Pages

Friday, 1 January 2021

Al Risala | January 2021 (الرسالہ،جنوری)


ڈائری 1985 سے انتخاب (2)

062
مولانا عبد الرشید ندوی نے ایک دلچسپ واقعہ بتایا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ایک بڑے دینی ادارے کا ایک وفد برماگیا۔ اس وفد میںکئی بڑے علما اور دوسرے بڑے مسلم رہنما شامل تھے۔ اُس زمانے میں ہندستان کے دینی ادارے چندہ (donation)کے لیے برما اور ملایا (Malaya) جایا کرتے تھے۔
اس وقت ہندستان کے لوگ کثیر تعداد میں وہاں رہتے تھے،لیکن ان میں اکثریت بدعتی خیال لوگوں کی تھی۔ یہ وفد جب رنگون پہنچا توان لوگوں نے پوسٹروں وغیرہ کے ذریعے خوب مشہور کیا کہ یہ وہابی ہیں، یہ کافر ہیں، وغیرہ۔ ان کو ہر گزچندہ نہ دیا جائے۔ جو چندہ دے گا وہ گنہ گار ہوگا۔ بدعتی طبقہ کے پروپیگنڈوں سے فضا بہت خراب ہوگئی۔
تاہم جلسہ کیاگیا۔ سب سے پہلے ایک مقرر آئے۔ ان کے نام میں سلیمان لگا ہوا تھا۔ وہ بہت خوش بیان مقرر تھے۔ انھوں نے کہاکہ بھائیو، اور لوگوں کو تو تم جانو اور وہ جانیں۔ مگر جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں پہلے ہی براءت اتاردی ہے۔ چنانچہ قرآن میں یہ آیت (2:102)موجود ہے:
وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلَکِنَّ الشَّیَاطِینَ کَفَرُوا
یعنی سلیمان نے کفر نہیں کیا، بلکہ یہ شیاطین تھے جنھوں نے کفر کیا۔ وہ بہت خوش گلو تھے۔ انھوںنے قرآن کی آیتیں پڑھیں ۔ مولانا روم (1207-1273ء)کے اشعار سنائے۔ اب فضا بالکل بدل گئی۔ آخر میں انھوں نے لوگوں کو کھڑا کرکے سلام پڑھوایا۔ اس کے بعد بالکل تصدیق ہوگئی کہ یہ لوگ ’’وہابی‘‘ نہیں ہیں۔اس کے بعد رنگون میں خوب چندہ ہوا۔ تیرہ لاکھ روپیے جمع ہوئے۔لوگوں کی مایوسی دوبارہ خوشی میں تبدیل ہوگئی۔
عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اس قسم کے الفاظ بولنا جانتے ہوں۔ تاہم یہ مقبولیت وقتی ہوتی ہے۔ نیز اس کے ذریعہ کوئی گہرا تعمیری کام نہیں کیا جاسکتا۔
063
علم حساب کے ایک ماہر نے کہا ہے:
I can prove anything by statistics— except the truth.
یعنی میں حساب اور شماریات کے ذریعے ہر چیز کو ثابت کرسکتا ہوں سوائے سچائی کے۔ شماریات کا علم موجودہ زمانے میں بہت ترقی کرگیا ہے۔ شماریات کی زبان میں کوئی بات کہہ دی جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ اس کو واقعہ کی زبان میں کہہ دیا گیا۔ حالاں کہ یہ محض گنتیوں کا ایک شعبدہ ہوتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شماریات سے ثابت شدہ چیز کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
کوئی چیز گنتی کی زبان میں ثابت ہوجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حقیقت کے طورپر بھی ثابت ہوگئی۔
064
ایک صاحب دفتر میں تشریف لائے۔ انھوں نے کہا کہ میں الرسالہ میں مضمون شائع کروانا چاہتا ہوں۔اس کی کیا شرائط ہیں۔ میںنے کہا:آپ دس سال عربی پڑھیے۔ دس سال انگریزی پڑھیے۔ دس سال لکھنے کی مشق کیجیے۔ اس کے بعد آپ کا مضمون الرسالہ میں شائع ہوجائے گا۔ اس کو سن کر وہ کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے اور پھر اٹھ کر چلے گئے۔
آج کل مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ محنت کیے بغیر نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور محنت کے بغیر کسی نتیجہ کا اس دنیا میں ملنا ممکن نہیں ہے۔لکھنا مشکل ترین آرٹ ہے۔ مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ جو شخص بھی قلم پکڑنا جانتا ہو، وہ سمجھتا ہے کہ میں لکھنا بھی جانتا ہوں۔چنانچہ غیر معیاری مضامین اور غیر معیاری کتابوں کی بھرمار ہورہی ہے۔ اس کے برعکس، معیاری کتابیں بہ مشکل ہی دیکھنے میںآتی ہیں۔
065
ایک صاحب نے بتایا کہ ان سے کسی نے میرے بارے میںکہا کہ ان کا کیا کہنا ہے۔ وہ تو اب فلاں صاحب کے ٹکر کے ہوگئے ہیں، یعنی مادی اعتبار سے۔
کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو آدمی کو اس سے ناپتے ہیں کہ اس کے پاس بلڈنگ اور کار وغیرہ ہے یا بلڈنگ اور کار نہیںوغیرہ ہے۔ میرے نزدیک یہ سادہ سی بات نہیںہے۔ یہ دراصل دوزخ کی اصطلاحوں میں سوچنا ہے۔ ایسے لوگ دوزخ کے مومنین ہیں۔ اگر چہ خوش فہمی کے تحت وہ اپنے آپ کو جنت کے مومنین میں شمار کرتے ہیں۔
066
ایک عیسائی پادری تشریف لائے۔ان کا نام اور پتہ درج ذیل ہے:
REV John, Preacher in Church of God, Sector 33, Chandigarh
دوران گفتگو میںنے کہا کہ مسیحیت کا بنیادی عقیدہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کفارہ۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ کفارہ کو بنیادی عقیدہ کہتے ہیں حالاں کہ وہ موجودہ انجیل میں کہیں واضح طورپر موجود ہی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہے۔ میںنے انھیں انجیل کا انگریزی ترجمہ دیا کہ نکال کر بتائیے کہ کہاں ہے۔ وہ تقریباً آدھ گھنٹہ انجیل کے اوراق الٹتے رہے۔ بالآخر اس کا ایک صفحہ نکالا۔ میں نے کہا کہ یہ محض آپ کی تاویل ہے۔ ورنہ اس عبارت سے براہِ راست طور پر کفارہ کا عقیدہ نہیں نکلتا۔ کیسی عجیب ہے موجودہ مسیحیت کہ اس کا بنیادی عقیدہ ہی انجیل کے عبارت النص میں موجود نہیں۔
اس کے برعکس، اگر آپ کسی مسلمان سے پوچھیں کہ قرآن کا بنیادی عقیدہ کیا ہے، تو وہ فوراً کہے گا کہ توحید ۔ اس کے بعد اگر آپ پوچھیں کہ توحید کا عقیدہ کس آیت سے نکلتا ہے تووہ فوراً پڑھ دے گا:قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ (112:1)۔ کتنا فرق ہے، محرّف دین میں اور غیر محرف دین میں۔
067
ایک صاحب سنگا پور سے تشریف لائے۔ انھوں نے بتایا کہ وہاں مسجد وں میں لاؤڈاسپیکر سے اذانیں ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں وہاں کے غیر مسلم حضرات میں ناراضگی پیدا ہوگئی۔ خاص طورپر عشا اور فجر کی اذان کے متعلق ان کا مطالبہ ہے کہ اس کو لاؤڈاسپیکر پر دینا بند کیا جائے۔ اس سلسلے میں سنگاپور کے بدھسٹ وزیر اعظم نے اپنی ایک تقریر میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی آزادی یہ ہے کہ آپ رات کے آخری حصے میں اذان دیں۔ میری آزادی یہ ہے کہ میںاس وقت اچھی نیند حاصل کروں:
Your freedom is to call Azan in the late hours of the night. My freedom is to have a good sleep at that time.
اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام اور جدید انسان میں ٹکراؤ پیدا ہوگیا ہے، اور چونکہ جدید انسان طاقتور ہے ۔اس لیے اب اسلام کو باقی رکھنے کی شکل صرف یہ ہے کہ اسلام کو میدان سے ہٹا دیا جائے۔ حالاں کہ یہ قیاس سراسر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جوٹکراؤ پیدا ہوا ہے، وہ جدید انسان اور ’’لاؤڈ اسپیکر‘‘ کے درمیان ہے، نہ کہ جدید انسان اور اسلام کے درمیان۔
068
1984 میں سابق وزیر اعظم ہند، مسز اندرا گاندھی (پیدائش 1917)کے حکم کے تحت امرتسر میںواقع سکھوں کی مذہبی عبادت گاہ ہرمندر صاحب (گولڈن ٹیمپل) میں فوجی کارروائی کی گئی۔ اس فوجی کارروائی کو آپریشن بلو اسٹار (Operation Blue Star)کہاجاتا ہے۔ سکھوں کے نزدیک یہ ان کے مقدس مقام کی بے حرمتی کے ہم معنیٰ تھا۔چنانچہ سکھوں کا طبقہ ان سے ناراض ہو گیا ۔ یہاںتک کہ کچھ انتہا پسند سکھوں نے انھیں31 اکتوبر 1984کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی ریڈیو نے کہا تھا:
(The assasination of Mrs Indira Gandhi by Sikh youths) has effectively nullified Maneka Gandhi as a political force. Moreover, this murder has triggered of “a wave of sympathy” in favour of Rajiv Gandhi.
مسز گاندھی کے قتل نے مینکا گاندھی کو بحیثیت سیاسی طاقت کے بالکل ختم کردیا۔ مزید یہ کہ اس کے بعد راجیو گاندھی کے حق میں ہمدردی کی زبردست لہر پیدا ہوگئی ہے۔ جن لوگوں نے مسز اندرا گاندھی کو قتل کیا تھا انھوں نے بطور خود یہ سمجھا تھا کہ وہ اندرا فیملی کو سیاست کے میدان سے ہٹا رہے ہیں۔ مگر اسی قتل کے بعد اندرا فیملی مزید طاقت کے ساتھ سیاست کے میدان میں واپس آگئی۔ آٹھویں الکشن (1984) میںکانگریس کو ہمیشہ سے زیادہ لوک سبھا کی سیٹ ملی، یعنی کل 401۔
غیر دانش مندانہ اقدام کا نتیجہ اکثر الٹا نکلتا ہے، اور مذکورہ واقعہ الٹا نتیجہ نکلنے کی ایک عبرت ناک مثال ہے۔
069
سوامی پورن جی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو گرو ہیں۔ وہ یورپ میں اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ایک سفر کے دوران روم سے دہلی تک ہوائی جہاز میں ان کا ساتھ رہا۔ اس کے بعد ان کے کئی ٹیلیفون آئے یہاں تک کہ مندرجہ ذیل مقام پر ان سے ملاقات ہوئی:
Suit 2025, Hotel Sentaur, New Delhi
میںنے سوامی پورن جی سے کہا کہ آپ کے نزدیک سچائی کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سچائی کوئی ایک معلوم چیز نہیں۔ میںنے کہا کہ جب سچائی کوئی ایک معلوم چیز نہیں تو آپ اپنے سفروں میں کس چیز کا پرچار کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں لوگوں کو یہ نہیں بتاتا کہ سچائی کیا ہے۔ میں یہ بتاتاہوں کہ وہ کون سا پراسس ہے جس کو فالو(follow) کرکے تم سچائی تک پہنچ سکتے ہو۔
میںنے دوبارہ ان سے سوال کیا کہ سچائی اگر چہ آپ کے نزدیک معلوم چیز نہیں مگر آپ کے بیان کے مطابق سچائی کا پراسس ضرور ایک معلوم چیز ہے۔ جبھی تو آپ اس کا پرچار کرتے ہیں۔ پھر آپ کے نزدیک وہ کرائٹیرین (criterion) کیا ہے، جس پر جانچ کر ہم یہ معلوم کرسکیں کہ آپ کا تجویز کردہ پراسس درست ہے۔ سوامی جی اس کا کوئی واضح جواب نہ دے سکے۔ کچھ دیر گفتگو ہوتی رہی۔ آخر میں ان کو الرسالہ انگریزی پیش کیاگیا۔
070
انڈیا کے ایک عالم دین لندن کی ایک مسجد میں امام ہیں۔وہ لندن جاتے ہوئے مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان کے فلاں عالم صاحب بہت بڑے عالم تھے۔ جزئیاتِ فقہ پر ان کی نظر جتنی وسیع تھی شاید ہی ہندو پاک میں کسی دوسرے عالم کی ہو‘‘۔ گویا جزئیاتِ دین کے عالم ہونے کا نام عالم ہے، اساسات دین کا عالم ہونے کا نام عالم نہیں۔
فقہ جب ابتداء ً بنی تو اساساتِ دین کے مطالعہ کے لیے نہیں بنی بلکہ مسائل دین کے مطالعہ کے لیے بنی۔ اسی طرح فقہ پر جزئیاتی ذہن غالب آگیا۔ اسی فقہ پر ہمارے موجودہ مدارس کی بنیاد قائم ہے۔ ہمارے مدارس میں جزئیاتی مسائل پر زبردست بحثیں ہوتی ہیں۔ حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ جزئیاتی مسائل کے عالم ہونے کا نام عالم ہے۔ اس طریقۂ تعلیم نے ملت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ موجودہ زمانے کے دینی اختلافات کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے مدارس کا تعلیمی نظام فقہ پر قائم ہے۔ اگر مدارس کا نظام قرآن و حدیث پر قائم کیا جائے تو اس قسم کے جھگڑے اپنے آپ ختم ہوجائیں گے۔
071
اخوان المسلمون کی تحریک کو مصر اور دوسرے عرب ملکوں میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ اخوانی تحریک کے مختلف شعبے تھے۔ ان میں سے ایک فوجی شعبہ تھا جس کو جناح عسکری کہا جاتا تھا۔ اخوان کے جناح عسکری کے سربراہ حسن دوح (Hasan Dauh [1921-2001]) تھے۔موجودہ زمانے میں جو اسلامی تحریکیں اٹھیں ان سب کا یہی حال رہا ہے۔ کسی میں جناح عسکری عملاً قائم تھا، اور کسی میں صرف ذہنی طور پر وہ پایا جاتا تھا۔
تحریکوں کی اس عسکری جدو جہد(armed struggle)کا سبب یہ ہے کہ مفروضہ ’’دشمنانِ اسلام‘‘ کے رد عمل میں اٹھیں۔ کوئی یہودیوں کے خلاف، کوئی انگریزوں کے خلاف، کوئی فرانسیسیوں کے خلاف۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب میں مشترک طورپر نفرت او رتشدد کا ذہن پایا جاتا ہے۔
موجودہ زمانے کی ان تحریکوں میں سی کسی تحریک میں ’’جناح دعوتی‘‘ نہ تھا۔ اگر یہ تحریکیں حقیقی معنوں میں دعوتی محرک کے طورپر اٹھتیں تو نہ صرف ان کے یہاں جناح دعوتی موجود ہوتا بلکہ ان کے یہاں دعوت ہی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی۔ اور پھر ان کا مزاج نفرت اور تشدد کے بجائے محبت اور امن کا بنتا۔
دعوت کا کام دلوں کو جیت کر اور ذہنوں کو مطمئن کرکے ہوتا ہے، اس لیے داعی کے اندر دوسروں کے لیے محبت، اور خیر خواہی کی نفسیات پیدا ہوتی ہیں۔
072
پانی پت کی جنگ (1526) میں بابر کو ہندستانی راجاؤں کے مقابلے میں فتح حاصل ہوئی۔ اس فتح کا راز بابر کا توپ خانہ تھا جس کو رومی ترک چلاتے تھے۔ بابر نے یہ توپ رومی ترکوں سے حاصل کی تھی۔ مگر عجیب بات ہے کہ بابر کی اولاد اس واقعہ کو بالکل بھول گئی۔ ان کی سمجھ میں کبھی یہ نہ آیا کہ توپ سازی کے فن کو ترقی دینے کے لیے باقاعدہ تجربہ گاہیں بنائی جائیں۔مغلوں اور ہندستانی نوابوں کی یہی پس ماندگی تھی، جس نے انگریزوں کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنی برتر ٹکنیک کے ذریعے ہندستان پر قابض ہوجائیں۔
انگریزوں نے فنِ جہاز رانی کو زبردست ترقی دی مگر ہندستان کے مغل حکمراں جہاز رانی کے فن سے بالکل بے خبر رہے۔ رابرٹ کلائیو اور نواب سراج الدولہ کی فوجوں میں مقابلہ ہوا تو رابرٹ کلائیو کی فوج کو زبردست کامیابی ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کلائیو کی اسپرنگ دار (flint locks) بندوقوں، رائفلوں اور توپوں کی بناوٹ اتنی اعلیٰ تھی کہ سراج الدولہ کی فتیلہ سوز (match locks) بندوقیں ان کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمان دور جدید میں سائنس کے علوم میں پیچھے ہو گئے اور یہی موجودہ زمانے میں ان کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب ہے۔
073
ہندستان میں مسلمانوں کی بہت سی جماعتیں ہیں مگر تقریباً سب کی سب ردِّ عمل کی پیداوار ہیں۔ مسلمانوں کی ایک جماعت او ر دوسری جماعت میں کوئی حقیقی فرق نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ جو لیڈر اینٹی ہندو ٹون (anti-Hindu tone) میں بولتا ہے اس سے مسلمان خوش ہوجاتے ہیںاور جو پرو ہندو ٹون (pro-Hindu tone) میں بولتا ہے اس سے ناخوش۔
قوموں کا عام مزاج یہ ہے کہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ (anti-establishment) آوازوں کو پسند کرتی ہیں اور پرو اسٹیبلشمنٹ (pro-establishment) آوازوںکو عوام کے اندر پسندیدگی حاصل نہیں ہوتی۔
ہندستان میں اس نفسیات پر مزید اضافہ یہ ہوا کہ مختلف اسباب سے مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے خلاف منفی سوچ پیدا ہوگئی۔ اس کی وجہ سے کوئی ایسی تحریک ان کے درمیان مقبول نہیں ہوتی جو ہندوؤں سے ایڈجسٹمنٹ (adjustment) کی باتیں کرتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی تقریباً نصف صدی کی پرشور مسلم سیاست کے باوجود مسلمانوں کے حصہ میں احتجاج کے سوا اور کچھ نہ آیا۔
074
شیخ محمد سلیمان القائد (لیبیا) 23اگست 1984کو روانڈا کی راجدھانی کیگالی (Kigali) سے دہلی آئے تھے، اور یکم ستمبر 1984کو واپس گئے۔وہ اردو زبان بالکل نہیں جانتے۔ مگر عجیب بات ہے کہ انھوں نے میرے مشن کو جتنی گہرائی کے ساتھ سمجھا ہے، شاید کسی اور نے نہیں سمجھا۔ انھوں نے میری عربی کتابیں بار بار پڑھی ہیں۔ میرے ساتھ طرابلس میں تقریباً دو مہینہ رہے ہیں۔ اردو کے عربی ترجمے خود کرواکر پڑھے ہیں۔
دہلی میںانھوں نے مولانا حمید اللہ ندوی اندوری سے کہا — اگر آپ نے شیخ وحید الدین کے مشن کو واقعۃً پوری طرح سمجھا ہے تو آپ میرے بعد دوسرے شخص ہوں گے۔
شیخ محمد سلیمان القائد افریقہ میں زبردست تبلیغی کام کررہے ہیں۔ مگر وہ اپنے کام کو ہمارے کام ہی کی شاخ سمجھتے ہیں۔ انھوںنے کہا — دہلی مرکز تفجیر الثورۃ الفکریۃ ہوگا، اور یہاں سے سارے عالم میں اسلامی دعوت پھیلے گی۔کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس نیک تمنا کو واقعہ بنا دے۔
075
پاکستان کے ایک معروف عالم دین دہلی آئے اور ہمارے یہاں ٹھہرے۔ ایک ملاقات میں مَیں نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ کی دریافت کیا ہے‘‘۔ انھوںنے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا: قرآن حکیم میں امت مسلمہ سے خطاب کا کلائمکس سورہ حدید ہے۔ سورہ حدید کی پہلی چھ آیات میں ذات باری تعالیٰ کی صفات کا اعلیٰ ترین سطح پر بیان نقطۂ عروج پر ہے۔
عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانہ میں کوئی بھی شخص قرآن میں دعوت کو نہیں پاتا۔ دوسری ہر چیز آدمی پالیتا ہے مگر کسی کو قرآن میں دعوت نہیں ملتی۔ حالاں کہ امت کی سرفرازی کا تعلق دعوت سے ہے نہ کہ کسی اور چیز سے۔
076
علامہ اقبال(1877-1938) کا ایک شعر ہے:
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو خوف باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو
اس قسم کے اشعار لوگ بہت جوش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس قسم کے اشعار جو ذہن بناتے ہیں وہ سراسر غیر قرآنی ذہن ہے۔ قرآن کے مطابق، خاشاک غیر اللہ کو جلانا اور باطل کو غارت کرنا خدا کا کام ہے، نہ کہ انسان کا کام۔ اس قسم کے اشعار سے صرف جھوٹا فخر پیدا ہوسکتا ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی کار آمد ذہن۔
مومن کا اصل کام یہ ہے کہ وہ دنیا والوں کا خیر خواہ (well-wisher)ہو۔ لوگوں کے لیے اس کے دل میں محبت کے چشمے جاری ہوجائیں۔ وہ لوگوں کو آخرت کی دعوت دینے کا حریص بنے ، نہ کہ انھیں شعلوں کی نذر کرنے کا حریص۔اہلِ ایمان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حق کا اعلان کرنے والے بنیں۔ اس اعلان کا اصل جذبہ خیر خواہی ہونا چاہیے ،جس کو قرآن میں نصح کہاگیا ہے (الاعراف، 7:62)۔ یہ داعیانہ جذبہ ہی صحیح ایمانی جذبہ ہے۔ اس ناصحانہ دعوت کے نتیجے میں یا تو ایسا ہوتا ہے کہ لوگ حق کے راستے کو قبول کرلیتے ہیں یا وہ اس کا انکار کرکے سزا کے مستحق بنتے ہیں۔تاہم اس سزا کا فیصلہ کرنے والا اور اس کو نافذ کرنے والا خدا ہے، نہ کہ کوئی انسان۔
077
عرب ممالک کے سفر کے دوران اگست 1982میں میری ملاقات ایک مصری نوجوان سے ہوئی تھی۔ ان کا نام ڈاکٹر محمد سعید مراد ہے۔ انھوںنے مصر کے انور سادات (1918-1981) کے بارے میں بتایا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ میں اِن اخوانیوں پر رحم نہیں کروں گا۔
انور سادات نے اسکندریہ کے شیخ المحلاوی کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور اس کے بعد تقریر کرتے ہوئے، محمد سعید مراد کے الفاظ میں، کہا :قال السادات عنہ فی خطبۃ عندما کان یتحدث عن الجماعات الاسلامیۃ اغتقلہا۔
’’وہناک رجل من الاسکندریۃ کان یہاجم النظام ولکنہ الآن مرمیّ فی السجن مثل الکلب‘‘ یقصد الشیخ المحلاّوی ۔ وکان السادات یقول فی خطابہ تکراراً انا لم ارحم ہذہ الجماعات۔(اسکندریہ میں ایک آدمی ہے، وہ حکومت سے ٹکراؤ کرتا ہے، لیکن اب وہ جیل میں کلب کی مانند بند ہے۔ ان کی مراد شیخ المحلاوی تھے۔ اور سادات اپنی تقریروں میں بار بار کہا کرتے تھے کہ میں ان جماعتوں پر رحم نہیں کروں گا)
انورسادات کے یہ الفاظ بہت سخت معلوم ہوتے ہیں۔ مگر اس میں پچاس فی صد غلطی اگر انورسادات کی ہے تو پچا س فی صد غلطی ان حضرات کی جو حکومت ٹکراؤ کی سیاست کررہے تھے۔
مسلمانوں کا کوئی بھی ادارہ ہو۔ اگر وہاں کوئی شخص ادارے کے صدر کامخالف بن جائے تو اس کے ساتھ بقدرِ استطاعت ادارے کے لوگ وہی سلوک کریں گے ،جو اپنی استطاعت کے دائرے میں انورسادات نے اپنے مخالفوں سے کیا۔ انورسادات اور ان کے جیسے حکمرانوں کے ظلم کی داستان سنانے والے لوگوں کو جاننا چاہیے کہ یہ وہی سلوک ہے جو خود اپنے اداروں میں ہورہا ہے:
این گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند
078
سارے قرآن میںایک آیت بھی ایسی نہیں جس میں فطرت کے مظاہر کی ایسی توجیہہ کی گئی ہو، جس سے سائنسی تحقیقات کی نفی لازم آئے۔یہی وجہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں اس قسم کا کوئی واقعہ نہیںملتا جو چرچ کی تاریخ میں ’’گلیلیو‘‘ کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ اسلام میں اس کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی کہ علمی نظریات کے لیے کسی کی پکڑ دھکڑ کی جائے یا اس کو سزا دی جائے۔
نظریاتی احتساب کی مثالیں اسلامی تاریخ میں خالص مذہبی لوگوں کے یہاں نہیں پائی جاتیں۔ صرف معتزلہ کے یہاںاس کی مثالیں ملتی ہیں۔ اور یہ ایک معلوم بات ہے کہ معتزلہ کٹر مذہبی لوگ نہیںتھے۔ بلکہ یہ وہ لوگ تھے، جو اپنے آپ کو روشن خیال کہتے تھے، اور آزادیٔ فکر کے علَم بردار تھے۔
معتزلہ نے عباسی حکمرانوں کی مدد سے اپنے نظریاتی مخالفین کا زبردست احتساب کیا۔ اسی احتساب کی ایک مثال امام احمد بن جنبل ہیں۔ امام احمد بن حنبل کو زبردست سزائیں دی گئیں۔ صرف اس لیے کہ وہ ’’خلقِ قرآن‘‘ کے مسئلے میں معتزلہ کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔
امام احمد بن حنبل کو مسلسل مارا گیا۔مارنے والے ایک جلاد نے بعد میں اس ضرب کی شدت کے بارے میں کہا تھا :ضربت أحمد بن حنبل ثمانین سوطا، لو ضربتہ فیلا لہدمتہ (المنہج الأحمد لأبی الیمن العلیمی، ج 1 ص 107)۔ یعنی میں نے احمد بن حنبل کو اسی کوڑے مارے، اگر میں اس طرح کسی ہاتھی کو مارتا تو اس کو گرادیتا۔
079
ایک مجذوب تھے۔ وہ گندی حالت میں سڑکوں پر پڑے رہتے تھے۔ لوگ ان سے کچھ کہتے تو ان کا جواب ہمیشہ صرف ایک ہوتا تھا:حرام کھاؤ، چوری کرو، ماں پر سوؤ۔
لوگ حیران رہتے کہ مجذوب صاحب اس قسم کی الٹی بات کیوں کہتے ہیں۔ تاہم مجذوب صاحب نے کبھی اس کی تشریح نہیں کی۔ کوئی شخص ان الفاظ کا مطلب پوچھتا تو وہ بگڑ جاتے۔ مجذوب اسی طرح کہتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا۔
مجذوب صاحب کے ایک معتقد سے میری ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ میں برسوں تک مجذوب صاحب کے الفاظ پر سوچتا رہا۔ آخر کار میری سمجھ میں آگیا کہ وہ کیا کہتے تھے۔ ان کا مطلب تھا:غصہ کھاؤ، چھپ کر عبادت کرو، زمین پر سوؤ۔
اسلام توہم پرستی کو مٹانے آیا تھا مگر بعد کے زمانے میں خود مسلمان طرح طرح کے توہمات میں مبتلا ہوگئے۔ انھیں میں سے ایک ’’مجذوب‘‘ کا عقیدہ بھی ہے۔شریعت میںمجذوب کوئی چیز نہیں۔ مگر لوگ جب کسی کو غیر معمولی حالت میں دیکھتے ہیںتو سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کوئی مجذوب (پہنچے ہوئے شخص ) ہیں، اور اس کی پرستش شروع کردیتے ہیں۔
080
مہاتما گاندھی نے آزاد ہندستان کے کانگریسی حکمرانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ خلیفہ ابو بکر اور خلیفہ عمر کے نمونہ کی پیر دی کریں:
We have to follow the example of Abu Bakr and Umar
اسلام کے ابتدائی دور میں زندگی کا جو نمونہ ظہور میں آیا وہ ساری انسانی تاریخ کا ایک انوکھا نمونہ تھا— خلیفہ ابوبکر اور خلیفہ عمر اپنے وقت کی انتہائی وسیع اور عظیم سلطنت کے حکمراں تھے ۔مگر ان کی زندگی اتنی سادہ تھی کہ دیکھنے والے ان کو عام شہری سمجھتے تھے۔ حق کو قائم کرنے اور باطل کو مٹانے میں کوئی جذبہ ان کے لیے رکاوٹ نہیں بنتا تھا۔
ان لوگوں کی زندگیاں ساری انسانیت کے لیے معیاری نمونے ہیں۔ جو لوگ اسلام کوبطور عقیدہ کے نہیں مانتے وہ بھی اگر سنجیدہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو مجبور پائیں گے کہ اپنے حکمرانوں کو ابوبکر وعمر کی مثال دے کر کہیں کہ تم ان کی تقلید کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے پاس دوسرا کوئی نمونہ نہیں جس کو وہ کامل معیار کے طور پر پیش کرسکیں۔
081
لاش نس (Loch Ness) اسکا ٹ لینڈ کی ایک بڑی جھیل ہے۔ 1975میں ایک امریکی قانون داں نے زمیں دوز کیمرے کے ذریعے اس جھیل کے اندرونی فوٹو لیے۔ ان فوٹوؤں میں جھیل کے اندر کے کچھ مناظر دکھائی دیتے تھے۔یہ مناظر بادل کے دھبوں کی شکل میں تھے۔ ان تصویری دھبوں کا مطالعہ شروع کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان دھبوں پر قیاس کا اضافہ کرکے سمجھ لیاگیا کہ یہ زندہ جانوروں کی تصویریں ہیں۔ کہاگیا کہ اسکاٹ لینڈ کی اس جھیل کے اندر انتہائی قدیم زمانے کے بعض بہت بڑے بڑے جانور موجود ہیں، جو نظریۂ ارتقاء کے مطابق قدیم زمانے میں افراط کے ساتھ زمین پر پائے جاتے تھے۔اس قیاس پر ماہرین کو اتنا یقین تھا کہ اس کا ایک مفروضہ نام پلی ساسور (Pleisosaurs) رکھ دیا گیا۔ مگر بعد کو معلوم ہوا کہ یہ مفروضہ بالکل غلط تھا۔ یہ دھبے چٹانوں کے تھے، نہ کہ زندہ جانوروں کے۔
انسانی علم میں ہمیشہ اس قسم کی غلطیوں کا انکشاف ہوتا رہا ہے، پہلے بھی اور آج بھی۔ مگر قرآن میںآج تک اس قسم کی کسی غلطی کا انکشاف نہ ہوسکا۔ حالاں کہ قرآن ہر قسم کے موضوعات کو ٹَچ (touch) کرتا ہے۔ یہی ایک واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے، وہ کوئی انسانی کلام نہیں۔ اگر وہ انسانی کلام ہوتا تو یقینا اس کے اندر بھی وہی کمیاں پائی جاتیں جو تمام انسانوں کے کلام میں بلا استثنا پائی جاتی رہی ہیں۔
082
ایس ایم عارف ندوی نے ایک واقعہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ قرول باغ (دہلی) میںحکیم اجمل خاں نے طبیہ کالج قائم کیا۔ اس کا بہت بڑا کیمپس تھا۔ مگر انھوں نے اس کے اندر مسجد نہیں بنائی۔ تقسیم ملک کے بعد اس کا بڑا حصہ شرنارتھیوں کی قیام گاہ بن گیا۔
1970 کے بعد یہاں کے مسلمانوں کو خیال ہوا کہ کالج کے کیمپس میں ایک مسجد بنائیں۔ انھوںنے بنانا شروع کیا۔ مگر جب دیواریں کھڑی ہوگئیں تو مقامی غیر مسلموں نے اعتراض کیا، اور کہا کہ یہاں جب پہلے مسجد نہیں بنائی گئی تو اب آپ کو یہاں مسجد بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ایک مسلمان نے اس کے بعد ایک تدبیر کی۔ اس نے خاموشی سے ایک پتھر تیار کرایا۔ اس پرکندہ کرکے لکھا ہوا تھا:
ہذا المسجد وقف لعامّۃ المسلمین
اس نے اس پتھر کو مسجد کے پاس زمین میں گاڑدیا۔ اس کے بعد ایک روز زور شور کے ساتھ اعلان کیا کہ یہاںایک پتھر گڑا ہوا ملا ہے۔ ہندو جمع ہوئے۔ انھوںنے دیکھا کہ واقعی زمین سے ایک پتھر برآمد ہوا ہے، اور اس پر مذکورہ عبارت لکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد ہندو خاموش ہوگئے اور مسلمانوں نے وہاں باقاعدہ مسجد تعمیر کرلی۔
ہندو جب کہیں مندر بنانے والے ہوتے ہیں تو وہاں ان کا ایک بھگوان پرکٹ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی اپنی مسجد کے حق میں ایک پتھر کو پرکٹ کرلیا۔ مذکورہ حالات میں مَیں اس تدبیر کو درست سمجھتا ہوں۔ مگر مسلمان جس تدبیر کو خود اپنے لیے پسند کرتے ہیں، وہی تدبیر اگر دوسرے لوگ کریں تو انھیں اس پر شور وغل نہیں کرنا چا ہیے۔
083
1981 میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ہنگامے ہوئے تھے۔اس کے نتیجے میں یونی ورسٹی کے اندر پولس بلائی گئی۔ اس وقت ہندستان کی مسلم قیادت نے زبردست جوش وخروش کا مظاہرہ کیا۔ 29اگست 1981 کو ایک معروف مسلم ادارے کی جانب سے مسلم یونی ورسٹی کنونشن ہوا۔ یہ کنونشن بچوں کا گھر دہلی میںمنعقد کیا گیا تھا۔ اس موقع پر ادارے کی ترجمان میگزین نے لکھا:
’’یونی ورسٹی کے ذمہ داران یونی ورسٹی کے مسائل کو جیل اور گولی اور رسوا کن بیانات سے کیوں طے کرنا چاہتے ہیں۔ معقولیت اور گفتگو کا طریقہ کیوں نہیں اپنایا جاتا۔ہمارے ادارے نے مسلم یونیورسٹی کنونشن اس لیے بلایا ہے تاکہ یونی ورسٹی کے معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کیا جائے اور یونیورسٹی کی فضا خو ش گوار ہوسکے‘‘ (28اگست، 1981)۔
جب دوسروں کا احتساب کرنا ہو تو تمام مسلم لیڈر یہی زبان بولتے ہیں، مگر خود اپنا احتساب کرنا ہو تو وہ اس کے بالکل خلاف عمل کرتے ہیں۔ آج ہر مسلم ادارے کا یہ حال کہ اس کو جس سے اختلاف ہو جائے اس کے بارے میں بقدر استطاعت وہ ’’گولی‘‘ اور’’ رسوا کن بیانات‘‘ کاطریقہ اختیار کرتا ہے۔ مگر دوسروں سے اپنے لیے وہ اس سے مختلف رویے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس قسم کے مطالبات بلاشبہ جھوٹے مطالبات ہیں، اور جھوٹے مطالبات کی موجودہ دنیا میں کوئی قیمت نہیں۔
084
ٹھیک سات سال پہلے 6 فروری1979 کو میں نے حسب ذیل سطریں لکھی تھیں:مکہ میں جب خدا کے دشمنوں نے خدا کے رسول کو گھر سے بے گھر کرنے کا منصوبہ بنایا تو خدا نے اپنے رسول کے لیے دوسرا زیادہ بڑا دروازہ کھول دیا۔ اس نے مدینہ کو اسلامی دعوت کا مرکز بنادیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص سنت ہے۔ وہ ایک کو حق کا راستہ روکنے کا مجرم ثابت کرکے دوسرے کو حق کا استقبال کرنے کا اعزاز دیتا ہے۔ وہ ایک کو ڈسکریڈٹ (discredit) کرکے دوسرے کو کریڈٹ (credit) عطا فرماتا ہے (6 فروری، 1979)۔
یہ سطریں میں نے ایک مسلم ادارے میں رہتے ہوئے لکھی تھیں، جب کہ ادارے والے مجھ کو بے گھر کرنے اور میرے مشن کو برباد کرنے کے لیے اپنی آخری کوشش کررہے تھے ،اور میں بظاہر بے بس بنا ہوا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے راستہ کھولا ۔ آج میں دوبارہ یہ سطریں نظام الدین کے اسلامی مرکز میں لکھ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا معجزہ دکھایا۔ الرسالہ بھی خدا کے فضل سے زندہ رہا اور میں بھی۔
085
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبر ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کی شخصیت اپنے ماحول سے سراسر غیر متاثر نظر آتی ہے۔ مثال کے طورپر آپ کے زمانے میں عرب میں شاعری کا بہت زور تھا۔ شعر گوئی کو اس وقت سب سے بڑا کمال سمجھا جاتا تھا۔ وہی شخص قوم میں نمایاں ہوتا تھا جو شعر کی زبان میں اپنی بات کہہ سکے۔
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں شعر وشاعری کا مطلق کوئی اثر نہیں ملتا۔ اپنے زمانے کے ادبی رواج سے اس قدر غیر متاثر رہنے کی کوئی دوسری مثال غالباً تاریخ میں نہیں ملے گی۔ آپ کی زندگی کا یہ غیر معمولی پہلو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ آپ ایک غیر معمولی انسان تھے۔ آپ خدا کے پیغمبر تھے۔
086
ایک مسلمان بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ وہ بہت دنوں سے صابن بنانے کا تجربہ کررہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ صابن کا اصل جزء تیل ہے۔ صابن میں پوسٹک سوڈا بھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر اس کا خاص کام یہ ہے کہ وہ تیل کو جمادے ۔ کسی بھی نباتاتی تیل سے صابن تیار ہوسکتا ہے۔ انھوںنے کہا— مسلمانوں کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمان اپنے گھر میں صابن نہیں بناتے۔ حالاں کہ صابن بنانا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ شب برات کا حلوا بنانا۔
اس کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اپنے گھر میں صابن بناتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ نہیں۔ انھوںنے کچھ عذر بیان کیے جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر میں صابن بنانے کا کام نہیں کرسکتے۔مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ نہیں کہ مسلمان اپنے گھر میں ’’صابن‘‘ نہیں بناتے۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اپنے گھروں میں ’’صابن‘‘ بنانے کا مشورہ وہ لوگ دے رہے ہیں، جو خود اپنے گھروں میں ’’صابن‘‘ بنانے کا کام نہیں کرتے۔
087
مولانا محمد شاکر صاحب (دہلی) نے بتایا کہ ایک شخص پر کسی جرم میں مقدمہ چلا اور اس کو قید کی سزا ہوگئی۔اس نے جیل خانے سے ایک بزرگ کے یہاں پیغام بھیجا کہ میں جیل میں بند ہوگیا ہوں۔ کوئی ایسا عمل بتائیے کہ اس سے رہائی ہوجائے۔ بزرگ نے اس کو بتایا کہ تم یہ پڑھا کرو:
آج کل پرسوں ہزار بار بگوید قفل در زنداں بکشاید
اس نے اس جملہ کا ورد شروع کیا اور اسی کے بعد اس کو جیل خانے سے رہائی مل گئی۔
مسلمان بہت بڑی تعداد میں اسی قسم کے طلسماتی اعمال کے فریب میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ دین جو توہمات کو ختم کرنے کے لیے آیا تھا، اس کے ماننے والے خود توہمات میں مبتلا ہو کر رہ گئے۔ مزید یہ کہ انھوں نے توہمات کواسلامائز (Islamize)کر لیا۔ انھوںنے کچھ اسلامی الفاظ بول کر اس کو اسلامی بنا لیا۔
088
بشیر احمد راشد الامینی (پیدائش 1942 ) 1970میں حج کرنے گئے۔انھوںنے بتایا کہ مدینہ میںانھوںنے ایک نقشہ نما خریدا،جس میں مسجد وغیرہ کی تصویریں تھیں۔ انھوں نے اس کو پھیری والے سے لیا تھا۔ پھیری والے نے بتایا تھا کہ اس میں دس تصویریں ہیں۔ مگر انھوںنے گھر پر جاکر دیکھا تو صرف آٹھ تصویریں تھی۔ وہ دوبارہ پھیری والے کے پاس شکایت کرنے کے لیے گئے۔ پھیری والے نے کہا ہم کیا کریں ہم تو ہول سیلر سے خریدتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ مجھ کو ہول سیلر کے پاس لے چلو۔ کافی جھگڑا کے بعد وہ راضی ہوا۔ ہول سیلر کے پاس پہنچے تو وہ بھی جھگڑا کرنے لگا۔ بشیر صاحب نے اس کے سامنے ایک آیت پڑھی:فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَى اللَّہِ وَالرَّسُولِ (4:59)۔ یعنی پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔آیت سن کر عرب دکان دار فوراً چپ ہوگیا۔
اسلام ایک ایسے برتر خدا کا تصور دیتا ہے جو سب سے بلند ہے۔ کسی سماج میں خدا کاتصور زندہ ہو تو یہ اس سماج کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے بعد ایک شخص کے لیے ممکن ہوجاتا ہے کہ وہ خدا کا نام لے کر کسی کو چپ کرسکے۔ وہ خدا کا واسطہ دے کر کسی ظالم کو ظلم سے باز رکھے۔
089
بزرگوں کی بزرگی ثابت کرنے کے لیے کس طرح جھوٹے قصے گھڑے جاتے ہیں، اس کی ایک دلچسپ مثال ذیل کا قصہ ہے:
مولانا قاسم نانوتوی کے بارے میں یہ قصہ مشہور ہے کہ مولانا نانوتوی دار العلوم دیو بند میں استاد تھے۔ دارالعلوم کی طرف سے ان کو دس روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ نواب صدیق حسن خاں (بھوپال) نے ان کو لکھا کہ آپ دیوبند سے بھوپال آجائیں۔ یہاں آپ کو 300روپئے ماہوار پیش کیے جائیں گے۔ مولانا نانوتوی نے ان کو جواب میں لکھا :’’میںیہاں مدرسہ میں دس روپیے ماہوار تنخواہ پاتا ہوں۔ 5روپیے میں بچوں کا خرچ چل جاتا ہے، اور بقیہ پانچ روپیہ کا مصرف ہر ماہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اگر میں بھوپال آجاؤں تو مجھ کو ہر ماہ 295روپیہ کا مصرف تلاش کرناہوگا۔ اور یہ زحمت اٹھانا میرے لیے مشکل ہے‘‘۔
اس سلسلے میں مولانا محمد عبد الحق (انچارج دفتر دار العلوم دیوبند) کا ایک مضمون الجمعیۃ 4 جنوری 1975میںچھپا ہے۔ انھوںنے اس قصہ کو سراسر بے بنیاد بتایا ہے۔ انھوںنے لکھا ہے کہ مولانا قاسم نانوتوی نے اپنی ساری عمر کبھی دار العلوم دیوبند سے کوئی تنخواہ ہی نہیں لی (ملاحظہ ہو، سوانح قاسمی جلد اول، صفحہ 536 )۔
جب مولانا نانوتوی دار العلوم دیوبند سے سرے سے کچھ تنخواہ ہی نہیں لیتے تھے تو ان کے بارے میں مذکورہ قصہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔
090
میںنے ایک خانقاہ میں چند دن گزارے۔ یہاں میںنے دیکھا کہ لوگ زور وشور سے ذکربالجہر کررہے ہیں۔ میںنے وہاں کے ایک عالم دین سے کہا یہ ذکر بالجہر جس کی گونج ہر خانقاہ میں سنائی دیتی ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ قرآن کے نص صریح کے خلاف ہے۔ کیوں کہ قرآن میںآیا ہے:وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِی نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَخِیفَةً وَدُونَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ (7:205)۔ یعنی اور اپنے رب کو صبح و شام یاد کرو اپنے دل میں، عاجزی اور خوف کے ساتھ اور پست آواز سے۔ مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے یہاں اس قسم کے ذکر کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس زمانے میں مطلق اس کا رواج نہیں تھا کہ لوگ بیٹھ کر بلند آواز سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار کررہے ہوں۔
انھوں نے جواب دیا۔ اصل یہ ہے کہ رسول اللہ کی روحانیت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ جو آپ کو دیکھتا تھا وہ ایمان کا اعلیٰ مقام حاصل کرلیتا تھا۔ مگر بعد کے دور میں جب یہ چیز باقی نہ رہی تو بزرگوں نے ذکر بالجہر کا طریقہ اختیار کیا۔ اس سے دل پر ضرب لگائی جاتی ہے اور دل کو پاک صاف کیا جاتا ہے۔
’’بزرگوں‘‘ کی طرف سے اس قسم کا جواب دیا جانا اور مریدوں کا نہایت وفاداری کے ساتھ اس کو محفوظ کرلینا ظاہر کرتا ہے کہ مسلم قوم میں دینی فکر کی سطح آج کتنی پست ہوچکی ہے۔ ذکر عبادت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ عبادت کے لیے یہ امر مسلم ہے کہ یہ اجتہاد کے دائرے سے باہر کی چیز ہے۔ یعنی اس کا تعین صرف خدا کرسکتا ہے۔ اِنسان اس کی صورت متعین نہیں کرسکتا۔ اب مذکورہ بالا سوال پر غور کیجیے تو منطقی طورپر یہ جواب جہاں پہنچاتا ہے وہ یہ کہ ’’ہم پیغمبر نہیں بن سکتے تھے، اس لیے ہم نے خدا کی نشست پر قبضہ کرلیا ہے۔‘‘
091
حضرت مسیح علیہ السلام بلاشبہ خدا کے پیغمبر تھے مگر آپ کا تذکرہ عیسائیوں کی مقدس کتاب کے باہر کہیں موجود نہیں۔ اس بنا پر بہت سے اہلِ علم حضرات، مسیح کو غیر تاریخی شخصیت قرار دیتے ہیں۔کسی شخص کے تاریخی شخص ہونے کا ایک معیار یہ ہے کہ اس کا ذکر معاصر تاریخ (contemporary history) میں موجود ہو۔چنانچہ عیسائی علما نے بے شمار کوشش کی کہ وہ حضرت مسیح کی معاصر تاریخ میں آپ کا تذکرہ حاصل کرسکیں مگر اس میں انھیں کامیابی نہیں ہوئی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت مسیح کے بارے میں غیر مذہبی ریکارڈ (secular records) نہیں ملتا۔ پیغمبرعیسی کے زمانے کی غیر مسیحی تحریروں میں براہِ راست ان کا کوئی ذکر نہیں۔ تاہم بےپناہ تلاش کے بعد موجودہ زمانے میں بعض بالواسطہ حوالے معلوم کیے گئے ہیں۔ مثلاً بعد کےکچھ یہودی ربّی کی تحریروں میںاس قسم کے جملے دریافت کیے گئے ہیں — فلسطین میںایک جادو گر کا ظہور ہوا تھا تاہم یہ تحریر بھی پہلی صدی عیسوی کی ہے یعنی حضرت مسیح کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد کی۔
092
ایک مضمون نظر سے گزرا۔ یہ مضمون مصافحہ کے شرعی طریقہ کے بارے میں ہے۔ اس میں ’’احادیث نبوی‘‘ کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ دو نوںہاتھوں سے مصافحہ کرنا افضل ہے۔ تاہم ایک ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میںکوئی حرج نہیں۔ یہ ایک حنفی عالم کا مضمون ہے۔ دوسری طرف اہلِ حدیث علما یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا افضل ہے، اور ان کے پاس بھی حدیث موجود ہے۔
اس طرح کے امور میں افضل اور غیر افضل کی بحث چھیڑنا سراسر خلاف سنت ہے۔ جس معاملے میں بھی ایک سے زیادہ طریقہ حدیثوں میں موجود ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں توسع ہے۔ یعنی یہ بھی درست ہے اور وہ بھی درست ہے۔ ایسے تمام امور میں دونوں ثابت شدہ طریقوں کو درست قر ار دینا چاہیے، نہ کہ ایک کو افضل اور دوسرے کو غیر افضل ثابت کیا جائے۔
اسی لیے حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا کہ میں یہ پسندنہیںکرتا ہوں کہ اصحابِ رسول اختلاف نہ کرتے۔ کیوں کہ اگر صرف ایک قول ہوتا تو لوگ تنگی میں پڑ جاتے۔ وہ لوگ نمونہ تھے۔ ان کی اقتدا کی جاتی ہے، اگر کوئی آدمی ان میں سے کسی کے بھی قول کو اختیار کرلے تو وہ آسانی میں ہے(مَا أُحِبُّ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَخْتَلِفُوا؛ لِأَنَّہُ لَوْ کَانَ قَوْلًا وَاحِدًا کَانَ النَّاسُ فِی ضِیقٍ وَإِنَّہُمْ أَئِمَّةٌ یُقْتَدَى بِہِمْ وَلَوْ أَخَذَ رَجُلٌ بِقَوْلِ أَحَدِہِمْ کَانَ فِی سَعَةٍ) جامع بیان العلم و فضلہ، اثر نمبر1689۔
بعدکے لوگوں میں جو فقہی اختلافات ہوئے ان سب کا ابتدائی سبب صحابہ کے یہاں موجود تھا۔ مگر فرق یہ ہے کہ صحابہ کا ذہن ان اختلافات میںیہ تھا کہ یہ بھی درست ہے اور وہ بھی درست۔ مگر بعد کے لوگوں نے یہ بدعت کی کہ ان اختلافات میںافضل اور غیر افضل تلاش کرنے لگے۔ بس یہیں سے شدت پیدا ہوئی، اور اختلاف آخر کار نااتفاقی بن گیا۔ اختلافی امور میں توسع کا ذہن ہو تو کوئی نقصان نہیںہوتا۔ مگر جب افضل اور غیر افضل کی بحث چھیڑ دی جائے تو وہیں سے تباہ کن اختلاف کا آغاز ہوجاتا ہے۔
093
ہندستان کے سابق وزیر اعظم مسٹر مرار جی ڈیسائی یورپ اور امریکا کے بارہ روزہ سرکاری دورہ کے بعد 17جون 1978کو نئی دہلی واپس آئے۔ پالم ائرپورٹ پر جب وہ اپنے ہوائی جہاز سے باہر آئے تو مرکزی وزیر صحت مسٹر راج نرائن نے وزیر اعظم کا استقبال کرتے ہوئے ان کو عطر لگایا ۔ مرارجی نے کہا:’’یہاں تو آپ مجھے عطر کی خوشبو سنگھارہے ہیں لیکن میری غیر حاضری میں آپ کی کرتوتوں کی بدبو آتی تھی۔ مسٹر راج نرائن نے جواب دیا’’نہیں نہیں مرار جی بھائی ، یہ غلط ہے۔‘‘
ہندستان ٹائمس18 جون 1978 ، صفحہ 1
یہ ایک چھوٹا سا نمونہ ہے جس میں ان لوگوں کی تصویر نظرآتی ہے، جو جنتا پارٹی کے نام سے حکومت میں آئے تھے۔ 1977 میں جنتا پارٹی کا حکومت میں آنا بالکل جوار بھاٹا کا معاملہ تھا۔ وہ تیزی سے گورنمنٹ ہاؤس میں داخل ہوئی اور پھر دو سال بعد تیزی سے باہر نکل گئی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ جنتا پارٹی دراصل مخالف کانگریس عناصر کا دوسرا نام تھی۔ جولوگ کسی مخالفانہ نعرے کی بنیاد پر اکٹھا ہوں ان کے اجتماع واتحاد پر ایک نادان آدمی ہی خوش ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح اکھٹا ہونے والے لوگ ہمیشہ نہایت سطحی لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اگر اقتدار پر قبضہ پالیں تب بھی کوئی مثبت کام نہیں کرسکتے۔ وہ جتنی تیزی سے جمع ہوتے ہیں اتنی ہی تیزی سے دوبارہ منتشر ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کے جھوٹے اتحاد کا تماشہ مسلمانوں میں بھی کثرت سے دیکھا جاسکتا ہے۔
094
ڈاکٹر الکسس کیرل(1873-1944) نے لکھا ہے کہ گلیلیو نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو جو ابعاد اور وزن پر مشتمل ہیں اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جاسکتی ہے، ان ثانوی صفات سے الگ کردیا جو شکل، رنگ اور بو وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ کمیّت کو کیفیت سے جدا کردیا گیا:
Galileo, as is well known, distinguished the primary qualities of things, dimensions and weight, which are easily measurable, from their secondary qualities, form, colour, odour, which cannot be measured. The quantitative was separated from the qualitative. The quantitative, expressed in mathematical language, brought science to humanity. The qualitative was neglected. (Man, the Unknown, New York, 1939, p. 278)
095
قرآن میں سورہ الذاریات کی ایک آیت یہ ہے:وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (51:47)۔ اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے:اور ہم نے آسمان کو بنایا ہاتھ سے اور ہم یقینا ًپھیلانے والے ہیں۔
قدیم مترجمین کی سمجھ میں پھیلانے والے کی معنویت نہ آسکی، اس لیے انھوں نے لَمُوسِعُونَ کا ترجمہ حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے:
وہر آئینہ ما توانائیم۔
اور ہم کو سب مقدور ہے۔
اور ہم وسیع القدرت ہیں۔
اور بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں۔
اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔
اور ہم یقیناً بڑی طاقت والے ہیں۔
اور ہم ہی صاحب قدرت ہیں۔ وغیرہ۔
خالص لفظی اعتبار سے یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔ کیوںکہ لفظی ترجمہ یہ ہے:’’ ہم کشادہ کرنے والے ہیں‘‘ یا ’’ہم پھیلانے والے ہیں‘‘۔
ترجمہ کے اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات(expanding universe) ہے۔ انسانی علم کی محدودیت اس کو نہ پاسکی۔ مگر قرآن کے مصنف کو یہ حقیقت اس وقت بھی معلوم تھی کہ جب کہ ساری دنیا میں کوئی ایک شخص بھی اس کو نہیں جانتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اس حقیقت کی رعایت کرتے ہوئے مُوسِعُونَ(ہم پھیلانے والے ہیں) کے لفظ کا انتخاب فرمایا۔
قرآن میںاس طرح کے کثیر شواہد ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن عالِم الغیب کا کلام ہے، محدود ذہن رکھنے والا انسان ایسا کلام پیش کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا۔
096
سورۃ الذاریات کی آیت 47کے سلسلے میں میںنے قرآن کے بہت سے تراجم کو دیکھا۔ اکثر لوگوں نے وہی ترجمہ کیا ہے، جو میں اس سے پہلے نقل کر چکا ہوں۔ میرے علم کے مطابق، اس میں صرف کچھ مترجمین کا استثنا ہے۔
شاہ رفیع الدین صاحب (1750-1818)کے متعلق معلوم ہے کہ وہ خالص لفظی ترجمہ کرتے ہیں۔ حتی کہ وہ اس کا بھی لحاظ نہیں کرتے کہ ان کے الفاظ پڑھنے والا سمجھ سکے گا یا نہیں ۔ان کے لفظی ترجمہ پر کچھ لوگ ہنستے ہیں، مگرحقیقت ہے کہ اس لفظی ترجمہ کی وجہ سے اکثر وہ ایسی غلطی سے بچ جاتے ہیں، جو دوسرے مترجمین سے ہوئیں۔ شاہ رفیع الدین صاحب نے مذکورہ آیت کا جو ترجمہ کیا ہے وہ ان کے الفاظ میں یہ ہے:
’’اور آسمان کو بنایا ہم نے اس کو ساتھ قوت کے اور تحقیق ہم البتہ کشادہ کرنے والے ہیں‘‘
(مطبوعہ:مجمع البحوث العلمیہ الاسلامیہ، نئی دہلی، صفحات623-24)
یہ چھوٹی سی مثال ایک بہت بڑی حقیقت کو بتاتی ہے۔ یہ حقیقت کہ خدا کے کلام کی اطاعت خالص تقلیدی انداز سے ہونی چاہیے۔ خدا کے کلام سے اگر ایک حکم واضح طورپر نکل رہا ہو تو ہم کو چاہیے کہ ہم بالکل مقلدانہ انداز میں اس پر چل پڑیں۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل یہ بتائے کہ خدا کے اس حکم میں بہت بڑا خیر تھا جو بظاہر ہماری عقل میں نہیں آتا تھا۔
شاہ رفیع الدین صاحب نے یقیناً یہ ترجمہ جدیدفلکیاتی فہم کے ساتھ نہیں کیا کیوں کہ توسیع کائنات کا نظریہ (expanding universe theory) ان کے زمانے میں دریافت ہی نہ ہوا تھا۔ یقینی طورپر انھوں نے یہ ترجمہ خالص تقلیدی ذہن کے تحت کیا، مگر ان کی تقلید عظیم الشان اجتہاد بن گئی۔ جو چیز ماضی میں بظاہر ناقابلِ فہم تھی، جب مستقبل کے پردے ہٹے تو معلوم ہوا کہ وہی سب سے زیادہ قابلِ فہم بات ہے۔ آج جدید معلومات سامنے آنے کے بعد شاہ رفیع الدین صاحب ہی کا ترجمہ صحیح نظر آتا ہے جب کہ قدیم زمانے میں وہ غیر صحیح دکھائی دیتا تھا۔
097
شریمتی سبھدرا جوشی (پیدائش 1919) نے فورمن کرشچین کالج لاہور سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ وہ بچپن سے ملکی سیاست میں دلچسپی لیتی رہی ہیں۔ 1947کے بعد فرقہ پرستی کے خلاف کام کرنے والوں میں ان کا نام بہت نمایاں ہے۔ ماہنامہ شبستان (جون 1972) کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے اپنا ایک واقعہ اس طرح بیان کیا:
1947 کے ہنگامہ میں ہم دہلی کے مسلم محلوں میں کام کررہے تھے۔ دلی کانگریس پر ہمارا قبضہ تھا۔ گاندھی جی آئے انھوں نے ہم سے پوچھا، کتنے مسلمان مارے گئے۔ ہم نے بتایا کہ دس ہزار سے زیادہ مارے گئے ہیں۔ وہ بہت برہم ہوئے اور کہا کہ تم نے بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ ہم نے کہا ہم تو برابر کوشش کررہے ہیں، مگر حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ انھوںنے غصے میں پوچھا ان دس ہزار میں تمھارے کانگریس ورکر کتنے مارے گئے۔ ہم نے جواب دیا، ایک بھی نہیں۔ اس پر وہ بولے: پھر میں کیسے مان لوں کہ تم نے بچانے کی کوشش کی ہوگی‘‘۔
سبھدرا جوشی کی رپورٹ کے بعد گاندھی جی کا ایک جواب یہ ہوسکتا تھا— ’’کوشش اپنا کام ہے، کامیابی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ تم اپنی کوشش جاری رکھو‘‘۔
مگر یہ جواب نہیں۔ جولوگ اپنے ماتحتوں کو اس قسم کے جواب دیں وہ زندگی کی حقیقتوں سے بالکل ناواقف ہیں۔
098
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے۔جامع مسجد دہلی میں ایک دن دو جلسے ہوئے۔ دونوں جلسے جامع مسجد کے قریبی پارک میں تھے۔ دونوں کی تاریخ ایک تھی۔ صرف اتنا فرق تھا کہ ایک جلسہ مغرب سے پہلے ہوا، اور دوسرا جلسہ مغرب کے بعد۔
ایک جلسے کو جماعت اسلامی اور مجلس مشاورت وغیرہ کی جانب سے کیا گیا تھا، اور دوسرے جلسے کو جمعیۃ علماء اور قوم پرست مسلمانوں نے۔ ایک حلقے کے لوگ ایک جلسے میں گئے اور دوسرے حلقے کے لوگ دوسرے جلسے میں۔
میں اتفاق سے دونوں جلسوں میں شریک ہوا۔ دونوں جلسوں کا خلاصہ یہ تھا کہ انھوں نے نئی دہلی کے عرب سفیروں کو دعوت دی۔ کچھ سفیر ایک جلسہ کو مل گئے، اور کچھ سفیر دوسرے جلسہ کو۔ اس کے بعد دونوں طرف کے مقررین نے پرجوش تقریریں کیں۔ آخر میں دونوں جلسوں میں عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا گیا — اے عربو! متحد ہو کر اسرائیل کا مقابلہ کرو۔
دونوں جلسوں میں شرکت کے بعد جب میں گھر کی طرف واپس ہوا تو بے اختیار میری آنکھوںمیں آنسو آگئے۔ میری زبان سے نکلا ’’ہم متحد ہو کر مشورہ بھی نہیں کر سکتے ہیں، مگر دوسروں کو مشورہ دینے کے لیے جلسے کرتے ہیں کہ وہ متحد ہو کر مقابلہ کریں‘‘۔
099
جماعت اسلامی کے لوگوں نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی پر ایک کتاب چھاپی ہے جس کا نام ہے ’’ایک شخص ایک کارواں‘‘۔ اس کے مرتب جناب مجیب الرحمن شامی ہیں۔ اس کتاب میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی صدر ایوب سے ملاقات کا ذکر ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ صدر ایوب نے اپنی ملاقات میں کہا ’’مولانا صاحب، آپ کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں۔ واقعی آپ نے دین کی بہت خدمت کی ہے۔ مولانا صاحب میری ایک تجویز ہے۔ آپ جیسی بڑی علمی شخصیت کو اپنی عمدہ صلاحیتیں سیاست میں ضائع کرنے کے بجائے ان سے قومی تعمیر کا کوئی ٹھوس کام لینا چاہیے۔ اس غرض کے لیے میں چاہتا ہوں کہ ہم ملک کے اندر ایک شاندار اسلامی یونیورسٹی قائم کریں۔ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ یہ یونیورسٹی میں نے بھاول پورمیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لیے ابتدائی سرمایہ کے طورپر رواں بجٹ میں دو کروڑ روپیہ کی رقم مختص کردی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس یونیورسٹی میں بہترین استادوں اور عمدہ انتظامات کے ذریعے خالص دینی علوم اس طرح پڑھائے جائیں کہ اس یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلبہ دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ کا فریضہ سنبھالیں۔ اس یونیورسٹی کی سربراہی کے لیے آپ کا نام میرے ذہن میں آیا ہے۔ کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ سیاست کے جھنجھٹ سے الگ ہو کر اس کام کا بیڑا اٹھائیں، جو آپ کی اعلیٰ صلاحیتیوں کے مطابق آپ کا اصل کام ہے۔ میں یہ بیان کردوں کہ یونیورسٹی کے لیے ہم نے دوکروڑ روپیہ کا جو ابتدائی فنڈ مختص کیا ہے، وہ رقم اور حکومت کی طرف سے اس کے بعد ملنے والی تمام گرانٹ سب پر آپ کو اپنی صوابدید کے مطابق مکمل تصرف کا اختیار ہوگا۔ اور آپ کو قانوناً آڈٹ وغیرہ کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے گا۔‘‘ (ایک شخص ایک کارواں،نئی دہلی، 1981، صفحہ 100)
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکارکردیا۔یہ پاکستان میںان کی اختیار کردہ سیاست کا قدرتی نتیجہ تھا۔جو لوگ سیاسی اپوزیشن میں انوالو (involve)ہوں ، ان کو مذکورہ قسم کے تعمیری کام کام نہیں لگتے ہیں۔حالاں کہ اصل کام یہی ہے کہ انسان اپنی کوششوں کو سیاسی ٹکراؤ کے میدان سے ہٹائے ،اور وہ اپنےآپ کو پوری طرح سماجی تعمیر کے کام میں لگادے۔
100
ڈاک سے ایک لفافہ موصول ہوا۔ اس میں ایک دینی ادارے کے ہفت روزہ میگزین کے ایک صفحے کی فوٹو کاپی تھی۔ یہ مضمون ادارے کے بانی کے بارے میں ہے۔اس مضمون کا عنوان ہے:
چراغ عالم اسلام تھے
اس عنوان کے نیچے جو مضمون ہے وہ گویا نثر میں شاعری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مضمون نگار نے نعت کے تمام شاندار الفاظ بانیٔ ادارہ کی قصیدہ خوانی میں صرف کردیئے ہیں۔
اس مضمون کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ میری وفات کے بعد جو لوگ میری تعریف میںاس قسم کے قصیدے لکھیں گے، وہ میرے جھوٹے ماننے والے ہوں گے۔ میرے حقیقی ماننے والے وہ ہیں، جو میرے مشن کو لے کر آگے بڑھیں، جو میرے اس دنیا سے جانے کے بعد اس دینی جدوجہد کے لیے پہلے سے زیادہ سرگرم ہوجائیں۔
میرا کام اللہ کے سچے دین کا اعلان واظہار ہے۔ میری ساری دلچسپی صرف اس بات سے ہے کہ اللہ کی بڑائی بیان کی جائے ۔ پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ہدایت کو آج کے انسانوں تک پہنچایا جائے۔ لوگوں کو آنے والے ہولناک دن سے ہوشیار کیا جائے۔میرے بعد جولوگ میرے اس مشن کے لیے سرگرم ہوں وہی میرے سچے ساتھی ہیں۔ اور جو لوگ نظم و نثر میں میری تعریف کریں، ان سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ ان کی راہ الگ ہے اور میری راہ الگ۔
101
علمی حدود کیا ہے۔ اس کو ذیل کے واقعے سے سمجھا جاسکتا ہے۔علما کے ایک گروہ کا ماننا ہے کہ فاسق امیر کے ساتھ جہاد کرنا جائز ہے۔ اس کی مختلف دلیلوں میں سے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری(وفات 52 ھ) جو ایک جلیل القدر صحابی تھے، انھوں نے یزید بن معاویہ (وفات 64 ھ)کے ساتھ جہاد کیا۔اس سلسلے میںفقیہ ابوبکر جصاص (وفات 370 ھ)نے لکھا ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب خلفاء راشدین کے بعد فاسق امراء کے ساتھ جنگ کرتے ـتھے، اور ابو ایوب انصاری نے یزید لعین کے ساتھ جنگ کی ( وَقَدْ کَانَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّہ عَلَیْہِ وآلہ وَسَلَّمَ یَغْزُونَ بَعْدَ الْخُلَفَاءِ الْأَرْبَعَةِ مَعَ الْأُمَرَاءِ الْفُسَّاقِ وَغَزَا أَبُو أَیُّوبَ الْأَنْصَارِیُّ مَعَ یَزِیدَ اللعین)۔ احکام القرآن للجصاص، جلد 4، صفحہ 319
یزید کو لعین کہنا بذات خود قابل اعتراض ہے۔ کسی شخص کو ملعون قرار دینے کے لیے شرعی دلیل درکار ہے، اور یقیناً ایسی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں، جو صراحۃً یزید کی ملعونیت کا اعلان کرتی ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ یزید کو جو لوگ بطور خود ملعون کہتے ہیں، وہ اس کی ملعونیت کو کربلا (61ھ) کے واقعہ سے اخذ کرتے ہیں۔ مگر حضرت ابو ایوب انصاری نے یزید کی ماتحتی میں جو غزوہ کیا تھا، وہ کربلا سے بہت پہلے کا واقعہ ہے۔ یہ قسطنطنیہ کا غزوہ تھا، جو امیر معاویہ کے زمانے میں 49ھ میںپیش آیا، جب کہ یزید ابھی خلیفہ بھی نہیں ہوا تھا۔ پھر کیا وہ خلافت اور کربلا سے پہلے ہی ملعون تھا، کیا وہ ماں کے پیٹ سے ملعون پیدا ہوا تھا۔
ہمارے علما میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو علمی حدود کے پابند رہ کر بولتے ہوں۔ ہمارا قدیم وجدید لٹریچر غیر علمی بیانات سے بھرا ہوا ہے۔
102
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا۔ وہاں آپ تقریباً 13سال رہے۔ مکہ والوں نے آپ کی سخت مخالفت کی۔ یہاں تک کہ وہ آپ کو ہلاک کرنے کے درپے ہوگئے۔ عین اسی وقت مکی دور کے آخری زمانے میں قرآن میں سورہ یوسف اتری۔ اس میں بتایا گیا کہ یوسف کے بھائی یوسف کے دشمن ہوگئے۔ انھوںنے ان کو ختم کرنے کے لیے ایک سنسان مقام پر لے جاکر ان کو اندھے کنویں میںڈال دیا۔ یہاں تاجروں نے ان کو کنویں سے نکالا، اور ان کو لے جاکر مصر پہنچادیا۔ وہاں ان کے لیے اعلیٰ ترقی کی نئی راہیں کھلیں۔ ایک اُسوءُ القصص احسن القصص میں تبدیل ہوگیا۔
مکی دور کے آخر میں اس سورہ کا اترنا اس بات کا اشارہ تھا کہ پیغمبر اسلام کے ساتھ خداکی مدد سے یہی معاملہ پیش آئے گا۔ چنانچہ یہی ہوا کہ مکہ والوں نے آپ کو ہلاکت کے غار میں ڈالنا چاہا مگر عین اسی وقت مدینہ میں آپ کے قدرداں پیدا ہوگئے۔ آپ ان کی دعوت پر مکہ سے مدینہ پہنچ گئے اوروہاں آپ نے اسلام کی نئی تاریخ بنائی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ معاملہ پیش آنے والا ہے۔میں 1956 سے 1962 تک جماعتِ اسلامی کے مرکزی شعبۂ تصنیف وتالیف سے وابستہ تھا۔ اس کے بعد 1963 سے 1966تک مجلس تحقیقات ونشریات اسلام(ندوۃ العلماء) لکھنؤ سے وابستہ رہا۔ دونوں جگہ یہ صورت پیش آئی کہ وہ لوگ میری تنقیدوں سے برہم ہوگئے۔ میرا غیر مصالحانہ انداز ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگیا۔ چنانچہ دونوں جگہ سے علیحدگی عمل میںآئی۔ اس کے بعد جمعیۃ علماء کی دعوت پر میں 1967 میں دلی آیا، اور جمعیۃ علما ہند کے ہفت روزہ اخبار الجمعیۃ سے وابستہ رہا۔ یہاں بھی ابتدائی چند سالوں کے بعد اختلافات پیدا ہوگئے۔ یہاں تک کہ 1974میں انھوں نے مجھ کو الگ کر دیا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے دلی کے مرکزی شہر میں ٹھہرانے کا انتظام کیا اور ایسے اسباب پیدا کیے کہ 1976میں الرسالہ جاری ہوا۔ اور اب خدا کے فضل سے اسلامی مرکز کی صورت میں اس نے ایک مستقل ادارے کی شکل اختیار کرلی ہے اور لوگوں کی مخالفتوں کے باوجود وہ دن بدن ترقی کررہا ہے۔ شاید تاریخ دوبارہ یہ منظر دیکھنے والی ہے — ایک اُسوءُ القصص خدا کی مدد سے احسن القصص میں تبدیل ہوگیا۔
103
موجودہ زمانے کے مسلم قائدین کا معاملہ نہایت عجیب ہے۔ وہ بیک وقت نہایت کامیاب تھے، اور اسی کے ساتھ نہایت ناکام بھی۔مثلاً1952میں مصر کی اخوان المسلمون جنرل محمد نجیب (1901-1984) اور جمال عبد الناصرحسین(1918-1970) کے ساتھ مل کرمصر سے شاہ فاروق (1920-1965) کو معزول کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوئے۔ لیکن اس کے بعد انھوں نے مصر کے الیکشن میں حصہ لیا تو وہ بالکل ناکام ہوگئے۔جماعت اسلامی پاکستان جنرل ایوب خان (1907-1974)اورذوالفقار علی بھٹو (1928-1979)کی حکومت ختم کرنے میں نہایت کامیاب رہی۔ مگر جب وہ لوگ الیکشن کے میدان میں آئے تو وہ کامیاب نہ ہوسکے، وغیرہ وغیرہ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص جب شاہ فاروق یا ایوب اور بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اٹھتا ہے تو وہ اکیلا نہیں ہوتا۔ پوری اپوزیشن اور تمام مخالف حکومت عناصر اس کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں۔ حکومت کے خلاف مہم میں آدمی کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قائدین اینٹی حکومت مہم میں کامیاب رہے۔اس کے بعد جب یہ لوگ ملک میں خود اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے اٹھے تو اس وقت وہ تنہا تھے۔ اس دوسری مہم میںانھیں اپنی تنہا قوت سے کامیاب ہونا تھا۔ چوں کہ ان کی تنہا قوت بہت کم تھی اس لیے وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔
اینٹی حکومت مہم میں جو مقبولیت حاصل ہوتی ہے، وہ بلا شبہ جھوٹی مقبولیت ہے۔ اس قسم کی مہم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض شخصی لیڈری ہے، نہ کہ کوئی واقعی کام۔ اینٹی حکومت مہم میں فوراً مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے، اس لیے لوگ تیزی سے اس کی طرف دوڑتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مثبت مہم میں عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کا میدان سونا پڑا ہوا ہے۔ اس میدان میں کوئی دکھائی نہیں دیتا۔
104
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے یہ شکایت کی کہ الرسالہ میں سلف پریز (self-praise) ہوتا ہے۔ میںنے کہا کہ اس کی مثال دیجیے۔ انھو ںنے الرسالہ میں شائع شدہ ایک خط کا ذکر کیا جس میں الرسالہ کے زبان و بیان پر پسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ میںنے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ سلف پریز کا مطلب کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ اپنی تعریف آپ کرنا۔ میں نے کہا کہ آپ نے جس خط کا حوالہ دیا ہے ،وہ دوسرے شخص کا خط ہے پھر یہ اپنی تعریف آپ کرنا کیسے ہوا۔
اسی مجلس میں انھوں نے اپنے گھر کے حالات کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ گھر کے اخراجات پہلے میں خود کرتا تھا مگر میںنے دیکھا کہ میرے ہاتھ سے زیادہ خرچ ہوجاتاہے اس لیے میں نے یہ کام اپنی بیوی کے حوالے کردیا۔ وہ، ماشاء اللہ، نہایت احتیاط سے خرچ کرتی ہیں۔ اب ہمارے گھر کا ماہانہ خرچ پہلے سے کم ہوگیا ہے، اور پس انداز کی جانے والی رقم کی مقدار بڑھ گئی ہے۔
میں نے سوچا کہ آدمی بھی کیسا عجیب ہے۔ ایک معاملے میں اس کا رویہ کچھ ہے، اور دوسرے معاملے میں اس کا رویہ کچھ دوسرا۔ وہ اپنے پیسے کو خرچ کرنے کے معاملے میں نہایت کفایت شعار ہے مگر اپنے الفاظ کو خرچ کرنے کے معاملے میں نہایت فیاض۔ مذکورہ بزرگ الرسالہ پر تبصرہ کرنے کے لیے اپنے الفاظ کے ذخیرے کو بے حساب خرچ کررہے ہیں، مگر وہی بزرگ اپنے جیب کے پیسہ کو خرچ کرنے کے معاملے میں حد درجہ محتاط اورکفایت شعارنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی رقم کو سوچ سمجھ کر خرچ کرتے ہیں،اور اپنے الفاظ کو سوچے بغیر۔
105
ڈاکٹر انوار احمد (کوہنڈہ، اعظم گڑھ) کے ایک خط کے جواب میں لکھا:
آپ کا خط مورخہ 27 مارچ ملا۔ حالات سے آگاہی ہوئی۔ مومن اس چیز میں جیتا ہے، جو اس کے اپنے پاس ہے، نہ کہ اس چیز میں جو دوسروں کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مومن کبھی خالی یا محروم نہیں ہوتا۔ اگر دعوت کے مواقع نہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو دعامیں مشغول کرلیتا ہے۔ اگر انسان اس کو نظر انداز کریں تو وہ خدا کو اپنا ولی بنا لیتا ہے۔
مومن خود ایک کامل وجود ہے۔ اس لیے اس کے واسطے نہ کبھی محرومی کا سوال پیداہوتا ہے، اور نہ کبھی بے کاری کا۔آپ کے مخالفین آپ کو لاؤڈ اسپیکر پر بولنے نہیں دے رہے ہیں تو آپ دل کے خاموش تاروں پر حق کا نغمہ چھیڑیے۔ آپ کو انسانوں میں اگر ایسے لوگ نہیں مل رہے ہیں، جو آپ کی بات پر دھیان دیں تو آپ خدا کے فرشتوں سے سرگوشی شروع کردیجیے۔ انسانی آبادیوں میں اگر آپ کو اپنے ہم نوا نہیں مل رہے ہیں تو آپ قبرستان کے سناٹے میں اپنا ہم نشین تلاش کرلیجیے۔
106
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی (1903-1979)کی ایک کتاب ہے جس کا نام تنقیحات ہے۔ یہ موصوف کے مضامین کا مجموعہ ہے، جو پہلی بار 1939میں شائع کیاگیاتھا۔ اس کتاب کے ایک مضمون کا عنوان ہے ’’لارڈ لوتھین کا خطبہ‘‘۔ لارڈ لوتھین(1882-1940) ایک انگریز تھے۔ جنوری 1938 میںانھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں کانوکیشن ایڈریس دیا۔ مذکورہ مضمون میںاس ایڈریس کے کچھ حصے اردو میں ترجمہ کرکے نقل کیے گئے ہیں۔ جب میں نے پہلی بار اس مضمون کو پڑھا تو مجھے لارڈ لوتھین کے اس خطبے سے بڑی دلچسپی ہوئی۔ کیوںکہ اس میں بتایا گیا تھا کہ جدید یورپ میں اسلام کی تبلیغ کے زبردست امکانات ہیں ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تعلیم حاصل کرکے یورپ جائیں، اوراس امکان کو استعمال کریں۔
دلچسپی کی بنا پر میں نے چاہا کہ اس خطبے کو اصل انگریزی زبان میں حاصل کرکے پڑھوں۔ چنانچہ میں علی گڑھ گیا اور وہاں کی یونی ورسٹی لائبریری میں اس کو تلاش کیا۔ مگر یونی ورسٹی کے کتابی ذخیرہ میں یہ خطبہ موجود نہ تھا۔ بالآخر میں سرسید روم میں گیا کہ شاید وہاں مل جائے مگر وہاں بھی نہیں ملا۔ سرسید روم کے ذمہ دار نے بتایا کہ اس خطبے کی اصل کی ہمیں بھی تلاش تھی۔ ہم نے یونیورسٹی کے ہر شعبے میں اس کو ڈھونڈا مگر معلوم ہوا کہ وہ یونی ورسٹی کے ریکارڈ میں موجود نہیں ہے۔
مجھے یونی ورسٹی کی اس بے انتظامی پر بے حد افسوس ہوا۔ تاہم اس سے میں نے ایک سبق لیا۔ وہ یہ کہ جب میں اپنے اردو مضامین میں انگریزی یا کسی دوسری زبان کا کوئی اقتباس نقل کروں تو اس کے ترجمے کے ساتھ اس کا ضروری حصہ بھی اصل زبان میں نقل کردوں۔ چنانچہ الرسالہ کے اکثر مضامین میں میں نے یہی انداز اختیار کیا ہے۔
107
ایک عرب پروفیسر سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ آپ کی جو عربی کتابیں یا مضامین میں نے پڑھے ہیں، ان میں الاسلام یتحدی (اردو ورژن مذہب اور جدید چیلنج) فائق ہے، باقی سب اس کے تحت ہیں۔میں نے کہا کہ ہمارے مشن کا اصل اظہار الاسلام یتحدی میں نہیں ہوا ہے، بلکہ دوسری کتابوں میں ہوا ہے۔ الاسلام یتحدی صرف اس مشن کی اعتباریت(credibility) ثابت کرنے کے لیے ہے، وہ خود مشن کا تعارف نہیں۔
میں نے کہا کہ حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے لاٹھی کو سانپ بنادیا۔ اب کوئی شخص کہے کہ حضرت موسی نے نبوت ملنے کے بعد جو کچھ پیش کیا، ان میں عصا کا معجزہ سب پر فائق ہے، تورات اس کے تحت ہے، تو یہ صحیح نہیں ۔ کیوں کہ آپ کی دعوت میں تورات اصل ہے اور عصا کا معجزہ ایک ضمنی (relative)حیثیت رکھتا ہے۔
الاسلام یتحدی (مذہب اور جدید چیلنج) ہمارے مشن کو قابل اعتبار ثابت کرنے کے لیے ہے، نہ کہ خود وہی ہمارا مشن ہے۔ مولانا عبد الباری ندوی (1886-1976)اس طرح کی چیزوں کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہ ’’رکانہ کی کشتی‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکانہ ( بن عبدیزید)پہلوان نے چیلنج کیا اور آپ نے کشتی لڑکر اس کو ہرادیا(الاصابة فی تمییز الصحابة لابن حجر العسقلانی، جلد2، صفحہ413)۔ مگر رکانہ کی کشتی بظاہر ایک نمایاںواقعہ ہونے کے باوجود آپ کے مشن کا اصل یا اس کا فوق (central aspect)نہیں۔ وہ آپ کے مشن کی ایک ضمنی ضرورت ہے، نہ کہ خود وہی آپ کا مشن ہے۔
108
حقیقت ِ واقعہ کو نہ ماننا صرف اس قیمت پر ہوتا ہے کہ واقعہ اپنی جگہ پر بدستور باقی رہے، اور آدمی خو واقعات کی دنیا سے بہت دو رہوجائے۔ روس میں 1917 میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو امریکا نے سولہ سال تک اس کو تسلیم نہیں کیا۔ مگر اس کا کوئی فائدہ امریکہ کو نہ مل سکا۔ کلائڈ سینگر(Clyde Sanger) نے لکھا ہے کہ امریکا کو سوویت یونین کے تسلیم کرنے میں سولہ سال لگ گئے۔ اس سے اسٹالن کو یہ موقع ملا کہ وہ روسی عوام کے درمیان مغربی دنیا کے خلاف نفرت پیدا کرے اور ان کے گردآہنی پردہ کھڑا کرسکے:
It took the United States 16 years to recognize the Soviet Union. This helped Stalin stimulate xenophobia among his people, and build an iron curtain around them.
کلائڈسینگر نے مزید لکھا ہے کہ اگر اس زمین پر شیطان کی ایک سلطنت ہوتی تووہ اپنے نوجوان لوگوں میں سے ایک بہترین شخص کو اس کا سفیر نامزد کرتا تاکہ وہ اس کے اوپر پوری نظر رکھ سکے۔
کلائڈ سنگر کا یہ تبصرہ نہایت سخت ہے۔میں پسند نہیں کروں گا کہ میں ایسا سخت تبصرہ کروں۔ تاہم میری پوری زندگی کا مطالعہ اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کامیابی کی سب سے اہم شرط حقیقتِ واقعہ کا اعتراف ہے۔ جو شخص اپنے اندر یہ حوصلہ رکھتا ہو کہ وہ حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرے، خواہ وہ اس کے موافق ہو یا اس کے خلاف، وہی موجودہ دنیا میں کامیاب ہوگا۔ اور جو شخص حقیقتِ واقعہ کے اعتراف پر راضی نہ ہو اس کو اس سے زیادہ بُرے چیز پر راضی ہونا پڑتا ہے، اور وہ یہ کہ وہ کبھی اپنی منزل مقصود کو نہ پہنچ سکے۔
109
ڈاکٹر جان ڈَن(Dr. John Donne) سترھویں صدی عیسوی کا ایک ممتاز انگریزی شاعر ہے۔ وہ 1572 میں پیدا ہوا اور 1631 میںاس کی وفات ہوئی۔اس کی قبر لندن میں ہے۔
انگریزی شاعری کا ایک دبستان فکر ہے، جس کو مابعد الطبیعاتی اسکول (Metaphysical school of poetry)کہا جاتا ہے۔ جان ڈَن اسی دبستان فکر کا ممتاز شاعر شمار کیا جاتا ہے۔ وہ صوفیانہ مزاج کا آدمی تھا۔ اس کا ایک شعر ہے:
Done is Undone
یعنی ڈن برباد ہوگیا۔ تاہم صوتی اعتبار سے Done is Undone کا دوسرا لفظی مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ جو ہوا وہ نہیں ہوا۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس چیز کو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہوگیا، وہ بھی اب تک ناکردہ (undone)پڑا ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر یہ بات پوری طرح صادق آتی ہے۔ان کے سب کام ابھی تک ناکردہ پڑے ہوئے ہیں۔ مثلاً بین اقوامی زبانوں میں اسلامی لٹریچر کا ترجمہ— موجودہ زمانے میں عملاً یہ ہوا کہ بڑے بڑے قابل لوگ سیاسی اور ہنگامی کاموں میں پڑے رہے۔ اور نسبتاً چھوٹے اور کم تر درجہ کے لوگوں نے ترجمہ کا کام کیا۔ مثلاً حدیث کی کتاب مشکاۃ المصابیح کا ترجمہ الحدیث (Al-Hadis) کے نام سے چار جلدوں میں شائع ہوا ہے۔ اس ترجمہ میں غیر ضروری قسم کا دیباچہ اور تشریح شامل کرکے اس کو خواہ مخواہ ضخیم بنا دیاگیا ہے۔ نیز اس کی زبان نہایت poor ہے۔
کوئی اچھا انگریزی داں اس کو پڑھ کر مشکل ہی سے گہرا تاثر قبول کرسکتا ہے۔ مسلمانوں کے اچھے انگریزی داں لوگ اس کام کو کرتے تو یہی کام کتنا زیادہ جاندار ہوتا۔محمد اقبال اور محمد علی کی انگریزی زبان اچھی تھی۔ مگر محمد اقبال شاعری کرتے رہے، اور محمد علی نے اپنی ساری زندگی سیاسی ہنگاموں میں ضائع کردی۔
110
حضرت آدم علیہ السلام نے کاشت کا کام کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بڑھئی کا کام کیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے زرہ بناتے تھے (الانبیاء، 21:80)۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے کپڑا سینے کا کام کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے بکریاں چرانے کا کام کیا (القصص، 28:27-28)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مدت تک چرواہی کاکام کیا ہے (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2149)۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا عین اسلامی طریقہ ہے۔ تمام پیغمبروں نے ایسا ہی کیا ہے۔ ہاتھ سے کام کرکے اپنی روزی کمانا عزت کی چیز ہے، نہ کہ ذلت کی چیز جس کو کرتے ہوئے آدمی شرمائے۔حدیث میںآیا ہے:مَا أَکَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ، خَیْرًا مِنْ أَنْ یَأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ، وَإِنَّ نَبِیَّ اللَّہِ دَاوُدَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ، کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2072)۔ یعنی کسی نے کھانا نہیں کھایا، جو بہتر ہو اس انسان سےجو اپنے ہاتھ کے عمل سے کھاتا ہے۔اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کے عمل سے کھایا کرتے تھے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے :إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُؤْمِنَ الْمُحْتَرِف (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 1072)۔ یعنی اللہ حرفت کے ذریعے روزی کمانے والے کو پسند کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے کو حقیر سمجھنا دورِ ملوکیت اور مسلمانوں کے دورِ زوال کی پیداوار ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں اس کو بالکل بُرا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
111
قرآن میں زمین کے بارے میں ایک تو خَلَقَ الْأَرْضَ (41:9)کے الفاظ ہیں۔ یعنی اللہ نے زمین کو خلق (create)کیا۔ دوسری جگہ اس سلسلے میں یہ الفاظ ہیں:وَالْأَرْضَ وَضَعَہَا لِلْأَنَامِ (55:10)۔ یعنی اور زمین کو اس نے مخلوق کے لیے رکھ دیا ۔پہلی آیت سے مراد زمین کو وجود میں لانا ہے۔ دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے زمین کو اس کے صحیح ترین مقام پر رکھا ۔ اس کو انام (ذی حیات اشیا) کے عین مطابق بنایا۔
یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت کسی کو معلوم نہ تھا کہ ساری کائنات میں صرف زمین ہے، جو ذی حیات اشیا کے انتہائی مناسب حال بنائی گئی ہے۔زمین کی جسامت (diameter) اگر موجودہ جسامت کا نصف ہو تو اسکی قوتِ کشش اتنی کم ہوجائے گی کہ انسان اور اس کے مکانات زمین پر ٹھہر نہ سکیں ۔ زمین کی جسامت اگر موجودہ جسامت کی دگنی ہوجائے تو اس کی قوتِ کشش اتنا بڑھ جائے گی کہ زمین پر چلنا پھرنا مشکل ہوجائے۔ اسی طرح سورج اور زمین کا فاصلہ اگر موجودہ فاصلہ کا دگنا ہوجائے تو زمین برف کی طرح ٹھنڈی ہوجائے۔ اور اگر سورج اور زمین کا فاصلہ آدھے کے بقدر کم ہوجائے تو زمین سورج کی گرمی سے جھلس اٹھے۔
یہی معاملہ دوسری چیزوں کا ہے۔ زمین پر پانی ہے جو کسی دوسرے کرہ پر موجود نہیں۔ زمین پر آکسیجن ہے جو اس طرح موزوں حالت میں اور کہیں نہیںپائی جاتی، وغیرہ وغیرہ۔
ذی حیات اشیا کے لیے زمین کی اس استثنائی موزونیت کا علم صرف زمانۂ جدید میں ہوسکا ہے۔ اس سے پہلے انسان اس بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ ایسی حالت میں قرآن میں ڈیڑھ ہزار سال پہلے اس آیت کا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہ خدائی کلام ہے۔
112
آخری زمانے میں حضرت مسیح کے نزول کے بارے میں جو روایات آئی ہیں ان میں بعض اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ابو داؤد کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ أَرْبَعِینَ سَنَةً، ثُمَّ یُتَوَفَّى(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4324)۔حضرت مسیح دنیا میں 40سال رہیں گے۔ پھر ان کی وفات ہوگی۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں:وَیَمْکُثُ خَمْسًا وَأَرْبَعِینَ سَنَةً، ثُمَّ یَمُوتُ (المنتظم فی التاریخ،جلد2، صفحہ 39)۔ یعنی اور وہ دنیا میں 45سال رہیں گے۔ پھر ان کی وفات ہوگی۔
بظاہر دونوں روایتوں میں فرق ہے۔ مگر یہ محض لفظی فرق ہے، نہ کہ حقیقی فرق۔ یہ ایک انداز کلام ہے جو ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ شارحینِ حدیث نے اس کی توجیہہ یہ کی ہے کہ 40 سال والی روایت میںاوپر کا عدد حذف کردیا گیاہے۔ عربی زبان میں اور دوسری زبانوں میں یہ عام لسانی قاعدہ ہے کہ کبھی کسر کا ذکر کرتے ہیں اور کبھی اس کو حذف کردیتے ہیں۔
اس طرح اور بھی بہت سی مثالیں روایات میں پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ ان کو روایت میں اختلاف سمجھتے ہیں، اور حدیث میں شبہ کرنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ یہ صرف اندازِ کلام کی بات ہے، اور انداز کلام کا یہ طریقہ ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔
113
انڈیا کےمشہورانگریزی صحافی مسٹر خشونت سنگھ (پیدائش 1915)نے لکھا ہے کہ میں ہندستان سے پاکستان گیا۔ جب ہمارا ہوائی جہاز لاہور کی فضا میں پہنچا تو جہاز میں اناؤنسر نے اعلان کیا کہ پاکستان میں شراب ممنوع ہے۔ کوئی مسافر شراب کی بوتل کے ساتھ پاکستان میں داخل نہیں ہوسکتا۔آپ میں سے جس شخص کے پاس شراب ہو وہ اس کو جہاز کے عملے کے پاس جمع کردے۔ مسٹر خشونت سنگھ نے لکھا ہے کہ میرے پاس شراب کی ایک بوتل تھی۔ یہ بوتل میں نے حسبِ اعلان ہوائی جہاز کے عملے کے حوالے کردیا۔ مگر اس کے بعد جب میں لاہور کے اندر داخل ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ بلیک مارکیٹ میں شراب نہایت فراوانی کے ساتھ بک رہی ہے، اور میں بلیک سے جتنی چاہے شراب خرید سکتا ہوں۔(20 مارچ 2014 کومسٹر خشونت سنگھ کا انتقال ہوچکا ہے)۔
مولانا غیاث الدین رحمانی سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں جن مسلم ملکوںمیں شراب بند کی گئی ہے، وہاں اس کا یہی انجام ہوا ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے لوگوں کا ذہن بنایا اس کے بعد شراب کی حرمت کا اعلان کیا (مسند احمد، حدیث نمبر 8620)۔ اسی طرح موجودہ زمانے میں پہلے اس کے موافق ذہنی فضا بنانی پڑے گی۔ محض قانون کے زور پر لوگوں کو شراب نوشی سے روکا نہیں جاسکتا۔
انھوں نے کہا کہ مگر یہ طریقہ ہم کو اسلاف کے یہاں نہیں ملتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک ہزار سال تک قانون ہی کے زور پر شراب کو روکا جاتا رہا۔ ایسا نہیں کیا گیا کہ پہلے ذہنی فضا بنائی جائے اس کے بعد شراب پر پابندی لگائی جائے۔
میںنے کہا پچھلے زمانے پر موجودہ زمانہ کو قیاس کرنا صحیح نہیں۔ اس لیے کہ پچھلا زمانہ وہ ہے، جب کہ اسلامی روایات کا تسلسل برابر جاری تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں اسلامی روایات کا تسلسل یکسر ٹوٹ گیا ہے۔ اب دوبارہ وہی ضرورت پیش آگئی ہے، جو رسول اللہ کے زمانےمیں تھی۔ اب ہمیں دوبارہ اسلامی روایات قائم کرنی پڑیں گی، اس کے بعد ہی قانون کا نفاذ مفید ہوسکتا ہے۔ کیوںکہ قانون ہمیشہ روایات کے اورپر نافذ ہوتاہے، اورموجودہ زمانے میں شراب بندی کے قانون کے لیے روایات کا زور موجود نہیں ہے۔
114
رشوت بالاتفاق حرام ہے۔ قتادہ (وفات 118ھ)نے کہا کہ صحابی رسول ابی بن کعب (وفات 30 ھ) نے فرمایا کہ رشوت عقل مند کو بیوقوف بناتی ہے، اور حکیم کی آنکھ کو اندھا کردیتی ہے (قَالَ قَتَادَةُ:قَالَ کَعْبٌ:الرِّشْوَةُ تُسَفِّہُ الْحَلِیمَ، وَتُعْمِی عَیْنَ الْحَکِیمِ( المغنی لابن قدامہ، جلد 10، صفحہ69۔
رشوت ایک ایسا مال ہے، جو آدمی حق کے بغیر لیتا ہے، اور جب آدمی واقعی حق کے بغیر کوئی چیز لے تو عین اسی وقت وہ اپنے آپ کو نیچے گرالیتا ہے۔ وہ اعلیٰ اخلاق کی سطح پر رہ کر کام نہیں کرسکتا۔ اونچا کام کرنے والے کے اندر اونچا ذہن پرورش پاتا ہے، اور پست کام کرنے والے کے اندر پست ذہن پیدا ہوتا ہے۔ رشوت بہ ظاہر ایک مالی معاملہ ہے، مگر آدمی جب اس میں پڑجاتا ہے تو اس کی عقل و بصیرت بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی ہے۔ اخلاقی گراوٹ کا فعل کرتے ہی وہ اپنے آپ کو ذہنی اور فکری حیثیت سے بھی گرالیتا ہے۔
آدمی اپنے کپڑے صاف رکھنے کے لیے اس کو گندگی سے بچاتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنی عقل و بصیرت کو صاف ستھرا رکھنا چاہتا ہے، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو برے اخلاق سے بچائے۔ برے اخلاق میں ملوث ہونے کے بعد وہ اپنی عقل کو صحیح حالت میں باقی نہیں رکھ سکتا۔
115
حیدرآباد کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے بتایاکہ حیدر آباد میں ایک ہندو نے اسلام قبول کیا ہے۔ انھوںنے اس نومسلم سے پوچھا کہ تم نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام کیوں اختیار کیا۔ نومسلم نے چند باتیں بتائیں جن میں ایک یہ تھی۔ انھوںنے کہا کہ میںمسلم محلہ میں رہتاہوں۔ وہاں ایک مسجد ہے۔ میں دیکھتا تھا کہ جو مسلمان بھگوان کی عبادت کے لیے آتا ہے وہ وضو کرتا ہے اور پھر نماز پڑھتاہے اور چلا جاتا ہے۔ اس کو خدا تک پہنچنے کے لیے کسی درمیانی واسطے کی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس، مندروں میں جب میںجاتا تھا تو میں دیکھتا تھا کہ وہاں مندر کے مہنت کا ذریعہ اختیار کیے بغیر کوئی شخص پوجا نہیں کرسکتا۔
یہ بات بہ ظاہر سادہ سی ہے مگر نہایت اہم ہے۔ انسان فطری طور پر خدا کو پانا چاہتاہے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دینا چاہتاہے۔ مگر دوسرے مذاہب میں بگاڑ کی وجہ سے یہ حال ہوگیا ہے کہ آدمی جب مندر اور چرچ میںجاتا ہے تو وہاں وہ پاتا ہے کہ کلرجی (clergy) کے بغیر وہ خدا تک نہیں پہنچ سکتا، اور نہ اس کے بغیر وہ خدا کی عبادت کرسکتا۔ اس طرح اس کو اپنے جذبۂ پرستش کی پوری تسکین حاصل نہیںہوتی۔ اسلام میں یہ صورت حال نہیں ۔ اسلام میں ہر آدمی براہِ راست خدا کو پکارسکتا ہے۔ وہ براہِ راست خدا کی عبادت کرسکتا ہے۔
اس ضمن میں ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے، جس کا تعلق موجودہ زمانے سے ہے۔ موجودہ زمانہ آزادی اور جمہوریت کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر آدمی اپنے آپ کو دوسرے کے برابر سمجھتا ہے۔ اس زمانی مزاج کی وجہ سے لوگوں کو یہ بات پسند نہیں آتی ہےکہ کوئی طبقہ ان سے اوپر ہو۔ لوگ جس مقام پر خود ہیں ،وہیں وہ کلرجی کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات آج صرف اسلام میں پائی جاتی ہے۔اس طرح اسلام انسانی فطرت کے مطابق بھی ہوجاتا ہے، اور وقت کے تقاضے کے مطابق بھی۔
116
اسلامک انسٹی ٹیوٹ، تغلق آباد، میں ایک میٹنگ تھی۔ میں بھی اس میں شریک تھا۔ میٹنگ میں انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے ادارے کا تعارف کرایا۔ حاضرین میں سے ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ کے یہاں جو افراد ریسرچ کا کام کررہے ہیں ،ان کو آپ کیا سہولیات دیتے ہیں۔ ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے جواب دیا کہ ہم اپنے آدمیوں کو وہی سہولتیں دیتے ہیں، جو یوجی سی کی طرف سے مقرر ہیں۔ مزید یہ کہ ہم ان کو اپنے کیمپس میں رہائش گاہ بھی فراہم کرتے ہیں۔
سوال کرنے والے نے کہا کہ یہ گویا یہاں کے افراد کے لیے مزید ایک attraction ہے۔ ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں، مگر وہ ہمارے لیے distraction بن رہا ہے۔ اس لیے کہ جو لوگ ایک مرتبہ رہائش گاہ پر قبضہ کرلیتے ہیں،وہ پھر اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان سے رہائش گاہ کو خالی کرانے کے لیے ہمیں کورٹ جانا پڑتا ہے۔
تغلق آباد کا یہ ادارہ خالص مسلم ادارہ ہے۔ اس میں کام کرنے والے بھی سب کے سب مسلم ہیں۔ اس کے باوجود ذمے دارا ن اور کارکنوں کے درمیان اس طرح کے جھگڑے پائے جاتے ہیں۔ اس قسم کے جھگڑے اگر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ہوں تو فوراً اس کو تعصب کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ مذکورہ مسئلے کے بارے میں کیا کہیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں تمام جھگڑے انٹرسٹ (interest) کے جھگڑے ہیں۔ بظاہر کوئی شخص ایک قسم کی زبان استعمال کررہا ہے اور کوئی شخص دوسری قسم کی زبان ۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے سب کا کیس ایک ہی کیس ہے ،اور وہ وہی ہے، جس کو ’’انٹرسٹ‘‘ کہاجاتا ہے۔
اس دنیا میں کامیابی کے لیے سب سے ضروری چیز حقیقت پسندی ہے۔ مگر موجودہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں حقیقت پسندانہ انداز سے رائے نہیں قائم کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا ہر اقدام ناکامی کا شکار ہوتاہے۔
117
ستمبر 1982میں میں نےشیخ سلیمان القائد (لیبیا)کے ساتھ حج کے لیے سعودی عرب کا سفر کیا تھا۔اس دوران مدینہ کا سفر ہوا تو مدینہ یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی، جس میں زیادہ تر ہندستانی طلبہ اور کچھ عرب طلبہ شریک تھے۔
گفتگو کے دوران میںنے کہا کہ موجودہ زمانے میں جو لوگ حکومت اسلامی قائم کرنے کی تحریک چلارہے ہیں، ان کی تحریک بالفرض کامیاب ہوجائے تب بھی وہ ناکام رہے گی۔ کیوں کہ حکومت کو چلانے کے لیے وہ تقویٰ کافی نہیں ہے، جو مسجد کی امامت یا مدرسہ کی معلمی کے لیے کافی ہوجاتاہے۔ حکومت کا ادارہ چلانے کے لیےجس صفت کی ضرورت ہے، وہ ہے تقویٰ پلس دانش مندی کی صفت ، اوریہ صفت آج کسی مسلم رہنما کے اندر موجود نہیں۔
اس پر ایک عرب نوجوان نے اعتراض کیا۔انھوں نے اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے اکابر کا نام لیا، اور کہا کیا آپ کا خیال ہے کہ ان کے اندر تقویٰ موجود نہیں۔ میں نے کہا کہ تقویٰ ہے ،مگر وہ عملی حکمت (practical wisdom) سے خالی ہے۔ وہ نوجوان اس کو سمجھ نہیں پائے، اورناراض ہوگئے۔
مجھے فوری طورپر ندامت ہوئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے حکمت کے خلاف ایک بات کہہ دی۔ مگر بار بار کے تجربے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میری زبان سے جو بات نکلی تھی وہ عین صحیح بات تھی۔ موجودہ زمانے میں ہمارے تقریباً تمام قائدین کا یہی حال ہورہا ہے کہ ان پاس تقویٰ کا سرمایا تھا، مگر وہ پریکٹکل وزڈم سے خالی تھے۔ اس کے باوجود وہ بڑے بڑے میدانوں میں کود پڑے اور بالآخر سراسر ناکام رہے۔ (اس سفر کا مطالعہ کرنے کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتاب سفر نامہ غیر ملکی اسفار جلد اول صفحہ 50 ) ۔
118
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ جو شخص حکومت کو چیلنج کرے وہ فوراً عوام کے اندر مقبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ حقیقت ہے کہ یہ عوامی مقبولیت ان کے لیے فتنہ بن جاتی ہے۔یہی معاملہ مسلم ورلڈ میں بھی پیش آیا۔ چنانچہ واقعہ بتاتا ہے کہ بہت سے مسلم دینی رہنما اس قسم کی تحریکوں کے ذریعے عوام کے اندر مقبول ہوگئے۔ مگرعوامی مقبولیت حاصل کرتے ہی وہ بدل گئے۔
اب غور کیجیے کہ جو رہنما عوامی مقبولیت کے مقابلے میں بااصول بن کر قائم نہ رہ سکا، وہ اقتدار کے مقابلہ میں کیسے قائم رہے گا۔
119
غالباً 1970 میں مجھے تاج محل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ تاج محل کو دیکھنے سے پہلے تاج محل کے بارے میں بہت سے مضامین پڑھے تھے۔ ان مضامین میں تاج محل مجھے بہت عظیم محسوس ہوتا تھا۔ مگر جب میںنے تاج محل کو دیکھا تو وہ اس سے بہت کم تھا جو میںنے اپنے ذہن میں سمجھ رکھا تھا۔
یہی حال تمام انسانی مصنوعات کا ہے۔ انسانی ساخت کی کسی چیز کے بارے میں اسے دیکھنے سے پہلے جو میری رائے تھی وہ اس کو دیکھنے کے بعد باقی نہ رہی۔ ہر انسانی چیز دیکھتے ہی اس سے کم نظر آئی، جو دیکھنے سے پہلے محسوس ہوتی تھی۔
مگر فطرت کے مناظر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ کوئی فطری واقعہ اس سے بہت زیادہ عظیم ہے، جو دیکھنے سے پہلے میں سن کر یا پڑھ کر سمجھ رہا تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ فطرت کا ہر واقعہ انتہائی حد تک عظیم اور حسین ہے، انسانی الفاظ اس کو پوری طرح بیان نہیں کرپاتے۔ یہاں ہر بولا ہوا لفظ اصل حقیقت سے بہت کم ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت دیکھنے میں اس سے زیادہ نظر آتی ہے جتنا کہ وہ پڑھنے یا سننے میں محسوس ہو رہی تھی۔
120
بہت سی باتیں اس وقت سمجھ میں آتی ہیں جب کہ آدمی کا دل زندہ ہو اور اس کا شعور بیدار ہو۔ مسلمان موجودہ زمانے میں ایک ایسی قوم بن گئے ہیں، جو دل ودماغ کی زندگی سے محروم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان بہت سی باتوں کو سمجھ نہیں پاتے اور بدقسمتی سے جن باتوں کو وہ نہیں سمجھتے وہی وہ باتیں ہیں جو زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔مثلاً کبھی نہ کرنے کا نام کرنا ہوتا ہے۔ کبھی بولنا اس کا نام ہوتا ہے کہ آدمی چپ رہے، وغیرہ۔ یہ بلاشبہ زندگی کی سب سے زیادہ گہری حقیقت ہے۔ مگر وہ ایک ایسی چیز ہے، جس کے لیے بہت زیادہ گہری شخصیت درکار ہے۔
آدمی ایک ایسی مخلوق ہے جو لازماً مشغول رہنا چاہتا ہے۔وہ عین اپنی فطرت کے تحت ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہے۔ اس لیے نہ کرنے پر وہی شخص راضی ہوسکتا ہے جس کے پاس نہ کرنے کے وقت بھی کچھ کرنے کے لیے ہو۔ وہی انسان چپ رہ سکتا ہے جو خاموشی کے وقت بھی اپنے پاس بولنے کا سامان رکھتا ہو۔
الرسالہ میں اس قسم کی باتیں کہی جاتی ہیں تو موجودہ مسلمانوں کو وہ معمہ (mysterious) معلوم ہوتی ہیں۔ اگر یہ مسلمان اندر سے خالی (preoccupied)نہ ہوتے بلکہ ان کے اندر کا وجود خدا کی معرفت سے ایک زندہ وجود بن چکا ہوتا تو انھیں یہ باتیں معمہ نہ معلوم ہوتی۔
اس وقت وہ جان لیتے کہ آدمی جب چپ ہوتا ہے تو وہ اپنے خدا سے سرگوشیاں کرنے لگتا ہے۔ باہر کی دنیا میں جب بظاہر اس کے قدم رک جاتے ہیں تو وہ اپنے اندر ہی اندر مارچ کرنے لگتا ہے۔ خارجی تدبیروں سے جب وہ منقطع ہوجاتا ہے تو اس کا رشتہ قوت کے اس لازوال سرچشمے سے جڑ جاتا ہے جو کسی واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے خارجی تدبیروں کا محتاج نہیں۔
121
قاسم رضوی (1902-1970) ’’آزاد حیدر آباد‘‘ کے علم بردار تھے۔ وہ بہت زور وشور کے ساتھ آزاد حیدر آباد کی تحریک چلا رہے تھے۔کسی ہندوسیاست داں نے ان سے کہا کہ آپ حیدرآباد کو آزاد حیدر آباد کیسے بنائیں گے جب کہ آپ چاروں طرف انڈین یونین سے گھرے ہوئے ہیں۔ قاسم رضوی نے جواب دیا:
’’ہم نہیں گھرے ہوئے ہیں، تم گھرے ہوئے ہو‘‘
پچھلے ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے مسلمان اسی قسم کی لفظ بازیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک کے بعد ایک ان کے درمیان ایسا لیڈر اٹھتا ہے جو خوب صورت الفاظ بول کر ان کے ذہن کو خراب کرتا رہتا ہے۔ میرے علم میں کوئی بھی لیڈر نہیں جس نے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو حقیقت پسندی کا سبق دیا ہو۔
اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اس قسم کے جھوٹے الفاظ بولنے والے لیڈروں کو مسلمانوں میں ساتھ دینے والے بھی جوق در جوق مل جاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ مسلمانوں کی جھوٹے فخر کی نفسیات ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا مزاج، ایک لفظ میں، جھوٹے فخر کا مزاج ہے۔ مذکورہ قسم کی باتوں سے جھوٹے فخر کے مزاج کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے مسلمان جس کو ایسا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھتے ہیں اس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ مقبولیت اقبال کو حاصل ہوئی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اقبال کی شاعری فخر ومباہات کی شاعری ہے۔ اقبال کی شاعری میںمسلمانوں کے جھوٹے فخر کو زبردست غذا ملتی ہے۔ اس لیے ہر چھوٹا بڑا آدمی اس کو گنگناتا ہے۔ اقبال کی یہ شاعرانہ بلند پروازی بھی کیسی عجیب ہے کہ جو قوم اپنے زوال یافتہ ذہنیت کے نتیجے میں مقتدی بننے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکی تھی اس کو انھوں نے الفاظ کی خود ساختہ دنیا میں امامت کے مقام پر بٹھا دیا:
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
122
سموئل جانسن(Samuel Johnson [1709-1784]) کا قول ہے کہ بہت کم ایسا ہوتاہے کہ مشورہ کا خوش دلی کے ساتھ استقبال کیا جائے۔ جو لوگ سب سے زیادہ مشورہ کے حاجت مند ہوں وہ سب سے کم اسے پسند کرتے ہیں:
Advice is seldom welcome. Those who need it most, like it least.
آدمی جب خود سوچتا ہے تو وہ اپنے جذبات کے زیر اثر سوچتا ہے۔ جب کہ مشورہ دینے والا ان جذبات سے خالی ہونے کی وجہ سے کم ازکم دوسرے شخص کے بارے میں غیر جذباتی اندازمیں سوچتا ہے۔ اس لیے مشورہ دینے والے کی رائے اکثر صحیح ہونے کے باوجود طالب مشورہ کے ذوق کے خلاف ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
آدمی کے اندر یا تو یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے۔ یا یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ مشورہ دینے والے کے مشورہ کو کھلے ذہن کے ساتھ دیکھ سکے۔ جس آدمی کے اندر دونوں میں سے کوئی بات نہ ہو اس کے لیے اس دنیا میں بربادی کے سوا او رکوئی چیز مقدر نہیں۔
123
میرے مزاج میں بعض عجیب باتیں ہیں۔ یہ باتیں بچپن سے پائی جاتی ہیں۔ میں ہر چیز کو خود جاننا چاہتا ہوں۔میں اکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ میں ’’گلاس‘‘ کو صرف اس گلاس کہتا ہوں کہ میں نے خود دریافت کیا ہے کہ یہ گلاس ہے۔ میںکسی چیز کو صرف اس لیے نہیں مانتا کہ لوگ اس کو ایسا اور ایسا مانتے ہیں۔ اس سلسلے میں میری زندگی کے عجیب عجیب واقعات ہیں۔
غالباً 1960 کی بات ہے۔ میںاپنے وطن (بڈھریا) میں تھا۔ اس وقت گھر میں کوئی نہیں تھا۔ میں کچھ دیر کے لیے وہاں آیا تھا، اور پھر مجھے ریلوے اسٹیشن (پھریہا) سے ٹرین پکڑ کر اعظم گڑھ جانا تھا۔ اکیلا ہونے کی وجہ سے مجھے آزادی تھی کہ جو چاہوں کروں۔میں نے دیکھا کہ ایک طرف ارنڈ کے کچھ بیج پڑے ہوئے ہیں۔ میں نے سنا تھا کہ ارنڈ دست آورہوتا ہے۔ مگر میں اپنے ذوق کے تحت اس پر راضی نہ تھا کہ صرف سن کر اسے مان لوں۔ چنانچہ میں نے ارنڈ کا چھلکا اتار کر اسے کھانا شروع کردیا، اور اس طرح بہت سی ارنڈ کھا گیا۔ اس کے بعد میں بڈھریا سے روانہ ہوا کہ پھریہا کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کر ٹرین پکڑوں۔
پھریہا ریلوے اسٹیشن ہمارے گھرسے تقریباً تین کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ میں نے ایک کیلومیٹر کا راستہ طے کیا تھا کہ پیٹ میں مروڑ شروع ہوئی۔اس کے بعد مسلسل دست آنے شروع ہوگئے۔ یہاںتک کہ میں کمزور ہو کر گر پڑا، اور اس قابل نہ رہا کہ ریلوے اسٹیشن پہنچ سکوں۔ مگر حسن اتفاق سے اس وقت ہمارا ملازم سردھن اہیر میرے ساتھ موجود تھا۔ وہ مجھے کسی طرح پھریہا ریلوے اسٹیشن تک لے گیا، اور ٹرین پر سوار ہو کر ہم اعظم گڑھ پہنچے۔اپنے اس مزاج کی وجہ سے میں نے اپنی زندگی میں بے شمار مصیبتیں اٹھائی ہیں۔ مگر انھیں مصیبتوں کا یہ نتیجہ ہے کہ میں خدا کے فضل سے اپنے آپ کو ایک ایسا انسان سمجھتا ہوں، جو خود اپنی دریافت کردہ دنیا پر کھڑا ہوا ہو۔
واپس اوپر جائیں

Sunday, 1 November 2020

Al Risala | November 2020 (الرسالہ،نومبر)

4

-برتر ہستی کا تصور

5

- اللہ کی رؤیت

6

- عقیدۂ خدا اور سائنس

9

- لامحدود کائنات، انسانی محدودیت

10

- خدا کا عقیدہ

15

- حقیقت کی تلاش

18

- فطرت کی پکار

19

- ڈارون کا اعتراف

20

- برتر ہستی کی تلاش

21

- ذہین وجود

22

- خلائی تہذیب

23

- ماورائے انسان ذہانت

24

- ایلین لائف

25

- کون کنٹرول کرے

26

- کویزار

28

- زیادہ عجیب، کمتر عجیب

30

- سائنس اور خدا

31

- حکمت ِ تخلیق

32

- علم کا سفر

33

- سائنس توحید کی طرف

36

- دریافت کی اہمیت

37

- بامعنی کائنات

39

- سب سے بڑا المیہ

40

- معبود کی طلب

43

- ایک داعی کی وفات

44

- خدا ترس شخصیت

46

- ایگو فری شخصیت

47

- جواہر لال نہرو کا واقعہ

48

- دعوتی عمل کی منصوبہ بندی

49

- نامعلوم دنیا کا سفر

50

- دعوت الی اللہ


برتر ہستی کا تصور

ایک تحقیقاتی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ ہم پیدائشی طور پر خدا میں عقیدہ رکھنے والی مخلوق ہیں (we are born believers)۔ انسان کی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک برتر ہستی کا تصور اس کے اندر فطری طور پر موجودہے۔ یہ تصور اتنا قوی ہے کہ کوئی بھی تربیت اس کو ختم نہیں کرسکتی۔ اس حقیقت کو نفسیات کے ایک عالم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
Belief in God is hardwired in our brain
یہ تحقیق ٹائمس آن لائن میں چھپی ہے، جس کو نئی دہلی کے اخبار ٹائمس آف انڈیا، نے اپنے شمارہ 8 ستمبر 2009 نے نقل کیا ہے۔مگر ماہرین کی رپورٹ میں غلط طور پر انسان کی اس خصوصیت کو نظریۂ ارتقا سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ انسانی ذہن کی خدا پر عقیدے کی پروگرامنگ بذریعہ ارتقا ہوئی ہے، تاکہ اپنے اس عقیدے کی بنا پر انسان جہد للبقا کے عمل میں زیادہ بہتر مواقع پاسکے:
Human beings are programmed by evolution to believe in God, because it gives them a better chance of survival.
یہ سرتاسر ایک غیر منطقی بات ہے۔ تحقیق سے جو بات ثابت ہوئی ہے وہ یہ کہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر فوق الطبیعی عقیدہ (supernatural belief)موجود ہوتا ہے۔ کوئی مرد یا عورت اس سے خالی نہیں۔ مگر یہ بات سر تاسر غیر ثابت شدہ ہے کہ یہ عقیدہ کسی مفروضہ ارتقا (evolution) کے ذریعے انسان کے اندر خود بخود پیدا ہوا ہے۔
موجودہ زمانے میں مختلف شعبوں میں علمی تحقیقات کی گئی ہیں۔ ہر شعبے کے تحقیقاتی نتائج اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ انسان پیدائشی طور پر ایک بر تر ہستی کا عقیدہ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ذہن ہر انسان کو کسی نہ کسی پہلو سے مذہبی بنا دیتا ہے۔ حتی کہ جو لوگ بظاہر ملحد (atheist) سمجھے جاتے ہیں، ان کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں بھی یہ تصور موجود ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی رؤیت

حدیث کی کتابوں میں ایک روایت آئی ہے، جو حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے۔ اس حدیث کا ایک جزء یہ ہے:أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر50)۔ یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھتے ہو تو وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔
اس حدیث میں عبادت کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ حدیث پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے اگرچہ براہِ راست اللہ کی رؤیت (دیدار)ممکن نہیں ، لیکن انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ شِبہ رؤیت کے درجے میں اللہ کو پاسکے۔ رؤیت اور شِبہِ رؤیت کے درمیان اگرچہ ظاہر کے اعتبار سے فرق ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔
کسی آدمی کو اللہ کی شِبہِ رؤیت کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ ہے اللہ کی تخلیق میں غور وفکر کرنا۔ اللہ اپنی ذات کے اعتبار سے اگرچہ ہمارے سامنے ظاہر نہیں ہے۔ لیکن اپنی صفات کے اعتبار سے وہ اپنی تخلیقات میں پوری طرح نمایاں ہے۔ تخلیق گویا خالق کی معرفت کا آئینہ ہے۔ جس نے تخلیق کو دیکھا، اس نے گویا خالق کو دیکھ لیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کسی نے آرٹ کو دیکھا تواس نے گویا آرٹسٹ کو دیکھ لیا۔
موجودہ زمانے میں اہلِ سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ کائنات ایک ذہین کائنات (intelligent universe) ہے۔ یہ دریافت اپنے آپ میں بتاتی ہے کہ کائنات میں ذہن کی کارفرمائی ہے۔ایسا ہے تو یقینی طور پر یہاں کوئی صاحبِ ذہن موجود ہے۔ ذہن کی کارفرمائی سے ذہن کا وجود ثابت ہوتا ہے، اور ذہن کا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ یہاں ایک صاحبِ ذہن ہستی موجود ہے۔ سائنس کی زبان میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مذکورہ دریافت کے بعد خالق کا وجود پرابیبیلیٹی (probability)کے درجے میں ثابت ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عقیدۂ خدا اور سائنس

سائنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے عین اسی علم فطرت کا ظہور ہے، جس کی خبر پیشگی طورپر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے— (ترجمہ) ہم لوگوں کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اورانفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے (41:53)۔ سائنس کی جدیدتحقیقات کی روشنی میں کائنات کی جو نئی تصویر بنی ہے، وہ عین وہی ہے، جو قرآن میں پیشگی طورپر بتا دی گئی تھی۔ اس اعتبار سے جدید سائنسی دریافتیں گویا کتابِ الٰہی کے اشارات کی تفصیل ہیں، اور اسی کے ساتھ اس کی دلیل بھی۔ یہاں مختصر طورپر ان کا ذکر کیاجاتاہے۔جدید دریافت کے مطابق، کائنات کی ابتدا تقریباً13.8 بلین سال پہلے ہوئی۔ اس کے بعد مختلف تدریجی انقلابات سے گزرتےہوئے وہ اپنی موجودہ حالت تک پہنچی۔ اس پورے سفر کی روداد اس موضوع کی کتابوں میں پڑھ کر معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کو محسوس طور پر کسی سائنسی پلینٹیریم (Planetarium) میں دیکھا جاسکتاہے۔ میں نے یہ پورا منظر واشنگٹن کے نیشنل پلینٹیریم میں دیکھا ہے۔
سائنسی مطالعہ بتاتا ہے کہ13.8 بلین سال پہلے خلا میں ایک سپر ایٹم ظاہر ہوا۔ یہ ان تمام ذرات (particles) کا مجموعہ تھا ،جو موجودہ کائنات میں پائے جاتے ہیں۔ گویا موجودہ پوری کائنات ایک بہت بڑے فٹ بال جیسے گولے کی صورت میں شدت کے ساتھ باہمی طورپر چمٹی ہوئی تھی۔ اس گولے کے تمام ذرات بے حد طاقت ور کشش کے ساتھ ایک دوسرے سے داخلی طورپر جڑے ہوئے تھے۔ معلوم طبیعیاتی قانون کے مطابق، یہ ناممکن تھاکہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو کر بیرونی سمت میں سفر کریں۔اس وقت اس سُپر ایٹم کے اندر نہایت طاقتور دھماکہ ہوا۔ اس دھماکہ کے فوراً بعد سپر ایٹم کے ذرات بکھر کر تیزی سے بیرونی سمت میں سفر کرنے لگے۔ اس کے بعد یہ ذرات وسیع خلا میں مختلف مجموعوں کی صورت میں اکٹھا ہوگئے۔ انھیں مجموعوں سے خلامیں پائی جانے والی وہ دنیائیں بنیں، جن کو ستارہ، سیارہ، کہکشاں، شمسی نظام، زمین اور چاند جیسے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
سپر ایٹم کا یہ دھماکہ بیک وقت دو چیزیں ثابت کرتا ہے۔ایک یہ کہ یہاں کائنات سے الگ ایک طاقتور ہستی پہلے سے موجود تھی، جس نے اپنی ارادی مداخلت کے ذریعے یہ غیر معمولی واقعہ کیا کہ سپر ایٹم کے ذرات داخلی رخ پر سفر کے بجائے بیرونی رُخ پر سفر کرنے لگے۔
اس واقعے کا دوسرا عظیم پہلو یہ ہے کہ دھماکہ (explosion)ہمیشہ تخریبی نتائج کا سبب بنتا ہے۔ پٹاخہ سے لے کر بم تک ہر دھماکہ بلا استثنا یہی خاصیت رکھتا ہے۔ مگر سُپر ایٹم کا دھماکہ استثنائی طورپر غیر تخریبی تھا۔ اس نے مکمل طورپر صرف صحت مند اور تعمیری نتائج پیدا کیے۔ یہ استثنائی واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کائنات کا خالق لامحدود قدرت کا مالک ہے۔ وہ یہ استثنائی اختیار رکھتا ہے کہ واقعے کے ساتھ نتائج پر مکمل کنٹرول کرسکے۔مطالعہ بتاتاہے کہ ہماری کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات (expanding universe) ہے۔ وہ غبارہ کی مانند مسلسل طورپر بیرونی سمت میں پھیل رہی ہے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ کائنات کا ایک متعین آغاز ہے۔ اگر کائنات ابدی ہوتی تو وہ اپنی اس پھیلتی ہوئی نوعیت کی بنا پر اب تک ختم ہوچکی ہوتی۔ یہ ثابت ہوناکہ کائنات کا ایک آغاز ہے، یہ بھی ثابت کردیتا ہے کہ اس کا کوئی آغاز کرنے والا ہے۔ ایک غیر موجودہ چیز کا آغاز اسی وقت ممکن ہے، جب کہ اس سے پہلے کوئی موجود ہو، جو اپنے ارادے سے اُس کا آغاز کرسکے۔
کائنات میں ایسے بے شمار شواہد ہیں جو یہ ثابت کرتےہیں کہ کائنات کا منصوبہ ساز اوراس کا ناظم صرف ایک ہے۔ اگر ایک سے زیادہ ناظم ہوتے تو یقینی طورپرکائنات میں فساد برپا ہوجاتا۔
مثال کے طورپر زمین اور سورج کا فاصلہ تقریباً 9کرور 30 لاکھ میل ہے۔ یہ فاصلہ مسلسل طورپر اپنی حالت پر برقرار رہتا ہے۔ اگر اس فاصلہ میں تبدیلی آجائے تو اس کے مہلک نتائج پیدا ہوں گے۔ مثلاً اگر یہ فاصلہ بڑھ کر 20 کرور میل دور ہوجائے تو زمین پر اتنی ٹھنڈک پیدا ہو کہ پانی، حیاتیات، حیوانات اور انسان سب منجمد ہوجائیں۔ اسی طرح یہ فاصلہ اگر کم ہو کر 5کرور میل ہوجائے تو زمین پر اتنی گرمی پیداہو کہ تمام چیزیں بشمول انسان جل کر ختم ہوجائیں۔
اس سے ثابت ہوتاہے کہ سورج اور زمین دونوں کا خدا ایک ہے۔ اگر دونوں کے خدا الگ الگ ہوتے تو دونوں الگ الگ اپنی مرضی چلاتے اور پھر یقینی طورپر یہ فاصلہ گھٹتا یا بڑھتا رہتا اوراس بے قاعدگی کی بنا پر زمین پر انسانی تہذیب کا وجود ناممکن ہوجاتا۔
نامعلوم حد تک وسیع کائنات میںہمارا زمینی سیارہ ایک نادر استثنا ہے۔ یہاں پانی اور ہوا اور نباتات جیسی ان گنت چیزیں پائی جاتی ہیں جو انسانی زندگی کے لیے لازمی طور پر ضروری ہیں۔ جب کہ وسیع خلا میں معلوم طورپر کوئی بھی ایسی دنیا موجود نہیں جہاں بقائے حیات کا یہ سامان پایا جاتاہو۔ یہ استثنا بتاتا ہے کہ یہ دنیا محض بے شعور مادہ کے ذریعہ نہیں بنی۔ بلکہ وہ ایک باشعور ہستی کا تخلیقی کرشمہ ہے۔ اگر وہ محض مادی قوانین کے بے شعور تعامل کا نتیجہ ہوتی تو کائنات میں بہت سی ایسی زمینیں ہوتیں ،نہ کہ صرف ایک ایسی زمین۔
ہماری دنیا کی ہر چیز انتہائی حد تک با معنی ہے۔ چیزوں کی معنویت یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ دنیا ایک باشعور تخلیق کا نتیجہ ہے۔ کوئی دوسرا نظریہ اس حکمت اور معنویت کی توجیہہ نہیں کرسکتا۔ مثلاً زمین کے حجم (size) کو لیجیے۔ زمین کا موجودہ حجم تقریباً 25 ہزار میل کی گولائی میں ہے۔ یہ حجم بے حد با معنی ہے۔ چنانچہ یہ حجم اگر 50ہزار میل ہوتا تو زمین کی کشش اتنی زیادہ بڑھ جاتی کہ وہ انسانی جسم کی بڑھوتری کو روک دیتی۔ اس کے بعد زمین پر صرف بالشتیے قسم کے انسان (dwarf) دکھائی دیتے۔ اس کے برعکس اگر زمین کا حجم گھٹ کر 12 ہزار میل ہوتا تو اس کی قوتِ کشش اتنی کم ہوجاتی کہ وہ انسانی بڑھوتری کو روک نہ سکتی۔ انسان کا قد تاڑ (palm)کی طرح لمبا ہوجاتا۔ اس کے سوا اور بےشمار قسم کے غیر موافق حالات پیدا ہوتے جوانسان کی تمام تمدنی ترقیوں کو ناممکن بنا دیتے۔
مذکورہ پہلوؤں پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی اعتبار سے، یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اس دنیا کا ایک خالق ہے، اور وہ یقینی طورپر صرف ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمارے لیے جوانتخاب ہے، وہ با خدا کائنات (universe with God) اور بے خدا کائنات (universe without God) میں نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے لیے حقیقی انتخاب باخدا کائنات (universe with God) اور غیر موجود کائنات (no universe at all) میں ہے۔ یعنی اگر ہم خدا کے وجود کا انکار کریں تو ہم کو کائنات کے وجود کابھی انکار کرنا پڑے گا۔ چوں کہ ہم کائنات کے وجودکا انکار نہیں کرسکتے اس لیے ہم خدا کے وجود کا بھی انکار نہیں کرسکتے۔ اس معاملے میں ہمارے لیے دوسرا ممکن انتخاب موجود نہیں۔
واپس اوپر جائیں

لامحدود کائنات، انسانی محدودیت

پچھلے تقریباً پانچ سو سال سے کائنات کا سائنسی مطالعہ جاری ہے۔ اِس مطالعے میں بڑے بڑے دماغ شامل رہے ہیں۔ آخری بات جہاں یہ سائنسی مطالعہ پہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ کائنات اتنی زیادہ وسیع ہے کہ انسان کے لیے اُس کو اپنے احاطے میں لانا بہ ظاہر ناممکن ہے۔ تازہ ترین سائنسی تحقیق کے مطابق، انسان کا علم بہ مشکل کائنات کے صرف پانچ فی صد حصے تک پہنچا ہے۔ اِس پانچ فی صد حصے کے معاملے میں بھی انسانی علم کی محدودیت کا یہ عالم ہے کہ ایک سائنس داں نے کہا کہ ہم جتنا دریافت کرپاتے ہیں، اُس سے صرف یہ معلوم ہوتاہے کہ دریافت شدہ چیزیں بھی ابھی تک غیردریافت شدہ چیزوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم کم سے کم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان رہے ہیں:
We are knowing more and more about less and less.
تخلیق (creation) کے بارے میں جاننا خالق (Creator) کے بارے میں جاننا ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ابھی تک انسان خالق کی تخلیق کے بارے میں بھی صرف چند فی صد جان سکا ہے۔ ایسی حالت میں کسی انسان کا یہ مطالبہ کرنا کہ خالق کے بارے میں ہم کو قطعی معلومات دو، سرتاسر ایک غیرعلمی مطالبے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب انسان کا حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک تخلیق کے بارے میں پورا علم حاصل نہ کرسکا تو وہ خالق کے بارے میں پورا علم کیسے حاصل کرسکتا ہے۔
تخلیق کا وجود زمان ومکان(space and time) کے اندر ہے، اور خالق کا وجود ماورائے زمان ومکان(beyond space and time)سے تعلق رکھتا ہے، پھر جو انسان اتنا محدود ہو کہ وہ زمان ومکان کے اندر کی چیزوں کا بھی احاطہ نہ کرسکے، وہ زمان ومکان کے باہر کی حقیقت کو اپنے احاطے میں کس طرح لا سکتا ہے— حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں انسان خدا کو صرف عجز کی سطح پر دریافت کرسکتا ہے، نہ کہ علم کی سطح پر۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا عقیدہ

کائنات کا ایک خدا ہے، جو اس کا خالق اور مالک ہے۔ اس خدا کے وجود کی سب سے بڑی دلیل خود وہ کائنات ہے، جو ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے۔ کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ پکار رہی ہے کہ ایک عظیم خدا ہے، جس نے اس کو بنایا ،اور اپنی بے پناہ طاقت سے اس کو چلا رہا ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ ہم کائنات کو مانیں، اور اسی لیے ہم مجبور ہیں کہ ہم خدا کو مانیں۔ کیوں کہ کائنات کو ماننا اس وقت تک بے معنی ہے، جب تک اس کے خالق ومالک کو نہ مانا جائے۔ کائنات اتنی حیرت انگیز ہے کہ وہ کسی بنانے والے کے بغیر بن نہیں سکتی ،اور اس کا نظام اتنا عجیب ہے کہ وہ کسی چلانے والے کے بغیر چل نہیں سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننے پر آدمی اس طرح مجبور ہے، جس طرح اپنے آپ کو یا کائنات کو ماننے پر۔
آپ سائیکل کے پہیے پر ایک کنکری رکھیں، اور اس کے بعد پیڈل چلا کر پہیے کو تیزی سے گھمائیں تو کنکری دور جاکر گرے گی۔ حالاں کہ سائیکل کے پہیے کی رفتار مشکل سے 25 میل فی گھنٹہ ہے۔ ہماری یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں، وہ بھی ایک بہت بڑے پہیے کی مانند ہے۔ زمین اپنے محور پر مسلسل ایک ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ رہی ہے۔ یہ رفتار سواری کے عام ہوائی جہازوں سے زیادہ ہے۔ ہم اس تیز رفتار زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔ گھر اور شہر بناتے ہیں۔ مگر ہمارا وہ حال نہیں ہوتا، جو گھومتے ہوئے پہیے پر رکھی ہوئی کنکری کا ہوتا ہے۔ کیسا عجیب ہے یہ معجزہ۔
سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ زمین پر ہمارے قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ نیچے سے زمین بہت بڑی طاقت کے ساتھ کھینچ رہی ہے، جس کو قوت کشش کہا جاتا ہے،اور اوپر سے ہوا کا بھاری دباؤ ہم کو زمین کی سطح پر روکے رہتا ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ہم کو زمین پر تھامے ہوئے ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہم پہیے کی کنکری کی طرح فضا میں اڑ نہیں جاتے۔ مگر یہ جواب صرف یہ بتاتا ہے کہ ہمارے آس پاس ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑا معجزہ موجود ہے۔ زمین میں اتنے بڑے پیمانے پر کھینچنے کی قوت ہونا، اور اس کے چاروں طرف ہوا کا پانچ سو میل موٹا غلاف مسلسل لپٹا رہنا صرف معاملے کی حیرت ناکی کو بڑھاتا ہے، وہ کسی بھی درجے میں اس کو کم نہیں کرتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی ہر چیز معجزہ ہے۔ آدمی مٹی کے اندر ایک چھوٹا سا دانہ ڈالتا ہے۔ اس کے بعد حیرت انگیز طورپر وہ دیکھتا ہے کہ مٹی کے اندر سے ایک ہری اور سفید مولی نکلی چلی آرہی ہے۔ وہ دوسرا دانہ ڈالتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کے اندر سے میٹھا گاجر نکلا چلا آرہا ہے۔ اسی طرح بے شمار دوسری چیزیں۔ کسی دانے کو مٹی میں ڈالنے سے امرود نکل رہا ہے۔ کسی دانے کو ڈالنے سے آم۔ کسی دانے سے شیشم کا درخت نکلا چلا آرہا ہے، اور کسی دانے سے چنار کادرخت۔ پھر ان میں سے ہر ایک کی صورت الگ، ہر ایک کا مزہ الگ، ہر ایک کے فائدے الگ، ہر ایک کی خاصیتیں الگ۔ ایک ہی مٹی ہے، اور ناقابلِ لحاظ چھوٹے چھوٹے بیج ہیں، اور ان سے اتنی مختلف چیزیں اتنی مختلف صفتوں کو لیے ہوئے نکل رہی ہے، جن کی گنتی نہیں کی جاسکتی۔
حیرت ناک معجزوں کی ایک پوری کائنات ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں سارے انسان مل کر ایک ذرے کی بھی تخلیق نہیں کرسکتے وہاں ہر لمحہ بےشمار طرح طرح کی چیزیں پیداہوتی چلی جارہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اتنے بڑے معجزے ہیں کہ ان کے کمالات کو انسانی زبان میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ان کو بتانے کے لیے ہماری لغت کے تمام الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ ہمارے الفاظ ان معجزوں کے اتھاہ کمالات کو صرف محدود کرتے ہیں۔ وہ کچھ بھی ان کا اظہار نہیں کرتے۔ کیا یہ معجزہ ایک خدا کے بغیر خود بخود وجود میں آسکتا ہے۔
دنیا کی ہر چیز ایٹم سے بنی ہے۔ ہر چیز اپنے آخری تجزیے میں ایٹموں کا مجموعہ ہے۔ مگر کیسا عجیب معجزہ ہے کہ کہیں ایٹموں کی ایک مقدار جمع ہوتی ہے تو سورج جیسا روشن کرہ بن جاتاہے۔ دوسری جگہ یہی ایٹم جمع ہوتے ہیں تو وہ بہتے ہوئے پانی کی صورت میں رواں ہوجاتےہیں۔ تیسری جگہ ایٹموں کا یہی مجموعہ لطیف ہواؤں کی صورت اختیار کرلیتاہے۔ کسی اور جگہ یہی ایٹم زرخیز زمین کی صورت میں ڈھل جاتے ہیں۔اسی طرح دنیا میں ان گنت چیزیں ہیں۔ سب کی ترکیب ایٹم سے ہوئی ہے۔ مگر سب کی نوعیت اور خاصیت جدا جدا ہے۔ اس قسم کی ایک معجزاتی کائنات اپنی بے شمار سرگرمیوں کے ساتھ انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ انسان کو اپنی زندگی کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ بہت بڑے پیمانے پر دنیا میں جمع کردیا گیا ہے، اور ہر روز جمع کیا جارہا ہے۔ دنیا کو اپنے لیے قابلِ استعمال بنانے کی خاطر انسان کو خودجو کچھ کرنا ہے، وہ بہت تھوڑا ہے۔ کائناتی انتظام کے تحت بے حساب مقدار میں قیمتی رزق پیدا کیا جاتا ہے۔ ہم اس میں صرف اتنا کرتے ہیں کہ اپنا ہاتھ اور منھ چلا کر اس کو اپنے پیٹ میں ڈال لیتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے ارادے کے بغیر خود کار فطری نظام کے تحت غذا ہمارےاندر تحلیل ہوتی ہے، اور گوشت اور خون اور ہڈی اور ناخن اور بال اور دوسری بہت سی چیزوں کی صورت اختیار کرکے ہمارے جسم کا جزء بن جاتی ہے۔
زمین وآسمان کی بے شمار گردشوں کے بعد وہ حیرت انگیز چیز پیدا ہوتی ہے، جس کو تیل کہتےہیں۔ انسان صرف یہ کرتا ہے کہ اس کو نکال کر اپنی مشینوں میں بھر لیتاہے، اور پھر یہ سیال ایندھن انسانی تہذیب کے پورے نظام کو حیرت انگیز طور پر رواں دواں کردیتاہے۔ اسی طرح کائنات کے نظام کے تحت وہ ساری چیزیں بے شمار تعداد اور مقدار میں پیدا کی گئی ہیں، جن پر انسان صرف معمولی عمل کرتاہے، اور اس کے بعد وہ کپڑا، مکان، فرنیچر، آلات، مشینوں، سواریوں اور بےشمار تمدنی ساز وسامان کی صورت میں ڈھل جاتی ہیں۔ کیا یہ واقعات اس بات کے ثبوت کے لیے کافی نہیں کہ اس کا ایک بنانے والا اور چلانے والا ہے۔
اب ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ قدرت اپنے طویل اور ناقابلِ بیان عمل کے ذریعے ہر قسم کی چیزیں تیار کرکے ہم کو دے رہی ہے۔ انسان ان کواپنے حق میں کار آمد بنانے کے لیے بے حد تھوڑا حصہ ادا کرتا ہے۔وہ لوہے کو مشین کی صورت میں ڈھالتا ہے، اور تیل کو صاف کرکے اس کو اپنی گاڑی کی ٹنکی میں بھرتاہے۔ مگر اس قسم کے معمولی عمل کا یہ نتیجہ ہے کہ خشکی اور تری فساد سے بھرگئے ہیں۔ قدرت نے ہم کو ایک انتہائی حسین اور خالص دنیادی تھی۔ مگر ہمارے عمل نے ہم کو دھواں، شور، غلاظت، توڑپھوڑ، لڑائی جھگڑا اور طرح طرح کے ناقابلِ حل مسائل سے گھیر لیا ہے۔ ہم اپنے کارخانوں یا تمدّنی سرگرمیوں کی صورت میں جو تھوڑا سا عمل کرتے ہیں، وہی عمل کائنات میں بےحساب گنا زیادہ بڑے پیمانے پر رات دن ہورہا ہے، مگر یہاں کسی قسم کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
زمین مسلسل دو قسم کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔ ایک، اپنے محور (axis)پراور دوسری، سورج کے گرد اپنے مدار (orbit)پر، مگر وہ کوئی شور برپا نہیں کرتی۔ درخت ایک عظیم الشان کارخانہ کی صورت میں کام کرتے ہیں مگر وہ دھواں نہیں بکھیرتے۔ سمندروں میں بے شمار جانور ہر روز مرتے ہیں مگر وہ پانی کو خراب نہیں کرتے۔ کائنات کا نظام کھرب ہا کھرب سال سے چل رہا ہے۔ مگر اس کا منصوبہ اتنا کامل ہے کہ اس کو کبھی اپنے منصوبہ پر نظر ثانی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بے شمار ستارے اور سیارے خلا میں ہر وقت دوڑ رہے ہیں۔ مگر ان کی رفتار میں کبھی فرق نہیں آتا، وہ کبھی آگے پیچھے نہیں ہوتے۔ یہ تمام معجزوں سے بڑا معجزہ اور تمام کرشموں سے بڑا کرشمہ ہے، جو ہر لمحہ ہماری دنیا میں پیش کیا جارہا ہے۔ کیا اس کے بعد کوئی اور ثبوت چاہیے کہ آدمی اس کائنات کے پیچھے ایک عظیم خدائی طاقت کو تسلیم کرے۔
پھر زندگی کو دیکھیے۔ فطرت کا کیسا انوکھا واقعہ ہے کہ چند مادی چیزیں خود بخود ایک جسم میں یک جا ہوتی ہیں، اور پھر ایک ایسی شخصیت وجود میں آجاتی ہے، جو مچھلی بن کر پانی میں تیرتی ہے، جو چڑیا بن کر ہوا میں اڑتی ہے۔ طرح طرح کے جانوروں کی صورت میں زمین پر چلتی پھرتی ہے، انھیں میں وہ جان دار بھی ہے، جس کو انسان کہا جاتا ہے۔ پراسرار اسباب کے تحت ایک موزوں جسم بنتا ہے، اور اس کے اندر ہڈیاں ایک انتہائی با معنی ڈھانچے کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ پھر اس کے اوپر گوشت چڑھایا جاتا ہے۔اس کے اوپر کھال کی تہیں اوڑھائی جاتی ہیں، بال اور ناخن پیدا کیے جاتے ہیں۔ پھر سارے جسم میں خون کی نہریں جاری کی جاتی ہیں۔ اس طرح ایک خود کار عمل کے ذریعے ایک عجیب وغریب انسان بنتا ہے، جو چلتا ہے، جو پکڑتا ہے، جو دیکھتا ہے، جو سنتا ہے، جو سونگھتا ہے، جو چکھتا ہے، جو سوچتا ہے، جو یاد رکھتا ہے، جو معلومات جمع کرکے ان کو مرتب کرتا ہے، جو لکھتااور بولتا ہے۔ مردہ مادّے سے اس قسم کے ایک حیرت ناک وجود کا بن جانا ایک ایساانوکھا واقعہ ہے کہ معجزے کا لفظ بھی اس کے اعجاز (miracle)کو بتانے کے لیے کافی نہیں۔
اگر کوئی شخص کہے کہ میں نے مٹی کو بولتے ہوئے سنا اور پتھر کو چلتے ہوئے دیکھا تو لوگ حیران ہو کر اس کی تفصیل دریافت کریں گے۔ مگر یہ انسان جو چلتا پھرتاہے، جو بولتا اور دیکھتا ہے آخر مٹی پتھر ہی تو ہے۔ اس کے اجزاء وہی ہیں، جو ’’مٹی اور پـتھر‘‘ کے ہوتے ہیں۔ مٹی اور پتھر کے بولنے اور دیکھنے کی خبر کو ہم جس طرح عجیب سمجھیں گے، اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ تعجب ہم کو اس مخلوق پر ہونا چاہیے جس کو انسان کہاجاتاہے۔ بے جان مادّے میں اس قسم کی زندگی اور شعور پیدا ہوجانا کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ یہاں ایک برتر ہستی ہے، جس نے اپنی خصوصی قدرت سے یہ عجیب وغریب معجزہ رونما کیا ہے۔
انسان اگر اپنے اوپر غور کرے تو بہ آسانی وہ خدا کی حقیقت کو سمجھ سکتاہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی صورت میں ایک ’’میں‘‘ زمین پر موجود ہے۔ اس کی اپنی ایک مستقل ہستی ہے۔ وہ دوسری چیزوں سے الگ اپنا ایک وجود رکھتا ہے۔ یہ ’’میں‘‘ بلا اشتباہ یقین رکھتا ہے کہ وہ ہے۔ وہ سوچتا ہے اور رائے قائم کرتاہے۔ وہ ارادہ کرتاہے، اور اس کو بالفعل نافذ کرتاہے۔ وہ اپنے فیصلہ کے تحت کہیں ایک رویہ اور کہیں دوسرا رویہ اختیار کرتاہے۔ یہی شخصیت اور قوت جس کا ایک آدمی اپنی ’’میں‘‘ کی سطح پر ہر وقت تجربہ کررہا ہے یہی ’’میں‘‘ اگر خدا کی صور ت میں زیادہ بڑےپیمانہ پر موجود ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننا ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو ماننا۔ اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ۔ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ(75:14-15)۔ آدمی اپنے واسطے آپ دلیل ہے، چاہے وہ کتنی ہی معذرت کرے ۔
لوگ خدا پر اور خدا کے پیغام پر یقین کرنے کے لیے معجزاتی دلیل مانگتے ہیں۔ آخر لوگوں کو اس کے سوا اور کون سا معجزہ درکار ہے، جو ناقابلِ قیاس حد تک بڑے پیمانے پر ساری کائنات میں جاری ہے۔ اگر اتنا بڑا معجزہ آدمی کو جھکانے کے لیے کافی نہ ہو تو دوسرا کوئی معجزہ دیکھ کر وہ کیسے ماننے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننے اور اس کے آگے اپنے آپ کو سرینڈر کرنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ہر وقت ہر آدمی کے سامنے موجود ہے۔ اس کے باوجود آدمی اگر خدا کو اور اس کے جلال وکمال کو نہ مانے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے ،نہ کہ کائنات کا۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت کی تلاش

گلیلیوگلیلی (1564-1642) اپنی سادہ دوربین سے چاند کا صرف سامنے کا رخ دیکھ سکتا تھا۔ آج کا انسان خلائی جہاز میں لگے ہوئے دور بینی کیمروں کی مدد سے چاند کا پچھلا رخ بھی پوری طرح دیکھ رہاہے۔ یہ ایک سادہ سی مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کل اور آج میں علمی اعتبار سے کتنا زیادہ فرق ہوچکا ہے۔
مگر ان جدید معلومات تک پہنچنے کی قیمت بہت مہنگی ہے۔ 10 اکتوبر 1980 کو نیومیکسیکو میں دنیا کی سب سے بڑی دور بین نصب کی گئی۔ اس کی قیمت 78 ملین ڈالر تھی۔امریکا کا ایک خلائی جہاز، وائیجر1(Voyager 1) جو نومبر 1980 میں زحل کے پاس پہنچا اس کی لاگت 340 ملین ڈالر تھی۔ یورپ میں پارٹیکل فزکس کی بین اقوامی لیبوریٹری (CERN) 1981میں مکمل ہوئی ہے، اس کا مقصد اینٹی میٹر کو توڑ کر میٹر میں تبدیل کرنا ہے، اس لیبوریٹری کی لاگت 120 ملین ڈالر ہے۔ یہ ادارہ ایک اور زیادہ بڑی تحقیقی مشین تیار کرنےکا منصوبہ بنا رہا ہے، جس کی لاگت 550 ملین ڈالر ہوگی۔ پروٹان کی تحقیق کے لیے امریکا میں ایک مشین بنائی گئی ہے، جس کی لاگت 275 ملین ڈالر ہے، وغیرہ۔
پارٹیکل فزکس (ذراتی طبیعیات) میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی دل چسپی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ 1927 میں ہونے والی فزکس کانفرنس میں 32 سائنس داں شریک ہوئے تھے، جب کہ 1980 میں ہونے والی فزکس کانفرنس میں شریک ہونے والے سائنس دانوں کی تعداد 800 تھی۔ امریکن فزیکل سوسائٹی (APS) 1899 میں قائم کی گئی۔ اس کے ممبروں کی تعداد 1920 میں 1300 تھی، 1980 میں اس سوسائٹی کے ممبروں کی تعداد 30,000تھی، اور 2020 میں اس کے ممبران کی تعداد 50,000 ہے۔
ان جدید تحقیقاتی کوششوں کا تعلق اسٹرانومی اور پارٹیکل فزکس (ذراتی طبیعیات) سے ہے۔ ان علوم میں تحقیقات کے نتائج بہت دیر میں نکلتے ہیں۔ تقریباً 50 سال بعد یا اس سے بھی زیادہ۔ اگر اس کا لحاظ کیا جائے کہ ان تحقیقات میں لگی ہوئی رقم (جس پر کوئی سود نہیں ملتا) کی قیمت ہر سال کم ہوتی رہتی ہے تو پچاس سال بعد ایک سو ڈالر کی قیمت صرف ایک ڈالر کے بقدر رہ جائے گی۔ بہ ظاہر ایک بے فائدہ مد میں اتنی کثیر رقم خرچ کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ ایسے منصوبوں پر اعتراض کررہے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے امریکی پروفیسر راجر پنروز (Roger Penrose [b. 1931]) نے کہا ہے:
Do economists not share with us the thrill that accompanies each new piece of understanding? Do they not care to know where we have come from, how we are constituted, or why we are here? Do they not have a drive to understand, quite independent of economic gain? Do they not appreciate the beauty in ideas? — A civilisation that stopped inquiring about the universe might stop inquiring about other things as well. A lot else might then die besides particle physics. (SUNDAY Weekly [Calcutta] Nov 30, 1980)
کیا اقتصادیات کے ماہرین اس وجد انگیز مسرت میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہیں، جو علم کے ہر نئے اضافے سے حاصل ہوتی ہے۔ کیا ان کو یہ جاننے کا شوق نہیں ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں، ہماری پیدائش کیسے ہوئی ہے یا یہ کہ اس زمین پر ہم کیوں ہیں۔ کیا اقتصادی فائدہ سے ہٹ کر ان باتوں کو جاننے کا جذبہ ان کے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ کیا وہ نظریات میں حسن کی قیمت کو نہیں سمجھتے۔ کوئی تہذیب جو کائنات کے بارے میں تحقیق سے رک جائے، وہ دوسری چیزوں کے بارے میں تحقیق کو بھی روک دے گی۔ اس کے بعد پارٹیکل فزکس کے علاوہ دوسری بہت سی چیزیں بھی موت کا شکار ہو کر رہ جائیں گی۔
اس اقتباس سے اندازہ ہوتاہے کہ زندگی کی حقیقت جاننے کا مسئلہ کس قدر ضروری ہے۔ وہ انسان جو خدا کی بنیاد پر کائنات کی تشریح نہیں کرنا چاہتا وہ بھی انتہائی بے تاب ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز پالے جس کی بنیاد پر وہ اپنی اور کائنات کی تشریح کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ نظر آنے والی کائنات اور اس کے اندر انسان جیسی ایک مخلوق کا موجود ہونا اس قدر حیران کن ہے کہ انسان اس کی ماہیت کے بارے میں سوچے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کوئی بھی دوسری چیز اس کو اس سوال سے بے نیاز کرنے والی ثابت نہیں ہوسکتی۔ حتی کہ بڑی بڑی مادی ترقیاں بھی۔
انسان دیکھتا ہے کہ وہ ایک لامحدود کائنات میں ہے۔ اس کائنات میں تقریباً ایک کھرب کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں میں لگ بھگ ایک کھرب بہت بڑے بڑے ستارے ہیں، اور ہر ستارہ دوسرے ستارے سے اتنا زیادہ فاصلہ پر ہے جیسے بحر الکاہل (Pacific Ocean) کے لق ودق سمندر میں چندکشتیاں ایک دوسرے سے دور دور تیر رہی ہوں۔ عظیم کائنات میں پھیلے ہوئے ستاروں کی یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر ہر ستارہ کا کوئی یک لفظی نام رکھا جائے ،اور کوئی ان ناموں کو بولنا شروع کرے تو صرف تمام ناموں کو دہرانے کے لیے 300 کھرب (30 ٹریلین )سال کی مدت درکار ہوگی (پلین ٹرتھ، جنوری، 1981)۔
اس ناقابلِ قیاس حد تک عظیم کائنات میں انسان سب سے زیادہ حقیر مخلوق ہے۔ وہ کائناتی نقشے میں ان چھوٹے جزیروں سے بھی کم ہے، جو بہت چھوٹے ہونے کی وجہ سے عام طورپر دنیا کے نقشوں میں دکھائی نہیں دیتے۔ یہ انسان اپنے تمام چھوٹے پن کے باوجود کائنات کے فاصلوں کو ناپ رہا ہے۔ وہ طبیعیاتی ذروں سے لے کر کہکشاتی نظاموں تک کی تحقیق کررہاہے۔ وہ ایک ایسا ذہن رکھتا ہے، جو ماضی اور مستقبل کا تصور کرسکے۔ یہ سب کیوں ہورہا ہے اور کیسے ہورہاہے، اور بالآخر اس عجیب وغریب ڈرامے کا کیا انجام ہونے والا ہے۔ یہ سوالات ہر سوچنے والےانسان کے اوپر منڈلا رہے ہیں۔ وہ ان کی حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے۔ مگر انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ان سوالات کا جواب دور بینی مشاہدات اور لیبوریٹری کے تجربات میں ڈھونڈ رہاہے۔ حالاں کہ ان سوالات کا جواب پیغمبر کے الہام کے سوا کہیں اور موجود نہیں۔
جس کائنات میں اتنی زیادہ دنیائیں ہوں کہ صرف ان کا نام لینے کے لیے تین سو کھرب(30 Trillion) سال سے زیادہ مدت درکارہو۔ اس کی حقیقت کو وہ انسان کیوں کر دریافت کرسکتا ہے، جو پچاس سال یا سو سال زندگی گزار کر مر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خالق ہی اس راز کو کھول سکتا ہے، اور اسی نے پیغمبر کے ذریعے اس کو کھولا ہے۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کی پکار

مسٹر یاکوف زلڈووچ (Yakov Zeldovich) روس کے مشہور سائنس داں ہیں۔ ان کی پیدائش 1914 میں ہوئی، اور وفات 1987 میں ۔ وہ روس کی اکیڈمی آف سائنسز کے ممبر رہ چکے ہیں۔ سوویت یونین کے زمانے میں ماسکو سےشائع ہونے والے انگریزی ماہ نامہ اسپٹنک (Sputnik) شمارہ اگست 1987 میںان کا ایک مضمون چھپا تھا، جس کا عنوان ہے:
Truth, Progress and the Human Soul
اس مضمون میں مسٹر زلڈووچ نے اپنے بارے میں اقرار کیا ہے کہ وہ ایک اتھیسٹ ہیں، وہ خدا اور مذہب کو نہیں مانتے۔ مگر اسی کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ انسانی معاشروں میں مذہب کی موجودگی ایک ثابت شدہ تاریخی حقیقت ہے۔ نیز یہ کہ روحانی تقاضے انسان کے شعور میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہیں:
Spiritual needs are deeply embedded in human consciousness.
انسانی فطرت کی یہ نوعیت اتنی واضح اور اتنی قطعی ہے کہ تمام سنجیدہ لوگوں نےاس کا اقرار کیا ہے۔ قدیم ترین زمانے سے لے کر آج تک تمام انسان اس احساس کو لے کر پیدا ہوتےرہے ہیں۔ ملحد معاشروں میں پیدا ہونے والے بچے بھی اپنے آپ کو اس احساس سے خالی نہ کرسکے۔ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ایک ایسی مانی ہوئی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اس حقیقت کو مان لینے کے بعد صرف یہ سوال باقی رہتاہے کہ اس تقاضے کا جواب کیا ہے۔مذکورہ سائنس داں کا کہنا ہے کہ اس کا جواب نیچرل سائنس ہے۔ مگر یہ جواب اپنی تردید آپ ہے۔ اس لیے کہ نیچرل سائنس ایک مادی چیز ہے، اور انسانی فطرت کا تقاضا ایک روحانی چیز۔ پھر ایک مادی چیز ایک روحانی سوال کا جواب کس طرح بن سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب صرف خداوند تعالی ہے۔ مخلوق اپنے خالق کی تلاش میں ہے، اور خالق کو پانے کے بعد ہی مخلوق کو سکون حاصل ہوسکتاہے:اَلا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ القُلُوبُ(13:28)۔
واپس اوپر جائیں

ڈارون کا اعتراف

چارلس ڈارون (1809-1882) نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان دوسرے حیوانات ہی کی ترقی یافتہ نسل ہے۔ یہ ایک بے حد عجیب نظریہ تھا۔ کیونکہ انسان انتہائی غیر معمولی حد تک دوسرے جانوروں سے مختلف ہے۔ پھر کیسے یہ ممکن ہوا کہ امیبا کا دماغ ترقی کرتے کرتے انسان کا دماغ بن جائے۔ یہ نظریہ اتنا بعید از قیاس تھا کہ ڈارون خود اپنے اس نظریے کے بارےمیں حیرانی میں مبتلا ہوگیا۔ اس نے اپنی ڈائری (Darwin's Diary, April 1881) میں لکھاہے:
Can the mind of man, which has, as I fully believe, been developed from a mind as low as that possessed by the lowest animal, be trusted when it draws such a grand conclusion?...I cannot pretend to throw the least light on such abstruse problems.
(www.pbs.org/wgbh/evolution/darwin/diary/1881.html. accessed on 01.04.2020)
انسان کا دماغ جس کے متعلق میرا کامل عقیدہ ہے کہ وہ اس معمولی دماغ سے ترقی کرکے بناہے جو انتہائی ادنیٰ حیوانات کو حاصل ہوتا ہے۔ کیا ایسے دماغ پر اس وقت بھروسہ کیا جاسکتا ہے، جب کہ وہ اتنے بڑے بڑے نتائج کررہا ہو۔ میں یہ دکھانے کی جھوٹی کوشش نہیں کروں گا کہ میں اس قسم کے مشکل مسائل پر کچھ بھی روشنی ڈال سکتا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی اور کائنات کی تشریح کا مسئلہ ناقابلِ قیاس حد تک بڑا مسئلہ ہے۔ کوئی انسان اپنی محدود عمر اور محدود صلاحیت کے ساتھ اس کی تشریح کا اہل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص بھی اس کی تشریح کرنے بیٹھتا ہے وہ ہمیشہ احساسِ عجز کا شکار رہتاہے۔ خواہ اپنی زبان سے وہ اس کا اقرار کرے یا نہ کرے۔یہ واقعہ اس کا ثبوت ہے کہ زندگی اور کائنات کی حقیقت بتانے کے لیے انسانی دماغ سے برتر ایک دماغ درکار ہے۔ یہ کام صرف خدا کرسکتا ہے، اور خدا نے پیغمبروں کے واسطے سے اس کو انجام دیا ہے۔ یہ ایک قرینہ ہے جو پیغمبرانہ ہدایت کی ضرورت اور واقعیت کو ثابت کرتاہے۔
واپس اوپر جائیں

برتر ہستی کی تلاش

ڈاکٹر جے۔وی۔نارلیکر (Jayant Vishnu Narlikar) انڈیا کے عالمی شہرت یافتہ ماہر فلکی طبیعیات(astrophysicist) ہیں۔ ان کی پیدا ئش 1938 میں ہوئی۔ ان سے ایک انٹرویو میں کہاگیا کہ ’’مذہبی توہمات‘‘ کی پرستش میں سائنس داں دوسرے لوگوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ حتی کہ کتنے سائنس داں دیوتاؤں تک میں عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر نارلیکر نے کہا:’’مجھے یہ بات بے حد ناپسند ہے۔ عملاً میں دیکھتاہوں کہ بہت سے سائنس داں ، جب اپنی تجربہ گاہ میں کام کررہے ہوتے ہیں تو وہ سائنٹفک نقطۂ نظر کو اپناتے ہیں۔ مگر جب وہ اپنے گھر جاتےہیں تو وہ سائنٹفک طریقے کا بالکل استعمال نہیں کرتے۔ مثال کے طورپر، مغرب کے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں میں جیوتش پر عقیدہ پھیل رہا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ انسان کی اس خواہش نے اس کو جنم دیا ہے کہ وہ آسان اور فوری تسکین کو پالے۔ یہ حقیقةً ایک ذہنی سہارا ہے‘‘۔(ٹائمس آف انڈیا 30 اپریل 1979)
کوئی شخص خواہ جاہل ہو یا عالم، کامیاب ہو یا ناکام، زندگی میںاس کو بار بار ایسے مرحلے پیش آتے ہیں، جہاں وہ اپنے عجز (helplessness) کا تجربہ کرتاہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بے بس وجود ہے۔ یہ چیز اس کو اپنے سے برتر ہستی کی تلاش کی طرف لے جاتی ہے ،جو اس کی کمیوں کا بدل بن سکے۔ مغرب کے اعلی تعلیم یافتہ لوگ جن کے لیے مادی مواقع کے تمام دروازے کھلے ہوتے ہیں، وہ جب اپنی ’’ذہنی تسکین‘‘ کے لیے ما بعد الطبیعیات عقائد کا سہارا لیتے ہیں تو باعتبارِ حقیقت یہ فرضی نہیںہوتا۔ یہ دراصل اپنی فطرت کی خاموش پکار کا جواب ہوتاہے۔ اگر چہ اپنی تلاش کا صحیح جواب نہ پانے کی وجہ سے وہ ’’جیوتش‘‘ جیسی توہماتی چیزوں میںاٹک جاتے ہیں — خدا کا وجود نہ صرف یقینی ہے ،بلکہ وہ انسان کے لیے اتنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر وہ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا۔
واپس اوپر جائیں

ذہین وجود

موجودہ زمانے کے سائنس دانوں جن چیزوں کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک ایلین (alien)تہذیب ہے۔ زمین پر انسانی تہذیب کے علاوہ کیا خلا میں کوئی اور تہذیب ہے، جو ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ پچھلے 25 برسوں کے سائنسی مطالعے نے کافی حد تک یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ کائنات میں ہمارے علاوہ دوسری ’’ٹکنکل سولائزیشن‘‘ بھی ہوسکتی ہے۔
اس قیاس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس دانوں کو کائنات میں ماورائی ذہانت (extraterrestrial intelligence) کے آثار ملے ہیں۔ ان آثار کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ خدا کے وجود پر لوگوں کا یقین بڑھتا، مگر غیر خدا پرستانہ ذہن کا یہ کرشمہ ہے کہ وہ ماورائی ذہانت کو انسانی ذہانت سمجھ رہے ہیں۔ جو حقیقۃً خدا کا وجود ثابت کررہی ہے، اس کو اس معنی میںلے رہے ہیں کہ کائنات میں کسی سیارہ پر انسانی تہذیب جیسی کوئی اور تہذیب موجود ہے۔ حالاں کہ کائنات میں ’’ذہانت‘‘ کے آثار کا ملنا، اور ذہانت کا نظر نہ آنا، یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ذہانت اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر انسانی اور غیر مرئی ہے، نہ کہ انسان کی طرح دکھائی دینے والی۔
٭ ٭ ٭٭ ٭
ایک امریکی عالم حیاتیات (Cecil Boyce Hamann [1913-1984])کہتے ہیں: ’’غذا ہضم ہونے اور اس کے بدن کا جزءبننے کے حیرت انگیز عمل کو پہلے خدا کی طرف منسوب کیاجاتا تھا۔ اب جدید مشاہدے میں وہ کیمیائی ردّ ِعمل کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ مگر کیا اس کی وجہ سے خدا کے وجود کی نفی ہوگئی۔ آخر وہ کون طاقت ہے جس نے کیمیائی اجزا، کو پابند کیا کہ وہ اس قسم کا مفید ردّ عمل ظاہر کریں۔ غذا انسان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد ایک عجیب وغریب خود کار انتظام کے تحت جس طرح مختلف مراحل سے گزرتی ہے، اس کو دیکھنے کے بعد یہ بات بالکل خارج از بحث معلوم ہوتی ہے کہ یہ حیرت انگیز انتظام محض اتفاق سے وجود میں آگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مشاہدے کے بعد تو اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ خدا اپنے ان عظیم قوانین کے ذریعے عمل کرتا ہے جس کے تحت اس نے زندگی کو وجود دیا ہے۔‘‘
(The Evidence of God in an Expanding Universe, p. 221)
واپس اوپر جائیں

خلائی تہذیب

بیسویں صدی کے نصف سے مغربی دنیا ایک انوکھی تحقیق میں مشغول ہے۔ خلا میں زندہ مخلوقات کی آواز کو سننا(Listening for life in space)۔ بہ ظاہر اس تلاش کا محرک جدیدعلماء کاوہ مفروضہ ہے، جس کو ارتقاکہاجاتا ہے۔ مغربی علما نے زندگی کی جو ارتقائی توجیہہ کی ہے، اس کے مطابق لازم آتا ہے کہ وسیع خلا میں دوسرے مقامات پر بھی اسی طرح زندگی کی انواع موجود ہوں، جس طرح وہ ہماری زمین پر پائی جاتی ہیں۔خلا میں سفر کا ایک خاص مقصد ان زندگیوں سے ملاقات ہے۔ اس مفروضے پر ان کو اتنا یقین ہے کہ اس کا ایک خاص نام بھی دے دیا گیا ہے، یعنی بالائے خلا زندگی (extraterrestrial life)۔
اس کے علاوہ امریکا میںاور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں خاص طرح کے بہت بڑے بڑے اینٹینا (antenna) لگائے گئے ہیں، جن کو عام زبان میں ریڈیائی کان (radio ears) کہتے ہیں۔ ان مشینوں سے بالائے خلا میں سگنل بھیجے جاتے ہیں، اور حساس قسم کے آلات ہر وقت تیار رہتے ہیں کہ اوپر سے آنے والے متوقع سگنل کو سن سکیں۔ان کوششوں پر ٹائم میگزین( 21 مارچ 1983) میں ان الفاظ میں تبصرہ کیا گیا ہے— اگر تم واقعةً وہاں ہو تو اپنے دوستوں سے بولو:
If you are really there, please call your friends.
زمین پر زندگی اور شعور کا وجود ساری معلوم کائنات میں ایک انتہائی نادر اور استثنائی واقعہ ہے۔ چونکہ یہ شعور اپنا خالق آپ نہیں، اس لیے اس کا وجود لازمی طورپر تقاضا کرتا ہے کہ یہاں زندگی اور شعور کا ایک اور خزانہ زیادہ بڑی سطح پر موجود ہو، جو زمین کی زندگی اور شعور کا سرچشمہ ہو۔ حقیقت یہ ہےکہ زندہ انسان کی موجودگی زندہ خدا کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ جدید انسان اس امکان کو بالواسطہ انداز میں تسلیم کرتا ہے۔ البتہ وہ اس وجود کو خلائی زندگی قرار دے کر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ یہ وجود ہماری ہی طرح کا ایک وجود ہے، نہ کہ ہم سے برتر کوئی وجود ۔ وہ محض ایک تہذیب ہے ،نہ کہ کوئی خالق اور مالک خدا۔
واپس اوپر جائیں

ماورائے انسان ذہانت

آج کل سائنسی حلقوںمیں بالائے خلا ذہانت (extraterrestrial intelligence) کا بہت چرچا ہے۔ مختلف شعبوں میں ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ زمین کے علاوہ خلا کے دوسرے حصوںمیں بھی ذہین ہستیاں، اغلباً انسان سے بھی زیادہ ذہین موجود ہیں۔ حتی کہ بہت سے سائنس داں اس سنہری صبح کے منتظر ہیں جب کہ وہ خلائی ریڈیو کا پیغام (extraterrestrial radio message) وصول کرسکیں گے۔
بالائے خلا ذہانت سے سائنس دانوں کی مراد یہ ہوتی ہے کہ زمین کے علاوہ کائنات کے دوسرے مقامات پر بھی ہماری جیسی مخلوقات پائی جاتی ہیں۔ دوامریکی فلکیات دانوں نے دعوی کیا ہے کہ ہماری کہکشاں میں10 بلین ستارے ایسے ہیں، جو نظام شمسی کی مانند سیاراتی نظام رکھتے ہیں۔ ان نظامات میں زندگی کا وجود اسی طرح ممکن ہے جس طرح موجودہ زمین پر۔ اگر چہ عملاً ابھی تک ایسا کوئی کرہ دریافت نہیں ہوا جہاں زمین جیسی زندگیاں پائی جاتی ہوں۔
Hypothetical extraterrestrial life that is capable of thinking, purposeful activity... more than 3,000 extrasolar planets have been detected... These efforts suggest that there could be many worlds on which life, and occasionally intelligent life, might arise. Searches for radio signals or optical flashes from other star systems that would indicate the presence of extraterrestrial intelligence have so far proved fruitless. (www.britannica.com/
science/extraterrestrial-intelligence#ref283898 [on 4th Apr 2020])
سائنسی دریافتوں کا قافلہ بہت تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہاہے۔ سائنس ماورائے انسان ’’ذہانت‘‘ تک پہنچ چکی ہے۔ اگر کسی دن وہ دریافت کرے کہ یہ ماورائے انسان ذہانت اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنی زیادہ ممتاز ہے کہ اس کوانسان جیسی ذہین ہستی کہنے کے بجائے خدا کہنا زیادہ صحیح ہوگا تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایلین لائف

اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) موجودہ زمانے کا ایک ممتاز برٹش سائنس داں ہے۔ کائنات کے طویل مطالعے کے بعد اس نے کہا کہ میرا ریاضیاتی ذہن یہ بتاتا ہے کہ زمین کے ماورا بھی انسان کے مانند کوئی ذہین وجود ہونا چاہیے۔ اِس وجود کو اس نے اجنبی زندگی (Alien life) کا نام دیا ہے۔ اِس معاملے میں اسٹفن ہاکنگ کی سادہ منطق یہ ہے کہ ہماری کائنات میں تقریباً ایک سو بلین کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں میں کئی سو ملین ستارے ہیں۔ اتنی بڑی کائنات میں یہ بات ناقابلِ قیاس ہے کہ صرف زمین وہ واحد سیارہ ہو، جہاں زندگی کا ارتقا ہوا ہے ۔ میرے ریاضیاتی ذہن کے مطابق، ستاروں کی یہ عظیم تعداد ہی اِس نظریے کو پوری طرح معقول ماننے کے لیے کافی ہے:
Hawking has suggested that extraterrestrials are almost certain to exist. Hawking’s logic on aliens is, for him, unusually simple. The universe has 100 billion galaxies, each containing hundreds of millions of stars. In such a big place, Earth is unlikely to be the only planet where life has evolved. “To my mathematical brain, the numbers alone make thinking about aliens perfectly rational.”
(The Times of India, New Delhi, April 26, 2010, p. 17)
سیارۂ زمین پر ذہین وجود کا ہونا، اولاً جس چیز کو ثابت کرتا ہے، وہ استثنا (exception) ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اِس استثنا کی توجیہہ کیا ہے۔ اسٹفن ہاکنگ نے ارتقا (evolution) کے مفروضہ نظریے کو توجیہہ کی بنیاد قرار دیا ہے۔ مگر زیادہ معقول بات یہ ہے کہ اِس استثنا کی توجیہہ، مداخلت (intervention) کی بنیاد پر کی جائے۔ کیوں کہ مداخلت اپنے آپ میں ثابت ہے، اور جب مداخلت کو مان لیا جائے تو خالق کا وجود اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے۔موجودہ زمانے میں بہت سی نئی حقیقتیں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ نئی حقیقتیں خالق کے وجود کو ثابت کررہی تھیں، لیکن ارتقائی مفروضے کے تحت ان کو ارتقائی عمل کا نتیجہ قرار دے دیاگیا۔ مگر یہ محض ایک قیاس ہے، اور ایک قیاس سے دوسرے قیاس کو ثابت کرنا، بلا شبہ ایک غیر منطقی استدلال کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

کون کنٹرول کرے

سرجولین ہکسلے (Sir Julian Sorell Huxley [1887-1975] ) کی ایک کتاب ہے جس کا نام ’’مذہب بغیر الہام‘‘ ہے:
Julian Huxley: Religion Without Revelation (1957), Harper, p. 393
مصنّف نےاس کتاب میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مذہب (بمعنی انسانی طریقہ) الہام خداوندی کی بنیاد پر قائم کرنے کا دور ختم ہوگیا۔ اب انسان خود اپنا مذہب بنا رہا ہے۔اس مذہب کی بنیاد عقل (ریزن) پر ہے، اور اس کا نام ہیومنزم ہے۔مصنف کے نقطۂ نظر کا خلاصہ اس کے ان الفاظ میں ہے — موجودہ زمانے میں انسان نے بڑی حد تک خارجی فطرت کی طاقتوں کو جاننے، ان کو کنٹرول کرنے اور ان کو استعمال کرنے کی بابت سیکھ لیا ہے۔ اب اس کو خود اپنی فطرت کی طاقتوں کو جاننے اور ان کو کنٹرول کرنے اور ان کو استعمال کرنے کی بابت سیکھنا ہے:
Man has learnt in large measure to understand, control and utilize the forces of external nature: he must now learn to understand, control and utilize the forces of his own nature .
یہی موجودہ زمانے کے اعلی تعلیم یافتہ ملحدین کا عام نظریہ ہے۔ مگر یہ لفظی تک بندی کے سوا اور کچھ نہیں۔حقیقت یہ ہے کر خارجی مادے کوکنٹرول کرناجتنا ممکن تھا، اتنا ہی یہ ناممکن ہے کہ انسان خود اپنی فطرت کو کنٹرول کرے۔
مادہ خود اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔ اسی طرح انسان بھی خود اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔ انسان کے لیے مادہ کوکنٹرول کرنا اس لیے ممکن ہوا کہ انسان کواپنے دماغ کی بنا پر مادہ کے اوپر بالاتری حاصل تھی۔ اسی طرح انسان کو وہ ہستی کنٹرول کرسکتی ہے، جس کو انسان کے اوپر بالاتری حاصل ہو۔ کوئی بھی ہستی اپنے برابر کو کنٹرول نہیں کرسکتی— انسان کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک برتر خدا کا عقیدہ درکار ہے۔ برتر خدائی عقیدے کے سوا کوئی چیز نہیں جو انسان کو قابو میں رکھ سکے۔
واپس اوپر جائیں

کویزار

ایک ارب سورج سے بھی زیادہ روشن
فلکیات (astronomy) میں اجرامِ فلکی (مثلاً، چاند، سیارے، ستارے، نیبولا، گلیکسی، وغیرہ)، اور زمینی کرۂ ہوا‎ کے باہر روُنما ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔برسات کے موسم میں جب فضا بالکل صاف ہوتی ہے، آسمان پر لمبے روشنی کے بادل دکھائی دیتےہیں۔ یہ ہماری کہکشاں (Galaxy) ہے، جس کا نام ملکی وے (Milky Way) ہے۔ اس کے اندر ہمارا سولر سسٹم واقع ہے۔ روشنی کے بادل حقیقت میں بادل نہیں ہیں، بلکہ بے شمار ستاروں کے مجموعے ہیں، جو دورہونے کی وجہ سے ملے ملے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ دور بین (telescope) سے دیکھیں تو بادل کے بجائے آپ کو الگ الگ ستارے دکھائی دیں گے۔ زمین سے بارہ لاکھ گنا بڑا سورج بظاہر بہت بڑا نظر آتاہے۔ مگر کہکشاں کے اکثر ستارے اس سے بھی زیادہ بڑے ہیں۔ اس طرح کے بےشمار کہکشانی مجموعے کائنات کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔مثلاً فلکیات کی حیران کُن دریافتوں میں سے ایک وہ ہے، جس کو کویزار(Quasar)کہا جاتا ہے:
Quasar, an astrmonomical object of very high luminosity found in the centres of some galaxies and powered by gas spiraling at high velocity into an extremely large black hole. The brightest quasars can outshine all of the stars in the galaxies in which they reside, which makes them visible even at distances of billions of light-years. Quasars are among the most distant and luminous objects known.
(www.britannica.com/science/quasar [accessed on 02.04.2020])
کویزار زمین سے دور دراز فاصلے پر واقع ایک آسمانی جِرم (object) ہے، جس سے ریڈیائی لہریں کثیر مِقدار میں نکلتی ہیں۔ کائنات کے انتہائی بعید کناروں پر واقع یہ شبہ ستارے بے حد روشن ہیں۔ ایک پوری کہکشاں جس میں سورج یا اس سے بڑے بڑے ایک ارب ستارےہوں، جتنی انرجی (روشنی اور حرارت) خارج کرتی ہے، اتنی زیادہ انرجی (energy)تنہا ایک کویزار خارج کرتاہے۔
اس قسم کے ستارے وسیع خلا (space) میں سیکڑوں کی تعداد میں معلوم کیے گئے ہیں۔ مزید عجیب بات یہ پائی گئی ہے کہ یہ ستارے اکثر جوڑے جوڑے ہیں، جو ایک دوسرے کے گرد گھومتےرہتے ہیں۔ کائنات میں انرجی پیدا ہونے کا سب سے طاقت ور عمل جو اب تک سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے، وہ تھرمونیوکلیر ری ایکشن (Thermonuclear Reaction) ہے۔ مگر کویزار سے خارج ہونے والی بے پناہ طاقت کی توجیہہ کے لیے وہ ناکافی ہے۔ قیاس ہے کہ کویزار میں انرجی پیدا ہونے کا طریقہ مکمل طورپر کوئی دوسرا طریقہ ہے، جو دیگر ستاروں میں نہیں پایا جاتا۔
A quasar (also known as a quasi-stellar object [QSO]) is an extremely luminous active galactic nucleus (AGN), in which a supermassive black hole with mass ranging from millions to billions of times the mass of the Sun is surrounded by a gaseous accretion disk. As gas in the disk falls towards the black hole, energy is released in the form of electromagnetic radiation, which can be observed across the electromagnetic spectrum. The power radiated by quasars is enormous: the most powerful quasars have luminosities thousands of times greater than a galaxy such as the Milky Way.
(www.en.wikipedia.org/wiki/Quasar [accessed on 02.04.2020])
نعمتوں سے بھری ہوئی یہ زمین اللہ کے جمال کی مظہر (manifestation of beauty) ہے، اور خلا (space) کے دہشت ناک ستارے اللہ کے جلال کا مظہر (manifestation of majesty)ہیں۔ لائف سپورٹ سسٹم والی یہ زمین اگر جنتی زندگی کی علامت ہے تو ستاروں (stars) کی شکل میں دہکتے ہوئے شعلے جہنم کی یاد دلاتےہیں۔ آدمی اگر زمین وآسمان کی ان نشانیوں (signs)پر غور کرے تو اس کا سینہ خدا کی یاد سے بھر جائے گا۔اس حقیقت کی طرف قرآن میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے: إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ (3:190)۔ یعنی آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔
واپس اوپر جائیں

زیادہ عجیب، کمتر عجیب

کہا جاتا ہے کہ خدا کی بنیاد پر کائنات کی توجیہہ کرنا اصل مسئلے کا حل نہیں۔ کیوں کہ پھر فوراً یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر خدانے کائنات کو بنایاتو خدا کو کس نے بنایا۔
مگر یہ ایک غیر منطقی سوال ہے۔ اصل مسئلہ ’’بےسبب‘‘ خدا کو ماننا نہیں ہے۔ بلکہ دو ’’بے سبب‘‘ میں سے ایک بے سبب کو ترجیح دینا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے سامنے ایک پوری کائنات موجود ہے۔ ہم اس کو دیکھتے ہیں۔ ہم اس کا تجربہ کررہے ہیں۔ ہم کائنات کے وجود کو ماننے پر مجبور ہیں۔ ایک شخص خدا کو نہ مانے، تب بھی عین اسی وقت وہ کائنات کو مان رہا ہوتا ہے۔
اب ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کائنات کو بے سبب مانے۔ مگر اس قسم کا عقیدہ ممکن نہیں۔ کیوں کہ کائنات میں تمام واقعات بہ ظاہر اسباب وعلل کی صورت میں پیش آتے ہیں۔ ہر واقعے کے پیچھے ایک سبب کار فرما ہے۔ اس طرح خود کائنات کی اپنی نوعیت ہی یہ چاہتی ہے کہ اس کے وجود کا ایک آخری سبب ہو۔ جب کائنات کے حال کا ایک سبب ہے تو اس کے ماضی کا بھی لازمی طورپر ایک سبب ہونا چاہیے۔ یعنی وہی چیز جس کو علت العلل کہا گیا ہے۔
بے سبب کائنات کو ماننا ممکن نہیں، اس لیے لازم ہے کہ ہم اس کا ایک سبب مانیں۔ کائنات لازمی طورپر اپنا ایک آخری سبب چاہتی ہے۔ یہی منطق اس کو لازمی قرار دیتی ہے کہ ہم خدا کو مانیں۔ اس لا ینحل مسئلہ کو حل کرنے کی دوسری کوئی بھی تدبیر ممکن نہیں۔ جب ہم بے سبب خدا کو مانتےہیں تو ہم دو ممکن ترجیحات میں سے آسان تر کو ترجیح دیتے ہیں۔ بے سبب خدا کو مان کر ہم اپنے آپ کو بے سبب کائنات کو ماننے کے ناممکن عقیدہ سے بچا لیتے ہیں۔
خدا کو ماننا عجیب ہے۔ مگر خدا کو نہ ماننا اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ خدا کو مان کر ہم صرف زیادہ عجیب کے مقابلے میں کم عجیب کو اختیار کرتےہیں۔
یہ صرف خدا کے وجود کا معاملہ نہیں ۔ خالص سائنسی نقطۂ نظر سے، اس دنیا میں کوئی بھی چیز نہ ثابت(prove) کی جاسکتی، اور نہ غیر ثابت (disprove) کی جاسکتی۔ کسی بھی چیز کو ماننے کے معاملے میں یہاں انتخاب (option) ثابت شدہ (proved) اور غیر ثابت شدہ (unproved)کے درمیان نہیں۔ بلکہ ہر انتخاب ورک ایبل (workable)اور نان ورک ایبل (non-workable) کے درمیان ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر اہلِ سائنس عام طورپر کشش (gravity)کے نظریے کو مانتے ہیں۔ مگر یہ ماننا اس لیے نہیں کہ کشش ثقل کوئی ثابت شدہ نظریہ ہے۔ نیوٹن نے سیب کو درخت سے گرتے ہوئے دیکھ کر یہ سوال کیا تھا کہ سیب نیچے کیوں آیا، اور پھر تحقیق کرکے اس نے کششِ ارض کا نظریہ دریافت کیا۔ مگر ایک سائنس داں نے کہا کہ نیوٹن کو اس پر تعجب ہوا تھا کہ سیب نیچے کیوں آیا۔ مجھے یہ تعجب ہے کہ سیب اوپر کیسے گیا۔درخت کی جڑ نیچے کی طرف جاتی ہے، اور اس کا تنہ اوپر کی طرف۔ اگر جڑ کے نیچے جانے کا سبب یہ بتایا جائے کہ زمین میں کشش ہے تو تنہ اور شاخوں کے اوپر جانے کی توجیہہ کس طرح کی جائے گی۔
یہی معاملہ تمام سائنسی نظریات کا ہے۔ سائنس میں جب بھی کسی نظریے (theory)کو مانا جاتا ہے تو وہ غیرثابت شدہ کے مقابلے میں ثابت شدہ کو ماننا نہیں ہوتا۔ بلکہ نان ورک ایبل تھیری (non-workable theory)کے مقابلے میں ورک ایبل تھیری (workable theory) کو ماننا ہوتا ہے۔ ٹھیک یہی اصول نظریۂ خدا کے معاملے میں بھی چسپاں ہوتاہے۔
کشش کے معاملے میں ہمارے لیے جو انتخاب ہے وہ کشش رکھنے والے مادہ اور بےکشش مادہ میں نہیں ہے۔ بلکہ کشش رکھنے والے مادہ اور غیر موجود مادہ میں ہے۔ چونکہ غیرموجود مادے کا نظریہ ورک ایبل نہیں ہے۔ اس لیے ہم نے کشش رکھنے والے مادہ کا انتخاب لے رکھا ہے، خالص علمی اعتبار سے یہی معاملہ خدا کے عقیدہ کا بھی ہے۔
کائنات کےاندر تخلیق کی صلاحیت نہیں، وہ اپنے اندر کے ایک ذرے کو نہ گھٹا سکتی، اور نہ بڑھا سکتی۔ اس لیے، دوسرے تمام سائنسی نظریات کی طرح، یہاں بھی ہمارے لیے انتخاب با خدا کائنات (universe with God) اور بے خدا کائنات(universe without God) میں نہیں ہے۔ بلکہ با خدا کائنات اور غیر موجود کائنات (non-existent universe) میں ہے۔ چونکہ ہم غیر موجود کائنات کا انتخاب نہیں کرسکتے۔ اس لیے ہم مجبور ہیں کہ باخدا کائنات کے نظریے کا انتخاب کریں۔
واپس اوپر جائیں

سائنس اور خدا

بہ ظاہر سائنس خدا کے بارے میں غیر جانب دار ہے۔ مگر یہ غیر جانب داری سراسر مصنوعی ہے۔ سائنسی مطالعہ واضح طورپر یہ بتاتا ہے کہ کائنات کا نظام ایسے محکم انداز میں بنا ہے کہ اس کے پیچھے ایک خالق کو مانے بغیر اس کی توجیہہ ممکن نہیں۔ سرجیمز جینز نے 1932 میںکہا تھا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کا نقشہ ایک خالص ریاضی داں نے تیار کیا ہے:
In 1932, Sir James Jeans, an astrophysicist said: “The universe appears to have been designed by a pure mathematician”. (Encyclopedia Britannica [1984] 15/531)
سر جیمز جینز نے جو بات کہی تھی، دوسرے متعدد سائنس دانوں نے بھی مختلف الفاظ میں اس کا اقرار کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا ریاضیاتی اصولوں پر بننا، اور اس کا ریاضیاتی اصولوں پر حرکت کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے ایک ایسا ذہن کام کررہا ہے، جو ریاضیاتی قوانین کا شعور رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حکمت ِ تخلیق

12 جون 2009کو میںنے ایک خوا ب دیکھا۔ میںنے دیکھا کہ ایک شخص مجھ سے انگریزی زبان میں کچھ کہہ رہا ہے۔ دورانِ گفتگو اُس نے کہا کہ اگر خدا ہے، اور خدا نے موجودہ دنیا کو پیدا کیا ہے تو ہماری زندگی میں اتنی زیادہ سفرنگ (suffering) کیوں:
If there is a God, and God has created the world, then why there is so much suffering in our lives?
اِس خواب کا سوال مجھے یاد ہے، لیکن اس کا جواب مجھے یاد نہیں۔ تاہم میں کہوں گا کہ دنیا کی زندگی میں ہم کو جو مصیبتیں پیش آتی ہیں، وہ مصیبتیں نہیں ہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ چیلنج ہیں۔ وہ انسانی ذہن کو جگاتی ہیں۔ وہ انسان کی عملی قوتوں کو متحرک کرتی ہیں۔ یہ مصیبتیں ہمارے لیے ایک مثبت تجربہ ہیں، وہ کوئی منفی تجربہ نہیں۔
خدا کی تخلیق کے مطابق، اِس دنیا میں ہر چیز کو پوٹنشیل (potential) کے روپ میں پیدا کیاگیا ہے۔ اِس کے ساتھ انسان کو غیر معمولی دماغ دیاگیا ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی دماغی صلاحیتوں کو استعمال کرے، اور پوٹینشیل کو ایکچول (actual) میں تبدیل کرے۔
زندگی کانظام اگر اِس طرح ہو کہ یہاں آدمی کو کوئی مسئلہ پیش نہ آئے تو اس کی زندگی میں کوئی ہلچل پیدانہیں ہوگی، اس کی زندگی میںکوئی طوفان نہیں آئے گا۔ ایسا انسان ایک جامد انسان ہوگا۔ وہ حیوان کی مانند جیے گا، اور حیوان کی مانند زندگی گزار کر مرجائے گا۔ لیکن فطرت کا یہ نقشہ نہیں۔ فطرت کا مطلوب انسان وہ ہے، جو حقیقتوں کا سامنا کرے، جو ہلچل کے واقعات کو اپنی شخصیت کی مثبت تعمیر میں استعمال کرے، جو اپنی ذات میں چھپے ہوئے امکانات کو اپنی جدوجہد سے واقعہ (actual) بنائے۔ جو ناموافق حادثات کو اپنے موافق بنانے کا کارنامہ انجام دے، جو معمولی انسان کی حیثیت سے پیدا ہو، اور جب وہ مرے تو وہ ایک غیر معمولی انسان بن چکا ہو۔
واپس اوپر جائیں

علم کا سفر

قرآن خدا کی کتاب کی حیثیت سے ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں اترا۔ اس وقت ساری دنیا میں توہم پرستی کا کلچر رائج تھا۔ قرآن کے بعد علمی دریافتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ دور بیسویں صدی عیسوی میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔ قرآن کی صداقت کا یہ علمی ثبوت ہے کہ بعد کی علمی تحقیقات قرآن کی باتوں کی تصدیق بنتی چلی گئیں۔ اس سلسلے میں برٹش سائنسداں سرجیمس جینز کا ایک اقتباس یہاں نقل کیا جاتا ہے:
The stream of knowledge is heading towards a non-mechanical reality;kthe universe begins to look more like a great thought than like a great machine. (The Mysterious Universe, James Jeans, p. 137)
یہ بات برٹش سائنسداںنے 1930 میں کہی تھی۔ اس کے بعد کی تمام دریافتیں اس بات کی تصدیق بنتی چلی گئیں کہ حقیقت کا جو تصور قرآن میں دیاگیا ہے، وہی درست تصور ہے۔ اس درمیان سائنسی دریافتوں کے ذریعے ملحدانہ تصورات رد ہوتے چلے گئے، اور موحدانہ تصورات ثابت شدہ بنتے چلے گئے۔
مثلاً قدیم ملحدین یہ سمجھتے تھے کہ کائنات ابدی ہے، وہ جیسی آج ہے ،ویسی ہی وہ ابد سے چلی آرہی ہے، اس لیے کائنات کو خالق کی کوئی ضرورت نہیں۔ مگر بعد کی سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ کائنات کا ایک آغاز ہے۔ 13 بلین سال پہلے بگ بینگ (Big Bang) کی صورت میں کائنات کا آغاز ہوا۔اسی طرح قدیم ملحدین مانتے تھے کہ کائنات میں کوئی نظم نہیں،مگر موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ کائنات میںایک ذہین ڈیزائن (intelligent design) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سائنس کی تمام دریافتیں مذہبِ توحید کی تصدیق کرتی ہیں، خواہ براہِ راست طورپرہوں، یا بالواسطہ طورپر۔
واپس اوپر جائیں

سائنس توحید کی طرف

علم طبیعیات میں ، نیوٹن کے بعد سے یہ سمجھا جاتا رہاہے کہ چار قسم کے قوانین یا طاقتیں ہیں، جو فطرت کے مختلف مظاہر کو کنٹرول کرتی ہیں:
1۔ قوت کشش (Gravitational Force)
2۔برقی مقناطیسی قوت (Electromagnetic Force)
3۔ طاقت ور نیو کلیر قوت (Strong Nuclear Force)
4۔ کمزور نیوکلیر قوت (Weak Nuclear Force) ۔
کشش کا قانون، ایک کہانی کے مطابق، نیوٹن نے اس وقت معلوم کیا جب کہ اس نے سیب کے درخت سے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا۔ ’’سیب اوپر کی طرف کیوں نہیں گیا، نیچے زمین پر کیوں آیا۔‘‘ اس سوال نے اس کو اس جواب تک پہنچایا کہ زمین میں، اور اسی طرح تمام دوسرے کروں میں، جذب وکشش کی قوت کار فرماہے۔ بعد کو آئن سٹائن نے اس نظریےمیں بعض فنی اصلاحات کیں۔ تاہم اصل نظریہ اب بھی سائنس میں ایک مسلّمہ اصولِ فطرت کے طور پر مانا جاتاہے۔ برقی مقناطیسی قانون کا تجربہ پہلی بار فریڈے (Michael Faraday [1791-1867]) نے 1831میں کیا۔ اس نے دکھایا کہ بجلی کی قوت اور مقناطیس کی قوت ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ مقناطیس اور حرکت کو یکجا کیا جائے تو بجلی پیداہوجاتی ہے، اور مقناطیس اور بجلی کی لہر کو یکجا کریں تو حرکت وجود میں آجاتی ہے ۔
ابتدائی 50 سال تک تمام طبیعی واقعات کی توجیہہ کے لیے مذکورہ دو قوانین کافی سمجھے جاتے تھے۔ مگر موجودہ صدی کے آغاز میں جب ایٹم کے اندرونی ڈھانچے کی بابت معلومات میں اضافہ ہوا،اور یہ معلوم ہوا کہ ایٹم سے بھی چھوٹے ذرات ہیں جو ایٹم کے اندر کام کررہے ہیں تو طبیعی نظریات میں تبدیلی شروع ہوگئی۔ یہیں سے طاقت ور نیوکلیر فورس اور کمزور نیو کلیر فورس کے نظریات پیداہوئے۔ ایٹم کا اندرونی مرکز (نیوکلیس) الکٹران سے گھرا ہوا ہے، جو کہ پروٹان نامی ذرات سے بہت زیادہ چھوٹے اور ہلکے ہیں۔ مگر مطالعہ بتاتا کہ ہر الکٹران وہی چارج رکھتا ہے، جو بھاری پروٹان رکھتے ہیں۔ البتہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ الکٹران میں منفی برقی چارج ہوتاہے، اور پروٹان میں مثبت برقی چارج۔ الکٹران ایٹم کے بیرونی سمت میں اس طرح گردش کرتے ہیں کہ ان کے اور ایٹم کے مرکز (نیوکلیس) کے درمیان بہت زیادہ خلا ہوتا ہے۔مگر منفی چارج اور مثبت چارج دونوں میں برابر برابر ہوتے ہیں، اور اس بنا پر ایٹم بحیثیت مجموعی برقی اعتبار سے نیوٹرل (neutral) اور قائم (stable) رہتا ہے۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایٹم کا مرکز بطور خود قائم (stable) کیوں کر رہتا ہے۔ الکٹران اور پروٹان الگ الگ ہو کر بکھر کیوں نہیں جاتے۔ قائم رہنے (stability) کی توجیہہ طبیعیاتی طورپر یہ کی گئی ہے کہ پروٹان اور نیوٹران کے قریب ایک نئی قسم کی طاقتور قوتِ کشش موجود ہوتی ہے۔ یہ قوت ایک قسم کے ذرات سے نکلتی ہے جن کومیسن (Mesons)کہاجاتاہے۔ ایٹم کےاندر پروٹان اور نیوٹران کے ذرات بنیادی طور پر یکساں (identical)سمجھے جاتے ہیں۔ مقناطیس کے دو ٹکڑوں کو لیںاور دونوں کے یکساں رخ (ساؤتھ پول کو ساؤتھ پول سے یا نارتھ پول کو نارتھ پول سے) ملائیں تو وہ ایک دوسرے کو دور پھینکیں گے۔ اس معروف طبیعی اصول کے مطابق پروٹان اور نیوٹران کوایک دوسرے سے بھاگنا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ پروٹان اور نیوٹران ہر لمحہ بدلتے رہتے ہیں، اوراس بدلنے کے دوران میسن کی صورت میں قوت خارج کرتے ہیں، جوان کو جوڑتی ہے۔ اسی کا نام طاقت ور نیوکلیر فورس ہے۔ اسی طرح سائنس دانوں نے دیکھا کہ بعض ایٹم کے کچھ ذرات (نیوٹران میسن) اچانک ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال مثلاً ریڈیم میں پیش آتی ہے۔ ایٹم کے ذرات کا اس طرح اچانک ٹوٹنا طبیعیات کے مسلّمہ اصولِ تعلیل (causality) کے خلاف ہے۔ کیوں کہ پیشگی طورپر یہ نہیں بتایا جاسکتاکہ ایٹم کے متعدد ذرات میں سے کون سا ذرہ پہلے ٹوٹے گا۔ اس کا مدار تمام تر اتفاق پر ہے۔ اس مظہر کی توجیہہ کے لیے ایٹم میں جو پر اسرار طاقت فرض کی گئی ہے، اسی کا نام کمزور نیوکلیر فورس ہے۔ سائنس داں یہ یقین کرتے رہے ہیں کہ انھیں چار طاقتوں کے تعامل (interactions) سے کائنات کے تمام واقعات ظہور میں آتےہیں۔ مگر سائنس عین اپنی فطرت کے لحاظ سے ہمیشہ وحدت کی کھوج میں رہتی ہے۔ کائنات کا سائنسی مشاہدہ بتاتا ہے کہ پوری کائنات انتہائی ہم آہنگ ہو کر چل رہی ہے۔ یہ حیرت ناک ہم آہنگی اشارہ کرتی ہے کہ کوئی ایک قانون ہے، جو فطرت کے پورے نظام میں کار فرما ہے۔ چنانچہ طبیعیات مستقل طورپر ایک متحدہ اصول(unified theory)کی تلاش میں ہے۔ سائنس کا ’’ضمیر‘‘ متواتر اس جدوجہد میں رہتاہے کہ وہ قوانینِ فطرت کی تعداد کو کم کرے اور کوئی ایک ایسا اصولِ فطرت (principle of nature) دریافت کرے جو تمام واقعات کی توجیہہ کرنے والا ہو۔
آئن اسٹائن نے مذکورہ قوانین میں سے پہلے دو قوانین کشش اور برقی مقناطیسیت کے اتحاد (unification)کی کوشش کی، اور اس میں 25 سال سے زیادہ مدت تک لگا رہا ،مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ کہاجاتاہے کہ اپنی موت سے کچھ پہلے اس نے اپنے لڑکے سے کہا تھاکہ میری تمنا تھی کہ میں اور زیادہ ریاضی جانتا تاکہ اس مسئلے کو حل کرلیتا۔
ڈاکٹر عبد السلام (1926-1996) اور دوسرے دو امریکی سائنس دانوں ،شیلڈن لی گلاشو (Sheldon Lee Glashow [b. 1932]) اور وین برگ(Steven Weinberg [b. 1933]) کو 1979 میں طبیعیات کا جو مشترکہ نوبل انعام ملا ہے، وہ ان کی اسی قسم کی ایک تحقیق پر ہے۔ انھوںنے مذکورہ قوانین فطرت میں سے آخری دو قانون (طاقتور اور کمزور نیو کلیر فورس) کو ایک واحد ریاضیاتی اسکیم میں متحدکردیا۔ اس نظریے کا نام جی ایس ڈبلیو نظریہ (G-S-W Theory) رکھا گیا ہے۔ اس کے ذریعے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ دونوں قوانین اصلاً ایک ہیں۔ اس طرح انھوںنے چار کی تعداد کو گھٹا کر تین تک پہنچا دیا ہے۔
سائنس اگرچہ اپنے کو ’’کیاہے‘‘ کے سوال تک محدود رکھتی ہے، وہ ’’کیوں ہے‘‘ کے سوال تک جانے کی کوشش نہیں کرتی۔ تاہم یہ ایک واقعہ ہے کہ سائنس نے جو دنیا دریافت کی ہے، وہ اتنی پیچیدہ اور حیرت ناک ہے کہ اس کو جاننے کے بعد کوئی آدمی ’’کیوں ہے‘‘ کے سوال سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میکسویل (James Clerk Maxwell [1831-1879]) وہ شخص ہے، جس نے برقی مقناطیسی تعامل (electromagnetic interaction)کے قوانین کو ریاضی کی مساواتوں (equations) میں نہایت کامیابی کے ساتھ بیان کیا۔ انسان سے باہر فطرت کاجو مستقل نظام ہے اس میں کام کرنے والے ایک قانون کا انسانی ذہن کی بنائی ہوئی ریاضیاتی مساوات میں اتنی خوبی کے ساتھ ڈھل جانا اتنا عجیب تھاکہ اس کو دیکھ کر بولٹزمن بے اختیار کہہ اٹھا— کیا یہ خدا تھا جس نے یہ نشانیاں لکھ دیں جو دل میں حیرت انگیز خوشی بھر دیتا ہے :
Was it a God that wrote these signs, revealing the hidden and mysterious forces of nature around me, which fill my heart with quiet joy?
واپس اوپر جائیں

دریافت کی اہمیت

انسان کے لیے سب سے زیادہ اہم چیزدریافت ہے۔ دریافت ہی سے دنیا کی ترقیاں بھی ملتی ہیں، اور دریافت ہی سے آخرت کی ترقیاں بھی۔قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے، جو غیب پر ایمان لائے (البقرۃ، 2:3)۔ غیب پر ایمان لانا کیا ہے۔ یہ دوسرے لفظوں میں نامعلوم کو معلوم بنانا ہے۔ یعنی وہی چیز جس کو موجودہ زمانے میں دریافت (discovery) کہا جاتا ہے۔
دنیوی ترقی کے رازوں کو خدا نے زمین وآسمان کے اندر چھپا دیا ہے۔ ان رازوں کو قوانین ِفطرت کہا جاتا ہے۔ سائنس میں انھیں رازوں (یا قوانین فطرت) کو دریافت کیا جاتا ہے۔ جوقوم ان رازوں کو دریافت کرے وہ دوسروں سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ موجودہ زمانے میں ہم مغربی اقوام کو یا ایشیا میں جاپان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کو تمام ترقیاں انھیں دریافتوں کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہیں۔اسی طرح عالم آخرت کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی نظروں سے پوشیدہ کردیا ہے۔ اب انسان کو اسے دریافت کرنا ہے۔ جوچیز غیب میں ہے اس کو شہود میں لانا ہے۔ اسی دریافت یا اکتشاف کا نام ایمان ہے۔ جو شخص اس ایمان میں جتنا زیادہ آگے ہوگا، وہ آخرت میں اتنا ہی زیادہ ترقی اور کامیابی حاصل کرے گا۔
واپس اوپر جائیں

بامعنی کائنات

اندازہ کیا گیا ہے کہ ہماری قریبی کہکشاں ایک لاکھ سال نور (light years)کی وسعت میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کہکشاں کے اندر تین لاکھ ملین ستارے پائے جاتے ہیں۔ ہمارا شمسی نظام اس کے مرکز سے 27 ہزار سال نور کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہکشاں کے اکثر ستارے ممکن طور پر کسی نہ کسی قسم کے سیاروں (planets)کا سلسلہ رکھتے ہیں۔ مگر ان میں سے اکثر سیارے زندگی کے لیے غیر موزوں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ستارے سے یا تو بہت زیادہ قریب ہیں یا بہت زیادہ دور ہیں۔ تاہم چوں کہ ستاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، خالص حسابی اعتبار سے یہ امکان ہے کہ بہت سے سورج جیسے ستارے ہوں، اور اسی طرح بہت سے زمین جیسے سیارے:
It is estimated that our Milky Way galaxy, which is 100,000 light years across, is composed of over 300,000 million stars. Our solar system is situated 27,000 light years away from the centre. Most of the stars are likely to have planets of some sort. But most of these planets will be unsuitable for life, because they are either too near or too far from their parent star. Yet because the number of stars is so great, there must, by sheer statistical probability, be many sun-like stars and earth-like planets. (The Hindustan Times, July 31, 1986, p. 9)
تاہم بے شمار سیاروںمیں صرف زمین واحد سیارہ ہے، جہاںلائف سپورٹ سسٹم (life support system)پایا جاتا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کیا ہے۔ وہ فطری اسٹرکچر اور نظام، جس کے ذریعے زندگی کے لیے لازمی چیزیں مہیا کی جاتی ہیں۔ مثلاً آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائڈ، کھانا، پانی، ناکارہ اشیا کی نکاسی، ٹمپریچر اور دباؤ کو مینج کرنا، وغیرہ:
The natural structures and systems that provides all of the elements essential for maintaining physical well being, as for example, oxygen, carbon dioxide, food, water, disposal of body wastes, and control of temperature and pressure, etc.
اسی فطری نظام کی وجہ سے زمین انسانوں جیسی زندہ مخلوق کے لیے قابلِ رہائش ہے۔ اس قسم کا کوئی اور سیاراتی نظام ابھی تک ساری کائنات میں معلوم نہ کیا جاسکا۔ موجودہ زمانے میں سائنس کا ایک مستقل شعبہ وجود میں آیا ہے، جس کو ایس ای ٹی آئی(SETI) کہاجاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے — بالائے خلا ذہانت کی تلاش :
Search for Extra-Terrestrial Intelligence
زندگی کے ارتقائی نظریے کے تحت سائنس دانوں کا گمان ہے کہ کائنات کے دوسرے مقامات پر بھی انسان جیسی ذہین مخلوق ہونی چاہیے۔ کیوں کہ ارتقائی عمل عموم چاہتا ہے، ارتقائی عمل میں استثناکے لیے کوئی جگہ نہیں۔اس فرضی قیاس پر جدید انسان کو اتنا زیادہ یقین ہے کہ ایک امریکن سائنسی مصنف اسحاق اسیمو (Isaac Asimov [1920-1992]) نے حساب لگا کر اعلان کیا ہے کہ ہماری کہکشاں میں چار سو ملین سیارے ایسےہیں، جن میں پودے اور جانور پائے جاتے ہیں یا پائے جاسکتے ہیں۔ مگر یہ سب کا سب محض حسابی قیاس ہے۔
سورج ایک اوسط درجے کا ستارہ ہے۔ اس کا قطر(diameter) آٹھ لاکھ 65 ہزار میل ہے۔ وہ ہماری زمین سے تقریباً بارہ لاکھ گُنا بڑا ہے۔ سورج کی سطح پر جو حرارت ہے اس کا اندازہ بارہ ہزار ڈگری فارن ہائٹ ٹمپریچر کیا گیا ہے۔ زمین سے سورج کا فاصلہ تقریباً نو کرور 30 لاکھ میل ہے۔ یہ فاصلہ حیرت انگیز طورپر مسلسل قائم ہے۔ یہ واقعہ ہمارے لیے بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ اگر یہ فاصلہ گھٹ یا بڑھ جائے تو زمین پر انسان جیسی مخلوق کی آبادکاری ناممکن ہوجائے۔مثلاً اگر ایسا ہو کہ سورج نصف کے بقدر ہم سے قریب ہوجائے تو زمین پر اتنی گرمی پیدا ہو کہ اس کی شدت سے کاغذ جلنے لگے۔ اس کے برعکس، اگر زمین اور سورج کا موجودہ فاصلہ دگنا سے زیادہ ہوجائے تو اتنی ٹھنڈک پیدا ہو کہ زمین پر زندگی جیسی چیز باقی نہ رہے۔ یہی صورت اس وقت پیدا ہوگی، جب کہ موجودہ سورج کی جگہ کوئی دوسرا غیر معمولی ستارہ آجائے۔ مثلاً ایک ستارہ ہے، جس کی گرمی ہمارے سورج سے اسی ہزار گنا زیادہ ہے، اگر وہ سورج کی جگہ ہوتا تو پوری زمین کو آگ کی بھٹی بنا دیتا۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑا المیہ

انسانی تاریخ کا شاید سب سے بڑا المیہ (tragedy) یہ ہے کہ انسان معرفتِ اعلیٰ کے حصول سے محروم رہا۔ خدا کی معرفت کا ذریعہ، خدا کی تخلیقات میں غور و فکر کرناہے۔ جدید سائنسی دور سے پہلے انسان تخلیقاتِ الٰہی کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔ چنانچہ قدیم زمانے میں معرفتِ اعلیٰ تک پہنچنے کے لیے فریم ورک ہی موجود نہ تھا۔
موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے بعد انسان کو اعلیٰ فریم ورک حاصل ہوا۔ جس کی پیشگی خبر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ لیکن موجودہ زمانے میں جب یہ آفاقی یا سائنسی فریم ورک ظہور میں آیا تو عین اُسی وقت تمام دنیا کے مسلمان سیاسی ردّ ِعمل کے نتیجے میں منفی سوچ کا شکار ہوگئے۔ اس طرح وہ مثبت سوچ سے محروم رہے۔
قدیم زمانے کے انسان کے لیےسائنسی فریم ورک نہ ہو نے کی بنا پر معرفتِ اعلیٰ تک پہنچنا مشکل تھا۔ موجودہ زمانے میں سائنسی فریم ورک کے ظہور کے باوجود انسان معرفتِ اعلیٰ تک نہیں پہنچا، اور اس کا سبب یہ تھا کہ موجودہ زمانے کا انسان مثبت سوچ سے محروم ہو گیا۔ یہ بلاشبہ انسان کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اللہ کی معرفتِ اعلی کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ معرفت اعلی تک پہنچ سکے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو منفی سوچ سے مکمل طور پر بچائے۔ وہ ہر حال میں مثبت سوچ میں جینے والا بنے۔ جو لوگ اس شرط کو پورا کریں وہ یقیناً معرفتِ اعلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ بیشتر انسان کسی نہ کسی بات کو لے کر منفی سوچ کا شکار ہوگئے۔ وہ مثبت سوچ (positive thinking) پر قائم نہ رہ سکے۔ اس بنا پر وہ معرفت کا وعایہ (container) نہیں بنے۔ معرفت اعلی سے محرومی کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

معبود کی طلب

اندرن نکولائیف(Andriyan Grigoryevich Nikolayev) روس کا خلائی مسافر ہے۔ اس کی پیدائش1929 میں ہوئی، اور وفات 2004 میں۔1962 میں اس نے پہلی مرتبہ خلا میں پرواز کیا۔ اس خلائی پرواز سےواپسی کے بعد 21 اگست 1962کو ماسکو میں اس نے ایک پریس کانفرنس میں حصہ لیا۔ اس کانفرنس میں اس نےاپنا خلائی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا:
جب میں زمین پر اترا تو میرا جی چاہتا تھا کہ میں زمین کو چوم لوں۔
انسان جیسی ایک مخلوق کے لیے زمین پر جو بے حساب موافق سامان جمع ہیں، وہ معلوم کائنات میں کہیں بھی نہیں۔ روسی خلا باز جب زمین سے دور خلا میں گیا تو اس نے پایا کہ وسیع خلا میں انسان کے لیے صرف حیرانی اور سرگشتگی ہے۔ وہاںانسان کے سکون اور حاجت براری کا کوئی سامان نہیں۔ اس تجربے کے بعد جب وہ زمین پر اترا تو اس کو زمین کی قیمت کا احساس ہوا، ٹھیک ویسے ہی جیسے شدید پیاس کے بعد آدمی کو پانی کی اہمیت کا احساس ہوتاہے۔ زمین اپنے تمام موافق امکانات کے ساتھ اس کو اتنی محبوب معلوم ہوئی کہ اس کا جی چاہا کہ اس سے لپٹ جائے اور اپنے جذباتِ محبت کو اس کے لیے نثار کردے۔
یہی وہ چیز ہے جس کو شریعت میں الٰہ بنانا کہاگیا ہے۔ آدمی خالق کونہیں دیکھتا، اس لیے وہ مخلوق کو اپنا الٰہ بنا لیتاہے۔ مومن وہ ہے جو ظاہر سے گزر کر باطن تک پہنچ جائے، جو اس حقیقت کو جان لے کہ یہ جو کچھ نظر آرہا ہے یہ کسی کا دیاہوا ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کسی برتر ہستی کا پیدا کیا ہوا ہے۔ وہ مخلوق کو دیکھ کر اس کے خالق کو پالے اور خالق کو اپنا سب کچھ بنا لے۔ وہ اپنے تمام بہترین جذبات کو خداکے لیے نثار کردے۔
روسی خلاباز پر جو کیفیت زمین کو پاکر گزری وہی کیفیت مزید اضافہ کے ساتھ آدمی پر خدا کو پاکر گزرنا چاہیے۔ مومن وہ ہے جو سورج کو دیکھے تو اس کی روشنی میں خدا کے نور کو پالے۔ وہ آسمان کی وسعتوں میں خدا کی لامحدودیت کا مشاہدہ کرنے لگے۔ وہ پھول کی خوشبو میں خدا کی مہک کو پائے، اور پانی کی روانی میں خدا کی بخشش کو دیکھے۔ مومن اور غیر مومن کا فرق یہ ہے کہ غیر مومن کی نگاہ مخلوقات میں اٹک کر رہ جاتی ہے، اور مومن مخلوقات سے گزر کر خالق (Creator) تک پہنچ جاتا ہے۔ غیرمومن مخلوقات کے حسن کو خود مخلوقات کا حسن سمجھ کر انھیں میں محو ہو جاتا ہے۔ مومن مخلوقات کے حسن میں خالق کے عجائبات (wonders) دیکھتا ہے،اور اپنے آپ کو خالق کے آگے ڈال دیتا ہے۔ غیرمومن کا سجدہ چیزوں کے لیے ہوتا ہے، اور مومن کا سجدہ چیزوں کے خالق کے لیے۔
خدا کی موجودگی کا تجربہ
اپالو 15 میں امریکا کے جو تین خلا باز چاند پر گئے تھے، ان میں سے ایک کرنل جیمز اِروِن (James Irwin [1930-1991]) تھے۔ انھوںنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگست 1972 کا وہ لمحہ میرے لیے بڑا عجیب تھا، جب میںنے چاند کی سطح پر قدم رکھا۔ میں نے وہاں خدا کی موجودگی (God’s presence) کو محسوس کیا۔ انھوں نے کہا کہ میری روح پر اس وقت وجدانی کیفیت طاری تھی، اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے خدا بہت قریب ہو۔ خدا کی عظمت مجھے اپنی آنکھوں سے نظر آرہی تھی۔ چاند کا سفر میرے لیے صرف ایک سائنسی سفر نہیں تھا، بلکہ اس سے مجھے روحانی زندگی نصیب ہوئی (ٹریبون 27 اکتوبر 1972)۔
کرنل جیمز ارون کا یہ تجربہ کوئی انوکھا تجربہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا نے جو کچھ پیدا کیا ہے،وہ اتنا حیرتناک ہے کہ اس کو دیکھ کر آدمی خالق کی صناعیوں (wonders)میں ڈوب جائے۔ تخلیق کے کمال میں ہر آن خالق کا چہرہ جھلک رہا ہے۔ مگر ہمارے گردوپیش جو دنیا ہے، اس کو ہم بچپن سے دیکھتے دیکھتے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس سے ہم اتنا مانوس ہوجاتے ہیں کہ اس کے انوکھے پن کا ہم کواحساس نہیں ہوتا۔ ہوا اور پانی اور درخت اور چڑیا غرض جو کچھ بھی ہماری دنیا میں ہے، سب کا سب حد درجہ عجیب ہے، ہر چیز اپنے خالق کا آئینہ ہے۔ مگر عادی ہونے کی وجہ سے ہم اس کے عجوبہ پن کو محسوس نہیں کر پاتے۔ مگر ایک شخص جب اچانک چاند کے اوپر اترا، اور پہلی بار وہاں کے تخلیقی منظر کو دیکھا تو وہ اس کے خالق کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے تخلیق کے کارنامے میںاس کے خالق کو موجود پایا۔
ہماری موجودہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں، یہاں بھی ’’خدا کی موجودگی‘‘ کا تجربہ اسی طرح ہوسکتا ہے، جس طرح چاند پہنچ کر کرنل اِروِن کو ہوا۔ مگر لوگ موجودہ دنیا کو اس استعجابی نگاہ سے نہیں دیکھ پاتے، جس طرح چاند کا ایک نیامسافر چاند کو دیکھتا ہے۔اگر ہم اپنی دنیا کو اس نظر سے دیکھنے لگیں تو ہر وقت ہم کو اپنے پاس ’’خدا کی موجودگی‘‘ کا تجربہ ہو۔ ہم اس طرح رہنے لگیں جیسے کہ ہم خدا کے پڑوس میں رہ ہے ہیں اور ہر وقت وہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔
اگر ہم ایک اعلی درجے کی مشین کو پہلی بار دیکھیں تو فی الفور ہم اس کے ماہر انجینئر کی موجودگی کو وہاں محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم دنیا کو اور اس کی چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھ سکیں تو اسی وقت ہم وہاں خدا کی موجودگی کو پالیں گے۔ کائنات کی ہر تخلیق خالق کے وجود کی گواہی دیتی ہے۔
موجودہ دنیامیں انسان کی سب سے بڑی یافت یہ ہے کہ وہ خدا کو دیکھنے لگے، وہ اپنے پاس خدا کی موجودگی کو محسوس کرلے۔ اگر آدمی کا احساس زندہ ہو تو سورج کی سنہری کرنوں میں اس کو خدا کا نور جگمگاتاہوا دکھائی دے گا، ہرے بھرے درختوں کے حسین منظر میں وہ خدا کا روپ جھلکتا ہوا پائے  گا۔ ہواؤں کے لطیف جھونکے میں اس کو لَمسِ ربانی(divine touch) کا تجربہ ہوگا۔ اپنی ہتھیلی اور اپنی پیشانی کو زمین پررکھتے ہوئے اس کو ایسا محسوس ہوگا گویا اس نے اپنا وجود اپنے رب کے قدموں میں ڈال دیا ہے۔ خدا اپنی قدرت اور رحمت کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے، بشرطیکہ دیکھنے والی نگاہ آدمی کو حاصل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

ایک داعی کی وفات

جناب ریاض موسی صاحب ملیباری (پیدائش 1942) انڈیا کے ایک مشہور داعی تھے۔ 8جون 2020 کو 78 سال کی عمر میں کیرلا میںان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے بیٹے مولانا عمر ریاض عمری جامعی اپنے ایک تاثراتی مکتوب میں لکھتے ہیں:
آغازِ رمضان سے لے کر کل تک والد محترم گھر میں موجود لوگوں سے اور باہر سے ملاقات کے لیے آنے والوں سے ایک ہی سوال کرتے — کیا عمر آیا ہے؟ مگر بدنصیبی یہ ہے کہ انتقال سے پہلے باپ بیٹے کی ملاقات نہ ہوسکی۔عیدالفطر کےایک یا دو دن بعد کی بات ہے کہ ہمارے بڑے بھائی شعیب ریالو کے ہمراہ والد محترم نے کالیکٹ میں اپنے دفن کی جگہ منتخب کی، اور کہا کہ مجھے یہیں دفن کیا جائے ۔
پچھلے تین دنوں سے وہ مسلسل صاحب فراش تھے ،کوئی بات چیت نہیں، کوئی تکلیف نہیں، البتہ کھانا اور پینا کم ہوگیا تھا، پھر کل یعنی 7جون کو پالاکاڈ (Palakkad)سے تیرور (Tirur) کا سفر بذریعہ کار بڑے ہی آرام و اطمینان سے کیا۔قریب رات تین بجے میرے موبائل کی گھنٹی بجی، دیکھتا ہوں تو مدینہ سے برادرم شیخ نکوا پرویز عمری مدنی لائن پر تھے ۔ انھوں نےکہا کہ کیا یہ(شیخ ریاض موسی صاحب کے وفات کی) خبر صحیح ہے؟ یہ سن کر میری نیند اڑگئی، رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ شیخ نے تسلی دی، اور کہا کہ ایک مرتبہ تحقیق کرلیں ۔ چنانچہ میں نے شعیب بھائی کو کال کیا تو سلام کے بعد ان سےیہی سننے کو ملا— إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ !
یہ سنتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ زمین پیروںتلے کھسک گئی۔ ایسا لگا کہ چند لمحے کے لیے کائنات ساکت ہوگئی۔کتنے واقعات، اور کارناموں سے بھرپور یادوں کا ایک دور ختم ہوگیا، اوروہ اپنے بعد والوں کے لیے انہیں نشانِ راہ بناکر چلے گئے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تدفین میں شرکت کا موقع بھی نصیب نہیں ہوا۔ اس وقت ہم کڈپہ (آندھرا )میں ہیں، اور وہ کیرلا میں۔ بس آپ تمام احباب سے دعا کی گزارش کرتا ہوں ۔ اللہ والد محترم کی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے، اور انہیں اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے۔آمین (مولانا عمر ریاض عمری جامعی ، آندھرا پردیش)
واپس اوپر جائیں

خدا ترس شخصیت

شیخ ریاض موسی ملیباری عرف ریالو صاحب دعوت الی اللہ کے میدان میں میرے ابتدائی معلم و مربی تھے۔ آپ کے ساتھ مجھے کئی اسفار کے مواقع ملے۔ جن کے ذریعے میں نے ریالو صاحب کو بہت قریب سے جانا ہے ۔ ریالو صاحب ایک planner اور خدا ترس انسان تھے۔ وہ لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرتے تھے ، خدا اور آخرت کے ذکر پر خوب رویا کرتے تھے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنا زیادہ خدا اور آخرت کی یاد پر رویا کرتے تھے۔
اگست2001 کی بات ہے کہ ریالو صاحب کے ساتھ میرا ایک سفر دہلی کا ہوا، جس میں ہمارے ساتھ مولانا فیاض الدین عمری (گلبرگہ)بھی تھے۔ جب ہم دہلی پہنچے تو سب سے پہلا پروگرام مولاناوحیدالدین خاں سے ملاقات کا بنا۔ مولانا فیاض عمری نےآپ سےفون پر ملاقات کا ٹائم لیا، اور ہم لوگ آپ سے ملنے کی تیاری کرنے لگے ۔اس وقت شیخ ریالو صاحب نے مولانا فیاض الدین عمری سے پوچھا کہ ہم ایک بڑے عالم سے ملنے جا رہے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ ان کو کوئی اچھا تحفہ (gift)دوں، آپ مشورہ دو کہ ان کے لیے کون ساتحفہ مناسب ہوگا تو مولانا فیاض صاحب نے بتایا کہ میں نے مولانا وحید الدین صاحب کی ایک ڈائری میں پڑھا ہے کہ ان کو قلم اور مسواک پسند ہیں۔ ریالو صاحب نے ایک اچھا قلم اور مسواک آپ کو تحفہ میں دینے کے لیے خریدا۔
اس کے بعد ہم لوگ مولانا وحید الدین خاں صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے آفس (نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) پہنچے۔ جب ملاقات ہوئی تو ریالو صاحب نے مولانا کو یہ دونوں تحفہ پیش کیا ،اور کہا کہ ہمارے شاگرد فیاض الدین عمری (گلبرگہ،کرناٹک)نے بتایا کہ آپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ آپ کو قلم اور مسواک پسند ہے۔ اسی لیے ہم نے آپ کو یہ تحفہ پیش کیا ہے ۔
اس وقت مولانا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ میں نے ایسا لکھا ہے۔ مگر یہ میری ایک پرانی بات ہے، لیکن آج کل میں کچھ اور سوچتا رہتا ہوں ۔تو ریالو صاحب نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ تو مولانا نے کہا کہ میں اب اپنی عمر کی آخری منزل پر پہنچ چکا ہوں پتہ نہیں کہ کب موت کا فرشتہ مجھے لینے آجائے اور اللہ کے سامنے حاضر کردے۔ میں خدا کے سامنے حاضر ہوکر اپنی نجات کے لیے کیا پیش کرسکتا ہوں۔
اگر میں یہ کہوں کہ میں نے اسلام پر اتنی کتابیں لکھی ہیں تو ان کی قیمت خدا کے پاس کیا ہوسکتی ہے جب کہ ایک دیا سلائی ان کتابوں کو جلاکر راکھ میں تبدیل کرنے کے لیے کافی ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے ایک بار یہ کہا تھا:لَنْ یُدْخِلَ أَحَدًا مِنْکُمْ عَمَلُہُ الْجَنَّةَ۔ قَالُوا:وَلَا أَنْتَ؟ یَا رَسُولَ اللہِ قَالَ:وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِیَ اللہُ مِنْہُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَةٍ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2816)۔ یعنی تم میں سے کسی کو اس کا عمل ہرگزجنت میں داخل نہیں کرے گا۔ لوگوں نے کہا:آپ بھی نہیں، اے خدا کے رسول؟ آپ نے کہا:میں بھی نہیں۔ سوا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانک لے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ اپنے عمل سے نہیں بلکہ خدا کی رحمت سے جنت پائیں گے تو میری اور میری کتابوں کی حیثیت کیا ہوگی۔ بس میں اسی سوچ میں رہتا ہوں کہ میں خدا کی رحمت کا کیسے مستحق بن سکتا ہوں۔ یہ کہہ کر مولانا روئے جارہے تھے، اور مولانا کے ساتھ شیخ ریالو صاحب بھی زار و قطار رونے لگے۔
یہ ملاقات تقریباً ایک گھنٹے کی رہی، جس میں مولانا آخرت کی باتیں کرتے رہے اور شیخ ریالو صاحب روتے رہے ۔ یہ پوری ملاقات رونے پر ہی ختم ہوگئی۔اس واقعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے ریالو صاحب خدا اور آخرت کے ذکر پر رویا کرتے تھے بلکہ میں نے ان کو بہت سی راتوں میں تہجد کے وقت روتے ہوئے پایا ہے۔ یہ تھی شیخ ریالو صاحب کی خداترس شخصیت۔ اللہ سے دعا ہے کہ خدا ان کی گریہ و زاری کو قبول فرماکر ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔ (مولانا خطیب اسرار الحسن عمری ،چنئی)
واپس اوپر جائیں

ایگو فری شخصیت

مولانا ریاض موسیٰ صاحب ملیباری کا انتقال 8جون 2020 کو ہوا۔تقریباً 1980 سے ریاض موسیٰ صاحب کی شب و روز کی مصروفیت بس ایک ہی تھی— غیر مسلموں میں اسلامی دعوت کے لیے مسلم نوجوانوں کی ذہن سازی اور اس کاز کےلیےان نوجوانوں کی گرومنگ (grooming)۔ اس کام کے لیے انھوں نےاپنے آپ کو پوری طرح ایک ایگوفری شخص( ego free person) بنا لیاتھا۔ وہ کبھی نہ اپنی ایگو(ego) کو جاگنے دیتے اور نہ ہی کسی کی ایگو( ego)کو ہٹ(hit) کرتے۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے — ریاض موسیٰ صاحب اور میںساؤتھ انڈیا سے لمبا سفر کرتے ہوئے ایک مشہور شخصیت سے ملاقات کےلیے یوپی کے شہر مئوناتھ بھنجن پہونچے۔میزبان موصوف نے اپنے گھر کے صحن میں ہمارے بیٹھنے کا اہتمام کیا، اور ہمارے لیے ضیافت کی تیاری کا اپنے اہلِ خانہ کو حکم دیا۔مگر مقصدِ سفر’’غیر مسلموں میں دعوت‘‘ کی بات پر ہمارے میزبان محترم ہم پر بہت ناراض ہوگئے اور انھوں نے ہمیں اپنے گھر سے فورا ًباہر جانے کا حکم دیا ،اور ہمارے لیے تیار ہورہی ضیافت بھی کینسل کروا دی۔
میں انتظار میں تھا کہ اب استاد محترم کا ردعمل کیا ہو تاہے دیکھوں۔مگر وہ مسلسل ایسے خاموش رہے گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ہمیں ایک شخص نے اپنے گھر سے باہر نکلوا دیا تھا، اورہمارے لیےتیار کی ہوئی ضیافت کینسل کروا دی تھی۔ انسانی فطرت کے اعتبار سے اس بے عزتی کے واقعہ کی کسک آج بھی میں محسوس کرتا ہوں، مگر ریاض موسیٰ صاحب ملیباری کے چہرے پر میں نے وہی سکون دیکھا جو اس واقعہ سے پہلے میں نےان کے چہرے پر دیکھا تھا۔ اس طرح کے واقعات اس دور میں ہمارے ساتھ اور بھی جگہوں پرپیش آ ئے۔ مگر ہر بار میرا تجربہ یہی تھا کہ وہ کبھی افنڈ( offend) نہیں ہوتے تھے۔
اس قسم کے واقعات کو وہ ایسے لیتے جیسے وہ کوئی قابلِ توجہ بات ہی نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں وہ اس طرح کے ناروا سلوک کو میدانِ دعوت کے ایک نارمل واقعہ کے طور پر لیتے تھے۔ بعدکے دور میں مسلم شخصیات کے پاس اوردینی اداروں میں آپ کو عمومی طور پر جو مقبولیت ملی آپ کی یہی ایگو فری شخصیت کا نتیجہ تھی۔گویاکہ ان کا اصول یہ تھا’’نہ کسی کی ایگو کو ہٹ کرواور نہ ہی اپنی ایگو کو جاگنے دو‘‘ وہ اس حکیمانہ فارمولا پر کاربند تھےجس کو انگریزی میں اس طرح کہا جاتا ہے:
simple living, high thinking
ریاض موسیٰ صاحب کی زندگی ایک سادہ اور بامقصد زندگی تھی۔ ان کی سادگی اور مقصدیت زندگی بھر باقی رہی۔ یہاں تک کہ وہ اپنی طبعی عمر پوری کرکے 8جون 2020کی صبح کی اولین ساعتوں میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے،اور کالی کٹ کے ایک قبرستان میں اسی دن صبح کے گیارہ بجے سپرد خاک کر دیے گئے۔اللہ تعالیٰ ان کے اور ہمارے سیئات کو حسنات میں بدل دے اور وہ خدائے ذوالجلال کی خوش نودی کا انعام پائیں۔ آمین ۔(مولانا فیاض الدین عمری، گلبرگہ، کرناٹک )
واپس اوپر جائیں

جواہر لال نہرو کا واقعہ

پنڈت جواہر لال نہرو (1889-1964) بھارت کے پہلے وزیر اعظم تھے۔انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ زندگی ایک نہایت پیچیدہ نظام ہے۔ ہم منصوبے بناتے ہیں، اور عمل کے نقشے مقرر کرتے ہیں۔ مگر کم ہی ایسا ہوتاہے کہ نتیجہ ہمارے سوچے ہوئے نقشہ کے مطابق نکلتا ہو۔ اکثر نامعلوم اسباب (unknown factors) ہمارے مفروضات پر بھاری ثابت ہوتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مخفی طاقتیں ہیں، جو انسان کی تقدیر بناتی ہیں۔
ایک انسان جو خدا میں یقین نہ رکھتا ہو، وہ اتنا ہی کہہ سکتا تھا۔ مگر مذہب اس پر یہ اضافہ کرتا ہے کہ بلاشبہ ایسی ایک مخفی طاقت ہے، جو انسان کی تقدیر بناتی ہے، اور یہ مخفی طاقت خدا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی عمل کی منصوبہ بندی

شیخ ریاض موسی ملیباری صاحب سے پہلی بار جامعہ دارالسلام عمرآباد میں تعارف ہوا ،جب کہ وہ جگہ جگہ مسلمانوں کی دعوتی ذہن سازی کے لیے سفر کیا کرتے تھے۔ اتفاقاً جس سال میری فراغت ہوئی اسی سال باقاعدہ طور پر جامعہ دارالسلام میں ایک سالہ دعوتی کورس کا اعلان کیا گیا، جس میں دعوتی تربیت اور دعوتی دوروں کی ذمہ داری خود شیخ ریاض موسی صاحب نے لے لی ۔ دعوت کو بطور ترجیحی سرگرمی کے اپنانے کا ذہن،اور اس کو عملاً امت میں جاری کرنے کا طریقہ کیا ہوسکتا ہے، وہ میں نے شیخ ریالو صاحب سے سیکھا ہے۔
میرا پہلا دعوتی دورہ 1996میں شیخ ریالو صاحب کے ساتھ شہر آمبور(ضلع ترپاتور، تامل ناڈو) کی مسجد محی الدین پورہ میں ہوا۔اس میں بلیک بورڈ کے ذریعے سے دعوت کے متعلق دروس دیے گئے، جس میں مسلمانوں کو غیر مسلموں میں دعوت الی اللہ کی ترغیب دی گئی۔ غیر مسلموں میں دعوت کے عنوان سے مسجد واری اور مدرسہ واری تحریک جاری کرنے کےلیے شیخ ریالو صاحب زندگی بھر کوششیں کرتے رہے، جس کے سبب ہندوستان میں ایک دعوہ ٹیم وجود میں آئی، جو دعوتی مشن کو لے کر جگہ جگہ جایا کرتی ہے، یعنی دعوتی سیاحت کا عمل وجود میں آیا۔
ریالو صاحب کہا کرتے تھے کہ جس دن امت مسلمہ سے چند افراد دعوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے،خاص طور پر تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے حضرات کام کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے تو اس دن میں واپس کیرالا چلاجاؤں گا۔ غالباً 2004میں شیخ ریالو صاحب کے ساتھ منگلور (کرناٹکا) گیا ، وہاں ان کے ساتھی ڈاکٹر حبیب الرحمن سے ملاقات ہوئی ۔ڈاکٹر صاحب نے ریالو صاحب سے سوال کیا کہ آج کل آپ کیا کررہے ہیں ۔تو انہوں نے جواب دیا کہ دیکھیے مولوی حضرات کو دین کے سب کام آتے ہیں سوائے غیر مسلموں میں دعوت کے، میں آج کل مدارس کا دورہ کرکےعلما حضرات کو غیر مسلموں میں دعوت دین کا عملی طریقہ سکھارہا ہوں۔
شیخ ریالو صاحب کے ذریعے سے میرے اندر دعوتی شعور پیدا ہوا، آپ کی تربیت اور صحبت کے نتیجے میں دعوت کو میں نے اپنی زندگی میں پرائمری کنسرن بنایا۔ مگر میرے ذہن ودماغ میں دعوتی میدان کے اصولی اور علمی تقاضوں کے متعلق بہت سے سوالات تھے ،مثلاً اعلی تعلیم یافتہ طبقے میں کام کیسے کیاجائے ،دورِ جدید کی نسبت سے دعوتی تقاضےکیا ہیں ؟اسی طرح یہ کہ سائنسی ایج میں علم وایمان کے اثبات میں جو دلائل وجود میں آئے ہیں ان کو دریافت کرنے کا ذہن، مدعو سے یک طرفہ خیر خواہی کرنا، غیرمسلم حضرات کے سارے ہی طبقات کے ساتھ صرف دعوتی سلوک کو صحیح سمجھنا، ملاءِقوم کے ساتھ ناصحانہ رویہ اختیار کرنا، وغیرہ۔
یہ اور اس قسم کے اور بھی سوالات تھے، جن کے لیے مجھے رہنمائی کی ضرورت تھی ۔اللہ کے فضل سے الرسالہ مشن کے ذریعے اس کی تلافی ہوگئی۔ میں نے جس دعوتی جذبے کے تحت ریاض موسی صاحب کا ساتھ دیا تھا، اسی جذبے کے تحت میں نے الرسالہ مشن کو بھی اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالی شیخ ریالو صاحب کی مغفرت فرمائے ،اور ہم سب کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔(مولانا سید اقبال احمد عمری، عمرآباد، تامل ناڈو)
واپس اوپر جائیں

نامعلوم دنیا کا سفر

موت کیا ہے، موت معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا کی طرف چھلانگ ہے۔ موت’’اپنی دنیا‘‘ سے نکل کر’’دوسرے کی دنیا‘‘ میں جانا ہے۔ کیسا چونکادینے والا ہے یہ واقعہ۔ مگر انسان کی یہ غفلت کیسی عجیب ہے کہ وہ اپنے چاروں طرف لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے، پھر بھی وہ نہیں چونکتا۔ حالاں کہ ہر مرنے والا زبان حال سے دوسروں کو بتارہا ہے کہ جو کچھ مجھ پر گزرا یہی تمھارے اوپر بھی گزرنے والا ہے۔ وہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ کامل بے بسی کے ساتھ اپنے آپ کو فرشتوں کے حوالہ کردے۔ موت ہر آدمی کو اسی آنے والے دن کی یاد دلاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت الی اللہ

ریاض موسی صاحب ملیباری ( 1942-2020)انڈیا کے مشہور داعی تھے۔ ان کی ہمارے دل میں بہت قدر ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مشن میں ان کا ایک مثبت رول ہے۔ ہمارے دعوتی مشن میں علما کی جو ٹیم شامل ہوئی ہے، وہ لوگ براہِ راست نہیں آئے ہیں، بلکہ ریاض موسی صاحب کے واسطے سے آئے ہیں۔پہلے ریاض موسی صاحب نے ان لوگوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کیا۔اگرچہ ان کا ذہن عین وہی نہیں ہے، جو ہمارا دعوتی ذہن ہے۔ بلکہ کسی قدر مختلف تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ ان سے عمر آباد میں بات ہوئی تو میں نے ان کے طریقِ کار پر کچھ کریٹیکل تبصرہ کیا۔اس کے جواب میں ریاض موسی صاحب نے اپنے ملیالی لہجے میں کہا تھا:ہم دعوت بھی کرے گا، عداوت بھی کرے گا۔ میں نے اس وقت یہ کہاتھا کہ عداوت چھوڑکر دعوت الی اللہ کا کام کرنا ہے۔ دعوت اور عداوت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ہیں ۔ یہ بات شاید خود ان کی سمجھ میں نہیں آئی، مگر ان کی ٹیم کے کچھ لوگوں کو سمجھ میں آگئی۔ یہ تقریباً وہی لوگ تھے جو بعد میں ہمارے مشن میں شریک ہوئے۔
اصل یہ ہے کہ ریاض موسی صاحب کی تحریک پر جامعہ دار السلام عمر آباد (تامل ناڈو) میں علما کی تربیت کے لیے ایک دعوتی شعبہ کھولا گیا۔ اس میں ان لوگوں نے داخلہ لیا۔ بعد کو یہ لوگ ہمارے پروگرا م میں شریک ہوئے۔ انھوں نے دیکھا کہ ہمارے یہاں دعوت کا مبنی بر نصح تصور ہے۔ ان عمری لوگوں نے ہمارے لٹریچر کو پڑھا، ان لوگوں نے ہمارے پروگرام میں شرکت کی۔ اس طرح دھیرے دھیرے ان کا ذہن بدلا۔ ان لوگوںنے یہ سمجھا کہ دعوت مکمل طور پر ایک مثبت کام ہے۔ دعوت کا عمل اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی بھی منفی سوچ شامل کی جائے۔ اس تجربے نے ان کو متاثر کیا، اس طرح ان علما کے اندر ایک اصلاح یافتہ دعوت کا تصور پیدا ہوا۔ ان کےذہن میں مثبت سوچ پر مبنی دعوت کا تصور قائم ہوا، جو ہر قسم کے منفی سوچ سے خالی تھا۔ یہاں تک کہ یہ لوگ باقاعدہ طور پر ہمارے مشن میں شامل ہو گئے۔
واپس اوپر جائیں