Pages

Saturday, 1 July 2017

Al Risala | July 2017 (الرسالہ، جولائی)

4

-ایمرجنس آف اسلام

6

- پلاننگ ، ری پلاننگ

8

- قرآن کی رہنمائی

10

- انسانِ اول کی مثال

12

- ڈیزرٹ تھرَپی

14

- ہجرت مدینہ

16

- حدیبیہ کا منصوبہ

18

- فرق کرنا

20

- عملی تقاضا

22

- تاتاری حملے کا واقعہ

24

- بابری مسجد کا سبق

26

- دعوت کی ری پلاننگ

28

- دانش مندی کی ضرورت

30

- دور جدید

32

- صلیبی جنگیں

34

- ویٹیکن ماڈل

36

- اسپین کا تجربہ

38

- نوآبادیاتی نظام

40

- برطانیہ کی مثال

42

- جرمنی کی مثال

44

- جاپان کی مثال

46

- خالصہ تحریک کا تجربہ

48

- غلط تقابل

50

- خلاصۂ کلام


ایمرجنس آف اسلام

جدید دور ایک مؤید اسلام دور ہے۔ یہ دور اگرچہ عام طور پر مغرب کی طرف منسوب ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوری انسانیت کی مجموعی کوشش سے یہ دور ظہور میں آیا ہے۔ تاہم مغربی قوموں کا حصہ اس دَور کو لانے میں سب سے زیادہ ہے۔ دوسری قومیں اگر اس عمل (process) کا حصہ ہیں، تو مغربی دنیا اس کے نقطۂ انتہا کا مقام ۔
یہ دور جس کا نمایاں پہلو جدید تہذیب (modern civilization) ہے، اس نے قدیم روایتی دور کو یکسر بدل دیا ہے۔ یہ ہر اعتبار سے ایک نیا دور ہے۔ یہ وہی دور ہے جس کی پیشین گوئی پیغمبر اسلام نے اپنے زمانے میں واضح طور پر کردی تھی۔ اس سلسلے میں ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ عز وجل لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔ بے شک اللہ عز و جل اسلام کی تائید ان لوگوں کے ذریعہ کرے گا جو اہل اسلام میں سے نہ ہوں گے۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کی تحریک پچھلے زمانے میں روایتی بنیاد پر چلتی تھی۔ لیکن فطرت (nature) کےاندر خالق نے اپنے عظیم کلمات چھپا دیے تھے۔ خالق کو مطلوب تھا کہ یہ کلمات دریافت کیے جائیں، اور ان کو کتابوں کی صورت میں مدون کیا جائے۔ تاکہ اسلام کی صداقت کو مبرہن کرنے کے لیے سائنٹفک فریم ورک (scientific framework) حاصل ہو، اور اعلیٰ سطح پر دین خداوندی کی معرفت ممکن ہوجائے۔ جدید تہذیب کے بعد اکیسویں صدی میں یہ امکان پوری طرح واقعہ بن چکا ہے۔یہی وہ واقعہ ہے جس کی پیشین گوئی قرآن میں ان الفاظ میںکی گئی تھی: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ (41:53)۔ فطرت کے رازوں کی دریافت کے بعد یہ سب کچھ اب واقعہ بن چکا ہے۔
یہ دور امکانی طور پر ظہور اسلام کا دور ہے۔ یہ دور گلیلیو گلیلی (1564-1642)کی تحقیقات سے شروع ہوا، اور اب اسٹیفن ہاکنگ (پیدائش 1942:) کی تحقیقات کے ساتھ وہ اپنی تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دریافت کردہ حقائق کو لے کر خدا کے دین کو تبیین کامل کے درجے تک پہنچادیا جائے۔ اسی کے ساتھ کمیونی کیشن کے جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئےخالق کے پیغام کو زمین کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں پہنچادیا جائے ۔جیسا کہ پیغمبر نے پیشین گوئی کی ہے:لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر، ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد، حدیث نمبر23814)۔
اسلام ہر دور میں پیغمبروں کے ذریعہ ظاہر ہوتا رہا ہے۔ کوئی دور اس واقعہ سے خالی نہیں۔ لیکن اسلام کے ظہور کا ایک اور درجہ تھا، جس کو قرآن میں تبیین حق (فصلت 53:)کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔حدیث میں ظہو ر اسلام کے اس واقعے کو شہادت اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر2938) کے الفاظ میں بیا ن کیا گیا ہے۔ اسلام کے اس اعلیٰ ظہور کے لیے اعلیٰ مواقع درکار تھے۔ ایک طرف معرفت رب کے دلائل اور دوسری طرف دعوت کے اعلیٰ مواقع ۔ یہ دونوں چیزیں جدید سائنسی دور میں اپنی کامل صورت میں ظہور میں آچکی ہیں۔ اب ایک ایسے گروہ کی ضرورت ہے جو ان مواقع کو پہچانے ، اور ان کو استعمال کرتے ہوئےاسلام کے اُس آخری ظہور کو واقعہ بنائے جس کو حدیث میں شہادت اعظم (صحیح مسلم ، حدیث نمبر2938)کہاگیا ہے۔
اس نشانے کی تکمیل کے لیے تمام اسباب مہیا ہوچکےہیں۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ منفی سوچ سے باہر آئے، جس کو قرآن میں الرجز (المدثر5:) کہا گیا ہے۔جدید مواقع کو اسلام کے ظہور ِثانی کے لیے استعمال کرنا، انھیں لوگوں کے لیے ممکن ہے جو پوری طرح منفی سوچ (negative thinking) سے پاک ہوں، اور اعلیٰ درجے کی مثبت سوچ (positive thinking) کے حامل بن چکے ہوں۔ یہ کام ایک انتہائی مثبت کام ہے، اور کامل درجے کی مثبت سوچ کی صفت رکھنے والے ہی اس کو انجام دے سکتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو دورِ جدید کو ایک موید اسلام دور کی حیثیت سے دریافت کریں، اور اپنے عمل کی ری پلاننگ کے تحت اس امکان کو واقعہ بنائیں۔
واپس اوپر جائیں

پلاننگ ، ری پلاننگ

پلاننگ(planning) کا مطلب ہے منصوبہ بند انداز میں کام کرنا۔ محنت کے ساتھ جب تنظیم (organization) کو شامل کیا جائے تو اسی کا نام منصوبہ بندی ہے۔ قدیم تصور یہ تھا کہ کامیابی کے لیے محنت (hard work) سب سے اہم ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں ٹکنالوجی کی ترقی نے اس میں ایک مزید پہلو کا اضافہ کیا ہے، اور وہ تنظیم ہے۔ اس تصور کے مطابق پلاننگ کا مطلب ہے منظم انداز میں کسی کام کے لیے اپنی محنت صرف کرنا۔
ری پلاننگ (re-planning) گویا پلاننگ پلس (planning plus) کا دوسرا نام ہے۔ ری پلاننگ کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے منصوبہ میں تجربات کا اضافہ کرنا، اور نئی معلومات کی روشنی میں از سر نو اپنے عمل کا نقشہ بنانا۔ اس طریق کار کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ پہلے منصوبہ میں جو مقصد حاصل نہ ہوا ہو، اس مقصد کو دوبارہ بہتر انداز میںمنظم کرکے از سر نو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ری پلاننگ کا طریقہ ہر معاملے میں قابل انطباق (applicable)ہے۔ اسی طرح اسلامی عمل کے معاملے میں بھی یہ طریقہ بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ ہارون الرشید عباسی سلطنت کا پانچواں خلیفہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار وہ بغداد میں اپنے محل کے اوپر اپنی ملکہ زبیدہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ فضا میں بادل کا ایک ٹکڑا ا ڑتا ہوا جارہا ہے۔ اس کو دیکھ کر اس نے کہا:امطری حیث شئت، فسیاتینی خراجک ۔ جہاں چاہے جاکر برس، تیرا خراج میرے پاس ہی آئے گا۔
ہارون الرشید کی یہ بات قدیم زمانے میں ایک بامعنیٰ بات ہوسکتی تھی، مگر آج اس کی معنویت ختم ہوچکی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس سلسلے میںکئی نئی باتیں وجود میں آچکی ہیں۔ مثلاً قدیم زمانہ مبنی بر زمین زراعت (land-based agriculture) کا زمانہ تھا، اب مبنی بر ٹکنالوجی صنعت کا زمانہ ہے۔ قدیم زمانے کی سیاست شخصی اقتدارپر مبنی ہوا کرتی تھی، اب سیاست جمہوریت پر مبنی ہوتی ہے۔ قدیم زمانے میںصرف اقتدار کے محدود دائرے سے خراج لینا ممکن ہوتا تھا۔ اب مکمل آزادی کا زمانہ ہے، اب آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ ساری دنیا سے ’’خراج‘‘ لینا ممکن ہوگیا ہے۔
اس فرق کی بنا پر اب ممکن ہوگیا ہے کہ کسی مقصد کا منصوبہ عالمی سطح پر بنایا جائے بغیر اس کے کہ عالمی سطح پر سیاسی اقتدار حاصل ہو۔اس فرق نے مشن کے تصور میں بنیادی بھی فرق پیدا کردیا ہے۔اگر آپ ایک عالمی مشن چلانا چاہتے ہیں تو آپ کو صرف ایک چیز کی ضرورت ہے، اور وہ ہے ماڈرن ٹکنالوجی پر مبنی پر امن تنظیم۔مثال کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعوتی مکتوب ایران کے بادشاہ کسریٰ کے نام بھیجا۔ اس مکتوب کو لے کر کسریٰ کے پاس جانے والے ایک صحابی تھے، جن کا نام عبد اللہ بن حذافہ تھا۔ اس مکتوب کا متن یہ تھا:بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ من محمد رسول اللہ إلى کسرى عظیم فارس، سلام على من اتبع الہدى، وآمَنَ باللہ ورسولہ وشَہِد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، وأن محمد اعبدہ ورسولہ، وأدعوک بدُعاء اللہ، فإنی أنا رسول اللہ إلى الناس کافة لأنذر من کان حیا ویحق القول على الکافرین۔ فإن تُسلم تَسلَم وإن أبیت فإن إثم المجوس علیک (البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر، 4/306)۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ایران کے قدیم بادشاہ کو جب یہ مکتوب دیا گیا تو وہ غصہ میں آگیا، اور اس کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ یہ واقعہ قدیم زمانے کے مروجہ کلچر کی بنا پر ہوا۔ آج اگر کسی تحریک کا سربراہ اس قسم کا خط کسی حکمراں کو بھیجے تو وہ سربراہ جواب میں اس کا اکنولجمنٹ (acknowledgement) بھیجے گا، اور متعلقہ مکتوب اس کے دفتر میں محفوظ کردیا جائے گا۔
اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلامی مشن کی ری پلاننگ کی جائے۔ جدید حقائق کی روشنی میں اس کا منصوبہ بنایا جائے۔ اب کسی صاحب مشن کو نہ کسی شکایت کی ضرورت ہے، نہ کسی پروٹسٹ کی۔ اب صرف یہ ضرورت ہے کہ آدمی زمانے کی تبدیلی کو سمجھے ، اور اس کی رعایت کرتے ہوئے ، اسلامی مشن کی پر امن ری پلاننگ کرے۔ اسی تبدیل شدہ لائحہ عمل کا نام ری پلاننگ ہے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی رہنمائی

قرآن میں انسانی تاریخ کا ایک اصول ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مَا أَصَابَ مِنْ مُصِیبَةٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِی کِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَہَا إِنَّ ذَلِکَ عَلَى اللَّہِ یَسِیرٌ ۔ لِکَیْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ (57:22-23)۔ یعنی کوئی مصیبت نہ زمین میں آتی ہے اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں، بیشک یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔ تاکہ تم غم نہ کرو اس پر جو تم سے کھویا گیا۔ اور نہ اس چیز پر فخر کرو جو اس نے تم کو دیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو تاریخی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، وہ فطرت کے قوانین کے بنا پر ہوتی ہیں۔ اس کا سبب کسی کی دشمنی یا کسی کی سازش نہیں ہوتا۔ اس لیے جب کسی قوم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کا صحیح رسپانس یہ نہیں ہے کہ کھوئی ہوئی چیز پر غم کیا جائے۔ بلکہ اس کا صحیح رسپانس ہے ہونے والے واقعے کو فطرت کے خانے میں ڈالنا۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ انسان کے اندر صحیح سوچ جاگے گی۔ وہ حقیقت واقعہ کا بے لاگ جائزہ لے گا۔ اس طرح وہ اس قابل بن جائے گا کہ وہ اپنے معاملے کی ری پلاننگ کرے، اور کھوئی ہوئی چیز کو نئے عنوان سے از سر نو حاصل کرلے۔
پیغمبر اسلام کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ احد کی جنگ میں آپ کے ساتھیوں کو شکست ہوئی تھی۔ اس کے بعد آپ اور آپ کے ساتھی غم میں نہیں پڑے، بلکہ انھوں نےسارے معاملے پر از سر نو سوچنا شروع کیا ۔ اس طرح ان کے اندر یہ سوچ ابھری کہ وہ جنگ کے میدان کو چھوڑ دیں۔ وہ یہ کریں کہ ہر قیمت پر فریقین کے درمیان امن کا ماحول قائم ہوجائے، اور پھر امن کے اصولوں پر اپنے عمل کی ری پلاننگ کریں۔ حدیبیہ کا معاہدہ جو سن 6 ہجری میں پیش آیا، وہ گویا اسی قسم کی ری پلاننگ کا معاملہ تھا۔ یہ اسٹراٹیجی کامیاب ہوئی، اور بہت کم مدت میں اہل اسلام کو مزید جنگ کیے بغیر غلبہ حاصل ہوگیا۔ یہی وقت دوبارہ اہل اسلام پر آگیا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس احساس میں مبتلا ہیں کہ وہ فریق ثانی کے مقابلے میں شکست کھا چکے ہیں۔ اس احساس نے ان کو غم میں مبتلا کردیا ہے۔ موجودہ زمانے میں خود کش بمباری جیسے واقعات اسی قسم کی مایوسی کے تحت پیدا شدہ فرسٹریشن کا نتیجہ ہیں۔
اکیسویں صدی میں مسلمانوںکو یہ موقع ہے کہ وہ حدیبیہ کی تاریخ کو دوبارہ نئے عنوان کے ساتھ دہرائیں، اور دوبارہ فتح مبین (الفتح 1:) کی تاریخ کو دہرائیں۔ یہ دوسری فتح مبین بلاشبہ ممکن ہے، لیکن سیاسی معنی میں نہیں ، بلکہ غیر سیاسی معنی میں۔موجودہ زمانے میں صلح حدیبیہ جیسے حالات زیادہ بڑے پیمانے پر وقوع میں آگیے ہیں۔ قدیم زمانے میں جو مواقع محدود طور پر دس سالہ معاہدہ کے ذریعہ حاصل ہوئے تھے، اب وہ یونیورسل نارم (universal norm)بن چکے ہیں۔ اب وہ مواقع خود عالمی حالات کے ذریعہ پیداہوچکے ہیں۔ اب اس کی ضرورت نہیں ہے کہ گفت و شنید کے ذریعے کوئی حدیبیہ جیسا متعین معاہدہ کیا جائے۔ اب وہ تمام چیزیں مستقل طور پر عملاً حاصل ہوچکی ہیں، جو قدیم زمانے میں دس سالہ معاہدہ کے ذریعہ محدود طور پر حاصل ہوئے تھے۔
معاہدۂ حدیبیہ کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ اہل اسلام کو آزادانہ طور پر اپنا پرامن دعوتی مشن جاری کرنے کا موقع مل جائے۔ اب اقوام متحدہ (UNO) میں تمام قوموں کے مشترک معاہدہ کے تحت ہر قسم کی آزادی کا حق حاصل ہوچکا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ مسلمان تشدد کو چھوڑ دیں، اور پر امن طریقہ کار کے ذریعہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔
اب کسی قوم کو اپنا سیاسی اقتدار قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ پچھلے زمانے میں جو کام سیاسی اقتدار کے ذریعہ ہوتا تھا، اب وہ تنظیم (organization) کے ذریعہ انجام دینا ممکن ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں جس کام کے لیے فوج کشی کرنی پڑتی تھی ، اب وہ کام کمیونی کیشن کے ذریعہ انجام دنیا ممکن ہوگیاہے۔ پہلے زمانے میں جس کام کے لیے کسی بادشاہ کا تخت چھیننا پڑتا تھا، اب وہ سب کچھ یونیورسل نارم کے تحت پر امن طریقہ کار کے ذریعہ انجام دینا ممکن ہو گیا ہے۔ پہلے زمانے میں جس کام کے لیے اپنا سیاسی رقبہ (political area) بڑھانا پڑتا تھا، اب ا س کو ایک کمپیو ٹرائزڈ آفس میں بیٹھ کر آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ انجام دینا ممکن ہوگیا ہے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

انسانِ اول کی مثال

خالق نے جب آدم (پہلے انسان) کو پیدا کیا تو ان کو اور ان کی بیوی حوا کو جنت میں بسایا۔ مگر آدم اپنے عہد پر قائم نہیں رہے۔ انھوں نے منع کرنے کے باوجود شجر ممنوعہ (forbidden tree) کا پھل کھا لیا۔ اس کے بعد ان کو اور ان کی بیوی ، دونوں کو جنت سے نکلنا پڑا۔ پھر دونوں کے اندر توبہ (repentance) کا جذبہ پیدا ہوا۔ وہ خالق سے معافی کے طالب ہوئے۔ اس کے بعد دونوں کے لیے یہ مقدر کیا گیا کہ اگر وہ ایمان اور عمل صالح کا ثبوت دیں تو ان کو جنت میں دوبارہ داخلہ (re-entry) ملے گی۔
اس کا مطلب بظاہر یہ تھا کہ ابتدائی منصوبہ کے مطابق جنت تمام انسانوں کے لےعمومی طور پر مقدر کی گئی تھی۔ لیکن جب آدم اپنے عہد پر قائم نہیں رہے ، اور انھوں نے وہ کام کیا جس سے انھیں منع کیا گیا تھا، تو خالق نے انسان کے بارے میں دوسرا اصول مقرر کیا۔ یہ اصول انتخاب (selection) کی بنیاد پر تھا۔ یعنی پہلے اگر ہر مرد اور ہر عورت کے لیے جنت کا حصول ممکن تھا ، تو اب یہ اصول قرار پایا کہ جو عورت اور مرد امتحان (test) میں پورے اتریں۔ ان کا انتخاب کرکے ان کو جنت میں داخلہ دیا جائے، اور جو لوگ امتحان میں پورے نہ اتریں، وہ ہمیشہ کے لیے جنت سے محروم قرار پائیں گے۔ یہ واقعہ انسان کے لیے ایک ابدی سبق تھا۔ اب انسان کے لیے کامیابی کا راستہ صرف یہ تھا کہ اگر اس کا پہلا منصوبہ کام (work) نہ کرے تو وہ کسی غیر متعلق مشغولیت میں اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ وہ صرف ایک کام کرے— حالات کا ازسر نو جائزہ لینا، اور اپنے عمل کو نئے منصوبہ کے تحت دوبارہ مرتب کرنا۔
یہ واقعہ انسانی تاریخ کے آغاز میں پیش آیا۔ اس طرح خالق نے انسان کو یہ سبق دیا کہ دنیا کے حالات میں باربار ایسا ہوگا کہ تم کسی نہ کسی سبب سے پہلے موقع (1st chance) کو کھودو گے۔ اس وقت تمھیں منفی سوچ میں مبتلا نہیں ہونا ہے، بلکہ حاصل شدہ تجربے کی روشنی میں تم کو اپنے کام کی ری پلاننگ (re-planning) کرنا ہے۔ یہی تمھارے لیے اس دنیا میں کامیابی کاراستہ ہے۔
انسان کو موجودہ دنیا میں مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اس بنا پر یہاں انسان کے لیے حالات ہمیشہ موافق نہیں رہتے۔ اس دنیا میں انسان کو ناموافق حالات میں راستہ بناتے ہوئے اپنا سفر کرنا ہے۔ یہ اصول سب کےلیے ہے۔ خوا ہ وہ مذہبی ہو یا سیکولر، وہ طاقت ور ہو یا کمزور ۔ یہ حالات ہمیشہ ہر شخص، اور ہر گروہ کے لیے پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں کسی کو ایسا نہیں کرنا ہے کہ وہ کسی اور کو ذمہ دار قرار دے کر اس کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان پربا کرے۔ شکایت اور احتجاج کا طریقہ اس دنیا میں صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی جب یہ دیکھے کہ اس کا پہلا منصوبہ کامیاب نہیں ہوا تو وہ دوسروں کو اس کا ذمہ دار قرار دینے میں اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ بلکہ خود اپنے حالات کا بے لاگ اندازہ کرتے ہوئے اپنے عمل کے لیے نیا منصوبہ بنائے۔
کامیاب ری پلاننگ کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ آدمی اپنی کوتاہی کا اعتراف کرے۔ وہ ناکامی کا سبب خود اپنے اندر تلاش کرے۔ وہ اس حقیقت کو مانے کہ اس کی ناکامی کا سبب خود اس کے اپنے اندر تھا۔ حالات کا وہ صحیح اندازہ نہ کرسکا۔ اس لیے اب صرف یہ کرنا ہے کہ وہ حالات کا دوبارہ صحیح اندازہ (re-assessment) کرے، اور اس کی روشنی میں حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے عمل کا نیا منصوبہ بنائے۔
زندگی کے لیے ری پلاننگ کا اصول ایک ابدی اصول ہے۔ وہ اول دن کے لیے بھی تھا، اور بعد کے زمانے کے لیے بھی۔ جب تک انسان کو اس دنیا میں آزادی حاصل ہے، اور جب تک اسباب اپنی جگہ قائم ہیں، ہر اک کو اسی اصول پر اپنا کام کرنا ہوگا۔ جو لوگ اس اصول پر کام کریں، وہ اس دنیا میں کامیاب ہوں گے، اور جو لوگ اس اصول کی پیروی نہ کریں، وہ یقینی طور پر اس دنیا میں کامیابی سے محروم رہیں گے۔
واپس اوپر جائیں

ڈیزرٹ تھرَپی

اللہ رب العالمین نے انسان کو پیدا کرکے کرۂ ارض (planet earth) پر آباد کیا۔ اس کو ہر قسم کے مواقع فراہم کیے۔ اور پھر اس کو پوری آزادی دے دی۔ اب یہ انسان کا اپنا اختیار ہے کہ وہ خوا ہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو ابدی کامیابی کا مستحق بنائے ، اور اگر وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال (misuse) کرتا ہے تو اس کے لیے تخلیقی منصوبہ کے مطابق ابدی ناکامی کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔
اللہ رب العالمین نے انسان کو عقل دی۔ اس کے اندر حق اور باطل کی تمیز رکھی۔ اس کے بعد خالق نے یہ انتظام کیا کہ ہر قوم میں اور ہر ہر علاقے میں اپنے رسول بھیجے۔ جو انسان کو اس کی اپنی قابل فہم زبان میں حق اور ناحق کا علم دیتے تھے۔ پیغمبروںنے یہ کام اعلیٰ اتمام حجت کی سطح پر انجام دیا۔ مگر انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ پیغمبروں کی دعوت کا غیر مطلوب جواب دیا۔ اس واقعے کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: یَاحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا یَأْتِیہِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا کَانُوا بِہِ َیَسْتَہْزِؤوْنَ (36:30)۔ یعنی افسوس ہے بندوں کے اوپر، جو رسول بھی ان کے پاس آیا وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔
اللہ رب العالمین کو اپنے نقشۂ تخلیق (creation plan) کے مطابق یہ منظور نہیں تھا کہ وہ انسان کی آزادی کا خاتمہ کردے۔ اس لیے اس نے یہ کیا کہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، ہدایت کا ایک نیا نقشہ بنایا۔ اس نئے نقشے کی تکمیل کے لیے اللہ رب العالمین نے ابراہیم اور ان کی ذریت کو چنا۔ جن کا زمانہ 2324-1850 ق م کے درمیان ہے۔ یہ گویا رب العالمین کی طرف سے ہدایت کی ری پلاننگ کا معاملہ تھا۔
پیغمبر ابراہیم قدیم عراق میں پیداہوئے۔ وہاں انھوں نے لوگوں کو سچائی کا راستہ دکھایا۔ لیکن قدیم عراق کے باشندے جو اس وقت شرک پر قائم تھے، پیغمبر ابراہیم کی پیروی پر راضی نہ ہوسکے۔ آخرکار پیغمبر ابراہیم نے ایک خدائی منصوبہ کے مطابق عراق کو چھوڑ دیا۔ وہ اُس صحرائی علاقے میں آکر آباد ہوئے جہاں اب مکہ واقع ہے۔ انھوں نے اس صحرائی علاقہ میں اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو آباد کردیا۔ جب کہ اس وقت وہاں صحرا کے سوا کچھ نہ تھا۔
اس نئی منصوبہ بندی کو ایک لفظ میں صحرائی منصوبہ بندی (desert therapy) کہا جاسکتا ہے۔ یہ صحرائی ماحول اگرچہ انسانی آبادی کے لیے انتہائی حد تک غیر موافق تھا۔ مگر نئی پلاننگ کے لیے یہ سب سے زیادہ موزوں علاقہ تھا۔ اس صحرائی ماحول میں فطری طور پر ایسا ہوا کہ ایک نئی نسل بننا شروع ہوئی، جو تمدن کے اثرات سے دور تھی، اور فطرت کے ماحول کے سوا کوئی اور چیز اس پر اثر انداز ہونے کے لیے موجود نہ تھی۔ فطرت کے اس ماحول میں اسماعیل ابن ابراہیم نے ایک قبیلہ میں شادی کی، اور پھر توالد و تناسل کے ذریعہ یہاں ایک نئی نسل بننا شروع ہوئی۔ اس صحرائی منصوبہ بندی کا ذکر حدیث میں ایک طویل روایت (صحیح البخاری، حدیث نمبر3364)کے تحت کیا گیا ہے۔ یہ ابراہیمی سنت ایک منصوبے کے بعد دوسرا منصوبہ بنانے کا معاملہ تھا۔ اس کے ذریعہ یہ مطلوب تھا کہ ایک نئی جاندار نسل تیار ہو، جو اپنی فطرت پر قائم ہو، اور اس بنا پر وہ سچائی کے پیغام کو آسانی کے ساتھ سمجھ جائے، اور اس کو اختیار کرلے۔یہی وہ نسل ہے جس کے اندر پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ پیدا ہوئے۔ وہ لوگ جن کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے، وہ سب اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
توقع کے مطابق یہ منصوبہ کامیاب رہا۔ رسول اور اصحاب رسول نے دعوتی جدو جہد کے ذریعہ ایک گروہ تیار کیا۔ اس گروہ نے توحید کی بنیاد پر کام کرکے ایک انقلاب برپا کیا۔ اس گروہ نے تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ ان کی قربانیوں کے نتیجے میں یہ ہوا کہ پہلی بار انسانی تاریخ میں ایک انقلابی عمل (revolutionary process) جاری ہوا، جس نے تاریخ کو بدل دیا۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک طرف دورِ شرک کا خاتمہ ہوا۔ اسی کے ساتھ دوسری طرف اس کے نتیجے میں نیچر میں آزادانہ تحقیق کا مزاج پیدا ہوا، اس کے بعدتاریخ میں وہ دور آیا جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔ تاریخ میں یہ انقلاب ری پلاننگ کے ذریعہ ظہور میں آیا۔
واپس اوپر جائیں

ہجرت مدینہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید کا مشن تھا۔ یعنی شرک کی آئڈیالوجی کے بجائے دنیا میں توحید کی آئڈیالوجی کو ظہور میں لانا۔ آپ نے اپنا مشن 610 عیسوی میں قدیم مکہ میں شروع کیا۔ اس وقت مکہ میں شرک کا کلچر تھا۔ مشرک سرداروں کو ہر اعتبار سے غلبہ کا مقام ملا ہوا تھا۔ تیرہ سال کی مخالفت کے بعد آخر کار انھوں نے رسول اللہ کوعملاً الٹی میٹم دے دیا کہ آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر مکہ سے چلے جائیں، ورنہ ہم آپ کو قتل کردیں گے۔
پیغمبر اسلام کےلیے یہ ایک بحران (crisis)کا لمحہ تھا۔ مگر آپ نے رد عمل (reaction) کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ حالات کا بے لاگ جائزہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ آپ خاموشی سے مکہ چھوڑ دیں، اور یثرب چلے جائیں۔ جو کہ قدیم عرب کے تین بڑے شہروں میں سے ایک تھا، اور مکہ سے تقریبا 500 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔پیغمبر اسلام نے جب مکہ کو چھوڑنےکا فیصلہ کیا۔ اس وقت آپ نےاپنے اصحاب سے ایک بات کہی تھی۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری (حدیث نمبر1871)اور صحیح مسلم (حدیث نمبر1382)کے مشترک الفاظ یہ ہیں:أمرت بقریة تأکل القرى، یقولون یثرب، وہی المدینة ۔ یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے، جو بستیوں کو کھاجائے گی۔ لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، اور وہ مدینہ ہے۔
اس حدیثِ رسول پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں باعتبار معنی ہجرت مدینہ سے مراد مشن کی ری پلاننگ ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ آپ نےمدینہ پہنچ کر مکہ والوں کے خلاف کسی قسم کی منفی روش اختیار نہیں کی۔ بلکہ مکہ والوں کے سلوک کو بھلا کر انتہائی مثبت انداز میں اپنے مشن کی نئی منصوبہ بندی کی۔ تفصیل کے لیےملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتابیں،پیغمبر انقلاب اور سیرت رسول۔
مثلا ً عرب میں پھیلے ہوئے قبائل کی طرف کثرت سے دعوتی وفود بھیجنا ، عرب کے باہر ملوک و سلاطین کے نام دعوتی خطوط بھیجنا۔ قریش کی یک طرفہ شرطوں کو مانتے ہوئے ان سے امن کا معاہدہ کرنا، قریش نے یک طرفہ طور پر حملہ کرکے آپ کو جنگ میں الجھانا چاہا، لیکن آپ نے دانش مندی کے ساتھ ان کو مینج کیا، اوران کے حملوں کو جھڑپ (skirmish) بنادیا، وغیرہ۔ یہ سب آپ نے اس لیے کیا تاکہ مشن کی ری پلاننگ کے لیے آپ نےجو عمل (process)جاری کیا تھا، وہ بلارکاوٹ جاری رہے۔
پیغمبر اسلام کی اپنے مشن کی یہ ری پلاننگ پوری طرح کامیاب رہی۔ ہجرت کے آٹھویں سال یہ معجزاتی واقعہ ہوا کہ مکہ میں کسی جنگ کے بغیر آپ کو دوبارہ فاتحانہ داخلہ مل گیا۔ یہ واقعہ بھی اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے کہ جب آپ کو مکہ پر غلبہ حاصل ہوگیا اور مکہ کے سردار آپ کے پاس لائے گیے۔ یہ لوگ بین اقوامی اصطلاح کے مطابق جنگی مجرمین (prisoners of war) تھے۔ مگر آپ نے ان کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہیں کی، بلکہ یہ کہہ کر سب کو چھوڑ دیا :أقول کما قال یوسف:لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم وہو أرحم الراحمین [12:92]. قال:فخرجوا کأنما نشروا من القبور فدخلوا فی الإسلام (سنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر 18275) ۔ یعنی میں وہی کہتا ہوں جو یوسف نے کہا: تم پر کوئی الزام نہیں ، اللہ تم کو معاف فرمائے، اور وہ بہت رحم کرنے والا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ حرم سے نکلے گویا کہ وہ قبروں سے نکلے ہوں، پس وہ اسلام میں داخل ہوگیے۔
قدیم مکہ کے سردار یہ جانتے تھے کہ ان کا کیس ظلم کا کیس ہے۔ اس کے باوجود پیغمبر اسلام نے ان سب کو یک طرفہ طور پر معاف کردیا ۔ اس سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان سرداروں میں ندامت کا جذبہ فطری طور پر پیدا ہوگیا، اور وہ پیغمبر اسلام کے ساتھی بن گیے۔ اس کے برعکس، اگر آپ ان سے انتقام کا معاملہ کرتے تو یقیناً ان کے اندر جوابی انتقام کا ذہن پیدا ہوتا۔ اس طرح دونوں فریقوں کے درمیان انتقام در انتقام (chain reaction) کا ماحول قائم ہوجاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ قانون اسباب کے مطابق پیغمبر اسلام کا پرامن مشن اپنے پہلے ہی تجربے میںغیر ضروری مشکلات کا شکار ہوجاتا۔ مگر اس اعلیٰ سلوک کی بنا پر پیغمبر کا مشن بلاتوقف (non-stop) جاری رہا۔
واپس اوپر جائیں

حدیبیہ کا منصوبہ

رسول اور اصحاب رسول نے نبوت کے تیرھویں سال مکہ کو چھوڑ دیا، اور مدینہ کو اپنا مرکز عمل بنا لیا۔ لیکن مکہ کےسرداروں کو یہ بات منظور نہ تھی۔ اب انھوں نے یہ کوشش شروع کی کہ مدینہ پر حملہ کرکے نبوت کے مشن کا خاتمہ کردے۔ اس کے نتیجے میں چند غزوات پیش آئے۔ مثلا ً غزوۂ بدر، غزوۂ احد، وغیرہ۔ ان حملوں کی وجہ سے پیغمبر اسلام کو یہ موقع نہیں مل رہا تھا کہ وہ پر امن حالات میں اپنے مشن کو جاری رکھیں۔
اس کے بعد پیغمبر اسلام نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ ہجرت کے چھٹے سال آپ نے یہ اعلان کیا کہ آپ عمر ہ کے لیے مکہ جائیں گے۔ ایک ہزار چار سو صحابی اس سفر میں آپ کے ساتھ شامل ہوگیے۔ یہ قافلہ جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچا جو مدینہ اور مکہ کے تقریباً درمیان میں واقع ہے۔مکہ کے سرداروں کو خبر ہوئی تو انھوں نے اپنے کچھ لوگوں کو بھیجا کہ وہ محمد اور آپ کے اصحاب کو روکیں، اور یہ بتائیں کہ ہم مکہ میں آپ کا داخلہ نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے بعد حدیبیہ کے مقام دونوں فریقوں کے درمیان گفت و شنید شروع ہوئی۔ یہ گفت و شنید تقریباً دو ہفتہ جاری رہی۔ اس گفت و شنید کے نتیجہ میں فریقین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کو معاہدۂ حدیبیہ (Hudaibiyah Agreement)کہاجاتا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت دونوں فریق اس پر راضی ہوئے کہ ان کے درمیان دس سال تک کوئی لڑائی نہیں ہوگی۔ اس طرح یہ معاہدہ گویا دس سال کے لیے ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا۔ اس معاہدہ کے تحت پیغمبر اسلام کو یہ موقع مل گیا کہ وہ پر امن حالات میں اپنے مشن کی منصوبہ بندی کریں، جو آخر کار قرآن کے الفاظ میں فتح مبین (الفتح 1:) تک پہنچا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ حدیبیہ کا معاہدہ یقیناً فتح مبین (clear victory) کا معاہدہ تھا۔ لیکن یہ معاہدۂ امن کس طرح واقعہ بنا۔ وہ اس وقت واقعہ بنا جب کہ پیغمبر اسلام نےفریق ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طور پر تسلیم کرلیا۔
فریقِ ثانی کی شرطوں کو یک طرفہ طور پر مان لینے کی آخری حد یہ تھی کہ جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو اس پر یہ الفاظ لکھے گیے:ہذا ما صالح علیہ محمد رسول اللہ ۔ فریق ثانی کے نمائندہ نے اعتراض کیا کہ ہم آپ کو رسول نہیں مانتے ، آپ لکھیے محمد بن عبد اللہ ۔ پیغمبر اسلام نے اس مطالبہ کو بلابحث مان لیا، اور حکم دیا کہ معاہدہ کے کاغذ پر لکھا جائے:امح یا علی واکتب:ہذا ما صالح علیہ محمد بن عبد اللہ (مسند احمد، حدیث نمبر3187) ۔
معاہدہ حدیبیہ کے بعد حالات میں انقلابی تبدیلی ہوئی۔ یہاں تک کہ دوسال کے اندر مکہ جنگ کے بغیر فتح ہوگیا— معاہدۂ حدیبیہ اس حقیقت کا اعلان ہے کہ اگر تم فتح چاہتے ہو تو پہلے اپنی شکست کو تسلیم کرو، اگر تم آگے بڑھنا چاہتے ہو تو پہلے پیچھے ہٹنے پر راضی ہوجاؤ، اگر تم چاہتے ہو کہ رسول اللہ کا ٹائٹل صفحۂ عالم پر لکھا جائے تو بوقت ضرورت تم اس کو کاغذ پر مٹانے کے لیے راضی ہوجاؤ۔
پریکٹکل وزڈم کا ایک حکیمانہ اصول ہے، جس کو وقت حاصل کرنے کی تدبیر (buying-time strategy) کہا جاسکتا ہے۔ حدیبیہ میں قیام امن کے لیے فریقِ ثانی کی شرطوں کویک طرفہ طور پر مان لینا گویا یہی تدبیر تھی۔ یہ تدبیر موثر ثابت ہوئی، اور اس کے بعد بہت کم مدت میں عرب میں ایک غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) آگیا۔ یہ واقعہ بھی باعتبارِ حقیقت ری پلاننگ کا ایک واقعہ تھا۔
قدیم زمانے میں ناجنگ معاہدہ عظیم قربانی کے بعد وقتی طور پر حاصل ہوا تھا۔ موجودہ زمانے میں یہ صورت حال ایک یونیورسل نارم (universal norm) کے طور پر دنیا میں قائم ہوچکی ہے۔ 1945میں اقوامِ متحدہ (UNO) کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے تحت دنیا کی تمام قوموں نے اتفاقِ رائے سے یہ مان لیا ہے کہ ہر ایک کو پر امن عمل کی کلی آزادی حاصل ہوگی۔ کوئی قوم دوسری قوم پر حملہ نہیںکرے گی۔ کسی کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ دوسرے کو اپنا ہم خیال بنانے کےلیے اس پر جبر کرے۔ اب تشدد (violence) اصولی طور پر ایک مجرمانہ فعل بن چکا ہے۔بشرطیکہ انسان پوری طرح امن کے اصول پر قائم رہتے ہوئے اپنا کام کرے۔
واپس اوپر جائیں

متعلق اور غیر متعلق میں فرق کرنا

ری پلاننگ ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن اس کی کچھ شرطیں ہیں۔ ایک شرط یہ ہے کہ پلاننگ کے دوران کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو پلاننگ کے عمل (process) میں رکاوٹ ڈالنے والا ہو۔ تاکہ پلاننگ کا عمل بلاتوقف (non-stop) چلتا رہے۔
اس کی ایک مثال کعبہ کی تعمیر کامسئلہ ہے۔ کعبہ کی تعمیرِ اول پیغمبر ابراہیم اور پیغمبر اسماعیل نے تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح میں مکہ میں کی۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ مکہ میں تیز بارش ہوئی ، اس کی وجہ سے کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا۔ اس وقت مکہ پر مشرکین کا غلبہ تھا۔ انھوں نے5 ویں صدی عیسوی میں کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی۔ اہل مکہ نے کسی سبب کے تحت کعبہ کی تعمیر ثانی کے وقت اس کو چھوٹا کردیا۔ انھوں نےاس کے ایک حصے کو غیر مسقف حالت میں کھلا چھوڑدیا، جو کہ ابھی تک اسی طرح موجود ہے۔ کعبہ کےابراہیمی نقشے کے مطابق، کعبہ ایک مستطیل (rectangle) صورت کا تھا۔ تعمیر نو کے وقت قریش کے لوگوں نے کعبہ کو چوکور بنادیا۔جب کہ اس سے پہلے وہ مستطیل تھا۔اس کے کچھ حصے کو انھوں کھلا چھوڑ دیا، جس کو اب حطیم کہا جاتا ہے۔کعبہ کے مقابلے میں حطیم کا ایریا تقریباً ایک چوتھائی ہے۔
کعبہ کے بارے میں پیغمبر اسلام کی ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال لعائشة:الم تری أن قومک لما بنوا الکعبة اقتصروا عن قواعد إبراہیم؟، فقلت:یا رسول اللہ، ألا تردہا على قواعد إبراہیم؟ قال:لولا حدثان قومک بالکفر لفعلت (صحیح البخاری، حدیث نمبر1583)۔ یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عائشہ سے فرمایا کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہاری قوم نے جب کعبہ کی عمارت بنائی، تو ابراہیم کی بنیاد سے اسے چھوٹا کردیا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ پھر آپ اس کو قواعد ابراہیمی کے مطابق کیوں نہیں بنا دیتے ؟ آپ نے فرمایا اگر تمہاری قوم کا کفر کا زمانہ ابھی حال ہی میں نہ گزرا ہوتا تو میں ایسا کردیتا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس فعل کی توجیہ ابن حجر العسقلانی نے ان الفاظ میں کی ہے: رعایةً لقلوب قریش (فتح الباری، 3/457) ۔یعنی قریش کے قلوب کی رعایت میں ایسا کیا۔
اصل یہ ہے کہ مذہب کے معاملے میں لوگ بہت حساس ہوتے ہیں۔ جب کسی مذہبی یادگار پر لمبی مدت گزرجائے تو لوگوں کی نظر میں وہ مقدس بن جاتی ہے۔ اس میں ادنیٰ تغیر کو وہ برداشت نہیں کرتے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اگر کعبہ کی عمارت میں تغیر کرتے تو اندیشہ تھا کہ لوگ اس کا تحمل نہ کرسکیں گے، اور اس کا منفی نتیجہ برآمد ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عرب میں توحید کا دین قائم کرنے کا جو عمل جاری ہے، وہ درمیان میں جپرڈائز (jeopardize) ہوجائے گا، اور اصل مشن کو سخت نقصان پہنچے گا۔
اسلام میں رعایتِ عوام کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس کو قرآن میں تالیف قلب (التوبۃ60:) کہا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تالیف قلب اسلام کا ایک اہم اصول ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتی مشن کے دوران ہمیشہ متعلق (relevant) اور غیر متعلق (irrelevant) کے درمیان فرق کیا۔ آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ ایک غیر اہم چیز کی خاطر آپ اہم کو نظر انداز کردیں۔ آپ کے سامنے ہمیشہ اصل نشانہ ہوتا تھا، اور جو چیز اصل نشانے کی نسبت سے غیر اہم ہو، اس کو آپ ہمیشہ نظر انداز کرکے اصل نشانے پر قائم رہتے تھے۔ یہ اصول ایک دائمی اصول ہے، اور اسی اصول کا نام وزڈم ہے۔ پیغمبر اسلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد راقم الحروف نے وزڈم کی یہ تعریف دریافت کی ہے:
Wisdom is the ability to discover the relevant after sorting out the irrelevant.
ڈاکٹر مائکل ہارٹ (Dr. Michael H Hart) نے اپنی کتاب دی ہنڈریڈ (The 100) میں بتایا ہے کہ پیغمبر اسلام تاریخ کے سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے۔ آپ کی اس عظیم کامیابی کا راز یہی تھا۔ آپ نے اپنے مشن میں ہمیشہ اس وزڈم کو اختیار کیا۔
واپس اوپر جائیں

عملی تقاضا

اسلام میں شورائی سیاست کا نظام اختیار کیا گیاہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں جمہوریت (democracy) کہا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد اسی اصول کی بنیاد پر خلافت کا نظام قائم ہوا۔ مگر تقریباً تیس سال کے بعد لوگوں کو محسوس ہوا کہ خلافت کا نظام عملاً ورک (work) نہیں کررہا ہے۔ سیاست میں اصل چیز استحکام (stability) ہے۔ مگر خلافت کے نظام کے تحت استحکام کا یہ مقصد حاصل نہ ہوسکا۔ چناں چہ چوتھے خلیفہ علی ابن طالب کے بعد مسلم دنیا میں خاندانی حکومت (dynasty) کا طریقہ رائج ہوگیا، اور بعد کی تمام صدیوں میں عملاً مسلمانوں  کے درمیان یہی نظام رائج رہا۔
خاندانی بادشاہت کا نظام جب شروع ہوا، اس وقت صحابہ اور تابعین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اس کے بعد محدثین ، فقہا ء، اور علماء متقدمین کا دور آیا۔ ان تمام لوگوں نے عملاً اس سیاسی تبدیلی کو قبول کرلیا۔ اس کا سبب کیا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اسلام میں سیاست کا اصل مقصود سماجی استحکام (social stability) ہے۔ یہ استحکام خلافت کے نظام کے تحت حاصل نہیں ہورہا تھا۔ لیکن خاندانی حکومت کے تحت وہ حاصل ہوگیا۔ اس لیے پریکٹکل وزڈم کے اصول پر اس کو قبول کرلیا گیا۔
یہ بھی ری پلاننگ کا ایک کیس تھا۔ اسلام کے پہلےدور میں خلافت کا نظام قائم کیا گیا۔ لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ خلافت کا نظام ورک (work) نہیں کررہا ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پچھلی تاریخ کے نتیجے میں لوگوں کا یہ ذہن بن گیا تھا کہ حاکم کے بعد حاکم کی اولاد کو حقِ حکومت (right to rule)حاصل ہوتا ہے۔ اس وقت تک یہ رواج ختم نہیں ہوا تھا۔ اس لیے پرکٹکل وزڈم کا تقاضا تھا کہ خاندانی حکومت کے نظام کو اختیار کرلیا جائے۔ تاکہ کم از کم سیاسی استحکام (political stability) کا مقصد حاصل ہوجائے۔ اس لیے عملی سبب (practical reason)، نہ کہ نظری سبب (theoretical reason) کے تحت خاندانی سیاست کا نظام اختیار کر لیا گیا۔ یہ ری پلاننگ کی ایک مثال ہے ۔تاریخ کے تجربے نے ثابت کیا ہے کہ اس معاملے میں دورِ اول میں لیا ہوا ری پلاننگ کا فیصلہ باعتبارِ حقیقت بالکل درست تھا۔
ری پلاننگ کے معاملے کا تعلق اصول (principle) سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق طریق کار (method) سے ہے۔ طریقِ کار کبھی مطلق (absolute) نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا تعین ہمیشہ عملی افادیت (pragmatism) کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ کی مشہور روایت ہے : ما خیر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بین أمرین، أحدہما أیسر من الآخر، إلا اختار أیسرہما ( صحیح مسلم ،حدیث نمبر 2327)۔ یہاں ایسر کا لفظی مطلب ہے آسان۔ یہاںآسان طریقہ سے مراد وہ طریقہ ہے جو با آسانی قابل عمل ہو۔یعنی وہ طریقہ جو کوئی نیا مسئلہ پیدا نہ کرے، جس پر غیر نزاعی (non-controversial)انداز میں عمل کرنا ممکن ہو۔
اس حدیث سے کامیاب منصوبہ بندی کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ منصوبہ پوری طرح قابل عمل ہو۔ وہ کوئی نزاع پیدا کرنے والا نہ ہو۔ وہ ایک نتیجہ خیز طریقہ کار ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کہنے میں تو وہ ایک خوبصورت بات معلوم ہو، لیکن جب اس کو عمل میں لایا جائے تو وہ صرف مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بن جائے۔حقیقت یہ ہے کہ پہلےمنصوبہ میں اس تجربے کا موقع ہوتا ہے کہ کیا چیز قابل عمل (workable) ہے، اور کیا چیز قابل عمل نہیں۔اس لحاظ سے دوسرے منصوبہ کا فائدہ یہ ہے کہ بے نتیجہ عمل سے اپنے کو بچایا جائے،ا ور صرف نتیجہ خیز پہلووں کو سامنے رکھ کر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ تاکہ پہلا منصوبہ اگر بے نتیجہ ثابت ہوا تھا تو دوسرا منصوبہ نتیجہ خیز ثابت ہو۔ جو مقصد اگر پہلے منصوبہ میں نہیں ملا تھا تو اس کو دوسرے منصوبہ کے تحت حاصل کر لیا جائے۔
اس کے مطابق یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پہلے منصوبہ کے وقت غلطی قابل معافی ہوسکتی ہے۔ لیکن دوسرے منصوبہ کے وقت غلطی قابل معافی نہیں۔ اس اعتبار سے دوسرے منصوبہ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو شروع کیا جائے۔ غلطی کا کھلا اعتراف کیے بغیر دوسری منصوبہ بندی سرے سے منصوبہ بندی ہی نہیں، بلکہ وہ نقصان میں اضافہ کے ہم معنی ہے۔
واپس اوپر جائیں

تاتاری حملے کا واقعہ
تیرھویں صدی میں وسط ایشیا(Central Asia) میں خوارزم کی حکومت تھی۔ منگول سردار چنگیز خاں نے اپنا سفیر سلطان علاءالدین شاہ کے دربار میں بھیجا۔سلطان نے کسی غلط فہمی کی بنا پر تاتاری سفیر کو قتل کردیا۔اس کے بعد چنگیز خان کا غصہ بھڑک اٹھا۔ اس نے قبائل کی فوج کے ساتھ مسلم سلطنت پر حملہ کردیا، اور اس کے پوتے ہلاکو خاں نے تکمیل تک پہنچایا۔ اور سمرقند سے لے کر حلب تک مسلم دنیا کو تاراج کردیا۔
مورخ ابن اثیر نے اس واقعہ کو مسلم تاریخ کا سب سے بھیانک واقعہ قرار دیا ہے۔ اس کے بعد مسلم دنیا میں جوابی کارروائی کا ذہن ابھرا۔ سیاسی سرگرمیاں تیزہو گئیں۔ یہاں تک کہ 1260 میں عین جالوت کی لڑائی پیش آئی۔اس لڑائی سے اس وقت کے مسلمانوں کو جزئی فائدہ ہوا، لیکن وہ تاتاریوں کو مسلم دنیا سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ مسلم دنیا میں یہ کہا جانے لگا : من حدثکم أن التتر انہزموا وأسروا فلا تصدقوہ (الکامل فی التاریخ، 10/353) ۔ یعنی جو تم سے بیان کرے کہ تاتاری شکست کھاگیے اور قید کرلیے گیے تو اس کی تصدیق نہ کرو۔
اس زمانے میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، جو شعوری اعتبار سے مسلمانوں کو ری پلاننگ کا پیغام دے۔ تاہم حالات کا دباؤ (pressure) بھی ایک معلم ہوتا ہے۔ چنانچہ حالات کا معلم ظاہر ہوا، اور ایسے اسباب پیدا ہوئے ، جن کے نتیجے میں اس زمانے کےمسلمانوں میں ایک نیا خاموش عمل (process) جاری ہوگیا۔ یہ عمل اگرچہ بظاہر حالات کا نتیجہ تھا، لیکن عملا ًوہ وہی چیز بن گیا جس کو ہم نے ری پلاننگ کہا ہے۔ یعنی بے فائدہ جنگ کو چھوڑ کر پر امن دعوت کا طریقہ اختیار کرنا۔
اس موضوع پر برٹش مصنف ٹی ڈبلیو آرنلڈ (–1864-1930) نے گہری تحقیق کی ہے۔ طویل تحقیق کے بعد انھوں نے ایک کتاب لکھی، جو 388 صفحات پر مشتمل ہے اور پہلی بار 1896 میں چھپی۔
پروفیسر آرنلڈ نے اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ کس طرح حالات کے دباؤ کے تحت اس وقت کے مسلمانوں میں عملا ًایک نیا ذہن ابھرا۔ یہ مسلح جنگ کے بجائے پر امن دعوت کا ذہن تھا۔ پر امن دعوت کا کام بڑے پیمانے پر تاتاریوں کے درمیان ہونے لگا۔جو آخر کار اس درجے تک پہنچا کہ منگولوں (تاتاریوں) کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فلپ کے ہٹی(Philip K Hitti) نے اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربس میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے مذہب نے وہاں فتح حاصل کرلی جہاں ان کے ہتھیار ناکام ہوچکے تھے:
The religion of the Moslems had conquered where their arms had failed. (1970, p. 488)
پروفیسر حتی کی بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے — مسلمانوں کی پہلی پلاننگ جہاں ناکام ہوگئی تھی، اس کی دوسری پلاننگ نے وہاں کامیابی حاصل کرلی۔ یہ دوسرا پراسس اس واقعہ سے شروع ہوا جس کو پروفیسر آرنلڈ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
This prince, Tūqluq Timūr Khān (1347-1363), is said to have owed his conversion to a holy man from Bukhārā, by name Shaykh Jamāl al-Dīn. This Shaykh, in company with a number of travellers, had unwittingly trespassed on the game-preserves of the prince, who ordered them to be bound hand and foot and brought before him. In reply to his angry question, how they had dared interfere with his hunting, the Shaykh pleaded that they were strangers and were quite unaware that they were trespassing on forbidden ground. Learning that they were Persians, the prince said that a dog was worth more than a Persian. “Yes,” replied the Shaykh, “if we had not the true faith, we should indeed be worse than the dogs.” Struck with his reply, the Khan ordered this bold Persian to be brought before him on his return from hunting, and taking him aside asked him to explain what he meant by these words and what was “faith.” The Shaykh then set before him the doctrines of Islam with such fervour and zeal that the heart of the Khān that before had been hard as a stone was melted like wax, and so terrible a picture did the holy man draw of the state of unbelief, that the prince was convinced of the blindness of his own errors, but said, “Were I now to make profession of the faith of Islam, I should not be able to lead my subjects into the true path. But bear with me a little; and when I have entered into the possession of the kingdom of my forefathers, come to me again.” Later he accepted Islam. (London, 1913, pp. 180-81)
واپس اوپر جائیں

بابری مسجد کا سبق

ایودھیا (انڈیا) میں1528-29ءمیں ایک مسجد کی تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد مغل بادشاہ بابر کے گورنر میر باقی نے تعمیر کرایا تھا۔ اس بنا پر اس کا نام بابری مسجد رکھا گیا تھا۔اس مسجد کے بارے میں اول دن سے ہندووں کو یہ شکایت تھی کہ وہ رام چبوترہ کی زمین پر بنائی گئی ہے۔ اس بنا پر یہ مسجد اول دن سے متنازعہ مسجد تھی۔ اس مسجد کے معاملے میں ہندؤوں کے درمیان ناراضگی پائی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ آزادیٔ ہند (1947) کے بعد بی جے پی کی ایک تحریک کے دوران ا س کو ڈھا دیا گیا۔ یہ واقعہ 6 دسمبر 1992 کو پیش آیا۔ اس کے بعد مسجد کی جگہ ایک عارضی مندر (makeshift temple) بنا دیا گیا۔
اس واقعہ کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں پر شور تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ تمام مسلم رہنماؤں کا یہ متفقہ مطالبہ تھا کہ بابری مسجد کو دوبارہ اس کے سابقہ جگہ پر بنایا جائے۔ راقم الحروف نے محسوس کیا کہ یہ مطالبہ عملا ًایک ناممکن چیز کا مطالبہ ہے۔ اب مسلمانوں کو ایک ایسی چیز کا مطالبہ کرنا چاہیے جو نئے حالات میں قابل عمل مطالبہ ہو۔ چنانچہ میں نے یہ تجویز پیش کی کہ مسلمان بابری مسجد کے ری لوکیشن (relocate) پر راضی ہوجائیں۔ ہندو سائڈ نے اس تجویز کو فوراً مان لیا۔ مگر انڈیا کی مسلم قیادت ، باریش قیادت اور بےریش قیادت، دونوں نے متفقہ طور پر اس کو نامنظور کردیا، اوروہ اس مطالبے پر مصر رہے کہ بابری مسجد کو دوبارہ وہیں بنا یا جائے، جہاں وہ پہلے تھی۔ یہ مطالبہ جدید حالات کے اعتبار سے قطعی طور پر ناقابل عمل تھا۔ چنانچہ تقریباً 25 سال گزرگیے، اور مسلم جانب سے مسلسل کوشش کے باوجود ابھی تک یہ معاملہ غیر حل شدہ حال میں پڑا ہوا ہے۔
اگرمسلم رہنماؤں کو ری پلاننگ کی اہمیت معلوم ہوتی تو وہ فوراَری لوکیشن کی تجویز کو مان لیتے ، اور اب تک وہاں کسی قریبی علاقے میں دوبارہ بابری مسجد کے نام پر ایک اسلامک سینٹر بن چکا ہوتا۔ مسجد کو ری لوکیٹ کرنے کا طریقہ عالم عرب عام طور پر اختیار کیا جا چکا ہے۔ پھر انڈیا کے مسلم رہنماؤں کےلیے یہ کیوں قابل قبول نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عرب دنیا میں کمپلشن (compulsion) کی بنا پر کوئی دوسرا آپشن (option) موجود نہ تھا، جب کہ انڈیا میں آزادی کی بنا پر کوئی جبر موجود نہ تھا، اور مسلم رہنماؤں کو شعوری طور پر یہ معلوم ہی نہ تھا کہ ری پلاننگ بھی اسلام کا ایک مسلمہ اصول ہے۔
اس معاملے میں خود پیغمبر اسلام کے زمانے کی ایک رہنما مثال موجود تھی۔ وہ یہ کہ پیغمبر اسلام کی نبوت سے پہلے قدیم مکہ میں شدید بارش ہوئی ، اور اس بنا پر کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تھا۔ اس وقت قدیم مکہ کے مشرک سرداروں نے کعبہ کی عمارت از سر نو بنائی۔ مگر کسی وجہ سے انھوں نے ایسا کیا کہ کعبہ کے رقبہ کے ایک تہائی حصہ کو غیر مسقف حالت میں چھوڑ دیا، اور بقیہ حصہ میں کعبہ کی موجودہ عمارت بنا دی۔ یہ غیر مسقف رقبہ بدستور سابق حالت میں موجود ہے۔اس اعتبار سے دیکھیے تو خود کعبہ کی موجودہ عمارت گویا کہ ری لوکیشن کی ایک مثال ہے۔ کعبہ کی قدیم عمارت جو حضرت ابراہیم نے بنائی تھی، وہ لمبی عمارت تھی۔ جب کہ کعبہ کی موجودہ عمارت ایک چوکور عمارت ہے۔ یہ گویا کعبہ کی عمارت کو ری لوکیٹ کرنے کی ایک مثال ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پیغمبر اسلام نے اس ری لوکیشن کو عملاً تسلیم کرلیا۔ انھوں نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ کعبہ کو دوبارہ اس کی قدیم بنیاد پر تعمیر کیا جائے۔
ری لوکیشن کا مطلب یہ ہے کہ ایک بلڈنگ کو اس کی جگہ بدل کر نئی جگہ پر اسی ساخت کے مطابق بنادیا جائے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں لوگوں نے جگہ جگہ مسجدیں بنا لی تھیں۔ بیسویں صدی میں جب عربوں کے پاس تیل کی دولت آئی تو انھوں نے اپنے شہروں کو پلاننگ سٹی کے انداز میں ڈیولپ کرنا شروع کیا۔ اس تعمیری منصوبہ میں جگہ جگہ مسجدیں حائل ہورہی تھیں۔ تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسجدوں کو ری لوکیٹ کرکے شہری منصوبہ کی تکمیل کی جائے۔ یہ منصوبہ علماء کے فتویٰ کے مطابق تھا۔ چنانچہ عرب ملکوں میں بڑی تعداد میں مسجدیں ری لوکیٹ کی گئیں، اور ہر جگہ کے علماء نے اس کو ایک درست عمل کے طور پر تسلیم کرلیا۔ عرب دنیا کی یہ نظیر کافی تھی کہ ہندوستان میں بھی اس کو اختیار کرلیا جائے۔ مگر ہندوستانی علماء کےعدم اتفاق کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کی ری پلاننگ

دعوت الی اللہ اسلام کا اہم ترین مشن ہے۔ دعوت کے دو دور ہیں۔ آغاز سے ظہور سائنس تک، ظہور سائنس کے بعد اکیسویں صدی تک۔ جدید سائنس سے پہلے دعوت اسلام کا کام استدلال کے اعتبار سے معجزہ (miracle) کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ اس کو قرآن میں بینات (الحدید 25:) کہا گیا ہے۔ دوسرے دور میں دعوت کا کام استدلال کے اعتبار سےسائنسی شہادت (scientific evidence) کی بنیاد پر انجام پانا ہے۔ یہ سائنسی شہادت وہی چیز ہے جس کو قرآن میں آیات آفاق و انفس (فصلت53:) کے الفاظ میں پیشگی طور پر بیان کردیاگیا ہے۔
ماڈرن سائنس کوئی اجنبی چیز نہیں۔ یہ دراصل فطرت (nature) کے اندر چھپے ہوئے حقائق کو دریافت کرنے کا نام ہے۔ فطرت میں یہ مخفی دلائل اسی لیے رکھ دیے گیے تھے کہ وقت آنے پر ان کو دریافت کرکے دعوت کےحق میں استدلالی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اب آخری طور پر وہ زمانہ آگیا ہے، جب کہ اس استدلالی بنیاد کو دعوت حق کے لیے استعمال کرکے دعوت حق کا وہ اعلیٰ استدلالی کام انجام دیا جائے جس کو حدیث میں شہادت اعظم (صحیح مسلم ، حدیث نمبر2938) کہا گیاہے۔
موجودہ زمانے میں سائنسی دلائل کی بنیاد پر دعوت کےاس کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ راقم الحروف نے اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کیا ، اور درجنوں چھوٹی بڑی کتابیں اس موضوع پر لکھی۔ ان میں سے ایک مذہب اور جدید چیلنج ہے جو پہلی بار 1966 میں چھپی تھی۔ اس کتاب کا ترجمہ اکثر بڑی بڑی زبانوںمیں ہوچکا ہے۔ مثلا عربی میں الاسلام یتحدی (1970)، اور انگریزی میں گاڈارائزز (1988) ،وغیرہ۔اس موضوع پر مسیحی علماء نے کافی کام کیا ہے۔ مثلا چالیس امریکی سائنسدانوں کے مقالات پر مشتمل ایک کتاب چھپی ہے:
The Evidence of God in an Expanding Universe
یہ کتاب پہلی بار 1958 میں امریکا سے چھپی ہے۔ اس کے بعد اس کتاب کا عربی ترجمہ اللہ یتجلی فی عصر العلم (1987، مصر ) کے نام سے چھپا۔ اس موضوع پر ایک اور قابل ذکر کتاب قرآن بائبل اورسائنس (The Bible, the Quran, and Science)ہے۔ یہ کتاب اولاًڈاکٹر ماریس بوکائی نے فرانسیسی زبان میں تیار کی ۔اس کے بعد اس کتاب کا ترجمہ انگریزی و دیگر زبانوں میں ہوا۔عربی زبان میںاس کتاب کا ترجمہ چھپ چکا ہے۔ اس کا ٹائٹل ہے :التوراة والإنجیل والقرآن والعلم(بیروت، 1407ھ) —تاہم اس کام کی تکمیل کےلیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات سے جو باتیں معلوم ہوئی ہیں، وہ ہم کو ایک نیا فریم ورک (framework) دے رہی ہیں۔ اس فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے، یہ ممکن ہوگیا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو وقت کےمسلمہ علمی معیار پر ثابت شدہ بنایا جا سکے۔
جدید سائنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام کا علم کلام ہے۔ جدید سائنس نے وہ ڈیٹا (data) فراہم کردیا ہے جس کی بنیاد پر اسلام کی تعلیمات کو وقت کے مسلمہ معیار کی بنیاد پر پیش کیا جائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جدید سائنسی دور قرآن کی ایک آیت کی پیشین گوئی کا واقعہ بننا ہے۔ وہ آیت یہ ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ (41:53) ۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔
قرآن کی اس آیت میں آفاق و انفس کی نشانیوں کے ظہور سے مراد یہ ہے کہ مستقبل میں سائنسی مطالعہ کے ذریعہ فطرت کے قوانین (laws of nature) دریافت ہوں گے، اور ان دریافتوں کے ذریعے یہ ممکن ہوجائے گا کہ اسلامی حقیقتوں کو اعلیٰ عقلی معیار پر ثابت شدہ بنایا جاسکے۔دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں ایسی حقیقتوں کی دریافت ہو گی، جن کی بنیاد پر یہ ممکن ہوجائے گا کہ اسلامی علم کلام کو وقت کے مسلمہ اصولوں کی بنیاد پر مدوّن کیا جاسکے۔
واپس اوپر جائیں

دانش مندی کی ضرورت

ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:الکلمة الحکمة ضالة المؤمن، فحیث وجدہا فہو أحق بہا (سنن الترمذی، حدیث نمبر2687)۔ یعنی حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے، وہ جہاں اس کو پائے اس کو لے لے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکمت کی بات کوئی مذہبی عقیدے کی بات نہیں ۔ ہر انسان اس کو کہیں سے بھی لے سکتا ہے، اور اس کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ یہ تعلیم بہت زیادہ اہم ہے۔ اس سے ری پلاننگ کا دائرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی گروہ کے لیے ری پلاننگ کا وقت آئے تو وہ اپنے اور غیر میں کوئی فرق نہ کرے۔ وہ ہر حکمت کو خود اپنی چیز سمجھے۔ وہ ہر حکمت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے عمل کی ری پلاننگ کرے۔
ری پلاننگ کے اصول کو پیشگی طور پر متعین نہیں کیا جاسکتا۔ ری پلاننگ ہمیشہ بدلے ہوئے حالات میں کی جاتی ہے۔ اور بدلے ہوئے حالات کو سمجھنے کا تعلق عقیدہ سے نہیں ہے، بلکہ فہم و بصیرت سے ہے۔ ہر آدمی کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے حالات کا بے لاگ جائزہ لے۔ وہ فطرت کے اٹل اصولوں کی معنویت کو دوبارہ دریافت کرے۔ اس طرح یہ ممکن ہوگا کہ وہ فطرت کے نظام میں کوئی خلل ڈالے بغیر اپنے مقصد کی تکمیل کرسکے۔
اس اصول کی مثال خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود ہے۔ہجرت کے پانچویں سال جب کہ پیغمبر اسلام مدینہ میں تھے، آپ کو معلوم ہوا کہ قریش کے لیڈر تمام عرب سےبارہ ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ آپ نے اپنےاصحاب کو جمع کرکے مشورہ کیا کہ لڑائی کے بغیر اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ آپ کے ساتھیوں میں ایک سلمان فارسی تھے، جو ایران سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں جب بادشاہ لوگ جنگ کو اوائڈ (avoid) کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے اور مخالف کے درمیان خندق (trench) کھود دیتے ہیں۔اس طرح فریقَین کے درمیان ایک بفر (buffer) قائم ہوجاتا ہے، اور دونوں کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آتی۔ پیغمبر اسلام نے اس کو پسند کیا، اور رات دن کی کوشش سے مدینہ کے ایک طرف جو کھلا ہوا تھا، لمبی خندق کھود دی۔اس طرح فریقین کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آئی۔
پیغمبر اسلام کا یہ عمل ری پلاننگ کی ایک مثال ہے۔ کیوں کہ اس سے پہلے فریقین کے درمیان براہ راست ٹکراؤ کی نوبت آجاتی تھی۔ جنگ کو ٹالنے کا یہ طریقہ جو اس وقت اختیار کیا گیا، وہ اس بات کی مثال تھی کہ دوسرے کے طریقے کی پیروی کرنا بھی اتنا ہی درست ہے جتنا کہ خود اپنے مقرر کیے ہوئے طریقے پر عمل کرنا۔ کامیابی حاصل کرنےکے لیے دونوں طریقے یکساں طور پراہم ہیں۔
اس سلسلے کی ایک مثال وہ ہے جس کا اشارہ قرآن کی ایک آیت میں ملتا ہے۔ وہ آیت یہ ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا أَنْصَارَ اللَّہِ کَمَا قَالَ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِّینَ مَنْ أَنْصَارِی إِلَى اللَّہِ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّہِ (61:14)۔ یعنی اے ایمان والو، تم اللہ کے مددگار بنو۔ جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا، کون اللہ کے واسطے میرا مددگار ہوتا ہے۔ حواریوں نے کہا ہم ہیں اللہ کے مددگار۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حواریین (مسیحیوں ) نے جو طریقہ اختیار کیا، اس طریقے میں اللہ کی مدد آتی ہے، اور اللہ کی مدد سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ مسیحی لوگوں کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انھوں نے پرنٹنگ پریس کے زمانے کو پہچانا، اور بائبل کا ترجمہ مختلف زبانوں میں تیار کرکے اس کو ساری دنیا میں پھیلادیا۔
صحابہ کے دور میں پرنٹنگ پریس موجود نہ تھا۔ صحابہ قرآن کو پڑھ کر لوگوں کو سنایا کرتے تھے۔ موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے۔ اب ضرورت ہے کہ مسیحی پیٹرن پر قرآن کے ترجمے مختلف زبانوں میں تیار کیے جائیں،اور ان کو چھاپ کر ساری دنیا میں پہنچادیا جائے۔ گویا کہ اصحاب رسول مقری آف قرآن بنے تھے، اب ہمیں ڈسٹری بیوٹر آف قرآن بننا ہے— یہ اشاعت قرآن کے معاملے میں ری پلاننگ کی ایک مثال ہے۔
واپس اوپر جائیں

دور جدید

دور جدید کے مسلمانوںکا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت بڑے پیمانے پر اس ذہنیت کا شکار ہیں ، جس کو اناکرونزم(anachronism) کہا جاتا ہے، یعنی خلاف زمانہ حرکت۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کو ماضی سے کام کا جو ماڈل وراثتی طور پر ملا ہے ، وہ ابھی تک اس سے باہر نہیں آئے۔ وہ زمانے سے بے خبری کی بنا پر قدیم ماڈل کو جدید دور میں دہرارہے ہیں۔ مگر یہ طریقہ کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں۔
مثلا قدیم زمانے میں اصلاح کے لیے فتویٰ کی زبان رائج تھی۔ آج کے علماء بدستور اسی ماڈل کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسی بنا پر وہ تکفیر کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ جس کو غلط سمجھتے ہیں ، اس کے خلاف کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں، اور اس کو قابل گردن زدنی ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ حالاں کہ اب کسی بھی درجے میں ان طریقوں سے کوئی اصلاح ہونے والی نہیں۔ یہ زمانہ عقلی استدلال (rational argument) کا زمانہ ہے۔ اب آج کے لوگوں کے لیے صرف عقلی استدلال مؤثر ہوسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں فتویٰ کی زبان ورک (work) کرنے والی نہیں۔
اسی طرح موجودہ زمانے کے مسلمان بڑے پیمانے پر اسلامی مقصد حاصل کرنے لیےجہاد کے نام پر تشدد کی تحریکیں چلارہے ہیں۔ حالاں کہ اب وہ زمانہ ختم ہوچکا ہے جب کہ تشدد کا طریقہ مؤثر ہوا کرتا تھا۔ موجودہ زمانے میں کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کے لیےامن کا طریقہ پوری طرح کافی ہے۔اسی طرح مسلمانوں کا ایک طبقہ اسلام کی اشاعت کے نام پر مناظرہ (debate) کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ حالاں کہ موجودہ زمانے میں مناظرہ کا طریقہ ایک متروک طریقہ بن چکا ہے۔ موجودہ زمانے میں اس کام کے لیے ڈسکشن اور ڈائلاگ کی اہمیت ہے، نہ کہ ڈیبیٹ کی۔
اسی طرح بہت سےمسلم رہنما امت کی ترقی کے لیے احتجاجی صحافت اور احتجاجی قیادت کے ماڈل پر کام کررہے ہیں، مگران کو معلوم نہیں کہ صحافت اور قیادت کے لیے یہ ماڈل اب آخری حد تک بے اثر ہوچکا ہے۔ موجودہ زمانے میں احتجاجی صحافت اور احتجاجی قیادت صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے وہ کوئی کام ہی نہیں، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں جو مسلم رہنما امت کے کاز (cause)کے لیے کام کرنے اٹھے، وہ صرف اپنے داخلی جذبہ کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے باقاعدہ مطالعے کے ذریعہ یہ جاننے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ موجودہ زمانہ کیا ہے، اور موجودہ زمانے میں کوئی کام موثر طور پر کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو صرف ایک کتاب کے مطالعے کا مشورہ دوں گا۔اس کتاب کا ٹائٹل یہ ہے:
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West (1965, pp 132)
مسلم رہنماؤں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ دورِ جدید کو دشمن اسلام دور سمجھتے ہیں۔ یہ سرتاسر بے بنیاد بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دور جدید پورے معنوں میں ایک موافق اسلام دور ہے۔ وہ اس حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ غیر مسلم قومیں اسلام کی مؤید (supporter) بن جائیں گی (مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔
یہ خود اللہ رب العالمین کے منصوبے کا معاملہ ہے۔ پیغمبر اسلام کے ظہور سے تقریبا ًڈھائی ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم کےذریعہ ایک منصوبہ جاری کیا گیا تھا۔ جس کو مبنی بر صحرا منصوبہ (desert-based planning) کہا جاسکتا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعہ عرب میں ایک ٹیم تیار ہوئی۔ یہ ٹیم موافق اسلام ٹیم تھی۔ اس ٹیم پر عمل کرکے پیغمبر اسلام نے اصحاب رسول کو تیار کیا، جن کو قرآن میں خیر امت (آل عمران101:) کہا گیا ہے۔ اسی طرح ساتویں صدی عیسوی میں رسول اور اصحاب رسول کی جدو جہد کے ذریعہ ایک نیا تاریخی عمل (historical process) جاری ہوا۔ اس عمل کے سیکولر نتیجے کے طور پر جدید تہذیب (modern civilization) وجود میں آئی۔ یہ تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک موافق اسلام تہذیب تھی۔ مگر مسلم رہنما اس راز کو نہ سمجھ سکے، اور غیر ضروری طور پر انھوں نےاس کے خلاف لڑائی چھیڑ دی۔ حالاں کہ ضرورت تھی کہ اس تہذیب کی بنیاد پر اسلامی مشن کی نئی پلاننگ کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

صلیبی جنگیں

صلیبی جنگیں (Crusades)تاریخ کا ایک طویل جنگی سلسلہ تھا ، جو 1095 ءمیں شروع ہوا، اوروقفہ وقفہ سے 1291 ءتک جاری رہا۔اس زمانے میں بیت المقدس کا علاقہ مسلم حکومت کے ماتحت تھا۔ اس علاقے کو مسیحی لوگ مقدس علاقہ (holy land) کہتے ہیں۔ یہ علاقہ پہلےرومی سلطنت میں تھا، اس کے بعد عمر بن خطاب کے زمانے میں وہ مسلم سلطنت میں شامل ہوا۔
صلیبی جنگوں کے موقع پر تقریبا ًپورے مسیحی یورپ نے مل کر حملہ کیا، تاکہ وہ اس مقدس علاقے کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے سکیں۔ مگر متحدہ کوشش کے باوجود اس محاذ پر ان کو کامل شکست ہوئی۔ اس واقعے کو مورخ گبن نے ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) قرار دیا ہے۔
مگر تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ ہے کہ صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد مغرب کی مسیحی قوموں نےہار نہیں مانی، بلکہ ان کے اندر ایک مثبت اسپرٹ جاگ اٹھی۔ انھوں نے صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد اپنے میدان عمل کو بدل دیا، اور جنگ کے میدان کے بجائے پر امن تحقیق کو اپنا میدان بنا لیا۔ ایک مبصر نے اس کو اسپریچول کروسیڈس(spiritual crusades) کا نام دیا ہے۔
اس پر امن کروسیڈس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب کے مسیحی اہل علم تاریخ میں ایک نیا دور لانے میں کامیاب ہوگیے۔ یہ وہی دور ہے جس کو scientific age کہا جاتا ہے۔ انھوں  نے اپنی ساری توجہ فطرت (nature)کی تحقیق پر لگا دی۔ اس کے نتیجے میں فطرت کے اندر چھپی ہوئی ٹکنالوجی پہلی بار انسان کے علم میں آئی۔ اسلام نے اعلان کیا تھا کہ نیچر پرستش کا موضوع نہیں ہے، بلکہ وہ تحقیق کا موضوع ہے (الجاثیۃ12-13:)۔ اس طرح اسلام نے فطرت اور پرستش دونوں کو ایک دوسرے سے نظری طور پر ڈی لنک کردیا تھا۔ اس سلسلے کا اگلا کام مغرب کی مسیحی قوموں نے کیا ۔ انھوںنے فطرت کی آزادانہ تحقیق شروع کی۔ یہاں تک کہ آخر کار سائنس کا دور پیداہوا، اور پھر وہ چیز ظہور میں آئی جس کو جدید تہذیب کہا جاتا ہے۔
مسیحی یورپ کا یہ عمل ری پلاننگ کی ایک مثال ہے۔ مسیحی یورپ نے پہلے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ وہ جنگ کی طاقت سے ارض مقدس پر قبضہ حاصل کریں۔ دو سوسال کی جنگ کے بعد جب یہ منصوبہ ناکام ہوگیا تو ان کے اندر یہ ذہن پیدا ہوا کہ وہ جنگ کے میدان کے بجائے پرامن میدان میں اپنی کوشش صرف کریں۔ یہ ری پلاننگ کامیاب رہی، اور چند سوسال کی مدت میں صرف یہ نہیں ہوا کہ ایک نیا سیاسی دور وجود میں آگیا، بلکہ یہ ہوا کہ مسیحی یورپ نے نئے وسائل کے استعمال سے دوبارہ اس غلبہ کو زیادہ بڑے پیمانے پر حاصل کرلیا ، جو سیاسی میدان میں ناکامی سے کھویا گیا تھا۔
اس علاقے کے مسلم رہنما اُس وقت اپنے معاملے کی ری پلاننگ نہ کرسکے، 1947 میں جب فلسطین کی تقسیم عمل میں آئی، اور اس میں فلسطین کا نصف حصہ عربوں کو دیاگیا ۔ عرب رہنما کے لیے بھی یہ ایک ری پلاننگ کا وقت تھا۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے پچھلے سیاسی مائنڈ سیٹ کو توڑیں، اور نئے حالات کے لحاظ سے اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو یقیناً آج فلسطین میں ایک طاقت ور سلطنت قائم ہوتی۔ فلسطین کا جو علاقہ عربوں کے قبضے میں دیا گیا تھا، وہ فلسطین کا سب سے زیادہ اہم علاقہ تھا۔ نیز شام اور عراق اوراردن اور مصر پہلے ہی سے ان کے قبضے میں تھے۔
یہ پورا علاقہ ایک تاریخی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ عالمی سیاحت کے لیے بہت زیادہ ٹورسٹ اٹریکشن (tourist attraction) رکھتاہے۔ اگر اس علاقے میں امن قائم رہتا تو سیاحت کی انڈسٹری بہت زیادہ فروغ پاتی۔ اس سے عربوں کو نہ صرف اقتصادیات کے اعتبار سے غیر معمولی فائدے حاصل ہوتے، بلکہ سیاحوں کی آمد و رفت سے اس علاقے میں دعوتی مشن کا کام بھی بہت بڑے پیمانے پر ہوسکتا تھا۔ مگر ری پلاننگ کی اہمیت کو نہ جاننے کی وجہ سے یہ عظیم موقع استعمال نہ ہوسکا۔حسن البناء اور ان کے ساتھیوں نے 1947 میں قاہرہ کی سڑکوں پر بہت بڑا جلوس نکالا تھا۔ اس میں ان کا نعرہ تھا،لبیک یا فلسطین ۔ اگر وہ دانش مندی سے کام لیتے تو وہ لبیک ایہا الناس کے نعرے کے ساتھ اس علاقے میں داخل ہوتے، اور یہاں اسلام اور مسلمانوں کا نیا مستقبل تعمیر کرسکتے تھے۔ مگر یہ عظیم موقع استعمال ہونے سے رہ گیا۔
واپس اوپر جائیں

ویٹیکن ماڈل

ایک حدیث رسول کے مطابق، اللہ رب العالمین اہل اسلام کے لیےدوسری قوموں کے ذریعہ تائید (support) فراہم کرےگا(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔اس حدیث رسول کا ایک پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالی دوسری قوموں یا سیکولر لوگوں کے ذریعے ایسے ماڈل (model) سیٹ کرےگا، جو اہل اسلام کے لیے اپنے دینی مشن میں رہنما بن سکیں ۔ غور کیا جائے تو تاریخ میں بار بار ایسے واقعات پیش آئے ہیں ۔ انھیں میں سے ایک واقعہ وہ ہے جس کو ویٹیکن ماڈل کہا جاسکتا ہے۔
قدیم یورپ میں مسیحی پوپ کو پورے یورپ کے لیے بے تاج بادشاہ (uncrowned king) کا درجہ حاصل تھا۔ سترھویں صدی میں حالات بدلے، اور دھیرے دھیرے پوپ نے اپنا اقتدار کھودیا۔اب پوپ کے لیے دو کے درمیان انتخاب (option)کا معاملہ تھا۔ یا تو پولٹکل رول کی حیثیت سےپوپ کا عہدہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے، یا کسی نان پولٹکل سطح پر پوپ کا ٹائٹل باقی رکھا جائے۔غور وفکر کے بعد مسیحی ذمہ دار ان دوسری حیثیت پر راضی ہوگیے۔یہ واقعہ مسولینی کے زمانے میں ہوا۔ 1929 میں مسیحی پوپ اور اٹلی کی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔اس کو لیٹرن ٹریٹی(Lateran Treaty) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کے مطابق، اٹلی کی دارالسلطنت روم میں پوپ کو ایک محدود علاقہ دے دیا گیا، جس کا رقبہ تقریبا ایک سو دس ایکڑ تھا۔یہ علاقہ پہلے سے مسیحی لوگوں کے پاس تھا۔ اب اس کو ایک با اقتدار اسٹیٹ کا درجہ دے دیا گیا۔ پوپ نے اس علاقے کو ڈیولپ کیا، اور اب وہ مسیحیت کےلیے روحانی کنگڈم (spiritual kingdom) کی حیثیت سے کامیابی کے ساتھ اپنا کام کررہا ہے۔
لیٹرن معاہدے کے ذریعہ مسیحی قوم کو یہ موقع مل گیا کہ وہ پوپ ڈم (Popedom)کے خاتمے کے باوجود پوپ کا ٹائٹل بدستور باقی رکھیں۔ وہ پوپ کے نام سے بدستور ساری دنیا میں اپنی مذہبی تنظیم (religious organization) قائم کریں۔ وہ ایک مرکزی اتھارٹی کے تحت ساری دنیا میں منظم طور پر اپنے مذہب کا کام کرسکیں۔ یہ وہی حکمت تھی جس کو قرآن میں احدی الحسنیین (التوبۃ 52:) کہا گیا ہے۔ یعنی دوبہتر میں سے ایک (one of the two bests) کا انتخاب کرنا ۔
موجودہ زمانے میں مسلمان اپنی محرومی کی شکایت کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محرومی کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ زمانی حقائق سے بے خبری کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو بار بار یہ موقع ملا کہ وہ’’ویٹیکن ماڈل‘‘ کے مطابق اپنے لیے دوسرا بہتر (second best) حاصل کرلیں۔ لیکن مسلمانوں کے رہنما اپنی غیر دانشمندی کی بنا پر اس موقع کو اویل (avail) نہ کرسکے۔ مثلاً بیسویں صدی کے ربع اول میں جب یہ واضح ہو گیا کہ عثمانی خلافت کا سیاسی ادارہ باقی نہیں رہ سکتا۔ تو مسلم رہنماؤں کے لیے یہ موقع تھا کہ گفت و شنید کے ذریعہ وہ دوسرے بہتر (second best) پر راضی ہوجائیں ۔ یعنی خلافت کے نام سے ترکی کے کسی علاقہ ، مثلاً قسطنطنیہ کے ایک محدود رقبہ کو حاصل کرلیں، اور وہاں ویٹیکن جیسا ایک ادارہ بنا کر خلیفہ کے ٹائٹل کو بدستور باقی رکھیں۔یہ مسلم رہنماؤں کے لیے اپنے مسئلے کی ری پلاننگ کا ایک موقع تھا۔ مگر اس وقت کے مسلم رہنما اِس معاملے میںحقیقت شناسی کا ثبوت نہ دے سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت کا ٹائٹل ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔
اسی طرح 1952 میںجب مصر کےشاہ فاروق کی حکومت ختم ہوئی، اور مصر میں فوجی حکومت قائم ہوئی۔ تو اس وقت الاخوان المسلمون کومصر کے صدر جمال عبدالناصر نے حکومت میںوزارت تعلیم (Education Ministry) کی پیش کش کی، مگر الاخوان المسلمون کے رہنماؤں نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح پاکستان کے صدر محمد ایوب خان نے 1962 میں جماعت اسلامی پاکستان کو یہ پیش کش کی کہ پاکستان میں ایک بین اقوامی یونیورسٹی قائم کی جائے، اور اس کا مکمل چارج جماعت اسلامی پاکستان کو دے دیا جائے۔ مگر جماعت اسلامی پاکستان کے ذمہ داران نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔یہ سب ری پلاننگ میں ناکامی کا معاملہ ہے، اور یہی ناکامی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تمام مسائل کی اصل ذمہ دار ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسپین کا تجربہ

عرب مسلمان آٹھویں صدی عیسوی میں اسپین میں داخل ہوئے۔ یہاں انھوں نے اسپین کے ایک حصے میں اپنی حکومت قائم کی۔ اسپین کے اس حصے کو الاندلس کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت نشیب و فراز کے ساتھ تقریباً آٹھ سوسال تک جاری رہی۔ آخری دور میں عرب مسلمانوں کے خلاف سیاسی ردّعمل ہوا۔ ایک خونی جنگ کے بعد عرب مسلمان اسپین سے مکمل طور پر نکال دیے گیے۔
مگر اب صورت حال بدل گئی ہے۔ اسپین کی قدیم تاریخ میں پہلے عرب مسلمانوں کو حملہ آور (invader) کی حیثیت سے لکھا گیا تھا۔ مگر اب اسپین میںنئی تاریخ لکھی گئی ہے، جو عرب دور کے اسپین کو خود اسپین کی تاریخ کا ایک حصہ قرار دیتی ہے۔اس نئے دور کی ایک علامتی مثال یہ ہے کہ اسپین کے ساحل پر عرب رولر عبدالرحمن الداخل کا اسٹیچو دوبارہ نصب کیا گیا ہے، جو تلوار لیے ہوئے بظاہر فاتح کی حیثیت سے کھڑا ہے۔ یہ اسٹیچو 1984 میں تیار کیا گیا تھا:
Abd al-Rahman I landed at Almunecar in al-Andalus, to the east of Malaga, in September 755. The statue was created in 1984.
اسپین میں یہ انقلاب کیسے آیا۔ اصل یہ ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں سیاسی حکمرانی کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں سیاسی حکمرانی کے ساتھ کوئی مثبت تصور موجود نہیں ہوتا تھا۔ مگر بیسویں صدی میں صورت حال مکمل طور پر بدل گئی۔ اب جدید حالات کے تحت دنیا میں ایک نئی صنعت وجود میں آئی، جس کو ٹورسٹ انڈسٹری کہا جاتا ہے۔ ٹورسٹ انڈسٹری ملکوں کے لیے اقتصادیا ت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اسپین میں مسلم عہد کی تاریخی یادگاریں بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ ان کو دیکھنے کے لیے ساری دنیا کے سیاح وہاں آنے لگے۔ اس کے بعد اسپین کی حکومت کو معلوم ہوا کہ اس کے ملک میں اقتصادیات کا ایک بہت بڑا ذریعہ موجود ہے، اور وہ ہے مسلم عہد حکومت کی تاریخی عمارتیں۔ اسپین کی حکومت نے ان تمام مقامات کی جدید کاری (renovation) کا کام بڑے پیمانے پرکیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسپین دنیا کی سیاحت انڈسٹری کے نقشے میں نمبر دو ملک بن گیا ، اور اس کی اقتصادی سرگرمیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ۔ حتی کہ ایک پس ماندہ ملک ایک خوشحال ملک بن گیا۔
یہ کرشمہ ری پلاننگ کا کرشمہ تھا۔اسپین کے رہنماؤں نے وقت کی تبدیلی کو سمجھا، اور اس کے مطابق ازسر نو اپنا نقشہ بنایا۔ اس معاملے میں اقتصادی مفادات کی بنا پر اسپین کی متعصبانہ پالیسی بالکل ختم ہوگئی۔ یہاں تک کہ اب یہ حال ہے کہ اسپین میں دوبارہ مسلمان آباد ہورہے ہیں، وہاں مسجدیں بنا رہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں اسپین کے باشندوں میں اسلام کی اشاعت ہورہی ہے۔ آج اسپین میں مسلمانوں کو ویلکم (welcome) کیا جار ہا۔ جب کہ اس سے پہلے مسلمان وہاں غیر مطلوب (unwanted) بن گیے تھے۔
اسپین کی اس ری پلاننگ میں مسلم دنیا کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ اسی طرح کی ری پلاننگ کے مواقع مصر میں، پاکستان میں، فلسطین میں ، کشمیر میں، اور دوسرے مسلم علاقوں میں بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ اگر مسلمان دورِ جدید کے اس ظاہرہ کو دریافت کرسکیں تو آج کی دنیا ان کے لیے موافق دنیا بن جائے گی، جس کو اب تک وہ ایک ناموافق دنیا سمجھے ہوئے ہیں۔
موجودہ زمانے کے مسلمان اسپین کے نام سے صرف الحمراء، اور قرطبہ جیسی یادگار کو جانتے ہیں۔ مگر اسپین میں مسلمانوں کے لیے اس سے بھی زیادہ بڑی چیز موجود ہے، اور وہ ہے ایک انقلابی پیغام — وقت کے حقائق کو سمجھو، اور اس کے مطابق اپنے عمل کی ری پلاننگ کرو۔ اس کے بعد اچانک تم دیکھو گے کہ ساری دنیا میں ایک نیا دور آگیا ہے، امیدوں اور مواقع کا دور۔
اسپین کے لیے نئے مواقع سے فائدہ اٹھانے کا دروازہ اس وقت کھلا، جب کہ انھوں نے اپنی منفی سوچ کو بدل دیا۔ جن مسلمانوں کو وہ پہلے اپنا دشمن سمجھتے تھے، ان کو انھوں نے اپنے دوست کی حیثیت سے دریافت کیا۔ اسی طرح مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ان کو معلوم ہوگا کہ آج کی دنیا ان کی اپنی دنیا ہے، وہ کسی اور کی دنیا نہیں ۔ آج کی دنیا میں وہ اسلام کی تاریخ کو نئے عنوان سے رقم کرسکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

نوآبادیاتی نظام

مغربی نو آبادیات (colonialism) کا زمانہ سولہویں صدی سے بیسویں صدی کے نصف اول تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ نوآبادیاتی نظام پہلے زمانے کی شہنشاہیت سے مختلف تھا۔ اصل یہ ہے کہ جدید صنعت کے ظہور کے بعد یورپ میں ماس پروڈکشن (mass production) کا زمانہ آیا۔ اب ضرورت ہوئی کہ اس فاضل پیداوار کے لیے بیرونی مارکیٹ حاصل کی جائے۔ اس طرح فاضل پیداوار کی کھپت کے لیے نوآبادیاتی نظام کا دور شروع ہوا۔ نوآبادیاتی نظام میں فوج کشی قدیم رواج کے زیر اثر آئی۔ ورنہ نوآبادیات کا فوج کشی سے براہ راست تعلق نہ تھا۔
نو آبادیاتی نظام کو فوج سے وابستہ کرنے کی بنا پر ایشیا اور افریقہ میںنو آبادیات کی زیر حکم ریاستوں میں اس کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہوا۔بیسویں صدی کے آغاز میں یہ ظاہر ہوگیا کہ نوآبادیات اور سیاسی اقتدار دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اب مغرب میں نئی سوچ پیدا ہوئی۔ یہاں تک کہ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ نو آبادیات کو سیاسی اقتدار سے ڈی لنک (de-link) کردیا جائے۔ چنانچہ فرانس نے ڈیگال کے زمانے میں افریقہ میں اپنی نوآبادیات کا یک طرفہ طور پر خاتمہ کردیا۔ اسی طرح برطانیہ نے ایشیا میں اپنی نوآبادیاتی حکومتوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔
اس کے بعد مغربی قوموں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ری پلاننگ کی۔ اس نئی پلاننگ کا طریقہ آؤٹ سورسنگ پر مبنی تھا۔یعنی آؤٹ سائڈ ریسورسنگ (outside resourcing) کا طریقہ۔ قدیم نوآبادیاتی نظام میں جو مقصد فوج سے لیا گیا تھا۔ اب وہ مقصد ٹکنالوجی اور تنظیم (organization) سے لیا جانے لگا۔ یہ طریقہ بہت کامیاب رہا۔ قدیم زمانے میں فوج کے ذریعہ جو تجارتی مقاصد حاصل کیے جاتے تھے، اب اس کی جگہ آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ اس سے بہت زیادہ تجارتی فوائد حاصل کیے جارہے ہیں۔ اب تمام صنعتی ممالک اسی اصول پر اپنی تجارتوں کو ساری دنیا میں پھیلائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ ساری دنیا میں اپنا بزنس ایمپائر (business empire) قائم کر رکھا ہے۔
اس معاملے میں مسلم قومیں آخری حد تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ قدیم زمانے میں دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی حکومتیں قائم تھیں۔ نیا دور آیا تو ان کی حکومتیں فطری طور پرختم ہوگئیں۔ اس کے بعد مسلمانوں میں رد عمل (reaction) پیدا ہوا۔ انھوں نے جہاد کے نام پر ساری دنیا میں لڑائی شروع کردی۔ یہاں تک کہ وہ سوسائڈ بمبنگ کی انتہائی حد تک پہنچ گیے۔ لیکن تقریباً دوسو سال کی قربانیوں کے باوجود انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا، وہ قدیم سیاسی نظام کو واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔اب آخری وقت آگیا ہے کہ مسلمان اس معاملے میں اپنے عمل کی ری پلاننگ کریں۔
یہ ری پلاننگ پوری طرح نان پولٹکل (non-political) ری پلاننگ ہوگی۔ قدیم زمانے میں اگر مسلمانوں نے اپنی حکومتیں قائم کی تھیں تو اب انھیں زیادہ بڑے پیمانے پر یہ موقع حاصل ہے کہ وہ پر امن دائرے میں اپنا ایک غیر سیاسی ایمپائر قائم کرسکیں۔ موجودہ زمانے میں جو نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہ قدیم زمانے کے مواقع کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ ہیں۔ ان جدید مواقع کو استعمال کرنا انتہائی حد تک ممکن ہے۔ اس کی شرط صرف یہ ہے کہ مسلمان تشدد (violence) کے ہر طریقے کو مکمل طور پر چھوڑ دیں۔
قدیم زمانے میں جو اہمیت فوجی طاقت کو حاصل ہوتی تھی، وہ اہمیت اب تنظیم کو حاصل ہوچکی ہے۔اب مسلمانوں کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ عالمی تنظیم کے ذریعے اپنے کام کی ری پلاننگ کریں۔ وہ ایک امن پسند قوم کی طرح نئے مواقع کے حصول کی منصوبہ بندی کریں۔ اس نئی منصوبہ بندی میں ان کا ایک بڑا آئٹم قرآن کو عالمی سطح پر پھیلانا ہوگا۔ قرآن کے تراجم اگر دنیا کی تمام زبانوں میں تیار کیے جائیں، اور ان کو پر امن انداز میں ساری دنیا میں پھیلایا جائے تو یہ اپنے آپ میں اتنا بڑا کام ہوگا جو تمام بڑے کاموں کے مقابلے میں زیادہ بڑا کام بن جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج فتح مبین (الفتح 1:) کے واقعہ کو نئی طاقت کے ساتھ زندہ کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ مسلمان ری پلاننگ کے آرٹ کو جانیں، اور اس کو دانش مندی کے ساتھ پر امن انداز میں رو بہ عمل لائیں۔
واپس اوپر جائیں

برطانیہ کی مثال

برٹش ایمپائر (British Empire)کی ایک عظیم تاریخ ہے، اپنے عروج کے زمانے میں وہ اتنا بڑا تھا کہ یہ کہا جانے لگا کہ برطانی ایمپائر میں سورج کبھی نہیں ڈوبتا:
It had been said that the sun never sets on the British flag.
آخری زمانے میں قانون فطرت کے تحت برٹش ایمپائر میں کمزوری آئی ۔ لیکن برٹش ایمپائر کے سیاسی ذمہ داران اس کے لیے تیار نہیں تھے کہ وہ برٹش ایمپائرکا خاتمہ کریں۔ برطانیہ کے پرائم منسٹر ونسٹن چرچل (1874-1965)نے کہا تھا کہ میں اس سیٹ پر اس لیے نہیں آیاہوں کہ میں برطانی سلطنت کے خاتمے کی صدارت کروں:
I have not become the King's First Minister in order to preside over the liquidation of the British Empire.
مگر دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کے بعد برطانیہ کی فوجی طاقت کمزور ہوگئی۔ بظاہر یہ ممکن نہیں رہا کہ برطانیہ اپنے ایمپائر کو باقی رکھے۔ اس وقت برطانیہ میں ایک تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کا نام فیبین سوسائٹی (Fabian Society)تھا۔ اس تحریک کا ایک مقصد ڈی کلونائز ( decolonize)کرنا۔
فیبین سوسائٹی کے ایک ممبر لارڈ اٹلی(Clement Richard Attlee, 1883-1967) ونسٹن چرچل کے بعد برطانیہ کے پرائم منسٹر بنے۔ لارڈ اٹلی نے بے لاگ طور پر صورت حال کا جائزہ لیا۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انڈیا اور دیگر ممالک کو یک طرفہ طور پر آزاد کردیا جائے۔ اسی کے مطابق انڈیا 1947 میں برطانیہ کے سیاسی اقتدار سے آزاد ہوا۔
برٹش ایمپائر برطانیہ کے لیے ایک قومی عظمت کا معاملہ تھا۔ برطانیہ کے لیے لوگ اپنی اس قومی عظمت پر فخر کرتے تھے۔ مگر جب حالات بدل گیے تو برطانیہ کے لوگوں نے یو ٹرن (u-turn) لیا۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انھیں ماضی کی عظمت سے باہر نکلنا ہے، اور حالات کے مطابق اپنے قومی تعمیر کی ری پلاننگ کرنا ہے۔ چنانچہ لارڈ اٹلی کی لیڈر شپ میں انھوں نےایسا ہی کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برطانیہ کے لوگ اپنی قومی ترقی کو نئی بنیاد پر قائم رکھنے میں کامیاب ہوگیے۔
اسی قسم کی سیاسی صورت حال موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آئی ہے۔ مسلمانوں نے بعد کے زمانے میں دنیا کے بڑے رقبے میں اپنا سیاسی ایمپائر قائم کرلیا۔ پھر مسلم ملت میں زوال کا دور آیا۔ رفتہ رفتہ ان کا یہ حال ہوا کہ ان کی سیاسی عظمت (political glory) کا خاتمہ ہوگیا۔
اس کا سبب تمام تر داخلی تھا، مگر مسلمانوں نے اس کو عملی طور پر قبول (accept) نہیں کیا۔ وہ اس کی ذمہ داری دوسروں کے اوپر ڈالتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں عمومی طور پر منفی سوچ (negative thinking) آگئی۔ وہ اپنی سابقہ پولیٹکل عظمت کو واپس لانے کی کوششیں کرنے لگے۔ مگر یہ ایک غیر حقیقی منصوبہ تھا، جو آخری حد تک ناکام رہا۔
مسلمانوں کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ ماضی میں جینا مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور حال کے اوپر دوبارہ اپنے قومی عمل کی ری پلاننگ کریں۔ قدیم زمانے میںمسلم ایمپائر جن حالات کے تحت قائم ہوئے تھے، وہ حالات اب ختم ہوچکے ہیں۔ اب نہ مسلمانوں کے لیے اور نہ کسی اور قوم کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ قدیم طرز کا پولیٹکل ایمپائر دنیا میں قائم کریں۔اس معاملے میں مسلمان اگر حقیقت پسندانہ انداز میں سوچیں ،تو وہ نئے حالات کے امکان کو دریافت کرلیں گے۔ اس کے بعد ان کے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ نئے عنوان سے حاصل کرلیں۔
کسی قوم کے لیے عروج و زوال کا واقعہ سبق کے لیے ہوتا ہے۔ برطانیہ نے اپنے زوال کے واقعہ کو سبق کے معنی میں لیا، اس بنا پر ان کو بہت جلد معلوم ہوگیا کہ یہ وقت ان کے لیے ری پلاننگ کا ہے۔ مسلمان عملاً اس راز سے بے خبر رہے، اس لیے زوال کے بعد اپنی قومی ترقی کی ری پلاننگ کے لیے وہ حقیقت پسندانہ منصوبہ بنانے میں ناکام رہے۔ یہی سبب ہے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی ناکامی کا۔
واپس اوپر جائیں

جرمنی کی مثال

جرمنی، اڈولف ہٹلر کی قیادت میں دوسری عالمی جنگ کا سب سے بڑا پارٹنر تھا۔ یہ جنگ 1939 سے 1945 تک جاری رہی۔ اس جنگ میں پچاس ملین سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔ دوسرے نقصانات اس سے بھی زیادہ ہیں۔ لیکن جنگ کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ جرمنی نے اپنے ملک کا ایک تہائی حصہ (ایسٹ جرمنی ) کھودیا تھا۔ دوسرے عظیم نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔
جنگ کے خاتمے کے بعد جرمنی نے ری پلاننگ کا طریقہ اختیار کیا۔ پہلی پلاننگ کے زمانے میں ہٹلر جرمنی کا رہنما تھا تو دوسری پلاننگ کے زمانے میں جرمنی نے اپنے مشہور اسٹیٹس مین (statesman) بسمارک (Otto von Bismarck [1815-1898] )کی فکرکو اپنا رہنما بنایا۔ بسمارک نے کہا تھا کہ سیاست ممکنات کا فن ہے:
Politics is the art of the possible. (St. Petersburgische Zeitung, Aug 11, 1867 [www.shmoop.com])
جرمنی کے اہل دماغ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ دریافت کیا کہ ان کی پہلی پلاننگ ناممکن (impossible) پر مبنی تھی۔ اب انھیں ممکن (possible) کی بنیاد پر نیا منصوبہ بنانا چاہیے۔ بعد از جنگ کے زمانےمیں جرمنی نے اسی اصول پر کام کیا۔ اس نے اپنی توجہ جنگ سے ہٹا کر پرامن ترقی پر مرتکز کردیا۔ خصوصا سائنس اور صنعت کے میدان میں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جرمنی نے پہلے سے بھی زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ خاص طور پر پرنٹنگ مشین کے معاملے میں اس نے ساری دنیا میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
جرمنی کی ری پلاننگ کامیاب رہی۔ جرمنی ربع صدی کےعرصے میں یورپ کا نمبر ایک صنعتی ملک بن گیا۔ اب اس کی اقتصادیات پورے یورپ میں سب سے زیادہ مستحکم اقتصادیات کی حیثیت رکھتی ہے۔ جرمنی کی یہ ترقی ایک لفظ میں ری پلاننگ کے اصول کو اختیار کرنے سے حاصل ہوئی۔
دوسری عالمی جنگ میں جرمنی نے اپنے ملک کے ایک بڑے رقبے کو کھودیا تھا۔ لیکن جنگ کے بعد مبنی بر امن ری پلاننگ کے نتیجے میں جرمنی نے دوبارہ اپنے کھوئے ہوئے حصہ کو حاصل کرلیا۔ یہ معجزاتی واقعہ 1990 میں پیش آیا۔
دوسری عالمی جنگ سے پہلے جرمنی کا نشانہ ہٹلر کی قیادت میں یہ تھا کہ جرمنی پورے یورپ کا پولٹکل ماسٹر (political master) بنے۔ اس نشانہ میں جرمنی کو مکمل ناکامی ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی نے یہ قابل عمل نشانہ بنایا کہ وہ جرمنی کے صرف باقیماندہ حصہ (remnant part of Germany) کو پرامن انداز میں ڈیولپ کرے۔ جرمنی کا پہلا نشانہ مکمل طور پر ناکام ہوا تھا، لیکن جرمنی کا دوسرا نشانہ ری پلاننگ کے بعد مکمل طور پر کامیاب رہا۔
جرمنی کے اس تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے میں زمینی علاقہ (territory) کی اہمیت اضافی (relative) بن چکی ہے۔آدمی کے پاس اگر چھوٹا علاقہ ہو، تب بھی وہ اعلیٰ منصوبہ بندی کے ذریعہ بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ اعلیٰ منصوبہ بندی میں دو چیزوں کی خصوصی اہمیت ہے۔ ایک ہے بہتر کمیونی کیشن (communication)، اور دوسری ہے بہتر تنظیم (organization) ۔
جدید جرمنی نے صرف یہ نہیں کیا ہے کہ اس نے خود کو اعلیٰ ترقی یافتہ ملک بنایا ہے۔ اسی کے ساتھ اس نے یہ بھی کیا ہے کہ دنیا کے سامنے ایک ماڈل پیش کیا ہے۔ اس بات کا ماڈل پیش کیا ہے کہ کس طرح نقصان کے باوجود دوبارہ بڑی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس سے مختلف مثال کچھ مسلم ملکوں کی ہے۔ وہ اپنےخیال کے مطابق اپنےکھوئے ہوئے علاقےکی بازیابی کے لیے لمبی مدت سے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ مگر انھیں کوئی بھی مثبت کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ان کو چاہیے کہ وہ جرمنی کی مثال سے سبق لیں، اور اپنے ملے ہوئے علاقے کی بنیاد پر حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کریں، اور جدید امکانات کو استعمال کرتے ہوئے، دوبارہ بڑی کامیابی حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں

جاپان کی مثال

دوسری عالمی جنگ (1939-1945) میں جاپان اس کا سرگرم ممبر تھا۔ اس نے بڑی بڑی امیدوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کی۔ لیکن جب 1945 میں امریکا کی طرف سےجاپان پر دو ایٹم بم گرائے گیے، اور اس کے نتیجے میں جاپان کے دو بڑے شہروں ، ہیروشیما اور ناگاساکی میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ یہ جاپان کے لیے مکمل شکست کا واقعہ تھا۔ مگر 25 سال کے بعد جاپان دوبارہ ایک ترقی یافتہ ملک بن گیا۔ آج جاپان کا شمار اعلیٰ ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ یہ کامیابی جاپان کو کس طرح حاصل ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ری پلاننگ کے ذریعہ۔
جنگ کے بعد جاپان کے مدبروں نے پورے معاملے پر ازسر نو غور کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جنگ میں اپنی پوری طاقت لگانے کے باوجود ، اور جان و مال کی قربانیاں دینے کے باجودہ انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس کے بعد ان کے اندر نئی سوچ پیدا ہوئی،انھوں نے دریافت کیا کہ اس دنیا میں کوئی بڑی کامیابی صرف امن کی طاقت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ تشدد کا طریقہ بربادی تو لاسکتا ہے، لیکن وہ کوئی ترقی لانے والا نہیں۔
اس کے بعد اس وقت کے جاپانی حکمراں ہیرو ہیٹو (Hirohito) نے ریڈیو پر اپنی قوم کو خطاب کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں بتایا کہ جاپان کی دوبارہ ترقی کے لیے ہمیں ناقابل برداشت کو برداشت کرنا ہے، تاکہ ہم جاپان کو ایک ترقی یافتہ نیشن بنا سکیں:
The time has come to bear the unbearable
دو ایٹم بموں کی تباہی کی بنا پر جاپانی قوم اس وقت انتقام میں مبتلا تھی۔ لیکن جاپان کے کچھ دانشور اٹھے۔ انھوں نے یہ کہہ کر جاپانی قوم کو ٹھنڈا کیا کہ امریکا نے اگر 1945 میں ہمارے دو شہر ، ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کیا ہے تو اس سے پہلے 1941میں ہم خودکش بمباری کے ذریعہ امریکا کے بحری مرکز پرل ہاربر کو تباہ کرچکے تھے۔ اس حادثے کو بھلاؤ، اور جاپان کی نئی تعمیر کرو۔
اس کے بعد جاپان نے اپنی قومی تعمیر کی ری پلاننگ کی ۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ انھوں نے فوجی میدان کو چھوڑ دیا، اورپچیس سال تک صرف سائنسی تعلیم اور صنعت پر زور دیا جاتا رہا۔ اس نئی پلاننگ کی تفصیلات کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس نئی پلاننگ کا نتیجہ تھا کہ جاپان شکست کے کھنڈر سے نکل کر دوبارہ ایک فاتح ملک بن گیا۔
جاپان کے لیڈروں نے جس طرح اپنے ملک کی ری پلاننگ کی۔ اس میں مسلم رہنماؤں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ مسلم علاقوں میں بھی کسی نہ کسی طور پر اسی قسم کے ناموافق حالات موجود ہیں۔ مسلم ممالک کے لیے بھی یہی امکان ہے کہ وہ ری پلاننگ کے اصول کو اختیار کرکے دوبارہ اعلیٰ ترقی حاصل کرے۔
مثال کے طور پر فلسطین کے معاملے میں جب بَالفور کا فیصلہ (Balfour Declaration) سامنے آیا تو اس وقت مسلم رہنماؤں کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ بالفور ڈیکلریشن کے تحت فلسطین کے آدھے حصے کو یہود کو دےدیا گیا ہے، تو ہم کو چاہیے کہ ہم اس کو قبول کریں۔ کیوں کہ اس سے پہلے ہم صدیوں تک پورے فلسطین پر اپنی حکومت قائم کیے ہوئے تھے۔ اب اگر یہود کو موقع مل رہا ہے تو یہ قانونِ فطرت (آل عمران140:)کے تحت ہورہا ہے،اس میں ناانصافی کی کوئی بات نہیں۔ مسلم رہنماؤں نے اگر اس قسم کا فیصلہ کیا ہوتا تو یقیناً آج فلسطین کی تاریخ مختلف ہوتی۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے اسلام کی قدیم تاریخ میں بھی نمونے موجود ہیں، اور سیکولر قوموں کی تاریخ میں بھی ۔ انسانی تاریخ ہر قسم کے نمونے سے بھری ہوئی ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ بے آمیز ذہن کے ساتھ کیا جائے۔ غیر متاثر ذہن کے ساتھ پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کچھ دروازے اگر بند ہوئے ہیں تو دوسرے دروازے پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔ اگر حالات کو سمجھ کر ری پلاننگ کی جائے تو یقیناً مستقبل کی نئی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ماضی کی ناکامیوں کو بھلایا جائے، اور مستقبل کے امکانات کو لےکر اپنےعمل کا منصوبہ بنایاجائے۔
واپس اوپر جائیں

خالصہ تحریک کا تجربہ

مہاراجہ رنجیت سنگھ (1780-1839) مشہور سکھ راجا تھے۔ان کی حکومت ایک بڑے رقبےپر پھیلی ہوئی تھی۔
The geographical reach of the Sikh Empire under Ranjit Singh included all lands north of Sutlej river, and south of high valleys in the northwestern Himalayas. The major towns in the Empire included Srinagar, Attock, Peshawar, Bannu, Rawalpindi, Jammu, Gujrat, Sialkot, Kangra, Amritsar, Lahore and Multan.
سکھ کمیونٹی کے درمیان خالصہ تحریک کا آغاز برٹش پیریڈ میں ہوا۔ اس کا مقصد تھا مہاراجا رنجیت سنگھ کی پولیٹکل گلوری کو واپس لانا۔ ملک کی تقسیم کے بعداس کا دائرہ محدود ہوگیا۔ مگر 1979 میں خالصتان نیشنل موومنٹ کے ذریعہ اس کا احیاء ہوا۔ اس کے بعد سکھ دانشوروں نے محسوس کیا کہ ان کی خالصہ تحریک کاؤنٹر پروڈیکٹو (counter-productive)ثابت ہورہی ہے۔ بظاہر اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں ۔ اس سے سکھ کمیونٹی کے دانشوروں میں نئی سوچ جاگی۔ انھوں نے اپنی کمیونٹی کے اندر وہی ذہن پیدا کیا جس کو ہم نے ری پلاننگ کہا ہے۔ یعنی مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور کو گزری ہوئی تاریخ کا حصہ قرار دینا، اور نئے حالات کے تحت اپنے عمل کی ری پلاننگ کرنا۔
کچھ سکھ دانشوروں نے اپنی کمیونٹی کو بتایا کہ انڈیا کی آزادی(1947) کے بعد سکھ کمیونٹی نے انڈیا میں کافی ترقی کی ہے۔ انڈیا میں ان کی تعداد صرف دو فیصد ہے، مگر عملاً وہ انڈیا کی بیس فیصد (20%) اقتصادیات (economy) کو کنٹرول کررہے ہیں۔ اس کے بعد خالصہ تحریک کے لیڈر سردار جگجیت سنگ چوہان (وفات2007:) اپنی کمیونٹی میں غیر مقبول شخصیت بن گیے۔ اب سکھ کمیونٹی کے لوگوں نے ری پلاننگ کے ذہن کے تحت عمل کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ اب پنجاب انڈیا کے خوشحال ریاستوں میں سے ایک ہے۔
سکھ کمیونٹی کی یہ مثال فلسطین اور کشمیر پر پوری طورح منطبق ہوتی ہے۔ اگر کشمیر اور فلسطین کے مسلمان اس تجربے سے سبق لیں، اور اپنی قومی جدو جہدکی ری پلاننگ کریں تو بلاشبہ وہ ایک نئی تاریخ بنا سکتے ہیں۔ دونوں علاقوں میں ترقی کے غیر معمولی مواقع موجود ہیں، جو غیر حقیقت پسندانہ مزاج کی بنا پر ناقابل استعمال پڑے ہوئے ہیں۔ اگر فلسطین اور کشمیر کے مسلمان ری پلاننگ کے راز کو جانیں تو وہ بلاشبہ اپنے لیے ایک عظیم مستقبل پیدا کرسکتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں نہ صرف کشمیر اور فلسطین بلکہ تمام دنیا کے مسلمان منفی سوچ میں جی رہے ہیں۔وہ دوسروں کو ظالم اور اپنے کو مظلوم سمجھتے ہیں۔ اس ذہن کی بنا پر ان کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) کا ڈیولپمنٹ نہیں ہوا۔ وہ اپنی ماضی کی گلوری کو جانتے ہیں، لیکن وہ حال کے مواقع سے بے خبر ہیں۔ وہ شکایت کلچر کو جانتے ہیں، لیکن وہ مبنی بر حقیقت منصوبہ بند ی سے واقف نہیں۔ ان کی سوچ اپنے مفروضہ ظالموں کی شکایت پر قائم ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو مظلومیت کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اگر اس منفی سوچ سے باہر آئیں تو وہ دریافت کریں گے کہ فیصلے کی جو بنیاد زمانے نے فراہم کی ہے، وہ عین ان کے حق میں ہے۔
آج کا زمانہ پوری طرح ایک بدلا ہوا زمانہ ہے۔ لیکن مسلمان گزرے ہوئےماضی کے دور میں جی رہے ہیں۔ وہ عملاً تاریخ کے قیدی (prisoners of history) بنے ہوئے ہیں۔ یہی مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہے، اور اسی کی اصلاح سے ان کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
لکھنؤ کے ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی (1913-1974)مسلم مجلس مشاورت کے تاسیسی صدر تھے۔ انھوں نے ایک روزنامہ اردو اخبارنکالا تھا، قائد۔ اس میں انھوں نے اپنےایک مضمون میں لکھا تھا کہ مسلم صحافت ایک احتجاجی صحافت (protestant journalism) ہے۔ یہ مسلمانوں کی موجودہ زمانے کی پوری صحافت پر صادق آتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان کو اس کے بجائے تخلیقی صحافت (creative journalism) کو وجود میں لانا ہوگا۔ اس کے بعد ہی وہ آج کی دنیا میںاپنے لیے کوئی نیا دور پیدا کرسکتے ہیں۔ شکایت اور احتجاج کے ذریعہ انھیں کچھ ملنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

غلط تقابل
ایک صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ کچھ مسلمانوں کو اگر کہا جائے کہ آج کل مسلمان بہت زیادہ انسانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں، تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ عالمی جنگوں میں بے شمار آدمی قتل کیے گیے، ہٹلر نے ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا، وغیرہ۔ یہ کہہ کر گویا وہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل کا جواز دیتے ہیں۔ مولانا اس میں مغالطہ کیا ہے، واضح کریں۔ (ایک قاری الرسالہ، دہلی)
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک غلط تقابل (wrong comparison)ہے۔ اس معاملے میں دیکھنے کی اصل بات یہ ہے کہ فرسٹ ولڈ وار اور سکنڈ ورلڈ وار میں جو قومیں شریک تھیں، انھوں نے جنگوں کے تجربے کےبعد کیا کیا۔ اس معاملے میں ان کا آخری نمونہ قابل اعتبار ہے، نہ کہ درمیان کا نمونہ۔
واقعات بتاتے ہیں کہ جو قومیں فرسٹ ورلڈ وار اور سکنڈ ورلڈ وار میں شامل تھیں ، تجربے کے بعد انھوں نے دیکھا کہ ان جنگوں میں انھوں نے صرف نقصان اٹھایا، جنگ کا طریقہ ان کے لیے پورے معنوں میں کاؤنٹر پرڈیکٹو ثابت ہوا۔ اس تجربے کے بعد ان قوموں کے قائدین نے دوبارہ غور کیا۔ انھوں نے پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لیا۔ اس کے بعد حقیقت پسندی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے، انھوں نے وہ طریقہ اختیار کیا، جس کو ری پلاننگ کا طریقہ کہاجاتا ہے۔ انھوں نے جنگ کا طریقہ چھوڑ دیا، اور مکمل معنوں میں امن کا طریقہ اختیار کرلیا۔ برطانیہ نے یہ کیا کہ اپنی عظیم سلطنت (empire) کو خود اپنے اختیار سے ختم کردیا، اور اپنی سلطنت کو صرف برطانیہ تک محدود کرلیا۔ فرانس نے اپنی افریقی مقبوضات کو یک طرفہ طور پر چھوڑ دیا۔ جرمنی نے یہ کیا کہ ایسٹ جرمنی کو چھوڑ کر ویسٹ جرمنی کی تعمیر و ترقی میں لگ گیے۔ جاپان نے مکمل طور پر جنگ اور تشدد کا طریقہ چھوڑ دیا، اور جاپان کی پر امن ترقی میں مصروف ہوگیے، وغیرہ۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ایسا ہوا کہ انھوں نے ہر قسم کی قربانی کے باوجود صرف کھویا، ان کو کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ اب حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی یو ٹرن (U-Turn) لیں۔ وہ جنگ اور تشدد کے طریقہ کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور پر امن انداز اختیار کرتے ہوئے، اپنی تعمیر و ترقی میں لگ جائیں۔ یہی تاریخ کا تقاضا ہے، اور یہی اسلام کا تقاضا بھی۔
نصیحت کا اصول یہ ہے کہ دوسروں کے عمل سے تجربہ (experience) حاصل کیا جائے۔ دوسروں کے تجربے سے جو چیز باعتبار نتیجہ ہلاکت ثابت ہوئی ہو، اس کو چھوڑ دیا جائے، اور ان کے تجربے سے جو مفید سبق حاصل ہوتا ہو، اس کو لے لیا جائے۔ پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ کا یا تو حوالہ نہ دیا جائے، یا اگر حوالہ دینا ہے تو اس کے مفید پہلو کا حوالہ دیا جائے، اور وہ یہ ہے کے جنگ کے منفی تجربے سے سبق لینا، اور جنگ کا طریقہ چھوڑ کر پر امن تعمیر کا طریقہ اختیار کرنا۔
دوسروں کی غلطیوں سے اپنے لیے جواز (justification) نکالنا سخت قسم کی بے دانشی ہے۔ اگر آپ اپنے مفروضہ دشمن کی گردن کاٹیں ، اور کہیں کہ فلاں لوگوں نے بھی لوگوں کی گردنیں کاٹی تھی، تو یہ ایک سرکشی کی بات ہوگی۔ دوسروں کا تجربہ سبق لینے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ اپنی غلطی کو جائز ٹھہرانے کے لیے۔اس سلسلے میںصحابی رسول عبد اللہ ابن مسعود کا ایک حکیمانہ قول ان الفاظ میں آیا ہے:السعید من وعظ بغیرہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2645)۔ یعنی سعید وہ ہے جو دوسروں سے اپنے لیے نصیحت حاصل کرے۔ دوسروں کی نقل کرنا، نادانی ہے، اور دوسروں سے مفید نصیحت لینا، دانش مندی۔
* * ** * * * * * * * * * ** * * * * *
اگر آپ ایک ملین ڈالر خرچ کرکے ایک بید کی چھڑی حاصل کریں تو یہ پانا نہیں ہوگا، وہ کھونے کی بدترین شکل ہوگی۔ کوئی بڑا اقدام صرف اس وقت بڑا ہے جب کہ وہ نتیجہ خیز بھی ہو۔ جو اقدام بظاہر بڑا ہو، مگر نتیجہ کے اعتبار سے چھوٹا ہو، وہ اقدام نہیں بلکہ خودکشی کی چھلانگ ہے۔ ا س سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ (سفرنامہ، غیرملکی اسفار، صفحہ 177)
واپس اوپر جائیں

خلاصۂ کلام

دور جدید میں امت مسلمہ کا مسئلہ، اس کے احیاء کا مسئلہ تھا۔ اس مقصد کے لیے مسلم جدو جہد کی تاریخ غالباً 1799 سے شروع ہوتی ہے جب کہ میسور کے سلطان ٹیپو برٹش فوج سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوگیے۔ یہ جدو جہد اکیسویں صدی میں بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ مگر جان و مال کی بے شمار قربانیوں کے باوجود نتیجہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہوا۔ یعنی فائدہ تو کچھ نہیں ہوا، البتہ نقصان میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اس ناکام تجربے کا تقاضا یہ ہے کہ اب مسلمان توبۂ جمیع (النور31:) کا طریقہ اختیار کریں۔ یعنی یوٹرن (U-Turn)کا طریقہ۔ وہ اپنی کوششوں کا دوبارہ جائزہ (re-assessment) کریں، اور پھر اپنے عمل کی ری پلاننگ (re-planning)کریں۔
مسلمانوں کی موجودہ حالت یہ ہے کہ وہ اپنے ثابت شدہ ناکام تجربوں کو دوبارہ نئے نئے نام کے ساتھ دہرا رہے ہیں۔ مثلا ًمغرب میں رہنےوالے مسلمانوں کا اسلاموفوبیاکا نظریہ، مصر میں الاخوان المسلمون کی اسٹریٹ ایکٹوزم، فلسطین والوں کی خودکش بمباری (suicide bombing)، پاکستان کی پراکسی وار (proxy war) ، کشمیریوں کا پتھر مارنا (stone pelting)، انڈیا کے مسلمانوں کی احتجاجی صحافت (protestant journalism)، ایران کی اسلام دشمنوں کی دریافت، افغانستان کا طالبانائزیشن (talibanization)، وغیرہ۔ یہ سب ناکام تجربات کو بے فائدہ دہرانے کے سوا اور کچھ نہیں:
It is a futile repetition of a failed strategy.
امت کا نیا مستقبل صرف نئی اور مثبت بنیاد پر کی ہوئی منصوبہ بندی کے ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، اور نئی منصوبہ بندی کا پراسس (process) صرف اس اعتراف کے بعد شروع ہوتا ہے کہ اب تک ہم غلطی پر تھے (we were wrong)۔غلطی کو مانے بغیر نئے مستقبل کی بات کرنا، ایسا ہے جیسے پودا لگائے بغیر ہرے بھرے باغ کا انتظار کرنا ۔
واپس اوپر جائیں

Thursday, 1 June 2017

Al Risala | June 2017 (الرسالہ، جون)

1

-رمضان کا مہینہ شکر کا مہینہ

2

- اعتکاف کا مہینہ

3

- ہزار مہینے کے برابر

4

- یہ قرآن کی فضیلت نہیں

5

- قرآن کی تفسیر

6

- قرآن، کتاب مہجور

7

- اعلی معرفت

8

- اللہ کے ننانوے نام

9

- عطیات خداوندی

10

- اللہ کے محبوب بندے

11

- مومن قوی، مومن ضعیف

12

- اپنی تعمیر آپ

13

- انسان کی تخلیق

14

- جنت کس کے لیے

15

- جنت انسان کا ہیبیٹاٹ

16

- استعداد بڑھایے

17

- ابلیس کا طریقہ

18

- انسان اللہ کا امین

19

- موت کا مثبت تصور

20

- ری ایکشن کا کلچر

21

- دعوت سے بے خبری

22

- اجتہادی خطا کا معاملہ

23

- اصل مسئلہ

24

- بقدر استطاعت کا اصول

25

- دلیل کے بغیر

26

- مصیبت کا قانون

27

- ہر چیز ہر ایک کے لیے

28

- منفی سوچ نہیں

29

- چلو یہ بھی ٹھیک ہے

30

- غلطی کو سنبھالنا

31

- خبرنامہ اسلامی مرکز


رمضان کا مہینہ شکر کا مہینہ

رمضان کا مہینہ روزہ (fasting)کا مہینہ ہے۔ رمضان کے بارے میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا، ہدایت ہے لوگوں کے لئے اور کھلی نشانیاں راستہ کی اور حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا۔ پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پائے، وہ اس کے روزے رکھے۔ اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اس کی گنتی پوری کرلے۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے، وہ تمہارے ساتھ سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ کی بڑائی کرو اس پر کہ اس نے تم کو راہ بتائی اور تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو۔ (البقرۃ 185:)۔
رمضان میں روزہ رکھنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ انسان کے لیے شکر کا رمائنڈر ہے۔ انسان کو ایک ضرورت مند مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کو اپنی زندگی کے لیے ہر لمحہ کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے— کھانا، پانی، ہوا، آکسیجن، روشنی، وغیرہ ۔ اسی کے ساتھ انسان کے لیے ضرورت ہے کہ اس کی دنیا اس کے لیے فرینڈلی دنیا (friendly world) ہو۔ یہ تمام چیزیں انسان کو ہر لمحہ اور ہر روز ملتی رہتی ہیں۔ مگر انسان ان کا شکر نہیں کرتا۔ کیوں کہ وہ چیزوں کو فار گرانٹیڈ لیتا رہتا ہے۔ انسان کے اسی مزاج کی بنا پر ضرورت ہے کہ اس کے لیے ایک خصوصی رمائنڈر ہو، جو اس کو اس معاملے میں سالانہ یاددہانی کا کام کرے، اور اس کو بار بار غفلت سے جگاتا رہے۔
رمضان کی سالانہ روزہ داری کا یہی مقصد ہے۔ رمضان کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کے اندر نعمتوں کے اعتراف کی اسپرٹ جگائی جائے۔ غذا کا ترک اس اعتبار سے ایک علامتی ترک ہے۔ روزہ کے ذریعہ انسان کو وقتی طور پر بھوک اور پیاس کا تجربہ کرایا جاتا ہے۔تاکہ وہ تمام خدائی عطیات کو یاد کرے۔ وہ سوچے کہ اگر یہ عطیات مجھ کو حاصل نہ ہوں تو میرا کیا حال ہوگا، اور پھر وہ اللہ کے معطی (giver) ہونے کا اعتراف کرے۔ وہ اللہ کی بڑائی کو دریافت کے درجے میں معلوم کرلے۔
واپس اوپر جائیں

اعتکاف کا مہینہ

رمضان کا مہینہ روزے کا مہینہ ہے۔ رمضان میں اہل ایمان پورے مہینہ ہر دن روزہ رکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ رمضان کا مہینہ اعتکاف کا مہینہ ہے۔ متعین اعتکاف اگرچہ چند دنوں کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن غیر متعین اعتکاف پورے مہینہ جاری رہتا ہے۔ اعتکاف کی دو صورتیں ہیں، جسمانی اعتکاف اور فکری اعتکاف۔ جسمانی اعتکاف میں آدمی اپنے آپ کو الگ کرکے مسجد میں معتکف ہوجاتاہے۔ تاکہ وہ زیادہ یکسوئی کے ساتھ عبادت کرے، اور زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرے۔
اسی کے ساتھ اعتکاف کی ایک اور صورت ہے جس کو فکری اعتکاف (intellectual etikaf) کہا جاسکتا ہے۔ یہ اعتکاف ہر وقت اور ہر جگہ جاری رہتا ہے۔ اس اعتکاف میں آدمی اپنا زیادہ وقت تفکر اور تدبر میں گزارتا ہے۔ وہ دین کی باتوں میں غور کرتا ہے، اور اپنے آس پاس کی دنیا سے دینی سبق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ روحانی اعتکاف (spiritual etikaf) میں مشغول رہتا ہے۔
اصطلاحی طور پر اعتکاف وہی ہے جو مسجد میں کیا جاتا ہے۔ لیکن جب آدمی روزہ داری کی زندگی گزارتا ہے تو فطری طور پر اس کے اندر روزہ دارانہ سوچ پیدا ہوتی ہے۔ وہ اللہ والی سوچ میں مشغول رہتا ہے۔ دین کی باتیں اس کے ذہن میں گھومتی رہتی ہیں۔ وہ آخرت سے متعلق باتوں کے بارے میں غور وفکر کرتا رہتا ہے۔ یہ ذہنی اعتکاف ہے۔
اعتکاف کی یہ دوسری صورت اگرچہ قانونی اعتبار سےروزے کا حصہ نہیں ہے، لیکن وہ بلاشبہ روزہ دارانہ زندگی کا فطری حصہ ہے۔ جب آدمی ماہ رمضان میں روزہ دارانہ زندگی گزارتا ہے تو بار بار اس کا مائنڈ اس موضوع پر ٹریگر (trigger) ہوتا رہتا ہے۔ معروف روزہ داری اگر اس کے روزے کا قانونی حصہ ہوتی ہے تو یہ دوسری روزہ داری اس کے روزے کا فطری حصہ بن جاتی ہے۔ایک کی اہمیت اگر فارمل اعتبار سےہے تو دوسرے کی اہمیت غیر فارمل اعتبار سے۔
واپس اوپر جائیں

ہزار مہینے کے برابر

قرآن کی سورہ نمبر 97 میں لیلۃالقدر کا ذکر ہے جو ہر سال رمضان کے مہینے میں آتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس مبارک رات میںاللہ رب العالمین کے فرشتے بڑی تعداد میںاللہ کے خصوصی منصوبہ کے تحت زمین پر اترتے ہیں۔ یہاں تک کہ فرشتوں کی کثرت کی بنا پرلیلة القدر کی رات امن کی رات (night of peace) بن جاتی ہے۔
اس سورہ میں رات کا لفظ انسان کی نسبت سے آیا ہے۔ یعنی وہ انسان جس کو اس رات کا فیض حاصل ہوجائے،جو لوگ اپنی ذہنی بیداری کی بنا پر اس رات کو پہچانیں، اور اس سے پوری طرح فائدہ اٹھائیں، ان کے اندر مبنی بر سلام شخصیت بنے گی۔ ایسے لوگ مکمل معنوں میں امن پسند انسان (peaceful person) بن جائیں گے۔ ان کے اندر کامل معنوں میں پر امن سوچ (peaceful thinking) پیدا ہوجائے گی۔ اس رات کوملنے والی یہ پر امن غذا (peaceful food) جس کو حقیقی معنوں میں حاصل ہوجائے ، اس کے لیےوہ ہزار ماہ کی مدت تک کافی ہوجائے گی۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنی ساری عمر کے لیے ایک پرامن انسان (peaceful person) بن جائے گا۔
پر امن انسان بننا کوئی سادہ بات نہیں ۔ پر امن انسان بننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان جس کا دل منفی سوچ (negative thoughts) سے خالی ہو، وہ انسان جس کے اندر کامل معنوں میں تواضع (modesty) ہو، وہ انسان جو ہر قسم کے ڈسٹریکشن (distraction)سے بچا ہوا ہو، وہ انسان جو اپنی روحانی بلندی کی بنا پر اعلی حقائق میں جینے والا بن گیا ہو۔
امن پسند انسان سے مراد وہ انسان ہے جس کے لیے قرآن میں نفس مطمئن (89:27) اور قلب سلیم(26:89) جیسے الفاظ آئے ہیں۔ پرامن انسان وہ ہے جس کا دل غیر اللہ کی فکر سے خالی ہوجائے، جس کے دماغ میں اللہ کی نسبت سے کوئی کنفیوزن (confusion) باقی نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں

یہ قرآن کی فضیلت نہیں

ایک عالم نے قرآن پرایک مضمون شائع کیا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:وَلَا رَطْبٍ وَلَا یَابِسٍ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِینٍ (انعام59:)۔ یعنی کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں جو روشن کتاب (قرآن کریم) میں موجود نہ ہو۔ اس آیت کریمہ سے پتا چلا کہ زمین و آسمان کی ساری موجودات، بحر و بر، شجر و حجر، جمادات و نباتات، جن و انس، خاک کے ذرے، پانی کے قطرے، حیوانات اور دیگر مخلوقات، الغرض عالم کی پست و بالا کی جس چیز کا تصور کر لیجیے، قرآن نے صرف دو لفظ ’’ولا رطب و لا یابس‘‘ کہہ کر کائنات کے ایک ایک ذرے کا احاطہ کرلیا ہے اور ان سب چیزوں کا علم قرآن میں موجود ہے۔
یہ قرآن کا صحیح تعارف نہیں ہے۔ قرآن کوئی انسائیکلوپیڈیائی معلومات کی کتاب نہیں، قرآن ربانی ہدایت کی کتاب ہے۔ قرآن زندگی کی حقیقت کو بتاتا ہے۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ ہم دنیا میں کس طرح زندگی گزاریں کہ آخرت میں اللہ ہمارے لیے ابدی جنت میںداخلے کا فیصلہ فرمائے۔
قرآن معرفت کی کتاب ہے، وہ معلومات (information)کی کتاب نہیں۔ قرآن میں معلوماتی باتوں کا ذکر بھی ہے، لیکن وہ ہدایت ربانی کو بتانے کے لیے ہے، نہ کہ مجرد معلومات دینے کے لیے۔ مثلاً انسان کے جسم پر کتنے بال ہیں ، یہ ایک معلوماتی نوعیت کی چیز ہے۔ اس کو قرآن میں نہیں بتایا گیا ہے۔ البتہ قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کا جسم نہایت بامعنی جسم ہے۔ اس کی صورت گری نہایت حکمت کے انداز میں کی گئی ہے۔ انسان اگر اپنے جسم کی ساخت پر غور کرے تو وہ خالق کو اور تخلیق کی حکمت کو دریافت کرے گا، جو اس کے ایمان میں اضافہ کا سبب بن جائے گا۔ قرآن کی فضیلت خود قرآن کے مقصد تنزیل کے اعتبار سے معلوم ہوتی ہے، نہ کہ کسی انسان کے خودساختہ معیار کے اعتبار سے، اور قرآن کا معیار یہ ہے کہ اس پر ہدایت ربانی کے اعتبار سے غور کیا جائے، قرآن میں تدبر کے ذریعے کلمات اللہ اور آلاءاللہ کی معرفت حاصل کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی تفسیر

قرآن کی تفسیر میں کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں۔ عام طریقہ یہ ہے کہ ان مفسرین کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے طبقے میں صحابہ کی تفسیریں ہیں۔ مثلاً عبداللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن مسعود، وغیرہ۔ دوسرے طبقہ میں تابعین کی تفسیریں ہیں۔ مثلاً عکرمہ اور مجاہد، وغیرہ۔ تیسرے طبقے میں وہ لوگ جنھوں نے صحابہ و تابعین کے اقوال کو جمع کیا، مثلاً عبد الرزاق،اور سفیان بن عیینہ وغیرہ۔ چوتھے طبقہ میں وہ لوگ ہیں جنھوں نے صحابہ و تابعین کے اقوال پر اپنی توجیہہ اور ترجیح اور استنباط کو شامل کیا۔ مثلاً ابن جریر طبری،وغیرہ۔پانچویں طبقہ میں ان لوگوں کو شمار کیا گیا ہے ، جو قرآن کی تفسیر میں لغوی فوائد اور وجوہ اعراب کا ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً ابو اسحاق الزجاج اور ابو جعفر النحاس ،و غیرہ۔ چھٹے طبقہ میں وہ مفسرین آتےہیں جو کسی خاص علم میں شغف رکھتے تھے، اور اسی کے مطابق انھوں نےاپنی تفسیریں لکھی ہیں۔ مثلاً ابو حیان الاندلسی کی تفسیر البحر المحیط، جو نحوی قواعد کے اعتبار سے لکھی گئی ہے،اورابوبکر الجصاص کی احکام القرآن جس میں فقہی اعتبار سے آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔ ساتویں طبقہ میں دور جدید کے مفسرین کو شمارکیا جاسکتا ہے۔ مثلاً محمد عبدہ، رشید رضا ، اور سید قطب ،وغیرہ۔
مفسرین کے طبقات کی یہ تقسیم عملا ًدرست ہے، لیکن وہ بعد کے زمانے میں قائم کی گئی ہے۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے، اس میں صراحت کے ساتھ صرف ایک ہی طبقہ کا ذکر کیا گیا ہے، اور وہ قرآن میں تدبر اور تفکر کرنے والے لوگ ہیں۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ تاہم ظاہر ہے کہ یہ تدبر آزادانہ تدبر نہیںہوگا، بلکہ وہ اس معاملے میںتمام معتبر مآخذ اور معتبر شخصیتوں کو شامل کرکے کیا جائے گا۔ مطالعہ قرآن کا مقصد صرف فنی تقاضے کو پورا کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ قاری کے اپنے ذہن کا جزء بن جائے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے:بَلْ ہُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِی صُدُورِ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ (29:49)۔
واپس اوپر جائیں

قرآن، کتاب مہجور

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آٗئی ہے: وَقَالَ الرَّسُولُ یَارَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا (25:30)۔ رسول کہے گا کہ اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑی ہوئی کتاب بنا دیا۔
قرآن کو کتاب مہجور (abandoned book) بنانے کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بعد کے زمانے میں امت ایسا کرے گی کہ وہ قرآن کو کسی اندھیرے گوشے میں ڈال دے، اور وہ اس سے کوئی تعلق نہ رکھے۔ امت خواہ اپنے دور زوال میں ہو تب بھی اس کے لیے ایسا کرنا بالکل ناممکن ہے۔ قرآن بعد کے زمانے میں امت کا فخر (pride) بن جاتا ہے۔ پھر کیسے کوئی امت ایسا کرسکتی ہے کہ وہ قرآن کو اپنے لیے ایک چھوڑی ہوئی کتاب بنادے۔
اصل یہ ہے کہ حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ صرف زمانے کے اعتبار سے نہیں ، بلکہ روز و شب کے اعتبار سے بھی۔ مثلا ًبنو قریظہ کی روایت (صحیح البخاری، حدیث نمبر946) کے مطابق چند گھنٹوں کے اندر بھی حالات بدل سکتے ہیں، اور نئے اجتہاد کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اس لیے قرآن کو کتاب ہدایت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ امت کے علماءاور رہنماء اجتہاد کی صلاحیت کے حامل ہوں۔ وہ ہر نئی صورت حال میں قرآن کی تطبیق نو (reapplication) تیار کرسکیں۔ وہ قرآن کی ابدی تعلیمات کی وقتی تفسیر دریافت کرتے رہیں۔
اس معاملہ میں صحیح تطبیق کےلیے ضروری ہے کہ آدمی وقت کے حالات کا نہایت صحیح اندازہ کرسکے۔ اگر وہ اپنی غیر حقیقت پسندانہ فکر کی بنا پر موافق صورت حال کو اپنے لیے مخالف صورت حال سمجھ لے۔ تو وہ بدلے ہوئے حالات میںقرآن کی صحیح تطبیق دریافت کرنے میں ناکام رہے گا۔ وہ کسی حکم کا ایسا مفہوم سمجھ لے گا، جس کا کوئی تعلق قرآن سے نہ ہوگا۔ اس بنا پر قرآن کی درست تطبیق کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر درست فکر موجود ہو۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ معرفت

معرفت الٰہی کا اعلی درجہ وہ ہے جو مبنی بر حکمت معرفت (wisdom-based realization) ہو۔ یہ معرفت کی وہ قسم ہے جو ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے، جنھوں نے اپنے آپ کو اعلی درجے کے ذہنی ارتقا (intellectual development) پر پہنچایا ہو۔ عبد اللہ ابن رواحۃ (وفات8:ھ) اسی قسم کے ایک صحابی تھے۔ ان کے بارے میں ایک روایت حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آئی ہے:عن أنس بن مالک، قال:کان عبد اللہ بن رواحة إذا لقی الرجل من أصحابہ، یقول:تعال نؤمن بربنا ساعة، فقال ذات یوم لرجل، فغضب الرجل، فجاء إلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم، فقال: یا رسول اللہ، ألا ترى إلى ابن رواحة یرغّب عن إیمانک إلى إیمان ساعة؟ فقال النبی صلى اللہ علیہ وسلم: یرحم اللہ ابن رواحة، إنہ یحب المجالس التی تتباہى بہا الملائکة (مسند احمد، حدیث نمبر13796)۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ عبداللہ بن رواحہ ایسا کرتے تھے کہ جب وہ کسی صحابی سے ملتے تو وہ اس سے کہتے کہ آؤ، تھوڑی دیر اپنے رب پر ایمان لے آئیں، ایک دن انہوں نے یہی بات ایک آدمی سے کہی تو وہ غصہ ہوگیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر اس نے کہاکہ یا رسول اللہ ، کیا آپ ابن رواحہ کو نہیں دیکھتےکہ وہ لوگوں کو آپ پر ایمان لانے کے بجائے تھوڑی دیر کے لئے ایمان کی طرف بلاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ابن رواحہ پر رحم کرے، وہ ان مجلسوں کو پسند کرتے ہیں جن پر فرشتے رشک کرتے ہیں۔
یہ مبنی بر حکمت معرفت کی ایک مثال ہے۔ معلوم ریکارڈ کے مطابق بعد کے زمانے میں غالباًاس قسم کی معرفت کا تصور باقی نہ رہا۔اس کے بجائے ایک اور تصور رائج ہوگیاجس کو مبنی بر قلب تصور کہا جاسکتا ہے۔ اس دوسرے قسم کے معرفت کی ایک مثال محی الدین ابن عربی (وفات 638ھـ ) کی ہے۔ اس موضوع پر ان کا ایک شعر یہ ہے: العبد عبد وان ترقى والرب رب وان تنزل۔ بندہ بندہ ہے، اگرچہ وہ اوپر چڑھے۔ اور رب رب ہے، اگرچہ وہ نیچے اترے۔
اس قسم کی ایک اور مثال ابن قیم الجوزیة (وفات 751: ھـ)کی ہے۔ انھوں نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے: وَقَالَ تَعَالَى {لَیْسَ کمثلہ شَیْء} فَہَذَا من الْمثل الْأَعْلَى وہو مستو على قلب الْمُؤمن فہو عرْشہ (الفوائد، بیروت، 1973 ، صفحہ 27) ۔ اللہ نے فرمایا: اس کے مانند کوئی چیز نہیں(الشوری: 11)۔ اس لیے یہ ایک اعلی مثال کا معاملہ ہے۔ اور وہ مستوی ہے مومن کے قلب پر، پس مومن کا قلب اللہ کا عرش ہے۔
موجودہ زمانے میں سائنسی دریافتوں نے مبنی بر حکمت معرفت کے دائرے کو بہت زیادہ وسیع کردیا ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس نے جس نیچرل ورلڈ (natural world) کو دریافت کیا ہے، وہ پورا کا پورا گویا مبنی بر حکمت معرفت کی تفسیر ہے۔ ان دریافتوں نے موجودہ زمانے میں انسان کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ زیادہ بڑے پیمانے پر اعلی معرفت والا ایمان حاصل کرے۔
موجودہ زمانے میں سائنس کا ایک نیا موضوع (subject) وجود میں آیا ہے۔ اس کو انٹلجنٹ یونیورس (intelligent universe) کہا جاتا ہے۔ انٹلجنٹ یونیورس کے بارے میں سائنس کی نئی دریافتوں نے ساری کائنات کو معرفت اعلی کی کائنات بنا دیا ہے۔ اس موضوع پر موجودہ زمانے میں اہل علم نے کافی لکھا ہے۔ بطور مثال چند کتابیں یہ ہیں:
The Intelligent Universe, by Fred Hoyel (1984)
The Intelligent Universe: A Cybernetic Philosophy, by David Blythe Foster (1975)
The Intelligent Universe by James N. Gardner (2007)
Intelligent Universe: The Light-Second Code and the Golden Ratio, by Hristo Smolenov (2016)
اس موضوع پر کثیر تعداد میں مقالات اور کتابیں موجودہ زمانے میں شائع ہوئی ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ان تمام کتابوں اور مقالات کا موضوع بلااعلان رب العالمین کی معرفت ہے۔ ایک عربی ٹائٹل کے مطابق ان کو اللہ یتجلی فی عصر العلم کہا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کے ننانوے نام

حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے ننانوےنام ہیں(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2677)۔ سنن ابن ماجہ (حدیث نمبر 3861)میں ان ننانوے ناموں کو شمار کرکے بتایا گیا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص ان ناموں کا احصا کرے، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اس حدیث کا مطلب عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ننانوے ناموں کو یاد کرلیا جائے، اور تسبیح پر ان کا شمار جاری رکھا جائے۔ تو اس عمل سے آدمی جنت میں داخل ہوگا۔ مگر یہ عمل ننانوے نام کا ایک مصغر مفہوم (کمترمفہوم)ہے۔
اصل یہ ہے کہ یہاںنام (اسماء) سے مراد صفات (attributes)ہیں۔ مزید یہ کہ ننانوے سے مراد گنتی نہیں ہے، بلکہ اس سےمراد یہ ہے کہ اللہ کی بے شمار صفتیں ہیں۔ ذکر سے مراو ورد نہیں ہے، بلکہ باربار زندہ شعور کے ساتھ اللہ کو یادکرنا ہے۔ یہ بار بار کی یاد کس طرح ہوتی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اللہ کی آیات (نشانیوں )کو دریافت کرنا، اور ان کو پوائنٹ آف ریفرنس بنا کر برابر اللہ کی یاد کو اپنے ذہن میں تازہ کرتے رہنا۔ مثال کے طور پر قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہِ وَالْمَلَائِکَةُ مِنْ خِیفَتِہ (13:13) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہو، وہ جب بجلی کی گرج (thunder) کو سنے گا، تو وہ اس کے لیے ایک پوائنٹ آف ریفرنس بن جائے گی۔ وہ اس کو لے کر خالق کی عظمت کو یاد کرے گا۔ اس کے اندر خالق کے لیے خوف اور محبت کا چشمہ جاری ہوجائے گا۔
ننانوے نام کا مطلب وہی ہے جس کو قرآن میں دوسرے مقامات پر آیات کہا گیا ہے۔ یعنی کائنات میں اللہ کی بے شمار نشانیاں(signs) پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ نشانیاں ایک عارف انسان کے لیے اللہ کو یاد کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اس وقت وہ بے اختیارانہ طور پر اللہ کی یاد اور اس کی حمد میں مشغول ہوجاتا ہے۔ اس عمل سے اس کی شخصیت میں ربانی ارتقا ہوتا رہتا ہے، اور ربانی معرفت کے اعتبار سے یہی ارتقا یافتہ شخصیت وہ ہے جس کو ابدی جنت میں داخلہ ملے گا۔
واپس اوپر جائیں

عطیات خداوندی

ایک طویل حدیث رسول مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:وکلکم فقیر إلا من أغنیت فسلونی أرزقکم (سنن الترمذی، حدیث نمبر2495)۔ یعنی اے میرے بندو، تم سب کے سب محتاج ہو مگر وہ جس کو میں عطا کروں،اس لیے تم مجھ سے مانگو میں تم کو رزق عطا کروں گا۔
اس حدیث رسول کا تعلق صرف غریب اور امیر سے نہیں ہے، بلکہ انسان کی تمام ضرورتوں سے ہے۔ انسان ایک ضرورت مند مخلوق ہے۔ اس کی بے شمار ضرورتیں ہیں۔ لیکن کسی بھی ضرورت کو وہ خود پورا نہیں کرسکتا۔ وہ اپنی ہر ضرورت کے لیے محتاج ہے کہ خالق اس کو مسلسل طور پر پورا کرے۔ اگر خالق کی طرف سے اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام نہ ہو تو انسان کا حال یہ ہوگا کہ وہ ضرورت مند تو ہوگا لیکن وہ اپنی کسی بھی ضرورت کو خود سے پورا کرنے پر قادر نہ ہوگا۔ یہ پہلو انسان کے لیےایک ایسا پہلو ہے کہ وہ ہر وقت دعا اور شکر میں مشغول ر ہے۔
مثلا ً انسان کے پاس آنکھیں ہیں، لیکن آنکھ سے دیکھنے کے لیے اس کو روشنی کی ضرورت ہے، اور روشنی خالق کی طرف سے مسلسل دی جارہی ہے، تب وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنی آنکھ سے ہر چیز کو دیکھے۔ انسان کے پاس کان ہے، لیکن سننے کے لیے اس کو ہوا کی ضرورت ہے، اور ہوا کا مسلسل انتظام خالق کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ انسان کے پاس نظام ہضم ہے، لیکن غذا کی فراہمی خالق کی طرف سے کی جارہی ہے، ورنہ انسان نظام ہضم کے باوجود بھوکا پڑا رہے گا۔ انسان کے جسم میں 78 آرگن (organs) ہیں، جو انسان کو مسلسل طورپر زندہ رکھتے ہیں، مگر ان آرگن کو متحرک رکھنے کا انتظام صرف خالق کی طرف سے کیا جاتا ہے،ورنہ انسان زندہ اور صحت مند نہ رہے، وغیرہ۔
یہ فہرست اتنی ہی وسیع ہے، جتنا کہ کائنات وسیع ہے۔ انسان اگر ان خدائی انتظامات کے بارے میں سوچے تو وہ ہر لمحہ شکر خداوندی میں غر ق رہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی ذکر خداوندی سے غافل نہ ہو،وہ الَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہ (2:165)کا مصداق بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کے محبوب بندے

پیغمبروں کی تاریخ کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ (3:146)۔ یعنی اور بہت سے نبی گزرے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے قتال کیا، پھر جو مصیبتیں ان کو اللہ کی راہ میں پہنچیں ان کی وجہ سے نہ ہمت ہارے نہ کمزور پڑے، اور نہ عاجز ہوئے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اس آیت میں قتال اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے، بلکہ اپنے استعمالی معنی میں ہے۔ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو پر امن جہاد (peaceful struggle) کہا جاتا ہے۔ قرآن سےیہ ثابت نہیں کہ دوسرے نبیوں نے قتال کیا۔ اس لیے یہاں قتال کو اس کے لفظی معنی میں لینا درست نہ ہوگا۔ بلکہ اس سے مراد پیغمبرانہ مشن کی راہ میں مجاہدہ کبیر ہے۔
آیت میں تین الفاظ آئے ہیں: وہن، ضعف، اور استکانت۔ یہ تینوں الفاظ قریب المعنی ہیں۔ تینوں الفاظ کا خلاصہ ایک ہے۔ یعنی دینی مشن کی راہ میں مشکلات کے باوجود اپنا حوصلہ باقی رکھنا۔ یہاں تین لفظ تاکید کے لیے آئے ہیں۔ جیسا کہ علم المعانی کا اصول ہےکہ ایک معنی پر دلالت کرنے والے مختلف الفاظ کا ذکرمبالغہ و تاکید(تاکیداً و مبالغۃً) کے لیےہوتا ہے۔ (دیکھیے: المزھر فی علوم اللغۃ للسیوطی، 1/318)
قرآن کی مذکورہ آیت میں وہن ، ضعف، استکانت بظاہر تین الفاظ ہیں۔ مگر تینوں قریب المعنی ہیں، اور یہاں الفاظ کی یہ تکرار برائے تاکید ہے۔ یعنی وہ اہل ایمان اللہ کو محبوب ہوتے ہیں جو دینی مشن کا کام اس طرح انجام دیں کہ ہر حال میں وہ استقامت پر قائم رہیں۔ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ان کے ارادے میں تزلزل پیدا نہ کرے۔ کوئی بھی پیش آنے والا واقعہ ان کے حوصلہ میں کمی کرنے والا ثابت نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

مومن قوی، مومن ضعیف

ایک حدیث رسول ہے:المؤمن القوی، خیر وأحب إلى اللہ من المؤمن الضعیف، وفی کل خیر (صحیح مسلم، حدیث نمبر2664)۔ یعنی طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کے مقابلے میں بہتر اور زیادہ محبوب ہے، اور ہر ایک کےلیے خیر ہے۔
انسان پیدائشی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں، طاقت ور اور کمزور۔ اس لیے اہل ایمان میں بھی دو قسم کے افراد ہوسکتے ہیں۔ تاہم جس طرح طاقت ور مومن کے لیے خیر ہے، یعنی وہ زیادہ بڑے کام کرسکتا ہے۔ اسی طرح کمزور مومن کے لیے بھی خیر ہے۔ بشرطیکہ اس کے اندر سچی ایمانی اسپرٹ پائی جائے۔طاقت ور مومن کے لیے خیر یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کی بنا پر دین کے لیے زیادہ بڑے بڑے کام کرسکتا ہے۔ لیکن اللہ کا عطیہ یہیں تک محدود نہیں۔ اللہ کا عطیہ اتنا وسیع ہے کہ کمزور مومن اگر استحقاق پیدا کرے تو وہ بھی اعلیٰ خیر تک پہنچ سکتا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ اگرسچی اسپرٹ ہوتو کمزور مومن کچھ مزید صفات کا حامل ہوجاتا ہے۔ مثلا کمزور مومن میں تواضع (modesty)زیادہ ہوتی ہے۔ کمزور مومن دعا اور ذکر میں زیادہ مشغول ہوتا ہے۔ کمزور مومن اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ اس کے دل سے اپنے عجز کی بنا پر ایسی دعائیں نکلیں جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والی ہوں۔ اس قسم کے اسباب کمزور مومن کی روحانیت میں اضافہ کردیتے ہیں۔ طاقت ور مومن اگر جسمانی اعتبار سے قوی ہوتا ہے تو کمزور مومن اپنی روحانیت کے اعتبارسے قوی بن جاتا ہے۔
طاقت ور مومن کے لیے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی فخر (pride) میں مبتلا ہوجائے۔ لیکن کمزور مومن اس اعتبار سے محفوظ رہتا ہے۔ وہ اپنے عجز کی بنا پر زیادہ سے زیادہ متواضع (modest) بن جاتا ہے۔ اس طرح کمزور مومن اپنی کمزوری کے باوجود اس بات کا مستحق ہوجاتا ہے کہ اللہ اس کے عجز کی تلافی کے لیے اس کو اپنی خصوصی رحمت عطا فرمائے۔
واپس اوپر جائیں

اپنی تعمیر آپ

قرآن میں ایک نفسیاتی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ ، وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ (75:14-15) ۔ یعنی بلکہ انسان خود اپنے آپ سے خوب باخبر ہے۔ چاہے وہ کتنے ہی عذرات پیش کرے۔ قرآن کی اس آیت میں ایک نفسیاتی حقیقت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ نفسیاتی حقیقت ہر انسان کے لیے ایک حجت داخلی کی حیثیت رکھتی ہے۔
انسان بظاہر دوسرے حیوانات کی طرح ایک حیوان ہے۔ مگر انسان کے اندر ایک صفت ایسی ہے جو اس کے لیےغیر مشترک صفت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ صفت صرف انسان کے اندر پائی جاتی ہے، کسی اور حیوان کے اندر نہیں۔ ایگو (ego) کی صفت انسان اور دوسرے تمام حیوانات میںغیر مشترک طور پر پائی جاتی ہے، کسی میں کم کسی میں زیادہ۔ مگر ایک اضافی صفت ہے جو صرف انسان کو دی گئی ہے۔ یہ صفت کسی بھی حیوان کے اندر مطلق طور پر موجود نہیں۔ یہ ہے ضمیر (conscience) کی صفت۔ یعنی سیلف (self)کے ساتھ اینٹی سیلف (anti-self)کی صفت۔
یہ فرق بتاتا ہے کہ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ایک سیلف میڈ مین (self-made man) بنے، اور اس کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنی نگرانی خود کرے۔ وہ اپنے اندر سیلف کرکشن (self-correction) کا پراسس (process) جاری کرے۔ وہ تعمیر خویش کا نمونہ بن جائے۔
انسان کو اس کے خالق نے مکسچر آف اپوزٹس (mixture of opposites) بنایا ہے۔ یہ انسان کے اوپر اس کے خالق کا احسانِ عظیم ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ انسان سیلف ڈسکوری (self-discovery) کی سطح پر کھڑا ہو۔ وہ اپنی غلطی کو خود دریافت کرکے اس کی اصلاح کرتا رہے۔ خدا کی کتاب اور کائنات کی نشانیاں بلاشبہ انسان کے لیے مددگار ہیں۔ اسی کے ساتھ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کوخود اپنے عمل سے جنت کے لیے ایک مستحق امیدوار (deserving candidate)بنائے۔
انسان کے لیے اللہ نے جنت کو مقدر کیا ہے۔ جنت انسان کا ہیبیٹاٹ (habitat) ہے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کی تمام خواہشیں پوری ہوں گی، جہاں انسان کو مکمل معنوں میں فل فلمنٹ (fulfilment)حاصل ہوگا۔ اس قسم کی جنت بلاشبہ انسان کے لیے خالق کا سب سے بڑا عطیہ ہے۔
انسا ن کےاوپر خالق کا مزید احسان یہ ہے کہ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان کو جنت یہ کہہ کر دی جائے کہ تم کو جنت بطور استحقاق دی جارہی ہے۔ اگر چہ دینے والا پھر بھی خالق ہوگا۔ خالق کے بغیر انسان اس دنیا میں کوئی بھی چیز حاصل نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ خالق کی خصوصی عنایت ہے کہ وہ انسان کو جنت یہ کہہ کر دے کہ تم نے اپنے عمل سے اپنے آپ کو جنت کا مستحق ثابت کیا ہے ، اس لیے تم کو جنت دی جارہی ہے۔ اب تم اس میں ابدی طور پر عذر اور خوف سے محفوظ ہوکر قیام کرو۔
اس سلسلے میں ایک حدیث کا مطالعہ بہت اہم ہے۔ وہ حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: والذی نفسی بیدہ لو لم تذنبوا لذہب اللہ بکم، ولجاء بقوم یذنبون، فیستغفرون اللہ فیغفر لہم (صحیح مسلم، حدیث نمبر2749)۔ یعنی اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تم کو ہٹا دے گا اور ایسی قوم کو لائے گا جو گناہ کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ انہیں معاف فرما دے گا۔
اس حدیث میں گناہ اور مغفرت کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں زیادہ اہم بات کیا ہے۔ وہ گناہ کے اور مغفرت کے درمیان جاری ہونے والا نفسیاتی عمل (psychological process) ہے۔ جب انسان کو ئی گناہ کرتا ہے تو وہ اس کے ایگو کا فعل ہوتا ہے۔ مگر عین اسی وقت انسان کی دوسری صفت ضمیر جاگ اٹھتی ہے۔ اس کے اندر شدید ندامت کا عمل جاری ہوجاتا ہے۔ اس طرح انسان کے اندر ایک داخلی اسٹرگل (struggle) جاری ہوجاتا ہے۔ یعنی ایگو اور ضمیر یا سیلف اور اینٹی سیلف کے درمیان داخلی اسٹرگل۔ اس داخلی اسٹرگل کے ذریعہ انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج کرتی ہے۔ یہ شخصیت احساسِ خطا کے بغیر بن نہیں سکتی۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق

قرآن کی ایک سورہ کا نام التین ہے ۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: گواہ ہے تین اور زیتون ۔ اور طورسینا ۔ اور یہ بلد امین ۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر اس کو سب سے نیچے پھینک دیا۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ تو اب کیا ہے جس سے تم جزاء و سزاکو جھٹلا تے ہو۔ کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں۔
التین ، زیتون، طور سینین اور بلد امین، یہ چاروں علاقے چار پیغمبر وں کے مقامات عمل تھے۔التین کا تعلق حضرت نوح سے ہے، زیتون کا تعلق حضرت مسیح سے ، طور کا تعلق حضرت موسی سے ، اور بلد امین (مکہ) کا تعلق پیغمبر اسلام سے ۔ ان پیغمبروں نے انسان کو بتایا کہ اللہ رب العالمین کا نقشۂ تخلیق کیا ہے۔ اور اس کے مطابق اللہ انسان سے کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ خالق نے انسان کو احسن تقویم (best form) میں پیدا کیا۔ پھر اس کو اسفل سافلین (کمترین حالت) میں ڈال دیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اس کی تخلیق کے مطابق جو ہیبیٹاٹ (habitat) مطلوب ہے، اس دنیا میں وہ ہیبیٹاٹ انسان کو نہیں دیا گیا، بلکہ ایک ایسی دنیا میں اس کو بسایا گیا جو انسان کے لیے مطلوب ہیبیٹاٹ نہیں تھا۔ موجودہ دنیا انسان کو عام تقسیم کے اصول پر کسی استحقاق کے بغیر ملی ہے۔ مگر ہیبیٹاٹ صرف اس انسان کو ملے گا، جو موجودہ دنیا میں اپنے کردار سے اس کا استحقاق ثابت کرے۔
اس فرق کی بنا پر موجودہ دنیا میں انسان کا یہ حال ہے کہ وہ ہمیشہ غیر مطمئن رہتا ہے۔ کوئی بھی چیز اس کو سکون نہیںدیتی۔ کیوں کہ جس چیز سےاس کو سکون مل سکتا ہے، وہ اس کا ہیبیٹاٹ ہے، جو کہ موجودہ دنیا میں اس کو دیا ہی نہیں گیا۔ یہی موجودہ دنیا میں انسان کا اصل مسئلہ ہے۔ اس کی ایک مادی مثال مچھلی ہے۔ مچھلی کی ساخت دوسرے حیوانات سے مختلف ہوتی ہے۔ تمام حیوانات کی زندگی کے لیے آکسیجن ضروری ہے، تمام حیوانات ہوا سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔ لیکن مچھلی کی ساخت مختلف ہے۔مچھلی صرف پانی میں تحلیل شدہ آکسیجن (dissolved oxygen) سے آکسیجن حاصل کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مچھلی پانی کے باہر تڑپتی رہتی ہے، وہاں ہوا موجود ہوتی ہے، لیکن وہاں اس کے لیے تحلیل شدہ آکسیجن موجود نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پانی مچھلی کا ہیبیٹاٹ ہے۔ مچھلی اپنے ہیبیٹاٹ میں سکون کے ساتھ رہتی ہے۔ لیکن ہیبیٹاٹ کے باہر وہ بے چین ہوجاتی ہے۔ انسان کی یہی وہ حالت ہے جس کو ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِینَ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ انسان کا ہیبیٹاٹ جنت ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو جنت حاصل نہیں رہتی ، اس لیے یہاں وہ بے چین رہتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی اس حالت پر غور کرے۔ وہ غور و فکر کے ذریعہ اپنے ہیبیٹاٹ (جنت) کو دریافت کرے۔ اور پھر جنت کے مطابق عمل کرکے عالم آخرت میں اپنے ہیبیٹاٹ (جنت) کو پائے، اور وہاں ابدی خوشی کی زندگی گزارے۔
إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا سے مراد یہی ہے۔ یہاں ایمان سے مراد یہ ہے کہ آدمی پیغمبر کی رہنمائی پر تدبر کرے۔ وہ پیغمبر کی رہنمائی کے ذریعہ اللہ کے تخلیقی نقشہ کو جانے۔ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ ایمانی دریافت کے مطابق اپنی زندگی کا درست نقشہ بنائے، وہ اپنی عملی زندگی کو ایمانی دریافت کے مطابق تعمیرکرے۔الیس اللہ باحکم الحاکمین کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی شان کے خلاف ہے کہ وہ انسان کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کرے، اور پھر اس کو ابدی طور پر اسفل سافلین میں ڈال دے۔ تخلیق کے اندر پائی جانے والی اعلیٰ درجے کی معنویت انسان کے لیے اس انجام کی تردید کرتی ہے۔ اس پہلو پر غور کرکے انسان یہ دریافت کرتا ہے کہ انسان کے لیے پیدائشی طور پر یہ مقدر ہے کہ اس کو اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ ملے۔ لیکن یہ مطلوب ہیبیٹاٹ عمل صالح کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ انسان کو اس کی تخلیق تو اپنے آپ مل گئی۔ لیکن انسان کو اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ اپنے آپ ملنے والا نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایمان اور عمل صالح کی شرط کو پورا کرکے یہ ثابت کرے کہ وہ واقعۃً اس انعام کا اہل ہے۔ انسان کو اس کا وجود تخلیق کے ذریعہ اپنے آپ مل گیا، لیکن انسان کو اس کا ہیبیٹاٹ (جنت) اپنے آپ نہیں ملے گی، بلکہ جنت اس کو اس وقت ملے گی، جب کہ دنیا کی زندگی میں اپنے عمل سے وہ اپنے آپ کو جنت کا اہل ثابت کردے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کس کے لیے

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جنت فارم (form) جیسی کچھ چیزوں پر منحصر ہے۔ مثلاً مسلمان کے گھر میں پیدا ہوجانا، شناخت (identity)جیسی کچھ چیزوں پر پورا اترنا، کچھ ظاہری اعمال کی پابندی کرنا، زندگی میں کم از کم ایک بار صلاۃ التسبیح پڑھنا، اسلاف کے طریقے کا پیرو ہونا،حتی کہ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ’’کافروں‘‘ کو قتل کرنا جنت کا یقینی ٹکٹ ہے،وغیرہ۔
مگر صحیح بات یہ ہے کہ جنت میں داخلہ کی شرط صرف ایک ہے، اور وہ تزکیہ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آٰیا ہے:جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَذَلِکَ جَزَاءُ مَنْ تَزَکَّى (20:76)۔ یعنی ان کے لئے ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ بدلہ ہے اس شخص کا جو پاکیزگی اختیار کرے۔
تزکیہ کا لفظی مطلب پاکیزگی (purification)ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جنتی صفات کے ساتھ اپنی شخصیت کی تعمیر کرنا۔ قرآن و سنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں وہ شخص جائے گا جس کے اندر غش (کینہ) نہ ہو، جس کے اندر کبر کا مزاج نہ ہو، جو تشدد کی نفسیات سے پاک ہو، جس کے دل میں ہر ایک کے لیے صرف سلامتی کے جذبات ہوں، جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو، جو اللہ رب العالمین کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنائے، جو اعلی اخلاقیات کا مالک ہو، جو لوگوں کو معاف کردینے والا ہو،جو دوسروں کے لیے وہی پسند کرے جس کو خود وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے،جو انسان عامہ کا خیر خواہ ہو، وغیرہ۔
ان صفات کے مجموعے کا نام ربانی صفت ہے۔ جنت کے لیے وہی عورتیں اور مرد منتخب کیے جائیں گے جو ان ربانی صفات کے حامل ہوں۔ جنت ان لوگوں کا معاشرہ ہوگا جو خلق عظیم (القلم4:) کے مالک ہوں۔ جنت اسی قسم کی اعلی صفت رکھنے والوں کا اعلی معاشرہ ہے۔ جنت میں وہی افراد داخل کیے جائیں گے جو ان اعلی صفات کے حامل ہوں۔
واپس اوپر جائیں

جنت انسان کا ہیبیٹاٹ

قرآن کی سورہ التین آیات 4-5 میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا نے انسان کو احسن تقویم کی صورت میں پیدا کیا۔ پھر اس کو اسفل سافلین میں ڈال دیا۔ اسفل سافلین کا لفظی مطلب ہےسب سے نیچے (lowest of the low)۔ یہ بات کسی پر اسرار معنی میں نہیں ہے۔ اس سے مراد وہی واقعہ ہے، جو عملاً انسان کے ساتھ پیش آیا ہے۔ یعنی خالق نے انسان کو پیدا کیا، اور اس کے بعد اس کو موجودہ زمین (planet earth) پر بسا دیا۔
مگر انسان کی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کے لیے یہ زمین ہمیشہ مصیبت کی دنیا (البقرۃ 156:) ثابت ہوئی ۔ اس دنیا میں کوئی بھی شخص خواہ وہ صاحب سامان ہو یا بے سرو سامان اس کو کبھی خوشی کی زندگی حاصل نہیں ہوتی۔ ہر عورت اور ہرمرد اس دنیا میں عملاً ماہی بے آب کی زندگی گزارتے ہیں اور اسی حال میں مرجاتے ہیں۔
اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس دنیا میں تمام مخلوقات کو ان کا ھیبیٹاٹ (habitat) ملا ہوا ہے۔ لیکن انسان کو اس کا ہیبیٹاٹ حاصل نہیں۔ گویا کہ انسان اُس مچھلی کی مانند ہے جس کے لیے یہ مقدر ہو کہ وہ پانی کے باہر پیدا ہوگی، اور پانی کے بغیر تڑپتے تڑپتے مرجائے۔ مگر خالق کی جو صفات کمال اس دنیا میں ظاہر ہوئی ہیں، اس کے لحاظ سے یہ بات ناقابل قیاس ہے کہ انسان کی زندگی اس قسم کے المناک انجام پر ختم ہوجائے۔
اب ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ ہمارے گرد و پیش جو کائنات ہے، وہ بہت ہی وسیع کائنات ہے۔ اس وسیع کائنات کے بارے میں قرآن کا ایک بیان یہ ہے :بڑا بابرکت ہے وہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا کام کرتا ہے۔ اور وہ زبردست ہے،بخشنے والا ہے۔جس نے بنائے سات آسمان اوپر تلے، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے،پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی فطور (flaw) نظر آتا ہے۔پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمھاری طرف واپس آجائے گی۔(67:1-4)۔
قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ وسیع کائنات میں کسی بھی قسم کا فطور نہیں۔ فطور کا مطلب ہے نقص (flaw)۔ مگر خود قرآن کے بیان کے مطابق، اس بے نقص کائنات (flawless universe)میں ایک اسپاٹ ایسا ہے جہاں نقص کی حالت موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ انسان کو اس کا فطری ہیبیٹاٹ حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں کسی انسان کو کبھی فل فلمینٹ (fulfilment) نہیں ملتا۔ بے خطا کائنات میں اس قسم کا تضاد پایا جانا ممکن نہیں۔ ضروری ہے کہ اس سوال کا کوئی بامعنی جواب قرآن میں موجودہو۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی تمام مخلوقات میں انسان ایک استثناء (exception)ہے۔اس بنا پر خالق نے انسان کے ساتھ ایک استثنائی معاملہ کیا ہے۔ وہ یہ کہ انسان کی زندگی کو دو دور میں تقسیم کردیا گیا۔ ایک، قبل از موت دور اور دوسرا ،بعد از موت دور۔ قبل از موت دور انسان کے لیے تیاری کا دور (preparatory period) ہے۔ اس کےمقابلے میں دوسرا دور بعد از موت دور ہے۔ قبل از موت دور عارضی ہے۔ اس کے مقابلے میں بعد از موت دور ابدی دور ہے۔ یہ ابدی دور انسان کے لیے اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ ہوگا۔
اس ہیبیٹاٹ میں انسان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہے(فصلت31:)۔ یہ چاہنا انسان کی خواہش (desire) کے اعتبار سے بھی ہوگا اور انسان کے فکری تقاضے (intellectual requirement) کے اعتبار سے بھی۔یہاں انسان کی تمام خواہشیں پوری ہوں گی۔ مزید یہ کہ یہاں انسان کو اس کی فکری سرگرمیوں کے لیے لامحدود مواقع حاصل ہوں گے۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ قرآن کی ان آیات میں کیا گیا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے کلمات کبھی ختم نہ ہوں گے، خواہ اس کو لکھنے کے لیے تمام پیڑوں کو قلم بنادیا جائے، اور اس کو لکھنے کے لیے موجودہ سمندروں سے بھی زیادہ سمندروں کی سیاہی بنا دی جائے(الکہف : 109،لقمان: 27)۔
اس ابدی جنت یا دوسرے الفاظ میں اس ہیبیٹاٹ میں جگہ پانے کے لیے قرآن میں جو شرط بتائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان موجودہ امتحان کی دنیا سے گزرتے ہوئے، اپنے آپ کو احسن العمل (الملک2:) ثابت کرے۔ موجودہ دنیا اس انداز سے بنائی گئی ہے کہ یہاں آدمی کو ہر قسم کے تجربات پیش آتے ہیں۔ دنیا کے اس پہلو کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں اس طرح آیا ہے: اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو۔جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اﷲ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی شاباشیاں ہیں اور رحمت ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں ۔ (2:155-157)۔
انسان کے ساتھ موجودہ دنیا میں جو ناخوش گوار واقعات پیش آتے ہیں، وہ اس کی تربیت کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ واقعات اس لیے ہیں تاکہ انسان ہر صورتِ حال کا مثبت رسپانس (positive response) دے۔ اور اس طرح اپنے آپ کو ابدی جنت میں داخلے کے لیے اس کا اہل (competent) ثابت کرے۔ اہلیت کے اسی معاملے کو قرآن میں ایمان اور عمل صالح (التین6:) کہا گیا ہے۔
تاہم اللہ رب العالمین کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کے حق میں ارحم الراحمین ہے۔ اس معاملے کو ایک حدیث قدسی میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ غلبت رحمتی علی غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر3194)۔ یعنی میری رحمت میرے غضب کے اوپر غالب ہے۔
اللہ کی رحمت کی مختلف صورتیں ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ کے یہاں سائل کو بھی حقدار کا درجہ دیا گیا ہے(الذاریات19:، المعارج25:) ۔ اور ظاہر ہے کہ جب اللہ نے انسان کے لیے اس قسم کا اصول مقرر کیا ہے کہ سوال کرنے والے کے ساتھ بھی حقدار جیسا معاملہ کرو تو یقینی ہے کہ خود اللہ کی سنت بھی یہی ہوگی کہ اس کے یہاں کوئی سائل محروم نہ رہے۔ بشرطیکہ وہ حقیقی معنی میں سائل ہو۔
اس معاملے کی ایک عملی مثال قرآن میں تقسیم وراثت کی آیت میں اس طرح ملتی ہے:وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْیَتَامَى وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوہُمْ مِنْہُ وَقُولُوا لَہُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا (4:8)۔ یعنی اور اگر تقسیم کے وقت رشتہ دار اور یتیم اور محتاج آجائیں تو اس میں سے ان کو بھی کچھ دو اور ان سے ہمدردی کی بات کہو۔
اللہ کا کوئی بندہ قرآن کی اس آیت کو پڑھے، اور روتے ہوئے اللہ سے یہ کہے کہ خدایا، تونے انسانو ں کو یہ حکم دیا ہے کہ تقسیم وراثت کے وقت کوئی غیر مستحق اگر وہاں آجائے تو اس کو محروم نہ کرو ، بلکہ اس کو بھی ایک حصہ ادا کرو۔ خدایا، بندوں کے لیے جب تونے یہ اصول مقرر فرمایا ہے تو اس معاملے میں بے شمار گنا اعلی درجے میں تو اس صفت کا حامل ہوگا۔ میں اپنے عمل کے اعتبار سے ایک غیر مستحق انسان ہوں ، لیکن سوال کے اعتبار سے میں اپنے آپ کو جنت کا سوال کرنے والوں کی لائن میں کھڑا کررہاہوں۔ تو مجھ کو جنت سے محروم نہ فرما۔ اگر کوئی اللہ کا بندہ سچے دل کے ساتھ اس قسم کی دعا کرے تو یقینی ہے کہ اللہ کی رحمت سے اس کی دعا قبولیت کا درجہ پائے گی۔
قرآن میں جنت کا ذکر کرتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ (3:133)۔ یعنی دوڑو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان اور زمین ہیں۔ وہ تیار کی گئی ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے۔ قرآن کی اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنتی انسانوں کے لیے ان کا جو ابدی ھیبیٹاٹ بنے گا، اس کے امکانات کتنے زیادہ ہوں گے۔ وہ گویا اپنے آپ میں پوری کائنا ت ہوگا۔ اہل جنت کی اس دنیا کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا۔ خَالِدِینَ فِیہَا لَا یَبْغُونَ عَنْہَا حِوَلًا ۔ قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّی وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَدًا (18:107-109)۔ یعنی بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیا، ان کے لئے فردوس کے باغوں کی مہمانی ہے۔ اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ وہاں سے کبھی نکلنا نہ چاہیں گے۔ کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لئے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں۔
جنت میں ایک طرف اہل جنت کی تمام مادی خواہشوں کی تکمیل کا سامان ہوگا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ (41:31) یعنی اور تمہارے لیے وہاں ہر چیز ہے جس کا تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو جومادی نعمتیں ملی ہیں، وہ آخرت میں مزیداضافہ کے ساتھ انتہائی اعلیٰ صورت میں حاصل ہوں گی۔
مزید یہ کہ انسان کی ذہنی اور فکری سرگرمیوں کے لیے وہاں ایک ایسی وسیع دنیا ہوگی جس کی حدیں کبھی ختم نہ ہوں۔ اہل جنت کے لیےوہاں یہ موقع ہوگا کہ وہ اپنی فکری سرگرمیوں (intellectual activities) کو انتہائی تخلیقی انداز میں ابدی طور پر جاری رکھے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں ہمیشہ ہر ایک کے لیے ناموافق حالات موجود رہیں گے، تاکہ امتحان کے تقاضے کو پورا کیا جاسکے۔ خدائی تخلیق کے مطابق، معیاری دنیا موت کے بعد صرف جنت میں بنے گی۔ موجودہ دنیا میں انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ اس کو اگلے دورِ حیات میں بننے والی معیاری دنیا (جنت)میں داخلہ مل سکے۔ موجودہ دنیا میں معیاری سماجی نظام بنانے کی کوشش کرنا گویا جنت کو موجودہ دنیا ہی میں تعمیر کرنا ہے جو خدائی نقشہ کے مطابق، سرے سے ممکن ہی نہیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
واپس اوپر جائیں

استعداد بڑھایے

الرسالہ مشن سے جو لوگ وابستہ ہیں، ان کو ایک کام یہ کرنا ہے کہ وہ دعوت کے اعتبار سے اپنی استعداد کو بڑھائیں۔ مشن سے وابستہ ہونے کے وقت ان کی جو استعداد تھی، اسی پر قانع نہ ہو جائیں۔ مثلاً عربی جاننے والے ہیں، عربی بولنے میں اپنی استعداد کو بڑھائیں، اور جو انگریزی جاننے والے ہیں ، وہ انگریزی بولنے میں اپنی استعداد کو بڑھائیں۔
اس کوشش کا فائدہ یہ ہوگا کہ ان کا دائرہ ربط (contact area) بڑھ جائے گا۔ وہ ملاقاتوں میں یا اجتماعات میں اپنی بات کو زیادہ موثر (effective) انداز میں پیش کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ استعداد بڑھانا ، اپنی قوتِ کارکردگی کو بڑھانا ہے، جو کہ کسی صاحب مشن کے لیے بہت ضروری ہے۔یہ کوشش فطری طور پر ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہوگی۔ وہ داعی کو تخلیقی داعی (creative dayee) بنانے والا ثابت ہوگا۔ قرآن میں پیغمبر اسلام کو جن دعاؤں کی تلقین کی گئی ، ان میں سے ایک دعا یہ ہے:وَقُلْ رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا (20:114)۔ یعنی اور کہو کہ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ کر۔
اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی دعاؤںمیں اس دعا کو شامل کرو کہ رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا ۔ بلکہ یہ ایک منصوبہ بندی کی بات ہے۔ اس اعتبار سے اس کا تعلق صرف پیغمبر سے نہیں ہے، بلکہ اسلام کے ہر داعی سے ہے۔ ہر داعی کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے علم کو بڑھائے۔ وہ اپنی داعیانہ استطاعت میں اضافہ کرے۔ وہ اپنے آپ کو دعوت کے لیے زیادہ سے زیادہ اہل بنائے۔
داعی اور مدعو کا معاملہ صرف دعوت پہنچانے کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے۔ داعی جب دعوت کو اپنا نشانہ بناتاہے، اس کے بعد اس کو یہ بھی کرنا ہے کہ وہ دعوتی کام کو منصوبہ بند انداز میں کرے۔ وہ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ موثر داعی بنانے کی کوشش کرے۔
زید ابن ثابت انصاری رسول اللہ کے کاتب (secretary) تھے۔ ان کے بارے میں المسعودی نے لکھا ہے : وزید بن ثابت الأنصاری ... یکتب إلى الملوک ویجیب بحضرة النبی صلّى اللہ علیہ وسلّم وکان یترجم للنّبیّ صلّى اللہ علیہ وسلّم بالفارسیة والرومیّة والقبطیة والحبشیة، تعلم ذلک بالمدینة من أہل ہذہ الألسن(التنبیہ والإشراف للمسعودی، قاہرہ، صفحہ 246) ۔ یعنی زید ابن ثابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بادشاہوں کے نام خط لکھا کرتے تھے، اور ان کے خطوط کا جواب دیتے تھے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیےفارسی، رومی، قبطی، حبشی زبان سے ترجمہ کیا کرتے تھے۔ انھوں نے مدینہ میں اہل زبان سے یہ زبانیں سیکھی تھیں۔ اس کے علاوہ مسند احمد (حدیث نمبر21587)وغیرہ ،کی روایت کے مطابق انھوں نے یہودیوں کی زبان بھی سیکھی تھی۔
اس طرح ان کو چھ زبانیں آتی تھیں۔ عربی کے علاوہ فارسی، رومی، قبطی، حبشی اور سریانی ۔ داعی کے لیے زیادہ زبانیں جاننے کی ضرورت موجودہ زمانے میں اور بھی بڑھ گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں کمیونی کیشن (communication) اور دوسرے اسباب سے لوگوں کا ایک مقام سے دوسرے مقام پر جانا بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ مختلف سطح پرلوگوں کے درمیان تعلقات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیاہے۔ دعوت کے نئے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے زبان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ جو لوگ موجودہ زمانے میں دعوت کا کام کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں بہت زیادہ توجہ دیں۔ تاکہ وہ دعوت کا کام بہت زیادہ مفید انداز میں انجام دے سکیں۔
یہ بات صرف زبان کی حد تک محدود نہیں ہے، بلکہ موجودہ زمانے میں اس میں نئے پہلووں کا اضافہ ہواہے۔ مثلا کمپیوٹر، جو گویا کہ مشینی زبان کا ایک آلہ ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ کمپیوٹر کو سیکھیں، اور کمپیوٹر کے ذریعہ جو دعوت کے نئے مواقع حاصل ہوئے ہیں، اس کو اویل (avail) کریں۔ موجودہ زمانے میں کمپیوٹر صرف ایک چیز کا نام نہیں ہے۔ کمپیوٹر گویا ایک عالمی یونیورسٹی کا گیٹ وے (gateway) ہے۔ یہ عظیم نعمت ہے، اور اس نعمت کا شکر، یہ ہے کہ لوگ اس کو زیادہ سے زیادہ دعوت دین کے لیے استعمال کریں۔
واپس اوپر جائیں

ابلیس کا طریقہ

ابلیس جنا ت کا سردار تھا۔ قرآن و حدیث میں ابلیس کو برے کردار کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، اور اس کو لعنت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ اہل ایمان ابلیس سے پناہ کی دعا کرتے رہیں۔ابلیس کا جر م کیا تھا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے اللہ کے تخلیقی نقشہ (creation plan of God) کو اللہ کی نظر سے نہیں دیکھا ، بلکہ خود اپنی نظر سے دیکھا۔ اس تخلیقی نقشے میں کیا حکمتیں شامل ہیں، اس پر اس نے غور نہیں کیا، بلکہ صرف ایک بات کو لے کر اس کا دشمن بن گیا کہ اس تخلیقی نقشے میں اس کے اپنے خیال کے مطابق اس کو کم درجہ دیا گیا ہے، اور آدم کو زیادہ بڑا درجہ (الاعراف12:)۔
یہ ابلیس کا طرز فکر ہے۔ اس طرز فکر سے انسان کے اندر وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو منفی سوچ (negative thinking) کہا جاتا ہے۔ انسان اگر زندگی کے نظام کو خدائی نقشے کے مطابق سوچے تو اس کے اندر مثبت سوچ پیدا ہوگی۔ اس کے برعکس، اگر وہ زندگی کو صرف اپنے اعتبار سے سوچے تو وہ ہمیشہ منفی سوچ میں مبتلا رہے گا۔ کیوں کہ کہیں نہ کہیں اس کو نظر آئے گا کہ اس کے اپنے خیال کے مطابق اس کا جو درجہ ہے، وہ درجہ اس کو نہیں ملا۔ ایسے انسان کو یہ احساس ہمیشہ رہے گا، خواہ نظام کتنا ہی زیادہ درست کیوں نہ ہو۔
ابلیس کی غلطی یہ تھی کہ وہ منفی سوچ میں مبتلا ہوگیا، اور اتھاریٹی کے خلاف جھنڈا لے کر کھڑا ہوگیا۔ اس کے برعکس ملکوتی طرز فکر یہ ہے کہ آدمی کے حصے میں جو کچھ آیا ہے، وہ اس پر راضی رہے، اور یہ سمجھے کہ یہی اس کے لیے بہتر تھا (الخیر فیما وقع)۔ ایسا آدمی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر دھیان دے گا۔ اس طرح وہ درست راستے پر رہے گا۔اس ملکوتی طرز فکرکےمقابلے میں دوسرا شخص وہ ہے، جو اتھاریٹی کے خلاف تحریک چلائے۔ ایسا شخص بلاشبہ غلط راستے پر ہے۔پہلا انسان سماج میں خیر لائے گا، اور دوسرا انسان صرف فساد کا سبب بنے گا۔
واپس اوپر جائیں

انسان اللہ کا امین

قرآن کی ایک آیت وہ ہے جس کو آیتِ امانت کہا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنْسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا (33:72)۔ یعنی ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا۔
امانت کا مطلب ٹرسٹ (trust) ہے۔ یعنی اپنی ایک چیز کو بطور امانت کسی دوسرے کو دینا۔ یہاں امانت سے مراد ہے اللہ کی طرف سے دیا ہوا اختیار۔ گویا اللہ نے اپنی صفتِ اختیار کا ایک شمہ (iota)انسان کو دے دیا ہے۔ مگر یہ عطیہ بطور ذمہ داری ہے۔ یہ عطیہ بطور ٹسٹ (test) ہے۔ یعنی انسان اگر اس اختیار کو آزادانہ اختیار بنائے تو اس کی پکڑ ہوگی، لیکن اگر پابند اختیار بنائے تو اس پر اس کو انعام ملے گا۔گویا کہ یہ ایک خود عائدکردہ پابندی (self-imposed discipline) کا معاملہ ہے۔ آدمی اپنی عقل کو استعمال کرکے سب سے پہلے یہ کرتا ہے کہ وہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) پر کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کا عملی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود اختیار کردہ ذمہ داری کا کیس بن جاتا ہے۔ اس طرح انسان یہ ثبوت دیتا ہے کہ وہ اعلیٰ شعور اور اعلیٰ کردار کا حامل ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو کسی انسان کو جنت میں داخلے کے قابل بناتی ہے۔
اس عطیہ کے باوجود انسان، انسان رہتا ہے۔ اس سے غلطی کا صدور ہوجاتاہے۔ یہاں انسان کی معرفت اس کو متنبہ کرتی ہے۔ وہ شعوری طور پر دریافت کرتا ہے کہ وہ امانت کے معاملے میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام رہا۔ یہاں اس کے اندر توبہ (repentance) کا احساس جاگتا ہے۔ وہ دوبارہ اپنے حقیقی مقام کی طرف لوٹتا ہے۔ اس طرح وہ دوبارہ رب العالمین کے لیے قابل قبول بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا مثبت تصور

تخلیق کے قانون کے مطابق، موت ہر عورت اور ہر مرد پر آتی ہے۔ موت کیا ہے۔ موت یہ ہے کہ آدمی موجودہ دنیا سے مکمل طور پر جدا ہوجائے، اور اس دنیا میں پہنچ جائے جس کو آخرت کہا جاتا ہے۔یہ آخرت کی دنیا کیا ہے۔ یہ اللہ رب العالمین کی دنیا ہے۔ وہاں وَالْأَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلَّہِ (الانفطار16:) کا اصول رائج ہے۔ موجودہ دنیا بھی اللہ کے حکم کے تحت ہے۔ لیکن یہاں سب کچھ غیب میں ہو رہا ہے۔ آخرت وہ جگہ ہے، جہاں اللہ کی ہستی ایک مشہود ہستی بن جائے گی۔ جہاں بندہ براہ راست طور پر اپنے رب کے سامنے اپنے آپ کو پائے گا۔
اللہ کا تصور یہ ہے کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔ وہ تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کو مرنا ہے، اور مرنے کے بعد اس کوایک ایسے سفر کی طرف جانا ہے، جہاں اس کی ملاقات اللہ رب العالمین سے ہونے والی ہے، جہاں بندہ اپنے آپ کو معبود کے سامنے کھڑا ہوا پائے گا۔ جب معبود رحمان و رحیم ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اور رب کی یہ ملاقات یقیناً ایک پُرامید ملاقات ہوگی۔ یہاں بندہ اپنے رب کی طرف سے وہ چیز پائے گا، جس کی امید وہ ایک مہربان رب سے کیے ہوئے تھا۔
ایک حدیث قدسی میں آیا ہے:أنا عند ظن عبدی بی (مسند احمد، حدیث نمبر 9076)۔ یعنی میںبندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔ جو انسان یہ یقین رکھتا ہو کہ رب العالمین ایک رحیم و کریم رب ہے، اس کی مہربانیاں ہر مخلوق کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ ایسا انسان ضرور یہ بھی مانے گا کہ جب اس کی ملاقات اللہ سے ہوگی تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسے رب کے سامنے کھڑا ہوا پائے گا، جو تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔بندے کا یہ احساس اس کو ضرور یہ یقین دے گا کہ میرا رب ایک مہربان رب ہے، وہ ضرور میرے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرے گا۔ یہ یقین کسی بندے کے لیے اس کی موت کو ایک مثبت موت بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ری ایکشن کلچر

مادی دنیا کے قوانین میں سے ایک وہ ہے جس کو نیوٹن کی طرف منسوب کرکے، نیوٹنز تھرڈ لا کہا جاتا ہے:
Newton’s third law is: For every action, there is an equal and opposite reaction.
اصل میں یہ قانون تو فطرت کا قانون ہے۔مگر نیوٹن نے پہلی بار اس کو دریافت کیا تھا، اس لیے وہ نیوٹن کی طرف منسوب ہوگیا۔اس تیسرے قانون کا تعلق مٹیریل ورلڈ سے ہے۔یعنی مٹیریل ورلڈ میں ایسا ہوتا ہے۔مگر ہیومن ورلڈ میں ایموشن (emotion) شامل ہو جاتا ہے، اس لیے انسانی دنیا میں ہر ری ایکشن ری ایکشن پلس بن جاتا ہے۔یعنی ایموشن کی بنیاد پر ری ایکشن کی مقدار بہت بڑھ جاتی ہے۔غالباً یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّةً(8:25)۔یعنی اور ڈرو اس فتنہ سے جو خاص انھیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جن مقامات پر تشدد کے واقعات ہورہے ہیں۔ وہاں کچھ نوجوانوں نے پتھر پھینکا تھا، وہ ان کی غلطی ہوسکتی ہے۔ مگر جب فریق ثانی نے جوابی کارروائی کی تو انھوں نے ایسے لوگوں کو بھی مارڈالا جو اس میں براہ راست شریک نہ تھے۔مگر یہ سوچ درست سوچ نہیں۔ قرآن کے الفاظ میں ردعمل ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے۔چناں چہ صرف ظالم اس کی زد میں نہیں آتے، بلکہ غیر ظالم بھی ضرور اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔
قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مادی دنیا میں ردعمل ہمیشہ عمل کے برابر ہوتا ہے، لیکن انسانی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ انسانی دنیا میں جب ردعمل کا واقعہ ہو گا تو وہ ہمیشہ ابتدائی عمل سے زیادہ ہوگا۔ اس لیے عمل کرنے والوں کو اس معاملے میں عمل سے پہلے بہت زیادہ سوچنا چاہیے۔ اقدام کے بعد جب نتیجہ سامنے آجائے اس وقت شکایت کی بولی بولنا، ایسا کلام ہے جو خواہ گرامر کے لحاظ سے درست ہو، لیکن حقیقت کے لحاظ سے وہ بلاشبہ سر تا سر بے معنی ہو تا ہے۔
بیل کو اگر آپ ایک پتھر ماریں تو اس کے بعد یہ شکایت بے معنی ہے کہ میں نے تو صرف ایک پتھر مارا تھا، بیل نے میرے اوپر دو سینگوں سے کیوں حملہ کردیا۔یا آپ یہ کہیں کہ ہم نے تو کچھ دستی بم پھینکے تھے، پھر فریق ثانی نے ہوائی بمباری کیوں کرڈالی، وغیرہ۔فطرت کے قانون کے مطابق اجتماعی زندگی میں شکایت (complain) بے معنی ہے۔
حقیقت کے اعتبار سے دیکھیے تو شکایت کا لفظ صرف ڈکشنری میں پایا جاتا ہے۔ حقیقت کی دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ حقیقت کی دنیا اصلاً ایک بے شکایت دنیا ہے۔ شکایت اس وقت شروع ہوتی ہے جب کہ کوئی شخص ایک غلطی کرے، اور غلطی کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹھہرانے کے بجائے، اس کاذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے لگے۔
خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں شکایت کا کوئی مقام نہیں ۔ شکایت صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ اگر آپ کو کسی سے شکایت پیدا ہوتی ہے تو خود اپنے اندر اس کا سبب ڈھونڈیے، اور ساری توجہ اپنی اصلاح پر لگایے۔ اپنی اصلاح کرکے آپ مفروضہ شکایت کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ شکایت کے موقعہ پر آدمی کو چاہیے کہ وہ حسن تدبیر کا طریقہ اختیار کرے۔ شکایت سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ شکایت عملاً صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔
رد عمل (reaction) ہمیشہ کسی عمل کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ آپ کے عمل کے بعد دوسرے فریق کی طرف سے جو ردّعمل سامنے آئے، اس پر شکایت کرنا، بے فائدہ ہے۔ کوئی دوسرا آدمی آپ کی شکایت سے اپنے آپ کو ردّ عمل سے روکنے والا نہیں۔ رد عمل سے بچنے کا طریقہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ آپ اپنی طرف سے کوئی ایسا عمل نہ کریں، جس کا نتیجہ دوسروں کی طرف سے ردعمل کی صورت میں سامنے آئے۔آپ اپنی طرف سے پتھر نہ ماریں تو دوسروں کی طرف سے گولی بھی آنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوت سے بے خبری

ماہنامہ ترجمان القرآن میں ایک واقعہ ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے:’’غازی علم الدین شہید‘‘ (1908-1929) نے [شانِ رسالتؐ میں گستاخی پر مبنی کتاب کے ناشر] راج پال کو قتل (6 اپریل 1929ء) کیا توعلامہ محمد اقبال نے رشک کے ساتھ فرمایا:’’اسیں گلاں کر دے رہے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا۔ (ہم باتیں کرتے رہ گئے، اور ایک بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا)۔‘‘ـماہنامہ ترجمان القرآن ، دسمبر 2010 (عنوان: توہین رسالت کا مقدمہ)۔
اس واقعہ کوعام طور پر پسندیدگی کے انداز میں نقل کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ وہ ایک قابل نقد بات ہے۔اقبال نے اس واقعہ کو سن کو جو کچھ کہا وہ اسلامی بات نہ تھی۔ صحیح یہ تھا کہ اقبال کہتے کہ اس مسلمان نے ڈبل غلطی کی۔ ایک یہ کہ اس نے خود ہی مذکورہ آدمی کو سزا دی۔ حالاں کہ اسلام میں سزا دینا صرف قائم شدہ عدالت کا کام ہے۔ اس کی دوسری غلطی یہ تھی کہ اس نے مذکورہ غیر مسلم کو مجرم کے روپ میں دیکھا، حالاں کہ اسلام کے مطابق اس کی حیثیت ایک مدعو انسان کی تھی۔ مذکورہ مسلم نوجوان کو چاہیے تھا کہ وہ اس آدمی کے لیے دعا کرے، وہ اس سے ملاقات کرکے گفتگو کرے، وہ اس کو سیرت کی کتابیں پڑھنے کے لیے دے ۔
اس معاملے میں صحیح اسلامی موقف کو سمجھنے کے لیےایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ میں اپنی مشرکہ ماں کو اسلام کی دعوت دیتا تھا۔ میں نے ایک دن انہیں دعوت دی تو اس نے رسول اللہ کے بارے میں مجھے ناپسندیدہ بات سنائی ۔ میں رسول اللہ کے پاس روتے ہوئے پہنچا،اورکہا اے اللہ کے رسول ، میں اپنی ماں کو اسلام کی دعوت دیتا تھا، مگر وہ قبول نہیں کرتی تھی۔ میں نے آج انہیں دعوت دی تو اس نے آپ کے بارے ناپسندیدہ بات کی، آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ میری ماں کو ہدایت دے۔ رسول اللہ نے دعا کی، اے اللہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے ۔ چناں چہ ابو ہریرہ کی ماں نے اسلام قبول کرلیا۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر1895)
واپس اوپر جائیں

اجتہادی خطا کا معاملہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ یہود کی تمام سنتوں کو اختیار کر لیں گے:لیأتین على أمتی ما أتى على بنی إسرائیل حذو النعل بالنعل(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2641)۔ اس حدیث میں یہود کا حوالہ محض تاریخی مثال کے طور پر آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دورِ زوال کا ظاہرہ ہے۔ جب بھی کسی امت کی بعد کی نسلوں میں زوال کا دور آتا ہے تو اس کے اندر مشترک قسم کی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ صفات قدیم زمانہ میں یہود (امت موسیٰ )کے اندر پیدا ہوئیں۔ یہی چیزیں بعد کے زمانہ میں مسلمان (امت محمد) کے اندر پیدا ہونے والی تھیں۔ اس لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور انتباہ (warning) پیشگی طور پر امت مسلمہ کے بارے میں یہ بات کہی۔
زوال کے زمانہ میں پچھلی قوموں کے اندر جو خرابیاں پیدا ہوئیں، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّہِ (9:31)۔ یعنی انھوں نے اپنے احبار و رہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا۔
قرآن کی اس آیت میں اتخاذ رب کا لفظ شدت اظہار کے معنی میں آیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں یہود ی علماء و مشائخ نے بظاہر حسن نیت کے ساتھ اپنے ذاتی اجتہاد کے تحت کچھ طریقے اپنے دین میں اختیار کیے۔ یہودی علماء اور یہودی مشائخ کے یہ طریقے بعد کے زمانے میں مقدس بن گیے، اور یہود کی بعد کی نسلوں نے اس کو اس طرح اختیارکر لیا جیسے کہ وہ شریعت موسیٰ کا حصہ ہوں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: عن أبی موسیٰ الاشعری، قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:إن بنی إسرائیل کتبوا کتابا، فاتبعوہ، وترکوا التوراة (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر5548)۔بنی اسرائیل (یہود) نے کتاب لکھی ، پھر اس کی پیروی کی ، اور تورات کو چھوڑ دیا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے میں امت مسلمہ کے اندر بھی عملاً ایسا ہی ہوا۔ کچھ مسائل میں امت کے اکابر نے ذاتی اجتہاد کے تحت ایک طریقہ اختیار کیا، اور بعد کے زمانے میں امت کے لوگوں نے اس کو مقدس بنا کر اس کو شریعت محمدی کا حصہ سمجھ لیا۔ حالاں کہ بعد کے علماء کا یہ فرض تھا کہ وہ کھلے طور پر یہ اعلان کریں کہ یہ ہمارے اکابر کا ذاتی اجتہاد تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے اجتہاد میں کسی بھی شخص سے خطا ہوسکتی ہے۔ یہ ان لوگوں کی اجتہادی خطا تھی، اب ہم ان کو تاریخ ماضی کے خانہ میں ڈالتے ہیں، اور شریعت کے اصل حکم کی طرف واپس آتے ہیں۔ یہاں اس سلسلہ میں چند مثالیں دی جاتی ہیں:
1 - ان میں سے ایک تطلیقاتِ ثلاثہ کا مسئلہ ہے۔ اسلام میں نکاح کی حیثیت اصل (basic principle)کی ہے، اور طلاق کی حیثیت ایک نادر استثناء (rare exception) کی ۔ مزید یہ کہ طلاق کا ایک مقرر طریقہ (prescribed method) ہے۔ یہ طریقہ قرآن (البقرۃ 229:) میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے۔
رسول اللہ اور اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کے زمانے میں امت کے اندر یہی طریقہ رائج رہا۔ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں فراوانی (affluence) کا دور آیا۔ اس کے نتیجہ میں جو خرابیاں پیدا ہوئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ ایسے واقعات پیش آئے جب کہ لوگوں نے ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیا۔ عمر فاروق نے اس رجحان پر روک لگانے کے لیے یہ کیا کہ کچھ افراد کو بلاکر کوڑے مارے، اور ساتھ ہی تین طلاق کو واقع کرکے زوجین کے درمیان تفریق کرادی۔
خلیفہ ٔ ثانی عمر فاروق نے یہ طریقہ حکمِ حاکم (executive order) کے طور پر اختیارکیا تھا۔ حکمِ حاکم کا اختیار بلاشبہ جائز ہے، لیکن اس کی حیثیت وقتی ہوگی۔جہاں تک طلاق کے شرعی حکم کا تعلق ہے، وہ وہی رہے گا جو قرآن (البقرۃ229:)میں مذکور ہے۔کسی حاکم کو شریعت کے قانون کو بدلنے کا حق نہیں۔ خلیفۂ ثانی نے اپنے زمانے میں جو طریقہ اختیار کیا تھا، بعد کے علماء کے لیے ضروری تھا کہ وہ اعلان کریں کہ یہ ایک وقتی حکم تھا۔ اس سے شریعت کا مسئلہ نہیں بدلتا۔ لیکن اس کے بجائے علماء نے یہ کیا کہ خلیفۂ ثانی کے اس فیصلہ کو ایک مستقل شرعی حکم بنا کر اسلامی فقہ میں شامل کردیا۔ یہ بلاشبہ ایک غلطی تھی، اور اب فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ علماء اس غلطی کی تصحیح کریں، اور یہ اعلان کریں کہ اب طلاق کا وہی طریقہ عملاً باقی رہے گا، جو قرآن میں مذکور ہے۔ اس کے خلاف جو فتاویٰ دیے گیے ، وہ سب کے سب منسوخ قرار پائیں گے۔
2 - یہی معاملہ جزیہ کا تھا۔ جزیہ کا ذکر بلاشبہ قرآن میں موجود ہے۔ مگر وہ اسلام کے ابتدائی دور میں کچھ مخصوص گروہوں کے لیے وقتی طور پر بطور تعزیری ٹیکس (Punitive tax) اختیار کیا گیا تھا، وہ عام شرعی حکم نہ تھا کہ بعد کے زمانے میں بھی اس پر عمل کیا جائے۔ بعد کے زمانے میں اورنگ زیب جیسے جن مسلم سلاطین نے اس کو دوبارہ نافذ کیا، وہ ان کی اجتہادی خطا تھی۔ اب علماء کو یہ اعلان کرنا چاہیے کہ مسلم حکومتوں میں جزیہ کا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا، بلکہ جنرل ٹیکس (general taxation) کا طریقہ اختیار کیا جائے گا جو کہ دوسرے تمام ملکوں میں رائج ہے۔
3 - یہی معاملہ شاتم رسول کی سزا کا ہے۔ مسلم فقہاء نے عام طور پر اتفاق کرلیا ہے کہ شتم رسول ایک قابل دست اندازی جرم (cognizable offence) ہے۔ایسے شخص کو بطور حد قتل کیا جائے گا : قال ابن المنذر: أجمع عوام أہل العلم على أن حد من سب النبی صلى اللہ علیہ وسلم القتل ( الصارم المسلول على شاتم الرسول، ابن تیمیہ، صفحہ 3)۔ یعنی اکثر اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کیا، اس کی حد قتل ہے۔ اس مسئلہ میں اگرچہ بڑے بڑے علماء کے نام ہیں، لیکن یہ مسئلہ بلاشبہ ایک اجتہادی خطا کا مسئلہ ہے۔ اب علماء اسلام پر فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ اعلان کریں کہ شاتم رسول کے قتل کا مسئلہ شرعی مسئلہ نہ تھا، وہ اجتہادی خطا کا مسئلہ تھا۔ اب ہم اس کو ہمیشہ کے لیے ختم کرتے ہیں۔ جس انسان کو شاتم رسول قرار دیا جاتا ہے، وہ زیادہ درست طور پر مدعو ہوتا ہے، اور مدعو کے لیے نصیحت اور دعوت ہے، نہ کہ قتل۔
4 - یہی معاملہ جہاد بالسیف کا ہے۔ قرآن میں جہاد بالسیف یا قتال کا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن اس حکم کی ایک حد تھی۔ وہ کوئی ابدی حکم نہ تھا، جیسا کہ خود قرآن کی آیت سے واضح ہے: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ (2:193)۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق قتال کا حکم فتنہ کے ختم ہونے تک ہے۔ فتنہ ختم ہو جائے تو اس کے بعد قتال بھی ختم۔ فتنہ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے ۔ قدیم زمانہ میں فتنہ کا کلچر عام طور پر موجود تھا۔ لیکن موجودہ زمانہ میں خود یونیورسل نارم (universal norm) کے مطابق اس مذہبی فتنہ کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے۔ اس لیے اب فتنہ کے نام پر جنگ کا کوئی جواز نہیں۔ ایسی حالت میں موجودہ زمانے میں جن لوگوں نے جہاد بالسیف کا فتویٰ دیا، وہ سب کا سب اجتہادی خطا کا کیس تھا۔ افریقہ میں فرانس کے خلاف، ایشیا میں برٹش کے خلاف، فلسطین میں یہود کے خلاف، وغیرہ ۔ اس قسم کے تمام فتاویٰ بلاشبہ اجتہادی خطا کے کیس تھے۔ اب فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ علماء اس غلطی کا عمومی اعلان کریں۔ اس سے کم درجہ کی کوئی چیز اس معاملہ میں قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
موجودہ زمانہ میں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں اصلاح (reform) کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ مگر یہ صرف غلط فہمی کی بنا پر ہے۔ اس سلسلہ میں جو مثالیں دی جاتی ہیں، ان کا تعلق خود اسلام سے نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کے اپنے اضافہ سے ہے۔ اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اپنے اضافے سے اسلام کو پاک کرنے کی ضرورت۔ خود اسلام میں اصلاح یا نظر ثانی کی ضرورت اس سے ثابت نہیں ہوتی۔ (فکر اسلامی)
٭ ٭ ٭
روزہ — اطاعتِ الٰہی کی مشق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر معاملہ میں اسی طرح خدا کے حکم کی پابندی کریں گے جس طرح رمضان میں کھانے پینے کے معاملے میں کرتے ہیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
واپس اوپر جائیں

اصل مسئلہ

ایک تعلیم یافتہ مسلمان کا مضمون نظر سے گزرا۔ انھوں نے ہندوستان میں مسلمان اور سیاست کے موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ ملکی سیاست میں ان کی بے وزنی ہے، جس کے بعض اسباب خارجی ہیں، تو بعض اسباب داخلی بھی ہیں۔ خارجی اسباب میں مثلاً ہندتو وادی قوتیں، قومی و علاقائی سیکولر پارٹیوں کا عملی رویہ، فسادات، اب تک مرکز میں بر سر اقتدار مختلف سیاسی پارٹیوں کی ظالمانہ پالیسیاں ،وغیرہ ہیں، جنھوں نے مسلمانوں کو بے وقعت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ عام طور پر یہی زبان بولتا ہے۔ یہ لوگ اعلان کرتے ہیں کہ مسلمان اس زمانے میں بے وقعت ہوگیے ہیں۔ اس کا سبب ان کے نزدیک اغیار کی ظالمانہ پالیسی ہے۔ یہ رائے موجودہ زمانہ میں اتنی عام ہے کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس رائے پر مسلمانوںکا اجماع ہے۔ مگر یہ اجماع سر تا سر بے بنیاد ہے۔ اس نظریے کی غلطی اسی سے ثابت ہوتی ہے کہ وہ قرآن کی صراحت کے سراسر خلاف ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے :وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ إِنَّکَ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ (3:26)۔ یعنی اللہ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلیل کرے۔ اور خیر صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
مذکورہ آیت اور قرآن و حدیث کے دوسرے نصوص کے مطابق مسلمانوں کو چاہیے کہ جب بھی وہ کسی ’’ظلم‘‘ کے تجربے سے دوچار ہوں تو وہ ہمیشہ اس کا سبب خود اپنے اندر تلاش کریں۔ وہ یقین کریں کہ ان پر جو کچھ گزر رہا ہے وہ صرف ان کی اپنی کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ ایسا کوئی خارجی ظلم حقیقت میں کہیں موجود نہیں۔اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ داخلی اصلاح کے ذریعہ خود اپنی کوتاہی کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کے بجائے دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج کی مہم چلانا، بلاشبہ غیر حقیقی ہے۔ اس سے ہرگز صورتِ حال بدلنے والی نہیں۔یہی اسلام کا تقاضا ہے، اور یہی عقل کا تقاضا بھی۔
واپس اوپر جائیں

بقدر استطاعت کا اصول

اسلام میں جو احکام ہیں ، وہ سب کے سب بقدر استطاعت پر مبنی ہیں۔ یعنی ایک شخص کی ذمہ داری صرف اسی کی ہے جو اس کے بس میں ہو۔ جو چیز اس کے بس میں نہ ہو، اس کی ذمہ داری بھی اس پر نہیں۔
اجتماعی معاملات میں اس اصول کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص کو کوئی صورت حال ایسی نظر آتی ہے، جو اس کے نزدیک قابل اصلاح ہے تو ایسے آدمی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ عملی اقدام سے اپنے کام کا آغاز کرے۔ بلکہ یہ کرنا ہوگا کہ وہ حالات کوغیر جانب دارانہ انداز میں سمجھے، اور پھر اپنی طاقت کا غیر جذباتی طور پر اندازہ کرے۔ اس بے لاگ اندازہ کے بعد وہ یہ سوچے کہ اس موقع پر اگر میں عملی اقدام کروں تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اگر اس کی یہ رائے ہو کہ وہ اپنے اقدام سے مثبت نتیجہ پیدا کرسکتا ہے تو اس کے لیے عملی اقدام کرنا جائز ہوگا، اور اگر مثبت نتیجہ مشتبہ ہو تو ایسی حالت میں اس کو ہرگز عملی اقدام نہیں کرنا چاہیے۔
اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ عملی اقدام کے بعد درمیان میں اگر اس کو محسوس ہو کہ اس کا اقدام مثبت عملی نتیجہ پیدا کرنے میں ناکام ہور ہا ہے تو فوراً اس کو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے پیچھے لوٹنا چاہیے۔ اس کے بعد اس کے لیے دو آپشن ہے۔ یا تو وہ اپنے آپ کو اقدام کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے، بالکل خاموش ہوجائے یا اگر اس کو غیر جذباتی اندازہ کے بعد یہ محسوس ہو کہ اس کی منصوبہ بندی (planning) غلط تھی، اور اس کے لیے ممکن ہے کہ وہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعہ دوبارہ کوئی مفید نتیجہ پیدا کرسکتا ہے، تب اس کے لیے جائز ہوگا کہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میںاپنی کوشش کا دوبارہ آغاز کرے۔ نماز کی ادائیگی کا معاملہ ہو تو ہر آدمی آزاد ہے کہ وہ وقت آنے پر نماز ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے، لیکن اجتماعی زندگی کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اجتماعی زندگی کا اصول یہ ہے کہ بے نتیجہ عمل سے بہتر ہے کہ آدمی کوئی عمل ہی نہ کرے۔
واپس اوپر جائیں

دلیل کے بغیر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے: من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیرا أو لیصمت(صحیح البخاری، حدیث نمبر6018)۔ یعنی جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، تو اس کو چاہیے کہ وہ خیر کی بات کہے یا خاموش رہے۔
عربی زبان میں خیر کے معنی بھلائی کے ہوتے ہیں۔ قول کی نسبت سے یہاں اس کا مطلب مدلل بات (reason-based word) ہے۔ اس حدیث کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے۔ اجتماعی زندگی میں آدمی جب کسی کے بارے میں کوئی بات کہے تو وہ صرف بیانیہ انداز میں نہ ہو، اور نہ مدح اور ذم کے انداز میں، بلکہ مبنی بر ثبوت ہونا چاہیے۔ کہنے والے کے پاس اپنی بات کے لیے اگر ثابت شدہ دلیل (established proof) ہے، تو اس کو بولنے کا حق ہے، ورنہ ضروری ہے کہ وہ چپ رہے۔
اس معاملے میں آدمی کے پاس آپشن (option) بولنے یا نہ بولنے کے درمیان نہیں ہے۔ بلکہ صحیح آپشن یہ ہے کہ آدمی بولے تو دلیل کے ساتھ بولے، ورنہ وہ چپ رہے۔ دلیل ایسی ہونی چاہے جو ٹھوس دلیل ہو۔ دلیل وہ ہے جو خارجی طور پر ثابت ہوتی ہو۔ جو بات صرف کہنے والے کے اپنے ذہن کی بات ہو، وہ دلیل نہیں ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ دلیل وہ ہے جو طرفین کے درمیان ثابت شدہ ہو۔ جو بات آدمی کے اپنے خیال کے مطابق اہم ہو، لیکن علم کے معیار پر وہ پوری نہ اترے، وہ دلیل نہیں ہے۔
دلیل کی زبان میں بولنا، قائل کے لیے بھی مفید ہے، اور سامع کے لیے بھی۔ سامع کے لیے اس لیے کہ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی غلطی پر متنبہ ہو، اور اس پر غور کرے، اور قائل کے لیےاس لیے کہ وہ جب دلیل کے انداز میں بولے گا تو یہ اس کے اپنے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

مصیبت کا قانون

قرآن کی ایک آیت میں ابتلا (test) کا قانون بتایا گیا ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دو (البقرۃ 155:)۔
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان پر کوئی نہ کوئی مصیبت آئے گی۔ لیکن یہ مصیبت شَیْء یا کچھ (something)کی صورت میں ہوگی۔ اس آیت میں شیء (کچھ) کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ اس بات کو اگر لفظ بدل کر کہا جائے تو یہ ہوگا کہ انسان کے اوپرجو مصیبت آئے گی، وہ اس کی ہلاکت کے لیے نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس کی اصلاح و تربیت کے لیے ہوگی۔
اصل یہ ہے کہ مسائل دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو کچلنے والا مسئلہ (crippling problem) کہا جائے گا، اور دوسرا وہ جس کو نہ کچلنے والا مسئلہ (non-crippling problem) کہا جائے گا۔ اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق انسان پر جو مصیبت یا مسئلہ پیش آتا ہے، وہ نہ کچلنے والا مسئلہ ہوتا ہے، نہ کہ کچلنے والا مسئلہ۔ نہ کچلنے والا مسئلہ آدمی کے لیے ایک تجربہ ہوتا ہے۔ وہ آدمی کی تربیت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس سے آدمی کو سیکھ (learning) حاصل ہوتی ہے۔ اس سے آدمی کی شخصیت میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے مسئلے میں مبتلا ہونے سے آدمی کی عقل میںاضافہ ہوتا ہے۔
اس کے برعکس، کچلنے والے مسئلہ کی صورت میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اس کا تحمل نہیں کرپاتا۔وہ شدید قسم کی مایوسی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کی عقل کام نہیں کرتی۔ وہ حالات سے اوپر اٹھ کر سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔ اللہ کی طرف سے آنے والی مصیبت چوں کہ انسان کی تربیت کے لیے ہوتی ہے، اس لیے وہ ہمیشہ نہ کچلنے والے مسئلہ کی صورت میںا ٓتی ہے، نہ کہ کچلنے والے مسئلہ کی صورت میں۔ اس لیے اس ابتلاء کو اللہ کی رحمت کا معاملہ سمجھنا چاہیے، نہ کہ زحمت کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

ہر چیز ہر ایک کے لیے

9 اپریل 2017 کونئی دہلی کے انگریزی اخبار ، دی ٹائمس آف انڈیا(اسپیکنگ ٹری ایڈیشن) میں راقم الحروف کا ایک مضمون چھپا ہے۔ اس کا عنوان ہے، جمہوریت سب کے لیے :
Democracy is for all
یہ بات صرف جمہوریت کے لیے نہیں ہے، بلکہ پورے دور (age)کے لیے ہے۔ موجودہ دور ایک نیا دور ہے۔ اس دور میں قدیم طرز کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اب دنیا میں کوئی مراعات یافتہ طبقہ (privileged class)نہیں۔ اب ہر موقع ہر ایک کے لیے کھل گیا ہے۔ اب ہر آدمی اپنے حوصلے کے مطابق جس میدان میں چاہے اپنی قسمت آزمائی کرسکتا ہے۔ اب کسی شعبہ پر کسی طبقے کی اجارہ داری (monopoly) نہیں۔ تاہم ایک شرط ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی کو اپنی کوشش امن (peace) کے دائرے میں کرنا چاہیے۔ تشدد کا دائرہ کسی کے لیے بھی کھلا ہوا نہیں ہے۔ جب تک آپ پرامن رہیں، کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ تشدد کا طریقہ اختیار کریں تو دنیا میں کوئی آپ کی حمایت کرنے والا نہیں ہوگا۔
اس نئے ظاہرہ نے تعلیم کی اہمیت بہت زیادہ بڑھادی ہے۔ ہر قسم کے تعلیمی ادارے ساری دنیا میں بڑے پیمانے پر کھل گیے ہیں۔ یہ ادارے آپ کی تعلیم کا انتظام کرتے ہیں، اور پھر آپ کی تعلیمی لیاقت کا امتحان لیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کی لیاقت (competence) کے مطابق آپ کو ڈگری دیتے ہیں۔ یہی تعلیمی ڈگریاں موجودہ زمانے میں آدمی کی پروفیشنل پہچان بن گئی ہیں۔ اب ہر انسا ن کو اس کی تعلیمی ڈگری کی حیثیت سے جانچا جاتا ہے، اور اسی کے مطابق اس کو مواقع دیے جاتے ہیں۔ تعلیم کا یہ دروازہ ہر مرد اور ہر عورت کے لیے کھلا ہوا ہے۔ اب ہر ایک کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لے کر اس کا سرٹیفکٹ یا ڈگری حاصل کرے۔ یہ ڈگری ساری دنیا میں اس کے لیے کار آمد بن جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

منفی سوچ نہیں

اگر کسی بات پر آپ کے اندر منفی سوچ پیدا ہوجائے، تو فورا ًاس کو اپنے اندر سے ختم کردیجیے۔ منفی سوچ کی نفسیات یہ ہے کہ اگر ایک بار آپ کے اندر کسی بات پر منفی سوچ پیدا ہوجائے تو وہ برابر جاری رہے گی۔ یہاں تک کہ وہ آپ کی کنڈیشننگ کا حصہ بن جائے گی۔ منفی سوچ کو یا تو ابھی ختم کرنا ہے، اور اگر ابھی اس کو ختم نہ کریں تو پھر وہ کبھی ختم ہونے والی نہیں ۔
انسان کے ذہن میں ہر وقت ٹرین آف تھاٹ (train of thought) چلتا رہتا ہے۔ وہ نان اسٹاپ طور پر خود بخود چلتا ہے۔ ٹرین آف تھاٹ کو روکنا ممکن نہیں ۔ آپ صرف یہ کرسکتے ہیں کہ آپ اپنے ذہن میں منفی آئٹم نہ ڈالیں یا اگر کوئی منفی آئٹم پڑ گیا ہے تو فوراً اس کو نکال دیں۔ اگر آپ نے فوراً اس کو نہیں نکالا تو وہ مزید پختہ ہوتا چلا جائے گا۔ وہ آپ کی طبیعت ثانیہ (second nature) بن جائے گا۔
منفی سوچ کوئی سادہ بات نہیں۔ منفی سوچ آپ کے اندر تمام اچھی باتوں کے ڈیولپمنٹ کو روک دیتی ہے۔ اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ چیزوں کو منفی زاویے سے سوچنے کےعادی ہوجاتے ہیں۔ آپ کے اندر مثبت سوچ کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ آپ تخلیقی سوچ (creative thinking) کے قابل نہیں رہتے، اور سب سے زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ منفی سوچ والا آدمی فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوجاتا ہے۔
موجودہ دنیا میں بار بار ایسے اسباب پیش آتے ہیں، جو آدمی کو منفی سوچ میں مبتلا کردیں۔ ایسا ہونا بالکل فطری بات ہے۔ آپ ایسا ہونے کو روک نہیں سکتے۔ البتہ آپ ایسا کرسکتے ہیں کہ منفی سوچ کو یاد کے خانے سے نکال کر فراموشی کے خانے میں ڈال دیں۔ آپ منفی بات کو اپنی کنڈیشننگ (conditioning) کےپراسس میں شامل ہونے سے دور رکھیں۔آپ منفی سوچ کو اپنی شخصیت (personality) کا مستقل حصہ نہ بننے دیں۔
واپس اوپر جائیں

چلو یہ بھی ٹھیک ہے

امریکا کے سفر میں ایک بار مجھے چند دن کے لیے ایک صاحب کے یہاں ٹھہرنے کا موقع ملا۔ یہ مسٹر صغیر اسلم ہیں جو کیلیفورنیا میں رہتے ہیں۔میں نے دیکھا کہ مسٹر صغیر اسلم عام لوگوں کے برعکس ہمیشہ ٹنشن سے خالی (tension-free) رہتے ہیں۔ اس کا راز ان کا ایک سمپل فارمولا تھا۔ جب بھی ان سے کوئی اختلاف کی بات کرتا تو وہ فوراً وہ کہہ دیتے کہ چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔ خود مجھ کو بھی اس کا تجربہ ہوا۔ ایک دن میں نے مسٹر صغیر اسلم سے کہا کہ کل صبح سائٹ سی اِنگ (sight seeing) کے لیے چلیں گے۔ انھوں نے اتفاق کیا۔
اگلی صبح کو وہ تیار ہوکر میرے کمرے میں آگیے، اور چلنے کے لیے کہا۔ میں نے جواب دیا کہ اِس وقت میرا کہیں جانے کا موڈ نہیں ہے، پھر دیکھیں گے۔ اس کے بعد انھوں نے کچھ بھی نہیں کہا، معتدل انداز میں صرف یہ جواب دیا: چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔حالاں کہ مسٹر صغیر اسلم ایک مصروف آدمی ہیں، اور اپنے کئی پروگرام کو موقوف کرکے انھوں نے میرے ساتھ چلنے کا وقت نکالا تھا۔
اجتماعی زندگی کے لیے یہ بہترین قابل عمل فارمولا ہے۔ گھر کے اندر کی زندگی ہو یا گھر کے باہر کی زندگی، ہر جگہ لوگوں کے درمیان بار بار اختلافی مسائل پیش آتے ہیں۔ ایسے موقعے پر حالات کو دوبارہ معتدل کرنے کے لیے سب سے اچھا عملی فارمولا یہ ہے کہ آپ فریق ثانی سے ٹکراؤ نہ کریں۔ بحث کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں کہ صحیح کیا ہے، اور غلط کیا۔ بلکہ فوراً یہ کہہ دیں: چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔اجتماعی زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ کیا درست ہے، اور کیا نادرست۔ ایسی حالت میں پہلی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وقت کو بچایا جائے۔ غیر مفید بحث میں وقت ضائع کرنے کے بجائے یہ کہہ کر بات کو ختم کردیا جائے کہ : چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔ایسے موقعے کے لیے یہ بہترین پریکٹکل فارمولا ہے۔ اس فارمولے پر عمل کرنے کی صورت میں وقت بھی بچتا ہے، اور غیر ضروری بحث و مباحثہ کی نوبت نہیں آتی۔
واپس اوپر جائیں

غلطی کو سنبھالنا

ایک مرتبہ میں ٹیکسی پر سفر کررہا تھا۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ کتنے سال سے ٹیکسی چلا رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ تقریباً بیس سال سے ۔ میں نے پوچھا کہ اس مدت میں ، کیا آپ کی ٹیکسی کے ساتھ کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ میں نے دوبارہ پوچھا کہ ایکسیڈنٹ نہ ہونے کا راز کیا ہے۔ اس نے کہا— دوسرے کی غلطی کو سنبھالنا۔ اس نے مزید کہا کہ جب میں روڈ پر چل رہا ہوں ، اور میں دیکھتا ہوں کہ دوسرا ڈرائیور غلطی کررہا ہے تو میں ایسا نہیں کرتا کہ ہارن بجانا شروع کردوں۔ بلکہ میں یہ سوچتا ہوں کہ اس کی غلطی کو میں کس طرح سنبھالوں۔ میرا طریقہ یہ نہیں ہے کہ میں ہارن بجا کر دوسرے کی غلطی کا اعلان کروں ، بلکہ میرا طریقہ یہ ہے کہ اپنی عقل کو استعمال کرکے یہ جانوں کہ اس غلطی کے انجام سے بچنے کی تدبیر کیا ہے۔
یہ صرف ٹیکسی ڈرائیور کی بات نہیں ، بلکہ وہ زندگی کا ایک کامیاب اصول ہے۔ لوگ عام طور پر کام یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسرے کی غلطی بتاتے رہیں۔ وہ دوسرے کی غلطی کو لے کر اس کے خلاف پروٹسٹ کرنا شروع کردیں۔ مگر یہ کوئی کام نہیں ، بلکہ وہ صرف رد عمل (reaction) ہے۔ اس دنیا میں مثبت عمل سے کام بنتا ہے، نہ کہ رد عمل سے۔
ردّ عمل کا طریقہ یہ بتاتا ہے کہ آدمی کے پاس صحیح سوچ (right thinking) نہیںہے۔ وہ صرف یہ جانتا ہے کہ جس کو وہ بطور خود غلط کرتا ہوا پائے، اس کے خلاف وہ احتجاج کرنا شروع کردے۔ ایسے انسان کا ہاتھ صرف ہارن پر ہوتا ہے۔ دوسرا انسان وہ ہے جو ہمیشہ اپنی عقل کو بیدار رکھتا ہے۔ وہ اپنے ذہن کی قوت کو استعمال کرکے دریافت کرتا ہے کہ اصل معاملہ کیا ہے، اور کسی مزید بگاڑ کے بغیر اس کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔ احتجاج (protest) ہر آدمی کرسکتا ہے، لیکن دانش مند آدمی وہ ہے جو مثبت سوچ کے تحت صورتِ حال کا جائزہ لے، اور پیدا شدہ مسئلے کا حقیقی حل دریافت کرے۔ غلطی کو درست کرنا اصل کام ہے، نہ کہ غلطی کے خلاف شور کرنا۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 252

پنجابی ترجمہ قرآن: گڈورڈ بکس کے تحت شائع ہونے والے تراجم قرآن کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ ہے پنجابی زبان میں قرآن کا ترجمہ۔ یہ ترجمہ پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ کے ایک ریسرچ اسکالر اوربہت بڑے سکھ گرو نے پروفیسر محمد حبیب کی زیر نگرانی کیا ہے۔ جلد ہی یہ ترجمہ بھی شائع ہوجائے گا۔
امید کی کرن: پاکستان میں الرسالہ مشن کا کام دھیرے دھیرے پھیل رہا ہے۔ اس کے تحت اب ترجمہ قرآن کی تقسیم کا کام بھی شروع ہوگیا ہے،اورپاکستان میں موجود ملک و بیرون ملک کے لوگوں کو قرآن دیا جاتاہے۔ بیرون ملک میں خاص طور سے چین کے لوگوں میں تقسیم قرآن کا عمل بہت اچھے طریقے سے چل رہا ہے۔ واٹس ایپ (9999944119) اور فیس بک کے ذریعہ صدر اسلامی مرکز کو سننے والوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان سے ہے۔22 تا 24 اپریل 2017 اسلام آباد کے پاک چائنہ سینٹر میں منعقد بک فیرٔ میں کافی تعداد میں لوگوں الرسالہ مشن کے اسٹال سے صدر اسلامی مرکز کی کتابیں حاصل کیں۔ پاکستان میں الرسالہ مشن کے تحت دعوتی کام کرنے کے خواہش مند حضرات اس نمبر پر رابطہ قائم کرسکتے ہیں:مسٹر طارق بدر، 3334856560۔
■ بنگلہ دیش سے ملی خبر کے مطابق مسٹر صالح فواد صدر اسلامی مرکز کے مضامین اور آرٹیکل کو مقامی بنگلہ زبان میں ترجمہ کرکے شائع کررہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے صدر اسلامی مرکز کی کتاب ’شتم رسول کا مسئلہ‘ کو بنگلہ زبان میں ترجمہ کرکے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب بنگلہ دیش میں بہت مقبول ہوئی ، اور بہت جلد اس کا پہلا اسٹاک ختم ہوگیا۔
دنیا امن کی تلاش میں: روزنامہ انقلاب اردو نیوز پیپر(بہار ایڈیشن)نے سینٹر فار پیس اینڈ آبجیکٹیو اسٹڈیز ( بہار و جھارکھنڈ)کے تعاون سے ایک مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کا عنوان تھا:’’امن کا عالمی بحران‘‘ ۔ اس مہم کے تحت منعقد ہونے والے ورکشاپ کیلئے بہار کے مختلف اہل علم اور علماء کا انتخاب کیا گیا ہے، جن میں ایک حافظ ابوالحکم محمد دانیال (صدر سینیٹر فار پیس اینڈ آبجیکٹو اسٹڈیز)بھی ہیں۔اس مہم کے تحت سات ورکشاپ پٹنہ اور اُس کے اطراف کے مختلف اسکولوں،کالجوں اور کانفرنس ہال میں منعقد ہوئے۔جن مقامات پر یہ پروگرام ہوئے ، وہ یہ ہیں1:دسمبر 2016بمقام ہولی ویژن اسکول(سمن پورہ ،پٹنہ)،8دسمبر2016 بمقام اے این کالج(پٹنہ )،11دسمبر2016 بمقام بہار اردو اکادمی(اشوک راجپتھ، پٹنہ)، 27 دسمبر 2016بمقام مدر انٹرنیشنل اسکول(پھلواری شریف، پٹنہ) ، 6جنوری2017 بمقام خانقاہ منعمیہ(پٹنہ سٹی) ، 6فروری2017بمقام الحراء اسکول(شاہ گنج، پٹنہ) ،12 فروری 2017 بمقام بہار اردو اکادمی(اشوک راجپتھ،پٹنہ)۔ان تمام ورکشاپ میں دیگر لوگوں کے ساتھ جناب حافظ دانیال صاحب نے اس موضوع پر خطبات پیش کئے اورسوالوں کے جوابات دئے جسے حاضرین نے بہت پسند کیا۔ تمام پروگرام کے بعد سبھی شرکاء کوقرآن کے ترجمے ،سیرت پر کتابیں اور دوسرے لٹریچر بطور گفٹ دیے۔لوگوں نے خوشی اور شکریہ کے ساتھ اسپریچول تحفہ کو قبول کیا۔
قرآن بطور گفٹ: تلکا مانجھی یونیورسٹی، بھاگلپور میں 20.01.17 کو یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹررما شنکر دوبے اور پرووائس چانسلرڈاکٹر اودھ کشور رائے کو ان کے عہدے کی میعاد مکمل ہونے کے موقع پر یونیورسٹی کے دو پروفیسران، محسن علی انجم (سابق ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ، بنگلہ زبان)، اور رفیق الحسن (ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ، میتھمیٹکس، ایس ایم کالج، بھاگل پور) نے صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن گفٹ کیا۔ (اظہر مبارک، بھاگلپور)
داعی کا انتظار: امیٹی یونیورسٹی، نوئیڈا نے 16-18 مارچ 2017 کو زندگی کی معنویت (Meaning of Life) کے عنوان سے ایک سہ روزہ پروگرام کا انتظام کیا تھا۔ 17 مارچ کو سی پی ایس اٹرنیشنل دہلی کی چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم نے اس میں شرکت کی، اور ایک لکچر دیا۔ اس موقع پر شرکاء اور آڈینس کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔نیز یونیورسٹی کی لائبریری کے لیے الرسالہ مشن کی کتابوں کا ایک سیٹ بطور تحفہ دیا گیا۔
تعلیم و دعوت ساتھ ساتھ : راجوڑی (جموں) میں مسٹر فاروق مضطر صاحب کی نگرانی میں الرسالہ مشن کا کام بہت کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز کی کئی کتابوں کو اپنے تعلیمی این جی او، ہمالیہ ایجوکیشن مشن کے تحت چل رہے اداروں میں بطور نصاب شامل کیا ہے۔ 4 مارچ 2017کو اس ادارے نے نیشنل ریڈ کراس میلہ میں ایک اسٹال بک کیا اور آنے والے لوگوں کو قرآن و دیگر دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔ اس کے علاوہ بھی مختلف مناسبتوں سے ہمالیہ ایجوکیشن مشن کے تحت صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کو تقسیم کیا جاتا ہے۔
انٹرفیتھ ہارمنی ایک اہم ضرورت: ربائی ڈیوڈ روزن (Rabbi David Rosen) عالمی سطح پر پیس اور انٹرفیتھ ہارمنی کے لیے کام کرنے والی شخصیت ہیں۔ 28 فروری 2017 کو انھوں نے اپنے ہندوستانی نمائندہ، مسٹر ارجن ہرداس کے ساتھ صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ اور امن کے تعلق سے گفتگو کی۔ ربائی روزن اس سے پہلے بھی صدر اسلامی مرکز سے مل چکے ہیں، اور الرسالہ مشن کے کاموں سے بہت متاثر ہیں۔دوران گفتگو انھوں نے کہا کہ اسرائیل میں انھوں نےاپنےطالب علموں کو بتایا کہ آپ کا انگریزی ترجمہ قرآن بہت اچھا ہے، اسے پڑھنا چاہیے۔ آخر میں دونوں مہمانوں کو بطور تحفہ انگریزی ترجمہ قرآن اور پیس و اسپریچوالٹی کے موضوع پر دوسری کتابیں دی گئیں۔
ریاست کا سربراہ آپ کا مدعو: وانمباڑی (تامل ناڈو) میں تامل لٹریری فنکشن کے موقع پر پانڈیچری کے چیف منسٹر وی نارائن سوامی اور ان کے ساتھیوں کو سی پی ایس (تامل ناڈو)کی ٹیم نےانگلش اور تامل ترجمہ قرآن بطور ہدیہ پیش کیا۔ یہ فنکشن 26 فروری 2017 کو منعقد ہوا تھا۔
افریقہ میں دعوت: گھانا سے ملی خبر کے مطابق، وہاں ڈاکٹر عبد اللہ لوگوں کے درمیان دعوتی کام کررہے ہیں۔ وہ لوگوں میں صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کرتے ہیں۔
قرآن ہر ایک کے لیے:سی پی ایس دہلی کے مسٹر فراز اور مسٹر وکرانت 16 اپریل 2017 کو انڈیا ہیبیٹاٹ سینٹر (نئی دہلی) میں ترجمہ قرآن کی کچھ کاپیاں لے کر گیے تاکہ وہاں ہونے والے کسی پروگرام میں ان کو تقسیم کیا جاسکے۔ ان کے پاس ترجمہ قرآن کے تقریباً پچاس نسخے تھے۔ ان تمام کاپیوں کو وہاں لوگوں نے ہاتھوںہاتھ لے لیا۔ ایک لیڈی نے پوچھا کہ کیا کوئی عورت قرآن پڑھ سکتی ہے۔ ان سے مسٹر فراز نے کہا ، ہاں پڑھ سکتی ہے۔ تو انھوں نے اپنا واقعہ بتایا کہ وہ بنگال کی رہنے والی ہیں۔ ایک مرتبہ ان کی خواہش ہوئی کہ وہ قرآن پڑھیں۔ تو انھوں نے مسلمانوں سے کہا کہ مجھے قرآن دیجیے ، مگر کسی نے ان کو قرآن نہیں دیا تھا۔ اس سے وہ یہ سمجھ گئی تھیں کہ کوئی عورت قرآن نہیں پڑھ سکتی ۔ مگر دہلی میں قرآن حاصل کرکے وہ بہت خوش ہوئیں، اور شکریہ ادا کیا۔
مدعو آپ کا مددگار: جودھپور کے ایک صاحب ہیں، مسٹر رمیش چندر جین ۔ انھیں معلوم ہوا کہ سی پی ایس انٹرنیشنل سے ہندی کا ترجمۂ قرآن ملتا ہے۔ انھوں نے یہ قرآن یہاں سے حاصل کیا۔ اس کے بعد ان کے ایک دوست نے ان کے پاس قرآن دیکھا، وہ ان کے پاس سے لیا، تو انھوں نے دوبارہ منگوایا۔ پھر ایک مسلمان نے ان کے پاس دیکھا تو ان سے درخواست کی کہ ہمیں بھی منگوادیں۔ انھوں نے دوبارہ ہم سے درخواست کی کہ آپ ہمیں ہندی قرآن کے پانچ نسخے بھیج دیں۔ اس مسلم بھائی کی طرف سے اگر پیسے کی ضرورت ہوگی تو میں ادا کروں گا۔ سی پی ایس دہلی نے انھیں ہندی ترجمۂ قرآن کے پانچ نسخے بطور ہدیہ روانہ کردیے ہیں۔
ہر ایک آپ کا دوست ہے: سی پی ایس انٹرنیشنل کے مخلص معاون فادر وکٹر ایڈون نے ارول کڈل (چنئی) میں ایک پروگرام کیا تھا۔ اس پروگرام میں سی پی ایس چنئی کے مولانا سید اقبال احمد عمری، مولانا خطیب اسرار الحسن عمری اورجناب کلو ندیم صاحبان نے شرکت کی۔ مولانا سید اقبال عمری صاحب نے قرآن کی تلاوت کی اور سی پی ایس اور صدر اسلامی مرکز کے بارے میں ایک پاور پائنٹ پرزینٹیشن پیش کیا۔ کلو ندیم احمد صاحب نے ’و اٹ از اسلام‘ کے موضوع پر تقریر کی، اورمولانا اسرار صاحب نے سوالات کے جواب دیے۔ فادر وکٹر نے پروگرام کے آخر میں سی پی ایس کا شکریہ ادا کیا۔ یہ پروگرام 27 فروری 2017 کو منعقد ہوا تھا۔
ایج آف گلوبل دعوہ: آئی آئی سی (IIC) دہلی میں امریکا کے ایک اسکول فلپس اکسیٹر اکیڈمی کے طلباء اور اساتذہ کے ایک گروپ کوسی پی ایس دہلی کی ممبر مس ماریہ خان نے خطاب کیا۔ اس خطاب کا موضوع ’اسلام اور صنفی مسائل‘ تھا۔ مس ماریہ خان نےاس موضوع پر طلبہ سے خطاب کیا اور سوالات کے جواب بھی دئے۔ اس پروگرام کے لیے ان کو مشہور بدھسٹ رہنما مسٹر شانتم سیٹھ نے مدعو کیا تھا۔یہ پروگرام 5مارچ 2017 کو منعقد ہوا تھا۔ پروگرام کے بعد تمام لوگوں کو ترجمۂ قرآن و دیگر دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
دعوت کے مواقع: سی پی ایس کی ناگپور۔کامپٹی ٹیم نے 18 مارچ 2017 کو ایک شادی کی تقریب میں دعوہ اسٹال لگایا تھا۔ شادی میں شریک ہونے والوں کی کثیر تعداد کو اسپریچول گفٹ دیا گیا۔ تمام لوگوں کی جانب سے بہت صحت مند اور حوصلہ افزا رد عمل سامنے آیا۔ ٹائمس آف انڈیا کے مقامی رپورٹر مسٹر سرفراز احمد بہت متاثر ہوئے، اور کہا کہ برادران وطن کے درمیان اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے کا یہ ایک انوکھا طریقہ ہے، آئندہ آپ جب بھی اس طرح کا پروگرام بنائیں تو مجھے مطلع کریں میں اپنے ڈائریکٹر سے مل کر ٹائمس آف انڈیا میں اس پر ایک اسٹوری شائع کرنا چاہتا ہوں۔
کالج میں دعوت : سینٹر فار پیس اینڈ آبجیکٹو اسٹڈیز (بہار)کے سمستی پور اور دلسنگھ سرائے کی ٹیم نے20 مارچ 2017کو سی ایچ اسکول (سمستی پور) اور پی ٹی ای سی کالج (رامپور،بہار)میں اساتذہ اور طلبا کے درمیان قرآن اور دینی لٹریچر تقسیم کیا اور کالج کی لائبریری میں قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر رکھنے کی اجازت حاصل کی۔ اسپریچول گفٹ کو حاصل کرکے لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا،اور کہا: آج لوگوں کو اسلام کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں ہیں،آپ لوگ قرآن اور یہ کتابیں تقسیم کرکے بہت اچھا کر رہے ہیں۔حاجی محمد ادریس،مولانا شعیب ،محمد شاہجہاں اور محمد ناصر نے اس کام میں حصہ لیا تھا۔
دعوتی سیاحت: سینٹر فار پیس اینڈ آبجکٹو اسٹڈیز (بہار و جھارکھنڈ )نے 18 اور 19 مارچ کوبہار کے تین مقامات ارریہ ،پورنیہ اور کشن گنج(بہادر گنج)کا دعوتی سفر کیا۔سفر کا مقصد دعوتی مواقع کو استعمال کرنا تھا۔18 مارچ کودھمدھاہا(پورنیہ)میں ایک مندر کیمپس میں’’اسلام اور پیس‘‘ کے عنوان سےپروگرام ہوا۔پروگرام کے بعد لوگوں کو قرآن اور سیرت پرکتابیں دی گئیں۔لوگوں نے پروگرام کو بہت پسند کیا۔19مارچ کو بہادری گنج کے رسل ہائی اسکول میں پروگرام’’اسلام اور دہشت گردی‘‘ کے عنوان سے ہوا۔پروگرام کے بعد لوگوں میں قرآن و دیگر لٹریچر تقسیم کیا گیا۔دونوں پروگرام میں حافظ ابوالحکم محمد دانیال نے خطاب کیا اور لوگوں کے سوالوں کے جوابات دئے۔پروگرام کو شرکاء نے کافی پسند کیا۔19 مارچ کو ظہر سے عصر کے بیچ سینٹر فار پیس اینڈ آبجکٹو اسٹڈیز کے پٹنہ،ارریہ،بہادرگنج اور کشن گنج کے ممبران نے میٹنگ کی اور مستقبل کا دعوتی پروگرام بنایا۔اس دعوتی دورے میں ششی کانت نامی ایک صاحب نے اپنا تاثرات دیتے ہوئے کہاکہ میں سن 79 سے مختلف چیزوں کو پڑھ رہا ہوں،مگر میں اب تک سچائی کی تلاش میں تھا،آپ کی باتوں کو سن کر ایسا لگتا ہےکہ میری تپسیا پوری ہوئی۔اس دعوتی سفر میں حافظ ابوالحکم محمد دانیال (صدر سینٹر فار پیس اینڈ آبجکٹو اسٹڈیز)محمد ثناء اللہ (پٹنہ), مسٹر امت کمار(پٹنہ)،محمد مشتاق،انل کمار(پٹنہ)،ڈاکٹر کمال(ارریہ)،محمد وسیم(cpg,کشن گنج)اشفاق عالم اور ڈاکٹر محمد فیروز(بہادر گنج)شامل تھے۔
ذیل میں کچھ تاثرات نقل کیے جارہے ہیں:
■ محترم المقام مولانا صاحب، السلام علیکم، خدا آپ کو صحت اور عافیت سے رکھے، آمین۔ میں آپ کا خطاب سنتا رہتا ہوں، ایک اتوارکی تقریر میںنے سنی۔ اس میں آپ نے موجودہ یونیورس کو جنت کا ابتدائی تعارف بتایا ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ ونڈر فل ہے۔ (ندیم عادل، حیدر آباد)
■ شتم رسول کا مسئلہ، کتاب سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ بہت شاندار لکھا ہے آپ نے، اللہ آپ کی عمر میں اضافہ کرے۔میں نگینہ (بجنور) میں رہتا ہوں۔ جناب مہتاب صاحب (دھام پور) کے ذریعے الرسالہ اور دوسری کتابیںمل جاتی ہیں۔ میں غیر مسلموں میں اسپرٹ آف اسلام تقسیم کرتاہوں جس کو وہ بہت پسند کرتے ہیں۔ 18مارچ 2017 کو میں نے ڈاکٹر انل کمار کو فروری 2017 کا اسپرٹ آف اسلام کا شمارہ دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے، اور کہا کہ آپ نے بہت اچھا کام کیا۔ میرے پاس بہت مسلم مریض آتے ہیں لیکن انھوں نے کبھی بھی اسلام کے بارے میں مجھ کو کچھ بھی بتانے کی کوشش نہیں کی۔انھوں نے مجھ کوقرآن بھی لانے کے لیے کہا۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ اگلی بار قرآن لے کر آؤں گا۔ (مولانا مظہر جمیل، بجنور، یوپی)
■ Dear Sir, peace be upon you and to all the people around you! I am extremely delighted to receive a personal copy of the Holy Quran in English and I want to express thanks to you and to all who have made great effort to send it to me. I also appreciate the good work your organization is doing for the good of society by spreading the word of God among all and telling them what Islam is all about. Peace is what we all require, and in any conflicts personal dialogue with each other is a better solution. I would like to quote George Bernard Shaw, “Now that we have learned to fly in the air like birds and dive in the sea like fish, only one thing remains to learn to live on earth like humans.” Sir, if in near future you come up with any spiritual reading material, I would be happy to receive a complimentary copy of it. Thanks to you once again. Warm Regards. (Lawrence Chettri)
واپس اوپر جائیں