Pages

Wednesday 1 January 2020

Al Risala | January 2020 (الرسالہ،جنوری)

خصوصي شماره: ڈائری 1985سے انتخاب

001
میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا ایک مضمون لکھ رہا تھا۔ خیالات مسلسل دماغ میں امنڈ رہے تھے۔ وہ الفاظ کی صورت میں ڈھل کر قلم پر آرہے تھے ،اور کاغذ پر مرتسم (inscription)ہوتے چلے جارہے تھے۔
ایک لمحے کے لیے میرا ذہن اس طرف مڑ گیا کہ یہ سارا عمل کس طرح انجام پارہا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میرے بدن میں کپکپی طاری ہوگئی۔ ایک نفسیاتی دھماکے کے ساتھ میرا قلم رک گیا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو کیسی عجیب نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ مگر دنیا میں بہت کم لوگ ہیں، بلکہ شاید تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہوئے ہیں، جو واقعی معنوں میں اس کا احساس کریں، اور اس طرح شکر ادا کریں، جس طرح شکر ادا کرنے کا حق ہے۔
002
کارل ٹرول (1899-1975)ایک جرمن سائنٹسٹ اور جغرافیہ داںہیں۔وہ 1960 سے 1964 تک انٹرنیشنل جغرافیائی یونین (IGU)کے صدر رہے۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا— میری زندگی کا حاصل بحیثیت سائنٹسٹ اور جغرافیہ داں یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ خالق کا شکر گذار ہوگیا ہوں
“The fruit of my life as scientist and geographer is to have become more and more deeply grateful to our Creator.”
سائنس داںجب قدرت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے اندر قدرت کی عظمت کا بے پناہ احساس ابھرتا ہے۔ اس کا اندرونی وجود اُس ہستی کے آگے جھک جاتا ہے، جس نے اتنی با معنی کائنات بنائی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں خدا کے انکار کا ذہن سائنس دانوں نے نہیں بنایا۔ یہ دراصل کچھ ملحد فلاسفہ تھے، جنھوں نے سائنسی دریافتوں کو غلط رخ دے کر اس سے خود ساختہ طورپر انکارِ خدا کا مطلب پیدا کیا۔ حالاں کہ یہ سائنسی دریافتیں زیادہ درست طورپر اقرار ِخدا کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔اس کی ایک واضح مثال سر جیمز جینز کی کتاب پراسرار کائنات (The Mysterious Universe) ہے۔
003
شہد کے بارے میں مَیں نے ایک انگریزی مضمون پڑھا۔ اس میں دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی لکھا ہوا تھاکہ تقریباً 550 شہد کی مکھیاں مسلسل مشغول رہ کر تقریباً پچیس لاکھ پھولوں کا رس چوستی ہیں، تب ایک پاؤنڈ شہد تیار ہوتا ہے:
Some 550 busy bees have to dip their snouts into as many as 2.5 million flowers to make just one pound of honey.
شہد کی مکھی کے اندر بے شمار نشانیاں ہیں۔ مذکورہ واقعہ ان میں سے صرف ایک ہے۔ آدمی اگر اس پر غور کرے، تو وہ خالق کے کمالات کے احساس سے سرشار ہو جائے۔
004
نظامِ شمسی (solar system)وہ ہے، جس کے درمیان میںایک روشن ستارہ (سورج) ہو، اور اس روشن ستارے کے گرد غیر روشن سیارے مخصوص مدار میں گھوم رہے ہوں۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق، معلوم نظام شمسی ابھی تک صرف ایک ہے، جس میں ہماری زمین واقع ہے۔ تاہم علمائےفلکیات کا قیاس ہے کہ اس قسم کے مزید ایک ملین نظامِ شمسی کائنات میں ہوسکتے ہیں۔
کہکشاں(galaxy) اس مجموعہ کو کہتے ہیںجس میں روشن ستارے ایک خاص نظام کے اندر گردش کررہے ہیں۔ ہماری قریبی کہکشاں، جس کا نام ملکی وے (Milky Way) ہے، اورجورات کے وقت لمبی سفید دھاری کی شکل میں دکھائی دیتی ہے، اس کے اندر تقریباً ایک کھرب ستارے ہیں، اور ہمارا نظام شمسی اسی میں واقع ہے۔
سورج ہماری کہکشاں کی پلیٹ پر اپنے تمام سیاروں کو لیے ہوئے 175 میل فی سکنڈ کی رفتار سے گردش کررہا ہے۔ یہ کہکشاں اتنی وسیع ہے کہ سورج 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کے رفتار سے ایک چکر 24 کرور سال میں پورا کرتا ہے۔یعنی سورج کے اس تیز رفتار سفر کے باوجود کہکشاں کے مرکز کے گرد ایک چکر کو پورا کرنے میں ہمارے نظام شمسی کو 24 کرور سال لگ جاتے ہیں۔ اس قسم کی ایک بلین سے زیادہ کہکشائیں وسیع کائنات میں پائی جاتی ہیں، اور ہر کہکشاں کے اندر کئی بلین انتہائی بڑے بڑے ستارے موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہماری کہکشاںملکی وے میں 200 سے 400 ارب ستارے ہیں۔
کہکشاں کے اندر ستارے انتہائی بعید فاصلوں پر واقع ہیں۔ ہمارے سورج سے قریب ترین ستارے کی روشنی، جو ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ کی رفتار سے سفر کررہی ہو، زمین تک اس کو پہنچنے میں 4 سال سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔
اجرام سماوی کے اتنے بڑے نظام کو کیا چیز تھامے ہوئے ہے، فلکیات دانوں کے نزدیک وہ اجرام سماوی کی باہمی کشش ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ’’اجرام سماوی کی باہمی کشش‘‘ کے لفظ کی معنویت آدمی سمجھ لیتا ہے۔ مگر ’’خدا‘‘ کے لفظ کی معنویت اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔
005
قدیم زمانہ میں شرک اس طرح پیدا ہوا کہ لوگوں نے جس چیز کو بظاہر نمایاں دیکھا، اسی کو خدا سمجھ کر وہ اسے پوجنے لگے چاند سورج کی پرستش اسی طرح شروع ہوئی۔
اس اعتبار سے شرک، مظاہرِ کائنات کو سبب ِکائنات قرار دینے کا دوسرا نام ہے۔ مثلاً قدیم عرب میں شعریٰ کی پرستش ہوتی تھی، جس کا ذکر قرآن کی سورہ النجم (آیت 49) میں آیا ہے۔ شعریٰ (Sirius) دکھائی دینے والے ستاروں میں سب سے زیادہ روشن ستارہ ہے۔ وہ سورج سے 23 گنا زیادہ روشن ہے، اور شمسی نظام سے اس کا فاصلہ آٹھ نوری سال سے زیادہ ہے۔ Sirius کا لفظ اصلاً یونانی زبان سے آیا ۔ جس کے معنی چمک دار کے ہوتے ہیں۔
قدیم زمانہ میں مصر اور دوسرے مقامات پر شعریٰ کی پرستش کی جاتی تھی، اور زمین کی شادابی اور تجارتی سرگرمیاں اس سے منسوب کی جاتی تھیں۔ قدیم عرب کا ایک شاعر اپنے ممدوح کے بارے میں کہتا ہے— وہ گرمی پہنچانے والا ہےٹھنڈی میں، یہاںتک کہ جب شعریٰ (موسم بہار میں) طلوع ہوتا ہے، تو وہ (لوگوں کے لیے) ٹھنڈک اور سایہ بن جاتا ہے۔
شامس فی القر حتى إذا ما ذکت الشعرى فبرد وظل
میرا خیال ہے کہ قدیم شرک اور جدید الحاد دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہیں۔ شرک کیا ہے۔ شرک مظاہرِ فطرت کو سببِ فطرت سمجھ کر اس کو پوجنا ہے۔ اسی طرح الحاد بھی مظاہر فطرت کو سبب فطرت سمجھ کر اس کو برتر قرار دینا ہے۔ فرق یہ ہے کہ شرک نے جن مظاہر کو برتر سمجھا، وہ چاند، سورج، شعریٰ وغیرہ تھے۔ الحاد جس مظہرِ فطرت کو برتر قرار دے رہا ہے، وہ قانون فطرت (Law of Nature) ہے۔
006
عرب امارات کے ایک سفر میں میری ملاقات استاذ احمد العبّادی (شارجہ) سے ہوئی۔ یہ 21 رجب 1404 ھ کا واقعہ ہے۔ انھوںنے بتایا کہ فرانس کے ایک اسپتال کے ڈائرکٹر نے اعلان شائع کیا کہ اس کو طبی تحقیق کے سلسلہ میں کچھ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے درخواستیں بھیجیں، ان میں ایک نوجوان عرب بھی تھا۔ یہ مسلمان تھا مگر اسلام سے اس کو زیادہ دلچسپی نہ تھی۔انٹرویو کے دوران ڈائرکٹر نے پوچھا کہ تم مسلمان ہو، تمھاری رائے محمد کے بارے میں کیا ہے۔ نوجوان عرب نے جواب دیا: وہ قدیم عرب کے ایک بدو تھے، انھوںنے کچھ بدوؤں کو بے وقوف بنا کر اپنے گرد جمع کرلیا۔
نوجوان کا یہ جواب سن کر مذکورہ فرانسیسی ڈائرکٹر اس کو ایک مخصوص کمرے میں لے گیا۔ وہاں ایک بورڈ پر یہ حدیث لکھی ہوئی تھی:
عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا مَلَأَ آدَمِیٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ. بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُکُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہُ، فَإِنْ کَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِہِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2380، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3349، مسند احمد، حدیث نمبر 17186) ۔ یعنی مقدام بن معددی کرب سے روایت ہے ، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنا، آپ کہتے ہیں کہ کسی انسان نے پیٹ سے زیادہ نقصان پہنچانے والا کوئی برتن نہیں بھرا، انسان کے لیے اتنے لقمے کافی ہیں کہ وہ اپنی پیٹھ کو سیدھا کرسکے، اگر اور ضرورت ہے، تو ایک تہائی اس کےکھانے کے لیے ہو ، اورایک تہائی اس کےپانی کے لیے ہو،اور ایک تہائی اس کی سانس کے لیے ۔
فرانسیسی ڈائرکٹر نے مذکورہ عرب نوجوان کو یہ حدیث دکھائی، اور کہا کہ میں نے اس حدیث رسول سے دس سے زیادہ طبی اصول اخذ کیے ہیں، اور میری ریسرچ ابھی جاری ہے۔ لہذا جاہل اور گنوار تم ہو ،نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اور پھر اس طالب علم کو اپنے ادارہ میں لینے سے انکار کردیا۔
007
قرآن میں سورہ الذاریات کی ایک آیت یہ ہے: وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (51:47)۔ اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے: اور ہم نے آسمان کو بنایا ہاتھ سے اور ہم یقینا ًپھیلانے والے ہیں۔
قدیم مترجمین کی سمجھ میں پھیلانے والے کی معنویت نہ آسکی، اس لیے انھوں نے لموسعون کا ترجمہ حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے:
وہر آئینہ ما توانائیم
اور ہم کو سب مقدور ہے
اور ہم وسیع القدرت ہیں
اور بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں
اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔ وغیرہ۔
خالص لفظی اعتبار سے یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔ کیوںکہ لفظی ترجمہ یہ ہے کہ’’ ہم کشادہ کرنے والے ہیں‘‘ یا ’’ہم پھیلانے والے ہیں‘‘۔
ترجمہ کے اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات(expanding universe) ہے۔ انسانی علم کی محدودیت اس کو نہ پاسکی۔ مگر قرآن کے مصنف کو یہ حقیقت اس وقت بھی معلوم تھی کہ جب کہ ساری دنیا میں کوئی ایک شخص بھی اس کو نہیں جانتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اس حقیقت کی رعایت کرتے ہوئے موسعون(ہم پھیلانے والے ہیں) کے لفظ کا انتخاب فرمایا۔
قرآن میںاس طرح کے کثیر شواہد ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن عالم الغیب کا کلام ہے، محدود ذہن رکھنے والا انسان ایسا کلام پیش کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا۔
008
مذہب کیا ہے، اس کی تعریف میںعلم الانسان کے علماء (anthropologist) کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تاہم ان کی اکثریت نے عملی ضرورت (working purpose) کے لیے اس پر اتفاق کرلیا ہے کہ —مذہب ما فوق الفطری قوتوں میں عقیدہ رکھنے کا نام ہے:
The belief in power or powers superior to man
دنیا کی تاریخ کے بالکل ابتدائی دنوں سے انسان کسی نہ کسی شکل میںایک مذہبی مخلوق رہا ہے۔ تقریباً بلا اختلاف وہ ایک خدا رکھتا تھا یا کئی خدا۔ جس کی طرف وہ حفاظت اور پناہ کے لیے دیکھ سکے۔ کبھی یہ خدا لکڑی کے بنے ہوئے ہوتے تھے، کبھی پتھر کے ، کبھی جانوروں اور سانپوں کوخدا سمجھ لیاگیا۔ مگر بہر حال وہ انسان کی نظر میں خدا تھے۔ اس لیے انسان ضروری سمجھتا تھا کہ وہ ان کی پوجا کرے۔کیوں کہ مذہب ایک فوق الفطری طاقت کی پرستش کی صورت میںانسانی فطرت کے ڈھانچے میں مکمل طورپر پیوست ہے:
Man has worshipped them, because religion, as represented in the worship of a supernatural power, is interwoven with entire fabric of human nature. (Encyclopaedia Americana 1961, V. XXIII, p. 354)
009
موجودہ زمانہ میں مفکرینِ قانون کی بڑی تعداد تشکیک کی شکار ہے۔ مثال کے طورپر گسٹاؤ ریڈ برش (Gustav Radbruch [1878-1949]) اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ مطلق قانون قابلِ دریافت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قابلِ مظاہرہ نہیں:
Absolute judgments about law are not discoverable, that is to say, not demonstrable.
یہ نظریۂ قانون کانٹ کے فلسفہ سے نکلا ہے۔ کانٹ نے دکھایا ہے کہ ہم صرف جان سکتے ہیں کہ ’’کیا ہے‘‘، ہم ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کو دریافت نہیں کرسکتے۔ چنانچہ گسٹاؤ ریڈبرش کا کہنا ہے کہ مطلوبہ قانون بذریعہ اعتراف(confession)اختیار کیا جاسکتا ہے، نہ ;کہ اس لیے کہ وہ علمی طورپر معلوم (scientifically known) ہے۔ موجودہ زمانہ میں قانون ، زبردست کوشش کے باوجود قانون کے معیار (legal norms) کی تلاش میںناکام ہوچکا ہے۔
010
اسلام پر روایتی عقیدہ کافی نہیں۔ اسلامی تعلیمات کو جب آپ روایتی الفاظ میں بیان کرتے ہیں، تو وہ صرف روایتی عقیدہ کے طورپر ذہن میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب اس کو وقت کی زبان میں بیان کیا جائے تو وہ سننے والے کی نفسیات کا جزء بن جاتا ہے۔ ایک ناقابلِ فہم منتر آپ کسی کو یاد کراسکتے ہیں، مگر ایسا منتر آدمی کی نفسیات میں شامل نہیں ہوگا۔ وہ بس اوپر اوپر رہے گا، اور کوئی عقیدہ جب تک نفسیات میں شامل نہ ہو ،وہ آدمی کے اندرون کو نہیں جگاتا، وہ اس کی قوت محرکہ نہیں بنتی۔
اسلامی تعلیمات کو وقت کے اسلوب میں بیان کرنے کی چند مثالیں یہ ہیں۔مثلاً سورہ عنکبوت (آیت 2)میں ہے کہ خدا صرف آمنّا (ہم ایمان لے آئے) کہنے پر آدمی کو نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ وہ اس کی آزمائش کرتا ہے۔ اگر آپ آیت کا صرف ترجمہ کردیں، تو وہ جدید ذہن کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ مگر جب آپ اس کو ان الفاظ میں بیان کریں ;کہ آدمی نارمل (normal)حالات میں جو کچھ کرتاہے، اس پر اللہ کے یہاں فیصلہ نہیں ہوگا، بلکہ اس عمل پر ہوگاجو وہ ابنارمل (abnormal) حالات میں کرتا ہے، تو وہ فوراً جدید انسان کی سمجھ میں آجاتا ہے۔
اسی طرح قرآن میں ہے فَأُولَئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ (25:70)۔ یعنی اللہ اُنکی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا۔ اس کی تشریح آپ ان لفظوں میں کریں کہ خدا آدمی کے ڈس ایڈوانٹج کو ایڈوانٹج میںتبدیل کردیتا ہے۔ یہ تشریح بآسانی جدید ذہن کے لیے قابلِ فہم ہوجائے گی۔اسی طرح عورت اور مرد کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ(3:195) ۔یعنی تم سب ایک دوسرے سے ہو۔ اگر اس کی وضاحت آپ ان الفاظ میں کریں تو آج کا انسان فوراً اس کی حقیقت کو پالے گا کہ اسلام کے نزدیک عورت اور مرد ایک دوسرے کا تکملہ (supplement)ہیں، نہ کہ ایک دوسرے کا مثنیٰ (counterpart)۔
011
مولانا اسعد اسرائیلی سنبھل کے رہنے والے ہیں۔ ایک مرتبہ ان سے ملاقات ہوئی، اور دورانِ گفتگو ہندستان کے فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر ہوا۔ وہ الرسالہ کے اس نقطۂ نظر سے متفق ہیں کہ یہ فسادات داعی اور مدعو کے رشتہ کو مجروح کرتے ہیں۔ انھوںنے کہا:
’’فرقہ وارانہ فسادات میںمسلمان نہیں مرتے، جو چیز مرتی ہے، وہ دعوتِ حق کا امکان ہوتا ہے‘‘۔
ہندستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو جھگڑا ہے، اس میں مسلمان صرف اپنے مادی نقصانات کا رونا روتے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ان جھگڑوں کی وجہ سے دونوں قوموں کے درمیان معتدل فضا ختم ہوگئی ہے، اور معتدل فضا کے بغیر دعوتی عمل ممکن نہیں۔
اگر مسلمانوں کے اندر دعوت کا درد ہو، تو وہ ہندوؤں سے اپنے تمام مادی جھگڑے یک طرفہ طورپر ختم کردیں گے۔ وہ اپنے اور ہندوؤں کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ بحال کرنے کے لیے ہرقربانی کو آسان سمجھیں گے۔
012
مسلمان ساری دنیا میںوَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ (البقرۃ، 2:61)کا مصداق ہورہے ہیں۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے اورڈال دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی۔کوئی کوشش اور کوئی تدبیر ان کو اس حالت سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہورہی ہے۔ شاید یہ امت اس سنت الٰہی کی زد میں آگئی ہے، جس میں اس سے پہلے یہود آئے تھے۔ یہود اس لیے مغضوب ہوئے کہ کتاب الٰہی کے حامل ہونے کے باوجود، انھوںنے حق کی گواہی نہیں دی۔ انھوں نے اس کا کتمان کیا۔ مسلمانوں کا حال بھی اب یہی ہورہا ہے۔ ان کو خدا کی آخری وحی دی گئی تھی، اور حکم ہوا تھا کہ جس طرح رسول نے اس امانت کو تمھارے پاس پہنچایا ہے، اسی طرح تم قیامت تک اس کو تمام قوموں تک پہنچاتے رہو۔ مگر امت نے صدیوں سے اپنی اس ذمہ داری کو چھوڑ رکھا ہے۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی ذلت اور مسکنت کا سبب یہی ہے۔ ان کو ذلت اور مسکنت سے نکالنے کی واحد تدبیر یہ ہے کہ ان کو دوبارہ داعی گروہ کی حیثیت سے اٹھایا جائے، اور حق کا پیغام تمام بندگان خدا تک ان کی اپنی قابلِ فہم زبان میں پہنچایا جائے۔ یہی واحد عمل ہے، جو مسلمانوں کو دوبارہ نصرتِ الٰہی کا مستحق بنا سکتا ہے، اور ان کو دنیا اور آخرت میں سرفراز کرسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلِ خاص سے آج ہمارے لیے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ پچھلے تمام زمانوں سے زیادہ موثر شکل میں اس مہم کوانجام دیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف پٹرو ڈالر کے خزائن نے مسلمانوں کو اس پوزیشن میں کردیا ہے کہ وہ اس کام کو اعلیٰ ترین سطح پر کرنے کی بڑی سے بڑی قیمت دے سکیں۔ دوسری طرف جدید دریافتوں نے حیرت انگیز طورپر اسلام کے ان تمام معتقدات کے لیے خالص سائنسی دلائل فراہم کردیے ہیں، جن پر پچھلے زمانوں میں صرف قیاسی بحثیں کی جاسکتی تھیں۔ اگر ان دونوں امکانات کو دعوتِ حق کی مہم میں استعمال کیا جائے، تو اظہار دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے خواب کو عالمی سطح پر ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
013
تامل ناڈو کے علاقہ میں بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔وہاں کے ایک نومسلم سے پوچھا گیا کہ آپ اپنے اور عام مسلمانوں کے درمیان کس قسم کا فرق پاتے ہیں۔ مذکورہ نومسلم نے جواب دیا کہ وہ (پیدائشی) اتفاق کی بنا پر مسلمان ہیں، مگر ہم نے اپنے ارادہ سے اسلام کو اختیار کیا ہے:
They are Muslims by chance, but we are Muslims by choice.
یہ فرق کوئی معمولی فرق نہیں۔ یہ فرق آدمی کے کردار میں زبردست فرق پیدا کرتا ہے۔ جن لوگوں کو اسلام محض پیدائشی طورپر مل جائے، ان کے اندر کوئی اسلامی حرارت نہیں ہوتی۔ وہ اسلام کے نام پر دوسروں کے خلاف جھوٹے ہنگامے کرسکتے ہیں، مگر خود ان کے اپنے اندر اسلام ایک انقلاب کے طورپر داخل نہیں ہوتا۔
مگر جو شخص اسلام کو خود اپنے انتخاب سے اختیار کرے، اس کے لیے اسلام ایک ذہنی انقلاب کے ہم معنی ہوتا ہے۔ وہ اس کی اندرونی شخصیت میں بھونچال کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے ہی افراد دراصل وہ لوگ ہیں، جو تاریخ بناتے ہیں۔
014
اسلام کی بہت سی خصوصیات ہیں جو مسلمانوں کو معمولی سی لگتی ہیں۔ مگر غیر مسلم ان خصوصیات کو بڑے اچنبھے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
مثلاً اسلام میں ایک شخص بلا واسطہ خدا کی عبادت کرسکتا ہے۔ ہم چوں کہ روزانہ مسجد میں جاکر نماز پڑھتے ہیں، ہمیں اس کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر ایک غیر مسلم جب دیکھتا ہے کہ نماز کا وقت آیا، اور مسلمان نے خدا کی طرف رخ کرکے اپنی عبادت شروع کردی۔ وہ کسی واسطہ کے بغیر براہِ راست اپنے خدا سے مربوط ہوگیا، تو اس کو یہ بات بہت زیادہ اسٹرائک(strike) کرتی ہے۔
اسی طرح اسلام میں ہر حکم کے ساتھ رعایتی دفعہ بھی شامل ہے۔ مثلاً وضو نہ کرسکوتو تیمم کرلو۔ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مشکل ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھ لو، وغیرہ۔ اسی قسم کی چیز ان لوگوں کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں جنھوںنے دوسرے مذاہب کے ماحول میں پرور ش پائی ہے۔ کیوںکہ دوسرے مذاہب میں صرف ’’عزیمت‘‘ کے احکام ہیں، ان کے ہاں ’’رخصت‘‘ کے احکام نہیں۔
اسی طرح دوسرے مذاہب میںعبادتی مراسم (rituals) کی بھر مار ہے۔ ان مراسم میں معمولی فرق کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی کی عبادت ہی ادا نہیں ہوئی۔
اس قسم کی سادگی جو اسلام میں ہے ،وہ اس کے لیے ایک زبردست تبلیغی قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ دور اول میں اسلام جو اتنی زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلا، اس کی کم از کم ایک وجہ یہی تھی۔ دوسرے مذاہب میں لوگ اصراور اغلال کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ اسلام نے ان کو سیدھا سادھا فطری مذہب پیش کیا۔ وہ فوراً اس کی طرف دوڑ پڑے۔
بد قسمتی سے بعد کے دور میں مسلمانوں نے بزعم خود اسلام کی تعلیمات کو مفصل اور جامع بنانے کے لیےاس میںاضافے شروع کیے۔ فقہی اضافے، کلامی اضافے، اعتقادی اضافے اور متصوفانہ اضافے۔ ان اضافوں نے اسلام کے اوپر ایک مصنوعی پردہ ڈال کر اس کو اس کی فطری کشش سے محروم کردیا۔
015
عام طوپر لوگوں کا حال یہ ہے کہ کسی شخص کے اندر کوئی خرابی کی بات دیکھتے ہیں، تو وہ غیرجانب دار (indifferent) ہوجاتے ہیں۔ لوگ صرف اپنے بچوں کی خرابیوں کی اصلاح کے معاملہ میں سنجیدہ ہوتے ہیں، دوسروں کی خرابیوں کی اصلاح سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ میری مراد یہاںانفرادی اصلاح سے ہے۔ کیوں کہ میں اجتماعی اصلاح کے نام پر اٹھنے کو لیڈری سمجھتاہوں، نہ کہ حقیقۃً اصلاحی کام۔
مگر میرا حال یہ ہے کہ میںکسی فرد کے اندر کوئی خرابی دیکھتا ہوں، توفوراً دل بے چین ہوجاتا ہے۔مثلاً 23 ستمبر 1978 کا واقعہ ہے۔ میرے یہاںمسلم اسکالر آئے۔ وہ سگریٹ پر سگریٹ پی رہے تھے۔میں نے انھیں سمجھا بجھا کر آمادہ کیا کہ وہ سگریٹ چھوڑ دیں۔ چنانچہ انھوںنے سگریٹ پھینک دی، اور میری ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:
آج بتاریخ 23 ستمبر 1978 سے میںنے سگریٹ چھوڑ دی۔ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے اس عہد پر قائم رکھے۔‘‘
اسی طرح حفظ الرحمن عظیم قاسمی 19 نومبر 1978کو میرے دفتر میں آئے۔ ان کے ساتھی نے بتایا کہ وہ ہر شخص کی تقریر کو دہرا سکتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے قاری طیب صاحب، مولانا انظر شاہ صاحب کی تقریروںکو بالکل انھیں کی آواز میں دہرادیا۔ تاہم مجھے اس سے خوشی نہیں ہوئی۔ میں نے کہا کہ جب آپ کا حافظہ اتنا غیر معمولی ہے، تو آپ اس کو نقل کے بجائے کسی زیادہ بہتر کام میںاستعمال کریں۔ مثلاً آپ انگریزی پڑھیں۔ اچھا حافظہ ہونے کی وجہ سے آپ بہت آسانی سے نئی زبان سیکھ سکتے ہیں۔ انھوںنے اتفاق کیا اور میری ڈائری پر یہ الفاظ لکھے:
’’میں اللہ کو گواہ بنا کر یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے بعد کسی کی تقریر نہیںدہراؤں گا، ان شاء اللہ۔‘‘
016
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عائشہ نے فرمایا کہ لوگوں نے آپ کو روند ڈالا تھا (حَطَمَہُ النَّاسُ)صحیح مسلم، حدیث نمبر 732۔ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ کی کیا مصلحت ہے،مگر میرے جیسے کمزور آدمی کے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ لوگوں نے مجھ کو اتنا زیادہ ستایا ہے کہ اس کے لیے انسانی زبان میں سب سے موزوں لفظ یہی ہے — لوگوں نے مجھ کو روند ڈالا۔
پھر بھی میں زندہ ہوں ۔ اپنے حال پر مجھے ایک قصہ یاد آتاہے۔ ایک رسالہ نے ایک بار ایک انعامی سوال نامہ چھاپا۔ سوال یہ تھا کہ ایک عورت کی شادی ایک مردسے ہوئی۔ عورت اس مرد کو بہت زیادہ چاہتی تھی۔ مگر شادی کے جلد ہی بعد مرد کا انتقال ہوگیا اور اس نے ایک چھوٹا بچہ چھوڑا ۔ سوال نامہ میں پوچھا گیا تھا کہ بتاؤ کہ یہ عورت اپنے محبوب شوہر کے مرنے کے بعد خود بھی مرجانا چاہے گی یا زندہ رہنا پسند کرے گی۔بہت سے لوگوں نے اپنے جوابات بھیجے۔ جس آدمی کو انعام ملا، وہ شخص وہ تھا جس نے لکھا کہ وہ عورت اپنے بچے کی خاطر زندہ رہنا چاہے گی۔
ایسا ہی کچھ میرا حال بھی ہے۔ لوگوں نے مجھے جس قدر ستایا ہے، اور ستارہے ہیں ،اس کے بعد مجھے ایک دن کے لیے بھی زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا۔ مگر میرے سامنے جو دینی کام ہے وہی وہ چیز ہے جو مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے۔
میں قرآن کی تفسیر مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ میں سیرت پر ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ کئی ضروری موضوعات پر دینی کتابیں تیار کرنا ہے۔ یہی پیش نظر کام ہے، جو مجھے زندہ رہنے پر مجبور کرتاہے۔
شاید اللہ تعالیٰ کو بھی منظو رہے کہ میں یہ کام کروں۔ ورنہ لوگوں نے جتنا زیادہ مجھے پریشانی میں مبتلا کیا ہے ،اس کے بعد میری راتوں کی نیند اڑ جانی چاہیے تھی۔ مگر یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ میرے ہوش پوری طرح باقی ہیں۔ رات کو مجھے وہ نیند آتی ہے جس کو sound sleep کہاجاتا ہے۔ اگر میری نیند خدا نخواستہ اڑ جاتی، تو اس کے بعد میںکوئی بھی علمی کام نہیں کرسکتاتھا۔یا اللہ، مجھے بخش دیجیے، دنیا کا ستایا ہوا ،آخرت میں نہ ستایا جائے۔
017
پاکستان کے سفر میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی۔ یہ ایک مشہور شخصیت ہیں، اور پاکستان میں ’’غلبۂ اسلام‘‘ کی تحریک چلا رہے ہیں۔ میںنے ان سے پوچھا کہ پاکستان میں غیر مسلم (ہندو اور عیسائی) قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں۔ کیا ان کے درمیان کوئی تبلیغِ اسلام کی تحریک چل رہی ہے۔ میرا یہ سوال سن کر وہ مسکرائے اور پھر کہا: یہاں غیر مسلموں کی فکر کون کرتا ہے۔
مجھے ان کے اس جواب سے بہت دھکا لگا۔ میرے لیے یہ تجربہ بڑا اندوہ ناک تھا کہ جو لوگ غلبۂ اسلام کی باتیں کرتے ہیں، ان کو صرف اسلام کے سیاسی غلبہ سے دلچسپی ہے۔ خدا کے بندوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی انھیں کوئی فکر نہیں۔میرا قطعی یقین ہے کہ غلبہ اسلام کی بات کو اگر دعوت اسلام سے الگ کردیا جائے تو وہ صرف ایک قومی نعرہ بن جاتا ہے۔ دعوت اسلام سے الگ کرنے کے بعد غلبۂ اسلام کے نعرے کی کوئی حقیقت نہیں۔
اس قسم کی تحریک عین وہی ہے، جو یہودیوں کے اندر چل رہی ہے۔ یہودیوں کی تحریک صہیونیت (Zionism) گویا حضرت موسی کے دین سے ہدایت کو الگ کرکے صرف سیاست کو لے لینا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں میں جو لوگ حقیقی معنوں میں دعوتی جذبہ نہیں رکھتے، البتہ غلبہ اسلام کے موضوع پر پرجوش تقریریں کرتے ہیں، وہ درحقیقت قومی دین پر ہیں ،نہ کہ خدائی دین پر۔ انھوں نے دین کے دعوتی حصہ کو الگ کرکے اس کے سیاسی حصہ کو لے رکھا ہے، اور یہ عین وہی چیز ہے جو یہودیوں کے یہاں پائی جاتی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ یہودی اپنی روایات میں بولتے ہیں، اور مسلمان اپنی روایات میں۔
جو مسلمان غلبۂ اسلام کے علم بردار ہیں، وہ بظاہر دعوت کا لفظ بھی بولتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی تحریک کے تین مرحلے ہیں— دعوت، ہجرت، جہاد۔ مگر دعوت سے ان کی مراد اپنے سیاسی اسلام کے لیے فضا تیار کرنا ہے، نہ کہ اللہ کے بندوں کو جہنم سے نکال کر جنت کے راستہ پر ڈالنا۔
018
مسلمان واحد قوم ہیں جنھوں نے بحیثیتِ قوم آج کی دنیامیں سب سے بڑی اقتصادی قربانی دی ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مسلمان آج اقتصادیات میں سب سے پیچھے ہیں۔ جب کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ سے پہلے وہ ساری دنیا میں اقتصادی اعتبار سے سب سے آگے تھے۔ اس کی وجہ ان کی بے خبری نہیں، جیسا کہ عام طورپر سمجھا جاتا ہے، بلکہ بربنائے عقیدہ ان کی قربانی ہے۔ مسلمان آخر چاند سے تو نہیں آئے، وہ بھی انھیں قوموں سے نکل کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ دوسری قومیں جس جدید اقتصادی تبدیلی کو سمجھ کر اس پر چل پڑیں، مسلمان اس پر نہیں چلے۔ اس کی وجہ سود ہے۔ جدید اقتصادیات تمام کی تمام سود پر مبنی ہیں۔ مسلمان سود کی حرمت کی وجہ سے اس سے الگ رہے۔ اور اس کے نتیجے میں اقتصادی اعتبار سے وہ ساری قوموں میں سب سے پیچھے ہوگئے۔
سودی اقتصادیات نے آج ساری دنیا کو تباہ کررکھا ہے۔ مسلمانوں کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ دنیا کے سامنے غیر سودی نظام کی تبلیغ کرتے۔ اگر وہ صحیح معنوں میں ایسا کرتے تو وہ جدید دنیا کے امام بن سکتے تھے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس معاملہ کا نقصان تو ان کے حصے میںآیا، مگر اس کا فائدہ ان کے حصے میںنہ آسکا۔
موجودہ زمانہ کی دو بنیادی خرابیاں ہیں جنھوں نے ساری انسانیت کو تباہ کر رکھا ہے۔ ایک سودی معاشیات، دوسرے آزادانہ جنسی اختلاط۔ ان دونوں چیزوں کے بار ے میں دوسرے مذاہب کے پاس واضح اصول نہیں۔ تحریف (distortion)نے ان کی تعلیمات میں صحیح اور غلط کی آمیزش کررکھی ہے۔ آج صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے، جس میںان امور کے بارے میں واضح احکام موجود ہیں۔ ان کو لے کر دنیا کے سامنے کھڑا ہونے کے لیے دعوتی ذہن اور علم درکار ہے، اور یہی دونوں چیزیں ہیں جو مسلمانوں کے پاس موجود نہیں۔
019
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ الرسالہ کے پرانے قاری ہیں۔ میں نے الرسالہ کے بارے میں ان کا تاثر پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ میں سب سے پہلے سفر نامہ پڑھتا ہوں۔ آپ کا سفر نامہ بہت دل چسپ ہوتا ہے۔
اس قسم کا تبصرہ ذاتی طورپر مجھے پسند نہیں۔ کیوں کہ الرسالہ ذہنی تفریح کے لیے نہیں نکالا گیا ہے کہ لوگ اس کو دلچسپی کے لیے پڑھ لیا کریں۔چنانچہ موصوف کی زبان سے یہ جملہ سن کر مجھے سخت ناگواری ہوئی۔ مگر میں نے ناگواری کو برداشت کیا، اور اس کا اثر اپنی گفتگو یا ظاہری رویہ میں آنے نہیں دیا۔اس کے بعد انھوںنے مزید اپنے تاثرات بیان کیے۔ الرسالہ کے بارے میں بھی اور مکتبہ الرسالہ کی مطبوعات کے بارے میں بھی۔ ان کی مزید گفتگو سننے کے بعد اندازہ ہوا کہ ان کے بارے میں میرا وہ تاثر صحیح نہ تھا، جو ان کے ابتدائی فقرہ کو سن کر ہوا تھا۔ وہ الرسالہ کو محض ’’دلچسپی‘‘ کے لیے نہیں پڑھتے۔ بلکہ وہ ان کے دل میں اترچکا ہے، اور وہ اس کو اپنے حلقہ میں پھیلانے کی بھی برابر کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اس سے میں نے یہ سبق لیا کہ آدمی کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں ایک بات یہ ہے کہ بیشتر آدمی یہ نہیں جانتے کہ کسی بات کو کہنے کے لیے موزوں ترین لفظ کیا ہے۔ وہ اکثر ایک موزوں بات کو غیر موزوں الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے غیر ضروری قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ہم کو چاہیے کہ ہم آدمی کو زیادہ سے زیادہ رعایت دیں۔ اجتماعی زندگی کوفساد سے بچانے کا یہی واحد کامیاب طریقہ ہے۔
020
قرآن کی سورہ المؤمن میں ان لوگوں کا ذکر ہے، جن کے لیے آخرت میں سزا کا فیصلہ ہوگا۔ ان کے اس برے انجام کی وجہ بتاتے ہوئے آیا ہے : ذَلِکُمْ بِأَنَّہُ إِذَا دُعِیَ اللَّہُ وَحْدَہُ کَفَرْتُمْ وَإِنْ یُشْرَکْ بِہِ تُؤْمِنُوا (40:12)۔ یعنی یہ تم پر اس لیے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے، اور جب اس کے ساتھ شریک کیا جاتا تو تم مان لیتے۔
یہی موجودہ دنیا میںانسان کی اصل گمراہی ہے۔ انسان کبھی ایسا نہیں کرتا کہ وہ مکمل طور پر ناحق کا علم بردار بن جائے۔ وہ ہمیشہ ایسا کرتا ہے کہ حق کے ساتھ ناحق کو ملا تا ہے،اور ملاوٹی حق کو اختیار کرتا ہے۔ اس کے مقابلےمیں پیغمبروں کی دعوت بے آمیز حق کی دعوت ہوتی ہے۔ پیغمبراور غیرپیغمبر کی دعوت میں خالص منطقی اعتبار سے، حق اور ناحق کا فرق نہیں ہے۔ بلکہ بے آمیز حق اور آمیزش والے حق کا فرق ہے۔ یہی فرق ایک گروہ کو قابل انعام بناتا ہے، اور دوسرے گروہ کو قابل سزا۔
ملاوٹی حق سے انسان کو اتنی زیادہ دلچسپی کیوں ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے، اوروہ یہ کہ اس طریقہ کو استعمال کرنے میں آدمی کے اپنے جھوٹے دین کی نفی نہیں ہوتی۔ وہ خدا کو مانتے ہوئے بتوںکی پرستش کو بھی جاری رکھ سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ملاوٹی حق کو پیش کریں، وہ فوراً عوام کے اندر مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کی باتوں میں ہر ایک اپنا recognitionپالیتا ہے۔ ایسے لوگ ایک طرف اصول پرستی کی باتیں کرتے ہیں، اور دوسری طرف مفاد پرستی کی۔ ایک طرف وہ آفاقیت کا قصیدہ پڑھتے ہیں، اور دوسری طرف قوم پرستی کا ترانہ گاتے ہیں۔ وہ ایک طرف آخرت کا نام لیتے ہیں اور دوسری طرف دنیوی جھگڑوں میں بھی لوگوں کے ساتھ شریک رہتے ہیں۔
پیغمبر کی دعوت کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ہر ایک اپنی نفی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ’’مشرک‘‘ لیڈر کو ماننے میں کسی کو اپنی نفی نظر نہیں آتی۔ اس میں کسی کو اپنی جگہ سے ہٹنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ہر آدمی جہاں ہے، وہیں وہ اپنے مفروضہ حق کو بھی پالیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرک کے ساتھ بھیڑ جمع ہوجاتی ہے، اور موحد اس دنیا میں اکیلا رہ جاتاہے۔
021
ایک شریر آدمی نے موقع پاکر ایک بزرگ کے مکان پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد اس نے مزید یہ کیا کہ بزرگ کے اوپر جھوٹے مقدمے قائم کردیے تاکہ وہ دباؤ میں آکر اس کے ناجائز قبضہ کو مان لیں۔ عدالت کی پیشیاں ہونے لگیں، اور بزرگ کی توجہ اور پیسہ غیر ضروری طورپر اس میں ضائع ہونے لگے۔ تاہم بزرگ اس سے پریشان نہیں ہوئے۔ مذکورہ شخص سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا:
یاد رکھو، آخری پیشی خدا کے یہاں ہونے والی ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کا حال یہ ہے کہ وہ جھوٹی تدبیر یں کرکے دوسرے کے مال پر قبضہ کرتا ہے اور پھر فتح کا قہقہہ لگاتا ہے۔ وہ فرضی کارروائیاں کرکے دوسرے کی جائداد کو اپنے نام لکھوالیتا ہے اور پھر اپنے دوستوں میں اس کا تذکرہ اس طرح کرتا ہے گویا اس نے کوئی بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
مگر اس قسم کی فتوحات اور کامیابی جھوٹی فتوحات اور کامیابیاں ہیں۔ وہ خدا کے یہاں پیشی کے وقت اتنی بے معنی ثابت ہوں گی کہ آدمی کے پاس الفاظ بھی نہ ہوں گے کہ وہ اپنی حمایت میں کچھ بول سکے۔ وہ وہاں خود ہی اپنے جرم کا اعتراف کرے گا۔ اگر چہ اس وقت اعتراف کرنا، اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔
022
ضمام بن ثعلبہ ایک صحابی ہیں۔وہ اپنے قبیلہ سعد بن بکر کی طرف سے نمائندہ بن کر مدینہ آئے، اور اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد وہ اسلام کے داعی بن کر اپنے قبیلہ کی طرف لوٹے۔ قبیلہ میں پہنچ کر انھوںنے پہلی بات جو کہی وہ یہ تھی: کتنے برے ہیں، یہ لات اور عزی، جن کی تم پرستش کرتے ہو۔ قبیلہ کے اندر لات اور عزی کی عظمت بیٹھی ہوئی تھی، انھوں نے کہا ضمام چپ رہو، لات اور عزی کو اس طرح برا مت کہو۔ اس سے ڈرو کہ تم کو برص ہوجائے، تم کو جذام ہوجائے، تم کو جنون ہوجائے۔ ضمام نے کہا خدا کی قسم یہ لات اور عزی نہ ہمارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں، اور نہ ہم کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے (سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 574)۔
لات اور عزی بظاہر پتھر کے بت تھے۔ پھر قوم کے لوگوں نے ایسی بات کیوں کہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پتھر کے مجسمے حقیقۃً ان کے قدیم بزرگوں کے مجسمے تھے۔ ان پـتھروں کے ذریعہ وہ اپنے بزرگوں کو پوج رہے تھے۔ حضرت ضمام سے جو کچھ انھوں نے کہا وہ بدلے ہوئے الفاظ میں یہ تھا :’’ہمارے بزرگوں کو برا مت کہو، ورنہ تم پر آفت آجائے گی‘‘۔
یہی قوموں کی خاص گمراہی ہے۔ وہ پہلے بھی تھی، اور آج بھی پوری طرح باقی ہے۔ قوموں کا یقین جب خدا سے ہٹتا ہے ،تو وہ اکابر اور بزرگوں پر آکر رک جاتا ہے۔ لوگ اپنے اکابر سے وہ عقیدت وابستہ کر لیتے ہیں، جو عقیدت صرف ایک خدا سے ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں لوگ سب سے زیادہ جس چیز سے برہم ہوتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان کے بزرگوں اور اکابر پر تنقید کی جائے۔
023
رومن امپائر 117ءمیں شمالی برطانیہ سے لے کر بحر احمر اور خلیج فارس تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ مثل مشہور ہوگئی تھی :
All roads lead to Rome
رومن امپائر کے عروج کے زمانے میں اس کے اندر بیشتر یوروپ، شرقِ اوسط اور افریقہ کے شمالی ساحلی ممالک شامل تھے۔ رومیوں نے جو سڑکیں، عمارتیں اور پل بنائے، وہ اتنے شاندار تھے کہ ان کے بنائے ہوئے بعض پل اسپین میںدو ہزار برس بعد بھی آج تک باقی ہیں۔ رومن لا آج بھی یورپ، امریکا کے قانون کی بنیاد ہے، وغیرہ۔
مگر رومن امپائر اپنی ساری عظمتوں کے باوجود ختم ہوگئی۔ اب اس کا نشان یا تو پرانے کھنڈروں میں ہے یا ان کتابوں میں جو لائبریریوں کی زینت بننے کے لیے رکھی جاتی ہیں۔
اس طرح کے واقعات سے انسان اگر نصیحت لے تو وہ کبھی گھمنڈ میںمبتلا نہ ہو۔یہ واقعات بتاتے ہیں کہ آنکھ والا وہ ہے، جو اپنے عروج میں زوال کا منظر دیکھے۔ جو اپنی بلند عمارتوں کو پیشگی طورپر کھنڈر ہوتا دیکھ لے۔
024
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (1898-1983) علمائے دیوبند میں سے تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ وعظ میں کہا تھا، جس کا خلاصہ یہ ہے:
’’میرے نزدیک آج کل جھگڑے اور فساد کی بنیاد یہ ہے کہ ہر شخص سوا سیر بننا چاہتا ہے، کوئی شخص سیر بن کر رہنا نہیں چاہتا۔ اگر خود کو سیر اور دوسروں کو سوا سیر سمجھنے کا جذبہ پیدا ہوجائے تو آج ہی یہ سارے جھگڑے اور فساد ختم ہوجائیں ‘‘۔ (صحبتِ با اہلِ دل)
یہ نہایت صحیح بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے جھگڑوں کی جڑ لوگوں کا یہی جذبہ ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں سوچتا کہ بس چند دن کی زندگی تک یہ سارے جھگڑے ہیں، اس کے بعد انسان ہوگا اور اس کا خدا ہوگا۔ پھر تو نہ کوئی سیر ہوگا اور نہ کوئی سوا سیر۔
آہ، انسان آج سیر بن کر رہنے پر راضی نہیںحالاں کہ اس پر وہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ نہ ہی سیر رہے گا اور نہ سوا سیر۔ بلکہ وہ کچھ نہ ہوگا۔ کیوںکہ اللہ کے مقابلہ میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر لوگ جان لیں کہ بالآخر وہ کچھ بھی نہ رہیں گے تو وہ یونہی سیر بننے پر راضی ہوجائیں اور پھر تمام جھگڑے بھی اچانک ختم ہوجائیں۔
025
مسٹر توقیر احمد ایم اے (اوکھلا) نے اپنے گاؤں کا ایک دلچسپ قصہ بتایا۔ ان کے یہاں کے ایک زمین دار نے اپنا آم کا باغ پھل کے موسم میں پھل والے کے ہاتھ فروخت کیا ۔اس کے بعد تیز آندھی آئی، اور اکثر آم جھڑ گئے۔ باغبان زمین دار سے ملا۔ اس نے فریاد کی کہ آندھی سے پھلوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ آپ دام کم کردیجیے ورنہ میں بالکل دیوالیہ ہوجاؤں گا۔ زمین دار نے دام کم کرنے سے انکار کردیا، اور کسی قسم کی رعایت دینے پر راضی نہ ہوا۔
توقیر صاحب کو باغبان پر رحم آیا۔ انھوں نے زمین دار کے سامنے باغبان کی سفارش کی۔ زمین دار بگڑ گیا۔ اس نے کہا کہ تم کمیونسٹ لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے۔ انسان کا رزق انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے، وہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ خدا چاہے گا تو اس کو پہلے سے بھی زیادہ دے گا۔
انسان کیسا عجیب ہے۔ دوسرے کے خلاف اس کو قرآن سے بے شمار دلیلیں مل جاتی ہیں۔ مگر اپنے خلاف اس کو قرآن سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔زمین دار صاحب کو خود اپنے لیے تو پھل کے تاجر سے لینا تھا، مگر اس تاجرکے بارے میں انھیں یقین تھا کہ اس کو خدا سے مل جائے گا۔
026
ظہیر فاریابی (ظہیرالدّین ابوالفضل طاہر بن محمد، وفات 1201ء)ایک فارسی شاعر تھا۔ اس نے سلجوقی بادشاہ کی مدح میں قصیدہ لکھا۔ قدیم ایرانی روایت کے مطابق اس میں اس نے زبردست مبالغہ آرائی کی۔ اس قصیدے کا ایک شعر یہ تھا:
نہ کرسی فلک نہداندیشہ زیر پائے تا بوسہ بر رکاب قزل ارسلان زند
(خیال کو قزل ارسلان بادشاہ کی رکاب کو بوسہ دینے کے لیے نو آسمانوں کو پاؤں کے ینچے رکھنا پڑا)۔
اس مبالغہ پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے شیخ سعدی (مصلح الدین ابن عبد اللہ شیرازی، وفات 1291ء)نے کہا:
چہ حاجت کہ نہ کرسی آسمان نہی زیر پائے قزل ارسلان
(اس کی کیا ضرورت ہے کہ تم آسمان کی نو کرسیوں کو قزل ارسلان بادشاہ کے پاؤں کے نیچے رکھو)
مگر شیخ سعدی نے یہ شعر اس وقت کہا تھا جب کہ وہ زیادہ تر سیروسیاحت میں مشغول رہتے تھے، اور آزادانہ زندگی گزارتے تھے۔ اس وقت وہ ہر چیز سے بے نیاز تھے۔ وہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے کہ کسی رئیس یا بادشاہ کی مد ح خوانی کریں۔
مگر بعد کے زمانہ میں انھوں نے شیراز میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اس وقت دوسرے شاعروں کی طرح ان کے تعلقات بھی دربار شاہی سے ہوگئے۔ اس وقت وہ اپنے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔چنانچہ انھوںنے بھی بادشاہوں کی مدح میں مبالغہ آمیز قصیدے لکھے۔ سلطان شیراز، اتابک ابو بکر بن سعد زنگی کی مدح میںوہ اپنے ایک قصیدہ میں کہتے ہیں:
توئی سایۂ لطف حق بر زمیں پیمبر صفت رحمۃ للعالمیں
(تم ہی زمین پر خدا کی مہربانی کا سایہ ہو، تم پیغمبر کی طرح دنیا والوں کے لیے رحمت ہو)
اکثر انسان اپنے حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اگر ان کے حالات بدل جائیں تو وہ خود بھی بدل جاتے ہیں۔
028
عبد اللہ بن المبارک (وفات181ھ)کا ایک قول ہے: لَا یَزَالُ الْمَرْءُ عَالِمًا مَا طَلَبَ الْعِلْمَ، فَإِذَا ظَنَّ أَنَّہُ قَدْ عَلِمَ؛ فَقَدْ جَہِلَ (المجالسۃ و جواہر العلم، اثر نمبر308)۔ یعنی آدمی اس وقت تک عالم رہتا ہے جب تک وہ علم سیکھتا رہے۔ جب وہ گمان کرے کہ وہ عالم ہوگیا تو پھر وہ جاہل ہوگیا۔
عباس محمود العقاد کہا کرتے تھے کہ علم پڑھنے کا نام ہے۔ وہ بہت افسوس کرتے تھے کہ اکثر لکھنے والوں کا یہ حال ہے کہ وہ جتنا پڑھتے ہیں، اس سے زیادہ وہ لکھتے ہیں(العقاد کان یقول:العلم ہو القراءۃ۔ وکان یاسف ابلغ الاسف، لأن کثیرا من الکتاب یکتبون اکثر مما یقرأون)۔ رابطۃ العالم الاسلامی، رجب 1405ھ
029
ہندستان کے دینی مدارس کے معلّم یقیناًایک اہم خدمت انجام دے رہے ہیں۔ یہ ایسی نسل کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں،جس سے دینی روایت کا تسلسل قائم ہے۔ اسی طرح یہ مدارس آزاد ہندستان میں اردو کو زندہ رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، وغیرہ۔
مگر ہندستان کے دینی مدرسوں میں جو ماحول ہے وہ معلمین کے فکری مستویٰ کو بلند نہیں ہونے دیتا۔ مثال کے طورپر ان مدارس میں استاد اور شاگرد کا رشتہ صرف معلِّماور معلَّم (متعلم) کا رشتہ ہے۔ یعنی ایک بتانے والا ہے اور دوسرا سننے والا۔ اس کی وجہ سے معلمین کا مزاج ایسا بن جاتا ہے کہ وہ اپنے ذہن سے باہر کی حقیقتوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ طلبہ کے سامنے ان کی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ انھیں سیکھنا نہیں ہے، بلکہ سکھانا ہے۔ اس سے ان کا ذہن جمود (stagnation)کا شکار ہوجاتاہے۔ مزید یہ کہ جاننا یا دوسروں کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرنا، یہ سب باتیں ان کے مزاج سے خارج ہوجاتی ہیں۔
اس کے برعکس مغرب میں تعلیم کا تصور بالکل دوسرا ہے۔ مغرب میں استاد اور شاگرد کے درمیان معلِّم اور معلَّم کا تعلق نہیں، بلکہ رفیق کا تعلق ہے۔ ان کے نزدیک تعلیم ایک مشترک سفر ہے، جس کو استاد اور شاگرد دونوں مل کر انجام دیتے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں انسان کا ذہن یہ بنتا ہے کہ ا س کو اگر کچھ دینا ہے، تو اسی کو دوسرے سے کچھ لینا بھی ہے۔ وہ اگر کچھ باتیں جانتا ہے تو دوسرے بھی کچھ باتوں کو جانتے ہیں جن کو اسے دوسرے سے لینا چاہیے۔
مغرب کے تعلیمی نظام میں معلِّم کے اندر ذہنی جمود پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے اندر یہ صلاحیت زندہ رہتی ہے کہ وہ اپنے سے باہر کی حقیقتوں کو سمجھے، اور ان سے فائدہ اٹھائے۔اس کے برعکس ہمارے دینی مدارس کا ماحول، مذکورہ سبب سے، جامد ذہنیت پیدا کرنے کا کارخانہ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مدارس کے ذریعہ تحفظ دین کا کام تو کسی درجہ میں ہوا، مگر احیائے دین کا کام ان مدارس کے ذریعہ مطلق نہ ہوسکا۔
030
ایک مقالہ پڑھا جس کا عنوان ہے: میں اور انسانیت۔مقالہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:
’’اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کے قدموں سے لپٹنے کے لیے بے چین و بے قرار نظر آیا۔ پہاڑوں نے اپنے سینے کشادہ کردیے۔ دریا کی گہرائیاں پایاب ہوگئیں۔ بے قرار سمندر اس کے لیے خود ساحل بنانے لگے۔ آفتاب نے اس کی عظمت و بزرگی کے اعتراف میںاپنی روشنی پیش کردی کہ یہ انسان عظیم ہے۔‘‘
مقالہ اسی قسم کے الفاظ سے شروع ہوتاہے، اور اسی قسم کے الفاظ پر ختم ہوجاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اردو کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ اس کے اوپر شاعری کا غلبہ رہا۔چنانچہ نہ صرف نظم میںشاعری کی گئی، بلکہ نثر میں بھی یہی انداز جاری رہا۔ خطیبوں نے اپنی خطابت میں بھی یہی انداز اختیار کیا۔
اردو زبان میں یہ انداز اتنا زیادہ عام ہوا کہ زبان اور اس کے اسالیب اسی انداز میں ڈھل گئے، شاعرانہ انداز اظہار اردو پر بالکل چھاگیا۔چنانچہ اب یہ حال ہے کہ اگر کسی خیال کو سادہ طور پر ادا کرنا چاہیں تو اردو میںاس کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔ سائنٹفک اسلوب سادہ اسلوب ہے ۔ وہ حقیقت نگاری کا دوسرا نام ہے۔ مگر اردو اپنے شاعرانہ انداز کی وجہ سے اس کے بالکل نا اہل ہوگئی کہ اس میں کسی بات کو سائنٹفک انداز سے بیان کیا جاسکے۔
031
1973 کا واقعہ ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کی لڑائی میں فلسطینیوں کا کافی نقصان ہوا تھا،اور مسلمانوں میں غم و غصہ کا ماحول تھا۔ 19 اکتوبر 1973 کو جمعیۃ علماء کے زیر اہتمام دہلی میں ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا۔ یہ جلوس جامع مسجد سے شروع ہو کر امریکی سفارت خانہ پر ختم ہوا۔ دہلی کے مسلمانوں کے علاوہ اطراف کے شہروں کے مسلمان بھی بڑی تعداد میں آ آکر اس میں شامل ہوئے تھے۔ میں بھی الجمعیۃ ویکلی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس جلوس میں شریک تھا۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگ نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے گیٹ پر جمع ہوگئے۔ لوگ اس قدر جوش میں تھے گویا کہ وہ گیٹ کو توڑ کر سفارت خانہ کے اندر داخل ہوجائیں گے۔ تاہم وہاں پولیس کا کافی انتظام تھا، اس لیے لوگ اندر داخل نہ ہوسکے۔
مولانا سید احمد ہاشمی صاحب (وفات 2001) نے ایک ٹرک پر کھڑے ہوکر تقریر کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں جوش وجذبہ کا مظاہرہ کرنے کے بعد آخر میں کہا کہ اس وقت فلسطینی عربوں کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ خون ہے۔ ہزاروں لوگ زخمی ہو کر اسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی صحت کے لیے انھیں فوری طورپر خون پہنچانا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں ایک رجسٹر رکھا گیا ہے۔ آپ میں سے جو لوگ خون دینا چاہیں، وہ رجسٹر میں اپنا نام لکھوادیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ابھی فوراً خون نہیں لیا جائے گا، ابھی صرف نام اور پتہ لکھا جائے گا۔ جتنے آدمی نام لکھوائیں گے، ان کی فہرست یہاں ہم عرب سفارت خانہ میں دے دیں گے۔ اس کے بعد ان کے مطالبہ کے مطابق آپ حضرات کو خون دینے کے لیے بلایا جائے گا۔
مقرر نے اپنے اس اعلان کو بار بار دہرایا، اوران کو نام لکھوانے پر ابھارا ۔مگر غالباً ہزاروں کے مجمع میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں تھا، جس نے رجسٹر میں اپنا نام لکھوایا ہو۔ امریکی سفارت خانہ کے خلاف جوش وخروش کا مظاہرہ کرنے والے اس وقت بالکل ٹھنڈے ہوگئے ،جب انھیں اپنا خون دینے کے لیے پکارا گیا ۔ ایک ایک شخص خاموشی کے ساتھ اپنے گھر کی طرف واپس چلا گیا۔
032
نصف صدی پہلے امیر شکیب ارسلان (1869-1946)نے ایک عربی کتاب لکھی تھی، جو مندرجہ ذیل نام سے چھپی تھی
لماذا تاخر المسلمون وتقدّم غیرھم
(مسلمان کیوں پیچھے ہوگئے ،اور ان کے سوا دوسرے لوگ آگے ہوگئے)
مگر نصف صدی بعد بھی یہ سوال حل نہ ہوسکا۔مجلہ رابطہ العالم الاسلامی (ریاض) کی اشاعت اپریل 1985 میں استاذ محمد عبد اللہ السمان کا ایک مضمون چھپا ہے جس کا عنوان دوبارہ یہ ہے:
لماذا تأخر نا وتقدّم غیرنا
مضمون نگار نے لکھا ہے کہ مسلمان عام طور پر اپنے اسلاف پر فخر کرتے ہیں۔ وہ روم وایران کی فتح اور بدروحنین اور یرموک وقادسیہ کی فتوحات کا ذکر کرکے خوش ہوتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ خود ہم نے کیا کیا (ولکن ماذا فعلنا نحن)۔اس کے بعد انھوں نے یہ شعر لکھا ہے:
لیس الفتى من یقول کان أبى ولکن الفتى من قال ہا أنا ذا
(جوان وہ نہیں ہے جو کہے کہ میرا باپ ایسا تھا، جوان وہ ہے جو کہے کہ یہ ہوں میں)
033
موجودہ دنیا میں ہر قوم نے اپنی قومی برتری کا ایک نعرہ اختیار کررکھا ہے:
My Country, right or wrong میرا ملک چاہے حق پر ہو یا ناحق پر
Germany above all جرمنی سب سے اوپر
Italy is religion اٹلی مذہب ہے
Rule is for Britannia حکومت برطانیہ کے لیے ہے
America is God's own country امریکہ خدا کا اپنا ملک ہے
White Man’s Burden سفید آدمی کا بوجھ
مختلف قوموں نے اسی طرح مختلف الفاظ بنا لیے ہیں، جن کو بول کر وہ اپنی قومی برتری کے جذبہ کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ الفاظ اگر چہ الگ الگ ہیں، مگر سب کی نفسیات ایک ہے۔ ہر ایک اپنی قوم کو اونچا سمجھتا ہے۔ ہر ایک قومی بڑائی کے احساس کو اپنی غذا بنائے ہوئے ہے۔
ایسے ماحول میں مسلمان اگر یہ کریں کہ وہ بھی اپنی بڑائی کا نعرہ لے کر کھڑے ہوجائیں — ہمارا دین سب سے کامل، ہمارا نبی سب سے افضل، ہماری تاریخ سب سے شاندار، ہماری قوم خیر الأمم۔ اس طرح کے نعروں کے ساتھ اگر وہ دنیا کے سامنے آئیں تو وہ قومی بڑائیوں کے ٹکراؤ میں ایک اور قومی بڑائی کا اضافہ کریں گے۔ اس قسم کی باتیں صر ف جوابی قومیت کے جذبہ کو ابھاریں گی۔ وہ دعوت اسلامی کے حق میں لوگوں کے دلوں کو نرم نہیں کرسکتی۔
اس قسم کے نعروں کا کوئی بھی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں نے اپنی قومی برتری کے جذبہ کو تسکین دینے کے لیے بنائے ہیں، اور چوں کہ انھیں یہ درد نہیں ہے کہ دنیا کی قومیں خدا کے دین کے سایہ میں آئیں، وہ نہایت فخر کے ساتھ ان الفاظ کو دہراتے رہتے ہیں۔ انھیں احساس نہیں کہ ان کی اس قسم کی باتیں اسلام کو دوسروں کی نظر میںصرف ایک قومی چیز بنا دیتی ہیں، اور پھر وہ اس کو رقیب سمجھ کر اس سے دور ہوجاتے ہیں۔
034
طب نبوی پر تقریباً ایک درجن کتابیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں صحت اور امراض کے علاج کے بارہ میں جو کچھ فرمایا، ان کو محدثین نے اپنی کتابوں میں جمع کردیا ہے۔ صحیح بخاری میں بھی کتاب الطب موجود ہے جس میںپچاسی ابواب ہیں۔ آخری باب کا عنوان ہے:بَابُ إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِی الإِنَاءِ (باب جب مکھی برتن میںگرجائے)۔
ایک روایت اس سلسلہ میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار حضرت عائشہ کے پاس بغرض عیادت آئے۔ اس وقت آپ نےکہا: عائشہ، سب سے اچھی دوا پرہیز ہے، اور معدہ بیماری کا گھر ہے (الأَزْمُ دَوَاءٌ، وَالمَعِدَةُ بَیْتُ الدَاءِ)الطب النبوی للذھبی، صفحہ 102۔
یہ دو لفظ میں صحت اور تندرستی کا خلاصہ ہے۔ اگر آدمی کھانے پینے میںاحتیاط کا طریقہ اختیار کرے۔ اور معدہ میں ضرورت سے زیادہ غذا نہ بھرے، تو وہ، ان شاء اللہ، مستقل طورپر صحت مند رہے گا۔ اس کو نہ ڈاکٹروں کی ضرورت ہوگی، اور نہ خرابی صحت کی شکایت کی نوبت آئے گی۔
035
حدیث میںآیا ہے:إِنَّ الْوَلَدَ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3666)۔ یعنی اولاد بخل اور بزدلی میں مبتلا کرنے والی ہے۔ یہ بات ہمیشہ صحیح تھی۔ مگر موجودہ زمانہ میں یہ اور زیادہ صحیح ہوگئی ہے۔ قدیم زمانہ میں اسباب حیات بہت تھوڑے ہوتے تھے۔ اس لیے بخل اور بزدلی کے مواقع بھی کم تھے۔ اب اسباب حیات بہت زیادہ ہوگئے ہیں، اس لیے بخل اور بزدلی کے مواقع بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
مکان، فرنیچر، لباس اور د وسرے ساز وسامان جتنے آج ہیں، اتنے کبھی نہیں تھے۔ بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کی تعمیر کے جو امکانات آج کھلے ہیں، وہ پہلے کبھی نہیں کھلے تھے۔ چنانچہ ہر آدمی انھیں امکانات میں کھویا رہتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ ترین معیار زندگی کا حامل بنانا چاہتا ہے۔
یہ جذبہ آدمی کو دین کے معاملے میں بخیل اور بزدل بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے مال کو بچاتا ہے، تاکہ اس کے ذریعہ سے زیادہ سے زیادہ بچوں کے مستقبل کو سنوارے۔ وہ اپنے وجود کو ہر خطرہ کے مقام سے دور رکھتا ہے ،تاکہ بچوں کے بارے میں اس کا منصوبہ نامکمل نہ رہ جائے۔
036
سورہ انعام (آیت 141) میںاسراف سے منع کیاگیا ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے ایک مفسر قرآن لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید کا ایک اعجاز یہاں یہ ہے کہ احکام کے جزئیات بلکہ بعض اوقات تو جزئیات درجزئیات کے ضمن میں وہ ایسے حکیمانہ کلیات و اصول بیان کرجاتا ہے، جو زندگی کے سارے ہی شعبوں پر یکساں منطبق ہوجاتے ہیں۔چنانچہ یہاں بھی چلتے چلتے ایک ایسا چٹکلا بیان کردیا کہ انسان اگر اسی ایک پر عمل کرلے، تو اخلاق، معاملات، سیاسیات، معاشرت، غرض کیا انفرادی اور کیا اجتماعی ہر زندگی کے سارے شعبوں کی مشکلات دور ہوسکتی ہیں، اور بڑے سے بڑے پتھر پانی ہو کر رہ سکتے ہیں۔(تفسیر ماجدی، جلد دوم صفحہ 466)۔
قرآن بلاشبہ ایک اعجازی کلام ہے۔ مگر یہ اعجاز قرآن کی تصغیر ہے کہ یہ کہا جائے کہ قرآن چٹکلے بیان کرتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ یہاں جس چیز کو چٹکلا کہا گیا ہے، وہ لاتسرفوا (اسراف نہ کرو) ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ ایک عجیب بات ہے۔ کیوں کہ ’’اسراف نہ کرو‘‘ایک اہم شرعی اصول ہے نہ کہ معروف معنوں میں کوئی چٹکلا۔
037
ایک صاحب تشریف لائے۔ ان کا کہنا تھا کہ الرسالہ میں خدا اور گاڈ (God)کا لفظ استعمال ہوتا ہے، اس کو بند ہونا چاہیے اور اردو اور انگریزی دونوں الرسالہ میں صرف اللہ استعمال ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ انھو ںنے یہ بتائی کہ خدا اور گاڈ دونوں لفظوں کی جمع آتی ہے۔ جب کہ اللہ ایک ایسا لفظ ہےجس کی جمع نہیں۔
آج کل مسلمانوں میں یہ رجحان بہت بڑھ گیاہے۔ حتی کہ انگریزی میں لوگ ’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ‘ لکھتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ قومی جنون ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
جب کہ معلوم ہے کہ اللہ کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایجاد نہیں کیا۔ یہ پہلے عربوں میں موجود تھا۔ قدیم عرب نے اگرچہ اللہ کی لفظی جمع نہیں بنائی ،مگر اس کی معنوی جمع انھوں نے بنا رکھی تھی۔ یعنی اللہ کو مانتے ہوئے وہ ا س کے شرکاء کو بھی مانتے تھے۔ اس طرح اللہ کا لفظ قدیم عرب کے پس منظر میں شرک کا مفہوم لیے ہوئے تھا۔ مگر قرآن نے جب اس کو خالص توحید کے معنی میںاستعمال کیا، تو وہ توحید کے مفہوم کا حامل بن گیا۔ الفاظ کی معنویت ان کے استعمال سے متعین ہوتی ہے اور اسلامی کتابوں میں خدا اور گاڈ کا لفظ اسلامی استعمال کے اعتبار سے ہے نہ کہ جاہلی استعمال کے اعتبار سے۔
انگریزی میں ’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ‘‘ لکھنا ایک قسم کا جنون (fanaticism) ہے۔ میرا ذوق یہ ہے کہ اس معاملہ میں ادبی تقاضوں کو اہمیت دینی چاہیے۔ ادبی تقاضوں کو اہمیت نہ دینے کا نقصان یہ ہے کہ عبارت کا زور گھٹ جاتا ہے۔
038
قرآن کی سورہ الفتح (آیت 10) میں ہے:وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاہَدَ عَلَیْہُ اللَّہَ(48:10)۔ یعنی اور جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا، جو اس نے اللہ سے کیا ہے۔
یہاں عربی نحو کے عام قاعدہ کے مطابق عَلَیہ کی ’’ہ‘‘ زیر ہونا چاہیے، یعنی عَلَیْہِ پڑھا جانا چاہیے، نہ کہ عَلَیْہُ۔اس غیر معمولی اعراب پر تفسیر کی کتابوں میں لمبی بحثیں کی گئی ہیں، اور مختلف طریقوں سے اس کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مگر ایک اہم پہلو اور ہے، جو تفسیر کی کتابوں میں نہیںآیا ہے۔ وہ ہے قرآن کا کامل طورپر محفوظ ہونا۔
قرآن کو صحابہ کرام نے اور بعد کے لوگوں نے کامل طورپر محفوظ رکھنے کا انتہائی حد تک اہتمام کیا ہے۔حتی کہ اس کی آواز کو بھی پوری طرح محفوظ رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن کا کوئی حصہ اترتا، تو اسی وقت فوراً اس کو لکھ لیا جاتاتھا۔
اسی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت نماز کے اندر یا نماز کے باہر جس طرح ہوتی تھی، اس کی کامل نقل کی جاتی تھی۔چنانچہ اس آیت میں صحابہ نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عَلَیہُ پڑھتے ہوئے سنا، تو عین اسی طرح اس کو محفوظ کرلیااور بعد کی نسلوں کو اسی طرح منتقل کرتے رہے۔
قرآن کے بعد جو نحو مرتب ہوئی اس میں ایسے موقع پر زیر کا اصول درج کیاگیا، یعنی عَلَیْہِ۔ مگر چودہ سو سال تک کسی نے ایسا نہیں کیا کہ معروف نحوی قاعدہ کے مطابق بنانے کے لیے قرآن میں اس آیت کو عَلَیْہِ لکھے یا اس کو عَلَیْہِ پڑھے۔ سیکڑوں سال سے یہ آیت اسی طرح لکھی اور پڑھی جارہی ہے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پڑھ کر سنایا تھا۔کیسا عجیب یہ اہتمام ہے، جو قرآن کی حفاظت کے لیے کیا گیا ہے۔
039
اجمیر کے قریب ایک پہاڑی علاقہ ہے،جس کو میرات کہاجاتاہے۔ یہاں مسلمان معقول تعدادمیں آباد ہیں۔ مگر سب ان پڑھ اور پس ماندہ ہیں۔ وہ دین اور تہذیب دونوں سے دور ہیں۔
تقریباً 15 سال پہلے کی بات ہے مجھے اس علاقہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے ساتھ دو مولوی صاحبان اور تھے۔ ہم لوگ وہاں پہنچے تو مغرب کا وقت ہوچکا تھا۔ مغرب کی نماز ہم نے اپنے میزبان کے گھر کی چھت پر پڑھی۔
میرے ساتھ جو مولوی صاحبان تھے، وہ اس انتظار میں تھے کہ میزبان نماز کے بعد چائے لے کر آئے گا۔ مگر میزبان نماز کے بعد ہم سے رخصت ہوکر گیا، تووہ دوبارہ واپس نہیں آیا۔ انتظار کرتے کرتے عشاکا وقت ہوگیا۔ ہم لوگ عشا کی نماز پڑھ کر بیٹھ گئے ،مگر بدستور میزبان کا پتہ نہ تھا۔
میرے ساتھی جو اس سے پہلے چائے کے منتظر تھے، اب بھوک سے بے تاب ہو کر کھانے کا انتظار کرنے لگے۔ غرض کافی انتظار کے بعد میزبان بڑے سے برتن میں کھانا لے کر آیا۔ میرے ساتھی خوش ہوئے کہ آخر کار انتظار ختم ہوا۔ مگر ان کی خوشی دیر تک باقی نہیں رہی۔ میزبان نے برتن سے کپڑا ہٹایا تو معلوم ہوا کہ جو کھانا وہ لے کر آیا ہے، عجیب وغریب کھانا ہے، یعنی ارہر کی دال اور گلگلہ۔
اب میرے ساتھیوں کا صبر ٹوٹ گیا۔ وہ بول پڑے کہ اتنی دیر کے بعد تم کھانا لائے ہو، اور وہ بھی ایسا عجیب وغریب کھانا جو ہم نے کبھی نہ کھایا تھا، اور سنا تھا۔ مگر میرا رد عمل بالکل مختلف تھا۔ میں نے بہت خوشی کے ساتھ کھانا شروع کردیا، اور کہا کہ یہ تو بہترین کھانا ہے۔ میں کھاتا جاتا تھا ،اور تعریف کرتا جاتا تھا۔ اب میرے ساتھی بھی مجبور تھے۔ وہ بھی میرا ساتھ دیتے ہوئے کھانے میں شریک ہوگئے۔
اس تجربہ کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ کھانوں کی جو روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔
040
039 میں میںنے میرات کے بارے میں اپنے ایک سفر کا تجربہ لکھا ہے۔ اس تجربہ سے سیرت کا ایک پہلو سمجھنے میں مجھے مدد ملی۔
میرات کے مذکورہ سفر میں جب ہمارا میزبان ارہر کی دال اور گلگلہ لے آیا تو میرا اندرونی جذبہ خود بخود رہنمائی کرنے لگا کہ اس وقت مجھے کیا کرنا چاہیے۔ عین اپنے اندرونی جذبے کے تحت میری زبان سے حوصلہ افزائی کے کلمات نکلنے لگے۔ میں یہ کہہ کر ذوق وشوق کے ساتھ اس کو کھانے لگا: یہ تو بہترین کھانا ہے، یہ تو بہترین کھانا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ کھانوں کے سلسلہ میں جو روایتیں آتی ہیں، ان کی حقیقت یہی ہے۔ ان روایتوں کے سلسلہ میں سب سے اہم قابل غور بات یہ ہے کہ اس میں تقریباً ہر اس کھانے کا ذکر ہے، جو اس وقت مدینہ میں رائج تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہر چیز رسول اللہ کا پسندیدہ کھانا تھا، تو آخر وہ چیز کیا ہے جو آپ کو پسند نہ ہو۔
اصل یہ ہے کہ اس وقت مدینہ میں غذا کی فراوانی نہ تھی۔ بڑی مشکل سے آدمی کوئی ایک دو چیز حاصل کر پاتا تھا، جس سے وہ اپنا پیٹ بھر سکے۔
اکثر یہ صورت پیش آتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میںکھانے کا کوئی سامان موجود نہیں ہے۔ کسی انصاری کو پتہ چلا تو وہ آپ کے پاس حاضر ہوا، اور آپ کو بلا کر اپنے گھر لے گیا۔ وہ گھر کے اندر کھانا لانے کے لیے گیا، تو معلوم ہوا کہ گھر کے اندرصرف کوئی ایک یا دو چیز ہے، وہ اس کو اٹھا لایا، اور شرمندگی کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دیا، اور کہا یار سول اللہ اس وقت یہی ہے، آپ اس کو تناول کیجیے۔ آپ نے کھانے کو دیکھا ،تو آپ کی ایمانی شرافت حوصلہ افزائی کے کلمات میں ڈھل گئی۔ آپ نے یہ کہہ کر اس کو ذوق و شوق کے ساتھ کھانا شروع کردیا ،اور کہا یہ تو بہترین چیز ہے، اس سے اچھی کوئی چیز نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ غذاؤں کے سلسلے میں جو حدیثیں آتی ہیں، ان کی حقیقت بس یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے اقوال دراصل وہ کلمات ہیں، جو ایک شریف آدمی اپنے میزبان کے دستر خوان پر کہتا ہے۔ یہ میزبان کی نسبت سے ہے، نہ کہ کھانے کی نسبت سے۔
041
محمد المجذوب (1907-1999) ایک شامی ادیب اور شاعر ہیں۔ ان کی تین جلدوں میں ایک کتاب ہے، جس کا نام ہے: علماء ومفکرون عرفتھم ۔
اس کتاب میں انھوں نے لکھا ہے : أقیمودولتکم علی قلوبکم یقیم اللہ دولتکم علی الناس۔ یعنی تم اپنے دلوں کے اوپر اپنی حکومت قائم کرو، اللہ تمھاری حکومت لوگوں کے اوپر قائم کردے گا۔
یہ نہایت صحیح بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اقتدار کا فیصلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ اور خدا سیاسی اقتدار انھیں لوگوں کو دیتا ہے، جو اپنے آپ کو خدا کی نظر میں اس کا اہل ثابت کریں۔ اس حقیقت کو علامہ ابن تیمیہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: اللہ ینصر الدولة العادلة وإن کانت کافرة، ولا ینصر الدولة الظالمة وإن کانت مؤمنة (الحسبۃ فی الاسلام، صفحہ 7)۔یعنی اللہ عادل حکومت کی مدد کرتا ہے خواہ وہ کافر ہو اوروہ ظالم حکومت کی مدد نہیں کرتا خواہ وہ مومن ہو۔
042
صحابی رسول بشیر بن خصاصیہ کا واقعہ ہے کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ سرکاری عمال صدقہ لینے میں ہم پر زیادتیاں کرتے ہیں(إِنَّ أَہْلَ الصَّدَقَةِ یَعْتَدُونَ عَلَیْنَا)، کیا ہم اپنے مال میں سے زیادتی کے بقدر چھپالیں، بشیر بن خصاصیہ نے کہا:نہیں (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 1586) ۔ اسی طرح سعد بن ابی وقاص کی ایک روایت میں ہے:ادْفَعُوہَا إِلَیْہِمْ مَا صَلَّوُا الْخَمْسَ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر343)۔ یعنی جب تک وہ پانچ نمازیں پڑھتے ہیں، زکوٰۃ انھیں دیتے رہو۔
بنو امیہ کے زمانہ میں جب نظامِ خلافت بدل گیا اور حکام ظلم وتشدد پر اترآئے، تو بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ایسے لوگ ہماری زکوٰۃ کے کیوں امین سمجھے جائیں۔ لیکن تمام صحابہ نے یہی فیصلہ کیا کہ زکوٰۃ انھیں کو دینی چاہیے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر سے ایک شخص نے پوچھا، اب زکوٰۃ ;کس کو دیں۔ کہا، وقت کے حاکموں کو۔ انھوں نے کہا: وہ تو زکوٰۃ کا روپیہ اپنے کپڑوں اور عطروں پر خرچ کرڈالتے ہیں (إِذًا یَتَّخِذُونَ بِہَا ثِیَابًا وَطِیبًا)۔ابن عمر نے کہا وَإِنِ اتَّخَذُوا ثِیَابًا وَطِیبًا(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر 10191) ۔ یعنی اگر چہ وہ کپڑے اور عطر لے لیں (پھر بھی تم انھیں کو زکوٰۃ دو)۔
صحابہ نے یہ جو کہا، یہ کسی بزدلی کی وجہ سے نہیں کہا۔ درحقیقت یہی اسلام کا حکم ہے۔ مسلمان کی قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا اسلام میں جائز نہیں۔ اگر مسلم حکمرانوں میں خرابی نظر آئے تو صرف یہ حکم ہے کہ ان کو درد مندی اور خیر خواہی کے ساتھ سمجھاؤ۔ موجودہ زمانہ کی طرح ایجی ٹیشن چلانا، ان کے خلاف عوامی ہنگامے کرنا سراسر ناجائز فعل ہے۔ جو لوگ اسلام کے نام پر اس قسم کی سیاست چلا رہے ہیں، وہ بلا شبہ مجرم ہیں۔
043
صہیون (Zion) کا لفظ بائبل میں 152 بار آیا ہے۔ یہ قدیم یروشلم میں ایک پہاڑ کا نام تھا۔ یہودی تاریخ بتاتی ہے کہ دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت داؤد نے اسی پہاڑ پر اپنا شاہی قلعہ بنایا تھا۔ اس کے بعد حضرت سلیمان نے اسی پہاڑ پر عبادت گاہ تعمیر کی۔ بعد کو صہیون کا لفظ عمومی طورپر پورے شہر یروشلم کے لیے استعمال ہونے لگا، جو کہ یہودیوں کے نزدیک ان کا مقدس وطن ہے۔ اس علاقہ کو آج کل اوفیل (Ophel) کہاجاتا ہے۔
اس طرح یہودی روایات کے مطابق ’’صہیون‘‘ سے مراد یہودیوں کا مذہبی اور سیاسی مرکز ہے، اور تحریکِ صہیونیت سے مراد داؤد اور سلیمان کے دور کو زندہ کرنا ہے، تا کہ یہودی عظمت دوبارہ مذہبی اور سیاسی اعتبار سے قائم ہوجائے۔یہ ایک مثال ہے کہ مذہبی الفاظ کس طرح قومی تحریکوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہودی اپنی موجودہ فلسطینی تحریک کو صہیونیت (Zionism) کہتے ہیں۔ یہودی روایت کے اعتبار سے ان کے لیے غالباً یہ سب سے زیادہ مفیدِ مطلب نام ہے۔
یہی چیز آج مسلمانوں میں بھی مختلف اعتبار سے پیدا ہوگئی ہے۔ وہ خالص قومی تحریکیں چلاتے ہیں، اور مقدس ظاہر کرنے کے لیے اس کو کوئی اسلامی نام دے دیتے ہیں۔ مگر جو چیز یہودیوں کے لیے بری ہے، وہ مسلمانوں کے لیے کس طرح اچھی ہوجائے گی۔
044
افغانستان کے سابق حکمراں ظاہر شاہ (1914-2007)کے زمانہ میں سردار داؤد شاہ خان (1909-1978) وزیر فوج تھے۔ انھوںنے جولائی 1973 میں فوجی انقلاب کیا، اور ظاہر شاہ کو ملک بدر کرکے خود حکومت سنبھال لی۔ سردار داؤد کو اپنے اس مقصد کے لیے کمیونسٹ پارٹی (خلق) کی مدد لینی پڑی، جو 1965 میں قائم ہوئی تھی، اور جس کا لیڈر نور محمد تَرَہ‌کی(1917-1979) تھا۔افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی نے عوامی سطح پر سردار داؤد کے انقلاب کی حمایت کی۔ اس کے بعد سردار داؤد اور نورمحمد تَرَہ‌کی(Nur Muhammad Taraki)میںاقتدار کی کشمکش شروع ہوئی۔ آخر کار تقریباً ساڑھے چار برس بعد دوبارہ انقلاب ہوا۔ اپریل 1978 میں خلق پارٹی نے روسیوں کی مدد سے بغاوت کردی۔ سردار داؤد مع اپنے اہل خاندان قصر صدارت میں مار ڈالے گئے ،اور نور محمد ترہ کی برسر اقتدار آئے۔ اس طرح افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب آیا، جس کو مقامی زبان میں انقلاب نور کہاجاتا ہے۔ یہیں سے افغانستان میںباقاعدہ روسی تسلط کا آغاز ہوا۔
یہ ایک ہی کہانی ہے، جو تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی شکل میں دہرائی جارہی ہے۔ مصر میں الاخوان المسلمون نے شاہ فاروق (1920-1965) کا خاتمہ کرنے کے لیے فوجی افسروں کا ساتھ دیا۔ بعد کو ان فوجی افسروں نے حکومت پر قابض ہو کر اس سے زیادہ ظلم کیا، جو شاہ فاروق کرسکتا تھا۔ پاکستان میں سید ابوالاعلیٰ مودودی (1903-1979)صدر ایوب (1907-1971)کو ہٹانے کے لیے بھٹو (1928-1979)کے ساتھ متحد ہوگئے۔ مگر جب صدر ایوب کا خاتمہ ہوا، تو اس کے بعد پاکستان میں بھٹو کے تحت پہلے سے بھی زیادہ ظالمانہ حکومت قائم تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ میںمسلمانوں کی عقل چھن گئی ہے۔ وہ بار بار ایسے اقدام کرتے ہیں جس کا نتیجہ صرف الٹی صورت میں ان کے لیے برآمد ہو۔
045
حُمید بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں یزید کی ولی عہدی کے وقت حضرت بُشیر کے پاس گیا ،جو صحابہ میںسے تھے۔ میں نے ان سے یزید کے بارے میں اظہارِ خیال کے لیےکہا۔ انھوںنے کہا:یقولَوْن:إِنَّمَا یزید لیس بخیر أمة محمد -صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وأنا أقول ذلک، ولکن لأن یجمع اللَّہ أمة محمد أحب إلی من أن تفترق ( تاریخ الاسلام للذہبی،جلد 4، صفحہ 87)۔ یعنی لوگ کہتے ہیں کہ یزید امت محمد کےبہتر لوگوں میں سےنہیں ہے، اور میں بھی یہی کہتا ہوں۔ لیکن امتِ محمدی کا اتفاق سے رہنا،مجھے افتراق کی بنسبت زیادہ پسند ہے۔
جس وقت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنایا اس وقت ہزاروں کی تعداد میں صحابہ کرام زندہ موجود تھے ۔ مثلاً حسین بن علی، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن زبیر، اور عبدالرحمن بن ابی بکر اور دوسرے بہت سے جلیل القدر افراد ملت کے اندر موجود تھے۔ ایسی حالت میں یزید کو خلیفہ بنانا سخت قابل اعتراض ہوسکتا تھا۔ مگر تمام صحابہ نے اس پر سکوت اختیار کیا۔ حضرت حسین کے سوا کسی نے بھی یزید کے خلاف کوئی مہم نہیںچلائی۔اصحابِ رسول کی یہ خاموشی یقینی طورپر بزدلی کی بنا پر نہ تھی، بلکہ اسلامی حکمت کی بنا پر تھی۔
046
عرب ویڈیو ٹیپ کو فیدیو تیب (الشریط التلفزیونى) کہتے ہیں۔ عرب سے آئے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ بعض عرب ملکوں میں سینما ہاؤس پر پابندی لگائی گئی ہے۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر گھر میں لوگوں نے وی سی آر لگا لیا ہے، اور اس کے اوپر ہر قسم کی فلمیں دیکھتے ہیں۔ انھوںنے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا— آپ باہر سینما ہاؤس بند کریں گے تو گھر میں سینما ہاؤس کھل جائے گا۔
معاشرہ کا ذہن جب تیار نہ کیا گیاہو تو اوپر سے اصلاحی احکام نافذ کرنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔
047
پروفیسر اقبال عظیم بینائی سے محروم ادیب ، شاعرتھے۔ان کی پیدائش 1913میں ہوئی(اور وفات 2000میں ہوئی)۔ ان کی نعتیہ نظم کا ایک شعر یہ ہے:
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
اس شعر میں عجیب درد اور عجیب گہرائی ہے۔ مگر ایسا شعر صرف ایک ایسا شخص ہی کہہ سکتا تھا جس نے اپنی دونوں آنکھیں کھو دی ہوں۔ جس شخص کی دونوں آنکھیں روشن ہوں، اس کی زبان سے ایسا شعر نکل نہیں سکتا۔
اس دنیا کا عجیب نظام ہے۔ یہاں کھونے والا بھی پاتا ہے۔ بلکہ اکثر کھونے والا شخص اس سے زیادہ پالیتا ہے، جتنا کوئی بظاہر پانے والا شخص پائے ہوئے ہو۔
048
اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کیا چیز ہے، تو میں کہوں گا کہ تنقید(criticism)۔ اس کے بعد اگر دوبارہ یہ پوچھا جائے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کم کیا چیز ہے، تو دوبارہ میں کہوں گا کہ تنقید۔
کیوں میں ایسا کہتا ہوں کہ دنیا میں تنقید سب سے زیادہ ہے، اور تنقید ہی سب سے کم ہے۔ اس کی وجہ ایک تنقید اور دوسری تنقید کا فرق ہے۔ تنقید کی ایک صورت بے دلیل اظہار رائے ہے، اور دوسری صورت ہے مدلّل تجزیہ۔ بے دلیل اظہار رائے بلا شبہ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے، مگر مدلل تجزیہ اس کی نسبت سے انتہائی حد تک کم ہے۔ بلکہ شاید اس کا وجود ہی نہیں۔
ایک صاحب ایک بار میری کتاب ’’ظہورِ اسلام‘‘ لے گئے۔ پڑھنے کے بعد میںنے ان سے ان کی رائے پوچھی، تو انھوں نے کہا کہ ’’آپ نے لٹھ ماری ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ میں نے کسی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، دلیل سے لکھا ہے، آپ اس کو لٹھ مارنا کیسے کہتے ہیں۔ مگرانھوں نے نہیں مانا۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کتاب سے کوئی ایک مثال دیجئے، جس میں دلیل سے بات نہ کہی گئی ہو، بلکہ لٹھ ماری گئی ہو۔ مگر انھوں نے کوئی مثال نہیں دی۔ جب میں نے اصرار کیاتو وہ بگڑ گئے۔ اس قسم کی تنقید میرے نزدیک جھوٹی تنقید ہے۔ جو شخص متعین مثال نہ دے سکے، اس کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ مجرد اظہار رائے کرے۔
بعض تنقیدیں ایسی ہیں جن میں بظاہر مثال اور تجزیہ ہوتا ہے۔ مگر وہ نہ مثال ہوتی، اور نہ تجزیہ۔ کیوںکہ اس کی بنیاد تمام تر غلط مثال اور ناقص تجزیہ پر ہوتی ہے۔ مثلاً ’’عظمت قرآن‘‘ پہلی بار چھپی تو اس کاٹائٹل سبز رنگ کا تھا۔ اس کو دیکھ کر ایک صاحب نے کہا ’’سبز رنگ قذافی کا رنگ ہے‘‘ اس لیے یہ کتاب قذافی کے پیسہ سے چھپی ہے۔ حالاں کہ یہ سراسر بے بنیاد بات تھی۔ اس کتاب کا کچھ بھی تعلق قذافی سے نہ تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ سچی تنقید دنیا کا سب سے زیادہ مشکل کام ہے، اور جھوٹی تنقید دنیا کا سب سے زیادہ آسان کام۔
049
حضرت عمر فاروق نے فرمایا:تَفَقَّہُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا (صحیح البخاری، جلد1، صفحہ25)۔ یعنی سردار بننے سے پہلے تفقہ حاصل کرو۔ حضرت عمر کے اس قول سے موجودہ زمانہ کے بہت سے لوگ اُس فن کی اہمیت پر استدلال کرتے ہیں، جس کو فقہ کہا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سردار یا قائد کو فقہ کا علم ہونا ضروری ہے۔
مگر یہ استدلال صحیح نہیں۔ حضرت عمر کے اس قول سے اس فن کی اہمیت ثابت نہیں ہوتی، جو امام ابو حنیفہ اور دوسرے فقہاء کے ذریعہ وجود میں آیا۔ حضرت عمر کے اس قول سے فقہ کی اہمیت ثابت کرنے والے لوگ بھول جاتے ہیں کہ موجودہ فقہ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں موجود ہی نہ تھی۔ اگر مذکورہ قول کے یہ معنی لیے جائیںتو تمام صحابہ (بشمول عمر فاروق) سرداری اور قیادت کے لیے نا اہل قرار پائیں گے۔ کیوں کہ ان کا زمانہ موجودہ فقہ سے پہلے کا تھا۔ چنانچہ ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ موجودہ فقہ میں تبحر حاصل کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر کے قول میں تفقہ سے مراد حکمت وبصیرت حاصل کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرداری اور قیادت کے لیے دین کا سادہ علم کافی نہیں ہے، بلکہ دین میں گہری بصیرت ضروری ہے۔ گہری بصیرت کے بغیر جو شخص دینی قائد بنے گا، وہ قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں لے جائے گا۔
050
ٹائم میگزین (نیو یارک) کے دفتر میں یہ قاعدہ ہے کہ مضامین پریس میں جانے سے پہلے مخصوص اسٹاف کی ایک ٹیم کےپاس بھیجے جاتے ہیں۔ وہ ان میں مندرج تمام حقائق کو باریک بینی کے ساتھ جانچتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم مقرر ہے، جس کے پاس ایک مکمل قسم کی ریفرنس لائبریری مہیا کی گئی ہے۔میگزین کی ایک اشاعت (8 اپریل 1974) میں صفحہ اول کا مضمون (cover story) افراط زر پر تھا ،جس کا عنوان تھا:
World Inflation
ٹائم میگزین پریس جانے سے پہلے حسب قاعدہ مذکورہ اسٹاف کے پاس پہنچا۔ اس مضمون میں ایک بات یہ تھی کہ قدیم لیڈیا کے باشندوں(Lydians) نے پہلی بار دھات کے سکے بنائے۔ متعلقہ کارکن نے اس کو لائبریری کے محققین کے پاس بھیجا کہ وہ اس کی تحقیق کریں۔ انھوں نے تین انسائیکلو پیڈیا کو دیکھا تو تینوں میں مختلف بیانات تھے۔ پھر انھوںنے تاریخ زر(History of Money) پر دو اہم ٹکسٹ بک سے رجوع کیا، اور بالآخر اپنے فیصلہ سے متعلقہ کارکن کو مطلع کیا۔ اس پورے عمل میں صرف پندرہ منٹ لگے۔
051
راجہ رام موہن رائے (1772-1833) مشہور ہندو مصلح ہیں۔ انھوں نے سائنسی تعلیم کی زبردست وکالت کی۔ وہ سائنسی تعلیم (science-oriented education) کے حامی تھے۔ انگریزوں نے جب سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو راجہ رام موہن رائے نے دسمبر 1823 میں انگریز گورنر جنرل لارڈ ام ہرسٹ (Lord Amherst) کو لکھا کہ سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ ہم کو سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ ہندستان میں ایسی تعلیم جاری کی جائے جس میں ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹمی اور دوسری جدید سائنسی تعلیم کا انتظام ہو۔
راجہ رام موہن رائے کے زمانہ میں اور ان کے بعد بھی عرصہ تک مسلمانوں میںکوئی بھی قابلِ ذکر آدمی نظر نہیں آتا، جس نے جدید دور میں سائنس کی اہمیت کو سمجھا ہو، اور اس کی تعلیم پر اس طرح زور دیا ہو۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی کم از کم ایک وجہ یہ ہے کہ پچھلے دور میں مسلمانوں میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، جو اتنا تعلیم یافتہ ہوجیسا کہ راجہ رام موہن رائے تھے۔ راجہ رام موہن رائے کے سکریٹری (Sandford Arnot) نے لکھا ہے کہ وہ کم ازکم 11 زبانوں سے واقف تھے— سنسکرت ، عربی، فارسی، ہندی، بنگالی، انگریزی، عبرانی، لاطینی، فرانسیسی، اردو، یونانی۔
ان کی پہلی کتاب کانام تحفۃ الموحدین ہے۔ اس کا دیباچہ عربی میں ہے، اور اصل کتاب فارسی میں ہے۔ انھوں نے پہلی بار ویدوں اور اپنشدوں کا انگریزی اور بنگالی میں ترجمہ کیا۔ 1816 میںانھوںنے بنگال گزٹ نکالا، جو کسی ہندستانی کی ملکیت میں نکلنے والا پہلا انگریزی اخبار تھا۔ اس کے علاوہ انھوںنے فارسی میں بھی ایک اخبار جاری کیا۔ لال قلعہ کے مغل بادشاہ کو اپنے وظیفہ کی رقم کے سلسلہ میںایک سفارت انگلستان بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت مغل تاجدار نے جس ہندستانی کا انتخاب کیا، وہ راجہ رام موہن رائے تھے۔چنانچہ وہ 1830 میں اس مشن کے تحت انگلستان گئے۔
ہندو قوم کو اٹھارھویں صدی میںراجہ رام موہن رائے جیسا آدمی مل گیا۔ اس لیے وہ فوراً سائنس کی تعلیم میں داخل ہوگئی۔ مگرمسلمانوں کو پچھلے دو سو برس میں بھی غالباً کوئی ’’راجہ رام موہن رائے‘‘ نہیں ملا۔ ایسی حالت میں مسلمان اگر جدید تعلیم میں پیچھے ہیں تو یہ عین وہی بات ہے، جو واقعہ کے اعتبار سے ہونی چاہیے۔
052
میں نے بطور خود ایک اصطلاح وضع کی ہے، جس کو میں ڈیگال ازم (Degaulism) کہتا ہوں، اس کا مطلب ہے— کسی لیڈر کا اپنی لیڈری کی قیمت پر قوم کا مستقبل بنانا۔ موجودہ زمانہ میں فرانس کے جنرل ڈیگال کی زندگی اس قربانی کی ایک مثال ہے۔ اس لیے میںنے انھیں کے نام سے ڈیگال ازم کی اصطلاح وضع کی ہے۔
جنرل ڈیگال (1890-1970)موجودہ صدی کے وسط میںفرانس کے حکمراں بنے۔ اس وقت فرانس یورپ کا ’’مر د بیمار‘‘ بنا ہوا تھا۔ فرانس کے افریقی مقبوضات میں آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ ان تحریکوں کو کچلنے میں خود فرانس کچل اٹھا تھا۔ فرانس کے بے شمار جوان مارے گئے تھے، اور اس کی اقتصادیات دیوالیہ کی حد کو پہنچ گئی تھی۔
فرانس کے افریقی مقبوضات اس کے لیے سرمایہ (asset) نہ تھے، بلکہ اس کے لیے بوجھ (liability)بن چکے تھے۔ مگر اس طرح کی چیزیں قوموں کے لیے پرسٹیج (prestige) کا مسئلہ بن جاتی ہیں، اور جو چیز پرسٹیج بن جائے، اس سے دست برداری کے لیے لوگ کسی قیمت پر تیار نہیں ہوتے۔
جنرل ڈیگال نے اس معاملہ کی نزاکت کو محسوس کیا۔ انھوںنے 1950-60 میں افریقہ کی تمام فرانسیسی نوآبادیات کو آزاد کردیا۔ اس کے بعد 1962 میں الجیریا کو بھی آزاد کردیا ،جہاں زبردست تحریک آزادی چل رہی تھی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ جنرل ڈیگال سے سخت برہم ہوگئے ،حتی کہ 1969 میں ڈیگال کو مجبوراً استعفیٰ دینا پڑا۔ اگلے سال جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے جنازے میں صرف چند آدمی شریک تھے۔ مگر جنرل ڈیگال نے خود مر کر فرانس کو زندگی دے دی۔ اس کے بعد فرانس تیزی سے آگے بڑھنا شروع ہوا، یہاں تک کہ آج فرانس یورپ کا طاقتور ترین ملک شمار ہوتا ہے۔
053
مجھے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ میں ایک پیدائشی سائنس داں (born scientist) ہوں۔ ٹکنکل معنوں میں نہیں بلکہ مزاج کے معنوں میں۔
سائنٹسٹ خارجی حقیقت کا مطالعہ کرتا ہے، اور اس کو انتہائی درست زبان (precise language) میں بیان کرتاہے۔ سائنس داں کی کامیابی یہ ہے کہ وہ خارجی حقیقت کو ویسا ہی بیان کردے جیسا کہ وہ فی الواقع ہے۔اس سے سائنس داں کے اندر حقیقتِ واقعہ سے مطابقت کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ سائنسی مزاج (scientific temper) دراصل حقیقت واقعہ سے مطابقت ہی کا دوسرا نام ہے۔
حقیقتِ واقعہ سے مطابقت کا مزاج میرے اندر بچپن سے پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی میں کسی کی کوئی بات نقل کرتا ہوں ،تو آخری حد تک کوشش کرتا ہوں کہ وہی بات نقل کروں، جو کہنے والے نے کہی ہے۔ تاکہ اصل اور نقل میں یکسانیت باقی رہے۔ جب میں کسی کے فکر پر تنقید کرتاہوں تو اس کو بار بار پڑھتا ہوں، تاکہ میری تنقید عین اسی بات پر ہو جو پیش کرنے والے نے پیش کی ہے، نہ کہ کسی دوسری بات پر۔
اپنے اس مزاج کی وجہ سے اکثر میں یہ کرتارہا ہوں کہ جب مجھے اسلام کے موضوع پر کوئی مقالہ یا کتاب لکھنا پڑا، تو میں اس سے پہلے پورے قرآن کو ایک بار پڑھتا ہوں۔ قرآن کو بار بار پڑھنے کے باوجود ہر نئے موقع پر میں پھر سے اس کو ایک بار پڑھتا ہوں، تاکہ میری بات عین قرآن کے مطابق رہے، دونوں کے اندر نامطابقت پیدا نہ ہونے پائے۔
میرا یہ مزاج اتنا بڑھا ہوا ہے کہ وہ ہر معاملہ میں ظاہر ہوتا ہے۔ حتی کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک معمولی خط کا جواب دیتے ہوئے میںاس خط کو کئی بار پڑھتا ہوں۔ مکتوب نگار کا منشا اچھی طرح سمجھنے سے پہلے میںاس خط کا جواب نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے اوپر لوگوں نے بے شمار تنقیدیں کی ہیں مگر آج تک کوئی یہ نہ کہہ سکا کہ میں نے اس کی بات کو غلط شکل میں پیش کیا ہے۔
054
مسز اینی بسنٹ (1847-1933) ایک انگریز خاتون تھیں۔ انھوں نے لندن کے ایک اچھے تعلیمی ادارے میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن وغیرہ زبانیں سیکھیں۔ ان کے اندر اظہارِ خیال کی بہت عمدہ صلاحیت تھی۔ وہ 1893 میں ہندستان آئیں، اور یہاں کے بہت سے سیاسی اور سماجی کاموں سے وابستہ رہیں۔ 21 ستمبر 1933 کو ان کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق ان کی قبر پر یہ کتبہ لکھا گیا:
She tried to follow truth.
اس نے سچائی کے راستے پر چلنے کی کوشش کی۔ مگر عجیب بات ہے کہ مسز اینی بسنٹ عملی طورپر دوسروں کے ساتھ زیادہ دیر تک نہ چل سکیں۔ انھوںنے 1867 میں انگلینڈ کے ایک مذہبی آدمی فرینک بسنٹ سے شادی کی۔ کچھ دنوں کے بعد ان کو احساس ستانے لگا کہ ان کا شوہر آمریت پسند ہے۔ وہ اس سے نباہ نہ کرسکیں اور انھوں نے 1873 میں اس سے علیحدگی حاصل کرلی۔
وہ ہندستان کی سیاست میں داخل ہوئیں اور1917 میں انڈین نیشنل کانگریس کی صدر منتخب ہوئیں۔ مگر عدمِ تعاون تحریک (non cooperation movement)پر ان کا مہاتما گاندھی سے اختلاف ہوا، اور انھوں نے کانگریس چھوڑ دی۔
مسز اینی بسنٹ کی واقعات سے بھری ہوئی زندگی (eventful life) میںاس طرح کے بہت سے قصے پائے جاتے ہیں— وہ سچائی کی ہم سفر تھیں، مگر وہ سچوں کی ہم سفر نہ بن سکیں۔
ذہنی سفر کا معاملہ عملی سفر کے معاملہ سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ ذہنی سفر میں آدمی اکیلا ہوتا ہے۔ ذہنی سفر میں یہ نزاکت پیش نہیں آتی کہ آدمی کو دوسروں سے نباہ کرتے ہوئے اپنا سفر طے کرنا ہے۔ مگر عملی سفر میں دوسرے لوگ بھی شریکِ سفر ہوتے ہیں۔ یہاں ضروری ہوتاہے کہ آدمی دوسروں سے نباہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ جو ذہنی سفر میں بہت تیز رفتار نظر آتے ہیں، وہ عملی سفر میں بالکل ناکام ثابت ہوتے ہیں۔
054
ٹائمس آف انڈیا(28 اپریل 1985) میں ایک رپورٹ چھپی ہے جس کا عنوان ہے:
A lifetime of Encyclopaedia
اس رپورٹ میں مسٹر بنود کانون گو(عمر 73 سال) کے کام کی تفصیل چھپی ہے۔ وہ کٹک (اڑیسہ) کے رہنے والے ہیں۔ انھوںنے ایک اڑیا انسائیکلوپیڈیا تیار کی ہے، جو 75 جلدوں میں مکمل ہوئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ کام انھوں نے اپنی تنہا محنت سے 30 سال میں مکمل کیا ہے۔
مسٹر بنود کانون گو جب نوجوان تھے تو ان کے کان میں مہاتما گاندھی کی پکار آئی— کوئی قوم تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی، اور بنیادی تعلیم ہی حقیقی تعلیم ہے۔
No nation grows without education, and basic education is real education.
ان الفاظ سے مسٹر بنود کانون گو کے اندر شدید جذبہ ابھرا۔ انھوںنے اڑیا زبان میں انسائیکلوپیڈیا تیار کرنے کی مہم شروع کردی۔ یہاں تک کہ 30 سال کی مسلسل محنت کے ذریعہ اس کو کامیابی تک پہنچا دیا۔مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسٹر بنود کانون گو نے اس مہم میں اڑیسہ کی ریاستی حکومت اور نئی دہلی کی مرکزی حکومت سے مدد کی درخواست کی۔ مگر ان کو نہ ریاستی حکومت سے کوئی مدد ملی، اور نہ مرکزی حکومت سے۔اس کے باوجودمسٹر بنود کانون گو نے اپنے محدود ذرائع سے کام لیتے ہوئے اپنی مہم جاری رکھی، یہاں تک کہ اس کو اختتام تک پہنچا دیا۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ کون لوگ ہیں،جو کسی قوم کی تعمیر کرتے ہیں۔ قومی تعمیر کا کام ہمیشہ انفرادی قربانی کی قیمت پر ہوتا ہے۔ اس کے سوا قومی تعمیر کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
055
لوہار لوہے کو آگ میں ڈال کر تپاتا ہے۔ یہاںتک کہ لوہا گرم ہو کر لال ہوجاتا ہے۔ اس وقت لوہار ہتھوڑا مار کر لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق بناتا ہے، چپٹا یا گول یا لمبا۔ لوہار اگر لوہے کو گرم کیے بغیر اس پر اپنا ہتھوڑا مارنے لگے تو وہ لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے میں کامیاب نہ ہو۔ اسی سے انگریزی کی یہ مثل بنی ہے کہ لوہے کو اس وقت مارو جب کہ وہ خوب گرم ہو:
To strike the iron when it is hot.
یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔ آدمی کو زندگی میں اکثر کوئی اقدام کرنا پڑتا ہے۔ مگر اقدام سے پہلے ضروری ہے کہ حالات کا بھر پور اندازہ کرلیا جائے۔ اگر حالات پوری طرح تیار ہوں، تو اقدام مفید ہوگا، ورنہ ناکام ہو کر رہ جائے گا۔لوہا گرم ہونے پر ہتھوڑا مارنے والا اپنے مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ جو شخص ٹھنڈے لوہے پر ہتھوڑا مارنے لگے ،وہ صرف اپنے ہاتھ کو دکھ پہنچائے گا ،وہ لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکتا۔
056
انگریزی کا ایک مثل ہےکہ کیل کے عین سر پر مارنا:
Hitting the nail on the head.
یہ مثل بہت بامعنیٰ ہے۔ اس میں ایک مادی مثال کے ذریعہ انسانی کامیابی کا راز بتایا گیا ہے۔یہ ایک معلوم بات ہے کہ کیل جب کسی چیز پر ٹھونکی جاتی ہے، تو اس کے ٹھیک سر پرہتھوڑی ماری جاتی ہے۔ اگر ہتھوڑی کی مار ادھر ادھر پڑے، تو وہ صحیح طور پر اندر نہیں داخل ہوگی، بلکہ ٹیڑھی ترچھی ہو کر رہ جائے گی۔اسی طرح زندگی کے معاملات میں یہ جاننا پڑتا ہے کہ ٹھیک ٹھیک وہ کون سا مقام ہے جہاں ضرب لگانی چاہیے۔ صحیح ضرب کے نتیجہ ہی کا دوسرا نام کامیابی ہے۔
مثلاً آپ کسی موضوع پر اظہارِ خیال کررہے ہیں یا کسی شخص سے ایک اختلافی موضوع پر بحث کر رہے ہیں ۔ ایسی حالت میں اگر آپ وہ بات کہیں جو ٹھیک ٹھیک موضوع کے اوپر چسپاں ہوتی ہو تو سننے والا آپ کے نقطۂ نظر کو ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ ایسی باتیں کریں جو زیرِ بحث موضوع پر ٹھیک فٹ نہ بیٹھتی ہو، تو آپ کی بات لوگوں کو بے وزن محسوس ہوگی۔ وہ اپنے آپ کو اندرونی طورپر مجبور نہ پائیں گے کہ آپ کے نقطۂ نظر سے اتفاق کرلیں۔
057
ایک انجینئر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے ماسکو یونیورسٹی سے انجینئرنگ کیا ہے۔ وہ روسی زبان بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ انھوںنے روس کے بارے میں کئی دلچسپ باتیں بتائیں۔ مثلاً انھوں نے لینن کا ایک مقولہ روسی زبان میں بتایا، جس کا ترجمہ یہ تھا:
’’اگر ایک ہاتھ پیچھے کھسکو تو دو ہاتھ آگے بڑھنے کے ارادے سے‘‘۔
یہ مثل بہت با معنی ہے۔ زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں، جب کہ آدمی کو پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ مگر وہ پسپائی نہیں ہے، جو منصوبہ بند ہو۔ یعنی آدمی پیچھے ہٹنے کے لیے قدم پیچھے نہ کرے، بلکہ اس کا پیچھے ہٹنا آگے بڑھنے کی ایک تدبیر ہو۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹے ،تو اس لیے پیچھے ہٹے کہ اس کے ذریعہ اس کو دو قدم آگے بڑھنے کا راستہ ملے گا۔
058
قدیم عرب شعرا کے یہاں ایسے اشعار ملتے ہیں،جن میں بڑی حکمت کی باتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً:
سبـکـنـاہ ونحسـبـہ لـجیـنـاً
فأبدى الکیر عن خبث الحدید
یعنی ہم نے اس کو پگھلایا، اور اس کو چاندی سمجھتے تھے، مگر بھٹی نے ظاہر کیا کہ وہ زنگ آلود لوہا ہے۔
اس شعر میں تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ انسان بظاہر اچھا دکھائی دیتا ہے، مگر جب تجربہ ہوتا ہے، اسی وقت معلوم ہوتا ہے کہ کون کیا ہے، اور کون کیا نہیںہے۔اسی طرح ایک شعر یہ ہے:
وکم على الأرض من خضر ویابسة
ولیس یـرجـم إلا مـالــہ ثـمـر
یعنی زمین پر کتنی ہی تر اور خشک چیزیں ہیں، مگر پتھر اسی پر مارے جاتے ہیں جس میں پھل ہوں۔
اس شعر میںشاعر زندگی کی اس حقیقت کو بتاتا ہے کہ جس انسان کے پاس کچھ ہو، اسی کے اوپر لوگ یورش کرتے ہیں، جس کے پاس کچھ نہ ہو اس کے اوپر کوئی یورش نہیں کرے گا۔
059
قدیم عربوں کے نزدیک سب سے بڑی انسانی صفت حماسۃ تھی، یعنی بہادری۔ اس بہادری کا اظہار قدیم عرب میں سب سے زیادہ لڑنے بھڑنے میں ہوتا تھا۔ایک حماسی شاعر کہتاہے:
إذا المہرة الشقراء أرکب ظہرہا فشب الإلہ الحرب بین القبائل
یعنی جب میرا گھوڑا سواری کے قابل ہوجائے، تو خدا قبائل میں جنگ بھڑکا دے (تاکہ میں اپنی بہادری کے جوہر دکھا سکوں)
عربوں کا یہ لڑنے بھڑنے کا ذہن اتنا بڑھا ہوا تھا کہ اگر دشمن لڑنے کے لیے نہ ملتا تو وہ آپس ہی میں لڑنے لگتے۔ ایک شاعر کہتا ہے:
وأحیاناً على بکرٍ أخینا إذا ما لم نجد إلا أخانا
یعنی اور کبھی ہم اپنے بھائی قبیلہ بکر پر (حملہ کردیتے ہیں)، جب کہ ہم کو (لڑنے کے لیے) اپنے بھائی کے سوا کوئی اور نہیں ملتا۔
عربوں کی یہ بہادری (حماسۃ) ان کا بہت بڑا جوہر تھی۔ اسلام سے پہلے ان کی اس بہادری کا کوئی بلند نشانہ انھیں معلوم نہ تھا۔ اسلام نے انھیں ایک بلند نشانہ دے دیا۔ چنانچہ انھوںنے عالم میں انقلاب برپا کردیا۔
060
عربی زبان کا ایک مثل ہےکہ تجربہ کرنے والے سے معلوم کرو، عقل مند سے نہ پوچھو:
سَلِ المجرِّب ولا تسئل الحکیم
یہاں حکیم (عقل مند) سے مراد وہ انسان ہے، جس کو صرف نظریاتی جانکاری حاصل ہو۔یہ ایک حقیقت ہے کہ باتوں کو وہی شخص جانتا ہے جس پر تجربہ گزرا ہو۔ جو شخص صرف نظریاتی واقفیت رکھتا ہو، وہ اصل حقیقتوں سے اسی طرح بے خبر رہتا ہے، جس طرح کاغذکی کوئی کتاب زندگی کے عملی معاملات سے بے خبر ہو۔
مگر اس سے بھی زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تجربہ کار کے بتانے کے باوجود آدمی باتوں کو سمجھ نہیں پاتا۔ آدمی کسی بات کی حقیقت صرف اس وقت سمجھتا ہے، جب کہ اس پر خود ذاتی تجربہ گزرے۔ جب کہ وہ تجربہ کر کے نقصان اٹھا چکا ہو۔ ذاتی طورپر تجربہ کی چکی میں پسنے سے پہلے بمشکل ہی کوئی شخص باتوں کی حقیقت کو سمجھ پاتا ہے۔ چاہے لفظی طورپر اس کو کتنا ہی زیادہ سمجھا جائے۔
061
کسی شخص کا قول ہےکہ غم پیچھے کی طرف دیکھتاہے، پریشانی اِدھر اُدھر دیکھتی ہے، اور عقیدہ اوپر کی طرف دیکھتا ہے:
Sorrow looks back, worry looks around, faith looks up.
062
انسان دو قسم کے ہوتے ہیں— شخصیت پرست ، اور حقیقت پرست۔
شخصیت پرست وہ ہے، جو باتوں کو شخصیت کے اعتبار سے دیکھے۔ جس بات سے اس کی محبوب شخصیت کی تائید نکلے، اس کو وہ ٹھیک سمجھ لے، اور جس بات سے اس کی محبوب شخصیت کی تردید ہو رہی ہو، اس کا وہ مخالف بن جائے۔
حقیقت پرست وہ ہے، جو باتوں کو حقیقت کے اعتبار سے دیکھے۔ جو بات دلائل سے درست ثابت ہو، اس کو مانے، اور جو بات دلائل سے درست ثابت نہ ہو، اس کو رد کردے۔
یہی دوسری قسم کے لوگ ہیں، جو خدا کو پاتے ہیں، جو آخری اعلیٰ حقیقت ہے۔ پہلی قسم کے لوگ ساری عمر شخصیت کے خول میں بند رہتے ہیں، اور اسی میں مر جاتے ہیں۔ وہ اس لذتِ معرفت سے محروم رہتے ہیں، جو حقیقت اعلیٰ کو پاکر کسی بندہ ٔ خدا کو حاصل ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

2 comments:

  1. Sir I have read many articles and now started reading books of |cps International. And I really appreciate your work.

    ReplyDelete