حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إن رحمتی سبقت غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر7422)۔ دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: إن رحمتی غلبت غضبی (مسند اسحاق ابن راہویہ، حدیث نمبر459)۔ یعنی میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے۔
باپ کے اندر اپنے بیٹے کے لیے ایک اعلیٰ شریفانہ جذبہ ہوتا ہے جس کو پدرانہ شفقت (fatherliness)کہا جاتا ہے۔ یہ جذبہ باپ کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی غلطی کو سنبھالے، وہ اپنے بیٹے کو اس کی غلطی کا انجام بھگتنے نہ دے۔ یہ صفت بلاشبہ خالق کے اندر بے شمار گنا زیادہ ہے۔ اس صفت کی بنا پر جس طرح خالق کے غضب پر اس کی رحمت غالب آجاتی ہے۔ اسی طرح بندے کا بھی یہ حال ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے مہربان خالق کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کی رجاء (hope)اس کے خوف پر غالب آجاتی ہے۔ وہ یہ امید کرتا ہے کہ اس کا مہربان خالق اس کی غلطیوں کو سنبھالے گا، وہ اس کو اس کی غلطیوں کے انجام سے بچالے گا۔
زندگی کا یہ تصور اگر آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ ایک طرف وہ ہمیشہ آخرت کے مواخذہ سے ڈرتا رہے تو دوسری طرف یہ مزاج اس کے اندر یہ نفسیات پیدا کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے خالق کے بارے میں پر امید (hopeful) بنا رہے۔ اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَیَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَہَبًا (21:90)۔
واپس اوپر جائیں

تزکیہ کیا ہے

قرآن کے مطابق، جنت میں داخلہ ان افراد کو ملے گا، جنھوں نے دنیا میں اپنا تزکیہ کیا ہوگا۔ مثلا قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں:قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا (91:9)۔ یعنی وہ شخص کامیاب ہوا جس نے اپنا تزکیہ کیا۔ اور دوسری جگہ ہے:جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَذَلِکَ جَزَاءُ مَنْ تَزَکَّى (20:76) ۔ یعنی ان کے لئے ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ بدلہ ہے اس شخص کا جس نے اپنا تزکیہ کیا۔
تزکیہ کیا ہے۔ یہ ایک حدیث رسول کے مطالعے سے سمجھ میں آتا ہے۔ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان الفطرۃ پر پیدا کیا گیا ہے۔ مگر ماحول کے اثر سے وہ غیر فطری زندگی اختیار کرلیتا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی پیدائشی طور پر مزکیّٰ شخصیت (فطرت صحیحہ) پر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ماحول کی کنڈیشننگ (conditioning) کی وجہ سے وہ ایک مصنوعی شخصیت بن جاتاہے۔ ایسی حالت میں تزکیہ یہ ہے کہ آدمی اپنے اس مسئلہ کو جانے اور اپنی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) کرکے دوبارہ اپنے آپ کو فطری شخصیت بنائے۔ یہی وہ فطری شخصیت ہے جو مزکّی شخصیت ہوگی۔
ڈی کنڈیشننگ دوسرے الفاظ میں سیلف کرِکشن (self-correction) کے عمل کا نام ہے۔ سیلف کرکشن یا ڈی کنڈیشننگ کا یہ کام کوئی دوسراشخص نہیں کرسکتا۔ یہ کام ہر آدمی کو خود کرنا پڑتا ہے۔ ہر عورت اور مرد کا پہلا فرض ہے کہ وہ اپنا محاسبہ (introspection) کرے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے اندر سے ہر ایسے آئٹم کو نکالے جو باعتبار پیدائش بظاہر اس کے اندر موجود نہ تھے۔ لیکن بعد کو وہ ماحول کی کنڈیشننگ کی بنا پر اس کی شخصیت کا حصہ بن گیے۔ جب کوئی شخص سنجیدگی کے ساتھ اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے گا تو اس کے بعد اپنے آپ ایسا ہوگا کہ آدمی کی فطری شخصیت پاک ہوکر سامنے آجائے۔ اسی پاکیزہ شخصیت کا نام مزکّی شخصیت ہے۔
واپس اوپر جائیں

شرک کیا ہے

شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ دوسرے گناہوں کو معاف کردے گا، لیکن وہ شرک کو معاف نہیں کرے گا ( النساء 48:، 116)۔ شرک اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ انسان کسی کو اللہ کا برابر (equal) سمجھے، اور اس کے ساتھ اللہ جیسا معاملہ کرے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ان دو آیتوں کا مطالعہ کیجیے: الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِہِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّہِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (2:22)۔یعنی وہ ذات جس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا بنایا اور آسمان کو چھت بنایا، اور اتارا آسمان سے پانی اور اس نے پیدا کئے پھل تمہاری غذا کے لئے۔ پس تم کسی کو اللہ کے برابر نہ ٹھہراؤ، حالاں کہ تم جانتے ہو۔دوسری آیت یہ ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللَّہِ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ (2:165)۔ یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہئے۔ اور جو اہل ایمان ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں۔
توحید یہ ہے کہ انسان اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرے۔ اور شرک یہ ہے کہ انسان حُبً شدید کے معاملے میں اللہ کے سوا کسی اور کو شریک کرلے۔ توحید اور شرک دونوں اصلاً اعتقادی صفات ہیں۔ بقیہ چیزیں مظاہر شرک ہیں، نہ کہ حقیقت شرک۔خدا کی دریافت ایک ایسی ہستی کی دریافت ہے جو انسان کا خالق ہے۔ ان تمام چیزوں کو دینے والا ہے جو انسان کو اپنی زندگی کے لیے درکار ہیں۔ خدا کی اس حیثیت کا گہرا ادراک جب کسی آدمی کو ہوتا ہے تو وہ اللہ کو اپنا سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کے اندر اپنے رب کے لیے بے پناہ محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے دل کی گہرائیوں میں اللہ کے سوا کسی اور کے لیے جگہ نہیں ہوتی۔ اللہ کی دریافت کا لازمی نتیجہ اللہ سے محبت ہے، اور اللہ سے محبت کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ دوسری تمام محبتیں اس کے دل سے نکل جائیں۔
واپس اوپر جائیں

عقل سے محرومی

ایک طویل حدیث میں امت مسلمہ کے دورِ زوال کی پیشین گوئی کی گئی ہے، اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا: قیامت کے قریب ہرج ہوگا۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ہرج سے کیا مراد ہے ؟ آپ نےکہا: قتل۔ کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول ہم تو اب بھی ایک سال میں اتنے اتنے مشرکوں کو قتل کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد مشرکوں کا قتل نہیں ہے، بلکہ تم میں سے بعض اپنے بعض کو قتل کرے گا، حتی کہ ایک آدمی اپنے پڑوسی کو، اپنے چچازاد بھائی کو،اور اپنے قرابت دار کو قتل کرے گا۔ لوگوں میں سے کسی نے کہا، اے اللہ کے رسول اس دور میں ہماری عقلیں ہمارے ساتھ ہوں گی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ نہیں۔ اس زمانہ میں اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی، اور گر د وغبار کی مانند لوگ باقی رہیں گے۔ ان کے پاس عقلیںنہیں ہوں گی۔ (سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر 3959)
یہاں عقل چھننےسے مراد عقل کے درست استعمال کے لیے نااہل ہوجانا ہے۔ اس بنا پر ایسا ہوگا کہ لوگ ناحق طور پر ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں گے۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والے اس واقعہ کا ذکر ہے جب کہ امت اپنے دورِ زوال میں پہنچ جائے گی۔ اس کے اندر تقلیدی فکر بہت زیادہ عام ہوچکی ہوگی۔ لوگ اپنے روایتی اکابر کی سوچ سے باہر نکل کر سوچنے کے قابل نہ رہیں گے۔اس بنا پروہ اس صلاحیت سے محروم ہوجائیں گے کہ وہ اپنے زمانے کے بدلے ہوئے حالات کو سمجھیں، اورحالات کے مطابق اسلام کی تعلیمات کی تطبیق نو (reapplication) دریافت کرسکیں۔مثلا زمانے کی تبدیلی کے نتیجے میں جنگ کا دور ختم ہوجائے گا۔ نئے حالات میں ممکن ہوجائے گا کہ پرامن طریقہ کار کے ذریعہ وہ سب کچھ حاصل کیا جاسکے، جس کو پچھلے دور میں’’سیف‘‘ کے ذریعہ ممکن سمجھا جاتا تھا۔ مگر اجتہادی بصیرت کے فقدان کی بنا پر وہ اس تبدیلی کو سمجھنے سے محروم رہیں گے، اور اپنے عمل کی پر امن منصوبہ بندی نہ کرسکیں گے۔
واپس اوپر جائیں

اصلاح اور محاسبہ

ابو الدراء ایک انصاری صحابی ہیں۔ مدینہ میں پیدا ہوئے، اور 72 سال کی عمر میں اسکندریہ کے اندر 32 ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کا ایک قول اس طرح نقل کیا گیا ہے:لا یفقہ الرجل کل الفقہ حتى یمقت الناس فی جنب اللہ ثم یرجع إلى نفسہ فیکون لہا أشد مقتا (کنزالعمال، حدیث نمبر 29528)۔ یعنی کوئی آدمی اپنی سمجھ میں کامل نہیں ہوسکتا، حتی کہ اس کا یہ حال ہوجائے کہ وہ اللہ کے لیے دوسروں پرسخت ہو، پھر جب اپنی طرف توجہ کرے تو وہ اپنے لیے اس سے بھی زیادہ سخت ہو۔ دوسروں کا محاسبہ کرنا صرف اس کے لیے جائز ہے، جو خود اپنا محاسبہ اس سے بھی زیاد ہ سخت انداز میںکرتا ہو۔ جو شخص مومن ہوتا ہے، وہ مصلح بھی ہوتا ہے۔ یعنی اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کا طالب ہونا۔ جب وہ دوسروں کے اندر کوئی کمی کی بات دیکھتا ہے، تو اپنے احساس کے تقاضے کے تحت وہ مجبور ہوتا ہے کہ وہ نہایت واضح انداز میں اس کی نکیر کرے۔
اس طرح کی نکیر بلاشبہ ایک ثواب کا کام ہے۔ لیکن جو آدمی سچے جذبے کے ساتھ دوسروں کے بارے میں حساس ہو، وہ یقینا اپنے بارے میں شدید حساس ہوتا ہے۔ اس کی یہ حساسیت ایک طرف دوسروں کے بارے میں اس کو ناقد بناتی ہے۔ دوسری طرف یہی حساسیت اس کے اندر یہ سوچ پیدا کرتی ہے کہ اگر میں نے تنقید کرنے میں کوئی غلطی کی ہے تو اللہ یقینا میری سخت پکڑ کرے گا۔ مومن کی حساسیت اس کے اندر دو طرفہ صفت پیدا کرتی ہے۔ ایک طرف دوسروں کو نصیحت کرنااور دوسری طرف شدید انداز میں اپنا محاسبہ (introspection) کرنا۔ اس طرح مومن کی یہ دو طرفہ حساسیت اس کی شخصیت کی تعمیر میں معاون ہوتی ہے۔ ایک طرف یہ حساسیت اس کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ درست انداز میں اصلاح کا کام کرے، اور دوسری طرف یہ حساسیت اس کو اس سے بچاتی ہے کہ وہ اس عمل میں کسی زیادتی سے اپنے آپ کو بچائے۔وہ دوسرے کی غلطی کو بتانے والا بھی بن جاتا ہے، اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے والا بھی۔
واپس اوپر جائیں

دعا، قبولیتِ دعا

قرآن میں دعا کی بابت ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ (40:60)۔ یعنی اور تمہارے رب نے فرما دیا ہے کہ مجھ کو پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں، وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
آیت کے الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر دعا کو قبول کرتا ہے۔ لیکن دوسرے بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دعا کی یہ قبولیت صرف پاک کلمہ (فاطر 10:) کے لیے ہے۔ یعنی وہ پکار جو اللہ کے قانون کے مطابق ایک درست پکار ہو۔ مثلا اگر کوئی شخص یہ دعا کرے کہ شیطان ہمیشہ کے لیے نابود ہوجائے تو ایسا کبھی ہونے والا نہیں۔ کیوں کہ اللہ کے فیصلے کے مطابق شیطان کو قیامت تک باقی رہنا ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص کسی گروہ کو اپنا دشمن فرض کرلے، اور یہ دعا کرے کہ میرے یہ تمام دشمن ہلاک ہوجائیں تو ایسی دعا بھی ہرگزقبول نہ ہوگی۔ کیوں کہ کسی گروہ کی ہلاکت کے لیے اللہ کا اپنا قانون ہے، اس کا تعلق کسی کی دعا سے نہیں۔
اسی طرح اگر کچھ لوگ کسی گروہ سے قومی لڑائی لڑیں اور یہ دعا کریں کہ خدایا تو اپنے وعدے کےمطابق ہمیں ان کے مقابلے میں اپنی نصرت عطا فرما۔ تو ایسی دعا بھی قبول ہونے والی نہیں۔ کیوں کہ اللہ کی نصرت اپنے قانون کے مطابق آتی ہے۔ ہمارے اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف نہیں۔سچی دعا وہ ہے جو سچے انسان کے دل سے نکلے۔ اسی طرح دعا کی قبولیت اس وقت ہوتی ہے، جب کہ دعا اللہ کے راستے میں کامیابی کے لیے کی گئی ہو، نہ کہ خود ساختہ راستے میں کامیابی کےلیے۔ آدمی کو چاہیے کہ پہلے وہ اپنے آپ کو مزکیّٰ شخصیت بنائے۔ پھر وہ اللہ کے منصوبہ کو سمجھے، اور اللہ کے منصوبہ کے مطابق اپنے آپ کو اُس پر لگائے۔ جو لوگ اس شرط کو پورا کریں، ان کی دعا ضرور قبول ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

فروغ وسائل انسانی

امریکی عالم اقتصادیات جان آر کامنس (John R. Commons) نے 1893 میں ایک کتاب شائع کی، دی ڈسٹری بیوشن آف ویلتھ (The Distribution of Wealth) ۔ اس کتاب میں اس نے پہلی بار ہیومن ریسورس (human resource)کی اصطلاح استعمال کی۔ ابتدائی طور پر اس اصطلاح کو انڈسٹریل کلچر کی ایک ضرورت کے طور پر لیا گیا تھا۔ لیکن بعد کو توسیعی طور پر یہ اصطلاح انسانی وسائل کے ڈیولپمنٹ (human resource development) کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگی۔
یہ اصطلاحی توسیع آغاز ہی سے اپنے اندر غلط فہمی کا ایک پہلو رکھتی تھی۔ وہ یہ کہ جس طرح مادی دنیا میں مادہ کو خارجی ڈیولپمنٹ کے ذریعہ ترقی کے مرحلے تک پہنچایا جاسکتا ہے، اسی طرح انسا ن کو بھی خارجی تربیت کے ذریعہ اعلی تربیت تک پہنچانا ممکن ہے۔ مثلاً اُور (ore) کو ڈیولپ کرکے جس طرح اسٹیل (steel) کے درجے تک پہنچانا ممکن ہوتا ہے، اسی طرح غیر اعلی انسان کو بھی خارجی تربیت کے ذریعہ اعلی انسان کے درجے تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ مگر اس تصور میں ایک چیز حذف ہوگئی۔ وہ یہ کہ انسان اگر چہ جسمانی اعتبار سے بظاہر ایک مادی وجود ہے، لیکن اپنے دماغ کے اعتبار سے وہ مکمل طور پر ایک غیر مادی ظاہرہ (non-material phenomenon) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس فرق کا مطلب یہ ہے کہ انسان بنایا نہیں جاتا، بلکہ وہ اپنے آپ کو خود اپنی سوچ کے تحت تیار کرتا ہے۔ انسان ایک سیلف میڈ (self-made) مخلوق ہے۔
ایک حدیث رسول
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: کل مولود یولد على الفطرة، فأبواہ یہودانہ، أو ینصرانہ، أو یمجسانہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔ یعنی ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔
یہاں والدین کا لفظ علامتی معنی میں ہے، یعنی ماحول (environment) ۔ آدمی جس طرح کے ماحول میں زندگی گزارتا ہے، اسی کے مطابق اس کی کنڈیشننگ ہوتی رہتی ہے۔ چناں چہ ہر انسان ایک کنڈیشنڈ انسان ہوتا ہے۔ مگر یہ کنڈیشننگ اوپری نوعیت کی ہوتی ہے۔اس کنڈیشننگ کے باوجود انسان کی اصل فطرت بدستور اپنی جگہ باقی رہتی ہے۔اس اعتبار سے ہر انسان کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) کرے۔ وہ اپنے آپ کو شعوری عمل (intellectual process) کے ذریعے ایک نیا انسان بنائے۔ اس سے پہلے اگر وہ کنڈیشننگ کا ایک کیس تھا تو وہ دوبارہ اپنے آپ کو فطرت کا ایک کیس بنائے۔
اس عمل کے دوران انسان مزید یہ کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دریافت کرتا ہے۔ اس عمل (process) کے دوران وہ یہ دریافت کرتا ہے کہ خالق نے اس کے اندر کون سی انفرادی صفت رکھی ہے۔ تخلیق کے اعتبار سے ہر مرد مسٹر ڈیفرنٹ ہے اور ہر عورت مس ڈیفرنٹ ۔ اس منفرد شخصیت کو دریافت کرنے کے بعد ہی انسان کی اصل تعمیر کا کام شروع ہوتا ہے۔ انڈسٹری کے کلچر میں آدمی کو معدنیات جیسا ایک مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ انڈسٹری کا کلچر آدمی کو خود اپنی ضرورت کے مطابق تربیت دے کر اس قابل بناتاہے کہ وہ اس کی مشین کا ایک پرزہ بننے کے قابل ہوسکے۔
لیکن انسان اس انڈسٹریل تصور سے بہت زیادہ ہے۔ انسان کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے آپ کو دریافت کرے۔ اور اس خود دریافت کردہ تخلیق کے مطابق اپنے آپ کو اعلی مقصد کے لیے ڈیولپ کرے۔ یہ ایک سیلف ڈیولپمنٹ کا عمل (process) ہے۔ یہی سیلف ڈیولپمنٹ کا عمل انسان کو مین (man)سے بڑھا کر سوپر مین بناتا ہے۔ اسی سیلف ڈیولپمنٹ کے بعد آدمی اس قابل بنتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اعلی کامیابی (super-achievement) تک لے جائے۔ اس لحاظ سے فروغ وسائل انسانی کا سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ازسر نو دریافت (rediscover) کرے۔ وہ پھر سے اپنی معرفت حاصل کرے۔ اسی خود دریافت کردہ معرفت میں اعلی انسانی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

کنڈیشننگ کا مسئلہ

پیغمبر اسلام کی پیدائش 570 ء میں مکہ میں ہوئی۔ آپ نے نبوت کا مشن 610ء میں شروع کیا۔ 632ء میں مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ وفات سے کچھ ماہ پہلے، آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس وقت کے اہل اسلام کو عمومی خطاب کیا، جو بالواسطہ طور پر پوری امت مسلمہ سے خطاب کے ہم معنی تھا۔اس خطاب کے بارے میںایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے :أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم خطب الناس یوم النحر فقال:یا أیہا الناس أی یوم ہذا؟، قالوا:یوم حرام، قال:فأی بلد ہذا؟، قالوا:بلد حرام، قال:فأی شہر ہذا؟، قالوا:شہر حرام ، قال:فإن دماءکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام، کحرمة یومکم ہذا، فی بلدکم ہذا، فی شہرکم ہذا، فأعادہا مرارا، ثم رفع رأسہ فقال:اللہم ہل بلغت، اللہم ہل بلغت - قال ابن عباس :فوالذی نفسی بیدہ، إنہا لوصیتہ إلى أمتہ، فلیبلغ الشاہد الغائب، لا ترجعوا بعدی کفارا، یضرب بعضکم رقاب بعض (صحیح البخاری، حدیث نمبر1739)۔
عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کے دن خطبہ دیا۔ آپ نے پوچھاکہ اے لوگو ، یہ کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا یہ یوم حرام ہے، آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا شہر ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا یہ شہر حرام ہے، آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا مہینہ ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا یہ حرام کا مہینہ ہے۔ آپ نے فرمایا تمہارا خون اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تم پر حرام ہے، جس طرح یہ دن تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینہ میں حرام ہے۔ آپ نے یہ کلمات چند بار دہرائے۔ پھر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے اللہ، کیا میں نے پہنچا دیا۔ اے اللہ، کیا میں نے پہنچا دیا۔ عبد اللہ ابن عباس نے کہا، قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، آپ نے اپنی امت کو یہی وصیت فرمائی تھی کہ جو لوگ حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں، میرے بعد تم لوگ کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم میں سے بعض ، بعض کی گردن مارنے لگے۔
اس حدیث میں کفر کا لفظ شدت اظہار کی بنا پر ہے۔ باعتبار حقیقت اس سے مراد یہ ہے کہ دور جاہلیت کی طرف لوٹ نہ جانا۔ اسلام سے پہلے عرب میں جو دور تھا، اس کو جاہلیت کا دور کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں عرب میں قبائلی دور (tribal age) قائم تھا۔ قبائلی دور کا کلچر قتل و قتال کا کلچر تھا۔ ابوتمام حبیب بن أوس الطائی نے اپنے انتخابی مجموعہ دیوان الحماسہ میںایک جاہلی شاعر کا ایک شعر اس طرح نقل کیا گیا ہے:
وأحیاناً على بکرٍ أخینا إذا ما لم نجد إلا أخانا
یعنی اور کبھی ہم اپنے بھائی بکر سے لڑ جاتے ہیں۔جب کہ ہمیں لڑنےکے لیے اپنےبھائی کے سوا کوئی اور نہیں ملتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ نصیحت کا پس منظر یہ ہے کہ یہ لوگ جن کی پرورش عرب کے قبائلی ماحول میں ہوئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی سابقہ کنڈیشننگ کو ڈی کنڈیشن نہ کر پائیں اور دوبارہ ان کے اندر جنگ و جدال کا کلچر شروع ہوجائے۔ ابتدائی دور کے اہل ایمان کے لیے اس کنڈیشنگ کا مطلب عرب کے قدیم ماحول کی کنڈیشننگ ہے۔ اس کنڈیشننگ کی بنا پر ان کے اندر بعد کے زمانے میں لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان جودوبارہ جنگ و تشدد کے کلچر میں مشغول ہیں، وہ بھی اسی کنڈیشننگ کی بنا پر ہیں۔ فرق یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی کنڈیشننگ تاریخی کنڈیشننگ (historical conditioning) ہے۔
عباسی دور میں جو کتابیں تیار ہوئیں، وہ اس تاریخی کنڈیشننگ کا ذریعہ بن گئیں۔ اس زمانے میں یہ ہوا کہ سیرت رسول کی کتابیں مغازی کے پیٹرن پر لکھی گئیں۔ مسلم تاریخ پوری کی پوری فتوح الشام اور فتوح البلدان کی زبان میں تیار ہوئی۔ بعدکا پورا لٹریچر عملاًاسی اسلوب میں ڈھل گیا۔ اس کی ایک مثال ایک مسلم شاعر کا یہ شعر ہے:
ابھی بھولے نہیں ہم خالد و طارق کے افسانے فتوحات صلاح الدیں ابھی زندہ ہیں دنیا میں
بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جو کتابیں لکھی گئیں، وہ تقریبا سب کی سب اسی پیٹرن پر لکھی گئیں، خواہ وہ منظوم کتابیں ہوں یا منثورکتابیں۔ بعد کےمسلمان پیدا ہوتے ہی اسی قسم کی کتابیں پڑھنے لگے۔ اس طرح وہ دوبارہ بذریعہ لٹریچر اسی قسم کی کنڈیشننگ میں مبتلا ہوگیے جس کو تاریخی کنڈیشننگ کہاجاسکتا ہے— موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر جو نفرت اور تشدد کی سوچ ہے، وہ اسی تاریخی کنڈیشننگ کا نتیجہ ہے۔
ڈی کنڈیشننگ کیا ہے۔ ڈی کنڈیشننگ کا عمل آدمی خود اپنے آپ پر کرتا ہے۔ ڈی کنڈیشننگ کو روایتی اصطلاح میں محاسبہ نفس کہا جاسکتا ہے۔ اس محاسبہ خویش (self-deconditioning) کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی خود اپنا بے لاگ مطالعہ کرے، اور اپنے آپ کو ان اثرات سے پاک کرے جو تاریخی طور پر اس کی سوچ کا حصہ بن گیے ہیں۔
مثلا مذکورہ معاملہ میں آدمی یہ سوچے کہ قتال کی نوعیت اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں کیا ہے۔ پھر وہ پائے گا کہ قتال کوئی ابدی عمل نہیں۔ اس کا ایک اختتام (end) ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ (الانفال 39:) اور جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا (محمد: 4)۔
قرآن اور حدیث میں اس طرح کے متعدد حوالے موجود ہیں ، جو یہ بتاتے ہیں کہ قتال حسن لذاتہ نہیں ہے، بلکہ حسن لغیرہ ہے۔ یعنی اسلام میں قتال برائے قتال (qital for the sake of qital) نہیں ہے، بلکہ قتال کسی متعین سبب کے لیے ہے۔ جب یہ سبب ختم ہوجائے تو قتال بھی ختم ہوجائے گا۔ اس طرح سوچنے کے عمل کو اپنا محاسبہ کہا جاتاہے۔
موجودہ زمانے میں جو مسلمان یہ کررہے ہیں کہ وہ دوسری قوموں کو اپنا دشمن قرار دے کر ان کے خلاف متشددانہ کارروائی یا خودکش بمباری (suicide bombing)کررہے ہیں، وہ اگر اس طرح غور کریں تو یقیناً ان کا موجودہ سوچنے کا طریقہ بدل جائے گا۔ اسی کو ڈی کنڈیشننگ کہا جاتا ہے۔ اگر موجودہ زمانے کے مسلمان اس طرح بے لاگ انداز میں غور کریں تویقینا وہ ایک اور حدیث تک پہنچیں گے جو براہ راست طور پر اسی معاملے سے متعلق ہے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ بعد کے زمانے میں ایک وقت آنے والا ہے، جب کہ ساری دنیا مویددین بن جائے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ عز وجل لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔ مسند احمد میں یہ روایت اس طرح آئی ہے:إن اللہ سیؤید ہذا الدین بأقوام لا خلاق لہم (حدیث نمبر20454)۔ صحیح البخاری میں یہ روایت ان الفاظ میں ہے:إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر(حدیث نمبر3062)۔
یہ حدیث مستقبل کے بارے میں پیغمبر اسلام کی ایک پیشگی خبر ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ رسول اور اصحاب رسول کی کوششوں سے ساتویں صدی عیسوی میں جو انقلاب آیا، اس کے بعد دنیا میں ایک تاریخی عمل (historical process) بڑے پیمانے پر جاری ہوگیا۔ اس تاریخی عمل میں نہ صرف مسلمان بلکہ دوسری سیکولر قومیں بالخصوص اہل مغرب بڑے پیمانے پر شریک ہوئیں۔ بیسویں صدی اس عمل کا نقطہ انتہا (culmination) تھا۔ اس عمل (process) نے انسانی تاریخ میں ایک نیا دور پیدا کردیا۔ اسی نئے دور کو حدیث میں دین کے حق میں تائید کا دور کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بارش کا آنا خدا کے منصوبے کا خاموش اعلان ہے۔ کسان اس خدائی اشارہ کو فوراً سمجھ لیتا ہے، اور اپنے آپ کو اس خدائی منصوبہ میں پوری طرح شامل کردیتا ہے۔ اس کا نتیجہ اس کو ایک لہلہاتی ہوئی فصل کی صورت میں واپس ملتا ہے۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں، ہزار سالہ عمل کے نتیجے میں، اللہ تعالی نے اپنے دین کے حق میں نئے مواقع کھولے ہیں۔ یہ مواقع کہ اقتدار کا حریف بنے بغیر توحید اور آخرت کی دعوت کو عام کیا جائے۔ (اسلام پندرھویں صدی میں)


واپس اوپر جائیں

قابل عمل طریقِ کار

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی غیر معمولی کامیابی کا اعتراف عام طور پر مورخین نے کیا ہے۔ امریکی مصنف ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے اپنی کتاب دی ہنڈریڈ میں پیغمبر اسلام کو پوری انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ کامیاب انسان بتایا ہے ۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.
Michael H. Hart, The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History (New York: Simon &Schuster Ltd., 1993), 3.
اسی طرح انڈین مصنف ایم این رائے (وفات1954:)نے اپنی کتاب دی ہسٹاریکل رول آف اسلام میں پیغمبر اسلام کے انقلاب کے بارے میں یہ الفاظ لکھے:
The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (M.N. Roy, The Historical Role of Islam [Bombay: Vora and Co. Publishers Ltd, 1938], 5.)
اس سلسلے میں اصل سوال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کو اپنے مشن میں یہ غیر معمولی کامیابی کس طرح حاصل ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس خصوصی طریق کا ر کے ذریعے، جس کو قرآن میں صراطِ مستقیم (الفتح2:) کے نام سے بیان کیا ہے۔ مطالعے سے معلوم ہوتا ہےکہ اس طریقہ کی استثنائی صفت یہ تھی کہ وہ ایک کامل معنوں میں قابل عمل طریقہ (workable method) تھا۔
تاریخ میں بہت سی مثالیں ہیں، جب کہ لوگ ایک مقصد کے لیے اٹھے، انھوں نے غیر معمولی قربانیاں دیں، لیکن وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پیغمبر اسلام کی استثنائی صفت ہے کہ آپ جس مقصد کے لیے اٹھے تھے، اس مقصد کو حاصل کرنے میں آپ پوری طرح کامیاب ہوگیے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ کا طریق کار ایک ایسا طریق کا ر تھا، جو ورک کرنے والا (workable) طریق کار تھا۔ جب کہ دوسرے لوگوں کا معاملہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک ایسا طریق کار اختیار کیا جو قانون فطرت کے مطابق، ورک کرنے والا (workable) ہی نہ تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کا ر اس لیے ورک کرنے والا طریق کار بن گیا کہ وہ مکمل طور پر حقیقت پسندی پر مبنی تھا۔ پیغمبر اسلام کے ذہن میں بلاشبہ اپنا ایک سوچا سمجھا آئڈیل تھا، لیکن اپنی حقیقت پسندی کی بنا پر انھوں نے یہ کیا کہ انھوں نے اپنی جدو جہد کے دوران اس طریقے کو اختیار کیا جو حالات کے لحاظ سے عملاً قابل عمل طریق کار تھا۔ آپ کی پالیسی کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
Ideologically, he was perfectly an idealist, but practically, he always adopted practical wisdom. Theoretically, he was an idealist, but practically, he was a pragmatic.
آؤٹ سورسنگ (outsourcing)
اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے 610 عیسوی میں مکہ میں توحید کا مشن شروع کیا۔ مکہ میں مقدس کعبہ تھا، جس کواب سے تقریبا چار ہزار سال پہلے پیغمبر ابراہیم نے ایک خدا کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا۔ لیکن بعد کے زمانے میں مکہ میں دھیرے دھیرے شرک کے اثرات پھیل گیے۔ یہاں تک کہ بعد کے زمانے میں مکہ کےسرداروں نے کعبہ میں بتوں کو رکھنا شروع کردیا، جن کی تعداد بڑھتے بڑھتے تقریباً تین سو ساٹھ ہوگئی۔ پیغمبر اسلام کے لیے یہ منظر بے حد تکلیف دہ تھا۔ لیکن آپ نے اس معاملے میں مثبت (positive)طریقہ اختیار کیا۔
آپ نے دیکھا کہ ان بتوں کی وجہ سے وہاں روزانہ ایک مجمع ہوتا ہے۔ سارے عرب سے ان بتوں کے پرستار کعبہ کے پاس اکٹھا ہوتے ہیں۔ آپ نے ان پرستاروں سے ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ آپ نے اس موقعہ پر اس طریقے کو اختیار کیا ، جس کوآج کل کی زبان میں آؤ ٹ سورسنگ کہا جاتا ہے۔ یہ مجمع تمام تر غیر خدا پرستوں کا مجمع ہوتا تھا۔ آپ نے ان لوگوں کو مدعو کا درجہ دیا۔ اور ان کو اپنا آڈینس (audience) بنا لیا۔ آپ روزانہ وہاں جاتے اور ان کو قرآن پڑھ کر سناتے۔ چناں چہ سیرت کی کتابوں میں آتا ہے :وعرض علیہم الإسلام، وتلا علیہم القرآن(سیرۃ ابن ہشام، 1/428)۔
ری پلاننگ (re-planning)
قدیم مکہ میں آپ کی مخالفت بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ مکہ کے سرداروں نے آپ کو یہ الٹی میٹم دے دیا کہ یا تو آپ مکہ کو چھوڑ دیں، یا ہم آپ کو قتل کردیں گے۔ اس وقت آپ نے دوبارہ ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہیں کیا، بلکہ آپ نے ری پلاننگ کا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی آپ نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو اپنے مشن کا مرکز بنا لیا۔ اور مکہ کے بجائے مدینہ سے اپنے مشن کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ نیا منصوبہ کامیاب رہا، اور بہت جلد اسلام کی تحریک ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ پہلے اگر آپ کا مشن ایک مقامی مشن تھا، تو اب وہ دھیرے دھیرے ایک انٹرنیشنل مشن بن گیا۔
پیس ایٹ اینی کاسٹ (peace at any cost)
تاہم آپ کی ہجرت کو قدیم مکہ کے سرداروں نے دل سے قبول نہیں کیا۔ انھوں نے آپ کے خلاف جنگی کارروائی شروع کردی۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول دعوت الی اللہ کے لیے قاتل ہے۔ دعوت کا کام ٹکراؤ کے ماحول میں انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اس موقع پر آپ نے فیصلہ کیا کہ کوئی ایسی تدبیر کرنا چاہیے ، جس سے دونوں فریقوں کے درمیان امن کا ماحول قائم ہوجائے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے فریق مخالف سے گفت و شنید (negotiation) شروع کردیا۔لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ فریق ثانی اس کے لیے راضی نہیں ہے کہ وہ دو طرفہ شرطوں پر امن کا معاہدہ کرے۔ آپ نے یہ طے کیا کہ فریق ثانی کی تمام شرطوں کو مان کر، ان سے یک طرفہ بنیاد ( unilateral basis) پر صلح کا معاہدہ کرلیا جائے۔اس طرح ہجرت کے چھٹے سال دونوں فریقوں کے درمیان وہ معاہدۂ امن طے پایا، جس کو صلح حدیبیہ (Hudaybiyah Agreement)کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کو اس وقت کے اکثر لوگوں نے ذلت آمیز معاہدہ (humiliating agreement) قرار دیا۔ لیکن قرآن نے کہا کہ یہ فتح مبین (clear victory) ہے۔ اور چند سال کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ یہ معاہدہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے یقیناً فتح مبین تھا۔
یہ چند مثالیں ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کا طریقہ کیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اتقوا فراسة المؤمن فإنہ ینظر بنور اللہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر3127)۔ یعنی مومن کی فراست سے بچو، کیوں کہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن ذاتی جذبہ کے تحت کام نہیں کرتا، بلکہ وہ فطرت کے بارے میں خدا کے نقشۂ تخلیق کو دریافت کرتا ہے۔ اور اس کے مطابق اپنا منصوبہ بناتا ہے، اور جو لوگ اپنے کام کی پلاننگ اس طرح کریں ، وہ ضرور کامیابی کا درجہ پالیں گے۔
واپس اوپر جائیں

انگریزی کاایک مثل ہے:

Hitting the nail on the head
یعنی کیل کے عین سر پر مارنا۔ یہ مثل بہت بامعنی ہے۔ اس میں ایک مادی مثال کے ذریعہ انسانی کامیابی کا راز بتایا گیا ہے۔
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ کیل جب کسی چیز پر ٹھونکی جاتی ہے تو اس کے ٹھیک سر پر ہتھوڑی ماری جاتی ہے۔ اگر ہتھوڑی کی مار ادھر ادھر پڑے تو وہ صحیح طور پر اندر نہیں داخل ہوگی، بلکہ ٹیڑھی ترچھی ہو کر رہ جائے گی۔اسی طرح زندگی کے معاملات میں یہ جاننا پڑتا ہے کہ ٹھیک ٹھیک وہ کون سا مقام ہے جہاں ضرب لگانی چاہیے۔ صحیح ضرب کے نتیجہ ہی کا دوسرا نام کامیابی ہے۔ (ڈائری، 1985)
واپس اوپر جائیں

عہد اسلام

قرآن و حدیث میں اسلام کے مستقبل کے بارے میں ایسی پیشین گوئیاں (predictions) موجود ہیں، جو بتاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو زمانہ آنے والا ہے، وہ اسلام کا زمانہ ہوگا۔ مثلا ایک روایت ہے۔ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ سے شکایت کی، اس وقت آپ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر کو تکیہ بنائے ہوئے لیٹےتھے۔ ہم نے کہا کہ کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد نہیں مانگتے، کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا، تم سے پہلے جو لوگ تھے، ان کا یہ حال تھا کہ آدمی کو پکڑا جاتا، اس کے لیے زمین میں گڈھا کھودا جاتا، پھر اس کو اس میں ڈال دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا تھا اور اس کے سر پر چلایا جاتا تھا، اور اس کو دو ٹکرے کردیا جاتا تھا، اور(کبھی ایسا ہوتا کہ کسی آدمی کے جسم پر)لوہے کی کنگھی کی جاتی ، یہاں تک کہ وہ اس کے گوشت سے بڑ ھ کر اس کی ہڈی تک پہنچ جاتی تھی۔ مگر یہ چیز اس کو اس کےدین سے روکنے والی نہیں بنتی تھی۔
پھر آپ نے فرمایا:واللہ لیتمن ہذا الأمر، حتى یسیر الراکب من صنعاء إلى حضرموت، لا یخاف إلا اللہ، والذئب على غنمہ، ولکنکم تستعجلون۔یعنی خدا کی قسم یہ امر تکمیل تک پہنچے گا، یہاں ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا، اور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہیں ہوگا، اور بھیڑیے کا اپنی بکریوں پر،مگر تم لوگ جلدی کررہے ہو۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر6943)۔
یہ قول رسول ایک پیشین گوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کی تاریخ میں جو اہل دین پر ظلم کیا جاتا تھا ، وہ اسلام کے بعد کی تاریخ میں اللہ کی مدد سے ختم ہوجائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قبل از اسلام کا دور، اگر مخالف اسلام دور تھا تو بعد از اسلام کا دور، موافق اسلام کا دور ہوگا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ اسلام کے بعد کے زمانے میں یہ دور آیا۔ اب اس پیشین گوئی پر تقریبا ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ یقینی ہے کہ یہ دور تاریخ میں آچکا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اہل اسلام اس دور کی آمد سے بے خبر ہیں۔
اس عظیم بے خبری کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب،حدیث کے مطابق یہ ہے کہ بعد کے زمانے کے اکثر لوگوں سے ان کی عقلیں چھن جائیں گی (تنزع عقول أکثر ذلک الزمان)سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3959۔اس بنا پر وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ وہ کسی واقعہ کا صحیح تجزیہ کرکے اس کی حقیقت کو دریافت کریں۔ عقل کیا ہے۔ عقل اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی غیر متعلق کو الگ کرکے متعلق کو جان سکے:
Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.
ایک مثال سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ مصرکے سید قطب مزید تعلیم کے لیے امریکا گیے۔ وہاں وہ تین سال رہے۔ انھوں نے امریکا کے بارے بیس صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی۔ کتاب کا عربی نام یہ ہے، امریکا التی رایت:
The America I have Seen
یہ کتاب امریکہ کی منفی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آدمی وہی رائے قائم کرے گاجو عام طور پر امریکا کے بارے میں عربوں کی رائے ہے۔ عرب عام طور پر امریکاکے بارے میں اپنی رائے، اس الفاظ میں بیان کرتے ہیں: امریکا عدو الاسلام رقم واحد (امریکا اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے)۔ اس منفی رائے کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ امریکا کو ایک غیرمتعلق پہلو سے دیکھتے ہیں۔ جو لوگ امریکا کو اسرائیل کے زاویہ سے دیکھتے ہیں، وہ امریکا کو اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں۔ اور جو لوگ امریکا اس کو اس کے کلچر کے اعتبار سے دیکھتے ہیں، وہ لوگ امریکاکو اباحیت (permissiveness )کا ملک سمجھتے ہیں۔ مگر یہ دونوں پہلو امریکا کے غیر متعلق پہلو ہیں۔ اس کا متعلق پہلو یہ ہے کہ امریکا میں سائنسی تحقیق (scientific research) کاسب سے زیادہ کام ہوا ہے۔ غیر متعلق پہلو سے دیکھنے میں امریکا ایک برا ملک نظر آتا ہے، لیکن اگر متعلق پہلو سے دیکھا جائے تو امریکا انسانیت کا محسن ملک نظر آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

قتل کی سزا

امام ابن تیمیہ الحرانی ( 661-728 ھ)شام میں پیدا ہوئے۔ یہ مسلمانوں میں عام طور پر اہم ترین عالم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کو شیخ الاسلام کا لقب دیا گیا ہے۔ ان کی کتابیں کتب مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہماری آفس میں موجود مشہور عربی ڈیجیٹل لائبریری المکتبۃ الشاملۃ میں ان کی 154 عربی کتابیں ہیں۔
ایک عرب عالم محمد حبش کا ایک مقالہ انٹرنیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس مقالہ کا ٹائٹل یہ ہے: ابن تیمیة و428 فتوى بعنوان:(یستتاب وإلا قتل)۔انھوں نے ابن تیمیہ کی عربی کتابوں کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا ، اور اس مقالے میں انھوں نے ذکر کیا ہے کہ ابن تیمیہ نے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق کن عمل کو مستوجب قتل جرائم قرار دیا ہے۔ یعنی کون سے ایسے جرائم ہیں جو ابن تیمیہ کے نزدیک مستوجب قتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔محمد حبش اپنے مقالہ میں ابن تیمیہ کے الفاظ اس طرح نقل کرتے ہیں :’’یستتاب وإلا قتل‘‘، أو’’وإلا فإنہ یقتل‘‘(یعنی ایسے شخص سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر اس نے توبہ نہیں کیا تو اس کو قتل کردیا جائے گا) ۔ ان کے مطابق، ابن تیمیہ کے مجموع فتاویٰ میں یہ جملہ دو سو مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ اور اگر دوسری کتابوں کو شامل کرلیا جائے تو ایسے جرائم کی تعداد 428 ہوجاتی ہے۔ انٹرنیٹ پرملاحظہ ہو مذکورہ مضمون: ابن تیمیة و428فتوى بعنوان: (یستتاب وإلا قتل)۔
یہ کون سے جرائم ہیں۔ یہ سب کے سب اعتقادی جرائم (thought crime)ہیں۔ محمد حبش نے مثال کے طور پر ابن تیمیہ کے کچھ ایسے فتاویٰ نقل کیے ہیں:مثلاً جو شخص یہ نہ کہے کہ اللہ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پرہے تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کو قتل کیا جائے گا۔ جو شخص کسی سے کہے کہ میں نے تمھارے اوپر توکل کیا، یا مجھے تمھارے اوپر اعتماد ہے— تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ جس شخص کا یہ عقیدہ ہوکہ اولیاء میں سے کوئی ولی محمد کے ساتھ ہوگا جیسا کہ خضر موسیٰ کے ساتھ تھے، تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اگر اس نے توبہ نہیں کیا تو اس کی گردن ماردی جائے گی۔ ایک بالغ انسان نے پانچ نمازوں میں سے کوئی ایک نماز نہیں ادا کی یا بعض متفق علیہ فرائض کو ترک کردیا تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر توبہ نہیں کیا تو اس کو قتل کیا جائے گا۔ جس نے یہ نہ کہا کہ اللہ سات آسمانوںکے اوپر ہےتو وہ اپنے اس قول کی بنا پر کافر قرار پائے گا، اس کا خون مباح ہوگا، اس کی توبہ طلب کی جائے گی ، اگر توبہ نہیں کیا تو اس کی گردن ماردی جائے گا، اور اس کو کوڑا خانہ میں ڈال دیا جائے گا۔جو یہ کہے کہ قرآن (قدیم نہیں)حادث ہے تو وہ میرے نزدیک جہمیہ ہے، اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اگر نہ کرے تو اس کی گردن ماردی جائے گی۔ جو یہ کہے کہ کسی صحابی یا تابعی، یا تبع تابعین نے کفار کے ساتھ مل کرجنگ کی تو وہ گمراہ بلکہ کافر ہے، واجب ہے کہ اس سے اس بات کی توبہ طلب کی جائے، اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔جو مذکورہ باتوں کے صحیح ہونے کا اعتقاد رکھے، تو بلاشبہ وہ کافر ہے، واجب ہے کہ اس سے توبہ طلب کی جائے، اگر وہ توبہ نہ کرے تو وہ قتل کیا جائے گا۔ جو آدمی کچھ ظاہر و متواتر مباح چیزوں کے حلال ہونے کا انکار کرے ، جیسے روٹی، گوشت، اور نکاح وغیرہ تو وہ کافرمرتد ہے، اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اگر توبہ نہ کرے تو قتل کردیا جائے گا۔ اور اگر اس کو دل میں چھپائے (یعنی گوشت ، روٹی، اور نکاح کا حرام ہونا) تو وہ زندیق و منافق ہے، اکثر علماء کے نزدیک اس سے توبہ قبول نہیں کی جائے گی، بلکہ اُس سے اگراِس کا اظہار ہوتو بلاتوبہ اسے قتل کیا جائے گا۔ جس شخص نے اس شریعت کو لا زم نہیں پکڑا، یا اس میں طعن کیا، یا اس سے کسی کے خروج کو صحیح کہا تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ جس نے یہ دعوی کیا کہ اللہ تک پہنچانے کے لیے اس کے پاس شریعت محمد ی کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہے،جس سے و ہ اللہ کی رضا کو پاسکتا ہے تو وہ بھی کافر ہے، اس سے توبہ طلب کیا جائے گی، اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کی گردن ماردی جائے گی۔ سانپ اور بچھو کا کھانا مسلمانوں کے اجماع سے حرام ہے، تو جس نے ان کو حلال سمجھ کر کھایا تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ جو یہ کہے کہ قرآن مخلوق ہے تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ جو یہ کہے کہ اللہ نے موسیٰ سے کلا م نہیں کیا تو اس سے توبہ طلب کی جائی گی اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ (تکبیر قرآن میں لکھا ہوا نہیں ہے،اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے)تو جس شخص نے یہ خیال کیا کہ تکبیر (اللہ اکبر)قرآن سے ہے تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ جس نے نماز کو کسی کام سے یا شکار کی وجہ سے یا استاد کی خدمت ، وغیرہ کی وجہ سے موخّر کیا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو اس کو سزا دینا واجب ہے، بلکہ جمہور علماء کے نزدیک توبہ کے بعد اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ جس شخص نے یہ کہا کہ مسافر پر رمضان کا روزہ رکھنا واجب ہے تو وہ دونوں گمراہ اور مسلمانوں کے اجماع کے مخالف ہیں، اس کے کہنے والے سے توبہ طلب کی جائے گی اور اگر نہ کرے تو قتل کردیا جائے گا۔
ابن تیمیہ کے یہ فتاویٰ ان کی ذاتی رائے پر مبنی نہیں ہے۔ بلکہ یہی عام طور پر بعد کے زمانے کے علماء اور فقہاء کا مسلک ہے۔ اسی بنا پر ایساہے کہ سات سو سال گزرنے کے بعد بھی کسی قابلِ ذکر عالم نے اس کے خلاف کوئی کتاب نہیں لکھی۔ بلکہ اس قسم کے دعوی کے باوجود ابن تیمیہ آج بھی اکابر علماء میںعظیم درجہ پائے ہوئے ہیں۔
ابن تیمیہ نے جن چیزوں پر قتل کا فتویٰ دیا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک’’جرم‘‘ بھی قرآن و حدیث میں مذکور نہیں۔ پھر ابن تیمیہ اور دوسرے علماء نے کیوں ایسا کیا کہ جس جرم کے لیے قرآن و حدیث میں سزا مذکور نہیں، اس کے لیے انھوں نے شرعی اعتبار سے سزا مقرر کی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان علماء نے سماجی جرم (social crime) اور اعتقادی جرم (thought crime) میں فرق نہیں کیا۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق، سماجی جرم پر سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ لیکن اعتقادی جرم اسلام کے نزدیک کوئی قابلِ سزا جرم ہی نہیں۔
اعتقادی جرم اپنی حقیقت کے اعتبار سے اللہ کی عطاکردہ آزادی کا غلط استعمال ہے۔ اس قسم کا غلط استعمال اگر وہ کسی کے خلاف جارح (harmful) نہ ہو تو وہ اس کے لیے قابلِ سزا فعل نہ ہوگا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُر (18:29)۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کے بعد کے زمانے میں دعوت کا تصور حذف ہوگیا۔ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ جو شخص کوئی غلطی کرے، خواہ وہ غلطی قول کی ہو یا فعل کی، اس کو سخت سزا دی جائے گی۔؃ مگر یہ تصور سر تا سر قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔ قرآن و حدیث کے مطابق، سماجی جرائم پر سزا ہے لیکن قولی انحراف پر ناصحانہ دعوت ہے، نہ کہ سزا۔
سخت سزا کا یہ تصور اسلام کے بعد کے زمانے میں پیدا ہوا ، جب کہ مسلمانوں کی اپنی سلطنت (political empire) قائم ہوچکی تھی۔ اسلام کے ابتدائی زمانے میں اس طرح کی صورتِ حال میں پرامن دعوتی جواب کا تصور تھا۔ بعد کے زمانے میں یہ تصور بن گیا کہ اب ہم کو طاقت حاصل ہے ، اس لیے ہم کو اقتدار کی سطح پر اس کا پرتشدد جواب دینا چاہیے۔ یہ تصور قرآن کے خلاف تھا۔ قرآن تمام تر پر امن دعوت کے تصور پر قائم ہے، نہ کہ پرتشدد سزا کے اصول پر۔ اس معاملے میں قرآن کی یہ آیت ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے: فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَکِّر، لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِر (88:21-22)۔ پس تم یاد دہانی کردو، تم بس یاد دہانی کرنے والے ہو۔ تم ان پر داروغہ نہیں۔
قرآن کی اس آیت میں مصیطر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مصیطر کا مطلب داروغہ ہے، یعنی جبری نفاذ کرنے والا۔ قرآن کی اس آیت میں مطلق طور پر یہ حکم دیا ہے کہ تمھاری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ تم پر امن انداز میں لوگوں کو نصیحت کرتے رہو۔ تمھاری ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ تم اپنی بات کو لوگوں کے اوپر جبری طور پر نافذ کرو۔یہ آیت ابدی طور پر اہل ایمان کو اس بات کا پابند بناتی ہے کہ اعتقاد کے معاملے میں ان کو ہرگز کسی شخص پر تشدد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ان کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ خیر خواہی کے جذبے کے تحت لوگوں کو نصیحت کریں۔ جو شخص نصیحت کو مان کر اپنی اصلاح کرے گا، وہ اللہ کے یہاں اس کا بدلہ پائے گا۔ اور جو شخص نصیحت کو نہ مانے اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔
واپس اوپر جائیں

حضرت عائشہ کا نکاح

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا نکاح حضرت خدیجہ سے ہوا۔ خدیجہ مکہ کی ایک بااثر خاتون تھیں۔ اس بنا پر اس نکا ح سے پیغمبر اسلام کو مکہ میں ایک مضبوط سماجی بنیاد (social base) حاصل ہوگئی۔ مکہ میں یہ سماجی بنیاد آپ کو تقریبا 25 سال حاصل رہی۔ آپ ایک صاحب مشن تھے، اوراپنے مشن کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ضروری ہے کہ صاحب مشن کو مضبوط سماجی بنیاد حاصل ہو۔
حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد پیغمبر اسلام کا دوسرا نکاح حضرت عائشہ سے ہوا۔ یہ نکاح مکی دور کے آخری زمانے میں ہوا، اور ہجرت کے بعد مدینہ میں ان کی رخصتی ہوئی۔ اس وقت عائشہ کی عمر نو سال تھی، اور پیغمبر اسلام کی عمر 53سال۔ عمر کے اس فرق کو لے کر لوگوں کے درمیان بہت بحثیں جاری ہیں۔ لوگ طرح طرح کی تاویلیں کرتے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ یہ معاملہ صرف نکاح کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد بطور واقعہ یہ ایک نئی سوشل بنیاد حاصل کرنے کا معاملہ تھا۔ حضرت عائشہ سے نکاح کے بعد ، پیغمبر اسلام کو ان کے باپ کی صورت میں ایک نئی مضبوط تر بنیاد حاصل ہوگئی۔ جیسا کہ تاریخی طور پر معلوم ہے، حضرت ابوبکر صدیق آپ کی زندگی میں بھی آپ کے مضبوط ساتھی بنے رہے، اور آپ کی وفات کے بعد بھی انھوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں اسلام کے استحکام (stability) کے لیے نہایت اہم رول ادا کیا۔
فطرت کے نظام کے تحت ہر انسان کو کامیاب زندگی کے لیے سماجی بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کے مطابق یہ سماجی بنیاد دو طریقوں سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک خونی رشتہ، اور دوسرا، نکاح کا رشتہ(الفرقان54:)۔ فطرت کے نظام کے تحت یہی دو چیزیں مضبوط سماجی بنیاد کا ذریعہ ہیں۔ہر انسان انھیں دو رشتوں کی مدد سے سماج میں مضبوط بنیاد حاصل کرتا ہے۔ اس سماجی بنیاد کی ضرورت ہر انسان کو ہوتی ہے، حتی کہ پیغمبر کو بھی۔یہ فطرت کا نظام ہے، اور فطرت کے نظام میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔
قرآن کی ایک رہنما آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِہْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا (25:54)۔ یعنی اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا۔ پھر اس کو خاندان والا اور صہر والا بنایا۔ اور تمہارا رب بڑی قدرت والا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں خالق نے انسان کے اوپر اپنی ایک نعمت کو بتایا ہے۔ انسان کے درمیان دو طریقوں سے تعلقات قائم ہوتے ہیں، ایک خونی رشتہ (blood relationship ) اور دوسرا صہر یعنی نکاح کا رشتہ (marriage relationship)۔ انھیں فطری بنیادوں پر انسانی سماج (human society) قائم ہے۔ اگر یہ دو فطری عوامل نہ ہوں تو انسان کی زندگی حیوان کی مانند جنگل کی زندگی بن جائے۔ یہ فطری تعلقات دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے سماجی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اس پہلو کی طرف اشارہ قرآن کی ایک آیت میںرھط (family)کے لفظ سے کیا گیا ہے۔ قرآن کی وہ آیت یہ ہے:قَالُوا یَاشُعَیْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیرًا مِمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاکَ فِینَا ضَعِیفًا وَلَوْلَا رَہْطُکَ لَرَجَمْنَاکَ وَمَا أَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیزٍ (11:91)۔یعنی انھوں نے کہا کہ اے شعیب، جو تم کہتے ہو، اس کا بہت سا حصہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ اور ہم تو دیکھتے ہیں کہ تو ہم میں کمزور ہے۔ اور اگر تمھارا خاندان نہ ہوتا تو ہم تم کو سنگسار کردیتے۔ اور ہم تمھیں صاحب حیثیت نہیں سمجھتے۔
قرآن کے اس حوالے سے مذکورہ توجیہہ کی تصدیق ہوتی ہے۔ مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کی تائیدات برابر ملتی رہیں۔ پہلے بنو ہاشم، اس کے بعد خدیجہ کا خاندان ، اس کے بعد حضرت ابوبکر کا خاندان۔ یہ رسول اللہ کے لیے ایک فطری تائید تھی، جو نسبی اور صہری تعلقات کی بنیاد پر آپ کو حاصل ہوئی۔ حضرت عائشہ کے ساتھ آپ کے نکاح کو اس پس منظر میں دیکھا جائے تو وہ نہایت بامعنی نظر آئے گا۔ خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق کا معاملہ بہت زیادہ اہم ہے۔ وہ رسول اللہ کی زندگی میں آپ کے ایک اہم ساتھی بنے، اور رسول اللہ کی زندگی کے بعد بھی انھوں نےخلیفہ کی صورت میں اسلام کے استحکام کے لیے نہایت اہم رول ادا کیا۔
واپس اوپر جائیں

دجالیت کیا ہے

دجالیت کوئی بھیانک یا پر اسرار لفظ نہیں۔ دجالیت ایک معلوم حقیقت کا نام ہے۔ دجالیت عین وہی چیز ہے، جس کو قرآن میں تزئین اعمال (الانعام43:) کہا گیا ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک بات کو ایسے ڈیسپٹو (deceptive) انداز میں بیان کرنا کہ ایک غلط بات، سننے والے کو درست نظر آنے لگے۔یہی تزئین ہے، اور اس آرٹ کو زیادہ ہنرمندی کے ساتھ کہنے کا نام دجالیت ہے۔
مثلا موجودہ زمانے میں کچھ مسلمان خودکش بمباری (suicide bombing)کرتے ہیں۔ اس طریقے کو جائز بتانے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ جب قوم شدید خطرے کی حالت میں ہو تو قوم کو بچانے کے لیے خودکش بمباری جائز ہے۔ اس کی مثال وہ یہ دیتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے موقع پر جاپانیوں نے امریکا کے خلاف خود کش بمباری کا طریقہ اختیار کیاتھا۔ مگر یہ استدلال ایک مغالطہ پر قائم ہے۔ اس لیے کہ جاپانیوں کی خودکش بمباری (hara-kiri) سے جاپانی قوم اپنے دشمن کے مقابلے میں بچ نہ سکی ، بلکہ وہ اس جنگ میں بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ اس کے بعد خود جاپانیوں نے اس طریقے کو چھوڑدیا۔ اور اس کے بجائےپرامن انداز میں اپنی قومی ترقی کے لیے عمل کیا اور نہایت کامیاب رہے۔
اسی طرح موجودہ زمانے کے کچھ مسلمان اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف تشدد کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں، چناں چہ ان کو دہشت گرد (terrorist) کہا جاتا ہے۔ اب اگر آپ کہیں کہ یہ دہشت گردی نہیں ہے، بلکہ وہ ظالم لوگوں کو ٹرارائز (terrorize) کرنا ہے۔ یہی بات پولیس کرتی ہے۔ وہ مجرموں (criminals) کا حوصلہ توڑنے کے لیے ان کو ٹرارائز کرتی ہے۔ جس طرح پولیس کے لیے یہ طریقہ ایک درست طریقہ سمجھا جاتا تھا، اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی یہ طریقہ ایک درست طریقہ ہے۔اسی طرح آپ مزید یہ کہیں کہ جو لوگ مسلمانوں کے تشدد پر ان کو دہشت گرد کہتے ہیں، وہ دہرا معیار کا شکار ہیں۔ کیوں کہ انڈیا کے بھگت سنگھ نے 1929میں نئی دہلی میں انگریزوں کی اسمبلی پر بم مارا۔مگر بھگت سنگھ کو دہشت گرد نہیں کہاجاتا، فریڈم فائٹر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی دہشت گرد نہ کہیے، بلکہ ان کو انصاف کی لڑائی لڑ نے والا کہیے۔
اسی طرح آپ مسلمانوں کی خودکش بمباری کی وکالت کریں ، اور یہ کہیں کہ مسلمان جس اسپرٹ کے تحت یہ کام کررہے ہیں، وہ شہادت کی اسپرٹ ہے۔ اس لیے ان کی خودکش بمباری کا زیادہ درست نام استشہاد (طلب شہادت) ہے ۔مگر یہ بات ایک شدید مغالطہ پر مبنی ہے۔ کیوں کہ شہادت ایک اسلامی لفظ ہے۔ اور قرآن یا حدیث میں کہیں بھی ، یہ تعلیم نہیں ہے کہ اہل ایمان اپنےآپ کو مارکر شہید بنیں۔ اسلام میں شہید ہوجانا ہے، نہ کہ شہید کروانا۔
دجل بمعنی تزئین ہمیشہ دنیا میں جاری رہا ہے۔ حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں ایک دجال (بڑا دجال)پیدا ہوگا۔ یہ بڑا دجال (the great deceiver) اپنی ذات کے اعتبار سے بڑا دجال نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ زمانے کے اعتبار سے بڑا دجال ہوگا۔ یعنی اس کو ایک ایسا ترقی یافتہ زمانہ ملے گا، جب کہ وہ نئے وسائل کی مدد سے زیادہ بڑے درجے کی دجالی کرسکے گا۔
مثال کے طور پر دجال کے بارے میں حدیث رسول میں آیا ہے : ینادی بصوت لہ یسمع بہ ما بین الخافقین(کنزالعمال، حدیث نمبر39709) ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دجال کوئی ہمالیائی شخصیت ہوگی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دجال ایک ایسے زمانے میں ظاہر ہوگا، جب کہ عالمی مواصلات (global communication) کا دور آچکا ہوگا، اور وہ اپنے وقت کے وسائل کو استعمال کرکے عالمی سطح پر اپنی آواز پہنچاسکے گا۔
حدیث میں آتا ہے : مکتوب بین عینیہ ک ف ر (صحیح مسلم، حدیث نمبر2933)۔ یعنی دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک ف ر (کفر)لکھا ہوا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دجال اگرچہ اپنی غلط باتوں کو نہایت مزین کرکے پیش کرے گا، لیکن صاحب معرفت لوگ اس کی غلطی کو پہچان لیں گے، اس طرح وہ اس کی گمراہی سے بچ جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

تاجر کا معاملہ

تاجر کے بارے میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:عن عبد اللہ بن أبی نہیک قال: لقینی سعد بن أبی وقاص فی السوق فقال:اتجار کسبة اتجار کسبة سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول:لیس منا من لم یتغن بالقرآن(مسند الحمیدی، حدیث نمبر77)۔ یعنی عبداللہ ابن ابی نہیک کہتے ہیں کہ سعد ابن ابی وقاص بازار میں ان سے ملے۔انھوں نے کہا: تم لوگ بہت کمائی کرنے والے تاجر بن گیے ہو، تم لوگ بہت کمائی کرنے والے تاجر بن گیے ہو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے ہوئے سنا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جس کو قرآن غنی نہ بنادے۔
اس حدیث کا یہ مطلب یہ نہیں کہ قرآن کے بعد مومن کو تجارت ترک کردینا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بہت سے صحابہ تجارت کرتے تھے۔ مثلا عثمان ابن عفان اور عبد الرحمن ابن عوف ، وغیرہ۔ امام الغزالی نے لکھا ہے: وکان أصحاب رسول اللہ یتجرون فی البر والبحر (احیاء علوم الدین، 2/63)۔ یعنی رسول اللہ کےاصحاب خشکی اور تری میں تجارت کرتے تھے۔
یہ حدیث نفس ِتجارت کی نسبت سے نہیں ہے۔ بلکہ وہ ان تاجروں کی نسبت سے ہے، جو تجارت کے کام میں اتنا زیادہ مشغول ہوجائیں کہ وہی ان کا سب سے بڑا کنسرن (concern) بن جائے۔ تجارت ہی ان کی دلچسپیوں کا واحد مرکز ہو۔ جو اپنی صلاحیتوں کو تمام تر تجارت میں لگا دے۔
تجارت یا کوئی اور معاشی ذریعہ برائے ضرورت ہوتا ہے، نہ کہ برائے مقصد۔ جو شخص تجارت کو ایک ذریعہ کے طور پر اپنائے، اسی کے ساتھ وہ دین کی ذمہ داریوں کو بھی ادا کرے تو وہ بلاشبہ ایک صحیح تاجر ہے۔ اس حدیث میں اس انسان کا ذکر ہےجو تجارت میں اتنا زیادہ مشغول ہو جائےکہ دینی کام میں اس کی رغبت باقی نہ رہے۔یعنی یہ حدیث نفی تجارت کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ طریق تجارت کےبارے میں ہے۔مومن کو چاہیے کہ وہ دلچسپی کے درجے میں قرآن کو لے، اور ضرورت کے درجے میں معاشی سرگرمی کو۔
واپس اوپر جائیں

دین میں غلو

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:دین میں غلو سےبچو ( إیاکم والغلو)کیونکہ تم سے پہلے جو لوگ تھے، وہ دین میں غلو کیوجہ سے ہلاک ہوگئے(مسند احمد، حدیث نمبر 3248)۔ غلو کا لفظی مطلب انتہاپسندی (extremism)ہے۔ انتہا پسندی ہمیشہ تباہی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ دین کے دو حصے ہیں۔ ایک ہے بنیادی حصہ (basics)، اور دوسرا ہے جزئی حصہ (non-basics)۔ دین کے بنیادی حصے پر اگر زور دیا جائے تو اس سے دین میں کوئی خرابی پیدا نہ ہوگی۔ لیکن جب دین کے غیر بنیادی حصہ پر زیادہ زور دیا جانے لگے تو اسی سے غلو پید ا ہوتا ہے،اور تباہی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔مثلاً دین میں اصل اہمیت روح (spirit) کی ہے، اور اس کا جو فارم (form)ہے، وہ اصل کے مقابلے میں جزئی حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً نماز میں خشوع کی حیثیت بنیادی ہے، اور نماز کا جو فارم ہے، وہ اس کے مقابلے میں غیر بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر نماز کے فارم پر بہت زیادہ زور دیا جانے لگے، اور اسی پر نماز کے ہونے یا نہ ہونے کا انحصار قرار پائے تو یہ غلو ہوگا۔ اس غلو کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ نماز کے فارم پر تو بہت زیادہ دھیان دیں گے، لیکن نماز کی روح ان کے یہاں عملاً غیر اہم بن جائے گی۔ اسی شدت پسندی کو حدیث میں ہلاکت کہا گیا ہے۔
دین کی رو ح ہمیشہ ایک ہوتی ہے۔ البتہ دین کے فارم میں فرق ہوتا ہے۔ دین کی روح پر اگر زور دیا جائے تو اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس کے فارم پر زیادہ زور دیا جانے لگے تو فرقے پیدا ہوجائیں گے۔ کیوں کہ روح میں یکسانیت ممکن ہے، لیکن فارم کے معاملے میں یکسانیت ممکن نہیں۔ اس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ فارم کے معاملے میں تعدد (diversity) کے اصول کو مان لیا جائے۔ یعنی یہ بھی درست اور وہ بھی درست۔ مثلاً نماز میں آمین بالسر بھی درست اور آمین بالجہر بھی درست۔ مصافحہ میں، ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا بھی درست اور دو ہاتھ سے مصافحہ کرنا بھی درست، وغیرہ۔ اگر فارم میں تعدد کے اصول کو مان لیا جائے تو دین میں کبھی فرقہ بندی نہیں ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

فقہ الاقلیات

موجودہ زمانے میں تحریر و تقریر کے مختلف موضوعات پیدا ہوئے ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو فقہ الاقلیات کہا جاتا ہے۔ یعنی جو مسلمان کسی ملک میں اقلیتی گروہ (minority community) کی حیثیت سے رہتے ہیں، ان کے مسائل اور ان کا اسلامی حل۔ اس موضوع پر کثیر تعداد میں مضامین لکھے گیے ہیں، اور مستقل کتابیں شائع کی گئی ہیں۔ مثلا ڈاکٹریوسف القرضاوی کی کتاب فی فقہ الأقلیات المسلمة (دارالشروق، مصر2001، صفحات 200) – ۔
مسلم اقلیت کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان دوسروں کے مقابلے میں کم ہیں۔ یہ ذہن مزید اضافہ کے ساتھ مسلمانوں کے اندر دوسروں کے خلاف شکایتی ذہن پیدا کرتاہے۔ اس کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے دعوتی ذہن کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ دعوتی ذہن اور شکایتی ذہن، دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔دعوتی ذہن کا مطلب ہے دوسروں کے ساتھ برابر کی خیرخواہی۔ جب کہ اقلیتی ذہن عملاً اس قسم کی نفسیات کا خاتمہ کردیتا ہے۔
اقلیتی ذہن ہمیشہ حقوق طلبی کا ذہن پیدا کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں دینے کا مزاج (giving spirit) کو ختم کرنا ہے، اور لینے کا مزاج (taking spirit) کو بڑھاوا دیناہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقلیتی کمیونٹی اور اکثریتی کمیونٹی کی تفریق غیر فطری ہے۔ آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو اس میں باربار انسان کا لفظ آتا ہے۔ قرآن میں انسان کا لفظ 64بار آیا ہے۔ گویا کہ قرآن کے مطابق ، پوری دنیا دار الانسان ہے، وہ اقلیت کی دنیا اور اکثریت کی دنیا نہیں۔
موجودہ زمانہ انٹرنیشنلزم کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے کی اسپرٹ اس قسم کی تفریق کے خلاف ہے۔ ایسی حالت میں یہ ایک غیر فطری بات ہے کہ مسلمانوں کے اندر کمتری کا احساس جگایا جائے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلمان دوسروں کی مانند اپنے آپ کو انسان سمجھیں، اور سب کے ساتھ برابری کا تعلق قائم کریں۔
واپس اوپر جائیں

عورت کی تخلیق

عورت کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:إنما مثل المرأة کالضِلَع، إن أردت إقامتہا کُسِرَت، وإن تستمتع بہا تستمتع بہا وفیہا عوج، فاستمتع بہا على ما کان منہا من عوج (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر4180)۔ یعنی بے شک عورت کی مثال پسلی جیسی ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو تو وہ ٹوٹ جائے گی، اور اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھاؤ گے، اور اس کے اندر ایک ٹیڑھ ہے۔ پس تم اس سےفائدہ اٹھاؤ، اس کے باوجود کے اس کے اندر ٹیڑھ ہے۔
اس روایت میں استمتاع کا لفظ آیا ہے۔ استمتاع کا لفظی مطلب ہے فائدہ اٹھانا۔ یہاں استمتاع سے مرادوہی ہے جس کو دوسرے الفاظ میں بذریعہ ایڈجسٹمنٹ فائدہ اٹھانا کہا جاتا ہے۔ یعنی اگر تم عورت کے ساتھ ری ایکشن (reaction) کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرتے ہوئے زندگی گزارو تو تم کامیاب رہو گے۔
اس حدیث میں ضلع (ٹیڑھ) کا لفظ تمثیل کے معنی میں آیا ہے۔ اس سے مراد ہے عورت کا فطری طور پر جذباتی (emotional) ہونا۔ حدیث میں شادی شدہ زندگی کا ایک کامیاب اصول بتایا گیا ہے۔ خالق نے عورت کو مرد کے ساتھی (partner) کے طور پر پیدا کیا ہے۔ لیکن مصلحت کا تقاضا تھا کہ عورت کے اندر sentimental مزاج رکھا جائے، اس مزاج کی بنا پر عورت کے اندر برداشت کا مادہ کم ہوتا ہے۔ وہ خلاف مزاج بات پر جلد جذباتی ہوجاتی ہے۔ مر د کو چاہیے کہ جب وہ دیکھے کہ عورت کسی معاملے میں جذباتی ہوگئی ہے۔ تو مرد اس کو عورت کی فطرت کے خانے میں ڈال دے، مرد ایسا نہ کرے کہ وہ اس کے جواب میں خود بھی جذباتی انداز اختیار کرے۔ اسی کو ایڈجسٹمنٹ کہا جاتا ہے۔ اور اس معاملے کا عملی حل صرف ایک ہے، اور وہ ایڈجسٹمنٹ ہے۔مرد کو چاہیے کہ وہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے اس معاملے میں یک طرفہ طور پر ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ اختیار کرے۔
واپس اوپر جائیں

غلطی کا اعتراف

غلطی انسان کی صفت ہے (to err is human)۔ عام طور پر لوگوں کا مزاج ہے کہ وہ اپنی غلطی کا کھلے انداز میں اعتراف نہیں کرتے۔ طرح طرح کے الفاظ بول کر وہ اس کی صفائی پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہ عادت بہت زیادہ عام ہے۔ مگر یہ ایک مہلک عادت ہے۔ غلطی کا اعتراف اتنا زیادہ مفید ہے کہ اگر لوگ اس کو جانیں تو وہ اس کو اپنی ذہنی ارتقا کے لیے ایک سنہری موقع (golden chance) سمجھیں۔ اور ایک لمحےکی تاخیر کے بغیر فورا کہہ اٹھیں کہ میں غلطی پر تھا:
I was wrong
جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میں غلطی پر تھا تو آپ اپنے ذہن کو ایک سگنل (signal) دیتے ہیں۔ یہ سگنل کہ علم کے بہت سے گوشے ایسے ہیں جہاں تک ابھی تمھاری پہنچ نہیں ہوئی۔ یہ سگنل آپ کے ذہن کو مثبت سمت میں متحرک کردیتا ہے۔ اس طرح آپ کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر بار جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میں غلطی پر تھا تو ہر بار آپ اپنے ذہنی ارتقا کے لیے ایک تخلیقی دروازہ (creative door)کھول دیتے ہیں۔ آپ اپنے اندر ایک ایسا فکری عمل (intellectual process) جاری کردیتے ہیں، جو کسی اور طریقے سے جاری نہیں ہوسکتا۔ اس اعتبار سے غلطی کا اعتراف کرنا ایک موقع (opportunity) کو استعمال کرنا ہے۔ اور غلطی کا اعتراف نہ کرنا ، ایک موقع کو کھودینا ہے، جو دوبارہ کبھی آنے والا نہیں۔غلطی کا کھلا اعتراف کرنا، اس بات کی علامت ہے کہ آدمی کے اندر تواضع (modesty) کا مزاج ہے۔ اور تواضع اپنے آپ میں ذہنی اور روحانی ارتقا کا ایک عظیم خزانہ ہے۔ جو آدمی تواضع سے محروم ہے، وہ معرفت سے بھی محروم رہے گا۔ تواضع سے محرومی آدمی کے اندر ذہنی جمود (intellectual stagnation) پیدا کردیتی ہے۔ اور تواضع کا مزاج آدمی کے اندر ذہنی ارتقا کے دروازے کھول دیتا ہے، حتی کہ کوئی دروازہ اس کے لیے بند نہیں رہتا۔
واپس اوپر جائیں

تجربہ کی دنیا

ایک صاحب کو میں جانتا ہوں۔ ا ن کی پاس بزنس کی کوئی ڈگری نہیں، لیکن وہ ایک بزنس مین ہیں اور اپنے بزنس میں نہایت کامیاب ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے پاس ایم بی اے (Master of Business Administration) کی ڈگری نہیں۔ لیکن آپ کامیابی کے ساتھ بزنس کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کا راز ہے، تجربہ (experience)۔ میرے پاس کالج کی ڈگری نہیں، لیکن میرے پاس تجربہ کی ڈگری ہے۔ میں نے اپنے تجربے سے وہ سب کچھ سیکھا جو دوسرے لوگ ڈگری کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بات ہر شعبے کے لیے درست ہے۔ ہماری دنیا ایک وسیع درس گاہ ہے۔ اس درس گاہ میں ہر قسم کے تجربات پھیلے ہوئے ہیں۔ انسان کے اندر اگر سیکھنے کا جذبہ (learning spirit) ہو تو وہ دنیا کے تجربات سے وہ سب کچھ حاصل کرسکتا ہے، جس کے لیے لوگ یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں، اور بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔
خاندانی زندگی کا معاملہ ہویا بزنس کا معاملہ، سماجی زندگی ہو یا قومی زندگی۔ ہر جگہ، ہر دن مختلف قسم کے تجربات پیش آتے ہیں۔ اگر آدمی کھلے ذہن کے ساتھ زندگی گزارے، اور تجربات سےسبق سیکھے تو وہ ہر شعبے میں کامیاب زندگی گزار سکتاہے۔ آدمی کے اندر سیکھنے کا جذبہ موجود ہو تو وہ نہ صرف یہ کرے گا کہ اپنے تجربات سے سبق لے، بلکہ وہ دوسروں کے تجربات سے بھی بھر پور سبق لیتا رہے گا۔
تجربہ گویا عملی مطالعہ (practical study) ہے۔ ہر تجربہ عمل کی زبان میں کتاب زندگی کاایک صفحہ ہوتا ہے۔ ہر تجربہ عمل کی زبان میں کلاس روم کا ایک سبق ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے پوری دنیا تجربات اور مشاہدات کی ایک عظیم لائبریری ہے۔ آپ اپنے ذہن کو کھلا رکھیے، آپ اپنے اندر سیکھنے کا مزاج (learning spirit) پیدا کیجیے، پھر آپ دیکھیں گے کہ پوری دنیا آپ کے لیے ایک عظیم تعلیمی درس گاہ بن گئی ہے۔
واپس اوپر جائیں

دیباچہ

زیر نظر کتاب راقم الحروف کی ان تحریروں کا مجموعہ ہے، جو ماہنامہ الرسالہ میں سوال و جواب کے کالم کے تحت چھپتے رہے ہیں۔ اس مجموعہ کو برادرم اصطفاء علی صاحب نے کولکاتا ٹیم کے تعاون سے تیار کیا ہے، اور کولکاتا ٹیم اس کو اپنے اہتمام کے ساتھ اس کو شائع کررہی ہے۔ ان لوگوں کی یہ کوشش بلاشبہ ایک مستحسن کوشش ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ان تمام لوگوں کو اس کام کے لیے جزائے خیر عطا فرمائے، اور اس کے پڑھنے والوں کے لیے یہ مجموعہ ان کی زندگی کے لیے مفید ثابت ہو۔ آمین
سوال و جواب کا طریقہ بہت قدیم طریقہ ہے۔ یہ طریقہ اپنے اندر بہت سے فوائد رکھتا ہے۔ سوال کرنے والے کے لیے بھی ، اور جواب دینے والے کے لیے بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ سوال و جواب ایک باہمی تعلم (mutual learning) کا طریقہ ہے۔ اس طریقے میں سائل اور مجیب دونوں کے لیے یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ مزید مطالعہ کے ذریعہ اپنے علم میں اضافہ کریں۔ وہ زیر بحث مسئلے کے نئے گوشوں کو دریافت کریں۔ اس طرح یہ طریقہ طرفَین کے لیے فکری ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے۔
اسلام میں سوال کے بجائے تدبراور تفکر پر زور دیا گیا ہے۔ حضرت خضر کے ساتھ حضرت موسی جب سفر پر روانہ ہوئے تو حضرت خضر نے حضرت موسی سے کہا :فَلَا تَسْأَلْنِی عَنْ شَیْء (18:70)۔ یعنی تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کرنا۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سوال نہ کرو۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذہن میں کوئی سوال آئے تو پہلےغور وفکر کرو۔ غور وفکر کرکے آدمی پہلے اپنے آپ کو ذہنی اعتبار سے تیار کرتا ہے۔ سوال کا جواب وہی شخص درست طور پر سمجھتا ہے، جو پہلے سے اپنے آپ کو ایک تیار ذہن (prepared mind) بنا چکا ہو۔
اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ ایک صحابی کہتے ہیں : و عن کثرۃ السوال (مسند احمد، حدیث نمبر18232)۔ یعنی رسول اللہ نے زیادہ سوال سے منع کیا تھا۔سوال کی کثرت سے منع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی سوال نہ کرے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی پہلے خود سوال کے تقاضے کو پورا کرے، اس کے بعد وہ سوال کرے۔
اس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ سوال کرنے سے پہلے آدمی خود غور وفکر کرے۔ اس طرح اس کو ذہنی ارتقا (intellectual development) کا فائدہ حاصل ہوگا۔ اللہ تعالی نے انسان کے ذہن میں غیر معمولی صلاحیت پیدا کی ہے۔ یہ صلاحیت غور وفکر سے بڑھتی ہے۔ اپنے ذہن کو ترقی دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی مطالعہ اور غور وفکر کے ذریعہ اپنے ذہن کو تیار کرتا رہے۔ وہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ اخذ (grasp)کی صلاحیت پیدا کرے۔ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ کوئی شخص اس کے سوال کا جواب دے تو وہ اپنی طرف سے اس میں کچھ اضافہ کرسکے۔ حقیقی سائل وہ ہے جو جواب کو سن کر اس میں اپنی طرف سے اضافہ کرسکتا ہو۔
مذکورہ حدیث کا مطلب اگر لفظ بدل کربیا ن کیا جائے تو وہ یہ ہوگا— سوال کیوں کرتے ہو۔ اگر تمھارے ذہن میں کوئی سوال آیا ہے تو پہلے خود اپنے ذہن کو استعمال کرکے اس کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرو۔ سوال کو صرف سوال نہ سمجھو، بلکہ اس کو اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بناؤ۔ بات کو سن کر فوراً سوال کرنا، عجلت پسند ی کی علامت ہے۔ بات کو سن کر پہلے غور وفکر کرنا چاہیے۔ اگر غور وفکر سے وہ بات تک نہ پہنچے تو سمجھنا چاہیے کہ اس نے اپنے ذہن کو تیار کرنے میں کمی کی ہے۔ اس کی توجہ اس پر دینا چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کو مزید تیار کرنے کی کوشش کرے۔
وحید الدین
نئی دہلی، 4 جنوری 2017
واپس اوپر جائیں

تعمیر کے لیے سب سے زیادہ جس کی ضرورت ہے، وہ ہے ایک سوچا سمجھا نقشۂ عمل، جس کے مطابق ہر ایک اپنے اپنے دائرہ میں سرگرم عمل ہو۔


واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
قرآن کے مطابق، حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑا، مگرسیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراسلام نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کیا۔جیسا کہ آپ نے بھی لکھا۔ قرآن کے مطابق تمام پیغمبر ہمارے لیے اسوہ ہیں۔ اس اعتبار سے یہ فرق سمجھ میں نہیں آیا۔ وضاحت فرمائیں۔ (عبد العزیز ایڈوکیٹ، کپواڑہ، کشمیر)
جواب
حضرت ابراہیم کی بت شکنی کا واقعہ دور دعوت کا نہیں ہے ، بلکہ وہ اتمام حجت کے بعد کا ہے۔ اتمام حجت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب قوم میں کوئی ایمان لانے والا نہیں۔ جب کسی قوم کے بارے میں یہ نوبت آجائے تو وہاں حالات کے اعتبار سے مختلف صورتیں اختیار کی جاتی ہیں۔ انتہائی صورت حال میں کبھی اللہ ان کے خلاف سرزنش کے طور پر کوئی کارروائی کرسکتاہے، یا پیغمبر کوئی صورت بطور آخری حجت کے اختیار کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑنے کی صورت میں کیا۔
کسی قوم میں جب دعوت کے امکانات موجود ہوں تو وہاں بت شکنی جیسی انتہائی تدبیر کے بارے میں سوچنا بھی شریعت دعوت میں امر ممنوع ہے۔ آپ جس زمانے میں ہیں، ہر جگہ دعوت کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ آپ کے اپنے علاقے میں بھی اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی۔ ایسی حالت میں آپ کے لیے جائز نہیں کہ آپ بت شکنی اور قتال کی اصطلاح میں سوچیں۔ آپ کو صرف پرامن دعوت کی اصطلاح میں سوچنا چاہیے۔
دعوت کی آئڈیالوجی ہمیشہ ایک رہتی ہے، لیکن طریقہ کار (method) کا تعین حالات کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ دعوت کا اصول یہ ہے کہ آخری حد تک مدعو کو اللہ کی طرف بلایا جائے۔ دورِ دعوت میں کوئی دوسری بات سوچنا بذات خود ایک مجرمانہ سوچ ہے۔ اس قسم کی سوچ کے لیے اسلام میں کوئی جواز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 250

1۔ ترجمہ قرآن کا اٹالین ایڈیشن گڈورڈ بکس (نئی دہلی) سے شائع ہوچکا ہے۔ یکم جنوری 2017 کو صدر اسلامی مرکز نے اس کا اجراء کیا۔
2۔ 17 جنوری 2017 کوصدر اسلامی مرکز نے قرآن کے پرتگیز ترجمہ کا اجرا کیا۔ یہ ترجمہ گڈورڈ بکس نے طبع کروایا ہے، اور اسے یہاں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
3۔ کولکاتا سی پی ایس ٹیم نے جناب اصطفاء علی صاحب کی نگرانی میں الرسالہ میں شائع شدہ صدر اسلامی مرکز کے سوال و جواب کو کتابی شکل میں شائع کیا ہے، صدر اسلامی مرکز نے اس پر ایک دیباچہ تحریر کیا ہے، وہ اس شمارے میں شامل ہے۔
4۔ ایک نئے ویب پورٹل پر صدر اسلامی مرکز کے مضامین آنے شروع ہو گیے ہیں، اس کا ایڈریس یہ ہے:
http://soulveda.com/viewauthor.php?uid=64
5۔ سیواگرام آشرم، واردھا، مہاراشٹر، اور مہاتما گاندھی کے مشن سے تعلق رکھنے والےدیگر مختلف ادارے (Sewagram Ashram Pratishthan, Sabarmati Ashram, Kasturaba Trust, Harijan Sewak Sangh, Akhil Bharatiya Nai Talim Samiti, Navjivan Prakashan, Gujarat Vidyapith and Sarva Seva Sangh) 2016تا 19 کے درمیان مہاتما گاندھی کے ڈیڑھ سو سالہ تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اس کا نام ان لوگوں نے گاندھی 150 (Gandhi 150) ابھیان رکھا ہے۔ اس کا افتتاحی پروگرام22-21 فروری 2017 کو واردھا میں ہوا۔ اس موقعہ پران لوگوں صدر اسلامی مرکز کو بطور چیف گیسٹ مدعو کیا تھا۔ کسی وجہ سے صدر اسلامی مرکز اس پروگرام میں شریک نہیں ہو سکے، البتہ ایک پیغام لکھ کر بھیج دیا گیا، جو پروگرام میں موجود لوگوں کو سنایا گیا۔ الرسالہ کے آئندہ شمارہ میں اس پیغام کو شائع کیا جائے گا۔
6۔ فروری 2017 میں صحافت اور سیاست کے میدان سے تعلق رکھنے والی مختلف ہستیوں کو صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن اور انگریزی کتابیں، دی پرافٹ آف پیس، قرانک وزڈم، اور لیڈنگ این اسپریچول لائف، بھیجی گئی تھیں۔ وہ لوگ یہ ہیں، مسٹر ایم جے اکبر، مرکزی وزیر، اور مشہور انگریزی صحافی، مس جیوتیہ باسو، مسٹر ارمان نیازی، مس شالینی کے شرما، اور مسٹر چراغ پاسوان (ایم پی، بہار)۔
7۔ فروری کے مہینہ میں ہی سی پی ایس دہلی و لکھنؤ کی ممبر مس سعدیہ خان نےسوشل میڈیا پلیٹ فارم، فیس بک اور انسٹا گرام پر ایک مقابلے کا انعقاد کیا تھا۔ اس میں یہ تھا کہ جو الرسالہ مشن کےبارے میں اچھا تاثر لکھے گا، اس کو صدر اسلامی مرکز کی دستخط کی ہوئی کتاب انعام کے طور پر دی جائے گی۔ اس مقابلے میں ملک و بیرون ملک سے مختلف لوگوں نے حصہ لیا، جن میں سے چار لوگوں کو منتخب کرکے بطور انعام دستخط شدہ پرافٹ آف پیس اور دوسری کتابیں روانہ کر دی گئیں ہیں۔
8۔ 25 دسمبر 2016 کوپونے ٹیم کی ماہانہ دعوہ میٹ عبد الصمد صاحب کے گھر پر ہوئی۔ آج کی دعوہ میٹ میں نوجوانوں کی دعوتی عمل کے لئے حوصلہ افزائی کے ٹاپک پر گفتگو ہوئی۔ اسی کے ساتھ الرسالہ سے ایک مضمون پڑھ کر سنایا گیا اور صدر اسلامی مرکز کی اردو کتاب یکساں سول کوڈ کے مراٹھی میں ہوئے ترجمہ پر گفتگو ہوئی جو کہ طبع ہو کر آچکی ہے۔ اس میٹ میں عبد الصمد، اختر امین، یونس میمن، رفیق مجاہد اور شریف خان صاحبان، وغیرہ نے شرکت کی۔
9۔ 30دسمبر کو ایم ایم ربانی ہای اسکول وجونیرکالج، ناگپور میںامریکا کی Goal for Girlsنامی این جی او دورہ پر آئی، اور اسکول کے بچوں سے تبادلہ خیال کیا۔اس موقع پر CPSناگپور کامٹی ٹیم کے ساجد احمد خان نے ان کے سامنے اسلام کامختصر تعارف پیش کیااورانھیں قران کا انگلش ترجمہ اور What is Islam پیش کیا۔ انھوں نے اس کوبہت خوشی سے قبول کیا۔
10۔ یکم جنوری 2017 کو ناگپور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جناب ہری بھاؤ کے ساتھ ساجد احمد خان صاحب (ناگپور ٹیم ) نے مذہب،امن اور باہمی ہم آہنگی پر تفصیلی گفتگو کی۔ اس کے بعد ان کو صدر اسلامی مرکز کے مراٹھی ترجمہ قرآن، ایج آف پیس، لائف آف پرافٹ محمد اور دوسرے دعوہ لٹریچر پیش کیے گیے۔ اس کے علاوہ ناگپور ٹیم کی ماہانہ میٹنگوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جنوری میں یہ میٹنگ بابو بھائی ورک شاپ (ناگپور) میں ہوئی، اور ورکشاپ میں آنے والوں کے لیے وہاں ترجمہ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچررکھے گیے۔
1 1۔ یکم جنوری 2017 کو صدر اسلامی مرکزسے ملنے کے لیے پروفیسر راہل رام گنڈم آئے۔ موصوف دلت اور مائنارٹی ڈپارٹمنٹ (جامعہ ملیہ اسلامی، دہلی)میں پروفیسر ہیں۔ اس موقع پراسلام کے موضوعات پر ڈسکشن ہوا۔ آخر میں جناب موصوف کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ بطور تحفہ دیا گیا۔ علاوہ ازیں جامعہ ملیہ کے مذکورہ ڈپارٹمنٹ کی لائبریری کے لیے صدراسلامی مرکز کی کتابوں کا سیٹ بطور تحفہ دیا گیا۔
12۔ کولکاتا سی پی ایس ٹیم نے آرٹ آف لیونگ کولکاتا یونٹ کے ممبران اور سماجی میدان میں کام کرنے والی دیگر تنظیموںکے ساتھ ایک انٹرایکٹو میٹنگ کا انعقاد کیاتھا۔ یہ میٹنگ ویسٹ بنگال اردو اکیڈمی کے سیمینار ہال میں 6 جنوری 2017 کو ہوئی۔ سی پی ایس ٹیم نے تمام لوگوں کے سامنے سی پی ایس کے مشن کوواضح کیا۔ اسے سن کر بیٹر انڈیا(Better India) کے رضاکاروں نے بتایا کہ جب بھی وہ کوئی پروگرام کریں گے تو ان کی تربیت کے لیے وہ صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو ضرور چلائیں گے ۔ آخر میں یہ طے پایا کہ امن کے پیغام کے لیے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے ہم ایک دوسرے سے ملتے رہیں گے تاکہ مستحکم تعلقات کی تعمیر ہو۔ اختتام پر تمام لوگوں کو ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر دیا گیا۔
13۔ 6 جنوری 2017 کو مارکوئٹ یونیورسٹی (Marquette University) امریکاکے دس طلبہ پروفیسر عرفان عمر کی رہنمائی میں اسلامی مرکز آئے۔ صدر اسلامی مرکز نے ان کو اسلام اور پیغمبر اسلام کی پرامن تعلیمات سے آگاہ کیا اور ان کے ساتھ انٹر ایکشن کیا۔ آخر میں ان کو دعوہ لٹریچر جیسے انگلش ترجمہ قرآن، لیڈنگ اے اسپریچول لائف، واٹ از اسلام، اسپرٹ آف اسلام میگزین، دی ایج آف پیس، قرآنک وزڈم وغیرہ پیش کیا گیا، جس کو انھوں نے بے حد خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
14۔ 6 تا 19 جنوری 2017 چنئی میں سالانہ بک فیئر کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں گڈ ورڈ بکس چنئی نے اپنا اسٹال لگا یا۔ اسٹال پر بڑی تعدا میں ہندوستان اور سری لنکا کے زائرین آئے، اور انھوںنےانگریزی اورتمل ترجمہ قرآن و دیگر لٹریچر حاصل کیا۔ نیز نیشنل پبلشرز، چنئی نے صدر اسلامی مرکز کی اردو کتاب، یکساں سول کوڈ کا تمل میں ترجمہ کروا کر اس میلہ میں اجرا کیا۔ یہ ترجمہ سید فیض قادری (کوئمبتور) نے کیا ہے۔
15۔ ڈاکٹر محمد اسلم خان (سہارنپور) الرسالہ مشن کے بہت ہی متحرک ممبر ہیں۔صدر اسلامی مرکز سے ان کو کیا فائدہ حاصل ہوا، اس کو انھوں نے ان الفاظ میں تحریر فرمایا ہے:اگر میں مولانا کی کتابیں نہ پڑھتا تو میرے لیے یہ سمجھنا بے حد مشکل ہوتا کہ مجھے خدا نے کس لیے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ میرے خیال میں مولانا دور جدید میں وہی کام کررہے ہیں جو کہ قدیم زمانے میں مجددِدین کیا کرتے تھے۔ ذیل میں ڈاکٹر محمد اسلم خان کے ذریعہ کیے ہوئے کچھ حالیہ دعوتی کاموں کاذکر کیا جارہا ہے:
■ 11 دسمبر 2016 کو سہارن پور میں سینٹ مرینا اکیڈمی کا افتتاح ہوا۔ اس میں سی پی ایس ٹیم نے سہارن پور رینج کے ڈی آئی جی کو قرآن پیش کیا۔ اسی کے ساتھ دوسرے مہمانوں کو دعوہ لٹریچر دیا گیا۔ مزید کتابیں اسکول کی ہیڈ مس ٹریس کو دی گئیں تاکہ وہ ان کتابوںکو دوسروں تک پہنچا دیں۔
■ 25 دسمبر 2016 کو کرسمس کی مناسبت سے سہارن پور میں موجود چرچ جیسے ڈینیل مسیح، سینٹ تھامس اور سنٹرل میتھوڈسٹ چرچ، وغیرہ کا سی پی ایس ٹیم نے دورہ کیا، اور شام کے وقت ان چرچوں کے وفود نے پیس ہال سہارنپور کا دورہ کیا اور وعدہ کیا کہ وہ سی پی ایس مشن میں اپنا پورا تعاون کریں گے۔ فادر دارا سنگھ قرآن کی تفسیر چاہتے تھے۔ فادر ڈینئل نے 10 قرآن کے نسخے لیے تاکہ وہ ان کو چرچ میں لوگوں کو دے سکیں۔ سی پی ایس ٹیم نے آئے ہوئے مہمانوں کوترجمہ قرآن، تذکیر القرآن اور دوسرے پیس لٹریچر کے علاوہ کرسمس کے موقعے پر تحفے دیے۔
■ 31 دسمبر 2016 کونئے سال کی مناسبت سے ضلع پریشد کی چیرمین محترمہ تسنیمہ بانوکی صدارت میں قومی ہم آہنگی کے موضوع پر پیس ہال (سہارن پور) میں ایک میٹنگ کا انعقاد ہوا۔ اس میں شہر کی ذی وقار ہستیوں نے شرکت کی اور مختلف مذاہب میں موجودہ باہمی بھائی چارہ اور آپسی محبت باتوں پر چرچا ہوئی۔ آخر میں صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر لوگوں کے درمیان تقسیم کیے گیے۔
16. Aamir bin Yusuf, a CPS member from Karachi, called me while returning from an interfaith program at a Hindu temple. This was the first ever such interfaith program to be held in a Hindu temple in Pakistan since 1947. Aamir had interaction with various religious, political and community leaders. He introduced CPS to all. A lot of them are aware of the Maulana and his mission, some have read his literature and others have heard or watched Maulana's short audio/video clips that I post on their interfaith WhatsApp group. The leader of this group, Syed Yaqoob Ali Shah, is an avid reader of Maulana's literature. Aamir bin Yusuf had a very gratifying experience there and learnt few lessons through their interaction, such as not wasting food and maintaining neatness and so on. May God open up these kind of plenty opportunities for us to do dawah, delivering the message of tawhid. Ameen (Khaja Kaleemuddin, USA)
17. I am in receipt of a copy of The Quran. I wish to thank the Maulana for his hard work to produce a beautiful translation of the Quran in modern language, which is easy to understand for a common person. Also thanks to Dr. Farida Khanam for her contribution. I am sure all will benefit from this translation and will gain a proper understanding of Islam. Thank you again. (S. Awale, UK)
18. I have received the Holy Quran. I have been reading it everyday. I have finished about 35 books you sent me. The Quran is beautiful, and its message is to make mankind aware of God’s Creation plan, His purpose for mankind, and the importance for mankind to discover God’s Truth on a spiritual and intellectual plane. The Quran is directly from God, sent down to mankind, to direct us on the right path to perfection, to guide us through life successfully and into the afterlife! The Quran is a peaceful, and spiritual book that's filled with God's love and wisdom! Thank you so much for this wonderful free gift! The Quran has strengthened my faith, spirit and mentality! It has filled me with peace within and wisdom! I am also interested in obtaining more literature by the wonderful scholar Maulana Wahiduddin Khan. (Yvette Francine Gray, USA)
واپس اوپر جائیں

Wednesday, 1 March 2017

Alrisala March 2017 (الرسالہ مارچ)

4

-اسلام کیا ہے

5

- انعامات خداوندی

7

- اول المسلمین

8

- ایمان کو سیکھنا

14

- دو دنیائیں

17

- اعتماد علی اللہ

18

- ختم نبوت

19

- ٹرین آف تھاٹ

20

- اسپریچول آؤٹ سورسنگ

22

- مصیبت کیوں

23

- راہ عمل

24

- صبر کی اہمیت

25

- دورِ جدید

26

- سیکولرزم کیا ہے

28

- دین میں تنگی نہیں

29

- اجتہاد کا معاملہ

30

- ملت کی اصلاح

31

- دورِ زوال کا ایک ظاہرہ

33

- حالات کا جائزہ

34

- امیج بلڈنگ

35

- بڑھاپا آنے سے پہلے

36

- شادی کا صحیح طریقہ

38

- عزت نفس

39

- بے شکایت جینا

40

- انتہا پسندی

41

- صحیح طرز فکر

42

- کرائسس مینجمنٹ

43

- درست فیصلہ

44

- بہتر کا انتخاب

45

- سوال و جواب

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


اسلام کیا ہے

اسلام کا لفظی مطلب اطاعت ہے۔ مگر یہ اطاعت جبری نہیں ہے، بلکہ وہ اختیاری ہے۔ انسان کو اس کے پیدا کرنے والے نےآزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے۔ انسان کو اس دنیا میں اپنے اختیار کو استعمال کرنے کے اعتبار سے کامل آزادی حاصل ہے۔ وہ جس طرح چاہے سوچے، وہ جس طرح چاہے کرے۔
اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام ایک خود انضباطی نظام (self-imposed discipline) کا نام ہے۔ خالق نے انسان کو پیغمبر کے ذریعےجو دین بھیجا ، اس کی حیثیت رہنما گائڈ کی ہے۔ لیکن فیصلہ پھر بھی انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ اس رہنما گائڈ کا کام انسان کو صرف یہ بتانا ہےکہ صحیح کیا ہے ،اور غلط کیا ۔ لیکن یہ رہنما گائڈ انسان پر کسی قسم کا جبر قائم نہیں کرتا۔ انسان کی زندگی کا یہی وہ پہلو ہے جس کی بنا پر اس کو خلیفہ کہا گیا ہے۔ خلیفہ کا لغوی مطلب ہے بعد کو آنے والا (successor)۔ لیکن مفہوم کے اعتبار سے اس کا مطلب ہے آزاد مخلوق۔ اسی آزادی کے صحیح یا غلط استعمال پر انسان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔
انسان کو آزادی تو حاصل ہے، لیکن اس کو کسی قسم کا اقتدار حاصل نہیں۔ آزادی کے اعتبار سے اس کو بے روک ٹوک آزادی ملی ہوئی ہے، لیکن اقتدار کے اعتبار سے اس کو کسی قسم کی ذاتی طاقت حاصل نہیں۔ یہی وہ فرق ہے، جس کی بنا پر تمام انسان عملاً احساسِ محرومی میں جیتے ہیں۔ کیوں کہ انسان جو کچھ چاہتا ہے، اس کو حاصل کرنے پر وہ قادر نہیں۔ یہی مقام شیطان کے لیے انسان کے اندر داخلہ کا مقام (entry-point) ہے۔ شیطان اس حقیقت سے باخبر تھا، اسی لیے اس نے آغاز انسانیت میں اللہ رب العالمین سے کہا تھا : وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِینَ (7:17)۔ یعنی اور تو ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والا نہ پائے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو جاننے کا نام ایمان (معرفت)ہے، اور یہی وہ حقیقت ہے جس کے مطابق زندگی گزارنے کا نام عمل صالح ہے۔
واپس اوپر جائیں

انعامات خداوندی

قرآن کی سورہ الحدید کی ایک آیت یہ ہے:لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَیِّناتِ وَأَنْزَلْنا مَعَہُمُ الْکِتابَ وَالْمِیزانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِیدَ فِیہِ بَأْسٌ شَدِیدٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ وَرُسُلَہُ بِالْغَیْبِ إِنَّ اللَّہَ قَوِیٌّ عَزِیزٌ (57:25)۔ یعنی ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ اتارا کتاب اور ترازو، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔ اور ہم نے لوہا اتارا جس میں بڑی قوت ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں اور تاکہ اللہ جان لے کہ کون اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے بِن دیکھے، بیشک اللہ طاقت والا، زبردست ہے۔
آیت کے آخری حصہ میں اللہ کی دو صفتوں ، قوی و عزیز (all-strong, almighty) کا ذکر ہے۔ اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں اللہ کی کامل اور جامع نعمتوں کا بیان ہے۔ اس اعتبار سے یہ آیت بے حد اہمیت کی حامل ہے۔
قرآن کی اس آیت میں انسان کے اوپر اللہ کی دو بڑی نعمتوں کا ذکر ہے۔ ان دو بڑی نعمتوں کے ذریعے انسان کے لیے تمام سعادتوں کے دروازے کھولے گیے ہیں۔ انسان کو دنیا اور آخرت میں ترقی کے لیے جو کچھ درکار ہے، وہ سب آیت میں بتا دیا گیا ہے۔ تاکہ انسان غور کرکےان کو سمجھے، اور صحیح اسپرٹ کے ساتھ ان کو اپنے حق میں استعمال کرے۔
قرآن کی اس آیت میں رسول سے مراد پیغمبر (prophet) ہیں۔ بینات سے مراد وہ معجز نشانیاں ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے ہیں کہ پیغمبر حقیقی معنوں میں اللہ کا پیغمبر ہے۔ یہ معجز نشانیاں ایسی ہیں جو ہر ذی عقل انسان کو یہ ماننے پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ شخص یقیناً اللہ کا نمائندہ ہے۔ اب اگر کوئی شخص پیغمبر کا انکار کرتا ہے تو اس کے پاس اپنے انکار کا کوئی جواز (justification) موجود نہیں۔ قسط سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے مقام پر صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ یعنی دنیا میں زندگی گزارنے کا وہ راستہ جو خالق کے نزدیک مقبول راستہ ہے۔
قسط (justice) کے ساتھ یہاں لیقوم کا لفظ آیا ہے۔ یعنی اس سے مراد کسی فرد کا خود اپنی زندگی میں قسط کا پیرو بننا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی قسط کا جھنڈا اُٹھائے اور سیاسی اقتدار حاصل کرکے قسط کو لوگوں کے اوپر نافذ (implement) کرے۔ نحوی اعتبار سے یہ کہ قسط کا حکم یہاں لازم کے صیغہ میں ہے، وہ متعدی کے صیغہ میں نہیں۔
حدید کا لفظی مطلب لوہا (iron) ہے۔ غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حدید کا لفظ غالباً علامتی طور پر آیا ہے۔ یعنی اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو موجودہ زمانے میں ٹکنالوجی کہاجاتا ہے۔ٹکنالوجی کی تعریف یہ کی گئی ہے:
The branch of knowledge dealing with engineering or applied sciences.
حدید ایک علامتی لفظ ہے۔ اس سے مراد وہ تمام معدنیات ہیں جن کو استعمال کرکے موجودہ زمانے کی مشینیں بنتی ہیں، اور ان کو دورِ جدید کی سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اول المسلمین

قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ (6:163)۔ یہاں اول المسلمین کا لفظ آیا ہے۔ اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ میں پہلا مسلم (first Muslim) بنوں۔ مگر قرآن کی اس آیت کو لفظی معنی میں نہیں لیا جا سکتا ۔ کیوں کہ جس وقت یہ آیت اتری اس وقت بہت سے لوگ اسلام قبول کرچکے تھے۔ اور آپ کی اہلیہ خدیجہ نے تو عین اسی دن اسلام قبول کیا تھا، جب کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول مقرر فرمایا۔
حقیقت یہ ہے کہ اول المسلمین یا اول من اسلم کی آیات لفظی معنی میں نہیں، بلکہ وہ عزم کے معنی میں ہے۔ یعنی اسپرٹ کے معنی میں۔ یہ اسی اسپرٹ کا اظہار تھا، جس کو انگریزی زبان میں ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے: آئی ول ڈو اٹ (I will do it)۔
حقیقت یہ ہےکہ یہ ایک باعزم صاحب مشن کا کلمہ ہے۔ وہ صاحب مشن کے یقین اور عزم کو بتاتا ہے۔ یہ کلمہ صاحب مشن کی اس اسپرٹ کو بتاتا ہے کہ اگر کوئی میرا ساتھ نہ دے تب بھی میں اس کام کو انجام دوں گا۔ اگر کوئی شخص میرا ساتھی نہ بنے تب بھی میں اس راہ پر چلنا نہیں چھوڑوں گا۔
اس قسم کی عزیمت کی بات کو اس کے لفظی معنی میں لینا درست نہیں۔ بلکہ ایسی بات کو اس کی حقیقی اسپرٹ کے معنی میں لینا صحیح ہوگا۔ اسی قسم کی ایک مثال وہ ہے جو خلیفہ اول ابوبکر صدیق نے اس وقت کہی تھی، جب کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد فتنہ پھیل گیا تھا، جس کو حضرت عائشہ نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا: لما توفی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، ارتدت العرب (سنن النسائی، حدیث نمبر3094)۔ اس فتنہ کی شدت کے اعتبار سے حضرت عائشہ نے یہ الفاظ کہے ہیں۔یہاں نہ حضرت عائشہ کے قول کو لفظی معنی میں لینا درست ہوگا، اور نہ حضرت ابوبکر کے قول کو لفظی معنی میں لینا درست ہوگا۔ان کا قول یہ ہے:أینقص وأنا حی (جامع الاصول، حدیث نمبر6426)۔ یعنی کیا دین میں کمی کی جائے گی، حالاں کہ میں زندہ ہوں۔
واپس اوپر جائیں

ایمان کو سیکھنا

ایک صحابی صحبت رسول کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں:عن جندب، قال:کنا مع نبینا صلى اللہ علیہ وسلم فتیانا حزاورة فتعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن، ثم تعلمنا القرآن فنزداد بہ إیمانا، فإنکم الیوم تعلمون القرآن قبل الإیمان (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 1678)۔ یعنی جندب بن عبداللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم جوانی کی عمر میں تھے۔ پس ہم نے قرآن کا علم حاصل کرنے سے پہلے ایمان سیکھا ، پھر ہم نے قرآن سیکھا تو اس سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوگیا۔اور تم لوگ آج قرآن سیکھتے ہو ایمان سے پہلے۔
انٹرنیٹ پر ایک عرب، محمد العبادی نے اس کی شرح ان الفاظ میں کی ہے: تعلم الإیمان قبل القرآن یعنی تہیئة القلب لتلقی تعالیم القرآن والاہتداء بأنوارہ، فہو کتہیئة الأرض حتى تکون صالحة للزرع(ملتقیٰ اہل التفسیر (vb.tafsir.net)، الإیمان قبل القرآن)۔ یعنیـ" ایمان سیکھنا قرآن سے پہلےـ" کا مطلب یہ ہے دل کو تیار (prepare)کرنا، تاکہ وہ اخذ کرسکےقرآن کی تعلیمات کو، اور اس کی روشنی سے ہدایت پاسکے۔ پس وہ ایسا ہے جیسے زمین کو تیار کرنا تاکہ وہ کھیتی کے قابل ہوجائے۔
اس روایت کا مطلب کنڈیشننگ (conditioning) کے اصول سے سمجھ میں آتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ ہر پیدا ہونے والالازمی طور پر اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ ماحول کا پروڈکٹ بن جاتا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر1385) ۔ ایسی حالت میں ایمان قبول کرنا، اپنے ذہن کے اعتبار سے ایک ایسی چیز کو قبول کرنا ہے جو آدمی کے لیے ایک نئی چیز ہے۔اس لیے ہمیشہ یہ اندیشہ رہتا ہے کہ آدمی نئی چیز کو متاثر ذہن (conditioned mind) کے ساتھ دیکھے، اور اس کو درست طور پر سمجھ نہ سکے۔ ایسی حالت میں ہر آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایمان سے پہلے ایک پیشگی کام کرے۔ یعنی اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) کرکے اس کو تیار ذہن (prepared mind) بنائے، تاکہ وہ نئی چیز کو کھلے ذہن کے ساتھ دیکھے، اور بے آمیز صورت میں اس کو لے سکے۔
یہ گویا تطہیر ذہن (purification of the mind) کا معاملہ ہے۔ اس تطہیر کے بغیر کوئی بھی شخص، ایمان کو حقیقی طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ اس تطہیر کے بغیر اگر وہ ایمان قبول کرتا ہے تو وہ اس کے لیے داخل القلب ایمان (الحجرات14:) نہ ہوگا، بلکہ وہ ایمان لپ سروس (lip service) کے طور پر ہوگا، اور لپ سروس والا ایمان شریعت میں معتبر نہیں ۔
تطہیر ذہن کا یہ عمل صرف ابتدائی دور کے کچھ صحابہ کے لیے نہیں تھا، بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے اور ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ کوئی بھی شخص جو بعد کے زمانے میں ایمان قبول کرتا ہے، تو اس کو سب سے پہلے اپنے داخل القلب کو مطہّر اور مزکّی بنانا پڑے گا۔ یعنی پوری طرح اپنی ڈی کنڈیشننگ کرنی ہوگی۔ جو شخص اس ابتدائی شرط کو پورا کرے، اسی کا ایمان سچا ایمان ہے۔ جو آدمی اس ابتدائی شرط کو پورا کیے بغیر صرف پیدائش کےطور پر مسلم بن جائے، یا کلمہ کے الفاظ کو زبان سے ادا کرکے اسلام قبول کرلے، اس کا ایمان اللہ کے نزدیک معتبر ایمان نہ ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ یا تو پہلے مرحلے میں یا بعد کے مرحلے میں اپنا محاسبہ کرکےبھر پور طور پر اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ اپنے آپ کو مطہَّر اور مزکیّٰ بنائے۔ اس کے بعد ہی، اس کا ایمان معتبر ہوگا۔ اس کے بعد ہی اس کا ایمان اس کے لیے ہدایت کی روشنی بنے گا۔اس کے بعد ہی وہ اس قابل ہوگا کہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس آیت کا مصداق بنے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے:یعنی کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندگی دی اور ہم نے اس کو ایک روشنی دی کہ اس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے (6:122)۔
حقیقت یہ ہے کہ ایمان و اسلام کا معاملہ ایک پراسس کا معاملہ ہے۔ پہلے آدمی شعوری طور پراس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ اب تک بے خبری کی زندگی گزار رہا تھا۔ اندھیرے کے بعد اس پر روشنی کا دروازہ کھلا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنا محاسبہ (introspection) کرکے اپنی بھرپور ڈی کنڈیشننگ کرتا ہے، اس کے بعدوہ اپنے آپ کو آلودگی سے پاک کرکےوہ ذہن بناتا ہے جس کو شریعت میں مزکی شخصیت کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ قرآن کو پڑھے اور اس کو گہرائی کے ساتھ اپنا سکے۔
مبارک لوگ
ایک مشہور حدیث ہے: بدأ الإسلام غریبا، وسیعود کما بدأ غریبا، فطوبى للغرباء (صحیح مسلم، حدیث نمبر145)۔یعنی اسلام شروع ہوا تو وہ اجنبی تھا، اور دوبارہ وہ اجنبی ہوجائے گا، جیسا کہ وہ شروع میں تھا۔ پس مبارک ہیں وہ لوگ جو اجنبی ہوجائیں۔ غریب کا مطلب اجنبی (stranger) ہے۔ اجنبیت کا لفظ ایک تقابلی لفظ ہے۔ یعنی کسی کے مقابلے میں اجنبی ہوجانا۔
ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں پیغمبر اسلام قدیم عرب میں آئے۔ اس وقت وہاں بنواسماعیل آباد تھے۔ ابتدءاً وہ لوگ دین ابراہیم پر قائم تھے، مگر ان کی بعد کی نسلوں پر زوال آیا۔ وہ لوگ اب بھی دین ابراہیم کا نام لیتے تھے، لیکن وہ عملا ًاصل ابراہیمی دین پر نہ تھے۔ بعد کے زمانے میں حقیقی ابراہیمی دین ان کے درمیان اجنبی ہوچکا تھا۔وہ دین ابراہیم کے ایک خود ساختہ ورزن (version) کو ابراہیم کا دین سمجھنے لگے تھے۔اس اجنبیت کی بنا پر وہ پیغمبر اسلام کے مخالف بن گیے۔ حالاں کہ پیغمبر اسلام، ابراہیم علیہ السلام کے اسی دین کو زندہ کررہے تھے، جس کو رسول اللہ کے معاصر عرب اپنے قومی فخر کے طور پر لیے ہوئے تھے۔
مذکورہ حدیث کے مطابق، یہی معاملہ بعد کے زمانے میں دین اسلام کے ساتھ پیش آئے گا۔ یعنی قرآن وسنت والا دین زوال یافتہ مسلمانوں کے درمیان ایک اجنبی دین بن جائے گا۔بظاہر وہ دین محمدی کا نام لیں گے، اور اس پر فخر کریں گے۔ لیکن حقیقی اعتبار سے وہ دین محمدی سے اتنا دور ہوچکے ہوں گے کہ اصل دین محمدی ان کے لیے ایک اجنبی دین کی حیثیت اختیار کرلے گا۔ دین ابراہیمی اور دین محمدی دونوں اپنی اصل کے اعتبار سے خالص توحید کے مذاہب تھے۔ لیکن بعد کے زمانے میں دونوں کے ماننےوالوںپر زوال آئے گا۔ دونوں کے ماننے والے بظاہر دین ابراہیمی اور دین محمدی کا نام لیں گے، لیکن عملاً وہ اتنا زیادہ بگڑ چکے ہوں گے کہ ان کے درمیان اصل دین ابراہیمی اور اصل دین محمدی، دونوں اجنبی دین کی مانند بن جائیں گے۔
"مبارک اجنبی" سے مراد کون لوگ ہیں۔ اس سے مراد وہ افراد ہیں جو اس معاملے کا مطالعہ غیر متعصبانہ طور پرکریں ، جو کھلے ذہن کے ساتھ باتوں کو دوبارہ سمجھنے کی کوشش کریں، جو اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے اپنے کو اس قابل بنائیں کہ دین محمدی کو اس کی اصل صورت میں پہچان سکیں۔ اس کے بعد وہ بگاڑ کے زمانے میں اصل دین کو دوبارہ دریافت (rediscover) کریں۔ وہ بعد کے زمانے میں بننے والی تاریخ کو حذف کرکے دوبارہ پیغمبر کے لائے ہوئے دین کو سمجھیں۔ ایسے لوگ اگرچہ لوگوں کے نزدیک اجنبی ہوجائیں گے لیکن اللہ کی نظر میں وہ خوش قسمت لوگ ہیں۔ ان کے لیے اللہ کے یہاں بڑے درجات ہیں۔
ساتویں صدی عیسوی میں ایسا ہوا کہ پیغمبر اسلام نے اہل عرب کے سامنے دین ابراہیمی کو اس کی بے آمیز صورت میں پیش کیا (الحج 78:)۔ لیکن قدیم اہل عرب پیغمبر اسلام کے مخالف بن گیے۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ جب کہ وہ خود اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ دین ابراہیم کو ماننے والے لوگ ہیں، تو وہ پیغمبر اسلام کے مخالف کیوں ہوگیے۔ یہ روش اہل عرب کی بعد نسلوں کی تھی۔ یعنی اہل عرب (بنو اسماعیل ) کی بعد کی نسل کے اندر دھیرے دھیرے اصل دین ابراہیم کی اسپرٹ ختم ہوگئی۔ ان کے یہاں دین کے نام سے ایک قومی کلچر بن گیا، جس کو بطور خود وہ دین ابراہیم کا نام دینے لگے۔
جب کہ اصل صورت حال یہ تھی کہ آپ ابراہیمی دین ہی کو ان کے سامنے پیش کررہے تھے۔ ان کی مخالفت کا سبب یہ تھا کہ اصل دین ابراہیم ان کے یہاں اجنبی دین بن چکا تھا۔ وہ اپنے قومی کلچر کو دین ابراہیم کے نام سے جاننے لگے تھے۔ یہی سبب تھا جس کی بنا پر وہ پیغمبر اسلام کے مخالف بن گیے۔ حتی کہ آپ کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوگیے۔
یہ صورت حال صرف قدیم عربوں کی نہ تھی، بلکہ یہ ایک عمومی تاریخی ظاہرہ ہے، جو ہر قوم کے ساتھ ہمیشہ پیش آتا ہے۔ ہر قوم میں ایسا ہوتا ہے کہ ابتداءاً جو چیز ان کے یہاں مذہب کے طور پر ہوتی ہے، وہ بعد کی نسلوں کے لیے ایک قومی کلچر بن جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو بعد کی نسلوں کے لیے اصل مذہب ایک اجنبی چیز بن جاتا ہے۔اس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ بعد کے زمانے کے لوگ اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے اپنے آپ کو دوبارہ اس قابل بنائیں کہ وہ اصل مذہب کو پہچان سکیں۔
اصلاح امت
امت مسلمہ کی اصلاح ایک مستقل موضوع ہے جس پر لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور بہت کچھ بولا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مسلسل بحث جاری رہتی ہے۔ تاہم اس موضوع پر ایک متعلق روایت ہے جو اس سلسلے میں ایک رہنما روایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ روایت وھب ابن کیسان کی ہے جو اعلیٰ درجہ کے فقیہ مانے جاتے ہیں۔ وہ مدینہ میں پیدا ہوئے۔ یہیں انھوںنے تعلیم پائی، اور کئی صحابہ سے ملاقات کی ۔ مثلا ابن عباس، ابوسعید الخدری،جابر بن عبد اللہ ، ابن الزبیر ، اورعمرو بن أبی سلمة، و غیرہ۔ وہ امام مالک (وفات 179:ھ)تبع تابعی ، وغیرہ کے استاد تھے۔ ان کی وفات 127ھ میںمدینہ میں ہوئی۔
امام مالک اپنے استاد وہب ابن کیسان کے بارے میں کہتے ہیں : کان وہب بن کیسان یقعد إلینا، ثم لا یقوم أبدا حتى یقول لنا إنہ لا یصلح آخر ہذہ الأمة إلا ما أصلح أولہا، قلت لہ: یرید ماذا؟ قال یرید التقى (مسند الموطا للجوہری، حدیث نمبر783)۔یعنی وہب ابن کیسان تابعی ہمارے درمیان بیٹھتے، پھر وہ اٹھنے سے پہلے ہمیشہ یہ کہتے : بیشک اس امت کے آخر کی اصلاح اسی طریقے سے ہوگی، جس طریقے سے اس امت کے پہلے کی اصلاح ہوئی۔ راوی نے پوچھاکہ اس سے وہ کیا مراد لیتے تھے۔ امام مالک نے کہا: اس سے ان کی مراد تقویٰ ہوتی تھی۔
بعد کے زمانے سے مراد زوال کا زمانہ ہے۔ امت کا بعد کا زمانہ خلا کا زمانہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ بھر پور سرگرمیوں کا زمانہ ہوگا۔ بعد کے زمانے میں لوگوں کے پاس اپنے ماضی کی بنیاد پر ایک تاریخ ہوگی، ایک کلچر ہوگا، دین کا ایک تصور ہوگا، وغیرہ۔ اس کے باوجود وہ اصل دین سے دور جاچکے ہوں گے۔ ان کی اصلاح کی صورت صرف یہ ہوگی کہ ان کو پیچھے کی طرف لوٹایا جائے۔ ان کو دوبارہ اس دین پر قائم کیا جائے، جو دورِ اول میں رسول اور اصحاب رسول کے درمیان پایا جاتا تھا۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہ پیغمبر کے بعد امت کے درمیان ایک تاریخ بننا شروع ہوگی۔ دھیرے دھیرے وہ وقت آجائے گا، جب کہ لوگ اسلام کا نام لیں گے، لیکن عملاً وہ بعد کے زمانے میں بننے والی تاریخ پر کھڑے ہوں گے۔ اب ان کا ماڈل بعد کو بننے والی تاریخ کا ماڈل ہوگا، نہ کہ رسول اور اصحاب رسول کا ماڈل ۔ ایسی حالت میں ضروری ہوگا کہ لوگ اسلام اور مسلم تاریخ کے درمیان فرق کو دریافت کریں۔ وہ بعد میں بننے والی تاریخ کو حذف کرکے اصل اسلام کو جانیں، اور اس پر دوبارہ قائم ہوجائیں۔ گویا کہ ان کے لیے اسلام دریافت ثانی (rediscovery) کا موضوع بن چکا ہوگا۔ اس دریافت ثانی کے بغیر اصل دین ان کے لیے اجنبی بن چکا ہوگا۔ اس اجنبیت کو دور کرنے کی صورت صرف یہ ہوگی کہ وہ اپنی ڈی کنڈیشننگ کریں۔
دونوں زمانےکے فرق کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دورِ اول کا دین مبنی بر تقوی ہوگا، مگر زوال کا دور آنے کے بعد لوگوں کے درمیان ایک ایسا دین رائج ہوجائے گا، جو ایک قسم کا قومی دین ہوگا۔ وہ خدا رخی دین نہ ہوگا، بلکہ وہ قومی رخی دین بن جائے گا۔
یہاں یہ سوال ہے کہ تقویٰ کیا چیز ہے۔ جس کے مفقود ہونے کی وجہ سے بعد کے زمانے کے لوگوں کے لیے حقیقی دین اجنبی دین بن جائے گا۔ اس روایت کے مطابق ابتدائی دور کے اہل ایمان تقویٰ کا طریقہ اختیار کرکے اصلاح یافتہ بنے تھے۔ بعد کے زمانے کے لوگوں کو بھی یہی کرنا ہوگا کہ وہ اپنی غیر متقیانہ روش کو چھوڑیں ، اور دوبارہ تقویٰ کے طریقے کو اختیار کریں۔ تقوی سے مراد یہ ہے کہ آدمی ایک ایسی روش کو اختیارکرے جو اللہ کے مواخذہ کے تصورپر مبنی ہو، جو اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس پرقائم ہو۔
واپس اوپر جائیں

دو دنیائیں
خالق نے دو دنیائیں بنائیں۔ ایک انسانی دنیا، اور دوسرے مادی دنیا، جس کو علمی زبان میں نیچر (nature) کہا جاتا ہے۔ کائنات کا مطالعہ کرنے والا، ان دونوں دنیاؤں کے درمیان ایک عجیب فرق پاتا ہے۔ انسانی دنیا اسفل سافلین (التین5:) کی دنیا ہے۔ اس کے مقابلے میں مادی دنیا کے بارے میں خالق کا یہ اعلان ہے کہ لا تری من فطور (الملک3:)۔ دونوں دنیائیں اس طرح ایک دوسرے سے مختلف (different) کیوں ہیں۔
اس کا جواب قرآن میں تلاش کیا جائے ،تو یہ معلوم ہوگا کہ مادی دنیا مسخر دنیا (الجاثیہ13:) ہے۔ یعنی خدمت گار دنیا۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا ایک آزاد دنیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ہے بقیہ دنیا اگر خدمت گار دنیا ہے تو انسان اس دنیا کا ماسٹر (master) ہے۔ انسان کو سرداری کا یہ مقام موجودہ دنیا میں بظاہرعمومی طور ملا ہوا مقام دکھائی دیتا ہے۔ لیکن آخری حقیقت کے اعتبار سے یہ مقام انتخابی بنیاد (selective basis) پر ملنے والا ہے۔
انسان کے بارے میں یہ حقیقت قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے:الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (67:2)۔ یعنی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا کام کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ایک ایسی دنیا میں رکھا گیا ہے جہاں ہر قسم کے تجربات پیش آئیں۔ اس کو مسلسل طور پر چیلنج کے درمیان زندگی گزارنا پڑے۔ اس کے لیے مختلف انتخابات (options) ہوں، اور اس کو اپنی عقل کو استعمال کرکے یہ جاننا پڑے کہ اس کو کون سا انتخاب لینا ہے اور کون سا انتخاب چھوڑدینا ہے۔
اس طرح مختلف حالات سے گزرتے ہوئے وہ انسان بنتا ہے جس کو قرآن میں احسن العمل (الملک2:) کہا گیا ہے۔یہی احسن العمل (best in conduct) والے افراد ہیں جن کو منتخب کرکے ابدی جنت میں بسایا جائے گا۔ وہ وہاں خالق کے قرب میں ابدی طور پر اعلیٰ زندگی گزاریں گے۔
دونوں دنیا ؤں کے درمیان جو فرق ہے ،وہ ایک بامعنٰی حکمت پر مبنی ہے۔ موجودہ دنیا ایک امتحانی دنیا (testing ground) ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ وہ غیر معیاری دنیا (perfect world) ہو۔ اگر وہ معیاری دنیا ہو تی تو انسان کو جانچنےکے لیے امتحان گاہ (testing ground) نہیں بن سکتی۔موجودہ دنیا کے غیر معیاری ہونے کی وجہ سے انسان کو یہاںبار بار مسائل (problems) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وہ مسائل ہیں جو انسان کے لیے یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرےکہ دو انتخابات میں سے کس انتخاب کو وہ لیتا ہے، اور کس انتخاب کو چھوڑدیتا ہے۔ اگر دونوں دنیائیں یکساں طور پر معیاری ہوتیں تو یہاں وہ عمل (process) جاری نہیں ہوسکتا تھا، جہاں انسان کو مختلف قسم کے چیلنج پیش آئیں۔ یہ در اصل دونوں دنیاؤں کا فرق ہے جس کی وجہ سے بار بار یہاں چیلنج کی صورت حال پیش آتی ہے۔
چیلنج کی صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کا ذہن بار بار ٹریگر (trigger) ہوتا رہتا ہے، انسان کے ذہن میں بار بار برین اسٹارمنگ (brainstorming) ہوتی ہے، انسان کے اندر چھپے ہوئے امکانات (potential) جاگتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انسان کا ذہن کبھی جمود (stagnation) کا شکار نہیں ہونے پاتا۔ اس کی وجہ سے بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے ذہن کو کس رخ پر استعمال کرے،مثبت رخ پر یا منفی رخ پر۔
انسان کے لیے جو مستقبل مقدر کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک ترقی یافتہ شخصیت (developed personality) بنائے۔ یہی ترقی یافتہ شخصیت ہے جس کو قرآن میں مزکّی شخصیت کہا گیا ہے۔ یہ مزکّی شخصیت آسانی کے حالات میں نہیں بن سکتی تھی، وہ صرف مشکل حالات میں بننے والی تھی۔ اس لیے خالق نے کائنات میں یہ بامعنی فرق رکھا۔ مزکّی شخصیت وہ ہے جو خود تیار کردہ شخصیت (self-made personality) ہو۔ یہ وہ انسان ہے جو خود دریا فت کردہ معرفت پر کھڑا ہوتا ہے۔ یہ وہ انسان ہے جو اپنے عمل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ماسٹر آف سچویشن (master of situation) تھا، نہ کہ سبجکٹ آف سچویشن۔
موجودہ دنیا آخرت کی دنیا کی نرسر ی (nursery)ہے۔ نرسری وہ ابتدائی مقام ہے جہاں چھوٹے پودوں کو اگایا جاتا ہے تاکہ بعد کوان کو بڑے باغ میں نصب کیا جائے:
Nursery: a place where young plants and trees are grown for planting elsewhere.
موجودہ دنیا کو اس طرح بنایا گیاہے کہ وہ انسان کے لیے ابتدائی نرسری کا مقام بن سکے۔ اور آخرت کی دنیا میں جنت کو اس طرح معیاری انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ وہ انسان کے لیے ہیبیٹاٹ (habitat) بن سکے۔ تاہم اس ہیبیٹاٹ میں ہر انسان کو عمومی بنیاد پر داخل نہیںکیا جائے گا، بلکہ صرف منتخب بنیاد پر داخل کیا جائے گا۔ یعنی ہر انسان کی پچھلی زندگی کے ریکارڈ (record) کو دیکھا جائے گا۔ اس سابقہ ریکارڈ میں جو مرد یا عورت قابل انتخاب قرار پائیں گے، ان کو آخرت کے ہیبیٹاٹ (جنت) میں باعزت طور پر داخلہ کا موقع دیا جائے گا۔
خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق یہی دونوں دنیاؤں کی حیثیت ہے۔ یہ خالق کا اپنی تخلیق کے بارے میں فیصلہ ہے ۔ اس فیصلہ میں کبھی کوئی تبدیلی ہونے والی نہیں۔ انسان کو اپنے ذاتی عمل کے بارے میں اختیار حاصل ہے، لیکن انسان کو یہ اختیار ہرگز حاصل نہیں کہ وہ خالق کے نقشے میں کوئی تبدیلی کرے یا اس کو قبول کرنے سے انکار کردے۔ انسان کو بہر حال اسی تخلیقی نقشے کے مطابق یا تو اپنے آپ کو کامیاب بنانا ہے یا ہمیشہ کے لیے ناکامی کے گڑھے میں ڈال دینا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اعتماد علی اللہ

خود اعتمادی یا الثقۃ بالنفس(self confidence) کی اصطلاح قرآن یا حدیث میں استعمال نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بجائے قرآن و حدیث میں جو لفظ استعمال ہوا ہے، وہ توکل علی اللہ کا لفظ ہے۔ یہ فرق کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک بے حد اہم فرق ہے۔ خود اعتمادی کا لفظ ایک ڈسپٹو (deceptive) لفظ ہے۔ اس سے سارا فوکس اپنی ذات پر چلاجاتا ہے، جس کا نتیجہ فخر (pride) ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر آپ توکل علی اللہ کا لفظ بولیں تو آپ کا سارا فوکس اللہ پر قائم رہے گا، اور اس کے نتیجے میں آپ کے اندر تواضع (modesty) پیدا ہوگی۔
غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ خود اعتمادی کا کام اصلاً صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ خود اعتمادی آپ کو پہلے قدم (first step) کی ہمت دیتا ہے۔ اس کے بعد سارا کام قوانین فطرت کے تحت انجام پاتا ہے، جو کہ خالق نے اس دنیا میں قائم کیا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کسی معاملے میں خود اعتمادی کا حصہ ایک فیصد ہے، اور قوانین فطرت کا حصہ ننانوے فیصد۔
خود اعتمادی بظاہر ایک اچھی صفت ہے، لیکن اجتماعی زندگی میں وہ اکثر مسئلہ پیدا کرنےکا سبب بن جاتی ہے۔ جس آدمی کے اندر خود اعتمادی ہو، وہ اکثر شعوری یا غیر شعوری طور پریہ سمجھ لیتا ہے کہ کام جو ہوا ہے، وہ صرف اس کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس بنا پر وہ چاہنے لگتا ہے کہ کام کا سارا کریڈٹ صرف اس کو ملے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اجتماعیت کا ایک پرابلم ممبر بن جاتا ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ اس کو سارا کریڈٹ نہیں مل رہا ہے تو وہ منفی سوچ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اجتماعی زندگی میںجو رول اس کو ادا کرنا تھا، اس رول کو وہ بخوبی طور پر ادا کرسکے۔اس کے برعکس، توکل علی اللہ یا اعتماد علی اللہ کی نفسیات سے انسان کے اندر ہر قسم کے مثبت اوصاف (positive qualities) پیدا ہوتی ہیں۔ وہ اجتماعی زندگی کا ایک صحت مند ممبر بن جاتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں اپنے مطلوب رول کو بخوبی طور پر ادا کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

ختم نبوت

قرآن میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی۔ اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ آپ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ وسیع تر معنوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد انسانی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ اب کسی انسان کودعویٰ (claim) کی زبان میں بولنے کا حق نہیں ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص دین حق کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو اس کوصرف یہ کرنا ہوگا کہ وہ مخلصانہ طور پر جس چیز کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھے، اس کے لیے وہ اللہ کی مدد کا طالب بنے، اور دعا کرتے ہوئے اس پر عمل شروع کردے۔ اسی کے ساتھ یہ ضروری ہوگا کہ وہ ہر لمحہ اپنی اصلاح کے لیے تیار رہے۔ جب بھی اس پر واضح ہو کہ فہم دین میں اس سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ فوراً رجوع کرلے، اور جو دین صحیح اس پر واضح ہوا ہے، دوبارہ اس پر قائم ہوجائے۔
ختم نبوت کا مطلب دعوی کی زبان کا ختم ہونا ہے۔ اب کوئی شخص مدعیانہ زبان بول کر اپنے عمل کا آغاز نہیں کر سکتا۔اجتہاد کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے، لیکن مدعیانہ کلام کا دروازہ اب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ مثلا اگر کوئی شخص یہ اعلان کرے کہ میں مہدی موعود ہوں یا میں امام زمانہ ہوں تو اس قسم کا دعویٰ اپنے آپ ہی قابل ردّ قرار پائے گا:
prima facie it stands rejected
اگر کسی شخص کو یہ توفیق ملے کہ وہ دین صحیح کو دریافت کرے، اور اخلاص کے ساتھ وہ اس پر قائم ہوجائے تب بھی اس کو یہ حق نہیں کہ وہ دعویٰ کی زبان بولے۔ باعتبار حقیقت اگروہ ایک ہدایت یاب شخص ہے تو اس کا اعلان صرف آخرت کی عدالت میں کیا جائے گا۔ بطور خود کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنے آپ کو نبی کی مانند ہدایت یاب سمجھے۔پیغمبر اسلام نے کہا تھا: أنا النبی لا کذب (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2864)۔ لیکن کسی غیر پیغمبر کو اس طرح کی مدعیانہ زبان میں کلام کرنے کا حق نہیں۔ اب آدمی صرف عمل کا حق رکھتا ہے، دعویٰ کی زبان میں بولنے کا حق کسی کو نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ٹرین آف تھاٹ

ایک مومن جس کو اللہ کی دریافت ہوئی ہو، جو کائنات میں اللہ کی نشانیوں کو دیکھتا ہو، جس کو اس کے تدبر نے متوسم (الحجر75:) بنا دیا ہو، ایسا انسان ایک مختلف قسم کا انسان کا ہوتا ہے۔ اس کے ذہن میں ہمیشہ ٹرین آف تھاٹ (train of thought) کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہر واقعہ اس کے ذہن کو ٹریگر (trigger) کرتا رہتا ہے۔ اس بنا پر اس کے افکار کا سفر رکے بغیر رات دن جاری رہتا ہے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بےمقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا (آل عمران 190-191:)۔ اس حقیقت کو سیرت رسول کے حوالے سے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:متواصل الأحزان، دائم الفکرة، لیست لہ راحة، طویل السکت، لا یتکلم فی غیر حاجة (شرح السنۃ للبغوی، حدیث نمبر3705)۔ یعنی آپ بے حد سنجیدہ اور مسلسل غور و فکر میں رہتے تھے،آپ کے لیے کوئی راحت نہیں تھی، دیر تک خاموش رہتے، بغیر ضرورت بات نہ کرتے۔
یہی وہ مزاج ہے جو کسی انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیدا کرتا ہے جس کو تخلیقی فکر (creative thinking) کہا جاتا ہے۔ تخلیقی فکر والا آدمی ہر آن دنیائے حقیقت کا مسافر بنا رہتا ہے۔ وہ ہر لمحہ معرفت کے نئے آئٹم دریافت کرتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی شخصیت ایک ترقی یافتہ شخصیت (developed personality) بن جاتی ہے۔ یہی ذہنی ارتقا کا اعلیٰ درجہ ہے۔ اس ارتقائی سفر کی لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ہر قسم کے ڈسٹریکشن سے بچائے۔
واپس اوپر جائیں

اسپریچول آؤٹ سورسنگ

آؤٹ سورسنگ ایک جدید تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کمپنی دوسرے کمپنی کے وسائل کو اپنے حق میں استعمال کرے:
Outsourcing means going “out” to find the “source” of what you need.
آؤٹ سورسنگ دراصل استثمار (utilization) کی جدید صورت ہے۔اس لفظ کا باقاعدہ استعمال 1989 میں مغرب میں صنعت و تجارت کے میدان میں شروع ہوا۔ قدیم زمانے میں استثمار کی ایک ہی صورت تھی، اور وہ تھی فوجی استثمار یا سیاسی استثمار۔ یعنی پہلے طاقت کے زور پر دوسروں کے اوپر قبضہ کرنا، اور پھر دوسروں کے وسائل کو اپنے حق میں استعمال کرنا۔
لیکن موجودہ زمانے میں جدید وسائل کی دریافت نے آؤٹ سورسنگ کے تصور کو بدل دیا ہے۔ اب تنظیم (organization) نے یہ ممکن بنادیا ہے کہ فوجی یا سیاسی طاقت کا استعمال کیے بغیر پر امن منصوبہ بندی کے ذریعہ آؤٹ سورسنگ کا فائدہ بڑے پیمانے پر حاصل کیا جائے۔
موجودہ زمانے میں بڑی بڑی کمپنیاں اس طریقے کو وسیع پیمانے پر استعمال کررہی ہیں۔ لیکن ان کی آؤٹ سورسنگ مادی انٹرسٹ کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ آؤٹ سورسنگ کا ایک اور میدان ہے، اور وہ ہے اسپریچول آؤٹ سورسنگ۔ یعنی دوسروں کے قائم کردہ وسائل کو اپنے روحانی اور ذہنی ارتقا کے لیے استعمال کرنا۔
مثلا آپ ہوائی جہاز کو فضا میں اڑتا ہوا دیکھتے ہیں تو آپ کو یہ آیت یاد آجاتی ہے : وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِنْہُ (45:13) ۔یعنی اور اس نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے۔آپ اس واقعہ کو خالق کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ اور پھر ہوائی جہاز کے ذریعہ آپ تسخیر کی ایک مثال دریافت کرتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ رب العالمین کی قدرت کیسی عجیب ہے اس نے مادہ (matter) کو حکم دیا کہ وہ انسان کے حکم سے پرواز کرے۔ تو مادہ انسان کو لے کر فضا میں اڑ کر انسان کو تیز رفتاری کے ساتھ ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچا رہا ہے، وغیرہ۔
تجارتی آؤٹ سورسنگ کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس بہت سے ضروری وسائل موجود ہوں۔ ضروری مادی وسائل کے بغیر آپ کسی کے انفراسٹرکچر سے آؤٹ سورسنگ نہیں کرسکتے۔ مگر اسپریچول آؤٹ سورسنگ کے لیے کسی قسم کی کوئی شرط ضروری نہیں۔ اس کے لیے صرف ایک ہی چیز کی ضرورت ہے، اور وہ ہے آپ کے اندر ارتقا یافتہ ذہن (developed mind) کا موجود ہونا۔
اگر آپ کے اندر ارتقا یافتہ ذہن موجود ہو تو آپ کسی قسم کے ظاہری اسباب کے بغیر ہر واقعہ سے اسپریچول آؤٹ سورسنگ کرسکتے ہیں۔ مادی آؤٹ سورسنگ کی ایک حد ہوتی ہے۔ لیکن اسپریچول آؤٹ سورسنگ کی کوئی حد نہیں۔ اسپریچول آؤٹ سورسنگ کا میدا ن پوری کائنات ہے۔ اسپریچول آؤٹ سورسنگ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یونیورسل آؤٹ سورسنگ کے ہم معنی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ موجودہ زمانہ کمیونی کیشن (communication) کا زمانہ ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے۔ موجودہ زمانےکا کمیونی کیشن دوسرے الفاظ میں آؤٹ سورسنگ کے لیے عالمی وسائل کے استعمال کو ممکن بناتا ہے۔ ابتدائی طور پر انسان اپنے سوچنے کی طاقت کو استعمال کرکے اسپریچول آؤٹ سورسنگ کا عمل شروع کرتا ہے۔ پھر وہ اپنے آس پاس کے وسائل کو اسپریچول آؤٹ سورسنگ کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حتی کہ اس کا ذہنی ارتقا (intellectual development) اس کو اس مقام تک پہنچاتا ہے کہ وہ ساری کائنات کو اپنے لیے اسپریچول آؤٹ سورسنگ کا ذریعہ بنا لے۔
اسپریچول آؤٹ سورسنگ کی کوئی حد نہیں۔ جہاز کی پرواز کی ایک حد ہوسکتی ہے، لیکن انسان کی ذہنی پرواز کی کوئی حد نہیں۔ اسپریچول آؤٹ سورسنگ میں وہ چیز بھی پوری طرح شامل ہے جس کو دعوتی آؤٹ سورسنگ کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں آؤٹ سورسنگ کے طریقے نے اس کو ممکن بنادیا ہے کہ دعوت کا کام کسی سیاسی طاقت کے بغیر عالمی سطح پر انجام دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

مصیبت کیوں

خالق نے انسان کو احسن تقویم (التین4:) کے ساتھ پیدا کیا۔ اس کے بعد اس کو اسفل سافلین (suffering) میں ڈال دیا۔ یہ معاملہ کسی سزا کے لیے نہیں ہوا، بلکہ رحمت کے لیے ہوا۔ اس لیے کہ انسان کو بے پناہ امکانات (potential) کے ساتھ پیدا کیا گیاہے۔ خالق چاہتا ہے کہ اس کے یہ امکانات واقعہ بنیں۔ اور آزاد انسان کے لیے اپنے امکانات کو واقعہ بنانے کا یہی واحد کورس ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، مصیبت سے آدمی کی حساسیت جاگتی ہے۔ حساسیت سے سوچ پیداہوتی ہے۔ اور پھر سوچ نئی دریافت تک پہنچتی ہے:
suffering produces sensitivity, sensitivity leads to greater thinking, and thinking results into discovery.
مذکورہ معاملہ کو اس زاویہ سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ سفرنگ (suffering) انسان کے لیے نعمت (blessing) ہے۔ سفرنگ کا یہ فائدہ ہے کہ آدمی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے پوٹنشیل (potential) کو واقعہ (actual) بناسکے۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے انسان کے فطری امکانات ظہور میں آتے ہیں۔ یہ عمل (process) مین (man) کو سوپر مین (superman) بنانے والا ہے۔
تاریخ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ تاریخ میں جتنے بڑے بڑے آرٹسٹ ہوئے ہیں، وہ سب سفرنگ سے گزر کر آرٹسٹ بنے ہیں۔مثلاً جان ملٹن (–1608-1674)انگلش زبان کا ایک عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ یہ درجہ اس کو اس کی کتاب فردوس گم گشتہ (Paradise Lost) کی وجہ سے ملا۔ یہ کتاب چھ سال میں مکمل ہوئی ۔ اندھا ہوجانے کی وجہ سے وہ خود اپنے ہاتھ سے لکھ نہیں سکتا تھا۔ اس نے اس کتاب کو املا کرایا:
Milton wrote Paradise Lost entirely through dictation with the help of amanuenses and friends.
واپس اوپر جائیں

راہ عمل

اسلام میں زندگی کا جو تصوردیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس دنیا کے بنانے والے نے اس دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہمیشہ عسر کے ساتھ یُسر موجود رہتا ہے۔ ایک اعتبار سے اگر مشکل ہو تو دوسرے اعتبار سے آسانی بھی یہاں ضرور پائی جائے گی۔ اسی کا نام اسلامی حکمت ہے۔ یعنی اسلامی حکمت (Islamic wisdom)کا مطلب ہےعسر میں یُسر کو دیکھنا۔ اس کا تعلق ایک شخص کی ذاتی زندگی سے بھی ہے، اور پوری ملت کی اجتماعی زندگی سے بھی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں ایک سنت وہ ہے جو ہجرت کے بعد کے واقعات سے معلوم ہوتی ہے، اور وہ ہے منفی اسباب کے باوجود مثبت بنیاد پر منصوبہ بنانا۔ ہجرت کے بعدمسلمان زخم خوردہ تھے۔ اُس وقت آپ کے لیے ایک آپشن یہ تھا کہ آپ وکٹمائزڈ کمیونٹی(victimized community) کے جذبات (sentiment) کو لے کر اپنا منصوبہ بناتے۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ وسیع تر دنیا میں جو مواقع ہیں، ان کو لے کر منصوبہ بنانا۔ پیغمبر اسلام نے پہلے آپشن کو چھوڑا اور دوسرے آپشن کی بنیاد پر اپنا دعوتی منصوبہ بنایا۔ یہ منصوبہ پوری طرح کامیاب رہا۔
موجودہ زمانے میں دوبارہ مسلمانوں کے سامنے یہی دو آپشن تھے۔ مسلمانوں کی سیاسی بڑائی (political glory) ختم ہوگئی تھی۔ مسلمان اس وقت شکایات (grievances) کی نفسیات میں مبتلا ہوگیے تھے۔ وہ ایک قسم کی وکٹمائزڈ کمیونٹی بن چکے تھے۔ دوسری طرف ملت کے باہر جو دنیا ہے ، اس میں نہایت بڑے بڑے مواقع کھل گیے ہیں۔ اب ایک صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کی شکایتی نفسیات کو لے کر ان کا عملی منصوبہ بنایا جائے، اور دوسری صورت یہ ہے کہ دورحاضر کے نئے مواقع کی بنیاد پر مسلمانوں کا ملی منصوبہ بنایا جائے۔پہلی قسم کا منصوبہ سنت رسول کے خلاف ہے۔ اس لیے وہ کبھی کامیاب ہونے والا نہیں، اور دوسرا منصوبہ سنت رسول کے مطابق ہے، اس لیے اس کی کامیابی یقینی ہے۔
واپس اوپر جائیں

صبر کی اہمیت

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ (3:146) ۔ یعنی اور کتنے نبی ہیں جن کے ساتھ ہو کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں، ان سے نہ وہ پست ہمت ہوئے، نہ انھوں نے کمزوری دکھائی۔ اور نہ وہ دبے۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں سبیل اللہ کے حوالے سے جو بات کہی گئی ہے۔ اس کا تعلق مخصوص طور پر حالت قتال سے نہیں ہے۔بلکہ یہ حکم عام ہے۔یعنی دینی زندگی اختیار کرنے کے بعد دنیا میں جو مصائب و شدائد پیدا ہوتے ہیں، اس پر انھوں نے استقامت کا طریقہ اختیار کیا۔
صبر کا لفظی مطلب برداشت کرنا ہے۔ دانش مند انسان کے لیےیہ برداشت برائے برداشت نہیں ہوتی، بلکہ وہ ایک اسٹراٹیجی (strategy) ہوتی ہے۔ یعنی وقتی صورت حال کو نظر انداز کرتے ہوئے مستقبل کا نقشہ بنانا، وقتی حالات سے اوپر اٹھ کر غیر متاثر ذہن کے ساتھ دوبارہ سوچنا، اور یہ معلوم کرنا کہ پیش آمدہ حالات میں زیادہ موثر عمل کیا ہوسکتا ہے۔ صبر کا مطلب پسپائی نہیں ہے، بلکہ زیادہ بہتر اقدام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک طریق عمل کارگر ثابت نہیں ہوا تو اس کے بعد یہ دریافت کرنا کہ دوسرا زیادہ موثر طریقِ عمل کیا ہوسکتا ہے۔
صبرکی حقیقت یہ ہے کہ آدمی حالات کا شکار (victim)نہ بنے، وہ حالات سے غیر متاثر رہ کر سوچے، وہ رد عمل (reaction) سے اوپر اٹھ کر مثبت ذہن کے ساتھ منصوبہ بندی کرے۔ انسان کی زندگی میں ایسی صورتِ حال بار بار پیش آتی ہے۔انفرادی زندگی میں بھی اوراجتماعی زندگی میں بھی۔ اس طرح کی صورتِ حال میں جو شخص مذکورہ معنوں میں صبر کا ثبوت دے، وہی اس دنیا میں کامیاب ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دورِ جدید

نئے زمانے میں جو چیزیں وجود میں آئی ہیں ، ان میں سے ایک جمہوریت (democracy) ہے۔جمہوریت صرف ایک سیاسی نظریہ نہیں، جمہوریت کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ جمہوریت نے پہلی بار دنیا میں ہر قسم کی اجارہ داری (monopoly) کومکمل طور پر ختم کردیا۔ جمہوریت کا دور دوسرے الفاظ میں ختم اجارہ داری کا دور (age of demonopolization) ہے۔ جمہوری دور میں ہر چیز ہر ایک کے لیے (everything for everyone) کا نظام رائج ہے۔ جمہوری دور گویامواقع کے انفجار (opportunity explosion) کا دور ہے۔
جمہوریت کو عام طور پر ایک سیاسی نظریہ سمجھا جاتا ہے۔ عملا یہ رائے درست ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے جمہوریت ایک مکمل کلچر کا نام ہے۔جمہوریت سے پہلے کے دور میں دنیا میں بادشاہت کا نظام قائم تھا۔ بادشاہت کے نظام کے تحت ہر چیز بادشاہ کی اجارہ داری بنی ہوئی تھی۔ مگر جب لمبی جدوجہد کے بعد بادشاہت کا دور ختم ہوا تو یہ صرف ایک سیاسی واقعہ نہ تھا، بلکہ وہ ایک وسیع تر معنوں میں پوری زندگی کا معاملہ تھا۔ اس کے بعد مختلف ہم عصر عوامل کی بنا پر ایسا ہوا کہ بادشاہت کے نظام کا خاتمہ ، اجارہ داری کے نظام کے خاتمہ کے ہم معنی بن گیا۔ جمہوریت نے جس طرح سیاسی اجارہ داری کے کلچر کو ختم کیا اسی طرح فطری طور پر ایسا ہوا کہ اجارہ داری کی دوسری قسمیں بھی ختم ہوگئیں۔
اب اکیسویں صدی میں اجارہ داری کا دور عملاً پوری طرح ختم ہوچکا ہے۔ حقوق انسانی کے موجودہ تصور کے مطابق آج ہر چیز ہر انسان کی ہے۔ اس عموم میں صرف ایک استثنا (exception) ہے، اور وہ تشدد (violence) ہے۔ اگر آپ پر امن رہیں تو آج کی دنیا میں ہر دروازہ آپ کے لیےکھلا ہوا ہے، حتی کہ کوئی بھی دروازہ کسی کے لیے بند نہیں۔ الاّ یہ کہ آدمی اپنی غلطی کی بنا پر کسی دروازے کو خود اپنے اوپر بند کرلے۔
واپس اوپر جائیں

سیکولرزم کیا ہے

سیکولرزم کے بارے میں منصفانہ رائے قائم کرنے کے لیے دو چیزوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ایک ہے سیکولر فلاسفی، اور دوسری چیز ہے سیکولرپالیسی۔ دونوں کے درمیان واضح فرق ہے۔ جو لوگ اِس فرق کو نہ سمجھیں، وہ سیکولرزم کے بارے میں صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے۔
سیکولرفلاسفی ابتداء ً اُن لوگوں کے ذہن کی پیداوار تھی جو ملحدانہ سوچ کا شکار تھے۔ مگر بعد کو فلسفے سے الگ ہوکر سیکولرزم، جمہوری نظام کی عملی پالیسی بن گیا۔عملی پالیسی کی حیثیت سے اُس کا مطلب یہ تھا کہ— مذہبی اُمور کو لوگوں کی انفرادی آزادی کا معاملہ قرار دے دینا، اور مشترک مادّی مفادات کو اسٹیٹ کے دائرے کی چیز سمجھنا۔
قدیم زمانہ مذہبی جبر کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانے میں مذہبی آزادی کو لوگوں کا ایک ناقابلِ تنسیخ حق قرار دے دیا گیا ہے۔ سیکولر پالیسی دراصل لوگوں کی اِسی مذہبی آزادی کا ایک حصہ ہے۔ پہلے زمانے میں یہ طریقہ تھا کہ ایک مذہبی گروہ دوسرے مذہبی گروہ کو آزادی دینے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔ وہ ان کو مذہبی تعذیب(religious persecution) کا شکار بناتا تھا۔ جدید جمہوریت میںاِس کے برعکس، سیکولر پالیسی کو اختیار کیا گیا، یعنی مشترک مادی امور کو ریاست کے دائرے میں رکھنا اور مذہب اور کلچر کے معاملے میں لوگوں کو کامل آزادی عطا کرنا۔
ہر معاشرے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ وہاں امن کا ماحول ہو۔ امن کے بغیر کسی بھی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ سیکولر زم ایک عملی پالیسی کی حیثیت سے قیامِ امن کی یہی تدبیر ہے۔ اِسی تدبیر نے موجودہ زمانے میں ترقی یافتہ ملکوں کو قدیم طرز کی مذہبی لڑائیوں سے بچایا ہے۔ چنانچہ انڈیا سے لے کر امریکا اور برطانیہ تک سیکولر اسٹیٹ کے اصول کو اختیار کیاگیا۔ اِس کا مطلب مذہبی مخالفت نہیں، بلکہ مذہبی عدم مداخلت ہے۔ چناںچہ اِن ملکوں میں ہر مذہبی گروہ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ اِن ملکوں میں جو چیز ممنوع ہے، وہ صرف تشدد ہے، نہ کہ اپنے مذہب پر عمل۔
سیکولر زم کے معاملے میں جو لوگ منفی ذہن رکھتے ہیں، اُس کا سبب یہ ہے کہ وہ دو چیزوں میں فرق نہیں کرتے۔ وہ سیکولر فلاسفی اور سیکولر پالیسی، دونوں کو ایک کرکے دیکھتے ہیں۔ حالاں کہ اِس معاملے میں درست رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔
سیکولرزم کے بارے میں منفی ذہن رکھنے والے لوگ ایک اور غلط فہمی کا شکار ہیں۔ وہ سیکولر پالیسی کو صرف مشترک مادی امور تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ وہ اس کو مذہبی مخالفت کے ہم معنیٰ سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ موجودہ زمانے میں سیکولر حکومت کا مطلب مخالفِ مذہب حکومت نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت مذہبی امور میں عدم مداخلت (non-interference) کی پالیسی کی پابند ہے۔ اِس معاملے میں ساری غلط فہمی اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ ان لوگوں نے عدم مداخلت کو مخالفت کے ہم معنیٰ سمجھ لیا۔
اِس معاملے کا ایک پہلو اور ہے۔ وہ یہ کہ مذہبی آزادی کے اصول میں بیک وقت دو قسم کی آزادی شامل ہے— مذہبی عمل اور مذہبی تبلیغ۔ موجودہ زمانے کے تمام سیکولر ملکوں میں یہ دونوں قسم کی آزادی لوگوں کو مکمل طورپر ملی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مذہبی گروہ انفرادی طورپر اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے دوسرے مذہبی گروہوں کے درمیان اپنے مذہب کی پُرامن تبلیغ پوری طرح جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ آزادی اِس حد تک حقیقی ہے کہ اِن ملکوں میں بہت سے لوگ اپنا مذہب بدل لیتے ہیں اور ان پر حکومت کی طرف سے کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی ہے۔ مثلاً امریکا میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ امریکی، اسلامی مذہب کو اختیار کرتے ہیں۔
اس اعتبار سے دیکھیے تو سیکولر پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ بَر وقت انفرادی دائرے میں اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے یہ کوشش کرسکتا ہے کہ وہ دوسروں کے فکر اور عقیدے کو بدل سکے۔
واپس اوپر جائیں

دین میں تنگی نہیں

قرآن میں امت مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے ایک آیت آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: اور اللہ کی راہ میں کوشش کرو جیسا کہ کوشش کرنے کا حق ہے۔ اس نے تم کو چنا ہے۔ اور اس نے دین کے معاملہ میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی، تمہارے باپ ابراہیم کا دین۔ اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا۔ اس سے پہلے اور اس قرآن میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ بنو۔ پس نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور اللہ کو مضبوط پکڑو، وہی تمہارا مالک ہے۔ پس کیسا اچھا مالک ہے اور کیسا اچھا مدد گار۔ (الحج78:)۔
یہ آیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم  کے صرف معاصر اہل ایمان سے متعلق نہیں ہے، بلکہ یہ آیت پوری امت مسلمہ کو خطاب کررہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ کو ایک نئے دور میں دینی کام کرنا ہے۔ یہ دور پچھلے ادوار کے برعکس تنگی کا دور نہیں ہوگا، بلکہ وہ آسانی کا دور ہوگا۔ اس واقعہ کو قرآن کی ایک اور آیت میں دعا کے اسلوب میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا (2:286)۔ اے ہمارے رب، ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جیسا بوجھ تو نے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔
مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ امت مسلمہ کا جہاد (مشن) کیا ہوگا۔ وہ مشن یہ ہوگا کہ پیغمبر کے دعوتی کام کو نسل در نسل قیامت تک جاری رکھنا۔ یہ مشن وہی تھا، جو تمام نبیوں کا مشن تھا، یعنی انذار اور تبشیر کا مشن۔ تاریخ کے پچھلے ادوار میں فتنہ (religious persecution) کی وجہ سے ، پچھلے اہل ایمان کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا، جو مکمل طور پر قدیم قسم کی مشکلات سے پاک تھا۔ اکیسویں صدی میں یہ دور اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ اب پیغمبر کے دعوتی مشن کو یُسر (آسانی) کے حالات میں انجام دیا جاسکتا ہے، جب کہ قدیم زمانے میں اس کو عُسر (مشکل) کے حالات میں انجام دینا پڑتا تھا۔
واپس اوپر جائیں

اجتہاد کا معاملہ

اجتہاد کا مطلب یہ ہے کہ حالات بدلنے کے بعد ابتدائی حکم کی نئی تطبیق (new application) تلاش کی جائے۔ مثلاً جدید طرز کے صنعتی موزوں کے وجود میں آنے کے بعد اس پر قدیم طرز کے جراب کے حکم کو منطبق کرنا، وغیرہ۔
اجتہاد صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ لیکن اس اندیشہ کی بنا پر کبھی اجتہاد کے عمل کو روکا نہیں جائے گا۔ صرف یہ کہا جائے گا کہ اجتہاد کے لئے اخلاصِ نیت کو ضروری قراردیاجائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی مومن اجتہاد کرلے اور اس کا اجتہاد درست ہو تو اس پر اس کو دہرا ثواب ملے گا (أصاب فلہ أجران)، اور اگر وہ اخلاص نیت کے باوجود اجتہاد میں غلطی کرجائے تو اس کو اس کے اجتہاد پر ایک ثواب ملے گا (أخطأ فلہ أجر) صحیح البخاری، حدیث نمبر7352۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد کے معاملہ میں ہمیشہ غلطی کا امکان رہتاہے حتی کہ بڑے بڑے اہل ایمان نے بھی غلطیاں کی ہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ جب اس پر اجتہاد کی غلطی واضح ہوجائے تو وہ کھلے طورپر اپنی غلطی کا اعتراف کرے، اور وہ اپنی رائے کو درست کرلے۔
اجتہاد ایک تعمیری عمل ہے۔ اجتہاد سے لوگوں کے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب اجتہاد کا عمل رک جائے تو یقینی طورپر لوگوں کے اندر ذہنی جمہود (intellectual stagnation) پیدا ہوجائے گا اور ذہنی جمود بلا شبہہ اسلام میں ایک غیرمطلوب چیز ہے۔ جب کوئی آدمی اخلاص نیت کے ساتھ اجتہاد کرے تو فطری طورپر ایساہوگاکہ وہ معاملہ پر گہرائی کے ساتھ غور کرے گا، وہ سنجیدگی کے ساتھ اس کا جائزہ لے گا۔ وہ اس موضوع پر کتابوں کا مطالعہ کرے گا۔ وہ اہلِ علم سے اس موضوع پر تبادلۂ خیال کرے گا۔ یہ تمام چیزیں اخلاص نیت میں شامل ہیں۔ ان چیزوں کا ہونا اخلاص نیت کا ثبوت ہے اور ان چیزوں کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی کے اندر اخلاص نیت (فکری سنجیدگی)موجود نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ملت کی اصلاح

قرآن کے مطابق، بعد کے زمانے میں جب ملتِ یہود کا زوال آیا تو اللہ نے ان کے اوپر طاقت ور بندے بھیج دیے (الاسراء 5:)۔یہ واقعہ دوبار ہوا۔ ایک بار 586 ق، م میں بخت نصر (Nebuchadnezzar)تاجدار بابل ونینوا کے ہاتھوں، اور دوسری بار 70ء میں رومی شہنشاہ ٹائٹس (Titus) کے زمانہ میں۔ یہ گویا یہود کے لیے ڈائسپورا (diaspora) میں جانے کا زمانہ تھا۔ یہ یہود کے لیے عذاب یا غضب الٰہی کا معاملہ نہ تھا، یہ در اصل تنبیہ (warning)کا معاملہ تھا۔ یہ اس لیے تھا تاکہ یہود نصیحت پکڑیں اور اپنی اصلاح کریں۔
یہود کی زندگی میں یہ تنبیہی دور لمبی مدت تک جاری رہا۔ اس کے نتیجے میں یہود کے اندر مذہبی اصلاح تو نہیں آئی۔ کیوں کہ زوال کے دور میں انھوں نے جس قومی کلچر کو مذہب کےنام سے اختیار کر رکھا تھا۔ اسی کو وہ موسوی مذہب سمجھتےتھے۔ البتہ سیکولر معنی کے اعتبار سے ان کے اندر بہت بڑی تبدیلی آئی، اور انھوں نے امریکا و یورپ کے ملکوں میں سائنسی تعلیم حاصل کی، اور یہ جانا کہ دورِ جدید کیا ہے۔ یہاں تک کہ سیکولر معنوں میں وہ جدید معیار کے مطابق ایک ترقی یافتہ قوم بن گیے۔ یہود کی تاریخ کا یہ مثبت پہلو موجودہ اسرائیل میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمان بھی اسی تنزل کے دور سے گزر رہے ہیں، اور دوبارہ ان پر اسی طرح اللہ کی طرف سے تنبیہات آ رہی ہیں، جس طرح یہود کے اوپر آئی تھیں۔ موجودہ زمانہ میں جن چیز وںکو ’’اغیار کا ظلم‘‘ کہا جاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اغیار کا ظلم نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ کی طرف سے آنے والی تنبیہات ہیں۔ تاکہ مسلمان بیدار ہوں اور دوبارہ اصل دینِ اسلام کی طرف لوٹیں۔
لیکن عملاً دوسری بار بھی یہی ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے اندر صحیح معنوں میں دینی بیداری نہیں آرہی ہے۔ کیوں کہ اس وقت ان کے اندر دین اسلام کے نام پر جو قومی کلچر رائج ہے، مسلمانوںنے اسی کو اصل دین محمدی سمجھ لیا ہے۔ اس بنا پر وہ اس کے اوپر شدت کے ساتھ قائم ہیں۔
مگر یہاں مسلمانوں کے ساتھ بھی وہی معاملہ پیش آرہا ہے، جو اس سے پہلے یہود کے ساتھ پیش آیا۔ یعنی ان تنبیہات کے بعد سیکولر بیداری۔ چناں چہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہ منظر دکھائی دے رہا ہے کہ وہ سیکولر تعلیم کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ وہ جدید دور میں ترقی یافتہ بننےکی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم یہ صرف سیکولر معنی میں ہے۔ یعنی پروفیشنل تعلیم ، سیکولر میدان میں ترقی، اور دورِ جدید میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش۔
یہ بات ہر جگہ کے مسلمانوں میں نظر آرہی ہے۔ اگر چہ یہ سیکولر احیاء یہود کےمقابلے میں بہت کم ہے۔ یہود موجودہ زمانے میں سیکولر پہلو سے پورے معنوں میں ایک ترقی یافتہ قوم (developed nation) بن چکے ہیں۔ جب کہ مسلمانوں نے ابھی تک اس راہ میں صرف اپنے سفر کا آغاز کیا ہے۔ دینی شعور کے اعتبار سے ابھی تک ان کے اندر کوئی قابل ذکر احیاء کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ تاہم سیکولر اعتبار سے زمانی دباؤ کے نتیجے میں انھوں نے اپنا سفر شروع کردیا ہے، اگرچہ رفتار بہت سست ہے۔
اس معاملے میں اصل غلطی عام مسلمانوں کی نہیں ہے، بلکہ ان کے نام نہاد رہنماؤں کی ہے۔ ان کے رہنما مسلسل طور پر ایک الٹا کام کررہے ہیں۔ مسلمانوں کے اوپر جو تنبیہات آرہی ہیں، وہ اللہ کی طرف سے برائے اصلاح ہیں۔ لیکن مسلم رہنما اپنی بے شعوری کی بنا پر ان خدائی تنبیہات کو دوسری قوموں کے ظلم کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں۔
وہ اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ مسلمانوں کو یہ باور کرارہے ہیں کہ موجودہ زمانے کی غیر مسلم قومیں تمھاری دشمن ہوگئی ہیں۔ وہ تمھارے خلاف سازشیں کررہی ہیں۔ وہ تم کو ترقی کے راستے سے روکے ہوئے ہیں، وغیرہ۔اس معکوس رہنمائی کے اندر دوہرا نقصان پایا ہے۔ ایک طرف یہ کہ یہ رہنمائی مسلمانوں کے اندر اصلاح کا طاقت ور محرک پیدا ہونے میں مستقل رکاوٹ ہے، اور دوسری طرف یہ کہ وہ اللہ کے منصوبہ (scheme of things) میں خلل کے ہم معنی ہے۔
اس طرح یہ رہنما اللہ کے تخلیقی منصوبہ میں مداخلت (intervention) کے مجرم بن رہے ہیں۔یہ اللہ کی سنت ہے کہ جب کوئی امت تنزل کا شکار ہو تو اللہ کی طرف سے اس کے لیے شاک ٹریٹمنٹ کے طور پرتنبیہات آئیں۔ یہ تنبیہات اصلاح کے لیے ہوتی ہیں، لیکن جب ان تنبیہات کو ظلم یا سازش کا نام دیا جائے توان کی تاثیر عملاً ختم ہوجائے گی۔
واپس اوپر جائیں

حالات کا اندازہ

لوہارلوہے کو آگ میں ڈال کر تپاتا ہے۔ یہاں تک کہ لوہا رگرم ہوکر لال ہو جاتا ہے۔ اس وقت لوہار ہتھوڑا مار کر لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق بناتا ہے، چپٹا یا گول یا لمبا۔ لوہار اگر لوہے کو گرم کیے بغیر اس پر اپنا ہتھوڑا مارنے لگے تو وہ لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے میں کامیاب نہ ہو۔ اسی سے انگریزی کی مثل بنی ہے کہ لوہے کو اس وقت مارو جب کہ وہ خوب گرم ہو:
To strike the iron when it is hot
یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔ آدمی کو زندگی میں اکثر کوئی اقدام کرنا پڑتا ہے۔ مگر اقدام سے پہلے ضروری ہے کہ حالات کا بھر پور اندازہ کرلیاجائے۔ اگر حالات پوری طرح تیار ہوں تو اقدام مفید ہوگا، ورنہ وہ ناکام ہو کر رہ جائے گا۔
لوہاگرم ہونے پر ہتھوڑا مارنے والااپنے مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ جو شخص ٹھنڈے لوہے پر ہتھوڑا مارنے لگے وہ صرف اپنے ہاتھ کو دکھ پہنچائے گا، وہ لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکتا۔ (ڈائری، 1985)
واپس اوپر جائیں

دورِ زوال کا ایک ظاہرہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم  نے امت کے زوال کے بارے میں پیشین گوئی کے طور پر کہا تھا کہ تم لوگ ضرور پچھلی امتوں کی پیروی کروگے، قدم بقدم۔ یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں، توتم بھی اس میں گھس جاؤگے (صحیح البخاری، حدیث نمبر7320)۔
گوہ (Monitor Lizard) کے بل میں گھسنا ایک بے عقلی کا کام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اگر اپنے دورِ زوال میں کوئی بے عقلی کا کام کیا ہوتو تم اس کو بھی دہراؤگے۔دورِ زوال میں یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر عقلی غور و فکر کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے زوال یافتہ مزاج کے تحت ایسے کام کرنے لگتے ہیں، جس کا عقل سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ یہود اپنے دور زوال میں ایک فعل کرتے تھےجس کو فَرضی قصُور وار (scapegoat) ٹھہرانا کہا جاتا ہے۔یعنی اپنی غلطی کو فرضی طور پر کسی دوسرے کے اوپر ڈالنا۔ یہود کے حوالے سے اس معاملے کی ایک مثال بائبل ، عہدنامہ قدیم میں اس طرح آئی ہے:
The other goat, the scapegoat chosen by lot to be sent away, will be kept alive, standing before the Lord. When it is sent away to Azazel in the wilderness, the people will be purified and made right with the Lord. (Leviticus 16:10)
فرضی طور پر کسی دوسرے کو قصور وار (scapegoat) ٹھہرانا موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں بہت زیادہ عام ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اپنی تمام کمیوں اور غلطیوں کے لیے کسی نہ کسی مسلم دشمن کو دریافت کیے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے خود ساختہ طور پر ایک اصطلاح وضع کررکھی ہے، جس کووہ دشمنان اسلام کی سازش کہتے ہیں۔ اسی روش کا دوسرا خود ساختہ نام اسلاموفوبیا (Islamophobia)ہے— اسلاموفوبیا دراصل اسکیپ گوٹ فوبیا (scapegoat) کا دوسرا نام ہے۔ یہ ظاہرہ حدیث رسول کی پیشین گوئی کے عین مطابق ہے۔
واپس اوپر جائیں

امیج بلڈنگ

آج کل ہر پڑھا لکھا مسلمان ایک بات بولتا ہے— اس وقت اسلام کا سب سے بڑا کام امیج بلڈنگ ہے، یعنی بگڑی ہوئی تصویر کو درست کرنا۔ یہ کام بذات خود ایک اہم کام ہے۔ لیکن اسلام کی تصویر بگاڑنے والا کون ہے۔ اس سوال کا جواب ہر ایک یہ دے گا کہ مسلم دشمن طاقتیں اسلام کی تصویر کو بگاڑنے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ اسلا م کے مخالفین کی سازش (conspiracy)کا نتیجہ ہے۔ ہر لکھنے اور بولنے والا مسلمان اس موضوع پر جب لکھتا یا بولتا ہے تو وہ ہمیشہ اسی قسم کی بات کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کہنے اور لکھنے والے لمبی مدت سے یہ بات بول رہے ہیں، اور لکھ رہے ہیں، لیکن ان کی ساری کوششیں بے نتیجہ ثابت ہورہی ہیں۔ اس قسم کی باتوں سے اسلام کی تصویر کو درست کرنے میں ایک فی صد بھی کامیابی نہیں ہوئی۔
اس ناکامی کا سبب خود مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ ہے۔ یہ لوگ مفروضہ اسلام دشمنوں کی مفروضہ دشمنانہ باتوں کا انکشاف کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جب کہ اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ خود مسلمان اسلام کے نام پر غلط کام کرتے ہیں۔ مثلا اپنی قومی لڑائی کو اسلامی جہاد کا نام دینا، وغیرہ۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کی تصویر لوگوں کی نظر میں بگڑ گئی ۔ اس لیے اس معاملے میں اصلاحی کوشش کا اصل نشانہ مسلمانوں کو بنانا چاہیے ، نہ کہ مفروضہ اسلام دشمن طاقتوں کو۔
امیج بلڈنگ کا کام اگر دوسروں کے خلاف پروٹسٹ سے شروع کیا جائے تو وہ یقینا بے نتیجہ رہے گا۔ صحیح یہ ہے کہ امیج بلڈنگ کے کام کو خود مسلمانوں سے شروع کیا جائے۔ مثلاً لوگوں کو بتایا جائے کہ اسلام اور مسلمان دونوںکا معاملہ ایک دوسرے سے الگ ہے۔مسلمانوں سے یہ کہا جائے کہ تم جہاد کے نام پر قومی لڑائی کو بند کرو۔ تم رسول اللہ کے خلاف گستاخی کے نام پر قتل کا فتویٰ دینااور احتجاج کرنا بند کرو، وغیرہ۔صحیح طریقہ مسئلہ کو حل کرتا ہے، اور غلط طریقہ مسئلہ میں اضافہ کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپا آنے سے پہلے

فطرت کے قانون کے مطابق، انسان اپنی عمر کے تقریبا چالیس سال تک بڑھاپے سے پہلے کے دور میں ہوتا ہے۔ چالیس سال کے بعد اس کے اوپر عملاً بڑھاپے کا دور شروع ہوجاتا ہے، جو قانون فطرت (law of nature) کے تحت کسی بھی وقت اُس کو اِس دنیا سےجدا کردینے والا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے:
سفینہ بنا رکھیں طوفاں سے پہلے
یہ اصول زیادہ بہتر طور پر انسان کی عمر کے معاملے میں چسپاں (apply) ہوتا ہے۔ یعنی ہر انسان کو چاہیے کہ بڑھاپے سے پہلے کے دورِ حیات میں وہ اپنے آپ کو آخرت کے لیے تیار کرلے۔ کیوں کہ بڑھاپے کے بعد کے دورِ حیات میں کسی کے لیے یہ موقع باقی نہیں رہتا کہ وہ آخرت کے لیے مطلوب قسم کی تیاری کرسکے۔
تاہم چالیس سال کے بعد کسی انسان کے لیے عمر کا جو دور آتا ہے، وہ اس کی زندگی کا بہترین حصہ ہوتا ہے۔ اس دور میں وہ زیادہ سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر پختگی (maturity) آجاتی ہے۔ اس کا ذہنی ارتقا (intellectual development) اپنی تکمیل کے دور میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کو ایسے تجربات (experiences) حاصل ہوجاتے ہیں، جو اس کی صحیح طرز فکر کے لیے رہنما بن سکیں۔
چالیس سال کے بعد کسی انسان کی زندگی میں جو دور آتا ہے، وہ اس کے لیے آخرت کی تیاری کا بہترین دور ہوتا ہے۔ اب عملاً وہ فطری انسان (man cut to size)بن چکا ہوتا ہے۔ اب اس کے پاس زیادہ تیار ذہن (prepared mind)ہوتا ہے، جس کی روشنی میں وہ زیادہ درست طور پر اپنے مستقبل کا نقشہ بنا سکے۔چالیس سال کےبعد کی عمر میں زیادہ ممکن ہوجاتا ہے کہ آدمی بے خطا انداز میں اپنے آپ کو آخرت کے لیے تیار کرسکے— دانش مند وہ ہے جو اپنے اس حصۂ عمر کو استعمال کرے، اور غیر دانش مند وہ ہے جو اپنے اس حصۂ عمر کو استعمال کیے بغیرکھودے۔
واپس اوپر جائیں

شادی کا صحیح طریقہ

ہر مسئلے کا یقینی حل ہے، بشرطیکہ مسئلے کو صحیح اصول کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ کسی مسئلے کو حل کرنے کی طرف پہلا قدم یہ ہے کہ یہ دریافت کیا جائے کہ جو ہوا اس کا اصل ذمہ دار کون تھا۔ اکثر حالات میں مسئلے کے حل کا آغاز یہ ہوتا ہے کہ آدمی یہ دریافت کرے کہ اصل غلطی خود اس کی ہے، کسی دوسرے کی نہیں۔
مثلا لَو میرج (love marriage)میں نکاح کے وقت شادی کا معاملہ بظاہر محبت کا معاملہ معلوم ہوتا ہے، لیکن نکاح کے بعد شادی کا معاملہ عملاً ذمہ داری کا معاملہ بن جاتا ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے، اور فطرت کے اصول میں کوئی تبدیلی نہیں۔ عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو نکاح کا وہی طریقہ درست ہے جس کو ارینجڈ میرج (arranged marriage)کہا جاتا ہے۔ لَومیرج اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک جذباتی میرج ہے، جس کو غلط طور پر لَو میرج کا نام دے دیا گیا ہے۔ لَومیرج کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں طرفَین کے خاندان کی ذمہ داری عملاً ختم ہوجاتی ہے۔ اب ذمہ داری کا سارا معاملہ صرف دو ناتجربہ کار نوجوانوں کا معاملہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لَو میرج بعد کو اکثر ناکام ثابت ہوتی ہے۔
اگر کسی کی لَو میرج پرابلم میرج بن جائے تو اس کے بعد اس کو یہ کرنا چاہیے کہ اپنے مسئلے کا ذمہ دار وہ خود اپنے آپ کو قرار دے، نہ کہ کسی دوسرے کو ۔ ایسا کرنے کے بعد اس کا ذہن صحیح رخ پر کام کرنے لگے گا۔اس کا رویہ حقیقت پسندانہ رویہ بن جائے گا۔ اس کے اندر منفی سوچ باقی نہیں رہے گی۔ اس کا تعلق براہ راست طور پر اللہ سے قائم ہوجائے گا۔ اگر وہ ایسا کرے تو امیدہے کہ دھیرے دھیرے اس کے معاملات درست ہوجائیں گے۔
زندگی کبھی جذبات کی بنیاد پر نہیں چلتی، زندگی ہمیشہ حقائق کی بنیاد پر چلتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ آئڈیلسٹ (idealist)نہ بنے، بلکہ وہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کو جانے، اور اس کے مطابق زندگی گزارے۔ جو لوگ اس حقیقت کو نہ جانیں، وہ ہمیشہ شکایت (complaint) میں جئیں گے، وہ اپنی زندگی کو کامیاب زندگی بنانے میں ناکام رہیں گے۔ یہ اصول ایک فرد کے لیے بھی درست ہے، اور پوری قوم کے لیے بھی درست۔
ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان فطرت کا ایک اصول ہے۔ نکاح کے ذریعہ زوجین کے درمیان ایک خصوصی تعلق قائم ہوتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے قریبی طور پر شریک حیات بن جاتے ہیں۔ اس طرح دونوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے فکری ساتھی (intellectual partner) بن کر زندگی کا وہ رول ادا کریں، جو خالق کےنقشے کے مطابق ان سے مطلو ب ہے۔
نکاح کا تعلق دو انسانوں کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ سماج کا ایک مقدس یونٹ بنیں۔ وہ خاندان کی سطح پر پورے سماج کے لیے ایک ماڈل بن جائیں۔ وہ سماج کی تشکیل میں ایک ایسا تعمیری حصہ ادا کریں، جو صرف ایک خاندان کے لیے ممکن ہوتا ہے۔ اگر لوگوں کے اندر یہ شعور پیدا ہوجائے تو ہر سماج ایک درست سماج بن جائے گا— یہی سماجی زندگی کی صالح تعمیر کا واحد طریقہ ہے۔
تیاریٔ ذہن یا نفاذِقانون
عرب ویڈیو ٹیپ کو فیدیو تیب (مسجلۃ تلفزیونیۃ) کہتے ہیں۔ عرب سے آئے ایک شخص نے کہا کہ بعض عرب ملکوں میں سنیما ہاؤس پر پابندی لگادی گئی ہے۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر گھر میں لوگوں نے وی سی آر لگا لیا ہے، اور اس کے اوپر ہر قسم کی فلمیں دیکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا:’’آپ باہر سنیما ہاؤس بند کریں گے تو گھر میں سنیما ہاؤس کھل جائے گا۔‘‘
معاشرہ کا ذہن جب تک تیار نہ کیا گیا ہو تو اوپر سے اصلاحی احکام نافذ کرنے کا نتیجہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔
(ڈائری، 1985)
واپس اوپر جائیں

عزت نفس

اکثر لوگ خود داری اور عزت نفس (self-respect) کی اصطلاح میں سوچتے ہیں۔ اس سوچ کے تحت وہ کئی بار ایسی روش اختیار کرتے ہیں، جو عملا تکبر (arrogance) کے ہم معنی ہوتی ہے۔ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کو اپنے عزت نفس کی خاطر ایسا کرنا ضروری ہے۔ ایسا نہ کرنے کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہوتا ہے کہ آدمی خود اپنی نگاہوں میں اپنے آپ کو ذلیل کرلے۔ مگر یہ سوچ ایک غیر حقیقی سوچ ہے۔
وہ چیز جس کو عزت نفس کہا جاتا ہے، وہ خود حاصل کردہ (self-attained) چیز نہیں ہے۔ بلکہ وہ دوسروں کی عطاکردہ (externally given) چیز ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی چیز جو آپ کو اسی وقت ملتی ہے، جب کہ دوسرے لوگ آپ کو دینے کے لیے تیار ہوں۔
ایسی حالت میں کوئی شخص اگر اپنی کسی روش کے ذریعہ عزت نفس حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ایک غیر حقیقی روش اختیار کرتا ہے۔ کیوں کہ جو چیز دوسروں سےملنے والی ہے ،وہ آپ خود سے اپنے لیے حاصل نہیں کرسکتے۔ ایسا آدمی ایک عمل کرتا ہے، جو اس کے اپنے خیال کے مطابق عزت نفس کے لیے ہوتا ہے، مگروہ عمل دوسروں کی نظر میں تکبر (arrogance) بن جاتا ہے۔ آدمی بطور خود ایک ایسی چیز پانے کی کوشش کرتا ہے جو کسی کو صرف دوسروں سے ملتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق، عزت (respect) کسی کو صرف تواضع (modesty ) کے ذریعہ ملتی ہے، کسی اور تدبیر کے ذریعہ نہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:من تواضع للہ رفعہ اللہ (حلیۃ الاولیاء 7/129 :)۔یعنی جو اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے، اس کو اللہ بلندی عطا کرتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون (law of nature) ہے، اور فطرت کا قانون کبھی کسی کے لیےبدلتا نہیں۔ اس دنیا میں کوئی چیز صرف فطرت کے قانون کی پیروی سے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ خودساختہ طور پر۔
واپس اوپر جائیں

بے شکایت جینا

شکایت ایک نہایت مہلک عادت ہے۔ لیکن اگر آپ با اصول زندگی اختیار کریں تو آپ کو کسی سے شکایت نہ ہوگی۔بے شکایت بننے کا راز کیا ہے۔ اس کا آسان راز یہ ہے کہ آپ ایک آرٹ کو سیکھ لیں۔ اس آرٹ کوایک لفظ میں شکایت کی مثبت توجیہہ (positive explanation of complaint) کہا جاسکتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ شکایت کبھی یک طرفہ نہیں ہوتی، بلکہ وہ ہمیشہ دو طرفہ ہوتی ہے۔ یعنی کچھ آپ نے کیا، پھر کچھ دوسرے نے کیا ۔ اس کے بعد وہ واقعہ دونوں کے لیے شکایت کا سبب بن گیا۔ اگر آپ یہ کریں کہ دوسرے کی کوتاہی پر غصہ ہونے سے پہلے اپنی کوتاہی کو دریافت کریں جو فریق ثانی کے منفی رویہ کا سبب بنی۔ تو آپ فوراً بے شکایت (complaint-free) بن جائیں گے۔ اور بے شکایت زندگی یقیناً تمام انسانی خوبیوں کا واحد راز ہے۔
یہ عام مزاج ہے کہ انسان اپنی کوتاہی کو نظر انداز کرتا ہے، اور دوسرے کی کوتاہی کو زیادہ کرکے دیکھتا ہے۔ یہ دوہری سوچ (double thinking) ہے۔ یہی دوہرا مزاج تمام شکایتوںکا اصل سبب ہے۔ اگر انسان یہ کرے کہ وہ دوسرے کو جس نظر سے دیکھتا ہے، اسی نظر سے وہ اپنے آپ کو بھی دیکھنے لگے تو اچانک شکایت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس کے بعد ہر سماج مثبت سماج بن جائے گا۔
دنیا کے باغ میں کانٹے بھی ہوتے ہیں، اور پھول بھی۔ لیکن باغ کا کلچر یہ ہے کہ کانٹوں کے باوجود پھول بن کر رہو۔ یہی حال انسانی سماج کا بھی ہوجائے گا۔ انسان بھی اسی کلچر کو اختیار کریں گے کہ وہ بظاہر کانٹوں کے باوجود وہ ایک دوسرے کے ساتھ پھول کی مانند بن کر رہیں۔ جب ایسا ہوگا تو اس کے بے شمار مزید فائدے حاصل ہوں گے۔ سماج کے اندر نفرت اور تشدد کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ہر جگہ تشدد کے بجائے امن دکھائی دے گا۔ ہر سماج ایسا بن جائے گاگویا کہ وہ مردوں اور عورتوں کا ایک زندہ باغ ہے۔
واپس اوپر جائیں

انتہا پسندی

انتہا پسندی (extremism)ایک فطری صفت ہے۔ یہ صفت کسی شخص کے اندر کم ہوتی ہے اور کسی شخص کے اندر زیادہ۔ تاہم انتہا پسندانہ مزاج کا ایک تعمیری پہلو ہے اور دوسرا اس کا تخریبی پہلو۔ اس کا تعمیری پہلو یہ ہے کہ آدمی اصول کےمعاملہ میں سخت حسّاس ہو، وہ دوسروں کے حقوق کے معاملہ میں کمی کو گوارا نہ کرے، وہ حق سے انحراف کو دیکھے تو تڑپ اٹھے۔ وہ اپنی غلطی کو شدید طورپر محسوس کرتاہو۔ وہ اپنی کوتاہی کے معاملہ میں اس سے زیادہ شدید ہوجتنا کہ کوئی شخص دوسروں کی کوتاہی کے معاملہ میں شدید ہوتا ہے۔ یہ انتہا پسندی صحت مند انتہا پسندی ہے۔
انتہا پسندی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ منفی رخ اختیار کرے۔ وہ اپنے اس جذبہ کی بنا پر دوسروں سے نفرت کرے۔ وہ دوسروں سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائے۔ وہ اصلاح کے نام پر جنگ اور قتل شروع کردے۔ یہ انتہا پسندی کی قابلِ اعتراض صورت ہے۔جب انتہا پسندی اس قسم کی منفی صورت اختیار کرلے تو عملاً وہ ایک برائی (evil) بن جاتی ہے، نہ کہ کو ئی خیر(good)۔
حساسیت (sensitivity) انسان کی خاص صفت ہے۔ اس صفت کا تعمیری استعمال دنیا میں بھلائی لاتا ہے۔ اس کے برعکس جب اس صفت کا غلط استعمال ہونے لگے تو دنیا برائی سے بھر جاتی ہے۔ انتہا پسندی کا مزاج ہمیشہ محاسبہ کا مزاج پیدا کرتا ہے۔ مگر یہ محاسبہ اپنے خلاف ہوناچاہئے۔ اس کے برعکس، اپنی کوتاہیوں سے غافل رہنا اور دوسروں کی کوتاہی پر ان سے لڑائی شروع کردینا، سخت گناہ کی بات ہے۔پہلا کردار اگر ثواب کا موجب ہے تو دوسرا کردار آدمی کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ آخرت میں اس کا سخت مواخذہ کیا جائے۔خالق نے کوئی چیز بے سبب پیدا نہیں کی۔ انتہاپسندانہ فطرت کا بھی ایک مقصد ہے۔ وہ یہ کہ آدمی اصول پسندی کے معاملے میں سخت محتاط ہو، لیکن اس فطری جذبے کا غلط استعمال کیا جانے لگے تو وہ خدا کے نزدیک ایک گناہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

صحیح طرز فکر

ابن الاعرابی (وفات231: ھ)کو عربی زبان کا امام کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق عراق سے تھا۔ انھوں نے ایک قدیم عربی قول کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے:خذ ما صفا ودع ما کدر(لسان العرب، تحت لفظ الکدر)۔ یعنی جو صاف ہو اس کو لے لو، اور جو صاف نہ ہو اس کو چھوڑ دو۔یہ سادہ الفاظ میں حکمت (wisdom) کی تعریف ہے۔
انسان ایک آزاد مخلوق ہے۔ اس بنا پر انسانی دنیا ہمیشہ افکار کا جنگل رہی ہے۔ افکار کے اس جنگل میں انسان کو سوچنا پڑتا ہے، اور یہ جاننا پڑتا ہے کہ اس کی نسبت سے کون سی بات قابل اخذ ہے اور کون سی بات قابل ترک۔ اس بات کو علمی انداز میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ حکمت اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی افکار کے ڈھیر میں متعلق کو دریافت کرے، اور غیر متعلق کو چھانٹ کر الگ کردے:
The ability to discover the relevant after sorting out the irrelevant.
مثلا مغربی تہذیب کو لیجیے۔ جدید مغربی تہذیب میں کچھ چیزیں وہ ہیں جو فطرت کے ابدی قانون پر مبنی ہیں۔ مثلا کشش ارض کا اصول فطرت کا ایک ابدی قانون ہے۔ اس کے مقابلے میں مغربی کلچر ماحول کے اثر سے بنا ہے۔ صاحب فکر آدمی کا کام ہے کہ وہ ان میں تنقیح کرے۔ یعنی خالص کو ردی سے جدا کرکے بیان کرے۔ ایسا کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کے کلام میں وضوح ( clarity) آئے گا۔ اس کو سننے یا پڑھنے والے آدمی کا ذہن ایڈریس ہوگا۔ وہ فیصلہ کرسکے گا کہ وہ درست طور پر کس طرح سوچے، اور درست طور پر کس طرح اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
اس اعتبار سے کلام کی دو قسمیں ہیں۔ منقح کلام اور غیر منقح کلام۔ منقح انداز میں کلام کرنا ، ایک بے حد مشکل کام ہے۔ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جو حکیمانہ طرز فکر کا حامل ہو، وسیع مطالعہ کی بنا پر جس کی پہنچ علوم کے سرے تک ہو گئی ہو۔
واپس اوپر جائیں

کرائسس مینجمنٹ

ابوتمام الطائی(188 - 231 ھـ)عربی زبان کا ایک مشہور ادیب اور شاعر ہے۔ اس کی پیدائش شام کی ایک بستی جاسم میں ہوئی۔ ایک بار وہ خراسان جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ راستہ میں ہمذان کا علاقہ پڑتا تھا۔ وہاں پر أبو الوفاء ابن سلمة نامی ایک امیر نے ان کو اپنا مہمان بنایا۔ ابھی وہ ہمذان میں ہی تھے کہ شدید برفباری شروع ہوگئی، اور راستہ بند ہوگیا۔ اس موقع پر ابوتمام کو أبو الوفاء ابن سلمة کا کتب خانہ دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ کتب خانہ کافی بڑا تھا۔
اس کتب خانے میں جاہلی اور اسلامی ادوار کے عرب شعرا ء کا کلام موجود تھا۔ ابوتمام نے عرب شعرا کے ان مجموعوں کا مطالعہ شروع کیا،اور ان سے منتخب کرکے پانچ کتابیں تیار کیں۔ ان میں سے ایک دیوان الحماسہ ہے۔ابوتمام کا یہ انتخاب، ابتدائی کلامِ عرب کا ایک اہم ماخذ سمجھا جاتا ہے۔
Hamasah is considered one of the primary sources of early Arabic poetry.
آدمی کی زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی اتفاقی بحران کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کی زندگی کا روٹین معطل ہوجاتا ہے۔ یہ ایک بظاہر ناموافق صورتِ حال ہوتی ہے۔ لیکن اگر آدمی کا ذہن بیدار ہو، وہ کرائسس مینجمنٹ (crisis management)کا فن جانتا ہو تو وہ اپنے وقت کا ایک نیا استعمال دریافت کرسکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ نیا استعمال اس کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ بن جائے۔ ایک فارسی ضرب المثل اس طرح ہے:
مشکلى نیست کہ آسان نشود ،مرد باید کہ ہراسان نشود
ہر مشکل آسان ہوسکتی ہے، بشرطیکہ آدمی گھبراہٹ میں مبتلا نہ ہو۔ یہ کامیاب زندگی کا ایک اعلیٰ اصول ہے۔ آدمی کے حالات ہمیشہ معتدل اور نارمل نہیں ہوتے۔ زندگی میں اکثر کرائسس کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ ایسی صورت حال پیش آنے پر اپنے عمل کا نیا منصوبہ بنائے۔ اس طرح وہ اپنے ناموافق حالات کو موافق حالات میں تبدیل کرلے گا۔
واپس اوپر جائیں

درست فیصلہ

ایک صاحب نے سوال کیا کہ زندگی میں درست فیصلہ (right decision) کیسے لیا جائے۔میں نے کہا کہ درست فیصلہ مطلق معنوں (absolute sense) میں لینا اکثر ممکن نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ درست فیصلہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی مستقبل کو جانے۔ چوں کہ انسان مستقبل کو نہیں جانتا ،اس لیے معیاری معنوں میں درست فیصلہ لینا بھی انسان کے لیے ایسے حالات میں عملا ممکن نہیں ہوتا۔
درست فیصلہ نہ لے سکنا ،کوئی عیب کی بات نہیں۔ بلکہ یہ ایک رحمت کی بات ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ آدمی مثبت ذہن (positive mind) کے ساتھ جینے والا ہو۔ اگر آپ درست فیصلہ نہ لے سکنے کی بنا پر کسی ناکامی سے دوچار ہوجائیں تو ہر گز غمگین نہ ہوں۔ بلکہ صرف یہ سوچیے کہ میرے فیصلہ میں غلطی کہاں تھی۔ اس طرح آپ اس قابل ہوجائیں گے کہ معاملے کے مخفی گوشوں کو سمجھ سکیں، اور اپنے معاملے کی زیادہ بہتر منصوبہ بندی کریں۔
یہ مزاج کسی انسان کے لیے بہت مفید ہے۔ کیوں کہ فیصلہ میں غلطی سے اگر کوئی بات بظاہر بگڑ جائے تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ نے پہلے موقع (first chance) کو کھودیا ہے۔ لیکن جب آپ مثبت سوچ پر قائم ہوں تو آپ کا ذہن فورا یہ دریافت کرلے گا کہ یہاں آپ کے لیے دوسرا چانس (second chance) موجود ہے۔ اس طرح آپ اس قابل ہوجائیں گے کہ دوسرے موقع کو استعمال کرکے بہت جلد اپنے آپ کو کامیاب بنا سکیں، بلکہ شاید پہلے سے زیادہ کامیاب۔
زندگی میں مواقع کبھی محدود نہیں ہوتے۔ مواقع کی تعداد ہمیشہ بے شمار ہوتی ہے۔ آپ اگر ایک موقع کھو دیں تو پیشگی طور پر یہ یقین رکھیے کہ یہاںآپ کے لیے مزید مواقع موجود ہیں، اور ان کو استعمال کرکے از سر نواپنے آپ کو کامیاب بناسکتے ہیں۔ اسی کانام زندگی کی حکمت (wisdom) ہے، اور حکمت ہی کا دوسرانام کامیابی ۔
واپس اوپر جائیں

بہتر کا انتخاب

صحابیٔ رسول عمر و ابن العاص (وفات 642:ء)کے حوالے سے ایک قول کتابوں میں نقل کیا گیا ہے: لیس العاقل الذی یعرف الخیر من الشر، ولکن العاقل الذی یعرف خیر الشرین (المجالسۃ و جواہر العلم،حدیث نمبر 670)۔ یعنی دانش مند وہ نہیں ہے جو خیر اور شر کو جانے، بلکہ دانش مند وہ ہے جو یہ جانے کہ دو شر کے درمیان خیر کیا ہے۔
موجودہ دنیا میں انسان کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ اس لیے موجودہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ آزادی کا غلط استعمال (misuse of freedom) ہے۔ دنیا میں پرابلم آف ایول (problem of evil)کا اصل سبب یہی ہے۔ اس صورت حال کی بنا پر موجودہ دنیا میں کسی کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے معاملے میں کامل خیر کا انتخاب کرے۔ اس دنیا کے لیے پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) یہ ہے کہ آدمی یہ سوچے کہ اس کے اقدام کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
اس صورت حال کی بنا پر ایسا ہے کہ موجودہ دنیا میں آدمی کے لیے ہمیشہ کمتر برائی (lesser evil) کے انتخاب کا موقع ہوتا ہے۔ ہمیشہ انسان کے سامنے یہ صورت حال ہوتی ہے کہ وہ دو میں سے ایک کا انتخاب کرے۔ ایسی حالت میں آدمی کے لیے دانش مندی یہ ہے کہ وہ بڑی برائی سے بچے اور چھوٹی برائی کا انتخاب کرے۔ اس اصول کا تعلق خاندانی زندگی سے بھی ہے، سماج سے بھی ہے اور نیشنل لائف سے بھی ۔ اکثر حالات میںا یسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی غیر دانش مندی کی بنا پر ایسا انتخاب (choice) لے لیتا ہے جو اپنے نتیجے کے اعتبار سے بڑی برائی (greater evil) کا سبب بن جاتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ یا تو اس قسم کے انتخاب کی غلطی نہ کرے یا اگر اس سے ایسی غلطی ہوگئی ہے تو دوسروں کو برا کہنے کے بجائے خود اپنی غلطی کا عتراف کرے۔ اس طرح یہ ممکن ہوجائے گا کہ آدمی کا پہلا اقدام اگر غلط ہوگیا تھا تو وہ دوسری بار صحیح اقدام کرے، وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرکے اپنے آپ کو اور دوسروں کو مزید تباہی سے بچالے۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان مورخین نے تاریخ مسلمانان لکھی ہے، تاریخ اسلام نہیں۔میرا سوال یہ ہے اگرتاریخ اسلام لکھی جائے تو اس کے موضوعات کیا ہوں گے۔ (محمد زید،دہلی)
سجواب
تاریخ اسلام دراصل تاریخ پیغمبر کا دوسرا نام ہے۔ رسول اللہ نے اپنی زندگی میں جو کام کیے، وہ اسلام کی تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ رسول اللہ نے اپنی زندگی میں جو کام نہیں کیے وہ مسلم تاریخ کا حصہ ہیں، نہ کہ براہ راست طور پر اسلام کی تاریخ کا حصہ۔یہ بات اگر متعین طور پر کہی جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام کی تاریخ وہ ہے جو تاریخ دعوت ہو۔ جوتاریخ مسلم حکومتوں کی تفصیل بیان کرے، اورجس میں مسلمانوں کی سیاسی سرگرمیوں کی تفصیل ہو، وہ اصلا مسلمانوں کی تاریخ کہی جائے گی، نہ کہ اسلام کی تاریخ ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مشن دعوت الی اللہ تھا۔ دعوت الی اللہ کی نسبت سے جو واقعات پیش آئے وہ اسلام کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان واقعات کا ذکرغیر تفصیلی انداز میں قرآن میں موجود ہے۔ لیکن جیسا کہ معلوم ہے، بعد کے زمانے میں مسلمانوں میں لڑائیاں ہوئیں۔ انھوں نے سلطنتیں قائم کیں، انھوں نے قلعے اور محلات بنائے، تہذیبی ترقیاں کیں۔ یہ سب بالواسطہ طور پر اسلام کا حصہ ہوسکتے ہیں، لیکن براہ راست طور پر وہ مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ ہیں۔
اس حقیقت کا احساس مورخ ابن خلدون (وفات1406:) کو بھی تھا۔ انھوں نے اس کمی کی تلافی کے لیے ایک کتاب لکھی، جس کا نام ہے: کتاب العبر ودیوان المبتدأ والخبر ۔ مگر ان کی یہ کتاب بھی عملاً تاریخ مسلمین بن گئی، وہ تاریخ اسلام نہ بن سکی۔ یہ ضرورت ابھی تک باقی ہے کہ کوئی صاحب علم تمام متعلقہ حوالوں کا از سر نو مطالعہ کرے اور پھر وہ اسلا م کی تاریخ لکھے۔ تاریخ اسلام وہ ہوگی جو پیغمبر اسلام کے مشن کی تاریخ کو بیان کرے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 249

1۔ 12 نومبر2016 کو ایم سی کے ایس یوگا ودّیا پرانک ہیلنگ ٹرسٹ (MCKS Yoga Vidya Pranic Healing Trust)کی جانب سے تھیاگراج اسٹیڈیم ، دہلی میں امن اور باہمی ہم آہنگی کے موضوع پر ایک پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔ اس موقع پر سی پی ایس ممبر مسٹر رجت ملہوترا نے صدر اسلامی مرکز کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ صدر اسلامی مرکز کے پیغام کو مذہبی رہنماؤں اور شرکاء نے کافی پسند کیا۔
2۔ 13 نومبر 2016کو کامٹی میں ایک شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں محمد یونس لٹیانی صاحب (بھوپال) نے مدعوین کے درمیان اردو، ہندی، انگریزی اور مراٹھی قرآن مجید کے نسخے اور دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کیے ۔ ناگپور و کامٹی الرسالہ ٹیم کے ممبران نے اس دعوتی مہم میں اپنا تعاون پیش کیا ۔ اس موقع پر لوگوں نے اپنے تاثرات قلمبند کئے۔ وہ یہ ہیں: میں بہت خوش ہوں کہ پہلی بار کسی بھائی نے مجھےیہ انمول تحفہ دیا ہے(سریندر سنگھ، اونر راج رائل لان، کامٹی)۔ بہت خوشی محسوس ہورہی ہے (وجئے رامبھر، ناگپور)۔اسلامی لٹریچر کو پھیلانے کا یہ بہت ہی unique اور قابل قدر طریقہ ہے، مجھے بہت پسند آیا (محمد ایوب، سابق ڈپٹی منیجر، ایر انڈیا)، وغیرہ۔
3۔ ہم سفر نامی سوشل آرگنائزیشن نے ناکور میں ایک سالانہ جشن کا اہتمام کیا۔ یہ ٹاؤن سہارن پور (مغربی یوپی) سے 36 کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ اس میں ضلع کی اہم شخصیات مدعو تھیں۔ اس موقع پر پرسی پی ایس سہارن پور کے ڈاکٹر محمد اسلم خان اور مسٹر محسن بلال کو پیس مشن کے لیے شال، مومنٹو اور سرٹیفکٹ کی صورت میں اعزاز سے نوازا گیا۔ یہ پروگرام 11 نومبر 2016 کو منعقد کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ نومبر کے مہینے میں ہی ڈاکٹر محمد اسلم خان نے اپنے دعوتی ساتھی کے ساتھ ممبئی اور پونے کا دورہ کیا تھا۔ یہاں انھوں نے الرسالہ مشن کے لوگوں سے ملاقات کی اور دعوتی تبادلۂ خیال کیا۔ اس دوران جن معروف لوگوں سے ملاقات اور تعاون حاصل ہوا، وہ یہ ہیں مشہور ریڈیو اناؤنسر امین سیانی، ایڈوکیٹ محترمہ ریکھا کنگر، محترم جوشی اور راہل سیانی، وغیرہ۔
4۔18 نومبر 2016 کو تنوجا بنگال ہینڈ لوم (A Govt. of W.B. Enterprise) نے برلا اکیڈمی آف آرٹس اینڈ کلچر کے تعاون سے برلا اکیڈمی میں ہینڈ لوم کی ترقی کے لیے ایک پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ اس پروگرام کا عنوان ’BALUCHARI Bengal and Beyond‘ تھا۔ اس کا افتتاح مشہور اداکارہ اور ایم پی آف بانکورہ محترمہ من من سین نے کیا۔ محترم سوپن دیب ناتھ مہمان اعزازی تھے۔ ان کے علاوہ اس پروگرام میں کافی تعداد میں اہم شخصیات نے حصہ لیا۔ سی پی ایس ممبر مس شبینہ علی اور شبانہ خاتون نے اس موقع پر لوگوں کے درمیان ترجمہ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کیے، ساتھ ہی سی پی ایس کے مقاصد سے لوگوں کو واقف کرایا۔ تمام شرکاء نے بہت خوشی کے ساتھ لٹریچر قبول کیا۔
5۔ قارئین الرسالہ حلقہ ناگپور و کامٹی کی ماہانہ میٹنگ بروز اتوار، مورخہ 4 دسمبر 2016، مسجد امان اللہ سیٹھ، مومن پورہ ناگپور میں ہوئی جس میں 8 افراد نے شرکت کی ۔ میٹنگ میں ایک نئے ممبر سید راشد صاحب نے بھی شرکت کی ۔ موصوف اورنگ آباد CPS کے فعال ممبر ہیں ۔فی الحال ملازمت کی وجہ سے ناگپور میں مقیم ہیں ۔ الرسالہ مشن کے تعلق سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نےکہا کہ ’’میں پہلے ملک کی ایک بڑی جماعت سے جڑا ہوا تھا ۔ اس وقت میرے ذہن میں دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایات بھری ہوئی تھیں ۔ لیکن جب میں نے مولانا وحیدالدین خان صاحب کو پڑھا تو یہ ساری منفی باتیں میرے ذہن سے نکل گئیں ۔ اب میری سوچ مکمل طور پر ایک پازیٹو سوچ بن گئی ہے‘‘۔ اس کے علاوہ اس میٹنگ میں دیگر کئی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔
6۔ سویڈن کے مسٹر متھیا (Mattias Dahlkvist) صدر اسلامی مرکز کے فکر پر سویڈن کی امیا یونیورسٹی (Umeå University) سے ریسرچ کررہے ہیں۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں وہ دہلی آئے اور تقریباً ایک ہفتہ دہلی میں ان کا قیام رہا۔ اس دوران انھوں نے صدر اسلامی مرکز سے کئی ملاقاتیں کیں اور اپنی ریسرچ کے لئے ان سےاستفادہ کیا۔
7۔ دورِ جدید کا ایک ظاہرہ بک فیئر بھی ہے۔ اس کے تحت مختلف مقامات پر بک فیئر لگائے جاتے ہیں۔ جہاں بڑی تعداد میں علم دوست حضرات آکر اپنی پسند کی کتابیں حاصل کرتے ہیں۔ سی پی ایس کی نیشنل و انٹرنیشنل ٹیموں نے اور گڈ ورڈ بکس نے ابھی حال میں مختلف بک فیئرمیں اپنے اسٹال لگائےتھے ۔ ذیل میں ان کا ذکر کیا جاتا ہے:
ث17 تا 18 نومبر 2016، کشن گنج، بہار کے معروف انسان اسکول کے گولڈن جبلی کے موقع پر دو روزہ سیمانچل انٹرنیشنل لٹریٍچر فیسٹول کا انعقاد کیا گیا تھا۔ موقع کی مناسبت سے گڈ ورڈ بکس (ڈسٹری بیوٹر) کشن گنج نے یہاں بک اسٹال لگایا ۔ جس میں کثیر تعداد میں مرد، بچے اور خواتین نے بڑی دلچسپی کے ساتھ کتابوں کی خریداری کی۔ اس کے علاوہ CPG ٹیم (بہادر گنج) کی طرف سے نان مسلم بھائیوں اور بہنوں کو ہندی ترجمہ قرآن کے علاوہ خدا کی شرسٹی نرمان یوجنا اور Creation Plan of God جیسے دعوتی لٹریچر دیے گیے جسے انھوں نے نہایت خوشی اور احترام کے ساتھ قبول کیا۔
■ دوحہ (قطر) میں ایک عالمی بک فیئر کا انعقاد 30 نومبر تا 10 دسمبر ہوا۔ اور جدہ بک فیئر 15 دسمبرتا 25 دسمبر 2016 کا انعقادہوا۔ گڈورڈ بکس کی طرف سے دوحہ بک فیر کا انتظام یعقوب عمری صاحب نے سنبھالا۔ اس میں کثرت سے زائرین آئے اور انھوں نے گڈورڈ بکس کی کتابوں اور دعوہ لٹریچر میں کافی دلچسپی لی۔
■ 2تا 4 دسمبر 2016 کو کنڑ ساہیتہ سمیلن کا انعقاد رائچور (کرناٹکا) میں ہوا۔ اس کا انعقاد کرناٹکا حکومت نے کیا۔ تقریباً 400 بک اسٹال اور 150 کمرشیل شاپ نے پورے ہندستان سے شرکت کی۔ تقریباً ایک لاکھ لوگوں نے اس سے استفادہ کیا۔ رائچور ٹیم نے حیدرآباد اور کرناٹک ٹیم کے تعاون سے اپنا اسٹال لگایا۔ اس موقع پرلوگوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے اسٹال پر آئی اور سی پی ایس مشن میں اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔
■ کوچی (کیرالا)کے ایرناکولم گراؤنڈ میں 11-2 دسمبر 2016 کو انٹرنیشنل بک فیسٹ منعقد ہوا۔ اس میں مسٹر شبیر علی نے اپنا اسٹال لگایا۔ لوگ کافی تعداد میں اسٹال پر آئے، اور ترجمہ قرآن کے علاوہ دیگر کتابیں حاصل کیں۔
■ سی پی ایس (پاکستان) نے کراچی بک فیئر(19-15دسمبر 2016) میں اپنا اسٹال لگایا۔ اس میں زائرین کی کافی تعداد آئی۔ انھوں نےالرسالہ اور اسپرٹ آف اسلام کے علاوہ صدر اسلامی مرکز کے ترجمہ قرآن اور دیگرلٹریچر کو حاصل کیا۔ کافی تعداد میں لوگوں نے الرسالہ کو سبسکرائب کیا۔ یہ بک فیئر کراچی ایکسپو سینٹر میں لگا تھا۔
■ 15 تا 25 دسمبر 2016 کو حیدرآباد میں کتاب میلے کا انعقاد ہوا۔ اس میں گڈورڈ بکس نے حصہ لیا۔ لوگ کافی تعداد میں اسٹال پر آئے، اور قرآن کے ترجمے (ہندی، انگلش،اردو، تلگو) اوردیگر لٹریچر حاصل کیا۔
■ 25-17 دسمبر 2016 کو بھیونڈی (مہاراشٹر) میں اردو کتاب میلے کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس میں الرسالہ قارئین کی جانب سے 6 اسٹال بک کیے گئے تھے۔ دو اسٹال گڈورڈ بکس کے تھے۔ سی پی ایس کی ممبئی ٹیم نے بھی اس میں شرکت کی۔ اس شرکت کا مقصد الرسالہ ریڈر اور دعوتی کام میں دلچسپی رکھنے والے افراد کو تلاش کرنا تھا۔ یہاں ایک صاحب،مسٹر خورشید سے ملاقات ہوئی۔ وہ الرسالہ کے پرانے نسخے تلاش کررہے تھے۔ ان سے الرسالہ مشن کے بارے میں دریافت کیاگیا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں مولانا کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ دیگر لوگوں نےبڑی تعدادمیں ترجمہ قرآن حاصل کیا۔صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی تقریباً ساری کتابیں فروخت ہوگئیں۔
■ کولکاتا کے حاجی محسن اسکوائر میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے اردو کتاب میلہ ( 22-13جنوری 2017)کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر سی پی ایس( کولکاتا) نے اپنا اسٹال لگا یا۔ یہاں بھی کافی اچھا رسپانس رہا۔
■ دہلی ورلڈ بک فیر(7 تا 15 جنوری 2017) میں سی پی ایس دہلی کی ٹیم نے تمام آنے والوں کے درمیان ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر تقسیم کیا ۔ یہاں سی پی ایس کے رجسٹر میں لوگوں نے اپنے اپنے تاثرات لکھے ۔ مثلاً مس منجو نے لکھا کہ میں نے گزشتہ سال قرآن تقسیم کے بارے میں سنا تھا، اس وقت سے میں انتظار کررہی تھی، آج جیسے ہی شروع ہوا، میں فوراً قرآن لینےکے لیے آگئی۔ یہاں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے قرآن حاصل کیا۔
واپس اوپر جائیں