Pages

Wednesday 1 April 2020

Al Risala | April 2020 (الرسالہ،اپریل)

4

-مطالعۂ قرآن کا مہینہ

6

- ایک تجربہ

9

- فرقان کیا ہے

12

- دریافتِ امت

14

- انذار، تائید

15

- اخلاق، محفوظ انسانی سفر کا ضامن

19

- فطرت کا قانون

22

- کام کیا ہے

23

- فرقہ بندی کیا ہے

24

- فطرت کی قربانی

25

- ایک مسنون دعا

26

- تطفیف پر وَیل

28

- نئے عہد کے دروازے پر

43

- جدید دور کی ایک دین

44

- فکر کی تشکیل

45

- گِور نیشن

46

- الفاظ کا جنگل

48

- ایک مسلم خاتون

49

- خبرنامہ اسلامی مرکز


مطالعۂ قرآن کا مہینہ

موجودہ شکل میں رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کا طریقہ تقریباً 1400 سال پہلے شروع ہوا۔ سب سے پہلے رسو ل اور اصحابِ رسول نے یہ عمل کیا۔ پھر مسلم تاریخ میں یہ عمل مسلسل طور پر چلتا رہا، اور آج تک جاری ہے۔ دنیا میں بسے ہوئے تقریباً تمام مسلمان ہر سال رمضان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہیں، اور قرآن پڑھتے ہیں۔ گویا اسلام کی تاریخ میں ایک عمارت بن رہی ہے ۔ہر سال اس کی ایک storey بنتی ہے۔ مشہور قول کے مطابق، ہجرت کے دوسرے سال رمضان کا روزہ فرض کیا گیا۔ اس اعتبار سے اس سال اس بلڈنگ کی 1440 ویں storey تعمیر ہوگی ہے۔ جو لوگ اِس رمضان میں سچی اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھیں گے، ان کو اس تاریخی پراسس کا حصہ بننے کا موقع ملے گا، جس تاریخ کی ابتدا خود رسول اور اصحاب رسول نےکی تھی۔
روزہ کیا ہے۔ روزہ کو عام طور پر ایک پر اسرار عبادت سمجھا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہ کر روزہ کو ایک رسم کے طور پر گزار لیا جائے، تو اس کا ثواب مل گیا۔ یہ روزہ کا کمتر اندازہ (underestimation) ہے۔ روزہ بظاہر ایک پر مشقت عمل ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک اعلی درجے کی تربیت ہے۔
یہ تربیت کس طرح ہو سکتی ہے۔ انسان یہ تربیت قرآن کے ذریعے حاصل کرسکتا ہے۔ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے(البقرۃ،2:185)۔اس بنا پر علما نے رمضان کے مہینے کو قرآن کا مہینہ کہاہے(الِاسْتِکْثَارِ مِنَ الْقِرَاءَةِ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ، وَذَلِکَ لِأَنَّہُ شَہْرُ الْقُرْآنِ )شعب الایمان للبیہقی، جلد2، صفحہ414۔ یعنی قرآن کی اسٹڈی (study) کرنے کا مہینہ۔ قرآن کی اسٹڈی کا طریقہ کیا ہونا چاہیے۔ مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے  وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّہِ لَا تُحْصُوہَا (16:18)۔ یعنی اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم ان کو گن نہ سکو گے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے خالق نے ہمارے لیے اتنی زیادہ نعمتیں عطا کی ہیں، جن کی کوئی گنتی نہیں۔ مثلاً سورج کی روشنی، آکسیجن، سوائل (soil) سے غذا (food) کا نکلنا، بارش کا برسنا، وغیرہ۔
یہ سب وہ عطیات(نعمتیں) ہیں، جو رات دن انسان کوخود بخود ملتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ نعمتیں چونکہ یک طرفہ طور(unilateral) پر سپلائی کی جارہی ہیں۔اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اس کو فار گرانٹیڈ (for granted) لے لیتا ہے، اور جو اعتراف (acknowledgement) مطلوب ہے، اس کو وہ کر نہیں پاتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ انسان لپ سروس کے طور پر الحمد للہ، وغیرہ زبان سے ادا کر دیتا ہے۔ گہرے سنس میں انسان ان نعمتوں کا اعتراف نہیں کرپاتا۔
روزہ ایک ریگرس(rigorous) ٹریننگ ہے، تاکہ انسان جس چیز کو فار گرانٹیڈ لیے ہوئے ہے، اس کو وہ خالق کے عطیے کے طور پر ڈسکور کرے۔ روزے کی یہ اسپرٹ رسول اللہ کے اس واقعے میں ملتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں آتا ہے کہ رسول اللہ روزہ رکھ کر جب شام کو افطار کرتے، تو آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے تھے ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّہُ(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2357)۔ یعنی پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہوگئیں، اور اجر ثابت ہوگیا ان شا ء اللہ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کوevaluate کرنے کا تخلیقی (creative)طریقہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ روزہ رکھ کر آدمی کے اندر انعاماتِ الٰہی کے احساس کا طوفان برپا ہوجائے، روزہ رکھ کر آدمی کے اندر وہ زندہ احساس پیدا ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ روزہ ایک رسم ہے، جس کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے، اور نہ آخرت میں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
سائنسی مطالعے کےمطابق، تقریباً تیرہ بلین سال پہلے بگ بینگ کے ذریعے موجودہ دنیا کی تاریخ کا آغاز ہوا۔ یہ ستاروں اور کہکشاؤں سے بھری ہوئی ایک وسیع کائنات تھی۔ اس کائنات میں ملکی وے کے اندر وہ دنیا تھی، جس کو ہم سولر سسٹم نام سے جانتے ہیں۔ اسی شمسی نظام کے ایک سیارہ زمین پر انسان آباد ہے۔ یہ ایک پوری طرح کسٹم میڈ ورلڈ ہے۔ اسی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ انسان اس زمین پر بسہولت آباد ہو، اور یہاں آزادی کے ساتھ اپنی ایک تہذیب بنائے۔
واپس اوپر جائیں

ایک تجربہ

میں نے1999 میں مانچسٹر (انگلینڈ )کا سفر کیا ۔ اس سفر میں میں نے چند دن ایک نوجوان عرب میزبان العارف احمد کے یہاں قیام کیا تھا۔وہ وہاں رفیوجی (asylum) کی حیثیت سے ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہاں رہتے ہوئے ایک واقعہ میرے ساتھ پیش آیا۔ یہ واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے
جمعرات کی صبح ، 17 جون 1999 کا دن تھا۔ میں مانچسٹر میں میزبان کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ جب میں بالائی منزل کے ایک کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، تو میں نے دروازے پر ایک ہلکی سی دستک سنی۔ میں نے دروازہ کھولا تو مجھے تقریباً پانچ سال کی عمر کی ایک بچی کھڑی دکھائی دی ۔یہ برادر العارف کی بڑی بیٹی، قانتہ تھی۔ اس نےانتہائی معصومیت سے پوچھا  ترید حاجۃ (آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟) ۔ اگرچہ یہ ایک معمولی قسم کا سوال تھا ، لیکن میں اس معصوم آواز سے اووروھلم (overwhelm) ہوگیا۔ اس قدر اووروھلم ہوگیا کہ جواب میں مَیں اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکا۔
بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ تھا ۔ لیکن میرے ذہن میں یہ ایک عظیم واقعے (supernatural event) میں کنورٹ ہو گیا۔ چنانچہ اس بچی کی معصوم آواز سن کر مجھے ایسا لگا جیسے خدا نے گویا میرے پاس ایک فرشتہ بھیجا ہے، تاکہ وہ میری ضروریات کو دریافت کرے، اور اسے پورا کرے۔اسی لمحے ایک حدیث میرے ذہن میں آئی: رب العالمین روزانہ آسمانِ دنیا پر آتا ہے ، اور پکارتا ہے  کیا کوئی ہے جو محتاج ہو ،اور مجھ سے مانگے ،تو میں اسےعطا کروں؟ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1145)
’’ کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟ ‘‘ ایک چھوٹا سا سوال تھا جو ایک معصوم بچی نے پوچھا تھا ۔ لیکن میرے اندرونی وجود میں ایک بہت بڑا انقلاب برپا کرنے کے لیے یہ سوال کافی تھا۔وہ انقلاب جسے جدید ٹرم میں برین اسٹارمنگ (brainstorming) کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔
تھوڑی دیر کے لیے میں نے محسوس کیا کہ کائنات کی تمام چیزیں میرےمائنڈ کی اسکرین پرموجود ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا روحانی تجربہ تھا، جس کا اظہار انسانی الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ابتدا میں یوں لگتا تھا، جیسے خدا ایک "ننھے فرشتے" کے ذریعہ کہہ رہا ہے ـاے میرے بندے ، کیا تم کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟ پھر اس عمل میں گویا پوری کائنات بھی شامل ہوگئی۔
میرے سامنے بظاہر ایک چھوٹی سی لڑکی تھی ،جو مجھ سے پوچھ رہی تھی کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟لیکن اپنے توسیعی معنی کے اعتبار سے یہ ایسا ہی تھا جیسے پوری کائنات ایک ہی سوال پوچھ رہی ہو۔ وسیع آسمان کہہ رہا ہو کیا آپ کو کسی پناہ گاہ کی ضرورت ہے؟میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، تاکہ میں آپ کو پناہ گاہ مہیا کروں ، کیونکہ خدا نے مجھے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ چمکتا ہوا سورج کہہ رہا ہو  کیا آپ کو روشنی کی ضرورت ہے؟ میں یہاں روشنی کی فراہمی کے لیے اور آپ کے اندھیرے کو دور کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ اونچے پہاڑ اعلان کررہے ہوں کیا آپ انسانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونا چاہتے ہیں؟ میں یہاں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، تاکہ آپ کو انسانیت کا اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں مدد کروں۔ بہتے ہوئےدریاکی روانی یہ کہہ رہی ہو  کیا آپ کو اپنے تزکیہ کے لیےروحانی غسل کی ضرورت ہے؟ میں یہاں آپ کو روحانی غسل دینے کے لیے حاضر ہوں۔ ہوا کے جھونکےپوچھ رہے ہوں  کیا آپ خدا کے عجائبات (wonders) کو دیکھنے کے لیے کائنات کی سیر کرنا چاہتے ہیں؟ آپ کے لیے اس روحانی سفر پر جانے کے لیے میری پشت موجود ہے۔
درخت سرگوشی کر رہے ہوں  کیا آپ ہماری طرح کی نمو پذیر اور مثبت شخصیت رکھنا پسند کریں گے؟ ہم یہاں آپ کی خواہش کو حقیقت بنانے کے لیے نمونہ کی حیثیت سےموجود ہیں۔ ان کی شاخوں پر پھل اور ان کی پتیاںاعلان کررہی ہوں اگر آپ اپنی شخصیت کے لیے فکری اور روحانی غذا (intellectual food)کی خواہش رکھتے ہیں، تو ہم آپ کو اس کی فراہمی کے لیے حاضر ہیں۔
جب یہ سین میرے دماغ میں چل رہا تھا، تو میں نے پرندوں کے چہچہانےکو سنا، جو گویا یہ پیغام دے رہے تھے اے خدا کے بندے! یہاں تمھارے لیے خوشخبری ہے، اگر تمہیںکوئی ضرورت ہے، تو خدا نے پوری کائنات تمھاری ضروریات کو پورا کرنے کے بنایا ہے۔ خدا اتنا فیاض ہے کہ اس نے ساری کائنات کو دن رات تمھاری خدمت میں حاضر رہنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ پوری کائنات تمھارے لیے کسٹم میڈ کائنات (custom-made universe) ہے۔ مزید یہ کہ اگر آپ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں تو وہ آپ کو ان سب سے بھی ایک بڑا انعام عطا کرے گا، یعنی ابدی جنت، جہاں نہ کوئی خوف ہوگا،اور نہ وہ غمگین ہوں گے (الانعام،6:48)۔
پھر میرے ذہن میںقرآن کی یہ آیت آئی:وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہ (14.34)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس زمین پر مناسب طور پر زندگی گزارنے کے لیے جو بھی ضرورت ہے ، وہ براہ راست اور بالواسطہ طور پر خدا نے پہلے سے تیار کرکے رکھ دی ہے۔ مثلاً انسانی خدمت کے لیےگھوڑےاور دوسرے جانور براہِ راست عطیات ہیں، جب کہ ہوائی جہاز بالواسطہ انداز میں نیچر میں پوٹنشل (potential)طور پر رکھ دیے گئے تھے، جو دورِ جدید میںدریافت ہوئے۔ ہوا کے ذریعے آواز کا سفر براہِ راست عطیے کی ایک مثال ہے ، جب کہ الیکٹرانک آلات کے ذریعے اس کی ترسیل بالواسطہ عطیہ ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:(ترجمہ) اس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے بھی اور وہ ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے (16:8) —اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ کی اس طرح تربیت کریں کہ زندگی کا ہر تجربہ اور آس پاس کا ہر واقعہ ان کے لیے شکر کا آئٹم بن جائے۔ (انگریزی سے ترجمہ)
واپس اوپر جائیں

فرقان کیا ہے

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّہَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقاناً (8:29)۔ یعنی اے ایمان والو، اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لیے فرقان عطا کرے گا۔ فرقان کا لفظی مطلب ہے فرق کرنے والا۔ یہ لفظ جب دین کے معاملے میں بولا جائے، تو اس سے مراد ہوگا حق اور باطل کےدرمیان فرق کرنے والا۔ اس معاملے میں تقویٰ کا رول یہ ہے کہ تقویٰ آدمی کے اندر حساسیت (sensitivity)پیدا کرتا ہے۔متقی انسان حق اور ناحق کے معاملے میں بے حد حساس (sensitive) بن جاتا ہے۔
مفسر طبری نے فرقان کا مطلب ان الفاظ میں بیان کیا ہے فُرْقَانٌ یُفَرِّقُ فِی قُلُوبِہِمْ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، حَتَّى یَعْرِفُوہُ وَیَہْتَدُوا بِذَلِکَ الْفُرْقَانِ (تفسیر الطبری،13/490)۔ یعنی فرقان وہ چیز ہے، جس سے انسان کے دلوں میں حق اور باطل کے درمیان فرق کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کی معرفت حاصل کرتے ہیں، اور اس فرقان کے ذریعے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔
فرقان کا مطلب بصیرت یا معیار (criterion) ہے۔ بصیرت کسی آدمی میں وہ اندرونی روشنی پیدا کرتی ہے کہ وہ ظاہری پہلوؤں سے دھوکا کھائے بغیر ہر بات کو اس کے اصل روپ میں دیکھ سکے،وہ ادھر ادھر کے مغالطوں میں الجھے بغیر اصل حقیقت تک پہنچ جائے۔ فرقان کا یہ معاملہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہے، خواہ وہ ایک مذہبی آدمی ہو یا ایک تاجر اور ڈاکٹر اور انجینئر۔ فرقان اصلاً ایک انفرادی صفت ہے، یعنی حق و باطل میں امتیازکی یہ صفت ابتدا میں فرد مومن میں پیدا ہوتی ہے۔ پھر بڑھ کر وہ گروہِ مومن کی جماعتی صفت بن جاتی ہے۔ یہ صفت اس بات کی ضامن ہے کہ فردِ مومن یا جماعتِ مومن ہر حال میں سچے راستے پر قائم رہے۔ کوئی خارجی واقعہ اس کو حق کے راستے سے ہٹانے والا نہ بنے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہ صفت کسی آدمی کے اندر تقویٰ کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ تقویٰ سے آدمی کے اندر اللہ کا ڈر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ڈر ایک صاحبِ ایمان کو اللہ کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط (cautious) بنا دیتاہے۔ یہ صفت آدمی کو حق و باطل کے معاملے میں بہت زیادہ حساس بنادیتی ہے۔ وہ ہر معاملے میں بہت زیادہ جان لیتا ہے کہ کہاں وہ حق پر قائم ہے، اور کہاں وہ حق سے تجاوز (deviate) کرنے والا بن گیا ہے۔ اس معاملے میں اس کی حساسیت اس کے لیے ایک ایسی داخلی صفت بن جاتی ہے، جو اس کو ہر موقعے پر چوکنا کردے۔ وہ حق سے بھٹکنے کے قریب پہنچ کر اس سے باخبر ہوجائے، اور دوبارہ حق کے راستے پر آجائے۔
سائنسی ترازو (scientific balance) بے حد دِقت (precision)کے ساتھ دو چیزوں میں وزن کے فرق کو بتادیتا ہے۔ اسی طرح تقویٰ سے بننے والا فرقان گویا حق و باطل کا سائنٹفک ترازو ہے۔ وہ ادنیٰ فرق کے بغیر یہ بتادیتا ہے کہ کس چیز میں حق کا پہلو کتنا ہے، اور باطل کا پہلو کتنا ہے۔ اس معاملے کا ایک اظہار انسان کے کلام میں ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے اندر مبنی بر تقویٰ فرقان نہ بنا ہو، وہ الفاظ بولیں گے، لیکن ان کے الفاظ گہری معنویت سے خالی ہوتے ہیں۔ ان کے کلام میں وضوح (clarity) نہیں ہوتا۔ ان کے کلام میں لوگوں کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملتا۔ ان کمیوں سے پاک صرف وہ کلام ہوتا ہے، جو صحیح معنوں میں کلام ِفرقان ہو۔
اگر آدمی کے اندر فرقان موجود ہو، تو اس کے اندر کرائٹیرین (criterion) موجود ہوگا، اس کے اندروہ حساسیت پائی جائےگی، جو اس کے کلام کو چھانٹ کر اس قابل بنائے گی کہ وہ صرف وہ بات کہے، جو حقیقتِ واقعہ کے عین مطابق ہو۔ جس کلام میں باطل کا ادنیٰ شائبہ بھی موجود ہو،تو صاحبِ فرقان انسان کا نفیس ذوق اس کو قبول کرنے سے انکار کردے گا۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں فرقان سے مراد معنوی تفریق ہے۔ دوسرے لفظوں میں متعلق (relevant) اور غیرمتعلق (irrelevant) کے فرق کا جاننا۔ تقویٰ کا رول اس معاملے میں یہ ہے کہ اللہ سے خوف کی بنا پر آدمی کے اندر حساسیت پیدا ہوتی ہے۔ وہ اس میں مانع بن جاتی ہے کہ وہ حق کے معاملے میں متعلق اور غیر متعلق بات کو ملا دے۔ وہ صرف الفاظ کو جانے، وہ اس بات کو نہ جانے کہ ایک قسم کی بات، اور دوسری قسم کی بات میں کیا فرق ہے۔ یہی معنوی تفریق یا معنوی امتیاز کا دوسرا نام فرقان ہے۔
معنوی تفریق کے لیے داخلی حساسیت کے علاوہ کوئی اور چیز مؤثر نہیں بن سکتی۔ اس داخلی حساسیت کا واحد راز تقویٰ، یعنی اللہ کا خوف ہے۔ جس آدمی کے اندر اللہ کی پکڑ کا ڈر پیدا ہوجائے، تو وہ اس سے بچے گا کہ وہ ایسی کوئی بات کہے، جو اللہ کے یہاں قابلِ قبول نہ ہو۔ مثلاً قرآن میں اس نوعیت کی ایک مثال وہ ہے، جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (2:275)۔یعنی انھوں نے کہا کہ تجارت کرنا بھی ویسا ہی ہے جیسا سود لینا۔ حالاں کہ اللہ نے تجارت کو حلال ٹھہرایا ہے، اور سود کو حرام کیا ہے۔دونوں میں یہ فرق ہے کہ تجارت میںآدمی کسی کو کچھ دے کر اس سے کچھ لیتاہے، جب کہ رِ با (usury) میں آدمی کسی حاجت مند کا استحصال (exploit) کرتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ تقویٰ کے نہ ہونےسے انسان کے اندر سے حساسیت ختم ہوجاتی ہے، اور جب حساسیت نہ ہو، تو وہ اسی قسم کی بات بولنے لگتا ہے۔ مثلاً لوہا اور روئی کے درمیان مادی فرق ہوتا ہے، اس فرق کو وہ ہاتھ سے چھو کر جان لیتا ہے۔ لیکن معنوی فرق اس سے مختلف ہے۔ معنوی فرق کو وہی انسان جان سکتا ہے، جو اللہ سے ڈرتا ہے، اور اللہ کے سامنے پیش ہونے سے کانپتا ہے۔ مادی فرق کو انسان ہاتھ سے چھو کر جان سکتا ہے۔ لیکن معنوی فرق کا مسئلہ پہچان کا ہے۔ یہ پہچان صرف داخلی حساسیت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
واپس اوپر جائیں

دریافتِ امت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی حدیثیں امتِ مسلمہ کے حال اور مستقبل کے بارے میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: أُمَّتِی أَمَّةٌ مَرْحُومَةٌ، قَدْ رُفِعَ عَنْہُمُ الْعَذَابُ، إِلَّا عَذَابَہُمْ أَنْفُسَہُمْ بِأَیْدِیہِمْ(المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 6909)۔ یعنی میری امت رحم کی ہوئی امت ہے۔ اس سے عذاب اٹھا لیا گیا ہے، سوائے اس کے کہ ان کا خود کو اپنے ہاتھوں سے عذاب دینا۔اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ امت محمدی پر وہ عذاب نہیں آئے گا، جو پچھلی امتوں پر آیا تھا۔ یہ بات امت مسلمہ کے لیے بے حد اہم ہے۔ مگر یہ بات امت کی فضیلت کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ امت کی ذمے داری کے اعتبار سے ہے۔
پچھلی امتوں کی ذمے داری محدود مدت کے اعتبار سے تھی۔ مگر امتِ مسلمہ کی ذمے داری ختم نبوت کی بنا پر قیامت تک کے لیے ہے۔ کیوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جو ساتویں صدی کے رُبع اول میں آئے، وہ اللہ کے منصوبے کے مطابق آخری پیغمبر (Final Prophet)تھے۔ اب آپ کے بعد کوئی اور پیغمبر آنے والا نہیں۔ لیکن جہاں تک پیغمبر کے مشن کی بات ہے، وہ بدستور قیامت تک جاری رہے گا۔اب مسلمان اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچانے کے لیے درمیانی وسیلہ ہیں۔ یعنی اللہ کا پیغام جورسول کے ذریعے امت مسلمہ کو پہنچا ہے، اس پیغام کورسول کی نیابت میں قیامت تک آنے والی تمام قوموں کو پہنچانا امت مسلمہ کی ذمے داری ہے ۔ یہ اس دعوتی مشن کا تسلسل ہے، جس کو پیغمبر اسلام نے اپنے زمانے میں جاری کیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی نبوت شخصی وجود کے اعتبار سے ساتویں صدی کے لیے تھی، لیکن پیغام کے اعتبار سے وہ پوری تاریخ کے لیے ہے۔ اس بنا پر امتِ محمدی کو امتِ وسط کہا گیا ہے، یعنی پیغمبر اور اقوامِِ عالم کے درمیان کی امت۔ ایک اور آیت میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ (6:19)۔ یعنی مجھےیہ قرآن وحی کیا گیا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تم کو انذار کروں، اور وہ بھی (انذار کریں) جن کو یہ پہنچے۔
امتِ مسلمہ کے بارے میں قرآن کا یہ اعلان بہت زیادہ بامعنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے لیے جائز نہیں کہ وہ پیغمبرانہ مشن، دعوت الی اللہ کے علاوہ کسی اور کام میں اپنے آپ کو مصروف کرے۔ دعوت الی اللہ کا کام ان کے لیے فرض عین کی حیثیت رکھتا ہے، نہ کہ فرض کفایہ ۔ امتِ محمدی اگر پیغمبر کے مشن کو اپنا مشن بنائے تو اس پر اللہ کا وہ وعدہ پورا ہوگا، جو قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:وَاللَّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (5:67)۔ یعنی لوگوں کی کسی امکانی زیادتی سے محفوظ رکھنے کی ضمانت اللہ کی طرف سے ہوگی۔ اس کے برعکس، اگر امت اپنی اس منصبی ذمے داری پر قائم نہ رہے، تو اس کے بعد اس کا انجام وہی ہوگا، جو ایک حدیث میں ان الفاظ میں آیا ہے: رَفَعَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ یَدَہُ عَنِ الْخَلْقِ فَلَا یُبَالِی فِی أَیِّ وَادٍ ہَلَکُواُ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 1752) ۔ یعنی اللہ عز وجل اپنا ہاتھ مخلوق سے اٹھا لیتا ہے، تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوجائیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امتِ محمدی کو ختم نبوت کے بعدتبلیغ ما انزل اللہ کے اصول کو اپنی قومی منصوبہ بندی کا مرکزی اصول بنانا ہوگا۔ اس کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اس معاملےمیں دوسرے پہلوؤں کو اللہ کے حوالے کریں، اور اپنے آپ کو اسی ایک مقصد کے لیے خاص کرلیں۔ امت محمدی اگر اس اصول کو اپنی قومی پالیسی بنائے، تو یہ اس کی جانب سے اللہ کی نصرت کرنےکے ہم معنی ہوگا۔ اس وقت امت اس خدائی فیصلے کی حق دار بن جائے گی، جو قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہےوَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ (22:40)۔ یعنی اللہ ضرور اس کی مدد کرتا ہے، جو اس کی مدد کرے۔
ختم نبوت کے بعد کے زمانے میں فطرت کے قانون کے مطابق بار بار ایسا ہوگا کہ امت کے لیے مختلف قسم کے ڈسٹریکشن پیش آئیں گے۔ لیکن امت کے رہنماؤں کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ہر مرحلے میں متعلق (relevant) کو غیر متعلق (irrelevant) سے الگ کریں۔ وہ مختلف حالات سے دوچار ہونے کے باوجود یہ کرتے رہیں کہ غیر متعلق کو نظر انداز کریں، اور صرف متعلق کی بنیاد پر اپنا قومی منصوبہ بنائیں۔ یہ اصول قیامت تک ان کی حفاظت اور کامیابی کا ضامن ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

انذار، تائید

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ (47:7)۔ یعنی اے ایمان والو، اگر تم اﷲ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدموں کو جمادے گا۔ قرآن کی اس آیت میں ایک فطری حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اس دنیا کو اللہ نے ایک منصوبے کے تحت بنایا ہے۔ جو آدمی اس منصوبے کے تحت اپنی زندگی کا نقشہ بنائے، وہ کامیاب ہوگا، اور جو آدمی اس منصوبۂ الٰہی سے بے خبر رہے، اوراس کے مطابق اپنا منصوبہ نہ بناسکے، وہ ناکام ہوکر رہ جائے گا۔
اللہ رب العالمین کا یہ منصوبہ کیا ہے، وہ قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک مفسر نے قرآن کو کتابِ انذار بتایا ہے۔ انذار کا مطلب ڈرانا نہیں ہے، بلکہ باخبر کرنا ہے۔ قرآن میں بتایا گیاہے کہ اللہ نے اپنے نبیوں کو منذر بنا کر بھیجا(النساء، 4:165)۔ یعنی نبیوں کے ذریعے انسان کو باخبر کردیا کہ انسان کے بارے میں اللہ کا منصوبہ کیا ہے۔ اب انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اس منصوبے کو جانے، اور اس کے مطابق اپنے عمل کی پلاننگ کرے۔
اس معاملے میں دوسری اہم بات حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔ حدیث کی اکثر کتابوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ اس دین کی تائید (support) غیر اہل اسلام کے ذریعے کرے گا (مسند احمد، حدیث نمبر 20454، المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔ ان احادیث میں تائیدِ دین کا لفظ آیا ہے۔ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ قرآن سے آئیڈیالوجی دریافت کرے، اور تائید کے معاملے میں کسی تفریق کے بغیر ہر گروہ سے تائیدی ذرائع دریافت کرے، اور ان کو بھر پور طور پر استعمال کرے۔
مثلاً آئیڈیالوجی کو قرآن کے مطالعے سے معلوم کرنا، اور کمیونی کیشن کے ذرائع کو سیکولر لوگوں سے لینا، اور ان کو اپنے منصوبوں میں استعمال کرنا۔
واپس اوپر جائیں

اخلاق، محفوظ انسانی سفر کا ضامن

انسانی سماج کو ایک بہتر سماج بنانے کے لیے جو تعمیری اصول ہیں، انھیں اصولوں کو اخلاقی اقدار (moral values) کہا جاتا ہے۔ اِن اخلاقی اقدار کو اختیار کرنے سے انسانی سماج بہتر سماج بنتا ہے، اور ان کو چھوڑنے سے انسانی سماج برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔ سماج کو اگر ٹرین سے تشبیہ دی جائے تو اخلاقی اقدار گویا ریل کی وہ پٹریاں ہیں، جن کے اوپر سماجی ٹرین بھٹکے بغیر اپنا سفر کامیابی کے ساتھ طے کرتی ہے۔
یہ اخلاقی اقدار بنیادی طورپر یہ ہیں— امن، انصاف، محبت، سچائی، رواداری، خیر خواہی، عدم ِتشدد، صبر ،تواضع، عالمی اخوت اور اخلاقی سلوک، وغیرہ۔ یہ اخلاقی اقدار اتنے زیادہ مسلّم ہیں کہ تمام مذہبی اور روحانی نظاموں میں یکساں طورپر ان کی خصوصی تعلیم دی گئی ہے، اور ان کو انسانی ترقی کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اقدارکا یہی مجموعہ ہے، جس کو اخلاق کہا جاتا ہے۔ یہی اخلاقی اصول انسان کے اندر اعلیٰ شخصیت بناتے ہیں۔ انھیں اخلاقی اصولوں کی پیروی سے کوئی سماج بہتر سماج بنتا ہے۔ انھیں اخلاقی اصولوں کی پیروی سے وہ سماجی مقاصد حاصل ہوتے ہیں، جن کو ہم انسانیت کی فلاح کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔
خدا نے اِن اقدار کو انسان کی فطرت میں اخلاقی حِس (moral sense) کے طور پر ودیعت کردیا ہے۔ ہر انسان اِن اخلاقی اصولوں کا شعور پیدائشی طورپر رکھتا ہے۔ تمام مذہبی اور روحانی نظام اِس کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ خدا نے کائنات کو اِس طرح بنایا ہے کہ وہ انسان کے لیے گویا ایک اخلاقی ماڈل بن گئی ہیں۔ جو چیز انسان کو خود اپنے ارادے کے تحت عمل میں لانا ہے، وہ چیز بقیہ کائنات میں خدا کے براہِ راست کنٹرول کے تحت زیر عمل آرہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان اور کائنات دونوں کا اخلاقی نظام ایک ہے۔ بقیہ کائنات میں اس کا نام قانونِ فطرت (law of nature) ہے، اور انسانی دنیا میں اس کو اخلاقی اقدار (moral values) کہاجاتا ہے۔
انسان اور کائنات دونوں کو ایک خدا نے پیدا کیا ہے۔ دونوں کی کارکردگی کے لیے اس نے ایک ہی قانون مقرر کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ بقیہ کائنات میں یہ قانون براہِ راست طورپر خود خدا نے نافذ کررکھا ہے۔ لیکن انسان کو خدا نے یہ عزت دی ہے کہ اس کو آزاد اور خود مختار بنایا ہے۔ بہتر انسانی سماج بنانے کا راز یہ ہے کہ انسان اسی خدائی قانون کو خود اپنے ارادے سے اپنی زندگی میں نافذ کرے۔
خلامیں اَن گنت ستارے ہیں۔ ہر ایک نہایت تیزی کے ساتھ وسیع خلا میں گردش کررہے ہیں۔ لیکن ان کے درمیان کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ اِس کا راز یہ ہے کہ ہر ستارہ اور سیارہ اپنے اپنے مقرر مدار(orbit) پر گردش کرتا ہے۔ کوئی ستارہ دوسرے ستارے کے مدار میں داخل نہیں ہوتا۔ گردش کا یہ انضباطی اصول، ستاروں کے درمیان ٹکراؤ ہونے نہیں دیتا۔ یہی اصول، انسان کو اپنی زندگی میںاختیار کرنا ہے۔ ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو اپنے دائرے کے اندر محدود رکھے۔ اس کے بعد انسانی سماج میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوگا۔ یہی فارمولا پیس فُل سماجی تعلقات کا واحد فارمولا ہے۔
ہوائیں چلتی ہیں، تو وہ نہایت تیزی کے ساتھ میدان سے گذرتی ہیں۔ یہاں سر سبز پودے ہوتے ہیں۔ یہ پودے ہواؤں کے طوفان میں نہیں ٹوٹتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ہوا کے مقابلے میں کبھی نہیں اکڑتے۔ جب ہو اکا جھونکا آتا ہے، تو پودا فوراً جھک کر ہوا کو گزرنے کا موقع دے دیتا ہے۔ یہی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ سماجی زندگی میں اکڑ کا انداز اختیار کرنے کےبجائے سمجھوتہ اور ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرے۔
پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے، اور اس سے چشمے جاری ہوجاتے ہیں۔ چشمے کے راستے میں بار بار پتھر آتے ہیں، مگر چشمہ ایسا نہیں کرتا کہ پہلے وہ پتھر کو اپنے راستے سے ہٹائے ،اور پھر اس کے بعد اپنا سفر جاری کرے۔ بلکہ وہ مُڑ کر پتھر کے کنارے کی طرف سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے، اور آگے کی طرف رواں ہوجاتا ہے۔ یہی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ٹکراؤ کو اوائڈ کرکے اپنا راستہ بنائے۔ نہ کہ وہ رُکاوٹ سے ٹکراؤ شروع کردے۔
درخت انسان کے لیے آکسیجن نکالتا ہے، اور ہوا اس کو لے کر اُسے انسان تک پہنچاتی ہے۔ لیکن درخت اور ہوا اپنے اس عمل کے لیے انسان سے اس کی کوئی قیمت نہیں مانگتے ۔ایسا ہی انسان کو کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بنے، اور اپنے اس عمل کے لیے لوگوں سے کسی قیمت کا تقاضا نہ کرے۔
گائے خدا کی ایک زندہ انڈسٹری ہے۔ گائے کو اس کا مالک گھاس کھلاتا ہے، لیکن گائے اس کے بدلے میںاپنے مالک کو دودھ لوٹاتی ہے۔ وہ دوسروں سے غیر دودھ (non-milk)کو لیتی ہے، اور پھر ان کو اپنی طرف سے دودھ (milk) کا تحفہ واپس کرتی ہے۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ جب بھی اس کو کسی سے منفی تجربہ ہو، تواس کے جوا ب میں وہ اس کے ساتھ مثبت سلوک کی روش اختیا رکرے۔
کسی مقام پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہوں، اور وہ زمین پر پڑے ہوئے دانے چُگ کر خوش خوش اس کو کھارہی ہوں۔ ایسی حالت میں آپ ان کی طرف ایک کنکر پھینک دیں۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ چڑیاں اُڑ کر درخت کی شاخ پر پہنچ گئیں، اور دوبارہ وہاں چہچہانے لگیں۔ نفرت اور شکایت جیسی چیز کسی چڑیاکے دل میں کبھی جگہ نہیں پاتی۔ یہی طریقہ انسان کا ہونا چاہیے۔ انسان کو بھی ایسا بننا چاہیے کہ جب کوئی شخص اس کو ستائے، یا اس کو کوئی نقصان پہنچائے، تو وہ نفرت اور شکایت کو اپنے دل میں جگہ نہ دے۔ وہ منفی حالات کے باوجود اپنے آپ کو مثبت نفسیات پر قائم رکھے۔
دنیا کی تمام چیزیں قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کی حامل ہیں۔ اِس مادّی دنیا میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اِس معاملے میں استثنا کی حیثیت رکھتی ہو۔ مثلاً ستارے ہمیشہ اپنی مقرر رفتار پر پوری حتمیت کے ساتھ قائم رہتے ہیں۔ ببول کے بیج سے ہمیشہ ببول کا درخت نکلتا ہے، اور انگور کے بیج سے ہمیشہ انگور کا درخت، وغیرہ۔ یہی کردار انسان کا بھی ہونا چاہیے۔ انسان کو بھی اسی طرح قابلِ پیشین گوئی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔ قابلِ پیشین گوئی کردار یہ ہے کہ کسی صورتِ حال میں ایک حقیقی انسان سے جو امید کی جائے، وہ ہمیشہ اُس پر پورا اُترے۔
سورج مسلسل طورپر روشنی اور حرارت سپلائی کرتا ہے۔ اِس معاملے میں وہ اپنے اور غیر کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا۔ وہ سب کو یکساں طورپر روشنی اور حرارت کا خزانہ پہنچاتا رہتا ہے۔ یہی کردار انسان کا بھی ہونا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر ایک کے لیے نفع بخش بنے۔ اپنوں کے لیے بھی اور غیروں کے لیے بھی۔ دوستوں کے لیے بھی اور دشمنوں کے لیے بھی۔ خوش گوار تعلق والوں کے لیے بھی اور ناخوش گوار تعلق والوں کے لیے بھی۔ یہی کسی انسان کے لیے اعلیٰ معیاری اخلاق ہے۔
شہد کی مکھی اپنے مقام سے اُڑ کر جنگل میں جاتی ہے۔ یہاں بہت سی مختلف قسم کی چیزیں ہیں۔ مثلاً لکڑی، کانٹا، جھاڑی اور گھاس، وغیرہ۔ لیکن شہد کی مکھی انتخابی طریقہ اختیار کرتی ہے۔ وہ ہر دوسری چیز سے اعراض کرکے سیدھے اُس پھول تک پہنچتی ہے، جہاں سے اس کو میٹھا رس لینا ہے۔ یہی انتخابی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ اس کو سماج میں اِس طرح رہنا چاہیے کہ وہ غیر مطلوب چیزوں سے اعراض کرے، اور وہ ہر ناپسندیدہ چیز سے دور رہتے ہوئے اپنے مطلوب تک پہنچ جائے۔
انسان اور بقیہ کائنات میں ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ بقیہ کائنات نے جس کردار کو مجبورانہ طورپر اختیار کررکھا ہے، اُسی کردار کو انسان خود اپنی آزادی کے تحت اختیار کرے۔بقیہ کائنات مجبورانہ اخلاق کی مثال ہے۔ مگر انسان کو اختیارانہ کردار کا نمونہ بننا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ بقیہ کائنات کے لیے نہ کوئی انعام ہے، اور نہ کوئی سزا۔ لیکن انسان کے لیے خدا کا قائم کردہ قانون یہ ہے کہ جو شخص اِس مطلوب کردار کو اختیار نہ کرے، وہ خدا کی طرف سے سزا پائے گااور جو شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اس مطلوب کردار کا حامل بن جائے، اس کو خدا کی طرف سے ابدی انعام کا مستحق قرار دیا جائے گا۔ یہ امتیازی انعام اِس کائنات میں صرف انسان کے لیے مقدر ہے۔ کیوں کہ انسان خود اپنے اختیار سے وہ مطلوب روش اختیار کرتا ہے، جس کو بقیہ کائنات مجبورانہ طورپر اختیار کیے ہوئے ہے۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کا قانون

انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے غیر معمولی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک صلاحیت یہ ہے —اپنی نااہلی کو اہلیت میں کنورٹ کرنا، اپنے نہ ہونے کو ہونا بنانا۔ مثلاً کوئی آدمی اگر دیکھنے یا سننے کی صلاحیت کھودے، تو اس کی فطرت کے اندر ایک نیا عنصر جاگتا ہے۔ جو اس کو زیادہ سوچنے والا انسان بنادیتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی نااہلیت کو اہلیت میں تبدیل کرلیتا ہے۔
اس کی ایک تاریخی مثال معروف انگریزی شاعر جان ملٹن (1608-1674) کی ہے۔ وہ 44 سال کی عمر میں بالکل اندھا (completely blind) ہوگیاتھا۔ مگر اس نااہلی نے اس کے اندر ایک نئی اعلیٰ صلاحیت پیدا کردی۔ وہ تھی تخیُّل (imagination) کی غیر معمولی صلاحیت۔ اب وہ لکھ پڑھ نہیں سکتا تھا، لیکن اس نے املا (dictation) کی مدد سے ایک ماسٹر پیس ایپک (masterpiece epic)، پیراڈائز لاسٹ (Paradise Lost) تیار کیا۔ اس کی اہمیت کے بارے میں یہ کہاجاتا ہے
The greatest epic poem in the English language...a work of unparalleled imaginative genius that shapes English literature even now. (www.bbc.com, Why You should Read the Paradise Lost, by Benjamin Ramm, 19 April 2017)
جدید دور میں جو چیزیں دریافت ہوئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کے اندر کچھ مخفی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ حتی کہ اہلیت سے بظاہر محروم لوگوں کے اندر اہلیت کے نئے اسباب موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ موجودہ زمانے میں ایک مستقل شعبہ بن گیا ہے کہ انسان کی چھپی ہوئی صلاحیت کو استعمال میں لایا جائے، یعنی ڈس ایبلڈ کو ڈفرینٹلی ایبلڈ بنانا۔ موجودہ زمانے میں ترقی یافتہ ملکوں میں ایسے لوگوں کے لیے خصوصی انتظام ہوتا ہے۔
فطرت کے اس عطیے کا ایک پہلو یہ ہے کہ ایسے عورتوں یا مردوں کے اندر اضافی محرک (additional incentive) فطری طور پر پیدا کردیا جاتا ہے۔ ایسے افراد کی بہترین مدد یہ ہے کہ ان کی اس چھپی ہوئی صلاحیت کو انھیں یاددلایا جائے۔ ان کے اندر یہ شعور جگایا جائے کہ وہ اپنی چھپی ہوئی صلاحیت کو تربیت دیں، اور اپنی بظاہر ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کرلیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں یہ کام بہت بڑے پیمانے پر انجام دیا جارہا ہے۔ یونیورسٹیوں اور دوسرے اداروں میں ایسے تربیتی کورس چلائے جاتے ہیں، جن میں ہر پہلو سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ڈس ایبلڈ پرسن (disabled person)کو ایبلڈ پرسن بنایا جائے۔ انڈیا کے تعلیمی اداروں میں بھی ایسے شعبے قائم کیے گئے ہیں، جو فطری طور پر معذور لوگوں کے لیے ان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کریں، اور بظاہر معذور لوگوں کو غیر معذور بنائیں۔ قرآن میں فطرت کے اس پہلو کو دو مقام پر بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک مقام پر یہ آیت ہے وَفِی أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (51:19)۔ یعنی اور ان کے مال میں سائل اور محروم کا حصہ ہے۔ دوسرے مقام پر یہ آیتیںہیںوَالَّذِینَ فِی أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ، لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (70:24-25) ۔ یعنی اور جن کے مالوں میں متعین حق ہے، سائل اور محروم کا۔ حدیث میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِہِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِہِم (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1496)۔ان کے مالدار لوگوں سے لیا جائے گا، اور ان کے بے مال لوگوں کی طرف لوٹایا جائے گا۔
وسیع تر انطباق کے اعتبار سے، ان آیات اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے اندر اس قسم کی جو تعلیمات ہیں، ان کا مقصد یہ نہیں ہے کہ سماج میں مستقل طور پر دوقسم کے گروہ پیدا کیے جائیں، ایک محتاج لوگوں کا گروہ، اور دوسرا محتاج لوگوں کی مدد کرنے والا گروہ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کے نظام میں ایسا بار بار ہوتا ہے کہ کچھ لوگ فطری طور پر یا سماجی حالات کی بنا پر بظاہر معذور بن جاتے ہیں۔ اب سماج کا یا سماجی اداروں کا یہ کام ہے کہ وہ تعلیم و تربیت کے ذریعے ایسے لوگوں کی اپ لفٹ (uplift) کا انتظام کریں، ان کو معذورکے درجے سے اٹھا کر غیر معذور کے درجے میں شامل کریں۔ موجودہ زمانے میں ترقی یافتہ ملکوں میں یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ اہلِ اسلام کو چاہیے کہ وہ ان کوششوں کو جانیں، اوران کو اپنے سماجی نظام میں شامل کریں۔
Making the Disabled Abled
Minding the language of differently abled with this new DU curriculum
University’s English department is likely to add disability literature as part of its revised curriculum for the undergraduate courses. The new course is expected to be given to colleges as an elective in both the undergraduate and master’s degree programmes. According to a member of the English department, "The idea behind the new course is to make the undergraduate students view literature through the lens of disability and to evolve in them a fresh critical perspective for reading literary representations and to enable them to explore various forms of literary representations of disability. This will help make them aware of the different ways in which disability figures and operates in a literary narrative."
In short, this course aims to introduce the undergraduate students to the fundamental tenets of literary and cultural disability studies with the intention of bringing about a change in the way they have traditionally responded to disability and disabled people. Over the past two decades, literary and cultural studies have opened up new spaces from where the traditional notion of disability as a negative difference in relation to normalcy can be challenged. Raj Kumar, head of the department of English, said that they are looking to make the new syllabus "inclusive." The objective of disability studies, therefore, he said, was to "include literature from marginal sections to give students a fresh perspective."
On the MA course, already approved by DU’s Standing Committee, faculty member Anil Aneja said it will "promote sensitivity and understanding regarding disability" among future researchers and teachers by engaging students and will "familiarise students with historical outlook, disability theories and issues in relation to socio-cultural context and disability representations in literature."
The department said that by the end of this course, the students should be able to gain an understanding of issues and concerns of persons with disabilities who are only now being included in the mainstream higher education system, both in terms of numbers and as voices in the academic curriculum. HoD Kumar added that courses on caste are also being planned at both the BA and MA levels. (The Times of India, New Delhi, April 3, 2019, p. 4)
واپس اوپر جائیں

کام کیا ہے

کام کیا ہے۔کام نام ہے ممکن مواقع کو اپنے لیے اویل کرنا۔یعنی حالات کو پڑھ کر اپنے لیے نقشہ بنانا، اور اس کے لحاظ سے کام کرنا۔ رسول اللہ کی زندگی سے یہی معلوم ہوتا ہے۔جب آپ مکہ میں رہے،تو مکہ کے لحاظ سے کام کیا، اور جب مدینہ گئے تو مدینہ کے لحاظ سے کام کیا۔
مثلاً آپ نے مکہ میں تیرہ سال تک مشن کا کام کیا۔ مگر آپ نے مکہ میں بتوں کو نہیں توڑا،اور نہ ہی ان بتوں کے خلاف کوئی بیان بازی کی۔ اس کے برعکس، آپ نے یہ کیا کہ بتوں کی زیارت کے لیے آنے والے آڈینس (audience)کو دعوت دی۔ یعنی آپ کو یہ سمجھ میں آیا کہ مکہ میں دعوت کے کام کا موقع ہے، لیکن کعبہ سےبتوں کو ہٹانا قابل عمل نہیں ہے۔ اس لیے آپ نے وقتی طور پر ان بتوں کو اپنے حال پر باقی رکھا، اور بتوں کی زیارت کے لیے تمام عرب سے آنے والے آڈینس کے درمیان دعوت کا کام جاری رکھا۔
دنیا کا نظام اس طرح بنا ہے کہ یہاں ہر صورتِ حال میں کام کے مواقع موجود رہتے ہیں (الانشراح، 94:5-6)۔ لوگ اکثر مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر صورتِ حال میں کام کے مواقع تلاش کیے جائیں۔ ہر صورتِ حال میں مواقع (opportunities) کی بنیاد پر اپنے کام کی منصوبہ بندی کی جائے۔ مواقع کو تلاش کرنا، اور مواقع کی بنیاد پر اپنے عمل کا نقشہ بنانا، دانش مندانہ طریقہ ہے۔ یہ دنیا اسباب کی دنیاہے۔ اس دنیا میں وہی منصوبہ کامیاب ہوتا ہے، جو اسباب کی رعایت کرتے ہوئے بنایا جائے۔
اس دنیا میں منصوبہ بند کام کا نام کام ہے۔جو کام غیر منصوبہ بند انداز میں کیا جائے، وہ اپنے انجام کے اعتبار سے کوئی کام ہی نہیں۔ جب بھی ایسا ہو کہ آپ کا کوئی اقدام عملاًبے نتیجہ رہ جائے، تو ہرگز کسی دوسرے کو الزام نہ دیجیے، بلکہ خود اپنے منصوبے کی خامی تلاش کیجیے۔ اپنے منصوبے کی خامی کو درست کرکے آپ دوبارہ کامیابی تک پہنچ سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

فرقہ بندی کیا ہے

فرقہ بندی دراصل غلو کا نام ہے۔ اختلاف ایک فطری حقیقت ہے، نہ کہ پرابلم۔ اس دنیا میں غیر اختلافی سماج نہیں بن سکتا۔ اس لحاظ سے اختلاف بذاتِ خود کوئی مسئلہ نہیں۔ اختلاف صحت مند سوچ کی علامت ہے۔ زندہ لوگوں میں اختلاف ایک امر فطری ہے۔لیکن اختلاف کو ڈائلاگ کی حد میں رہنا چاہیے۔اختلاف کو نزاع کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے، جو کہ فرقہ بندی کا سبب ہوتا ہے۔
اختلاف (difference) کے معاملے میں ہمیشہ دو طریقے ہوتے ہیں— غلو کا طریقہ، ٹالرنس کا طریقہ۔ غلو کا طریقہ یہ ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ مختلف مسالک فکر کے درمیان ایک ہی طریقہ صحیح ہے، دوسرے تمام طریقے غلط ہیں، ان کو ختم ہوجانا چاہیے۔اس کے برعکس،دوسرا طریقہ رواداری یا وسعتِ نظری کا طریقہ ہے، یعنی یہ سمجھنا کہ جو اختلاف ہے، وہ تنوع (diversity)کا معاملہ ہے۔ جس کا عملی فارمولا اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے — ایک کی پیروی ، سب کا احترام :
Follow one, respect all
فقہی اختلاف کی بنیاد پر جو فرقے بنے ہیں، ان کا سبب یہی غلو(extremism) ہے۔ اختلاف اس وقت برائی بنتا ہے، جب کہ وہ غلو کی وجہ سے تفرق کا سبب بن جائے۔ قرآن میں اس کو ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے:مِنَ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَہُمْ وَکَانُوا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُونَ (30:32)۔ یعنی جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا، اور بہت سے گروہ ہوگئے۔ ہر گروہ اس میں مگن ہے، جو اس کے پاس ہے۔
اس معاملے کو سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے، تو وہ یہ ہوگا کہ اختلافات جس سے تفریق پیدا ہوتی ہے، وہ زیادہ تر جزئی معاملات میں ہوتے ہیں۔ جزئی معاملات میں صحیح طریقہ ہے  میرا مسلک بھی درست ہے، اور تمھارا مسلک بھی درست۔ جب طرفین کے درمیان یہ مزاج ہو، تو دونوں فریق ایک دوسرے کو ٹالریٹ (tolerate) کرنے کا مسئلہ سمجھیں گے، نہ کہ حق اور ناحق کا مسئلہ۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کی قربانی

قربانی کی ایک صورت وہ ہے، جب کہ آدمی کو اللہ کے راستے میں مال دینا پڑے۔ اسی طرح قربانی کی ایک اور صورت یہ ہے کہ آدمی کو اللہ کے راستے میں جسمانی مصیبت اٹھانی پڑے۔ یہ بلاشبہ قربانی کی صورتیں ہیں۔ لیکن ایک قربانی وہ ہے، جب کہ آدمی کو اپنے فطری تقاضوں پر روک لگانا پڑے۔ اس کے فطری تقاضے پورے نہ ہوں، اس کے باوجود اللہ کی راہ میں اس کی استقامت پر فرق نہ آئے۔ اس کی فطری ضرورتیں پوری نہ ہوں۔ مگر وہ کسی شکایت کے بغیر اس کوبخوشی برداشت کرلے۔ اللہ کی راہ میں اس کو اپنے فطری تقاضوں کو دبانا پڑے۔ مگر وہ اس کو رضامندی کے ساتھ گوارا کرلے۔
قربانی کی یہ قسم ایک غیر معمولی قربانی ہے۔ ایسی قربانی کو جھیلنا، بلاشبہ ایک سخت مشکل کام ہے۔ لیکن کوئی بندہ اللہ کی راہ میں جب اپنی رضامندی سے ایسی قربانی کو برداشت کرے، تو اس پر اس کو بلاشبہ اجر عظیم عطا ہوگا۔ ایسی قربانی کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے، جب کہ اللہ کی راہ میں آدمی کو اپنا ایک رول ادا کرنا ہو۔ لیکن اس رول کو ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی سادہ زندگی (simple living) گزارے۔اپنی خواہشات پر کنٹرول کرے۔ اپنی فطرت کے مانگ کو پورا نہ کرنے پر راضی ہو جائے۔ اسلام کی تاریخ میں ایسی مثالیںموجود ہیں، اور ایسےہی لوگوں نے اپنے عمل سے اسلام کی عظیم تاریخ بنائی ہے۔
انھیں قربانیوں میں سے ایک قربانی رائے کی قربانی ہے۔ قربانی کی یہ قسم اجتماعی زندگی میں پیش آتی ہے۔ مثلاً آپ ایک مشن کے تحت ایک گروپ میں شامل ہیں۔ گروپ کے درمیان مشورے کے وقت مختلف تجاویز سامنے آتی ہیں۔ اب ضرورت ہوتی ہے کہ ان میں سےایک رائے کو لیا جائے، اور بقیہ رائے کو نظر انداز کردیا جائے۔ ایسے موقعے پر جو آدمی اجتماعی تقاضے کے تحت اپنی رائے کو ترک کرنے پر راضی ہوجائے، اس نے بلاشبہ ایک بڑی قربانی دی۔ کیوںکہ رائے ترک کرنے کے لیے آدمی کو اپنے ایگو کو قربان کرنا پڑتا ہے، اورایگو کی قربانی بلاشبہ بہت بڑی قربانی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک مسنون دعا

پیغمبر اسلام کی ایک دعا حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک جزء یہ ہے: اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ... مِنْ خَلِیلٍ مَاکِرٍ عَیْنَہُ تَرَانِی وَقَلْبُہُ تَرْعَانِی إِنْ رَأَى حَسَنَةً دَفَنَہَا، وَإِذَا رَأَى سَیِّئَةً أَذَاعَہَا (الدعاء للطبرانی، حدیث نمبر 1339)۔ یعنی اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں چالاک دوست سے جس کی آنکھیں مجھ کو دیکھتی ہوں، اور اس کا دل میرے خلاف سوچتا ہو۔ اگر وہ کسی اچھائی کو دیکھے تو اس کو دفن کردے، اور اگر وہ کسی برائی کو دیکھے تو اس کو پھیلا دے۔
اس حدیث میںخَلِیل مَاکِر(چالاک دوست) سے مراد منافق انسان ہے۔علامہ المناوی (وفات 1621ء)نے اس کی شرح ان الفاظ میں کی ہے إنسان یظہر المحبة والوداد وہو فی باطن الأمر محتال مخادع(فیض القدیر، جلد2، صفحہ145)۔ یعنی وہ انسان جو محبت اورتعلق کا اظہار کرے، حالانکہ اندرونی طور پر وہ فریبی اور دھوکہ دینے والا ہو ۔ منافق انسان کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ بظاہر کسی کا دوست بنتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ اس کا دوست نہیں ہوتا۔ اپنے دہرے کردار (double standard) والے مزاج کی بنا پر وہ ایسا کرتا ہے کہ جب وہ کسی شخص سے قریب ہوتا ہے تو بظاہر وہ اس کے موافق بات کہتا ہے، لیکن عین اُسی وقت اس کا ذہن اس کے خلاف سوچتا ہے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ ایسے انسان سے بچے، وہ اس کی بظاہر خوشنما باتوں سے دھوکہ نہ کھائے۔
ایسے انسان کی سب سے زیادہ تباہ کن عادت یہ ہوتی ہے کہ جھوٹی بات کرنا اس کے لیے محبوب بن جاتا ہے۔ اگر وہ کسی کے بارے میں بظاہر کوئی غلط بات سنے، تو وہ خوب عیب زنی کرے گا۔ اس کے برعکس، اگر اس کو کوئی اچھی بات ملے تو اس کو لوگوں سے بیان کرنااس کو پسند نہیں آئے گا۔اِس کے مقابلے میں دوسرا انسان وہ ہے،جو دوسروں کاخیر خواہ ہوگا۔ وہ بولے گا تو وہی بات بولے گا ،جو اس کے دل میں ہے۔ وہ کسی انسان کی اچھی بات کا چرچا کرے گا، ورنہ وہ اس کے بارے میں خاموش رہے گا۔ اِن میں سے پہلا کردار غیر ربانی کردار ہے، اور دوسرا کردار ربانی کردار۔
واپس اوپر جائیں

تطفیف پر وَیل

تجارت کو منصفانہ بنیاد پر قائم کرنا، شریعتِ الٰہی کا ایک اہم اصول ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں ایک بنیادی حکم یہ دیاگیا ہے کہ تجارتی سودے میں کوئی تاجر نہ کم تولے، اور نہ کم ناپے، بلکہ ناپ اور تول میں پوری طرح عدل سے کام لے۔ اس سلسلے میں قرآن کے چند حوالے یہ ہیں:
وَلَا تَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ (11:84)۔یعنی ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔
وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیَاءَہُمْ (26:183)۔ یعنی لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو ۔
وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیزَانَ (55:9)۔ یعنی اور تول میں نہ گھٹاؤ۔
اس کے علاوہ قرآن کی سورہ المطففینمیں ایک اور حکم آیا ہے۔وہ آیات یہ ہیں وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ۔ الَّذِینَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ ۔ وَإِذَا کَالُوہُمْ أَوْ وَزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ ۔ أَلَا یَظُنُّ أُولَئِکَ أَنَّہُمْ مَبْعُوثُونَ۔ لِیَوْمٍ عَظِیمٍ۔ یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ (83:1-6) یعنی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے، جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں، اور جب اُن کو ناپ کر یا تول کردیں تو گھٹا کردیں۔ کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ اُٹھائے جانے والے ہیں، ایک بڑے دن کے لیے، جس دن تمام لوگ خداوند ِعالم کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
تطفیف کا لفظی معنی ہےناپ تول میں کمی کرنا۔سورہ المطففین کے حکم اور دوسری سورتوں کے حکم میں بظاہر لفظی اعتبار سے مشابہت ہے، یعنی دونوں میں ناپ اور تول کی زبان استعمال کی گئی ہے۔ مگر دونوں میںایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ دوسری سورتوں میں دینے کے وقت یک طرفہ طورپر کم تولنے یا کم ناپنے کا ذکر ہے۔ مگر سورہ المطففین میں اس کے برعکس یہ کہاگیا ہے — وہ لوگ جو دوسروں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں، اور جب اُن کو ناپ کر یا تول کردیں تو گھٹا کر دیں۔
اس فرق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری سورتوں میں تاجرانہ بد معاملگی سے منع کیا گیا ہے۔ مگر سورہ المطففین میں جو بات ہے، اُس کا تعلق تجارتی معاملے سے نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک انسانی کردار ہے، جس کو ناپ اور تول کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں، جن کامزاج یہ ہو کہ اپنے معاملے میں اُن کا معیار کچھ ہو، اور دوسروں کے معاملے میں اُن کا معیار کچھ اور۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اُن کی اپنی ذات کا ذکر ہو تو وہ صرف اپنی خوبیاں بیان کریں، اور جب دوسرے کا معاملہ ہو تو وہ اُس کی صرف برائیاں بیان کریں۔ اپنے معاملے کو بیان کرنے کے لیے اُن کو ہمیشہ خوب صورت الفاظ مل جائیں، اور دوسرے کے معاملے کو بیان کرنے کے لیے اُن کے پاس صرف برے الفاظ ہوں۔ وہ اپنے آپ کو تو ہمیشہ خوش نام رکھنا چاہتے ہوں، مگر دوسروں کے معاملے میں انھیں صرف اُن کی بدنامی سے دلچسپی ہو۔ ایک طرف وہ اپنے کارناموں کا بھرپور اعتراف چاہتے ہوں، اور دوسری طرف اُن کے سوا جو لوگ ہیں، اُن کا ذکر اس طرح کریں ،جیسے کہ انھوں نے کوئی اچھا کام ہی انجام نہیں دیا۔
ان آیات میں ناپ اور تول کی زبان بطور تمثیل استعمال کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس پیمانے سے دوسروں سے لے رہاہے، اسی پیمانے سے اُسے دوسروں کو دینا بھی چاہیے۔ مثلاً دوسروں سے وہ اپنا اعتراف چاہتا ہے تو اُس کو بھی دوسروں کا اعتراف کرناچاہیے۔ دوسروں سے وہ چاہتا ہے کہ وہ اُس کو بدنام نہ کریں، تو اُس کو بھی چاہیے کہ وہ دوسروں کو بدنام کرنے سے پرہیز کرے۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ حق کے معاملے میں اُس کا ساتھ دیں تو اُس کو بھی اسی طرح دوسروں کا ساتھ دینا چاہیے۔وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اُس کے بارے میں وہی بات کہیں جو واقعہ کے مطابق ہو تو اُس کو بھی دوسروں کے بارے میں ہمیشہ مطابقِ واقعہ بات کہنا چاہیے۔
تاریخ کے اکثر نزاعات بدگمانی کی بنیاد پر ہوئے ہیں، اور بدگمانی کا سبب ہمیشہ یہی تطفیف ہوتا ہے۔ دو افراد یا دو گروہوں کے درمیان جب بھی نزاع ہوئی، تو اُس کا سبب ہمیشہ یہی تطفیف تھا۔ لوگوں نے جس کو اپنا حریف سمجھ لیا، اُس کی اچھائیوں کو بالکل نظر انداز کردیا۔ البتہ اُس کی حقیقی یا غیر حقیقی برائیوں کو ڈھونڈھ کر نکالا، اور اُس کو عوام کے درمیان خوب پھیلادیا— گھر کی انفرادی لڑائی سے لے کر باہر کی قومی لڑائیوں تک ہر جگہ یہی تطفیف کا معاملہ کام کرتا ہوا نظر آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

نئے عہد کے دروازے پر

زیرِ نظر مضمون کو 50 برس قبل صدر اسلامی مرکز نے تحریر کیاتھا، اور جماعت اسلامی ہند کے ایک اجتماع بمقام امین الدّولہ پارک، لکھنؤ میں 18-19 فروری 1955 کے درمیان پڑھا تھا۔ مقالے کی افادیت کے پیش نظر دوبار ہ اس کا کچھ حصہ شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
ہم ایک نئے عہد کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ مستقبل کے مورّخ اسے ایٹمی دور سے تعبیر کریں گے، یا آئندہ کوئی مورخ ہی نہ ہوگا،جو انسانیت کی بربادی کی داستان قلم بند کرسکے۔ 2دسمبر 1942 کو جس ایٹمی قوت پر انسان نے قابو حاصل کیا ہے، اس میں دنیا کے لیے زندگی ہے یا موت۔ یہ ایک عظیم قوت ہے، جس سے مفید کام لیے جائیں، تو خوشی اور فارغ البالی کی ایک نئی دنیا بسائی جاسکتی ہے۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ یورینیم (Uranium)کے ایک ذرّے کے پھٹنے سے 10کرور وولٹ(volt) کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ چٹکی بھر مادّے میں اتنی قوت پوشیدہ ہے کہ اس سے ایک ریل گاڑی ساری دنیا کے چکر کاٹ لے۔
جو کام آج کئی لاکھ ٹن کوئلے سے لیا جاتا ہے، وہ صرف ایک پونڈ یورینیم کے ذریعے ممکن ہے۔ مثلاً ایٹمی قوت سے چلنے والا ایک سمندری جہاز بمبئی سے روانہ ہو، تو وہ ساری دنیا کا سفر کرکے واپس آسکتا ہے۔ راستے میں اسے دوبارہ ایندھن (Fuel)لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ قوت کا ایسا اتھاہ خزانہ ہے، جو انسان کو بجلی، تیل اور کوئلے سے بے نیاز کرکے نہایت سستے داموں سارے کام انجام دینے کے قابل بنا سکے گا۔ مگر اس قوت کا سب سے پہلا استعمال 6 اگست 1945 کو ایک خوف ناک بم کی شکل میں ہوا، جس نے 12میل مربع رقبہ کے شہر ہیرو شیما (Hiroshima) کو چند منٹ میں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ انسان اور حیوان اور درخت سب جَل بھُن کر خاک ہوگئے۔ صرف ایک ایٹمک بم کے نتیجے میں 7لاکھ حادثے ہوئے، ایک لاکھ 26 ہزار موتیں واقع ہوئیں۔ جن میں 66 ہزار تو فوراً مر گئے، اور باقی 60ہزار نے زخموں سے سِسک سِسک کر جان دی۔ 10ہزار لوگ ایسے تھے، جو فوراً بخارات میں تبدیل ہوگئے، اور کئی میل دور تک مکانات دھماکے سے گر پڑے۔
یہ 10سال پہلے کی بات تھی۔ اب اس طاقت سے جو بم بنائے گئے ہیں، وہ اور بھی زیادہ ہولناک ہیں۔ امریکا کی ایک تازہ ترین اطلاع میں بتایا گیا ہے کہ ان بموں کو اگر کوبالٹ (Cobalt)کے خول میں رکھ کر داغا جائے، تو اس سے نہایت طاقت ور ریڈیائی لہروں (radioactive) والا بادل پیداہوگا۔ یہ بادل ہوا کے ساتھ ساتھ ہزاروں میل تک پھیل جائے گا، اور ان کے تباہ کُن اثرات سے کوئی جان دار چیز بچ نہ سکے گی۔
ایٹمی سائنس کے ماہر پروفیسر براؤن (Prof. Brown) نے کہا ہے کہ اگر اتحادیوں نے روس اور چیکوسلواکیہ(Czechoslovakia / Czech Republic) کی سرحد پر کو بالٹ بم گرایا تو ڈیڑھ ہزار میل چوڑے اور تین ہزار میل لمبے علاقے میں کوئی ذی روح باقی نہ رہے گا۔ لینن گراڈ (Lenin Grade)سے لے کر بحیرہ اسود کے شمال مغربی ساحل پر واقع اوڈیسا (Odessa) تک ،اور پراگ (Prague) سے کوہ یورال (Ural) تک موت کا سنّاٹا چھا جائے گا۔ شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر لیوس لارڈ (Prof. Lewis Lord)نے بتایا کہ ایک ٹن والے چار سو کوبالٹ بم کے پھٹنے سے پوری زمین پر زندگی کا نام و نشان مٹ جائے گا، اور صدیوں تک دنیا غیرآباد رہے گی۔
تیسری عالمی جنگ آج اسی طرح کے ایک خوفناک امکان کی حیثیت سے دنیا کے سرپر کھڑی ہے، اور اگر یہ جنگ ہوئی تو بقول ڈاکٹر رادھا کرشنن (وفات1975) ’’یہ روس اور امریکا کی جنگ نہیں ہوگی، بلکہ دنیا کے عدم اور وجود کی جنگ ہوگی‘‘۔ یہ وقت کا اہم ترین مسئلہ ہے، جس کا حل سوچنے میں دنیا کے بڑے بڑے لوگ لگے ہوئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ تمام ایٹم بم سمندروں میں ڈال دیے جائیں۔ مگر ظاہر ہے کہ جولوگ کروروں اور اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپیے خرچ کرکے یہ خطرناک ہتھیار بنارہے ہیں، وہ کیا محض اتنا کہہ دینے سے انھیں سمندر میں پھینک دیں گے۔
کوئی کہتا ہے کہ عالمی حکومت قائم کرو۔ مگر دنیا کی مختلف قومیں جو ایک دوسرے کی دشمن ہورہی ہیں، کیا ان کو ملا کرکوئی بین الاقوامی حکومت (international state) قائم کی جاسکتی ہے۔ کوئی شخص بقائے باہم (co-existence) کا اصول پیش کرتا ہے۔مگر موجودہ حالات میں باہم مل کر رہنے کا نظریہ صرف روس اور چین کے لیے قابلِ قبول ہے، جواشتراکی جماعتوں کے ذریعے دنیا بھر میں اپنا جال بچھائے ہوئے ہیں، اور اپنے توسیعی ارادوں (programme of expansion) کے لیے جنگ سے زیادہ امن کے موسم کو مفید خیال کرتے ہیں —امریکا اور دوسرے جمہوری ممالک اس کو کسی طرح گوارا نہیں کرسکتے۔ کوئی صاحب فرماتے ہیں کہ دنیاکو امن اور جنگ میں سے ایک راستہ اختیار کرناہوگا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ دو میں سے کو ئی ایک ہی راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مگر آپ وہ کون سا اصول پیش کررہے ہیں ، جس سے دنیا تباہی کے بجائے امن کی راہ اپنائے۔
سوچئے! کیا اس طرح کی باتیں حالات کو درست کرسکتی ہیں۔ دنیا سائنس کی حیرت انگیز دریافتوں سے زندگی حاصل کرنے کے بجائے خود کشی کا سامان تیار کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ کیا یہ محض اس لیے ہے کہ اب تک کسی نے اس کے سامنے مذکورہ بالا قسم کی کوئی تجویز پیش نہیں کی تھی۔ اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے، تو وہ بہت بڑے دھوکے میں مبتلا ہے۔
یہ خوفناک صورتِ حال جو دنیا میں پیدا ہوگئی ہے، اس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ آدمی ایک صحیح آئڈیالوجی کے بغیر زندگی گزار رہا ہے۔ اس کو لوہے اور بجلی کی سائنس تو آگئی۔ اس نے وہ علم تو حاصل کرلیا، جس سے وہ مادّے (matter)کے جوہر (atom) کو پھاڑ سکے، مگر خود اپنی سائنس سے وہ اب تک محروم ہے۔ سمندروں میں تیرنا اور فضا میں اڑنا اس نے سیکھ لیا، مگر وہ فن (art)اس نے نہیں جانا، جس سے زندگی کی گاڑی چلا کرتی ہے، جس سے انسانی کوششوں کا رُخ متعین ہوتاہے، جو ایک انسان اوردوسرے انسان ، ایک قوم اور دوسری قوم کے درمیان حقوق وفرائض کا صحیح تعین کرتے ہیں۔ انسان نے اتنی بڑی بڑی دوربینیں (telescopes) ایجاد کیں، جن کا حال یہ ہے کہ وہ 18 ہزار میل کے فاصلے پر جلتی ہوئی ایک موم بتی کو بھی دیکھ لیتی ہیں۔ مگر خود انسان کیا ہے، اور دنیا کے اندر اس کی حیثیت کیا ہے، اس کو وہ اب تک نہ جان سکا۔
اس نے ایسی حسابی مشین (Eniac) بنائی، جو گھٹانے اور جوڑنے کے 10ملین سوالات صرف پانچ منٹ میں مکمل کردیتی ہے۔ سب سے پہلا سوال جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اس مشین نے صرف دو گھنٹے میں حل کیا، وہ اتنا بڑا تھا کہ اسے حل کرنے میں ریاضی کے دو تربیت یافتہ ماہروں کو 50 برس تک کام کرنا پڑتا ۔ مگر خود انسانی زندگی کے مسائل وہ اب تک حل نہ کرسکا۔ ہر نیا ’’ازم‘‘ (ism)جو ایجاد کیا جاتا ہے، وہ مسائلِ زندگی کو کچھ اور الجھا دیتا ہے۔
انسان نے سائنس کے ذریعے بڑے بڑے انجن والے جہاز(ship) بنائے، جن پر وہ سمندروں میں سفر کرتے ہیں۔ اس نے لوہے کی پٹریاں بچھائیں، جن پر ریلیں دَوڑتی ہیں۔ اس نے تاراور بے تار برقی کا وہ عظیم سلسلہ قائم کیا ،جس پر انسان کی آواز اپنا راستہ بھولے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے۔ مگر خود انسانی زندگی کے لیے راہِ عمل کیا ہو، وہ کس سمت میں چلے اور کس سمت جانے سے بچے، اس کا کوئی واضح نقشہ ابھی تک اسے نہیں ملا۔
اس نے ایسے اسٹیشن قائم کیے، جو فضا میں اڑنے والے ہوائی جہازوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مگر انسان کو کنٹرول کرنے والا کوئی نظام وہ ابھی تک دریافت نہ کرسکا۔ اس نے ایسے قوانین بنائے، جو آٹو میٹک ٹیلی فون اکسچینج (automatic telephone exchange) کے اندر لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے تار کو نہایت باقاعدگی کے ساتھ باہم جوڑتے رہتے ہیں، مگر وہ ایک گھر کے دو قریب ترین آدمیوں کو بھی ایک رشتے میں باندھنے کا اصول معلوم نہ کرسکا، اورحالت یہ ہے کہ آج ایک عورت کسی مرد سے نکاح کرتی ہے، اور کل اس لیے وہ طلاق لے لیتی ہے کہ رات کو مرد کے خرّاٹے کی آواز اسے پسند نہیں آئی۔
سفر اور مواصلات(communication) کے جدید ترین ذرائع نے ساری دنیا کو ایک کردیا ہے۔ آپ ہوائی جہاز سے اڑ کر چند گھنٹوں میںایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتے ہیں۔ ایک شخص نیو یارک میںٹیلی فون اٹھا کر دنیا کے کسی بھی ملک کے آدمی سے بات کرسکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود دریاؤں اور پہاڑوں کی حد بندی سے انسانیت آزاد نہیں ہوئی۔ سمندر کی مچھلیاں اٹلانٹک (Atlantic Ocean)سے بحرالکاہل (Pacific Ocean)اور بحر ہند (Indian Ocean)تک سفر کرتی ہیں، اور ان میں کوئی جنگ برپا نہیں ہوتی۔ فضا کی چڑیاں ایک موسم ایشیا میں گزارتی ہیں، اور دوسرے موسم میں وہ یورپ چلی جاتی ہیں۔ مگر ایک ملک کا آدمی دوسرے ملک کے لیے اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے ،اور ایک قوم دوسری قوم کو ہڑپ کر لینا چاہتی ہے۔
دراصل یہی وہ سب سے بڑی کمی ہے، جو آج ساری دنیا کو لاحق ہے۔ مشرق ہو یا مغرب ، روس ہو یا امریکا سب کے سب اسی ایک چیز کے محتاج ہیں۔ دنیا کا مستقبل اب اسی ایک سوال پر منحصر ہے۔ اگر اس نے کوئی صحیح آئڈیالوجی پالیا ہو، تو یہ دنیا جنت کا نمونہ بن سکتی ہے اور اگر یہ صحیح آئڈیالوجی نہ ملا، تو پھر کوئی چیز دنیا کو ایک ہولناک تباہی کے انجام سے نہیں بچا سکتی۔
دنیا میںزندگی کگزارنے کااصل مسئلہیہ ہے کہ آدمی کس طرح دنیا میں رہے، اس کی کوششوں کا رخ کیا ہو، اور وہ کون سی شخصیت ہو، جو مختلف انسانوں کے درمیان فیصلہ کرنے اور انھیں باہم جوڑے رکھنے کا کام کرے۔ مثلاً ریل گاڑی کو (1) ایک ڈرائیور کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس کو کنٹرول کرے۔ (2)ایک پٹری کی ضرورت ہوتی ہے، جس پر وہ بھٹکے بغیر سفر کرسکے۔ (3) اور ایک طے شدہ منزل کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی طرف وہ دوڑے۔ بس ان ہی تین چیزوں کا نام زندگی ہے۔ جس طرح ایک مشین کو اپنا کام صحیح طورپر انجام دینے کے لیے یہ تینوں چیزیں ضروری ہیں۔ اسی طرح انسان بھی اپنے مقصد وجود کو پورا نہیں کرسکتا، جب تک یہ چیزیں اسے حاصل نہ ہوں۔
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ وہ کون سی شخصیت ہو، جو انسانوں کی اس وسیع آبادی کا انتظام کرے، اور جس کی سب لوگ اختیارانہ طور پر اطاعت کریں، جس کے آگے انسان اپنے آپ کو سرینڈر کرے۔ یہی شخصیت وہ کنٹرولر (controller) ہوگی، جو ہمارے انجن کو قابو میں رکھ کر چلائے گی۔
دوسری چیز یہ ہے کہ وہ کون سا نظریہ ہو، جس کو سب لوگ تسلیم کریں، جس کے مطابق ایک شخص اور دوسرے شخص اور ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان فیصلہ کیا جائے، جو انسانی سرگرمیوں کے صحیح حدود (limitations) متعین کرے، اور زندگی کے مختلف مراحل میں ایک رویّے کوچھوڑ نے اور دوسرے رویّے کو اختیار کرنے کی ہدایات دے، یہ گویا وہ پٹری ہوگی جس پر انسانی زندگی کی گاڑی سفر کرے گی۔
تیسری چیز یہ کہ ہم جو اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں، تو ہمارے پیدا ہونے کا مقصد کیا ہے۔ وہ کون سی منزل ہے، جدھر ہم کو جانا چاہیے۔ کون ساکام کرنے میں ہمارے لیے بہتری ہے، اور کون سے کام ہیں جن کو کرنے کی صورت میں ہمیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اسی سے متعلق یہ سوال بھی ہے کہ مرنے کے بعد کیاہوگا۔ اگر یہ زندگی مرکر ختم ہوجاتی ہے تب تو ہمیں اس کے بارے میں کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن موت کے اُس پار بھی اگر کوئی دنیا ہے، اور اس کے بعد بھی اگر زندگی کا سلسلہ باقی رہتا ہے، تو ہم کو آج ہی سے اس کے لیے بھی سوچنا ہوگا۔ کیوں کہ پھر یہ ہماری موجودہ زندگی، موت کے بعد آنے والی زندگی سے الگ نہیں ہوسکتی۔ ہماری آج کی کارگزاریوں کا اثر لازماً کل کے حالات پر پڑے گا۔
اس سوال کے صحیح جواب کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے وہ منزل پالی ہے، جہاں پہنچ کر ہم کو اپنی زندگی کا مقصد حاصل ہوجائے گا۔ اگر ہم نے صحیح مقصد طے کیے بغیر اپنا سفر شروع کردیا، تو اس کی مثال ایسی ہوگی کہ ایک شخص کلکتہ جانے کے ارادے سے ریلوے اسٹیشن میں داخل ہو، اور سامنے پلیٹ فارم پر ایک گاڑی کھڑی دیکھ کر اس میں بیٹھ جائے، اور یہ معلوم نہ کرے کہ یہ گاڑی کہاں جارہی ہے۔ وہ اسی طرح انجان حالت میں سفر کرتا رہے، یہاں تک کہ ٹرین جب اپنے آخری اسٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہو کہ یہ امرتسر ہے، جو کلکتہ سے بالکل مخالف سمت میں ساڑھے گیارہ سو میل دور واقع ہے۔
ہم جس آئڈیالوجی کی دعوت لے کر اٹھے ہیں، وہ اسلام ہے۔ دنیا کے مختلف آئڈیالوجی کے مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس آسمان کے نیچے یہی ایک آئڈیالوجی ہے، جو زندگی کی گاڑی کو صحیح طورپر چلا سکتا ہے۔ اور اس کو وہاں پہنچا سکتا ہے جہاں یقیناً اسے پہنچنا ہے۔
اب میں بتاؤں گا کہ مندرجہ بالا تینوں بنیادی سوالات کا جواب اسلام کس طرح دیتا ہے، اور دوسرے جوابات جو اس سلسلے میں دیے گئے ہیں، ان میں کیا خرابیاں ہیں۔
پہلے سوال کا صحیح جواب پانے کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کائنات کا کوئی خدا ہے۔ اگر کوئی ہے ،جس نے کائنات کو بنایا ہے، اور جو اس پورے کارخانے کو چلا رہاہے، تو لازماً اسی کو ہمارا بھی خدا ہونا چاہیے۔یہ بات عقل اورمنطق کے بالکل خلاف ہے کہ پوری کائنات کا چلانے والا کوئی اور ہو ،اور انسان پر کسی دوسرے کا حکم چلے۔
یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ کسی ہاتھی کی پیٹھ پر نہیں رکھی ہوئی ہے، بلکہ وہ فضا میں معلق (suspended)ہے۔ زمین کی گولائی خط استوا (Latitude)پر 25 ہزار میل ہے۔ اس کے مقابلے میں سورج اتنا بڑا ہے کہ اگر اس کے ٹکڑے کیے جائیں، تو اس سے ہماری زمین جیسی 12 لاکھ 34 ہزار زمینیں نکل سکتی ہیں۔ پھر یہ بڑائی بھی آخری بڑائی نہیں ہے۔ آسمان میں کتنے ستارے ایسے ہیں، جو سورج سے ہزار گنا بڑے ہیں۔ ان کے علاوہ بے شمار ستارے ایسے ہیں، جو موجودہ دور بینوں کی دسترس سے باہر ہیں، اور جن کی وسعت کا اب تک کوئی اندازہ نہ کیا جاسکا۔ اس طرح کے اربوں اور کھربوں نہیں بلکہ لا تعداد ستارے فضا میں کسی سہارے کے بغیر ٹھہرے ہوئے ہیں، اور جذب و کشش کے عظیم قانون کے تحت اربوں سال سے گردش کررہے ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق (mere accident) ہے اور اس کے پیچھے کوئی قدرت نہیں ہے، جو انھیں سنبھالے ہوئے ہو۔
زمین سے چاند کا فاصلہ 2 لاکھ 40 ہزار میل ہے، اور سورج ہم سے 9 کرور 43 لاکھ میل دور ہے۔ کائنات کی وسعت کے اعتبار سے یہ فاصلہ بہت کم ہے۔ سورج اور چاند کے علاوہ کوئی ستارہ (star) یا سیّارہ (planet) ہم سے اتنا قریب نہیں ہے۔ ہم سے قریب ترین جو ستارہ ہے، وہ بھی اتنی دور ہے کہ اس کی روشنی زمین تک سوا چار سال میں پہنچتی ہے۔ واضح ہو کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سکنڈ ہے۔ یعنی اس ستارے کی روشنی 60 کھرب میل سالانہ کی رفتار سے مسلسل چلتی رہے، تو وہ ہماری زمین تک 51مہینے میں پہنچے گی۔جب کہ سورج کی روشنی صرف 9 منٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ یہ قریب ترین ستارے کا حال ہے۔ ورنہ بعض ستارے اور اکثر سحابیے(Nebulas) ہم سے اس قدر دور ہیں کہ ان کی روشنی ہم تک کروروں سال میں پہنچتی ہے، اور کتنے ستارے ایسے ہیں جن کی روشنی غالباً آج تک زمین پر نہیں پہنچی۔ حالانکہ اس نے اپنا سفر اس وقت شروع کیا تھا، جب کائنات کی ابتدا ہوئی تھی۔ اتنی لمبی چوڑی کائنات میں تمام دوسرے ستاروں کے خلاف سورج اور چاند کا ہم سے اس قدر قریب ہونا سخت حیرت انگیز ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایشیا اور یورپ اور افریقہ اورامریکا اور آسٹریلیا سب برفستان (ice-cap) ہوتے، اور روئے زمین پر کوئی جان دار دکھائی نہ دیتا— پھر یہ کیا محض اتفاق ہے، اور اس میں کسی کا سوچا سمجھا ہوا ارادہ شامل نہیں ہے۔
امریکا کے بعض بحری افسروں نے جو سمندر کی پیمائش کررہے تھے، ایک تجربہ کیا۔ انھوں نے موٹے شیشے کی کئی ہوا بند کھوکھلی گیندوں (vacuum balls)کو سمندر میں ڈالا۔ نکالنے پر معلوم ہوا کہ وہ پانی سے بھر گئی ہیں۔ خوردبین(microscope) سے دیکھاگیا تو شیشے کی سطح کے ٹوٹنے یا سوراخ ہونے کا کوئی نشان نہیں ملا۔ اس سے ثابت ہوا کہ پانی کے نیچے 15 ہزار فٹ کی گہرائی میں ایک مربع انچ پر اتنا دباؤ ہے کہ وہ ایک گھنٹہ سے کم وقفے میں پانی کو شیشے کی موٹی دیواروں سے گزاردیتا ہے۔ اب غور کیجیے کہ جب 15 ہزار فٹ کی گہرائی پر پانی کا دباؤ اس قدر ہے ،تو ان مقامات پر کتنے زور کا دباؤ پڑتا ہو گا، جہاں سمندر 5میل یا اس سے بھی زیادہ گہرے ہیں۔ چنانچہ یہ سمندر جو زمین کے تین چوتھائی حصے میں پھیلے ہوئے ہیں، اپنی تہ کے نیچے مسلسل فواروں کی شکل میں زمین کے اندر پانی داخل کررہے ہیں۔
زمین کا اندرونی حصہ جو 30-40 میل کے بعد شروع ہوتا ہے، نہایت گرم ہے۔ جب یہ پانی زمین کے اندر پہنچتا ہے تو وہ اندرونی حرارت سے بھاپ بن کر خارج ہوجاتا ہے۔ اگر کسی دن اوپری حصے کی طرح ساری زمین سرد ہوجائے تو جس طرح روئی یا جذب کرنے والےکاغذ میں پانی جذب ہوجاتا ہے، اسی طرح پانی نہایت تیزی کے ساتھ زمین میں جذب ہونا شروع ہوجائے گا، اور چند سو سال کے اندر سطح زمین سے پانی اس طرح غائب ہوجائے گا، جس طرح وہ ریگستانوں سے غائب ہوا ہے۔ ایسی حالت میںساری زمین غیرآباد اور ویران ہو کر رہ جائے گی ،اور ہر جگہ چاند جیسی خاموشی طاری ہوگی۔
پھر یہ کیا محض اتفاق ہے کہ انسانوں کو آباد کرنے کے لیے زمین کا اوپری حصہ ٹھنڈا اور اندرونی حصہ نہایت گرم ہے، اور آسمان میں کبھی بالکل اچانک طورپر ایک نہایت چمک دار ستارہ دکھائی دیتا ہے، جس کو نیا تارہ (Nava) کا نام دیاگیا ہے۔ موجودہ تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ نئے ستارے نہیں ہوتے، بلکہ پرانے دھیمے ستارے یک بیک بھڑک اٹھتے ہیں، اور بڑھتے بڑھتے 20-25 ہزار آفتابوں کے برابر تیز روشنی سے چمکنے لگتے ہیں۔ اس طرح کا عمل مختلف ستاروں کے ساتھ ہوتا ہے، مگر یہ ستارے چوں کہ ہم سے بہت دور ہیں، اس لیے ہماری زندگی پر ان کاکوئی اثر نہیں پڑتا، مگر سورج جو ہم سے قریب کا ستارہ ہے، اگر کسی دن تیز ہوکر بھڑک اٹھے تو اتنی شدید گرمی پیدا ہو کہ چند منٹ میں زمین سے ہر طرح کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔
ماہر ارضیات لونکوئسٹ (Mr. Lencois)کا خیال ہے کہ ہر ستارہ 40 کرور سال میں ایک بار بھڑک اٹھتا ہے۔ سورج بھی ایک ستارہ ہے۔ جہاں تک ارضی تحقیقات کا تعلق ہے، کم ازکم ایک ارب سال پہلے تک سورج کے بھڑکنے کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ پھر کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جو عمل دوسرے ستاروں کے ساتھ ہورہا ہے، وہ سورج کے ساتھ نہیں ہوتا، اور اس میں کسی بالا تر قوّت کا کوئی دخل نہیں ہے۔
زمین اور سورج دونوں اپنی اپنی کشش سے ایک دوسرے کو کھینچ رہے ہیں، اور وہ ایک خاص مقام پر آکر رک گئے ہیں۔ اگر کسی دن ایسا ہو کہ زمین کی قوت کشش (gravitational force) ختم ہوجائے تو وہ پوری انسانی آبادی کو لیے ہوئے اپنے تمام بڑے بڑے شہروں اور کارخانوں کے ساتھ صرف65 دن میں کھنچ کر سورج کے اندر جاگرے گی، اور پھر دم بھر میں اس طرح جل کر راکھ ہو جائے گی، جیسے کسی بہت بڑے الاؤ کے اندر ایک تنکا ڈال دیا جائے۔ مگر یہ دنیا کروروں سال سے آباد ہے ، اور پھر بھی یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے، اور اس کے پیچھے کوئی قدرت کام نہیں کررہی ہے۔
رات کے وقت ٹوٹنے والے تارے آپ نے دیکھے ہوں گے۔ یہ دراصل سخت مادے کے ٹکڑے ہیں جو رائفل کی گولی سے سیکڑوں گنا زیادہ تیز رفتار ہونے کے ساتھ بے شمار تعدا دمیں ہر وقت فضا کے اندر دوڑتے رہتے ہیں، اور زمین کے گرد کرۂ ہوا (atmosphere)سے مسلسل ٹکراتے ہیں۔ ہوا کا کرہ ایک غلاف کی شکل میں تمام دنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس کی بلندی تقریباً 250 میل ہے۔ اس ہواکی وجہ سے شہابِ ثاقب (Meteor)ہماری زمین تک پہنچنے نہیں پاتے، بلکہ وہ کرہ ٔہوا کی بالائی سطح تک پہنچتے ہی ہوا کے ساتھ ٹکراتے ہیں، اور اسی رگڑ کی وجہ سے اتنی حرارت پیدا ہوتی ہے کہ شہابِ ِثاقب جل اٹھتے ہیں۔ یہی جلنے کی روشنی ہے ،جو ہم کو ٹوٹتے ہوئے تارے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ اس ٹکراؤ سے شہابِ ثاقب پاش پاش ہو کر باریک ذرات کی شکل میں ہوا میں منتشر ہوجاتے ہیں۔ یہ ہوا کا غلاف دنیا کے گرد نہ ہوتا تو شہاب ثاقب بہت بڑی تعداد میں نہایت شدت کے ساتھ زمین پر گرتے۔ ہم اُن کے خلاف کوئی بچاؤ نہیں کرسکتے تھے، اور ساری دنیا کا وہی انجام ہوتا، جو انجام ہیروشیما اور ناگاساکی کا ایٹم بم کے حملے میں ہوچکا ہے۔ چاند کی سطح پر جو بہت سے غار ہیں، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اسی قسم کے بڑے بڑے شہاب ثاقب (Meteors) کی بم باری سے پیدا ہوئے ہیں ۔پتھروںکی یہ خطرناک بارش جو ہر وقت فضا میں ہورہی ہے، اس سے ہمارا بچے رہنا کیا محض ایک اتفاق ہے، اور اس میں کسی انتظام کرنے والے کا انتظام شامل نہیں ۔
کائنات کے اندر اس طرح کی بے شمار حقیقتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ کوئی عظیم قوت ہے، جو اس کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اور نہایت باقاعدگی کے ساتھ اس کا انتظام کررہی ہے۔ کوئی شخص کیا محض اس لیے خدا کا انکار کرسکتا ہے کہ وہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہوا نہیںہے۔جہاں جاکر وہ اسے دیکھ آئے۔ ایتھر(Ether) ایک ایسی چیز ہے، جو ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے، جس پر ٹیلی ویژن کی تصویریں اور لاسلکی (wireless)کے پیغامات سفر کرتے ہیں۔ مگر کیا ایتھر کو کسی نے دیکھا ہے۔ وہ ایک ایسا لطیف عنصر ہے، جس کا کوئی وزن نہیں۔ وہ نہ جگہ گھیرتا ہے، اور نہ کسی خورد بین سے دیکھا جاسکتا ہے ،مگر سب لوگ اس کا وجود تسلیم کرتے ہیں ۔
جو شخص یہ کہتاہے کہ میں خدا کو اس وقت تک نہیں مانوں گا، جب تک اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لوں، وہ گویا اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ کائنات کی وسعتوں کو اس نے پار کرلیا ہے۔ جس کائنات کے بارے میں اب تک ہم یہ نہ جان سکے کہ وہ کتنی لمبی چوڑی ہے، ہم اس کے پیدا کرنے والے کا کس طرح احاطہ کرسکتے ہیں۔ سورج خدا کی ایک بہت چھوٹی سی مخلوق ہے، مگر کروروں میل دور ہو کر اس کی روشنی کا یہ حال ہے کہ ہم اس پر نظر ٹھہرائیں تو ہماری آنکھ کی روشنی زائل ہوجائے۔ پھر وہ خدا جو ساری قوتوں کا خزانہ ہے۔ جو نہ صرف سورج بلکہ اس سے بڑے بڑے بے شمار ستاروں کو بھی روشنی اور حرارت پہنچا رہا ہے۔ کیا وہ ایسا ہوگا کہ ہم اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں۔
خدا کو ماننے کے لیے خدا کو دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اس کو ہر جگہ اس کی حیرت انگیز کاریگری میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ اس پھیلی ہوئی کائنات کااس قدر منظم ہو کر چلنا، اور اس کے مختلف عناصر میں باہم اس درجہ موافقت (harmony) ہونا، ایک خدا کی موجودگی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
ہندستان میں ریلوے کا ایک چھوٹا سا نظام ہے۔ 1955میں اس کے راستوں کی لمبائی مجموعی طورپر 34ہزار میل ہے، اور جس کے انتظام کے لیے اِس وقت تقریباً سوا نو لاکھ آدمی ملازم ہیں۔ مگر اتنے سارے آدمیوں کی دیکھ بھال کے ساتھ اس مختصر سی لائن پر جو ٹرینیں دوڑتی ہیں، ان سے ہر سال تقریباً 25 ہزار حادثے ہوتے ہیں۔ مگر کائنات کا اتنا بڑا کارخانہ کروروں اور اربوں سال سے چل رہاہے، اور اس میں کوئی ٹکراؤ پیدا نہیں ہوتا ۔ کیا یہ واقعہ اس بات کے ثبوت کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہاں ایک زندہ قوت موجود ہے، جو اپنے وسیع علم اور غیر معمولی اختیارات کے ذریعہ کائنات کے نظام کو چلارہی ہے۔
یورپ میں سترھویں صدی عیسوی میں سائنس اور کلیسا (church)کا جو تصادم ہوا، اور جس میں کلیسا نے بالکل غلط طور پر مذہب کا نام لے کر نئی سائنسی تحقیقات کو دبانے کے لیے نہایت وحشیانہ مظالم کیے۔ اس کے نتیجے میں سائنس دانوں کو مابعد الطبیعی نقطۂ نظر سے ایک ضد سی پیدا ہوگئی، اور انھوں نے کوشش کی کہ کائنات کی تعبیر اس طرح کی جائے جس سے ثابت ہو کہ کلیسا کی بنیاد جس خدا کے تصور پر قائم ہے، اس کا کہیں وجود ہی نہیں ہے۔ اس کائنات کا کوئی چلانے والا نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے آپ ایک بے جان مشین کی طرح چلی جارہی ہے۔ اسی زمانے میںلارڈ کیل وِن (Lord Kelvin) نے کہا تھا کہ جب تک میں کسی چیز کا مشینی ماڈل نہیں بنا لیتا، تب تک میں اسے سمجھ نہیں سکتا۔ دمدار ستارے جو جاہل قوموں کے نزدیک سلطنتوں کے زوال اور بادشاہوں کے انتقال کانشان سمجھے جاتے تھے، جب ان کی حرکت، تجاذب (gravitation) کے عالم گیر قانون کے مطابق ثابت کی گئی، تو نیوٹن (Isaac Newton)نے کہا کہ کیا اچھا ہو، اگر دوسرے واقعاتِ قدرت بھی اسی قسم کے استدلال سے میکانکی اصولوں (mechanical principles) کے ذریعے اخذ ہوسکیں ۔
مگر یہ ایک جذباتی ردِّعمل تھا، اور بہت جلد معلوم ہوگیا کہ کائنات کی صحیح توجیہہ (explanation) بن نہیں سکتی ،اگر اس کو صرف ایک بے دماغ مشین مان لیا جائے۔ چنانچہ اب بڑے بڑے سائنس داں کائنات کے اندر ایک کار فرما قوت کو ماننے پر مجبور ہورہے ہیں۔مثال کے طورپر انگلستان کے مشہور سائنٹسٹ سرجیمز جینز (Sir James Jeans) نے اپنے ایک مضمون میں زمین اور آسمان کے حیرت انگیز نظام پر گفتگو کرتے ہوئے آخر میں لکھا ہے:
’’کائنات ایک بہت بڑی مشین کے بجائے ایک بہت بڑے ذہن (mind)سے زیادہ مشابہ معلوم ہوتی ہے۔ مادے کے اس نظام میں دماغ اتفاقی طورپر محض ایک اجنبی کی حیثیت سے داخل نہیں ہوگیا ہے، بلکہ یہی غالباً مادے کے اِس نظام کو بنانے والا، اور اس کے اوپر فرماں روائی کرنے والا ہے۔ پھر یہ دماغ یقیناً ایک عام انسان کے دماغ کی طرح نہیں ہے، بلکہ وہ ایسا دماغ ہے جس نے مادے کے جوہر (atoms) سے انسانی دماغ کی تخلیق کی ہے، اور یہ سب کچھ ایک اسکیم کی شکل میں اس کے ذہن میں پہلے سے موجود تھا‘‘
The Mysterious Universe, by Sir James Jeans, p. 137, 1938 (London)
یہی ’’ذہن‘‘ دراصل وہ عظیم اوربرتر خدا ہے، جو تمام انسانوں کا مالک اور ان کا حاکم ہے۔ ساری کائنات اسی خدا کی فرماں برداری میں لگی ہوئی ہے۔ پھر انسان کا راستہ کیوں کر اس سے الگ ہوسکتا ہے۔ ایک ریل گاڑی جو کسی تیز رفتار انجن کے ساتھ بندھی ہوئی دوڑی چلی جارہی ہو، اس کا کوئی ایک ڈبہ اگراپنے آپ کو اس سے الگ کرکے کوئی دوسرا راستہ بنانا چاہے، تو اس کا انجام تباہی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک صحیح ترین راستہ صرف یہ ہے کہ انسان بھی اسی ہستی کا مطیع ہوجائے، جس کی اطاعت اس کے گرد و پیش کا سارا عالم کررہا ہے۔ آسمان کے ستارے اگر جذب و کشش کے نظام سے اپنے آپ کو الگ کرلیں، تو آپس میں وہ ٹکرا کر تباہ ہوجائیں، اور ایک دن بھی ان کی زندگی باقی نہ رہے۔
یہی حال آج انسان کا ہے۔ انسان نے اگرخدا کا حکم ماننے سے انکار کیا، تو گویا اس نےپورے نظام کائنات سے الگ راستہ اختیار کیا۔اس نے وہ راستہ چھوڑ دیا، جس پر مخلوقات کا پورا قافلہ چلا جارہا ہے، یعنی فطرت کا راستہ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانی زندگی میں سخت ابتری پیدا ہوگئی ہے۔ امن اور خوش حالی اور سکون کے الفاظ ڈکشنریوں میں لکھے ہوئے تو ملتے ہیں، اور لیڈروں کی زبان سے آئے دن سنے بھی جاتے ہیں، مگر واقعہ یہ ہے کہ دنیا اب ان نعمتوں سے محروم ہوچکی ہے۔ اور نہایت تیزی سے وہ ایک خوفناک انجام کی طرف دوڑی چلی جارہی ہے۔
اس کا علاج صرف یہ ہے کہ آدمی اپنے خالق کی طرف اپنے اختیار سے پلٹ آئے۔ وہ اس کو اپنا رب اور خالق تسلیم کرے، اور اس رسی کو مضبوطی سے تھام لے، جس کے علاوہ ایک مرکز پر جمع ہونے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔
انسانی جسم کا تجزیہ کیاگیاتو معلوم ہوا کہ 12عناصر ہیں، جن سے مل کر آدمی کا جسم بنا ہے۔ ہائیڈروجن،آکسیجن، نائٹروجن، کاربن، فاسفورس، گندھک، کیلشیم،میگنیشیم، پوٹاشیم، سوڈیم، کلورین اور فولاد۔ یہی 12 چیزیں ہیں جن سے ننانوے فی صد انسانی جسم کی ترکیب ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ 3عناصر (elements)اور ہیں، جن کی ضرورت جسم کو برابر پڑتی ہے— آیوڈین، میگنیز اور تانبا۔
یہ عناصر جس مقدار میں جسم کے اندر موجود ہیں، ان کا تخمینہ کرکے قیمت کا اندازہ کیاگیا تو 25 فرانک ہوئی۔ اس 25فرانک کے مادّے سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق کا بنانا کیا محض ایک کھیل ہے ،جو چند دن کے لیے کھیلا گیا ہے۔ ہم بولتے ہیں۔ بظاہر یہ بہت آسان سی بات ہے، مگر کوئی چھوٹے سے چھوٹا حرف بولنے کے لیے بھی جسم انسانی کے اندر70نسوں (veins) کو حرکت کرنی پڑتی ہے۔ ہم دیکھتے اور سنتے ہیں، لیکن فضا کے اندر روشنی اور آواز کی لہریں پیدا ہونے کا عجیب و غریب انتظام نہ ہوتا تو ہم آنکھیں رکھ کر بھی اندھے ہوتے اور کان ہوتے ہوئے بھی ہمیں کچھ سنائی نہ دیتا۔ یہ خون جو ہم کو قوت اور زندگی بخشتا ہے۔ اس کو دل سے جسم کے مختلف حصوںمیں پہنچانے کے لیے جتنی شریانیں (arteries) ہیں، اور پھر دل کی طرف واپس لانے کے لیے جو وریدیں (veins) ہیں، اگر ان کے سروں کو ایک دوسرے سے ملا کرناپا جائے تو 3 لاکھ 50ہزار میل کی لمبائی ہوگی، جو پوری زمین کے گرد چودہ بار لپیٹی جاسکتی ہے۔
پھر یہ دماغ جس سے ہم سوچتے ہیں، اور جو 3 لاکھ سے زیادہ اعصابی تاروں کے ذریعہ پورے بدن کو کنٹرول کرتا ہے، کس قدر عجیب ہے۔ کیا یہ حیرت انگیز انسان بس اسی لیے ہے کہ چند سال دنیا میں زندگی گزارے ،اور اس کے بعد مرکر مٹی میںمل جائے۔ یہ انسان جس کی زندگی کے لیے ہوا ا ور پانی اور سورج کا انتظام کیاگیا ہے، جس کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے زمین میں بے شمار قسم کی چیزیں پیدا کی گئی ہیں، کیا اس کا انجام بس یہی ہے کہ وہ بچہ سے جوان ہو، پھر بوڑھا ہو، اور پھر ایک دن مرکر ختم ہوجائے۔
ایک اور پہلو سے دیکھیے، ایک شخص بہت نیک اور معقول ہے، مگر اس کی ساری زندگی تکلیف میں گزر جاتی ہے۔ وہ خود کسی کا مال نہیں چھینتا، مگر دوسرے اس کے گھر میں چوری کرتے ہیں۔ وہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا، مگر دوسروں سے اسے تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ وہ جھوٹ نہیں بولتا، مگر دوسرے اس پر جھوٹا الزام لگاتے ہیں۔ وہ جب عدالت میں داد رسی کے لیے جاتا ہے ،تو وہاں بھی دوسرے لوگ اپنے پیسے اور سفارش کے زور سے مقدمہ جیت جاتے ہیں، اور الٹے اسی کو سزا ہوجاتی ہے۔ کیا اس ظلم کا کوئی انصاف نہیں ہوگا۔
کچھ لوگ اپنے ذہن سے ایک نظریہ گھڑتے ہیں، اور اس کو نافذ کرنے کے لیے لاکھوں بندگانِ خدا کو قتل کرکے ان کی اِملاک اور جائداد چھین لیتے ہیں، اور پورے ملک کوجیل خانہ کی زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کیا اِس کی کوئی باز پرس نہیں ہے، کچھ لوگ ملک کے نظم ونسق پر قابض ہو کر قدرت کے ذرائع کی اس انداز میں تحقیق کرتے ہیں کہ ان سے کیسے کیسے خطرناک ہتھیار بنائے جاسکتے ہیں، اور پھر بموں کی بارش سے پورے پورے شہروں اور ملکوں کو آگ میں بھون ڈالتے ہیں۔ کیا اس کی کوئی پوچھ ان سے نہیں ہوگی۔
کسی ملک میں چند سرمایہ داروں کے پاس اناج اور پھل کی کافی پیداوار ہوتی ہے، مگر وہ بھاؤ گرنے کے ڈر سے لاکھوں من پیداوار کو جلا ڈالتے ہیں،یا سمندر میںپھینک دیتے ہیں۔ حالانکہ خود ان کے ملک میںاور ملک کے باہر بہت سے لوگ انھیں چیزوں کے لیے ترستے ہیں۔ کیا ایسی کوئی عدالت نہیں ہے، جہاں انھیں اپنے اس فعل کا جواب دیناہو۔
اس وقت دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے۔ اس کی ہم کوئی توجیہہ نہیں کرسکتے ،اگر ہم ایک ایسے دن کو تسلیم نہ کریں، جب کہ ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کی کارگزاریوں کی جانچ ہوگی، اور اس کے کارنامے کے مطابق، اس کو اچھا یا برا بدلہ دیا جائے گا۔ اس طرح کے ایک دن کو مانے بغیر یہ دنیا محض بچوں کا کھیل نظر آتی ہے۔
اس طرح کا ایک دن ماننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ دنیا میں آدمی کو صحیح رویہ پر قائم رکھنے کے لیے اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے۔ اگر زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اور مرنے کے بعد کوئی حساب نہیں ہونے والا ہے، تو پھر کیا ضرورت ہے کہ آدمی سچائی اور دیانت داری اختیار کرے، کیوں نہ اپنے فائدے کے لیے وہ جھوٹ بولے، کیوں نہ رشوت لے اور غبن کرے، کیوں نہ ایک قوم دوسری قوم پر ڈاکہ ڈالے۔ اس نظریے کو نہ ماننے کے بعد پھر کوئی ایسا عامل (factor) باقی نہیں رہتا، جو آدمی کو صحیح رویہ پر برقرار رکھنے کے لیے مجبور کرسکتا ہو، پھر یہ انسانی آبادی ایک جنگل میںتبدیل ہوجاتی ہے، جہاں ایک جانور دوسرے جانور کو کھا جانا چاہتا ہے، اور کوئی فرد کسی اخلاقی اور انسانی ضابطے کا پابند نہیں ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو اس کی سب سے پہلی دریافت، شعوری طور پر تو نہیں، مگر غیرشعوری طور پر یہ ہوتی ہے کہ کیسا عجیب ہے ،وہ خالق جس نے پوری دنیا کو میرے لیے کسٹم میڈ دنیا بنا دیا۔ رحم مادر، اسی طرح خارجی دنیا کا پورا نظام، عین وہی ہے، جو انسان کے لیے مطلوب تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا کے لیے بنا ہے، اور دنیا انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔
واپس اوپر جائیں

جدید دور کی ایک دین

قدیم زمانے سے یہ طریقہ چلا آرہا تھا کہ بیٹے کے ذریعے تسلسل کو قائم رکھنا۔ مثلا ً سردار کا بیٹا سردار، بادشاہ کا بیٹا بادشاہ، خلیفہ کا بیٹا خلیفہ، اسی طرح عہدیدار کا بیٹا عہدیدار، وغیرہ۔ یہ طریقہ برابر قائم رہا۔ اس طرح نظام کا عملی ڈھانچہ تو قائم رہا، لیکن اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ غیر اہل (incompetent) افراد عہدوں پر قابض ہونے لگے۔ مغرب نے اس کے بدل کے طور پر ادارے (institution) کا طریقہ رائج کیا، اور ادارے میں یہ اصول رکھا کہ الیکشن کے ذریعے عہدیدار منتخب کیے جاتے رہیں۔ اس طریقے میں معیار کو باقی رکھنے کی تدبیر وہ اختیار کی گئی، جس کو کوالیٹی ایجوکیشن (quality education) کہا جاتا ہے۔ یعنی ایجوکیشن کے ذریعے بہتر افراد کا عہدے تک پہنچنا۔
غیر ترقی یافتہ ملکوں میں بھی اس طریقے کو اپنایا گیا ہے، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ غیر ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ بھی بظاہر کوالیٹی ایجوکیشن کا نام لیتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ وہ رعایت اور ریزرویشن کا طریقہ بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ چنانچہ رعایت اور ریزرویشن کے طریقے نے ان ملکوں میں کوالیٹی ایجوکیشن کا عملاً خاتمہ کردیا ہے۔
کوالیٹی ایجوکیشن کی کامیابی کی واحد شرط یہ ہے کہ پوری اصول پسندی کے تحت اسٹرکٹ کامپٹیشن (strict competition) کا اصول اختیار کیا جائے۔ اسٹرکٹ کامپٹیشن کا مطلب ہے— مقابلے کا سامنا کرو، یا ختم ہوجاؤ (compete or perish)۔ اس اصول کو سختی سے اختیار کیے بغیر کوالیٹی ایجوکیشن کا کوئی وجود نہیں۔
اسٹرکٹ کا مپٹیشن کو سختی سے رائج کیا جائے ،تو یہ ہوگا کہ صرف اہل لوگ منتخب ہوکر اوپر آئیں گے، اور جو نااہل افراد ہیں، وہ خود سسٹم کے تحت اپنے آپ چھٹ کر الگ ہوجائیں گے۔ مگر الگ ہونا، سادہ طور پر کنارے لگنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ہے ایسے افراد کے لیے دوسرے چائس کو اویل کرنے کا موقع دینا۔
واپس اوپر جائیں

فکر کی تشکیل

ایک قاریٔ الرسالہ نے یہ سوال کیا ہے کہ فکر کی تشکیل میں سب سے زیادہ کن عناصر پر توجہ دینی چاہیے۔ (حافظ اے ایچ دانیال، پٹنہ، بہار)
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تاریخ ایک مسلسل سفر کا نام ہے۔ بہت زیادہ آبجیکٹیو مطالعہ کے ذریعے سب سے پہلے یہ جاننا ہے کہ اس سفر میں ہم کہاں ہیں۔ یہ سب سے پہلی شرط ہے ۔مثلاً دور جدید دراصل نئے مواقع وجود میں آنے کا زمانہ ہے۔ جس چیز کو جدید تہذیب کہتے ہیں، وہ دراصل جدید مواقع (new opportunities)کا دوسرا نام ہے۔ لیکن عین اسی زمانے میں یہ ہوا کہ مغل سلطنت اور عثمانی سلطنت کے سقوط کا واقعہ پیش آگیا۔
یہ واقعہ کسی کے ظلم یا سازش کی بنا پر نہیں ہوا، بلکہ وہ مسابقت کی بنا پر ہوا۔ یہ دنیا مسابقت (competition) کی دنیا ہے۔ یہاں مسلسل طور پر افراد اور قوموں کے درمیان مسابقت جاری رہتی ہے۔ جو فرد یا قوم مسابقت میں اسٹینڈ کرتے ہیں، ان کو زندگی ملتی ہے، اور جو اسٹینڈ نہیں کرتے، وہ زندگی کےمیدان میں پیچھے چلے جاتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلم لیڈروں نے اس راز کو نہیں سمجھا۔ جو واقعہ بر بنائے مسابقت ہوا تھا، اس کو انھوں نے بر بنائے ظلم سمجھ لیا، اور مفروضہ ظالموں کے خلاف لڑائی لڑنے میں مشغول ہوگئے۔ یہ بلاشبہ اندازے (assessment) کی غلطی تھی۔ اب تمام مسلم رہنماؤں پر یا ان کے ماننے والوں (followers)پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعلان کریں، تاکہ وہ اپنے عمل کی زیادہ صحیح منصوبہ بندی کرسکیں۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے پچھڑے پن کا جو واقعہ پیش آیا ، اس کا تقاضا تھا کہ تمام مسلمان، عرب و عجم، اپنے عمل کی ری پلاننگ کریں۔ اس کے برعکس، انھوں نے یہ کیا کہ جدید قوموں کو دشمن قرار دےکر ان سے لڑنا شروع کردیا۔ یہ اندازے کی سنگین غلطی تھی۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اپنے اس غلط اندازے کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

گِور نیشن

امریکا کی کامیابی کا رازیہ ہے کہ وہ آج کی دنیا میں ایک دینے والی قوم (giver nation) بنی ہوئی ہے۔ امریکا دنیا سے جتنا لے رہا ہے، اس سے زیادہ وہ دنیا کو دینے والا بنا ہوا ہے۔ اس راز کو میں نے پہلی بار 1980 میں اپنے ایک ذاتی تجربے سے جانا۔ ہمارے ساتھیوں نے 1980 میں قرآن مشن کے لیے نظام الدین ویسٹ میں ایک بلڈنگ بنائی۔ یہ بلڈنگ جب بن کر تیار ہوگئی، تو معلوم ہوا کہ اس کے بیسمنٹ میں نیچے سے پانی آگیا ہے۔ میں اس کو دیکھنے گیا، تو بیسمنٹ پورا کا پورا پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اس وقت ایک مقامی انجینئر کو بلایا گیا، انھوں نے دیکھنے کے بعد کہا کہ یہ بلڈنگ پوری کی پوری فلوٹنگ اسٹیٹ (floating state) میں آگئی ہے۔ موجودہ حالت میں وہ ناقابل استعمال ہے۔ اب آپ کے لیے ایک ہی صورت ہے کہ آپ بلڈنگ کو توڑ دیں، اوردوبارہ اس کو تعمیر کرائیں۔
یہ ایک بے حد مشکل مسئلہ تھا۔ اس وقت ہمارے ایک جاننے والے تھے، جن کا نام رحمان نیر تھا۔ وہ اگلے دن اپنے ایک دوست کو لے کر آئے، یہ صاحب امریکا سے انجینئرنگ کی پڑھائی کرکے آئے تھے۔ انھوں نے پوری بلڈنگ کا معائنہ کیا، اور اس کے بعد کہا کہ آپ صرف یہ کیجیے کہ مجھ کو پچاس بوری سمنٹ، اور ضروری مقدار میں ریت منگواکر دے دیجیے۔ ان کے مشورے کے مطابق ، ایسا ہی کیا گیا۔ انھوں نے مزدور بلا کر فوراً کام شروع کرادیا، اور جلد ہی ایسا ہوا کہ پانی کا مسئلہ ختم ہوگیا، اور بلڈنگ آج تک اپنی جگہ پر کھڑی ہوئی ہے، اور سارا کام معمول کے مطابق انجام پارہا ہے۔ مذکورہ انجینئر نے بتایا کہ پہلے زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ سمنٹ کا موٹا فرش بنا دیا جائے، تو پانی کے اوپر روک قائم ہوجائے گی۔ لیکن بعد کو معلوم ہوا کہ سمنٹ کا فرش خواہ کتنا ہی موٹا بنایا جائے، وہ سوراخ دار (porous) ہوتا ہے۔ اس لیے فرش بننے کے بعد پانی رِ سنا شروع ہوجاتا ہے، اور پانی کا مسئلہ ختم نہیں ہوتا۔ اس کے بعد امریکا میں ایک کیمیکل ایجاد کیا گیا۔ اس کیمیکل کو سمنٹ میں ملادیا جاتا ہے، تو ایسا فرش بنانا ممکن ہوجاتا ہے، جو پانی کو کامیابی کے ساتھ روکنے والا ہو۔
واپس اوپر جائیں

الفاظ کا جنگل

کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ مسلسل طور پر بولتے ہیں۔ان کے الفاظ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس الفاظ کا خزانہ ہے، لیکن یہ الفاظ معانی سے خالی ہوتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں نہ کوئی تجزیہ ہوتا ہے، نہ کوئی وزڈم (wisdom) ، نہ کوئی گہری معنویت۔آپ ان کی باتوں کو گھنٹوں سنتے رہیے، لیکن ان کی باتوں میں آپ کو کوئی حکمت یا کوئی دانشمندی کی بات نہیں ملے گی۔ حتی کہ آپ اس سے بھی بے خبر رہیں گے کہ انھوں نے کیا کہا۔ ان کی باتوں میں آپ کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے پاس حافظہ (memory)ہوتا ہے، مگر ان کے پاس دانش مندی (wisdom) نہیں ہوتی۔ ان کے پاس گہرا مطالعہ نہیں ہوتا۔اقبال نے ایک شعر کہا تھا، وہ شعر یہ ہے
قلندر جُز دو حرفِ لااِلہ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہِ شہر قاروں ہے لُغَت ہائے حجازی کا
اقبال نے یہ شعر خواہ جس معنی میں کہا ہو، وہ ایک اور اعتبار سے بالکل درست ہے،ا ور وہ ہے آج کل کے لکھنے اور بولنے والے لوگوں کا طبقہ۔ آج کل جو لوگ اسٹیج پر بولتے ہیں، یا مجلات میں لکھتے ہیں، ان کی باتوں کو سنیے یا پڑھیے۔ ان سب کا خلاصہ تقریباً ایک ہے۔ الفاظ کی بھرمار، لیکن معانی کا وجود نہیں۔
اس مسئلے پر غور کرنے کے بعد میں نے سمجھا ہے کہ خواہ تقریر کا معاملہ ہو، یا تحریر کا، وہ بامعنی اس وقت بنتی ہے، جب کہ صاحبِ تحریر یا صاحبِ تقریر میں تخلیقی صلاحیت (creativity) موجود ہو۔ صرف تعلیمی سند یا مطالعہ اس مقصد کے لیے کافی نہیں۔ بڑے سے بڑا آدمی خواہ وہ سند یافتہ ہو، یا صاحبِ مطالعہ ، کبھی وہ بامعنی تقریر یا تحریر کا مالک نہیں بن سکتا۔ ضروری ہے کہ اس کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پائی جائے۔ تخلیقی فکر کے بغیر آدمی باتوں کو دہرا سکتا ہے، لیکن وہ کسی بامعنی تحریر یا تقریر کو وجود میں نہیں لاسکتا۔ بامعنی تقریر یا تحریر ہمیشہ تخلیقی فکر کا نتیجہ ہوتی ہے، نہ کہ تکرار ِالفاظ کا نتیجہ۔ تخلیقی فکرکا مالک کون ہے، یہ وہ انسان ہے، جو آخری حد تک کھلا ذہن (open mind) رکھتا ہو، جو اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر خالص موضوعی (objective) انداز میں رائے قائم کرسکتا ہو۔
فارسی کا ایک مثل ہے یک من علم را، دہ من عقل می باید۔ یعنی ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے ۔یہ بات اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ آدمی بولنے سے زیادہ سوچے، وہ بولنے سے زیادہ تجزیہ (analysis)کرے۔وہ ظاہری اہمیت کی چیزوں سے اوپر اٹھ کر معنوی اہمیت کی چیزوں میں گم ہوجائے ۔اس کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) پائی جاتی ہو۔ وہ تعصب سےدور ہو۔ اس کا ذہن نفرت اور انتقام کے جذبات سے خالی ہو۔ وہ غیر متاثر انداز میں واقعات کا تجزیہ کرے۔وہ اپنے قریبی حالات سے اوپر اٹھ کر سوچے۔
تخلیقی فکر فطرت کا عطیہ ہے۔ تخلیقی فکر ایک خداداد صلاحیت ہے۔ تخلیقی انسان کے اندر وہ صفت ہو تی ہے،جس کو حدیث میں دعا کی شکل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےاللَّہُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا،وَارْزُقْنَااجْتِنَابَہِ، وَلَا تَجْعَلْہُ مُلْتَبِسًا عَلَیْنَا فَنَضِلَّ (تفسیر ابن کثیر، 1/427)۔ یعنی اے اللہ، ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھا، اور اس کے اتباع کی توفیق دے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دکھا، اور اس سے بچنے کی توفیق دے، اور اس کو ہمارے اوپر غیر واضح نہ بنا کہ ہم گمراہ ہو جائیں۔ اسی طرح یہ دعا اللَّہُمَّ أَرِنَا الْأَشْیَاءَ کَمَا ہِیَ (تفسیر الرازی، جلد 13، صفحہ 37) ۔ یعنی اے اللہ، مجھے چیزوں کو اسی طرح دکھا، جیسا کہ وہ ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ذہنی ارتقا کا اعلی درجہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر تخلیقی فکر پیدا ہوجائے۔ایسا آدمی ہر لمحہ اپنے لیے انٹلکچول فوڈ حاصل کرتا رہتا ہے۔ اس کی ذہنی زندگی کبھی اور کسی حال میں ختم نہیں ہوتی۔جو لوگ صرف تکرار الفاظ کو جانتے ہوں، وہ الفاظ کا جنگل اگاسکتے ہیں، لیکن معانی کا باغ وجود میں نہیںلاسکتے۔الفاظ کا جنگل اگانے کے لیے حافظہ (memory) کافی ہے۔ اگر کسی کا حافظہ اچھا ہو، تو وہ بہ آسانی الفاظ کا جنگل اگاسکتا ہے۔ لیکن معانی کا باغ اگانا ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ معانی کا باغ صرف وہ لوگ اگاسکتے ہیں، جو تخلیقی فکر کے حامل ہوں۔
واپس اوپر جائیں

ایک مسلم خاتون

السلام علیکم مولانا صاحب، میں ایک مسلم خاتون ہوں، میری عمر 32 برس ہے، مجھے 11 سال قبل اسلام کی ڈسکوری ہوئی، تب سے میںاسلام پر قائم ہوں۔میں ایک جگہ ملازمت کرتی ہوں، میرے والد بزنس مین ہیں، لیکن میں اپنی نانی کے ساتھ رہتی ہوں۔میرا شہر وشاکھا پٹنم، آندھراپردیش کا ساحلی شہر ہے، چنانچہ میں ہر دن صبح 6 بجے سے لے کر سات بجے تک اپنی سائیکل پر قرآن اور دعوتی لٹریچر لے کر وشاکھاپٹنم کے بیچ (beach)پر جاتی ہوں، اور وہاں اسٹال لگا کر ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر لوگوں کے درمیان تقسیم کرتی ہوں، یعنی میں دعوت کا کام کرتی ہوں۔ الحمد للہ، لوگ بہت خوشی سے قرآن اور دعوتی لٹریچر لیتے ہیں، اور جو لوگ آپ کی کتابیں پڑھتے ہیں، وہ واپس آکر بہت پازیٹیو رسپانس دیتے ہیں۔ میں جس کے یہاں ملازمت کرتی ہوں، وہ آپ کو فالو (follow)کرتے ہیں، ان کانام عبدالمبین ہے۔ میں ان کی مدد سے دعوتی کام کرتی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ہی کی وجہ سے میں نے اسلام کو صحیح روپ میں سمجھا ہے۔ آپ نے کہا ہے کہ انسان کے لیے دو دینی مقاصد ہیں۔ ایک، اپنے لیےمعرفتِ خدا وندی ، اور دوسرا، دیگرانسانوں کے لیےدعوتی عمل۔ ان دونوں باتوں کو لے کر میں نے اپنی زندگی گزارنا شروع کیا ہے۔ ان شاء اللہ، میں اپنی آخری سانس تک دعوت کا کام کرنا چاہتی ہوں، آپ بھی میری لیے دعا کیجیے، اور اس تعلق سےمجھے نصیحت کیجیے۔ (مس عائشہ ، وشاکھا پٹنم)
مذکورہ خاتون بلاشبہ دوسروں کے لیے ایک اچھا نمونہ ہیں۔ وہ یہ کہ کس طرح آسانی کے ساتھ ون مین ٹومشن بننا ممکن ہے۔ وہ ایک ایسی خاتون ہیں، جو ون مین ٹو مشن کی ایک اچھی مثال ہیں، یعنی جاب کرنا، اور اسی کے ساتھ دعوت کا کام بھی کرنا۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالی کی جانب سے یقینا ً ڈبل ریوارڈ ملنے والا ہے۔ یعنی جائز طریقے سے اپنی روزی حاصل کرنا، اور اسی کے ساتھ اپنے دائرے میں دعوت کا کام بھی کرنا۔ اللہ تعالی ان کے عمل میں برکت عطا فرمائے، اور ان کو دنیا اور آخرت میں بہترین مقام سے نوازے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 272

سی پی ایس انٹرنیشنل کا پرائم مقصد تمام انسانوں خدا کے منصوبۂ تخلیق سے آگاہ کرنا ہے۔ اس سلسلے میںوہ دیگر دعوتی ایکٹیویٹیز کے علاوہ بک میلے میں بھی حصہ لیتی ہے۔ کیوں کہ یہاں پر زیادہ تعداد میں وہ لوگ آتے ہیں، جن کو مطالعے سے دلچسپی ہو۔ حالیہ دنوں میں منعقدہونے والے کچھ مشہور بک فیر یہ ہیں کراچی انٹرنیشنل بک فیر (5-9 دسمبر 2019)،جدہ انٹرنیشنل بک فیر(12-21 دسمبر 2019)، نئی دہلی ورلڈ بک فیر (4-12 جنوری 2020)، چنئی بک فیر(9-21 جنوری 2020)،دوحہ انٹرنیشنل بک فیر(9-18 جنوری 2020)، کولکاتالٹریری فیسٹول (17-19 جنوری 2020)، انٹرنیشنل کولکاتا بک فیر(29 جنوری تا 9 فروری 2020)، جے پور لٹریچر فیسٹیول (23-27 جنوری 2020)، کولکاتاکل ہند اردو کتاب میلہ (18-26 جنوری 2020) ، لاہور انٹرنیشنل بک فیر(6-10 فروری، 2020)،کنٹرا ساہتیہ سمیلن ،گلبرگہ(5-7 فروری 2020)، وغیرہ ۔ ان تمام ایونٹس میں سی پی انٹرنیشنل کے مقامی اور دوسرے مقام کے ممبران نے حصہ لیا۔ انھوں نےمیلے میں آنے والوں کو خدا کے پیغام سے آگاہ کرنے کےلیے ان کی قابلِ فہم زبانوں میں ترجمۂ قرآن دیا۔ اس سلسلے میں کچھ تاثر ات یہاںنقل کیے جاتے ہیں
٭ نئی دہلی ورلڈ بک فیر میں سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی نے گڈ ورڈ بکس کے ساتھ مل کر حصہ لیا تھا۔ مشہور اردو اخبار روزنامہ سہارا (کولکاتا ایڈیشن )نے19 جنوری 2020کےاپنے امنگ ایڈیشن ( صفحہ 4)میں اس عنوان کے تحت ایک آرٹیکل شائع کیا ’’توجہ کا مرکز رہا گڈورڈ‘‘۔ مضمون کا خلاصہ یہ ہے اسلامی کتابوں کو دستیاب کراتے وقت اکثر کچھ باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ مثلاً بچوں کو مذہب آسانی سے سمجھایا جائے، ان لوگوں کے لیے عام فہم زبان میں مذہبی کتابیں لکھی جائیں جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں، غیر مسلموں کے لیے مذہبی کتابیں انگریزی، ہندی اور دیگر زبانوں میں ہوں۔ان موضوعات پر کتابیں ہوں، جنھیں پڑھ کر کوئی اسلام کے انسانیت کے پیغام کو سمجھ سکے۔ یہ جان سکے کہ اسلام نے امن سے زندگی بسر کرنے اور بھائی چارے پر بہت زور دیا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کا خیال ’گڈورڈ بکس‘ نے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی کتاب میلہ میں اس کے اسٹال پر بڑی تعداد میں غیرمسلم بھی نظر آئے، جو اسٹال سے قرآن کا ترجمہ حاصل کررہے تھے۔
٭ نئی دہلی بک فیر کا ایک تجربہ یہ ہے کہ جب میں نےایک سکھ طالبہ کو جب قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا ، تو اس نے شکریہ کے ساتھ قرآن کا ترجمہ لے لیا۔ مگر کچھ دیر کے بعد اس نے قرآن کا ترجمہ یہ کہتے ہوئے واپس کردیا کہ یہ آپ واپس لے لیجیے، شاید میں اس کی رسپکٹ نہیں کر پاؤں گی۔ جب وہ قرآن واپس کررہی تھی، تو اس وقت اسٹال پر ایک اور سکھ نوجوان قرآن لے رہا تھا۔ اس نے رسپکٹ کی بنیاد پر قرآن نہ لینے کی بات سن کر کہا میں اس قرآن کو لے جارہا ہوں، اور میں اس کو ضرور رسپکٹ دوں گا، اور پڑھوں گا (مولانا فرہاد احمد)۔
٭ مسٹر فراز خان (دہلی ٹیم)کے ساتھ جے پور لٹریچر فیسٹیول میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔یہ جب قرآن کا ترجمہ لوگوں کو دے رہے تھے،تو وہاں پر غیر مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا ایک گروپ آیا۔ ان لوگوں نے قرآن دیکھا ، تو ان میں سے ایک لڑکی نے آگے بڑھ کر ترجمۂ قرآن لینا چاہا ۔یہ دیکھ کر اس کے ایک ساتھی نے اس لڑکی سے پوچھا کہ تم نے گیتا پڑھی، جو تم قرآن پڑھنا چاہتی ہو۔ لڑکی نے جواب دیاکہ کوئی بات نہیں،میں پہلے قرآن پڑھ لیتی ہوں، اس کے بعد گیتا بھی پڑھ لوں گی۔ یہ کہہ کر اس نے ترجمۂ قرآن حاصل کیا۔ اس بعد تمام لوگوں نے بہت خوشی سے قرآن کا ترجمہ شکریہ کہتے ہوئے حاصل کیا۔
مولانا سید اقبال احمد عمری (تامل ناڈو)نے جے پور لٹریچر فیسٹیول اور کنڑا ساہتیہ سمیلن میں حصہ لیا تھا۔ انھوں نے اپنا تاثر درج ذیل الفاظ میں لکھا ہے
٭جے پور لٹریچر فیسٹیول میں ترجمۂ قرآن لینے والوں کے تاثرات بہت اچھے رہے۔ مثلاً ایک صاحب نے کہا کہ جو ترجمۂ قرآن آپ تقسیم کرتے ہیں،وہ میں نے پڑھا ہے، یہ بہت آسان اور عمدہ ہے۔اسی طرح ایک نان مسلم خاتون نے جب قرآن کو دیکھا تو قریب آکر خوشی سے کہا اوہ قرآن،کیا یہ مجھے مل سکتا ہے،اس کی قیمت کیا ہے۔میں نے کہا کہ یہ آپ کے لیے اسپریچول گفٹ ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ ریلی فری آف کوسٹ ،ویری گڈ، اور بخوشی لیکر چلی گئیں۔ اس طرح بہت سے لوگ خوشی خوشی قرآن کا ترجمہ مانگ کر لے گئے ۔
٭ 5تا7فروری 2020 کنڑا ساہتیہ سمیلن کلبرگی (سابق گلبرگہ) کرناٹک میں منعقد ہوا۔اس میں رائچور، بنگلور، چنئی، تماپور،اور گلبرگہ کی سی پی ایس ٹیموںنے مل کر گڈورڈ کا بکس سٹال لگایا، اور الرسالہ مشن کی اردو اور انگریزی کتابیں ، خصوصاً پاکٹ سائز کا کنڑا ترجمۂ قرآن رعایتی قیمت پر دیا۔ ہمارے اسٹال پر آنے والے زیادہ تر نان مسلم تھے، انھوں نےقیمت ادا کرکے تقریباً ایک ہزارترجمۂ قرآن لیا۔ قرآن کو ہاتھ میں لیتے وقت ان کے چہرے کی خوشی، اور ان کے کہے ہوئے الفاظ ،دونوںدعوتی مشن کو بوسٹ (boost)کرنے والے بنے۔ مثلاً ایک صاحب نے کہا کہ کئی سال سے میں کنڑ اترجمۂ قرآن کی تلاش میں تھا۔ آج میں نے اس کو حاصل کرلیا۔ایک صاحب نے قرآن اپنے ہاتھ میں لیکر اسے کھولا، اور پڑھنا شروع کیا ۔اس کے بعد اس نے کہا کہ میں نے صرف دو سطریں پڑھی ہیں۔ میرے سر کا بوجھ ہلکا ہوگیاہے، اورمیرا جسم کانپ رہا ہے۔ ایک نان مسلم نے سوال کیا کہ آپ قرآن دے رہے ہیں، قرآن کے بارے میں آپ کا اپنا ذاتی تجربہ کیا ہے؟ اس سوال نے مجھے اندر سے ہلا دیا۔ اس نے مجھے دوبارہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی ترغیب دی۔ اسی طرح دو عیسائی نوجوان آئے، اور انھوں نے ہمارے اسٹال سے بائبل تقسیم کرنے کی اجازت مانگی۔ ہم نے ان کو اجازت دےدی۔ جب بائبل دے رہے تھے، تو ساتھ ہی ساتھ وہ ہمارے پاس موجود پیغمبر اسلام کی سیرت کی کتابیں بھی آنے والوں کو دے رہے تھے، اورقرآن بھی ۔ اس تجربہ سے مجھے یہ سبق ملا کہ دوسروں کوموقع دو گے، تو مزیدمواقع ملیں گے ۔ ان تجربات سے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ مدعو کی زبان میں قرآن کی اشاعت ہی وہ گول ہے، جس کو سنگل گول کی حیثیت سے اپنی زندگی میں اختیار کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

1 comment: