Pages

Sunday, 2 February 2020

Al Risala | February 2020 (الرسالہ،فروری)

4

-ایمان کی علامت

5

- حظِّ عظیم

6

- ہدایت کا قانون

7

- حدیث ، عارفانہ کلام

8

- حدیث کی تدوین

9

- رسول اللہ کی سنت

11

- اختلاف کو نظر انداز کیجیے

14

- حکمتِ رسول

16

- حکم اللہ کا

18

- حکومت الٰہیہ

19

- اصلاحی سیاست

20

- ائمۂ ہدایت

21

- فکری کنفیوژن

23

- اسلام میں جنگ

24

- اسلام میں جہاد

25

- ارتداد کا مسئلہ

26

- انتقام نہیں

28

- لو پروفائل، ہائی پروفائل

31

- اسلام اور سائنس

43

- زمانے کے مطابق عمل

45

- ہر مذہب سچا ہے

46

- ذاتی معاملات

47

- عقل کی بات

48

- جنون درکار ہے

49

- خبرنامہ اسلامی مرکز- 271


ایمان کی علامت

محمد بن کعب القرظی (وفات108ھ) مشہور تابعی ہیں۔ ان کا ایک قول ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہےإِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِعَبْدٍ خَیْرًا زَہَّدَہُ فِی الدُّنْیَا، وَفَقَّہَہُ فِی الدِّینِ، وَبَصَّرَہُ عُیُوبَہُ، وَمَنْ أُوتِیہِنَّ أُوتِیَ خَیْرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ (الزھد لوکیع بن الجراح، اثر نمبر 2)۔ یعنی جب اللہ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے، تو اس کو دنیا میں زہد عطا کرتا ہے، اور اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے، اور اس کے عیوب اس کو دکھا دیتا ہے۔ جس کو یہ چیزیں دی گئیں، اس کو دنیا اور آخرت کا خیر دے دیا گیا۔
اس قول میں مومن کی چند صفات بتائی گئی ہیں— زہد، فہم ِدین، خود احتسابی۔ یہ صفات الگ الگ صفات نہیں ہیں، یہ ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر ہیں۔ ان کے مجموعے کو ایک لفظ میں معرفت کہا جاسکتا ہے۔ جب انسان کو اللہ رب العالمین کی دریافت ہوتی ہے، تو وہ ایک عارف باللہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ معرفت اس کی پوری شخصیت کی کلیدبن جاتی ہے۔
مذکورہ تابعی کے قول میں زہد کا لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے وہی ہے، جس کو قرآن میںعدم رکون (ہود، 11:113) کہا گیا ہے،یعنی حالات کے اثر سے جھکاؤکا شکارنہ ہونا۔ یہاں مومن سے مراد وہ مومن ہے، جو اللہ کے مشن میں اپنے آپ کو لگا دیتا ہے۔ ہر مشن میں انسان کو ایک نازک قسم کا اجتماعی رول ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس اجتماعی رول میں ادنیٰ درجے کا ڈسٹریکشن (distraction) مومن کو اپنے رول سے دور کردیتا ہے۔ وہ امکان کے قریب پہنچ کر بھی امکان سے دور ہوجاتا ہے۔
آدمی کو امکان کے قریب پہنچانے والا اللہ رب العالمین ہے۔ لیکن اس امکان کو پہچاننا، ہمیشہ انسان کا اپنا کام ہوتا ہے۔ انسان اگرمعرفت کی پہچان میں ناکام ہوجائے، تو کوئی فرشتہ اس کی مدد کے لیے آنے والا نہیں۔ اس معاملے میں فرشتہ انسان کو ضمیر کے ذریعے سے اشارہ کرتا ہے۔ لیکن نجات کے معنی میں خود کو بچانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ ضروری ہے کہ انسان اس معاملے میں بہت زیادہ الرٹ رہے، تاکہ وہ اپنے آپ کو تباہی سے بچا سکے۔
واپس اوپر جائیں

حظِّ عظیم

قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ ۔ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ ۔ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ (41:33-35)۔ یعنی اور اس سے بہتر کس کی بات ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں، اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو بڑا نصیبے والا ہے۔
قرآن کی ان آیتوں میں ایسے اہل اسلام کا ذکر ہے، جو بڑے نصیبے والے (truly fortunate) ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے برتاؤ سے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ دشمن بھی ان کا دوست بن جائے، جو بظاہر غیر بنا ہوا تھا، وہ بدل کر آپ کا اپنا بن جائے۔
اس انقلابی تبدیلی کا فارمولا کیا ہے۔ وہ صبر کا فارمولا ہے۔ صبر کا فارمولا کیا ہے۔ صبر کا فارمولاایک لفظ میںیک طرفہ اخلاقیات (unilateral ethics) کا نام ہے۔ یعنی جوابی ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرنا، بلکہ فریق ثانی کی روش سے اوپر اٹھ کر غیر جوابی انداز میں یا رد عمل کا طریقہ اختیار کیے بغیر یک طرفہ بنیاد پر حسن عمل کا سلوک کرنا۔
ایسے لوگوں کو ذو حظ عظیم (truly fortunate) ہونےکی بشارت دی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبر سب سے بڑا اسلامی عمل ہے۔ اس لیے کہ صبر کا طریقہ اختیار کرنے والا ذاتی سوچ پر اللہ کی سوچ کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ ذاتی تقاضے پر کنٹرول کرتے ہوئے اللہ کے حکم کو اختیار کرتا ہے۔وہ قربانی کی سطح پر اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہدایت کا قانون

قرآن میں انسانی غفلت کے حوالےسےایک اصول ان دو آیتوں میں بیان کیا گیا ہے: وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُونَ ۔ وَأُمْلِی لَہُمْ إِنَّ کَیْدِی مَتِینٌ (7:182-83)۔ یعنی اور جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا ہم ان کو آہستہ آہستہ پکڑیں گے ایسی جگہ سے جہاں سے ان کو خبر بھی نہ ہوگی۔ اور میں ان کو ڈھیل دیتا ہوں، بیشک میرا داؤ بڑا مضبوط ہے۔
تکذیبِ آیات (نشانیوں کو جھٹلانا) کا مطلب کیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ کائنات کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ قرآنی حقیقتوں کی تصدیق بن گئی ہے۔انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ کائنات کی نشانیوں میں اس تصدیق کو پڑھے، اور ان کا اعتراف کرے، مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کا نظام بتاتا ہے کہ اس کا کنٹرول ایک عظیم خالق کے ہاتھ میں ہے۔ سورج کا ہردن نہایت وقت پر نکلنا، اور پھر نہایت متعین وقت پر اس کا ڈوبنا، اس بات کی گواہی ہے کہ سورج کا نظام ایک عظیم خالق کے کنٹرول میں ہے۔ اس طرح کی بے شمار نشانیاں کائنات میں ہیں۔ جو لوگ ان نشانیوں سے سبق لے کر خالق کو دریافت کریں، انھوں نے سچائی کو جان لیا، اور جو لوگ ان نشانیوں کو نظر انداز کریں، انھوں نے عملاً ان کو جھٹلایا۔ ایسے لوگ خالق کی پکڑ میں آجائیں گے۔
تکذیب کا عمل زیادہ تر لاشعور کے تحت ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کو دھیرے دھیرے پکڑنے کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ فطرت کے اس نظام کو جانے، اور زیادہ ہوش مندی کے ساتھ اس نظام کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اگر انسان زیادہ ہوش مندی کے ساتھ چیزوں کو دیکھے گا، تو وہ فطرت کے نظام سے با خبر ہوجائے گا، اور اس کے لیے اپنی اصلاح کرنا آسان ہوجائے گا۔ اس کے برعکس، جو لوگ غفلت کی زندگی گزاریں، جو دنیا کی دلچسپیوں میں اتنا مشغول ہوجائیں کہ اپنی آخرت کو بھلادیں، ایسے لوگ تخلیقی نظام کی پکڑ میں آجائیں گے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس غلطی سے اپنے آپ کو بچائے۔ انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ٖوہ غفلت کی زندگی گزارے۔
واپس اوپر جائیں

حدیث ، عارفانہ کلام

حدیثِ رسول کو پڑھتے ہوئے مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے، ایک ایسی کیفیت جو قرآن سے کسی قدر مختلف ہوتی ہے۔ ایساکیوں ہوتاہے، اِس کا سبب آج میری سمجھ میں آیا۔ یہ اُس فرق کی بنا پر ہے جو قرآن اورحدیث کے درمیان پایا جاتا ہے۔ قرآن دراصل حقیقت کا بیان (statement of fact) ہے۔ اِس کے مقابلے میں حدیث گویا ایک عارفِ کامل کا کلامِ معرفت ہے، جس نے خود اس معرفت کا تجربہ کیا ہو۔ قرآن کا مطالعہ آدمی کے اندر رب العالمین کی عظمت پیدا کرتاہے، اور حدیث کے مطالعے سے آدمی کو معرفت رب کا ذائقہ ملتاہے۔
مثال کے طور پر جب آپ قرآن میں پڑھتے ہیںأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِکْرِی(20:14)۔یعنی میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ اس میں آپ کو ایک متعین حکم ملتا ہے۔ آپ کے اندر یہ شعور جاگتا ہے کہ آپ اپنے رب کے اس حکم کو عملاً اختیار کریں۔ آپ اپنے رب کے اطاعت گزار بن جائیں۔ اس کے برعکس، جب آپ حدیثِ رسول میں یہ پڑھتے ہیں  رَأْسُ الْحِکْمَةِ مَخَافَةُ اللَّہِ(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 730)۔یعنی حکمت کا سرا اللہ کا خوف ہے۔ آپ کا ذہن اس میں سوچنے لگتا ہے۔ اس قول میں جو معنوی گہرائی ہے۔ آپ اس کی سوچ میں غرق ہوجاتے ہیں۔ آپ کے لیے یہ قول صرف قول نہیں رہتا، بلکہ وہ اسرارِ معانی کا خزانہ بن جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسا کس طرح ہوتا ہے کہ اللہ کا ڈر آپ کے لیے حکمت کا خزانہ بن جائے۔اس کا سبب یہ ہے کہ خوفِ خدا کا احساس آپ کے ذہن کے بند دروازے کو کھول دیتا ہے۔المناوی نے اس حدیث کی شرح ان الفاظ میں کی ہے أَی أَصْلہَا وأسہا الْخَوْف مِنْہُ لِأَنَّہَا تمنع النَّفس عَن المنہیات والشبہات وَلَا یحمل على الْعَمَل بہَا أَی الْحِکْمَة إِلَّا الْخَوْف مِنْہُ (التیسیر بشرح الجامع الصغیر ، جلد2، صفحہ23)۔ یعنی حکمت کی اصل اور جڑ اللہ کا خوف ہے، کیوں کہ وہ نفس کو منہیات اور شبہات سے روکتا ہے، اور حکمت کے مطابق عمل پر صرف اللہ کا خوف ابھارتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حدیث کی تدوین

جیسا کہ معلوم ہے، حدیثیں رسول اللہ کے زمانے میں باقاعدہ طورپر جمع نہیں کی گئیں۔ جب کہ اسی زمانے میں قرآن کو باقاعدہ طورپر جمع کیا جارہا تھا۔ ایسا خود رسول اللہ کی ہدایت کے مطابق ہوا۔آپ نے کہاتھا:لَا تَکْتُبُوا عَنِّی شَیْئًا غَیْرَ الْقُرْآن(مسند احمد، حدیث نمبر 11536)۔ یعنی مجھ سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو۔یہ ایک عجیب بات ہےکہ وہی پیغمبر جس نے قرآن کے بارے میں کہا: تَعَاہَدُوا القُرْآنَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5033)۔ یعنی قرآن کی نگہبانی کرتے رہو۔ اس پیغمبر نے حدیث کی حفاظت کی اتنی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
اِس پر کافی غور کرنے کے بعد میں یہ سمجھا ہوں کہ یہ ایک خدائی منصوبہ بندی کا معاملہ تھا۔ کیوں کہ یہ بات طے شدہ تھی کہ لوگ ہر حال میں اقوالِ رسول کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھیں گے۔ قرآن کی حفاظت، کتابت کے ذریعہ ہوتی رہی، اور حدیث کی حفاظت حافظے کے ذریعہ۔ اِس فرق کا ایک بہت بڑا فائدہ تھا۔ اگر قرآن ہی کی طرح حدیث، آپ کی زندگی میں لکھ کر محفوظ ہوجاتی، تو بعد کی نسلوں کے لیے کوئی کام باقی نہ رہتا۔ حدیثوں کی جمع وتدوین کاکام زیادہ تر عباسی خلافت کے زمانے میں ہوا ہے۔ یعنی اُس زمانے میں جب کہ مسلمانوں کے اندر سیاسی بگاڑ آچکا تھا۔ ایسی حالت میں یہ ہوتا کہ تمام لوگ سیاسی اصلاح کے نام پر حکمرانوں سے لڑنا شروع کردیتے۔ اِس طرح پوری امت، ابن زبیر او رمعاویہ جیسے لوگوں سے بھر جاتی۔ حدیث کا غیر مدوّن ہونا لوگوں کے لیے اِس بات کا ذریعہ بن گیا کہ وہ سیاسی بگاڑ کے اِشو کو نظر انداز کرکے حدیث رسول کی تدوین میں لگ جائیں۔
اِس طرح حدیث رسول کی تدوین کا کام بعد کے لوگوں کے لیے ایک چیک بن گیا، یعنی سیاسی بگاڑ یا حکمرانوں کے ساتھ لڑائی سے روکنے والا عمل۔ حدیث کےکام نے لوگوں کو ایک معلوم میدان دے دیا، جہاں وہ اپنی کوششوں کو صرف کریں۔ جو صلاحیتیں منفی جھگڑے میں ضائع ہوتیں، وہ صلاحیتیں مثبت کام میں مشغول ہوگئیں۔
واپس اوپر جائیں

رسول اللہ کی سنت

سنتِ رسول کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے— قول، عمل اور تقریر۔ تاہم قدیم کتابوں میں قول ، عمل اور تقریر کی جو صورتیں بتائی گئی ہیں، وہی کل مثالیں نہیں ہیں۔ رسول اللہ کی زندگی سے استنباط کرکے ان مثالوں کی تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے گا۔
مثال کے طور پر کعبہ کو جس قرآن میں بیتِ اول (پہلی مسجد) کہا گیا ہے، اس کو پیغمبر ابراہیم نے تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے قدیم مکہ میں تعمیر کیا تھا۔ اس کے ایک عرصہ بعد قدیم مکہ میں ایسے لوگوں کا غلبہ ہوگیا،جو توحید کے بارے میں زیادہ حساس نہیں تھے۔ انھیں میں سے ایک شخص کا نام عمرو بن لحی تھا۔ اس نے پہلی مرتبہ کعبہ کے اندر بت لا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد وہاں دھیرے دھیرے بتوں میں اضافہ ہوتا رہا، یہاں تک کہ عملاً کعبہ ایک بت خانہ بن گیا۔ جس وقت رسول اللہ کو پیغمبر بنایا گیا، اس وقت کعبہ کے اندر تقریباً تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ گویا کعبہ جو کہ توحید کا مرکز تھا، بعد میں اس کو بت پرستی کا مرکز بنا دیا گیا۔
یہ واقعہ پیغمبر توحید کے لیے بظاہر ایک اشتعال انگیز واقعہ تھا۔ لیکن آپ نے اس واقعے پر صبر سے کام لیا، آپ نے اس واقعے کو ایک نئے اینگل سے دیکھا، اوروہ موقع (opportunity) کا اینگل تھا۔ یعنی منفی پہلو کو نظر انداز کرکےیہ دیکھنا کہ اس میں دعوت کے لیے مواقع کیا ہیں ۔ آپ نے دریافت کیا کہ کعبہ عرب کے تمام قبائل کے بت پرستوں کا مرکز بن گیا ہے۔ اس بنا پر وہاں روزانہ بڑی تعداد میں بت پرست قبائل کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ آپ نے اس اجتماع کو دعوت کے اینگل سےدیکھا، اور اس اجتماع کو دعوتی مشن کے لیے بطور آڈینس (audience)استعمال کرنا شروع کردیا۔ آپ کعبہ میں بتوں کی عبادت کے لیے اکٹھا ہونے والے لوگوں کے پاس جاتے ، وہاں آپ لوگوں کے سامنے کعبہ میں رکھے گئے بتوں کے خلاف کوئی احتجاج نہ کرتے تھے، بلکہ پر امن انداز میں آپ لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے تھے۔
رسول اللہ کا یہ عملی نمونہ بھی ایک سنت ہے کہ دعوت کے لیے بظاہر ناموافق صورت حال کو موافق میں تبدیل کرنا،یعنی پیش آمدہ اشتعال انگیز صورتِ حال پر ری ایکٹ نہ کرنا، اور اس میں موجود مواقع کو دعوت کے لیے استعمال کرنا۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے معاملات میں اس سنت رسول پر عمل نہیں کیا۔
مثلاً ایک مسلمان مضمون نگار نے ایک اردو میگزین میں ایک مضمون لکھا،جس کا ٹائٹل یہ تھا— بھارتی مسلمان: سیاسی و سماجی کسمپرسی ۔ یہ صورتِ حال کو مسائل کے اعتبار سے دیکھنا ہے۔ یہ سنت ِ رسول کے خلاف عمل ہے۔ سنت ِ رسول کے مطابق عمل کرنا یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ان مسائل کے درمیان کیا مواقع ہیں ، جو فرد کو اور سماج کو ترقی میں مدد دے سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف کو نظر انداز کیجیے

جنوبی ہند سے ایک عالم ِ دین کا مکتوب موصول ہوا ہے، اس کو یہاں نقل کیا جاتا ہے: تمل ناڈو اور دوسرے علاقوں میں علمائے کرام مختلف اداروں، مثلاً مدرسہ یا مسجد، وغیرہ، سے منسلک ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ان کو ادارے کی انتظامیہ (management) سے کوئی شکایت ہوجاتی ہے ، اس وقت وہ منفی رویہ اپنا کر اس ادارے سے نکل کر کسی دوسرے ادارے میں چلے جاتے ہیں، یا ایک نیا ادارہ قائم کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ پریشان بھی رہتے ہیں، اور ان کا علمی سفر بھی رک جاتا ہے۔ کیوں کہ ادارہ کی ذمے داریاں سنبھالنے میں ان کا وقت گذر جاتا ہے۔ان واقعات کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں یہ بات سمجھ میں آئی ہےکہ علما\ئے کو صرف خروج علی الحاکم کے مسائل معلوم ہیں، خروج علی مینجمنٹ کے مسائل ان کومعلوم نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خروج ہر جگہ غیر مطلوب ہے ، ا س کا انھیں علم نہیں ۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ علماء اپنی علمی ذمے داریاں ادا کریں ،اور ادارے کی انتظامیہ، وغیرہ اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں تو معاملہ ٹھیک رہے گا۔ اس معاملے میں علماء کے لیےوہ حدیث رسو ل واحد راستہ ہے ، جس کے الفاظ یہ ہیں أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052)۔ یعنی ان کو حق ان کادو، اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔ اگر اس حدیث کے مطابق عمل نہ کیا جائے، تو باعتبارِ نتیجہ صرف فساد برپا ہوگا، شکایت کا ازالہ نہیں ہوگا۔
اس سلسلے میں محدثین ہمارے لیے نمونہ ہیں۔ انھوں نے اپنی علمی اور دینی ذمے داریاں بھرپور طریقے سے ادا کی، لیکن وقت کے حکام سے جو شکایت تھی، اس کو نظرانداز کیا۔ جس کی وجہ سے آج ہم ان کے علمی ذخیرے سے فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ آج علماء کرام دلوں میں شکایت پالنے کی وجہ سےاپنے لیے مسائل میں اضافہ کرتے جارہے ہیں، مگر کوئی بڑا علمی ذخیرہ یا کارنامہ نہیں ادا کررہے ہیں۔ تقریباًہر عالم اپنی انتظامیہ اور متولیانِ مساجد کے خلاف شکایت کرتا ہوا نظر آتا ہے، یہاں تک کہ پوری زندگی شکایت کی نذرہوجاتی ہے ۔
آج علماء صرف جلسوں یا کانفرنسوں میں نظر آجاتے ہیں، مگر ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو کو ئی علمی تحقیق یا علمی یاد گار نہیں دے پاتے۔ اس کےبغیر ہی وہ دنیا سےشاکی ہو کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ علماء اپنی اس سوچ کی اصلاح کریں، وہ اپنی لاعلمی کو جانیں۔ وہ ادارے کی انتظامیہ کی نیتوں پر حملے ترک کر یں ، اس کے بجائے ان کو چاہیےکہ جو مواقع ان کو حاصل ہیں ، ان پر وہ فوکس کریں، اور امت مسلمہ کو فائدہ پہنچائیں۔ (مولانا سیداقبال احمد عمری، عمرآباد، تامل ناڈو)
مکتوب نگار نے جو بات لکھی ہے، وہ بلاشبہ درست ہے۔ لیکن راقم الحروف کے نزدیک اس کا سبب ماضی کی تاریخ تک جاتا ہے۔ فقہائے متقدمین اس معاملے میں میرے نزدیک ٹرینڈ سیٹر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فقہائے متقدمین کے زمانے میں مسائل میں اختلافات پیدا ہوئے۔ اس وقت فقہائے متقدمین نے مسائل پر لامتناہی بحثیں چھیڑ دیں۔ یہ بلاشبہ ایک غلو تھا، جس کے نتیجے میں غیرضروری طور پر فقہی مسالک بنے، اور بڑھتے بڑھتے ان مسائل کی بنیاد پر مختلف قسم کے فقہی گروپ بن گئے۔ فقہ صرف ایک ہے، اور وہ وہی ہے، جو صحابہ کرام کے زمانے میں عملاً موجود تھی۔ بعد کے زمانے میں فقہی بنیاد پر مختلف گروہ بن گئے،مثلاًحنفی فقہ ،مالکی فقہ ، شافعی فقہ، حنبلی فقہ، جعفری فقہ، وغیرہ۔ وہ وہی چیز تھی، جس کو قرآن میں تفرق فی الدین (البقرۃ، 2:103)کہا گیا ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مشترک امور میں توحد کا طریقہ اختیار کیا جائے، اور اختلافی امور میں توسع کا طریقہ۔
علمائے فقہ کو اس معاملے میں توسع کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا، جس کی طرف ابن عبد البر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم و فضلہ (جلد 1، صفحہ 345)میں اشارہ کیا ہے۔ اس اختلافی مسائل میں غلو کے نتیجے میں ایک مبتدعانہ اصول پیدا ہوا، جس کو ترجیح کہتے ہیں۔ ترجیح کا طریقہ، جو علمائے فقہ کے درمیان رائج ہوا، وہ بلاشبہ ایک مبتدعانہ اصول تھا۔ صحیح اصول توسع ہے، نہ کہ ترجیح۔ عبادات میں اصل زور روح یعنی اسپرٹ پر دینا چاہیے، مگر ترجیح کی اس بحث نے یہ کیا کہ عبادات میں روحِ عبادت کا مسئلہ عملاً غیر اہم بن گیا، اور ساری بحث مسائل پر ہونے لگی۔ مسائل بالفاظ دیگر فارم پر ہونے لگی۔ اسی کا نتیجہ آخر کاروہ نکلا جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :مَسَاجِدُہُمْ عَامِرَةٌ وَہِیَ خَرَابٌ مِنَ الْہُدَى (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1763)۔ یعنی ان کی مسجدیں آباد ہوں گی، لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گی۔یہی معاملہ اداروں کے ذمہ داران سے اختلاف کا ہے۔ اگر اس قسم کے معاملے کا آپ تجزیہ کیجیے تو آپ پائیں گے کہ یہ سارے اختلافات فروعی چیزوں میں ہیں، نہ کہ اصولی چیزوں میں ۔ جب کہ اتحاد صرف اصولی مسائل میں ممکن ہے، فروعی مسائل میں ممکن ہی نہیں۔
اس معاملے پر شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اسلام کے دورِ اول میں جب خروج علی الحاکم کا مسئلہ پیدا ہوا، تو علمائے اسلام نے اس پر کیا رویہ اختیار کیا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، اس پر علما کا یہ اجماع ہو گیا کہ حاکم کے خلاف خروج کرنا، جائز نہیں ہے۔ چنانچہ امام نووی نے لکھا ہے: وَأَمَّا الْخُرُوجُ عَلَیْہِمْ وَقِتَالُہُمْ فَحَرَامٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ وَإِنْ کَانُوا فَسَقَةً ظَالِمِینَ (شرح النووی علی صحیح مسلم، جلد نمبر12، صفحہ 229)۔ یعنی حاکم کے خلاف خروج کرنا، مسلمانوں کے اجماع سے حرام ہے، اگر چہ حاکم فاسق و ظالم ہو۔
ا س کا مطلب یہ ہوا کہ حاکم کے خلاف خروج نہ کرنا، مطلقاً مطلوب ہے۔ کوئی بھی عذر (excuse) اس معاملے میں خروج کو جائز نہیں کرتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خروج ایک اور چیز سے جڑا ہوا ہے، اور وہ ہے، استحکام (stability)۔ سماجی زندگی میں استحکام مطلق طور پر مطلوب ہے۔ کوئی بھی چیز جو استحکام کو نقصان پہنچائے، وہ بطورِ اصول قابلِ ترک ہے۔
قدیم زمانے میں یہ عمل سیاسی حاکم کے مقابلے میں اختیار کیا گیا تھا، موجودہ زمانے میں یہی اصول اس معاملے میں اپلائی ہوتا ہے، جب کہ ادارے کے ذمے دار کے خلاف خروج کا معاملہ ہو۔ کسی کے لیے یہ تو جائز ہے کہ وہ کسی عذر کو لے کر خاموشی کے ساتھ ادارے سے الگ ہوجائے۔ وہ الگ ہونے سے پہلے بھی اس معاملے میں خاموش رہے، اور ادارے سے الگ ہونے کے بعد بھی خاموش رہے۔ ادارے کے خلاف یا ادارے کے ذمے داران کے خلاف شکایتیں کرنا، اور منفی باتیں کرکے لوگوں کے اندر شکایتی ماحول پیدا کرنا، ہرگز جائز نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں

حکمتِ رسول

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت معلمِ دین کی ہے، یعنی دینِ خداوندی کی تعلیمات سے انسان کو باخبر کرنا۔ اس سلسلے میں قرآن میں دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں— کتاب اور حکمت۔ کتاب سے مراد قرآن ہے۔ یعنی وہ سب جو پیغمبر اسلام پر بذریعہ وحی اترا ہو، اور وہ محفوظ طور پر مابین الدفتین، ہمارے پاس موجود ہو۔اس مجموعے کو قرآن بھی کہا جاتا ہے، اور کتاب اللہ بھی۔ اس کتاب کا متن عربی زبان میں محفوظ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو تعلیم قرآن میں لفظاً موجود نہ ہو، اس کے بارے میں کیا اصول ہے۔ انھیں دوسری تعلیمات کو حکمت کہا گیا ہے۔ حکمت سے مراد وہی چیزہے، جس کو انگریزی زبان میں وزڈم (wisdom) کہتے ہیں۔یہ حکمت قرآن کی ملفوظ تعلیمات کے علاوہ ہے۔ یہ قول کی صورت میں بھی ہوسکتی ہیں، اور عمل کی صورت میں بھی، اور اُس صورت میں بھی جس کو محدثین کی اصطلاح میں تقریر کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ کی تعلیمات کا یہی وہ حصہ ہے، جس کو قرآن میں حکمت کہا گیا ہے۔
مثال کے طور پر رسول اللہ کا مشن توحید کا مشن تھا، یعنی انسان اللہ کو ایک مانے، اور اس کا عبادت گزار بنے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب رسول اللہ کی بعثت ہوئی، اس وقت کعبہ کی عمارت میں تقریباً تین سو ساٹھ بت موجود تھے۔ رسول اللہ وہاں جاتے، اور لوگوں سے کہتے کہ ایک اللہ کو مانو، اور اسی کی عبادت کرو۔ لیکن سیرت کی کتابوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے وہاں جاکر یہ کہا ہوکہ کعبہ کے معمار پیغمبر ابراہیم نے کعبہ کو ایک اللہ کی عبادت کے لیے بنایا تھا۔ تم کعبہ کی عمارت سے بتوں کو ہٹاؤ، اور اس کو صرف ایک اللہ کی عبادت کے لیے خالص کرو۔
اب یہ سوال ہے کہ رسول اللہ کا یہ عمل قرآن میں کہاں مذکور ہے۔ یہ تعلیم رسول اللہ کے عمل سے نکلتی ہے، نہ کہ قرآن کے الفاظ سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ طریقہ جو رسول اللہ نے اختیار کیا، وہ ایک مستنبط طریقہ تھا۔ اسی مستنبط طریقے کا نام حکمت ہے،یعنی بذریعہ استنباط (inference) دریافت کیا ہوا طریقہ۔
اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ پیغمبرِ اسلام نے اس معاملے میں ڈی لنکنگ (delinking) کا طریقہ اختیار کیا، یعنی بت پرستی اور کعبہ کے قریب بت پرستوں کے اجتماع میں فرق کرنا۔ آپ نے دیکھا کہ قدیم مکہ کے لوگوں نے کعبہ کی عمارت میں بت رکھ دیے ہیں، وہاں وہ روزانہ جمع ہوتے ہیں، اور اپنے عقیدے کے مطابق بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کعبہ میں بیک وقت دو مظاہر موجود تھے۔ ایک، کعبہ کی عمارت میں بتوں کی موجودگی، اور دوسرا، ان بتوں کی وجہ سے کعبہ کے پاس روزانہ اہل شرک کا اکٹھا ہونا۔
آپ نے اس معاملے میں ڈی لنکنگ کی پالیسی اختیار کی۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی، اور ان بتوں کی وجہ سے کعبہ کے پاس عرب قبائل کا اکٹھا ہونا۔ آپ نے ایک کو دوسرے سے الگ کردیا۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو وقتی طور پر نظر اندازکیا، اور عرب قبائل کے اجتماع کو اپنے آڈینس کے طور پر استعمال کیا۔
ڈی لنکنگ کا یہ طریقہ جو آپ نے اختیار کیا، وہ لفظی حکم کے طو رپر قرآن میں موجود نہ تھا۔ یہ ایک استنباطی حکمت تھی، جو آپ نے دعوت کے لیے استعمال کی۔ اس استنباطی حکمت کے لیے دوسرا لفظ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی آیت میں کتاب سے مراد قرآن ہے، اور حکمت سے مراد پریکٹکل وزڈم ہے۔
پریکٹکل وزڈم، یعنی ایک طریقے کو عمل کی بنیاد پر اختیار کرنا، جب کہ نظریے کی بنیاد پر وہ طریقہ متن میں موجود نہ ہو۔ موجودہ زمانےمیں حدیث اور سنت کا چرچا بہت زیادہ کیا گیا ہے، لیکن مذکورہ طریقہ جوبلاشبہ ایک سنت رسول ہے،اس کا کوئی چرچا نہیں۔ اس سنت کی بنیاد پر مسلمانوں میں اب تک کوئی منصوبہ بندی نہیںہوئی۔ یہ ایک ایسی سنت رسول ہے، جو عملاً مسلمانوں میں متروک بنی ہوئی ہے۔ موجودہ زمانے کا اصل کام یہ ہے کہ اس متروک سنت کو زندہ کیا جائے۔ اس متروک سنت کو ایک لفظ میں پریکٹکل وزڈم کہا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حکم اللہ کا

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میںآئی ہے: إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ (12:40) ۔ یعنی حکم صرف ایک اللہ کا ہے۔ اس طرح کی آیات میں حکم کا لفظ سیاسی حکم (political rule) کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ فوق الطبیعی حکم (supernatural rule) کے معنی میں ہے۔اس کا مطلب پولٹکل سائنس کی کتابوں سے نہیں معلوم ہوگا، بلکہ اس کا مطلب قرآن کی آیتوں میں غور و فکر سے معلوم ہوگا۔
اس طرح کی آیتوں میں حکم کا لفظ اس قانون کے لیے نہیں آیا ہے، جو اسمبلی میں یا پارلیمنٹ میں بنایا جاتا ہے، اور جس کو وزیرِ قانون یا عدالت کے جج نافذ کرتے ہیں۔ بلکہ اس طرح کی آیتوں میں حکم سے مراد وہ برتر حکم ہے، جو اللہ رب العالمین نے براہ راست طور پر اپنے فرشتوں کے ذریعہ عالم وجود میں نافذ کر رکھا ہے۔ اس حکم سے مراد وہ حکم ہے، جس کو یاد کرنے سے انسان کے اندر شکر اور عبادت کی اسپرٹ پیدا ہوتی ہے، جو آدمی کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس دنیا میں شاکر اور عبادت گزار بن کر زندگی گزارے۔ مثلاً سورج کا نکلنا، آکسیجن کی سپلائی کا نظام، بارش کا نظام، زمین سے غلہ پیدا ہونے کا نظام، ہواؤں کے چلنے کا نظام، زمین پر لائف سپورٹ سسٹم قائم کرنے کا نظام، وغیرہ، اور اس طرح کی بے شمار چیزیں جو اس دنیا میں انسان کو فطرت کے نظام کے تحت حاصل ہیں۔ یہ سب نظام اللہ رب العالمین کے حکم کے تحت وقوع میں آتے ہیں۔ اس حکم کی دریافت کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ انسان اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرے، اور اللہ کو اپنا معبود سمجھ کر صرف اسی کی عبادت کرے۔
اگر کوئی شخص اس طرح کی قرآنی آیتوں کو لے کر دنیا میں سیاسی تحریک چلائے، اور حکمرانوں کو قیادت سے بے دخل کرنے کے لیے ان سے لڑائی شروع کردے تو یہ اس حکم کی تعمیل نہیں ہوگی، بلکہ اس حکم کے نام پر ایک تخریب کاری کی سیاست چلانا ہوگا۔ یہ اللہ کے نام پر ایک باغیانہ فعل کا ارتکاب ہوگا۔ قرآن کی اس طرح کی آیتوں کا کوئی تعلق پولٹکل اکٹوزم (political activism)سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تمام تر تعلق اس سے ہے کہ انسان اس دنیا میں شکر اور عبادت کی زندگی گزارے، وہ دنیا میںرحمٰن کا بندہ (الفرقان، 25:63-74) بن کر زندگی گزارے ۔
حکومت کا معاملہ
موجودہ دنیا پورے معنوں میں اللہ رب العالمین کی سلطنت ہے۔ دنیا کی ہر چیز کو محدود مدت کے لیے اللہ نے انسان کے چارج میں دے دیا ہے۔ اسی میں سے حکومت کا معاملہ بھی ہے، جس طرح زمین کا زرعی رقبہ (agricultural land) عارضی طو رپر انسان کو دیا گیا ہے تاکہ وہ اس کو استعمال کرے، اسی طرح انسان کو یہ موقع بھی عارضی طور پر دیا گیا ہے کہ وہ دنیا میںسویلائزیشن بنائے۔ یہ مدت صرف قیامت تک کے لیے ہے۔ قیامت کے بعد انسان کا اختیار ختم ہوجائے گا، اور اس کو اپنے عمل کے مطابق، اس کی جزا یا سزا دی جائے گی۔
یہی معاملہ حکومت کا بھی ہے۔ حکومت دوسری اشیاء سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ حکومت کا اختیار بھی انسان کے لیے امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ آخرمیں انسان کا اس اعتبار سے حساب لیا جائے گا، اور انسان کو اس کے عمل کے مطابق، جزا یا سزا دی جائے گی۔ قرآن میں اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:( ترجمہ) لوگوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اور زمین ساری اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں۔ وہ پاک اور برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (39:67)۔
حدیث میں مزید یہ الفاظ آئے ہیں:یَطْوِی اللہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَاوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، ثُمَّ یَأْخُذُہُنَّ بِیَدِہِ الْیُمْنَى، ثُمَّ یَقُولُ:أَنَا الْمَلِکُ، أَیْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُونَ. ثُمَّ یَطْوِی الْأَرَضِینَ بِشِمَالِہِ، ثُمَّ یَقُولُ:أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُونَ؟ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2788)۔ یعنی اللہ تعالی قیامت کے دن آسمان کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں رکھے گا، پھر کہے گا، میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جبار، کہاں ہیں متکبرین، پھر وہ زمین کو اپنے بائیں ہاتھ میں رکھے گا، پھر کہے گا، میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جبار، کہاں ہیں متکبرین — یہ اس وقت ہوگا جب کہ انسان کی آزادی اس دنیا میں ختم ہوجائے گی۔
واپس اوپر جائیں

حکومت الٰہیہ

قرآن میں بتایا گیا ہے :إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ (12:40)۔ یعنی اقتدار صرف اللہ کے لیے ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے۔ مگر بہت لوگ نہیں جانتے۔ قرآن کی اس آیت میں انسان سے یہ نہیں کہا گیا ہے کہ وہ حکومت الٰہیہ جو ابھی قائم نہیں ہے، اس کولڑ کر زمین پر قائم و نافذ کرے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ خود اپنے آپ کو قائم شدہ حکومتِ الٰہیہ کا مطیع بنائے۔ یہ اطاعت امر کا حکم ہے، نہ کہ کسی مفروضہ حکومت یا نظام کے نفاذ کا امر۔
قرآن کی اس آیت کو اگر اس کے صحیح معنی کے اعتبار سے لیا جائے تو وہ انسان کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو حکم خداوندی کا تابعدار بنائے۔ اس کے برعکس، اگر اس آیت کو نفاذ (enforcement) کے معنی میں لیا جائے، تو برعکس طور پر اس کا مطلب یہ بنے گا کہ انسان کو چاہیے کہ وہ با اقتدار لوگوں سے لڑ کر ان سے اقتدار کی کنجیاں چھینے ، اور خود تختِ سلطنت پر قبضہ کرے۔ وہ حاکم بنے، اور دوسروں کو محکوم بنا کر بطور خود خدا کا حکم زمین پر چلائے۔
صحیح تفسیر کے مطابق، قرآن کی یہ تعلیم تمام انسانوں کو یکساں حیثیت دیتی ہے، یعنی آیت کی نظر میں تمام انسان اللہ کے بندے ہیں، اور ہر انسان کو یکساں طور پر یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ رب العالمین کا محکوم سمجھے، اور اللہ کے احکام کی تابعداری میں زندگی گزارے ۔ یہ آیت ایسا نہیں کرتی کہ لوگوں کو دو گروہ میں بانٹے، اور پھر ان میں سے ایک گروہ کو حاکم (ruler) قرار دے، اور ودسرے گروہ کو یہ حیثیت دے کہ وہ محکوم (ruled) بن کر زندگی گزاریں۔
حکمِ الٰہی کا لفظ قرآن میں کسی سیاسی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ عمومی اطاعت کے معنی میں ہے۔ اس سے مراد ایک سلوک (behaviour) ہے، نہ کہ کوئی سیاسی قانون ۔ یہ فرد کو اسلامائز کرنے کا معاملہ ہے، نہ کہ حکومت یا ریاست کو اسلامائز کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

اصلاحی سیاست

تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے بھی سیاست کی اصلاح کے نام پر تحریک چلائی، ان کی سیاست ہمیشہ تخریبی سیاست ثا بت ہوئی۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ سیاسی اصلاح کا مروجہ طریقہ درست طریقہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی اصلاح کے طریقے میں ہمیشہ ایک فریقِ ثانی موجود رہتا ہے۔ ہر سیاسی اصلاح کا طریقہ فریقِ ثانی کو اپنے سیاسی مفاد کے خلاف نظر آتا ہے۔ اس لیے اول دن ہی سے وہ اس اصلاحی سیاست کے خلاف ہوجاتا ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔
یہ حل وہی ہے ، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں اختیار کیا تھا۔ آپ کی اہلیہ عائشہ آپ کی پالیسی کو ان الفاظ میں بتاتی ہیں:مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا أَخَذَ أَیْسَرَہُمَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3560)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معاملات کے درمیان اختیار دیا گیا، آپ نے ان دونوںمیں سے آسان تر کو اختیار کیا۔ یہ طریقِ عمل ہر تحریک کے لیے یکسا ں طور پر چسپاں ہوتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں جب بھی کوئی تحریک چلائی جائے، تو اس کے چلانے والوں کو نہایت شدت کے ساتھ یہ اصول اپنانا چاہیے کہ ان کی تحریک مکمل طور پر امن کے اصول پر قائم رہے۔
اس قسم کی تحریک کے دوران اگر کوئی ایسا مرحلہ آئے، جب کہ تحریک کو چلانے کی صورت میں اربابِ سیاست سے ٹکراؤ پیش آنے والا ہو، تو وہاں مصلحین کو چاہیے کہ وہ پریکٹکل وزڈم کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ یک طرفہ طور پر غیرنزاعی انداز میں اپنی تحریک کو چلائیں، کسی حال میں بھی وہ اپنی تحریک کو نزاع اور ٹکراؤ کے راستے پر نہ لے جائیں۔ اربابِ سیاست سے نزاعی طریقہ اختیار کرنا، ہمیشہ نقصان کا سبب بنتا ہے۔ کیوں کہ اس قسم کا ٹکراؤ عملاً دو غیر مساوی گروہوں کے درمیان ٹکراؤ بن جاتا ہے۔ اہل اقتدار کے پاس طاقت ہوتی ہے، اور مصلحین کے پاس طاقت موجود نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عملا ً گریٹر ایول (greater evil) کے انجام تک پہنچ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ائمۂ ہدایت

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّةً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ (32:24)۔ یعنی اور ہم نے ان میں پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، جب کہ انھوں نے صبر کیا۔ اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔
اس آیت میں سارا زور یقین پر ہے۔ یعنی جب کوئی امت اپنے فکری اور ذہنی ارتقا کے نتیجے میں اللہ کی رہنما ئی پر یقین کے درجے میں قائم ہوجاتی ہے، تو وہ اللہ کے نزدیک اس قابل ہوجاتی ہے کہ اس کو ہدایت کی ذمے داری عطا کی جائے۔ اس کو کلامِ الٰہی کی گہری سمجھ عطا کی جاتی ہے، اور اس کی یہ ذمے داری قرار پاتی ہے کہ وہ پوری امانت کے ساتھ اللہ کی ہدایت کو لوگوں تک پہنچائے۔ یہ ایک ذمے داری کا معاملہ ہے، وہ کوئی اعزاز کا معاملہ نہیں۔ اگر امت کے افراد یقین کی حالت پر نہ ہوں، تو وہ ذمے داری کے اس کام کو صحیح طور پر انجام دینے کے اہل نہیں ہوں گے۔ اس لیے اس ذمے داری کو ادا کرنے کی شرط یہ قرار پائی کہ امت کے لوگ جس ہدایت کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں، وہ خود اس کی صداقت پر یقین رکھتے ہوں۔
اسی بات کو قرآن میں دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ (6:163)۔ یعنی میں پہلا مسلمان ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے— میں جس بات کی طرف تم کو بلا رہا ہوں، میں خود اس پر یقین کے ساتھ کھڑا ہو رہا ہوں۔
اس ذمے داری کی ادائیگی میں صبر کا بنیادی رول ہے۔ کیوں کہ صبر کسی آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ یکسوئی کے ساتھ ذمے داری کے اس کام میں لگ جائے۔ اس کام میں وہ کسی رکاوٹ کو رکاوٹ نہ بننے دے۔ صبر سے آدمی کے اندر مشن کے لیے استقامت آتی ہے، صبر آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ خواہ اس کی ذمے داری اس کے لیے ایک مشکل ذمے داری ہو، پھر بھی وہ اس پر دلجمعی کے ساتھ قائم ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

فکری کنفیوژن

حدیثِ رسول میں بعد کے زمانہ کے بارے میں ایک پیشین گوئی کی گئی ہے۔ اس میں بتایاگیاہے کہ یہ دور فتنۂ دہیماء کا دور ہوگا۔ فتنۂ دہیماء کا مطلب ہے کالا فتنہ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہت زیادہ اندھیرا (utter darkness) ہوگا۔ یہ اندھیرا مادی روشنی کےاعتبار سے نہیں ہوگا بلکہ اس اعتبار سے ہوگا کہ لوگوں کے لیے سچائی کا راستہ گم ہوجائے گا۔ اس دور کے لیے حدیث میں یہ الفاظ بھی آئےہیں کہ اس زمانہ میں اسلام کا صرف نام باقی رہے گا، اور قرآن کا صرف رسم الخط باقی رہے گا(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1763)۔
حدیث کی اس پیشین گوئی کو میںنے ایک سفر کے دوران سمجھا۔اس سفر کے دوران میری ملاقات کچھ تعلیم یافتہ مسلمانوں سےہوئی۔ گفتگو کے دوران کسی نے کہا کہ ہمارے لیے نقطۂ آغازکیا ہے (مِن این نبدأ)۔ کسی نے کہا کہ ہمارے لیے لائحۂ عمل (line of action) کیاہے۔ گویاکہ لوگ اس امر میں مشتبہ ہوگئے ہیں کہ موجودہ حالات میں کرنے کا صحیح کام کیا ہے۔
غور کرنے سے سمجھ میں آتاہے کہ یہ فقدان اجتہاد (lack of ijtihad) کا مسئلہ ہے۔موجودہ زمانہ مکمل طور پر ایک بدلا ہوا زمانہ ہے۔ سوچنےکا انداز، کام کرنے کا طریقہ، وقت کے مطابق پلاننگ، رائے قائم کرنے کے پیمانے ،سب یکسر طور پر بدل گئےہیں۔اب روایتی طریقہ زمانے کے اعتبار سے غیر متعلق (irrelevant) ہوگیا ہے۔ جو چیزیں پہلےمسلّمہ سمجھی جاتی تھیں، وہ اب ناقابل قبول بن گئی ہیں۔ایسی حالت میں جس چیز کی ضرورت ہے وہ فتوی کی زبان نہیں ہے کہ لوگوں کو سادہ طورپر امر اور نہی (dos & don’ts) کی فہرست بتادی جائے۔ یہ صورت حال دراصل نئے اجتہاد کی طالب ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام دور حاضر میں بے جگہ(misfit) ہوگیا ہے، بلکہ یہ مسائل کو ریڈیفائن (redefine) کرنے کا وقت ہے۔ اب ضرورت ہے کہ قرآن وسنت کا از سرنو مطالعہ کیا جائے۔ اب ضرورت ہےکہ مجتہدانہ ذہن کے تحت اسلام کی از سر نو تطبیق (reapplication) تلاش کی جائے۔ اس سے کم درجہ کی کوئی رہنمائی موجودہ دور میں کافی نہیں ہوسکتی۔
مثال کے طورپر وطنیت (patriotism) کا تصور پہلے زمانہ میں مذہب سے متعلق سمجھا جاتا تھا۔ مگر موجودہ جمہوری زمانہ میں وہ ایک سیکولر سبجکٹ(subject)بن گیاہے۔ اس معاملہ میں ضرورت ہے کہ اس معاملہ کو مجتہدانہ ذہن کے ساتھ دیکھا جائے، اور دنیا سے ہم آہنگی اختیار کرتےہوئے وطنیت کو ایک سیکولر سبجکٹ قرار دیا جائے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہر مقام پر مسلمان بے جگہ (displaced persons) بنے ہوئے ہیں۔
اسی طرح شریعت کے نفاذ کے بارے میں عام طورپر ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے جو تشدد کا سبب بن رہی ہے۔ اسی نوعیت کی ایک مثال یہ ہے— پاکستان کے دو شہروں کوئٹہ اور پارا چنار میں بم دھماکے ہوئے جس میں 43 لوگ مارے گئے اور 100 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ اس سلسلہ میں پاکستانی طالبان کے ایک گروپ نے کوئٹہ کے حملہ کی ذمہ داری لیتے ہوئے نیوز ایجنسی کو ایک خط لکھا جس کا ایک جملہ یہ تھا—— کوئٹہ پر حملے جاری رہیں گے اس وقت تک جب تک کہ سچا شریعت سسٹم پاکستان میں لاگو نہیں ہوگا:
“Our attacks will continue until a true shariah system is enforced in Pakistan”. (The Times of India, June, 24, 2017)
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے اندر یہ سخت خطرناک غلط فہمی (extremely dangerous misunderstanding)پیدا ہوگئی ہے کہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ شریعت کے قانون کو وہ دنیا میں نافذ (implement) کریں۔ یہ بلاشبہ ایک بے بنیاد تصور ہے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ انفرادی سطح پر شریعت کے قانون کی پرامن انداز میں پیروی کریں۔مثلاً قرآن میں آیا ہے کہ أَقِیمُوا الصَّلَاةَ (نماز قائم کرو)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نمازکو اس کی اسپرٹ کے ساتھ ادا کرو، اور نماز والی اسپرٹ کو اپنی پوری زندگی میں قائم کرو۔
واپس اوپر جائیں

اسلام میں جنگ

اسلام میں جنگ سلبی مقصد کے لیے ہے، اسلام میں جنگ ایجابی مقصد کے لیے نہیں۔ یعنی اسلام میں جنگ کسی مانع (obstacle) کو دور کرنے کے لیے ہے، نہ کہ مطلوب (desired) گول کو قائم و نافذ کرنے کے لیے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک رہنما آیت یہ ہے: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ فَإِنِ انْتَہَوْا فَإِنَّ اللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ (8:39)۔ یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ دیکھنے والا ہے ان کے عمل کا۔
اس آیت میں واضح طو رپر جنگ کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ فتنہ عملاً ختم ہوجائے۔ صحابی رسول عبد اللہ بن عمر نے فتنہ کو یہاں شرک جارح کے معنی میں لیا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4514)۔ دوسرے لفظوں میں اس کو مذہبی جبر (religious persecution) کہا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جبر کرنے والے اگر اپنے جبر سے باز آجائیں، اور لوگوں کو مذہب پر آزادانہ عمل کرنے کا موقع دے دیں، تو اس کے بعد ان سے جنگ ختم کردی جائے گی۔ اس آیت میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ فتنہ کو ختم کرکے عادلانہ حکومت قائم کرو۔ اس تفسیر کا تعلق قرآن کی اس آیت سے نہیں۔
کچھ لوگ خود ساختہ تشریح کے تحت اس آیت کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ فتنہ(شرک) کا نظام ختم کرو، اور عدل (اسلام)کا نظام قائم کرو۔ اس طرح کا مفہوم وہ قرآن کی آیتأَقِیمُوا الدِّینَ (42:13)سے بھی اخذ کرتے ہیں۔ حالاں کہ اس آیت میں دین کی اقامت کا مطلب بذاتِ خود دین کی پیروی کرناہے،نہ کہ دین کا مکمل نظام لوگوں کے اوپر عملاً نافذ (enforce) کرنا۔اسی طرح قرآن میں اعْدِلُوا (المائدۃ، 5:8) کا حکم آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عدل کا نظام لوگوں کے اوپرنافذ  کرو،بلکہ اس کا درست مطلب، صحابی رسول عمار بن یاسر کے الفاظ میں اس طرح ہوگا کہ تمھارااپنی ذات کے اعتبار سے عدل کرنا(الإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِکَ)۔ صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب نمبر 18۔
واپس اوپر جائیں

اسلام میں جہاد

اسلام میں جہادبالسیف (مسلح جہاد) کا مقصد صرف ایک تھا ختم ِ فتنہ، یعنی مذہبی جبر (religious persecution)کا خاتمہ۔ دورِ جدید میں مذہبی جبر کا خاتمہ ہوچکا ہے، اس لیے اس زمانے میں مسلح جہاد قابلِ عمل (applicable) نہیں ہے۔ اس دور میں جہاد کی بات کرنی، یقینی طور پر بے خبری کی بات ہے۔ جہاد بالسیف کا حکم اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:(ترجمہ)ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہوجائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو اس کے بعد سختی نہیں ہے مگر ظالموں پر (2:193)۔اس آیت میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ جہاد بالسیف صرف ختم فتنہ تک کے لیے ہے۔ جب فتنہ ختم ہوجائے تو جہاد بالسیف کا دور بھی موقوف ہوجائے گا۔ مسلح جہاد کے تعلق سے قرآن کی ایک دوسری آیت ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
اس دوسری آیت کا مطالعہ پہلی آیت کے ذیل میں کیا جائے گا۔ یعنی اس آیت میں جس جہاد کا ذکر ہے، وہ پہلی آیت کی طرح ایک مشروط حکم ہے، نہ کہ غیر مشروط حکم۔ یعنی جب فتنہ کے ختم کے لیے قتال جاری ہو تو اس وقت دوسری آیت (یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا ) ایک مطلوب حکم ہوگا۔ لیکن جب فتنہ کا زمانہ ختم ہوجائے، تو اس وقت جہادکرنابھی موقوف ہوجائے گا۔ختم ِ فتنہ کے لیے قتال اس لیے ضروری تھا کہ فتنہ کی وجہ سے دنیا میںمذہبی آزادی (religious freedom) کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ قدیم زمانے میں بادشاہی نظام نے مذہبی آزادی کو امر ممنوع (forbidden)قرار دے دیا تھا۔ یہ کلچر خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے خلاف تھا۔ اس بنا پر ضروری تھا کہ بادشاہت کی قائم کردہ اجارہ داری کے دور کو ختم کردیا جائے، تاکہ خالق کے نقشے کے مطابق دنیا میں مذہبی آزادی کا دور آجائے۔
واپس اوپر جائیں

ارتداد کا مسئلہ

اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے— یہ ایک بے بنیاد مسئلہ ہے۔ کیوں کہ یہ حکم نہ قرآن سے ثابت ہے، اور نہ حدیث سے۔ البتہ فقہا نے بطور خود ایسے مسائل وضع کرلیے ہیں، جن میں سےکچھ یہ ہیں، شاتم کی سزا قتل، مرتد کی سزا قتل ،وغیرہ۔
اس قسم کے مسائل اسلام کی اسپرٹ کے خلاف ہیں۔ اسلام کے نزدیک ایسے ایمان کی کوئی حقیقت نہیں، جو قانونی جبر کے تحت کسی نے اختیار کیا ہو۔ اسلام وہ ہے، جو قانونی جبر کے تحت نہیں، بلکہ آزادانہ طور پر اختیار کیا گیا ہو۔ اسلام کی اصل ذاتی دریافت ہے۔ ایمان وہ ہے جو سیلف ڈسکوری (self discovery) کی بنیاد پر کھڑا ہو۔
اسلام کے مطابق، جہاں کوئی شخص "شتم " یا "ارتداد " میں مبتلا پایا جائے، تو خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اس کے لیے دعا کی جائے، اس سے ڈسکشن کیا جائے۔ اگر اس کے اندر کچھ شک پیدا ہو ا ہے، تو اس کے شک کو علمی ڈسکشن کے ذریعے دور کیا جائے۔ اس کو ایک مجرم کی طرح نہ دیکھا جائے، بلکہ اس طرح دیکھا جائے، جس طرح کوئی ڈاکٹر مریض کو دیکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا مقصد لوگوں کو فتویٰ دے کر قتل کرنا نہیںہے، بلکہ اس کو خیر خواہی کے جذبے کے تحت اللہ کی رحمت کے سائے میں لانے کی کوشش کرنا ہے۔ اصل حقیقت کے اعتبار سے ایسے افراد کا کیس بے خبری (unawareness) کا کیس ہوتا ہے۔ داعی یا مصلح کا کام یہ ہے کہ اس کی بے خبری کو توڑا جائے، اس کی فطرت کو بیدار کیا جائے۔ اس کو اپنے خالق سے قریب ہونے کا موقع دیا جائے۔ یہ کوشش کی جائے کہ اس کے اندر توبہ کی نفسیات جاگے۔یہ کوشش کی جائے کہ وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ صراطِ مستقیم پر قائم ہوجائے۔ اسلام میں سماجی جرم (social crime) پر قتل کی سزا ہے، اسلام میں اعتقادی جرم (thought crime) پر قتل کی سزا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

انتقام نہیں

میں نے تقریبا ًتمام مشہور مذاہب کا مطالعہ کیاہے۔ میں نے پایا کہ ہر مذہب میں ایک تعلیم مشترک ہے۔ اسلوب اور انداز مختلف ہے، لیکن تعلیم کا خلاصہ ایک ہے۔وہ ہے، انتقام نہ لینا۔ کسی سے کوئی تکلیف پہنچے، تو اس کو درگزر کردینا۔ہر ایک سے اچھا سلوک کرنا، خواہ اس نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ہو۔ یہ اخلاقی تعلیم ہر مذہب میں مشترک طو رپر پائی جاتی ہے۔
میں نےغور کیا کہ یہ تعلیم تمام مذاہب میں کیوں ہے، اور یہ کہ یہ صرف ایک اخلاقی تعلیم ہے، یا اس میں کوئی وزڈم ہے۔ اخلاق کا تصور تعلیم کو محدود کرتا ہے، لیکن اگر اس تعلیم میں کوئی وزڈم دریافت کی جائے، تو وہ تعلیم اپنی نوعیت میں ایک یونیورسل اصول بن جاتا ہے۔غور و فکر کے بعد میں نے پایا کہ یہ اصول ایک اعلیٰ وزڈم پر مبنی ہے۔ یہ ایک یونیورسل اصول ہے، نہ کہ محدود معنوں میں صرف ایک اخلاقی تعلیم۔
یہ تعلیم آپ کے ایک عمل کو ڈبل گڈ (double good) بنا دیتی ہے۔ آپ کا ایسا عمل آپ کو ڈبل بلیسنگ (double blessing) کا مستحق بنادیتا ہے۔ ایسے اصول پر عمل کرنا، آپ کی شخصیت میں ڈبل ارتقا کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی کے ساتھ ایک اچھا سلوک کریں، آپ اس کے ساتھ نیکی کا ایک معاملہ کریں۔ آپ کا ایسا کرنا، ایک درجہ کی نیکی ہے۔ لیکن اگر کسی نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ہے، اور آپ اس کے ساتھ رد عمل کا انداز اختیار کرتے ہوئے، خودبھی اس کے ساتھ ایک برا سلوک کریں، تو آپ دوسرے کے برے سلوک کابدلہ لے لیتے ہیں۔ اس طرح آپ کا اور دوسرے کا معاملہ برابر ہوجاتا ہے۔
اس کے برعکس، اگر آپ جوابی عمل کا طریقہ یا ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کریں، تو آپ ڈبل بلیسنگ کے مستحق بن جاتے ہیں۔ ایک ہے، انتقام نہ لینا، اور دوسرا ہے دوسرے کے ساتھ یک طرفہ طور پر نیکی کا معاملہ کرنا۔ غور کیجیے تو ہر مذہب میں اس طرح کے سلوک کا طریقہ موجود ہے۔مثلاً رام چندر کا درجہ ہندوؤں میں بہت بڑا ہے۔ رام چندر کا قصہ بیان کیاجاتا ہے کہ کوئی ان پر غصہ ہوگیا۔ اس نے اپنے پاؤں سے رام چندر کے سینے پر ماردیا۔ رام اس کے جواب میں غصہ نہیں ہوئے، انھوں نے مذکورہ آدمی کو اپنے گلےسے لگا لیا، اور کہا: میرے لوکھنڈ سینے سے تمھارے کومل پاؤں کو چوٹ تو نہیں لگی۔ اس آدمی نے پوچھا کہ میں نے آپ کے ساتھ ایک غلط کام کیا، اور آپ میرے ساتھ اتنا اچھا معاملہ کیوں کررہے ہیں۔ رام نے کہا تمھیں تو اس قابل ہو کہ تم کو گلے سے لگایا جائے، کیوں کہ تمھارے اندر ایک برائی ہے۔ برائی کی اصلاح برائی سے نہیں ہوتی، بلکہ برائی کی اصلاح اچھائی سے ہوتی ہے۔ یہی تعلیم مسیحیت کی بھی ہے۔ مثلا ًنئے عہد نامہ کی تعلیم ہے:
Love your enemies, do good to those who hate you, bless those who curse you, pray for those who mistreat you. (Luke 6:27-28)
اس کا مطلب یہ ہے کہ چاہے دوسرا شخص آپ کے ساتھ دشمنی کا معاملہ کرے، آپ پھر بھی اس کے ساتھ محبت کا معاملہ کیجیے۔ یہی تعلیم اسلام کی بھی ہے۔ مثلاً قرآن میں مومن کی تعریف یہ کی گئی ہے: وَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ (42:37)۔ یعنی جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا شخص تمھارے ساتھ غصہ دلانے والا معاملہ کرے، تب بھی غصہ نہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ یک طرفہ طور پر عفو ودرگزر کا معاملہ کرو۔
یہ تعلیم اس لیے ہے کہ جب آدمی ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرے، وہ یک طرفہ طور پر دوسروں کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرے، تو وہ ڈبل ریوارڈ کا مستحق بن جاتا ہے۔ ایک یہ کہ اس نے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا، دوسرا یہ کہ انتقام کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ اس یک طرفہ سلوک میں حکمت یہ ہے کہ ایک غلط معاملہ کرنے کے بعد چین ری ایکشن نہیں بنتا، بلکہ بات وہیں کی وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ گویا یہ نیپنگ ان دی بڈ (nipping in the bud) کی عملی صورت ہے۔ یعنی شروع میں ہی ختم کر دینا ، پوری طرح پھولنے پھلنے نہ دینا ۔
واپس اوپر جائیں

لو پروفائل، ہائی پروفائل

قرآن کی ایک آیت میں پیغمبر یعقوب کی اپنے بیٹوں کو نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے:وَقَالَ یَا بَنِیَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ (12:67)۔ یعنی اور یعقوب نے کہا کہ اے میرے بیٹو، تم سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا۔
قرآن کی اس آیت میں تدبیر کار کا ایک طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ وہ طریقہ فقہ کی اصطلاح میں غیرجہری طریقہ ہے۔ یعنی اپنا مشن اس انداز میں چلانا کہ فریق ثانی اس کو اپنے لیے خطرہ نہ سمجھے۔ وہ آخر وقت تک کام کرنے والوں کو کام کرنے کا موقع دے۔ اس طریقہ کار کو اگر جدید اسلوب میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا —— لوپروفائل (low profile) میں کام کرنا۔ یعنی کام کو ایسے انداز میں کرنا کہ فریق ثانی اس کو اپنے لیے چیلنج نہ سمجھے، اور اس طرح کام کرنے والوں کو آخر وقت تک کام کرنے کا موقع ملتا رہے۔ اس کے مقابلے میں جو طریقہ ہے، اس کو ہائی پروفائل کہاجاتا ہے۔ ہائی پروفائل میں فریق ثانی فوراً ہی چوکنا ہوجاتا ہے، اور جوابی کارروائی شروع کردیتا ہے۔ جب کہ لوپروفائل میں فریق ثانی کام کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتا۔ اس بنا پر اس کونظر انداز کرتا رہتا ہے۔
اس طریقِ کار کے لیے حدیثِ رسول میں ایک حوالہ موجود ہے۔ پیغمبر ِ اسلام نے جب مکہ کی فتح کا ارادہ کیا تو آپ نے اس معاملے میں بہت زیادہ لوپروفائل سے کام لیا۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں وأمر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بالجہاز، وأمر أہلہ أن یجہزوہ،فدخل أبو بکر على ابنتہ عائشة رضی اللہ عنہا، وہی تحرک بعض جہاز رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فقال:أی بنیة:أأمرکم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أن تجہزوہ؟ قالت:نعم، فتجہز، قال:فأین ترینہ یرید؟ قالت:(لا) واللہ ما أدری. ثم إن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أعلم الناس أنہ سائر إلى مکة، وأمرہم بالجد والتہیؤ، وقال:اللہم خذ العیون والأخبار عن قریش حتى نبغتہا فی بلادہا(سیرت ابن ہشام،جلد 2، صفحہ 397)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سفر کی )تیاری کا حکم دیا، اور اپنی اہلیہ کو کہا کہ وہ اس سفر کی تیاری کا کام کرے۔ پس ابو بکر اپنی بیٹی عائشہ کے پاس آئے ، اس وقت وہ رسول اللہ کے سفر کی بعض تیاری کا کام کر رہی تھیں۔ تو کہا: بیٹی ، کیا رسول اللہ نے تیار ی کا حکم دیا ہے۔ عائشہ نے کہا: ہاں، سامان سفر تیار کرنے کا ۔ ابوبکر نے پوچھا، تمھارے خیال سے کہاں کا ارادہ ہے۔ عائشہ نے کہا، مجھے ، اللہ کی قسم، نہیں معلوم۔ پھر رسول اللہ نے لوگوں کو خبر دیا کہ وہ مکہ کی طرف کوچ کرنے والے ہیں، اور ان کو تیاری کا حکم دیا۔ اس وقت آپ نےیہ دعا کی: اللہ ، تو قریش کی آنکھوں اور خبروں کو روک دے۔ یہاں تک کہ تو ان کےشہر میں پہنچا دے۔
اسی طرح غزوۂ خیبر کا ایک واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔محدث البخاری کے مطابق، ابوموسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں جارہے تھے، (راستے میں) ہم یہ کرنے لگے کہ جب ہم کسی بلندی پر چڑھتے یا بلندی پر پہنچ جاتے یاکسی نشیبی علاقہ میں اترتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے قریب آئے تو آپ نے کہا: اے لوگو ، اپنے آپ پر رحم کرو، کیونکہ تم کسی بہرے یا غیر موجود کو نہیں پکارتے ہو،بلکہ تم اس ذات کو پکارتے ہو جو بہت زیادہ سننے والا بڑا دیکھنے والا ہے (یَا أَیُّہَا النَّاسُ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِکُمْ، فَإِنَّکُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، إِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِیعًا بَصِیرًا)صحیح البخاری، حدیث نمبر6610۔
ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہےکہ انبیاء کے کام کرنے کا طریقہ کیا تھا۔انبیاء ہمیشہ لوپروفائل (low profile) میں کام کرنا پسند کرتے تھے۔ ہائی پروفائل میں کام کرنا، نبیوں کا مطلوب طریقہ نہ تھا۔لو پروفائل کا مطلب ہے، غیر نمایاں انداز میں کام کرنا۔ ایسے انداز میں کام کرنا، جب کہ آپ کا حریف آپ کے کام کو اپنے لیے چیلنج نہ سمجھے۔ فریق ثانی آپ کے کام میں اپنے لیے خطرہ محسوس نہ کرے۔ فریقِ ثانی آپ کے معاملے کو اپنے لیے غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردے:
A position of avoiding or not attracting much attention or publicity. Intended to attract no attention or controversy.
یہ طریقہ بہت بڑی حکمت پر مبنی ہے۔ اس طریقۂ کار کی حکمت یہ ہے کہ لو پروفائل میں کام کیا جائے، تو اس سے ری ایکشن کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ آدمی کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ شروع سے آخر تک اپنا کام معتدل انداز میں جاری رکھے، اور اپنے حسب منشا اپنے منصوبے کو تکمیل تک پہنچائے۔
لو پروفائل میں کام کرنے کی صورت میں ایسا ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کو آپ کے کام کی خبر نہیں ہوتی۔ وہ آپ کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کا منصوبہ نہیں بناتا، وہ آپ سے ٹکراؤ کی کوشش نہیں کرتا۔ اس طرح آپ کو موقع مل جاتا ہے کہ آپ معتدل انداز میں اپنے منصوبوں کو مکمل کرسکیں۔ آپ کی پوری انرجی صرف اپنے منصوبے کی تکمیل میں استعمال ہو۔ غیر ضروری چیزوں میں ضائع ہونے سے بچ جائے۔ اس کے مقابلے میں ہائی پروفائل کا طریقہ ہے۔ اس کا مطلب ہے، نمایاں انداز میں کام کرنا:
A position or approach characterized by a deliberate seeking of prominence or publicity. If someone has a high profile, people notice them and what they do. If you keep a low profile, you avoid doing things that will make people notice you.
ہائی پروفا ئل (high profile)میں کام کرنا، ہمیشہ مسئلہ پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ فریق ثانی بہت جلد آپ کے عمل سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ وہ ضروری سمجھتا ہے کہ آپ کے مقابلے میں جوابی منصوبہ بندی شروع کردے۔ اس طرح بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ آپ اور فریق ثانی کے درمیان چین ری ایکشن (chain reaction) شروع ہوجاتا ہے۔ لو پروفائل میں کام کرنے کی صورت میں یہ ہوتا ہے کہ آپ کا وقت اور آپ کی انرجی (energy)صرف اپنے منصوبہ کی تکمیل میں استعمال ہوتی ہے۔ جب کہ ہائی پروفائل میں کام کرنے کی صورت میں آپ کے وقت اور آپ کی انر جی کا بڑا حصہ جوابی کارروائی میں گزر جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام اور سائنس

اس مختصر مقالہ میں مجھے اس سوال کی تحقیق کرنی ہے کہ مسلمان موجودہ زمانہ میں سائنس کی تعلیم میں پیچھے کیوں ہوگئے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان سائنس کی تعلیم میں اس لیے پیچھے ہیں کہ ان کا مذہب سائنس کی تعلیم کا مخالف ہے، یا کم ازکم اس کو پسند نہیں کرتا۔ مگر یہ بات حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن میں کثیر تعداد میں ایسی آیتیں موجود ہیں، جن میں مختلف طریقوں سے اس امر پر زور دیاگیا ہے کہ زمین وآسمان کی چیزوں پر غور کرو۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ اسلام کے ماننے والے زمین و آسمان کی چیزوں کا مطالعہ نہ کریں، جس کا دوسرانام سائنس ہے۔ اسلام کے نزدیک کائنات کے مطالعہ کا سب سے پہلا فائدہ معرفت ہے، یعنی مخلوق کے ذریعے خالق کا مشاہدہ کرنا۔ تاہم جب لوگ کائنات کو قابل غور سمجھ کر اسے دیکھتے ہیں، تو اس سے وہ چیز بھی برآمد ہوتی ہے جس کو سائنس کہاجاتا ہے۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کی اپنی تاریخ بھی اس کی تردید کرتی ہے۔ کیوں کہ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ ابتدائی دور کے مسلمانوں نے سائنس کے شعبوں میں زبردست ترقی کی۔ حتی کہ جس زمانہ میں یوروپ کی قوموں نے سائنس کی راہ میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا تھا، اس وقت مسلمان سائنس کی راہ میں شاندار ترقیاں حاصل کرچکے تھے۔ برٹرینڈ رسل نےاس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے کہ 600ء سے 1000 ء تک کے دور کو ہم تاریک دور کہتے ہیں۔ یہ مغربی یوروپ کو غیر واقعی اہمیت دینا ہے۔ اسی زمانہ میں چین میں تُنگ کی حکومت تھی، جو کہ چینی شاعری کا اہم ترین دور ہے، اورکئی دوسرے پہلوؤں سے بہت اہم دور ہے۔ اسی زمانہ میں ہندستان سے لے اسپین تک اسلام کی شاندار تہذیب چھائی ہوئی تھی۔ اس زمانہ میں جو چیز مسیحیت کے لیے کھوئی ہوئی تھی، وہ تہذیب کے لیے کھوئی ہوئی نہ تھی بلکہ اس کے برعکس تھی:
Our use of the phrase "the Dark Ages" to cover the period from 600 to 1000 marks our undue concentration on Western Europe. In China, this period includes the time of the Tang dynasty, the greatest age of Chinese poetry, and in many other ways a most remarkable epoch. From India to Spain, the brilliant civilization of Islam flourished. What was lost to Christendom at this time was not lost to civilization, but quite the contrary. (Bertrand Russell, A History of Western Philosophy, Woking UK, 1947, p. 420)
زمانہ سے آگے
قرون وسطی میں مسلمانوں نے طب اور سائنس کے میدان میں جوکارنامے انجام دیےہیں، وہ تعجب خیز حد تک عظیم ہیں۔ الرازی (865-932) اور ابن سینا(980-1037) اپنے وقت کے سب سے بڑے ماہرینِ طب تھے، جن کا کوئی ثانی اس وقت کی دنیا میں موجود نہ تھا۔ ابن سینا کی کتاب القانون فی الطب علم طب پر ایک بنیادی کتاب ہے۔ وہ دنیا کے اکثر طبی اداروں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی رہی ہے۔ حتی کہ فرانس میں وہ 1650ء تک داخل نصاب تھی:
Al-Qanun became a classic and was used at many medical schools, at Montpellier, France, as late as 1650 (11/828).
مسلمانوں کے یہ کارنامے عام طورپر مشہور اور معلوم ہیں۔ ان پر بے شمار کتابیں ہر زبان میں لکھی گئی ہیں۔ تاہم اس سلسلہ میں ایک سوال ہے، اور یہ سوال اس کی توجیہہ کے بارے میں ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانکا (1984) کے مقالہ نگار نےاس کو ان الفاظ میں بیان کیاہے:
The greatest contribution of Arabian Medicine was Chemistry and in the knowledge and preparation of medicines; many drugs now in use are of Arab origin, as also are such processes as distillation and sublimation. Often the chemistry of that time was mainly as search for the philosopher's stone, which supposedly would turn all common metals to gold. Astronomers were astrologers and chemists were alchemists. It is, therefore, surprising that, despite all this, the physicians of the Muslim empire did make a noteworthy contribution to medical progress. (11/828)
طب عربی کی سب سے بڑی خدمت کیمسٹری اور دواؤں کے علم اور ان کی تیاری کے بارے میں تھی۔ اکثر دوائیں جو آج استعمال ہوتی ہیں، ان کی اصل عرب ہی ہے۔ اسی طرح تقطیر اور تصعید جیسےعمل بھی۔ اس زمانہ کی کیمسٹری اکثر وبیشتر پارس پتھر کی تلاش کا نام تھی، جس کے متعلق یہ گمان کرلیاگیا تھا کہ وہ تمام دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرسکتا ہے۔ اس زمانہ کے فلکیات داں محض نجومی ہوتے تھے، اور کیمسٹری کے علماء صرف کیمیا گری کرتے تھے۔ اس لیے یہ تعجب خیز بات ہے کہ ان سب کے باوجود مسلم عہد کے اطباء نے طب کی ترقی میں قیمتی اضافے کیے۔
اسلام سائنس کا خالق
یہ باتیں وہ ہیں، جن کا عام طورپر مورخین نے اعتراف کیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس سے بھی آگے ہے۔ جدید سائنس خود اسلام کی پیدا کردہ ہے۔ اسلام بلاشبہ سائنس کے لیے نہیں آیا۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سائنسی انقلاب خود اسلامی انقلاب کی ضمنی پیداوار ہے۔ اسلام اور سائنس کے اس تعلق کو بریفالٹ نےان الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ ہماری سائنس پر عربوں کا قرضہ صرف یہ نہیں ہے کہ انھوں نے حیران کن نظریات دیے۔ سائنس اس سے زیادہ عربوں کی مقروض ہے۔ یہ خود اپنے وجود کے لیے ان کی احسان مند ہے:
“The debt of our science to that of the Arabs does not consist in startling discoveries or revolutionary theories, science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence. The Astronomy and Mathematics of the Greeks were a foreign importation never thoroughly acclimatized in Greek culture. The Greeks systematized, generalized and theorized, but the patient ways of investigation, the accumulation of positive knowledge, the minute method of science, detailed and prolonged observation and experimental inquiry were altogether alien to the Greek temperament. Only in Hellenistic Alexandria was any approach to scientific work conducted in the ancient classical world. What we call science arose in Europe as a result of new spirit of enquiry, of new methods of experiment, observation, measurement, of the development of mathematics, in a form unknown to the Greeks. That spirit and those methods were introduced into the European world by the Arabs. (Robert Briffault, Making of Humanity, p. 34)
یہ ایک علمی اور تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام سائنس کا خالق ہے۔ سائنس سادہ طورپر مطالعۂ فطرت (study of nature)کا نام ہے۔انسان جب سے زمین پر آباد ہے اسی وقت سے فطرت اس کے سامنے موجود ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فطرت کے مطالعہ اور تسخیر میں انسان کو اتنی زیادہ دیر لگی۔سائنس کی تمام ترقیاں پچھلے ہزار برس کے اندر ظہور میں آئی ہیں۔ جب کہ اصولاً انھیں لاکھوں سال پہلے ظاہر ہوجانا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ قدیم زمانہ میں شرک کا غلبہ ہے۔ شرک اس میں مانع تھا کہ آدمی فطرت کا مطالعہ کرے، اور اس کی قوتوں کو دریافت کرکے انھیں اپنے کام میں لائے۔شرک کیا ہے۔ شرک نام ہے فطرت کو پوجنے کا۔ قدیم زمانہ میں یہی شرک تمام اقوام کا مذہب تھا۔
For the ancient man, Nature was not just a treasure-trove of natural resources, but a goddess, Mother Earth. And the vegetation that sprang from the earth, the animals that roamed the earth’s surface, and the minerals hiding in the earth’s bowels, all partook of nature’s divinity, so did all natural phenomena — springs and rivers and the sea; mountains, earthquakes and lightening and thunder.
غرض زمین سے آسمان تک جو چیز بھی انسان کو نمایاں نظر آئی، اس کو اس نےاپنا خدا فرض کرلیا، اسی کا نام شرک ہے اور یہ شرک اسلام سے پہلے تمام معلوم زمانوں میں دنیا کا غالب فکر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدیم انسان کے لیے فطرت پرستش کا موضوع (object of worship)بنی ہوئی تھی۔ پھر عین اسی وقت وہ تحقیق کا موضوع (object of investigation) کیسے بنتی۔ یہی اصل وجہ ہے، جس کی بنا پر قدیم انسان اس طرف راغب نہ ہو سکا کہ وہ فطرت کا مطالعہ کرے۔ تمام قدیم زمانوں میں انسان فطرت کو خدا سمجھ کر اس کے سامنے جھکتا رہا ہے۔ فطرت کو مقدس نظر سے دیکھنا، انسان کے لیے اس میں روک بنا رہا کہ وہ فطرت کی تحقیق کرے ،اور اس کو اپنے تمدن کی تعمیر کے لیے استعمال کرے۔
آرنلڈٹائن بی نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ فطرت پرستی (شرک) کے اس دور کو سب سے پہلے جس نے ختم کیا وہ توحید (Monotheism) ہے۔ توحید کے عقیدے نے پہلی بار انسان کو یہ ذہن دیا کہ فطرت خالق نہیں، بلکہ مخلوق ہے۔ وہ پوجنے کی چیز نہیں، بلکہ استعمال کی چیز ہے۔ اس کے آگے جھکنا نہیں ہے، بلکہ اس کو تسخیر کرناہے۔ تاہم جب اس حقیقت کو دیکھا جائے کہ توحید کے نظریہ کو پہلی بار اسلام نے عملی طورپر رائج کیا ،تو یہ انقلاب براہ راست اسلام کا کارنامہ قرار پاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خدا کے تمام پیغمبر توحید کا پیغام لے کر آئے۔ ہر دور میں خدا کے جن بندوں نے سچائی کی تبلیغ کی انھوں نے خالص توحید ہی کی تبلیغ کی۔ مگر اسلام سےپہلے کسی بھی دور میں ایسا نہیں ہوا کہ بڑی تعداد میں لوگ توحید کے نظریہ کو مان لیں اور توحید کی بنیاد پر انسانی معاشرہ میں وسیع انقلاب برپا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام سے پہلے انسان کبھی توحید کے حقیقی ثمرات سےآشنا نہ ہوسکا۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، خدا کا ہر پیغمبر توحید کا پیغام لےکر آیا۔ مگر پچھلے پیغمبروں کے ساتھ یہ صورت پیش آئی کہ ان کے پیرو ان کے لائے ہوئے دین کی حفاظت نہ کرسکے۔ انھوں نے توحید میں شرک کی آمیزش کردی۔ مثال کے طورپر حضرت مسیح نے خالص توحید کا پیغام دیا، مگر ان کے بعد ان کے پیروؤں نے خود حضرت مسیح کو خدا سمجھ لیا۔ ان کا یہ مشرکانہ عقیدہ مختلف پہلوؤں سے سائنس کی ترقی کے لیے رکاوٹ بن گیا۔ مثلاً کچھ علمائے فلکیات نے نظامِ شمسی کی تحقیق کی۔ وہ اس حقیقت تک پہنچے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ مگر عیسائی علماء ایسے لوگوں کے سخت مخالف ہوگئے۔ اس کی وجہ ان کا مذکورہ مشرکانہ عقیدہ تھا۔ انھوں نے زمین کو خداوند کی جنم بھومی فرض کررکھا تھا، اس لیے ناقابلِ فہم ہوگیا کہ جس زمین پر خدا پیدا ہوا ہو، وہ زمین نظامِ شمسی کا مرکز نہ ہو، بلکہ اس کی حیثیت محض ایک تابع کی قرار پائے۔ اپنے مشرکانہ عقیدہ کو بچانے کے لیے انھوں نے سائنسی حقیقت کا انکار کردیا۔
دوسری بات یہ کہ پچھلے تمام پیغمبروںکامشن صرف اعلان کی حد تک جاسکا، وہ عملی انقلاب تک نہیں پہنچا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھی انسانی تاریخ کے پہلے گروہ ہیں جنھوں نے توحید کو ایک زندہ عمل بنایا۔ انھوں نے اولاً عرب میں شرک (مظاہر فطرت کی پرستش) کا مکمل خاتمہ کیا، اور توحید کو عملی طورپر انسانی زندگی میں رائج کیا۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھے، اور قدیم زمانہ کی تقریباً تمام آباد دنیا میں شرک کو مغلوب کردیا۔ انھوں نے ایشیا اور افریقہ کے تمام بُت خانوں کو غیر آباد کر دیا، اور توحید کو ایک عالمی انقلاب کی حیثیت دے دی۔
اہلِ اسلام کے ذریعہ توحید کا جو عالمی انقلاب آیا، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ توہم پرستی کا دور ختم ہو۔ اب مظاہر فطرت کو پرستش کے مقام سے ہٹا دیاگیا۔ خدائے واحدانسان کا معبود قرار پایا۔ اس کے علاوہ جو تمام چیزیں ہیں، وہ سب صرف مخلوق بن کررہ گئیں۔انسانی تاریخ میں اسلام کے ظہور سے جو عظیم تبدیلی آئی، اس کا اعتراف ایک امریکی انسائیکلو پیڈیا میں ان الفاظ میں کیاگیا ہے کہ اسلام کے ظہور نے انسانی تاریخ کے رُخ کو موڑ دیا:
Its advent changed the course of human history.
مظاہر فطرت کو پرستش کے مقام سے ہٹانے کا یہ نتیجہ ہوا کہ وہ فوراً انسان کے لیے تحقیق اور تسخیر کا موضوع بن گئے۔ مظاہر فطرت کی تحقیق وتسخیر کے فکر کی ابتدا بالواسطہ انداز میں مدینہ میںشروع ہوئی۔ پھر دمشق اور بغداد اس تحقیق وتسخیر کے عملی مرکز بنے۔ اس کے بعد یہ لہر سمندر پار کرکے اسپین اور سسلی میں داخل ہوئی، وہاں سے وہ مزید آگے بڑھ کر اٹلی اور فرانس تک جا پہنچی۔ یہ تاریخی عمل جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ جدید سائنسی انقلاب تک پہنچ گیا۔ مغرب کا سائنسی انقلاب اس اعتبار سے اسلامی انقلاب کا نقطۂ انتہا ہے۔ وہ توحید کے انقلاب کا سیکولر نتیجہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو اسلام سائنس کا بانی تھا، اور جس کے ماننے والے اپنے ابتدائی دور میں ساری دنیا کے لیے سائنس کے معلم بنے، اسی اسلام کے ماننے والے موجودہ زمانہ میں سائنس کی تعلیم میں دوسروں سے پیچھے کیوں ہوگئے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی ہے۔ مسلمانوں نےابتداء ً جو سائنسی انقلاب برپا کیا تھا، وہ اسپین تک پہنچنے کے بعد مغربی قوموں کی طرف منتقل ہوگیا۔ اس کے بعد سائنس کی ترقیاں زیادہ تر اہلِ مغرب کے ہاتھوں ہوئیں۔ اس زمانہ میں بھی اگرچہ دنیا کا بڑا حصہ سیاسی طور پر مسلمانوں کے قبضہ میں تھا، مگر سائنس کی ترقی کا کام صلیبی جنگوں کے بعد مغربی یورپ کے ذریعہ انجام پاتا رہا۔
مسلمانوں نے اپنے ابتدائی دور میں سائنس کے میدان میں جو ترقیاں کی تھیں، اس کا پہلا سب سے بڑا فائدہ ان کو دو سو سالہ صلیبی جنگوں (1095-1270) میں ہوا۔ اس جنگ میں تقریباً سارا یورپ متحدہ طاقت سےمسلم دنیا پر حملہ آور ہوا، تاکہ اپنے مقدس مقامات کو مسلمانوں کے قبضہ سے واپس لے۔ مگر انھیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ ان مہموں میں کروروں جانیں اور بے پناہ دولت قربان کردی گئی،اور جب یہ سب ختم ہوا تو یروشلم بدستور ’’بددینوں‘‘ کے قبضہ میں تھا:
Millions of lives and an enormous amount of treasure were sacrificed in these enterprises. And when all was done, Jerusalem remained in the possession of the “infidels”.
(Pears' Cyclopeadia, 1953-1954, p. 539)
صلیبی جنگوں کا خاتمہ مسلمانوں کی کامل فتح اور مسیحی یورپ کی کامل شکست پر ہوا۔ مسلمانوں کی فتح ان کے لیےالٹی پڑی۔ اس کے برعکس عیسائیوں کو ان کی شکست کا زبردست فائدہ حاصل ہوا۔ مسلمان اپنی سیاسی فتح پر قانع ہو کر رہ گئے۔ کامیابی کے احساس نے ان کی عملی قوتوں کو ٹھنڈا کردیا۔
اس کے برعکس مسیحی یورپ کو اپنی ناکامی کا یہ فائدہ ملا کہ اس کے اندر یہ ذہن پیدا ہوا کہ اپنی کمزوریوں کو معلوم کرکے ان کی تلافی کرے۔ چنانچہ اس کے اندر ایسے لوگ پیدا ہوئے، جنھوں نے زور وشور کے ساتھ یہ تبلیغ کی کہ مسلمانوں کی زبان عربی سیکھو، اور ان کی کتابوں کا اپنی زبان میں ترجمہ کرو۔ یہ رجحان یورپ میں تیزی سے پھیلا۔ مسلمانوں کی اکثر کتابیں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کی گئیں، جو اس وقت یورپ کی علمی زبان تھی۔ یہ عمل کئی سو سال تک جاری رہا۔ ایک طرف مسلمان اپنی سیاسی کامیابی میں گم تھے، دوسری طرف یورپ علمی میدان میں مسلسل ترقی کررہا تھا۔
یورپ کا یہ علمی سفر جاری رہا۔ یہاں تک کہ 18ویں صدی آگئی جب کہ یوروپ واضح طورپر مسلم دنیا سے آگے بڑھ گیا۔مغربی یوروپ نے سائنس کو جدیدٹکنالوجی تک پہنچایا۔ اس نے دستکاری کی جگہ مشینی صنعت ایجاد کی۔ اس نے دستی ہتھیاروں کی جگہ دور مار ہتھیار بنا لیے۔ وہ برّی طاقت سے آگے بڑھا، اور ابتداء ً بحری طاقت، اور اس کے بعد فضائی طاقت پر قابو حاصل کرلیا۔ اس طرح مغرب بالآخر ایسی طاقت بن گیا، جس کا مقابلہ مسلمان اپنے موجودہ سازوسامان کے ساتھ نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ مغرب جدید قوتوں سے مسلح ہو کر دوبارہ جب مسلم دنیا کی طرف بڑھا تو مسلمان قومیں ان کو روکنے میں ناکام رہیں۔ مغربی قوموں نے مختصر عرصہ میںتقریباً پوری مسلم دنیا پر براہِ راست یا بالواسطہ کنٹرول حاصل کرلیا۔
صلیبی جنگوںکے بعد مسلمان اپنی سیاسی فتح کے جوش میں سائنس سے دور ہوگئے تھے۔ موجودہ زمانہ میں یہی بات ایک اور شکل میں پیش آئی۔ مغربی قوموں کے مقابلہ میں سیاسی شکست نے موجودہ مسلمانوں کے اندر منفی رد عمل پیدا کیا۔ مغربی قوموں نے ان سے ان کا سیاسی فخر (political pride) چھینا تھا۔ چنانچہ وہ مغربی قوموں سے سخت متنفر ہوکر رہ گئے۔ اپنی رد عمل کی نفسیات کی وجہ سے انھوں نے نہ صرف مغربی قوموں کو برا سمجھا، بلکہ مغربی قوموں کی زبان، اور مغربی قوموں کے ذریعہ آنے والے علوم کو بھی وہ نفرت کی نظر سے دیکھنے لگے۔
ایک صدی کی پوری مدت اسی حال میں گزر گئی۔ مسلمان مغربی قوموں سے نفرت کرتے رہے، یا ان سے ایسی لڑائیاں لڑتے رہے، جو مسلمانوں کی کمتر تیاری کی وجہ سے صرف شکست پر ختم ہونے والی تھی۔ دوسری طرف دنیاکی دوسری قومیں مغربی زبان اور مغربی علم کو سیکھ کر تیزی سے آگے بڑھتی رہیں، یہاں تک کہ دونوں کے درمیان وہ بعید فاصلہ پیدا ہوگیا،جس کی ایک مثال ہم کو ہندستان میں نظر آتی ہے۔ مسٹر کلدیپ نائر (1923-2018)نے لکھا ہے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمان تعلیم میں دو سو سال پیچھے ہیں۔ اگر اس کو گھٹایا جائے تب بھی یہ فاصلہ ایک سوسال کے بقدر ماننا ہوگا۔
مغربی قومیں جن علوم کو لے کر آگےبڑھیں، وہ سادہ معنوں میں محض علوم نہ تھے، بلکہ وہ دورِ جدید میں ہر قسم کی ترقی کی بنیاد تھے۔ چنانچہ جن قوموں نے ان علوم کو سیکھا، وہ دنیوی اعتبار سے دوسروں سے آگے بڑھ گئیں۔ مغربی قومیں اور ان کے پیروی کرنے والے تہذیب وتمدن میں مسلمانوں سے بدرجہا زیادہ فائق ہوگئے۔ یہی وقت ہے جب کہ مسلمانوں میں سرسید (1817-1898) اور اس قسم کے دوسرے مصلحین پیدا ہوئے۔ مگر یہاں پہنچ کر مسلم مصلحین سے تیسری غلطی ہوئی۔ وہ مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب ہوگئے۔ وہ مغربی تہذیب کی جڑوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ نہ دیکھ سکے۔ وہ مغرب کی طرف بڑھے۔ مگر ان کا بڑھنا مغرب کی تہذیب سے مرعوبیت کی بنا پر تھا،نہ کہ مغرب کی قوت کے اصل سرچشمہ (سائنس) کو سمجھ کر اس کو اختیار کرنے کے لیے تھا۔ چنانچہ اس قسم کے مصلحین کی ساری توجہ مغرب کی زبان، مغرب کے لٹریچر، مغرب کے تمدنی مظاہر پر رہی۔ یہ مغرب سے قریب ہونے والے بھی مغرب کی سائنس سے اسی طرح محروم رہے، جس طرح مغرب سے دور رہنے والے اس کی سائنس سے محروم تھے۔ سرسید نے انگلستان کا سفر کیا تو وہاں کی خاص چیز جو وہ اپنے ساتھ لائے وہ ایک صوفہ سیٹ تھا۔ اس کے بجائے اگر وہ سائنس کی کتابیں یا کوئی مشین اپنے ساتھ لاتے تو یقیناً وہ ہندستانی مسلمانوں کے لیے زیادہ بہتر تحفہ ہوتا۔ آخر وقت میں جب مسلمان مغربی تعلیم کی طرف مائل ہوئے، اس وقت بھی ان کے ذہن میں ساری اہمیت مغربی تہذیب کی تھی۔ مغربی سائنس سےوہ بدستور دو رپڑے رہے۔
سائنسی شعور
سائنس کے میدان میں مسلمانوں کے پچھڑے پن کی وجہ اگر مختصر طورپر بتانی ہو تو وہ صرف ایک ہوگی — مسلمانوں میں سائنسی شعور نہ ہونا۔ہندستان کا زمین دار طبقہ جدید تجارت میں پیچھے کیوں ہوگیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر تجارتی شعور موجود نہ تھا۔ یہی واقعہ سائنس کے سلسلہ میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا۔ ایک یا ایک سے زیادہ اسباب کی بنا پر مسلمانوں کے اندر جدید دور میں سائنسی شعور پیدا نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوںنے سائنس کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دی، اور اگر توجہ دی بھی تو ادھوری شکل میں۔
اس کی ایک واضح مثال وہ فرق ہے جو مسلمانوں کے درمیان دینی تعلیم اور سائنسی تعلیم کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر دینی تعلیم کی اہمیت کا شعور موجود تھا، اس لیے انھوں نے اس کا پورا اہتمام کیا۔ اس کے برعکس موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں سائنسی تعلیم کا شعور موجود نہ تھا، اس لیے وہ اس کا وہ اہتمام نہ کرسکے جس کے بغیر کسی قوم میں سائنسی تعلیم نہیں آسکتی۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم رہنماؤں کو جب جدید علوم کی طرف توجہ ہوئی تو انھوںنے کالج اور یونیورسٹیاں تو بنائیں مگر انھوںنے جدید علوم کی ابتدائی تعلیم کا نظام قائم نہیں کیا، جو کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو خوراک فراہم کرتے ہیں۔ جب کہ انھیں مسلمانوں میں دینی مدارس کی مثال اس سے بالکل مختلف نمونہ پیش کرتی ہے۔
مسلمانوں نے موجودہ زمانہ میں بڑے بڑے دینی مدرسے قائم کیے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا کہ صرف بڑے بڑے مدرسے قائم کرکے بیٹھ جائیں۔ اسی کے ساتھ انھوںنے یہ بھی کیا کہ پورے ملک میں ابتدائی تعلیم کا مکتب کا نظام قائم کیا۔ یہی ابتدائی مکاتب دراصل وہ ادارے ہیں جو بڑے بڑے دینی مدرسوں کو غذا فراہم کرتے ہیں۔ اگر یہ ابتدائی مکاتب نہ ہوں تو تمام بڑے بڑے دینی مدرسے غیر آباد نظر آئیں۔
یہی بات جدید سائنس کی تعلیم کے سلسلہ میں بھی ملحوظ رکھنے کی تھی۔ مسلم رہنماؤں کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو خوراک پہنچانے والے ابتدائی اسکول نہ ہوں، تو کالجوں اور یونیورسٹیوں کو طلبہ کہاں سے ملیں گے۔ ہندستان میں مثال کے طورپر ہندو اور عیسائی بہت بڑے پیمانے پر ابتدائی تعلیم کا نظام قائم کررہے تھے۔ مگر مسلم رہنماؤں نے اس مثال سے کوئی سبق نہیں لیا۔ انھوںنے کالج اور یونیورسٹیاں بنانے کے لیے زبردست کوشش کی، مگر ابتدائی اسکول قائم کرنے کی طرف اتنا کم دھیان دیا کہ وہ نہیں کے برابر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم یہ منظر دیکھتے ہیں کہ مسلم کالج اور اسلامی یونیورسٹی تو ہمارے پاس موجود ہیں مگر اس کے اندر مسلم طلبہ موجود نہیں۔ کیوں کہ ان بڑے اداروں کو غذا پہنچانے والے چھوٹے ادارے نہیں۔ مسلمانوں نے اپنے بچوں کو مذہبی جذبے کے تحت ہندو اور عیسائی یا گورنمنٹ کےابتدائی اسکولوں میں بھیجنا پسند نہیں کیا، اور خود ان کے اپنے ابتدائی اسکول موجود نہ تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قوم کے بچوں کی ابتدائی تعلیم اس انداز پر نہ ہوسکی کہ وہ آگے بڑھ کر سائنس کے شعبوں میں داخلہ لے سکیں۔مسلم رہنماؤں کی اس غفلت کی وجہ جو بھی ہو، مگر یہ ایک واقعہ ہے کہ عملی طورپر یہ ایک بڑا سبب ہے، جس نے مسلم قوم کو سائنسی تعلیم میں پیچھے کردیا۔
بنیادی غفلت
سائنس کی تعلیم میں مسلمانوں کے پیچھے ہونے کا سبب ایک لفظ میں بیان کیاجائے تو وہ یہ ہوگا— مسلمان انگریز اور انگریزی میں فرق نہ کرسکے۔ انھوں نے استعماری قوموں اور استعماری قوموں کے ذریعے آنے والے علوم کو ایک سمجھا۔ اول الذکر سے سیاسی اسباب کے تحت انھیں نفرت پیدا ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ثانی الذکر سے بھی نفرت کرنے لگے۔ اگر وہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرسکتے، تو یقینی طورپر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی سائنسی تاریخ دوسری ہوتی۔
ہر قوم کے کچھ اپنے قومی علوم ہوتےہیں۔ ان قومی علوم سے دوسری قوموں کو دلچسپی نہ ہونا ایک فطری بات ہے۔ مزید یہ کہ دوسری قومیں اگر ان قومی علوم سے دلچسپی نہ لیں تو اس سے انھیں کوئی حقیقی نقصان نہیں ہوتا۔مگر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک قوم ایک علم کو لے کر اٹھتی ہے لیکن حقیقة ً وہ اس کا قومی علم نہیںہوتا بلکہ اس کی حیثیت ایک آفاقی علم کی ہوتی ہے۔ یہ علم اپنی حقیقت کے اعتبار سے تمام قوموں کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ کسی ایک قوم کے لیے۔ وہ انسانیت کا مشترک سرمایہ ہوتا ہے، نہ کہ کسی قوم کا انفرادی ورثہ۔
قدیم صلیبی جنگوں کے بعد یہی صورت حال مغربی قوموں کے ساتھ پیش آئی تھی۔ اُس وقت مسلمان سائنسی علوم کے حامل تھے، اور اسی بناپر وہ مغربی قوموں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے، اس وقت مغرب کی حیثیت مفتوح کی تھی، اور مسلمانوں کی حیثیت فاتح کی۔ اگر چہ عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ مفتوح کےدل میں فاتح کے لیے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ فاتح کی ہر چیز کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ مگر مغربی قوموں نے یہ نادانی نہیں کی۔ انھوں نے مسلمانوں کو اور مسلمانوں کے علوم کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا۔ انھوں نے مسلمانوں سے نفرت کی، مگر مسلمانوںکے علوم کو انھوں نے آگے بڑھ کر لیا۔ نیز اپنی کوششوں سے اس میں اتنے اضافے کیے کہ بعد کی صدیوں میں وہ ان علوم کے امام بن گئے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آیا کہ وہ دوبارہ تاریخ کو اپنے حق میں بدلنے میں کامیاب ہوگئے۔
یہی صورت حال موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آئی۔ مغربی قومیں ان کے لیے فاتح کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اس لیے مغربی قوموں سے بیزاری ان کے لیے ایک فطری بات تھی۔ مگر یہاں مسلمان اس ہوش مندی کا ثبوت نہ دے سکے کہ وہ مغرب اور مغربی علوم کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھیں۔مغربی قومیں جن علوم کو لے کر آگے بڑھی تھیں، وہ ان کے قومی علوم نہ تھے، بلکہ وہ کائناتی علوم تھے۔ ان کی حیثیت قوت وطاقت کی تھی۔ دور جدید کے مسلم رہنما اگر اس راز کو بروقت جان لیتے، تو وہ مغربی علوم کو مغرب سے الگ کرکے دیکھتے۔ مغربی علوم کو وہ اپنے لیے طاقت سمجھ کر حاصل کرتے۔ وہ ان کو خود اپنی چیز سمجھتے ،نہ کہ غیر کی چیز۔ مگر یہاں دور جدید کے مسلم رہنما اس دانش مندی کا ثبوت نہ دےسکے۔انھوں نے بیک وقت مغرب سے بھی نفرت کی، اور مغربی علوم سے بھی۔ یہی وہ غلطی ہے، جس نے دور جدید میں مسلمانوں کو سائنس میں پیچھے کردیا۔ مسلم رہنماؤں نے ایک لمحہ کی غلطی کی تھی، مگر اس کا نتیجہ مسلم قوم کو صدیوں کی شکل میں بھگتنا پڑا:
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد
زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت شعور کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، مسلمانوں نے جب صلیبی جنگوں میں مغربی اقوام پر فتح حاصل کی ،تو وہ فتح کے جوش میں مبتلا ہوگئے۔ اس جوش نے انھیں سائنس کی تحقیق سے غافل کردیا۔ اس کے بعد موجودہ زمانہ میں یہی واقعہ ایک اور شکل میں پیش آیا۔ مسلمان مغربی قوموں کے مقابلہ میں مفتوح ہوئے، تو ان کےاندر مغربی اقوام کے خلاف نفرت جاگ اٹھی۔ وہ نفرت کی نفسیات میں مبتلا ہو کر مغربی سائنس کی طرف سے بے رغبت ہوگئے۔ مسلمان اپنی بے شعوری کے نتیجہ میںفاتح کی حیثیت سے بھی نقصان میں رہے، اور مفتوح کی حیثیت سے بھی۔
واپس اوپر جائیں

زمانے کے مطابق عمل

قدیم زمانہ دستکاری کا زمانہ تھا۔ ہر آدمی اپنا کام خود کرتا تھا۔ موجودہ زمانہ انڈسٹری کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر کام میں پورا سماج شامل (involve) ہوتا ہے۔ اس بنا پر موجودہ زمانے میں ایک نیا کلچر وجود میں آیا ہے، جس کو انٹر ڈپنڈنٹ کلچر (interdependent culture)کہا جاسکتا ہے، یعنی ہر آدمی کا دوسرے آدمی پر منحصر (نربھر) ہونا۔
قدیم بادشاہت کے زمانے میں لوگوں کے درمیان جو مساوات (equation) تھی، وہ حاکم اور محکوم کی تھی۔ جدید دور میں دنیا میں جمہوریت کا نظام آیا۔ اب مساوات (equation) کا معاملہ بالکل بدل گیا۔ اس معاملے میں نئی مساوات پولٹیکل لیڈر اور ووٹر کی بنیاد پر قائم ہوئی۔ قدیم بادشاہوں کو ووٹر کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ صرف ایک بات جانتا تھا، فوج کے ذریعہ لوگوں کو زیر کرکے ان کے اوپر حکومت قائم کرنا۔
نئی مساوات کے زمانے میں حاکم اور محکوم کے درمیان نیا تعلق قائم ہوا۔ اب حاکم (political leader) کو ووٹر کی ضرورت ہے۔ اس نئے دور میں ووٹر کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اپنی مرضی کی حکومت قائم کرے۔ اس طرح ایسا ہوا کہ ووٹر کو پولیٹکل لیڈر کی ضرورت ہوگئی، اور پولیٹکل لیڈر کو ووٹر کی ضرورت ۔ اس کے بعد دنیا میں پہلی بار وہ نظام آیا، جس کو انٹر ڈپنڈنٹ نظام کہا جاتا ہے۔
اس طرح دنیا میں نئے مواقع پیدا ہوگئے۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ ہر ایک دوسرے کی ضرورت بن کر اپنا فائدہ حاصل کرے۔ پولیٹکل لیڈر اور ووٹر ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کریں۔ اسی طرح تاجر اور خریدار دونوں ایک دوسرے سے فائدہ اٹھائیں۔ اب نہ کسی کو لڑنے کی ضرورت ہے، اور نہ کسی کو شکایت کی ضرورت ۔ انٹر ڈپنڈنٹ کے نئے نظام میں ہر ایک کو اصولا ًوہی حیثیت مل گئی ہے، جو اس سے پہلے مراعات یافتہ طبقہ(privileged class) کے لیے مخصوص سمجھی جاتی تھی۔ ہر ایک کے لیے وہ تمام مواقع یکساں طور پر کھل گئے، جو پہلے کچھ خاص طبقے کو حاصل تھے۔
نئے سماج میں یہ ہوا کہ لیڈر کو ووٹر کی ضرورت، اور ووٹر کو لیڈر کی ضرورت۔ ڈاکٹر کو مریض کی ضرورت، اور مریض کو ڈاکٹر کی ضرورت۔ دوکاندار کو کسٹمر کی ضرورت، اور کسٹمر کو دوکاندار کی ضرورت۔ اس طرح موجودہ زمانے میں ایک نیا سماج بنا، جس میں کسی ایک شخص کو عملاً وہی مواقع حاصل ہوگئے، جو کسی دوسرے شخص کے لیے مخصوص سمجھے جاتے تھے۔
اس دو طرفہ سسٹم کی بنا پر موجودہ زمانے میں ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ جو چاہے کرے، اور جو چاہے حاصل کرے۔ صرف ایک شرط کے ساتھ ،اور وہ یہ ہے کہ وہ دوسرے کے معاملے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ وہ دوسرے کے لیے اپنی طرف سے کوئی پرابلم کھڑا نہ کرے۔ وہ دوسروں کے لیے مکمل طور پر پرابلم فری (problem-free)انسان بن جائے۔ وہ اگر دوسروں سے کچھ پاناچاہتا ہے، تو وہ دوسروں کو کچھ دینے والا بن جائے، نہ کہ صرف لینے والا۔ یہی وہ کلچر ہے، جس کو عام زبان میں گیو اینڈ ٹیک (give and take) کلچر کہا جاتا ہے۔ اس نئے دور نے شکایت کے تصور کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہر مذہب سچا ہے

ہر مذہب سچا ہے کا نظریہ بظاہر ایک خوبصورت نظریہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہ آدمی کو اسی چیز سے محروم کردیتا ہے، جو مذہب کی اصل ہے، یعنی یقین۔ ایسا آدمی بظاہر ہر مذہب کو یکساں درجہ دیتا ہے، لیکن یہ اس کے لیے لپ سروس (lip service) کی بات ہوتی ہے۔ یہ نظریہ مذہبی یقین کو سماجی اخلاق (social ethics) کا درجہ دے دیتا ہے۔ بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ میں بھی سچا، تم بھی سچے۔ یعنی کہنے کے لیے ہر مذہب کو سچا ماننا، لیکن گہرے یقین کے اعتبار سے کسی بھی مذہب پر یقین نہ ہونا۔
اصل یہ ہے کہ یہ معاملہ ایک مذہب یا تمام مذاہب کو ماننے کا نہیں ہے۔ بلکہ مذہب کو سچائی کا معاملہ سمجھنے کے بعد اس کو سماجی اخلاق (social ethics) کا درجہ دینے کا ہے۔ یعنی مذہبی یقین کے بجائے سوشل مینرس (social manners) میں جینا۔ اس لیے اس معاملے میں صحیح فارمولا وہ ہے، جو باہمی احترام (mutual respect) پر قائم ہوتا ہے، نہ کہ باہمی اعتراف (mutual recognition) پر۔
دوسرے تمام معاملات میں زندگی کا نظام باہمی احترام کے نظریے پر چلتا ہے۔ یعنی کسی کا مذہب پوچھے بغیر اجتماعی زندگی میں اس کا احترام کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ سماجی اعتبار سے زندگی کا نظام انسان کے عمومی احترام پر قائم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، سچائی کے اعتبار سے زندگی کا نظام تحقیق، اور ڈسکوری کے اوپر قائم ہوتا ہے۔ سچائی کے معاملے میں پہلے آپ متلاشی (seeker) بنتے ہیں، پھر آپ مطالعہ اور تحقیق کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کو سچائی کی دریافت ہوجاتی ہے۔ اس وقت آپ سچائی پر دل و جان سے قائم ہوجاتے ہیں۔ باہمی احترام کا فارمولا ایک ورکیبل فارمولا (workable formula) ہے، جو عملی ضرورت کی بنیاد پر بنتا ہے۔اس کے برعکس، سچائی کو ماننے کا فارمولا یقین (conviction) کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذاتی معاملات

ذاتی معاملہ ہر آدمی کا اپنا معاملہ ہوتا ہے۔ اس کو کوئی دوسرا شخص نہ سمجھ سکتا ہے، اور نہ اس کے بارے میں صحیح رائے قائم کر سکتا ہے۔ اپنے ذاتی معاملے میں آدمی کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے صوابدید کے مطابق فیصلہ کرے۔یہ طریقہ اصولی طور پر غلط ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے ذاتی معاملے میں بہت زیادہ دخیل ہونے کی کوشش کرے، اور اس کے بارے میں اپنی رائے دینے میں شدت کا طریقہ اختیار کرے۔
فطرت کے اصول کے مطابق، کوئی آدمی اپنے ذاتی معاملے میں کسی دوسرے آدمی کی رائے کا پابند نہیں ہے۔ میری رائے اپنے لیے ہوسکتی ہے، کسی دوسرے کے لیے نہیں۔ ہر آدمی اپنے ذاتی معاملے میں جو کچھ کرتا ہے، وہ اس کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ اصولی طور پر اس معاملے میں دوسروں کے لیے صرف یہ حق ہے کہ وہ آپ کے لیے دعا کرے۔ آپ کے لیے خیرخواہی کا طالب بنے۔ اس معاملے میں اگر کسی کو رائے دینے کا حق ہے، تو وہ آدمی کی اپنی فیملی ہے۔
مثلاً بچوں کی تعلیم، شادی بیاہ کا معاملہ، بزنس کا انتخاب، وغیرہ۔ زیادہ تر ذاتی دائرے کی چیزیں ہیں۔ ان معاملات میں فیملی کی رائے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ غیر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی حد پر قائم رہے۔ کسی آدمی کے ذاتی معاملے میں زیادہ دخل نہ دے۔ اس حقیقت کو ایک عربی مثل میں اس طرح بیان کیا گیا ہےصاحب البیت ادرى بما فیہ ( گھر والا زیادہ جانتا ہے کہ گھر میں کیا ہے)۔
ضرورت سے زیادہ رائے دینا ایک غیر دانش مندانہ بات ہے۔ بہت سے معاملات جہاں لوگ رائے دینے لگتے ہیں، وہاں ان کو دعا کرنا چاہیے۔ دعا اگر سچی خیر خواہی کے ساتھ ہو، تو امید ہے کہ وہ ان شاء اللہ، قبول ہوگی، اور آدمی کے لیے فائدہ کا سبب بنے گی۔ دعا خیر خواہی کا اعلیٰ طریقہ ہے۔دعا بلاشبہ مشورے کا ایک اعلیٰ بدل ہے۔ دعا گویا اپنی رائے کو اللہ کے ذریعے انسان تک پہنچانا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عقل کی بات

قدیم مثل ہے، بٗوجھ کے باجھے، باجھ کے نہ بوجھے۔ موجودہ زمانے میں مسلم ایکٹوسٹ (Muslim activist) لوگوں نے بار بار یہی غلطی کی ہے۔ وہ اجتماعی معاملات میں بار بار کسی طاقت سے الجھ گئے، اور پھر جب ناکامی سے دوچار ہوئے تو وہ کہنے لگے کہ ایسا مخالفین کی سازش کی وجہ سے ہوا۔ یہ بالکل خلاف واقعہ بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہ لوگ خود اپنی اس غلطی کا شکار ہوئے کہ وہ بوجھے بغیر باجھ گئے، یعنی سوچے سمجھے بغیر اپنے آپ کو ایسے معاملات میں الجھا لیا، جس سے نپٹنے کی طاقت ان کے اندر نہ تھی۔
منصوبہ بندی اگر ٹکراؤ پرمبنی ہو، تو وہ نتیجہ خیز (result-oriented) منصوبہ بندی نہیں۔ کیوں کہ ایسی منصوبہ بندی میں بے فائدہ ٹکراؤ زیادہ ہوتا ہے، اور مطلوب نتیجہ بہت کم ۔ مطلوب نتیجہ جس میں ملحوظ رکھا گیاہو، وہ نتیجہ خیز منصوبہ بندی ہے، اور جو عملاً ردعمل (reaction) پر مبنی ہو، وہ حقیقی معنوں میں منصوبہ بندی نہیں۔ ایسی منصوبہ بندی رد عمل ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں عمل۔
بوجھ کے باجھے، باجھ کے نہ بوجھے کا مثل قدیم زمانے کے تجربات (experiences )پر قائم ہے۔ آج کی زبان میں اس کو کہنا ہو تو یہ کہیں گے کہ اقدام ہمیشہ منصوبہ بند اقدام ہونا چاہیے، نہ کہ بغیر منصوبہ کا اقدام۔ منصوبہ بند اقدام کیا ہے۔ وہ ہے اقدام سے پہلے تمام پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوچنا۔ ہر پہلو سے، خواہ وہ منفی ہو یا مثبت ،صورتِ حال کا جائزہ لینا، اور پھر غیر جذباتی انداز میں اپنے عمل کا نقشہ بنانا۔
منصوبہ بند اقدام کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ بطور ری ایکشن نہ ہو، بلکہ ری ایکشن کے بغیربے لاگ انداز میں سوچ کر بنایا گیا ہو۔ منصوبہ بند اقدام وہ ہے، جو حقیقی حالات کی روشنی میں بنایا جائے، نہ کہ جذباتی رد عمل کے اثر سے۔ منصوبہ بند اقدام وہ ہے، جو پریکٹکل وزڈم پر مبنی اقدام ہو۔ منصوبہ بند اقدام مبنی بر حقیقت اقدام کا دوسرانام ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنون درکار ہے

ایک سفر کے دوران میری ملاقات ایک ہندستانی نوجوان سے ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ میں آپ کا ماہ نامہ الرسالہ باقاعدہ پڑھتا ہوں۔ اُس سے مجھ کو زندگی کا نیا شعور ملا ہے۔ الرسالہ کے مطالعے سے میرے اندر یہ جذبہ پیدا ہوا کہ میں انگریزی زبان سیکھوں۔ چنانچہ میں نے انگریزی زبان سیکھنے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ میںاس مقصد کے لیے کون سی ڈکشنری استعمال کروں۔ میں نے جواب دیا— ڈکشنری آف جنون۔
یہ بات نہ صرف کسی نئی زبان کو سیکھنے کے لیے ضروری ہے، بلکہ وہ ایک عام فطری اصول ہے۔ کوئی بھی اعلیٰ مقصد مجنونانہ کوشش چاہتا ہے۔ مجنونانہ کوشش کے بغیر کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنا ممکن نہیں۔مجنونانہ کوشش کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مکمل طور پر مقصد کے حصول میںلگادے۔ وہ کسی بھی عذر (excuse) کو عذر نہ سمجھے، کوئی بھی چیز اُس کو اپنے طے شدہ راستے سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو۔ اُس کے دماغ میں اگر کوئی خیال ایسا آئے جو اس کے طے شدہ مقصد کے خلاف ہو، تو وہ اس کو لڑ کر اپنے ذہن سے نکال دے۔
کامیابی کا فارمولا صرف دو ہے— صحیح مقصد، اور اس مقصد کے لیے مسلسل جدوجہد۔ جو آدمی اِن شرطوں کو پورا کرے، وہ لازماً اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا۔ کامیابی کے سفر کا بنیادی فارمولا یہی ہے۔ دوسری چیزیں جومطلوب ہیں، وہ اپنے آپ اس میں شامل ہوتی جاتی ہیں۔
جنون کا مطلب ہے اپنے آپ کو اپنے مقصد کے لیے وقف (dedicate) کردینا۔ جو آدمی اپنے وقت اور اپنی توانائی کو مختلف کاموں میں تقسیم کیے ہوئے ہو، وہ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ بڑاکام لازمی طورپر ڈیڈی کیشن (dedication) چاہتا ہے، یعنی پوری یک سوئی کے ساتھ ایک متعین نشانے کے لیے جدوجہد۔ اِس یک سوئی میں دوسرے پہلوؤں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، لیکن اِسی برداشت میں بڑی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 271

■ یکم دسمبر کو بی بی سی پشتو کے افغانی نمائندہ مسٹر داؤد اعظمی (مقیم حال انگلینڈ)نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹر ویو کا موضوع تھا— افغانستان کے موجودہ حالات، اور صدر اسلامی مرکز کا افغانستان سے تعلق۔ انٹرویو کے اختتام پر مہمان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سٹ دیا گیا، جس کو انٹرویورنے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
■ سی پی ایس انٹرنیشنل (امریکا) کے نوجوان ممبر مسٹر اسد پرویز نے قرآن کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے کے لیے سی پی ایس کے تراجم قرآن پر مشتمل ایک ویب سائٹ (www.quranonline.org) لانچ کی ہے۔ وہ سی پی ایس انٹرنیشنل کی امریکی ٹیم کی مدد سے اس کو مزید آگے لے جارہے ہیں۔
■ سی پی ایس ٹیم کے مختلف ممبران قرآن کو زیادہ سے زیادہ انسانوں تک پہنچانے کے لیے طرح طرح سے کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ ہوٹل یا سوپر مارکیٹ ،وغیرہ، میں انتظامیہ کی اجازت لے کر وہاں ترجمۂ قرآن کی کاپیاں رکھوانا۔ مثلاً دہلی کے اندر ہوٹل القریش (الک نندا) میں قرآن کا اسٹینڈ لگا ہوا ہے، جہاں آنے والے لوگ قرآن کے ترجمے لے جاتے ہیں، اوربراہ راست طور پر خدا کا پیغام پڑھتے ہیں۔ امریکا میں اس دعوتی طریقے کا آغاز سی پی ایس دہلی کی بزرگ ممبر ڈاکٹر نجمہ صدیقی نے کیا ہے، جو حالیہ دنوں امریکا میں مقیم ہیں۔ انھوں نے امریکا کی میکسیکن سوپر مارکیٹ ، بریٹو میں انگریزی اور اسپینشن تراجم قرآن کا اسٹینڈ انتظامیہ کی اجازت سے لگوایا ہے۔ اطلاع کے مطابق،پہلا لوٹ (lot) بہت جلد ختم ہوگیا، اور سوپر مارکیٹ والوں نے دوبارہ قرآن پہنچانےکی درخواست کی ہے۔
■ ڈاکٹر رجت ملہوترا (ممبر سی پی ایس دہلی)نے از قرآن اونلی فار مسلم ؟ (Is Quran only for Muslims?) کے عنوان سے اپنی ایک ویڈیو تقریر ریکارڈ کی تھی۔یہ تقریر انٹرنیٹ پربہت زیادہ وائرل ہوئی۔ لوگوں نے امید سے زیادہ اس ویڈیو کو پسند کیا، اور جگہ جگہ سے مسلم و غیر مسلم نے ترجمہ قرآن کی ڈیمانڈکی، تاکہ وہ اس کو براہ راست طور پر پڑھ سکیں۔ مثلا ًجناب عبد الصمد صاحب (سی پی ایس، پونے) کی اطلاع کے مطابق، اس ویڈیو کو سننے کے بعدفوراً 7 لوگوں نے ان سے تراجم قرآن کی مانگ کی۔ اسی طرح مسز سارہ فاطمہ (سی پی ایس بنگلورو) نے بتایا کہ اس ویڈیو کے بعد قرآن کی کافی ڈیمانڈ بڑھی۔ان تمام لوگوں کو قرآن کا ترجمہ پہنچایا جارہا ہے۔

■جناب عبد الصمد صاحب پونے(موبائل نمبر 9665059035) الرسالہ کے بہت پرانے قاری ہیں۔ انھوںنے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ سی پی ایس مہاراشٹر کی جانب سے اب تک صدر اسلامی مرکز کی چھ کتابیں اور دو لیف لٹس مراٹھی زبان میں ترجمہ کرکے شائع کی گئی ہیں۔ وہ کتابیں یہ ہیں:(ریالٹی آف لائف، واٹ از اسلام، خاندانی زندگی،دلیلِ آخرت [مذہب اور جدید چیلنج کا ایک باب]، قرآن این ابائنڈنگ ونڈر، یکساں سول کوڈ، موت کی یاد [الرسالہ، نومبر 2016])، نیز واٹ از اسلام کو گجراتی زبان میں ترجمہ کرکے شائع کیا گیاہے۔اس کے بعد 14-24نومبر 2019 کو گجرات کےاحمد آباد میںایک بک فیر منعقد ہوا۔ اس میں عبد الصمد صاحب کی جانب سے تقریبا ً 1700 واٹ از اسلام (گجراتی) آنے والے لوگوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ تقسیم کا یہ کام گجرات کے داعیوں نے انجام دیا۔مذکورہ کتابوں کے لیے عبد الصمد صاحب سے ان کے نمبر پر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔

■طارق بدر صاحب ( لاہور، پاکستان) کی اطلاع کے مطابق، 5-9 دسمبر 2019 کو کراچی انٹرنیشنل بک فیر لگا تھا۔ سی پی ایس، پاکستان کی جانب سے کراچی انٹرنیشنل بک فیر میں شرکت کا یہ چھٹا سال تھا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہر آنے والا سال گزرے ہوئے سال سے بہتر ریزلٹ دے رہا ہے۔ لوگ بک فیر میں سی پی ایس اسٹال کو تلاش کرتے ہوئے آتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو ترغیب دے کر ہمارےاسٹال پر لاتے ہیں،یا بطور خود خرید کرانھیں تحفے میں دیتے ہیں۔ اس سال ایک نیا تجربہ یہ ہوا کہ مدرسہ کے اساتذہ، اور طلبا بڑی تعداد میں آئے۔نہ صرف یہ کہ وہ آئے، بلکہ اپنے ساتھ دو چار اور بھی طلبا کو لائے، تاکہ وہ ہماری کتابیں خریدیں۔ مدرسبہ کے طلبا کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے ان کو بطور خاص زیادہ ڈسکاؤنٹ پر کتابیں دی گئیں۔ انھوں نے بہت ہی دلچسپی سے ہماری کتابیں خریدیں۔ کچھ طلبا کو ہماری طرف سے فری میں بھی کتابیں دی گئیں۔ جو کتابیں ان کے درمیان مقبول ہوئیں، وہ یہ ہیں تذکیر القرآن، مسائل اجتہاد، مطالعہ سیرت، مذہب اور جدید چیلنج، مذہب اور سائنس، اسباقِ تاریخ، اور راز حیات، وغیرہ۔ سی پی ایس پاکستان نے تعمیر شخصیت پر معروف کتاب رازِ حیات کا اینڈرائیڈ ایپ تیار کیا ہے، جو گوگل پلے اسٹور پر موجود ہے(دیکھیے اسی شمارے کا صفحہ نمبر 44)، اور پاکستان میںسی پی ایس مشن کی کتابوں تک عام رسائی کے لیے سی پی ایس پاکستان نے ایک ویب سائٹ بھی شروع کیا ہے۔ اس کا ایڈریس یہ ہے
www.goodword.com.pk
■ صدر اسلامی مرکز کو اس وقت ساری دنیا میں انٹرنیٹ (سی پی ایس انٹرنیشنل ویب سائٹ، فیس بک، یوٹیوب، وغیرہ)کے ذریعے سنا اور پڑھا جاتا ہے۔ذیل میں آڈینس کے چند کمنٹس کا ذکر کیا جاتا ہے، جو انھوں نے صدر اسلامی مرکز کے فیس بک پیج (@maulanawkhan) پر لکھا ہے
Ø He is a wonderful person. Whoever follows him will definitely succeed in life. (Ms. Aayesha Yusra)
Ø A living saint and a completely peace loving person. A great human being who has helped people discover their Creator. He has not an iota of negative feelings against anyone.(Mr. Sahab Ali Khan)
Ø Maulana Sb is the only hope for Muslim Community. His thinking is based on the Quran and sunnah. Maulana always gives perfect solution for every matter. He is a really positive person. People must read his books. May God bless him. (Maulana Anas Malek Nadwi)
Ø If anyone has to learn the art of life, He must follow Maulana and read his books and literature. His immense knowledge, positive thinking, and real life management lessons help us. He is a big hope, not only for Muslims, but also for the whole of humanity. I strongly suggest all my friends to start following him.(Mr Aamir Mori)
واپس اوپر جائیں

Wednesday, 1 January 2020

Al Risala | January 2020 (الرسالہ،جنوری)

خصوصي شماره: ڈائری 1985سے انتخاب

001
میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا ایک مضمون لکھ رہا تھا۔ خیالات مسلسل دماغ میں امنڈ رہے تھے۔ وہ الفاظ کی صورت میں ڈھل کر قلم پر آرہے تھے ،اور کاغذ پر مرتسم (inscription)ہوتے چلے جارہے تھے۔
ایک لمحے کے لیے میرا ذہن اس طرف مڑ گیا کہ یہ سارا عمل کس طرح انجام پارہا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میرے بدن میں کپکپی طاری ہوگئی۔ ایک نفسیاتی دھماکے کے ساتھ میرا قلم رک گیا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو کیسی عجیب نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ مگر دنیا میں بہت کم لوگ ہیں، بلکہ شاید تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہوئے ہیں، جو واقعی معنوں میں اس کا احساس کریں، اور اس طرح شکر ادا کریں، جس طرح شکر ادا کرنے کا حق ہے۔
002
کارل ٹرول (1899-1975)ایک جرمن سائنٹسٹ اور جغرافیہ داںہیں۔وہ 1960 سے 1964 تک انٹرنیشنل جغرافیائی یونین (IGU)کے صدر رہے۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا— میری زندگی کا حاصل بحیثیت سائنٹسٹ اور جغرافیہ داں یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ خالق کا شکر گذار ہوگیا ہوں
“The fruit of my life as scientist and geographer is to have become more and more deeply grateful to our Creator.”
سائنس داںجب قدرت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے اندر قدرت کی عظمت کا بے پناہ احساس ابھرتا ہے۔ اس کا اندرونی وجود اُس ہستی کے آگے جھک جاتا ہے، جس نے اتنی با معنی کائنات بنائی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں خدا کے انکار کا ذہن سائنس دانوں نے نہیں بنایا۔ یہ دراصل کچھ ملحد فلاسفہ تھے، جنھوں نے سائنسی دریافتوں کو غلط رخ دے کر اس سے خود ساختہ طورپر انکارِ خدا کا مطلب پیدا کیا۔ حالاں کہ یہ سائنسی دریافتیں زیادہ درست طورپر اقرار ِخدا کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔اس کی ایک واضح مثال سر جیمز جینز کی کتاب پراسرار کائنات (The Mysterious Universe) ہے۔
003
شہد کے بارے میں مَیں نے ایک انگریزی مضمون پڑھا۔ اس میں دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی لکھا ہوا تھاکہ تقریباً 550 شہد کی مکھیاں مسلسل مشغول رہ کر تقریباً پچیس لاکھ پھولوں کا رس چوستی ہیں، تب ایک پاؤنڈ شہد تیار ہوتا ہے:
Some 550 busy bees have to dip their snouts into as many as 2.5 million flowers to make just one pound of honey.
شہد کی مکھی کے اندر بے شمار نشانیاں ہیں۔ مذکورہ واقعہ ان میں سے صرف ایک ہے۔ آدمی اگر اس پر غور کرے، تو وہ خالق کے کمالات کے احساس سے سرشار ہو جائے۔
004
نظامِ شمسی (solar system)وہ ہے، جس کے درمیان میںایک روشن ستارہ (سورج) ہو، اور اس روشن ستارے کے گرد غیر روشن سیارے مخصوص مدار میں گھوم رہے ہوں۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق، معلوم نظام شمسی ابھی تک صرف ایک ہے، جس میں ہماری زمین واقع ہے۔ تاہم علمائےفلکیات کا قیاس ہے کہ اس قسم کے مزید ایک ملین نظامِ شمسی کائنات میں ہوسکتے ہیں۔
کہکشاں(galaxy) اس مجموعہ کو کہتے ہیںجس میں روشن ستارے ایک خاص نظام کے اندر گردش کررہے ہیں۔ ہماری قریبی کہکشاں، جس کا نام ملکی وے (Milky Way) ہے، اورجورات کے وقت لمبی سفید دھاری کی شکل میں دکھائی دیتی ہے، اس کے اندر تقریباً ایک کھرب ستارے ہیں، اور ہمارا نظام شمسی اسی میں واقع ہے۔
سورج ہماری کہکشاں کی پلیٹ پر اپنے تمام سیاروں کو لیے ہوئے 175 میل فی سکنڈ کی رفتار سے گردش کررہا ہے۔ یہ کہکشاں اتنی وسیع ہے کہ سورج 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کے رفتار سے ایک چکر 24 کرور سال میں پورا کرتا ہے۔یعنی سورج کے اس تیز رفتار سفر کے باوجود کہکشاں کے مرکز کے گرد ایک چکر کو پورا کرنے میں ہمارے نظام شمسی کو 24 کرور سال لگ جاتے ہیں۔ اس قسم کی ایک بلین سے زیادہ کہکشائیں وسیع کائنات میں پائی جاتی ہیں، اور ہر کہکشاں کے اندر کئی بلین انتہائی بڑے بڑے ستارے موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہماری کہکشاںملکی وے میں 200 سے 400 ارب ستارے ہیں۔
کہکشاں کے اندر ستارے انتہائی بعید فاصلوں پر واقع ہیں۔ ہمارے سورج سے قریب ترین ستارے کی روشنی، جو ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ کی رفتار سے سفر کررہی ہو، زمین تک اس کو پہنچنے میں 4 سال سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔
اجرام سماوی کے اتنے بڑے نظام کو کیا چیز تھامے ہوئے ہے، فلکیات دانوں کے نزدیک وہ اجرام سماوی کی باہمی کشش ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ’’اجرام سماوی کی باہمی کشش‘‘ کے لفظ کی معنویت آدمی سمجھ لیتا ہے۔ مگر ’’خدا‘‘ کے لفظ کی معنویت اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔
005
قدیم زمانہ میں شرک اس طرح پیدا ہوا کہ لوگوں نے جس چیز کو بظاہر نمایاں دیکھا، اسی کو خدا سمجھ کر وہ اسے پوجنے لگے چاند سورج کی پرستش اسی طرح شروع ہوئی۔
اس اعتبار سے شرک، مظاہرِ کائنات کو سبب ِکائنات قرار دینے کا دوسرا نام ہے۔ مثلاً قدیم عرب میں شعریٰ کی پرستش ہوتی تھی، جس کا ذکر قرآن کی سورہ النجم (آیت 49) میں آیا ہے۔ شعریٰ (Sirius) دکھائی دینے والے ستاروں میں سب سے زیادہ روشن ستارہ ہے۔ وہ سورج سے 23 گنا زیادہ روشن ہے، اور شمسی نظام سے اس کا فاصلہ آٹھ نوری سال سے زیادہ ہے۔ Sirius کا لفظ اصلاً یونانی زبان سے آیا ۔ جس کے معنی چمک دار کے ہوتے ہیں۔
قدیم زمانہ میں مصر اور دوسرے مقامات پر شعریٰ کی پرستش کی جاتی تھی، اور زمین کی شادابی اور تجارتی سرگرمیاں اس سے منسوب کی جاتی تھیں۔ قدیم عرب کا ایک شاعر اپنے ممدوح کے بارے میں کہتا ہے— وہ گرمی پہنچانے والا ہےٹھنڈی میں، یہاںتک کہ جب شعریٰ (موسم بہار میں) طلوع ہوتا ہے، تو وہ (لوگوں کے لیے) ٹھنڈک اور سایہ بن جاتا ہے۔
شامس فی القر حتى إذا ما ذکت الشعرى فبرد وظل
میرا خیال ہے کہ قدیم شرک اور جدید الحاد دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہیں۔ شرک کیا ہے۔ شرک مظاہرِ فطرت کو سببِ فطرت سمجھ کر اس کو پوجنا ہے۔ اسی طرح الحاد بھی مظاہر فطرت کو سبب فطرت سمجھ کر اس کو برتر قرار دینا ہے۔ فرق یہ ہے کہ شرک نے جن مظاہر کو برتر سمجھا، وہ چاند، سورج، شعریٰ وغیرہ تھے۔ الحاد جس مظہرِ فطرت کو برتر قرار دے رہا ہے، وہ قانون فطرت (Law of Nature) ہے۔
006
عرب امارات کے ایک سفر میں میری ملاقات استاذ احمد العبّادی (شارجہ) سے ہوئی۔ یہ 21 رجب 1404 ھ کا واقعہ ہے۔ انھوںنے بتایا کہ فرانس کے ایک اسپتال کے ڈائرکٹر نے اعلان شائع کیا کہ اس کو طبی تحقیق کے سلسلہ میں کچھ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے درخواستیں بھیجیں، ان میں ایک نوجوان عرب بھی تھا۔ یہ مسلمان تھا مگر اسلام سے اس کو زیادہ دلچسپی نہ تھی۔انٹرویو کے دوران ڈائرکٹر نے پوچھا کہ تم مسلمان ہو، تمھاری رائے محمد کے بارے میں کیا ہے۔ نوجوان عرب نے جواب دیا: وہ قدیم عرب کے ایک بدو تھے، انھوںنے کچھ بدوؤں کو بے وقوف بنا کر اپنے گرد جمع کرلیا۔
نوجوان کا یہ جواب سن کر مذکورہ فرانسیسی ڈائرکٹر اس کو ایک مخصوص کمرے میں لے گیا۔ وہاں ایک بورڈ پر یہ حدیث لکھی ہوئی تھی:
عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا مَلَأَ آدَمِیٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ. بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُکُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہُ، فَإِنْ کَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِہِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2380، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3349، مسند احمد، حدیث نمبر 17186) ۔ یعنی مقدام بن معددی کرب سے روایت ہے ، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنا، آپ کہتے ہیں کہ کسی انسان نے پیٹ سے زیادہ نقصان پہنچانے والا کوئی برتن نہیں بھرا، انسان کے لیے اتنے لقمے کافی ہیں کہ وہ اپنی پیٹھ کو سیدھا کرسکے، اگر اور ضرورت ہے، تو ایک تہائی اس کےکھانے کے لیے ہو ، اورایک تہائی اس کےپانی کے لیے ہو،اور ایک تہائی اس کی سانس کے لیے ۔
فرانسیسی ڈائرکٹر نے مذکورہ عرب نوجوان کو یہ حدیث دکھائی، اور کہا کہ میں نے اس حدیث رسول سے دس سے زیادہ طبی اصول اخذ کیے ہیں، اور میری ریسرچ ابھی جاری ہے۔ لہذا جاہل اور گنوار تم ہو ،نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اور پھر اس طالب علم کو اپنے ادارہ میں لینے سے انکار کردیا۔
007
قرآن میں سورہ الذاریات کی ایک آیت یہ ہے: وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (51:47)۔ اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے: اور ہم نے آسمان کو بنایا ہاتھ سے اور ہم یقینا ًپھیلانے والے ہیں۔
قدیم مترجمین کی سمجھ میں پھیلانے والے کی معنویت نہ آسکی، اس لیے انھوں نے لموسعون کا ترجمہ حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے:
وہر آئینہ ما توانائیم
اور ہم کو سب مقدور ہے
اور ہم وسیع القدرت ہیں
اور بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں
اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔ وغیرہ۔
خالص لفظی اعتبار سے یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔ کیوںکہ لفظی ترجمہ یہ ہے کہ’’ ہم کشادہ کرنے والے ہیں‘‘ یا ’’ہم پھیلانے والے ہیں‘‘۔
ترجمہ کے اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات(expanding universe) ہے۔ انسانی علم کی محدودیت اس کو نہ پاسکی۔ مگر قرآن کے مصنف کو یہ حقیقت اس وقت بھی معلوم تھی کہ جب کہ ساری دنیا میں کوئی ایک شخص بھی اس کو نہیں جانتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اس حقیقت کی رعایت کرتے ہوئے موسعون(ہم پھیلانے والے ہیں) کے لفظ کا انتخاب فرمایا۔
قرآن میںاس طرح کے کثیر شواہد ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن عالم الغیب کا کلام ہے، محدود ذہن رکھنے والا انسان ایسا کلام پیش کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا۔
008
مذہب کیا ہے، اس کی تعریف میںعلم الانسان کے علماء (anthropologist) کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تاہم ان کی اکثریت نے عملی ضرورت (working purpose) کے لیے اس پر اتفاق کرلیا ہے کہ —مذہب ما فوق الفطری قوتوں میں عقیدہ رکھنے کا نام ہے:
The belief in power or powers superior to man
دنیا کی تاریخ کے بالکل ابتدائی دنوں سے انسان کسی نہ کسی شکل میںایک مذہبی مخلوق رہا ہے۔ تقریباً بلا اختلاف وہ ایک خدا رکھتا تھا یا کئی خدا۔ جس کی طرف وہ حفاظت اور پناہ کے لیے دیکھ سکے۔ کبھی یہ خدا لکڑی کے بنے ہوئے ہوتے تھے، کبھی پتھر کے ، کبھی جانوروں اور سانپوں کوخدا سمجھ لیاگیا۔ مگر بہر حال وہ انسان کی نظر میں خدا تھے۔ اس لیے انسان ضروری سمجھتا تھا کہ وہ ان کی پوجا کرے۔کیوں کہ مذہب ایک فوق الفطری طاقت کی پرستش کی صورت میںانسانی فطرت کے ڈھانچے میں مکمل طورپر پیوست ہے:
Man has worshipped them, because religion, as represented in the worship of a supernatural power, is interwoven with entire fabric of human nature. (Encyclopaedia Americana 1961, V. XXIII, p. 354)
009
موجودہ زمانہ میں مفکرینِ قانون کی بڑی تعداد تشکیک کی شکار ہے۔ مثال کے طورپر گسٹاؤ ریڈ برش (Gustav Radbruch [1878-1949]) اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ مطلق قانون قابلِ دریافت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قابلِ مظاہرہ نہیں:
Absolute judgments about law are not discoverable, that is to say, not demonstrable.
یہ نظریۂ قانون کانٹ کے فلسفہ سے نکلا ہے۔ کانٹ نے دکھایا ہے کہ ہم صرف جان سکتے ہیں کہ ’’کیا ہے‘‘، ہم ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کو دریافت نہیں کرسکتے۔ چنانچہ گسٹاؤ ریڈبرش کا کہنا ہے کہ مطلوبہ قانون بذریعہ اعتراف(confession)اختیار کیا جاسکتا ہے، نہ ;کہ اس لیے کہ وہ علمی طورپر معلوم (scientifically known) ہے۔ موجودہ زمانہ میں قانون ، زبردست کوشش کے باوجود قانون کے معیار (legal norms) کی تلاش میںناکام ہوچکا ہے۔
010
اسلام پر روایتی عقیدہ کافی نہیں۔ اسلامی تعلیمات کو جب آپ روایتی الفاظ میں بیان کرتے ہیں، تو وہ صرف روایتی عقیدہ کے طورپر ذہن میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب اس کو وقت کی زبان میں بیان کیا جائے تو وہ سننے والے کی نفسیات کا جزء بن جاتا ہے۔ ایک ناقابلِ فہم منتر آپ کسی کو یاد کراسکتے ہیں، مگر ایسا منتر آدمی کی نفسیات میں شامل نہیں ہوگا۔ وہ بس اوپر اوپر رہے گا، اور کوئی عقیدہ جب تک نفسیات میں شامل نہ ہو ،وہ آدمی کے اندرون کو نہیں جگاتا، وہ اس کی قوت محرکہ نہیں بنتی۔
اسلامی تعلیمات کو وقت کے اسلوب میں بیان کرنے کی چند مثالیں یہ ہیں۔مثلاً سورہ عنکبوت (آیت 2)میں ہے کہ خدا صرف آمنّا (ہم ایمان لے آئے) کہنے پر آدمی کو نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ وہ اس کی آزمائش کرتا ہے۔ اگر آپ آیت کا صرف ترجمہ کردیں، تو وہ جدید ذہن کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ مگر جب آپ اس کو ان الفاظ میں بیان کریں ;کہ آدمی نارمل (normal)حالات میں جو کچھ کرتاہے، اس پر اللہ کے یہاں فیصلہ نہیں ہوگا، بلکہ اس عمل پر ہوگاجو وہ ابنارمل (abnormal) حالات میں کرتا ہے، تو وہ فوراً جدید انسان کی سمجھ میں آجاتا ہے۔
اسی طرح قرآن میں ہے فَأُولَئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ (25:70)۔ یعنی اللہ اُنکی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا۔ اس کی تشریح آپ ان لفظوں میں کریں کہ خدا آدمی کے ڈس ایڈوانٹج کو ایڈوانٹج میںتبدیل کردیتا ہے۔ یہ تشریح بآسانی جدید ذہن کے لیے قابلِ فہم ہوجائے گی۔اسی طرح عورت اور مرد کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ(3:195) ۔یعنی تم سب ایک دوسرے سے ہو۔ اگر اس کی وضاحت آپ ان الفاظ میں کریں تو آج کا انسان فوراً اس کی حقیقت کو پالے گا کہ اسلام کے نزدیک عورت اور مرد ایک دوسرے کا تکملہ (supplement)ہیں، نہ کہ ایک دوسرے کا مثنیٰ (counterpart)۔
011
مولانا اسعد اسرائیلی سنبھل کے رہنے والے ہیں۔ ایک مرتبہ ان سے ملاقات ہوئی، اور دورانِ گفتگو ہندستان کے فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر ہوا۔ وہ الرسالہ کے اس نقطۂ نظر سے متفق ہیں کہ یہ فسادات داعی اور مدعو کے رشتہ کو مجروح کرتے ہیں۔ انھوںنے کہا:
’’فرقہ وارانہ فسادات میںمسلمان نہیں مرتے، جو چیز مرتی ہے، وہ دعوتِ حق کا امکان ہوتا ہے‘‘۔
ہندستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو جھگڑا ہے، اس میں مسلمان صرف اپنے مادی نقصانات کا رونا روتے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ان جھگڑوں کی وجہ سے دونوں قوموں کے درمیان معتدل فضا ختم ہوگئی ہے، اور معتدل فضا کے بغیر دعوتی عمل ممکن نہیں۔
اگر مسلمانوں کے اندر دعوت کا درد ہو، تو وہ ہندوؤں سے اپنے تمام مادی جھگڑے یک طرفہ طورپر ختم کردیں گے۔ وہ اپنے اور ہندوؤں کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ بحال کرنے کے لیے ہرقربانی کو آسان سمجھیں گے۔
012
مسلمان ساری دنیا میںوَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ (البقرۃ، 2:61)کا مصداق ہورہے ہیں۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے اورڈال دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی۔کوئی کوشش اور کوئی تدبیر ان کو اس حالت سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہورہی ہے۔ شاید یہ امت اس سنت الٰہی کی زد میں آگئی ہے، جس میں اس سے پہلے یہود آئے تھے۔ یہود اس لیے مغضوب ہوئے کہ کتاب الٰہی کے حامل ہونے کے باوجود، انھوںنے حق کی گواہی نہیں دی۔ انھوں نے اس کا کتمان کیا۔ مسلمانوں کا حال بھی اب یہی ہورہا ہے۔ ان کو خدا کی آخری وحی دی گئی تھی، اور حکم ہوا تھا کہ جس طرح رسول نے اس امانت کو تمھارے پاس پہنچایا ہے، اسی طرح تم قیامت تک اس کو تمام قوموں تک پہنچاتے رہو۔ مگر امت نے صدیوں سے اپنی اس ذمہ داری کو چھوڑ رکھا ہے۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی ذلت اور مسکنت کا سبب یہی ہے۔ ان کو ذلت اور مسکنت سے نکالنے کی واحد تدبیر یہ ہے کہ ان کو دوبارہ داعی گروہ کی حیثیت سے اٹھایا جائے، اور حق کا پیغام تمام بندگان خدا تک ان کی اپنی قابلِ فہم زبان میں پہنچایا جائے۔ یہی واحد عمل ہے، جو مسلمانوں کو دوبارہ نصرتِ الٰہی کا مستحق بنا سکتا ہے، اور ان کو دنیا اور آخرت میں سرفراز کرسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلِ خاص سے آج ہمارے لیے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ پچھلے تمام زمانوں سے زیادہ موثر شکل میں اس مہم کوانجام دیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف پٹرو ڈالر کے خزائن نے مسلمانوں کو اس پوزیشن میں کردیا ہے کہ وہ اس کام کو اعلیٰ ترین سطح پر کرنے کی بڑی سے بڑی قیمت دے سکیں۔ دوسری طرف جدید دریافتوں نے حیرت انگیز طورپر اسلام کے ان تمام معتقدات کے لیے خالص سائنسی دلائل فراہم کردیے ہیں، جن پر پچھلے زمانوں میں صرف قیاسی بحثیں کی جاسکتی تھیں۔ اگر ان دونوں امکانات کو دعوتِ حق کی مہم میں استعمال کیا جائے، تو اظہار دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے خواب کو عالمی سطح پر ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
013
تامل ناڈو کے علاقہ میں بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔وہاں کے ایک نومسلم سے پوچھا گیا کہ آپ اپنے اور عام مسلمانوں کے درمیان کس قسم کا فرق پاتے ہیں۔ مذکورہ نومسلم نے جواب دیا کہ وہ (پیدائشی) اتفاق کی بنا پر مسلمان ہیں، مگر ہم نے اپنے ارادہ سے اسلام کو اختیار کیا ہے:
They are Muslims by chance, but we are Muslims by choice.
یہ فرق کوئی معمولی فرق نہیں۔ یہ فرق آدمی کے کردار میں زبردست فرق پیدا کرتا ہے۔ جن لوگوں کو اسلام محض پیدائشی طورپر مل جائے، ان کے اندر کوئی اسلامی حرارت نہیں ہوتی۔ وہ اسلام کے نام پر دوسروں کے خلاف جھوٹے ہنگامے کرسکتے ہیں، مگر خود ان کے اپنے اندر اسلام ایک انقلاب کے طورپر داخل نہیں ہوتا۔
مگر جو شخص اسلام کو خود اپنے انتخاب سے اختیار کرے، اس کے لیے اسلام ایک ذہنی انقلاب کے ہم معنی ہوتا ہے۔ وہ اس کی اندرونی شخصیت میں بھونچال کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے ہی افراد دراصل وہ لوگ ہیں، جو تاریخ بناتے ہیں۔
014
اسلام کی بہت سی خصوصیات ہیں جو مسلمانوں کو معمولی سی لگتی ہیں۔ مگر غیر مسلم ان خصوصیات کو بڑے اچنبھے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
مثلاً اسلام میں ایک شخص بلا واسطہ خدا کی عبادت کرسکتا ہے۔ ہم چوں کہ روزانہ مسجد میں جاکر نماز پڑھتے ہیں، ہمیں اس کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر ایک غیر مسلم جب دیکھتا ہے کہ نماز کا وقت آیا، اور مسلمان نے خدا کی طرف رخ کرکے اپنی عبادت شروع کردی۔ وہ کسی واسطہ کے بغیر براہِ راست اپنے خدا سے مربوط ہوگیا، تو اس کو یہ بات بہت زیادہ اسٹرائک(strike) کرتی ہے۔
اسی طرح اسلام میں ہر حکم کے ساتھ رعایتی دفعہ بھی شامل ہے۔ مثلاً وضو نہ کرسکوتو تیمم کرلو۔ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مشکل ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھ لو، وغیرہ۔ اسی قسم کی چیز ان لوگوں کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں جنھوںنے دوسرے مذاہب کے ماحول میں پرور ش پائی ہے۔ کیوںکہ دوسرے مذاہب میں صرف ’’عزیمت‘‘ کے احکام ہیں، ان کے ہاں ’’رخصت‘‘ کے احکام نہیں۔
اسی طرح دوسرے مذاہب میںعبادتی مراسم (rituals) کی بھر مار ہے۔ ان مراسم میں معمولی فرق کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی کی عبادت ہی ادا نہیں ہوئی۔
اس قسم کی سادگی جو اسلام میں ہے ،وہ اس کے لیے ایک زبردست تبلیغی قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ دور اول میں اسلام جو اتنی زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلا، اس کی کم از کم ایک وجہ یہی تھی۔ دوسرے مذاہب میں لوگ اصراور اغلال کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ اسلام نے ان کو سیدھا سادھا فطری مذہب پیش کیا۔ وہ فوراً اس کی طرف دوڑ پڑے۔
بد قسمتی سے بعد کے دور میں مسلمانوں نے بزعم خود اسلام کی تعلیمات کو مفصل اور جامع بنانے کے لیےاس میںاضافے شروع کیے۔ فقہی اضافے، کلامی اضافے، اعتقادی اضافے اور متصوفانہ اضافے۔ ان اضافوں نے اسلام کے اوپر ایک مصنوعی پردہ ڈال کر اس کو اس کی فطری کشش سے محروم کردیا۔
015
عام طوپر لوگوں کا حال یہ ہے کہ کسی شخص کے اندر کوئی خرابی کی بات دیکھتے ہیں، تو وہ غیرجانب دار (indifferent) ہوجاتے ہیں۔ لوگ صرف اپنے بچوں کی خرابیوں کی اصلاح کے معاملہ میں سنجیدہ ہوتے ہیں، دوسروں کی خرابیوں کی اصلاح سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ میری مراد یہاںانفرادی اصلاح سے ہے۔ کیوں کہ میں اجتماعی اصلاح کے نام پر اٹھنے کو لیڈری سمجھتاہوں، نہ کہ حقیقۃً اصلاحی کام۔
مگر میرا حال یہ ہے کہ میںکسی فرد کے اندر کوئی خرابی دیکھتا ہوں، توفوراً دل بے چین ہوجاتا ہے۔مثلاً 23 ستمبر 1978 کا واقعہ ہے۔ میرے یہاںمسلم اسکالر آئے۔ وہ سگریٹ پر سگریٹ پی رہے تھے۔میں نے انھیں سمجھا بجھا کر آمادہ کیا کہ وہ سگریٹ چھوڑ دیں۔ چنانچہ انھوںنے سگریٹ پھینک دی، اور میری ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:
آج بتاریخ 23 ستمبر 1978 سے میںنے سگریٹ چھوڑ دی۔ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے اس عہد پر قائم رکھے۔‘‘
اسی طرح حفظ الرحمن عظیم قاسمی 19 نومبر 1978کو میرے دفتر میں آئے۔ ان کے ساتھی نے بتایا کہ وہ ہر شخص کی تقریر کو دہرا سکتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے قاری طیب صاحب، مولانا انظر شاہ صاحب کی تقریروںکو بالکل انھیں کی آواز میں دہرادیا۔ تاہم مجھے اس سے خوشی نہیں ہوئی۔ میں نے کہا کہ جب آپ کا حافظہ اتنا غیر معمولی ہے، تو آپ اس کو نقل کے بجائے کسی زیادہ بہتر کام میںاستعمال کریں۔ مثلاً آپ انگریزی پڑھیں۔ اچھا حافظہ ہونے کی وجہ سے آپ بہت آسانی سے نئی زبان سیکھ سکتے ہیں۔ انھوںنے اتفاق کیا اور میری ڈائری پر یہ الفاظ لکھے:
’’میں اللہ کو گواہ بنا کر یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے بعد کسی کی تقریر نہیںدہراؤں گا، ان شاء اللہ۔‘‘
016
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عائشہ نے فرمایا کہ لوگوں نے آپ کو روند ڈالا تھا (حَطَمَہُ النَّاسُ)صحیح مسلم، حدیث نمبر 732۔ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ کی کیا مصلحت ہے،مگر میرے جیسے کمزور آدمی کے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ لوگوں نے مجھ کو اتنا زیادہ ستایا ہے کہ اس کے لیے انسانی زبان میں سب سے موزوں لفظ یہی ہے — لوگوں نے مجھ کو روند ڈالا۔
پھر بھی میں زندہ ہوں ۔ اپنے حال پر مجھے ایک قصہ یاد آتاہے۔ ایک رسالہ نے ایک بار ایک انعامی سوال نامہ چھاپا۔ سوال یہ تھا کہ ایک عورت کی شادی ایک مردسے ہوئی۔ عورت اس مرد کو بہت زیادہ چاہتی تھی۔ مگر شادی کے جلد ہی بعد مرد کا انتقال ہوگیا اور اس نے ایک چھوٹا بچہ چھوڑا ۔ سوال نامہ میں پوچھا گیا تھا کہ بتاؤ کہ یہ عورت اپنے محبوب شوہر کے مرنے کے بعد خود بھی مرجانا چاہے گی یا زندہ رہنا پسند کرے گی۔بہت سے لوگوں نے اپنے جوابات بھیجے۔ جس آدمی کو انعام ملا، وہ شخص وہ تھا جس نے لکھا کہ وہ عورت اپنے بچے کی خاطر زندہ رہنا چاہے گی۔
ایسا ہی کچھ میرا حال بھی ہے۔ لوگوں نے مجھے جس قدر ستایا ہے، اور ستارہے ہیں ،اس کے بعد مجھے ایک دن کے لیے بھی زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا۔ مگر میرے سامنے جو دینی کام ہے وہی وہ چیز ہے جو مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے۔
میں قرآن کی تفسیر مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ میں سیرت پر ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ کئی ضروری موضوعات پر دینی کتابیں تیار کرنا ہے۔ یہی پیش نظر کام ہے، جو مجھے زندہ رہنے پر مجبور کرتاہے۔
شاید اللہ تعالیٰ کو بھی منظو رہے کہ میں یہ کام کروں۔ ورنہ لوگوں نے جتنا زیادہ مجھے پریشانی میں مبتلا کیا ہے ،اس کے بعد میری راتوں کی نیند اڑ جانی چاہیے تھی۔ مگر یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ میرے ہوش پوری طرح باقی ہیں۔ رات کو مجھے وہ نیند آتی ہے جس کو sound sleep کہاجاتا ہے۔ اگر میری نیند خدا نخواستہ اڑ جاتی، تو اس کے بعد میںکوئی بھی علمی کام نہیں کرسکتاتھا۔یا اللہ، مجھے بخش دیجیے، دنیا کا ستایا ہوا ،آخرت میں نہ ستایا جائے۔
017
پاکستان کے سفر میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی۔ یہ ایک مشہور شخصیت ہیں، اور پاکستان میں ’’غلبۂ اسلام‘‘ کی تحریک چلا رہے ہیں۔ میںنے ان سے پوچھا کہ پاکستان میں غیر مسلم (ہندو اور عیسائی) قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں۔ کیا ان کے درمیان کوئی تبلیغِ اسلام کی تحریک چل رہی ہے۔ میرا یہ سوال سن کر وہ مسکرائے اور پھر کہا: یہاں غیر مسلموں کی فکر کون کرتا ہے۔
مجھے ان کے اس جواب سے بہت دھکا لگا۔ میرے لیے یہ تجربہ بڑا اندوہ ناک تھا کہ جو لوگ غلبۂ اسلام کی باتیں کرتے ہیں، ان کو صرف اسلام کے سیاسی غلبہ سے دلچسپی ہے۔ خدا کے بندوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی انھیں کوئی فکر نہیں۔میرا قطعی یقین ہے کہ غلبہ اسلام کی بات کو اگر دعوت اسلام سے الگ کردیا جائے تو وہ صرف ایک قومی نعرہ بن جاتا ہے۔ دعوت اسلام سے الگ کرنے کے بعد غلبۂ اسلام کے نعرے کی کوئی حقیقت نہیں۔
اس قسم کی تحریک عین وہی ہے، جو یہودیوں کے اندر چل رہی ہے۔ یہودیوں کی تحریک صہیونیت (Zionism) گویا حضرت موسی کے دین سے ہدایت کو الگ کرکے صرف سیاست کو لے لینا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں میں جو لوگ حقیقی معنوں میں دعوتی جذبہ نہیں رکھتے، البتہ غلبہ اسلام کے موضوع پر پرجوش تقریریں کرتے ہیں، وہ درحقیقت قومی دین پر ہیں ،نہ کہ خدائی دین پر۔ انھوں نے دین کے دعوتی حصہ کو الگ کرکے اس کے سیاسی حصہ کو لے رکھا ہے، اور یہ عین وہی چیز ہے جو یہودیوں کے یہاں پائی جاتی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ یہودی اپنی روایات میں بولتے ہیں، اور مسلمان اپنی روایات میں۔
جو مسلمان غلبۂ اسلام کے علم بردار ہیں، وہ بظاہر دعوت کا لفظ بھی بولتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی تحریک کے تین مرحلے ہیں— دعوت، ہجرت، جہاد۔ مگر دعوت سے ان کی مراد اپنے سیاسی اسلام کے لیے فضا تیار کرنا ہے، نہ کہ اللہ کے بندوں کو جہنم سے نکال کر جنت کے راستہ پر ڈالنا۔
018
مسلمان واحد قوم ہیں جنھوں نے بحیثیتِ قوم آج کی دنیامیں سب سے بڑی اقتصادی قربانی دی ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مسلمان آج اقتصادیات میں سب سے پیچھے ہیں۔ جب کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ سے پہلے وہ ساری دنیا میں اقتصادی اعتبار سے سب سے آگے تھے۔ اس کی وجہ ان کی بے خبری نہیں، جیسا کہ عام طورپر سمجھا جاتا ہے، بلکہ بربنائے عقیدہ ان کی قربانی ہے۔ مسلمان آخر چاند سے تو نہیں آئے، وہ بھی انھیں قوموں سے نکل کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ دوسری قومیں جس جدید اقتصادی تبدیلی کو سمجھ کر اس پر چل پڑیں، مسلمان اس پر نہیں چلے۔ اس کی وجہ سود ہے۔ جدید اقتصادیات تمام کی تمام سود پر مبنی ہیں۔ مسلمان سود کی حرمت کی وجہ سے اس سے الگ رہے۔ اور اس کے نتیجے میں اقتصادی اعتبار سے وہ ساری قوموں میں سب سے پیچھے ہوگئے۔
سودی اقتصادیات نے آج ساری دنیا کو تباہ کررکھا ہے۔ مسلمانوں کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ دنیا کے سامنے غیر سودی نظام کی تبلیغ کرتے۔ اگر وہ صحیح معنوں میں ایسا کرتے تو وہ جدید دنیا کے امام بن سکتے تھے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس معاملہ کا نقصان تو ان کے حصے میںآیا، مگر اس کا فائدہ ان کے حصے میںنہ آسکا۔
موجودہ زمانہ کی دو بنیادی خرابیاں ہیں جنھوں نے ساری انسانیت کو تباہ کر رکھا ہے۔ ایک سودی معاشیات، دوسرے آزادانہ جنسی اختلاط۔ ان دونوں چیزوں کے بار ے میں دوسرے مذاہب کے پاس واضح اصول نہیں۔ تحریف (distortion)نے ان کی تعلیمات میں صحیح اور غلط کی آمیزش کررکھی ہے۔ آج صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے، جس میںان امور کے بارے میں واضح احکام موجود ہیں۔ ان کو لے کر دنیا کے سامنے کھڑا ہونے کے لیے دعوتی ذہن اور علم درکار ہے، اور یہی دونوں چیزیں ہیں جو مسلمانوں کے پاس موجود نہیں۔
019
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ الرسالہ کے پرانے قاری ہیں۔ میں نے الرسالہ کے بارے میں ان کا تاثر پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ میں سب سے پہلے سفر نامہ پڑھتا ہوں۔ آپ کا سفر نامہ بہت دل چسپ ہوتا ہے۔
اس قسم کا تبصرہ ذاتی طورپر مجھے پسند نہیں۔ کیوں کہ الرسالہ ذہنی تفریح کے لیے نہیں نکالا گیا ہے کہ لوگ اس کو دلچسپی کے لیے پڑھ لیا کریں۔چنانچہ موصوف کی زبان سے یہ جملہ سن کر مجھے سخت ناگواری ہوئی۔ مگر میں نے ناگواری کو برداشت کیا، اور اس کا اثر اپنی گفتگو یا ظاہری رویہ میں آنے نہیں دیا۔اس کے بعد انھوںنے مزید اپنے تاثرات بیان کیے۔ الرسالہ کے بارے میں بھی اور مکتبہ الرسالہ کی مطبوعات کے بارے میں بھی۔ ان کی مزید گفتگو سننے کے بعد اندازہ ہوا کہ ان کے بارے میں میرا وہ تاثر صحیح نہ تھا، جو ان کے ابتدائی فقرہ کو سن کر ہوا تھا۔ وہ الرسالہ کو محض ’’دلچسپی‘‘ کے لیے نہیں پڑھتے۔ بلکہ وہ ان کے دل میں اترچکا ہے، اور وہ اس کو اپنے حلقہ میں پھیلانے کی بھی برابر کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اس سے میں نے یہ سبق لیا کہ آدمی کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں ایک بات یہ ہے کہ بیشتر آدمی یہ نہیں جانتے کہ کسی بات کو کہنے کے لیے موزوں ترین لفظ کیا ہے۔ وہ اکثر ایک موزوں بات کو غیر موزوں الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے غیر ضروری قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ہم کو چاہیے کہ ہم آدمی کو زیادہ سے زیادہ رعایت دیں۔ اجتماعی زندگی کوفساد سے بچانے کا یہی واحد کامیاب طریقہ ہے۔
020
قرآن کی سورہ المؤمن میں ان لوگوں کا ذکر ہے، جن کے لیے آخرت میں سزا کا فیصلہ ہوگا۔ ان کے اس برے انجام کی وجہ بتاتے ہوئے آیا ہے : ذَلِکُمْ بِأَنَّہُ إِذَا دُعِیَ اللَّہُ وَحْدَہُ کَفَرْتُمْ وَإِنْ یُشْرَکْ بِہِ تُؤْمِنُوا (40:12)۔ یعنی یہ تم پر اس لیے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے، اور جب اس کے ساتھ شریک کیا جاتا تو تم مان لیتے۔
یہی موجودہ دنیا میںانسان کی اصل گمراہی ہے۔ انسان کبھی ایسا نہیں کرتا کہ وہ مکمل طور پر ناحق کا علم بردار بن جائے۔ وہ ہمیشہ ایسا کرتا ہے کہ حق کے ساتھ ناحق کو ملا تا ہے،اور ملاوٹی حق کو اختیار کرتا ہے۔ اس کے مقابلےمیں پیغمبروں کی دعوت بے آمیز حق کی دعوت ہوتی ہے۔ پیغمبراور غیرپیغمبر کی دعوت میں خالص منطقی اعتبار سے، حق اور ناحق کا فرق نہیں ہے۔ بلکہ بے آمیز حق اور آمیزش والے حق کا فرق ہے۔ یہی فرق ایک گروہ کو قابل انعام بناتا ہے، اور دوسرے گروہ کو قابل سزا۔
ملاوٹی حق سے انسان کو اتنی زیادہ دلچسپی کیوں ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے، اوروہ یہ کہ اس طریقہ کو استعمال کرنے میں آدمی کے اپنے جھوٹے دین کی نفی نہیں ہوتی۔ وہ خدا کو مانتے ہوئے بتوںکی پرستش کو بھی جاری رکھ سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ملاوٹی حق کو پیش کریں، وہ فوراً عوام کے اندر مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کی باتوں میں ہر ایک اپنا recognitionپالیتا ہے۔ ایسے لوگ ایک طرف اصول پرستی کی باتیں کرتے ہیں، اور دوسری طرف مفاد پرستی کی۔ ایک طرف وہ آفاقیت کا قصیدہ پڑھتے ہیں، اور دوسری طرف قوم پرستی کا ترانہ گاتے ہیں۔ وہ ایک طرف آخرت کا نام لیتے ہیں اور دوسری طرف دنیوی جھگڑوں میں بھی لوگوں کے ساتھ شریک رہتے ہیں۔
پیغمبر کی دعوت کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ہر ایک اپنی نفی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ’’مشرک‘‘ لیڈر کو ماننے میں کسی کو اپنی نفی نظر نہیں آتی۔ اس میں کسی کو اپنی جگہ سے ہٹنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ہر آدمی جہاں ہے، وہیں وہ اپنے مفروضہ حق کو بھی پالیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرک کے ساتھ بھیڑ جمع ہوجاتی ہے، اور موحد اس دنیا میں اکیلا رہ جاتاہے۔
021
ایک شریر آدمی نے موقع پاکر ایک بزرگ کے مکان پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد اس نے مزید یہ کیا کہ بزرگ کے اوپر جھوٹے مقدمے قائم کردیے تاکہ وہ دباؤ میں آکر اس کے ناجائز قبضہ کو مان لیں۔ عدالت کی پیشیاں ہونے لگیں، اور بزرگ کی توجہ اور پیسہ غیر ضروری طورپر اس میں ضائع ہونے لگے۔ تاہم بزرگ اس سے پریشان نہیں ہوئے۔ مذکورہ شخص سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا:
یاد رکھو، آخری پیشی خدا کے یہاں ہونے والی ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کا حال یہ ہے کہ وہ جھوٹی تدبیر یں کرکے دوسرے کے مال پر قبضہ کرتا ہے اور پھر فتح کا قہقہہ لگاتا ہے۔ وہ فرضی کارروائیاں کرکے دوسرے کی جائداد کو اپنے نام لکھوالیتا ہے اور پھر اپنے دوستوں میں اس کا تذکرہ اس طرح کرتا ہے گویا اس نے کوئی بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
مگر اس قسم کی فتوحات اور کامیابی جھوٹی فتوحات اور کامیابیاں ہیں۔ وہ خدا کے یہاں پیشی کے وقت اتنی بے معنی ثابت ہوں گی کہ آدمی کے پاس الفاظ بھی نہ ہوں گے کہ وہ اپنی حمایت میں کچھ بول سکے۔ وہ وہاں خود ہی اپنے جرم کا اعتراف کرے گا۔ اگر چہ اس وقت اعتراف کرنا، اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔
022
ضمام بن ثعلبہ ایک صحابی ہیں۔وہ اپنے قبیلہ سعد بن بکر کی طرف سے نمائندہ بن کر مدینہ آئے، اور اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد وہ اسلام کے داعی بن کر اپنے قبیلہ کی طرف لوٹے۔ قبیلہ میں پہنچ کر انھوںنے پہلی بات جو کہی وہ یہ تھی: کتنے برے ہیں، یہ لات اور عزی، جن کی تم پرستش کرتے ہو۔ قبیلہ کے اندر لات اور عزی کی عظمت بیٹھی ہوئی تھی، انھوں نے کہا ضمام چپ رہو، لات اور عزی کو اس طرح برا مت کہو۔ اس سے ڈرو کہ تم کو برص ہوجائے، تم کو جذام ہوجائے، تم کو جنون ہوجائے۔ ضمام نے کہا خدا کی قسم یہ لات اور عزی نہ ہمارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں، اور نہ ہم کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے (سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 574)۔
لات اور عزی بظاہر پتھر کے بت تھے۔ پھر قوم کے لوگوں نے ایسی بات کیوں کہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پتھر کے مجسمے حقیقۃً ان کے قدیم بزرگوں کے مجسمے تھے۔ ان پـتھروں کے ذریعہ وہ اپنے بزرگوں کو پوج رہے تھے۔ حضرت ضمام سے جو کچھ انھوں نے کہا وہ بدلے ہوئے الفاظ میں یہ تھا :’’ہمارے بزرگوں کو برا مت کہو، ورنہ تم پر آفت آجائے گی‘‘۔
یہی قوموں کی خاص گمراہی ہے۔ وہ پہلے بھی تھی، اور آج بھی پوری طرح باقی ہے۔ قوموں کا یقین جب خدا سے ہٹتا ہے ،تو وہ اکابر اور بزرگوں پر آکر رک جاتا ہے۔ لوگ اپنے اکابر سے وہ عقیدت وابستہ کر لیتے ہیں، جو عقیدت صرف ایک خدا سے ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں لوگ سب سے زیادہ جس چیز سے برہم ہوتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان کے بزرگوں اور اکابر پر تنقید کی جائے۔
023
رومن امپائر 117ءمیں شمالی برطانیہ سے لے کر بحر احمر اور خلیج فارس تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ مثل مشہور ہوگئی تھی :
All roads lead to Rome
رومن امپائر کے عروج کے زمانے میں اس کے اندر بیشتر یوروپ، شرقِ اوسط اور افریقہ کے شمالی ساحلی ممالک شامل تھے۔ رومیوں نے جو سڑکیں، عمارتیں اور پل بنائے، وہ اتنے شاندار تھے کہ ان کے بنائے ہوئے بعض پل اسپین میںدو ہزار برس بعد بھی آج تک باقی ہیں۔ رومن لا آج بھی یورپ، امریکا کے قانون کی بنیاد ہے، وغیرہ۔
مگر رومن امپائر اپنی ساری عظمتوں کے باوجود ختم ہوگئی۔ اب اس کا نشان یا تو پرانے کھنڈروں میں ہے یا ان کتابوں میں جو لائبریریوں کی زینت بننے کے لیے رکھی جاتی ہیں۔
اس طرح کے واقعات سے انسان اگر نصیحت لے تو وہ کبھی گھمنڈ میںمبتلا نہ ہو۔یہ واقعات بتاتے ہیں کہ آنکھ والا وہ ہے، جو اپنے عروج میں زوال کا منظر دیکھے۔ جو اپنی بلند عمارتوں کو پیشگی طورپر کھنڈر ہوتا دیکھ لے۔
024
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (1898-1983) علمائے دیوبند میں سے تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ وعظ میں کہا تھا، جس کا خلاصہ یہ ہے:
’’میرے نزدیک آج کل جھگڑے اور فساد کی بنیاد یہ ہے کہ ہر شخص سوا سیر بننا چاہتا ہے، کوئی شخص سیر بن کر رہنا نہیں چاہتا۔ اگر خود کو سیر اور دوسروں کو سوا سیر سمجھنے کا جذبہ پیدا ہوجائے تو آج ہی یہ سارے جھگڑے اور فساد ختم ہوجائیں ‘‘۔ (صحبتِ با اہلِ دل)
یہ نہایت صحیح بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے جھگڑوں کی جڑ لوگوں کا یہی جذبہ ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں سوچتا کہ بس چند دن کی زندگی تک یہ سارے جھگڑے ہیں، اس کے بعد انسان ہوگا اور اس کا خدا ہوگا۔ پھر تو نہ کوئی سیر ہوگا اور نہ کوئی سوا سیر۔
آہ، انسان آج سیر بن کر رہنے پر راضی نہیںحالاں کہ اس پر وہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ نہ ہی سیر رہے گا اور نہ سوا سیر۔ بلکہ وہ کچھ نہ ہوگا۔ کیوںکہ اللہ کے مقابلہ میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر لوگ جان لیں کہ بالآخر وہ کچھ بھی نہ رہیں گے تو وہ یونہی سیر بننے پر راضی ہوجائیں اور پھر تمام جھگڑے بھی اچانک ختم ہوجائیں۔
025
مسٹر توقیر احمد ایم اے (اوکھلا) نے اپنے گاؤں کا ایک دلچسپ قصہ بتایا۔ ان کے یہاں کے ایک زمین دار نے اپنا آم کا باغ پھل کے موسم میں پھل والے کے ہاتھ فروخت کیا ۔اس کے بعد تیز آندھی آئی، اور اکثر آم جھڑ گئے۔ باغبان زمین دار سے ملا۔ اس نے فریاد کی کہ آندھی سے پھلوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ آپ دام کم کردیجیے ورنہ میں بالکل دیوالیہ ہوجاؤں گا۔ زمین دار نے دام کم کرنے سے انکار کردیا، اور کسی قسم کی رعایت دینے پر راضی نہ ہوا۔
توقیر صاحب کو باغبان پر رحم آیا۔ انھوں نے زمین دار کے سامنے باغبان کی سفارش کی۔ زمین دار بگڑ گیا۔ اس نے کہا کہ تم کمیونسٹ لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے۔ انسان کا رزق انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے، وہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ خدا چاہے گا تو اس کو پہلے سے بھی زیادہ دے گا۔
انسان کیسا عجیب ہے۔ دوسرے کے خلاف اس کو قرآن سے بے شمار دلیلیں مل جاتی ہیں۔ مگر اپنے خلاف اس کو قرآن سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔زمین دار صاحب کو خود اپنے لیے تو پھل کے تاجر سے لینا تھا، مگر اس تاجرکے بارے میں انھیں یقین تھا کہ اس کو خدا سے مل جائے گا۔
026
ظہیر فاریابی (ظہیرالدّین ابوالفضل طاہر بن محمد، وفات 1201ء)ایک فارسی شاعر تھا۔ اس نے سلجوقی بادشاہ کی مدح میں قصیدہ لکھا۔ قدیم ایرانی روایت کے مطابق اس میں اس نے زبردست مبالغہ آرائی کی۔ اس قصیدے کا ایک شعر یہ تھا:
نہ کرسی فلک نہداندیشہ زیر پائے تا بوسہ بر رکاب قزل ارسلان زند
(خیال کو قزل ارسلان بادشاہ کی رکاب کو بوسہ دینے کے لیے نو آسمانوں کو پاؤں کے ینچے رکھنا پڑا)۔
اس مبالغہ پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے شیخ سعدی (مصلح الدین ابن عبد اللہ شیرازی، وفات 1291ء)نے کہا:
چہ حاجت کہ نہ کرسی آسمان نہی زیر پائے قزل ارسلان
(اس کی کیا ضرورت ہے کہ تم آسمان کی نو کرسیوں کو قزل ارسلان بادشاہ کے پاؤں کے نیچے رکھو)
مگر شیخ سعدی نے یہ شعر اس وقت کہا تھا جب کہ وہ زیادہ تر سیروسیاحت میں مشغول رہتے تھے، اور آزادانہ زندگی گزارتے تھے۔ اس وقت وہ ہر چیز سے بے نیاز تھے۔ وہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے کہ کسی رئیس یا بادشاہ کی مد ح خوانی کریں۔
مگر بعد کے زمانہ میں انھوں نے شیراز میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اس وقت دوسرے شاعروں کی طرح ان کے تعلقات بھی دربار شاہی سے ہوگئے۔ اس وقت وہ اپنے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔چنانچہ انھوںنے بھی بادشاہوں کی مدح میں مبالغہ آمیز قصیدے لکھے۔ سلطان شیراز، اتابک ابو بکر بن سعد زنگی کی مدح میںوہ اپنے ایک قصیدہ میں کہتے ہیں:
توئی سایۂ لطف حق بر زمیں پیمبر صفت رحمۃ للعالمیں
(تم ہی زمین پر خدا کی مہربانی کا سایہ ہو، تم پیغمبر کی طرح دنیا والوں کے لیے رحمت ہو)
اکثر انسان اپنے حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اگر ان کے حالات بدل جائیں تو وہ خود بھی بدل جاتے ہیں۔
028
عبد اللہ بن المبارک (وفات181ھ)کا ایک قول ہے: لَا یَزَالُ الْمَرْءُ عَالِمًا مَا طَلَبَ الْعِلْمَ، فَإِذَا ظَنَّ أَنَّہُ قَدْ عَلِمَ؛ فَقَدْ جَہِلَ (المجالسۃ و جواہر العلم، اثر نمبر308)۔ یعنی آدمی اس وقت تک عالم رہتا ہے جب تک وہ علم سیکھتا رہے۔ جب وہ گمان کرے کہ وہ عالم ہوگیا تو پھر وہ جاہل ہوگیا۔
عباس محمود العقاد کہا کرتے تھے کہ علم پڑھنے کا نام ہے۔ وہ بہت افسوس کرتے تھے کہ اکثر لکھنے والوں کا یہ حال ہے کہ وہ جتنا پڑھتے ہیں، اس سے زیادہ وہ لکھتے ہیں(العقاد کان یقول:العلم ہو القراءۃ۔ وکان یاسف ابلغ الاسف، لأن کثیرا من الکتاب یکتبون اکثر مما یقرأون)۔ رابطۃ العالم الاسلامی، رجب 1405ھ
029
ہندستان کے دینی مدارس کے معلّم یقیناًایک اہم خدمت انجام دے رہے ہیں۔ یہ ایسی نسل کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں،جس سے دینی روایت کا تسلسل قائم ہے۔ اسی طرح یہ مدارس آزاد ہندستان میں اردو کو زندہ رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، وغیرہ۔
مگر ہندستان کے دینی مدرسوں میں جو ماحول ہے وہ معلمین کے فکری مستویٰ کو بلند نہیں ہونے دیتا۔ مثال کے طورپر ان مدارس میں استاد اور شاگرد کا رشتہ صرف معلِّماور معلَّم (متعلم) کا رشتہ ہے۔ یعنی ایک بتانے والا ہے اور دوسرا سننے والا۔ اس کی وجہ سے معلمین کا مزاج ایسا بن جاتا ہے کہ وہ اپنے ذہن سے باہر کی حقیقتوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ طلبہ کے سامنے ان کی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ انھیں سیکھنا نہیں ہے، بلکہ سکھانا ہے۔ اس سے ان کا ذہن جمود (stagnation)کا شکار ہوجاتاہے۔ مزید یہ کہ جاننا یا دوسروں کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرنا، یہ سب باتیں ان کے مزاج سے خارج ہوجاتی ہیں۔
اس کے برعکس مغرب میں تعلیم کا تصور بالکل دوسرا ہے۔ مغرب میں استاد اور شاگرد کے درمیان معلِّم اور معلَّم کا تعلق نہیں، بلکہ رفیق کا تعلق ہے۔ ان کے نزدیک تعلیم ایک مشترک سفر ہے، جس کو استاد اور شاگرد دونوں مل کر انجام دیتے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں انسان کا ذہن یہ بنتا ہے کہ ا س کو اگر کچھ دینا ہے، تو اسی کو دوسرے سے کچھ لینا بھی ہے۔ وہ اگر کچھ باتیں جانتا ہے تو دوسرے بھی کچھ باتوں کو جانتے ہیں جن کو اسے دوسرے سے لینا چاہیے۔
مغرب کے تعلیمی نظام میں معلِّم کے اندر ذہنی جمود پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے اندر یہ صلاحیت زندہ رہتی ہے کہ وہ اپنے سے باہر کی حقیقتوں کو سمجھے، اور ان سے فائدہ اٹھائے۔اس کے برعکس ہمارے دینی مدارس کا ماحول، مذکورہ سبب سے، جامد ذہنیت پیدا کرنے کا کارخانہ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مدارس کے ذریعہ تحفظ دین کا کام تو کسی درجہ میں ہوا، مگر احیائے دین کا کام ان مدارس کے ذریعہ مطلق نہ ہوسکا۔
030
ایک مقالہ پڑھا جس کا عنوان ہے: میں اور انسانیت۔مقالہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:
’’اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کے قدموں سے لپٹنے کے لیے بے چین و بے قرار نظر آیا۔ پہاڑوں نے اپنے سینے کشادہ کردیے۔ دریا کی گہرائیاں پایاب ہوگئیں۔ بے قرار سمندر اس کے لیے خود ساحل بنانے لگے۔ آفتاب نے اس کی عظمت و بزرگی کے اعتراف میںاپنی روشنی پیش کردی کہ یہ انسان عظیم ہے۔‘‘
مقالہ اسی قسم کے الفاظ سے شروع ہوتاہے، اور اسی قسم کے الفاظ پر ختم ہوجاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اردو کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ اس کے اوپر شاعری کا غلبہ رہا۔چنانچہ نہ صرف نظم میںشاعری کی گئی، بلکہ نثر میں بھی یہی انداز جاری رہا۔ خطیبوں نے اپنی خطابت میں بھی یہی انداز اختیار کیا۔
اردو زبان میں یہ انداز اتنا زیادہ عام ہوا کہ زبان اور اس کے اسالیب اسی انداز میں ڈھل گئے، شاعرانہ انداز اظہار اردو پر بالکل چھاگیا۔چنانچہ اب یہ حال ہے کہ اگر کسی خیال کو سادہ طور پر ادا کرنا چاہیں تو اردو میںاس کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔ سائنٹفک اسلوب سادہ اسلوب ہے ۔ وہ حقیقت نگاری کا دوسرا نام ہے۔ مگر اردو اپنے شاعرانہ انداز کی وجہ سے اس کے بالکل نا اہل ہوگئی کہ اس میں کسی بات کو سائنٹفک انداز سے بیان کیا جاسکے۔
031
1973 کا واقعہ ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کی لڑائی میں فلسطینیوں کا کافی نقصان ہوا تھا،اور مسلمانوں میں غم و غصہ کا ماحول تھا۔ 19 اکتوبر 1973 کو جمعیۃ علماء کے زیر اہتمام دہلی میں ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا۔ یہ جلوس جامع مسجد سے شروع ہو کر امریکی سفارت خانہ پر ختم ہوا۔ دہلی کے مسلمانوں کے علاوہ اطراف کے شہروں کے مسلمان بھی بڑی تعداد میں آ آکر اس میں شامل ہوئے تھے۔ میں بھی الجمعیۃ ویکلی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس جلوس میں شریک تھا۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگ نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے گیٹ پر جمع ہوگئے۔ لوگ اس قدر جوش میں تھے گویا کہ وہ گیٹ کو توڑ کر سفارت خانہ کے اندر داخل ہوجائیں گے۔ تاہم وہاں پولیس کا کافی انتظام تھا، اس لیے لوگ اندر داخل نہ ہوسکے۔
مولانا سید احمد ہاشمی صاحب (وفات 2001) نے ایک ٹرک پر کھڑے ہوکر تقریر کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں جوش وجذبہ کا مظاہرہ کرنے کے بعد آخر میں کہا کہ اس وقت فلسطینی عربوں کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ خون ہے۔ ہزاروں لوگ زخمی ہو کر اسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی صحت کے لیے انھیں فوری طورپر خون پہنچانا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں ایک رجسٹر رکھا گیا ہے۔ آپ میں سے جو لوگ خون دینا چاہیں، وہ رجسٹر میں اپنا نام لکھوادیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ابھی فوراً خون نہیں لیا جائے گا، ابھی صرف نام اور پتہ لکھا جائے گا۔ جتنے آدمی نام لکھوائیں گے، ان کی فہرست یہاں ہم عرب سفارت خانہ میں دے دیں گے۔ اس کے بعد ان کے مطالبہ کے مطابق آپ حضرات کو خون دینے کے لیے بلایا جائے گا۔
مقرر نے اپنے اس اعلان کو بار بار دہرایا، اوران کو نام لکھوانے پر ابھارا ۔مگر غالباً ہزاروں کے مجمع میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں تھا، جس نے رجسٹر میں اپنا نام لکھوایا ہو۔ امریکی سفارت خانہ کے خلاف جوش وخروش کا مظاہرہ کرنے والے اس وقت بالکل ٹھنڈے ہوگئے ،جب انھیں اپنا خون دینے کے لیے پکارا گیا ۔ ایک ایک شخص خاموشی کے ساتھ اپنے گھر کی طرف واپس چلا گیا۔
032
نصف صدی پہلے امیر شکیب ارسلان (1869-1946)نے ایک عربی کتاب لکھی تھی، جو مندرجہ ذیل نام سے چھپی تھی
لماذا تاخر المسلمون وتقدّم غیرھم
(مسلمان کیوں پیچھے ہوگئے ،اور ان کے سوا دوسرے لوگ آگے ہوگئے)
مگر نصف صدی بعد بھی یہ سوال حل نہ ہوسکا۔مجلہ رابطہ العالم الاسلامی (ریاض) کی اشاعت اپریل 1985 میں استاذ محمد عبد اللہ السمان کا ایک مضمون چھپا ہے جس کا عنوان دوبارہ یہ ہے:
لماذا تأخر نا وتقدّم غیرنا
مضمون نگار نے لکھا ہے کہ مسلمان عام طور پر اپنے اسلاف پر فخر کرتے ہیں۔ وہ روم وایران کی فتح اور بدروحنین اور یرموک وقادسیہ کی فتوحات کا ذکر کرکے خوش ہوتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ خود ہم نے کیا کیا (ولکن ماذا فعلنا نحن)۔اس کے بعد انھوں نے یہ شعر لکھا ہے:
لیس الفتى من یقول کان أبى ولکن الفتى من قال ہا أنا ذا
(جوان وہ نہیں ہے جو کہے کہ میرا باپ ایسا تھا، جوان وہ ہے جو کہے کہ یہ ہوں میں)
033
موجودہ دنیا میں ہر قوم نے اپنی قومی برتری کا ایک نعرہ اختیار کررکھا ہے:
My Country, right or wrong میرا ملک چاہے حق پر ہو یا ناحق پر
Germany above all جرمنی سب سے اوپر
Italy is religion اٹلی مذہب ہے
Rule is for Britannia حکومت برطانیہ کے لیے ہے
America is God's own country امریکہ خدا کا اپنا ملک ہے
White Man’s Burden سفید آدمی کا بوجھ
مختلف قوموں نے اسی طرح مختلف الفاظ بنا لیے ہیں، جن کو بول کر وہ اپنی قومی برتری کے جذبہ کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ الفاظ اگر چہ الگ الگ ہیں، مگر سب کی نفسیات ایک ہے۔ ہر ایک اپنی قوم کو اونچا سمجھتا ہے۔ ہر ایک قومی بڑائی کے احساس کو اپنی غذا بنائے ہوئے ہے۔
ایسے ماحول میں مسلمان اگر یہ کریں کہ وہ بھی اپنی بڑائی کا نعرہ لے کر کھڑے ہوجائیں — ہمارا دین سب سے کامل، ہمارا نبی سب سے افضل، ہماری تاریخ سب سے شاندار، ہماری قوم خیر الأمم۔ اس طرح کے نعروں کے ساتھ اگر وہ دنیا کے سامنے آئیں تو وہ قومی بڑائیوں کے ٹکراؤ میں ایک اور قومی بڑائی کا اضافہ کریں گے۔ اس قسم کی باتیں صر ف جوابی قومیت کے جذبہ کو ابھاریں گی۔ وہ دعوت اسلامی کے حق میں لوگوں کے دلوں کو نرم نہیں کرسکتی۔
اس قسم کے نعروں کا کوئی بھی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں نے اپنی قومی برتری کے جذبہ کو تسکین دینے کے لیے بنائے ہیں، اور چوں کہ انھیں یہ درد نہیں ہے کہ دنیا کی قومیں خدا کے دین کے سایہ میں آئیں، وہ نہایت فخر کے ساتھ ان الفاظ کو دہراتے رہتے ہیں۔ انھیں احساس نہیں کہ ان کی اس قسم کی باتیں اسلام کو دوسروں کی نظر میںصرف ایک قومی چیز بنا دیتی ہیں، اور پھر وہ اس کو رقیب سمجھ کر اس سے دور ہوجاتے ہیں۔
034
طب نبوی پر تقریباً ایک درجن کتابیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں صحت اور امراض کے علاج کے بارہ میں جو کچھ فرمایا، ان کو محدثین نے اپنی کتابوں میں جمع کردیا ہے۔ صحیح بخاری میں بھی کتاب الطب موجود ہے جس میںپچاسی ابواب ہیں۔ آخری باب کا عنوان ہے:بَابُ إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِی الإِنَاءِ (باب جب مکھی برتن میںگرجائے)۔
ایک روایت اس سلسلہ میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار حضرت عائشہ کے پاس بغرض عیادت آئے۔ اس وقت آپ نےکہا: عائشہ، سب سے اچھی دوا پرہیز ہے، اور معدہ بیماری کا گھر ہے (الأَزْمُ دَوَاءٌ، وَالمَعِدَةُ بَیْتُ الدَاءِ)الطب النبوی للذھبی، صفحہ 102۔
یہ دو لفظ میں صحت اور تندرستی کا خلاصہ ہے۔ اگر آدمی کھانے پینے میںاحتیاط کا طریقہ اختیار کرے۔ اور معدہ میں ضرورت سے زیادہ غذا نہ بھرے، تو وہ، ان شاء اللہ، مستقل طورپر صحت مند رہے گا۔ اس کو نہ ڈاکٹروں کی ضرورت ہوگی، اور نہ خرابی صحت کی شکایت کی نوبت آئے گی۔
035
حدیث میںآیا ہے:إِنَّ الْوَلَدَ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3666)۔ یعنی اولاد بخل اور بزدلی میں مبتلا کرنے والی ہے۔ یہ بات ہمیشہ صحیح تھی۔ مگر موجودہ زمانہ میں یہ اور زیادہ صحیح ہوگئی ہے۔ قدیم زمانہ میں اسباب حیات بہت تھوڑے ہوتے تھے۔ اس لیے بخل اور بزدلی کے مواقع بھی کم تھے۔ اب اسباب حیات بہت زیادہ ہوگئے ہیں، اس لیے بخل اور بزدلی کے مواقع بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
مکان، فرنیچر، لباس اور د وسرے ساز وسامان جتنے آج ہیں، اتنے کبھی نہیں تھے۔ بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کی تعمیر کے جو امکانات آج کھلے ہیں، وہ پہلے کبھی نہیں کھلے تھے۔ چنانچہ ہر آدمی انھیں امکانات میں کھویا رہتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ ترین معیار زندگی کا حامل بنانا چاہتا ہے۔
یہ جذبہ آدمی کو دین کے معاملے میں بخیل اور بزدل بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے مال کو بچاتا ہے، تاکہ اس کے ذریعہ سے زیادہ سے زیادہ بچوں کے مستقبل کو سنوارے۔ وہ اپنے وجود کو ہر خطرہ کے مقام سے دور رکھتا ہے ،تاکہ بچوں کے بارے میں اس کا منصوبہ نامکمل نہ رہ جائے۔
036
سورہ انعام (آیت 141) میںاسراف سے منع کیاگیا ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے ایک مفسر قرآن لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید کا ایک اعجاز یہاں یہ ہے کہ احکام کے جزئیات بلکہ بعض اوقات تو جزئیات درجزئیات کے ضمن میں وہ ایسے حکیمانہ کلیات و اصول بیان کرجاتا ہے، جو زندگی کے سارے ہی شعبوں پر یکساں منطبق ہوجاتے ہیں۔چنانچہ یہاں بھی چلتے چلتے ایک ایسا چٹکلا بیان کردیا کہ انسان اگر اسی ایک پر عمل کرلے، تو اخلاق، معاملات، سیاسیات، معاشرت، غرض کیا انفرادی اور کیا اجتماعی ہر زندگی کے سارے شعبوں کی مشکلات دور ہوسکتی ہیں، اور بڑے سے بڑے پتھر پانی ہو کر رہ سکتے ہیں۔(تفسیر ماجدی، جلد دوم صفحہ 466)۔
قرآن بلاشبہ ایک اعجازی کلام ہے۔ مگر یہ اعجاز قرآن کی تصغیر ہے کہ یہ کہا جائے کہ قرآن چٹکلے بیان کرتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ یہاں جس چیز کو چٹکلا کہا گیا ہے، وہ لاتسرفوا (اسراف نہ کرو) ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ ایک عجیب بات ہے۔ کیوں کہ ’’اسراف نہ کرو‘‘ایک اہم شرعی اصول ہے نہ کہ معروف معنوں میں کوئی چٹکلا۔
037
ایک صاحب تشریف لائے۔ ان کا کہنا تھا کہ الرسالہ میں خدا اور گاڈ (God)کا لفظ استعمال ہوتا ہے، اس کو بند ہونا چاہیے اور اردو اور انگریزی دونوں الرسالہ میں صرف اللہ استعمال ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ انھو ںنے یہ بتائی کہ خدا اور گاڈ دونوں لفظوں کی جمع آتی ہے۔ جب کہ اللہ ایک ایسا لفظ ہےجس کی جمع نہیں۔
آج کل مسلمانوں میں یہ رجحان بہت بڑھ گیاہے۔ حتی کہ انگریزی میں لوگ ’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ‘ لکھتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ قومی جنون ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
جب کہ معلوم ہے کہ اللہ کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایجاد نہیں کیا۔ یہ پہلے عربوں میں موجود تھا۔ قدیم عرب نے اگرچہ اللہ کی لفظی جمع نہیں بنائی ،مگر اس کی معنوی جمع انھوں نے بنا رکھی تھی۔ یعنی اللہ کو مانتے ہوئے وہ ا س کے شرکاء کو بھی مانتے تھے۔ اس طرح اللہ کا لفظ قدیم عرب کے پس منظر میں شرک کا مفہوم لیے ہوئے تھا۔ مگر قرآن نے جب اس کو خالص توحید کے معنی میںاستعمال کیا، تو وہ توحید کے مفہوم کا حامل بن گیا۔ الفاظ کی معنویت ان کے استعمال سے متعین ہوتی ہے اور اسلامی کتابوں میں خدا اور گاڈ کا لفظ اسلامی استعمال کے اعتبار سے ہے نہ کہ جاہلی استعمال کے اعتبار سے۔
انگریزی میں ’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ‘‘ لکھنا ایک قسم کا جنون (fanaticism) ہے۔ میرا ذوق یہ ہے کہ اس معاملہ میں ادبی تقاضوں کو اہمیت دینی چاہیے۔ ادبی تقاضوں کو اہمیت نہ دینے کا نقصان یہ ہے کہ عبارت کا زور گھٹ جاتا ہے۔
038
قرآن کی سورہ الفتح (آیت 10) میں ہے:وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاہَدَ عَلَیْہُ اللَّہَ(48:10)۔ یعنی اور جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا، جو اس نے اللہ سے کیا ہے۔
یہاں عربی نحو کے عام قاعدہ کے مطابق عَلَیہ کی ’’ہ‘‘ زیر ہونا چاہیے، یعنی عَلَیْہِ پڑھا جانا چاہیے، نہ کہ عَلَیْہُ۔اس غیر معمولی اعراب پر تفسیر کی کتابوں میں لمبی بحثیں کی گئی ہیں، اور مختلف طریقوں سے اس کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مگر ایک اہم پہلو اور ہے، جو تفسیر کی کتابوں میں نہیںآیا ہے۔ وہ ہے قرآن کا کامل طورپر محفوظ ہونا۔
قرآن کو صحابہ کرام نے اور بعد کے لوگوں نے کامل طورپر محفوظ رکھنے کا انتہائی حد تک اہتمام کیا ہے۔حتی کہ اس کی آواز کو بھی پوری طرح محفوظ رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن کا کوئی حصہ اترتا، تو اسی وقت فوراً اس کو لکھ لیا جاتاتھا۔
اسی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت نماز کے اندر یا نماز کے باہر جس طرح ہوتی تھی، اس کی کامل نقل کی جاتی تھی۔چنانچہ اس آیت میں صحابہ نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عَلَیہُ پڑھتے ہوئے سنا، تو عین اسی طرح اس کو محفوظ کرلیااور بعد کی نسلوں کو اسی طرح منتقل کرتے رہے۔
قرآن کے بعد جو نحو مرتب ہوئی اس میں ایسے موقع پر زیر کا اصول درج کیاگیا، یعنی عَلَیْہِ۔ مگر چودہ سو سال تک کسی نے ایسا نہیں کیا کہ معروف نحوی قاعدہ کے مطابق بنانے کے لیے قرآن میں اس آیت کو عَلَیْہِ لکھے یا اس کو عَلَیْہِ پڑھے۔ سیکڑوں سال سے یہ آیت اسی طرح لکھی اور پڑھی جارہی ہے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پڑھ کر سنایا تھا۔کیسا عجیب یہ اہتمام ہے، جو قرآن کی حفاظت کے لیے کیا گیا ہے۔
039
اجمیر کے قریب ایک پہاڑی علاقہ ہے،جس کو میرات کہاجاتاہے۔ یہاں مسلمان معقول تعدادمیں آباد ہیں۔ مگر سب ان پڑھ اور پس ماندہ ہیں۔ وہ دین اور تہذیب دونوں سے دور ہیں۔
تقریباً 15 سال پہلے کی بات ہے مجھے اس علاقہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے ساتھ دو مولوی صاحبان اور تھے۔ ہم لوگ وہاں پہنچے تو مغرب کا وقت ہوچکا تھا۔ مغرب کی نماز ہم نے اپنے میزبان کے گھر کی چھت پر پڑھی۔
میرے ساتھ جو مولوی صاحبان تھے، وہ اس انتظار میں تھے کہ میزبان نماز کے بعد چائے لے کر آئے گا۔ مگر میزبان نماز کے بعد ہم سے رخصت ہوکر گیا، تووہ دوبارہ واپس نہیں آیا۔ انتظار کرتے کرتے عشاکا وقت ہوگیا۔ ہم لوگ عشا کی نماز پڑھ کر بیٹھ گئے ،مگر بدستور میزبان کا پتہ نہ تھا۔
میرے ساتھی جو اس سے پہلے چائے کے منتظر تھے، اب بھوک سے بے تاب ہو کر کھانے کا انتظار کرنے لگے۔ غرض کافی انتظار کے بعد میزبان بڑے سے برتن میں کھانا لے کر آیا۔ میرے ساتھی خوش ہوئے کہ آخر کار انتظار ختم ہوا۔ مگر ان کی خوشی دیر تک باقی نہیں رہی۔ میزبان نے برتن سے کپڑا ہٹایا تو معلوم ہوا کہ جو کھانا وہ لے کر آیا ہے، عجیب وغریب کھانا ہے، یعنی ارہر کی دال اور گلگلہ۔
اب میرے ساتھیوں کا صبر ٹوٹ گیا۔ وہ بول پڑے کہ اتنی دیر کے بعد تم کھانا لائے ہو، اور وہ بھی ایسا عجیب وغریب کھانا جو ہم نے کبھی نہ کھایا تھا، اور سنا تھا۔ مگر میرا رد عمل بالکل مختلف تھا۔ میں نے بہت خوشی کے ساتھ کھانا شروع کردیا، اور کہا کہ یہ تو بہترین کھانا ہے۔ میں کھاتا جاتا تھا ،اور تعریف کرتا جاتا تھا۔ اب میرے ساتھی بھی مجبور تھے۔ وہ بھی میرا ساتھ دیتے ہوئے کھانے میں شریک ہوگئے۔
اس تجربہ کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ کھانوں کی جو روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔
040
039 میں میںنے میرات کے بارے میں اپنے ایک سفر کا تجربہ لکھا ہے۔ اس تجربہ سے سیرت کا ایک پہلو سمجھنے میں مجھے مدد ملی۔
میرات کے مذکورہ سفر میں جب ہمارا میزبان ارہر کی دال اور گلگلہ لے آیا تو میرا اندرونی جذبہ خود بخود رہنمائی کرنے لگا کہ اس وقت مجھے کیا کرنا چاہیے۔ عین اپنے اندرونی جذبے کے تحت میری زبان سے حوصلہ افزائی کے کلمات نکلنے لگے۔ میں یہ کہہ کر ذوق وشوق کے ساتھ اس کو کھانے لگا: یہ تو بہترین کھانا ہے، یہ تو بہترین کھانا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ کھانوں کے سلسلہ میں جو روایتیں آتی ہیں، ان کی حقیقت یہی ہے۔ ان روایتوں کے سلسلہ میں سب سے اہم قابل غور بات یہ ہے کہ اس میں تقریباً ہر اس کھانے کا ذکر ہے، جو اس وقت مدینہ میں رائج تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہر چیز رسول اللہ کا پسندیدہ کھانا تھا، تو آخر وہ چیز کیا ہے جو آپ کو پسند نہ ہو۔
اصل یہ ہے کہ اس وقت مدینہ میں غذا کی فراوانی نہ تھی۔ بڑی مشکل سے آدمی کوئی ایک دو چیز حاصل کر پاتا تھا، جس سے وہ اپنا پیٹ بھر سکے۔
اکثر یہ صورت پیش آتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میںکھانے کا کوئی سامان موجود نہیں ہے۔ کسی انصاری کو پتہ چلا تو وہ آپ کے پاس حاضر ہوا، اور آپ کو بلا کر اپنے گھر لے گیا۔ وہ گھر کے اندر کھانا لانے کے لیے گیا، تو معلوم ہوا کہ گھر کے اندرصرف کوئی ایک یا دو چیز ہے، وہ اس کو اٹھا لایا، اور شرمندگی کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دیا، اور کہا یار سول اللہ اس وقت یہی ہے، آپ اس کو تناول کیجیے۔ آپ نے کھانے کو دیکھا ،تو آپ کی ایمانی شرافت حوصلہ افزائی کے کلمات میں ڈھل گئی۔ آپ نے یہ کہہ کر اس کو ذوق و شوق کے ساتھ کھانا شروع کردیا ،اور کہا یہ تو بہترین چیز ہے، اس سے اچھی کوئی چیز نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ غذاؤں کے سلسلے میں جو حدیثیں آتی ہیں، ان کی حقیقت بس یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے اقوال دراصل وہ کلمات ہیں، جو ایک شریف آدمی اپنے میزبان کے دستر خوان پر کہتا ہے۔ یہ میزبان کی نسبت سے ہے، نہ کہ کھانے کی نسبت سے۔
041
محمد المجذوب (1907-1999) ایک شامی ادیب اور شاعر ہیں۔ ان کی تین جلدوں میں ایک کتاب ہے، جس کا نام ہے: علماء ومفکرون عرفتھم ۔
اس کتاب میں انھوں نے لکھا ہے : أقیمودولتکم علی قلوبکم یقیم اللہ دولتکم علی الناس۔ یعنی تم اپنے دلوں کے اوپر اپنی حکومت قائم کرو، اللہ تمھاری حکومت لوگوں کے اوپر قائم کردے گا۔
یہ نہایت صحیح بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اقتدار کا فیصلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ اور خدا سیاسی اقتدار انھیں لوگوں کو دیتا ہے، جو اپنے آپ کو خدا کی نظر میں اس کا اہل ثابت کریں۔ اس حقیقت کو علامہ ابن تیمیہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: اللہ ینصر الدولة العادلة وإن کانت کافرة، ولا ینصر الدولة الظالمة وإن کانت مؤمنة (الحسبۃ فی الاسلام، صفحہ 7)۔یعنی اللہ عادل حکومت کی مدد کرتا ہے خواہ وہ کافر ہو اوروہ ظالم حکومت کی مدد نہیں کرتا خواہ وہ مومن ہو۔
042
صحابی رسول بشیر بن خصاصیہ کا واقعہ ہے کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ سرکاری عمال صدقہ لینے میں ہم پر زیادتیاں کرتے ہیں(إِنَّ أَہْلَ الصَّدَقَةِ یَعْتَدُونَ عَلَیْنَا)، کیا ہم اپنے مال میں سے زیادتی کے بقدر چھپالیں، بشیر بن خصاصیہ نے کہا:نہیں (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 1586) ۔ اسی طرح سعد بن ابی وقاص کی ایک روایت میں ہے:ادْفَعُوہَا إِلَیْہِمْ مَا صَلَّوُا الْخَمْسَ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر343)۔ یعنی جب تک وہ پانچ نمازیں پڑھتے ہیں، زکوٰۃ انھیں دیتے رہو۔
بنو امیہ کے زمانہ میں جب نظامِ خلافت بدل گیا اور حکام ظلم وتشدد پر اترآئے، تو بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ایسے لوگ ہماری زکوٰۃ کے کیوں امین سمجھے جائیں۔ لیکن تمام صحابہ نے یہی فیصلہ کیا کہ زکوٰۃ انھیں کو دینی چاہیے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر سے ایک شخص نے پوچھا، اب زکوٰۃ ;کس کو دیں۔ کہا، وقت کے حاکموں کو۔ انھوں نے کہا: وہ تو زکوٰۃ کا روپیہ اپنے کپڑوں اور عطروں پر خرچ کرڈالتے ہیں (إِذًا یَتَّخِذُونَ بِہَا ثِیَابًا وَطِیبًا)۔ابن عمر نے کہا وَإِنِ اتَّخَذُوا ثِیَابًا وَطِیبًا(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر 10191) ۔ یعنی اگر چہ وہ کپڑے اور عطر لے لیں (پھر بھی تم انھیں کو زکوٰۃ دو)۔
صحابہ نے یہ جو کہا، یہ کسی بزدلی کی وجہ سے نہیں کہا۔ درحقیقت یہی اسلام کا حکم ہے۔ مسلمان کی قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا اسلام میں جائز نہیں۔ اگر مسلم حکمرانوں میں خرابی نظر آئے تو صرف یہ حکم ہے کہ ان کو درد مندی اور خیر خواہی کے ساتھ سمجھاؤ۔ موجودہ زمانہ کی طرح ایجی ٹیشن چلانا، ان کے خلاف عوامی ہنگامے کرنا سراسر ناجائز فعل ہے۔ جو لوگ اسلام کے نام پر اس قسم کی سیاست چلا رہے ہیں، وہ بلا شبہ مجرم ہیں۔
043
صہیون (Zion) کا لفظ بائبل میں 152 بار آیا ہے۔ یہ قدیم یروشلم میں ایک پہاڑ کا نام تھا۔ یہودی تاریخ بتاتی ہے کہ دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت داؤد نے اسی پہاڑ پر اپنا شاہی قلعہ بنایا تھا۔ اس کے بعد حضرت سلیمان نے اسی پہاڑ پر عبادت گاہ تعمیر کی۔ بعد کو صہیون کا لفظ عمومی طورپر پورے شہر یروشلم کے لیے استعمال ہونے لگا، جو کہ یہودیوں کے نزدیک ان کا مقدس وطن ہے۔ اس علاقہ کو آج کل اوفیل (Ophel) کہاجاتا ہے۔
اس طرح یہودی روایات کے مطابق ’’صہیون‘‘ سے مراد یہودیوں کا مذہبی اور سیاسی مرکز ہے، اور تحریکِ صہیونیت سے مراد داؤد اور سلیمان کے دور کو زندہ کرنا ہے، تا کہ یہودی عظمت دوبارہ مذہبی اور سیاسی اعتبار سے قائم ہوجائے۔یہ ایک مثال ہے کہ مذہبی الفاظ کس طرح قومی تحریکوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہودی اپنی موجودہ فلسطینی تحریک کو صہیونیت (Zionism) کہتے ہیں۔ یہودی روایت کے اعتبار سے ان کے لیے غالباً یہ سب سے زیادہ مفیدِ مطلب نام ہے۔
یہی چیز آج مسلمانوں میں بھی مختلف اعتبار سے پیدا ہوگئی ہے۔ وہ خالص قومی تحریکیں چلاتے ہیں، اور مقدس ظاہر کرنے کے لیے اس کو کوئی اسلامی نام دے دیتے ہیں۔ مگر جو چیز یہودیوں کے لیے بری ہے، وہ مسلمانوں کے لیے کس طرح اچھی ہوجائے گی۔
044
افغانستان کے سابق حکمراں ظاہر شاہ (1914-2007)کے زمانہ میں سردار داؤد شاہ خان (1909-1978) وزیر فوج تھے۔ انھوںنے جولائی 1973 میں فوجی انقلاب کیا، اور ظاہر شاہ کو ملک بدر کرکے خود حکومت سنبھال لی۔ سردار داؤد کو اپنے اس مقصد کے لیے کمیونسٹ پارٹی (خلق) کی مدد لینی پڑی، جو 1965 میں قائم ہوئی تھی، اور جس کا لیڈر نور محمد تَرَہ‌کی(1917-1979) تھا۔افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی نے عوامی سطح پر سردار داؤد کے انقلاب کی حمایت کی۔ اس کے بعد سردار داؤد اور نورمحمد تَرَہ‌کی(Nur Muhammad Taraki)میںاقتدار کی کشمکش شروع ہوئی۔ آخر کار تقریباً ساڑھے چار برس بعد دوبارہ انقلاب ہوا۔ اپریل 1978 میں خلق پارٹی نے روسیوں کی مدد سے بغاوت کردی۔ سردار داؤد مع اپنے اہل خاندان قصر صدارت میں مار ڈالے گئے ،اور نور محمد ترہ کی برسر اقتدار آئے۔ اس طرح افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب آیا، جس کو مقامی زبان میں انقلاب نور کہاجاتا ہے۔ یہیں سے افغانستان میںباقاعدہ روسی تسلط کا آغاز ہوا۔
یہ ایک ہی کہانی ہے، جو تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی شکل میں دہرائی جارہی ہے۔ مصر میں الاخوان المسلمون نے شاہ فاروق (1920-1965) کا خاتمہ کرنے کے لیے فوجی افسروں کا ساتھ دیا۔ بعد کو ان فوجی افسروں نے حکومت پر قابض ہو کر اس سے زیادہ ظلم کیا، جو شاہ فاروق کرسکتا تھا۔ پاکستان میں سید ابوالاعلیٰ مودودی (1903-1979)صدر ایوب (1907-1971)کو ہٹانے کے لیے بھٹو (1928-1979)کے ساتھ متحد ہوگئے۔ مگر جب صدر ایوب کا خاتمہ ہوا، تو اس کے بعد پاکستان میں بھٹو کے تحت پہلے سے بھی زیادہ ظالمانہ حکومت قائم تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ میںمسلمانوں کی عقل چھن گئی ہے۔ وہ بار بار ایسے اقدام کرتے ہیں جس کا نتیجہ صرف الٹی صورت میں ان کے لیے برآمد ہو۔
045
حُمید بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں یزید کی ولی عہدی کے وقت حضرت بُشیر کے پاس گیا ،جو صحابہ میںسے تھے۔ میں نے ان سے یزید کے بارے میں اظہارِ خیال کے لیےکہا۔ انھوںنے کہا:یقولَوْن:إِنَّمَا یزید لیس بخیر أمة محمد -صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وأنا أقول ذلک، ولکن لأن یجمع اللَّہ أمة محمد أحب إلی من أن تفترق ( تاریخ الاسلام للذہبی،جلد 4، صفحہ 87)۔ یعنی لوگ کہتے ہیں کہ یزید امت محمد کےبہتر لوگوں میں سےنہیں ہے، اور میں بھی یہی کہتا ہوں۔ لیکن امتِ محمدی کا اتفاق سے رہنا،مجھے افتراق کی بنسبت زیادہ پسند ہے۔
جس وقت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنایا اس وقت ہزاروں کی تعداد میں صحابہ کرام زندہ موجود تھے ۔ مثلاً حسین بن علی، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن زبیر، اور عبدالرحمن بن ابی بکر اور دوسرے بہت سے جلیل القدر افراد ملت کے اندر موجود تھے۔ ایسی حالت میں یزید کو خلیفہ بنانا سخت قابل اعتراض ہوسکتا تھا۔ مگر تمام صحابہ نے اس پر سکوت اختیار کیا۔ حضرت حسین کے سوا کسی نے بھی یزید کے خلاف کوئی مہم نہیںچلائی۔اصحابِ رسول کی یہ خاموشی یقینی طورپر بزدلی کی بنا پر نہ تھی، بلکہ اسلامی حکمت کی بنا پر تھی۔
046
عرب ویڈیو ٹیپ کو فیدیو تیب (الشریط التلفزیونى) کہتے ہیں۔ عرب سے آئے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ بعض عرب ملکوں میں سینما ہاؤس پر پابندی لگائی گئی ہے۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر گھر میں لوگوں نے وی سی آر لگا لیا ہے، اور اس کے اوپر ہر قسم کی فلمیں دیکھتے ہیں۔ انھوںنے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا— آپ باہر سینما ہاؤس بند کریں گے تو گھر میں سینما ہاؤس کھل جائے گا۔
معاشرہ کا ذہن جب تیار نہ کیا گیاہو تو اوپر سے اصلاحی احکام نافذ کرنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔
047
پروفیسر اقبال عظیم بینائی سے محروم ادیب ، شاعرتھے۔ان کی پیدائش 1913میں ہوئی(اور وفات 2000میں ہوئی)۔ ان کی نعتیہ نظم کا ایک شعر یہ ہے:
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
اس شعر میں عجیب درد اور عجیب گہرائی ہے۔ مگر ایسا شعر صرف ایک ایسا شخص ہی کہہ سکتا تھا جس نے اپنی دونوں آنکھیں کھو دی ہوں۔ جس شخص کی دونوں آنکھیں روشن ہوں، اس کی زبان سے ایسا شعر نکل نہیں سکتا۔
اس دنیا کا عجیب نظام ہے۔ یہاں کھونے والا بھی پاتا ہے۔ بلکہ اکثر کھونے والا شخص اس سے زیادہ پالیتا ہے، جتنا کوئی بظاہر پانے والا شخص پائے ہوئے ہو۔
048
اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کیا چیز ہے، تو میں کہوں گا کہ تنقید(criticism)۔ اس کے بعد اگر دوبارہ یہ پوچھا جائے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کم کیا چیز ہے، تو دوبارہ میں کہوں گا کہ تنقید۔
کیوں میں ایسا کہتا ہوں کہ دنیا میں تنقید سب سے زیادہ ہے، اور تنقید ہی سب سے کم ہے۔ اس کی وجہ ایک تنقید اور دوسری تنقید کا فرق ہے۔ تنقید کی ایک صورت بے دلیل اظہار رائے ہے، اور دوسری صورت ہے مدلّل تجزیہ۔ بے دلیل اظہار رائے بلا شبہ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے، مگر مدلل تجزیہ اس کی نسبت سے انتہائی حد تک کم ہے۔ بلکہ شاید اس کا وجود ہی نہیں۔
ایک صاحب ایک بار میری کتاب ’’ظہورِ اسلام‘‘ لے گئے۔ پڑھنے کے بعد میںنے ان سے ان کی رائے پوچھی، تو انھوں نے کہا کہ ’’آپ نے لٹھ ماری ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ میں نے کسی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، دلیل سے لکھا ہے، آپ اس کو لٹھ مارنا کیسے کہتے ہیں۔ مگرانھوں نے نہیں مانا۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کتاب سے کوئی ایک مثال دیجئے، جس میں دلیل سے بات نہ کہی گئی ہو، بلکہ لٹھ ماری گئی ہو۔ مگر انھوں نے کوئی مثال نہیں دی۔ جب میں نے اصرار کیاتو وہ بگڑ گئے۔ اس قسم کی تنقید میرے نزدیک جھوٹی تنقید ہے۔ جو شخص متعین مثال نہ دے سکے، اس کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ مجرد اظہار رائے کرے۔
بعض تنقیدیں ایسی ہیں جن میں بظاہر مثال اور تجزیہ ہوتا ہے۔ مگر وہ نہ مثال ہوتی، اور نہ تجزیہ۔ کیوںکہ اس کی بنیاد تمام تر غلط مثال اور ناقص تجزیہ پر ہوتی ہے۔ مثلاً ’’عظمت قرآن‘‘ پہلی بار چھپی تو اس کاٹائٹل سبز رنگ کا تھا۔ اس کو دیکھ کر ایک صاحب نے کہا ’’سبز رنگ قذافی کا رنگ ہے‘‘ اس لیے یہ کتاب قذافی کے پیسہ سے چھپی ہے۔ حالاں کہ یہ سراسر بے بنیاد بات تھی۔ اس کتاب کا کچھ بھی تعلق قذافی سے نہ تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ سچی تنقید دنیا کا سب سے زیادہ مشکل کام ہے، اور جھوٹی تنقید دنیا کا سب سے زیادہ آسان کام۔
049
حضرت عمر فاروق نے فرمایا:تَفَقَّہُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا (صحیح البخاری، جلد1، صفحہ25)۔ یعنی سردار بننے سے پہلے تفقہ حاصل کرو۔ حضرت عمر کے اس قول سے موجودہ زمانہ کے بہت سے لوگ اُس فن کی اہمیت پر استدلال کرتے ہیں، جس کو فقہ کہا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سردار یا قائد کو فقہ کا علم ہونا ضروری ہے۔
مگر یہ استدلال صحیح نہیں۔ حضرت عمر کے اس قول سے اس فن کی اہمیت ثابت نہیں ہوتی، جو امام ابو حنیفہ اور دوسرے فقہاء کے ذریعہ وجود میں آیا۔ حضرت عمر کے اس قول سے فقہ کی اہمیت ثابت کرنے والے لوگ بھول جاتے ہیں کہ موجودہ فقہ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں موجود ہی نہ تھی۔ اگر مذکورہ قول کے یہ معنی لیے جائیںتو تمام صحابہ (بشمول عمر فاروق) سرداری اور قیادت کے لیے نا اہل قرار پائیں گے۔ کیوں کہ ان کا زمانہ موجودہ فقہ سے پہلے کا تھا۔ چنانچہ ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ موجودہ فقہ میں تبحر حاصل کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر کے قول میں تفقہ سے مراد حکمت وبصیرت حاصل کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرداری اور قیادت کے لیے دین کا سادہ علم کافی نہیں ہے، بلکہ دین میں گہری بصیرت ضروری ہے۔ گہری بصیرت کے بغیر جو شخص دینی قائد بنے گا، وہ قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں لے جائے گا۔
050
ٹائم میگزین (نیو یارک) کے دفتر میں یہ قاعدہ ہے کہ مضامین پریس میں جانے سے پہلے مخصوص اسٹاف کی ایک ٹیم کےپاس بھیجے جاتے ہیں۔ وہ ان میں مندرج تمام حقائق کو باریک بینی کے ساتھ جانچتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم مقرر ہے، جس کے پاس ایک مکمل قسم کی ریفرنس لائبریری مہیا کی گئی ہے۔میگزین کی ایک اشاعت (8 اپریل 1974) میں صفحہ اول کا مضمون (cover story) افراط زر پر تھا ،جس کا عنوان تھا:
World Inflation
ٹائم میگزین پریس جانے سے پہلے حسب قاعدہ مذکورہ اسٹاف کے پاس پہنچا۔ اس مضمون میں ایک بات یہ تھی کہ قدیم لیڈیا کے باشندوں(Lydians) نے پہلی بار دھات کے سکے بنائے۔ متعلقہ کارکن نے اس کو لائبریری کے محققین کے پاس بھیجا کہ وہ اس کی تحقیق کریں۔ انھوں نے تین انسائیکلو پیڈیا کو دیکھا تو تینوں میں مختلف بیانات تھے۔ پھر انھوںنے تاریخ زر(History of Money) پر دو اہم ٹکسٹ بک سے رجوع کیا، اور بالآخر اپنے فیصلہ سے متعلقہ کارکن کو مطلع کیا۔ اس پورے عمل میں صرف پندرہ منٹ لگے۔
051
راجہ رام موہن رائے (1772-1833) مشہور ہندو مصلح ہیں۔ انھوں نے سائنسی تعلیم کی زبردست وکالت کی۔ وہ سائنسی تعلیم (science-oriented education) کے حامی تھے۔ انگریزوں نے جب سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو راجہ رام موہن رائے نے دسمبر 1823 میں انگریز گورنر جنرل لارڈ ام ہرسٹ (Lord Amherst) کو لکھا کہ سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ ہم کو سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ ہندستان میں ایسی تعلیم جاری کی جائے جس میں ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹمی اور دوسری جدید سائنسی تعلیم کا انتظام ہو۔
راجہ رام موہن رائے کے زمانہ میں اور ان کے بعد بھی عرصہ تک مسلمانوں میںکوئی بھی قابلِ ذکر آدمی نظر نہیں آتا، جس نے جدید دور میں سائنس کی اہمیت کو سمجھا ہو، اور اس کی تعلیم پر اس طرح زور دیا ہو۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی کم از کم ایک وجہ یہ ہے کہ پچھلے دور میں مسلمانوں میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، جو اتنا تعلیم یافتہ ہوجیسا کہ راجہ رام موہن رائے تھے۔ راجہ رام موہن رائے کے سکریٹری (Sandford Arnot) نے لکھا ہے کہ وہ کم ازکم 11 زبانوں سے واقف تھے— سنسکرت ، عربی، فارسی، ہندی، بنگالی، انگریزی، عبرانی، لاطینی، فرانسیسی، اردو، یونانی۔
ان کی پہلی کتاب کانام تحفۃ الموحدین ہے۔ اس کا دیباچہ عربی میں ہے، اور اصل کتاب فارسی میں ہے۔ انھوں نے پہلی بار ویدوں اور اپنشدوں کا انگریزی اور بنگالی میں ترجمہ کیا۔ 1816 میںانھوںنے بنگال گزٹ نکالا، جو کسی ہندستانی کی ملکیت میں نکلنے والا پہلا انگریزی اخبار تھا۔ اس کے علاوہ انھوںنے فارسی میں بھی ایک اخبار جاری کیا۔ لال قلعہ کے مغل بادشاہ کو اپنے وظیفہ کی رقم کے سلسلہ میںایک سفارت انگلستان بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت مغل تاجدار نے جس ہندستانی کا انتخاب کیا، وہ راجہ رام موہن رائے تھے۔چنانچہ وہ 1830 میں اس مشن کے تحت انگلستان گئے۔
ہندو قوم کو اٹھارھویں صدی میںراجہ رام موہن رائے جیسا آدمی مل گیا۔ اس لیے وہ فوراً سائنس کی تعلیم میں داخل ہوگئی۔ مگرمسلمانوں کو پچھلے دو سو برس میں بھی غالباً کوئی ’’راجہ رام موہن رائے‘‘ نہیں ملا۔ ایسی حالت میں مسلمان اگر جدید تعلیم میں پیچھے ہیں تو یہ عین وہی بات ہے، جو واقعہ کے اعتبار سے ہونی چاہیے۔
052
میں نے بطور خود ایک اصطلاح وضع کی ہے، جس کو میں ڈیگال ازم (Degaulism) کہتا ہوں، اس کا مطلب ہے— کسی لیڈر کا اپنی لیڈری کی قیمت پر قوم کا مستقبل بنانا۔ موجودہ زمانہ میں فرانس کے جنرل ڈیگال کی زندگی اس قربانی کی ایک مثال ہے۔ اس لیے میںنے انھیں کے نام سے ڈیگال ازم کی اصطلاح وضع کی ہے۔
جنرل ڈیگال (1890-1970)موجودہ صدی کے وسط میںفرانس کے حکمراں بنے۔ اس وقت فرانس یورپ کا ’’مر د بیمار‘‘ بنا ہوا تھا۔ فرانس کے افریقی مقبوضات میں آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ ان تحریکوں کو کچلنے میں خود فرانس کچل اٹھا تھا۔ فرانس کے بے شمار جوان مارے گئے تھے، اور اس کی اقتصادیات دیوالیہ کی حد کو پہنچ گئی تھی۔
فرانس کے افریقی مقبوضات اس کے لیے سرمایہ (asset) نہ تھے، بلکہ اس کے لیے بوجھ (liability)بن چکے تھے۔ مگر اس طرح کی چیزیں قوموں کے لیے پرسٹیج (prestige) کا مسئلہ بن جاتی ہیں، اور جو چیز پرسٹیج بن جائے، اس سے دست برداری کے لیے لوگ کسی قیمت پر تیار نہیں ہوتے۔
جنرل ڈیگال نے اس معاملہ کی نزاکت کو محسوس کیا۔ انھوںنے 1950-60 میں افریقہ کی تمام فرانسیسی نوآبادیات کو آزاد کردیا۔ اس کے بعد 1962 میں الجیریا کو بھی آزاد کردیا ،جہاں زبردست تحریک آزادی چل رہی تھی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ جنرل ڈیگال سے سخت برہم ہوگئے ،حتی کہ 1969 میں ڈیگال کو مجبوراً استعفیٰ دینا پڑا۔ اگلے سال جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے جنازے میں صرف چند آدمی شریک تھے۔ مگر جنرل ڈیگال نے خود مر کر فرانس کو زندگی دے دی۔ اس کے بعد فرانس تیزی سے آگے بڑھنا شروع ہوا، یہاں تک کہ آج فرانس یورپ کا طاقتور ترین ملک شمار ہوتا ہے۔
053
مجھے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ میں ایک پیدائشی سائنس داں (born scientist) ہوں۔ ٹکنکل معنوں میں نہیں بلکہ مزاج کے معنوں میں۔
سائنٹسٹ خارجی حقیقت کا مطالعہ کرتا ہے، اور اس کو انتہائی درست زبان (precise language) میں بیان کرتاہے۔ سائنس داں کی کامیابی یہ ہے کہ وہ خارجی حقیقت کو ویسا ہی بیان کردے جیسا کہ وہ فی الواقع ہے۔اس سے سائنس داں کے اندر حقیقتِ واقعہ سے مطابقت کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ سائنسی مزاج (scientific temper) دراصل حقیقت واقعہ سے مطابقت ہی کا دوسرا نام ہے۔
حقیقتِ واقعہ سے مطابقت کا مزاج میرے اندر بچپن سے پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی میں کسی کی کوئی بات نقل کرتا ہوں ،تو آخری حد تک کوشش کرتا ہوں کہ وہی بات نقل کروں، جو کہنے والے نے کہی ہے۔ تاکہ اصل اور نقل میں یکسانیت باقی رہے۔ جب میں کسی کے فکر پر تنقید کرتاہوں تو اس کو بار بار پڑھتا ہوں، تاکہ میری تنقید عین اسی بات پر ہو جو پیش کرنے والے نے پیش کی ہے، نہ کہ کسی دوسری بات پر۔
اپنے اس مزاج کی وجہ سے اکثر میں یہ کرتارہا ہوں کہ جب مجھے اسلام کے موضوع پر کوئی مقالہ یا کتاب لکھنا پڑا، تو میں اس سے پہلے پورے قرآن کو ایک بار پڑھتا ہوں۔ قرآن کو بار بار پڑھنے کے باوجود ہر نئے موقع پر میں پھر سے اس کو ایک بار پڑھتا ہوں، تاکہ میری بات عین قرآن کے مطابق رہے، دونوں کے اندر نامطابقت پیدا نہ ہونے پائے۔
میرا یہ مزاج اتنا بڑھا ہوا ہے کہ وہ ہر معاملہ میں ظاہر ہوتا ہے۔ حتی کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک معمولی خط کا جواب دیتے ہوئے میںاس خط کو کئی بار پڑھتا ہوں۔ مکتوب نگار کا منشا اچھی طرح سمجھنے سے پہلے میںاس خط کا جواب نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے اوپر لوگوں نے بے شمار تنقیدیں کی ہیں مگر آج تک کوئی یہ نہ کہہ سکا کہ میں نے اس کی بات کو غلط شکل میں پیش کیا ہے۔
054
مسز اینی بسنٹ (1847-1933) ایک انگریز خاتون تھیں۔ انھوں نے لندن کے ایک اچھے تعلیمی ادارے میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن وغیرہ زبانیں سیکھیں۔ ان کے اندر اظہارِ خیال کی بہت عمدہ صلاحیت تھی۔ وہ 1893 میں ہندستان آئیں، اور یہاں کے بہت سے سیاسی اور سماجی کاموں سے وابستہ رہیں۔ 21 ستمبر 1933 کو ان کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق ان کی قبر پر یہ کتبہ لکھا گیا:
She tried to follow truth.
اس نے سچائی کے راستے پر چلنے کی کوشش کی۔ مگر عجیب بات ہے کہ مسز اینی بسنٹ عملی طورپر دوسروں کے ساتھ زیادہ دیر تک نہ چل سکیں۔ انھوںنے 1867 میں انگلینڈ کے ایک مذہبی آدمی فرینک بسنٹ سے شادی کی۔ کچھ دنوں کے بعد ان کو احساس ستانے لگا کہ ان کا شوہر آمریت پسند ہے۔ وہ اس سے نباہ نہ کرسکیں اور انھوں نے 1873 میں اس سے علیحدگی حاصل کرلی۔
وہ ہندستان کی سیاست میں داخل ہوئیں اور1917 میں انڈین نیشنل کانگریس کی صدر منتخب ہوئیں۔ مگر عدمِ تعاون تحریک (non cooperation movement)پر ان کا مہاتما گاندھی سے اختلاف ہوا، اور انھوں نے کانگریس چھوڑ دی۔
مسز اینی بسنٹ کی واقعات سے بھری ہوئی زندگی (eventful life) میںاس طرح کے بہت سے قصے پائے جاتے ہیں— وہ سچائی کی ہم سفر تھیں، مگر وہ سچوں کی ہم سفر نہ بن سکیں۔
ذہنی سفر کا معاملہ عملی سفر کے معاملہ سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ ذہنی سفر میں آدمی اکیلا ہوتا ہے۔ ذہنی سفر میں یہ نزاکت پیش نہیں آتی کہ آدمی کو دوسروں سے نباہ کرتے ہوئے اپنا سفر طے کرنا ہے۔ مگر عملی سفر میں دوسرے لوگ بھی شریکِ سفر ہوتے ہیں۔ یہاں ضروری ہوتاہے کہ آدمی دوسروں سے نباہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ جو ذہنی سفر میں بہت تیز رفتار نظر آتے ہیں، وہ عملی سفر میں بالکل ناکام ثابت ہوتے ہیں۔
054
ٹائمس آف انڈیا(28 اپریل 1985) میں ایک رپورٹ چھپی ہے جس کا عنوان ہے:
A lifetime of Encyclopaedia
اس رپورٹ میں مسٹر بنود کانون گو(عمر 73 سال) کے کام کی تفصیل چھپی ہے۔ وہ کٹک (اڑیسہ) کے رہنے والے ہیں۔ انھوںنے ایک اڑیا انسائیکلوپیڈیا تیار کی ہے، جو 75 جلدوں میں مکمل ہوئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ کام انھوں نے اپنی تنہا محنت سے 30 سال میں مکمل کیا ہے۔
مسٹر بنود کانون گو جب نوجوان تھے تو ان کے کان میں مہاتما گاندھی کی پکار آئی— کوئی قوم تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی، اور بنیادی تعلیم ہی حقیقی تعلیم ہے۔
No nation grows without education, and basic education is real education.
ان الفاظ سے مسٹر بنود کانون گو کے اندر شدید جذبہ ابھرا۔ انھوںنے اڑیا زبان میں انسائیکلوپیڈیا تیار کرنے کی مہم شروع کردی۔ یہاں تک کہ 30 سال کی مسلسل محنت کے ذریعہ اس کو کامیابی تک پہنچا دیا۔مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسٹر بنود کانون گو نے اس مہم میں اڑیسہ کی ریاستی حکومت اور نئی دہلی کی مرکزی حکومت سے مدد کی درخواست کی۔ مگر ان کو نہ ریاستی حکومت سے کوئی مدد ملی، اور نہ مرکزی حکومت سے۔اس کے باوجودمسٹر بنود کانون گو نے اپنے محدود ذرائع سے کام لیتے ہوئے اپنی مہم جاری رکھی، یہاں تک کہ اس کو اختتام تک پہنچا دیا۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ کون لوگ ہیں،جو کسی قوم کی تعمیر کرتے ہیں۔ قومی تعمیر کا کام ہمیشہ انفرادی قربانی کی قیمت پر ہوتا ہے۔ اس کے سوا قومی تعمیر کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
055
لوہار لوہے کو آگ میں ڈال کر تپاتا ہے۔ یہاںتک کہ لوہا گرم ہو کر لال ہوجاتا ہے۔ اس وقت لوہار ہتھوڑا مار کر لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق بناتا ہے، چپٹا یا گول یا لمبا۔ لوہار اگر لوہے کو گرم کیے بغیر اس پر اپنا ہتھوڑا مارنے لگے تو وہ لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے میں کامیاب نہ ہو۔ اسی سے انگریزی کی یہ مثل بنی ہے کہ لوہے کو اس وقت مارو جب کہ وہ خوب گرم ہو:
To strike the iron when it is hot.
یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔ آدمی کو زندگی میں اکثر کوئی اقدام کرنا پڑتا ہے۔ مگر اقدام سے پہلے ضروری ہے کہ حالات کا بھر پور اندازہ کرلیا جائے۔ اگر حالات پوری طرح تیار ہوں، تو اقدام مفید ہوگا، ورنہ ناکام ہو کر رہ جائے گا۔لوہا گرم ہونے پر ہتھوڑا مارنے والا اپنے مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ جو شخص ٹھنڈے لوہے پر ہتھوڑا مارنے لگے ،وہ صرف اپنے ہاتھ کو دکھ پہنچائے گا ،وہ لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکتا۔
056
انگریزی کا ایک مثل ہےکہ کیل کے عین سر پر مارنا:
Hitting the nail on the head.
یہ مثل بہت بامعنیٰ ہے۔ اس میں ایک مادی مثال کے ذریعہ انسانی کامیابی کا راز بتایا گیا ہے۔یہ ایک معلوم بات ہے کہ کیل جب کسی چیز پر ٹھونکی جاتی ہے، تو اس کے ٹھیک سر پرہتھوڑی ماری جاتی ہے۔ اگر ہتھوڑی کی مار ادھر ادھر پڑے، تو وہ صحیح طور پر اندر نہیں داخل ہوگی، بلکہ ٹیڑھی ترچھی ہو کر رہ جائے گی۔اسی طرح زندگی کے معاملات میں یہ جاننا پڑتا ہے کہ ٹھیک ٹھیک وہ کون سا مقام ہے جہاں ضرب لگانی چاہیے۔ صحیح ضرب کے نتیجہ ہی کا دوسرا نام کامیابی ہے۔
مثلاً آپ کسی موضوع پر اظہارِ خیال کررہے ہیں یا کسی شخص سے ایک اختلافی موضوع پر بحث کر رہے ہیں ۔ ایسی حالت میں اگر آپ وہ بات کہیں جو ٹھیک ٹھیک موضوع کے اوپر چسپاں ہوتی ہو تو سننے والا آپ کے نقطۂ نظر کو ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ ایسی باتیں کریں جو زیرِ بحث موضوع پر ٹھیک فٹ نہ بیٹھتی ہو، تو آپ کی بات لوگوں کو بے وزن محسوس ہوگی۔ وہ اپنے آپ کو اندرونی طورپر مجبور نہ پائیں گے کہ آپ کے نقطۂ نظر سے اتفاق کرلیں۔
057
ایک انجینئر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے ماسکو یونیورسٹی سے انجینئرنگ کیا ہے۔ وہ روسی زبان بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ انھوںنے روس کے بارے میں کئی دلچسپ باتیں بتائیں۔ مثلاً انھوں نے لینن کا ایک مقولہ روسی زبان میں بتایا، جس کا ترجمہ یہ تھا:
’’اگر ایک ہاتھ پیچھے کھسکو تو دو ہاتھ آگے بڑھنے کے ارادے سے‘‘۔
یہ مثل بہت با معنی ہے۔ زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں، جب کہ آدمی کو پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ مگر وہ پسپائی نہیں ہے، جو منصوبہ بند ہو۔ یعنی آدمی پیچھے ہٹنے کے لیے قدم پیچھے نہ کرے، بلکہ اس کا پیچھے ہٹنا آگے بڑھنے کی ایک تدبیر ہو۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹے ،تو اس لیے پیچھے ہٹے کہ اس کے ذریعہ اس کو دو قدم آگے بڑھنے کا راستہ ملے گا۔
058
قدیم عرب شعرا کے یہاں ایسے اشعار ملتے ہیں،جن میں بڑی حکمت کی باتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً:
سبـکـنـاہ ونحسـبـہ لـجیـنـاً
فأبدى الکیر عن خبث الحدید
یعنی ہم نے اس کو پگھلایا، اور اس کو چاندی سمجھتے تھے، مگر بھٹی نے ظاہر کیا کہ وہ زنگ آلود لوہا ہے۔
اس شعر میں تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ انسان بظاہر اچھا دکھائی دیتا ہے، مگر جب تجربہ ہوتا ہے، اسی وقت معلوم ہوتا ہے کہ کون کیا ہے، اور کون کیا نہیںہے۔اسی طرح ایک شعر یہ ہے:
وکم على الأرض من خضر ویابسة
ولیس یـرجـم إلا مـالــہ ثـمـر
یعنی زمین پر کتنی ہی تر اور خشک چیزیں ہیں، مگر پتھر اسی پر مارے جاتے ہیں جس میں پھل ہوں۔
اس شعر میںشاعر زندگی کی اس حقیقت کو بتاتا ہے کہ جس انسان کے پاس کچھ ہو، اسی کے اوپر لوگ یورش کرتے ہیں، جس کے پاس کچھ نہ ہو اس کے اوپر کوئی یورش نہیں کرے گا۔
059
قدیم عربوں کے نزدیک سب سے بڑی انسانی صفت حماسۃ تھی، یعنی بہادری۔ اس بہادری کا اظہار قدیم عرب میں سب سے زیادہ لڑنے بھڑنے میں ہوتا تھا۔ایک حماسی شاعر کہتاہے:
إذا المہرة الشقراء أرکب ظہرہا فشب الإلہ الحرب بین القبائل
یعنی جب میرا گھوڑا سواری کے قابل ہوجائے، تو خدا قبائل میں جنگ بھڑکا دے (تاکہ میں اپنی بہادری کے جوہر دکھا سکوں)
عربوں کا یہ لڑنے بھڑنے کا ذہن اتنا بڑھا ہوا تھا کہ اگر دشمن لڑنے کے لیے نہ ملتا تو وہ آپس ہی میں لڑنے لگتے۔ ایک شاعر کہتا ہے:
وأحیاناً على بکرٍ أخینا إذا ما لم نجد إلا أخانا
یعنی اور کبھی ہم اپنے بھائی قبیلہ بکر پر (حملہ کردیتے ہیں)، جب کہ ہم کو (لڑنے کے لیے) اپنے بھائی کے سوا کوئی اور نہیں ملتا۔
عربوں کی یہ بہادری (حماسۃ) ان کا بہت بڑا جوہر تھی۔ اسلام سے پہلے ان کی اس بہادری کا کوئی بلند نشانہ انھیں معلوم نہ تھا۔ اسلام نے انھیں ایک بلند نشانہ دے دیا۔ چنانچہ انھوںنے عالم میں انقلاب برپا کردیا۔
060
عربی زبان کا ایک مثل ہےکہ تجربہ کرنے والے سے معلوم کرو، عقل مند سے نہ پوچھو:
سَلِ المجرِّب ولا تسئل الحکیم
یہاں حکیم (عقل مند) سے مراد وہ انسان ہے، جس کو صرف نظریاتی جانکاری حاصل ہو۔یہ ایک حقیقت ہے کہ باتوں کو وہی شخص جانتا ہے جس پر تجربہ گزرا ہو۔ جو شخص صرف نظریاتی واقفیت رکھتا ہو، وہ اصل حقیقتوں سے اسی طرح بے خبر رہتا ہے، جس طرح کاغذکی کوئی کتاب زندگی کے عملی معاملات سے بے خبر ہو۔
مگر اس سے بھی زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تجربہ کار کے بتانے کے باوجود آدمی باتوں کو سمجھ نہیں پاتا۔ آدمی کسی بات کی حقیقت صرف اس وقت سمجھتا ہے، جب کہ اس پر خود ذاتی تجربہ گزرے۔ جب کہ وہ تجربہ کر کے نقصان اٹھا چکا ہو۔ ذاتی طورپر تجربہ کی چکی میں پسنے سے پہلے بمشکل ہی کوئی شخص باتوں کی حقیقت کو سمجھ پاتا ہے۔ چاہے لفظی طورپر اس کو کتنا ہی زیادہ سمجھا جائے۔
061
کسی شخص کا قول ہےکہ غم پیچھے کی طرف دیکھتاہے، پریشانی اِدھر اُدھر دیکھتی ہے، اور عقیدہ اوپر کی طرف دیکھتا ہے:
Sorrow looks back, worry looks around, faith looks up.
062
انسان دو قسم کے ہوتے ہیں— شخصیت پرست ، اور حقیقت پرست۔
شخصیت پرست وہ ہے، جو باتوں کو شخصیت کے اعتبار سے دیکھے۔ جس بات سے اس کی محبوب شخصیت کی تائید نکلے، اس کو وہ ٹھیک سمجھ لے، اور جس بات سے اس کی محبوب شخصیت کی تردید ہو رہی ہو، اس کا وہ مخالف بن جائے۔
حقیقت پرست وہ ہے، جو باتوں کو حقیقت کے اعتبار سے دیکھے۔ جو بات دلائل سے درست ثابت ہو، اس کو مانے، اور جو بات دلائل سے درست ثابت نہ ہو، اس کو رد کردے۔
یہی دوسری قسم کے لوگ ہیں، جو خدا کو پاتے ہیں، جو آخری اعلیٰ حقیقت ہے۔ پہلی قسم کے لوگ ساری عمر شخصیت کے خول میں بند رہتے ہیں، اور اسی میں مر جاتے ہیں۔ وہ اس لذتِ معرفت سے محروم رہتے ہیں، جو حقیقت اعلیٰ کو پاکر کسی بندہ ٔ خدا کو حاصل ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں