Pages

Showing posts with label 2021. Show all posts
Showing posts with label 2021. Show all posts

Thursday, 1 April 2021

Al Risala | April 2021 (الرسالہ،اپریل)

4

-سجدۂ اعتراف

5

- تخلیقی عمل

6

- شاہ کلید

7

- صدیقی اسپرٹ

8

- برتر اخلاق

10

- کوئی مصیبت ، مصیبت نہیں

11

- خیر کثیر

12

- ہر حال میں بہتر

13

- خواتین کا رول

14

- ہاجرہ کلچر

16

- شاک ٹریٹمنٹ

17

- حقیقتِ انسانی کی دریافت

19

- صحت مند تنقید

20

- ری ایکشن، رسپانس

21

- صحیح طرزِ فکر

22

- ہائی پروفائل، لو پروفائل

23

- کامیابی کا فارمولا

24

- چیلنج کا مقابلہ

25

- عافیت کا راز

26

- فیمینزم اور دعوت

28

- مسلم دنیا کی تحریکیں

29

- ایک ملاقات

35

- سوال و جواب

39

- خبرنامہ اسلامی مرکز

48

- اعلان


سجدۂ اعتراف

اللہ تعالی نے جب آدم کو پیدا کیا تو فرشتوں اور ابلیس کو یہ حکم دیا کہ وہ اس کے آگے سجدہ کریں۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیسَ أَبَى وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِینَ (2:34)۔ یعنی جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور وہ منکروں میں سے ہوگیا۔
یہاں سجدہ کا مطلب سجدۂ اعتراف ہے، یعنی حقیقتِ واقعہ کو قبول کرنا۔ ایک طرف فرشتے ہیں، جو انسان کو اعتراف کا سبق دے رہے ہیں، اور دوسری طرف ابلیس ہے، جو انسان کو أَنَا خَیْرٌ مِنْہُ (میں اس سے بہتر ہوں)کی سوچ کے ذریعے عدم اعتراف کا سبق دے رہا ہے۔آدم کے واقعے میں سجدہ دراصل ایک حقیقت کا اعتراف (acknowledgement) تھا، یعنی اب ایک نئی مخلوق انسان کو، منصوبہ تخلیق کے مطابق، سینٹرل حیثیت حاصل ہوگی۔فرشتہ اور ابلیس دونوں کواسی حقیقت کے اعتراف کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کو فرشتوں نے مان لیا، لیکن ابلیس نے ماننے سے انکار کردیا۔
اس میں انسان کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ وہ اس دنیا میں اعتراف کی صفت کو اپنائے ۔ اس دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے ہر انسان کبھی نہ کبھی ایک "آدم" سے دو چار ہوتا ہے۔اس وقت خدا حال کی زبان میں ہم سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ اس "آدم" کا اعتراف کرو۔دوسرے الفاظ میں، آئڈیل کو ترک کرو اور پریکٹکل وزڈم کو اختیار کرو۔ اب جو فرشتوں کا طریقہ اختیار کرے، وہ خدا کا سچا بندہ ہے، وہ صحیح روش والا انسان ہے۔اس کے برعکس، جو ابلیس کا طریقہ اختیار کرے، اور تواضع کا طریقہ اختیار نہ کرے، وہ خدا کا سچا بندہ نہیں ہے ، وہ درست راستے سے دور انسان ہے۔ اعتراف یا بے اعترافی، دونوں کا انجام یکساں نہیں ہوسکتا۔آخرت میں انسان سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے زندگی میں حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کیا یا تم نے بے اعترافی کی زندگی گزاری— اعتراف پر انعام ہے اور بےاعترافی پر شدید پکڑ۔
واپس اوپر جائیں

تخلیقی عمل

انگریزی کا ایک قول ہے— جس انسان نےکبھی غلطی نہیں کی ، اس نے کبھی نیا کام نہیں کیا:
A person who never made a mistake never tried anything new. 
نیا کام سے مراد ہے تخلیقی(creative) کام۔ اصل یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان جو کام بھی کرتا ہے، اس میں غلطی کا امکان رہتا ہے۔ جتنا بڑا کام اتنا زیادہ غلطی کا امکان۔ یہ امکان اس وقت مزید بڑھ جاتاہے، جب کہ وہ اجتہادی عمل ہو، یعنی تخلیقی (creative) عمل۔ ایسی صورت میں انسان کے لیے غلطی کے باوجود پرامید ہونے کا امکان اللہ نے باقی رکھا ہے۔
اللہ نے اس بات کا اعلان قرآن کی اس آیت میں کیا ہے قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
قرآن کی اس آیت میں مایوسی سے بچنےکی تعلیم دی گئی ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمھارے پچھلے لمحات کسی غلطی کی وجہ برباد ہوجائیں تو یہ نہ سمجھو کہ تمھاری زندگی میں فل اسٹاپ آگیا۔ نہیں، زندگی میں ہمیشہ کاما (،)لگا رہتا ہے۔ زندگی میں پوٹنشل اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ اس میں کبھی فل اسٹاپ کی نوبت نہیں آتی، ہمیشہ کاما لگا رہتا ہے۔یعنی کسی انسان کے لیے کسی بھی حال میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ، اس کی زندگی کا اگلا امکان ابھی باقی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ آنے والا موقع پچھلے موقع سے زیادہ اہم ہو۔ اس لیے اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کو اویل کرنا چاہیے۔
کوئی انسان، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اس دنیا میں جب آتا ہے، تو وہ لامحدود امکان (unlimited potential) لے کر آتا ہے۔ انسان کو صرف اس اِمکان کو پہچاننا ہے ۔ پہچاننے کے بعد اس کے امکانا ت فطرت کے زور پر ان فولڈ (unfold) ہونے لگتے ہیں، اور یہ سلسلہ تاعمر جاری رہتا ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں

شاہ کلید

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: أَنَّ رَجُلاً أَتَى إِلَى رَسُولِ اللَّہِ صلى اللہ علیہ وسلم فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ، عَلِّمْنِی کَلِمَاتٍ أَعِیشُ بِہِنَّ، وَلاَ تُکْثِرْ عَلَیَّ فَأَنْسَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ:لاَ تَغْضَبْ(موطا امام مالک، حدیث نمبر 1891) ۔ یعنی ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے کہا: اے خدا کے رسول، مجھے کوئی بات سکھائیے، جس کے مطابق میں زندگی گزاروں ،اور مجھے زیادہ مت بتائیے کہ میں بھول جاؤں، رسول اللہ نے کہا: غصہ نہ کرو۔
غصہ نہ کرو کا مطلب ہے غصہ کو کنٹرول کرو۔یہ ایک حکمت (wisdom) کی بات ہے۔ غصہ نہ کرنا، زندگی کی شاہ کلید (master key) ہے۔ جس انسان نے غصہ کو کنٹرول کرنے کا آرٹ سیکھ لیا، اس نےکامیاب زندگی کا راز پالیا۔ غصہ ، دوسرے الفاظ میں ری ایکشن (reaction) کے تحت سوچنے کا نام ہے۔ اگر آپ اپنے خلاف کوئی بات سنیں، اور آپ کو غصہ آجائے تو آپ نے اس کی بات پر ری ایکٹ (react)کیا۔ اس کے برعکس، اگر آپ اپنے خلاف کوئی بات سنیں، اور آپ کو غصہ نہ آئے تو آپ نے اس کی بات کا مثبت جواب (positive response) دیا۔ اس دنیا میں منفی جواب (negative reaction) کا نام ناکامی ہے، اور مثبت جواب کا نام کامیابی ہے۔
انسان کا ذہن ایک مکمل ذہن ہے۔ غصہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے ذہن (mind) کو منفی ہونے سے بچایا،ذہن کو اس کی فطری حالت پر باقی رکھا،آپ نے اپنے ذہن کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے پوٹنشل (potential) کو مکمل طور پر استعمال کرے، اور ذہن کے امکانات کو مکمل طور پر استعمال کرنے ہی کا نام کامیابی ہے۔ ایسا ذہن آپ کے لیے ماسٹر مائنڈ بن جاتا ہے۔ وہ آپ کو ہر موقع پر صحیح ترین رہنمائی دیتا ہے۔اس کے برعکس، اگر آپ کسی کی بات پر غصہ ہوگئے تو آپ نے خود اپنے ذہن کو محدود کردیا۔ آپ نے ذہن کو ایسا بنا دیا کہ وہ دوسرے کے کہنے کے اعتبار سے سوچے، نہ کہ خود اپنے ذہن کے اعتبار سے سوچے۔
واپس اوپر جائیں

صدیقی اسپرٹ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد11 ہجری میںمدینہ میں ابو بکر صدیق کی خلافت کا واقعہ ہے۔ اس وقت عرب کے کچھ قبائل نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا۔ یہ سادہ طور پر منعِ زکاۃ کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ اسٹیٹ سے بغاوت کا کیس تھا۔اس لیےخلیفہ اَوّل ابوبکر صدیق نے بہت شدید انداز میں اس کیس کو ہینڈل کیا۔چنانچہ مدینہ میں اس تعلق سے مشورہ ہوا۔خلیفہ اول ابوبکرنےاس موقع پر ایک فیصلہ کن تقریر کی، اس میں انھوں نے یہ تاریخی جملہ کہا إِنَّہُ قَدِ انْقَطَعَ الْوَحْیُ وَتَمَّ الدِّینُ أَیَنْقُصُ وَأَنا حَیّ؟ رَوَاہُ رزین (مشکاۃ المصابیح ، حدیث نمبر6034)۔ یعنی وحی بند ہوچکی ہے، اور دین مکمل ہوگیا ہے، کیا اس میں کمی کی جائے گی، حالاں کہ میں زندہ ہوں۔
یہ جملہ کوئی سادہ جملہ نہیں تھا، بلکہ وہ ایک اسپرٹ کا اظہار تھا، جو ہر سچے مومن کے اندر ہونا چاہیے۔ وہ یہ کہ کبھی ایسا موقع آتا ہے کہ دین کے معاملے میں کرائسس کی نوبت آجاتی ہے۔ اس وقت ایک مرد مومن کا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ایسے نازک موقع پرمرد مومن کو اس کی عارفانہ اسپرٹ اس پر ابھارے گی کہ وہ پورے عزم کے ساتھ یہ جملہ بولے— کیا دین میں کمی کی جائے گی، حالاں کہ میں موجود ہوں۔ یہ قول اگر کسی مرد مومن کے دل کی گہرائی سے نکلے تو اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ فضا بدل جاتی ہے، اور اہل اسلام کی گاڑی دوبارہ پٹری پر چلنا شروع ہوجاتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ لوگوں کے لیے اپنی جان، اپنا خاندان، اپنی جائداد، اپنے معاشی مفادات سب سے قیمتی ہوتے ہیں۔ انھیں چیزوں کو ایک انسان سب سے زیاہ اہم سمجھتا ہے۔ ہر دوسری چیز کے مقابلہ میں وہ ان کو ترجیح دیتا ہے اور اپنا سب کچھ اس کے لیے نثار کردیتا ہے۔اس کے برعکس، جس کے اندر ایمان اور معرفت کی اسپرٹ پیدا ہوجائےاس کی زندگی ایمان کی بنیاد پر قائم ہوجاتی ہے۔ اللہ کا خوف و محبت ، اللہ کی یاد، اللہ کی نعمتوں کا شکر، اللہ کے لیے حوالگی کا جذبہ ، وغیرہ اس کے اندر اتنا بڑھا ہوا ہو کہ ہر دوسری چیز اس کو کمتر لگے۔ یہی صدیقی اسپرٹ ہے۔
واپس اوپر جائیں

برتر اخلاق

اعلی اخلاق وہ ہے جو برتر اخلاق ہو۔ یعنی ہر حال میں اچھے اخلاق پر قائم رہنا، خواہ دوسروں کی طرف سے برے اخلاق کا تجربہ پیش آرہا ہو۔ اعلی اخلاق دوسروں کے رد عمل کی بنیاد پر نہیں بنتا ،بلکہ خود اپنے اعلیٰ اصولی معیاروں کے تحت بنتا ہے۔ اسلام میں اخلاق ایک عبادت ہے، وہ کوئی جوابی انسانی رویہ نہیں۔ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے : لَا تَکُونُوا إِمَّعَةً، تَقُولُونَ:إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا، وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا، وَلَکِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَکُمْ، إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا، وَإِنْ أَسَاءُوا فَلَا تَظْلِمُوا (سنن الترمذی، حدیث نمبر2007)۔ یعنی تم لوگ اِمَّعَۃْ نہ بنو۔ یعنی یہ طرزِ عمل کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کریںگے۔ اور اگر وہ ہمارے ساتھ ظلم کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ظلم کریں گے۔ بلکہ تم اپنے آپ کواس کے لیے آمادہ کرو کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ براسلوک کریں تب بھی ہم ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے ۔
اسلام میں عبادت کا ریوارڈ کیفیات کے اضافہ کے ساتھ بڑھ جاتاہے۔ اسی طرح جب کوئی آدمی دوسروں کی طرف سے برے سلوک کا تجربہ پیش آنے کے باوجود ان کے ساتھ اچھے سلوک پر قائم رہے تواس کا ریوارڈ بھی بڑھ جائے گا۔ کیوں کہ وہ جذبات کی قربانی کی سطح پر جاکر حسنِ اخلاق کے اصول پر قائم رہا۔ جذبات کی قربانی دوسرے الفاظ میں اپنے ایگو کی قربانی ہے، اور ایگو کی قربانی بہت بڑی قربانی ہے۔
معتدل حالات میں حسنِ اخلاق اگر سادہ طورپرسماجی آداب (manners) کی حیثیت رکھتاہے تو غیرمعتدل حالات میں حسنِ اخلاق اعلیٰ درجہ کی عبادت بن جاتاہے۔ معتدل حالات میں جو خوش اخلاقی برتی جاتی ہے، وہ انسانی شخصیت کے ارتقا میں کچھ مدد گار نہیں ہوتی۔ لیکن جب ایک آدمی غیرمعتدل حالات میں دوسروں کے برے رویہ سے غیر متاثر رہ کر حسنِ اخلاق پر قائم رہے تو اس کی یہ روش اس کی شخصیت کے ارتقا کا ذریعہ بن جائے گی۔
حسنِ اخلاق کے سلسلے میں بائبل (متی، :22‏39) میں ہےکہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ(Love your neighbour as yourself)۔ ایک انسان کے لیے اخلاق کا سب سے بڑا موقع اس کے پڑوسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ پڑوسی کسی انسان کا سب سے قریبی ساتھی ہے۔ گھر کے افراد کے بعد کسی انسان کا سابقہ سب سے پہلے جن لوگوں سے پیش آتا ہے، وہ اس کے پڑوسی ہیں۔ پڑوسی کو خوش رکھنا، اس سے اچھا تعلق قائم کرنا، سچے انسان کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ پڑوسی خواہ اپنے مذہب کا ہو یا غیر مذہب کا، خواہ اپنی قوم کا ہو یا دوسری قوم کا، وہ ہر حال میں قابل لحاظ ہے۔ ہر حال میں اس کا وہ حق ادا کیا جائے گا جو انسانیت کا تقاضا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وَاللَّہِ لاَ یُؤْمِنُ، وَاللَّہِ لاَ یُؤْمِنُ، وَاللَّہِ لاَ یُؤْمِنُ قِیلَ:وَمَنْ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ: الَّذِی لاَ یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَایِقَہُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6016)۔یعنی خدا کی قسم وہ مومن نہیںہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے۔ پوچھا گیا کون اے خدا کے رسول؟ آپ نے کہا جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی امن میں نہ ہو۔
اس حدیث کے مطابق، کوئی مسلمان اگر اپنے پڑوسی کو ستائے۔ وہ اس طرح رہے کہ اس کے پڑوسی کو اس سے تکلیف پہنچے تو ایسے مسلمان کا ایمان و اسلام ہی مشتبہ ہوجائے گا۔ پڑوسی کے سلسلہ میں جو خدائی احکام ہیںاس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سچے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کی یک طرفہ طور پر رعایت کرے۔ وہ پڑوسی کے رویہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوشش کرے۔کسی آدمی کی انسانیت اور اس کے دینی جذبہ کی پہلی کسوٹی اس کا پڑوسی ہے۔ پڑوسی اس بات کی پہچان ہے کہ آدمی کے اندر انسانی جذبہ ہے یا نہیں ۔
کسی آدمی کا پڑوسی اس سے خوش ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ آدمی صحیح آدمی ہے، اور اگر اس سے اس کا پڑوسی ناخوش ہو تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ آدمی صحیح نہیں۔اچھا پڑوسی بننا خود آدمی کے اچھے انسان ہونے کا ثبوت ہے۔ ایسے ہی انسان کو خدا اپنی رحمتوں میں حصہ دار بنائے گا۔
واپس اوپر جائیں

کوئی مصیبت ، مصیبت نہیں

غزوۂ احد 3 ھ میں پیش آیا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کو جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ غزوہ احد کے ذیل میں کتابوں میں بہت سے واقعات آئے ہیں، ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے: مَرَّ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةِ مِنْ بَنِی دِینَارٍ، وَقَدْ أُصِیبَ زَوْجُہَا وَأَخُوہَا وَأَبُوہَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأُحُدٍ، فَلَمَّا نُعُوا لَہَا، قَالَتْ:فَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالُوا :خَیْرًا یَا أُمَّ فُلَانٍ، ہُوَ بِحَمْدِ اللَّہِ کَمَا تُحِبِّینَ، قَالَتْ:أَرُونِیہِ حَتَّى أَنْظُرَ إلَیْہِ؟ قَالَ:فَأُشِیرَ لَہَا إلَیْہِ، حَتَّى إذَا رَأَتْہُ قَالَتْ:کُلُّ مُصِیبَةٍ بَعْدَکَ جَلَلٌ!(سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 99) ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے قبیلہ بنو دینار کی ایک عورت کے پاس سے گزرے، جس کے شوہر اور بھائی ، اور باپ احد کے دن رسول اللہ کی طرف سے قتل ہو گئے تھے۔ جب اس عورت کو ان لوگوں کے موت کی خبر پہنچی تو اس نے کہا: رسول اللہ کا کیا ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ الحمد للہ، وہ اچھے ہیں اے ام فلاں، جیسا کہ تم پسند کرتی ہو۔ اس عورت نے کہا: مجھے دکھاؤ، تاکہ میں آپ کو دیکھ لوں۔ لوگوں نے اس عورت کو آپ کی طرف اشارہ کیا، یہاں تک کہ اس نے آپ کو دیکھا، اور کہا: آپ کے بعد ہر مصیبت چھوٹی ہے۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو چاہیے کہ وہ کسی مصیبت کو بڑا درجہ نہ دے۔ اگر اس کی زندگی میں کچھ مصیبتیں پیش آئیں تو اس کو دیکھناچاہیے کہ وہ مصیبت چھوٹی ہے یا بڑی، یعنی اس کی مصیبت کریپلنگ (crippling) ہے یا نان کریپلنگ (non-crippling)۔ اگر وہ کریپلنگ مصیبت سے بچا ہوا ہے، اور اس کو صرف نان کریپلنگ مصیبت پیش آئی ہے تو اس کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور آہ و واویلا چھوڑ دینا چاہیے۔
اس دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ یہی واحد فارمولا ہے، جس کے ذریعے کوئی شخص اپنے کو بچا سکتا ہے، اور زندگی کو اپنے لیے قابلِ برداشت بنا سکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خیر کثیر

قرآن میںزوجین کے تعلق سے ایک نصیحت کو ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَى أَنْ تَکْرَہُوا شَیْئًا وَیَجْعَلَ اللَّہُ فِیہِ خَیْرًا کَثِیرًا (4:19)۔ یعنی تم ان کے ساتھ اچھی طرح رہو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تم کو پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں تمہارے لیے بہت بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔
یہ رہنمائی صرف زوجین کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ زندگی کا اصول ہے۔کیسے ایسا ہوتا ہے کہ ایک واقعہ جو انسان کے لیے ناپسندیدہ واقعہ ہو، وہ اس کے لیے خیر کثیر کا ذریعہ بن جائے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے، جو مسائل کو اگنور کرکے مواقع کو اویل کرنا جانتے ہوں۔ آیت میں یہ بات ازدواجی پارٹنر کے بارے میں کہی گئی ہے۔یعنی لائف پارٹنر کےناپسندیدہ پہلو کو اگنور کرکے اس کے پسندیدہ پہلو کو اویل کرنا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آدمی کی شادی ہو، اور اس کو ناپسندیدہ یا مس میچ لائف پارٹنر مل جائے تو وہ اس کے لیے خیر کثیر کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
وہ اس طرح کہ خواہ میچنگ پارٹنر ہوں یا مس میچ پارٹنر دونوں اللہ کی تخلیق ہیں۔ اگر آدمی کو مس میچ لائف پارٹنر مل جائے، اور وہ اس کو رضائے الٰہی سمجھ کر دل سے قبول کرلے تواللہ اس کے لیے ایک ایسے خیر کثیر کا فیصلہ کردیتا ہے، جو کسی میچنگ پارٹنر سے بھی زیادہ اہم ہو۔ خدا کے پاس میچنگ پارٹنر سے بہت زیادہ عظیم خیر کی صورتیں ہیں۔ مفسر القرطبی نے ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ابو محمد بن ابی زید دین، علم اور معرفت میں بڑا مرتبہ رکھتے تھے۔ لیکن ان کی بیوی بڑی بدسلوک تھی، اور بدزبان بھی۔ شیخ صاحب سے اس بارے میںپوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا : اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دی، اپنی معرفت دی ،اور میرے اوپردوسری دنیوی نعمتیں مکمل کی ہیں۔ہوسکتا شاید میرے کسی گناہ کی سزا اس صورت میں دی گئی ہو ،مجھے اندیشہ ہے کہ میں اس کو جدا کروں تو مجھ پر اس سے سخت سزا اور عقوبت نازل ہو (تفسیر القرطبی، جلد5، صفحہ98)۔
واپس اوپر جائیں

ہر حال میں بہتر

لوگ اکثر شادی کے معاملے میں معیار پسند ہوجاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کو ایک ایسی خاتون ملے جو ان کے مزاج کے مطابق ہو،جو ان کا میچ (match) ہو۔ مگر یہ درست رویہ نہیں ۔ صحابیٔ رسول ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:لَا یَفْرَکْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ کَرِہَ مِنْہَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْہَا آخَرَ أَوْ قَالَ:غَیْرَہُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1469)۔ یعنی کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے، اگر اس کو اس کی ایک بات ناپسند ہو تو اس کے اندر دوسری بات ہوگی جو اس کی مرضی کے مطابق ہو۔ یہ رہنمائی صرف شوہر کو نہیں ہے، بلکہ اس کی مخاطب بیوی بھی ہے۔
خالق نے دنیا کو اس ڈھنگ پر پیدا کیا ہے کہ اس میں ہر اعتبار سے خیر ہے۔ حتی کہ جو بظاہر برے پہلو ہیں، غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بھی خیر کا پہلو ہے۔ حتیٰ کہ اگر آپ نے نکاح کیا، اور ایک بظاہر غیر مطلوب عورت مل گئی، تب بھی اس میں خیر ہے۔ مثلاً اس غیر مطلوب خاتون کو آپ مطلوب خاتون بنالیں تو آپ کا یہ عمل آپ کے لیے اسم اعظم کے ساتھ دعا کا پوائنٹ آف ریفرنس بن جاتا ہے ۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ خدا یا، میں نے اس غیر مطلوب خاتون کو دل سے قبول کیا۔میں اس مس میچڈ لائف پارٹنر (mismatched life-partner)کے ساتھ نارمل طریقے سے زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوں۔خدایا،اس کی بنا پر آپ میرے لیے خیر کثیر کا فیصلہ کردے۔ اس خاتون کے غیر مطلوب پہلو کے بدلے مجھے ایک بہتر بدل دے دے۔ مثلاً اچھی اولاد، وغیرہ۔تو ایسی دعا اس کے لیے اسمِ اعظم کے ساتھ کی گئی دعا بن جائے گی۔
اس کے برعکس، تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اگر آپ کو آپ کا میچ مل جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ اس کے ساتھ تفریحی موضوعات پر باتیں کریں گے، گہرے موضوعات پر ڈسکشن اس کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ گویا وہ خاتون آپ کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ نہیں بنے گی، ذہنی جمود کا ذریعہ بن جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

خواتین کا رول

قدیم زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ بیوی کا رول یہ ہے کہ وہ گھر کو سنبھالے، اور بچوں کی تربیت کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے میں بیوی کا رول بدل گیا ہے۔ اب بیوی کا ایک اہم رول یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کی ارننگ ممبر (earning member) بنے۔ وہ معاشی اعتبار سے اپنے شوہر کی معاون بنے۔ اس کا اشارہ ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میںملتا ہے۔ راوی کہتے ہیں: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَیَأْتِیَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَنْفَعُ فِیہِ إِلَّا الدِّینَارُ وَالدِّرْہَمُ(مسند احمد، حدیث نمبر 17201) یعنی میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: لوگوں پر ضرور ایسا زمانہ آئے گا، جس میں دینار اور درہم ہی فائدہ دے گا۔
اس حدیث میں غالباً یہ اشارہ ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ عورت کو اپنے شوہر کے لیے معاشی مددگار بننا پڑے گا۔ موجودہ زمانہ بظاہر یہی زمانہ معلوم ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے میں زندگی گزارنے کے لیے مال کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ عورتوں کے لیے کمائی کے نئے مواقع پیدا ہوگئے ہیں۔ مثلا ٹیچنگ کے میدان میں عورتوں کو بہت آسانی سے باعزت کام مل جاتاہے۔ دین دار مسلمانوں کو اس امکان سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
خواتین کے معاملے میں اگر یہ تعلیمی شعور موجود ہو، اور بچپن سے ان کو اس مقصد کے لیے تیار کیا جائے تو بہت آسانی سے ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ شادی کی عمر تک بی ایڈ اور ایم ایڈ بن چکی ہوں، یا کوئی اور پروفیشنل ڈگری حاصل کرچکی ہوں۔ اس معاملے میں لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں۔ والدین کی زیادہ توجہ دینی تعلیم کے لیے ہوتی ہے، لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ دینی تعلیم کو گھریلو تعلیم کا حصہ سمجھا جائے، اور ڈگری والی تعلیم کو پروفیشنل تعلیم کا حصہ بنا دیا جائے۔ تاریخ سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اسلام کے دورِ اول میں صحابیات معاشی کام انجام دے کر اپنے شوہروں کی مدد کرتی تھیں۔مثلاً ام المؤمنین خدیجہ، عبد اللہ بن مسعود کی بیوی زینب ، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

ہاجرہ کلچر

فرنچ رائٹر الفانسو دی لامارٹین (Alphonse de Lamartine, 1790-1869) کا مشہور قول ہے کہ ہر بڑے آغاز سے پہلے ایک عورت کا رول ہے
There is a woman at the beginning of all great things
تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ قول سب سے زیادہ حضرت ہاجرہ کے اوپر صادق آتا ہے۔ حضرت ہاجرہ سے پہلے دنیا میں نیچر ورشپ کا دور تھا۔حضرت ہاجرہ کے ذریعے انسانی تاریخ میںایک پراسس جاری کیا گیا جس کا نقطۂ انتہا (culmination) پیغمبر اسلام اور اصحابِ رسول کا ظہور تھا، جن کے ذریعے دنیا میں بتدریج سائنٹفک تھنکنگ وجود میں آئی۔اس کا اعتراف فرانسیسی مورخ ہنری پرین نے ان الفاظ میں کیا ہےکہ اسلام نے زمین کا نقشہ بدل دیا، تاریخ کے روایتی نظام کو ختم کردیا گیا:
(Islam) changed the face of the Globe...the traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne, A History of Europe, London, 1958, p 46)
اصل یہ ہے کہ آج ہم جن سائنسی دریافتوں کو استعمال کررہے ہیں، وہ نیچر(فطرت) میں ہمیشہ سے موجود تھی۔مگر اس کو ایکچولائز (actualize) کرنے کے لیے ضروری تھا کہ نیچر میں چھپے ہوئے فطرت کے خزانوں کو بذریعہ تحقیق (investigation) دریافت کیا جائے۔ قدیم زمانے میں نیچرورشپ کے مزاج کی بنا پر انسان کے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ نیچر کی تحقیق کرے، اور نیچر میں چھپے ہوئے خزانے کو دریافت کرکے ٹکنالوجی اور صنعت کے دور کو دنیا میں لائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ جس چیز کو پرستش کا موضوع (object of worship) بنائے ہوئے ہوں، اس کو آپ تحقیق کا موضوع (object of investigation) نہیں بنا سکتے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگر مقدس چیزوں سے چھیڑ چھاڑ کی جائے تو اس پر بلا نازل ہوگی۔
خالق نے دنیا کے اندر یہ طریقہ رکھا تھا کہ اس نے کچھ چیزوں کو زمین کے اوپر براہ راست طور پر پیدا کیا۔ مثلاً حیوانی طاقت۔ اسی کے ساتھ کچھ اور چیزیں نیچر کے اندر چھپا کررکھ دیں، مثلاً بجلی اور کمیونی کیشن اور کمپیوٹر ،وغیرہ۔ برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975) نے کہا ہے کہ نیچرورشپ کی بنا پر انسان نے کبھی نیچر کو تحقیق کا موضوع بنانے کی طرف توجہ نہیں دی۔ قدیم زمانے میں نیچر ورشپ اتنی عام تھی کہ پیدا ہونے والے لوگ نیچر ورشپ کے کلچر میں کنڈیشنڈ ہوجاتے تھے۔
اب ضرورت تھی کہ ایک نسل ایسی پیدا کی جائے، جو نیچر ورشپ کی کنڈیشننگ سے بچی ہوئی ہو۔ ایک نئی قوم جو اپنی فطرت پر قائم ہو۔اس مقصد کے لیے پیغمبر ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ کو عرب کے صحرا (desert)میں آباد کیا۔ اس طرح ایک خاتون ہاجرہ کی قربانی سے ایک نئی نسل پیدا ہوئی، جو نیچرورشپ کی کنڈیشننگ سے بچی ہوئی تھی۔یہاں تک کہ ساتویں صدی عیسوی میں اسی نسل میں رسول اور اصحابِ رسول پیدا ہوئے۔ یہ اہل توحید تھے، وہ نیچر ورشپ کرنے والے نہیں تھے۔پھران کو دنیا میں غالب قوم کی حیثیت حاصل ہوگئی۔اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ نیچر کو موضوعِ تحقیق بنایا گیا، جو اَب تک انسان کے لیے صرف موضوعِ پرستش بنی ہوئی تھی۔ یہ نیچر ورشپ اس وقت پوری طرح مغلوب ہوگئی، جب کہ سائنس کی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ نیچر عامل نہیں ہے، بلکہ وہ معمول ہے۔یعنی نیچر کسی بڑی طاقت کے کنٹرول میں ہے، اس کی اپنی کوئی طاقت نہیں۔ اس تحقیق نے نیچر کو معبودیت کے مقام سے ابدی طور پر ہٹادیا۔(تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتاب اسلام دورِ جدید کا خالق)
لیکن دوبارہ ایسا ہوا ہے کہ ٹکنالوجی کی دریافت کے نتیجے میں مواقع بہت زیادہ کھل گئے ہیں۔مادی فائدے کے اعتبار سے امکانات اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیںکہ ہر آدمی تک اس کی رسائی ہو گئی ہے۔ اب ہر آدمی بڑی بڑی ترقی کا خواب دیکھتا ہے، اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس فتنے نے ہر آدمی کو مادہ پرست بنادیا ہے۔ موجودہ دور میں خواتین کو ایک نیا رول ادا کرنا ہے۔ وہ یہ کہ نیچر ورشپ سے آزاد ہوکر انسان مادہ پرستی کی طرف چلا گیا، اب وقت آگیا ہے کہ خواتین ایک ایسی نسل تیار کریں، جو دنیا کو مادہ پرستی سے نکال کر خدا پرستی کی طرف لے جائے۔ یہ دوسرا دور عملا ًشروع ہوچکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خواتین اس کو تکمیل تک پہنچائیں گی، اور دنیا کو مادہ پرستی سے نکال کر خدا پرستی کی طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔
واپس اوپر جائیں

شاک ٹریٹمنٹ

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ زندگی کانظام اس طرح بنا ہے کہ آدمی کو ہمیشہ طرح طرح کے صدمات (shocks) پیش آتے ہیں(البقرۃ، 2:155) ۔ یہ صدمات بظاہر منفی ہوتے ہیں، لیکن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے وہ مثبت سبق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ انسان کی سرگرمیوں کو صحیح رخ (right direction) دیتے ہیں۔ برٹش سائنسداں آئزک نیوٹن (1642-1727) سیب کے باغ میں ایک پیڑ کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ اس دوران اوپر سے سیب کا ایک پھل گرا، اور نیوٹن کے سر سے ٹکرا گیا۔ بظاہر یہ تکلیف کا واقعہ تھا۔ لیکن اس واقعہ نے نیوٹن کو سوچنے پر مجبور کیا کہ سیب نیچے کیوں گرا، وہ اوپر کیوں نہیں گیا۔ اس سوچ نے نیوٹن کو اس دریافت تک پہنچایا کہ زمین میں قوتِ کشش (gravitational pull) ہے، جو بے شمار پہلوؤں سے انسان کے لیے نفع بخش ہے۔ سیب کے گرنے کے اس واقعہ کو ایک نام دینا ہو تو یہ ہوگا - ایپل شاک (apple shock)۔
اس طرح انسان کے ساتھ جو سبق آموز واقعات پیش آتے ہیں، وہ کسی نہ کسی صدمہ کے ذریعہ پیش آتے ہیں۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ انسان کو صدمات کے ذریعہ سبق آموز تجربہ کرایا جائے۔ یہ طریقِ کار بظاہر تکلیف کا طریقہ ہے، لیکن وہ انسان کے لیے زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثال کےلیے یہاں اس قسم کےچند عمومی تجربات کا ذکر کیا جاتا ہے:
(1) فلڈ شاک (flood shock) (2) بھونچال شاک (quake shock)
(3) ڈیتھ شاک (death shock) (4) اولڈ ایج شاک (old age shock)
(5) کووڈ 19شاک (covid-19 shock)، وغیرہ۔
یہ تجربات انسان کو یہ یاد دلاتے ہیںکہ وہ اس دنیا کا ماسٹر نہیں ہے۔ اس دنیا میں اس کو متواضع (modest)انسان بن کر رہنا چاہیے تاکہ وہ ان تجربات سےسبق حاصل کرنے والا بنے۔
واپس اوپر جائیں

حقیقتِ انسانی کی دریافت

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ ایک ضعیف بچہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ ضُعف انسان کی اصل حالت کو بتاتا ہے،یعنی انسان اپنی حقیقت کے اعتبار سےعاجزِ مطلق (all-powerless) ہے۔ لیکن اس دورِ ضُعف میں انسان کو زندہ شعور حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے بچپن کے دور میں انسان اپنی حالتِ ضُعف (powerlessness)کو شعوری طور پر دریافت نہیں کرپاتا ۔ اس کے بعد انسان کے اوپر جوانی کا دور آتا ہے۔ جوانی کے دور میں انسان کو شعور کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن اس وقت وہ اپنے شعور کو استعمال نہیں کرپاتا کہ وہ اپنے عجز کو دریافت کرسکے۔ اس لیے زندہ شعور کے باوجود وہ حالتِ ضُعف سے بے خبر رہتا ہے۔ یہ صرف بڑھاپے کا دور ہے، جب کہ انسان اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ وہ حالتِ ضُعف کا ادراک کرسکے۔
بڑھاپے کی عمر کیا ہے۔ ایک لفظ میں بڑھاپا عجز (powerlessness)کا تجربہ ہے۔ بڑھاپا کئی پہلوؤں سےزندگی کا ایک سخت ترین مرحلہ ہے۔ ایک وجہ تو یہی ہے کہ آدمی طبعی زندگی کے آخری ایام میں ہوتا ہے، اورموت سےبہت قریب ہوجاتا ہے۔دوسری وجہ ،تیزی کے ساتھ جسمانی قوت کا جاتے رہنا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی بڑھاپے کا دور انسان کی زندگی کا سب سے زیادہ قیمتی دور ہے۔یہ دور کسی انسان کے لیےاس کی اصل حقیقت کاجبری ادراک ہے۔ بڑھاپے سے پہلے انسان اپنے پہلےدو اَدوار (بچپن اور جوانی)کو پانے کے باوجود غفلت کی وجہ سے کھوچکا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے دورِ طفولیت (childhood)یا اپنے دور جوانی میں اپنی حقیقتِ واقعی کا ادراک کرسکے۔
انسان کا خالق یہ چاہتا ہے کہ انسان اپنی حقیقت کو جانے ۔ وہ اسی ادراک کی بنیاد پر اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ لیکن ہر انسان یہ غلطی کرتا ہے کہ وہ اپنے بچپن اور اپنی جوانی کے دور میں اپنی حقیقتِ واقعی کو دریافت کرنے سے بے خبر رہتا ہے۔ اس لیے خالق کی یہ منشا ہوتی ہے کہ وہ بڑھاپے کے دور میں انسان کوعجز کا احساس دلائے ، یعنی یہ کہ وہ اللہ رب العالمین کے مقابلے میں ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کے لیے اس زمین پر صحیح روش صرف یہ ہے کہ وہ اپنے عجز کو جانے، اور احساسِ عجز کی بنیاد پر اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ بوڑھے انسانوں کا گویا یہ مشن ہے کہ وہ غیر بوڑھوں کو اس حقیقتِ انسانی سے باخبر کرے۔
اللہ رب العالمین کی دریافت کےبعد انسان کے لیے سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ وہ اپنے عجز کو دریافت کرے۔ حقیقتِ انسانی کی دریافت اپنی عجز کی دریافت کا دوسرا نام ہے۔ وہی انسان اپنی حقیقت کو دریافت کرتا ہے، جو اپنے عجز کو دریافت کرسکے۔قرآن میں کئی آیتیں ایسی ہیں، جن کی منشا یہ ہے کہ انسان کو حقیقت کی دریافت کرائی جائے (الفتح، 48:11)۔ یہ حقیقت کہ انسان عاجز مطلق ہے، اور خداوند رب العالمین قادرِ مطلق (all-powerful)۔ اسی حقیقت کا شعوری ادراک معرفت (realization)کی اصل ہے۔
معرفت کی اصل حقیقت عجز ہے۔ کوئی انسان جب خداکی معرفت حاصل کرتاہے تو وہ یہ دریافت کرتا ہے کہ انسان خدا کے مقابلے میں عاجز مطلق ہے ۔اس وقت وہ قدرتِ خداوندی کے مقابلے میں عجزِ انسانی کی دوسری حد (extent) بناتا ہے۔ یہی دریافت معرفت کا نقطۂ انتہا (culmination) ہے۔ عبدیت کی اسی دریافت پر کسی کے لیے جنت کا تحقُق ہوتا ہے۔ جو انسان اس دریافت سے محروم رہ جائے، اس کے لیے اندیشہ ہے کہ وہ جنت سے بھی محروم رہ جائے۔
خالق کے تخلیقی نقشےکے مطابق، یہ ضروری ہے کہ انسان بچپن اور جوانی کے ابتدائی ادوار سے گزر کر بڑھاپے کی عمرکو پہنچے۔ خالق نے مقدر کیا ہے کہ جو لوگ بڑھاپے کے دور تک پہنچیں، وہ جاننے والے کی حیثیت سے ان لوگوں کے معلم بن جائیں ، جو زندگی کے اس آخری دور تک ابھی نہیں پہنچے۔ وہ ان لوگوں کو باخبر کریں، جو اس حقیقت کو جاننے سے محروم رہے۔ یہ تیسرے دور تک پہنچنے والے لوگ گویا انسانیت کے معلم ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کو اس حقیقت سے باخبر کریں، جو زندگی کے اس آخری دور تک نہیں پہنچ سکے۔
واپس اوپر جائیں

صحت مند تنقید

تنقید (criticism) کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے تجزیہ (analysis)، اور دوسرا ہے مجرد رائے زنی (remark)۔ اگر آپ کو کسی کی بات سے اختلاف ہو ، تو ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ خالص علمی انداز میں اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر یہ متعین کریں کہ اس کی بات میں کون سی رائے آپ کے نزدیک درست نہیں۔ پھر اس نادرست بات کو متعین کریں، اور پھر یہ بتائیں کہ اس کی بات کیوں درست نہیں ہے۔
مثلاً آپ اسرائیل کے کیس کو فلسطین پر ناجائز قبضے کا کیس سمجھتے ہیں تو اپنی مخالفت کو غیرجانب دارانہ انداز میں متعین کریں، اور پھر شریعت یا عقل کے معیار پر اس کو جانچ کر بتائیں کہ اس کی کون سی بات ہے، جو شریعت یا عقل کے معیار پر غلط قرار پاتی ہے۔ پھر اتنا ہی کافی نہیں ہے، آپ کو یہ بھی کرنا چاہیے کہ اسرائیل کے اپنے بیان کے مطابق ، اس کا کیس کیا ہے۔ وہ کیوں اپنے آپ کو درست سمجھتا ہے، اور پھر دونوں پہلوؤں کا تجزیہ کرکے آپ یہ متعین کریں کہ شریعت یا عقل کی میزان پر اس کا نقطۂ نظر کیا ہے۔جیسے قرآن کی ایک متعلق آیت یہ ہے: یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ اللَّہُ لَکُمْ (5:21)۔ یعنی اے میری قوم، اس پاک زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، بظاہر ارضِ مقدس (فلسطین) امتِ موسیٰ ، بنی اسرائیل کا حق ہے۔قرآن کے ظاہر الفاظ سے واضح طور پر یہ بات نکلتی ہے۔اب اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس آیت کا کچھ اور مطلب ہے، تو آپ کو خود قرآن سے اس کا مدلل حوالہ بتانا چاہیے۔ مثلا ًاگر آپ یہ کہیں کہ قرآن کی یہ آیت اب ایک منسوخ آیت ہے تو صرف آپ کا کہنا کافی نہ ہوگا ۔آپ کو قواعدِ شریعت کے مطابق یہ بتانا ہوگا کہ یہ آیت کس آیت سے منسوخ ہے۔ ورنہ آپ کا بیان ایک غلط بیان قرار پائے گا۔
واپس اوپر جائیں

ری ایکشن، رسپانس

اگر کوئی آدمی کسی کی غلطی بتائے، یا اس کی تنقید کرے، تو عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ اس پر لوگ ری ایکٹ (react)کرتے ہیں، وہ اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یا وہ اس کو غلط ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ اس طرح کے معاملے میں ری ایکشن کا طریقہ بہت زیادہ عام ہے۔مگر اس قسم کے معاملے میں یہ ری ایکشن کا طریقہ صحیح نہیں۔
صحیح رویہ یہ ہے کہ آدمی اپنی صفائی پیش کرنے کے بجائے سوچنا شروع کردے۔ وہ کہنے والے کی بات کو ایک قابلِ غور مسئلہ کے طور پر لے، نہ کہ محض اعتراض کے طور پر۔ جو آدمی آپ کی کسی بات پر تنقید کرتا ہے، وہ آپ کو سوچنے کا ایک پوائنٹ دیتا ہے۔ وہ آپ کو یہ موقع دیتا ہے کہ آپ اس کی بات پر غور و فکر کریں، اور پھر اپنی معلومات میں اضافہ کریں۔ آپ اس کو تجربہ (experience) کے خانے میں ڈالیں۔ آپ اس کی بات کو ایک حریف کی بات نہ سمجھیں، بلکہ سادہ طور پر ایک انسان کی بات سمجھیں۔ آپ اس کی بات سے کچھ سیکھ (learning) لینے کی کوشش کریں۔
دوسرے کی بات کو اگر آپ مثبت (positive) طور پر لیں، تو اس سے آپ کو غور و فکر کا ایک میدان ملے گا، وہ آپ کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس کے برعکس، اگر آپ اس کی بات کو منفی (negative) انداز سے لیں تو آپ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ کے ذہن میں سوچنے کا عمل جاری نہیں ہوگا۔
زندگی ایک سفر ہے، زندگی کو ایک مثبت تجربہ (positive experience) بنائیے۔ آپ ہر ایک سے کچھ سیکھنے کی کوشش کیجیے۔ حضرت عمر فاروق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر ایک سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے تھے(کان یتعلم من کل احد )۔ ایسا صرف اس وقت ہوسکتا ہے، جب کہ آپ مثبت ذہن کے ساتھ جینے کا آرٹ سیکھ لیں۔
واپس اوپر جائیں

صحیح طرزِ فکر

صحیح طرزِ فکر حکیمانہ طرز فکر کی ایک اعلی قسم ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں جیتے ہیں، یا صبح وشام گزارتے ہیں، اس میں چیزیں الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ مخلوط (mixed)حالت میں ہیں۔ اس بنا پر بظاہر چیزوں کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنا مشکل ہوجاتاہے۔ چیزوں کے بارے میں صحیح رائے اس وقت قائم ہوتی ہے، جب کہ آپ چیزوں کو الگ الگ کرکے دیکھ سکیں۔ اس تجزیاتی مطالعے کے بغیر آدمی کے اندر صحتِ فکرپیدا نہیں ہوسکتی، وہ مبنی بر واقعہ سوچ کا حامل نہیں بن سکتا۔
مثلاً ایک شخص اپنے بارے میں یا اپنی کمیونٹی کے بارے میں یہی کہے گا کہ ہمارے اوپر ظلم ہورہا ہے۔ اگر اس سے یہ کہا جائے کہ تمھارے باپ دادا کا جو اسٹینڈرڈ تھا، کیا تمھارا اسٹینڈرڈ اس سے کم ہے۔ وہ جواب دے گا کہ نہیں اس سے تو بہت اچھا ہے۔ مثلاً میرے باپ دادا بائیسکل پر سفر کرتے تھے، آج میں کار پر سفر کرتاہوں۔ میرے دادا کے زمانے میں بچے معمولی مدرسے میں پڑھتے تھے، آج وہ شہر کے ایک اچھے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ میرے دادا کچے گھر میں رہتے تھے، آج میں اور میرے بچے پکے گھر میں رہ رہے ہیں، وغیرہ۔ اب اگر آپ اس سے پوچھیں کہ جب تمھاری فیملی کا اسٹینڈرڈ پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہے، تو ظلم کہاں ہورہا ہے۔ اب وہ حیران ہوجائے گا، اور کہے گا کہ میں نے اس اعتبار سے کبھی نہیں سوچا۔
اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اصل مسئلہ کہاں ہے۔ اصل مسئلہ خارج میں نہیں ہے، بلکہ داخل میں ہے۔ لوگوں کے اندر صحیح طرز فکر (right thinking)نہیں ہے۔ اس لیے لوگ شکایت میں جی رہے ہیں، حالاں کہ انھیں شکر میں جینا چاہیے۔ صحیح طرزِ فکر تجزیاتی فکر کا نام ہے۔ اگر آپ کے اندرڈی ٹیچڈ تھنکنگ (detached thinking)ہو، اگر آپ تجزیاتی انداز میں سوچنا جانتے ہوں تو آپ درست طرزِ فکر کے حامل بن سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ہائی پروفائل، لو پروفائل

کام کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے ہائی پروفائل (high profile) کے انداز میں کام کرنا، اور دوسرا ہے لو پروفائل (low profile) کے انداز میں کام کرنا۔ ہائی پروفائل کا انداز ہمیشہ مایوسی اور شکایت کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس، لو پروفائل کا انداز ہمیشہ امید اور حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ ہائی پروفائل بے نتیجہ شو ر وغل پر ختم ہوتا ہے، اور لو پروفائل کامیابی کا نیا راستہ کھولنے والا ہے۔ لو پروفائل کے طریقے میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے اور احتساب کرنے کا موقع موجود رہتا ہے۔ اس کے برعکس، ہائی پروفائل کے طریقے میں سوچنے اور احتساب کرنے کا موقع موجود نہیں رہتا۔ ہائی پروفائل کا مطلب ہے— کام اس طریقے سے کرنا کہ لوگوں میں چرچا ہونے لگے
attracting a lot of attention and interest from the public and newspapers, television, etc.
اس کے برعکس، لو پروفائل کا مطلب ہے— ایسا طریقہ جس میں زیادہ شہرت نہ ہو، اور کام خاموشی کے ساتھ کیا جائے
the activities or behaviour not attracting much attention or interest from the public, newspapers, television, etc.
لو پروفائل میں کام کرنے کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ آدمی دوسروںکے لیے چیلنج نہیں بنتا۔ ہر آدمی اپنے دائرے میں اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ اس وجہ سے وہ بغیر کسی ٹکراؤ کے اپنے مقصد کو حاصل کرلیتا ہے۔ اس کے برعکس، ہائی پروفائل میں یہ ہوتاہے کہ دوسرے لوگ آپ کو اپنے لیے چیلنج سمجھ لیتے ہیں، اور غیر ضروری طور پر آپ کو اپنا حریف (rival) سمجھنے لگتے ہیں۔ لو پروفائل میں آدمی اپنے عمل کا آغاز ممکن سے کرتاہے۔ اس کے برعکس، ہائی پروفائل میں آدمی ممکن اور غیر ممکن کا فرق نہیں کرتا۔ وہ اپنے حوصلہ کے مطابق ہر طرح کے حالات میں کود پڑتا ہے۔ وہ اس مشہور انگریزی مثل کے مصداق ہوتا ہےکہ نادان انسان وہاں چلا جاتا ہے، جہاں داخل ہونے سے فرشتے بھی ڈرتے ہیں :
fools rush in where angels fear to tread
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا فارمولا

اپنے گزرے ہوئے کل کو بھلاؤ، اور اپنے آج کو لے کر زندگی کی ری پلاننگ کرو، یہی کامیاب زندگی کا واحد فارمولا ہے۔شاید ہر انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ زیادہ بولتا ہے، اور کم سوچتا ہے۔ یہ عادت بچپن سے شروع ہوتی ہے ، اور دھیرے دھیرے لوگ اپنی اس عادت میں اتنے زیادہ کنڈیشنڈ ہوجاتے ہیں کہ ان کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں گزرتا کہ وہ ایک غلط عادت میںمبتلا ہوگئے ہیں۔ اسی عادت کی بنا پر ہر انسان کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی سب سے زیادہ قیمتی صلاحیت کو سب سے کم استعمال کرتا ہے۔ یہ صلاحیت غور و فکر (contemplation) کی صلاحیت ہے۔ غور و فکر کی صلاحیت ہر آدمی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ مگر یہی وہ سرمایہ ہے، جس کو شاید ہر آدمی سب سے کم استعمال کرتا ہے۔
غور و فکر کی صلاحیت کو استعمال کرنے سے آدمی کے اندر ذہنی ارتقا (intellectual development)) ہوتا ہے۔ آدمی کی تخلیقیت (creativity) میں اضافہ ہوتا ہے۔ آدمی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے دماغ کے بند گوشوں کو کھولے۔ وہ اپنی زندگی کے اندھیرے سفر کو اجالے کا سفر بنا سکے۔
کامیابی کا فارمولا(formula) کوئی پراسرار فارمولا نہیں ہے۔ یہ تمام تر مبنی بر فطرت (nature-based) فارمولا ہے۔ لوگ عام طور پر فطرت کے راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ یہی لوگوں کا اصل مسئلہ ہے۔ فطرت کے مقرر راستے کی طرف واپس آئیے، فطرت کے راستے کی طرف دوبارہ اپنا سفر شروع کردیجیے، اور پھر آپ کا سفر کامیابی کی منزل کی طرف جاری ہو جائے گا۔
کامیابی کا سفر سب سے پہلے درست آغاز (right beginning) کا سفر ہے۔ دوسری ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی بار بار اپنا محاسبہ کرتا رہے۔ درست آغاز اور محاسبہ کے بغیر سفر کرنے والے کے لیے یہی مقدر ہے کہ وہ ناکام ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

چیلنج کا مقابلہ

دنیا میں کوئی انسان اکیلا نہیں ہے۔ بلکہ یہاں بہت سے انسان آباد ہیں۔ ہر ایک کا نشانہ الگ ہے۔ ہر ایک کی سوچ مختلف ہے۔ ہر ایک آزاد ہے کہ وہ اپنے لیے جس منزل کا چاہے انتخاب کرے۔زندگی کی اس نوعیت نےانسانی سماج کو ایک ایسی دنیا بنا دیا ہے، جہاں مسابقت اور چیلنج کا ایک سمندر ہے۔ یہاں مسلسل طور پر افراد اور قوموں کے درمیان مسابقت (competition) جاری رہتی ہے۔ ہر آدمی مجبور ہے کہ وہ اس سمندر کو پار کرکے اپنے آپ کو ساحل تک پہنچائے۔ جو اس راز کو نہ جانے، وہ اس سمندر میں عملاً غرق ہوجائے گا۔ اس کو زندگی کے تجربے سے شکایت کے سوا کچھ اور حاصل نہیں ہوگا۔ البتہ جو آدمی زندگی کی اس نوعیت کو جانے، اوراپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی کی مطلوب پلاننگ کرسکے، وہ ضرور کامیابی کے ساحل تک پہنچے گا۔ اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ اس کے برعکس، شکایت اس بات کا اعلان ہے کہ آدمی درست پلاننگ میں ناکام رہا۔
زندگی کے بارے میں یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کے لیے جو چوائس ہے، وہ دوسروں سے لڑنا نہیں ہے، بلکہ دوسروں سے ایڈجسٹ کرتے ہوئےاپنے معاملات کو مینج (manage) کرنا ہے۔ اس دنیا میں کامیابی مطابقِ واقعہ منصوبہ بندی (reality based planning)کا نام ہے، اور ناکامی یہ ہے کہ آدمی مطابقِ واقعہ منصوبہ بندی میں فیل ہوجائے۔
انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ پرامن انداز میں پیش آمدہ چیلنج کا مقابلہ کرتے ہوئے سفر طے کرے۔ وہ مواقع (opportunities) کو دریافت کرکے منصوبہ بند انداز میں ان کو اویل (avail) کرنے کی کوشش کرے۔زندگی ناکامی کے واقعات کے ایک تسلسل کا نام ہے۔ کامیاب وہ ہے، جو اپنی ناکامی کو اپنی کامیابی میں کنورٹ (convert)کرسکے۔ یہ زندگی کا سب سے بڑا راز ہے۔ کامیاب وہ ہے، جو اس راز کو جانے، اور اس کو جانتے ہوئے اپنی زندگی کی پلاننگ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

عافیت کا راز

پر عافیت زندگی کا راز صرف ایک ہے— آدمی حقیقت پسند (realist) بن جائے۔ اس معاملے میں یہی ایک ورکیبل فارمولا (workable formula)ہے، دوسرا کوئی فارمولا ورکیبل ہی نہیں۔آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ زندگی کے معاملے میں کچھ امیدیں قائم کرلیتا ہے، کبھی دنیا سے اور کبھی اپنے تعلق والوں سے اورکبھی سماج سے۔ یہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں۔ جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں تو وہ اپنے اندر شکایت کا مزاج بنا لیتا ہے۔ یہ معاملہ حقیقت سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔
ہمارے یہاں ایک بزرگ تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بل تو اپنا بل۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی زندگی کا حقیقت پسندانہ فارمولا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ خود اپنی طاقت سے جو کچھ کرسکے اس پر بھروسہ کرے۔ جو چیز اس کی ذاتی طاقت سے باہر ہو، اس پر اپنی دیوار کھڑی نہ کرے۔ اسی حقیقت کو دریافت کرنے کا نام پر عافیت زندگی ہے۔ یہ اصول خاندانی زندگی کے لیے بھی ہے، اور سماجی زندگی کے لیے بھی، حتی کہ قومی زندگی کے لیے بھی۔ اگرچہ کلی معنوں میں حقیقت پسند بننا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن یہ تو ممکن ہے کہ جب آدمی کے اندازے پورے نہ ہوں، تو وہ برداشت کا طریقہ اختیار کرے، وہ شکایت کا طریقہ اختیار نہ کرے۔
جب آدمی کسی کے ساتھ کوئی معاملہ کرتا ہے تو وہ کچھ امیدوں کی بنیاد پر کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں مشہور مثل کے مطابق عمل کرے— نیکی کر دریا میں ڈال۔ اگر آپ کسی سے کوئی اچھا سلوک کریں، تو تقریباً ننانوے فیصد کیسوں میں فریق ثانی آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اترے گا۔ اس لیے عافیت کا طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملے میں آدمی یہ اصول اختیار کرے کہ یا تو وہ کسی کے ساتھ کوئی سلوک ہی نہ کرےِ ، یا وہ ایسا کرے کہ سلوک کرتے ہی اس کو بھلادے۔
ایسا انسان دراصل صابر انسان ہے۔ جس آدمی کے اندر صبر کا مزاج ہو، وہ کریم انسان ہوگا، یعنی شریف اور سنجیدہ انسان ، وہ اعلیٰ سوچ کا مالک ہوگا، وہ بدلہ لینے کے بجائے معاف کرنے کو بہتر سمجھے گا، وہ ردعمل (reaction) کی نفسیات سے خالی ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

فیمینزم اور دعوت

قدیم زمانے سے عورتوں کے تعلق سے یہ رواج تھا کہ ان کو دبا کر رکھا جاتا تھا۔ موجودہ زمانے میں ، انیسویں صدی سے حقوقِ نسواں کی تحریک شروع ہوئی، جس کو فیمینزم (feminism) کا نام دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ عورتوں کو سماجی مساوات اور قانونی تحفّظ فراہم کرنا۔ اس میںمساوات، حقِ میراث، آزادیٔ رائے، خودکفیلی، آزاد خیالی، گھریلو تشدد سےتحفظ وغیرہ شامل ہیں ۔
حقوقِ نسواںکی تحریک ابتدا میںمحدود مطالبات کے لیے چلی تھی، لیکن بالآخر وہ خواتین کے عمومی آزادی کی تحریک بن گئی۔ اب جو آزادیٔ نسواں کا دور آیا تو عورتوں کو لگا کہ ہمارے لیے بھی پوری آزادی کے ساتھ کام کا موقع پیدا ہوا ہے۔ اس سے ایک ماحول بنا۔ اس ماحول کو عام طور پر مسلمانوں نے پسندیدگی کے ساتھ نہیں دیکھا۔ حالاں کہ اس تحریک میں بظاہر نقصان ہے تو اس میں فائدے کا پہلو بھی موجود ہے۔ آزادیٔ نسواں کے اس ماحول سے ہماری ٹیم کے لوگ بھی فائدہ اٹھارہے ہیں۔ ہمارے دعوتی مشن کو اس سے فائدہ مل رہا ہے۔ مثلاً دہلی میں ایک پروگرام میں ہماری ٹیم شرکت کرنے گئی، اور ساتھ میں ترجمۂ قرآن بھی لے گئی تاکہ وہ وہاں اس کو لوگوں کے درمیان تقسیم کرے۔ تاکہ لوگ براہ راست خدا کے پیغام کو پڑھیں۔ اس پروگرام میں انڈیا کے ایک سینٹرل منسٹر بھی آئے ہوئے تھے۔ جب وہ باہر نکلے تو اس کے ارد گرد بہت بھیڑ اکٹھی ہوگئی۔ اس موقع پر ہماری ٹیم کے لوگوں کے لیے ان کو قرآن کا ترجمہ دینے کی بظاہرکوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس وقت ایک خاتون، مس سعدیہ خان دوڑ کر ان کے پاس گئیں، اور زور سے آواز لگایا، سر! یہ سن کر وہ منسٹر جُو اَب کار میں بیٹھنے جارہے تھے، ایک خاتون کی آواز سن کو کر رک گئے، اور شکریہ کے ساتھ ان سے قرآن کا ترجمہ لیا، اور کار میں سوار ہوکر چلے گئے۔
یہ دعوتی موقع صرف ایک خاتون کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ جدید دور میں ایک نارم (norm)بنا ہے، یعنی لیڈیز فرسٹ ۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرے تو اس کو غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔ اسی نارم (norm)کے تحت وہ منسٹر رک گیا ، اور ایک خاتون سےترجمۂ قرآن لیا، جس صنف کو قدیم زمانے میں بے حقیقت سمجھا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں یہ مانا جاتا ہے کہ عورتوں کو ایمپاور کرنا کسی بھی ملک کے تمام گوشوں کی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے:
Women’s empowerment is the most crucial point to be noted for the overall development of a country.
اسی طرح ایک خاتون کا واقعہ ہے، جب وہ شادی کے بعد اپنے سسرال گئیں تو ان کو وہاں بہت ستایا گیا۔ اس سے ان کو اپنے بارے میں یہ تصور پیدا ہوگیا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتی ہیں ۔ میں نے ایک مرتبہ ان سے ملاقات کی، اور ان کو یہ سمجھایا کہ وہ دعوت الی اللہ کا کام کرسکتی ہیں۔ دھیرے دھیرے ان کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ وہ دعوت کا کام کرسکتی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے سی پی ایس کی لیڈیز کے ساتھ مل کر دعوتی پلیٹ فارم قائم کیا۔ اس گروپ میں تمام دنیا کی سی پی ایس لیڈیز موجود ہیں، وہ دعوتی کام کو نئے انداز میں اور بہت ہی منظم طریقے سے کررہی ہیں۔
ایک اورخاتون اپنا تاثر ان الفاظ میں لکھتی ہیں مجھے ہر بار یہ ریلائز ہوتا ہے کہ میںنےاس (سی پی ایس لیڈیز) گروپ کو جوائن کرکے اپنے اوپر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ کیوںکہ اس سے پہلے میں بہت زیادہ اسٹریس میں تھی، اور سائکالوجسٹ سے کنسلٹ کرنا چاہتی تھی، مگر یہ گروپ میرے لیے اللہ کی طرف سے ایک رہنمائی ہے۔ اس سے میں بہت کچھ سیکھ رہی ہوں، میرا اسٹریس بھی ختم ہوگیا ہے، اور امید کرتی ہوں کہ میری پرسنالٹی نکھرے گی، ان شاء اللہ ( مز راضیہ خان، غازی آباد) ۔
فیمینزم کے دور میں عورتوں کے ذریعے دعوت کا کام اس حدیث کا وسیع تر انطباق ہے، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان کی ہے لَتَرَیَنَّ الظَّعِینَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الحِیرَةِ، حَتَّى تَطُوفَ بِالکَعْبَةِ لاَ تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللّہ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3595)۔ یعنی تم ضرور دیکھو گے کہ اونٹ پر سوار ایک عورت حیرہ سے (تنہا) آئے گی، یہاں تک کہ کعبہ کا طواف کرے گی، اس کو صرف اللہ کا ڈر ہوگا۔ اس واقعے میں سبق ہے کہ مسلمان اپنے ماضی (past)کی بنیاد پر اپنی خواتین کومیدانِ عمل سے دور نہ رکھیں، بلکہ حال (present) میں خواتین کےلیے موجود عملی مواقع کی بنیاد پران کے لیے دینی اور دعوتی عمل کی پلاننگ کریں۔
واپس اوپر جائیں

مسلم دنیا کی تحریکیں

انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مسلم دنیا میں بہت سی تحریکیں اٹھیں۔یہ بظاہر بہت بڑی بڑی تحریکیںتھی۔ مثلاً فلسطین کی تحریک اورحکومتِ الٰہیہ کی تحریک، وغیرہ۔ ان تحریکوںکی ہنگامہ آرائی پوری دنیا میں سنائی دی۔ مگر نتیجے کے اعتبار سے یہ تمام تحریکیں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئیں۔ ان کا کوئی مثبت نتیجہ مسلم قوم کو حاصل نہ ہوسکا۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان تحریکوں کے بانیوں نے زمانی تقاضوں کو سمجھے بغیر اپنا عمل شروع کردیا۔ یعنی ظاہری حالات کو دیکھ کر وہ بطور ردعمل اٹھ کھڑے ہوئے اور ہنگامہ آرائی کرنے کو کام سمجھ لیا۔ حالاں کہ کام یہ تھا کہ نئے حالات کو گہرائی کے ساتھ سمجھ کر نتیجہ خیز انداز میں عمل کا منصوبہ بنایا جائے۔ مگر ان لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔
مثلاًایک مسلم رہنما نے لکھا ہے کہ مسلم امت کی کمزوری جذبۂ قربانی کی کمی ہے۔عام طور پر مسلم رہنما مسلم قوم کی ناکامی پر ایسا تبصرہ کرتے ہیں۔ حالاں کہ دورِ جدید کی پوری مسلم تاریخ قربانی اور جہاد بمعنی قتال کی تاریخ ہے۔ مسلم رہنما ایسا تبصرہ اس لیے کرتے ہیں۔ کیوں کہ نتیجہ نہیں نکل رہا ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی کا واقعہ بھی نہیں ہو رہاہے۔ جب کہ مسلم قوم کی جانب سے ہر لمحہ کسی نہ کسی مقام پر ایسی قربانی کا عمل پیش آتار ہتا ہے۔ مگر یہ قربانی زمانی حالات کو سمجھے بغیر بطور ردعمل دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے اس کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا ، نہ کہ عملاً قربانی کے واقعے کا پیش نہ آنا۔
موجودہ زمانے میں جو تبدیلی ہوئی ہے، اس سے تمام چیزوں کا معیار بدل گیا ہے۔ مثلاً پچھلے دور میں اوزار لوہار کی بھٹی میں تیار کیے جاتے تھے۔ اب اوزار مشین کے ذریعے تیار کیے جاتے ہیں۔پہلے زمانے میں علم برائے علم کا رواج تھا۔ موجودہ زمانے میں ساری اہمیت پروفیشنل ایجوکیشن کی ہوگئی ہے۔ قدیم زمانے میں کتابیں ہاتھ سے لکھ کر تیار کی جاتی تھیں، موجودہ زمانے میں کتابیں کمپیوٹر سے تیار کرکے پریس میں چھاپی جاتی ہیں، وغیرہ۔ اسی زمانی فرق کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہ مسلم دنیا میں بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں، مگر وہ سب کی سب باعتبارِ نتیجہ لا حاصل ہوکر رہ گئیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک ملاقات

[ ماہنامہ صراط مستقیم انٹرنیشنل، پاکستان کے لیے دیا گیا مولانا وحید الدین خاں صاحب کا انٹرویو]
س:تاریخ پیدائش اور خاندانی پسِ منظر؟
ج میری پیدائش سرکاری ریکارڈ کے مطابق، یکم جنوری 1925 کو اعظم گڑھ (اترپردیش )کے ایک گاؤں بڈھریا میں ہوئی۔میرے جد اعلیٰ کا نام حسن خاں تھا۔ وہ ریاست سوات (Swat)کے رہنے والے تھے۔ سوات چترال میں واقع ہے، جو اُس زمانہ میں افغانستان کا حصہ تھا۔ اب یہ پاکستان کا ایک حصہ ہے۔ حسن خاں کے ایک اور بھائی تھے جن کا نام حسین خاں تھا۔ دونوں بھائیوں کے درمیان کسی بات پر نزاع پیدا ہو گیا۔ چنانچہ حسن خاں اپنے بھائی حسین خاں سے نہ صرف علیٰحدہ ہو گئے، بلکہ اُنھوں نے سوات سے ہجرت بھی کر ڈالی، اورانڈیا کے ایک صوبہ اترپردیش کے علاقے جون پور میں پہنچ گئے۔ اس وقت یہاں سلطان خاں کی حکومت تھی۔ پہلے ہمارا خاندان جون پور میں بسا، پھر کچھ لوگ اعظم گڑھ کے علاقے میں جاکر بس گئے۔ یہیں میری پیدائش ہوئی۔
س:تعلیمی مراحل؟
جبچپن میں میرا حال یہ تھا کہ اکثر میں گھر سے نکل کر کھیتوں اور باغوں کی طرف چلا جا تا تھا۔ گاؤں کے باہر ندی پر ایک پل تھا ۔ میں وہاں جا کر بیٹھ جا تا، اور دیر تک دریا کی روانی اور کائنات کے مناظر کو دیکھتا رہتا تھا۔فطرت کو دیکھنا میرا پسندیدہ کام تھا۔ کچھ شعور ہوا تو ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک مکتب میں شروع ہوئی۔ اس کے بعد 1938 میں عربی تعلیم کے لیے میں نے مدرسۃ الاصلاح( سرائے میر، اعظم گڑھ) میں داخلہ لیا۔ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد جب میں نے دیکھا کہ میں سماج میں ارریلیونٹ ہوں ، یعنی میری تعلیم اس لائق نہیں جو مجھے موجودہ سماج میں مفید بناسکےتو میں نے دوبارہ تفاسیر و حدیث وغیرہ کا مطالعہ کیا ، انگریزی زبان سیکھی، پھر سیکولر علوم اورسائنس وغیرہ کا مطالعہ کیا۔ اس طرح میں نے زمانی شعور حاصل کیا، اور پورے یقین کے ساتھ اسلام کو از سرنو دریافت کیا۔
س:فہم قرآن کے بنیادی اصول؟
جڈی کنڈیشنڈ مائنڈ کے ساتھ قرآن میں تدبر کرنا، اور تقوی کے ساتھ اللہ سے دعا کرنا۔
س:کھانے اور پہننے میں کیا پسند ہے؟
ج لائف اسٹائل کےمعاملے میں میرا اصول یہ ہے— سادہ زندگی، اونچی سوچ
simple living, high thinking
س:ہندوستان میں اسلام کی دعوت اور اس پر عمل کتنا دشوار ہے؟
ج آج کے دور میں کسی بھی ملک میں دعوت کا کام مشکل نہیں ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ پیس فل انداز میں حکمت کے ساتھ دعوت کا کام کیا جائے۔
س:ایک داعی کو کن اَوصاف سے متصف ہونا چاہیے؟
ج داعی کے دل میں مدعو کے لیے مکمل طور پر خیرخواہی (نصح) کا جذبہ ہونا چاہیے۔مدعو کی کوئی بھی اشتعال انگیز بات داعی کو خیر خواہی کے جذبے سے دور نہ کرے۔
س:حقوق مسلم کےلیے آپ کی جدو جہد کی چند جھلکیاں؟
ج میں نے مسلمانوں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ حقوق طلبی کی مہم ترک کریں، اور لوگوں کے لیے نافع (giver) بن کر زندگی گزاریں۔ حدیث کے الفاظ میں ،وہ الید العلیا بنیں، الید السفلیٰ نہیں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1427)۔یعنی وہ دینے والے (giver) بنیں، نہ کہ لینے والے۔
س:غیر مسلم کس کس رکاوٹ کی وجہ سے نعمتِ اسلام سے محروم ہیں؟
جدعوت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود مسلمان ہیں۔ مسلم مفکرین کی یہ غلطی ہے کہ انھوں نے سیاسی میدان میں مغلوب ہونے کی وجہ سے جدید فکر یا جدید تہذیب کو اسلام کا مخالف سمجھ لیا۔ اس بنا پر ان کے اور جدید ذہن کے درمیان غیر ضروری ٹکراؤ پیدا ہوگیا ہے۔چنانچہ موجودہ دور میں دعوت کا کام نارمل انداز میں جاری نہیں ہے۔میری ان کو نصیحت ہے کہ وہ جدید فکر کے خلاف اپنی منفی مہم بند کردیں۔ اس کے بعد غیر مسلموں کے درمیان دعوت کا کام بالکل فطری انداز میں جاری ہوجائے گا۔
س:فرقہ وارانہ تشدد (مذہبی ، مسلکی، سیاسی، لسانی وغیرہ) کے اسباب و وجوہات ؟
جاختلاف کو مینج کرنے کا فقدان۔ اختلاف (difference) کے معاملے میں ہمیشہ دو طریقے ہوتے ہیں— غلو کا طریقہ اور ٹالرنس کا طریقہ۔ غلو کا طریقہ یہ ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ مختلف مسالک فکر کے درمیان ایک ہی طریقہ صحیح ہے، دوسرے تمام طریقے غلط ہیں، ان کو ختم ہوجانا چاہیے۔اس کے برعکس،دوسرا طریقہ رواداری یا وسعتِ نظری کا طریقہ ہے، یعنی یہ سمجھنا کہ جو اختلاف ہے، وہ تنوع (diversity)کا معاملہ ہے۔ جس کا عملی فارمولا اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— ایک کی پیروی ، سب کا احترام :
follow one, respect all
س: فرقہ وارانہ تشدد کی فضا کو ختم کرنے کے لیے کون کیا کردار ادا کرے؟
جنفرت کی فضا کو ختم کرنے کا صرف ایک اصول ہے، یک طرفہ طور پر صلح کرلینا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا۔
س:پوری دنیا میں ’’مسلمان ہی مظلوم‘‘ کیوں ہیں؟
جمسلمان مظلوم نہیں ہیں، وہ اپنی غیر حکیمانہ پلاننگ کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل کی پریکٹکل وزڈم کی بنیاد پر ری پلاننگ کریں۔
س: دینی مدارس کی اصلاح کے لیے کیا تجاویز دیں گے؟
جحدیث کے الفاظ میں، وہ بصیر زمانہ بنیں(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ بصیر زمانہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ مدارس زمانے کے مطابق، اپنے عمل کی درست منصوبہ بندی (right planning) کر یں۔ زمانے سے باخبری کے بغیر اسلامی عمل کی درست منصوبہ بندی نہیں ہوسکتی ہے۔ اس بنا پر اہلِ مدارس کو یہ کوشش کرنا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات سے پوری طرح باخبر ہوں، ورنہ ان کی سرگرمیاں بے نتیجہ ہوکر رہ جائیں گی۔مثلاًہم ایسے زمانے میں ہیں جو امن کا زمانہ ہے۔ ایسے زمانے میں صرف پر امن منصوبہ بندی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی آج کے زمانے سے بے خبر ہو، اور وہ امن کے زمانے میں جنگ کی تیاری کرے، اور پھر اپنے زمانے کے لوگوں کے خلاف لڑائی چھیڑ دے تو بلاشبہ اس کا منصوبہ غلط ہوجائے گا۔اپنے جان و مال کو قربان کرنے کے باوجود وہ کوئی مثبت نتیجہ (positive result) حاصل نہ کرسکے گا۔ مدارس کے تعلق سے مزید تفصیل میری کتاب "علما ءاور دورِ جدید"، اور" دین و شریعت" میں دیکھی جاسکتی ہے۔
س: آپ بصیرِ زمانہ بننے پر بہت زور دیتے ہیں، کیا آپ سے پہلے کسی عالم نے ایسا کہا ہے؟
ج قدیم علما کے یہاں اس کی مثالیں ملتی ہے۔ مثلاً وہب بن منبہ (وفات 114ھ) نے کہا ہے کہ آل داؤد کی حکمتوں میں ایک یہ ہے  حَقٌّ عَلَى الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ عَارِفًا بِزَمَانِہ ِ(الصمت وآداب اللسان لابن أبی الدنیا، اثر نمبر 31)۔ یعنی عقلمند انسان(wise person) پر لازم ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔ اسی طرح ابن الحاجب الکردی المالکی (وفات646ھ) کا قول ہے وَمِنْ شِیَمِ الْعَالِمِ أَنْ یَکُونَ عَارِفاً بِزَمَانِہِ (جامع الأمہات لابن الحاجب ، صفحہ575)۔ یعنی عالم کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔ یہی بات ابن عبد البر (وفات 463ھ) نے بھی اپنی کتاب الکافی فی فقہ أہل المدینة (جلد2،صفحہ1132)میں لکھی ہے۔ابن کثیر (وفات774ھ) نےاپنے استاد برہان الدین الفزاری کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے عَارِفًا بِزَمَانِہِ (البدایۃ والنہایۃ، جلد14، صفحہ 167)۔ یعنی وہ اپنے زمانے سے باخبر عالم تھے۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب درالمختار (صفحہ 95)میں اس تعلق سےایک بامعنی قول ان الفاظ میں آیاہے مَنْ لَمْ یَکُنْ عَالِمًا بِأَہْلِ زَمَانِہِ فَہُوَ جَاہِلٌ(جو اپنے زمانے کا عالم نہ ہو، وہ جاہل ہے)۔مشہور حنفی فقیہ ابن عابدین شامی (وفات 1889)نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں لکھاہے وَمَنْ لَمْ یَدْرِ بِعُرْفِ أَہْلِ زَمَانِہِ فَہُوَ جَاہِلٌ (الرد المختار، جلد3، صفحہ724)۔یعنی جو اپنے زمانے والوں کے ٹریڈیشن سے بے خبر ہو، وہ جاہل ہے۔ تو میں نے جو بات کہی ہے ، وہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ میں نے جدید اسلوب میں وہی بات دہرائی ہے، جو قدیم علما کہتے رہے ہیں۔
س96سالہ زندگی کے تجربات کی روشنی میں ہم جاننا چاہیں گے کہ ایک فرد کو کن اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے؟
جپرابلم کو اگنور کرنا اورمواقع کو دریافت کرکے منصوبہ بند طریقے سے اس کو اویل کرنا۔
س:کبھی پاکستان کا دورہ کیا… اگر نہیں تو کیا خواہش ہے؟
جمیں نے پاکستان کا تین مرتبہ سفر کیا ہے۔ ان میں ایک سفر تقسیم سے پہلے 1945 میں ہوا تھا۔ اس کے بعد دوسرا سفر 1971 میں ہوا، پھر تیسرا سفر 1985 میں ہوا۔ ان کی تفصیل میری کتاب سفر نامہ غیر ملکی اسفار جلد اول میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً میں پاکستان کے تعلق سے مضامین بھی لکھتا رہا ہوں۔ اس وقت ہمارے مشن سے تعلق رکھنے والی ایک ٹیم بھی پاکستان میں موجود ہے، جو وہاں ہمارے دعوتی مشن کو یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔
س: اُمت مسلمہ کو نشاۃ ثانیہ کے سفر میں کس مرحلہ میںدیکھتے ہیں؟
جمسلم مفکرین یہ سمجھتے ہیں کہ جدید فکر (modern thought) ان کے خلاف ایک چیلنج ہے۔ مگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس چیز کو جدید فکر کہا جاتا ہے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام مخالف نہیں ہے، وہ عین موافقِ اسلام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید ذہن اور جدید تہذیب پوری کی پوری اسلام کے موافق ہے۔ حقیقت کےاعتبار سے دیکھیے تو اسلام اور جدید فکر میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ فکرِ جدید کو بدلنے کا نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کی سوچ کو بدلنے کا ہے۔ اس کے بعد کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔ مسلمانوں کا مزاج ہے ہر نئی چیز کے خلاف ہوجانا۔ مثلاً جب کلونیلزم کا دور آیا تو وہ اس کے خلاف ہوگئے۔ اسی مزاج نے اصل مسئلہ پیدا کیا ہے۔ اس ذہنیت کو بدلنا ہے۔
س:امت مسلمہ اپنا کھویا ہوا وقار اور مقام کیسے حاصل کر سکتی ہے؟
جان کو پانچ پوائنٹ فارمولا اختیار کرنا چاہیے۔وہ پانچ پوائنٹ فارمولادرج ذیل ہے:
(1) معرفتِ خداوندی (realization of God)
(2) مثبت سوچ (positive thinking)
(3) دعوت الی اللہ
(4)نفرت (hate) کا کلی خاتمہ، منفی سوچ کا کلی خاتمہ، مغرب کو اسلام کا دشمن سمجھنے کے بجائے اس کو اسلام مؤید سمجھنا۔
(5) سیاسی ٹارگٹ کے بجائے آخرت رخی زندگی کواپنا ٹارگٹ بنانا۔
س:اہل ِپاکستان کے نام…محبت بھرا پیغام؟
جوہ قرآن کی اس آیت کواپنے لیے رہنما آیت کی حیثیت سے اختیار کرلیں:وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔ یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
اس آیت کے مطابق، کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا ابدی دشمن نہیں ہے، پیدائشی طور پر ہر انسان امکانی دوست (potential friend) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس معاملے میں اہل پاکستا ن کی منصوبہ بندی یہ ہونا چاہیے کہ وہ بالقوۃ (potential) دوست کو ، قرآن کی رہنمائی کے مطابق، بالفعل (actual) دوست بنانے کا طریقہ اختیار کرے۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی (وفات 1810)اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں : وقیل معناہ لا تستوى الحسنة فى جزئیاتہا ولا تستوى السیّئة فى جزئیاتہا بل بعضہا فوق بعض فى الحسن والسوء فاذا اعترضک من بعض أعدائک سیّئة فادفعہا بأحسن الحسنات کما لو أساء إلیک رجل فالحسنة ان تعفو عنہ والتی احسن ان تحسن الیہ (تفسیر المظہری، جلد8، صفحہ 296)۔ یعنی بعض علما نے آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ نیکیاں سب ایک درجہ کی نہیں ہوتی ہیں، اسی طرح برائیوں کے درجات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اب اگر کوئی دشمن کوئی بدی کرے تو اس کے مقابلہ میں بہترین اعلیٰ درجہ کی نیکی سے کام کیا جائے ۔مثلاً کسی نے اگر تمہارے ساتھ بدسلوکی کی ہو تو درگذر کرنا چاہیے ۔ لیکن اعلی نیکی یہ ہے کہ برائی کے بدلے دشمن سے بہترین سلوک کیا جائے — بد اخلاقی کے جواب میں حسن اخلاق بلاشبہ سب سے اعلیٰ اخلاق ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
قرآن کی ایک آیت ہے أَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌ مِنْ أُولَئِکُمْ أَمْ لَکُمْ بَرَاءَةٌ فِی الزُّبُرِ (54:43)۔ یعنی کیا تمہارے منکر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لیے آسمانی کتابوں میں معافی لکھ دی گئی ہے۔ اس آیت میں کس چیز کی براءۃ کی طرف اشارہ ہے۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
جواب
قرآن کی اس آیت میں وقتی ریفرنس کے اعتبار سے قدیم مکہ کے قریش کو خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی گئی ہے۔ اصولی اعتبار سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی گروہ مستثنیٰ گروہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہر ایک کا معاملہ یکساں ہے۔ یعنی ہر ایک کو ایک ہی معیار پر جانچا جائے گا۔ ہر ایک سے ایک ہی اصول کی روشنی میں معاملہ کیا جائے گا۔ نہ پیدائشی اعتبار سے کسی کا معاملہ دوسروں سے مختلف ہے، اور نہ ایسا ہے کہ قرآن کے سوا جو دوسری آسمانی کتابیں اللہ نے اتاری ہیں، ان میں کسی گروہ کے بارے میں یہ اعلان ہے کہ ان کا کیس ایک مستثنیٰ کیس ہے۔ وہ بھی خدا کے مواخذہ کے قانون کے تحت ہیں، جس طرح دوسرے تمام لوگ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں کا انکار کرنے والوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے، ان میں پیغمبر اسلام کا انکار کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔ مگر انہوں نے اس سے نصیحت نہ لی۔ یہی تمام قوموں کا حال ہے۔ کھلی نشانیوں کے باوجود ہر قوم اپنے آپ کو محفوظ اور مستثنیٰ قوم سمجھ لیتی ہے۔ ہر قوم دوبارہ وہی سرکشی کرتی ہے، جواس سے پہلے والی قوموں نے کی ، اور اس کے نتیجہ میں وہ خدائی عذاب کی مستحق ہوگئیں۔
کسی قوم کا اپنے آپ کو خد اکا محبوب خیال کرلینا سراسر باطل خیال ہے۔ خدا کے یہاں فرد فرد کا حساب ہونا ہے ،نہ کہ قوم قوم کا۔ ہر آدمی جو کچھ کرے گا اسی کے مطابق وہ خدا کے یہاں بدلہ پائے گا۔ ہر آدمی اللہ کی نظر میں بس ایک انسان ہے، خواہ وہ ایک قوم سے تعلق رکھتا ہو یادوسری قوم سے۔ ہر آدمی کے مستقبل کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا جائے گا کہ امتحان کی دنیا میں اس نے کس قسم کی کارکردگی کا ثبوت دیا ہے۔ جنت کسی کا قومی وطن نہیں، اور جہنم کسی کا قومی جیل خانہ نہیں۔ اللہ کے فیصلہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے ایسے افراد اٹھاتا ہے، جو لوگوں کو زندگی کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ ان کو جہنم آگاہ کریں اور جنت کی خوش خبری دیں۔ خدا کے اسی بشیر ونذیر کا ساتھ دے کر آدمی خدا کو پاتا ہے، نہ کہ کسی اور طریقے سے۔
سوال
قرآن کی ایک آیت ہے:وَإِنْ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ (4:159)۔ یعنی اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے۔ اس آیت میں بِہِ ضمیر کا مرجع کس کی طرف ہے۔ (ایک قاری الرسالہ، ممبئی)
جواب
مذکورہ آیت میں پہلی ضمیر کا مرجع قرآن ( کی بیان کردہ حقیقت) ہے، اور دوسری ضمیر کا مرجع افراد اہل کتاب ۔ اس لحاظ سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اہل کتاب کا ہر فرد اپنی موت سے پہلے اس معاملے میں قرآن کی بیان کردہ حقیقت کو یقین کے ساتھ مان لیتا ہے۔ یعنی منصوبۂ تخلیق کی حقیقت کو مان لیتا ہے، اگرچہ وہ اسلام اور قرآن کا نام نہ لے۔ اصل یہ ہے کہ انسان اپنی آخری عمر میں پہنچ کر مین کٹ ٹوسائز (man cut to size)بن جاتا ہے۔ اس وقت وہ یہ ریلائز (realize) کرنے لگتا ہے کہ وہ اس دنیا میں عاجز مطلق ہے۔ یہ واقعہ مخصوص طور پر اہلِ کتاب سے متعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ایک عام قانون ہے جس کا اطلاق اہل کتاب پر بھی ہوتا ہے۔
عبد اللہ بن عباس (وفات 68ھ)کے شاگرد عکرمہ تابعی (وفات 105ھ)اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ کوئی یہودی یا عیسائی نہیں مرے گا یہاں تک کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے (لَا یَمُوتُ النَّصْرَانِیُّ وَلَا الْیَہُودِیُّ حَتَّى یُؤْمِنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّہُ علیہ وسلّم ) تفسیر طبری،جلد9، صفحہ386۔
یہود و نصاری کے پاس آسمانی علم تھا ایسے لوگ یہ سمجھنے میں غلطی نہیں کرسکتے تھے کہ پیغمبر عربی کی دعوت خالص خدائی دعوت ہے۔ مگر پیغمبر عربی کو ماننا اور ان کے مشن میں اپنا مال اور اپنی زندگی لگانا ان کو دنیوی مصلحتوں کے خلاف نظر آتا تھا۔ اس بنا پر انہوں نے آپ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ مگر جب موت آدمی کے سامنے آتی ہے تو اس قسم کی تمام مصلحتیں باطل ہوتی ہوئی نظر آنے لگتی ہیں۔ اس وقت آدمی کے ذہن سے تمام مصنوعی پردے ہٹ جاتے ہیں اور حق اپنی کھلی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔ موت کے دروازے پر پہنچ کر آدمی اس چیز کا اقرار کرلیتا ہے جس کو وہ موت سے پہلے ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ مگر اس وقت کے اقرار کی اللہ کی نظر میں کوئی قیمت نہیں۔
یہ بات جو یہاں اہلِ کتاب کی نسبت سے کہی گئی ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہر انسان کی نسبت سے ہے۔ اللہ کے قانون کے مطابق، ہر انسان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ وہ اپنی موت سے کچھ لمحہ پہلے ذہنی اعتبار سےموجودہ دنیا سے منقطع ہوجا تا ہے، اس کو آخرت کی حقیقتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ یہ وقت وہی ہوتا ہے جس کو حدیث میں غرغرہ (مسند احمد، حدیث نمبر6160)کہا گیا ہے۔ یہی واقعہ ہر اہلِ کتاب کے ساتھ موت کے وقت پیش آئے گا۔ یعنی جس حقیقت کو وہ موت سے پہلے کے دور میں ماننے کے لیے تیار نہ تھا، موت کے وقت ، جب کہ موت کا فرشتہ اس کے پاس آچکا ہوگا، اس پر حقیقتِ واقعہ منکشف ہوجائے گا۔ اگر چہ وہ اس انکشاف کا اعلان دنیا والوں کے سامنے نہ کرسکےگا ، لیکن خود اپنے علم کے مطابق، وہ اس کو بخوبی طور پر جان لے گا۔
یہودیوں میں چند لوگ، عبداللہ بن سلام وغیرہ، پیغمبر اسلام پر ایمان لائے اور آپ کا ساتھ دیا۔ جو لوگ دین میں انسانی اضافوں سے گزر کر اصل آسمانی دین سے آشنا ہوتے ہیں، جو عصبیت اور تقلید اور مفاد پرستی کی ذہنیت سے آزاد ہوتے ہیں ان کو سچائی سمجھنے اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔ وہ ہر قسم کے ذہنی خول سے باہر آ کر سچائی کو دیکھ لیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی جنتوں میں داخل کیے جائیں گے۔
سوال
میرا تعلق پاکستان سے ہے، میرا سوال یہ ہے کہ میں شادی شدہ ہوں، اور اپنے سسرال میں رہتی ہوں۔ میری شادی شدہ زندگی میں کچھ مسائل ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب سسرال کا کوئی فرد آپ کے لیے پرابلم پرسن (problem person) بن جائے، وہ مختلف طریقے سے آپ کو پریشان کرنے لگے، لیکن آپ کا شوہر اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہ کرے تو ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیے۔ براہِ کرم آپ اس کا جواب دیں۔ (مز نادیہ اسلم)
جواب
چوں کہ آپ نے کوئی متعین مثال نہیں دی ہے، جس سے معاملے کی نوعیت سمجھ میں آئے۔ اس لیے میں جنرل صورتِ حال کے مطابق، اس کا جواب دوں گا۔ اس قسم کے مسئلے کا حل میرے تجربے کے مطابق، صرف ایک ہے، اور وہ ہے، یک طرفہ صبر۔ اس فارمولے کے سوا کوئی اور فارمولا اس معاملے میں قابلِ عمل نہیں ہے۔ شادی شدہ زندگی کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ شادی عام طور پر نان بلڈ ریلیشن شپ (non-blood relationship)کے درمیان ہوتی ہے۔
شوہر کو اپنے خونی رشتے داروں سے ایموشنل تعلق ہوتا ہے۔ اسی طرح بیوی کو بھی اپنے خونی رشتہ داروں سے ایموشنل تعلق ہوتا ہے۔ لیکن شادی کے بعد شوہر اور بیوی، جو پہلے الگ الگ تھے، یکجا ہوکر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ یکجائی دو متضادتعلق کے درمیان ہوتی ہے۔ اس بنا پر شادی کے بعد دونوں فریقین کے درمیان اختلافات کا ہونا بالکل فطری ہے۔
اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ دونوں فریق اس فطری حقیقت کو جانیں، اور اپنے آپ کو پہلے سے اس صورت ِ حال کے لیے تیار کرلیں، جس کو میں دو متضاد کے درمیان ہم آہنگی کہوں گا۔دو متضاد کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کا فارمولا ایک لفظ میں صرف ایڈجسٹ منٹ ہے۔ اس کے سوا اس مسئلے کا اور کوئی قابلِ عمل حل نہیں۔ آپ کے لیے یہ مشورہ ہے کہ آپ میری کتاب خاندانی زندگی (انگریزی ورزن Family Life)کا مطالعہ کریں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 274

■ انڈین پلورزم فاؤنڈیشن کولکاتا کی جانب سے 21 ستمبر 2020 کو ایک آن لائن پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔ پروگرام کا عنوان تھاوباکے دور میں امن کی تلاش (Search for Peace in the Pandemic )۔ اس پروگرام کو برٹش ہائی کمیشن کولکاتا نے سپورٹ کیا تھا۔ اس پروگرام کو مختلف مذاہب کے نمائندوں نے خطاب کیا تھا۔ اسلام کی نمائندگی مز ماریہ خان ، ممبر سی پی ایس انٹرنیشنل دہلی نے کی تھی۔ مز ماریہ خان کا خطاب کافی پسند کیا گیا۔
■ پدم وبھوشن انڈین گورنمنٹ کا دوسرا بڑا شہری اعزاز ہے جو سول میدان میں خدمات کے لیے دیا جاتا ہے۔ 2021 میں جن لوگوں گورنمنٹ آف انڈیا کی جانب سے پدم وبھوشن ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے، ان میں صدر اسلامی مرکز بھی ہیں۔یہ ایوارڈ صدر اسلامی مرکز کو اسپریچوالٹی کے میدان میں ان کی خدمات کے لیے دیا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ سی پی ایس انٹرنیشنل فیملی اور ان کے خیرخواہوں کے لیے یقیناً بوسٹ (boost)کی حیثیت رکھتا ہے تاکہ وہ مزید دلجمعی کے ساتھ دعوت اور تزکیہ کا کام پرامن طریقے سے کریں۔

■سی پی ایس لیڈیز کے ذریعے خواتین کے درمیان دعوتی کام کیا جارہا ہے۔ اس تعلق سے سی پی ایس خواتین کا ایک ویبینار17 جنوری 2021 کو منعقد ہوا تھا۔ اس میں دعوتی امور پر گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر فریدہ خانم(نئی دہلی)، ڈاکٹر نجمہ صدیقی(نئی دہلی)، مزفہمیدہ خان (فیض آباد)، مز کوثر اظہار (امریکا) اور ڈاکٹر سفینہ تبسم(سہارن پور، یوپی) نے اس پروگرام کو خطاب کیا۔ مز شبینہ علی(کولکاتا) نے اس پروگرام کو ماڈریٹ کیا تھا۔ اس پروگرام میں یہ طے کیا گیا کہ اب ہر ماہ اسی طرح ایک ویبینار کیا جائے گا، اور دعوتی کام کو آگے بڑھایا جائے گا۔ خواتین نے یہ بھی کہ طے کیا ہے کہ ہر ہفتے ایک آن لائن قرآن کلاس منعقد کی جائے گی، جس کو مز فاطمہ سارہ(بنگلورو) کنڈکٹ کریں گی۔پھر اس کے بعد پہلا قرآن کلاس 31 جنوری 2021 کو منعقد ہوا ، اور ہر ہفتے برابر یہ کلاس جاری ہے۔ اس گروپ سے جڑنے کے بعدجو تبدیلی آئی ہے، اس سلسلے میں چند خواتین ممبروں نے ذیل کے تاثر دیے ہیں
1۔ خواتین کا یہ گروپ میرے لیے بہت بڑی بات ہے۔یہ گروپ ہمارے لیے آئینہ ہے۔ ہم سب کو اپنی اصلاح میں مدد کرتا ہے۔ (ڈاکٹر سفینہ تبسم، سہارنپور)
2۔ اگر میں اِس لیڈیز گروپ میں نہیں ہوتی تو مجھے اپنی غلطی پر غور کرنا، اور اپنا احتساب کرنا کبھی نہیں آتا (مز شبانہ خاتون، کلکتہ)
3۔ مولانا کی کتابیں میں بہت دنوں سے پڑھتی ہوں۔ لیکن جب اس گروپ میں مولانا کی ٹیچنگس اور ان کی تحریوں پر ڈسکشن ہوا اس نے میری زندگی کے لیے boosterکا کام کیا۔ اللہ تعالی مولاناکو صحت اور زندگی دے۔(مز فہمیدہ خان، فیض آباد، یوپی)
4. After joining this group, I am learning many things at a time today, I am completing 2 months and these 2 months are a complete change for my soul. (Ms Shivani Syed, Delhi)
5. Alhamdulillah! God made arrangement for me to learn through Maulana's team. This group is a blessing for all of us. (Ms. Shah Bano, USA)
6. Thank God for this group which is helping us realize our mistakes. (Dr Naghma Siddiqi, Gurgaon)

■سی پی ایس مشن کی آئڈیالوجی کو اس سے تعلق رکھنے والے افراد مختلف انداز سے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتےرہتے ہیں۔ مثلاًڈاکٹر قاسم ندیم صاحب( پاکستان) صدراسلامی مرکز کی تفسیر تذکیر القرآن کو سوال و جواب کے انداز میں لوگوں تک پہنچارہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کیسے کیسے مخفی طریقوں سے سی پی ایس انٹرنیشنل کے کام کو آگے بڑھا رہا ہے، اس کا اندازہ مجھے اس میسج سے ہوا جو پنجاب کے ایک چھوٹے شہر سے مجھے موصول ہوا ہے۔ وہ میسج یہ ہے "السلام علیکم سر!کیا میں اپنے کنٹیکٹس اور گروپس میں اس میسج کو سینڈ کر سکتا ہوں،اور کیا آخر میں اپنے ادارے کا نام اور ایڈریس لکھ سکتا ہوں کیوں کہ اپنے گاؤں میں میں نے دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا ہے۔"میںنے اس کو اجازت دے دی، اور یہ لکھا بالکل آپ اس کو استعمال کر کے دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھیں، اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے۔ قرآن کا پیغام ہمارے پاس لوگوں کی امانت ہے۔اسے ہر زبان میں سارے انسانوں تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔
صدر اسلامی کو ساری دنیا میںپڑھا اور سناجاتا ہے۔اس سلسلے میں ذیل میں چند افراد کے تاثر دیے جارہے ہیں
■ مولانا صاحب کی ذکر کردہ باتوں میں سب سے زیادہ متاثر کن بات جو مجھے لگی ،وہ حدیبیہ کی صلح اور یوسف علیہ السلام کاواقعہ ہے۔ یعنی بغیر کسی نزاع کے مشرک بادشاہ سے عہدے کی درخواست کرنا اور لوگوں کی فلاح کے کام کرنا۔یہ فلاح کاپہلو دین کا اہم ترین پہلو ہے جسے آج کل موضوع نہیں بنایا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری امت ذہنی اور فکری غلام بنی ہوئی ہے، ان اقوام کی جو غیر نزاعی اعتبار سے کام کرتے ہیں۔حدیبیہ کی صلح سے یہ سبق ملتا ہے کہ بغیر کسی اعتراض کے فریق ثانی کے ساتھ یک طرفہ صلح کرو، تاکہ دعوت کا موقع مل سکے۔(ڈاکٹر فوزیہ انور، کراچی)
■ مولانا صاحب کے اس جملے نے میری زندگی بدل دی— ہر روز انسانوں کی موت اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ اس دنیا میں بظاہر کامیاب آدمی کی خوشی اتنی ہی بے حقیقت ہے جتنا کہ کا بظاہر ناکام آدمی کا غم۔ (دانیال طاہر، کراچی)
■ مولانا صاحب کو اب تک جتنا پڑھ پایا ہوں،ان میں سب سے بڑی بات یہ سمجھ میں آئی ہے کہ زندگی میں ہر بات اورہر کام میں مثبت ذہن کا پہلو اولین ترجیح رہے اور رد عمل کی نفسیات سے حتی الا مکان بچا جائے۔ مولانا نے زندگی میں ہر بات میں بھڑک جانے کو تمام مسائل کی وجہ بتایا ہے ،اور صبر و تقویٰ کواس کا حل۔ الحمد للّٰہ ، یہ اصول زندگی میں بہت حوصلہ عطا کرتا ہے (شجاعت علی، لندن)
■ مولانا وحید الدین خان کی کتاب "اللہ اکبر"بہت عمدہ کتاب ہے۔ یہ آپ کو خدا کے وجود اور اس پر یقین سے لے کر انسانی تخلیق کے حقیقی مقاصد تک لے جائے گی۔یہ کتاب" بندے" میں" بندگی" کے احساس کو اجاگر کرتی ہے، اور اس کو مقصدِ تخلیق سے آگاہ کرتی ہے۔(محمد مجاہد اشرف ،پنجاب یونیورسٹی لاہور )
■ رب کی توفیق سے میں نے مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کافی کتابوں کا صرف مطالعہ ہی نہیں کیا، بلکہ انہیں بار بار پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کی ،جس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مولانا صرف ایک عالم دین ہی نہیں بلکہ دورِ جدید کے ایک محقق ، مجدد اور مفسر ہونے کے ساتھ ایک بہترین سائکالوجسٹ بھی ہیں۔مولانا کی کوئی بھی کتاب ہو، اس کا ایک ایک لفظ آپ کے دل و دماغ سے خود بخود ہی تصدیق ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ کو یوں لگتا ہے کہ شاید یہ آپ ہی کے دل کی بات تھی، جو مولانا نے لکھی ہے۔ مولانا ایک ایسا سرمایہ ہیں کہ جن کے لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ شاید ہی ایسا کوئی دوسرا شخص صدیوں تک ہمیں مل سکے ۔ مولانا کی کتابوں میں جو چیز مجھے سب سے زیادہ ملی وہ یہ کہ خدا کی دنیا میں خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزار لو ۔ اس سے تمھیں خدا مل جائے گا ،اور جب خدا مل گیا تو سب کچھ مل گیا ۔میرا یہ کہنا بھی مبالغہ نہیں، بلکہ حقیقت ہے کہ اگر میں مولانا کو نہ پڑھتا تو شاید آج میں اس دنیا میں نہ ہوتا۔ مولانا کی کتابوں نے مجھے ایک نئی زندگی دی ، مجھے جینے کا ایک انو کھا ڈھنگ دیا ، میرے سامنے زندگی کی حقیقت کو بیان کیا، مجھے خدا سے ملنے کا راستہ دکھایا ۔ مولانا کی کتابوں نے مجھے میری اہمیت بتائی ، میری آنکھوں کے سامنے سے فریب کے پردے اٹھادیے۔ مجھے یہ سکھایا کہ میری زندگی ایک بامعنی زندگی ہے۔ میں دنیا میں بامقصد زندگی گزارنے کے لیے بھیجا گیا ہوں، نہ کہ بے مقصد۔مولانا اور مولانا کی پوری ٹیم میری ہر دعا میں شامل ہے۔ (ابراہیم ،لاہور)
■ مولانا صاحب کو میں نے اسٹڈی کیا ہے۔ مجھے ہر وقت مولانا کے لٹریچر سے امیداورصبر کی غذا حاصل ہوئی ہے۔ میرے خیال میں کامیاب زندگی گزارنے کےلیے یہی دو اصول کافی ہیں۔ (محمّد داؤد سوراب، بلوچستان)

■مولانا صاحب کی کتابوں نے میری زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے۔ یہاں ان میں سے چند باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔1۔میں منفی (negative) سے مثبت (positive) ہوگیا ہوں۔2۔ میرامزاج داعیانہ ہوگیا ہے۔ 3۔سائنس کی ہر ایجاد میرےایمان میں اضافے کا ذریعہ بنتی ہے۔ 4۔غیر مسلم قوم سے نفرت اب محبت میں بدل گئی ہے۔دوسرے الفاظ میں، مولانا کی کتابوں سے پہلے میں بے شعور (immature) تھا اب میچور (mature) ہوگیا ہوں۔ (گل رحمان، لکی مروت، پختونخوا‎)
■ مولانا صاحب کی تحریروں اور تقریروں سے میرا تعلق تین سال سے ہے۔ مولانا میں ایک کمال یہ ہے کہ ان کی جو بھی تحریریں ہیں وہ موجودہ دور کے مطابق انسان کی عقل میں صحیح فٹ آتی ہیں۔الحمداللہ، زندگی کا مقصد سمجھ میں آگیا ہے، میرے اندر سےانا(ego) اور ضد اور حسد ختم ہوا ہے۔ میں نے یہ سیکھا ہے اپنے معاملات کو اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ فطرت کے قانون کو بہت قریب سے جانا ہے جس کی وجہ سے حقیقت کے قریب ہوا ہوں۔ (عرفان رحمان،رحیم یار خان، پاکستان)
■ مولانا کی کتابوں کی سب سے بڑی خوبی اس سائنسی دور میں سائنسی اپروچ ہے۔ وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں موجودہ ذہن کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں، اور مدلل اور سادہ انداز میں لکھتے ہیں۔مولانا کی کتابیں عالم و طالب، عام و خاص، سائنس دان و آرٹسٹ الغرض سب کے لیے یکساں مفید ہیں۔"مذہب اور سائنس" جیسی کتاب میں مولانا کے مطالعہ پر حیرت ہوتی ہے کہ ان کی نظر دینی علوم کے ساتھ ساتھ مغربی علوم پر بھی بہت گہری ہے۔ اس کتاب میں مولانا نے جس طرح منکرِ خداسائنس دانوں اور دیگر مفکرین کی غلطیاںواضح کرکے بیان کی ہیں، یقیناً قابلِ داد ہیں۔(حفیظ الرحمٰن،بونیر ،خیبر پختونخوا)
■ میں مولانا کی کتاب "دین کامل" پڑھ رہا ہوں۔ ابتدائی پندرہ صفحات پڑھ کر میرا دل نرم ہوا۔ کچھ جملے ایسے ہیں جو میرے دماغ کو ہٹ (hit)کرتے ہیں۔ مثلاً ایک عنوان ہے ’’مثل صحابہ ایمان‘‘( صفحہ 13)۔اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مثلِ صحابہ ایمان کیا ہے، اور مثلِ یہود ایمان کیا۔ یہ تقابل بہت عجیب ہے۔ مثلِ صحابہ ایمان کیا ہے؟ یہ مثلِ یہود ایمان جاننے سے سمجھ میں آیا۔ اسی طرح ایک جملہ ہے"ایک ایمان وہ ہے جو بس جامد عقیدہ ہو، جو آدمی کے ذہنی اسٹور میں بہت سی چیزوں میں سے ایک چیز کے طور پر پڑا ہوا ہو۔ وہ آدمی کی زندگی کا کل نہ ہو بلکہ وہ اس کا صرف ایک جز ہو۔"میرا تجربہ یہ ہے کہ مولانا کی کتابیں پڑھتے رہنے سے اصل چیز پر فوکس بنتا ہے، اور دوسرے علما کی کتابیں پڑھنے سے ایسا نہیں ہوتا۔(مولانا عبد الباسط عمری، گلبرگہ، کرناٹک)
■ سچ تو یہ ہے اگر میں نے مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتابیں نہ پڑ ھی ہوتی، اور ڈائریکٹ برٹرینڈ رسل اور کارل مارکس یا چارلس ڈارون، وغیرہ کی کتابیں پڑھنا شروع کردیتا تو میرے لیے صورتِ حال بہت مختلف اور نقصان دہ ہوسکتی تھی۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ مجھے مولانا کا تعارف وقت پر ہوگیا ۔ مولانا صاحب ہمارے لیے حقیقت میں ایک بہت بڑا سرمایہ ہیں، ورنہ جو نام نہاد علما آج ہیں، ان سے کسی ذی شعور آدمی کو سیکھنے اور سمجھنے کوکچھ نہیں ملتا ہے۔ میرے احساسات کو صرف وہی سمجھ سکتے ہیں، جو ان کو پڑھ چکے ہیں ۔اللہ تعالی مولانا کو صحت اور تندرستی کے ساتھ رکھے آمین ۔(عطا المومن فیصل آباد پاکستان )
ثجن چند شخصیات نے مجھ پر سب سے گہرا اثر ڈالا ہے، ان میں ایک نام مولانا وحید الدین خان صاحب کا ہے۔ بہت کم ایسا ہوا کہ مولانا نے کسی مسئلہ پر اپنی رائے دی ہو، اور مجھے اس سے اختلاف ہواہو۔ بلکہ سچ کہوں تو مرزا غالب کے الفاظ میں—
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
میری تعلیم پہلے کالج میں ہوئی ، پھر میں نے مدرسے میں تعلیم حاصل کی۔ جدید تعلیم کی بنا پر کئی ایسے سماجی مسائل تھے، جن میں روایتی طبقے کی رائے مجھے کبھی سمجھ میںنہیں آئی۔ لیکن دین کا حوالہ ہونے کی وجہ سے میں نے خاموش رہنا بہتر سمجھا ۔ اس کے بعد جب مولانا وحید الدین خان صاحب کی کتابیں پڑھی، اور ان کی رائے جاننے کا موقع ملا تو دین کو نئے پہلوسے دیکھنےکا موقع ملا،اوردینی احکام کو سمجھنے کی نئی راہیں کھلیں۔ یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ موجودہ دور میں دین کو قابل فہم اور قابل عمل بنانے میں مولانا کی تحریروں نے ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ اللہ مولانا وحید الدین خان صاحب کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور امت پر ان کے سائے کو تادیر سلامت رکھے آمین ثم آمین۔(عمران صدیقی ندوی، ممبئی)
■ معرفتِ رب،دعوتِ حق،حکمتِ حیات پر مشتمل مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتابیں دورِ جدید میں علما کی اپنی عارفانہ اور داعیانہ زندگی کے لیے ایک انمول خزانہ ہیں۔ یہ فکری زندگی کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ایک عالم دین کی حیثیت سے میرا تجربہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں مدارس کے فارغین جدید عالمی اپروچ سے بے خبر ہوتے ہیں۔وہ ان کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دورِ جدید کے تعلق سے ان کا رویہ اس عربی مقولہ کا مصداق ہے: من جہل شیئًا عاداہ (جو کسی چیز سے بے خبر ہو، وہ اس سے دشمنی کرتا ہے)۔حالاں کہ جدید کلچر میں جہاں بظاہر ناپسندیدگی کا پہلو ہے، وہیں بہت سی باتیں عین اسلام کے موافق ہیں۔ بلکہ موافقِ اسلام باتیں زیادہ ہیں۔ اپنے زمانے کو جاننا اور اس کے مطابق رہنمائی دینا ابتداء سے علما کا طریقہ رہا ہے۔اس سلسلے میں ابن عابدین کا ایک بامعنی قول ان الفاظ میں آیاہے:مَنْ جَہِلَ بِأَہْلِ زَمَانِہِ فَہُوَ جَاہِلٌ(مجموعہ رسائل ابن عابدین، صفحہ 131)۔ یعنی جواپنے زمانے سے لاعلم رہا، پس وہ جاہل ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے زمانے کو جانے بغیر اسلام کی طرف صحیح رہنمائی نہیں کی جاسکتی ہے۔ موجودہ دور میں اگر کسی کے دل میں اسلام کی صحیح نمائندگی کرنے کی تمنا ہو، اور اس تعلق سے اپنی ذمے داریوں کو ادا کرنا چاہتا ہے تو موجودہ دور میں ایک صدی پر محیط تجربات پانے والے عالم دین، داعی ، زمانہ شناس انسان کی علمی تحقیقات اور ان کی تحریروں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ انھوں نے اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب میں پیش کیا ہے۔ جدید دور کے رجحان کے اعتبار سے اسلام کو دینِ رحمت اور دینِ امن کے طور پر مولانا نے واضح کیا ہے۔
اس کے برعکس، عام مسلم اہلِ علم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جنگ کے فضائل کو جانتے ہیں مگر امن کے فوائد سے ناواقف ہیں۔ حالاں کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے دور میں جنگی بہادری دکھانا اور جنگ کو ایمان وعقیدے کی طرح مذہب کا ابدی جزء بتانے کی کوشش کرنا نادانی ، اور اپنے نقصان میں مزید اضافہ کرنا ہے۔یہ جدید دور کے مواقع سے بے خبری کا اعلان ہے۔ پرامن زندگی اور پرامن اقدام ہی اسلام کا مطلوب ہے۔ کیوں کہ اسلام ایک آئڈیا لوجی ہے، اور آئڈیالوجی صرف امن کے حالات میں سمجھی اور سمجھائی جاسکتی ہے۔ مولانا کی تحریروں سے اسلام کی پرامن تصویر واضح ہوتی ہے۔ گویا مولانا کی تحریروں کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے انسان کو جو چیز دی ہے وہ یہ ہے — آخرت کی کامیابی کے لیے نظریۂ توحید اور دنیا میں جینے کے لیے نظریۂ امن۔ یہ کانسپٹ اس حدیث کا خلاصہ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جنت میں سب سے زیادہ دو چیزوں کی وجہ سے انسان جائے گا، تقویٰ اور حسن اخلاق(تَقْوَى اللَّہِ وَحُسْنُ الخُلُقِ)جامع الترمذی، حدیث نمبر 2004۔ مولانا سید اقبال احمد عمری ،عمرآباد، تامل ناڈو۔
■ آج کل میں مولانا وحیدالدین خاں صاحب کے سفرناموں کا مطالعہ کررہا ہوں۔میرا خیال یہ ہے کہ مولانا کے سفر ناموں میں زیادہ علمی اور مبنی بر حکمت مواد موجود ہے۔ اس بنا پر سفر نامہ کوپڑھنے میں زیادہ وقت بھی لگتا ہے۔ کیوں کہ اس میں نوٹ کرنے والی باتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ اسلام کے متعلق مختلف قسم کے سوالات واعتراضات اسی طرح مختلف اہل علم کے غیراسلامی اور اسلامی نظریات کی بھی سفر نامہ میں وضاحت ہوتی ہے۔مزید یہ کہ مولانا کے سفر نامے پُر حکمت ہوتے ہیں۔ مولانا ہر واقعہ سے کوئی اسلامی ذہن بنانے والا نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں۔ یہ خصوصی صلاحیت اور ملکہ، میرے علم کے مطابق، مولانا کی طرح کسی اور کو حاصل نہیں۔ دوسرے علمائے کرام کے سفر ناموں کا بھی میں نے مطالعہ کیا ہے۔ وہ نیوز پیپر کی طرح ہوتے ہیں، ان سے کوئی ٹیک اوے نہیں ملتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا کی کتابیں پڑھنے کے بعد دوسروں کی کتابیں ہر اعتبار سے مولانا کی کتابوں کے بالمقابل غیر معیاری نظر آتی ہیں۔ (مولانا جمیل مظہر بجنوری، ممبئی)
■ اودھیش کمارجی (پیدائش 1931)، گاندھی پیس فاؤنڈیشن، نئی دہلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اسپرٹ آف اسلام کے ریگولر قاری ہیں۔ کچھ ماہ سے ان کو یہ میگزین نہیں مل پا رہی تھی، کیوں کہ اسپرٹ آف اسلام اب صرف آن لائن شائع ہورہا ہے۔ ان کی دلچسپی کے پیش نظر سی پی ایس دہلی نے ان کو اسپرٹ آف اسلام کی فوٹوکاپی بھیجی، اور کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کو مولانا کی باتیں بہت زیادہ پسند ہیں۔ یہ سن کر وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انھوں نے کہا کہ صرف پسند کی بات نہیں ہے، مولانا صاحب کی باتیں مجھے نراشا سے آشا کی طرف لے جاتی ہیں۔ ان کی کتابیں میرے اندر اُرجا (energy)پیدا کرتی ہیں۔
■ Key learning from Maulana’s books is deconditioning of oneself. It helps in unbiased approach in the various affairs of life. (Mr. Mehar Elahi, Lahore, Pakistan)
■ Every word of Maulana’s writing is purified and has extreme maturity. His sole aim of writing is to create positivity and aim for higher objectives. (Mr. Akhtar Butt, Lahore, Pakistan)
■ I am a student of biology. I believe when a person is really in need of real advice, Allah introduces him to someone who can really help him in his journey. Maulana Wahiduddin Khan is really a mentor for me. When I was striving hard to find my purpose, I read Maulana’s Raaz-e Hayat. This book really inspired me. Then I started looking at this world with a purpose. Maulana’s vision is an inspiration for millions. May Allah bless him with great wisdom and knowledge. May Allah accept his work and give him eternal peace and health. Also, this group is a source of daily reminders with the provision of short tafsir and videos. (Ms. Hamna Junaid, Pakistan)
■ It was the November of 2017. I was on my way to Jammu to attend a friend’s wedding. I had stopped in Delhi for a day. Little did I know then that the one day I chose to stay in Delhi would change the course of my life in such a deep and meaningful way. I remember walking into the study and meeting room of none other than the esteemed Maulana Wahiduddin Khan. He was seated at the other end of the room. I took a deep breath, conscious that I was meeting in person a giant from the tradition of "my other". I had no knowledge of Islam then. Not really the religious type, I decided consciously that I would keep the meeting brief and try my best to understand the celebrated scholar with my limited intellect. "Tell me more about you Miss Jana." He invited me softly as if sensing my nervousness. Dumbstruck that Maulana would be interested in knowing me as a person, I became conscious of the beginning of the dialogue. "I am here to listen Maulana." I mumbled. "The way you have your arm placed tells me that you have a big heart young lady." I suddenly became aware of the way I was sitting. I was waiting like a child to listen to a story from someone from my grandparents’ generation. My heart was indeed opening up with curiosity. A dialogue which I had expected to be as brief as 15 mins given Maulana’s busy schedule turned out to be a life changing 1.5 hours. The aged scholar channelled wisdom so relevant to my life at that moment that I found myself stunned at how he could have known what I needed without any knowledge of my context or even my background. Maulana’s wisdom laid the foundation of my passion for inter-religious dialogue. That one dialogue led to a rare and cherished relationship that I built with the entire team of CPS over the years. From the Kolkata Book Fair to the Parliament of World’s Religions, conferences and zoom calls to take Maulana’s message to more and more people as I built my network, the relationship with my other has only deepened with time. This gratitude note is to acknowledge the man whose vision led me to challenge my own and reshape it to work for a more inclusive future. (Ms. Sohini Jana, Kolkata)
■ When I was in Intermediate Part-1, there was a poem "Night Mail" by W.H Auden in our course of English, and now when I've become a lecturer in English, the same poem is there. Why I'm mentioning this poem is because of the fact that I hadn't been able to understand the metaphorical and hidden meaning of the poem so far. Last night I read Maulana Wahiduddin Khan's short essay "مقصد زندگی" in which he has talked commendably about the purpose of life by using a metaphor of the train. Now as soon as colleges reopen and classes start, I'm determined to teach my students this poem in a quite different way, with a new and purposeful explanation. Last but not the least, Maulana Wahiduddin Khan's books are an ocean in themselves where one could quench one's thirst for knowledge. Each and every word used by him in his books is pregnant with wisdom and spirituality. (Muhammad Waqas Azeem, Sialkot)
■ The biggest contribution of Maulana is the translation of the Quran. This helps every human being irrespective of religious or nonreligious background understand the divine message without difficulty. His translation is understandable which appeals to the conscience of a human being and addresses his mind. (Mr Aslam Baig, Mumbai)
■ Respected sir, I am an officer in Allahabad High Court, and a big fan of Maulana Wahiduddin Khan. I have been reading Al-Risala, in addition to numerous books written by him. In course I happened to peruse a book Tajdeed e Deen written by Maulana. I was extremely impressed by his approach and feel a deep urge and need to translate this book into Hindi. I humbly seek your kind permission to do the same as I have almost equal command on Hindi, English and Urdu languages and have worked as a translator also for around 10 years. (Dr Mohd Shahab, Allahabad)
■ I have 4 servants and one driver, out of which 2 are Muslim. One of them can read English , he was following the Quran that was gifted by you. It is a proper utilization. I have already read it. (Dr Shrismistha Gupta, Kolkatta)
■ I am in Pakistan. I went to my village about 7 hours away from Lahore, surrounded by beautiful mountains. We have a wonderful youth there. I shared Maulana's teachings with him. His response was unbelievable. I had some books and magazines with me, but Tariq Sb sent us more books. Now we're going to have two libraries in two different villages. They were waiting for this treasure. Please ask Maulana to pray for them. May Allah help us all. Ameen. (Ms. Gulzeba Ahmad, Lahore)
■ Sister Farida, I'm a serving inmate at the Windhoek Correctional Facility in Namibia. Firstly, I am humbly knocking on your esteemed office door regarding the above mentioned reference. Secondly, I want to thank you for your free monthly magazines "Spirit of Islam". These books are so interesting that I can't put them down! It's teaching me things that I needed to understand in the Qur'an. I believe that these books are the most convincing soul-winning tool. You will always be in our daily prayers. (Idris Haingura, Namibia)
■ I love this book (Islam and World Peace by Maulana Wahiduddin Khan)! I just finished reading this entire book today and it took me only two weeks to finish it. Masha Allah! This wonderful book contains a wealth of wisdom from the Holy Quran and Hadith/Sunnah which verifies that Islam is Not a religion of violence and that it is actually a religion of peace. As sincere loyal Muslims, our main focus should be to educate and reform individuals by influencing them to grow intellectually and spiritually, and to bring about a revolution within their hearts and minds. Targeting a community as a whole to make a change will lead to failure. We must target the hearts and minds of individuals, which is the key to changing the world, which will eventually lead to a positive successful change in communities, countries, and Nations globally. We must avoid confrontation at all cost and focus on enforcing and maintaining the culture and ideology of peace. Nothing can be accomplished with violence which only leads to destruction of lives and resources. Peace is the only way to success. (Ms Francine, USA)
■ I love this book (Woman between Islam and Western Society by Maulana Wahiduddin Khan). I just completed reading it. Took me two weeks to finish. This book provides wisdom and educational facts that verify that Islam has never declared that women are inferior to men, and that Islam only proves a fact that Allah has created females with a biological difference. Due to this biological difference, this is the reason why particular activities and types of jobs have been declared appropriate for males only and other jobs and activities for females only. God had chosen and blessed the Prophet Muhammad and his companions with the wisdom, talents, power, and gifts to bring about an intellectual revolution. This awesome book contains scientific facts from scholars that verify that the biological nature, that women are different from men in genes and thought process. Nature automatically cast females as the weaker, more delicate sex and men as the stronger sex. This explains why Nature makes different demands upon males and females as a convenient division of labor. Any deviation from Nature always results in punishment from Allah and mankind will always reap the terrible consequences violating the laws of nature! There are very few cases of divorce, children born out of wedlock, teen pregnancy, fornication, adultery, and AIDS in Muslim countries. These type of horrible problems are rare or non-existent in Muslim countries. But here in the United States of America, there is a terrible plague of billions of these immoral cases. This proves that Islam does not treat women as inferior, but grants women a high status in life while acknowledging her different biological makeup and that she is created equal with man, but must be treated differently (delicately) in regard to the division of labor, etc. (Ms Francine, USA)
واپس اوپر جائیں

اعلان

انسانیت کی تعمیر میں عورت کا ایک اہم رول ہے۔ مگر پوری تاریخ میں عورتوں کو انڈر یوٹیلائز ڈ (underutilized)کیا گیا ہے۔ مولاناوحید الدین خاں صاحب نےاسلامی تاریخ میں حضرت ہاجرہ اور دوسری خواتین کے رول کو دریافت کیا، اور اس کو ایکسپلین کرکے عورتوں کو ترغیب دی کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلیں، اور اپنے potential کو ایکچولائز (actualize)کرکے وہ تاریخ دہرائیں، جو تاریخ اُن خواتین نے بنائی تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے قرآن و سنت اور تاریخ کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی ہیں، جیسے ’’عورت معمارِ انسانیت‘‘ ، ’’خاتون اسلام‘‘ ۔ اب ان کی رہنمائی میں سی پی ایس لیڈیز نے ایک دعوتی گروپ شروع کیا جس کا نام ہے
CPS Ladies International
اس گروپ میں انڈیا اور انڈیا کے باہر کی خواتین شامل ہیں۔ یہاں وہ اسلام کے مختلف پہلوؤں پراپنی ضرورت کے اعتبار سے ڈسکشن کرتی ہیں، جس سے ان کو دین کی گہری معرفت (deeper realization)حاصل ہوتی ہے، اور ان کا انٹلکچول ڈولپمنٹ ہوتا ہے۔یہ گروپ 29 اکتوبر 2020 کو شروع ہوا، اور اتنے کم وقت میں خواتین نے جو فیڈ بیک دیا، وہ بہت ہی حیرت انگیز (amazing) ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی آئی۔ انھوں نے اس گروپ کو جوائن کرکے حقیقی اسلام کو سمجھا ہے ۔ اس سے پہلے ان کے نزدیک اسلام کا مطلب کچھ سماجی رسوم تھا، نہ کہ وہ اسلام جو اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعےبھیجا ہے۔
اب ہم لوگوں نے آن لائن قرآن کلاس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت ہماری ہفتہ وار آن لائن قرآن کلاس شروع ہوچکی ہے۔اس سے ہمیں قرآن کے پیغام کو تذکیری اعتبار سےسمجھنے اور عملی زندگی میں اپنانے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ نے چاہا تو یہ گروپ جدید سائنسی دور میں ہاجرہ کلچر کے اِحیا (revive) کا ذریعہ بنے گا، یعنی بےمثال جدوجہدکے ذریعے خدائی دین کو جدید معیار پر ثابت شدہ بنانا۔
سی پی ایس لیڈیز انٹرنیشنل سےاگر کوئی خاتون جڑنا چاہتی ہیں تواس ای میل یا واٹس ایپ پر اپنا نام اور نمبر بھیجیں:
fahmidakhan245@gmail.com
واٹس ایپ 09453215285
واپس اوپر جائیں

Monday, 1 March 2021

Al Risala | March 2021 (الرسالہ،مارچ)

4

-ڈائری سے انتخاب

48

- ایک داعی کی یاد میں


ڈائری سے انتخاب

30 مئی 1985
قدیم یونانی سوانح نگار اور فلاسفر پلوٹارک (Plutarch)کا ایک قول ہے، جس کا ترجمہ انگریزی زبان میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
Courage consists not in hazarding without fear, but in being resolutely minded in a just cause.
یعنی ہمت اس کا نام نہیں کہ آدمی کسی مشکل میں بے خطر کود پڑے۔ بلکہ ہمت یہ ہے کہ آدمی ایک صحیح مقصد میں مستقل ارادہ کے ساتھ لگا ہو ۔
اکثر لوگ ہمت اور بے جا جوش میں فرق نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ بے جا جوش کے تحت ظاہر ہونے والے واقعہ کو ہمت کا واقعہ سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ہمت کے تحت اقدام سوچا سمجھا اقدام ہوتاہے اور بے جا جوش کے تحت اقدام محض وقتی جذبہ سے بھڑک کر کیا جانے والا اقدام۔ اول الذکر اپنی منزل کی طرف کامیاب سفر ہے، اور ثانی الذکر صرف بربادی کی خندق میںاحمقانہ چھلانگ ۔
31 مئی 1985
سمندر میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو دوڑاتی ہیں۔ جنگل میں ہر وقت چھوٹے جانوروں کو بڑے جانوروں کا ڈر لگا رہتا ہے۔ یہی خدا کا نظام ہے۔ اگر مچھلیاںاور جانور خدا سے اس کی شکایت کریں تو خدا کا جواب یہ ہوگا:
میں نے جو سمندر اور جو جنگل بنائے ہیں وہ تو ایسے ہی ہیں۔ اگر تمھیں وہ منظور نہ ہوںتو تم اپنی مرضی کے مطابق دوسرے سمندر اور دوسرے جنگل بنالو۔
یہی معاملہ انسانوں کا ہے۔ انسانوں کی دنیا میں بھی ہمیشہ یہ مقابلہ (competition) جاری رہا ہے، او رجاری رہے گا۔ اس مقابلہ کی وجہ سے کوئی گِرتا ہے ،اور کوئی اٹھتا ہے۔ کسی کو جیت ملتی ہے، اورکسی کو ہار۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اس سے مطابقت کرکے رہے۔ جو لوگ اس کو پسند نہ کریں، ان کے لیے دنیا کا نظام بدلا نہیں جاسکتا۔ ان کے لیے صرف ایک ہی راہ ہے، اور وہ یہ کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق نئی دنیا تخلیق کریں۔ خدا کی دنیا میں تو ایسا ہونا ممکن نہیں۔
1 جون 1985
انسان کی اعلیٰ ترین تعریف میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ دلیل کے آگے جھک جائے، وہ طاقت کے بغیر محض دلیل کی بنیاد پر حقیقت کا اعتراف کرلے۔
مگر میری زندگی کا سب سے زیادہ تلخ تجربہ یہ ہے کہ آدمی دلیل کے آگے نہیں جھکتا۔ وہ صرف طاقت کے زور کو جانتا ہے، وہ دلیل کے زور کو نہیں جانتا۔موجودہ دنیا میں آدمی دلیل کا انکار کرکے خوش ہوجاتا ہے، اور طاقت کا اعتراف کرکے اپنے کو عقل مند سمجھتا ہے۔ مگر یہ اتنا بڑا جرم ہے جو سب سے زیادہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والا ہے۔
جو لوگ موجودہ دنیا میں دلیل کے آگے نہ جھکیں، وہ اپنے آپ کو اس خطرے میں مبتلا کرتے ہیں کہ آخرت کی دنیا میں انھیں فرشتوں کی طاقت کے آگے جھکایا جائے۔ مگر اُس دن کا جھکنا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ دلیل کے آگے جھکنا آدمی کے لیے جنت (Paradise)کا دروازہ کھولتا ہے۔ جب کہ طاقت کے آگے جھکنا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ آدمی کو مجبور کرکے جہنم کے گڑھے میںدھکیل دیا جائے۔
دلیل کے آگے جھکنا خدا کے آگے جھکنا ہے۔ جو لوگ دلیل کے آگے نہ جھکیں، وہ گویا خدا کے آگے سرکشی کررہے ہیں۔ جو لوگ خدا کے آگے سرکشی کریں ، اور پھر اسی حال میں مر جائیں ،ان کو خدا کبھی معاف نہیں کرے گا۔
3 جون 1985
موجودہ دنیا کی تمام خرابیوں کی جڑ آزاد خیالی ہے۔ موجودہ زمانہ کے مفکرین آزادی کو خیر اعلیٰ (summum bonum) کہتے ہیں۔مگر یہی سب سے بڑا خیر سب سے بڑا شر بن گیا ہے۔ آزادی کے اس تصور نے انسان کو بالکل بے قید بنا دیا ہے۔ وہ کسی قسم کی اخلاقی پابندی کو اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتا۔ اور جو لوگ اپنے آپ کو اضافی پابندیوں سے آزاد سمجھ لیں وہ جنگل کے جانوروں سے بھی زیادہ برے بن جاتے ہیں۔
آزادی کے نام پر پیدا شدہ اس بگاڑ کا سب سے زیادہ برا حصہ مسلمانوں کے حصے میں آیا ہے۔مسلمان اپنی قدیم تاریخ کے نتیجہ میں جھوٹے فخر کی نفسیا ت میں مبتلا تھے۔ جدید دور کی بے قید آزادی نے ان کے فکری زوال میں دُگنا اضافہ کردیا— آزاد خیالی اور پُر فخر نفسیات۔ یہ دونوں چیزیںجب یکجا ہوجائیں تو برائی اس آخری حد پر پہنچ جاتی ہے جس کے آگے اس کی کوئی اور حد نہیں۔
4 جون 1985
تقریباً1950 کی بات ہے۔ اس وقت میںاپنے بڑےبھائی کے کارخانہ لائٹ اینڈ کمپنی (قائم شدہ 1944)سے وابستہ تھا، اور کارخانہ کی ضرورت کے تحت اعظم گڑھ سے بنگلور جارہا تھا۔ اس لمبے سفر کے دوران میرے اندر ایک تجربے کا خیال پیدا ہوا۔ وہ یہ کہ میں کتنی زیادہ دیر تک بھوکا رہ سکتا ہوں۔ میںنے اس پر عمل شروع کردیا۔ ٹرین اسٹیشنوں پر رکتی۔ لوگ اتر کر کھاتے پیتے۔ مگر میں مسلسل فاقہ کررہا تھا۔ یہ فاقہ سراسر اختیاری تھا۔ کیوں کہ میری جیب میں اس وقت کافی رقم موجود تھی۔
کئی وقت کے فاقے کے بعد مجھے کافی کمزوری محسوس ہونے لگی۔ میں ایک بڑے اسٹیشن پر اترا۔ دوسرے مسافروں کے ساتھ میں بھی اسٹیشن کے ریسٹورنٹ میں داخل ہوا۔ وہاں بہت سے لوگ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے کھاپی رہے تھے۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھنے لگا۔ معاً مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص مجھے پکڑ کر ہٹا رہا ہے۔ بات یہ تھی کہ مجھے ریسٹورنٹ میںداخل ہوتے ہی چکر آگیا، اور میں ایسی کرسی پر بیٹھنے لگا جس پر پہلے سے آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ کسی آدمی نے مجھے ایک خالی کرسی پر بٹھایا، اور خود ہی میرے لیے کھانے کا آرڈر دیا۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں میں نے کھانا کھایا۔ اس کے بعد غالباً دس روپیہ کا نوٹ دے کر روانہ ہونے لگا۔ دوبارہ ریستوران کے آدمی نے مجھے روکا اور بقیہ پیسے مجھے واپس کیے۔
اگلے دن میں بنگلور کی کسی سڑک پر چل رہا تھا کہ ایک آدمی نے میری پیٹھ پر ہاتھ رکھا۔ میںنے گھوم کر دیکھا تو وہ میرے لیے ایک اجنبی شخص تھا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ مذکورہ اسٹیشن کے ریسٹورنٹ میں جب میں کھانے کے لیے داخل ہوا تو وہ بھی وہاں موجود تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا: اس وقت آپ کا حال دیکھ کر ہم نے یہی سمجھا تھا کہ آپ پیے ہوئے ہیں، اور مد ہوشی کی وجہ سے ایسا کررہے ہیں۔ میںنے اس آدمی کو بتایا کہ یہ وجہ نہ تھی۔ اصل بات یہ تھی کہ میں نے کئی وقت سے کچھ نہیں کھایا تھا، اس لیے مجھے چکر آگیا۔ اسی آدمی نے مجھے بتایا کہ ریسٹورنٹ میں آپ بھری ہوئی کرسیوں پر بیٹھ رہے ـتھے۔
میری زندگی میںاس طرح کے بہت سے عجیب عجیب واقعات ہیں۔ سلف میڈ مین (self made man) کا لفظ عام طورپر صرف معاشی تعمیر کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ لیکن اس لفظ کا کامل مصداق اگر کوئی شخص ہوسکتا ہے تو یقیناً وہ میں ہوں۔ میں پورے معنوں میں ایک سلف میڈ مین ہوں۔ مجھ کو نہ خاندانی روایات نے بنایا ہے، اور نہ سماجی حالات نے۔ میںنے ہر اعتبار سے اپنے آپ کو خود بنایا ہے۔ تاریخ میں اس قسم کا کوئی دوسرا انسان اگر پایا جاتا ہو تو وہ میرے لیے ایک دریافت ہوگی۔
5 جون 1985
بظاہر سائنس خدا کے بارہ میں غیر جانب دار ہے۔ مگر یہ غیر جانب داری سراسر مصنوعی ہے۔ سائنسی مطالعہ واضح طورپر یہ بتاتا ہے کہ کائنات کا نظام ایسے محکم انداز میں بنا ہے کہ اس کے پیچھے ایک خالق کو مانے بغیر اس کی توجیہہ ممکن نہیں۔ سرجیمز جینز نے 1932 میںکہا تھا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کا نقشہ ایک خالص ریاضی داں نے تیار کیا ہے:
In 1932, Sir James Jeans, an astrophysicist said: “The universe appears to have been designed by a pure mathematician”. (Encyclopedia Britannica, 1984, 15/531)
سر جیمز جینز نے جو بات کہی تھی، دوسرے متعدد سائنس دانوں نے بھی مختلف الفاظ میں اس کا اقرار کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا ریاضیاتی اصولوں پر بننا اور اس کا ریاضیاتی اصولوں پر حرکت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے ایک ایسا ذہن کام کررہا ہے، جو ریاضیاتی قوانین کا شعور رکھتا ہے۔
6 جون 1985
ایک مرتبہ میںعلی گڑھ گیا۔ وہاںمیری ملاقات ایک ’’ریٹائرڈ پروفیسر‘‘ سے ہوئی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میںنے انگریزی زبان میں ایک تفسیر لکھی ہے۔ آپ اس کی اشاعت کا انتظام کیجیے۔گفتگو کے دوران میں نے پوچھا کیا آپ عربی زبان جانتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا جب آپ عربی زبان نہیں جانتے تو آپ نے قرآن کی تفسیر لکھنے کی ذمہ داری کیوں لے لی۔ اس پر وہ بگڑ گئے۔ انھوںنے کہا کیا قرآن کی تفسیر لکھنا صرف مولویوں کی اجارہ داری ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے مولویوں کو قرآن کی تفسیر لکھنے کا ٹھیکہ دے دیا ہے، وغیرہ۔
مسلمانوں کا عجیب مزاج ہے۔ ان کا ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میں ہر کام کرنے کا اہل ہوں۔ وہ نہایت آسانی سے ایک ایسا کام شروع کردیتا ہے، جس کے لیے ضروری علمی لیاقت اس کے اندر موجود نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان بے شمار کتابیں لکھ لکھ کر چھاپ رہے ہیں، مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی کتاب میںواقعۃً قابل مطالعہ مواد پایا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کو بے کار نہیںبنایا۔ ہر آدمی کسی خاص کام کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ہر آدمی کے اندر فطری طورپر یہ استعداد موجود ہے کہ وہ کوئی بڑا کام کرسکے، بڑا کام شہرت کے اعتبار سے نہیں بلکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ہے۔ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو جانے۔ وہ بے لاگ غور وفکر کے ذریعہ اس بات کو دریافت کرے کہ اس کو خدا نے کسی خاص کام کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ محنت کا ہے۔
اپنے لیے صحیح ترین میدان کا تعین اور اس میدان میںمکمل جدوجہد، ان دو شرطوں کو پورا کیے بغیر ایک شخص کوئی قابل لحاظ کام نہیں کرسکتا۔ جو شخص اپنی زندگی کو کارآمد بنانا چاہتاہو اس پر لازم ہے کہ وہ ان دو شرطوں کو پورا کرے۔
7 جون 1985
خشکی کے اکثر جانور پانی میں تیرنا جانتے ہیں۔ وہ بآسانی ندی کے اِس طرف سے اُس طرف تیر کر جاسکتے ہیں۔ ان جانوروں کو یہ تیرنا کس نے سکھایا۔ جواب ہے کہ قدرت نے، یعنی وہ اپنی مقرر کردہ جبلت (instinct) کے تحت تیرتے ہیں۔
جانور جس طرح تیرنے کا ملکہ پیدائشی طورپر لے کر آتا ہے اسی طرح اپنی ضرورت کی دوسری چیزوں کو بھی وہ پیدا ہوتے ہی جان لیتا ہے۔ مثلاً گھر کیسے بنایا جائے۔ دشمنی سے کیسے بچا جائے۔ کون سی خوراک کھائی جائے اور کون سی خوراک نہ کھائی جائے۔ توالد و تناسل کے لیے کیا کیا جائے، وغیرہ۔ یہ سب باتیں ہر جانور پیدائشی طورپر جانتا ہے۔
انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ انسان کو ہر بات سیکھنی پڑتی ہے۔ گھر کے اندر اور گھر کے باہر کی دنیا اس کے لیے تعلیم گاہ ہوتی ہے، جہاں وہ اپنی ضرورت کی تمام باتوں کو سیکھتا ہے۔جانور اورانسان کے درمیان یہ فرق بتاتا ہے کہ دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ جانور اپنے اعمال کے لیے جواب دہ نہیں۔ مگر انسان اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہے۔ انسان کا جواب دہ (accountable) ہونا خود انسان کی اپنی بناوٹ سے ثابت ہورہاہے۔
8 جون 1985
برطانی قوم کا ایک بڑا عجیب واقعہ ہے، جس میںدوسروں کے لیے زبردست سبق پایا جاتا ہے۔ سیکنڈ ورلڈ وار (1939-45) میں برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر ونسٹن چرچل (1874-1965) تھے۔ انھیں کی قیادت میں برطانیہ نے اس جنگ میںفتح حاصل کی تھی۔ مگر جنگ کے فوراً بعد جب برطانیہ میں الکشن ہوا تو اہل برطانیہ نے مسٹر چرچل کو الکشن میں شکست دے کر مسٹر کلیمنٹ اٹلی (1883-1967)کو ملک کا وزیر اعظم بنادیا۔ فاتح کو عین ا س کی فتح کے بعد معزول کردیا گیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت برطانیہ عظمی کے نوآبادیاتی علاقوں میں آزادی کی تحریک اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ جنگ کے بعد برطانیہ اس قابل نہ تھا کہ وہ ہندستان اور دوسرے نو آبادیاتی ممالک میں بزور اپنا اقتدار قائم رکھ سکے۔ برطانیہ کے باشعور طبقہ نے یہ فیصلہ کیا کہ نو آبادیاتی ممالک کو آزاد کردیا جائے۔ اس عمل کے لیے متشدد چرچل موزوں نہ تھے۔ بلکہ صلح پسند اٹلی موزوں تھے۔ چنانچہ اہل برطانیہ نے فاتح ہونے کے باوجود چرچل کو اقتدار سے ہٹا دیا اور مسٹر اٹلی کو ان کی جگہ ملک کا وزیر اعظم بنا دیا۔
مہاتما گاندھی (1869-1948) اور ہندستان کے دوسرے لیڈروں کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا، اور اسی کے نتیجہ میں ملک بسہولت آزاد ہوگیا۔ مگر مہاتما گاندھی اور ان کے ساتھیوں نے خود اپنے لیے اس سے کوئی سبق نہیں لیا۔ہندستان میں جنگ آزادی کی قیادت شمالی ہند نے کی تھی۔ اس کے نتیجہ میں شمالی ہند کے لوگوں میں غیر معتدل قسم کا سیاسی مزاج بلکہ تخریبی مزاج پیدا ہوگیا۔ اس کے مقابلہ میں جنوبی ہند کا مزاج بالکل مختلف تھا۔ شمالی ہند میں اگر انتہا پسندانہ سیاست کا مزاج تھا تو جنوبی ہند میں مخصوص اسباب کے تحت حقیقت پسندانہ تعمیر کا مزاج۔
ان حالات میں مہاتما گاندھی کے لیے صحیح ترین بات یہ تھی کہ وہ آزاد ہندستان کا وزیر اعظم جنوبی ہند کے کسی شخص کو بنائیں۔ خوش قسمتی سے اس وقت کے جنوبی ہند میں سی راج گوپال اچاریہ (Chakravarti Rajagopalachari, 1878-1972) جیسا عظیم لیڈر موجود تھا۔ مگر مہاتماگاندھی نے جواہر لال نہرو کو آزاد ہندستان کا وزیر اعظم بنادیا۔ جن لوگوں نے جنگ کی قیادت کی تھی انھیں کو مہاتما گاندھی نے تعمیر کی قیادت بھی سونپ دی۔
مہاتما گاندھی نے آزادی ہند کی تحریک نہایت کامیابی کے ساتھ چلائی تھی مگر اسی کامیابی کے ساتھ وہ تعمیر ہند کی تحریک کی رہنمائی نہ کرسکے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر مہاتما گاندھی نے شمالی ہند کے جواہر لال نہرو کے بجائے جنوبی ہند کے راجہ گوپال آچاریہ کو ملک کا وزیر اعظم بنایا ہوتا تو آج ہندستان کی تاریخ یقینی طور پر بالکل دوسری ہوتی۔
10 جون 1985
اقبال نے کہا تھا کہ مارکسزم جمع خدا، برابر اسلام:
Marxism + God = Islam
اسی بات کو ایک اور شخص نے زیادہ بھونڈے انداز میں اس طرح کہا ہے:
اسلام لنگڑا تھا، مارکسزم نے اس کو اس کا دوسرا پاؤں عطا کیا ہے۔
اس قسم کی باتیں جو لوگ کرتے ہیں، خواہ وہ اقبال ہوںیا غیر اقبال، ان کے متعلق میرا خیال یہی ہے کہ انھوں نے نہ مارکسزم کا گہرا مطالعہ کیا تھا، اور نہ اسلام کا۔ اگر وہ مارکسزم اوراسلام کو گہرائی کے ساتھ جانتے تو ہرگز وہ اس قسم کی بات نہیں کہتے۔
اقبال نے تہذیب حاضر کو خارجی مظاہر کی چمک (dazzling exterior) کہا تھا۔ ان کا مشہور شعرہے:
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
مگر مجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ وہ خود بھی اسی جھوٹے نگوں کی چمک کا شکار رہے ۔اقبال کا مذکورہ فارمولا اور اسی طرح ان کے دوسرے بہت سے خیالات اس کی مثال ہیں۔ مثلاً جنت اور دوزخ کے بارے میں اقبال نے اپنے خطبات میں لکھا ہے:
Heaven and Hell are states, not localities.
یعنی جنت اور جہنم احوال ہیں، مقامات نہیں۔ اس طرح کی اور کئی باتیں ہیں، جو ظاہر کرتی ہیں کہ شاعرانہ تک بندیوں میں تو ضرور انھوںنے تہذیب حاضر کی مذمت کی، مگر ان کا حقیقی شعور تہذیب حاضر سے بلند ہو کر نہ سوچ سکا۔ وہ خود بھی تہذیب حاضر کی ظاہری چمک میں گم ہو کر رہ گئے۔
11جون 1985
پاکستان کے سابق وزیر اعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو (1928-1979) کا نعرہ یہ تھا:
اسلام ہمارا دین،
جمہوریت ہماری سیاست،
سوشلزم ہماری معیشت ہے
مسٹر بھٹو کے اس نعرہ پر پاکستان کے مذہبی طبقہ کو سخت اعتراض تھا۔وہ کہتے تھے کہ مسٹر بھٹو نے اسلام کو تین حصہ میں بانٹ دیا ہے۔ ایک اسلام، دوسرے جمہوریت، تیسرے سوشلزم۔ جب کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا تعلق ہر شعبہ زندگی سے ہے۔ اس میں کسی قسم کی تقسیم نہیں کی جاسکتی۔ مسٹر بھٹو ایک بدنام شخص تھے۔ ان کی تقسیم فوراً لوگوں کو نظر آگئی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خود مذہبی طبقہ اس طرح تین تقسیم پر اپنے کو راضی کیے ہوئے ہے۔ اگر چہ اس کے الفاظ اس سے مختلف ہیں، جو مسٹر بھٹو نے استعمال کیے تھے۔
مذہبی افراد کی تقسیم کو اگر ہم لفظوں میں ظاہر کرنا چاہیں تو اس کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
اسلام ہمارا دین ہے،
خودنمائی ہماری سیاست،
ذاتی مفاد ہماری معیشت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا میں ہر شخص کا نظریہ حیات ایک ہی ہے، خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی۔ ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں جو فرق ہے وہ الفاظ کا ہے، نہ کہ حقیقت کا۔ہر آدمی اپنے حسب حال الفاظ بولتا ہے۔ ہر لیڈر اس نعرہ کو اختیار کرلیتا ہے جو اس کے لیے مفید مطلب (convenient) ہو۔ اگر کئی الفاظ کو ایک لفظ میں سمیٹنا چاہیں تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آج کی دنیا میں ہر شخص کا دین صرف ایک ہے، اور وہ ہے استحصال(exploitation)۔ بولے ہوئے الفاظ میں لوگوں کے دین ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
13 جون 1985
صحابۂ کرام نے جو حدیثیں بیان کی ہیں وہ سب کی سب براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی نہیں ہیں۔ ان میںایسی حدیثیں بھی ہیں جن کو ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے سنا اور صحابی کا نام لیے بغیر حدیث کو بیان کردیا۔ براء بن عازب (وفات 72 ھ)کہتے ہیں:مَا کُلُّ مَا نُحَدِّثُکُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ ، صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمِعْنَاہُ مِنْہُ، مِنْہُ مَا سَمِعْنَاہُ، وَمِنْہُ مَا حَدَّثَنَا عَنْہُ أَصْحَابُہُ ، وَنَحْنُ لَا نُکَذِّبُ(فوائد الفریابی، اثر نمبر 34)۔ یعنی جو کچھ ہم تمھارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، وہ ہم نے آپ سے نہیں سنا۔ کچھ ہم نے آپ سے سنا ہے، اور کچھ اصحابِ رسول نے (آپ سے سن کر)بیان کیا ہے، اور ہم جھوٹ نہیں بولتے ہیں ۔
اس قسم کی روایت کو اصطلاح حدیث میں مرسل حدیث کہتے ہیں اور علما کا اتفاق ہے کہ صحابی کی مراسیل قابل اعتبار ہیں۔ امام موفق الدین عبد اللہ بن احمد بن قدامی المقدسی کہتے ہیں:مراسیل اصحاب النبی صلى اللہ علیہ و سلم مقبولة عند الجمہور (روضۃ الناظر وجنۃ المناظر، صفحہ 125)۔ یعنی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمہور کے نزدیک مقبول ہیں۔
14 جون 1985
مولانا الطاف حسین حالی (1914۔1837) اور ڈاکٹر محمد اقبال (1877-1938) دونوں تقریباً ہم زمانہ ہیں۔ دونوں نے اشعار کےذریعے قوم کو پیغام دیا۔ مگر اقبال کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ حالی کو حاصل نہ ہوسکی۔
حالی کی ’’مسدس حالی‘‘ بلاشبہ ایک بہترین نظم ہے۔ میرے نزدیک وہ اقبال کے اشعار سے زیادہ اہم ہے۔ اس کے باوجود کیوں حالی کو وہ مقبولیت نہیں ملی جو اقبال کو ملی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حالی کا کلام احتساب خویش (self-introspection)ہے، اور اقبال کا کلام احتساب غیر۔ حالی کا کلام درسِ عمل ہے، اور اقبال کا کلام درسِ فخر۔ حالی کے کلام میں کرکے پانے کا سبق ہے، اور اقبال کے یہاں کیے بغیر شاعرانہ ترنگوں (جذبات) میں سب کچھ مل رہا ہے۔ حالی بتاتے ہیں کہ تم دوسروں سے پیچھے ہوگئے ہو۔ اقبال یہ شراب پلاتے ہیں کہ تم سب سے آگے ہو، حتی کہ تمھارا وہ مقام ہے کہ خدا بھی تمھارے الفاظ کا انتظار کررہا ہے:
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
حالی نے حقیقت پسندی کا سبق دیتے ہوئے کہا :
صدا ایک ہی رُخ نہیں ناؤ چلتی چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
اس کے برعکس، اقبال نے پر فخر طورپر اعلان کیا:
حدیثِ بے خبراں است کہ بازمانہ بساز زمانہ باتو نہ سازد تو بازمانہ ستیز
یعنی بے خبروں کی نصیحت ہے کہ اگرزمانہ تمہارے خلاف ہو تو تم بھی بدل کرزمانے کے ساتھ ہو جاؤ، اگرزمانہ ساتھ نہیں دیتا تو تم زمانے سے لڑکرزمانہ کو بدل دو۔
امت نے اقبال کی بات کو پکڑ لیا ، مگر خلاف زمانہ حرکت (anachronism) سے صرف امت کے نقصان میں اضافہ ہوا، اس سے امت کو کوئی مثبت فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔قوم نے اگر حالی کے پیغام کو پکڑا ہوتا تو آج یقیناً اس کی تاریخ دوسری ہوتی۔ مگر قوم کی اکثریت اقبال کا کلام گنگناتی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نصف صدی کے بعد بھی قوم کے پاس جھوٹے فخر اور خیالی پرواز کے سوا اور کوئی سرمایہ نہیں۔
15 جون 1985
مسلمانوں نے پچھلے دو سو برس کے اندر کوئی بھی ٹھوس تعمیری کام نہیں کیا۔ موجودہ زمانہ کا سب سے بڑا مسئلہ عقلی نقطۂ نظر کا غلبہ تھا۔ موجودہ زمانہ میں عقلی نقطۂ نظر نے ایک فکری انقلاب پیدا کیا ہے۔ اس انقلاب نے دینی عقائد کو دور جاہلیت کی چیز قرار دے کر ان کو تاریخ کے خانہ میں ڈال دیا۔ یہاں ضرورت تھی کہ مسلمان اٹھیں اور دینی عقائد اور تعلیمات کو دوبارہ عقلی بنیاد فراہم کریں۔ مگر اس پوری مدت میں منفی ہنگاموں کے سوا مسلمان اور کچھ نہ کرسکے۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ زمانے میں تبدیلی واقع ہوئی اور دینی عقائد کو دوبارہ عقلی بنیاد فراہم ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے۔ مگر یہ کام تمام تر عیسائی اور یہودی علماء نے انجام دیا۔ اس میں مسلمانوں کا ایک فی صد حصہ بھی نہیں۔جدیدسائنس نے خدا کو کائنات کے نقشہ سے حذف کردیا تھا۔ اب دوبارہ خدا کائنات کے نقشہ میں نظر آرہا ہے مگر اس عمل کو انجام دینے والے وہ لوگ ہیں، جن کے نام جیمز جینز اور اڈنگٹن جیسے ہیں۔
یہی معاملہ تمام دینی تعلیمات کا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ دنیا میں دوسرے الہامی مذاہب (عیسائیت، یہودیت) بھی موجود تھے۔ اسلام اور ان مذاہب کے درمیان تعلیمات اور تاریخی شخصیتوں کا اشتراک ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنی تعلیمات اور اپنی تاریخ کو عقلی اور سائنسی طورپر معتبر ثابت کرنے کے لیے جو تحقیقات کیں اس کا فائدہ بالواسطہ طورپر اسلام کے حصہ میں بھی آگیا۔ مثلاً علم الآثار کی تحقیق جس نے قرآن میں مذکور اقوام اور شخصیتوں کو تاریخ کی روشنی عطا کی۔ نظریۂ ارتقا کی تردید جس نے خالق کے عقیدہ کو دوبارہ بحال کیا۔ عورت اور مرد کے درمیان حیاتیاتی فرق کو ثابت کرنا جس نے خاندان کے بارے میں اسلامی قوانین کو دوبارہ اعتباریت (credibility) عطا کی۔ حتی کی اسلام کی قدیم عربی کتب کو مخطوطات کے دور سے نکال کر مطبوعات کے دورمیں داخل کرنا بھی انھیں عیسائیوں اور یہودیوں کا کارنامہ ہے۔ غالباً یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کے بعد سب سے زیادہ جس زبان میں اعلیٰ لٹریچر موجود ہے، وہ انگریزی زبان ہے۔ اس سلسلہ کی ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سیرت کی مستند کتاب ،سیرت ابن ہشام کا مکمل ترجمہ پہلے انگریزی میں ہوا اور اس کے بہت دیر بعد کسی مسلم زبان میں۔
17 جون 1985
ہندستان ٹائمس میں ایک ہندو کا خط چھپا ہے۔ یہ خط ہندستان کے مسلمانوں کے معاملا ت سے متعلق ہے۔ مسلمان اس خط کو پسند نہیں کریں گے مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ خط صد فی صد (100%) درست ہے، وہ مسلمانوں کی حالت کی صحیح ترین ترجمانی ہے۔ہندو مکتوب نگا رنے لکھا ہے کہ ہندستان کے مسلمان اپنی زبوں حالی کا الزام ہندوؤں کو دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذمہ دارتمام تر خود مسلمان ہیں۔ اس نے مسلمانوں کی لیڈر شپ کو مسلمانوں کی بد حالی کا واحد ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
مکتوب نگار کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی بد حالی کا سبب یہ ہے کہ ان کے لیڈروں میں خود نمائی (self-glorification)کا جذبہ ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے تمام لیڈر خود نمائی (self glory) کے مرض میں مبتلارہے۔ وہ انھیں چیزوں میں دوڑتے ہیں جس میں نیوز ویلو ہو، جس میں ان کی ذات کو شہرت اور بڑائی حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی لیڈر (سرسید کے واحداستثنا کے سوا) اس پورے دور میں کوئی حقیقی تعمیری کام (constructive) نہ کرسکا۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو اپنی بدحالی کا ذمہ دار اپنے آپ کوقرار دینا چاہیے، دوسروں کی شکایت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔
مجھے مذکورہ ہندو مکتوب نگار کی رائے سے صد فی صد (100%) اتفاق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے اصل دشمن خود ان کے اپنے لیڈر ہیں۔ ان لیڈروں نے اپنی شخصی لیڈری کی خاطر قوم کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلمان جب تک اس اصل سبب کا اعتراف نہ کریں، وہ موجودہ زمانے میں اپنی جگہ حاصل نہیں کرسکتے۔
18 جون 1985
قدیم عرب کے لوگ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے حیرت انگیز تھے۔ ان کی مختلف صلاحیتوں میں سے ایک اعلیٰ صلاحیت یہ تھی کہ وہ کم الفاظ میں نہایت با معنی بات کہنا جانتے تھے۔
جنگ جمل کے زمانہ میں حضرت علی نے دو آدمیوں کو کوفہ بھیجا کہ وہ ان کو تعاون پر آمادہ کریں۔ اس سلسلہ میں ایک روایت ان الفا ظ میں آئی ہے:لَمَّا بَعَثَ عَلِیٌّ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ وَالْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ إِلَى الْکُوفَةِ لِیَسْتَنْفِرَہُمْ ،خَطَبَ عَمَّارٌ فَقَالَ:إِنِّی لَأَعْلَمُ أَنَّہَا زَوْجَتُہُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ،وَلَکِنَّ اللہَ ابْتَلَاکُمْ بِہَا ، لَیَنْظُرَ إِیَّاہُ تَتَّبِعُونَ أَوْ إِیَّاہَا(السنن الکبریٰ للبیہقی، اثرنمبر 16717)۔ یعنی جب علی ابن ابی طالب نے عمار اور حسن کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ انھیں جنگ میں نکلنے کے لیے ابھاریںتو عمار نے تقریر کرتے ہوئے کہا: میں جانتا ہوں کہ عائشہ دنیا اور آخرت میں تمھارے پیغمبر کی بیوی ہیں۔ مگر اللہ نے اس کے ذریعہ سے تم کو آزمایا ہے تاکہ دیکھے کہ تم علی کا ساتھ دیتے ہو یا عائشہ کا— اتنی نازک بات کواس سے زیادہ کم الفاظ میں شاید نہیں کہا جاسکتا۔
19 جون 1985
ہر دو آدمی کے درمیان ان کا خدا کھڑا ہوا ہے۔ خدا ہر وقت ہر آدمی کی بات سن رہا ہے تاکہ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان انصاف کرے۔
اگر آدمی کو اس واقعے کا احساس ہو تو اس کا وہی حال ہوگا، جو ایک آدمی کا عدالت میں ہوتا ہے۔ عدالت میںہر آدمی بالکل ناپ تول کر بولتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اگر کوئی بات خلاف قاعدہ منھ سے نکل گئی تو وہ فوراً عدالت کی پکڑ میںآجائے گا۔ اسی طرح اللہ پر عقیدہ رکھنے والا جو کچھ بولتا ہے، اس احساس کے تحت بولتا ہے کہ خدا اس کو سن رہا ہے۔ یہ احساس اس کو مجبور کردیتا ہے کہ وہ کوئی غلط بات اپنے منھ سے نہ نکالے۔
انسان سے اگر غلطی ہوجائے اور وہ فوراً اس کا اعتراف کرلے توگویا کہ اس نے خدا کے سامنے اعتراف کیا۔ اور اگر وہ غلطی کا اعتراف نہ کرے تو گویا کہ اس نے خدا کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ سارا معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ لوگ معاملات کو انسان کا معاملہ سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ سرکشی اور بے انصافی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ غلطی کرکے بھی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے۔
میرا مزاج یہ ہے کہ اگر میں کوئی خلافِ حق بات کہہ دوں اور اس کے بعد مجھے معلوم ہو کہ یہ بات حق کے خلاف تھی تو میں اس کو افورڈ (afford )نہیں کرسکتا کہ میں اس کا اعتراف نہ کروں۔ میں حق کے آگے جھک نہ جاؤں۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا خود ظاہر ہو کر میرے سامنے آیا اور کہا کہ میرے سامنے جھک جا اس کے باوجود میں خدا کے سامنے نہیں جھکا— حق کے سامنے نہ جھکنا ایسا ہی ہے گویا کسی کے سامنے خدا آیا، ا ور وہ اس کے سامنے نہیں جھکا۔
20 جون 1985
ایک شخص نے اپنا دل چسپ تجربہ ان الفاظ میں لکھا ہے:
“A fast way of becoming a millionaire”, read the ad in the newspapers. “For further particulars send a self-addressed stamped envelope along with Rs. 1". Intrigued, I sent off the money and received the following reply: “Start a scheme just like this one.” (Dilip Rendalkar, Secunderabad)
’’جلد کرورپتی بننے کا طریقہ‘‘ اس عنوان سے میںنے اخبارات میں ایک اشتہار پڑھا۔ اسی کے ساتھ اشتہارمیں یہ درج تھا کہ مزید تفصیلات کے لیے اپنا پتہ لکھے ہوئے لفافہ کے ساتھ ایک روپیہ بھیجیں۔ میرا اشتیاق بڑھا۔ میںنے مطلوبہ رقم بھیج دی۔ اس کے بعد مجھے ایک جواب ملا، جس میں یہ لکھا تھا— اسی طرح کی ایک اسکیم آپ بھی شروع کردیجیے۔
تجارت کے دو طریقے ہیں۔ ایک معروف تجارت، اور دوسری وہ جس کو جھوٹی امیدوں کی تجارت (false hopes business) کہا جاسکتا ہے۔ مذکورہ واقعہ "جھوٹی امیدوں کی تجارت" کی ایک دلچسپ مثال ہے۔
جھوٹی امیدوں کے بزنس کے سب سے بڑے تاجر موجودہ زمانہ میں ہمارے لیڈر ہیں۔ یہ لیڈر ایک بڑی سی امید دلا کر قوم کو اکسائیں گے۔ قوم ان کے الفاظ سے متاثر ہو کر دوڑ پڑے گی۔ وہ انھیں چندہ دے گی۔ ان کے جلسوںمیں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر ان کی امیج (image)بڑھائے گی۔ حتی کہ بے شمار لوگ ان کے الفاظ کے فریب میں آکر گولیاں کھائیں گے، اور اپنے کو برباد کریں گے۔
اس کے نتیجہ میں لیڈر کی لیڈری چمک اٹھے گی۔ اس کی قیادت کا شان دار مینار کھڑا ہوجائے گا۔ مگر قوم کے حصہ میں کچھ بھی نہ آئے گا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے مذکورہ مثال میں لاکھوںآدمیوںنے اپنی جیب کی رقم کھو کر ایک شخص کو دولت مند بنا دیا، مگر خود کھونے والوںکے حصہ میں کچھ بھی نہ آسکا۔
21 جون 1985
چھوٹی انسائیکلو پیڈیا (ایک جلد والی) میں سے ایک وہ ہے جس کا نام ہے:
Pears' Cyclopaedia (London)
اس انسائیکلو پیڈیا میں مونو تھیئزم کے آگے حسب ذیل الفاظ لکھے ہوئے ہیں— توحید اس اصول کا نام ہے کہ یہاں صرف ایک خدا کا وجود ہے۔ خاص توحیدی مذہب عیسائیت ہے:
Monotheism, the doctrine that there exists but one God. The chief monotheistic religion is Christianity.
یہ انسائیکلو پیڈیا کا وہ ایڈیشن ہے جو 1948 میں چھپا تھا۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے مغربی دنیا میں جو لٹریچر تیار ہوا، اس میں اسی طرح اسلام کو حذف کردیا گیا تھا۔ اپنی اصل کے اعتبارسے بلاشبہ تمام مذاہب توحید کے مذاہب تھے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آج خالص توحیدی مذہب اسلام ہے۔ کیوں کہ دوسرے مذاہب اپنی ابتدائی حالت میں باقی نہیں ہیں۔
مغربی علما نے اب اپنی اس روش پر نظر ثانی شروع کردی ہے۔چنانچہ 1977 میں شائع ہونے والی ایک انسائیکلو پیڈیا— Collins Concise Encyclopedia (Glasgow) میں اس سلسلہ میں حسب ذیل الفاظ لکھے گئے ہیں کہ توحید اس عقیدہ کا نام ہے کہ یہاں صرف ایک خدا ہے جیسا کہ یہودیت اور عیسائیت اور اسلام میں مانا جاتاہے:
Monotheism, belief that there is only one God, as in Judaism, Christianity and Islam.
22جون 1985
اخبار ملاپ (نئی دہلی) آریہ سماجی حضرات کا اخبار ہے۔ اس میںایک بار ایک لطیفہ چھپا۔ وہ یہ تھا— ایک ہندو ایک بار اپنے ایک ہندو دوست کے یہاں گیا جو کٹر مذہبی تھا۔ میزبان نے کافی دیر تک کھانا پکوایا۔مہمان کا بھوک سے برا حال ہورہا تھا۔ آخر کار کئی گھنٹہ کے بعد میزبان نے کہا کہ اندر چلیے۔ وہ ان کے ساتھ اندر کی طرف چلے۔ یہاں تک کہ دونوں اس کمرے کے سامنے پہنچے جس کے اندر کھانا رکھا ہوا تھا۔ مہمان حسب عادت چلتاہوا اس طرح کمرہ میں داخل ہوا کہ پہلے چوکھٹ کو پار کر کے ایک پاؤں کمرے میں رکھا اور پھر اس کے بعددوسرا پاؤں۔ یہ دیکھ کر میزبان بگڑ گیا۔ اس نے کہا کہ تم نے سارا کھانا بھرشٹ کردیا۔ مہمان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے کیا غلطی کی ہے۔ میزبان نے کہا کہ تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ تم نے سارا کھانا خراب کردیا۔ اب اس کو نہ تم کھاسکتے نہ میں کھاسکتا۔ مہمان جو بھوک سے بے تاب تھا، اس نے حیرانگی کے عالم میں پوچھا کہ آخر مجھ سے کیا غلطی ہوگئی ہے۔ میزبان نے کہا کہ تم رسوئی گھر میں ایک پاؤں آگے ایک پاؤں پیچھے کرکے داخل ہوگئے۔ تم کو یہ کرنا چاہیے تھا کہ دونوں پاؤں برابر کرکے ملاتے اس کے بعد چوکھٹ کے اوپر سے کود کر کمرے میں داخل ہوتے۔
مشرکانہ مذاہب میں اس قسم کی ظاہری رسموں کی بے حد اہمیت ہوتی ہے۔ بلکہ مشرکانہ مذہب سارا کا سارا رسوم ورواج ہی کے اوپر قائم ہوتاہے۔
24 جون 1985
مسلمانوں کے ایک قائد نے ہندستانی مسلمانوں کی پس ماندگی کا ذمہ دار ہندوؤں کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ آزادی کے بعد مسلسل مسلمانوں کے ساتھ امتیاز کیا جارہا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ ان چیزوں کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر دفاعی ذہن پیداہوگیا ہے۔ ان کے اندر وہ مثبت ذہن پیدا نہیں ہوتا جو تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے ہندو جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی کارروائیوں کا سلسلہ بند کریں تاکہ مسلمان تعمیر و ترقی کی راہ میں آگے بڑھ سکیں۔
میں کہوں گا کہ مسلمانوں کی تعمیر کی راہ میں اصل رکاوٹ ہندو صاحبان نہیں ہیں بلکہ مذکورہ بالا قسم کے مسلم قائدین ہیں، جو مسلمانوں میں صحیح ذہن پیدا نہیں ہونے دیتے۔ یہ قائدین مستقل طورپر ایک ہی کام کررہے ہیں، اور وہ ہے ذہن کو بگاڑنا۔ ا س دنیا میں رکاوٹوں کے باوجود کام کیا جاتا ہے، نہ کہ رکاوٹوں کے بغیر۔ یہ دنیا کبھی رکاوٹوں سے خالی نہیں ہوسکی۔ اسی لیے رکاوٹوں کی شکایت کرنا ہی بے معنی ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم رکاوٹوں کے اندر سے اپنے لیے امکان تلاش کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے لیے مکہ اور مدینہ میں جو رکاوٹیں تھیں، وہ ہماری رکاوٹوں سے ایک کرور گنا زیادہ تھیں۔ اس کے باوجود انھوں نے ’’تعمیر وترقی‘‘ کے کام کی صورتیں نکالیں۔ حتی کہ انھوں نے تاریخ کے رخ کو بدل دیا۔ اگر وہ قریش اور یہود اور منافقین سے مطالبہ کرتے کہ ہمارے راستہ کی رکاوٹیں ختم کرو تاکہ ہم تعمیری کام انجام دے سکیں تو نہ کبھی رکاوٹیں ختم ہوتیں، اور نہ کبھی تعمیری کام کا آغاز ہوتا۔
ہمارے قائدین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو رکاوٹوں کے باوجودکام کرنے کا سبق دیں۔ رکاوٹوں کے بغیر کام کا جو نسخہ وہ پیش کررہے ہیں، وہ کسی خیالی جزیرہ میں ممکن ہوسکتاہے۔ موجودہ مقابلہ کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔
25 جون 1985
زندگی بے حد مشکل امتحان ہے۔ اس مشکل کا ایک پہلو یہ ہے کہ اکثر معاملات میں آدمی کو کٹھن فیصلہ لیناہوتا ہے، کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف۔ یہ طے کرنا کہ کب کس رُخ پر اقدام کیا جائے، یہ بے حد نازک اور مشکل کام ہے، بلکہ شاید اکثر اوقات میں انسانی عقل سے باہر۔ کیوں کہ صحیح فیصلہ لینے کے لیے مستقبل کو جاننے کی ضرورت ہوتی ہے، اور مستقبل کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فیصلہ وہ ہے جو آپ نے صلح حدیبیہ کے وقت لیا اور دوسرا فیصلہ وہ ہے جو آپ نے فتح مکہ کے وقت لیا۔ دونوں دو انتہائی فیصلے تھے۔ صلح حدیبیہ کے وقت مکمل طورپر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا گیا اور فتح مکہ کے سفر میں مکمل طورپر آگے بڑھنے کا۔ دونوں انتہائی فیصلے تھے۔پیغمبر کا فیصلہ خدا کی وحی کی بنیاد پر تھا، اس لیے پیغمبر اسلام کے لیے ممکن تھا کہ وہ اس طرح کے انتہائی کٹھن معاملے میں صحیح فیصلہ لے سکے۔ مگر عام انسان کے لیے شاید یہ ممکن نہیں کہ وہ اس طرح کے انتہائی کٹھن فیصلے اتنے درست طور پر لے سکے۔ عام آدمی کے لیے ِ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (صحیح البخاری، حدیث نمبر3560)کے مطابق، یہی راستہ ہے کہ وہ ممکن (possible)یا آسان تر کو پہچانے اور اس کو اختیار کرے۔
26 جون 1985
ایک صاحب تھے۔ ان کی کوئی خاص تعلیم نہ تھی۔ اردواخبارات اور اردو ریڈیو سن کر جو معلومات انھیں مل گئی تھیں وہی ان کا کل علمی اثاثہ تھا۔ غریب ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو بھی کسی قسم کی اعلیٰ تعلیم نہ دلا سکے۔
مگر ان صاحب کی ’’انا‘‘ یعنی ایگو (ego)بے حد بڑھی ہوئی تھی۔ وہ اپنے کو سب سے زیادہ قابل سمجھتے تھے۔ ان کا جھوٹا احساسِ برتری کسی کی علمیت تسلیم کرنے میں مسلسل مانع بنا ہوا تھا۔ حتی کہ اپنے جاہل بچوں میں بھی انھوں نے یہی ذہن پیدا کردیا۔ انھوں نے اپنے بچوں کو سکھایا کہ کوئی شخص تم سے کوئی بات پوچھے تو ایسا کبھی نہ کہو کہ ہم کو نہیں معلوم۔ چنانچہ ان کے بچوں کا ،جہالت کے باوجود ، یہ حال تھا کہ کوئی بات کہی جاتی تو فوراً بول اٹھتے: ہماں کو سب معلوم ہے(ہم کو سب معلوم ہے)۔
ایسا ہی کچھ حال موجود زمانہ کے ’’علما‘‘ کا ہوا ہے۔ ان کا مطالعہ نہایت محدود ہوتا ہے مگر ان کا ذہن مخصوص اسباب سے یہ بن جاتا ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔ مدرسوں کے ان پیدا شدہ علما سے گفتگو کیجیے ۔ وہ کبھی یہ نہ کہیں گے کہ یہ بات میں نہیں جانتا۔ وہ ہمیشہ یہ ظاہر کریں گے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ ان علما کو غیر علما بنانے میں سب سے زیادہ دخل ان کی اسی ذہنیت کا ہے۔
’’ہم کو سب بات معلوم ہے‘‘ کا مزاج آدمی کو ہر بات سے بے خبر کررہا ہے، اور موجودہ زمانہ کے علما اس کی عبرت ناک مثال ہیں۔
28 جون 1985
بعض لوگ قرآن میں ’’اختلاف قرأت‘‘ کے مسئلہ کو لے کر قرآن کی حفاظت کو مشتبہ ظاہر کرتے ہیں۔ یہ سراسر مغالطہ ہے۔ان کو جاننا چاہیے کہ قرآن میں اختلافِ قرأت ہے، اختلافِ کتابت نہیں ہے۔ یعنی تمام دنیا کے سارے قرآن ایک ہی طرز پر لکھے جاتے ہیں۔ اس میں کسی کے یہاں کوئی اختلاف نہیں۔ اب جو فرق ہے وہ قرأت کا ہے۔ یعنی قرآن کو پڑھنے میں لوگ کئی آوازوں کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ مثلاً کچھ عرب قبائل رب الناس کو رب النات پڑھتے تھے۔ کچھ لوگ رَبَّک کو رَبّش پڑھتے تھے، وغیرہ(البرھان فی علوم القرآن، جلد 1، صفحہ 220)۔
اختلاف قرأت، بالفاظ دیگر لہجہ کا اختلاف ہر زبان میں ہوتا ہے۔ مثلاً انگریزی کو لیجیے۔ poet کو تمام ملکوں میں اسی طرح لکھا جاتا ہے مگر اس کو پڑھنے میں فرق ہے۔ مثلاً امریکا کے لوگ اس کو پائٹ پڑھتے ہیں اور انگلینڈ کے لوگ پواِٹ کہتے ہیں۔ اسی طرح salt کو ہندستان میں سالٹ کہاجاتا ہے۔ مگر یہی لفظ برطانیہ میں سوٹ کی آواز میں پڑھا جاتا ہے۔ جب کہ لکھنے کے اعتبار سے ہر جگہ اس کو ایک ہی طریقہ سے لکھا جاتاہے۔
قرآن اپنی کتابت کے اعتبار سے بلا شبہ محفوظ ہے، اور صد فی صد(100%) محفوظ ہے۔ اب جو بعض فرق ہے وہ لہجہ اور تلفظ کا فر ق ہے۔ اور لہجہ اور تلفظ کا فرق فطری ہے، وہ نہ ختم ہوتا اور نہ اس سے کوئی خرابی واقع ہوتی ہے۔
29 جون 1985
مستشرقین نے حدیث کو مشتبہ ثابت کرنے کے لیے جن چیزوں کو بنیاد بنایا ہے، ان میں سے ایک حضرت ابو ہریرہ کی کثیر روایات ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ نے ہجرت کے بعد اسلام قبول کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی صحبت غزوہ خیبر کے بعد شروع ہوئی۔ اس اعتبار سے حضرت ابو ہریرہ کی صحبت رسول ان کثیر روایات کے لیے ناکافی ہیں جو ان سے مروی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ کی روایات کی تعداد 5374 ہے، جیسا کہ ابن حزم نے لکھا ہے۔ مگر یہ کثیر تعداد تکرار اسناد کی بنا پر ہے۔ محدثین کا طریقہ ہے کہ وہ احادیث کو طرق روایت کے اعتبار سے شمار کرتے ہیں۔ مثلاً حضرت ابو ہریرہ سے ایک حدیث کو چار آدمیوں نے سنا ہو اور وہ چاروں الگ الگ اس کو بیان کریں تو محدثین کے یہاں یہ ایک حدیث چار حدیث بن جائے گی۔
کچھ لوگوں نے اس کا جائزہ لیا ہے اور تکرار کو حذف کرکے روایات کی تعداد متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب انھوںنے مکررات کو حذف کیا تو روایات ابوہریرہ کی اصل تعداد صرف 1336 رہ گئی۔
اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو منکرین حدیث کا اعتراض بالکل بے حقیقت ثابت ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ حضرت ابوہریرہ کی مدت صحبت کے اعتبار سے 1336 کی تعداد زیادہ نہیں۔ جب کہ یہ ثابت ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اپنے قبیلے سے آکر مدینہ میں رہ گئے تھے اور مسجد نبوی میں قیام کی وجہ سے ان کو رسول اللہ کے ارشادات سننے کا موقع دوسروں سے زیادہ ملا تھا۔
تاریخ کی کتابوں میں ان کے بارے میں اس قسم کے الفاظ آئے ہیں:کَانَ مِن أحفظ أَصْحَاب رَسُول اللہ صلى اللہ عَلَیْہِ وَسلم وألزمہ لَہُ على شبع بَطْنہ وَکَانَت یَدہ مَعَ یَدہ یَدُور مَعَہ حَیْثُ مَا دَار إِلَى أَن مَاتَ رَسُول اللہ صلى اللہ عَلَیْہِ وَسلم(رجال صحیح مسلم لابن مَنْجُوَیہ، جلد2، صفحہ403، اثر نمبر 2161)۔ یعنی وہ اصحاب رسول میں سب سے زیادہ (حدیث کے) حافظ تھے، وہ بھوکے رہ کر بھی سب سے زیادہ آپ کے ساتھ رہے ، انھوں نے آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ڈالا، اور جہاں آپ گئے وہاں وہ گئے، یہاں تک کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔
1 جولائی 1985
اقبال نے نصف صدی سے بھی پہلے پر فخر طورپر یہ شعر کہا تھا:
ایک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو لاہور سے تاخاک بخارا وسمرقند
اقبال کی موت (1937)کے تقریباً دس سال بعد ان کا یہ خواب بھی پورا ہوا کہ ایک آزاد مسلم اسٹیٹ (an independent Muslim State) پاکستان کے نام پر قائم ہوگیا۔ اقبال اگر مفکر پاکستان تھے تو جناح معمار پاکستان۔ قیام پاکستان کے بعد مسٹر محمد علی جناح نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ خدا نے ہم کو ایک سنہرا موقع دیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایک نئی قوم کا معمار ہونے کا اہل ثابت کریں۔ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ دیجیے کہ ہم اپنے آپ کو اس مہم کا اہل ثابت نہ کرسکے:
“God has given us a golden opportunity to prove our worth as architects of a new nation, and let it not be said that we didn’t prove equal to the task.”
پاکستان کے ایک اقبال اور جناح کے مداح لکھتے ہیں’’افسوس کہ علامہ اقبال پاکستان کے قیام سے لگ بھگ دس سال قبل ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ قائداعظم مرحوم بھی قیام پاکستان کے بعد کل ایک سال زندہ رہے۔ ان کے بعد ان کی عظیم تحریک کا ثمرہ دوسروں نے اچک لیا‘‘۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا یہ معاملہ بھی عجیب ہے کہ وہ خوش قسمتی کے ہجوم میں بد قسمتی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ انھوںنے اتنا بڑا مفکر اسلام پیدا کیا ،جس نے سارے عالم اسلام میں نیا ولولہ پیدا کردیا۔ مگر اس نئے ولولہ کا عملی انجام یہ ہے کہ مفکر اسلام کے اپنے وطن (لاہور) میں بھی غیراسلام کے علم بردار اسلام کے علم برداروں کو شکست فاش دیے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں نے موجودہ زمانہ میں بطور خود مفکر اعظم اور قائد اعظم پیدا کرلیے۔ مگر ان اعاظم(اکابر) کی کامیاب تحریکوں کا ثمرہ (result)وہ لوگ اچک لے گئے جو بالکل برعکس ذہن رکھتے تھے۔
2 جولائی 1985
ایس ٹی کو لرج(Samuel Taylor Coleridge, 1772-1834) ایک مشہور انگریزی شاعر ہے۔ اس کی ایک نظم کا عنوان ہے:
The Rhyme of the Ancient Mariner
اس نظم میں شاعر نے دکھایا ہے کہ ایک ملاح اپنے کسی گناہ کے سبب سمندر میںپھنس گیا ہے۔ اس کے پاس پینے کے لیے میٹھا پانی نہیں ہے۔ کشتی کے چاروں طرف سمندر کا پانی پھیلا ہوا ہے۔ مگر کھاری ہونے کی وجہ سے وہ اس کو پی نہیں سکتا۔ وہ پیاس سے بے تاب ہو کر کہتا ہے کہ ہر طرف پانی ہی پانی مگر ایک قطرہ نہیں جس کو پیا جاسکے:
Water, water, everywhere / Nor any drop to drink.
جو حال کولرج کے خیالی ملاح کا ہوا وہی حال امکانی طورپر اس دنیا میں تمام انسانوں کا ہے۔ انسان پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر پانی کا تمام ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جن میں 1/10 حصہ نمک ملا ہوا ہے۔ اس بنا پر سمندر کا پانی اتنا زیادہ کھاری ہے کہ کوئی آدمی اس کو پی نہیں سکتا۔
اس کا حل قدرت نے بارش کی صورت میں نکالا ہے۔ سورج کی گرمی کے اثر سے سمندروں میں تبخیر (evaporation) کا عمل ہوتا ہے۔ سمندر کا پانی بھاپ بن کر فضا کی طرف اٹھتا ہے، مگر مخصوص قانونِ قدرت کے تحت اس کا نمک کا جزء سمندر میں رہ جاتا ہے، اور صرف میٹھے پانی کا جزء اوپر جاتا ہے۔ یہی صاف کیا ہوا پانی بارش کی صور ت میں دوبارہ زمین پر برستا ہے اور انسان کو میٹھا پانی عطا کرتا ہے جس کی اسے سخت ترین ضرورت ہے۔ بارش کا عمل ازالۂ نمک (desalination) کا ایک عظیم آفاقی عمل ہے۔ آدمی اگر صرف اس ایک واقعہ پر غور کرے تو اس پر ایسی کیفیت طاری ہو کہ وہ خداکے کرشموں کے احساس سے رقص کرنے لگے۔
3 جولائی 1985
قرآن میں متعدد مقامات پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ نے دودریا بنائے۔ ان کے درمیان ایک آڑ ہے جس کی وجہ سے وہ آپس میں نہیں ملتے۔
یہ ایک انتہائی حیرت ناک بیان ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت ساری دنیا میں کوئی بھی شخص یہ نہیں جانتا تھا کہ پانی دو قسم کے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے ملے بغیر بہتے ہیں۔ ایسے زمانہ میں قرآن میںاس قسم کی آیت کا ہونا واضح طو رپر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خدائی کتاب ہے۔ کیوںکہ کوئی انسان اس راز سے واقف ہی نہ تھا کہ وہ اس کو بیان کرے۔
موجودہ زمانہ میں تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ بات پانی کے کھار ی پن میں فرق سے پیدا ہوئی ہے۔ انسائکلو پیڈیا برٹانکا میں (Salinity Current) کے تحت درج ہے:
Saline water is denser than fresher water; when two water bodies converge, the more saline of the two flows beneath the less saline. Thus, a river flowing into the sea flows on the surface, sometimes for great distances; the Mississippi, for example, appears as a brown, freshwater stream in the blue waters of the Gulf of Mexico. (EB. VIII, p. 811)
کھاری پانی میٹھے پانی سے زیادہ کثیف (dense) ہوتاہے۔ جب دو پانی ملتے ہیں تو جو دونوں میں سے زیادہ کھاری ہوتا ہے وہ کم کھاری کے نیچے بہتا ہے۔ اس طرح سمندر میں بہنے والا ایک دریا سمندر کی سطح پر بہتا ہے۔ بعض اوقات بہت دور تک مثلاً مسیسپی میکسکو گلف کے نیلے پانی کے اوپر بادامی پانی کی شکل میں بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
4 جولائی 1985
اکثر باتیں بالکل سادہ اور فطری ہوتی ہیں مگران کو غیر ضروری طورپر پراسرار بنا دیا جاتاہے۔ مثلاً روایات میں آتا ہے کہ پیغمبر ابراہیم نے جب مکہ میں بیت اللہ کی تعمیر کی تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ لوگوں کو پکارو ، تاکہ وہ یہاں حج کے لیے آئیں۔حضرت ابراہیم کو اندیشہ ہوا کہ میری آواز ہر جگہ کیسے پہنچے گی۔ خدا نے کہا کہ تم پکارو اور پہنچا نا ہمارا کام ہے( یَا رَبِّ، وَکَیْفَ أُبْلِغُ النَّاسَ وَصَوْتِی لَا یَنْفُذُہُمْ؟ فَقِیلَ:نَادِ وَعَلَیْنَا الْبَلَاغُ)۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے پکار کر کہا کہ لوگو! بیت اللہ کا حج کرنے کہ لیے آؤ۔ پھر پہاڑ جھک گئے اور آپ کی آواز ہر جگہ پہنچ گئی(تفسیر ابن کثیر، جلد5، صفحہ414)۔ اس واقعے کی اصل قرآن میں موجودہے :وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ(22:27) ۔ یعنی اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔
پیغمبر ابراہیم کی یہ بات اگر بالکل لفظی معنوں میں ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر دوبارہ یہ اعلان کرنے کی ضرورت نہ ہوتی :أَیُّہَا النَّاسُ، إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ فَرَضَ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوا(مسند احمد، حدیث نمبر 10607)۔ یعنی اے لوگو، بے شک اللہ تعالی نے تم لوگوں پر حج فرض کیا ہے تو حج کرو۔
حضرت ابراہیم کا اعلان دراصل بات کو کہنے کا ایک اسلوب ہے۔ حضرت ابراہیم کا اعلان پراسس کی تکمیل اعلان نہیں تھا بلکہ وہ پراسس کے آغاز اعلان تھا۔ حضرت ابراہیم کے ذریعہ اس اہم اعلان کا آغاز کیاگیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعلان فرمایا۔ اس کے بعد آپ کی امت کے لوگ نسل در نسل اعلان کررہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے۔
اکثر غلط فہمی اسی لیے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ ایک پراسس کے تحت جاری واقعات کوایک دوسرے سے ملا کر نہیں دیکھتے۔ مثلاً اس معاملہ میں وہ حضرت ابراہیم کے اعلان کو الگ واقعے کی حیثیت سے دیکھیں گے، اور پھر رسول اللہ کےاعلان کو الگ واقعہ سمجھیں گے۔ پھر ان دونوں کو الگ الگ واقعہ سمجھ کر لکھنا اور بولنا شروع کردیں گے۔ یہ غیر علمی نقطہ نظر ہے، اور اکثر حالات میں یہی غیر علمی نقطہ نظر لوگوں کے لیے اصل بات کو سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
5 جولائی 1985
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو حدیثیں وضع کی گئیں اس کے بہت سے محرکات تھے۔ ان میں سے ایک محرک دین کا مذاق اڑانا تھا۔مثلاًیہود ونصاری نے بعض چیزوں کو خودساختہ طور پر اپنا مذہبی شعار بنا لیا تھا۔اس معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ تم ان معاملات میں یہود ونصاری کا انداز اختیار نہ کرو بلکہ اس سے مختلف طریقہ اختیار کرو (خَالِفُوا الْیَہُودَ وَالنَّصَارَى)۔ صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 2186۔
ایک شخص نے اس تعلیم کا مذاق اڑانے کے لیے ایک حدیث گھڑی اور کہا:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَا تَقْطَعُوا اللَّحْمَ بِالسِّکِّینِ فَإِنَّہُ مِنْ صَنِیعِ الْأَعَاجِمِ( سنن ابوداؤد، حدیث نمبر3778) ۔ یعنی گوشت کو چھری سے نہ کاٹو، کیوں کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے۔ پیغمبرِ  اسلام نے مذہبی شعار میں تشبہ سے منع کیا تھا۔ مگر کہنے والے نے ایک خود ساختہ مثال کے ذریعے اس کو مضحکہ خیز بنا دیا۔ اس قسم کی لاکھوں حدیثیں وضع کرکے لوگوں کے اندر پھیلا دی گئیں۔ تاہم اس سے دین محفوظ کو کوئی خطرہ نہیں۔
عباسی خلیفہ ہارون رشید (148-193ھ)کا واقعہ ہے۔ اس نے ایک حدیث وضع کرنے والے کو موت کی سزا دی تو اس نے کہاتھا:فأین أنت من ألف حدیثٍ وضعتُہا على نبیِّک؟ فقال لہ:أین أنت یا عدوَّ اللہ من أبی إسحاقَ الفَزاریّ وابن المبارک؟ فإنہما یتصفَّحانہا فیُخرجانہا حرفًا حرفًا (مرآة الزمان فی تواریخ الأعیان، جلد 13، صفحہ 117)۔ یعنی تم کیسے ایک ہزار حدیثوں کو نکالوگے، جو میں نے تمھارے نبی پر گڑھی ہے۔ تو ہارون رشید نے کہا اللہ کے دشمن تم ابو اسحاق الفزاری، اور ابن المبارک سے بچ نہیں سکتے، وہ دونوں اس کو غور سے دیکھیں گے، اور اس کو ایک ایک حرف کرکے نکال دیں گے۔یہ معاملہ صرف دو محدثین تک محدود نہیں ہے، ہارون رشید نے اس زمانے میں جاری ایک پراسس کی خبر دی، جس کو کثیر تعداد میں محدثین انجام دے رہے تھے۔
6 جولائی 1985
صحابہ کرام کے اقوال جو کتابوں میں آئے ہیں،وہ حد درجہ حکمت کی باتیں ہیں۔ یہ معلوم ہے کہ کسی صحابی نے بھی کسی یونیورسٹی میں تعلیم نہیں پائی تھی۔ پھر یہ علم ان کے اندر کہاں سے آیا۔ یہ علم ان کے اندر تقویٰ نے پیدا کیا۔ تقویٰ خود علم ہے۔جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اس کا سینہ علم کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ چنانچہ مسروق تابعی نے کہا:کَفَى بِالْمَرْءِ عِلْمًا أَنْ یَخْشَى اللَّہَ(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد6، صفحہ142)۔یعنی آدمی کے علم کے لیے کافی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے۔صحابہ کرام اس علم خاص کی اعلیٰ ترین مثال ہیں۔ حضرت عمر فاروق کا ایک قول ہے:مَنْ کَثُرَ ضَحِکُہُ قَلَّتْ ہَیْبَتُہُ، مَنْ مَزَحَ اسْتُخِفَّ بِہِ(المعجم الکبیر للطبرانی، اثرنمبر 2259)۔ یعنی جو آدمی زیادہ ہنسے اس کا رعب کم ہوجائے گا۔ اور جو شخص ہنسی مذاق کرے گا، وہ لوگوں کی نظر میں ہلکا ہوجائے گا۔
حضرت عمر کے اس قول میں جو حکمت ہے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں۔
8 جولائی 1985
1976 میں طرابلس (لیبیا) میں ایک کانفرنس ہوئی تھی جس کا عنوان تھا:
Muslim Christian Dialogue
میں نے بھی کانفرنس کے دعوت نامہ پر اس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس میں پیش آنے والے دلچسپ واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ مجھے قبض (constipation) ہوگیا اور کئی دن تک اجابت نہیں ہوئی تو میں ہوٹل کے اس کمرے میں گیا جہاں شرکاءِ کانفرنس کے لیے دواؤں کا انتظام تھا۔ وہاں جو ڈاکٹر صاحب ڈیوٹی پر تھے ان سے میں نے قبض کی دوا مانگی۔ایک کافی بڑے ہال میں دواؤں کا انبار لگا ہوا تھا۔ مگر ڈاکٹر صاحب دیر تک تلاش کرنے کے بعد بھی قبض کی کوئی دوا نہ پاسکے۔ میںنے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ کے پاس اتنی ساری دوائیں ہیں اور قبض کی کوئی دوا آپ کے پاس نہیں۔ انھوںنے مسکراتے ہوئے جواب دیا : ہمارے پاس تو سب دست (diarrhea) کے مریض آرہے ہیں۔
میں نے اپنے اور دوسروں کے بارے میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس فرق کی وجہ یہ تھی کہ میں بھوک سے کم کھاتا تھا اور دوسرے حضرات بھوک سے زیادہ۔ یہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل تھا۔ کھانے کی چیزیں نہایت افراط کے ساتھ مہیا کی گئی تھیں۔ کھانے کے مخصوص اوقات کے علاوہ بار بار (refreshment)دیا جارہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ خوب دھوم کے ساتھ کھا پی رہے ہیں۔ جب کہ میں اپنے مزاج کے مطابق زیادہ نہیں کھا پاتا تھا۔ دوسروں کو زیادہ کھانے کی وجہ سے دست ہوگیا اور مجھ کو کم کھانے کی وجہ سے قبض۔
9 جولائی 1985
سید ابو الاعلی مودودی کی کتاب ’’پردہ‘‘ پڑھ رہا تھا۔ قوانین فطرت کے باب میں حسب ذیل الفاظ لکھے ہوئے ملے:
وسیع کائنات میں ہر طرف بے شمار صنفی محرکات پھیلے ہوئے ہیں اور دونوں صنفوں کو ایک دوسرے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ہوا کی سرسراہٹ، پانی کی روانی، سبزہ کا رنگ پھولوں کی خوشبو، پرندوں کے چہچہے، فضا کی گھٹائیں، شب ماہ کی لطافتیں، غرض جمال فطرت کا کوئی مظہر اور حسن کائنات کا کوئی جلوہ ایسا نہیں ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ داعیات صنفی کو حرکت میں لانے کاسبب نہ بنتا ہو۔
مصنف نے یہ بات اپنے خیال سے اچھے معنی میں لکھی اور اس سے اچھا معنی نکالنے کی کوشش کی ہے۔ مگرمیں نے اس کو پڑھا تو مجھے اپنے ذوق کے مطابق فطرت کا یہ حوالہ کچھ پسند نہیں آیا۔فطرت کے مناظر بے حد پرکشش ہیں۔ وہ آدمی کے اندر زبردست جذبہ ابھارتے ہیں۔ مگر اس معنی میں نہیں جس معنی میں مصنف نے لکھا ہے۔
مجھے فطرت کے مناظر بے حد پسند ہیں۔ میں گھنٹوں انھیں دیکھتا رہتا ہوں مگر مجھ کو یاد نہیں کہ میرے اندر مذکورہ بالا قسم کا جذبہ ابھرتا ہو۔ مجھ کو فطرت کے مناظر میں خدا کا جلوہ نظرآتا ہے۔ فطرت کو دیکھ کر مجھے خدا کی یاد آتی ہے۔شاعروں اور افسانہ نگاروں نے ضرور فطرت کو مذکورہ انداز میں پیش کیاہے۔ مگر یہ فطرت کا کمتر اندازہ ہے۔ فطرت کا اعلیٰ استعمال یہ ہے کہ آدمی اس کو دیکھ کر اس کے خالق کو یاد کرے۔ آدمی فطرت کے حسن کو دیکھے تاکہ یہ اس کے لیے ایک آئینہ بن جائے جس میں اس کو خالق کا چہرہ نظر آتا ہو۔
10 جولائی 1985
ولیم ہاورڈ ٹافٹ (William Howard Taft, 1857-1930) امریکا کے 27 ویں صدر تھے۔ ان کا زمانہ صدارت 1909 سے 1913 تک ہے۔ وائٹ ہاؤس (واشنگٹن) میں سخت حفاظتی انتظامات رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے صدر کو ایک لمحہ کے لیے بھی پرائیوسی (privacy)کی زندگی حاصل نہیں ہوتی۔ وہ ہر وقت نگرانوں کے پہرے میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ صدر ٹافٹ نے اس صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وائٹ ہاؤس دنیا کی وہ جگہ ہے جہاں آدمی سب سے زیادہ تنہا ہوتاہے:
White House is the loneliest place in the world.
یہ آدمی کی ایک ضرورت ہے کہ وہ پرائیوسی (privacy) حاصل کرسکے۔ وہ محسوس کرے کہ وہ اپنی دنیا میں ہے جہاں دوسروں کا دخل شامل نہیں۔ مگر ’’بڑے لوگ‘‘ اس سے محروم ہوتے ہیں۔ فطرت انسانی کی اِس طلب کا ان کے یہاں کوئی خانہ نہیںہوتا۔
یہ اور اس طرح کی دوسری چیزیں ان بڑے لوگوں کو مستقل طورپر اضطراب میں رکھتی ہیں۔ وہ اپنے ماحول سے کبھی مطمئن نہیں ہو پاتے۔ مگر اقتدار کا نشہ ایسی چیز ہے جو ہر چیز پر غالب آجاتا ہے۔ آدمی ہر حال میں اقتدار کے منصب پر بیٹھنا چاہتا ہے، خواہ اس کی وجہ سے اسے خود اپنی شخصیت کو قتل کر دینا پڑے۔
11 جولائی 1985
میری زندگی کے تجربات میں سے ایک تجربہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ خواہ اس کی غلطی کو کتنے ہی زیادہ قوی دلائل کے ساتھ واضح کردیا جائے۔
اس سلسلے میں میرے بہت سے تجربات ہیں۔ایک دل چسپ واقعہ وہ ہے، جو مولانا عامر عثمانی (وفات 1975) سے متعلق ہے۔ 1963 میں میری کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘چھپی تو لوگوں نے عامر عثمانی صاحب سے کہا کہ وہ اس کا جواب لکھیں۔ عامر عثمانی صاحب اکثر جماعت اسلامی کا دفاع کیا کرتے تھے، اور اپنے تفریحی انداز کی وجہ سے کافی پڑھے جاتے تھے۔ میری معلومات کے مطابق ابتدامیں انھوںنے گریز کیا۔ مگر جب لوگوں کا اصرار بڑھا تو انھوں نے ایک لمبا مضمون لکھا جو 1965 کے آغاز میں ان کے رسالہ تجلی (فروری- مارچ 1965، صفحہ 99-124)میں شائع ہوا۔ اس کا عنوان تھا: مولانا وحید الدین خانصاحب کی تعبیر کی غلطی۔
یہ مضمون واضح طورپر اس کا ثبوت تھا کہ عامر عثمانی صاحب اپنے آپ کو علم کے میدان میں عاجز پارہے ہیں۔ چنانچہ اس میں اصل نقطہ نظر کی علمی تردید کی کوشش نہیں کی گئی۔ البتہ مختلف انداز سے اس کا مذاق اڑایا گیا۔ اس کے جواب میں میں نے ایک مفصل مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ’’تنقید یا مسخرہ پن‘‘ یہ مضمون اولاً ماہ نامہ نظام (کانپور) میں دسمبر 1965 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد دوسرے جرائد میں نقل کیا گیا۔ میرے اس مضمون کی اشاعت کے بعد جناب عامر عثمانی مزید دس سال تک زندہ رہے۔ مگر وہ اس موضوع پر بالکل خاموش ہوگئے۔ پھر انھوں نے کبھی تعبیر کی غلطی کا رد کرنے کی کوشش نہیں کی۔
البتہ اس کے بعد انھوںنے تجلی کا ’’حاصل مطالعہ نمبر‘‘ نکالا۔ یہ نمبر جولائی- اگست 1966 پر مشتمل تھا۔ اس میں انھوںنے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی سمیت متعدد شخصیتوں کی منتخب تحریریں شائع کیں اور ان پر تبصرے لکھے۔ مگر انھوں نے سب سے زیادہ شاندار ذکر راقم الحروف کا کیا۔ اس کتاب کا پہلا مضمون راقم الحروف کی کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ سے متعلق تھا اس کے اعتراف میں انھوں نے اپنے وہ آخری الفاظ صرف کردئے جو ان کے پاس موجود تھے۔
جناب عامر عثمانی صاحب کا یہ مضمون ’’پچاس فی صد اعتراف‘‘ کا ثبوت ہے۔ مگر افسوس کہ دوسروں میں اتنے اعتراف کی بھی جرأت نہیں۔
12 جولائی 1985
میںجن لوگوں سے اپنی زندگی میںغیر معمولی طورپر متاثر ہوا ان میں سے سے ایک مولانا عبدالباری ندوی (1886-1976) ہیں۔ ان سے نہ صرف میری ملاقاتیں ہوئی ہیں بلکہ ایک مختصر عرصہ تک میںان کی رہائش گاہ پر مقیم بھی رہا ہوں۔
موصوف مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفۂ مجاز تھے۔ مولاناتھانوی نے ان کو رسمی بیعت کے بغیر مرید کیا تھا، یعنی مولانا اشرف علی تھانوی نے ان سے مجازی بیعت لی تھی۔ جن دنوں میں ان کے یہاں مقیم تھا (غالباً یہ 1967 کے اوائل کی بات ہے)،میںنے ایک روز ان سے کہا کہ آپ مجھے بیعت کرلیجیے۔ وہ مجھ سے بہت زیادہ خوش رہتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ آپ پیدائشی صوفی ہیں۔ آپ کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت ہونے کی ضرورت نہیں۔ میںآپ کو اسی طرح اپنے حلقۂ بیعت میں لیتاہوں جس طرح مولانا تھانوی نے مجھ کو اپنے حلقۂ بیعت میں لیا تھا۔
مولانا عبد الباری ندوی میرے کام کے سلسلہ میں میری بہت حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار انھوں نے مجھ کو ایک خط لکھا جس کا ایک جملہ یہ تھا:
باقی میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ جدید طبقہ کی طرف مبعوث ہیں۔
مولانا عبد الباری ندوی کے بارے میں میں نے ایک مفصل مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’مسٹر مولوی‘‘۔ یہ الجمعیۃ ویکلی 7 مارچ اور 14 مارچ 1969 میں دو قسطوں میں چھپا تھا۔
13 جولائی 1985
میں 1948میں جماعت اسلامی سے متاثر ہواا ور جلد ہی اس کارکن بنالیا گیا۔ اس زمانے میں میرا قیام اعظم گڑھ میں تھا۔ میں وہاں کی مقامی جماعت سے وابستہ تھا، جس کے امیر اس وقت ماسٹر عبد الحکیم انصاری تھے۔1950 کے لگ بھگ زمانہ میںمیرا یہ خیال ہوا کہ میں پاکستان چلا جاؤں، اور وہاں پر کوئی کام کروں۔ رکن جماعت کی حیثیت سے میرے لیے ضروری تھا کہ میں امیر جماعت اسلامی ہند سے اس کی اجازت حاصل کروں۔ اس وقت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی جماعت اسلامی ہند کے امیر تھے۔ میںنے ان کو اجازت کے لیے خط لکھا تو انھوںنے اجازت نہ دی۔ ان کو یہ تردد تھا کہ میں پاکستان جاکر کوئی کام نہ کرسکوں گا، اور وہاں مشکلات میںپھنس جاؤں گا۔
اس خط وکتابت کا ذکر میں نے مقامی امیر ماسٹر عبد الحکیم انصاری صاحب سے کیا۔ وہ میری تجویز سے متفق ہوگئے ،اور کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ آپ پاکستان چلے جائیں۔ وہاں آپ کو کام کے زیادہ مواقع ملیں گے۔
چوں کہ مولانا ابوللیث صاحب (امیر جماعت اسلامی ہند) مجھے منتقل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے تھے اس لیے انھوںنے مولانا ابواللیث صاحب کے نام ایک سفارشی خط لکھا۔ اس خط میں میری تجویز کی پرزور تائید کرتے ہوئے انھوںنے جو کچھ لکھا اس میں سے ایک جملہ یہ تھا:
’’میں وحید الدین خاں کو عرصہ سے جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ایک بار طے کرلیں تو ہمالیہ پہاڑ کو بھی اپنی جگہ سے کھسکا دیں‘‘۔
ماسٹر عبد الحکیم صاحب کا یہ خط مولانا ابواللیث صاحب کو بھیج دیا گیا۔ اس کو پڑھنے کے بعد انھوں نے مجھے اجازت دے دی۔ اگر چہ بعد کو خود میری رائے بدل گئی، اور میں پاکستان نہ جاسکا۔
15 جولائی 1985
دورِ اول کے مسلمانوں کی اٹھان تواضع (modesty) پر ہوئی تھی، موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی اٹھان فخر (pride)پر ہوئی ہے — ایک لفظ میں یہی وہ فرق ہے جس نے دورِاول کے مسلمانوں اور موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے درمیان وہ فرق پیدا کردیا ہے، جس کو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔دورِ اول کے مسلمانوں کا آغاز خدا کی دریافت سے ہوا تھا۔ انھوں نے خدا کی عظمت وکبریائی کو اپنے دل و دماغ میں اتارا تھا۔ اس کے نتیجہ میں وہ سراپا تواضع بن گئے تھے۔ ان کا سینہ ذاتی بڑائی کے احساس سے آخری حد تک خالی تھا۔
اس کے برعکس، موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں دو بیماری اپنے ’’شاندار‘‘ ماضی کی دریافت سے آئی ہے۔ ایک، شبلی نے انھیں ’’ہیروان اسلام‘‘ کا تعارف کرایا۔دوسرا، اقبال نے ان کوماضی کی عظمت کے حصول کے لیے آفاقی بلند پروازی کا درس دیا۔ اسی طرح ہر ایک ماضی کی عظمتوں کو یاد دلا کر ان کے اندر جوش ابھارنے کی کوشش کرتا رہا۔ دورِ اول کے مسلمان ’’خدا کی عظمت‘‘ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے تھے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان ’’اپنی تاریخ کی عظمت‘‘ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہیں۔
یہی وہ بنیادی بات ہے جس نے دونوں گروہوں کی سوچ میں فرق پیدا کردیا ہے۔ دورِ اول کے لوگوں کو خدا کی عظمت کے احساس نے تواضع کا ذہن دیا تھا۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو تاریخ کی عظمت کے احساس نے فخر کا ذہن دیا ہے۔ تواضع کا ذہن تمام خوبیوں کا سر چشمہ ہے، اس کے مقابلہ میں جھوٹا فخر (false pride) تمام خرابیوں کا سر چشمہ۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی اصلاح کا مقام آغاز یہی ہے کہ ان کے اندر سے جھوٹے فخر کا مزاج ختم کیا جائے اور دوبارہ ان کے اندر تواضع کا مزاج پیدا کیا جائے۔
16 جولائی 1985
ہندستان کی وزارت خوراک کے فیصلہ کے تحت یہاں 10 ملین ٹن غلہ بطور بفر خوراک (buffer stock) رکھاجاتا ہے۔ مگر ہندستان کے اس 10 ملین غلہ کو حفاظت کے ساتھ رکھنے کا انتظام نہیں۔ چنانچہ غلہ چوری ہوتا ہے، چوہے کھاجاتے ہیں، کیڑے لگتے ہیں، برسات میں سڑ کر بے کار ہوجاتا ہے، وغیرہ۔اس کے خلاف ایک انگریزی اخبار نے مضمون لکھا جس کا عنوان تھا:
Cut the system to size
یعنی اتنا ہی غلہ رکھو جتنا انتظام کرسکتے ہو۔ یہ اصول زندگی کے تمام معاملات کے لیے ہے۔ اگر لفظ بدل کر اس طرح کہا جائے تو وہ اصول ہے — اپنے آپ کو حد واقعی کے اندر رکھو:
Cut yourself to size
انسان کی اکثرمصیبتیں صرف اس کا نتیجہ ہوتی ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو حد واقعی کے اندر نہیں رکھتا۔ اگر لوگ اس اصول پر عمل کرنے لگیں تو زندگی کے اکثر مسائل اپنے آپ ختم ہوجائیں۔
17 جولائی 1985
شاہ محمد اسماعیل دہلوی (1779-1831)نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں لکھا تھا:
’’اس شہنشاہ (باری تعالی) کی تو یہ شان ہے کہ ایک آن میں ایک حکم کن سے چاہے تو کرورڑوں نبی و جن وفرشتے، جبرئیل او رمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر پیدا کرڈالے۔
یہ کتاب چھپی تو علما کی ایک فوج اس کے رَدّ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ علامہ فضل حق خیر آبادی (1797-1861) نے ایک کتاب لکھی، جس کا نام تھا امتناعِ نظر۔اس میں انھوں نے بتایا کہ مثل محمد ممتنع الوجود (ناممکن)ہے۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف نبی تھے بلکہ خاتم الانبیا تھے، اور خاتم الانبیا کا مرتبہ کسی ایک ہی شخص کو مل سکتاہے۔ اس لیے مثلِ محمد مقدرِ حق سبحانہ نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میںیہ کہ خاتم الانبیا کا مماثل (مانند)پیدا کرنے پر خدا قادر نہیں۔
اس پر مولانا حیدر علی رام پوری نے لکھا کہ ا بن عباس کا ایک اثر ہے جس کے مطابق اللہ نے سات زمینیں پیدا کی ہیں اور ہر زمین میں الگ الگ انبیاء ہیں(سَبْعَ أَرَضِینَ فِی کُلِّ أَرْضٍ نَبِیٌّ کَنَبِیِّکُمْ) مستدرک الحاکم، اثر نمبر 3822۔ اس اثر سے استناد کرکے انھوںنے کہا کہ اللہ مثل خاتم الانبیا پیدا کرنے پر قادر ہے۔ کیوں کہ جب سات زمینیں ہیں تو سات خاتم الانبیا کی ضرورت ہوئی۔
مرزا غالب (1797-1869)نے ایک اور نکتہ نکالا۔ انھوںنے کہا کہ موجودہ عالم میں تو ایک خاتم الانبیا کے سوا دوسرا خاتم الانبیا پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن خدا اس پر قادر ہے کہ ایسا ہی ایک اور عالم پیدا کرے اور اس میںموجودہ عالم کے خاتم الانبیا کی طرح ایک اور خاتم الانبیا مبعوث فرمائے۔
اس طرح کی بحثیں برسہا برس تک جاری رہیں۔ دونوں طرف سے عجیب عجیب دلائل دیے جاتے رہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دورِ زوال میںمسلمانوں کے ذہنی افلاس(intellectual dwarfism) کا حال کیا ہوگیا تھا۔ بے معنیٰ موشگافیوں کو وہ علم سمجھتے تھے اور بے فائدہ بحثوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کو یہ سمجھتے تھے کہ وہ خدا کی راہ میں جہاد کررہے ہیں۔
18 جولائی 1985
دانیال لطیفی صاحب (پیدائش 1917) سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ (بیرسٹر)ہیں۔ ان کی تعلیم زیادہ تر انگلینڈ میںہوئی ہے۔ وہ 1928 سے 1939 تک تعلیم کے سلسلہ میں انگلستان میں رہے ہیں۔ انھوں نے انگلینڈ سے قانون کی ڈگری لی۔
انھوں نےتعلیم کے زمانے کا ایک واقعہ بتایا۔ ان کے ساتھ ایک انگریز نوجوان تھا، جس نے آکسفورڈ یونی و رسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اس زمانہ میں نیر وبی کے لیے اعلیٰ تقررات لندن سے ہوا کرتے تھے۔ نیروبی میں ایک جج کی جگہ خالی ہوئی۔ اس کے لیے مذکورہ نوجوان مسٹر برسفورڈ نے درخواست دی۔اس کے بعد لارڈ چانسلر نے اس کو انٹرویو کے لیے بلایا۔ لارڈ چانسلر نے مسٹر برسفورڈ سے صرف ایک سوال کیا اور اس کے بعد ان کا تقرر کردیا۔
لارڈ چانسلر کے کمرے میں ایک بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی۔ اس نے نوجوان سے پوچھا، کیا تم جانتے ہو کہ یہ کس کی تصویر ہے۔ اس نے کہا ہاں۔ انھوںنے کہا کہ بتاؤ۔ نوجوان نے کہا کہ لارڈ کُک کی۔ لارڈ چانسلر نے کہا کہ تم نے صحیح بتایا۔ اب مجھے امید ہے کہ تم نیروبی میں جسٹس کی حیثیت سے اپنے فرائض کامیابی کے ساتھ انجام دے سکوگے۔
سراڈورڈ کُک (1552-1634) برطانیہ کی مشہور قانونی شخصیت ہیں۔ ان کا نام انگریزی میں (Coke) لکھا جاتاہے۔ بظاہر عام آدمی اس کو کوک پڑھے گا۔ مگر انگریز اس کا تلفظ کُک کرتے ہیں۔ لارڈ چانسلر نے یہی جاننے کے لیے مذکورہ سوال کیا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ نوجوان لارڈکُک کا صحیح تلفظ کررہا ہے تو اس نے اس کی بقیہ استعداد کا قیاس کرلیا اور اس کی درخواست منظور کرتے ہوئے اس کا تقرر کردیا۔
بعض چیزیں بظاہر چھوٹی ہوتی ہے۔ مگر وہ کسی بڑی چیز کی علامت ہوتی ہیں۔ اس بناپر چھوٹی ہونے کے باوجود ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہی اصول تمام معاملات میں ہے۔ خواہ وہ دنیا کا معاملہ ہو یا دین کا معاملہ۔(83 سال کی عمر میں دانیال لطیفی صاحب کا انتقال 2000 میں ہوا۔)
19 جولائی 1985
امریکی نژاد برٹش رائٹراور نقاد لُگان پیرسال اسمتھ (Logan Pearsall Smith, 1865-1946) کا قول ہے کہ دو چیزیں ہیں جن کو زندگی کا مقصد بنانا چاہیے۔ اول، اس چیز کو حاصل کرنا جس کو تم چاہتے ہو، اس کے بعد اس سے فائدہ اٹھانا۔ انسانوں میں صرف انتہائی عقل مند لوگ ہی دوسری چیز کو حاصل کر پاتے ہیں:
There are two things to aim at in life: first to get what you want; after that to enjoy it. Only the wisest of mankind achieve the second.
یہ صورت حال کے عین مطابق ہے۔ بیشتر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ رات دن محنت کرکے کسی نہ کسی طرح وہ چیز حاصل کرلیتے ہیں، جو وہ چاہتے ہیں۔ مگر جب اس سے فائدہ اٹھانے(enjoy) کا وقت آتا ہے تو ناکام ثابت ہو تے ہیں۔
طاقت ملنے کے بعد اس سے حقیقی فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر غرور نہ آئے۔ دولت ملنے کے بعد اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر سرکشی کا مزاج پیدا نہ ہو۔ علم حاصل کرنے کے بعد اس سے واقعی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر برتری کا مزاج نہ آئے۔چوں کہ آدمی طاقت اور دولت اور علم کے بعد ان نفسیاتی خرابیوں سے اپنے آپ کو بچا نہیں پاتا، اس لیے وہ ملی ہوئی نعمت کواپنے لیے حقیقی طورپر مفید نہیںبنا پاتا۔
20 جولائی 1985
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا(1984) کی 30 جلدیں میرے پاس ہیں۔ اس میں ایک دلچسپ چیز یہ نظر آئی کہ متعدد جگہوں پر کسی اندراج کو مٹایا گیا ہے۔مثلاً جلد 5 صفحہ 557 پر جبریل (Jibril) کا تذکرہ ہے۔ یہاں ایک کالم کا تقریباً نصف حصہ کالے رنگ سے مٹایا گیا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت جبریل کی تصویر تھی جو چھاپنے کے وقت چھاپ دی گئی۔ اس کے بعد مسلمانوں (عربوں) کے اعتراض کی بنیاد پر مٹا دی گئی۔ مگر ضروری نہیں کہ تمام نسخوں میں اس کو مٹایا گیا ہو۔ عین ممکن ہے کہ صرف ان نسخوں میں مٹایاگیا ہو جو مشرقی ممالک کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ اس انسائیکلوپیڈیا میں اس طرح کے بہت سے صفحات ہیں۔
22 جولائی 1985
ایک زندہ اور طاقتور خداپر یقین کرنا اتنا عجیب ہے کہ ماننے والے بھی اس کو نہیں مانتے اور جاننے والے بھی اس کو نہیںجانتے۔خدا مکمل طورپر ظاہر ہونے کے باوجود مکمل طورپر چھپا ہوا ہے۔ وہ اپنی تخلیق میں مکمل طورپر ظاہر ہے مگر اپنی ذات میںوہ مکمل طورپر پوشیدہ ہے۔ براہِ راست طورپر اس کا مشاہدہ موجودہ دنیا میں آخری حد تک ناممکن ہے۔ مگر بالواسطہ طورپر اس کا مشاہدہ آخری حدتک ممکن ہے۔یہی واحد وجہ ہے ،جس کی بناپر لوگ شخصیتوں میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ خدا ان کو دکھائی نہیں دیتا، اور شخصیتیں ان کو دکھائی دیتی ہیں۔ مگر انسان کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ شخصیتوں کے تقدس کا پردہ پھاڑ کر خدا کو دیکھے۔
23 جولائی 1985
مسلم اہل علم نے اسلام اور مغربی تہذیب کے تقابل پر جو کتابیں لکھی ہیں، ان میں مشترک طورپر چند غلطیاں پائی جاتی ہیں:
(1) انھوںنے مغربی سماج کے چند واقعات کو لے کر اسے generalize کردیا ہے۔ اس طرح انھوں نے خاص کو عام بنانے کی غلطی کی ہے۔ اس قسم کی تحریروں کو پڑھ کر مسلمان خوش ہوسکتے ہیں۔ کیوںکہ انھیں یہ تسکین ملتی ہے کہ اُن کے ’’دشمن‘‘ کا سماج بہت بُرا سماج ہے۔ مگر ان تحریروں سے خود مغرب کے لوگ کوئی اچھا اثر نہیں لے سکتے۔
(2) دوسری چیز یہ کہ ان تحریروںمیں آئڈیالوجی کا تقابل پریکٹس (عمل) سے کیاگیا ہے۔ یعنی اسلام سے تو نظریات واقدار لی گئی ہیں اور جدید سماج سے ان کا عمل۔ یہ تقابل درست نہیں۔ تقابل ہمیشہ دو برابر کی چیزوںمیں ہوتا ہے۔ یعنی تقابل یا تو آئڈیالوجی سے آئڈیالوجی کا ہونا چاہیے یا پریکٹس سے پریکٹس کا۔
اس قسم کا غیر علمی لٹریچر دعوت کے لیے کبھی مفید نہیںہوسکتا۔ وہ مسلمانوں میں جھوٹا فخر پیدا کرسکتا ہے۔ مگر وہ دعوت عام کے لیے کارآمد نہیں۔
24 جولائی 1985
قرآن میں بہت سے پیغمبروں کا ذکر ہے۔ اس کا مقصد اہل ایمان کو ان کی زندگی سے سبق دینا ہے۔ مثلاًسلیمان علیہ السلام ایک اسرائیلی پیغمبر ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت دی کہ جنات کو ان کے لیے مسخر کردیا (الانبیاء، 21:81-82)۔ یہ چیز بعد کو یہود کے لیے فتنہ بن گئی۔ انھوںنے یہ سمجھا کہ حضرت سلیمان جو کچھ کرتے تھے، جادو اور عملیات کے زور پر کرتے تھے۔ چنانچہ یہود نے جادو اور عملیات میں مہارت حاصل کرنا شروع کردی۔ انھوںنے خدا کے دین کو جادو اور عملیات کا دین بنا کر رکھ دیا (البقرۃ، 2:102)۔
حضرت مسیح کا اصل کام دعوت تھا۔ دعوت کا تقاضا ہے کہ داعی یک طرفہ طورپر حسن اخلاق کا طریقہ اختیار کرے۔ چنانچہ حضرت مسیح نے اپنے پیروؤں کو رافت اوررحمت اور اعراض کی زبردست تاکید کی۔ بعد کو حضرت مسیح کے پیرو کار رافت ،رحمت اور اعراض کی دعوتی مصلحت کو سمجھ نہ سکے۔ انھوں نے اس کو اصل مطلوب سمجھ لیا اور اس میں مزید مبالغہ کرنا شروع کیا۔ یہاںتک کہ اعراض دنیا برائےاخلاق و دعوت کو انھوںنے ترکِ دنیا بمعنی رہبانیت بنادیا (الحدید، 57:27)۔
اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر چہ اپنی زندگی کا ابتدائی نصف سے زیادہ حصہ دعوت پر زور دینے میں صرف کردیا۔ اس زمانہ میں آپ نے بھی صبر اور اعراض اور یک طرفہ حسن اخلاق کی تعلیم دی۔ مگر ہجرت کے بعد قریش کی جارحیت نے آپ کو دفاع پر مجبور کیا۔ اس وقت آپ کے اوپر قتال کی آیتیں اتاری گئیں۔ مدنی زندگی کا بیشتر حصہ جارحانہ کارروائیوں کا دفاع کرنے میں گزرا۔
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید اندیشہ تھا کہ آپ کی امت بھی اس معاملہ میں فتنہ میں مبتلا ہوگی۔ جوچیز مشرکین اورکافروں کی جارحیت کے خلاف بطور دفاع فرض کی گئی تھی، اس کو مسلمان خود اپنی جنگ کے لیے استعمال کرنا شروع کردیں گے۔ آپ نے حجۃ الوداع کے خطبےمیں فرمایا:لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا، یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4403) ۔ یعنی میرے بعد تم لوگ کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم میں سے بعض ، بعض کی گردن مارنے لگے۔
اس طرح کی کثیر حدیثیں ہیںجن میں مسلمانوں کو مطلق طورپر جنگ سے منع کیا گیا ہے۔ مگر خلیفہ سوم کے زمانہ ہی میں مسلمان اس فتنہ میں پڑ گئے۔ انھوںنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت ترین انتباہ کے باوجود آپس میں لڑنا شروع کردیا اور کہا کہ یہ جہاد ہے۔ مگر یہ جہاد نہیںبلکہ بدعت تھی اور یہ بدعت آج تک مسلمانوں میں جاری ہے۔
25 جولائی 1985
کہاجاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے اپنے لڑکے شہزادہ سلیم کی شادی میں اس کو چار سو ہاتھیوں کا تحفہ دیا۔ یہ چار سو ہاتھی دوہد (گجرات ) کے گھنے جنگلوں سے حاصل کیے گئے تھے۔ مگر آج گجرات کے اس علاقہ میں نہ کہیں گھنے جنگل نظر آتے ہیں، اورنہ ہاتھی۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ زمانہ کس طرح بدلتا رہتاہے۔ ایک جگہ جہاں آج ’’جنگل‘‘ نظر آتا ہے وہاں کل ’’میدان‘‘ نظر آنے لگتا ہے۔ جہاں آج ہاتھیوں کے غول گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہاں جب کل سورج نکلتاہے تو دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ وہاں انسان چل پھر رہے ہیں۔زمانہ کے اس بدلتے ہوئے روپ میں بے شمار نشانیاں ہیں۔ مگر نشانیوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو ان کی گہرائیوں میں جھانکنے کی بصیرت رکھتے ہوں۔
26 جولائی 1985
ایک صاحب قرآن کا درس دے رہے تھے۔درمیان میں یہ آیت آئی:یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْیَاءَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ (5:101)۔ یعنی اے ایمان والو، ایسی باتوں کے بارے میں سوال نہ کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں تو تم کو ناگوار گزریں۔
حاضرین میں سے ایک شخص نے پوچھا :جناب، اس آیت میں لفظ اَشْیَاءَ حرف جار (عَنْ) کے بعد آیا ہے۔ عربی قاعدہ کے مطابق یہاں اشیاء پر زیر ہونا چاہیے تھا۔ پھر اُس پر زبر کیوں ہے۔ یعنی وہ مکسور کے بجائے مفتوح کیوں ہے۔مفسر صاحب نے فوراً جواب دیا: میرے بھائی، یہی تو وہ بات ہے جس سے آیت میں پوچھنے سے منع کیا گیا ہے۔ پھر خود آیت جس سوال سے منع کررہی ہے وہی سوال آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔
یہ بظاہر ایک جواب ہے۔ مگر جو لوگ عربی زبان اور عربی نحو سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی جواب نہیں۔ اسی طرح اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی سے ایک سوال پوچھا جاتا ہے، اور وہ اس کا ایک جواب دیتا ہے، اور اپنی لاعلمی سے وہ سمجھتا ہے کہ جواب ہوگیا۔ حالاں کہ جاننے والوں کے نزدیک وہ جواب نہیں ہوتا۔
27 جولائی 1985
ہنری پرین (Henri Pirenne) ایک مغربی مورخ ہے۔ وہ 1862 میں پیدا ہوا، اور 1935 میں اس کی وفات ہوئی۔ ہنری پرین نے باقاعدہ طورپر یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ قدیم دنیا اور جدید دنیا کے درمیان انفصال (essential break) درحقیقت عرب فتوحات کے ذریعہ پیش آیا۔
Encyclopaedia Britannica (1984) Vol. 13, p. 155
ہنری پرین نے اپنی کتاب ہسٹری آف یورپ میں لکھا ہے کہ اسلام نے کرۂ ارض کے رخ کو بدل دیا۔ قدیم روایتی نظام کا خاتمہ کردیا گیا:
It (Islam) had sufficed to change the face of the globe...the traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne: A History of Europe, London, 1939, p. 46).
29 جولائی 1985
امریکی صحافی مسٹر بنجمن اسٹولبرگ(1891-1951)کا قول ہے — اکسپرٹ وہ شخص ہے جو بڑی غلطی کی اصلاح کے لیے چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کردے:
An expert is a man who avoids the small errors as he sweeps on to the grand fallacy. (Benjamin Stolberg)
بنجمن اسٹولبرگ نے یہ بات ٹکنکل اکسپرٹ کے لیے کہی ہے۔ مگریہی بات ہرمیدان عمل کے لیے صحیح ہے۔ آپ خواہ جس شعبہ میں بھی کام کررہے ہوں، اور جس مقصد کی تکمیل میںبھی لگے ہوئے ہوں، آپ کو یہ اصول اختیار کرنا ہوگا— زیادہ بڑے پہلوؤں پر نظر رکھنے کے لیے چھوٹے پہلوؤں کو نظر انداز کرنا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی یہ نہیں کرسکتا کہ وہ بیک وقت چھوٹے پہلوؤں اور بڑے پہلوؤں پر یکساں نظر رکھے۔ آدمی مجبور ہے کہ وہ ایک کی خاطر دوسرے کا نقصان گوارہ کرے۔ وہ بڑا فائدہ حاصل کرنے کی خاطر چھوٹے فائدوں کو نظر انداز کردے۔ جو شخص چھوٹی چھوٹی چیزوں کا نقصان برادشت نہ کرے، وہ اپنی زندگی میںکسی بڑی چیز کو حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔
30 جولائی 1985
ایک عربی میگزین میں یہ عبارت نظر سے گزری:دخل اعرابی علی بخیل فوجدہ یأکل خبزاً وعسلاً فأخفی الخبز فی حجرہ ولم یدعہ لتناول الطعام معہ. فما کان من الاعرابی الا ان تقدم الی اناء العسل وأخذ یأکل بلا خبز ۔ فقال لہ البخیل:ان العسل وحدہ یحرق القلب فأجابہ الأعرابی:نعم، ولکن قلبک لاقلبی۔یعنی ایک دیہاتی آدمی ایک بخیل کے پاس آیا۔ اس نے دیکھا کہ بخیل روٹی اور شہد کھارہا ہے۔ بخیل نے روٹی کو اپنی گود میں چھپا لیا اور دیہاتی کے لیے نہیں چھوڑا کہ وہ اس کے ساتھ کھاسکے۔ دیہاتی نے یہ کیا کہ وہ شہد کے برتن کی طرف بڑھا اور اس کو روٹی کے بغیر کھانے لگا۔ یہ دیکھ کر بخیل نے اس سے کہا کہ خالی شہد کھانا دل کو جلاتا ہے۔ دیہاتی نے جواب دیا، ہاں وہ جلاتا ہے، مگر وہ تمھارے دل کو جلاتا ہے، نہ کہ میرے دل کو۔
ممکن ہے کہ یہ واقعہ نہ ہو بلکہ محض لطیفہ ہو، قدیم زمانہ تمثیلات کا زمانہ تھا۔ لوگ اپنی باتوں کو کہانی کے روپ میں بیان کیا کرتے تھے۔ گمان غالب یہ ہے کہ کسی شخص نے ’’بخیل‘‘ کے کردار کو نمایاں کرنے کے لیے یہ قصہ گھڑا اور اس کو لوگوں کے درمیان پھیلا دیا۔
اخلاقی درس کی حد تک یہ بناوٹی قصے درست تھے۔ مگر اس کے بعد اپنے بڑوں کی بڑائی اور بزرگی ظاہر کرنے کے لیے طلسماتی قصے کہانیاں گھڑے جانے لگے۔ یہاں آکر یہ طریقہ سراسر غلط ہوگیا۔ کیوں کہ ان جھوٹے قصوں نے یہ تصور دیا کہ ’’بزرگ ایسے ہوتے ہیں‘‘ ۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان ایسا ہوتا ہی نہیں، اور نہ کوئی بزرگ کسی قسم کے بزرگی اور کرامات کے ساتھ پیدا ہوتاہے۔ مگر فرضی تصویر لوگوں کے لیے حقیقی تصویر بن گئی۔
31 جولائی 1985
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَیْکُمْ کِتَابًا فِیہِ ذِکْرُکُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (21:10)۔ یعنی ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب اتاری ہے جس میں تمہاراذکر ہے، پھر کیا تم سمجھتے نہیں۔ بعض بزرگوں کے متعلق مشہور ہے کہ انھوںنے یہ آیت پڑھی تو ان کے ذہن میں آیا کہ قرآن میں جب اس کا ذکر ہے تو ہمارا بھی ذکر ہونا چاہیے۔ چنانچہ انھوںنے قرآن میںاپنا ذکر تلاش کرنا شروع کیا، اور اپنے حسب حال کوئی آیت ڈھونڈھ نکالی۔
اسی اصول کے تحت مجھے بھی یہ خیال ہوا کہ میں قرآن میںاپنا ’’ذکر‘‘ تلاش کروں۔ تلاش کرنے کے بعد قرآن کی جس آیت پر میرا ذہن رُکا وہ یہ تھی:وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِہِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا عَسَى اللَّہُ أَنْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ (9:102)۔ یعنی کچھ اور لوگ ہیں جنھوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کرلیا ہے۔ انھوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے۔ امید ہے کہ اللہ ان پر توجہ کرے۔ بیشک اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
قرآن کے نزدیک ہدایت یافتہ گروہ کے دو درجے ہیں۔ ایک وہ جنھوںنے واقعۃً پورے معنی میںعمل صالح کا ثبوت دیا ہو اور اپنے عمل صالح کی بنا پر وہ نجات کے مستحق قرار پائیں۔
قرآن کے مطابق دوسرے لوگ وہ ہیں، جو پورے معنوں میں عملِ صالح کا ثبوت نہ دے سکے۔ البتہ انھوں نے اپنی حیثیتِ واقعی کا اعتراف کیا ہو۔ جنھوں نے کامل شعور کے ساتھ اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو جانا اور کسی تحفظ کے بغیر کھلے طورپر اللہ کے سامنے اس کا اقرار کیا۔ یہ دوسرے لوگ بھی اپنے اقرار واعتراف کی بنیاد پر اللہ کے یہاں قابل نجات قرار پائیں گے۔
میںاللہ سے یہ امید کرتا ہوں کہ وہ مجھے دوسرے گروہ میں شامل کرے۔میرے پاس ’’عمل‘‘ کا سرمایہ نہیں، مگر غالباً میرے پاس ’’اعتراف‘‘ کا سرمایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق دی ہے کہ میں اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا آخری حد تک اعتراف کروں۔ یہی میرا سرمایہ ہے اس کے سوا میرے پاس اور کوئی سرمایہ نہیں۔
2 اگست1985
انسان کی گمراہی ہر دور میں ایک ہی رہی ہے— جوچیز خدا کی قدرت سے ہورہی ہے اس کو غیر خدا کی طرف منسوب کرنا۔ جب بھی انسان ایسا کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جس واقعہ کو دیکھ کر انسان پر خدا کی عظمت طاری ہونی چاہیے تھی، اس سے وہ غیر خدا کی عظمت میںگم ہوجاتا ہے۔
قدیم زمانہ میں انسان سورج کو پوجتاتھا۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انسان نے سورج سے روشنی اور حرارت نکلتے ہوئے دیکھا۔ اس نے سمجھا کہ یہ خود سورج ہے جو اپنی طاقت سے روشنی اور حرارت نکال رہا ہے۔ آدمی اگر روشنی اور حرارت کو خدا کی قدرت سے نکلنے والی چیز سمجھتا تو وہ خدا کے آگے جھک جاتا۔ مگر جب اس نے روشنی اور حرارت کو خود سورج سے نکلنے والی چیز سمجھا تو وہ سورج کے آگے جھک گیا۔
اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے معجزے دکھائے۔ یہ معجزے خدا کی قدرت سے تھے مگر بعد کے مسیحیوں نے اس کو خود حضرت مسیح کا اپنا کرشمہ سمجھ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے جذبات سب سے زیادہ حضرت مسیح سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے حضرت مسیح کو خدا سمجھ کر ان کی پرستش شروع کردی۔
یہی معاملہ ایک اور شکل میں پیغمبر اسلام کے ساتھ پیش آیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو فتوحات ہوئیں، وہ پوری انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ انوکھا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ بھی یقینی طورپر خدائی قدرت سے پیش آیا، جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے(التوبۃ، 9:25-26)۔ مگر بعد کے مسلمانوں نے اس کو خود اپنے پیغمبر کا کرشمہ سمجھ لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد کے زمانہ کے مسلمانوں میںخدا کی بڑائی کا احساس گھٹ گیا اور اپنے پیغمبر کی بڑائی کا احساس ہر چیز سے زیادہ چھاگیا۔ پچھلے ہزار سال کے اندر مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کی عظمت پر بےشمار کتابیں نظم ونثر میں لکھی ہیں، مگر خدا کی عظمت پر ایک ہزار سال کے اندر وہ ایک بھی قابل ذکر کتاب تیار نہ کرسکے۔
3 اگست 1985
فرنچ رائٹر اور فلاسفر ژاں پال سارترے (Jean-Paul Sartre, 1905-1980) کا ایک قول ہےکہ تشدد صرف ان لوگوں کے لیے موزوں ہے، جو کھونے کے لیے کچھ نہ رکھتے ہوں:
Violence suits those who have nothing to lose.
یہ ایک نہایت حکیمانہ بات ہے۔ جب بھی ایک شخص تشدد کرتا ہے تو لازماً اس کونقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حتی کہ اس وقت بھی جب کہ اس نے اپنے حریف کے مقابلہ میں لڑائی جیت لی ہو۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص پر تشدد کیاگیا ہے ،وہ کوئی پتھر نہیں ہے، بلکہ انسان ہے، اور انسان ہمیشہ ردِّ عمل(reaction) ظاہر کرتا ہے۔ زیر ِتشدد آدمی تشدد کے جواب میں وہ سب کچھ کرتا ہے، جو اس کے بس میںہو۔ اگر وہ طاقت ور ہے تو وہ اپنے حریف کے مقابلہ میں براہ راست وار کرتاہے، اور اگر وہ طاقت ور نہیں ہے تب بھی کمینہ پن کا راستہ ہر ایک کے لیے کھلا ہوا ہے۔ طاقت ور آدمی جو کچھ کھلے طورپر کرسکتاہے وہی کمزور آدمی بھی کرسکتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ وہ جو کچھ کرتا ہے چھپے طور پر کرتا ہے۔
ایسی حالت میںتشدد صرف اس شخص کے لیے مفید ہے، جس کے پاس پھوس کا چھپر بھی نہ ہو، جس میںاس کا حریف رات کے وقت آکر آگ لگاسکے۔ اس کی جیب میں چند روپیے بھی نہ ہوں، جس کو کوئی اس سے چھین سکے۔زندگی کا اصل راز یہ ہے کہ آدمی فریق ثانی سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے اپنی تعمیر کرے۔ حتی کہ فریق ثانی شرارت کرے تب بھی وہ اس کو نظر انداز کرے۔ تشدد کے نقصانات سے وہی شخص بچ سکتا ہے، جو اعراض کی حکمت کو جانتا ہو۔
5 اگست 1985
برٹش ہسٹورین جی ایم ٹریولیان (George Macaulay Trevelyan, 1876-1962) نے کہا کہ تعلیم نے ایسے بہت سے لوگ پیدا کر دیے ہیں جو پڑھ سکیں۔ مگر تعلیم ایسے لوگ پیدا نہ کرسکی، جو یہ فرق کرسکیں کہ کیا چیز پڑھنے کے قابل ہے ،اور کیا چیز پڑھنے کے قابل نہیں:
Education has produced a vast population able to read, but unable to distinguish what is worth reading.
تعلیم ایک وسیلہ ہے، جو آدمی کو پڑھنے کے قابل بناتا ہے۔ مگر آدمی کیا چیز پڑھے، اس کا فیصلہ وہ خود کرتا ہے۔ اگر اس کے مزاج میں سنجیدگی ہے تو وہ سنجیدہ لٹریچر پڑھے گا اور اگر اس کے مزاج میں سطحیت ہے تو وہ سطحی چیزوں کو پڑھ کر اپنے ذوق کی تسکین حاصل کرے گا۔
انسان کو تعلیم یافتہ بنانا اصل کام نہیں، انسان کو انسان بنانا اصل کام ہے۔ تعلیم یقیناً ایک ذریعہ ہے، مگر تعلیم بجائے خود مقصد نہیں۔
6 اگست 1985
میری زندگی کے تجربات میںسے ایک تجربہ یہ ہے کہ لوگوں کی ڈگریوں اور لوگوں کی معلومات میں تو اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر ان کے فکر وشعور میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ میں جب کسی آدمی سے لمبے عرصہ کے بعد ملتا ہوں تو یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اس مدت میںاس نے کئی مزید ڈگریاں لے لی ہیں۔ مگر جب اس سے گفتگو کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ فکر وشعور کے اعتبار سے اب بھی وہ اسی مقام پر ہے جہاں وہ پہلے تھا۔
اس موضوع پر میںنے بہت سوچا کہ آخر شعوری ارتقا نہ ہونے کی وجہ کیا ہے۔ بالآخر میری سمجھ میں آیا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ اپنے خلاف نہ سوچنا ہے، جس کو دینی اصطلاح میں احتساب کہاگیا ہے۔ تقریباً ہر ایک کا حال میں یہ پاتا ہوں کہ جیسے ہی کوئی ایسی بات کہی گئی ہو، جو اس کے اپنے خلاف ہو تو وہ فوراً ناراض ہوجاتا ہے۔ جو بات اپنے خلاف ہو،اس پر وہ معتدل انداز سے سوچ نہیں پاتا۔ میرے اندر خدا کے فضل سے بچپن سے یہ صلاحیت ہے کہ میں اپنے خلاف سوچتا ہوں۔ میرے خلاف کوئی بات کہی جائے تو میں کبھی اس پر برہم نہیں ہوتا۔ اور اگر بالفرض کبھی میرے اندر برہمی پیدا ہوجائے تو چند منٹ یا چند گھنٹوں کے اندر میں دوبارہ معتدل ہو کر اس پر غور کرنے لگتاہوں۔
مگر عجیب بات ہے کہ اپنی پوری زندگی میں مجھے کوئی ایسا شخص یاد نہیں جو اپنے خلاف سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہر آدمی جو مجھے ملا وہ اپنے موافق سوچنے کا ماہر ملا۔ اقبال کا مرد مومن ان کی تشریح کے مطابق سلف تھنکر ہوتا ہے۔ مگر میںاس کو سطحی بات سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک زیادہ گہری بات یہ ہے کہ آدمی اینٹی سلف تھنکر (anti-self thinker)ہو۔
واپس اوپر جائیں

ایک داعی کی یاد میں

مسٹر اعجاز احمد (پیدائش 1963) کا 29 دسمبر 2020کو بنگلور کے ایک ہاسپٹل میں انتقال ہوگیا۔ انھوں نے1985میں آئی آئی ٹی کھرگپور ( IIT Kharagpur) سے گریجویشن مکمل کیا۔ اس کے بعد ONGC سے انھوں نے اپنے کیرئیر کی شروعات کی، اور 1995میں ان کو ایک فارِن کمپنی میں جاب مل گئی۔چوں کہ وہ سمندر آئل رگ (Sea Oil Rig)پر جاب کرتے تھے اس لیے ان کی جاب کی نوعیت کچھ اس طرح ہوتی کہ وہ مکمل ایک ماہ جاب پر ہوتے اور ایک ماہ گھر پر ہوتے۔
مسٹر اعجاز انتہائی محنتی اور ایک آنسٹ انسان تھے ۔ان کی زندگی کا فارمولا تھا— سادہ زندگی ، اونچی سوچ ۔انھوں نے نہ تو تعلیمی زمانے میں کوئی چھٹی لی، اور نہ ہی جاب کے زمانے میں کبھی کوئی چھٹی لی۔ یہاں تک کہ ڈیوٹی کے اوقات میں وہ اپنی فیملی سے فون پر بھی بات نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ان کے اکاؤنٹ میں غلطی سے ڈبل سیلری آگئی تو انھوںنے اس کو واپس کیا ۔اگرچہ اس کو لوٹانے کا جو پراسس (process)تھا وہ بہت ہی مشکل اور پیچیدہ تھا۔یہاں تک کہ خود کمپنی کے ایڈمنسٹریٹیو آفسرس (Administrative Officers )نےبھی انہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ خاموش ہوجائیں مگر انھوں نے ان کے اس مشورہ کو رد کردیا اور اس وقت تک چپ نہ بیٹھے جب تک کہ اسے لوٹا نہیں دیا۔
سی پی ایس مشن سے ان کا تعلق ان کی اہلیہ مزفاطمہ سارہ (پیدائش1967)کے ذریعے ہوا۔ سائنٹفک ذہن ہونے کی وجہ سےوہ سی پی ایس کے لٹریچر سے بہت زیادہ متأثر ہوئے ،اور اسلام کی پیس فل آئڈیالوجی کے معاملہ میں انھوں نے سی پی ایس مشن کا بھر پور ساتھ دیا۔ وہ اگرچہ 2000ہی سے اس مشن کے ساتھ تھے۔ مگر 2005 میں راقم الحروف نے بنگلور کا سفرکیا، جس کی تفصیل ماہنامہ الرسالہ مارچ 2006میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد سے وہ مشن کو اورزیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھنے لگے تھے۔
سی پی ایس مشن سےان کو بہت گہرا تعلق تھا۔ وہ مشن کے کاموں کے لیےاپنی اہلیہ کی بھی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرتے ، اورہر لمحہ مشن کے تعاون کے لیے تیار رہتے، جو مشکل ترین حالات میں بھی کمی کے بغیر جاری رہا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2015کے بعد جب آئل انڈسٹری کا ڈاؤن فال شروع ہوا تو ان کا ڈموشن ہوگیا ، اور ان کو انڈین کمپنی میں واپس بھیج دیا گیا۔اس کے باوجود مشن سے تعلق اور تعاون میں انھوں نے کوئی کمی نہیں کی ۔
مولانا عنایت اللہ عمری (پیدائش 1983) بنگلور میں مسٹر اعجاز اور ان کی اہلیہ مز فاطمہ سارہ کے ساتھ مل کر دعوتی کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اعجاز صاحب اور ان کی اہلیہ، دونوں مولانا کے اس فارمولا پر عمل کرتے تھے — میاں بیوی ایک دوسرے کے انٹلکچول پارٹنر ہیں۔ چنانچہ اس کو لے کر وہ ہمیشہ تھرلڈ(thrilled) رہتے تھے ۔ ان دونوں کا یہ معمول رہا کہ وہ باہم قرآن میں تدبر کرتے ، اور الرسالہ کے مطالعہ کا اہتمام کرتے تھے ۔اسی طرح اعجاز صاحب کو یہ پسند تھا کہ وہ اللہ کے راستے میں سب سے اعلی کوالٹی کی چیزیں استعمال کریں، خواہ وہ آفس کا سٹ اپ (setup) ہو یا کتابوں کا ڈسٹری بیوشن ،کمپیوٹر سسٹم کی ضرورت ہو یا موبائل وین ، وغیرہ۔ ہر جگہ انھوں نے یہی کوشش کی کہ اعلیٰ کوالٹی کی چیزیں استعمال کی جائیں۔
مسٹر اعجاز کا ایک انتہائی اہم رول سی پی ایس مشن کے انگریزی میگزین اسپرٹ آف اسلام (www.spiritofislam.co.in) کی بنگلور سے اشاعت ہے۔ یہ میگزین مسٹر اعجاز اور ان کی اہلیہ مز سارہ فاطمہ کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے انتہائی عمدہ طباعت کے ساتھ شائع ہوتا رہاہے۔ کووڈ 19 کے بعد سے یہ ای میگزین (e-magazine)کی شکل میں نکل رہا ہے۔ انگریزی زبان پر ان کومہارت حاصل تھی۔میگزین کے آغاز جنوری 2013 سے لے کردسمبر 2020تک مسٹر اعجازمیگزین کے ایڈیٹوریل ٹیم کے بنیادی رکن تھے، اور جب بھی وہ گھر پر ہوتے باقاعدہ میگزین کی ایڈیٹنگ اور پروف ریڈنگ کرتےتھے۔ اس کے علاوہ راقم الحروف کی کتاب اظہارِ دین کے انگریزی ورزن کی بھی ایڈیٹنگ کررہےتھے۔ لیکن وہ اس کو مکمل نہ کرسکے ۔
بنگلور ٹیم کے دوسرے ساتھی مسٹر ابرار مدثر (پیدائش 1985) نے بتایا کہ اعجاز بھائی کی وفات کے بعد میں نے ان کی اہلیہ سارہ آپا کا رویہ دیکھا تو مجھے صحابہ کی زندگی یاد آگئی، جو مصیبت کے موقع پر صبر سے کام لیتے تھے۔ سارہ آپا نے پوری طرح اللہ کی سچی بندی ہونے کا حق ادا کیا۔صبر اور حوصلہ کے ساتھ انھوں نے ہم سب کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ غم نہ کریں، وہ کسی نامعلوم (unknown) جگہ نہیں گئے ہیں،وہ اللہ کے کنگڈم (kingdom) میں گئے ہیں ، اللہ نے انھیںاپنے پاس بلا لیا ہے، جو اس دنیا سے بہت بہتر ہے۔اس دنیا کے اندر ان کے امتحان کا وقت اتنا ہی تھا۔ اس لیے ہمیں خدا کے کریشن پلان پر راضی ہونا ہے، اور صبر کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔ انھوں نے دعوتی مشن کو جو تعاون دیا ہے، اس کو آگے بڑھانا اب ہماری ذمے داری ہے۔ وہ دیر تک معرفت اور ایمان کی باتیں کرتی رہیں، جس سے خود ہمارے ایمان میں تازگی پیدا ہوئی۔
اُس وقت سارہ آپا نےمزید کہا کہ میں اور میرے شوہر مولانا (راقم الحروف) کے ساتھ ایک مجلس میں تھے۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا نے کہا کہ اگر میاں بیوی میں سے کسی ایک کا پہلے انتقال ہوجائے تو دوسرے کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے رفیقِ حیات کے حصے کا بھی دعوتی کام کرے ۔اس طرح وہ اپنے اور اپنے رفیق حیات کے گریڈ کو خدا کی نظر میں بڑھائے ۔اس لیےمیں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے حصہ کا دعوتی کام کرنے کے ساتھ شوہر کے حصے کا بھی دعوتی کام کروں گی تاکہ میں اپنے ساتھ اپنے شوہرکے گریڈ کو بڑھا سکوں۔
مسٹر اعجاز کی وفات کی خبر سنی تو مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آئی:یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (59:18)۔ یعنی اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا ہے— انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ خدا کے منصوبۂ تخلیق کو یادرکھے، اور اس کے مطابق زندگی گزارے۔اللہ مرحوم کی لغزشوں کو معاف کرے، اور اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے (آمین) ۔
واپس اوپر جائیں