Pages

Wednesday, 1 January 2020

Al Risala | January 2020 (الرسالہ،جنوری)

خصوصي شماره: ڈائری 1985سے انتخاب

001
میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا ایک مضمون لکھ رہا تھا۔ خیالات مسلسل دماغ میں امنڈ رہے تھے۔ وہ الفاظ کی صورت میں ڈھل کر قلم پر آرہے تھے ،اور کاغذ پر مرتسم (inscription)ہوتے چلے جارہے تھے۔
ایک لمحے کے لیے میرا ذہن اس طرف مڑ گیا کہ یہ سارا عمل کس طرح انجام پارہا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میرے بدن میں کپکپی طاری ہوگئی۔ ایک نفسیاتی دھماکے کے ساتھ میرا قلم رک گیا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو کیسی عجیب نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ مگر دنیا میں بہت کم لوگ ہیں، بلکہ شاید تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہوئے ہیں، جو واقعی معنوں میں اس کا احساس کریں، اور اس طرح شکر ادا کریں، جس طرح شکر ادا کرنے کا حق ہے۔
002
کارل ٹرول (1899-1975)ایک جرمن سائنٹسٹ اور جغرافیہ داںہیں۔وہ 1960 سے 1964 تک انٹرنیشنل جغرافیائی یونین (IGU)کے صدر رہے۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا— میری زندگی کا حاصل بحیثیت سائنٹسٹ اور جغرافیہ داں یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ خالق کا شکر گذار ہوگیا ہوں
“The fruit of my life as scientist and geographer is to have become more and more deeply grateful to our Creator.”
سائنس داںجب قدرت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے اندر قدرت کی عظمت کا بے پناہ احساس ابھرتا ہے۔ اس کا اندرونی وجود اُس ہستی کے آگے جھک جاتا ہے، جس نے اتنی با معنی کائنات بنائی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں خدا کے انکار کا ذہن سائنس دانوں نے نہیں بنایا۔ یہ دراصل کچھ ملحد فلاسفہ تھے، جنھوں نے سائنسی دریافتوں کو غلط رخ دے کر اس سے خود ساختہ طورپر انکارِ خدا کا مطلب پیدا کیا۔ حالاں کہ یہ سائنسی دریافتیں زیادہ درست طورپر اقرار ِخدا کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔اس کی ایک واضح مثال سر جیمز جینز کی کتاب پراسرار کائنات (The Mysterious Universe) ہے۔
003
شہد کے بارے میں مَیں نے ایک انگریزی مضمون پڑھا۔ اس میں دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی لکھا ہوا تھاکہ تقریباً 550 شہد کی مکھیاں مسلسل مشغول رہ کر تقریباً پچیس لاکھ پھولوں کا رس چوستی ہیں، تب ایک پاؤنڈ شہد تیار ہوتا ہے:
Some 550 busy bees have to dip their snouts into as many as 2.5 million flowers to make just one pound of honey.
شہد کی مکھی کے اندر بے شمار نشانیاں ہیں۔ مذکورہ واقعہ ان میں سے صرف ایک ہے۔ آدمی اگر اس پر غور کرے، تو وہ خالق کے کمالات کے احساس سے سرشار ہو جائے۔
004
نظامِ شمسی (solar system)وہ ہے، جس کے درمیان میںایک روشن ستارہ (سورج) ہو، اور اس روشن ستارے کے گرد غیر روشن سیارے مخصوص مدار میں گھوم رہے ہوں۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق، معلوم نظام شمسی ابھی تک صرف ایک ہے، جس میں ہماری زمین واقع ہے۔ تاہم علمائےفلکیات کا قیاس ہے کہ اس قسم کے مزید ایک ملین نظامِ شمسی کائنات میں ہوسکتے ہیں۔
کہکشاں(galaxy) اس مجموعہ کو کہتے ہیںجس میں روشن ستارے ایک خاص نظام کے اندر گردش کررہے ہیں۔ ہماری قریبی کہکشاں، جس کا نام ملکی وے (Milky Way) ہے، اورجورات کے وقت لمبی سفید دھاری کی شکل میں دکھائی دیتی ہے، اس کے اندر تقریباً ایک کھرب ستارے ہیں، اور ہمارا نظام شمسی اسی میں واقع ہے۔
سورج ہماری کہکشاں کی پلیٹ پر اپنے تمام سیاروں کو لیے ہوئے 175 میل فی سکنڈ کی رفتار سے گردش کررہا ہے۔ یہ کہکشاں اتنی وسیع ہے کہ سورج 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کے رفتار سے ایک چکر 24 کرور سال میں پورا کرتا ہے۔یعنی سورج کے اس تیز رفتار سفر کے باوجود کہکشاں کے مرکز کے گرد ایک چکر کو پورا کرنے میں ہمارے نظام شمسی کو 24 کرور سال لگ جاتے ہیں۔ اس قسم کی ایک بلین سے زیادہ کہکشائیں وسیع کائنات میں پائی جاتی ہیں، اور ہر کہکشاں کے اندر کئی بلین انتہائی بڑے بڑے ستارے موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہماری کہکشاںملکی وے میں 200 سے 400 ارب ستارے ہیں۔
کہکشاں کے اندر ستارے انتہائی بعید فاصلوں پر واقع ہیں۔ ہمارے سورج سے قریب ترین ستارے کی روشنی، جو ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ کی رفتار سے سفر کررہی ہو، زمین تک اس کو پہنچنے میں 4 سال سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔
اجرام سماوی کے اتنے بڑے نظام کو کیا چیز تھامے ہوئے ہے، فلکیات دانوں کے نزدیک وہ اجرام سماوی کی باہمی کشش ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ’’اجرام سماوی کی باہمی کشش‘‘ کے لفظ کی معنویت آدمی سمجھ لیتا ہے۔ مگر ’’خدا‘‘ کے لفظ کی معنویت اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔
005
قدیم زمانہ میں شرک اس طرح پیدا ہوا کہ لوگوں نے جس چیز کو بظاہر نمایاں دیکھا، اسی کو خدا سمجھ کر وہ اسے پوجنے لگے چاند سورج کی پرستش اسی طرح شروع ہوئی۔
اس اعتبار سے شرک، مظاہرِ کائنات کو سبب ِکائنات قرار دینے کا دوسرا نام ہے۔ مثلاً قدیم عرب میں شعریٰ کی پرستش ہوتی تھی، جس کا ذکر قرآن کی سورہ النجم (آیت 49) میں آیا ہے۔ شعریٰ (Sirius) دکھائی دینے والے ستاروں میں سب سے زیادہ روشن ستارہ ہے۔ وہ سورج سے 23 گنا زیادہ روشن ہے، اور شمسی نظام سے اس کا فاصلہ آٹھ نوری سال سے زیادہ ہے۔ Sirius کا لفظ اصلاً یونانی زبان سے آیا ۔ جس کے معنی چمک دار کے ہوتے ہیں۔
قدیم زمانہ میں مصر اور دوسرے مقامات پر شعریٰ کی پرستش کی جاتی تھی، اور زمین کی شادابی اور تجارتی سرگرمیاں اس سے منسوب کی جاتی تھیں۔ قدیم عرب کا ایک شاعر اپنے ممدوح کے بارے میں کہتا ہے— وہ گرمی پہنچانے والا ہےٹھنڈی میں، یہاںتک کہ جب شعریٰ (موسم بہار میں) طلوع ہوتا ہے، تو وہ (لوگوں کے لیے) ٹھنڈک اور سایہ بن جاتا ہے۔
شامس فی القر حتى إذا ما ذکت الشعرى فبرد وظل
میرا خیال ہے کہ قدیم شرک اور جدید الحاد دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہیں۔ شرک کیا ہے۔ شرک مظاہرِ فطرت کو سببِ فطرت سمجھ کر اس کو پوجنا ہے۔ اسی طرح الحاد بھی مظاہر فطرت کو سبب فطرت سمجھ کر اس کو برتر قرار دینا ہے۔ فرق یہ ہے کہ شرک نے جن مظاہر کو برتر سمجھا، وہ چاند، سورج، شعریٰ وغیرہ تھے۔ الحاد جس مظہرِ فطرت کو برتر قرار دے رہا ہے، وہ قانون فطرت (Law of Nature) ہے۔
006
عرب امارات کے ایک سفر میں میری ملاقات استاذ احمد العبّادی (شارجہ) سے ہوئی۔ یہ 21 رجب 1404 ھ کا واقعہ ہے۔ انھوںنے بتایا کہ فرانس کے ایک اسپتال کے ڈائرکٹر نے اعلان شائع کیا کہ اس کو طبی تحقیق کے سلسلہ میں کچھ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے درخواستیں بھیجیں، ان میں ایک نوجوان عرب بھی تھا۔ یہ مسلمان تھا مگر اسلام سے اس کو زیادہ دلچسپی نہ تھی۔انٹرویو کے دوران ڈائرکٹر نے پوچھا کہ تم مسلمان ہو، تمھاری رائے محمد کے بارے میں کیا ہے۔ نوجوان عرب نے جواب دیا: وہ قدیم عرب کے ایک بدو تھے، انھوںنے کچھ بدوؤں کو بے وقوف بنا کر اپنے گرد جمع کرلیا۔
نوجوان کا یہ جواب سن کر مذکورہ فرانسیسی ڈائرکٹر اس کو ایک مخصوص کمرے میں لے گیا۔ وہاں ایک بورڈ پر یہ حدیث لکھی ہوئی تھی:
عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا مَلَأَ آدَمِیٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ. بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُکُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہُ، فَإِنْ کَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِہِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2380، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3349، مسند احمد، حدیث نمبر 17186) ۔ یعنی مقدام بن معددی کرب سے روایت ہے ، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنا، آپ کہتے ہیں کہ کسی انسان نے پیٹ سے زیادہ نقصان پہنچانے والا کوئی برتن نہیں بھرا، انسان کے لیے اتنے لقمے کافی ہیں کہ وہ اپنی پیٹھ کو سیدھا کرسکے، اگر اور ضرورت ہے، تو ایک تہائی اس کےکھانے کے لیے ہو ، اورایک تہائی اس کےپانی کے لیے ہو،اور ایک تہائی اس کی سانس کے لیے ۔
فرانسیسی ڈائرکٹر نے مذکورہ عرب نوجوان کو یہ حدیث دکھائی، اور کہا کہ میں نے اس حدیث رسول سے دس سے زیادہ طبی اصول اخذ کیے ہیں، اور میری ریسرچ ابھی جاری ہے۔ لہذا جاہل اور گنوار تم ہو ،نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اور پھر اس طالب علم کو اپنے ادارہ میں لینے سے انکار کردیا۔
007
قرآن میں سورہ الذاریات کی ایک آیت یہ ہے: وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (51:47)۔ اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے: اور ہم نے آسمان کو بنایا ہاتھ سے اور ہم یقینا ًپھیلانے والے ہیں۔
قدیم مترجمین کی سمجھ میں پھیلانے والے کی معنویت نہ آسکی، اس لیے انھوں نے لموسعون کا ترجمہ حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے:
وہر آئینہ ما توانائیم
اور ہم کو سب مقدور ہے
اور ہم وسیع القدرت ہیں
اور بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں
اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔ وغیرہ۔
خالص لفظی اعتبار سے یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔ کیوںکہ لفظی ترجمہ یہ ہے کہ’’ ہم کشادہ کرنے والے ہیں‘‘ یا ’’ہم پھیلانے والے ہیں‘‘۔
ترجمہ کے اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات(expanding universe) ہے۔ انسانی علم کی محدودیت اس کو نہ پاسکی۔ مگر قرآن کے مصنف کو یہ حقیقت اس وقت بھی معلوم تھی کہ جب کہ ساری دنیا میں کوئی ایک شخص بھی اس کو نہیں جانتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اس حقیقت کی رعایت کرتے ہوئے موسعون(ہم پھیلانے والے ہیں) کے لفظ کا انتخاب فرمایا۔
قرآن میںاس طرح کے کثیر شواہد ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن عالم الغیب کا کلام ہے، محدود ذہن رکھنے والا انسان ایسا کلام پیش کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا۔
008
مذہب کیا ہے، اس کی تعریف میںعلم الانسان کے علماء (anthropologist) کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تاہم ان کی اکثریت نے عملی ضرورت (working purpose) کے لیے اس پر اتفاق کرلیا ہے کہ —مذہب ما فوق الفطری قوتوں میں عقیدہ رکھنے کا نام ہے:
The belief in power or powers superior to man
دنیا کی تاریخ کے بالکل ابتدائی دنوں سے انسان کسی نہ کسی شکل میںایک مذہبی مخلوق رہا ہے۔ تقریباً بلا اختلاف وہ ایک خدا رکھتا تھا یا کئی خدا۔ جس کی طرف وہ حفاظت اور پناہ کے لیے دیکھ سکے۔ کبھی یہ خدا لکڑی کے بنے ہوئے ہوتے تھے، کبھی پتھر کے ، کبھی جانوروں اور سانپوں کوخدا سمجھ لیاگیا۔ مگر بہر حال وہ انسان کی نظر میں خدا تھے۔ اس لیے انسان ضروری سمجھتا تھا کہ وہ ان کی پوجا کرے۔کیوں کہ مذہب ایک فوق الفطری طاقت کی پرستش کی صورت میںانسانی فطرت کے ڈھانچے میں مکمل طورپر پیوست ہے:
Man has worshipped them, because religion, as represented in the worship of a supernatural power, is interwoven with entire fabric of human nature. (Encyclopaedia Americana 1961, V. XXIII, p. 354)
009
موجودہ زمانہ میں مفکرینِ قانون کی بڑی تعداد تشکیک کی شکار ہے۔ مثال کے طورپر گسٹاؤ ریڈ برش (Gustav Radbruch [1878-1949]) اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ مطلق قانون قابلِ دریافت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قابلِ مظاہرہ نہیں:
Absolute judgments about law are not discoverable, that is to say, not demonstrable.
یہ نظریۂ قانون کانٹ کے فلسفہ سے نکلا ہے۔ کانٹ نے دکھایا ہے کہ ہم صرف جان سکتے ہیں کہ ’’کیا ہے‘‘، ہم ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کو دریافت نہیں کرسکتے۔ چنانچہ گسٹاؤ ریڈبرش کا کہنا ہے کہ مطلوبہ قانون بذریعہ اعتراف(confession)اختیار کیا جاسکتا ہے، نہ ;کہ اس لیے کہ وہ علمی طورپر معلوم (scientifically known) ہے۔ موجودہ زمانہ میں قانون ، زبردست کوشش کے باوجود قانون کے معیار (legal norms) کی تلاش میںناکام ہوچکا ہے۔
010
اسلام پر روایتی عقیدہ کافی نہیں۔ اسلامی تعلیمات کو جب آپ روایتی الفاظ میں بیان کرتے ہیں، تو وہ صرف روایتی عقیدہ کے طورپر ذہن میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب اس کو وقت کی زبان میں بیان کیا جائے تو وہ سننے والے کی نفسیات کا جزء بن جاتا ہے۔ ایک ناقابلِ فہم منتر آپ کسی کو یاد کراسکتے ہیں، مگر ایسا منتر آدمی کی نفسیات میں شامل نہیں ہوگا۔ وہ بس اوپر اوپر رہے گا، اور کوئی عقیدہ جب تک نفسیات میں شامل نہ ہو ،وہ آدمی کے اندرون کو نہیں جگاتا، وہ اس کی قوت محرکہ نہیں بنتی۔
اسلامی تعلیمات کو وقت کے اسلوب میں بیان کرنے کی چند مثالیں یہ ہیں۔مثلاً سورہ عنکبوت (آیت 2)میں ہے کہ خدا صرف آمنّا (ہم ایمان لے آئے) کہنے پر آدمی کو نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ وہ اس کی آزمائش کرتا ہے۔ اگر آپ آیت کا صرف ترجمہ کردیں، تو وہ جدید ذہن کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ مگر جب آپ اس کو ان الفاظ میں بیان کریں ;کہ آدمی نارمل (normal)حالات میں جو کچھ کرتاہے، اس پر اللہ کے یہاں فیصلہ نہیں ہوگا، بلکہ اس عمل پر ہوگاجو وہ ابنارمل (abnormal) حالات میں کرتا ہے، تو وہ فوراً جدید انسان کی سمجھ میں آجاتا ہے۔
اسی طرح قرآن میں ہے فَأُولَئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ (25:70)۔ یعنی اللہ اُنکی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا۔ اس کی تشریح آپ ان لفظوں میں کریں کہ خدا آدمی کے ڈس ایڈوانٹج کو ایڈوانٹج میںتبدیل کردیتا ہے۔ یہ تشریح بآسانی جدید ذہن کے لیے قابلِ فہم ہوجائے گی۔اسی طرح عورت اور مرد کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ(3:195) ۔یعنی تم سب ایک دوسرے سے ہو۔ اگر اس کی وضاحت آپ ان الفاظ میں کریں تو آج کا انسان فوراً اس کی حقیقت کو پالے گا کہ اسلام کے نزدیک عورت اور مرد ایک دوسرے کا تکملہ (supplement)ہیں، نہ کہ ایک دوسرے کا مثنیٰ (counterpart)۔
011
مولانا اسعد اسرائیلی سنبھل کے رہنے والے ہیں۔ ایک مرتبہ ان سے ملاقات ہوئی، اور دورانِ گفتگو ہندستان کے فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر ہوا۔ وہ الرسالہ کے اس نقطۂ نظر سے متفق ہیں کہ یہ فسادات داعی اور مدعو کے رشتہ کو مجروح کرتے ہیں۔ انھوںنے کہا:
’’فرقہ وارانہ فسادات میںمسلمان نہیں مرتے، جو چیز مرتی ہے، وہ دعوتِ حق کا امکان ہوتا ہے‘‘۔
ہندستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو جھگڑا ہے، اس میں مسلمان صرف اپنے مادی نقصانات کا رونا روتے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ان جھگڑوں کی وجہ سے دونوں قوموں کے درمیان معتدل فضا ختم ہوگئی ہے، اور معتدل فضا کے بغیر دعوتی عمل ممکن نہیں۔
اگر مسلمانوں کے اندر دعوت کا درد ہو، تو وہ ہندوؤں سے اپنے تمام مادی جھگڑے یک طرفہ طورپر ختم کردیں گے۔ وہ اپنے اور ہندوؤں کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ بحال کرنے کے لیے ہرقربانی کو آسان سمجھیں گے۔
012
مسلمان ساری دنیا میںوَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ (البقرۃ، 2:61)کا مصداق ہورہے ہیں۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے اورڈال دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی۔کوئی کوشش اور کوئی تدبیر ان کو اس حالت سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہورہی ہے۔ شاید یہ امت اس سنت الٰہی کی زد میں آگئی ہے، جس میں اس سے پہلے یہود آئے تھے۔ یہود اس لیے مغضوب ہوئے کہ کتاب الٰہی کے حامل ہونے کے باوجود، انھوںنے حق کی گواہی نہیں دی۔ انھوں نے اس کا کتمان کیا۔ مسلمانوں کا حال بھی اب یہی ہورہا ہے۔ ان کو خدا کی آخری وحی دی گئی تھی، اور حکم ہوا تھا کہ جس طرح رسول نے اس امانت کو تمھارے پاس پہنچایا ہے، اسی طرح تم قیامت تک اس کو تمام قوموں تک پہنچاتے رہو۔ مگر امت نے صدیوں سے اپنی اس ذمہ داری کو چھوڑ رکھا ہے۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی ذلت اور مسکنت کا سبب یہی ہے۔ ان کو ذلت اور مسکنت سے نکالنے کی واحد تدبیر یہ ہے کہ ان کو دوبارہ داعی گروہ کی حیثیت سے اٹھایا جائے، اور حق کا پیغام تمام بندگان خدا تک ان کی اپنی قابلِ فہم زبان میں پہنچایا جائے۔ یہی واحد عمل ہے، جو مسلمانوں کو دوبارہ نصرتِ الٰہی کا مستحق بنا سکتا ہے، اور ان کو دنیا اور آخرت میں سرفراز کرسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلِ خاص سے آج ہمارے لیے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ پچھلے تمام زمانوں سے زیادہ موثر شکل میں اس مہم کوانجام دیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف پٹرو ڈالر کے خزائن نے مسلمانوں کو اس پوزیشن میں کردیا ہے کہ وہ اس کام کو اعلیٰ ترین سطح پر کرنے کی بڑی سے بڑی قیمت دے سکیں۔ دوسری طرف جدید دریافتوں نے حیرت انگیز طورپر اسلام کے ان تمام معتقدات کے لیے خالص سائنسی دلائل فراہم کردیے ہیں، جن پر پچھلے زمانوں میں صرف قیاسی بحثیں کی جاسکتی تھیں۔ اگر ان دونوں امکانات کو دعوتِ حق کی مہم میں استعمال کیا جائے، تو اظہار دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے خواب کو عالمی سطح پر ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
013
تامل ناڈو کے علاقہ میں بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔وہاں کے ایک نومسلم سے پوچھا گیا کہ آپ اپنے اور عام مسلمانوں کے درمیان کس قسم کا فرق پاتے ہیں۔ مذکورہ نومسلم نے جواب دیا کہ وہ (پیدائشی) اتفاق کی بنا پر مسلمان ہیں، مگر ہم نے اپنے ارادہ سے اسلام کو اختیار کیا ہے:
They are Muslims by chance, but we are Muslims by choice.
یہ فرق کوئی معمولی فرق نہیں۔ یہ فرق آدمی کے کردار میں زبردست فرق پیدا کرتا ہے۔ جن لوگوں کو اسلام محض پیدائشی طورپر مل جائے، ان کے اندر کوئی اسلامی حرارت نہیں ہوتی۔ وہ اسلام کے نام پر دوسروں کے خلاف جھوٹے ہنگامے کرسکتے ہیں، مگر خود ان کے اپنے اندر اسلام ایک انقلاب کے طورپر داخل نہیں ہوتا۔
مگر جو شخص اسلام کو خود اپنے انتخاب سے اختیار کرے، اس کے لیے اسلام ایک ذہنی انقلاب کے ہم معنی ہوتا ہے۔ وہ اس کی اندرونی شخصیت میں بھونچال کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے ہی افراد دراصل وہ لوگ ہیں، جو تاریخ بناتے ہیں۔
014
اسلام کی بہت سی خصوصیات ہیں جو مسلمانوں کو معمولی سی لگتی ہیں۔ مگر غیر مسلم ان خصوصیات کو بڑے اچنبھے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
مثلاً اسلام میں ایک شخص بلا واسطہ خدا کی عبادت کرسکتا ہے۔ ہم چوں کہ روزانہ مسجد میں جاکر نماز پڑھتے ہیں، ہمیں اس کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر ایک غیر مسلم جب دیکھتا ہے کہ نماز کا وقت آیا، اور مسلمان نے خدا کی طرف رخ کرکے اپنی عبادت شروع کردی۔ وہ کسی واسطہ کے بغیر براہِ راست اپنے خدا سے مربوط ہوگیا، تو اس کو یہ بات بہت زیادہ اسٹرائک(strike) کرتی ہے۔
اسی طرح اسلام میں ہر حکم کے ساتھ رعایتی دفعہ بھی شامل ہے۔ مثلاً وضو نہ کرسکوتو تیمم کرلو۔ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مشکل ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھ لو، وغیرہ۔ اسی قسم کی چیز ان لوگوں کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں جنھوںنے دوسرے مذاہب کے ماحول میں پرور ش پائی ہے۔ کیوںکہ دوسرے مذاہب میں صرف ’’عزیمت‘‘ کے احکام ہیں، ان کے ہاں ’’رخصت‘‘ کے احکام نہیں۔
اسی طرح دوسرے مذاہب میںعبادتی مراسم (rituals) کی بھر مار ہے۔ ان مراسم میں معمولی فرق کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی کی عبادت ہی ادا نہیں ہوئی۔
اس قسم کی سادگی جو اسلام میں ہے ،وہ اس کے لیے ایک زبردست تبلیغی قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ دور اول میں اسلام جو اتنی زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلا، اس کی کم از کم ایک وجہ یہی تھی۔ دوسرے مذاہب میں لوگ اصراور اغلال کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ اسلام نے ان کو سیدھا سادھا فطری مذہب پیش کیا۔ وہ فوراً اس کی طرف دوڑ پڑے۔
بد قسمتی سے بعد کے دور میں مسلمانوں نے بزعم خود اسلام کی تعلیمات کو مفصل اور جامع بنانے کے لیےاس میںاضافے شروع کیے۔ فقہی اضافے، کلامی اضافے، اعتقادی اضافے اور متصوفانہ اضافے۔ ان اضافوں نے اسلام کے اوپر ایک مصنوعی پردہ ڈال کر اس کو اس کی فطری کشش سے محروم کردیا۔
015
عام طوپر لوگوں کا حال یہ ہے کہ کسی شخص کے اندر کوئی خرابی کی بات دیکھتے ہیں، تو وہ غیرجانب دار (indifferent) ہوجاتے ہیں۔ لوگ صرف اپنے بچوں کی خرابیوں کی اصلاح کے معاملہ میں سنجیدہ ہوتے ہیں، دوسروں کی خرابیوں کی اصلاح سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ میری مراد یہاںانفرادی اصلاح سے ہے۔ کیوں کہ میں اجتماعی اصلاح کے نام پر اٹھنے کو لیڈری سمجھتاہوں، نہ کہ حقیقۃً اصلاحی کام۔
مگر میرا حال یہ ہے کہ میںکسی فرد کے اندر کوئی خرابی دیکھتا ہوں، توفوراً دل بے چین ہوجاتا ہے۔مثلاً 23 ستمبر 1978 کا واقعہ ہے۔ میرے یہاںمسلم اسکالر آئے۔ وہ سگریٹ پر سگریٹ پی رہے تھے۔میں نے انھیں سمجھا بجھا کر آمادہ کیا کہ وہ سگریٹ چھوڑ دیں۔ چنانچہ انھوںنے سگریٹ پھینک دی، اور میری ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:
آج بتاریخ 23 ستمبر 1978 سے میںنے سگریٹ چھوڑ دی۔ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے اس عہد پر قائم رکھے۔‘‘
اسی طرح حفظ الرحمن عظیم قاسمی 19 نومبر 1978کو میرے دفتر میں آئے۔ ان کے ساتھی نے بتایا کہ وہ ہر شخص کی تقریر کو دہرا سکتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے قاری طیب صاحب، مولانا انظر شاہ صاحب کی تقریروںکو بالکل انھیں کی آواز میں دہرادیا۔ تاہم مجھے اس سے خوشی نہیں ہوئی۔ میں نے کہا کہ جب آپ کا حافظہ اتنا غیر معمولی ہے، تو آپ اس کو نقل کے بجائے کسی زیادہ بہتر کام میںاستعمال کریں۔ مثلاً آپ انگریزی پڑھیں۔ اچھا حافظہ ہونے کی وجہ سے آپ بہت آسانی سے نئی زبان سیکھ سکتے ہیں۔ انھوںنے اتفاق کیا اور میری ڈائری پر یہ الفاظ لکھے:
’’میں اللہ کو گواہ بنا کر یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے بعد کسی کی تقریر نہیںدہراؤں گا، ان شاء اللہ۔‘‘
016
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عائشہ نے فرمایا کہ لوگوں نے آپ کو روند ڈالا تھا (حَطَمَہُ النَّاسُ)صحیح مسلم، حدیث نمبر 732۔ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ کی کیا مصلحت ہے،مگر میرے جیسے کمزور آدمی کے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ لوگوں نے مجھ کو اتنا زیادہ ستایا ہے کہ اس کے لیے انسانی زبان میں سب سے موزوں لفظ یہی ہے — لوگوں نے مجھ کو روند ڈالا۔
پھر بھی میں زندہ ہوں ۔ اپنے حال پر مجھے ایک قصہ یاد آتاہے۔ ایک رسالہ نے ایک بار ایک انعامی سوال نامہ چھاپا۔ سوال یہ تھا کہ ایک عورت کی شادی ایک مردسے ہوئی۔ عورت اس مرد کو بہت زیادہ چاہتی تھی۔ مگر شادی کے جلد ہی بعد مرد کا انتقال ہوگیا اور اس نے ایک چھوٹا بچہ چھوڑا ۔ سوال نامہ میں پوچھا گیا تھا کہ بتاؤ کہ یہ عورت اپنے محبوب شوہر کے مرنے کے بعد خود بھی مرجانا چاہے گی یا زندہ رہنا پسند کرے گی۔بہت سے لوگوں نے اپنے جوابات بھیجے۔ جس آدمی کو انعام ملا، وہ شخص وہ تھا جس نے لکھا کہ وہ عورت اپنے بچے کی خاطر زندہ رہنا چاہے گی۔
ایسا ہی کچھ میرا حال بھی ہے۔ لوگوں نے مجھے جس قدر ستایا ہے، اور ستارہے ہیں ،اس کے بعد مجھے ایک دن کے لیے بھی زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا۔ مگر میرے سامنے جو دینی کام ہے وہی وہ چیز ہے جو مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے۔
میں قرآن کی تفسیر مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ میں سیرت پر ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ کئی ضروری موضوعات پر دینی کتابیں تیار کرنا ہے۔ یہی پیش نظر کام ہے، جو مجھے زندہ رہنے پر مجبور کرتاہے۔
شاید اللہ تعالیٰ کو بھی منظو رہے کہ میں یہ کام کروں۔ ورنہ لوگوں نے جتنا زیادہ مجھے پریشانی میں مبتلا کیا ہے ،اس کے بعد میری راتوں کی نیند اڑ جانی چاہیے تھی۔ مگر یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ میرے ہوش پوری طرح باقی ہیں۔ رات کو مجھے وہ نیند آتی ہے جس کو sound sleep کہاجاتا ہے۔ اگر میری نیند خدا نخواستہ اڑ جاتی، تو اس کے بعد میںکوئی بھی علمی کام نہیں کرسکتاتھا۔یا اللہ، مجھے بخش دیجیے، دنیا کا ستایا ہوا ،آخرت میں نہ ستایا جائے۔
017
پاکستان کے سفر میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی۔ یہ ایک مشہور شخصیت ہیں، اور پاکستان میں ’’غلبۂ اسلام‘‘ کی تحریک چلا رہے ہیں۔ میںنے ان سے پوچھا کہ پاکستان میں غیر مسلم (ہندو اور عیسائی) قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں۔ کیا ان کے درمیان کوئی تبلیغِ اسلام کی تحریک چل رہی ہے۔ میرا یہ سوال سن کر وہ مسکرائے اور پھر کہا: یہاں غیر مسلموں کی فکر کون کرتا ہے۔
مجھے ان کے اس جواب سے بہت دھکا لگا۔ میرے لیے یہ تجربہ بڑا اندوہ ناک تھا کہ جو لوگ غلبۂ اسلام کی باتیں کرتے ہیں، ان کو صرف اسلام کے سیاسی غلبہ سے دلچسپی ہے۔ خدا کے بندوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی انھیں کوئی فکر نہیں۔میرا قطعی یقین ہے کہ غلبہ اسلام کی بات کو اگر دعوت اسلام سے الگ کردیا جائے تو وہ صرف ایک قومی نعرہ بن جاتا ہے۔ دعوت اسلام سے الگ کرنے کے بعد غلبۂ اسلام کے نعرے کی کوئی حقیقت نہیں۔
اس قسم کی تحریک عین وہی ہے، جو یہودیوں کے اندر چل رہی ہے۔ یہودیوں کی تحریک صہیونیت (Zionism) گویا حضرت موسی کے دین سے ہدایت کو الگ کرکے صرف سیاست کو لے لینا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں میں جو لوگ حقیقی معنوں میں دعوتی جذبہ نہیں رکھتے، البتہ غلبہ اسلام کے موضوع پر پرجوش تقریریں کرتے ہیں، وہ درحقیقت قومی دین پر ہیں ،نہ کہ خدائی دین پر۔ انھوں نے دین کے دعوتی حصہ کو الگ کرکے اس کے سیاسی حصہ کو لے رکھا ہے، اور یہ عین وہی چیز ہے جو یہودیوں کے یہاں پائی جاتی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ یہودی اپنی روایات میں بولتے ہیں، اور مسلمان اپنی روایات میں۔
جو مسلمان غلبۂ اسلام کے علم بردار ہیں، وہ بظاہر دعوت کا لفظ بھی بولتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی تحریک کے تین مرحلے ہیں— دعوت، ہجرت، جہاد۔ مگر دعوت سے ان کی مراد اپنے سیاسی اسلام کے لیے فضا تیار کرنا ہے، نہ کہ اللہ کے بندوں کو جہنم سے نکال کر جنت کے راستہ پر ڈالنا۔
018
مسلمان واحد قوم ہیں جنھوں نے بحیثیتِ قوم آج کی دنیامیں سب سے بڑی اقتصادی قربانی دی ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مسلمان آج اقتصادیات میں سب سے پیچھے ہیں۔ جب کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ سے پہلے وہ ساری دنیا میں اقتصادی اعتبار سے سب سے آگے تھے۔ اس کی وجہ ان کی بے خبری نہیں، جیسا کہ عام طورپر سمجھا جاتا ہے، بلکہ بربنائے عقیدہ ان کی قربانی ہے۔ مسلمان آخر چاند سے تو نہیں آئے، وہ بھی انھیں قوموں سے نکل کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ دوسری قومیں جس جدید اقتصادی تبدیلی کو سمجھ کر اس پر چل پڑیں، مسلمان اس پر نہیں چلے۔ اس کی وجہ سود ہے۔ جدید اقتصادیات تمام کی تمام سود پر مبنی ہیں۔ مسلمان سود کی حرمت کی وجہ سے اس سے الگ رہے۔ اور اس کے نتیجے میں اقتصادی اعتبار سے وہ ساری قوموں میں سب سے پیچھے ہوگئے۔
سودی اقتصادیات نے آج ساری دنیا کو تباہ کررکھا ہے۔ مسلمانوں کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ دنیا کے سامنے غیر سودی نظام کی تبلیغ کرتے۔ اگر وہ صحیح معنوں میں ایسا کرتے تو وہ جدید دنیا کے امام بن سکتے تھے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس معاملہ کا نقصان تو ان کے حصے میںآیا، مگر اس کا فائدہ ان کے حصے میںنہ آسکا۔
موجودہ زمانہ کی دو بنیادی خرابیاں ہیں جنھوں نے ساری انسانیت کو تباہ کر رکھا ہے۔ ایک سودی معاشیات، دوسرے آزادانہ جنسی اختلاط۔ ان دونوں چیزوں کے بار ے میں دوسرے مذاہب کے پاس واضح اصول نہیں۔ تحریف (distortion)نے ان کی تعلیمات میں صحیح اور غلط کی آمیزش کررکھی ہے۔ آج صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے، جس میںان امور کے بارے میں واضح احکام موجود ہیں۔ ان کو لے کر دنیا کے سامنے کھڑا ہونے کے لیے دعوتی ذہن اور علم درکار ہے، اور یہی دونوں چیزیں ہیں جو مسلمانوں کے پاس موجود نہیں۔
019
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ الرسالہ کے پرانے قاری ہیں۔ میں نے الرسالہ کے بارے میں ان کا تاثر پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ میں سب سے پہلے سفر نامہ پڑھتا ہوں۔ آپ کا سفر نامہ بہت دل چسپ ہوتا ہے۔
اس قسم کا تبصرہ ذاتی طورپر مجھے پسند نہیں۔ کیوں کہ الرسالہ ذہنی تفریح کے لیے نہیں نکالا گیا ہے کہ لوگ اس کو دلچسپی کے لیے پڑھ لیا کریں۔چنانچہ موصوف کی زبان سے یہ جملہ سن کر مجھے سخت ناگواری ہوئی۔ مگر میں نے ناگواری کو برداشت کیا، اور اس کا اثر اپنی گفتگو یا ظاہری رویہ میں آنے نہیں دیا۔اس کے بعد انھوںنے مزید اپنے تاثرات بیان کیے۔ الرسالہ کے بارے میں بھی اور مکتبہ الرسالہ کی مطبوعات کے بارے میں بھی۔ ان کی مزید گفتگو سننے کے بعد اندازہ ہوا کہ ان کے بارے میں میرا وہ تاثر صحیح نہ تھا، جو ان کے ابتدائی فقرہ کو سن کر ہوا تھا۔ وہ الرسالہ کو محض ’’دلچسپی‘‘ کے لیے نہیں پڑھتے۔ بلکہ وہ ان کے دل میں اترچکا ہے، اور وہ اس کو اپنے حلقہ میں پھیلانے کی بھی برابر کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اس سے میں نے یہ سبق لیا کہ آدمی کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں ایک بات یہ ہے کہ بیشتر آدمی یہ نہیں جانتے کہ کسی بات کو کہنے کے لیے موزوں ترین لفظ کیا ہے۔ وہ اکثر ایک موزوں بات کو غیر موزوں الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے غیر ضروری قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ہم کو چاہیے کہ ہم آدمی کو زیادہ سے زیادہ رعایت دیں۔ اجتماعی زندگی کوفساد سے بچانے کا یہی واحد کامیاب طریقہ ہے۔
020
قرآن کی سورہ المؤمن میں ان لوگوں کا ذکر ہے، جن کے لیے آخرت میں سزا کا فیصلہ ہوگا۔ ان کے اس برے انجام کی وجہ بتاتے ہوئے آیا ہے : ذَلِکُمْ بِأَنَّہُ إِذَا دُعِیَ اللَّہُ وَحْدَہُ کَفَرْتُمْ وَإِنْ یُشْرَکْ بِہِ تُؤْمِنُوا (40:12)۔ یعنی یہ تم پر اس لیے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے، اور جب اس کے ساتھ شریک کیا جاتا تو تم مان لیتے۔
یہی موجودہ دنیا میںانسان کی اصل گمراہی ہے۔ انسان کبھی ایسا نہیں کرتا کہ وہ مکمل طور پر ناحق کا علم بردار بن جائے۔ وہ ہمیشہ ایسا کرتا ہے کہ حق کے ساتھ ناحق کو ملا تا ہے،اور ملاوٹی حق کو اختیار کرتا ہے۔ اس کے مقابلےمیں پیغمبروں کی دعوت بے آمیز حق کی دعوت ہوتی ہے۔ پیغمبراور غیرپیغمبر کی دعوت میں خالص منطقی اعتبار سے، حق اور ناحق کا فرق نہیں ہے۔ بلکہ بے آمیز حق اور آمیزش والے حق کا فرق ہے۔ یہی فرق ایک گروہ کو قابل انعام بناتا ہے، اور دوسرے گروہ کو قابل سزا۔
ملاوٹی حق سے انسان کو اتنی زیادہ دلچسپی کیوں ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے، اوروہ یہ کہ اس طریقہ کو استعمال کرنے میں آدمی کے اپنے جھوٹے دین کی نفی نہیں ہوتی۔ وہ خدا کو مانتے ہوئے بتوںکی پرستش کو بھی جاری رکھ سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ملاوٹی حق کو پیش کریں، وہ فوراً عوام کے اندر مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کی باتوں میں ہر ایک اپنا recognitionپالیتا ہے۔ ایسے لوگ ایک طرف اصول پرستی کی باتیں کرتے ہیں، اور دوسری طرف مفاد پرستی کی۔ ایک طرف وہ آفاقیت کا قصیدہ پڑھتے ہیں، اور دوسری طرف قوم پرستی کا ترانہ گاتے ہیں۔ وہ ایک طرف آخرت کا نام لیتے ہیں اور دوسری طرف دنیوی جھگڑوں میں بھی لوگوں کے ساتھ شریک رہتے ہیں۔
پیغمبر کی دعوت کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ہر ایک اپنی نفی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ’’مشرک‘‘ لیڈر کو ماننے میں کسی کو اپنی نفی نظر نہیں آتی۔ اس میں کسی کو اپنی جگہ سے ہٹنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ہر آدمی جہاں ہے، وہیں وہ اپنے مفروضہ حق کو بھی پالیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرک کے ساتھ بھیڑ جمع ہوجاتی ہے، اور موحد اس دنیا میں اکیلا رہ جاتاہے۔
021
ایک شریر آدمی نے موقع پاکر ایک بزرگ کے مکان پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد اس نے مزید یہ کیا کہ بزرگ کے اوپر جھوٹے مقدمے قائم کردیے تاکہ وہ دباؤ میں آکر اس کے ناجائز قبضہ کو مان لیں۔ عدالت کی پیشیاں ہونے لگیں، اور بزرگ کی توجہ اور پیسہ غیر ضروری طورپر اس میں ضائع ہونے لگے۔ تاہم بزرگ اس سے پریشان نہیں ہوئے۔ مذکورہ شخص سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا:
یاد رکھو، آخری پیشی خدا کے یہاں ہونے والی ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کا حال یہ ہے کہ وہ جھوٹی تدبیر یں کرکے دوسرے کے مال پر قبضہ کرتا ہے اور پھر فتح کا قہقہہ لگاتا ہے۔ وہ فرضی کارروائیاں کرکے دوسرے کی جائداد کو اپنے نام لکھوالیتا ہے اور پھر اپنے دوستوں میں اس کا تذکرہ اس طرح کرتا ہے گویا اس نے کوئی بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
مگر اس قسم کی فتوحات اور کامیابی جھوٹی فتوحات اور کامیابیاں ہیں۔ وہ خدا کے یہاں پیشی کے وقت اتنی بے معنی ثابت ہوں گی کہ آدمی کے پاس الفاظ بھی نہ ہوں گے کہ وہ اپنی حمایت میں کچھ بول سکے۔ وہ وہاں خود ہی اپنے جرم کا اعتراف کرے گا۔ اگر چہ اس وقت اعتراف کرنا، اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔
022
ضمام بن ثعلبہ ایک صحابی ہیں۔وہ اپنے قبیلہ سعد بن بکر کی طرف سے نمائندہ بن کر مدینہ آئے، اور اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد وہ اسلام کے داعی بن کر اپنے قبیلہ کی طرف لوٹے۔ قبیلہ میں پہنچ کر انھوںنے پہلی بات جو کہی وہ یہ تھی: کتنے برے ہیں، یہ لات اور عزی، جن کی تم پرستش کرتے ہو۔ قبیلہ کے اندر لات اور عزی کی عظمت بیٹھی ہوئی تھی، انھوں نے کہا ضمام چپ رہو، لات اور عزی کو اس طرح برا مت کہو۔ اس سے ڈرو کہ تم کو برص ہوجائے، تم کو جذام ہوجائے، تم کو جنون ہوجائے۔ ضمام نے کہا خدا کی قسم یہ لات اور عزی نہ ہمارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں، اور نہ ہم کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے (سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 574)۔
لات اور عزی بظاہر پتھر کے بت تھے۔ پھر قوم کے لوگوں نے ایسی بات کیوں کہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پتھر کے مجسمے حقیقۃً ان کے قدیم بزرگوں کے مجسمے تھے۔ ان پـتھروں کے ذریعہ وہ اپنے بزرگوں کو پوج رہے تھے۔ حضرت ضمام سے جو کچھ انھوں نے کہا وہ بدلے ہوئے الفاظ میں یہ تھا :’’ہمارے بزرگوں کو برا مت کہو، ورنہ تم پر آفت آجائے گی‘‘۔
یہی قوموں کی خاص گمراہی ہے۔ وہ پہلے بھی تھی، اور آج بھی پوری طرح باقی ہے۔ قوموں کا یقین جب خدا سے ہٹتا ہے ،تو وہ اکابر اور بزرگوں پر آکر رک جاتا ہے۔ لوگ اپنے اکابر سے وہ عقیدت وابستہ کر لیتے ہیں، جو عقیدت صرف ایک خدا سے ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں لوگ سب سے زیادہ جس چیز سے برہم ہوتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان کے بزرگوں اور اکابر پر تنقید کی جائے۔
023
رومن امپائر 117ءمیں شمالی برطانیہ سے لے کر بحر احمر اور خلیج فارس تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ مثل مشہور ہوگئی تھی :
All roads lead to Rome
رومن امپائر کے عروج کے زمانے میں اس کے اندر بیشتر یوروپ، شرقِ اوسط اور افریقہ کے شمالی ساحلی ممالک شامل تھے۔ رومیوں نے جو سڑکیں، عمارتیں اور پل بنائے، وہ اتنے شاندار تھے کہ ان کے بنائے ہوئے بعض پل اسپین میںدو ہزار برس بعد بھی آج تک باقی ہیں۔ رومن لا آج بھی یورپ، امریکا کے قانون کی بنیاد ہے، وغیرہ۔
مگر رومن امپائر اپنی ساری عظمتوں کے باوجود ختم ہوگئی۔ اب اس کا نشان یا تو پرانے کھنڈروں میں ہے یا ان کتابوں میں جو لائبریریوں کی زینت بننے کے لیے رکھی جاتی ہیں۔
اس طرح کے واقعات سے انسان اگر نصیحت لے تو وہ کبھی گھمنڈ میںمبتلا نہ ہو۔یہ واقعات بتاتے ہیں کہ آنکھ والا وہ ہے، جو اپنے عروج میں زوال کا منظر دیکھے۔ جو اپنی بلند عمارتوں کو پیشگی طورپر کھنڈر ہوتا دیکھ لے۔
024
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (1898-1983) علمائے دیوبند میں سے تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ وعظ میں کہا تھا، جس کا خلاصہ یہ ہے:
’’میرے نزدیک آج کل جھگڑے اور فساد کی بنیاد یہ ہے کہ ہر شخص سوا سیر بننا چاہتا ہے، کوئی شخص سیر بن کر رہنا نہیں چاہتا۔ اگر خود کو سیر اور دوسروں کو سوا سیر سمجھنے کا جذبہ پیدا ہوجائے تو آج ہی یہ سارے جھگڑے اور فساد ختم ہوجائیں ‘‘۔ (صحبتِ با اہلِ دل)
یہ نہایت صحیح بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے جھگڑوں کی جڑ لوگوں کا یہی جذبہ ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں سوچتا کہ بس چند دن کی زندگی تک یہ سارے جھگڑے ہیں، اس کے بعد انسان ہوگا اور اس کا خدا ہوگا۔ پھر تو نہ کوئی سیر ہوگا اور نہ کوئی سوا سیر۔
آہ، انسان آج سیر بن کر رہنے پر راضی نہیںحالاں کہ اس پر وہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ نہ ہی سیر رہے گا اور نہ سوا سیر۔ بلکہ وہ کچھ نہ ہوگا۔ کیوںکہ اللہ کے مقابلہ میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر لوگ جان لیں کہ بالآخر وہ کچھ بھی نہ رہیں گے تو وہ یونہی سیر بننے پر راضی ہوجائیں اور پھر تمام جھگڑے بھی اچانک ختم ہوجائیں۔
025
مسٹر توقیر احمد ایم اے (اوکھلا) نے اپنے گاؤں کا ایک دلچسپ قصہ بتایا۔ ان کے یہاں کے ایک زمین دار نے اپنا آم کا باغ پھل کے موسم میں پھل والے کے ہاتھ فروخت کیا ۔اس کے بعد تیز آندھی آئی، اور اکثر آم جھڑ گئے۔ باغبان زمین دار سے ملا۔ اس نے فریاد کی کہ آندھی سے پھلوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ آپ دام کم کردیجیے ورنہ میں بالکل دیوالیہ ہوجاؤں گا۔ زمین دار نے دام کم کرنے سے انکار کردیا، اور کسی قسم کی رعایت دینے پر راضی نہ ہوا۔
توقیر صاحب کو باغبان پر رحم آیا۔ انھوں نے زمین دار کے سامنے باغبان کی سفارش کی۔ زمین دار بگڑ گیا۔ اس نے کہا کہ تم کمیونسٹ لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے۔ انسان کا رزق انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے، وہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ خدا چاہے گا تو اس کو پہلے سے بھی زیادہ دے گا۔
انسان کیسا عجیب ہے۔ دوسرے کے خلاف اس کو قرآن سے بے شمار دلیلیں مل جاتی ہیں۔ مگر اپنے خلاف اس کو قرآن سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔زمین دار صاحب کو خود اپنے لیے تو پھل کے تاجر سے لینا تھا، مگر اس تاجرکے بارے میں انھیں یقین تھا کہ اس کو خدا سے مل جائے گا۔
026
ظہیر فاریابی (ظہیرالدّین ابوالفضل طاہر بن محمد، وفات 1201ء)ایک فارسی شاعر تھا۔ اس نے سلجوقی بادشاہ کی مدح میں قصیدہ لکھا۔ قدیم ایرانی روایت کے مطابق اس میں اس نے زبردست مبالغہ آرائی کی۔ اس قصیدے کا ایک شعر یہ تھا:
نہ کرسی فلک نہداندیشہ زیر پائے تا بوسہ بر رکاب قزل ارسلان زند
(خیال کو قزل ارسلان بادشاہ کی رکاب کو بوسہ دینے کے لیے نو آسمانوں کو پاؤں کے ینچے رکھنا پڑا)۔
اس مبالغہ پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے شیخ سعدی (مصلح الدین ابن عبد اللہ شیرازی، وفات 1291ء)نے کہا:
چہ حاجت کہ نہ کرسی آسمان نہی زیر پائے قزل ارسلان
(اس کی کیا ضرورت ہے کہ تم آسمان کی نو کرسیوں کو قزل ارسلان بادشاہ کے پاؤں کے نیچے رکھو)
مگر شیخ سعدی نے یہ شعر اس وقت کہا تھا جب کہ وہ زیادہ تر سیروسیاحت میں مشغول رہتے تھے، اور آزادانہ زندگی گزارتے تھے۔ اس وقت وہ ہر چیز سے بے نیاز تھے۔ وہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے کہ کسی رئیس یا بادشاہ کی مد ح خوانی کریں۔
مگر بعد کے زمانہ میں انھوں نے شیراز میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اس وقت دوسرے شاعروں کی طرح ان کے تعلقات بھی دربار شاہی سے ہوگئے۔ اس وقت وہ اپنے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔چنانچہ انھوںنے بھی بادشاہوں کی مدح میں مبالغہ آمیز قصیدے لکھے۔ سلطان شیراز، اتابک ابو بکر بن سعد زنگی کی مدح میںوہ اپنے ایک قصیدہ میں کہتے ہیں:
توئی سایۂ لطف حق بر زمیں پیمبر صفت رحمۃ للعالمیں
(تم ہی زمین پر خدا کی مہربانی کا سایہ ہو، تم پیغمبر کی طرح دنیا والوں کے لیے رحمت ہو)
اکثر انسان اپنے حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اگر ان کے حالات بدل جائیں تو وہ خود بھی بدل جاتے ہیں۔
028
عبد اللہ بن المبارک (وفات181ھ)کا ایک قول ہے: لَا یَزَالُ الْمَرْءُ عَالِمًا مَا طَلَبَ الْعِلْمَ، فَإِذَا ظَنَّ أَنَّہُ قَدْ عَلِمَ؛ فَقَدْ جَہِلَ (المجالسۃ و جواہر العلم، اثر نمبر308)۔ یعنی آدمی اس وقت تک عالم رہتا ہے جب تک وہ علم سیکھتا رہے۔ جب وہ گمان کرے کہ وہ عالم ہوگیا تو پھر وہ جاہل ہوگیا۔
عباس محمود العقاد کہا کرتے تھے کہ علم پڑھنے کا نام ہے۔ وہ بہت افسوس کرتے تھے کہ اکثر لکھنے والوں کا یہ حال ہے کہ وہ جتنا پڑھتے ہیں، اس سے زیادہ وہ لکھتے ہیں(العقاد کان یقول:العلم ہو القراءۃ۔ وکان یاسف ابلغ الاسف، لأن کثیرا من الکتاب یکتبون اکثر مما یقرأون)۔ رابطۃ العالم الاسلامی، رجب 1405ھ
029
ہندستان کے دینی مدارس کے معلّم یقیناًایک اہم خدمت انجام دے رہے ہیں۔ یہ ایسی نسل کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں،جس سے دینی روایت کا تسلسل قائم ہے۔ اسی طرح یہ مدارس آزاد ہندستان میں اردو کو زندہ رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، وغیرہ۔
مگر ہندستان کے دینی مدرسوں میں جو ماحول ہے وہ معلمین کے فکری مستویٰ کو بلند نہیں ہونے دیتا۔ مثال کے طورپر ان مدارس میں استاد اور شاگرد کا رشتہ صرف معلِّماور معلَّم (متعلم) کا رشتہ ہے۔ یعنی ایک بتانے والا ہے اور دوسرا سننے والا۔ اس کی وجہ سے معلمین کا مزاج ایسا بن جاتا ہے کہ وہ اپنے ذہن سے باہر کی حقیقتوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ طلبہ کے سامنے ان کی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ انھیں سیکھنا نہیں ہے، بلکہ سکھانا ہے۔ اس سے ان کا ذہن جمود (stagnation)کا شکار ہوجاتاہے۔ مزید یہ کہ جاننا یا دوسروں کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرنا، یہ سب باتیں ان کے مزاج سے خارج ہوجاتی ہیں۔
اس کے برعکس مغرب میں تعلیم کا تصور بالکل دوسرا ہے۔ مغرب میں استاد اور شاگرد کے درمیان معلِّم اور معلَّم کا تعلق نہیں، بلکہ رفیق کا تعلق ہے۔ ان کے نزدیک تعلیم ایک مشترک سفر ہے، جس کو استاد اور شاگرد دونوں مل کر انجام دیتے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں انسان کا ذہن یہ بنتا ہے کہ ا س کو اگر کچھ دینا ہے، تو اسی کو دوسرے سے کچھ لینا بھی ہے۔ وہ اگر کچھ باتیں جانتا ہے تو دوسرے بھی کچھ باتوں کو جانتے ہیں جن کو اسے دوسرے سے لینا چاہیے۔
مغرب کے تعلیمی نظام میں معلِّم کے اندر ذہنی جمود پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے اندر یہ صلاحیت زندہ رہتی ہے کہ وہ اپنے سے باہر کی حقیقتوں کو سمجھے، اور ان سے فائدہ اٹھائے۔اس کے برعکس ہمارے دینی مدارس کا ماحول، مذکورہ سبب سے، جامد ذہنیت پیدا کرنے کا کارخانہ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مدارس کے ذریعہ تحفظ دین کا کام تو کسی درجہ میں ہوا، مگر احیائے دین کا کام ان مدارس کے ذریعہ مطلق نہ ہوسکا۔
030
ایک مقالہ پڑھا جس کا عنوان ہے: میں اور انسانیت۔مقالہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:
’’اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کے قدموں سے لپٹنے کے لیے بے چین و بے قرار نظر آیا۔ پہاڑوں نے اپنے سینے کشادہ کردیے۔ دریا کی گہرائیاں پایاب ہوگئیں۔ بے قرار سمندر اس کے لیے خود ساحل بنانے لگے۔ آفتاب نے اس کی عظمت و بزرگی کے اعتراف میںاپنی روشنی پیش کردی کہ یہ انسان عظیم ہے۔‘‘
مقالہ اسی قسم کے الفاظ سے شروع ہوتاہے، اور اسی قسم کے الفاظ پر ختم ہوجاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اردو کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ اس کے اوپر شاعری کا غلبہ رہا۔چنانچہ نہ صرف نظم میںشاعری کی گئی، بلکہ نثر میں بھی یہی انداز جاری رہا۔ خطیبوں نے اپنی خطابت میں بھی یہی انداز اختیار کیا۔
اردو زبان میں یہ انداز اتنا زیادہ عام ہوا کہ زبان اور اس کے اسالیب اسی انداز میں ڈھل گئے، شاعرانہ انداز اظہار اردو پر بالکل چھاگیا۔چنانچہ اب یہ حال ہے کہ اگر کسی خیال کو سادہ طور پر ادا کرنا چاہیں تو اردو میںاس کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔ سائنٹفک اسلوب سادہ اسلوب ہے ۔ وہ حقیقت نگاری کا دوسرا نام ہے۔ مگر اردو اپنے شاعرانہ انداز کی وجہ سے اس کے بالکل نا اہل ہوگئی کہ اس میں کسی بات کو سائنٹفک انداز سے بیان کیا جاسکے۔
031
1973 کا واقعہ ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کی لڑائی میں فلسطینیوں کا کافی نقصان ہوا تھا،اور مسلمانوں میں غم و غصہ کا ماحول تھا۔ 19 اکتوبر 1973 کو جمعیۃ علماء کے زیر اہتمام دہلی میں ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا۔ یہ جلوس جامع مسجد سے شروع ہو کر امریکی سفارت خانہ پر ختم ہوا۔ دہلی کے مسلمانوں کے علاوہ اطراف کے شہروں کے مسلمان بھی بڑی تعداد میں آ آکر اس میں شامل ہوئے تھے۔ میں بھی الجمعیۃ ویکلی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس جلوس میں شریک تھا۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگ نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے گیٹ پر جمع ہوگئے۔ لوگ اس قدر جوش میں تھے گویا کہ وہ گیٹ کو توڑ کر سفارت خانہ کے اندر داخل ہوجائیں گے۔ تاہم وہاں پولیس کا کافی انتظام تھا، اس لیے لوگ اندر داخل نہ ہوسکے۔
مولانا سید احمد ہاشمی صاحب (وفات 2001) نے ایک ٹرک پر کھڑے ہوکر تقریر کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں جوش وجذبہ کا مظاہرہ کرنے کے بعد آخر میں کہا کہ اس وقت فلسطینی عربوں کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ خون ہے۔ ہزاروں لوگ زخمی ہو کر اسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی صحت کے لیے انھیں فوری طورپر خون پہنچانا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں ایک رجسٹر رکھا گیا ہے۔ آپ میں سے جو لوگ خون دینا چاہیں، وہ رجسٹر میں اپنا نام لکھوادیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ابھی فوراً خون نہیں لیا جائے گا، ابھی صرف نام اور پتہ لکھا جائے گا۔ جتنے آدمی نام لکھوائیں گے، ان کی فہرست یہاں ہم عرب سفارت خانہ میں دے دیں گے۔ اس کے بعد ان کے مطالبہ کے مطابق آپ حضرات کو خون دینے کے لیے بلایا جائے گا۔
مقرر نے اپنے اس اعلان کو بار بار دہرایا، اوران کو نام لکھوانے پر ابھارا ۔مگر غالباً ہزاروں کے مجمع میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں تھا، جس نے رجسٹر میں اپنا نام لکھوایا ہو۔ امریکی سفارت خانہ کے خلاف جوش وخروش کا مظاہرہ کرنے والے اس وقت بالکل ٹھنڈے ہوگئے ،جب انھیں اپنا خون دینے کے لیے پکارا گیا ۔ ایک ایک شخص خاموشی کے ساتھ اپنے گھر کی طرف واپس چلا گیا۔
032
نصف صدی پہلے امیر شکیب ارسلان (1869-1946)نے ایک عربی کتاب لکھی تھی، جو مندرجہ ذیل نام سے چھپی تھی
لماذا تاخر المسلمون وتقدّم غیرھم
(مسلمان کیوں پیچھے ہوگئے ،اور ان کے سوا دوسرے لوگ آگے ہوگئے)
مگر نصف صدی بعد بھی یہ سوال حل نہ ہوسکا۔مجلہ رابطہ العالم الاسلامی (ریاض) کی اشاعت اپریل 1985 میں استاذ محمد عبد اللہ السمان کا ایک مضمون چھپا ہے جس کا عنوان دوبارہ یہ ہے:
لماذا تأخر نا وتقدّم غیرنا
مضمون نگار نے لکھا ہے کہ مسلمان عام طور پر اپنے اسلاف پر فخر کرتے ہیں۔ وہ روم وایران کی فتح اور بدروحنین اور یرموک وقادسیہ کی فتوحات کا ذکر کرکے خوش ہوتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ خود ہم نے کیا کیا (ولکن ماذا فعلنا نحن)۔اس کے بعد انھوں نے یہ شعر لکھا ہے:
لیس الفتى من یقول کان أبى ولکن الفتى من قال ہا أنا ذا
(جوان وہ نہیں ہے جو کہے کہ میرا باپ ایسا تھا، جوان وہ ہے جو کہے کہ یہ ہوں میں)
033
موجودہ دنیا میں ہر قوم نے اپنی قومی برتری کا ایک نعرہ اختیار کررکھا ہے:
My Country, right or wrong میرا ملک چاہے حق پر ہو یا ناحق پر
Germany above all جرمنی سب سے اوپر
Italy is religion اٹلی مذہب ہے
Rule is for Britannia حکومت برطانیہ کے لیے ہے
America is God's own country امریکہ خدا کا اپنا ملک ہے
White Man’s Burden سفید آدمی کا بوجھ
مختلف قوموں نے اسی طرح مختلف الفاظ بنا لیے ہیں، جن کو بول کر وہ اپنی قومی برتری کے جذبہ کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ الفاظ اگر چہ الگ الگ ہیں، مگر سب کی نفسیات ایک ہے۔ ہر ایک اپنی قوم کو اونچا سمجھتا ہے۔ ہر ایک قومی بڑائی کے احساس کو اپنی غذا بنائے ہوئے ہے۔
ایسے ماحول میں مسلمان اگر یہ کریں کہ وہ بھی اپنی بڑائی کا نعرہ لے کر کھڑے ہوجائیں — ہمارا دین سب سے کامل، ہمارا نبی سب سے افضل، ہماری تاریخ سب سے شاندار، ہماری قوم خیر الأمم۔ اس طرح کے نعروں کے ساتھ اگر وہ دنیا کے سامنے آئیں تو وہ قومی بڑائیوں کے ٹکراؤ میں ایک اور قومی بڑائی کا اضافہ کریں گے۔ اس قسم کی باتیں صر ف جوابی قومیت کے جذبہ کو ابھاریں گی۔ وہ دعوت اسلامی کے حق میں لوگوں کے دلوں کو نرم نہیں کرسکتی۔
اس قسم کے نعروں کا کوئی بھی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں نے اپنی قومی برتری کے جذبہ کو تسکین دینے کے لیے بنائے ہیں، اور چوں کہ انھیں یہ درد نہیں ہے کہ دنیا کی قومیں خدا کے دین کے سایہ میں آئیں، وہ نہایت فخر کے ساتھ ان الفاظ کو دہراتے رہتے ہیں۔ انھیں احساس نہیں کہ ان کی اس قسم کی باتیں اسلام کو دوسروں کی نظر میںصرف ایک قومی چیز بنا دیتی ہیں، اور پھر وہ اس کو رقیب سمجھ کر اس سے دور ہوجاتے ہیں۔
034
طب نبوی پر تقریباً ایک درجن کتابیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں صحت اور امراض کے علاج کے بارہ میں جو کچھ فرمایا، ان کو محدثین نے اپنی کتابوں میں جمع کردیا ہے۔ صحیح بخاری میں بھی کتاب الطب موجود ہے جس میںپچاسی ابواب ہیں۔ آخری باب کا عنوان ہے:بَابُ إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِی الإِنَاءِ (باب جب مکھی برتن میںگرجائے)۔
ایک روایت اس سلسلہ میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار حضرت عائشہ کے پاس بغرض عیادت آئے۔ اس وقت آپ نےکہا: عائشہ، سب سے اچھی دوا پرہیز ہے، اور معدہ بیماری کا گھر ہے (الأَزْمُ دَوَاءٌ، وَالمَعِدَةُ بَیْتُ الدَاءِ)الطب النبوی للذھبی، صفحہ 102۔
یہ دو لفظ میں صحت اور تندرستی کا خلاصہ ہے۔ اگر آدمی کھانے پینے میںاحتیاط کا طریقہ اختیار کرے۔ اور معدہ میں ضرورت سے زیادہ غذا نہ بھرے، تو وہ، ان شاء اللہ، مستقل طورپر صحت مند رہے گا۔ اس کو نہ ڈاکٹروں کی ضرورت ہوگی، اور نہ خرابی صحت کی شکایت کی نوبت آئے گی۔
035
حدیث میںآیا ہے:إِنَّ الْوَلَدَ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3666)۔ یعنی اولاد بخل اور بزدلی میں مبتلا کرنے والی ہے۔ یہ بات ہمیشہ صحیح تھی۔ مگر موجودہ زمانہ میں یہ اور زیادہ صحیح ہوگئی ہے۔ قدیم زمانہ میں اسباب حیات بہت تھوڑے ہوتے تھے۔ اس لیے بخل اور بزدلی کے مواقع بھی کم تھے۔ اب اسباب حیات بہت زیادہ ہوگئے ہیں، اس لیے بخل اور بزدلی کے مواقع بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
مکان، فرنیچر، لباس اور د وسرے ساز وسامان جتنے آج ہیں، اتنے کبھی نہیں تھے۔ بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کی تعمیر کے جو امکانات آج کھلے ہیں، وہ پہلے کبھی نہیں کھلے تھے۔ چنانچہ ہر آدمی انھیں امکانات میں کھویا رہتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ ترین معیار زندگی کا حامل بنانا چاہتا ہے۔
یہ جذبہ آدمی کو دین کے معاملے میں بخیل اور بزدل بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے مال کو بچاتا ہے، تاکہ اس کے ذریعہ سے زیادہ سے زیادہ بچوں کے مستقبل کو سنوارے۔ وہ اپنے وجود کو ہر خطرہ کے مقام سے دور رکھتا ہے ،تاکہ بچوں کے بارے میں اس کا منصوبہ نامکمل نہ رہ جائے۔
036
سورہ انعام (آیت 141) میںاسراف سے منع کیاگیا ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے ایک مفسر قرآن لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید کا ایک اعجاز یہاں یہ ہے کہ احکام کے جزئیات بلکہ بعض اوقات تو جزئیات درجزئیات کے ضمن میں وہ ایسے حکیمانہ کلیات و اصول بیان کرجاتا ہے، جو زندگی کے سارے ہی شعبوں پر یکساں منطبق ہوجاتے ہیں۔چنانچہ یہاں بھی چلتے چلتے ایک ایسا چٹکلا بیان کردیا کہ انسان اگر اسی ایک پر عمل کرلے، تو اخلاق، معاملات، سیاسیات، معاشرت، غرض کیا انفرادی اور کیا اجتماعی ہر زندگی کے سارے شعبوں کی مشکلات دور ہوسکتی ہیں، اور بڑے سے بڑے پتھر پانی ہو کر رہ سکتے ہیں۔(تفسیر ماجدی، جلد دوم صفحہ 466)۔
قرآن بلاشبہ ایک اعجازی کلام ہے۔ مگر یہ اعجاز قرآن کی تصغیر ہے کہ یہ کہا جائے کہ قرآن چٹکلے بیان کرتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ یہاں جس چیز کو چٹکلا کہا گیا ہے، وہ لاتسرفوا (اسراف نہ کرو) ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ ایک عجیب بات ہے۔ کیوں کہ ’’اسراف نہ کرو‘‘ایک اہم شرعی اصول ہے نہ کہ معروف معنوں میں کوئی چٹکلا۔
037
ایک صاحب تشریف لائے۔ ان کا کہنا تھا کہ الرسالہ میں خدا اور گاڈ (God)کا لفظ استعمال ہوتا ہے، اس کو بند ہونا چاہیے اور اردو اور انگریزی دونوں الرسالہ میں صرف اللہ استعمال ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ انھو ںنے یہ بتائی کہ خدا اور گاڈ دونوں لفظوں کی جمع آتی ہے۔ جب کہ اللہ ایک ایسا لفظ ہےجس کی جمع نہیں۔
آج کل مسلمانوں میں یہ رجحان بہت بڑھ گیاہے۔ حتی کہ انگریزی میں لوگ ’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ‘ لکھتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ قومی جنون ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
جب کہ معلوم ہے کہ اللہ کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایجاد نہیں کیا۔ یہ پہلے عربوں میں موجود تھا۔ قدیم عرب نے اگرچہ اللہ کی لفظی جمع نہیں بنائی ،مگر اس کی معنوی جمع انھوں نے بنا رکھی تھی۔ یعنی اللہ کو مانتے ہوئے وہ ا س کے شرکاء کو بھی مانتے تھے۔ اس طرح اللہ کا لفظ قدیم عرب کے پس منظر میں شرک کا مفہوم لیے ہوئے تھا۔ مگر قرآن نے جب اس کو خالص توحید کے معنی میںاستعمال کیا، تو وہ توحید کے مفہوم کا حامل بن گیا۔ الفاظ کی معنویت ان کے استعمال سے متعین ہوتی ہے اور اسلامی کتابوں میں خدا اور گاڈ کا لفظ اسلامی استعمال کے اعتبار سے ہے نہ کہ جاہلی استعمال کے اعتبار سے۔
انگریزی میں ’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ‘‘ لکھنا ایک قسم کا جنون (fanaticism) ہے۔ میرا ذوق یہ ہے کہ اس معاملہ میں ادبی تقاضوں کو اہمیت دینی چاہیے۔ ادبی تقاضوں کو اہمیت نہ دینے کا نقصان یہ ہے کہ عبارت کا زور گھٹ جاتا ہے۔
038
قرآن کی سورہ الفتح (آیت 10) میں ہے:وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاہَدَ عَلَیْہُ اللَّہَ(48:10)۔ یعنی اور جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا، جو اس نے اللہ سے کیا ہے۔
یہاں عربی نحو کے عام قاعدہ کے مطابق عَلَیہ کی ’’ہ‘‘ زیر ہونا چاہیے، یعنی عَلَیْہِ پڑھا جانا چاہیے، نہ کہ عَلَیْہُ۔اس غیر معمولی اعراب پر تفسیر کی کتابوں میں لمبی بحثیں کی گئی ہیں، اور مختلف طریقوں سے اس کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مگر ایک اہم پہلو اور ہے، جو تفسیر کی کتابوں میں نہیںآیا ہے۔ وہ ہے قرآن کا کامل طورپر محفوظ ہونا۔
قرآن کو صحابہ کرام نے اور بعد کے لوگوں نے کامل طورپر محفوظ رکھنے کا انتہائی حد تک اہتمام کیا ہے۔حتی کہ اس کی آواز کو بھی پوری طرح محفوظ رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن کا کوئی حصہ اترتا، تو اسی وقت فوراً اس کو لکھ لیا جاتاتھا۔
اسی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت نماز کے اندر یا نماز کے باہر جس طرح ہوتی تھی، اس کی کامل نقل کی جاتی تھی۔چنانچہ اس آیت میں صحابہ نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عَلَیہُ پڑھتے ہوئے سنا، تو عین اسی طرح اس کو محفوظ کرلیااور بعد کی نسلوں کو اسی طرح منتقل کرتے رہے۔
قرآن کے بعد جو نحو مرتب ہوئی اس میں ایسے موقع پر زیر کا اصول درج کیاگیا، یعنی عَلَیْہِ۔ مگر چودہ سو سال تک کسی نے ایسا نہیں کیا کہ معروف نحوی قاعدہ کے مطابق بنانے کے لیے قرآن میں اس آیت کو عَلَیْہِ لکھے یا اس کو عَلَیْہِ پڑھے۔ سیکڑوں سال سے یہ آیت اسی طرح لکھی اور پڑھی جارہی ہے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پڑھ کر سنایا تھا۔کیسا عجیب یہ اہتمام ہے، جو قرآن کی حفاظت کے لیے کیا گیا ہے۔
039
اجمیر کے قریب ایک پہاڑی علاقہ ہے،جس کو میرات کہاجاتاہے۔ یہاں مسلمان معقول تعدادمیں آباد ہیں۔ مگر سب ان پڑھ اور پس ماندہ ہیں۔ وہ دین اور تہذیب دونوں سے دور ہیں۔
تقریباً 15 سال پہلے کی بات ہے مجھے اس علاقہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے ساتھ دو مولوی صاحبان اور تھے۔ ہم لوگ وہاں پہنچے تو مغرب کا وقت ہوچکا تھا۔ مغرب کی نماز ہم نے اپنے میزبان کے گھر کی چھت پر پڑھی۔
میرے ساتھ جو مولوی صاحبان تھے، وہ اس انتظار میں تھے کہ میزبان نماز کے بعد چائے لے کر آئے گا۔ مگر میزبان نماز کے بعد ہم سے رخصت ہوکر گیا، تووہ دوبارہ واپس نہیں آیا۔ انتظار کرتے کرتے عشاکا وقت ہوگیا۔ ہم لوگ عشا کی نماز پڑھ کر بیٹھ گئے ،مگر بدستور میزبان کا پتہ نہ تھا۔
میرے ساتھی جو اس سے پہلے چائے کے منتظر تھے، اب بھوک سے بے تاب ہو کر کھانے کا انتظار کرنے لگے۔ غرض کافی انتظار کے بعد میزبان بڑے سے برتن میں کھانا لے کر آیا۔ میرے ساتھی خوش ہوئے کہ آخر کار انتظار ختم ہوا۔ مگر ان کی خوشی دیر تک باقی نہیں رہی۔ میزبان نے برتن سے کپڑا ہٹایا تو معلوم ہوا کہ جو کھانا وہ لے کر آیا ہے، عجیب وغریب کھانا ہے، یعنی ارہر کی دال اور گلگلہ۔
اب میرے ساتھیوں کا صبر ٹوٹ گیا۔ وہ بول پڑے کہ اتنی دیر کے بعد تم کھانا لائے ہو، اور وہ بھی ایسا عجیب وغریب کھانا جو ہم نے کبھی نہ کھایا تھا، اور سنا تھا۔ مگر میرا رد عمل بالکل مختلف تھا۔ میں نے بہت خوشی کے ساتھ کھانا شروع کردیا، اور کہا کہ یہ تو بہترین کھانا ہے۔ میں کھاتا جاتا تھا ،اور تعریف کرتا جاتا تھا۔ اب میرے ساتھی بھی مجبور تھے۔ وہ بھی میرا ساتھ دیتے ہوئے کھانے میں شریک ہوگئے۔
اس تجربہ کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ کھانوں کی جو روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔
040
039 میں میںنے میرات کے بارے میں اپنے ایک سفر کا تجربہ لکھا ہے۔ اس تجربہ سے سیرت کا ایک پہلو سمجھنے میں مجھے مدد ملی۔
میرات کے مذکورہ سفر میں جب ہمارا میزبان ارہر کی دال اور گلگلہ لے آیا تو میرا اندرونی جذبہ خود بخود رہنمائی کرنے لگا کہ اس وقت مجھے کیا کرنا چاہیے۔ عین اپنے اندرونی جذبے کے تحت میری زبان سے حوصلہ افزائی کے کلمات نکلنے لگے۔ میں یہ کہہ کر ذوق وشوق کے ساتھ اس کو کھانے لگا: یہ تو بہترین کھانا ہے، یہ تو بہترین کھانا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ کھانوں کے سلسلہ میں جو روایتیں آتی ہیں، ان کی حقیقت یہی ہے۔ ان روایتوں کے سلسلہ میں سب سے اہم قابل غور بات یہ ہے کہ اس میں تقریباً ہر اس کھانے کا ذکر ہے، جو اس وقت مدینہ میں رائج تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہر چیز رسول اللہ کا پسندیدہ کھانا تھا، تو آخر وہ چیز کیا ہے جو آپ کو پسند نہ ہو۔
اصل یہ ہے کہ اس وقت مدینہ میں غذا کی فراوانی نہ تھی۔ بڑی مشکل سے آدمی کوئی ایک دو چیز حاصل کر پاتا تھا، جس سے وہ اپنا پیٹ بھر سکے۔
اکثر یہ صورت پیش آتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میںکھانے کا کوئی سامان موجود نہیں ہے۔ کسی انصاری کو پتہ چلا تو وہ آپ کے پاس حاضر ہوا، اور آپ کو بلا کر اپنے گھر لے گیا۔ وہ گھر کے اندر کھانا لانے کے لیے گیا، تو معلوم ہوا کہ گھر کے اندرصرف کوئی ایک یا دو چیز ہے، وہ اس کو اٹھا لایا، اور شرمندگی کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دیا، اور کہا یار سول اللہ اس وقت یہی ہے، آپ اس کو تناول کیجیے۔ آپ نے کھانے کو دیکھا ،تو آپ کی ایمانی شرافت حوصلہ افزائی کے کلمات میں ڈھل گئی۔ آپ نے یہ کہہ کر اس کو ذوق و شوق کے ساتھ کھانا شروع کردیا ،اور کہا یہ تو بہترین چیز ہے، اس سے اچھی کوئی چیز نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ غذاؤں کے سلسلے میں جو حدیثیں آتی ہیں، ان کی حقیقت بس یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے اقوال دراصل وہ کلمات ہیں، جو ایک شریف آدمی اپنے میزبان کے دستر خوان پر کہتا ہے۔ یہ میزبان کی نسبت سے ہے، نہ کہ کھانے کی نسبت سے۔
041
محمد المجذوب (1907-1999) ایک شامی ادیب اور شاعر ہیں۔ ان کی تین جلدوں میں ایک کتاب ہے، جس کا نام ہے: علماء ومفکرون عرفتھم ۔
اس کتاب میں انھوں نے لکھا ہے : أقیمودولتکم علی قلوبکم یقیم اللہ دولتکم علی الناس۔ یعنی تم اپنے دلوں کے اوپر اپنی حکومت قائم کرو، اللہ تمھاری حکومت لوگوں کے اوپر قائم کردے گا۔
یہ نہایت صحیح بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اقتدار کا فیصلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ اور خدا سیاسی اقتدار انھیں لوگوں کو دیتا ہے، جو اپنے آپ کو خدا کی نظر میں اس کا اہل ثابت کریں۔ اس حقیقت کو علامہ ابن تیمیہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: اللہ ینصر الدولة العادلة وإن کانت کافرة، ولا ینصر الدولة الظالمة وإن کانت مؤمنة (الحسبۃ فی الاسلام، صفحہ 7)۔یعنی اللہ عادل حکومت کی مدد کرتا ہے خواہ وہ کافر ہو اوروہ ظالم حکومت کی مدد نہیں کرتا خواہ وہ مومن ہو۔
042
صحابی رسول بشیر بن خصاصیہ کا واقعہ ہے کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ سرکاری عمال صدقہ لینے میں ہم پر زیادتیاں کرتے ہیں(إِنَّ أَہْلَ الصَّدَقَةِ یَعْتَدُونَ عَلَیْنَا)، کیا ہم اپنے مال میں سے زیادتی کے بقدر چھپالیں، بشیر بن خصاصیہ نے کہا:نہیں (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 1586) ۔ اسی طرح سعد بن ابی وقاص کی ایک روایت میں ہے:ادْفَعُوہَا إِلَیْہِمْ مَا صَلَّوُا الْخَمْسَ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر343)۔ یعنی جب تک وہ پانچ نمازیں پڑھتے ہیں، زکوٰۃ انھیں دیتے رہو۔
بنو امیہ کے زمانہ میں جب نظامِ خلافت بدل گیا اور حکام ظلم وتشدد پر اترآئے، تو بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ایسے لوگ ہماری زکوٰۃ کے کیوں امین سمجھے جائیں۔ لیکن تمام صحابہ نے یہی فیصلہ کیا کہ زکوٰۃ انھیں کو دینی چاہیے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر سے ایک شخص نے پوچھا، اب زکوٰۃ ;کس کو دیں۔ کہا، وقت کے حاکموں کو۔ انھوں نے کہا: وہ تو زکوٰۃ کا روپیہ اپنے کپڑوں اور عطروں پر خرچ کرڈالتے ہیں (إِذًا یَتَّخِذُونَ بِہَا ثِیَابًا وَطِیبًا)۔ابن عمر نے کہا وَإِنِ اتَّخَذُوا ثِیَابًا وَطِیبًا(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر 10191) ۔ یعنی اگر چہ وہ کپڑے اور عطر لے لیں (پھر بھی تم انھیں کو زکوٰۃ دو)۔
صحابہ نے یہ جو کہا، یہ کسی بزدلی کی وجہ سے نہیں کہا۔ درحقیقت یہی اسلام کا حکم ہے۔ مسلمان کی قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا اسلام میں جائز نہیں۔ اگر مسلم حکمرانوں میں خرابی نظر آئے تو صرف یہ حکم ہے کہ ان کو درد مندی اور خیر خواہی کے ساتھ سمجھاؤ۔ موجودہ زمانہ کی طرح ایجی ٹیشن چلانا، ان کے خلاف عوامی ہنگامے کرنا سراسر ناجائز فعل ہے۔ جو لوگ اسلام کے نام پر اس قسم کی سیاست چلا رہے ہیں، وہ بلا شبہ مجرم ہیں۔
043
صہیون (Zion) کا لفظ بائبل میں 152 بار آیا ہے۔ یہ قدیم یروشلم میں ایک پہاڑ کا نام تھا۔ یہودی تاریخ بتاتی ہے کہ دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت داؤد نے اسی پہاڑ پر اپنا شاہی قلعہ بنایا تھا۔ اس کے بعد حضرت سلیمان نے اسی پہاڑ پر عبادت گاہ تعمیر کی۔ بعد کو صہیون کا لفظ عمومی طورپر پورے شہر یروشلم کے لیے استعمال ہونے لگا، جو کہ یہودیوں کے نزدیک ان کا مقدس وطن ہے۔ اس علاقہ کو آج کل اوفیل (Ophel) کہاجاتا ہے۔
اس طرح یہودی روایات کے مطابق ’’صہیون‘‘ سے مراد یہودیوں کا مذہبی اور سیاسی مرکز ہے، اور تحریکِ صہیونیت سے مراد داؤد اور سلیمان کے دور کو زندہ کرنا ہے، تا کہ یہودی عظمت دوبارہ مذہبی اور سیاسی اعتبار سے قائم ہوجائے۔یہ ایک مثال ہے کہ مذہبی الفاظ کس طرح قومی تحریکوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہودی اپنی موجودہ فلسطینی تحریک کو صہیونیت (Zionism) کہتے ہیں۔ یہودی روایت کے اعتبار سے ان کے لیے غالباً یہ سب سے زیادہ مفیدِ مطلب نام ہے۔
یہی چیز آج مسلمانوں میں بھی مختلف اعتبار سے پیدا ہوگئی ہے۔ وہ خالص قومی تحریکیں چلاتے ہیں، اور مقدس ظاہر کرنے کے لیے اس کو کوئی اسلامی نام دے دیتے ہیں۔ مگر جو چیز یہودیوں کے لیے بری ہے، وہ مسلمانوں کے لیے کس طرح اچھی ہوجائے گی۔
044
افغانستان کے سابق حکمراں ظاہر شاہ (1914-2007)کے زمانہ میں سردار داؤد شاہ خان (1909-1978) وزیر فوج تھے۔ انھوںنے جولائی 1973 میں فوجی انقلاب کیا، اور ظاہر شاہ کو ملک بدر کرکے خود حکومت سنبھال لی۔ سردار داؤد کو اپنے اس مقصد کے لیے کمیونسٹ پارٹی (خلق) کی مدد لینی پڑی، جو 1965 میں قائم ہوئی تھی، اور جس کا لیڈر نور محمد تَرَہ‌کی(1917-1979) تھا۔افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی نے عوامی سطح پر سردار داؤد کے انقلاب کی حمایت کی۔ اس کے بعد سردار داؤد اور نورمحمد تَرَہ‌کی(Nur Muhammad Taraki)میںاقتدار کی کشمکش شروع ہوئی۔ آخر کار تقریباً ساڑھے چار برس بعد دوبارہ انقلاب ہوا۔ اپریل 1978 میں خلق پارٹی نے روسیوں کی مدد سے بغاوت کردی۔ سردار داؤد مع اپنے اہل خاندان قصر صدارت میں مار ڈالے گئے ،اور نور محمد ترہ کی برسر اقتدار آئے۔ اس طرح افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب آیا، جس کو مقامی زبان میں انقلاب نور کہاجاتا ہے۔ یہیں سے افغانستان میںباقاعدہ روسی تسلط کا آغاز ہوا۔
یہ ایک ہی کہانی ہے، جو تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی شکل میں دہرائی جارہی ہے۔ مصر میں الاخوان المسلمون نے شاہ فاروق (1920-1965) کا خاتمہ کرنے کے لیے فوجی افسروں کا ساتھ دیا۔ بعد کو ان فوجی افسروں نے حکومت پر قابض ہو کر اس سے زیادہ ظلم کیا، جو شاہ فاروق کرسکتا تھا۔ پاکستان میں سید ابوالاعلیٰ مودودی (1903-1979)صدر ایوب (1907-1971)کو ہٹانے کے لیے بھٹو (1928-1979)کے ساتھ متحد ہوگئے۔ مگر جب صدر ایوب کا خاتمہ ہوا، تو اس کے بعد پاکستان میں بھٹو کے تحت پہلے سے بھی زیادہ ظالمانہ حکومت قائم تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ میںمسلمانوں کی عقل چھن گئی ہے۔ وہ بار بار ایسے اقدام کرتے ہیں جس کا نتیجہ صرف الٹی صورت میں ان کے لیے برآمد ہو۔
045
حُمید بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں یزید کی ولی عہدی کے وقت حضرت بُشیر کے پاس گیا ،جو صحابہ میںسے تھے۔ میں نے ان سے یزید کے بارے میں اظہارِ خیال کے لیےکہا۔ انھوںنے کہا:یقولَوْن:إِنَّمَا یزید لیس بخیر أمة محمد -صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وأنا أقول ذلک، ولکن لأن یجمع اللَّہ أمة محمد أحب إلی من أن تفترق ( تاریخ الاسلام للذہبی،جلد 4، صفحہ 87)۔ یعنی لوگ کہتے ہیں کہ یزید امت محمد کےبہتر لوگوں میں سےنہیں ہے، اور میں بھی یہی کہتا ہوں۔ لیکن امتِ محمدی کا اتفاق سے رہنا،مجھے افتراق کی بنسبت زیادہ پسند ہے۔
جس وقت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنایا اس وقت ہزاروں کی تعداد میں صحابہ کرام زندہ موجود تھے ۔ مثلاً حسین بن علی، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن زبیر، اور عبدالرحمن بن ابی بکر اور دوسرے بہت سے جلیل القدر افراد ملت کے اندر موجود تھے۔ ایسی حالت میں یزید کو خلیفہ بنانا سخت قابل اعتراض ہوسکتا تھا۔ مگر تمام صحابہ نے اس پر سکوت اختیار کیا۔ حضرت حسین کے سوا کسی نے بھی یزید کے خلاف کوئی مہم نہیںچلائی۔اصحابِ رسول کی یہ خاموشی یقینی طورپر بزدلی کی بنا پر نہ تھی، بلکہ اسلامی حکمت کی بنا پر تھی۔
046
عرب ویڈیو ٹیپ کو فیدیو تیب (الشریط التلفزیونى) کہتے ہیں۔ عرب سے آئے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ بعض عرب ملکوں میں سینما ہاؤس پر پابندی لگائی گئی ہے۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر گھر میں لوگوں نے وی سی آر لگا لیا ہے، اور اس کے اوپر ہر قسم کی فلمیں دیکھتے ہیں۔ انھوںنے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا— آپ باہر سینما ہاؤس بند کریں گے تو گھر میں سینما ہاؤس کھل جائے گا۔
معاشرہ کا ذہن جب تیار نہ کیا گیاہو تو اوپر سے اصلاحی احکام نافذ کرنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔
047
پروفیسر اقبال عظیم بینائی سے محروم ادیب ، شاعرتھے۔ان کی پیدائش 1913میں ہوئی(اور وفات 2000میں ہوئی)۔ ان کی نعتیہ نظم کا ایک شعر یہ ہے:
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
اس شعر میں عجیب درد اور عجیب گہرائی ہے۔ مگر ایسا شعر صرف ایک ایسا شخص ہی کہہ سکتا تھا جس نے اپنی دونوں آنکھیں کھو دی ہوں۔ جس شخص کی دونوں آنکھیں روشن ہوں، اس کی زبان سے ایسا شعر نکل نہیں سکتا۔
اس دنیا کا عجیب نظام ہے۔ یہاں کھونے والا بھی پاتا ہے۔ بلکہ اکثر کھونے والا شخص اس سے زیادہ پالیتا ہے، جتنا کوئی بظاہر پانے والا شخص پائے ہوئے ہو۔
048
اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کیا چیز ہے، تو میں کہوں گا کہ تنقید(criticism)۔ اس کے بعد اگر دوبارہ یہ پوچھا جائے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کم کیا چیز ہے، تو دوبارہ میں کہوں گا کہ تنقید۔
کیوں میں ایسا کہتا ہوں کہ دنیا میں تنقید سب سے زیادہ ہے، اور تنقید ہی سب سے کم ہے۔ اس کی وجہ ایک تنقید اور دوسری تنقید کا فرق ہے۔ تنقید کی ایک صورت بے دلیل اظہار رائے ہے، اور دوسری صورت ہے مدلّل تجزیہ۔ بے دلیل اظہار رائے بلا شبہ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے، مگر مدلل تجزیہ اس کی نسبت سے انتہائی حد تک کم ہے۔ بلکہ شاید اس کا وجود ہی نہیں۔
ایک صاحب ایک بار میری کتاب ’’ظہورِ اسلام‘‘ لے گئے۔ پڑھنے کے بعد میںنے ان سے ان کی رائے پوچھی، تو انھوں نے کہا کہ ’’آپ نے لٹھ ماری ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ میں نے کسی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، دلیل سے لکھا ہے، آپ اس کو لٹھ مارنا کیسے کہتے ہیں۔ مگرانھوں نے نہیں مانا۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کتاب سے کوئی ایک مثال دیجئے، جس میں دلیل سے بات نہ کہی گئی ہو، بلکہ لٹھ ماری گئی ہو۔ مگر انھوں نے کوئی مثال نہیں دی۔ جب میں نے اصرار کیاتو وہ بگڑ گئے۔ اس قسم کی تنقید میرے نزدیک جھوٹی تنقید ہے۔ جو شخص متعین مثال نہ دے سکے، اس کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ مجرد اظہار رائے کرے۔
بعض تنقیدیں ایسی ہیں جن میں بظاہر مثال اور تجزیہ ہوتا ہے۔ مگر وہ نہ مثال ہوتی، اور نہ تجزیہ۔ کیوںکہ اس کی بنیاد تمام تر غلط مثال اور ناقص تجزیہ پر ہوتی ہے۔ مثلاً ’’عظمت قرآن‘‘ پہلی بار چھپی تو اس کاٹائٹل سبز رنگ کا تھا۔ اس کو دیکھ کر ایک صاحب نے کہا ’’سبز رنگ قذافی کا رنگ ہے‘‘ اس لیے یہ کتاب قذافی کے پیسہ سے چھپی ہے۔ حالاں کہ یہ سراسر بے بنیاد بات تھی۔ اس کتاب کا کچھ بھی تعلق قذافی سے نہ تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ سچی تنقید دنیا کا سب سے زیادہ مشکل کام ہے، اور جھوٹی تنقید دنیا کا سب سے زیادہ آسان کام۔
049
حضرت عمر فاروق نے فرمایا:تَفَقَّہُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا (صحیح البخاری، جلد1، صفحہ25)۔ یعنی سردار بننے سے پہلے تفقہ حاصل کرو۔ حضرت عمر کے اس قول سے موجودہ زمانہ کے بہت سے لوگ اُس فن کی اہمیت پر استدلال کرتے ہیں، جس کو فقہ کہا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سردار یا قائد کو فقہ کا علم ہونا ضروری ہے۔
مگر یہ استدلال صحیح نہیں۔ حضرت عمر کے اس قول سے اس فن کی اہمیت ثابت نہیں ہوتی، جو امام ابو حنیفہ اور دوسرے فقہاء کے ذریعہ وجود میں آیا۔ حضرت عمر کے اس قول سے فقہ کی اہمیت ثابت کرنے والے لوگ بھول جاتے ہیں کہ موجودہ فقہ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں موجود ہی نہ تھی۔ اگر مذکورہ قول کے یہ معنی لیے جائیںتو تمام صحابہ (بشمول عمر فاروق) سرداری اور قیادت کے لیے نا اہل قرار پائیں گے۔ کیوں کہ ان کا زمانہ موجودہ فقہ سے پہلے کا تھا۔ چنانچہ ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ موجودہ فقہ میں تبحر حاصل کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر کے قول میں تفقہ سے مراد حکمت وبصیرت حاصل کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرداری اور قیادت کے لیے دین کا سادہ علم کافی نہیں ہے، بلکہ دین میں گہری بصیرت ضروری ہے۔ گہری بصیرت کے بغیر جو شخص دینی قائد بنے گا، وہ قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں لے جائے گا۔
050
ٹائم میگزین (نیو یارک) کے دفتر میں یہ قاعدہ ہے کہ مضامین پریس میں جانے سے پہلے مخصوص اسٹاف کی ایک ٹیم کےپاس بھیجے جاتے ہیں۔ وہ ان میں مندرج تمام حقائق کو باریک بینی کے ساتھ جانچتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم مقرر ہے، جس کے پاس ایک مکمل قسم کی ریفرنس لائبریری مہیا کی گئی ہے۔میگزین کی ایک اشاعت (8 اپریل 1974) میں صفحہ اول کا مضمون (cover story) افراط زر پر تھا ،جس کا عنوان تھا:
World Inflation
ٹائم میگزین پریس جانے سے پہلے حسب قاعدہ مذکورہ اسٹاف کے پاس پہنچا۔ اس مضمون میں ایک بات یہ تھی کہ قدیم لیڈیا کے باشندوں(Lydians) نے پہلی بار دھات کے سکے بنائے۔ متعلقہ کارکن نے اس کو لائبریری کے محققین کے پاس بھیجا کہ وہ اس کی تحقیق کریں۔ انھوں نے تین انسائیکلو پیڈیا کو دیکھا تو تینوں میں مختلف بیانات تھے۔ پھر انھوںنے تاریخ زر(History of Money) پر دو اہم ٹکسٹ بک سے رجوع کیا، اور بالآخر اپنے فیصلہ سے متعلقہ کارکن کو مطلع کیا۔ اس پورے عمل میں صرف پندرہ منٹ لگے۔
051
راجہ رام موہن رائے (1772-1833) مشہور ہندو مصلح ہیں۔ انھوں نے سائنسی تعلیم کی زبردست وکالت کی۔ وہ سائنسی تعلیم (science-oriented education) کے حامی تھے۔ انگریزوں نے جب سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو راجہ رام موہن رائے نے دسمبر 1823 میں انگریز گورنر جنرل لارڈ ام ہرسٹ (Lord Amherst) کو لکھا کہ سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ ہم کو سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ ہندستان میں ایسی تعلیم جاری کی جائے جس میں ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹمی اور دوسری جدید سائنسی تعلیم کا انتظام ہو۔
راجہ رام موہن رائے کے زمانہ میں اور ان کے بعد بھی عرصہ تک مسلمانوں میںکوئی بھی قابلِ ذکر آدمی نظر نہیں آتا، جس نے جدید دور میں سائنس کی اہمیت کو سمجھا ہو، اور اس کی تعلیم پر اس طرح زور دیا ہو۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی کم از کم ایک وجہ یہ ہے کہ پچھلے دور میں مسلمانوں میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، جو اتنا تعلیم یافتہ ہوجیسا کہ راجہ رام موہن رائے تھے۔ راجہ رام موہن رائے کے سکریٹری (Sandford Arnot) نے لکھا ہے کہ وہ کم ازکم 11 زبانوں سے واقف تھے— سنسکرت ، عربی، فارسی، ہندی، بنگالی، انگریزی، عبرانی، لاطینی، فرانسیسی، اردو، یونانی۔
ان کی پہلی کتاب کانام تحفۃ الموحدین ہے۔ اس کا دیباچہ عربی میں ہے، اور اصل کتاب فارسی میں ہے۔ انھوں نے پہلی بار ویدوں اور اپنشدوں کا انگریزی اور بنگالی میں ترجمہ کیا۔ 1816 میںانھوںنے بنگال گزٹ نکالا، جو کسی ہندستانی کی ملکیت میں نکلنے والا پہلا انگریزی اخبار تھا۔ اس کے علاوہ انھوںنے فارسی میں بھی ایک اخبار جاری کیا۔ لال قلعہ کے مغل بادشاہ کو اپنے وظیفہ کی رقم کے سلسلہ میںایک سفارت انگلستان بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت مغل تاجدار نے جس ہندستانی کا انتخاب کیا، وہ راجہ رام موہن رائے تھے۔چنانچہ وہ 1830 میں اس مشن کے تحت انگلستان گئے۔
ہندو قوم کو اٹھارھویں صدی میںراجہ رام موہن رائے جیسا آدمی مل گیا۔ اس لیے وہ فوراً سائنس کی تعلیم میں داخل ہوگئی۔ مگرمسلمانوں کو پچھلے دو سو برس میں بھی غالباً کوئی ’’راجہ رام موہن رائے‘‘ نہیں ملا۔ ایسی حالت میں مسلمان اگر جدید تعلیم میں پیچھے ہیں تو یہ عین وہی بات ہے، جو واقعہ کے اعتبار سے ہونی چاہیے۔
052
میں نے بطور خود ایک اصطلاح وضع کی ہے، جس کو میں ڈیگال ازم (Degaulism) کہتا ہوں، اس کا مطلب ہے— کسی لیڈر کا اپنی لیڈری کی قیمت پر قوم کا مستقبل بنانا۔ موجودہ زمانہ میں فرانس کے جنرل ڈیگال کی زندگی اس قربانی کی ایک مثال ہے۔ اس لیے میںنے انھیں کے نام سے ڈیگال ازم کی اصطلاح وضع کی ہے۔
جنرل ڈیگال (1890-1970)موجودہ صدی کے وسط میںفرانس کے حکمراں بنے۔ اس وقت فرانس یورپ کا ’’مر د بیمار‘‘ بنا ہوا تھا۔ فرانس کے افریقی مقبوضات میں آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ ان تحریکوں کو کچلنے میں خود فرانس کچل اٹھا تھا۔ فرانس کے بے شمار جوان مارے گئے تھے، اور اس کی اقتصادیات دیوالیہ کی حد کو پہنچ گئی تھی۔
فرانس کے افریقی مقبوضات اس کے لیے سرمایہ (asset) نہ تھے، بلکہ اس کے لیے بوجھ (liability)بن چکے تھے۔ مگر اس طرح کی چیزیں قوموں کے لیے پرسٹیج (prestige) کا مسئلہ بن جاتی ہیں، اور جو چیز پرسٹیج بن جائے، اس سے دست برداری کے لیے لوگ کسی قیمت پر تیار نہیں ہوتے۔
جنرل ڈیگال نے اس معاملہ کی نزاکت کو محسوس کیا۔ انھوںنے 1950-60 میں افریقہ کی تمام فرانسیسی نوآبادیات کو آزاد کردیا۔ اس کے بعد 1962 میں الجیریا کو بھی آزاد کردیا ،جہاں زبردست تحریک آزادی چل رہی تھی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ جنرل ڈیگال سے سخت برہم ہوگئے ،حتی کہ 1969 میں ڈیگال کو مجبوراً استعفیٰ دینا پڑا۔ اگلے سال جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے جنازے میں صرف چند آدمی شریک تھے۔ مگر جنرل ڈیگال نے خود مر کر فرانس کو زندگی دے دی۔ اس کے بعد فرانس تیزی سے آگے بڑھنا شروع ہوا، یہاں تک کہ آج فرانس یورپ کا طاقتور ترین ملک شمار ہوتا ہے۔
053
مجھے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ میں ایک پیدائشی سائنس داں (born scientist) ہوں۔ ٹکنکل معنوں میں نہیں بلکہ مزاج کے معنوں میں۔
سائنٹسٹ خارجی حقیقت کا مطالعہ کرتا ہے، اور اس کو انتہائی درست زبان (precise language) میں بیان کرتاہے۔ سائنس داں کی کامیابی یہ ہے کہ وہ خارجی حقیقت کو ویسا ہی بیان کردے جیسا کہ وہ فی الواقع ہے۔اس سے سائنس داں کے اندر حقیقتِ واقعہ سے مطابقت کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ سائنسی مزاج (scientific temper) دراصل حقیقت واقعہ سے مطابقت ہی کا دوسرا نام ہے۔
حقیقتِ واقعہ سے مطابقت کا مزاج میرے اندر بچپن سے پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی میں کسی کی کوئی بات نقل کرتا ہوں ،تو آخری حد تک کوشش کرتا ہوں کہ وہی بات نقل کروں، جو کہنے والے نے کہی ہے۔ تاکہ اصل اور نقل میں یکسانیت باقی رہے۔ جب میں کسی کے فکر پر تنقید کرتاہوں تو اس کو بار بار پڑھتا ہوں، تاکہ میری تنقید عین اسی بات پر ہو جو پیش کرنے والے نے پیش کی ہے، نہ کہ کسی دوسری بات پر۔
اپنے اس مزاج کی وجہ سے اکثر میں یہ کرتارہا ہوں کہ جب مجھے اسلام کے موضوع پر کوئی مقالہ یا کتاب لکھنا پڑا، تو میں اس سے پہلے پورے قرآن کو ایک بار پڑھتا ہوں۔ قرآن کو بار بار پڑھنے کے باوجود ہر نئے موقع پر میں پھر سے اس کو ایک بار پڑھتا ہوں، تاکہ میری بات عین قرآن کے مطابق رہے، دونوں کے اندر نامطابقت پیدا نہ ہونے پائے۔
میرا یہ مزاج اتنا بڑھا ہوا ہے کہ وہ ہر معاملہ میں ظاہر ہوتا ہے۔ حتی کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک معمولی خط کا جواب دیتے ہوئے میںاس خط کو کئی بار پڑھتا ہوں۔ مکتوب نگار کا منشا اچھی طرح سمجھنے سے پہلے میںاس خط کا جواب نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے اوپر لوگوں نے بے شمار تنقیدیں کی ہیں مگر آج تک کوئی یہ نہ کہہ سکا کہ میں نے اس کی بات کو غلط شکل میں پیش کیا ہے۔
054
مسز اینی بسنٹ (1847-1933) ایک انگریز خاتون تھیں۔ انھوں نے لندن کے ایک اچھے تعلیمی ادارے میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن وغیرہ زبانیں سیکھیں۔ ان کے اندر اظہارِ خیال کی بہت عمدہ صلاحیت تھی۔ وہ 1893 میں ہندستان آئیں، اور یہاں کے بہت سے سیاسی اور سماجی کاموں سے وابستہ رہیں۔ 21 ستمبر 1933 کو ان کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق ان کی قبر پر یہ کتبہ لکھا گیا:
She tried to follow truth.
اس نے سچائی کے راستے پر چلنے کی کوشش کی۔ مگر عجیب بات ہے کہ مسز اینی بسنٹ عملی طورپر دوسروں کے ساتھ زیادہ دیر تک نہ چل سکیں۔ انھوںنے 1867 میں انگلینڈ کے ایک مذہبی آدمی فرینک بسنٹ سے شادی کی۔ کچھ دنوں کے بعد ان کو احساس ستانے لگا کہ ان کا شوہر آمریت پسند ہے۔ وہ اس سے نباہ نہ کرسکیں اور انھوں نے 1873 میں اس سے علیحدگی حاصل کرلی۔
وہ ہندستان کی سیاست میں داخل ہوئیں اور1917 میں انڈین نیشنل کانگریس کی صدر منتخب ہوئیں۔ مگر عدمِ تعاون تحریک (non cooperation movement)پر ان کا مہاتما گاندھی سے اختلاف ہوا، اور انھوں نے کانگریس چھوڑ دی۔
مسز اینی بسنٹ کی واقعات سے بھری ہوئی زندگی (eventful life) میںاس طرح کے بہت سے قصے پائے جاتے ہیں— وہ سچائی کی ہم سفر تھیں، مگر وہ سچوں کی ہم سفر نہ بن سکیں۔
ذہنی سفر کا معاملہ عملی سفر کے معاملہ سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ ذہنی سفر میں آدمی اکیلا ہوتا ہے۔ ذہنی سفر میں یہ نزاکت پیش نہیں آتی کہ آدمی کو دوسروں سے نباہ کرتے ہوئے اپنا سفر طے کرنا ہے۔ مگر عملی سفر میں دوسرے لوگ بھی شریکِ سفر ہوتے ہیں۔ یہاں ضروری ہوتاہے کہ آدمی دوسروں سے نباہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ جو ذہنی سفر میں بہت تیز رفتار نظر آتے ہیں، وہ عملی سفر میں بالکل ناکام ثابت ہوتے ہیں۔
054
ٹائمس آف انڈیا(28 اپریل 1985) میں ایک رپورٹ چھپی ہے جس کا عنوان ہے:
A lifetime of Encyclopaedia
اس رپورٹ میں مسٹر بنود کانون گو(عمر 73 سال) کے کام کی تفصیل چھپی ہے۔ وہ کٹک (اڑیسہ) کے رہنے والے ہیں۔ انھوںنے ایک اڑیا انسائیکلوپیڈیا تیار کی ہے، جو 75 جلدوں میں مکمل ہوئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ کام انھوں نے اپنی تنہا محنت سے 30 سال میں مکمل کیا ہے۔
مسٹر بنود کانون گو جب نوجوان تھے تو ان کے کان میں مہاتما گاندھی کی پکار آئی— کوئی قوم تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی، اور بنیادی تعلیم ہی حقیقی تعلیم ہے۔
No nation grows without education, and basic education is real education.
ان الفاظ سے مسٹر بنود کانون گو کے اندر شدید جذبہ ابھرا۔ انھوںنے اڑیا زبان میں انسائیکلوپیڈیا تیار کرنے کی مہم شروع کردی۔ یہاں تک کہ 30 سال کی مسلسل محنت کے ذریعہ اس کو کامیابی تک پہنچا دیا۔مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسٹر بنود کانون گو نے اس مہم میں اڑیسہ کی ریاستی حکومت اور نئی دہلی کی مرکزی حکومت سے مدد کی درخواست کی۔ مگر ان کو نہ ریاستی حکومت سے کوئی مدد ملی، اور نہ مرکزی حکومت سے۔اس کے باوجودمسٹر بنود کانون گو نے اپنے محدود ذرائع سے کام لیتے ہوئے اپنی مہم جاری رکھی، یہاں تک کہ اس کو اختتام تک پہنچا دیا۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ کون لوگ ہیں،جو کسی قوم کی تعمیر کرتے ہیں۔ قومی تعمیر کا کام ہمیشہ انفرادی قربانی کی قیمت پر ہوتا ہے۔ اس کے سوا قومی تعمیر کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
055
لوہار لوہے کو آگ میں ڈال کر تپاتا ہے۔ یہاںتک کہ لوہا گرم ہو کر لال ہوجاتا ہے۔ اس وقت لوہار ہتھوڑا مار کر لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق بناتا ہے، چپٹا یا گول یا لمبا۔ لوہار اگر لوہے کو گرم کیے بغیر اس پر اپنا ہتھوڑا مارنے لگے تو وہ لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے میں کامیاب نہ ہو۔ اسی سے انگریزی کی یہ مثل بنی ہے کہ لوہے کو اس وقت مارو جب کہ وہ خوب گرم ہو:
To strike the iron when it is hot.
یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔ آدمی کو زندگی میں اکثر کوئی اقدام کرنا پڑتا ہے۔ مگر اقدام سے پہلے ضروری ہے کہ حالات کا بھر پور اندازہ کرلیا جائے۔ اگر حالات پوری طرح تیار ہوں، تو اقدام مفید ہوگا، ورنہ ناکام ہو کر رہ جائے گا۔لوہا گرم ہونے پر ہتھوڑا مارنے والا اپنے مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ جو شخص ٹھنڈے لوہے پر ہتھوڑا مارنے لگے ،وہ صرف اپنے ہاتھ کو دکھ پہنچائے گا ،وہ لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکتا۔
056
انگریزی کا ایک مثل ہےکہ کیل کے عین سر پر مارنا:
Hitting the nail on the head.
یہ مثل بہت بامعنیٰ ہے۔ اس میں ایک مادی مثال کے ذریعہ انسانی کامیابی کا راز بتایا گیا ہے۔یہ ایک معلوم بات ہے کہ کیل جب کسی چیز پر ٹھونکی جاتی ہے، تو اس کے ٹھیک سر پرہتھوڑی ماری جاتی ہے۔ اگر ہتھوڑی کی مار ادھر ادھر پڑے، تو وہ صحیح طور پر اندر نہیں داخل ہوگی، بلکہ ٹیڑھی ترچھی ہو کر رہ جائے گی۔اسی طرح زندگی کے معاملات میں یہ جاننا پڑتا ہے کہ ٹھیک ٹھیک وہ کون سا مقام ہے جہاں ضرب لگانی چاہیے۔ صحیح ضرب کے نتیجہ ہی کا دوسرا نام کامیابی ہے۔
مثلاً آپ کسی موضوع پر اظہارِ خیال کررہے ہیں یا کسی شخص سے ایک اختلافی موضوع پر بحث کر رہے ہیں ۔ ایسی حالت میں اگر آپ وہ بات کہیں جو ٹھیک ٹھیک موضوع کے اوپر چسپاں ہوتی ہو تو سننے والا آپ کے نقطۂ نظر کو ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ ایسی باتیں کریں جو زیرِ بحث موضوع پر ٹھیک فٹ نہ بیٹھتی ہو، تو آپ کی بات لوگوں کو بے وزن محسوس ہوگی۔ وہ اپنے آپ کو اندرونی طورپر مجبور نہ پائیں گے کہ آپ کے نقطۂ نظر سے اتفاق کرلیں۔
057
ایک انجینئر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے ماسکو یونیورسٹی سے انجینئرنگ کیا ہے۔ وہ روسی زبان بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ انھوںنے روس کے بارے میں کئی دلچسپ باتیں بتائیں۔ مثلاً انھوں نے لینن کا ایک مقولہ روسی زبان میں بتایا، جس کا ترجمہ یہ تھا:
’’اگر ایک ہاتھ پیچھے کھسکو تو دو ہاتھ آگے بڑھنے کے ارادے سے‘‘۔
یہ مثل بہت با معنی ہے۔ زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں، جب کہ آدمی کو پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ مگر وہ پسپائی نہیں ہے، جو منصوبہ بند ہو۔ یعنی آدمی پیچھے ہٹنے کے لیے قدم پیچھے نہ کرے، بلکہ اس کا پیچھے ہٹنا آگے بڑھنے کی ایک تدبیر ہو۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹے ،تو اس لیے پیچھے ہٹے کہ اس کے ذریعہ اس کو دو قدم آگے بڑھنے کا راستہ ملے گا۔
058
قدیم عرب شعرا کے یہاں ایسے اشعار ملتے ہیں،جن میں بڑی حکمت کی باتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً:
سبـکـنـاہ ونحسـبـہ لـجیـنـاً
فأبدى الکیر عن خبث الحدید
یعنی ہم نے اس کو پگھلایا، اور اس کو چاندی سمجھتے تھے، مگر بھٹی نے ظاہر کیا کہ وہ زنگ آلود لوہا ہے۔
اس شعر میں تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ انسان بظاہر اچھا دکھائی دیتا ہے، مگر جب تجربہ ہوتا ہے، اسی وقت معلوم ہوتا ہے کہ کون کیا ہے، اور کون کیا نہیںہے۔اسی طرح ایک شعر یہ ہے:
وکم على الأرض من خضر ویابسة
ولیس یـرجـم إلا مـالــہ ثـمـر
یعنی زمین پر کتنی ہی تر اور خشک چیزیں ہیں، مگر پتھر اسی پر مارے جاتے ہیں جس میں پھل ہوں۔
اس شعر میںشاعر زندگی کی اس حقیقت کو بتاتا ہے کہ جس انسان کے پاس کچھ ہو، اسی کے اوپر لوگ یورش کرتے ہیں، جس کے پاس کچھ نہ ہو اس کے اوپر کوئی یورش نہیں کرے گا۔
059
قدیم عربوں کے نزدیک سب سے بڑی انسانی صفت حماسۃ تھی، یعنی بہادری۔ اس بہادری کا اظہار قدیم عرب میں سب سے زیادہ لڑنے بھڑنے میں ہوتا تھا۔ایک حماسی شاعر کہتاہے:
إذا المہرة الشقراء أرکب ظہرہا فشب الإلہ الحرب بین القبائل
یعنی جب میرا گھوڑا سواری کے قابل ہوجائے، تو خدا قبائل میں جنگ بھڑکا دے (تاکہ میں اپنی بہادری کے جوہر دکھا سکوں)
عربوں کا یہ لڑنے بھڑنے کا ذہن اتنا بڑھا ہوا تھا کہ اگر دشمن لڑنے کے لیے نہ ملتا تو وہ آپس ہی میں لڑنے لگتے۔ ایک شاعر کہتا ہے:
وأحیاناً على بکرٍ أخینا إذا ما لم نجد إلا أخانا
یعنی اور کبھی ہم اپنے بھائی قبیلہ بکر پر (حملہ کردیتے ہیں)، جب کہ ہم کو (لڑنے کے لیے) اپنے بھائی کے سوا کوئی اور نہیں ملتا۔
عربوں کی یہ بہادری (حماسۃ) ان کا بہت بڑا جوہر تھی۔ اسلام سے پہلے ان کی اس بہادری کا کوئی بلند نشانہ انھیں معلوم نہ تھا۔ اسلام نے انھیں ایک بلند نشانہ دے دیا۔ چنانچہ انھوںنے عالم میں انقلاب برپا کردیا۔
060
عربی زبان کا ایک مثل ہےکہ تجربہ کرنے والے سے معلوم کرو، عقل مند سے نہ پوچھو:
سَلِ المجرِّب ولا تسئل الحکیم
یہاں حکیم (عقل مند) سے مراد وہ انسان ہے، جس کو صرف نظریاتی جانکاری حاصل ہو۔یہ ایک حقیقت ہے کہ باتوں کو وہی شخص جانتا ہے جس پر تجربہ گزرا ہو۔ جو شخص صرف نظریاتی واقفیت رکھتا ہو، وہ اصل حقیقتوں سے اسی طرح بے خبر رہتا ہے، جس طرح کاغذکی کوئی کتاب زندگی کے عملی معاملات سے بے خبر ہو۔
مگر اس سے بھی زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تجربہ کار کے بتانے کے باوجود آدمی باتوں کو سمجھ نہیں پاتا۔ آدمی کسی بات کی حقیقت صرف اس وقت سمجھتا ہے، جب کہ اس پر خود ذاتی تجربہ گزرے۔ جب کہ وہ تجربہ کر کے نقصان اٹھا چکا ہو۔ ذاتی طورپر تجربہ کی چکی میں پسنے سے پہلے بمشکل ہی کوئی شخص باتوں کی حقیقت کو سمجھ پاتا ہے۔ چاہے لفظی طورپر اس کو کتنا ہی زیادہ سمجھا جائے۔
061
کسی شخص کا قول ہےکہ غم پیچھے کی طرف دیکھتاہے، پریشانی اِدھر اُدھر دیکھتی ہے، اور عقیدہ اوپر کی طرف دیکھتا ہے:
Sorrow looks back, worry looks around, faith looks up.
062
انسان دو قسم کے ہوتے ہیں— شخصیت پرست ، اور حقیقت پرست۔
شخصیت پرست وہ ہے، جو باتوں کو شخصیت کے اعتبار سے دیکھے۔ جس بات سے اس کی محبوب شخصیت کی تائید نکلے، اس کو وہ ٹھیک سمجھ لے، اور جس بات سے اس کی محبوب شخصیت کی تردید ہو رہی ہو، اس کا وہ مخالف بن جائے۔
حقیقت پرست وہ ہے، جو باتوں کو حقیقت کے اعتبار سے دیکھے۔ جو بات دلائل سے درست ثابت ہو، اس کو مانے، اور جو بات دلائل سے درست ثابت نہ ہو، اس کو رد کردے۔
یہی دوسری قسم کے لوگ ہیں، جو خدا کو پاتے ہیں، جو آخری اعلیٰ حقیقت ہے۔ پہلی قسم کے لوگ ساری عمر شخصیت کے خول میں بند رہتے ہیں، اور اسی میں مر جاتے ہیں۔ وہ اس لذتِ معرفت سے محروم رہتے ہیں، جو حقیقت اعلیٰ کو پاکر کسی بندہ ٔ خدا کو حاصل ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

Sunday, 1 December 2019

Al Risala | December 2019 (الرسالہ،دسمبر)

4

- اللہ کی معرفت

5

- انسان کی تخلیق

6

- اعترافِ خطا

8

- شکر میں جینا سیکھیے

9

- دنیا کی مصیبت

10

- دو واقعات

11

- رسول اللہ کی سنت

12

- حدیثِ تجدید

13

- مشن کا مستقبل

14

- مضاہاۃ اغیار

15

- اعلیٰ انسان

16

- اصلاح کا آغاز

17

- رد عمل، منصوبہ بندی

18

- اسلامی طرزِ فکر

19

- اسلام دورِ جدید میں

22

- دعوتِ عام کی ذمہ داری

24

- قتال کا معاملہ

25

- تحریر کی ایک صفت

26

- آزمائش کس لیے

28

- عقیدہ اور بین اقوامی معاملات

33

- اسلوبِ کلام

35

- مدعیانہ زبان، علمی زبان

36

- ادبی انقلاب

41

- ایک خط

43

- سوال وجواب

47

- خبرنامہ اسلامی مرکز


اللہ کی معرفت

اللہ کی معرفت بلاشبہ انسان کا سب سےبڑا عمل ہے۔ اللہ کی معرفت ابدی جنت کی قیمت ہے۔ معرفت دین کا آغاز ہے۔ معرفت کے بغیر دین ایسا ہی ہے، جیسے مغز کے بغیر پھل۔ اللہ کی معرفت بلاشبہ سب سے زیادہ آسان کام ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معرفت کا حصول بلاشبہ دین میں سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ معرفت کے مشکل ہونے کا سبب یہ ہے کہ معرفت اگرچہ اللہ رب العالمین کی معرفت کا نام ہے۔ لیکن معرفت پورے معنی میں ادراک کا نتیجہ ہوتی ہے۔ معرفت اپنی حقیقت کے اعتبار سے سیلف ڈسکورڈ (self discovered) حقیقت کا نام ہوتی ہے۔ اسی لیے کسی عارف نے کہا ہے 
خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گِلِ کوزہ
یعنی وہ خود ہی کوزہ ہے، خود ہی کوزہ بنانے والا اور خود ہی کوزہ کی مٹی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ معرفت کے حصول میں آدمی کو خود اپنا جج بننا پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفت اصلاً اللہ کی معرفت کا نام ہے۔ لیکن اس معرفت کا آغاز خود اپنی ذات کی معرفت سے ہوتا ہے۔ کسی عارف نے درست طور پر کہا ہے مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ(حلیۃ الاولیاء، جلد10، صفحہ208)۔ یعنی جس نے اپنے آپ کو جان لیا، اس نے اپنے رب کو جان لیا۔ حدیث میں آیا ہے  خَلَقَ اللَّہُ آدَمَ عَلَى صُورَتِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227)۔ یعنی اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی ذات کے عارف بنو، اپنے خالق کے عارف بن جاؤ گے۔
اللہ کی معرفت کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ حقیقت شناس (realist) بنائے۔ وہ اپنے آپ کو کٹ ٹو سائز (cut to size) بنائے۔وہ یہ جانے کہ اللہ قادرِ مطلق ہے،اور وہ صرف عاجزِ مطلق کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو حقیقت واقعہ کی سطح پر پہنچائے، تب وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اس کو خدا کی معرفت حاصل ہوسکے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق

قرآن کی سورہ الاحزاب میںانسان کی تخلیق کی نوعیت کو بیان کیا گیا ہے۔ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ تاکہ اﷲ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزادے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں پر توجہ فرمائے۔ اور اﷲ بخشنے والا ،مہربان ہے۔( 33:72-73)
قرآن کی اس آیت میںانسان کی منفرد نوعیت کو بتایا گیا ہے۔ کائنات کی بقیہ تمام چیزوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اللہ کو یہ مطلوب ہوا کہ وہ ایک صاحبِ اختیار مخلوق پیدا کرے۔ اس منصوبے کے تحت اللہ نے انسان کو پیدا کیا۔ مذکورہ آیت میں امانت سے مراد اختیار (freedom of choice) ہے۔ اس منصوبے کے تحت انسان کو صلاحیتیں دی گئیں، ان کا فطری نتیجہ یہ تھا کہ انسان ایڈونچرسٹ (adventurist) بن گیا۔ یہی وہ حقیقت ہے، جس کو ظلوم و جہول کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
انسان کو امانت کی نعمت دینا، انسان کے لیے عظیم رحمت کا معاملہ تھا۔ اس امانت (اختیار) کو پاکر یہ اندیشہ تھا کہ انسان بگاڑ کا شکار ہو جائے، ان احوال کے اندر ہی وہ مطلوب انسان بنتا ہے، جس کو قرآن میں مومن کہا گیا ہے۔ انسان فرشتہ نہیں، انسان لازمی طور پر غلطی کرتا ہے، لیکن انسان کی عظمت یہ ہے کہ وہ ہر غلطی کے بعد ندامت (repentance) میں مبتلا ہوتا ہے۔ وہ توبہ کرتا ہے، یعنی وہ یوٹرن لیتا ہے۔ اس معاملے میں اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انسان سے توبہ کو قبول فرمائے گا۔ مزید یہ کہ غلطی کرنا اور پھر توبہ کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک ذہنی عمل (intellectual process) ہے، اس کے دوران انسان کی شخصیت اعلی ترقی کے مدارج طے کرتی ہے، اور آخر کار جنت میں داخلے کا مستحق بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اعترافِ خطا

توبہ کیا ہے۔ توبہ کا مطلب ہے غلطی کرنے کے بعد دوبارہ حق کی طرف واپس لوٹنا۔ ایک شخص اگر نیک عمل پر قائم ہو، تو یہ بلاشبہ ایک ثواب کی بات ہے۔ لیکن اگر ایک شخص سچائی پر قائم ہو، اور پھر اس کے اندر ڈی ریلمنٹ (derailment)ہو ، وہ بھٹک کر غلط راستے پر چلاجائے، اور پھر دوبارہ صحیح راستے کی طرف لوٹے تو یہ اور بھی زیادہ بڑا عمل ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:کَیْفَ تَقُولُونَ بِفَرَحِ رَجُلٍ انْفَلَتَتْ مِنْہُ رَاحِلَتُہُ، تَجُرُّ زِمَامَہَا بِأَرْضٍ قَفْرٍ لَیْسَ بِہَا طَعَامٌ وَلَا شَرَابٌ، وَعَلَیْہَا لَہُ طَعَامٌ وَشَرَابٌ، فَطَلَبَہَا حَتَّى شَقَّ عَلَیْہِ، ثُمَّ مَرَّتْ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ فَتَعَلَّقَ زِمَامُہَا، فَوَجَدَہَا مُتَعَلِّقَةً بِہِ؟قُلْنَا: شَدِیدًا، یَا رَسُولَ اللہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَمَا وَاللہِ لَلَّہُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِہِ، مِنَ الرَّجُلِ بِرَاحِلَتِہِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2746)۔ یعنی براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: تم اس آدمی کی خوشی کے بارے میں کیا کہو گے، جس سے اس کی سواری ریگستان میں نکیل کی رسی کھینچتی ہوئی بھاگ جائے، اور وہاںاس کے لیے کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو، اور اس سواری پر اس کا کھانا پینا بھی ہو، اور وہ اسے تلاش کرتے کرتے تھک جائے، پھر وہ سواری ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے ،جس سے اس کی لگام اٹک جائے ،اور اس آدمی کو وہاں اٹکی ہوئی مل جائے؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول اس کو بہت زیادہ خوشی ہوگی، رسول اللہ نے کہا:خدا کی قسم، اللہ اپنے بندے کی توبہ سے اس آدمی کی سواری مل جانے کی خوشی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔
اس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ حق کی طرف واپسی آدمی کو ڈبل ثواب کا مستحق بناتی ہے۔ جب آدمی حق کو قبول کرنے کا عمل کرتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو ایک ثواب کا مستحق بناتا ہے، اس کے بعد اگر وہ بھٹک جائے، اور دوبارہ حق کی طرف واپس آئے، تو وہ زیادہ بڑے ریوارڈ کا مستحق بن جاتا ہے۔ کیوں کہ اس نے حق کو دوبارہ دریافت (rediscover) کیا۔
دریافت نو (rediscovery) کا انعام زیادہ اس لیے ہے کہ ایسا آدمی اپنی معرفتِ حق میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ ایک دریافت پر دوسری دریافت کا اضافہ کرتا ہے۔ وہ اپنے ذہنی ارتقا کے راستے میں ایک اور منزل طے کرتا ہے۔ ایسے آدمی کا کیس یہ ہے کہ پہلے اگر وہ سادہ معنوں میں حق کی طرف سفر کررہا تھا، تو اب وہ حق کی طرف چھلانگ (jump) کرکے آگے بڑھتا ہے۔ پہلے اگر اس کی معرفت ایک سادہ معرفت تھی، تو اب اس کی معرفت ایک زندہ معرفت بن جاتی ہے۔
حق کی طرف دوبارہ لوٹنا اس بات کی علامت ہے کہ آدمی نے حق کو دوبارہ دریافت کیا، اس نے اپنی دریافت اول پر دریافت ثانی کا اضافہ کیا۔اس نے ثبوت دیا کہ وہ تخلیقی ذہن (creative mind) کا مالک ہے۔
٭ ٭ ٭٭٭٭
راقم الحروف کا ایک سفر ترکی کے لیے ہوا۔ یکم مئی 2012 کی صبح کو دہلی سے روانگی ہوئی اور 7مئی 2012 کی صبح کو دہلی واپسی ہوئی۔ یہ نئے تجربات سے بھرا ہوا ایک سفر تھا۔ اس میں سے ایک یہ تھا کہ دورانِ پرواز جب کھانا دیاگیا تو اس سے پہلے خوب صورت چھپا ہوا مینو (Menu) دیا گیا۔ اس پر لکھا ہوا تھا— بادلوں کے اوپر ہمارے رستوراں میں آپ کا سواگت ہے:
Welcome to our restaurant above the clouds!
اِس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ یہ جنتی مہمان نوازی کی ایک جھلک ہے۔ یہ اعلیٰ مہمان نوازی (high hospitality) دنیا میں غیر معیاری صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ آخرت میں وہ اللہ کے منتخب بندوں کو معیاری صورت میں حاصل ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

شکر میں جینا سیکھیے

ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کی زبان میں تقریباً دس ہزار ذائقہ خانے (taste buds) ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے اندر جتنے ذائقہ خانے ہیں۔ ان سب کے مطابق، ہمارے آس پاس کی دنیا میں فل فلمینٹ (fulfilment ) کا سامان بھی موجود ہے۔ یہ معرفت کا ایک اعلیٰ درجہ ہے۔ کیسے ایسا ہوا ۔ کیوں کہ انسان کا جو تجربہ ہم نے کیا ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کسی ذائقے کو اس وقت جانتا ہے، جب کہ اس کا تجربہ کرے۔ ذاتی تجربے کے بغیر کسی ذائقے کو جاننا یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے۔
ایسی حالت میں انسان جب دنیا میں جیتا ہے، اور زندگی کے دوران کسی ذائقے کا تجربہ کرتاہے، وہ شکر کے جذبے سے اوور ویلم (overwhelm) ہو جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اس نعمت کا اعتراف کرے، لیکن وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں، جن کے ذریعے وہ اس عظیم نعمت کا اعتراف کرسکے۔ یہ اس کے لیے ایک مائنڈ باگلنگ (mind boggling) تجربہ ہوتاہے۔ اسی تجربے کا نام شکر ہے۔
میں ترکی گیا، تو وہاں مجھ کو جو پانی پینے کے لیے دیا گیا، وہ پانی اتنا زیادہ فریش (fresh) تھا، اور پینے میں اتنا زیادہ میرے اعلیٰ ذوق کے مطابق تھا کہ میں نے پانی کا گلاس میز پر رکھ دیا، اور یہ سوچنے لگا کہ خالق نے کیسے یہ جانا کہ میرے بندے کو ایسا پانی چاہیے، اور اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے بندے کے عین طلب کے مطابق، اس کو پانی فراہم کرو۔
یہ تجربہ اتنا زیادہ اعلیٰ تجربہ ہے کہ انسان اس تجربے سے گزرتے ہوئے اتنا اوورویلم ہوجائے گا کہ شکر کا لفظ بولنا اس کو اتنا کم لگے کہ وہ چاہے گا کہ میری شخصیت پوری کی پوری زبان ہوتی، اور میں اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنے رب کا شکر ادا کرتا۔ میرا پورا وجود شکر کے احساس میں ڈھل جاتا ۔ میں شکر کرنے والا نہیں، بلکہ شکر میں جینے والا انسان بن جاتا۔
واپس اوپر جائیں

دنیا کی مصیبت

قرآن ذکر کی کتاب ہے۔ قرآن کا مقصد انسان کو خالق کے منصوبۂ تخلیق سے آگاہ کرنا ہے۔ اس سلسلے میںقرآن کی ایک رہنما آیت ان الفاظ میں آئی ہے وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ (42:30)۔ یعنی تم پر کوئی سختی آئے ، وہ بدلہ ہے اس کا جو کمایا تمہارے ہاتھوں نے اور وہ درگزر کرتا ہے بہت سی چیزوں سے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصیبت کا کوئی تجربہ جو آدمی کو پیش آتا ہے، وہ آدمی کے اپنے ہی کیے ہوئے کا نتیجہ ہوتا ہے، کسی دوسرے انسان کے ظلم کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ تاہم کچھ مصیبتیں واقع ہونے سے پہلے قانونِ فطرت کے تحت ٹال دی جاتی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی آدمی پر کوئی مصیبت پڑے تو اس کا سارا فوکس خود اپنی ہی غلطی کو تلاش کرنے پر مرتکز ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اس کے اپنے سوا کوئی اور اس مصیبت کا سبب بطور واقعہ ہے ہی نہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی اگر اپنی مصیبت کا الزام دوسروں کو دے، تو وہ بے بنیاد الزام ہوگا، کیوں کہ کوئی دوسرا موجود ہی نہیں، جس نے وہ مصیبت آپ پر ڈالی ہے۔انسان پر کوئی دنیوی مصیبت پڑے، تو اس کا سارا دھیان خوداپنی کوتاہی کو تلاش کرنے پر لگانا چاہیے،نہ کہ کسی دوسرے کے ظلم کو دریافت کرنا۔ معاملات کو اپنی ذات کے اعتبار سے سوچا جائے، تو خود احتسابی پیدا ہوتی ہے، اور جب معاملات کو دوسرے کی نسبت سے سوچا جائے، تو شکایت او ر نفرت کا جذبہ ابھر تا ہے۔ خود احتسابی اصلاح ہے، او ر شکایت صرف بے فائدہ رد عمل۔
مصیبت اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک تجربہ (experience) ہے۔ مصیبت کو جب صرف مصیبت سمجھا جائے، تو بے نتیجہ افتاد ہوگی۔ لیکن جب مصیبت کو تجربہ بنادیا جائے، تو مصیبت آدمی کے لیے سبق کا ذریعہ بن جائے گی۔ ہر مصیبت میں ایک سبق موجود ہوتا ہے، اس سبق کو دریافت کیجیے۔ اس کے بعد کوئی مصیبت مصیبت نہ رہے گی۔
واپس اوپر جائیں

دو واقعات

دنیا میں دو واقعات ایسے ہیں، جن کا وقت آخری حد تک غیر معلوم ہوتا ہے۔ انسان کی اپنی ذات کے اعتبار سے موت، اور خارجی دنیا کے اعتبار سے زلزلہ۔ یہ دونوں واقعات ایسے ہیں، جو پیشگی اطلاع کے بغیر آتے ہیں۔ علم انسانی کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں، جس سے ہم پیشگی طور پر موت یا زلزلے کی آمد کو جان سکیں۔
یہ نظام براہ راست طور پر خالق کا مقرر کردہ نظام ہے۔ یہ نظام اس لیے رکھا گیا ہے کہ انسان ہمیشہ الرٹ رہے۔ آدمی ہمیشہ ہوشمندانہ زندگی گزارے۔ آدمی اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرے۔ انسان ہر لمحے کو اس طرح استعمال کرے کہ حاصل شدہ وقت کے علاوہ دوسرا وقت کبھی حاصل ہونے والا ہی نہیں۔
اس اعتبار سے موت اور زلزلہ دونوں انسان کے لیے یاددہانی (reminder) ہیں۔ یہ فطری قانون انسان کو وہ واقعات بتاتے ہیں، جو اس کے لیے ذاتی طور پر قابل دریافت نہیں۔ موت اور زلزلہ۔ یہ دونوں انسان کو علامتی طور پر یہ بتاتے ہیں کہ انسان کے لیے کچھ چیزیں ایسی ہیں، جو قابلِ دریافت (discoverable)ہیں، اور کچھ چیزیں ایسی ہیں، جو انسان کے لیے قابلِ دریافت نہیں۔ یہ علم انسان کو مسلسل طور پر بیداری کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور کردیتا ہے۔ انسان مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ سوچنے والی زندگی گزارے۔ وہ غفلت کی حالت میں پڑا نہ رہے۔
غفلت کی حالت میں رہنے کا موقع انسان کے لیے نہیں ۔ غفلت کا نقصان یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے مقصد کو نہ جانے۔ وہ اپنے مقصد کی تکمیل سے محروم رہے، اور بیداری کی حالت میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے مقصد کو جانے، اور اپنی پوری کوشش کرکے اس کو مکمل کرے۔اس دنیا میں انسان کے لیے ایک ہی چوائس ہے، اور وہ ہے حالت بیداری میں اپنے آپ کو رکھنا، اور غفلت سے اپنے آپ کو مکمل طو ر پر بچانا۔
واپس اوپر جائیں

رسول اللہ کی سنت

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک خطاب کیا تھا۔ اس خطاب میں مختلف باتوں کے علاوہ امت مسلمہ کو یہ رہنمائی بھی دی تھی یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّی قَدْ تَرَکْتُ فِیکُمْ مَا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہِ فَلَنْ تَضِلُّوا أَبَدًا کِتَابَ اللَّہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہِ(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 318)۔ یعنی اے لوگو، میں نےتمھارے درمیان چھوڑا ہے، جس کو تم پکڑے رہوگے، تو تم ہرگز گمراہ نہ بنوگے، کبھی بھی— یہ اللہ کی کتاب، اور اس کی نبی کی سنت ہے۔
یہ صرف ایک حدیث نہیں ہے، بلکہ یہ رسول اللہ کی ایک قابلِ اعادہ (repeatable) سنت کا بیان ہے۔ چنانچہ رسول اللہ کے بعد اس سنت پرعمل جاری ہوگیا۔ رسول اللہ کے بعد امت پوری طرح اس سنت کے مطابق سرگرمِ عمل ہوگئی۔ سیرت لکھی گئی، مسجد بنے، مدرسے بنے، وغیرہ۔ یہاں تک کہ امتِ محمدی ایک زندہ امت بن گئی۔
رسول اللہ نے ایک قائم شدہ امت چھوڑی ہے، اس کے لیے مقدر ہے کہ وہ تسلسل کے ساتھ قیامت تک جاری رہے ۔امت رسول اللہ کی مستند نمائندہ بن کر اس کے مشن کو لے کر قیامت تک چلتی رہے ۔ رسول اللہ کے مشن کو لے کر چلنے کا مطلب کیاہے۔ یہ ہے دعوت الی اللہ کے مشن کو قیامت تک جاری رکھنا۔ امت محمدی کی حیثیت داعی گروہ کی ہے، اور دوسری قوموں کی حیثیت مدعو اقوام کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان تعلق داعی مدعو کا تعلق ہے، حریف اور رقیب کا تعلق نہیں۔
یہ تعلق عملاً ایک دوسرے کے درمیان خیرخواہی کا تعلق ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ داعی مدعو کے تعلق کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے۔ اس کو کبھی حریف اور رقیب کا تعلق نہ بننے دیا جائے۔ امت کو ایک طرف زندہ حالت میں قائم رکھنا ہے، اور دوسری طرف برابر اس تعلق کو اپڈیٹ (update) کرتے رہنا ہے، یعنی بدلے ہوئے حالات کے مطابق، اس کی افادیت کو زندہ رکھنا۔
واپس اوپر جائیں

حدیثِ تجدید

امتِ محمد ی میں بعد کے زمانے میں تجدید کا عمل جاری ہوگا۔ اس عمل کا اشارہ قرآن میں موجودہے(الحدید، 57:16-17)۔ اس حقیقت کو ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللَّہَ یَبْعَثُ لِہَذِہِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَہَا دِینَہَا (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4291)۔ یعنی ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا بیشک اللہ اس امت کے لیے مبعوث کرے گا، ہر صدی کے سرے پر کسی کو جو اُن کے لیے ان کے دین کی تجدید کرے گا۔
اس روایت میں شارحین نےزیادہ تر شخصیت پر فوکس کیا ہے، یعنی انھوں نے بتایا ہے کہ کوئی مجدد کامل ہوگا، کوئی الف ثانی کا مجدد ہوگا، کوئی مجدد تفسیر ہوگا، کوئی مجدد فقہ ہوگا، وغیرہ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں ایک تاریخی عمل کا ذکر ہے، نہ کہ شخصیت کی فضیلت کا بیان۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کے اندر ہمیشہ دعوت کا عمل جاری ہوتا ہے۔ اس دعوتی عمل کے دوران امت اور دوسرے گروہوں کے درمیان اختلاط (interaction) ہوتاہے۔ اس اختلاط کے دوران امت محمدی کے افراد دوسروں کا اثر قبول کرتے ہیں۔اس تاثر پذیری کے درمیان ایسا ہوتا ہے کہ امت بار بار اپنی پٹری سے اتر جاتی ہے۔ اس وقت امت کے کچھ اہل علم اٹھتے ہیں، اور امت کی گاڑی کو دوبارہ پٹری پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں، اسی عمل کا نام تجدید ہے۔
مثلاً پہلےدور میں امت پیس فل دعوت کی پٹری سے ہٹ کر جنگ کی پٹری پر چلنے لگی، اس وقت کچھ علما نے امت کو یہ بتایا کہ جنگ اسلام میں حسن لذاتہ نہیں ہے، وہ حسن لغیرہ ہے۔ اسی طرح جب ماس کنورزن کا زمانہ آیا تو اس کے اثر سے مسلمانوں میں فرقے بن گئے ۔ اس وقت ابن عبد البر نے کتاب لکھی جامع بیان العلم و فضلہ۔ اس میں انھوں نے لکھا کہ امت میں اختلافات توسع (diversity)کی مثالیں ہیں، نہ کہ توحُّد کی مثالیں ، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

مشن کا مستقبل

مشن کے بعض افراد نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ میرے بعد مشن کہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو جائے۔ میں نے اس پر غور کیا تو میری سمجھ میں آیا کہ ان حضرات کا شبہ اس لیے ہے کہ وہ غالباً دوسرے مشن پر قیاس کرتے ہوئے اس مشن کو مبنی بر فارم مشن سمجھ رہے ہیں، اور جیسا کہ تجربہ ہے ، مبنی بر فارم مشن کچھ عرصے کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔
مگر اس معاملے میں سنتِ رسول میں ہمارے لیے ایک مثال ہے۔ میرا خیال ہے کہ حدیثِ قرطاس اسی معاملے میں رہنمائی کرنے کے لیے ہے۔ حدیث قرطاس کوئی پر اسرار چیز نہیں تھی، بلکہ وہی تھی، جو ایک حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا:کِتَابَ اللہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہِ (موطا امام مالک، حدیث نمبر 1874)۔ یعنی میں نے تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ ی ہیں۔ تم گمراہ نہ ہوگے، جب تک تم اس کو پکڑے رہوگے— اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔
اس حدیث کے مطابق، ہدایت یہ ہے کہ پیش آمدہ معاملات میں سنجیدگی کے ساتھ قرآن وحدیث کا حکم معلوم کیا جائے،اور اس کو اختیار کرلیا جائے۔ اس کے برعکس گمراہی یہ ہے کہ اپنے معاملات میں قرآن وحدیث کے سوا دوسری چیزوں سے رہ نمائی لی جانے لگے۔اس حدیث میں اسلام کے معاملہ کو بتایا گیاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ نے کامل ہدایت کا انتظام فرمایا۔ اب جو لوگ اس ہدایت سے فیض حاصل کریں گے، ان کے لیے کامیابی ہے، اور جو لوگ اس کی پیروی نہ کریں، وہ ابدی ناکامی کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔
امتِ محمدی کی حیثیت یہ ہے کہ وہ خدائی مدد کے تحت ایک محفوظ امت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ خود اللہ رب العالمین کا کنسرن ہے کہ یہ امت ختم نہ ہو، تاکہ خاتم النبیین کی نمائندگی مسلسل طور پر جاری رہے، اس کا تسلسل کبھی توٹنے نہ پائے۔
واپس اوپر جائیں

مضاہاۃ اغیار

امت کے زوال کے زمانے میں جو باتیں پیش آتی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو قرآن میں مضاہاۃ (التوبۃ،9:30) کہا گیا ہے۔ مضاہاۃ کا مطلب مشابہت کرنا (to imitate) ہے۔ یہ ظاہرہ ہمیشہ غالب قوم کے مقابلے میںہوتا ہے۔ یعنی مرعوبیت کی نفسیات کے تحت کسی قوم کے کلچر یا اس کےطریقِ فکر کا پیرو بننا۔ اس مضاہاۃ کی کوئی واحد متعین صورت نہیں۔ ہر زمانے میں اپنے دور کے لحاظ سے اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔
مثلاً موجودہ زمانے میں جدید تہذیب کے ظہور کے بعد ترقی یافتہ قوموں کے درمیان ایک فکر پیدا ہوئی ہے، جس کو انسانی تکریم (human dignity) کہا جاتا ہے۔ یہ تصوُّر آزادی کے معاملے میں انتہاپسندی(extremism) کے نتیجے میں آیا ہے۔ آج کے انسان کا یہ کہنا ہے کہ وہ کامل طور پر آزاد ہے۔ اس کی مشابہت میں مسلمان بھی اسی قسم کی بولی بولنے لگے ہیں۔ مگر ا س کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اسلام کا اصول تمام تر دعوت الی اللہ پر مبنی اصول ہے۔اسلام کا واحد کنسرن یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کے مواقع کھلے رہیں۔ اہل ایمان کے لیے یہ موقع ہو کہ وہ لوگوں کو اللہ رب العالمین کی طرف بلاتے رہیں۔ اگر اہل اسلام کےلیے دعوت الی اللہ کے مواقع موجود ہوں، تو کسی اور سیاسی یا غیر سیاسی تقاضے کو لے کر مطالبے کی تحریک چلانا، اہلِ ایمان کے لیے جائز نہیں۔
ان کے لیے موقع ہو کہ وہ دعوت کا کام کرسکتے ہیں، تو ان کے لیے علاحدہ مسلم لینڈ کے نام سے کوئی تحریک چلانا درست نہیں۔ اگر مسلمان ایسا کریں، تو ان کو اللہ کی مدد حاصل نہ ہوگی، اور جب اللہ کی مدد حاصل نہ ہوگی، تو وہ کبھی اپنے مطالبے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ اہل ایمان پر اللہ کی مدد ضرور آتی ہے، لیکن اللہ کی مقرر کردہ صراطِ مستقیم پر، نہ کہ کسی اور چیز پر۔ اس دنیا میں اہل ایمان کی صرف ذمے داریاں ہی ذمے داریاں ہیں، ان کا کوئی حق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ انسان

دین کی راہ میں قربانی سے عام طور پر جسمانی یا مالی قربانی مراد لی جاتی ہے۔ لیکن بعض اوقات اس کا تقاضا ہوتا ہے کہ اپنی ذات کے تقاضوں کی قربانی پیش کی جائے ۔ کیوں کہ اس طرح کی قربانی کے بغیر دین کا کوئی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا۔ جتنی بڑی قربانی اتنا ہی بڑا کام۔
ہر آدمی دو قسم کے تقاضوں کے درمیان جیتا ہے— ذاتی تقاضے اور مشن کے تقاضے۔ ذاتی تقاضے اپنی ذات کے محدودمفاد کے درمیان جینے کے لیے ہوتے ہیں، اور مشن کے تقاضے انسانیت کے وسیع تر مفاد کے لیے ہوتے ہیں۔ عام آدمی اپنی ذات یا اپنی فیملی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جیتا ہے۔ اس کی زندگی اپنے آپ سے شروع ہوتی ہے، اور اپنے آپ ہی پر ختم ہوتی ہے۔
لیکن جس شخص کواس کاغور وفکر مین آف مشن (man of mission)بنادے، جو اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر اعلیٰ مشن کے لیے جینے والا بن جائے۔ اس کی زندگی بالکل بدل جاتی ہے۔ بظاہر وہ دوسرے انسانوں جیسا ہوتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک مختلف انسان بن جاتا ہے۔ اس کی سوچ، اس کی دوڑ دھوپ، اس کی توانائی کا استعمال اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر اعلیٰ مشن کے لیے وقف ہوجاتا ہے۔ اگر وہ مومن ہے، تو اللہ رب العالمین کے لیے، اگر وہ عام انسان ہے، تو اس کی توجہات کا مرکز انسانی بہبود بن جاتاہے۔
انسان دراصل وہی ہے، جو مین آف مشن ہو۔ جس کے مطالعہ اور غورو فکر نے اس کو عمل کا ایک برتر نشانہ دے دیا ہو۔ جس کے صبح و شام ایک اعلیٰ مقصد کے لیے وقف ہوگئے ہوں۔ جس کے فکر اور عمل کا مرکز ایک برتر مقصد بن گیا ہو۔ جو اسی مقصد کو لے کر رات کو سوئے، اور اسی مقصد کو لے کر صبح کو اٹھے۔ جو ٹھہرے تو اسی مقصد کے لیے، اور چلے تو اسی مقصد کے لیے۔ یہی وہ انسان ہے، جو صحیح معنوں میں انسان کہے جانے کا مستحق ہے۔ عام انسان اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے۔ جو کلچر اس کو اپنے ماحول سے ملا، اسی کو وہ اپنا کلچر بنالیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اصلاح کا آغاز

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اصلاح کا آغاز تنقیدی عمل سے کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ شروع ہی میں فریقین کے درمیان نزاع کا ماحول بن جاتا ہے، اور پھر اصلاح کا کام صحیح انداز سے نہیں ہو پاتا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اصلاح کا آغاز ایڈجسٹمنٹ (adjustment)سے کیا جائے۔اس معاملے میں ایڈجسٹمنٹ دراصل غیر نزاعی (non-controversial) طریقے کا دوسرا نام ہے۔ اجتماعی اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماحول میں عمل کا آغاز نزاع سے نہ کرے، اس کے برعکس، وہ یہ کرے کہ موافق پہلو سے اپنے عمل کا آغاز کرکے بتدریج غیر موافق پہلو کی طرف جائے۔
جو شخص بھی اپنے ماحول میں اصلاح کا کام کرنا چاہتا ہو، اس کو ہمیشہ نتیجہ خیز (result oriented) طریقہ اختیار کرنا چاہیے، یعنی جو طریقہ مفید نتیجہ پیدا کرے، اس کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرنا، اور جوطریقہ مثبت نتیجہ پیدا نہ کرے، اس سے درگزر کرنا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ نزاعی طریقہ ہمیشہ بے نتیجہ رہتا ہے، اور غیر نزاعی طریقہ ہمیشہ مفید نتیجہ پیدا کرتاہے۔
اصلاح کا کام عملاً یہ ہے کہ دوسرا آدمی اپنے خلاف بات کو سنے ، اور اس کو اپنائے۔ اس لیے اصلاح کا عمل ہمیشہ ذاتی احتساب بن جاتا ہے، اور ذاتی احتساب ایک ایسی چیز ہے، جو کبھی نزاعی انداز میں کامیاب نہیں ہوتی۔ ذاتی احتساب کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ کیا جائے، وہ غیر نزاعی انداز میں کیا جائے۔
اس سلسلے کے تمام تجربات یہ بتاتے ہیں کہ جب بھی نزاع کا طریقہ اختیار کیا گیا، تو اختلاف بڑھا، اور جب بھی غیر نزاعی طریقہ اختیار کیا گیا تو لوگوں کے اندراصلاح کا عمل جاری ہوا۔ یہ نتیجہ اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ غیر نزاعی طریقہ ہمیشہ نتیجہ خیز ہوتا ہے، اور نزاعی طریقہ ہمیشہ بے نتیجہ بن کر رہ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

رد عمل، منصوبہ بندی

انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مسلمانوں کے لیے کچھ نئے حالات پیدا ہوئے۔ ہمارے مصلحین ان حالات کے جواب میں پرجوش طور پر کھڑے ہوگئے۔ بظاہر ان کے حلقۂ عمل مختلف تھے، لیکن خلاصے کے طور پر دیکھا جائے تو ہر ایک کا کیس عملا ًایک تھا، اور وہ تھا رد عمل (reaction) کا کیس۔ میرے علم کے مطابق، کسی نے ایسا نہیں کیا کہ وہ حالات کا مطالعہ کھلے ذہن کے ساتھ کریں، وہ مثبت ذہن کے ساتھ حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں، اور پھر کسی تاثر پذیری کے بغیر خالص قرآن و سنت کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل طے کریں۔
سنتِ رسول کے مطابق، کرنے کا کام یہ تھا کہ حالات کے اندر مواقع کو تلاش کیا جائے، اور اس کے مطابق، اپنے عمل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ لیکن ہر ایک نے یہ کیا کہ وہ ری ایکشن کے طور پر کھڑا ہوگیا، اور وقتی جذبے کے تحت ایک عمل شروع کردیا۔ میرے علم کے مطابق، ان میں سے کوئی ایسا نہ کرسکا کہ وہ سنت رسول کا گہرا مطالعہ کرکے مبنی بر مواقع اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ اسی لیے اس ردعمل کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کیوں کہ مثبت فائدہ ردّعمل کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ گہری منصوبہ بندی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
مثلاً بہت سے لوگوں نے قوم کی تعلیم کا منصوبہ بنایا، لیکن ان کی تعلیم کا مقصد زیادہ تر یہ تھا کہ کچھ کتابیں تیار کرکے پڑھادی جائیں۔ ان حضرات کی تعلیم میں ایک اہم چیز مفقود تھی، اور وہ ہے اسٹرکٹ کامپٹیشن(strict competition )۔ یہ لوگ جن کو تعلیمی ریفارمر کہا جاتا ہے، وہ تقریباً سب کے سب فیور (favour) کو جانتے تھے، حالاں کہ اس معاملے میں اصل چیز کامپیٹیشن ہے، نہ کہ فیور (favour)۔ امریکا میں ہر میدان میں یہ اصول ہے کہ کمپیٹ یا پیرش(compete or perish)، یعنی مقابلہ کرو، یا ختم ہوجاؤ۔ عام زبان میں اس کو کرو یا مرو(do or die) کہاجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی طرزِ فکر

زندگی ہر ایک کے لیے مسائل کا مجموعہ ہے۔ زندگی کبھی مسائل سے خالی نہیں ہوسکتی۔ کسی انسان کے لیے یہاں تک کہ پیغمبر کے لیے بھی یہ آپشن (option) نہیں ہےکہ پہلے زندگی کو بے مسئلہ زندگی بناؤ، اس کے بعد اپنا کام کرو۔ اس دنیا میں ہر ایک کے لیے ایک ہی آپشن ہے، اور وہ یہ ہے کہ مسائل میں سلیکٹیو (selective) انداز اختیار کرے، یعنی کچھ مسائل کو انتظار کے خانے میں ڈالے، اور کچھ مسائل کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے۔
اسلام کی تعلیم کے مطابق، اس معاملےمیں ایک سچے مسلم کےلیے صرف ایک آپشن ہے۔ وہ یہ کہ ایک مسلم دعوت الی اللہ کو اپنا کنسرن (concern) بنائے، اور دوسری تمام چیزوں کو اللہ رب العالمین کے حوالے کردے۔ یہ معاملہ اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس معاملے میں کوئی عذر (excuse) حقیقی عذر (genuine excuse) نہیں۔
عام طور پر لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں دعوت الی اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کو اپنا کنسرن بناتے ہیں، اور عذر(excuse) کے طو رپر کسی دنیوی اصول کا حوالہ دیتے ہیں۔مثلاً حق خود ارادیت (self determination) ، انسانی حقوق (human rights)، وغیرہ۔ مگر یہ تمام حوالے درست نہیں۔ ان معاملات میں اسلام کا اصول ایک لفظ میں یہ ہے  أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُم (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052)۔ ادا کروان کو ان کا حق ، اورمانگو اپنا حق اللہ سے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں مومن کی منصوبہ بندی یک طرفہ طور پر ذاتی ذمے داری کے اصول پر ہے، دوسروں سے حقوق طلبی کے اصول پر نہیں۔ اس دنیا میں مومن کو صرف اپنی ذمے داری کی ادائیگی پر دھیان دینا ہے، مومن کا یہ طریقہ نہیں کہ کسی غیر اسلامی اصول کا حوالہ دے کر دوسروں سے اپنے حقوق کا مطالبہ شروع کردے۔ اس معاملے میں مومن کا طریقہ تمام تر آخرت رخی (Akhirah oriented)ہے، نہ کہ دنیا رخی۔
واپس اوپر جائیں

اسلام دورِ جدید میں

اسلام آخری دین ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے وجود کے اعتبار سے قیامت تک باقی رہے۔ اسی لیے دین کا تحفظ بھی ایک ضروری اور مطلوب کام ہے۔ موجودہ زمانہ کی بعض تحریکوں نے اس اعتبار سے یقیناً مفید خدمات انجام دی ہیں۔ وہ اسلام کے فکری اور عملی نقشہ کی محافظ ثابت ہوئی ہیں۔ بعض ادارے قرآن اور حدیث اور اسلامی مسائل کے علم کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ بعض جماعتیں اسلامی عبادات کے ڈھانچہ کو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچانے کا کام کررہی ہیں۔ کچھ اور ادارے قرآن وحدیث کا متن صحت وصفائی کے ساتھ چھاپ کر ہر جگہ پھیلا رہے ہیں۔ یہ تمام کام بجائے خود مفید ہیں، مگر بہر حال وہ تحفظ دین کے کام ہیں نہ کہ دعوتِ دین کے کام۔ جہاں تک اسلام کو دعوتی قوت کی حیثیت سے زندہ کرنے کا سوال ہے وہ موجودہ زمانہ میں ابھی تک واقعہ نہ بن سکا۔ حتی کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو شاید اس کا شعور بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر ایسے کاموں کو اسلامی دعوت کا عنوان دے دیتے ہیں، جن کا اسلامی دعوت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
موجودہ زمانہ میں کسی حقیقی اسلامی کام کے آغاز کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہم اس صورت ِحال کو ختم کریں جس نے ساری دنیا میں اسلامی تحریک کو سیاسی تحریک کے ہم معنی بنا رکھا ہے۔ مسلمان ہر ملک میں وقت کے حکمرانوں کے خلاف شور وشر برپا کرنے میں مشغول ہیں۔ کہیں ان کی یہ تحریک غیر مسلم اقتدار کے خلاف برپا ہے، اور کہیں وہ ایک اسلامی سیاسی فلسفہ کے زیر سایہ کام کررہی ہے، اور کہیں فلسفہ اور نظریہ کے بغیر متحرک ہے۔ کہیں اس نے ملی عنوان اختیار کررکھا ہے، اور کہیں نظامی عنوان۔ تاہم سارے فرق واختلاف کے باوجود نتیجہ سب کا ایک ہے — حریفوں کے خلاف محاذ آرائی میں ضائع کرتے رہنا۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو مسلمانوں نے موجودہ زمانہ میں بالکل الٹی کارکردگی کا ثبوت دیا ہے۔ خدانے دعوتِ حق کی راہ سے سیاسی رکاوٹ کو دور کرکے انھیں موقع دیا تھا کہ وہ آزادانہ حالات میں خدا کے تمام بندوں تک خدا کا پیغام پہنچا دیں۔ وہ خدا کے بندوں کو خدا کی اس اسکیم سے باخبر کردیں، جس کے تحت اس نے انسان کو پیدا کیا ہے، اور جس کے مطابق وہ ایک ایک شخص کا حساب لینے والا ہے۔ مگر انھوں نے دوبارہ نئے نئے عنوان سے اپنے خلاف سیاسی رکاوٹیں کھڑی کرلیں۔ خود ساختہ سیاسی جہاد میں ہر ایک مشغول ہے۔ مگر دعوتی جہاد میں اپنا حصہ ادا کرنے کی فرصت کسی کو نہیں۔
قرآن میں ہے کہ اللہ اس کی مدد کرتا ہے جو اللہ کی مددکرے (الحج، 22:40)۔ ہر دور میں خدا اپنے دین کے حق میں کچھ امکانات کھولتاہے۔ اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ کچھ لوگ ہوں جو خدا کے اشارہ کو سمجھیں، اور خدا کے منصوبہ میں اپنے آپ کو شامل کردیں۔ صحابہ کرام وہ خوش نصیب لوگ ہیں، جنھوں نے اپنے زمانہ میں خدائی منصوبہ کو سمجھا، اور اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالہ کردیا۔ اس کا نتیجہ وہ عظیم انقلاب تھا جس نےانسانی تاریخ کے رخ کو موڑ دیا۔
بارش کا آنا خدا کے ایک منصوبہ کا خاموش اعلان ہے۔ وہ اعلان یہ ہے کہ آدمی اپنا بیج زمین میں ڈالے تاکہ خدا اپنے کائناتی انتظام کو اس کے موافق کرکے اس کے بیج کو ایک پوری فصل کی صورت میں اس کی طرف لوٹائے۔ کسان اس خدائی اشارہ کو فوراً سمجھ لیتا ہے، اور اپنے آپ کو اس خدائی منصوبہ میں پور ی طرح شامل کردتیا ہے۔ اس کا نتیجہ ایک لہلہاتی ہوئی فصل کی صورت میں اس کو واپس ملتاہے۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں، ہزار سالہ عمل کے نتیجہ میں، اللہ تعالی نے اپنے دین کے حق میں کچھ نئے مواقع کھولے تھے۔ یہ مواقع کہ اقتدار کا حریف بنے بغیر توحید اور آخرت کی دعوت کو عام کیا جائے۔ جو کام پہلے معجزاتی سطح پر انجام دینا پڑتاتھا، اس کو عام طبیعیاتی استدلال کی سطح پر انجام دیا جائے۔ جو کام پہلے تعصب کے ماحول میں کرنا پڑتا تھا، اس کو مذہبی رواداری کے ماحول میں کیا جائے۔ جو کام پہلے ’’حیوانی رفتار‘‘ سے کیا جاتا تھا اس کو ’’مشینی رفتار‘‘ کے ساتھ انجام دیا جائے۔
یہ موجودہ زمانہ میں خدا کا منصوبہ تھا۔ خدا نے سارے بہترین امکانات کھول دیے تھے، اور اب صرف اس کی ضرورت تھی کہ خدا کےکچھ بندے ان کو استعمال کرکے ان امکانات کوواقعہ بننے کا موقع دیں۔ مگر مسلم قیادت خداکے اس منصوبہ میں شامل ہونے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ اس نے نئے نئے عنوانات کے تحت وہی سیاسی جھگڑے دوبارہ چھیڑ ددیا، جن کو خدا نے ہزار سالہ عمل کے نتیجہ میں ختم کیا تھا۔ انھوں نے اسلامی دعوت کو سیاسی اور قومی دعوت بنا کر دوبارہ اسلام کو اقتدار کاحریف بنا دیا اور کہا کہ یہی عین خدا کا پسندیدہ دین ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدعو قوموں کے ساتھ ہر جگہ بالکل بے فائدہ قسم کی مقابلہ آرائی شروع ہوگئی، اور سارے نئے امکانات غیر استعمال شدہ حالت میں پڑے رہ گئے۔مسلمانوں اور دیگر قوموں کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ قائم نہ ہوسکا۔
کام کی ایک سوسال سے بھی زیادہ لمبی مدت مسلمانوں نے کھو دی۔ یہاں تک کہ شیطان نے بیدار ہو کر قدیم شرک کی جگہ جدید شرک (کمیونزم) کی صورت میں کھڑا کردیا۔ اب کم از کم کمیونزم کے زیر تسلط علاقوں میں دوبارہ کام کرنے کی وہی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں، جو اس سے پہلے شرک کے زیر تسلط علاقوں میں پائی جاتی تھیں۔مثلاً چائنا، اور نارتھ کوریا، وغیرہ۔ تاہم غیر کمیونسٹ دنیا میں اب بھی کام کے مواقع کھلے ہوئے ہیں،اور یہاں پندرھویں صدی ہجری میں اس صالح جدوجہد کا آغاز کیاجاسکتا ہے، جو چو دھویں صدی ہجری میں نہ کیا جاسکا۔
٭ ٭ ٭٭٭٭
■ تدبیری واپسی منصوبہ بند اقدام کا پہلا مرحلہ ہے۔
ثخدا حالات کی زبان میںبولتا ہے۔ عقل والے اس کو سن کر رہنمائی حاصل کرتے ہیں، اور جوبے بصیرت ہوں، وہ تاریکیوں میں بھٹکتے ہیں۔
ثحقیقت کو اگر آپ اختیارانہ طور پر نہ مانیں، تو آخر کار آپ کو اسے مجبورانہ طور پر ماننا پڑے گا۔
ثحقیقی کام اور غیر حقیقی کام کا فرق یہ ہے کہ حقیقی کام ہمیشہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے، اور غیر حقیقی کام ہمیشہ بے نتیجہ ہوکر رہ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوتِ عام کی ذمہ داری

بیان کیا جاتا ہے کہ پچھلے انبیاء مقامی آبادیوں کے لیے آئے۔ وہ جس قوم میں پیدا ہوئے وہی قوم اُن کی دعوت کامیدان ہوتی تھی۔ مگر پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد کوئی اور پیغمبر آنے والا نہ تھا، اس لیے آپ ساری دنیا کے لیے داعی اور منذر بنا کر بھیجے گئے(الفرقان، 25:1)۔ اسی لیے پیغمبراسلام کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ (21:107)۔ یعنی ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
یہ بات اہل اسلام کے لیے فخر یا فضیلت کی بات نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک سنگین ذمہ داری کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے پیغمبروں کی امتوں کی دعوتی ذمہ داری اگر مقامی دائرہ تک محدود رہتی تھی، تو امتِ محمدی کی ذمہ داری سارے عالم تک پھیلی ہوئی ہے۔ اُمّتِ محمدی کا اُمّتِ محمدی ہونا صرف اُس وقت متحقّق ہو سکتا ہے، جب کہ وہ تمام دنیا کی قوموں کے اوپر اپنی دعوتی ذمہ داری کو ادا کرے۔ اس دعوتی عمل کے بغیر اُس کا اُمتِ محمدی ہونا ہی مشتبہ ہے (الانعام، 7:19؛ یوسف، 12:108)۔ مزید یہ کہ اس دعوتی ذمہ داری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُمت کے لوگ تمام دنیا میں مسلم رخی تحریکیں چلائیں، بلکہ اُنہیں لازمی طورپر غیر مسلم رخی تحریکیں چلانا ہے۔ مسلم رخی تحریک یا ملت رخی تحریک امت کا داخلی مسئلہ ہے، جب کہ غیر مسلم رخی تحریک، خارجی معنوں میں اُمّت کی لازمی ذمے داری ہے۔
علمائے اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دعوت کے بغیر جہاد نہیں۔ ابن رشد نے الفصل الرابع فی شرط الحرب کے تحت لکھا ہے: فَأَمَّا شَرْطُ الْحَرْبِ فَہُوَ بُلُوغُ الدَّعْوَةِ بِاتِّفَاقٍ، أَعْنِی أَنَّہُ لَا یَجُوزُ حِرَابَتُہُمْ حَتَّى یَکُونُوا قَدْ بَلَغَتْہُمُ الدَّعْوَةُ، وَذَلِکَ شَیْءٌ مُجْمَعٌ عَلَیْہِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ؛ لِقَوْلِہِ تَعَالَى:وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولا[الاسراء،17:15](بدایۃ المجتہد۱؍۳۸۶)۔ یعنی جنگ کی شرط متفقہ طورپر یہ ہے کہ ان لوگوں تک دعوت پہنچ چکی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے اس وقت تک جنگ جائز نہیں جب تک کہ انہیں دعوت نہ پہنچ جائے۔
اس معیارکی روشنی میں دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ پچھلے تقریباً تین سو سال سے مسلم رہنما جہاد کے نام پر غیر قوموں سے جو لڑائیاں لڑ رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی جہاد نہیں۔ اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کے بغیر لڑی گئیں۔ مثلاً شاہ ولی اللہ دہلوی کی (بالواسطہ) جنگ مراٹھوں سے، شہیدَین کی جنگ سکھوں سے، علمائے ہندکی جنگ انگریزوں سے، عربوں کی جنگ اسرائیلیوں سے، پاکستانیوں اور کشمیریوں کی جنگ ہندوستانیوں سے، فلپائنی مسلمانوں کی جنگ وہاں کے عیسائیوں سے، چیچن مسلمانوں کی جنگ روسیوں سے، وغیرہ۔
یہ اور موجودہ زمانے کی دوسری لڑائیاں جو مسلم رہنما لڑتے رہے یا لڑ رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی جہاد فی سبیل اللہ نہیں۔ کیوں کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کی شرط کے بغیر شروع کردی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی یہ تمام لڑائیاں حبط اعمال کا شکار ہوگئیں۔ مسلمانوں کی یک طرفہ تباہی کے سوا ان کا اور کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔
کسی غیر مسلم قوم کے خلاف جہاد(بمعنٰی قتال) چھیڑنے کے لیے یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ اس نے مسلمانوں پر ملک و مال کے اعتبار سے کوئی نقصان پہنچایا ہو۔ ایسے کسی مسئلہ کے حل کے لیے پر امن تدبیر ہے، نہ کہ متشددانہ جنگ۔ غیر مسلموں کے سلسلہ میں مسلمانوں کی اول و آخر ذمے داری دعوت و تبلیغ ہے۔ جہاد (بمعنٰی قتال) صرف مخصوص اور متعین شرطوں ہی پر جائز ہے، اور موجودہ زمانہ میں یہ شرطیں کسی بھی مقام کے مسلمانوں کے حق میں موجود نہیں۔
کسی قوم کے خلاف دعوت کے بغیر جہاد چھیڑنانہایت سنگین ذمہ داری ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے صرف یہ کیا تھا کہ دعوت کی تکمیل سے پہلے انہوں نے اپنی مدعو قوم سے ہجرت کا معاملہ کیا تو اللہ نے ان کی پکڑ کی۔ اب وہ لوگ جنہوں نے سرے سے دعوت کا عمل ہی نہ کیا ہو، اور پھر صرف مادّی نزاع کی بنا پر اپنی مدعو قوم کے خلاف مسلّح جنگ چھیڑ دیں، اُن کا معاملہ حضرت یونس کے مقابلہ میں اللہ کی نظر میں کتنا زیادہ سنگین ہوگا، اس کا تصور بھی لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔
واپس اوپر جائیں

قتال کا معاملہ

قرآن میں ایک آیت اس طرح آئی ہے:إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ یہ آیت مطلق معنی میں قتال کی فضیلت نہیں بتاتی ۔ بلکہ وقتی ضرورت کے تحت پیش آنے والے حالات کو بیان کرتی ہے۔
اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قتال (لڑائی) ابدی طور پر اللہ کے نزدیک ایک محبوب فعل ہے۔ بلکہ اس میں وقت کے ایک تقاضے کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آیت کے نزول کے وقت جب کہ ختمِ فتنہ کے لیے دفاعی طو رپر جنگ ہورہی تھی، اس وقت سب سے زیادہ مطلوب فعل یہ تھا کہ جنگ کے محاذ پر اہلِ ایمان کی صفوں کو تقویت دینے کے لیے مخالف طاقتوں سے جنگ کی جائے۔ تاکہ تاریخ کا منصوبہ مکمل ہو، اور دنیا میں دعوت کا وہ پرامن دور آئے، جو کہ فطرت کے نظام کے مطابق، خالقِ فطرت کو مطلوب ہے۔
متحد ہو کر لڑنے کا مطلب یہ ہے کہ چوں کہ فتنہ پسند طاقتوں نے متحدہ طاقت کے ذریعے ناقابل تقسیم طاقت کی صورت اختیار کرلی ہے۔ اس لیے اس متحد فتنہ کو ختم کرنے کے لیے جوابی اتحاد کی ضرورت ہے، ورنہ وہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ یہاں فتنہ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution ) کا فتنہ ہے۔ اب یہ فتنہ (religious persecution ) عملا ًختم ہوچکا ہے۔ اس لیے اس کے خلاف متحدہ جنگ کی ضرورت بھی عملاً باقی نہیں رہی۔
موجودہ دور امن کا دور ہے۔ اس دورکو قرآن کی ایک اور آیت کے مطالعے سے زیادہ واضح طو رپر سمجھا جاسکتا ہے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَى اللَّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ (8:61)۔ یعنی اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کے لیے جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ بیشک وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

تحریر کی ایک صفت

تحریر کی ایک صفت وہ ہے، جس کو ادبی اعتبار سے روانی (fluent language) اور مضمون کے اعتبار سے بندھی ہوئی زبان (compact language) کہا جاتا ہے۔ یہ کسی تحریر کی ایک خصوصی صفت ہے۔ یہ صفت جس تحریر میں ہو، وہ سمجھنے کے اعتبار سے زود فہم (easily understandable)ہوگی،اور پڑھنے کے اعتبار سے دلچسپ مطالعہ (interest reading) کی صفت کا حامل ہوگی۔
یہ کسی محرر کی ایک امتیازی صفت ہے۔ یہ صفت کسی مصنف میں اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ کثرت مطالعہ کی وجہ سے وہ اپنے موضوع پر پوری طرح حاوی (be in control) ہوجائے۔ متعلقہ موضوع پر اس کا مطالعہ اتنا جامع ہو کہ وہ جب لکھے ، اور بولے تو وہ زیر بحث موضوع کا کامل احاطہ کیے ہوئے ہو۔
جس تحریر میں یہ صفت ہو، اس کے اندر بہت زیادہ وضوح (clarity) ہوگا۔ جو شخص اس کو پڑھے گا، وہ کسی مقام پر اٹکے بغیرصاحب تحریر کی بات کو بخوبی طور پر سمجھ لے گا۔ یہ کسی تحریر کی ایک اعلیٰ صفت ہے۔ یہ اعلیٰ صفت کسی شخص کے اندر اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ کثرتِ مطالعہ کی وجہ سے زیرِ بحث مضمون پوری طرح اس کی گرفت میں آجائے۔ کثرتِ مطالعہ کی وجہ سے اٹ پٹاپن اس کی تحریر سے ختم ہوجائے۔ وہ جو کچھ کہے یا لکھے، وہ دوسروں کے لیے دو اور دوبرابر چار کی طرح واضح ہوجائے۔ اس کا کلام پوری طرح گنجلک سے خالی ہو۔ کلام کی اس صفت کو ہندی میں سرل بھاشاکہا جاتا ہے۔
یہ مطالعہ علمی ہونا چاہیے، نہ کہ صحافتی۔ علمی مطالعہ وہ ہے، جو موضوعی (objective)ہو، جو سنجیدہ ہو۔جو کسی تعصب (bias) کے بغیر کیا گیا ہو، جس مطالعے میں سائنٹفک ٹمپر (scientific temper) کی صفت پائی جائے۔
واپس اوپر جائیں

آزمائش کس لیے

قرآن میں بتایا گیاہے کہ اہل ایمان کو آزمائش پیش آئی۔ سخت آزمائش کے بعد وہ جنت کےانعام کے لیے منتخب کیے گئے۔ یہ حقیقت قرآن کی دو آیتوں کے مطالعےسے معلوم ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالاں کہ ابھی تم پر وہ حالات گزرے ہی نہیں جو تمہارے اگلوں پر گزرے تھے۔ ان کو سختی اور تکلیف پہنچی اور وہ ہلا مارے گئے، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ یاد رکھو، اللہ کی مدد قریب ہے۔ (2:214)
اس سلسلے میں دوسری آیت کا ترجمہ یہ ہے یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہوگئے، اور وہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا، تو ان کو ہماری مدد آپہنچی۔ پس نجات ملی جس کو ہم نے چاہا اور مجرم لوگوں سے ہمارا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا۔ (12:110)
دعوت الی اللہ کا مشن جنت کی طرف سفر کا مشن ہے۔ یہ سفر مومن کی تربیت کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ رب العالمین کو یہ مطلوب ہے کہ اللہ نے اس کے لیے جو نعمت سے بھری کائنات بنائی ہے،اس کو وہ دریافت کرے۔ وہ ایمان کے اعتبار سےسیلف ڈسکوری (self discovery) کی سطح پر کھڑا ہو۔ یہ سیلف ڈسکوری جنت کی قیمت ہے۔
جنت کا یہ سفر سخت امتحان کے مراحل سے گزرتا ہے۔ ان سخت مراحل سے گزرے بغیر انسان کے اندر وہ شخصیت تیار نہیں ہوتی، جس کو قرآن میں حسنِ رفاقت کی صفت بتایا گیا ہے۔ یہی وہ صفت ہے، جو کسی کو جنت کا مستحق بناتی ہے۔ یہ حقیقت قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔
اصل یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصدصرف ایک ہے، اور وہ عبادت گزاری ہے (الذاریات، 51:56)۔ عبادت کی حقیقت کیا ہے، اس کو راقم الحروف نے اپنی کتاب الاسلام میں ان الفاظ میں لکھا ہےعبادت کا اصل مطلب خدا کے آگے پستی اور عاجزی اختیار کرنا ہے۔ خدا کی عبادت کرنا، خدا کے آگے اپنے آپ کو انتہائی حد تک بچھا دینا ہے۔ پھر عبادت کا یہ عمل جس ہستی کے آگے ہوتاہے، وہ چوں کہ کوئی ظالم و جابر ہستی نہیں، بلکہ انتہائی حد تک شفیق ہستی ہے، اور ہمارے اوپر اس کے بے پایاں احسانات ہیں، اس لیے اظہارِ عجز کے اندر لازمی طور پر محبت کی شان پیدا ہوجاتی ہے۔ بندے کا خدا سے تعلق اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک انتہائی محبوب ہستی سے عجز کا تعلق ہے۔ عین اس وقت جب بندہ شدتِ خوف سے کانپ رہا ہوتا ہے، جب خدا کے تصور سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے ہیں، اس وقت بھی اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کے بہترین جذباتِ محبت اپنے رب کے لیے وقف ہوتے ہیں، وہ انتہائی اشتیاق کے ساتھ خدا کی طرف لپک رہا ہوتا ہے۔ وہ ایک درد انگیز محبت کی اعلی ترین کیفیت میں اپنے آپ کو لپٹا ہواپاتا ہے۔ خدا کے سامنے عاجزی اختیار کرنا، بلاشبہ اس سے انتہائی خوف کی بنا پر ہوتا ہے، مگر یہ خوف کوئی ایسی چیز نہیں، جو کسی ڈراؤنی شئے کو دیکھ کر آدمی کے اندر پیدا ہوتا ہے۔یہ انتہائی امید اور انتہائی اندیشہ کی ایسی ملی جلی کیفیت ہے، جس میں بندہ کبھی یہ طے نہیں کرپاتا کہ دونوں میں سے کس کو فوقیت دے۔ یہ محبت اور خوف کا ایک ایسا مقام ہے، جس میں آدمی جس سے ڈرتا ہے، اسی کی طرف بھاگتا ہے، جس سے چھننے کا خطرہ محسوس کرتا ہے، اسی سے پانے کی امید رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا اضطراب ہے، جو سراپا اطمینان ہے، اور ایسا اطمینان ہے، جو سراپا اضطراب ہے۔ (الاسلام، صفحہ 7)
حقیقت یہ ہے کہ ایمان ایک انوکھی آزمائش کا معاملہ ہے۔ اس معاملے میں انسان کو ایک ایسے امتحان سے گزرنا ہوتا ہے، جو بیک وقت امید اور خوف کے دوطرفہ جذبات کے درمیان سے گزرتا ہے۔آدمی کو ہر لمحہ یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا سفر امید کا سفر ہے، اسی کے ساتھ ہر لمحہ اس کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اس کو کچھ نہیں معلوم کہ بالآخر کیا ہونے والا ہے۔ یہ امید اور خوف کی دو طرفہ کیفیت کے درمیان گزرنے والا سفر ہے۔ اس سفرمیں ہر وقت انسان امید میں بھی ہوتا ہے، اور اسی کے ساتھ خوف میں بھی۔
واپس اوپر جائیں

عقیدہ اور بین اقوامی معاملات

ہجرت نبوی کے چھٹے سال حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔ اسلام میں حدیبیہ کا واقعہ ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ حدیبیہ کا واقعہ پورے معنوں میں ایک سنت رسول ہے۔ حدیبیہ کے موقعہ پر جو واقعات پیش آئے۔ ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو بین اقوامی معاملات کے لیے ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔
حدیبیہ کے موقعہ پر رسول اللہ اور قدیم مکہ کے مشرک لیڈروں کے درمیان صلح کی گفت و شنید (negotiation) شروع ہوئی۔ یہ گفت و شنید تقریباً دوہفتہ تک جاری رہی۔ جب اس کی شرطیں طے ہوگئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کاغذ پر صلح نامے کے دستاویز لکھوانا شروع کیا۔ آپ نے علی بن ابی طالب سے کہا:اکْتُبْ یَا عَلِیُّ:ہَذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ (اے علی لکھو،یہ وہ شرائط ہیں جس پر محمد رسول اللہ نے صلح کی )۔ سہیل بن عمرو جو اس وقت مشرک قیادت کی نمائندگی کررہے تھے، انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے، آپ وہ لکھیے جس کو ہم مانتے ہیں(اکْتُبْ فِی قَضِیَّتِنَا مَا نَعْرِفُ) ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتراض کو مان لیا ،اور کہا خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں، لیکن اے علی تم ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ مٹاؤ اور اس کی جگہ لکھو ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ ۔ علی ابن ابی طالب نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔اس کے بعد روایت کے الفاظ یہ ہیں:فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:أَرِنِی مَکَانَہُ، حَتَّى أَمْحُوَہُ، فَمَحَاہُ، وَکَتَبَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہ (تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ، مجھے اس لفظ کی جگہ دکھاؤ، تاکہ میں خود اس کو مٹادوں، پھر رسول اللہ نے خود اپنے ہاتھ سے اس لفظ کو مٹادیا، اس کے بعد علی نے اس جگہ پرمحمد بن عبد اللہ لکھا)۔ تفصیل کے لیے دیکھیے صحیح البخاری(حدیث نمبر 3184)،صحیح مسلم(حدیث نمبر1783-1784)، مسند احمد (حدیث نمبر 16800) ، صحیح ابن حبان(حدیث نمبر 4869)، وغیرہ۔
یہ واقعہ دوسری سنتوں کی طرح ایک سنت رسول ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں ڈی لنکنگ (de-linking) کی پالیسی اختیار کی۔ آپ نے عقیدہ اور بین اقوامی معاملے کو ایک دوسرے سے الگ کردیا۔ آپ نے فریقِ ثانی کے مسلّمہ کے مطابق معاہدہ لکھوایا، نہ کہ خود اپنے عقیدہ کے مطابق۔
اسی طرح کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانے میں عرب کے دو آدمیوں نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔ ایک یمامہ کا مسیلمہ بن حبیب، اور دوسرا صنعاء کا اسود بن کعب عنسی۔ مسیلمہ نے 10ہجری میں ایک خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس خط کامضمون یہ تھا: اللہ کے رسول مسیلمہ کی جانب سے اللہ کے رسول محمد کے نام، سلام علیک، اما بعد، بے شک میں نبوت کے معاملے میں آپ کے ساتھ شریک کیاگیا ہوں، اس لیے نصف زمین ہمارے لیے اور نصف زمین قریش کے لیے۔ مسیلمہ کی طرف سے دو قاصد اس کا یہ خط لے کر مدینہ آئے۔ ان کا نام ابن النواحہ اور ابن اُثال تھا۔ جب مسیلمہ کے دونوںقاصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو رسول اللہ نے کہا کیا تم دونوں بھی وہی کہتےہو جو وہ کہتا ہے۔ دونوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کی گردنیں کٹوادیتا (لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَکُمَا)۔راوی حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں : فَجَرَتْ سُنَّةً أَنْ لَا یُقْتَلَ الرَّسُولُ ۔ یعنی پھر یہ سنت جاری ہوگئی کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیاجائے گا(دیکھیے،سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2761،مسند احمد، حدیث نمبر 3708)۔
ان سننِ رسول سے اسلام کا ایک نہایت اہم اصول معلوم ہوتاہے۔ان سےیہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ اہل ایمان عقیدہ کے معاملے میں اپنے عقیدہ پر قائم رہیں گے۔ لیکن جہاں تک بین اقوامی معاملات کا تعلق ہے، اس میں اہل ایمان بین اقوامی اصولوں (international norms) کو اسی طرح مانیں گے، جس طرح دوسرے لوگ ان کو مانتے ہیں۔ یہ اصول ان تمام معاملات پر قابلِ عمل ہوگا جو بین اقوامی تعلقات پر مبنی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بین اقوامی معاملات میں بین اقوامی رواج پر عمل کیا جائے گا۔ ہر زمانہ میں بین اقوامی تعلقات کے لیے کچھ رواج ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانےمیں بھی اس قسم کے بہت سے رواج ہیں۔ اب اقوامِ متحدہ نے ان کو زیادہ منظم صورت دے دی ہے۔ اس قسم کے تمام رواج مسلم ملکوں میں بھی اسی طرح قابلِ احترام ہوں گے، جس طرح غیر مسلم ملکوں میں ان کو قابلِ احترام سمجھا جاتاہے۔ البتہ اگر اس قسم کے معاملات میں کوئی ایسی چیز یا رواج پایا جائے، جو صراحةً حرام ہو۔ مثلاً بین اقوامی میٹنگوں میں شراب پیش کرنا، تو اس مخصوص جز کی حد تک اس کی پیروی نہیں کی جائے گی۔
بیسویں صدی کے وسط میں اقوامِ متحدہ (United Nations) کی تشکیل ہوئی۔ تمام قوموں نے اس تنظیم کی ممبر شپ قبول کی ۔ اس تنظیم کے تحت10 دسمبر 1948 کو ایک منشور تمام قوموں کے اتفاقِ رائے سے منظور کیا گیا۔ جس کا ٹائٹل یہ تھا— دی یونیورسل ڈکلریشن آف ہیومن رائٹس 
The Universal Declaration of Human Rights (UDHR)
اب یہی منشور تمام قوموں کے اوپر نافذ ہوگا۔ اس معاملے میں کسی ملک کے لیے اپنی الگ پالیسی بنانے کا جواز نہیں۔یہ منشور مسلم ملکوں کے لیے بھی اسی طرح قابلِ عمل ہے، جس طرح وہ غیر مسلم ملکوں کے لیے قابلِ عمل ہے۔
انھیں معاملات میں سے ایک معاملہ وہ ہے، جس کو اقلیاتی حقوق (minority rights) کہا جاتا ہے۔ مسلم ملکوں میں غیر مسلم لوگ ایک مذہبی اقلیت کے طور پر آباد ہیں۔ اسی طرح غیر مسلم ملکوں میں مسلمان ایک مذہبی اقلیت کے طور پر رہتے ہیں۔ ان دونوں معاملات میں یکساں طور پر بین اقوامی اصول کی بنیاد پر معاملہ کیا جائے گا۔
مروجہ مسلم فقہ میں اس معاملے میں ذمی کا تصور پایا جاتا ہے۔ ذمی کا مطلب ہے پروٹکٹڈ کمیونٹی (protected community)،یعنی مسلم ملکوں میں رہنے والی غیر مسلم اقلیت ۔ موجودہ فقہ کے مطابق، اس ذمہ (protection) کے عوض ذمی لوگوں کو ایک مخصوص ٹیکس (جزیہ)ادا کرنا ہوتا ہے۔ ذمی کے تصور کو اسلامی عقیدہ کی طرح ایک ابدی تصور سمجھا جاتا ہے، مگر یہ درست نہیں۔
موجودہ زمانے میں شہریت (citizenship) کا جو تصور ہے۔ اس کے مطابق، جدید ذہن کے لیے ذمی کا تصور بالکل ناقابل قبول ہے۔ خود مسلمان خواہ ذمی کے تصورکو کتنا ہی زیادہ اعلی تصور بتائیں، وہ جدید ذہن کے لیے ایک توہین آمیز اصطلاح ہے۔ ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم ملک میں رہنے والے غیر مسلم کا جو مقام ہے وہ ثانوی درجے کے شہری (second class citizen) کا مقام ہے۔ جدید ذہن کے نزدیک اگرچہ پیغمبر اسلام نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر مساوات انسانی کا اعلان کیا۔ لیکن جہاں تک مسلم ریاست کا تعلق ہے، اس کے اندر غیرمسلموں کو مساوی درجہ حاصل نہیں۔ ان کے لیے صرف یہ چوائس ہے کہ وہ یاتو مسلم ریاست میں ثانوی درجے کی شہری بن کر رہیں یا ریاست کو چھوڑ کر باہر چلے جائیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اسلام کا اصول وہی ہوگا، جو عالمی قانون کے مطابق، تمام قوموں کا اصول ہے۔ اس کی اصل خود دورِ اول میں موجود ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچے، تو آپ نے وہاں کے لوگوں سے ایک معاہدہ کیا۔اس کو اسلام کی تاریخ میں صحیفۃ المدینہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں یہود کے تعلق سےیہ الفاظ ہیںوَإِنَّ یَہُودَ ... أُمَّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ، لِلْیَہُودِ دِینُہُمْ، وَلِلْمُسْلِمَیْنِ دِینُہُم(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ503)۔ یعنی بیشک یہود...،مومنین کے ساتھ، ایک امت ہیں۔ یہود کے لیے ان کا دین ہے، اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نئےشہری انتظام کے تحت دونوں کادرجہ یکساں ہوگا۔ گویا کہ یہ عین وہی چیز ہےجس کو موجودہ زمانے میں یکساں شہریت (equal citizenship) کہا جاتا ہے۔
مسلم فقہ کا ایک مسلم اصول یہ ہےالأحکامُ تتغیَّرُ بتغیُّرِ الزَّمانِ والمکانِ(تیسیر علم الفقہ للعنزی)۔ یعنی زمان و مکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔ اس اصول کے انطباق کی مثالیں ماضی میں بھی ہیں اور حال میں بھی ۔ماضی میں اس کی مثال بنی قریظہ کے لیے سفر کا واقعہ ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 946)۔
حال کی نسبت سے اس اصول کے انطباق کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن میں ہے کہ حج کے لیے مکہ آنے والے اونٹ پر سفر کرکے آئیں گے(الحج، 22:27)۔مگر آج تمام مسلمان، علماء اور غیر علماء ہوائی جہاز سے سفر کرکے مکہ پہنچتے ہیں۔ اسی طرح قرآن میں مسلم حکومت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ قوت کے لیے خیل (cavalry) فراہم کرو(الانفال، 8:60)۔ لیکن آج مسلم حکومتیں جدید اسلحہ فراہم کرتی ہیں، وغیرہ۔ موجودہ زمانہ مکمل طور پر ایک بدلا ہوا زمانہ ہے۔ ضرورت ہے کہ عقیدہ کے سوابقیہ معاملات میں بھی حسب ضرورت اس کو اختیار کیا جائے۔
اسلامی احکام کے دو حصےہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق الدین (الشوری، 42:13)سے ہے۔ اور اس کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کا تعلق شریعت (المائدہ ، 5:48) سے ہے۔ الدین کا حصہ ابدی ہے۔ اس میں کسی تبدیلی کی اجازت نہیں۔ لیکن شریعت کا حصہ ابدی نہیں، وہ حالات کے مطابق بدلا جاسکتاہے۔ یہ تبدیلی اجتہاد کی شرطوں کے مطابق کی جائے گی۔
٭ ٭ ٭٭٭٭
■ دنیا میں ہر آدمی کے لیے کوئی نہ کوئی نقصان مقدر ہے۔ دانش مند وہ ہے، جو نقصان کو خدا کا فیصلہ سمجھ کر اس پر راضی ہوجائے۔
ثپرامن جدو جہد کا نام جدو جہد ہے، متشددانہ جدو جہد سرے سے کوئی جدو جہد ہی نہیں۔
ثدشمن سے مقابلہ کرنے کی سب سے زیادہ کامیاب تدبیر یہ ہے کہ دشمن کو اپنا دوست بنالیا جائے۔
ثدوسروں کو دوست بنانے کی سب سے زیادہ آسان تدبیر یہ ہے کہ آپ دوسروں سے نفرت کرنا چھوڑ دیجیے۔
ثآپ دوسروں کی ضرورت بن جائیں، تو آپ کو دوسروں سے شکایت نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

اسلوبِ کلام

شاعری کی بنیاد تخیل پر ہے۔ تخیل میں کوئی خارجی چیز آدمی کی سوچ کی حد بندی کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ اسی لیے شاعر خیالی پرواز میں جو چاہتا ہے کہتا چلاجاتا ہے (أَلَمْ تَرَ أَنَّہُمْ فِی کُلِّ وَادٍ یَہِیمُونَ)الشعراء، 26:226۔
اس کے برعکس سائنس کی بنیاد فطرت پر ہے۔ فطرت (nature) ایک متعین حقیقت کا نام ہے۔ فطرت کی دنیا میں تمام واقعات انتہائی معلوم اور متعین اصولوں کی بنیاد پر ظہور میں آتےہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس داں کی زبان شاعر کی زبان سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ شاعر کو لفظوں کے انتخاب میںاحتیاط کی ضرورت نہیں۔ اس کی فکری اڑان اس سے کچھ بھی کہلوا سکتی ہے۔ مگر سائنس داں انتہائی محتاط زبان استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ وہ سختی کے ساتھ اس کا اہتمام کرتاہے کہ اس کی زبان میں فنی صحت اور ریاضیاتی قطعیت موجود ہو۔ جدید سائنس کا ظہور یورپ میں ہوا، اور وہیں اس کی ترقی ہوئی۔ پچھلے کئی سو سال کا زمانہ ایساہے جب کہ مغربی دنیا میں سائنس کو سب سے زیادہ غلبہ حاصل رہاہے۔ مغرب کی جدید تہذیب مکمل طورپر سائنس کے زیر اثر بنی ہے۔ اسی کے اثر سے مغرب کی زبانوں میں محتاط اسلوب اور حقیقت نگاری کا انداز پیدا ہوگیا ہے۔
سائنس داں جس شعبۂ علم میں کام کرتاہے، اس کے عین تقاضے کے طورپر وہ ایسا کرتاہے کہ اپنے خیالات کو محتاط زبان (guarded language) میں ظاہر کرتا ہے۔ جب مغربی انسان کے نزدیک سائنس کی اہمیت بڑھی، تو اسی کے ساتھ قدرتی طورپر یہ ہوا کہ زبان میں وہی طرز پسند کیا جانے لگا جو سائنس دانوں کا طرز تھا۔ اس طرح وہ زبان وجود میں آئی جس کو ہم نے محتاط زبان کا نام دیا ہے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ ریمزے میکڈونلڈ (1866-1937)ایک برطانی لیڈر تھے، جو بعد کو وہاں کے وزیر اعظم بنے ۔ان کو عوامی تقریروں کا خاص ملکہ تھا،جس میں معنی کم اورالفاظ زیادہ ہوتےہیں۔ ان کا تعلق انگلینڈ کی لیبرپارٹی سے تھا، جو سرونسٹن چرچل کی حریف تھی۔ چنانچہ لارڈ ونسٹن چرچل نے ایک بار ریمزے میکڈونلڈ پر طنز کرتے ہوئے کہا:
He is a man with the gift of compressing the largest amount of words into the smallest amount of thoughts.
یعنی وہ ایسی خصوصیت کے انسان ہیں، جو زیادہ سے زیادہ الفاظ میں کم سے کم معانی کا استعمال کرتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مدعیانہ زبان، علمی زبان

ایک بات وہ ہے، جو مدعیانہ زبان میں کہی جائے، اور دوسری بات وہ ہے جو علمی زبان میں کہی جائے۔ مدحیہ قصائد سب کے سب مدعیانہ زبان میں لکھے گئے ہیں۔ یعنی لفظی دعوی مگر اس کی دلیل موجود نہیں ہے۔ مثلا دہلی کے پرانے قلعےمیں ایک میوزیم ہے۔ ایک بار میں وہاں گیا تو دیکھا کہ اس میں ایک ٹوٹا ہوا پتھر رکھا ہوا ہے، جس پر لکھا ہوا ہے: ہمیشہ باد بزیر سپہر بو قلموں (آسمان کے نیچے ہمیشہ اس کی رونق قائم رہے)۔ یہ پتھر مغل دور کے کسی محل میں لگا ہوا تھا۔ مگر آج اس محل کا کہیں وجود نہیں ۔
مدعیانہ کلام میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر آدمی کے پاس الفاظ ہوں، تو وہ شاندار الفاظ کے ذریعہ ایسا دعوی کرسکتا ہے، جس کا حقیقت کی دنیا میں کوئی وجود نہیں۔ مثلاً ایک باپ کہہ سکتا ہے کہ میرا بیٹا تاریخ کا سب سے بڑا عالم ہے۔ اس طرح کے دعوے کے لیے الفاظ کافی ہیں۔ خواہ دلیل کے اعتبار سے سرے سے اس کی کوئی حقیقت نہ پائی جاتی ہو۔ اس کے مقابلے میں ،علمی زبان وہ ہے، جو تمام تر دلائل پر قائم ہے، جس کی حقیقت کو ہر آدمی جانچ کر سمجھ سکتا ہو۔ راقم الحروف نے جدیدیات کے مطالعے کے دوران ایک کتاب پڑھی۔ کتاب کا ٹائٹل یہ ہے
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West, J. Murray, 1965, pp. 132
جو آدمی جدید دور کو سمجھنا چاہتا ہے اس کو یہ کتاب ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ سائنس کا دور آنے کے بعد جس طرح دوسرے انقلابات ہوئے، ان میں سے ایک انقلاب وہ ہے، جس کا تعلق طرزِ بیان سے ہے۔ اب علم کی دنیا میں ایک نیا طرز بیان رائج ہوا ہے، جو تمام تر قدیم طرز سے مختلف ہے۔ اس طرز بیان کو ایک لفظ میں مبنی بر حقیقت (fact based)طرز بیان اور دوسرے الفاظ میں اس کو سائنٹفک طرز بیان کہا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ادبی انقلاب

نیوٹن (1727۔1642) کی دریافتوں کے نتیجہ میں جو عظیم ذہنی انقلاب ہوا، اس کے بعد یورپ میں ایک ترقی یافتہ تکنیک وجود میں آئی، اور پھر مطالعہ کے قطعی طریقے (exact methods)پیدا ہوئے، جن کو مسائل پر منطبق کیا جانے لگا۔ اس نہج نے فلسفہ، الہیات اور سیاسیات کے طریق مطالعہ کو متاثر کیا۔ اس باب میں ہم ادب پر اس انقلاب کے اثرات کا مطالعہ کریں گے۔
سائنسی علم (scientific knowledge) سے پیدا شدہ صورت حال نے لکھنے والوں پر قابل لحاظ اثر ڈالا ہے۔شکسپیئر(1616۔1564) جو کچھ پورے اعتماد اور سنجیدگی کے ساتھ لکھ سکتاتھا، وہ ملٹن (1674۔1608) کے لیے ناممکن اور الگزینڈر پوپ (1744۔1688) کے لیےناقابل قیاس تھا، اگر چہ ادبی صلاحیتوں (literary talents) کے اعتبار سے تینوں یکساں بلندی کے انسان تھے۔ شکسپیئر کو تینوں میں سب سے اونچا مقام حاصل ہوا۔ اس کی کم ازکم جزئی وجہ یہ تھی کہ اسے ایک خوش قسمت عہد (fortunate period) ملا۔ وہ انگریزی زبان کے ایک عظیم دورکے آغاز میں اور عظیم ذہنی انقلاب سے پہلے پیداہوا۔ جس زمانہ میں اس نے اپنی تحریریں لکھیں، اس وقت استعار اتی انداز اہمیت رکھتا تھا، جو نیوٹن کے بعد اسے پھر حاصل نہ ہوسکا۔
تمثیل موجودہ زمانہ میں دو قسم کی ہوسکتی ہے۔ ایک تمثیل وہ ہے ،جو سائنس داں کے لیے عملی نمونہ (working model) کا کام دیتی ہے۔ ایٹم کا قدیم تصور کہ وہ بالکل گول ہے، انتہائی سخت ہے۔ اسی قسم کا ایک ماڈل تھا۔ بعد کو ردر فورڈ (1938۔1871) کا ایٹمی تصور بھی اس کی ایک مثال تھا، جس کے مطابق اس کے اندر ایک ایٹمی نیوکلیس تھا، جو مثبت برقی چارج رکھتا تھا، اور اس کے گرد الکٹران (electron) سیاروں کی طرح حرکت کررہے تھے۔ تمثیل کی یہ قسم تجزیات سے حاصل شدہ علم کے خلاصہ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اگر اندازہ درست ثابت ہو تو ماڈل باقی رہتا ہے، اور اگر اندازہ درست ثابت نہ ہو تو ماڈل کی یا تو تصحیح کی جاتی ہے یا اسے ختم کردیا جاتا ہے۔
ادبی کنایہ (literary analogy) جو عام طورپر تشبیہ کی شکل میں ہوتا ہے، اس کا مقصد بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہ اس لیے وضع کیا جاتا ہے کہ قاری کو ایک بیان کی صداقت کے بارے میں ایک دلچسپ مثال کے ذریعےمتاثر کیا جائے۔ سائنسی ماڈل کے مقابلہ میں یہ بالکل وقتی نوعیت کی چیز ہے۔ سائنسی ماڈل سائنس داں کے اندازوں کو ظاہر کرنے کے لیے اس وقت تک استعمال کیاجاتا ہے، جب تک وہ غلط ثابت نہ ہوجائے۔ مزید یہ کہ ادبی تمثیل اپنی ذات میں کوئی ایک چیز نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ حقیقی نہیں سمجھی جاتی۔
تاہم عظیم ذہنی انقلاب سے پہلے یہ دو قسم کی تمثیلات ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ نہیں تھیں۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ اخلاقی نظام ہر اعتبار سے نہایت گہرائی کے ساتھ طبیعی دنیا سے مربوط ہے۔ جب شکسپیئراپنے ایک ڈرامہ کے کردار کی زبان سے فوجی نظم وضبط پر استدلال کرتےہوئے اس سے کہتا ہے کہ سورج سیاروں کے درمیان کمانڈر کی سی پوزیشن رکھتا ہے تو وہ محض ایک تشبیہ نہیں دیتا بلکہ اپنے یقین کے مطابق وہ کائنات کی فطرت کے بارہ میں ایک صحیح سائنسی بیان دیتا ہے۔ یہ خدائی نظام کا ایک جز تھا کہ سورج سیاروں کے اوپر حکمراں ہو، اور اسی طرح Agamemnon یونانیوں کے اوپر حکومت کرے، اور ان دونوں میں سے کسی کی حکمرانی میں بھی فرق آنا وسیع تر کائنات میں خلل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا تھا:
The rise of science led to a separation of reason from emotion: and naturally enough, an age of prose followed an age of poetry. (p. 108)
سائنس کے عروج نے عقل اور جذبات کو ایک دوسرے سے الگ کردیا، اور فطری طور پر شاعری کے دور کی جگہ نثر کے دور نے لے لی۔
سترھویں صدی کے وسط سے پہلے نثر بھی رنگین اور شاعرانہ طرز کی ہوتی تھی۔ سویفٹ (1745۔1667) اور اڈیسن (1719۔1672) کے وقت سے یہ محض سخن سازی سمجھی جانے لگی۔ ماقبل سائنس کے استعاراتی انداز کی ایک مثال لائلی (1606۔1554) کی کتاب (Euphues) میں ملتی ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1579 میں شائع ہوئی۔ اس وقت وہ ایک پسندیدہ کتاب تھی ،اپنے اسٹائل کے اعتبار سے بھی اور اخلاقی مضامین کے اعتبار سے بھی۔1636تک وہ بار بار چھپتی رہی۔ اس کے بعد عام قارئین میں اس نے اپنی جاذبیت کھودی اور محض ایک ادبی عجوبہ (literary curiosity)بن کر رہ گئی۔
1650 تک ایک شخص انگلش لٹریچر میں عالم خیال اور عالم فطرت کے درمیان کاملیت (wholeness) پاتا ہے ۔ اس صدی کے وسط سے دونوں کے درمیان خلیج پیدا ہونا شروع ہوئی، اور آرٹ اور سائنس کی تقسیم کی شکل میں د ونوں الگ الگ ہوگئے۔اس کے بعد انگریزی میں ایک سادہ اور استعارہ اور کنایہ سے خالی انداز پیدا ہونے لگا، جس کی سب سے بڑی وجہ یورپ میں سائنس کی طرف بڑھتا ہوا رجحان تھا۔
سادگیٔ اظہار (simplicity of expression) پیداہونے کی اور بھی وجہیں تھیں۔ مثلاً سترہویں صدی میں جب تعلیم بڑھی، تو یونان اور لاطینی کلاسیکل کتابوں کے مقابلہ میں لوگ زیادہ تر فلکیات، بحریات، جہاز سازی اور گھڑی سازی کے مطالعے میں دلچسپی لینے لگے۔ اس طرح فطری طورپر سادہ زبان کا رجحان بڑھا۔ کیونکہ یہ مضامین شاعرانہ طرز کے ادب میں بیان نہیں کیے جاسکتے تھے۔ پچھلے سو برس میں اخبار کی زبان بھی اس سے متاثرہوئی ہے۔ تعلیمی انفجار (literary explosion) کے بعد عوامی صحافت (popular journalism) پیدا ہوئی، اور اسٹائل میں سادگی آتی چلی گئی۔ سترھویں صدی کے بعد پیدا ہونے والے ادب کو ٹھیک ٹھیک حقائق (precise facts) بیان کرنے تھے۔ اس لیے سادہ اندازِ بیان کا پیدا ہونا بالکل فطری تھا۔
سپراٹ (Sprat) نے 1667میں (History of Royal Society) لکھی،اور اس میں نثر کے اسٹائل کے اصول مقرر کیے۔ اس میں اس نے لکھا کہ ہم کو فطری طرز کلام (natural way of speaking) اختیار کرنا چاہیے جس میں ریاضیاتی ڈھنگ کی واقعیت ہو، اور لفظی رنگینیوں سے خالی ہو۔1664 میں رائل سوسائٹی نے بالقصد ایک کمیٹی قائم کی جس کا مقصد یہ تھا کہ انگریزی زبان کے اسٹائل میں اصلاح کی کوشش کرے۔
اس وقت کے یورپ میں عوامی لہر پوری طرح شعر، استعارہ اور شاعرانہ نثر (poetic prose) کے خلاف تھی۔ فلاسفہ عام طورپر اس طرح کے بیان کو سچائی (truth)میں ایک رکاوٹ سمجھتے تھے۔ ہابس (1679۔1588) کے نزدیک وہ سیدھے فکر (straight thinking)میں خلل پیدا کرنے والا تھا۔ روسو (1712-1778) نے کہا تھا کہ ڈیکارٹ (1596-1650) کے فلسفہ نے شاعری کو قتل کردیا ہے۔ جان لاک (1632-1704) نے صاف طورپر کہا کہ شاعری خوبصورت تصویروں کا مجموعہ ہے ،مگر وہ بنیادی طورپر گمراہ کن ہے۔
ملٹن آخری شاعر تھا جو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا، اور سرٹامس براؤن (1682-1606) شاید آخری شخص تھا ،جس نے اس طرز کی نثر لکھی۔ ٹامس براؤن ایک تعلیم یافتہ شخص تھا۔ مگر وہ قدیم طرز کی زبان استعمال کرتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خواہش کے باوجود رائل سوسائٹی کا فیلو نہ بنایا جاسکا۔ اس وقت کے اہلِ فکر ایک ایسی نثر وجود میں لانا چاہتے تھے جو فلسفۂ فطرت کے نئے میکانکی تصور سے ہم آہنگ ہو:
They were interested in the development of prose style in accordance with new mechanical concepts of natural philosophy. (p. 117)
نثر میں سادگی پیدا کرنے کی تحریک کا سہرا خاص طور پر جان ڈرائڈن (1631-1700) کے سر ہے۔ اس نے مسلسل اس کی تبلیغ کی، اور خود سادہ نثر استعمال کی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جدید انگریزی درحقیقت ڈرائڈن کی زبان ہے۔
اٹھارویں صدی کو ’’ایج آف ریزن‘‘ کہاجاتا ہے۔ نیوٹن کے بعد محسوس کیاگیا کہ جس طرح عالم افلاک میں نظم وضبط ہے، اسی طرح لٹریچر کو بھی نظم وضبط کا پابند ہونا چاہیے۔ اڈمنڈ والر (1606-1687) اور ڈرائڈن نے شاعرانہ زبان کے ذریعہ تاثیر پیدا کرنے کے بجائے یہ کوشش کی کہ متوازن خیالات (well-balanced thoughts) کو معتدل اور مناسب زبان میں ادا کرکے یہ فائدہ حاصل کیاجائے۔
اڈیسن (1672-1719) نے اپنی کتاب (The Spectator) میں انھیں خیالات کی وکالت کی۔اس ادبی تحریک (literary move) نے ارسطو کو دوبارہ اہمیت کا مقام دے دیا۔ پوپ نے فطرت (nature)کی پیروی کی تلقین کی، انگریزی شاعر ورڈسورتھ (William Wordsworth)کی بیان کردہ فطرت کی نہیں، بلکہ وہ فطرت جس کو نیوٹن نے دریافت کیا تھا۔
ولیم بلیک(1757-1827) نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ وہ شاعر (poet)کو اسی قسم کی ایک مخلوق سمجھتا تھا، جیسے قدیم اسرائیلی پیغمبر۔ اسی طرح ورڈسورتھ (1770-1850) نے بھی اس کے خلاف احتجاج کیا۔ اس نے کہا کہ حقیقت کی کچھ اور قسمیں ہیں، جو ان مادی صداقتوں کے علاوہ ہیں، جن کو سائنس داں بیان کرتے ہیں۔ یہ دوسری قسم کی صداقتیں وہ ہیں جن تک صرف شاعر کی پہنچ ہوسکتی ہے۔
رومانوی تحریک (Romantic Movement) ایک معنی میں نیوٹنی قطعیت (Newtonian Certainty)کے خلاف شاعرانہ رد عمل تھی، اور ہابس کے خلاف جس نے کہا تھا کہ انسان بنیادی طورپر ایک مشین ہے۔رومانیت (Romanticism) ایک قسم کی فراریت (escapism) تھی۔ رومانیت شاعری کے اندر 1798 سے جنگ عظیم 1914-18 تک رہی۔
اب یورپ میں تین سو سالہ دور کا ردعمل ہورہا ہے۔ صنعتی دور کی خشکی سے اکتا کر وہ سائنس کے ساتھ آرٹ کی اہمیت کو بھی تسلیم کررہا ہے۔ سترھویں صدی میں سائنس نے زبردست ترقی کی تھی۔ آرٹ نے بھی قدیم زمانہ میں بہت بلند مقام حاصل کیا تھا۔ ہوسکتا ہے مستقبل میں وہ دوبارہ اپنے مقام پر لوٹ آئے۔
(جان فریڈرک ویسٹ (John Frederick West) کی کتاب دی گریٹ انٹلکچول ریولیوشن کے ایک باب استعارہ کی موت [The Death of Metaphor] کا ترجمہ)
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادرم مولانا سید اقبال احمدعمری ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ خط میں آپ کو 11 ستمبر2019 کی شام کو لکھ رہا ہوں۔ میں کئی مہینے سے بیماری کے دور سے گزر رہا تھا۔ آخر کار ہمارے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ مجھ کو دلی کے سب سے اچھے اسپتال میں لے جائیں۔میں اس کےلیے راضی نہیں تھا۔ کیوں کہ نوجوانی کی عمر سے میں یہ سنتا تھا کہ اسپتال انسان کے لیے کوئی اچھی جگہ نہیں ہے۔ مثلاً مشہور اردو شاعر اکبر الہ آبادی نے جدید دور کے بارے میں طنزیہ انداز میں لکھا تھا
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر
انڈیا کے ایک مشہور عالم دین کے قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ اسپتال کی زندگی سے بچائے۔ اسی طرح مجھے انڈیا کے دو بزرگوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ علاج کے لیے امریکا گئے۔ جب وہ روانہ ہونے لگے، تو ان کے معتقدین نے ان کو مشورہ دیا کہ حضرت امریکا میں یہودی ڈاکٹر ہوتے ہیں۔آپ یہودی ڈاکٹروںسے ہرگز علاج مت کیجیے گا۔ کیوں کہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہوتے ہیں۔
یہ بات مضحکہ خیز حد تک غیر واقعی ہے۔ موجودہ زمانہ پروفیشنلزم کا زمانہ ہے۔ مسلمانوں کے دررمیان اس قسم کا ماحول اس بات کے لیے رکاوٹ بن گیا ہے کہ وہ جدید ترقیوں سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق جدید ترقیوں سے الرجک ہوگئے ہیں۔ان حضرات کو یہ معلوم ہی نہیں کہ موجودہ زمانہ پروفیشنلزم (professionalism) کا زمانہ ہے۔ اب یہودی ڈاکٹر یہود کی حیثیت سے علاج نہیں کرتے، اب کرشچن ڈاکٹر کرشچن کی حیثیت سے کسی انسان کا طبی معاینہ نہیں کرتا، بلکہ خالص پروفیشنل انداز میں وہ اس کام کو انجام دیتا ہے۔
آج کا ایک ڈاکٹر جو کام کرتا ہے، وہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر نہیں کرتا، وہ انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں اس کو انجام دیتا ہے۔ جب وہ اپنا کام انجام دیتا ہے، تو اس کے ذہن میں صرف پروفیشنل تقاضےموجود ہوتے ہیں، کسی بھی غیر پروفیشنل تقاضے سے ان کا ذہن مکمل طور پرخالی ہوتا ہے۔
جدید ترقی کیا ہے۔ وہ دراصل خدا کے پیدا کیے ہوئے امکانات کو دریافت کرکے ان کو استعمال کرنا ہے۔ یہ ترقیاں کوئی غیر اسلامی ترقیاں نہیں ہیں، بلکہ وہ خود خدا کی تخلیق کا حصہ ہیں۔ مسلمانوں نے اس حقیقت کو سمجھنے میں بہت زیادہ دیر کی ، اب انھیں بلاتاخیراس حقیقت کو سمجھنا چاہیے، تاکہ وہ مزیدنقصان سے بچ جائیں۔
یہ پروفیشنلزم ایک نیا ظاہرہ ہے جو موجودہ زمانے میں پیدا ہوا ہے، مگر امت کے لوگ خاص طور پر علما اس سے مکمل طور پر بے خبر ہیں۔ اسی لیے وہ دورِ جدید کے بارے میں ایسی رائے قائم کرتے ہیں، جو مضحکہ خیز حد تک غیر و اقعی ہوتی ہے۔اس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی حقیقت پسند بنے، وہ کسی انسان کے بارے میں تجربے (experience) کی بنیاد پر رائے قائم کرے، نہ کہ عقیدے کی بنیاد پر۔ یہ معاملہ خالص غیرمذہبی (secular) معاملہ ہے، اس کا مذہبی عقیدے سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دورِ جدید کی اس حقیقت کو دریافت کرے، تاکہ وہ غلط فہمی کی دنیا میں جینے سے بچ جائے۔
٭ ٭ ٭٭٭٭
■ زندگی میں بار بار فیصلہ لینا پڑتا ہے، نئے حالات میں جو لوگ نیا فیصلہ نہ لے سکیں، وہ اس دنیا میں ناکام ہوکر رہ جائیں گے۔
■ دعوت دوسروں کے حق میں اپنی خیر خواہی کا اظہار ہے، نہ کہ دوسروں کے اوپر اپنی برتری کا اظہار۔
■ دعوت دراصل مدعو سے محبت کا ایک اظہار ہے۔ چوں کہ لوگوں کے سینوں میں دوسرے کے لیے محبت نہیں، اس لیے لوگوں کے سینوں میں دعوت کی تڑپ بھی نہیں ۔
■ جو انسان سے محبت کرتا ہے،وہ خدا کا محبوب بنتا ہے، اور جو شخص خدا کا محبوب بنتا ہے، اسی کو آخرت میں جنت میں داخلہ ملے گا۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
ایک قاری الرسالہ لکھتے ہیں کہ کچھ دنوں پہلے مہاراشٹر کے ایک مقام پر ان کا جانا ہوا تھا۔ وہاں ناروے کے کچھ عیسائی مشنری لوگوںسے ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے یہ دو سوال کیے: (1) جنت(paradise) میں داخلے کا معیار (criterion)کیا ہے۔ (2) آپ کے پاس روحانیت (spirituality) کی تعریف کیا ہے۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، عمر آباد، تامل ناڈو)
جواب
(1) جنت اعلیٰ درجے کا پرامن (peaceful)معاشرہ ہے۔ جنت میں اسی کو داخلہ ملے گا، جو اپنے ہم سایہ لوگوں (neighbours)کے ساتھ کامل معنی میں پرامن انداز میں رہ سکیں۔ اس کا ہر عمل قابل پیشین گوئی کردار (predictable character ) کا حامل ہو۔ جو لوگ اپنے آپ کو دنیا کی زندگی میں اس انداز میں تیار کریں، وہ آخرت میں جنت میں داخلے کا ریوارڈ پائیں گے۔
(2) روحانیت کسی پراسرار صفت کا نام نہیں ہے۔ روحانیت کامل طور پر مثبت انداز میں ذہنی ارتقا کا نام ہے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ روحانیت مبنی بر قلب ڈیولپمنٹ کا نام ہے۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ روحانیت مبنی بر ذہن ارتقا کا نام ہے۔
سوال
میں ایک عرصے سے آپ کے مضامین اردو اور انگریزی میں پڑھتا ہوں، اورانٹرنیٹ پر آپ کی تقریریں سنتا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ الہام کی حقیقت کیاہے؟ یہ وحی سے کس طرح جدا ہے؟(اظہر مبارک، بھاگل پور، بہار)
جواب
اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح وحی کی دوقسمیں ہیں— وحی متلو، اور وحی غیر متلو۔ اسی طرح الہام کی بھی دو قسمیں ہیں —— اجتہاداور انسپریشن (inspiration)ہے۔ یہ دو قسم کے معاملات پیغمبر کے ساتھ بھی ہوتے ہیں، اور غیر پیغمبر کے ساتھ بھی۔
اس کی مثالیں غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہیں۔ مثلاً مکی دور میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت غیر معمولی قسم کی حکیمانہ تدبیر اختیار کی، جس کوڈی لنکنگ(delinking) کہا جاسکتا ہے، یعنی مکہ کے بت پرست زائرین سے ٹکراؤ نہ کرنا، بلکہ ان کو دعوت کے آڈینس (audience)کے طو رپر استعمال کرنا۔ یہ ایک غیر معمولی تدبیر تھی، اور اتنی اعلیٰ تدبیر ربانی الہام کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ الہام کی یہ قسم ایسے اہل ایمان کو نصیب ہوتی ہے، جو ری ایکشن کی نفسیات سے اپنے آپ کو کامل طور پر بچائیں۔ بدقسمتی سے مسلم علما نے اس اعلیٰ حکمت کو نہیں سمجھا، اس لیےوہ ایسے الہام کے وعایۃ (container)بھی نہیں بنے۔
ہمارے علما کے لیے اس سے مشابہ حالات پیدا ہوئے، لیکن ہمارے علما نے حدیث کو حکمت (wisdom) کے طورپر نہیں لیا، بلکہ فقہی مسائل کے ماخذ کے طور پر لیا۔ اس لیے ان کا معاملہ یہ ہوا کہ وہ نبوی حکمت کو سمجھنے سے قاصر رہے، وہ خود ساختہ طور پرمسائل میں ترجیحات تلاش کرنے میں الجھ کر رہ گئے۔ جس چیز کو علما ترجیحی قول کہتے ہیں، وہ صرف حکمت نبوی کی دریافت میں محرومی کا نام ہوتا ہے— وحی سے مراد ہےلفظی انسپریشن، جو فرشتوں کے ذریعہ انبیا کو ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں الہام سے مراد ہے، اجتہادی انسپریشن۔
سوال
ایک قاری الرسالہ لکھتے ہیںسورہ یوسف احسن القصص ہے۔ لیکن دوسرے انبیاء کے مقابلے میں اس میں انذار و تبشیر کا کوئی نمایاں پہلو نظر نہیں آتا۔ حالاں کہ انبیاء کرام کا اصل مقصد یہی ہے۔ وضاحت مطلوب ہے۔ (سید فیض احمد قادری، کوئمبٹور، تامل ناڈو)
جواب
حضرت یوسف کا قصہ جو قرآن میں بیان ہوا ہے، وہ ایک مخصوص پہلو سے بیان ہوا ہے۔ اس میں انذار و تبشیر کا معاملہ شامل نہیں ۔ اس معاملے میں اللہ تعالی کو ایک خاص رہنما ئی دینا مطلوب تھا۔ غالباً اسی بنا پر یہ ہوا کہ حضرت یوسف ،جو کہ مصر سے باہر ایک گاؤں میںپیدا ہوئے تھے، ان کو وہاں سے مصر میں لایا گیا، جہاںایک متمدن حکومت قائم تھی۔کیوں کہ یہ مثال مصر جیسے متمدن مقام میں قائم ہوسکتی تھی۔ تاکہ ایک مثال کی صورت میں ایک سنت رسول قائم ہو ،وہ یہ کہ اس طرح کی صورت حال میں اہل ایمان کو کیا کرنا چاہیے، یعنی جب داعی ایک ایسے مقام پر ہو، جہاں ایک قائم شدہ حکومت موجود ہو، تو وہاں طریقِ کار(method) کیا ہونا چاہیے۔ وہ طریقہ ایک لفظ میں پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) پر مبنی ہونا چاہیے۔یہ پریکٹکل وزڈم کیا ہے، اس کو حضرت یوسف کی مثال کے ذریعے اس سورت میں بیان کیا گیاہے۔
سور ہ یوسف میں احسن القصص کا لفظ اپنے کامل معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ طریقِ کار کے معنی میں ہے، یعنی حضرت یوسف نے اپنے زمانے میں دعوت کا جو طریقہ (method)اختیار کیا، وہ بہترین طریقہ تھا۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ’’ بہترین طریقہ‘‘ سے متعین طور پر مراد غیر نزاعی طریقہ (non-confrontational method) ہے۔
حضرت یوسف کا اختیار کردہ غیر نزاعی طریقہ کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ حضرت یوسف نے بادشاہ سے تخت اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ صرف یہ کیا کہ مصر کے خزائن ارض (زرعی معاملہ [agricultural land]) کا انتظام حضرت یوسف کے حوالے کردیا جائے۔ وہ انتظام کیا تھا، اس کو قرآن میںان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے یوسف نے کہا کہ تم سات سال تک برابر کھیتی کرو گے۔ پس جو فصل تم کاٹو، اس کو اس کی بالیوں میں چھوڑ دو مگر تھوڑا سا جو تم کھاؤ۔ اس کے بعد سات سخت سال آئیں گے۔ اس زمانہ میں وہ غلہ کھالیا جائے گا جو تم اس وقت کے لیے جمع کرو گے، بجز تھوڑا سا جو تم محفوظ کرلو گے۔ پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں پر مینھ برسے گا۔ اور وہ اس میں رس نچوڑیں گے۔ (12:47-49)
بادشاہ مصر کے ساتھ حضرت یوسف کا معاملہ کیا تھا، اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور بادشاہ نے کہا، اس کو میرے پاس لاؤ۔ میں اس کو خاص اپنے لیے رکھوں گا۔ پھر جب یوسف نے اس سے بات کی تو بادشاہ نے کہا ائْتُونِی بِہِ أَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِی فَلَمَّا کَلَّمَہُ قَالَ إِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِینٌ أَمِینٌ۔ قَالَ اجْعَلْنِی عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ ٌ (12:54-55)۔ یعنی اس کو میرے پاس لاؤ۔ میں اس کو خاص اپنے لیے رکھوں گا۔ پھر جب یوسف نے اس سے بات کی تو بادشاہ نے کہاآج سے تم ہمارے یہاں معزز اور معتمد ہوئے۔ یوسف نے کہا  مجھ کو ملک کے خزانوں پر مقرر کردو۔ میں نگہبان ہوں اور جاننے والا ہوں۔
بائبل(پیدائش، 41:40) میں اس طریقے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ——سو تُو میرے گھر کا مختار ہوگا، اور میری ساری رعایا تیرے حُکم پر چلے گی ۔ فقط تخت کا مالِک ہونے کے سبب سے میں بُزرگتر ہوں گا:
You shall be in charge of my house, and all my people are to obey your commands. Only with regard to the throne will I be greater than you. (Genesis 41:40)
سوال
مجھے نہیں معلوم میں کہاں سے شروع کروں۔ میں جب سولہ سال کی تھی، تو میں نے اپنے اکیس سالہ بھائی کو کھودیا، اس کے فوراً بعد میرے والدین فوت ہوگئے۔ شادی کے بعد میرے دو بھائی (brothers in law) اپنے پیچھے دو لڑکیوں کو چھوڑ کر انتقال کرگئے۔ ایسی کٹھن صورت حال میں میں کیا کروں۔ کیا آپ مجھے کوئی دعا پڑھنے کی نصیحت کریں گے۔ (مز ثنا خان، پاکستان)
جواب
آپ کو جو صورتِ حال پیش آئی ہے، وہ آپ کے لیے ایک نعمت ہے۔ دنیا کے سہارے کا رہنا یا نہ رہنا، دونوں اللہ کے فیصلے ہیں۔ جب آپ دیکھیں کہ دنیا کےسہارے آپ سے ٹوٹ رہے ہیں، تو اس کو پازیٹیوسنس میں لیں۔ اس کو یہ سمجھ لیجیے کہ یہ اللہ رب العالمین کا آپ کے لیے منصوبہ ہے کہ آپ رب العالمین سے جڑیں، زیادہ سے زیادہ آپ اس کی رحمت کے مستحق بنیں۔ آپ کے اندر زیادہ سے زیادہ اسپریچول ڈیولپمنٹ ہو۔ یہ سب باتیں شکر کی باتیں ہیں ، نہ کہ شکایت کی باتیں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 270

ثنیشنل انوائرمنٹل انجنئرنگ ریسرچ انسٹیٹیوٹ(NEERI Nagpur) میں دعوتی تجربہ: ایم ایم ربانی جونئرکالج کامٹی سے طلبہ کومرکزی حکومت کے ادارہ National Environmental Engineering Research Institute میں 15 جولائی 2019 کومدعو کیا گیا تھا۔ ہم نے طے کیا کہ اس ٹرپ کو اپنے لیے دعوہ ٹرپ بنایاجائے۔ ملک کے نامور سائنس داں ڈاکٹر این کے سنگھ اس پروگرام کے خاص اسپیکر تھے، اس کے علاوہ اور بھی کئی ماہر سائنس داں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہونے والے ہیں۔ جب ہم لوگوں نے پروگرام انتظامیہ سے اپنے پیس اور اسپریچول مشن کا تذکرہ کیا اور تمام لوگوں کو ترجمہ قرآن اور اسپریچول لٹریچر دینے کا اپنا ارادہ ظاہر کیا ،تو منتظمین بہت خوش ہوئے، اور یہاں تک معاونت کی کہ مجھے دعوت دی کہ آپ اپنے مشن کا تعارف اسٹیج پر آکر کرائیں۔ یہ ہمارے لیے بالکل غیر متوقع تھا۔ یقینی طور پر یہ صرف اللہ رب العالمین کی مدد تھی۔ میں نے مختصراًسی پی ایس مشن کا تعارف اور مقصد پیش کیا، اور ڈائس پر موجود سبھی شخصیات کو انگلش قران اور دیگر دعوتی لٹریچر پیش کیا۔ خاص طور سے ڈاکٹر این کے سنگھ کو انگریزی ترجمہ قرآن اور گاڈ ارائزز (God Arises)دیا گیا۔ انہوں نے بہت ہی خوشی سے قبول کیا۔ دیگر افراد میں ڈاکٹر اپادھیائے ، ڈاکٹر پوروہت(Dr Purohit) ڈاکٹر کمبھارے(Dr Kumbhare) ، وغیرہ، سب کو انگلش ترجمۂ قران اوردی ایج آف پیس (The Age of Peace) کے ساتھ دیگر دعوتی کتابیں پیش کی گئیں۔ اسٹیج سے نیچے آنے کے بعد سامعین میں سے کئی افراد نے ہماری ٹیم سے رجوع کیا، اور اپنے لیے بھی انگلش ،ہندی ،اور مراٹھی میں قران کی درخواست کی، جو کہ ہم نے انہیں دےدیا۔ دو تجربات ایسے پیش آئے، جن سے میں تھرلڈ (thrilled)ہوں۔ ایک، اس پروگرام کی شوٹنگ کرنے والے کیمرہ مین مسٹر انِل نے میرے پاس آکر کہا : سر، کیا یہ کتابیں مجھے بھی مل سکتی ہیں، اور جب میں نے انہیں مراٹھی قران پیش کیا تو انہوں نے بہت ہی ادب سے ترجمہ قرآن کو اپنے سر، پر رکھ لیا۔ اس وقت کے تاثرات بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
اس پروگرام کا ایک دوسرا تجربہ یہ ہے کہ سامعین میں ایک ڈاکٹر ٹھاکرے صاحب ملے، جنھوں نے تقریباً ایک گھنٹے تک ہمارا انتظار کیا، اور ملنے پر کہنے لگے میں نے اپنی تمام سروس امریکہ اور افریقی ممالک میں کی ہے، اور اب میں شانتی کے پرچار میں لگا ہوا ہوں، میرے اس مشن کے ساتھ ناگپور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جناب پٹھان صاحب جڑے ہیں، جو کہ ابھی پونا میں مقیم ہو گئے ہیں۔ میں ان سے آپ کی بات کروادیتا ہوں، آپ ان سے مل کر اس کام کو آگے بڑھائیے۔ پھر اسی وقت انہوں نے بات بھی کروادی، اور اپنا مقصد بھی بتا دیا۔ پٹھان صاحب نے کہا آپ پونا آکر مجھ سے ملیے، کیوں کہ میں نے مولانا صاحب کو پڑھا ہے، اور ان سے کامل اتفاق رکھتا ہوں۔ (ساجد احمد خان، ناگپور- کامپٹی)
■ ڈاکٹر محمد اسلم خان(سی پی ایس سہارن پور چیپٹر) بھائی چارے کے انداز میں زندگی گزارتے ہیں،اور ہر ایک سے وہ اپنائیت کے انداز میں بھید بھاؤ کے بغیر ملتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ ہر جگہ آسانی کے ساتھ دعوتی کام کرلیتے ہیں۔ مثلاً 27اگست 2019 کو اتراکھنڈ کے چیف منسٹر جناب ترویندر سنگھ راوت نے ڈاکٹر اسلم خان کو خاص اعزاز سے نوازا۔ اس موقع پر انھوں نے پروگرام میں موجود تمام لوگوں بشمول سی ایم اتراکھنڈ کو ترجمۂ قرآن بطور ہدیہ دیا۔ اس کے بعد دوبارہ 5 اکتوبر 2019 کو اتراکھنڈ میں ایک پروگرام میں سی پی ایس سہارن پور سے ڈاکٹر محمد اسلم خان، مسٹرمحسن بلال، مسٹر دانش خان، ڈاکٹر تاثیر ،وغیرہ، نے شرکت کی۔ اس پروگرام میں بھی اتراکھنڈ کے موجودہ سی ایم ترویندر سنگھ راوت ، سابق سی ایم ہریش راوت، بی جے پی صدر اتراکھنڈ و دیگر سیاسی، اور سماجی، اور بیوروکریسی سے منسلک افراد موجود تھے۔ اس پروگرام میں بھی تمام لوگوں کو ترجمۂ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچردیے گئے، جن کو تمام لوگوں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا، اور اس کام کو مزید آگے بڑھانے میں مدد کا وعدہ کیا۔
ثمز نکیتا نائر نے نئی دہلی سے شائع ہونے والے انگریزی میگزین ایکوئیٹر لائن (Equator Line) کے لیے صوفی ازم اور اسلام کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو 21 ستمبر 2019 کو لیا گیا۔ انٹرویو کے بعد مز نائر کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر بطور گفٹ دیے گئے۔
ثیکم اکتوبر 2019کو عیسائی مشنری ادارہ ودیا جیوتی کالج آف تھیولوجی (نئی دہلی)کے طلبا کی ایک جماعت کو سی پی ایس انٹرنیشنل نئی دہلی کے تین ممبران، ڈاکٹر فریدہ خانم، ڈاکٹر ماریہ خان، اور مولانا فرہاد احمد نے مختلف اسلامی موضوعات پر خطاب کیا، اور خطاب کے بعد سوال جواب کا بھی سیشن ہوا۔ چائے کے وقفے میں کئی طلبا نے کہا کہ میں اسلام کے تعلق سے منفی سوچ کا شکار تھا، لیکن آج آپ لوگوں نے جو بتایا ہے، اس سے میرا ذہن اسلام کے لیے بالکل مثبت ہوگیا ہے۔ تمام سامعین کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دیے گئے۔
ثSouth Asian Jesuit Assistance secretariat for Interreligious Dialogue کے ایک پروگرام میں سی پی ایس انٹرنیشنل (دہلی) کی چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم کو اپنے ممبران کے ساتھ مدعو کیا گیا تھا۔ اس پروگرام میں ساؤتھ ایشیا کے تمام بڑے عیسائی پادری جمع تھے۔ ڈاکٹر فریدہ خانم نے وہاں پر اسلام اورانٹرفیتھ (Interfaith)کے موضوع پر ایک تقریر کی، جسے تمام لوگوں نے بہت دلچسپی سے سنا۔سی پی ایس انٹرنیشنل نئی دہلی کے ممبران نے تمام سامعین کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دیے۔ یہ پروگرام سینٹ زیوئرس سینئر سیکنڈری کالج نئی دہلی میں11 اکتوبر 2019 کو ہوا تھا۔
ثوینکوور (Vancouver) کناڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کا ایک ساحلی شہر ہے۔ یکم اکتوبر 2019 کو مز کوثر اظہار اور مز گل زیبا احمد (سی پی ایس انٹرنیشنل، امریکا) نے اس شہر کا سفر کیا۔ مقصد تھا، دعوتی سیاحت۔ وہ جس ہوٹل میں ٹھہری تھیں، اس کی انتظامیہ سے قرآن رکھنے کی بات کی، وہ لوگ راضی ہوگئے، اور کہا کہ آپ ہمیں 118 روم کے لیے اسی تعداد میں قرآن دیجیے۔ مطلوبہ تعداد انھیں دے دی گئی۔ اس کے علاوہ انھوں نے وہاں مختلف سیاحوں کو بھی قرآن دیا۔ ان دونوں خواتین داعیوں کے لیے یہ سفر دعوتی تجربہ سے بھرپور سفر رہا۔
■ 9 اکتوبر 2019 کو ساجد احمد خان کے اسکول میں کامپٹی پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر مسٹر دیوی داس کاتھلے اسکول کے پرنسپل کے پاس آئے۔ اس وقت ان کو ساجد خان صاحب نے مراٹھی ترجمۂ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دیے۔ مراٹھی ترجمۂ قرآن اور کتاب خاندانی زندگی کو دیکھ کر وہ بہت زیادہ خوش ہوئے، اور کہا کہ اب مجھے پولیس اسٹیشن آنے والے مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ دوران گفتگو جب ساجد صاحب نے کہا کہ میں آپ کے پولیس اسٹیشن آکر تمام اسٹاف کو قرآن اور اسلام کی کتابیں دینا چاہتا ہوں، تو انھوں نے خوشی سے کہا کہ ضرور آئیں، آپ کا ہر وقت استقبال ہے۔
■ السلام علیکم، مولانا صاحب اللہ پاک آپ کو ایمان اور صحت کے ساتھ سلامت رکھے۔ میں آپ کے آباواجداد کے علاقے سوات ملاکنڈ سے تعلق رکھتا ہوں۔ آپ کی تفسیر تذکیرالقران اور دیگر کتابوں سے مجھے ایمانی قوت حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہم طارق بدر صاحب کے ساتھ مل کر سی پی ایس انٹرنیشنل کے کاموں کو پوری دلجمعی کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ ہم لوگوں کے لیے دعا کریں۔(سردار عطاء الرحمن عثمان خیل)
■ Hello, I'd like to first share how I ended up with this translation of the Quran. I am a refugee from Bosnia, very strong Muslim roots. Muslim parents, I always said “I cannot touch religion until that is understandable to me.” For the last 7 years, I thought my life was hell but now in hindsight I see what it really was .I have numerous copies of the Kuran courtesy of My father but I never bothered with them because one quick glance and the truth in truth form did not resonate with me. While I was in Istanbul in 2013, I picked up a free copy at a mosque, never touched it until about a week ago, it really does call to you, I am still reading it (backwards seems to somehow make more sense to me), but this entire time I am thinking this translation is not like the others and this led me to CPS. I believe this is the true message. I suppose my question is this, does the center offer any type of exchange program where a person can come and learn a bit more. I've looked at the ambassador options, this will not satisfy my thirst for knowledge in the way I need it to unfold more within me. Thank you for taking the time to read my message, I look forward to any insights you may be able to provide . Peace & Love to you. (Edita Sehic)
■ My changing perspectives of Islam: As a child in my mind, Islam was merely that ‘burqa religion. As a slightly older child, it also became the nice, fun religion at Eid time because hospitable Muslim neighbours and friends shared their delicious festive fare with us. But, on reading the history of the Mogul invaders of India, I wondered whether they were cruel or fanatical, or both. Was it their mis-zeal, to convert or destroy the infidels by jihad? In later years I wondered whether certain parts of the Quran lent themselves to such mis-interpretation which led the followers of Islam to perpetrate such atrocities as forcible conversion and disrespect for Hindu belief and sentiment by razing the temples. Having read Sir Maulana Khan’s treatises, I am convinced that the true spirit of Islam is non-violent, peaceful and respectful. I quote Sir, Khan “Only a defensive war is permitted in Islam. Follow one religion and respect all. Jihad is the inner battle against non-spiritual urges, and, Do not judge Islam by what some Muslims do. All religions teach love, peace, forgiveness and the glory of God. I enjoy living in a multi-religious country and have nice friends of all religions. My vision of tomorrow’s world is one in which all of us will believe in the true, relevant message which is the universal heritage of mankind. We pray for a richer, peaceful world where there is greater interaction, understanding, harmony and friendship between peoples.(Mrs. Ramadevi Lingaraju)
■ مجھے الرسالہ باقاعدگی سے ہر ماہ موصول ہوتا ہے۔میں الحمد للہ الرسالہ کے پیغام کو عام کرنے میں اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو صرف کرتا ہوں، چونکہ میں ایک ٹرینر ہوں اور ہفتہ بھر میں پندرہ بیس تعلیمی اداروں میں ٹریننگ سیشن کرنے جاتا ہوں ،ساتھ ہی ساتھ مجھے مختلف ٹی وی مارننگ شوز میں مدعو کیا جاتا ہے۔میں ہر جگہ اور مقام پر الرسالہ کے پیغام کو عام کرتا ہوں۔(خواجہ مظہر صدیقی ،کالم نگار نوائے وقت، ڈائریکٹر ارتقاء آرگنائزیشن پاکستان)
■ ’’اللہ اکبر‘‘ مولانا کی عجیب کتاب ہے۔ کئی دفعہ پڑ ھنے کے باوجود ہر دفعہ نیا کیف و سرور ملتا ہے، اور مولانا صاحب کےلیے دل سے بار بار دعا نکلتی ہے ۔اللہ مولانا کو دراز عمر اور صحت نصیب فرمائے آمین (مفتی محمد، سوات)
ثخصوصی شمارہ :جنت کی دنیا (الرسالہ ستمبر 2019) میں حضرت نے جنت کی سیر کرائی ہے، اور ایسی عمدہ تشریح پیش کی ہے، جن سے اعتقادی اصلاح بھی ہوتی ہے، اور عملی بھی۔ خاص کر دنیاکی زندگی کےفانی اور ناپائیدار ہونے اور آخرت کی زندگی کےباقی اوردائمی ہونے کااستحضارودھیان پیدا ہوتاہے۔ استعدادللموت قبل الموت کی فکر مضبوط انداز میں پیدا ہوجاتی ہے۔اللہ ہمیں مزید استفادے کی توفیق عطاء فرمائے۔ (محمد صدیق، بلوچستان)
■ الرسالہ، ستمبر 2019 کو پڑھتے ہوئے جب میں اس جملہ پر پہنچا تو جھوم اٹھا’’جنت کے تصور کو انسانی تاریخ کی خوبصورت تعبیر کہا جائے‘‘(صفحہ 4)۔ یہ ایک الہامی احساس سے بھر پور جملہ ہے۔ مولانا کا وصف یہ ہے کہ جس گہرائی سے بات کرتے ہیں، اسی گہرائی سے رگ جاں میں اتر جاتی ہے۔ ستمبر کے شمارے نے جنت کا ایک نیا تصور مجھے دیا ہے، اور یہی اصل بات ہے جو مولانا کی ہر تحریر میں موجود رہتی ہے۔ تاہم مولانا کی باتوں کو سمجھنے کے لیے وسعتِ دل اور کشادہ احساس کی ضرورت ہوتی ہے۔ (محمد ادیب، ملتان)
واپس اوپر جائیں