Pages

Monday, 1 April 2019

Al Risala | April 2019 (الرسالہ،اپریل)

4

-حظِّ عظیم

5

- میں خدا کو پانا چاہتا ہوں

8

- خوراک ایک معجزہ

9

- انسان کے لیے سبق

10

- سیکولر معرفت، ربانی معرفت

11

- اللہ کے حوالےکرنا

12

- حجت کا قانون

13

- لو پروفائل میں کام کرنا

15

- فارم ، اسپرٹ

16

- پیغمبر ِ اسلام —— استثنائی شخصیت

23

- پیغمبر ِ انقلاب

26

- عقل کا مسئلہ

28

- اسلام دورِ جدید میں

29

- خبرنامہ اسلامی مرکز

50

- ایک ضروری اعلان


حظِّ عظیم

قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ ۔ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ ۔ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ (41:33-35)۔ یعنی اور اس سے بہتر کس کی بات ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں، اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو بڑا نصیب والا ہے۔
قرآن کی ان آیتوں میں ایسے اہل ایمان کا ذکر ہے، جو بڑے نصیبے والے (truly fortunate) ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے برتاؤ سے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ دشمن بھی ان کا دوست بن جائے، جو بظاہر غیر بنا ہوا تھا، وہ بدل کر آپ کا اپنا بن جائے۔
اس انقلابی تبدیلی کا فارمولا کیا ہے۔ وہ صبر کا فارمولا ہے۔ صبر کا فارمولا کیا ہے۔ صبر کا فارمولاایک لفظ میںیک طرفہ اخلاقیات (unilateral ethics) کا نام ہے۔ یعنی جوابی ردِّعمل کا طریقہ اختیار نہ کرنا، بلکہ فریقِ ثانی کی روش سے اوپر اٹھ کر غیر جوابی انداز میں یا ردِّعمل کا طریقہ اختیار کیے بغیر یک طرفہ بنیاد پر حسن ِعمل کا سلوک کرنا۔
ایسے لوگوں کو ذو حظِّ عظیم (truly fortunate) ہونےکی بشارت دی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبر سب سے بڑا اسلامی عمل ہے۔ اس لیے کہ صبر کا طریقہ اختیار کرنے والا ذاتی سوچ پر اللہ کی سوچ کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ ذاتی تقاضے پر کنٹرول کرتے ہوئے اللہ کے حکم کو اختیار کرتا ہے۔وہ قربانی کی سطح پر اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

میں خدا کو پانا چاہتا ہوں

ایک صاحب اپنے ای میل میں لکھتے ہیں: میں خدا کو پانا چاہتا ہوں۔ تقریباً 20/21سال سے آپ کی کتابیں، اورماہنامہ الرسالہ پڑھنے والوں میں سے ہوں ۔ تذکیر القرآن کا تقریباًہر روز مطالعہ کرتا ہوں۔ سائنٹفک ریسرچ اور کائنات پر غور کرنے سے بھی یہ بات ثابت تو ہوجاتی ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے۔لیکن میں ذاتی طور پر خدا کو پانا چاہتا ہوں۔ شاید میں اس کو پانے کی قیمت ادا نہیں کر پارہاہوں۔ بقول آپ کے اپنی ہستی کو مٹانا ہے۔ روزانہ دعا کرتا ہوں کہ خدا مل جائے۔ زندگی میں کوئی لطف باقی نہیں رہا۔ ایک بے مزہ زندگی سے اکتا گیا ہوں۔ کیا آپ سے کوئی رہنمائی مل سکتی ہے۔
آپ سے رہنمائی چاہنے کی دو وجہیں ہیں۔ ایک، آپ کی تحریر آج سے 21 سال پہلے بنا کسی انسانی مداخلت کے بالکل معجزاتی طور پر مجھے اس وقت ملی، جب کہ میں روزانہ موت کی تمنا کیا کرتا تھا۔ پورا واقعہ لکھنا مشکل ہے۔ مختصر یہ کہ گویا کوئی ان دیکھی طاقت ہے، جو مجھے زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ دوسری، میری معلومات کے مطابق، آپ واحد انسان ہیں، جو خدا کو پانے کا پورے یقین کے ساتھ دعوی کرسکتے ہیں۔ کیا مجھے بھی خدا مل سکتا ہے، کیسے؟ (ایک قاریٔ الرسالہ، ممبئی)
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا کو پانا، دراصل ایک پائی ہوئی حقیقت کو دوبارہ دریافت کرنا ہے۔ خدا کو پانا دراصل غیر شعور کو شعور بنا نا ہے۔یعنی جو چیز غیر شعوری طور پر ملی ہوئی ہے، اس کو شعوری طور پر اپنی یافت بنانا ہے۔ خدا آپ کا خالق ہے، اور اس نے آپ کو غیر موجود سے موجود کیا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ آپ کی زندگی میں شامل ہے، وہ خود بخود آپ کو ملا ہوا ہے۔ مگر یہ پانا غیر شعوری اعتبار سے ہے۔اب آپ کا کام یہ ہے کہ آپ غیر شعوری طور پر ملی ہوئی چیز کو شعوری طور پر دریافت کرلیں۔ خدا کو پانا بظاہر ایک مشکل کام معلوم ہوتا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ سب سے زیادہ آسان کام ہے۔
آپ سوچیے کہ جب آپ ماں کے پیٹ میں تھے، اسی وقت آپ کی ضرورت کی تمام چیزوں کی سپلائی باقاعدہ طورپر شروع ہوگئی تھی۔ یہ کون تھا، جس نے آپ کے لیےآپ کی ضروریات کی کامل فراہمی کا انتظام کیا۔ پھر جب آپ ماں کے پیٹ سے نکلے ، تو آپ نے پایا کہ آپ کےلیے یہاں مکمل معنوں میں ایک لائف سپورٹ ئسسٹم (life support system) موجود ہے۔ پھر جب آپ بڑے ہوئے، اور آپ دنیا میں چلنے پھرنے کے قابل ہوئےتو آپ نے پایا کہ پوری یونیورس آپ کے لیے کسٹم میڈ یونیورس (custom-made universe)ہے۔ اس قسم کے تجربات جو آپ کو ہر لمحہ پیش آتے ہیں، وہ گویا ملی ہوئی چیز کو آپ کے لیے ایک دریافت کردہ حقیقت (discovered reality) بنا رہے ہیں۔
میں جب پہلی بار امریکا گیا، تو وہاں ایرپورٹ کے باہر نکلتے ہوئے میں نے جو پہلی چیز دریافت کی، وہ یہ تھی کہ کیسا عجیب ہے وہ خالق جس نے میرے لیےزندگی بخش آکسیجن کی سپلائی کا نظام انڈیا میں بھی قائم کررکھا تھا، اور امریکا میں بھی اس کا تسلسل بلاانقطاع جاری ہے۔ یہ تاثر اتنا شدید تھا کہ میں نے چاہا کہ میں روڈ پراپنے خالق کے لیے سجدے میں گر پڑوں۔ اسی طرح دوسرے تمام تجربات ہر لمحہ میرے لیے خدا کی یاد کے ریمائنڈر بنے رہتے ہیں۔ یہی وہ یاد دلانے والے واقعات ہیں، جن کا ذکر قرآن کی اس آیت میں آیا ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ (12:105)۔ یعنی اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان پر دھیان نہیں کرتے۔
جو لوگ صبح و شام ان نشانیوں کے درمیان زندگی گزاریں، مگر ان کا حال یہ ہو کہ ان کے پاس دماغ ہو مگر وہ نہ سوچیں، ان کے پاس آنکھیں ہو مگر وہ نہ دیکھیں، ان کے پاس کان ہو مگر وہ نہ سنیں، ایسے لوگ خالق کے نزدیک اندھے بہرے ہیں۔ ان کو صرف قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ صورِ اسرافیل کے سواکوئی اور چیز نہیں ہے، جو ان کو غفلت کی نیند سے جگائے۔
خالق کی معرفت کوئی سادہ چیز نہیں۔ خالق کی معرفت جنت الفردوس کی قیمت ہے۔جنت الفردوس اس کے لیے ہے جو خدا کو دیکھے بغیر دیکھے، جو خدا کی جنت میں داخل ہونے سے پہلے ا س کو دریافت کرے ۔ خدا کو پانے کی توفیق اس کو ملتی ہے، جو خدا کے لیے غیر خدا کو چھوڑنے پر راضی ہوجائے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ہر انسان کو پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ڈسکور کرے۔ یہ زندگی کی شروعات ہے۔ اگر آپ سیلف ڈسکوری کے بغیر اپنی زندگی میں کوئی چوائس لے لیںتو آپ کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ آپ کو غیر مطلوب انجام کی طرف لے جائے گا۔ اس منفی ریزلٹ کے بعد آپ چاہیں گے کہ آپ سیکنڈ چوائس لیں ۔ لیکن سیکنڈ چوائس آپ کو دوسری ناکامی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ اس سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ وہ یہ کہ آپ ریلسٹک اپروچ کو اختیار کریں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آئڈئلزم ہمیشہ ناکامی کی طرفلے جاتی ہے۔ جب کہ پریگمیٹک اپروچ کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن یہ آئڈیل ٹرم میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ پریگمیٹزم کے سنس میں ہوتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
اعتدال کیا ہے
اعتدال کا اصول، کسی اصولی موقف کی طرح کسی مستقل اصول پر مبنی نہیں ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے اصول پر مبنی ہے۔ یعنی جس موقعے پر خالص اصولی موقف بظاہر قابل عمل (practical)نہ ہو، وہاں حالات کو دیکھتے ہوئے رعایت کا طریقہ اختیار کیا جائے، اور ایسے موقف کو اختیار کیا جائے، جس میں نقصان بھی کم ہو، اور اختلاف کی صورت ختم ہوجائے۔ مثلا ً پراپرٹی کی تقسیم کا معاملہ ہو، اور دو آدمیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے، تو دونوں پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ نزاع کی صورت کو ختم کرنے کے لیے ایک ایسے درمیانی حل پر راضی ہوجائیں، جس میں بظاہر نظری انصاف تو نہ ہو، لیکن اس سے نزاع کی صورت ختم ہوتی ہو۔ ایسے حل کو پریکٹکل وزڈم پر مبنی حل کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خوراک ایک معجزہ

برٹش شاعر والٹر ڈی لا مئر (Walter de la Mare [1873-1956]) کا ایک شعر ہے۔ وہ کہتا ہے — یہ بڑی عجیب بات کہ مس ٹی (انسان) جو کچھ کھاتا ہے، وہ اس کے اندر داخل ہو کر اس کا جز بن جاتا ہے:
It's a very odd thing -
As odd can be-
That whatever Miss T eats ,
Turns into Miss T.
یہ بات بلاشبہ بہت ہی زیادہ عجیب ہے کہ انسان کی خوراک، خواہ وہ زمینی خوراک ہو، یا حیوانی خوراک اس کے پیٹ میں داخل ہوتی ہے۔ ایک بے حد پیچیدہ نظام اس کو ہضم (digest) کرتا ہے۔ انسان کے جسم میں دو سو سے زیادہ قسم کے خلیات (cells) ہیں۔ یہ سیل جسم کے مختلف حصوں کا پارٹ بنتے ہیں۔ یہ سیل برابر بدلتے رہتے ہیں۔ انسان کا جسم انھیں سیل کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ پیدائش سے موت تک انسان کے جسم کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ یہ ایک بے حد عجیب قسم کا جسمانی نظام ہے، جو ہر عورت اور مرد کو مفت میں حاصل رہتا ہے۔ اس کے علاوہ انسان کے وجود سے باہر کی پوری دنیا ، انسان کے لیے لائف سپورٹ سسٹم کا کام کرتی ہے۔
انسان کے جسم میں تقریباً اسّی آرگن ہوتے ہیں، یہ تمام آرگن انتہائی مربوط انداز میں کام کرتے ہیں۔ اس طرح انسان اس قابل بنتا ہے کہ وہ اپنے تمام کام انجام دے سکے۔ مزید یہ کہ یہ تمام آرگن خود کار مشین کی طرح کام کرتے ہیں۔ انسان کے ارادے کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ اس طرح کی بے شمار چیزیں ہیں، جو انسان کے جسم میں ہر وقت متحرک رہتی ہیں۔ تب انسان اس قابل بنتا ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال انجام دے سکے۔ انسان اگر اپنے وجود کے اس فطری انتظام کو لے کر سوچے تو وہ شکر کے سمندر میں غرق ہوجائے، ناشکری کا کلمہ کبھی اس کی زبان سے نہ نکلے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کے لیے سبق

قرآن میں ایک بات ان الفاظ میں آئی ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ ، وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ (75:14-15)۔ یعنی بلکہ انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے ، چاہے وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اس انداز میں ہوئی ہے کہ اگر وہ عذر (excuse) کا شکار نہ ہو، تو وہ خود اپنی تخلیق پرغور کرکے بڑی بڑی باتیں سیکھ سکتا ہے۔ اس کی زندگی خود ایک لائبریری ہے۔ اپنے مطالعہ سے خود وہ اپنے لیے بڑے بڑے سبق دریافت کرسکتا ہے۔
مثلاً انسان جب اس کائنات کو دیکھتاہے ، تو اس کو یہ نظرآتا ہے کہ پوری کائنات نہایت منصوبہ بند انداز میں چل رہی ہے۔مثلاً سورج ہمیشہ ٹھیک اپنےوقت پر نکلتا ہے، اور ٹھیک متعین وقت پر غروب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پوری کائنات زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر چل رہی ہے۔ اس کے برعکس، انسان کے انتظام میں ہمیشہ نقائص موجود رہتے ہیں۔ انسان اگر اس معاملے کا مطالعہ تقابلی انداز میں کرے، تو وہ خود اپنے مطالعہ کے ذریعے خدائے برتر کے وجود کو دریافت کرلے گا۔ یہ دریافت اس کو یہ کہنے پر مجبور کردے گی:أَفِی اللَّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (14:10) ۔ یعنی کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کو وجود میں لانے والا ہے۔
اگر آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ قرآن و حدیث کی باتوں کو اپنے الفاظ میں ڈھال سکے، تو اس کی دریافت اس کے لیے ری ڈسکوری (rediscovery) بن جاتی ہے۔ وہ مذکور باتوں کو زیادہ موثر انداز میں دریافت کرنے لگتا ہے۔ مثلاً قرآن میں آیاہے:وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ (14:34)یعنی اس نے تم کو ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے مانگا ۔ اگر آپ کے پاس اپنے مطالعے کے مطابق، یہ لفظ موجود ہو کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پاتا ہے، جو ہیومن فرینڈلی دنیا ہے۔ اس کا احساسِ شکر بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

سیکولر معرفت، ربانی معرفت

امریکا کے مشہور مشنری بلی گراہم (1918-2018) نے لکھا ہےکہ ایک بار امریکا کے ایک مشہور سیاست داں نے اس کو لکھا کہ وہ فوری طور پر اس سے ملے ۔ جب بلی گراہم اس سے ملا، تو دونوں ایک کمرے میں اکٹھا ہوئے۔ اس وقت سیاست داں نے بلی گراہم سے کہا:
You see, I am an old man. Life has lost all meaning. I am ready to take a fateful leap into the unknown. Young man, can you give me a ray of hope. (The Secret of Happiness, by Billy Graham, p. 2)
یہ موت کے بارے میں ایک ایسا قول ہے، جس کو موت کی سیکولر معرفت کہا جاسکتا ہے۔ دوسرا واقعہ جو موت کی ربانی معرفت کا واقعہ ہے، وہ ایک حدیث سے اس طرح معلوم ہوتا ہے: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَہُوَ فِی المَوْتِ، فَقَالَ:کَیْفَ تَجِدُکَ؟ ، قَالَ: وَاللَّہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنِّی أَرْجُو اللَّہَ، وَإِنِّی أَخَافُ ذُنُوبِی، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَا یَجْتَمِعَانِ فِی قَلْبِ عَبْدٍ فِی مِثْلِ ہَذَا المَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاہُ اللَّہُ مَا یَرْجُو وَآمَنَہُ مِمَّا یَخَافُ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 983)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس گئے، جب کہ وہ مرض الموت میں تھا۔ آپ نے پوچھا: تم اپنے کو کیسا پاتے ہو۔ اس نے کہا: خدا کی قسم، اےاللہ کے رسول ، میں اللہ سے امید رکھتا ہوں، اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں، آپ نے کہا: کسی بھی بندے کے دل میں اس قسم کے موقع پر یہ دونوں باتیں جمع ہوں ، تو اللہ ضرور اس کو وہ عطا کرے گا، جس کی وہ امید کرتا ہے، اور اس کو امن دے گا، جس سے وہ خوف کھاتا ہے۔
موت ہر انسان کے لیے ایک معلوم واقعہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ سیکولر انسان موت کو زندگی کے خاتمے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کے برعکس، ربانی انسان موت پر اس یقینی لمحے کے طور پر دیکھتا ہے، جب کہ بندے کی ملاقات اس کے رب سے ہوگی۔ یہ لمحہ اس کے لیے بیک وقت دو کیفیات کا لمحہ ہوتا ہے— ایک طرف اللہ کی رحمت، اور دوسری طرف اللہ کا خوف۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کے حوالےکرنا

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ(3:146)۔ یعنی اور کتنے نبی ہیں جن کے ساتھ ہو کر بہت سے اللہ والوں نے قتال کیا۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں، ان سے نہ وہ پست ہمت ہوئے، نہ انھوں نے کمزوری دکھائی، اور نہ وہ دبے۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں قتال کا لفظ جنگ کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ شدید جدو جہد کے معنی میں ہے۔ یہ اسلوب وہی ہے، جس کے لیے انگریزی میں جنگی سطح (war footing) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، یعنی کسی کام کو پوری طاقت کے ساتھ انجام دینا۔
اسی طرح آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں :وہ نہ پست ہمت ہوئے، نہ انھوں نے کمزوری دکھائی، اور نہ وہ دبے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بہت طاقت ور لوگ تھے، اور انھوں نے نہایت طاقت کے ساتھ اس کام کو انجام دیا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشن کے راستے میں جب کوئی مشکل پیش آئی تو وہ اس کے لیے فکر مند ہوکر رکے نہیں، بلکہ مشکل کو رب العالمین کے حوالے کرکے اعتماد علی اللہ کی اسپرٹ کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔
اعتماد علی اللہ کی اسپرٹ کا مطلب ہے کہ ایسے موقعے پر یہ یاد کرنا کہ تمام وسائل اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ یعنی یہ اسپرٹ کہ اللہ مجھ کو تنہا نہیں چھوڑے گا، بلکہ ایسے حالات پیدا کرےگا، جب کہ میں اللہ کے کام کواللہ کی مدد سے کامیابی کے ساتھ انجام دے سکوں۔ مومن کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ دنیا کے نظام کو اللہ کے فرشتے انجام دے رہے ہیں۔ یہ فرشتے اللہ کے حکم سے مومن کی مدد کوآجائیں گے، اور فرشتوں کی مدد سے مطلوب کام کو انجام دینا ممکن ہوجائے گا۔ یہی مطلب ہے قرآن کی اس آیت یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ (47:7)کا۔
واپس اوپر جائیں

حجت کا قانون

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دنیا کو پیدا کرنے کے بعد یہاں انسان کو آباد کیا، اور پیغمبر اور داعیوں کے ذریعے یہ انتظام فرمایا کہ انسانوں کے پاس مسلسل طور پر ایسے افراد آئیں، جو انسان کو بتائیں کہ خالق کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ یہ انتظام اس لیے کیا گیا ہے، تاکہ انسان کو پیشگی طور پر پوری بات معلوم ہوجائے، اور وہ اس کے مطابق زندگی گزار کر جنت کے انعام کا اپنے آپ کو مستحق بنائے۔ اسی بات کو مزید تاکید کی زبان میں بتاتے ہوئے یہ کہا گیا: رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (4:165)۔ یعنی اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت (excuse)باقی نہ رہے۔
یہ کوئی فقہی نوعیت کا حکم نہیں ہے، یعنی کوئی ایسا حکم جس کا لوگوں میں صرف اعلان کر دینا کافی ہے۔ مثلاً یہ کہ اے لوگو، تم لوگ ہر سال ایک مہینے کا روزہ رکھو۔ بلکہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اجتہادی حکم ہے، یعنی ہمیشہ حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ حکم کا تطبیقی مفہوم (applied meaning)دریافت کرتے رہنا ہے۔ ہمیشہ حالات کی رعایت کرتے ہوئے حکم کو اس طرح بتاتے رہنا ہے کہ لوگوں کو حکم اپنے زمانے کے لحاظ سے قابلِ اتباع معلوم ہو۔ حکم کی وضاحت اس طرح کرنا ہے کہ ہر زمانے کے انسان کا ذہن برابر ایڈریس ہوتا رہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آیت کسی جامد مفہوم میں نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک انفرادی حکم میں ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ بتانے والا ہمیشہ اس کو اس طرح بتائے کہ زمانے کے لوگوں کا ذہن اس سے ایڈریس ہوتا رہے۔ اس حکم میں حجت شامل ہے، یعنی بتانے والا حکم کو اس طرح بتائے کہ جس سے سننے والے کا ذہن مطمئن ہو۔ وہ یقین کی اسپرٹ کے ساتھ اس پر برابر کاربند ہوتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

لو پروفائل میں کام کرنا

قرآن کی ایک آیت میں پیغمبر یعقوب کی اپنے بیٹوں کو نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے: یَا بَنِیَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ (12:67)۔ یعنی اے میرے بیٹو، تم سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا۔
قرآن کی اس آیت میں تدبیر ِ کار کا ایک طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ وہ طریقہ فقہ کی اصطلاح میں غیرجہری طریقہ ہے۔ یعنی اپنا مشن اس انداز میں چلانا کہ فریقِ ثانی اس کو اپنے لیے خطرہ نہ سمجھے۔ وہ آخر وقت تک کام کرنے والوں کو کام کرنے کا موقع دے۔ اس طریقِ کار کو اگر جدید اسلوب میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا —— لوپروفائل (low profile) میں کام کرنا۔ یعنی کام کو ایسے انداز میں کرنا جس سے فریق ثانی اس کو اپنے لیے چیلنج نہ سمجھے، اور اس طرح کام کرنے والوں کو آخر وقت تک کام کرنے کا موقع ملتا رہے۔ اس کے مقابلے میں جو طریقہ ہے، اس کو ہائی پروفائل کا طریقہ کہاجاتا ہے۔ ہائی پروفائل میں فریق ثانی فوراً ہی چوکنا ہوجاتا ہے، اور جوابی کارروائی شروع کردیتا ہے۔ جب کہ لوپروفائل میں فریق ثانی کام کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتا۔ اس بنا پر اس کونظر انداز کرتا رہتا ہے۔
اس طریقِ کار کے لیے حدیثِ رسول میں ایک حوالہ موجود ہے۔ پیغمبر اسلام نے جب مکہ کی فتح کا ارادہ کیا تو آپ نے اس معاملے میں بہت زیادہ لوپروفائل سے کام لیا۔ سیرت ابنِ ہشام میں اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:وأمر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بالجہاز، وأمر أہلہ أن یجہزوہ،فدخل أبو بکر على ابنتہ عائشة رضی اللہ عنہا، وہی تحرک بعض جہاز رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فقال:أی بنیة:أأمرکم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أن تجہزوہ؟ قالت:نعم، فتجہز، قال:فأین ترینہ یرید؟ قالت:(لا) واللہ ما أدری. ثم إن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أعلم الناس أنہ سائر إلى مکة، وأمرہم بالجد والتہیؤ، وقال: اللہم خذ العیون والأخبار عن قریش حتى نبغتہا فی بلادہا(سیرت ابن ہشام، 2/397)۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے تیاری کا حکم دیا۔ اور اپنی اہلیہ کو کہا کہ وہ اس کے سفر کی تیاری کا کام کرے۔ جب ابو بکر اپنی بیٹی عائشہ کے پاس آئے ، اس وقت وہ رسول اللہ کے سفر کی کچھ تیاری کا کام کر رہی تھیں، تو پوچھا: بیٹی رسول اللہ نےکسی سفر کی تیاری کا حکم دیا ہے۔ عائشہ نے کہا: ہاں، سامان سفر کی تیار کرنے کا ۔ ابوبکر نے پوچھا، تمھارے خیال سے کہاں کا ارادہ ہے۔ عائشہ نے کہا، اللہ کی قسم مجھےنہیں معلوم۔ پھر رسول اللہ نے لوگوں کو خبر دیا کہ وہ مکہ کی طرف کوچ کرنے والے ہیں، اور ان کو تیاری کا حکم دیا۔ اس وقت یہ دعا کی: اللہ ، تو قریش کی آنکھوں اور خبروں کو روک دے۔ یہاں تک کہ تو ہم کو ان کےشہر میں پہنچا دے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کام کا ایک طریقہ شور و غل کے ساتھ کام کرنا ہے، اور دوسراطریقہ ہے حکیمانہ طریقہ۔ شور و غل کے ساتھ کام کرنا نبی کا طریقہ نہیں۔ نبی کا طریقہ وہ ہے، جس میں خاموش تدبیر کا انداز اختیار کیا گیا ہو۔ کامیابی ہمیشہ خاموش تدبیر والے کام میں ہوتی ہے، نہ کہ شور و غل والے طریقے میں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر بیک وقت دو آزادانہ نظام قائم ہیں— انا (ego)، اور دوسرا ضمیر (conscience)۔ یہ دونوں نظام ایک دوسرے سے آزاد ہیں۔ انسان کے اندر انا (ایگو) کا نظام پوری طرح آزاد ہے، اور آزادی کے تحت وہ خود جیسا چاہے ، اس کے مطابق، فیصلہ لے سکتا ہے،یعنی صحیح بھی اور غلط بھی۔ لیکن ضمیر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اس کے کنٹرول کا نظام بالکل الگ ہے۔ ضمیر اگرچہ انسان کی شخصیت کا ایک حصہ ہے، اوراپنے عمل میں وہ پوری طرح آزاد ہے۔ انسان اگر اپنی زندگی میں صحیح راستہ اختیار کرے، تو ضمیر خاموش زبان میں اس کی تصدیق کرتا ہے، اور اگر انسان غلط راستے پر چل پڑے تو ضمیر فوراً اس کو وارننگ دیتا ہے کہ تم غلط راستے پر چل پڑے ہو، اور غلط راستے پر چلنے کا انجام اس سے مختلف ہوگا، جو صحیح راستے پر چلنے کا ہوتا ہے۔ ضمیر کا نظام گویا ایک غیبی آواز ہے، جو بر وقت انسان کی رہنمائی کے لیے متحرک ہوجاتاہے۔
واپس اوپر جائیں

فارم ، اسپرٹ

عباسی دور میں فقہ کی تدوین ہوئی۔صحابہ کے دوراور تابعین کے دور میں عام طور پر مبنی بر اسپرٹ دین کا تصور پایا جاتا تھا، لیکن فقہاء کے دورمیں بعض اسباب سے مبنی بر فارم دین کا تصور عام ہوگیا۔ یہاں تک کہ اس بارے میں لوگ غلو (انتہا پسندی) کی حد تک پہنچ گئے۔ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں دین میں اصل اہمیت اسپرٹ کی ہوتی تھی۔ اس بنا پر اس زمانے میں جزئی نوعیت کے طریق عبادت میں تنوع کا تصور پایا جاتا تھا۔ یہ تصور اس حدیث پر مبنی تھا:أَصْحَابِی کَالنُّجُومِ فَبِأَیِّہِمُ اقْتَدَیْتُمُ اہْتَدَیْتُمْ(جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث نمبر 1684) ۔ یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں،تم ان میں سے جن کی بھی اقتدا کرو گے، ہدایت پر رہوگے۔
لیکن بعد کے زمانے میں جب کہ طریقِ عبادت میں تعدد کا ذہن ختم ہوگیا، اور فارم میں توحد پر زور دیا جانے لگاتو اس قسم کا ذہن ختم ہوگیا۔ مگر یہ طریقہ بلاشبہ درست طریقہ نہیں۔ کیوں کہ اس روایت کے علاوہ بھی ایسی صحیح روایتیں ہیں، جس میں تعدد کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً رسول اللہ کے زمانے میں ایک صحابی کا بلند آواز سے کہنا :رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْدُ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 799) ۔روایت کے مطابق، یہ کلمہ سن کر آپ نے اس کی تحسین کی، جب کہ رسول اللہ نے اس کی تعلیم نہیں دی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادت کے جزئی طریقوں میں اسپرٹ اصل ہے۔ اس معاملے میں اگر اسپرٹ کو اصل مانا جائے تو اپنے آپ فرقہ بندی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر عبادت کے جزئی طریقوں میں فارم پر زور دیا جانے لگے تو فرقہ بندی کا دروازہ کھل جاتا ہے، جو کبھی بند نہیں ہوتا۔ عہدِ رسالت میں عبادت کا صرف ایک تصور پایا جاتا تھا، وہ ہے مبنی بر اسپرٹ عبادت۔ مبنی بر فارم عبادت کا تصور بعد کے زمانے میں پیدا ہوا، اور پھر تاریخ میں عام ہوگیا۔ تاہم مبنی بر اسپرٹ عبادت ہی اصل عبادت ہے۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر ِ اسلام — استثنائی شخصیت

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 570ء میں مکہ میں ہوئی۔ 610ء میں آپ کو نبوت ملی۔ 632ء میں مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ آپ پوری تاریخ میں ایک استثنائی شخصیت تھے۔ آپ کا استثنائی شخصیت ہونا اپنے آپ میں اِس بات کا ایک ثبوت ہے کہ آپ اللہ تعالی کے نمائندہ تھے۔ آپ کو اللہ تعالی کی خصوصی نصرت حاصل تھی۔ خداوندِ کائنات کی خصوصی نصرت کے بغیر کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ پوری تاریخ میں ایک استثنائی شخصیت بن جائے۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس استثنائی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں۔ اِس موضوع کی تفصیل کے لیے ایک مکمل کتاب درکار ہے۔ یہاں آپ کی استثنائی شخصیت کے چند پہلو مختصر طورپر درج کیے جاتے ہیں:
اظہارِ دین
قرآن کی سورہ الفتح میں پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (48:28)۔یعنی یہ اللہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ اُس کو تمام دین پر غالب کردے۔ اور اللہ گواہی کے لیے کافی ہے۔قرآن کے اِس بیان میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دینِ خداوندی کے اعلان کے لیے بہت سے لوگ اٹھے، لیکن اُن کا کام اعلان کے درجے تک محدود رہا، وہ انقلاب کے درجے تک نہیں پہنچا۔ پیغمبرِ اسلام کا مشن اللہ کی خصوصی نصرت سے نظریاتی انفجار (ideological explosion) تک پہنچ گیا۔ آپ کے ذریعے افکار کی دنیا میں ایک ایسا انقلاب آیا کہ آپ کو تاریخ ساز پیغمبر (epoch-making prophet) کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس انقلابی صفت کا اعتراف مختلف مورخین نے کھلے طورپر کیا ہے۔ فرانس کا مورخ ہنری پرین (Henri Pirenne) 1862 میں پیدا ہوا، اور 1935 میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے اسلام اور پیغمبر ِاسلام کے موضوع پر کئی کتابیں شائع کی ہیں۔ اُس نے لکھا ہے کہ — اسلام نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ اس کے بعد روایتی دورِ تاریخ کا خاتمہ ہوگیا:
It (Islam) had sufficed to change the face of the globe. Wherever it had passed the ancient States, which were deeply rooted in the centuries, were overturned as by a cyclone; the traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne: A History of Europe, London, 1939, p. 46).
کارِ نبوت کا تسلسل
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو انقلاب آیا، اُس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ پیغمبر کے بغیر کارِ نبوت کا تسلسل جاری رہے۔ پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں ایسا ہوتا تھاکہ پیغمبر پر نازل ہونے والی وحی پیغمبر کے بعد محفوظ نہیں رہتی تھی، اِس لیے بار بار خدا کی طرف سے پیغمبر بھیجے جاتے رہے۔ لیکن پیغمبر اسلام کے ذریعے یہ ہوا کہ آپ کے اوپر نازل ہونے والی وحی (قرآن) پوری طرح محفوظ ہوگئی۔ آپ کی زندگی بھی تاریخی طورپر مدوّن ہوگئی۔ اِس لیے آپ کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی شخص جو گہرے طورپر پیغمبر کے مشن سے اپنے آپ کو وابستہ کرے، وہ اپنے زمانے میں پیغمبر کا نمائندہ بن جائے۔
یہی بات حدیثِ رسول میں اِس طرح بتائی گئی ہے: إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِیَاءِ (سنن الترمذی، حدیث نمبر2682)۔یعنی علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: عُلَمَاءُ أُمَّتِی کَأَنْبِیَاءِ بَنِی إِسْرَائِیلَ(المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر 702) ۔یعنی میری امت کے علماءبنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہیں۔
پیغمبرِ اسلام صلی للہ علیہ وسلم کے ذریعے دینِ خداوندی کے تمام اجزا محفوظ ہوگئے، جو دین پہلے زندہ شخصیتوں کی سطح پر ہوتا تھا، وہ اب مستند کتابوں کی شکل میں محفوظ ہوگیا، اِس طرح امت کی بعد کی نسلوں میں اٹھنے والے افراد کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ کارِ نبوت کا تسلسل دوبارہ زندہ حالت میں جاری کرسکیں:
Without being a prophet, one can play the prophetic role.
خالق کا تخلیقی پلان
یہ ہر انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ جانے کہ پیدا کرنےوالے نے اُس کو کس لیے پیدا کیا ہے۔ اُس کا مقصدِ تخلیق کیا ہے۔ اس کے لیے کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا۔ ہر عورت اور مرد اِس سوال سے لازمی طور پر دوچار ہوتے ہیں، خواہ شعوری طورپر یا غیر شعوری طورپر۔
اِس سوال کا معتبر جواب صرف خالق دے سکتا ہے۔ یہ صرف خالق ہے جو یہ بتا سکتا ہے کہ انسان اور کائنات کو پیدا کرنے سے اُس کا منصوبۂ تخلیق(creation plan) کیا ہے۔ قرآن اور پیغمبرقرآن کے ذریعے خدا نے اِس سوال کا معتبر جواب فراہم کیا ہے۔اب ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ خدا کے تخلیقی پلان کو جانے:
It became possible for everyone to know the creation plan of God.
پہلے زمانے میں حنفاء ہوا کرتے تھے، یعنی متلاشیٔ حق۔پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی شخص اپنی تلاشِ حق کو دریافت ِحق بناسکے:
Truth-seekers no longer need to live in bewilderment.
نشانیوں کا ظہور
قرآن کی سورہ حم السجدہ میں بعد کی تاریخ کے لیے ایک پیشین گوئی اِن الفاظ میں آئی ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقّ( 41:53)۔ یعنی مستقبل میں ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، کائنات میں بھی اور انسان کے اندر بھی، یہاں تک کہ اُن پر پوری طرح یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔
قدیم زمانے میں جو انبیا آئے، انھوںنے خرقِ عادت معجزے دکھائے۔ یہ معجزے اُن کے معاصرین کے لیے اُن کے پیغمبر ہونے کی دلیل تھے۔ حسّی معجزہ معاصرین کے لیے دلیل ہوتا ہے، بعد کے لوگوں کے لیے وہ دلیل نہیں ہوتا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری پیغمبر تھے، یعنی قیامت تک کے لیے پیغمبر۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے پیغام کی پیغام رسانی اہلِ عالم کے لیے جاری رہے گی۔
یہ کام اِس طرح انجام پایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب کے ذریعے تاریخ میں ایک ایسا عمل جاری ہوا جس کے نتیجے میں فطرت کے قوانین دریافت ہوئے۔ یہ قوانین ِ فطرت معجزہ کا بدل بن گئے۔ اِن قوانین کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا کہ بعد کے زمانے میں سائنسی دلائل کی طاقت سے وہ دعوتی کام انجام دیا جاسکے جو پہلے معجزہ کی طاقت سے انجام دیا جاتا تھا، گویا کہ پیغمبر اسلام سے پہلے دعوت بذریعہ معجزہ (dawah through miracle)کا زمانہ تھا۔ اور اب دعوت بذریعہ علمی دلائل (dawah through scientific argument) کا زمانہ ہے۔
قرآن کی سورہ الاسراء میں پیغمبر اسلام کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ: عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(17:79) یعنی قریب ہے کہ تمھارا رب تم کومقامِ محمود پر کھڑا کرے۔ اِس آیت میں مقامِ محمود کسی پُراسرار واقعے کا نام نہیں ہے۔ اُس سے مراد ایک معلوم واقعہ ہے جو تاریخ میں مسلّمہ طورپر پیش آیا۔ پیغمبر اسلام سے پہلے جو پیغمبر آئے، وہ مستند تاریخ میں ریکارڈ نہ ہوسکے۔ پیغمبروں کی فہرست میں پیغمبر اسلام پہلے پیغمبر ہیں جو مستند تاریخ میں درج کیے گئے۔ ایک مغربی مؤرخ نے اِس کا اقرار اِن الفاظ میں کیا ہے — محمد تاریخ کی کامل روشنی میں پیدا ہوئے:
Muhammad was born within the full light of history.
حقیقت یہ ہے کہ نبیٔ محمود سے مرادنبیٔ معتَرَف(acknowledged Prophet) ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی میں آپ کو اتنا کم سمجھا گیا کہ مکہ کے مخالفین آپ کو مذمّم (condemned person) کہنے لگے۔ لیکن آخر کار تاریخ آپ کے موافق ہوگئی۔ عام طور پر مؤرخین اور مبصرین آپ کی عظمت کا اعتراف کرنے لگے۔اِن میں سے ایک مثال امریکا کے ڈاکٹر مائکل ہارٹ(Michael H. Hart) کی ہے۔ انھوں نے تمام دنیا کی مشہور شخصیتوں کا مطالعہ کرکے ایک ضخیم کتاب تیار کی۔ اُس کا عنوان ایک سو (The Hundred) ہے۔ اِس کتاب میں پوری انسانی تاریخ کی ایک سو بڑی شخصیتوں کا تذکرہ ہے۔ مصنف نے اِس کتاب میں پیغمبر اسلام کو اِس فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ انھوںنے لکھا ہے — محمد تاریخ کے پہلے شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے، مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی:
He [Mohammad] was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels (Michael H, Hart: The 100, Carol, 1993, p. 3).
اخوانِ رسول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قول میں یہ پیشین گوئی کی کہ بعد کے زمانے میں آپ کی امت میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اخوانِ رسول قرار پائیں گے(صحیح مسلم، حدیث نمبر 249)۔یہ وہ لوگ ہوں گےجنھوں نے پیغمبر اسلام کو دیکھا نہیں ہوگا، مگر اصحابِ رسول کی طرح انھوں نےمعرفتِ دین حاصل کیا:
Ikhwan-e-Rasool are those who share Sahaba-like experiences due to their deep realization.
پچھلے پیغمبروں کے یہاں صرف اصحاب (Companions) ہوا کرتے تھے۔ یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی استثنائی صفت ہے کہ آپ کی امت میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اخوان (brothers) کا درجہ پائیں گے۔ ایسا صرف اِس لیے ممکن ہوگا کہ پیغمبر اسلام کے بعد خدا کا دین نظریہ اور عمل دونوں اعتبار سے پوری طرح محفوظ ہوگیا۔
خاتم النبیین
قرآن کی سورہ الاحزاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ (33:40)۔یعنی محمد، اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے متعدد پہلو ہیں۔ اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ نبوت اب شخصی عمل کے طور پر باقی نہ رہی، البتہ کارِ نبوت اب دعوتی عمل کے طورپر مسلسل جاری ہے۔ یہ پیغمبر اسلام کی ایک استثنائی صفت ہے۔ دوسرے پیغمبروں کے معاملے میں یہ ہوا کہ پیغمبر کا نام لینے والوں کا ایک گروہ تو ضرور باقی رہا، لیکن پیغمبر کی حقیقی دعوت کسی تبدیلی کے بغیر اپنی اصل صورت میں جاری رہنے کا امکان ختم ہوگیا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد یہ ہوا کہ ایک نیا دورِ دعوت وجود میں آیا، وہ تھا — براہِ راست پیغمبر کی ذات کے ذریعے دعوت کے دورکا خاتمہ، اور پیغمبر کے ماننے والوں کے ذریعے دعوت کے دور کا آغاز:
End of Dawah through the Prophet, beginning of Dawah through the followers of the Prophet, continuation of prophetic role through the followers of the Prophet.
فتحِ مبین
قرآن کی سورہ نمبر 48 معاہدۂ حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔ معاہدۂ حدیبیہ امن کا معاہدہ تھا۔ معاہدہ حدیبیہ کیا تھا۔ معاہدہ حدیبیہ کا مقصد تھا — جنگ کے حالات کو ختم کرکے امن کے حالات پیدا کرنا۔ اِس معاہدے کے بعد پیغمبر اسلام اور آپ کے مخالفین کے درمیان مکمل طورپر جنگ بندی ہوگئی اور طرفین کے درمیان امن کی حالت قائم ہوگئی۔ اِس کے بعد معتدل حالات میں دعوتی کام کرنا ممکن ہوگیا۔امن کا یہ معاہدہ پوری تاریخ کا ایک انوکھا معاہدہ تھا۔ یہ فریقِ ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان کر انجام پایا تھا۔ بظاہر وہ پسپائی کا ایک معاہدہ تھا، لیکن معاہدے کی تکمیل کے بعد قرآن میں یہ آیت اتری:اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ۔ لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَ نْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِیْمًا۔ وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَــصْرًا عَزِیْزًا (48:1-3)۔یعنی بے شک ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دے دی، تاکہ اللہ تمہاری اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کردے، اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کردے، اور تم کو سیدھا راستہ دکھائے، اور تم کو زبردست مدد عطا کرے۔
تاریخ کے مطابق، معاہدۂ حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی سیاسی فتح حاصل نہیں ہوئی۔ یہ معاہدہ بظاہر فریقِ ثانی کے مقابلے میں شکست کا واقعہ تھا، نہ کہ فتح کا واقعہ۔ اِس کے باوجود قرآن میں کیوں اُس کو فتح ِ مبین کہاگیا ۔ ایسا اِس لیے ہوا کہ معاہدہ حدیبیہ کے بعد دعوت کے تمام مواقع کھل گئے۔ یہ مواقع اتنے غیر معمولی تھے کہ معاہدے کے بعد صرف دو سال کے اندر پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کی تعداد پانچ گنا زیادہ ہوگئی۔ اور جنگ کے بغیر صرف زیادہ تعداد فیصلے کے لیے کافی ہوگئی۔
حدیبیہ دراصل ایک عظیم پالیسی کا نام ہے۔ یہ پالیسی تاریخ میں پہلی بار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو بتائی، یعنی حالتِ موجودہ کو مان کر ٹکراؤ ختم کردو، تاکہ مواقع (opportunities) کو استعمال کرنا ممکن ہوسکے:
Hudaybiyah means the policy of positive status quoism. And positive status quoism is the key to super achievement.
صلح بہتر ہے
قرآن کی سورہ النساء میں یہ آیت آئی ہے: الصُّلْحُ خَیْرٌ(4:128) یعنی صلح بہتر ہے۔ گویاامن کا طریقہ سب سے زیادہ کار گر طریقہ ہے:
Peace is the most successful policy.
فلاسفہ اور مفکرین ہمیشہ امن کی بات کرتے رہے ہیں۔ امن کے مطالعے کے لیے ایک مستقل شعبۂ علم وضع ہوا ہے جس کو پیسفزم (pacifism) کہا جاتاہے۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک مکمل نظریۂ امن (ideology of peace) دنیا کو دیا۔ اِس اعتبار سے آپ کو پیغمبر امن (prophet of peace) کہا جاسکتاہے۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر ِ انقلاب

قرآن میں پچیس پیغمبروں کا ذِکر ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی (مسند احمد، حدیث نمبر 22288)۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک ہر زمانے میں جاری رہا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میںپیغمبر اسلام، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔ قرآن کے مطابق، آپ خدا کے رسول بھی تھے اور نبیوں کے خاتم بھی۔
پیغمبروں کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تمام پیغمبر مشترک طورپر توحید کا پیغام لے کر آئے ، لیکن پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں یہ پیغام زیادہ تر فکری مرحلے میں رہا، وہ عملی انقلاب کے درجے تک نہیں پہنچا۔ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ آپ کو اپنے اصحاب کی صورت میں ایک مضبوط ٹیم مل گئی۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ توحید کی دعوت کو فکری مرحلے سے آگے بڑھا کر عملی انقلاب کے درجے تک پہنچا دیا جائے۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے زمانے میں یہ انقلاب عملی طورپر پیش آیا اور پھر وہ تاریخِ بشری کا ایک معلوم اور مسلّم حصہ بن گیا۔
پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اتنی زیادہ واضح ہے کہ وہ صرف آپ کے پیروؤں کے لیے ایک ’’روایتی عقیدہ‘‘ کی حیثیت نہیں رکھتی، بلکہ وہ ایک مسلمّہ تاریخی واقعہ ہے۔ پیغمبر آخرالزماں سے پہلے جو انبیا آئے، اُن کی زندگی مدوّن تاریخ کا جُز نہ بن سکی، مگر پیغمبر اسلام کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ آپ کی حیثیت ایک مسلّم تاریخی پیغمبر کی ہے، آپ کی نبوت پورے معنوں میں ایک ثابت شدہ نبوت ہے۔انسانی زندگی کے جس پہلو کو بھی دیکھا جائے، اُس میں پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ابدی تعلیم کے اثرات نمایاں طورپر دکھائی دیں گے۔ وہ تمام بہترین روایات اور وہ تمام اعلیٰ قدریں جن کو آج اہمیت دی جاتی ہے، وہ سب پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے عظیم انقلاب کے براہِ راست نتائج ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ تاریخ کے سب سے بڑے انسان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانِ کامل بنا کر انسانی نسل پر اپنا سب سے بڑا احسان فرمایا ہے۔ خدا نے پیغمبرآخرالزماں کی شکل میں تاریخ میں ایک ایسا بلند ترین مینارکھڑا کردیا ہے کہ آدمی جس طرف بھی نظر اُٹھائے، وہ آپ کو دیکھ لے۔ جب وہ اپنے رہ نُما کی تلاش میں نکلے تو اُس کی نظر سب سے پہلے آپ پر پڑے۔ جب وہ حق کا راستہ جاننا چاہے تو آپ کا روشن اور بلند و بالا وجود اُس کو سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرلے۔ آپ ساری انسانیت کے لیے ہادیٔ اعظم اور رہبرِ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِسی لیے خدا نے آپ کو نبیوں کے خاتم (الاحزاب،33:40) کی حیثیت سے مبعوث فرمایا۔ دوسرے انبیا صرف اللہ کے رسول تھے، اور آپ اللہ کے رسول ہونے کے ساتھ خاتم النبیین بھی۔
میری کتاب ’پیغمبرِ انقلاب‘ پہلی بار 1982 میں چھپی۔ اس وقت میں نے اِس کتاب میں پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو الفاظ لکھے تھے، وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی نشانِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔قرآن کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو محمودیت کے مقام پر کھڑا کیا ہے(17:79)۔ چناں چہ نہ صرف اہلِ اسلام بلکہ عام مصنفین اور مؤرخین نے آپ کی عظمت کو کھلے طورپر تسلیم کیا ہے۔
بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں مسلم قوموں اور مسیحی قوموں کے درمیان لڑائیاں پیش آئیں، جن کو صلیبی جنگ (Crusades) کہاجاتا ہے۔ اِن جنگوں میں مسیحی قوموں کو شکست ہوئی۔ اُس کے بعد مسیحی مصنفین نے اسلام کے خلاف ایک قلمی جنگ چھیڑ دی۔ کثرت سے ایسی کتابیں لکھی گئیں جن میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی تصویر کو بگاڑ کر پیش کیا گیا تھا۔ یہ سلسلہ لمبی مدت تک جاری رہا۔اِس سلسلے کو توڑنے والا پہلا قابلِ ذکر شخص اسکاٹ لینڈ کا ایک مصنف ٹامس کارلائل (وفات1881) ہے۔ اُس نے جرأت مندانہ طورپر اِس رجحان کو بدلا۔ اُس کی مشہور کتاب آن ہیرو، ہیروورشپ ہے:
On Heroes, Hero-Worship, and the Heroic in History (James Fraser, London, 1841)
اِس انگریزی کتاب میں اُس نے پیغمبر اسلام کی مثبت تصویر پیش کی۔ اُس نے پیغمبر اسلام کو ’’ہیرو‘‘ کا درجہ دیا۔ اس کتاب کا متعلق باب یہ ہے:
The Hero as a Prophet. Mahomet: Islam
اِس کے بعد کثرت سے مختلف زبانوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کتابیں شائع ہوئیں۔ اِن کتابوں کے اندر انسانی تاریخ میں آپ کے انقلابی رول کا کھلے طورپر اعتراف کیا گیا۔ مثلاً انڈیا کے ایک اسکالرایم این رائے (وفات1954) کی کتاب (Historical Role of Islam) 1939 میں پہلی بار دہلی سے چھپی۔ اِس میں انھوں نے لکھا کہ پیغمبرِ اسلام، تمام پیغمبروں میں سب سے بڑے پیغمبر تھے۔ انھوںنے سب سے بڑا تاریخی معجزہ دکھایا:
Every prophet establishes his pretentions by the performance of miracles. On that token, Muhammad must be recognised as by far the greatest of all prophets, before or after him. The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 4)
پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن میں یہ پیشین گوئی آئی ہے کہ آپ کو مقامِ محمود کا درجہ عطا کیا جائے گا(الاسراء،17:79)۔ مقامِ محمودیت کا ایک پہلو وہ ہے جو آخرت میں ظاہر ہوگا۔ دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق، موجودہ دنیا سے ہے۔ موجودہ دنیا کی نسبت سے مقامِ محمود یہ ہے کہ آپ کو تاریخی اعتبار سے ایک مسلّم نبوت (established prophethood) کا درجہ حاصل ہوگا۔
آپ سے پہلے جو انبیا آئے، وہ مدوّن تاریخ میں ریکارڈ نہ ہوسکے۔آپ کے سوا ہر ایک کی حیثیت، اعتقادی نبوت کی ہے نہ کہ تاریخی نبوت کی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ آپ کو خدا نے آخری پیغمبر بنایا ـتھا۔ آپ کے بعد کوئی دوسرا پیغمبر آنے والا نہ تھا۔ اِس لیے ضروری تھا کہ آپ کی لائی ہوئی کتاب اور آپ کی پیغمبرانہ زندگی کامل طورپر محفوظ ہوجائے، وہ تسلیم شدہ تاریخی ریکارڈ کی حیثیت حاصل کرلے۔ کیوں کہ قانونِ الٰہی کے مطابق، جب پیغمبر مستند تاریخی ریکارڈ کادرجہ حاصل کرلے تو اس کے بعداُس کی لائی ہوئی کتاب اور اُس کی تعلیمات کا یہی ریکارڈ پیغمبر کا قائم مقام بن جاتا ہے، اِس کے بعد کسی نئے پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
واپس اوپر جائیں

عقل کا مسئلہ

عقل (reason) کیا ہے۔ عقل خالق کا ایک قیمتی عطیہ ہے۔ حدیث قدسی ہے ، اللہ تعالی نے عقل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا — میں نے کوئی مخلوق نہیں پیدا کی— جو میرے نزدیک تم سے زیادہ افضل ہو(مَا خلقت خلقا...أکْرم عَلیّ مِنْک)نوادر الاصول،الحکیم الترمذی، جلد 2، صفحہ 353۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے تمام کمالات کا انحصار عقل پر اور عقل کے استعمال پر ہے۔ عقل کے بغیر کوئی بھی انسانی ترقی ممکن نہیں۔عقل نہ ہو تو انسان پتھر کے ایک اسٹیچو کی مانند ہوجائے گا۔ وہ نہ حق کو حق سمجھ سکے گا اور نہ باطل کو باطل۔عقل بذاتِ خود معیار (criterion) نہیں ہے۔ عقل، فہم وادراک کی صلاحیت (ability) ہے۔ عقل کی حیثیت آلہ یا فیکلٹی (faculty) کی ہے، عقل کی حیثیت مستقل بالذات جج کی نہیں۔ عقل، حقائق سے نتیجہ اخذ کرنے کی استعداد کا نام ہے:
Reason: The intellectual faculty by which conclusions are drawn from premises.
عقل اور وحی (revelation) کو ایک دوسرے کا حریف بتانا بلاشبہ ایک غلطی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وحی ایک مستقل ذریعۂ علم ہے، جب کہ عقل بذاتِ خود کوئی ذریعۂ علم نہیں۔ خود وحی کی صحت پر جب کوئی شخص یقین کرتاہے تو وہ بھی یہی کرتاہے کہ وہ اپنی خداداد عقل کو استعمال کرکے اُس پر غور کرتاہے اور پھر یقین کے درجے میں پہنچ کر وہ وحی کی صداقت کو دریافت کرتا ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ عقل، وحی کی مددگار ہے، نہ کہ وحی کی مدِّ مقابل۔
عقل، خالق کی دی ہوئی ایک فطری صلاحیت ہے، عقل کسی کی ذاتی ایجاد نہیں۔ اِس معاملے میں غلطی کا آغاز یہاں سے ہوا کہ دوسری تمام چیزوں کی طرح عقل کے معاملے میں بھی کچھ لوگوں نے عقل کا غلو آمیز تصور (extreme version) پیش کیا۔ انھوں نے انتہا پسندی کا طریقہ اختیار کرتےہوئے خود ساختہ طورپر یہ دعوی کیا کہ عقل بذاتِ خود حصولِ علم کا معیاری ذریعہ ہے۔ مذہبی طبقے نے اِس تصورِ عقل کو درست سمجھ لیا اور وہ غیر ضروری طورپر عقل یا عقلی غوروفکر کو مذہب کا مخالف سمجھنے لگے اور وہ اِس طرح کی غیرعلمی باتیں کرنے لگے —عقل کا دائرہ الگ ہے اور وحی کا دائرہ الگ۔ عقل کا دائرہ وہاں پر ختم ہوجاتاہے، جہاں سے وحی کا آغاز ہوتاہے، وغیرہ۔ اصل یہ ہے کہ عقل الگ ہے اور عقل پرستی الگ۔
قرآن میں ’عقل‘کا مادّہ (root word)تقریباً 50 بار استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں بار بار عقل کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہاگیا ہے کہ اپنی عقل کے ذریعے وحی کی صداقت کو دریافت کرو۔ مثال کے طور پر قرآن کی سورہ یوسف میں یہ آیت آئی ہے:إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ (2:12)۔ یعنی ہم نے اِس کتاب کو عربی قرآن بنا کر اتارا ہے، تاکہ تم سمجھو:
We have sent down the Quran in Arabic, so that you may understand (by applying reason).
اِسی طرح قرآن میں بتایاگیا ہے کہ تم اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے نبوت کی صداقت کو دریافت کرو(یونس، 10:16)، وغیرہ۔انسان کو فطری طور پر مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ مثلاً پاؤں کے اندر چلنے کی صلاحیت، ہاتھ کے اندر پکڑنے کی صلاحیت، آنکھ کے اندر دیکھنے کی صلاحیت۔ کان کے اندر سننے کی صلاحیت، وغیرہ۔ اُنھیں میں سے ایک صلاحیت عقل ہے، جس کے ذریعے انسان سوچنے اور تجزیہ کرنے کا کام لیتاہے۔ اِسی کے ساتھ انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے۔ انسان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا وہ اُس کا غلط استعمال کرے، اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ کان اور آنکھ کا صحیح استعمال بھی ہے اور اس کا غلط استعمال بھی۔
عقل انسان کو اِس لیے دی گئی ہے کہ وہ ڈاٹا (data) جمع کرے، اور پھر حاصل شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کرکے صحیح علم تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ تاہم عقل بذاتِ خود علم کا ذریعہ نہیں، اِس لیے عقل صحیح فیصلہ تک بھی پہنچ سکتی ہے اور غلط فیصلے تک بھی۔ جو لوگ عقل کو بذاتِ خود علم کا ذریعہ سمجھتے ہیں، وہ دراصل عقلی مدرسۂ فکر (school of thought) کے انتہا پسند (extremists) لوگ ہیں۔ ایسے انتہا پسند لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، حتی کہ خود مذہب اور عقیدے کے دائرے میں بھی۔
واپس اوپر جائیں

اسلام دورِ جدید میں

امیرشکیب ارسلان (1946-1869) کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے:لماذا تأخر المسلمون وتقدّم غیرہم (مسلمان کیوں پیچھے ہوگئے اور ان کے سوا دوسرے کیوں آگے ہوگئے) یہ کتاب 50 سال پہلے چھپی تھی ۔ اس کے بعد میں نے ایک عربی مجلہ رابطة العالم الاسلامی (اپریل 1985) میںایک مضمون پڑھا۔ اس مضمون کا عنوان دوبارہ حسب ذیل الفاظ میں قائم کیاگیا تھا:
لما ذا تأخرنا وتقدم غیرنا
اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان پچھلی نصف صدی سے ایک ہی سوال سے دوچار ہیں۔ اور وہ سوال یہ ہے کہ ہم جدید دور میں دوسری قوموں سے کیوں پیچھے ہوگئے۔ اور دوسری قومیں ہم سے آگے کیوں نکل گئیں۔ مزید عجیب بات یہ ہے کہ اسی نصف صدی کے اندر جاپان ایٹمی بربادی کے کھنڈر سے ابھرا اور ترقی کی انتہا پر پہونچ گیا۔ چنانچہ امریکہ میں ایک کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے جاپان نمبر ایک:
Japan as Number One: Lessons for America by Ezra Vogel
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا یہ انجام کسی موہوم سبب کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ معلوم خدائی قانون کی بنا پر ہے۔ اس دنیا کے لیے خدا کا قانون یہ ہے کہ جو گروہ اپنے آپ کو نفع بخش ثابت کرے اس کو دنیا میں ترقی اور استحکام نصیب ہو، اور جو گروہ نفع بخشی کی صلاحیت کھو دے اس کو ہمیشہ کے لیے پیچھے دھکیل دیا جائے۔ قدیم زمانہ کے مسلمان اہلِ عالَم کے لیےنفع بخش بنے ہوئے تھے اس لیے قدیم زمانہ میں انھیں عظمت حاصل ہوئی۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان بے نفع ہوگئے۔ اس لیے موجودہ زمانہ میں انھیں کوئی عظمت حاصل نہ ہوسکی۔عروج وزوال کا یہ اصول قرآن کی حسبِ ذیل آیت میں واضح طورپر موجود ہے:
أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَةٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ (13:17)۔ یعنی اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر نالے اپنی اپنی مقدار کے موافق بہہ نکلے۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو اٹھالیا اور اسی طرح کا جھاگ ان چیزوں میں بھی ابھر آتا ہے جن کو لوگ زیور یا اسباب بنانے کے لیے آگ میں پگھلاتے ہیں۔ اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔ پس جھاگ تو سوکھ کر جاتا رہتا ہے اور جو چیز انسانوں کو نفع پہنچانے والی ہے، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اللہ اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کے لیے اللہ تعالی کا قانون کیاہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ جو گروہ اپنے آپ کو نفع بخش ثابت کرے اس کو دنیا میں بقا اور استحکام ملے۔ اور جو گروہ اپنی نفع بخشی کھو دے وہ یہاں بے قیمت ہو کر رہ جائے۔
اس عالمی قانون کو ایک طرف کتابِ الٰہی میں لفظی طور پر بیان کیاگیا ہے۔ دوسری طرف مادی دنیا میں اس کا عملی مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ سورۂ رعد کی مذکورہ آیت میں اس نوعیت کی دو مثالیں دی گئی ہیں۔ ایک مثال بارش کی ہے۔ بارش ہوتی ہے اور اس سے نالے بھرتے ہیں تو جھاگ اوپر دکھائی دینے لگتا ہے۔ مگر جلد ہی ایسا ہوتا ہے کہ جھاگ تو ہوا میں اڑ جاتا ہے اور جو چیز اس میں نفع بخش ہے وہ باقی رہتی ہے، یعنی پانی۔
دوسری مثال دھات کی ہے۔ دھات کو جب آگ پر پگھلایا جاتا ہے، تو ابتداء ً اس کا میل کچیل اوپر دکھائی دینے لگتا ہے۔ مگر بہت جلد یہ وقتی منظر ختم ہوجاتا ہے اور جو اصل قیمتی دھات ہے وہ اپنی جگہ باقی رہ جاتی ہے۔
دورِ اول کی مثال
دورِ قدیم میں اسلام کو غیر معمولی عظمت ملی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک اسلام کو آباد دنیا کے قائد کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اسلام کو یہ عظیم حیثیت اتفاقاً نہیں ملی اور نہ مطالبات کے ذریعہ اس کو یہ حیثیت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ قدرت کا وہی ابدی قانون تھا جس کا اوپر ذکر ہوا، یعنی نفع بخشی اور فیض رسانی۔
دنیا کو اسلام سے جو کچھ ملا، اس کے بہت سے پہلو ہیں۔اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسلام نے دنیا کو توہمات (superstitions) کے دور سے نکالا اور اس کو پہلی بار سائنس کے دور میں داخل کیا۔
آج کی دنیا جس چیز کو اپنے لیے سب سے بڑی نعمت سمجھتی ہے وہ سائنس ہے۔ اور تمام محققین اور منصف مورخین نےتسلیم کیا ہے کہ یہ دراصل اسلام ہے جس نے سائنس کے دور کو پیدا کیا۔ یہاں ہم صرف ایک مغربی مصنف مسٹر بریفالٹ کا قول نقل کریں گے۔ وہ اس موضوع پر تفصیلی بحث کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ اگر چہ یورپی ترقی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس میں اسلامی تہذیب کی فعال اثر انگیزی دیکھی نہ جاسکتی ہو۔ مگر وہ سب سے زیادہ واضح اس قوت کی پیدائش میں ہے جو جدید دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یعنی طبیعی سائنس اور سائنسی اسپرٹ۔ ہماری سائنس پر عربوں کا قرض انقلابی نظریات کی دریافت کی حد تک نہیں ہے۔ سائنس اس سے کہیں زیادہ عرب تہذیب کی احسان مند ہے، وہ خود اپنےوجود کے لیے اس کی مرہون منت ہے:
For although there is not a single aspect of European growth in which the decisive influence of Islamic culture is not traceable, nowhere is it so clear and momentous as in the genesis of that power which constitutes the permanent distinctive force of the modern world, and the supreme source of its victory -natural science and the scientific spirit... The debt of our science to that of the Arabs does not consist in startling discoveries of revolutionary theories; science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence. (Briffault: Making of Humanity, London, 1919, pp. 190-91)
یہ ایک معلوم تاریخی حقیقت ہے کہ قدیم زمانہ میں تمام دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ تمام قومیں بے شمار دیوتاؤں کو پوجتی ہیں۔ ہندستانی روایات کے مطابق ان کی تعداد 33 کروڑ تک پہنچ گئی تھی۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) میں تعدد آلہہ کےعنوان کے تحت بتایا گیا ہے کہ مذاہب میں عمومی طورپر یہ بات پائی گئی ہے کہ فطرت کی طاقتوں اور فطرت کے مظاہر کو خدا مان لیا جاتا ہے۔ نہایت آسانی کے ساتھ ان کو تین قسموں میں بانٹا جاسکتا ہے— آسمانی، فضائی اور زمینی۔ یہی تقسیم بجائے خود ہند آریائی مذہب میں تسلیم کی گئی ہے، چنانچہ سورج ان کے یہاں آسمانی خدا ہے۔ اِندر فضائی خداہے جو طوفان، بارش اور جنگ لانے والا ہے۔ اگنی (آگ کا دیوتا) زمینی واقعات کا سبب ہے:
A widespread phenomenon in religions is the identification of natural forces and objects as divinities. It is convenient to classify them as celestial, atmospheric, and earthly. This classification itself is explicitly recognized in Indo-Aryan religions: Surya, the sun god, is celestial; Indra, associated with storms, rain, and battles, is atmospheric; and Agni, the fire god, operates primarily at the earthly level (14/785)
اسلام سے پہلے انسان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر چیز کو پوجتا تھا۔ وہ سورج اور چاند سے لے کر دریا اور پہاڑ تک ہر چیز کے آگے جھکتا تھا۔ درختوں میں اس نے درخت خدا (plant deities)اور جانوروں میں اس نے جانور خدا (animal deities) بنا رکھے تھے۔ دنیا کی تمام چیزیں معبود بنی ہوئی تھیں۔ اور انسان ان کا عبادت گزار۔ اس طرح انسان نے اپنی عظمت کھو دی تھی۔ اسلام کے ذریعہ تاریخ میں جو انقلاب آیا اس نے پہلی بار انسان کو اس کی عظمت عطا کی۔
شرک (بالفاظ دیگر مظاہر فطرت کی پرستش) کا رواج قدیم زمانہ میں سائنسی ترقیوں میں رکاوٹ بناہوا تھا۔ انسان فطرت کے مظاہر کو معبود سمجھ کر انھیں تقدس کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اس لیے اس کے اندر یہ جذبہ ہی پیدا نہیں ہوتا تھاکہ وہ ان مظاہر کی تحقیق کرے اور ان کو اپنے فائدے کے لیے استعما ل کرے۔ فطرت کے مظاہر جب پرستش کاموضوع بنے ہوئے ہوں تو اسی وقت وہ تحقیق کا موضوع نہیں بن سکتے۔ یہ بنیادی سبب تھا جو طبیعی سائنس کا دور شروع ہونے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اسلام نے تاریخ میں پہلی بار اس سبب کو ختم کیا، اس لیے اسلام کے بعد تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ طبیعی سائنس کا دور شروع ہوا ور بالآخر اس حد کو پہنچا جہاں ہم آج اس کو دیکھ رہے ہیں۔
آرنلڈ ٹوائن بی نے بجاطورپر لکھا ہے کہ یہ در اصل توحید(Monotheism) کا عقیدہ ہے جس نے جدید سائنس اور صنعتی دور کو پیدا کیا۔ کیوں کہ توحید کے انقلاب سے پہلے دنیا میں عملی طورپر شرک کا غلبہ تھا۔ شرک کے عقیدہ کے تحت آدمی فطرت (Nature) کو پوجنے کی چیز سمجھے ہوئے تھا۔ پھر وہ اس کو تحقیق و تسخیر کی چیز کیسے سمجھتا۔ جب کہ فطرت کو تحقیق اور تسخیر کی چیز سمجھنے کے بعد ہی اس علم کا آغاز ہوتا ہے جس کو طبیعی سائنس کہتے ہیں۔
قرآن میں مختلف انداز سے یہ بات کہی گئی ہے کہ زمین وآسمان کی نشانیوں (مظاہر فطرت) پر غور کرو۔ قرآن میں اس قسم کی سات سو آیتیں شمار کی گئی ہیں جن میں مظاہر فطرت پر غور کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔اگر بالواسطہ آیتوں کو بھی شامل کیا جائے تو ان کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ جائے گی۔ یہ معلوم انسانی تاریخ میں بالکل نئی آواز تھی۔ کیوں کہ اس سے پہلے انسان صرف یہ جانتا تھا کہ وہ مظا\ہر فطرت کو پوجے۔ ایک ایسی دنیا جس میں ہزاروں برس سے انسان صرف یہ جانتا تھا کہ مظاہر فطرت پوجنے کی چیزہیں، وہاں قرآن نے یہ آواز بلند کی کہ مظاہر فطرت اس لیے ہیں کہ ان پر غور کیا جائے، اور ان میں چھپی ہوئی حکمتوں کو دریافت کیا جائے۔
اسلام کا یہ پیغام صرف پیغام نہ رہا بلکہ سو سال کےاندر ہی وہ ایک عالمی انقلاب بن گیا۔ اس نے اولاً عرب کے دل ودماغ کو فتح کیا۔ پھر وہ ایشیا اور افریقہ اور یورپ تک پہنچ گیا۔ اس نے عرب کے بُت خانے ختم کردیئے۔ ایرانی اوررومی شہنشاہتیں اس زمانہ میں شرک کی سب سے بڑی سرپرست تھیں، دونوں کو اسلام نے مغلوب کرلیا اور توحید کا غلبہ تقریباً پوری آباد دنیا میں قائم کردیا۔
اسلام کی اس نفع بخشی کو تمام منصف مزاج مورخین نے تسلیم کیا ہے۔ یہاں ہم انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) کا ایک پیراگراف نقل کرتے ہیں:
Islamic culture is the most relevant to European science. There was active cultural contact between Arabic-speaking lands and Latin Europe. Conquests by the Prophet's followers began in the 7th century, and, by the 10th, Arabic was the literate language of nations stretching from Persia to Spain. Arabic conquerors generally brought peace and prosperity to the countries they settled (16/368)
اسلامی تہذیب کا تعلق یورپی سائنس سے بہت زیادہ ہے۔ عربی زبان بولنے والے علاقوں اور لاتینی یورپ کےدرمیان نہایت گہرا ربط قائم تھا۔ پیغمبر کے پیروؤں کی فتوحات ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوئیں۔ اور دسویں صدی تک یہ حال ہوگیا کہ عربی زبان ایران سے لے کر اسپین تک کی تمام قوموں کی علمی زبان بن گئی۔ عرب فاتحین جہاں گئے وہاں عام طورپر وہ امن اور خوش حالی لے گئے۔ قرآن کے ذریعہ عالمی سطح پر جو فکری انقلاب آیا اس نے تاریخ میں پہلی بار نئی قسم کی سرگرمیاں شروع کردیں۔ انسان نے اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پایا جو پوجنے کی چیز نہیں بلکہ برتنے کی چیز تھی، جس کا وہ تابع نہ تھا بلکہ وہ اس کے لیے مسخر کی گئی تھی کہ وہ اس کو اپنا تابع بنائے۔ چنانچہ اسلام کے عظیم الشان اعتقادی انقلاب کے ساتھ ایک عظیم الشان علمی اور ذہنی انقلاب بھی شروع ہوگیا۔ اسلام کے ماننےوالوں نے جب ایک قادر مطلق خدا کو پایا تو اسی کے ساتھ انھوںنے دوسری تمام چیزوں کو بھی پالیا۔ انھوں نے ہر میدان میں ترقیاں شروع کردیں۔ ان سے دنیا کو وہ چیزیں ملنے لگیں جو ابھی تک اس کو نہیں ملی تھیں۔ چنانچہ اس دور میں پیداہونے والی جتنی بھی قابلِ ذکر ترقیاں ہیں ان کامطالعہ کیجیے تو ہر ترقی کے پیچھے کسی نہ کسی مسلمان کا ہاتھ کام کرتا نظر آئے گا۔
چند تاریخی حوالے
توحید اس دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے۔توحید کو اختیار کرنے کی وجہ سے دورِ اول کے مسلمانوں کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ دنیا والوں کے درمیان ایک ایسی برادری بن کر ابھریں جن کا ہر طرف استقبال کیا جائے اور جن سے دنیا والوں کو ہر قسم کا نفع حاصل ہو۔ یہاں ہم اس سلسلہ میں چند مثالیں درج کریں گے۔
1۔ اسلامی انقلاب کے بعد کئی سو سال ایسے گزرے ہیں جب مسلمان ساری دنیا میں علمِ طب کے امام تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے لوگ مسلم اطباء سے رجوع کرتے تھے، اور طب میں مسلمانوں کی تصنیفات ہر جگہ فن طب کا ماخذ بنی ہوئی تھیں۔ یورپ کا سب سے پہلا میڈیکل کالج سارنو (اٹلی) میں قائم ہوا۔ یہ میڈیکل کالج گیارھویں صدی عیسوی میں قائم ہوا تھا۔ اس کا نصاب بڑی حد تک ان طبی کتابوں پر مشتمل تھا جو عربی زبان سے لاتینی زبان میں ترجمہ کی گئی تھیں۔ انسائیکلوپیڈیابرٹانیکا (1984) نے اس کے تذکرہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ یورپ میں بارہویں صدی نے عربی سے لاتینی میں کتابوں کے ترجمہ کا ایک ہیرووانہ پروگرام دیکھا۔یہ بات بہت اہم ہے کہ یورپ کا ابتدائی طبی اسکول جو سلرنو میں قائم ہوا اور دوسرا جو مانٹ پیلیر میں قائم ہوا، دونوں عربی اور یہودی ماخذوں سے بہت قریب تھے:
The 12th Century saw a heroic program of translation of works from Arabic to Latin. It is significant that the earliest medical school in Europe was at Salerno and that it was later rivaled by Montpellier, also close to Arabic and Jewish sources (16/368)
پروفیسر ہٹی نےاس سلسلہ میں مزید تفصیل بیان کرتےہوئے لکھا ہے کہ الزہراوی کی کتاب (التصریف لمن اعجز عن التالیف) کا سرجری سے متعلق حصہ گیرارڈ آف کریمونا نے عربی سے لاتینی میں ترجمہ کیا۔ یورپ میںاس کے مختلف ایڈیشن چھپے۔ وینس میں 1497 میں، بیسل میں 1541 میں، آکسفورڈ میں 1778 میں۔ یہ ترجمہ صدیوں تک سلرنو اور مانٹ پیلیر اور دوسرے یورپی طبی اداروں میں نصابِ تعلیم کا جز بنا رہا:
This surgical part was translated into Latin by Gerard of Cremona and various editions were published at Venice in 1497, at Basel in 1541 and at Oxford in 1778. It held its place for centuries as the manual of surgery in Salerno, Montpellier and other early schools of medicine
(P. K. Hitti, History of the Arabs. 1979, p. 577)
آج آپ جدید طرز کے کسی اسپتال یاکسی میڈیکل کالج میں داخل ہوں تو وہاں کی ہر چیز آپ کو مغربی تہذیب کا عطیہ نظر آئے گی۔ مگر چند سو سال پہلے یہ حال تھا کہ آپ وقت کے کسی معیاری اسپتال یا کسی میڈیکل کالج میں داخل ہوں تو وہاں کی ہرچیز اسلامی تہذیب کا عطیہ نظر آتی تھی۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق جو مسلمانوں کے ماضی اوران کے حال میں پیدا ہوگیا ہے۔
2۔ جغرافیہ ایک بے حد اہم سائنس ہے۔ اس کا تعلق زندگی کے بے شمار شعبوں سےہے۔ دور اول کے مسلمانوں نے اس فن میں بھی کمال پیدا کیا۔ مثال کے طورپر الادریسی اپنے زمانہ میں دنیا کا سب سے بڑا جغرافی عالم تھا۔ پروفیسر فلپ ہٹی نے اس کی بابت حسب ذیل الفاظ لکھے ہیں:
The most distinguished geographer of the Middle Ages.
یعنی قرونِ وسطی کا سب سے زیادہ ممتاز جغرافیہ داں۔ الادریسی کے زمانہ میں راجر دوم سسلی کا بادشاہ تھا۔ اس کو ایک جغرافی نقشہ کی ضرورت ہوئی تو اس کو یہ نقشہ جس نے بنا کردیا وہ یہی الادریسی تھا۔ فلپ ہٹی نے مزید لکھاہے:
The most brilliant geographical author and cartographer of the twelfth century, indeed of all medieval time, was al-Idrisi, a descendant of a Spanish Arab family who got his education in Spain. (P. K. Hitti, History of the Arabs, 1979, p. 568)
بارھویں صدی عیسوی کا سب سے زیادہ باکمال جغرافی مصنف اور نقشہ نویس، بلکہ پورے قرونِ وسطی کا سب سے بڑا جغرافی عالم بلاشبہ الادریسی تھا۔ وہ اسپین کے ایک اعلی عرب خاندان میں پیدا ہوا، اور اس کی تعلیم اسپین میں ہوئی۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ الادریسی نے 1154ء میں سسلی کے مسیحی حکمراں (راجر دوم) کے لیے ایک عالمی نقشہ بنایا۔ اس میں ایشیائی علاقوں کی زیادہ بہتر معلومات دی گئی تھیں جو اس وقت تک ابھی انسان کو حاصل نہ ہوئی تھیں:
Al-Idrisi constructed a world map in AD 1154 for the Christian king Roger of Sicily, showing better information on Asian areas than had been available theretofore. (11/472)
موجودہ زمانہ میں مسلم ملکوں میں مغرب کے ماہرین (experts) بھرے ہوئے ہیں۔ مگر ایک وقت تھا جب کہ مسلمان ہر شعبہ کے ماہرین دنیا کو فراہم کررہے تھے۔ آج مسلمان دنیا والوں سے لے رہے ہیں، مگر چند سال پہلے یہ حال تھا کہ مسلمان دنیا کو دینے والے بنےہوئے تھے۔ کیسا عجیب فرق ہے ماضی میںاور حال میں۔
3۔ آج مسلم ملکوں کے نوٹ اور سکے مغربی ممالک تیار کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی مسلم ملک خود اپنا سکہ یا نوٹ تیار کرتاہے تو اس کے لیے بھی وہ مغربی ٹکنالوجی کا مرہون منت ہے۔ مگر ایک وقت تھا کہ یہ مقام خود مسلمانوں کو عالمی سطح پر حاصل تھا۔
پروفیسر ایچ. ڈبلیو . سی . ڈیوس(H.W.C. Davis) نے اپنی کتاب قرونِ وسطی کا انگلستان (Medieval England) میں انگلستان کےایک قدیم سنہرے سکہ کی تصویر اس کے دونوں رخ سے چھاپی ہے۔ یہ سکہ برٹش میوزیم میں رکھاہوا ہے۔ تصویر میں واضح طورپر نظر آرہاہے کہ سکہ کے ایک طرف عربی رسم الخط میں کلمہ شہادت لکھا ہوا ہے اور دوسری طرف اس وقت کے انگلستان کے بادشاہ اوفاریکس (Offa Rex) کا نام کندہ ہے۔ اسی کے ساتھ سکہ پر بغداد کے مسلمان سکہ گر کانام بھی درج ہے۔ سکہ کی تصویر کے نیچے پروفیسر ڈیوس نے حسب ذیل الفاظ لکھےہیں:
Anglo-Saxon gold coin imitating an Arab Dinar of the year 774.
یعنی قدیم انگلستان کا سونے کا سکہ جو 774ء میں ڈھالا گیا اور جس میںایک عرب دینار کی نقل کی گئی ہے۔ یہ ایک تاریخی شہادت ہے جو بتاتی ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان صنعتی ترقی کے اس مقام پر تھے کہ انگلستان کے نامور بادشاہ اوفارکس (وفات796:ء)کو ضرورت محسوس ہوتی تھی کہ وہ اپنے ملک کا سکہ ڈھالنے کے لیے بغداد سے مسلم ماہرین کو بلائے۔ اس وقت انگلستان میںجو سکہ ڈھالا گیا وہ مسلم ممالک کے سکہ (دینار) کی نقل تھا۔حتی کہ مسلم سکوں کی طرح اس پر کلمہ شہادت بھی عربی رسم الخط میں لکھا ہوا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہزار برس پہلے کے دور میں اسلامی تہذیب ساری دنیا میں کس قدر غالب حیثیت رکھتی تھی۔
2۔ واسکوڈی گاما (1524-1469) ایک پرتگالی ملاح تھا۔ اس کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس نے 1497 میں ہندستان اور یورپ کے درمیان سمندری راستہ دریافت کیا جو کیپ آف گڈہوپ ہو کر جاتا تھا۔ مگر یہ عظیم کامیابی اس کو ایک عرب ملاح احمد بن ماجد کے ذریعہ حاصل ہوئی اس کی بابت انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) نے حسب ذیل الفاظ لکھے ہیں:
Vasco da Gama's Arab pilot, Ahmad ibn Majid (7/862)
یعنی واسکوڈی گاما کا عرب جہاز راں احمد بن ماجد۔ برٹانیکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ واسکوڈی گاما جب پرتگال سے چل کر افریقہ پہنچا تو وہاںموزنبیق کے سلطان نے واسکوڈی گاما کو دو مسلم ملّاح دیئے۔ ان میں سے ایک اس وقت بھاگ گیا جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ پرتگالی مسیحی مذہب کے ہیں:
The Sultan of Mozambique supplied da Gama two (Muslim) pilots, one of whom deserted when he discovered that the Portuguese were Christians (7/861)
جس جہاز راں نے واسکوڈی گاما کا ساتھ دیا اس کا نام احمد بن ماجد تھا۔ وہ نہایت ماہر تھا اور سمندری جہاز سے اتنی واقفیت رکھتا تھا کہ اس پر اس نے ایک اہم کتاب لکھی تھی جو مذکورہ سفر کے وقت اس کے ساتھ تھی۔
پروفیسر فلپ ہٹی نے لکھا ہے کہ بحری جہاز رانی کےموضوع پر ایک خصوصی کتاب احمد بن ماجد کی ہے جس میں بحری جہاز رانی کے نظریاتی اور عملی پہلوؤں کی وضاحت کی گئی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ 1498 میں یہی احمد بن ماجد تھا جس نے افریقہ سے ہندستان تک واسکوڈی گاما کی رہنمائی کی:
And exceptional work of major importance is a compendium of theoretical and practical navigation by Ahmad ibn Majid of Najdi ancestry, who, it is claimed, in 1498 piloted Vasco da Gama from Africa to India.
P. K. Hitti, History of the Arabs, 1979, p. 689.
5۔ پندرھویں صدی عیسوی کے آخر میں جو دریافتیں ہوئیں ان میں سے ایک وہ دریافت ہے جس کو نئی دنیا (امریکا) کی دریافت کہاجاتا ہے۔ یہ عظیم دریافت عام طورپر کرسٹوفر (کولمبس 1506-1451) کے نام سے موسوم ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اٹلی کا کولمبس ہی وہ شخص ہے جس نے اس مہم کی رہنمائی کی۔ مگر اس کو یہ تصور دینے والے مسلمان تھے کہ وہ اٹلانٹک سمندر میں اپنی کشتی اس امید میں داخل کرے کہ اس ناپیداکنار سمندر کے دوسری طرف اس کو خشکی ملے گی جہاں وہ اتر سکے۔
پروفیسر ہٹی نے لکھاہے کہ عربوں نے زمین کے گول ہونے کے قدیم نظریہ کو زندہ رکھا ،جس کے بغیر نئی دنیا کی دریافت ممکن نہ ہوتی۔ اس نظریہ کا ایک مبلغ ابو عبیدہ مسلم البلنسی تھا جس نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کا زمانہ دسویں صدی عیسوی کا نصف اول ہے۔ زمین کے گول ہونے کا نظریہ عربی سے لاتینی میں ترجمہ ہو کر 1410ء میں یورپ میں شائع ہوا۔ اس کو پڑھ کر کولمبس نے اس نظریہ سے واقفیت حاصل کی۔ اِس سے اُس نے سمجھا کہ زمین ایک ناشپاتی کی مانند ہے اور یہ کہ زمین کے مغربی نصف کرہ میں بھی ایسا ہی ابھار موجود ہے جیسا کہ اس کے مشرقی نصف کرہ میں نظر آتا ہے۔ پروفیسر ہٹی کے الفاظ یہ ہیں:
They kept alive the ancient doctrine that the earth was round. We have already referred to the Hindu idea that the known hemisphere of the world had a centre or “world cupola” situated at an equal distance from the four cardinal points. This arīn theory found its way into a Latin work published in 1410. From this Columbus acquired the doctrine which made him believe that the earth was shaped in the form of a pear and that on the western hemisphere opposite the arin was a corresponding elevated centre.
P. K. Hitti, History of the Arabs, The Macmillan Press Ltd., London, Tenth Edition 1979, p. 570.
ہمیں کیا کرنا ہے
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرناہے۔ ماضی میں بلاشبہ مسلمانوں نے بہت بڑی بڑی سائنسی خدمات انجام دی تھیں۔ مگر موجودہ زمانہ میں مسلمان سائنس اور صنعت کے میدان میں تمام قوموں سے پیچھے ہوگئے ہیں۔ آج وہ اس حیثیت میں نہیں ہیں کہ خالص سائنسی اور صنعتی اعتبار سے اہلِ دنیا کے لیے نفع بخش بن سکیں۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک صنعتی دور (industrial Age) میں بھی داخل نہیں ہوئے۔ جب کہ بقیہ دنیا الوین ٹافلر کے الفاظ میں، مافوق صنعتی دور (super-industrial Age) میں داخل ہوگئی ہے۔
Alvin Toffler, Future Shock, New York, 1971
مگر امت مسلمہ محفوظ آسمانی کتاب کی حامل ہے۔ اس نسبت سے وہ خود بھی ایک محفوظ امت ہے۔ اس محفوظیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں مواقع بظاہر ختم ہوجائیں، وہاں بھی اس کے لیے ایک نیا موقع موجود رہتا ہے۔ خدا نےانسانیت کے لیے عام طور پر اور امت مسلمہ کے لیے خاص طورپر یہ فیصلہ کردیا ہے کہ ہر ڈس ایڈوانٹج کے ساتھ اس کے لیے ایک ایڈوانٹج ہمیشہ موجود رہے۔ یہی وہ ابدی حقیقت ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:فَإِن معَ الْعُسْرِ یُسْراً إنَّ معَ الْعُسْرِ یُسْراً( 94:5-6)۔ یعنی پس مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اللہ تعالی کی یہ سنت موجودہ زمانہ میں پوری طرح ظاہر ہوچکی ہے۔سائنس اپنی ترقیوں کی انتہا پر پہنچ کر ایک ایسے سنگین مسئلہ سے دوچار ہے جس کا خود اس کے پاس کوئی حل نہیں۔ نہ سائنسی طبقہ سے باہر کوئی گروہ ایسا موجود ہے، جو اس مسئلے کا حل اسے دے سکے۔ یہ صرف مسلمان ہیں جو محفوظ آسمانی کتاب کے حامل ہونے کی وجہ سے اس پوزیشن میں ہیں کہ سائنسی طبقہ کو نیز پوری انسانیت کو اس مسئلہ کےحل کا تحفہ پیش کرسکیں۔
اس معاملہ کی نوعیت سمجھنے کے لیےیہاں میں انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کا ایک پیراگراف نقل کروں گا۔ اس کے تاریخ سائنس (History of Science) کے مقالہ نگار نے اس سلسلہ میں لکھا ہے:
Until recently, the history of science was a story of success. The triumphs of science represented a cumulative process of increasing knowledge and a sequence of victories over ignorance and superstition; and from science flowed a stream of inventions for the improvement of human life. The recent realization of deep moral problems within science of external forces and constraints on its development, and of dangers in uncontrolled technological change has challenged historians to a critical reassessment of this earlier simple faith. (16/366)
ابھی حال تک سائنس کی تاریخ کامیابیوں کی کہانی تھی۔ سائنس کی فتوحات میں یہ شمار ہوتا تھا کہ اس نےانسانی معلومات میں اضافہ کیا ہے اور جہالت اور توہم پرستی پر فتح حاصل کی ہے۔ سائنس سے ایجادات کا ایک سیلاب نکلا ہے جس نے انسانی زندگی کو بہتر بنایا ہے۔ مگر حال میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سائنس گہرے اخلاقی سوالات سے دوچار ہے۔ بے قید ٹکنالوجی کے خطرات کی وجہ سے اس کی ترقی پر روک لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ یہ صورتِ حال مؤرخین کو چیلنج کررہی ہے کہ وہ ان خیالات کا دوبارہ تنقیدی جائزہ لیں جو ابتدا میں سادہ طورپر قائم کرلیے گئے تھے۔
جدید دنیا کا یہی وہ خلا ہے جہاں مسلمان اپنے نفع بخش ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں، اور اس طرح دوبارہ اپنے لیے سرفرازی کا وہ مقام حاصل کرسکتے ہیں جو انھوں نے دنیا میں کھودیا ہے۔
سائنس کی ابتدائی فتوحات نے بہت سے لوگوں کو اتنا زیادہ متاثر کیا کہ انھوں نے سمجھ لیا کہ اب ہمیں سائنس کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ سائنس ہماری تمام ضرورتوں کے لیے کافی ہے۔ اس سلسلہ میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ جولین ہکسلے (1975-1887) نے اس نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک کتاب شائع کی تھی جس کا نام تھا — انسان تنہا کھڑا ہوتا ہے:
Man Stands Alone
اس کے جواب میں کریسی ماریسن (1946-1884) نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام بامعنی طورپر یہ تھا — انسان تنہا کھڑا نہیں ہوسکتا:
Man Does Not Stand Alone
بیسویں صدی کے نصف اول تک انسان کا یہ دعوی تھا کہ اس کی سائنس اس کے لیے کافی ہے۔ مگر اسی صدی کے نصف ثانی میں انسان کو اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑا۔ اس سے پہلے جو بات کریسی ماریسن جیسے چند مستثنی افراد کہتے تھے، اب وہ عام طورپر لوگوں کی زبانوں سے کہی جارہی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مذکورہ اقتباس میں کیا گیا ہے۔
جدید انسان کی ذہنی حالت کیا ہے، اس کا ایک نمونہ لارڈ بر ٹرینڈرسل (1970-1872) ہے۔ وہ انگلینڈ کے ایک دولت مند خاندان میں پیدا ہوا۔ اس نےاعلی ترین تعلیم حاصل کی۔ اس کو نوبل انعام ملا جو آج کی دنیا میں سب سے بڑا علمی اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ اس نے مذہب کو چھوڑ دیا اور مادی سائنس میں سکون تلاش کرنے کی کوشش کی۔ مگر بھر پور عمر گزارنے کے باوجود اس کو وہ چیز نہیں ملی جس کو سکون کہاجاتا ہے۔ برٹرینڈرسل کی طویل خودنوشت سوانح عمری کے آخر میں ہم اس کے ہاتھ سے یہ الفاظ لکھے ہوئے پاتے ہیں:
The inner failure has made my mental life a perpetual battle (p. 727)
اندرونی ناکامی نے میری ذہنی زندگی کو ایک مستقل جنگ میں مبتلا رکھا۔
گلیلیو اور سائنس
آپ سائنس کی تاریخ کی کسی کتاب میں گلیلیو (1642-1562) کا باب کھول کر دیکھیں تو وہاں آپ کو اس قسم کے الفاظ لکھے ہوئے ملیں گے کہ گلیلیو نے مشاہدہ اور تجربہ اور ریاضی کو جس طرح استعمال کیا اس نے جدید سائنس کی بنیاد رکھنے میں مدد دی:
His use of observation, experiment and mathematics helped lay foundation of modern science.
گلیلیو کا خاص کارنامہ کیا ہے۔ گلیلیو کا خاص کارنامہ یہ ہے کہ اس نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو، جو ابعاد (Dimension) اور وزن (Weight) پر مشتمل ہیں اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جاسکتی ہے، ان کو ثانوی صفات سے الگ کردیا جو شکل، رنگ اور بو وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ ایک لفظ میں یہ کہ اس نے کمیت کو کیفیت سے جدا کردیا۔
گلیلیو کے اس فعل نے اس بات کو ممکن بنا دیا کہ آدمی میٹر کو استعمال کرسکے، بغیر اس کے کہ اس نے میٹر کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کی ہوں۔ اس طرح فطرت کو کام میں لانے کا دروازہ کھل گیا۔ ٹکنالوجی کو ترقی ہوئی اور بے شمار نئی نئی چیزیں بننے لگیں جو انسان کے لیے مفید ثابت ہوئیں۔ مگر زیادہ مدّت نہیں گزری کہ انسان کا عدم اطمینان ظاہر ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں سائنس داں یا انجینئر کا معاملہ اس جاہل بڑھئی سے کچھ بھی مختلف نہیں جو لکڑی کو کاٹ کر فرنیچر بناتا ہے، اگرچہ وہ لکڑی کی کیمسٹری کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ گلیلیو نے چیزوں کے جس ظاہری پہلو کو الگ کرکے اس کو سائنس کے مطالعہ کا موضوع بنایا تھا، اس کے بارہ میں بھی انسان کی معلومات حد درجہ ناقص ہیں۔ انسان نہ صرف پھول کی ’’خوشبو‘‘سے بے خبر ہے بلکہ پھول کی ’’کیمسٹری‘‘ بھی بہت کم اس کے علم میں آتی ہے۔ ایک چیز جس کو متمدن دنیا کا انسان تین سو سال تک علم سمجھتا رہا وہ بھی آخر کار بے علمی ثابت ہوا۔ برٹرینڈ رسل نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے:
As is natural when one is trying to ignore a profound cause of unhappiness, I found impersonal reasons for gloom. I had been very full of personal misery in the early years of the century, but at that time I had a more or less Platonic philosophy which enabled me to see beauty in the extra-human universe. Mathematics and the stars consoled me when the human world seemed empty of comfort. But changes in my philosophy have robbed me of such consolations. Solipsism oppressed me, particularly after studying such interpretations of physics as that of Eddington. It seemed that what we had thought of as laws of nature were only linguistic conventions, and that physics was not really concerned with an external world. I do not mean that I quite believed this, but that it became a haunting nightmare, increasingly invading my imagination. (Bertrand Russell, Autobiography, Unwin Paperbacks, London, 1978, pp. 392-93 )
میں نے اپنی اداسی کے کچھ غیر شخصی اسباب پالیے جیسا کہ عام طورپر اس وقت ہوتا ہے جب کہ آدمی ناخوشی کے ایک گہرے سبب کو نظر انداز کرنے کی کوشش کررہا ہو۔ میں موجودہ صدی کے ابتدائی سالوں میں ذاتی پریشانیوں میں بہت زیادہ مبتلا رہاہوں۔ مگر اس وقت میں کم وبیش افلاطونی فلسفہ کا قائل تھا جس نے مجھے اس قابل بنائے رکھا کہ میں خارجی دنیا میں حسن کو دیکھ سکوں۔ ریاضیات اور ستاروں نے مجھے اس وقت تسکین دی جب کہ انسانی دنیا آسائش سے خالی نظر آتی تھی۔ مگر میرے فلسفہ میں تبدیلی نے اس قسم کی تسکین کو مجھ سے چھین لیا۔ خودی نے مجھ کو بالکل مضمحل کردیا۔ خاص طورپر اس وقت جب کہ میں نے طبیعیات کی ان تشریحوں کو پڑھا جو اڈنگٹن جیسے لوگوں نے کی ہیں۔ مجھ کو نظر آیا کہ جس چیز کو ہم نے فطرت کے قوانین سمجھا تھا وہ محض الفاظ کا معاملہ تھا۔ اور طبیعیات حقیقةً کسی خارجی دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ میں اس کو پوری طرح مانتا ہوں۔ مگر یہ میرے لیے ایک کابوس بن گیا جو میرا پیچھا کررہا تھا۔ وہ میرے تخیلات پر برابر حملہ کررہا تھا۔
روحانی تسکین
جو سائنس خارجی دنیا کا علم دینے سے عاجز تھی وہ اس باطنی دنیا کا علم کیا دیتی جس کے بارے میں اس نے گلیلیو ہی کے زمانہ میں عملی طورپر اپنی نارسائی کا اعلان کردیا تھا۔ سائنس آدمی کو وہ جھوٹا اطمینان بھی نہ دے سکی جو مادی سطح پر بظاہر ایک انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ اور ذہنی اور روحانی سطح کا اطمینان تو نہ اس کے بس میں تھا اور نہ کبھی اس نے اس کو دینے کا دعوی کیا۔
قرآن میںارشادہوا ہے:أَلَا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13:28)۔ یعنی سن لو کہ اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے۔ یہی بات بائبل میں ان الفاظ میں آئی ہے— انسان صرف روٹی ہی سے جیتا نہیں رہتا، بلکہ ہر بات سے جو خداوند کے منہ سے نکلتی ہے، وہ جیتا رہتا ہے:
Man does not live by bread alone but by every word that comes from the mouth of the Lord. (Deuteronomy 8:3)
حضرت مسیح نے اسی بات کو ان لفظوں میں بیان کیا ہے— آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے:
Man shall not live by bread alone, but by every word that comes from the mouth of God. (Matthew 4:4)
انسان اپنے ساتھ ایک مخصوص نفسیات رکھتا ہے۔ اس نفسیات سے وہ اپنے آپ کو جدا نہیں کرسکتا۔ یہ نفسیات ایک برتر تسکین کی طالب ہے۔ انسان کو مادی سازوسامان کے ساتھ ایک عقیدہ اور ایک اصولِ حیات بھی درکار ہے۔ سائنس نے انسان کو جو کچھ دیا وہ اپنی آخری صورت میں بھی صرف مادی سازوسامان تھا۔ سائنس انسان کو ایک قابلِ اعتماد عقیدہ نہ دے سکی۔ یہی وہ کمی ہے، جس نے جدید دنیا کے بے شمار لوگوں کو غیر مطمئن کر رکھا ہے۔ باہر سے دیکھنے والوں کو ان کی زندگیاں پُررونق نظرآتی ہیں۔ مگر اندر سے ان کی روح بالکل ویران ہوچکی ہے۔
اقدار کا مسئلہ
یہ مسئلہ جس سے آج کا انسان دوچار ہے، فلسفیانہ لفظ میں اس کو اقدار کا مسئلہ (problem of values) کہاجاسکتا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ انسان ایک دہری مشکل سے دوچار ہے۔ وہ جانتا ہےمگر نہیں جانتا۔ معلومات کے ڈھیر کے درمیان وہ محسوس کرتاہے کہ وہ کم سے کم اس پوزیشن میں ہوتا جارہا ہے کہ یہ فیصلہ کرسکے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے کہ وہ کسی چیز کو اچھا اور کسی چیز کو بُرا سمجھے۔ وہ اس تمیز کو کسی بھی طرح اپنے آپ سے جدا نہیں کرسکتا۔ مگر جب اپنی عقل یا اپنے علم کے ذریعہ وہ اس کو متعین کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کو متعین نہیں کرپاتا۔
جوزف وڈکرچ نےاپنی کتاب ’’دورِ جدید کا مزاج‘‘ میں اس مسئلہ پر عقلی بحث کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان اگرچہ باعتبار فطرت یہ یقین کرنے کی طرف مائل ہے کہ زندگی کا ایک مقصد ہے اور اچھائی اور برائی کا ایک معیار ہے۔ مگر سائنس اس کا کوئی حتمی جواب نہیں دیتی۔ سائنس کی ترقی اس کو زیادہ سےزیادہ ظاہر کرتی جاری ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں اقدار اپنا کوئی موضوعی مقام (objective status) نہیں رکھتیں۔ انسان اخلاقی معیاروں کی ضرورت محسوس کرتاہے جس کے مطابق وہ زندگی گزارے۔ وہ وجدانی طورپر اس کی مستقل تلاش میں ہے۔ مگر سائنس کی دریافت کردہ دنیا میں خیر وشر کے تصورات کی کوئی جگہ نہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان ایک اخلاقی جانور ہے جو ایک ایسی کائنات میں ہے جہاں اخلاقی عنصر کا کوئی وجود نہیں:
Man is an ethical animal in a universe which contains no ethical element. (Joseph Wood Krutch, The Modern Temper, New York, 1929, p. 16)
انسان چیزوں کی حقیقت کو جاننا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف چیزوں کے ڈھانچہ کا علم دیتی ہے۔ انسان دنیا کے آغاز وانجام کو جاننا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف درمیانی مرحلہ کے بارہ میںکچھ باتیں بتاتی ہے۔ انسان چیزوں کی معنویت کو دریافت کرنا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف اس کی ظاہری ہیئت کا پتہ دیتی ہے۔ انسان پھول کی مہک کو سمجھنا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف پھول کی کیمسٹری سے آگاہ کرتی ہے۔ انسان ذہن اور روح کی گہرائی میں اترنا چاہتاہے مگر سائنس صرف جسم کے مادی اجزا کا تجزیہ اس کے سامنے پیش کرتی ہے۔ ایک لفظ میں یہ کہ انسان ’’خالق‘‘ کے بارہ میں جاننا چاہتا ہے اور سائنس اس کو صرف ’’مخلوق‘‘ کے بارہ میں بتا کر خاموش ہوجاتی ہے۔
یہی بات ہے جس کو ایک مغربی مفکر نے حسرت کے ساتھ اس فقرہ میں بیان کیا ہے— جو اہم ہے وہ ناقابل دریافت ہے، اور جو قابل دریافت ہے وہ اہم نہیں:
The important is unknowable, and the knowable is unimportant.
اعلی ذریعۂ علم
یہی بے اطمینانی جدیددور کے تمام باشعور انسانوں کا پیچھا کیے ہوئے ہے۔ ان کی اکثریت اگر چہ مذہب کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، مگر انھوںنے یہ بات مان لی ہے کہ جس سائنسی ترقی کو انھوں نے انسانیت کے مسئلہ کا حل سمجھ لیا تھا، وہ انسانیت کے مسئلہ کا حل نہ تھا۔ برٹرینڈ رسل نے مغربی فکر وفلسفہ پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کے آخر میں ہم اس کے اعتراف کے حسب ذیل کلمات پاتے ہیں:
(Western philosophers) confess frankly that the human intellect is unable to find conclusive answers to many questions of profound importance to mankind, but they refuse to believe that there is some 'higher' way of knowledge, by which we can discover truths hidden from science and the intellect. (Bertrand Russell, A History of Western Philosophy, 1979, p. 789)
مغربی فلسفی کھلے طور پر اقرار کرتے ہیں کہ انسانی عقل کے بس سے باہر ہے کہ وہ ان بہت سے سوالات کا قطعی جواب پاسکے جو انسانیت کے لیے بے حد اہمیت رکھتےہیں۔ مگر وہ اِس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ سائنس کے علاوہ علم کا کوئی اور بلند طریقہ ہے جس کے ذریعہ سے ہم ان سچائیوں کو دریافت کرسکیں جو سائنس اور عقل کی دسترس میں نہیں آتیں۔
آج کے انسان کو یہی بتانا اس کو سب سے بڑی چیز دینا ہے کہ ہاں، یہاں ایک بلند تر طریقہ موجود ہے جس کے ذریعہ نامعلوم کو معلوم کیا جاسکے۔ اور وہ الہام خداوندی ہے۔ اور یہ الہام خداوندی جہاں اپنی محفوظ شکل میں موجود ہے وہ قرآن ہے۔
قرآن پوری طرح اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے اور تقریباً ڈیڑھ ہزار برس سے مسلسل اپنی صداقت کو ثابت کررہا ہے، اس موضوع پر راقم الحروف نے اپنی کتاب ’’عظمت قرآن‘‘ اور دوسری کتابوں میں گفتگو کی ہے۔ اس کی تفصیل ان کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
داخلی شہادت
اخلاقی یا مذہبی احساس انسان کے اندر بے حد طاقت ور ہے۔ ماضی سے لے کر حال تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ احساس کسی طرح انسان کے اندر سے ختم نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ یہ خالص انسانی خصوصیت ہے۔ کسی بھی نوع کے جانور میں اب تک اخلاقی یا مذہبی شعور کا ہونا ثابت نہ کیا جاسکا۔
الفرڈ رسل ویلس (1913-1823)مشہور ارتقا پسند عالم ہے۔ تاہم وہ ڈارون کی طرح اس کا قائل نہ تھا کہ ذہنِ انسانی کی اعلی اور نادر خصوصیات محض انتخابِ طبیعی (natural selection) کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔
اسی طرح اس نے لکھا ہے کہ افادیت کا مفروضہ جو کہ دراصل ذہن پر انتخاب طبیعی کے نظریہ کا انطباق ہے، وہ انسان کے اندر اخلاقی شعور کی پیدائش کی تشریح کے لیے ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ اخلاقی شعور کو اس دنیا میں بےحد مشکلات کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ طرح طرح کے استثنائی حالات پیش آتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اخلاقی شعور کے تحت عمل کرنے والا موت سے دوچار ہوتا ہے یا برباد ہو کر رہ جاتاہے۔ ہم کیوں کر یقین کرسکتے ہیں کہ افادیت کا لحاظ ایک شخص کے اندر ایک اعلی نیکی کے لیے اتنا پر اسرار تقدس پیدا کرسکتا ہے۔ کیا افادیت کا لحاظ ایک شخص کے اندر ایک اعلی نیکی کے لیے اتنا پراسرار تقدس پیدا کرسکتا ہے۔ کیا افادیت آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرسکتی ہے کہ وہ سچائی کو بذاتِ خود مقصود ومطلوب سمجھے اور نتائج کا لحاظ کیے بغیر اس پر عمل کرے:
The Utilitarian hypothesis, which is the theory of natural selection applied to mind, seems inadequate to account for the development of the moral sense. Such being the difficulties with which virtue (or the moral sense) has had to struggle, with so many exceptions in its practice, with so many instances in which it brought ruin or death to its too ardent devotee, how can we believe that considerations of utility could ever invest it with the mysterious sanctity of the highest virtue–-could ever induce men to value truth for its own sake, and practice it regardless of consequences.
’’ذہین کائنات‘‘ نامی کتاب کا مصنف فریڈ ہائل اپنے قیمتی مطالعہ کا خاتمہ ان الفاظ پر کرتاہے کہ اگر زمین کو کسی مزید اہمیت کا حامل بننا ہے، اور انسان کو کائناتی اسکیم میں کوئی جگہ پانی ہے تو ضرورت ہوگی کہ ہم افادیت کے نظریہ کو مکمل طورپر ترک کردیں۔ اگر چہ میرا خیال ہے کہ قدیم طرز کے مذہبی نظریات کی طرف واپسی کچھ مفید نہ ہوگی، مگر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ایساکیوں ہے کہ ویلس کی تشریح کے مطابق ، پراسرار تقدس ہمارے اندر موجود رہتا ہے اور فردوسی دنیا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کیا ہم اس کی پیروی کریں گے:
If the Earth is to emerge as a place of added consequence, with man of some relevance in the cosmic scheme, we shall need to dispense entirely with the philosophy of opportunism. While it would be no advantage I believe to return to older religious concepts, we shall need to understand why it is that the mysterious sanctity described by Wallace persists within us, beckoning us to the Elysian fields, if only we will follow. (Fred Hoyle, The Intelligent Universe, Michael Joseph, London, 1983, p. 251)
حقیقت یہ ہے کہ مذہب انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ وہ مذہب کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آج کا انسان بھی اتنا ہی زیادہ مذہب کا ضرورت مند ہے جتنا قدیم زمانہ کا انسان تھا۔ مزید یہ کہ سائنس کی طرف سے مایوسی نے اس کو مزید شدت کے ساتھ مذہب کا مشتاق بنادیا ہے۔ مگر جدید انسان کی مشکل یہ ہے کہ وہ مذہب کے نام سے جس چیز کو جانتا ہے ،وہ صرف بگڑے ہوئے مذاہب ہیں، اور بگڑے ہوئے مذاہب کے ساتھ انسانی فطرت کو مطابقت نہیں۔ جدید انسان جب اندرونی تقاضے سے مجبور ہو کر مذہب کے بارے میں سوچتا ہے تو اسی بگڑے ہوئے مذہب کی تصویر اس کے سامنے آجاتی ہے۔ وہ مذہب سے قریب ہو کر دوبارہ مذہب سے دور ہوجاتا ہے۔
اسلام ایک محفوظ مذہب ہے۔وہ ان خرابیوں سے یکسر پاک ہے جو انسانی ملاوٹ کے نتیجہ میں دوسرے مذہبوں میں پیدا ہوگئی ہیں۔ انسان کی فطرت جس مذہب کو تلاش کررہی ہےوہ حقیقةً اسلام ہی ہے۔ مگر مسلمانوںکا حال یہ ہے کہ وہ اسلام کو اپنے خود ساختہ جھگڑوں کا عنوان بنائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اسلام کو دنیا کے سامنے پیش ہی نہیں کیا، اور اگر پیش کیا تو بگڑی ہوئی خود ساختہ صورت میں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو اسلام اور دوسرے مذہبوں میں بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اسلام کو اگر اس کی اصل صورت میں آج کے انسان کے سامنے پیش کردیا جائے تو وہ یقیناً اس کو اپنی طلب کا جواب پائے گا اور اس کی طرف دوڑ پڑے گا۔
مسلمان سائنس کے میدان میں دوسروں سے پچھڑ گئے ہیں مگر عقیدہ (نظریۂ حیات) کے معاملہ میں وہ آج بھی دوسروں سے آگے ہیں۔ وہ جدید دنیا کو وہ چیز دے سکتے ہیں جس کی آج اسے سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یعنی خدا کی طرف سے آیا ہوا سچا دین، وہ دین جس کے اوپر آدمی اپنے لیے ایک پر اعتماد زندگی کی تعمیر کرسکے۔ یہ مقام آج مسلمانوں کے لیے خالی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں وہ اہلِ عالَم کے لیےنفع بخش بن سکتے ہیں، اور دوبارہ اپنے آپ کو اِس کا اہل ثابت کرسکتےہیں کہ قدرت کا یہ قانون ان کے حق میں پورا ہو — فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ (13:17)۔ یعنی پس جھاگ تو سوکھ کر جاتا رہتا ہے اورجو چیز انسانوں کو نفع پہنچا نے والی ہے، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 267

صدر اسلامی مرکز کو ساری دنیا میں پڑھا اور سنا جاتا ہے۔مثلاً ہمارے فیس بک پیج، مولانا وحید الدین خان (@@maulanawkhan)،اور سی پی ایس انٹرنیشنل (@@cpsinternational)، نیز مولانا عبد الباسط عمری (قطر)کے زیر انتظام چل رہے اردو فیس بک پیج حکمت و دانائی (@@hikmat.u.danae) پر لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں، اور اپنی تلاش کا جواب پاتے ہیں۔ ذیل میں ایسے کچھ متلاشیان حق کا تاثر دیا جارہا ہے، جن کی زندگیوں میں اس مشن سے مثبت تبدیلی آئی ہے:
† I was introduced to Maulana in the most negative phase of my life. It was totally by the grace of God, Maulana’s views and knowledge changed my life from that of a hopeless negative person to an optimistic positive one. It helped me to discover our Creator, Sustainer and Cherisher. (Danish Khan, Kanpur [Via Facebook])
† After listening to the lectures of Maulana Wahiduddin Khan, one can understand the purpose of one’s life, the creation plan of God, and how to live successfully. (Izhar ul Hassan, Bhakkar, Pakistan [Via Facebook])
† CPS, I think, is the only hope that will make peace prevail in every corner of this world and with Maulana’s ideas it seems to be very near in achieving its goal. The chains of hate, unhappiness, ruthlessness and cruelty will be overcome by peace, love, happiness and prosperity. Whenever I think of Maulana in my mind, it gives me hope that soon people of this world will love Islam in its true peaceful essence. (Irfan ul Islam [Via Facebook)
† I love everything that CPS International stands for and their work in promoting peace, spirituality and disseminating the message of Islam in a peaceful way! I have benefited a lot from CPS International (Shahril Shahrudin [Via Facebook])
الرسالہ کا انگلش ورژن ’’ اسپرٹ آف اسلام‘‘ ہر ماہ پابندی کے ساتھ انڈیا اور پاکستان سے شائع ہوتا ہے اورپوری دنیا میں کثرت سے پڑھا اور پسند کیا جاتا ہے۔ ذیل میں تین قارئین کے تاثرات نقل کیے جارہے ہیں:
† ††I have been reading Spirit of Islam for some time now, and I have come to understand well that Islam is a modern, progressive religion, fair to women in particular, especially with regards to divorce and property rights. It has dispelled my earlier misperception of it as merely a “burqa” religion. Sri Wahiduddin Khan and Smt. Farida Khanam write very clearly and beautifully. (Ms. Ramadevi Lingaraju, Bangalore)
† Yesterday I saw the PDF version of Spirit of Islam February 2019 issue. The contents are extremely interesting as well as informative and helpful. Also the designing of the magazine from January 2019 onwards is worthy of praise. I have a plan to open a “Peace Centre” in my locality so that people can benefit from Islamic knowledge and can read the literature of Maulana Wahiduddin Khan and can get free copies of the Quran and monthly magazines Al-Risala and Spirit of Islam. In addition they can also get access to the digital programs which they can later on watch at home or other places. I hope Almighty Allah will make me able to do so. (Muneeb Gulzar, Kashmir)
† I would like to present a tribute to you for the great contributions in promoting the true image and spirit of Islam through your esteemed monthly magazine Spirit of Islam. I read the issue of June 2018 (soft copy version) and found it a valuable effort for a noble cause. I am Assistant Professor in Mass Communication at a Post Graduate College in Gilgit-Baltistan, the northern region of Pakistan. I am keen to take advantage of your knowledge and vision, and will further disseminate the valuable contribution and knowledge-based thoughts. You are kindly requested to include me in your online mailing list for getting the softcopy of your magazine. If possible, please share your contents regarding the course Peace Building and Conflict resolution, as I am also contributing as provincial Vice Chairman of National Peace Council of Pakistan. I pray that Almighty Allah help and strengthen your efforts for the noble cause. (Prof. Ejaz Ahmed Khan, Gilgit-Pakistan)
واپس اوپر جائیں

ایک ضروری اعلان

قارئین الرسالہ سے گزارش ہے کہ وہ اپنامکمل ایڈریس مع پن کوڈ ، فون نمبراور ای میل (اگر موجود ہو) بذریعہ ڈاک الرسالہ کے پتے پر یا مندرجہ ذیل ای میل پر روانہ فرمائیں:
feedback@cpsglobal.org
cs.alrisala@gmail.com
واپس اوپر جائیں

Friday, 1 March 2019

Al Risala | March 2019 (الرسالہ،مارچ)

4

-بہتر گھر، بہتر سماج

5

- اولاد کی حیثیت

6

- والدین کی ذمہ داری

7

- ایک اچھی مثال

8

- بچوں کی تربیت

11

- گھر کا ماحول

12

- تربیت کا طریقہ

15

- زیادہ بڑی گود

16

- گھر کا ماحول

17

- خاندان کی اہمیت

18

- تربیت گاہ

19

- حسنِ اخلاق کی وراثت

20

- باپ کا تحفہ

21

- فیملی کلچر کا نقصان

22

- خدا کا اعتراف نہیں

23

- ایک عام کمزوری

24

- کامیابی کا طریقہ

25

- رزق کا معاملہ

26

- گھرایک تربیت گاہ

28

- بچوں کی اصلاح

29

- بچوں کا بگاڑ

30

- معکوس تربیت

31

- فرضی محبت

32

- خیر خواہی یا بد خواہی

33

- چھوٹی بات پر انتہائی فیصلہ

34

- اولاد پرستی کا فتنہ

35

- خوش فکری، یا حقیقت پسندی

36

- بچوں کا دکھ جھیل رہے ہیں

37

- اہل وعیال کا فتنہ

38

- پرچۂ امتحان

39

- ہاتھی کی دم میں پتنگ

40

- ہر گھر بگاڑ کا کارخانہ

41

- بچوں کا قبرستان

42

- نظر کی خریداری

43

- پیمپرنگ کا نقصان

44

- محرومی ایک نعمت

46

- تربیت اولاد

50

- پہلا اسکول


بہتر گھر، بہتر سماج

حضرت عائشہ کی ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہِ وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَہْلِی(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3895)۔یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے اچھا ہوں۔خاندان کسی سماج کا ایک یونٹ ہے۔ خاندانوں کے مجموعے ہی کا دوسرا نام سماج ہے۔ اگر خاندان بہتر ہوگا تو سماج بھی بہتر ہوگا۔ اور اگر خاندان بہتر نہ ہو تو سماج بھی بہتر نہیں ہوسکتا۔ہر شخص کسی خاندان میں پیداہوتا ہے۔ گویا کہ گھر، خاندان یا سماج کی پہلی تربیت گاہ ہے۔ اِس لیے اگر کسی سماج کو بہتر بنانا ہے تو خاندان کو بہتر بنانا ہوگا۔
تعلیم کی دو قسمیں ہیں — رسمی تعلیم (formal education)، اور غیر رسمی تعلیم (informal education) ۔ رسمی تعلیم کا ادارہ آدمی کو جاب (job) کے لیے تیار کرتا ہے اور غیررسمی تعلیم کا ادارہ سماج کے لیے بہتر افراد بنانے کا ذریعہ ہے۔ اسکول اور کالج رسمی تعلیم کے ادارے ہیں اور خاندان غیر رسمی تعلیم کے ادارے۔سماج کے اندر وسیع تر دائرے میں مثبت اور منفی نوعیت کے جو تجربات ہوتے ہیں، وہ تمام تجربات گھر کے اندر محدود دائرے میں ہوتے ہیں۔ گھر کے اندر کسی عورت یا مرد کو یہ سیکھنا ہے کہ جب گھر کے کسی فرد سے اس کو تکلیف پہنچے تو وہ اُس کو بھلا دے۔ اِسی طرح جب گھر کے کسی فرد سے اس کو کوئی فائدہ پہنچے تو وہ دل سے اس کا اعتراف کرے۔
جو لوگ اپنے گھر کے اندر اِس طرح کی تربیت حاصل کریں، وہ جب گھر سے نکل کر سماج میں داخل ہوں گے تو وہاں بھی وہ دوسروں کے ساتھ اِسی طرح کا برتاؤ کریںگے۔ وہ ناخوشگوار باتوں کو بھلائیں گے اور خوش گوار باتوں پر دوسرے کے سلوک کا اعتراف کریں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اخلاقی اعتبار سے بہترین لوگ ہیں۔ ایسے ہی افراد کسی سماج کو بہتر سماج بناتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اولاد کی حیثیت

ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ قرآن میں اولاد کو فتنہ کہاگیا ہے (الانفال، 8:28؛ التغابن، 64:15)اِس کا مطلب کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ مسلمان عام طورپر اولاد کو خدا کا انعام سمجھتے ہیں، کوئی بھی اپنی اولاد کو فتنہ نہیں بتاتا، پھر قرآن کی اُن آیتوں کا کیا مطلب ہے جن میں اولاد کو فتنہ کہاگیا ہے۔
میں نے کہا کہ اولاد اپنے آپ میں فتنہ نہیں ہے۔ زہر اپنے آپ میں زہر ہوتا ہے، مگر اولاد کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ وہ اصلاً فتنہ کے طورپر پیدا ہوتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فتنہ بنانے کا معاملہ ہے، نہ کہ بذاتِ خود فتنہ ہونے کا معاملہ۔ والدین کا اپنا غلط مزاج اولاد کو فتنہ بنا دیتا ہے۔ والدین کے اندر اگر صالح مزاج ہو تو اُن کی اولاد اُن کے لیے فتنہ نہیں بنے گی۔فتنہ کے لفظی معنی آزمائش (test) کے ہیں۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں انسان کو جو چیزیں بھی دی گئی ہیں، وہ سب کی سب امتحان کے پرچے ہیں۔ مال ، اولاد اور دوسری تمام چیزیں بھی امتحان کے پرچے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان تمام چیزوں کو اِسی اصل حیثیت سے دیکھے، وہ ہمیشہ یہ کوشش کرے کہ وہ اِس پرچۂ امتحان میں پورا اترے۔
اِس معاملے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق کو اپنا سب سے بڑا کنسرن بنائے۔ دوسری دنیوی چیزوں میں سے کوئی بھی چیز، خواہ وہ مال ہو یا اولاد ہو یا اقتدار، وہ اس کا اصل کنسرن (sole concern)نہ بننے پائے۔ جو لوگ اِس امتحان میں پورے نہ اتریں، وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا کنسرن بنالیں، وہ آخرت میں ایک محروم انسان کی حیثیت سے اٹھیں گے، جب کہ اُن کے تمام سہارے ان سے ٹوٹ چکے ہوں گے۔ اس وقت وہ حسرت کے ساتھ کہیں گے:مَا أَغْنَى عَنِّی مَالِیَہْ ۔ ہَلَکَ عَنِّی سُلْطَانِیَہْ (69:28-29)۔ حقیقت یہ ہے کہ اولاد ذمے داری (responsibility)کا ایک معاملہ ہے، نہ کہ فخر (pride)اور مباہات کا کوئی معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

والدین کی ذمہ داری

اولاد کی تربیت کے بارے میں انس بن مالک کے حوالے سے ایک حدیثِ رسول ان الفاظِ میں آئی ہے:أَکْرِمُوا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَہُمْ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3671)یعنی اپنے اولاد کے ساتھ بہتر سلوک کرو، اور ان کو اچھا ادب سکھاؤ۔
اس حدیث میں ادبِ حسن کا مطلب زندگی کا بہتر طریقہ ہے۔ یعنی یہ سکھانا کہ بیٹا یا بیٹی بڑے ہونے کے بعد دنیا میں کس طرح رہیں کہ وہ کامیاب ہوں، وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا بوجھ (liability)نہ بنیں، بلکہ وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا سرمایہ (asset)بن جائیں۔
والدین اپنے بچوں کو اگر لاڈ پیار (pampering) کریں تو انھوں نے بچوں کو سب سے بُرا تحفہ دیا۔ اور اگر والدین اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کا کامیاب طریقہ بتائیں، اور اس کے لیے ان کو تیار کریں تو انھوں نے اپنے بچوں کو بہترین تحفہ دیا۔ مثلاً بچوں میں یہ مزاج بنانا کہ وہ دوسروں کی شکایت کرنے سے بچیں۔ وہ ہر معاملے میں اپنی غلطی تلاش کریں، وہ اپنی غلطی تلاش کرکے اس کو درست کریں ، اور اس طرح اپنے آپ کو بہتر انسان بنائیں۔ وہ دنیا میں تواضع (modesty) کے مزاج کےساتھ رہیں، نہ کہ فخر اور برتری کے مزاج کے ساتھ۔ زندگی میںان کااصول حیات یہ ہو کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائیں، نہ کہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے وقت اور اپنی توانائی کو صرف مفید کاموں میں لگائیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ بتائیں کہ اگر تم غلطی کرو گے تو اس کی قیمت تم کو خود ادا کرنی ہوگی۔ کوئی دوسرا شخص نہیں جو تمھاری غلطی کی قیمت ادا کرے۔ کبھی دوسروں کی شکایت نہ کرو۔ دوسروں کی شکایت کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ ہمیشہ مثبت انداز سے سوچو، منفی سوچ سے مکمل طور پر اپنے آپ کو بچاؤ۔بری عادتوں سے اس طرح ڈرو، جس طرح کوئی شخص سانپ بچھو سے ڈرتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو ڈیوٹی کانشش بنائیں، نہ کہ رائٹ(right) کانشش۔
واپس اوپر جائیں

ایک اچھی مثال

ایک بار دہلی کے ایک کالج کے استاد نے بتایا کہ دہلی میں طلبا کا ایک تقریری مقابلہ ہوا۔ اِس میں مختلف کالجوں کے منتخب طلبا اور طالبات نے شرکت کی۔ ہر طالب علم کو انگریزی زبان میں تقریر کرنا تھا۔ اِن تقریروں میں جج کو جو بنیادی چیز دیکھنا تھا، وہ طرز ادا یا طرزِ تقریر (delivery) تھا۔ ڈاکٹر مرچنٹ کی لڑکی کا طرزِ تقریر سب سے زیادہ کامیاب تھا، چناں چہ اُس کو پہلا انعام دیاگیا۔
اِس کامیابی کا راز کیا تھا، اِس کا جواب مجھے 26 اگست 2009 کو ملا۔ سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک پروگرام کے دوران میری ملاقات ڈاکٹر آر کے مرچنٹ سے ہوئی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور دہلی میں رہتے ہیں۔ اُن سے ملاقات کے دوران رٹائرڈ جنرل چھبّر اور دوسرے کئی لوگ موجود تھے۔ ڈاکٹر مرچنٹ نے کہا کہ میرے گھر میں ٹی وی نہیں ہے، میں ریڈیو کے ذریعے خبریں سنتا ہوں۔ ان کی اِس بات میںمجھے اِس سوال کا جواب مل گیا کہ اُن کے بچے کیوںتعلیم میںاتنا زیادہ کامیاب ہیں۔اِس سے پہلے میںایک بار ڈاکٹر مرچنٹ کے گھر گیا ہوں۔ وہاں میں نے دیکھا تھا کہ اُن کا گھر بہت سادہ ہے۔ ان کی دو لڑکیاں ہیں۔ دونوں خاموشی کے ساتھ لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتی ہیں۔ڈاکٹر مرچنٹ کے پاس ذاتی کار ہے، لیکن ان کی لڑکیاں ہمیشہ بس کے ذریعے اسکول جاتی ہیں۔ ان کے گھر میں ’’ٹی وی کلچر‘‘ کا کوئی نشان مجھے نظر نہیں آیا— یہی سادہ اور با اصول زندگی ڈاکٹر مرچنٹ کے بچوں کی کامیابی کا اصل سبب ہے۔
آج کل ہر باپ اپنی اولاد کی شکایت کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر باپ کو خود اپنی شکایت کرنا چاہیے۔ عام طورپر والدین یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو سادہ نہیں بناتے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ رہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہر شوق کو پورا کرسکیں۔ وہ اپنے بچوں کو ’’ٹی وی کلچر‘‘ کا عادی بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو گھروں کے بگاڑ کااصل سبب ہے۔ اِس بگاڑ کی تمام تر ذمے داری والدین پر ہے، نہ کہ اولاد پر۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کی تربیت

ایک مغربی ملک میں مقیم ایک مسلم خاندان نے اِس کا اظہار کیا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے کچھ دنوں کے لیے آکر ہمارے یہاں ٹھہریں اور ہم سے اسلامی تربیت حاصل کریں۔ میں نے اِس تجویز کو رد کردیا۔ میرے نزدیک یہ تربیت کا ایک مصنوعی طریقہ ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی نتیجہ خیز کام صرف فطری طریقے کے مطابق انجام پاتا ہے،غیر فطری طر یقہ کسی بھی کام کے لیے ہرگز مفید نہیں۔
اِس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ اپریل 1981 میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے تحت میں بار بیڈوز (Barbados)گیا تھا۔ اِس سلسلے میں وہاں کے مقیم مسلمانوں نے ایک مسجد میں میرا پروگرام رکھا۔ ایک صاحب اپنے ایک بچے کو اپنے ساتھ لے کر وہاں آئے۔ یہ بچہ جو تقریباً 12 سال کا تھا، وہ اصل اجتماع کے باہر ایک مقام پر اِس طرح بیٹھا کہ اس کی پیٹھ میری طرف تھی اور اس کا چہرہ دوسری طرف۔ ایک شخص نے اُس سے کہا کہ تم اِس طرح کیوں بیٹھے ہو، اندر چل کر لوگوں کے ساتھ بیٹھو۔ لڑکے نے نہایت بے پروائی کے ساتھ جواب دیا — می ناٹ (“me not”) یعنی مجھے اِس سے کوئی مطلب نہیں ہے۔یہ واقعہ موجودہ زمانہ کے تمام مسلم خاندانوں کے لیے ایک علامتی واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج کل کے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ محنت کرکے کماتے ہیں اور پھر محبت کے نام پر اپنی کمائی کا بڑا حصہ بچوں پر خرچ کرتے ہیں۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ محبت نہیں ہے، بلکہ وہ لاڈپیار (pampering) ہے، اور یہ ایک واقعہ ہے کہ بچوں کو بگاڑنے کا سب سے بڑا سبب یہی لاڈ پیار ہے۔
کسی بچے کا ابتدائی تقریباً 10سال وہ ہے جس کو، نفسیاتی اصطلاح میں، تشکیلی دور (formative period) کہاجاتا ہے۔ یہ تشکیلی دوربے حد اہم ہے، کیوں کہ اِس تشکیلی دور میں کسی کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، وہ بے حد اہم ہے۔ یہی شخصیت بعد کی پوری عمر میں باقی رہتی ہے۔ اِسی حقیقت کو ایک عربی مقولے میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے:من شب على شیء شاب علیہ (آدمی جس چیز پر جوان ہوتاہے، اُسی پر وہ بوڑھا ہوتا ہے)۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تشکیلی دور (formative period) میں نام نہاد محبت کے ذریعے بچوں کو بگاڑ دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ آج کل کے تمام والدین اپنے بچوں کو می ناٹ بچے (me not children) بنادیتے ہیں۔ اس کے بعدوہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کسی کرشمہ ساز تربیتی طریقے (charismatic method of training) کے ذریعے اصلاح یافتہ بن جائیں۔
میرے تجربے کے مطابق، اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے والدین اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں سنجیدہ نہیں۔ اِس معاملے میں اگر کوئی باپ زیادہ سے زیادہ سوچ پاتا ہے تو وہ صرف یہ کہ وہ اپنے بیٹے کو گول ٹوپی اور اپنی بیٹی کو اسکارف پہنا دے، اور پھر خوش ہو کہ اُس نے اپنی اولاد کو اسلامی تربیت سے مزیّن کردیا ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں سنجیدہ ہو تو اس کے لیے میں چند عملی مشورے یہاں درج کروں گا۔
1- محبت کے نام پر لاڈ پیار (pampering) کو وہ اِس طرح چھوڑ دیں جیسے وہ کسی حرام کو چھوڑتے ہیں۔ محبت کے نام پر جو لاڈ پیار کیا جاتا ہے، اُس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ بچے کو زندگی کے حقائق (realities) سے بالکل بے خبر کردیتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بچے کے اندر حقیقت پسندانہ طرز فکر (realistic approach) کانشو ونما نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ اِس کے نتیجے میں بچے کے اندر ایک خود پسند شخصیت (self-centered personality) تشکیل پاتی ہے، جو کسی آدمی کے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر میں بلا شبہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
2- اِس سلسلے میں یہ بات بہت زیادہ قابلِ لحاظ ہے کہ بچے کی عمر کا ابتدائی تشکیلی دور ماں باپ کے ساتھ گزرتا ہے۔ اِس دور میں بچے کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، وہ ہمیشہ بدستور اس کے اندر باقی رہتی ہے۔ والدین کو جاننا چاہیے کہ اِس ابتدائی تشکیلی د ور میں اگر انھوں نے بچے کی تربیت میں غلطی کی تو بعد کے زمانے میں اس کی تلافی کبھی نہ ہوسکے گی۔ بعد کے زمانے میں ایسے کسی شخص کی اصلاح کی صرف ایک ممکن صورت ہوتی ہے، اور وہ یہ کہ اس کو شدید نوعیت کا کوئی ہلادینے والا تجربہ (shocking experience) پیش آئے جو اس کے لیے ایک نقطہ انقلاب (turning point) بن جائے، مگر بہت کم لوگوں کو اِس قسم کا ہلادینے والا تجربہ پیش آتا ہے، مزیدیہ کہ ایسا ہلادینے والا تجربہ اور بھی نادر (rare) ہے، جب کہ وہ آدمی کے لیے مثبت انقلاب کا سبب بن جائے۔
3- اپنے تجربے کی روشنی میں ایسے والدین کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ہمارے یہاں کا مطبوعہ لٹریچر اہتمام کے ساتھ پڑھوائیں، صرف ایک بار نہیں، بلکہ بار بار۔ اِسی کے ساتھ وہ کوشش کریں کہ اُن کے بچے ہمارے یہاں کے تیار شدہ آڈیو اور ویڈیو دیکھیں اور سنیں۔ یہ تمام آڈیو اور ویڈیو ہماری ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دستیاب ہیں۔ مزید یہ کہ دہلی میں ہونے والا ہمارا ہفتے وار لکچر کا پروگرام پابندی کے ساتھ سنیں ،جو کہ ہرسنیچر کو شام پانچ بجے(IST)اور ہر اتوار کی صبح کو ساڑھے دس بجے (IST) شروع ہوتا ہے ۔ان دونوں پروگراموں کو فیس بک (www.facebook.com/maulanawkhan/)پر لائیو دیکھا جاسکتا ہے۔
4- یہ لازمی نوعیت کا ابتدائی پروگرام ہے۔ جو والدین اپنے بچوں کی اصلاح وتربیت کے خواہش مند ہوں، اُن کو اِسے اختیار کرنا چاہیے۔ اگر وہ اِس کو اختیار نہ کریں تو کوئی بھی جادوئی تدبیر بچوں کی اصلاح کے لیے کار آمد نہیں ہوسکتی۔
٭ ٭ ٭٭٭
جولائی 1995 میں مراد آباد کا میرا ایک سفر ہوا۔ وہاں ایک صاحب نے بتایا کہ جو پیسہ والے مسلمان ہیں۔ ان سے اگر پوچھا جائے کہ تم اتنا زیادہ پیسہ کس لیے اکھٹا کررہےہو تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے: اس لیے کہ بچے آرام سے رہیں۔میں نے کہا کہ بچوں کے آرام کے لیے جو لوگ دولت اور جائداد اکٹھا کریں وہ خود اپنی اولاد کے لیے کوئی عقل مندی نہیں کررہے ہیں۔ تجربہ یہ ہے کہ بے محنت کے ملی ہوئی دولت آدمی کے اخلاق کو بگاڑتی ہے۔ وہ اس کے اندر سطحیت، حتی کہ آوارگی پیدا کردیتی ہے۔ بچوں کے ساتھ سب سے پہلی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کواعلیٰ تعلیم دلائی جائے، اور اس کے بعد دوسری ضرورت یہ ہے کہ ان کو محنت کے راستے پر ڈالا جائے۔
واپس اوپر جائیں

گھر کا ماحول

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ بتایا کہ ان کا معمول ہے کہ وہ روزانہ صبح کو اپنے گھر والوں کو ایک جگہ بٹھاتے ہیں، اور کسی دینی کتاب کا ایک حصہ پڑھ کر ان کوسناتے ہیں۔مجھے بہت سے لوگوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اس طریقے کو اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرکے وہ اپنا دینی فریضہ ادا کررہے ہیں۔یہ طریقہ بلاشبہ انسان کے بارے میں کمتر اندازہ کی حیثیت رکھتا ہے۔انسان اس طرح کی رسمی باتوں سے اپنا ذہن نہیں بدلتا۔
لیکن اس طرح گھر والوں کو دینی کتاب پڑھ کر سنانا اصل ذمہ داری کا صرف نصف ثانی ہے۔ اصل ذمے داری کی نسبت سے نصف اول یہ ہے کہ گھر کے اندر موافقِ دین ماحول بنایا جائے۔اگر گھر کے اندر موافق ماحول نہ ہوتو اس طرح کتاب پڑھ کر سنانے سے مطلوب نتیجہ حاصل نہ ہوگا۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے گھر میں پوری طرح دنیادارانہ ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر دوسروں کے خلاف شکایت کی باتیں ہوتی ہیں۔ گھر کے اندر منفی خبروں کا چرچا رہتا ہے۔ گھر کے اندر انسانی خیرخواہی کی باتیں نہیں ہوتیں۔بلکہ اپنے لوگوں کو اپنا ، اور دوسرے لوگوں کو غیر سمجھنے کا ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر جن باتوں کا چرچا ہوتا ہے، وہ ہیں —کھانا کپڑا، روپیہ پیسہ،بزنس اور جاب، وغیرہ۔
گھر میں دینی کتاب پڑھ کر سنانا بلاشبہ ایک اچھا کام ہے۔ لیکن اس کو موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ گھر کے اندر اس کے موافق ماحول موجود ہو۔ کتاب پڑھنے سے پہلے، اور کتاب پڑھنے کے بعد گھر کے اندر وہی ماحول ہو جو کتاب میں بتایا گیا ہے۔ کسی گھر کو دین دار گھر بنانا اسی وقت ممکن ہے، جب کہ اس کو پوری سنجیدگی کے ساتھ انجام دیا جائے۔گھر کا ماحول موافقِ دین بنائے بغیر گھر کے اندر دینی کتاب پڑھ کر سنانا گویا ہاتھی کے دم میں پتنگ باندھنا ہے۔ اس طرح کے کسی عمل سے گھر کے سرپرستوں کی ذمے داری ادا نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں

تربیت کا طریقہ

ایک صاحب کو ان کے پڑوسی نے نہایت سخت بات کہہ دی۔ وہ صاحب اس کو سن کر چپ چاپ اپنے گھر میں چلے آئے۔ انھوںنے کہنے والے کو کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کے لڑکے کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ بہت بگڑا۔ اس نے کہا کہ اس شخص کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ میرے باپ کو اس طرح ذلیل کرے۔ میں اس کو سبق دوں گا تاکہ آئندہ وہ کبھی ایسی ہمت نہ کرے۔
باپ نے بیٹے کو ٹھنڈا کیا۔ باپ نے کہا کہ آخر اس نے ایک لفظ ہی تو کہا ہے۔ اس نے مجھے کوئی پتھر تو نہیں مارا۔ پھر اس میں ہمارا کیا نقصان ہے۔ اس نے اگر اپنی زبان خراب کی ہے تو ہم اپنی زبان کیوں خراب کریں۔ باپ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم اس کو بھلادو اور اپنے کام میں لگ جاؤ۔بیٹا اس واقعہ کو ’’یاد‘‘ کے خانہ میں رکھنا چاہتا تھا، باپ نے اس کو ’’بھول‘‘ کے خانہ میں ڈال دیا۔ جو واقعہ عام حالات میں غصہ اور انتقام کا موضوع بنتا، وہ صبر اور برداشت کا موضوع بن گیا۔ کچھ دنوں بعد خود پڑوسی کو شرمندگی ہوئی۔ اس نے آکر اپنی گستاخی کی معافی مانگی اورآئندہ کے لیے پہلے سے زیادہ بہتر ہوگیا۔
باپ اگر اپنے بیٹے کے اندر انتقام کی نفسیات ابھارتا تو وہ برائی کا ایجنٹ بن جاتا۔ مگر باپ نے جب اپنے بیٹے کو بھلانے اور برداشت کے راستہ پر ڈالا تو وہ ان کے لیے نیکی اور سچائی کا رہنما ہوگیا۔ قرآن کے لفظوں میں وہ متقیوں کا امام بن گیا(الفرقان، 25:74)۔
اسی کا نام بچوں کی تربیت ہے۔ بچوں کی تربیت یہ نہیں ہے کہ ایک وقت مقرر کرکے انھیں بٹھایا جائے اور تحریر یا تقریر کی صورت میں انھیں اصلاحی باتیں سنائی جائیں۔ اصل تربیت یہ ہے کہ گھر کے اندر جب عملی طورپر وہ مواقع پیدا ہوں جہاں ایک راستہ صحیح سمت میں جاتاہو اور دوسرا راستہ غلط سمت میں۔ ایسے مواقع پر جذبات کو برداشت کرکے اور ذاتی نقصان اٹھا کر گھر والوں کو رہنمائی دی جائے۔ ان کے ذہن کو ایک رخ سے دوسرے رخ کی طرف پھیر دیا جائے-تربیت پیدا شدہ حالات کے درمیان رہنمائی کی جاتی ہے نہ کہ مجرّد قسم کی وعظ خوانی کے ذریعہ۔
ایک مثال
بچوں کی تربیت کے سلسلے میںعام طور سے یہ کیا جاتا ہے کہ ایک مقرر وقت پر جمع کرکے بچوں کو دین کے مسائل بتایا جائے۔ بچوں کی تربیت اس قسم کے وقتی وعظ سے نہیں ہوتی بلکہ تربیت کا اصل ذریعہ گھر کا ماحول ہے۔ اگر آپ کے گھر میں اخلاق اور انسانیت کا ماحول ہو۔ آپ کے گھر میں کسی کی غیبت اور شکایت نہ کی جاتی ہو، اور آپ کے گھر میں دوسروں کو عزت دینے کا ماحول ہو، خواہ وہ اپنا ہو یا غیر تو یہ ماحول آپ کے گھر کو ایک زندہ تربیت گاہ بنا دے گا۔ اس کے بعد کسی رسمی وعظ کی ضرورت نہ ہوگی۔
یہاں ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے، جو بتاتا ہے کہ بچوں کی تربیت کیا ہوتی ہے۔ مظفر نگر (یوپی) کے ایک قصبہ کا واقعہ ہے۔ وہاں ایک مسلم خاندان کے یہاں ایک ہریجن عورت صفائی کے کام کے لیے روزانہ آتی تھی۔ گھر کی ایک بچی سے اس ہریجن عورت کی دوستی ہوگئی۔ یہ ہریجن عورت جب وہاں صفائی کے کام کے لیے آتی تو وہ سب سے پہلے مذکورہ بچی سے ملتی۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مانوس ہوگئے۔
ایک دن ایسا ہوا کہ گھر کے اندر جنت اور جہنم کا تذکرہ ہوا۔ لڑکی کے باپ نے کہا کہ جنت میں داخلہ کے لیے ایمان ضروری ہے۔ جو شخص مومن اور موحد ہو وہی موت کے بعد جنت میں جائے گا۔اور جو لوگ مشرک ہیں، جو غیر اللہ کی پرستش کرتے ہیں وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ بچی کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی۔ وہ سوچنے لگی کہ میں تو مومن اور موحد ہوں اس لیے میں جنت میں جاؤں گی۔ مگر ہریجن عورت تو شرک میں مبتلا ہے، وہ کس طرح جنت میں جائے گی۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ اگلے دن جب مذکورہ ہریجن عورت صفائی کے کام کے لیے آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی دوست بچی گھر میں ایک کنارے کھڑی ہوئی بری طرح رو رہی ہے۔ عورت اس کو دیکھ کر گھبرا گئی۔ اس نے پوچھا کہ تم کو کیا تکلیف ہے۔ تم کیوں اس طرح رو رہی ہو۔ بہت پوچھنے کے بعد بچی نے کہا کہ میں مومن ہوں اس لیے میں جنت میں جاؤں گی، اورتم مشرک ہو اس لیے تم جنت میں نہیں جاؤ گی۔ اس طرح موت کے بعد کی زندگی میں میرا اور تمہارا ساتھ چھوٹ جائے گا۔ یہ سن کر ہریجن عورت نے کہا کہ تم مت روؤ۔ میں آج سے اسلام قبول کرتی ہوں تاکہ ہم دونوں ایک ساتھ جنت میں رہیں۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اگر گھر کا ماحول جیساہوگا، بچے اسی طرح کی راہ کا انتخاب کریں گے،اور یہی ماحول بچوں کی ذہن سازی میں رہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
امریکا میں مقیم ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ اپنے بچوں کے بارے میں ہم کو یہ فکر رہتی ہے کہ ہمارے بعد دینی اعتبار سے اِن بچوں کا کیا حال ہوگا۔ انھوںنے بتایا کہ ہمارے بچے سیکولر اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ البتہ ہم اپنے گھر پر اسی کے ساتھ بچوں کی دینی تربیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکا میں اس کو ہوم اسکولنگ (home schooling) کہا جاتا ہے۔میں نے کہا کہ جب آپ نے امریکا میں رہنے کا فیصلہ کیا تو آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ آپ یہاں کے کلچر سے اپنے بچوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ ہوم اسکولنگ کے ذریعہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کاغذ کی دیوار سے سیلاب کا مقابلہ کرنا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ غالباً کو ئی ایک بچہ بھی ایسا نہیں جس کی مثال کو لے کر یہ کہا جاسکے کہ ہوم اسکولنگ کا طریقہ اپنے مطلوب نشانے کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف گھر کے ماحول کو بدلا جائے، اور دوسری طرف بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کیا جائے۔ گھر میں سادگی (simplicity)اور بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کئے بغیر اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں

زیادہ بڑی گود

ہندستانی روایات میں ایک کہانی اس طرح ہے کہ ایک راجہ کے یہاں دو رانیاں تھی۔ دونوں رانی کے یہاں ایک ایک بچہ تھا۔ دونوں کے درمیان رقابت رہتی تھی۔ ایک دن ایک رانی کا بچہ راجہ کی گود میں آکر بیٹھ گیا۔ دوسری رانی نے اس منظر کو دیکھا تو اسے غصہ آگیا۔ وہ اپنے بیٹے کو لے کر آئی اور دوسری رانی کے بیٹے کو ہٹا کر اپنے بیٹے کو راجہ کی گود میں بٹھا دیا۔بچہ روتا ہوا اپنی ماں کے پاس گیا اور پورا قصہ بتایا۔ ماں نے کہا کہ اے میرے بیٹے تم پرم پتا کی گود میں بیٹھ جاؤ۔ اس کے بعد تمہیں ان باتوں کی شکایت نہ ہوگی۔
یہ ایک تمثیلی کہانی ہے۔ تاہم اس میں بہت بڑا سبق ہے۔ انسان عام طورپر مختلف قسم کی شکایتیں لیے رہتاہے۔ اس کو اپنے گھر والوں کی طرف سے اور سماج کے لوگوں کی طرف سے مختلف قسم کے ناپسندیدہ تجربات پیش آتے رہتے ہیں جو شکایت بن کر اس کے سینہ میں بس جاتے ہیں۔ مگر یہ سب بہت چھوٹی باتیں ہیں۔ زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ آدمی خدا کی یادوں میں جینے والا بنے۔ وہ اپنا سارا بھروسہ خدا پر قائم کرے۔ وہ خدا کی دی ہوئی چیزوں کی عظمت میں اس طرح گم ہو کہ اس کو یاد ہی نہ رہے کہ کسی اور نے اس کو کیا دیا اور کیا نہیں دیا۔
انسانوں سے شکایت دراصل خدا سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ خدا کی طرف سے انسان کو جو بے شمار نعمتیں ملی ہوئی ہیں وہ ایک اتھاہ سمندر کی مانند ہیں اور انسانوں کی طرف سے جو کچھ پیش آتا ہے وہ اس کے مقابلہ میں ایک قطرہ سے بھی کم ہے۔ عطیاتِ الہٰی کے اس سمندر میں اگر کوئی شخص اپنی طرف سے ایک قطرہ اور ڈال دے تو سمندر میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس سمندر سے ایک قطرہ نکال لے تب بھی اس میں کوئی کمی واقع ہونے والی نہیں۔
ہر آدمی ’’پرم پتا‘‘ کی گود میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس واقعہ کا شعوری ادراک اگر پوری طرح حاصل ہو جائے تو آدمی بڑی سے بڑی شکایت کو اس طرح نظر انداز کردے گا جیسے کہ اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

گھر کا ماحول

آج کل یہ حال ہے کہ سیکولر آدمی اور مذہبی آدمی کا فرق باہر کی زندگی میں تو نظر آتا ہے، لیکن گھر کی زندگی میں یہ فرق دکھائی نہیں دیتا۔ بہ ظاہر دونوں کا لباس الگ ہوتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر گڈ مارننگ (good-morning) کہتا ہے تو مذہبی آدمی السلام علیکم کہتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر کلب (club) جاتا ہے تو مذہبی آدمی مسجد جاتا ہے، وغیرہ۔ لیکن یہ فرق باہر کی زندگی کی حد تک ہے۔ گھر کے اندر کے ماحول کو دیکھیے تو سیکولر آدمی کے گھر اور مذہبی آدمی کے گھر کے درمیان کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا۔ اور اگر کوئی فرق ہوگا تو وہ صرف ظاہری رسم کے اعتبار سے ہوگا، نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے۔
قرآن میں دونوں قسم کے گھروں کی پہچان بتائی گئی ہے۔ غیر مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کو جاننے کے لیے قرآن کی اِس آیت کا مطالعہ کیجیے: إِنَّہُ کَانَ فِی أَہْلِہِ مَسْرُورًا(84:13)۔ یعنی وہ اپنے اہل کے درمیان خوش رہتا تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مذہبی انسان کی زندگی خاندان رُخی (family-oriented) زندگی ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر میں آکر محسوس کرتا ہے کہ میں اپنے لوگوں کے درمیان آگیا۔ وہ اپنا سارا وقت اور اپنا پیسہ اپنے اہلِ خاندان میں خرچ کرتا ہے اور مطمئن رہتا ہے کہ میں نے اپنے وقت اور اپنے پیسے کا صحیح استعمال کیا۔ وہ اپنے اہلِ خانہ کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اس کی دل چسپیوں اور اس کی سرگرمیوں کا مرکز اس کے اہلِ خاندان ہوتے ہیں۔ جو لوگ اِس طرح زندگی گزاریں، وہ کبھی خدا کے مطلوب بندے نہیں بن سکتے، خدا کی ابدی رحمتوں میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں۔
مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کتابِ الٰہی کی اِس آیت میں ملتی ہے:قَالُوا إِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِی أَہْلِنَا مُشْفِقِینَ (52:26)۔ یعنی اہلِ جنت کہیں گے کہ اِس سے پہلے ہم اپنے اہل کے درمیان ڈرتے رہتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سچا مذہبی انسان وہ ہے جو ہر وقت خدا کی پکڑ سے ڈرتا ہو، خواہ وہ اپنے گھر کے باہر ہو یا اپنے گھر کے اندر۔ وہ مواخذہ (accountability) کی نفسیات کے تحت زندگی گزارتا ہے، نہ کہ بے خوفی کی نفسیات کے تحت۔
واپس اوپر جائیں

خاندان کی اہمیت

خاندان (family) وسیع تر انسانیت کا ایک یونٹ ہے۔ خاندان کے اندر محدود دائرے میں وہ تمام حالات پیش آتے ہیں جو وسیع تر انسانیت کے اندر زیادہ بڑے پیمانے پر پیش آتے ہیں۔ اِس اعتبار سے، خاندان ہر ایک کے لیے گویا ایک تربیتی اسکول ہے۔ ہر آدمی اپنے خاندان کے اندر اُن تمام باتوں کو سیکھ سکتا ہے جو دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ مگر اِس کی ایک شرط ہے، وہ یہ کہ آدمی خاندان پرستی کا شکار نہ ہو۔ وہ اپنے خاندان کو بھی اُس نظر سے دیکھے جس طرح کوئی شخص دوسرے انسانوں کو دیکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جتنے مختلف قسم کے کیریکٹر ہیں، وہ سب کیریکٹر ہر آدمی کے اپنے خاندان کے افراد میں موجود ہوتے ہیں۔خاندان ہر آدمی کے لیے روایتی ’’جامِ جمشید‘‘ کی مانند ہے۔ خاندان کے آئینے میں آدمی ہر قسم کے اخلاق کا نمونہ دیکھ سکتا ہے۔ اِس طرح ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے خاندان اور رشتے داروں کو دیکھ کر زندگی کا تجربہ حاصل کرے اور اپنی زندگی کی حقیقت پسندانہ انداز میں منصوبہ بندی (planning) کرے۔
مگر بہت کم ایسے افراد ہیں جو اِس قریبی امکان سے فائدے اٹھاتے ہیں۔ اِس محرومی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے لوگوں کے اندر موضوعی طرزِ فکر کا نہ ہونا۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں بہت جلد متعصبانہ طرز فکر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اُن کو اپنے گھر والوں کی غلطی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ خاندان سے باہر کے افراد کے بارے میں غیر ہمدردانہ انداز میں سوچتے ہیں اور اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں ہمدردانہ انداز میں۔ وہ خاندان سے باہر کے افراد کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے خاندان کے افراد کو دوسری نظر سے۔اِس طرح اُن کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ نہ اپنوں کی زندگی سے سبق حاصل کرتے ہیں اور نہ دوسروں کی زندگی سے کوئی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

تربیت گاہ

ایک حدیث رسول کا ترجمہ یہ ہے: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو (ابن ماجہ، حدیث نمبر 1977)۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنے گھر کے لوگوں سے معاملہ کرنے میں بہتر ہوگا ،وہ باہر والوں سے معاملہ کرنے میں بھی بہتر ثابت ہوگا۔ گھر ہر آدمی کی فطری تربیت گاہ ہے۔ گھر کے اندر محدود سطح پر وہ سارے معاملات پیش آتےہیں جو باہر سماج کے اندر زیادہ وسیع طور پر پیش آتے ہیں۔ اس لیےجو آدمی محدود دائرہ میں بہتر انسانیت کا ثبوت دے گا، وہ باہر کے وسیع تر دائرہ میں بھی بہتر انسانیت کا ثبوت دے گا، وہ باہر کے وسیع تر دائرہ میں بھی بہتر انسانیت والا بن کر رہ سکے گا۔ایک صاحب گورنمنٹ سروس میں تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ بیوی کو دبا کر رکھنا چاہیے۔ گھر کے اندر وہ روزانہ اپنے اسی نظریہ پر عمل کرتے۔ وہ ہمیشہ گھر کی خاتون کے ساتھ سخت انداز میں بولتے۔ وہ ان کے ساتھ شدت والا سلوک کرتے تاکہ وہ ان کے مقابلہ میں دب کر رہیں۔
گھر کی تربیت گاہ میں ان کاجو مزاج بنا، اسی کو لے کر وہ دفتر میں پہنچے۔ یہاں ان کی افسر (باس) اتفاق سے ایک خاتون تھیں۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہاں بھی ان کا وہی گھر والا مزاج قائم رہا۔ وہ اپنی افسر خاتون کے ساتھ بھی اسی قسم کا ’’مرادنہ‘‘ معاملہ کرنے لگے ،جس کے عادی وہ اپنے گھر کی خاتون کے ساتھ ہوچکے تھے۔لیڈی افسر ابتداء ً ان کے ساتھ ٹھیک تھی۔ مگر ان کے غیر معتدل انداز نے لیڈی افسر کو بھی ان سے برہم کردیا۔ اس نے بگڑ کر ان کا ریکارڈ خراب کردیا۔ ان کا پروموشن رک گیا۔ وہ طرح طرح کی دفتری مشکلات میں پھنس گئے۔صحیح اصول وہ ہےجو گھر کے اندر اور گھر کے باہر دونوں جگہ یکساں طورپر مفید ہو۔ یہ اصول شرافت کا اصول ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ گھر کے اندر شرافت کے ساتھ رہے۔ وہ بڑوں کو عزت دے اور چھوٹوں کے ساتھ مہربانی کا سلوک کرے۔ یہ اصول گھر کے اندر بھی کامیاب ہے اور گھر کے باہر بھی۔ یہ آدمی کی اپنی ضرورت ہے کہ وہ گھر کے اندر اعتدال کے ساتھ رہے، اور گھر کے باہر بھی۔
واپس اوپر جائیں

حسنِ اخلاق کی وراثت

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: مَا وَرَّثَ وَالِدٌ ولدًا خَیْرًا مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ(المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر3658)۔ یعنی کسی باپ کی طرف سے اپنی اولاد کو سب سےعمدہ وراثت اچھا ادب سکھانا ہے۔
ادب کا مطلب عربی زبان میں حسن اخلاق (good conduct) ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی انسان کے اندر پہلے اچھی سوچ آتی ہے، اس کے بعد اس کے اندر اچھا اخلاق آتا ہے۔ اچھی سوچ حسن اخلاق کی بنیاد ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی اولاد کے اندر درست طرز فکر (right thinking)پیدا کرے۔ جس آدمی کے اندر درست طرزِ فکر ہو، اس کا ہر رویہ درست ہوجائے گا۔
ایسے آدمی کی سوچ درست سوچ ہوگی۔ ایسے آدمی کا سلوک، درست سلوک ہوگا۔ ایسے آدمی کا معاملہ (dealing)، درست معاملہ ہوگا۔ ایسےآدمی کی منصوبہ بندی، درست منصوبہ بندی ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی مکمل طور پر مثبت سوچ (positive thinking)کا حامل ہوگا، وہ منفی سوچ (negative thinking) سے مکمل طور پر خالی ہوگا۔
جس آدمی کے اندر یہ حسنِ ادب موجود ہو، وہ اپنے ہر معاملہ میں ایک بہتر انسان ہوگا۔ ایساآدمی خواہ اپنے گھر کے اندر ہو یا وہ گھر کے باہر ہو، وہ اپنوں سے معاملہ کرے یا غیروں سے معاملہ ۔ ہر حال میں وہ درست رویہ پر قائم رہے گا۔ اس کی درست سوچ ایک ایسا عامل (factor) بن جائے گی، جو اس کو ہر موقع پر بے راہ روی سے بچائے گی۔ ایسا آدمی ایک سنجیدہ انسان ہوگا۔ایسا آدمی ذمہ دارانہ اخلاق کا حامل ہوگا۔ ایسے آدمی کے اندر وہ کردار ہوگا، جس کو قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ کسی انسان کے لیے اپنے سرپرستوں کی طرف سے یہ سب سے زیادہ قابل قدر عطیہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

باپ کا تحفہ

اگرکوئی باپ اپنے بچوں کو مادی چیزیں نہ دے سکے۔ مثلاً گھر اور مال جیسی چیزیں اس کے پاس دینے کے لیے نہ ہوں تو ایساباپ ہمیشہ اس احساس میں جیتا ہے کہ میں ایک نالائق باپ ثابت ہوا۔ میں اپنے بچوں کا باپ ہوتے ہوئے بھی ان کی دنیا تعمیر نہ کرسکا۔
اپنے بچوں کے لیے کسی باپ کا یہ احساس کوئی مثبت احساس نہیں۔ اس کے برعکس، صحیح احساس یہ ہے کہ جو باپ اپنے بچوں کے لیے دنیا کی چیزیں دے سکے، وہ اس بات کا شکر ادا کرے کہ اللہ نے اس کو دینے کے قابل بنایا۔ اللہ نے اس کو ہاتھ پاؤں دیا، کمانے کی صلاحیت دی۔ اس طرح وہ اس قابل بنا کہ اپنے بچوں کو دینے کی چیزیں دے سکے۔
لیکن جو باپ اپنے بچوں کو دنیا کی چیزیں نہ دے سکے، اس کے پاس بھی اپنے بچوں کو دینے کے لیے بہت بڑی چیز موجود ہوتی ہے، اور وہ دعا ہے۔ وہ اپنی دعاؤں میں یہ کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ، میں اپنے بچوں کا باپ تھا، لیکن میں اپنے بچوں کو دینے کی چیز نہ دے سکا، تو میرا اور میرے بچوں کا رب ہے۔ تو میرے بچوں کو وہ چیز دے دے ، جو میں ان کو نہ دے سکا، تو میرے بچوں کے لیے میری طرف سے وہ دعا قبول فرما، جس میں تونے انسان کو یہ تلقین کی ہے: رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (2:201)۔
اگر کوئی باپ اپنے بچوں کے لیے یہ دعا کرسکے، تو اس نے اپنے بچوں کو زیادہ بڑی چیز دے دی۔ وہ چاہتا تھا کہ خود اپنے آپ کو اپنے بچوں کے لیے دے سکے، لیکن اس کے حالات نے اس کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنی دعاؤں کے ذریعے اپنے بچوں کو اپنے رب کے حوالے کردے۔ گویا کہ اپنے آپ کو نہ دے کر خود اللہ رب العالمین کا ہاتھ بچوں کے سر پر دے دیا۔ وہ اپنی اولاد کو چھوٹی چیز دینا چاہتا تھا، لیکن اس کے حالات نے اس کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ بڑی چیز دے دے، یعنی اللہ رب العالمین کو۔
واپس اوپر جائیں

فیملی کلچر کا نقصان

موجودہ زمانے میں خاص طورپر اورمشرقی دنیا میں عام طورپر لوگوں کے درمیان ایک ہی کلچر کا رواج ہے اور وہ فیملی کلچر ہے، یعنی پیسہ کمانا اور گھر والوں کے تقاضے پورا کرنا۔ لوگوں کو صرف یہی ایک ماڈل معلوم ہے، اِس کے سوا کسی اور ماڈل کا اُنھیں علم نہیں۔
اِس فیملی کلچر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ عملاً تحمیق خاندان (befooling of family) کے ہم معنی بن گیا ہے۔اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کی سوچ کا دائرہ بہت محدود ہوگیاہے۔ اُن کا ذہن صرف اپنی مادی ضرورتوں کے محدود دائرے میں کام کرتاہے۔ وہ اِس کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ وہ اِس محدود دائرے کے باہر سوچیں۔ ان کے یہاں کتابوں کے مطالعے کا ماحول نہیں ہوتا۔ اُن کے یہاں سنجیدہ تبادلۂ خیال (serious discussion)کا رواج نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں یہ کلچر نہیں ہوتا کہ وہ رشتےداروں کے علاوہ لوگوں سے ملیں اور اُن سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو جاب کے لیے یا تفریح کے لیے یا شاپنگ کے لیے۔ اِس قسم کی چیزوں کے علاوہ، ان کے یہاں ذہنی ارتقا کا کوئی تصور نہیں۔
اِس فیملی کلچر کا نقصان یہ ہے کہ لوگ بظاہر مادی اعتبار سے آسودہ زندگی گزار رہے ہیں، لیکن عملاً وہ فکری پس ماندگی (intellectual backwardness) کا شکار ہیں۔ اُن سے کسی سنجیدہ موضوع پر بات کیجیے تو فوراً معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اندر کوئی علمی سوچ نہیں، اُن کو حقائقِ عالم کی معرفت نہیں، زندگی کے زیادہ بڑے مسائل کے بارے میں ان کی کوئی رائے نہیں۔ بظاہر وہ انسان نظر آئیںگے، لیکن عملاً وہ صرف ایک خوش پوش حیوان (well-dressed animal)کی مانند ہوں گے-خاندانی زندگی کی تشکیل اِس طرح ہونی چاہیے کہ وہ لوگوں کے لیے اُن کے ذہنی ارتقا (intellectual development) میں مددگار ہو، نہ کہ لوگوںکے ذہنی ارتقا کے لیے وہ ایک مستقل رکاوٹ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا اعتراف نہیں

آج کل یہ رواج ہے کہ ایک شخص پیسہ کمائے گا اوراس کے بعد وہ ایک کار خرید کر اپنے بیٹے کو دے گا۔ کار کے شیشہ پر لکھا ہوا ہوگا— باپ کی طرف سے تحفہ (Dad's Gift)۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ناشکری کا کلمہ ہے۔ ایک نعمت جو حقیقۃً خدا کی طرف سے ملی ہے، اس کو خداکی طرف منسوب نہ کرنا، بلکہ اس کو خود اپنے کمالات کے خانے میں ڈال دینا، یہ خدا کے ساتھ بے اعترافی کا معاملہ کرناہے، اور خدا کے ساتھ بے اعترافی بلا شبہ خدا کی اِس دنیا میں سب سے بڑے جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
قرآن کی سورہ النمل میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر سلیمان بن داؤد کو ایک مادّی نعمت ملی تو انھوں نے فوراً کہا:ہَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی (27:40) ۔یعنی یہ میرے رب کے فضل میں سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پیغمبر نے اس کو خدا کا عطیہ (God’s gift) قرار دیا۔ یہی صحیح ایمانی طریقہ ہے۔ صاحبِ ایمان وہ ہے جو ہر چیز کو خدا کی چیز سمجھے، جوہر ملی ہوئی چیز کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہوئے خدا کا اعتراف کرے۔
دنیا میںانسان کو جوچیزیں ملتی ہیں، وہ بہ ظاہر خود اپنی کوشش کے ذریعے ملتی ہیں، لیکن یہ صرف اس کا ظاہری پہلوہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہوتی ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری پردے کو پھاڑ ے، وہ اصل حقیقت کو دریافت کرتے ہوئے ہر ملی ہوئی چیز پر یہ کہہ دے کہ یہ میرے رب کا عطیہ ہے جو براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے مجھ کو دیا گیا۔
اِسی اعتراف (acknowledgment) کا مذہبی نام شکر ہے۔ یہاں اُسی شخص کو جائز طورپر رہنے کا حق حاصل ہے جو شکر و اعتراف کی نفسیات کے ساتھ اِس دنیا میں رہے۔ شکر کی یہی نفسیات موجودہ دنیا میں کسی کو جائز طورپر جینے کا حق دیتی ہے۔ اِس کے برعکس، جن لوگوں کے اندر ناشکری اور بے اعترافی کی نفسیات ہو، وہ خدا کی اِس دنیا میں مجرم اور درانداز (intruders) کی حیثیت رکھتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک عام کمزوری

ایک مسلمان اپنی اہلیہ کے ساتھ ملاقات کے لیے آئے۔ ایک گھنٹے کی ملاقات کے دوران میں نے محسوس کیا کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اُن کو کوئی قلبی تعلق نہیں۔ البتہ اِس دوران اُن کے موبائل پر بار بار ان کے بچوں کے ٹیلی فون آتے رہے۔ اپنے بچوں سے ٹیلی فون پر وہ اِس طرح گفتگو کرتے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کو اپنے بچوں سے نہایت گہرا قلبی تعلق ہے۔
میں نے اُن سے کہا کہ آپ کا کیس اُسی طرح ایک نادان باپ کا کیس ہے جیسا کہ دوسروں کا کیس ہوتا ہے۔ آپ جیسے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ آپ کو جو چیز عملاً ملی ہوئی ہے، اُس کو آپ بھر پور طور پر استعمال نہیں کرتے اور جو چیز آپ کو ملنے والی نہیں، اُس کو آپ اپنا سب سے بڑا کنسرن بنائے ہوئے ہیں۔ میںنے کہا کہ آپ کے پاس دو چیزیں ایسی ہیں جو عملاً آپ کو حاصل ہوچکی ہیں— ایک، آپ کا اپنا وجود۔ اور دوسری، آپ کی بیوی۔ آپ نے اپنے معاملے میں یہ کیا کہ آپ اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے، اور بیوی کے معاملے میں آپ کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اُن کو نظر اندازکیے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ مایوسی کا شکار ہیں، وہ اپنی زندگی کا کوئی تخلیقی کردار (creative role) دریافت نہ کرسکیں۔دوسری طرف، آپ کا یہ حال ہے کہ آپ کی تمام دلچسپیاں اپنے بچوں کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں، حالاں کہ یہ بچے آپ کو ملنے والے نہیں۔ آپ کا بیٹا اور آپ کی بیٹی دونوں آپ کو چھوڑ کر خود اپنی الگ زندگی بنائیں گے، وہ ہر گز آپ کے کام آنے والے نہیں۔ آپ ملی ہوئی چیز کو ضائع کررہے ہیں اور نہ ملنے والی چیز کے لیے آپ بے فائدہ طورپر اپنی تمام توجہ لگائے ہوئے ہیں۔
یہ معاملہ موجودہ زمانے میں تقریباً تمام لوگوں کا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر آدمی ’’کھونے‘‘ کا کیس بن رہا ہے۔ کوئی آدمی حقیقی معنوں میں ’’پانے‘‘ کا کیس نہیں۔ آدمی اپنی اِس غفلت کو اپنی عمر کے آخر میں اُس وقت دریافت کرتاہے، جب کہ اِس تباہ کن غفلت کی تلافی کا وقت اُس کے پاس نہیں ہوتا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ حاصل شدہ کو اپنا مرکز ِ عمل بنائے، نہ کہ غیر حاصل شدہ کو۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا طریقہ

ایک صاحب سروس کرتےتھے۔ ایک عرصے تک سروس کرنے کے بعد اُن کو احساس ہوا کہ سروس کی آمدنی بچوں کی ترقی کے لیے کافی نہیں۔اِس لیے انھوںنے سروس چھوڑ دی اور ایک بزنس شروع کردیا، تاکہ وہ زیادہ کمائیں اور بچوں کو زیادہ ترقی دلاسکیں، مگر عملاً یہ ہوا کہ بزنس میں اُن کو مطلوب کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ چناں چہ وہ ٹینشن میں مبتلا ہو گئے۔ آخر کار، اُن کو کینسر ہوگیا اور بچوں کے لیے زیادہ پیسہ کمانے سے پہلے وہ اس دنیا سے چلے گئے۔
اِس طرح کا واقعہ مختلف صورتوں میں اکثر لوگوں کے ساتھ پیش آتاہے، مگر وہ ہر ایک کے لیے تباہ کن ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ حقیقت پسند (realist)بنیں۔ وہ اپنی زندگی کا منصوبہ خود اپنی استطاعت کی بنیاد پر بنائیں، نہ کہ اپنی اولاد کے بارے میں اپنی امنگوں (ambitions) کی بنیاد پر۔ وہ بچوں کے مستقبل کی تعمیر کے معاملے کو خود بچوں پر چھوڑ دیں۔ وہ ایسا ہر گز نہ کریں کہ بچوں کی خاطر اپنے آپ کو تباہ کرلیں اور آخر کار خود بچوں کو بھی۔بچوں کی ترقی کی سب سے بڑی ضمانت یہ ہے کہ خود اُن کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہو، اُن کے اندر داخلی اسپرٹ جاگے، وہ خود حالات کو سمجھیں اور حالات کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔ ترقی وہ ہے جو آدمی کو خود اپنی محنت سے ملے۔ دوسروں کی طرف سے دی ہوئی ترقی کوئی ترقی نہیں۔
اِس قسم کی خواہش رکھنے والے لوگ اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں سے جذباتی تعلق کی بنا پر ایسی چیز کے خواہش مند بن جاتے ہیں جو منصوبۂ الہی کے مطابق، اُن کو ملنے والی نہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ اِس معاملے میں وہ اپنے جذبات کے تحت کوئی فیصلہ نہ کرے، بلکہ وہ ایک حقیقت پسند انسان کی طرح حالات پر غور کرے اور فطرت کے قانون کی روشنی میں اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ یہی مطلب ہے اس اصول کا کہ — اِس دنیا میں کسی آدمی کو وہی ملتاہے جو اللہ نے اُس کے لیے مقدر کردیا ہو، نہ اُس سے زیادہ اور نہ اُس سےکم۔
واپس اوپر جائیں

رزق کا معاملہ

قرآن میں ایک حقیقت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ (31:34)۔ یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ اسی بات کو ایک حدیث رسول میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: جبریل نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم میں سے کوئی اس دنیا سے ہرگز نہیں جاسکتا، یہاں تک کہ وہ اپنے رزق کو مکمل کردے (حَتَّى یَسْتَکْمِلَ رِزْقَہُ)،تو اے لوگو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اور طلب میں خوبصورتی پیدا کرو۔(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر2136)
قرآن کی اس آیت اور اس حدیثِ رسول کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی معاش کا معاملہ خالق کی طرف سے طے ہوتا ہے، نہ کہ انسان کے باپ کی طرف سے۔ موجودہ زمانہ اس معاملے کا ایک مظاہرہ (demonstration) ہے۔ موجودہ زمانے میں تقریباً ہر جگہ یہ منظر دکھائی دے رہا ہے کہ باپ اندھا دھند کماتا ہے۔ اس کا یہ کمانا، اور گھر بنانا ، اس لیے ہوتا ہے کہ اس کے بچے اس کے اندر آرام کی زندگی گزاریں۔ لیکن ہر ایک کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ باپ کی بنائی ہوئی دنیا میں رہنا، ان کو نصیب نہیں ہوتا۔ وہ عملاً اس دنیا میں جیتا اور مرتا ہے، جو اس نے خود بنائی تھی۔ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو صرف ایک نسل میں زندگی کا سارا نقشہ بدل جاتا ہے۔ باپ نے کچھ چاہا تھا، اور عملاً کچھ اور ہوا۔
اس عام تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ رازق بننے کی کوشش کرے۔ باپ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو زندگی کا شعور دے۔وہ اپنی اولاد کو رازِ حیات بتائے۔ وہ اپنی اولاد کو خالق کا تخلیقی نقشہ بتائے، نہ یہ کہ وہ خود خالق کی سیٹ پر بیٹھ جائے۔ اس کے علاوہ باپ کچھ بھی کرے، لیکن عملاً وہی ہوگا، جو خالق نے مقدر کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

گھرایک تربیت گاہ

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہِ، وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَہْلِی(ابن ماجہ،حدیث نمبر1977)۔ یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جواپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میںتم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر کسی سماج کا ایک ابتدائی یونٹ ہے۔جوکچھ زیادہ بڑے پیمانہ پر پورے سماج میں پیش آتا ہے وہی گھر کے اندر چھوٹے پیمانہ پر پیش آتا ہے۔ آدمی کے اچھے یا برے ہونے کافیصلہ باہمی تعلقات کے درمیان ہوتاہے۔ ہر گھر گویا انہی تجربات کا ایک چھوٹا ادارہ ہے اور ہر سماج انہی تجربات کا ایک بڑا ادارہ ۔
ہر عورت یا مرد جب اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں تو اُن کو کبھی خوش گوار تجربہ پیش آتا ہے اور کبھی ناخوشگوار تجربہ، کسی معاملہ میں اُن کے اندر نفرت کے جذبات بھڑکتے ہیں اور کبھی محبت کے جذبات، کبھی وہ خوشی سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی ناخوشی سے، کبھی اُن کی انا کو تسکین ملتی ہے اور کبھی اُن کی اَنا پر چوٹ لگتی ہے، کبھی وہ اعتراف کی صورت حال میں ہوتے ہیں اور کبھی بے اعترافی کی صورت حال میں، کبھی حقوق کی ادائیگی کا موقع ہوتاہے اور کبھی حقوق کے انکار کا موقع، وغیرہ۔
گھر کے اندرپیش آنے والی یہ مختلف حالتیں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اپنی تیاری کے مواقع ہیں۔ جو لوگ ایسا کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے شعور ایمان کو زندہ رکھیں، وہ اپنا احتساب کرتے ہوئے زندگی گذاریں، اُن کو ہمیشہ آخرت کی پکڑ کا احساس لگا ہوا ہو۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی مذکورہ بالا قسم کا کوئی موقع اُن کے سامنے آئے گا تو وہ متنبہ ہوجائیں گے اور صحیح اسلامی روش کو اختیار کریں گے۔
جو عورت اور مرد اپنے گھر کے اندر اس قسم کی ہوش مندانہ زندگی گذاریں، اُن کے لیے اُن کا گھر ایک تربیت گاہ بن جائے گا۔ اُن کے گھر کا ماحول اُنہیں ہر صبح و شام تیار کرتا رہے گا۔ اُن کی یہ زندگی اُن کے لیے اس بات کی ضمانت بن جائے گی کہ جب وہ گھر کے باہر سماجی زندگی میںآئیں تو وہ سماج کے اندر بھی اُسی طرح ایک حق پرست انسان ثابت ہوں جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر حق پرست انسان ثابت ہوئے تھے۔
ایک آدمی جواپنے گھر کے اندر لڑتا جھگڑتا ہو وہ اسی طرزِ زندگی کا عادی بن جائے گا۔ جب وہ اپنے گھر سے باہر آئے گا تو یہاں بھی وہ لوگوں سے لڑنے جھگڑنے لگے گا۔ اپنے آفس میں، اپنے کاروبار میں ، روز مرہ کی زندگی میںوہ دوسروں کے ساتھ بھی اُسی طرح غیر معتدل انداز میں رہے گا جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر غیر معتدل انداز میں رہ رہا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اُس کے گھر کے معاملات بھی بگڑ جائیں گے اور اُس کے باہر کے معاملات بھی۔
اسی طرح کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنے گھر کے اندر تو غیر مہذب انداز میں رہتے ہیں لیکن جب وہ باہر آتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ اُن کا رویّہ تہذیب اور شائستگی کا رویّہ بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کی نظر میں اچھے بنے رہیں۔ مگر یہ ایک منافقت ہے، اور اللہ کو منافقت پسند نہیں۔
کسی مسلمان پر جو دینی ذمہ داری ہے وہ صرف اس طرح ادا نہیں ہوجاتی کہ وہ مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھ لے، رمضان کے روزے رکھ لے اور مکہ جاکر حج کرلے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ لوگوں کے ساتھ اُس کا اخلاق اچھا ہو۔ انسانوں کے ساتھ سلوک میںوہ خدائی احکام کی پابندی کرتاہو، لوگوں کے درمیان وہ اس احساس کے ساتھ رہے کہ اُس کو اپنے ہر قول اور ہر فعل کاجواب خدا کو دینا ہے۔
موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ ایک طرح کی زندگی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور دوسری طرح کی زندگی اُس کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔زندگی کی اس امتحانی نوعیت کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے بھی ہے اور گھر کے باہر کے معاملات سے بھی۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کی اصلاح

ایک خاتون نے کہا کہ آپ بچوں کی تربیت پر مضمون لکھئے۔ موجودہ زمانے میں بچوں کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔ میںنے کہا کہ بچوں کی اصلاح پر بے شمار مضمون لکھے گئے ہیں۔ہر روز بچوں کی اصلاح پر تقریریں ہورہی ہیں ، لیکن اِس کا کوئی بھی نتیجہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کی اصلاح کے معاملے میں اصل ضرورت مضمون یا تقریر کی نہیں ہے۔ اِس معاملے میں اصل ضرورت یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے معاملے میں اپنے رویے کو بدلیں۔ تمام والدین کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ لاڈ پیار (pampering) کا معاملہ کرتے ہیں۔ یہی لاڈ پیار بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ جب تک والدین اپنے لاڈ پیار کو ختم نہ کریں، بچوں کی کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
میری بات سن کر مذکورہ خاتون نے کہا کہ بچوں کے ساتھ سختی بھی تو نہیں کی جاسکتی۔ میں نے کہا کہ میں نے آپ سے یہ نہیں کہاتھا کہ بچوں کے ساتھ سختی کیجیے۔ میں نے صرف آپ سے یہ کہا تھا کہ بچوں کے ساتھ لاڈ پیار کو چھوڑ دیجیے۔ والدین کا یہی مزاج بچوں کی خرابی کی اصل جڑ ہے۔ آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ لاڈ پیا رنہ کرنا اُن کے ساتھ سختی کرنا ہے۔ والدین اپنے بچوںکے لیے اتنے حساس ہوتے ہیں کہ وہ لاڈ پیار نہ کرنے کو سختی کرنا سمجھ لیتے ہیں، اِس لیے وہ لاڈ پیار کو چھوڑ نہیں پاتے۔
پھر میںنے کہا کہ آپ خواہ لاڈ پیا رکتنا ہی زیادہ کریں، بچوںکے تقاضے کبھی ختم نہیںہوتے۔ بچے برابر اور زیادہ اور زیادہ کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ اِس بنا پر والدین یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے ابھی کچھ نہیںکیا۔ ہم نے ابھی بچوں کے تقاضے پورے نہیں کیے۔ اس بنا پر تمام والدین لاڈ پیار کے اس احساس میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم تو لاڈ پیار نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے ذہن میں لاڈ پیا رکا غلط معیار رہتاہے، یعنی بچے جب مزید تقاضا نہ کریں تو وہ سمجھیں گے کہ ہم نے لاڈ پیار کیا۔ مگر خواہشات کے معاملے میں بچہ اور بڑا دونوں کا یہ حال ہوتاہے کہ ان کو کچھ بھی مل جائے، وہ ان کی خواہشوں سے کم ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ نئے تقاضے جاری رہتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کا بگاڑ

ایک صاحب نے کہا کہ آج کل والدین عام طورپر یہ شکایت کرتے ہیں کہ اُن کے بچے بگڑ گئے ہیں۔ اِس کا ذمے دار وہ سب سے زیادہ ٹی وی کو بتاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹی وی نے ان کے بچوں کو بگاڑ دیا ہے۔ انھوںنے پوچھا کہ اِس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔
میںنے کہا کہ یہ سارا معاملہ اگر ٹی وی کا معاملہ ہے تو والدین کیوں اپنے گھر میں ٹی وی رکھتے ہیں۔ بچے خود خرید کر ٹی وی نہیں لاتے۔ یہ والدین ہیں جو بچوں کو خوش کرنے کے لیے ٹی وی لاکر اپنے گھر میں رکھتے ہیں۔ اِس لیے اِس معاملے میں اصل ذمے دار خود والدین ہیں، نہ کہ بچے۔
حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب لاڈ پیار (pampering) ہے۔ والدین کا نظریہ اپنے بچوں کے بارے میں یہ ہوتا ہے کہ ان کی ہر خواہش کو پورا کیا جائے۔ بچے جب تک چھوٹے ہیں، ان کی خواہش کھانے اور کپڑے جیسی چیزوں تک محدود رہتی ہے۔ اِس لیے چھوٹی عمر میں والدین اپنے نظریے کی غلطی سمجھ نہیں پاتے ، لیکن جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو اُن کی دلچسپیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اب وہ دوستی ، آؤٹنگ، کلب اور لو افیئر (love affair)جیسی چیزوں کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو والدین روک ٹوک کرتے ہیں، مگر بچے ان کی روک ٹوک کو قبول نہیں کرتے۔ یہ بلاشبہ خود والدین کی غفلت کا نتیجہ ہے۔
چھوٹی عمر میں والدین نے اپنے بچوں کے اندر یہ ذہن بنایا کہ میری ہر خواہش پوری ہونی چاہیے۔ بالغ ہونے کے بعد اِس مزاج نے مزید ترقی کی۔ اب وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اُن چیزوں کی طرف جانے لگے جو والدین کو پسند نہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ ’’میری خواہش سب کچھ ہے‘‘کا مزاج بچوں کے اندر کس نے پیدا کیا، یہ خود والدین نے اپنے لاڈ پیار سے پیدا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں والدین اپنے بچوں کے ساتھ محبت کے نام پر دشمنی کا کردار ادا کررہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

معکوس تربیت

ایک مسلم تاجر کا واقعہ ہے۔ ان کی بیٹی نے اُن سے اپنی کسی ضرورت کے لیے پیسہ مانگا۔ مذکورہ مسلم تاجر نے اپنی بیٹی سے مزید کچھ نہیں پوچھا۔ انھوں نے فوراً اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، اُس وقت ان کی جیب میں جتنے نوٹ تھے، وہ سب نکال کر انھوں نے اپنی بیٹی کے ہاتھ میں رکھ دیا اور کہا کہ یہ لو، تم ہی لوگوں کے لیے تو کماتے ہیں۔
یہ کوئی استثنائی واقعہ نہیں۔ یہی سارے والدین کا حال ہے۔ والدین خود تو محنت کرتے ہیں، وہ مشقت کی کمائی کرتے ہیں، لیکن اپنی اولاد کے بارے میں ان کا ذہن یہ رہتاہے کہ ان کی اولاد کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ خود تکلیف اٹھاتے ہیں اور اپنی اولاد کو ہر قسم کی راحت اور سہولت فراہم کرتے ہیں، وہ ان کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، خواہ اُنھیں اس کی جو بھی قیمت دینی پڑے۔
والدین کا یہ مزاج ان کی اولاد کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ والدین کا یہ مزاج اولاد کی معکوس تربیت کے ہم معنیٰ ہے۔ ان کی اولاد کو آخر کار جس دنیا میں داخل ہونا ہے، وہ حقائق کی دنیا ہے۔ وہاں کا اصول یہ ہے کہ— جتنا کرو، اتنا پاؤ۔
لیکن والدین گھر کے اندر اپنی اولاد کے اندر جو مزاج پیدا کرتے ہیں، وہ اِس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ گھر کا ماحول کیے بغیر پانے کا ماحول ہوتا ہے، اور گھر کے باہر کا ماحول کرکے پانے کا ماحول۔
اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج کا ہر نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں دونوں، منفی ذہن کا شکار ہورہے ہیں۔ اُنھیں دنیا کے ہر شخص سے شکایت ہوتی ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر ان کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ میرے ماں اور باپ بہت اچھے تھے، بقیہ تمام لوگ نہایت برے ہیں۔
اِس صورتِ حال نے آج کی دنیا میں دو چیزوں کا خاتمہ کردیا ہے— محنت کے ساتھ اپنا کام کرنا، اور لوگوں کا خیر خواہ (well-wisher) بن کر اُن کے درمیان رہنا۔
واپس اوپر جائیں

فرضی محبت

ایک مسلم لڑکی اپنے ماں باپ کی اکیلی اولاد تھی۔اس کے والدین نے دھوم کے ساتھ اس کی شادی کی۔ اس کے بعد وہ رخصت ہو کر اپنی سسرال گئی۔ اس کے یہاں ایک بچہ بھی پیدا ہوگیا۔ مگر دو سال کے بعد وہ اپنے شوہر سے لڑ جھگڑ کر اپنے ماں باپ کے پاس واپس آگئی۔ اُس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ میرا شوہر نہایت سخت مزاج ہے، اس کے ساتھ میرا نباہ نہیں ہوسکتا۔
لڑکی کے والدین نے اس سے زیادہ پوچھ گچھ(scrutiny)نہیں کی، جو کچھ لڑکی نے کہا، اس کو انھوں نے درست مان لیا۔ انھوں نے کہا کہ بیٹی، تم فکر نہ کرو۔ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ تم یہاں آرام کے ساتھ رہو، تم کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔
مجھ سے ملاقات ہوئی تو میںنے لڑکی سے پوچھ گچھ کی، تاکہ اصل حقیقت معلوم ہوسکے۔ لڑکی نے بتایا کہ میرا شوہر ہر معاملے میں سختی کرتاہے۔ میںنے مثال پوچھی تو اس نے بتایا کہ میرا شوہر مجھ کو شاپنگ کے لیے نہیں لے جاتا، وہ آؤٹنگ(outing)کا پروگرام نہیں بناتا۔ میںنے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ شاپنگ کا مطلب پیسے کا ضیاع(waste of money) ہے، اور آؤٹنگ کا مطلب وقت کا ضیاع(waste of time) ہے۔ آپ کا شوہر بہت اچھا کرتاہے کہ وہ آپ کو ایسی بے فائدہ چیزوں سے بچاتا ہے۔
ماں باپ نے لڑکی کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ محبت کا واقعہ تھا اور شوہر نے جو کچھ کیا، وہ خیرخواہی کا واقعہ تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ محبت کے مقابلے میں، خیر خواہی زیادہ بڑی چیز ہے۔ مگر اکثر لوگ اِس فرق کو نہیں جانتے۔ اِس لیے وہ محبت کرنے والے کو اپنا ہمدرد سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ اصل ہمدرد وہ ہے جو آپ کے ساتھ سچی خیر خواہی کرے۔
محبت صرف ایک جذباتی چیز ہے، جب کہ خیر خواہی ایک خالص عقلی رویہ ہے۔ وہ شخص بہت خوش قسمت ہے جس کو اپنی زندگی میںایک سچا خیر خواہ مل جائے۔
واپس اوپر جائیں

خیر خواہی یا بد خواہی

ایک باپ نے اپنی بیٹی کی شادی دور کے مقام پر کی۔ یہ بیٹی اپنے میکہ میں اس طرح رکھی گئی تھی کہ اس نے کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ اس کے والدین کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ بیٹی خوش رہے۔ اس کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔ مگر باپ جانتا تھا کہ سسرال میں ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ اس نے بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کہا کہ اب تم جہاں جارہی ہو، وہ تمھارے لیے ایک مختلف دنیا ہوگی۔ میکہ میں تم کو جو آرام ملا، سسرال میں تم اس کی امید نہ رکھنا۔
باپ نے اپنی سمجھ کے مطابق، یہ مشورہ خیر خواہی کے جذبہ کے تحت دیا۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ بدخواہی کامشورہ تھا۔ حقیقت کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی بیٹی اپنے سسرال میںہمیشہ منفی ذہن کے تحت رہے۔ وہ ہمیشہ احساسِ محرومی کا شکار رہے۔ وہ ہمیشہ یہ سمجھتی رہے کہ میرے میکہ کے لوگ بہت اچھے تھے اور میری سسرال کے لوگ بہت برے ہیں۔ میکہ والوں کے لیے اس کے دل میں جھوٹی محبت اور سسرال والوں کے لیے اس کے دل میں جھوٹی شکایت بھر جائے۔ ساری زندگی وہ اس احساس میں جیے کہ میری شادی غلط ہوگئی۔ وہ ہمیشہ میکہ والوں کو اچھا سمجھے اور سسرال والوں کو ہمیشہ برا سمجھتی رہے۔
موجودہ زمانے میں تقریباً ہر ماں باپ اپنی بیٹی کے حق میںاسی قسم کی فرضی خیر خواہی کرتے ہیں جو عملاً بیٹی کے لیے صرف ایک مستقل بد خواہی بن جاتی ہے۔ بیٹی اپنے میکہ کی کنڈیشننگ کی بنا پر خود سے کبھی اس معاملہ کو سمجھ نہیں پاتی، اور ماں باپ کا حال یہ ہوتاہے کہ وہ اس کی کنڈیشننگ کو مزید پختہ کردیتے ہیں، وہ اس کی کنڈیشننگ کا خاتمہ نہیںکرتے۔
صحیح یہ ہے کہ باپ یا تو اپنی بیٹی کے ساتھ لاڈ پیار (pampering) کا سلوک نہ کرے، یا کم ازکم یہ کرے کہ وہ اپنی بیٹی سے بوقتِ رخصت کہہ دے کہ ہم نے جو کچھ کیا، وہ غیر فطری طریقہ تھا، فطری طریقہ وہی ہے جس سے تم کو سسرال میں سابقہ پیش آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

چھوٹی بات پر انتہائی فیصلہ

کامیاب زندگی کا ایک راز یہ ہے کہ چھوٹی بات پر انتہائی فیصلہ نہ لیا جائے۔ اجتماعی زندگی میں چھوٹی شکایتیں ہمیشہ پیش آتی ہیں۔ دانش مند وہ ہے جو چھوٹی شکایتوں کو نظر انداز کرے، اور نادان آدمی وہ ہے جو چھوٹی شکایت پر مشتعل ہوجائے اور اس کی بنیاد پر انتہائی فیصلہ لینے لگے۔ اِسی نوعیت کا ایک مشہور واقعہ وہ ہے جو سنڈے ٹائمس، لندن کے حوالے سے نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (17 اگست 2009 ) میں شائع ہوا ہے۔
لیبیا کے حکمراں معمّرالقذافی کے 33 سالہ بیٹے ہنی بال (Hannibal)جنیوا (سوئزر لینڈ) گئے۔ وہاں وہ ایک ہوٹل میں ٹھیرے۔ اُن کے ساتھ ان کی بیوی العین (Alaine)بھی تھیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ہوٹل کی ایک تونیسی ملازمہ مونا (Mona) کی کسی بات پر العین کو غصہ آگیا۔ العین نے اُس کو مارا اور دھمکی دی کہ میں تم کو ہوٹل کی کھڑکی سے باہر پھینک دوں گی۔
اِس واقعے کی خبر مقامی پولس کو ہوئی۔ پولس نے ہنی بال اور العین کو گرفتار کرلیا۔ اگرچہ جلد ہی ان کو رہا کردیا گیا، لیکن اِس واقعے کی خبر جب ہنی بال کے والد معمر القذافی کو پہنچی تو اس کو انھوں نے اپنی بے عزتی (humiliation) سمجھا، وہ سخت غضب ناک ہوگئے۔ انھوںنے سوئزر لینڈ کے خلاف کئی سخت اقدامات کیے— سوئزر لینڈ سے ہوائی سروس منقطع کرنا، سوئزر لینڈ کی کئی کمپنیوں کے لیبیا میں موجود دفتروں کو بند کردینا، وغیرہ۔ حتی کہ انھوں نے کہا:
If I had an atomic bomb, I would wipe Switzerland off the map!
یہ واقعہ چھوٹی شکایت پر انتہائی اقدام کی ایک مثال ہے۔ اِس قسم کا اقدام ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ خواہ کوئی معمولی آدمی ہو یا کوئی بڑا آدمی، کوئی بھی اِس قسم کے انتہائی اقدام کے منفی نتائج سے بچ نہیں سکتا۔ جلد یا بدیر آدمی کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے، لیکن بعد کو اُس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ طلاق کے واقعے سے لے کر قومی جنگ تک، ہر معاملے میںاس کی مثالیں موجود ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اولاد پرستی کا فتنہ

ایک حدیثِ رسول میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ شرمندہ وہ شخص ہوگا جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنی آخرت کو بیچ دے (إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ نَدَامَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ رَجُلٌ بَاعَ آخِرَتَہُ بِدُنْیَا غَیْرِہِ)۔التاریخ الکبیر للبخاری، حدیث نمبر 1927۔ یہ حدیث موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ اُن لوگوں پر چسپاں(apply)ہوتی ہے جو صاحبِ اولاد ہیں۔ موجودہ زمانے میں صاحبِ اولاد لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر ایک کے لیے اس کی اولاد اُس کا سپریم کنسرن بنی ہوئی ہے۔ ہر ایک کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے میں مصروف ہے، اور خود اپنی آخرت کی خاطر کوئی حقیقی کام کرنے کے لیے آدمی کے پاس وقت ہی نہیں۔
موجودہ زمانے میں ہر آدمی اِس حقیقت کو بھول گیا ہے کہ اس کی اولاد اُس کے لیے صرف امتحان کا پرچہ (الانفال،8:28) ہے۔ اولاد اس کو اِس لیے نہیں ملی ہے کہ وہ بس اپنی اولاد کو خوش کرتا رہے، وہ اپنی اولاد کی دنیوی کامیابی کے لیے اپنی ساری توانائی لگادے۔
موجودہ زمانے میں بہت سے لوگ ہیں جو بظاہر مذہبی وضع قطع بنائے رہتے ہیں اور رسمی معنوں میں صوم و صلاۃ کی پابندی بھی کرتے ہیں، لیکن عملاً وہ اپنا سارا وقت اور اپنی بہترین صلاحیت صرف دنیا کمانے میں لگائے رہتے ہیں، صرف اِس لیے کہ جب وہ مریں تو اپنی اولاد کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ سامانِ دنیا چھوڑ کر جائیں۔
مگر ایسے لوگ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ خدا کو دینے کے لیے اُن کے پاس صرف کچھ ظاہری رسوم ہیں اور جہاں تک حقیقی زندگی کا تعلق ہے، اس کو انھوں نے صرف اپنی اولاد کے لیے وقف کررکھا ہے۔ یہ خدا پرستی نہیں ہے بلکہ وہ اولاد پرستی ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اولاد پرستی کا طریقہ کسی کو خدا پرستی کا کریڈٹ نہیں دے سکتا۔ خدا پرستی، زندگی کا ضمیمہ (appendix) نہیں، حقیقی خدا پرستی وہ ہے جو انسان کی پوری زندگی کا اِحاطہ کیے ہوئے ہو۔
واپس اوپر جائیں

خوش فکری، یا حقیقت پسندی

ایک باپ کو اپنے بیٹے سے بہت تعلق تھا۔ باپ کے ذہن میںکام کا ایک آئڈیل تصور تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اُس آئڈیل کام کے لیے تیار کرے۔ اِس مقصد کے لیے اُس نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ اُس کی امیدیں تمام تر اپنے بیٹے سے وابستہ ہوگئیں۔ جب بیٹا بڑا ہوگیا اور اس کی تعلیم مکمل ہوگئی تو باپ نے چاہا کہ اس کا بیٹا اس کے پسندیدہ کام میں لگے۔ لیکن بیٹے نے انکار کردیا۔ باپ نے بہت کچھ کہا، لیکن بیٹے کی سمجھ میں نہ آیا۔ بیٹے نے آخری طورپر اپنے باپ سے کہہ دیا— بیٹا جب بڑا ہوجاتا ہے تو وہ خود اپنی عقل سے کام کرتا ہے۔
بیٹے کا یہ جواب سُن کر باپ کو اتنی مایوسی ہوئی کہ وہ نفسیاتی مریض بن گیا۔ اس کا بلڈ پریشر بڑھ گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں باپ کی غلطی تھی، نہ کہ بیٹے کی غلطی۔ یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ ہر بچہ عقل وشعور لے کر پیدا ہوتا ہے۔ چھوٹی عمر میں جب وہ ناپختہ (immature) ہوتا ہے، اُس وقت وہ باپ اور ماں کی بات کو سنتا ہے۔ لیکن جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اس کا شعور پختہ ہوچکا ہوتا ہے۔ اُس کے اندر خود فکری (self-thinking) کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی عقل سے آزادانہ فیصلہ کرنے لگتا ہے۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کے والدین کی سوچ غیر فطری ہے، وہ کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔
والدین کو چوں کہ اپنے بیٹے سے بہت زیادہ محبت ہوتی ہے۔ محبت کے جذبے کے تحت، وہ اپنے بیٹے کے بارے میں خوش فکر (wishful) بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سے ایسی امیدیں قائم کرلیتے ہیں جو قانونِ فطرت کے خلاف ہوتی ہے۔
اِس خوش فکری (wishful thinking) میں تقریباً ہر باپ مبتلا رہتا ہے۔ اِس قسم کی خوش فکری اِس دنیا میں کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسند بنیں، تاکہ وہ اپنی اولاد کے بارے میں مایوسی کا شکار نہ ہوں۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کا دکھ جھیل رہے ہیں

ایک سینئر مسلم تاجر سے ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ کو خدا نے 95 سال کی عمر دی، یعنی تقریباً ایک صدی۔ اِس لمبی زندگی میں آپ نے کیا سیکھا اورکیا تجربہ کیا۔ اِس سوال کے بعد وہ دومنٹ چپ رہے۔ اس کے بعد انھوںنے نہایت سنجیدہ انداز میں کہا— کوئی تجربہ نہیں۔ بس پیداہوئے۔ بڑے ہوئے تو بزنس میں لگ گئے۔ شادی کی اور بچے پیدا کیے۔ بچوں کو سیٹل (settle)کیا۔ اب آخر عمر میں بچوں کا دکھ جھیل رہے ہیں، اور موت کا انتظار کررہے ہیں۔
موجودہ زمانے میں یہی ہر گھر کی کہانی ہے۔ موجودہ زمانے میں تقریباً ہر ماں باپ کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی تمام محبتوں کا مرکز بناتے ہیں۔ بچوں کی زندگی سنوارنے کے لیے وہ سب کچھ کر ڈالتے ہیں، مگر آخر میںہر ایک کا یہ حال ہوتا ہے کہ بچے غیر وفادار نکلتے ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اپنی آزاد زندگی بنا لیتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں ماں باپ کی خدمت ایک فرسودہ تصور بن چکا ہے۔ بچوں کی ترقی کو ماں باپ اِس حسرت کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں کہ جس پیڑ کو ہم نے محنت کرکے اگایا تھا، اُس پیڑ کا سایہ اُنھیں حاصل نہیں ہوا۔
حدیث میںآیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ بچے اپنے دوست کے ساتھ حسن سلوک کریں گے، اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بد سلوکی کریں گے (بَرَّ صَدِیقَہُ، وَجَفَا أَبَاہُ)۔سنن الترمذی، حدیث نمبر 2210۔ یہ حدیثِ رسول، موجودہ زمانے پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ آج ساری دنیا میں عمومی طورپر ایسا ہی ہورہا ہے۔ اِس واقعے کا سب سے زیادہ بُرا حصہ اُن لوگوں کو مل رہا ہے جو ساری زندگی بچوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں، اور آخر میں ان کے حصے میں غم کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ مزید یہ کہ ایسے ماں باپ اُس حدیث کا مصداق ہیں جس میںکہاگیا ہے کہ سب سے زیادہ گھاٹے میں وہ شخص ہے جو دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھودے (أَذْہَبَ آخِرَتَہُ بِدُنْیَا غَیْرِہِ) سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966۔
واپس اوپر جائیں

اہل وعیال کا فتنہ

حدیث کی کتابوں میںاہل وعیال کے بارے میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اُن میں سے دو روایتیں یہاں نقل کی جاتی ہیں:
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: الْوَیْلُ کُلُّ الْوَیْلِ لِمَنْ تَرَکَ عِیَالَہُ بِخَیْرٍ وَقَدِمَ عَلَى رَبِّہِ بِشَرٍّ(مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 314)۔ یعنی کامل تباہی وبربادی ہے اُس شخص کے لیے جس نے اپنے عیال کو اچھی حالت میں چھوڑا، اور خود برے حال میں اپنے رب کے پاس پہنچا۔دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:یُؤْتَى بِرَجُل یَوْم الْقِیَامَة فَیُقَال أکل عِیَالہ حَسَنَاتہ(تخریج الأحادیث فی تفسیر الکشاف للزیلعی، حدیث نمبر 1357)۔یعنی قیامت کے دن ایک شخص لایا جائے گا اورکہا جائے گا کہ اس کے اہل وعیال اس کی نیکیاں کھا گئے۔
قدیم زمانے میں صرف کچھ افراد اِس قسم کے ہوتے تھے، لیکن موجودہ زمانے میں اِس پہلو سے بگاڑ کا یہ حال ہے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے جیسے تمام لوگ اِس تباہ کن کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ اِس کم زوری کا سبب حبّ ِعیال ہے۔ بظاہر لوگ خدا کا اور اسلام کا نام لیتے ہیں، لیکن اُن کی محبتیں صرف اپنے اہل وعیال سے ہوتی ہیں۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُن کاسب سے بڑا کنسرن اُن کے اہل وعیال ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنے مال و اسباب کو اپنے اہل وعیال کے لیے وقف کیے رہتے ہیں۔ موت ایسے لوگوں کے لیے ایک جبری انقطاع(compulsive detachment) کے طورپر آتی ہے۔ ایسے لوگ جب موت کے بعد خدا کے پاس پہنچتے ہیں تو وہاں کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔یہ بلاشبہ سب سے بڑی محرومی ہے۔ حدیث کے مطابق،یہ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو تباہ کرنا ہے (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966) ۔مزید یہ کہ یہ اہل وعیال جن کو آدمی اپنا سب کچھ دے دیتا ہے، وہ موت کے بعد اُس سے اِس طرح جدا ہوجاتے ہیں کہ دوبارہ وہ اُس کو کبھی نہیں ملتے۔
واپس اوپر جائیں

پرچۂ امتحان

یوپی کے ایک مسلمان دہلی میں آکر آباد ہوئے۔ انھوںنے پراپرٹی کا بزنس کیا۔ انھوں نے اِس بزنس میں کافی دولت کمائی۔ مگر اُن کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ ایک بار ان کی ماں دہلی آئیں۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کا بیٹا دہلی میں ایک بڑے گھر میں رہتا ہے۔ دنیا کی ہر چیز اس کے پاس ہے، مگر شادی کو کافی عرصہ گزرنے کے باوجود اُن کے یہاں اولاد نہیں ہوئی۔اُن کی ماں اِس بات پر کافی پریشان ہوئیں۔ وہ اکثر کہتی تھیں — ہائے میرے بیٹے کی دولت کون لے گا۔
اِس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن میں اولاد کو فتنہ (التغابن،64:15)کیوں کہاگیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ اپنے بیٹے کو اپنی ذات کی توسیع (extension) سمجھتے ہیں۔ اُن کو یقین ہوتا ہے کہ اُن کی کمائی ان کے بعد ضائع نہیں ہوگی، بلکہ اپنے بیٹے کی صورت میں بالواسطہ طورپر وہ اُن کو حاصل رہے گی۔
اولاد کے بارے میں اِسی تصور کی بنا پر لوگوں کے لیے اولاد ایک فتنہ بن جاتی ہے۔ اِس تصور کے تحت جو ذہن بنتا ہے، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی موت کی سنگینی سے غافل ہوجاتا ہے۔ موت کے بعد کے احوال پر وہ زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں سوچتا۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ موت اور موت کے بعد کی حقیقتوں کے معاملے سے بے خبر ہوجاتا ہے۔
اولاد کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اُس کے ذریعے نسلِ انسانی کا بقا وتسلسل جاری رہتا ہے۔ جہاں تک دولت کی بات ہے، وہ باپ کے لیے بھی امتحان کا ایک پرچہ ہے، اور بیٹےکے لیے بھی امتحان کا ایک پرچہ۔ دولت کو اگر اِس ذہن کے تحت دیکھا جائے تو دولت کبھی مسئلہ نہ بنے۔ اس حقیقت کو ایک حدیث رسول میں اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ کسی والدین کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے بہترین تحفہ یہ ہے کہ وہ تعلیم وتربیت کے ذریعے اس کو اچھا انسان بنائے۔(سنن الترمذی، حدیث نمبر 1952)
واپس اوپر جائیں

ہاتھی کی دم میں پتنگ

اکثر والدین مجھ سے پوچھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں بچوں کی دینی تربیت کے لیے کیا کیا جائے۔ میرا جواب ہمیشہ ایک رہتا ہے— بچوں کی تربیت سے پہلے خود اپنی تربیت کیجیے۔ موجودہ زمانے میں بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب خارجی ماحول نہیں ہے، بلکہ گھر کا داخلی ماحول ہے۔ گھر کا داخلی ماحول کون بناتا ہے، یہ والدین ہیں جو گھر کا داخلی ماحول بناتے ہیں۔ جب تک گھر کے داخلی ماحول کو حقیقی معنوں میں دینی، یعنی آخرت پسندانہ ماحول نہ بنایا جائے، بچوں کے اندر کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
موجودہ زمانے کا اصل فتنہ مال ہے۔ آج کل ہر آدمی زیادہ سے زیادہ مال کما رہا ہے۔ اِس مال کا مصرف والدین کے نزدیک صرف ایک ہے، اور وہ ہے گھرکے اندر ہر قسم کی راحت کے سامان اکھٹا کرنا، اور بچوں کی تمام مادّی خواہشوں کو پورا کرنا۔ موجودہ زمانے میں یہ کلچر اتنا زیادہ عام ہے کہ اِس معاملے میں شاید کسی گھر کا کوئی استثنا نہیں، خواہ وہ بے ریش والوںکا گھر ہو، یا باریش والوں کا گھر۔والدین کے اِس مزاج نے ہر گھر کو مادّہ پرستی کا کارخانہ بنادیا ہے۔ تمام والدین اپنے بچوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر مادّہ پرستانہ ذہن بنانے کے امام بنے ہوئے ہیں۔ اِسی کے ساتھ تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے آخرت کی جنت سے بھی محروم نہ رہیں۔ اِسی مزاج کے بارے میں ایک اردو شاعر نے کہا تھا— رِند کے رِند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی
مگر یہ صرف ایک خوش خیالی ہے جو کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔ تمثیل کی زبان میں یہ ’’ہاتھی کی دم میں پتنگ باندھنا‘‘ ہے۔ موجودہ زمانے کے والدین ایک طرف، اپنے بچوں کو ’’مادّی ہاتھی‘‘ بناتے ہیں۔ دوسری طرف، وہ چاہتے ہیں کہ اِس ہاتھی کی دم میں دین کی پتنگ باندھ دی جائے۔ مگر ایسی پتنگ کا حال صرف یہ ہونے والا ہے کہ ہاتھی ایک بار اپنی دم کو جھٹکا دے اور یہ پتنگ اُڑ کر بہت دور چلی جائے۔ والدین کو چاہیے کہ اگر وہ اپنے بچوں کو دین دار، یعنی آخرت پسند بنانا چاہتے ہیں تو وہ اُس کی قیمت ادا کریں، ورنہ وہ فرضی طورپر اِس قسم کی منافقانہ بات کرنا بھی چھوڑ دیں۔
واپس اوپر جائیں

ہر گھر بگاڑ کا کارخانہ

آج کل عام طورپر یہ حال ہے کہ ہر گھر میںایک طرف اپنے بچوں اور اپنے خاندان والوں کی تعریف کی جاتی ہے، اُن کا ذکر ہمیشہ مثبت انداز میں کیا جاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جب بھی دوسروں کا چرچا کیا جاتا ہے تو وہ تنقیص کے انداز میں ہوتا ہے۔
اپنوں کے بارے میں مثبت باتوں کا چرچا اور دوسروں کے بارے میں منفی باتوں کا چرچا، یہ کلچر اـتنا زیادہ عام ہے کہ شاید ہی کوئی گھر اِس سے خالی ہو۔
گھر کے اندر سماج کے شہری بنتے ہیں، لیکن مذکورہ کلچر نے گھر کو اِس قابل نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنے سماج کے لیے اچھے شہری سپلائی کرے۔ ہر گھر میںایسے عورت اور ایسے مرد بن کر تیار ہورہے ہیں جو اپنوں کے بارے میں مثبت رائے اور دوسروں کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں، جن کو اپنوں سے محبت ہے اور دوسروں سے نفرت ، جو اپنوں کے بارے میں روادار (tolerant) ہیں اور دوسروں کے بارے میںوہ غیر روادار(intolerant)بنے ہوئے ہیں، جن کے اندر اپنوں کو دینے کا ذہن ہے اور دوسروں سے صرف لینے کا ذہن، جو اپنوں کو برتر سمجھتے ہیںاور دوسروں کو کم تر، جو اپنوں کی ترقی پر خوش ہوتے ہیںاور دوسروں کی ترقی دیکھ کر اُنھیں کوئی خوشی نہیں ہوتی، جو اپنوں کی تکلیف سے فکر مند ہوتے ہیں اور دوسروں کی تکلیف کو دیکھ کر انھیں کوئی فکر مندی لاحق نہیں ہوتی، وغیرہ۔
اِس صورتِ حال کا یہ نتیجہ ہے کہ اب سماجی اقدار (social values) کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ اب ایک ہی چیز ہے جو ہر ایک کا واحد کنسرن (sole concern) بنی ہوئی ہے، اور وہ ہے ذاتی مفاد(self-interest)۔ اِس صورتِ حال نے ہر ایک کو خود غرض اور استحصال پسند بنا دیا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔ یہ صورتِ حال بے حد سنگین ہے۔ اِس کی اصلاح جلسوں اور تقریروں کے ذریعے نہیں ہوسکتی، اس کی اصلاح کا طریقہ صرف یہ ہے کہ گھر والے اپنے گھر کے ماحول کو درست کریں۔گھر کے ماحول کو درست کیے بغیر اِس سنگین صورتِ حال کی اصلاح ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کا قبرستان

ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہمارے مشن سے جڑے ہوئے تھے۔ اُس وقت ان کے یہاں اولاد نہیں تھی، پھر ان کے یہاں بچے پیدا ہوئے۔ اِس کے بعد وہ دھیرے دھیرے مشن سے دور ہوگئے۔ ایک عرصے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے دعوتی کام کو کیوں چھوڑ دیا۔ انھوں نے کہا— بچوںکی ذمے داریاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب وقت نہیں ملتا۔
موجودہ زمانے میں یہی کم و بیش ہر آدمی کا حال ہے۔ لوگوں کے لیے ان کے بچے ان کا قبرستان بنے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کے لیے اس کے بچے اس کا واحد کنسرن (sole concern) ہیں۔ ہر آدمی اپنا پیسہ، اپنا وقت، اپنی انرجی، غرض جو کچھ اس کے پاس ہے، وہ اس کو اپنے بچوں کے لیے وقف کیے ہوئے ہے۔ دوسروں کے لیے اس کے پاس صرف زبانی ہمدردی (lip service) ہوتی ہے، اور اپنی اولاد کے لیے حقیقی عمل، حتی کہ خدا کے لیے یا خدائی کام کے لیے بھی اس کے پاس صرف الفاظ ہوتے ہیں، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
آج جس شخص سے ملاقات کیجیے، وہ اپنے بچوںکے لیے فکر مند ہوگا، لیکن وہ خود اپنے مستقبل کے لیے فکر مند دکھائی نہ دے گا۔ یہ عین وہی صورتِ حال ہے جس کو حدیث میں اس طرح بیان کیاگیا ہےکہ دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھو دینا(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966)۔ اِس معاملے کا سب سے زیادہ اندوہناک پہلو یہ ہے کہ لوگ محبتِ اولاد میں اتنا زیادہ غرق ہیں کہ وہ اِس حدیثِ رسول کا مصداق بن گئے ہیں: حُبُّکَ الشَّیْءَ یُعْمِی وَیُصِمُّ(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 5130) ۔ یعنی کسی چیز سے تمہاری محبت تم کو اندھا اور بہرا بنادیتی ہے۔ اولاد کی محبت ان پر اتنا زیادہ غالب ہے کہ وہ یہ بھی سوچ نہیں پاتے کہ ہم اولاد کے مستقبل کو بنانے کی فکر میں خود اپنے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں۔ اِس بنا پر لوگوں کاحال یہ ہے کہ ان کے پاس زیادہ اہم کاموں کے لیے وقت نہیں۔ مثلاً دینی مطالعہ، دعوہ ورک، آخرت کو سامنے رکھ کر اپنے معاملات کی منصوبہ بندی، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

نظر کی خریداری

ایک صاحب مجھ کو اپنے گھر لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ ان کا گھر مختلف قسم کے سامانوں سے بھرا ہوا ہے۔ پورا گھر ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور (departmental store)معلوم ہوتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں اتنا زیادہ سامان کیوں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب میں بازار جاتا ہوں اور وہاں میں کسی چیز کو دیکھتا ہوں، وہ مجھ کو پسند آجاتی ہے تو میں اس کو خرید لیتا ہوں۔ یہ نظر کی خریداری ہے۔ اکثر لوگوں کا حال یہی ہے کہ وہ چیزوں کو دیکھ کر خریدتے ہیں، خواہ وہ ان کے استعمال میں آنے والی ہوں یا نہ ہوں۔
خریداری کی دو قسمیں ہیں— نظر کی خریداری اور ضرورت کی خریداری۔ نظر کی خریداری وہ ہے جو دیکھ کر کی جائے۔اس کے برعکس، ضرورت کی خریداری یہ ہے کہ آپ کو ایک چیز کی ضرورت ہو ، اس کو حاصل کرنے کے ارادے سے آپ گھر سے نکلیں اور جہاں وہ چیز ملتی ہو، وہاں جاکر اس کو خرید لیں۔
نظر کی خریداری دوسرے الفاظ میں بے مقصد خریداری ہے۔ وہ اپنے وقت اور اپنے مال کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مال کی تبذیر (الاسراء،17:26) بتایا گیا ہے۔ یعنی مال کو بلاضرورت بکھیرنا۔ ضرورت کی خریداری ایک ذمہ دارانہ فعل ہے، اور نظر کی خریداری ایک غیر ذمہ دارانہ فعل ۔
کسی مرد یا عورت کے پاس جو مال ہے، وہ اللہ کا دیا ہوا ہے، وہ اللہ کی ایک امانت ہے۔ جو عورت یا مرد مال کومسرفانہ طور پر خرچ کریں، وہ خدا کی دی ہوئی امانت میں خیانت کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسا کام کرتے ہیں، جس کے لیے آخرت میں ان کی سخت پکڑ ہوگی۔ مال کو جائز ضرورت پر خرچ کرنا ثواب کا کام ہے۔ اس کے برعکس، اگر مال کو غیر ضروری مدوں میں خرچ کیا جائے تو وہ خرچ کرنے والے کے لیے ایک گناہ بن جاتا ہے۔ مال کو خرچ کرنے کے معاملے میں انسان کو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

پیمپرنگ کا نقصان

میرے والد فرید الدین خاں کا انتقال دسمبر 1929میں ہوا۔ اُس وقت میری عمر تقریباً 6 سال تھی۔ میرے والد اپنے تمام بچوں میں مجھ کو سب سے زیادہ مانتے تھے۔ وہ میرے ساتھ لاڈپیار(pampering) کا معاملہ کرتے تھے۔ اِس بنا پر میں بہت شوخ ہوگیا تھا اور اکثر طفلانہ شرارتیں کیاکرتا تھا۔ شیخ محمد کامل میرے پھوپھا تھے۔ وہ اِس کو دیکھ کر غصہ ہوتے تھے۔ وہ میرے والد سے کہتے تھے کہ — تم اپنے بیٹے کو خراب کرڈالوگے۔
لیکن بچپن میں میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ میری والدہ زیب النساء (وفات 1985 ) بتاتی تھیں کہ والد کی زندگی میں میں بہت بولتا تھا، لیکن جب والد کا انتقال ہوگیا تو اچانک میں بالکل بدل گیا۔ میری شوخیاں ختم ہوگئیں۔ اب میں خاموش رہنے لگا۔ یہ میری زندگی کا بہت بڑا واقعہ تھا۔ اگر میرے باپ زیادہ دن تک زندہ رہتے تو یقینی طورپر میں اُسی قسم کا ایک نوجوان بن جاتا جس کو لاڈ پیار سے بگڑا ہوا بچہ (spoilt and pampered child) کہاجاتا ہے۔ بعد کو میری زندگی میں جو حقیقت پسندی اور سنجیدگی آئی، وہ براہِ راست طورپر میری یتیمی کا نتیجہ تھی۔
ایک انسان جب پیدا ہوتا ہے تو ابتدائی طورپر وہ اپنے والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن یہ مدت عارضی ہوتی ہے۔ اس کو اپنی بقیہ زندگی والدین کے ماحول سے باہر، دوسروں کے درمیان گزارنی پڑتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ لاڈ پیار کا معاملہ کرتے ہیں۔
اِس لاڈ پیار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ شعوری یا غیر شعوری طورپر سمجھ لیتا ہے کہ مجھ سے محبت کرنے والا وہی ہے جو میرے ساتھ لاڈ پیار(pampering) کا معاملہ کرے۔ لیکن یہ بچہ جب اپنے گھر سے باہر آتا ہے تو دوسرے لوگوں سے اس کو والدین والا لاڈ پیار نہیں ملتا۔ اب وہ ساری دنیا سے بے زار ہوجاتا ہے۔ اِس صورتِ حال نے تمام عورتوں اور مردوں کو شکایت کی نفسیات میں مبتلا کردیا ہے، جب کہ صحیح یہ تھا کہ لوگوں کے اندر دوسرے انسانوں کے لیے محبت کی نفسیات پیداہو۔
واپس اوپر جائیں

محرومی ایک نعمت

مئی 2000 میں میں نے بہار کا سفر کیا۔ اس سفر میں مجھے بتیا (بہار) کا یتیم خانہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔یہ یتیم خانہ 1928 سے قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بچہ یا بچی کا یتیم ہونا کوئی برائی نہیں۔ یہ ایک نعمت ہے جو فطرت کی طرف سے کسی کو دی جاتی ہے۔ اگر یتیم ہونا نعمت نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ پیغمبر ِ اسلام کے لیے یتیمی کا انتخاب نہ فرماتے۔یتیم ہونا کسی بچہ یا بچی کے لیے قدرت کی طرف سے ایک خوشخبری ہے۔ اس بات کی خوشخبری کہ تم کو زندگی کے سفر کے لیے وہ کورس عطا کیا گیا ہے جو اس انسان کو عطا ہوا جس کے بارےمیں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم حضرات بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ بشری کے سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے۔
یتیم بچہ یا بچی کو پیداہونے کے بعد دنیا میں اپنے فطری امکان کو بروئے کار لانے کے لیے اور کیا چیز ملنی چاہیے اس کااشارہ اس قرآنی آیت میں ملتا ہے:أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَى (93:6)۔ یعنی کیا اللہ نے تم کو یتیم نہیں پایا، پھر اس نے تم کو ٹھکانا دیا۔ اپنے آغاز حیات میں اپنی زندگی کی تعمیرکے لیے ایک مأویٰ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ یتیم خانہ اور اسی طرح تمام یتیم خانے اسی آیت کی عملی تفسیر ہیں۔وہ یتیموں کو مأویٰ فراہم کرتےہیں۔ اس طرح کے کام کو میں اپنی زبان میں منصوبۂ خداوندی سمجھتا ہوں۔
ایک صاحب نے اپنا قصہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں بچپن میں یتیم ہوگیا تھا۔ میرے رشتہ داروں نے مجھے یتیم خانہ میں داخل کردیا۔ میرے ساتھ دو یتیم بچے اور تھے۔ ہم تینوں نے یتیم بچوں کی حیثیت سے یتیم خانہ میں پروش پائی۔ اس وقت بظاہر ہمارا کوئی مستقبل نہ تھا۔ مگرآج ہم تینوں اللہ کے فضل سے کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔میں نے کہا کہ یہ آپ کے اسی یتیم ہونے کا نتیجہ ہے۔ یتیمی کی حالت بہترین حالت ہے۔ یتیمی آدمی کے اندر خودشناسی پیدا کرتی ہے۔ وہ آدمی کے اندر خود کفیل بننے کا جذبہ ابھارتی ہے۔ یتیم آدمی سمجھتا ہے کہ میرا کوئی سہارانہیں، اس لیے مجھ کو خود ہی سارا عمل کرنا ہے۔ اس طرح وہ دوسروں سے زیادہ محنت کرنے لگتا ہے۔ یتیمی کے حالات آدمی کو ہیرو بنادیتےہیں۔
ڈفرنٹلی ایبلڈ پرسن
اکتوبر 2000میں مَیں نے بھوپال کا سفر کیا ۔ اس دوران میں نے جو چیزیں دیکھیں، ان میں سے ایک رفاہی ادارہ بھی تھا، جو ڈفرنٹلی ایبلڈ بچوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کا نام شبھم وکلانگ سیوا سمیتی ہے۔ یہ ادارہ 1980 میں قائم ہواہے۔ میں نے ان بچوں کو دیکھا جن کی تعداد 63 ہے ان میں ہندو اور مسلمان دونوں بچے شامل ہیں۔ میں نے کئی بچوں سے بات کی دوبچوں سے ہونے والی بات کو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
سنتوش چورسیہ (عمر 14 سال) سے میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیا کرتےہیں۔ انھوں نے کہا کہ پڑھتےہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیا سوچتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ پڑھ لکھ کر میں اپنے پیروں پر کھڑاہوں گا۔ ایک بچہ جس نےاپنا نام شنکر شرما (عمر 12 سال) بتایا۔وہ بھی اپنے دونوں پیروں سے معذور تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ پڑھنے کے بعد کیا کریں گے۔ اس نے جواب دیا میں پڑھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ یہ بات وہ بچے کہہ رہے تھے جو اپنے دونوں پیروں سے معذور تھے اور جسمانی طورپر کھڑے نہیں ہوسکتےتھے۔ میں نے سوچا کہ علم میں کیسی عجیب طاقت ہے۔ علم آدمی کو اس حد تک با شعور بناتا ہے کہ وہ جسمانی طورپر کمزور ہوتے ہوئے بھی ذہنی طورپر اتنا طاقتور ہوجائے کہ اس کی جسمانی کمزوری ترقی کی راہ میں حائل نہ ہوسکے۔
مزید یہ کہ موجودہ زمانے میں یہ بات ریسرچ سے ثابت ہوگئی ہےکہ کوئی شخص مطلق معنوں میں قوی یا ضعیف نہیں ہوتا۔ چناں چہ پہلے معذور کے لیے ڈس ایبلڈ (disabled) کا لفظ بولا جاتا تھا۔ مگر اب یہ لفظ متروک ہوگیا ہے۔ اب ایسے افراد کو ڈفرینٹلی ایبلڈ (differently abled) کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک اعتبار سے معذور اور دوسرے اعتبار سے طاقت ور۔
واپس اوپر جائیں

تربیت اولاد

حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا:باپ کی طرف سے اپنے بیٹے کے لیے اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں کہ وہ اس کو اچھے آداب سکھائے ( مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ)۔سنن الترمذی، حدیث نمبر 1952)۔ اس حدیث میںبظاہر صرف والد کا ذکر ہے مگر تبعاً اس سے مراد والد اور والدہ دونوں ہیں۔ نیز ادب کا لفظ یہاں تعلیم وتربیت کے تمام پہلوؤں کے لیے جامع ہے، خواہ وہ مذہبی نوعیت کی چیزیں ہوں یا دنیاوی نوعیت کی چیزیں۔
عورت اور مرد کو فطری طور پر اپنی اولاد سے غیر معمولی محبت ہوتی ہے۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہےکہ اس محبت کا بہترین استعمال کیا ہے یاکیا ہونا چاہیے۔ وہ استعمال یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو آداب زندگی سکھائیں۔ وہ اپنے بچوں کو بہتر انسان بناکر دنیا کے کارزار میں داخل کریں۔یہ دیکھاگیا ہے کہ والدین اپنی محبت کا استعمال زیاہ تر اس طرح کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ بچہ جو چاہے وہ اس کے لیے حاضر کردیا جائے، یہی بچہ کے لیے محبت کا سب سے زیادہ بڑا استعمال ہے، مگر یہ بچوں کے حق میں خیر خواہی نہیں۔
چھوٹا بچہ اپنی خواہشوں کے سوا کچھ اور نہیں جانتا۔ اس کی سوچ بس یہ ہوتی ہے کہ اس کے دل میں جو خواہش آئے وہ فوراً پوری ہوجائے۔ مگر یہ طفلانہ سوچ ہے۔ کیونکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بچہ ایک دن بڑا ہوگا۔ وہ بڑا ہو کر دنیا کے میدان میں داخل ہوگا۔ زندگی کے اس اگلے مرحلہ میں کامیاب ہونے کے لیے بچہ کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ کہ وہ آدابِ حیات سے مسلّح ہو کر وہاں پہنچا ہو۔
بچہ جب بالکل چھوٹا ہو اسی وقت سے اس کی تعلیم وتربیت کا سلسلہ شروع کردینا چاہیے تاکہ یہ چیزیں عادت بن کر اس کی زندگی میں داخل ہوجائیں۔ زندگی کے ان آداب کے تین خاص پہلو ہیں: دین، اخلاق اور ڈسپلن۔
دین کے اعتبار سے بچہ کی تربیت کا آغاز پیدائش کے فوراً بعد ہوجاتا ہے جب کہ اس کے کان میں اذان کی آواز داخل کی جاتی ہے۔ یہ علامتی انداز میں اس بات کا اظہار ہے کہ بچہ کو دین دار بنانے کا عمل آغازِ عمر ہی سے شروع کردینا ہے۔ یہ کام ماں اور باپ دونوں کوکرنا ہے۔
والدین کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ بچہ کے اندر توحیداور اسلامی عقائد خوب پختہ ہوجائیں۔ ذکر اور عبادت اس کی زندگی کے لازمی اجزاء بن کر اس کی شخصیت میں شامل ہوجائیں۔ وہ نماز، روزہ کا پابند ہو۔ صدقہ اورخیرات کا شوق اس کے اندر پیدا ہوجائے۔ قرآن اور حدیث سے اس کو اس قدر شغف ہوجائےکہ وہ روزانہ اس کا کچھ نہ کچھ حصہ مطالعہ کرنے لگے۔ اس کو دیکھ کر ہر آدمی یہ کہہ دے کہ یہ بچہ ایک دین دار بچہ ہے۔
اخلاق کی تربیت کی صورت یہ ہے کہ ہر موقع پر بچہ کو سکھایا جائے۔ اگر وہ غلطی کرے تو اس کوٹوکا جائے۔ حتی کہ اگر ضرورت ہو تو اس کی تنبیہ کی جائے۔ بھائی بہنوں میںلڑائی ہو تو فوراً سمجھایا جائے۔ اگر کبھی بچہ جھوٹ بولے یا کسی کو گالی دے۔ یا کسی کی چیز چرا لے تو نہایت سختی کے ساتھ اس کا نوٹس لیاجائے۔ اور یہ سب بالکل بچپن سے کیا جائے تاکہ بچہ کو زندگی میں یہ چیزیں مستقل کردار کے طورپر شامل ہوجائیں۔
یہی طریقہ ڈسپلن کے بارے میں اختیار کرنا ہے۔ بچہ کو اوقات کی پابندی سکھائی جائے۔ چیزوں کو صحیح جگہ رکھنے کی عادت ڈالی جائے۔ کھانا پینا باقاعدہ وقت کے ساتھ ہو۔ اگر وہ کوئی کاغذ یا تھیلی سڑک پر پھینک دے تو فوراً اسی سے اس کو اٹھوایا جائے۔ شور کرنے سے روکا جائے، ہر ایسی چیز سے بچنے کی تلقین کی جائے جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہو۔
بچہ کی حقیقی تربیت کے لیے خود ماں باپ کو اپنا طرزِ زندگی اس کے مطابق بنانا ہوگا۔ اگر آپ اپنے بچہ سے کہیں کہ جھوٹ نہ بولو، اسی کے ساتھ آپ یہ کریں کہ جب کوئی شخص دروازہ پر دستک دے تو کہلوا دیں کہ وہ اس وقت گھر پر نہیں ہیں تو ایسی حالت میں بچہ کو جھوٹ سےروکنا بے معنی ہوگا۔ اگر آپ سگریٹ پیتے ہوںتو بچہ کے سامنے اسموکنگ کے خلاف تقریر کرنا بے معنی ہے۔ اگر آپ وعدہ پورا نہ کرتےہوں اور بچہ سے کہیں کہ بیٹے، ہمیشہ وعدہ پورا کرو، تو کبھی ایسی نصیحت کو نہیں پکڑے گا۔
بچہ اپنے والدین کو ماڈل کے روپ میں دیکھتا ہے۔ اسی طرح بڑا بچہ چھوٹے بچوں کے لیے ماڈل ہوتاہے۔ اگر والدین اور بڑا بچہ ٹھیک ہو تو بقیہ بچے اپنے آپ سدھرتے چلے جائیں گے۔
اخلاقی زہر
6 جنوری 1990 کو دہلی (شکر پور) میں ایک دردناک واقعہ ہوا۔ کچھ چھوٹے بچے ایک میدان میں کھیل رہے تھے۔ وہاں ایک طرف کوڑے کا ڈھیر تھا۔ وہ کھیلتے ہوئے اس کوڑے تک پہنچ گئے۔ یہاں انھیں ایک پڑی ہوئی چیز ملی۔ یہ کوئی زہریلی چیز تھی۔ مگر انھوں نے بے خبری میں اس کو اٹھا کر کھا لیا۔ اس کے نتیجہ میں دو بچے فوراً ہی مر گئے، اور آٹھ بچوں کو تشویشناک حالت میں جے پرکاش نرائن اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ یہ بچے دو سال سے پانچ سال تک کے تھے۔
ٹائمس آف انڈیا (7 جنوری 1990) نے صفحہ اول پر اس کی خبر دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان بچوں میں سے ایک نے وہاں ایک چھوٹا پیکٹ پایا۔ اس میں تقریباً ڈیڑھ سو گرام کوئی سفید رنگ کا سفوف تھا۔ انھوںنے غلطی سے اس کو شکر سمجھا اور آپس میں تقسیم کرکے کھانے لگے۔ کھانے کے چند منٹ بعد ان کے ہونٹ نیلے پڑ گئے:
One of them found a small packet containing about 150 gm of white, powdery substance. They mistook it for sugar and distributed it among themselves. Within minutes of consuming it, their lips turned blue.
مادی خوراک کے اعتبار سے یہ چند بچوں کا واقعہ ہے۔ لیکن اخلاقی خوراک کے اعتبار سے دیکھئے تو آج یہی تمام انسانوں کا واقعہ ہے۔ آج کی دنیا میں تمام انسان ایسی اخلاقی غذائیں کھارہے ہیں جو ان کی انسانیت کے لیے زہر ہیں، جو ان کو ابدی ہلاکت سے دوچار کرنے والی ہیں۔
جھوٹ، بدکاری، رشوت، غرور، حسد، الزام تراشی، ظلم، غصب، بد دیانتی، وعدہ خلافی، بدخواہی، بے اصولی، بدمعاملگی، انانیت، بے اعترافی، غلطی نہ ماننا، احسان فراموشی، خود غرضی، انتقام، اشتعال انگیزی، اپنے لیے ایک چیز پسند کرنا اور دوسرے کے لیے کچھ اور پسند کرنا، یہ تمام چیزیں اخلاقی معنوں میں زہریلی غذائیں ہیں۔ آج تمام لوگ ان چیزوں کو میٹھی شکر سمجھ کر کھارہے ہیں۔ مگر وہ وقت زیادہ دور نہیں جب انکا زہریلا پن ظاہرہوگا۔ اور پھر انسان اپنے آپ کو اس حال میں پائے گا کہ وہاں نہ کوئی اس کی فریاد سننے والا ہوگا اور نہ کوئی اس کا علاج کرنے والا۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
اگست 1996 میں میرا امریکا کا سفر ہوا۔ وہاںماؤنٹ ہالی ( نیو جرسی)کی مسجد میں ایک اجتماع ہوا۔ اس میں زیادہ تر عورتیں شریک تھیں۔ اس میں خطاب کا موضوع تھا کہ امریکی معاشرہ میں بچوں کا اسلامی تحفظ۔ اس پر بولتے ہوئے میں نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ تھا:میں نے کہا کہ اگلی نسل کا اسلامی تحفظ اس طرح نہیںہوسکتا کہ آپ ایک مولوی صاحب کو مقرر کردیں جو روزانہ شام کو آکر ’’دینیات‘‘ پڑھا دیں۔ یا کوئی دینی رسالہ آپ اپنے بچوں کے نام جاری کردیں۔ یا انھیں کلچرل نوعیت کی کچھ چیزوں کا عادی بنانے کی کوشش کریں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ اگر آپ کو اپنے بچوں کو اسلامائز کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنے گھر کو اسلامائز کیجئے۔ آپ کے گھر میں دنیا کا چرچا نہ ہو بلکہ دین کا چرچا ہو۔ گھر کا ماحول مادی رنگ میں رنگا ہوا نہ ہوبلکہ آخر\ت کے رنگ میں رنگا ہوا ہو۔دوسری بات یہ کہ آپ اپنے بچوں کے اندر داعیانہ اسپرٹ پیدا کریں۔ یہ ایک اصول ہے کہ جو داعی نہیں بنتا اس کو مدعو بننا پڑتا ہے۔ اس لیے اگر آپ نے اپنے بچوں کے اندر داعیانہ اسپرٹ نہیں پیدا کی تو وہ دوسروں سے متاثر ہو کر رہیں گے۔ یہ فطرت کا قانون ہے، اور فطرت کا قانون کبھی نہیں بدلتا۔
واپس اوپر جائیں

پہلا اسکول

علم کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ ہر دوسری مصلحت پر اس کو فوقیت حاصل ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمان تعلیم کے میدان میں دوسری قوموں سے پیچھے ہوگئے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ موجودہ زمانہ میں جو تعلیمی ادارے قائم ہوئے، ان کے اساتذہ زیادہ ترغیر مسلم تھے۔ مسلمانوں کے رہنماؤں نے کہا کہ یہ غیر مسلم استاد ہمارے بچوں کو خراب کردیں گے، اس لیے ان اداروںمیں مسلمانوں کو داخل کرنا درست نہیں۔ اس کے نتیجہ میں مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے ہوگئے۔
یہ مصلحت درست نہ تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ میں جو سب سے پہلا اسکول کھولا گیا، اس کے تمام استاد غیر مسلم تھے۔ یہ اسکول مدینہ میں مشرک قیدیوں کے ذریعہ کھولا گیا۔ بعض لوگ صفّہ کو پہلا اسلامی مدرسہ کہتےہیں۔ مگر صفّہ تربیت گاہ تھا نہ کہ تعلیم گاہ۔ اسلام کی پہلی تعلیم گاہ یقیناً وہ ہےجو غزوۂ بدر کے قیدیوں کے ذریعہ مدینہ میں قائم کی گئی اور اس کےٹیچر سب کے سب مشرک اور غیر مسلم تھے۔
حتی کہ اس تعلیمی نظام کی بنا پر مدینہ میں مسائل بھی پیداہوئے۔ مثلاً مسند احمد بن حنبل کی ایک روایت میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کا فدیہ یہ مقرر کیا کہ وہ انصار کے لڑکوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ اس کے بعد ایک روز ایک لڑکا روتا ہوا اپنی ماں کے پاس آیا۔ ماںنے پوچھا تمھارا حال کیا ہے۔ اس نے کہا کہ میرے معلّم نے مجھ کو مارا ہے۔ )َجَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فِدَاءَہُمْ أَنْ یُعَلِّمُوا أَوْلَادَ الْأَنْصَارِ الْکِتَابَةَ۔ قَالَ:فَجَاءَ غُلَامٌ یَوْمًا یَبْکِی إِلَى أَبِیہِ، فَقَالَ:مَا شَأْنُکَ؟ قَالَ:ضَرَبَنِی مُعَلِّمِی)مسند احمد، حدیث نمبر 2216۔
یہ قیدی سب کے سب اسلام کے دشمن تھے۔ ان کو چھوڑنے میں یہ اندیشہ تھا کہ وہ دوبارہ اسلام کے خلاف مسئلہ بنیں گے۔ اس کے باوجود انھیں تعلیم کی قیمت پر چھوڑ دیاگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ ہر اندیشے کو نظر انداز کرکے اسے حاصل کرنا چاہیے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
امریکا کے سفر میں ایک شادی شدہ خاتون سے ملاقات ہوئی۔ اُن کے ساتھ دو چھوٹے بچے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ خاتون اپنے شوہر سے اختلاف کرکے اپنے بچوں کے ساتھ الگ ایک چھوٹے مکان میںرہتی ہیں۔ میں نے کہا کہ آج کل کے زمانے میں ایک عجیب چیز یہ ہو رہی ہے کہ شوہر کو اپنے بچوں سے محبت ہے، لیکن اس کو اپنی بیوی سے نفرت ہے۔ اِسی طرح بیوی کو اپنے بچوں سے محبت ہے، اور اپنے شوہر سے نفرت۔ یہ تضاد کی بات ہے۔ اور فطرت کے قانون کے مطابق، اِس قسم کی متضاد سوچ (contradictory thinking) اور ذہنی ارتقا دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔میںنے کہا کہ آج کل یہ حال ہے کہ شوہر اور بیوی کے لیے اُن کا بچہ عملاً لٹل گاڈ (little god) ہوتا ہے۔ مگر جس شوہر یا جس بیوی کے ذریعے یہ بچہ پیدا ہوا، اُس سے دونوں کو دوری ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں