Pages

Saturday, 1 January 2022

Al Risala | January - February 2022 (الرسالہ،جنوری۔فروری)

4

-انسان کی تخلیق

6

- خدا کی حکومت

7

- نکاح خیر کا دروازہ

8

- طلاق کا مسئلہ

12

- انسانی علم، خدائی علم

13

- نظریۂ ارتقا

14

- ارتقا کے دلائل

18

- فرق، نہ کہ تبدیلی

21

- ارتقا علم کی کسوٹی پر

23

- نظریۂ ارتقا پر شبہات

24

- نینڈر تھل مین

26

- پدم وبھوشن ایوارڈ

28

- پلٹ ڈاؤن مین

35

- ارتقا کا مفروضہ قافلہ

38

- ڈارونزم

40

- تدریجی ارتقا کا ثبوت نہیں

42

- تکمیلِ دین کی طرف، امت کا سفر

46

- فرد، سماج

47

- قیامت کی طرف


انسان کی تخلیق

انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے۔ انسان کی پیدائش کا مقصد انسان کو فطری ترقی کا موقع فراہم کرنا ہے۔ خالق جب زمین پر ایک درخت اگاتا ہے تو وہ درخت کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ زمین کے مواقع کو اویل کرے تاکہ مسلسل طور پر اس کا گروتھ (growth)جاری رہے۔ اب جو درخت ان مواقع کو اویل کرے وہ سرسبز اور بڑا درخت بنے گا، اور جو ایسا نہ کرے، وہ مرجھا کر فوراً ختم ہو جائے گا۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےأَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ ۔تُؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ ۔ وَمَثَلُ کَلِمَةٍ خَبِیثَةٍ کَشَجَرَةٍ خَبِیثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ (14:24-26)۔ یعنی کیا تم نے نہیں دیکھا، کس طرح مثال بیان فرمائی اللہ نے کلمہ طیبہ کی۔ وہ ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے، جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے۔ اور اللہ لوگوں کے لیے مثال بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ اور کلمہ خبیثہ کی مثال ایک خراب درخت کی ہے جو زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے۔ اس کو کوئی ثبات نہ ہو۔
درخت کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ پوری کائنات کو اپنا غذائی دسترخوان بناتا ہے ، وہ زمین سے پانی اور معدنیات اور نمکیات لیتا ہے، اور ہوا اور سورج سے اپنے لیے غذا حاصل کرتا ہے۔ وہ نیچے سے بھی خوراک لیتا ہے اور اوپر سے بھی۔ اس طرح بیج سے ترقی کرکے ایک تناور درخت کی صورت میں زمین کے اوپر کھڑا ہوجاتا ہے۔
یہی فطری قانون اعلیٰ پیمانے پر انسان کے لیے جاری ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ عام درخت اگر مادی وجود ہے تو انسان شعوری وجود۔ انسان کے لیے موجودہ دنیا میں نہ صرف مادی ترقی کا موقع ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کراس کے لیے ذہنی ترقی (intellectual development) کا موقع حاصل ہے۔ انسان سے اصل مطلوب یہی ذہنی ترقی یا ایمانی ترقی ہے۔ سنسیر (sincere) انسان ایک طرف دنیا میں خدا کی تخلیقات اور اس کے نظام کو دیکھ کر عبرت اور نصیحت حاصل کرتا ہے تو دوسری طرف " اوپر " سے اس کو مسلسل خدا کا فیضان پہنچتا رہتا ہے۔ وہ مخلوقات سے بھی اپنے لیے اضافۂ ایمان کی خوراک حاصل کرتا ہے اور خالق سے بھی اس کی قربت برابر جاری رہتی ہے۔
اچھا درخت ہر موسم میں پھل دیتا ہے۔ اسی طرح مومن ہر موقع پر وہ صحیح رویہ ظاہر کرتا ہے جو اسے ظاہر کرنا چاہیے۔ معاشی تنگی ہو یا معاشی فراخی، خوشی کا لمحہ ہو یا غم کا۔ شکایت کی بات ہو یا تعریف کی۔ زور آوری کی حالت ہو یا بےزوری کی۔ ہر موقع پر ایک مومن کی زبان اور اس کا کردار وہی ردعمل ظاہر کرتا ہے جو خدا کے سچے بندے کی حیثیت سے اسے ظاہر کرنا چاہیے۔
اہل ایمان کی اس خصوصیت کو ایک حدیث ِرسول میں ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہےعَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَہُ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2999) ۔یعنی مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اُس کے لیے اُس کے ہر معاملہ میں بھلائی ہے۔ اور یہ مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں۔ اگر اُس کو کوئی خوشی ملتی ہے، وہ شکر کرتا ہے تووہ اُس کے لیے بھلائی بن جاتا ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے ، وہ صبر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے بھلائی بن جاتا ہے۔
اس حدیث میں مومن سے مراد مسلم گھر میں پیدا ہونے والا انسان نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ انسان ہے، جس کو ایمان ڈسکوری کی سطح پر حاصل ہوا ہو، جو تدبر(contemplation) اور تفکر (reflection) کی صفت کا حامل ہو۔ایسا انسان ہر چیز سے اپنے لیے معرفت کی غذا حاصل کرتا ہے۔ وہ چیزوں کو خدائی تخلیق کے اعتبار سے دیکھتا ہے ۔ اس ربانی طرز فکر کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ عسر میں یسر کو دریافت کرلیتا ہے۔ کائنات کے ہر مشاہدہ میں وہ اللہ کا جلوہ دیکھتا ہے۔ زندگی کا ہر خوش گوار تجربہ اُس کو اللہ کی رحمت کی یاد دلاتا ہے، اور زندگی کا ہر تلخ تجربہ اُس کے لیے تقویٰ کا سبب بنتا ہے۔ ناکامی بھی اُس کو خدا کی یاد دلاتی ہے اور کامیابی بھی اُس کو خدا سے قریب کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی حکومت

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا مشن یہ ہے کہ وہ دنیا میں خدا کی حکومت قائم کریں۔ مگر یہ خدا کے منصوبۂ تخلیق سے بے خبری کا اعلان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات میں ہر لمحہ خدا کی حکومت کامل طورپر قائم ہے اور مومن وہ ہے جو خدا کی اس قائم شدہ حکومت کا اعتراف کرکے اس کے آگے اختیارانہ طورپر سرنڈر کر دے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کی اس قائم شدہ حکومت کا متقیانہ شہری بنا لے۔ اسی اختیاری اطاعت کا دوسرا نام ایمان ہے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے أَفَغَیْرَ دِینِ اللّہِ یَبْغُونَ وَلَہُ أَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَکَرْہًا وَإِلَیْہِ یُرْجَعُونَ( 3:83)۔ یعنی کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں۔ حالاں کہ اسی کے حکم میں ہے جو کوئی آسمان اور زمین میںہے، خوشی سے یا ناخوشی سے اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنا دین ساری کائنات میں جبراً قائم کررکھا ہے۔ انسان کو یہی دین اپنے ذاتی فیصلہ کے تحت اختیار کرنا ہے۔ اس اختیار کا تعلق اصلاً فرد سے ہے، نہ کہ مخصوص نظام کے قیام سے۔ اگر بالفرض کسی انسانی نظام کے اوپر اللہ کا دین قاہرانہ طاقت کے ذریعہ نافذ کردیا جائے تب بھی اللہ کا مطلوب پورا نہ ہوگا۔ کیوں کہ اللہ کے منصوبہ کے مطابق، جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ ہر فرد اپنے آزادانہ اختیار کے تحت اللہ کا مطیع بن جائے۔
قرآن میںمختلف انداز سے یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعہ حق اور باطل کو واضح طورپر بیان کردیا ہے۔ اب جو شخص چاہے اُس کا مومن بنے اور جوشخص چاہے اُس کا انکار کردے (الکہف،18:29)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے منصوبۂ تخلیق سے آگاہ کرے، پھر دیکھے کہ کون شخص اپنی آزادی کے ساتھاختیارانہ طور پر اطاعت کا ثبوت دے کر انعام کا مستحق بنتا ہے، اور کون شخص آزادانہ نافرمانی میںمبتلا ہوکر ابدی ناکامی سے دو چار ہوتا ہے۔
خدا کی اطاعت کا بجبر نافذ کیا جانے والا نظام خدا کے تخلیقی منصوبہ کی نفی ہے۔ اس لیے وہ خدا کا مطلوب عمل نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس طرح قاہرانہ اطاعت کا نظام پوری انسانی تاریخ میں کبھی اس دنیا میں قائم نہیں ہوا، اور اُس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خدا کا مطلوب ہی نہ تھا۔
واپس اوپر جائیں

نکاح خیر کا دروازہ

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَخَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہِ وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَہْلِی(جامع الترمذی، حدیث نمبر 3895)۔ یعنی عائشہ روایت کرتی ہیں کہ آپ نے کہا تم میں سب سے اچھا وہ ہے جواپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میںتم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔
اصل یہ ہے کہ ایک مرد و عورت جب نکاح کے تعلق میں اکٹھا ہوتے ہیں تو یہ ان کے لیے زندگی کا بھرپور تجربہ ہوتاہے۔ اس تعلق کے ذریعے ان کو ہر صبح و شام طرح طرح کے تجربے پیش آتے ہیں۔ کبھی اچھے اور کبھی بظاہر برے۔ اُن کو کبھی خوش گوار تجربہ پیش آتا ہے اور کبھی ناخوشگوار تجربہ۔ کسی معاملہ میں اُن کے اندر نفرت کے جذبات بھڑکتے ہیں اور کبھی محبت کے جذبات۔ کبھی وہ خوشی سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی ناخوشی سے۔ کبھی اُن کی انا کو تسکین ملتی ہے اور کبھی اُن کی اَنا پر چوٹ لگتی ہے۔ کبھی وہ اعتراف کی صورت حال میں ہوتے ہیں اور کبھی بے اعترافی کی صورت حال میں۔ کبھی حقوق کی ادائیگی کا موقع ہوتاہے اور کبھی حقوق کے انکار کا موقع، وغیرہ۔
گھر کے اندرپیش آنے والی یہ مختلف حالتیں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اپنی تیاری کے مواقع ہیں۔ کیوں کہ موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ ایک طرح کی زندگی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور دوسری طرح کی زندگی اُس کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔زندگی کی اس امتحانی نوعیت کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے بھی ہے، اور گھر کے باہر کے معاملات سے بھی۔
انسان کو چاہیے کہ وہ ان تجربات کو سبق کے خانے میں ڈالے۔ ان تجربات کے ذریعے وہ ہمیشہ خیر کا پہلو تلاش کرے۔ ان تجربات کو وہ ہمیشہ وسیع تر معنی میں لے۔ ایک گھریلو تجربے کو وسیع ترمعنی میں زندگی کے تجربے کے طو رپر دیکھے۔ وہ ہر تجربے میں خیر کا پہلو تلاش کرے۔ اگر وہ ایسا کرے تو نکاح کا تجربہ اس کے لیے پوری زندگی کی اصلاح کا تجربہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

طلاق کا مسئلہ

طلاق (divorce) کیا ہے۔ طلاق کا مطلب یہ ہےکہ ایک بااختیار ادارہ کی طرف سے نکاح کے رشتے کو ختم کرنا
The legal dissolution of a marriage by a court or other competent body.
نکاح صرف ایک مرد اور ایک عورت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ نکاح قانون فطرت کا معاملہ ہے۔ ایک مرد اور ایک عورت جب نکاح کے ذریعہ آپس میں رشتہ قائم کرتے ہیں تو وہ فطرت کے ایک قانون کو اپنے اوپر منطبق (apply)کرتے ہیں۔ فطرت کے جو قوانین ہیں، وہ سب کے سب بلا استثنا زندگی کے محکم اصول پر قائم ہیں۔ نکاح کا مطلب یہ ہے کہ ایک عورت اورایک مرد باہمی طور پر ایک دوسرے کے پارٹنر بنیں، اور کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے خالق کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کی تکمیل کریں۔
اس اعتبار سے طلاق خالق کے نقشۂ تخلیق کا حصہ نہیں۔ وہ انسان کے غلط استعمال آزادی (misuse of freedom) کا حصہ ہے۔ طلاق کسی انسان کے لیے ایک جذباتی ظاہرہ (emotional phenomenon) ہے۔ وہ انسان کی حقیقی ضرورت (real need) کا حصہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق کا ایک ٹائم باؤنڈ منضبط طریقہ (prescribed method) مقرر کیا گیا ہے، جو تین مہینہ کے پراسس میں مکمل ہوتا ہے۔ جذباتی ارادہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ اس لیے طلاق کا ایک طویل کورس بنادیا گیا ہے۔ تاکہ آدمی اپنے ارادے پر از سر نو غور (rethinking) کرے، اور جذباتی فیصلہ کے بجائے سوچے سمجھے فیصلہ کو اختیار کرے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ طلاق کا ارادہ ایک جذباتی ارادہ ہے۔ آدمی کو اگر سوچنے کا وقفہ دیا جائے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اپنی رائے پر نظر ثانی کرے گا، اور نکاح کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کرے گا۔
میں ذاتی طور پر ایسے واقعات کو جانتا ہوں جب کہ ایک انسان نے نکاح کے بعد جذباتی طور پر طلاق کا ارادہ کیا۔ لیکن ایسے اسباب پیش آئے کہ وہ فور ی طور پر طلاق نہ دے سکا، بلکہ اپنے ارادے پر بالقصد یا حالات کے دباؤ کے تحت نظر ثانی کی۔ اس کے بعد اس کا ارادہ بدلا، اور اس نے منکوحہ عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا نتیجہ حیرت انگیز تھا۔ وہ یہ کہ مرد نے عور ت کی خصوصیات کو دوبارہ دریافت (rediscover) کیا، اور پھر ان خصوصیات کو استعمال (utilize) کیا۔ اس کے بعد دونوں کاگ وھیل (cogwheel) کی طرح مل کر کام کرنے لگے، اور انھوں نے غیر متوقع طور پر بڑی کامیابی حاصل کی۔
اصل یہ ہے کہ لوگ عام طور پر شادی شدہ عور ت کو اپنے لیے صرف ہوم پارٹنر (home partner) سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ فطرت کے قانون کے مطابق، عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے لائف پارٹنرس ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے فطرت کی طرف سے دیے ہوئے انٹلکچول پارٹنر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں، اور دونوں مل کر ایک دوسرے کے لیے تکملہ (counterpart) بن جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایک طرف قرآن میں طلاق کا ایک مقررہ طریقہ (prescribed course) ان الفاظ میں بتایا گیا ہے الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ (2:229)۔ یعنی طلاق دو بار ہے، پھر یا تو قاعدہ کے مطابق رکھ لینا ہے یا خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کردینا۔ دوسری طرف حدیث میں طلاق کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیںأبغض الحلال إلى اللہ الطلاق(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر2018)۔ یعنی خالق کے نزدیک طلاق انتہائی حد تک ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص طلاق پر اصرار کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ مقرر کورس کے مطابقان تین مہینوں تک جذبات سے کام لینے کے بجائے خوب سوچے، اور پھر تیسرے مہینے میں عدت کے اختتام پر طلاق کی تکمیل کرے۔ ایساانسان کو یہ موقع دینے کے لیے کیا گیا کہ وہ آخری حد تک سوچے ، اور طلاق صرف اس وقت دے، جب کہ طلاق اس کے لیے سوچے سمجھےفیصلہ کے تحت ایک ناگزیر ضرورت بن جائے۔ فطرت کے مطابق ، نہ کہ خواہش کے مطابق، اس کے لیے کوئی دوسر ا آپشن سرے سے موجود ہی نہ ہو۔
موجودہ زمانے میں طلاق کو لے کر ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ وہ ہے تین طلاق کا مسئلہ۔ تین طلاق کا طریقہ بدعت کا طریقہ ہےجو بعد کے زمانے میں پیدا ہوا۔ ابتدائی دور کا مسلم معاشرہ اس مبتدعانہ طریقہ سے پاک تھا۔ تین طلاق کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا۔ اس معاملے میں عبد اللہ ابن عباس کی ایک روایت ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں کَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِإِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِی أَمْرٍ قَدْ کَانَتْ لَہُمْ فِیہِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْہِمْ، فَأَمْضَاہُ عَلَیْہِمْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر1472)۔ اس معاملے میں دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیںوَکَانَ عُمَرُ إِذَا أُتِیَ بِرَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلَاثًا أَوْجَعَ ظَہْرَہُ (سنن سعید بن منصور، حدیث نمبر 1073)۔ یعنی عبد اللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ طلاق کا معاملہ رسول اللہ کے عہد میں اور ابوبکر کے عہد میں اور عمر کے ابتدائی دو سالوں میں یہ تھا کہ تین طلاق ایک تھی۔ تو عمر بن الخطاب نے کہا کہ لوگ اس معاملہ میں جلد بازی سے کام لے رہے ہیں، جس میں ان کے لیے جلد بازی نہیں تھی، تومیں چاہتا ہوں کہ لوگوں کے لیے ایک حکم جاری کر دوں۔ چنانچہ انھوں نےحکم جاری کیا۔ دوسری روایت کے مطابق، اس حکم کا ایک جزءیہ بھی تھا کہ عمر کے پاس جب ایسا آدمی لایا جاتا جس نے اپنی عورت کو (بیک وقت )تین طلاق دی ہو تو عمر اس کی پیٹھ پر کوڑے مارتے تھے۔
خلیفہ ثانی عمر فاروق نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین واقع کرنے کا جو عمل کیا، اس کی حیثیت حکم حاکم (executive order) کی تھی۔ اس کی حیثیت شریعت میں کسی تبدیلی کی نہ تھی۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ حکم حاکم ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ وہ محدود زمانے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ اللہ کے حکم کی طرح قیامت تک کے لیے ایک ابدی حکم۔ لیکن بعد کے علما نے حاکم کے اجتہادی حکم کو عملاً امر شرعی کا درجہ دے دیا۔ وہ خلیفہ عمر کے اسی عمل پر فتویٰ دینے لگے،جب کہ خلیفہ عمر کا ہرگز یہ منشا نہ تھا۔بعد کے علما کو یہ حق نہ تھا کہ وہ خلیفہ کے حکم کو شرعی حکم کی طرح عام حکم کر دیں۔ اسی لیے عمر فاروق کے حکم کو عام کرنے کے باوجود ان کے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ خطاکار کے پیٹھ پر کوڑے ماریں، اور اس کے بعد تین طلاق کو شرعی طور پر واقع کرنے کا فتوی دیں۔کیوں کہ کوڑا مارنے کا حق مسلمہ طور پر صرف حاکم کو ہے، کسی اور کو ہرگز نہیں۔جب علما کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ خطاکار کو کوڑے ماریں تو ان کو یہ بھی حق نہیں تھا کہ وہ خلیفہ کے حکم کو عام کریں، اور عام کرکے تین طلاق کو واقع کرنے کا طریقہ اختیار کریں۔ بعد کے علما کا یہی وہ اجتہادی طریقہ ہے ، جس سے تین طلاق (triple talaq) کا موجودہ مسئلہ پیدا ہوا۔
معروف عالم ابن تیمیہ( 661-728ھ) نے علما کی اس غلطی کو جانا اور انھوں نے اس کے خلاف فتویٰ دیا۔ انھوں نے کہا  إن طلقہا ثلاثا فی طہر واحد بکلمة واحدة أو کلمات...أنہ محرم ولا یلزم منہ إلا طلقة واحدة... فإن کل طلاق شرعہ اللہ فی القرآن فی المدخول بہا إنما ہو الطلاق الرجعی؛ لم یشرع اللہ لأحد أن یطلق الثلاث جمیعا (مجموع الفتاوى، 33/8-9)۔ یعنی اگر کسی نے ایک طہر میں تین طلاق دی، ایک ہی کلمہ میں یا ایک سے زیادہ کلمات میں ... تو یہ حرام ہے، اور اس سے صرف ایک طلاق لازم آتی ہے... کیوں کہ ہر وہ طلاق جس کو اللہ نے قرآن میں مدخول بہا کے لیے مشروع کیا ہے، وہ طلاق رجعی ہے، اللہ نے کسی کے لیے ایک ساتھ تین طلاق کو مشروع نہیں کیا ۔
مگر ابن تیمیہ کے بعد سلفی علماکے سوا دوسرے علمانے ابن تیمیہ کے اس فتویٰ کو عملاً تسلیم نہیں کیا۔ وہ بدستور اپنی سابق روش پر قائم رہے۔ اس معاملے میں بعد کےعلما کی روش ایک غلط فہمی پر قائم تھی۔ انھوں نے غلط طور پر قدیم علما کی روش کو اجماعِ امت کا مسئلہ بنا لیا۔ حالاں کہ ہرگز وہ اجماعِ امت کا مسئلہ نہ تھا۔ یہ بلاشبہ ایک غلط فہمی کا معاملہ تھا۔ خلیفہ عمر فاروق کے بعد آنے والے علما نے یہ غلطی کی کہ انھوں نے حکم حاکم (executive order) کو امر شرعی کا درجہ دے دیا۔ مزید غلطی یہ ہوئی کہ غلط فہمی پر مبنی علما کے اس عمل کو اجماعِ امت کا درجہ دے دیا گیا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک غلطی پر دوسری غلطی کا اضافہ تھا۔ یعنی پہلےمرحلہ میں حکم حاکم کو امر شرعی کا درجہ دینا، اور پھر غلط فہمی پر مبنی علما کے اس عمل کو اجماعِ امت سمجھ لینا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس معاملہ میں صحیح موقف کیا ہے۔ صحیح موقف یہ ہے کہ اس معاملے میں ماضی کی غلطی کی تصحیح کی جائے،اور وہ یہ ہے کہ خلیفہ کے عمل کو حکم حاکم (executive order) کا درجہ دیا جائے، نہ کہ حکم شریعت کا درجہ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بعد کے علما نے جب خلیفہ عمر کے عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا شروع کردیا تو یہ فتویٰ ناقص فتویٰ کی حیثیت رکھتا تھا۔ کیوں کہ ان علما نے طلاقِ ثلاثہ کو واقع کرنے کا فتویٰ تو دیا، جب کہ اس کے لازمی جزء ،یعنی کوڑا مارنےکو چھوڑ دیا۔اس طرح اس مسلک کی کوئی بنیاد نہ تھی۔ یہ مسلک نہ تو ابتدائی دور پر قائم تھا، اور نہ خلیفہ عمر کے مسلک پر۔ اس کا جواز نہ تو دور اول کے عمل پر قائم تھا، اور نہ خلیفہ عمر کے حکم حاکم کے عمل پر۔ اب ضرورت ہے کہ امام ابن تیمیہ کے فتویٰ کو اس معاملے میں دوسرے علما بھی درست مسلک کے طور پر اختیار کرلیں، جس طرح سلفی علما نے اس کو اختیار کرلیا ہے۔ یعنی طلاقِ ثلاثہ کو غضب پر محمول کرنا، اور اس کو ایک طلاق کا درجہ دینا۔
واپس اوپر جائیں

ــــــــــــــــــــــــــــــــ

انسانی علم، خدائی علم
لاش نس (Loch Ness) اسکا ٹ لینڈ کی ایک بڑی جھیل ہے۔ 1975میں ایک امریکی قانون داں نے زمیں دوز کیمرے کے ذریعے اس جھیل کے اندرونی فوٹو لیے۔ ان فوٹوؤں میں جھیل کے اندر کے کچھ مناظر دکھائی دیتے تھے۔یہ مناظر بادل کے دھبوں کی شکل میں تھے۔ ان تصویری دھبوں کا مطالعہ شروع کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان دھبوں پر قیاس کا اضافہ کرکے سمجھ لیاگیا کہ یہ زندہ جانوروں کی تصویریں ہیں۔ کہاگیا کہ اسکاٹ لینڈ کی اس جھیل کے اندر انتہائی قدیم زمانے کے بعض بہت بڑے بڑے جانور موجود ہیں، جو نظریۂ ارتقا کے مطابق قدیم زمانے میں افراط کے ساتھ زمین پر پائے جاتے تھے۔اس قیاس پر ماہرین کو اتنا یقین تھا کہ اس کا ایک مفروضہ نام پلی ساسور (Plesiosaurs) رکھ دیا گیا۔ مگر بعد کو معلوم ہوا کہ یہ مفروضہ بالکل غلط تھا۔ یہ دھبے چٹانوں کے تھے، نہ کہ زندہ جانوروں کے۔
انسانی علم میں ہمیشہ اس قسم کی غلطیوں کا انکشاف ہوتا رہا ہے، پہلے بھی اور آج بھی۔ مگر قرآن میںآج تک اس قسم کی کسی غلطی کا انکشاف نہ ہوسکا۔ حالاں کہ قرآن ہر قسم کے موضوعات کو ٹَچ (touch) کرتا ہے۔ یہی ایک واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے، وہ کوئی انسانی کلام نہیں۔ اگر وہ انسانی کلام ہوتا تو یقیناً اس کے اندر بھی وہی کمیاں پائی جاتیں جو تمام انسانوں کے کلام میں بلا استثنا پائی جاتی رہی ہیں۔ (ڈائری 1985)
واپس اوپر جائیں

نظریۂ ارتقا

عضویاتی ارتقا (Organic Evolution)جدید دنیا کے لیے ایک سائنٹفک حقیقت ہے۔ سائنس آف لائف کے مصنفین نے لکھا ہے کہ’’عضویاتی ارتقا کے حقیقت ہونے سے اب کسی کو انکار نہیں ہے۔ سوا ان لوگوں کے جو جاہل ہوں یا متعصب ہوں یا اوہام پرستی میں مبتلا ہوں۔‘‘ اس نظریہ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ لل (R. S. Lull) کی سات سو صفحے کی کتاب میں زندگی کے تخلیقی تصور(special creation) پرصرف ایک صفحہ اور چند سطریں ہیں اور بقیہ تمام صفحات عضویاتی ارتقا کے بارے میں ہیں۔لل لکھتا ہے
’’ڈارون کے بعد سے نظریہ ارتقا دن بدن زیادہ قبولیت حاصل کرتا رہا ہے، یہاں تک کہ اب سوچنے اور جاننے والے لوگوں میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ یہ واحد منطقی طریقہ ہے جس کے تحت عمل تخلیق کی توجیہ ہو سکتی ہے اور اس کو سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘
Organic Evolution, p.15
ماڈرن پاکٹ لائبریری(نیویارک) نے(Man and the Universe) کے نام سے کتابوں کا ایک سلسلہ شائع کیا ہے۔ اس سلسلہ کی پانچویں کتاب میں ڈارون کی کتاب’’اصل الانواع‘‘ کو تاریخ ساز تصنیف قرار دیا ہے۔اسی طرح انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا(1958) میں تخلیق(creationism) کے نظریہ کو چوتھائی صفحہ سے بھی کم جگہ دی گئی ہے۔
اس کے مقابلہ میں عضویاتی ارتقا کے عنوان کے تحت جو مقالہ شامل کیا گیا ہے وہ باریک ٹائپ کے پورے چودہ صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس مقالے میں بھی حیوانات میں ارتقا کو بطور ایک حقیقت(fact) تسلیم کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ڈارون کے بعد اس نظریہ کو سائنس دانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں قبول عام(general acceptance) حاصل ہو چکا ہے۔ دورِ جدید کے اہلِ علم نے اس کی صداقت تسلیم کر لی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ارتقا کے دلائل

موجودہ زمانہ کے علمائے حیاتیات عام طور پر نظریہ ارتقا کو تسلیم کرچکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ارتقا محض ایک نظریہ نہیں، وہ ایک مسلمہ سائنسی حقیقت ہے۔ مگر جہاں تک دلیل کا تعلق ہے یہ دعوی ابھی تک ثابت نہ کیا جاسکا۔ نظریہ ارتقا ء کے حق میں تین قسم کی دلیلیں دی جاتی ہیں
1۔ ماں کے پیٹ میں انسان کا جنین مچھلی، چھپکلی، سور اور بندر کے جیسی صورتوں سے گزر کر انسان کی صورت تک پہنچتا ہے۔ ارتقا پسند علما کے نزدیک یہ مشاہدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اپنی تاریخ کے پچھلے دور میں انھیں جانوروں جیسا تھا۔ ان کے نقطہ نظرکے مطابق ماں کا پیٹ نو مہینوں میں انسان کی اس طویل حیاتیاتی تاریخ کو دہراتا ہے جو پیٹ کے باہر اربوں سال کے اندر وقوع میں آئی تھی۔
2۔ جانوروں اور انسان کے ڈھانچہ میں ایک ارتقائی مشابہت پائی جاتی ہے۔ مچھلی سے لے کر انسان تک جانوروں کی جو مختلف قسمیں ہیں، ان کی ہڈیوں کے ڈھانچہ کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں بنیادی یکسانیت کے ساتھ ایک ارتقائی نسبت ہے۔ اوپر کی سطح کے جانور نچلی سطح کے جانور کی ارتقا یافتہ صورتیں معلوم ہوتے ہیں۔ حتی کہ انسان تک پہنچ کر یہ عملِ ارتقا اپنی کامل صورت اختیار کرلیتا ہے۔
3۔ چٹانوں کی تہوں میں قدیم جانداروں کی ہڈیاں متحجر حالت (fossilised state) میں پائی گئی ہیں۔ چٹانوں کا کیمیائی مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی تہیں ایک کے بعد ایک مختلف زمانوں میں بنی ہیں۔ اس طرح یہ چٹانی تہیں گویا کتابِ فطرت کے اوراق ہیں جو ماضی بعید کی داستان ہم کو بتاتے ہیں۔ چٹانوں کی مختلف تہوں میں متحجر ہڈیوں کے مطالعہ سے دریافت ہوا ہے کہ زمین کے اوپر جانداروں کی جو قسمیں پائی جاتی ہیں، وہ سب کی سب اول روز سے موجود نہ تھیں۔ بلکہ ان کے ظہور میں ایک ارتقائی ترتیب ہے۔ قدیم ترین تہوں میں مچھلی کی قسم کے جانوروں کی متحجر ہڈیاں ملتی ہیں، پھر چھپکلی کی قسم کے جانور، پھر دودھ پلانے والے جانور، پھر بندر، اور آخر میں انسان۔
جواب
یہ مشاہدات جن کے اوپر ارتقا کی استدلالی بنیاد قائم کی گئی ہے، وہ مشاہدات بجائے خود واقعہ ہوسکتے ہیں۔ مگر خالص علمی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کا کوئی بھی تعلق ارتقا کے مفروضہ سے نہیں ہے۔ ان کے ذریعہ اس نظریہ کے حق میں دلیل قائم نہیں ہوتی۔
1۔یہ بات بجائے خود ایک واقعہ ہے کہ انسان کے بچہ کا مشاہدہ جب ماں کے پیٹ میں کیا جاتا ہے تو ابتدائی ایام میں اس کے اور جانور کے بچہ میں بہت کم ظاہری فرق ہوتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ وہ مچھلی اور چوپائے کی شکلوں سے گزر کر انسان کی صورت اختیار کررہا ہے۔ مگر صرف اس مشاہدہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قدرت پانچ سو ملین سال کے عمل کو نو مہینوں میں دہراتی ہے۔ جس قدرت کو اس سے پہلے ایک انسان بنانے میں پانچ سو ملین سال لگ گئے، وہ اب صرف نو مہینوں میں کروروں انسان کس طرح بنا رہی ہے۔ اور اگر قدرت کے عمل کو مختصر کرنا ممکن ہے تو ایک عالم حیاتیات کے لیے یہ ممکن ہونا چاہیے کہ وہ ایک مچھلی کا انڈہ لے اور اس کو اپنی لیبوریٹری میں رکھ کر نو مہینے یا نوسال کے اندر اس کو انسان کی صورت میں تبدیل کردے۔ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ بالکل ناممکن ہے۔
اس نظریہ کے بے بنیاد ہونے کی اس سے بھی زیادہ بڑی دلیل یہ ہے کہ فرد کی تمام خصوصیات اول روز ہی سے جین میں موجود ہوتی ہیں۔ بڑا ہو کر آدمی جن اوصاف کا حامل ہوتاہے، وہ سب اس کے اولین ڈھانچہ میں مکمل طورپر موجود رہتاہے۔ اس کا قد، اس کا رنگ، اس کا مزاج، اس کی ذہانت، سب کچھ اول دن ہی سے اس کے اندر پایا جاتا ہے۔بالفاظ دیگر، انسان کا بچہ پہلے دن سے انسان کا بچہ ہوتا ہے، وہ کسی لمحہ بھی مچھلی یا چھپکلی کا بچہ نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ماں کے پیٹ کے ابتدائی ہفتوں میں اور ہمارے مشاہدے کے پیمانہ میں وہ کس صورت کا دکھائی دے رہا ہے۔
2۔ ڈھانچہ میںارتقائی مشابہت سے بھی اصلاً جو بات ثابت ہوتی ہے وہ صرف یہ کہ مختلف جاندار، اپنے بنیادی ڈھانچہ کے اعتبار سے، ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ نہیں ہیں۔ بلکہ ان میں بعض پہلوؤں سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ مگر اس سے کسی بھی طرح یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ ایک قسم کا جانور دوسری قسم کے جانور کے پیٹ سے نکلا ہے۔ بیل گاڑی، گھوڑا گاڑی اور کار کے ڈھانچوں میں بعض پہلوؤں سے مشابہت ہے۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کس قدر عجیب ہوگا کہ بیل گاڑی کے بطن سے گھوڑا گاڑی نکلی ہے اور گھوڑا گاڑی کے بطن سے کار نے جنم لیا ہے۔ اور کار کے بطن سے ہوائی جہاز بر آمد ہوا ہے۔
3۔ متحجرات (fossils)کے مشاہدہ میں بھی مذکورہ بالا نظریہ کے لیے کوئی لازمی دلیل نہیں  ہے۔ اس سلسلے میں طبقاتی ترتیب کو اگر بلا بحث مان لیا جائے تب بھی اس سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ زمین کے اوپر حیوانات کی آباد کاری میں ایک ترتیب ہے۔ ایک قسم کے جانور ایک زمانہ میں وجود میں آئے۔ دوسری قسم کے جانور دوسرے زمانہ میں ۔ مثلاً جس زمانہ میں بندر وجود میں آئے، ٹھیک اسی زمانے میں انسانی نسل شروع نہیں ہوئی۔ اسی طرح جس زمانہ میں مچھلیاں یا چھپکلیاں بنیں، اسی وقت بندر کی نسل کا آغاز نہیں ہوا، وغیرہ۔ یہاں بھی یقیناً وہی آرگمینٹ ہے کہ اس سے تخلیق کی ترتیب ثابت ہوتی ہے، نہ کہ ارتقا کی ترتیب۔یعنی ایک کے پیٹ سے دوسرا، دوسرے کے پیٹ سے تیسرا نکلا۔ یہ ایک علیحدہ مفروضہ ہے۔ مذکورہ مشاہدات میں اس کے لیے براہ راست دلیل موجود نہیں ہے۔ متحجر ہڈیوں کے مطالعہ میں خواہ کتنی ہی احتیاط برتی جائے، ان سے جو بات ثابت ہوگی، وہ صرف یہی ہے کہ کس قسم کے جانور کی ہڈیاں کتنے ہزار سال سے زمین میں دفن ہیں، نہ یہ کہ کون سا جانور کس کے بطن سے نکلا ہے۔
موجودہ ارتقائی تحقیقات سے اگر کوئی چیز ثابت ہوتی ہے تو صرف یہ کہ زمین پر جو مختلف قسم کے جاندار پائے جاتے ہیں وہ سب بیک وقت اول روز سے زمین پر موجود نہیں ہوگئے ہیں۔ بلکہ ان کی تخلیق میں ایک زمانی ترتیب ہے۔ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ہر جاندر اپنے وقت میں مستقل طورپر پیدا کیا گیا یا ایسا ہوا کہ بطریق تناسل ایک جاندار کے بطن سے دوسرا جاندار نکلتا رہا۔
جہاں تک دوسرے مفروضہ کا تعلق ہے اس کے حق میں ابھی تک کوئی دلیل یا مشاہدہ سامنے نہیں آیا ۔ دوسری طرف جاندار اول کی حدتک سائنسداں یہ مانتے ہیں کہ وہ پہلی بار مستقل طورپر وجود میں آیا ہے۔ پھر جو مفروضہ پہلے جاندار کے لیے صحیح سمجھا گیا ہے وہی دوسرے جاندار کے لیے بھی کیوں صحیح نہیں ہوسکتا۔ جب کہ تحقیقات نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ پہلا جاندار امیبا (Amoeba) اپنے جسمانی نظام میں بعض اعتبار سے وہی تمام پیچیدگیاں رکھتا ہے جو آخری جاندار (انسان) میں پائی جاتی ہیں۔ اگر پہلے پیچیدہ جاندار کو پہلی بار وجود میں لانا قدرت کے لیے ممکن تھا تو دوسرے پیچیدہ جاندار کو پہلی بار وجود میں لانا اس کے لیے کیوں ناممکن ہوگیا۔
ایک مثال
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (8 ستمبر 2009) میں ایک خبر چھپی تھی۔ اِس خبر کاعنوان یہ تھا — خدا کا عقیدہ انسان کے دماغ میں پیوست ہے
Belief in God hardwired in our brain
خبر میں بتایا گیا تھا کہ انگلینڈ کی برسٹول یونی ورسٹی (Bristol University) میںایک رسرچ ہوئی ہے جس کا نتیجہ ٹائمس آن لائن (Times Online) میں چھپا ہے۔ اِس رسرچ میں بتایاگیاہے کہ— خدا کا عقیدہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہوتاہے۔ ارتقاکے دوران انسان کی اِس طرح پروگریمنگ ہوئی ہے کہ وہ خدا پر عقیدہ رکھے، کیوں کہ اِس سے اُنھیں زندہ رہنے کا زیادہ بہتر موقع ملتاہے
We are born believers. Human beings are programmed by evolution to believe in God, because it gives them a better chance to survival. (p. 17)
اِس بیان میں عقیدہ خدا کا فطری ہونا تو رسرچ کا حصہ ہے، لیکن ارتقاء (evolution) والی بات رسرچ کرنے والوں کا اپنا اضافہ ہے— حقیقی مشاہدات میںاِسی قسم کے مفروضات کے اضافے سے حیاتیاتی ارتقا کا پورا نظریہ قائم کیاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

فرق، نہ کہ تبدیلی

24-28ستمبر 1990کوایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے طرابلس (لیبیا) کا میرا ایک سفر ہوا۔اس سفر میں میری ملاقات ایک سیکولر تعلیم یافتہ صاحب سے ہوئی۔ ان سے ڈارون کے نظریہ ارتقا پر گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ میں ڈارونزم کو نہیں مانتا۔وہ حیرت کے ساتھ میرا چہرہ دیکھنے لگے۔انہوں نے کہا کہ ڈارون کا نظریۂ ارتقا تو ایک ثابت شدہ نظریہ ہے۔پھر کس طرح آپ اس کا انکار کر سکتے ہیں؟
میں نے پوچھا کہ وہ کیسے ثابت شدہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس نظریہ کے علما نے بندر سے لے کر انسان تک کے تمام ڈھانچے (skull) جمع کیے ہیں۔ان کو سلسلہ واررکھ کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایک تدریجی تبدیلی (gradual change) ہوئی ہے۔ میں نے کہا کہ جس چیز کو آپ ’’تبدیلی‘‘ کہتے ہیں، اس کو میں اگر ’’فرق‘‘ کہوں تو آپ کے پاس اس کی تردید کی کیا دلیل ہوگی؟
یہ صحیح ہے کہ حیوانات کے درمیان جسمانی بناوٹ کے اعتبار سے فرق کے ساتھ کچھ مشابہتیں بھی ہیں۔ مثلاً ہاتھی اور چوہا ظاہری طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن دونوں ریڑھ کی ہڈی والے جانور ہیں۔ یہی معاملہ انسان اور حیوان کا ہے۔ انسان اور حیوان کے ڈھانچہ میں بھی کچھ مشابہتیں ہے۔ مگر جب تک تجرباتی طور پر یہ ثابت نہ ہو جائے کہ ایک نوع سے دوسری نوع نکلی ہے، اس وقت تک ڈھانچہ کی اس مشابہت کو ارتقائی تبدیلی کی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ موجودہ حالت میں یہ مشابہت صرف فرق کو بتا رہی ہے۔ یعنی ہر ڈھانچہ اپنی ایک مستقل نوع کو بتا رہا ہے، نہ یہ کہ ایک سے دوسرا نکلا۔ دوسرے سے تیسرا اور تیسرے سے چوتھا۔ اور اس طرح ہوتے ہوتے انسان بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظریۂ ارتقا کی بنیاد صرف خود ساختہ توجیہات پر ہے، نہ کہ حقیقۃً مشاہدہ اور تجربہ پر۔
جو علماءِ سائنس حیاتیاتی ارتقا کو سائنسی حقیقت کہتے ہیں، ان کے نزدیک اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے مختلف انواع (species) کے جسمانی مظاہر کا معاملہ۔ اور دوسرا ہے ، قانونِ ارتقا کا مطالعہ، جو ارتقا پسند علماکے مطابق، انواع کی تبدیلیوں کے درمیان مخفی طور پر جاری رہتاہے، جس کی بنیاد پر ، ان علما کے مطابق، ایک نوع کے جانور سے دوسرے نوع کا جانور نکلتا ہے۔
ایک ارتقائی عالم جب انواع حیات کے جسمانی مظاہر کا مطالعہ کرتا ہے تو گویا کہ وہ ’’اشیا‘‘ کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب وہ ارتقائی قانون کا مطالعہ کرتا ہے تو اس وقت وہ اپنے موضوع کے اس پہلو کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہے جس کو قیاس یاآئڈیا کہا جاتا ہے۔
ہر ارتقائی عالم جانتا ہے کہ دونوں پہلوؤں کے درمیان نوعی فرق پایاجاتا ہے۔ اس معاملہ میں جہاں تک اشیا (جس کی بنیاد پر شواہدِ ارتقااکٹھا کیے جاتے ہیں)کا تعلق ہے، اس کے براہ راست دلائل قابل حصول ہیں۔ مثال کےطور پر متحجرات (fossils) جو کھدائی کے ذریعہ زمین کی تہوں سے کثرت سے برآمد کیے گئے ہیں، ان کا مطالعہ مشاہداتی سطح پر ممکن ہے۔
اس کے برعکس، قانونِ ارتقا کے معاملہ میں موضوعی شواہد نہ ہونے کی وجہ سے اس پر براہ راست استدلال ممکن نہیں۔مثلاً ارتقائی عمل کے دوران اشکال میں اچانک تبدیلیوں (mutations) کا نظریہ تمام ترقیاسات پر مبنی ہے، نہ کہ براہ راست مشاہدات پر۔ اس دوسرے معاملہ میں خارجی تغیرتو دکھائی دیتا ہے، مگر قانونِ تغیر بالکل نظر نہیں آتا۔ اسی لیے ہر ارتقا پسند عالم، ارتقاکے موضوع کے اس دوسرے پہلو میں بالواسطہ استدلال سے کام لیتا ہے جس کو علم منطق میں استنباطی استدلال (inferential argument) کہا جاتا ہے۔
تبدیلی کا یہ نظریہ ارتقا (evolution)کی بنیاد ہے۔ تاہم اس معاملہ کے دو حصے ہیں۔ اس کا ایک جزء مشاہدہ میں آتا ہے،یعنی اشیا۔ مگر اس کا دوسرا جزء مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ ہے۔ وہ صرف استنباط کے اصول سے کام لے کر فلسفہ ٔ ارتقا میں شامل کیا گیا ہے۔
یہ ایک عام واقعہ ہے کہ انسان یا جانور سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ سب ایک ہی قسم کے نہیں ہوتے۔ ان میں مختلف اعتبار سے کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اس حیاتیاتی مظہر کا سائنسی مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ رحم مادر میں بچہ کے جینز کے اندر اچانک طور پر خود بخود تبدیلیاں (spontaneous changes) پیدا ہوتی ہیں۔ یہی تبدیلیاں ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہونے والے بچوں میں فرق کا سبب ہیں۔
اولاد میں ایک دوسرے کے درمیان یہ فرق ایک مشاہداتی واقعہ ہے۔ مگر اس کے بعد اس مشاہدہ کی بنیاد پر ڈارون نے جو ارتقا کا فلسفہ بنایا ہے وہ مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ ہے، وہ صرف قیاسی استنباط کے ذریعہ تسلیم کر لیا گیا ہے۔ گویا اشیااور ان کے ڈھانچے کےدرمیان بناوٹ کا فرق قابل مشاہدہ ہے، مگر ایک نوع سے دوسرے نوع کے نکلنے کامفروضہ ارتقائی قانون ناقابل مشاہدہ۔
یہاں ارتقاپسند عالم یہ کرتا ہے کہ ایک سرے پر وہ ایک بکری کو رکھتا ہے اور دوسرے سرے پر ایک زرافہ کو۔ اس کے بعد وہ فاصل کے کچھ درمیانی نمونوں کو لے کر یہ نظریہ بناتا ہے کہ ابتدائی بکری کے کئی بچوں میں سے ایک بچہ کی گردن اتفاقاً کچھ لمبی تھی۔ اس کے بعد اس لمبی گردن والی بکری کی اولاد ہوئی اس میں گردن کی لمبائی کچھ اور بڑھ گئی۔ اسی طرح کروروں سال کے دوران گردن کی یہ لمبائی نسل در نسل جمع ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ ابتدائی بکری کی اگلی اولاد آخر کار زرافہ جیسا جانور بن گئی۔ اسی نظریہ کے تحت چارلس ڈارون نے اپنی کتاب اصل الانواع (On the Origin of Species)میں لکھا ہے کہ مجھ کو یہ بات تقریباً یقینی معلوم ہوتی ہے کہ ایک معمولی کُھردار چوپایہ زرافہ جیسے جانور میں تبدیل ہو سکتا ہے
...it seems to me almost certain that an ordinary hoofed quadruped might be converted into a giraffe. (p. 169)
اس معاملہ میں بکری کی اولاد میں فرق ہونا بذات خود ایک معلوم واقعہ ہے۔ مگر اس فرق کا کروروں سال تک نسل در نسل جمع ہوتے ہوئے اس کا زرافہ بن جانا، مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ اور ناقابل تجربہ ہے۔ ارتقا کا نظریہ ایک جانور اور دوسرے جانور کے درمیان نظر آنے والے فرق کی بنیاد پر استنباط کے ذریعہ اخذ کیا گیاہے، نہ کہ براہ راست طور پر خود مشاہدہ کے ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں

ارتقا علم کی کسوٹی پر

حیاتیاتی ارتقا کے متعلق چارلس ڈارون کی کتاب 1859 میں شائع ہوئی تو مغربی اقوام کے درمیان اس کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کتاب میں زندگی کی پیدائش کے بارے میں جو نظریہ پیش کیا گیا تھا وہ اس کے نام سے ظاہر ہے۔ اس کے پہلے ایڈیشن میں ٹائٹل پر حسبِ ذیل نام درج تھا
The Origin of Species of Natural Selection, or the Preservation of Favoured Species in the Struggle for Life.
ڈارون کے نظریہ کا خلاصہ یہ تھا کہ کسی جاندار سے جب چند بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان میں تھوڑا تھوڑا فرق ہوتا ہے۔ ان میں سے کسی کا فرق اس کو دوسرے ہم جنسوں کے مقابلہ میں زیادہ بہتر پوزیشن میں کردیتاہے، اسی بنا پر وہ زندہ رہتا ہے اور دوسرے ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ فرق توالد وتناسل کے ذریعہ بڑھتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ لاکھوں سال میں یہ نوبت آتی ہے کہ ایک نوع کا جانور دوسری نوع میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ مثلاً بکری کا گھوڑا بن جانا۔ اس طرح مختلف جاندار ارتقا کی سیڑھیوں پر چڑھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ انسان وجود میں آجاتا ہے۔
بظاہر اس خوبصورت نظریہ میں بہت سے خلا تھے۔ مثلاً یہ کہ ارتقا اگر ایک مسلسل عمل ہے تو کیوں ایسا ہے کہ زمین کے طبقات سے حاصل ہونے والے متحجرات صرف کمال کے مرحلہ کو پہنچے ہوئے انواع حیات کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔کیوں نہ ایسا ہوا کہ درمیانی مرحلہ کی قسمیں بھی کثیر تعداد میں موجود ہوتیں۔ یعنی ایسے جانور جو آدھا ایک جیسے ہوں اور آدھا دوسرے جیسے
If evolution has been a continuous process, why does the fossil record only show us apparently settled and established species. Why does it not include an abundance of intermediate forms.
ڈارون کا جواب یہ تھا کہ فاسلز کا ذخیرہ ابھی ناتمام ہے۔ آئندہ جب زیادہ فاسلز دستیاب ہوچکے ہوں گے تو یہ کمی دور ہوجائے گی۔ ڈارون کے بعد مزید بہت زیادہ فاسلز انسان کے علم میں آئے۔ مگر مذکورہ کمی اس کے باوجود بدستور باقی رہی۔
اس قسم کی کثیر خامیوں کے باوجود ڈارونزم کو کیوں اتنی زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ نظریہ 19ویں صدی کے مغربی انسان کی نوآبادیاتی توسیع پسندی کے عین مطابق تھا۔ برٹرینڈرسل کے الفاظ میں ’’یہ آزاد اقتصادیات کے اصول کونباتات اور حیوانات کی دنیا تک وسیع کرنا تھا
It was an extension to the animal and vegetable world of laissez-faire economics.
ــــــــــــــــــــــــــــ
نظریہ ارتقا کے دلائل جس معیارِ استد لال پراترتے ہیں، وہ کون سا معیار ہے۔ یعنی نظریۂ ارتقا کا براہ راست تجربہ نہ ہونا۔ البتہ ایسے مشاہدات کا حاصل ہونا، جن سے ان کی صداقت کا منطقی قرینہ معلوم ہوتا ہے۔ڈارونزم ایک ایسا نظریہ ہے، جس کا لیبارٹری میں تجربہ نہیں کیا گیا ہے، یہ صرف ’’عقیدہ‘‘ ہے۔ پھراس کو کس بنا پر علمی حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اے ای مینڈر کے الفاظ میں یہ ہے
1۔یہ نظریہ تمام معلوم حقیقتوں سے ہم آہنگ(consistent) ہے۔
2۔ اس نظریہ میں ان بہت سے واقعات کی توجیہ مل جاتی ہے جو اس کے بغیر سمجھے نہیں جا سکتے۔
3۔ دوسرا کوئی نظریہ ابھی تک ایسا سامنے نہیں آیا جو واقعات سے اس درجہ مطابقت رکھتا ہو۔
Clearer Thinking, p. 112
یہ استدلال جو نظریہ ارتقا کو حقیقت قرار دینے کے لیے معیارِ استدلال کے اعتبار سے کافی سمجھا جاتا ہے، یہی استدلال زیادہ شدت کے ساتھ مذہب کے حق میں موجود ہے، ایسی حالت میں جدید ذہن کے پاس کوئی وجہ جواز نہیں ہے کہ وہ کیوں ارتقا کو سائنسی حقیقت قرار دیتا ہے اور مذہب کو سائنسی ذہن کے لیے ناقابلِ قبول ٹھہراتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

نظریۂ ارتقا پر شبہات

انڈونیشیا کے ایک جزیرے میں 2003میں کسی قدیم انسان کا ایک متحجرڈھانچہ (fossilized skeleton)ملا۔ ماہرین کی ایک انٹرنیشنل ٹیم نے گہرائی کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا۔ اِس مطالعے کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، اُس سے معلوم ہوا کہ یہ ڈھانچہ 18 ہزار سال پرانا ہے۔ اِس مطالعے کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (8مارچ 2010) میں چھپا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ— یہ دریافت اچانک انسانی ارتقا کے بارے میں سائنسی نظریات کے خلاف ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ انسانی ارتقا کا عمل اُس سے زیادہ پیچیدہ ہے، جیسا کہ پہلے سمجھ لیا گیا تھا
Almost overnight, the find threatened to change science's understanding of human evolution. It would mean contemplating the possibility that not all the answers to human evolution lie in Africa, and that human development was more complex than thought (p. 23)
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دریافت نظریۂ ارتقا کے لیے بڑا چیلنج (big challenge) نہیں، بلکہ یہ نظریہ ارتقا کی ایک بڑی تردید ہے۔ اِس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی ارتقا ء کا نظریہ اُس سے زیادہ پیچیدہ ہے جتنا کہ اس کو سمجھ لیا گیا تھا۔ اصل یہ ہے کہ انسانی زندگی کا واقعہ اِس سے زیادہ پیچیدہ ہے کہ نظریۂ ارتقا کے ذریعہ اس کی توجیہ ہوسکے
Human development is complex enough to be explained by the evolution theory.
حقیقت یہ ہے کہ ارتقا کا نظریہ صرف ایک مفروضہ ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی علمی نظریہ۔ جدیدتعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان وہ صرف اِس لیے پھیل گیا کہ اُنھیں یہ نظر آیا کہ یہ اُن کے لیے ایک ورک ایبل (workable) نظریہ ہے۔ تاہم اِس نظریے کا ثابت شدہ واقعہ ہونا، ابھی تک اہلِ علم کے درمیان اختلافی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

نینڈر تھل مین

نظریۂ ارتقا کے حامیوں نے بہت سے ’’قدیم انسان‘‘ دریافت کیے ہیں۔ مثلاً پلٹ ڈاؤن مین، نینڈر تھل مین (neanderthal man)، پیکنگ مین، جاوا مین وغیرہ۔ قدیم انسان کی یہ تمام صورتیں فاسل کی بنیاد پر بنائی گئی ہیں جو زمین میں کھدائی سے برآمد ہوئی ہیں۔ نظریۂ ارتقا زندگی کی مختلف قسموں کے لیے جس عمل کو فرض کرتا ہے اس کے مطابق درمیانی انواعِ حیات (intermediate species) کا وجود بھی لازماً ہونا چاہیے۔ مگر ایسی انواع ابھی تک گم شدہ کڑیوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ڈارون نے تسلیم کیا تھا کہ درمیانی انواعِ حیات کے نمونے ہمارے پاس موجود نہیں ہیں۔ تاہم ڈارون کے بعد قدیم فاسلز کی بنیاد پر بہت سی عجیب وغریب انسانی شکلیں بنائی گئی ہیں۔ اور یہ فرض کیا جاتا ہے کہ یہ انسانی سلسلۂ حیات کی قدیم ارتقائی کڑیاں ہیں۔
انھیں میں سے ایک نینڈر تھل مین ہے جو جرمنی کی نینڈر نامی وادی کی طرف منسوب ہے۔ اس قسم کی ہڈیاں اور ڈھانچے 1856سے 1908تک ایشیا ، یورپ، شمالی افریقہ کے تقریباً 50 مقامات پر ملے۔پروفیسر بول (Marcellin Boule) نے ان ٹکڑوں کا مشاہدہ کرکے ان کی جو تعبیر کی، اس کو عام طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کو ابتدائی انسانی سلسلے کی ایک کڑی مان لیا گیا— گم شدہ کڑیوں میں سے ایک کڑی معلوم کرلی گئی۔
نینڈر تھل مین کی تصویریں کتابوں میں چھپنے لگیں۔ حتى کہ اس کے مجسمے بن گئے۔ مگر بعد کو علمائے حیاتیات نے جو تحقیقات کیں، اس نے بتایا کہ پروفیسر بول نے اندازہ کرنے میں کئی اہم غلطیاں کی تھیں۔ 1955میں ولیم اسٹرابس (جانسن ہاپکنس یونیورسٹی) اور اے۔جے۔ ای۔کیو (لندن) نے نینڈر تھل مین کے بنائے گئے ڈھانچہ کا از سر نو جائزہ لیا۔ یہ رپورٹ مکمل طورپر کوارٹرلی ریویو میں چھپ چکی ہے
Quarterly Review of Biology XXXIII (1957)
محققین لکھتے ہیں کہ نینڈر تھل مین کا ڈھانچہ ،جو کہ 40-50سال کی عمر کے ایک آدمی کا ڈھانچہ لگتا ہے، وہ گٹھیا کی بیماری نے آدمی کے نچلے جبڑے اور اس کی گردن اور پورے ڈھانچہ کو متاثر کیا۔ اس آدمی کے سرکا آگے کی طرف جھکاؤ جو پروفیسر بول نے نوٹ کیا تھا، وہ کم ازکم جزئی طورپر، اس کی بیماری کے سبب سے تھا۔ حقیقةً اس آدمی کا ڈھانچہ ویسا ہی تھا جیسا آج ایک اوسط فرانسیسی آدمی کا ڈھانچہ۔ حتی کہ جدید تحقیقات نے یہ بھی بتایا ہے کہ نینڈر تھل کے دماغ (brain) کا سائز بھی تقریباً وہی تھا جو آج ایک اوسط یورپی شخص کا ہوتا ہے۔ اس کے بال درست کرکے اور موجودہ لباس پہنا کر کھڑا کردیا جائے تو آج کے مہذب انسان سے وہ کچھ بھی مختلف معلوم نہیں ہوگا۔ حال میں نینڈرتھل مین کے جو مزید فاسلز ملے ہیں وہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ وہ ابتدائی کڑی نہیں بلکہ آج کے ایک انسان کی مانند تھا۔ نینڈر تھل انسان، لفظ انسان کے تمام مفہوم کے اعتبار سے مکمل انسان تھا۔
F. Clark Nowell, Early Man, New York, Time-Life Book, 1968, pp. 123-24
ـــــــــــــــــــــــــــــ
امریکاکے ایک کمپیوٹر اسپیشلسٹ مسٹر ڈیوڈ (David Coppedge) جو ناسا (NASA) میں ایک بڑی پوسٹ پر تھے، اُن کو سروس سے نکال دیاگیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ تخلیق کے بارے میں انٹیلی جنٹ ڈزائن (intelligent design) کے تصور کو مانتے تھے۔این بی سی نیوز (12 مارچ 2012) کے مطابق،ان کا خیال تھا کہ — تخلیق میں ضرور ایک بالاتر طاقت کا ہاتھ ہے کیوں کہ زندگی اتنی زیادہ پیچیدہ ہے کہ وہ تنہا ارتقائی عمل کے ذریعے وجود میں نہیں آسکتی
a higher power must have had a hand in creation because life is too complex to have developed through evolution alone .
www.nbcnews.com/id/wbna46701591 (accessed on 03.11.21)
ایک امریکی اسکالر جان ویسٹ (John West) نے اِس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیوڈ کا ریمارک ڈارون کے نظریہ ارتقا کو مشتبہ ثابت کرتاہے، جب کہ ماڈرن طبقے کا یہ حال ہے کہ اس نے ایسے کسی بھی شخص کے خلاف عملاً ایک جنگ چھیڑ رکھی ہے جو ڈارون سے اختلاف کرے۔
واپس اوپر جائیں

پدم وبھوشن ایوارڈ

Centre for Peace and Spirituality (CPS International) is greatly thankful to the Government of India for conferring the second highest civilian award,Padma Vibhushan 2021 on our founder Maulana Wahiduddin Khan. With great humility we accept the prestigious award in recognition of his lifelong work in the area of Peace and Spirituality.
Dr. Saniyasnain Khan, his son received the award and conveyed his heartfelt thanks on behalf of his entire family and CPS members worldwide. He said that the award has instilled renewed enthusiasm and passion among all the followers of Maulana Sahab and that his work towards Global Peace, Spirituality, Interfaith Harmony and Nation Building will continue with greater vigour and teamwork than before.
Further, he added that the dream of Maulana Sahab to see India as a spiritual superpower will be one of the important tasks of the Centre.
سی پی ایس انٹرنیشنل اپنے بانی مولانا وحید الدین خاں کو حکومت ہند کی جانب سےدوسرا سب سے بڑا شہری اعزاز پدم وبھوشن 2021 عطا کرنے پرحکومت ہندکا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے۔ امن اور اسپریچوالٹی کے شعبے میں مولانا کی تاحیات خدمات کے اعتراف میں دیے گئے اس باوقار ایوارڈ کو ہم انتہائی ادب کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔
مولاناوحیدالدین خاں کے صاحبزادے ڈاکٹر ثانی اثنین خان نے 9 نومبر2021 کو صدرجمہوریہ ہند رام جناب ناتھ کووند کے ہاتھوں یہ ایوارڈ حاصل کیا، اور اپنے اہل خانہ اور دنیا بھر میں موجود سی پی ایس انٹرنیشنل کے اراکین کی جانب سے ان کا شکریہ ادا کیا۔
اس موقع پرڈاکٹر ثانی اثنین خان نے کہا کہ اس ایوارڈ نے مولانا وحیدالدین خاں کے عالمی امن و روحانیت کے مشن ، اور ان کےتمام پیروکاروں میں ایک نیا جوش اور جذبہ پیدا کیا ہے۔ انھوں نے امیدظاہر کی کہ مولانا کے ذریعے جاری کردہ انٹرفیتھ ہارمنی اور قومی تعمیر کا کام پہلے سے زیادہ جوش وخروش اور ٹیم ورک کے ساتھ جاری رہے گا۔ ہندوستان کو روحانی سپر پاور کے طور پر دیکھنامولانا وحیدالدین خاں کا خواب تھا،اس سمت میں سی پی ایس انٹرنیشنل کام کرتا رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

پلٹ ڈاؤن مین

نظریہ ارتقا کا دعویٰ ہے کہ انسان اور حیوان دونوں ایک ہی نسل سے ہیں۔ انسان دوسرے حیوانات ہی کی ترقی یافتہ نوع ہے، نہ کہ کوئی علاحدہ نوع۔ اس دعویٰ کے سلسلے میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ان میں سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ ہے تو بیچ کی وہ انواع کہاں ہیں جو مفروضہ ارتقائی عمل کے مطابق ابھی موجودہ انسان کے مقام تک نہیں پہنچی تھیں۔وہ ابھی حیوان اور انسان کے درمیان تدریجی ارتقا کے مراحل طے کررہی تھیں۔
اس نظریہ کے حامیوں کے پاس اس کے جواب میں قیاس وگمان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ڈارون نے اپنی کتاب میں بار بار ’’ہم بخوبی قیاس کرسکتے ہیں (We may well suppose)‘‘کا جملہ استعمال کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یقیناً ایسا ہوا ہے، اگرچہ ابھی ہمیںاس کے تمام نمونے حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔ اس فرضی یقین کی بنیاد پر ایک پورا شجرۂ نسب تیار کرلیا گیا ہے جو انسان کی نسل کو بندر کی نسل تک جا ملاتا ہے۔ بندر اور انسان کے درمیان کی یہ کڑیاں تمام کی تمام مفروضہ کڑیاں ہیں مگر بالکل غلط طورپر ان کو گم شدہ کڑیاں (missing links)کہا جاتا ہے۔
ان خیالی قسم کی گم شدہ کڑیوں کی تلاش پچھلے ایک سوسال سے جاری ہے۔ بار بار دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فلاں گم شدہ کڑی ہاتھ آگئی ہے۔ انھیں میں سے ایک کڑی وہ ہے جس کو پلٹ ڈاؤن مین (Piltdown Man)کہا جاتا ہے۔
پلٹ ڈاؤن مین کو تقریباً آدھی صدی تک ’’عظیم دریافت‘‘ کہا جاتا رہا ۔ یہ سمجھا جاتا رہا کہ یہ ماقبل تاریخ کا وہ انسان ہے جو ایک طرف انسانی اوصاف کا حامل تھا اور دوسری طرف وہ بندر (چمپینزی) کی بھی کچھ خصوصیات اپنے اندر رکھتا تھا۔تاریخ کی کتابوں میں باقاعدہ اس کے حوالے شامل ہوگئے۔ وہ کالجوں کے نصاب میں پڑھایا جانے لگا۔ مثال کے طورپر آرایس لَل (R.S. Lull) کی مشہور کتاب عضویاتی ارتقا (Organic Evolution)سات سو صفحات پر مشتمل ہے اور ٹکسٹ بک کی حیثیت سے رائج ہے۔ اس میں انسان اور حیوان کے درمیان جن معلوم کڑیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ حسب ذیل چار ہیں
1. Ape-man of Jawa.
2. Piltdown man
3. Neanderthal Man
4. Cro-magnon Man
مگر بعد کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ پلٹ ڈاؤن مین ایک مکمل فریب تھا۔ اس سلسلہ میں سائنس دانوں کے تحقیقی نتائج مختلف کتابوں اور مقالات میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس کو جاننے کے لیے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کا مقالہ یا ’’پلٹ ڈاؤن فورجری‘‘ نامی کتاب کا مطالعہ کافی ہے۔ جس کو آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں
1. Bulletin of the British Museum (Natural History), Vol. 2, No. 3 and 6
2. J.S. Weiner, The Piltdown Forgery (1955)
3. Ronald Millar, The Piltdown Man (1972)
4. Reader's Digest, November 1956
5. Popular Science (Monthly) 1956
چارلس ڈاسن (Charles Dawson) نامی ایک انگریز متحجر ہڈیوں (Fossil Bones) کے جمع کرنے کا بہت شوقین تھا۔ 1912ء کا واقعہ ہے کہ وہ کچھ ہڈیوں کو لے کر برٹش میوزیم پہنچا اور یہ خبر دی کہ یہ ٹکڑے اسے جنوبی انگلینڈ کے ایک مقام پلٹ ڈاؤن (Piltdown) میں ایک کھوہ کے اندر کنکریوں کے درمیان پڑےہوئے ملے ہیں۔ برٹش میوزیم کے ایک نامور عالم ڈاکٹر آرتھر اسمتھ وڈورڈ (A.S. Woodward) نے اس میں خصوصی دلچسپی لی اور بتائے ہوئے مقام پر پہنچ کر کھدائی کے ذریعہ مزید ٹکڑے حاصل کیے۔ اس طرح بیس سے کچھ زیادہ ہڈیوں اور دانت کے ٹکڑے جمع کرکے ان کا مطالعہ شروع کیا گیا۔
ان حاصل شدہ ٹکڑوں میں سب سے زیادہ نمایاں ایک جبڑے کا ٹوٹا ہوا حصہ تھا جو واضح طورپر ایک بندر کا جبڑا معلوم ہوتا تھا۔ مگر اس میں ایک خاص چیز بندر سے مختلف تھی۔ یہ اس میں لگے ہوئے داڑھ کے دو دانت تھے جن کی اوپر کی سطح ہموار (flat) تھی۔ جو کہ صرف کسی انسانی دانت ہی میں ہو سکتی ہے۔ چنانچہ قیاس کرلیا گیا کہ یہ جبڑا کسی قدیم انسان کا ہے۔ اور اس کے بعد نہایت آسانی سے اس کو ارتقا کی ایک گم شدہ کڑی قرار دے دیا گیا۔ تلاش کرنے والوں نے جلد ہی پلٹ ڈاؤن کے آس پاس وہ کھوپڑی بھی حاصل کرلی جو دورِ سابق کے اس انسان کے سر پر قدرت نے پیدا کی تھی۔
مذکورہ بالا کھوہ میں ماقبل تاریخ کے زمانے کے کچھ جانوروں کے آثار ملے جن سے یہ متعین ہوگیا کہ ’’پلٹ ڈاؤن مین‘‘ قدیم برفانی دور کا انسان ہے جو پانچ لاکھ سال پہلے زمین کے اوپر گزر چکا ہے۔اس تحقیق نے دوسری معلوم کی ہوئی گم شدہ کڑیوں کے مقابلہ میں اس کو قدیم ترین معلوم انسان کی حیثیت دے دی۔ چارلس ڈاسن عظیم اعزازات کا مستحق قرار دیاگیا۔ کیوں کہ اس نے سائنس کی ایک پیچیدہ گتھی کو حل کرنے میں مدد دی تھی۔
پتھر میں تبدیل شدہ یہ انسانی ہڈیاں جو حاصل ہوئی تھیں وہ پورے انسانی ڈھانچہ کے صرف بعض اجزاء تھے۔ مگر ماہرین نے ان کی روشنی میں قوت تخیل (power of imagination) سے کام لے کر پانچ لاکھ سال پہلے کے انسان کا ایک پورا ڈھانچہ تیار کرلیا جو اپنی بے ڈھنگی پیشانی اور بندر نما جبڑوں کے ساتھ چالیس سال تک سائنس دانوں کا مرکز توجہ بنا رہا۔ مگر 1950ء میں یکایک پلٹ ڈاؤن مین کی حیثیت کو سخت دھکا لگا۔ جب طبقات الارض کے ایک عالم ڈاکٹر کنتھ آکلے (Kenneth Oakley) نے ایک کیمیاوی طریقے کو استعمال کرکے اس کی تاریخ معلوم کی۔
یہ ایک اصول ہے کہ کوئی ہڈی جتنے دنوں تک زمین میں دفن پڑی رہے گی وہ اسی کے بقدر زیادہ مقدار میں ایک مخصوص عنصر کو جذب کرتی ہے جس کا نام فلورین (Fluorine)ہے۔ ڈاکٹر آکلے کے تجربے سے معلوم ہوا کہ حاصل شدہ ہڈیوں میں جتنی فلورین پائی جاتی ہے، اس کے لحاظ سے اس کی عمر صرف پچاس ہزار سال ہونی چاہیے، نہ کہ پانچ لاکھ سال۔
بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ پلٹ ڈاؤن مین کی کھوپڑی کے متعلق آکلے کا اندازہ بالکل صحیح تھا۔ مگر اسی کی بنیاد پر اس نے جبڑے کی عمر بھی جو اسی قدر فرض کر لی تھی، وہ صحیح نہیں تھی۔ جبڑا درحقیقت موجودہ زمانے کے ایک بندر کا تھا جو فرضی طورپر مذکورہ کھوپڑی کے ساتھ جوڑ دیاگیا تھا۔
آکلے کی مذکورہ دریافت نے پلٹ ڈاؤن کو دوبارہ ایک معما بنا دیا کیوں کہ پانچ لاکھ سال پہلے کے ایک ڈھانچے کو تو گم شدہ کڑی فرض کیا جاسکتا تھا مگر ایک ایسا جاندار جو صرف پچاس ہزار سال پہلے موجود رہا ہو اس کا گم شدہ کڑی ہونا بالکل ناقابل قیاس تھا۔
اس کے بعد 1953ء کی ایک شام کو لندن کی ایک دعوت میں آکلے کی ملاقات آکسفرڈ یونیورسٹی میںانسانیات کے ایک پروفیسر ڈاکٹر وینر (J.S. Weiner)سے ہوئی۔ ڈاکٹر وینر ڈاکٹر آکلے کی باتوں سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے بعد گھر آکر اس نے سوچنا شروع کیا کہ آخر اس کی حقیقت کیا ہے۔ سب سے زیادہ حیرانی اس کو پلٹ ڈاؤن مین کے دانت کے بارے میں تھی۔ ’’ایک بندر نما جبڑے میں انسانی دانت جو اس طرح ہموار ہیں جیسے کسی نے ریتی سے ......‘‘ یہ سوچتے ہوئے اچانک ایک نیا خیال اس کے ذہن میں آیا‘ ’’ایسا تو نہیں ہے کہ کسی نے ریتی سے گھس کر ان دانتوں کو چکنا کردیا ہو۔‘‘ اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ حقیقت کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اب وہ اپنے سامنے تحقیق کا ایک نیا میدان پا رہا تھا۔
دینر نے اپنے ایک ساتھی سرولفر ڈلی گروز کلارک (Sir Wilfred Le Gros Clark) کی معیت میں چمپینزی (بندر کی ایک قسم) کا ایک داڑھ کا دانت لیا، اس کو ریتی سے گھِس کر ہموار کیا اور اس کے بعد اسے رنگ کر دیکھا تو وہ پلٹ ڈاؤن کے دانت کے بالکل مشابہ تھا۔ اس کے بعد وہ دونوں برٹش میوزیم گئے تاکہ پلٹ ڈاؤن مین کے جبڑے حاصل کرکے اس کے متعلق اپنے قیاس کی تحقیق کریں۔ لوہے کا ایک مقفل بکس جو خاص طورپر فائر پروف بنایا گیا تھا، اس کے دروازے کھولے اور اس کے اندر سے پلٹ ڈاؤن کے ڈھانچے کے ’’مقدس‘‘ ٹکڑے نکالے گئے تاکہ سائنسی طریقوں کے مطابق ان کا گہرا تجزیہ کیا جائے۔ اکسرے مشین اور دوسرے جدید قسم کے آلات حرکت میں آگئے۔ ایک مخصوص قسم کا کیمیاوی طریقہ بھی استعمال کیا گیا جو نائٹروجن کی کمی کو معلوم کرکے یہ بتاتا ہے کہ اس پر کتنا وقت گزر چکا ہے۔
وینر کا قیاس صحیح تھا۔ ان مشاہدات سے معلوم ہوا کہ پلٹ ڈاؤن مین کے جبڑے کی ہڈی کوئی پرانی ہڈی نہیں تھی بلکہ عام قسم کے ایک بندر سے حاصل کی گئی تھی۔ ہڈی کا قدرتی رنگ چونکہ فاسلز (fossils) ہونے کے بعد بدل جاتا ہے، اس لیے فریب دہندہ نے نہایت ہوشیاری سے اس کو مہوگنی رنگ میں رنگ دیا تھا۔ رنگ کو عین مطابق بنانے کے لیے چند مخصوص اجزاء استعمال کیے گئے تھے۔ گہرے مطالعہ کے بعد معلوم ہوا کہ دانت کی سطح پر ایسے خراش موجود ہیں جو بلا اشتباہ اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ دانت مصنوعی طورپر رگڑا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کناروں میں غیر فطری قسم کی تیزی بھی تھی جو کہ صرف ریتی سے رگڑنے ہی کی صورت میں ہوسکتی ہے۔
1953ء میں مندرجہ بالا تینوں محققین (آکلے، وینر، کلارک) نے اعلان کیا کہ جبڑا اور دانت بالکل فرضی ہیں — اس کے بعد وینر نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اتنا بڑا فریب جو گھڑا گیا اس کا مصنف کون تھا۔ اس نے تمام ممکن تفصیلات جمع کرنا شروع کیں، ملک بھر کے سفر کیے تاکہ پلٹ ڈاؤن کے واقعہ سے متعلق جو افراد ہیںان سے گفتگو کرے، جو لوگ مرچکے تھے وہ ان کے عزیزوں اور دوستوں سے ملا۔ اخبار کے قدیم فائلوں سے اس سلسلے کی تمام رپورٹیں پڑھ ڈالیں۔
اس گہرے مطالعہ کے بعد پلٹ ڈاؤن کے واقعہ سے تمام افراد بالکل بری نظر آئے۔ مگر ایک شخص (چارلس ڈاسن) اس سے مستثنیٰ تھا۔ جو اس واقعہ کا ہیرو تھا۔ تمام معلومات اشارہ کررہی تھیں کہ اس بے بنیاد بات کا اصل مصنف ڈاسن ہی ہے۔
چارلس ڈاسن ایک کامیاب قانون داں تھا۔ وہ انگلینڈ کے اس مخصوص خطے کا باشندہ تھا جہاں متحجرات (fossils) کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ڈاسن کو متحجرات سے بہت دل چسپی پیدا ہوگئی اس کا یہی مشغلہ بن گیا کہ وہ متحجر ہڈیاں جمع کیا کرتا تھا۔ پلٹ ڈاؤن مین کے واقعہ سے پہلے وہ دور قدیم کے متعدد جانوروں کے ڈھانچے حاصل کرکے لندن کے عجائب خانے میں بھیج چکا تھا۔
بعد کو ڈاسن کو وہ مذاق سوجھا جس نے 40 سال سے زیادہ مدت تک اہل علم کو فریب میں مبتلا رکھا۔ ڈاسن کے ایک ملاقاتی نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ آواز دئے بغیر ڈاسن کے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے دیکھا کہ ڈاسن کچھ تجربات میں مشغول ہے۔ وہ مختلف برتنوں میں کھاری اجزاء اور رنگین عرق ڈال کر ہڈیوں کو اس میں ڈبوئے ہوئے تھا۔ ڈاسن نے اس کو دیکھ کر گھبرائے ہوئے انداز میں وضاحت کی کہ وہ متحجر ہڈیوں کو رنگ رہا تھا تاکہ یہ معلوم کرے کہ قدرتی طورپر ان کا جو رنگ ہے وہ کیسے بنتا ہے۔ اس قسم کے اور واقعات معلوم ہوئے جنھوں نے اس خیال کی تصدیق کردی کہ اس گھڑے ہوئے فریب کا مصنف ڈاسن ہے۔ مگر یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب کہ اس سے بہت پہلے ڈاسن 1916 میں 52 برس کی عمر میں عین اپنی شہرت کے وقت مرچکا تھا۔
ڈاسن نے اپنے جھوٹ کو مکمل کرنے کے لیے ایک اور تدبیر کی۔ اس نے پتھر کے کچھ اوزار پیش کیے اور بتایا کہ یہ اسے پلٹ ڈاؤن کے مقام پر ملے ہیں۔ چنانچہ یہ تسلیم کرلیا گیا کہ یہ پتھر کے وہ اوزار ہیں جن سے پانچ لاکھ سال پہلے کا ناقص انسان کام لیا کرتا تھا۔ مگر بعد کی تحقیقات نے ان کو بھی بالکل جعلی ثابت کردیا۔ ڈاسن نے اسی قسم کا ایک پتھر کا اوزار ہیری موریز (Harry Morris)کو دیا تھا۔ موریز ایک بینک کلرک تھا اور پتھر کے پرانے نمونے جمع کرنے کا شائق تھا۔ بعد کو موریز اپنی تحقیق سے اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ پتھر کا اوزار بالکل جعلی ہے۔ موریز نے اس پتھر کو اپنی مخصوص الماری میں دوسرے نمونوں کے ساتھ رکھ چھوڑا تھا۔ جب وینر کو اس کی اطلاع ملی تو اس کا شوق بڑھا مگر اس سے بہت پہلے موریز کا انتقال ہوچکا تھا۔
وہ پتھر کہاں ہے؟ وینر کو یہ سوال پریشان کرنے لگا۔ موریز کے مرنے کے بعد اس کی الماری د و ہاتھوں میں منتقل ہوچکی تھی۔ تاہم وینر نے اسے ڈھونڈ نکالا۔ الماری کھولنے پر معلوم ہوا کہ اس کے اندر بارہ خانے ہیں جن میں بہت سے نمونے لیبل لگے ہوئے رکھے ہیں۔ آخری خانے میں پلٹ ڈاؤن کا پتھر کا اوزار تھا اس پر موریز کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے یہ الفاظ درج تھے
‘‘Stained by C. Dawson with intent to defraud”.
یعنی اس کو ڈاسن نے بالکل جعلی طورپر خود اپنے ہاتھ سے رنگا تھا تاکہ دنیا کو دھوکا دے کہ یہ بہت پرانے زمانے کا اوزار ہے۔ ایک نوٹ میں موریز نے یہ بھی بتایا تھا کہ ہائیڈروکلورک ایسڈ پتھر کے بھورے رنگ کو ختم کرکے اس کو معمولی سفید رنگ کے پـتھر میں تبدیل کردیتا ہے۔
تبصرہ
یہ واقعہ بتارہا ہے کہ دور قدیم کی ہڈیوں کے ٹکڑے جمع کرکے ان کی بنیاد پر جو قیاسی ڈھانچے کھڑے کیے گئے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔ بے شک دور قدیم میں کوئی ڈاسن موجود نہیں تھا جو ہم کو دھوکا دینے کے لیے ان ہڈیوں کا حلیہ بگاڑ دیتا۔ مگر لاکھوں اور کروروں برس تک آندھی، طوفان اور زلزلے زمین کے اوپر جو الٹ پلٹ کررہے تھے ان کی وجہ سے ہڈیوں کے مقام اور ان کی ہیئت میں وہ ساری تبدیلیاں ہونا ممکن ہیں جن کا آج ہم نے ’’ڈاسن مین‘‘ کی صورت میں تجربہ کیا ہے۔ پھر ارتقا کے حامیوں کے پاس وہ کون سا علم یقین ہے جس کی بنیاد پر وہ نامعلوم ماضی کے بارے میں اتنی قطعیت کے ساتھ اپنا دعوی پیش کررے ہیں۔
اس موضوع پر اپنے مضمون کو ختم کرتے ہوئے ماہنامہ پاپولر سائنس (Popular Science) کا مضمون نگار آخر میں لکھتا ہے
پلٹ ڈاؤن کی خیالی داستان اب ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکی ہے۔ مگر ایک معمہ ابھی تک حل نہ ہوسکا۔ وہ کیا مقصد تھا جس کے لیے ڈاسن نے اتنا بڑا جھوٹ تیار کیا؟ اس کو اس کام سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ برٹش میوزیم کو اس نے جو ہڈیا ں فراہم کی تھیں وہ اس نے محض تحفہ کے طورپر پیش کی تھیں۔ اس نے ان کی کوئی قیمت وصول نہیں کی۔ پھر کیا شہرت اس کا مقصد تھا۔ کیا اس زبردست فریب کے ذریعہ وہ محض ایک مذاق کرنا چاہتا تھا۔ اس انگریزجعل ساز کو آخر کس چیز نے اس کا م پر آمادہ کیا۔اس کا معلوم کرنا کیمیاوی اور طبیعی تجربوں کی دسترس سے باہر ہے۔ اور شاید وہ ہمیشہ ایک راز ہی رہے گا۔‘‘
یہ فقرہ درحقیقت اس بات کا اعتراف ہے کہ تجربی علم (Tested Knowledge)اپنی محدودیتوں کی وجہ سے کائنات کی توجیہ نہیں کرسکتا۔ وہ ہماری دنیا کے صرف بعض واقعات کا تجزیہ کرسکتا ہے، جب کہ ہمیں ایک ایسے علم کی ضرورت ہے جو تمام واقعات کا تجزیہ کرے۔ جو تمام حقیقتوں کو ہم پر آشکارا کرسکے۔ ایسا کامل علم صرف وحی کا علم ہے، اس کے سوا کوئی اور علم اس ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں

ارتقا کا مفروضہ قافلہ

کائنات کی معلوم شاہراہوں میں اپنا راستہ نہ پاسکا
ڈارون (1809-1882) کو یقین تھا کہ زندگی ایک ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ کیڑے مکوڑے اپنے اعضا میں ترقیاتی تبدیلیاں کرتے کرتے بکری بن گئے اور بکری نے ترقی کرکے زرافہ کی صورت اختیار کرلی۔ پچھلے سو برس کے دوران یہ ایک مسلمہ سائنسی عقیدہ بن گیا تھا۔ مگر حالیہ مطالعہ نے اس عقیدہ کو علمی حیثیت سے متزلزل کردیا ہے۔ مثال کے طورپر معلوم ہوا ہے کہ زمین کی عمر اس اندازہ سے بہت کم ہے جو ارتقائی طورپر زندگی کی انواع کو وجود میں لانے کے لیے ضروری ہے۔
اب علمائے حیاتیات کا قیاس یہ ہورہا ہے کہ زمین سے باہر کائنات کے کسی مقام پر انسان جیسی تہذیب موجود ہے اور اس نے بالقصد زندگی کا جرثومہ(bacterium) اوپر سے زمین پر بھیجا ہے۔ مگر یہاں بھی ایک رکاوٹ درپیش ہے۔ کائناتی وقت اتنا کافی نہیں کہ اس کے اندر دو تہذیبیں ایک کے بعد ایک ترقی کرسکیں۔ ایک زمین پر۔ دوسری کسی اور سیارہ میں — گویا انسانی علم وہاں پہنچ گیا ہے جہاں اس کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ ایک قادر مطلق کے وجود کو تسلیم کرلے۔
زمین پر زندگی کیسے شروع ہوئی، اس کے بارے میں حال ہی میں ایک چونکا دینے والا نظریہ سامنے آیا ہے۔ اس نظریہ کو پیش کرنے والے دو ممتاز مالے کیولر بیالوجسٹ ہیں۔ ایک، نوبل انعام یافتہ فرانسس کریک (Francis Crick) دوسرے لزلی آرگل (Leslie Orgel)۔اس نظریہ کے مطابق زمین پر زندگی کا آغاز نہ تو خود بخود ہوا اور نہ اس طرح کی کچھ ملین سال پہلے ایک ابتدائی مادہ سے ایک جسم حیوانی (organism)بنا اور اس سے تدریجی ارتقا کے ذریعے زندگی کی انواع وجود میں آئیں۔ بلکہ زندگی ایک ایسے تجربے کا نتیجہ تھی جو کچھ غیر ارضی ہستیوں (Extraterrestrial Beings)نے کروروں سال پہلے پلان کیا تھا۔
کریک اور آرگل یہ فرض کرتے ہیں کہہمارے کہکشانی نظام کے دوسرے سیاروں میں ترقی یافتہ تہذیبیں موجود ہیں۔ انقیاس کے مطابق، اسی قسم کے کسی سیارہ کے باشندوں نے کچھ ہزار ملین سال پہلے طے کیا کہ وہ اس بات کا تجربہ کریں کہ کیا ان کے پڑوسی سیاروں میں زندگی اپنے لیے نیا ماحول پیدا کرسکتی ہے۔ چنانچہ انھوں نے ہماری کہکشاں کے کچھ سیاروں پر زندگی کے جراثیم ڈالے۔ اسی قدیم تجربہ کا نتیجہ ہماری موجودہ تہذیب ہے۔
انیسویں صدی میں ڈارون کے نظریہ کے بعد اہل مذاہب کا مخصوص تخلیق کا نظریہ علمائے سائنس کے درمیان ختم ہوگیا تھا۔ اس کے بعد سائنس داں اس سوال کا جواب معلوم کرنے میں سرگرداں تھے کہ زندگی شروع کس طرح ہوئی۔ اس بحث کے دوران سویڈن کے کیمسٹ ارے نیس (Arrhenius) نے انیسویں صدی کے آخر میں یہ تخیل پیش کیا کہ کچھ بیکٹیریائی اجزاء کسی ایسے سیارہ سے زمین پر آگئے، جہاں پہلے سے زندگی موجود تھی، اور پھر تدریجی ارتقا کے ذریعہ اقسام حیاتیات کو وجود میں لانے کا سبب بنے۔ ارے نیس نے اس طریق عمل کو ’’پینس پرمیا‘‘ کا نام دیا۔ اس نظریہ کو اس تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ بیکٹیریا بین سیاراتی سفر میں خطرناک ریڈی ایشن (radiation)کے مقابلہ میں زندہ نہیں رہ سکتا، لارڈ کلوین (Kelvin) نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’ہوسکتا ہے کہ بیکٹیریا کسی شہابئے سے چپک گیا ہو اور اس پر سوار ہو کر زمین پر آیا ہو۔‘‘
اگر چہ یہ ممکن ہے کہ بیکٹیریائی اجزاء شہابئے پر سوار ہو کرایک سیارہ سے دوسرے سیارے کا سفر کریں، تاہم پینس پرمیا کا نظریہ کبھی سائنس دانوں کے لیے قابل قبول نہ ہوسکا تھا۔ اس نظریہ کا اساسی مقدمہ یہ ہے کہ زندگی اس سے پہلے کہیں موجود تھی، جب کہ اس نظریہ میں اس کا جواب نہیں ملتا کہ دوسرے سیارہ پر زندگی کیسے وجود میں آئی۔
کریک اور آرگل، یہ مانتے ہوئے کہ بیکٹیریائی اجزاء کی اتفاقی ہجرت ناممکن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت یہ قابلِ قیاس ہو جاتا ہے جب کہ یہ مانا جائے کہ بالقصد کسی نے زندگی کے جراثیم کو زمین پر بھیجا ہو۔ وہ اس عمل کو معین پنسپرمیا (Directed Panspermia)کا نام دیتے ہیں۔
اس نئے نظریہ کے ثبوت میں کریک اور آرگل دو حیاتیاتی مسئلوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک جینیٹک کوڈ ہے۔ ہر ایک موجودہ زمانہ میں تسلیم کرتا ہے کہ زمین پر زندگی کی تمام قسموں کے لیے صرف ایک کوڈ ہے۔کوئی حیاتیاتی عالم اس عالمگیریت کی توجیہ نہیں کرسکتا کہ سب کے لیے ایک ہی کوڈ کیوں ہے۔ آرگل اور کریک کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حیاتیات کا ایک ہی بیج تھا، جس سے زندگی شروع ہوئی، اس لیے فطری طورپر اس بیج کا جینٹک کوڈ، جو کروروں سال پہلے کسی دوسرے سیارے کے باشندوں نے زمین پر بھیجا تھا، اپنا اعادہ ایک ہی جینیٹک کوڈ کی شکل میں کرتا رہا۔
دوسری چیز مولب ڈینم (Molybdenum) نامی دھات کا وہ رول ہے جو حیاتیاتی نظام میں پایا جاتا ہے۔ اکثر انزائم سسٹم اپنی کارکردگی کے لیے اس کے اور صرف اس کے محتاج ہوتے ہیں۔مولب ڈینم اتنا غیر معمولی طور پر اہم ہونے کے باوجود زمین میں پائی جانے والی کل دھاتوں کا صرف 0.02فی صد (دس ہزار میں دو) ہے۔ دوسری طرف بعض زیادہ مقدار میں پائی جانے والی دھاتیں مثلاً کرومیم اور نکل، جو کہ اپنی خاصیت میں مولب ڈینم سے بہت مشابہ ہوتی ہے اور زمینی دھاتوں کا 0.2 فی اور 3.16 فی صد ہیں، حیاتیاتی نظام میں بالکل ہی کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ کریک ا ور آرگل کہتے ہیں کہ زمین کی جو کیمیائی ترکیب ہے وہ زمین پر وجود میں آنے والی زندگیوں کی بناوٹ میں منعکس ہونی چاہیے تھی۔ اور چونکہ ایسا نہیں ہے اس لیے ماننا پڑے گا کہ زندگی کچھ ملین سال پہلے زمین پر باہر سے بھیجی گئی۔
اگر معین پینس پرمیا کا نظریہ مان لیا جائے تو اس سے دو سوالات پیداہوتے ہیں۔ (1) کیا کائناتی وقت اتنا کافی ہے کہ اس کے اندر دو تہذیبیں ایک کے بعد ایک ترقی کرسکیں، ایک زمین پر اور دوسری کسی اور سیارہ میں۔ (2) کیا حیاتیاتی جرثومہ بین سیاراتی فاصلوں کو عبور کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ زندہ حالت میں پہنچایا جاسکتا ہے۔
کریک اور آرگل کا خیال ہے کہ ان کا نظریہ قبولیت حاصل کرلے گا، اگر یہ ثابت ہوسکے کہ وہ عناصر جو زمینی زندگی کے اجزائے ترکیبی ہیں، وہ وہی ہیں جو بعض قسم کے ستاروں میں، ان کے قیاس کے مطابق کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ڈارونزم

دورِ جدید کے فکری مغالطوںمیں سے ایک مغالطہ وہ ہے جس کو ڈارونزم (Darwinism) کہا جاتا ہے۔ اس فکر کو موجودہ زمانہ میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس نظریہ کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور تمام یونیور سٹیوں میں اس کو باقاعدہ نصاب میں داخل کیاگیا ہے۔ لیکن اس کا سائنٹفک تجزیہ کیجیے تو وہ ایک خوب صورت مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ ڈارونزم کے نظریہ کو دوسرے لفظوں میں عضویاتی ارتقا (organic evolution) کہاجاتا ہے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بہت پہلے زندگی ایک سادہ زندگی (simple life forms)سے شروع ہوئی۔ پھر توالد وتناسل کے ذریعہ وہ بڑھتی رہی۔ حالات کے اثر سے اس میں مسلسل تغیر ہوتا رہا۔ یہ تغیرات مسلسل ارتقائی سفر کرتے رہے۔ اس طرح ایک ابتدائی نوع مختلف انواع (species) میںتبدیل ہوتی چلی گئی۔ اس لمبے عمل کے دوران ایک مادی قانون اس کی رہنمائی کرتا رہا۔ یہ مادی قانون ڈارون کے الفاظ میں نیچرل سلیکشن تھا۔ اس نظریہ میں بنیادی خامی یہ ہے کہ وہ دو مشابہ نوع کا حوالہ دیتا ہے اور پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لمبے حیاتیاتی ارتقا کے ذریعہ ایک نوع دوسری نوع میں تبدیل ہوگئی۔ مثلاً بکری دھیرے دھیرے زرافہ بن گئی،وغیرہ۔
چارلس ڈارون (وفات 1882ء) کا ارتقائی نظریہ بنیادی طورپر انتخابِ طبیعی (natural selection) کے اصول پر مبنی ہے۔ ڈارون نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی کتابوں کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ ارتقا (evolution) کا یہ نظریہ ایک سائنسی نظریہ ہے۔ مگر علمی تعریف (definition) کے مطابق، ارتقا کا نظریہ ہرگز سائنسی نظریہ (scientific theory) نہ تھا، وہ صرف ایک قیاسی نظریہ (speculative theory)کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر وقت کے عمومی ذوق کی بنا پر حیاتیاتی ارتقا کے اِس نظریے کو عام مقبولیت حاصل ہوگئی۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ کے لیے اب خالق کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں، خالق کے وجود کو مانے بغیر تمام حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ ممکن ہے۔
یہ نظریہ بکری اور زرافہ کو تو ہمیں دکھاتا ہے، لیکن وہ درمیانی انواع اس کی فہرست میں موجودنہیں ہیں جو تبدیلی کے سفر کو عملی طورپر دکھائیں۔ نظریۂ ارتقا کے وکیل ان درمیانی کڑیوں کو مسنگ لنک (missing link) کہتے ہیں۔ لیکن یہ مسنگ لنک صرف ایک قیاسی لنک ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ کے اعتبار سے سرے سے ان کا کوئی وجود نہیں۔
مگر یہ صرف ایک مغالطہ تھا۔ سائنس کی مزید دریافتوں نے یہ ثابت کردیا کہ ارتقا کا یہ نظریہ علمی اعتبار سے بالکل بے بنیاد ہے۔ سائنس کی جدید دریافت بتاتی ہے کہ فطرت میں کامل درجے کا ذہین ڈزائن (intelligent design) ہے۔ اِس دریافت نے علمی طورپر نظریہ ارتقا کا خاتمہ کردیا ہے۔ کیوںکہ ذہین ڈزائن ایک ذہین ڈزائنر (intelligent designer) کی موجودگی کو ثابت کرتا ہے، وہ بے شعور قسم کے انتخابِ طبیعی کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔
اس نظریہ کی مقبولیت کا راز صرف یہ تھا کہ وہ سیکولر اہل علم کو ایک کام چلاؤ نظریہ (workable theory) دکھائی دیا۔ لیکن کوئی نظریہ اس طرح کے قیاس سے ثابت نہیں ہوتا۔ کسی نظریہ کو ثابت شدہ نظریہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پشت پر معلوم حقائق موجود ہوںجو اس کی تصدیق کرتے ہوں، لیکن ڈارونزم کی تائید کے لیے ایسے حقائق موجود نہیں۔ مثال کے طورپر، ڈارونزم کے مطابق، حیاتیاتی ارتقا کے لیے بہت زیادہ لمبی مدت درکار ہے۔ سائنسی دریافت کے مطابق موجودہ زمین کی عمر اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ کم ہے۔ایسی حالت میں بالفرض اگر زندگی کے آغاز ڈاروینی نظریہ کے مطابق پیش آیا ہو تو وہ موجودہ محدود زمین کے اوپر کبھی واقع نہیں ہوسکتا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتابیں مذہب اور سائنس، اور علم جدید کا چیلنج)۔
زمین کی محدود عمر کے بارے میں جب سائنس کی دریافت سامنے آئی تو اس کے بعد ارتقا کے وکیلوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ زندگی باہر کسی اور سیارہ پر پیدا ہوئی، پھر وہاں سے سفر کرکے زمین پر آئی۔ اس ارتقائی نظریہ کو انھوںنے مفروضہ طورپر پینس پرمیا (Panspermia) کا نام دیا۔ اب دور بینوں اور خلائی سفروں کے ذریعہ خلا میں کچھ مفروضہ سیاروں کی دریافت شروع ہوئی۔ مگر بے شمار کوششوں کے باوجود اب تک یہ مفروضہ سیارہ دریافت نہ ہوسکا۔
واپس اوپر جائیں

تدریجی ارتقا کا ثبوت نہیں

حالیہ تحقیقات نے ارتقا کے مفروضہ کو علمی طورپر بے بنیاد ثابت کردیا ہے۔ مثلاً متحجرات (fossils) کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ نظریہ ارتقا کا یہ مفروضہ مشاہدات کے مطابق نہیں ہے کہ زندگی کی ایک نوع کروروں سال میں ہلکی ہلکی تبدیلی سے دوسری نوع کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ مثلاً ڈارونزم میں یہ فرض کیاگیا تھا کہ لومڑی کی نسلوں میں رفتہ رفتہ تبدیلیاں ہوئیں جس کے نتیجہ میں ساٹھ ملین سال کے بعد لومڑی نے گھوڑے کی صورت اختیار کرلی۔ مگر تازہ دریافتیں بتاتی ہیں کہ زندگی کی انواع میں تبدیلی (اگر اس کو تبدیلی کا نام دیا جائے) بالکل اچانک ہوتی ہے۔ یعنی ’’لومڑی‘‘ بالکل اچانک ایک ہی نسل میں گھوڑا بن جاتی ہے۔ زمین کی تہوں میں قدیم زمانہ کے حیاتیاتی آثار جو پتھریلی ہڈیوں یا ڈھانچوں کی صورت میں دفن ہیں وہ قدیم مفروضہ کی مطلق تصدیق نہیں کرتے۔
ہارورڈ یونیورسٹی (امریکا) کے پروفیسر اسٹیفن جے گولڈ(Stephen Jay Gould)نے جدید شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہےکہ متحجرات کے ریکارڈ کے مطابق انواع حیات کروروں سال تک بغیر بدلے ہوئے ایک حالت پر باقی رہتی ہیں اور پھر اچانک ایک نوع غائب ہو کر دوسری نوع سامنے آجاتی ہے جو بنیادی طورپر پہلی سے مختلف مگر واضح طور پر پہلی کے مشابہ ہوتی ہے
For millions of years species remain unchanged in the fossil record, and then they abruptly disappear to be replaced. (The Sunday Times, London, 8 March, 1981)
فاسلز کے مطالعہ میں ایک نوع کروروں سال تک بالکل یکساں حالت میں نظر آتی ہے۔ اس کے بعد ایسے فاسلز ملتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ اچانک ایک نوع سامنے آگئی۔ اس طرح تدریجی تبدیلی کا نظریہ سراسر باطل ثابت ہوجاتاہے۔ تاہم فاسلز کے مطالعہ سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ صرف ایک قسم کے جاندار کے متحجر ڈھانچہ کے بعد اچانک دوسری قسم کے جاندار کے متحجر ڈھانچہ کا ملنا۔ یہ سوال ابھی بدستور حل طلب ہے کہ نئی نوع پچھلی نوع کے بطن سے نکلی یا آزادانہ طورپر وجود میں آئی جس طرح زمین کا پہلا جاندار آزادانہ طورپر وجود میں آیا تھا۔
ارتقا کے حامیوں کا خیال تھا کہ پہلے جاندار کےمتعلق اگر یہ مان لیاجائےکہ وہ اچانک پیداہوگیا تو دوسری تمام قسم کے جانداروں کی پیدائش ارتقائی طورپر ثابت ہوجاتی ہے۔ مگر اب حقائق یہ ماننے پر مجبور کررہے ہیں کہ جس طرح پہلا جاندار ’’اچانک‘‘ پیداہوا اسی طرح جانداروں کی دوسری تمام قسمیں بھی ’’اچانک‘‘ پیدا ہوئی ہیں۔ ارتقا کا نظریہ جس طرح پہلے جاندار کی تشریح میں ناکام تھا اسی طرح وہ بعد کے جانداروں کی تشریح میں بھی ناکام ہو رہا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
نظریۂ ارتقا کی صداقت پرموجودہ زمانے کے ’’سائنسداں‘‘ متفق ہوچکے ہیں۔ارتقا کاتصور ایک طرف تمام علمی شعبوں پرچھاتاجارہاہے،ہروہ مسئلہ جس کوسمجھنے کے لیے خداکی ضرورت تھی،اس کی جگہ بے تکلف ارتقا کاایک خوبصورت بت بناکررکھ دیاگیاہے، مگردوسری طرف عضویاتی ارتقا (Organic Evolution)کانظریہ ،جس سے تمام ارتقائی تصورات اخذ کیے گئے ہیں، اب تک بے دلیل ہے ،حتیٰ کہ بعض علما نے صاف طورپرکہہ دیاہے کہ اس تصورکوہم صرف اس لیے مانتے ہیں کہ اس کاکوئی بدل ہمارے پاس موجودنہیں ہے ۔ سرآرتھرکیتھ (Sir Arthur Keith, 1866-1955)نے1953ء میں کہاتھا
"Evolution is unproved and unprovable. We believe it only because the only alternative is special creation and that is unthinkable." (Islamic Thought, Dec. 1961(
یعنی ارتقا ایک غیرثابت شدہ نظریہ ہے،اوروہ ثابت بھی نہیں کیاجاسکتا،ہم اس پرصرف اس لیے یقین کرتے ہیں کہ اس کاواحدبدل تخلیق کاعقیدہ ہے جوسائنسی طورپر ناقابلِ فہم ہے ، گویا سائنسدان ارتقا کے نظریے کی صداقت پرصرف اس لیے متفق ہوگئے ہیں کہ اگروہ چھوڑدیں تولازمی طورپرانھیں خداکے تصورپرایمان لاناپڑے گا۔
واپس اوپر جائیں

تکمیلِ دین کی طرف

امت کا سفر
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں اپنی امت کو ایک جامع نصیحت ان الفاظ میں کی تھی تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَاکِتَابَ اللَّہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہ(مؤطا امام مالک، حدیث نمبر 2618)۔ یعنی میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑرہا ہوں، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے امت کو جو طریقہ بتایا تھا ، وہ یہ تھا کہ امت مسائل میں الجھنے سے بچے، اور معرفت اور دعوت پر فوکس کرے۔اسی میں امت کے لیے کامیابی کا راز چھپا ہے۔ انسان مسائل میں الجھنے سے منفی سوچ کا شکار ہوتا ہے، جو کہ تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔اسی لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہ نصیحت کی تھیإِذَا أُصِیبَ أَحَدُکُمْ بِمُصِیبَةٍ فَلْیَذْکُرْ مُصِیبَتَہُ بِی فلِیُعَزِّہِ ذَلِکَ عَنْ مُصِیبَتِہِ(مصنف عبد الرزاق، حدیث نمبر 6700)۔ یعنی جب تم میں سے کسی پر مصیبت آئے تو اپنی مصیبت کے ساتھ وہ میری مصیبت کو یاد کرے۔وہ اس کو اس کی مصیبت کے موقع پر تسلی دے گی۔ یہ سادہ الفاظ میں صرف پیغمبر اسلام کی مصیبت کو یاد کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ سبق حاصل کرنا ہے کہ پیغمبر اسلام نے جس طرح مصیبت (مسائل) کو اگنور کرکے معرفت اور دعوت کا مشن انجام دیا، اسی طرح آج بھی معرفت اور دعوت کا مشن انجام دینا ہے۔
موجودہ زمانے میں معرفت اور دعوت کے ذرائع کا انفجار ہوچکا ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن میں بطور پیشین گوئی ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ اسی طرح قرآن میں ایک دوسرے مقام پر یہ آیا ہے وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ سَیُرِیکُمْ آیَاتِہِ فَتَعْرِفُونَہَا (27:93)۔ یعنی اور کہو کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے، وہ عنقریب تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم ان کو پہچان لو گے۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی بعثت کا مقصد آئڈیالاجیکل مواقع کا انفجار تھا۔ یعنی پیغمبر اسلام کی بعثت کے بعد ایک نئے پراسس کا آغاز تھا۔ یعنی آفاق و انفس کی آیات کے ذریعے دینِ حق کا اظہار۔ لیکن بعد کے مسلم اہل علم، سارے کے سارے، مواقع کو فکری اعتبار سے اویل کرنے کے بجائے سیاسی تحفظ اور جہادبمعنی قتال جیسی باتوں میں لگ گئے۔ اس معاملے میں کسی عالم کا استثنا نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبا ن کا سیاسی ظہور اسی سوچ کا ایک ظاہرہ ہے۔ یہ سب لوگ جہاد اور سیاست کی لائن سے سوچ رہے ہیں۔ اس کے بالمقابل اراءۃ آیات (نشانیوں کے ظہور)کی پیشین گوئی جو قرآن میں کی گئی تھی(فصلت، 41:53) ، اس پہلو سے وہ سوچ نہ سکے۔
تزئین یا ڈسٹریکشن
ایسا کیوں ہوا کہ امت کا فوکس اصل پہلو سے ہٹ گیا۔ اس کو سمجھنے کے لیے ابلیس کے کیس کو سمجھنا ہوگا۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے جب پہلے انسان ، آدم کو پیدا کیا ، اور اس وقت کی موجود مخلوق فرشتے اور ابلیس کے سامنے اس کو پیش کیا تو شیطان نے ناراضگی کے ساتھ کہا تھا  رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِی لَأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْأَرْضِ وَلَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ (15:39)۔ یعنی ابلیس نے کہا، اے میرے رب، جیسا تو نے مجھ کو گمراہ کیا ہے اسی طرح میں زمین میں ان کے لیے تزیین کروں گا اور سب کو گمراہ کر دوں گا۔
تزیین شیطان کی سب سے خطرناک چال ہے۔اس آیت میں تزیین کا مطلب کچھ مفسرین نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے لأشغلنہم بزینة الدنیا عن فعل الطاعة(تفسیر الماوردی، جلد3، صفحہ 160)۔ یعنی میں ضرور ان کو اطاعت کے عمل سے ہٹا کر دنیا کے فریب میں مشغول کردوں گا۔ لأزیِّننَّ لہم الباطلَ حتى یقعوا فیہ (زاد المسیرلابن الجوزی، جلد،2، صفحہ534)۔ یعنی میں ان کے لیے بے نتیجہ باتوں کو مزین کروں گا، یہاں تک کہ وہ اس کا شکار ہوجائیں گے۔ ان تفسیری اقوال کی روشنی میں شیطان کا کام کیا ہوسکتا ہے۔شیطان کی چالوں میں ایک چال ہے تصغیر العظیم اورتکبیر الصغیر( بڑے کو چھوٹا کرنا، اور چھوٹے کو بڑا) ۔غیر حقیقی باتوں کو حقیقی بنا کر پیش کرنا۔غیرمتعلق باتوں کو متعلق اور امپارٹنٹ بناکر پیش کرنا، اور متعلق یا امپارٹنٹ باتوں کو غیر متعلق بنا کر پیش کرنا، وغیرہ۔
نیا دور مواقع کے انفجار (opportunity explosion) کا دور ہے۔ لیکن قانونِ فطرت کے مطابق، اس دور میں بھی وہی کامیاب ہوسکتا ہے، جو مسائل کو اگنور کرکے مواقع کو اویل کرنے کی حکیمانہ پلاننگ کرے۔مسائل کو اگنور نہ کرنا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ شکایتی ذہن کے ساتھ زندگی گزاریں— مغربی قوم سے شکایت، ہندوؤں سے شکایت، پڑوسیوں سے شکایت، آفس کے ساتھیوں سے شکایت، ان زمانی تبدیلیوں سے شکایت جو آپ کی سماجی روایت کے خلاف ہوں، وغیرہ۔
اس کے برعکس، مواقع کو اویل کرنا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ مسائل کے باوجود یہ دیکھیں کہ اس میں کوئی ایسا موقع ہے، جس کو اویل کرکے کامیابی کا راستہ اختیار کیا جاسکے۔ اس کا عملی نمونہ حضرت عمر کے یہاں ملتا ہے۔ایک مرتبہ صحابیٔ رسول حذیفہ نےخلیفہ ثانی عمر فاروق سے کہاإِنَّک تستعین بِالرجلِ الَّذِی فِیہِ وَبَعْضہمْ یرویہِبِالرجلِ الْفَاجِر فَقَالَ عمرإِنِّی أستعملہ لأستعین بقوّتہ ثمَّ أکون على قَفّانہ (غریب الحدیث للقاسم بن سلاّم، جلد3، صفحہ 239)۔یعنی تم ایسے آدمی سے مدد طلب کرتے ہو، جو فاجر ہے ۔ عمر نے کہا میں اس کو عامل بناتا ہوں تاکہ اس کی قوت سے مدد حاصل کروں، پھر میں اس کی نگرانی کر رہا ہوں(تاکہ وہ کوئی غلطی نہ کریں) ۔
یہی ہے مسائل کو اگنور کرکے مواقع کو اویل کرنا۔ یعنی ایک انسان کے اندر برائی ہے، اس کے ساتھ اس میں انتظامی صلاحیت بھی ہے تو حضرت عمر نے ایسے انسان کی برائی کو نظر انداز کیا، اور اس کی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا۔ایسا رسول اللہ کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ آپ نے بھی ہجرتِ مدینہ کے موقع پر ایک مشرک عبد اللہ بن اریقط کو اپنا رہنما بنایا تھا(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ 488)۔
مگرموجودہ زمانےکے مسلمان اَن اویلڈ اپارچنٹی (unavailed opportunity)کا کیس بن گئے ہیں۔موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب نے جو سائنسی ڈسکوری کی ہے، اس سے نہ صرف فیزیکل ( جیسے پرنٹنگ پریس، کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ کی) سطح پر خدا کے دین کو مدد ملی ہے۔ بلکہ معنوی سطح پر بھی معرفت کی لامحدود دنیا ڈسکور ہوگئی ہے۔جیسے کائنات کی وسعت، انسانی جسم کی بناوٹ کا مطالعہ، کوانٹم فزکس، وغیرہ۔ یہ ڈسکوریز لامحدود سطح پر انسان کے لیے معرفت کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ اس سے نہ صرف مادی سطح پر انسان کو مدد ملی، بلکہ معنوی سطح پر بھی انسان کے لیے انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا سامان فراہم ہوا ہے۔
یہ سائنسی ڈسکوری مغربی اقوام کے ذریعے ظہور میں آئی۔ لیکن موجودہ دور کے تمام مسلم لیڈر سیاسی میدان میں مغلوبیت کی وجہ سے ان سے دشمنی کرنے لگے۔ حالاں کہ سیاسی میدان ایک محدود میدان تھا، جب کہ خدا کی معرفت اور دین کی تائید کا میدان ایک لامحدود میدان تھا۔ لیکن شیطان نے بذریعہ تزئین یہ کیا کہ مسلم لیڈروں کے سامنے سیاسی معاملے کو عظیم بنا کر پیش کیا، اور خدا کی معرفت اور دعوت کے میدان کو غیر حقیقی بنا کر پیش کیا۔ چنانچہ مسلم دنیا سترھویں صدی سے لے کر اب تک اسی تزئین میں پھنسی ہوئی ہے، اور اس سے باہر نہیں نکل پائی ہے۔
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے إِنَّ اللہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی بے شک اللہ تعالی فاجر انسان کے ذریعے اس دین کی تائید کرے گا۔ایک اور روایت میں اس کو’’غیر اہل دین‘‘کے الفاظ میں بیان کیا گیاہے:إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ھُمْ مِنْ أَھْلِہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔ یعنی بے شک اللہ تعالی اس دین کی تائید ان لوگوں کے ذریعے کرے گا جو غیر اہل دین ہوں گے۔
یہ بہت اہم پیشین گوئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں ، جب کہ اسلام اجنبی بن جائے گا،اس وقت یہی بے دین اور غیر اہل دین، خدائی دین کے مددگار ثابت ہوں گے، خواہ بالواسطہ انداز میں ہو یا بلاواسطہ انداز میں۔ یہی لوگ ہوں گےجن کے ذریعے اسلام کا کلمہ روئے زمین کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں داخل ہوگا۔ غالباًاسی حقیقت کی طرف رسول اللہ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے قَوَامُ أُمَّتِی بِشِرَارِہَا (مسند احمد، حدیث نمبر 21985)۔ یعنی میری امت کا معاملہ اس کے برے لوگوں کے ذریعے درست رہے گا۔
ان تمام آیات و احادیث کو آج کے ریفرنس میں دیکھا جائے تو موجودہ دور کے اعتبار سے ان کا مطلب ایک جملے میں یہ ہوگا کہ سیاسی مسائل کو نظر انداز کرو، اور مواقع کو اویل کرو
ignore the political problems, avail the opportunities
قدیم زمانے کی طرح موجودہ زمانے میں بھی مسائل ہیں۔کوئی زمانہ مسائل سے خالی نہیں ہوتا ہے، خواہ وہ ماضی ہو یا حال یا مستقبل۔یہ قانونِ فطرت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانےمیں بھی مسائل تھے۔ مگر آپ نے مسائل سے ٹکراکر اسٹیٹس کو (status quo) کو بدلنے کے بجائے مسائل کے درمیان موجودمواقع کو دعوتی مشن کے لیے اویل کیا۔ کیوں کہ اسٹیٹس کو کو بدلنا گریٹر ایول (greater evil) ہے، اسٹیٹس کو کو اگنور کرکے اپنا مشن شروع کرنا لیسر ایول (lesser evil) ہے۔پیغمبر اسلام نے یہی کیا۔ مثلاً یہ کہ جب آپ نے دعوتی کام شروع کیا تو کعبہ میں بت تھے، مگر آپ نے ان کو نظر انداز کیا، اور بت کے لیے آنے والوں کوپرامن انداز میں توحید کاپیغام پہنچایا۔ چنانچہ یہی لوگ شرک کوچھوڑ کر ایک دن آپ کے ساتھی بن گئے۔یہی تاریخ آج بھی دہرائی جاسکتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

فرد، سماج

اِس دنیا میں معیاری فرد کا بننا ممکن ہے، لیکن معیاری سماج کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔ کوئی آدمی اپنے ذاتی فیصلے کے تحت، اپنی شخصیت کی تعمیر کرتاہے۔ ایک انسان کے بننے کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کے اندر انفرادی قوتِ ارادی(will power) پیدا ہوجائے، لیکن پورے سماج کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ قوتِ ارادی ایک فرد کے اندر ہوتی ہے، پورے سماج کے اندر اجتماعی قوتِ ارادی (collective will) صرف ایک خیالی تصور ہے، عملی طورپر اس کا کوئی وجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میںبار بار ایسے افراد پیدا ہوئے جو اپنی ذات کے اعتبار سے معیاری کردار کے حامل تھے، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پورا سماج، یا پورا اجتماعی نظام اپنے کردار کے اعتبار سے، معیاری سماج یا معیاری نظام بن جائے۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

قیامت کی طرف

انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کو زندگی گزارنے کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً پانی اورروشنی اور آکسیجن، وغیرہ۔ اِس طرح کے بے شمار آئٹم ہیں جو انسان کی بقاءِ حیات کے لیے لازمی طورپر ضروری ہیں۔ یہ سامانِ حیات ہماری دنیامیں وافر طورپر بغیر مانگے ہوئےموجود ہے۔ اسبابِ حیات کے اِس مجموعہ کو لائف سپورٹ سسٹم (life-support system) کہا جاسکتا ہے۔یہ لائف سپورٹ سسٹم اتنا مکمل ہے کہ وہ انسان کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت کو نہایت اعلیٰ صورت میں پورا کررہا ہے۔ زمین سے لے کر سورج تک پوری دنیا استثنائی طورپر انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ انسان کو اس کی کوئی قیمت ادا کرنی نہیں پڑتی ہے۔
مگراکیسویں صدی کےآغاز میں ایک ناپسندیدہ ظاہرہ پیدا ہوا جس کو گلوبل وارمنگ کہاجاتا ہے۔ گلوبل وارمنگ دوسرے الفاظ میں، زمین کے لائف سپورٹ سسٹم کے خاتمہ کی شروعات ہے۔ انڈسٹریل سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے پلوشن نے سیارۂ زمین پر ایسے حالات پیدا کیے، جب کہ یہ دنیا انسان کے لیے قابلِ رہائش (habitable) ہی نہیں رہے گی۔موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے بارے میں مسلسل خبریں آرہی ہیں جو قیامت کی پیشین گوئی (prediction)کی تصدیق کرنے والی ہیں۔ستمبر 2021میں،بی بی سی انگریزی میں مسلسل ایک نیوز آرہی ہے، ایک دن یہ نیوز حسب ذیل عنوان سے نقل کی گئی تھی
Volcano on Canary Island La Palma erupts, spewing ash and lava into national park
دوسری نیوز ویب سائٹس نے ان الفاظ میں لا پالما کی تباہی کی خبر دی ہے
La Palma Volcano Reaches Atlantic Ocean, Leaves Trail of Destruction Behind. (New18)
Bright lava flows, smoke pour from La Palma volcano eruption. (Sky News)
ان تمام نیوز کا خلاصہ یہ ہے کہ اسپین کے جزیرہ لا پالما میںکمبری ویجا ( the Cumbre Vieja) نامی آتش فشاںسے راکھ، دھوئیں اور لاوے کے نکلنے کا سلسلہ جاری ہے۔انتہائی گرم لاوے نے مکانات اور جنگلاتی علاقے کو جلا ڈالا ہے۔ اندازے کے مطابق، لاوا کے راستے میں آنے والے 1200سے زیادہ گھر تباہ ہوچکے ہیں، اور 6 ہزار سے زیادہ افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔ لا پالما میں آتش فشاں سے لاوے (volcanic lava)کا اخراج 19 ستمبر سےشروع ہوا تھا۔ دھماکے سے قبل 4.2 شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا۔ ہزاروں چھوٹے زلزلے کے ایک ہفتے کے بعد کمبری ویجا ا ٓتش فشاں پہاڑ سے سیاہ اور سفید دھواں کے بڑے بڑے بادل نکلے۔اس سے اب تک180 ہیکٹرز کا علاقہ جل کر خاکستر ہو چکا ہے۔ کئی علاقوں پر سیاہ راکھ کی موٹی تہیں جم چکی ہیں۔پگھلے ہوئے لاوا کا تقریباَ 6 میٹر (20 فٹ) اونچا نہ رکنے والا بہاؤ سمندر کی طرف جا رہاہے ۔ماہرین نےیہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ ممکنہ طور پر سترہ سے بیس ملین کیوبک میٹر لاوا سمندر تک پہنچے گا۔ جب لاوا سمندر میں گرے گا تو پانی کے ملاپ سے شور بلند ہونے کے ساتھ ساتھ فضا میں انتہائی زہریلی اور تیزابی گیسیں بلند ہوں گی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سے زمین میں مزید نئی دراڑیں ابھر سکتی ہیں ۔
اس قسم کی صورتِ حالزمین کے اوپر ہر قسم کی زندگیوں (ecology)کے لیے سنگین خطرہ پیدا کرتی جارہی ہے۔ تمام انسانی کوششوں کے باوجودکوئی بھی انسانی تدبیر گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوپارہی ہے۔ زمین کے ایکولوجیکل سسٹم کی صورتِ حال دن بدن پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق، فضائی آلودگی سے ہونے والے نقصان کا جو اندازہ ماضی میں کیا گیا تھا، اب اس سے کہیں زیادہ نقصان کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔چنانچہ بالواسطہ یا براہِ راست طورپر اس کا اثر تمام انسانی آبادیوں تک پہنچ رہا ہے۔
میڈیا میں مسلسل یہ خبریں آرہی ہیں کہ تمام دنیا کے سائنس دانوں نے گہری ریسرچ کے بعد یہ پایا ہے کہ ہماری زمین میں موسمیاتی تبدیلی (climatic change) اِس خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب وہ ناقابلِ تبدیل (irreversible) ہوچکی ہے۔ ایکولوجی کا معاملہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ آلودگی پھیلانے والی سرگرمیوں کو روک بھی دیں تب بھی صرف قدرتی عمل(natural processes)سے ہوا میں کافی زیادہ قدرتی کاربونک ایروسول (carbonic aerosol) یعنی مائیکرواسکوپک لیکوئڈ ڈراپ لیٹس (Microscopic Liquid Droplets) بنتی ہیں، جن سے انسانی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
گلوبل وارمنگ اور اس کے متعلق پہلوؤں پر موجودہ زمانے میں وسیع پیمانے پر مطالعہ کیا جارہا ہے۔ اِس مطالعے کا ایک حصہ یہ ہے کہ زمین کے نارتھ پول اور ساؤتھ پول میں پہاڑ کی مانند برف کے بڑے بڑے تودے (glaciers) ہیں۔ اِن تودوں کے نیچے بڑے بڑے آتش فشاں پہاڑ (volcanoes) چھپے ہوئے ہیں۔ یہ آتش فشاں پہاڑ محصور توانائی (pent-up energy) کے بھاری ذخیرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن کے اوپر برف کے تودے گویا کہ بڑے بڑے فطری ڈھکن تھے جو اِس آتش فشاں کو پھٹ کر باہر آنے سے روکے ہوئے تھے۔گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں نارتھ پول اور ساؤتھ پول کے یہ برفانی ڈھکن تیزی سے پگھل رہے ہیں۔اِس طرح شدید طورپر یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ نارتھ پول اور ساؤتھ پول کا برفانی ڈھکن بہت جلد پگھل کر ختم ہوجائے اور ان کے اندر چھپا ہوا آتش فشا ں پھٹ کر آگ اور لاوا (lava)کی صورت میں باہر آجائے۔
مثلاً لاپالما کا لاوا بحر اٹلانٹک تک پہنچا تو وہاں لاوا کے پانی میں ملنے سے دھماکے شروع ہوگئے ہیں، اور زہریلی گیس کے بادل فضا میں پھیل رہے ہیں۔ لاوا کا مطالعہ کرنے والے سائنسدانوں نے اسے 1000 ڈگری سینٹی گریڈ (1,800 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ) پر ناپا۔ اس وقت یہ آتش فشاں ایک دن میں 8,000 سے 10,500 ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ پیدا کر رہا ہے۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ صحت عامہ کے لیے بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ یہ تیزابی بارش اور فضائی آلودگی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔یہی سب وہ چیزیںہے، جن کو لائف سپورٹ سسٹم کے خاتمہ کی طرف سفر کہا جاسکتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے تعلق سے مختلف پیشین گوئیاں کی ہیں۔ ان میں کلائمیٹ کی تبدیلی کے تعلق سے چند یہ ہیں دخان (اسموگ) ، زمین کا دھنسنا یا لینڈ سلائڈ، سورج کا مغرب (مخالف سمت ) سے نکلنا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2901)، زلزلوں کی کثرت (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7121)، وغیرہ۔حالات بتاتے ہیں کہ ان باتوں کی ابتدا ہوچکی ہے۔ نیوز کے مطابق، ایک مقامی باشندہ نے لا پالما کی تباہی کو ان الفاظ میں بیان کیاہے کہ ہر چیز تباہ و برباد ہوگئی
Everything is destroyed
زمین کے ایک چھوٹے حصے میں ہونے والی فطری تباہی (calamity) گویا اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ ایک دن آنے والا ہے، جب کہ زمین مکمل طور پر ڈسٹرائے (destroy) کردی جائے۔ تباہی کے یہ چھوٹے چھوٹے فطری واقعات گویا موجودہ دنیا کے خاتمے کے آغاز کا اعلان ہیں۔ یعنی بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ موجودہ دنیا کا خاتمہ ہوجائے اور ایک نئی دنیا بنے، جہاں خدا کا عدل قائم ہو۔ جہاں نیک لوگوں کو جنت میں داخلہ ملے، اور بُرے لوگوں کو کائناتی کوڑےخانے میں ڈال دیا جائے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہر زندہ عورت اور مرد اُس آنے والے انصاف کے دن (Day of Judgement) کے لیے تیاری کرے، جو بہر حال آکر رہے گا اور جوآنے کے بعد پھر واپس جانے والا نہیں۔
قرآن کے مطابق، بڑا عذاب (العذاب الاکبر)وہ ہے جو قیامت کے وقت صورِ اسرافیل کے بعد آئے گا، لیکن اس سے پہلے چھوٹے چھوٹے علامتی عذاب (العذاب الادنیٰ)آئیں گے، تاکہ لوگ متنبہ ہو کر اپنی اصلاح کرلیں (السجدۃ،31:21)۔ گلوبل وارمنگ، میٹھےپانی کی قلت، زلزلوں کی کثرت ، آتش فشاں کا کثرت سے پھٹنا، سمندری طوفان،اور سیلاب وغیرہ، اِسی قسم کے چھوٹے عذاب ہیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ اب آخری وقت آگیا ہے کہ انسان متنبہ ہو، اِس سے پہلے کہ وہ وقت آجائے جب کہ متنبہ ہونا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔
حدیث کے مطابق،انسان کے لیے توبہ (repentance )کا موقع اس وقت تک ہے، جب تک سورج مشرق سے طلوع ہورہا ہے۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو انسان کے لیے توبہ کا موقع ختم ہوجائے گا(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4070)۔اللہ رب العالمین کا حالتِ غیب میں ہونا امتحان (test) کی مصلحت کی بنا پر ہے ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا، گویا خدا کے حالتِ شہود میں آنے کے پراسس کا آغاز ہوگا، اور قیامت اس پراسس کا کلمینیشن ۔ یہی وہ دن ہوگا، جب کہ خدا غیب سے نکل کر ظاہر ہوجائے گا، اور ہر ایک کو اس کے اچھے اور برے عمل کے اعتبار سے اچھا یا برا بدلہ دے گا۔لیکن توبہ کا موقع ابھی ختم نہیں ہوا ہے، وہ اب بھی انسان کے پاس موجودہے۔ وہ جلد سے جلد اپنے آپ کو ایک سچا انسان بنائے، اور خدا کے منصوبۂ تخلیق کو جان کر اس کے مطابق زندگی کا سفرشروع کرے۔(ڈاکٹر فریدہ خانم)
واپس اوپر جائیں

Tuesday, 1 June 2021

Al Risala | June 2021 (الرسالہ،جون)

4

-دعا کی قبولیت

5

- کسٹم میڈ یونیورس

6

- دین پر عمل

7

- دجال کا دور

8

- عورت اور مرد کا فرق

11

- ڈی لنکنگ— ایک سنتِ رسول

13

- دشمن سے سیکھنا

14

- کریٹیو عمل

15

- ڈر، پست ہمتی

18

- پیغمبر ِ امن

43

- سوال و جواب

48

- اعلان


دعا کی قبولیت

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں ایک بندۂ مومن کے لیے عظیم تسکین (solace) کا سامان موجود ہے۔اس میں ایک مومن بندے کے لیےدعاکا ایک اہم پوائنٹ آف ریفرنس ہے۔ بندہ اللہ رب العالمین سے ایک چیز کا طالب ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ چاہتا ہے کہ خدا اس کے معاملہ کو سنبھالنے والا بن جائے۔ اِس آیت کو لے کر ایک بندۂ مومن کہہ سکتا ہے— خدایا، میں آخری حد تک ایک عاجز انسان ہوں، لیکن قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ تیری رحمت بہت وسیع ہے۔ خدایا، تو نے میرے گناہوں کے بارے میں یہ فرمادیا ہے کہ تو خود اس کو معاف فرمائے گا۔ اب میں جو دعا کررہا ہوں تو کیا تو میری دعا کو ریجکٹ کردے گا۔ یعنی جب تو بندوں کے معاملے میں اتنا فیاض ہے کہ بغیر مانگے ہوئے تو اعلان کررہا ہے کہ تو ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا تو جب میں خود سے سوال کررہا ہوں تو کیا تو اس کو پورا نہیں فرمائے گا۔
سب سے بڑی دعا وہ ہے جو حقیقی پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference)کے حوالے سے کی جائے۔جس انسان کو شعوری طورپر اِس حقیقت کی دریافت ہوجائے، وہ پکار اٹھے گا کہ خدایا، میں کامل طورپرعاجز انسان ہوں، لیکن تونے اپنی رحمت سے بلا استحقاق مجھے یک طرفہ طورپر تمام چیزیں عطا کی ہے، موت کے بعد بھی دوبارہ میں اپنے آپ کو کامل طور پر عجز کی حالت میں پاؤں گا۔ خدایا، جس طرح تونے موت سے پہلے کی زندگی میں میرے عجز کی کامل بھرپائی کی، اسی طرح تو موت کے بعد کی زندگی میں بھی میرے عجز کا مکمل بدل عطا فرما، میرے تمام گناہوں کو اپنی رحمت سے معاف کردے۔
واپس اوپر جائیں

کسٹم میڈ یونیورس

حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: مَنْ أَصْبَحَ مُعَافًى فِی بَدَنِہِ، آمِنًا فِی سِرْبِہِ، عِنْدَہُ قُوتُ یَوْمِہِ، فَکَأَنَّمَا حِیزَتْ لَہُ الدُّنْیَا بِحَذَافِیرِہَا(حلیۃ الاولیاء، جلد5، صفحہ249)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا جس نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ جسمانی طور پر صحت والا ہو، اپنے مسکن میں مامون ہو، اور اس کے پاس اس دن کی روزی ہو، تو گویا اس کے لیے پوری دنیا جمع کردی گئی۔
میں روزانہ صبح کو جب اپنے آفس سے نکل کر باہر بیٹھتا ہوں، تو سچ مچ واقعۃً محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا میرے لیے پیدا کی گئی ہے۔ ہر چیز میری خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ غذا ، پانی، آکسیجن، وغیرہ تمام چیزیں مکمل طور پر میری خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔گویا یہ یونیورس انسان کے لیےایک کسٹم میڈ یونیورس ہے۔ وہ انسان کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔اس حقیقت پر اگر انسان غور کرے تو وہ کبھی نیگیٹیو تھنکنگ کا شکار نہ ہو۔ وہ ہمیشہ نعمتوں کے احساس میں جینے لگے۔ اس کی زبان پر ہمیشہ شکر کا کلمہ جاری رہے۔حتی کہ انسان ایک گلاس پانی پیتا ہے، اور وہ جسمانی نظام کے تحت ہضم ہوکر باہر نکل جاتا ہے تو اس پراس کو شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہر چیز جو اس دنیا میں انسان کو ملتی ہے اس پر شکر کا جذبہ پیدا ہونا بالکل نیچرل بات ہے۔ مثلا غذا، ہوا کے ذریعے آکسیجن کا ملنا، پانی کی مسلسل سپلائی کا جاری رہنا، وغیرہ۔ اگر انسان سوچے تویہ تمام چیزیں ہر وقت اللہ رب العالمین کی نعمت کو یاد دلاتی ہیں۔
اسی طرح مذکورہ حدیث میں ہے کہ وہ اپنے سِرب (گھر) میں مامون ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پرامن سوچ یا مثبت سوچ کے ساتھ اپنے دن کی ابتدا کرے۔ اس دنیا کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کے لیے جو چائس ہے،وہ دوسروں سے ایڈجسٹ کرتے ہوئےاپنے معاملات کو مینج (manage) کرنا ہے۔ اس کو یہ کرنا ہے کہ وہ پرامن انداز میں پیش آنے والے چیلنج کا مقابلہ کرے۔ اسی حقیقت کو مذکورہ حدیث میں" مسکن میں مامون ہونا" کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دین پر عمل

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لَیَحْمِلَنَّ شِرَارُ ہَذِہِ الْأُمَّةِ عَلَى سَنَنِ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِہِمْ أَہْلِ الْکِتَابِ حَذْوَ الْقُذَّةِ بِالْقُذَّةِ(مسند احمد، حدیث نمبر 17135)۔ یعنی اس امت کے شرارت پسند لوگ پچھلے اہل کتاب کے طریقے کو اپنائیں گے ، جیسےایک تیر دوسرے تیر کی طرح ہوتا ہے۔اس حدیث کے مطابق، مسلمان اپنے بگاڑ کے زمانے میں وہی کریں گے، جو یہود و نصاری نے اپنے بگاڑ کے زمانے میں کیا تھا۔البتہ یہاں ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ پچھلے پیغمبروں کا لایا ہوا خدائی پیغام محفوظ نہیں۔ اس کے برعکس، پیغمبر اسلام کا لایا ہوا قرآن پوری طرح محفوظ ہے، آپ کی سنت بھی پوری طرح محفوظ ہے۔ اس طرح یہ امکان ہمیشہ باقی رہے گا کہ قرآن وسنت کے مطالعہ سے دین محمدی کو دوبارہ دریافت کیاجائے، اور اس کو اصل صورت میں اختیار کیا جائے۔ قرآن وسنت کا محفوظ ہونا، اس بات کی گارنٹی ہے کہ مجموعے کی سطح پر خواہ بگاڑ آجائے، لیکن افراد کی سطح پر ہمیشہ امت میں ایسے افراد موجود رہیں گے، جو اصل دین کو دوبارہ دریافت کرکے مکمل طور پراس کی پیروی کریں۔
موجودہ دور میں زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ میڈیامیں اپنا وقت گزاریں۔ بے خوف دل کے ساتھ لوگوں سے بحثیں کریں۔ آپ کا سارا کنسرن میڈیا کی خبریں ہو، نہ کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ باتیں۔ اس قسم کے لوگوں کا ذہنی شاکلہ (mindset) میڈیا کی خبروں کی بنیاد پر بنے گا، نہ کہ قرآن اور سنت کی بنیاد پر ۔ یہی وہ لوگ ہیں، جو پچھلی قوموں کی پیروی کرتے ہیں۔
دوسری شکل یہ ہے کہ تعاہدبالقرآن (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5033) آپ کی مصروفیت ہو،یعنی قرآن و حدیث میں غور و فکر آپ کے دن رات کاعمل بنا ہوا ہو۔ آپ قرآن کے معانی کو سمجھنے میں اپنے صبح و شام گزارتے ہوں۔ آپ قرآن و حدیث میں گہرا غور و فکر کرنے والے بنے ہوئے ہوں۔ اس طرح مطالعہ اور غور و فکر کے نتیجے میں آپ پر قرآن کے اور حدیث کے نئے نئے معانی کھلیں، اور پھر آپ ان کو اپنی زندگی میں اپنا رہنما بنا لیں۔ یہی لوگ حقیقی معنوں میں ربانی انسان ہیں۔
واپس اوپر جائیں

دجال کا دور

صعب بن جثامة بن قیس لیثی (وفات 25 ھـ)ایک صحابی ہیں۔ انھوں نے رسول اللہ کا ایک قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لَا یَخْرُجُ الدَّجَّالُ حَتَّى یَذْہَلَ النَّاسُ عَنْ ذِکْرِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ(معجم الصحابہ، جلد2، صفحہ8)۔یعنی صعب بن جثامہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا، آپ نے کہا دجال نہیں نکلے گا، یہاں تک کہ لوگ اللہ عز و جل کے ذکر سے غافل ہوجائیں گے۔
مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کسی شخصیت کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک دور کا نام ہے، جب کہ گمراہی بہت پھیل جائے گی۔ وہ گمراہی یہ ہوگی کہ لوگوں کے ذہن سے خدا کی معرفت ختم ہوجائے گی۔ اس غفلت کا سبب ایسے خیالات یا نظریات ہوں گے، جس پر بظاہر اسلام کا لیبل لگا ہوگا، مگر وہ اسلام سے دور کرنے والے ہوں گے۔
دجالیت کا دور وہ ہے، جب کہ دنیا میں پروفیشنل ایجوکیشن کا دور دورہ ہوگا۔ یعنی وہ ایجوکیشن جس کے ذریعے افراد کو ہنر مند بنایا جائے ۔مثلاً تجارت ،نرسنگ، انجنیئرنگ اور قانون ، وغیرہ۔ لیکن وہ علم جس سے معرفت میں اضافہ ہو، وہ کم یاب ہوجائے گا۔ لوگ پیسہ کمائیں گے، لیکن سچے علم سے بے خبر ہوں گے۔ لوگوں کی جیبیں بھری ہوںگی، اس بنا پر وہ بہت بولیں گے، بہت زیادہ بحثیں کریں گے۔ بظاہر علم کا چرچا ہوگا، لیکن یہ چرچا مادی انٹرسٹ کے لیے ہوگا، نہ کہ اللہ کی معرفت میں اضافہ کے لیے۔
یہ وہ زمانہ ہوگا، جب کہ مال کی کثرت کی وجہ سے لوگ نفس پرستی میں مبتلاہوجائیں گے۔ جھوٹ کی کثرت ہوگی۔ سچائی کو ماننے کا مزاج کم ہوجائے گا۔ اس کے برعکس، اپنی بات منوانے والوں کی کثرت ہوجائے گی۔ سنانے والے بہت ہوجائیں گے، لیکن سننے والے موجود نہ ہوں گے۔ پیسے کی افراط کی بنا پر لوگ اِن سنسیرٹی (insincerity)میں مبتلا ہوجائیں گے۔ ہر آدمی اپنے ہی کو سب کچھ سمجھے گا۔ دوسرے کی بات سننا، اور اس پر غور کرنا، یہ مزاج دنیا سے ختم ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

عورت اور مرد کا فرق

انگریز مستشرق ایڈورڈ ولیم لین(Edward William Lane, 1801-1876) ایک برطانوی مستشرق، مترجم اور لغت نگار(lexicographer) تھا ۔وہ انگریزی کے علاوہ عربی زبان میں مہارت رکھتا تھا۔ عربی زبان کے ڈیٹا کے لیے اس نے مصر میں کئی برس قیام کیا۔ اس نے ایک کتاب منتخب ترجمۂ قرآن(Selections from the Kuran) تیار کی۔ جو پہلی بار لندن سے1843 میں چھپی۔ اِس کتاب کے دیباچے میں لین نے لکھا تھا —اسلام کا تباہ کُن پہلو عورت کو حقیر درجہ دینا ہے:
The fatal point in Islam is the degradation of woman. (p. 90)
مستشرق لین نے 1843 میں جوبات کہی تھی۔ اُس سے اس کی خاص مراد یہ تھی کہ اسلام کے قانونِ شہادت (evidence) میں دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر ماناگیا ہے۔ یہ دونوں صنفوں کے درمیان کُھلی ہوئی نابرابری ہے۔ اِس کے بعد بطور مسلّمہ یہ بات مان لی گئی کہ اسلام عہدِ جاہلیت کا مذہب ہے، وہ سائنسی دَور کا مذہب نہیں بن سکتا۔
اسلام کے خلاف یہ نظریہ ڈیڑھ سو سال تک چلتا رہا۔ اس کے بعد مختلف اسباب سے سائنسی حلقوں میں یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ عورت اور مرد کے دماغ کے بارے میں دوبارہ ریسرچ کی جائے، اور یہ معلوم کیا جائے کہ کیا دونوں کی دماغی بناوٹ میں کوئی فرق ہے۔ اِس ریسرچ کا ایک ریزن یہ سوال تھا کہ ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان لَو میریج (love marriage) ہوتی ہے اور پھر بیش تر واقعات میں ایسا ہوتا ہے کہ دونوں لڑ بھڑ کر ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔
اِس سلسلے میں بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور اداروں کے تحت، سائنسی انداز میںبہت سی ریسرچز کی گئیں۔ یہاں تک کہ خالص سائنسی ریسرچ کے بعد یہ معلوم ہوا کہ عورت اور مرد کے دماغ میں فطری بناوٹ کے اعتبار سے ایسا فرق پایا جاتا ہے، جس کو بدلنا ممکن نہیں۔ وہ فرق یہ ہے کہ مرد پیدائشی طور پر سنگل ٹریک مائنڈ (single-track mind) کاحامل ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں عورت فطری طورپر ملٹی ٹریک مائنڈ(multi-track mind) رکھتی ہے۔بی بی سی انگریزی ویب سائٹ پر چھپی رپورٹ 24 اکتوبر 2013 کے مطابق —
Women 'better at multitasking' than men, study finds
It is not a myth - women really are better than men at multitasking, at least in certain cases, a study says... says co-author Dr Gijsbert Stoet, of the University of Glasgow, "Multitasking is getting more and more important in the office, but it's very distracting, all these gadgets interrupting our workflow."
www.bbc.com/news/science-environment-24645100 (accessed on 07.04.2021)
یعنی ریسرچ کے مطابق، عورتیں ایک وقت میں کئی ذمے داریوں کی انجام دہی میں مردوں سے بہتر ہیں۔ یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے۔ عورتیں ملٹی ٹاسک کے ، کم از کم، کچھ معاملوں میں مردوں سے بہتر ہیں... گلاسگو یونیورسٹی کے ڈاکٹر گزبرٹ اسٹائٹ کہتے ہیں کہ آفس میں ملٹی ٹاسک زیادہ سے زیادہ بہتر ہے، لیکن یہ ڈسٹریکٹ کرتا ہے، یہ طریقہ کام کی رفتار میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
مرد وعورت کے درمیان یہ فرق اتنا عام ہے کہ اس کوہر گھر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی گھر جہاں پر عورت اور مرد دونوں اکٹھے رہتے ہوںوہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مرد کا ذہن کسی ایک پوائنٹ پَر متوجہ رہے گا۔ جب کہ عورت کا یہ حال ہو گا کہ اس کا ذہن ایک ہی وقت میں کئی چیزوں کی طرف متوجہ رہے گا۔ مثلاً مرد اگر ایک کتاب پڑھ رہا ہے تو اس کا سارا دھیان کتاب میں لگا رہے گا۔ حتی کہ پاس کے کمرے میں اگر ٹیلی فون کی گھنٹی بجے تو وہ اس کو سننے سے قاصر رہے گا۔ حالاں کہ اسی کمرے میں بیٹھی ہوئی عورت دوسرے کمرے میں بجنے والی ٹیلی فون کی گھنٹی کو بخوبی طورپر سن لے گی۔
عورت کے ذہن اور مرد کے ذہن کا یہ فطری فرق بتاتا ہے کہ گواہی کے قانون میں دونوں کے درمیان فرق رکھنے کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک واقعہ جس کو عورت اور مرد دونوں دیکھ رہے ہوں اس کو مرد جب دیکھے گا تو وہ اس کو یکسوئی (concentration) کے تحت دیکھے گا۔ اِس بنا پر وہ اس قابل ہوگا کہ واقعے کے تمام اَجزاء اس کے حافظے میں محفوظ ہوسکیں۔ اس کے مقابلے میں عورت اپنے ذہن کی فطری بناوٹ کی بنا پرچیزوں کو سرسری انداز میں دیکھے گی۔ اس کے ذہن کا ایک حصہ واقعے کی طرف متوجہ ہوگا اور اس کے ذہن کا دوسرا حصہ کسی اور چیز کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ اِس بنا پر ایک گواہ عورت کے ساتھ دوسری گواہ عورت رکھی گئی تاکہ دونوں مل کر واقعے کی پوری تصویر بنا سکیں۔
مذکورہ سائنسی تحقیق کی روشنی میں قرآن کی متعلقہ آیت زیادہ قابلِ فہم بن جاتی ہے۔ یہ آیت قرآن میں اِس طرح آئی ہے: وَاسْتَشْہِدُوا شَہِیدَیْنِ مِنْ رِجَالِکُمْ فَإِنْ لَمْ یَکُونَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاہُمَا فَتُذَکِّرَ إِحْدَاہُمَا الْأُخْرَى (2:282)۔یعنی تم اپنے مردوں میں سے دومَردوں کوگواہ بنالو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں، اُن لوگوں میں سے جن کو تم پسند کرتے ہو۔ تاکہ اگر ایک عورت (گواہی دینے میں بھول) چوک جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دہانی کرادے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں ضَلَّ کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ ضَلّ کے معنی عربی زبان میں اِدھراُدھر بھٹکنے (go astray) کے ہوتے ہیں۔ یہ لفظ اِس معاملے میں عَین سائنسی ہے۔ اِس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اگر مذکورہ آیت کا مفہوم متعین کیا جائے تو وہ یہ ہوگا —اگر ذہنی بناوٹ کی بنا پر ایک عورت کی توجہ اصل واقعے سے کچھ ہٹ جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلا کر پہلی عورت کی کمی پوری کردے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن عالم الغیب کی طرف سے اتاری ہوئی کتاب ہے۔ خدائے عالم الغیب نے اپنے علم کلّی کی بنا پر دونوں صنفوں کے درمیان فطری فرق کو اُس وقت جانا جب کہ عام انسان اِس فرق سے بالکل ناواقف تھا۔ اِس علم کی بنا پر خدا نے گواہی کا مذکورہ اُصول مقرر کیا۔ مذکورہ آیت اِس بات کا ایک علمی ثبوت ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو ابدی صداقت کی حامل ہے۔ قرآن خدائے برتر کی کتاب ہے، نہ کہ عام معنوں میں کوئی انسانی کتاب۔
واپس اوپر جائیں

ڈی لنکنگ— ایک سنتِ رسول

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت وہ ہے، جس کو پالیسی آف ڈی لنکنگ (policy of delinking) کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر مکہ میں آپ نے اپنا مشن شروع کیا۔ اس وقت مکہ اہل شرک کے قبضے میں تھا۔ انھوں نے کعبہ کو 360بتوںکا مرکز بنا دیا تھا۔ رسول اللہ نے یہ کیا کہ کعبہ میں آنے والے زائرین اور اس میں موجود بتوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا۔یعنی بت پرستی اور کعبہ کے قریب بت پرستوں کے اجتماع میں فرق کرنا۔ اس طرح ڈی لنکنگ پالیسی اختیار کرنے کی بنا پر آپ کے لیے یہ ممکن ہوا کہ آپ مکمل طور پر مثبت ذہن کے ساتھ اپنا مشن ، دعوت الی اللہ کا عمل انجام دےسکیں۔ اگر آپ ڈی لنکنگ پالیسی اختیار نہ کرتے تو یہ فائدہ کبھی حاصل نہ ہوتا۔
ایسا کیوں ہے۔ اس کو صحابی رسول عمر و بن العاص (وفات 43ھ)کے قول سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ان کا قول یہ ہے:لَیْسَ الْعَاقِلُ الَّذِی یَعْرِفُ الْخَیْرَ مِنَ الشَّرِّ، وَلَکِنِ الْعَاقِلُ الَّذِی یَعْرِفُ خَیْرَ الشَّرَّیْنِ( المجالسۃوجواہر العلم، اثر نمبر670)۔ یعنی عقل مند وہ نہیں ہے، جو خیر کے مقابلے میں شر کو پہچانے۔ بلکہ عقل مند وہ ہے، جو یہ جانے کہ دو شر کے درمیان خیرکیا ہے ۔
اس کا مطلب یہی ہے کہ شر کے مختلف پہلوؤں کو ڈی لنک کرکے دیکھا جائے تو شر کے اندر بھی خیر کا پہلو مل جائے گا۔ آپ نے کعبہ میں بت اور بت پرستوں کے معاملے میں جو طریقہ اختیار کیا، وہ کیا تھا۔ ان بتوں کا ظاہری پہلو یہ تھا کہ وہ شرک کا ذریعہ تھا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ انھی بتوں کی وجہ سے وہاں لوگ جمع ہوتے تھے، اور اس کی وجہ سے وہاں ایک آڈینس بنتا تھا۔ رسول اللہ نے یہ کیا کہ بتوں کے مشرکانہ پہلو کو الگ کردیا، اور بتوں کی وجہ سے وہاں آنے والے لوگوں کو اپنے لیے بطورِ آڈینس استعمال کیا۔ اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ہر عسر کے ساتھ یسر کا پہلو موجود ہوتا ہے۔انسان اگرمثبت ذہن کے ساتھ معاملے میں غور کرےتو ہرعسر میں اس کو یسرکا پہلو مل جائے گا۔
انیسویں صدی میںانگریز جب انڈیا میں آئے تو انھوں نے مسلمانوں کو بہت سی چیزیں دیں۔ مثلاً انگریزی ایجوکیشن، جس کی وجہ سے مسلمان اس قابل ہوئے کہ وہ انڈیا کے باہر کی دنیا کو دیکھ سکیں۔ لیکن سارے مسلمانوںنے انڈیا میں اینٹی برٹش تحریک چلادی۔اسی طرح آزادی کے بعد جو حکومت آئی اس نے بھی مسلمانوں کو بہت کچھ دیا۔ لیکن دوبارہ مسلمانوں کو حکومت سے شکایت پیدا ہوگئی، وغیرہ۔
اس کا سبب یہ ہے کہ مسلم لیڈران زندگی کے ایک اصول کو نہیں جانتے ہیں۔ مسلم قائدین اس فطری قانون کو نہیں جانتے کہ ہر عسر کے ساتھ یسرموجود ہوتاہے (الانشراح، 94:5-6)۔عسرکا مطلب ہے پرابلم،اور یسر کا مطلب موقع (opportunity)۔ یعنی پرابلم کے درمیان موجود مواقع کو جاننا، اور منصوبہ بند انداز میں ان کو اویل (avail) کرنا، یہی زندگی کا اصول ہے۔ لیکن مسلم لیڈروں نے اس اصول کو نہ پہلے جانا، اور نہ وہ اب اس کو جانتے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ ایک کام کیا ہے۔وہ ہے اویلیبل مواقع کو نظر انداز کرنا، اور جو چیز اویلیبل نہیں ہے، اس کے اوپر تحریک چلانا۔ یہی غیر حقیقی طریقِ کار ہر دور میں مسلمانوں پر غالب رہا ہے۔ اس لیے مسلمانوں نے ہر دور میں صرف کھویا، کسی بھی دور میں وہ پانے والی چیز کو پانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
قرآن کی سورہ البقرہ میں زندگی کی ایک حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے، اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو (2:155)۔ توسیعی اعتبار سے حکومت کا ملنا، اور اس کا ہاتھ سے نکلنا ، وغیرہ بھی اس میں شامل ہے۔ اور صبر کا مطلب ہے پرابلم کو اگنور کرنا، مواقع کو اویل (avail)کرنا۔
انسان پر زندگی کے جو مختلف مرحلے پیش آتے ہیں، وہ ایک موقع کے طور پر پیش آتے ہیں۔ زندگی کو جاننے والا شخص وہ ہے، جو زندگی کو ایک موقع کی صورت میں دریافت کرے، اور پھر منصوبہ بند انداز میں اس موقع کو استعمال کرے۔مشکل حالات منفی چیز نہیں۔مشکل حالات یا چیلنج کسی انسانی گروہ کو تخلیقی گروہ بناتا ہے۔جب کسی گروہ کے اندر ایسی حالت پیدا ہو، تو انسان اس کو فطرت کا تحفہ سمجھے،اور ڈی لنکنگ کا طریقہ اختیار کرکے وہ اس کو بطور موقع اویل کرے۔ اس طرح نان کریٹو گروہ کریٹیو (creative) گروہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

دشمن سے سیکھنا

1949ء میں جاپانیوں نے اپنے یہاں ایک صنعتی سیمینار کیا۔ اس سیمینارمیں انہوں نے امریکا کے ڈاکٹر ایڈورڈ ڈیمنگ (Dr Edward Deming) کو خصوصی دعوت نامہ بھیج کر بلایا۔ ڈاکٹر ڈیمنگ نے اپنے لیکچر میںاعلیٰ صنعتی پیداوار کا ایک نیا نظریہ پیش کیا۔ یہ کوالٹی کنٹرول (quality control) کا نظریہ تھا۔ (ہندوستان ٹائمس 28 دسمبر 1986ء)
جاپان کے لیے امریکہ کے لوگ دشمن قوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے جاپان کو بدترین شکست اور ذلت سے دوچار کیا تھا۔ اس اعتبار سے ہونا یہ چاہیے تھا کہ جاپانیوں کے دل میں امریکا کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکے۔ مگر جاپانیوں نے اپنے آپ کو اس قسم کے منفی جذبات سے اوپر اٹھا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے یہ ممکن ہواکہ وہ امریکی پروفیسر کو اپنے سیمینار میں بلائیں اور اس کے بتائے ہوئے فارمولاپر ٹھنڈے دل سے غور کر کے اس کو دل و جان سے قبول کر لیں۔
جاپانیوں نے امریکی پروفیسر کی بات کو پوری طرح پکڑ لیا۔ انہوںنے اپنے پورےانڈسٹری کو کوالٹی کنٹرول کے رخ پر چلانا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے صنعت کاروں (industrialist)کے سامنے بے نقص (zero-defect) کا نشانہ رکھا۔ یعنی ایسی پیداوار مارکیٹ میں لانا جس میں کسی بھی قسم کا کوئی نقص نہ پایا جائے۔ جاپانیوں کی سنجیدگی اور ان کا ڈیڈیکیشن (dedication) اس بات کا ضامن بن گیا کہ یہ مقصد پوری طرح حاصل ہو۔ جلد ہی ایسا ہوا کہ جاپانیوںکے کارخانے بے نقص سامان تیارکرنے لگے۔ یہاںتک کہ یہ حال ہوا کہ برطانیہ کے ایک دکاندار نے کہا کہ جاپان سے اگر میں ایک ملین کی تعداد میںکوئی سامان منگائوں تو مجھ کو یقین ہوتا ہے کہ ان میں کوئی ایک چیز بھی نقص والی نہیں ہو گی۔ چنانچہ تمام دنیا میں جاپان کی پیداوار پر صد فیصد بھروسہ کیاجانے لگا۔
اب جاپان کی تجارت بہت زیادہ بڑھ گئی۔ حتی کہ وہ امریکا کے بازار پر چھا گیا، جس کے ایک ماہر کی تحقیق سے اس نے کوالٹی کنٹرول کا فارمولا حاصل کیا تھا— اس دنیامیں بڑی کامیابی وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو ہر ایک سے سبق سیکھنے کی کوشش کریں، خواہ وہ ان کا دوست ہو یا ان کا دشمن۔
واپس اوپر جائیں

کریٹیو عمل

اہل ایمان کے عمل کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ قرآن و حدیث کو پڑھیں، پھر اس پر عمل کریں۔ مثلاً یہ کہ پانچ وقت نمازیں پڑھنا، اور رمضان کے مہینے میں روزے رکھنا، وغیرہ۔ ایک اور خاص عمل یہ ہے کہ ایک شخص غور وفکر کرکے کوئی مطلوب عمل دریافت کرے، اور اس کو روبعمل لانے کی پلاننگ کرے۔ اس دوسرے عمل کو کریٹیو عمل کہہ سکتے ہیں۔ اجتہادی عمل اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک کریٹیو عمل ہے۔ ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہےإِذَا اجْتَہَدَ الْحَاکِمُ فَأَخْطَأَ، کَانَ لَہُ أَجْرٌ، وَإِذَا اجْتَہَدَ فَأَصَابَ، کَانَ لَہُ أَجْرَانِ (مسند ابو یعلیٰ، حدیث نمبر 228)۔ یعنی جب حاکم اجتہاد کرے اور اس کا وہ حکم درست نہ ہو تو اس کو ایک اجر ملے گااور اگر اس نے اجتہاد کیا اور اس میں وہ درستگی کو پہنچ گیا، تو اس کے لیے دہرا اجر ہے۔
اجتہادی عمل یا کریٹیو عمل کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ کرنے والا اس میں غلطی کرے تب بھی اس کو ایک ثواب ہے، اور اگر اجتہاد درست ہو تو دہرا ثواب ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ لوگوں کے اندر تخلیقی عمل کے لیے زیادہ سے زیادہ شوق (incentive)پیدا ہو۔کریٹیو عمل میں آدمی کو بہت زیادہ جد و جہد کرنی پڑتی ہے، اس لیے اس کا ثواب بہت زیادہ ہے۔مثال کے طور پر ایک شخص نے قرآن و حدیث اور موجودہ حالات پر غور کیا، اس کے بعد اس کو یہ دریافت ہوئی کہ موجودہ زمانے میں ایک انٹرنیشنل زبان وجود میں آئی ، جس کے ذریعے انٹرنیشنل تبلیغ کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔اس کےبعد وہ یہ کرے کہ انٹرنیشنل زبان میں قرآن کا معیاری ترجمہ تیار کرے، اور اس کو ساری دنیا میں پھیلائے تو یہ کریٹیو عمل ہوگا۔ عام عمل کا بھی ثواب ہے، لیکن کریٹیو عمل کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ تخلیقی عمل کا خاص تعلق دعوتی عمل سے ہے۔ دعوت میں تخلیقی عمل کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ مثلاً اگر آپ قرآن کی دعوت کو عالمی سطح پر پھیلانا چاہیں تو اس کےلیے بہت زیادہ تخلیقی فکر کو کام میں لانا پڑے گا۔ تخلیقی عمل کے بغیر کوئی بڑا دعوتی کام انجام نہیں دیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ڈر، پست ہمتی

ایک قاری الرسالہ لکھتے ہیں: میرےایک ساتھی ہیں جو جنوبی ہند میں دعوتی کام کرتے ہیں۔ آج کل وہ بیمار ہیں، میں ان کی عیادت کے لیے گیا تھا۔دورانِ گفتگو انھوں نے اپنا تاثر بتایا کہ جب ہم ٹیم کی شکل میں 1998 میں شمالی ہند کے دعوتی دورے پر گئے۔ تواس وقت مختلف شخصیات اور اداروں میں جانے کا موقعہ ملا تاکہ دعوتی کام کا تعارف ہو ،اور ہمیں اچھا مشورہ اور حوصلہ ملے۔انھوں نے بتایا کہ اس سفر میں تقریباً سارے ہی افراد نے ہمیں ڈر ایا، اور پست ہمت کیا، اور کہا کہ دعوتی کام کے لیے حالات ناساز گار ہیں۔ اس میں صرف ایک شخصیت کا استثنا تھا، وہ مولانا وحیدالدین خاں صاحب ہیں۔ انھوں نے ہماری ہمت افزائی کی ،اور ہمیں مفید مشورے سے نوازا ۔ مولانا ہمارے یہ ساتھی بہت ہی ایکٹیو داعی ہیں، انھوں نے کہا کہ میں آج کل بیماری کے ایام میں خوداحتسابی (self-introspection) کی زندگی گزاررہاہوں ۔انھوں نے مزید کہا کہ میں کنفیوزن کا شکار ہوں، اور اس کی وجہ کیا ہے، اب تک مجھے اس کا جواب نہیں ملا۔
جب میں ان سے مل کر واپس آگیا تو انھوں نے یہ پیغام بھیجا:" آپ میری عیادت کے لیے آئے ،اور مجھے دعاؤں کے ساتھ بہت کچھ دے کر گئے۔ جب سے میں بیمار ہوا ہوں، اپنے اور اپنی دعوتی ٹیم کے سلسلے میں بہت سوچتا رہتا ہوں کہ ہم نے بیس سال کا عرصہ لگا کر کیا حاصل کیا؟ ہمارا رخ کدھر ہے ۔کیا ہم دعوت اورینٹڈ زندگی گزار رہے ہیں، دعوت کے نام پر ہم کیا کیا کام کر رہے ہیں،وغیرہ، وغیرہ۔ اس طرح کے سوالات ذہن میں آتے ہیں ۔ میں ان کے جوابات کی تلاش میں ہوں ،کسی سوال کا کچھ جواب ملتا ہے، کسی کانہیں، خیر ساری چیزیں اپنی ڈائری میں لکھ رہا ہوں ،کیا پتہ میرے رب کی طرف سے دوبارہ موقع ملے تومیں اپنی اصلاح کروں۔" مولاناجب انھوں نے آپ کی شخصیت کا اعتراف بطور داعی کے کیا ،پھر بھی اپنے مقصد اور مشن کو لے کر کنفیوزن کا شکار ہیں،اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ کچھ علما اعتدالِ فکری کے نام پرکنفیوزن کا شکار رہتے ہیں۔ اس لیے وہ "دعوت بھی کرے گا اور عدوات (دشمنی) بھی کرے گا "کہتے ہیں ۔ اس کے برعکس، متعین رہنمائی پر اگر کوئی چلے تو اس کو شخصیت پرستی کا نام دیتے ہیں، یہی ا ن کا ذہنی انتشار ہے۔ اس پر کچھ رہنمائی فرمائیں ۔
جواب
پچھلے سو سال سے زیادہ مدت کے اندر مسلمانوں میں بہت سی تحریکیں اٹھی ہیں۔ بظاہر ان کے نام مختلف ہیں، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے سب کا محرک ایک تھا، اور وہ تھا رد عمل۔یہ تمام تحریکیں ردعمل (reaction) کی تحریکیں تھیں۔ دورِ جدید کی مختلف تحریکوں کو انھوں نے اسلام کے لیے اور مسلمانوں کے لیے خطرہ سمجھا، اور وہ اس کےخلاف بطورِ دفاع اٹھ کھڑے ہوئے۔میرے علم کے مطابق ان میں سے کوئی تحریک حقیقی معنوں میں اللہ اور آخرت اور جنت کے لیے نہیں اٹھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں کہیں نہ کہیں منفی نفسیات موجود تھی۔ اسی منفی نفسیات کا سبب ہے کہ بظاہر وہ کوئی بھی نام لیں، مثلاً دعوت یا تبلیغ۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ردعمل کی تحریکیں تھیں، اور جو تحریک بطور ردعمل کے اٹھے، اس کے اندر وہی کمی پائی جائے گی، جس کی نشاندہی آپ کے ساتھی نے کی ہے۔
قرآن کی تعلیمات کے مطابق،مسلمان کی حیثیت شاہد کی ہے، اور دوسرے اقوام کی حیثیت مشہود کی(85:3)۔ یعنی دوسرے الفاظ میں مسلمان اور دوسری قوموں کے درمیان داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ داعی اور مدعو کا تعلق ہو، تو لوگوں کے اندر دوسری قوموں کے لیے خیرخواہی کا جذبہ پروان چڑھے گا۔ اس کے برعکس، اگر حریف اور رقیب کا تعلق ہو، تو مسلمان منفی ذہنیت کا شکار ہوجائیں گے، دوسری قوموں کے بارے میں وہ خیرخواہی کے انداز میں نہیں سوچ پائیں گے۔ جب کہ پیغمبر اپنی مدعو قوم سے کہتے تھے:وَأَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ أَمِینٌ (7:68)۔ یعنی میں تمھارا مانت دار خیرخواہ ہوں۔ پیغمبر شعیب نے کہا تھا:وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلَکِنْ لَا تُحِبُّونَ النَّاصِحِینَ (7:79)۔ یعنی میں نے تمہاری خیر خواہی کی مگر تم خیرخواہوں کو پسند نہیں کرتے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی بھلائی چاہنے والوں کو پسند نہیں کرتے ہو، اس کے باوجود میں نے یک طرفہ طور پر تمھارے ساتھ خیرخواہی کی۔
اس منفی مزاج کی بنا پر مسلمانوں میں مختلف قسم کی بے راہ روی پیدا ہوئی۔ اسی بنا پر یہ تحریکیں مسلمانوں کے اندر صحت مند مزاج بنانے میں بری طرح فیل ثابت ہوئی ہیں ۔ حتی کہ تجربہ بتاتا ہے کہ لوگ بظاہر خواہ مختلف قسم کے داعیانہ الفاظ بولیں، لیکن ان کے اندر سے داعیانہ جذبہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اس لیے ان تحریکوں سے وابستہ افراد سے ملیے تو بہت جلد وہ ظلم اور سازش کے الفاظ بولنے لگتے ہیں، جس کو مذکورہ ملاقات میں ڈر اور پست ہمتی کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس صورتِ حال سے محفوظ رہنے کا راستہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ ہے کہ پچھلی غلطیوںکا اعتراف کیا جائے، اور دوبارہ مثبت انداز میں دعوت الی اللہ کی منصوبہ بندی کی جائے۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ان کو احساس ہوتا ہے کہ ماضی میں غلطی ہوئی، تب بھی وہ کھل کر اس کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ غلطی کا اعتراف کیے بغیر کچھ نیا کام کیا جائے۔ مگر اس قسم کا کام کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ غلط سرگرمیوں کے زمانے میں جو ذہن بنا ہے، اس کو اعلان کے ساتھ ترک کرنا ضروری ہے۔ اگر اعلان کے ساتھ ترک نہ کیا جائے، تو ممکن ہے کہ اس کے اثرات ہمیشہ باقی رہیں ۔
نیز یہ کہ آپ کے دوست نے کچھ افراد کے حوالے سے جو یہ بات کہی ہے کہ انھوں نے ہمیں ڈر ایا، اور پست ہمت کیا، اور کہا کہ دعوتی کام کے لیے حالات ناساز گار ہیں۔ ایسے لوگوں پر حضرت عائشہ کا یہ قول ثابت آتا ہے کہ انھوں نے قرآن و حدیث پڑھا، مگر انھوں نے قرآن و حدیث نہیں پڑھا(أُولَئِکَ قَرَءُوا، وَلَمْ یَقْرَءُوا)مسند احمد، حدیث نمبر24609۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث سے عام طور پر صرف کچھ چھوٹے چھوٹے مسئلے نکالے جا تے ہیں، جن کو جزئی (فروعی) مسائل کہاجاتا ہے۔ اس کے برعکس، حدیث میں ابدی رہنمائی کا جو پہلو تھا وہ امت کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر رہ گیا۔ یہ حدیث کی تصغیر (underestimation) ہے۔ حدیث یا سنتِ رسول سے سب سے بڑی چیز دریافت کرنے کی یہ ہے کہ رسول اللہ نے مسائل کو مواقع میں کنورٹ کیا۔ حدیث کو پڑھنے والے حدیث سے سب کچھ نکالتے ہیں، مگر اس قسم کی ابدی حکمت ابھی تک نہیں نکال پائے۔ ان کے موجودہ منفی ذہن کا یہی اصل سبب ہے۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر ِ امن

The Prophet of Peace
پیغمبر اسلام، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (وفات 632ء)کے متعلق ہسٹورین نے عام طور پر اعتراف کیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں اعلیٰ ترین کامیابی حاصل کی۔ مثال کے طورپر برٹش مؤرخ ایڈورڈ گبن (Edward Gibbon, 1737-1794) نے اپنی کتاب ’’ر وما کا عروج وزوال‘‘ (The History of the Decline and Fall of the Roman Empire) میں پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے لائے ہوئے انقلاب کو تاریخ کا سب سے زیادہ قابلِ ذکر واقعہ بتایا ہے:
The rise and expansion of Islam was one of the most memorable revolutions which has impressed a new and lasting character on the nations of the globe.
ایم۔ این۔ رائے(M.N. Roy) ایک انڈین لیڈر تھے۔ وہ بنگال میں 1887 میں پیدا ہوئے اور 1954 میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کی کتاب ’’ہسٹاریکل رول آف اسلام ‘‘ (Historical Role of Islam) پہلی بار دہلی سے 1939 میں چھپی۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں : محمد کو تمام پیغمبروں میں سب سے بڑا پیغمبر ماننا چاہیے۔اسلام کی توسیع تمام معجزوں سے زیادہ بڑا معجزہ ہے:
Mohammad must be recognised as by far the greatest of all prophets. The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 4)
امریکا کے ڈاکٹر مائیکل ہارٹ (Michael H. Hart) کی کتاب ’’دی ہنڈریڈ‘‘ (The 100) نیویارک سے 1978 میں چھپی۔ اس کتاب میں انہوں نے پوری انسانی تاریخ سے ایک سو ایسے افراد کی فہرست بنائی ہے جنہوں نے اُن کے مطابق، اعلیٰ کامیابیاں حاصل کیں۔ اِس فہرست میں انہوں نے ٹاپ پر پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کا نام رکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’وہ تاریخ کے تنہا شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے۔ مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی‘‘:
He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.
یہاں یہ سوال ہے کہ پیغمبر اسلام محمد بن عبداللہ کی اس عظیم کامیابی کا راز کیا تھا۔ اس کا راز ایک لفظ میں امن تھا۔ یہ کہنا غالباً صحیح ہوگا کہ پیغمبر اسلام تاریخ کے سب سے بڑے پیسیفسٹ (pacifist) تھے۔ اُنہوں نے پُر امن طریقہ (peaceful method) کو ایک کامیاب ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اس سلسلے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے:الصُّلْحُ خَیْرٌ (4:128)۔یعنی اختلافی معاملات میں پُرامن طریقہ زیادہ نتیجہ خیز طریقہ ہے:
Peaceful method is a far more effective method.
اسی طرح خود پیغمبر اسلام نے فرمایا: یُعْطِی عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِی عَلَى الْعُنْفِ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2593)۔یعنی خدا نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا:
God grants to peace what He does not grant to violence.
پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے امن کو ایک مکمل آئیڈیالوجی کے طورپر دریافت کیا۔ آپ نے امن کو ایک ایسے طریقۂ کار کے طورپر دریافت کیا جو ہر صورتِ حال کے لیے سب سے موثّر(effective) تدبیر کی حیثیت رکھتا تھا۔
ایک مفکّر نے لکھا ہے کہ ’’تاریخ کے تمام انقلابا ت صرف حکمرانوں کی تبدیلی (coup) کے واقعات تھے، وہ حقیقی معنوں میں انقلاب نہ تھے‘‘۔ یہ بات اگر صحیح ہو تو پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کا نام اس معاملے میں ایک استثنا مانا جائے گا۔ کیوں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپ کے لائے ہوئے انقلاب کے ذریعے وہ تمام انفرادی(individual)، سماجی اور سیاسی تبدیلیاں وقوع میں آئیں، جن کے مجموعے کو انقلاب (revolution) کہا جاتا ہے۔
اپنے مطالعے کی بنیاد پر میرااحساس یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کا انسانی تاریخ میں جو کنٹری بیوشن (contribution) ہے۔ اُس کے لحاظ سے اُن کا سب سے زیادہ مناسب نام یہی ہوسکتا ہے کہ اُن کو امن کا پیغمبر (Prophet of Peace) کہا جائے۔
تاریخ ایک ایسا ڈسپلن ہے جس میں یہ امکان رہتا ہے کہ مطالعہ کرنے والا ایک سے زیادہ رایوں تک پہنچ جائے ۔ تاہم مصنف کا یہ خیال ہے کہ ایسا زیادہ تر محدود مطالعے کی بنا پر ہوتا ہے۔ اگر مطالعہ زیادہ وسیع اور جامع ہوتو تعدّد آراء کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے۔
ایک مثال سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں کچھ دفاعی لڑائیاں پیش آئیں۔ ان میں سے ایک دفاعی لڑائی وہ تھی جس کو جنگِ بدر کہاجاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ جس وقت جنگ کا واقعہ ہوا، پیغمبر اسلام میدانِ جنگ سے باہر ایک عَریش میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اپنے ہاتھ یا لکڑی سے آپ ریت پر کچھ لکیریں کھینچتے نظر آئے۔ اس واقعے کو لے کر ایک مستشرق نے بطور خود اس کو جنگ سے منسوب کیا، اور لکھا کہ ’’قائدِ اسلام اُس وقت اپنی اگلی جنگ کا منصوبہ بنا رہے تھے‘‘:
The leader of Islam was making his next war plan.
مستشرق (Orientalist)نے یہ بات کسی حوالے کے بغیر صرف اپنے قیاس کی بنیاد پر لکھ دی۔ حالاں کہ دوسری روایات کو دیکھا جائے تو خود روایت کی بنیادپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام اُس وقت کیا کررہے تھے۔ وہ دراصل یہ نقشہ بنارہے تھے کہ آئندہ کس طرح امن قائم کیا جائے:
چنانچہ دوسری روایت میںبتایا گیا ہے کہ جس وقت بدر کی یہ دفاعی جنگ ہورہی تھی، عَین اُسی وقت خدا کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ خدا نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔ یہ سُن کر پیغمبر اسلام نے فرمایا:ہُوَ السَّلَامُ وَمِنْہُ السَّلَامُ وَإِلَیْہِ السَّلَامُ(البدایۃ والنہایۃ، جلد 3، صفحہ 267)۔یعنی خدا سلامتی ہے اور اُسی سے سلامتی ہے، اور اسی کی طرف سلامتی ہے۔
اس دوسری روایت کے مطابق درست طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنگِ بدر کے موقع پر پیغمبراسلام اپنا اگلا منصوبۂ امن بنا رہے تھے:
The leader of Islam was making his next peace plan.
پیغمبر اسلام کو قرآن( 21:107)میں پیغمبرِ رحمت کہا گیا ہے ( وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ ) یعنی پرافٹ آف مرسی۔ پرافٹ آف مرسی ہی کا دوسرا نام پرافٹ آف پیس ہے۔ دونوں ایک ہی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے دو مختلف انداز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پیغمبر اسلام کا مشن کوئی پولیٹیکل مشن نہیں تھا۔ آپ کے مشن کو دوسرے الفاظ میں اسپریچول مشن کہا جاسکتا ہے۔ قرآن (2:129)میں اس کو تزکیۂ نفس (purification of the soul) بتایا گیا ہے۔ یعنی انسان کو کامل انسان بنانا۔ دوسری جگہ قرآن (89:27)میں اس کے لیے النّفس المطمئنّہ (complex-free soul) کے الفاظ آئے ہیں۔
اس قسم کا مقصد صرف نصیحت اور تذکیر (persuasion) کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ مقصد ذہن کی تشکیلِ نَو (re-engineering of the mind) کا طالب ہے ۔ یہ مقصد صرف انسان کی تھنکنگ قوت کو بیدار کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے حصول کا ذریعہ سیاسی انقلاب نہیں ہے، بلکہ ذہنی انقلاب ہے۔یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات تمام تر امن کے تصور پر مبنی ہیں۔
پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی کتاب قرآن میں تقریباً 6236 آیتیں ہیں۔ اِن آیتوں میں بمشکل چالیس آیتیں ایسی ہیں جن میں قتال یا جنگ کا ذکر ہے۔ یعنی کُل آیتوں کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ۔ قرآن کی99 فیصد سے زیادہ آیتیں وہ ہیں جن میں انسان کی قوتِ فکر کو بیدار کیا گیا ہے۔اس لیے قرآن میں بار بار تدبر و تفکر پر ابھارا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن گویا آرٹ آف تھنکنگ کے موضوع پر ایک کتاب ہے، وہ کسی بھی درجے میں آرٹ آف فائٹنگ کی کتاب نہیں۔
پیغمبر اسلام کی تعلیمات اور آپ کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نہ صرف نظریۂ امن پیش کیا بلکہ آپ نے نہایت کامیابی کے ساتھ پُر امن زندگی کے لیے ایک مکمل طریقِ کار وضع کیا:
He was able to develop a complete methodology of peaceful activism.
اسلام کے بعد کی سیاسی تاریخ نے پیغمبر اسلام کے اس پہلو پر ایک پردہ ڈال دیا تھا۔ اب ضرورت ہے کہ اس پردے کو ہٹایا جائے۔ یہ ہٹانا گویا پیغمبر اسلام کی دریافتِ نو (re-discovery of the Prophet of Islam) ہے۔پیغمبر اسلام کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے نہ صرف امن کی ایک آئیڈیالوجی پیش کی، بلکہ امن کو عمل میں لانے کے لیے وہ ایک مکمل میتھاڈولوجی آف پیس ڈیویلپ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ گویا کہ آپ نظریۂ امن کے آئیڈیا لاگ بھی تھے، اور نظریۂ امن کو عملی انقلاب کی صورت دینے والے بھی۔
ابتدائی حالات
عرب ایک جزیرۂ نما ہے۔ وہ ایشیا کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے۔ یہ ایک صحرائی ملک ہے، اور انتہائی قدیم زمانے سے آباد ہے۔ قدیم زمانے سے یہاں مختلف قبائل اپنے اپنے علاقوں میں رہتے تھے۔ ہر قبیلے کا سردار اُن کے اوپر حاکم ہوا کرتا تھا۔
چار ہزار سال پہلے پیغمبر ابراہیم نے اپنے خاندان کو مکّہ کے علاقے میں آباد کیا۔ یہ لوگ ایک خدا کو مانتے تھے اور ایک خدا کی پرستش کرتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ باہر کے اثرات سے یہ لوگ بتوں کو پوجنے والے بن گئے۔ اب بھی وہ سماجی روایت کے طورپر ایک خدا کو مانتے تھے مگر اسی کے ساتھ عملی طور پر وہ بہت سے بتوں کو پوجتے تھے۔ چھٹی صدی عیسوی میں پورا عرب ایک بت پرست ملک بن چکا تھا۔ عرب کے یہی حالات تھے جب کہ پیغمبر اسلام وہاں پیدا ہوئے۔
پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب عرب کے شہر مکّہ میں 570 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 610 عیسوی میں مکّے میں اپنی پیغمبری کا اعلان کیا ۔ 622 عیسوی میں وہ عرب کے دوسرے شہر مدینہ چلے گئے۔ 632 عیسوی میں مدینہ میں ان کی وفات ہوئی۔ اس طرح آپ کی کُل عمر 63 سال تھی، اور آپ کی پیغمبرانہ عمر 23 سال ۔
آپ پیدا ہوئے تو آپ کے والد عبد اللہ بن عبد المطلب کا انتقال ہوچکا تھا۔ آپ کی عمر چھ سال تھی تو آپ کی والدہ آمنہ بنت وہب بھی انتقال کر گئیں۔ اس کے بعد آپ اپنے دادا عبد المطلب اور اپنے چچا ابو طالب کی سر پرستی میں رہے۔ قرآن میں خدا نے پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی کے بارے میں فرمایا:أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَى ۔ وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَہَدَى (93:6-7)۔یعنی کیا اللہ نے تم کو یتیم نہیں پایا، پھر اس نے تم کو ٹھکانا دیا۔ اور تم کو متلاشی پایا تو اس نے تم کو راہ دکھائی۔
قرآن کی اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام کو اپنی ابتدائی زندگی میں جب یتیمی کا تجربہ ہوا تو اس تجربے نے آپ کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ کوئی چیز آپ سے کھوئی گئی ہے۔ یہ احساس آخر کار حق کی تلاش کی صورت میں اُبھرا۔ آپ حق کی تلاش میں اتنا زیادہ سرگرداں ہوئے کہ اکثر آپ مکے کے باہر چلے جاتے اور قریبی پہاڑ حِرا کے ایک کھوہ میں تنہائی کی حالت میں زندگی کی حقیقت کے بارے میں سوچتے رہتے اور دعا کرتے رہتے۔ اس طرح آپ حق کی تلاش میںسرگرداں تھے کہ خدا نے 610عیسوی کی ایک رات کو آپ کے پاس فرشتہ بھیجا۔ فرشتے نے آپ کو بتایا کہ خدا نے آپ کو اپنے پیغمبر کی حیثیت سے چن لیا ہے۔ اس کے بعد آپ پر قرآن وقفے وقفے سے اُترتا رہا۔23 سال کی مدت میں وہ مکمّل ہوا۔
پیغمبر اسلام کو خدا کی طرف سے یہ مشن دیاگیا کہ وہ لوگوں کو توحید کا پیغام پہنچائیں۔ یعنی یہ کہ خدا صرف ایک ہے اور انسان کو چاہیے کہ وہ ہر اعتبار سے خدا رُخی زندگی (God-oriented life) گذارے۔ یہی انسان کی نجات کا راستہ ہے۔پیغمبر اسلام اپنی ابتدائی زندگی میںایک تاجر تھے۔ تاجر کی حیثیت سے ان کی تصویر ایسی بنی کہ لوگ اُن کو الامین(honest person) کہنے لگے۔ اس طرح آپ مکّے میںایک باعزت شخص بن گئے۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ پیغمبری ملنے کے بعد جب آپ نے مکّہ کے ایک ٹیلے ’’صَفا‘‘ پر چڑھ کر لوگوں کو پکارا تو لوگ آپ کی بات سننے کے لیے وہاں جمع ہوگئے۔
یہ نبوت کی حیثیت سے آپ کا پہلا خطاب تھا۔ اس خطاب میں آپ نے لوگوں کو بتایا کہ موت کے بعد ہر ایک کو یا تو جنت ملے گی یا جہنم۔ اس لیے تم لوگ موت سے پہلے کے زمانے میں موت کے بعد کے زمانے کی تیاری کرو۔
مکّہ میں اُس وقت بت پرستی کا رواج تھا۔ لوگ بت پرستی میں کنڈیشنڈ ہوچکے تھے۔ اس لیے ابتدائی زمانے کی اس تقریر کا لوگوں کے اوپر کوئی اثر نہیں ہوا۔لوگ اثر لیے بغیر واپس چلے گئے۔ آپ کے چچا عبد العزّی (ابو لہب) نے منفی ردِّ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا:
’’تمہارا بُرا ہو، کیا تم نے یہی کہنے کے لیے ہم کو بلایا تھا ( تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ أَمَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِہَذَا)۔ مستخرج ابی عوانہ، حدیث نمبر 262
مکّہ عرب کا مرکزی شہر تھا۔ یہاں قبیلۂ قریش کے لوگ رہتے تھے۔ قریش کو کعبہ کی تولیت حاصل تھی، جو کہ پورے عرب کا مذہبی مرکز تھا۔ اس بنا پر قریش کو پورے ملک میںسرداری کا مقام حاصل ہوگیا تھا۔ قریش نے مکّہ میں دار الندوہ قائم کررکھا تھا۔ دار الندوہ گویا قبائلی پارلیمنٹ تھی۔ قریش کے سینئر افراد دارالندوہ کے ممبر ہوتے تھے۔ یہاں تمام اہم اُمور کے فیصلے کیے جاتے تھے۔ پیغمبر اسلام کے دادا عبدالمطلب دارالندوہ کے ممتاز ممبروں میں سے ایک تھے۔
عام رواج کے مطابق، ایک حوصلہ مند لیڈر کے لیے پہلا ٹارگیٹ یہ تھا کہ وہ دار الندوہ کا رُکن بننے کی کوشش کرے۔ جو گویا اُس وقت کے عرب میں سیاسی طاقت کے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ بظاہر اس کے بغیر عرب یا مکّہ میں کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن پیغمبر اسلام نے دار الندوہ میں داخلے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ حتی کہ اُنہوں نے یہ مطالبہ بھی نہیں کیا کہ اپنے دادا عبد المطلب کی خالی سیٹ اُنہیں دی جائے۔
دار الندوہ کے معاملے میں پیغمبر اسلام نے وہ پُر امن طریقہ اختیار کیا جس کو اسٹیٹس کوازم (status quoism) کہا جاتا ہے۔ یعنی صورتِ موجودہ سے ٹکراؤ نہ کرنا، بلکہ جو صورتِ موجودہ ہے اس کو علی حالہٖ قبول کرلینا۔ مگر پیغمبر اسلام کا اسٹیٹس کوازم سادہ طورپر صرف اسٹیٹس کوازم نہ تھا، بلکہ وہ مثبت اسٹیٹس کوازم (positive-status quoism) تھا۔ مثبت اسٹیٹس کوازم یہ ہے کہ آدمی وقت کے نظام سے ٹکراؤ نہ کرے، بلکہ وہ یہ کرے کہ وقت کے نظام میں موجودہ مواقع کو دریافت کرکے اُسے استعمال کرے۔ اس طریقِ کار کو فارمولا کی زبان میں اس طرح کہاجاسکتا ہے:
Ignore the problem, avail the opportunities.
پازیٹیو اسٹیٹس کوازم کا یہ طریقہ ایک انتہائی حکیمانہ طریقہ تھا۔ اس کی طرف رہنمائی پیغمبر اسلام کو خود قرآن کی ابتدائی آیتوں میں ان الفاظ میں دی گئی:فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (94:5-6)۔ یعنی ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ اس طرح پیغمبر اسلام کو بتایا گیا کہ اس دنیا میں کوئی مسئلہ کبھی کُلّی معنوں میں مسئلہ نہیں ہوتا، بلکہ ہر مسئلہ کے ساتھ ہمیشہ مواقع موجود رہتے ہیں۔ اس لیے آدمی کو یہ حکمت اختیار کرنا چاہیے کہ وہ مسائل کو نظر انداز کرے اور مواقع کو استعمال کرے۔ پیغمبر اسلام کے لیے یہ طریقہ ایک حکیمانہ آغاز کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آج جو ممکن ہے، اُس سے اپنے عمل کا آغاز کرو۔ اس طرح کَل وہ چیز ممکن ہوجائے گی جو بظاہر آج ممکن نظر نہیں آتی۔
پیغمبر اسلام کا مشن توحید (oneness of God) کا قیام تھا۔ اس لحاظ سے آپ کے لیے اُس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مکّہ کے مقدس عبادتی مرکز کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے۔ یہ عرب کے مختلف قبائل کے بُت تھے۔ اور مکّہ کے سرداروں نے ان بتوں کو کعبے میں اس لیے رکھا تھا تاکہ وہ مکہ کو مرکزی مقام کا درجہ دے سکیں۔ کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت کا ہونا ایک پرابلم تھا، مگر اسی کے ساتھ اُس میںایک موقع (opportunity) بھی چھپی ہوئی تھی۔ ان بتوں کی وجہ سے ایسا ہوتا تھا کہ مکّہ کے لوگ اور مکّہ کے باہر کے لوگ وہاں ہر روز جمع ہوتے تھے۔ اس طرح کعبہ لوگوں کے لیے اجتماع کا ایک فطری مقام بن گیا تھا۔ پیغمبر اسلام نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کیا، اوران بتوں کی وجہ سے وہاں لوگوں کے اجتماع کو ایک موقع کے طورپر استعمال کیا۔ اب آپ نے یہ کیا کہ آپ روزانہ وہاں جاتے اور لوگوں سے ملاقات کرتے اور ان کو قرآن کی آیتیں سناتے۔
قدیم مکّہ میں پیغمبر اسلام نے دعوت کا جو مذکورہ طریقہ اختیار کیا، وہ پرابلم سے خالی نہ تھا۔ مثال کے طورپر قرآن کی سورہ النجم اُتری تو حسب معمول آپ نے یہ کیا کہ کعبہ کے اجتماع میں جاکر لوگوں کو اُسے پڑھ کر سنایا۔ اس سورہ میں عرب کے بڑے بڑے بتوں کو بے حقیقت بتاتے ہوئے یہ الفاظ تھے:
أَفَرَأَیْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى ۔ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى (53:19-20) ۔ یعنی بھلا تم نے لات اور ُ ّعزیٰ پر غور کیا ہے۔ اور تیسرے ایک اور منات پر۔
اس آیت میں لات، عزّیٰ اور مَنات کے نام آئے ہیں۔ یہ تینوں بُت قدیم عرب کے بڑے بڑے بُت تھے۔ قدیم عربوں کا یہ طریقہ تھا کہ جب کسی مجلس میں اِن بتوں کا نام آتا تو وہ اُن کے اعتراف کے لیے کچھ تعظیمی الفاظ بولتے۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ جب پیغمبر اسلام نے قرآن پڑھتے ہوئے لات وعزّیٰ اور منات کے نام لیے تو وہاںکے مشرک حاضرین نے اپنے رواج کے مطابق، بلند آواز سے کہا :
تِلْکَ الْغَرَانِیقُ الْعُلَى. وَإِنَّ شَفَاعَتَہُنَّ لَتُرْتَجَى
پیغمبر اسلام کی آواز میں حاضرین کی مذکورہ آواز مل گئی۔ انہوں نے سمجھا کہ خود رسول اللہ نے یہ الفاظ کہے ہیں۔ یہ خبر نہایت تیزی سے پھیل گئی، یہاں تک کہ یہ خبر حبش تک پھیل گئی۔ بہت سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ پیغمبر اسلام نے مشرک عربوں کے اس مطالبے کو مان لیا ہے کہ اُن کے جو بُت ہیں وہ بھی خدا کی خدائی میں شریک ہیں۔ حالاں کہ یہ صرف ایک غلط فہمی تھی، نہ کہ کوئی حقیقی واقعہ۔
اس طرح مکّہ میں پیغمبر اسلام لوگوں کو مسلسل عقیدۂ توحید کی طرف بلاتے رہے۔ اِس مقصد کے لیے وہ لوگوں کو خطاب بھی کرتے اور انفرادی طورپر ان سے مل کر اُنہیں اپنا پیغام پہنچاتے رہے۔ اس طرح ایک ایک کرکے لوگ پیغمبر اسلام کے دین میں داخل ہوتے رہے۔ مثلاً حضرت خدیجہ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، وغیرہ۔تجربہ بتاتا ہے کہ لوگ اپنے مذہبی عقیدے کے بارے میں بہت زیادہ حسّاس ہوتے ہیں۔ چنانچہ مکّہ میں پیغمبر اسلام کی مخالفت شروع ہوگئی۔ قریش ہر تدبیر سے یہ کوشش کرنے لگے کہ آپ کا توحید کا مشن ختم ہوجائے۔ اس مخالفت کا سبب کسی بھی درجے میں سیاسی نہ تھا، وہ صرف اعتقادی حسّاسیت کی بنا پر تھا۔ اس مخالفت کا سبب صرف اعتقادی اختلاف تھا، نہ کہ کوئی سیاسی خطرہ۔
پیغمبر اسلام کے اس ابتدائی دَور میںآپ کی بیوی خدیجہ اور آپ کے چچا ابو طالب آپ کے لیے گویا سَپورٹ سسٹم بنے ہوئے تھے۔ اعلانِ نبوت کے دسویں سال اِن دونوں کا انتقال ہوگیا۔ قدیم قبائلی رواج کے مطابق، اب آپ کو ضرورت تھی کہ آپ کسی اور کو تلاش کریں، جو آپ کو اپنی پناہ میں لے لے۔ تاکہ آپ اپنا مشن بدستور جاری رکھ سکیں۔
پناہ کے حصول کے لیے پہلے آپ نے مکّہ میںکوشش کی ۔ کعبہ کی زیارت کے لیے جو قبائلی سردار مکّہ آتے تھے، اُن سے اس مقصد کے لیے ملاقاتیں کیں۔ مگر اُن میں سے کوئی شخص تیّار نہیں ہوا۔ آخر کار آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ مکّہ سے 75 کلومیٹر دور واقع شہر طائف جائیں۔ اور وہاں کے سرداروں سے پناہ طلب کریں۔ عرب رواج کے مطابق یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ مگر طائف کے سردار جو خود بھی بتوں کے پرستار تھے، وہ توحید کے پیغمبر کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ بلکہ انہوں نے اپنے شہر کے لڑکوں کو اکُسایا کہ وہ آپ کو پتھر مار کر شہر کے باہر کردیں۔
آپ طائف سے باہر ایک باغ میں رات گذارنے کے لیے پناہ لیے ہوئے تھے۔ روایت کے مطابق، اُس وقت، خدا نے پہاڑوں کا فرشتہ (مَلک الجبال) کو آپ کے پاس بھیجا۔ ملک الجبال نے آپ سے کہا کہ طائف والوں نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا، اس کو خدا نے دیکھا۔ اب اگر آپ اجازت دیں تو میں طائف کے اَطراف میں واقع پہاڑوں کو ایک دوسرے میں ملا دوں۔ تاکہ طائف کے لوگ اُس میں دب کر ختم ہوجائیں۔ مگر پیغمبر اسلام نے کہا کہ نہیں۔ طائف کی موجودہ نسل نے اگر چہ میری بات کو ماننے سے انکار کردیا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ طائف کی اگلی نسلیں میری بات کو مانیں گی اور خدا کے راستے پر چلیں گی (بَلْ أَرْجُو أَنْ یُخْرِجَ اللَّہُ مِنْ أَصْلاَبِہِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللَّہَ وَحْدَہُ، لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا) صحیح البخاری، حدیث نمبر 3231۔
پیغمبر اسلام طائف سے واپس ہوکر دوبارہ مکّہ پہنچے تو قریش کا ظلم اور زیادہ بڑھ گیا۔ انہوں نے دار الندوہ میں مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو قتل کردیں۔ اس فیصلے میں مکہ کے تمام قبائل شریک ہوگئے۔اُس وقت مکّہ اور اطرافِ مکہ میں تقریباً دو سو آدمی پیغمبر اسلام کے پیغام کو مان کر اُن کے ساتھی بن چکے تھے، مگر یہ تعداد قریش کے مقابلے میں آپ کی حمایت کے لیے ناکافی تھی۔ چنانچہ آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ مکہ چھوڑ کر عرب کے دوسرے شہر مدینہ چلے جائیں، جو مکہ سے تقریباً تین سو میل کے فاصلے پر واقع تھا۔
مدینہ میں اسلام کا داخلہ
پیغمبر اسلام ابھی مکّہ میں تھے کہ آپ نے اپنے دو ساتھیوں کو مکّہ سے مدینہ کے لیے روانہ کیا۔ یہ لوگ وہاں اس لیے گئے تھے تاکہ آپ کا پیغام مدینہ والوں کو پہنچائیں۔ مدینہ والوں کی زبان عربی تھی، جس طرح مکہ والوں کی زبان عربی ۔ چنانچہ اِن لوگوں نے یہ کیا کہ قرآن کے مختلف حصوں کو پڑھ کر اُنہیںسنانے لگے۔ اسی لیے ان کا نام مُقری پڑ گیا (وَکَانَ یُدْعَى الْمُقْرِئَ) معرفۃ الصحابہ لابی نعیم الاصفہانی، جلد5، صفحہ2556۔ عربی زبان میں مقری کے معنی ہیں: پڑھ کر سنانے والا۔
واقعات بتاتے ہیں کہ مکہ کے برعکس مدینہ میں پیغمبر اسلام کا پیغام تیزی سے پھیلنے لگا۔ مدینہ کے تقریباً ہر گھر میں ایسے افراد پیدا ہوگئے جنہوں نے بتوںکی پرستش چھوڑ دی اور پیغمبر اسلام کے دین کو اختیار کرلیا۔مکّہ میںمخالفت اور مدینہ میں موافقت کا یہ دو مختلف تجربہ کیوں ہوا۔ اس کا ایک معلوم سبب تھا۔ وہ یہ کہ مکّہ عرب کے صحرائی علاقے میں واقع تھا۔ یہاں زراعت وغیرہ موجود نہیں تھی۔ مکّہ والوں کی معیشت بڑی حد تک بت پرستی کے کلچر سے وابستہ تھی۔ کعبہ اُس زمانے میں پورے عرب میں بت پرستی کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس بنا پر ایسا ہوا تھا کہ عرب کے تمام قبائل کے لوگ سال بھر یہاں آتے۔ اس طرح بت پرستی میں مکّہ والوں کے لیے ایک اقتصادی قدْر (commercial value) پیدا ہوگئی تھی۔ گویا کہ قدیم مکّہ میں بتوں کو وہی حیثیت حاصل ہوگئی تھی جس کو موجودہ زمانے میں ٹورسٹ انڈسٹری کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر مکّہ کے لوگ ڈرتے تھے کہ اگر عرب سے بت پرستی کا خاتمہ ہوجائے تو ان کی ’’ٹورسٹ انڈسٹری‘‘ ختم ہوجائے گی۔
اہل مدینہ کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ مدینہ عرب کے ایک ایسے علاقے میں واقع تھا جہاں پانی کی کمی نہیں تھی۔ اس بنا پر وہاں زراعت اور باغبانی کا کافی رواج تھا۔ یہاں کے لوگوں کے لیے یہ ڈر نہ تھا کہ اگر بت پرستی کا خاتمہ ہوجائے تو اُن کی معاش کا ذریعہ ختم ہوجائے گا۔ کیوں کہ بت پرستی ان کی معاش کا ذریعہ ہی نہ تھی۔
اس بنا پر ایسا ہوا کہ توحید کا مذہب اہلِ مکّہ کے لیے ابتدائی زمانے میں قابلِ قبول نہ ہوسکا۔ مگر اہلِ مدینہ اس قسم کی نفسیات سے خالی تھے۔ بت پرستی کا خاتمہ ان کے نزدیک صرف ایک مذہبی کلچر کا خاتمہ تھا، نہ کہ ان کےمعاشی ذریعے کا خاتمہ۔ چنانچہ مدینے میں پیغمبر اسلام کا پیغام تیزی سے پھیل گیا۔
پیغمبر اسلام کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کوئی سادہ واقعہ نہ تھا۔یہ دراصل ٹکراؤ کے طریقے کو چھوڑ کر امن کے طریقے کو اختیار کرنا تھا۔ پیغمبر اسلام کےاس اصول کو آپ کی اہلیہ حضرت عائشہ نے اِن الفاظ میں بیان کیا:مَا خُیِّرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6786)۔یعنی پیغمبر اسلام کو جب بھی دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ یہ کرتے کہ مشکل کے مقابلے میں آسان طریقے کا انتخاب فرماتے۔
اس معاملے کی ایک واضح مثال مکّہ کے تیرہ سالہ قیام کے آخری دنوں میں آپ کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔ یا تو قریش سے جنگی ٹکراؤ کریں، یاخاموشی کے ساتھ پُر امن طورپر مکّہ سے نکل کر مدینہ چلے جائیں۔ اُس وقت کے حالات میں پہلا انتخاب مشکل انتخاب (harder option) تھا۔ اس کے مقابلے میں دوسرا انتخاب، یعنی خاموشی سے مدینہ چلے جاناایک آسان انتخاب (easier option) تھا۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے اپنے اصول کے مطابق اُس کو لے لیا جو آسان تھا، اور اس کو چھوڑ دیا جو مشکل تھا۔
مکّہ سے مدینہ کا یہ سفر تقریباً پانچ سو کلو میٹر کا سفر تھا۔ یہ پورا سفراونٹ پر گذرا۔ مگر چوں کہ آپ کو معلوم تھا کہ مکّہ کے لوگ آپ کو پکڑنے کے لیے آپ کا پیچھا کررہے ہیں، اس لیے آپ نے ان سے بچاؤ کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔ مثلاً مکہ سے رات کے وقت خاموشی سے روانگی۔ سیدھے مدینہ سفر کرنے کے بجائے مخالف سمت کےایک غیر آباد کھوہ میں تین دن چھپے رہنا۔ عام راستے کے بجائے نئے راستے سے سفر کرنا، وغیرہ۔
ہجرت کے اس سفر میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جو بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کا مزاج کیا تھا۔ مثلاً ایک مقام پر آپ کو دو شخص ملے۔ وہ دونوں آپس میں بھائی تھے۔ آپ نے اُن سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے قبیلے نے ہم دونوں کا ایک ہی نام رکھا ہے۔ وہ ہے الْمُہَانَانِ(دو بے عزّت آدمی)، آپ نے فرمایا کہ نہیں، تم دونوں باعزت آدمی ہو (بَلْ أَنْتُمَا الْمُکْرَمَانِ) مسند احمد، حدیث نمبر 16691 ۔
یہ طریقہ آپ کے اصولِ تربیت کا ایک حصہ تھا۔ آپ جانتے تھے کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر مثبت انداز میں کی جائے۔ اس لیے آپ نے اُن کا نام بدل دیا۔ اس طرح انہیں یہ نفسیاتی ترغیب دی کہ وہ اپنے آپ کو اعلیٰ انسانیت کے رُخ پر ترقی دیں۔ اسی طرح بعد کے زمانے میں آپ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی بن ابی طالب سے ہُوا۔ ان کے یہاں پہلا لڑکا پیدا ہوا تو پیغمبر اسلام نے علی سے پوچھا کہ تم نے بیٹے کا نام کیا رکھا۔ اُنہوں نے کہا کہ حَرب (جنگ) پیغمبر اسلام نے کہا کہ یہ نام درست نہیں۔ اس کےبعد آپ نے اس کا نام حَسن رکھا (فَسَمَّاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 2777۔
مدنی زندگی
622 عیسوی سے پیغمبر اسلام کی مدنی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ کا ہجرت کرکے مدینہ پہنچنا کوئی سادہ بات نہ تھی۔ اس سے پہلے مکّہ کی تیرہ سالہ پیغمبرانہ زندگی میںآپ کو نہایت تلخ تجربے پیش آئے تھے۔ آپ کو مسلسل ستایا گیا، آپ کے ساتھیوں کو مارا پیٹا گیا، آپ کا اور آپ کے خاندان کا بائیکاٹ کیا گیا، آپ کو اتنی شدید مصیبتوں میں مبتلا کیاگیا کہ آپ اور آپ کے ایک سو سے زیادہ ساتھی اپنے وطن اور اپنی جائداد کو چھوڑ کر مکّہ سے مدینہ آگئے۔ یہاں انہیں اپنے گھر اور اپنے عزیزوں سے محروم ہوکر از سرِ نو اپنی زندگی کی تعمیر کا مشکل کام کرنا تھا۔
ایسی حالت میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ پیغمبر اسلام کا دل شکایت اور احتجاج سے بھرا ہوا ہو اور وہ مدینہ پہنچتے ہی مکّہ والوں کے خلاف منفی باتیں کہنا شروع کردیں۔ مگر معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ پیغمبر اسلام نے مدینہ پہنچ کر مدینہ والوں کے سامنے جو پہلی تقریر کی،وہ اب بھی سیرت کی کتابوں میںموجود ہے۔ سیرت ابن ہشام میںاس کو" مدینہ کا پہلا خطبہ" کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے —وَکَانَتْ أَوَّلُ خُطْبَةٍ خَطَبَہَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ آپ کے اس خطبے کا خلاصہ یہ ہے— فَمَنْ اسْتَطَاعَ أَنْ یَقِیَ وَجْہَہُ مِنْ النَّارِ وَلَوْ بِشِقٍّ مِنْ تَمْرَةٍ فَلْیَفْعَلْ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ501) ۔ یعنی تم میں سے جو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانےکی طاقت رکھتا ہو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے کیوں نہ ہو، وہ ضرور کرے۔
یہ کوئی سادہ بات نہ تھی۔ یہ دراصل پیس فل ایکٹوزم کی قیمت تھی۔ اُس وقت کے حالات میں بلاشبہ یہ ایک مشکل کام تھا۔ یہ اپنے منفی جذبات کو مثبت جذبات میںکنورٹ کرنا تھا۔ مگر یہی پیس فل ایکٹوزم کی قیمت ہے۔ اس قیمت کو ادا کیے بغیر کوئی شخص پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر قائم نہیں رہ سکتا۔انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ امن اور تشدد دونوں ہی داخلی احساسات کا اظہار ہوتے ہیں۔ اگر آدمی کے ذہن میںنفرت ہو تو اس کا اظہار متشددانہ(violent) عمل کی صورت میں ہوگا، اور اگر اس کے ذہن میں محبت ہو تو اس کا اظہار ہمیشہ پُر امن طریقِ عمل کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ ایسی حالت میں پیس فل ایکٹوزم کا نام لینا، کوئی سادہ بات نہیں، وہ ایک قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ قربانی یہ کہ آدمی نفرت کے اسباب کے باوجود فریقِ ثانی سے نفرت نہ کرے، وہ اپنے دماغ کو نفرت والی باتوں سے پوری طرح خالی رکھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی پُر امن طریقِ کار پر عمل کرنا چاہتا ہو اُس کو سب سے پہلے خود اپنے ذہن کومیانہ روی پر قائم رکھنا ہوگا۔ اُس کو یک طرفہ طورپر یہ کرنا ہوگا کہ فریقِ ثانی اس کوغصہ دلائے، مگر وہ ہر گز غصہ نہ ہو۔ اس قیمت کو ادا کیے بغیر کوئی شخص پُر امن طریقِ کار کے اصول کواختیار نہیں کرسکتا۔
پیغمبر اسلام نے معلوم تاریخ میں پہلی بار پُر امن ایکٹوزم کا مکمل نمونہ پیش کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ نے یک طرفہ اعتدال پسندی کی مذکورہ قیمت ادا کی۔ آپ کے ساتھ فریقِ ثانی کی طرف سے ہر قسم کی زیادتی کی گئی مگر آپ ان زیادتیوں سے اوپر اُٹھ کر سوچتے رہے۔ ان کی زیادتیوں کو نظر انداز کرکے آپ نے مثبت انداز میںاپنے عمل کا نقشہ بنایا۔
پیغمبر اسلام کی یہ تقریر بتاتی ہے کہ آپ مکمل معنوں میں ایک امن پسند انسان تھے۔ کوئی بڑے سے بڑا ناخوش گوار واقعہ آپ کے ذہنی سکون (peace of mind) کو درہم برہم نہیں کرسکتا تھا۔ آپ نے اپنے ذہن کی سطح پر ایک ایسی بلند چیز پالی تھی کہ اس کے بعد ہر دوسری چیز آپ کو غیراہم معلوم ہوتی تھی۔ آپ کامل معنوں میں ایک مثبت ذہن کے انسان تھے۔ آپ کا دماغ گویا ایک ایسا کارخانہ تھا جس میں داخل ہو کر ایک نیگیٹیو آئٹم بھی پازیٹیو آئٹم بن جاتا تھا۔ آپ کو اپنی زندگی میں جب بھی کوئی ناخوشگوار تجربہ پیش آتا تو آپ کا ذہن فوری طور پر ڈفیوز کرکے اس کو ایک مثبت احساس میں تبدیل کرلیتا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کے حافظے تک جب کوئی منفی احساس پہنچتا تو وہ بدل کر مثبت احساس بن چکا ہوتا تھا۔ آپ کی شخصیت کامل معنوں میں ایک مثبت شخصیت تھی۔ آپ منفی حالات میں بھی مثبت ذہن کے ساتھ رہنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے۔ آپ تشدد کے واقعات کو بدل کر امن کا واقعہ بنانے کی غیر معمولی استعداد رکھتے تھے۔
622 عیسوی میںجب آپ مدینہ پہنچے اس وقت مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ مشرکین اور یہود بھی موجود تھے۔ گویا کہ اس وقت کا مدینہ ایک ملٹی ریلیجس سوسائٹی کی حیثیت رکھتا تھا۔ ایسے ماحول میں لوگ کس طرح پُر امن طورپر رہیں، آپ نے اس کا ایک کامیاب فارمولا دریافت کیا۔ یہ فارمولا اس اصول پر مبنی تھا — ایک کی پیروی کرو، اور سب کا احترام کرو:
Follow one and respect all.
اس وقت کے مدینہ میں تعداد کے اعتبار سے مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہوچکی تھی۔ اس لیے اُس وقت کے مدینہ میں جو ابتدائی ریاست بنی، اُس کے صدر خود پیغمبر اسلام تھے۔ آپ نے صدرِ ریاست کی حیثیت سے ایک ڈیکلیریشن (declaration) جاری کیا، جو تاریخ میں صحیفۂ مدینہ یا میثاقِ مدینہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس ڈیکلیریشن میں بتایا گیا تھا کہ مسلم، مشرک اور یہود، تینوں کو یہ حق ہوگا کہ وہ اپنے ذاتی معاملات کو خود اپنے مذہب اور کلچر کے مطابق طَے کریں۔ البتہ جہاں تک اجتماعی نزاعات کی بات ہے، اُن کو اللہ اور اس کے رسول کے طریقے کے مطابق طَے کیا جائے گا(وَإِنَّکُمْ مَہْمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ مِنْ شَیْءٍ، فَإِنَّ مَرَدَّہُ إلَى اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) سیرت بن ہشام، جلد1، صفحہ503۔
یہ کثیر مذہبی یا کثیر کلچر والے سماج میںامن قائم کرنے کا واحد عملی اصول ہے۔ اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں ہر ایک اپنے طریقے کی پیر وی کرنے میں آزاد ہو۔ جہاں تک اجتماعی معاملات کا تعلق ہے، یعنی وہ معاملات جن میں رائیں ایک دوسرے سے مختلف ہو جاتی ہیں، وہاں مرکزی انتظامیہ کی اتّباع کرنا۔ اس طریقے کو دوسرے الفاظ میں پُر امن ڈفرینس مینجمنٹ (peaceful difference management) کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر سماج میں ہمیشہ فرق اور اختلاف پایا جاتا ہے۔ خواہ یہ سماج واحد مذہبی سماج ہو یا کثیر مذہبی سماج۔ اس فرق کو تسلیم کیا جاسکتا ہے، مگر اس کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ ایسے حالات میں کسی سماج میں امن قائم کرنا صرف بقائے باہم (co-existence) کے اصول پر مبنی ہے۔ اس معاملے میں دوسرا کوئی انتخاب ممکن نہیں۔
مدینہ پہنچ کر آپ نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ آپ نے وہاں ایک مسجد بنائی۔ اور اس مسجد میںپانچ وقت کی نماز کا نظام قائم کیا۔ اس نماز کا ایک پہلو یہ تھا کہ وہ خدا کی عبادت کا منظّم طریقہ تھا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ انسان کے اندر وہ صلاحیتیںپیدا ہوں جن کے ذریعے وہ سماج کے اندر پُر امن طورپر رہ سکے۔ چنانچہ آپ نے نماز کا جو طریقہ مقرر کیا اس کے خاتمے پر تمام نمازیوں کو اپنا چہرا دائیں اور بائیں پھیر کر یہ کہنا ہوتا تھا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔ اس طرح گویا نمازی ساری دنیا کے انسانوں کو مخاطب کرکے یہ کہتا ہے کہ اے لوگو، تمہارے اوپر سلامتی (peace) ہو۔
اس طرح نمازِ باجماعت گویا لوگوں کی اس انداز میں تربیت کا ذریعہ تھی کہ وہ اپنے سماج میں پُر امن شہری بن کر رہیں۔ سماج کے لوگوں کے لیے ان کے دل میں ہر حال میں مثبت جذبات ہوں، وہ دوسروں کے لیے کبھی مسئلہ نہ بنیں۔ اُن کا رویّہ دوسروں کے ساتھ انسان دوستی (human friendly) والا رویّہ ہو۔
پیغمبر اسلام جب ہجرت کرکے مکّہ سے مدینہ آگئے تو یہ ٹکراؤ کا خاتمہ نہ تھا بلکہ یہ ٹکراؤ کے نئے دَور کا آغاز بن گیا۔ پیغمبر اسلام نے خود تو یہ قربانی دی کہ جنگ سے بچنے کے لیے اپنے وطن مکّہ کو چھوڑ دیا اور مدینہ جاکر آباد ہوگئے۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ مدینہ آپ کے مشن کے لیے ایک زرخیز علاقہ ثابت ہوا۔ یہاں کے لوگ تیزی سے آپ کے دین میں داخل ہوگئے۔ یہاں تک کہ اہلِ مدینہ کی اکثریت آپ کی ساتھی بن گئی۔
پیغمبر اسلام کی ہجرت کے بعد یہ ہوا کہ مکّہ اورمکہ کے آس پاس دوسرے مسلمان بھی اپنے مقامات کو چھوڑ کر مدینہ آگئے۔ اس طرح مدینہ، پیغمبر اسلام کے مشن کا ایک مضبوط مرکز بن گیا۔ یہاں مدینہ کے اندر اور مدینہ کے باہر، دونوں علاقوں کے لوگ جمع ہوگئے۔ یہ مکّہ والوں کے لیے گویا ایک وارننگ تھی۔ وہ اپنے طور پر یہ سوچنے لگے کہ پیغمبر اسلام مدینہ میں اپنے افراد کو اکٹھاکرکے ایک بڑی قوت بنائیں گے اور مکّہ کو واپس لینے کے لیے مکّہ پر حملہ کردیں گے۔ اس لیے مکّہ والوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ مدینہ میں پیغمبر اسلام کی طاقت کو توڑ کر اس کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔
اس مقصد کے لیے مکّہ والوں نے عوامی عطیات سے پچاس ہزار دینار اکھٹا کیے ، اور تیاری شروع کردی۔ یہاں تک کہ انہوں نے مدینہ پر باقاعدہ حملے کا منصوبہ بنالیا۔ حتی کہ ایک ہزار کی تعداد میں مسلّح فوج لے کر روانہ ہوئے تاکہ مدینہ کی جدید مسلم ریاست کا خاتمہ کردیں۔
اس طرح مدنی دَور میںغزوات (لڑائیوں) کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سیرت کی کتابوں میں تقریباً 85 غزوات شمار کیے گئے ہیں۔ مگر یہ غزوات فریقِ ثانی کی طرف سے غزوات تھے اور پیغمبر اسلام کی طرف سے اعراض۔ پیغمبر اسلام کی پالیسی یہ تھی کہ فریقِ ثانی کے جنگی اقدام کا مقابلہ پُر امن تدبیروں سے کریں۔ اس پُر امن تدبیر کے لیے امن پسند انسانوں کی ایک تربیت یافتہ ٹیم درکار تھی۔ اصحاب ِ رسول نے یہی کام کیا۔ چنانچہ تشدد کا مقابلہ امن کے ذریعہ کرنے کی تدبیر اس طرح کامیاب ہوئی کہ بیس سال کی مختصر مدت میں پورا عرب اسلام کے کنٹرول میں آگیا۔
اس پُر امن تدبیری مہم کا ایک خاص جُزء یہ تھا کہ پیغمبر اسلام نے عرب کے تمام قبائل سے معاہدے کرلیے، اور تمام قبائل کو امن کا پابند بنا لیا۔ یہ ایک نیا طریقہ تھا جس کو معاہدہ ڈپلومیسی کہا جاسکتا ہے۔ انہیں تدبیروں کا نتیجہ یہ تھا کہ عرب جیسے جنگ جُو ملک میں مختصر مدت کے اندر ایک ایسا انقلاب آگیا جس کو بلاشبہ ایک غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) کہا جاسکتا ہے۔
صبر کا فلسفہ
پیغمبر اسلام کی تعلیمات میں صبر (patience) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن میں تقریباً ایک سو دس آیتیں ہیں جن میں صبر کے الفاظ کو استعمال کیا گیاہے۔ یہاںتک کہ صبر ہی پر کامیابی کا مدار رکھا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ اے لوگو! صبر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ (آلِ عمران، 3:200) ۔اسی طرح فرمایا کہ امامت یا لیڈر شپ میں کامیابی کا راز صبر ہے (السجدہ،32:24)۔
اسی حقیقت کو پیغمبر اسلام نے اپنی ایک لمبی حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا:وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ (مسند احمد،حدیث نمبر 2803)۔ یعنی جان لو کہ کامیابی صبر کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔ صبر نہیں تو کامیابی بھی نہیں۔ کامیابی کا درخت ہمیشہ صبر کی زمین پر اُگتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے تمام پیسیفسٹ (pacifist) یا پیس فل ایکٹوسٹ (peaceful activist) اپنے نشانے کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کا مشترک سبب یہ ہے کہ انہوں نے امن کو دریافت کیا مگر وہ صبر کو دریافت نہ کرسکے۔ حالاں کہ صابرانہ روش کے بغیر پُر امن تحریک کو چلانا ممکن نہیں۔
عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ لوگ کسی کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد پیس فُل ایکٹوزم کے اصول پر اس کے خلاف تحریک چلاتے ہیں۔ جیسا کہ نیلسن منڈیلا نے ساؤتھ افریقہ میں کیا۔ انہوں نے ساؤتھ افریقہ کے سفید فام مکینوں کے خلاف نفرت پھیلائی اور پھر کہا کہ ہم ان کو ساؤتھ افریقہ سے نکالنے کے لیے پیس فُل تحریک چلائیں گے۔حالاں کہ دونوں ایک دوسرے کی نفی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیلسن منڈیلا کی تحریک کامیاب نہ ہوسکی۔ کسی گروہ کے مقابلے میں پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر تحریک چلانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے دل میں اس کے خلاف منفی جذبات نہ ہوں۔ اس کے مقابلے میں آپ مکمل طورپر مثبت نفسیات کے حامل ہوں۔ یہی واحد بنیاد ہے جس کے اوپر پیس فل ایکٹوزم کی سرگرمیاں جاری ہوسکتی ہیں۔ مدّ مقابل گروہ کے لیے آپ کے دل میں اگر مثبت جذبات نہ ہوں تو آپ کبھی اپنے پُر امن مشن میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
عملاً یہ ہوتا ہے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے مقابلے میں پُر امن طریقِ کار کی بنیاد پر ایک تحریک اُٹھاتا ہے، لیکن فریقِ ثانی کی مفروضہ یا غیر مفروضہ زیادتیوں کا احساس فریقِ اوّل کے خلاف اس کے دل میں نفرت ڈال دیتا ہے۔ یہ نفرت دھیرے دھیرے تشدّد کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اگر تشدد کے ذ ریعہ مطلوب کامیابی نہ مل رہی ہو تو فریقِ اوّل کے دل میں فریقِ ثانی کے خلاف نفرت کا طوفان اس کو اس حد تک لے جاتا ہے کہ وہ اس کے خلاف ہر ممکن تخریبی کارروائی شروع کردے۔ یہاں تک کہ اس کو مٹانے کے لیے اُس قسم کی بھیانک کارروائی کرنے لگے جس کو موجودہ زمانے میں خودکُش بمباری (suicide bombing) کہتے ہیں۔
پیس فل ایکٹوزم کے سلسلے میں یہ بات غالباً پوری تاریخ میں صرف پیغمبر اسلام کی زندگی میںملتی ہے۔ دوسرے مصلحین کی طرح ان کو بھی فریقِ ثانی کی طرف سے سخت قسم کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر آپ نے کبھی اُن کے خلاف نفرت کی زبان استعمال نہیںکی۔ اپنے ساتھیوں کو بھی آپ ہمیشہ نفرت کےاحساس سے بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ آپ کی زندگی میںاس طرح کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔
مثال کے طورپر مکہ میں پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کا ایک خاندان تھا، جس کو آلِ یاسر کہاجاتا تھا۔ یہ ایک کمزور خاندان تھا۔ چنانچہ آپ کے طاقت ور مخالفین نے اُنہیں مارنا پیٹنا شروع کیا اور کہا کہ پیغمبر کا ساتھ چھوڑ دو۔ پیغمبر اسلام نے اس منظر کو دیکھا تو آپ نے زیادتی کرنے والوں کے خلاف نفرت کا کوئی کلمہ نہیں کہا، بلکہ یہ کہا:صَبْرًا یَا آلَ یَاسِرٍ، فَإِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّةُ (مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 5646)۔ یعنی اے آل یاسر صبر کرو، کیوں کہ تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔جنت کو صبر کا انعام بتا کر آپ نے اپنے ساتھیوں کو اس کے لیے آمادہ کیا کہ وہ کسی بھی زیادتی پر مشتعل نہ ہوں۔ وہ کسی بھی حال میں فریقِ ثانی کے خلاف اپنے دل میں منفی جذبات کی پرورش نہ کریں۔
یہ پیغمبر اسلام کی پالیسی کا نہایت اہم پہلو تھا جو آپ نے خدا کی رہنمائی کے مطابق اختیار کی۔ یعنی مخالفوں کی ہر زیادتی پر صبر کرنا۔ قرآن میں اس سلسلے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ مثلاًنبیوں کی زبانی یہ کہا گیا ہے : وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَیْتُمُونَا (14:12)۔ یعنی ہم تمہاری ایذاؤں پر صرف صبر ہی کریں گے۔
یہ صبر کوئی سادہ بات نہ تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فریقِ ثانی کی ظالمانہ کارروائی کے باوجود مثبت سوچ پر قائم رہنا، اپنے آپ کو اس سے بچانا کہ اپنے ذہن میں فریقِ ثانی کی منفی تصویر بن جائے۔ کیوں کہ فریقِ اوّل کے دل میں اگر فریقِ ثانی کی منفی تصویر بن جائے تو فریقِ اوّل کبھی فریقِ ثانی کے ساتھ پُر امن طریقِ کار کے اصول پر قائم نہیں رہ سکتا۔ صبر کا اصول فریقِ اوّل کو اس سے بچاتا ہے کہ اس کا ذہن فریقِ ثانی کے بارے میں غیر معتدل ہوجائے۔ پر امن طریقِ کار (peaceful activism) در اصل معتدل ذہن کا اظہار ہے۔ غیر معتدل یا منفی ذہن کبھی پُر امن طریقِ کار کو کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتا۔ صبر کا یہ اصول دراصل اسی اعتدال یا مثبت مزاج کی برقراری کی ایک یقینی گارنٹی ہے۔
پیغمبر اسلام کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ کے ساتھ مخاطب گروہ کی طرف سے مسلسل زیادتیاں کی گئیں، لیکن آپ ہمیشہ پابندی کے ساتھ صبر کے اصول پر قائم رہے، اور اپنے ساتھیوں کو اسی کی تلقین کی۔ آپ کی مجلسوں میں کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ مخالفین کے ظلم کا چرچا کیاجائے۔ آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ مخالفین کے ظلم کے حوالے سے ان کے خلاف بددعائیں کریں۔ اس کے برعکس، آپ ہمیشہ ظلم کرنے والوں کے خلاف اچھی دعا کرتے تھے۔ آپ نے مخالفوں کو کبھی کافریا دشمن نہیں کہا، بلکہ ہمیشہ ان کے بارے میں انسان کا لفظ بولتے رہے۔ اس معاملے کی ایک انتہائی مثال یہ ہے کہ ایک بار آپ کے مخالفوں نے پتھر مارکر آپ کو زخمی کردیا، اُس وقت آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:اللہُمَّ اہْدِ قَوْمِی فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1375)۔ خدایا! میری قوم کو ہدایت دے، کیوں کہ وہ جانتے نہیں۔
یک طرفہ صبر اور خیر خواہی کا طریقہ جو آپ نے عرب میںاختیار فرمایا، وہ اسی لیے تھا کہ فریقِ ثانی کے بارے میں آپ، یا آپ کے ساتھیوں کے دل میں شکایت اور نفرت کی نفسیات پیدا نہ ہونے پائے۔ کیوں کہ جو ذہن شکایت اور نفرت لیے ہوئے ہو، وہ اصلاح کا کام درست طورپر نہیں کرسکتا۔
خاموش تبلیغ
ایسی حالت میں پیغمبر اسلام کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔ ایک یہ کہ لوگوں کو کھُلے طورپر توحید کی طرف بلائیں اور کھلے طور پر شرک کو غلط قرار دیں۔ آپ کے لیے دوسرا انتخاب یہ تھا کہ آپ خاموشی کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں کے ذریعے اپنا مشن شروع کریں اور حالات کااندازہ کرتے ہوئے تدریجی طورپر آگے بڑھیں۔پہلے طریقے میں متشددانہ ٹکراؤ کا اندیشہ تھا، اس لیے آپ نے اس کو چھوڑ دیا۔ اس کے بجائے آپ نے دوسرے طریقے کو اختیار کیا، جو واضح طور پر امن کا طریقہ تھا۔ جس میں یہ ممکن تھا کہ لوگوں سے ٹکراؤ کی صورتِ حال پیدا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھا جاسکے۔
پیغمبر اسلام کی زندگی میں یہ پیس فل ایکٹوزم کی پہلی مثال تھی۔ اسی طرح آپ نے اپنی پوری تحریک امن کے اصول پر چلائی۔ اسی حقیقت کو ایک حدیث میں آپ نے اس طرح فرمایا: لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّہَ العَافِیَةَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2965)۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کو کسی دشمن کا سامنا پیش آئے تو ایسا نہ کرو کہ ردّعمل کی نفسیات میں مبتلا ہو کر اس سے لڑ جاؤ، بلکہ امن کے اصولوں کواختیار کرتے ہوئے دشمنی کے مسئلے کو حل کرو:
Solve the problem of enmity by following the peaceful method.
اس طرح آپ پُر امن انداز میں کام کرتے رہے یہاںتک کہ دھیرے دھیرے 83 آدمی آپ کے مشن میں شامل ہوگئے۔ اُس وقت آپ کے ایک سینئر ساتھی ابوبکر صدیق بن ابی قحافہ نے کہا کہ اب ہم کو اعلان کے ساتھ کھُلے عام اپنا کام کرنا چاہیے۔ پیغمبر اسلام نے کہا : اے ابوبکر! ابھی ہم تھوڑے ہیں ( یَا أَبَا بَکْرٍ إِنَّا قَلِیلٌ)۔ لیکن ابوبکر صدیق نے اس کے باوجود ایسا کیا کہ وہ کعبہ میں گئے اور وہاں بلند آواز سے اعلان کرکے لوگوں کو بتایا کہ میں پوری طرح محمد کا ساتھی بن گیا ہوں۔ یہ سُن کر مخالفین کی ایک جماعت دَوڑ کر آئی۔ وہ آپ کو مارنے پیٹنے لگی۔ انہوںنے آپ کو اتنا زیادہ مارا کہ آپ زخمی ہوکر گِر پڑے۔ مارنے والوں نے ابوبکر صدیق کو صرف اُس وقت چھوڑا جب کہ انہوںنے سمجھا کہ اب ان کا خاتمہ ہوچکا ہے( سیرت ابنِ کثیر، جلد 1، صفحہ 439)۔
عمر بن الخطّاب آپ کے ساتھیوں میں نہایت طاقتور شخص تھے۔ انہوں نے بھی پیغمبر اسلام سے کہا کہ ہم حق پر ہیں، پھر ہم کیوں خاموش رہیں۔ ہم اعلان کے ساتھ کھُلے طورپر اپنا کام کریں گے۔ یہ سُن کر پیغمبر اسلام نے فرمایا:یَا عُمَرُ إِنَّا قَلِیلٌ قَدْ رَأَیْتَ مَا لَقِینَا (سیرت ابن کثیر، جلد 1، صفحہ 441) ۔یعنی اے عمر! ہم تھوڑے ہیں، ابوبکر کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ تم نے دیکھ لیا۔
دھیرے دھیرے پیغمبر اسلام کا مشن پھیلنے لگا۔ آپ کے ساتھیوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ پھر وہ وقت آیا جب کہ مدینہ سے 73 آدمی آکر آپ سے ملے، اور بتایا کہ ہم آپ کے مشن میںآپ کے ساتھ ہو چکے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ اب آپ مکّہ والوںکی زیادتی کو اور زیادہ برداشت نہ کیجیے۔ ہم کو اجازت دیجیے کہ ہم مکّہ والوں کے خلاف جہاد کریں۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:اصْبِرُوا فَإِنِّی لَمْ أُومَرْ بِالْقِتَال (المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، جلد1، صفحہ199) ۔یعنی تم لوگ صبر کرو، کیوں کہ مجھے لڑائی کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام کی یہ روش بتاتی ہے کہ وہ ہمیشہ عملی نتیجے کو سامنے رکھتے تھے۔ اُن کا یہ ماننا تھا کہ اقدام کو مثبت نتیجے کا حامل ہونا چاہیے، ایسا اقدام جو کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہو ،وہ کوئی اقدام نہیں۔ وہ نتیجہ خیز اقدام(result-oriented action) کے حامی تھے۔
پیغمبر اسلام کی لائف بتاتی ہے کہ ان کی اسکیم میں اُس قسم کی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ تھی، جس کو موجودہ زمانے میں خود کُش بمباری (suicide bombing) کہا جاتا ہے۔ خود کُش بمباری کیا ہے۔ وہ در اصل مایوسی کا آخری درجہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے مخالف پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتا، اس لیے وہ یہ چاہنے لگتا ہے کہ فریقِ ثانی کو پریشان کرنے کی خاطر خود اپنے آپ کو ہلاک کرے اور پھر اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلے کہ میں نے ایسا اس لیے کیا کہ میں شہید ہوجاؤں۔
دشمن کے مقابلے میں خود کش بمباری دراصل یہ ہے کہ آدمی کے سامنے پیس فل ایکشن کا انتخاب کھُلا ہوا ہو مگر نفرت اور انتقام کے جذبات میں مبتلا ہو کر وہ اس کو نقصان پہنچانے کے لیے اندھا ہوجائے اور اس اندھے پن میں وہ خود اپنے ہی کو ہلاک کرڈالے۔ کوئی بھی صورتِ حال جہاں کوئی شخص خودکُش بمباری کا چائس لیتا ہے، وہاں یقینی طور پر اس کے لیے پُر امن طریقِ کار کا راستہ کھلا ہوتا ہے۔ مگر وہ اس کو دیکھ نہیں پاتا۔
اصل یہ ہے کہ پُر امن طریقِ کار کا انتخاب کرنے کے لیے پہلی ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی کا ذہن نفرت اور انتقام کے جذبات سے خالی ہو۔ وہ غیر متاثر انداز میں واقعات کا تجزیہ کرے۔ پیغمبر اسلام کے الفاظ میں، وہ چیزوں کوویسا ہی دیکھ سکے جیسا کہ وہ ہیں (أَرِنَا الْأَشْیَاءَ کَمَا ہِیَ) تفسیر الرازی، جلد1، صفحہ119۔پُر امن عمل ایک مثبت عمل ہے اور مثبت عمل کی اہمیت کو ایک مثبت ذہن ہی سمجھ سکتا ہے، اور اس کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرسکتا ہے۔
امن پسندانہ سوچ
پیس فل ایکٹوزم بظاہر ایک خارجی عمل ہے، مگر وہ مکمل طورپر ایک داخلی شعور کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ صرف پیس فل مائنڈ ہے جو پیس فل ایکٹوزم کی بات سوچ سکتا ہے اور اس کو درست طورپر عمل میں لاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے اس حقیقت کو جانا۔ انہوں نے اس سلسلے میں یہ کیا کہ سب سے پہلے پیس فل مائنڈ بنایا۔ اس کے بعد ہی وہ اس قابل ہوسکے کہ پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر اپنی تحریک چلا سکیں۔ اسی حقیقت کو آپ نے مذہبی زبان میں اس طرح بیان کیا ہے : جب آدمی کا دل درست ہوتا ہے تو اس کے تمام اعمال درست ہوجاتے ہیں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 52)۔
ذہن سازی کے اس عمل کو قرآن میں تزکیہ کہاگیا ہے۔ قرآن کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کا تزکیہ کرے (البقرہ،2:129) ۔یعنی روح کی تطہیر (purification of the soul)۔اس تزکیہ کا طریقہ کیا تھا۔ یہ پیغمبر اسلام کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَةٌ سَوْدَاءُ فِی قَلْبِہِ، فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُہُ، وَإِنْ زَادَ زَادَتْ، حَتَّى یَعْلُوَ قَلْبَہُ (مسند احمد، حدیث نمبر 7952) ۔ یعنی مؤمن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک کالا دھبّہ پڑ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرے اور اس کو مٹا دے اور استغفار کرے تو اس کا دل دھبّے سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور اگر دھبّے میں مزید اضافہ ہو تو وہ بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔
اس حدیث میں پیغمبر اسلام نے ایک اہم نفسیاتی حقیقت بتائی ہے۔ نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے ذہن میں جب کوئی بات آتی ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے اس کے حافظے میںاس طرح محفوظ ہوجاتی ہے کہ پھر وہ کبھی نہیں نکلتی۔ نفسیات کا مطالعہ مزید بتاتا ہے کہ انسانی ذہن کے دو بڑے خانے ہیں۔ ایک، شعور، اور دوسرا، لاشعور۔ جب کوئی بات انسانی ذہن میں آتی ہے تووہ پہلے اس کے زندہ شعور کے خانے میں آتی ہے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے وہ لاشعور کے خانے میں چلی جاتی ہے۔
ایک خانے سے دوسرے خانے میں جانے کا یہ عمل خاص طورپر رات کے وقت ہوتا ہے۔ اس طرح اگرچہ ایساہوتا ہے کہ کوئی بات جو آج زندہ حافظہ (active memory) میں ہے، بعد کو وہ دماغ کے پچھلے خانے میں جاکر بظاہر ایک بھولی ہوئی بات بن جاتی ہے۔ مگر جہاں تک شخصیتِ انسانی کاتعلق ہے، وہ لازمی طورپر اس کا جُزء بنتی رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شخصیتِ انسانی کا براہِ راست تعلق انسانی تھنکنگ سے ہے۔ جیسی سوچ ویسی شخصیت۔
پیغمبر اسلام کے مذکورہ قول کا مطالعہ جدید نفسیاتی تحقیق کی روشنی میں کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس قولِ رسول میں پیس فل تھنکنگ اور پیس فل ایکٹوزم کا اصل راز بتادیا گیا ہے۔ صحیح معنوں میں وہی شخص پیس فل ایکٹوسٹ بن سکتا ہے جو مذکورہ قولِ رسول پر عمل کرے۔ اس عمل کو آج کل کی زبان میں ڈی کنڈیشننگ کہاجاسکتا ہے۔
ہر انسان اور ہر انسانی گروہ ایسے ماحول میں رہتا ہے جہاں ہر وقت ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو اس کے لیے ناخوش گوار ہوں، جو اس کے اندرفریقِ ثانی کے خلاف منفی احساسات پیدا کریں۔ اس طرح گویا ہر آدمی کے ذہن میں بار بار منفی نوعیت کے احساسات آتے رہتے ہیں۔ اگر آدمی اس منفی احساس کو فوری طورپر بدل کر مثبت احساس نہ بنائے تو وہ آگے بڑھ کر اس کے لاشعور میں ایک منفی آئٹم کے طورپر محفوظ ہوجائے گا۔ یہ عمل اگر بلا روک ٹوک جاری رہے تو آخر کار یہ ہوگا کہ اس کا لاشعور یا اس کا حافظہ منفی آئٹم سے بھر جائے گا۔ اور اس کے نتیجے میں اس کی پوری شخصیت، منفی شخصیت بن جائے گی۔ یہی وہ منفی شخصیت ہے جس کے حامل افراد دوسروں کے خلاف تشدد اور جنگ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تشدد دراصل منفی شخصیت کے خارجی اظہار کا دوسرا نام ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ جب آدمی کے ذہن میں کوئی منفی احساس آئے تو اسی وقت وہ اس کو بدل کر مثبت احساس بنا لے۔ جو آدمی اپنے اندر کنورزن کا یہ عمل جاری کرے اس کا یہ حال ہوگا کہ اس کا پورا لاشعور یا حافظہ مثبت آئٹم کا اسٹور بن جائے گا۔ اس کا فائدہ اس کو یہ ملے گا کہ اس کی شخصیت ایسی شخصیت بنے گی جو ہر قسم کے نیگیٹیو احساس سے خالی ہوگی۔ ایسا آدمی مکمل طورپر ایک پازیٹیو شخصیت کا حامل ہوگا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پر امن ذہن میں جیتے ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جو پیس فل ایکٹوزم کے اصول کے مطابق کوئی تحریک چلا سکتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نفسیاتی (psychological)حقیقت کو سمجھا، اور تزکیہ، بالفاظ دیگر ایک ایک شخص پر ڈی کنڈیشننگ کا عمل جاری کرکے ایک سو ہزار سے زائد افراد کی ایک ٹیم بنائی۔ یہ وہ لوگ تھے جو پورے معنوں میں امن پسندی کا مزاج رکھتے تھے۔ اپنے اس مزاج کی بنا پر ان کے لیے یہ ممکن ہوا کہ پیس فُل ایکٹوزم کے اصول کے مطابق عمل کرسکیں، اور امن کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک انقلاب لائیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
آپ کو لفظ"جہاد" کی تعریف میںکچھ لیف لیٹس روانہ کیے جارہے ہیں ۔ غور اور صبر کے ساتھ پڑھ کر اس کا جواب دیں۔ ان کو پڑھ کر یہی سمجھ میںآتا ہے کہ قرآن کو خدائی کتاب کہنے والا انسانیت کا دشمن ہے اور سرودھرم سمبھاؤ کا بھی دشمن ہے۔ (شیواگوڑ، سنگاریڈی)
جواب
شیواگوڑصاحب نے اپنے اس خط کے ساتھ ہمیں انگریزی میں41صفحہ کی فوٹوکاپیاں بھیجی ہیں ۔ اس کا جواب یہاں تحریر کیا جاتا ہے ۔ آپ نے اپنے خط میں قرآن کی 24 آیتیں نقل کی ہیں جن میں اس طرح کی باتیں ہیں —ان سے لڑو ، ان سے دوستی نہ کرو ، ان کے ساتھ نرمی سے نہ پیش آؤ۔ ان کے خلاف جہاد کرو ، وغیرہ۔
واضح رہےکہ قرآن کی یہ آیتیں جو آپ نے نقل کی ہیں وہ غیر مسلم کے ساتھ مسلمان کےتعلق کو نہیں بتاتیں۔ بلکہ وہ جنگ کرنے والوں کے ساتھ مسلمان کے تعلق کو بتاتی ہیں ، اور جنگ کے معاملہ میں یہی ساری دنیا کا مسلمہ اصول ہے ۔ان آیتوں کی بنیاد پر آپ نے اسلام کے بارے میں جو شدید رائے قائم کی ہے ، وہ سرا سر غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ آپ نے قرآن کی مذکورہ آیتوں کو عمومی معنوں میں لے لیا ہے ۔ حالانکہ یہ آیتیں ہنگامی حالات کے لیے ہیں ۔ یہ اس وقت کے لیے ہیں جب کہ مسلمانوں اور دوسری قوم کے درمیان حالت جنگ (state of war)قائم ہوگئی ہو، اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ حالت جنگ میں ہمیشہ ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ جہاں تک نارمل حالات میں لوگوں کے ساتھ مسلمان کے سلوک کا تعلق ہے وہ دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے جو قرآن میں کثرت سے موجود ہیں ۔
ان دوسری آیتوں میں مسلمانوں کوتمام انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کا سلوک کرنے کاحکم دیا گیا ہے (سورہ البلد،90:17) ۔اسی طرح حکم ہے کہ در گزر (tolerance)کا طریقہ اختیار کرو(سورہ الاعراف، 7:199)۔ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، لَا یَضَعُ اللَّہُ رَحْمَتَہُ إِلَّا عَلَى رَحِیمٍ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کُلُّنَا یَرْحَمُ، قَالَ: لَیْسَ بِرَحْمَةِ أَحَدِکُمْ صَاحِبَہُ یُرْحَمُ النَّاسُ کَافَّةً (مسند ابو یعلیٰ الموصلی، حدیث نمبر 4258)۔ یعنی اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ اپنی رحمت صرف رحم کرنے والے پر کرتا ہے۔ لوگوں نے کہا: ہم سب رحم کرتے ہیں، آپ نے کہا: تمھارا اپنے ساتھی پر رحم کرنا مراد نہیں ہے، تمام انسانوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کیا جائے،وغیرہ وغیرہ۔
جہاں تک غیرمسلموں سے تعلق کا معاملہ ہے ، قرآن میں اس کی بابت ایک بنیادی اصول مقرر کردیا گیا ہے ۔وہ یہ ہے: لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ۔ إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَأَخْرَجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَى إِخْرَاجِکُمْ أَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (60:8-9)۔ یعنی اللہ تم کو ان لوگوں سے نہیں روکتا جنھوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی۔ اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان سے بھلائی کرو اور تم ان کے ساتھ انصاف کرو۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ بس ان لوگوں سے تم کو منع کرتا ہے جو دین کے معاملہ میں تم سے لڑے اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا۔ اور تمہارے نکالنے میں مدد کی کہ تم ان سے دوستی کرو، اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
قرآن کی ان دونوں آیات کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے تم سے جنگ نہیں کیا ان سے تم کو بھلائی کا معاملہ کرنا چاہیے۔مگر جو لوگ تمھارے خلاف جنگی کارروائی کررہے ہیں، ان کے ساتھ بطور ڈیفنس جنگ کرو۔ قرآن کے مطابق، عام انسانوں کو تکلیف دینا سخت منع ہے، بلکہ عدو(enemy) اور مُقاتل (combatant) کے درمیان بھی فرق کرنا چاہیے۔ قرآن کا حکم یہ ہے کہ بظاہر اگر کوئی شخص یا گروہ تمہارا دشمن ہو تب بھی تم کواس کے ساتھ اچھا تعلق قائم رکھنا چاہیے۔
جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ ایک شخص اگر بظاہر تمہارا دشمن ہو تب بھی تم اس کے ساتھ احسن طریقے پر معاملہ کرو، عین ممکن ہے کہ وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔ یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا ۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو جنگ کی اجازت صرف اس وقت ہے جب کہ فریق مخالف کی طرف سے حملہ کا آغاز ہوچکا ہو۔ لیکن جو اس جنگ میں شامل نہیں ہیں، ان کو بالکل بھی تکلیف نہیں دی جائے گی، خواہ وہ دل میں دشمنی رکھتا ہو۔ بین اقوامی معاملات میں یہی مساویانہ سلوک ساری دنیا کا مسلمہ اصول ہے اور اسلامی شریعت میں بھی مساویانہ سلوک کے اسی اصول کو اختیار کیا گیا ہے ۔
واضح رہےکہ قرآن بیک وقت ایک واحد کتاب کی صورت میں نہیں اترا ۔ بلکہ وہ حالات کے اعتبار سے 23 سال کے دوران اترا ۔ 23سال کی اس مدت کو عمومی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ ایک 20 سال ، دوسرے 3سال ۔23سالہ مدت نزول میں 20 سال گویا امن کے سال تھے اور تقریباً 3 سال جنگی حالات کے سال ۔ آپ نے جن 24آیتوں کا حوالہ دیا ہے وہ مذکورہ تقسیم کے مطابق 3 سال والے ایمرجنسی کے حالات میں اتریں ۔ قرآن کی دوسری آیتیں20 سال والی مدت میں اتریں اور وہ سب کی سب امن اور انصاف اور انسانیت جیسی مثبت تعلیمات پر مشتمل ہیں۔
سوال
قرآن میں کئی آیتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں سے کہتی ہیں کہ کافروں کو قتل کرو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جہادی ہوگئے ہیںاور غیر مسلموں کو قتل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔مثلاً قرآن میں یہ آیت ہے: وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُمْ مِنْ حَیْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى یُقَاتِلُوکُمْ فِیہِ فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ (2:191)۔ یعنی اور قتل کرو ان کو جس جگہ پاؤ اور نکال دو ان کو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے۔ اور فتنہ سخت تر ہے قتل سے۔ اور ان سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہ تم سے اس میں جنگ نہ چھیڑیں۔ پس اگر وہ تم سے جنگ چھیڑیں تو ان کو قتل کرو۔ یہی سزا ہے کافروں کی۔
سوال یہ ہے کہ قرآن میں جب تک اس طرح کی آیتیں موجود ہیں تو مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ شانتی سے رہنا کیسے ممکن ہے۔(اشوک سنگھل ، نئی دہلی)
جواب
یہ آیت خود ہی یہ بتارہی ہے کہ جنگ کا حکم کافر کے خلاف نہیں ہے بلکہ مقاتل (حملہ آور) کے خلاف ہے۔ جیسا کہ خود اسی آیت میں کہا گیا ہے :فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ (پس اگر وہ جنگ چھیڑ دیں تو تم بھی دفاع میں اُن سے جنگ کرو)۔ اسی طرح مذکورہ آیت سے پہلے یہ آیت ہے : وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا( 2:190)۔ یعنی جو لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں اُن سے تم (دفا ع میں) جنگ کرو ، اور تم خود جارحیت (aggression)نہ کرو۔
چنانچہقرآن اور پیغمبر اسلام کی سنت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے اور اُس کا اختیار بھی صرف حاکمِ وقت کو حاصل ہوتا ہے، کسی غیر حکومتی گروہ کو مسلح جد جہد (armed struggle)کی ہرگز اجازت نہیں۔ اسی طرح اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں قتال (جنگ) کا حکم ایک عارضی(temporary) سبب کے لیے ہے، وہ اسلام کا کوئی ایسا حکم نہیں ہے، جو ہر لمحہ جاری ر ہے۔ جب دفاع کا سبب ختم ہوجائے تو جنگ کا حکم بھی عملاً موقوف (suspend) ہوجائے گا، یعنی جب امن کا زمانہ ہو تو جنگ نہیں کی جائے گی۔ یہی اسلام کی ابتدائی تاریخ میں پیش آیا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ، ماضی کے تسلسل (continuation) کے تحت جنگ کی صورت پیش آئی ۔یعنی انھوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف ناحق جنگ چھیڑ دی اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفاعی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ مگر جنگ کا یہ حکم عارضی تھا۔ قرآن کے الفاظ میں، جب فریقِ مخالف نےاپنا اوزار (ہتھیار)رکھ دیا تو جنگ کا خاتمہ ہوگیا(محمد، 47:4)۔
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ہے کہ قرآن میں جن چند مقامات پر کافر کا لفظ آیا ہے ،اُس سے پیغمبر اسلام کے زمانے کےانکار کرنے والے مراد ہیں ۔ قرآنی اصطلاح کے مطابق،ایسا نہیں ہے کہ لفظ کافر ابد تک کے لیے ہر غیر مسلم گروہ کے لیے بولا جائے گا، یعنی کافر کسی قوم کا یانسل کا دائمی لقب نہیں ہے۔ چنانچہ اہل اسلام نے بعد کے زمانہ کے لوگوں کے لیے جو الفاظ استعمال کیے وہ کافر یا کفارنہ تھے بلکہ یہ وہی الفاظ تھے جو کہ قومیں خود اپنے لیے استعمال کر رہی تھیں ۔ مثلاً ہنو د ، یہود، نصاریٰ، مجوس ، بودھ(بوذا) وغیرہ۔ اسلامی اصول کے مطابق ، کسی قوم کو اسی لفظ سے پکارا جائے گا جو لفظ اُس نے خود اپنے لیے اختیار کیا ہو۔
قرآن کے مطابق، پیغمبر وں نے جب اپنے زمانہ کے غیر مومن لوگوں کو پکارا تو اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ اے کافرو، بلکہ یہ کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ۔ چنانچہ قرآن میں پیغمبر کی زبان سے پچاس بار یہ الفاظ آئے ہیں :یَاقَوْمِ (اے میری قوم ) ۔ اسی طرح قرآن میں پیغمبر وں کے ہم زمانہ غیر مومنین کو اُن کی قوم کا نام دیا گیا ہے۔ مثلاً : قوم لوط ، قوم صالح ، قوم ہود، قوم نوح، وغیرہ۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک پیغمبر کو اُس کے مخالفین نے پتھر مارا اور ان کی پیشانی سے خون بہنے لگا، اُس وقت پیغمبر کی زبان سے یہ الفاظ نکلے :رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِی، فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ (مسند احمد، حدیث نمبر 4057)۔اے میرے رب ، میری قوم کو معاف کردے کیوں کہ وہ لوگ نہیں جانتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر وں کا نظریہ دوقومی نظریہ نہ تھا ، بلکہ وہ ایک قومی نظریہ تھا۔ یعنی جو قومیت پیغمبر کی تھی وہی قومیت پیغمبر کے مخاطبین کی تھی۔ پیغمبر اور اُس کے مخاطبین کے درمیان جو فرق تھا، وہ قومیت کا فرق نہ تھا بلکہ عقیدہ اور مذہب کا فرق تھا ۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْن(109:6)۔ یعنی تمہارے لیے تمہارا دین، اور میرے لیے میرا دین۔
قرآن میں الا نسان (واحد ) کا لفظ65 بار آیا ہے، اور الناس (جمع ) 240 بار آیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں کافر کا لفظ صرف پانچ بار قرآن میں آیا ہے اور اُس کی جمع الکفار ، الکافرون اور الکافرین کے الفاظ 150بار آئے ہیں ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں قرآن کا تصور کیا ہے۔ قرآن کی نظر میں یہ زمین دارالانسان ہے ، نہ کہ دارالحرب (جنگ کا میدان)۔
واپس اوپر جائیں

اعلان

انسانیت کی تعمیر میں خواتین کا ایک اہم رول ہے۔ مگر پوری تاریخ میں ان کو انڈر یوٹیلائز (underutilize)کیا گیا ہے۔ مولاناوحید الدین خاں صاحب نےاسلامی تاریخ میںخواتین کے رول کو دریافت کیا، مثلاً حضرت ہاجرہ اور حضرت خدیجہ، وغیرہ۔اور اس کو ایکسپلین کرکے موجودہ دور کی خواتین کوبتایا کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلیں، اور اپنے potential کو ایکچولائز (actualize)کرکے اس تاریخ کو دہرائیں، جو تاریخ اُن خواتین نے بنائی تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے قرآن و سنت اور تاریخ کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی ہیں، جیسے ’’عورت معمارِ انسانیت‘‘ ، ’’خاتون اسلام‘‘ ۔ اب ان کی رہنمائی میں سی پی ایس لیڈیز نے ایک دعوتی گروپ شروع کیا ہےجس کا نام ہے:
CPS Ladies International
اس گروپ میں انڈیا اور انڈیا کے باہر کی خواتین شامل ہیں۔ یہ گروپ 29 اکتوبر 2020 کو شروع ہوا، اور اتنے کم وقت میں خواتین نے جو فیڈ بیک دیا، وہ بہت ہی حیرت انگیز (amazing) ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی آئی۔ انھوں نے اس گروپ کو جوائن کرکے حقیقی اسلام کو سمجھا ہے ۔ اس سے پہلے ان کے نزدیک اسلام کا مطلب کچھ سماجی رسوم تھا، نہ کہ وہ اسلام جو اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعےبھیجا ہے۔
اس وقت ہماری دوہفتہ وار آن لائن قرآن کلاسیںجاری ہیں:
Urdu Quran Class - Every Sunday at 2 pm (IST)
English Quran class - Every Wednesday at 2 pm (IST)
@ www.facebook.com/cpsinternational
سی پی ایس لیڈیز انٹرنیشنل سےاگر کوئی خاتون جڑنا چاہتی ہیں تونیچے دیے گئے ای میل وغیرہ پر اپنا نام اور نمبر بھیجیں:
fahmidakhan245@gmail.com
واٹس ایپ 09453215285
Telegram channel: https://t.me/joinchat/_6an7cUFeOU1MjA1
CPS Ladies FB group link: www.facebook.com/groups/cpsladies
س
واپس اوپر جائیں