Pages

Friday, 1 March 2019

Al Risala | March 2019 (الرسالہ،مارچ)

4

-بہتر گھر، بہتر سماج

5

- اولاد کی حیثیت

6

- والدین کی ذمہ داری

7

- ایک اچھی مثال

8

- بچوں کی تربیت

11

- گھر کا ماحول

12

- تربیت کا طریقہ

15

- زیادہ بڑی گود

16

- گھر کا ماحول

17

- خاندان کی اہمیت

18

- تربیت گاہ

19

- حسنِ اخلاق کی وراثت

20

- باپ کا تحفہ

21

- فیملی کلچر کا نقصان

22

- خدا کا اعتراف نہیں

23

- ایک عام کمزوری

24

- کامیابی کا طریقہ

25

- رزق کا معاملہ

26

- گھرایک تربیت گاہ

28

- بچوں کی اصلاح

29

- بچوں کا بگاڑ

30

- معکوس تربیت

31

- فرضی محبت

32

- خیر خواہی یا بد خواہی

33

- چھوٹی بات پر انتہائی فیصلہ

34

- اولاد پرستی کا فتنہ

35

- خوش فکری، یا حقیقت پسندی

36

- بچوں کا دکھ جھیل رہے ہیں

37

- اہل وعیال کا فتنہ

38

- پرچۂ امتحان

39

- ہاتھی کی دم میں پتنگ

40

- ہر گھر بگاڑ کا کارخانہ

41

- بچوں کا قبرستان

42

- نظر کی خریداری

43

- پیمپرنگ کا نقصان

44

- محرومی ایک نعمت

46

- تربیت اولاد

50

- پہلا اسکول


بہتر گھر، بہتر سماج

حضرت عائشہ کی ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہِ وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَہْلِی(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3895)۔یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے اچھا ہوں۔خاندان کسی سماج کا ایک یونٹ ہے۔ خاندانوں کے مجموعے ہی کا دوسرا نام سماج ہے۔ اگر خاندان بہتر ہوگا تو سماج بھی بہتر ہوگا۔ اور اگر خاندان بہتر نہ ہو تو سماج بھی بہتر نہیں ہوسکتا۔ہر شخص کسی خاندان میں پیداہوتا ہے۔ گویا کہ گھر، خاندان یا سماج کی پہلی تربیت گاہ ہے۔ اِس لیے اگر کسی سماج کو بہتر بنانا ہے تو خاندان کو بہتر بنانا ہوگا۔
تعلیم کی دو قسمیں ہیں — رسمی تعلیم (formal education)، اور غیر رسمی تعلیم (informal education) ۔ رسمی تعلیم کا ادارہ آدمی کو جاب (job) کے لیے تیار کرتا ہے اور غیررسمی تعلیم کا ادارہ سماج کے لیے بہتر افراد بنانے کا ذریعہ ہے۔ اسکول اور کالج رسمی تعلیم کے ادارے ہیں اور خاندان غیر رسمی تعلیم کے ادارے۔سماج کے اندر وسیع تر دائرے میں مثبت اور منفی نوعیت کے جو تجربات ہوتے ہیں، وہ تمام تجربات گھر کے اندر محدود دائرے میں ہوتے ہیں۔ گھر کے اندر کسی عورت یا مرد کو یہ سیکھنا ہے کہ جب گھر کے کسی فرد سے اس کو تکلیف پہنچے تو وہ اُس کو بھلا دے۔ اِسی طرح جب گھر کے کسی فرد سے اس کو کوئی فائدہ پہنچے تو وہ دل سے اس کا اعتراف کرے۔
جو لوگ اپنے گھر کے اندر اِس طرح کی تربیت حاصل کریں، وہ جب گھر سے نکل کر سماج میں داخل ہوں گے تو وہاں بھی وہ دوسروں کے ساتھ اِسی طرح کا برتاؤ کریںگے۔ وہ ناخوشگوار باتوں کو بھلائیں گے اور خوش گوار باتوں پر دوسرے کے سلوک کا اعتراف کریں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اخلاقی اعتبار سے بہترین لوگ ہیں۔ ایسے ہی افراد کسی سماج کو بہتر سماج بناتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اولاد کی حیثیت

ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ قرآن میں اولاد کو فتنہ کہاگیا ہے (الانفال، 8:28؛ التغابن، 64:15)اِس کا مطلب کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ مسلمان عام طورپر اولاد کو خدا کا انعام سمجھتے ہیں، کوئی بھی اپنی اولاد کو فتنہ نہیں بتاتا، پھر قرآن کی اُن آیتوں کا کیا مطلب ہے جن میں اولاد کو فتنہ کہاگیا ہے۔
میں نے کہا کہ اولاد اپنے آپ میں فتنہ نہیں ہے۔ زہر اپنے آپ میں زہر ہوتا ہے، مگر اولاد کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ وہ اصلاً فتنہ کے طورپر پیدا ہوتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فتنہ بنانے کا معاملہ ہے، نہ کہ بذاتِ خود فتنہ ہونے کا معاملہ۔ والدین کا اپنا غلط مزاج اولاد کو فتنہ بنا دیتا ہے۔ والدین کے اندر اگر صالح مزاج ہو تو اُن کی اولاد اُن کے لیے فتنہ نہیں بنے گی۔فتنہ کے لفظی معنی آزمائش (test) کے ہیں۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں انسان کو جو چیزیں بھی دی گئی ہیں، وہ سب کی سب امتحان کے پرچے ہیں۔ مال ، اولاد اور دوسری تمام چیزیں بھی امتحان کے پرچے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان تمام چیزوں کو اِسی اصل حیثیت سے دیکھے، وہ ہمیشہ یہ کوشش کرے کہ وہ اِس پرچۂ امتحان میں پورا اترے۔
اِس معاملے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق کو اپنا سب سے بڑا کنسرن بنائے۔ دوسری دنیوی چیزوں میں سے کوئی بھی چیز، خواہ وہ مال ہو یا اولاد ہو یا اقتدار، وہ اس کا اصل کنسرن (sole concern)نہ بننے پائے۔ جو لوگ اِس امتحان میں پورے نہ اتریں، وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا کنسرن بنالیں، وہ آخرت میں ایک محروم انسان کی حیثیت سے اٹھیں گے، جب کہ اُن کے تمام سہارے ان سے ٹوٹ چکے ہوں گے۔ اس وقت وہ حسرت کے ساتھ کہیں گے:مَا أَغْنَى عَنِّی مَالِیَہْ ۔ ہَلَکَ عَنِّی سُلْطَانِیَہْ (69:28-29)۔ حقیقت یہ ہے کہ اولاد ذمے داری (responsibility)کا ایک معاملہ ہے، نہ کہ فخر (pride)اور مباہات کا کوئی معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

والدین کی ذمہ داری

اولاد کی تربیت کے بارے میں انس بن مالک کے حوالے سے ایک حدیثِ رسول ان الفاظِ میں آئی ہے:أَکْرِمُوا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَہُمْ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3671)یعنی اپنے اولاد کے ساتھ بہتر سلوک کرو، اور ان کو اچھا ادب سکھاؤ۔
اس حدیث میں ادبِ حسن کا مطلب زندگی کا بہتر طریقہ ہے۔ یعنی یہ سکھانا کہ بیٹا یا بیٹی بڑے ہونے کے بعد دنیا میں کس طرح رہیں کہ وہ کامیاب ہوں، وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا بوجھ (liability)نہ بنیں، بلکہ وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا سرمایہ (asset)بن جائیں۔
والدین اپنے بچوں کو اگر لاڈ پیار (pampering) کریں تو انھوں نے بچوں کو سب سے بُرا تحفہ دیا۔ اور اگر والدین اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کا کامیاب طریقہ بتائیں، اور اس کے لیے ان کو تیار کریں تو انھوں نے اپنے بچوں کو بہترین تحفہ دیا۔ مثلاً بچوں میں یہ مزاج بنانا کہ وہ دوسروں کی شکایت کرنے سے بچیں۔ وہ ہر معاملے میں اپنی غلطی تلاش کریں، وہ اپنی غلطی تلاش کرکے اس کو درست کریں ، اور اس طرح اپنے آپ کو بہتر انسان بنائیں۔ وہ دنیا میں تواضع (modesty) کے مزاج کےساتھ رہیں، نہ کہ فخر اور برتری کے مزاج کے ساتھ۔ زندگی میںان کااصول حیات یہ ہو کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائیں، نہ کہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے وقت اور اپنی توانائی کو صرف مفید کاموں میں لگائیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ بتائیں کہ اگر تم غلطی کرو گے تو اس کی قیمت تم کو خود ادا کرنی ہوگی۔ کوئی دوسرا شخص نہیں جو تمھاری غلطی کی قیمت ادا کرے۔ کبھی دوسروں کی شکایت نہ کرو۔ دوسروں کی شکایت کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ ہمیشہ مثبت انداز سے سوچو، منفی سوچ سے مکمل طور پر اپنے آپ کو بچاؤ۔بری عادتوں سے اس طرح ڈرو، جس طرح کوئی شخص سانپ بچھو سے ڈرتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو ڈیوٹی کانشش بنائیں، نہ کہ رائٹ(right) کانشش۔
واپس اوپر جائیں

ایک اچھی مثال

ایک بار دہلی کے ایک کالج کے استاد نے بتایا کہ دہلی میں طلبا کا ایک تقریری مقابلہ ہوا۔ اِس میں مختلف کالجوں کے منتخب طلبا اور طالبات نے شرکت کی۔ ہر طالب علم کو انگریزی زبان میں تقریر کرنا تھا۔ اِن تقریروں میں جج کو جو بنیادی چیز دیکھنا تھا، وہ طرز ادا یا طرزِ تقریر (delivery) تھا۔ ڈاکٹر مرچنٹ کی لڑکی کا طرزِ تقریر سب سے زیادہ کامیاب تھا، چناں چہ اُس کو پہلا انعام دیاگیا۔
اِس کامیابی کا راز کیا تھا، اِس کا جواب مجھے 26 اگست 2009 کو ملا۔ سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک پروگرام کے دوران میری ملاقات ڈاکٹر آر کے مرچنٹ سے ہوئی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور دہلی میں رہتے ہیں۔ اُن سے ملاقات کے دوران رٹائرڈ جنرل چھبّر اور دوسرے کئی لوگ موجود تھے۔ ڈاکٹر مرچنٹ نے کہا کہ میرے گھر میں ٹی وی نہیں ہے، میں ریڈیو کے ذریعے خبریں سنتا ہوں۔ ان کی اِس بات میںمجھے اِس سوال کا جواب مل گیا کہ اُن کے بچے کیوںتعلیم میںاتنا زیادہ کامیاب ہیں۔اِس سے پہلے میںایک بار ڈاکٹر مرچنٹ کے گھر گیا ہوں۔ وہاں میں نے دیکھا تھا کہ اُن کا گھر بہت سادہ ہے۔ ان کی دو لڑکیاں ہیں۔ دونوں خاموشی کے ساتھ لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتی ہیں۔ڈاکٹر مرچنٹ کے پاس ذاتی کار ہے، لیکن ان کی لڑکیاں ہمیشہ بس کے ذریعے اسکول جاتی ہیں۔ ان کے گھر میں ’’ٹی وی کلچر‘‘ کا کوئی نشان مجھے نظر نہیں آیا— یہی سادہ اور با اصول زندگی ڈاکٹر مرچنٹ کے بچوں کی کامیابی کا اصل سبب ہے۔
آج کل ہر باپ اپنی اولاد کی شکایت کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر باپ کو خود اپنی شکایت کرنا چاہیے۔ عام طورپر والدین یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو سادہ نہیں بناتے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ رہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہر شوق کو پورا کرسکیں۔ وہ اپنے بچوں کو ’’ٹی وی کلچر‘‘ کا عادی بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو گھروں کے بگاڑ کااصل سبب ہے۔ اِس بگاڑ کی تمام تر ذمے داری والدین پر ہے، نہ کہ اولاد پر۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کی تربیت

ایک مغربی ملک میں مقیم ایک مسلم خاندان نے اِس کا اظہار کیا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے کچھ دنوں کے لیے آکر ہمارے یہاں ٹھہریں اور ہم سے اسلامی تربیت حاصل کریں۔ میں نے اِس تجویز کو رد کردیا۔ میرے نزدیک یہ تربیت کا ایک مصنوعی طریقہ ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی نتیجہ خیز کام صرف فطری طریقے کے مطابق انجام پاتا ہے،غیر فطری طر یقہ کسی بھی کام کے لیے ہرگز مفید نہیں۔
اِس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ اپریل 1981 میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے تحت میں بار بیڈوز (Barbados)گیا تھا۔ اِس سلسلے میں وہاں کے مقیم مسلمانوں نے ایک مسجد میں میرا پروگرام رکھا۔ ایک صاحب اپنے ایک بچے کو اپنے ساتھ لے کر وہاں آئے۔ یہ بچہ جو تقریباً 12 سال کا تھا، وہ اصل اجتماع کے باہر ایک مقام پر اِس طرح بیٹھا کہ اس کی پیٹھ میری طرف تھی اور اس کا چہرہ دوسری طرف۔ ایک شخص نے اُس سے کہا کہ تم اِس طرح کیوں بیٹھے ہو، اندر چل کر لوگوں کے ساتھ بیٹھو۔ لڑکے نے نہایت بے پروائی کے ساتھ جواب دیا — می ناٹ (“me not”) یعنی مجھے اِس سے کوئی مطلب نہیں ہے۔یہ واقعہ موجودہ زمانہ کے تمام مسلم خاندانوں کے لیے ایک علامتی واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج کل کے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ محنت کرکے کماتے ہیں اور پھر محبت کے نام پر اپنی کمائی کا بڑا حصہ بچوں پر خرچ کرتے ہیں۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ محبت نہیں ہے، بلکہ وہ لاڈپیار (pampering) ہے، اور یہ ایک واقعہ ہے کہ بچوں کو بگاڑنے کا سب سے بڑا سبب یہی لاڈ پیار ہے۔
کسی بچے کا ابتدائی تقریباً 10سال وہ ہے جس کو، نفسیاتی اصطلاح میں، تشکیلی دور (formative period) کہاجاتا ہے۔ یہ تشکیلی دوربے حد اہم ہے، کیوں کہ اِس تشکیلی دور میں کسی کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، وہ بے حد اہم ہے۔ یہی شخصیت بعد کی پوری عمر میں باقی رہتی ہے۔ اِسی حقیقت کو ایک عربی مقولے میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے:من شب على شیء شاب علیہ (آدمی جس چیز پر جوان ہوتاہے، اُسی پر وہ بوڑھا ہوتا ہے)۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تشکیلی دور (formative period) میں نام نہاد محبت کے ذریعے بچوں کو بگاڑ دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ آج کل کے تمام والدین اپنے بچوں کو می ناٹ بچے (me not children) بنادیتے ہیں۔ اس کے بعدوہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کسی کرشمہ ساز تربیتی طریقے (charismatic method of training) کے ذریعے اصلاح یافتہ بن جائیں۔
میرے تجربے کے مطابق، اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے والدین اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں سنجیدہ نہیں۔ اِس معاملے میں اگر کوئی باپ زیادہ سے زیادہ سوچ پاتا ہے تو وہ صرف یہ کہ وہ اپنے بیٹے کو گول ٹوپی اور اپنی بیٹی کو اسکارف پہنا دے، اور پھر خوش ہو کہ اُس نے اپنی اولاد کو اسلامی تربیت سے مزیّن کردیا ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں سنجیدہ ہو تو اس کے لیے میں چند عملی مشورے یہاں درج کروں گا۔
1- محبت کے نام پر لاڈ پیار (pampering) کو وہ اِس طرح چھوڑ دیں جیسے وہ کسی حرام کو چھوڑتے ہیں۔ محبت کے نام پر جو لاڈ پیار کیا جاتا ہے، اُس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ بچے کو زندگی کے حقائق (realities) سے بالکل بے خبر کردیتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بچے کے اندر حقیقت پسندانہ طرز فکر (realistic approach) کانشو ونما نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ اِس کے نتیجے میں بچے کے اندر ایک خود پسند شخصیت (self-centered personality) تشکیل پاتی ہے، جو کسی آدمی کے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر میں بلا شبہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
2- اِس سلسلے میں یہ بات بہت زیادہ قابلِ لحاظ ہے کہ بچے کی عمر کا ابتدائی تشکیلی دور ماں باپ کے ساتھ گزرتا ہے۔ اِس دور میں بچے کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، وہ ہمیشہ بدستور اس کے اندر باقی رہتی ہے۔ والدین کو جاننا چاہیے کہ اِس ابتدائی تشکیلی د ور میں اگر انھوں نے بچے کی تربیت میں غلطی کی تو بعد کے زمانے میں اس کی تلافی کبھی نہ ہوسکے گی۔ بعد کے زمانے میں ایسے کسی شخص کی اصلاح کی صرف ایک ممکن صورت ہوتی ہے، اور وہ یہ کہ اس کو شدید نوعیت کا کوئی ہلادینے والا تجربہ (shocking experience) پیش آئے جو اس کے لیے ایک نقطہ انقلاب (turning point) بن جائے، مگر بہت کم لوگوں کو اِس قسم کا ہلادینے والا تجربہ پیش آتا ہے، مزیدیہ کہ ایسا ہلادینے والا تجربہ اور بھی نادر (rare) ہے، جب کہ وہ آدمی کے لیے مثبت انقلاب کا سبب بن جائے۔
3- اپنے تجربے کی روشنی میں ایسے والدین کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ہمارے یہاں کا مطبوعہ لٹریچر اہتمام کے ساتھ پڑھوائیں، صرف ایک بار نہیں، بلکہ بار بار۔ اِسی کے ساتھ وہ کوشش کریں کہ اُن کے بچے ہمارے یہاں کے تیار شدہ آڈیو اور ویڈیو دیکھیں اور سنیں۔ یہ تمام آڈیو اور ویڈیو ہماری ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دستیاب ہیں۔ مزید یہ کہ دہلی میں ہونے والا ہمارا ہفتے وار لکچر کا پروگرام پابندی کے ساتھ سنیں ،جو کہ ہرسنیچر کو شام پانچ بجے(IST)اور ہر اتوار کی صبح کو ساڑھے دس بجے (IST) شروع ہوتا ہے ۔ان دونوں پروگراموں کو فیس بک (www.facebook.com/maulanawkhan/)پر لائیو دیکھا جاسکتا ہے۔
4- یہ لازمی نوعیت کا ابتدائی پروگرام ہے۔ جو والدین اپنے بچوں کی اصلاح وتربیت کے خواہش مند ہوں، اُن کو اِسے اختیار کرنا چاہیے۔ اگر وہ اِس کو اختیار نہ کریں تو کوئی بھی جادوئی تدبیر بچوں کی اصلاح کے لیے کار آمد نہیں ہوسکتی۔
٭ ٭ ٭٭٭
جولائی 1995 میں مراد آباد کا میرا ایک سفر ہوا۔ وہاں ایک صاحب نے بتایا کہ جو پیسہ والے مسلمان ہیں۔ ان سے اگر پوچھا جائے کہ تم اتنا زیادہ پیسہ کس لیے اکھٹا کررہےہو تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے: اس لیے کہ بچے آرام سے رہیں۔میں نے کہا کہ بچوں کے آرام کے لیے جو لوگ دولت اور جائداد اکٹھا کریں وہ خود اپنی اولاد کے لیے کوئی عقل مندی نہیں کررہے ہیں۔ تجربہ یہ ہے کہ بے محنت کے ملی ہوئی دولت آدمی کے اخلاق کو بگاڑتی ہے۔ وہ اس کے اندر سطحیت، حتی کہ آوارگی پیدا کردیتی ہے۔ بچوں کے ساتھ سب سے پہلی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کواعلیٰ تعلیم دلائی جائے، اور اس کے بعد دوسری ضرورت یہ ہے کہ ان کو محنت کے راستے پر ڈالا جائے۔
واپس اوپر جائیں

گھر کا ماحول

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ بتایا کہ ان کا معمول ہے کہ وہ روزانہ صبح کو اپنے گھر والوں کو ایک جگہ بٹھاتے ہیں، اور کسی دینی کتاب کا ایک حصہ پڑھ کر ان کوسناتے ہیں۔مجھے بہت سے لوگوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اس طریقے کو اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرکے وہ اپنا دینی فریضہ ادا کررہے ہیں۔یہ طریقہ بلاشبہ انسان کے بارے میں کمتر اندازہ کی حیثیت رکھتا ہے۔انسان اس طرح کی رسمی باتوں سے اپنا ذہن نہیں بدلتا۔
لیکن اس طرح گھر والوں کو دینی کتاب پڑھ کر سنانا اصل ذمہ داری کا صرف نصف ثانی ہے۔ اصل ذمے داری کی نسبت سے نصف اول یہ ہے کہ گھر کے اندر موافقِ دین ماحول بنایا جائے۔اگر گھر کے اندر موافق ماحول نہ ہوتو اس طرح کتاب پڑھ کر سنانے سے مطلوب نتیجہ حاصل نہ ہوگا۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے گھر میں پوری طرح دنیادارانہ ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر دوسروں کے خلاف شکایت کی باتیں ہوتی ہیں۔ گھر کے اندر منفی خبروں کا چرچا رہتا ہے۔ گھر کے اندر انسانی خیرخواہی کی باتیں نہیں ہوتیں۔بلکہ اپنے لوگوں کو اپنا ، اور دوسرے لوگوں کو غیر سمجھنے کا ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر جن باتوں کا چرچا ہوتا ہے، وہ ہیں —کھانا کپڑا، روپیہ پیسہ،بزنس اور جاب، وغیرہ۔
گھر میں دینی کتاب پڑھ کر سنانا بلاشبہ ایک اچھا کام ہے۔ لیکن اس کو موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ گھر کے اندر اس کے موافق ماحول موجود ہو۔ کتاب پڑھنے سے پہلے، اور کتاب پڑھنے کے بعد گھر کے اندر وہی ماحول ہو جو کتاب میں بتایا گیا ہے۔ کسی گھر کو دین دار گھر بنانا اسی وقت ممکن ہے، جب کہ اس کو پوری سنجیدگی کے ساتھ انجام دیا جائے۔گھر کا ماحول موافقِ دین بنائے بغیر گھر کے اندر دینی کتاب پڑھ کر سنانا گویا ہاتھی کے دم میں پتنگ باندھنا ہے۔ اس طرح کے کسی عمل سے گھر کے سرپرستوں کی ذمے داری ادا نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں

تربیت کا طریقہ

ایک صاحب کو ان کے پڑوسی نے نہایت سخت بات کہہ دی۔ وہ صاحب اس کو سن کر چپ چاپ اپنے گھر میں چلے آئے۔ انھوںنے کہنے والے کو کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کے لڑکے کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ بہت بگڑا۔ اس نے کہا کہ اس شخص کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ میرے باپ کو اس طرح ذلیل کرے۔ میں اس کو سبق دوں گا تاکہ آئندہ وہ کبھی ایسی ہمت نہ کرے۔
باپ نے بیٹے کو ٹھنڈا کیا۔ باپ نے کہا کہ آخر اس نے ایک لفظ ہی تو کہا ہے۔ اس نے مجھے کوئی پتھر تو نہیں مارا۔ پھر اس میں ہمارا کیا نقصان ہے۔ اس نے اگر اپنی زبان خراب کی ہے تو ہم اپنی زبان کیوں خراب کریں۔ باپ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم اس کو بھلادو اور اپنے کام میں لگ جاؤ۔بیٹا اس واقعہ کو ’’یاد‘‘ کے خانہ میں رکھنا چاہتا تھا، باپ نے اس کو ’’بھول‘‘ کے خانہ میں ڈال دیا۔ جو واقعہ عام حالات میں غصہ اور انتقام کا موضوع بنتا، وہ صبر اور برداشت کا موضوع بن گیا۔ کچھ دنوں بعد خود پڑوسی کو شرمندگی ہوئی۔ اس نے آکر اپنی گستاخی کی معافی مانگی اورآئندہ کے لیے پہلے سے زیادہ بہتر ہوگیا۔
باپ اگر اپنے بیٹے کے اندر انتقام کی نفسیات ابھارتا تو وہ برائی کا ایجنٹ بن جاتا۔ مگر باپ نے جب اپنے بیٹے کو بھلانے اور برداشت کے راستہ پر ڈالا تو وہ ان کے لیے نیکی اور سچائی کا رہنما ہوگیا۔ قرآن کے لفظوں میں وہ متقیوں کا امام بن گیا(الفرقان، 25:74)۔
اسی کا نام بچوں کی تربیت ہے۔ بچوں کی تربیت یہ نہیں ہے کہ ایک وقت مقرر کرکے انھیں بٹھایا جائے اور تحریر یا تقریر کی صورت میں انھیں اصلاحی باتیں سنائی جائیں۔ اصل تربیت یہ ہے کہ گھر کے اندر جب عملی طورپر وہ مواقع پیدا ہوں جہاں ایک راستہ صحیح سمت میں جاتاہو اور دوسرا راستہ غلط سمت میں۔ ایسے مواقع پر جذبات کو برداشت کرکے اور ذاتی نقصان اٹھا کر گھر والوں کو رہنمائی دی جائے۔ ان کے ذہن کو ایک رخ سے دوسرے رخ کی طرف پھیر دیا جائے-تربیت پیدا شدہ حالات کے درمیان رہنمائی کی جاتی ہے نہ کہ مجرّد قسم کی وعظ خوانی کے ذریعہ۔
ایک مثال
بچوں کی تربیت کے سلسلے میںعام طور سے یہ کیا جاتا ہے کہ ایک مقرر وقت پر جمع کرکے بچوں کو دین کے مسائل بتایا جائے۔ بچوں کی تربیت اس قسم کے وقتی وعظ سے نہیں ہوتی بلکہ تربیت کا اصل ذریعہ گھر کا ماحول ہے۔ اگر آپ کے گھر میں اخلاق اور انسانیت کا ماحول ہو۔ آپ کے گھر میں کسی کی غیبت اور شکایت نہ کی جاتی ہو، اور آپ کے گھر میں دوسروں کو عزت دینے کا ماحول ہو، خواہ وہ اپنا ہو یا غیر تو یہ ماحول آپ کے گھر کو ایک زندہ تربیت گاہ بنا دے گا۔ اس کے بعد کسی رسمی وعظ کی ضرورت نہ ہوگی۔
یہاں ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے، جو بتاتا ہے کہ بچوں کی تربیت کیا ہوتی ہے۔ مظفر نگر (یوپی) کے ایک قصبہ کا واقعہ ہے۔ وہاں ایک مسلم خاندان کے یہاں ایک ہریجن عورت صفائی کے کام کے لیے روزانہ آتی تھی۔ گھر کی ایک بچی سے اس ہریجن عورت کی دوستی ہوگئی۔ یہ ہریجن عورت جب وہاں صفائی کے کام کے لیے آتی تو وہ سب سے پہلے مذکورہ بچی سے ملتی۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مانوس ہوگئے۔
ایک دن ایسا ہوا کہ گھر کے اندر جنت اور جہنم کا تذکرہ ہوا۔ لڑکی کے باپ نے کہا کہ جنت میں داخلہ کے لیے ایمان ضروری ہے۔ جو شخص مومن اور موحد ہو وہی موت کے بعد جنت میں جائے گا۔اور جو لوگ مشرک ہیں، جو غیر اللہ کی پرستش کرتے ہیں وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ بچی کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی۔ وہ سوچنے لگی کہ میں تو مومن اور موحد ہوں اس لیے میں جنت میں جاؤں گی۔ مگر ہریجن عورت تو شرک میں مبتلا ہے، وہ کس طرح جنت میں جائے گی۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ اگلے دن جب مذکورہ ہریجن عورت صفائی کے کام کے لیے آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی دوست بچی گھر میں ایک کنارے کھڑی ہوئی بری طرح رو رہی ہے۔ عورت اس کو دیکھ کر گھبرا گئی۔ اس نے پوچھا کہ تم کو کیا تکلیف ہے۔ تم کیوں اس طرح رو رہی ہو۔ بہت پوچھنے کے بعد بچی نے کہا کہ میں مومن ہوں اس لیے میں جنت میں جاؤں گی، اورتم مشرک ہو اس لیے تم جنت میں نہیں جاؤ گی۔ اس طرح موت کے بعد کی زندگی میں میرا اور تمہارا ساتھ چھوٹ جائے گا۔ یہ سن کر ہریجن عورت نے کہا کہ تم مت روؤ۔ میں آج سے اسلام قبول کرتی ہوں تاکہ ہم دونوں ایک ساتھ جنت میں رہیں۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اگر گھر کا ماحول جیساہوگا، بچے اسی طرح کی راہ کا انتخاب کریں گے،اور یہی ماحول بچوں کی ذہن سازی میں رہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
امریکا میں مقیم ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ اپنے بچوں کے بارے میں ہم کو یہ فکر رہتی ہے کہ ہمارے بعد دینی اعتبار سے اِن بچوں کا کیا حال ہوگا۔ انھوںنے بتایا کہ ہمارے بچے سیکولر اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ البتہ ہم اپنے گھر پر اسی کے ساتھ بچوں کی دینی تربیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکا میں اس کو ہوم اسکولنگ (home schooling) کہا جاتا ہے۔میں نے کہا کہ جب آپ نے امریکا میں رہنے کا فیصلہ کیا تو آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ آپ یہاں کے کلچر سے اپنے بچوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ ہوم اسکولنگ کے ذریعہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کاغذ کی دیوار سے سیلاب کا مقابلہ کرنا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ غالباً کو ئی ایک بچہ بھی ایسا نہیں جس کی مثال کو لے کر یہ کہا جاسکے کہ ہوم اسکولنگ کا طریقہ اپنے مطلوب نشانے کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف گھر کے ماحول کو بدلا جائے، اور دوسری طرف بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کیا جائے۔ گھر میں سادگی (simplicity)اور بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کئے بغیر اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں

زیادہ بڑی گود

ہندستانی روایات میں ایک کہانی اس طرح ہے کہ ایک راجہ کے یہاں دو رانیاں تھی۔ دونوں رانی کے یہاں ایک ایک بچہ تھا۔ دونوں کے درمیان رقابت رہتی تھی۔ ایک دن ایک رانی کا بچہ راجہ کی گود میں آکر بیٹھ گیا۔ دوسری رانی نے اس منظر کو دیکھا تو اسے غصہ آگیا۔ وہ اپنے بیٹے کو لے کر آئی اور دوسری رانی کے بیٹے کو ہٹا کر اپنے بیٹے کو راجہ کی گود میں بٹھا دیا۔بچہ روتا ہوا اپنی ماں کے پاس گیا اور پورا قصہ بتایا۔ ماں نے کہا کہ اے میرے بیٹے تم پرم پتا کی گود میں بیٹھ جاؤ۔ اس کے بعد تمہیں ان باتوں کی شکایت نہ ہوگی۔
یہ ایک تمثیلی کہانی ہے۔ تاہم اس میں بہت بڑا سبق ہے۔ انسان عام طورپر مختلف قسم کی شکایتیں لیے رہتاہے۔ اس کو اپنے گھر والوں کی طرف سے اور سماج کے لوگوں کی طرف سے مختلف قسم کے ناپسندیدہ تجربات پیش آتے رہتے ہیں جو شکایت بن کر اس کے سینہ میں بس جاتے ہیں۔ مگر یہ سب بہت چھوٹی باتیں ہیں۔ زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ آدمی خدا کی یادوں میں جینے والا بنے۔ وہ اپنا سارا بھروسہ خدا پر قائم کرے۔ وہ خدا کی دی ہوئی چیزوں کی عظمت میں اس طرح گم ہو کہ اس کو یاد ہی نہ رہے کہ کسی اور نے اس کو کیا دیا اور کیا نہیں دیا۔
انسانوں سے شکایت دراصل خدا سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ خدا کی طرف سے انسان کو جو بے شمار نعمتیں ملی ہوئی ہیں وہ ایک اتھاہ سمندر کی مانند ہیں اور انسانوں کی طرف سے جو کچھ پیش آتا ہے وہ اس کے مقابلہ میں ایک قطرہ سے بھی کم ہے۔ عطیاتِ الہٰی کے اس سمندر میں اگر کوئی شخص اپنی طرف سے ایک قطرہ اور ڈال دے تو سمندر میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس سمندر سے ایک قطرہ نکال لے تب بھی اس میں کوئی کمی واقع ہونے والی نہیں۔
ہر آدمی ’’پرم پتا‘‘ کی گود میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس واقعہ کا شعوری ادراک اگر پوری طرح حاصل ہو جائے تو آدمی بڑی سے بڑی شکایت کو اس طرح نظر انداز کردے گا جیسے کہ اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

گھر کا ماحول

آج کل یہ حال ہے کہ سیکولر آدمی اور مذہبی آدمی کا فرق باہر کی زندگی میں تو نظر آتا ہے، لیکن گھر کی زندگی میں یہ فرق دکھائی نہیں دیتا۔ بہ ظاہر دونوں کا لباس الگ ہوتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر گڈ مارننگ (good-morning) کہتا ہے تو مذہبی آدمی السلام علیکم کہتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر کلب (club) جاتا ہے تو مذہبی آدمی مسجد جاتا ہے، وغیرہ۔ لیکن یہ فرق باہر کی زندگی کی حد تک ہے۔ گھر کے اندر کے ماحول کو دیکھیے تو سیکولر آدمی کے گھر اور مذہبی آدمی کے گھر کے درمیان کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا۔ اور اگر کوئی فرق ہوگا تو وہ صرف ظاہری رسم کے اعتبار سے ہوگا، نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے۔
قرآن میں دونوں قسم کے گھروں کی پہچان بتائی گئی ہے۔ غیر مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کو جاننے کے لیے قرآن کی اِس آیت کا مطالعہ کیجیے: إِنَّہُ کَانَ فِی أَہْلِہِ مَسْرُورًا(84:13)۔ یعنی وہ اپنے اہل کے درمیان خوش رہتا تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مذہبی انسان کی زندگی خاندان رُخی (family-oriented) زندگی ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر میں آکر محسوس کرتا ہے کہ میں اپنے لوگوں کے درمیان آگیا۔ وہ اپنا سارا وقت اور اپنا پیسہ اپنے اہلِ خاندان میں خرچ کرتا ہے اور مطمئن رہتا ہے کہ میں نے اپنے وقت اور اپنے پیسے کا صحیح استعمال کیا۔ وہ اپنے اہلِ خانہ کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اس کی دل چسپیوں اور اس کی سرگرمیوں کا مرکز اس کے اہلِ خاندان ہوتے ہیں۔ جو لوگ اِس طرح زندگی گزاریں، وہ کبھی خدا کے مطلوب بندے نہیں بن سکتے، خدا کی ابدی رحمتوں میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں۔
مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کتابِ الٰہی کی اِس آیت میں ملتی ہے:قَالُوا إِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِی أَہْلِنَا مُشْفِقِینَ (52:26)۔ یعنی اہلِ جنت کہیں گے کہ اِس سے پہلے ہم اپنے اہل کے درمیان ڈرتے رہتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سچا مذہبی انسان وہ ہے جو ہر وقت خدا کی پکڑ سے ڈرتا ہو، خواہ وہ اپنے گھر کے باہر ہو یا اپنے گھر کے اندر۔ وہ مواخذہ (accountability) کی نفسیات کے تحت زندگی گزارتا ہے، نہ کہ بے خوفی کی نفسیات کے تحت۔
واپس اوپر جائیں

خاندان کی اہمیت

خاندان (family) وسیع تر انسانیت کا ایک یونٹ ہے۔ خاندان کے اندر محدود دائرے میں وہ تمام حالات پیش آتے ہیں جو وسیع تر انسانیت کے اندر زیادہ بڑے پیمانے پر پیش آتے ہیں۔ اِس اعتبار سے، خاندان ہر ایک کے لیے گویا ایک تربیتی اسکول ہے۔ ہر آدمی اپنے خاندان کے اندر اُن تمام باتوں کو سیکھ سکتا ہے جو دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ مگر اِس کی ایک شرط ہے، وہ یہ کہ آدمی خاندان پرستی کا شکار نہ ہو۔ وہ اپنے خاندان کو بھی اُس نظر سے دیکھے جس طرح کوئی شخص دوسرے انسانوں کو دیکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جتنے مختلف قسم کے کیریکٹر ہیں، وہ سب کیریکٹر ہر آدمی کے اپنے خاندان کے افراد میں موجود ہوتے ہیں۔خاندان ہر آدمی کے لیے روایتی ’’جامِ جمشید‘‘ کی مانند ہے۔ خاندان کے آئینے میں آدمی ہر قسم کے اخلاق کا نمونہ دیکھ سکتا ہے۔ اِس طرح ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے خاندان اور رشتے داروں کو دیکھ کر زندگی کا تجربہ حاصل کرے اور اپنی زندگی کی حقیقت پسندانہ انداز میں منصوبہ بندی (planning) کرے۔
مگر بہت کم ایسے افراد ہیں جو اِس قریبی امکان سے فائدے اٹھاتے ہیں۔ اِس محرومی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے لوگوں کے اندر موضوعی طرزِ فکر کا نہ ہونا۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں بہت جلد متعصبانہ طرز فکر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اُن کو اپنے گھر والوں کی غلطی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ خاندان سے باہر کے افراد کے بارے میں غیر ہمدردانہ انداز میں سوچتے ہیں اور اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں ہمدردانہ انداز میں۔ وہ خاندان سے باہر کے افراد کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے خاندان کے افراد کو دوسری نظر سے۔اِس طرح اُن کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ نہ اپنوں کی زندگی سے سبق حاصل کرتے ہیں اور نہ دوسروں کی زندگی سے کوئی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

تربیت گاہ

ایک حدیث رسول کا ترجمہ یہ ہے: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو (ابن ماجہ، حدیث نمبر 1977)۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنے گھر کے لوگوں سے معاملہ کرنے میں بہتر ہوگا ،وہ باہر والوں سے معاملہ کرنے میں بھی بہتر ثابت ہوگا۔ گھر ہر آدمی کی فطری تربیت گاہ ہے۔ گھر کے اندر محدود سطح پر وہ سارے معاملات پیش آتےہیں جو باہر سماج کے اندر زیادہ وسیع طور پر پیش آتے ہیں۔ اس لیےجو آدمی محدود دائرہ میں بہتر انسانیت کا ثبوت دے گا، وہ باہر کے وسیع تر دائرہ میں بھی بہتر انسانیت کا ثبوت دے گا، وہ باہر کے وسیع تر دائرہ میں بھی بہتر انسانیت والا بن کر رہ سکے گا۔ایک صاحب گورنمنٹ سروس میں تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ بیوی کو دبا کر رکھنا چاہیے۔ گھر کے اندر وہ روزانہ اپنے اسی نظریہ پر عمل کرتے۔ وہ ہمیشہ گھر کی خاتون کے ساتھ سخت انداز میں بولتے۔ وہ ان کے ساتھ شدت والا سلوک کرتے تاکہ وہ ان کے مقابلہ میں دب کر رہیں۔
گھر کی تربیت گاہ میں ان کاجو مزاج بنا، اسی کو لے کر وہ دفتر میں پہنچے۔ یہاں ان کی افسر (باس) اتفاق سے ایک خاتون تھیں۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہاں بھی ان کا وہی گھر والا مزاج قائم رہا۔ وہ اپنی افسر خاتون کے ساتھ بھی اسی قسم کا ’’مرادنہ‘‘ معاملہ کرنے لگے ،جس کے عادی وہ اپنے گھر کی خاتون کے ساتھ ہوچکے تھے۔لیڈی افسر ابتداء ً ان کے ساتھ ٹھیک تھی۔ مگر ان کے غیر معتدل انداز نے لیڈی افسر کو بھی ان سے برہم کردیا۔ اس نے بگڑ کر ان کا ریکارڈ خراب کردیا۔ ان کا پروموشن رک گیا۔ وہ طرح طرح کی دفتری مشکلات میں پھنس گئے۔صحیح اصول وہ ہےجو گھر کے اندر اور گھر کے باہر دونوں جگہ یکساں طورپر مفید ہو۔ یہ اصول شرافت کا اصول ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ گھر کے اندر شرافت کے ساتھ رہے۔ وہ بڑوں کو عزت دے اور چھوٹوں کے ساتھ مہربانی کا سلوک کرے۔ یہ اصول گھر کے اندر بھی کامیاب ہے اور گھر کے باہر بھی۔ یہ آدمی کی اپنی ضرورت ہے کہ وہ گھر کے اندر اعتدال کے ساتھ رہے، اور گھر کے باہر بھی۔
واپس اوپر جائیں

حسنِ اخلاق کی وراثت

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: مَا وَرَّثَ وَالِدٌ ولدًا خَیْرًا مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ(المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر3658)۔ یعنی کسی باپ کی طرف سے اپنی اولاد کو سب سےعمدہ وراثت اچھا ادب سکھانا ہے۔
ادب کا مطلب عربی زبان میں حسن اخلاق (good conduct) ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی انسان کے اندر پہلے اچھی سوچ آتی ہے، اس کے بعد اس کے اندر اچھا اخلاق آتا ہے۔ اچھی سوچ حسن اخلاق کی بنیاد ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی اولاد کے اندر درست طرز فکر (right thinking)پیدا کرے۔ جس آدمی کے اندر درست طرزِ فکر ہو، اس کا ہر رویہ درست ہوجائے گا۔
ایسے آدمی کی سوچ درست سوچ ہوگی۔ ایسے آدمی کا سلوک، درست سلوک ہوگا۔ ایسے آدمی کا معاملہ (dealing)، درست معاملہ ہوگا۔ ایسےآدمی کی منصوبہ بندی، درست منصوبہ بندی ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی مکمل طور پر مثبت سوچ (positive thinking)کا حامل ہوگا، وہ منفی سوچ (negative thinking) سے مکمل طور پر خالی ہوگا۔
جس آدمی کے اندر یہ حسنِ ادب موجود ہو، وہ اپنے ہر معاملہ میں ایک بہتر انسان ہوگا۔ ایساآدمی خواہ اپنے گھر کے اندر ہو یا وہ گھر کے باہر ہو، وہ اپنوں سے معاملہ کرے یا غیروں سے معاملہ ۔ ہر حال میں وہ درست رویہ پر قائم رہے گا۔ اس کی درست سوچ ایک ایسا عامل (factor) بن جائے گی، جو اس کو ہر موقع پر بے راہ روی سے بچائے گی۔ ایسا آدمی ایک سنجیدہ انسان ہوگا۔ایسا آدمی ذمہ دارانہ اخلاق کا حامل ہوگا۔ ایسے آدمی کے اندر وہ کردار ہوگا، جس کو قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ کسی انسان کے لیے اپنے سرپرستوں کی طرف سے یہ سب سے زیادہ قابل قدر عطیہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

باپ کا تحفہ

اگرکوئی باپ اپنے بچوں کو مادی چیزیں نہ دے سکے۔ مثلاً گھر اور مال جیسی چیزیں اس کے پاس دینے کے لیے نہ ہوں تو ایساباپ ہمیشہ اس احساس میں جیتا ہے کہ میں ایک نالائق باپ ثابت ہوا۔ میں اپنے بچوں کا باپ ہوتے ہوئے بھی ان کی دنیا تعمیر نہ کرسکا۔
اپنے بچوں کے لیے کسی باپ کا یہ احساس کوئی مثبت احساس نہیں۔ اس کے برعکس، صحیح احساس یہ ہے کہ جو باپ اپنے بچوں کے لیے دنیا کی چیزیں دے سکے، وہ اس بات کا شکر ادا کرے کہ اللہ نے اس کو دینے کے قابل بنایا۔ اللہ نے اس کو ہاتھ پاؤں دیا، کمانے کی صلاحیت دی۔ اس طرح وہ اس قابل بنا کہ اپنے بچوں کو دینے کی چیزیں دے سکے۔
لیکن جو باپ اپنے بچوں کو دنیا کی چیزیں نہ دے سکے، اس کے پاس بھی اپنے بچوں کو دینے کے لیے بہت بڑی چیز موجود ہوتی ہے، اور وہ دعا ہے۔ وہ اپنی دعاؤں میں یہ کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ، میں اپنے بچوں کا باپ تھا، لیکن میں اپنے بچوں کو دینے کی چیز نہ دے سکا، تو میرا اور میرے بچوں کا رب ہے۔ تو میرے بچوں کو وہ چیز دے دے ، جو میں ان کو نہ دے سکا، تو میرے بچوں کے لیے میری طرف سے وہ دعا قبول فرما، جس میں تونے انسان کو یہ تلقین کی ہے: رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (2:201)۔
اگر کوئی باپ اپنے بچوں کے لیے یہ دعا کرسکے، تو اس نے اپنے بچوں کو زیادہ بڑی چیز دے دی۔ وہ چاہتا تھا کہ خود اپنے آپ کو اپنے بچوں کے لیے دے سکے، لیکن اس کے حالات نے اس کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنی دعاؤں کے ذریعے اپنے بچوں کو اپنے رب کے حوالے کردے۔ گویا کہ اپنے آپ کو نہ دے کر خود اللہ رب العالمین کا ہاتھ بچوں کے سر پر دے دیا۔ وہ اپنی اولاد کو چھوٹی چیز دینا چاہتا تھا، لیکن اس کے حالات نے اس کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ بڑی چیز دے دے، یعنی اللہ رب العالمین کو۔
واپس اوپر جائیں

فیملی کلچر کا نقصان

موجودہ زمانے میں خاص طورپر اورمشرقی دنیا میں عام طورپر لوگوں کے درمیان ایک ہی کلچر کا رواج ہے اور وہ فیملی کلچر ہے، یعنی پیسہ کمانا اور گھر والوں کے تقاضے پورا کرنا۔ لوگوں کو صرف یہی ایک ماڈل معلوم ہے، اِس کے سوا کسی اور ماڈل کا اُنھیں علم نہیں۔
اِس فیملی کلچر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ عملاً تحمیق خاندان (befooling of family) کے ہم معنی بن گیا ہے۔اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کی سوچ کا دائرہ بہت محدود ہوگیاہے۔ اُن کا ذہن صرف اپنی مادی ضرورتوں کے محدود دائرے میں کام کرتاہے۔ وہ اِس کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ وہ اِس محدود دائرے کے باہر سوچیں۔ ان کے یہاں کتابوں کے مطالعے کا ماحول نہیں ہوتا۔ اُن کے یہاں سنجیدہ تبادلۂ خیال (serious discussion)کا رواج نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں یہ کلچر نہیں ہوتا کہ وہ رشتےداروں کے علاوہ لوگوں سے ملیں اور اُن سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو جاب کے لیے یا تفریح کے لیے یا شاپنگ کے لیے۔ اِس قسم کی چیزوں کے علاوہ، ان کے یہاں ذہنی ارتقا کا کوئی تصور نہیں۔
اِس فیملی کلچر کا نقصان یہ ہے کہ لوگ بظاہر مادی اعتبار سے آسودہ زندگی گزار رہے ہیں، لیکن عملاً وہ فکری پس ماندگی (intellectual backwardness) کا شکار ہیں۔ اُن سے کسی سنجیدہ موضوع پر بات کیجیے تو فوراً معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اندر کوئی علمی سوچ نہیں، اُن کو حقائقِ عالم کی معرفت نہیں، زندگی کے زیادہ بڑے مسائل کے بارے میں ان کی کوئی رائے نہیں۔ بظاہر وہ انسان نظر آئیںگے، لیکن عملاً وہ صرف ایک خوش پوش حیوان (well-dressed animal)کی مانند ہوں گے-خاندانی زندگی کی تشکیل اِس طرح ہونی چاہیے کہ وہ لوگوں کے لیے اُن کے ذہنی ارتقا (intellectual development) میں مددگار ہو، نہ کہ لوگوںکے ذہنی ارتقا کے لیے وہ ایک مستقل رکاوٹ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا اعتراف نہیں

آج کل یہ رواج ہے کہ ایک شخص پیسہ کمائے گا اوراس کے بعد وہ ایک کار خرید کر اپنے بیٹے کو دے گا۔ کار کے شیشہ پر لکھا ہوا ہوگا— باپ کی طرف سے تحفہ (Dad's Gift)۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ناشکری کا کلمہ ہے۔ ایک نعمت جو حقیقۃً خدا کی طرف سے ملی ہے، اس کو خداکی طرف منسوب نہ کرنا، بلکہ اس کو خود اپنے کمالات کے خانے میں ڈال دینا، یہ خدا کے ساتھ بے اعترافی کا معاملہ کرناہے، اور خدا کے ساتھ بے اعترافی بلا شبہ خدا کی اِس دنیا میں سب سے بڑے جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
قرآن کی سورہ النمل میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر سلیمان بن داؤد کو ایک مادّی نعمت ملی تو انھوں نے فوراً کہا:ہَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی (27:40) ۔یعنی یہ میرے رب کے فضل میں سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پیغمبر نے اس کو خدا کا عطیہ (God’s gift) قرار دیا۔ یہی صحیح ایمانی طریقہ ہے۔ صاحبِ ایمان وہ ہے جو ہر چیز کو خدا کی چیز سمجھے، جوہر ملی ہوئی چیز کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہوئے خدا کا اعتراف کرے۔
دنیا میںانسان کو جوچیزیں ملتی ہیں، وہ بہ ظاہر خود اپنی کوشش کے ذریعے ملتی ہیں، لیکن یہ صرف اس کا ظاہری پہلوہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہوتی ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری پردے کو پھاڑ ے، وہ اصل حقیقت کو دریافت کرتے ہوئے ہر ملی ہوئی چیز پر یہ کہہ دے کہ یہ میرے رب کا عطیہ ہے جو براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے مجھ کو دیا گیا۔
اِسی اعتراف (acknowledgment) کا مذہبی نام شکر ہے۔ یہاں اُسی شخص کو جائز طورپر رہنے کا حق حاصل ہے جو شکر و اعتراف کی نفسیات کے ساتھ اِس دنیا میں رہے۔ شکر کی یہی نفسیات موجودہ دنیا میں کسی کو جائز طورپر جینے کا حق دیتی ہے۔ اِس کے برعکس، جن لوگوں کے اندر ناشکری اور بے اعترافی کی نفسیات ہو، وہ خدا کی اِس دنیا میں مجرم اور درانداز (intruders) کی حیثیت رکھتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک عام کمزوری

ایک مسلمان اپنی اہلیہ کے ساتھ ملاقات کے لیے آئے۔ ایک گھنٹے کی ملاقات کے دوران میں نے محسوس کیا کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اُن کو کوئی قلبی تعلق نہیں۔ البتہ اِس دوران اُن کے موبائل پر بار بار ان کے بچوں کے ٹیلی فون آتے رہے۔ اپنے بچوں سے ٹیلی فون پر وہ اِس طرح گفتگو کرتے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کو اپنے بچوں سے نہایت گہرا قلبی تعلق ہے۔
میں نے اُن سے کہا کہ آپ کا کیس اُسی طرح ایک نادان باپ کا کیس ہے جیسا کہ دوسروں کا کیس ہوتا ہے۔ آپ جیسے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ آپ کو جو چیز عملاً ملی ہوئی ہے، اُس کو آپ بھر پور طور پر استعمال نہیں کرتے اور جو چیز آپ کو ملنے والی نہیں، اُس کو آپ اپنا سب سے بڑا کنسرن بنائے ہوئے ہیں۔ میںنے کہا کہ آپ کے پاس دو چیزیں ایسی ہیں جو عملاً آپ کو حاصل ہوچکی ہیں— ایک، آپ کا اپنا وجود۔ اور دوسری، آپ کی بیوی۔ آپ نے اپنے معاملے میں یہ کیا کہ آپ اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے، اور بیوی کے معاملے میں آپ کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اُن کو نظر اندازکیے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ مایوسی کا شکار ہیں، وہ اپنی زندگی کا کوئی تخلیقی کردار (creative role) دریافت نہ کرسکیں۔دوسری طرف، آپ کا یہ حال ہے کہ آپ کی تمام دلچسپیاں اپنے بچوں کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں، حالاں کہ یہ بچے آپ کو ملنے والے نہیں۔ آپ کا بیٹا اور آپ کی بیٹی دونوں آپ کو چھوڑ کر خود اپنی الگ زندگی بنائیں گے، وہ ہر گز آپ کے کام آنے والے نہیں۔ آپ ملی ہوئی چیز کو ضائع کررہے ہیں اور نہ ملنے والی چیز کے لیے آپ بے فائدہ طورپر اپنی تمام توجہ لگائے ہوئے ہیں۔
یہ معاملہ موجودہ زمانے میں تقریباً تمام لوگوں کا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر آدمی ’’کھونے‘‘ کا کیس بن رہا ہے۔ کوئی آدمی حقیقی معنوں میں ’’پانے‘‘ کا کیس نہیں۔ آدمی اپنی اِس غفلت کو اپنی عمر کے آخر میں اُس وقت دریافت کرتاہے، جب کہ اِس تباہ کن غفلت کی تلافی کا وقت اُس کے پاس نہیں ہوتا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ حاصل شدہ کو اپنا مرکز ِ عمل بنائے، نہ کہ غیر حاصل شدہ کو۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا طریقہ

ایک صاحب سروس کرتےتھے۔ ایک عرصے تک سروس کرنے کے بعد اُن کو احساس ہوا کہ سروس کی آمدنی بچوں کی ترقی کے لیے کافی نہیں۔اِس لیے انھوںنے سروس چھوڑ دی اور ایک بزنس شروع کردیا، تاکہ وہ زیادہ کمائیں اور بچوں کو زیادہ ترقی دلاسکیں، مگر عملاً یہ ہوا کہ بزنس میں اُن کو مطلوب کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ چناں چہ وہ ٹینشن میں مبتلا ہو گئے۔ آخر کار، اُن کو کینسر ہوگیا اور بچوں کے لیے زیادہ پیسہ کمانے سے پہلے وہ اس دنیا سے چلے گئے۔
اِس طرح کا واقعہ مختلف صورتوں میں اکثر لوگوں کے ساتھ پیش آتاہے، مگر وہ ہر ایک کے لیے تباہ کن ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ حقیقت پسند (realist)بنیں۔ وہ اپنی زندگی کا منصوبہ خود اپنی استطاعت کی بنیاد پر بنائیں، نہ کہ اپنی اولاد کے بارے میں اپنی امنگوں (ambitions) کی بنیاد پر۔ وہ بچوں کے مستقبل کی تعمیر کے معاملے کو خود بچوں پر چھوڑ دیں۔ وہ ایسا ہر گز نہ کریں کہ بچوں کی خاطر اپنے آپ کو تباہ کرلیں اور آخر کار خود بچوں کو بھی۔بچوں کی ترقی کی سب سے بڑی ضمانت یہ ہے کہ خود اُن کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہو، اُن کے اندر داخلی اسپرٹ جاگے، وہ خود حالات کو سمجھیں اور حالات کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔ ترقی وہ ہے جو آدمی کو خود اپنی محنت سے ملے۔ دوسروں کی طرف سے دی ہوئی ترقی کوئی ترقی نہیں۔
اِس قسم کی خواہش رکھنے والے لوگ اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں سے جذباتی تعلق کی بنا پر ایسی چیز کے خواہش مند بن جاتے ہیں جو منصوبۂ الہی کے مطابق، اُن کو ملنے والی نہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ اِس معاملے میں وہ اپنے جذبات کے تحت کوئی فیصلہ نہ کرے، بلکہ وہ ایک حقیقت پسند انسان کی طرح حالات پر غور کرے اور فطرت کے قانون کی روشنی میں اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ یہی مطلب ہے اس اصول کا کہ — اِس دنیا میں کسی آدمی کو وہی ملتاہے جو اللہ نے اُس کے لیے مقدر کردیا ہو، نہ اُس سے زیادہ اور نہ اُس سےکم۔
واپس اوپر جائیں

رزق کا معاملہ

قرآن میں ایک حقیقت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ (31:34)۔ یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ اسی بات کو ایک حدیث رسول میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: جبریل نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم میں سے کوئی اس دنیا سے ہرگز نہیں جاسکتا، یہاں تک کہ وہ اپنے رزق کو مکمل کردے (حَتَّى یَسْتَکْمِلَ رِزْقَہُ)،تو اے لوگو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اور طلب میں خوبصورتی پیدا کرو۔(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر2136)
قرآن کی اس آیت اور اس حدیثِ رسول کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی معاش کا معاملہ خالق کی طرف سے طے ہوتا ہے، نہ کہ انسان کے باپ کی طرف سے۔ موجودہ زمانہ اس معاملے کا ایک مظاہرہ (demonstration) ہے۔ موجودہ زمانے میں تقریباً ہر جگہ یہ منظر دکھائی دے رہا ہے کہ باپ اندھا دھند کماتا ہے۔ اس کا یہ کمانا، اور گھر بنانا ، اس لیے ہوتا ہے کہ اس کے بچے اس کے اندر آرام کی زندگی گزاریں۔ لیکن ہر ایک کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ باپ کی بنائی ہوئی دنیا میں رہنا، ان کو نصیب نہیں ہوتا۔ وہ عملاً اس دنیا میں جیتا اور مرتا ہے، جو اس نے خود بنائی تھی۔ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو صرف ایک نسل میں زندگی کا سارا نقشہ بدل جاتا ہے۔ باپ نے کچھ چاہا تھا، اور عملاً کچھ اور ہوا۔
اس عام تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ رازق بننے کی کوشش کرے۔ باپ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو زندگی کا شعور دے۔وہ اپنی اولاد کو رازِ حیات بتائے۔ وہ اپنی اولاد کو خالق کا تخلیقی نقشہ بتائے، نہ یہ کہ وہ خود خالق کی سیٹ پر بیٹھ جائے۔ اس کے علاوہ باپ کچھ بھی کرے، لیکن عملاً وہی ہوگا، جو خالق نے مقدر کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

گھرایک تربیت گاہ

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہِ، وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَہْلِی(ابن ماجہ،حدیث نمبر1977)۔ یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جواپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میںتم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر کسی سماج کا ایک ابتدائی یونٹ ہے۔جوکچھ زیادہ بڑے پیمانہ پر پورے سماج میں پیش آتا ہے وہی گھر کے اندر چھوٹے پیمانہ پر پیش آتا ہے۔ آدمی کے اچھے یا برے ہونے کافیصلہ باہمی تعلقات کے درمیان ہوتاہے۔ ہر گھر گویا انہی تجربات کا ایک چھوٹا ادارہ ہے اور ہر سماج انہی تجربات کا ایک بڑا ادارہ ۔
ہر عورت یا مرد جب اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں تو اُن کو کبھی خوش گوار تجربہ پیش آتا ہے اور کبھی ناخوشگوار تجربہ، کسی معاملہ میں اُن کے اندر نفرت کے جذبات بھڑکتے ہیں اور کبھی محبت کے جذبات، کبھی وہ خوشی سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی ناخوشی سے، کبھی اُن کی انا کو تسکین ملتی ہے اور کبھی اُن کی اَنا پر چوٹ لگتی ہے، کبھی وہ اعتراف کی صورت حال میں ہوتے ہیں اور کبھی بے اعترافی کی صورت حال میں، کبھی حقوق کی ادائیگی کا موقع ہوتاہے اور کبھی حقوق کے انکار کا موقع، وغیرہ۔
گھر کے اندرپیش آنے والی یہ مختلف حالتیں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اپنی تیاری کے مواقع ہیں۔ جو لوگ ایسا کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے شعور ایمان کو زندہ رکھیں، وہ اپنا احتساب کرتے ہوئے زندگی گذاریں، اُن کو ہمیشہ آخرت کی پکڑ کا احساس لگا ہوا ہو۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی مذکورہ بالا قسم کا کوئی موقع اُن کے سامنے آئے گا تو وہ متنبہ ہوجائیں گے اور صحیح اسلامی روش کو اختیار کریں گے۔
جو عورت اور مرد اپنے گھر کے اندر اس قسم کی ہوش مندانہ زندگی گذاریں، اُن کے لیے اُن کا گھر ایک تربیت گاہ بن جائے گا۔ اُن کے گھر کا ماحول اُنہیں ہر صبح و شام تیار کرتا رہے گا۔ اُن کی یہ زندگی اُن کے لیے اس بات کی ضمانت بن جائے گی کہ جب وہ گھر کے باہر سماجی زندگی میںآئیں تو وہ سماج کے اندر بھی اُسی طرح ایک حق پرست انسان ثابت ہوں جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر حق پرست انسان ثابت ہوئے تھے۔
ایک آدمی جواپنے گھر کے اندر لڑتا جھگڑتا ہو وہ اسی طرزِ زندگی کا عادی بن جائے گا۔ جب وہ اپنے گھر سے باہر آئے گا تو یہاں بھی وہ لوگوں سے لڑنے جھگڑنے لگے گا۔ اپنے آفس میں، اپنے کاروبار میں ، روز مرہ کی زندگی میںوہ دوسروں کے ساتھ بھی اُسی طرح غیر معتدل انداز میں رہے گا جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر غیر معتدل انداز میں رہ رہا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اُس کے گھر کے معاملات بھی بگڑ جائیں گے اور اُس کے باہر کے معاملات بھی۔
اسی طرح کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنے گھر کے اندر تو غیر مہذب انداز میں رہتے ہیں لیکن جب وہ باہر آتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ اُن کا رویّہ تہذیب اور شائستگی کا رویّہ بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کی نظر میں اچھے بنے رہیں۔ مگر یہ ایک منافقت ہے، اور اللہ کو منافقت پسند نہیں۔
کسی مسلمان پر جو دینی ذمہ داری ہے وہ صرف اس طرح ادا نہیں ہوجاتی کہ وہ مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھ لے، رمضان کے روزے رکھ لے اور مکہ جاکر حج کرلے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ لوگوں کے ساتھ اُس کا اخلاق اچھا ہو۔ انسانوں کے ساتھ سلوک میںوہ خدائی احکام کی پابندی کرتاہو، لوگوں کے درمیان وہ اس احساس کے ساتھ رہے کہ اُس کو اپنے ہر قول اور ہر فعل کاجواب خدا کو دینا ہے۔
موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ ایک طرح کی زندگی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور دوسری طرح کی زندگی اُس کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔زندگی کی اس امتحانی نوعیت کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے بھی ہے اور گھر کے باہر کے معاملات سے بھی۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کی اصلاح

ایک خاتون نے کہا کہ آپ بچوں کی تربیت پر مضمون لکھئے۔ موجودہ زمانے میں بچوں کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔ میںنے کہا کہ بچوں کی اصلاح پر بے شمار مضمون لکھے گئے ہیں۔ہر روز بچوں کی اصلاح پر تقریریں ہورہی ہیں ، لیکن اِس کا کوئی بھی نتیجہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کی اصلاح کے معاملے میں اصل ضرورت مضمون یا تقریر کی نہیں ہے۔ اِس معاملے میں اصل ضرورت یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے معاملے میں اپنے رویے کو بدلیں۔ تمام والدین کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ لاڈ پیار (pampering) کا معاملہ کرتے ہیں۔ یہی لاڈ پیار بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ جب تک والدین اپنے لاڈ پیار کو ختم نہ کریں، بچوں کی کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
میری بات سن کر مذکورہ خاتون نے کہا کہ بچوں کے ساتھ سختی بھی تو نہیں کی جاسکتی۔ میں نے کہا کہ میں نے آپ سے یہ نہیں کہاتھا کہ بچوں کے ساتھ سختی کیجیے۔ میں نے صرف آپ سے یہ کہا تھا کہ بچوں کے ساتھ لاڈ پیار کو چھوڑ دیجیے۔ والدین کا یہی مزاج بچوں کی خرابی کی اصل جڑ ہے۔ آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ لاڈ پیا رنہ کرنا اُن کے ساتھ سختی کرنا ہے۔ والدین اپنے بچوںکے لیے اتنے حساس ہوتے ہیں کہ وہ لاڈ پیار نہ کرنے کو سختی کرنا سمجھ لیتے ہیں، اِس لیے وہ لاڈ پیار کو چھوڑ نہیں پاتے۔
پھر میںنے کہا کہ آپ خواہ لاڈ پیا رکتنا ہی زیادہ کریں، بچوںکے تقاضے کبھی ختم نہیںہوتے۔ بچے برابر اور زیادہ اور زیادہ کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ اِس بنا پر والدین یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے ابھی کچھ نہیںکیا۔ ہم نے ابھی بچوں کے تقاضے پورے نہیں کیے۔ اس بنا پر تمام والدین لاڈ پیار کے اس احساس میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم تو لاڈ پیار نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے ذہن میں لاڈ پیا رکا غلط معیار رہتاہے، یعنی بچے جب مزید تقاضا نہ کریں تو وہ سمجھیں گے کہ ہم نے لاڈ پیار کیا۔ مگر خواہشات کے معاملے میں بچہ اور بڑا دونوں کا یہ حال ہوتاہے کہ ان کو کچھ بھی مل جائے، وہ ان کی خواہشوں سے کم ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ نئے تقاضے جاری رہتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کا بگاڑ

ایک صاحب نے کہا کہ آج کل والدین عام طورپر یہ شکایت کرتے ہیں کہ اُن کے بچے بگڑ گئے ہیں۔ اِس کا ذمے دار وہ سب سے زیادہ ٹی وی کو بتاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹی وی نے ان کے بچوں کو بگاڑ دیا ہے۔ انھوںنے پوچھا کہ اِس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔
میںنے کہا کہ یہ سارا معاملہ اگر ٹی وی کا معاملہ ہے تو والدین کیوں اپنے گھر میں ٹی وی رکھتے ہیں۔ بچے خود خرید کر ٹی وی نہیں لاتے۔ یہ والدین ہیں جو بچوں کو خوش کرنے کے لیے ٹی وی لاکر اپنے گھر میں رکھتے ہیں۔ اِس لیے اِس معاملے میں اصل ذمے دار خود والدین ہیں، نہ کہ بچے۔
حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب لاڈ پیار (pampering) ہے۔ والدین کا نظریہ اپنے بچوں کے بارے میں یہ ہوتا ہے کہ ان کی ہر خواہش کو پورا کیا جائے۔ بچے جب تک چھوٹے ہیں، ان کی خواہش کھانے اور کپڑے جیسی چیزوں تک محدود رہتی ہے۔ اِس لیے چھوٹی عمر میں والدین اپنے نظریے کی غلطی سمجھ نہیں پاتے ، لیکن جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو اُن کی دلچسپیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اب وہ دوستی ، آؤٹنگ، کلب اور لو افیئر (love affair)جیسی چیزوں کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو والدین روک ٹوک کرتے ہیں، مگر بچے ان کی روک ٹوک کو قبول نہیں کرتے۔ یہ بلاشبہ خود والدین کی غفلت کا نتیجہ ہے۔
چھوٹی عمر میں والدین نے اپنے بچوں کے اندر یہ ذہن بنایا کہ میری ہر خواہش پوری ہونی چاہیے۔ بالغ ہونے کے بعد اِس مزاج نے مزید ترقی کی۔ اب وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اُن چیزوں کی طرف جانے لگے جو والدین کو پسند نہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ ’’میری خواہش سب کچھ ہے‘‘کا مزاج بچوں کے اندر کس نے پیدا کیا، یہ خود والدین نے اپنے لاڈ پیار سے پیدا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں والدین اپنے بچوں کے ساتھ محبت کے نام پر دشمنی کا کردار ادا کررہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

معکوس تربیت

ایک مسلم تاجر کا واقعہ ہے۔ ان کی بیٹی نے اُن سے اپنی کسی ضرورت کے لیے پیسہ مانگا۔ مذکورہ مسلم تاجر نے اپنی بیٹی سے مزید کچھ نہیں پوچھا۔ انھوں نے فوراً اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، اُس وقت ان کی جیب میں جتنے نوٹ تھے، وہ سب نکال کر انھوں نے اپنی بیٹی کے ہاتھ میں رکھ دیا اور کہا کہ یہ لو، تم ہی لوگوں کے لیے تو کماتے ہیں۔
یہ کوئی استثنائی واقعہ نہیں۔ یہی سارے والدین کا حال ہے۔ والدین خود تو محنت کرتے ہیں، وہ مشقت کی کمائی کرتے ہیں، لیکن اپنی اولاد کے بارے میں ان کا ذہن یہ رہتاہے کہ ان کی اولاد کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ خود تکلیف اٹھاتے ہیں اور اپنی اولاد کو ہر قسم کی راحت اور سہولت فراہم کرتے ہیں، وہ ان کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، خواہ اُنھیں اس کی جو بھی قیمت دینی پڑے۔
والدین کا یہ مزاج ان کی اولاد کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ والدین کا یہ مزاج اولاد کی معکوس تربیت کے ہم معنیٰ ہے۔ ان کی اولاد کو آخر کار جس دنیا میں داخل ہونا ہے، وہ حقائق کی دنیا ہے۔ وہاں کا اصول یہ ہے کہ— جتنا کرو، اتنا پاؤ۔
لیکن والدین گھر کے اندر اپنی اولاد کے اندر جو مزاج پیدا کرتے ہیں، وہ اِس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ گھر کا ماحول کیے بغیر پانے کا ماحول ہوتا ہے، اور گھر کے باہر کا ماحول کرکے پانے کا ماحول۔
اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج کا ہر نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں دونوں، منفی ذہن کا شکار ہورہے ہیں۔ اُنھیں دنیا کے ہر شخص سے شکایت ہوتی ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر ان کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ میرے ماں اور باپ بہت اچھے تھے، بقیہ تمام لوگ نہایت برے ہیں۔
اِس صورتِ حال نے آج کی دنیا میں دو چیزوں کا خاتمہ کردیا ہے— محنت کے ساتھ اپنا کام کرنا، اور لوگوں کا خیر خواہ (well-wisher) بن کر اُن کے درمیان رہنا۔
واپس اوپر جائیں

فرضی محبت

ایک مسلم لڑکی اپنے ماں باپ کی اکیلی اولاد تھی۔اس کے والدین نے دھوم کے ساتھ اس کی شادی کی۔ اس کے بعد وہ رخصت ہو کر اپنی سسرال گئی۔ اس کے یہاں ایک بچہ بھی پیدا ہوگیا۔ مگر دو سال کے بعد وہ اپنے شوہر سے لڑ جھگڑ کر اپنے ماں باپ کے پاس واپس آگئی۔ اُس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ میرا شوہر نہایت سخت مزاج ہے، اس کے ساتھ میرا نباہ نہیں ہوسکتا۔
لڑکی کے والدین نے اس سے زیادہ پوچھ گچھ(scrutiny)نہیں کی، جو کچھ لڑکی نے کہا، اس کو انھوں نے درست مان لیا۔ انھوں نے کہا کہ بیٹی، تم فکر نہ کرو۔ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ تم یہاں آرام کے ساتھ رہو، تم کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔
مجھ سے ملاقات ہوئی تو میںنے لڑکی سے پوچھ گچھ کی، تاکہ اصل حقیقت معلوم ہوسکے۔ لڑکی نے بتایا کہ میرا شوہر ہر معاملے میں سختی کرتاہے۔ میںنے مثال پوچھی تو اس نے بتایا کہ میرا شوہر مجھ کو شاپنگ کے لیے نہیں لے جاتا، وہ آؤٹنگ(outing)کا پروگرام نہیں بناتا۔ میںنے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ شاپنگ کا مطلب پیسے کا ضیاع(waste of money) ہے، اور آؤٹنگ کا مطلب وقت کا ضیاع(waste of time) ہے۔ آپ کا شوہر بہت اچھا کرتاہے کہ وہ آپ کو ایسی بے فائدہ چیزوں سے بچاتا ہے۔
ماں باپ نے لڑکی کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ محبت کا واقعہ تھا اور شوہر نے جو کچھ کیا، وہ خیرخواہی کا واقعہ تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ محبت کے مقابلے میں، خیر خواہی زیادہ بڑی چیز ہے۔ مگر اکثر لوگ اِس فرق کو نہیں جانتے۔ اِس لیے وہ محبت کرنے والے کو اپنا ہمدرد سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ اصل ہمدرد وہ ہے جو آپ کے ساتھ سچی خیر خواہی کرے۔
محبت صرف ایک جذباتی چیز ہے، جب کہ خیر خواہی ایک خالص عقلی رویہ ہے۔ وہ شخص بہت خوش قسمت ہے جس کو اپنی زندگی میںایک سچا خیر خواہ مل جائے۔
واپس اوپر جائیں

خیر خواہی یا بد خواہی

ایک باپ نے اپنی بیٹی کی شادی دور کے مقام پر کی۔ یہ بیٹی اپنے میکہ میں اس طرح رکھی گئی تھی کہ اس نے کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ اس کے والدین کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ بیٹی خوش رہے۔ اس کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔ مگر باپ جانتا تھا کہ سسرال میں ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ اس نے بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کہا کہ اب تم جہاں جارہی ہو، وہ تمھارے لیے ایک مختلف دنیا ہوگی۔ میکہ میں تم کو جو آرام ملا، سسرال میں تم اس کی امید نہ رکھنا۔
باپ نے اپنی سمجھ کے مطابق، یہ مشورہ خیر خواہی کے جذبہ کے تحت دیا۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ بدخواہی کامشورہ تھا۔ حقیقت کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی بیٹی اپنے سسرال میںہمیشہ منفی ذہن کے تحت رہے۔ وہ ہمیشہ احساسِ محرومی کا شکار رہے۔ وہ ہمیشہ یہ سمجھتی رہے کہ میرے میکہ کے لوگ بہت اچھے تھے اور میری سسرال کے لوگ بہت برے ہیں۔ میکہ والوں کے لیے اس کے دل میں جھوٹی محبت اور سسرال والوں کے لیے اس کے دل میں جھوٹی شکایت بھر جائے۔ ساری زندگی وہ اس احساس میں جیے کہ میری شادی غلط ہوگئی۔ وہ ہمیشہ میکہ والوں کو اچھا سمجھے اور سسرال والوں کو ہمیشہ برا سمجھتی رہے۔
موجودہ زمانے میں تقریباً ہر ماں باپ اپنی بیٹی کے حق میںاسی قسم کی فرضی خیر خواہی کرتے ہیں جو عملاً بیٹی کے لیے صرف ایک مستقل بد خواہی بن جاتی ہے۔ بیٹی اپنے میکہ کی کنڈیشننگ کی بنا پر خود سے کبھی اس معاملہ کو سمجھ نہیں پاتی، اور ماں باپ کا حال یہ ہوتاہے کہ وہ اس کی کنڈیشننگ کو مزید پختہ کردیتے ہیں، وہ اس کی کنڈیشننگ کا خاتمہ نہیںکرتے۔
صحیح یہ ہے کہ باپ یا تو اپنی بیٹی کے ساتھ لاڈ پیار (pampering) کا سلوک نہ کرے، یا کم ازکم یہ کرے کہ وہ اپنی بیٹی سے بوقتِ رخصت کہہ دے کہ ہم نے جو کچھ کیا، وہ غیر فطری طریقہ تھا، فطری طریقہ وہی ہے جس سے تم کو سسرال میں سابقہ پیش آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

چھوٹی بات پر انتہائی فیصلہ

کامیاب زندگی کا ایک راز یہ ہے کہ چھوٹی بات پر انتہائی فیصلہ نہ لیا جائے۔ اجتماعی زندگی میں چھوٹی شکایتیں ہمیشہ پیش آتی ہیں۔ دانش مند وہ ہے جو چھوٹی شکایتوں کو نظر انداز کرے، اور نادان آدمی وہ ہے جو چھوٹی شکایت پر مشتعل ہوجائے اور اس کی بنیاد پر انتہائی فیصلہ لینے لگے۔ اِسی نوعیت کا ایک مشہور واقعہ وہ ہے جو سنڈے ٹائمس، لندن کے حوالے سے نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (17 اگست 2009 ) میں شائع ہوا ہے۔
لیبیا کے حکمراں معمّرالقذافی کے 33 سالہ بیٹے ہنی بال (Hannibal)جنیوا (سوئزر لینڈ) گئے۔ وہاں وہ ایک ہوٹل میں ٹھیرے۔ اُن کے ساتھ ان کی بیوی العین (Alaine)بھی تھیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ہوٹل کی ایک تونیسی ملازمہ مونا (Mona) کی کسی بات پر العین کو غصہ آگیا۔ العین نے اُس کو مارا اور دھمکی دی کہ میں تم کو ہوٹل کی کھڑکی سے باہر پھینک دوں گی۔
اِس واقعے کی خبر مقامی پولس کو ہوئی۔ پولس نے ہنی بال اور العین کو گرفتار کرلیا۔ اگرچہ جلد ہی ان کو رہا کردیا گیا، لیکن اِس واقعے کی خبر جب ہنی بال کے والد معمر القذافی کو پہنچی تو اس کو انھوں نے اپنی بے عزتی (humiliation) سمجھا، وہ سخت غضب ناک ہوگئے۔ انھوںنے سوئزر لینڈ کے خلاف کئی سخت اقدامات کیے— سوئزر لینڈ سے ہوائی سروس منقطع کرنا، سوئزر لینڈ کی کئی کمپنیوں کے لیبیا میں موجود دفتروں کو بند کردینا، وغیرہ۔ حتی کہ انھوں نے کہا:
If I had an atomic bomb, I would wipe Switzerland off the map!
یہ واقعہ چھوٹی شکایت پر انتہائی اقدام کی ایک مثال ہے۔ اِس قسم کا اقدام ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ خواہ کوئی معمولی آدمی ہو یا کوئی بڑا آدمی، کوئی بھی اِس قسم کے انتہائی اقدام کے منفی نتائج سے بچ نہیں سکتا۔ جلد یا بدیر آدمی کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے، لیکن بعد کو اُس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ طلاق کے واقعے سے لے کر قومی جنگ تک، ہر معاملے میںاس کی مثالیں موجود ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اولاد پرستی کا فتنہ

ایک حدیثِ رسول میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ شرمندہ وہ شخص ہوگا جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنی آخرت کو بیچ دے (إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ نَدَامَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ رَجُلٌ بَاعَ آخِرَتَہُ بِدُنْیَا غَیْرِہِ)۔التاریخ الکبیر للبخاری، حدیث نمبر 1927۔ یہ حدیث موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ اُن لوگوں پر چسپاں(apply)ہوتی ہے جو صاحبِ اولاد ہیں۔ موجودہ زمانے میں صاحبِ اولاد لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر ایک کے لیے اس کی اولاد اُس کا سپریم کنسرن بنی ہوئی ہے۔ ہر ایک کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے میں مصروف ہے، اور خود اپنی آخرت کی خاطر کوئی حقیقی کام کرنے کے لیے آدمی کے پاس وقت ہی نہیں۔
موجودہ زمانے میں ہر آدمی اِس حقیقت کو بھول گیا ہے کہ اس کی اولاد اُس کے لیے صرف امتحان کا پرچہ (الانفال،8:28) ہے۔ اولاد اس کو اِس لیے نہیں ملی ہے کہ وہ بس اپنی اولاد کو خوش کرتا رہے، وہ اپنی اولاد کی دنیوی کامیابی کے لیے اپنی ساری توانائی لگادے۔
موجودہ زمانے میں بہت سے لوگ ہیں جو بظاہر مذہبی وضع قطع بنائے رہتے ہیں اور رسمی معنوں میں صوم و صلاۃ کی پابندی بھی کرتے ہیں، لیکن عملاً وہ اپنا سارا وقت اور اپنی بہترین صلاحیت صرف دنیا کمانے میں لگائے رہتے ہیں، صرف اِس لیے کہ جب وہ مریں تو اپنی اولاد کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ سامانِ دنیا چھوڑ کر جائیں۔
مگر ایسے لوگ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ خدا کو دینے کے لیے اُن کے پاس صرف کچھ ظاہری رسوم ہیں اور جہاں تک حقیقی زندگی کا تعلق ہے، اس کو انھوں نے صرف اپنی اولاد کے لیے وقف کررکھا ہے۔ یہ خدا پرستی نہیں ہے بلکہ وہ اولاد پرستی ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اولاد پرستی کا طریقہ کسی کو خدا پرستی کا کریڈٹ نہیں دے سکتا۔ خدا پرستی، زندگی کا ضمیمہ (appendix) نہیں، حقیقی خدا پرستی وہ ہے جو انسان کی پوری زندگی کا اِحاطہ کیے ہوئے ہو۔
واپس اوپر جائیں

خوش فکری، یا حقیقت پسندی

ایک باپ کو اپنے بیٹے سے بہت تعلق تھا۔ باپ کے ذہن میںکام کا ایک آئڈیل تصور تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اُس آئڈیل کام کے لیے تیار کرے۔ اِس مقصد کے لیے اُس نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ اُس کی امیدیں تمام تر اپنے بیٹے سے وابستہ ہوگئیں۔ جب بیٹا بڑا ہوگیا اور اس کی تعلیم مکمل ہوگئی تو باپ نے چاہا کہ اس کا بیٹا اس کے پسندیدہ کام میں لگے۔ لیکن بیٹے نے انکار کردیا۔ باپ نے بہت کچھ کہا، لیکن بیٹے کی سمجھ میں نہ آیا۔ بیٹے نے آخری طورپر اپنے باپ سے کہہ دیا— بیٹا جب بڑا ہوجاتا ہے تو وہ خود اپنی عقل سے کام کرتا ہے۔
بیٹے کا یہ جواب سُن کر باپ کو اتنی مایوسی ہوئی کہ وہ نفسیاتی مریض بن گیا۔ اس کا بلڈ پریشر بڑھ گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں باپ کی غلطی تھی، نہ کہ بیٹے کی غلطی۔ یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ ہر بچہ عقل وشعور لے کر پیدا ہوتا ہے۔ چھوٹی عمر میں جب وہ ناپختہ (immature) ہوتا ہے، اُس وقت وہ باپ اور ماں کی بات کو سنتا ہے۔ لیکن جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اس کا شعور پختہ ہوچکا ہوتا ہے۔ اُس کے اندر خود فکری (self-thinking) کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی عقل سے آزادانہ فیصلہ کرنے لگتا ہے۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کے والدین کی سوچ غیر فطری ہے، وہ کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔
والدین کو چوں کہ اپنے بیٹے سے بہت زیادہ محبت ہوتی ہے۔ محبت کے جذبے کے تحت، وہ اپنے بیٹے کے بارے میں خوش فکر (wishful) بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سے ایسی امیدیں قائم کرلیتے ہیں جو قانونِ فطرت کے خلاف ہوتی ہے۔
اِس خوش فکری (wishful thinking) میں تقریباً ہر باپ مبتلا رہتا ہے۔ اِس قسم کی خوش فکری اِس دنیا میں کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسند بنیں، تاکہ وہ اپنی اولاد کے بارے میں مایوسی کا شکار نہ ہوں۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کا دکھ جھیل رہے ہیں

ایک سینئر مسلم تاجر سے ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ کو خدا نے 95 سال کی عمر دی، یعنی تقریباً ایک صدی۔ اِس لمبی زندگی میں آپ نے کیا سیکھا اورکیا تجربہ کیا۔ اِس سوال کے بعد وہ دومنٹ چپ رہے۔ اس کے بعد انھوںنے نہایت سنجیدہ انداز میں کہا— کوئی تجربہ نہیں۔ بس پیداہوئے۔ بڑے ہوئے تو بزنس میں لگ گئے۔ شادی کی اور بچے پیدا کیے۔ بچوں کو سیٹل (settle)کیا۔ اب آخر عمر میں بچوں کا دکھ جھیل رہے ہیں، اور موت کا انتظار کررہے ہیں۔
موجودہ زمانے میں یہی ہر گھر کی کہانی ہے۔ موجودہ زمانے میں تقریباً ہر ماں باپ کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی تمام محبتوں کا مرکز بناتے ہیں۔ بچوں کی زندگی سنوارنے کے لیے وہ سب کچھ کر ڈالتے ہیں، مگر آخر میںہر ایک کا یہ حال ہوتا ہے کہ بچے غیر وفادار نکلتے ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اپنی آزاد زندگی بنا لیتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں ماں باپ کی خدمت ایک فرسودہ تصور بن چکا ہے۔ بچوں کی ترقی کو ماں باپ اِس حسرت کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں کہ جس پیڑ کو ہم نے محنت کرکے اگایا تھا، اُس پیڑ کا سایہ اُنھیں حاصل نہیں ہوا۔
حدیث میںآیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ بچے اپنے دوست کے ساتھ حسن سلوک کریں گے، اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بد سلوکی کریں گے (بَرَّ صَدِیقَہُ، وَجَفَا أَبَاہُ)۔سنن الترمذی، حدیث نمبر 2210۔ یہ حدیثِ رسول، موجودہ زمانے پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ آج ساری دنیا میں عمومی طورپر ایسا ہی ہورہا ہے۔ اِس واقعے کا سب سے زیادہ بُرا حصہ اُن لوگوں کو مل رہا ہے جو ساری زندگی بچوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں، اور آخر میں ان کے حصے میں غم کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ مزید یہ کہ ایسے ماں باپ اُس حدیث کا مصداق ہیں جس میںکہاگیا ہے کہ سب سے زیادہ گھاٹے میں وہ شخص ہے جو دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھودے (أَذْہَبَ آخِرَتَہُ بِدُنْیَا غَیْرِہِ) سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966۔
واپس اوپر جائیں

اہل وعیال کا فتنہ

حدیث کی کتابوں میںاہل وعیال کے بارے میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اُن میں سے دو روایتیں یہاں نقل کی جاتی ہیں:
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: الْوَیْلُ کُلُّ الْوَیْلِ لِمَنْ تَرَکَ عِیَالَہُ بِخَیْرٍ وَقَدِمَ عَلَى رَبِّہِ بِشَرٍّ(مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 314)۔ یعنی کامل تباہی وبربادی ہے اُس شخص کے لیے جس نے اپنے عیال کو اچھی حالت میں چھوڑا، اور خود برے حال میں اپنے رب کے پاس پہنچا۔دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:یُؤْتَى بِرَجُل یَوْم الْقِیَامَة فَیُقَال أکل عِیَالہ حَسَنَاتہ(تخریج الأحادیث فی تفسیر الکشاف للزیلعی، حدیث نمبر 1357)۔یعنی قیامت کے دن ایک شخص لایا جائے گا اورکہا جائے گا کہ اس کے اہل وعیال اس کی نیکیاں کھا گئے۔
قدیم زمانے میں صرف کچھ افراد اِس قسم کے ہوتے تھے، لیکن موجودہ زمانے میں اِس پہلو سے بگاڑ کا یہ حال ہے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے جیسے تمام لوگ اِس تباہ کن کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ اِس کم زوری کا سبب حبّ ِعیال ہے۔ بظاہر لوگ خدا کا اور اسلام کا نام لیتے ہیں، لیکن اُن کی محبتیں صرف اپنے اہل وعیال سے ہوتی ہیں۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُن کاسب سے بڑا کنسرن اُن کے اہل وعیال ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنے مال و اسباب کو اپنے اہل وعیال کے لیے وقف کیے رہتے ہیں۔ موت ایسے لوگوں کے لیے ایک جبری انقطاع(compulsive detachment) کے طورپر آتی ہے۔ ایسے لوگ جب موت کے بعد خدا کے پاس پہنچتے ہیں تو وہاں کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔یہ بلاشبہ سب سے بڑی محرومی ہے۔ حدیث کے مطابق،یہ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو تباہ کرنا ہے (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966) ۔مزید یہ کہ یہ اہل وعیال جن کو آدمی اپنا سب کچھ دے دیتا ہے، وہ موت کے بعد اُس سے اِس طرح جدا ہوجاتے ہیں کہ دوبارہ وہ اُس کو کبھی نہیں ملتے۔
واپس اوپر جائیں

پرچۂ امتحان

یوپی کے ایک مسلمان دہلی میں آکر آباد ہوئے۔ انھوںنے پراپرٹی کا بزنس کیا۔ انھوں نے اِس بزنس میں کافی دولت کمائی۔ مگر اُن کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ ایک بار ان کی ماں دہلی آئیں۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کا بیٹا دہلی میں ایک بڑے گھر میں رہتا ہے۔ دنیا کی ہر چیز اس کے پاس ہے، مگر شادی کو کافی عرصہ گزرنے کے باوجود اُن کے یہاں اولاد نہیں ہوئی۔اُن کی ماں اِس بات پر کافی پریشان ہوئیں۔ وہ اکثر کہتی تھیں — ہائے میرے بیٹے کی دولت کون لے گا۔
اِس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن میں اولاد کو فتنہ (التغابن،64:15)کیوں کہاگیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ اپنے بیٹے کو اپنی ذات کی توسیع (extension) سمجھتے ہیں۔ اُن کو یقین ہوتا ہے کہ اُن کی کمائی ان کے بعد ضائع نہیں ہوگی، بلکہ اپنے بیٹے کی صورت میں بالواسطہ طورپر وہ اُن کو حاصل رہے گی۔
اولاد کے بارے میں اِسی تصور کی بنا پر لوگوں کے لیے اولاد ایک فتنہ بن جاتی ہے۔ اِس تصور کے تحت جو ذہن بنتا ہے، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی موت کی سنگینی سے غافل ہوجاتا ہے۔ موت کے بعد کے احوال پر وہ زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں سوچتا۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ موت اور موت کے بعد کی حقیقتوں کے معاملے سے بے خبر ہوجاتا ہے۔
اولاد کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اُس کے ذریعے نسلِ انسانی کا بقا وتسلسل جاری رہتا ہے۔ جہاں تک دولت کی بات ہے، وہ باپ کے لیے بھی امتحان کا ایک پرچہ ہے، اور بیٹےکے لیے بھی امتحان کا ایک پرچہ۔ دولت کو اگر اِس ذہن کے تحت دیکھا جائے تو دولت کبھی مسئلہ نہ بنے۔ اس حقیقت کو ایک حدیث رسول میں اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ کسی والدین کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے بہترین تحفہ یہ ہے کہ وہ تعلیم وتربیت کے ذریعے اس کو اچھا انسان بنائے۔(سنن الترمذی، حدیث نمبر 1952)
واپس اوپر جائیں

ہاتھی کی دم میں پتنگ

اکثر والدین مجھ سے پوچھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں بچوں کی دینی تربیت کے لیے کیا کیا جائے۔ میرا جواب ہمیشہ ایک رہتا ہے— بچوں کی تربیت سے پہلے خود اپنی تربیت کیجیے۔ موجودہ زمانے میں بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب خارجی ماحول نہیں ہے، بلکہ گھر کا داخلی ماحول ہے۔ گھر کا داخلی ماحول کون بناتا ہے، یہ والدین ہیں جو گھر کا داخلی ماحول بناتے ہیں۔ جب تک گھر کے داخلی ماحول کو حقیقی معنوں میں دینی، یعنی آخرت پسندانہ ماحول نہ بنایا جائے، بچوں کے اندر کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
موجودہ زمانے کا اصل فتنہ مال ہے۔ آج کل ہر آدمی زیادہ سے زیادہ مال کما رہا ہے۔ اِس مال کا مصرف والدین کے نزدیک صرف ایک ہے، اور وہ ہے گھرکے اندر ہر قسم کی راحت کے سامان اکھٹا کرنا، اور بچوں کی تمام مادّی خواہشوں کو پورا کرنا۔ موجودہ زمانے میں یہ کلچر اتنا زیادہ عام ہے کہ اِس معاملے میں شاید کسی گھر کا کوئی استثنا نہیں، خواہ وہ بے ریش والوںکا گھر ہو، یا باریش والوں کا گھر۔والدین کے اِس مزاج نے ہر گھر کو مادّہ پرستی کا کارخانہ بنادیا ہے۔ تمام والدین اپنے بچوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر مادّہ پرستانہ ذہن بنانے کے امام بنے ہوئے ہیں۔ اِسی کے ساتھ تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے آخرت کی جنت سے بھی محروم نہ رہیں۔ اِسی مزاج کے بارے میں ایک اردو شاعر نے کہا تھا— رِند کے رِند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی
مگر یہ صرف ایک خوش خیالی ہے جو کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔ تمثیل کی زبان میں یہ ’’ہاتھی کی دم میں پتنگ باندھنا‘‘ ہے۔ موجودہ زمانے کے والدین ایک طرف، اپنے بچوں کو ’’مادّی ہاتھی‘‘ بناتے ہیں۔ دوسری طرف، وہ چاہتے ہیں کہ اِس ہاتھی کی دم میں دین کی پتنگ باندھ دی جائے۔ مگر ایسی پتنگ کا حال صرف یہ ہونے والا ہے کہ ہاتھی ایک بار اپنی دم کو جھٹکا دے اور یہ پتنگ اُڑ کر بہت دور چلی جائے۔ والدین کو چاہیے کہ اگر وہ اپنے بچوں کو دین دار، یعنی آخرت پسند بنانا چاہتے ہیں تو وہ اُس کی قیمت ادا کریں، ورنہ وہ فرضی طورپر اِس قسم کی منافقانہ بات کرنا بھی چھوڑ دیں۔
واپس اوپر جائیں

ہر گھر بگاڑ کا کارخانہ

آج کل عام طورپر یہ حال ہے کہ ہر گھر میںایک طرف اپنے بچوں اور اپنے خاندان والوں کی تعریف کی جاتی ہے، اُن کا ذکر ہمیشہ مثبت انداز میں کیا جاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جب بھی دوسروں کا چرچا کیا جاتا ہے تو وہ تنقیص کے انداز میں ہوتا ہے۔
اپنوں کے بارے میں مثبت باتوں کا چرچا اور دوسروں کے بارے میں منفی باتوں کا چرچا، یہ کلچر اـتنا زیادہ عام ہے کہ شاید ہی کوئی گھر اِس سے خالی ہو۔
گھر کے اندر سماج کے شہری بنتے ہیں، لیکن مذکورہ کلچر نے گھر کو اِس قابل نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنے سماج کے لیے اچھے شہری سپلائی کرے۔ ہر گھر میںایسے عورت اور ایسے مرد بن کر تیار ہورہے ہیں جو اپنوں کے بارے میں مثبت رائے اور دوسروں کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں، جن کو اپنوں سے محبت ہے اور دوسروں سے نفرت ، جو اپنوں کے بارے میں روادار (tolerant) ہیں اور دوسروں کے بارے میںوہ غیر روادار(intolerant)بنے ہوئے ہیں، جن کے اندر اپنوں کو دینے کا ذہن ہے اور دوسروں سے صرف لینے کا ذہن، جو اپنوں کو برتر سمجھتے ہیںاور دوسروں کو کم تر، جو اپنوں کی ترقی پر خوش ہوتے ہیںاور دوسروں کی ترقی دیکھ کر اُنھیں کوئی خوشی نہیں ہوتی، جو اپنوں کی تکلیف سے فکر مند ہوتے ہیں اور دوسروں کی تکلیف کو دیکھ کر انھیں کوئی فکر مندی لاحق نہیں ہوتی، وغیرہ۔
اِس صورتِ حال کا یہ نتیجہ ہے کہ اب سماجی اقدار (social values) کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ اب ایک ہی چیز ہے جو ہر ایک کا واحد کنسرن (sole concern) بنی ہوئی ہے، اور وہ ہے ذاتی مفاد(self-interest)۔ اِس صورتِ حال نے ہر ایک کو خود غرض اور استحصال پسند بنا دیا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔ یہ صورتِ حال بے حد سنگین ہے۔ اِس کی اصلاح جلسوں اور تقریروں کے ذریعے نہیں ہوسکتی، اس کی اصلاح کا طریقہ صرف یہ ہے کہ گھر والے اپنے گھر کے ماحول کو درست کریں۔گھر کے ماحول کو درست کیے بغیر اِس سنگین صورتِ حال کی اصلاح ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کا قبرستان

ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہمارے مشن سے جڑے ہوئے تھے۔ اُس وقت ان کے یہاں اولاد نہیں تھی، پھر ان کے یہاں بچے پیدا ہوئے۔ اِس کے بعد وہ دھیرے دھیرے مشن سے دور ہوگئے۔ ایک عرصے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے دعوتی کام کو کیوں چھوڑ دیا۔ انھوں نے کہا— بچوںکی ذمے داریاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب وقت نہیں ملتا۔
موجودہ زمانے میں یہی کم و بیش ہر آدمی کا حال ہے۔ لوگوں کے لیے ان کے بچے ان کا قبرستان بنے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کے لیے اس کے بچے اس کا واحد کنسرن (sole concern) ہیں۔ ہر آدمی اپنا پیسہ، اپنا وقت، اپنی انرجی، غرض جو کچھ اس کے پاس ہے، وہ اس کو اپنے بچوں کے لیے وقف کیے ہوئے ہے۔ دوسروں کے لیے اس کے پاس صرف زبانی ہمدردی (lip service) ہوتی ہے، اور اپنی اولاد کے لیے حقیقی عمل، حتی کہ خدا کے لیے یا خدائی کام کے لیے بھی اس کے پاس صرف الفاظ ہوتے ہیں، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
آج جس شخص سے ملاقات کیجیے، وہ اپنے بچوںکے لیے فکر مند ہوگا، لیکن وہ خود اپنے مستقبل کے لیے فکر مند دکھائی نہ دے گا۔ یہ عین وہی صورتِ حال ہے جس کو حدیث میں اس طرح بیان کیاگیا ہےکہ دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھو دینا(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966)۔ اِس معاملے کا سب سے زیادہ اندوہناک پہلو یہ ہے کہ لوگ محبتِ اولاد میں اتنا زیادہ غرق ہیں کہ وہ اِس حدیثِ رسول کا مصداق بن گئے ہیں: حُبُّکَ الشَّیْءَ یُعْمِی وَیُصِمُّ(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 5130) ۔ یعنی کسی چیز سے تمہاری محبت تم کو اندھا اور بہرا بنادیتی ہے۔ اولاد کی محبت ان پر اتنا زیادہ غالب ہے کہ وہ یہ بھی سوچ نہیں پاتے کہ ہم اولاد کے مستقبل کو بنانے کی فکر میں خود اپنے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں۔ اِس بنا پر لوگوں کاحال یہ ہے کہ ان کے پاس زیادہ اہم کاموں کے لیے وقت نہیں۔ مثلاً دینی مطالعہ، دعوہ ورک، آخرت کو سامنے رکھ کر اپنے معاملات کی منصوبہ بندی، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

نظر کی خریداری

ایک صاحب مجھ کو اپنے گھر لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ ان کا گھر مختلف قسم کے سامانوں سے بھرا ہوا ہے۔ پورا گھر ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور (departmental store)معلوم ہوتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں اتنا زیادہ سامان کیوں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب میں بازار جاتا ہوں اور وہاں میں کسی چیز کو دیکھتا ہوں، وہ مجھ کو پسند آجاتی ہے تو میں اس کو خرید لیتا ہوں۔ یہ نظر کی خریداری ہے۔ اکثر لوگوں کا حال یہی ہے کہ وہ چیزوں کو دیکھ کر خریدتے ہیں، خواہ وہ ان کے استعمال میں آنے والی ہوں یا نہ ہوں۔
خریداری کی دو قسمیں ہیں— نظر کی خریداری اور ضرورت کی خریداری۔ نظر کی خریداری وہ ہے جو دیکھ کر کی جائے۔اس کے برعکس، ضرورت کی خریداری یہ ہے کہ آپ کو ایک چیز کی ضرورت ہو ، اس کو حاصل کرنے کے ارادے سے آپ گھر سے نکلیں اور جہاں وہ چیز ملتی ہو، وہاں جاکر اس کو خرید لیں۔
نظر کی خریداری دوسرے الفاظ میں بے مقصد خریداری ہے۔ وہ اپنے وقت اور اپنے مال کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مال کی تبذیر (الاسراء،17:26) بتایا گیا ہے۔ یعنی مال کو بلاضرورت بکھیرنا۔ ضرورت کی خریداری ایک ذمہ دارانہ فعل ہے، اور نظر کی خریداری ایک غیر ذمہ دارانہ فعل ۔
کسی مرد یا عورت کے پاس جو مال ہے، وہ اللہ کا دیا ہوا ہے، وہ اللہ کی ایک امانت ہے۔ جو عورت یا مرد مال کومسرفانہ طور پر خرچ کریں، وہ خدا کی دی ہوئی امانت میں خیانت کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسا کام کرتے ہیں، جس کے لیے آخرت میں ان کی سخت پکڑ ہوگی۔ مال کو جائز ضرورت پر خرچ کرنا ثواب کا کام ہے۔ اس کے برعکس، اگر مال کو غیر ضروری مدوں میں خرچ کیا جائے تو وہ خرچ کرنے والے کے لیے ایک گناہ بن جاتا ہے۔ مال کو خرچ کرنے کے معاملے میں انسان کو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

پیمپرنگ کا نقصان

میرے والد فرید الدین خاں کا انتقال دسمبر 1929میں ہوا۔ اُس وقت میری عمر تقریباً 6 سال تھی۔ میرے والد اپنے تمام بچوں میں مجھ کو سب سے زیادہ مانتے تھے۔ وہ میرے ساتھ لاڈپیار(pampering) کا معاملہ کرتے تھے۔ اِس بنا پر میں بہت شوخ ہوگیا تھا اور اکثر طفلانہ شرارتیں کیاکرتا تھا۔ شیخ محمد کامل میرے پھوپھا تھے۔ وہ اِس کو دیکھ کر غصہ ہوتے تھے۔ وہ میرے والد سے کہتے تھے کہ — تم اپنے بیٹے کو خراب کرڈالوگے۔
لیکن بچپن میں میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ میری والدہ زیب النساء (وفات 1985 ) بتاتی تھیں کہ والد کی زندگی میں میں بہت بولتا تھا، لیکن جب والد کا انتقال ہوگیا تو اچانک میں بالکل بدل گیا۔ میری شوخیاں ختم ہوگئیں۔ اب میں خاموش رہنے لگا۔ یہ میری زندگی کا بہت بڑا واقعہ تھا۔ اگر میرے باپ زیادہ دن تک زندہ رہتے تو یقینی طورپر میں اُسی قسم کا ایک نوجوان بن جاتا جس کو لاڈ پیار سے بگڑا ہوا بچہ (spoilt and pampered child) کہاجاتا ہے۔ بعد کو میری زندگی میں جو حقیقت پسندی اور سنجیدگی آئی، وہ براہِ راست طورپر میری یتیمی کا نتیجہ تھی۔
ایک انسان جب پیدا ہوتا ہے تو ابتدائی طورپر وہ اپنے والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن یہ مدت عارضی ہوتی ہے۔ اس کو اپنی بقیہ زندگی والدین کے ماحول سے باہر، دوسروں کے درمیان گزارنی پڑتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ لاڈ پیار کا معاملہ کرتے ہیں۔
اِس لاڈ پیار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ شعوری یا غیر شعوری طورپر سمجھ لیتا ہے کہ مجھ سے محبت کرنے والا وہی ہے جو میرے ساتھ لاڈ پیار(pampering) کا معاملہ کرے۔ لیکن یہ بچہ جب اپنے گھر سے باہر آتا ہے تو دوسرے لوگوں سے اس کو والدین والا لاڈ پیار نہیں ملتا۔ اب وہ ساری دنیا سے بے زار ہوجاتا ہے۔ اِس صورتِ حال نے تمام عورتوں اور مردوں کو شکایت کی نفسیات میں مبتلا کردیا ہے، جب کہ صحیح یہ تھا کہ لوگوں کے اندر دوسرے انسانوں کے لیے محبت کی نفسیات پیداہو۔
واپس اوپر جائیں

محرومی ایک نعمت

مئی 2000 میں میں نے بہار کا سفر کیا۔ اس سفر میں مجھے بتیا (بہار) کا یتیم خانہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔یہ یتیم خانہ 1928 سے قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بچہ یا بچی کا یتیم ہونا کوئی برائی نہیں۔ یہ ایک نعمت ہے جو فطرت کی طرف سے کسی کو دی جاتی ہے۔ اگر یتیم ہونا نعمت نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ پیغمبر ِ اسلام کے لیے یتیمی کا انتخاب نہ فرماتے۔یتیم ہونا کسی بچہ یا بچی کے لیے قدرت کی طرف سے ایک خوشخبری ہے۔ اس بات کی خوشخبری کہ تم کو زندگی کے سفر کے لیے وہ کورس عطا کیا گیا ہے جو اس انسان کو عطا ہوا جس کے بارےمیں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم حضرات بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ بشری کے سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے۔
یتیم بچہ یا بچی کو پیداہونے کے بعد دنیا میں اپنے فطری امکان کو بروئے کار لانے کے لیے اور کیا چیز ملنی چاہیے اس کااشارہ اس قرآنی آیت میں ملتا ہے:أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَى (93:6)۔ یعنی کیا اللہ نے تم کو یتیم نہیں پایا، پھر اس نے تم کو ٹھکانا دیا۔ اپنے آغاز حیات میں اپنی زندگی کی تعمیرکے لیے ایک مأویٰ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ یتیم خانہ اور اسی طرح تمام یتیم خانے اسی آیت کی عملی تفسیر ہیں۔وہ یتیموں کو مأویٰ فراہم کرتےہیں۔ اس طرح کے کام کو میں اپنی زبان میں منصوبۂ خداوندی سمجھتا ہوں۔
ایک صاحب نے اپنا قصہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں بچپن میں یتیم ہوگیا تھا۔ میرے رشتہ داروں نے مجھے یتیم خانہ میں داخل کردیا۔ میرے ساتھ دو یتیم بچے اور تھے۔ ہم تینوں نے یتیم بچوں کی حیثیت سے یتیم خانہ میں پروش پائی۔ اس وقت بظاہر ہمارا کوئی مستقبل نہ تھا۔ مگرآج ہم تینوں اللہ کے فضل سے کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔میں نے کہا کہ یہ آپ کے اسی یتیم ہونے کا نتیجہ ہے۔ یتیمی کی حالت بہترین حالت ہے۔ یتیمی آدمی کے اندر خودشناسی پیدا کرتی ہے۔ وہ آدمی کے اندر خود کفیل بننے کا جذبہ ابھارتی ہے۔ یتیم آدمی سمجھتا ہے کہ میرا کوئی سہارانہیں، اس لیے مجھ کو خود ہی سارا عمل کرنا ہے۔ اس طرح وہ دوسروں سے زیادہ محنت کرنے لگتا ہے۔ یتیمی کے حالات آدمی کو ہیرو بنادیتےہیں۔
ڈفرنٹلی ایبلڈ پرسن
اکتوبر 2000میں مَیں نے بھوپال کا سفر کیا ۔ اس دوران میں نے جو چیزیں دیکھیں، ان میں سے ایک رفاہی ادارہ بھی تھا، جو ڈفرنٹلی ایبلڈ بچوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کا نام شبھم وکلانگ سیوا سمیتی ہے۔ یہ ادارہ 1980 میں قائم ہواہے۔ میں نے ان بچوں کو دیکھا جن کی تعداد 63 ہے ان میں ہندو اور مسلمان دونوں بچے شامل ہیں۔ میں نے کئی بچوں سے بات کی دوبچوں سے ہونے والی بات کو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
سنتوش چورسیہ (عمر 14 سال) سے میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیا کرتےہیں۔ انھوں نے کہا کہ پڑھتےہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیا سوچتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ پڑھ لکھ کر میں اپنے پیروں پر کھڑاہوں گا۔ ایک بچہ جس نےاپنا نام شنکر شرما (عمر 12 سال) بتایا۔وہ بھی اپنے دونوں پیروں سے معذور تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ پڑھنے کے بعد کیا کریں گے۔ اس نے جواب دیا میں پڑھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ یہ بات وہ بچے کہہ رہے تھے جو اپنے دونوں پیروں سے معذور تھے اور جسمانی طورپر کھڑے نہیں ہوسکتےتھے۔ میں نے سوچا کہ علم میں کیسی عجیب طاقت ہے۔ علم آدمی کو اس حد تک با شعور بناتا ہے کہ وہ جسمانی طورپر کمزور ہوتے ہوئے بھی ذہنی طورپر اتنا طاقتور ہوجائے کہ اس کی جسمانی کمزوری ترقی کی راہ میں حائل نہ ہوسکے۔
مزید یہ کہ موجودہ زمانے میں یہ بات ریسرچ سے ثابت ہوگئی ہےکہ کوئی شخص مطلق معنوں میں قوی یا ضعیف نہیں ہوتا۔ چناں چہ پہلے معذور کے لیے ڈس ایبلڈ (disabled) کا لفظ بولا جاتا تھا۔ مگر اب یہ لفظ متروک ہوگیا ہے۔ اب ایسے افراد کو ڈفرینٹلی ایبلڈ (differently abled) کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک اعتبار سے معذور اور دوسرے اعتبار سے طاقت ور۔
واپس اوپر جائیں

تربیت اولاد

حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا:باپ کی طرف سے اپنے بیٹے کے لیے اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں کہ وہ اس کو اچھے آداب سکھائے ( مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ)۔سنن الترمذی، حدیث نمبر 1952)۔ اس حدیث میںبظاہر صرف والد کا ذکر ہے مگر تبعاً اس سے مراد والد اور والدہ دونوں ہیں۔ نیز ادب کا لفظ یہاں تعلیم وتربیت کے تمام پہلوؤں کے لیے جامع ہے، خواہ وہ مذہبی نوعیت کی چیزیں ہوں یا دنیاوی نوعیت کی چیزیں۔
عورت اور مرد کو فطری طور پر اپنی اولاد سے غیر معمولی محبت ہوتی ہے۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہےکہ اس محبت کا بہترین استعمال کیا ہے یاکیا ہونا چاہیے۔ وہ استعمال یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو آداب زندگی سکھائیں۔ وہ اپنے بچوں کو بہتر انسان بناکر دنیا کے کارزار میں داخل کریں۔یہ دیکھاگیا ہے کہ والدین اپنی محبت کا استعمال زیاہ تر اس طرح کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ بچہ جو چاہے وہ اس کے لیے حاضر کردیا جائے، یہی بچہ کے لیے محبت کا سب سے زیادہ بڑا استعمال ہے، مگر یہ بچوں کے حق میں خیر خواہی نہیں۔
چھوٹا بچہ اپنی خواہشوں کے سوا کچھ اور نہیں جانتا۔ اس کی سوچ بس یہ ہوتی ہے کہ اس کے دل میں جو خواہش آئے وہ فوراً پوری ہوجائے۔ مگر یہ طفلانہ سوچ ہے۔ کیونکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بچہ ایک دن بڑا ہوگا۔ وہ بڑا ہو کر دنیا کے میدان میں داخل ہوگا۔ زندگی کے اس اگلے مرحلہ میں کامیاب ہونے کے لیے بچہ کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ کہ وہ آدابِ حیات سے مسلّح ہو کر وہاں پہنچا ہو۔
بچہ جب بالکل چھوٹا ہو اسی وقت سے اس کی تعلیم وتربیت کا سلسلہ شروع کردینا چاہیے تاکہ یہ چیزیں عادت بن کر اس کی زندگی میں داخل ہوجائیں۔ زندگی کے ان آداب کے تین خاص پہلو ہیں: دین، اخلاق اور ڈسپلن۔
دین کے اعتبار سے بچہ کی تربیت کا آغاز پیدائش کے فوراً بعد ہوجاتا ہے جب کہ اس کے کان میں اذان کی آواز داخل کی جاتی ہے۔ یہ علامتی انداز میں اس بات کا اظہار ہے کہ بچہ کو دین دار بنانے کا عمل آغازِ عمر ہی سے شروع کردینا ہے۔ یہ کام ماں اور باپ دونوں کوکرنا ہے۔
والدین کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ بچہ کے اندر توحیداور اسلامی عقائد خوب پختہ ہوجائیں۔ ذکر اور عبادت اس کی زندگی کے لازمی اجزاء بن کر اس کی شخصیت میں شامل ہوجائیں۔ وہ نماز، روزہ کا پابند ہو۔ صدقہ اورخیرات کا شوق اس کے اندر پیدا ہوجائے۔ قرآن اور حدیث سے اس کو اس قدر شغف ہوجائےکہ وہ روزانہ اس کا کچھ نہ کچھ حصہ مطالعہ کرنے لگے۔ اس کو دیکھ کر ہر آدمی یہ کہہ دے کہ یہ بچہ ایک دین دار بچہ ہے۔
اخلاق کی تربیت کی صورت یہ ہے کہ ہر موقع پر بچہ کو سکھایا جائے۔ اگر وہ غلطی کرے تو اس کوٹوکا جائے۔ حتی کہ اگر ضرورت ہو تو اس کی تنبیہ کی جائے۔ بھائی بہنوں میںلڑائی ہو تو فوراً سمجھایا جائے۔ اگر کبھی بچہ جھوٹ بولے یا کسی کو گالی دے۔ یا کسی کی چیز چرا لے تو نہایت سختی کے ساتھ اس کا نوٹس لیاجائے۔ اور یہ سب بالکل بچپن سے کیا جائے تاکہ بچہ کو زندگی میں یہ چیزیں مستقل کردار کے طورپر شامل ہوجائیں۔
یہی طریقہ ڈسپلن کے بارے میں اختیار کرنا ہے۔ بچہ کو اوقات کی پابندی سکھائی جائے۔ چیزوں کو صحیح جگہ رکھنے کی عادت ڈالی جائے۔ کھانا پینا باقاعدہ وقت کے ساتھ ہو۔ اگر وہ کوئی کاغذ یا تھیلی سڑک پر پھینک دے تو فوراً اسی سے اس کو اٹھوایا جائے۔ شور کرنے سے روکا جائے، ہر ایسی چیز سے بچنے کی تلقین کی جائے جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہو۔
بچہ کی حقیقی تربیت کے لیے خود ماں باپ کو اپنا طرزِ زندگی اس کے مطابق بنانا ہوگا۔ اگر آپ اپنے بچہ سے کہیں کہ جھوٹ نہ بولو، اسی کے ساتھ آپ یہ کریں کہ جب کوئی شخص دروازہ پر دستک دے تو کہلوا دیں کہ وہ اس وقت گھر پر نہیں ہیں تو ایسی حالت میں بچہ کو جھوٹ سےروکنا بے معنی ہوگا۔ اگر آپ سگریٹ پیتے ہوںتو بچہ کے سامنے اسموکنگ کے خلاف تقریر کرنا بے معنی ہے۔ اگر آپ وعدہ پورا نہ کرتےہوں اور بچہ سے کہیں کہ بیٹے، ہمیشہ وعدہ پورا کرو، تو کبھی ایسی نصیحت کو نہیں پکڑے گا۔
بچہ اپنے والدین کو ماڈل کے روپ میں دیکھتا ہے۔ اسی طرح بڑا بچہ چھوٹے بچوں کے لیے ماڈل ہوتاہے۔ اگر والدین اور بڑا بچہ ٹھیک ہو تو بقیہ بچے اپنے آپ سدھرتے چلے جائیں گے۔
اخلاقی زہر
6 جنوری 1990 کو دہلی (شکر پور) میں ایک دردناک واقعہ ہوا۔ کچھ چھوٹے بچے ایک میدان میں کھیل رہے تھے۔ وہاں ایک طرف کوڑے کا ڈھیر تھا۔ وہ کھیلتے ہوئے اس کوڑے تک پہنچ گئے۔ یہاں انھیں ایک پڑی ہوئی چیز ملی۔ یہ کوئی زہریلی چیز تھی۔ مگر انھوں نے بے خبری میں اس کو اٹھا کر کھا لیا۔ اس کے نتیجہ میں دو بچے فوراً ہی مر گئے، اور آٹھ بچوں کو تشویشناک حالت میں جے پرکاش نرائن اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ یہ بچے دو سال سے پانچ سال تک کے تھے۔
ٹائمس آف انڈیا (7 جنوری 1990) نے صفحہ اول پر اس کی خبر دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان بچوں میں سے ایک نے وہاں ایک چھوٹا پیکٹ پایا۔ اس میں تقریباً ڈیڑھ سو گرام کوئی سفید رنگ کا سفوف تھا۔ انھوںنے غلطی سے اس کو شکر سمجھا اور آپس میں تقسیم کرکے کھانے لگے۔ کھانے کے چند منٹ بعد ان کے ہونٹ نیلے پڑ گئے:
One of them found a small packet containing about 150 gm of white, powdery substance. They mistook it for sugar and distributed it among themselves. Within minutes of consuming it, their lips turned blue.
مادی خوراک کے اعتبار سے یہ چند بچوں کا واقعہ ہے۔ لیکن اخلاقی خوراک کے اعتبار سے دیکھئے تو آج یہی تمام انسانوں کا واقعہ ہے۔ آج کی دنیا میں تمام انسان ایسی اخلاقی غذائیں کھارہے ہیں جو ان کی انسانیت کے لیے زہر ہیں، جو ان کو ابدی ہلاکت سے دوچار کرنے والی ہیں۔
جھوٹ، بدکاری، رشوت، غرور، حسد، الزام تراشی، ظلم، غصب، بد دیانتی، وعدہ خلافی، بدخواہی، بے اصولی، بدمعاملگی، انانیت، بے اعترافی، غلطی نہ ماننا، احسان فراموشی، خود غرضی، انتقام، اشتعال انگیزی، اپنے لیے ایک چیز پسند کرنا اور دوسرے کے لیے کچھ اور پسند کرنا، یہ تمام چیزیں اخلاقی معنوں میں زہریلی غذائیں ہیں۔ آج تمام لوگ ان چیزوں کو میٹھی شکر سمجھ کر کھارہے ہیں۔ مگر وہ وقت زیادہ دور نہیں جب انکا زہریلا پن ظاہرہوگا۔ اور پھر انسان اپنے آپ کو اس حال میں پائے گا کہ وہاں نہ کوئی اس کی فریاد سننے والا ہوگا اور نہ کوئی اس کا علاج کرنے والا۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
اگست 1996 میں میرا امریکا کا سفر ہوا۔ وہاںماؤنٹ ہالی ( نیو جرسی)کی مسجد میں ایک اجتماع ہوا۔ اس میں زیادہ تر عورتیں شریک تھیں۔ اس میں خطاب کا موضوع تھا کہ امریکی معاشرہ میں بچوں کا اسلامی تحفظ۔ اس پر بولتے ہوئے میں نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ تھا:میں نے کہا کہ اگلی نسل کا اسلامی تحفظ اس طرح نہیںہوسکتا کہ آپ ایک مولوی صاحب کو مقرر کردیں جو روزانہ شام کو آکر ’’دینیات‘‘ پڑھا دیں۔ یا کوئی دینی رسالہ آپ اپنے بچوں کے نام جاری کردیں۔ یا انھیں کلچرل نوعیت کی کچھ چیزوں کا عادی بنانے کی کوشش کریں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ اگر آپ کو اپنے بچوں کو اسلامائز کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنے گھر کو اسلامائز کیجئے۔ آپ کے گھر میں دنیا کا چرچا نہ ہو بلکہ دین کا چرچا ہو۔ گھر کا ماحول مادی رنگ میں رنگا ہوا نہ ہوبلکہ آخر\ت کے رنگ میں رنگا ہوا ہو۔دوسری بات یہ کہ آپ اپنے بچوں کے اندر داعیانہ اسپرٹ پیدا کریں۔ یہ ایک اصول ہے کہ جو داعی نہیں بنتا اس کو مدعو بننا پڑتا ہے۔ اس لیے اگر آپ نے اپنے بچوں کے اندر داعیانہ اسپرٹ نہیں پیدا کی تو وہ دوسروں سے متاثر ہو کر رہیں گے۔ یہ فطرت کا قانون ہے، اور فطرت کا قانون کبھی نہیں بدلتا۔
واپس اوپر جائیں

پہلا اسکول

علم کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ ہر دوسری مصلحت پر اس کو فوقیت حاصل ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمان تعلیم کے میدان میں دوسری قوموں سے پیچھے ہوگئے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ موجودہ زمانہ میں جو تعلیمی ادارے قائم ہوئے، ان کے اساتذہ زیادہ ترغیر مسلم تھے۔ مسلمانوں کے رہنماؤں نے کہا کہ یہ غیر مسلم استاد ہمارے بچوں کو خراب کردیں گے، اس لیے ان اداروںمیں مسلمانوں کو داخل کرنا درست نہیں۔ اس کے نتیجہ میں مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے ہوگئے۔
یہ مصلحت درست نہ تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ میں جو سب سے پہلا اسکول کھولا گیا، اس کے تمام استاد غیر مسلم تھے۔ یہ اسکول مدینہ میں مشرک قیدیوں کے ذریعہ کھولا گیا۔ بعض لوگ صفّہ کو پہلا اسلامی مدرسہ کہتےہیں۔ مگر صفّہ تربیت گاہ تھا نہ کہ تعلیم گاہ۔ اسلام کی پہلی تعلیم گاہ یقیناً وہ ہےجو غزوۂ بدر کے قیدیوں کے ذریعہ مدینہ میں قائم کی گئی اور اس کےٹیچر سب کے سب مشرک اور غیر مسلم تھے۔
حتی کہ اس تعلیمی نظام کی بنا پر مدینہ میں مسائل بھی پیداہوئے۔ مثلاً مسند احمد بن حنبل کی ایک روایت میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کا فدیہ یہ مقرر کیا کہ وہ انصار کے لڑکوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ اس کے بعد ایک روز ایک لڑکا روتا ہوا اپنی ماں کے پاس آیا۔ ماںنے پوچھا تمھارا حال کیا ہے۔ اس نے کہا کہ میرے معلّم نے مجھ کو مارا ہے۔ )َجَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فِدَاءَہُمْ أَنْ یُعَلِّمُوا أَوْلَادَ الْأَنْصَارِ الْکِتَابَةَ۔ قَالَ:فَجَاءَ غُلَامٌ یَوْمًا یَبْکِی إِلَى أَبِیہِ، فَقَالَ:مَا شَأْنُکَ؟ قَالَ:ضَرَبَنِی مُعَلِّمِی)مسند احمد، حدیث نمبر 2216۔
یہ قیدی سب کے سب اسلام کے دشمن تھے۔ ان کو چھوڑنے میں یہ اندیشہ تھا کہ وہ دوبارہ اسلام کے خلاف مسئلہ بنیں گے۔ اس کے باوجود انھیں تعلیم کی قیمت پر چھوڑ دیاگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ ہر اندیشے کو نظر انداز کرکے اسے حاصل کرنا چاہیے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
امریکا کے سفر میں ایک شادی شدہ خاتون سے ملاقات ہوئی۔ اُن کے ساتھ دو چھوٹے بچے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ خاتون اپنے شوہر سے اختلاف کرکے اپنے بچوں کے ساتھ الگ ایک چھوٹے مکان میںرہتی ہیں۔ میں نے کہا کہ آج کل کے زمانے میں ایک عجیب چیز یہ ہو رہی ہے کہ شوہر کو اپنے بچوں سے محبت ہے، لیکن اس کو اپنی بیوی سے نفرت ہے۔ اِسی طرح بیوی کو اپنے بچوں سے محبت ہے، اور اپنے شوہر سے نفرت۔ یہ تضاد کی بات ہے۔ اور فطرت کے قانون کے مطابق، اِس قسم کی متضاد سوچ (contradictory thinking) اور ذہنی ارتقا دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔میںنے کہا کہ آج کل یہ حال ہے کہ شوہر اور بیوی کے لیے اُن کا بچہ عملاً لٹل گاڈ (little god) ہوتا ہے۔ مگر جس شوہر یا جس بیوی کے ذریعے یہ بچہ پیدا ہوا، اُس سے دونوں کو دوری ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

Friday, 1 February 2019

Al Risala | February 2019 (الرسالہ،فروری)

4

-اللہ سے محبت

5

- اللہ کی عظمت

6

- اللہ کی رحمت

7

- تزکیہ کا عمل

8

- عطیات خداوندی

9

- ہدایت کا اصول

10

- بے ادبی کا تصور

11

- دین کا کام

12

- دعوت کے نئے امکانات

13

- مغرب میں بسنے والے مسلمان

14

- دین کا خودساختہ ماڈل

15

- فرضی ماڈل کا نمونہ

18

- جنت کی دریافت

21

- شخصیت کا فریب

22

- پہلے اپنی اصلاح

23

- ای- اتصال

24

- انعام، یا آزمائش

25

- نظری تبلیغ، عملی اقدام

26

- ایک عام غلطی

28

- فطرت کی آواز

29

- ایک تقابل

30

- فریم ورک کا مسئلہ

32

- ایک خط

34

- اختلاط کی اہمیت

35

- خروج کا مسئلہ

40

- روحِ دین

41

- جنّت کا ٹکٹ

42

- روحانیت کیا ہے

43

- دعا کی قبولیت

45

- حق کی مخالفت

46

- اعلیٰ شخصیت

47

- غیر واقعی عذر

48

- خبرنامہ اسلامی مرکز


اللہ سے محبت

قرآن میں ایک تعلیم ان الفاظ میں آئی ہے:وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللَّہِ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ(2:165)۔ یعنی اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہیے۔ اور جو اہل ایمان ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں:
There are some who set up equals with God and adore them with the adoration due to God, but those who believe love God most.
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ امر (حکم) کے صیغے میں نہیں ہے، بلکہ وہ خبر (information)کے اسلوب میں ہے۔ یعنی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کی زندگی میں کوئی غیر خدا ان کی حبِّ شدید کا مرکز بن جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ ایمان والے ہیں، یعنی جن کو اللہ رب العالمین کی دریافت ہوگئی ہے، ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر بطور واقعہ اللہ رب العالمین سے حبِّ شدید پیدا ہوجاتی ہے۔
اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر ایک فطری کیفیت پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے، یعنی کسی چیز سے گہری محبت کاتعلق قائم کرنا۔ یہ حکم کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ فطری حالت کا معاملہ ہے۔ مومن وہ ہے، جو اس حقیقت کو دریافت کرلے کہ اللہ رب العالمین اس کا سب کچھ ہے۔ اس وقت یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کامل معنوں میں اس کا مرکزِ محبت بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، کچھ لوگ جو فطرت کے اس معاملے کو دریافت نہیں کرپاتے ، ان کا کیس غلط انتساب (wrong attribution) کا کیس بن جاتا ہے۔ وہ عدمِ دریافت کی بنا پر اپنے اس فطری جذبے کو اللہ رب العالمین کے سوا کسی اور سے منسوب کرلیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے سواکوئی اور ان کے اس فطری جذبے کا مرکز بن جاتا ہے۔گویا شرک اور توحید دونوں انتساب کا معاملہ ہے، شرک غلط انتساب کا معاملہ، اور توحید درست انتساب کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی عظمت

فتح ِمکہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک صحابی کہتے ہیں: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّةَ، فَقَالَ:لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ، نَصَرَ عَبْدَہُ، وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ- قَالَ ہُشَیْمٌ مَرَّةً أُخْرَى-الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی صَدَقَ وَعْدَہُ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ (مسند احمد، حدیث نمبر 15388) ۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح ِمکہ کے دن خطبہ دیا، تو کہا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اسی نے اپنے بندے کی مدد کی، اور اکیلے لشکروں کو شکست دی، ہُشَیم راوی نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی۔
مکہ کی فتح کا واقعہ سن آٹھ ہجری میں ہوا، آپ اس واقعے کو تاریخ کی کتابوں میں پڑھیں تو بظاہر ایسا معلوم ہوگا جیسے کہ یہ واقعہ رسول اور اصحابِ رسول کی کوششوں سے وقوع میں آیا۔ پھر رسول اللہ نے فتح مکہ کے دن اپنی تقریر میں مذکورہ بالا الفاظ کیوں کہے۔ یہ قصیدے کی زبان نہیں ہے، بلکہ واقعے کی زبان ہے۔ اگر وہ قصیدہ کی زبان ہو، تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اس کی اہمیت اسی وقت ہے، جب کہ وہ حقیقت کی زبان میں کہی جائے۔
اصل یہ ہے کہ کوئی بھی واقعہ جو اس دنیا میں پیش آتا ہے، وہ بے شمار عوامل (factors) کے مجموعی عمل کے نتیجے میں پیش آتا ہے۔ ان عوامل پر انسان کو کوئی اختیار نہیں۔ ان عوامل میں کوئی ایک عامل اگر اپنا کام نہ کرے، تو مطلوب نتیجہ کا نکلنا ناممکن ہوجائے گا۔ خواہ ایک درخت کا اگنا ہو، یا سورج کا نکلنا ہو، یا بارش کا برسنا ہو، سب اسی نہج پر وقوع میں آتے ہیں۔ یہی معاملہ تاریخ کے واقعات کا بھی ہے۔مومن وہ ہے،جو صاحبِ معرفت انسان ہو۔ صاحب معرفت انسان ، صاحبِ دریافت انسان ہوتا ہے۔ ایک مومن کی معرفت انہیں عالمگیر حقائق پر قائم ہوتی ہے۔ مومن جب مذکورہ قسم کے الفاظ بولتا ہے، تو وہ قصیدہ کی زبان نہیں ہوتی، بلکہ وہ دریافت (discovery) کی زبان ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی رحمت

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
قرآن کی اس آیت میںایک بات بظاہر غیر مذکور ہے، مگر وہی بات آیت کا اصل مدعا ہے۔ آیت میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ یہ کیس اس انسان کا ہے، جو غلطی کرنے کے بعد شرمندہ ہو، اور اللہ سے مغفرت کا طالب ہو، تو ایسے انسان کو یہ امید رکھنا چاہیے کہ اللہ کی رحمت کا یہ تقاضا ہوگا کہ اس کو معاف کردیا جائے، اور اس کو جنت میں داخلہ دے دیا جائے۔
دوسری آیات اور احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کواس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ اس کےاندر غلطی کرنے کے بعد شرمندگی ہو، اور اس کے اندر ندامت (repentance) کا احساس جاگ اٹھے۔ یہ احساس انسان کی اصلاح کا ضامن ہے۔ انسان کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ اگر وہ اپنی فطرت پر قائم رہے، توہمیشہ ایسا ہوگا کہ غلطی کرنے کے بعد اس کے اندر ندامت کا احساس جاگ اٹھے۔ اس احساس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی احساسِ خطا کے ساتھ اللہ سے معافی کا طالب ہوگا۔ یہ نفسیاتی واقعہ آدمی کی اصلاح کا سب سے بڑا ضامن ہے۔
یہ نفسیاتی واقعہ آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ غلطی کرنے کے بعد اپنی اصلاح کرے۔ وہ غلطی کرنے کے بعد دوبارہ اپنے آپ کو اصلاح یافتہ بنالے۔ وہ گمراہی کی تاریکی کو دوبارہ روشنی میں تبدیل کرلے۔ وہ اپنی غفلت کو دوبارہ بیداری بنالے ۔ وہ آلودگی میں مبتلا ہونے کے بعد دوبارہ اپنے آپ کو پاک و صاف بنالے۔ وہ خدا سے دور ہونے کے بعد دوبارہ خدا کی قربت حاصل کرلے۔
واپس اوپر جائیں

تزکیہ کا عمل

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے۔اس حدیث میں ایک فطری مسئلے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ، أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔ یعنی ہر پیداہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔
اس حدیث میں ایک ایسے عمل (process) کا ذکر ہے، جو ہر انسان کے ساتھ لازماً پیش آتا ہے۔ ہر انسان اصلاً مذہبِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، مگر بعد کووہ اپنے قریبی کلچر سے متاثر ہو کر دھیرے دھیرے ماحول کا پروڈکٹ (product) بن جاتاہے۔ یہ واقعہ ہر انسان کے ساتھ بلااستثنا پیش آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان ابتدائی طور پر خالق کا شعور لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان پیدائشی طور پر خالق کے مقرر کردہ مذہب کی پیداوار ہوتا ہے۔ لیکن دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کسی ماحول میں زندگی گزارتا ہے، وہ ہر لمحے اپنے ماحول کا اثر قبول کرتا ہے۔ اس طرح یہ ہوتا ہے کہ انسان ابتدائی طور پر فطرت کے پروڈکٹ کے طو رپر پیدا ہوتا ہے، لیکن دھیرے دھیرے وہ پوری طرح ماحول کا پروڈکٹ بن جاتا ہے۔
لفظ بدل کر اس حقیقت کو بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ اس حدیث میں در اصل کنڈیشننگ (conditioning) کے معاملے کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی ابتدائی طور پر اپنی حالتِ فطری پر ہوتا ہے، لیکن ماحول کی کنڈیشننگ کی بنا پر وہ دھیرے دھیرے ماحول کا پروڈکٹ بن جاتاہے۔ یہ ہر آدمی کا کیس ہے۔ ایسی حالت میں ہر آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ اپنا مطالعہ کرکے اپنے کیس کو سمجھے ۔ ہر آدمی اپنی کنڈیشننگ کو توڑ کر اپنے آپ کو اپنی فطری حالت پر قائم کرے۔ اسی عمل کا دوسرا نام تزکیہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

عطیات خداوندی

قرآن میں ایک حقیقت کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے: وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّہِ لَا تُحْصُوہَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ (14:34)۔یعنی اور اس نے تم کو ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو تم گن نہیں سکتے۔ بیشک انسان بہت بےانصاف اور بڑا ناشکرا ہے۔
قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں فطری طور پر انسان کی جو ضرورتیں ہیں، خالق کی طرف سےوہ سب کی سب انسان کو دے دی گئی ہیں۔ اب انسان کو اپنی ضروریات کے لیے تخلیق نہیں کرنا ہے، بلکہ ضروریات کو دریافت کرکے اس کو استعمال (avail)کرنے کی پلاننگ کرنا ہے، تاکہ انسان ان کو پوری طرح استعمال کرسکے۔
ضروریات کی یہ فراہمی صرف ہوا اور پانی تک محدود نہیں ہے، بلکہ دوسری تمام چیزوں تک وسیع ہے۔ مثلا ً حکومت کو لیجیے۔ لوگ حکومت کو سرچشمہ اقتدار سمجھتے ہیں۔ وہ اہلِ حکومت سے حکومت کو چھیننے کے لیے بڑی بڑی لڑائیاں کرتے ہیں۔ حالاں کہ حکومت کا جو اصل مقصد ہے، وہ ہر ایک کو یکساں طور پر حاصل ہے۔ غور کیجیے تو حکومت کی سیٹ (seat) پر بیٹھنے کا موقع کسی ایک شخص کو ملتا ہے۔ لیکن ایک قائم شدہ حکومت کی صورت میں جو امن (peace) قائم ہوتا ہے، اس میں ہر ایک کو حصہ ملتا ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے، تو سیاست کے معاملے میں لوگوں کو اقتدار چھیننے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ موجودہ حکومت کے ذریعے حاصل شدہ مواقع کو اپنے اپنے مقصد کے مطابق اویل (avail) کرنے کی ضرورت ہے۔ گویا سیاسی اقتدار کے معاملے میں اصل چیز حاصل شدہ مواقع کو استعمال کرنے کی پلاننگ ہے، نہ کہ اقتدار کی کنجی کو چھیننے کی پلاننگ۔ اسی لیے قرآن میںدوسری چیزوں کی طرح حکومت کو بھی عطیہ خداوندی بتایا گیا ہے (البقرۃ 2:26)۔
واپس اوپر جائیں

ہدایت کا اصول

قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَلَوْ عَلِمَ اللَّہُ فِیہِمْ خَیْرًا لَأَسْمَعَہُمْ وَلَوْ أَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَہُمْ مُعْرِضُونَ(8:23)۔ یعنی اگر اللہ جانتا اُن میں کچھ بھلائی تو وہ ضرور اُن کو سنا دیتا، اور اگر وہ اب اُن کو سنادے تو وہ ضرور بھاگیں گے منہ پھیر کر:
If God had found any good in them, He would certainly have made them hear; but being as they are, even if He makes them hear, they will turn away in aversion.
قرآن کی اِس آیت میں جو بات اللہ کی نسبت سے کہی گئی ہے، وہ در اصل انسان کی نسبت سے ہے۔ اِس آیت میں ہدایت ملنے یا نہ ملنے کا اصول بتایا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت عملی طور پر ہر ایک کے سامنے آتی ہے، لیکن اس کی قبولیت کا تعلق ہمیشہ طلبِ حق سے ہوتا ہے۔ جو شخص پہلے سے طالب (seeker)ہو، وہ فوراً ہدایت کو پہچان لیتا ہے اور اس کو دل سے قبول کرلیتا ہے۔ لیکن جس آدمی کے اندر طلب کا گہرا جذبہ موجود نہ ہو، وہ ہدایت کو پہچاننے میںناکام رہے گا، اس کا کنفیوژن اس کے لیے ہدایت کو قبول کرنے میں مانع بن جائے گا۔
ہدایت کا سارا معاملہ سچی طلب پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر آدمی کے اندر سچی طلب موجودنہ ہو تو ہدایت اس کے سامنے آئے گی، لیکن کسی نہ کسی عذر کی بنا پر وہ اس کو قبول کرنے سے محروم رہے گا۔
طلب اگرچہ ایک فطری چیز ہے، لیکن آدمی ایساکرتا ہے کہ وہ حق کے سوا دوسری چیزوں کو اہمیت دینے لگتا ہے، مثلاً ذاتی یا قومی مصلحتوں کو۔ یہ مزاج آدمی کے اوپر اِس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ حق کو بے آمیز صورت میں دیکھ نہیں پاتا۔
یہ صورتِ حال اس کو کنفیوژن میں مبتلا کردیتی ہے ، اور کنفیوژن بلا شبہ قبولِ حق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے— حق کا سچا طالب وہ ہے جو اِس سے پہلے غیر ِ حق کی نفی کرچکا ہو۔ یہی انسان حق کا طالب ہے اور ایسے ہی انسان کو خدا کی طرف سے حق کی توفیق ملتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

بے ادبی کا تصور

ایک شہر میں، میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے یہاں گیا۔ وہ ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اُس سے ملاہوا غیر مسلموں کا فلیٹ تھا۔ مسلمان نے کہا کہ ہم لوگ اِس گھر میں پریشان رہتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اِس گھر میں کچھ آسیب کا اثر ہے۔ میں نے کہا کہ یہ سب توہم پرستی (superstition) ہے۔ پھر میں نے اُن سے قرآن مانگا، تاکہ اِس معاملے میں، میںاُن کو قرآن کی ایک آیت دکھاؤں۔ معلوم ہوا کہ ان کے گھر میں قرآن کا کوئی نسخہ موجودنہیں ہے۔ میںنے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے۔ صاحبِ خانہ نے جواب دیا کہ پہلے یہاں قرآن کا ایک نسخہ موجود تھا، پھر ہم نے اُس کو بے ادبی کے ڈر سے مسجد میں رکھوا دیا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ قرآن کے بارے میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا مزاج کیا ہے۔ قرآن کو وہ شعو ری طورپر اپنے لیے رہ نمائی کی کتاب نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن ایک مقدس کتاب ہے اور اُس کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اُس کو مفروضہ ’’بے ادبی‘‘ سے بچایا جائے۔بے ادبی کیا ہے۔ مسلم تصور کے مطابق، بے ادبی یہ ہے کہ قرآن نیچے ہو اور آپ اوپر بیٹھ جائیں۔ وضو کیے بغیر کوئی شخص قرآن کو چھولے۔ کوئی غیر مسلم، قرآن کو اٹھا کر اُسے دیکھنے لگے۔ قرآن غلاف میں لپٹا ہوا نہ ہو۔ قرآن ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر جائے۔ قرآن کھلا ہو ا رہ جائے، کیوں کہ ایسا ہوگا تو شیطان اس کو پڑھے گا۔ قرآن کے اوپر کوئی اور کتاب، یا کوئی اور چیز رکھ دی جائے، وغیرہ۔
یہ سب بے اصل باتیں ہیں۔ اِن خود ساختہ نظریات نے مسلمانوں کو قرآن سے دور کردیا ہے۔ قرآن کا حق یہ ہے کہ قرآن کو پڑھا جائے۔ اُس سے نصیحت لی جائے۔ اُس سے اپنے معاملات میں رہ نمائی حاصل کی جائے۔ قرآن پر غور کیا جائے اور اس کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ اُس سے اپنی زندگی میں روشنی حاصل کی جائے— قرآن، ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے اور یہی اُس کا حق ہے کہ لوگ اُس سے ہدایت حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں

دین کا کام

دو مسلم نوجوان ملاقات کے لیے آئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم دونوں دین کا کام کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ آج ساری دنیا میں اسلام کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں، اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے، الحاد زور پکڑتا جارہا ہے۔ ایسے ماحول میں دین کا کام کیسے کیا جائے۔
میں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے : ابْدَأْ بِنَفْسِکَ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 997)۔ یعنی اپنے آپ سے شروع کرو۔ اس حدیثِ رسول کے مطابق، آپ کو یہ کرنا ہے کہ سب سے پہلے خود اپنا محاسبہ کریں۔ اپنی غلطیوں کو دریافت کریں۔ اپنی اصلاح کرکے اپنے آپ کو اسلام پر قائم کریں۔ جب آپ ایسا کرلیں ، تب آپ اس قابل ہوجائیں گے کہ آپ دوسروں کی اصلاح کے لیے اٹھیں۔
ابھی آپ کی سوچ یہ ہے کہ ساری دنیا اسلام کی دشمن ہے۔ لوگ اسلام کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ اس سوچ کے تحت آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آج اسلام کی خدمت یہ ہے کہ اس کے دشمنوں کو ختم کیا جائے۔ جب تک اسلام کے دشمنوں کو ختم نہ کیا جائے، اسلام اور مسلمانوں کے لیے عمل کا راستہ نہیں کھلے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی آپ کا دل دوسروں کی نفرت سے بھرا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں آپ کا پہلا کام یہ ہے کہ آپ اپنے دل کو دوسروں کی دشمنی سے پاک و صاف کریں، اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے قابل بنائیں۔یہ داخلی اصلاح کا کام ہے۔ جب داخلی اصلاح ہوجائے، تب خارجی اصلاح کا کام ہوگا۔
جب آپ اپنے آپ کو انسان سے محبت کرنے والا بنائیں گےتو فطری طور پر یہ ہوگا کہ آپ سوچیں گے کہ دین کا کام کس طرح انجام دیا جائے کہ وہ لوگوں کے لیے زیادہ مؤثر ثابت ہو۔اس کے بعد آپ اپنا مطالعہ بڑھائیں گے، دوسروں کے بارے میں ضروری معلومات جمع کریں گےاور دعوت کے کام کی پلاننگ کریں گے تاکہ وہ زیادہ مفید ثابت ہو۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کے نئے امکانات

سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے ایک ممبر مسٹر رجت ملہوترا 7 مارچ 2008 کو اپنی کمپنی کے کسی کام سے دہلی سے ممبئی گئے۔ ان کا یہ سفر کنگ فشر (Kingfisher) ائر لائنس کے ذریعے ہوا۔ نئی دہلی کے ائر پورٹ پر جب وہ جہاز کے اندر داخل ہوئے، تو انھوںنے دیکھا کہ فرسٹ کلاس کی اگلی سیٹ پر ایک ہندو لیڈر بیٹھے ہوئے ہیں۔وہ ہوائی پرواز(civil aviation) کے منسٹر ہیں۔ اُس وقت مسٹررجت ملہوترا کی جیب میں ہمارے یہاں کا انگریزی میں چھپا ہوا پمفلٹ (The Reality of Life) موجود تھا۔ انھوںنے منسٹر صاحب کو ایک پمفلٹ یہ کہتے ہوئے پیش کیا:
Sir, this is for your inflight reading.
منسٹر صاحب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے پمفلٹ کو لے لیا اور اُسی وقت اس کو پڑھنا شروع کردیا۔ مسٹر رجت ملہوترا نے جب یہ واقعہ مجھے بتایا، تو میںنے یہ سمجھا کہ موجودہ زمانے کے دعوتی امکانات میںسے ایک امکان یہ بھی ہے کہ حاکم (ruler) اور محکوم (ruled) دونوں ایک سواری پر سفر کریں، اور محکوم کسی قسم کے درباری رسوم ادا کیے بغیر حاکم کو بے تکلف ایک خوب صورت چھپا ہوا دعوتی پمفلٹ پیش کرسکے۔
جب پہلی وحی اتری، تو اُس میں یہ کہا گیا تھا: الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(96:4)۔یعنی جس نے قلم سے علم سکھایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی دعوت ایک مبنی بر لٹریچر (literature-based) دعوت ہے۔ قدیم زمانے میں جب کہ پرنٹنگ پریس وجودمیں نہیں آیا تھا، یہ دعوتی لٹریچر لوگوں کے حافظے میںہوتا تھا۔ آدمی کا حافظہ ہر وقت اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اِس پوزیشن میںہوتاتھا کہ اپنے حافظے کی مدد سے لوگوں کو دعوتی پیغام دے سکے۔ اب پرنٹنگ پریس کے زمانے میں یہ کرنا ہے کہ داعی ہر وقت اپنے پاس چھپا ہوا دعوتی لٹریچر رکھے، تاکہ ملاقاتوں کے دوران اُسے لوگوں کو دے سکے۔
واپس اوپر جائیں

مغرب میں بسنے والے مسلمان

20 جون 2010 کو ایک ویڈیو کانفرنسنگ تھی۔ راقم الحروف نے دہلی سے امریکا کے ایک آڈینس کو خطاب کیا۔ یہ خطاب انگریزی زبان میں تھا۔ اس خطاب کا موضوع یہ تھا:
How to do effective dawah work in the western world?
میں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مغربی ملکوں میں مؤثر دعوتی کام کی پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمان اپنے اندر داعیانہ طرزِ فکر پیدا کریں۔ اِس وقت مختلف مغربی ملکوں میں دس ملین سے زیادہ مسلمان جاکر آباد ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے پچھلے مائنڈ سیٹ (mindset)کے ساتھ وہاں رہتے ہیں۔ وہ مشرقی گیم کو مغربی فیلڈ میں کھیلنا چاہتے ہیں:
They are playing eastern game in the western court.
یہ طریقہ اسلامی نقطۂ نظر سے سراسر باطل ہے۔ مغربی ملکوں میں بسے ہوئے مسلمانوں کو یہ جاننا چاہیے کہ اُن کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ اُن کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ وہ مغربی قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں۔ وہ اُن سے نفرت کرنا یک طرفہ طورپر چھوڑ دیں۔ مزید یہ کہ یہ چھوڑنا اصولی طورپر ہو، نہ کہ منافقانہ طورپر۔ یہ مسلمان اگر ایسا کریں کہ ان کے دل میں تو نفرت ہو، لیکن وہ اسٹیج پر یا میڈیا میں مختلف بولی بولیں، تو یہ ان کے جرم میں مزید اضافے کے ہم معنی ہوگا۔
مغربی دنیا میں بسنے والے مسلمان جب مغربی قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں گے تو اس کے بعد لازمی طورپر ان کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرے گی۔ ان کی سوچ مثبت سوچ بنے گی، ان کا بول خیر خواہانہ بول بن جائے گا، اُن کا کردار ایک با مقصد انسان کاکردار ہوگا۔ وہ مغربی ملکوں میں حریف اور رقیب کے طورپر نہیں رہیں گے، بلکہ داعی اور مبلغ بن کر رہیں گے۔ وہ ایک مشن کے حامل بن جائیں گے، اُن کو وہ ٹارگیٹ (target)مل جائے گا جو ایک سچے مومن کا ٹارگیٹ ہے، یعنی تمام انسانوں کو خدائی سچائی سے آگاہ کرنا۔
واپس اوپر جائیں

دین کا خودساختہ ماڈل

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےقرآن کی یہ آیت پڑھی:(ترجمہ) جنھوں نے اپنے دین میں راہیں نکالیں اور گروہ گروہ بن گئے (6:159) ،اور کہا: اے عائشہ ۔یہ لوگ بدعت والے، یہ لوگ خواہشات والے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے توبہ نہیں ہے، میں ان سے بَری ہوں، اور وہ مجھ سے بَری ہیں(أَنَا مِنْہُمْ بَرِیءٌ ,وَہُمْ مِنِّی بِرَاءٌ) المعجم الصغیر للطبرانی، حدیث نمبر 560 ۔
یہ کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دین کے نام پر دین کا خودساختہ ماڈل بنالیتے ہیں،اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہی خدا کا دین ہے۔ یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ ایسا کیوں کر ہوتا ہے کہ انسان ایک خود ساختہ دین کو اصل دین سمجھ لے۔انسان ایک ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ ماحول کے اثر سے اس کی ایک شخصیت بن جاتی ہے۔ اس شخصیت کے بننے میں مختلف قسم کے تعلقات کا دخل ہوتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے ماحول کا پروڈکٹ (product) بن جاتا ہے۔ یہ اثرات دھیرے دھیرےاتنا زیادہ پختہ ہوجاتے ہیں کہ انسان اسی کو اصل دین سمجھنے لگتاہے۔ وہ سختی کے ساتھ اسی خود ساختہ دین پر قائم ہوجاتا ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرے۔ وہ اپنی شخصیت کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے آپ کو دوبارہ فطرت کے تقاضوں پر کھڑا کرے۔
کنڈیشننگ اور ڈی کنڈیشننگ کا معاملہ ہر انسان کا معاملہ ہے۔ ہر انسان کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ وہ اپنے ماحول کے اثرات کے تحت ایک کنڈیشنڈ (conditioned) انسان بن جاتاہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس کنڈیشننگ کو دریافت کرے۔ بے رحم ڈی کنڈیشننگ (merciless de-conditioning) کے تحت وہ اپنے بناوٹی مولڈ کو توڑے، اور دوبارہ اپنے آپ کو فطرت کے مولڈ (mould)پر قائم کرے۔ یہ عمل ہر انسان کو لازمی طورپر کرنا ہے۔ جو آدمی ڈی کنڈیشننگ کے اس عمل میں ناکام رہے، اس کا وہی حال ہوگا، جس کی تصویر مذکورہ حدیث میں بتائی گئی ہے،یعنی دین کے نام پر بے دین شخصیت۔
واپس اوپر جائیں

فرضی ماڈل کا نمونہ

28 جون2004 کو میں دہلی کے ایک ٹی وی پروگرام میں تھا۔ـ یہاں میری ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئیــ ۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر ذاکر حسین (1897-1969) کے فین ہیں۔ آج کل وہ ان کی مشہور کہانی ’’ابو خاں کی بکری‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں کررہے ہیں۔ اچانک میری زبان سے نکلا کہ وہ تو اسٹون ایج کی کہانی ہے۔ آج کے حالات میں اس کا کیاریلونس۔ اس پر وہ غصہ ہوگئے اور کہا کہ ابوخاں کی بکری تو ایک ادبی شاہکار ہے۔ اس کے اندر ایک ابدی پیغام ہے، وغیرہ۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کی اس کہانی میں آزادی اور بہادری کی اہمیت کو بتایا گیا ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ آزادی کے لیے بڑی سے بڑی طاقت سے لڑجاؤ، خواہ اس راہ میںتم کو اپنی جان دینی پڑے۔کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ الموڑا کے ایک شخص، ابو خاں، کی بکری آزادی کی تلاش میں اپنے مالک سے بھاگ کر پہاڑ وں میں چلی جاتی ہے۔ وہاں اس کو ایک بھیڑیا ملتا ہے۔ بکری خوب جانتی تھی کہ میں بھیڑیے کو نہیں مارسکتی مگر اس نے مقابلہ کا فیصلہ کیا۔ مقابلہ ضروری ہے، خواہ اس راہ میں جان دینی پڑے۔ کہانی کے مطابق، بکری ساری رات بھیڑیے سے لڑتی رہی یہاں تک کہ وہ لہو لہان ہوگئی۔صبح ہوئی تو قریب کی مسجد سے مؤذن کی اللہ اکبر کی آواز آرہی تھی۔ بکری نے کہاکہ اللہ تیرا شکر ہے اور پھر وہ سخت زخمی ہو کر زمین پر گرگئی اور مر گئی۔ اس وقت پاس کے درخت پر کچھ چڑیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اکثر چڑیوں نے کہا کہ بھیڑیا جیت گیا۔ مگر ایک بوڑھی چڑیا نے کہا کہ نہیں، بکری کی جیت ہوئی۔
بکری کی یہ لڑائی بلاشبہ بے مقصد بھی تھی اور بے فائدہ بھی۔ کہانی کے مطابق، بظاہر اس لڑائی کا کوئی واقعی مقصد نہ تھا۔ مزید یہ کہ اس لڑائی سے کوئی فائدہ نکلنے والا نہ تھا۔ کہانی اس لڑائی کا کوئی مثبت فائدہ نہیں بتاتی۔ گویا کہ یہ لڑائی برائے لڑائی تھی، اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی لڑائی کوئی قابلِ تعریف کام نہیں۔
حقیقت کے اعتبار سے دیکھیے تو مذکورہ قسم کی لڑائی بکری کی فطرت کے بالکل خلاف ہے۔ کوئی بکری کبھی اس طرح بھیڑیے سے لڑ کر اپنی جان نہیں دیتی۔ بکری کا طریقہ بھیڑیے سے ٹکراؤ کو اوائڈ کرنا ہے نہ کہ جان بوجھ کر اس سے لڑ جانا۔ اس فرضی کہانی کو اس کے مصنف نے الموڑا کے ایک واقعہ کے طور پر پیش کیا ہے، مگر اس کا تعلق نہ حقیقت سے ہے اور نہ اسلام سے۔
کسی بکری نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ وہ رات بھر بھیڑیے سے لڑے اور اس طرح جان بوجھ کر اپنے کو ہلاک کردے۔ کہانی کی مذکورہ بکری ڈاکٹر ذاکر حسین کی مفروضہ بکری ہے، وہ نہ کسی ابو خاں کی بکری تھی اور نہ خدانے کبھی کسی ایسی بکری کو پیدا کیا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھئے تو اس قسم کی لڑائی سراسر ناجائز ہے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص اچانک کسی طاقتور دشمن کی زد میں آجائے اور قتل کرنے والا اس کو قتل کردے۔ مگر جان بوجھ کر ایک ایسے دشمن سے ٹکرانا بلاشبہ غلط ہے جس سے مقابلہ کرنے کی طاقت آدمی کے اندر نہ ہو اور جس کا یقینی نتیجہ یک طرفہ تباہی ہو۔حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّہَ العَافِیَةَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2965) یعنی تم دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرواور تم اللہ سے عافیت مانگو۔
اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس قسم کا ٹکراؤ خود کشی ہے، اور خود کشی اسلام میں جائز نہیں۔لوگ اکثر ایک مہلک غلطی میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ بطور خود ایک مفروضہ ماڈل بناتے ہیں اور پھر اس مفروضہ ماڈل کے ذریعہ ایک ایسے عمل کو جسٹی فائی(justify)کرنے لگتے ہیں جو حقیقۃً قابلِ جواز (justifiable) نہیں۔اس کی ایک مثال امام حسین کے معاملہ میں ملتی ہے۔ خطیبوں اور شاعروں نے امام حسین کا ایک خود ساختہ ماڈل بنایا۔ وہ ماڈل یہ تھا کہ امام حسین نے اپنا سر کٹوادیا مگر وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کے لیے تیار نہیں ہوئے:
سرداد نداد دست در دست یزید
یہ شاعروں اور خطیبوں کا اپنا بنایا ہوا ماڈل ہے ورنہ تاریخ میں جو تصویر ملتی ہے وہ برعکس طورپر یہ ہے کہ امام حسین جب مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو ان کا کوئی ارادہ لڑائی کا نہ تھا۔ اس وقت یزید دمشق میں تھا اور امام حسین اس سے بہت دور کوفہ کی سرحد پر تھے۔ کوفہ میں متعین فوج نے یزید کے حکم کے بغیر بطور خود امام حسین کو گھیر کر ان کو لڑنے پر مجبور کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت امام حسین نے وہاں کے فوجی افسر سے کہا کہ تم مجھ کو جنگ پر مجبور نہ کرو بلکہ میری طرف سے تین باتوں میں سے کوئی ایک اختیار کرلو، یا تو میں وہاں واپس چلا جاتا ہوں، جہاں سے میں آیا ہوں، یا مجھے یزید کے پاس لے چلو، اور میں یزید کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دوں گا، پھر دیکھیں گے کہ میرے اور یزید کے درمیان کیا رائے بنتی ہے (وَإِمَّا أَنْ أَضَعَ یَدِی فِی یَدِ یَزِیدَ بْنِ مُعَاوِیَةَ فَیَرَى فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَہُ رَأْیَہُ)، یا تم مجھے مسلمانوں کی سرحدوں میں سے کسی سرحد پر لے چلو، میں انھیں میں سے ایک بن جاؤں گا،پھر جو حق ان کا ہوگا، وہ میرا ہوگا، اور جو ذمے داری ان کی ہوگی، وہ میری ہوگی۔( تاریخ طبری، جلد5 ، صفحہ413 ؛ الکامل فی التاریخ ،جلد3، صفحہ164)۔
معلوم ہوا کہ امام حسین کا وہ ماڈل فر ضی ماڈل ہے جس کو نام نہاد مجاہدین اپنی جنگی کارروائیوں کو جائز ٹھہرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پاکستان میں اسلام کے نام پر ٹکراؤ کی سیاست چلائی جو یقینی طورپر غیر اسلامی سیاست تھی۔ اس کے لیے انہوں نے امام حسین کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حسین کے نمونہ کو چھوڑ دیا جائے تو نمونہ کہاں سے آئے گا۔ اس اصول کے مطابق، شاید ڈاکٹر ذاکر حسین بھی یہ کہیں کہ اگر ابو خاں کی بکری نہ ہوتی تو لڑکر مر جانے کا نمونہ کہاں سے آتا۔
فرضی ماڈل کو اپنے غلط اقدام کے لیے جواز بنانا ایک عام برائی ہے۔ مگر وہ ایک مہلک عمل ہے۔ جو لوگ اس قسم کا طریقہ اختیار کریں ان کے اندر ایک بے حد کمزور شخصیت پرورش پاتی ہے۔ ایسے لوگ کبھی اعلیٰ ربانی حقائق کا تجربہ نہیں کرسکتے۔
فرضی ماڈل کو نمونہ بنانے کی ایک مثال حضرت ابراہیم کے بارے میں اقبال کا یہ شعر ہے:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اصل واقعہ کے مطابق، حضرت ابراہیم خود سے آگ میں نہیں کودے تھے بلکہ ان کے مخالفین نے جارحیت کرکے انہیں آگ میں ڈالا تھا (الأنبیاء، 68) ۔مگر اقبال نے حضرت ابراہیم کا ایک فرضی ماڈل بنایا اور پھر اس فرضی ماڈل کے حوالہ سے قوم کو للکارتے ہوئے کہا:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
واپس اوپر جائیں

جنت کی دریافت

غالباً 1983کی بات ہے۔ اُس وقت دہلی میں ایک انگریز مسٹر جان بَٹ (John Butt) رہتے تھے۔ اُنہوں نے میری انگریزی کتابیں پڑھی تھیں ،اور میری فکر سے کافی مانوس ہوچکے تھے۔ ملاقات کے دوران ایک بار میں نے اُن سے کہا کہ قلم میری محبوب چیز ہے۔ میںنے بہت سے قلم استعمال کیے مگر مجھے اپنی پسند کا قلم ابھی تک نہیں ملا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں جلد ہی لندن جانے والا ہوں، وہاں سے میں آپ کے لیے ایک اچھا قلم لے آؤں گا۔
کچھ عرصہ کے بعد وہ مجھ سے ملے اور انگلینڈ کا بنا ہوا ایک قلم مجھے دیتے ہوئے کہا کہ میں نے لندن اور آکسفورڈ کی مارکیٹ میںکافی تلاش کے بعد یہ قلم (فاؤنٹین پین) حاصل کیا ہے۔ تاہم مجھے امید نہیں کہ یہ قلم آپ کی پسند کے مطابق ہوگا۔ میں نے کہا ، کیوں۔ اُنہوں نے کہا کہ میںجانتا ہوں کہ آپ ایک پرفیکشنسٹ(perfectionist) ہیں اور دنیا میں چونکہ کوئی بھی قلم پرفیکٹ قلم نہیں، اس لیے آپ کوکوئی بھی قلم پسند نہیں آئے گا۔اصل یہ ہے کہ ہر آدمی پیدائشی طورپر پرفیکشنسٹ ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان ایک کمال پسند حیوان ہے:
Man is a perfection-seeking animal.
انسانی فطرت کا یہی خاص پہلو ہے جس کی بنا پر ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ محرومی کے احساس میںجیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو دنیا کا ہر سامان حاصل کرلیتے ہیں، وہ بھی محرومی کے احساس سے خالی نہیں ہوتے۔اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے پرفیکشنسٹ ہے مگر جس دنیا میںوہ رہتا ہے اُس کی کوئی بھی چیز پرفیکٹ نہیں۔ اس طرح انسان کی طلب اور دنیا کی قابلِ حصول چیزوںکے درمیان ایک عدم مطابقت (incompatibility) پیدا ہوگئی ہے۔ دونوں کے درمیان یہی عدم مطابقت انسان کے اندر محرومی کے احساس کا اصل سبب ہے۔
انسان اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے دنیا میں جدوجہد شروع کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ دولت، اقتدار، سازوسامان اور دوسری مطلوب چیزیں حاصل کر لیتا ہے۔ مگر اُس کو محسوس ہوتا ہے کہ اپنی مطلوب چیزوں کو پانے کے بعد بھی وہ بدستور محرومی کے احساس سے دوچار ہے، اب بھی وہ یافت کے احساس تک نہ پہنچ سکا۔اس کا سبب یہ ہے کہ پانے سے پہلے وہ سمجھتا ہے کہ یہی وہ چیز ہے جس کی آرزو وہ اپنے دل میں لیے ہوئے ہے۔ مگر اس چیز کو پانے کے بعد اُسے وہ تسکین نہیں ملتی جو کسی مطلوب چیز کی یافت سے ہونی چاہیے۔ کیوں کہ اُس کے دل میںجو آرزو تھی وہ پرفیکٹ چیز کے لیے تھی۔ جب کہ دنیا کی ہر چیز غیر پرفیکٹ(imperfect) ہے اور ظاہر ہے کہ کسی پرفیکشنسٹ کو غیر پرفیکٹ میںتسکین نہیں مل سکتی۔
اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی جنت کو اپنا نشانہ بنائے۔ جنت پورے معنوں میں ایک پرفیکٹ ورلڈ (perfect world) ہے، جب کہ اُس کے مقابلہ میں موجودہ دنیا صرف ایک اِم پرفیکٹ ورلڈ (imperfect world) کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے جس پرفیکٹ ورلڈ کا طالب ہے، وہ جنت ہے۔ جنت کی معرفت نہ ہونے کی وجہ سے آدمی موجودہ دنیا میں اپنی آرزوئیں تلاش کرنے لگتا ہے اور اپنی فطرت اورخارجی دنیا کے درمیان عدم مطابقت کی بنا پر محرومی کے احساس کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ آدمی کے اندر وہ شعوری انقلاب لایا جائے کہ وہ جنت کی معرفت حاصل کرسکے۔ اس معرفت کے حصول کے بعد اُس کی مایوسی کا احساس اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ کیوں کہ وہ جان لے گا کہ جن چیزوں میںوہ اپنی آرزوؤں کی تسکین ڈھونڈھ رہا ہے، اُن میںاُس کے لیے تسکین کا سامان موجود ہی نہیں۔ اس دریافت کے بعد اُس کی توجّہ جنت کی طرف لگ جائے گی۔ اس کے بعد وہ موجودہ دنیا کی چیزوں کو ضرورت کے طورپر لے گا، نہ کہ مطلوب کے طورپر۔ اور جب کسی آدمی کے اندر یہ سوچ پیدا ہوجائے تو اُس کے بعد اُس کا حال یہی ہوگا کہ وہ یافت کے احساس میں جینے لگے گا، نہ کہ محرومی کے احساس میں۔
موجودہ دنیا پانے سے زیادہ کھونے کی جگہ ہے۔ یہاں ہر مرد اور عورت کو بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ فلاں چیز اُس سے کھوئی گئی۔ فلاں موقع اُس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ فلاں شخص نے اُس کو نقصان پہنچادیا۔ اس قسم کے چھوٹے یا بڑے حادثات ہر ایک کو بار بار پیش آتے ہیں۔ کسی بھی مرد یا عورت کے لیے ان نقصانات سے بچنا ممکن نہیں۔
اس قسم کے نقصانات ہر ایک کو پیش آتے رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان نقصانات کی تلافی کی صورت کیا ہے۔ اس کی صورت صرف ایک ہے۔ اور وہ جنت کا یقین ہے۔ جس آدمی کو خدا کی جنت پر یقین ہو اُس کا حال یہ ہوگا کہ ہر نقصان کے بعد وہ یہ کہہ سکے گا کہ دنیا کا یہ نقصان تو بہت چھوٹا ہے۔ جنت کے مقابلہ میں اس نقصان کی کوئی حقیقت نہیں۔ دنیا کے ہر نقصان کے بعد وہ اور زیادہ خدا کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ وہ خدا سے اور زیادہ جنت کا طالب بن جائے گا۔
قرآن میں جنت کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہاں آباد ہونے والے لوگوں کے لیے نہ خوف ہوگا اور نہ حُزن (البقرہ ، 2:38)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں انسان کو جو زندگی ملتی ہے وہ کبھی اور کسی کے لیے خوف اور حُزن سے خالی نہیں ہوتی۔ موجودہ دنیا کا نظام اس ڈھنگ پر بنا ہے کہ یہاں حقیقی معنوں میں خوف اور حزن سے خالی زندگی کا حصول ممکن ہی نہیں۔ ایسی حالت میںآدمی کے لیے واحد درست رویّہ یہ ہے کہ وہ دنیا کو اپنا مقصود نہ بنائے۔ وہ دنیا کو صرف یہ حیثیت دے کہ وہ حقیقی منزل کی طرف جانے کا ایک راستہ ہے۔اس حقیقت کو پیغمبر اسلام نےان الفاظ میں بیان کیا ہے: لاَ عَیْشَ إِلَّا عَیْشُ الآخِرَةِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3795)۔ یعنی راحت اور مسرّت تو صرف آخرت میں ممکن ہے۔ دنیا میں راحت و مسرّت تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسافر ریلوے اسٹیشن پر اپنے لیے ایک آرام دہ گھر بنانے کی کوشش کرے۔ ہر مسافر جانتا ہے کہ اسٹیشن گھر بنانے کے لیے نہیںہوتا۔ اسی طرح موجودہ دنیا جنت کے عمل کے لیے ہے، نہ کہ جنت کی تعمیرکے لیے۔ جنت کو اپنی منزل مقصود بنانا صرف عقیدہ کی بات نہیں وہ مقصد ِحیات کی بات ہے، ایسا مقصد جس کے سوا کوئی اور مقصد انسان کے لیے ممکن نہیں۔
﴿جنت صرف اُن افراد کو ملے گی جو اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کریں ﴾
واپس اوپر جائیں

شخصیت کا فریب

مولانا عبد الماجد دریابادی نے لکھا ہے کہ انھوں نے پہلی بار مولانا ابوالکلام آزاد کو لکھنؤ کے ریلوے اسٹیشن پر دیکھا۔ اس وقت ان کو ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے سامنے کوئی ایرانی پرنس کھڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ مسحور کن شخصیتوں کی داستان کا نام ہے۔ کوئی کسی انسان کی شاندار شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوگیا، تو اس نے اسی کو بڑا انسان سمجھ لیا۔ کوئی کسی کے غیر معمولی حافظہ کو دیکھ کر اس سے مسحور ہوگیا۔ کوئی کسی کی خطابت کا گرویدہ ہوگیا، وغیرہ۔
بعض افراد میں کچھ ظاہرفریب خصوصیات ہوتی ہیں۔ لوگ ان ظاہر فریب خصوصیات کو دیکھ کر مسحور ہوجاتے ہیں، اور ان کو بڑا آدمی سمجھنے لگتے ہیں۔ مگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ان مسحور کن شخصیتوں نے حقیقی معنوں میں کبھی کوئی بڑا کام نہیں کیا۔ مثلا جرمنی کا ہٹلر اپنی تقریر سے لوگوں کو سحر میں مبتلا کردیتا تھا۔ لیکن 56 سال کی عمر میںجب وہ مرا تو اس نے تعمیر و ترقی کی کوئی یادگار نہیں چھوڑی۔
حقیقت یہ ہے کہ بڑے آدمی کی پہچان نہ شاندار شخصیت ہے، اورنہ شاندار خطابت، حتی کہ شاندار حافظہ بھی کسی آدمی کے بڑے ہونے کی پہچان نہیں۔ کسی آدمی کے بڑے ہونے کی پہچان یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ کا خوف پایا جاتا ہو۔ یہ معیار ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:اللہ کا خوف حکمت کا سرا ہے(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 730)۔اللہ کا خوف آدمی کو متواضع (modest) بناتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کو سنجیدہ (sincere) بناتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کو محتاط (cautious) بناتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر وہ صفت پیدا کرتا ہے، جس کو حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: جو اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے، وہ بھلی بات کہے یا وہ چپ رہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018)۔یہ صفات آدمی کو مین آف وزڈم (man of wisdom)بناتی ہے، اور جو آدمی مین آف وزڈم ہو، وہی آدمی جانتاہے کہ سوچنے کے وقت وہ کیا سوچے اور بولنے کے وقت وہ کیا بولے۔
واپس اوپر جائیں

پہلے اپنی اصلاح

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ آپ غیر مسلموں میں دعوت الی اللہ کی تحریک چلارہے ہیں، لیکن پہلا کام خود اپنی اصلاح ہے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کام کریں۔ جب مسلمانوں کی اصلاح ہوجائے گی تو اس کے بعد غیر مسلموں میںدعوت کا کام اپنے آپ ہونے لگے گا۔
میںنے کہا کہ یہ نظریہ آپ نے خود اپنے ذہن سے بنایا ہے، یا آپ نے اس کو قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم کیا ہے۔ وہ اپنے اِس نظریے کے حق میں قرآن اور حدیث سے کوئی حوالہ نہ دے سکے۔ میںنے کہا کہ جو بات قرآن اورحدیث میںنہ کہی گئی ہو، اس کو اپنی طرف سے دین کا نام دینا بدعت ہے۔ ’’پہلے اپنی اصلاح‘‘ کا نظریہ بھی اِسی قسم کی ایک بدعت ہے۔ میںنے کہا کہ دعوتی کام کے لیےاصحابِ رسول ہمارے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوںنے مسلسل دعوتی عمل کے ذریعے اسلام کو ہر طرف پھیلایا۔ آپ اصحابِ رسول کی زندگی کا مطالعہ کریں، تو آپ پائیں گے کہ ہر صحابی احساسِ بے عملی میںمبتلا تھا، نہ کہ احساسِ عمل میں۔ ہر صحابی اپنے آپ کو غیر اصلاح یافتہ سمجھتا تھا، اِس کے باوجود اُس نے دعوتِ عام کا کام کیا۔
دعوت کی شرط اگر یہ ہو کہ داعی اپنے آپ کو اصلاح یافتہ سمجھنے لگے، تو کبھی دعوت کا کام نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ سچا مومن ہمیشہ اِس احساس میںمبتلا رہتا ہے کہ میں اپنی اصلاح نہ کرسکا۔ جو آدمی اپنے آپ کو اصلاح یافتہ سمجھ لے، وہ دعوت کے لیے سب سے زیادہ نااہل (incompetent) انسان بن جاتا ہے۔ اِسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ دعوت ہر حال میں دی جائے گی، خواہ مسلمان اصلاح یافتہ ہوں، یا اصلاح یافتہ نہ ہوں۔ اصلاح اور دعوت دونوں کام ایک ساتھ کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی کام نہ مقدم ہے اور نہ مؤخر۔حقیقت یہ ہے کہ اپنی اصلاح بھی اُسی وقت ہوتی ہے، جب کہ آدمی دوسروں کی اصلاح کی کوشش میں لگا ہوا ہو۔ اپنی اصلاح کوئی ایسا کام نہیں جو خلا میں انجام پائے۔
واپس اوپر جائیں

ای- اتصال

21 مئی 2008 کو ماہ نامہ الرسالہ کے ایک قاری کا ٹیلی فون آیا۔ انھوںنے کہا کہ میں برسوں سے الرسالہ کا مطالعہ کرتا ہوں اور اُس کے پیغام سے پوری طرح اتفاق رکھتا ہوں۔ ایک مسئلہ میرے سامنے آگیا ہے، اس میںآپ کی رہ نمائی چاہتا ہوں۔ میرے والد صاحب کا اصرار ہے کہ اِس سال میںحج کے لیے جاؤں۔ وہ میرے سفرِ حج کی پوری رقم دینے کے لیے تیار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ گھر کے دوسرے افراد سب حج کرچکے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ تم بھی میری زندگی میں حج کرلو۔ کیا معلوم میرے بعد کیا ہو۔
انھوںنے کہا: لیکن مجھے ابھی اِس پیش کش کو قبول کرنے میں تردد ہے۔ جلد ہی میرا نکاح ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اور میری اہلیہ دونوں، ایک ساتھ حج کی سعادت حاصل کریں۔ میںنے پوچھا: کیا آپ کے پاس اتنی رقم ہے کہ آپ دونوں ایک ساتھ حج کرسکیں۔ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میںنے کہا کہ پھر یہ کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے کہ آپ ایک مفروضہ بات کو لے کر ایک حقیقی پیش کش کو رد کردیں، جب کہ مستقبل کے بارے میں کوئی بھی شخص کوئی یقینی بات نہیں کہہ سکتا۔ میںنے کہا کہ زندگی کا ایک اصول یہ ہے — کوئی موقع(opportunity) ملے، تو اس کو فوراً استعمال (avail)کرو، کیوں کہ موقع بار بار نہیں آتا۔انھوںنے کہا کہ آپ کی نصیحت بالکل درست ہے اور میں ان شاء اللہ ایسا ہی کروں گا۔
موجودہ زمانے میں ایک نئی سہولت پیدا ہوئی ہے جس کو الیکٹرانک اتصال کہاجاتا ہے۔ میںسمجھتا ہوں کہ جو لوگ ماہ نامہ الرسالہ پڑھتے ہیں، اُن کو اِس سہولت کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ میرا تجربہ ہے کہ صرف الرسالہ، یا کتاب کو پڑھنا کافی نہیں ہوتا۔ ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے بعد براہِ راست ڈسکشن کیاجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ موجودہ زمانے میں براہ راست صحبت کا بدل ہے۔جدید ذرائعِ اتصال کے ذریعے صحبت کا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ الرسالہ کے قارئین کو ان جدیدذرائع سے یہ صحبت کلچر جاری کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

انعام، یا آزمائش

ایک صنعتی شہر کا واقعہ ہے۔ وہاں کے ایک مسلم نوجوان نے ٹکنکل ایجوکیشن حاصل کی ۔ اِس کے بعد ان کو مقامی طورپر ایک اچھا جاب (job)مل گیا۔ اِس درمیان ان کا ربط ایک دینی حلقے سے قائم ہوا۔ انھوںنے دینی کتابیں پڑھیں اور دینی شخصیتوں سے استفادہ کیا۔ وہ کافی متاثر ہوئے، یہاںتک کہ انھوںنے رو کر کہا — میںنے اپنی عمر کا ایک حصہ ضائع کردیا۔ کاش، یہ دینی ماحول مجھے اور پہلے مل گیا ہوتا۔
اِس کے بعد مذکورہ نوجوان کے اندر ایک تبدیلی واقع ہوئی۔ مذکورہ نوجوان کے ایک رشتے دار ایک ’’فارین‘‘ کنٹری میں رہتے تھے۔ انھوں نے ان کے لیے ہوائی جہاز کا ایک ٹکٹ بھیج دیا اور کہا کہ تم وزٹ ویزا (visitor visa) لے کر یہاں میرے پاس آجاؤ اور جاب ہنٹنگ (job hunting) کرو۔ ہوسکتا ہے، تم کو یہاں زیادہ اچھا جاب مل جائے۔ اِس کے بعد نوجوان کا ذہن بدل گیا۔ وہ پہلی فرصت میں باہر کے ملک میں جاب ہنٹنگ کے لیے چلے گئے۔
یہ کسی ایک نوجوان کی بات نہیں۔ یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام لوگوں کا حال ہے۔ بظاہر ایک آدمی دین داری کی بات کرے گا۔ وہ اسلام کو اپنی منزل بتائے گا۔ لیکن اگر اس کو کسی قسم کی مادّی ترقی (worldly progress)حاصل ہوجائے، تو اچانک وہ بدل جائے گا۔ وہ تمام باتوں کو بھلاکر مادّی ترقی ہی کو اپنا سب کچھ بنا لے گا۔
ایسے کسی آدمی کے سامنے جب کوئی مادّی ترقی کا موقع آتا ہے، تو وہ اس کے لیے کوئی انعام کی بات نہیں ہوتی، بلکہ وہ تمام تر اس کی آزمائش (test) کے لیے ہوتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ تمام لوگ اُس کو انعام کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں، تمام لوگ اِس خدائی آزمائش میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ دین داری کسی رُٹین(routine) کا نام نہیں، دین دار وہ ہے جو اِس جانچ (test)میں پورا اُترے— اپنے دین کی حفاظت کیجئے، ورنہ شیطان کسی بھی وقت اس کو اچک لے جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

نظری تبلیغ، عملی اقدام

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:إِذَا رَأَیْتُمْ أَمْرًا لَا تَسْتَطِیعُونَ تَغْیِیرَہُ، فَاصْبِرُوا حَتَّى یَکُونَ اللہُ ہُوَ الَّذِی یُغَیِّرُہُ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7685)۔ یعنی اگر تم ایک ایسا معاملہ دیکھو، جس کو بدلنے کی طاقت تم کو نہ ہو تو صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ خود اس میں کوئی تبدیلی کردے۔ اس حدیث رسول میں اسلام کا طریق عمل بتایا گیا ہے۔ اسلام کا طریقہ نظری تبلیغ اور عملی اقدام میں فرق کرتا ہے۔ اسلام کا طریقہ یہ ہےکہ ممکن کے درجے میں پر امن طریقے سے تبلیغ کا کام کیا جائے۔ خود اپنی طرف سے ہر گز کوئی عملی ٹکراؤ نہ شروع کیا جائے۔ اسی اسلامی اصول کا نام صبرہے۔ مومن کے لیے فرض ہے کہ وہ ایک خود ساختہ عذر لے کرموجود اتھاریٹی کے ساتھ ٹکراؤ سے اپنا کام شروع نہ کرے۔
تحریک کا ایک مرحلہ عملی تبدیلی ہے۔ مگر عملی تبدیلی کے لیے کوئی اقدام صرف اس وقت کیا جائے گا، جب کہ حالات میں کوئی ایسا واضح فرق واقع ہو، جو بتائے کہ اب اگر عملی اقدام کیا گیا تو وہ مثبت (positive) ریزلٹ کا سبب بن سکتا ہے۔ گویا کہ آدمی اگر کسی چیز کو حق سمجھے تو وہ صرف پرامن طور پر نظری تبلیغ کرسکتا ہے، لیکن عملی اقدام کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ آدمی کو اس کااپنا اقدام بطور خود درست نظر آتا ہو۔ عملی اقدام کی لازمی شرط ہے کہ وہ باعتبار نتیجہ مفید ثابت ہوسکتا ہو۔ جس عملی اقدام سے مثبت نتیجہ نکلنے والا نہ ہو، وہ اقدام اسلام کے مطابق ہرگز جائز نہیں۔
اس حدیث میں تبدیلی کو اللہ کی طرف منسوب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ خود آکر حالات کو بدل دے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فطری حالات کے مطابق خود اس میں تبدیلی واقع ہوجائے۔ فطری حالات کے مطابق تبدیلی کا واقع ہونا، اس بات کا اشارہ ہے کہ اب درست طور پر وہ وقت آگیا ہے، جب کہ اپنے مقصد کی طرف عملی اقدام کیا جائے۔ نظری تبلیغ میں، پہنچانا معیار ہے، اور عملی اقدام میں، مثبت نتیجہ کا نکلنا۔
واپس اوپر جائیں

ایک عام غلطی

مصر کی الاخوان المسلمون کے لیڈر ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے پانچویں منتخب صدر تھے۔ وہ یکم جولائی2012 کو مصر کے صدر منتخب ہوئے، تاہم ایک سال مکمل ہونے سے پہلے ہی پورے ملک میں ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے، جس کے بعد جولائی 2013 میں مصری افواج نے انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا ۔ بوقتِ تحریر (10 جولائی 2018)و ہ مصر کی جیل میں ہیں۔ بحیثیتِ صدر انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا: أصبت أحیانا وأخطأت أحیانا أخرى (Sky News Arabia, published on June 26, 2013) ۔یعنی میں نے کبھی درست کام کیا، اور کبھی میں نے غلطی کی۔یہ تقریر ابھی بھی یو ٹیوب پر موجود ہے۔
یہ غلطی کیا تھی، جو ان کے زوال کا سبب بنی ۔ یہ در اصل کچھ ایسے اقدامات تھے، جو مصری فوج کے مفاد (interest) کے خلاف تھے۔ مثلاً سوئز کنال کی توسیع کے بارے میں فوجی حکومت کے دور میں کچھ کمپنیوں کو ٹھیکے دیے گئے تھے۔ ان ٹھیکوں کو ڈاکٹر مرسی نے قابلِ اعتراض سمجھا۔ چنانچہ انھوں نے ٹھیکوں کی منسوخی کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر مرسی اور فوجیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ جس ;کا نتیجہ یہ ہوا کہ فوج نے قبل از وقت ان کی صدارت کا خاتمہ کردیا۔
یہ غلطی کی وہ قسم ہے، جو اکثر اربابِ اقتدار کرتے ہیں۔ پولیٹکل اقتدار میں آنے سے پہلے، ان کا ایک ایجنڈا ہوتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ فوراًاپنے ایجنڈے کو عمل میں لانا شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ طریقہ حکمت کے خلاف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اس معاملے میں جلدی نہ کی جائے۔ کچھ نازک چیزوں کو ناتمام ایجنڈا (unfinished agenda) کے طور پر چھوڑ دیا جائے۔ مگر اکثر اربابِ اقتدار اس معاملے میں غلطی کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حالات خراب ہوجاتے ہیں، اور قبل از وقت ان کو اقتدار سے محروم ہوجانا پڑتا ہے، اور پھر ایک فریق دوسرے فریق کو الزام دینا شروع کردیتا ہے۔ حالاں کہ قرآن کی ایک آیت (الحج22:28) میں اس معاملے کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ وہ رہنمائی کیا ہے۔ اس کی ایک مثال پیغمبر اسلام نے عملاً پیش کی ہے۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو 8 ہجری میں مکہ کا اقتدار ملا۔ اس وقت کعبہ کی عمارت میں ایک مسئلہ موجود تھا۔ وہ یہ کہ کعبہ کاتقریبا ًدو تہائی حصہ مسقف (covered)تھا،یہ کعبہ کی موجودہ عمارت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک تہائی حصہ غیر مسقف (non-covered)پڑا ہوا تھا، جس کو حطیم کہا جاتا ہے ۔ حضرت عائشہ نے غیر مسقف حصے کو بھی مسقف بنانے کا مشورہ دیا، لیکن رسول اللہ نےایسا نہیں کیا، اور غیر مسقف حصے کو بدستور ایز اٹ از (as it is) چھوڑ دیاکیوں کہ ایسا کرنا اہل مکہ کو ناپسند ہو سکتا تھا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1584)۔
کعبہ کی عمارت کا یہ معاملہ رسول اللہ کی ایک حکیمانہ سنت کو بتاتاہے۔ وہ بتاتا ہے کہ زندگی میں کچھ چیزوں کو ناتمام ایجنڈے کے طور پر چھوڑنا پڑتا ہے، خواہ آدمی کو مکمل اقتدار ملا ہوا ہو۔یہ اجتماعی زندگی کی ایک اہم حکمت ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ لوگوں نے اس واقعے سے سبق نہیں لیا۔ ہر آدمی اقتدار پانے کے بعد اپنے ایجنڈے کو فوراً مکمل کرنا شروع کردیتا ہے۔ اگرچہ اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو مکمل تو نہیں کرپاتا، البتہ اس کے اقتدار کا قبل از وقت خاتمہ ہوجاتا ہے۔
اس کی مثالیں تاریخ میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک مثال پاکستان کی تاریخ میں ہے۔ 1947 میں جب پاکستان بنا ، تو شیخ مجیب الرحمن مسلم لیگ کی جماعت میں شامل تھے۔ لیکن محمد علی جناح نے 21 مارچ 1948 کو یہ اعلان کیا کہ اردو پورے پاکستان (بشمول ایسٹ پاکستان)کی قومی زبان ہوگی۔ شیخ مجیب الرحمن اپنے بنگالی ذوق کے مطابق اس اعلان کے سخت خلاف ہوگئے، وہ مسلم لیگ سے الگ ہوگئے، اور ایک علاحدہ ملک کی تحریک چلائی، جو آخر کار اس پر منتج ہوئی کہ مشرقی پاکستان ، پاکستان سے ٹوٹ کر نیا ملک (بنگلہ دیش) بن گیا۔
ناتمام ایجنڈے پر راضی ہونا، ایک پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)ہے۔ اجتماعی زندگی کی یہ ایک اہم حکمت ہے۔ اس حکمت کے بغیر کوئی شخص بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ کعبہ میں حطیم کی مثال سے سمجھا جاسکتاہے۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کی آواز

کمیونسٹ حکومت کے آخری زمانے میں میںنے سوویت یونین (روس) کا سفر کیا تھا۔ اُس وقت میخائل گوربا چیف (Mikhail Gorbachev) وہاں کے صدر تھے۔ اُس زمانے میں وہاںآزادی کا دور شروع ہوچکا تھا۔ میںنے دیکھا کہ وہاں کے چرچ اور مسجدیں جو پہلے ویران رہا کرتی تھیں، اب وہاں مذہبی سرگرمی دکھائی دیتی ہے۔ میںنے اپنے گائڈ سے کہا کہ ہم نے پہلے سنا تھا کہ روس میں مذہب مر چکا ہے، مگر یہاں تو وہ زندہ حالت میں دکھائی دیتا ہے۔ گائڈ نے جواب دیا کہ مذہب یہاں ہمیشہ زندہ تھا۔ جو فرق ہوا ہے، وہ صرف یہ کہ پہلے یہاں مذہب اَنڈر گراؤنڈ (underground)تھا، اور اب وہ سامنے آگیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا اور مذہب کا تصور انسان کی فطرت میں آخری حدتک پیوست ہے۔ کوئی شخص اگر اپنی زبان سے خدا کا انکار کرے، تب بھی خدا کا شعور اس کے دل کے اندر پوری طرح موجود رہتا ہے۔ سوویت یونین کے سابق صدر میخائل گوربا چیف پہلے ایک ملحد کمیونسٹ تھے، مگر اب ان کی دبی ہوئی فطرت جاگ اٹھی ہے۔ انھوںنے خود اِس کا اعتراف کیا ہے۔
برٹش نیوز پیپر ڈیلی ٹیلی گراف (The Daily Telegraph) کی ایک رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (20 مارچ2008 ) میں چھپی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ گورباچیف اٹلی کے ایک چرچ میں پہنچے اور وہاں انھوںنے اپنے عقیدے کے مطابق، خدا کی عبادت کی:
Gorbachev, who had earlier publicly pronounced himself as an atheist, acknowledged his Christian faith while paying a surprise visit to pray at the tomb of St Francis of Assisi in Italy (p. 22).
خدا کا شعور انسان کی فطرت میںاِس طرح شامل ہے کہ وہ کسی بھی حال میں اُس سے جدا نہیں ہوتا۔ اِس معاملے میں منکرین اور ملحدین کا بھی کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک تقابل

قرآن میں انسان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ غیب کی بات کو نہیں جانتا:قُلْ لَا أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّہُ وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوءُ (7:188)۔ یعنی کہو، میں مالک نہیں اپنی جان کے بھلے کا اور نہ برے کا مگر جو اللہ چاہے۔ اور اگر میں غیب کو جانتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا۔
یہ انسان کا معاملہ ہے۔ انسان خواہ وہ عام انسان ہو یا پیغمبر ،وہ غیب (unseen) کو نہیں جانتا۔ یعنی کل کیا ہوگا، اس سے انسان بے خبر ہوتا ہے۔ انسان آج کے علم کے تحت ایک کام کرتا ہے، لیکن کل کیا ہونے والا ہے، اس سے انسان مکمل طو رپر بے خبر ہوتا ہے۔ انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ آئندہ آنے والے نقصان سے خود کو بچالے۔ اس کے مقابلے میں اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ علام الغیوب ہے۔ انسان اور خدا کے درمیان اس فرق سے ایک تقابل کا اصول ملتا ہے۔ یعنی وبضدہا تعرف الأشیاء(in comparison that you understand)۔
انسان کا کوئی کام خالی ازنقص(free from defect) نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، اللہ رب العالمین کی تخلیق کے جو نمونے ہمارے سامنے ہیں، وہ کامل معنوں میں نقص سے خالی ہیں۔ انسان کی کوئی بھی انڈسٹری نقص (defect) سے پاک نہیں ہوتی، لیکن اللہ رب العالمین کا بنایا ہوا، شمسی نظام (solar system) مکمل طو رپر زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ (zero-defect management) کا نمونہ ہے۔ یہ فرق خالق کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
اس لیے بیسویں صدی میں ترقی یافتہ ملکوں نے بہت زیادہ کوشش کی کہ وہ اپنی انڈسٹری میں زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم کریں، جیسا کہ وہ فطرت (nature) کی دنیا میں عملاً قائم ہے۔ مگر اس معاملے میں ان کو مکمل ناکامی ہوئی، اور آخر میں یہ مان لیا گیا کہ انسان کا بنایا ہوا کوئی نظام زیرو ڈیفکٹ نظام نہیں ہوسکتا۔ یہ فرق خالق کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
واپس اوپر جائیں

فریم ورک کا مسئلہ

ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مصنف کی کتاب ہے جس کا نام ہے:
A Modern Appraoch to Islam by Dr A A Faizi (1899-1981)
میں نے اس کتاب کو مکمل طو رپر پڑھا ہے۔ اس پر ایک تبصرہ بھی لکھا ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، اس کتاب میں مسئلہ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ موجودہ زمانے میں اسلام کا اصل مسئلہ ماڈرن اپروچ کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ سائنٹفک انقلاب کے بعد اسلوب کے اعتبار سےفریم ورک (framework) بدل گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اسلام کی دعوت کو جدید فریم ورک کے اعتبار سے پیش کیا جائے۔ مثلا موجودہ زمانے میں ادبی اسلوب ایک متروک اسلوب بن چکا ہے۔ اب دنیا میں سائنٹفک اسلوب کا رواج ہے۔ تبدیلیٔ اسلوب کے سلسلہ میں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو حسب ذیل کتاب:
The Great Intellectual Revolution by John Frederick West
(J. Murray, 1965, pp.132)
اس کتاب کاایک چیپٹرہے :تمثیلی اسلوب کا خاتمہ (The Death of Metaphor)۔ یہ چیپٹر اس موضوع پر بحث کرتا ہے۔ تمثیلی اسلوب (metaphor) میں ادبی اسلوب بھی شامل ہے۔ یہاں اس اسلوب کی ایک مثال درج کی جاتی ہے۔ ایک معروف مسلمان عالم نے اپنی سیرت کی کتاب کے دیباچہ میں یہ بتایا ہے کہ اسلام عرب میں کیوں آیا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں: معمورۂ عالم کے صفحےنقشہائے باطل سے ڈھک چکے تھے۔ اب ایک سادہ ، بے رنگ ، ہر قسم کے نقش و نگار سے معرّا ورق درکار تھا، جس پر طغرائے حق لکھا جائے۔
یہ ادبی اسلوب کی مثال تھی۔ اب ماڈرن سائنٹفک فریم ورک کے اعتبار سے یہ کہاجائے گا کہ یہ پوری عبارت ادبی اسلوب میں ہے۔ اس سے متعین (specific) انداز میں معلوم نہیں ہوتا کہ جو واقعہ ہوا، وہ کیا تھا۔ اس کے برعکس، اس واقعہ کو سائنٹفک اسلوب میں کہا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ اسلام کے ظہور کا معاملہ دو فیز (phase) سے تعلق رکھتا ہے۔ پیغمبر ابراہیم نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو اس صحرائی مقام پر بسایا جہاں اب مکہ واقع ہے۔ یہ گویا ڈزرٹ تھرپی (desert therapy) کا معاملہ تھا۔ اس صحرائی ماحول میں دوہزار سالہ توالد وتناسل کے ذریعہ ایک نسل بنو اسماعیل تیار ہوئی، جو مشرکانہ ماحول کی کنڈیشننگ سے پاک تھی۔ یہ ڈی کنڈیشنڈ قوم (deconditioned nation) بڑی حد تک اپنی فطرت پر قائم تھی۔ اس ڈی کنڈیشنڈ نسل میں پیغمبرِ اسلام نے اپنا مشن شروع کیا۔ پیغمبر ابراہیم نے اس مشن کو باعتبار تربیت شروع کیا، اور پیغمبرِ اسلام نے اس مشن کو عملی اعتبار سے تکمیل تک پہنچایا۔
مذکورہ عالم نے اس قوم کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ ایک ادبی اسلوب تھا، اور ادبی اسلوب جدید فریم ورک کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس، اوپر جو لکھا گیا، وہ جدید فریم ورک کے اسلوب کی مثال ہے۔ ہمارے مصنفین کی کتابوں میں اصل کمی یہی ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، ان میں سے کوئی کتاب ایسی نہیں ہے، جو جدید فریم ورک کے مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتابیں عصری ذہن کو ایڈریس نہیں کرتیں۔ ان کتابوں میں عصری ذہن کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملتا۔ اور جب پڑھنے والے کو ٹیک اوے نہ ملے تو ایسی تحریروں کو پڑھنا، اور نہ پڑھنا برابر ہوجاتا ہے۔
مسلم مصنفین کی جو کتابیں ہمارے کتب خانوں میں موجود ہیں، ان کا بڑا حصہ اسی قسم کا ہے جو جدید علمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت
میں نے ایک امریکی پروفیسر سے پوچھا کہ امریکا کی ترقی کا راز کیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ ڈسینٹ (dissent) کا احترام کرنا۔ اس نے کہا کہ ہم ڈسینٹ (اختلاف) کو بُرا نہیں سمجھتے۔ ہم ڈسینٹ کو اُس وقت تک برداشت کرتے ہیں جب تک وہ تشدد نہ بنے۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

ایک عالم دین اپنے خط میں لکھتے ہیں: میں ابھی سر ی لنکا کے سفر سے واپس ہوا ہوں۔ اس دوران وہاں کےدینی مدارس کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔میں نے یہ دیکھا کہ سری لنکا کےدینی مدارس کے نصاب میں شاہ ولی اللہ صاحب کی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ شامل نہیں ہے۔مگر ہندوستان کے مدارس میں اس کتاب کو اہمیت کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔واپسی کے بعد اس کتاب کے تعلق سے میری گفتگو ہندستان کے ایک بزرگ عالم دین سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اس تعلق سے میری رائے یہ ہے کہ حجۃ اللہ البالغۃ کو ہندوستان کے مدارس میں شاہ صاحب کی عقیدت میں پڑھایا جاتا ہے۔ میں ذاتی طور پر شاہ صاحب کی اُس توجیہہ کو زیادہ دلچسپی کے ساتھ طلبہ کو پڑھاتا ہوں، جو انھوں نے امت میں موجود اختلافات کے تعلق سے بیان کی ہیں، مثلاً مقلدین اور غیر مقلدین کے مسائل ۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، تو شاہ صاحب نے دونوں کے درمیان اعتدال قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے مجھے یہ نقطۂ نظر پسند ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ خیال کہ اسرارِ شریعت سے لوگوں کو واقف کرایا جائے،تو اسرارِ شریعت میں انھوں نے تکلف کیا ہے، مجھے اس سے زیادہ اتفاق نہیں ۔ اس باب میں میری رائے یہ ہے کہ یہ ناممکن بات ہے کہ آپ ہر ایک حکم کی علت پیش کریں، جیسے پانچ وقت کی نمازوں میں رکعات کیوں مختلف ہیں ، سری اور جہری نمازیں کیوں ہیں، وغیرہ۔ ایسی تمام باتوں سے پچاس فیصد ہی اتفاق کیا جاسکتا ہے، مجھے ذاتی طور پر ان باتوں سے دلچسپی نہیں ہے۔ (ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
الرسالہ: شاہ ولی اللہ صاحب کی کتاب کا ٹائٹل ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ قرآن کی ایک آیت سے لیا گیا ہے۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں: قُلْ فَلِلَّہِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَہَدَاکُمْ أَجْمَعِینَ (6:149) ۔ یعنی کہو کہ حجت بالغہ تو اللہ کی ہے، اور اگر اللہ چاہتا تو وہ تم سب کو ہدایت دے دیتا۔ الحجۃ البالغۃ سے مراد کس قسم کے دلائل ہیں۔ قرآن کے دوسرے مقامات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد آیات ِکون ہیں، یعنی زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی نشانیاں۔ یہ آیاتِ کون وہی ہیں، جن کو موجودہ زمانے میں سائنسی دلائل کہا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اپنی کتاب کا ٹائٹل تو قرآن کی ایک آیت سےلیا ، لیکن ان کی پوری کتاب میں کہیں بھی دلائلِ کون کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ اس لحاظ سے اس کتاب کا ٹائٹل درست ٹائٹل نہیں۔ اس کا ٹائٹل غالباً یہ ہونا چاہیے کہ’’ احکامِ دین کے اسرار پر روایتی دلائل‘‘۔ مزید یہ کہ شاہ ولی اللہ کے بعد ان کے کسی شاگرد نے اس کتاب میں دلائلِ کون کا اضافہ نہیں کیا۔ کتاب اپنی ابتدائی صورت میں بدستور پڑھی اور پڑھائی جارہی ہے۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت
عام طورپر لوگ چیزوں کو فیس ویلو (face value) پر لیتے ہیں۔ وہ چیزوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ نہیں سمجھ پاتے۔ مثلاً امریکا کے ایک سفر میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی، جو باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں۔ جدید اصطلاح میں ایسے لوگوں کو امیگرنٹ (immigrant) کہاجاتا ہے۔ یہ امیگرینٹ لوگ زیادہ تر تعلیم یافتہ تھے۔ یہاںآکر وہ یہاں کے مختلف ترقیاتی شعبوں میں سروس کرنے لگے۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے انھوںنے کہا کہ امریکا کو امریکیوں نے ترقی نہیں دی ہے، بلکہ امیگرینٹ لوگوں نے ترقی دی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو یہ امیگرنٹ لوگ خود اپنے ملک کو کیوں ترقی نہ دے سکے۔ میںنے کہا کہ اصل یہ ہے کہ امریکا میں میرٹ (merit) کا اصول ہے۔ یہ اصول لوگوں کے اندر عمل کا محرک (incentive) پیدا کرتا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ کام کرتے ہیں، تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ رٹرن (return) پاسکیں۔ ایسی حالت میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ امریکا کو مسٹر امیگرنٹ (Mr. Immigrant) نے ترقی نہیں دی، بلکہ امریکا کو مسٹر انسینٹیو (Mr. Incentive) نے ترقی دی۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت
واپس اوپر جائیں

اختلاط کی اہمیت

ایک حدیثِ رسو ل مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:الْمُؤْمِنُ الَّذِی یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلَى أَذَاہُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الَّذِی لَا یُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلَى أَذَاہُمْ (مسند احمد، حدیث نمبر23098)۔ یعنی وہ مومن جو لوگوں سے میل جول رکھتا ہے، اور ان کی اذیت پر صبر کرتا ہے، اس کا اجر اس سے زیادہ ہے جو لوگوں سے میل جول نہیں رکھتا، اور ان کی اذیت پر صبر نہیں کرتا۔اس حدیث میں اختلاط کا مطلب میل جول (interaction) ہے۔ ایک شارحِ حدیث نے اس کی شرح کرتے ہوئے کہا کہ إن الخلطة أفضل من العزلة (تحفۃ الاحوذی، جلد7، صفحہ 177)۔ یعنی تنہائی کی زندگی کے مقابلے میں میل جول کی زندگی زیادہ افضل ہے۔ اختلاط کی زندگی کا افضل ہونا صرف اخلاق کے معنی میں نہیں ہے۔ اس سے زیادہ وہ پرسنالٹی کے ڈیولپمنٹ کے معنی میں ہے۔
یہ فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ انسان کے اندر سنجیدگی ہو۔ اس کے اندر سوچنے اور نصیحت لینے کا مزاج ہو۔تو ہر اختلاط اس کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔لوگوں سے انٹرایکشن کے درمیان اس کو طرح طرح کے تجربات پیش آتے ہیں۔وہ لوگوں سے نئی نئی باتیں سیکھتا ہے۔ اختلاط کے دوران اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی فکری اصلاح کرے۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ لوگوں کی معلومات سے اپنے علم میں اضافہ کرے۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی فکری محدودیت کو عالمی فکر میں تبدیل کرسکے۔ انٹرایکشن کا یہ فائدہ اس انسان کو ملتا ہے جس کے اندر سیکھنے کا مزاج (spirit of learning) ہو۔ جوباتوں کو غیر متعصبانہ انداز میں دیکھ سکے۔ وہ جو کچھ سنے اس کوآبجکٹیو (objective) انداز میں لے، نہ کہ سبجکٹیو (subjective) انداز میں ۔ اس کے اندر اعتراف کا مادہ ہو۔ وہ کسی رائے کو سچائی کے اعتبار سے دیکھے، نہ یہ کہ وہ کس شخص کی رائے ہے۔ وہ پورے معنوں میں نفسِ مطمئنہ (complex-free soul) کی حیثیت رکھتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

خروج کا مسئلہ

خروج کا لفظی مطلب ہے نکلنا (going out)۔ اصطلاحی طور پر اس کا مطلب ہے سیاسی بغاوت۔ یعنی کسی قائم شدہ حکومت کے اقتدار کو نہ ماننا، اور اس کو بدلنے کی کوشش کرنا، پولیٹکل اپوزیشن کی تحریک چلانا۔ خروج یا بغاوت اسلام میں حرام ہے، اور اس پر تمام علمائے امت کا اجماع ہے۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد مسلم دنیا میں شوری پر مبنی خلافت شروع ہوئی۔ یہ طرزِ حکومت تقریباً تیس سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد معاویہ بن ابو سفیان (وفات 60:)کا دور آیا۔
امیر معاویہ، علی بن ابی طالب (وفات 40:ھ)کے بعد امیر المومنین بنے۔ امیر معاویہ کو دَاھِیَۃُ الْعَرَبْکہا جاتا تھا، یعنی اعلیٰ فراست کا انسان۔امیر معاویہ کو اموی سلطنت (Umayyad Empire) کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے پہلی بار مبنی بر شوریٰ خلافت کے بجائے مبنی بر خاندان حکومت (dynasty)کا نظام قائم کیا۔کچھ لوگ اس کو ملوکیت کا دور کہتے ہیں، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس کے بعداسلامی دنیا میں سیاسی استحکام(political stability) کا دور آیا، جو نشیب و فراز کے ساتھ برابر جاری رہا، اور اب بھی عرب ریاستوں میں جاری ہے۔
سمجھاجاتا ہے کہ امیر معاویہ اسلامی دور کے وہ شخص ہیں، جنھوں نے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کیا۔ مگر اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کو اسلام کی سیاسی تاریخ میں ٹرینڈ سیٹر (trendsetter) کا درجہ حاصل ہوا۔ امیر معاویہ نے شورائی خلافت کو خاندانی حکومت (dynasty) میں تبدیل کیا تھا، اور تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے بعد یہی طرز حکومت بعد کے پورے اسلامی دور میں باقی رہا۔ اس اعتبار سے امیرمعاویہ کو اسلامی تاریخ میں ٹرینڈ سیٹر کا درجہ حاصل ہے۔
اس معاملے کا زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ امیر معاویہ کے اس’’اجتہاد‘‘ کو پوری امت نے تسلیم کرلیا۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین ، فقہاء، اور تمام علمائے متقدمین نے اس کو بلااختلاف مان لیا، حتی کہ ان کے اس اجتہاد کو اجماع امت کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس معاملے میں علمائے امت کی نمائندگی کرتے ہوئےشارح مشکاۃ المصابیح شرف الدین الحسین بن عبد اللہ الطیبی(وفات 743:ھ) اس موضوع کے تحت کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأما الخروج علیہم وتنازعہم فمحرم بإجماع المسلمین، وإن کانوا فسقة ظالمین. وأجمع أہل السنة على أن السلطان لا ینعزل بالفسق؛ لتہیج الفتن فی عزلہ وإراقة الدماء وتفرق ذات البین، فتکون المفسدة فی عزلہ أکثر منہا فی بقائہ (الکاشف عن حقائق السنن، 8/2560)۔ یعنی اور جہاں تک خروج (بغاوت) کی بات ہے، اور ان سے نزاع کرنا، وہ حرام ہے، اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہو، اور اس پر اہل سنت نے اجماع کیا ہے کہ سلطان کو فسق کی بنا پر معزول نہیں کیا جائے گا۔ کیوں کہ اس کی معزولیت کی وجہ سے فتنے اٹھتے ہیں، اور خون بہتا ہے، اور( مسلمانوں میں)باہمی اختلاف پیدا ہوتا ہے، تو اس کی معزولیت پر ہونے والا نقصان اس کے باقی رہنے سے زیادہ ہے۔
علمائے امت کا یہ اجماع محض اتفاق کے طور پر نہیں ہے، بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر نہایت صراحت کے ساتھ پیشگی طور پر اس کا حکم دیا تھا۔ حدیث کی کتابوں میں کتاب الفتن میں اس طرح کی روایتیں کثرت سے دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں تین روایتیں نقل کی جاتی ہیں:تَسْمَعُ وَتُطِیعُ لِلْأَمِیرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَہْرُکَ، وَأُخِذَ مَالُکَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1847)۔ یعنی آپ نے کہا کہ سنو اور اطاعت کرو، خواہ وہ تمھاری پیٹھ پر مارے، اور تمھارا مال چھین لے، سنو اور اطاعت کرو۔
ایک دوسری روایت یہ ہے:عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ:قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِی أَثَرَةً وَأُمُورًا تُنْکِرُونَہَا، قَالُوا:فَمَا تَأْمُرُنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052)۔ یعنی عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہم لوگوں سے کہا کہ تم میرے بعد عنقریب ترجیح (preference)دیکھوگے، اور کچھ ایسے امور جن کو تم ناپسند کرو گے، لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول، آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے کہا: ان کو ان کا حق ادا کرو، اور تم اپنا حق اللہ سے مانگو۔
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:مَنْ رَأَى مِنْ أَمِیرِہِ شَیْئًا یَکْرَہُہُ فَلْیَصْبِرْ عَلَیْہِ فَإِنَّہُ مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِیتَةً جَاہِلِیَّةً (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7054)۔ یعنی آپ نے کہا کہ جو اپنے امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو، تو وہ اس پر صبر کرے، کیوں کہ جو جماعت سے ایک بالشت کے برابر بھی جدا ہوا، اور اسی حال میں وہ مرگیا، تووہ جاہلیت کی موت مرا۔
اس موضوع پر بعض علماء کا اختلاف نقل کیا گیا ہے۔ مگر ا س قسم کا اختلاف بلاشبہ ناقابل اعتبار ہے۔ اس لیے کہ اس معاملے میں رسول اللہ کی اتنی زیادہ کھلی کھلی ہدایات موجود ہیں۔ اس کے بعد کسی کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ وہ کوئی خود ساختہ عذر لے کر اس سے اختلاف کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا اختلاف بداہۃً ہی قابل رد ہے:
prima facie it stands rejected
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح احادیث کےمطابق، اس مسئلے پر امت کا اجماع مسلسل طور پر جاری رہا۔ بیسویں صدی میں پہلی بار بعض مسلم رہنما مثلاً پاکستان کے سید ابو الاعلیٰ مودودی (وفات1979:) اور مصر کے سید قطب(وفات 1966:)نے مبینہ طور پر اس معاملے میں اختلافی موقف اختیار کیا ہے۔ پاکستان میں سید ابو الاعلیٰ مودودی نے منتخب صدر جنرل ایوب کے خلاف، اور مصر میں سید قطب نے سابق صدر جمال عبد الناصر کے خلاف سیاسی اپوزیشن کے تحریکیں چلائیں۔ اس قسم کا اپوزیشن بلاشبہ وہی چیز تھا، جس کو خروج یا بغاوت کہا جاتا ہے۔ ان حضرات کا یہ فعل بلاشبہ شرعی اعتبار سے غلط تھا۔ اس معاملے میںکوئی بھی عذر (excuse) ایک ایسے عمل کے لیے وجہِ جواز نہیں بن سکتا، جس کو خود پیغمبرِ اسلام نے حرام کا درجہ دیا ہو۔
اس معاملے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی اور سید قطب ، اور ان کے رفقا اور مویدین کو وہی کرنا چاہیے تھا، جو رسول اللہ کے بعد امت کے تمام اسلاف و اخلاف نے اختیارکیا۔ یعنی پولیٹکل دائرے کو چھوڑ کر نان پولیٹکل دائرے میں اپنی کوششوں کو صرف کرنا۔ مثلاً رسول اللہ کے بعد کے زمانے میں مسلم حکمرانوں کے اندر وہ تمام بگاڑ پوری طرح آچکا تھا، جس کے حوالے سے پاکستان اور مصر کے مسلم رہنماؤں نے بڑی بڑی سیاسی تحریکیں چلائی تھیں۔ رسول اللہ کے بعد علمائے امت نے صرف یہ کیا کہ سیاسی دائرے سے باہر رہ کر غیر سیاسی دائرے میں اپنی تمام سرگرمیاں محدود کردیں۔ پاکستان اور مصر کے مسلم رہنماؤں پر لازم تھا کہ وہ یہی طریقہ اختیار کریں۔
مثال کے طور پر مصر میں وہاں کے حکمراں جنرل جمال عبد الناصر نے سید قطب کو، جو کہ سیاسی اپوزیشن کے لیڈر تھے، یہ پیش کش کی کہ وہ مصر میں تعلیم کی وزارت سنبھالیں، اور ملک کے نوجوانوں کو اسلامی انداز میں تربیت دیں۔ مگر سید قطب نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح 1962 میں پاکستان کے سابق صدر محمد ایوب خاں نے سید ابوالاعلیٰ مودوی کو یہ پیش کش کی کہ ان کو بہاول پور یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا جائے گا، اور اس کا پورا چارج بلاشرط ان کو دے دیا جائے گا۔ یہاں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ نوجوانوں کی اپنے نہج پر فکری تربیت کریں۔ مگر سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ دونوں صاحبان کا انکار رسول اللہ کی ہدایات اور امت کے اجماع کےواضح طور پر خلاف تھا۔ اس معاملے میں ان حضرات کا کوئی بھی عذر ہرگز قابل قبول نہیں۔
رسول اللہ نے حکمرانوں سے خروج کے خلاف جو واضح ہدایات دی تھی، اور جس پر آپ کے بعد تمام علمائے امت نے اجماع کرلیا، وہ کوئی سادہ بات نہ تھی۔ وہ آپ کی اس پیغمبرانہ حیثیت کی بنا پر تھا، جو آپ کو اللہ کی طرف سے دی گئی تھی، یعنی امت کو حکمت کی تعلیم دینا (الجمعۃ ، 62:2)۔ تجربہ بتاتا ہے کہ آپ کی یہ تعلیم اعلیٰ حکمت (wisdom) پر مبنی تھی۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں امت اس پیغمبرانہ حکمت پر قائم رہی، اس لیے مسلمان مسلسل طور پر کامیاب رہے۔ مگر بیسویں صدی میں امت کے رہنماؤں نے اس حکیمانہ تعلیم کو چھوڑ دیا، اور اپنے حکمرانوں سے سیاسی نزاع کا طریقہ اختیار کرلیا، اس کے نتیجے میں ان کی تمام کوششیں حبط اعمال (الکہف،18:105) کا شکار ہوگئیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم اعلیٰ حکمت (great wisdom) پر مبنی تھی۔ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ سیاسی معاملات میں نزاع کا طریقہ ہمیشہ بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، سیاسی معاملے میں غیر نزاعی طریقہ ہمیشہ کامیابی تک پہنچاتا ہے۔ ایسافطرت کے مسَلّم قانون کی بنا پر ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے، اور اس معاملے میں کسی کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جو ہدایت دی تھی، وہ بظاہر ایک مذہبی ہدایت تھی، لیکن وہ فطرت کے قانون پر مبنی ایک ہدایت تھی۔ اسی حقیقت کو جرمنی کے مدبر سیاست داں بسمارک (1815-1898) نے اس طرح کہا تھا کہ سیاست ممکنات کا فن ہے:
ُُُPolitics is the art of the possible, the attainable, the art of the next best.
فطرت کے قانون پر مبنی اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ دنیا میں آئڈیل وزڈم کا حصول ممکن نہیں۔ یہاں کسی کے لیےآئڈیل وزڈم کا انتخاب ممکن نہیں ہے، بلکہ یہاں ہر ایک کے لیے پریکٹکل وزڈم کا انتخاب ہے۔ کوئی شخص تصوراتی طور پر آئڈیل کو اپنا گو ل بنا سکتا ہے۔ لیکن جب معاملہ کسی نشانے کو عملی صورت میں ظہور میں لانے کا ہو تو ہر ایک کے لیے صرف پریکٹکل وزڈم کا انتخاب ممکن ہوتا ہے، نہ کہ آئڈیل وزڈم کا انتخاب۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت
امریکا میں کئی ایسے مسلمانوں سے ملاقات ہوئی جو نظامِ خلافت کی باتیں کرتے ہیں۔ میںنے کہا کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ نظامِ خلافت کی باتیں کرتے ہیں، مگر عملاً وہ نظامِ منافقت پر قائم ہوتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ وہ کیسے۔ میںنے کہا کہ اگر آپ لوگ واقعۃً نظامِ خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ امریکا کی شہریت کو ختم کردیجئے۔ کیوں کہ شہریت کے فارم پر دستخط کرنے کے بعد اِس قسم کی باتیں کرنا اگر بالاعلان ہو تو وہ ملک سے غداری ہے، اور اگر اعلان کے بغیر ہو تو وہ منافقت ہے۔
واپس اوپر جائیں

روحِ دین

ایک سفر کے دوران مجھے ایک ایسے ملک میں جانا پڑا جہاں پہلے بادشاہی نظام تھا۔ اب بادشاہ کا خاتمہ ہوگیا۔ اب وہاں صدر راج قائم ہے۔ قدیم شاہی محل کی تمام شان وشوکت باقی ہے۔ البتہ اب \اس کو شاہی محل کے بجائے صدارتی محل کہاجاتاہے۔
میںاور کانفرنس کےدوسرےشرکاء صدرِ مملکت سے ملاقات کے لیے صدارتی محل میں لے جائے گئے۔ ہم لوگ جب اس پُر ہیبت عمارت میںداخل ہوئے تو میں نے دیکھا کہ ہر آدمی کا انداز اچانک بدل گیا ہے۔ لوگوں پر خاموشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ ان کی رفتار سست پڑ گئی۔ چہرے پر سنجیدگی کے آثار ظاہر ہوگئے۔ محل کی ہر چیز کو وہ پُر رعب نظروں سے دیکھنے لگے۔
اس منظر کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ یہ دنیا جس میں ہم رہتـے ہیں، وہ بھی خدا کا ایک عظیم محل ہے۔ اس میں ہر طرف خدا کی عظمت وقدرت کے جلوے نمایاں ہیں۔ اس خدائی محل کے اندر چلتے ہوئے مزید اضافہ کے ساتھ آدمی پر وہ کیفیت طاری ہونا چاہیے جو کسی شاہی محل کے اندر چلتے ہوئے اس کے اندر طاری ہوتی ہے۔
مگر جب میں دنیا کے راستوں میں لوگوں کو چلتے ہوئے دیکھتا ہوں تو یہ محسوس کرکے میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتےہیں کہ یہاں لوگ اس طرح چل رہے ہیں گویا کہ انھیں اس عظیم حقیقت کی کوئی خبر ہی نہیں۔ لوگوں کے چہروں پر خشوع جھلکتا ہوا نظر نہیں آتا جو از روئے واقعہ ان کے چہروں پر جھلکنا چاہیے۔لوگوں کے چہروں پر مجھے احتیاط کے بجائے غفلت نظر آتی ہے۔ ان کی چال تواضع کے بجائے سرکشی کی چال معلوم ہوتی ہے۔ ان کے انداز پر ذمہ داری کے بجائے بے حسی کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ خدا کی دنیا میں چلتے ہوئے لوگ اتنا سنجیدہ بھی نظر نہیں آتے جتنا کہ کوئی شخص کسی ایوانِ صدارت یا کسی قصر شاہی میں چلتے ہوئے نظر آتا ہے۔
جن لوگوں کاحال یہ ہوکہ انسانی محل میں چلتےہوئے ان پر ہیبت طاری ہو مگر خدائی محل میں چلتےہوئے ان پر ہیبت طاری نہ ہو وہ خدا کی رحمت سے آج ہی دور ہوگئے۔
واپس اوپر جائیں

جنّت کا ٹکٹ

مغربی دنیا کے ایک سفر میں میری ملاقات ایک مسلمان سے ہوئی۔ ان کی عمر پچاس سال سے اوپر ہوچکی ـتھی۔ انھوں نے کہا: مجھ کو تو جنّت کا ٹکٹ چاہیے، مجھ کو آپ صرف یہ بتائیے کہ جنّت کا ٹکٹ کیا ہے۔
میں نے کہا کہ جنت کا کوئی ٹکٹ نہیں۔ یہ جنتی ٹکٹ کا معاملہ نہیں، یہ جنتی شخصیت کا معاملہ ہے۔ آخرت کی قیمتی جنت اس آدمی کو ملے گی جس نے اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کی تھی۔ جنت میں داخلہ کسی کو ’’ٹکٹ‘‘ کے ذریعہ نہیں ملے گا۔ جنت کی قیمت آدمی کا اپنا وجود ہے، اپنے وجود کی قیمت دے کر ہی کوئی شخص جنت کی دنیا میں اپنے لیے داخلہ پاسکتا ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت تزکیہ کرنے والوں کےلیے ہے (طہ، 20:76)۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ جنت میں داخلہ کی شرط یہ ہے کہ آدمی مزکّی شخصیت لے کر وہاں پہنچا ہو۔ یعنی وہ ایک ایسا انسان ہو جس کے اندر پاک روح بسی ہوئی ہو، جس کا دل اور دماغ آلائشوں سے پاک ہو۔ جس نے اپنے اندر ربّانی شخصیت کا باغ اگایا ہو۔
موجودہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جس کے ایک طرف کیچڑ ہے اور دوسری طرف صاف وشفاف پانی۔ آدمی چاہے تو اپنے کو کیچڑ میں گندا کرے، اور چاہےتو صاف پانی میںنہاکر صاف ستھرا بن جائے۔ جو لوگ اپنے آپ کو گندا کریں، وہ آخرت میں جہنم میں ڈال دیے جائیں گے۔ اور جو لوگ اپنے آپ کو پاک کریں، ان کو جنت کی نعمت گاہوں میں بسایا جائے گا۔
اعتراف کے موقع پر اعتراف کرنا، اپنی شخصیت کو پاک کرنا ہے۔ اس کے برعکس، اعتراف کے موقع پر بے اعترافی کا رویہ اختیار کرنا، اپنی شخصیت کو گندا کرنا۔ اسی طرح ایک موقع آتا ہے جس میں ایک شخص اعلی اخلاق کا ثبوت دیتا ہےاور دوسرا شخص پست اخلاق کا۔ ایک موقع آتا ہے جس میں ایک شخص حق تلفی کرتاہےاور دوسرا شخص حق رسانی۔ ایک موقع آتاہے جس میں ایک شخص امین ثابت ہوتا ہےاور دوسرا شخص خائن۔ ایک موقع آتا ہے جس میں ایک شخص تواضع کے راستہ پر چلتاہے اور دوسرا شخص سرکشی کے راستہ پر۔ان میں سے پہلا آدمی جو اپنی شخصیت کو پاک کرنے والا ہے، وہ جنت کی نفیس دنیا میں داخلہ پائے گا۔ اس کے برعکس، دوسرا آدمی جو اپنی شخصیت کو گندا کرنے والا ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

روحانیت کیا ہے

ایک مجلس میں ایک صاحب نے یہ سوال کیا کہ اسلام میں روحانیت کا تصور کیا ہے، اور اسلامی نقطۂ نظر سے روحانیت کو پانے کا کیا اصول ہے۔ اس معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ روحانیت (spirituality) کا لفظ بعد کی تاریخ میں بولا جانے لگا۔ قرآن میں اس مفہوم کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ربانیت ہے۔ روحانیت بلاشبہ ایک مطلوب چیز ہے۔
عام تصور یہ ہے کہ روحانیت کا مقام پانے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ترکِ دنیا (renunciation) ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ ترکِ دنیا سے جو چیز ملتی ہے وہ روحانیت نہیں ہے بلکہ وہ رہبانیت ہے اور رہبانیت اسلام میں نہیں (مسنداحمد، حدیث نمبر 25893) ۔
روحانیت یا ربّانیت یہ ہے کہ آدمی کی داخلی شخصیت ربانی شخصیت بن جائے۔ وہ خدا اور آخرت کے تصور میں جینے لگے۔ روحانیت کا یہ درجہ فکری انقلاب کے ذریعہ آتا ہے نہ کہ مادی دنیا کو چھوڑنے کے نتیجہ میں۔ یہ فکری انتقال کا ایک عمل ہے نہ کہ جسمانی انتقال کا کوئی عمل۔ قرآن کے مطابق، اس فکری انتقال کا ذریعہ توسم ہے۔ یہ روحانیت کسی کو اس ذہنی بیداری کے ذریعہ ملتی ہے جس کو قرآن میں ذکر ِکثیر (الجمعہ،62:10) کہا گیا ہے۔
یہ ذکرِ کثیر کوئی لسانی تکرار نہیں، وہ دراصل ایک فکری عمل ہے۔ یعنی مادی چیزوں میں خدا کی نشانیاں دیکھنا۔ مادی تجربات سے آخرت کا سبق نکالنا۔ دنیا کی ہر چیز میں یہ ربانی پہلو چھپا ہوا ہے۔ روحانیت یہی ہے کہ آدمی دنیوی یا مادی سرگرمیوں کے درمیان رہتے ہوئے ان نشانیوں کو دیکھے ۔وہ مادی تجربہ کو روحانی تجربہ میں کنورٹ کرسکے۔ روحانیت دراصل کنورژن کی اسی ذہنی صلاحیت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ روحانیت نہ دنیا کو ترک کرنے سے ملتی ہے اور نہ الفاظ کی لسانی تکرار سے۔ روحانیت کا درجہ اُس کو ملتا ہے جو مادی دنیا کو اپنے لیے روحانی خوراک بنا سکے۔
واپس اوپر جائیں

دعا کی قبولیت

غالباً 1965 ء میں مَیں اعظم گڑھ سے کانپور گیا تھا۔ کانپور میں میرے ایک مدرسے کے ساتھی تھے،ان کا نام تھا، مرزا امتیاز بیگ اصلاحی۔ اب ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ کانپور کے اس سفر میں مَیں مرزا امتیاز بیگ اصلاحی کےیہاں چند دن ٹھہرا۔ یہاں قیام کے دوران انھوں نے اپنا ایک ذاتی واقعہ بتایا، جو بہت سبق آموز تھا، اور یہ واقعہ اب تک مجھے یاد ہے۔
مرزا امتیاز بیگ اصلاحیاعظم گڑھ کے رہنے والے تھے۔ کانپور میں انھوں نے چمڑے کا بزنس شروع کیا تھا۔ پہلے وہ یہاں ایک مکان میں کرائے پر رہتے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد مالکِ مکان نے مکان خالی کرنے کے لیے کہا۔ انھوں نے کوشش کی کہ دوسرا کوئی مکان کرائے پر مل جائے، مگر کافی کوشش کے باوجود ان کو کانپور میں دوسرا کوئی مکان کرائے پر نہیں ملا۔ ان کا یہ مالک مکان ایک ہندو تاجر تھا۔ وہ روزانہ اس کے پاس جاتے ، اور کہتے کہ میرے پاس کوئی دوسرا مکان نہیں ہے، اس لیے آپ مجھے اس مکان میں رہنے دیں۔ لیکن مالک مکان کسی طرح راضی نہیں ہوتاتھا۔ وہ روزانہ مالک مکان کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ، لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ آخر کار ایک دن اس نے الٹی میٹم کی زبان میں کہہ دیا کہ آپ میرے مکان کو خالی کردیں، ورنہ میں آپ کے خلاف قانونی کارروائی کروں گا۔
یہ سن کر مرزا امتیاز بیگ اصلاحی مایوسی کے عالم میں واپس آگئے۔ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اللہ سے دعا کریں۔ اس رات کو انھیں نیند نہیں آئی، وہ رات کے اکثر اوقات دعا کرتے رہے۔ انھوں نے اللہ سے کہا : خدایا ، میرے پاس تو کوئی گھر نہیں ہے ، میں کل کہاں جاؤں۔ اسی طرح کی دعاؤں میں رات گزرگئی۔ اگلے دن صبح کو وہ پھر مالکِ مکان کے پاس گئے۔ جب وہ اس کے دروازے پر پہنچے تو ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جو ان کی توقع کے بالکل خلاف تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ مالک مکان اور اس کی بیوی دونوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اُن پر نظر پڑتے ہی مالک ِمکان بولا۔ مرزا صاحب آئیے، ہم تو آپ ہی کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر مالک مکان نے خلاف توقع کہا: ہمارے پاس ایک اور مکان ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ فی الحال ہم اس کو استعمال کریں گے ۔ اس درمیان آپ کوئی مکان تلاش کر لیجیے۔جب مکان مل جائے ، تو آپ ہمارے مکان کو ہمارے استعمال کے لیے چھوڑ دیجیے۔
یہ ایک سچا واقعہ ہے، جس کو خود صاحبِ واقعہ نے براہ راست طور پر مجھ سے بیان کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کو ہمیشہ سچی اسپرٹ کے ساتھ دعا کرنی چاہیے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:أَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوءَ (27:62)۔یعنی کون ہے جو بے بس کی پکار کو سنتا ہے اور اس کے دکھ کو دور کر دیتا ہے۔اگر بندہ اس اسپرٹ کے ساتھ دعا کرے تو عین ممکن ہے کہ اللہ اس کی دعاؤں سے فریقِ ثانی کے دل کو بدل دے، اور اس کا انکار اقرارمیں تبدیل ہوجائے۔
تاریخ میں اس قسم کی قبولیتِ دعا کے واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً قدیم مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیمانے پر دعوت کا کام کیا۔ وہاں بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ لیکن عمربن الخطاب آپ کے مخالف بنے رہے۔ یہاں تک کہ روایت میں آیا ہےکہ ایک صحابی، عامر بن ربیعہ اپنی بیوی، لیلی بنت ابی حثمہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کررہے تھے کہ عمر بن الخطاب کا وہاں سے گزر ہوا۔ عمر نے ماجرا پوچھا، انھوں نے جواب دیا کہ تم لوگ ہمیں ستاتے ہو، اس لیے ہم شہر چھوڑ کر جارہے ہیں، عمر نے کچھ ہمدردی کے الفاظ کہے۔ یہ سن کر عامر بن ربیعہ نے کہا: کیا تم امید کرتی ہو کہ عمر اسلام قبول کرلے گا، لیلیٰ نے کہا: ہاں، تو عامر نے جواب دیا:خدا کی قسم ،خطّاب کا گدھا اسلام قبول کرسکتا ہے، لیکن عمر نہیں کرے گا (وَاللّہِ لَا یُسْلِمُ حَتَّى یُسْلِمَ حِمَارُ الْخَطَّابِ )۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 25/29/47۔ مگر رسول اللہ عمر بن الخطاب سے مایوس نہیں ہوئے، اور آپ نے دعا کی:اللہُمَّ أَیِّدِ الْإِسْلَامَ بِعُمَر(مسند احمد، حدیث نمبر4362)۔ یعنی اے اللہ تو عمر کے ذریعے اسلام کی تائید کر۔ اس کے بعد خود عمر بن الخطاب نے اسلام قبول کرلیا۔
واپس اوپر جائیں

حق کی مخالفت

حق کی مخالفت اصلاً صرف ایک سبب سے ہوتی ہے، اور وہ ہے ماحول کی کنڈیشننگ۔ ہر انسان ایک ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ آدمی اپنے قریبی ماحول سے اثر قبول کرتا ہے۔ اس تاثر پذیری کو جدید نفسیاتی اصطلاح میںکنڈیشننگ (conditioning) کہا جاتا ہے۔اسی معاملے کو حدیث میں ماں باپ کی طرف منسوب کیا گیا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔
یہ کنڈیشننگ اگرچہ گہری ہوتی ہے، لیکن وہ انسان کی فطرت کو نہیں بدلتی۔ انسان کا حقیقی مزاج بدستور انسان کی فطرت میں موجود رہتا ہے۔ انسان کے لیے ہمیشہ یہ ممکن رہتاہے کہ وہ اپنی ضمیر کی آواز کو سنے، اور اپنی کنڈیشننگ کو ڈی کنڈیشنڈ کرسکے۔ البتہ یہ فرق ہے کہ ابتدائی فطرت میں کنڈیشننگ کا معاملہ ماحول سے اثر پذیری کی بنا پر ہوتا ہے، لیکن بعد کو اس کی ڈی کنڈیشننگ آدمی خود اپنے ارادے سے کرتا ہے۔ ہر انسان جو سچائی کا طالب ہو، اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ گہرائی کے ساتھ اپنا محاسبہ (introspection) کرے، وہ اپنے آپ کو دریافت کرے، اور پھر اپنے آپ کو دوبارہ اصل فطرت پر قائم کرے۔ یہ کام ہر آدمی کو لازماً کرنا ہے۔ اس ڈی کنڈیشننگ کے بغیر کوئی شخص دوبارہ اپنی اوریجنل فطرت پر قائم نہیں ہوسکتا۔
اس معاملے کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہر آدمی کو اپنا مصلح آپ بننا ہے۔ ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ بے لاگ طور پر اپنا جائزہ لے۔ وہ عذر(excuse)کو قبول نہ کرے، وہ اپنا نگراں آپ بنے۔ اس طرح وہ آسانی کے ساتھ اپنی شخصیت کی تعمیرِ نو کرسکتا ہے۔ یہاں آدمی کے لیےاس کا ضمیر (conscience) اس کا معاون ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ انسان کا ضمیر ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ انسان کا ضمیر کبھی بدلتا نہیں ۔ اس لیے ہر انسان کے لیے ہمیشہ یہ موقع باقی رہتا ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرکے خود کو دریافت کرے، اور اپنے آپ کو اصلاح یا فتہ انسان بنائے۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ شخصیت

انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس کے اندر اعلیٰ شخصیت کا ارتقا ہو۔ لیکن اکثر حالات میں انسان خود اس معاملے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر اپنے اندر اعلیٰ شخصیت کا ارتقا ہونے نہیں دیتا۔ علمی دنیا میں اس کی مثالیں بہت عام ہیں۔ مثلاً ایک آدمی ایک کتاب لکھے گا، اس میں وہ ایک فکر (thought) کا ذکر کرے گا۔ وہ ایسا کرے گا کہ اپنی تھیم (theme)کا اصل فکر تو کسی اور سے لے گا، لیکن غیر متعلق طور پر کسی کا حوالہ دے کر یہ ظاہر کرے گا کہ اس کی تھیم فلاں شخص سے ماخوذ نہیں ہے، بلکہ دوسرے شخص سے ماخوذ ہے۔ اس طرح وہ اپنے خیال کے مطابق، اپنے آپ کو بچاتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ اپنے آپ کو کھو رہا ہے۔
اعلیٰ شخصیت والا انسان وہ ہے، جو کھلے اعتراف والا ہو، جس کا یہ حال ہو کہ جب اس کو کسی سے کوئی بات ملے تو وہ ایسا نہ کرے کہ دوسرے سے ملی ہوئی بات کو خود اپنی طرف منسوب کرلے، بلکہ وہ کھلے طور پر اس بات کا اعتراف کرے کہ اس کو یہ بات فلاں شخص سے حاصل ہوئی ہے۔ زندگی میں شاید سب سے بڑی قابل قدر چیز اعتراف ہے۔ ایک حدیث رسول آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:جو انسان کا شکر ادا نہیں کرے گا، وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرے گا (مسند احمد، حدیث نمبر 19350) ۔ شکر کا مطلب اعتراف (acknowledgment) ہے۔
ایک شخص جب انسان کا اعتراف نہ کرے، تو وہ اپنے اندر ایسی نفسیات کی پرورش کررہا ہے کہ وہ اللہ رب العالمین کا بھی اعتراف کرنے میں ناکام رہے۔ اعتراف انسان کی ایک اعلیٰ صفت ہے۔ اعتراف کے ذریعے انسان کے اندر شخصیت کا ارتقا مسلسل طور پر جاری رہتا ہے، اور جو آدمی اعتراف سے محروم رہے، وہ شکر خداوندی سے بھی محروم رہے گا۔ کیوں کہ قرآن کے مطابق، انسان کے سینے میں دو دل نہیں ہوتے(الاحزاب، 33:4)۔ یہ ناممکن ہے کہ آپ انسان کے معاملے میں بے اعترافی کی نفسیات میں جی رہے ہوں، اور اللہ کے معاملے میں برعکس طور پر آپ اعتراف والے بن جائیں۔
واپس اوپر جائیں

غیر واقعی عذر

ایک صاحب نے کہا کہ میرے اندر کام کرنے کا بہت جذبہ ہے، لیکن جب میں کوئی کام شروع کرتا ہوں تو درمیان میں کچھ ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں ، جس کی وجہ سے مجھے اس کام کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں کام کس طرح کروں۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ اس قسم کی بات کرتے ہیں، ان کا کیس عذر کا کیس نہیں ہے،بلکہ ارادے(will power)کے نہ ہونے کا کیس ہے۔ ایسے لوگوں کے اندر ارادے کی طاقت موجود نہیں ہوتی۔ البتہ کام کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جاننا چاہیے کہ اس دنیا میں کوئی کام صرف شوق کی بنیاد پر نہیں ہوتا ہے، بلکہ طاقتور ارادے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ حقیقی ارادہ یہ ہے کہ آپ جانیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔ آپ کے کام کی راہ میں کس قسم کی صلاحیت درکار ہے۔ آپ کو کن رکاوٹوں سے لڑ کر اپنے کام کو آگے بڑھانا ہے۔ آپ کے اندر سابقہ کنڈیشننگ کی وجہ سے وہ کون سی کمزوریاں ہیں، جن کو دور کرنا ضروری ہے، ورنہ آپ عذرات میں پھنسے رہیں گے، اور جو کام آپ کرنا چاہتے ہیں، اس میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔
اصل یہ ہے کہ ہر کام سب سے پہلے منصوبہ بندی (planning) چاہتا ہے۔ منصوبہ بندی یہ ہے کہ آپ اپنے کام کے تمام پہلوؤں اور اس کے مالہ و ماعلیہ کو جانیں، آپ پیشگی طور پر یہ جانیں کہ آپ محض شوق کے طور پر یہ کام کرنا چاہتے ہیں، یا آپ اس کے لیے ضروری قربانی دینے کو تیار ہیں۔ آپ صرف باتیں بنانے والے آدمی ہیں، یا آپ کے اندر پختہ عزم کی طاقت موجود ہے۔ آپ دوسروں کو الزام دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں، یا آپ عذر میں خود اپنی کمی کو دریافت کرکے اس کی اصلاح کے لیے تیار ہیں۔ جو لوگ مذکورہ قسم کی باتیں کرتے ہیں، وہ دراصل وہ لوگ ہیں، جو ہر مسئلے کا ذمے دار دوسرے کو قرار دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں، ان کے اندر یہ ہمت نہیں ہوتی کہ اپنی کمزوریوں کو دریافت کریں، اور اپنی کمزوریوں کو ڈھونڈ کر اپنے منصوبہ کو آگے بڑھائیں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 266

■ 30 جولائی 2018 کو امریکن سنٹر (کولکاتا) نے ’آور وائس آور جرنی، اے کنورسیشن وِد وومن چینج میکرس‘ کے عنوان سے ایک پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا۔ شرکاء میں عالمی شہرت یافتہ شخصیات کافی تعداد میں موجود تھیں۔ مس شبینہ علی (سی پی ایس ٹیم ممبر، کولکاتا) نےاس میں شرکت کی۔ انھوں نے شرکاء سے ملاقات کرکے ان تمام لوگوں کے درمیان قرآن (ترجمہ)، اسپرٹ آف اسلام ، ایج آف پیس، لیڈنگ اسپریچول لائف وغیرہ دیے۔ تمام لوگوں نے خوشی کے ساتھ ان کو قبول کیا۔
■ سی پی ایس (جمشید پور) نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کے تحت ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر مساجد اور لائبریریوں میں لوگوں کو پڑھنے کی غرض سے رکھا جاتا ہے۔اس پر سی پی ایس جمشید پور کا اسٹمپ لگا ہواہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ واقعہ ہوا کہ سی پی ایس (جمشید پور) کو ایک فون آیا ۔کال کرنے والے نے بتایا کہ ٹلکو (جمشیدپور) کی ایک مسجد میں اس نے قرآن کا ہندی ترجمہ دیکھا ہے جس پر یہ فون‌نمبر تھا، اور اس پر فری ڈسٹریبیوشن کا‌اسٹامپ لگا ہوا ہے، تو کیا میں اسے حاصل کر سکتا ہوں۔ انھوں نے مزید یہ بتایا کہ میں ملٹری میں سروس کرتا ہوں۔یہ تھے مسٹر شیخ‌صادق جو انڈین ملٹری کے میکینیکل ڈپارٹمنٹ میں ٹکنیشین ہیں۔ 3 اگست 2018 کو مسٹر شیخ‌صادق اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ قرآن کے لیے آئے۔انھوں نے بتایا کہ وہ مولانا کو پچھلے کئی سالوں سے جانتے ہیں اور انٹر نیٹ پر ان کو کبھی کبھی سنتےہیں۔ان کو قرآن کے ہندی اور انگریزی ترجمے، ہندی کی سیرت کی کتابیں اور پمفلٹس دیے گئے۔ ان کو پاکر ان لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا، اور شکریہ ادا کرکے رخصت ہوئے۔
■ سی پی ایس ٹیم (سہارنپور) نے مشہور دینی ادارہ مظاہر العلوم اور دار العلوم کے علماء سے 2 اگست 2018 کو ملاقات کی اور انھیں دعوت کی اہمیت بتائی۔ تمام لوگوں نے اس کاا ظہار کیا کہ وہ دعوت کا کام کریں گے۔
■ سی پی ایس مشن کے تحت جیلوں میں بھی دعوہ لٹریچر خاص طورپر قرآن تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے کا ایک ای میل یہاںشائع کیا جارہا ہے:
I am wanting to get at least 25 copies of the Quran for a jail in the city of Marion, Indiana. They have requested for Quran copies and have a high need of them, as the prisoners have asked for the Quran. I am the President of the Women’s Committee at the Islamic Center of Bloomington in Bloomington, Indiana. I am a convert to Islam. I would like to help these people by providing them the Quran. We have had some copies of your translation of the Quran and they are wonderful. If you could send some more so that we can distribute as a form of dawah, it would be greatly appreciated. (Katherine Barrus, Bloomington, Indiana, USA).

■ ذیل میں چند تاثرات نقل کئے جاتے ہیں:
… میں پچھلے 20 سال سے درس وتدریس کا کام کرتاہوں۔ تفسیر جلالین، تفسیر نسفی کا طلبہ کو درس دے چکا ہوں،تفسیر القرطبی وغیرہ مطالعے میں رہتی ہیں، لیکن یہ سب تفاسیر صرف فنی معلومات دیتی ہیں۔ نصیحت کہیں کہیں مل بھی جاتی ہے تو فنی معلومات کے بالمقابل نہ کے برابر ہے۔اس کے برعکس، تذکیر القران ایک ایسی تفسیر ہے جس میں صرف پیغام الٰہی پر فوکس کیا گیا ہے، جس میں ناصحانہ پہلو ،داعیانہ پہلو مرکزی موضوع ہے۔ ایک اور بات یہ کہ ایک کم پڑھا لکھا شخص بھی اس تفسیر سے اصل پیغام الٰہی کو اچھی طرح سمجھ سکتاہے۔ یہ خصوصیت کسی اور تفسیر میں نہیں ملتی ۔واللہ اعلم (مولانا محمد جمیل صدیقی، گلبرگہ، کرناٹک)۔
… تذکیر القرآن کا فوکس معرفت اور دعوت ہے۔ مولانا کی چاہے کوئی کتاب ہو، یا تفسیر، یا لکچر، یہ تمام معرفت اور دعوت پر مبنی ہیں۔ جو آدمی بھی مولانا کی کتابیں اور لکچرس مسلسل پڑھتا اور سنتا رہےگا، امید ہے کہ وہ کنفیوژن سے بچ جائے گا۔ (مولانا عبد الباسط عمری، قطر)۔
… تذکیر القرآن ایک ایسی تفسیرہے، جو دوسروں کے یہاں نہیںہے۔ خدا اور آخرت کا پیغام، دعوت کا پیغام کسی دوسری جگہ نہیں ملتا ہے۔یہی تذکیر القرآن کی امتیازی خصوصیت ہے۔ قرآن کا جو اصل پیغام ہے تذکیر القرآن اس کو بتاتا ہے، یعنی خدا اور آخرت رخی زندگی ۔ اس کے پڑھنے والے کو ہر جگہ معرفت، دعوت اور ربانیت کی ہی باتیں ملتی ہیں۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
… مولانا صاحب کی تحریریں کس طرح ہمیں سوچنے میں مدد کرتی ہیں ۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ 1992 میں میں نے کسی کے کہنے پر مولانا کی کتاب ’’ کتاب زندگی‘‘ خریدی تھی۔ اُس وقت میں مولانا کے نام سے بھی واقف نہ تھا ۔ میرا مطالعہ زیادہ تر ناولوں، افسانوں یا سفر ناموں پر مشتمل تھا۔ اُس وقت میری عادت تھی جب کوئی کتاب پڑھنے بیٹھتا، چالیس پچاس صفحے ایک نشست میںختم کردیتاتھا۔ اِ سی عادت کے تحت میں نے مولانا کی مذکورہ کتاب بھی پکڑی، اورپڑھنے بیٹھ گیا ،صرف پانچ چھ صفحات پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ یہ کتاب ویسی نہیں جیسی کتابیں میںنے پہلے پڑھی ہیں۔ اس کا ہر صفحہ اپنے دامن میں حکمت و دانائی کے موتیوں کوسمیٹے ہوا ہے۔ یہ کتاب تو کایا پلٹ (game changer) کتا ب ہے ۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ ہر روز اِس کتاب کا ہر روز ایک صفحہ پڑھوں گا۔ پھر اس صفحہ میں جو پیغام ہے اُس کو اچھی طرح سے ذہین نشین کرنے کے لیے باتوں باتوں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اُس پیغام کو زیر گفتگو لاؤں گا۔ کتاب زندگی کو میں نے ایسے ہی ختم کیا تھا ۔ اس کتاب نے مجھے سنجیدگی دی ، اور ایک با مقصد زندگی کی طرف ر اغب کیا۔ پھر مولانا کی کتابوں کا ایسا ذوق پیدا ہوا کہ ایک کے بعد ایک کتاب زیر مطالعہ رہی ۔تاہم کبھی بھی مولانا کی کتاب کے دوتین صفحے سے زیادہ پڑھنے کی کوشش نہ کی۔ کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ مولانا کی دعوت گہرے غور وفکر کا تقا ضہ کرتی ہے۔ سرسری مطالعہ اس فکر کے ساتھ ناانصافی ہے۔ مولانا کی تحریر نے مجھے احساس دیا کہ اگر میں کسی کی طرف ایک اُنگلی اُٹھاتا ہوں تو باقی انگلیوں کا رخ میری طرف ہوتا ہے۔پہلے مجھے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہے ۔ کامیابی کوئی خارجی چیز نہیں ہے ،یہ داخلی معاملہ ہے۔ کامیاب وہ نہیں ہے،جو دوسروں کا سر کاٹ لے ،کامیاب وہ ہے جو دوسروں کے دلوں کو جیت لے۔ مولانا کی تحریر سے مجھے معلوم ہوا کہ میں صرف لڑنے کی اہمیت کو جانتا ہوں، امن اور صلح کی اہمیت سے بے خبر ہوں ، جب کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امن کے لیے حد یبیہ میں فریقِ مخالف کی تمام شرائط کو یک طرفہ طور پرتسلیم کر لیتے ہیں،تا کہ کسی طرح امن قائم ہو جائے ۔ میں اُن کا امتی ہو کر بھی امن کی اہمیت سے بے خبر تھا۔ یہ مولانا کی تحریروں کا فیض تھا کہ میرے لیے امن (peace)کی اہمیت اجاگر ہوئی۔ اسی طرح مولانا سے یہ بھی سیکھا کہ اللہ بتانے سے نہیں ملتا ، اللہ کو ذاتی طور پر تلاش (discover) کرنا پڑتا ہے۔ جب داخلی طور پراللہ کی دریافت ہوتی ہے ،توپھر ایمان و یقین ثمر بار ہوتا ہے۔ اس لیے اپنےاردگرد مظاہر فطرت پر غور کرو ۔ پھر اللہ کی موجودگی کا احساس اندر سے پیدا ہوگا۔ اسی طرح مولانا کی کتاب ’’فکر اسلامی ‘‘ جب میں نے پڑھی ، یقین جانیے میری تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس میں مولانا نے بڑی بڑی اسلامی قد آور شخصیات کے فکر و نظریات پر قلم اُٹھایا تھا۔ پہلے پہل تو میں ہکا بکا رہ گیا۔ لیکن جب ٹھنڈے دل سے غور کیا تو مولانا کے نقطہ نظر میں مجھے توازن نظر آیا۔ ہم پچھلے کئی سو سال سے خوار ہورہے ہیں۔ اس کی آخر کوئی تو وجہ ہو گی۔ کہیں تو ہم سے چوک ہوئی ہوگی۔ کوئی شخص تو ہمت کرکے جائزہ لے کہ ہم کیوں دنیا میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ مولانا نے جس چیز کو صحیح سمجھا اس کو بیان کر دیا ۔ جہاں کوئی غلطی نظر آئی اس کا بر ملا اظہار کردیا۔ نتیجتاً اُن کو سقراط بن کر لوگوں کی زہریلی باتوں کے جام پینے پڑے ، لیکن حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے محمد بن قاسم اور صلاح ا لدین ایوبی کی تلواروں کی تعریف کی ہے۔ لیکن کبھی اپنے احتساب کے لیے اٹھنے والے قلم کی تعریف نہ کی۔ ہماری عقلوں کو نہ جانے کس کی نظر لگی ہے کہ جب تک کو ئی رہنما اس دنیا سے چلا نہیں جاتا، تب تک ہم اُس کا اعتراف نہیں کرتے۔ ہماری آنکھوں میں ایسی کجی آئی کہ عصر حاضر کے آئینہ میں ہم کو کسی کی خوبی نظر نہیں آتی۔ دعا کریں اللہ میرے اندر ایک داعی کی خوبیاں پیدا کرے۔ آمین (محمد فاروق، لاہور، پاکستان )
† The Quran: An Abiding Wonder was the first book by Maulana that I read about 30 years ago. It helped me understand the reason for the fall of various Muslim rulers and their dynasties over centuries. At a personal level, it has been a constant source of learning for all facets of life. I have also learnt from the Maulana that dawah is not merely one of the activities of a believer, rather it should reflect in all of one’s dealings and behaviour. (Azhar Rizvi, Karachi)
†The real subject of Maulana’s books is to see things scientifically and understand their logical end. (Qamar Abbas, Lahore)
واپس اوپر جائیں