Pages

Sunday, 1 May 2022

Al Risala | May - June 2022 (الرسالہ،مئی، جون)

4

-عید الاضحی اسپرٹ

5

- عمرہ کا سبق

6

- رَمی جمار کا سبق

7

- حج بدل کا مسئلہ

8

- آیتِ امید

9

- خدا امید کا خزانہ

11

- آدم اور ابلیس کا سبق

12

- وقت کا ضیاع

13

- وقت کی اہمیت

14

- کمزور پوائنٹ

15

- اچھی اولاد

16

- دور کو جانیے

17

- دورِ مواقع

18

- صبر کا فائدہ

19

- پولیٹکل ایکٹوزم، دعوہ ایکٹوزم

20

- دورِ جدید

25

- آج کا نوجوان

26

- اظہارِ آیات کا دور

28

- دورِ حاضر کی تفسیر

29

- واضح تقریر یا تحریر

30

- حکمت کا طریقہ

31

- خدا کی کنٹری میں

32

- ڈائری 1986

44

- آغاز کے بغیر

45

- اسلام کا فکری انقلاب دیگر ادیان پر آج بھی ...

46

- جنت کا شوق

47

- بیماری معرفت کا ذریعہ

48

- خبرنامہ اسلامی مرکز


عید الاضحی اسپرٹ

عید الاضحی کی مناسبت سے مولانا وحید الدین خاں صاحب نے اپنی ڈائری میں تاثرات درج کیے ہیں، یہاں دو تاثرات نقل کیے جاتے ہیں—’’آج (5 اگست کو)دہلی میں عید الاضحی ہے۔ میں فجر سے پہلے اٹھا۔ ’’صلوۃ مغفرت‘‘ کی نیت کر کے دو رکعت نماز پڑھی۔ اب جب کہ یہ سطریں لکھ رہا ہوں، قریب کی مسجد سے فجر کی اذان کی آواز آرہی ہے۔ آج کل میں بہت کمزور ہو گیا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید اب میری موت قریب آ گئی ہے۔چنانچہ فجر سے پہلے جب دو رکعت نماز کے لیے کھڑا ہوا تو اپنے آپ یہ نیت دل میں آ گئی کہ خدایا تو میری اس نماز کو میری مغفرت کے لیے قبول کر لے۔ اگرچہ میرے کسی عمل کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ مگر تو اسی کو اپنی رحمت کے لیے بہانہ بنا لے اور مجھے بخش دے۔ نماز پڑھتے ہوئے بے اختیار آنسو نکلنے لگے۔ یہاں تک کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ میری زبان سے یہ دعا نکلی کہ خدایا حضرت سلیمان نے تجھ سے کہا تھا — ہَبْ لِی مُلْکًا لَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِی (38:35)۔یعنی، مجھ کو ایسی سلطنت دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو ۔
میرے مالک، میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تو میرے ساتھ ایسی رحمت کر جو تونے کسی کے ساتھ نہ کی ہو، وہ یہ کہ تو مجھ کو بلا استحقاق بخش دے۔خدایا! میری مغفرت فرما، میرے والدین کی، میرے بیوی بچوں کی مغفرت فرما۔ خدایا! ان لوگوں کی مغفرت فرما جنھوں نے اس مشن میں میرا ساتھ دیا۔ یا اللہ، یا اللہ، یا اللہ!‘‘ ۔(ڈائری 1987)
22 مئی 1994 کو عید الاضحی کا دن تھا۔اس دن کے تعلق سے مولانا لکھتے ہیں کہ’’ نماز کے بعد دہلی میں ایک صاحب کے یہاں ملنے گیا۔ گھر کے ایک لڑکے نے کہا کہ آج یہاں پانی نہیں آیا۔ لڑکے کے والد نے پُرفخر انداز میں کہا کہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے یہاں پانی کا بہت انتظام ہے۔ میں نے سوچا کہ میرا حال تو یہ ہے کہ پانی موجود ہو تب بھی میں اپنے کو بے پانی سمجھتا ہوں (کیوں کہ یہ ایک خدائی عطیہ ہے، نہ کہ میری کوئی ذاتی تخلیق)، اور لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ پانی کے بغیر بھی اپنے کو پانی والا سمجھ رہے ہیں۔ کتنا فرق ہے ایک انسان اور دوسرے انسان میں‘‘۔ (ڈائری 1994)
واپس اوپر جائیں

عمرہ کا سبق

بعد کے زمانے کے لیے حدیث رسول میں بہت سی پیشین گوئیاں ہیں۔ ایک پیشین گوئی کے مطابق، بعد کے زمانے میں امت کے پاس مال کی فراوانی ہوجائے گی۔ وہ تفریح کے لیےحج اور عمرہ کا سفر کرنے لگیں گے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں یَأْتِی عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ یَحُجُّ أَغْنِیَاءُ ‌أُمَّتِی ‌لِلنُّزْہَةِ، وَأَوْسَاطُہُمْ لِلتِّجَارَةِ، وَقُرَّاؤُہُمْ لِلرِّیَاءِ وَالسُّمْعَةِ، وَفُقَرَاؤُہُمْ لِلْمَسْأَلَةِ (تاریخ بغداد للخطیب بغدادی، حدیث نمبر 5433)۔ یعنی ،لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا، جب کہ میری امت کے مالدار تفریح کے لیے حج کریں گے، ان کا مڈل کلاس تجارت کےلیے، اور ان کے علما دکھاوا کے لیے اور ان کے غریب لوگ مانگنے کے لیے۔
آج کل مسلمانوں میں عمرہ کی دھوم ہے۔ عمرہ کے لیے لوگ اتنا زیادہ مکہ جانے لگے ہیں، جو تقریباً حج کے برابر ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ کا عمرہ کے بارے میں اسوہ کیا تھا۔ ہجرت کے بعد 6ہجری میں رسول اللہ نے مدینہ میں اعلان کیا تھا کہ عمرہ کے لیے مکہ جانا ہے۔پھر مدینہ سے آپ تقریباً چودہ سوا صحاب کے ساتھ نکلے تاکہ مکہ پہنچ کر عمرہ کریں۔ لیکن حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کر حالات بدل گئے۔ اب آپ نے نیا فیصلہ لیا۔ وہ یہ کہ درمیان سفر سے مدینہ واپس چلے جائیں، اور اگلے سال ، 7ھ میں دوبارہ مکہ جاکر عمرہ کریں۔ اس عمرہ کو اسلامی تاریخ میں عمرۃُ القضاء کے نام سے جانا جاتا ہے۔
رسول اللہ کے اس عمل سے ایک اصول ملتا ہے۔ وہ یہ کہ زندگی کا منصوبہ ناقابلِ تبدیل (unchangeable) منصوبہ نہیں ہے، بلکہ حالات کے تحت ہے۔ اگر حالات بدل جائیں تو منصوبہ بھی بدل سکتا ہے۔ خواہ وہ عمرہ جیسے مقدس عبادت کا منصوبہ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن موجودہ زمانے میں عمرہ اور حج کے لیے بھیڑ لگانے والے اس پیغمبرانہ اصول کو نہیں جانتے۔ وہ کسی کو اپنا دشمن سمجھ لیں تو برابر دشمن ہی سمجھتے رہیںگے۔ اگر کسی سے لڑائی چھیڑ دیں، تو لڑائی کو برابر جاری رکھیں گے۔ وہ عمرہ تو جانتے ہیں، لیکن عمرہ کا سبق کیا ہے، اس سے وہ بے خبر ہیں۔
واپس اوپر جائیں

رَمی جمار کا سبق

رمی جمار کا لفظی مطلب ہے، کنکری سے مارنا۔ رمی جمار یا رمی، حج سے متعلق ایک اسلامی عمل ہے۔ حج کرنے والادورانِ حج جمرات کے مقام پر تین علامتی شیطانوں کو کنکر مارتا ہے۔ یہ حج کا ایک رکن ہے۔ حج کے دنوں میں ذوالحجہ کی دس، گیارہ اور بارہ تاریخ کو یہ عمل کیا جاتا ہے، اس میں ہر حاجی پر لازم ہے کہ تین شیطانوں کو سات سات کنکر ترتیب وار مارے۔ یہ عمل اسلام میں پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کی سنت کے طور پر جاری ہے۔
رمی جمار کی حیثیت پہلے بھی علامتی تھی، اور آج بھی ا س کی حیثیت علامتی ہے۔ رمی جمار کی حقیقت یہ ہے کہ جب کسی اسلامی عمل کے وقت شیطان آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالے ، شیطان آدمی کو اسلامی عمل سے باز رکھنے کی کوشش کرے تو انسان اس وسوسے کو جان لے۔ وہ نئے ارادے کے ساتھ اپنے اسلامی عمل کو جاری رکھنے کا عزم کرے۔ رمی جمار کوئی مادی واقعہ نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے ارادے کو زیادہ قوی کرنے کا ایک علامتی طریقہ ہے۔
رمی جمار کے وقت بظاہر حاجی علامتی شیطان کو کنکری مارتا ہے۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ خود اپنے لیے فیصلے کا ایک اعلان ہے۔یہ فیصلہ کہ میں شیطان کو اپنے سے دور رکھوں گا۔ میں بری خواہش کو اپنے پاس آنے نہیں دوں گا۔ میں قول و عمل کی ہر برائی سے اپنے آپ کو پاک بناؤں گا۔ میں سماج کا ایک اچھا انسان بنوں گا۔ گھر کے اندر اور گھر کے باہر میں کسی کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ میں سماج میں ایک بے مسئلہ انسان (no problem person) بن کر رہوں گا، اور اگر کوئی برا عمل ہوجائے، تو فوراًتوبہ کروں گا۔
میں سماج میںایک نافع انسان (giver person) بن کر رہوں گا۔ مجھ سے دوسروں کو فائدہ پہنچے گا، نقصان نہیں۔ مجھ سے دوسروں کو خیر ملے گا، شر نہیں۔ میری زندگی خدا کی نسبت سے خدا رخی ہوگی، اورانسان کی نسبت سے انسان دوست ۔
واپس اوپر جائیں

حج بدل کا مسئلہ

جمہور فقہاء کی رائے ہے کہ جو شخص مر جائے اور اس پر حج فرض رہا ہو تو اس کے وارث پر واجب ہے کہ میت کی طرف سے حج کرے یا اس کی طرف سے کسی کو حج کروائے، خواہ مرےہوئے شخص نے حج کی وصیت کی ہو یا وصیت نہ کی ہو۔ امام مالک کا قول ہے کہ میت کی طرف سے حج اس وقت ضروری ہے جب کہ اس نے وصیت کی ہو، ورنہ نہیں۔ کیوں کہ حج ان کے نزدیک بدنی عبادت ہے، اس میں نیابت نہیں ( جمھور الفقھاء یریٰ ان من مات و علیہ حجۃ الاسلام وجب علیٰ ولیہ ان یحج عنہ او یجھز من یحج عنہ من مالہ، سواء اوصیٰ المیت بالحج ام لم یوص۔ وقال الامام مالک، یجب الحج عن المیت ان کان قد اوصیٰ بذٰلک۔ اما اذا لم یوص بالحج فلا یجب الحج عنہ۔ لان الحج عندہ عبادۃ بدنیۃ لا تقبل النیابۃ)۔
اس مسئلہ کی بنیاد صحیح البخاری کی ایک روایت پر ہے، جس میں ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ میری ماں نے حج کی نذر کی تھی۔ مگر وہ حج کیے بغیر مرگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں۔ آپ نے فرمایا ہاں (إِنَّ أُمِّی نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، فَلَمْ تَحُجَّ حَتَّى مَاتَتْ، أَفَأَحُجُّ عَنْہَا؟ قَالَ نَعَمْ، حُجِّی عَنْہَا)صحیح البخاری، حدیث نمبر 1852۔ اس حدیث میں اس آدمی کا ذکر ہے جس نے اُس اعتبار سےحج کی نیت کر رکھی ہو، جس میں حج فرض ہوجاتا ہے، مثلاً نذر ماننا، وغیرہ۔ مگر ادائیگی سے پہلے اس کی وفات ہو گئی۔ دوسری ایسی کوئی روایت نہیں جس میں میت کی طرف سے عمومی طور پر حج کی ادائیگی کی ہدایت کی گئی ہو۔
میرے نزدیک اس معاملہ میں امام مالک کا مسلک صحیح ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ صرف مالی قرض ایک ایسی چیز ہے جس میں استثنائی طور پر یہ حکم ہے کہ میت کی طرف سے ہر حال میں اس کو ادا کیا جائے۔ عبادتی امور میں صرف نیت کا اعتبار کیا جائے گا۔ بخاری کی مذکورہ روایت میں دَین (قرض) کا لفظ ہے، مگر وہ مجازی معنی میں ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں۔ اس سے مالی قرض پر قیاس نہیں کیا جا سکتا (ڈائری، 22 ستمبر 1983)۔
واپس اوپر جائیں

آیتِ امید

قرآن کی ایک آیت کو آیت ِ امید کہا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
قرآن کی یہ آیت دوسری آیتوں سے بظاہر ایک ڈفرنٹ آیت ہے۔ اس قسم کی دوسری آیتوں میں عام طو رپر یہ ہوتا ہے کہ آدمی اگر اپنے گناہ سے توبہ کرے اور اللہ سے معافی مانگے تو امید ہے کہ اس کی بخشش ہوجائے گی۔ مگر اس آیت میں اس قسم کے الفاظ نہیں ہیں۔ قرآن کی اس آیت میں صرف یہ ہے کہ گناہ گار آدمی کو چاہیے کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ کیوں کہ اللہ اتنا زیادہ رحیم و کریم ہے کہ وہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔
اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تمام گناہوں کو معاف کرسکتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس عام معافی کے ساتھ توبہ اور طلبِ عفو کا کوئی ذکر نہیں۔ گویا کہ اگر آدمی کے اندر اللہ کی رحمت پر سچا یقین ہو تو اللہ کی رحمت خود ہی متحرک ہوجائے گی، اور وہ بندے کے تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنے گی۔ اللہ کی رحمت پر اگر بندے کے اندر کامل یقین ہے تو اس کا یقین اپنے آپ معافی کی سفارش بن جائے گا۔ اور بندے کے تمام گناہوں کو معاف کرکے اس کے لیے جنت مقدر کردی جائے گی۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عدم قنوط(مایوس نہ ہونا) ایک ایسا عمل ہے، جس کی وجہ سے انسان کو خدا کی رحمت مل سکتی ہے۔یعنی انسان کے اندر کامل معنی میں عدم قنوط ہو تو اللہ کی رحمت کا تقاضا ہوگا کہ لفظی اظہار کے بغیر اس کے لیے گناہ سے معافی کا ذریعہ بن جائے۔آیت کا یہ انداز اتنا زیادہ رحمت سے بھرا ہوا ہے کہ اکثر علما نے یہ مانا ہے کہ قرآن کی یہ آیت سب سے زیادہ پرامید آیت ہے (‌‌‌أَرْجَى ‌آیَةٍ ‌فِی ‌الْقُرْآنِ )۔ گویا اللہ کی رحمت سے مایوسی سب سے بڑی خطا ہے، اور اللہ کی رحمت پر یقین سب سے بڑا عمل۔
واپس اوپر جائیں

خدا امید کا خزانہ

موجودہ دور میں مسلمان مختلف قسم کی پریشانیوں کی شکایت کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں خدا سے امید رکھنے کے حوالے سے متعدد واقعات بیان کیے گئے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اگر مشکلات میں خدا پراپنےاعتماد کو مضبوط رکھے تو اس کی پریشانیاں حل ہوسکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ صبر اورتقویٰ کا طریقہ اختیار کرے اور مثبت سوچ کی بنیاد پر اپنی پلاننگ کرے، جیسا کہ ذیل کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے اور 175 سال کی عمر پا کر اُن کی وفات ہوئی۔ان کا واقعہ ہے۔ جب وہ اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو اس مقام پر چھوڑ کر جانے لگے جہاں آج مکہ آباد ہے تو ہاجرہ نے کہا کہ اے ابراہیم! ہم کو اس صحرا میں چھوڑ کر آپ کہاں جارہے ہیں، جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ کوئی اور چیز؟" پھرہاجرہ نے ابراہیم سے پوچھا کہ "کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟" ابراہیم نے کہا کہ "ہاں"۔ ہاجرہ نے کہا "پھر تو اللہ ہم کوضائع نہیں کرے گا" (إذن لا یُضَیِّعُنَا) صحیح البخاری، حدیث نمبر 3364۔اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ مکہ آباد ہو، اور وہ نسل ظہور میں آئے جس میں رسول اور اصحابِ رسول پیدا ہوئے،جن کے ذریعہ دنیا میں اسلام کا انقلاب برپا ہوا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ تیرھویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ وہ قدیم مصر میں آئے۔ اس وقت وہاں فرعون (Pharaoh) کی حکومت تھی۔ بنی اسرائیل کو فرعون نے غلام بنا رکھا تھا۔ جب پیغمبر موسیٰ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو فرعون نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے ساتھ ایسے مقام پر پہنچے جہاں سامنے بحر احمر تھا، اور پیچھےفرعون کا لشکر۔ یہ انتہائی خطرناک صورتِ حال تھی۔ اس نازک موقع پر بنی اسرائیل اور موسیٰ کی جو کیفیت تھی، اس کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہےفَلَمَّا تَرَٰٓءَا ٱلۡجَمۡعَانِ قَالَ أَصۡحَٰبُ مُوسَىٰٓ إِنَّا لَمُدۡرَکُونَ ۔ قَالَ کَلَّآۖ إِنَّ ‌مَعِیَ ‌رَبِّی سَیَہۡدِینِ(26:61-62)۔ یعنی، پھر جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم تو پکڑے گئے۔ موسیٰ نے کہا کہ ہرگز نہیں، بےشک میرا رب میرے ساتھ ہے۔ وہ مجھ کو راہ بتائے گا۔ چنانچہ اللہ نے ان کی مدد کی، اور فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہوگیا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ ہے۔ 622ء میں آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ ایک بے حد خطرناک سفر تھا۔ اس سفر کے دوران آپ کوغار ثور میں چھپنا پڑا ۔ آپ کے مخالفین جو آپ کی تلاش میں نکلے تھے ، وہ تلوار لیے ہوئے غار کے منہ تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ کے واحد ساتھی ابوبکر صدیق تھے۔انہوں نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ اے خدا کے رسول، وہ تو یہاں بھی پہنچ گئے۔ اس کے جواب میں آپ نے جو کہا، اس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے‌لَا ‌تَحْزَنْ إِنَّ ٱللَّہَ مَعَنَا(9:40) ۔یعنی غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس واقعے کو حضرت ابوبکر صدیق نے اس طرح روایت کیا ہے ۔ آپ نے کہا ان دو کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے، جس کا تیسرا اللہ ہو (‌مَا ‌ظَنُّک ‌بِاثْنَیْنِ اللہُ ثَالِثُہُمَا) صحیح البخاری، حدیث نمبر 4663۔اس ایمان و یقین کے سفر کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ مدینہ کے ذریعہ ساری دنیا میں اسلام پھیلے— خدا پر یقین آدمی کی داخلی قوتوں کو متحرک کر کے ایک بے حوصلہ انسان کو تخلیقی انسان بنا دیتا ہے۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)
—————
4 جولائی (1990) کو عید الاضحی کی نماز میں نے تبلیغی جماعت کی مسجد میں پڑھی۔ وہاں انسانوں کا ہجوم تھا۔وہاں کے ماحول کو دیکھ کر ایک بات ذہن میں آئی۔دین کے دو پہلو ہیں۔ ایک معنیٰ کے اعتبار سے، اور دوسرا شکل کے اعتبار سے۔ دین کے ان دونوں پہلوؤں کا تسلسل امت میں جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ میرا احساس یہ ہے کہ تبلیغی تحریک، موجودہ زمانہ میں، دین کے شکلی پہلو کا تسلسل ہے، اور الرسالہ کا مشن دین کے معنوی پہلو کا تسلسل۔ تبلیغ کے لوگ اس تقسیم کو ہرگز نہیں مانیں گے۔ مگر میرے نزدیک حقیقت واقعہ یہی ہے (مولانا وحیدالدین خاں، ڈائری، 6جولائی 1990)۔
واپس اوپر جائیں

آدم اور ابلیس کا سبق

آدم و ابلیس کا قصہ قرآن میں کئی بار بیان کیا گیا ہے۔مثلاً سورہ البقرة ، 2:30-38، سورہ الاعراف، 7:11-25، سورہ الحجر، 15:26-43وغیرہ۔ اس قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے آدم کو پیدا کرکے فرشتہ اور ابلیس کو اسے سجدہ کرنے کے لیے کہا۔فرشتوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ وہ نقصان میں رہا۔
ابلیس کا معاملہ یہ تھا کہ وہ ایک فرمانبردار مخلوق تھا، لیکن ایک موقع آیا جب کہ اس کے لیے پریکٹکل وزڈم یہ تھا کہ وہ ایک نئی مخلوق ،آدم کے سامنے خدا کے حکم کے مطابق جھک جائے۔ مگر وہ اپنے ماضی کی عظمت میں گم رہا کہ وہ نئی مخلوق کے مقابلے میں ایک برتر مخلوق ہے (الاعراف، 7:12)۔ اس نے اپنے مفروضہ عظمت کی بنا پر سرکشی (stubbornness) کا طریقہ اختیار کیا، اور پریکٹکل وزڈم کو قبول نہ کرسکا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہمیشہ کے لیے خدا کی نظر میں ناپسندیدہ قرار پایا۔اس کے برعکس، فرشتوں نے پریکٹکل وزڈم کو دو مرتبہ قبول کر لیا۔ ایک بار جب کہ انھوں نے یہ کہا کہ نئی مخلوق زمین میں فساد پیدا کرے گی۔ اللہ نے جب وضاحت کی تو انھوں نے اس کو قبول کرلیا۔ دوسری مرتبہ جب اللہ نے ان سے کہا کہ وہ آدم کے آگے سجدہ کریں۔ اس مرتبہ بھی انھوں نے خدا کی بات مان لی۔ دوسرے الفاظ میں انھوں نے بدلے ہوئے حالات کو ایکسپٹ (accept) کیا، انھوں نے ابلیس کی مانند عذر (excuse)کا طریقہ اختیار کرکے خدا کے پیدا کیے ہوئے حالات سے ٹکراؤ کا راستہ نہیں چنا۔
یہ حقیقت میں اللہ کی جانب سے انسان کو سبق ہے کہ نئی صورت حال پیش آنے پر تمھارا رویہ ابلیس کی طرح کٹر پن (rigidity) اور تنگ نظری (narrow-mindedness) کا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنے رویے میں لچک (flexibility) رکھو، صورت حال کو سمجھو، اور اسے قبول کرو۔ اگر تم ایسا نہیں کروگے تو تم ابلیس کی طرح نقصان میں رہوگے۔ دوسرے الفاظ میں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ مت دیکھو کہ ماضی میں تم کیا تھے، بلکہ یہ دیکھو کہ وقت کا پریکٹکل وزڈم کیا ہے، اور اس کو اختیار کرو۔
واپس اوپر جائیں

وقت کا ضیاع

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہےلَا خَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِنْ نَجْوَاہُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیہِ أَجْرًا عَظِیمًا (4:114)۔ یعنی ان کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں۔ بھلائی والی سرگوشی صرف اس کی ہے جو صدقہ کرنے کو کہے یا کسی نیک کام کے لیے کہے یا لوگوں میں صلح کرانے کے لیے کہے۔ جو شخص اللہ کی خوشی کے لیے ایسا کرے تو ہم اس کو بڑا اجر عطا کریں گے۔
نجویٰ کا مطلب ہے سرگوشی (whisper) کے انداز میں بات کرنا۔ لیکن یہ آیت اپنے عمومی اطلاق کے اعتبار سے ہر قسم کی گفتگو پر محیط ہے۔ عمومی اطلاق کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ بیشتر لوگ غیر ذمہ دارانہ باتیں کرتے ہیں، ان کی بات تقویٰ پر مبنی نہیں ہوتی۔ وہ سوچنے سے پہلے بولتے ہیں۔ وہ احساسِ ذمے داری کے بغیر کلام کرتے ہیں۔ ان کے سامنے صرف دنیا کے تقاضے ہوتے ہیں۔ وہ آخرت کے تقاضے کے تحت نہ سوچتے ہیں، اور نہ بولتے ہیں۔
خیر یا بھلائی صرف اس کلام میں ہے، جو ذمے داری (accountability)کے احساس سے بولاجائے۔ وہی کلام خیر کا کلام ہے، جس میں آدمی اس طرح بولے کہ وہ خدا کے اِس قانون کو یاد رکھے ہوئے ہو إِذْ یَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِینِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیدٌ ۔ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ (50:17-18)۔یعنی، جب دو لینے والے لیتے رہتے ہیں جو کہ دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہیں۔ کوئی لفظ وہ نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک مستعد نگراں موجود ہے۔
کلام کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے ذمہ دارانہ کلام، اور دوسرا ہے غیر ذمہ دارانہ کلام۔ غیر ذمہ دارانہ کلام، بولنے والے کے لیے ایک وبال کی حیثیت رکھتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ زیادہ سوچے اور کم بولے۔ وہ انسان کے سامنے سوچنے سے پہلے یہ یاد کرے کہ وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ اللہ رب العالمین کے سامنے وہ اپنے آپ کو کھڑا ہوا پائے گا۔ اس کو بتانا ہوگا کہ وہ جب بولا تو کیوں بولا، جو بات اس نے کہی، تو اس بات کو کہنے کے لیے اس کے پاس جواز (justification) کیا تھا۔
واپس اوپر جائیں

وقت کی اہمیت

قرآن میں نماز کا حکم ان الفاظ میں آیا ہے إِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ کِتَابًا مَوْقُوتًا (4:103)۔ یعنی بیشک نماز مومنوں پر فرض ہے وقت کی پابندی کے ساتھ 
Verily, the prayer is enjoined on the believers at fixed hours
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پانچ وقت کی نماز تو اوقات کی پابندی کے ساتھ انجام دینا ہے، لیکن دوسرے کاموں میں اوقات کی پابندی ضروری نہیں۔ اس آیت کامطلب یہ ہے کہ مسلمان وہ ہے ، جس کی زندگی میں وقت کی پابندی ایک جزءِ حیات کے طور پر شامل ہوجائے،وہ ہر کام کو وقت کی پابندی کے ساتھ انجام دینے لگے، اور اسی اصول عام کے مطابق، نماز بھی وقت کے پورے اہتمام کے ساتھ وہ ادا کرے۔
وقت کی پابندی کوئی سادہ بات نہیں۔ وقت کی پابندی کا تعلق زندگی کے نظم و ضبط سے ہے۔ ذمے دار انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر کام کو نظم و ضبط کے ساتھ انجام دے۔ وقت کی پابندی کا مطلب صرف اپنے اوقات کو منظم انداز میںانجام دینا نہیں ہے، بلکہ اس کا ایک اجتماعی پہلو بھی ہے۔ کیوں کہ آدمی سماجی حیوان (social animal) ہے۔ ایک آدمی جب اپنا کام منظم انداز میں انجام دیتا ہے، تو وہ دوسروں کے ساتھ یہ تعاون کرتا ہے کہ وہ بھی کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے کام کو منظم انداز میں انجام دے۔
وقت کی پابندی کا گہرا تعلق دوسرے انسانوں کے ساتھ خیرخواہی سے ہے۔ وقت کی پابندی ذمے دار انسان کی علامت ہے۔ ذمے دار انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ وقت کے معاملے میں فرض شناس نہ ہو۔حقیقت یہ ہے کہ جب آپ وقت ضائع کرتے ہیں تو یہ سادہ بات نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ڈبل غلطی کا ارتکاب ہوتا ہے، یعنی وہ اپنے وقت کے ساتھ ساتھ دوسروں کے وقت کو ضائع (swallow) کرنا بھی ہوتا ہے۔ وقت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اس کو گھٹا کر بیان کرنا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

کمزور پوائنٹ

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہےلَمَّا صَوَّرَ اللہُ آدَمَ فِی الْجَنَّةِ تَرَکَہُ مَا شَاءَ اللہُ أَنْ یَتْرُکَہُ، فَجَعَلَ إِبْلِیسُ یُطِیفُ بِہِ، یَنْظُرُ مَا ہُوَ، فَلَمَّا رَآہُ أَجْوَفَ عَرَفَ أَنَّہُ خُلِقَ خَلْقًا لَا یَتَمَالَکُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 6815)۔ یعنی جب اللہ نے جنت میں انسان کی ساخت بنائی تو اللہ نے اس کو ایک مدت کے لیے وہاں باقی رکھا۔ پھر ابلیس آیا۔ وہ آدم کے چاروں طرف گھومنے لگا ، یعنی دیکھنے لگا کہ وہ کیا ہے۔ پھر اس نے دیکھا کہ وہ اجوف (hollow) ہے۔ اس نے جان لیا کہ آدم کی تخلیق اِس طرح ہوئی ہے کہ اس کے اندر تمالک کی صفت نہیں۔
لَا یَتَمَالَکُ کا مطلب ہے اپنی خواہشات اور جذبات پر کنٹرول نہ کرپانا (لَا یَمْلِکُ نَفْسَہُ وَیَحْبِسُہَا عَنِ الشَّہَوَاتِ)۔انسان کے اندر تمالک کی صفت کیوں نہیں ہے۔ کیوں کہ انسان کے اندر انا(ego)کا جذبہ بہت زیادہ طاقت ور ہے۔ یہ انسان کا ایک ویک پوائنٹ ہے۔یہ جذبہ انسان کی ساری سرگرمیوں میں کام کرتا ہے۔ایگو کے فتنے کا سب سے زیادہ مہلک پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے ہر عمل کا ایک جواز (justification) تلاش کرلیتا ہے۔ وہ غلط کام بھی کرتا ہے تو اس کا ایک مبرر (justified reason) اس کے پاس ہوتا ہے۔ وہ غلط کام کو اس یقین کے ساتھ کرتا ہےکہ وہ ایک درست کام ہے۔ یہ ایک خود فریبی کی بدترین صورت ہے۔ یہ اَنا کا جذبہ ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے خلاف بات پر بھڑک اٹھتا ہے، اور انتقام (revenge) کے درپے ہو جاتا ہے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ فطرت کے واقعات سے ہمیشہ پازیٹیو سبق لے،یعنی مبنی بر معرفت سبق۔ منفی سبق لینا فطرت کے نظام کے مطابق نہیں۔ بلاشبہ انسان کے لیے سب سے بڑی تباہ کن بات یہ ہے کہ وہ انا(ego) کا شکار ہوجائے۔ خدا کی معرفت اپنی صحیح صورت میں اس کا روک ہے۔ خدا کی معرفت واحد طاقت ور محرک ہے، جو انسان کو ایگوئسٹ بننے سے بچاتا ہے۔ خدا کی معرفت کے بغیر کوئی انسان ایگو کے فتنے سے بچ نہیں سکتا۔ایگو ئسٹ آدمی ضمیر کی بات نہیں سنے گا، لیکن جو آدمی معرفت کے معاملے میں سنجیدہ ہو، وہ ضروراس کو سنے گا۔
واپس اوپر جائیں

اچھی اولاد

ہر شادی شدہ آدمی کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ اس کے یہاں اچھی اولاد پیدا ہو۔ اس معاملے میں غور وفکر کے بعد میںنے یہ سمجھا ہے کہ اچھی اولاد کی خواہش دراصل اللہ سے اچھی اولاد کی تمنا کرنا ہے۔ اللہ کا قانون یہ ہے  لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ (14:7)۔یعنی، اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو زیادہ دوں گا۔ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔
اس پر غور کرنے سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ کسی آدمی کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی شادی کو شکر کا موضوع بنائے۔ شادی خواہ بظاہر آدمی کی پسند کے مطابق ہو یا اس کے خلاف۔ ہر حال میں وہ شادی کو شکر کے آئٹم کے طور پر لے، وہ اپنے لائف پارٹنر کو شکر کے آئٹم کے طور پر قبول کرے،ہر حال میں وہ اس سے شکر کا آئٹم دریافت کرے۔ انسان اگر ایسا کرے تو یہ اس کے لیے اللہ سے شکر کے ہم معنی بنے گا۔ اس کے حق میں قرآن کی مذکورہ آیت صادق آئے گی ۔
اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ شادی سے ملنے والی خاتون کو و ہ شکر کے طور پر قبول کرے۔ تو اس کے بعد اس کے ساتھ شکر کا ایک اضافی جز ءاس کو حاصل ہوگا، یعنی اچھی اولاد۔اچھی اولاد بلاشبہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ اچھی اولاد کسی انسان کے لیے اچھی زندگی کا آغاز ہے۔ اچھی اولاد کسی انسان کے لیے زندگی کی اچھی تعمیر کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اچھی اولاد گویا عملی معنوں میں اچھی زندگی کا آغاز ہے، وغیرہ۔
ہر آدمی کو عملی معنوں میں اچھی زندگی کے آغاز کے لیے اچھی اولاد کی ضرورت ہے۔ اور یہ ضرورت ہر انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے— پہلی نعمت یعنی بیوی کو شکر کے ساتھ قبول کرو تو اس کے بعد اللہ کی توفیق سے تم کو اچھی اولاد حاصل ہوگی۔حاصل شدہ بیوی پر راضی ہونا اپنے آپ میں دعا کی ایک صورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندے نے رب سے یہ کہا کہ خدایا، پہلی چیز جو مجھے آپ نے دیا، یہ بظاہر مجھے ناپسند ہے،مگر اس کو میں نے قبول کیا، اب دوسری پسندیدہ چیز مجھے دے دے۔ یہ گویا شکر کے ایک آئٹم پر شکر کے دوسرے آئٹم کا اضافہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

دور کو جانیے

قدیم زمانے میں قبائلی حالات کی بنا پر دنیا میں جنگ کلچر کارواج تھا۔ موجودہ زمانے میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ امن کے ذریعے آسانی کے ساتھ چیزوں کو حاصل کیا جاسکے۔قدیم زمانے میں انسان یہ سمجھتا تھا کہ اس کو جو کچھ بھی ملے گا، وہ "تلوار" کے ذریعے ملے گا۔ چنانچہ کہا جاتا تھا— ہر کہ شمشیر زند سکہ بنامش خوانند (جو تلوار کا ماہر ہوتا ہے، اسی کے نام کا سکہ چلتا ہے)۔موجودہ زمانہ اس کے برعکس ہے، موجودہ زمانہ ٹکراؤ کے بجائے گفتگو کی میز پر نزاع کو حل کرنے کا زمانہ ہے۔ قدیم زمانےمیں جنگ کلچر کو فروغ حاصل تھا، موجودہ زمانے میں امن کو خیر اعلیٰ (summum bonum) کی حیثیت حاصل ہے۔ جدیددور میں گفت و شنید (negotiation) کے ذریعے چیزوں کو حاصل کرنا ممکن ہوگیا ہے۔
جو ممالک اس فرق کو سمجھتے ہیں، انھوں نے عملاً اپنے یہاں جنگ کلچر کو ترک کرکے امن کلچر کو فروغ دیا ۔ اس فرق کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ ممالک دورِ جنگ سے نکل کر دورِ امن میں داخل ہو گئے ہیں۔ جن قوموں کو ترقی یافتہ قومیں کہا جاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تعلیم یافتہ قومیں ہیں۔ چنانچہ ان قوموں نے اپنی تمام سرگرمیوں کو تعلیم رخی سرگرمی بنا دیا ہے۔ اب ترقی یافتہ دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت تعلیم کو دی جاتی ہے۔ تعلیم سے مراد ہے جدید تعلیم، نہ کہ روایتی تعلیم۔
اس معاملے میں غالباً ایک ہی استثنا ہے، اور یہ استثنا مسلم قوم کا ہے۔ مسلمان آج بھی مسلح ٹکراؤ کی بات کرتے ہیں۔ حالاں کہ اب اس کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اب یہ کرنا ہے کہ تعلیم اور تجارت کے مواقع کو تلاش کیا جائے، اور اس کو منصوبہ بندی کے ذریعے اویل کیا جائے۔ آج کل مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے ایک لفظ بہت بولتے ہیں۔ وہ لفظ ہے، مسلم ایمپاورمنٹ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں پہلا کام یہ ہے کہ مسلمان قدیم روایتی طرز فکر کو چھوڑیں، اور جدید تہذیب سے سبق لے کر نئے حالات کے مطابق ،اپنے قومی نشانے کی از سرِ نو منصوبہ بندی کریں۔ مسلمانوں کی کامیابی جدید دور کی دریافت پر موقوف ہے، نہ کہ جدید دور کو اپنا حریف سمجھ کر اس سے ٹکراؤ کرنے پر۔
واپس اوپر جائیں

دور ِ مواقع

راقم الحروف نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ دوسری قوموں سے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرنے کے بجائےصبر کا طریقہ اختیار کریں۔ اس بنا پر بہت سے لوگ ہمارے بارے میں یہ کہتے تھے کہ وہ تو بزدلی کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ ہمارے بارے میں یہ الزام تراشی کرتے تھے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ مخالفین کے سامنے سر کو جھکا دو۔ اس طرح کی باتیں ایک عرصے تک کہی جاتی رہیں، مگر ہم نے اس طرح کے پروپیگنڈے کے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا۔ ہم نے وہی طریقہ اختیار کیا، جو مشہور اردو شاعر حالی (1837-1915)نے کہا ہے
کیا پوچھتے ہو کیونکر سب نکتہ چیں ہوئے چپ سب کچھ کہا انہوں نے پر ہم نے دم نہ مارا
یہاں تک کہ ان میں سے کچھ لوگوں کے اوپر سچائی واضح ہوئی، انھوں نے اپنے جرائد میں ہماری باتیں چھاپنا شروع کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی صبر ہے۔ صبر حکمت ہے، صبر مثبت نفسیات ہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں،قدیم دور کے برعکس، جنگ کو انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار دے دیا گیا ہے۔ اس دور میں اختلاف کو ختم کرنے کا ذریعہ ڈائلاگ ہے، ٹکراؤ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدیم دور میں مواقع پر صرف حکمراں طبقےکی اجارہ داری (monopoly)ہوا کرتی تھی۔ اس کے برعکس، موجودہ زمانہ مواقع کے انفجار (opportunity explosion)کا زمانہ ہے۔ جدید دور کا نارم (norm) ہے — ہر موقع ہر ایک کے لیے ۔
اس دوسرےدور میں دعوتِ اسلامی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ مواقع کے انفجار کا یہ دور ایک داعی کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ ٹکراؤ کے بجائے صبر کا طریقہ اختیار کرکے لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچائے۔ قرآن کے مطابق، موجودہ دنیا میںپرابلم بھی ہیں، اور اسی کے ساتھ مواقع بھی (94:5)۔ مسائل انسان کی پیداوار ہیں۔ اس کے مقابلے میں مواقع خالق کا عطیہ ہیں۔ آپ اس معاملے میں مثبت ذہن پیدا کیجیے، آپ مسائل کو نظر انداز کیجیے،اور صبر کا طریقہ اختیار کرکے مواقع کو تلاش کیجیے ، اوران کو اویل کیجیے۔
واپس اوپر جائیں

صبر کا فائدہ

قرآن کی ایک آیت یہ ہےوَجَعَلۡنَا بَعۡضَکُمۡ لِبَعۡضٖ فِتۡنَةً أَتَصۡبِرُونَ(25:20)۔ یعنی، اور ہم نے تم کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ کیا تم صبر کرتے ہو۔دوسرے الفاظ میں، اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ناپسندیدہ صورتِ حال پیش آنے پر اپنے جذبات پر کنٹرول رکھو تاکہ تمھارے لیےمواقع کواویل کرنا ممکن ہو ۔ جذبات سے مغلوب ہوکر عمل کرنے کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی ہوتا ہے، اور جذبات کو قابو میں رکھ کر عمل کرنے کا نتیجہ ہمیشہ کامیابی۔ ابن عباس نے اس آیت کی تفسیراس طرح کی ہے میں نے تم سب کو ایک دوسرے کےلیے آزمائش بنایا ہے تاکہ تم جو بھی ناپسندیدہ بات سنو،یا اختلاف دیکھو تو صبر کرو (لِتَصْبِرُوا عَلَى مَا تَسْمَعُونَ مِنْہُمْ وَتَرَوْنَ مِنْ خِلَافِہِمِ)، اور درست راستہ اختیار کرو ( تفسیر البغوی، جلد6، صفحہ77)۔
اصل یہ ہے کہ منصوبۂ تخلیق کے مطابق،موجودہ دنیا میں ہر انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ اِس بنا پر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ہر انسان اپنے مصالح کے تحت اقدامات کرتا ہے۔ یہ اقدام مکمل معنوں میں دوسروں کےمطابق نہیں رہتا۔ بظاہراس کا کچھ حصہ آپ خلاف ہوگا تو کچھ آپ کے موافق ہوگا۔ اِس دنیا کے لیے فطرت کا قانون یہی ہے کہ یہاں کسی شخص یا گروہ کو جزئی مواقع (partial opportunities) ملیں، کسی کو بھی یہاں کلّی مواقع حاصل نہیں ہوتے۔ اِس لیے دانش مندی یہ ہے کہ ناموافق پہلوؤں کو نظر انداز کیا جائے اور موافق پہلوؤں کو دریافت کرکے اُنھیں استعمال کیا جائے۔
یہ حقیقت ایک حدیثِ رسول سے مزید واضح ہوتی ہےإِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ہمْ مِنْ أَہلِہِ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔یعنی اللہ اسلام کی تائید ایسے لوگوں سے کرے گا، جو اہل اسلام میں سے نہ ہوں گے۔اِس حدیث میں بتایا گیا ہےکہ ایک انسان ، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ اپنے ذاتی انٹرسٹ کے لیےا قدام کرتا ہے۔ اِس اقدام کا مقصد اپنے ذاتی مفاد کو حاصل کرنا ہوتاہے۔ لیکن اِسی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ایک نئی صورت حال پیداہوتی ہے۔ یہ نئی صورت حال نئے مواقع کھولتی ہے۔ اگر اہل اسلام مذکورہ انسان کے مذہب اور فکر کو نظر انداز کریں تو وہ نئے مواقع کو استعمال کرکے اپنے دین اور دنیا دونوں کی تائید کا کام لے سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

پولیٹکل ایکٹوزم، دعوہ ایکٹوزم

اہل اسلام کے لیے اجتماعی زندگی میں کام کرنے کے دو طریقے ہیں— پولیٹیکل ایکٹوزم (political activism)، اور دعوہ ایکٹوزم(dawah activism)۔پولیٹیکل ایکٹوزم کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ پولیٹکل پاور پر قبضہ کیا جائے، اور اپنی حکومت قائم کی جائے۔ اس کے مقابلے میں دعوہ ایکٹوزم مکمل طورپر ایک غیر سیاسی ایکٹوزم ہے۔ دعوہ ایکٹوزم اپنے طریقِ کار کے اعتبار سے شروع سے آخر تک پرامن ایکٹوزم ہوتی ہے۔ پولیٹیکل ایکٹوزم کا نشانہ سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنا ہوتا ہے، اور دعوہ ایکٹوزم کا نشانہ لوگوں کے دلوں کو بدلنا ، اور ان کو اپنے خالق کا سچا بندہ بنانا ہے۔
پولیٹیکل ایکٹوزم کا نشانہ دنیوی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، دعوہ ایکٹوزم کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ جنتی معاشرے کےلیے افراد تیار کیے جائیں، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت
Whoever obeys God and the Messenger will be among those He has blessed: the messengers, the truthful, the witnesses, and the righteous. What excellent companions these are!
پولیٹکل ایکٹوزم کا نشانہ سیاسی اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، دعوہ ایکٹوزم کا نشانہ جنت کا حصول ہوتا ہے۔ یہی دونوں قسم کی تحریکوں کی پہچان ہے۔ دعوہ ایکٹوزم میں سارا نشانہ اللہ رب العالمین کی رضا ہوتی ہے۔ دعوہ ایکٹوزم مکمل طور پر خدا رخی ایکٹوزم (God-oriented activism)ہے۔ اس کے برعکس، پولیٹکل ایکٹوزم اول سے آخر تک سیاست رخی (politics oriented) تحریک ہے۔دعوہ ایکٹوزم میں فرشتے انسان کے معاون ہوتے ہیں، اور خیر پھیلتا ہے۔ اس کے برعکس، پولیٹکل ایکٹوزم سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے، اس سے شر پھیلتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دورِ جدید

پنڈت جواہر لال نہرو انڈیا کی ایک معروف شخصیت تھے۔ وہ 1947ء سے 1964ء تک انڈیا کے پرائم منسٹررہے۔جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ انڈیا میں سب سے زیادہ کمی جس چیز کی ہے، وہ ہے سائنٹفک ٹمپر(scientific temper)۔سائنٹفک ٹمپر کا مفہوم جواہر لال نہرو کے نزدیک یہ ہے کہ چیزوں میں غور و فکر کرنا، اور ان کو سوچ سمجھ کر دلیل کی بنیاد پر ماننا، نہ کہ صرف سن کر مان لینا
The refusal to accept anything without testing and trial, the capacity to change previous conclusions in the face of new evidence, the reliance on observed fact and not on pre-conceived theory. (The Discovery of India, by Jawaharlal Nehru, Oxford, 1994, p. 512)
دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب ہے ریشنل اور منطقی طرز فکر ڈیولپ کرنا
Scientific temper refers to an attitude of logical and rational thinking.
موجودہ زمانے کو ایج آف ریزن (age of reason)کہا جاتا ہے۔ ایج آف ریزن کا مطلب ہےآزاد یٔ فکر (free thought) کا دور یا فری انکوائری کا دور۔ ایج آف ریزن نے تاریخ میں پہلی بار سوچنے کی راہ میں تمام رکاوٹوں کاخاتمہ کردیا ۔ فری انکوائری میں ہر چیز جو رکاوٹ بنتی تھی، وہ سب ہٹ گئی۔ اس حقیقت کی طرف اس حدیث رسول میں اشارہ ہےإِنَّ اللہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی بیشک اللہ اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے کرے گا۔ دور جدید کے اعتبار سے اس حدیثِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلم، بشمول فاجر انسان (including the irreligious)کے ذریعے برپا کیے ہوئے سائنسی اور فکری انقلاب سے دین کی مدد ہوگی۔
سائنس اور تعقل پسندی (rationalism) دونوں اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہیں۔ سائنس نے دراصل پہلی بار علمی غور وفکر کے لیے ایک ریلائبل فریم ورک (reliable framework)دیا، یعنی عقلی فریم ورک(rational framework)۔ سائنس کے دور سے پہلے انسان کے پاس آزادانہ فریم ورک (independent framework) نہیں تھا۔ علم کے ہر شعبے میں مذہبی اعتقاد کا غلبہ تھا، یعنی چیزوں کو صرف سن کرعقیدہ کے نام پر مان لینا۔ سائنس یا تعقل پسندی کا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ اس نے انسان کو یہ راستہ دیا کہ وہ کسی چیز کو صرف سن کر نہ مان لے، بلکہ وہ اس کی تحقیق کرے، اور جب تحقیق میں وہ بات ثابت ہوجائے، تو دلیل کی بنیاد پر وہ اس کو مانے۔ اسلام اسی کی تعلیم دیتا ہے (الحجرات،49:6)۔
قدیم دور، جدید دور
راکیش شرما (پیدائش 1949)پہلے ہندستانی خلاباز تھے، جنھوں نے 1984 میںچاند پر قدم رکھا تھا۔ اُن دنوں ہندستان میں یہ گفتگو کا موضوع بنا ہوا تھا۔ چنانچہ اس حوالے سےانڈیا کے انگریزی روزنامہ دی ٹائمس آف انڈیا (20اپریل 1984) میں ایک دلچسپ لطیفہ نقل کیا گیا تھا
"Rakesh's journey into space" says the narrator, was tabled for discussion in our house. Every member of the family was expressing his or her opinion on the subject. Then my youngest daughter asked: "Dad, can I become the first Indian spacewoman?" "Yes dear" replied the grandmother, "you will be the first Indian spacewoman. I will consult Pandit Girdhar Vyas and see what is in store for you in your kundali." My eldest son, Arun, interjected. "Mom, you should consult the Russian leader, not astrologers."
"خلا میں راکیش (شرما) کا سفر" گھر میں بحث کا موضوع بنا ہوا تھا۔گھر کا ہر فرد اس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کر رہا تھا۔ ایک دن کھانے کی ٹیبل پر، جب کہ گھر کے سب لوگ جمع تھے، میری چھوٹی بیٹی نے پوچھا "پاپا، کیا میں پہلی ہندوستانی خلاباز خاتون بن سکتی ہوں؟"
دادی نے پیار سے جواب دیا، "یقیناًتم پہلی ہندوستانی خلابازخاتون بن سکتی ہو۔ اس سلسلہ میں میں پنڈت گرددھر ویاس کو تمھاری جنم پتری دکھا کر ان سے پوچھوں گی کہ تمھاری کنڈلی میںکیا لکھا ہوا ہے۔" یہ سن کر میرے بڑے بیٹے ارون نے مداخلت کرتے ہوئے کہا "دادی ماں، آپ کو روسی لیڈر سے مشورہ کرنا چاہیے، جوتشیوں سے نہیں۔"
یہ لطیفہ بتاتا ہے کہ وہ کیا فرق ہے، جو دورِ قدیم اور دورِ جدید کے درمیان ہے۔ قدیم زمانے میں علم نام تھا قیاسات کا، مگر موجودہ زمانے میں علم نام ہے مطالعہ اورتجربہ کے ذریعے دریافت شدہ حقیقت کا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا ایک تعلیم یافتہ نوجوان خلا (space) کے سفر کے معاملے کو جوتشی سے پوچھنے کے بجائے خلائی سائنس کے ماہرین سے پوچھنے پر زور دیتا ہے۔
جدید انسان کے سامنے اسلام کو پیش کرنے کے لیے اس فکری تبدیلی کا لحاظ کرنا بہت ضروری ہے۔ اسلام اگرچہ پوری طرح ایک سائنٹفک مذہب (scientific religion) ہے۔ مگر اس کو پیش کرنے والے، مذکورہ دادی ماں(grandmother) کی طرح، غیر سائنسی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ جوالزام حقیقۃً داعی کے سر آنا چاہیے تھا، وہ غیرضروری طور پر اسلام کے سر آجاتا ہے۔
فری انکوائری
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں انسان پہلے مذہب یا سماجی روایت کے ٹریپ میں پھنسا ہوا تھا۔ ہر چیز مذہب کی چانچ پڑتال (scrutiny) میں چلی جاتی تھی۔جہاں ہر چیز کو جائز ناجائز، حلال و حرام کے فریم ورک میں دیکھا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کوئی فکری ترقی (intellectual development) نہیں ہوپاتا تھا۔ مگرسائنس نے ہر چیز کو فری انکوائری کا سبجکٹ بنا دیا۔مثلاً قدیم زمانے میں ایسا نہیں ہوتا تھا کہ کچھ اہل علم بیٹھیں، جن میں کچھ لوگوںکے ہاتھوں میں شراب کی بوتل ہو، مگر مجلس کے لوگ اس کو نظر انداز کرکے کسی موضوع پر ڈسکشن کریں۔ مذہب میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سائنسی دور نے یہ کیا کہ ذاتی چیزیں انسان کا اپنا فعل ہے، اورحقائق (facts) ایک الگ چیز ہے۔اس کو کوئی بھی ڈسکور کرسکتا ہے، خواہ وہ ذاتی اعتبار سے کیسا بھی انسان ہو۔
مثلاً پہلے کوئی معیار(criterion) نہیں تھا ، جس کی بنیاد پر لڑائی کو بند کیا جائے۔ کیوں کہ قدیم زمانے میں لڑائیاں مذہب کے نام پر لڑی جاتی تھیں۔ اس وجہ سے وہ مقدس بنی ہوئی تھیں۔ اس تقدس کی وجہ سے مسلمانوں میں وہ جہاد بن گئی، اور عیسائیت میں اس کو کروسیڈس کا نام دیا گیا۔ اورجو آدمی اس کے لیےلڑ کر مرجائے، اس کو شہید کہتے تھے۔ تقدس کےاس تصور کی وجہ سے جنگ کی روک تھام نہیں ہوپاتی تھی۔
ریشنل ایج میں یہ ممکن ہوگیا کہ کسی بھی قسم کی پابندی کے بغیرچیزوں کی فری انکوائری کی جائے۔ ریشنل ایج کی وجہ سے یہ سوچ کمزور ہوگئی ہے کہ عقیدہ کی بنیاد پرکسی چیز کے حرام یا حلال ہونے کا فیصلہ کیا جائےگا۔ ریشنل ایج میں جو بات ہوئی، وہ یہی تھی کہ فری انکوائری کا حق انسا ن کو مل گیا۔ مثال کے طور پر قدیم دور میں مذہب کو فیصلہ کن حیثیت حاصل تھی، پھر مذہب کے نام پر بادشاہ اور مذہبی پیشوا کو فیصلہ کن حیثیت مل گئی۔ ان کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ قانون تھا۔اس وجہ سے جو بھی اختلاف کرتا، اس کی سزا موت تھی۔اس قسم کا محاورہ اسی دور کی ترجمانی کرتا ہے— جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔
دور جدید نے اس اجارہ داری (monopoly) کو ختم کردیاہے۔ اب ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اب فری انکوائری ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔
دورِ جدید کا ایک عطیہ
یہ دور کیسے پیدا ہوا۔ کہاجاتا ہے کہ قدیم حجری دور (stone age) میں ایک بار دو آدمیوں کے درمیان کسی بات پر شدید اختلاف پیدا ہوگیا۔اختلاف یہاں تک بڑھا کہ دونوں کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوںایک دوسرے کو پتھر مارنےلگے۔اسی سنگ باری کے درمیان ایک واقعہ پیش آیا۔ وہ یہ کہ ایک آدمی کا پتھر دوسرے آدمی کے پتھر سے ٹکرا گیا۔ اس وقت دونوں پتھروں کے درمیان چمک دکھائی دی۔ چمک دیکھ کر دونوں اپنی لڑائی بھول گئے، اور دونوں نے اپنے اپنے پتھروں کو لے کر سوچنا شروع کردیا کہ کہاں سے روشنی آئی۔ ابتدائی طور پر یہ دریافت ہوا کہ عام معنوںمیں یہ روشنی نہیں تھی، بلکہ دونوں پتھروں کے درمیان سے نکلنے والی وقتی چنگاری تھی۔
اس سوچ کو بغیر کسی قید کے آگے بڑھنے کے لیے جس چیز کی ضرورت تھی، وہ فری انکوائری کا ماحول تھا۔ یہ فری انکوائری کا ماحول قدیم دور میں ممکن نہیں تھا، بلکہ اس کا آغاز جدید دور میں ہوا ہے۔ اس دور کو جمہوریت کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ جمہوریت کا مطلب ہے دوسروں کو قبول کرنا
Democracy means acceptance of others .
اختلاف کا مسئلہ
دور جدید میں جن مثبت باتوں کا آغاز ہوا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اب بذریعہ تلوار اختلاف کو دور کرنے کا زمانہ ختم ہوچکاہے ، اور رائے کے اختلاف (dissent) کو رائے تک محدود رکھ کر نزاع (conflict) کو ختم کرنے کے دور کاآغاز ہوا ہے۔قدیم زمانے میں جب اختلاف پیدا ہوتا تھا، تواس کا خاتمہ صرف تلوار کے ذریعے ہوا کرتا تھا۔ قدیم عرب کا یہ محاورہ اسی حقیقت کی ترجمانی ہے— القَتْلُ اَنْفَی لِلْقَتْلِ (قتل، قتل کے لیے سب سےبڑاروک ہے)۔ مگر اب یہ فریم ورک (framework)بدل چکا ہے۔
موجودہ دور میں اختلاف کے خاتمہ کا سپورٹنگ اسٹرکچر (supporting structure) بدل گیا ہے۔ اب عمومی تباہی کے ہتھیاروں (weapons of mass destruction) نے دونوں فریقوں کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ دونوں فریق اختلاف کا خاتمہ گفتگو کی میز پر کریں۔دو عالمی جنگ خصوصاً جاپان کی تباہی نے تمام دنیا کو اس سے روک دیا ہے کہ وہ اختلاف کا خاتمہ بذریعہ جنگ کریں
Weapons of Mass Destruction (WMD) do serve as a deterrent to a global conflict. The destructive capabilities of the WMD were on full display over Japan at the end of World War II, and no one wants to go through something like that again.
اختلاف بذریعہ جنگ کا دوراب ختم ہوگیا ہے، اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کو "تلوار" کی بنیاد پر فیصلےکا بدل مل گیا ہے، اور وہ ہے ڈسنٹ(dissent)، یعنی اختلافِ رائے کو اعتدال کے دائرے میں رکھنا،اس کونفرت اور نزاع تک نہ پہنچنے دینا۔ انسان کی عقل نے یہ ریلائز (realize) کرلیا ہے کہ اختلافِ رائے کی بنیاد پرپیدا ہونے والے نزاع کوریزن کی سطح پرمینج کیا جاسکتا ہے۔ پہلے زمانے میںحالت یہ تھی کہ اختلاف کو بزور طاقت سختی کے ساتھ دبایا جاتا تھا۔یورپ کے حوالے سے اس کی تفصیل ڈریپر (وفات 1882ء)کی کتاب" معرکہ مذہب وسائنس" میں دیکھی جاسکتی ہے
History of the Conflict Between Religion and Science, 1875, London, pp. 373
مگر یہ صرف یورپ کا مسئلہ نہیں تھا، ساری دنیا میں یہی طریقہ رائج تھا۔ اس کے برعکس، موجودہ دورمیںبات چیت کی سطح پر اختلاف کا خاتمہ کیاجاتا ہے۔ یہ وہی دور ہے، جس کو ایک حدیثِ رسول میں "لا الہ الا اللہ کے ذریعہ قلعہ فتح کرنا" کہا گیا ہے (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2920)۔ یعنی پیس فل انداز میں ڈائلاگ کے ذریعہ اختلاف کو مینج کرکے مقصد حاصل کرنا۔
واپس اوپر جائیں

آج کا نوجوان

موجودہ زمانے کو ایج آف ریزن (age of reason) کہاجاتا ہے۔مگر آج کےمسلم نوجوان دین کے بارے میںکنفیوزن میں جیتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کےذہن میں مذہب کے بارے میں جدید دور کی نسبت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ ان کےسوالوں کے جوابات روایتی انداز میں فراہم کیے جاتے ہیں،یعنی وہ جوابات "یہ کرو، اور وہ نہ کرو (do's and don'ts)" کے اصول پر مبنی ہوتے ہیں۔اس طرح کے جواب سے ان نوجوانوں کا ذہن ایڈریس نہیں ہوتا۔ یہی وہ چیز ہے جس نے آج کے نوجوانوں کوعملاً مذہب سے دور کردیا ہے۔ اور دن بدن مذہب سے دوری اختیار کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔
قرآن میں کہا گیا ہے  وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63)۔ یعنی اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔ قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ بات ایسے اسلوب میںکہو جس سے مخاطب کا ذہن ایڈریس ہو۔اس قرآنی ہدایت کے مطابق ظاہری اعتبار سے دعوت کے مختلف اسلوب ہوسکتے ہیں۔ اسلوب ہمیشہ مخاطب کے اعتبار سے متعین ہوگا۔ پہلے مخاطب کا مطالعہ کیا جائے گا، اور پھر اس کے ذہن کے اعتبار سے ایسا اسلوب اختیار کیا جائے گا جواس کے ذہن کو اپیل کرنے والا ہو۔ داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس اعتبار سے تیار کرے کہ وہ مدعو کو وقت کے اسلوب میں خدا کا پیغام پہنچا سکے، جس سے اس کا ذہن ایڈریس ہو۔جس دعوتی کلام میں یہ صفت نہ ہو، وہ گویا ایسی دعوت ہے، جس میں دعوتی تقاضے موجود نہیں ۔
ماڈرن مائنڈ کو ایڈریس کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جو بات کہی جائے، وہ عقل پر مبنی (reason-based) ہو۔ یعنی ایسا اسلوب اختیار کرنا ، جو لوگوں کے لیے عقلی سطح پر دین کو قابل فہم بنائے۔ یہ زمانہ عقلی تفہیم و تبیین کا زمانہ ہے۔ کوئی اور اسلوب آج کے انسان کے لیے مؤثر نہیں ہوسکتا۔ عقلی دلائل کی روشنی میںباتوں کو سمجھانے کا طریقہ کیا ہوتا ہے، اسکی تفصیل کے لیے راقم الحروف کی کتاب اظہارِ دین کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اظہارِ آیات کا دور

قرآن کے نزول کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول کا زمانہ ہے۔ یہ وہ دور ہے جب کہ انسانی ترقی ابھی سائنس کی دریافتوں تک نہیں پہنچی تھی۔ دنیا میں ابھی امن کا زمانہ نہیں آیا تھا، دنیا میں ابھی دورِ شمشیر باقی تھا۔ اس وقت قرآن میں مستقبل کے بارے میں ایک تاریخی پیشین گوئی کی گئی تھی۔
قرآن کی ایک متعلق آیت کے الفاظ یہ ہیں سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔
یہ آیت ہجرت سے پہلے نازل ہوئی۔ اس پیشین گوئی پر ہزار سال سے زیادہ کی مدت گزرچکی ہے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کی یہ پیشین گوئی ساتویں صدی کے بعد کے زمانے میں یقینی طور پر ظہور میں آنی چاہیے۔ اس لیے اب یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اب وہ وقت آچکا ہے کہ ہم یہ معلوم کریں کہ تبیینِِ حق کا یہ دور کب آیا۔ تبیین حق کا معاملہ تبیینِ آیات(کائناتی نشانیوں کے ظہور) سے پہلے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ آیات کی تبیین کے بعد کا معاملہ ہے۔اور ماڈرن سائنس نے کائناتی نشانیوں کو ظاہر کرنا شروع کردیا ہے۔
قرآن کی مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر کائناتی سطح پر وقوع میں آنے والا تبیین حق، یعنی حق کے اظہار کا ایک درجہ پیغمبر اسلام کے زمانے میںباقی تھا، یہ مستقبل میں ظاہر ہونے والا تھا۔ اور یقینی طو رپر کہا جاسکتا ہے کہ اب ، سائنسی دور میں وہ ظاہر ہوچکا ہے۔دوسرے الفاظ میں، قرآن کی ایک تبیین وہ ہے جونزول قرآن کے زمانےمیں ہوئی۔ لیکن ایک اور تبیین باقی تھی، جو بعد کے زمانے میں پوری ہوئی۔یعنی سائنسی ڈسکوریز کی بنیاد پر ہونے والی تبیین (manifestation)۔
راقم الحروف کے مطالعے کے مطابق،آیت میں جس تبیینِ حق کا اعلان ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں کیا گیا تھا، وہ اب یقینی طو رپر ایک واقعہ بن چکا ہے۔اس لیے اب یہ دریافت کرنے کا وقت ہے کہ اس تبیین حق سے مراد کیا ہےتا کہ اس کو اپنے علم کا حصہ بنایا جائے۔ اور ایسی تفسیرِ قرآن لکھی جائے، جو سلف کے استنباط اور تشریحات پر مبنی نہ ہو، بلکہ دورِ حاضر کی دریافت شدہ معلومات پر مبنی ہو۔
جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا، مسلمانوں کے لیے دورِ حاضر میں قرآن کے تقاضوں کا جاننا ممکن نہ ہوگا۔دورِ حاضر کے سوالوں کا جواب علمائے سلف کی کتابوں میں نہیں ملےگا، بلکہ اس کا جواب جب بھی ملےگا، وہ دورِ حاضر کےاہل علم کی کتابوں میں ملے گا۔ قیاساً اس میں وہ غیر مسلم افراد یا اقوام شامل ہیں، جن کے بارے میں حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ دین کی تائید کریں گے(إِنَّ اللہَ جَلَّ وعَزَّ لَیُؤَیِّدُ الإِسْلَامَ بِرِجَالٍ ‌مَا ‌ہُمْ ‌مِنْ ‌أَہْلِہِ)المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640۔ اس روایت کے مطابق، جو لوگ اس حقیقت کو کھولیں گے، وہ غیر اہل ایمان ہوسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر سائنسی اندازے کے مطابق،تقریبا13.8 بلین سال پہلے ایک عظیم کائناتی دھماکہ ہوا۔ اس عظیم دھماکے کو بگ بینگ کہا جاتا ہے۔ بگ بینگ کی ڈسکوری سیکولر اہل علم نے کی ہے۔ ان کے مطابق، یہ عظیم دھماکہ ہماری کائنات کا آغاز تھا۔ غالباً یہی کائناتی واقعہ ہے، جس کا قرآن میں ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہےأَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا(21:30)۔ یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان رتق کی شکل میں تھے۔ رتق کا مطلب ہےمنضم الاجزاء(joined together)یعنی انتہائی شدت کے ساتھ باہم جڑے ہوئے۔ پھراللہ نے ان کا فتق کیا، یعنی یہ تمام اجزاء ایک دوسرے سے الگ الگ کردیےگئے۔
اب اس سے غافل ہونا، مجرمانہ فعل ہوگا، اور یہ بھی کہ جن ایشوز کو لے کر ساری دنیا کے مسلمان بڑے بڑے مظاہرے کررہے ہیں، وہ سب نہ صرف بے سود بلکہ غیر متعلق ہیں۔ اب کرنے کا صرف ایک کام ہے۔وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تبیینِ حق کاجو موقع دیا ہے، اس کو استعمال کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

دورِ حاضر کی تفسیر

موجودہ زمانے میں بہت سے لوگوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ انھوں نے دورِ حاضر کے اعتبار سے قرآن کی تفسیر کی ہے۔ مگر یہ سب لوگ صرف دعویٰ کی زبان میں کلام کرتے رہے ہیں، واقعہ کی زبان میں کوئی شخص اپنی بات کا ثبوت نہ دے سکا۔ قرآن میں خودایسے اشارے موجود ہیں، جو یہ بتاتے ہیں کہ دورِ حاضر کی تفسیر کس نے بیان کی۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت اس بارے میں پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی ہے۔وہ آیت یہ ہےسَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (47:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔
اس آیت کے مطابق، آفاق و انفس میں آیات کی دریافت کے بعد قرآن کی ایک تفسیر مقدر تھی۔ اسی طرح قرآن میں ایسے کچھ اور بھی اشارے موجود ہیں، جس کے مطابق، دورِ مابعد میں کوئی تفسیر سامنے آنے والی ہے۔ مگر میرے علم کے مطابق، کوئی ایسی تفسیر نہیں، جو اس معیار پر فٹ بیٹھتی ہو۔ کچھ لوگوں نے دعوی کی زبان میں اس کا انطباق بتایا ، لیکن صراحت کے ساتھ اس سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔
مطالعے کے ذریعے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ مغربی تہذیب نے ایک نیا علمی دور پیدا کیا ہے۔ یہ مبنی بر سائنس دور ہے۔ اس نئے علمی دورکا وجود بلاشبہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ مثلاً اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اس سے پہلے کوئی ایسا علمی دور ظہور میں نہیں آیا، جس نے دنیا کو کمپیوٹراور ہوائی جہاز جیسی چیز یںدی ہو۔ ایسی حالت میں یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ جس مفسر نے علم جدید کا مطالعہ کیا ہو، وہی وہ عالم ہوسکتا ہے، جو عصر حاضر کا مفسر قرآن قرار پائے۔ میرے علم کے مطابق، بہت سے لوگ ایسا گمان کرتے ہیں، لیکن ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے تو وہ صرف دعوی کی زبان میں ہے، اور صرف دعوی کی زبان میں کسی چیز کو بیان کردینے سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔
واپس اوپر جائیں

واضح تقریر یا تحریر

تقریر یا تحریر کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ اس میں وضوح (clarity) ہو۔ تجربہ بتاتا ہے کہ لوگوں کی تقریر یا تحریر میں جو چیز سب سے کم پائی جاتی ہے، وہ وضوح ہے۔ ایسے لوگ بہت ملیں گے، جو بظاہر علمی تقریر یا گفتگو کرسکیں۔ لیکن ایسے لوگ بہت کمیاب ہیں، جن کی گفتگو اور تقریر میں وضوح پایا جائے۔
کلام میں وضوح کی ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ لکھنے یا بولنے والا متعلق (relevant) اور غیرمتعلق (irrelevant) کا فرق جانتا ہو۔ وہ جب لکھے یا بولے تو اس سے پہلے وہ خود اپنی سوچ میں اس اعتبار سے وضوح پیدا کرچکا ہو۔ جو آدمی پیشگی طور پر اپنی سوچ میں وضوح پیدا کرلے، اسی کے کلام میں وضوح (clarity) کی صفت پائی جائے گی، ورنہ نہیں۔ مثلاً آپ ترکی کی عثمانی خلافت کے خاتمہ پر مضمون لکھیں، اور اس کے خاتمہ کا واحد سبب یہ بتائیں کہ کمال اتاترک نے 1921 میں فوجی کمانڈر بننے کے بعد عثمانی خلافت (Ottoman Empire) کی منسوخی کا اعلان کردیا۔
مگر یہ پوری بات نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس کے اِلغا (abolish)سے پہلے دنیا میں نیشن اسٹیٹ کا تصور آچکا تھا، اور اس کے زیر اثر ترکی خلافت کے ماتحت عرب ملکوں میں طاقت ور انداز میں عرب نیشنلزم کی تحریک پیدا ہوچکی تھی۔ اس کے بعد جب 1922 میں کمال اتاترک (1881-1938ء) نے عثمانی خلافت کا الغا کیا تو یہ در اصل ایک ہونے والے واقعہ کا اعلان تھا، نہ کہ خود ہونے والے واقعہ کو وجود میں لانا۔ ایسی حالت میں لکھنے یا بولنے والا آدمی اگر کمال اتاترک کے ذریعہ کیے جانے والے الغائے خلافت کو صرف اتاترک کی طرف منسوب کرے، تو اس کاکلام غیر واضح ہوکر رہ جائے گا۔
کلام میں وضوح نام ہے اس بات کا کہ لکھنے یا بولنے والا کلام کے متعلق اجزاء اور کلام کے غیر متعلق اجزاء کو ایک دوسرے سے الگ کرکے اپنی بات کہے۔
واپس اوپر جائیں

حکمت کا طریقہ

17 جو ن 2019 کو مصر کے سابق منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کا حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوگیا۔ بوقت وفات ان کی عمر67سال تھی۔ میڈیا کے مطابق محمد مرسی ایک کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت کے کمرہ میںموجود تھے، جیسے ہی عدالتی کارروائی ختم ہوئی وہ بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ اُنہیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا تاہم وہ راستہ ہی میں انتقال کرگئے۔
ڈاکٹر محمد مرسی 30 جون 2012کو مصر کے صدر منتخب ہوئے۔ پھر فوج سے ان کا اختلاف پیدا ہوا۔اسکائی نیوز عربیہ کی 26 جون 2013 کی رپورٹ کے مطابق ، انھوں نے ایک تقریر میں خود یہ کہا تھا اصبت احیانا، و اخطات احیانا اخریٰ (کبھی میں نے درست کام کیا، اور کبھی میں نے غلطی کی)۔
یہ تقریریوٹیوب پر ڈاکٹر محمد مرسی کی اپنی آواز میں عربی زبان میں موجود ہے، جب کہ وہ صدارت کی کرسی پر موجود تھے۔اس کے بعدصدر محمد مرسی اور ان کے مخالفین کے درمیان ٹکراؤ کےواقعات پیش آئے، اس کا کلمینیشن(culmination) اس طرح ہوا کہ 3 جولا‎ئی 2013 کو فوج نےان کی حکومت ختم کردی۔ ڈاکٹرمحمد مرسی کے خلاف اس کے بعد لمبے عرصے تک عدالت میں مقدمہ چلتا رہا۔اسی مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں وہ حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کر گئے۔
اس معاملے میں حکمت کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے یہ دریافت کیا جائے کہ وہ غلطی کیا تھی، جو خود اپنے اعتراف کے مطابق، صدر ڈاکٹر محمد مرسی سے سرزد ہوئی ۔ اس لیے کہ ڈاکٹر مرسی جمہوری نظام کے صدر تھے۔ جمہوری نظام میں ایک رولنگ پارٹی ہوتی ہے، اور دوسری اپوزیشن پارٹی۔ جمہوری نظام میں غلطی کرنا بے حد نازک (risky) ہوتا ہے۔ کیوں کہ اپوزیشن پارٹی فوراً اس کو اپنے حق میں استعمال کرتی ہے۔ جمہوری نظام میں غلطی کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ جمہوری نظام میں اگر حکومت کا کوئی فرد غلطی کرے تو یہ ناممکن ہوتا ہے کہ اس کےانجام سے وہ اپنے کو بچا سکے۔ اسی لیے جمہوری نظام میں صاحبِ اقتدار غلطی کرنے کے بعد اکثر استعفیٰ دے کر حکومت سے الگ ہوجاتا ہے۔ اس قسم کا استعفیٰ گویا صاحبِ اقتدار کے لیےچھوٹی برائی (lesser evil) کو اختیار کرنےکے ہم معنی ہوتا ہے۔
اس معاملے میں غلطی کا اعتراف کرنے کے بعد ڈاکٹر مرسی کو جو پہلا کام کرنا تھا، وہ یہ تھا کہ وہ اپنی غلطی کے انجام سے بچنے کی تدبیر کریں۔ جمہوری نظام میں اس طرح کی غلطی کرنے کے بعد صرف دوسرے کو الزام دینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ غلطی کی نوعیت کو سمجھا جائے، اور جمہوری روایات، اور قانونی تقاضے کی روشنی میں اس کا حل دریافت کیا جائے۔
اب جب کہ یہ واقعہ ہوچکا ہے تو ڈاکٹر محمد مرسی کے حامیوں کو یہ کام انجام دینا چاہیے۔ دوبارہ ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ فوجیوں کو بُرا بھلا کہیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے، تو وہ یہ دریافت نہ کرپائیں گے کہ غلطی کہاں ہوئی، اور جمہوری نظام یا قانونی نظام کے دائرے میں اس کا حل کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

—————

خدا کی کنٹری میں
انگلینڈ کے ایک صاحب اپنی کار سے سوئزرلینڈ گئے ۔ اُن کے اپنے ملک میں بائیں چلو (left-hand drive) کا ٹریفک رول تھا، مگر وہ اِس دوسرے ملک میں بھی ’’بائیں چلو‘‘ کے اصول پر اپنی گاڑی دوڑارہے تھے، جب کہ وہاں دائیں چلو (right-hand drive) کا اصول رائج تھا۔ مخالف سائڈ میں کار چلاتے دیکھ کر وہاں کی ٹریفک پولس نے ان کو روکا۔ کار کا نمبر دیکھ کر پولس مین سمجھ گیا کہ یہ آدمی کس ملک سے آرہا ہے۔ اُس نے مذکورہ شخص سے کہا— جناب، آپ اِس وقت سوئزرلینڈ میں ہیں، جہاں دائیں چلو کا اصول ہے، نہ کہ انگلینڈ میں جہاں بائیں چلو کا اصول ہے۔
یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر خدا کے تخلیقی پلان کا ہے۔ خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ اِس دنیا میں خدا کے حکموں پر چلے۔ جو لوگ ایسا نہ کریں، وہ خدا کی دنیا میں خدا کے اصول کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ ایسے لوگ قیامت کے دن بطورِ سزا ابدی کوڑاخانےکے مستحق قرار پائیں گے۔ کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ پورے معنوں میں ایک بامعنیٰ کائنات ہے۔ ایسی ایک با معنیٰ کائنات، بے معنی انجام پر ختم نہیں ہوسکتی۔ ضروری ہے کہ اِس دنیا کا ایک تخلیقی منصوبہ ہو، اور اس تخلیقی منصوبے کے مطابق، دنیا کا خالق اس کے بارے میں ایک منصفانہ فیصلہ کرے۔
واپس اوپر جائیں

ڈائری 1986

1 جنوری1986
آج جناب دانیال لطیفی صاحب ایڈوکیٹ (پیدائش 1917) ہمارے دفتر(نظام الدین ویسٹ ،نئی دہلی )میں آئے۔ان سے بہت ہی دلچسپ قانونی باتیں معلوم ہوئیں۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ کوئی اچھے سے اچھا وکیل بھی ایک سچے گواہ کو توڑ نہیں سکتا۔بشرطیکہ وہ صرف وہی کہے جو اس نے دیکھا ہے۔ وہ اس پر نہ ایک لفظ بڑھائے اور نہ ایک لفظ گھٹائے۔اس سلسلے میں کچھ واقعات بھی انہوں نے بتائے۔
پھر انہوں نے ایک لطیفہ بتایا کہ برطانیہ کورٹ نے ایک مجرم کے لیے سولی کا فیصلہ کیا۔ اس کے بارے میں کورٹ کے الفاظ یہ تھے
He shall be hanged
مجسٹریٹ نے فیصلہ دیکھا تو اس نے کہا کہ میں اس کو سولی نہیں دے سکتا۔کیونکہ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ’’ اس کو لٹکا دیا جائے‘‘ مگر یہ نہیں بتایا کہ کیسے۔اب میں اس کو سر کی طرف سے لٹکاؤں یا پاؤں کی طرف سے۔اس طرح کے واقعات مختلف ملکوں کی عدالتوں میں پیش آئے۔چنانچہ قانون کے الفاظ زیادہ مکمل کیے گئے۔دانیال لطیفی صاحب سے میں نے کہا کہ ان الفاظ کو لکھ دیجیے۔
دانیال لطیفی صاحب کو ایک کیسٹ ’’جدید امکانات‘‘ دیا گیا تھا۔ آج شام کو ان کا ٹیلی فون آیا کہ انہوںنے اس کیسٹ کو دوبار سنا۔ان کو یہ کیسٹ بہت پسند آیا۔اس بار ان کو ’’حل یہاں ہے‘‘ پڑھنے کے لیے دی گئی ہے۔
2جنوری1986
ابو الطیب احمد بن الحسین المتنبی (وفات 965ء)عربی زبان کا ایک نامور شاعرہے۔ اس کے اشعار حکمت اور فلسفۂ حیات کے لیے مشہور ہیں۔آج دہلی میں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ان سے میں نے یہ کہا کہ زندہ قوم کے افراد میںا عتراف کی صفت ہوتی ہے، اور زوال یافتہ قوم کے افراد میں اعتراف کی صفت کا فقدان ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں میں نے کچھ مثالیں دیں۔ وہ خاموشی سے سنتے رہے۔اس کے بعد انہوں نے متنبی کا ایک شعر پڑھا جو یہ تھا— اگر تم شریف کو عزت دو تو تم اس کو اپنا غلام بنا لوگے۔ اور اگر تم کمینہ آدمی کو عزت دو تو وہ سرکشی کرے گا
إِذَا أَنْتَ أَکْرَمْتَ ‌الکَرِیْمَ مَلَکْتَہُ وَإِنْ أَنْتَ أَکرَمْتَ ‌اللَّئِیْمَ ‌تَمَرَّدَا
3جنوری1986
مسٹر بھیکا رام (پیدائش1942ء) یو پی اسمبلی میں ایم ایل اے ہیں۔ وہ آج صبح کو ہمارے دفتر میں آئے۔ ان کے ہمراہ ان کے ساتھی نذرالاسلام صاحب بھی تھے۔ان سے بڑی مفید باتیں ہوئیں۔
مسٹربھیکا رام نے کہا کہ میرے نزدیک مذہب کی اصل تعلیم یہ ہے کہ سب انسان برابر ہوں۔ہر قسم کی اونچ نیچ ختم ہو اور ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان نفرت نہ رہے۔انھوںنے کہا کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے اور اگر اس ملک میں سچا اسلام پیش کیا گیا ہوتاتو آج ہمارا ملک مسلمان ہوتا۔یہاں وہ سب جھگڑے موجود ہی نہ ہوتے جو اب دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ ہندی زبان میں اسلام کا مزید مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔میں نے ان کو ’’انسان اپنے آپ کو پہچان‘‘ کا ہندی ترجمہ بطور تحفہ دیا۔
میں نے مسٹر بھیکا رام سے مزید پوچھا کہ اپنا کوئی خاص تجربہ (انوبھو) بتایئے۔انہوںنے کہا کہ لالچ اور ذاتی فائدہ کو چھوڑ کر سبھی لوگوں کے بارے میں سوچنا،سب کے فائدے کو سامنے رکھ کر سوچنا یہی کامیابی کا راز ہے۔آپ لالچ کو تیاگ دیں، تبھی آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔
4جنوری 1986
ایک مسلمان لیڈر دہلی آئے اور مجھ سے ملے(نام بتانا مناسب نہیں) ۔ ان کے پاس انگریزی زبان میں تیار شدہ ایک میمورنڈم تھا۔اس کی ایک نقل انہوں نے مجھے دی۔یہ میمورنڈم وہ وزیراعظم کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے تھے۔اس میمورنڈم میں مسلمانو ں کی معاشی پسماندگی کا تذکرہ تھا۔اس کے بعد حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ مسلمان چونکہ معاشی دوڑ میں ملک کے اکثریتی فرقہ سے پیچھے ہو گئے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو اس وقت تک خصوصی رعایت دی جائے جب تک کہ وہ معاش کے میدان میں اکثریتی فرقہ کے برابر نہ ہو جائیں۔
مذکورہ لیڈر صاحب کو میں پہلے سے جانتا تھا۔مجھ کو معلوم ہے کہ ان کا اپنا بزنس ہے اور ان کےپاس کرائے کے مکانات ہیں۔ان سب سے انھیں (1986ء میں )کم از کم دس ہزار روپے ماہوار آمدنی ہوتی ہے۔جب کہ انھیں لیڈر صاحب کے ایک سگے بھائی ہیں جو مہینہ میں بمشکل پانچ سو روپے کماتے ہوں گے۔میں نے لیڈر صاحب سے کہا کہ آپ کے فلاں سگے بھائی معاش کے اعتبار سے آپ سے پیچھے ہو گئے ہیں۔اس لیے آپ ایسا کریں کہ اپنی آمدنی کا نصف حصہ ہر ماہ اپنے بھائی کو دیتے رہیں،یہاں تک کہ وہ معاشی اعتبار سے آپ کے برابر ہو جائیں۔
یہ سن کر مذکورہ لیڈر ہنسنے لگے۔ ان کی ہنسی کو دیکھ کر میرا دل تڑپ اٹھا۔میں نے کہا آپ پر تعجب ہے کہ جو رعایت آپ اپنے سگے بھائی کے ساتھ نہیں کر سکتے ہیں، جو کہ مسلمان بھی ہے، اسی رعایت کا مطالبہ آپ مسلمانوں کے لیے ایک نان مسلم وزیر اعظم سے کرنے جا رہے ہیں۔
ہماری مسلم قیادت آج سب سےزیادہ جس چیز سے بے خبر ہے وہ یہ کہ موجودہ دنیا رعایتوں کی دنیا نہیں،بلکہ مقابلے کی دنیا ہے۔رعایتوں کو تلاش کرنے والا اس دنیا میں اپنے لیے کچھ نہیں پاسکتا۔ ہمیں چاہیے کہ مسلمانوں کو مذکورہ قسم کے جھوٹے نعروں میں نہ الجھائیں ،بلکہ انھیں صاف طور پر بتائیں کہ تم مقابلہ کی دنیا میں ہو۔یہاں تم اہلیت کا ثبوت دے کر پا سکتے ہو۔ اگر تم اہلیت کا ثبوت نہ دے سکو تو یہاں تم کو کچھ بھی ملنے والا نہیں۔
5جنوری1986
شاہ واصف امام صاحب (پٹنہ) اپنے کسی کام سے دہلی آئے تھے۔وہ آج مجھ سے ملنے کے لیے ہمارے مرکز (نظام الدین ویسٹ،نئی دہلی) میں آئے۔وہ دو سال سے الرسالہ پڑھ رہے ہیں اور اردو اور انگریزی دونوں رسالوں کی ایجنسی بھی چلا رہے ہیں۔ان کو میں نے دو کتابیں ہدیۃً دیں— ’’حقیقت کی تلاش ‘‘اور ’’حل یہاں ہے‘‘۔
ان سے میں نے پوچھا کہ ’’الرسالہ‘‘ سے آپ کو کیا ملا۔انہوں نے اس کے جواب میں جو کچھ کہا وہ انھیں کے الفاظ میں یہ تھا’’الرسالہ کے مطالعہ سے پہلے میں کسی شہر کو دیکھ کر اس کے بنانے والے انسانوں کی عظمت میں گم ہو جاتا تھا۔لیکن الرسالہ کے مطالعہ کے بعد یہ حال ہے کہ میں شہر بنانے والے انسانوں کے خالق کی عظمت میں گم رہتا ہوں۔میں سوچنے لگتا ہوں کہ وہ خدا بھی کیسا عظیم ہے جس نے انسان کو یہ صلاحیت دی‘‘۔انہوںنے مزید کہا کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ میں شاہ واصف امام ہوں۔اب میں سمجھتا ہوں کہ میں رب کا بندہ ہوں۔
یہ اللہ کا فضل خاص ہے کہ آج ہزاروں لوگ ہیں جن کے اندر الرسالہ پڑھنے کے بعد اس قسم کا ذہن بنا ہے۔اللہ تعالیٰ الرسالہ کی آواز کو مزید پھیلائے اور اس کو دنیا کی ہر زبان میں پہنچانے کا انتظام فرمائے۔
تقریباً روزانہ ایسے خطوط آتے ہیں یا ایسے افراد سے ملاقات ہوتی ہے جو اس قسم کے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں۔مسلمانوں کے قائدین نے اگرچہ ابھی الرسالہ کی آواز کو اہمیت نہیں دی ہے۔مگر غیرقائدین میں الرسالہ کی آواز بہت بڑے پیمانے پر پھیلی ہے اور روزانہ پھیل رہی ہے۔تاہم اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔حق کی بے آمیز دعوت کے ساتھ ہمیشہ یہی صورت حال پیش آئی ہے۔
6جنوری1986
ایک مسلمان بزرگ ملاقات کے لیے تشریف لائے۔انہوں نے بیٹھتے ہی کہا’’مطلقہ عورت کے نفقہ کے سلسلے میں ہندوستان کی عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ شریعت میں جارحانہ مداخلت ہے۔ آپ اس کے خلاف کیوں نہیں لکھتے‘‘۔موصوف کی مراد شاہ بانو بیگم-محمد احمد اندوری کے مقدمہ سے تھی۔
میںنے کہا کہ آپ سب سے پہلے اپنے جملے کو صحیح کیجیے۔یہ جملہ میرے نزدیک صحیح نہیں۔اصل بات جو ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان خاتون(شاہ بانو بیگم) ہندوستانی عدالت میں گئیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجھے فلاںملکی قانون کے تحت میرے شوہر سے گزارہ (maintenance) دلوایا جائے۔عدالت نے معاملے کی تفصیلی سماعت کے بعد مسلم خاتون کے دعویٰ کو تسلیم کیا اور خاتون کے اپنے مطالبے کے مطابق فیصلہ دیا کہ مدعا علیہ ان کو 180 روپے ماہوار ادا کرے۔
اس کو آپ عدالت کی جارحیت نہیں کہہ سکتے، کیونکہ جارحیت کرنے والا وہ ہوتا ہے جو اقدام کرے۔اس معاملے میں عدالت نے اپنی طرف سے کوئی اقدام نہیں کیا اور نہ وہ کوئی اقدام کر سکتی تھی۔اس معاملے میں اگر جارحیت ہوئی ہے تو وہ سراسر مسلم خاتون کی طرف سے ہوئی ہے۔یہ مسلم خاتون(شاہ بانو بیگم) تھیں جنہوں نے بطور خود عدالت میں جاکر مقدمہ پیش کیا اور عدالت سے کہا کہ وہ ان کو ملکی قانون کے تحت مذکورہ رقم دلوائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں عدالت کو جارح قرار دینا اپنی غلطی کو دوسرے کے اوپر ڈالنا ہے۔اگر آپ کو اسلام کا درد ہے تو آپ مسلم مردوں اور مسلم عورتوں کی اصلاح کیجیے۔ان کے اندر یہ ذہن بنایئے کہ وہ اپنے ذاتی جھگڑوں کو عدالت میں نہ لے جائیں، بلکہ کسی کو ثالث (mediator) بناکر آپس میں بیٹھ کر سلجھائیں۔مدینہ کے منافقین اپنے جھگڑے یہودیوں کی عدالت میں لے جاتے تھے تو قرآن نے خود منافقین کو ملزم ٹھہرایا، نہ کہ یہودی عدالت کو(4:60)۔
7جنوری1986
پاکستان کے ایک صاحب ملاقات کے لیے تشریف لائے۔وہ مکتبہ اسحاقیہ(کراچی) کے مالک ہیں۔انہوں نے بتایا کہ میں نے انڈین ایئر لائنز میں سفر کیا۔میں نے دیکھا کہ پاکستانی لوگ فیاضی کے ساتھ جہاز کے اندر شراب خرید رہے ہیں۔ حالاں کہ پاکستان میں شراب پر پابندی ہے۔
یہی حال ان تمام مسلم ملکوں کا ہے جہاں اسلامائزیشن کی نام نہاد تحریک چل رہی ہے۔کاغذ پر اور تقریروں میں اسلام کی دھوم ہے، مگر عملاً پورا معاشرہ اسلام کے خلاف چل رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک معاشرے کے افراد میں آمادگی پیدا نہ ہو جائے اسلامی قانون کا نفاذ ایک بے نتیجہ کام ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق، اسلامی کام کا آغاز قلب ودماغ پر اسلام کے نفاذ سے ہوتا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4993)، نہ کہ حکومت اور پارلیمنٹ کے ذریعہ نفاذِاسلام کا قانون بنا کر اسے بزور نافذ کرنے کی کوشش کرنا۔
8جنوری1986
ایک صاحب ملنے کے لیے آئے۔انہوںنے بتایا کہ ہمارے یہاں ایک عالم آئے تھے۔ انہوں نے سورہ العصر کی تفسیر بیان کی۔اس میں انہوںنے کہا کہ اللہ نے اس سورہ میں یہ فرمایا ہے
’’اے نبی! لوگوں کو بتا دو کہ میرے پاس جو کچھ تھا وہ میں نے محمد کو دے دیا۔اب جس کو لینا ہے وہ تمہارے پاس آ کر لے۔ میرے پاس اب کچھ نہیں‘‘۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے خدا کی کتاب میںکیا کیا تحریفات کی ہیں۔وہ قرآن کے’’متن‘‘ میں تو کوئی اضافہ نہ کر سکے،مگر انہوںنے قرآن کے حاشیے میں وہ سب کچھ لکھ دیا جو پچھلی امتوں نے’’متن‘‘ میں لکھا تھا۔
مسلمانوں نے اگر قرآن کے متن میں کوئی تحریف نہیں کی تو اس کا انھیں کوئی انعام ملنے والا نہیں۔کیونکہ متن میں تحریف سے تو ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔پھر وہ متن میں تحریف کرتے تو کیسے کرتے۔وہ صرف حاشیے میں تحریف کر سکتے تھے اور یہ کام انہوںنے اتنے ہی بڑے پیمانے پر کیا ہے جتنا پچھلی قوموں نے اس سے پہلے متن میں کیا تھا۔
9جنوری 1986
ایک مسلمان بزرگ نے ایک ہندی کتاب کا ذکر کیا۔جو بچوں کے نصاب میں داخل ہے۔انہوںنے بتایا کہ اس میں تغلق بادشاہ پر ایک مضمون ہے۔ اس مضمون میں یہ الفاظ ہیں
’’تغلق تھا تو مسلمان، مگر تھا بڑا دیالو‘‘
مذکورہ مسلمان بزرگ نے شکایت کی کہ نصاب کی کتاب میں اس طرح کی باتیں شامل کرکے نہایت منصوبہ بند طریقے سے بچوں کا ذہن بگاڑا جا رہا ہے کہ مسلمان وحشی اور خونخوار ہوتے ہیں۔
میں نے کہا کہ اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر نہیں بلکہ خود مسلم قوم پر ہے۔مسلمانوں نے اپنی یہی تصویر بنائی ہے تو دوسرے لوگ اس کے سوا مسلمانوں کو اور کیا سمجھیں۔میں نے کہا کہ آپ کے ایک بڑے ملی شاعر نے فخر کے ساتھ کہا ہے
تیغوں کے سایہ میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
پھر جب خود آپ کا نمائندہ یہی کہہ رہا ہو تو دوسرے لوگ اس کے سوا کچھ اور کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ایک اور صاحب ان کے ساتھ تھے۔انہوںنے کہا کہ انگریز مؤرخین نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ ذہنوں کو بگاڑا ہے۔مثلاً ہندوستان کی ایک انگریزی تاریخ میں تین دور کے لیے اس طرح مختلف الفاظ لکھے گئے ہیں
Advent of Aryans
Invasion of Muslims
Influence of the British
یعنی آریہ کی آمد، مسلمانوں کا حملہ اور برطانیہ کے اثرات۔
10جنوری1986
کہا جاتا ہے کہ خدا کے 99 نام ہیں۔لوگ ان ناموں کو یاد کرکے ان کا ورد کرتے ہیں۔مگر یہ نام محض نام نہیں،وہ دراصل خدا کی صفتیں ہیں۔خدا ایک ہے، اس لیے اس کا نام بھی حقیقتاً ایک ہے۔مگر اس کی صفتیں بے شمار ہیں۔ایک حدیثِ رسول کے مطابق، اللہ کے 99 سے زیادہ نام ہیں (مسند احمد، حدیث نمبر 3712)۔
میرا اپنے بارے میں خیال ہے کہ میںنے خدا کی بعض ایسی صفتیں دریافت کی ہیں جو میری اپنی دریافت ہیں، جن کو میں نے اس سے پہلے کتابوں میں نہیں پڑھا تھا۔
مثلاً میںایک باروسیع خلا کے بارے میں سوچ رہا تھا۔اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میں خدا کی ایک نئی صفت دریافت کر رہا ہوں۔اس صفت کو self-confidenceکہہ سکتے ہیں۔یعنی خوداعتمادی۔ وسیع خلا میں اتنے بے شمار اجرام کو متحرک کرنا ایک بے حد نازک کام تھا۔خدا نے اتنی بڑی کائنات بنائی اور دوسری طرف انسان کو آنکھ دے دی کہ وہ دیکھے کہ کیا وہ اس میں کوئی بدنظمی یا انتشار پاتا ہے؟غیر معمولی سیلف کانفیڈنس کے بغیر اتنا بڑا اقدام نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح میں نے ایک روز خدا کی ایک اور صفت دریافت کی۔اور وہ ہےپرفکشنسٹ ہونے کے باوجود امپرفکشن سے ڈسٹرب نہ ہونا۔
میرا اپنا یہ خیال ہے کہ مجھے دھوئیںسے چکر آ جاتا ہے۔شور سے میرا ذہن منتشر ہو جاتا ہے۔گندگی کا دیکھنا میں برداشت نہیں کر پاتا۔اسی لیے موجودہ دنیا مجھے وحشت خیز چیز معلوم ہونے لگی ہے۔مگر خدا کامل اختیار کے باوجود انسانوں کی تمام خرافات کو گوارا کیے ہوئے ہے۔خدا حددرجہ معیار پسند ہونے کے باوجود مسلسل طور پرغیر معیاری چیز کو دیکھتا ہے اور وہ ڈسٹرب نہیں ہوتا۔کیسا عجیب قدرت والا ہے خدا۔
11جنوری1986
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔انھیں الرسالہ کے بارے میں یہ شکایت تھی کہ اس میں مسلمانوں پر تنقید ہوتی ہے۔انہوںنے کہا کہ مسلمانوں پر تنقید کرنا اغیار کو خوش ہونے کا موقع دینا ہے۔اس لیے ان کا مشورہ تھا کہ مسلمانوں پرکھلی تنقید نہ کی جائے۔میںنے کہا کہ یہ بات جو آپ فرما رہے ہیں کوئی سادہ سی بات نہیں ہے۔یہ وہی چیز ہے جس کو قوم پرستی کہا جاتا ہے۔یہ اصولی معاملہ میں حساس ہونے کے بجائے قومی معاملہ میں حساس ہونا ہے۔حقیقت کامجروح ہونا آپ کو نہیں تڑپاتا۔البتہ قومی فخر مجروح ہو تو آپ تڑپ اٹھتے ہیں۔مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے اس مشورے کو قبول نہیں کر سکتا۔
12جنوری1986
تبلیغی جماعت کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے ایک عالم سے اپنی گفتگو نقل کی۔مذکورہ عالم نے ان سے یہ شکایت کی کہ تبلیغی جماعت کے لوگ جہاد کو چھوڑے ہوئے ہیں۔
انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے جہاد کو نہیں چھوڑا ہے۔البتہ قتال سے ہم الگ رہتے ہیں۔آپ نےخود کتاب’’نورالانوار‘‘ (جلد 1، صفحہ 170-172)میں ہم کو یہ پڑھایا ہے کہ
جہاد حسن لذاتہ ہے، قتال حسن لغیرہ ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ دین میں اصلاً جو چیز مطلوب ہے وہ جہاد ہے، نہ کہ قتال۔چنانچہ دعوت کا جو کام ہم کر رہے ہیں وہ عین جہاد ہے،اگرچہ وہ قتال نہیں۔پھر آپ کو ہمارے اوپر کیا اعتراض ہے۔
13جنوری 1986
پچھلی ڈائری دیکھ رہا تھا۔اس میں2نومبر1979 کی تاریخ کے ساتھ حسب ذیل تحریر ملی۔یہ میںنے جمعیۃ بلڈنگ(پرانی دہلی) میں لکھی تھی
آج مولانا محمد شعیب کوٹی اور مسٹرغلام نبی شاہین کشمیری سے گفتگو ہوئی۔یہ دونوں جماعت اسلامی کے سیاسی فکر سے اتفاق رکھتے تھے۔میں نے کہا کہ اس وقت بظاہر لوگوں کو دکھائی دے رہا ہے کہ مسلم دنیا میں جماعت اسلامی اور اخوان المسلمین کافکر غالب ہے۔مگر بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ یہ فکر مغلوب ہو جائے گا اور الرسالہ کا فکر مسلم دنیا میں غالب فکر کی حیثیت حاصل کر لے گا۔آپ لوگوں کو آج میری یہ بات بہت عجیب معلوم ہوگی۔مگر،ان شاءاللہ، آپ لوگ یہ دیکھنے کے لیے زندہ رہیں گے۔اگرچہ میں شاید اس وقت مر چکا ہوںگا۔
پھر میں نے کہا کہ جماعت اسلامی کا جو فکر ہے اس کے اندر صرف وقتی قدر ہے۔وہ دائمی قدر کا حامل نہیں ہے۔انیسویں صدی عیسوی کی دنیا میں جو سیاسی افکار اٹھے اور مسلمانوں کے اندر نوآبادیاتی غلبہ کےنتیجے میں دوسرے اسباب سے جو رد عمل پیدا ہوا، اس کے ماحول میں جماعت اسلامی اور اخوان المسلمین کا فکر بنا۔یہ فکر مخصوص سیاسی دور کی پیداوار ہے، نہ کہ حقیقتاً اسلام کی پیداوار۔ چنانچہ انہوںنے اسلام کو سیاسی انقلاب کے روپ میں پیش کردیا۔
اسلام کی سیاسی تعبیر بنیادی طور پر اپنے زمانے کے سیاسی حالات کا رد عمل ہے۔ اوریہ زمانہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔آج کا انسان فطرت کی زمین پر کھڑا ہونا چاہتا ہے۔اسلام کی سیاسی تعبیر کی ساری اہمیت سیاسی حالات کی زمین پر ہے۔آنے والا انسان جو فطرت کی زمین پرکھڑا رہنا چاہے گا، اس کے لیے فکری تسکین صرف الرسالہ کے پیغام میں ہوگی اور اس وقت کے آنے میں شاید دس سال سے زیادہ نہیں لگیں گے۔
114جنوری 1986
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مجھ پر بعض لمحاتی تجربے گزرتے ہیں۔یہ تجربے انتہائی لطیف اور انتہائی حد تک ناقابل بیان ہوتے ہیں۔ان کو لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔مگر یہ الفاظ صرف اصل تجربہ کی علامت ہوںگے، نہ کہ اصل تجربہ کا بیان۔ مثلاً میری سابقہ ڈائری میں22 مارچ،1980 کی تاریخ کے ساتھ ایک تجربہ ان الفاظ میں لکھا ہوا ہے
آج میں اپنی کتاب ’’عظمت قرآن‘‘ کا دیباچہ لکھ رہا تھا۔اچانک مجھ پر ایک لمحاتی تجربہ گزرا۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اس کو لکھ رہا ہوں اور خدا کی خصوصی تائید اترر ہی ہے، جس کو میں سکینت کہا گیا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3614) ۔
اسی طرح اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میرے اندر کا غم کچھ الفاظ کی صورت میں ٹپک پڑتا ہے۔یہ سارا عمل بالکل بے اختیارانہ ہوتا ہے۔یعنی میں سوچ سمجھ کر یہ الفاظ نہیں بولتا۔بلکہ یہ الفاظ اپنے آپ ایک بے حد درد انگیز کیفیت کے ساتھ زبان پر آ جاتے ہیں۔مثلاً ایک مرتبہ یہ فقرہ میری زبان پر آ گیا
’’لوگ جنت کا نام لیتے ہیں ۔حالانکہ ان کے اعمال بتاتے ہیں کہ انھیں جنت سے کوئی دلچسپی نہیں‘‘۔
22فروری 1985 کا ایک لمحاتی تجربہ میری ڈائری میں ان الفاظ میں لکھا ہوا ہے
’’آج دن میں ایک عجیب تجربہ گزرا۔مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں ہر آن ختم ہو رہا ہوں اور ہرآن دوبارہ زندہ ہو رہا ہوں۔جیسے کہ ہرآن میں اپنے موجودہ لمحہ میں ختم ہو رہا ہوں اور ہر آن اپنے اگلے لمحہ میں دوبارہ موجود ہو رہا ہوں‘‘۔
15جنوری1986
ایک بزرگ نےقرآن کی تفسیر لکھی۔اس کے بعد انہوںنے یہ شعر کہا
روز قیامت ہر کسے با خویش دارد نا مۂ من نیز حاضر می شوم تفسیرقرآں در بغل
ایک معروف عالم دین نے اپنی سیرت کی کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے
’’...سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ (کتاب) خدا کے یہاںقبول اورمصنف کے لیے ذریعۂ مغفرت اور وسیلۂ شفاعت ہو تو وہ سمجھے گا کہ اس کی محنت ٹھکانے لگی اور اسی کو یہ کہنے کا حق ہوگا
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
میرا مزاج اس معاملے میں سراسر مختلف ہے۔میرے ذہن میںکبھی بھی یہ خیال نہیں آتا کہ قیامت کے دن جب خدا پوچھے گا کہ تو کیا لایا تو میں کہہ دوںگا کہ فلاں کتاب لکھ کر لایا ہوں۔
اس قسم کی باتیں مجھے خدا کاکمتر اندازہ(underestimation)معلوم ہوتی ہے۔خدا اس سے بہت برترہے کہ اس کے یہاں ہم اپنی کتاب پیش کریں۔درخت کی ایک پتی بھی انسانوں کی لکھی ہوئی تمام کتابوں سے زیادہ عظیم ہے۔اسی طرح آخرت کی غیر فانی نعمتیں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ کوئی فانی عمل اس کی قیمت دلا سکے۔
میری زبان سے تو جب بھی دعا نکلتی ہے یہی نکلتی ہے کہ خدایا میرے پاس کچھ بھی نہیں۔میں اکثر یہ دعا کرتا ہوں کہ خدایا میرے نامۂ اعمال سے میرے تمام کاموں کو حذف کر دے اور صرف اپنی رحمت کو اس میں لکھ دے۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت کے سوا اور کوئی چیز نہیں جو آدمی کو نجات دینے والی ہو۔
16جنوری 1986
مولانا رومی کا شعر ہے
دین حق را چار مذہب ساختند رخنہ در دین نبی انداختند
(خدا کے سچے دین کو لوگوں نے چار دین بنا دیا اور اس طرح پیغمبر کے دین میں رخنہ ڈال دیا)
اسی طرح کے اشعار اقبال کے یہاں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔مثلاً ان کا یہ شعر
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
اس طرح کی سخت باتوں کے باوجود مسلمان کے یہاں رومی اور اقبال بہت زیادہ مقبول ہیں۔ اس کے مقابلے میں راقم الحروف نے اپنی کتاب’’ تجدید دین‘‘ اور بعض دوسری تحریروں میں اس طرح کی باتیں کہیں تو مسلمان بے حد خفا ہو گئے۔
اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ رومی اور اقبال اس بات کو شعر کی زبان میں کہتے ہیں اور میں اس کو علمی تجزیہ کی زبان میں کہتا ہوں۔ شعر کے اسلوب میں کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔شعر کے ردیف و قافیہ میںکوئی بات نہ فی الواقع غلط ثابت ہوتی ہے اور نہ صحیح۔وہ تو صرف ردیف و قافیہ ہوتا ہے اور بس۔
اس کے برعکس، میرے تجزیاتی مضامین ان باتوں کو ثابت شدہ حقیقت بنا رہے ہیں۔اس میں صحیح صحیح ہو جاتا ہے اور غلط غلط۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کو پڑھ کر ناراض جاتے ہیں۔رومی اور اقبال کے اشعار کو گنگنانے سے ان کے عقیدے متزلزل نہیں ہوتے۔جبکہ میرے مضامین پڑھ کر ان کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے روایتی عقیدے کی دیوار منہدم ہو رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں رومی اور اقبال پسند کیے جاتے ہیں اور ٹھیک اسی قسم کی بات میں کہتا ہوں تو مجھ سے ناراض جاتے ہیں۔
17جنوری1986
’’دور جدید‘‘ میں مسلمان سب سے زیادہ پچھڑی ہوئی قوم ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اگر پٹرو ڈالر کی طاقت ظاہر نہ ہوئی ہوتی تو آج مسلمان ایک قسم کے بین الاقوامی اچھوت بن چکے ہوتے۔
اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری لیڈروں پر ہے۔19ویں صدی عیسوی میں جب مغربی اقوام نے مسلم قوتوں پر غلبہ حاصل کیا تو مسلمانوں نے اس اعتبار سے کچھ بھی نہ سوچا کہ آخر وہ کون سی طاقت ہے جس سے مسلح ہو کر مغرب کی قومیں دنیا پر چھا گئی ہیں۔مسلم لیڈر نفرت اور منفی رد عمل کے سوا اس وقت کسی اور چیز کا ثبوت نہ دے سکے۔
اس زمانے میں ایسے شعرا اور خطبا پیدا ہوئے جن کی مقبولیت کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ وہ مغرب اور مغربی تہذیب کا مذاق اڑاتے ہیں۔اسی میں ایک مثال اکبر الہ آبادی (1846-1921ء) کی ہے۔ان کے اشعار کی کثیر تعداد ایسی ہے، جو مغرب سے نفرت اور استہزا پر مبنی ہیں۔حتیٰ کہ انہوں نے مغرب کی انتہائی مفید چیزوں کا بھی مذاق اڑایا۔مثلاً ان کا ایک شعر ہے
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
اسی طرح ان کا ایک شعرہے
بچوں کے کبھی قتل سے بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اسی قسم کی منفی باتیں تھیں جنھوںنے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے دو سو سال دور کر دیا۔وہ مغرب کی ہر چیز کو نفرت کی نظر سے دیکھتے رہے۔یہاں تک کہ جاگے تو اس وقت جاگے جب کہ دنیا ان سے بہت آگے جا چکی تھی۔ ایک فارسی شاعر کے الفاظ میں— میں ایک لمحہ کے لیے غافل ہوا اور راہ سے سو سال دور ہو گیا
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد
واپس اوپر جائیں

آغاز کے بغیر

اس دنیا کا ایک فطری قانون یہ ہے کہ یہاں ابتدائی تیاریوں کے بغیر آگے کا کام نہیں کیا جاسکتا۔ابتدائی تیاری کی حقیقت کو نوبل انعام یافتہ مشہورانگریزی ادیب اور مفکر جارج برنارڈشا (وفات1950ء) کے قول سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس نے سولہویں صدی کے انگریز مصنف اور شاعر ولیم شیکسپیئر سے اپنا مقابلہ کرتے ہوئے کہا ہے— میرا قد شیکسپیئر سےبہت چھوٹا ہے، مگر میں اس کے کندھے پر کھڑا ہوا ہوں
"He was much taller than me, but I stand on his shoulders." (George Bernard Shaw, by Gilbert K. Chesterton, 1909 Edition)
برنارڈشا،ولیم شیکسپیئر (وفات1616ء)کے تقریباً ڈھائی سو سال بعد 1856ء میں پیدا ہوا۔ شیکسپیئر نے اپنے زمانہ میں انگریزی زبان کو جہاں پایا تھا، اس پر اس نے اپنی کوششوں سے مزید اضافہ کیا۔ حتیٰ کہ اس کو ترقی کے ایک نئے مرحلہ میں پہنچا دیا۔ شیکسپیئر کے بعد سیکڑوں اہل قلم پیدا ہوئے جو اس کو مزید آگے بڑھاتے رہے۔ یہاں تک کہ انگریزی زبان اس اعلیٰ ترقی یافتہ مرحلہ تک پہنچ گئی جہاں سے برنارڈشا کو موقع ملا کہ وہ اپنی قلمی سفر کا آغاز کر سکے۔
اگر پچھلے لوگوں نےبرنارڈشا کے لیےآغاز فراہم نہ کیا ہوتا تو برنارڈشا کے لیے ناممکن تھا کہ وہ ادبی ترقی کے اس بلند مقام پر پہنچے جہاں وہ اپنی کوششوں سے پہنچا۔یہی فطری اصول زندگی کے تمام معاملات میں جاری ہے۔جب قوم کے پچھلے لوگ ابتدائی منزلیں طے کر چکے ہوں، اسی وقت یہ ممکن ہوتا ہے کہ قوم کے بعد کے لوگ آگے کی منزلوں پر اپنا سفر جاری کریں۔
اگر پچھلے لوگوں نے اپنے حصہ کا کام نہ کیا ہوتو بعد والوں کو سب سے پہلےابتدائی تیاری کا کام کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ قانونِ فطرت کے مطابق، سفر ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتا ہے، جہاں سے آپ کو آغاز کرنا ہے، نہ کہ وہاں سے جہاں آپ پہنچنا چاہتے ہیں۔ جس مکان کی زمینی بنیادیں اوردیواریں ابھی تیار نہ ہوئی ہوں اس مکان کی چھت اور اوپری منزلیں کس چیز کے اوپر کھڑی کی جائیں گی۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کا فکری انقلاب دیگر ادیان پر آج بھی غالب ہے

مسلمان تصادم اور ٹکراؤ کا راستہ ترک کر دیں مولانا وحید الدین خاں
بمبئی، 10 نومبر(جاوید جمال الدین)۔اسلامی اسکالر اورماہنامہ ’’الرسالہ‘‘ دہلی کے مدیر اعلیٰ مولانا وحید الدین خاں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ تصادم اور ٹکراؤ کے طریقے کو ترک کر دیں اور شر انگیزی کی جانب توجہ نہ دیں۔ مولانا آج (10 نومبر کو)جنوبی بمبئی میں واقع پاٹکر ہال میں اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے تحت منعقد کیے گئے ایک جلسے میں ’’حضرت محمد پیغمبر انقلاب‘‘ کے موضوع پر خطاب کر رہے تھے۔ (تقریر کی چند باتیں درج ذیل ہیں):
■ نیا مسئلہانہوں نےخطاب کرتے ہوئےکہا کہ اگر کسی عبادت گاہ کے سامنے سے کسی دوسرے فرقے کا جلوس گزرتا ہے اور جلوس میں اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے ہیں تو اس وقت مشتعل نہ ہوں اور ایسی باتوں کو نظر انداز کر دیں۔ کیوں کہ ٹکراؤ سے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔
■ کامیاب انقلاب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے متعلق مولانا نےکہا کہ آپ نے جو فکری انقلاب پیدا کیا وہ تمام ادیان پر غالب ہو گیا اور آج بھی اس کا غلبہ ہے۔ اس کے برخلاف دنیا میں جتنے بھی سیاسی انقلاب برپا ہوئے سب کے سب ناکام ہوئے۔
■ توحید کی تعلیم مولانا موصوف نے کہا کہ حضرت محمد نے تمام پیغمبروں کی طرح توحید کی تعلیم دی اور مشرکین کو بتایا کہ تم جن چیزوں کی عبادت کرتے ہو وہ بذات خود مخلوق ہیں۔
■ محمد اور تاریخ اپنی تقریر کے دوران مولانا نے ایک شخص کا ذکر کیا، جس نے ایک عرصہ قبل گفتگو کے دوران کہا تھا کہ اگر محمد کو تاریخ سے نکال دیا جائے تو تاریخ میں کیا کمی رہ جائے گی۔ اور مولانا نے اس کے جواب میں برملا کہا تھا ’’ وہی کمی رہ جائے گی جو محمدسے پہلے موجود تھی‘‘۔
■ مستقبل روشن مولانا کے مطابق،ہندستان میں مسلمانوں کا مستقبل کافی روشن ہے، بشرطیکہ وہ جذباتی طریقہ اختیار کرنے کے بجائے مثبت تعمیری سوچ اپنائیں۔
( روزنامہ انقلاب، 11 نومبر 1991)
واپس اوپر جائیں

جنت کا شوق

قرآن کے مطالعہ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کے یونیورسل پیغام کو پرسنلائز کرکے قرآن سے سبق حاصل کریں۔ میں نے قرآن کا مطالعہ کیا تو مجھے یہ سمجھ میں آیا کہ قرآن میں جنت کو حاصل کرنے کے لیے بار بار ابھارا گیا ہے۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے(ترجمہ)دوڑو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے۔ وہ تیار کی گئی ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے (3:133)۔
اس آیت کو میں نے اپنے ایک تجربہ سے سمجھا۔ ایک دن کا واقعہ ہے۔ میں صبح کے وقت کام کررہی تھی تو مجھے تکان کا احساس ہوا۔ پھر میں نے یہ سوچا کہ اب میری عمر 60 سال سے زیادہ ہوچکی ہے، جو کہ عمومی طور پر زندگی کے آخری مرحلہ کی ابتداسمجھا جاتا ہے۔ گویا اب میری زندگی بہت مختصر ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ موت کے بعد لامحدود زندگی ملنے والی ہے۔پھر میں نے سوچا کہ اگر میری زندگی کے صرف دس سال ہیں تو مجھے ان دس سالوں تک بہت زیادہ متحرک رہنا چاہیے تاکہ ابدی جنت کے لیے مزید سرمایہ اکٹھا کرسکوں۔ مجھے ابدی جنت کے تصور سے ایک محرکِ عمل ( incentive) ملا اور میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ مجھے وقت کو غنیمت جاننا ہے اور مرنے سے پہلےاس ربانی مشن کے سارے کام مکمل کرنے ہیں۔ اس سوچ نے مجھےایک نئی توانائی دی،اور میری تکان ختم ہوگئی۔ میری سمجھ میں آیا کہ یہی ہے جنت کی طرف مسارعت (دوڑنا)۔ یعنی جنت کی یاد آپ کو دنیا کی مشکلات بھلادے، اور آپ دوبارہ ایک نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ خدائی مشن میں مصروف ہوجائیں۔
مولانا وحید الدین خاں صاحب نے لکھا ہے کہ جنت انسان کے لیے بنائی گئی ہے، اور انسان جنت کے لیے۔ مگر جنت اس انسان کو ملے گی، جو اپنے آپ کو اس دنیا کے اندر جنت کے لیے جینےوالا انسان بنائے۔ خدا اُس انسان کے زندہ شعور کا حصہ بن جائے۔ دنیا کی ہر چیز اس کو خدا کی یاد دلانے والی بن جائے، اور وہ انسانوں کے درمیان خدا کا داعی بن جائے۔جنت اس انسان کے لیے ہے جو صرف ایک خدا کو اپنا سپریم کنسرن بنالے (ماخوذ، ماہنامہ الرسالہ، ستمبر 2019)۔ڈاکٹر فریدہ خانم
واپس اوپر جائیں

بیماری معرفت کا ذریعہ

ہمارے مشن کے ایک ساتھی بیمار ہوگئے۔ جب ان سے گفتگو ہوئی تو انھوں نے کہا کہ بیماری سے مجھے بہت بڑا سبق ملا ہے۔ وہ یہ کہ بیماری سے پہلے مجھے کبھی کبھی یہ احساس ہوتا تھا کہ میں مشن میں پرسنل طور پرشامل (involve) ہوں تو مشن کا کام انجام پارہا ہے، یعنی میرے بغیر مشن نہیں چل سکتا۔ مگر بیماری نے میرے اوپر یہ واضح کیا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ خدا کی توفیق اور اس کی مدد سے ہورہا ہے، نہ کہ ہماری ذات سے، ہم تو صرف ہیومن فیس ہیں۔یہ احساس اتنا شدید تھا کہ اس نے مجھے کٹ ٹو سائز کردیا۔ میں نے یہ جان لیا کہ میرے کرنےسے نہیں بلکہ خدا کی مدد سے سارے کام چل رہے ہیں۔
یہ واقعہ میں نے سنا تو مجھے ایک حدیثِ رسول یاد آئی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ایک مومن بندہ بیمار ہوتا ہےتو وہ اس کے آگے کے لیے نصیحت کا سامان ہوتا ہے (وَمَوْعِظَةً لَہُ فِیمَا یَسْتَقْبِلُ)سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 3089۔ایک اور روایت میں ہے کہ جب آپ کسی مریض کی عیادت کے لیےجاتے تو یہ کہا کرتے تھےلاَ بَأْسَ طَہُورٌ إِنْ شَاءَ اللہُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3616)۔ یعنی کوئی حرج نہیں، ان شاء اللہ یہ(روحانی)پاکی کا ذریعہ ہے۔
انسان کے اندر ایک خصوصی صفت پائی جاتی ہے جس کو حساسیت کہاجاتا ہے۔ حساسیت (sensitivity) خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اگر حساسیت نہ ہو تو آدمی کے اندر سے بُرائی کو برائی سمجھنے کا مزاج ختم ہوجائے گا۔ اگر آدمی صحت مند جسم کا مالک ہو تو وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر غرور و تکبر اور بے نیازی کی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔ اس طرح وہ ایک بے حس انسان بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کے برعکس، جب ایک مومن انسان بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے عجز کو دریافت کرتاہے۔ اُس کے اندر ماڈسٹی کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ بیماری اُس کو مادی چیزوں سے دور کرکے اللہ سے قریب کردیتی ہے۔ اُس کے دل سے درد مندی کے ساتھ دعائیں نکلنے لگتی ہیں۔
بیماری بظاہر ایک ناپسندیدہ واقعہ ہے۔ لیکن اگر صحیح اسلامی ذہن ہو تو جسمانی بیماری آدمی کے لیے روحانی صحت کا ذریعہ بن جائے گی۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 276

… ڈاکٹر جیوانندن (پیدائش 1945ء)شہر ایروڑ (Erode)، تامل ناڈو کے رہنے والے تھے۔ وہ کمیونسٹ فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود احتجاجی نفسیات سے دور تھے اور تعمیری سوچ رکھتے تھے ۔وہ بہت سے رفاہی اداروں کےذمہ دار بھی تھے ۔وہ ہمیشہ مسلمانوں کی فکری اور علمی پچھڑے پن (backwardness) کو لے کر متفکر رہتے تھے۔ 2017 میں جب مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی انگریزی کتاب Peace Building and Non-Violence in Islam پر ایک تبصرہ دوماہی تامل میگزین Sarvodaya میں چھپا تو اسے پڑھ کر ڈاکٹر جیوا بہت متاثر ہوئے اور گڈورڈوبکس چینائی سے رابطہ کرکے انھوں نے وہ کتاب مانگی ،اور یہ بھی کہا کہ "میں اس کتاب کو تامل زبان میں ترجمہ کرکے شائع کرنا چاہتا ہوں" (ڈاکٹر جیوا بہت اچھے مترجم بھی تھے اور ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں)۔ گڈورڈ بکس چینائی نے ڈاکٹر جیوا کو مطلوب کتاب فوراً بھیج دی ، اور انھوں نے ایک ہفتے کے اندر اس کتاب کا ترجمہ بھی مکمل کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مولانا کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے"پوری مسلم قوم میں میں نے مولانا کی طرح انٹلکچول نہیں دیکھا۔ یقیناً مسلم قوم نے نہ ہی ان کو سمجھا ہوگا اور نہ ہی ان کے اندر مولانا کی تعمیری فکر کو سمجھنے کی صلاحیت ہے"۔ فروری 2021 میں جب مولانا وحید الدین خان صاحب کے لیے حکومت ہند کی جانب سے پدم وبھوشن ایوارڈ کا اعلان کیا گیا تو چینائی کے آئی پی ایس آفیسر مسٹر نجم الہدیٰ نے اس مناسبت سے ایک مضمون لکھا تھا جو ہندستان کے معروف انگریزی روزنامہ The Hindu میں شائع ہوا، اس مضمون کو روزنامہ Tamil Hindu میں فوراً شائع کرنے کے لیے مترجم کی ضرورت درپیش تھی۔حسنِ اتفاق سے اسی وقت ڈاکٹر جیوا کا فون آگیا، انہوں نے اس کی ذمہ داری لے لی اور چند گھنٹوں کے اندر ہی ترجمہ کرکےوہ مضمون ہمیں بھیج دیا۔ یہ مضمون 18 فروری 2021 کو مذکورہ روز نامہ میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر جیوا کا شکریہ ادا کرنے کے لیے سی پی ایس( تامل ناڈو) کی طرف سے ہم تین افراد،مولانا خطیب اسرارالحسن عمری، فیض قادری اور میں نے ایروڈ کا سفر کیا، اور 20 فروری 2021 کو ان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں، ان سے مولانا کی فکر کو لے کر گفتگو ہوئی، اور یہ بات بھی ہوئی کہ الرسالہ مشن کو تامل زبان میں کیسےمنتقل کیا جائے۔ لیکن یہ ان سے ہماری آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ 2 مارچ 2021 کو ہمیں خبر ملی کہ ڈاکٹر جیوا اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ خبر سنتے ہی ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے تامل ناڈو میں سی پی ایس کا ایک خیرخواہ ہم سے جدا ہو گیا ہے۔ (مولاناسید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
… اسپوٹی فائی (Spotify)ایک انٹرنیشنل آڈیو شیرنگ پلیٹ فارم ہے۔ اس پر سی پی ایس (یوایس) کے مسٹر اسد پرویز نےاپریل 2021 میں قرآن کا انگریزی ترجمہ اپلوڈ کیا، تاکہ ساری دنیا میں لوگ اس کو سن کر خدا کے منصوبہ تخلیق سے با خبر ہوسکیں۔اپریل 2022 تک 240,409 لوگوں نے قرآن کا یہ ترجمہ سننے کے لیے ڈاؤن لوڈ کیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا قرآن کے پیغام کو جاننا چاہتی ہے، ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم مدعو تک پیس فل انداز میں جدید ٹکنالوجی کی مدد سے اس کو پہنچائیں۔
… السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، آپ کا ارسال کردہ قیمتی ہدیہ الرسالہ کے خصوصی شمارے کی شکل میں مل گیا ہے، سرسری نظر ڈالنے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس خاص شمارے میں حضرت مولانا مرحوم پر انتہائی قیمتی مضامین شامل ہیں، پیش لفظ تو پڑھ لیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ دہلی میں آپ کی آمد 1967 میں ہوئی۔ مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب مولانا مرحوم الجمعیة ویکلی کے مدیر ہوا کرتے تھے۔ میں ان کا لکھا ہوا اداریہ بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا، اللہ تعالى مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔بہت شکریہ جزاکم اللہ خیراً۔ ماریہ سلمہا کے ویڈیوز ماشاء اللہ بہت معلوماتی اور مفید ہوتے ہیں، اللہ ان کو جزائے خیر دے۔(بدرالزمان کیرانوی)
† Subject: Al-Risala, MAN OF MISSION, REMEMBERING MAULANA WAHIDUDDIN KHAN. Many thanks to you for sending me the book, special number on MAULANA WAHIDUDDIN KHAN. I am really studying Al-Risala since the year 1985, that is from my school days. Since then I have been a regular reader and have studied approximately all his books in Urdu. Please tell me if anyone is associated with the CPS team in Dhanbad. Now it is our duty to spread the message of Maulana to all human beings, that is the message of Allah. Thanks and Regards Yours Sincerely — Asif Mazhar, Dhanbad, asif.mazhar1@gmail.com
† Mr Sajid Ahmed Khan, Nagpur, gave Mr Infaq of Sri Lanka the address of the CPS website: www.cpsglobal.org and Spirit of Islam magazine at his request. Mr Infaq responded as follows: "Now that I have access to the website, I can download many books authored by Maulana Wahiduddin Khan. I have already one of his books: The Age of Peace. I loved that book. I found it when I was in college. After that, I began to search the website and the books where I can get his books as in our country in Sri Lanka I could not find many of his books in shops. Now Alhamdulillah, I am happy to have found this website where I can find all English books. I can only read and speak English. I do not know Hindi and Urdu. And I want to learn about Islam. I wanted to ask many things from an Islamic scholar. Now I can. I love it. Thank you very much.žž
† These are some things that I had learnt from Maulana Wahiduddin Khan: ŸDeconditioning ŸIntrospection ŸObjectivity ŸFollow one, Hate none ŸPatience ŸPositivity Ÿ Extensive Study ŸBeing ever ready to accept one’s mistakes ŸSincerity ŸEarly Rising ŸTime Management ŸPlanning, Planning and Planning again ŸPeace ŸThinking, Thinking and Thinking again ŸAvoidance with Trivial Issues ŸNo Reaction ŸRemembrance of the Almighty ŸDua, Dua and Dua (prayer) Every Time ŸDiscover Yourself ŸContinuous Effort ŸAvail all the Available Opportunities ŸNo Excuse, No Complaint ŸTaking Responsibility ŸLiving with God ŸReminding Yourself of the Scenes of the Doomsday ŸDon't Involve Yourself with Anything without Necessary Competence ŸLearn, Learn and Learn again ŸPromoting Dialogue ŸAdopting the Realistic Approach ŸPractical Wisdom ŸKhuda ki Yaad me Rona ŸUltimate Courage for Standing for the Truth ŸCalling People to God — Mr Azhar Mobarak, Jharkhand
† My life changed after I met Maulana. He connected me with God and tought me many things. One of my most significant learning is simple living high thinking — Mr Navdeep Kapur, New Delhi
† The teachings of Maulana are the driving force that keeps all of us together and going. Not a moment passes when we do not miss him. Maulana dedicated his life to the mission and guided people on the path of God. May Allah keep him closest to His throne — Ms. Stuti Malhotra, New Delhi)
† Maulana Sahab for me is still in Delhi. His guidance is around me as usual in the form of his lectures. Every time I listen to his talks, I realize that every word comes from heaven. The only difference now is that Farhad Sahab does not call me anymore to say Maulana Sahab aap say baat Karna chahtay hain. Talking to Maulana Sahab and taking notes from his calls was my routine; I still read those notes to seek guidance. May Allah reward him with the highest level of Jannah — Mr Tariq Badar, Lahore
† My first interaction with Maulana Wahiduddin Khan, in 2001, is still fresh in my mind. I did not know anything about religion or spirituality back then. He encouraged me to write a paper on, "I want to live in a world with this brave spirit that I will influence others rather than getting influenced by them." This quote marked the start of my relationship with Maulana. I had never had a proper understanding of religion until Maulana and CPS instilled it in my mind. I swear to God that I will dedicate myself to this mission for the rest of my life. I pray to God to protect all CPS members from distractions and to assist us in realizing Maulana's vision. May Allah bless Maulana, give him a special place in His neighborhood, and shower him with his limitless mercy and rewards — Mr. Amir Mori, Kashmir
† Maulana, you are missed, loved, and remembered. You have shown us the path of truth and made us understand the meaning of life and death and beyond. This statement of yours will always be a beacon for me.
زندگی کیا ہے؟ موجودہ دنیا میں امتحان کی مہلت۔ موت کیا ہے؟ آخرت کی دنیا میں بالجبر داخلہ
May Allah grant you the highest place in Jannah. Ameen — Ms. Shabina Ali, Kolkata
واپس اوپر جائیں

Tuesday, 1 March 2022

Al Risala | March - April 2022 (الرسالہ،مارچ۔اپریل)

4

-روزہ اللہ کے لیے

6

- روزہ اسپرٹ

8

- قرآن کا مطالعہ

9

- قرآن فہمی کی کلید

10

- قرآن کا آسان ہونا

11

- اسٹریس مینجمنٹ

13

- اکثریت پر اقلیت کا غلبہ

15

- برائی اور بھلائی

16

- یقین و اعتماد

17

- سبق لینے والے

18

- سازش بے اثر

19

- حالات یکساں نہیں رہتے

20

- رمضان کا روزہ

21

- کائنات معرفت کا خزانہ

22

- خواہش کے خلاف

23

- دور رس کلام

24

- ٹائم مینجمنٹ

26

- صلح بہتر ہے

27

- انتہا پسندی نہیں

28

- سچائی کی دریافت

29

- عید مبارک

30

- زمین میں فساد نہیں

31

- اعراض کا طریقہ

32

- انتظار کی پالیسی

33

- قوموں کا عروج و زوال

34

- استحکام کا راز

35

- شکر سے اضافہ

36

- فضول خرچی نہیں

37

- انسانی علم کی محدودیت

38

- ملاقات کا صحیح طریقہ

39

- ٹکراؤ سے اعراض

40

- کامیاب قیادت کا راز

41

- غصہ پی جانا

42

- مشورہ مفید ہے

43

- دعوت یعنی انسانی خیرخواہی

44

- سی پی ایس کا مقصد

45

- اعتکاف

46

- آتش فشاں کا سبق

47

- ٹوئٹر کا سی ای او

48

- خبرنامہ اسلامی مرکز


روزہ اللہ کے لیے

ایک حدیث قدسی میں روزہ کی اہمیت اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے ہر عمل میں اسپرٹ کنٹنٹ (spirit content)کے اعتبار سے 10 گنا سے 700 گنا تک اضافہ ہوتاہے۔ لیکن اللہ نے فرمایا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا ( کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ یُضَاعَفُ، الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ، قَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ:إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّہُ لِی وَأَنَا أَجْزِی بِہِ ) صحیح مسلم، حدیث نمبر 1151۔
اس حدیث قدسی کو دوسرے قرآنی حوالوں کے ساتھ ملا کرغور کیا جائے تو یہ ٹیک اوے ملتا ہے— رمضان قرآن کا مہینہ ہے(2:185)۔ قرآن تدبر وتفکر کی کتاب (book of contemplation) ہے( 39:29)۔ دوسرے الفاظ میں، رمضان اسپریچول سرگرمیوں میں اضافہ کا مہینہ ہے۔
قرآن میں بسم اللہ کے بعد سب سے پہلی آیت یہ ہے:ٱلۡحَمۡدُ لِلَّہِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِینَ (1:2) ۔ یعنی، سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ یہ آیت قرآن کا خلاصہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآنی ہدایت کی روشنی میں اللہ کی نعمتوں پر غور و فکرکرنا،اور زیادہ سے زیادہ کوشش کرکے اللہ کے شکر میں جینے والا بننا۔
اس لحاظ سے حدیث قدسی پر غور کیا جائے تو اس کا یہ مفہوم نکلتا ہے کہ رمضان غوروفکر کا مہینہ (month of contemplation) ہے۔ رمضان میں روزہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی فزیکل سرگرمی کو کم کرےاور انٹلیکچول سرگرمی کو بڑھائے۔ وہ اپنے خالق ومالک کے انعامات اور نشانیوںکے اندر غوروفکر میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارے۔
مثلاً یہ کہ غذا (food)انسانی زندگی کے لیے بنیادی جزء کی حیثیت رکھتی ہے۔غذا انسان کے لیے مزید اضافہ کے ساتھ وہی حیثیت رکھتی ہے جو حیثیت مشین کے لیے ایندھن (fuel)کی ہے۔ روزہ کا مقصد یہ ہے کہ محدود اوقات میں اس پر پابندی لگا کر انسان کے اندر یہ احساس جگایا جائے کہ غذا انسان کے لیے کتنی اہم خدائی نعمت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان تیار شدہ ذہن رکھتا ہو تو اس کے لیے روزہ، نیوٹن کے ایپل شاک (apple shock) کی طرح، فاسٹنگ شاک (fasting shock) بنتا ہے ،تاکہ انسان کی تھنکنگ فیکلٹی طاقتور انداز میں ٹرگر (trigger) ہو اور وہ اللہ رب العالمین کی نعمتوں کی دریافت نو (rediscovery)کرے اور اس کی معرفت میں جینے والا بن جائے۔
جب فاسٹنگ شاک سے ایک روزہ دار کامائنڈ ٹرگر ہوگا تو وہ زیادہ گہرے انداز میں حقیقتوں پر غور کرنے لگے گا۔ وہ سوچے گا کہ میرے خالق کی کیسی عجیب رحمت ہےکہ اس نے میرے لیے پیشگی طورپر سولر سسٹم کی ایک دنیا بنائی۔ یہ دنیا پوری طرح میرے لیے ایک کسٹم میڈ دنیا تھی۔ پھر اس دنیا میں مجھ کو رکھا۔ یہاں ایسا ہوا کہ میرے خالق نے میری ہر فطری ضرورت کو پیشگی طورپر جانا اور پیشگی طورپر اس کو میرے لیے زمین میں فراہم کر دیا۔
مثلاً یہاں زمین کے کرہ کے اندرونی حصہ میں تیل (oil) کا ذخیرہ بڑی تعداد میں رکھ دیا جو میری تمام سرگرمیوں کے لیے ایندھن کی ضرورت کو پورا کرتاہے۔ پھر اس نے زمین کے اوپر میٹھے اور کھاری پانی کے چھوٹے بڑےرزروائر (reservoir) بنائے اور ان کو پانی سے بھر دیا۔ اسی طرح اس نے زمین کے اوپر نباتات اگائے اور ان کو آکسیجن کی پیداوار کے لیے ایک عظیم فیکٹری کارول مقدر کردیا۔ اسی طرح اس نے زمین کی اوپری سطح کو soil کی حیثیت سے ڈیولپ کیا اور اس پر میرے لیے ہر قسم کی حیات بخش غذائیں اگائیں، وغیرہ وغیرہ۔
روزہ دار کی اسپرٹ یہ ہوتی ہے کہ وہ روزہ رکھ کر اپنے آپ کوتیار ( prepared)انسان بناتا ہے تاکہ وہ اللہ کی بے پایاں نعمتوں (blessings)کا شدت کے ساتھ احساس کرکےان میں غرق ہوجائے۔ اگر روزہ دار ایسا کرے تو اس کا روزہ اللہ کے لیے ( for the sake of God) بن جائے گا۔ اور پھر وہ اس انعام کا مستحق بن جائے گا جس کو حدیث میںلا محدود اجر (unlimited reward) کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

روزہ اسپرٹ

اسلام میں پانچ اعمال ستون (pillars) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک متعلق حدیث کے الفاظ یہ ہیں بُنِیَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ:شَہَادَةِ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِیتَاءِ الزَّکَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 8؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 16)۔ یعنی،آپ نے کہا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
جس طرح عمارت کچھ ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، اسی طرح اسلامی زندگی پانچ ارکان پر قائم ہوتی ہے۔ یہ پانچ ارکان بظاہر پانچ ریچولس (rituals)ہیں۔ یعنی کلمۂ ایمان کے الفاظ کو زبان سے بول دینا، صلاۃ کے متعین طریقہ کو دہرا دینا، زکوٰۃ کی مقررہ رقم نکالنا، حج کے مراسم کو ادا کرنا، رمضان کے صوم کا اہتمام کرنا۔ مگر اس کا مطلب شکل برائے شکل نہیں، بلکہ شکل برائے اسپرٹ ہے۔ یعنی ان احکام کی ایک روحانی حقیقت ہے اور ان کی وہی ادائیگی معتبر ہے جس میں اس کی حقیقت پائی جائے۔
یہ ارکان اسی وقت ارکان اسلام ہیں جب کہ ان کو اس طرح اختیار کیا جائے کہ ان کی شکل کے ساتھ ان کی معنوی روح بھی آدمی کے اندر پائی جا رہی ہو۔ روح کو جدا کرنے کے بعد شکل کا موجود ہونا ایسا ہی ہے جیسے اس کا موجود نہ ہونا۔اسلام کا ایک رکن صوم( روزہ) ہے۔صوم کی ظاہری صورت رمضان کے مہینہ کا روزہ ہے، یعنی صبح سے شام تک بھوکا اور پیاسا رہنا، لیکن اس کی معنوی اسپرٹ صبر اور تواضع ہے۔ صبر و تواضع بلاشبہ زندگی کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہی تمام کامیابیوں کا راز ہے۔ حقیقی روزہ صبر اور تواضع کی صفت پیدا کرتا ہے، اور انسان کے اندر اعلی انسانی کردار پیدا کرتا ہے۔
حدیث میں ہے وَہُوَ ‌شَہْرُ ‌الصَّبْرِ (صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر 1887)۔ یعنی رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے۔ ’’صبر کا مہینہ‘‘ کا مطلب ہے — مشقت کا مہینہ۔ رمضان کے مہینے میں آدمی کو اپنے معمولات کو توڑنا پڑتا ہے۔ اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ پیاس کے باوجود پانی نہ پئے، اور بھوک کے باوجود کھانا نہ کھائے، وہ اپنی خواہشات (desires) کو کنٹرول میں رکھے۔ رمضان کو اگر درست طور پر گزارا جائے توپورا کا پورا مہینہ مشقتوں کا مہینہ بن جائے گا۔
سچے روزہ دار کے لیے رمضان کا مہینہ مسلسل صبر کا مہینہ ہے، دن کے اوقات میں بھی اور رات کے اوقات میں بھی۔ جو آدمی پوری اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھے، اس کے اندر یہ عمومی مزاج پیدا ہو جائے گا کہ وہ ناخوش گوار باتوں کو برداشت کرے، وہ لوگوں کی قابل شکایت باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے زندگی گزارے، وہ متواضع انسان، یعنی مین کٹ ٹو سائز (man cut to size) بن جائے گا۔اس کے برعکس، جو لوگ صوم کو محض ان کی شکل کے اعتبار سے اختیار کریں، وہ مخصوص شکل کی حد تک تو اس کو اپنائیں گے۔ مگر اس شکل کے باہر ان کی زندگی اس سے بالکل آزاد اور غیر متعلق ہوگی۔
مثلاً رمضان کا مہینہ آئے گا تو ایسے لوگ کسی سیزنل رسم (seasonal ceremony) کی طرح ایک مہینے کا روزہ رکھ لیں گے۔ مگر وہ صبر کے موقع پر صبر نہیں کریں گے۔ وہ ہر اشتعال دلانے والے موقع پر مشتعل ہو کر ٹکراؤ کا راستہ اختیار کریں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ظاہری طور پر انھوں نے روزہ تو رکھ لیا، مگر ان کے دل و دماغ میں روزہ کی اسپرٹ پیدا نہ ہو سکی۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بار بار منفی تجربات پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں مثبت نفسیات کے ساتھ دنیا میں رہنا صرف اُس انسان کے لیے ممکن ہے جو صبر کے ساتھ دنیا میں رہنے کے لیے تیار ہو۔ روزہ اِسی صبر کی تربیت ہے۔ سچا روزہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ ناخوش گوار واقعات سے غیرمتاثر رہ کر زندگی گزارے، وہ منفی تجربات کے باوجود مثبت سوچ (positive thinking)پر قائم رہے۔ صبر آدمی کو حوصلہ مند بناتا ہے۔ اور روزہ اِسی قسم کی حوصلہ مندانہ زندگی کی تربیت ہے۔
جو آدمی اسلام کے پانچ ارکان کو اختیار کر لے وہ مومن و مسلم ہو گیا۔ وہ اس کا مستحق ہو گیا کہ دنیا میں اس کو اللہ کی رحمت ملے اور آخرت میں اس کو جنت میں داخل کیا جائے۔ مگر اسلام کے پانچ ارکان اپنی شکل اور روح دونوں کے اعتبار سے مطلوب ہیں۔ ان کی ادائیگی پر جن انعامات کا وعدہ ہے اس کا تعلق کامل ادائیگی پر ہے، نہ کہ ادھوری ادائیگی پر۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا مطالعہ

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جدید معیار کے مطابق، وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ اُن کا کمرہ انگریزی کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ گفتگو کے دوران انھوںنے بتایا کہ ان کو مطالعے کا بہت شوق ہے۔ وہ زیادہ تر انگریزی ناولیں پڑھتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ سنجیدہ موضوعات پر لکھی ہوئی کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے سیکڑوں ناولیں اور کتابیں پڑھی ہیں۔ اِس مطالعے کے دوران آپ نے بہت سی بامعنی باتیں پڑھی ہوں گی۔ اِس قسم کی کوئی ایک مثال بتائیے۔ وہ بہت جوش و خروش کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ میں نے ایسی بہت سی باتیں پڑھی ہیں، مگر وہ کوئی ایک بامعنی بات نہ بتا سکے۔ میں نے کئی مثالیں دے کر بتایا کہ بامعنی بات سے میری مراد کیا ہے، مگر اصرار کے باوجود وہ ایسی کوئی ایک بات بھی نہ بتا سکے۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ لوگ کتابوں کو تفریح (entertainment) کے لیے پڑھتے ہیں۔ وہ کتابوں کو اِس لیے نہیں پڑھتے کہ اس سے حکمت (wisdom) اور نصیحت کی چیزیں دریافت کریں اور مطالعے کو اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بنائیں۔ اور جب مطالعے کا مقصد تفریح ہو، تو وہ حکمت کے حصول کا ذریعہ کیسے بن جائے گا۔یہی معاملہ قرآن کا ہے۔ موجودہ دور کے مسلمان قرآن کوصرف برکت اور فضیلت کےلیے پڑھتے ہیں۔ اس لیےانھیں قرآن سے حکمت اور نصیحت کا کوئی آئٹم حاصل نہیں ہوپاتا ہے۔
قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں احکام کی آیتیں بہت کم ملیں گی۔ بعض علما کے مطابق، قرآن کی کل آیات 6236 میں سے احکام کی آیتیںصرف200 ہیں۔ اس کے مقابلے میں ان آیتوں کی تعداد زیادہ ہے جن میں حکمت یا نصیحت کی باتیں ہیں۔کیوں کہ قرآن کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے اندر تفکر اور تدبر کی صلاحیت کو زندہ کیا جائےتاکہ وہ اپنے آپ کو ایک ارتقا یافتہ شخصیت کی صورت میں تعمیر کرے۔ وہ ہر تجربہ کو اپنے ایمان کی غذا بنالے، وہ ہر کرائسس کو مینیج(manage)کرکے اس کو بے اثر کردے، وہ ہر منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کرلے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن فہمی کی کلید

قرآن فہمی کی کلید (key)کیا ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ آپ اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق اس کا جواب تلاش کریں۔جیسے امریکا کے سابق کمیونسٹ ہاورڈ فاسٹ (Howard Fast)نے کہا تھا کہ میں خود اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق کمیونسٹ بنا۔ مگر اس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ خود قرآن سے اس کا جواب معلوم کیا جائے۔ اس اعتبار سے اگر قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو قرآن میں اس کا جواب متعین طور پر صرف ایک ملے گا، اور وہ ہے تقویٰ۔ یعنی قرآن کے مطابق، تقویٰ فہم قرآن کی کلید ہے۔
اس سلسلے میں قرآن کی تین آیتیں یہ ہیں ذَلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیہِ ہُدًى لِلْمُتَّقِینَ (2:2)۔ یعنی یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ اس میںہدایت ہےاہل تقویٰ کے لیے۔ دوسری آیت یہ ہے وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ (2:282)۔ یعنی اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو علم دے گا۔ایک اور آیت یہ ہے إِنْ تَتَّقُوا اللَّہَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقَانًا (8:29)۔ یعنی اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تم کو فرقان عطا کرے گا۔
قرآن کی ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے معانی کا ادراک کرنے کے لیے سب سے زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر تقویٰ کی صفت پائی جاتی ہو۔تقویٰ کا مادہ وقَی یَقِیِ ہے۔راغب اصفہانی نے اس کا لغوی مطلب اس طرح لکھا ہےجعل النّفس فی وِقَایَةٍ مما یخاف (المفردات ، راغب الاصفہانی،صفحہ 881) ۔یعنی آدمی جس چیز سے ڈرے،اس سے اپنابچاؤ کرنا۔
تقویٰ آدمی کو محتاط (cautious) انسان بناتا ہے۔ جو آدمی محتاط ذہن رکھتا ہو، وہ کسی معاملے میں غیر ذمہ دارانہ رائے قائم نہیں کرسکتا، وہ رائے بنانے سے پہلے سنجیدگی کے ساتھ غور کرے گا۔ اس کی یہ محتاط روش اس کو بھٹکنے سے بچالے گی۔ اس کی روش اس بات کی ضامن بن جائے گی کہ وہ غیرذمہ دارانہ رائے قائم کرنے سے بچے۔ وہ جو رائے بھی قائم کرے، ہر پہلو پر بے لاگ انداز میں غور کرکے قائم کرے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا آسان ہونا

قرآن کے اسلوب کے بارے میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ (54:17)۔یعنی اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے، تو کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وضوح (clarity) کی زبان میں ہے، قرآن باعتبار اسلوب ایسی زبان میں نہیں ہے، جس کا مفہوم سمجھنا انسان کے لیے مشکل ہو۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن میں اللہ رب العالمین کے بارے میں یہ آیت آئی ہے قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ (112:1) ۔ یعنی کہو ، اللہ ایک ہے۔ یہ وضوح کی ایک مثال ہے۔ یہ آیت کوئی شخص سنے تو وہ فوراً اس کا مطلب سمجھ لے گا۔
اس کے برعکس، اگرخدا کے بارے میںقرآن کی تعلیم تثلیث (trinity) کے تصور پر مبنی ہو تو سننے والے کو اس کا مطلب فوراً سمجھ میں نہیں آئے گا۔ مثلاً قرآن میں خدا کا تصور بتاتے ہوئے یہ کہا جائے کہ خدا کا تصورالتثلیث فی التوحید، والتوحید فی التثلیث پرمبنی ہے— جس کو انگریزی زبان میں تھری اِن ون، اینڈ ون اِن تھری (three in one, and one in three)کہا جاتا ہے — تو اس کو سمجھنے کے لیے قرآن کے قاری کو ایک مدت تک غور کرنا پڑے گا۔
اسی طرح عباسی دور میں مسلمانوں کے درمیان میں جو علم کلام پیدا ہوا، وہ پورا کا پورا ایسی زبان میں ہے، جس کے اندر کوئی وضوح (clarity) نہیں۔ مثلاً اللہ کے تعلق سے علم کلام کا ایک جملہ یہ ہےالقَوْل بِوُجُوب وجود مَوْجُود وجودہ لَہُ لذاتہ غیر مفتقر إِلَى مَا یسند وجودہ إِلَیْہِ (غایة المرام فی علم الکلام للآمدی، صفحہ 1)۔ یعنی اس کے وجود کے موجود ہونے کے وجود کا وجوب اس کی ذات ہے،کسی کی احتیاج کے بغیر، جس کی طرف اس کے وجود کا انحصار ہو۔
حقیقت یہ ہےکہ قرآن کا متن جب تیسیر (وضوح)کی زبان میں ہے، تو آپ کو اس کی تفسیر بھی تیسیر (وضوح) کی زبان میں کرنا چاہیے۔ یہ بات صحیح نہ ہوگی کہ اصل کلام تو تیسیر کی زبان میں ہو، اور اس کی تفسیر عدم وضوح کی زبان میں لکھی جائے۔وضوح (clarity) کی زبان سے مراد فطری اسلوب ہے، یعنی غیر پیچیدہ اسلوب یا مغلق اسلوب (complex style)۔
واپس اوپر جائیں

اسٹریس مینجمنٹ

Stress Management
زندگی میں بار بار مسائل اورمصائب آتے ہیں۔ ایساہر مرد اور عورت کے ساتھ پیش آتا ہے ۔ اس سے کس طرح کامیابی کے ساتھ نپٹاجائے ۔ اس کاجواب قرآن کی سورہ البقرہ میں ملتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ۔ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ (2:155-156)۔ یعنی،اور ہم ضرورتم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوںکی کمی سے ۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دوجن کاحال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں— ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
مسائل اور مصائب کے وقت کوئی شخص ذہنی تنائو کاشکار کیوںہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اس کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جس کو نہ ہونا چاہیے تھا۔ آدمی اگر یہ سمجھ لے کہ جو کچھ پیش آیاہے وہ خودفطرت کے قانون کے تحت پیش آیاہے تو وہ کبھی ذہنی تنائو کاشکارنہ ہو۔ مثلاً اگر آندھی اور بارش آئے تو وہ بھی انسان کے لیے مسئلہ پیدا کرتی ہے۔مگر آندھی اور بارش کے وقت آدمی ذہنی تنائو کا شکارنہیں ہوتا ۔ وہ اس کوفطرت کے قانون کے تحت ہونے والا ایک واقعہ سمجھتا ہے اورمعتدل انداز میں اس کا سامنا کرتاہے۔
یہی معاملہ زندگی کے مسائل اور مصائب کا بھی ہے۔ یہ چیزیں خالق کے تخلیقی منصوبہ کے تحت پیش آتی ہیں۔ وہ انسان کے لیے زحمت میں رحمت(blessing in disguise) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آدمی اگر پیش آنے والے مصائب کواس حیثیت سے لے تو وہ کبھی ذہنی تنائو کا شکار نہ ہو۔
مصائب یا مسائل کاسامنا کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ،صبر کا طریقہ، اور دوسرا بے صبری کا طریقہ ۔ بے صبری کا طریقہ، دوسرے لفظوںمیں، منفی ردعمل(negative reaction) کا طریقہ ہے ۔ اس کے برعکس، صبرکا طریقہ مثبت ردعمل(positive response) کا طریقہ ہے۔ ذہنی تنائو ہمیشہ بے صبری کانتیجہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں صبرکا طریقہ آدمی کوذہنی تنائو کا شکار ہونے سے بچالیتا ہے۔
اس دنیا میں ہر آدمی قانونِ خداوندی، بالفاظ دیگر قانونِ فطرت کے تابع ہے۔ وہ اپنے آغاز میں بھی اسی قانون کے ماتحت ہے اور اپنے آخر میں بھی اسی قانون کے ماتحت ۔ ایسی حالت میں حقیقت پسندی کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی مرد یا عورت جب بھی کسی مسئلہ سے دو چار ہو تو وہ معتدل انداز میں اس کا سامنا کرے۔ وہ اس کو اپنے حق میں خیر سمجھ کر اس کوقبول کرے۔
اس آیت میں مصیبتوںکامقصد ابتلاء(وَلَنَبْلُوَنَّکُم)بتایا گیا ہے ۔ ابتلا ء کے معنی امتحان یا آزمائش ہے۔ انسانی زندگی میں اس قسم کے امتحان کامقصد یہ ہے کہ اس کو حوادث کے درمیان تربیت دے کر زیادہ بہتر انسان بنایا جائے۔ حوادث کسی آدمی کے لیے ترقی کازینہ ہیں۔ حوادث کے ذریعہ آدمی کاذہن بیدار ہوتا ہے ۔ حوادث کے ذریعہ آدمی کے اندر پختگی (maturity)آتی ہے ۔ حوادث آدمی کو متحرک کرنے کا ذریعہ ہیں۔ حوادث آدمی کے لیے زندگی کے سفر میں مہمیز کا کام کرتے ہیں۔ حوادث کے بغیر آدمی نامکمل ہے۔ یہ حوادث ہی ہیں جوآدمی کی شخصیت کومکمل شخصیت بناتے ہیں۔
اس سےمعلوم ہواکہ حوادث کاصحیح مقابلہ یہ نہیں ہے کہ اپنے ذہنی عمل کودبانے (suppress)کی کوشش کی جائے۔ بہت سے لوگ یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ سگریٹ یاشراب کے ذریعہ اس کو بھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مخصوص ورزشوںکے ذریعہ اپنے اندرذہنی عمل کو معطل کردینا چاہتے ہیں۔ وہ حقیقی زندگی سے فرار (escape)کا کوئی طریقہ تلاش کرتے ہیں۔ وہ میڈیٹیشن(meditation) کے ذریعہ اپنے ذہن کو ایک ایسی حالت میں لے جاتے ہیں جس کو ذہنی تخدیر(intellectual anaesthesia) کہا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے تمام طریقے فطرت کے خلاف ہیں اورجو چیز فطرت کے خلاف ہووہ کبھی انسان کے لیے مفید نہیں ہو سکتی۔حقیقت یہ ہے کہ ذہنی پریشانی کا حل ذہنی عمل کودبانا نہیںہے بلکہ اس کو مینج (manage) کرنا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اکثریت پر اقلیت کاغلبہ

قرآن کی سورہ البقرہ میں ایک قدیم واقعہ کاذکر ہے ۔ اس کے تحت فطرت کے ایک ابدی قانون کوبتایا گیا ہے، ایک ایسا قانون جو کبھی بدلنے والانہیں۔ا س سلسلہ میں قرآن کی مذکورہ آیت کا ایک حصہ یہ ہے کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیرَةً بِإِذْنِ اللَّہِ وَاللَّہُ مَعَ الصَّابِرِینَ (2:249)۔ یعنی، کتنے ہی چھوٹے گروہ اللہ کے حکم سے بڑے گروہ پر غالب آئے ہیں۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
قرآن کی اس آیت میں چھوٹے گروہ اور بڑے گروہ کے درمیان پیش آنے والے جس واقعہ کو بتایا گیا ہے وہ کوئی پراسرار بات نہیں، وہ مکمل طور پر ایک فطری واقعہ ہے جو معلوم قانون کے تحت پیش آتا ہے ۔مزید یہ کہ اس کا تعلق ہر گروہ سے ہے، خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ۔ خواہ وہ ایک ملک کا رہنے والا ہو یا کسی دوسرے ملک کارہنے والا۔ خواہ وہ ایک زمانہ میں رہنے والا ہو یا کسی دوسرے زمانہ میں رہنے والا ۔
اصل یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر پیدائشی طورپر اتھاہ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ مگر ابتدائی طور پر یہ صلاحیت سوئی ہوئی ہوتی ہے۔ جو چیز اس صلاحیت کو جگاتی ہے وہ صرف ایک ہے ، اور وہ چیلنج کی حالت ہے، یعنی ایک دوسرے سے مسابقت (competition) کا چیلنج۔ اسی حالت کوقرآن میں عداوت(البقرۃ، 2:30؛الا عراف،7:24) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چیلنج( یا عداوت) کے حالات آدمی کے اندر سوئی ہو ئی صلاحیتوںکوجگا تے ہیں۔ اور جن لوگوں کو چیلنج والے حالات پیش نہ آئیں ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بیدارنہیں ہوتیں۔ وہ ایک کمترانسان کی مانند جیتے ہیں اور کمتر انسان کی مانند مرجاتے ہیں۔
چھوٹے گروہ اور بڑے گروہ کے درمیان فرق اسی فطری قانون کی بناپرپیش آتا ہے۔ کسی سماج میں جب ایک گروہ کم تعداد میں ہو اور دوسراگروہ زیادہ تعداد میں تو اس فرق کی بناپر دونوں کو الگ الگ حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔ ایک کو صبر کی مشقت سے گذرنا پڑتا ہے اوردوسراصبر کی مشقت سے بچارہتاہے۔ چھوٹا گروہ مسلسل طور پر بڑے گروہ کے مقابلہ میں چیلنج کی حالت میں رہتا ہے۔ اس دبائو کی بناپر چھوٹے گروہ کے لوگوں کی صلاحیتیں مسلسل بیدار ہوتی رہتی ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں دوسراگروہ اپنی برترپوزیشن کی بنا پر چیلنج یادبائو کی صورت حال سے بچاہوا ہوتا ہے ۔ اس لیے اس کی صلاحیتیں زیادہ بیدارنہیں ہوتیں۔
اس فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹے یا کمزور گروہ کی تخلیقیت(creativity) بڑھتی رہتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسراگروہ مسلسل طور پر غیر تخلیقیت(uncreativity) کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ عمل خاموشی کے ساتھ اور مسلسل طورپرجاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے، جب کہ ایک گروہ پورے معنوں میں تخلیقی گروہ(creative group) بن جاتا ہے، اور دوسراگروہ پورے معنوں میں غیر تخلیقی گروہ (uncreative group) کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔
قرآن کی یہ آیت ایک فطری حقیقت کو بتاتی ہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ فئۃ قلیلۃ (غیر محفوظ گروہ) مسلسل اپنی اہلیت کو بڑھا تا رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ تعداد کی قلت کے باوجود اپنی برترصفات کی بنا پر عملاً غالب حیثیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس کے برعکس، فئۃ کثیرۃ( محفوظ گروہ) مسلسل طور پر انحطاط کا شکار ہوتا رہتاہے۔ وہ باہمی اتحاد، گہر ی سوچ اور دور رس عمل جیسی صلاحیتیوں سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ آخر کار اپنی ہی دنیا میں عملا ًمغلوب ہو کررہ جاتاہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
روزہ اس بات کا سبق ہے کہ کبھی ایک جائز چیز بھی ناجائز ہو جاتی ہے اور ایک مطلوب چیز بھی غیر مطلوب بن جاتی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلام یہ ہے کہ انسان خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے رک جائے۔روزہ ہر سال یہی سبق دینے کے لیے فرض کیا گیا ہے۔

واپس اوپر جائیں

برائی اور بھلائی

قرآن میں زندگی کا ایک قانون بتایا گیا ہے ۔ اس قانون کا تعلق ہر فرد سے ہے، مرد سے بھی اور عورت سے بھی ۔ عام انسان سے بھی اور خاص انسان سے بھی ۔ا س سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہےإِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذَلِکَ ذِکْرَى لِلذَّاکِرِینَ ( 11:114) یعنی، بے شک نیکیاں دور کرتی ہیں برائیوں کو۔ یہ یاددہانی ہے یاددہانی حاصل کرنے والوں کے لیے۔
انسان پتھرنہیں ہے ۔ انسان سے مختلف قسم کی غلطیاں پیش آتی ہیں۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک مرد یا ایک عورت سے ایک واقعہ سرزد ہوگیا۔ بعد کو انہیں احساس ہوا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس غلطی کی تلافی کس طرح کی جائے ۔ قرآن کی مذکورہ آیت میں غلطی کی تلافی کے اسی اصول کو بتایا گیا ہے۔
آدمی جب کوئی غلطی کرتاہے تو اس کا سب سے پہلا اثریہ ہوتا ہے کہ اس کے دل کے اندر اچھے اور برے کے بارے میں حسّاسیت(sensitivity) کم ہوجاتی ہے ۔ اور اگر آدمی بار بار وہی برائی کرتا رہے تو اس کی حساسیت پوری طرح ختم ہوجائے گی ۔ جب کہ یہی حساسیت برائی کے خلاف سب سے بڑا چِک (check)ہے۔ ایسی حالت میں حساسیت کاختم ہونا انسان کا گویا حیوان بن جانا ہے۔ اس مسئلہ کاحل صرف یہ ہے کہ آدمی برائی کرنے کے بعد بھلائی کرے۔ وہ اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کرے۔ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ وہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کرے گا۔ جو آدمی ایسا کرے وہ اپنے د ل کو دوبارہ پاک کرلے گا۔ اس کے دل کی حساسیت دوبارہ اس کی طرف لوٹ آئے گی۔
برائی کا دوسرااثر وہ ہے جس کا تعلق سماج سے ہے۔ سماج کے ایک فرد کا برائی کرنا ایسا ہی ہے جیسے پر سکون پانی میں پتھر پھینکنا ۔ چنانچہ ایک فرد کا برائی کرنا پورے سماج کومتاثر کرنے کا سبب بن جاتا ہے ۔ا یسی حالت میں اپنی برائی کی تلافی کرنا گویا پورے سماج کو بگاڑ سے بچانا ہے۔ یہ فرد کے اوپر ایک سماجی فرض ہے کہ وہ اپنی برائی کے انجام سے سماج کو بچائے۔
واپس اوپر جائیں

یقین واعتماد

قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام مکہ میں 570 عیسوی میں پیداہوئے۔ 610 عیسوی میں آپ نے مکہ میں توحید کا مشن شروع کیا۔وہاں ان کی سخت مخالفت ہوئی ۔ چنانچہ 622 عیسوی میں وہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ کیوں کہ مکہ کی قبائلی پارلیمنٹ ، دار الندوہ میں آپ کے قتل کا فیصلہ کیا جاچکا تھا۔یہ ایک بے حد خطرناک سفر تھا۔ دو ہفتہ کے اس سفر کے دوران ایک بار وہ ایک غار (ثور) میں چھپے ہوئے تھے ۔ آپ کے مخالفین جو آپ کی تلاش میں نکلے تھے ، وہ تلوار لیے ہوئے غار کے منھ تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ کے واحد ساتھی ابوبکر صدیق تھے۔انہوں نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ اے خدا کے رسول، وہ تو یہاں بھی پہنچ گئے۔ اس کے جواب میں پیغمبر اسلام نے جو کہا، اس کوقرآن میں ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّہَ مَعَنَا (9:40)۔ یعنی، غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
موجودہ زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی ایسی صورت حال میں مبتلا ہو جاتا ہے جہاں وہ اپنے آپ کو بے یارومدد گار سمجھنے لگتا ہے ۔ اس حالت میں اس کو ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ایسی ذات ہو جس پر وہ یقین کر سکے۔ جو اس کے عجز کی تلافی بن جائے۔
خدا تمام طاقتوں کاسرچشمہ ہے۔ خدا کی ذات پر یقین آدمی کو اتھا ہ سہارادیتا ہے۔ خدا پر یقین آدمی کو ایک ایسی ہمت دیتا ہے جو کبھی نہ ٹوٹے ۔ خدا کا عقیدہ کسی آدمی کے لیے حوصلہ کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔ جس آدمی کو خدا کی ذات پر پورایقین ہوجائے وہ کسی بھی حال میں بے حوصلہ نہیں ہوگا۔ وہ کسی بھی حال میں اس احساس سے دو چارنہیں ہوگا کہ اس کا راستہ بند ہے۔ وہ ہر حال میں آگے بڑھتا چلاجائے گا۔ زندگی کی آخری منزل تک پہنچنے میں کوئی بھی چیز اس کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گی— خدا کا عقیدہ انسان کی اندرونی صلاحیتوں کو جگا دیتا ہے۔ وہ انسان کے اندر ایک نیا عزم پیدا کر دیتا ہے۔ وہ اس کی داخلی قوتوں کو متحرک کر کے ایک بے حوصلہ انسان کو باحوصلہ انسان بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سبق لینے والے

سورہ الحجر میں بعض تاریخی واقعات کاذکر کیا گیا ہے۔ یہ واقعات قوموں کے عروج وزوال کی داستان کو بتاتے ہیں۔ ان تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن میں کہا گیا ہے إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِینَ(15:75)۔ یعنی، بے شک اس میں نشانیاں ہیں متوسمین کے لیے۔
عربی زبان میں وسم کے معنی علامت کے ہوتے ہیں ۔ تو سم کے معنی ہیں ، کسی چیز کی حقیقت کواس کی علامت اور قرینہ (clue)سے معلوم کرنا، اپنی عقل و فراست سے اصل بات کو جان لینا۔ مثلاً آپ کسی کو دیکھ کرکہیںتَوَسَّمْتُ فِیہِ الْخَیْرَ یا تَوَسَّمْتُ فِیہِ الشَّرّ۔یعنی اس کی ظاہری حالت کو دیکھ کر میں نے اندازہ کیا کہ اس کے اندر خیر کا مادہ ہے یا یہ کہ اس کے اندر شرکا مادہ ہے۔ جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو اس کو متوسِّم کہاجاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ کائنات میں جو چیزیں ہیں، ان سب کی تخلیق اس طرح کی گئی ہے کہ ہر چیز انسان کے لیے عملاً ایک سبق بن گئی ہے۔ تمام چیزیں روحانی حقیقتوں (spiritual realities) کی مادی تمثیلات (material illustrations) ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان سے نصیحت لے۔
یہی وہ صلاحیت ہے جو کسی آدمی کو صاحب بصیرت بناتی ہے۔جن لوگوں کے اندر یہ نصیحت لینے کی صلاحیت ہو وہ ہر مشاہدہ اور ہر تجربہ سے سبق لیتے رہیں گے۔ وہ سطور میں بین السطور کو پڑھیں گے ۔ وہ ظاہری واقعات میں اس کے معنوی پہلوئوں کو دریافت کریں گے ۔ وہ کسی چیز کو صرف اس کے ظاہر (face-value) پر نہ لیں گے ۔بلکہ وہ اس کی گہرائی تک اتر کر اس کی اصل حقیقت کو معلوم کریں گے۔
یہ صلاحیت آدمی کو اس قابل بنا تی ہے کہ وہ محرومی کے واقعہ کو تجربہ میں ڈھال لے۔ وہ معلومات کو سبق بنا سکے ۔وہ حال میں مستقبل کو دیکھ لے۔ یہی وہ صلاحیت ہے جو کسی آدمی کو مفکر (thinker) بناتی ہے۔ یہی وہ صلاحیت ہے جو کسی آدمی کومدبرکادرجہ عطا کر تی ہے۔ اس صلاحیت کے بغیر ایک آدمی صرف عالم ہے ، مگر اس صلاحیت کے ساتھ وہ ایک تخلیقی عالم بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سازش بے اثر

سورہ آل عمران میں بتا یاگیا ہے کہ سازش کا سب سے زیادہ موثر توڑ کیا ہے۔ وہ ہے — صبر اور تقویٰ۔ صبر اور تقویٰ بظاہر کوئی مادی طاقت نہیں ، مگر صبر وتقویٰ کے ذریعہ سازش کا کامیاب دفاع کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہےوَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا إِنَّ اللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطٌ (3:120)۔ یعنی، اگر تم صبر کرو اور خدا کا تقویٰ اختیار کرو تو ان کی کوئی تدبیر تم کو نقصان نہ پہنچائے گی ۔ جو کچھ وہ کررہے ہیں خدا اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
قرآن کی اس آیت میں فطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے ۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں اصل مسئلہ سازش کی موجود گی نہیںہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سازش کے فطری توڑ کے لیے صبر اور تقویٰ موجود نہ ہو۔ موجودہ دنیا کو چیلنج اورمسابقت کے اصول پربنایا گیا ہے ۔ اس لیے یہاں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق سے آگے بڑھنے کے لیے سازش کرتاہے۔ لیکن اگر زیرِ سازش فریق کے اندر صبر اور تقویٰ کی صفت موجود ہو تو وہ اس کے لیے حفاظت کی گارنٹی بن جائے گا۔
صبر کامطلب یہ ہے کہ جو کارروائی کی جائے وہ ردعمل کے تحت نہ کی جائے بلکہ مثبت غور وفکر کے بعد ٹھنڈے ذہن کے تحت کی جائے۔تقویٰ یعنی گاڈ کانشس نس (God consciousness)اس بات کی ضمانت ہے کہ آدمی کسی بھی حال میں جسٹس سے نہ ہٹے، وہ جو کارروائی کرے وہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر کرے۔ وہ خدا کے احکام کاپابند ہو ، نہ کہ خود اپنی خواہشات وترغیبات کاپابند۔
سازش یا تشدد کے مقابلہ میں اگر جوابی سازش اورتشدد کاطریقہ اختیار کیاجائے تو اس سے فریقین کے درمیان ضد بڑھتی ہے۔ نفرت اور انتقام کی نفسیات جاگتی ہے۔ ایک دوسرے کے درمیان وہ منفی جذبہ پیداہوتا ہے جس کوعام طور پر’’ سبق سکھانا‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں اصل مسئلہ مزید بڑھتا ہے ۔ انتقام درانتقام کے نتیجہ میں وہ ایک ایسی برائی کی صورت اختیار کرلیتا ہے جوکبھی ختم ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

حالات یکساں نہیں رہتے

سورہ آل عمران میں ایک صورت حال پر تبصرہ ہے۔پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کو بدر کے مقابلہ میں اپنے مخالفین پرفتح حاصل ہوئی تھی ۔ اس کے بعد احد میں انہیں اپنے مخالفین سے شکست ہو گئی ۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہےإِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُہُ وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ (3:140)۔ یعنی، اگر تم کوکوئی زخم پہنچاہے تو دشمن کو بھی ویسا ہی زخم پہنچ چکا ہے۔ اور ہم ان ایا م کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں۔
قرآن کی اس آیت میں قو موں کے بارے میںایک تاریخی قانون کو بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ کہ اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی قوم ہمیشہ غالب رہے یا ہمیشہ فتح حاصل کرتی رہے ۔ اس بنا پر حالات ہمیشہ کسی ایک قوم کے موافق نہیں ہوتے ۔ حالات کافیصلہ کبھی ایک گروہ کے حق میں ہوتا ہے اور کبھی دوسرے گروہ کے حق میں ۔ ایسی حالت میں لوگوں کو چاہیے کہ وہ تاریخ کے فیصلہ کو قبول کریں۔ وہ شکایت اور احتجاج کے بجائے ازسر نواپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا کو مسابقت کے اصول پر بنا یا گیا ہے ۔ اس دنیا میں ہمیشہ ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان مقابلہ جاری رہتا ہے۔ اس مقابلہ میں کبھی ایک گروہ کو جیت حاصل ہوتی ہے اور کبھی دوسرے گروہ کو۔ مقابلہ آرائی کایہ ماحول قوموں کو مسلسل طور پر بیداررکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے ترقی کاعمل برابر جاری رہتا ہے۔
ایسی حالت میں حقیقت پسندی یہ ہے کہ ہارنے والے اور جیتنے والے دونوں اپنی ہار اور جیت کو وقتی سمجھیں ۔ نہ ہارنے والا پست ہمت ہو اور نہ جیتنے والا فخر وناز کی نفسیات میں مبتلا ہو جائے۔ اس معاملہ میں معتدل رویہ پرقائم رہنا گو یا قدرت کے فیصلہ کو تسلیم کرنا ہے۔ اس کے برعکس، معتدل رویہ سے ہٹنا گو یا قدرت کے فیصلہ پرراضی نہ ہونا ہے۔ مگر جو لوگ اس معاملہ میں قدرت کے فیصلہ پرراضی نہ ہوں وہ خود اپنا ہی نقصان کریں گے ، نہ کہ کسی اور کا۔
یہ معاملہ پوری طرح فطرت کے قانون کامعاملہ ہے۔ وہ کسی کے لیے اور کسی کی وجہ سے بدلنے والانہیں۔ ایسی حالت میں کوئی فریق اگر اس کو قبول نہ کرے تو اس کا یہ عدم قبول ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے مجھے پھول کے ساتھ کانٹا مطلوب نہیں یا کوئی شخص اس بات پر احتجاجی مہم چلائے کہ دنیا کے نظام کو اس طرح بدل جانا چاہیے کہ یہاں صرف میرے لیے موافق موسم ہو، اور جو موسم میرے خلاف ہو وہ کبھی زمین پر نہ آئے۔
عالمی نظام کے بارے میں اس قسم کی شکایت واحتجاج جتنی بے معنی ہے اتنا ہی بے معنی وہ شکایت واحتجاج بھی ہے جو سیاسی تبدیلی یاقوموں کے عروج وزوال پر کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

رمضان کا روزہ

رمضان کا روزہ اس کے لیے روزہ ہے جو اس سے پہلے ’’روزہ‘‘ کی حقیقت سے آشنا رہا ہو، اور اس کے بعد بھی روزے کی اسپرٹ اس کے اوپر طاری رہے۔ باقی جو لوگ روزہ کو صرف بھوک پیاس سمجھتے ہیں ان کا روزہ بھی بس تیس دن کی بھوک پیاس ہے ، اس سے زیادہ ان کے روزے کی کوئی حقیقت نہیں۔روزہ دار سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ناجائز چیزوں سے ہمیشہ کے لیے روزہ رکھ لے۔ رمضان اسی قسم کی روزہ دارانہ زندگی کی ایک خصوصی تیاری ہے۔
اہل ایمان کو اس دنیا میں طرح طرح کے ’’روزوں ‘‘کا سامنا کرنا ہے۔ کہیں خواہشات پر کنٹرول کی ضرورت ہے ، کہیں ضروریات کو محدود کرنے کا سوال ہے، کہیں آرزوؤں کو قربان کرنے کا مسئلہ ہے ۔ غرض اس دنیا کی امتحان گاہ سے صحیح سلامت گزرنے کے لیے بہت سی چیزوں کو چھوڑنا ہے ۔ ایک مہینہ کا روزہ اسی بات کی تربیت ہے کہ انسان سال بھر ممنوعات سے کیسے ’’روزہ‘‘ رکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ روزہ کا مطلب اللہ کے لیے خواہشوں پر روک لگانا ہے۔ خواہ روک لگانے کی فہرست کھانے پینے جیسی چیزوں تک پہنچ جائے۔
واپس اوپر جائیں

کائنات معرفت کاخزانہ

قرآن میں سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیا گیا ہے، وہ تدبر اور تفکر ہے۔ قرآن کے مطابق، ہماری گر دوپیش کی دنیا حقائق کاخزانہ ہے۔ اس میں غور وفکر کے ذریعہ آدمی زندگی کی حقیقتوں کو دریافت کر سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی کچھ آیتیں یہ ہیںإِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ ۔ الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (3:190-191)۔ یعنی، آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوںکے لیے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں ااور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بے مقصدنہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کوآگ کے عذاب سے بچا۔
قرآن کی ان آیتوں میں جوبات کہی گئی ہے اس کو سائنس آف ٹروتھ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کے سائنسی مطالعہ کامقصد صرف ٹیکنکل ترقی نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر اس کا ایک اور مقصد ہے، اور وہ ہے خالق کی تخلیقات میں خالق کو دریافت کرنا۔ تخلیقات کا گہرا مطالعہ کرکے زندگی کے راز کو معلوم کرنا۔ مادی کائنات کی تحقیق کرکے یہ جاننا کہ اس کے نقشہ کے مطابق، انسانی ترقی کاقانون کیا ہے۔
قرآن ( الملک، 67:3) بتاتا ہے کہ کائنات میں کوئی خلل (flaw)نہیں ۔ اس طرح کائنات کامطالعہ انسان کے لیے اس میں مدد گار ہے کہ وہ اپنی زندگی کی تعمیر وتشکیل بھی کامیابی کے ساتھ انجام دے سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لیے اپنی زندگی میں جو نقشہ مطلوب ہے وہ وہی ہے جو بقیہ کائنات میں بالفعل قائم ہے۔ چنانچہ آدمی جب کائنات کامطالعہ کرتا ہے تو وہ اس میں ایک طرف خالق کی تجلیات کو پالیتا ہے اور دوسری طرف اس کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کو اپنی زندگی کی کامیاب تعمیر کن خطوط پر کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

خواہش کے خلاف

سورہ النساء میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ شوہر اور بیوی میں اگر اختلاف ہوجائے اور وہ ایک دوسرے کو ناپسند کرنے لگیں تو دونوں کوٹکرائوکے بجائے موافقت کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں کہا گیا ہے فَإِنْ کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَى أَنْ تَکْرَہُوا شَیْئًا وَیَجْعَلَ اللَّہُ فِیہِ خَیْرًا کَثِیرًا (4:19)۔ یعنی، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تم کو پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں تمہارے لیے بہت بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔
میاں اور بیوی کے تعلقات میں جب بھی اختلاف پیدا ہو تا ہے تو اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ہر ایک دوسرے کے ناپسند یدہ پہلو کو مبالغہ آمیز انداز میں دیکھنے لگتا ہے ۔ حالانکہ اسی وقت اس کے اندر کسی اور اعتبار سے پسند یدہ پہلو موجود ہوتا ہے۔مگر غصہ کی وجہ سے دونوں پسندیدہ پہلو کو دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی آدمی صرف برانہیں ہوتا۔ ہر آدمی کی زندگی کاکوئی مثبت پہلو ہو تا ہے اور کوئی منفی پہلو۔ اگر منفی پہلو کو نظرانداز کرکے معاملہ کیا جائے تو اس کے زبردست فائدے دونوں فریق کو حاصل ہوں گے۔
از دواجی زندگی میں جب ایک مرداور عورت دونوں اپنے آپ کو شامل کرتے ہیں تو یہ دونوں کے لیے سب سے زیادہ قریبی تعلق کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس قسم کا قریبی تعلق بے حد مفید ہے۔مگر اسی کے ساتھ اس قسم کے قریبی تعلق میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان فرق کی بنا پر اختلافات پیدا ہو جائیں اور پھر کسی ایک فرق کی بنا پر دونوں ایک دوسرے کو مطلوب سے کم سمجھنے لگیں۔مگر یہ سرتا سر نادانی ہے۔ عقلمندی یہ ہے کہ قریبی تعلق کے تعمیری پہلوئوں کو دھیان میں رکھا جائے اور ان سے بھرپور طور پر فائدہ اٹھایاجائے۔ جہاں تک ناپسند یدہ پہلوئوں کی بات ہے تو اس معاملہ میں حقیقت پسندانہ طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس کو نظرانداز کر دینا چاہیے ،یہی مرد کو بھی کرنا ہے اور یہی عورت کو بھی— کسی خاندان یا معاشرہ کی ترقی و استحکام کا راز یہ ہے کہ اس کے افراد ایک دوسرے کی کمیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی خوبیوں کو بروئے کار آنے کا موقع دیں۔
واپس اوپر جائیں

دوررس کلام

قرآن کی سورہ النساء میںکامیاب کلام کاذکر کیا گیا ہے۔ پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جولوگ بظاہر انکار کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں ان کو کس طرح اقرار کی روش پر لایا جائے۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہےفَأَعْرِضْ عَنْہُمْ وَعِظْہُمْ وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63)۔ یعنی، پس تم ان سے اعراض کرو اور ان کو نصیحت کرو اور ان سے ایسی بات کہوجو ان کے دلوں تک پہنچنے والی ہو۔
قول بلیغ سے مراد وہ کلام ہے، جو آدمی کے ذہن کو ایڈریس (address) کرنے والا ہو۔ جوآدمی کو نئی سوچ میں ڈال دے۔اس کلام سے انسان کو ٹیک اوے (takeaway)ملے۔ اس سےانسان کی غفلت ٹوٹے۔ اس کے اندر نیا تفکیری عمل (thinking process) جاری ہوجائے۔ وہ چیزوں پر ازسر نو غور کرنے لگے۔اس کے اندر محاسبہ خویش کا مزاج پیدا ہوجائے۔ اس کا رائے قائم کرنے کا طریقہ بدل جائے، وہ ایک سنسیر (sincere)انسان بن جائے۔
جب کوئی شخص کسی بات کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو اس کا یہ انکار سادہ طور پر محض انکار نہیں ہوتا، بلکہ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ذہنی کنڈیشننگ کی بنا پر وہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ لمبی مدت تک ایک خاص فکری ماحول میں رہنے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ وہ چیزوں کو ایک خاص زاویہ سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس لیے وہ چیزوں کو کسی اور زاویہ سے دیکھ نہیں پاتا۔ اکثر حالات میں کسی انسان کاانکار اس کی فکری مجبوری کی بنا پر ہوتا ہے ، نہ کہ دانستہ سرکشی کی بنا پر۔
ایسی حالت میں ضرورت ہوتی ہے کہ صبر آزما کوشش کے ذریعہ اس کے اندرنئی سوچ لائی جائے۔ اس کے ذہن کے اوپر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹادیا جائے۔ مصلح کاکام یہ ہے کہ وہ لوگوں کی منفی روش کو نظرانداز کرتے ہوئے خیر خواہانہ طور پر ان کو سمجھا نے بجھا نے کا طریقہ جاری رکھے۔ وہ ان کے ذہن پر پڑے ہوئے پردوں کو اس طرح ہٹائے کہ سچائی کی بات کسی رکاوٹ کے بغیر اس کے ذہن تک پہنچ جائے۔ جب ایسا ہو گا تو اس کے لیے سچائی کااعتراف اسی طرح آسان بن جائے گا جس طرح کسی باپ کے لیے اپنے بیٹے کو پہچاننا آسان ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ٹائم مینجمنٹ

قرآن کی سورہ النساء میں نماز کا حکم بتایا گیا ہے جو اسلام میں اہم ترین عبادت ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے  إِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ کِتَابًا مَوْقُوتًا (4:103)۔ یعنی، بے شک نماز مسلمانوں پر فرض ہے اپنے مقرر وقتوں میں۔
یہ صرف نماز کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں اہل ایمان سے وقت کی پابندی مطلوب ہے۔ وسیع تر اپلیکیشن کےاعتبار سے آیت کا مطلب ہےإِنَّ الحَیَاةَ کَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ کِتَابًا مَوْقُوتًا ( یعنی زندگی کواس کے مقرر وقتوں میںاستعمال کرنا مسلمانوں پر فرض ہے)۔
نماز اسلام کی ایک بنیادی عبادت ہے۔ اس کا روزانہ ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ وہ رات اور دن کے درمیان پانچ بار مقرر اوقات پر ادا کی جاتی ہے۔ جس طرح نماز کی ادائیگی ضروری ہے اسی طرح اس کے اوقات کی پابندی بھی ضروری ہے۔
نماز اصلاً ایک عبادت ہے۔ مگر اس کی ادائیگی میں اوقات کی پابندی کو شامل کر دیا گیا ہے۔ اس طرح نماز گو یا وقت کی پابندی کاایک سبق ہے جو ہر دن لازمی طور پر انجام دیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ نماز عبادت کے ساتھ ٹائم مینجمنٹ (time management) کی ایک لازمی تربیت ہے۔ اس طرح نمازی کے رات اور دن کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ( 1) فجر سے لے کر ظہر تک( 2) ظہر سے لے کر عصرتک( 3)عصر سے لے کر مغرب تک(4) مغرب سے لے کر عشاء تک( 5) عشاء سے لے کر فجر تک۔
انسان کے پاس سب سے قیمتی چیز وقت ہے۔ وقت کے صحیح استعمال کاانجام کامیابی ہے اور وقت کے غلط استعمال کاانجام ناکامی ہے۔ نماز کی صورت میں ٹائم مینجمنٹ کا سبق جو ہر روز دیا جاتا ہے وہ اس دنیا میں کامیاب زندگی کو یقینی بناتا ہے۔ آدمی اگر اپنے رات اور دن کے اوقات کو اس طرح پانچ خانوں میں تقسیم کرلے اور روزانہ اس کی پابندی کرے تووہ اپنی پوری زندگی کو بھر پور طورپر استعمال کر سکتا ہے۔ اور اس دنیا میں جو آدمی اپنے ملے ہوئے اوقات کو منظم طور پر اور بھر پور طورپر استعمال کرے اس کوکوئی بھی چیز اعلیٰ کامیابی تک پہنچنے سے روکنے والی نہیں۔
ٹائم مینجمنٹ کا مطلب ، دوسرے لفظوں میں لائف مینجمنٹ ہے ۔ زندگی کو درست طو رپر کیسے گذار اجائے ، اس کابہت گہرا تعلق اس سے ہے کہ آدمی اپنے اوقات کو کس طرح استعمال کرے۔ جس آدمی کے اندر وقت کے درست استعمال کامزاج پیدا ہو جائے وہ اسی کے ساتھ دوسری بہت سی برائیوں سے بچ جائے گا۔ وقت کا صحیح استعمال آدمی کو اس قابل بنا ئے گا کہ وہ اپنے حاصل شدہ ذرائع کو درست طور پر استعمال کرے۔
مثلاً ٹائم مینجمنٹ کامزاج آدمی کو سادہ زندگی پر مجبور کر دیتا ہے۔ کیوں کہ سادہ زندگی اختیار نہ کرنے کامطلب یہ ہے کہ ایک معاملہ میں ضرورت سے زیادہ توجہ دینا، دوسرے معاملہ میں کمی کے ہم معنی بن جا تا ہے۔ اسی طرح تفریح کامزاج آدمی کویہ نقصان پہنچاتا ہے کہ اس کے پاس دوسرے زیادہ ضروری کاموں کے لیے وقت ہی نہ رہے ۔ اسی طرح لذیذکھانوںکاشوق آدمی کے لیے اس نقصان کا سبب بنتا ہے کہ وہ زندگی کے دوسرے ضروری پہلوئوں کے بارے میں غافل ہوجائے۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹائم مینجمنٹ اپنے اوقات کی درست تقسیم کادوسرانام ہے۔ جب آدمی کے اندر صحیح معنوں میں ٹائم مینجمنٹ کا احساس پیدا ہوجائے تو اس کالازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ بہت سی غیرضروری یاغیر اہم چیزوں سے بچ جائے گا۔ مثلاً فضول خرچی، مصنوعی تکلفات، غیر حقیقی مشاغل، وقتی تفریحات ،وغیرہ۔
زندگی میں سادگی کی بے حداہمیت ہے۔ سادگی بامقصد انسان کاکلچر ہے۔ تاہم ساد گی کے اصول پر وہی شخص قائم رہ سکتاہے جو ٹائم مینجمنٹ کی اہمیت کو سمجھ لے، وہ اپنے اوقات کے بارے میں پوری طرح حسّاس ہو جائے۔ ایسا آدمی جب بھی ساد گی کے خلاف کوئی کام کرے گا تو اس کی یہ حساسیت اس کو فور اًروک دے گی ۔ وہ محسوس کرے گا کہ وہ ساد گی کے خلاف طریقہ استعمال کرکے اپنے آپ کو اس ہلاکت میں ڈال رہاہے کہ اس کے پاس زیادہ اہم کاموں کے لیے نہ پیسہ رہے اور نہ وقت۔
واپس اوپر جائیں

صلح بہتر ہے

سورہ النساء میں زندگی کا ایک اصول ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےفَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا أَنْ یُصْلِحَا بَیْنَہُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَیْرٌ، وَأُحْضِرَتِ ٱلأَنفُسُ ٱلشُّحَّۚ ( 4:128)۔ یعنی، اس میں کوئی حرج نہیںکہ دونوں آپس میں صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے۔ اور حرص انسان کی طبیعت میں بسی ہوئی ہے۔
قرآن کی اس آیت میں صلح کو بہتر بتایا گیا ہے۔ یہ بات بظاہر میاں بیوی کی نزاع کے بارے میں ہے مگر اس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ صلح ایک ا علیٰ تدبیر ہے جوہر نزاعی مسئلہ کا واحد کامیاب حل ہے، خواہ و ہ نزاعی مسئلہ انفرادی ہو یا اجتماعی، خواہ وہ قومی ہو یا بین اقوامی۔
جب بھی دوآدمیوں یا دوفریقوں کے درمیان کوئی نزاع پیش آتی ہے تو اس کےحل تک نہ پہنچنے کا سبب صرف ایک ہوتا ہے، اور وہ حرص ہے۔ یعنی عملاً جو کچھ مل رہا ہے اس پر راضی نہ ہو نا اور اس سے زیادہ چاہنا۔ یہی حرص یازیادہ چاہنے کا مزاج نزاع کو ختم نہیں ہونے دیتا ۔ وہ آخر کار بڑھ کر باقاعدہ ٹکرائو کا سبب بن جاتا ہے۔اس کے مقابلہ میں صلح یہ ہے کہ بروقت جو کچھ عملی طور پر مل رہا ہے اس پر راضی ہو کرنزاع کو ختم کر دینا۔ جب ایک شخص صلح کے اس طریقہ کو اختیار کرے تو اپنے آپ نزاع کی حالت ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد یہ نوبت ہی نہیں آتی کہ نزاع بڑھ کر ٹکرائو بن جائے۔ نتیجہ کے اعتبار سے دیکھیے تو حرص کا طریقہ ہمیشہ مزید نقصان کا سبب بنتا ہے، اور صلح کا طریقہ کام کے مواقع کھو لتا ہے جس کو اویل (avail)کرکے مزید ترقی حاصل کی جاسکتی ہے۔
صلح کوئی سادہ بات نہیں۔ صلح اپنے آپ میں سب سے بڑاعمل ہے۔ صلح بظاہر میدان مقابلہ سے واپسی ہے۔ مگر عملاً وہ اقدام کی سب سے بڑی تدبیر ہے۔ جب کہ کوئی فردیا گروہ صلح کرلے تو اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے لیے ایک ایسا ماحول پالیا جس کے اندر وہ ٹکرائو میں وقت ضائع کیے بغیر اپنے پورے وقت اور طاقت کو اپنے تعمیری منصوبہ میں لگائے— غیر مصالحانہ طریقہ، زندگی کے سفر کو روک دیتا ہے ۔ اس کے برعکس، مصالحانہ طریقہ زندگی کے سفر کوروکے بغیر دوبارہ مزید اضافہ کے ساتھ جاری کر دیتاہے۔
واپس اوپر جائیں

انتہاپسندی نہیں

سورہ النساءمیں جو احکام دیے گئے ہیں ان میں سے ایک حکم یہ ہے کہ لوگ غلویا انتہاپسندی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ غلویا انتہاپسندی ہر حال میں بری چیز ہے۔ چنانچہ قرآن میں اہل کتاب کے حوالے سےارشاد ہواہے یَاأَہْلَ الْکِتَابِ لَا تَغْلُوا فِی دِینِکُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّہِ إِلَّا الْحَقَّ (4:171)۔یعنی، اے اہل کتاب، تم اپنے دین میں غلونہ کرو اور اللہ کے بارے میں تم کوئی بات حق کے سوانہ کہو۔
اس آیت میں جس روش کو غلو کہا گیاہے وہ وہی ہے جس کو انتہاپسندی( extremism) کہا جاتا ہے۔ انتہاپسندی بظاہر اچھی نیت کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے یہ جذبہ ہوتا ہے کہ کسی مقصد کو مزید قوت کے ساتھ حاصل کیاجائے۔ انتہاپسندی دراصل اعتدال پسندی کی ضد ہے۔
انتہاپسندی کی روش بظاہر اچھی نیت کے ساتھ کی جاتی ہے مگرعملی نتیجہ کے اعتبار سے وہ سخت نقصان دہ ہے۔ اس دنیا میں کوئی صحیح یا مثبت نتیجہ ہمیشہ اعتدال کی روش کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ انتہاپسندی کی روش صرف نقصان پہنچاتی ہے وہ کسی فائدہ کا سبب نہیں بن سکتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر کام خارجی اسباب کی رعایت کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ خارجی اسباب کا لحاظ نہ کرتے ہوئے جو اقدام کیاجائے گا وہ صرف تباہی کا سبب بنے گا۔
انتہاپسندی اور اعتدال پسندی میں یہی فرق ہے۔انتہاپسند لوگ صرف اپنی خواہش کوجانتے ہیں ،وہ خارجی اسباب سے بے خبر رہتے ہیں۔اس کے برعکس، اعتدال پسندآدمی اپنی خواہش کے ساتھ خارجی اسباب کو بھی اپنے دھیان میں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہاپسند آدمی ہمیشہ ناکام ہوتاہے اور اعتدال پسند آدمی ہمیشہ کا میاب رہتا ہے۔
غلویا انتہاپسندی ( extremism)ایک ایسی روش ہے جو فطرت کے قوانین کے خلاف ہے۔ کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ فطرت ہمیشہ اعتدال اور تدریج کے اصول پر کام کرتی ہے۔یہ اصول جو خارجی دنیا میں عملاً قائم ہے وہی اصول انسان کے لیے بھی مفید ہے۔ فطرت کانظام عمل کی زبان سے انسان کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ تم اپنی زندگی کوکامیاب بنانا چاہتے ہو تو غلو کو چھوڑ دو اور اعتدال کا طریقہ اختیار کرو۔
واپس اوپر جائیں

سچائی کی دریافت

سورہ المائدہ میں ایک واقعہ کاذکر اس طرح کیا گیا ہے وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقّ ( 5:83)۔ یعنی، اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتار اگیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ا س سبب سے کہ ان کو حق کاعرفان حاصل ہو گیا ۔
ایک اور موقع پر اسی قسم کی بات اس طرح کہی گئی ہے إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًا(8:2)۔ یعنی، ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کاذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کاایمان بڑھا دیتی ہیں۔
ان آیتوں سے ایک اہم حقیقت واضح ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ سچائی سب سے بڑی طاقت ہے۔ کوئی انسان جب سچائی کو دریافت کرتاہے تو اس کی پوری شخصیت ہل جاتی ہے۔ اس کے اندر ایک ذہنی انقلاب پیداہوجاتا ہے۔ وہ روحانیت کے سمندر میں نہااٹھتا ہے ۔ اس کو ایک نئی روشنی حاصل ہوتی ہے جو اس کی اندرونی شخصیت کو آخری حد تک منور کر دیتی ہے۔ سچائی کی دریافت کسی انسان کے لیے سب سے بڑا تجربہ ہے، اس سے زیادہ بڑاتجربہ اس دنیا میں اور کوئی نہیں۔
اس معاملہ کا دوسراپہلو یہ ہے کہ جس آدمی کے پاس سچائی ہو وہ سب سے زیادہ طاقتور انسان ہے۔ وہ ایک تسخیری طاقت کامالک ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں کو جیت سکتا ہے۔ وہ ہتھیار کے بغیر فاتح بن سکتا ہے۔ بظاہر کوئی مادی طاقت نہ رکھتے ہوئے بھی وہ سب سے بڑی طاقت کامالک ہے۔ سچائی پانے والے کے لیے سچائی ایک انقلاب ہے۔ اور سچائی رکھنے والے کے لیے سچائی ایک طاقت کا خزانہ ہے۔
کسی شخص کی زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ ہلچل پیدا کرنے والی ہے وہ سچائی کی دریافت ہے۔ کسی آدمی کا یہ احساس کہ میں نے سچائی کو اس کی بے آمیز صورت میں دریافت کرلیا ہے، اس کے اندر فکر وخیال کا طوفان برپاکردیتا ہے۔ اس قسم کا واقعہ کسی آدمی کے پورے اندرونی وجود کو متحرک کر دیتا ہے۔ وہ اس کو معمولی انسان کے درجہ سے اٹھاکر غیر معمولی انسان بنا دیتا ہے۔
خدا کا کلام صرف یہ نہیں کرتا کہ وہ انسان کو کچھ باتوںکی خبر دیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ انسان کی سوئی ہوئی فطرت کو جگاتا ہے۔ وہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر موجود چراغ کو روشن کر دیتا ہے۔ وہ انسان کے داخلی شعور کو خارجی حقیقت سے جوڑ دیتاہے۔
انسان کی فطرت میںپیدائشی طورپر معرفت کا احساس رکھ دیا گیا ہے ۔ مگر اس پوٹنشل احساس کو متحرک(activate) کرنے کے لیے خارجی مدد کی ضرورت ہے۔ خدا کا کلام یہی خارجی روحانی مدد فراہم کرتا ہے۔ خدا کے کلام سے رہنمائی پانے کے بعد انسان کاحال یہ ہوتا ہے کہ گویا اندھیرا گھرروشن ہوجائے یا سو کھا ہواباغ لہلہااٹھے۔
واپس اوپر جائیں

عید مبارک

عید آغازِ حیات کا دن ہے۔ روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی دنیا سے اور دنیا کی چیزوں سے ایک محدود مدت کے لیے کٹ کر بالکل اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے۔ عید ایک خوش خبری ہے۔ اس بات کی خوش خبری کہ ہم خدا کو پا سکتے ہیں، ہم جنت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تزکیۂ نفس اور صبر اور تعلق باللہ کی جو دولت ہم نے رمضان کے دنوں میں پائی ہے، اس کو ساری زندگی میں پھیلاسکتےہیں۔
جس طرح روزہ محض بھوک پیاس کا نام نہیں ہے۔ اسی طرح عید محض کھیل تماشے کا نام نہیں ہے۔ روزہ کا مہینہ اللہ سے قربت حاصل کرنے کی خصوصی کوشش اور تربیت کا مہینہ ہے اور عید اس دور کا آغاز ہے جو روزہ کی تربیت کی بنیاد پرجاری ہونا چاہیے۔ کسی بزرگ کا قول ہے— عید اس کی نہیں ہے، جو نیا کپڑا پہنے، بلکہ حقیقی عید اس کی ہے، جو قیامت کے دن خدا کی گرفت سے محفوظ ہو
لَیْسَ ‌الْعِیدُ لِمَنْ لَبِسَ الْجَدِیدَ إِنَّمَا الْعِیدُ لِمَنْ أَمِنَ ‌الْوَعِیدَ
عید کا دن چاہتا ہے کہ ہم نئی ایمانی قوت اور نئے ذوقِ یقین کے ساتھ زندگی کی جدو جہد میں داخل ہوں۔ ہمارے دل خدا کے نور سے منور ہوں— روزہ نے صبر اور تعلق باللہ کی جو طاقت دی ہے اس کو بھرپور طور پر استعمال کیجیے ، تاکہ آخرت کی ابدی خوشی آپ کی منزل ہو ۔
واپس اوپر جائیں

زمین میں فساد نہیں

سورہ الاعراف میں انسان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ خدا کی زمین میںخدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق رہے، وہ اس سے انحراف نہ کرے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیںفَأَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیَاءَہُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِہَا (7:85)۔ یعنی، پس ناپ اور تول پوری کرو۔ اور مت گھٹا کر دو لوگوں کو ان کی چیزیں۔ اور فساد نہ ڈالوزمین میں اس کی اصلاح کے بعد۔
خدانے اس زمین کو ایک اصلاح یافتہ زمین کے طورپر پیدا کیا ہے ۔ یہاں ہر چیز اپنی معیاری صورت میں ہے۔ مثال کے طور پر انسان کے سوا جو دنیا ہے وہاں عدل اور پوری ادائیگی کا اصول قائم ہے۔ یہ گو یا ایک اصلاحی نظام ہے جو خدا کی زمین پر قانون فطرت کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ انسان کو بھی اپنی زندگی میں اسی اصلاحی اصول کو اختیار کرنا ہے۔ اس کے خلاف چلنا گویازمین میں فساد برپا کرنا ہے۔ بنائو میں بگاڑ کو داخل کرنا ہے۔
اس معاملہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ زمین میں ہر چیز کو نہایت متناسب انداز (right proportion) میں رکھا گیا ہے۔ سورج کی روشنی ، بارش اور ہوا ہر چیز میں ایک خاص تنا سب قائم ہے۔ زمین کی سطح پر سبزہ اور جنگلات سوچے سمجھے اندازہ کے مطابق اگا ئے گئے ہیں۔ انسان کے لیے بقا اور ترقی کاراز یہ ہے کہ وہ فطرت کے اس اصلاحی نقشہ کو برقرار رکھے۔
زمین کے اندر فطرت کاجو نظام ہے وہ گویا ایک ماڈل ہے۔ انسان کو بھی اسی ماڈل پر اپنی زندگی کی تشکیل کرنی ہے۔ انسان اگر ایسا کرے کہ وہ فطرت کے اس ماڈل کو اپنی زندگی میں اختیا رنہ کرے، اسی کے ساتھ وہ مزید یہ سرکشی کرے کہ وہ فطرت کے نظام کو بدل دے، مثلاً ہوا میں گیسوں کے فطری تناسب کو بگاڑ دے تو گویا وہ دو ہراجرم کا ارتکاب کررہا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں وہ خدا کے غضب کا شکار ہوکررہ جائیں گے، وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلام پرہیز گاری کا نام ہے۔اور روزہ اسی پرہیزگارانہ زندگی کا تربیتی کورس۔

واپس اوپر جائیں

اعراض کاطریقہ

سورہ الاعراف میں اہل ایمان کو چند اخلاقی نصیحتیں کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ باہمی معاملات میں اعراض کا طریقہ اختیار کیاجائے۔ آیت کےالفاظ یہ ہیں خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِینَ (7:199)۔ یعنی، درگزر کرو، نیکی کاحکم دو اور نادانوں سے اعراض کرو۔
اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان اختلاف پیدا ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے کے درمیان بحث اور تکرار شروع ہوجاتی ہے۔ ایسے موقع پر درست طریقہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر فریق ثانی سنجیدہ ہو، وہ مسئلہ کو حقیقی طور پر سمجھنا چاہتا ہو تو ایسی صورت میں دلیل کے ذریعہ اس کے سامنے اپنا موقف رکھنا چاہیے۔ اور اگر وہ سنجیدہ نہ ہو تو ایسی حالت میں دلیل اور منطق اس کو متاثر نہ کر سکے گی ۔ وہ ہر دلیل کے جواب میں کچھ خود ساختہ الفاظ بول دے گا اور پھر یہ سمجھے گا کہ اس نے پیش کردہ دلیل کورد کر دیاہے۔
اس دوسری صورت میں درست طریقہ یہ ہے کہ اعراض(avoidance) کے اصول پر عمل کیا جائے۔ اعراض کامقصد دراصل یہ ہے کہ آدمی کو اس کے ضمیر کے حوالہ کر دیاجائے۔ عین ممکن ہے کہ جو مقصد دلیل کے ذریعہ پورانہیں ہوا وہ ضمیر کی خاموش آواز کے ذریعہ پورا ہو جائے۔
عملی نزاع کوختم کرنے کے لیے بھی سب سے زیادہ موثر ذریعہ اعراض ہے۔ عملی نزاع کے وقت اگر اعراض کاطریقہ اختیار کیاجائے تو نزاع اپنے پہلے ہی مرحلہ میں ختم ہوجائے گی۔ جب کہ اعراض نہ کرنے کا نقصان یہ ہے کہ نزاع بڑھتی رہے، یہاں تک کہ چھوٹی برائی(lesser evil) کی جگہ بڑی برائی(greater evil) کاسامنا کرنا پڑے۔
اعراض کوئی سادہ چیز نہیں، وہ ایک اعلیٰ اخلاقی روش ہے۔ وہ ایک اعلیٰ انسانی طریقہ ہے ۔ کوئی شخص جب اشتعال کی صورت پیش آنے پر بھڑک اٹھے تو وہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک پست انسان ہے۔ اس کے برعکس، جوآدمی اشتعال کی صورت پیش آنے پر نہ بھڑ کے۔ وہ ایسا کرکے یہ ثابت کررہا ہے کہ وہ ایک بلند انسانی مرتبہ پر ہے۔ وہ صحیح معنوں میں اعلیٰ انسان کہے جانے کا مستحق ہے۔
واپس اوپر جائیں

انتظار کی پالیسی

سورہ یوسف میں پیغمبریوسف کاواقعہ بیان ہوا ہے۔حضرت یوسف کا زمانہ انیسویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ ان کے اوپر بہت سے سخت حالات پیش آئے۔ مگر وہ تقویٰ اور صبر پر قائم رہے۔ یہاں تک کہ خدا نے ان کو سر فرازی عطا فرمائی۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد قرآن میں ارشاد ہوا ہےإِنَّہُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ (12:90)۔ یعنی، جو شخص ڈرے اور صبر کرے تو اللہ نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
قرآن کی اس آیت میں فطرت کا ایک قانون بتایاگیاہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ حضرت یوسف کے ساتھ نصرت خداوندی کا جو معاملہ ہوا وہ دوسرےلوگوں کے ساتھ بھی پیش آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیامیں ہر شام کے بعدصبح آتی ہے ۔ ایسا ہونا لازمی ہے ۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی کے اوپرجب اندھیری رات آئے تو انسان بے صبری اور گھبراہٹ کا شکار نہ ہو، بلکہ خدا پر بھروسہ کرکے انتظار کی پالیسی اختیار کرے ۔ اگر وہ ایسا کرے تو جلد ہی وہ دیکھے گاکہ اس کے اوپر سورج طلوع ہو ااورہر طرف اجالاپھیل گیا۔تقویٰ یہ ہے کہ آدمی خدا کے مقرر کیے ہوئے نظام پر راضی رہے ۔ اور صبر کامطلب یہ ہے کہ وہ انتظار کی پالیسی اختیار کرے۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راستہ ہے ۔ اس کے سواکوئی اور راستہ نہیں جس پر چل کرآدمی اپنی منزل پرپہنچ سکتا ہو۔
قانون فطرت کے مطابق، اس دنیا میں کوئی ناکامی ابدی ناکامی نہیں۔ ہر ناکام "حال" کے ساتھ ایک کامیاب" مستقبل" جڑا ہوا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ بے صبری کر کے اس نظام کو نہ بگاڑے ۔ وہ صبر کی پالیسی اختیار کرکے قدرت کے اگلے فیصلہ کا انتظار کرتا رہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کے لیے یہی پالیسی مفید بھی ہے اور یہی پالیسی ممکن بھی۔
فطرت کے اسی اصول کو ایک مشہور مقولہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے— انتظار کرو اور دیکھو (wait and see) ۔یہ ایک عالمی تجربہ ہے جو اس مقولہ کی صورت میں ڈھل گیا ہے۔ اس معاملہ میں یہی مذہبی تعلیم بھی ہے اور یہی فطرت کاتقاضا بھی ۔
واپس اوپر جائیں

قوموں کاعروج وزوال

قرآن کی سورہ الرعد میں بتایا گیا ہے کہ قوموں کے عروج وزوال کا قانون کیا ہے۔ یہ فطرت کے ایک اصول پر مبنی ہے جس کاذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہےإِنَّ اللَّہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى یُغَیِّرُوا مَا بِأَنْفُسِہِمْ (13:11)۔ یعنی، بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کونہیں بدلتا جب تک کہ وہ اس کو نہ بدل ڈالیں جو ان کے جی میں ہے۔
قرآن کی اس آیت میں مَا بِقَوْم سے مراد کسی قوم کی اجتماعی حالت ہے اورمَا بِأَنْفُسسے مراد کسی قوم کی انفرادی حالت ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ کسی قوم کی اجتماعی ترقی کاراز یہ ہے کہ اس کے افراد کے اندر انسانی صفات(human qualities) اعلیٰ درجہ میں موجود ہوں۔ اس کے برعکس، کسی قوم کا اجتماعی زوال اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس کے افراد کے اندر اعلیٰ انسانی صفات باقی نہ رہیں۔ فرد کی حالت ہی پرترقی کا انحصار بھی ہے اور تنزل کا بھی ۔ کوئی گروہ اگر اجتماعی سطح پر ترقی کرناچاہتا ہے تو اس کو اپنے افراد کی اصلاح پر اپنی پوری طاقت کو صرف کرنا چاہیے۔
فطرت کایہ قانون بتا تا ہے کہ کوئی قوم اگر گراوٹ کا شکار ہو جائے تو اس کو دوبارہ اٹھانے کا عمل کہاں سے شروع کرنا چاہیے ۔ اس کاواحد کار گر طریقہ یہ ہے کہ افراد کے اندر پھر سے شعوری بیداری لائی جائے ۔ افراد کے سیرت وکردار کو بلندکیا جائے۔ افراد کے اندراتحاد اور انسانیت کی روح کو جگا یا جائے۔
قومی اصلاح کایہی واحد طریقہ ہے ۔ اس کے برعکس، اگر قومی اصلاح کے نام پر عمومی تحریک (mass movement) چلائی جائے، جلسوں اور عوامی تقریروں کے ذریعہ بھیڑ کو مخاطب کیاجائے تو ایسے عمل کاکوئی مطلوب نتیجہ ہر گز نکلنے والانہیں۔ اس قانون کے مطابق، کسی قوم کی خارجی حالت ہمیشہ اس کی داخلی حالت کانتیجہ ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں کسی قوم کے زوال کے وقت اس کی اصلاح کاآغاز داخلی محنت سے ہوگا، نہ کہ خارجی کارروائیوں سے ۔
واپس اوپر جائیں

استحکام کاراز

سورہ الرعد میں اس قانون فطرت کو بتایا گیا ہے جس کے تحت اس دنیا میں کسی کو قیام اور استحکام حاصل ہوتا ہے۔ یہ نفع بخشی(giving spirit) کا قانون ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہےأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَةٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ (13:17)۔ یعنی، اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر نالے اپنی اپنی مقدا رکے موافق بہہ نکلے۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو اٹھالیا اورا سی طرح کاجھاگ ان چیزوں میں بھی ابھر آتا ہے جس کولوگ زیور یا اسباب بنانے کے لیے آگ میں پگھلاتے ہیں۔ اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔ پس جھاگ تو سوکھ کر جاتا رہتا ہے اور جو چیز انسانوں کو نفع پہنچانے والی ہے وہ زمین میں ٹھہرجاتی ہے۔ اللہ اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے۔
اس آیت میں فطرت کی دو مثالوں کے ذریعہ ایک حقیقت کو واضح کیا گیا ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ سماجی اور قومی زندگی میں ایک کے مقابلہ میں دوسرے کے لیے قیام اور استحکام کا راز کیا ہے۔ وہ راز صرف ایک ہے اور وہ نفع بخشی ہے۔ اس دنیا میں ہمیشہ ایسا ہو تا ہے کہ جو گروہ دینے والا گروہ (giver group) ہوا س کو دوسروںکے مقابلہ میں جمائواور ترقی حاصل ہو اور جو گروہ لینے والا گروہ(taker group) بن جائے وہ دوسروں کے مقابلہ میں مغلوب ہو کررہ جائے۔
اس قانون کی روشنی میں دیکھا جائے تو محرومی کے وقت مطالبہ کی مہم سراسر بے معنی ہے ۔ کیوںکہ اس دنیا میں کسی کو مطالبہ سے کچھ نہیں مل سکتا ۔ اس دنیا میں جب بھی کسی کو کچھ ملے گا تو وہ صرف دینے کی قیمت پر ملے گا۔ اس معاملہ میںموجودہ دنیا کا قانون ایک لفظ میں یہ ہے— جتنا دینا اتنا پانا۔
روزہ بھوک پیاس کی سالانہ رسم نہیں، روزہ اخلاقی ڈسپلن کی سالانہ تربیت ہے﴾

واپس اوپر جائیں

شکر سے اضافہ

سورہ ابراہیم میں فطرت کاایک قانون بتایا گیا ہے ۔ وہ یہ کہ خدا کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق، اس دنیا میں شکر کرنے سے اضافہ ہوتا ہے۔ یہ قانون قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہےوَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ (14:7)۔ یعنی، اور جب تمہارے رب نے تم کو آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو زیادہ دوں گا۔ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میراعذاب بڑاسخت ہے۔
قرآن کی اس آیت میںجو بات کہی گئی ہے وہ کوئی پراسرار بات نہیں۔ وہ معلوم اسباب کے تحت پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔ یہ واقعہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہے ، فرد کے لیے فرد کی حیثیت سے اور گروہ کے لیے گروہ کی حیثیت سے۔
شکر دراصل اعتراف (acknowledgement) کانام ہے۔ انسان کی نسبت سے جس چیز کو اعتراف کہا جاتا ہے اسی کو خدا کی نسبت سے شکر کہا گیا ہے۔ شکر یہ ہے کہ خدا نے آدمی کو جو کچھ دیا ہے، دل کی گہرائیوں کے ساتھ وہ اس کااعتراف کرے۔
یہ شکر یا اعتراف کوئی سادہ چیز نہیں۔ اس کا رشتہ نہایت گہرائی کے ساتھ آدمی کی نفسیات سے جڑاہوا ہے۔ شکر کرنے والے آدمی کے اندر تو اضع ،حقیقت پسندی، اعتراف حق، سنجیدگی اور ذمہ داری کا احساس پیداہوتا ہے۔ یہ احساسات اس کے کردار میں نمایاں ہوتے ہیں جو اس کو ترقی کی طرف لے جاتے ہیں۔
اس کے برعکس، معاملہ ناشکری کا ہے۔ ناشکری سے آدمی کے اندر سرکشی، حقیقت سے اعراض، بے اعترافی ، غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری جیسی پست صفات پیداہوتی ہیں ۔ اور جس آدمی کے اندر اس قسم کی پست صفات پائی جائیں اس کی ترقی یقینی طور پر رک جائے گی ۔ حتیٰ کہ ممکن ہے کہ وہ ملے ہوئے کو بھی کھو دے۔
واپس اوپر جائیں

فضول خرچی نہیں

قرآن میں دوآیتیں ان الفاظ میں آئی ہیںوَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّہُ وَالْمِسْکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیرًا ۔ إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینِ وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہِ کَفُورًا (17:26-27)۔ یعنی، اور رشتہ دار کوا س کا حق دو اور مسکین کو اور مسافر کو اور فضول خرچی نہ کرو۔ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔
یہاں جو حکم دیا گیا ہے اس کو منی مینجمنٹ (money management)کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اپنی کمائی کو حقیقی ضرورت کے مطابق بااصول انداز میں خرچ کرنا اور بے فائدہ کاموں میں اپنا پیسہ خرچ کرنے سے بچنا۔ فضول خرچی کے معاملہ میں قرآن اتنازیادہ سنجیدہ ہے کہ اس نے فضول خرچی کو تبذیر ( پیسہ کو غیرذمہ دارانہ طور پر بکھیرنا) کہا ہے،اوراسے ایک شیطانی فعل قرار دیا ہے۔پیسہ کمانا جس طرح ایک کام ہے اسی طرح پیسہ کوخرچ کرنا بھی ایک کام ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے پیسے کو درست طور پر خرچ کرے ۔وہ اپنے پیسہ کو ضائع نہ کرے ۔ پیسہ کو درست طور پر خرچ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ خرچ کی ضروری مد (necessary expense)اور غیر ضروری مد (unnecessary expense) میں فرق کیا جائے ۔ پیسہ کو صرف ضروری مد میں خرچ کیاجائے اور غیر ضروری مدوں میں پیسہ کوخرچ کرنے سے مکمل طور پر پرہیز کیاجائے۔
قرآن ( 4:5) میںمال کو قیام کہا گیا ہے ۔ یعنی دنیا میں انسان کے قیام و بقا کا سامان ۔ حقیقت یہ ہے کہ مال زندگی کی تعمیر کے سلسلہ میں بے حد اہمیت رکھتا ہے ۔ مال ہر انسان کے پاس خدا کی ایک امانت ہے ۔ پیسہ کسی کو اس لیے ملتا ہے کہ وہ اس سے اپنی حقیقی ضرورتوں کو پورا کرے اور جو پیسہ اپنی حقیقی ضرورت سے زیادہ ہو اس کو سماج کی تعمیرکے لیے خرچ کرے ۔ یہی خرچ کی صحیح صورت ہے اور اسی میں فرد اور سماج کی ترقی کاراز چھپا ہوا ہے۔جو لوگ مال کو غیر ذمہ دارانہ طور پر خرچ کریں وہ بیک وقت دوسنگین برائیوں میں مبتلا ہیں۔ ایک اعتبار سے وہ ایک مقدس امانت میں خیانت کے مرتکب ہورہے ہیں اور دوسرے اعتبار سے وہ خودا پنی ذاتی تعمیر کے معاملہ میں بدترین ناعاقبت اندیشی کاشکار ہیں۔
واپس اوپر جائیں

انسانی علم کی محدودیت

سورہ بنی اسرائیل میں کچھ لوگوں کے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے ایک فطری انسانی حقیقت کااعلان کیا گیا ہے۔اس سلسلہ میں قرآن کامتعلقہ بیان یہ ہےوَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا (17:85)۔ یعنی، اور وہ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے ۔ اور تم کو صرف علم قلیل دیا گیا ہے۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنی محدود یت(limitations) کی بنا پر علم کلی تک نہیں پہنچ سکتا ۔ علم کلی بطور واقعہ موجو دہے۔ مگر انسان کی ذاتی محدود یت کی بنا پر وہاں تک اس کی رسائی ممکن نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسندی سے کام لے ۔ وہ جزئی علم کی بنیاد پر کلی علم کے بارے میں استنباط کرے۔ اگر انسان نے یہ اصرار کیا کہ ہر چیز کو براہ راست میرے مشاہدہ میں آنا چاہیے تو وہ صرف کنفیوژن کاشکار ہو کررہ جائے گا ۔ کیوںکہ کلی حقیقت کا بطور مشاہدہ علم میں آنا اس دنیا میں ممکن ہی نہیں۔
یہ ایک اہم تعلیم ہے۔ یہی واحد چیز ہے جو آدمی کو کنفیوژن سے بچانے والی ہے۔ جو لوگ یہ چاہیں کہ ہر چیزان کے براہ راست مشاہدہ میں آئے ، اسی وقت وہ اس کو مانیں گے تو ایسے لوگ ہمیشہ بے یقینی کا شکار رہیں گے ۔ اس دنیا میں یقین کے درجہ تک پہنچنا صرف اس انسان کے لیے ممکن ہے جو حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ایسا کرے ۔ یعنی وہ جزئی علم تک براہ راست رسائی حاصل کرنے کے بعد یہ اعتراف کرلے کہ اس کے بعد براہ راست علم کی حد ختم ہو گئی اور بالواسطہ علم کی حد آگئی ۔ یہی واحد طریقہ ہے جو کسی آدمی کو یقین کادرجہ عطا کر سکتا ہے۔
یہ عین وہی اصول ہے جس کو موجودہ سائنس میں اب ایک حقیقت کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ اب اہل علم کے درمیان یہ ایک مسلمہ اصول بن چکا ہے کہ سائنس ہم کو سچائی کاصرف ایک حصہ عطا کرتی ہے
Science gives us but a partial knowledge of reality.
واپس اوپر جائیں

ملاقات کا صحیح طریقہ

قرآن میں باہمی ملاقات کے آداب بتاتے ہوئے ایک تعلیم یہ دی گئی ہے کہ ملاقات کے لیے پیشگی اجازت کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ مذکورہ قرآنی آیت یہ ہےیَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَہْلِہَا ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (24:27)۔ یعنی، اے ایمان والو، تم اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اجازت حاصل نہ کرلو اور گھروالوں کو سلام نہ کرلو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے تا کہ تم یاد رکھو ۔
قرآن کی اس آیت میںملاقات سے پہلے اپائنٹمنٹ(appointment) لینے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ یعنی ایک شخص جب دوسرے شخص سے ملنا چاہے تو اس کے یہاں جانے سے پہلے پیشگی طور پر وہ باقاعدہ اس سے اجازت حاصل کرے اور پھر اس کے یہاں ملنے کے لیے جائے۔ آدمی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی کے یہاں ملاقات کے لیے اچانک پہنچ جائے۔ اس سے سماجی زندگی میں مختلف قسم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ حتی کہ خود ملاقات کامقصد بھی حاصل نہیں ہوتا ۔ اگر بالفرض کوئی شخص پیشگی اجازت نامہ کے بغیر کسی کے ہاں ملنے کے لیے پہنچ جائے تو اس کے اندر یہ حوصلہ ہونا چاہیے کہ اگر متعلقہ شخص اپنے کسی عذر کی بنا پر ملاقات نہ کر سکے یا ملاقات کے لیے بہت کم وقت دے تو فریقِ اول کو اس پر کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اگلی ملاقات کے لیے دوبارہ وقت لے کر بلا شکایت واپس چلاجائے ۔ یہ انسانیت کااعلیٰ طریقہ ہے اورا علیٰ طریقہ کے بغیر کبھی انسانیت کی اعلیٰ ترقی نہیں ہو سکتی ۔
جس طرح ہر چیز کے آداب ہیں اسی طرح ملاقات کے بھی آداب ہیں۔ ملاقات کے آداب میں سے یہ ہے کہ متعلقہ شخص سے اس کی پیشگی اجازت لی جائے۔ گفتگو کے وقت سنا نے کے ساتھ سننے کا بھی مزاج ہو۔ غیر ضروری سوال یا بے فائدہ تفصیل سے بچاجائے۔ تنقید اور تعریف سے بلند ہو کر بات کو سنا جائے۔ اپنی رعایت کے ساتھ دوسرے کی رعایت کا بھی پورا لحاظ رکھاجائے۔ گفتگو آہستہ انداز میں کی جائے۔ گفتگو کے وقت زور زور سے بولنا آداب کلام کے خلاف ہے۔
واپس اوپر جائیں

ٹکرائو سے اعراض

قرآن کی سورہ النمل میں قدیم قوم سبا کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعہ سے اجتماعی زندگی کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ اس کی متعلقہ آیتیں یہ ہیں
قَالَتْ یَاأَیُّہَا الْمَلَأُ إِنِّی أُلْقِیَ إِلَیَّ کِتَابٌ کَرِیمٌ ۔ إِنَّہُ مِنْ سُلَیْمَانَ وَإِنَّہُ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ۔ أَلَّا تَعْلُوا عَلَیَّ وَأْتُونِی مُسْلِمِینَ ۔ قَالَتْ یَاأَیُّہَا الْمَلَأُ أَفْتُونِی فِی أَمْرِی مَا کُنْتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّى تَشْہَدُونِ۔ قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِیدٍ وَالْأَمْرُ إِلَیْکِ فَانْظُرِی مَاذَا تَأْمُرِینَ ۔ قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوکَ إِذَا دَخَلُوا قَرْیَةً أَفْسَدُوہَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَہْلِہَا أَذِلَّةً وَکَذَلِکَ یَفْعَلُونَ ( 27:29-34)۔ یعنی، ملکہ سبا نے کہا کہ اے دربار والو، مجھے ایک بہت اہم خط پہنچایاگیا ہے۔ وہ سلیمان کی طرف سے ہے۔ اور وہ ہے۔ شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے کہ تم میرے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس آجائو۔ ملکہ نے کہا کہ اے دربار والو، میرے معاملہ میں مجھے رائے دو۔ میں کسی معاملہ کافیصلہ نہیں کرتی جب تک تم لوگ حاضرنہ ہو۔ انہوں نے کہا ، ہم لوگ زور آور ہیں اور سخت لڑائی والے ہیں۔ اور فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے۔ پس آپ دیکھ لیں کہ آپ کیا حکم دیتی ہیں۔ ملکہ نے کہا کہ بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو خراب کر دیتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور یہی یہ لوگ کریں گے۔
اس آیت میں ملکہ سبا کے حوالہ سے زندگی کا ایک اصول بتایا گیا ہے ۔ وہ یہ کہ اقدام ہمیشہ نتیجہ کو دیکھ کر کرنا چاہیے ، نہ کہ محض خواہش کی بنیاد پر۔ کسی کے خلاف اقدام کرنا اگر مثبت نتیجہ پیدا کرنے والا ہو تو ایسے اقدام کو درست کہا جا سکتا ہے مگر جو اقدام الٹانتیجہ پیدا کرنے والا(counter productive) ہو، اس سے بچنا لازمی طور پر ضروری ہے۔
عملی اقدام آئڈیلزم کے تحت نہیں ہو تا بلکہ پریکٹکل وزڈم کے تحت ہوتا ہے۔ اپنا ذاتی معاملہ ہو تو آدمی آئڈیل بن سکتا ہے مگر اجتماعی معاملہ میں ہر ایک کو پریکٹکل ہی بننا ہے، خواہ وہ کوئی عام آدمی ہو یا کوئی حکمراں ہو۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب قیادت کا راز

سورہ السجدہ میں ایک گروہ کا ذکر کیاگیا ہے جس کو خدا نے لیڈر شپ عطا کی۔ وہ اس سرفرازی کے مستحق کیسے قرار پائے اس کا راز صبر تھا۔ قرآن کی مذکورہ آیت یہ ہےوَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّةً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ (32:24)۔ یعنی،اور ہم نے ان میں پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے جب کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کامیاب قیادت کا راز صبر ہے۔ صبر کسی آدمی کو سوچ اور کردار کے اعتبار سے دوسروں سے بلندکرتا ہے، اور بلند سوچ اور بلند کردارہی وہ صفتیں ہیں جو کسی آدمی کو دوسروں کے اوپرسر داری کامقام دیتی ہیں۔صبر آدمی کو حوصلہ مند بناتا ہے۔صبر قائدانہ زندگی کی لازمی ضرورت ہے۔ صبر کے بغیر کوئی شخص لیڈر شپ کا رول کامیابی کے ساتھ انجام نہیں دے سکتا۔ کامیاب لیڈر وہ ہے، جو نفس کی خواہشوں کے مقابلے میں صبر کرے، ناخوش گوار تجربات پیش آنے پر جذبات سے کام لینے کے بجائے صبر کرے اور درست فیصلہ کو اپنائے، وہ محرومی کے واقعات کو ایگو کا مسئلہ بنانے کے بجائے صبر کے ساتھ دانش مندانہ انداز میں اپنا منصوبہ بنائے، مصیبتوں کا موقع آئے تو پریشان ہونے کے بجائے صبرکرکے اس کا حل تلاش کرے، وغیرہ۔ قوم کو کامیابی کے راستے پرچلانے کے لیے صبر وتحمل کی لازمی طورپر ضرورت ہے۔
لوگ اسی شخص یا گروہ کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں جو انہیں اپنے سے بلند دکھائی دے ۔ جو اس وقت اصول کے لیے جئے، جب کہ لوگ مفاد کے لیے جیتے ہیں ۔ جو اس وقت انصاف کی حمایت کرے جب کہ لوگ قوم کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔ جو اس وقت برداشت کرے جب کہ لوگ انتقام لیتے ہیں۔ جو اس وقت اپنے کومحرومی پرراضی کرلے جب کہ لوگ پانے کے لیے دوڑتے ہیں۔ جو اس وقت حق کے لیے قربان ہوجائے جب کہ لوگ صرف اپنی ذات کے لیے قربان ہونا جانتے ہیں۔یہی صبر ہے اور جو لوگ اس صبر کاثبوت دیں وہی قوموں کے امام بنتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

غصہ پی جانا

قرآن میں ایک اہم اخلاقی اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اجتماعی زندگی میں جب ایک آدمی کو دوسرے کے اوپر غصہ آئے تو اس کو چاہیے کہ وہ غصہ کو پی جائے اور اس کو معاف کردے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہےوَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ (42:37)۔ اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ آدمی ہمیشہ کچھ لوگوں کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ لوگوں کی طرف سے اس کو بار بار ناخوش گوار قسم کے تجربات پیش آتے ہیں۔ اِن ناخوش گوار تجربات کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے اندر بطور ردّ عمل طرح طرح کے غیر حقیقی جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً غصہ، وغیرہ۔
غصہ ایک غیر فطری حالت ہے، اور غصہ پرکنٹرول کرنا، زندگی کی شاہ کلید (master key) ہے۔ جس انسان نے غصہ کو کنٹرول کرنے کا آرٹ سیکھ لیا، اس نےکامیاب زندگی کا راز پالیا۔جب آدمی کوغصہ آتا ہے تو اس کادماغ اپنی فطری حالت پر باقی نہیں رہتا۔ وہ معتدل انداز میں سوچنے پر قادرنہیں رہتا۔ غصہ میں مبتلا انسان نہ درست طور پر سوچ پاتا اور نہ درست طور پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کر سکتا ۔ غصہ کسی آدمی کااعتدال چھین لیتا ہے۔ وہ اس کو غیر معتدل انسان بنا دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ غصہ کو پی جانا خود اپنے آپ کی حفاظت کرنا ہے۔ غصہ کو پی جانا اس بات کی ضمانت ہے کہ آدمی حقیقت پسندانہ انداز میں سوچے۔ وہ زیادہ نتیجہ خیز انداز میں اپنی کارروائی کی منصوبہ بندی کرے ۔ غصہ کو پی جانا خارجی اعتبار سے ایک اخلاقی سلوک ہے۔ مگر داخلی اعتبار سے وہ اپنی تعمیر کے ہم معنی ہے۔ جب کوئی آدمی غصہ کے حالات میں غصہ نہ کرے تو وہ اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ وہ اپنی قوت کو منفی رخ پر جانے سے روکتا ہے اور اس طرح اپنے آپ کو اس قابل بنا تا ہے کہ وہ اپنے وسائل کو بھر پور طور پر صرف اپنی تعمیر میں لگائے ۔ دوسرے کی تخریب میں غیر ضروری طور پر وہ اپنے وسائل کا کوئی حصہ ضائع نہ کرے۔
واپس اوپر جائیں

مشورہ مفید ہے

قرآن میں اہل ایمان کو جو تعلیمات دی گئی ہیں ان میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو مشورہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں اہل حق کی جن صفات کو اختیار کرنے پر ابھارا گیا ہے، ان میں سے ایک صفت مشورہ ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہےوَأَمْرُہُمْ شُورَى بَیْنَہُمْ(42:38)۔ یعنی، اور وہ اپنا کام آپس کے مشورہ سے کرتے ہیں۔مشورہ کامطلب یہ ہے کہ کسی معاملہ میں حل تلاش کرنے کے کام کو اجتماعی کام بنا دیا جائے۔ اپنے تجربہ کے ساتھ دوسروں کے تجربات کو اس میں شامل کرلیا جائے ۔مشورہ کامطلب گویا انفراد ی عقل کو اجتماعی عقل بنا دینا ہے۔مشورہ ایک دوطرفہ عمل ہے۔
زندگی کے بارے میں خالق کی اسکیم (scheme of things) یہ ہے کہ ہر فرد کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی شخصیت کا ارتقا کر کے اپنے آپ کو جنتی انسان بنائے۔اسی نشانے کی بنا پر اسلام میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ سماجی معاملات کو شوریٰ کے اصول پر مبنی قرار دیا گیا، یعنی سماجی حقائق (social realities) کی بنیاد پر ۔
مشورہ میں یہ ہوتا ہے کہ کئی آدمی کسی موضوع پر ڈسکشن کرتے ہیں۔ اس طرح کے ڈسکشن کے فائدوں میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ معاملہ کے نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ مشورہ اگر کھلے ذہن کے ساتھ کیاجائے اور تنقید اور تعریف کے جذبہ سے بلند ہو کر اس کو سنا جائے تو مشورہ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ مشورہ میں جوفائدے ہیں ان کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ لوگ تحفظ ذہنی کے ساتھ نہ بولیں بلکہ وہ جو کچھ کہیں کھلے ذہن کے ساتھ کہیں اور سننے والے بھی اس کو کھلے ذہن کے ساتھ سنیں۔
یہ سب مشورہ کے آداب ہیں۔ جس مشورہ میں ان آداب کو ملحوظ رکھاجائے وہ مشورہ بے حد بابرکت بن جاتا ہے۔ مشورہ کو اگر حسن نیت کے ساتھ کیا جائے تو وہ ایک عبادت ہے۔مشورہ کوئی سادہ بات نہیں۔ مشورہ دین اور دنیا دونوں میں فائدہ ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنے اصحاب کے ساتھ کھلے دل سےمشورہ کرتے تھے اور لوگ کسی پابندی کے بغیر اپنی رائے دیتے تھے(سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 192)۔
واپس اوپر جائیں

دعوت یعنی انسانی خیر خواہی

مئی 2004 میں عرب امارات کے لیے میرا ایک سفر ہوا تھا۔وہاں میں نے دبئی کا انگریزی اخبار، خلیج ٹائمس کا شمارہ6 مئی2004 دیکھا۔ اس میں ایک خبر تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ شارجہ کی حکومت ایسے اقدامات کررہی ہے جو ماحولیات کو بگڑنے سے بچانے والے ہوں۔ اس خبر کا عنوان یہ تھا— شارجہ ایکو فرینڈلی پروجکٹ چلانے والا ہے
Sharjah to launch eco-friendly project
آج کل ایکو فرینڈلی منصوبوں کا بہت چرچا ہے۔ خود مسلم ملکوں میں بھی اس کی کافی دھوم ہے۔ میں نے سوچا کہ منصوبۂ تخلیق کی نسبت دیکھا جائے توایک اور نہایت ضروری کام یہ ہے کہ مدعو فرینڈلی منصوبے جاری کیے جائیں۔ مگر ساری دنیا میں مسلمان اس قسم کی بات سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ مسلمانوں نے برعکس طور پرایسے ہنگامے جاری کر رکھے ہیں جو مدعو کو دشمن بنائے ہوئے ہیں۔ مگر مدعو کو دوست بنانے کی شعوری کوشش پوری مسلم دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی۔حقیقت یہ ہے کہ مدعو فرینڈلی منصوبہ نہ چلانے کی صورت میں یہ شدید تر اندیشہ موجود ہے کہ ان کی آخرت خطرے میں پڑ جائے۔
اسلامک ورک حقیقۃً وہ ہے جو دعوہ ورک ہو۔ یعنی انسانوں کو خداکے منصوبۂ تخلیق سے آگاہ کرنا۔ دعوہ ورک کوئی سادہ چیز نہیں۔دعوت دراصل انسان سےمحبت اور خیر خواہی کا اظہار ہے۔ مگر موجودہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ دوسری قوموں سے نفرت کرتے ہیں، وہ ان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ایسی حالت میں وہ اس قابل ہی نہیں کہ وہ دوسری قوموں کے درمیان دعوت کا کام کرسکیں۔
دعوہ ورک کے لیے کچھ لازمی شرطیں ہیں۔ اس میں سب سے اہم شرط یہ ہے کہ داعی اپنے مدعو کا مکمل طور پر خیر خواہ ہو۔ وہ یک طرفہ طور پر مدعو کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرے۔ داعی اور مدعو کا رشتہ اسی قسم کا ایک رشتہ ہے جیسا کہ تاجر اور کسٹمرکا ہوتاہے۔ ہر تاجر جانتا ہے کہ اس کو اپنے کسٹمر کے ساتھ آخری حدتک خیر خواہی کا معاملہ کرناہے۔ داعی کا فارمولا تاجر کی طرح یہ ہونا چاہیے
We are always Mad‘u friendly
واپس اوپر جائیں

سی پی ایس کا مقصد

ایک صاحب نے کہا کہ آپ نے بعض قومی اور ملی مسائل کے بارے میں ایسے بیانات دیے ہیں جن کی وجہ سے آپ ملت سے الگ تھلگ ہوگئے ہیں۔ یہ چیز آپ کے مشن کے لیے مفید نہیں۔ آپ کو ملت کے مزاج کی رعایت کرتے ہوئے اپنا کام کرنا چاہیے۔ اپنی قوم کو نظر انداز کرکے کوئی شخص اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔میںنے کہا کہ آپ پر غالباً یہ بات واضح نہیں کہ میرا نشانہ کیا ہے۔ آپ دوسروں کے نشانے کو جانتے ہیںاور ان کو میرے اوپر چسپاں کرنا چاہتے ہیں۔ میرے نشانے اور دوسرے لوگوں کے نشانے میں ایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ دوسروں کا نشانہ عملی نتیجہ ہوتا ہے اور ہمارا نشانہ ابلاغ ہے۔دوسروں کی کامیابی اس میں ہے کہ قوم اُن کا ساتھ دے، تاکہ وہ اپنے مطلوب نتیجے کو حاصل کرسکیں۔ اِس نشانے کی بنا پر وہ اِس کو ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی ایسی بات نہ کہیں جو قوم کے مزاج کے خلاف ہو اور قوم ان سے کٹ جائے۔
اس کے برعکس، ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم خالصتاً دعوت الی اللہ کے لیے اٹھے ہیں۔ اِس مقصد کی بنا پر ہمارا نشانہ صرف ابلاغ (یس،36:17)ہے۔ یعنی اللہ کے پیغام کو لوگوں تک ایز اٹ از پہنچا دینا۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ناصح اور امین کی حیثیت سے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیں۔ اِس کے بعد یہ دوسروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عملاً اس کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ مسلم ملت میں دو قسم کے لوگ ہیں— ایک وہ جو مسلم مفاد کے نام پر ہنگامے کی سیاست چلاتے ہیں۔ اِس گروہ میں کچھ لوگ سوچ کی سطح پر ایسے ہیں اور کچھ لوگ عملی سطح پر۔ اُن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ملت آج دشمنوں سے اور سازش کرنے والوں سے گھری ہوئی ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ اُن لوگوں سے مقابلہ کیا جائے۔ میں بلاشبہ اِس طبقے سے کٹا ہوا ہوں۔ لیکن اِسی کے ساتھ ملت میں دوسرا طبقہ بھی ہے جو سنجیدہ ہے، جو دوسروں کے خلاف منفی ہنگامے کے بجائے خود اپنی اصلاح کو اہمیت دیتا ہے، جو جہاد کے نام پر تشدد کے بجائے پُر امن دعوت الی اللہ میں یقین رکھتا ہے۔ ملت کا یہ دوسرا طبقہ ساری دنیا میں میرے ساتھ ہے، اور اِس طبقے کے تعاون سے آج ہمارا مشن ہر جگہ کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ پھر میں نے ایک عرب شاعر کا یہ شعر پڑھا
فـإنْ أ ک فـی شرارِکُم قلیلاً فـإنّـی فـی خـیـارکُـم کـثـیرُ
واپس اوپر جائیں

اعتکاف

رمضان کے مہینہ میں جو اعمال کیے جاتے ہیں ان میں ایک اہم عمل اعتکاف ہے۔ اعتکاف کے سلسلے میں ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ - صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - قَالَ فِی الْمُعْتَکِفِ:’’ہُوَ یَعْکِفُ الذُّنُوبَ‘‘ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1781)۔ یعنی ابن عباس نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے انسان کے بارے میں فرمایا کہ وہ گناہوں سے اعتکاف کرتا ہے ۔
اصطلاحی طور پر اعتکاف وہی ہے جو رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد میں کیا جاتا ہے۔ یہ جسمانی اعتکاف ہے، اوریہ اعتکاف چند دنوں کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن اعتکاف کی ایک اور قسم ہے۔ اس کو فکری اعتکاف (intellectual seclusion) کہا جاسکتا ہے۔ فکری اعتکاف پوری زندگی کا عمل ہے۔ یہ اعتکاف ہر وقت اور ہر جگہ جاری رہتا ہے۔ اس اعتکاف میں آدمی اپنا زیادہ وقت تفکر اور تدبر میں گزارتا ہے۔ وہ دین کی باتوں میں غور کرتا ہے، اور اپنے آس پاس کی دنیا سے دینی سبق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ روحانی اعتکاف میں مشغول رہتا ہے۔
روزہ ایسا عمل ہے جس کا فائدہ ہر روزہ دار کو ملتا ہے۔ اعتکاف ، روزہ داروں کو تربیتِ مزید کا موقع دینا ہے۔ اعتکاف سے یہ مطلوب ہے کہ انسان دنیا کے ڈسٹریکشن سے دور ہو کر اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ ذکر و شکر میں مشغول کرے۔اس درمیان روزہ دار اپنےآپ کوپوری طرح صرف خدا کی عبادت کرنے اور معرفت حاصل کرنے کے لیے مخصوص کردیتا ہے، وہ قرآن میں تدبر کرتا ہے اور ان روحانی فوائد کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتا ہے جن کے لیے روزہ فرض کیا گیا ہے۔
اعتکاف دنیا سے دور بھاگنا نہیں ہے بلکہ وہ ایک تربیتی عمل ہے جس کے ذریعہ آدمی دنیا میں رہ کر دنیا کے ڈسٹریکشن سے بچ سکے۔ یہ دنیا سے الگ ہونا نہیں ہے، بلکہ یہ دس دنوں کا ایک ایسا تربیتی مرحلہ ہے جس کے بعد آدمی اعلی معرفت کے ساتھ دنیا میں زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے،وہ زیادہ سے زیادہ اپنا انٹلکچول ڈولپمنٹ کرے تاکہ تزکیۂ نفس کا جذبہ اس کےاندر پہلے سے زیادہ پیدا ہو جائے۔
واپس اوپر جائیں

آتش فشاں کا سبق

آتش فشاں زمین یا کسی دوسرے سیارے یا سیارچہ کی پرت سے نکلنے والاگرم مادہ ہے۔ اس سے پگھلی ہوئی چٹان، چٹان کے گرم ٹکڑے، اور گرم گیسیں نکلتی ہیں۔امریکا کے خلائی ادارہ ناسا کی ویب سائٹ پر آتش فشاں (volcano)کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے
A volcano is an opening on the surface of a planet or moon that allows material warmer than its surroundings to escape from its interior. When this material escapes, it causes an eruption. An eruption can be explosive, sending material high into the sky. (accessed on 15.11.21)
آتش فشاں کسی سیارے یا چاند کی سطح پر ایک ایسا دہانہ ہے جو آس پاس سے زیادہ گرم مواد کو اپنے اندر سےخارج ہونے دیتا ہے۔ جب یہ مواد خارج ہوتا ہے تو پھٹنے کا سبب بنتا ہے۔ پھٹنا دھماکہ خیز ہو سکتا ہے، یہ مواد کو آسمان کی جانب اونچا پھینکتا ہے۔انسائی کلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق ، آتش فشاں کاپھٹنا زمین کی طاقت کا ایک ہیبت ناک ظاہرہ ہے
A volcanic eruption is an awesome display of Earth’s power.
آتش فشاں قدرتی آفات (natural disasters)میں سے ہے۔اس کے علاوہ چند دوسرے قدرتی آفات یہ ہیں— جنگل کی آگ، ڈَسٹ اسٹارم، سیلاب، ٹارنیڈو، سمندری طوفان، آتش فشاں، زلزلے یا لینڈ سلائڈ، سونامی، وغیرہ
forest fire, duststorms, floods, hurricanes, tornadoes, volcanic eruptions, earthquakes, tsunamis, etc.
یہ قدرتی آفات ماحول پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کہ قدرتی وسائل، مالی اور جانی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔اس کے سامنے انسان اور اس کی ساری ترقیاں بے بس ہوجاتی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو ان قدرتی تجربات سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان اس دنیا کا ماسٹرنہیں ہے ۔اس دنیا میں انسان کو متواضع (modest) بن کر رہنا چاہیے تاکہ وہ ان تجربات سےسبق حاصل کرنے والا بنے۔
(ڈاکٹر فریدہ خانم)
واپس اوپر جائیں

ٹوئٹر کا سی ای او

ٹوئٹر مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ہے۔ نومبر 2021 میں انڈین امریکن مسٹر پراگ اگروال (پیدائش 1984) کو ٹوئٹر کا نیا سی ای او منتخب کیا گیا ہے۔اس بات کا اعلان وداع ہونے والےسی ای او مسٹر جیک ڈورسی (پیدائش 1975) نے اپنے ٹوئٹر بلاگ کے ذریعہ کیا۔ اس کے بقول مسٹر پراگ کمپنی اور اس کی ضرورتوں کو پوری طرح سمجھتے ہیں۔ کمپنی کو آگے بڑھانے کے ہر اہم فیصلے کے پیچھے پراگ کا رول ہوتا تھا ۔ وہ متجسس، تحقیق کا شوق رکھنے والے، ریشنل، کریٹیو، محنتی، خودآگاہ، اور متواضع انسان ہیں۔ وہ پورے دل و جان سے قیادت کا فرض نبھاتے ہیں، اور وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن سے میں ہر دن کچھ سیکھتا ہوں
He (Parag) understands the company and its needs. Parag has been behind every critical decision that helped turn this company around. He's curious, probing, rational, creative, demanding, self-aware, and humble. He leads with heart and soul; and is someone I learn from daily.
کسی بھی میدان میں ترقی کا راز کیا ہے۔ وہ وہی ہے جس کا ذکر مسٹر جیک نے مسٹر پراگ کے ریفرینس میں کیا ہے۔ کامیابی کا یہ اصول نہ صرف سیکولر فیلڈ کے لیے ہے، بلکہ مذہبی فیلڈ کے لیے بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ترقی دراصل انسان کے پوٹنشل کو ایکچول بنانے کا نام ہے۔ اور اپنے پوٹنشل کو ایکچول وہی انسان بناسکتا ہے، جو اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرے۔ یہی کسی مقصد میں کامیاب ہونے کا راز ہے۔ اس قسم کی گہری وابستگی کے بغیر کوئی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا ہے، نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔
ایک حدیث رسول میں کامیابی کے راز کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ، وَإِنَّمَا الْحِلْمُ بِالتَّحَلُّمِ، مَنْ یَتَحَرَّى الْخَیْرَ یُعْطَہُ، وَمَنْ یَتَّقِ الشَّرَّ یُوقَہُ ( المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 2663)۔ یعنی ، علم آتا ہے لرننگ سے، بردباری آتی ہےبرداشت پیدا کرنے سے۔ جو خیر تلاش کرتا ہے اس کو خیر ملتا ہے، اورجو شر سے بچنا چاہتا ہے اس کو بچالیا جاتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہےوَالْفِقْہُ بِالتَّفَقُّہِ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر929)۔ یعنی، فہم و فراست کی کوشش کرنے سےگہری سمجھ پیدا ہوتی ہے ۔(ڈاکٹر فریدہ خانم)
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 275

■ ہندوستان ہو یا عربستان سب کے لیے پر امن ترقی اور پر امن دعوت کے علاوہ کوئی دوسراآپشن نہیںہے ۔مولانا کی زندگی ہی سے مولانا کے مشورے اور پلاننگ پر عمل ہونے لگا ہے۔ خواہ نیشن بلڈنگ کی بات ہو یانائیبر فرینڈلی بیہیویر کی بات ۔ مثال کے طور پر عربوں کے لیے اسرائیل ایک دوست ملک بن رہا ہے، اور ہندوستانی مسلمان آر ایس ایس،وغیرہ کے ساتھ رہنا بھی سیکھ گئے ہیں۔ نفرت کی جگہ سماجی رواداری کی بات آگے بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے الرسالہ مشن کی رہنمائی کو ہمارے لیے قابل فہم بنادیا۔ حالانکہ لوگ حالات کےکمپلشن کے تحت اس حقیقت کو مانتے ہیں، مگر اللہ نے ہم کو قرآن وحدیث کی بنیاد پر مشن کو اپنانے کی توفیق عطا کی ہے ۔ (سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
ث مولانا وحید الدین خان میرے لیے روحانی باپ کا درجہ رکھتے ہیں ۔ہر وہ بات جو والدین اپنی اولاد کو سکھاتے ہیں، میں نے مولانا کی تحریروں اور بیانات سے سیکھنے کی کوشش کی ہے۔خدا سے بندے کا تعلق اور بندے سے بندے کا تعلق میں نے مولانا کی اس کاوشوں میں محسوس کیا ۔پہلی کتاب "راز حیات" الہدی اسلامک انسٹیٹیوٹ میں پڑھی تھی۔لیکن تب میں مولانا کو نہیں جانتی تھی۔ایک دن یوٹیوب پر مولانا کو امن کے بارے گفتگو کرتے سنا۔میں سمجھتی ہوں کہ وہ لمحہ میری اب تک کی زندگی کا بہترین لمحہ تھا۔بس پھر کیا تھا۔مولانا کو بلاناغہ ہر دن سننا اور ان کے پر حکمت تقریروں کا نوٹس تیار کرنا میرے روٹین میں شامل ہو گیا، اور رفتہ رفتہ ان کے لکچرس میری زندگی پر اثر انداز ہوتےگئے۔ مولانا کی ہر کتاب اپنی مثال آپ ہے۔ مولانا وحید الدین خاں صاحب نے توحید کو جس طرح واضح انداز میں بیان کیا ہے، اس کو سن کر مجھے تھرل ہوتا ہے۔ ایک دن مولانا کے بارےمیں میں اپنی بہن سے بات کر رہی تھی تو اس نے بڑی پیاری بات کہی کہ آپو "ایک صدی سے خدا کی کھوج میں ہیں مولانا ،اور میں نےبھی اپنی زندگی میں پہلے انسان کو پہلی بار اس شدت کے ساتھ ،خدا سےصرف خدا کو مانگتے دیکھا، خدا ہم سب کو اس کھوج میں ان کا سچا ساتھی بنا دیں"۔ہم سب اپنی زندگی میں کسی نہ کسی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ مولانا کی تحریر یں انسان کو اپنی ہر کمی ہر محرومی کو طاقت میں بدلنے کا ہنر سکھاتی ہیں ۔اس سلسلے میں مولانا صاحب کے مشن کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ(1) اپنے گھر خاندان میں سب کو مولانا کے بارے میں بتائیں ۔( 2)تمام فیملی ممبر کو تذکیرالقران اوردوسری کتابیں گفٹ کریں۔ ( 3)گھر میںلائبریری بنائیں ،اور مولانا کا تمام لٹریچر اس میں رکھیں۔ (4) اپنے علاقے میں لائبریری بنائیں،علاقے کے اسکول اورکالجز کی لائبریریوں میں مولانا کی کتابیںرکھوائیں۔ (5)اپنی صلاحیت کو اس مشن کے لیے بہترین انداز میں استعمال کریں۔ (شمائلہ عاشق ،شیخوپورہ، پنجاب، پاکستان)
■ مولانا وحید الدین خان صاحب کی کتابوں اور آرٹیکلز سے خدا ایک جامد عقیدے کے بجائے ایک زندہ ہستی کے طور پر سامنے آیا، اللہ کی معرفت، عظمت، ربوبیت اور قدرت کو سمجھنے اور خدا کی یاد میں جینے کا مطلب صحیح طرح سمجھ میں آیا،اور زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو لے کر سوچنے اور ان سے عبرت و نصیحت لینے کا ذہن بنا۔اپنا محاسبہ کرنا، اپنی غلطی کو ڈھونڈنا، اور لوگوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھنا اور دعوت کا مزاج پیدا ہوا۔خاص طور پر مولانا نے جس طرح خدا کے تخلیقی منصوبے، ناخوشگوار واقعات اور اختلافات کو مینیج کرنے، اور آخرت اور جنت کے تصور کو واضح کیا ہے، اس سے بہت ہی انوکھا تجربہ ہوا، دنیا کو دیکھنے اور زندگی کو سمجھنے کا زاویہ ہی بدل گیا۔سر میں CPS کے مشن میں شامل ہونا چاہتا ہوں، پلیز گائیڈ می(شاہد علی، عمرکوٹ ،سندھ)
■ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم مردان سے حاصل کی۔ پھرجامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی سے حفظ کیا۔ کچھ عرصہ بھیرہ شریف میں تعلیم حاصل کی، اس کے بعد تنظیم المدارس سے درس نظامی مکمل کیا۔ سال 2016 میں اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے LLB کیا۔ ابھی میں ہائی کورٹ لیول کا وکیل ہوں۔جاوید احمد غامدی صاحب، ابو یحییٰ اور حال ہی میں وحید الدین خان صاحب کے کام سے واقفیت ہوئی،جس نے میرازاویۂ نظر یکسر بدل دیا۔ اور روایتی مذہبی اور گروہی تعصبات سے اللہ کے فضل و کرم اور ان حضرات کی کاوشوں کی بدولت جاں خلاصی نصیب ہوئی۔خان صاحب کا لٹریچر روح کی غذا اور پاکیزگی کا بہترین انتظام کرتی ہے۔ تذکیر القرآن ایسا خوبصورت ترجمہ اور تفسیر ہے جو قرآن کی ہر آیت کو قاری سے متعلق کردیتی ہے۔ حال ہی میں اخوان رسول کے نام سے خان صاحب کی ویڈیو دیکھی۔ دل میں شوق پیدا ہوا کہ کیوں نہ اس گروہ میں اور ان خُدّام دین متین کی صف میں خود کو شامل کر لیا جائے، چاہے ادنیٰ درجے میں کیوں نہ ہو۔ دعا ہے اللہ پاک ہمیں اپنی اصلاح کی توفیق اور اس کے بعد اپنی خدمت کے لیے قبول فرمائے۔اور جو مشن یہ ضعیف العمر شخص اس پیرانہ سالی میں چلا رہا ہے ہم اس کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھا سکیں۔ (شاہ خالد، مردان، پاکستان)
ث حضرت مرحوم کے سلسلے میں جو الرسالہ خصوصی شمارہ (اگست ستمبر 2021)شائع ہوا ہے، اس وقت میںاس کا مطالعہ کر رہا ہوں ۔میں حنفی المسلک،دیوبندی ہوں۔دارالعلوم دیوبند نے مولانا مرحوم کے سلسلے میں ان عقائد،افکار سے متعلق جو فتویٰ دیا تھا میں نے اس کو بھی پڑھا ہے،لیکن میں ان سے ہٹ کر بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں مولانا کو شروع شروع میں بالکل نہیں جانتا تھا۔ مگر میرے چچازاد بھائی مولانا مظہر جمیل رشیدی صاحب (مقیم حال علی گڑھ) مولانا کو بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ پڑھتے تھے،اور ان کے ذریعہ ہی میں نےبھی مولانا کی کچھ کتابیں پڑھیں ۔مثلاً مطالعہ قرآن، ہندوستانی مسلمان، روشن مستقبل، یکساں سول کوڈ، وغیرہ۔ اس کے بعد میں نے خود مولانا کی کئی کتابیں خریدیں، اور باضابطہ طور پر مطالعہ کرنا شروع کیا۔ میں نے ابھی حال ہی میں مولانا کی ایک کتاب، خاتون اسلام ختم کی ہے۔ جب میںخاتون اسلام پڑھ رہا تھا تو میرا حال یہ تھا کہ دورانِ مطالعہ میں اتنا غرق ہوجاتا تھا کہ کھانا،پینا بھی مجھے یاد نہیں رہتا تھا۔اس وقت الرسالہ کا مطالعہ کر رہا ہوں۔اس کو پڑھتے ہوئے مجھےیہ احساس ہورہا ہے کہ ہم نے کس قدر عظیم ہستی کو کھودیا ہے۔ وہ ہستی جس کی امت کو سخت ضرورت تھی ۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگ بے کار ہی مولاناکے اوپر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ جب میں خاتون اسلام نام کی کتاب پڑھ رہا تھا، اس و قت دل سے مولانا کے لیے دعائیں نکل رہی تھیں۔ مولانا کا یہ احسان ہے کہ انھوںنے آنے والی نسلوںکے لیے اسلام کو عصری اسلوب میں آسان بناکر پیش کردیا ہے۔علما کے اوپر نئی نسل کا یہ قرض تھا، جس کو مولانا نےادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا نے قرآن وحدیث کو لوجیکلی ، اور سائنسی طورپر قابل فہم بنایا ہے، اور جن لوگوں نےاسلام پر جدید سائنسی ڈسکوری کی روشنی میں اعتراض کیا تھا، مولانا نے ان کا عقلی اور نقلی طورپر جواب دیا۔ دورِ حاضر میں اسلام کا جودفاع کیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ (مولانانبیل احمد رشیدی، ممبر جمعیت علماء ضلع بجنور)
■ الرسالہ (خصوصی شمارہ داعی اسلام مولانا وحید الدین خاں)جب بھی پڑھا اس میں گم ہوگیا۔ خصوصی شمارہ میرے ہاتھ سے الگ نہیں ہو پا رہاہے۔جہاں بھی میں جاتا ہوں، اس کو ساتھ رکھتا ہوں۔ ایک کاپی تو آفس میں بھی رکھ لی ہے۔رسالہ پر جب بھی مولانا کی تصویر دیکھتا ہوں ایک خوشی ہو تی ہے اور آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔خصوصی شمارہ بھی آج تک چھپنے والے تمام الرسالوں کی طرح حکمت سے بھرپور ہے۔ مولانا کی شخصیت کے بہت سے نئے پہلو نظر آئے۔ یہ الرسالہ بھی فل آف وزڈم ہے۔اس میں لکھے گئے تمام مضامین دل کی گہرائیوں سے گزر کر آنکھوں سے آنسوؤں کی شکل میں آتے ہیں۔مولانا ایک عظیم ہستی ہیں۔میں بہت شکر گزار ہوں کہ فریدہ آپا، فرہاد صاحب اور انڈیا ٹیم نے اس کو مرتب کیا۔(طارق بدر، لاہور ،پاکستان)
ث مولاناوحیدالدین خاں کی کتابوں کا قیمتی تحفہ دو روز قبل (18 اکتوبر 2021)مولانا وحید الدین خاں کی 155 تصانیف ادارہ کو موصول ہوئی ہیں۔بلاشبہ مولانا وحید الدین خاں کا اسلوب ، استدلال کی قوت اور تجزیہ کی صلاحیت قابل تقلید ہے ۔اسی خصوصیت کی وجہ سے مولانا وحید الدین خاں کو دور جدید کے مصنفین میں منفرد اور نمایاں مقام حاصل ہے ۔مولانا مرحوم کی کتابیں دیر تک اور دور تک اسلام پر ایمان، اعتقاد اور اعتماد کا درس دیتی رہیں گی۔ خدا ان کی تصانیف کو صدقہ جاریہ بنائے، آمین ۔ادارہ اس موقع پر جناب ثانی اثنین صاحب، ٹرسٹی سی پی ایس انٹرنیشنل ، نئی دہلی کا بے حد ممنون ومشکور ہے کہ انھوں نے ادارہ کی طلب پر مولانا وحید الدین خاں کی گراں قدر تصانیف لائبریری کے لیے ارسال کیں ( ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی ، علی گڑھ)۔
واپس اوپر جائیں