Pages

Thursday, 1 August 2019

Al Risala | August 2019 (الرسالہ،اگست)

4

-حج کا مقصد

5

- دعا کیسے کریں

8

- الخیر فیما وقع

9

- قرآن، کتاب مہجور

10

- دعوت کے کام میں استقامت

12

- اسلامی دعوت

21

- اسلام دورِ جدید میں

24

- فراہی اسکول کا کنٹری بیوشن

26

- عظیم قربانی

28

- دعوہ ایکسپلوزن

30

- دنیاانتظار میں ہے

32

- امن کا مقصد

33

- سیلف گلوری

34

- اسلامی نظام

39

- میل ملاپ کا سماج

40

- ایک سنگین برائی

41

- بڑھاپے کا دور

43

- پختگی کیا ہے

44

- صحیح طرزِ فکر

45

- ہار کے بعد جیت

46

- خواتین کو مشغولیت دیجیے

47

- جاپانی قوم کی ترقی کا راز

48

- خبرنامہ اسلامی مرکز


حج کا مقصد

حج کے سلسلے میں قرآن میں جو آیتیں آئی ہیں، اس کا ایک حصہ یہ ہے:لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ (22:28)۔یعنی تاکہ وہ اپنے فائدے کے لیے حاضر ہوں۔قرآن کی اس آیت میں حج کی نسبت سے منافع کا ذکر آیا ہے۔منافع کا لفظی مطلب ہے فائدہ (benefit)۔ منافع منفعت کی جمع ہے، یعنی کئی قسم کے فائدے۔ قرآن کی اس آیت میں بظاہر کسی متعین فائدے کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ منافع کا تعلق غور و فکر سے ہے، نہ کہ کسی متعین حوالے سے۔ اگر حاجی اس معاملے میں ایک تیار ذہن (prepared mind) بنا ہوا ہو، اور اس تیار ذہن کو لے کر وہ حج کا سفر کرے تو حج کے مقامات کو دیکھ کر اس کا ذہن ٹریگر ہوگا، اور وہ اپنے لیے منافع کا پہلو دریافت کرے گا۔
میں نے 1982 میں ایک عرب شیخ سلیمان القائد کے ساتھ حج کا سفر کیا تھا۔ وہاں میرا وقت مراسم حج کے علاوہ صرف کعبہ کے پاس رہنے میں گزرتا تھا۔ میں کعبہ کو دیکھ کر اس کے بارے میں مسلسل غور کرتا تھا۔ اس غور و فکر کے دوران ایک بات میرے ذہن میں یہ آئی کہ قرآن کی آیت میںمنافع کا لفظ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے سفر میں مختلف قسم کے منافع موجود ہیں۔ آدمی اپنے غور و فکر کے دوران ان منافع کو دریافت کرسکتا ہے۔ مثلا میں نے جب کعبہ کو دیکھا تو میں نے پایا کہ ابراہیمی کعبہ کی تعمیر ریکٹینگل شیپ کے مطابق تھی۔ لیکن بعد کو قدیم عمارت کے ٹوٹنے کے بعد کعبہ کی جو عمارت بنا ئی گئی، وہ ایک چوکورعمارت ہے۔ قدیم تعمیر کے لحاظ سے تقریباً ایک تہائی جگہ خالی چھوٹی ہوئی ہے، جس کو حطیم کہا جاتا ہے۔ اس سے میرے ذہن نے یہ مطلب نکالا کہ اگر کوئی قدیم عمارت ٹوٹ جائے، اور اس کی جگہ نئی عمارت بنانا ہو تو بہتر ہے کہ اس کو باقی ماندہ رقبے پر بنایا جائے۔ مثلاًامت مسلمہ پہلے ایک بڑی ایمپائر کی صورت میں تھی۔ اب وہ ایمپائر ٹوٹ چکی ہے۔ ایسی حالت میں اگر امت مسلمہ کی تشکیل نو کی جائے تو وہ باقی ماندہ حصہ پر کی جائے گی۔ یہ صحیح نہ ہوگا کہ قدیم ایمپائر کو دوبارہ کھڑا کرنے کی کوشش سے اس کی تعمیر ِ نو کا آغاز کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

دعا کیسے کریں

’’میرے لیے ایک سائیکل خرید دیجیے‘‘ بیٹے نے باپ سے کہا۔ باپ کی آمدنی کم تھی۔ وہ سائیکل خریدنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ اس نے ٹال دیا۔ لڑکا بار بار کہتا رہا اور باپ بار بار منع کرتا رہا۔ بالآخر ایک روز باپ نے ڈانٹ کرکہا ’’میں نے کہہ دیا کہ میں سائیکل نہیں خریدوں گا۔ اب آئندہ مجھ سے اس قسم کی بات مت کرنا‘‘۔
یہ سن کر لڑکے کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ کچھ دیر چپ رہا۔ اس کے بعد روتے ہوئے بولا: ’’آپ ہی تو ہمارے باپ ہیں۔ پھر آپ سے نہ کہیں تو اور کس سے کہیں‘‘۔ اس جملہ نے باپ کو تڑپا دیا۔ اچانک اس کا انداز بدل گیا۔ اس نے کہا: اچھا بیٹے اطمینان رکھو میں تمھارے لیے سائیکل خریدوں گا۔ اور کل ہی خریدوں گا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اگلے دن اس نے پیسہ کا انتظام کرکے بیٹے کے لیے نئی سائیکل خرید دی۔
لڑکے نے بظاہر ایک لفظ کہا تھا۔ مگر یہ ایک ایسا لفظ تھا جس کی قیمت اس کی اپنی زندگی تھی، جس میں اس کی پوری ہستی شامل ہوگئی تھی۔ اس لفظ کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے سرپرست کے آگے بالکل خالی کردیا ہے۔ یہ لفظ بول کر اس نے اپنے آپ کو ایسے نقطہ پر کھڑا کردیا جہاں اس کی درخواست اس کے سرپرست کے لیے بھی اتنا ہی بڑا مسئلہ بن گئی جتنا خود اس کے لیے۔
اس واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ذکرِ الٰہی کی وہ کون سی قسم ہے جو میزان کو بھر دیتی ہے اور جس کے بعد خدا کی رحمتیں بندے کے اوپر امنڈ آتی ہیں۔ یہ رٹے ہوئے الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ نہ اس کا کوئی ’’نصاب‘‘ ہے۔ یہ ذکر کی وہ قسم ہے جس میں بندہ اپنی پوری ہستی کو انڈیل دیتا ہے۔ جب بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیادہ شامل کردیتا ہے کہ ’’بیٹا‘‘ اور ’’باپ‘‘ دونوں ایک ترازو پر آجاتے ہیں — یہ وہ لمحہ ہے جب کہ ذکر محض لغت کا لفظ نہیں ہوتا بلکہ ایک شخصیت کے پھٹنے کی آواز ہوتا ہے۔ اس وقت خدا کی رحمتیں اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ بندگی اور خدائی دونوں ایک دوسرے سے راضی ہوجاتے ہیں— قادر مطلق عاجز مطلق کو اپنی آغوش میں لے لیتاہے۔
مادی حالات ، روحانی دعائیں
حضرت موسی علیہ السلام پر قتل کاالزام عائد ہوگیا، اور مصری سرداروں نے مشورہ کیا کہ انھیں ہلاک کردیں، تو پیغمبر موسیٰ مصر سے مدین چلے گئے۔ مدین اس زمانہ میں، خلیج عقبہ کے مشرقی اور مغربی کناروں پر واقع علاقہ کو کہا جاتا تھا،جہاں بنی مدیان آباد تھے۔ یہ مقام فرعونِ مصر کی سلطنت سے باہر تھا۔ اس لیے حضرت موسی نے مصر سے نکل کر مدین کا رخ کیا۔
قرآن میں ہے کہ جب آپ خوف اور اندیشہ کی حالت میں سفر کررہے تھے تو اللہ کو یاد کرتے ہوئے آپ کی زبان سے یہ کلمہ نکلا:عَسَى رَبِّی أَنْ یَہْدِیَنِی سَوَاءَ السَّبِیلِ (28:22)۔یعنی امید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستہ کی طرف رہنمائی کرے گا۔
بعض مفسرین قرآن نے اس کو محض راستہ کی تلاش کے معنی میں لیا ہے۔ ایک مفسر اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یعنی ایسے راستہ پر جس سے میں بخیریت مدین پہنچ جاؤں‘‘۔
یہ الفاظ اس کیفیت کی ترجمانی کے لیے بہت ناقص ہیں، جو حضرت موسی کے دل میں پیدا ہوئی تھی، یہ ایک مومنانہ کلمہ ہے نہ کہ عام معنوں میں محض ایک راستہ کے مسافر کی دعا۔ حضرت موسی کو اگرچہ مادی حالات نے مصر سے نکال کر مدین کے راستہ پر ڈالا تھا، مگر بندۂ مومن کا یہ حال ہوتاہے کہ مادی واقعات کے اندر بھی اس کی زبان سے روحانی دعائیں نکلتی ہیں۔ بظاہر وہ اس زمین میں راستہ تلاش کررہا ہوتا ہے، مگر زمین میں راستہ کی تلاش اس کے لیے دوسری دنیا کی یاد دہانی بن جاتی ہے، مگر اس کے اندر کا طوفان پکار رہا ہوتاہے— ’’خدایا! مجھے وہاں پہنچا دے جہاں میں تجھ کو پاسکوں۔ کیوں کہ انسان کی حقیقی منزل وہی ہے‘‘۔
حضرت موسیؑ کا یہ کلمہ ایک نازک ایمانی کیفیت کا کلمہ ہے۔ اس کو سفر اور جغرافیہ کے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
جو لوگ حقیقی معنوں میں اپنے رب کو پالیں، ان کے جینے کی سطح بالکل دوسری ہوجاتی ہے۔ وہ موجودہ دنیامیں رہتے ہوئے بھی آخرت کی فضاؤں میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ آج کی لذتوں اور تلخیوں کو دیکھتے ہوئے کل کی جنت اور جہنم کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ مومن حقیقت میں وہی ہے جو دنیا میں آخرت کے عالم کو دیکھ لے۔ جو حالتِ غیب میں رہتے ہوئے حالتِ شہود میں پہنچ جائے۔ غیر مومن پر بھی وہ دن آئے گا جب کہ وہ آخرت کی دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ مگریہ اس وقت ہوگا جب کہ غیب وشہود کا فرق مٹ چکا ہوگا۔ جب قیامت کی چنگھاڑ سارے پردوں کو پھاڑ دے گی۔ مگر اس وقت کا دیکھنا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیونکہ وہ بدلہ پانے کا وقت ہوگا نہ کہ ایمان ویقین کا ثبوت دینے کا وقت۔
رزقِ روحانی کا دستر خوان
ساری کائنات مومن کے لیے رزق روحانی کا دستر خوان ہے ۔موجودہ دنیا کی تمام چیزوں کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ ان کو دیکھ کر انسان عبرت حاصل کرے ، ان کے ذریعہ وہ ان ربانی کیفیات کو پالے جو ان کے اندر ان لوگوں کے لیے رکھ دی گئی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہوں ۔ ڈھاک (flame of the forest)ایک معمولی درخت ہے ۔ مگر اس کے اوپر بے حد حسین پھول اُگتے ہیں ۔ موسم خزاں کے پت جھڑ کے بعد اس کا درخت بظاہر ایک سوکھی لکڑی کی مانند ، اس سے بھی زیادہ ایک سوکھی زمین پر کھڑا ہوتا ہے ۔ اس کے بعد ایک خاموش انقلاب آتا ہے ۔ حیرت انگیز طور پر نہایت خوش رنگ پھول اس کی شاخوں میں کھل اٹھتے ہیں ۔ سوکھی لکڑی کا ایک ڈھانچہ لطیف اور رنگین پھولوں سے ڈھک جاتا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ایک محروم اور بے قیمت وجود کے لیے خدا نے خصوصی طور پر اپنی خوب صورت چھتری بھیج دی ہے ۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ کوئی بندۂ خدا اس کو دیکھ کر کہے —’’خدایا ! میں بھی ایک ڈھاک ہوں، تو چاہے تو میرے اوپر حسین پھول کھلا دے ۔ میں ایک ٹھنٹھ ہوں ، تو چاہے تو مجھ کو سر سبز وشاداب کر دے ۔ میں ایک بے معنی وجود ہوں ، تو چاہے تو میری زندگی کو معنویت سے بھر دے ۔ میں جہنم کے کنارے کھڑا ہوں تو چاہے تو مجھ کو جنت میں داخل کر دے ۔
واپس اوپر جائیں

الخیر فیما وقع

ایک مشہور عربی قول ان الفاظ میں آیا ہے:الخیر فیما وقع۔ یعنی جو ہوا، وہی بہتر ہے:
What happens, happens for the good.
یہ قول غالباً امید خیر کے معنی میں ہے۔ یعنی معاملے کا سرا سب کا سب اللہ رب العالمین کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے یہ امید رکھو کہ جو ہوا، اس میں خداوند رحمٰن و رحیم نے ہمارے لیے کوئی خیر رکھا ہوگا۔ اس طرح یہ قول گویا دعا کے معنی میں ہے۔ ایک حدیث قدسی میں آیا ہے : إِنَّ رَحْمَتِی غَلَبَتْ غَضَبِیْ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3194)۔ یعنی میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ جب بندوں کے بارے میں اللہ رب العالمین کا یہ فیصلہ ہے تو بندے کو ہر حال میں اپنے رب سے خیر کی امید کرنا چاہیے۔
لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ کے فیصلۂ رحمت کا نتیجہ فورا ًسامنے آجائے۔ نتیجے میں تاخیر ہوسکتی ہے، لیکن اصولی اعتبار سے اللہ کا فیصلہ بہرحال بندے کے لیے رحمت پر مبنی فیصلہ ہوگا۔ بندہ اپنی سوچ کے لحاظ سے رحمت کا طالب ہوتا ہے، لیکن اللہ کا فیصلہ رحمت کے عمومی مصلحت کے مطابق ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ بندہ جلدی کا طالب ہو، لیکن اللہ کا فیصلہ بندے تک تاخیر کے ساتھ پہنچے۔ ایسی حالت میں بندہ کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں امید پر قائم رہے۔ وہ ہر حال میں یقین رکھے کہ اللہ رب العالمین اس کے ساتھ رحمت کا معاملہ فرمائے گا، خواہ اس فیصلے کا ظہور تاخیر کے ساتھ ہو، یا جلد ہی اس کا ظہور سامنے آجائے۔
بندہ اپنی خواہش کے مطابق طالب بن جاتا ہے، لیکن اللہ کا فیصلہ اپنے مقرر منصوبہ کے مطابق ظاہر ہوتا ہے۔اللہ کو زیادہ بہتر طور پر معلوم ہے کہ بندہ کےلیے خیر کس چیز میں ہے۔ اللہ کا فیصلہ خود اپنے فیصلے کے مطابق ظاہر ہوتا ہے، نہ کہ بندے کی خواہش کے مطابق۔ بندہ کو یقین رکھنا چاہیے کہ اس کے حق میں اللہ کا جو فیصلہ بھی ہو، بہر حال وہ اس کے لیے خیر پر مبنی ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

قرآن، کتاب مہجور

قرآن کی سورہ الفرقان میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَقَالَ الرَّسُولُ یَارَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا(25:30)۔ یعنی رسول کہے گا کہ اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا تھا۔
اس آیت سے اولاً وہ لوگ مراد ہیں جن کے سامنے قرآن آتا ہے، مگر وہ اس پر ایمان نہیں لاتے۔ جیسا کہ مکی دور میں قریش نے کیا۔ تاہم اس نفسیات کا عملی مظاہرہ کبھی ان لوگوں کی طرف سے بھی ہوتاہے جو بظاہر قرآن کو ماننے والوں کی فہرست میں داخل ہوں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اپنی تفسیر قرآن میں آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے۔ تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا، ا س میں تدبر نہ کرنا، اس کی تلاوت نہ کرنا، اس کی تصحیح قرأت کی طرف توجہ نہ کرنا، اس سے اعراض کرکے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا، یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجرانِ قرآن کے تحت داخل ہوسکتی ہیں‘‘۔
قرآن کے ماننے والوں کے لیے قرآن کو ’’کتاب مہجور‘‘ بنانے کی یہ شکل کبھی نہیں ہوتی کہ اس کا احترام وتقدس لوگوں کے دلوں میں باقی نہ رہے۔ برکت اور تقدس کا نشان ہونے کی حیثیت سے وہ ہمیشہ اس کو اپنے طاق کی زینت بنائے رہتے ہیں۔ البتہ وہ اس سے فکری رہنمائی لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ خدا کی کتاب میں ان کے لیے ذہنی غذا نہیں ہوتی۔ وہ ان کی حقیقی زندگی کا سرمایہ نہیں بنتی۔ وہ ان کی دنیا پرستانہ زندگی کے لیے ’’برکت کا تعویذ‘‘ تو ضرور ہوتی ہے مگر آخرت کی رہنما کتاب کی حیثیت سے ان کی زندگی میں اس کا کوئی مقام نہیں ہوتا— یہ مطلب ہے خدا کی کتاب کو ’’کتاب مہجور‘‘ بنا دینے کا۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کے کام میں استقامت

قرآن میں پیغمبر ِ اسلام کو خطاب کرتے ہوئے ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَہُمْ کَأَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوعَدُونَ لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَہَارٍ بَلَاغٌ فَہَلْ یُہْلَکُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ (46:35)۔ یعنی پس تم صبر کرو جس طرح ہمت والے پیغمبروں نے صبر کیا۔ اور ان کے لیے جلدی نہ کرو جس دن یہ لوگ اس چیز کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو گویا کہ وہ دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ یہ پہنچا دینا ہے۔ پس وہی لوگ برباد ہوں گے جو نافرمانی کرنے والے ہیں۔
دعوت الی اللہ کا کام ایک بے حد نازک کام ہے۔ اس کام میں داعی کو ہر قدم پر استقامت (perseverance) کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ استقامت سے مراد یہ نہیں ہے کہ داعی اور مدعو کے درمیان لڑائی ہو، اور آپ اس میں جم کر مقابلہ کریں۔ بلکہ اس کا مطلب ہے صبر و برداشت کی استقامت۔ دعوت الی اللہ کا کام پورا کا پورا صبر و برداشت کا امتحان ہے— مدعو کی بے رخی کو برداشت کرنا، مدعو کی کڑوی باتوں کو برداشت کرنا، مدعو کی گالیوں کے جواب میں ان کے لیے دعائیں کرنا، وغیرہ۔
دعوت الی اللہ کا کام یک طرفہ صبر کا کام ہے۔ دعوتی اخلاق یہ ہے کہ مدعو آپ سے بد سلوکی کرے، اور آپ اس کے ساتھ اچھے اخلاق پر قائم رہیں۔ داعی کے اخلاق کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےأمَرَنی ربی أن أصَلَ مَنْ قَطَعَنی، وأعطی مَنْ حَرَمَنی، وأعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَنی (جامع الاصول، حدیث نمبر 9317)۔ یعنی اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس سے جڑوں، جو مجھے کاٹے، اور میں اس کو عطا کروں، جو مجھے محروم کرے، اور اس کو معاف کردوں، جس نے مجھ پر ظلم کیا۔
دعوت الی اللہ کا کام ایک ایسا کام ہے، جس میں مدعو کے مقابلے میں داعی کا کوئی حق نہیں ہوتا، اس کی صرف ذمے داریاں ہی ذمے داریاں ہوتی ہیں۔مثلا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن یہ تھا کہ بت پرستی کے کلچر کو دنیا سے ختم کیا جائے، لیکن آپ نے پہلے لمبی مدت تک اس بت پرستی کے کلچر کو برداشت کیا، حتی کہ آپ نے اس کو بھی برداشت کیا کہ لوگ مقدس کعبہ کو عملاً بت پرستی کا مرکز بنادیں۔ آپ نے کعبہ میں بت پرستی کو برداشت کرتے ہوئے، اس کو آپ بطور موقع استعمال کریں۔ چنانچہ آپ نے کعبہ میں بت پرستی کے اجتماع کو اپنے لیے لمبی مدت تک بطور آڈینس (audience) استعمال کیا۔ کعبہ میں آپ نے بت پرستی کی سرگرمیوں کو دیکھا، اور اس پر کبھی احتجاج یا ٹکراؤ نہیں کیا، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں دعوتی تیاری کا پہلا کام یہ ہے کہ اہلِ ایمان اس حقیقت کو دریافت کریں کہ ان کی حیثیت داعی کی ہے، اور دوسری اقوام کی حیثیت مدعو کی۔ موجودہ زمانے کے مسلمان ماضی کے اثر کے تحت اس حقیقت سے بے خبر ہوگئے ہیں ۔ و ہ اپنے آپ کو ایک قوم اور دوسرے لوگوں کو دوسری قوم سمجھتے ہیں۔ یہ دو قومی نظریہ ہے، اور دو قومی نظریہ ایک سراسر غیر اسلامی تصور ہے۔ یہ ایک مبنی بر جہالت تصور ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک انقلابی پیغمبر تھے۔ مگر یہ انقلاب ایک پراسس کے روپ میں لمبی تاریخ کے دوران ظہور میں آیا، نہ کہ کسی اچانک اعلان کے ذریعے۔ یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ ایک عالمی پیغمبر تھے۔ لیکن اس کا ظہور یکبارگی نہیں ہوا، بلکہ تاریخی پراسس کی صورت میں لمبی مدت کے دوران ہوا۔ اس تاریخی پراسس میں صرف امتِ محمدی شامل نہیں تھی، بلکہ دوسری اقوام نے بھی اس تاریخی پراسس میں حصہ لیا۔ اس نکتے کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
اکیسویں صدی میں امتِ محمدی کو اپنا فائنل رول ادا کرنا ہے۔ یہ فائنل رول ان کے لیے فرض عین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ فائنل رول وہی ہے جس کو قرآن میں اعلیٰ سطح پر تبیینِ حق (فصلت، 41:53) کہا گیا ہے، اور حدیث میں غالباًاسی دعوتی عمل کو شہادتِ اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کا درجہ دیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی دعوت

The Need for Re-orientation in Islamic Da‘wah
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن دعوت الی اللہ (اسلامی دعوت) تھا۔ آپ نے یہ کام 610 ء میں مکہ میںشروع کیا۔ اُس وقت آپ اِس مشن میں تنہا تھے، پھر دھیرے دھیرے لوگ اسلام قبول کرتے رہے۔اور آپ کے ساتھیوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ ابتدائی تیرہ سال تک اسلامی دعوت کا کام اسی طرح چلتا رہا۔ اُس وقت سارا فوکس اسلام کی بیسک آئڈیالوجی پر تھا، یعنی توحید اور آخرت۔
اُس وقت مکہ میں مشرکین کا غلبہ تھا۔ مکی دور کے آخر میں وہاں کے مشرک سرداروں نے محسوس کیا کہ اسلام کی تحریک اُن کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔ ا ب انھوں نے سختی کا طریقہ اختیار کیا۔ وہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر تشدد کرنے لگے، یہاںتک کہ انھوںنے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر ڈالیں۔ اِس مقصد کے لیے وہ ضروری تیاریاں کرنے لگے۔ اُس وقت، پیغمبر اسلام کے ساتھیوں میں جوابی مقابلے کا ذہن پیدا ہوا۔ انھوں نے چاہا کہ اپنی طاقت کو مجتمع کرکے وہ مشرکین سے لڑیں۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر لوگوں کو خاموش کردیا کہ تم لوگ صبر کرو، کیوں کہ مجھے لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے (اصبروا فإنى لم أومر بالقتال) المواہب اللدنیة بالمنح المحمدیةجلد 1، صفحہ 199۔
اگر آپ کار پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے سفر کریں تو درمیان میں بار بار دوسرے مقامات کو جانے والے راستے آتے ہیں۔ آپ اِن راستوں کی طرف نہیں جاتے، بلکہ اپنی گاڑی کو سیدھے رخ پر چلاتے رہتے ہیں، یہاںتک کہ آپ منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہی معاملہ اسلامی تحریک کا ہے۔ اسلامی تحریک کا اصل نشانہ دعوت الی اللہ ہے، مگر تحریک جب عملاً جاری ہوتی ہے تو سفر کے دوران بار بار موڑ کے مقامات آتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ضروری ہوتا ہے کہ تحریک کو کسی اور طرف مڑنے سے بچایا جائے، اور اُس کا سفر دعوت الی اللہ کی منزل کی طرف جاری رکھا جائے۔
مکی دور کے آخر میں اِس قسم کی ایک صورت حال پیش آئی۔ اُس وقت اگر ایسا ہوتا کہ اہلِ ایمان کی جماعت، مشرکین کی جماعت کے ساتھ متشددانہ ٹکراؤ شروع کردے تو اِس کا مطلب یہ تھا کہ اسلامی تحریک، دعوت الی اللہ کی صراطِ مستقیم سے ہٹ کر قتال کی جانب مُڑ گئی۔ ایسا ہونے کا مطلب یہ تھا کہ مشرک سردار اپنے مقصدمیں کامیاب ہوگئے۔
یہ وقت، دعوت کی سمتِ سفر کی دوبارہ تصحیح (re-orientation) کا تھا۔ اُس وقت پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کا فیصلہ کیا۔ ہجرت کیا تھی، وہ فرار (flight) یا پسپائی نہ تھی، ہجرت دراصل ایک تدبیر تھی، جس کے ذریعے پیغمبر اسلام نے اسلامی دعوت کو متشددانہ ٹکراؤ کی طرف مڑنے سے بچایا۔ اِس تدبیر سے آپ کو یہ موقع مل گیا کہ دعوت الی اللہ کا جو کام آپ مکہ میںکررہے تھے، اس کو آپ مدینہ میںجاری رکھیں۔ ہجرت اپنی حقیقت کے اعتبار سے مقامِ عمل کی تبدیلی تھی، نہ کہ سادہ طورپر ترکِ وطن۔ اِس تدبیر کا غیر معمولی فائدہ ہوا۔ چنانچہ اسلام تیزی سے مدینہ اوراطرافِ مدینہ میں پھیلنے لگا۔
مگر مکہ کے مشرک سرداروں کو یہ بات پسند نہ آئی۔ انھوںنے اسلامی تحریک کو بزور ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ مشرک سردار اُس وقت عرب میں سیاسی لیڈر کی حیثیت رکھتے تھے۔ اُن کو ہر قسم کے ذرائع حاصل تھے۔ ان کو وہ طاقت بھی حاصل تھی، جس کو موجودہ زمانے میں ٹرانس بارڈر ملٹری کیپیبلٹی (trans-border military capability) کہاجاتا ہے، یعنی سرحد کو پار کرکے حملہ کرنے کی صلاحیت۔
اب مکہ کے مشرک سرداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی فوج تیار کریں اور اقدام کرکے مدینہ پر باقاعدہ حملہ شروع کردیں۔ اِس معاملہ کا پہلا بڑا واقعہ وہ تھا، جس کو غزوۂ بدر (2 ہجری) کہاجاتا ہے۔ اس کے بعد غزوۂ اُحُد (3 ہجری) کا واقعہ پیش آیا۔ اِس طرح جھڑپوں کی صورت میں کئی متشددانہ واقعات پیش آئے۔
مشرکین مکہ کے جنگی ارادوں نے دوبارہ اسلامی تحریک کے لیے خطرہ پیدا کردیا کہ وہ دعوت الی اللہ کے راستے سے ہٹ کر قتال کے راستے کی طرف مڑ جائیں۔ اُس وقت دوبارہ اُس تدبیر کو اختیار کرنے کی ضرورت تھی، جس کو ہم نے ری اورین ٹیشن (re-orientation) کہاہے۔ اب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص تدبیر کے ذریعے مشرکین سے ختم ِ جنگ کا وہ معاہدہ فرمایا، جس کو معاہدۂ حدیبیہ (Hudaybiyah Agreement) کہاجاتاہے۔ یہ معاہدہ 6 ہجری میں طویل گفت وشنید کے بعد کیا گیا۔ اِس معاہدے میں پیغمبر اسلام نے مشرک سرداروں کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان لیا، صرف اِس لیے کہ آپ اُنھیں راضی کریں کہ وہ جنگ کا راستہ چھوڑ کر قیامِ امن کے طریقے کو اختیار کرلیں۔اِس معاہدے کا یہ تاریخ ساز فائدہ ہو ا کہ اسلامی تحریک جنگی انحراف سے ہٹ کر دعوت الی اللہ کے راستے پر آگئی۔ اِس کے بعد رسول اور اصحابِ رسول کو یہ موقع ملا کہ وہ نہ صرف عرب میں، بلکہ بیرونِ عرب تک اسلامی دعوت کے کام کو منظم طورپر پھیلا سکیں۔
حدیبیہ ایگری مینٹ کی اِسی غیر معمولی اہمیت کی بنا پر اُس کو فتح مبین (الفتح، 48:1)کہا گیا ہے، یعنی کھلی ہوئی فتح۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ حدیبیہ ایگری مینٹ فریقِ مخالف کی شرطوں پر کیاگیا تھا۔ حتی کہ اس کے بارے میں صحابہ کی اکثریت کا یہ خیال تھا کہ یہ معاہدہ پسپائی کا معاہدہ ہے۔ اِس کے باوجود کیوں قرآن نے اس کو فتحِ مبین قرار دیا۔
قرآن کا یہ اعلان دراصل فطرت کے اس قانون کا بیان ہےکہ اس دنیا میں ٹکراؤ کے مقام پر پیچھے ہٹنے والے آگے بڑھتے ہیں۔ یہاں شکست پر راضی ہونے والے کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، اِس دنیامیں ہار کا نتیجہ جیت کی صورت میں نکلتا ہے:
Success is the outcome of defeat.
بدقسمتی سے بعد کی صدیوں میں مسلمان اِس پیغمبرانہ حکمت کو بھول گئے۔ حدیبیہ اسپرٹ سے لوگ اتنا زیادہ غافل ہوگئے کہ بعد کی پوری تاریخ میں کوئی بھی شخص نظر نہیں آتا، جو اِس عظیم حکمت کو سمجھے اور دوبارہ مسلمانوں کے اندر حدیبیہ اسپرٹ کو زندہ کرنے کی کوشش کرے۔ مزید بد قسمتی یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں بھی بے خبری کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ آج ایسے لوگ تو بہت ملیں گے جو حدیبیہ کی بات کو پسپائی قرار دیں گے، لیکن ایسے لوگ تقریباً معدوم ہیں، جو حدیبیہ کے اندر چھپے ہوئے دعوتی امکانات کو سمجھ سکیں۔خلافتِ راشدہ کے بعد اسلام، سیاسی عظمت کے دور میں داخل ہوگیا۔ اب اسلام نے ایمپائر کی صورت اختیار کرلی— اُموی ایمپائر، عباسی ایمپائر، فاطمی ایمپائر، اندلسی ایمپائر، مغل ایمپائر، عثمانی ایمپائر، وغیرہ۔ یہ دور تاریخی اعتبار سے عظمت کا دور تھا، لیکن دعوت الی اللہ کے اعتبار سے وہ انحراف (diversion) کا دور بن گیا۔
اب مسلمانوں میں دعوتی ذہن کے بجائے سیاسی ذہن عام ہوگیا۔ اسی سیاسی ذہن کے تحت یہ کہاجانے لگا کہ مسلمان زمین میں خدا کے خلیفہ (vicegerent of God) ہیں۔ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ساری دنیا میں اسلام کی حکومت قائم کریں۔ اِسی سوچ کے زیرِ اثر یہ نظریہ پیدا ہوا کہ مسلم ممالک ’دارالاسلام‘ ہیں اور غیر مسلم ممالک ’دار الحرب‘ یا ’دارالکفر‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس نظریے کا یہ منفی نتیجہ نکلا کہ مسلمان دوسری قوموں کو مدعو کے بجائے حریف اور رقیب کے روپ میں دیکھنے لگے۔ مسلمان عمومی طورپر دعوت الی اللہ کے طریقےسے ہٹ کر سیاسی اقتدار کے منحرف راستے پر چلنے لگے۔
اِن بعد کی صدیوں میںاگرچہ عمومی سطح پر مسلمانوں کا ذہن یہی تھا، لیکن جُزئی طورپر مسلمانوں کے اندر ایسے گروہ اٹھتے رہے، جو غیر سیاسی میدان میں اسلام کو آگے بڑھاتے رہے۔ مثال کے طورپر محدثین نے سیاسی سرگرمیوں کو چھوڑ کر اپنے آپ کو حدیثِ رسول کی خدمت میںلگایا۔ صوفیا نے حکمرانوں سے دوری اختیار کرکے روحانی ارتقا کا کام کیا، جس کا فائدہ دعوت الی اللہ کے اعتبار سے بھی ظاہر ہوا۔ اِسی طرح ایسے علما پیدا ہوتے رہے جنھوں نے سیاسی جہاد سے الگ رہ کر مسجد اور مدرسے جیسے ادارے سنبھال لیے، اور اُن کے ذریعے بالواسطہ طورپر دعوت کی اسپرٹ زندہ رکھی۔
اِسی قسم کی غیر سیاسی شخصیتوں کا ایک بڑا کارنامہ وہ ہے، جو تیرھویں صدی عیسوی میں پیش آیا۔ تاتاری قبائل بعض وجوہ سے مسلمانوں کے مخالف بن گئے۔ انھوںنے ایک بڑا لشکر تیار کرکے عباسی سلطنت پر حملہ کردیا۔ انھوںنے سمرقند سے لے کر بغداد اور حلب تک، مسلم علاقے کو زبردست نقصان پہنچایا۔ انھوںنے ہلاکو خان کے زیر قیادت 1258 ء میں عباسی سلطنت کا خاتمہ کردیا۔ لیکن اس کے بعد یہ ہوا کہ ان تاتاری فاتحین نے اسلام قبول کرلیا۔ یہ واقعہ اتنا حیرت انگیز تھا کہ مورخین نے اس کا مندرجہ ذیل قسم کے الفاظ میں اعتراف کیا:
The conquerors have accepted the religion of the conquered.
(T.W. Arnold, The Preaching of Islam, London, 1913, p. 2)
The religion of the Muslims had conquered, where their arms had failed. (P.K. Hitti, History of the Arabs, London, 1989, p. 488)
انیسویں صدی عیسوی میں اسلام کی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوتی ہے۔ اب ایسا ہوا کہ مغربی قومیں جدید سائنس اور جدید ٹکنالوجی سے مسلح ہو کر مسلم علاقوں میں داخل ہوگئیں۔ انھوںنے ایشیا اور افریقہ کے مسلم ملکوں پر براہِ راست یا بالواسطہ قبضہ کرلیا۔ اِس دور کو نوآبادیاتی دور (colonial period) کہاجاتا ہے۔ اِس دور میں دعوت الی اللہ کے نقطۂ نظر سے سب سے بڑا انحراف پیدا ہوا۔ اب تمام دنیا کے مسلمان منفی ردّ عمل کا شکار ہوگئے۔ ہر جگہ ایسے مسلم لیڈر اٹھے، جومغربی قوموں کو اسلام کا دشمن بتا کر ان کے خلاف فکری یا عملی لڑائی لڑنے لگے۔
نوآبادیاتی دور ایک اعتبار سے گلوبل انٹریکشن (global interaction) کا دور تھا۔ جدید کمیونی کیشن کی بنا پر ایسا ہوا کہ ساری دنیا میں لوگوں کی آمد ورفت بڑے پیمانے پر ہونے لگی۔ اِس دوران قدرتی طورپر ایسا ہوا کہ مغربی قوموں کا انٹرایکشن مسلمانوں سے ہونے لگا۔ ایک نیا عملی شعبۂ استشراق (orientalism) پیداہوا جس کے تحت، مغربی علماء بڑے پیمانے پر اسلامی مضامین کا مطالعہ کرنے لگے۔
اسلام ایک فطری مذہب ہے، وہ انسان کی فطرت کو اپیل کرتا ہے، وہ ہر متلاشیٔ حق (seeker) کے لیے، اُس کی اپنی تلاش کا جواب ہے۔ اِس بنا پر ایسا ہوا کہ اسلام خود اپنے زور پر لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں داخل ہونے لگا۔ مغرب کے سنجیدہ افراد اپنے آپ اسلام قبول کرنے لگے۔ مثلاً برطانیہ میں لارڈ ہیڈلے فاروق، ہنگری میں ڈاکٹر عبد الکریم جُرمانوس، آسٹریا میں ڈاکٹر لیوپولڈ اسد، وغیرہ۔ تاہم یہ دعوتی عمل (da'wah process) زیادہ بڑے پیمانے پر جاری نہ ہوسکا۔ کیوں کہ زیادہ بڑے پیمانے پر دعوتی عمل جاری ہونے کے لیے ضرورت ہے کہ مسلمان براہِ راست دعوتی سرگرمیاں انجام دیں۔ مگر ابلیس نے اپنی تزئین کے ذریعے مسلمانوں کو غیر دعوتی کاموں کی طرف متوجہ کردیا۔ اِس بنا پر دعوتی عمل مسلمانوں کی مین اسٹریم (mainstream) میں داخل نہ ہوسکا۔
ابلیس یا شیطان یہ کام کس طرح کرتا ہے، اس کا جواب قرآن سے معلوم ہوتا ہے۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خدا کے حکم کے باوجود جب ابلیس، آدم (انسانِ اوّل) کے سامنے نہیں جھکا، تو خدا نے ابلیس کو ملعون قرار دیا۔اِس پر غصہ ہو کر ابلیس نے کہا کہ میں انسان کو تیرے راستے سے بھٹکاؤں گا میں ان کی اکثریت کو تیری رحمت سے دور کردوں گا( لَأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْأَرْضِ وَلَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ) الحجر،15:39۔اِس آیت میں ’اِغوا‘ کا لفظ ہے۔ اغوا کے لفظی معنی ہیںسیدھے راستے سے بھٹکانا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ابلیس کے لیے جہنم مقدر ہوگئی، اِس لیے انتقامی جذبے کے تحت اس نے کہا کہ میں تمام انسانوں کو تیرے راستے سے منحرف کردوں گا:
I will certainly cause them all to deviate.
ابلیس کے پاس انسان کو بھٹکانے کے لیے مختلف طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ وہ ہے جو خاص طورپر اہلِ ایمان کے ساتھ مخصوص ہے۔ اہلِ ایمان کی امتیازی صفت یہ ہے کہ وہ پیغمبر ِ آخرالزماں کے بعد داعی الی اللہ کے حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ حیثیت بیک وقت دو اعتبار سے نہایت اہم ہے۔ ایک، یہ کہ اگر دعوت الی اللہ کا کام رک جائے تو عام انسانوں کے لیے جنت کی طرف رہنمائی کا عمل ختم ہوجائے گا۔ دوسرے، یہ کہ دعوتی عمل چھوڑنے کی صورت میں خود اہلِ ایمان اپنی اہم ترین حیثیت کھو دیں گے۔ اس لیے اہلِ ایمان کے سلسلے میں ابلیس کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اُنھیں دعوت الی اللہ کے کام سے غافل کردے۔
ابلیس یہ کام کس طرح کرتا ہے، اُس کا جواب ’اغوا‘ کے لفظ میں موجود ہے، جس کو ابلیس نے اپنے چیلنج کے وقت استعمال کیا تھا۔اغوا کا لفظی مطلب انحراف (deviation) ہے۔ اِس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس معاملے میں ابلیس کا طریقہ کیا ہے۔ وہ طریقہ توجہ کو پھیرنا (distraction) ہے۔ اِس کوشش میںاُس کا انحصار تزئین پر ہوتا ہے، یعنی دعوت کے سوا کسی اور چیز کو مزیّن کرکے یہ کوشش کرنا کہ لوگ دعوتی راستے کو چھوڑ کر کسی اور راستے کی طرف سرگرم ہوجائیں۔ دعوتی کام کی اہمیت کو گھٹانا، اور غیر دعوتی کا م کی اہمیت کو بڑھانا، یہ اِس معاملے میں ابلیس کا خاص حربہ ہے، جس کو وہ ہر زمانے کے مسلمانوں کے اوپر استعمال کرتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ نے نو آبادیاتی طاقتوں کو اتنا کم زور کردیا کہ وہ ایشیا اورافریقہ میں اپنے سیاسی قبضے کو باقی رکھنے کے قابل نہ رہے۔ چنانچہ دھیرے دھیرے نو آبادیاتی دور کا خاتمہ ہوگیا۔ نوآبادیاتی دور نے مغل سلطنت اور عثمانی سلطنت کا خاتمہ کیا تھا، اِس کے نتیجے میںعالمی سطح پر مسلمانوں کے اندر مغربی قوموں کے خلاف منفی ذہن پیدا ہوگیا۔ سیاسی ایمپائر کو کھونے کا غم مسلمانوں کے ذہن میں اتنی قوت سے بیٹھ گیا تھا کہ وہ یہ بھی بھول گئے کہ نو آبادیاتی دور کے خاتمے نے اُن کو نئی سیاسی زندگی دے دی ہے۔
پہلے اگر مسلمانوں کے خیال کے مطابق، انھوں نے اپنے پولیٹکل ایمپائر کو کھویا تھا تو اب قومی ریاستوں (nation states) کی صورت میں اُس کو دوبارہ انھوں نے مزید اضافے کے ساتھ حاصل کرلیا ہے۔ چنانچہ اب زمین کے مختلف حصوں میں 57 مسلم ریاستیں قائم ہیں۔ اِن مختلف ریاستوں کو آج جو ذرائع حاصل ہیں، وہ قدیم زمانے میں کسی بھی مسلم ایمپائر کو حاصل نہ تھے۔
جدید حالات نے مسلمانوں کے لیے دعوت کے نقطۂ نظر سے بہت سے نئے امکانات کھول دیے تھے۔ مثلاً کمیونی کیشن، مذہبی آزادی، عالمی انٹریکشن، وغیرہ۔ لیکن مسلمان اِن جدید مواقع کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال نہ کرسکے۔ دوبارہ ایسا ہوا کہ وہ مختلف قسم کے انحرافات (distractions) کا شکار ہوگئے، اور دعوت کے راستےسے بھٹک کر دوسرے غیر دعوتی راستوں میںسرگرم ہوگئے۔ مثلاً مدعو سے نفرت اور متشددانہ ٹکراؤ، مدعو پر اپنی برتری قائم کرنے کے لیے مناظرہ، اپنا علاحدہ قومی تشخص برقرار رکھنے کے لیے کمیونٹی ورک، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں تقریباً عالمی پیمانے پر مسلم رہنماؤں نے یہ غلطی کی ہے کہ ہر جگہ سیاسی شکایتوں کو لے کر انھوں نے لڑائی چھیڑ دی، کہیں غیر مسلم قوموں سے اور کہیں خود اپنی سرزمین کے مسلم حکمرانوں سے۔ یہ لڑائی مسلم حکومتوں نے نہیں، بلکہ مسلم رہنماؤں نے اس کی قیادت کی۔ یہ بلاشبہ ایک غیر اسلامی فعل تھا۔ غیر مسلم قوموں سے مسلمانوں کو سیاسی، یا قومی شکایتیں لے کر لڑنا نہیں ہے، بلکہ شکایتوں کو نظر انداز کرکے پُرامن طورپر اُنھیں دعوتِ حق کا مخاطب بنانا ہے۔ سیاسی اور قومی شکایتوں کی بنیاد پر مدعوقوموں سے لڑائی چھیڑنا بلا شبہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ قرآن میں واضح طورپر یہ حکم دیاگیا ہے کہ مدعو کی طرف سے پیش آنے والی ایذاؤں پر صبر کرو۔ شکایتی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، مثبت انداز میں انھیں حق کا پیغام پہنچاتے رہو۔
یہی معاملہ مسلم حکمرانوں کا ہے۔ علما کے اتفاقِ رائے کے مطابق، مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔ اِس معاملے میں مسلم رہنماؤں کے لیے کرنے کا کام صرف ایک ہے، وہ یہ کہ مسلم حکمرانوں سے سیاسی ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے، دعوت اور تعلیم کے میدان میں پُر امن جدوجہد کریں اور ایسا کرتے ہوئے مرجائیں— مگر موجودہ زمانے میں علما اور رہنماؤں کی بڑی اکثریت نے اِس کے خلاف عمل کیا۔ اِس کے نتیجے میں دعوت الی اللہ کا کام انجام نہ پاسکا، حالاں کہ وہ مسلمانوں کے اوپر فرض کے درجے میں ضروری تھا۔
مسلمانوں کا ایک اور گروہ ہے جس نے مسلم ٹکراؤ کا کام تو نہیں کیا، لیکن انھوںنے ایک اور کام کیا جو عملی ٹکراؤ سے کم نقصان دہ نہ تھا۔ یہ مناظرہ یا ڈبیٹ(debate) ہے۔ یہ لوگ متشدّدانہ ہتھیار استعمال نہیں کرتے، البتہ وہ اسٹیج پر لفظوں کے ذریعے وہی کام انجام دے رہے ہیں، جو دوسرے لوگ مقابلے کے میدان میں ہتھیاروں کے ذریعے انجام دے رہے ہیں۔ اِس قسم کے لوگ اپنے کام کو دعوت کا عنوان دیے ہوئے ہیں، حالاں کہ وہ دعوت نہیں ہے، بلکہ وہ مناظرہ یا ڈبیٹ ہے، اور مناظرہ یا ڈبیٹ کا دعوت سے کوئی تعلق نہیں۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان شکست خوردہ نفسیات(defeatist mentality) میں مبتلا ہیں۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس احساس میں جی رہے ہیں کہ وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں شکست کھاگئے ہیں۔ اب ایک خطیب اسٹیج پر کھڑا ہوتا ہے اور وہ لفظوں کی دنیا میں فاتحانہ مظاہرہ کرکے مسلمانوں کو یہ تسکین دیتا ہے کہ خواہ مقابلے کے میدان میں ہم دوسروں سے ہارچکے ہوں، لیکن اسٹیج کے اوپر ہم اُن کو شکست دے رہے ہیں۔ یہی نفسیات ہے جس کی بنا پر مسلمان ایسے خطیبوں کی باتوں پر تالیاں بجاتے ہیں اور اُس وقت خوب خوش ہوتے ہیں، جب کہ خطیب اسٹیج پر کھڑا ہوکر یہ کہتا ہے — اِن سب لوگوں کے اوپر بلڈوزر چلا دو:
Bulldoze them all!
ت ت ت ت ت ت ت ت
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں وسیع پیمانہ پر یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ آج کے انسان کو اسلام کی دعوت دی جائے ۔ مگر یہ اُسی وقت ممکن ہے جب کہ انسان کو اسلام پھولوں کا ایک گلدستہ معلوم ہو نہ کہ کانٹوں کا ایک مجموعہ ۔ وہ جب اسلام کا تعارف پائے تو اسے محسوس ہو کہ وہ اس کے اپنے دل کی آواز ہے ۔ یہ عین وہی دینِ رحمت ہے جس کی تلاش میں وہ مد توں سے سر گرداں تھا۔اس کے لیے داعی کو مدعو کی زیادتیوں پر یک طرفہ صبر کرنا ہے ۔ یہ صبر اس لیے ہوتا ہے تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان اعتدال کی فضا باقی رہے ، وہ کسی حال میں بگڑنے نہ پائے ۔ آج کا انسان مذہبِ امن کی تلاش میں ہے ۔ ایسی حالت میں اہل اسلام کو یک طرفہ صبر کر کے ہر حال میں ٹکرا ئو کی روش سے باز رہنا ہے ، تاکہ اسلام کے مذہبِ امن ہونے کی حیثیت مدعو کی نظر میں مجروح نہ ہونے پائے ۔ آج کا انسان دینِ روحانیت کی تلاش میں ہے ۔ ایسی حالت میں اسلام کے داعیوں کو آخری حد تک اس سے پرہیز کرنا ہے کہ وہ اسلام کو اس انداز سے پیش کریں کہ جدید انسان کو وہ صرف سیاسی اور حکومتی نظام کی کوئی اسکیم نظر آئے ۔آج کا انسان اسلام کے دروازہ پر کھڑا ہوا ہے ، اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف اسلام کا طالب ہے ۔ دعوت کا عمل اگر درست طور پر کیا جائے تو بیشتر انسان اسلام کو اپنے دل کی آواز پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام دورِ جدید میں

اسلام چونکہ آخری دین ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے وجود کے اعتبار سے قیامت تک باقی رہے۔ اسی لیے دین کا تحفظ بھی ایک ضروری اور مطلوب کام ہے۔ موجودہ زمانہ کی بعض تحریکوں نے اس اعتبار سے یقیناً مفید خدمات انجام دی ہیں۔ وہ اسلام کے فکری اور عملی نقشے کی محافظ ثابت ہوئی ہیں۔ بعض ادارے قرآن اور حدیث اور اسلامی مسائل کے علم کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ بعض جماعتیں اسلامی عبادات کے ڈھانچہ کو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچانے کا کام کررہی ہیں۔ کچھ اور ادارے قرآن وحدیث کا متن صحت وصفائی کے ساتھ چھاپ کر ہر جگہ پھیلا رہے ہیں۔ یہ تمام کام بجائے خود مفید ہیں، مگر بہر حال وہ تحفظ دین کے کام ہیں نہ کہ دعوتِ دین کے کام۔ جہاں تک اسلام کو دعوتی قوت کی حیثیت سے زندہ کرنے کا سوال ہے، وہ موجودہ زمانہ میں ابھی تک واقعہ نہ بن سکا۔ حتی کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو شاید اس کا شعور بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر ایسے کاموں کو اسلامی دعوت کا عنوان دے دیتے ہیں جن کا اسلامی دعوت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
موجودہ زمانہ میں کسی حقیقی اسلامی کام کے آغاز کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہم اس صورت حال کو ختم کریں جس نے ساری دنیا میں اسلامی تحریک کو سیاسی تحریک کے ہم معنی بنا رکھا ہے۔ مسلمان ہر ملک میں وقت کے حکمرانوں کے خلاف شور وشر برپا کرنے میں مشغول ہیں۔ کہیں ان کی یہ تحریک غیر مسلم اقتدار کے خلاف برپا ہے، اور کہیں وہ ایک اسلامی سیاسی فلسفہ کے زیر سایہ کام کررہی ہے اور کہیں فلسفہ اور نظریہ کے بغیر متحرک ہے۔ کہیں اس نے ملّی عنوان اختیار کررکھا ہے اور کہیں نظامی عنوان۔ تاہم سارے فرق واختلاف کے باوجود نتیجہ سب کا ایک ہے — حریفوں کے خلاف محاذ کے نام سے نقصان میں اضافہ کرتے رہنا۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو مسلمانوں نے موجودہ زمانہ میں بالکل الٹی کارکردگی کا ثبوت دیا ہے۔ خدانے دعوتِ حق کی راہ سے سیاسی رکاوٹ کو دور کرکے انھیں موقع دیا تھا کہ وہ آزادانہ حالات میں خدا کے تمام بندوں تک خدا کا پیغام پہنچا دیں۔ وہ خدا کے بندوں کو خدا کی اس اسکیم سے باخبر کردیں جس کے تحت اس نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جس کے مطابق وہ ایک ایک شخص کا حساب لینے والا ہے۔ مگر انھوں نے دوبارہ نئے نئے عنوان سے اپنے خلاف سیاسی رکاوٹیں کھڑی کرلیں۔ خود ساختہ سیاسی جہاد میں ہر ایک مشغول ہے۔ مگر دعوتی جہاد میں اپنا حصہ ادا کرنے کی فرصت کسی کو نہیں۔
قرآن میں ہے کہ اللہ اس کی مدد کرتا ہے جو اللہ کی مددکرے (الحج، 22:40)۔ ہر دور میں خدا اپنے دین کے حق میں کچھ امکانات کھولتاہے۔ اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ کچھ لوگ ہوں جو خدا کے اشارہ کو سمجھیں، اور خدا کے منصوبہ میں اپنے آپ کو شامل کردیں۔ صحابہ کرام وہ خوش نصیب لوگ ہیں، جنھوں نے اپنے زمانہ میں خدائی منصوبہ کو سمجھا، اور اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالہ کردیا۔ اس کا نتیجہ وہ عظیم انقلاب تھا جس نےانسانی تاریخ کے رخ کو موڑ دیا۔
بارش کا آنا خدا کے ایک منصوبہ کا خاموش اعلان ہے۔ یہ کہ آدمی اپنا بیج زمین میں ڈالے تاکہ خدا اپنے کائناتی انتظام کو اس کے موافق کرکے اس کے بیج کو ایک پوری فصل کی صورت میں اس کی طرف لوٹائے۔ کسان اس خدائی اشارہ کو فوراً سمجھ لیتا ہے، اور اپنے آپ کو اس خدائی منصوبہ میں پور ی طرح شامل کردیتا ہے۔ اس کا نتیجہ ایک لہلہاتی ہوئی فصل کی صورت میں اس کو واپس ملتاہے۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں، ہزار سالہ عمل کے نتیجہ میں، اللہ تعالی نے اپنے دین کے حق میں کچھ نئے مواقع کھولے تھے۔ یہ مواقع کہ اقتدار کا حریف بنے بغیر توحید اور آخرت کی دعوت کو عام کیا جائے۔ جو کام پہلے معجزاتی سطح پر انجام دینا پڑتاتھا، اس کو عام طبیعیاتی استدلال کی سطح پر انجام دیا جائے۔ جو کام پہلے تعصب کے ماحول میں کرنا پڑتا تھا، اس کو مذہبی رواداری کے ماحول میں کیا جائے۔ جو کام پہلے ’’حیوانی رفتار‘‘ سے کیا جاتا تھا اس کو ’’مشینی رفتار‘‘ کے ساتھ انجام دیا جائے۔
یہ موجودہ زمانہ میں خدا کا منصوبہ تھا۔ خدا نے سارے بہترین امکانات کھول دیے تھے اور اب صرف اس کی ضرورت تھی کہ خدا کےکچھ بندے ان کو استعمال کرکے ان امکانات کوواقعہ بننے کا موقع دیں۔ مگر مسلم قیادت خداکے اس منصوبہ میں شامل ہونے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ اس نے نئے نئے عنوانات کے تحت وہی سیاسی جھگڑے دوبارہ چھیڑ دیے، جن کو خدا نے ہزار سالہ عمل کے نتیجہ میں ختم کیا تھا۔ انھوں نے اسلامی دعوت کو سیاسی اور قومی دعوت بنا کر دوبارہ اسلام کو اقتدار کاحریف بنا دیا اور کہا کہ یہی عین خدا کا پسندیدہ دین ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدعو قوموں کے ساتھ ہر جگہ بالکل بے فائدہ قسم کی مقابلہ آرائی شروع ہوگئی، اور سارے نئے امکانات غیر استعمال شدہ حالت میں پڑے رہ گئے۔مسلمانوں اور دیگر قوموں کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ قائم نہ ہوسکا۔
کام کی ایک سوسال سے بھی زیادہ لمبی مدت مسلمانوں نے کھو دی۔ یہاں تک کہ شیطان نے دوبارہ قدیم شرک کی جگہ جدید شرک (کمیونزم) کوکھڑا کردیا۔ اب کم از کم کمیونزم کے زیر تسلط علاقوں میں دوبارہ کام کرنے کی وہی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں ،جو اس سے پہلے شرک کے زیر تسلط علاقوں میں پائی جاتی تھیں۔ تاہم غیر کمیونسٹ دنیا میں اب بھی کام کے مواقع کھلے ہوئے ہیں،اور یہاں پندرھویں صدی ہجری میں اس صالح جدوجہد کا آغاز کیاجاسکتا ہے جو چو دھویں صدی ہجری میں نہ کیا جاسکا۔
ت ت ت ت ت ت ت ت
یہود کا ذکر قرآن میں اصلاً خود یہود کے لیے نہیں ہے۔ قرآن میں یہود کا لفظ بطور مثال ہے۔ یہود کی مثال سے امتِ محمدی کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تم اس انجام سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ اس کا اشارہ قرآن کی اس آ ٓیت میں ملتا ہے:(ترجمہ) کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے جھک جائیں۔ اور اس حق کے آگے جو نازل ہوچکا ہے، اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے (فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ)، اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں(57:16)۔ یہ کسی امت کے دورِ زوال کی بات ہے، جو طول اَمد کے بعد فطرت کے قانون کے مطابق لازماًپیدا ہوتا ہے۔ ا س دور تک پہنچنے کے بعد امت کے افراد میں ایمان کا شعور ایک رسمی شعور بن جاتا ہے۔ اس دور میں امت کے افراد کے اندر آخرت کا زندہ احساس باقی نہیں رہتا ۔ اس دور تک پہنچنے کے بعد امت کے افراد میں خشیت (ڈر) کی صفت باقی نہیں رہتی۔ ان کے لیے ایمان ایک رسمی عقیدہ بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

فراہی اسکول کا کنٹری بیوشن

مولانا حمیدالدین فراہی (1863-1930)قرآن کی تفسیر میں ایک تفسیری اسکول کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔اگر چہ مولانا حمید الدین فراہی اپنی فکر کی بنیاد پر کوئی مکمل تفسیر قرآن نہ لکھ سکے۔ لیکن ان کے انقلابی فکر سے بہت سے اہل علم کو ذہنی تحریک ملی، اور انھوں نے قرآن کی تفسیر میں بہت سے قیمتی نکتے دریافت کیے۔
مولانا حمید الدین فراہی کے منہج کو اختیارکرنے والوں میں سے ایک مولانا جلیل احسن ندوی اصلاحی (1914-1981) تھے۔ انھوںنے قرآن کی ایک آیت کی تفسیر میں ایک اشکال کو نہایت خوبی کے ساتھ دور کیا ہے۔ اس نکتے کو میں نے اپنی تفسیر تذکیر القرآن میں اس طرح درج کیا ہے:
برادران یوسف روانہ ہونے لگے تو حضرت یوسف نے ازراہ محبت اپنا پانی پینے کا پیالہ (جو غالباً چاندی کا تھا) اپنے بھائی بن یامین کے سامان میں رکھ دیا۔ اس کی خبر نہ بن یامین کو تھی اور نہ دربار والوں کو۔ اس کے بعد خدا کی قدرت سے ایسا ہوا کہ غلہ ناپنے کا شاہی پیمانہ (جو خود بھی قیمتی تھا) کہیں ادھر ادھر (misplace) ہوگیا۔ تلاش کے باوجود جب وہ نہیں نکلا تو کارندوں کا شبہ برادرانِ یوسف کی طرف گیا جو ابھی ابھی یہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ ایک کارندہ نے آواز دے کر قافلہ کو بلایا۔ پوچھ گچھ کے دوران انہوں نے بطور خود چوری کی وہ سزا تجویز کی جو شریعتِ ابراہیمی کی رو سے ان کے یہاں رائج تھی۔ یعنی جو سارق ہے وہ ایک سال تک مالک کے یہاں غلام بن کر رہے۔
اس کے بعد کارندے نے تلاشی شروع کی۔ اب غلہ کا پیمانہ تو ان کے یہاں نہیں ملا۔ مگر دربار کی ایک اور خاص چیز (چاندی کا پیالہ) بن یامین کے سامان سے برآمد ہوگیا۔ چنانچہ بن یامین کو حسبِ فیصلہ حضرت یوسف کے حوالہ کردیا گیا۔ اگر شاہ مصر کے قانون پر فیصلہ کی قرار داد ہوئی ہوتی تو حضرت یوسف اپنے بھائی کو نہ پاتے۔ کیونکہ شاہ مصر کے مروجہ قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اس کو مارا جائے، اور مسروقہ چیز کی قیمت اس سے وصول کی جائے۔ اس واقعہ میں حضرت یوسف کی نیت شامل نہ تھی، یہ خدائی تدبیر سے ہوا اس لیے خدا نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔
نوٹ : بن یامین کے سامان میں سقایہ رکھا گیا تھا، جس کی ضمیر ھا ہے۔ مگر شاہی کارندہ صواع تلاش کر رہا تھا جس کی ضمیر ’’ہ‘‘ ہے۔ اب تلاش کے بعد کارندہ نے جو چیز برآمد کی اس کے لیے قرآن میں ضمیر ’’ھا‘‘ استعمال ہوئی ہے (ثُمَّ اسْتَخْرَجَہَا مِنْ وِعَاءِ أَخِیہِ )۔ ضمیر کا یہ فرق بتاتا ہے کہ تلاش کے بعد بن یامین کے سامان سے سقایہ نکلا تھا نہ کہ صواع۔ (تذکیر القرآن، سورہ یوسف 69-76)
اسی طرح مولانا فراہی کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی (1904-1997) نے مولانا فراہی کے منہج تفسیر پر چلتے ہوئے قرآن کے کئی تفسیری نکتے نہایت خوبی کے ساتھ واضح کیے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے:
لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ ، عام طور پر مفسرین نے وَمَنْ بَلَغَ کو ضمیر منصوب پر معطوف مانا ہے یعنی یہ قرآن اس لیے مجھ پر وحی کیا گیا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تم کو اور ان سب کو بیدار و ہوشیار کروں جن تک یہ پہنچے۔ لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ ضمیر متکلم پر معطوف ہے یعنی میں اس کے ذریعے سے تم کو خبردار کروں اور جن کو یہ پہنچے وہ بھی اپنی اپنی جگہ پر دوسروں کو اس کے ذریعے سے خبردار کریں۔ یہ گویا اس ذمہ داری کی یاد دہانی ہے جس کا ذکر دوسرے مقام میں یوں ہوا ہے فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْہُمْ طَائِفَةٌ لِیَتَفَقَّہُوا فِی الدِّینِ وَلِیُنْذِرُوا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْہِمْ (توبہ122) پس ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت دین کا علم حاصل کرنے کے لیے اٹھتی اور تاکہ وہ اپنی قوم کو خبردارکرتی جب کہ ان کی طرف واپس آتی ۔ یہی حقیقت احادیث میں بھی واضح کی گئی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام صحابہ پر انذار و تبلیغ کی ذمہ داری ڈالی اور فرمایا فلیبلغ الشاھد الغائب۔ پس چاہیے کہ جو لوگ موجود ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔ لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا میں اس امت کا جو فریضہ منصبی بیان ہوا ہے اور جس کی وضاحت ہم اس کے مقام میں کرچکے ہیں، اس سے بھی اسی مفہوم کی تائید نکلتی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ (تدبر قرآن، سورہ الانعام19:)
واپس اوپر جائیں

عظیم قربانی

اسلام کی تاریخ میں دو عظیم قربانی مقدر تھی۔ قربانی کے ان دونوں واقعات سے اسلام کی دوررس تاریخ بننے والی تھی۔ پہلی قربانی مکمل طور پر پیش آچکی ہے۔ دوسری قربانی کے پیش آنے کا تاریخ کو انتظار ہے۔ اس دوسری قربانی کا وقت آخری طور پر آگیا ہے۔ پہلی قربانی ایک پراسس (process) کی صورت میں پیش آچکی ہے۔ دوسری قربانی دوبارہ اسی طرح پراسس کی صورت میں پیش آئے گی ، اور یہ پراسس عملاً شروع ہوچکا ہے۔
پہلی قربانی وہ تھی، جو ابراہیم، اسماعیل اور ہاجرہ کے ذریعے پیش آئی، اوراس کے انقلابی نتائج کا تجربہ ساری دنیا کو پیش آرہا ہے۔ اس عظیم قربانی کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ (37:107)۔ یعنی ہم نے اس کو ایک عظیم قربانی کے عوض چھڑا لیا۔
پیغمبر ابراہیم کا زمانہ تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے۔ وہ قدیم عراق میں پیدا ہوئے۔ اس وقت دنیا میں مطلق شہنشاہیت (despotism) کا دور تھا۔ کچھ سیاسی خاندانوں نے جابرانہ بادشاہت قائم کر رکھی تھی۔ ان کے پاس نہایت طاقت ور فوجیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ اپنے خلاف بغاوت کو طاقت سے کچل دیتے تھے۔ اس دور میں دو بڑی بادشاہتیں قائم ہوگئی تھیں— بازنطینی سلطنت (Byzantine Empire) اورساسانی سلطنت (Sassanid Empire)۔
پیغمبر ابراہیم، ان کے بیٹے اسماعیل اور ان کی بیوی ہاجرہ کی غیر معمولی قربانی کے ذریعے عرب کے صحرا میں ایک قوم تیار ہوئی۔ اس قوم کو ایک مستشرق نے نرسری آف ہیروز کا نام دیا ہے۔ یہ قوم ابراہیم اور اسماعیل کی قربانی سے عرب میں بنی، پھر اس قوم کا ٹکراؤ مذکورہ دونوں سلطنتوں سے ہوا۔ اس سے پہلے خود ان دونوں سلطنتوں کا باہمی ٹکراؤ پیش آیا، جس کے نتیجے میں دونوں سلطنتیں کمزور ہوگئیں۔ اس واقعے کا ذکر قرآن کی سورہ الروم کی ابتدا میں کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس عرب نسل کو ،جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے، یہ موقع ملا کہ وہ دونوں سلطنتوں کو ایک کے بعد ایک شکست دے کر ان کا زور پوری طرح توڑ دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اب ان جابر سلطنتوں کا زورساری دنیا سے پوری طرح ختم ہوگیا، اور ساری دنیا میں آزادی کا دور آگیا۔
دوسرے دور کا انقلاب بالقوۃ طور پر (potentially) پیش آچکا ہے۔ اب اس پوٹنشل کو اویل (avail) کرنا ہے۔ یہ پوٹنشل موجودہ زمانے کاوہ انقلاب ہے،جس کو دورِ مواصلات (age of communication) کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب کی بناپر پہلی بار تاریخ میں کسی مشن کی عالمی اشاعت کا موقع پیدا ہوا ہے۔اس دور کو قرآن کی اشاعت کے لیےبھر پور طور پر استعمال کرنا ہے۔ حدیث میں جس واقعے کو شہادتِ اعظم (صحیح مسلم ، حدیث نمبر 2938) کہا گیا ہے، اس سے مراد یہی گلوبل دعوہ (global dawah) ہے۔ اسی گلوبل دعوہ کو موجودہ ایج آف کمیو نی کیشن میں آخری آسمانی کتاب قرآن کے حق میں استعمال کرنا ہوگا، اور پھر انسان کے اوپر آخری حجت تمام ہوجائے گی۔
جو لوگ اس امکان کو دریافت کریں، اور قربانی کی سطح پر اس کو بروئے کار لانے کی جدو جہد کریں، ان کے لیے تاریخ کا عظیم ترین انعام مقدر ہے۔ یہ واقعہ حدیث کے الفاظ میں اللہ کے نزدیک شہادتِ اعظم ہوگا، اور اس کے لیے اللہ کی طرف سے جزائے اعظم ، یعنی اعلیٰ فردوس کا فیصلہ کیا جائے گا۔
دورِ آخر کی یہ شہادت اعظم کسی مسلح کار روائی کے ذریعے نہیں ہوگی۔ یہ مکمل طور پر ایک پرامن واقعہ ہوگا۔ اس واقعے کو بروئے کار لانے میں پیش کرنے والے جو قربانی پیش کریں گے، وہ گردن کاٹنا یا کٹوانا نہیں ہوگا، یہ تمام تر ایک پرامن جدو جہد (peaceful struggle) کے ذریعے وجود میں آئے گا۔ یہ امنگوں کی قربانی (sacrifice of aspirations) کا معاملہ ہوگا۔
شہادتِ اعظم یا عالمی دعوت کا یہ واقعہ اس طرح ہوگا کہ اس کے لیے کچھ لوگ اپنے آپ کو بھرپور طور پر وقف (dedicate) کریں گے، وہ اپنی اعلیٰ ذہنی صلاحیت کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرنے کے بجائے دعوتی مشن کے لیے استعمال کریں گے۔
واپس اوپر جائیں

دعوہ ایکسپلوزن

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن دعوتِ توحید کا مشن تھا۔ آپ نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔ یہ زمانہ پرنٹنگ پریس سے بہت پہلے کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میںایسے لوگ بہت کم ہوتے تھے، جو کسی لکھی ہوئی چیز کو پڑھ سکیں۔ مورخ بلاذری نے لکھا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے میں قریش میں صرف 17 لوگ ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے(عن أَبِی بکر بْن عَبْد اللَّہِ بْن أبى جہم العدوى قال:دخل الإسلام وفی قریش سبعة عشر رجلا کلہم یکتب) فتوح البلدان للبَلَاذری، ص 453، بیروت،1988
رسول اور اصحاب رسول اگر لکھی ہوئی کتاب کو پڑھوانے کے ذریعہ اپنا مشن پھیلاتے تو تیزی کے ساتھ اسلام کی اشاعت نہیں ہوسکتی تھی۔ اس وقت رسول اور اصحاب رسول نے جو فطری طریقہ اختیار کیا، وہ تھا پڑھ کر سنانا۔ عربوں کی زبان عربی تھی۔ سارے عرب کے لوگ عربی زبان سمجھتے، اور بولتےتھے۔اس کے مقابلے میں ایسے لوگ بہت کم تھے، جو کتاب کو خود سے پڑھ کر دعوت کو سمجھیں، اور اس کو اختیار کریں۔رسول اللہ نے اس زمانے میں عملی طریقہ اختیارکیا، اور وہ تھا قرآن کو پڑھ کر سنانا۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ عربوں کے چھوٹے اور بڑے اجتماعات میں جاتےاور لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے، اس طرح بہت جلد قرآن کا پیغام سارے عرب میں پھیل گیا۔
یہی صورت حال الرسالہ کے دعوتی مشن کی ہے۔ ماہنامہ الرسالہ کی زبان اردو ہے۔ اسی طرح اس مشن کے لیے جو کتابیں تیار کی گئی ہیں، وہ بھی زیادہ تر اردو زبان میں ہیں۔ موجودہ زمانے میں ایسے لوگ نسبتاً بہت کم ہیں، جو اردو زبان میں لکھی ہوئی کتابوں کو پڑھ کر سمجھیں، لیکن دوسری طرف اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اردو زبان کے بولنے اور سمجھنے والے دنیا کے اکثر ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جو اگرچہ اردو کتاب نہیں پڑھ سکتے، لیکن وہ سن کر بخوبی طور پر اردو زبان کو سمجھ سکتے ہیں۔
اس صورتِ حال میں الرسالہ مشن سے وابستہ لوگوں کے لیے دعوت کا ایک سنہری موقع موجود ہے، اور وہ ہے ماہنامہ الرسالہ یا اس سے متعلق اردو کتابوں کو پڑھ کر لوگوں کو سنانا۔ اس طرح وہ رسول اور اصحاب رسول کی سنت کو دوبارہ زندہ کرنے کا کریڈٹ پاسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ ٹکنالوجی نے موجودہ زمانے میں اس کام کو بہت زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ وہ یہ کہ وائس ریکارڈنگ کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے، الرسالہ اور اس سے متعلق کتابوں کے مضامین کا ریکارڈ تیار کیا جائے، اور ان کو وسیع طور پر لوگوں کے درمیان پھیلایا جائے۔ اس طرح لوگوں کو یہ موقع ہوگا کہ وہ سن کر الرسالہ مشن سے واقفیت حاصل کریں۔کار میں سفر کرتے ہوئے وہ آڈیو ریکارڈنگ کو سنیں۔
الرسالہ مشن سے جڑے ہوئے بہت سے لوگ عملاً اس طریقہ کو استعمال کررہے ہیں، وہ الرسالہ او ر اس سے متعلق کتابوں کا آڈیو تیار کرکے لوگوں کو پہنچارہے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر وقار عالم (امریکا)، مز شبانہ انصاری اور مسٹر سید خالد (پاکستان)، مولانا عبد الباسط عمری (قطر)،وغیرہ ۔تاریخ بتاتی ہے کہ ہر مشن میں ایک اس کا ابتدائی زمانہ ہوتا ہے۔ اس زمانے میں مشن استحکام کا درجہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جس کو مشن کی توسیع عام کا زمانہ کہہ سکتے ہیں۔ الرسالہ مشن سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ ماڈرن ٹکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے الرسالہ کی دعوت کو دعوہ ایکسپلوزن (Dawah Explosion) کے دور میں پہنچادیں۔
1979 میں ایران کا انقلاب اسی طرح پیش آیا۔ آیت اللہ خمینی اس زمانے میں یورپ میں تھے۔ وہاں سے وہ اپنی تقریروں کے کیسٹ ایران بھیجتے تھے۔ یہ کیسٹ پورے ایران میں سنے جانے لگیں۔ ایران کے اس انقلاب کو کیسٹ ریولیوشن کہا جاتا ہے:
A powerful and efficient network of opposition began to develop inside Iran, which smuggled cassette speeches by Khomeini, and used other means.
’’کیسٹ ریوولیوشن ‘‘کا یہ طریقہ بلاشبہ دعوت کے غیر سیاسی پر امن کام کے لیے کامیابی کے ساتھ دہرایا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دنیاانتظار میں ہے

جولائی 1976 کی چھ تاریخ تھی اور شام 6بجے کا وقت۔ میں شہر کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا۔ اتنے میں ایک اجنبی دکان دار نے آواز دے کر مجھے روکا۔
’’مرنے کے بعد کیا آدمی پھر اسی جیون میں واپس آتا ہے‘‘ اس نے پنجابی زبان میں سوال کیا۔
’’نہیں‘‘
’’پھر کہاں جاتاہے‘‘
’’اپنے مالک کے پاس چلا جاتا ہے حساب دینے کے لیے‘‘۔
’’اور اس کے بعد‘‘
’’اس کے بعد نرک میں جاتا ہے یا سورگ میں‘‘۔یہ جواب سن کر بوڑھے دکان دار نے اپنی سیٹ پر پہلو بدلا اور خاموش ہوگیا۔ اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گیا ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ اب کچھ اور بولنا اس کی سوچ میں خلل ڈالنا ہوگا۔ میں چند منٹ تک اس کے اگلے سوال کا منتظر رہا اور اس کے بعد آگے بڑھ گیا۔
اسی قسم کا ایک واقعہ مشہور امریکی مشنری بلی گراہم نے لکھا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’ دی سیکرٹ آف ہیپی نس‘‘ میں لکھتا ہے کہ دنیا کے ایک عظیم سیاست داں نے ایک بار اس سے کہا:
I am an old man. Life has lost all meaning. I am ready to take a fateful leap into the unknown. Young man, can you give me a ray of hope.
’’میں بوڑھا ہوچکا ہوں۔ زندگی نے اپنی تمام معنویت کھو دی ہے۔ عنقریب میں نا معلوم دنیا کی طرف ایک فیصلہ کن چھلانگ لگانے والا ہوں۔ اے نوجوان شخص!کیا تم مجھے امید کی کوئی کرن دے سکتے ہو۔‘‘
یہ موت ہر آدمی کا پیچھا کررہی ہے۔ بچپن اور جوانی کی عمر میں آدمی اسے بھولا رہتا ہے۔ مگر بالآخر تقدیری فیصلہ غالب آتا ہے۔ بڑھاپے میں جب اس کی طاقتیں گھٹ جاتی ہیں، تب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اب بہر حال کچھ دنوں کے بعد وہ مرجائے گا۔ اس وقت وہ مجبور ہوتا ہے کہ سوچے کہ ’’مرنے کے بعد کیا ہونے والا ہے‘‘۔ اسے تلاش ہوتی ہے کہ وہ کوئی امید کی کرن پالے جو موت کے بعد آنے والے حالات میں اس کو روشنی دے سکے۔
یہ زندگی کا اہم ترین سوال ہے، اس سے باخبر کرنے کے لیے اللہ نے اپنے تمام پیغمبر بھیجے۔ مگر آج جو لوگ پیغمبر کے وارث ہیں، وہ خود بھی شاید اس حقیقت کو بھول چکے ہیں۔ پھر ان سے کیا امید کی جائے کہ وہ دوسروں کو اس حقیقت سے باخبر کرسکیں گے۔
موت کے بعد انسان کے ساتھ کیا پیش آنا ہے، اسی کو بتانے کے لیے قرآن بھیجا گیا ہے۔ حاملینِ قرآن کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ دنیا کو اس حقیقت سے باخبر کریں۔ اگر وہ اس کام کو نہ کریں تو قیامت کے دن جب قوموں کا حساب ہوگا وہ اس بات کے مجرم قرار پائیں گے کہ ان کے پاس انسانیت کے لیے اہم ترین خبر تھی مگر انھوں نے لوگوں کو اس سے آگاہ نہ کیا۔
ت ت ت ت ت ت ت ت
حدیث میں آیا ہے کہ تم زمین والوں پر رحم کرو ۔ آسمان والا تم پر رحم کرے گا (ارْحَمُوا مَنْ فِی الأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ)سنن الترمذی، حدیث نمبر 1924۔ اس رحمت کا تعلق صرف اخلاقی معاملات سے نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ بڑھ کر اس کا تعلق دعوت الی اللہ سے ہے، یعنی لوگوں کو بتانا کہ وہ کون سی تدبیر ہے، جس کو اختیار کر کے وہ آخرت کی پکڑ سے بچ سکتے ہیں اور اللہ کی ابدی نعمتوں میں اپنا حصہ پا سکتے ہیں۔ اس واقعہ کی خبر بلا شبہ لوگوں کے حق میں رحمت وشفقت کا سب سے بڑا معاملہ ہے ۔
واپس اوپر جائیں

امن کا مقصد

امن کا مقصد فوری فائدہ(immediate gain) حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ مواقع کو پیدا کرنا ہے۔ امن پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں امن کا ماحول موجود ہو، اس کو انسانی ترقی کے لیے استعمال کرنا، اور اگر امن کے حالات موجود نہ ہوں، تو یک طرفہ کوشش کے ذریعے ایسے حالات پیدا کرنا، جو پرامن ماحول بنانے والے ہوں۔
مثلاً اگر کہیں دو قومی نظریہ کا کلچر پایا جاتا ہو، تو اس کو ختم کرنا، اور انسانی نظریے کو فروغ دینا۔ اگر کہیں مطالباتی سیاست کا رواج ہو، تو اس کو یک طرفہ اصلاح کے ذریعے ختم کرنا، اور جدید نظریے کے مطابق، پرامن اور صحت مند مسابقت کو رواج دینا، وغیرہ۔
جدید تہذیب کے تحت جو کلچر بنا ہے، وہ پرامن اور صحت مند مسابقت کا کلچر ہے۔ یہی کلچر اسلام میں بھی مطلوب ہے۔ مسلمانوں میں اگر کہیں اس کے برعکس کوئی کلچر پایا جاتا ہو، تو وہ قدیم قبائلی کلچر کی باقیات کے طور پر ہیں۔ دو قومی نظریہ بھی اسی قسم کی قبائلی باقیات کا نتیجہ ہے۔
امن پسندی کی دو نظریاتی بنیادیں ہیں۔ ایک ہے مبنی بر افادیت امن پسندی۔ مثلاً تجارتی فائدے کے لیے امن پسندی۔ یہ بھی ایک مطلوب امن پسندی ہے۔لیکن اس کا کوئی اخروی انعام نہیں۔ دوسرا ہے، مبنی بر دعوت امن پسندی۔یہ مبنی بر اصول امن پسندی ہے، اور اس کا انعام جنت ہے۔ مبنی بر دعوت امن پسندی آخرت کے انعام کے لیے ہوتی ہے، اور اس کا اجر اللہ کے یہاں بہت زیادہ ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ جو صلح حدیبیہ کی تھی، وہ مبنی بر دعوت امن پسندی تھی، اور یہ امن پسندی پیغمبرانہ اسوہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس نوعیت کی امن پسندی اس اعلیٰ اخلاقِ نبوی سے تعلق رکھتی ہے، جس کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں وَإِنَّکَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِیمٍ (68:4)۔ یعنی اور بیشک تم ایک اعلیٰ اخلاق پر ہو۔
واپس اوپر جائیں

سیلف گلوری

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ آئی ہے۔ مستدرک الحاکم کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیمَا یَحْکِی عَنْ رَبِّہِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ:الْکِبْرِیَاءُ رِدَائِی، فَمَنْ نَازَعَنِی رِدَائِی قَصَمْتُہُ (مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 203)۔ یعنی ابو ہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ اللہ تعالی سے روایت کرتے ہیں کہ بڑائی میری چادر ہے، میری چادر کو جو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا، میں اس کو توڑ دوں گا۔
قصم کا لفظی مطلب ہے توڑنا (to destroy)۔ یہ بات اس حدیث میں دنیا کے اعتبار سے ہے۔ یعنی جو آدمی ذاتی بڑائی (self glory) کے نشانے کو لے کر تحریک چلائے گا، وہ کبھی اپنے نشانے کو پورا کرنے میں کامیاب نہ ہوگا۔خدا اس کی کوششوں اور قربانیوں کو بے نتیجہ بنادے گا۔
بیسویں صدی اس معاملے کی ایک مثال ہے۔ بیسویں صدی میں مسلم دنیا کے اندربڑی بڑی شخصیتیں پیدا ہوئیں۔ ان شخصیتوں نے ہمالیائی تحریکیں چلائیں۔ مگر یہ تمام تحریکیں اپنے نشانے کو پانے میں پوری طرح ناکام رہیں۔ ان شخصیتوں کے حالات بتاتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا خاتمہ مایوسی (frustration) میں ہوا۔ یہ افراد طوفان کی طرح اٹھے، مگر وہ بلبلے کی طرح ختم ہوگئے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شخصیتوں کا مشترک کیس یہ تھا کہ انھوںنے سیاسی نشانہ (political goal) کو اپنا نشانہ بنایا۔ پولیٹکل نشانہ گویا اللہ کی عظمت کو چھیننے کے ہم معنی تھا۔ یہی واحد وجہ ہے کہ غیر معمولی مواقع ملنے کے باوجود یہ افراد اپنے مطلوب نشانے کو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگیے۔ اہلِ ایمان کے لیے اس دنیا میں صرف ایک ہی صحیح نشانہ ہے، اور وہ دعوت کا نشانہ ہے۔ جو لوگ دعوت الی اللہ کو اپنا نشانہ بنائیں ، وہ اللہ کی مدد سے یقینی طور پر کامیاب رہیں گے۔ یہ کامیابی خدائی معیار کے مطابق حاصل ہوگی، نہ کہ کسی انسان کے ذاتی معیار کے مطابق۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی نظام

انیسویں صدی کے نصف آخر میں کمیونسٹ نظریہ پھیلا۔ 1917 میں سوویت یونین میں پہلا کمیونسٹ نظام قائم ہوا۔ اب زیادہ منظم انداز میں اسٹیٹ کی سطح پر کمیونسٹ نظریہ کا پروپیگنڈا پوری طاقت سے ہونے لگا۔ اُس زمانہ میں کمیونزم کا نظریہ اتنا زیادہ پھیلا کہ پروفیسر گالبریتھ کے الفاظ میں: دنیا میں کبھی کسی نظریہ کو اتنا زیادہ فروغ حاصل نہیں ہوا جتنا فروغ کمیونزم کے نظریہ کو حاصل ہوا۔
اس فکری ماحول میں جس طرح دوسرے لوگ متاثر ہوئے اسی طرح مسلمانوں کے بہت سے اہل علم بھی متاثر ہوگئے۔ مثلاً مولانا حسرت موہانی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، ڈاکٹر محمد اقبال، جمال عبد الناصر، وغیرہ۔ اس ماحول سے متاثر ہوکر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے اسلام کو نظام کی اصطلاح میں بیان کرنا شروع کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اسلام ایک مکمل اجتماعی نظام ہے اور مسلم ملّت کا یہ فرض ہے کہ وہ اس آئیڈیل انسانی نظام کو دنیا میں قائم کرے۔ ان لوگوں کے نزدیک جہاد کا مقصد یہ تھا کہ وہ انسانی ساخت کے نظاموں کو مغلوب کرے اور ان کی جگہ اسلام کے اعلیٰ نظام کا غلبہ قائم کردے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تصور کمیونزم کے رد عمل میں پیدا ہوا۔گویا کہ وہ کمیونزم کا اسلامی ایڈیشن تھا۔ قرآن میں اس کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ حتیٰ کہ پیغمبر ِ اسلام اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی ایسا کوئی ’’معیاری نظام‘‘ موجود نہ تھا۔ اگر دین خداوندی کا مقصد دنیا میں معیاری سماجی نظام بنانا ہو تو یہ نشانہ پوری تاریخ میں کبھی کسی پیغمبر کے زمانہ میں پورا نہیں ہوا۔ گویا نظری اور عملی دونوں اعتبار سے یہ تصور ایک غیر ثابت شدہ تصور ہے اور اسی کے ساتھ ناقابلِ عمل بھی۔
قرآن میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ زیادہ تر انفرادی نوعیت کے ہیں۔ نہ صرف ایمان اور عملِ صالح بلکہ دوسرے معاملاتی احکام کی نوعیت بھی یہی ہے۔ مثلاً أَقِیمُوا الدِّینَ (42:13)، لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (57:25)، کُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا (5:8)، وغیرہ بھی اصلاً انفرادی احکام ہیں، نہ کہ حکومت کے ذریعہ نافذ کیے جانے والے احکام۔
یہ صحیح ہے کہ قرآن میں کچھ ایسے قانونی احکام ہیں جو حکومتی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً چوری، زنا، شراب خوری، قذَف، قتل، وغیرہ۔ مگر اس قسم کے احکام بہت کم ہیں۔ ان احکام کو وضع کرنے کا مقصد ’’معیار ی سماج‘‘بنانا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ سماج میں ضروری نظم برقرار رہے:
It is just to maintain a necessary level of order in society.
اس نقطۂ نظر کا ایک ثبوت یہ ہے کہ معیاری سماج بنانے کے لیے جو نظام مطلوب ہے اس کے کئی انتہائی اہم اجزاء کے بارے میں اسلام میں کوئی واضح حکم موجود نہیں۔ مثال کے طورپر یہ کہ خلیفہ (حاکم) کا تقرر کس طرح کیا جائے— پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، عمر بن عبد العزیز کو شامل کرتے ہوئے پانچ ایسے صدر ریاست ہوئے ہیں جن کو متفقہ طورپر خلیفۂ راشد کہا جاتا ہے۔ مگر ان پانچوں کے لیے تقرر کا طریقہ الگ الگ اختیار کیاگیا۔ اسی طرح شوریٰ کے بارہ میں کوئی متعین نظام یا ڈھانچہ اسلام کے دور اول میں موجود نہیں جو نمونہ کی حیثیت رکھتا ہو۔
موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں ہمیشہ ہر ایک کے لیے ناموافق حالات موجود رہیں گے، تاکہ امتحان کے تقاضے کو پورا کیا جاسکے۔ خدائی تخلیق کے مطابق، معیاری دنیا موت کے بعد صرف جنت میں بنے گی۔ موجودہ دنیا میں انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ اس کو اگلے دورِ حیات میں بننے والی معیاری دنیا (جنت)میں داخلہ مل سکے۔ موجودہ دنیا میں معیاری سماجی نظام بنانے کی کوشش کرنا گویا جنت کو موجودہ دنیا ہی میں تعمیر کرنا ہے جو خدائی نقشہ کے مطابق، سرے سے ممکن ہی نہیں۔ خود پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں اس کے سابقہ نظام کو علیٰ حالہٖ فتح ِمکہ تک باقی رکھا۔
سماجی نظام کے بارے میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ اگر ایسا نظام عملاً موجود ہو جو اہلِ ایمان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ کرے تو اُس سے ٹکراؤ نہیں کیا جائے گا۔ اُس کو عملاً تسلیم کرتے ہوئے اُس کے تحت افراد اور ادارے کی سطح پر اسلام کی پیروی جاری رکھی جائے گی۔ یہی وجہ ہے جس کی بنا پر حضرت یوسف نے اپنے وقت کے مشرک بادشاہ سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ کیوں کہ وہ ایک عادل بادشاہ تھا اور اس کے تحت پیغمبر یوسف توحید کے تقاضے پورے کرتے ہوئے رہ سکتے تھے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کے اصحاب مکی دور کے آخر میں مکہ سے ہجرت کرکے حبش گئے۔ اس وقت وہاں ایک عیسائی بادشاہ کی حکومت تھی۔ اصحابِ رسول نے اس سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ کیوں کہ وہ ایک عادل بادشاہ تھا اور اس نے لوگوں کو مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔
یہ تصور کہ اسلام ایک معیاری سماجی نظام ہے اور اس کو دنیا میں عملاً قائم کرنا امت ِ مسلمہ پر فرض ہے، یہ نظریہ اسلام کے اصل مقصد کے خلاف ہے، وہ اسلام کے نشانہ کو بدل دینے والا ہے۔ اسلام کا اصل نشانہ یہ ہے کہ ہر فرد خدا کی معرفت حاصل کرے۔ ہر فرد عبادت اور اخلاقیات میں ربّانی بنے۔ ہر فرد فلاحِ آخرت کو اپنا ہدف بنائے۔ مگر مذکورہ نظریہ آخرت کے بجائے دنیا کو آدمی کا نشانہ بنادیتا ہے۔ وہ تعمیر ِ آخرت کے بجائے تعمیر ِ دنیا کو اپنی منزل مقصود سمجھ لیتا ہے۔ اسلام ایک ربّانی مذہب ہے۔ مگر مذکورہ تصور اسلام کو ایک مادّی اور سیاسی مذہب میں تبدیل کردیتا ہے۔
اسلام کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی خدا کو دریافت کرے۔ وہ اپنے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کرے (آل عمران، 3:79)۔ وہ اپنے روز مرہ کے واقعات میں حقیقتِ اعلیٰ کی جھلکیاں دیکھنے لگے۔ وہ دنیا کی زندگی کو فتنہ (آزمائش) اور آخرت کی زندگی کواصل مطلوب سمجھنے لگے۔ جو آدمی اس قسم کا ذہن رکھتا ہو اس کے لیے موجودہ دنیا میں معیاری قسم کا سماجی اور سیاسی نظام بنانا ایسا ہی ہے جیسے کہ ٹرین کا کوئی مسافر کسی پلیٹ فارم پر اپنی پسند کا گھر بنانے لگے۔
قرآن میں جنت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے:لِمِثْلِ ہَذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُونَ (37:61)۔ یعنی ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے کہا:اللَّہُمَّ لاَ عَیْشَ إِلَّا عَیْشُ الآخِرَہْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2961)۔ یعنی اے اللہ، زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔
اس طرح کی تعلیمات قرآن وحدیث میں کثرت سے آئی ہیں۔ ان تعلیمات سے ایک شخص کے اندر جو ذہن بنتا ہے، وہ مذکورہ نظامی تصور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مذکو رہ قسم کا نقطۂ نظر آدمی کو ایک قسم کا ’’اسلامی کمیونسٹ‘‘ بناتا ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں اسلامی شخصیت کی تعمیر نہیں کرتا۔
اس فرق کو بتانے کے لیے ربانی اسلام اور سیاسی اسلام کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ربانی اسلام آدمی کے اندر معرفتِ خداوندی کا ذہن بناتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر احتسابِ خویش کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ وہ جنت کے تصور میںجینے لگتا ہے۔ اُس کے صبح وشام آخرت کی یادوں میں بَسر ہونے لگتے ہیں۔ وہ دنیا کی کامیابی کو غیراہم اور آخرت کی کامیابی کو اہم سمجھنے لگتا ہے۔ وہ دنیا کو صرف بقدر ضرورت لینا چاہتا ہے اور آخرت کو بقدرِ شوق۔ اُس کی نظر میں دنیا کی کامیابی غیر اہم بن جاتی ہے اور آخرت کی کامیابی اہم ۔
اس کے برعکس ذہن وہ ہے، جو سیاسی اسلام کے نظریہ کے تحت تیار ہوتا ہے۔ ایسے آدمی کی سوچ سیاسی سوچ ہوتی ہے۔ سیاسی اور حکومتی چیزیں اس کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ سیاسی نوعیت کی چیزیں شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کے لیے اولین بن جاتی ہیں اور ربانی نوعیت کی چیزیں عملاً ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں۔ عبادت کے معاملہ میں وہ صرف اس کے ظاہری فارم پر قناعت کرلیتا ہے۔ اس کے اخلاق سیاسی مصلحتوں کے تابع ہوجاتے ہیں۔ تقویٰ اور خشیت اور اخبات اور تضرع جیسی چیزیں اس کے مزاج کے اعتبار سے اجنبی چیزیں بن جاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی مجلس میں اگر آپ بیٹھیں تو آپ کو زیادہ تر سیاسی باتیں سننے کو ملیں گی، نہ کہ ربّانیت اور للِّٰہیت کی باتیں۔
اسلام کا اصل مقصد فرد بنانا ہے، نہ کہ سماجی اور حکومتی نظام بنانا ۔ جس سماج میں افراد قابل لحاظ تعداد میں تیار ہوجائیں، وہاں یقینا سماجی سطح پر بھی اس کا ظہور ہوگا۔ مگر جہاں تک دعوتی نشانہ کا تعلق ہے، اسلام کا اصل نشانہ تعمیر ِ افراد ہے، نہ کہ سماجی اور حکومتی ڈھانچہ بنانا۔
اسلام کے فکری مطالعہ میں اس کو بطورِ اصول ماننا ضروری ہے۔ اگر اس کو نہ مانا جائے تو کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ کسی بھی پیغمبر نے مکمل نظام کے احکام نہیں بتائے اور نہ کسی بھی پیغمبر نے عملی طورپر اس کا کوئی نمونہ پیش کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اصول کو ملحوظ نہ رکھنے کی صورت میں تمام پیغمبروں کی تحریک، نعوذ باللہ ، فکری اور عملی دونوں اعتبار سے ناقص اور ناتمام نظر آتی ہے۔
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کی تحریک کا اصل مقصد یہ تھا کہ ایسے اعلیٰ افراد کو تیار کیا جائے جو آخرت کی ابدی جنت میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ پیغمبروں کی تحریک کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج ہی لوگوں کے لیے ایک ایسی دنیا بنائی جائے جہاں وہ آخرت اور یوم الحساب سے پہلے ہی اپنے رہنے کے لیے ایک جنت کو حاصل کرسکیں۔
ضروری اعلان
مولانا وحید الدین خان صاحب کی منتخب کتابوں کا سیٹ مسجد اور مدرسے اور لائبریری میں پہنچانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔
(1) بڑا سیٹ ، 21 کتابیں، خاص رعایتی قیمت 1000/- مع پوسٹل چارج
(2) چھوٹا سیٹ، 9 کتابیں، خاص رعایتی قیمت 500/- مع پوسٹل چارج
جو حضرات اپنے خرچ پر ان سیٹ کو کسی مسجد یا مدرسے یا لائبریری میں گفٹ کرنا چاہتے ہیں، وہ گڈورڈبکس ، نئی دہلی میں درج ذیل نمبر پر رابطہ قائم کریں
+91 85888 22672
ے ے ے ےےے
ماہنامہ الرسالہ کو مسجد ، مدرسے اور لائبریری میں پہنچانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔
خاص رعایتی سبسکرپشن قیمت برائے ایک سال 150/-
جو حضرات کسی مسجد یا مدرسے یا لائبریری میں اپنے خرچ پر جاری کرانا چاہتے ہیں، وہ اس نمبر پر رابطہ قائم کریں
+91 85888 22679
واپس اوپر جائیں

میل ملاپ کا سماج

کلدیپ نائر (Kuldip Nayar) 1923میں سیالکوٹ (پاکستان) میں پیدا ہوئے، اور 2018 میں انڈیا میں ان کی وفات ہوئی۔ تقسیم کے بعد وہ انڈیا آگئے۔ یہاں انھوں نے انگلش جرنلزم میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ اپنے ابتدائی زمانے میں وہ اردو زبان میں لکھا کرتے تھے۔ انڈیا آنے کے بعد وہ دہلی کے ایک اردو اخبار (وحدت)میں کام کرنے لگے۔ اس زمانے میں ان کی ملاقات حسرت موہانی سے ہوئی، جو کہ اردو کے شاعر تھے۔ انھوں نے کلدیپ نائر میں انگلش کی صلاحیت محسوس کی۔ چنانچہ انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ اردو صحافت کو چھوڑ کر انگلش صحافت میں اپنا کیریر بنائیں۔ کلدیپ نائر نے حسرت موہانی کے مشورے کو مان لیا، اور پھر انگلش اخباروں میں لکھنا شروع کیا، یہاں تک کہ ترقی کرتے ہوئےانگلش کے ممتاز صحافی بن گئے، اور ترقی کرتے کرتے انڈیا میں کئی اعلیٰ مناصب حاصل کیا۔ کلدیپ نائر کے تعلقات ہندو مسلم دونوں سے بہت اچھے تھے۔
تقسیم (1947) سے پہلے بر صغیر ہند میں میل ملاپ کا سماج تھا۔ ہندوؤں کو مسلمانوں سے فائدہ پہنچتا تھا، اور مسلمانوں کو ہندوؤں سے فائدہ ملتا تھا۔ اس طرح دونوں کے درمیان اچھے تعلقات قائم تھے۔ اچھے تعلقات کے نتیجے میں دونوں کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچتا تھا، اور دونوں ترقی کر رہے تھے۔ تقسیم کے بعد دونوں فرقوں کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے۔ اب مصلحین نے یہ کوشش کی کہ اجلاس اور سیمیناروں کے ذریعے دونوں کے درمیان دوبارہ بہتر تعلقات قائم کیے جائیں۔ مگر اس کوشش میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بہتر سماجی تعلقات فطری طور پر قائم ہوتے ہیں۔ وہ جلسہ اور سمینار کے ذریعے قائم نہیں ہوتے۔ ملک کی تقسیم سے پہلے دونوں کے درمیان فطری عمل کے ذریعے اچھے تعلقات قائم تھے۔ مگر تقسیم کے بعد جب یہ فطرت پر مبنی تعلقات ٹوٹ گئے، تو وہ دوبارہ پہلے کی طرح قائم نہ ہوسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہتر سماجی تعلقات فطری عمل کے ذریعے بنتے ہیں، نہ کہ مصنوعی تدبیروں کے ذریعے۔
واپس اوپر جائیں

ایک سنگین برائی

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے إِیَّاکُمْ وَالشُّحَّ، فَإِنَّہُ دَعَا مَنْ قَبْلَکُمْ فَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَہُمْ، وَسَفَکُوا دِمَاءَہُمْ، وَقَطَّعُوا أَرْحَامَہُمْ (مسند احمد، حدیث نمبر 9569)۔ یعنی تم اپنے آپ کو حرص سےبچاؤ، کیوں کہ حرص نے تم سے پہلے لوگوں کو ابھارا تو انھوں نے اپنی حرام چیزوں کو حلال کرلیا، اور آپس میں خون ریزی کی، اور آپس میں قطع رحمی کی۔
شح کا مطلب ہے حرص (greed)، یعنی زیادہ چاہنا۔ حرص کا مزاج انسان کے لیے اتنا زیادہ نقصان دہ کیوں ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کے اوپر حرص کا جب غلبہ ہوتا ہے، تو وہ اس کی سوچ کو حرص والی سوچ بنا دیتا ہے۔ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ ;کا خواہش مند ہوتا ہے۔ زیادہ چاہنے کا یہ مزاج آدمی کے اندر اور کئی برائیاں پیدا کرتا ہے۔ مثلاً وہ انسان کو اپنا دوست سمجھنے کے بجائے، انسان کو اپنا حریف سمجھنے لگتا ہے۔ وہ دوسروں کو دینے کے بجائے، دوسروں سے لینے کا خواہش مند بن جاتا ہے۔ اس کی سوچ انسان رخی سوچ کے بجائے خود رخی بن جاتی ہے۔ ایسا انسان ایک خود غرض انسان بن جاتا ہے۔
حرص کا مزاج آدمی کے اندر تنگ دلی کی نفسیات پیدا کرتا ہے۔ ایسا آدمی کشادہ دلی کی اعلیٰ نفسیات سے محروم ہوجاتاہے۔ وہ ہر معاملے میں اپنی ذات کو لے کر سوچتا ہے۔ انسانیت عامہ کو لے کر سوچنے کامزاج اس کے اندر پرورش نہیں پاتا ہے۔ ایسا آدمی اس فطری حقیقت سے بے خبر ہوجاتا ہے کہ اس دنیا میں دینے والے کو ملتا ہے، جو آدمی دوسروں کو دینا نہ جانے، اس کو دوسروں کی طرف سے ملنے والا بھی نہیں۔ ایسا آدمی کوئی بڑا منصوبہ نہیں بناسکتا۔ بڑا منصوبہ بنانے کے لیے بڑا دل درکار ہوتا ہے، اور حرص کے مزاج کی بنا پر بڑا دل پہلے ہی اس سے رخصت ہوجاتا ہے۔ حرص بظاہر ایک اخلاقی برائی ہے، لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے وہ انسان کی پوری شخصیت پر چھاجاتی ہے۔ حریص انسان بظاہر انسان ہوتا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ مثلِ حیوان بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے کا دور

زندگی میں آدمی کے لیے بہت سے مسئلے آتے ہیں۔ مثلاً بیماری، حادثہ، نقصان، وغیرہ ۔لیکن بڑھاپا ایک بالکل مختلف قسم کا مسئلہ ہے۔ بڑھاپا گویا خاتمۂ حیات کا نام ہے۔ بڑھاپا ہمیشہ پائنٹ آف نو ریٹرن (point of no return) پر آتا ہے۔ بڑھاپا ہر اعتبار سے انسان کے لیے صرف ایک مسئلہ ہے۔
لیکن بڑھاپے کا ایک مثبت پہلو ہے، جو صرف بڑھاپے سے حاصل ہوتاہے، اور وہ عجز (helplessness) کی دریافت ہے۔ عجز کی دریافت دوسرے اسباب سے بھی جزئی طورپر ہوتی رہتی ہے، لیکن کامل معنوں میں عجز کی دریافت صرف بڑھاپے سے حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ بڑھاپا کسی آدمی کو اس وقت آتا ہے، جب کہ اس کا جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے۔
انسان کاجسم فطری طورپر ایک بہترین ساخت پر قائم ہے۔اس جسم کو تقریباً 80 آرگن (organs)نہایت اعلی مینجمنٹ کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ یہ آرگن جزئی یا کلی طورپر اپنا فنکشن بند کردیتے ہیں۔ اس فنکشن کو دوبارہ جاری نہیں کیا جاسکتا۔کسی آرگن کے فیل ہونے کا آخری نتیجہ موت ہوتا ہے۔
عجز بلا شبہ حقیقتِ اعلی کی دریافت ہے۔ حقیقتِ اعلی کی دریافت کے بغیر انسان کی شخصیت ایک ناقص شخصیت ہوتی ہے۔ ناقص شخصیت کا مکمل ہونا، صرف اس وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے۔ بڑھاپے کا دور سب سے بڑی دریافت کا دور ہے۔ لیکن عملاً یہ ہوتاہے کہ بوڑھا انسان مسلسل طور پر صرف شکایت (complaint)میں جیتا ہے۔ کم از کم میں نے کسی بوڑھے انسان کو نہیں پایا، جو بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے کے باوجود شکایت کی نفسیات سے بچاہوا ہو۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو اکثر حالت میں ایسا ہوتا ہے کہ مادی اعتبار سے انسان کا جسم اگرچہ بوڑھا ہوتا ہے لیکن اس کا ذہن بدستور کام کرتا رہتا ہے۔ مزید یہ کہ اس کاذہن پہلے سے بہتر ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ اس کے ذہن میں تجربات کا اضافہ ہوجاتاہے۔ انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ وہ زیادہ گہرے انداز میں معاملات پر رائے قائم کرسکے۔ پہلے اگر وہ صرف جاننے والا تھا، اب وہ ایک دانش مند انسان بن جاتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتاہے کہ وہ زیادہ بصیرت افروز انداز میں معاملات پر اپنی رائے دے سکے۔ وہ لوگوں کو زیادہ صائب (rational) انداز میں درست مشورہ دے سکے۔ بوڑھا انسان ایک پختہ (mature)انسان ہوتا ہے۔ وہ اپنے تجربات کی بنا پر اس قابل ہوتاہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ نتیجہ خیز رہنمائی دے سکے۔
انسان کی سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق (Creator)کو ڈسکور کرے۔ یہ دریافت (discovery) ہر لمحے ہوسکتی ہے۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ آدمی بڑھاپے سے پہلے بھُلاوہ کلچر میں جیتاہے۔ وہ بھلاوہ کلچر سے صرف اس وقت باہر نکلتاہے، جب کہ وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچے۔ جب اس کے آرگن کام کرنا بند کرنے لگیں۔ یہی اصل عجز کی دریافت کا وقت ہوتا ہے، اور یہی وہ وقت ہوتاہے، جب کہ انسان شعوری طورپر قادر مطلق خدا کو دریافت کرے، لیکن انسان اپنی بے خبری کی بنا پر یہ کرتا ہے کہ اپنی زندگی کے پہلے دور میں وہ بے خبری (unawareness) میں جیتاہے، اور دوسرے دور میں شکایت کی نفسیات میں۔ اس طرح انسان اپنی طاقت کے دَور کو بھی کھو دیتا ہے، اور اپنے ضعف کے دَور کو بھی۔
بڑھاپے کی عمر پختگی(maturity) کی عمر ہوتی ہے۔ اس زمانے میں انسان کا تجربہ (experience)بڑھ جاتا ہے۔ انسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ معلومات کی روشنی میں غور وفکر کرے۔ یہ چیزیں انسان کی عقل میں اضافہ کرتی ہیں۔ انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ دانش مندانہ رائے دے سکے۔ عمر رسیدہ آدمی سماج میں اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ دینے والا (giver)بن کر رہ سکے۔ بوڑھا آدمی اگر صرف ایک کام کرے کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھے، جس میں اس نے اپنی زندگی کے تجربات بیان کیے ہوں، تو ہر آدمی اپنی سوسائٹی کا ایک عظیم دینے والا(great giver) بن کر دنیا سے رخصت ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

پختگی کیا ہے

پختگی (maturity) یہ ہے کہ آدمی اپنے غصہ پر قابو پالے اور اختلافات کو تشدد اور تخریب کے بغیر دور کرسکے۔ پختگی تحمل اور برداشت کا نام ہے اور اس صلاحیت کا کہ وقتی خوشی کو دیر طلب مقاصد کے لیے قربان کردیا جائے۔ پختگی اس استعداد کا نام ہے کہ کسی تلخی کے بغیر، ناخوش گوار اور مایوس کن حالات کا مقابلہ کیاجائے۔ پختگی انکساری کا نام ہے۔ ایک پختہ شخص یہ کہنے کا حوصلہ رکھتا ہے کہ ’’میں غلطی پر تھا‘‘۔ پختگی اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی ان چیزوں کے ساتھ پُر امن طورپر رہ سکے جن کو وہ بدل نہیں سکتا۔
Maturity is the ability to control anger, and settle differences without violence or destruction. Maturity is patience, the willingness to give up immediate pleasure in favour of the long-term gain. Maturity is the capacity to face unpleasantness and disappointment without becoming bitter. Maturity is humility. A mature person is able to say, “I was wrong”. Maturity is the ability to live in peace with things we cannot change.
پختگی در اصل حقیقت واقعہ کے اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ وہ ساری صفتیں جن کو پختگی کہا جاتا ہے، وہ سب حقیقت واقعہ کے اعتراف سے پیدا ہوتی ہیں۔ حقیقت واقعہ کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس بات کو جانے کہ کہاں اس کی حد ختم ہوتی ہے اور کہاں سے دوسری طاقتوں کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اُس کے لیے ممکن ہے۔ اور وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اس کے لیے ممکن نہیں۔حقیقتِ واقعہ کا اعتراف آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اقدام سے پہلے اُس کے انجام کو سوچے، وہ اپنے عمل کی نتیجہ خیز منصوبہ بندی کرے۔
واپس اوپر جائیں

صحیح طرزِ فکر

صحیح طرزِ فکر (right thinking) حکیمانہ طرز فکر کی ایک اعلی قسم ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں جیتے ہیں، یا صبح وشام گزارتے ہیں، اس میں چیزیں الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ مخلوط (mixed)حالت میں ہیں۔ اس بنا پر بظاہر چیزوں کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنا مشکل ہوجاتاہے۔ چیزوں کے بارے میں صحیح رائے اس وقت قائم ہوتی ہے، جب کہ آپ چیزوں کو الگ الگ کرکے دیکھ سکیں۔ اس تجزیاتی مطالعے کے بغیر آدمی کے اندر صحتِ فکرپیدا نہیں ہوسکتی، وہ مبنی بر واقعہ سوچ کا حامل نہیں بن سکتا۔
مثلاً ایک شخص اپنے بارے میں یا اپنی کمیونٹی کے بارے میں یہی کہے گا کہ ہمارے اوپر ظلم ہورہا ہے۔ اگر اس سے یہ کہا جائے کہ تمھارے باپ دادا کا جو اسٹینڈرڈ تھا، کیا تمھارا اسٹینڈرڈ اس سے کم ہے۔ وہ جواب دے گا کہ نہیں اس سے تو بہت اچھا ہے۔ مثلاً میرے باپ دادا بائیسکل پر سفر کرتے تھے، آج میں کار پر سفر کرتاہوں۔ میرے دادا کے زمانے میں بچے معمولی مدرسے میں پڑھتے تھے، آج وہ شہر کے ایک اچھے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ میرے دادا کچے گھر میں رہتے تھے، آج میں اور میرے بچے پکے گھر میں رہ رہے ہیں، وغیرہ۔ اب اگر آپ اس سے پوچھیں کہ جب تمھاری فیملی کا اسٹینڈرڈ پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہے، تو ظلم کہاں ہورہا ہے۔ اب وہ حیران ہوجائے گا، اور کہے گا کہ میں نے اس اعتبار سے کبھی نہیں سوچا۔
اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اصل مسئلہ کہاں ہے۔ اصل مسئلہ خارج میں نہیں ہے، بلکہ داخل میں ہے۔ لوگوں کے اندر صحیح طرز فکر نہیں ہے۔ اس لیے لوگ شکایت میں جی رہے ہیں، حالاں کہ انھیں شکر میں جینا چاہیے۔ صحیح طرزِ فکر تجزیاتی فکر کا نام ہے۔ اگر آپ کے اندرڈی ٹیچڈ تھنکنگ (detached thinking)ہو، اگر آپ تجزیاتی انداز میں سوچنا جانتے ہوں، تو آپ درست طرزِ فکر کے حامل بن سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ہار کے بعد جیت

زندگی میں ہار بھی ہے، اور جیت بھی ۔ شکست کا تجربہ بھی ہے، اور فتح کا تجربہ بھی۔ جو آدمی ہر صورتِ حال کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو، اس کے لیے کوئی ہار ہار نہیں، کوئی شکست شکست نہیں۔ ایسے آدمی کے لیے ہار بھی جیت ہے، اور شکست بھی فتح ۔ ایسے آدمی کے لیے وقتی طور پر بظاہر نااُمیدی کے حالات پیداہوسکتے ہیں، لیکن مستقل طور پر امید کے حالات کا آنا اس کے لیے کبھی بند ہونے والا نہیں۔ شکست کو نہ ماننا، آدمی کے اندر منفی (negative) سوچ پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس، شکست کو مان لینا، آدمی کے اندر نئی ہمت پیدا کرتا ہے۔ شکست کو مان لینا اپنے نتیجے کے اعتبار سے یہ ہے کہ ایک آدمی نے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کیا کہ وہ ایک موقع کو کھونے کے بعد دوسرے موقعے کی تلاش کرے، وہ دوسرے موقعے کو اویل کرکے اپنی ہار کو جیت بنالے۔
زندگی میں کبھی حالات یکساں نہیں ہوتے۔ ہر آدمی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ہر قسم کی صورتِ حال پیش آتی ہے، کبھی ایک صورتِ حال اور کبھی دوسری صورتِ حال۔ آدمی اگر ہمت نہ ہارے تو وہ ایک موقع کو کھو کر دوسرے موقع کو اویل کرے گا۔ وہ ایک ہار کے بعد دوبارہ نئی ہمت کے ساتھ جیت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔آدمی کو چاہیے کہ وہ کبھی ہمت نہ ہارے، وہ ہمیشہ یہ یقین رکھے کہ ہر شام کے بعد دوبارہ صبح کا سورج نکلتا ہے۔ ہر نقصان کے بعد دوبارہ پانے کے راستے کھلتے ہیں۔ زندگی کی کتاب کا ایک چیپٹر بند ہوتا ہے، تو فطرت کے قانون کے مطابق، دوسرا چیپٹر کھل جاتا ہے۔
یاد رکھیے، ایک انسان اپنی کوشش میں ہار سکتا ہے، لیکن جودینے والا ہے، اس کو کبھی ہار نہیں پیش آتی۔ انسان اگر اپنی کھڑکیاں بند کرلے، تب بھی ہوا کے جھونکے اس کی کھڑکیوں سے ٹکراتے رہیں گے، انسان اگر اپنا دروازہ بند کرلے، تب بھی سورج کی روشنی اس کا انتظار کرتی ہے کہ انسان کب اپنا دروازہ کھولے، اور وہ اس کے کمرے میں داخل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

خواتین کو مشغولیت دیجیے

ایک خاتون کے اندر شکایتی مزاج تھا، اور ان کی فیملی لائف بھی جھگڑے کی وجہ سے درست نہیں تھی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ حالات کی وجہ سے اس کو ایک جاب مل گیا، اور وہ اس میں مشغول ہوگئیں۔ اب معاملہ یہ ہوا کہ وہ گھر میں خوش رہنے لگیں، اوران کی فیملی لائف بھی درست راستے پر چلنے لگی۔ اسی طرح ایک اور خاتون کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ وہ جب گھر میں خالی تھیں، تو ان کی گھریلو زندگی بھی ٹھیک نہیں تھی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ انھوں نے اسکول میں ٹیچر کی جاب حاصل کرلی ، پھر انھوں نے اپنی کمائی سے اپنے شوہر کو عمرہ کروایا۔ اب ان دونوں خواتین کی زندگی ایک باحوصلہ خاتون کی زندگی بن گئی ہے۔ بجائے شکایتی باتوں کے اب وہ تعمیری باتیں کرنا زیادہ پسند کرتی ہیں۔
عام طور پر یہ سمجھاجاتا ہے کہ تربیت کا طریقہ یہ ہے کہ بیٹھ کر سمجھایا جائے۔ تربیت کا زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ خواتین کو مشغولیت دی جائے، ان کو مشغول رہنے کا فن سکھایا جائے۔خاص طور پر ایسی مشغولیت جو ان کے لیے مزید آمدنی کا ذریعہ بن جائے۔ مثلاً دونوں خواتین اپنےگھروں میں جب تک خالی تھیں، ان کا گھریلو معاملہ درست نہیں تھا، لیکن جب ان کو جاب کی شکل میں ایک مشغولیت مل گئی، تو ان کی گھریلو زندگی درست ہوگئی۔ مشغولیت اپنے آپ میں تربیت کا ذریعہ ہے۔ مشغولیت آدمی کے اندر تعمیری ذہن پیدا کرتی ہے۔ مشغولیت آدمی کے اندر یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنے خاندان میں اپنے سماج کا ایک مفید حصہ ہے۔ مشغولیت آدمی کو اپنے سماج کادینے والا ممبر (giver member) بناتی ہے۔ مشغولیت آدمی کو یہ احساس دیتی ہے کہ دوسرے بہت سے انسانوں کی طرح وہ بھی سماج کا مفید عنصر بن سکتا ہے۔ مشغولیت کے مزید بہت سے فائدے ہیں۔ مثلاً مشغولیت انٹرایکشن میں اضافہ کرتی ہے۔ مشغولیت آدمی کی تخلیقیت (creativity) بڑھاتی ہے۔ مشغولیت آدمی کے اندر وسعتِ نظری (broadmindedness) پیدا کرتی ہے۔ مشغولیت آدمی کی عزت ِنفس میں اضافہ کرتی ہے۔ مشغولیت آدمی کے احساسِ شکر میں اضافہ کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

جاپانی قوم کی ترقی کا راز

ایک میگزین میں جاپانی قوم کی ترقی پر ایک مضمون چھپا تھا۔ اس مضمون کے مطابق، جاپان کی ترقی کے راز دس ہیں۔ وہ دس راز یہ ہیں:(1) سب سے زیادہ کام کرنے والی قوم(2) احساس ذمہ داری(3) کفایت شعاری(4) ان کے یہاں وفاداری کو انتہائی اہمیت حاصل ہے (5) نئی نئی ایجادات، اور ایجاد شدہ چیزوںمیں جدت کی ہمہ وقت کوشش کرنا(6) ہمت نہیں ہارنا (7)مطالعہ کا کا شوق(8) ٹیم بنا کر کام کرنا(9) بچپن ہی سےاپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھانا (10) ترقی اور ٹکنالوجی کے باوجود اپنے کلچر و ثقافت سے جڑے رہنا۔
جاپان کی ترقی کے لیے یہ دس صفات اصل نہیں ہیں۔ اصل صفت صرف ایک ہے، اور بقیہ صفتیں اس اصل کے نتیجہ کے طور پر پیدا ہوئی ہیں۔ جاپان کی ترقی کا اصل سبب وہ ہے جس کو جاپان کے بادشاہ نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا:" ہمیں ناقابل برداشت کو برداشت کرنا ہے، تاکہ ہم نیا جاپان وجود میں لاسکیں۔" حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں ہمیشہ کچھ مسائل ہوتے ہیں۔ عام لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ مسائل کو حل کرنے میں الجھ جاتے ہیں، اور پھر یہ ہوتا ہے کہ اپنا سب کچھ خرچ کرنے کے باوجود نہ مسائل حل ہوتے ہیں، اور نہ مطلوب حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان کے سامنے بہت بڑے بڑے مسائل تھے۔ لیکن جاپان نے مسائل کومکمل طورپر نظر انداز کیا، اور اپنی ساری توجہ مواقع کو اویل (avail) کرنے میں لگادیا۔ اسی دانش مندانہ اصول کو اختیار کرنے کا نتیجہ تھا کہ جاپان 25 سال کے بعد ایک نئی عالمی طاقت بن کر ابھر آیا۔
مذکورہ مضمون میں جاپان کے بارے میںجن دس صفات کا ذکر کیا گیا ہے، یہ یا ایسی دس اور صفات ہمیشہ بطور نتیجہ پیدا ہوتی ہیں۔ جب انسان صحیح نقطۂ آغاز (starting point)کو دریافت کرلے، اور اپنی پوری توجہ اسی ایک نشانے کے حصول پر لگادے تو اس کی ذہنی صلاحیتیں، ایک صحیح رخ پر بیدار ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد آدمی کے اندر دوسری تمام خصوصیات اپنے آپ پیدا ہوجاتی ہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 268

— ڈاکٹر ریکو اوکاوا (Dr. Reiko Okawa) اسلامک اسٹڈیز، یونیورسٹی آف جاپان میں پروفیسر ہیں۔ وہ امن کے تعلق سے قرآن کی تفسیر پر ریسرچ کررہی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے 29 دسمبر 2018 کوصدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی، اور کافی دیر تک انٹریکشن کیا، جس میں اسلام، مسلمان اور حالاتِ حاضرہ پر گفتگو ہوئی۔ صدر اسلامی مرکز نے ان کو بتایا کہ اسلام کی تمام تعلیمات امن، بھائی چارہ اور صلحِ کل پر مبنی ہیں۔ اسلام کو اس کے اوریجنل سورس سے سمجھنے کی ضرورت ہے، نہ کہ مسلمانوں کے عمل سے۔ آخر میں ان کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور دوسرے اسلامی لٹریچر بطور تحفہ دیے گئے۔
— 4 جنوری 2019 کو جرمنی سے کرسچن مشنری کا ایک وفد صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آیا۔ اس گروپ کی آمد کا مقصد اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہونا تھا۔ ان سے صدراسلامی مرکز نے خطاب کیا۔ اس کے بعد مس ماریہ خان اور مس راضیہ صدیقی نے بھی خطاب کیا۔ اس کے بعد سوال وجواب کا سیشن تھا۔ آخر میں تمام لوگوں کو قرآن کا جرمن ترجمہ اور جرمن زبان میں دعوتی لٹریچر دیئے گئے۔
— 5 جنوری 2019 کو امریکی طلبا کا ایک گروپ صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آیا۔ اس کا مقصد اسلام کی مثبت اور بے آمیز تعلیمات سے تعارف حاصل کرنا تھا۔ اس گروپ سے صدر اسلامی مرکز نے خطاب کیا اس کے بعد ماریہ خان اور راضیہ صدیقی نے بھی خطاب کیا۔ آخر میں سوال وجواب کا سیشن ہوا۔ طلبا نے کافی خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ ان کو قرآن کا انگلش ترجمہ اور دوسرے لٹریچر دیے گئے۔
— یکم جنوری 2019 سے 8 جنوری 2019 تک سہارنپور اور دہرادون سی پی ایس ٹیم نے مصر کی سیاحت کی۔ اس سیاحت کو سی پی ایس ٹیم نے دعوتی سیاحت میں تبدیل کیا، اور مختلف مقامات پر قرآن اور دعوتی لٹریچر تقسیم کیے گئے۔ مثلا جب یہ لوگ اہرام مصر کو دیکھنے گئے، اور ٹورسٹوں نے ان لوگوںکے ہاتھوں میں انگریزی ترجمہ قرآن دیکھا ، تو سیاحوں نے ان سے مانگ کر ترجمہ قرآن حاصل کیا۔ اس کے بعد 6 جنوری 2019 کو یہ لوگ جامعہ ازہر دیکھنے گئے، تو وہاں کی لائبریری کو انھوں نے ترجمۂ قرآن اور صدر اسلامی مرکز کی دوسری کتابیں بطور تحفہ دیں۔
— سی پی ایس (دہلی) کی جانب سے ایک پروگرام ماسک اوپن ڈے(mosque open day) کے نام سے منعقد کیا جاتا ہے۔ اس کے تحت پارلیمنٹ اسٹریٹ کی مسجد میں 21 جنوری 2019 کو ایک انٹرایکشن رکھا گیا جس میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کے اسٹوڈنٹس نے شرکت کی۔ مسجد کے امام مولانا محب اللہ ندوی صاحب اور سی پی ایس ممبر مس ماریہ نے سامعین سے خطاب کیا۔ خطاب کے بعد سوال و جواب کا سیشن تھا۔ اس میں طلبہ نے کافی دلچسپی دکھائی اور انھوں نے کافی خوشی اوراطمینان کا اظہار کیا۔ آخر میں طلبہ کے درمیان انگریزی ترجمۂ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا گیا۔
— مسٹرخرم قریشی صاحب (سی پی ایس،دہلی، موبائل نمبر0091 9350212002) ایر انڈیا کے کیپٹن پائلٹ ہیں۔ ان کی دعوت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، وہاں مقامی لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں، اور ان کو دعوت کے کام پر ابھارتے ہیں، یا دعوتی کام کرنے والوں کے ساتھ ملتے ہیں، اور دعوت کی پلاننگ کرتے ہیں۔ جنوری 2019 میں جب وہ ایر انڈیا کے ذریعے اسرائیل گئے، تو وہاں انھوں نے 21 جنوری 2019 کویروشلم میں موجود سی پی ایس ٹیم کے ممبران سے ملاقات کی۔ ان سے ملنے کے بعد انھوں نےاپنا تاثر ان الفاظ میں لکھا ہے:
I met the team in Jerusalem. They are very hard working and passionate. They give a lot of time to dawah work. I shared a few ideas with them about which they were very excited. I will meet them again with more concrete plans.
— ساجد احمد خان (سی پی ایس، کامٹی- ناگپور ) نے خبر دی ہے کہ ٹیم کے ایک ممبرنے Reliance Polyester کمپنی کےایک ملازم مسٹر دلیپ کو ہندی قران کا ترجمہ جیون کا ادیشیہ اور ستیہ کی کھوج پیش کیا توانہوں نے بڑے ادب کے ساتھ اسے قبول کیا اور کہا کہ میں انہیں ضرور پڑھوں گا۔ آپ لوگ بہت اچھا کام کررہے ہو۔ لیکن یہ پَوِتر کتابیں میں بغیر پیسہ دیے نہیں لے سکتا۔ ہمارے ساتھی نے اصرار کیا کہ سی پی ایس کی طرف سے یہ پیغام سبھی لوگوں کو بغیر کسی قیمت کے دیا جاتا ہے۔ اس کےباوجود مسٹر دلیپ نے انہیں 200 روپےدیے اور کہا کہ میں چاہتاہوں کہ آپ اس پیسے سے مزید کتابیں تقسیم کریں۔
— مولانا وحید الدین خان صاحب کی تحریروں سے میرا روایتی شاکلہ ٹوٹا اور اسلام اور دین کو عصری اور سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی توفیق ملی۔ میںماہنامہ الرسالہ کا 2006 سے قاری ہوں اور مولانا کی اکثر کتابیں پڑھ چکا ہوں۔مثلاً مذہب اور جدید چیلنج، مذہب اور سائنس، فکر اسلامی، مسائل اجتہاد، اسلام دور جدید کا خالق، عقلیات اسلام، وغیرہ۔ اللہ انھیں عمر دراز عطا کرے۔ (محمد قاسم، بلوچستان)
— ہم لوگ مدرسہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ہمیں مدرسے کے ایک استادنےمشورہ دیا کہ ہم انڈیا کے ایک مفکر مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی کتب کا مطالعہ کیا کریں۔ چنانچہ ہم نے راز ِحیات کا مطالعہ کیا ،اس سے ہم لوگوں کوبہت زیادہ motivation ملا۔اسی طرح ہم لوگوں نے پایا کہ مولانا نےاسلام کوجدید سائنٹفک انداز میں پیش کیا ہے، جسے پڑھ کر ہمارا ذہن کھلا اور ہم کو روایت پرستی سے ہٹ کر دین کی صحیح کرن اور اس کی حقیقی تعلیمات سے آگاہی ہوئی۔ ( محمد حمزہ عبد اللہ، محبوب الرحمن، عبد اللطیف، لقمان حکیم، جامعہ ستاریہ اسلامیہ، کراچی)
— My mother is a member of CPS international (Pakistan). On 15 January 2019 she received Al-Risala in Lahore, Pakistan. She was quite excited about it, but I, as a hobby reader, started reading the magazine unintentionally. I am writing this message to express my feelings and thoughts after reading the whole magazine. I belong to a Muslim family and my family background is religious as well. Due to my parents’ encouragement and also my willingness to receive higher education, I spent most of the time of my life in educational institutes. Right now I am an electrical engineer. I am part of a circle that is oriented towards technology, and sometimes I came across arguments from people of my religious community who would express a bad image about technology, and then I would see the same people drawing benefits from the technology they would speak badly about. So this scenario confused me: I thought do real teachings of Islam refrain us from becoming part of the ongoing advancements in technology? . Also, I saw many of my colleagues and friends far from the teachings of Islam. Now, from various religious groups we often get pamphlets to spread among common people to teach them about Islam. But the content of these pamphlets is too tough and I myself get confused and question how the other person will understand the beauty of the Islamic message?. When the other person is not a religious scholar or is not a frequent reader of Islamic studies, so how will he or she understand the content properly?. Writing styles have changed during the past several years. Researchers have been trying to figure out appropriate size of a book, the length of a message and how much time a reader should spend on a specific topic. But many of our Islamic books were written years ago. Those books were the golden heritage for that period of time and for people of that age. The writers of these books wrote taking into consideration the scenarios of that time and the mentality of the people of their time. Today we face a problem when we force our young generation to study the same content that was written many years back to understand Islam. This has been my way of thinking, although I felt that I may be wrong since I have expertise in technology and not in Islamic studies. But today after reading Al-Risala, my thoughts have gained more clarity. Each and every topic, every page, every passage of Al-Risala has answered to my questions. Some of my questions were such that I did not have words to express the confusion of my mind. But this magazine not only gave me the right answers but also made my questions clearer. I started reading the first page, then second and I was not able to stop myself from continuing to read. I was so excited and happy. Whenever I find some answer to my vague thought, I would rush to my parents and repeat the line from the magazine that Maulana Sahab had written. One line that I would like to specifically mention here which I liked the most in the above context: “Islam ki talimat ko asri zehn kay liyay qabile fehm banana.” Maulana sahab has precisely described each topic. I am really thankful to him. I request Maulana Sahab and everyone in this group to pray to Allah to show me the right path and give me the strength to make significant contribution in spreading Islam all around the world. (Syeda Amtul Gilani, Pakistan)
واپس اوپر جائیں

Monday, 1 July 2019

Al Risala | July 2019 (الرسالہ،جولائی)

4

-زندہ انسان

5

- اختلافِ رائے

6

- ٹیک اوے

7

- احساسِ محرومی کیوں

10

- معلومات اور تجزیہ

12

- سادگی کی اہمیت

13

- کامیابی کا راز

14

- اصل سبب جہالت

16

- تجربہ سے سبق سیکھیے

17

- مثبت سوچ کی ضرورت

18

- ڈی کنڈیشننگ

19

- آزادی کا دور

20

- ایک نصیحت

21

- عذر کیا ہے

22

- تعلیم یافتہ کون

24

- کامیاب زندگی کا اصول

26

- کامیاب فارمولا

28

- مس ایڈونچرزم

29

- بڑا آدمی کون

30

- ایک نصیحت

31

- سیکھنے کا عمل

32

- نزاع کا معاملہ

33

- دو قسم کے مسئلے

34

- صحیح طرزِ فکر

35

- گفتگو کااصول

36

- مشورہ یا باہمی مشاورت

37

- ایک لفظ کا فرق

38

- کھونے میں پانا اور پانے میں کھونا

39

- تخلیقی مشورہ

40

- فطرت کو موقع دو

41

- غصے کا ظاہرہ

42

- آنکھوں کے بغیر

43

- باس اِز آلویز رائٹ

44

- آدابِ تنقید

45

- پازیٹیو تھنکنگ، پازیٹیوزم

45

- اپنے خلاف

47

- منفی تجربہ

48

- اسٹیج کا فتنہ

49

- سمجھدار انسان

50

- لرننگ اسپرٹ


زندہ انسان

لبید بن ربیعہ بن مالک العامری (وفات 41ھ) قدیم عرب کے ایک مشہور شاعر تھے۔ ان کا شمار اصحاب المعلقات میں سے ہوتا ہے۔فتح مکہ سے پہلے انھوں نے اسلام قبول کیا۔شمس الدین الذہبی نے تاریخ الاسلام (4/55) میںلکھا ہے کہا جاتا ہے کہ اسلام کے بعد انھوں نے شاعری چھوڑ دی، اور کہاا للہ نے مجھے اس کے بدلے قرآن دے دیا ہے(أَبْدَلَنِی اللَّہُ بِہِ الْقُرْآنَ)، اور کہا جاتا ہے کہ قبولِ اسلام کے بعد انھوں نے صرف ایک شعر کہا تھا ،جو یہ ہے:
مَا عَاتَبَ الْمَرْءُ الْکَرِیمُ کَنَفْسِہِ وَالْمَرْءُ یُصْلِحُہُ الْقَرِینُ الصَّالِحُ
حضرت لبید نے اپنے شعر میں جو بات کہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ شریف آدمی احتسابِ غیر کے بجائے احتساب خویش کے معاملے میں زیادہ حساس ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کی غلطی پر گرفت کرتے ہوئے نرمی کا انداز اختیار کر سکتا ہے، مگر جب معاملہ خود اپنی غلطی کا ہو تو وہ اس کے لیے بے رحم محاسب بن جاتا ہے۔شعر کے دوسرے مصرع میں انھوں نے صحبت کی اہمیت بتائی ہے، آدمی اگر زیادہ دیر تک برے کی صحبت اختیار کرے تو اندیشہ ہے کہ وہ بھی برا بن جائے، اور جب آدمی اچھے انسان کی صحبت اختیار کرتا ہے تو اس کی صحبت کے اثر سے وہ بھی ایک اچھا آدمی بن جاتا ہے۔
خلیفہ ثانی عمربن الخطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ایک بار حضرت لبید سے کہا کہ اپنے کچھ اشعار سنائیے۔ حضرت لبید نے جواب دیا کہ اللہ نے جب مجھ کو بقرۃ اور آل عمران جیسی سورتوں کی تعلیم دی تو اس کے بعد میرے لیےمناسب نہیں کہ میں شعر کہوں (مَا کنت لأقول شعرا بعد أن علمنی اللہ البقرة وآل عِمْرَان) الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر،جلد3، صفحہ 1337۔
یہ بات بظاہر قرآن کے مقابلے میں ہے، مگر وسیع تر معنی میں اس کا تعلق دوسری حقیقتوں سے بھی ہے۔ ابتدائی مفہوم کے اعتبار سے اس کا تعلق قرآن کے سامنے خاموشی اختیار کرنے سے ہے، اور وسیع تر انطباق کے لحاظ سے ہر حق کے سامنے اپنی زبان بند کر لینے سے۔
واپس اوپر جائیں

اختلافِ رائے

ایک بار میری ملاقات ایک مغربی اسکالر سے ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ اہلِ مغرب کی ترقی کا راز کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا — اختلافِ رائے (dissent) کو انسان کا مقدس حق قرار دینا۔ یہ بلاشبہ ایک درست بات ہے۔ لیکن وہ مغربی فکر کی بات نہیں، وہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ اِس قانون کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اختلافُ أمتى رحمةٌ (کنزالعمال، حدیث نمبر 28686)۔ یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔
اختلاف رائے کا اظہار ہمیشہ تنقید (criticism)کی صورت میں ہوتا ہے۔ مگر تنقید خواہ وہ کسی شخص کے حوالے سے کی گئی ہو، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے مطالعے کی ایک صورت ہوتی ہے۔ تنقید کا اصل مقصد کسی موضوع پر کھلے تبادلۂ خیال (open discussion) کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ تنقید کا مقصد یہ ہے کہ مختلف ذہن (mind)دیانت دارانہ طورپر (honestly)اپنے نتیجۂ ٔتحقیق کو بتائیں، اور پھر دوسرے لوگ دیانت داری کے ساتھ اُس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ اِس طرح کا آزادانہ تبادلہ خیال ذہنی ارتقا (intellectual development) کا لازمی تقاضا ہے۔
علم اپنی نوعیت کے اعتبار ایک لامحدود موضوع ہے۔ یہ بات مذہبی موضوع پر بھی اُسی طرح صادق آتی ہے، جس طرح سیکولر موضوع پر۔ اختلافِ رائے بلاشبہ ایک رحمت ہے۔ اختلاف رائے ہر حال میں مفید ہے۔ اِس معاملے میں اگر کوئی شرط ہے تو وہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ اختلاف کرنے والا مسلّم دلیل کی بنیاد پر اختلاف کرے، وہ الزام تراشی کا طریقہ اختیارنہ کرے۔
اختلافِ رائے کے فائدے بے شمار ہیں۔ اِس سے مسئلہ زیر بحث کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ اِس سے تخلیقی فکر (creative thinking) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اِس کے ذریعے لوگوں کو موقع ملتاہے کہ وہ دوسرے کے نتیجۂ فکر سے فائدہ اٹھائیں۔ اِس سے مسئلہ زیرِ بحث کے مخفی گوشے سامنے آتے ہیں، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

ٹیک اوے

ایک سفر کے دوران میں لندن میں تھا۔ایک روڈ پر چلتے ہوئےمجھے دکھائی دیا کہ ایک دکان کے سامنے ایک بڑا سا بورڈ لگا ہوا ہے، جس پر نمایاںالفاظ میں یہ لکھا ہوا تھا:
Takeaway
یعنی کھانے کا سامان جو خرید کر لے جایا جائے۔ وسیع تر استعمال کے اعتبار سے اس کا انطباق (application) ریڈنگ مٹیریل کے اوپر بھی ہوتا ہے، یعنی آپ نے کوئی مضمون یا کتاب پڑھی، اور اس میں آپ کو ایک بامعنی بات ملی، تو آپ کہیں گے کہ اس تحریر میں میرے لیے یہ ٹیک اوے تھا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ دوکان کے بارے میں تو یہ لفظ صد فیصد صحیح ہے۔ آپ جب کسی دکان پر جائیں، تو وہاں قیمت ادا کرتے ہی وہ چیز آپ کو مل جائے، جو آپ کو مطلوب تھی۔ ہر دوکان پر وہ ٹیک اوے موجود ہوتا ہے، جس کے لیے وہ دوکان کھولی گئی ہے۔ کوئی دوکان ایسی نہیں، جہاں آپ کا مطلوب ٹیک اوے موجود نہ ہو۔
لیکن جب آپ کسی جریدہ یا کسی کتاب میں لوگوں کی تحریروں کو پڑھیںتو ، کم ازکم راقم الحروف کے تجربے کے مطابق، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہاں قاری کو کوئی بامعنی ٹیک اوے ملے۔ آپ جو چیز پڑھیں گے، اس میں الفاظ کی بھرمار تو ضرور ہوگی، لیکن کوئی بامعنی ٹیک اوے (meaningful takeaway) مشکل ہی سے ملے گا۔
ٹیک اوے کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں آپ کو ذہنی غذا (intellectual food) ملتی ہے۔ اس میں آپ کو کوئی ایسی وزڈم ملتی ہے، جس کو آپ اپنی زندگی میں اپلائی کرسکیں۔ اس میں آپ کو اپنے سوالات کا جواب ملتا ہے، جو آپ کے ذہن میں وضوح (clarity) میں اضافہ کرنے والا ہے۔ جس تحریر میں قاری کو کوئی ٹیک اوے نہ ملے، وہ گویا الفاظ کا جنگل ہے، جہاں دہرانے کے لیے تو بہت سی باتیں ہوں لیکن لینے کے قابل کوئی بات نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

احساسِ محرومی کیوں

ایک آدمی کا قصہ ہے۔ وہ غریب گھر میں پیدا ہوا۔ سفر کرنے کے لیے اس کے پاس اپنے دو پیروں کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ اس کو کہیںجانا ہوتا تو وہ پیدل سفر کرکے جاتا۔ وہ دیکھتا تھا کہ دوسرے لوگ سواریوں پر چل رہے ہیں۔ وہ اکثر سوچتا کہ کاش میرے پاس ایک بائسکل ہوتی تو میں بھی سواری پر چلنے کے قابل ہوجاتا۔
اس نے پیسہ اکھٹا کرکے اپنے لیے ایک بائسکل خریدی۔ اب وہ بائسکل پر سفر کرنے لگا۔ مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ وہ دیکھتا کہ دوسرے بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس سفر کرنے کے لیے موٹر سائکل ہے۔ اس نے سوچا کہ کاش، میرے پاس بھی موٹر سائکل ہوتی تو سفر کرنا زیادہ آسان ہوجاتا۔ اس نے دوبارہ کوشش کی۔ آخر کار اس کے پاس دو پہیوں والا اسکوٹر ہوگیا۔
شروع کے چند دن اس کے لیے بہت خوشی کے دن تھے۔ لیکن جلد ہی اس کے دل میںایک اور خواہش جاگ اٹھی۔ اس نے سوچا کہ دوسرے کئی لوگ ہیں جن کے پاس سفر کرنے کے لیے موٹر کار ہے، لیکن میرے پاس نہیں۔ اب اس نے ایک نئی کوشش شروع کردی۔ ایک عرصے کے بعد اس کی یہ کوشش کامیاب ہوئی، یہاں تک کہ اس نے ایک چھوٹی موٹر کار خریدلی۔
مگر اب بھی اس کی خواہشوں کی حد نہیں آئی۔ اب وہ بڑی موٹر کار کی تمنا کرنے لگا۔ آخر کار وہ دن آیا جب کہ اس کے گھر کے سامنے ایک بڑی کار آکر کھڑی ہوگئی۔ اِسی کے ساتھ اس کا کاروبار بھی بڑھا۔ یہاں تک کہ اس نے دوسری کار اور تیسری کار بھی خرید لی، مگر اب وہ بوڑھا ہوچکا تھا۔ آخر کار وہ بیمار ہو کر بستر پر پڑ گیا اور پھر اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر مرگیا۔
موت سے ایک دن پہلے اس کا ایک دوست اس سے ملا۔ وہ دیر تک اس کے پاس رہا۔ گفتگو کے دوران دوست نے اس سے کہا کہ تم ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ پھر تم نے کاروبار کیا۔ تمھارا کاروبار ترقی کرتا گیا، یہاں تک کہ آج تمھارے پاس مادّی اعتبار سے بہت سی چیزیں ہیں۔ کیا تم یہ کہہ سکتے ہو کہ دنیا میں میری سب خواہشیں پوری ہوگئیں۔ بسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے آدمی نے کہا کہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اب میںایک محرومِ تمنا آدمی کی حیثیت سے مررہا ہوں:
Now I am dying as a case of unfulfilled desires.
یہ کہانی صرف ایک انسان کی کہانی نہیں، بلکہ وہ ہر انسان کی کہانی ہے۔ ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی پوری عمر اِس کوشش میں گزار دیتا ہے کہ اس کے دل میں جو خواہشیں چھپی ہوئی ہیں وہ پوری ہوں۔ مگر ہر انسان اس احساس کے ساتھ مر جاتا ہے کہ اس کی خواہشیں پوری نہیں ہوئیں۔ اِس معاملے میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
دوسری طرف حیوانات کو دیکھیے۔ حیوانات بھی انسانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ بھی کچھ دن جیتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں، لیکن کوئی بھی حیوان اِس دنیا میں احساسِ محرومی کے ساتھ نہیںمرتا۔ وہ پیدا ہوکر کچھ دن جیتا ہے اور پھر اِس طرح مرجاتا ہے کہ اس کو اپنی زندگی کے بارے میں کسی بھی قسم کا غم یا افسوس نہیںہوتا۔
انسان اور حیوان میںیہ فرق کیوں ہے۔ اس کا سبب دونوں کے ذہنوں کے فرق میں پایا جاتا ہے۔ حیوان کا ذہن، انسان کے ذہن سے مکمل طورپر مختلف ہوتا ہے۔ حیوان خواہ کوئی بھی ہو، اس کا ذہن حال رُخی ذہن(present-oriented mind) ہوتا ہے۔ اِس بنا پر حیوان کو جو کچھ مل جائے اُسی کو وہ کافی سمجھتا ہے۔ ہر حیوان صرف آج میںجیتا ہے۔ حیوان کے ذہن میںکَل یا مستقبل کا کوئی تصور نہیں۔ اس لیے حیوان کو ملے ہوئے سے زیادہ کی کوئی فکر بھی نہیں۔
اِس کے مقابلے میں انسان کا ذہن مستقبل رُخی ذہن (future-oriented mind) ہے۔ وہ آج پر قانع نہیںہوتا، بلکہ وہ کَل کے بارے میں بھی فکر مند رہتا ہے۔ اور وہ حال کے ساتھ مستقبل تک کامیاب رہنا چاہتا ہے۔ چوں کہ موجودہ دنیا میں انسان کو یہ طویل کامیابی حاصل نہیں ہوتی، اس لیے ہر انسان کا مقدّر بن گیا ہے کہ وہ احساسِ محرومی کے ساتھ دنیا سے چلا جائے۔
تاہم یہ مسئلہ حقیقی نہیں، وہ صرف بے خبری کا نتیجہ ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کا عرصۂ حیات(life span) ابد تک پھیلا ہوا ہے۔ جب آدمی مرتا ہے تو وہ ختم نہیںہوتا، بلکہ وہ اگلے مرحلۂ حیات میںداخل ہوجاتا ہے۔خالق کے کریشن پلان (creation plan) کے مطابق، موت سے قبل کی زندگی ٹسٹ دینے کی زندگی ہے، اور موت کے بعد کی زندگی ٹسٹ کے مطابق، اپنا انجام پانے کی زندگی۔ انسان کا ذہنی تناؤ، یا اس کا احساس محرومی صرف اس لیے ہے کہ وہ خالق کے تخلیقی نقشے کو سمجھ کر اپنی رائے نہیں بناتا۔ وہ ایسا کرتا ہے کہ جو کچھ خالق نے اس کے لیے بعد ازموت مرحلۂ حیات میں مقدّر کیاہے، اس کو وہ قبل از موت مرحلۂ حیات میں پالینا چاہتا ہے۔
اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی حقیقتِ واقعہ کو سمجھے۔ وہ ایسا نہ کرے کہ جو کچھ اس کو کَل ملنے والا ہے، وہ اس کو آج ہی پالینا چاہے۔ جو آدمی درخت لگانے کے دن پھل کا طالب بن جائے اس کے حصے میں صرف مایوسی آئے گی۔ اس کے برعکس، جو آدمی درخت کی تکمیل پر اس کا پھل لینے پر راضی ہوجائے، اس کے لیے نہ کوئی تناؤ ہے اور نہ کوئی افسوس۔
ذہنی تناؤ دراصل چاہنے اور پانے کے درمیان فرق کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اِس فرق کو مٹا دیجئے اور پھر ذہنی تناؤ کا مسئلہ بھی ختم ہوجائے گا۔
ے ےےےے
فارسی کا ایک مثل ہے یک من علم را، دہ من عقل می باید۔ یعنی ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے ۔یہ بات اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ آدمی بولنے سے زیادہ سوچے، وہ بولنے سے زیادہ تجزیہ (analysis)کرے، اس کے اندرپازیٹیو تھنکنگ پائی جاتی ہو، وہ نفرت اور تعصب سےخالی ہو، اس کے اندر وہ صفت ہو تی ہے،جس کو حدیث میں دعا کی شکل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےاللَّہُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَارْزُقْنَا اتّباعہ، وأرنا الباطل باطلا، وارزقنا اجتنابہ ، وَلَا تَجْعَلْہُ مُلْتَبِسًا عَلَیْنَا فَنَضِلَّ(تفسیر ابن کثیر، 1/427)۔ یعنی اے اللہ ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھا، اور اس کے اتباع کی توفیق دے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دکھا، اور اس سے بچنے کی توفیق دے، اور اس کو ہمارے اوپر مبہم نہ بنا کہ ہم گمراہ ہو جائیں۔ اسی طرح یہ دعا اللَّہُمَّ أَرِنَا الْأَشْیَاءَ کَمَا ہِیَ (تفسیر الرازی، 13/37) ۔ یعنی اے اللہ، مجھے چیزوں کو اسی طرح دکھا، جیسا کہ وہ ہیں۔
واپس اوپر جائیں

معلومات اور تجزیہ

ایک صاحب نے ایک جریدہ دکھایا۔ اس میں سید جمال الدین افغانی کے بارے میں ایک مفصل مضمون تھا۔ اس مضمون کا خاتمہ اس طرح ہوا تھا: سید جمال الدین افغانی نے زندگی کے آخری ایام استنبول میں سخت ذہنی اذیت میں گزارے۔ ان کی زندگی کا واحد مقصد عالم اسلام کا اتحاد تھا جو یہاں پورا ہوتا نظر نہ آتا تھا۔ خفیہ طور پر ان کی جاسوسی بھی کی جاتی۔ آخر اسی کرب میں 1897 کو بعمر اٹھاون برس سرطان کے عارضہ میں انھوں نے استنبول میں وفات پائی۔
سید جمال الدین افغانی کو اپنے زمانہ میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ افغانستان، مصر، ایران، ترکی وغیرہ میں ان کو بہت زیادہ مواقع ملے۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ ہر ملک سے نکال دیئے جاتے کیوں کہ وہ جہاں پہنچتے وہاں وہ حکومت کے خلاف اشتعال انگیز تقریر شروع کردیتے۔ سیدجمال الدین افغانی کی شخصیت کے بارے میں لوتھروپ سٹوڈراڈ نے درست طور پر لکھا ہے: ان کے خیال کے مطابق، مغرب مشرق کا دشمن ہے۔ یوروپ کے سینے میں آج بھی وہی صلیبی روح کام کررہی ہے جو راہب پطرس کے زمانہ میں مصروف کار تھی۔ اہلِ مغرب میں اب بھی وہی تعصب جاری وساری ہے۔ یہ ہر طریقہ سے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کی تحریکات کو نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں عالم اسلام پر واجب ہے کہ وہ اپنی بقا کے لیے متحد ہوجائے۔
سید جمال الدین افغانی اپنی غیر معمولی مقبولیت کے باوجود مکمل طور پر ناکام رہے۔ اس کا سبب تلاش کرتے ہوئے ایک بنیادی بات میری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ ان کے اندر غیر معمولی حافظہ تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی کتاب ایک بار پڑھنے کے بعد ان کے سینے میں محفوظ ہوجاتی تھی، مگر میرے علم کے مطابق وہ تدبر کی صفت سے خالی تھے۔ جن لوگوں کا حافظہ بہت اچھا ہو، وہ ہر مجلس میں معلومات کا انبار بکھیرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لوگ ان کی معلومات سے متاثر ہوکر ان کو بڑا عالم مان لیتے ہیں۔ مگر حقیقی عالم وہ ہے جس کے اندر تجزیہ اور تحلیل (analysis) کی صفت ہو، اور میرے علم اور تجربہ کے مطابق فطرت کا یہ اصول ہے کہ جس کے اندر غیر معمولی حافظہ ہوتا ہے اس کے اندر تجزیہ کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔
کسی شخص کو حافظہ کی قوت حاصل ہوتو اس کے دماغ میں معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ اکھٹا ہو جائے گا۔ اُس کی گفتگو اور اس کی تقریر و تحریر میں معلومات کی کثرت دکھائی دینے لگے گی۔ عام لوگ اس کو ایک قابل انسان سمجھنے لگیں گے۔ مگر اس کی معلوماتی بارش سے کوئی فصل نہیں اُگے گی۔ حتیٰ کہ اگر آپ سننے والوں سے پوچھیں کہ جس کی تقریر کی تم تعریف کررہے ہو اُس کی تقریر کا خلاصہ کیا تھا تو یہ لوگ اُس کا کوئی خلاصہ بتانے میں ناکام رہیں گے۔
تجزیہ کے بغیر معلومات کی حیثیت ایک جنگل کی ہے۔ تجزیہ کیا ہے۔ تجزیہ یہ ہے کہ مختلف معلومات کاگہرا مطالعہ کرکے اُس کا نتیجہ نکالا جائے۔ مثلاً ہندستان کی آزادی سے پہلے ایک سیاسی لیڈر کی تقریر بہت مقبول ہوئی۔ اُن کا حافظہ اتنا زبر دست تھا کہ وہ محض اپنی یادداشت سے انگریزی حکومت کے خلاف زبردست معلوماتی تقریر کرتے اور پھر یہ کہہ کر لوگوں کو مسحور کردیتے :
Slavery or freedom, choose between the two.
حالاں کہ اگر انہیں بصیرت کی نظر حاصل ہوتی اور وہ حقیقی واقعات کی روشنی میں فیصلہ کرپاتے تو اس کے بجائے شاید وہ یہ کہتے:
Non-corrupt British rule or corrupt Indian rule—choose between the two.
وہ تمام لیڈر جنہوں نے قوموں کو تباہی سے دوچار کیا، وہ وہی لوگ تھے جن کے پاس حافظہ تو تھا مگر اُن کے پاس تجزیہ کی طاقت موجود نہ تھی۔ اس بنا پر وہ حالات کو گہرائی کے ساتھ سمجھ نہ سکے۔ حافظہ بھیڑ اکھٹا کر سکتا ہے۔ مگر تجزیہ اور تحلیل کے بغیر کسی نتیجہ خیز جدوجہد کا ظہور ممکن نہیں۔
ے ے ے
اس دنیا میں ہر منفی واقعہ میں مثبت پہلو موجود رہتا ہے۔ اگر آپ اس مثبت پہلو کودریافت کرسکیںتو آپ کو کسی کے خلاف شکایت کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

سادگی کی اہمیت

سادگی کی اہمیت کسی انسان کے لیے اتنی زیادہ ہے کہ اس کا کوئی بدل نہیں۔ سادگی اعلیٰ کامیابی کا زینہ ہے۔ جو شخص سادگی کو اختیار نہ کرسکے وہ یقینی طورپر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔
سادگی محض ایک اخلاقی صفت نہیں۔ سادگی ایک مکمل طرزِ حیات ہے۔ سادگی آدمی کو اس سے بچاتی ہے کہ وہ اپنی طاقت کا کوئی حصہ بے فائدہ طورپر ضائع کرے۔ سادہ آدمی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنے مال اور اپنے وقت کو زیادہ مفید طورپر استعمال کرے۔ سادگی دوسرے لفظوں میں، وقت اور مال کو زیادہ بہتر طورپر مینج (manage) کرنے کا فن ہے۔
سادگی کا تعلق ہر چیز سے ہے۔ لباس، کھانا، فرنیچر، سواری، مکان، تقریبات، وغیرہ۔ زندگی کی ہر سرگرمی میںآدمی کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب رہتا ہے۔ یا تو وہ تعیش اور نام و نمود کے پہلو کو سامنے رکھے اور اپنا مال ان میں خرچ کرتا رہے۔ یا وہ صرف اپنی ناگزیر ضروریات کو دیکھے اور اپنے مال کو صرف حقیقی ضرورت کی مدوں میں خرچ کرے۔
غیر ضروری مدوں میں اپنا مال خرچ کرنے کا نقصان صرف یہ نہیں ہے کہ اس میںآپ کا مال غیر ضروری طورپر ضائع ہوتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ بڑا نقصان یہ ہے کہ جو لوگ ایسا کریں، وہ مادی نمائش کی چیزوں میں الجھے رہتے ہیں۔ ان کا فکر سطحی چیزوں سے اوپر نہیں اٹھ پاتا۔ اس کا نقصان اسے اس شدید صورت میں بھگتنا پڑتا ہے کہ اس کا ذہنی ارتقا(intellectual development)رک جاتا ہے۔ ایسا انسان بظاہر زرق برق چیزوں کے درمیان دکھائی دیتا ہے ۔ مگر اپنے ذہن کے اعتبار سے وہ حیوان کی سطح پر جینے لگتا ہے۔ وہ اعلیٰ ذہنی ترقی سے محروم رہ جاتا ہے۔
سادگی روحانیت کا لباس ہے۔ سادگی روحانی انسان کا کلچر ہے۔ سادگی ربانی انسان کی غذا ہے۔سادگی فطرت کا اصول ہے، سادگی سنجیدہ انسان کی روش ہے، سادگی ذمہ دارانہ زندگی کی علامت ہے، سادگی بامقصد انسان کا طرزِ حیات ہے۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا راز

گورنمنٹ سروس میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کو شکست ملازمت (break in service) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ دس سال سے ملازمت میں ہیں، اور ایک دن چھٹی لیے بغیر دفتر میں حاضر نہ ہوں تو آپ کی مدت ملازمت کا شمار ازسرِ نواگلے دن سے ہوگا۔ پچھلے دس سال کی مدت حذف قرار پائے گی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ آپ کی سینیریٹی کا تعین پچھلے دس سال کو چھوڑ کر کیا جائے گا۔ یہ سرکاری ملازمین کے لیے ایک سخت سزا ہے۔ وہ کسی ایسی غلطی کا تحمل نہیں کرسکتا، جو اس کے لیے شکست ملازمت کا سبب بن جائے۔اس لیے ہر ملازم آخری حد تک یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ شکستِ ملازمت کے اس قانون کی زد میں نہ آئے۔
اسی طرح ایک اور چیز ہے، جس کو شکستِ تاریخ(break in history) کہا جاسکتا ہے۔ ہر آدمی جب کوئی کام کرتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ ایک تاریخ بناتا ہے۔ اگر درمیان میں وہ اپنے پیشہ یا اپنے مقام کو بدل دے تو یہ اس کے لیے شکستِ تاریخ کے ہم معنٰی ہوگا۔ ایسی تبدیلی کے بعد وہ اپنی بنائی ہوئی تاریخ سے کٹ جائے گا۔ حالاں کہ عملی اعتبار سے زندگی کی کامیابی میں تاریخ کی بہت اہمیت ہے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ بہت زیادہ سوچ کر اپنی عملی زندگی کا آغاز کرے۔ وہ جب ایک کام شروع کردے تو اس کے بعد وہ اس کو ہر گز نہ چھوڑے۔ وہ اتار اور چڑھاؤ کو برداشت کرتے ہوئے اپنے کام میں لگا رہے۔ اسی استقلال کے نتیجے کا نام کامیابی ہے۔ جو لوگ بار بار اپنے کام کو بدلیں، وہ اپنی زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔
آدمی کی تاریخ اس کا قیمتی اثاثہ ہے۔ اسی تاریخ سے سماج کے اندر اس کی پہچان بنتی ہے۔ اسی تاریخ سے اُس کی قدر و قیمت متعین ہوتی ہے۔ اسی تاریخ سے لوگوں کے نزدیک اُس کا درجہ متعین ہوتا ہے۔ اسی تاریخ کے مطابق، لوگ اس سے معاملہ کرتے ہیں۔ یہ تاریخ لازمی طورپر تسلسل چاہتی ہے۔ جس تاریخ میں تسلسل نہ ہو وہ تاریخ ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اصل سبب جہالت

27 فروری 2002ء کو مغربی ہندستان کے گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ایک واقعہ ہوا۔ کچھ لوگوں نے مشتعل ہوکر ٹرین کے ایک ڈبّہ میں آگ لگادی جس میں تقریباً ساٹھ ہندومسافر جل کر مرگئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ آگ لگانے والے لوگ مسلمان تھے۔ اُس کے بعد مارچ2002ء میں گجرات کے مختلف شہروں میں فرقہ وارانہ فساد بھڑک اُٹھا۔ اس فساد میں تقریباً ایک ہزار مسلمان مار ڈالے گئے، اور اُن کے بہت سے گھروں اور دکانوں کو آگ لگادی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ گجرات میں اس فساد کو کرنے والے لوگ ہندو تھے۔
مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ دونوں واقعات کو کرنے والا ایک ہی مشترک گروہ تھا، اور وہ ہے جاہل اور بے پڑھے لکھے لوگوں کی بھیڑ۔ گودھرا ریلوے اسٹیشن پر جن لوگوں نے ٹرین کے ڈبہ میں آگ لگائی، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے، نہ کہ مسلمان۔ اسی طرح ریاست گجرات میں جن لوگوں نے جگہ جگہ خونی فساد کیا، وہ بھی اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے، نہ کہ ہندو۔ یہ لوگ اگر تعلیم یافتہ ہوتے تو ایسا واقعہ کبھی پیش نہ آتا۔
تعلیم یافتہ انسان اور غیر تعلیم یافتہ انسان میں کیا فرق ہے۔ وہ شعور اور بے شعوری کا فرق ہے۔ غیر تعلیم یافتہ انسان اپنے نا پختہ شعور کی بنا پر صرف اپنے جذبات کو جانتا ہے۔ اس کے برعکس تعلیم یافتہ انسان اپنے پختہ شعور کی بنا پر اپنے جذبات کے ساتھ اُس کے نتائج (consequences) کو بھی جانتا ہے۔
اسی فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ غیر تعلیم یافتہ انسان کے جذبات کو اگر ٹھیس لگتی ہے، تو وہ بھڑک کر متشددانہ کارروائی کرنا شروع کردیتاہے، خواہ اُس کا نتیجہ زیادہ بڑے نقصان کی صورت میں خود اُس کو بھگتنا پڑے۔ اس کے برعکس اگر تعلیم یافتہ انسان کے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے، تو وہ حکمت اور تحمل سے کام لیتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی شعوری بیدار ی کی بنا پر زندگی کی اس عالمگیر حقیقت کو جانتا ہے ——چھوٹے نقصان کو برداشت کرلو تاکہ تمہیں بڑے نقصان کو برداشت نہ کرنا پڑے۔
ایک بڑے شہر کے ریلوے پلیٹ فارم پر دو تعلیم یافتہ آدمی آگے پیچھے چل رہے تھے۔ پیچھے والے مسافر کے ہاتھ میں ایک بڑا بیگ تھا۔ اُس نے تیزی سے آگے بڑھنا چاہا۔ اس کوشش میں اُس کا بیگ اگلے آدمی سے ٹکراگیا۔ اگلا آدمی اچانک پلیٹ فارم پر گر پڑا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ صرف یہ تھا کہ پیچھے والے نے معذرت کے انداز میں کہا کہ ساری(sorry) ۔ اس کے بعد آگے والے نے نرمی کے ساتھ کہا کہ اوکے(okay) اور پھر دونوں خاموشی کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔
اس کے برعکس اگر یہ دونوں مسافر جاہل اور بے شعور ہوتے تو دونوں غصّہ ہوجاتے۔ ایک کہتا کہ تم اندھے ہو۔ دوسرا کہتا کہ تم پاگل ہو۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے لڑ جاتے، خواہ اس لڑائی کا نتیجہ یہ ہو کہ دونوں کی ٹرین چھوٹ جائے، اور وہ اپنی منزل پر پہنچنے کے بجائے اسپتال میں داخل کر دیے جائیں۔
اصلاح کا حقیقی طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے۔ اس قسم کے تمام جھگڑوں کی جڑ جہالت ہے۔ اس لیے اس وقت کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں فرقوں میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ پورے ملک کو مکمل طورپر تعلیم یافتہ بنا دیا جائے۔ یہی مسئلہ کی اصل جڑ ہے اور اس جڑ کو ختم کرکے فساد کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
ایک حالیہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ہندستان کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ریاست کیرلا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کیرلا میں جھگڑے اور فساد جیسے واقعات پیش نہیں آتے۔ اسی ملکی تجربہ میں مسئلہ کا حل چھپا ہواہےــــــلوگوں کو تعلیم یافتہ بنائیے ، اور اس کے بعد فرقہ وارانہ جھگڑے اپنے آپ ختم ہو جائیں گے۔
جارج برناڈ شا نے کہا تھا کہ جس آدمی کے پاس بھُلا دینے کے لیے کچھ نہیں وہی سب سے زیادہ غیر تعلیم یافتہ انسان ہے۔ مستقبل کی تعمیر صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ پچھلی باتوں کو بھُلا دیا جائے، اور بھلانے کی یہ حکمت صرف وہی لوگ جانتے ہیں جن کو ان کی تعلیم نے باشعور بنادیا ہو۔
واپس اوپر جائیں

تجربہ سے سبق سیکھیے

تجربہ (experience) ہمیشہ سبق کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ ہیں، جو اپنے تجربے کو سبق بنا سکیں۔ تجربہ ہر انسان کی زندگی کا ایک سبق آموز واقعہ ہوتا ہے۔ تجربہ انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے۔ لیکن عام طور پر لوگ تجربہ سے مثبت فائدہ حاصل نہیں کر پاتے۔ اس لیے کہ وہ تجربہ کو شکایت کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔
یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب بھی کسی کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ صرف دوسرے کی غلطی کی بنا پر نہیں ہوتا۔ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایسے کسی واقعے میں دونوں فریق کا حصہ ہوتا ہے، کسی کا کم کسی کا زیادہ۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ جب کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اس کو یک طرفہ طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی غلطی کو حذف کرکے سارے معاملے کو دوسرے کی غلطی کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہی تقریباًننانوے فیصد مثالوں (cases) میں پیش آتا ہے۔
مگر اس طرح یک طرفہ رائے قائم کرنا،قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اصحابِ رسول جیسے سارے لوگ ہوں، تب بھی ناخوش گوار واقعات میں کچھ نہ کچھ اپنا حصہ شامل رہتا ہے۔ اس کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غزوۂ احد کا واقعہ ہے۔ اس غزوہ میں اصحابِ رسول کو ابتداءاً کامیابی ہوئی، لیکن بعد کو خود اپنی ایک غلطی سے سخت نقصان اٹھانا پڑا (آل عمران،3:152-153) ۔
تجربے کو سبق (lesson) بنائیے، تجربے کو شکایت(complaint) نہ بنائیے۔ تجربے کو سبق بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنی زندگی کے ایک منفی واقعہ کو مثبت واقعہ میں تبدیل کردیا، آدمی نے اپنے نقصان کو دوبارہ اپنے لیے فائدہ بنالیا۔ اس کے برعکس، جو لوگ تجربے کو شکایت اور نفرت کا ذریعہ بنا لیں، انھوں نے گویا نقصان کے بعد ملنے والے فائدہ سے بھی اپنے کو محروم کرلیا۔ انھوں نے پہلے موقع کو بھی کھویا، اور دوسرےموقع کو بھی کھو دیا۔
واپس اوپر جائیں

مثبت سوچ کی ضرورت

مثبت سوچ (positive thinking) کا مطلب کیا ہے۔ اس سے مراد وہ سوچ ہے جو ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہو۔ جس میں شکایت اور احتجاج کے بجائے، مکمل طور پر حقیقتِ واقعہ کی بنا پر رائے قائم کی جائے۔ مثبت سوچ وہ ہے جو ہر قسم کے فخر اور تعصب سے خالی ہو۔ مثبت سوچ دوسرے الفاظ میں مبنی بر حقیقت سوچ کا نام ہے۔
مثبت سوچ کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ منفی سوچ سے منفی شخصیت بنتی ہے، اور مثبت سوچ سے مثبت شخصیت۔ مثبت سوچ فطرت کی آواز ہوتی ہے، اور منفی سوچ ابلیس کی آواز۔ مثبت سوچ انسان کو پاکیزہ شخصیت بناتی ہے، اور منفی سوچ اس کی شخصیت کو آلودہ شخصیت بنادیتی ہے۔ مثبت سوچ والے آدمی کو جنت میں بسانے کے لیے منتخب کیا جائے گا، اور منفی سوچ والا آدمی ہمیشہ کے لیے جنت میں داخلے سے محروم رہے گا۔
منفی سوچ سے بچنا ، اور مثبت سوچ کا طریقہ اختیارکرنا، اتفاق سے نہیں ہوتا۔ یہ خصوصیت آدمی کے اندر اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ وہ اس معاملہ میں بہت زیادہ باشعور ہو، جب وہ شعوری طور پر اپنے آپ کو ایسا بنانے کی کوشش کرے۔ اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی برابر اپنا محاسبہ کرتا رہے۔
مثبت سوچ کا معاملہ، مثبت سوچ برائے مثبت سوچ نہیں ہے۔ یعنی مثبت سوچ بذاتِ خود اصل مقصود نہیں ہے، بلکہ مثبت سوچ کا فائدہ یہ ہے کہ مثبت سوچ والا آدمی ہر قسم کے ڈسٹریکشن سے بچ جاتا ہے۔ اس کا ذہن اس مقصد کے لیے خالی ہوجاتا ہے کہ وہ صرف ضروری باتوں میں اپنے ذہن کو مشغول کرے، وہ غیر ضروری باتوں میں اپنے وقت کو ضائع نہ کرے۔ مثبت سوچ آدمی کو بامقصد انسان بناتی ہے۔ مثبت سوچ آدمی کو ایسی مصروفیت سے بچاتی ہے جس کا کوئی فائدہ ، نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں۔
واپس اوپر جائیں

ڈی کنڈیشننگ

پیاز کے اوپر ایک کے بعد ایک پرت ہوتی ہے۔ اگر ان پرتوں کو ہٹائیں تو ہٹاتے ہٹاتے اس کا آخری حصہ آجائے گا جو پیاز کا داخلی مغز ہے۔ یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ فطرت صحیح پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد ماحول کے اثر سے اس کے اوپر خارجی افکار چھانے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ آدمی کی داخلی فطری شخصیت بالکل ڈھک جاتی ہے۔ یہاں پہنچ کر آدمی متعصبانہ طرزِفکر کا کیس بن جاتا ہے۔ اس کے بعد آدمی اپنی ساری عمر انہی تعصبات کے تحت سوچتارہتا ہے اور آخرکار مر جاتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے  من شبّ علی شیٔ شاب علیہ (آدمی جس چیز پر جو ان ہوتا ہے اسی پر وہ بوڑھا ہوتا ہے)
یہ صورتِ حال ہر آدمی کومطابقِ واقعہ سوچ (as it is thinking) سے محروم کردیتی ہے۔ اس کا علاج صرف ایک ہے۔ ہر آدمی پختہ عمر کو پہنچنے کے بعد گہرائی کے ساتھ اپنا جائزہ لے۔وہ اپنی کنڈیشننگ کی دوبارہ ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنی شخصیت پر چڑھی ہوئی اوپری پرتوں کو ہٹائے، یہاں تک کہ اس کی اصل فکری شخصیت اس طرح کھل جائے کہ وہ تعصبا ت سے پاک ہو کر سوچنے لگے۔ یہ اپنی مصنوعی شخصیت کو دوبارہ حقیقی شخصیت بنانے کا عمل ہے، جو ہر شخص کی ایک لازمی ضرورت ہے۔
اپنی کنڈیشننگ کی ڈی کنڈیشننگ کرنے کا یہ عمل بے حد مشکل کام ہے۔ اس میں آدمی کو خود اپنے خلاف ایک ذہنی محنت (intellectual labour) کرنا پڑتا ہے۔ اس میں آدمی کو اپنی مانوس اور محبوب سوچ کو ذبح کرنا پڑتا ہے۔ اس میں آدمی کو خود اپنے آپ پر بلڈوزر چلانا پڑـتا ہے۔ تاہم یہی واحد عمل ہے، جو آدمی کو متعصبانہ یا غیر حقیقت پسندانہ طرز فکر سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ عمل گویا اپنافکری آپریشن کرنے کا عمل ہے۔ یہ بلا شبہ ایک مشکل ترین کام ہے۔ مگر اس کام کے بغیرکوئی بھی شخص بے آمیز سوچ کا مالک نہیں بن سکتا۔ اس معاملہ میںکوئی بھی دوسری چیز فکری تطہیرکا بدل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

آزادی کا دور

ایک مرتبہ مغرب کے ایک سفر کے دوران میری ملاقات ایک مغربی اسکالر سے ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ دنیا میں تہذیب کا دور جو آیا ہے، وہ کیسے آیا ۔ اس نے کہا کہ فرانس میں جمہوریت کا دور آنے کے بعد اس انقلاب کے بعد پہلی بار یہ ہوا کہ اختلافِ رائے (dissent) کو ایک ناقابل تنسیخ حق کا درجہ مل گیا۔ جب ایسا ہوا تو دنیا میں آزادیٔ فکر کا دور آگیا۔ اس آزادیٔ فکر سے تمام ترقیاں وجود میں آئیں۔ اس آزادیٔ فکر سے لوگوں کو موقع ملا کہ وہ ہر شعبے میں آزادانہ طور پر تلاش و جستجو کریں، اس طرح علم کے بند دروازے کھل گئے، اور ہر قسم کی ترقیاں بلاروک ٹوک ہونے لگیں۔
ترقی ایک فکری عمل ہے۔ فکری عمل کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو آزادانہ طور پر اپنا عمل کرنے کا موقع ملے۔ آزادیٔ فکر کے بغیر علم کے تمام دروازے بند رہتے ہیں، جب کہ آزادیٔ فکر کے ماحول میں علم کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں لمبی مدت تک علم کو ترقی نہیں ہوئی۔ اس کا سبب یہی تھا کہ اہلِ علم کے لیے آزادانہ جستجو کے مواقع حاصل نہ تھے۔ جدید دور میں جب آزادانہ فکر کے مواقع کھلے تو ہر شخص مسابقت کی دوڑ میں مشغول ہوگیا۔ اس طرح تدریجی پراسس کے تحت علم کی دنیا میں ترقیاں ممکن ہوگئیں۔
علمی ترقی دراصل انسان کے پوٹنشل (potential)کو بروئے کار لانے کا نام ہے، اور پوٹنشل کو بروئے کار لانے کا یہ معاملہ صرف آزادانہ ماحول میں ممکن ہوتا ہے۔ جہاں آزادی نہ ہو، وہاں علمی اور فکری ترقی بھی رک جائے گی۔اس معاملے میں کسی کے خلاف جارحیت ایک ایسی چیز ہے، جس پر پابندی لگائی جائے ۔ اس معاملے میں صحیح اصول یہ ہے کہ جب تک آپ پرامن انداز میں اپنا کام کررہے ہیں،تو آپ کو کامل آزادی حاصل رہے گی، آپ کی آزادی پر باپندی صرف اس وقت لگ سکتی ہے، جب کہ آپ کسی دوسرے شخص کے خلاف جارحیت کا انداز اختیار کریں۔ مثلا ًمارنا، پیٹنا، یا تشدد کرنا، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

ایک نصیحت

29جولائی 2018 کو ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ ان کو نصیحت کرتے ہوئے میں نے کہا: میری پہلی نصیحت آپ کو یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی اچھا عذر ہو تب بھی آپ اس کو استعمال نہ کیجیے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ فرض کیجیے کہ آپ سے ایک غلطی ہوگئی، اور آپ کا احساس یہ ہے کہ اس کی ایک معقول وجہ تھی۔ ایسے موقعے پر عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ لوگ فوراً عذر پیش کرنے لگتے ہیں کہ فلاں وجہ سے ایسا ہوا، اور فلاں وجہ سے ایسا ہوا— ہوئی تقصیر تو کچھ باعث تقصیر بھی تھا۔
یہ طریقہ مکمل طور پر تر ک کرنا ہے۔ آپ صرف یہ دیکھیے کہ کیا دوسرے لوگ اس کو غلطی بتا رہے ہیں۔ اگر آپ کے نزدیک وہ غلطی نہ ہو، تب بھی فوراً اس کو مان لیجیے۔ کوئی عذر پیش کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کیجیے۔ جب بھی کسی شخص کو آپ سے شکایت ہوجائے تو ہمیشہ اپنی غلطی کو آپ دریافت کیجیے۔ دوسرے کی غلطی بتانے کے بجائے، خود اپنی غلطی کو دریافت کرنے کا طریقہ اختیار کیجیے۔ایسے موقعے پر اگر کچھ اور آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو آپ دوسرے شخص کے لیے دعا کرنا شروع کردیجیے۔ یہ بھی نہ ہوسکے تو اپنے آپ سے یہ بتائیے کہ دوسرے شخص نے آپ کے ساتھ جو قابل شکایت بات کی ہے، وہ جان بوجھ کر نہیں کی ہے، بلکہ بے خبری کی بنا پر کی ہے۔
یہ سمجھ لیجیے کہ دوسرے کی غلطی بتانے سے کبھی شکایت کا ماحول ختم نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس، اگر اعتراف کا طریقہ اختیار کریں، تو اس کا فوری فائدہ آپ کو یہ حاصل ہوتا ہے کہ آپ اور دوسرے شخص کے درمیان چین ری ایکشن (chain reaction) کی صورت حال بننے نہیں پاتی۔ بلکہ بات وہیں کی وہیں ختم ہوجاتی ہے۔یاد رکھیے، زندگی جینے کے لیے ہے، اور اعتراف کا طریقہ آپ کو یہ موقع دیتا ہے کہ آپ کسی رکاوٹ کے بغیر زندگی کے مواقع کو آخری حد تک اَویل (avail)کرسکیں۔ زندگی ایک چانس ہے۔ کوئی اس کو افورڈ نہیں کرسکتا کہ وہ اس چانس کو کھودے۔ یہ چانس آپ کے دروازے کو صرف ایک بار کھٹکھٹاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عذر کیا ہے

عذر (excuse) کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی جب کوئی ضروری کام انجام نہ دے سکے، تو اپنی اس غلطی کا جواز (justification) بیان کرنے کے لیے اس کا کوئی ایسا سبب بیان کرے، جو صرف ایک کہنے کی بات ہو، اس کا کوئی حقیقی سبب نہ ہو۔ گویا عذر اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہمیشہ ایک بے بنیاد سبب (false excuse) ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی کبھی عذر سے خالی نہیں ہوسکتی۔ عذر زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اس لیے عذر کبھی سچا عذر نہیں ہوتا۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ عذر کو عذر نہ بنائے، بلکہ منصوبہ بندی کے ذریعے عذر کو عملاً غیر موثر بنادے۔
مثلاً آپ کواپنے وعدے کے مطابق کہیں جانا تھا، اور پھر روانگی سے کچھ پہلے بارش شروع ہوجائے۔ اب ایک انسان وہ ہے جو بارش کو عذر بنا کر گھر میں بیٹھ جائے۔ ایسا آدمی ایک کمزور آدمی ہے۔ سچا انسان وہ ہے جو ایسے موقع پر مینج (manage) کرنے کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ یاتو چھتری کا استعمال کرکے ٹھیک ٹائم پر اپنے وعدہ کے مقام پر پہنچے، اور اگر بالفرض وہ ایسا نہیں کرسکتا تو بارش ہونے کی صورت میں وہ فوراً صاحب ملاقات کو فون کرے، اور اس کو موجودہ صورتِ حال سے واقف کرائے۔
اس دنیا میں کوئی عذر حتمی عذر نہیں ہے۔ ہر عذر مینیجیبل عذر(manageable excuse) ہوتا ہے۔عذر انسان کے لیے عمل میں رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ ذہن کو زیادہ متحرک کرنے کا ایک موقع ہے۔ با اصول آدمی وہ ہے، جو عذر پیش آنے کی صورت میں اپنے ذہن کو استعمال کرکے مزید غور کرے۔ وہ عذر کو مینج (manage) کرکے اس کو حل کرنے کی تدبیر دریافت کرے۔ وہ عذر کو تدبیر ِکار کا مسئلہ سمجھے، نہ یہ کہ اس کو ناقابلِ حل مسئلہ سمجھ کر بے عملی کا طریقہ اختیار کرے۔ عذر نئی تدبیر کا طالب ہے، نہ کہ کام نہ کرنے کا بہانہ۔
واپس اوپر جائیں

تعلیم یافتہ کون

تعلیم یافتہ سے ہماری مراد ڈگری یافتہ نہیں ہے، بلکہ شعور کا مالک ہونا ہے۔ اصل یہ ہے کہ جس سماج میںلوگ پڑھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں، وہاں ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، یعنی مصلحین اور عام لوگوں کے درمیان فکری بُعد(intellectual gap) ۔ ہمیشہ اور ہردور میں مصلحین ہوتے ہیں، لیکن اگر سماج میں تعلیم عام نہ ہو تو لوگ ان مصلحین کی باتوں سے فائدہ نہیں اٹھاپاتے۔ اس بنا پر سماج میںتربیتِ شعور کا عمل رُک جاتا ہے۔ یہی خاص حکمت ہے جس کی بنا پر تمام اعلیٰ دماغ لوگ عمومی تعلیم کو بے حد اہمیت دیتے ہیں۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم کا مقصد جاب(job) حاصل کرنا ہے۔ میرے نزدیک جاب کا مسئلہ ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرہ کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہاں مصلحین ;کو ایسے لوگ مل جاتے ہیں، جو کسی بات کو اس کی گہرائی کے ساتھ سمجھ سکیں۔ اس کے برعکس بے پڑھے لکھے سماج میںایسے افراد موجود نہیںہوتے۔ غیر تعلیم یافتہ سماج میں لوگ ایک چیز اور دوسری چیز کا فرق نہیں سمجھتے۔ وہ معاملات کا گہرا تجزیہ نہیں کرسکتے۔ مثلاً اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہندستانی مسلمانوں میں قیادت کافقدان ہے۔ حالاں کہ یہ ایک غیر واقعی بات ہے۔ ہندستانی مسلمانوں میںاصل مسئلہ فقدانِ قیادت نہیں ہے، بلکہ فقدانِ قبولیتِ قیادت ہے۔ ہمارے یہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اُن افراد کے گرد لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہوجاتی ہے، جو ہائی پروفائل میں بولتے ہوں، حالاں کہ دانش مند ہمیشہ لو پروفائل میں کلام کرتا ہے۔
اسی طرح باہمی نزاعات میں لوگ اکثر آئیڈیل سلوشن کی بات کرنے لگتے ہیں، حالاں کہ اس طرح کے معاملات ہمیشہ پریکٹکل سلوشن کے ذریعہ طے ہوتے ہیں۔اسی طرح آپ دیکھیں گے کہ اکثر لوگ جب قومی معاملات میں بولتے یا لکھتے ہیں تو وہ غیرمفاہمانہ انداز میں کلام کرتے ہیں۔ حالانکہ یہی لوگ خود اپنے ذاتی مسائل کو مفاہمت اور مصالحت کے ذریعہ حل کرتے ہیں۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ ذاتی معاملہ میں آدمی کی جبلّت (instinct) ہی رہنمائی کے لیے کافی ہے، جو ہر ایک کو حاصل ہوتی ہے، مگر ملّی اور قومی معاملات میں مفاہمت اور مصالحت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اعلیٰ شعور درکار ہے، جو ایک کم تعلیم یافتہ معاشرہ میںلوگوں کو حاصل نہیں ہوتا۔
ضروری اعلان
مولانا وحید الدین خان صاحب کی منتخب کتابوں کا سیٹ مسجد اور مدرسے اور لائبریری میں پہنچانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔
(1) بڑا سیٹ ، 21 کتابیں، خاص رعایتی قیمت 1000/- مع پوسٹل چارج
(2) چھوٹا سیٹ، 9 کتابیں، خاص رعایتی قیمت 500/- مع پوسٹل چارج
جو حضرات اپنے خرچ پر ان سیٹ کو کسی مسجد یا مدرسے یا لائبریری میں گفٹ کرنا چاہتے ہیں، وہ گڈورڈبکس ، نئی دہلی میں درج ذیل نمبر پر رابطہ قائم کریں
+91 85888 22672
ے ے ے ےےے
ماہنامہ الرسالہ کو مسجد ، مدرسے اور لائبریری میں پہنچانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔
خاص رعایتی سبسکرپشن قیمت برائے ایک سال 150/-
جو حضرات کسی مسجد یا مدرسے یا لائبریری میں اپنے خرچ پر جاری کرانا چاہتے ہیں، وہ اس نمبر پر رابطہ قائم کریں
+91 85888 22679
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی کا اصول

26 جنوری 2003 کو میں دہلی سے احمد آباد گیا۔ راستہ میں انڈین ائرلائنز کی فلائٹ میگزین Swagat کا شمارہ جنوری 2003 دیکھا۔ اس میں ایک مضمون کا عنوان یہ تھا —خواب پورا ہوگیا:
A Dream Comes True
اس میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر ودیا ساگر تعلیم کے میدان میں خدمت کا جذبہ رکھتے تھے۔ ان کا شوق یہ تھا کہ نئی نسل کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ اس قابل بنائیں کہ وہ کامیاب زندگی گزار سکیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے راجستھان کے شہر الور میں ایک اسکول قائم کیا۔ اس اسکول کا نام ساگر اسکول ہے۔ مضمون نگار (Aditi Bishnoi) نے اسکول کی visit کی۔ ان سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ودیا ساگر نے کہا —ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اچھے انسان بنائیں، جن میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ زندگی میںہر صورت حال کا سامنا آسانی اور خود اعتمادی کے ساتھ کر سکیں:
Our aim is to produce good human beings capable of tackling all situations in life with ease and confidence (p. 88)
میں سمجھتا ہوں کہ ایجوکیشن خواہ وہ فارمل ایجوکیشن ہو یا انفارمل ایجوکیشن، دونوں ہی کا سب سے اہم نشانہ یہی ہونا چاہیے۔ اسکول اورمیڈیا دونوں کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے اندر وہ شعور پیدا کریں، جس کے ذریعہ وہ زندگی کے مسائل کا سامنا کامیابی کے ساـتھ کرسکیں۔
اس سلسلہ میں کلیدی بات یہ ہے کہ یہ دنیا لین دین کے اصول پر قائم ہے۔ جیسادینا ویسا پانا۔ اس دنیا میں کامیابی کا سب سے یقینی فارمولا یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ آپ وہی سلوک کریں جو آپ خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو کبھی کسی سے شکایت نہیں ہوگی۔
بزنس میںکہا جاتا ہے کہ کسٹمر فرنڈلی(customer friendly) بنو، تمہارا کاروبار ترقی کرے گا۔ جو اصول تجارت میںکامیابی کے لیے مفید ہے وہی پوری زندگی کے لیے مفید ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ہر ایک کے لیے کامیاب زندگی کا عمومی فارمولا یہ ہے —تم ہمیشہ انسان دوست بن کررہو:
Be always insan friendly.
دوسروں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہر ایک آپ کے لیے مددگار (cooperative) بن جاتا ہے اور جب پورا سماج آپ کے لیے مددگار بن جائے تو فطری طورپر یہ ہوگا کہ آپ کا ہر کام آسانی کے ساتھ ہونے لگے گا۔ یہ احساس آپ کے اندر خود اعتمادی پیدا کرے گا کہ آپ جو کام بھی کریں اس میںدوسروں کی طرف سے آپ کے لیے کوئی غیر ضروری رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔
دوستانہ رویہ کا کوئی محدود مفہوم نہیں ۔ کسی سے میٹھی بات بولنا بھی دوستانہ رویہ ہے، راستہ سے رکاوٹ ہٹادینا بھی دوستانہ رویہ ہے، کسی کو ایک اچھا مشورہ دینا بھی دوستانہ رویہ ہے، کسی کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا بھی دوستانہ رویہ ہے، کسی کے خلاف اپنے دل میں برا خیال نہ رکھنا بھی دوستانہ رویہ ہے، کسی سے شکایت کے باوجود دل میں تلخی نہ رکھنا بھی دوستانہ رویہ ہے، خیر خواہی کے جذبہ کے تحت کسی کے لیے دعا کرنا بھی دوستانہ رویہ ہے، ضرورت کے وقت کسی کے کام آنا بھی دوستانہ رویہ ہے، وغیرہ۔کسی کو دکھ نہ پہنچائیے، آپ کو بھی کسی سے دکھ کا تجربہ نہیں ہوگا۔ ہر ایک کے لیے نفع بخش بن جائیے، آپ کو بھی ہر ایک سے نفع ملنا شروع ہوجائے گا۔
تعلیم کا مقصد ملازمت نہیں، تعلیم کا مقصد لوگوں کو با شعور بنانا ہے۔ یعنی ایسا انسان جو معاملات کو زیادہ گہرائی کے ساتھ جانے، جو حالات کا تجزیہ کرکے صحیح نتیجہ تک پہنچ سکتا ہو۔ باشعور انسان کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ جذباتی اقدام نہ کرے۔ وہ صحیح وغلط اور ممکن و ناممکن کے درمیان فرق کرسکے۔ ایسا انسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ استحصالی لیڈروں کے بہکاوے میں نہ آئے۔ وہ خود اپنی عقل کے تحت درست فیصلہ کرے۔ ایسا ہی انسان وہ انسان ہے جس کو حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ انسان کہا جاسکے۔ اسکول اور میڈیا دونوں کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے انسان پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب فارمولا

بنگلور کے ڈاکٹر احمد سلطان انوکھی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ٹیپو سلطان کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر ان کامزاج بر عکس طور پر یہ تھا کہ محبت سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ 13 دسمبر 1999 کو تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔
وہ جب بھی دہلی آتے تو مجھ سے ملتے اور اپنے ’ ’ کامیاب فارمولہ‘‘ کی سبق آموز مثالیں بیان کرتے۔ مثلاً ایک بار ان کے صاحبزادے رات کے وقت گاڑی لے کر باہر نکلے۔ وہ گیارہ بجے واپس آئے تو وہ گاڑی باہر کھڑی کر کے گھر میں داخل ہوئے، اور تیزی سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ تھوڑی دیرکے بعد دروازے پر دستک کی آواز آئی۔ڈاکٹر احمد سلطان صاحب نے دروازہ کھولا تو دو ہندو نوجوان باہر کھڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے غصہ کے لہجے میں بتایا کہ آپ کے صاحبزادہ نے ہمارے اسکوٹر کو ٹکر ماری، اور پھر بھاگ آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کوئی جواب دینے کے بجائے نرمی سے کہا کہ اندر تشریف لائیے ، بیٹھ کر بات ہوگی۔ دونوں اندر آگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کو ایک میز کے کنارے کرسی پر بٹھایا اور کہا کہ اس وقت سردی کا موسم ہے۔ آئیے ہم لوگ پہلے چائے پئیں پھر بات کریں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کا غصہ ختم ہو چکا تھا، دونوں خوش خوش واپس چلے گئے۔
ایک بار ایک ہندو نوجوان ان کے پاس آیا۔ اس نے رو کر کہا کہ میں ایک بڑے مسئلہ سے دوچار ہوں۔ آپ میرا مسئلہ حل کیجیے۔ اس نے بتایا کہ مجھ سے ایک غلطی ہوگئی۔ اس کے بعد میرے باپ نے مجھ کو گھر سے نکال دیا۔ چھ مہینے ہو چکے ہیں اور ابھی تک وہ راضی نہیں ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ تم انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرو۔ تم خاموشی سے جاؤ، اور اپنے باپ کے قدموں پر سر رکھ کر کہو کہ اے باپ، میری غلطی کے لیے مجھے معاف کر دیجیے۔ نوجوان نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ اپنے گھر گیا تو اس کے باپ نے اس کوڈانٹا۔ بیٹا کوئی جواب نہ دیتے ہوئے باپ کے قدموں پر گر پڑا۔ اس کے بعد باپ کا جذبہ ٔ پدری ابھر آیا۔ اس نے بیٹے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ چند منٹوں کے اندر ساری بات ختم ہوگئی۔
ایک بار ڈاکٹر صاحب ایک شہر میں گئے۔ وہاں کے مسلمانوں نے بتایا کہ جلد ہی یہاں کٹر ہندوؤں کا ایک جلوس نکلنے والا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ زبردست تیاری کر رہے ہیں۔ وہ اپنا جلوس مسلم محلہ سے لے جائیں گے، اور کوئی نہ کوئی بہانہ نکال کر فساد کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ لوگ میرا ایک مشورہ مان لیجیے، اور پھر یہاں کوئی فساد نہیں ہوگا۔ آپ لوگ ایسا کیجیے کہ جس دن جلوس نکلنے والا ہو، بازار سے دو درجن پھولوں کے ہار لے آئیے۔ جب ان کا جلوس آپ کی مسجد کے سامنے پہنچے تو آپ لوگ پھولوں کا ہار لے کر باہر آئیں، اور جو ہندو جلوس کے آگے آگے چل رہے ہیں، ان سے کہیں کہ ہم آپ کا سواگت کرتے ہیں، اور پھر ان کے گلے میں ایک ایک ہار ڈال دیں۔ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ جس دن وہاں ہندو مسلم ٹکراؤ ہونے والا تھا، وہ ان کے لیے ہندو مسلم ملاپ کا دن بن گیا۔
ایک بار بنگلور میں وہ اپنے گھر کے قریب سڑک پر چل رہے تھے۔ پیچھے سے شہر کے ایک ہندو کی گاڑی آئی، جو مسلمانوں کا مخالف سمجھا جاتا تھا۔اس کی گاڑی ڈاکٹر صاحب سے ٹکرا گئی اور ڈاکٹر صاحب سڑک پر گر پڑے۔ ان کو کئی جگہ زخم آئے۔ مذکورہ ہندو اپنی گاڑی روک کر ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا اور کہا کہ آپ میری گاڑی پر بیٹھ جائیں، میں آپ کولے کر اسپتال چلتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ تم فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ یہ مسلم علاقہ ہے۔ مسلمانوں نے اگر تم کو دیکھ لیا تو وہ تم کو مارے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے سخت اصرار کر کے اس کووہاں سے بھیج دیا۔ اس کے بعد مذکورہ ہندو ہمیشہ کے لیے ڈاکٹر صاحب کا دوست بن گیا۔
ڈاکٹر سلطان کے دل میں کسی کے لیے نفرت نہ تھی۔ وہ ہر ایک کو پیار ومحبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذکورہ کامیاب فارمولہ اپنانے میں کامیاب ہوگئے۔اس دنیا میں محبت سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ مگر نادان لوگ نفرت کو سب سے بڑا ہتھیا ر سمجھ لیتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مس ایڈونچرزم

انسان فطری طور پر باہمت (adventurist) پیدا ہوا ہے۔ اگر آدمی ہمت والا نہ ہو تو وہ کوئی اقدام نہیں کرے گا، اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ کوئی کام اپنی زندگی میں نہیں کرپائے گا۔ فطرت (nature) آدمی کو ابھارتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کسی کام میں لگائے۔ وہ کچھ کرنے والا بنے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو مفید کام میں لگائے۔
اس جذبہ کی بنا پر آدمی فطری طور پر ایڈونچرسٹ (adventurist) بن جاتا ہے۔ وہ اقدام کا طریقہ اختیارکرتا ہے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ایڈونچرزم بہت آسانی سے مس ایڈوینچرزم بن جاتا ہے، اور پھرآدمی کے حصہ میں فائدہ کے بجائے نقصان آتا ہے۔ ایڈونچر اور مس ایڈونچر کے درمیان ایک باریک لائن (thin line) ہے، جو ایک دوسرے کو جدا کرتی ہے۔وہ یہ کہ ایڈونچرزم ہمیشہ ویل کیلکولیٹیڈ (well-calculated) ہونا چاہیے، نہ کہ محض جوش کے تحت کیا ہوا اقدام عمل ۔ جوش کے تحت کیا ہوا اقدام ہمیشہ ناکام ہوتا ہے، اور ویل کیلکولیٹیڈ (well-calculated) اقدام ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔
ضروری ہے کہ آدمی کے اندر جوش کے ساتھ عقل بھی ہو۔ وہ اقدام کے جذبے کے تحت یہ بھی جانے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے، اور کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں۔ کیا چیز اس کے بس کی ہے، اور کیا چیز عملاً اس کے بس سے باہر ہے۔ کسی بھی کام میں پیشگی طور پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا چیز آدمی کے لیے ممکن العمل (possible) ہے، اور کیا چیز نہیں۔
کسی آدمی کے لیے بہترین عقل مندی یہ ہے کہ وہ ایسا کام کرے، جو اس کے بس کا کام ہو۔ جو کام اس کے بس کا نہ ہو، اس کو کرنے سےبہتر ہے کہ آدمی سرے سے کام ہی نہ کرے۔ کام نہ کرنے سے جو چیز پیش آتی ہے، وہ صرف کمی ہے۔ لیکن جوش کے تحت کود پڑنا، اس سے زیادہ غلط ہے، اور وہ ہے —ناقابل تلافی نقصان ۔
واپس اوپر جائیں

بڑا آدمی کون

ایک صاحب نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں۔ اس کے اندر میں فائٹنگ اسپرٹ (fighting spirit) نہیں پاتا، اور دنیا میں ترقی کے لیے فائٹنگ اسپرٹ ضروری ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے آپ کی اس رائے سے اتفاق نہیں۔ اس دنیا میں ترقی کے لیے زیادہ بڑی صفت خود اعتمادی (self confidence) ہے۔خود اعتمادی کا مطلب ہےاپنے بل پر کام کرنا، دوسرے پر بھروسہ کرکے چھلانگ نہ لگانا۔ فائٹنگ اسپرٹ والا آدمی اکثر یہ غلطی کرتا ہے کہ وہ ایسی چیز سے ٹکرا جاتا ہے، جو اس کی طاقت سے زیادہ ہو۔
اس کی ایک مثال امریکا کے محمد علی کلے (1942-2016)کا کیس ہے۔ وہ اپنی حد پر قائم نہیں رہا، وہ مس ایڈوینچرزم کا شکار ہوا۔ یہاں تک کہ پارکنسن کا مریض بن گیا، اور اپنے آپ کو کنگ آف دی ورلڈ کہنے والا انسان بےبسی کی حالت میں مرگیا۔ اس کے برعکس، دوسری مثال جے آر ڈی ٹاٹا (1904-1993)کی ہے۔وہ ویزن(vision) والا انسان تھا۔ وہ مسلمہ طور پر خود اعتمادی کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس نے نہایت درست پلاننگ کی، اور صنعت کے میدان میں بڑی ترقی حاصل کی، وہ دنیا سے گیا تو اس نے اپنے پیچھے ایک صنعتی ایمپائر چھوڑا۔
عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر ایک ممیز صلاحیت ہوتی ہے، تو اسی کے ساتھ کچھ مشترک صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک ایڈونچرسٹ آدمی آسانی سے مس ایڈونچرزم کا شکار ہوجاتا ہے۔ مگر جس آدمی کے اندر خود اعتمادی کی صلاحیت ہو، وہ عام طور پر حقیقت پسند بھی ہوتا ہے۔ اس بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کا منصوبہ حقیقت پسندانہ منصوبہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر اس کے بارے میں زیادہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ غیر حقیقت پسندانہ منصوبہ سے اپنے آپ کو بچائے گا۔ کامیابی کے لیے صرف ایک صلاحیت کافی نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر مجموعی اعتبار سے کچھ مثبت صلاحیتیں موجود ہوں۔
واپس اوپر جائیں

ایک نصیحت

ہر انسان کو پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کودریافت(discover) کرے۔ یہ کسی آدمی کے لیے اس کی زندگی کی ابتدا ہے۔ اگر آپ سیلف ڈسکوری کے بغیر اپنی زندگی میں کوئی چوائس لے لیں۔ تو ایسےچوائس کے لیے مقدر ہے کہ وہ آپ کو غیر مطلوب انجام کی طرف لے جائے ۔ اس منفی ریزلٹ کے بعد آپ چاہیں گے کہ آپ سیکنڈ چوائس لیں ۔ لیکن سیکنڈ چوائس آپ کو دوسری ناکامی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ اس سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ وہ ہے کہ آپ ریلسٹک اپروچ کو اختیار کریں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آئڈیلزم ہمیشہ ناکامی کی طرف لے جاتا ہے ، جب کہ پریگمیٹک اپروچ کامیابی کی طرف۔ لیکن یہ آئیڈیل ٹرم میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ پریگمیٹزم کے سنس میں ہوتا ہے۔
جب آپ کوئی کام شروع کریں اور اس میں آپ کامیاب نہ ہوں، تو کبھی یہ غلطی نہ کیجیے کہ اپنی ناکامی کا الزام آپ دوسروں کو دینے لگیں۔ ناکامی جب بھی ہوتی ہے، آپ کی اپنی کسی کوتاہی کی بنا پر ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنی کوتا ہی کو دریافت کرلیں تو آپ کے لیے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ اپنی زندگی کی دوسری پلاننگ (replanning) زیادہ صحیح بنیادوں پر کریں، اور اس طرح پہلی ہار کو دوسری مرتبہ جیت میں تبدیل کرلیں۔
اپنی غلطی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینا، ایک بے فائدہ کام ہے۔ اس کے برعکس، جب آپ اپنی ناکامی کا سبب خود اپنے اندر تلاش کریں تو یہ کوشش آپ کو اس قابل بناتی ہے کہ آپ دوسری بار اپنے کام کی زیادہ بہتر منصوبہ بندی کرکے اپنے آپ کو کامیاب بناسکیں۔ جو آدمی آپ کی ناکامی کا الزام کسی دوسرے شخص کو دے ، وہ آپ کا دشمن ہے۔ ایسا آدمی آپ کو اس قابل بننے سے روکتا ہے کہ آپ اپنی غلطی کی اصلاح کریں، آئندہ اپنی غلطیوں کو دہرانے سے بچیں۔ اپنی غلطی کا الزام دوسروں کو دینا صرف وقت کا ضیاع ہے۔ بزدل آدمی اپنی غلطی کا الزام دوسروں کو دیتا ہے، اور بہادر آدمی اپنی غلطی کو مان کر اپنے آپ کوزیادہ صحیح پلاننگ کے قابل بنا لیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سیکھنے کا عمل

عام طور پر لوگوں کا مزاج ہے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اپنی غلطی کی صفائی پیش کرتے رہتے ہیں۔وہ کوئی نہ کوئی پہلو نکال کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ غلطی میری نہیں تھی، بلکہ دوسروں کی تھی۔ وہ غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائےہمیشہ غلطی کی توجیہہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غلطی کے اعتراف کو وہ اپنی کمزوری سمجھتے ہیں، اور غلطی کا اعتراف نہ کرنے کو اپنی بڑائی۔ غلطی کا اعتراف نہ کرنے کو سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بڑائی کو برقرار رکھا۔
مگر یہ دانش مندی کی بات نہیں۔ دانش مندی یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی کو جانے۔ وہ غلطی کرنے کے بعد فوراً یہ کہہ دے کہ میں غلطی پر تھا(I was wrong)۔ غلطی کو نہ ماننا گویا غلطی کے اوپر قائم رہنا ہے، اور غلطی کو مان لینا یہ ہے کہ آدمی نے غلطی کرنے کے بعد فوراً اپنی اصلاح کرلی، اور اس طرح اپنے لیے شخصیت کے ارتقا (personality development) کے پراسس کو نان اسٹاپ (non stop) طور پر جاری رکھا۔
بڑی بات یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے آپ کو بے خطا ثابت کریں۔ اگر آپ اپنے کو بے خطا ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں، تو اس کا نقصان یہ ہوگا کہ آپ جہاں پہلے تھے، وہیں اب بھی باقی رہیں گے۔ اس لیے زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ آپ کے اندر اپنی غلطی کو ماننے کا مزاج ہو۔ آپ بےجھجھک یہ کہہ سکیں کہ میں غلطی پر تھا۔
اس مزاج کا فائدہ یہ ہے کہ آپ ہمیشہ نئی بات سیکھتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی شخصیت کا ارتقا (personality development) بلا رکاوٹ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ غلطی نہ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جہاں کل تھے، وہیں آج بھی بر قرار ہیں۔ اس کے برعکس، غلطی ماننے کا یہ فائدہ ہے کہ آپ کی ترقی کا سفر ہمیشہ جاری رہے گا۔ آپ کے اندر لرننگ (learning)کے پراسس میں کبھی جمود نہ آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

نزاع کا معاملہ

یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی دو یا زیادہ آدمیوں کے درمیان کوئی نزاع ہو، تو معمولی بات پر وہ بھڑک اٹھتا ہے، اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آخری حد تک پہنچنے سے پہلے وہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسی نادانی ہے، جو پوری تاریخ میں ایک ہی انداز پرجاری رہی ہے، اور آج بھی جاری ہے۔ تجربہ بتاتا ہےکہ جب تک نزاع کی صورت پیدا نہ ہو، فریقین نارمل انسان نظر آتے ہیں۔ لیکن اختلاف کی صورت پیدا ہونے کے بعد اچانک دونوں فریق غیر نارمل بن جاتے ہیں۔ پھر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ نارمل انداز میں سوچیں، اور پرامن بات چیت سے نزاع کو ختم کرلیں۔
اس کا سبب یہ ہے کہ نزاع سے پہلے معاملہ عقل کے درمیان ہوتا ہے، لیکن نزاع شروع ہونے کے بعد عقل پس پشت چلی جاتی ہے،ا ور دونوں فریق ایگو کے زیرِ اثر آجاتے ہیں۔ پہلے اگر وہ نتیجہ کو سامنے رکھ کر سوچتے تھے، تو اب وہ جذبات کے زیر اثر سوچنے لگتے ہیں۔ اس معاملے میں بہترین تدبیر یہ ہے کہ معاملے کو عقل کی حد میں رکھا جائے، اس کو جذبات تک پہنچنے نہ دیا جائے۔ اس معاملے میں فارمولا یہ ہے :
When one's ego is touched, it turns into super ego, and the result is breakdown.
اگر فریقین ٹھنڈے ذہن کے ساتھ نتیجہ کو لے کر سوچیں تو ان کو سمجھ میں آجائے گا کہ نزاع جاری رکھنے کا انجام دونوں کے حق میں برا نکلے گا۔ دونوں کے حق میں صرف نقصان آئے گا۔ دونوں میں سے کسی کو بھی کوئی فائدہ ملنے والا نہیں۔ معاملے پر عقلی انداز میں سوچنا، دونوں کو ایک ہی انجام تک پہنچاتا ہے۔وہ یہ کہ نزاع کا جاری رکھنا، کسی کے حق میں اچھا نہیں ۔ جب کہ نزاع کو پہلی فرصت میں ختم کرلینا، دونوں کے لیے مفید ہے۔ نزاع کا واحد حل صرف یہ ہے کہ نزاع کو پہلی فرصت میں بلاشرط ختم کردیا جائے ۔ اس حکمت کو ملحوظ رکھا جائے تو انسان بہت سے نقصانات سے بچ جائے گا۔ یہ نزاع کے مسئلے کا سب سے زیادہ آسان حل ہے۔
واپس اوپر جائیں

دو قسم کے مسئلے

اجتماعی زندگی میں جو مسئلے پیش آتے ہیں، وہ عام طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں— مبنی بر غصہ، مبنی بر انٹرسٹ۔ ایک قسم کامسئلہ وہ ہے، جو اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ آپس کے تعلقات میں کبھی کوئی بات ایک شخص کو بری لگتی ہے، اور وہ افنڈ (offend) ہوجاتا ہے۔ ایسا غصہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ آپ صرف یہ کیجیے کہ اعراض (avoidance)کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے وقت گزرنے دیجیے۔ وقت کے گزرنے پر وہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ وہ ایسا ہوجائے گا، جیسے کہ وہ تھا ہی نہیں۔ ایسے مسئلے کے لیے صرف یہ کافی ہے کہ آدمی وقتی طور پر چپ ہوجائے۔ جو مسئلہ صرف چپ ہوجانے سے ختم ہوجانے والا ہو، اس کو انسان کیوں سنجیدہ انداز میں لے، اور اس کو طول دے۔
دوسرا مسئلہ وہ ہے جو مبنی بر انٹرسٹ ہوتا ہے۔ یعنی ایک آدمی آپ سے اس لیے غصہ ہوتا ہے کہ آپ اس کو وہ چیز نہیں دے رہے ہیں، جو چیز وہ چاہتا ہے کہ اس کو ملے۔ ایسا غصہ بہت دیر پا ہوتا ہے۔ وہ صرف اس وقت ختم ہوتا ہے، جب کہ فریقِ ثانی کو ا س کی مطلوب چیز مل جائے۔ اس طرح کے مسئلے میں دانش مندی کی بات یہ ہے کہ آدمی اصولی طور پر پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)کا طریقہ اختیار کرے۔یعنی وہ فوراً یک طرفہ (unilateral)بنیاد پر معاملے کو ختم کردے۔ وہ اس کو اپنے حق(right) کامسئلہ نہ سمجھے۔ بلکہ اس معاملے میں غیر ضروری ٹکراؤ سے بچ کر اپنے آپ کو مزید نقصان سے بچالے۔
ایسے معاملے میں دیکھنے کی چیز صرف یہ ہوتی ہے کہ کیا قابل عمل ہے، اور کیا قابل عمل نہیں۔ جو قابل عمل ہو، اس کو اختیار کیجیے، خواہ بظاہر وہ آپ کے موافق ہو یا آپ کے خلاف۔ ایسے معاملے میں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ نتیجہ کے اعتبار سے کیا طریقہ ممکن ہے، اور کیا طریقہ ممکن نہیں۔ ایسے معاملے میں آپ صرف یہ کیجیے کہ ممکن کو اپنا لیجیے، اور جو عملاً ناممکن ہے، اس کو چھوڑ دیجیے۔ کیوں کہ ناممکن پر اصرار کرنے سے صرف نزاع میں اضافہ ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

صحیح طرزِ فکر

صحیح طرزِ فکر (right thinking) حکیمانہ طرزِ فکر کی ایک اعلیٰ قسم ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں جیتے ہیں، یا صبح و شام گزارتے ہیں، اس میں چیزیں الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ مخلوط (mixed) حالت میں ہیں۔ اس بنا پر بظاہر چیزوں کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چیزوں کے بارے میں صحیح رائے اس وقت قائم ہوتی ہے، جب کہ آپ چیزوں کو الگ الگ کرکے دیکھ سکیں۔ اس طرح تجزیاتی مطالعے کے بغیر آدمی کے اندر صحتِ فکر پیدا نہیں ہوسکتی، وہ مبنی بر واقعہ سوچ کا حامل نہیں بن سکتا۔
مثلاً ایک شخص اپنے بارے میں یا اپنی کمیونٹی کے بارے میں یہی کہے گا کہ ہمارے اوپر ظلم ہورہا ہے۔ اگر اس سے یہ کہا جائے کہ تمھارے باپ دادا کا جو اسٹینڈرڈ تھا، کیا تمھارا اسٹینڈرڈ اس سے کم ہے۔ وہ جواب دے گا کہ نہیں اس سے تو بہت اچھا ہے۔ مثلاً میرے باپ دادا بائیسکل پر سفر کرتے تھے، آج میں کار پر سفر کرتا ہوں۔ میرے دادا کے زمانے میں بچے معمولی مدرسے میں پڑھتے تھے، آج وہ شہر کے ایک اچھے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ میرے دادا کچے گھر میں رہتے تھے، آج میں اور میرے بچے پکے گھر میں رہ رہے ہیں، وغیرہ۔ اب اگر آپ اس سے پوچھیں کہ جب تمھاری فیملی کا اسٹینڈرڈ پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہے، تو ظلم کہاں ہورہا ہے۔ اب وہ حیران ہوجائے گا، اور کہے گاکہ میں نے اس اعتبار سے کبھی نہیں سوچا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ کہاں ہے۔ اصل مسئلہ خارج میں نہیں ہے، بلکہ داخل میں ہے۔ لوگوں کے اندر صحیح طرز فکر نہیں ہے۔ اس لیے لوگ شکایت میں جی رہے ہیں، حالاں کہ انھیں شکر میں جینا چاہیے۔ صحیح طرزِ فکر تجزیاتی فکر کا نام ہے۔ اگر آپ کے اندر ڈی ٹیچڈ تھنکنگ (detached thinking)ہو، اگر آپ تجزیاتی انداز میں سوچنا جانتے ہوں، تو آپ درست طرزِ فکرکے حامل بن سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

گفتگو کااصول

عام طو رپر ایسا ہوتا ہے کہ کسی سے کوئی گفتگو کی جائے، اور درمیان میں کوئی ایسی بات آجائے جو بظاہر صاحبِ گفتگو کے نقطۂ نظر کے خلاف ہو، تووہ فوراً اس کے دفاع میں بولنے لگتا ہے۔ یہ طریقہ علمی گفتگو کا طریقہ نہیں۔علمی گفتگو کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کی بات کو درمیان میں کاٹے بغیر غیر جانبدارانہ انداز میں سنیں۔ دونوں ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ گفتگو کا مقصد میوچول لرننگ (mutual learning) ہو، نہ کہ دوسرے کی بات کو کاٹنا، اور اپنی بات کو صحیح ثابت کرنا۔
گفتگو کا معیار (criterion) یہ ہونا چاہیے کہ دونوں فریق نے اپنے علم میں کیا اضافہ کیا۔ دونوں فریق نے کیا نئی بات سیکھی۔ دونوں فریق نے گفتگو کے موقع کو کس طرح ذہنی ارتقا (intellectual development) کے لیے استعمال کیا۔
دو آدمیوں کے درمیان گفتگو کا مقصدمناظرہ (debate)نہیں ہوتا، بلکہ شخصیت کا ارتقا (personality development) ہوتا ہے۔ کوئی آدمی جتنا جانتا ہے، وہی جاننے کی حد نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جاننے کا سمندر بہت وسیع ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ہر گفتگو کو اس مقصد کے لیے استعمال کرے ، جس سےاس کے علم میں اور اضافہ ہو، اس کی تخلیقی فکر (creative thinking) اور زیادہ ہوجائے۔
اس کے تجربات کی فہرست میں نئےآئٹم شامل ہوں۔ زندگی کی پلاننگکے لیے اس کے تجربات کا دائرہ (vista) اور وسیع ہوجائے۔ اس کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرے۔ وہ پہلے سے زیادہ پختہ انسان (mature person)بن کر ابھرے۔ وہ اپنے بارے میں اور دوسرے کے بارے میں زیادہ واقفیت حاصل کرے۔وہ ماضی اور حال کے بارے میں زیادہ جاننے والا بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

مشورہ یا باہمی مشاورت

مشورہ ایک دوطرفہ عمل ہے۔مشورہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک باہمی مشاورت ہے، یعنی دوسرے کو کچھ دینا اور دوسرے سے کچھ لینا۔مشورہ اگر حقیقی اسپرٹ کے ساتھ کیا جائے تو دونوں پارٹیوں کے لیے ذہنی ترقی (intellectual development) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔مشورہ کی اصل اسپرٹ باہمی مشاورت (mutual consultation) ہے۔
مشورہ میں دو پارٹیاں ہوتی ہیں۔ اس میں بظاہر ایک پارٹی دینے والی (giver) اور دوسری پارٹی لینے والی (taker) ہوتی ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ دو طرفہ لین دین (mutual exchange) کا معاملہ ہے۔ مشورہ صرف مشورہ نہیں، بلکہ وہ باہمی لین دین (mutual exchange) کا معاملہ ہے۔ مشورہ کی صحیح اسپرٹ ہو تو جو بظاہر دینے والا ہے، وہ عین اسی وقت لینے والا بھی ہوگا، اور جو لینے والا ہے، وہ عین اسی وقت دینے والا بھی ہوگا۔
حضرت عمر فاروق کے بارے میں کہا جاتاہے کہ کان یتعلم من کل احد(وہ ہر ایک سے سیکھتے تھے)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انٹرایکشن کے وقت وہ باہمی لین دین کی اسپرٹ کے ساتھ انٹرایکشن کرتے تھے۔ اس طرح ہر انٹرایکشن دو طرفہ بن جاتا تھا۔ وہ ہر انٹرایکشن میں دوسرے سے کچھ لیتے تھے، اور عین اسی وقت وہ دوسرے کو کچھ دیتے تھے۔ یہی مطلب ہے میچول کنسلٹیشن کا ۔
موجودہ زمانے میں اسی عمل کو ڈائلاگ کہا جاتاہے۔ ڈائلاگ مباحثہ یا مناظرہ سے الگ ہوتا ہے۔ ڈائلاگ ایک تخلیقی عمل (creative practice) ہے۔ صحیح ڈائلاگ اس وقت وجود میں آتا ہے، جب کہ دونوں پارٹیوں میں اس قسم کی دو طرفہ اسپرٹ پائی جاتی ہو۔ ڈائلاگ اگر مباحثہ اور مناظرہ بن جائے، تو اس سے کسی پارٹی کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے برعکس، اگر ڈائلاگ میں دو طرفہ تعلم (mutual learning) کی اسپرٹ موجود ہو، تو ڈائلاگ دونوں فریقوں کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

ایک لفظ کا فرق

ایک صاحب جن کی تعلیم ایک مدرسہ میں ہوئی ہے۔ 12 دسمبر 2017 کوان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے 2005 میں میں آپ سے ملا تھا۔ اس وقت میں نے کہا تھا کہ میرے اندر احساسِ کمتری بہت زیادہ ہے۔ اس کا کوئی حل بتائیے ۔ میں نے کہا کہ آپ صرف ایک لفظ بدل دیجیے۔ ابھی تک آپ احساسِ کمتری کا لفظ بولتے ہیں۔ آج سے آپ احساسِ غلطی کا لفظ بولنا شروع کردیجیے۔ اس کے بعد ان شاء اللہ آپ کا سارا معاملہ درست ہوجائے گا۔
آج کی ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ یہ بات آپ نے ایک ڈائری میں لکھی اور وہ ڈائری مجھ کو دے دی۔ اسی وقت سے میںنے اس نصیحت کو پکڑلیا ہے۔ اب میں یہ کرتا ہوں کہ ہمیشہ اپنی غلطی کو دریافت کرتا ہوں، اور اس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے سارے معاملات درست ہوگئے۔ گھر کے معاملات بھی، پڑوسیوں کے معاملات بھی، اور مسجد اور مدرسے کے معاملات بھی۔ پہلے میں برابر ٹینشن میں رہتا تھا، اب مجھے کوئی ٹینشن نہیں۔ کسی سے کوئی شکایت نہیں۔ کسی سےکوئی جھگڑا نہیں۔ اب میں یہ کرتا ہوں کہ کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو میں خود ہی سوچ کر اس کو درست کرلیتا ہوں۔ اب سب لوگ مجھ سے خوش رہتے ہیں۔ جب کہ پہلے ہر شخص کو مجھ سے شکایت ہوتی تھی۔
یہ کرشمہ صرف ایک پر حکمت بات کا تھا ۔ وہ یہ کہ اس سے پہلے و ہ غلط تقابل (comparison)کا شکار تھے۔ اب انھوں نے احساس کمتری کے جملے کو بدل کر احساسِ غلطی بنا لیا۔ پہلے وہ دوسروں کے خلاف سوچا کرتے تھے، اب وہ اپنی اصلاح آپ کے انداز میں سوچنے لگے۔ بظاہر یہ ایک لفظ کا فرق تھا، لیکن یہ لفظ اتنا زیادہ پرحکمت تھا کہ اس نے ان کی پوری زندگی کو بدل دیا۔ ان کو منفی شخصیت (negative personality)سے نکال کر مثبت شخصیت (positive personality) بنا دیا۔
واپس اوپر جائیں

کھونے میں پانا اور پانے میں کھونا

زندگی میں دو قسم کے واقعات پیش آتے ہیں۔ زندگی میں آدمی کچھ حاصل کرتا ہے، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھودیتا ہے۔ دونوں قسم کے واقعات زندگی کا لازمی حصہ ہیں ۔کسی بھی شخص کی زندگی ان سے خالی نہیں ہوتی۔ جب آپ زندگی میں کچھ حاصل کرتے ہیں تو یہ یاتو آپ کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتا ہے، یا کچھ اتفاقی واقعات آپ کے لیے مساعد (support)بن جاتے ہیں، اس لیے آپ کو کامیاب کردیتے ہیں۔جب آپ کامیاب ہوں تو یہ دریافت کیجیے کہ آپ کی کامیابی میں کن عوامل (factors)کا دخل ہے۔ ان عوامل کو اگر آپ دریافت کرسکیں تو آپ زندگی کی ایک حکمت (wisdom) کو دریافت کریں گے، جس کو آپ اپنی بعد کی زندگی میںبھی استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ عوامل ایک اعتبار سے فطری عوامل ہوتے ہیں، اور دوسرے اعتبار سے وہ زندگی کی حکمت کو بتاتے ہیں۔
یہی معاملہ کھونے کا ہے۔ جب آپ کھوتے ہیں، وہ سادہ معنوں میں کھونا نہیں ہوتا، بلکہ آپ کے لیے ایک تجربہ (experience) ہوتا ہے۔ کھونے کی صورت کو آپ تجربے میں ڈھال دیجیے۔ اس طرح کھونا بھی آپ کے لیے ایک اعتبار سے پانا بن جائے گا۔ زندگی کی حکمت اگر آپ کے لیے ایک ریڈی میڈ وزڈم ہے، تو تجربہ آپ کے لیے ایک ذخیرہ کیے ہوئے (stored) وزڈم کی حیثیت رکھتا ہے۔ زندگی ایک نازک آرٹ ہے۔ زندگی میں پانا بھی آپ کے لیے کھونا بن سکتا ہے، اور اسی طرح کھونا بھی آپ کے لیے پانا بن سکتا ہے۔ اگر آپ پانے کے واقعے میں وزڈم کا عنصر دریافت نہ کرسکیں، تو آپ نے کوئی بڑی چیز نہیں پائی۔ آپ زندگی کے حاشیے پر پہلے بھی تھے، اور اب بھی وہیں پڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کھونے کے واقعے کو تجربے میں نہ ڈھال سکے تو آپ ڈبل محرومی کا شکار ہوگئے۔ ایک تو وہ جس کو آپ نے کھودیا، اور دوسرا وہ جس کو آپ کھونے کے باوجود پاسکتے تھے، اس کو بھی آپ پانے سے محروم رہے۔
واپس اوپر جائیں

تخلیقی مشورہ

اگر آپ کسی کو اس کی کمی بتائیں ، تو آپ نے اس کو کچھ نہیں دیا ، بلکہ اس سے کچھ چھین لیا۔ اس کو آپ نے کمتری کے احساس میں مبتلا کردیا۔ اس کے بجائے، اگر آپ کی ملاقات کسی نوجوان سے ہو، اور آپ اس سے کہیں کہ زندگی میں ٹاپر (topper)بنو، تو آپ نے اس سے ایک اچھی بات کہی۔ لیکن آپ کا یہ قول کوئی تخلیقی مشورہ (creative advice) نہیں ہے۔ تخلیقی ایڈوائس وہ ہے، جو سننے والے کے اندر کوئی نیا داعیہ (incentive) پیدا کرے۔
مثلاً اگر آپ نوجوان سے یہ کہیں کہ تم ابھی زندگی کے ابتدائی مرحلے میں ہو، تم کو چاہیے کہ تم سب سے پہلے اپنی ذات کا مطالعہ کرکے یہ معلوم کرو کہ تمھارے اندر کون سی خاص صلاحیت ہے۔ کیوں کہ خالق جب ایک انسان کو پیدا کرتا ہے، تو وہ اس کو کوئی خاص صلاحیت عطا کرتا ہے، تاکہ وہ دنیا میں کوئی نادر (unique)کام انجام د ے سکے، ایسا کام جو کسی نے اب تک انجام نہیں دیا۔ جو آدمی اپنی اس صلاحیت کو دریافت کرے، وہ ضرور کامیاب ہوگا، کیوں کہ ایسا کرکے وہ اپنے خالق کی خصوصی مدد کا مستحق بن جاتا ہے۔ پھر اس خاص صلاحیت کے مطابق، اپنے عمل کی پلاننگ (planning) کرو۔ تمھارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تم اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچاؤ۔ کیوں کہ ڈسٹریکشن تم کو بھر پور پلاننگ سے محروم کردے گا۔ اگر کسی نوجوان کو یہ مشورہ دیں تو یہ ایک تخلیقی مشورہ ہوگا۔
تخلیقی مشورہ صرف مشورہ نہیں ہے، بلکہ وہ لائحۂ عمل بھی ہے۔ وہ آدمی کو صرف بتاتا نہیں ہے، بلکہ وہ آدمی کی مدد بھی کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تخلیقی مشورہ وہ سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے، جو ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو دے سکتا ہے۔ کسی کو تخلیقی مشورہ دینا کوئی آسان کام نہیں۔ تخلیقی مشورہ وہی آدمی دے سکتا ہے، جو اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے تیار کرے، جو دوسرے انسان کا سچا خیرخواہ ہو، جو خود پہلے وہ کام کرے، جس کا مشورہ وہ دوسرے آدمی کو دے رہا ہے۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کو موقع دو

ترقی کے ہر میدان میں عمل کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ فطرت کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ فطرت کے راستے میں اگر رکاوٹ نہ ڈالی جائے تو ہر کام نہایت درست طریقے سے ہوگا۔ فرد کی ترقی یا سماج کی ترقی کا راز یہ ہے کہ فطرت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ فطرت کا طریقہ یہ ہے— کم سے کم مداخلت، زیادہ سے زیادہ آزادی۔
مثلاً اگر بچے کے ساتھ لاڈ پیار نہ کیا جائے، تو بچہ ذاتی محرک کے تحت ہر کام اچھی طرح انجام دیتا رہے گا۔ سماجی عمل میں مداخلت نہ کی جائے تو سماج چیلنج - رسپانس (challenge-response) کے پراسس کے تحت اپنے آپ ترقی کرتا رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت سے بڑا کوئی معلم نہیں۔ فطرت سے بڑا کوئی منصوبہ ساز نہیں۔ جس طرح بہتا ہوا پانی اپنے آپ اپنا راستہ بنالیتا ہے، اسی طرح فطرت اپنے آپ ترقی کا راستہ تلاش کرلیتی ہے۔
فطرت (nature) خالق کی تربیت یافتہ رہنما ہے۔ فطرت کو پیدائشی طور پر معلوم ہے کہ اس کو کس طرح چیلنج کا سامنا کرنا ہے۔ اس کو کیا کرنا ہے، او ر کیا نہیں کرنا۔ فطرت کو معلوم ہے کہ مسائل کے درمیان کس طرح مواقع کو تلاش کرنا ہے، اور اس کو منصوبہ بند انداز میں کیسے اپنی موافقت میں اویل (avail) کرنا ہے۔ فطرت ایک خود کار معلم ہے۔ جس طرح جسم کے ’’ڈاکٹر‘‘کو معلوم ہے کہ اس کو جسم کا داخلی نظام کس طرح چلانا ہے، اسی طرح فطر ت کو معلوم ہے کہ خارجی مواقع کی تنظیم کرتے ہوئے کس طرح اس کو اپنے موافق استعمال کرنا ہے۔
کسی ملک کو ترقی کی طرف لے جانے کے لیے سرکاری پلاننگ کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ آزادانہ ماحول کی ضرورت ہے۔ آزادانہ ماحول میں مسابقت (competition) کا رجحان اپنے آپ ملک کا رہنما بن جاتا ہے۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے سرکاری کنٹرول کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ ضرورت ہے کہ فطرت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

غصے کا ظاہرہ

غصہ (anger) کیا ہے۔ غصہ دراصل جذباتی ہیجان کا دوسرا نام ہے، جو ذہن (mind) کو نہایت گہرائی کے ساتھ متحرک کرنے والا ہے:
Anger is an emotional outburst that triggers deeper parts of the mind.
انسان کا ذہن بے شمار صلاحیتوں کا مالک ہے، مگر عام حالت میں ذہن کے بیشتر حصے خوابیدہ حالت میں رہتے ہیں۔ غصہ آدمی کے ذہن کے تمام حصوں کو متحر ک اور بیدار کردیتا ہے۔ غصہ وقتی طور پر manکوsuper man بنا دیتا ہے۔ غصہ کی حالت میں آدمی نارمل حالات کے مقابلے میں زیادہ سوچنے والا بن جاتا ہے۔ غصہ ایک ایسی حالت کا نام ہے، جیسے کوئی غیر متحرک بم اچانک پھٹ پڑے۔
غصہ کے وقت آدمی کے ذہن کے بہت سے گوشے کھل جاتے ہیں، جو عام حالت میں بند پڑے ہوئے تھے۔غصہ آدمی کے تجزیہ (analysis)کرنے کی صلاحیت کو بڑھا دیتا ہے۔ غصہ اپنی ذات میں کوئی برائی کی چیز نہیں۔ غصہ کے لیے یہ ضرورت نہیں کہ اس کو ختم کیا جائے، بلکہ غصہ کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ جب غصہ آئے تو آپ صرف یہ کیجیے کہ غصہ کو چینلائز (channelize) کرنے کی کوشش کیجیے، یعنی غصہ کو تعمیری رخ کی طرف موڑ دیجیے۔
غصہ کو تعمیری رخ پر موڑنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ جب آپ کو غصہ آئے تو آپ چپ ہوجائیں۔ چپ ہوتے ہی اپنے آپ غصے کا رخ بدلنا شروع ہوجائے گا، اور پھر آپ کو یہ موقع مل جائے گاکہ آپ غصے کو تعمیری رخ دے دیں۔ غصے کے وقت ایک بے حد قیمتی چیز آدمی کے دماغ سے ریلیز ہوتی ہے۔ اس کو اینگر انرجی (anger energy)کہا جاتاہے۔ اینگرانرجی آپ کے جسم سے نکلنے والی سب سے بڑی طاقت کانام ہے۔ اینگر انرجی کو برباد ہونے سے بچائیے۔ اینگر انرجی کو صحیح رخ پر موڑ دیجیے۔ اینگر انرجی کو منضبط (controlled) انداز میں استعمال کیجیے،ا ور پھر غصہ آپ کے لیے ایک صحت مند ظاہرہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

آنکھوں کے بغیر

مرکزِ اطلاعات، فلسطین کی رپورٹ کےمطابق، مراکش کے جنوبی شہر یرکان سے تعلق رکھنے والا عبدالرحمن اوزار نابینا ہونے کے باوجود متعدد عالمی زبانوں فرانسیسی، جرمن، انگریزی، اور اسپانوی وغیرہ میں ماہر ہے۔ پیدائش کے دو ماہ بعد ایک بیماری کے سبب وہ بصارت سے محروم ہوگیا، لیکن اس کا نابینا پن اس کے حصولِ علم کی راہ میں حائل نہیں ہوا۔ میٹرک تک ممتاز نمبروں سے کامیابی نے اس کے حوصلوں کو مہمیز کیا۔ قاضی عیاض یونیورسٹی ، مراکش میں فرانسیسی ادب کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا، طب کی تکمیل کے بعد اسلامیات میں گریجویشن اور اس کے بعد قوانینِ اسلامی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اس کے علاوہ موسیقی اور انفارمیشن ٹکنالوجی کا کورس کیا۔ وہ حافظ بھی ہے۔(اخبار مشرق، دہلی، بحوالہ ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ،فروری 2018) ۔
یہ واقعہ انسان کے پوٹنشل (potential)کو بتاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان بے پناہ امکانات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، کوئی انسان محروم انسان کی حیثیت سے پیدا نہیں ہوتا، محرومی کسی واقعہ کا نتیجہ نہیں ہے، وہ صرف بے خبری کا نتیجہ ہے۔ حتی کہ کوئی حادثہ انسان کے لیےفطری امکانات کو ختم نہیں کرتا۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی بے حوصلہ نہ ہو، بلکہ اپنے فطری امکانات کو دریافت کرے، اور مثبت ذہن کے ساتھ اس کی منصوبہ بندی کرے۔ تاریخ میں ایسی مثالیں بہت ہیں، جب کہ ایک مرد یا عورت کو کوئی حادثہ پیش آیا۔ اس حادثہ نے اس کو بظاہر معذور (disabled) بنا دیا۔ لیکن انسان نے اپنی ری پلاننگ کی۔ اس نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ اگر چہ بظاہر وہ ایک معذور انسان ہے، لیکن وہ ایک اور پہلو سے پوری طرح ڈفرنٹلی ایبلڈ انسان (differently abled person) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کا سفر کبھی رکتا نہیں۔ اگر اس کی پہلی پلاننگ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو، تو وہ دوسری پلاننگ (re-planning) کے ذریعہ اپنے آپ کو کامیاب بنا سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ ہررکاوٹ کے بعد اپنے سفر کو از سر نو جاری رکھنے کا آرٹ جان لے۔
واپس اوپر جائیں

باس اِز آلویز رائٹ

باس از آلویز رائٹ(Boss is always right)—کمپنی کلچر کا ایک بنیادی اصول ہے۔ اس اصول کے بغیر کوئی اجتماعی کام نظم و ضبط کے ساتھ انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اسی لیے ہر اجتماعی کام میں ایک شخص کو ذمہ دارِ اعلی بنایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ذمے دارِ اعلی پر اعتماد کرنا پڑتا ہے کہ وہ صحیح فیصلہ لے گا۔ بوقتِ فیصلہ باس کو کلی اختیار حاصل ہوتا ہے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ بعد کو باس کا احتساب کیا جائے، اور باس سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ اپنے فیصلے کا جواز ذمے دار لوگوں کو بتائے۔
جو شخص کسی کمپنی میں کوئی جاب کرے، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ باس از آلویز رائٹ کے اصول کو بلاشرط مانے۔ اس اصول کے معاملے میں کسی شخص کا کوئی استثنا نہیں۔ کیوں کہ اس معاملے میں اگر استثنا کے اصول کو مانا جائے، تو کمپنی کا کام درست طور پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ جو آدمی کسی کمپنی میں جاب کررہا ہو، اس کو یہ اختیار تو حاصل ہے کہ وہ جاب کو چھوڑدے، لیکن اس کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ باس از الویز رائٹ کے اصول کو ماننے سے انکار کردے، یا جاب پر رہتے ہوئے،اس کی خلاف ورزی کرے۔
باس اِز آلویز رائٹ کوئی عقیدے کی بات نہیں، یہ ایک پریکٹکل وزڈم کی بات ہے۔کوئی آدمی جو کسی کمپنی میں جاب کررہا ہو، یہ اس کی ذاتی ذمے داری ہے کہ وہ کمپنی کے قواعد کو جانے، وہ کمپنی کے اصول و ضوابط کو پوری اسپرٹ کے ساتھ اپنائے۔ کوئی شخص جو کمپنی کے جاب میں ہو، اگر وہ اس اصول کی خلاف ورزی کرے، تو اس کو لازماً اس کا نقصان بھگتنا پڑے گا۔ یہ کمپنی کے اپنے اوپر ہے کہ وہ اس معاملے میں کارکن کو اس کی غلطی پر سزا دے، یا وہ اس کو معاف کردے۔اسی طرح یہ کارکن کی اپنی ذمے داری ہے کہ وہ کمپنی کے ضوابط سے مکمل طور پر باخبر رہے، تاکہ وہ پوری طرح ان ضوابط کا پابند ہو سکے۔ اس معاملے میں کارکن کی طرف سے کوئی عذر قابل قبول نہیں۔ اس معاملے میں کارکن کی صرف ذمے داری ہے، کارکن کا کوئی ناقابل تنسیخ حق (irrevocable right) نہیں۔
واپس اوپر جائیں

آدابِ تنقید

تنقید (criticism) ایک جائز فعل ہے۔ ہر شخص کو یہ حق ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص پر تنقید کرے۔ لیکن تنقید کا ایک متعین اصول ہے۔ متعین اصول کے مطابق جو تنقید کی جائے، وہ ایک جائز تنقید ہے۔ لیکن جس تنقید میں متعین اصول کی رعایت نہ ہو، وہ تنقید نہیں، بلکہ تنقیص ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق، تنقید بلاشبہ جائز ہے، لیکن تنقیص بلاشبہ ایک ناجائز فعل ہے۔
جائز تنقید اور ناجائز تنقید یا تنقیص میں کیا فر ق ہے۔ ناجائز تنقید یہ ہے کہ آپ کسی شخص کے اوپر تنقید کریں، لیکن یہ تنقید آپ اپنے الفاظ میں کریں۔ یعنی ایسا ہو کہ تنقید تو دوسرے کی ہو، اور الفاظ اس کے اپنے ہوں تو ایسی تنقید جائز نہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر آپ ایسا کریں کہ کسی شخص کے اوپرتنقید کریں، تو اس کے اپنے ثابت شدہ الفاظ پر مبنی ہو ۔ایسی تنقید ایک جائز تنقید ہے ۔مثلاً آپ کسی شخص کے بارے میں یہ کہیں کہ اس کے اندر قول و فعل کا تضاد ہے، تو یہ تنقید صرف اس وقت جائز ہوگی، جب کہ آپ زیر تنقید شخص کے قول یا فعل سے اس قسم کا ثابت شدہ حوالہ پیش کریں۔ اگر آپ کے پاس ثابت شدہ حوالہ نہ ہو تو آپ کو ایسی تنقید کرنے کا ہر گز کوئی حق نہیں۔
اسی طرح اگر آپ کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ قرآن و حدیث کا نام لیتا ہے، لیکن بات خود اپنی پیش کرتا ہے تو آپ کو اس روش کی کم از کم ایک متعین اور محدد (specific)مثال پیش کرنی ہوگی۔ ثابت شدہ مثال کے بغیر ایسی تنقید صرف ایک بے بنیاد الزام ہے، وہ ہرگز تنقید نہیں۔
اسی طرح اگر آپ کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ اس کے پاس ڈبل معیار ہوتا ہے، ایک معیار اپنے لیے، اور دوسرا معیار دوسروں کے لیے۔ تو یہ تنقید بھی صرف اس وقت ایک جائز تنقید ہے، جب کہ زیر بحث شخص کے بارے میں ایک ثابت شدہ مثال دیں، ایسی مثال جو ناقابل تردید حوالوں پر مبنی ہو۔ صرف ایسی تنقید ، تنقید ہے۔ جس تنقید کے ساتھ ایسا ثبوت موجود نہ ہو، وہ سبّ وشتم اور عیب جوئی اور الزام تراشی ہے، نہ کہ واقعی معنوں میں ایک جائز تنقید۔
واپس اوپر جائیں

پازیٹیو تھنکنگ، پازیٹیوزم

پازیٹیو تھنکنگ اور پازیٹیوزم (positivism)، دونوں ہم معنی الفاظ نہیں ہیں۔ پازیٹیو تھنکنگ انگریزی ڈکشنری کا ایک عام لفظ ہے، جب کہ پازیٹیوزم ایک خالص فلسفیانہ اصطلاح (philosophical term)ہے۔ پازیٹیو تھنکنگ کا مطلب ہے، مثبت طرزِ فکر، یعنی منفی طرزِ فکر سے پاک سوچ۔ یہ اس انسان کی صفت ہے، جو بے آمیز سوچ (unbiased thinking) کا مالک ہو، جو شکایتی نفسیات سے پاک ہو۔
اس کے برعکس، پازیٹیوزم ایک فلسفیانہ اصطلاح (term) ہے۔ پازیٹیوزم کا بانی فرانسیسی ماہر سماجیات اور فلسفی آگسٹ کامٹے (Auguste Comte) ہے۔یہ نظریہ انیسویں صدی کے وسط میں فروغ پایا۔ پازیٹیوزم کے مطابق، واحد مستند علم، سائنس کا علم ہے، اور یہ علم خالص سائنسی طریقے سے نظریات کے مثبت تصدیق سے حاصل ہوسکتا ہے:
Positivism is the view that the only authentic knowledge is scientific knowledge, and that such knowledge can only come from positive affirmation of theories through strict scientific method.
مثبت طرز فکر (positive thinking)ایک علاحدہ اصطلاح ہے۔ یہ سنجیدہ انسان کی ایک صفت ہے۔ ایسا انسان، جو بے آمیز انداز میں سوچتا ہے، جو موضوعی (objective)انداز میں رائے قائم کرتا ہے، اس کی رائے مبنی بر حقیقت رائے ہوتی ہے، اس کی رائے بے لاگ رائے ہوتی ہے، اس کا نقطۂ نظر خالص فکری نقطۂ نظر ہوتاہے۔ اس طرزِ فکر کو دوسرے الفاظ میں ایز اٹ از تھنکنگ (as it is thinking) کہا جاسکتا ہے، یعنی کسی کمی زیادتی کے بغیر عین حقیقتِ واقعہ کے مطابق سوچنا۔ پازیٹیو تھکنگ ایک عام فکر ہے، جب کہ پازیٹیوزم ایک فلسفیانہ اسکول کا نام ہے۔ پازیٹیوزم کے مطابق، معتبر علم صرف سائنسی علم ہی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اپنے خلاف

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بظاہر دوسرے کے خلاف بولتا ہے۔ لیکن اس کی بات خود اپنے خلاف ہوتی ہے۔ اکثر آدمی’’وہ‘‘ کی زبان بولتا ہے۔ مگر جو بات وہ کہتا ہے، وہ عملاً ’’میں‘‘ کی زبان میں ہوتی ہے۔ یعنی آدمی ایک ایسی بات کہتا ہے، جس میں اس کی زد بظاہر ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ دوسرے کے خلاف ہوتی ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف اس کے اپنے خلاف ہوتی ہے۔
ایسا اس لیے ہے کہ اللہ کے نزدیک ہر معاملے میں انسان کی نیت کو دیکھا جاتا ہے۔ ہر معاملے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ آدمی نے بولنے سے پہلے کیا سوچا۔ اس کی کون سی سوچ تھی، جس کے تحت اس کی زبان سے وہ الفاظ نکلے جن میں اس نے کوئی بات کہی تھی۔ اسی بات کو ایک فارسی شاعر نے ان الفاظ میں کہا ہے: کجا میں نماید، کجا میں زند۔
یعنی تیر چلانے والا بظاہر کسی اور طرف نشانہ لگاتا ہے، لیکن وہ اپنے تیر سے جس کو مارنا چاہتا ہے، وہ کوئی اور ہوتا ہے۔انسان کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو جانے کہ آدمی جب بھی کوئی بات کہتا ہے تو اس سے پہلے وہ سوچتا ہے۔ سوچنا پہلے ہوتا ہے، اور بولنا اس کے بعد۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات جو آدمی بولتا ہے، اس کے ذریعہ وہ خود اپنا کردار بنا رہا ہوتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ یہ جانے کہ ہر بولنا ایک عمل ہے۔ بولنے کے دوران آدمی اپنی شخصیت کی تعمیر کر رہا ہوتا ہے، مثبت تعمیر یا منفی تعمیر، کبھی شعوری طور پر اور کبھی غیر شعوری طور پر۔
ہر عورت اور مرد کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مثبت بنیادوں پر تعمیر کرے۔ مثبت بنیاد پر تعمیر وہ ہے جس میں انسان کی نفسیات یا تو اللہ رب العالمین سے تعلق کی بنیاد پر بن رہی ہو، یا انسان سے محبت کی بنیاد پر۔ تعمیر خویش کی یہی اصل بنیادیں ہیں۔ آدمی کو ہمیشہ اپنا محاسبہ کرکے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اللہ سے تعلق کی بنیاد پر اپنی تعمیر کررہا ہے یا انسان سے خیر خواہی کی بنیاد پر۔ ہر عورت اور ہر مرد کو انھیں دو بنیادوں پر اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

منفی تجربہ

منفی تجربہ (negative experience) صرف منفی تجربہ نہیں ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک صدمہ (shock)ہے۔ صدمہ کا تجربہ انسانی ذہن کے لیے ایک فکری طوفان (storm) کے ہم معنی ہوتا ہے، کبھی چھوٹا اسٹارم اور کبھی بڑا اسٹارم۔ منفی تجربہ کے وقت انسان کے ذہن میں طوفان (storm) پیدا ہوتا ہے۔ وہ در حقیقت ایک توانائی (energy) کے اخراج (release) کا واقعہ ہے۔ یہ صدمہ انسان کے لیے مطلق معنوں میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اس کا استعمال اس کو اچھا یا برا بناتا ہے۔
اگر آپ اس صدماتی انرجی (shocking energy) کو مثبت رخ پر موڑ سکیں تو ہر صدمہ آپ کے لیے انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا ذریعہ بن جائے گا۔ آپ کے سوچنے کی طاقت، آپ کے تجزیہ (analysis)کی طاقت کچھ بڑھ جائے گی۔ آپ کا ذہن غیر تخلیقی ذہن سے بڑھ کر تخلیقی ذہن (creative mind) ہوجائے گا۔ آپ کے ذہن کی ایسی کھڑکیاں کھل جائیں گی، جو اس سے پہلے بند پڑی تھیں۔آپ کسی بھی وقت اس حقیقت کا تجربہ کرسکتے ہیں۔ مثلاً آپ نے کسی سے ایک بات کہی۔ وہ آدمی آپ کی بات کو سن کر غصہ ہوگیا۔ اس نے آپ کو اس کا سخت جواب دیا۔ اس وقت آپ جوابی غصہ نہ کریں، اور ٹھنڈے طریقے سے مثبت انداز میں غور کریں۔ آپ بہت جلد محسوس کریں گے کہ آپ کی قوت تفکیر بڑھ گئی ہے۔ آپ کے ذہن میں نئے نئے پوائنٹ آرہے ہیں۔ آپ کی بات خود آپ کے لیے زیادہ قابل فہم بن رہی ہے۔ آپ کے ذہن کی تخلیقیت میں اضافہ ہورہا ہے۔
جب بھی آپ کو کسی بات سے صدمہ پہنچے تو آپ صرف یہ کیجیے کہ آپ چپ ہوجایئے۔ آپ ری ایکشن کے بجائے، خاموشی کا طریقہ اختیار کیجیے۔ آپ ایک شخص پر سوچنے کے بجائے اصل ایشو پر سوچنا شروع کردیجیے، اور پھر جلد آپ کو ایسا محسوس ہوگا جیسے آپ کی سوچ کے بند دروازے اچانک کھل گئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اسٹیج کا فتنہ

موجودہ زمانے میں ایک نیا فتنہ پیدا ہوا ہے، جس کو اسٹیج کا فتنہ کہا جا سکتا ہے۔ جس آدمی کے اندر شاندار شخصیت ہو، جو اچھا بولنے کی صلاحیت رکھتاہو، جو لوگوں کو خوش کرنے کا فن جانتا ہو، جو عوام پسند لہجہ میں بول سکے، اس کو فوراً اسٹیج مل جاتا ہے۔ اسٹیج ملتے ہی آدمی کی انا (ego) بوسٹ (boost) ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ واپس لوٹنا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔
اسٹیج ایکٹوزم کے بظاہر دوسرے بہت سے فائدے ہیں— عوامی مقبولیت، ہر جگہ پذیرائی اور ہر قسم کے دنیوی ساز و سامان، وغیرہ۔ یہ چیزیں اس کے اندر مصنوعی شخصیت بنانے لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسی میں کنڈیشنڈ ہوجاتا ہے۔ جب یہ درجہ آجائے تو اس کے اندر محاسبہ کا ذہن ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں درست راستے پر ہوں۔ مجھے اپنے اندر کوئی تبدیلی لانے کی ضرورت نہیں۔
جو آدمی مین آف اسٹیج (man of stage)بن جائے، وہ بظاہر کامیاب نظر آتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ سب سے زیادہ ناکام انسان ہوتا ہے۔ اس کے اندر تنقید سننے کامزاج ختم ہوجاتاہے۔ اس کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل رک جاتا ہے۔ وہ تخلیقی فکر(creative thinking) کے قابل نہیں رہتا۔ وہ صرف آج (today) میں جینے لگتا ہے، کل (tomorrow) کی سوچ اس کے اندر ختم ہوجاتی ہے۔ وہ دوسروں کے اندر جینے لگتا ہے، خود اپنے آپ میں جینا کیا ہے، وہ اس سے نا آشنا ہوجاتاہے۔
ایسا آدمی بظاہر پاتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک محروم انسان ہوتا ہے۔ اس کو ہر جگہ انسانوںکی بھیڑ ملنے لگتی ہے، لیکن فرشتوں کی صحبت اس کو حاصل نہیں ہوتی۔ وہ مادی اعتبار سے بھر پور ہوتا ہے، لیکن روحانی (spiritual) اعتبار سے وہ ایک خالی انسان ہوتا ہے۔ وہ بظاہر سب کچھ ہونے کے باوجود حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں

سمجھدار انسان

سقراط (Socrates ) 399 قبل مسیح کا مشہور یونانی فلسفی ہے۔ اس کی زبان یونانی زبان تھی۔ اس کے ایک قول کا عربی زبان میں اس طرح ترجمہ کیا گیا ہے:الإنسان الذکی یتعلم من کل شیء ومن کل أحد۔ یعنی سمجھ دار انسان ہر چیز سے ، اور ہر ایک سے سیکھتا ہے۔
سمجھدار (ذکی)انسان وہ ہے جو ذہنی اعتبار سے ایک تیار ذہن (prepared mind) ہو۔ جو ذہنی ارتقا کے مراحل کو طے کرچکا ہو۔ ایسے آدمی کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کی اخذ (grasp)کی طاقت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ باتوں کو سنتے ہی اس کے گہرے مفہوم تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ ظاہری معنی سے گزرکر بات کے گہرے پہلوؤں کو دریافت کرلیتا ہے ۔
کوئی آدمی سمجھدار کیسے بن سکتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ آدمی اپنی کمیوں کو دریافت کرنے کا زیادہ سے زیادہ شائق بن جائے۔ اپنی کمیوں کو دریافت کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر تعلم (learning) کی صفت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ آدمی کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ کسی نفسیاتی رکاوٹ کے بغیر دوسروں سے سیکھنے لگتا ہے۔ کسی قسم کی بڑائی کا جذبہ اس کے لیے ذہنی ترقی میں رکاوٹ نہیں رہتا۔ وہ اتنا زیادہ متلاشی (seeker) بن جاتا ہے کہ جب بھی کوئی وزڈم کی بات اس کے سامنے آتی ہے، تو وہ کسی رکاوٹ کے بغیر فوراً اس کو قبول کرلیتا ہے۔
نفسیاتی رکاوٹ یہ ہے کہ آدمی کے اندر یہ ذہن بن جائے کہ وہ جانتا ہے۔ یہ ذہن مزید سیکھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دانش مند انسان وہ ہے، جو اپنے’’نہیں‘‘ کو جانے۔ جو آدمی ’’نہیں‘‘ کو جانے گا، وہ گویا پیشگی طور پر وزڈم کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایسا آدمی ہر ایک سے سیکھے گا، ایسا آدمی ہر تجربے سے سبق حاصل کرے گا، ایسا آدمی ’’میں جانتا ہوں‘‘کی نفسیات سے پاک ہوگا۔ اس لیے وہ ہر وقت جاننے اور سیکھنے کے لیے تیار رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

لرننگ اسپرٹ

زندگی میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر سیکھنے کا جذبہ (learning spirit) ہو۔ جس آدمی کے اندر سیکھنے کا جذبہ ہو، وہ برابر ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس کا ذہنی ارتقا (intellectual development) کبھی رکتا نہیں۔اس کے ذہنی سفر میںہمیشہ کاما (comma) آتا ہے، نہ کہ فل اسٹاپ(full stop)۔ ذہنی سفر میں رکاوٹ صرف ایک چیز سے آتی ہے۔ وہ یہ کہ آپ کے اندر غلطی کے اعتراف کا مادہ نہ پایا جائے۔ اپنی غلطی کا اعتراف آدمی کے ارتقائی سفر کو برابر جاری رکھتا ہے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر یہ کہنے کی ہمت نہ ہو کہ میں غلطی پر تھا (I was wrong)، وہ کبھی ذہنی ارتقا کا تجربہ نہیں کرسکتا۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کی کھڑکیاں ہمیشہ کھلی رکھے۔ وہ ہر لمحہ نئی چیز سیکھنے کا طالب بنا ہوا ہو۔ اس قسم کی طلب آدمی کو ذہنی ترقی کے سفر میں آگے بڑھاتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس، جب آدمی کے اندر سیکھنے کی یہ طلب باقی نہ رہے، تو اس کے اندر جمود (stagnation)پیدا ہوجاتا ہے۔ بظاہر وہ زندہ ہوتا ہے، لیکن اس کی زندگی ایک قسم کی حیوانی زندگی بن جاتی ہے، نہ کہ صحیح معنوںمیں انسانی زندگی۔
جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ اس کے ذہنی ارتقا کا سفر بلاروک ٹوک برابر جاری رہے۔ ا س کو اپنے ذہن کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ اس کو اسپرٹ آف لرننگ میں جینا چاہیے۔ اس کو کسی نئی بات کو لینے میں کبھی ہچکچانا نہیں چاہیے۔ خواہ وہ بات اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
اسپرٹ آف لرننگ کی ایک پہچان یہ ہے کہ آدمی کم بولے اور زیادہ سنے ۔ وہ مونو لاگر (monologuer) نہ ہو، بلکہ وہ ڈائیلاگر (dialoguer) ہو۔ وہ جب کوئی نئی بات سنے تو وہ اس کو رد کرنے کے جذبے سے نہ سنے، بلکہ اس کو سننے کے بعد وہ اس پرکھلے ذہن کے ساتھ غور کرے۔ ایسے آدمی کی پہچان یہ ہے کہ وہ بولے کم ، اور سوچے زیادہ۔
پختگی یہ ہے کہ آدمی اپنے غصہ پر قابو پالے اور اختلافات کو تشدد اور تخریب کے بغیر دور کرسکے۔ پختگی تحمل اور برداشت کا نام ہے اور اس صلاحیت کا کہ وقتی خوشی کو دیر طلب مقاصد کے لیے قربان کردیا جائے۔ پختگی اس استعداد کا نام ہے کہ کسی تلخی کے بغیر، ناخوش گوار اور مایوس کن حالات کا مقابلہ کیاجائے۔ پختگی انکساری کا نام ہے۔ ایک پختہ شخص یہ کہنے کا حوصلہ رکھتا ہے کہ ’’میں غلطی پر تھا‘‘۔ پختگی اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی ان چیزوں کے ساتھ پُر امن طورپر رہ سکے جن کو وہ بدل نہیں سکتا۔
Maturity is the ability to control anger, and settle differences without violence or destruction. Maturity is patience, the willingness to give up immediate pleasure in favour of the long-term gain. Maturity is the capacity to face unpleasantness and disappointment without becoming bitter. Maturity is humility. A mature person is able to say, “I was wrong”. Maturity is the ability to live in peace with things we cannot change.
پختگی در اصل حقیقت واقعہ کے اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ وہ ساری صفتیں جن کو پختگی کہا جاتا ہے وہ سب حقیقت واقعہ کے اعتراف سے پیدا ہوتی ہیں۔ حقیقت واقعہ کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس بات کو جانے کہ کہاں اس کی حد ختم ہوتی ہے اور کہاں سے دوسری طاقتوں کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اُس کے لیے ممکن ہے۔ اور وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اس کے لیے ممکن نہیں۔حقیقتِ واقعہ کا اعتراف آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اقدام سے پہلے اُس کے انجام کو سوچے، وہ اپنے عمل کی نتیجہ خیز منصوبہ بندی کرے۔
واپس اوپر جائیں