Pages

Monday 27 April 2020

Al Risala | May 2020 (الرسالہ،مئی)

4

-فاسٹنگ شاک

5

- لاک ڈاؤن، ایک بلیسنگ

7

- تعمیرِ شخصیت

9

- صحیح آغاز

10

- زندگی ایک انتظار ہے

11

- زندگی کا سفر

12

- موت کے دروازے پر

13

- بڑھاپے کی عمر

14

- فطرت کا نظام

15

- بڑھاپا، رمائنڈر کا زمانہ

16

- فائنل کال

17

- بڑھاپا، ایک نشانِ راہ

18

- طاقت، بے طاقتی

19

- بڑھاپے کا پلس پوائنٹ

20

- رخصت کا اصول

21

- بڑھاپے کا دور

22

- بڑھاپے کا تجربہ

23

- بڑھاپے سے سبق لینا

24

- بہت دن کم رہا

25

- غفلت کا سبب

26

- حقیقتِ اعلیٰ کی دریافت

28

- مطلوب رول

29

- زندگی ایک موقع

30

- موت کا انتظار

32

- موت کا تجربہ

33

- حسرت کا دن

34

- کامل بے بسی

36

- پوائنٹ آف نورِٹرن

37

- سب سے زیادہ جاننے کی بات

38

- حقیقت میں جینا

39

- عالمی لائبریری

40

- موت کے بعد

41

- ری پلاننگ کا موقع

42

- زندگی کا مسئلہ

43

- جنت کا استحقاق

44

- حصائد ِ لسان

45

- ایک خط

47

- زحمت میں رحمت

49

- قابلِ تقلید طریقہ: رمضان کا کریٹیو استعمال

50

- ورچول ملاقات


فاسٹنگ شاک

روزہ کے بارے میں ایک حدیث اس طرح آئی ہے: إِنَّ رَبَّکُمْ یَقُولُ:کُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَالصَّوْمُ لِی وَأَنَا أَجْزِی بِہِ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 764)۔ یعنی بیشک تمھارا رب کہتا ہے کہ ہر نیکی کا ثواب (reward) دس گناہ سے 700گنا تک ہوتاہے۔ لیکن روزہ میرے لیے ہے، اور میں ہی روزےکا ثواب دوں گا۔ بعض روایتوں میں یہ اضافہ ہے:عَبْدِی تَرَکَ شَہْوَتَہُ وَطَعَامَہُ وَشَرَابَہُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِی(مسند احمد، حدیث نمبر 9138)یعنی میرابندہ میری رضا کے لیے اپنی خواہشات اور کھاناپانی کو چھوڑتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ روزے کا لامحدود ثواب اس لیے ہے کہ روزہ دار کھانا اور پینا محدود مدت تک چھوڑ کر اپنے آپ کو فاسٹنگ شاک کے تجربے سے گزارتا ہے۔ فاسٹنگ شاک کا تجربہ اس کے مائنڈ کو ٹرگر (trigger) کرتاہے ۔اس کے بعد وہ اللہ رب العالمین کی نعمتوں کا عالمی تجربہ کرتاہے۔ یہاں تک کہ وہ دریافت کرتاہے کہ خالق نے اس کے لیے پوری یونیورس کو کسٹم میڈ یونیورس بنا دیا۔ یہ تجربہ روزہ دار کو شکر کے سمندر میں داخل کردیتاہے۔
فاسٹنگ شاک (fasting shock) ایک ر وزہ دار کے لیے ویسا ہی ہے، جیسا نیوٹن کے لیے ایپل شاک (apple shock) تھا۔ ایپل شاک نے نیوٹن کو خالق کی عظیم بلسنگ (blessing) سے واقف کرایا، جس کو سائنس کی زبان میں کششِ ثقل (gravitational pull) کہاجاتا ہے۔ زمین کی کشش ہزاروں سال سے انسان کے لیے نا معلوم بنی ہوئی تھی۔مگر اب انسان جانتا ہے کہ یہ کشش اتنی زیادہ اہم ہے کہ اگر یہ کشش نہ ہو تو زمین پر تہذیب کا وجود نہ ہوگا۔
روزے میں بھوک اور پیاس کا تجربہ اس قسم کا فاسٹنگ شاک ہے، جوانسان کے مائنڈ کو ٹرگر کرتاہے۔ اس کے بعد انسان کے اندر وہ سوچ جاگتی ہے ،جو اس کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ خالق کے نعمتوں کو جانے اور اس کا اعتراف (acknowledge)کرے۔
واپس اوپر جائیں

لاک ڈاؤن، ایک بلیسنگ

اللہ رب العالمین نے انسان کو پیدا کرکے زمین پر آباد کیا۔ اس کو ہر قسم کے مواقع فراہم کیے، اور پھر اس کو پوری آزادی دے دی۔ اب یہ انسان کااپنا اختیار ہے کہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو ابدی کامیابی کا مستحق بنائے، اور اگر وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتاہے تو اس کے لیے تخلیقی منصوبے کے مطابق ابدی ناکامی کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔
جدید صنعتی انقلاب کے بعد اللہ نے انسانوں کے لیے تمام نعمتوں کے دروازے کھول دیے۔ پہلے زمانے میں انسان صرف ضرورت پر زندگی گزارتا تھا۔ لیکن موجودہ دور کی سائنسی تہذیب نے لگزری(luxury)کے بے شمار سامان انسان کے لیے فراہم کردیے۔ یہ تمام بلیسنگز (blessings) انسان کے لیے بطورِ عطیہ تھے۔ مگر انسان نے ان کو بطور ِعطیہ ڈسکور نہیں کیا، بلکہ اس کے بجائے اس حصول کو اپنا نشانہ بنا لیا، جس کو آج اس طرح بیان کیا جاتاہے:
Work hard, party harder
اس کا مطلب ہے کہ محنت سے دولت کمانا، لیکن اس سے زیادہ محنت کے ساتھ لگزوریس لائف (luxurious life) گزارنا۔ لگزوریس آئٹم کا انفجار (explosion)اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خدائی عطیہ ہے۔ یہ تمام آئٹم لائف سپورٹ سسٹم کے تحت وجود میں آئے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی آئٹم انسان خود سےپیدا نہیں کرسکتا۔ یہ پورا نظام خالق کی طرف سے انسان کے لیے یک طرفہ عطیے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ عطیہ اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان سنجیدہ ہو کر یہ سوچے کہ اس نے اِن نعمتوں کے مُعطِی (giver) کا اعتراف کیا ہے یا نہیں۔ مگر انسان اس حقیقت کو بھول کر جس راستے پر چلنے لگا، وہ یہ تھا کہ مثلاً کسی نے اس قسم کی کتاب لکھ ڈالی:
Man Stands Alone
یعنی انسان اس دنیا میں آل پاور فل (all-powerful) ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے، کوئی اس کا خدا نہیں ہے،جس کے سامنے جواب دہ ہو ۔ کسی نے اپنے لگزوریس لائف اسٹائل کے لیے یہ اصول بنایا - رائٹ ہیر، رائٹ ناؤ(right here, right now)۔ یعنی تمھیں جو خواہش پوری کرنی ہے، وہ اسی دنیا میں پوری کرلو۔
مگر انسان کا یہ عمل خالق کی اسکیم آف تھنگس کے خلاف تھا۔ غالباً اسی حقیقت کو یاد دلانے کے لیے کورونا وائرس کا معاملہ پیش آیا ہے۔ کورونا وائرس نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پوری دنیا کی گورنمنٹ اس بیماری کے اثرات کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن (lockdown) کا طریقہ اختیار کررہی ہے، تاکہ عوام سماجی طورپر ایک دوسرے سے دوری اختیار کریں، اور اس بیماری کا اثر کم ہو۔
لاک ڈاؤن کیا ہے۔ ایک ہنگامی اقدام ہے، جس میں خطرے کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو ایک محدود علاقے یا بلڈنگ کو چھوڑنے سے عارضی طورپر روک دیا جاتاہے۔ لیکن ان کے لیے جو ضروری سروس ہو، اسے جاری رکھا جاتاہے۔ یعنی لگزوریس لائف سے دور رہ کر اعتکاف جیسی سادہ زندگی گزارنا۔ لاک ڈاؤن کوئی برائی نہیں ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تدبر وتفکر کے لیے جبری سچویشن (compulsive situation) ہے۔ یہ گویا اسپیڈ بریکر ہے۔
یہ اس لیے ہےتاکہ انسان دوڑ بھاگ کی زندگی (hectic life) سے دور رہ کر اپنا احتساب کرے۔ وہ اپنے منصوبۂ تخلیق کو جاننے کی کوشش کرے۔وہ یہ سوچے کہ اس کا صحت مند جسم اس کی اپنی تخلیق نہیں ہے۔ کھانااور پانی اور آکسیجن ، وغیرہ اس کاپیدا کیا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کے خالق نے اس کو یہ چیزیں عطا کی ہیں۔وہ اس حقیقت کو ڈسکور کرے کہ وہ دنیا میں آل پاور فل(all-powerful) نہیں ہے، بلکہ آل پاورفل اس کا خالق ہے، انسان آل پاور لیس (all-powerless)ہے۔ اس کو ماڈرن سائنسی ایجادات بطور انعام نہیں ملے ہیں، وہ بطورِ امتحان ہیں۔ وہ اس لیے ہیں کہ انسان اس کے ذریعے خالق کی اعلی معرفت حاصل کرے، اورپر امن انداز میں تمام انسانوں کو خالق کے منصوبۂ تخلیق سے آگاہ کرے۔ وہ لگزوریس لائف اسٹائل کو اپنانشانہ بنانےکے بجائے سادہ زندگی ، اونچی سوچ کا طریقہ اختیار کرے۔وہ اپنے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کرے، جو اس کو ابدی جنت کامستحق بنائے۔
(یہ مضمون روزنامہ راشٹریہ سہارا، 28 مارچ 2020 میں شائع ہو چکا ہے)
واپس اوپر جائیں

تعمیر شخصیت

فطرت کے ایک قانون کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ۔ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ۔ أُولَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ (2:155-157)۔ یعنی اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے، اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو ۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی شاباشیاں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں مصیبت کا مطلب اعلیٰ درجے کی تربیت ہے۔ ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بارے میں اللہ کا منصوبۂ تخلیق کیا ہے۔ خالق نے انسان کو غیرمعمولی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ انسان کے اندر ہر قسم کی اعلیٰ صلاحیت فطری طور پر موجود ہوتی ہے۔لیکن انسان کے اندر جو صلاحیت ہے، وہ بالقوۃ (potential) کے روپ میں ہے۔ اس پوٹنشل کو بالفعل (actual) بنانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ خالق کو انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے فطری امکانات کو دریافت کرے، اور اپنے خالق کا اعتراف کرتے ہوئے زمین پر ایک ربانی تہذیب وجود میں لائے۔
اس معاملے کوسترھویں صدی کے سائنس داں نیوٹن کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔نیوٹن کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ اپنے باغ میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک اس کے سر پر ایک سیب گرا۔ نیوٹن کے سر پر سیب کا گرنا ایک مصیبت تھی۔مگر نیوٹن نے اس کو ایک تجربے کے طور پر لیا، اور اس سے وہ سائنسی اصول دریافت کیا، جس کو آج قوت کشش کے نام سے جانا جاتا ہے۔
خالق نے انسان کو اس زمین پر غیر معمولی عطیات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ان عطیات کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے خالق نے مختلف انتظامات کیے ہیں۔ ان میںسے ایک یہ ہے کہ زمین مسلسل طور پر حرکت کی حالت میں ہے۔ مگر خالق نے زمین پر خصوصی اہتمام کرکے زمین پر استحکام (stability) قائم کردی۔ اسی استحکام کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ انسان زمین کے اوپر ایک اعلیٰ تہذیب وجود میں لائے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ جب اس کے اوپر کوئی مصیبت آئے تو وہ اس کو شکایت کے طور پر نہ لے، بلکہ وہ اس کو وہ نیوٹن کی طرح مثبت اعتبار سے دیکھے، اوران کے ذریعے وہ عطیات خداوندی کو دریافت کرے، اور ان کو دریافت کرکے زمین پر ایک اعلیٰ تہذیب کی تشکیل کرے۔
دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ہر چیز آپ کو بالقوۃ (potential) صورت میں ملتی ہے۔ آپ کویہ کرنا پڑتا ہے کہ آپ اس مخفی امکان کو دریافت کریں، اور اس پوٹنشل کو ذاتی عمل سے اپنے لیے اکچول (actual)بنائیں۔ مثلاً درخت کا پھل آپ کو خود سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ آپ کویہ کرنا پڑتا ہے کہ زرخیر زمین (soil) میں ایک پودا لگائیں۔ اس کی نگہداشت کرتے ہوئےاس کو اگانا شروع کریں۔ اس طرح وہ وقت آتا ہے، جب کہ درخت ایک مکمل درخت بن جائے، اور اپنا پھل آپ کو دینا شروع کرے۔یہی معاملہ ربانی تہذیب کی تشکیل کا بھی ہے۔
ان بالقوۃ چیزوں کو بالفعل (actual) بنانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ انسان کے اندر تخلیقی صلاحیت موجود ہو۔ یہ دباؤ (pressure)کا تجربہ ہے، جو کسی آدمی کے اندر تخلیقی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔دباؤ کے یہ حالات انسان کے اندر نئی سوچ پیدا کرتے ہیں، اس کے عمل کو نیا رخ (direction) دیتے ہیں۔ وہ انسان کو اپنے عمل کی ری پلاننگ (replanning) کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ انسان کی سوچ کو نیا زاویہ عطا کرتے ہیں۔ اس طرح انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو تخلیقی عمل بنائے۔ وہ فطرت کے نظام کو اختیار کرکے اپنے آپ کو کامیاب بنائے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ زمین پر موجود تمام امکانات کو اپنے لیے استعمال کرے، اور اپنے آپ کوخالق کا مطلوب انسان بنائے ، جس کے لیے اس کے خالق نے اس کو موجودہ دنیا میں بھیجا ہے۔
واپس اوپر جائیں

صحیح آغاز

اسلامی عمل کا صحیح آغاز یہ ہے کہ اس کا آغاز اللہ رب العالمین کی دریافت سے کیا جائے۔ جب کسی انسان کا حال یہ ہو کہ وہ سچائی کی تلاش میں سرگرداں ہو، اور پھر اس کو سچائی مل جائے تو اس کا کیس یہ ہوتا ہے کہ گویا وہ تاریکی سے روشنی میں آگیا۔ اس کو اپنے کام کےابتدا میں کام کے آغاز کا سرا (starting point) مل گیا۔
ایسا آدمی بھٹکنے والا انسان نہیں ہوگا، بلکہ وہ پانے والا انسان ہوگا۔ اس کا ہر قدم منزل کی طرف اٹھے گا، نہ کہ بے فائدہ بھٹکاؤ کی طرف۔ ایسے آدمی کا آغاز یقین سے ہوگا، نہ کہ شکوک و شبہات کے جنگل سے۔ ایسا آدمی ایک زند ہ انسان ہے۔ ایسا آدمی تخلیقی ذہن (creative mind) کا حامل ہے۔ اس کی ہر صبح امید کی صبح ہوگی، اور اس کی ہر شام نئے نئے سبق لے کر آئے گی۔
خالق کی دریافت ایک مائنڈ باگلنگ (mind boggling) دریافت ہے۔ جس آدمی کو خالق کی دریافت ہوجائے، اس کا ذہن آخری حد تک جاگ اٹھے گا۔ وہ ہر اس چیز کو پالے گا، جس کو پانا چاہیے، اور ہر اس چیز میں الجھنے سے بچ جائے گا، جس میں الجھنے سے بچنا چاہیے۔ اللہ رب العالمین کو پانا، حقیقت کے سرے کو پانا ہے۔ وہ ہر معاملے کا نقطۂ آغاز (starting point) ہے۔ جس آدمی کو اسٹارٹنگ پوائنٹ نہ ملے، اس کا کیس بھٹکنے کا کیس ہے۔ جو آدمی اپنے رب کو پالے، اس نے یقین کے سرچشمے کو پالیا۔ جس آدمی نے اپنے رب کو نہیں پایا۔ اس نے گویا سب سے زیادہ پانے والی چیز ہی کو نہیں پایا۔ ایسے آدمی کے حصے میں اندھیرے میں بھٹکنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
خدا کی دریافت کا موقع تمام عورت اور مرد کو ہر لمحہ ملتا رہتا ہے۔ مثلاً ہرصبح جب سورج نکلتا ہے تو وہ انسان کے لیے نئی امیدوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ ہر صبح انسان کے لیے اس طرح آتی ہے کہ وہ سوئے ہوئے انسان کو جگائے، وہ اندھیرے میں بھٹکنے والے انسان کو دوبارہ روشنی کے دروازے پر لاکر کھڑا کردے۔ اگر انسان سنجیدہ ہو تو اس میں وہ اپنے خالق کو دریافت کرے گا۔
واپس اوپر جائیں

زندگی ایک انتظار ہے

زندگی کیا ہے۔ زندگی موت کا انتظار ہے۔ پیدا ہوتے ہی انسان کی عمر کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوجاتا ہے۔ کوئی نہیں جانتاکہ کاؤنٹ ڈاؤن کی یہ گنتی کب ختم ہوجائے، اور انسان پر اچانک وہ وقت آجائے جب کہ وہ موجودہ دنیا کو چھوڑ کر ایک اور دنیا میں چلا جائے۔ جہاں ایک طرف وہ ہوگا، اور دوسری طرف اس کا خالق۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ (83:6)۔ یعنی جس دن تمام لوگ خداوند ِعالم کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ آج آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اس کا فیصلہ اس کے اپنے اختیار میں ہے۔ لیکن موت کے بعد آنے والی دنیا میں اچانک وہ دریافت کرے گا کہ اس کی زندگی کا فیصلہ اس کے خالق کے اختیار میں ہے۔
ہر انسان کی زندگی کا سب سے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ آج اس کو کیا کرنا چاہیے کہ کل کے دن جب وہ اپنے آپ کو خالق کے سامنے پائے تو اس کا خالق اس کو ردً (reject) نہ کرے، بلکہ وہ اس کو اپنے پسندیدہ انسان کی حیثیت سے قبول کرلے۔ کامیاب لوگ وہ ہیں، جو موت کے بعد آخرت میں پہنچے تو ان کا حال وہ ہو جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ (98:8) ۔ یعنی اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہ کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے خالق کے تخلیقی منصوبے (creation plan) کو جانا، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کی۔ اس مقصد کے لیے ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار خدا کی کتاب، قرآن کو پوری یکسوئی کے ساتھ سمجھ کر پڑھے، اور اس مطالعے کے ذریعے وہ اپنی زندگی کےلیے خالق کا مطلوب نقشہ دریافت کرے، اوراس پر اپنے آپ کو ڈھال لے۔ یہی انسان کی کامیابی کا واحد راز ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہُ (98:8)سےبیان کیا گیا ہے۔ یعنی وہ شخص جواپنے آپ کو خالق کے سامنے جواب دہ (accountable)سمجھے۔اس کی زندگی اس احساس کے ساتھ گزرے کہ کل اس کو خالق کے سامنے پیش ہونا ہے۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کا سفر

آدمی پیدا ہوکر اس دنیا میں آتا ہے تو وہ ایک چھوٹا بچہ ہوتا ہے۔ پھر وہ دھیرے دھیرے بڑھتا ہے۔ بچے سے نوجوان، اس کے بعد جوانی کی عمر، پھر عمر کے بقیہ مراحل آتے ہیں۔ اس درمیان میں اس کو طرح طرح کے تجربے ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی بیماری، کبھی کوئی نقصان، کبھی کوئی حادثہ۔ اس طرح زندگی گزرتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اس پر وہ دور آجاتا ہے، جس کو بڑھاپا کہاجاتا ہے۔
بڑھاپا کمزووری کا دور ہے۔ یہ وہ وقت ہے، جب کہ انسان کے جسم کے اندر موجود تقریباً 80 آرگنز (organs) دھیرے دھیرے کمزور ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ کبھی کوئی ایک آرگن فیل ہوتا ہے، اور کبھی دوسرا آرگن۔کبھی کوئی واحد آرگن، اور کبھی بیک وقت کئی آرگن۔ غالباً اسی عمل کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَمَنْ نُعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ أَفَلَا یَعْقِلُونَ (36:68)۔ یعنی اور ہم جس کی عمر زیادہ کردیتے ہیں، اس کو اس کی پیدائش میں پیچھے لوٹا دیتے ہیں تو کیا وہ سمجھتے نہیں۔
انسان جب جوانی کی عمر میں ہوتا ہے، اس کی تمام قوتیں شباب پر ہوتی ہیں۔ اس کے تمام آرگن پوری طرح کام کررہے ہوتے ہیں۔ اس وقت وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ ان قوتوں کا مالک وہ خود ہے۔ بڑھاپے کی عمر اس غلط فہمی کی تردید ہے۔ بڑھاپے کی عمر میں انسان کٹ ٹو سائز (cut-to-size) ہوجاتا ہے۔ یعنی انسان اپنی اس حالت پر آجاتا ہے، جو حقیقت کے اعتبارسے اس کی اصل حالت ہے۔ گویا بڑھاپے کی عمر انسان کےلیے آخری موقع ہے۔ بڑھاپا ایک وارننگ ہے کہ جس حقیقت کو تم جوانی کی عمر میں سمجھ نہ سکے، اس کو اب سمجھ لو۔ کیوں کہ بڑھاپے کے بعد موت ہے، نہ کہ جوانی کا دوبارہ لوٹنا۔ انسان کے لیے سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ وہ خود اپنی حقیقت کو جان لے۔ جو آدمی اپنی حقیقت کو جان لے، وہ اپنے عجز (helplessness)کو جان لیتا ہے، اور جو آدمی اپنے عجز کو جان لے، وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ حقیقت پسندی کی بنیاد پر اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ اس دنیا میں مبنی بر حقیقت منصوبہ کامیاب ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت کے دروازے پر

میں یوپی کے ایک گاؤں میں 1925 میں پیدا ہوا۔ ہمارے گاؤں میں ایک قصاب تھا، جس کو بشیر قصاب کہا جاتا تھا۔ نوجوانی کی عمر میں مَیں نے وہاں ایک واقعہ دیکھا تھا، جو آج تک مجھے پوری طرح یاد ہے۔ میں نے دیکھا کہ بشیر قصاب ایک بکری لے کر آیا، اوروہ اپنے گھر کے عین دروازے تک پہنچ گیا۔ اب یہ منظر تھا کہ بکری پیچھے کی طرف جانے کے لیے پوری کوشش کررہی تھی، اور بشیر قصاب اس کو اپنے مضبوط ہاتھوں سے گھر کے اندر داخل کرنا چاہتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ یہ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بکری کا آدھا جسم بشیرقصاب کے دروازہ کے اندر تھا، اور اس کا آدھا جسم گھر کے باہر، اور قریب تھا کہ بشیر قصاب کا مضبوط ہاتھ بکری کو گھر کے اندر داخل کردے۔
یہ منظر میں نے دیکھا تو مجھے اس واقعے میں ایک بوڑھے انسان کی تصویر نظر آئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا، جیسے بوڑھا انسان اپنی پوری طاقت سے باہر کی طرف جانا چاہتا ہے، لیکن قانونِ فطرت کا مضبوط ہاتھ اس کو اندر (بڑھاپے)کی طرف کھینچ رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے بوڑھے انسان کو موت دروازے میں داخل کردیا۔ایسا داخلہ جس کے بعد واپسی ممکن نہ ہوگی۔یہ واقعہ ہر انسان کے ساتھ پیش آنے والا ہے، جو دنیا میں اپنی عمر پوری کرچکا ہو۔ اس وقت آدمی اندر جانے سے بچنا چاہتا ہے، مگر کسی کا مضبوط ہاتھ آخر کار اس کو اندر داخل کردیتا ہے۔ یہی وہ واقعہ ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَجَاءَتْ سَکْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیدُ (50:19)۔ یعنی موت کی بےہوشی حق کے ساتھ آپہنچی، یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔
ہر آدمی کو موت کے دروازے پر پہنچنا ہے۔ عقل مند انسان وہ ہے،جس نے اس لمحے کے آنے سے پہلے اپنے بچا ؤ کا سامان تیار کرلیا، اور ہلاک ہونے والا وہ ہے، جو اس وقت جاگے جب کہ جاگنے کا وقت گزر چکا ہو۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اُس لمحے کی تیاری کرے ، نہ یہ کہ وہ اس سے بھاگنے کی لاحاصل کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے کی عمر

بڑھاپے کی عمر کسی آدمی کی عمر کا گولڈن پارٹ ہے۔ بڑھاپے کی عمر میں آدمی اپنی عمر کے اس حصے میں ہوتا ہے، جس کو پختگی (maturity)کی عمر کہا جاتا ہے۔ بڑھاپے کی عمر تجربات ، یعنی زیادہ عقل کی عمر ہوتی ہے۔ بڑھاپے کی عمر چیزوں کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ دیکھنے کی ہوتی ہے۔ بڑھاپے کی عمر آدمی کی عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے ، جب کہ وہ اپنے آپ کو دنیا سے دور اور آخرت سے قریب محسوس کرنے لگتا ہے۔ بڑھاپے کی عمر آدمی کو انسانوں سے دور اور خدا سے قریب کردیتی ہے۔
بڑھاپے کی عمر کسی آدمی کے لیے خالق کا بہترین عطیہ ہوتی ہے، بشرطیکہ انسان کو اس کے ساتھ بڑھاپے کو جھیلنے کی طاقت بھی مل جائے۔ بڑھاپے کی عمر مسائل کی عمر ہوتی ہے۔ اگر کسی کو جھیلنے کی طاقت نہ ملی ہو تو وہ صرف منفی سوچ میں جیے گا، اور منفی سوچ میں مرے گا۔ اس کے برعکس، اگر کسی کو خالق کی طرف سے بڑھاپے کے ساتھ بڑھاپے کو جھیلنے کی طاقت بھی مل جائےتو ایسا انسان سوپر انسان (super man) بن جاتا ہے۔ بڑھاپے کی عمر آدمی کو اس قابل بنادیتی ہے کہ وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے زیادہ مفید انسان کی حیثیت سے زندگی گزارے۔
بڑھاپے کی عمر میں انسان امکانی طور پر کامل انسان کی عمر میں پہنچ جاتا ہے۔ بڑھاپے کی عمر میں آدمی کے پاس تجربات کی جو مقدار ہوتی ہے، وہ اس سے پہلے اس کے پاس کبھی نہیں ہوتی۔ عمر گزرنے کے ساتھ جسمانی اعتبار سے انسان کے اندر کمی آتی ہے، لیکن سوچ کے اعتبار سے وہ زیادہ متحرک انسان بن جاتا ہے۔ بڑھاپے کی عمر میں آدمی زندگی کے راز کو اس سے زیادہ گہرائی سے جاننے لگتا ہے، جتنا کہ اس سے پہلےجانتا تھا۔
بڑھاپے کی عمر میں آدمی کو یہ انوکھی صفت حاصل ہوجاتی ہے کہ لوگ اس کو اپنے باپ یا اپنے دادا کے برابر سمجھنے لگتے ہیں، اس کے نتیجے میں بوڑھے آدمی کو ایک ریورنس (reverence) مل جاتا ہے، جو عمر کے کسی اور حصے میں نہیں ملتا۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کا نظام

قرآن میںوالدین کا حقوق بیان کرتے ہوئے یہ بیان آیاہے:وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا (17:24)۔ یعنی اور کہو کہ اے رب، ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے مجھے بچپن میں پالا۔ یہاں دعا کی تعلیم دیتے ہوئے فطرت کے ایک اصول کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ اصول فطرت کے ایک نظام کو بتاتا ہے۔
خالق نے زندگی کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ یہاں کچھ لوگ پیدا ہوتے ہیں، اور پھر بڑھاپے کے عمر کو پہنچ کر ختم ہوجاتے ہیں، اور کچھ دوسرے لوگ زندگی کے کار و بار کو سنبھالتے ہیں۔ تخلیق کے اس نظام میں ہر آدمی اپنی زندگی میں دو بار جسمانی ضعف (physical weakness) کا تجربہ کرتا ہے۔ پہلی بار بچپن کی زندگی میں ، اور دوسری بار بڑھاپے کے دور میں ۔ فطرت کے اس نظام کو درست طور پر چلانے کے لیے یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ضعف کے زمانے میں ان کے ضعف کو سنبھالیں، اور بعد کو جو والدین اپنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں، اور اس وقت بچے بڑی عمر کو پہنچ چکے ہوںتو بچے اپنے والدین کا سہارا بنیں۔
یہ دو طرفہ نظام تخلیق کی فطری ضرورت کی بنا پر ہے۔ ابتدائی عمر میں انسان کو اس کے والدین کی ضرورت ہوتی ہے، اور زیادہ عمر کو پہنچنے کے بعد والدین کے لیے ان کی اولاد ان کی ضرورت بن جاتی ہے۔ اس طرح تخلیقی نظام کے مطابق، دونوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ کمزوری کے زمانے میں ایک دوسرے کے ضعف کا بدل بنیں۔
یہ صرف ایک دوسرے کا بدل (substitute) بننے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ایک دوسرے کو اپنا معلم (teacher) بنانے کا معاملہ ہے۔ بچےاپنے بڑوں کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے اندر اس صلاحیت کو پیدا کریں کہ وہ اپنے سماج کےکمزور لوگوں کے لیے ان کی کمزوری کا بدل بنیں۔ اسی طرح قوم کی نئی نسلوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے بڑوں کے تجربات سے کس طرح فائدہ اٹھائیں۔ گویا کہ یہ میوچول لرننگ (mutual learning)کا ایک فطری طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپا، رمائنڈر کا زمانہ

بڑھاپا زندگی کا ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے۔بڑھاپے کا زمانہ یاد دلاتا ہے کہ اب انسان کے لیے موت کا وقت قریب آچکا ہے۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ پہلا دورِ حیات ختم ہوا، اور اب دوسرا دورِ حیات شروع ہونے والا ہے۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ وہ وقت قریب آچکا ہے ، جس کو قرآن میں یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ (83:6) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
بڑھاپا یاددلاتا ہے کہ انسان کے لیے عمل کا زمانہ ختم ہوچکا ہے، اور اب عمل کے مطابق محاسبہ کا وقت آگیا۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ عارضی دورِ حیات سے گزر کر ابدی دورِ حیات میں داخل ہونے کا وقت قریب آچکا ہے۔بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ اب اس کا سامنا اس رب العالمین سے ہونے والا ہے جس سے اس کی کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔
بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ انسان کے لیے وہ وقت قریب آچکا ہے، جس کو قرآن میں یوم التغابن (التغابن، 64:9)کہا گیا ہے۔ یعنی کسی کے لیے ہار کا دن اور کسی کے لیے جیت کا دن۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ عنقریب اس کا داخلہ یا تو ابدی جنت میں ہونے والا ہے، یا اس کے لیے ابدی حسرت (البقرۃ، 2:167) ہوگی۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ آخری توبہ کا وقت قریب آچکا ہے۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ آخری فیصلے کا وقت قریب آچکا ہے۔
بڑھاپے کا زمانہ آدمی کے لیے گویا فائنل کال (final call)ہے کہ اب تمھارے لیے تلافی ما فات کا آخری لمحہ ہے۔ جو کام ماضی میں نہ ہوسکا اس کو اب انجام دینے کی کوشش کرو۔ اب تمھارے لیے آخری وقت ہے کہ تم ماضی کی غلطی کی اصلاح کرلو۔ اب تمھاری زندگی میں جو تھوڑا سا وقت باقی ہے، وہ تمھارے لیے آخری وقت ہے۔ اس کو استعمال کرلو، کیوں کہ اب یہ وقت دوبارہ تمھارے لیے آنے والا نہیں۔پچھلا زمانہ اگر تم نے سونے میں گزاردیا تو اب جاگ اٹھو۔ کیوں کہ بیداری کا وقت اب دوبارہ آنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

فائنل کال

بڑھاپا کسی آدمی کے لیے فائنل الارم ہوتا ہے۔ بڑھاپے کا مطلب یہ ہے کہ کاؤنٹ ڈاؤن اپنی آخری گنتی پر پہنچ چکا۔ آدمی جب بڑھاپے کی عمر میں پہنچتا ہے تو اس کے سارے اعضا کمزور ہوجاتے ہیں۔یہ گویا پیشگی اعلان ہے کہ اب تمھارا آخری وقت آگیا۔ اب اپنی تیاری کو تیز کردو۔ اس حقیقت کو فارسی شاعر سعدی شیرازی (1210-1291ء) نے ان الفاظ میں ادا کیاہے :
کوس رحلت بکوفت دست اجل ای دو چشمم وداع سر بکنید
موت انسانی زندگی کا خاتمہ نہیں۔ وہ اس بات کا اعلان ہے کہ کون شخص دنیا میں کامیاب رہا، اور کون شخص ناکام۔ انسان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ موت کے بعد کی زندگی میں مشغول رہے۔ اس امید کے ساتھ کہ اس کو اگلے دورِ حیات میں کامیابی حاصل ہو جائے۔ اس کے برعکس، جس انسان نے خود کو اگلے دورِ حیات میں کامیابی کے ساتھ داخل نہیں کیا تھا۔ اس کے لیے موت اس بات کا اعلان ہے کہ اس کو ابدی کوڑا خانے میں ڈال دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:أَکْثِرُوا ذِکْرَ ہَادِمِ اللَّذَّاتِ ،یَعْنِی الْمَوْتَ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4258)۔ یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو، جولذتوں کو ڈھا دینے والی ہے۔ اس حدیث میں موت کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ موت اس بات کا اعلان ہے کہ موجودہ دنیا میں آدمی کی زندگی ختم ہوگئی، اور اگلا دورِ حیات اس کے لیے شروع ہوگیا۔
اگر آدمی اس انداز پر سوچے تو وہ کبھی عارضی دنیا کو اپنا فوکس نہیں بنائے گا، بلکہ وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہے گا کہ بعد کو آنے والی ابدی زندگی کی بھر پور تیاری کرتا رہے۔جس شخص نے موجودہ دنیا میں اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کی، وہ کامیاب رہا، اور جو شخص جنت کو اپنا نشانۂ حیات بنانے میں ناکام رہا۔ وہی وہ شخص ہے، جو آخر ت میں ابدی طور پر اس حسرت میں رہے گا کہ مَیں حاصل شدہ وقت کو حقیقی مقصد حیات کے لیے استعمال نہ کرسکا۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپا، ایک نشانِ راہ

بوڑھے آدمی کا ایک اہم رول ہے۔ ہر بوڑھا آدمی زندگی کے راستے پر ایک نشانِ راہ (signpost) بن کر کھڑا ہوا ہے۔ وہ زندگی کے راستے پر چلنے والے ہر انسان کو بزبانِ حال یہ بتارہا ہے کہ اے انسان، تیری سب سے بڑی پونچی (asset)ٹائم ہے۔ یہ ٹائم ہر لمحہ گزر رہا ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ تو ہوگا، لیکن تیرے پاس ٹائم نہیں ہوگا۔ تیرا وجود ہوگا، لیکن وہ وجود توانائی (energy) سے خالی ہوگا۔ صبح اور شام آتے جاتے رہیں گے، لیکن ان کو اویل (avail) کرنا تمہارے لیے ممکن نہ ہوگا۔ لوگوں کے اندر تمہاری یاد ہوگی، یہ یاد تم کو ڈھونڈے گی، لیکن وہ تم کو نہیں پائے گی۔ تیرے منصوبے پورا ہونے سے پہلے ختم ہوجائیں گے۔ یہ وقت تمہارے اوپر آنے والا ہے۔ وہ ہرحال میں تمہارے اوپر آکر رہے گا۔ مگر نہ تم وقت کو پاؤگے، اور نہ وقت تمہارا انتظار کرنے کے لیے موجود ہو گا۔اردو کے قدیم شاعر میر حسن (1717-1786 )نے بہت پہلے کہا تھا :
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
یہ تجربہ جس طرح دوسروں کے اوپر گزرا، اسی طرح وہ تمہارے اوپر بھی گزرنے والا ہے۔ وقت کو استعمال کرلو، اس سے پہلے کہ وقت تمہارے استعمال کے لیے موجود نہ رہے۔ وقت کے پیچھے دوڑو، کیوں کہ وقت تمہارے پیچھے دوڑنے والا نہیں ہے۔ تمہارے پیچھے زندگی ہے، لیکن تمہارے آگے موت ہے۔
وقت کی اہمیت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَبِیَدِ أَحَدِکُمْ فَسِیلَةٌ، فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا یَقُومَ حَتَّى یَغْرِسَہَا فَلْیَفْعَلْ (مسند احمد، حدیث نمبر 12981)۔ یعنی انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:اگر قیامت آجائے، اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں ایک پودا ہو، اور اگر اس کو موقع ہو کہ وہ اس کو زمین میں لگادے تو وہ ضرور ایساکرے۔
واپس اوپر جائیں

طاقت ، بے طاقتی

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَمَنْ نُعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ أَفَلَا یَعْقِلُونَ (36:68)۔ یعنی اور ہم جس کی عمر زیادہ کردیتے ہیں، اس کو اس کی پیدائش میں پیچھے لوٹا دیتے ہیںتو کیا وہ سمجھتے نہیں۔ خالق کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، انسان کا معاملہ یہ ہے کہ پیدا ہونے کے بعد انسان کا کاؤنٹ اپ (count-up) ہوتا ہے- بچپن، نوجوانی، جوانی، وغیرہ مراحل سے گزار کر وہ پختہ عمرتک پہنچتا ہے۔ پھر اس کا کاؤنٹ ڈاؤن (countdown)شروع ہوتا ہے۔ وہ طاقت سے بے طاقتی کی طرف اور جوانی سے بڑھاپے کی طرف سفر کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا حال وہ ہوجاتا ہے، جس کی تصویر اس آیت میں بتائی گئی ہے: ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّکُمْ وَمِنْکُمْ مَنْ یُتَوَفَّى وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا(22:5)۔ یعنی پھر ہم تم کو بچہ بنا کر باہر لاتے ہیں۔ پھر تاکہ تم اپنی پوری جوانی تک پہنچ جاؤ۔ اور تم میں سے کوئی شخص پہلے ہی مرجاتا ہے اور کوئی شخص بد ترین عمر تک پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ وہ جان لینے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔
بچپن اورجوانی اور بڑھاپے میں انسان کے لیے سبق ہے۔ مگر انسان کی حالت یہ ہے کہ اس کو آنکھ اور ہاتھ پاؤں اور دوسری صلاحیتیں جو حاصل ہیں، ان کو پا کر وہ سرکش بن جاتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ سوچے تو یہی واقعہ اس کی نصیحت کے لیے کافی ہوجائے کہ یہ صلاحیتیں اس کی اپنی بنائی ہوئی نہیں ہیں بلکہ خالق کے دینے سے اس کو ملی ہیں، اور جب دینے والا کوئی اور ہو تو اس نے جس طرح دیا ہے اسی طرح وہ ان کو واپس لے سکتا ہے۔
مزید یہ کہ بڑھاپے کی صورت میں اس امکان کی ایک جھلک عملاً بھی لوگوں کو دکھائی جا رہی ہے۔ آدمی جب زیادہ بوڑھا ہوتا ہے تو اس کی تمام طاقتیں بھی چھن جاتی ہیں۔ حتی کہ وہ دوبارہ ویسا ہی کمزور اور محتاج ہوجاتا ہے، جیسا کہ وہ اس وقت تھا جب کہ وہ ایک چھوٹا بچہ تھا۔ مگر انسان اتنا نادان ہے کہ اس کے باوجود وہ کوئی سبق نہیں لیتا۔ (9 ستمبر 2019)
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے کا پلس پوائنٹ

ایک بار میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے کولمبو گیا۔ وہاں ہوٹل کے گراؤنڈ فلور پر کھلی جگہ تھی، جہاں لوگ بیٹھا کرتے تھے۔ میں بھی وہاں بیٹھتا تھا۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ ہوٹل کے اسٹاف کا ایک نوجوان آدمی میرے پاس آیا، اور بہت دیر تک میرے پاس بیٹھا رہا۔ اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ البتہ وہ برابر مجھ کو دیکھتا رہا۔ آخر میں اس نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر مجھے اپنے دادا جی یاد آتے ہیں۔ کیوں کہ میرے داد ا بھی دیکھنے میں آپ ہی جیسے تھے۔
زیادہ عمر ہونے کے بعد مجھے بار بار اس طرح کے تجربات ہوئے ہیں۔ جب آدمی کی عمر زیادہ ہوتی ہے، اس کے بال سفید ہوجاتے ہیں، اور اس کا حلیہ بزرگ آدمی کا حلیہ بن جاتا ہےتو اس کے اندر لوگوں کے لیے ایک خاص اہمیت پیدا ہوجاتی ہے۔ زیادہ عمر کے آدمی کا مطلب ہے بزرگ (senior)آدمی۔ بزرگ آدمی کا مطلب ہے زیادہ تجربہ کار آدمی، بزرگ آدمی کا مطلب ہے زیادہ ہمدرد آدمی، بزرگ آدمی کا مطلب ہے زیادہ باخبر آدمی۔ یہ چیز بزرگ آدمی کو لوگوں کی نظروں میں زیادہ قابلِ توجہ آدمی بنا دیتی ہے۔
زیادہ عمر کا آدمی سماج کے لیے زیادہ کار آمد آدمی ہوتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ لوگوںکی نظر وں میں ایک مشفق آدمی بن جائے۔ وہ سخت کلامی کو بالکل چھوڑ دے۔ وہ صرف یہ کرے کہ وہ نرمی کے انداز میں کوئی نصیحت کی بات کہہ دے، وہ لوگوں کے سروں پر ہاتھ رکھے، وہ ان کے لیے دعا کے الفاظ بولے۔زیادہ عمر کا آدمی سماج کے لیے ایک سرمایہ (asset) ہے۔ بشرطیکہ زیادہ عمر کا آدمی اپنے اس پہلو کو جانے، اور اس کوسمجھداری کے ساتھ استعمال کرے۔
زیادہ عمر کا آدمی پورے سماج کا ایک بزرگ ممبر (senior member) ہوتا ہے، گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی۔ بزرگ آدمی کو چاہیے کہ وہ محبت کے ساتھ دوسروں کو اپنی زندگی کے تجربات بتائے۔ وہ اپنی پختگی (maturity) کو اگلی نسلوں تک منتقل کرے۔
واپس اوپر جائیں

رخصت کا اصول

شرعی احکام میں ایک اصول وہ ہے، جس کورخصت (concession) کا اصول کہا جاتا ہے، یعنی کسی حکم کی تعمیل میں تخفیف کردینا۔ یہ اصول شریعت کے تمام احکام میں ہیں۔رخصت کا لفظی مطلب ہے نرمی اور سہولت۔ جب کوئی شرعی عذر واقع ہوتو اس وقت رخصت پر عمل کرناچاہیے۔مثلاً اگر کسی آدمی کے لیےپانی کے استعمال سے بیماری کا ڈر ہو تواس وقت پانی سے وضو کرکے نماز پڑھنے کے بجائے تیمم کرکے نماز پڑھنا، وغیرہ۔
آسانی کا یہ اصول صرف مریض کے لیے نہیں ہے، بلکہ زیادہ عمر والوں کے لیے بھی ہے۔ تخفیف (convenience)کا یہ اصول صرف رعایت کے طور پر نہیں ہے، بلکہ اس کی ایک اہم مصلحت ہے، اور وہ مصلحت ہے- زیادہ عمر والوں کو یہ موقع دینا کہ وہ عمر کے اعتبار سے معذور ہونے کے باوجود زیادہ مدت تک لوگوں کے لیے مفید بنے رہیں۔
زیادہ عمر کا مطلب پختگی (maturity) ہے، اس کا مطلب ناکارگی نہیں ہے۔ زیادہ عمر والا آدمی جسمانی اعتبار سے بلاشبہ کمزور ہوجاتاہے، لیکن فہم و فراست کے اعتبار سے وہ دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے۔اس میں استثنا صرف اس وقت ہوتا ہے، جب کہ بڑھاپے کے ساتھ بیماری کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہو۔ ایک انسان جب پختگی کی عمر تک پہنچتا ہےتو وہ زیادہ تجربے والا بن جاتا ہے۔ اب اس کی سمجھ بوجھ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
مثلا ًایک مقرر اگر بوڑھا ہوجائے تو وہ کھڑے ہوکر بولنے سے معذور ہوسکتا ہے، لیکن وہ بدستور بیٹھ کر بول سکتا ہے۔ حتی کہ عبادت کے معاملے میں ایسا ہوسکتا ہے کہ بوڑھا آدمی ارکان کی ادائیگی میں رخصت پر عمل کرے، لیکن روحِ عبادت کے معاملے میں وہ دوسروں سے زیادہ بامعنی عبادت کرے۔ کسی کام کی ادائیگی میں وہ زیادہ پلاننگ کے ساتھ کسی کام کو انجام دے ۔ اسی طرح یہ ممکن ہے کہ بوڑھے آدمی کے پاس دوسروں کو بتانے کے لیے زیادہ معنی خیز باتیں ہوں۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے کا دور

بڑھاپے کا دور اپنے امکانی استعمال کے اعتبار سے کسی انسان کے لیے خصوصی رحمت کا دور ہے۔ بڑھاپے کے دور میں عام طور پر جسم کمزور ہوجاتا ہے، لیکن انسان کے سوچنے کی طاقت کم و بیش باقی رہتی ہے۔ بڑھاپے کے دور میں انسان مشقت کا کام (hard work) نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کے لیے ممکن رہتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے گزرے ہوئے لمحات کو لے کر سوچے، وہ اپنی زندگی کا محاسبہ (introspection) کرے۔وہ اپنے گزرے ہوئے لمحات پر غیر جانب دارانہ انداز میں سوچے۔
بڑھاپے میں کسی انسان کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ اس کے اندر ندامت(repentance) کا احساس جاگے۔ بڑھاپے کے دور میں ری پلاننگ کا کام عام طور پر مشکل ہوتا ہے، لیکن ری تھنکنگ کا عمل پوری طاقت کے ساتھ جاری ہوسکتا ہے۔ اگر کسی کی زندگی لمبی ہوجائے، اور وہ بڑھاپے کی عمر تک پہنچےتو اس کو چاہیے کہ وہ بڑھاپے کی عمر کو ایک موقع کے طور پر لے۔ وہ بڑھاپے کی عمر کو زیادہ سے زیادہ آخرت کی سوچ میں گزارے۔ وہ اپنے لمحات کو سچی توبہ میں گزارے۔ وہ قرآن و حدیث کا اس حیثیت سے مطالعہ کرے کہ قرآن و حدیث میں بڑھاپے کے دور کے لیے کیا نصیحت ملتی ہے۔ وہ اصحابِ رسول کے حالات کا مطالعہ کرکے یہ جانے کہ اصحابِ رسول نےاپنے بڑھاپے کے دور کو کس طرح گزارا۔ اصحابِ رسول امت کے لیے ہر اعتبار سے ماڈل ہیں۔ ہر مومن کو چاہیے کہ وہ اصحابِ رسول کی زندگی سے سبق لے، اور اپنی آخری عمر میں وہ کرے، جو وہ اپنی ابتدائی عمر میں نہ کرسکا۔
بڑھاپے کا دور افسوس میں گزارنے کے لیے نہیں ہے۔ بڑھاپے کا دور اس لیے ہےکہ اگر آدمی نے اپنے ابتدائی دور میں اپنی جسمانی طاقت کو زیادہ استعمال کیا،تو اب وہ سوچنے کی طاقت (intellectual power)کو زیادہ استعمال کرے۔ اپنی زندگی کے پچھلے دور میں اگر اس نے اپنی دنیا کو تعمیر کرنے کے لیے زیادہ دوڑ دھوپ کیا ہےتو بڑھاپے کی عمر میں وہ اپنی آخرت کی تعمیر کے لیے زیادہ سرگرداں ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے کا تجربہ

قرآن میں تین مقامات پر یہ بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ موت کاذائقہ چکھے (آل عمران،3:185، الانبیاء، 21:35، العنکبوت، 29:57) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو ضرور موت کا تجربہ پیش آنے والا ہے۔موت سے پہلے انسان پر بڑھاپا آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑھاپا انسان کے لیے زندگی کاصرف ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ بڑھاپا انسان کے لیے موت کا ایک پیشگی تجربہ ہے۔
بڑھاپا اس لیے آتا ہے کہ انسان تجربے کی صورت میں موت کی حقیقت کو جان لے۔ تاکہ وہ موت کے بعد پیش آنے والے دورِ حیات کی پیشگی تیاری کرلے۔ موت بہر حال ہر انسان کے لیے آتی ہے۔ مگر بڑھاپا انسان کے لیے ایک چیتاونی ہے، تاکہ وہ موت سے پہلے موت کے بعد والے حالات کی تیاری کرلے۔
ہر انسان کو موت کا ذائقہ چکھناہے، یعنی ہر انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ موت کا تجربہ کرے۔ بڑھاپے سے پہلے انسان کے لیے موت ایک خبر ہوتی ہے۔ لیکن بڑھاپا انسان کے لیے موت کا ایک تجربہ بنا رہتا ہے۔ اس لحاظ سے بڑھاپے کا زمانہ گویا فائنل کال(final call) ہے کہ انسان آخرت سے پہلے آخرت کی تیاری کرلے۔ بڑھاپے کا زمانہ آخرت کی تیاری کا آخری زمانہ ہے۔ بڑھاپے کے ساتھ یہ زمانہ ختم ہوجائے گا، اور انسان کو یہ موقع باقی نہ رہے گا کہ انسان آخرت کے لیے مزید تیاری کرسکے۔
موت انسان کے لیے ایک دورِ حیات کی پیشگی خبر ہے۔ موت سے پہلے انسان زندگی قبل از موت کا تجربہ کرتا ہے۔ موت انسان کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ موت کے بعد آنے والے دورِ آخرت کے لیے اپنے آپ کو پیشگی طور پر تیار کرلے۔وہ اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے تیار کرلے کہ آخرت کا زمانہ اچانک آجائے، اور اس کے لیے اس نے اپنی تیاری نہ کی ہو۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے سے سبق لینا

انسانی زندگی کا ایک ظاہرہ وہ ہے جس کو بڑھاپا کہاجاتاہے۔ بڑھاپا کوئی غیر مطلوب چیز نہیں۔ بڑھاپے کی عمر میں انسان کے لئے ایک موقع موجود ہوتا ہے، یعنی نصیحت لینا۔ قرآن کی سورہ الفاطر میں یہ بات ان الفاظ میں آئی ہے:اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ (35:37)۔ یعنی کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا۔ انسان اس دنیا میں محدود عمر کے لئے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ پیدا ہوتے ہی انسان کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوجاتا ہے۔
انسان کا آخری انجام موت ہے، اور بڑھاپا اس انجام کا آخری وارننگ کال ۔ تقریباً 35 سال تک اس کا گراف اوپر کی طرف جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ نیچے جانا شروع ہوتا ہے۔ ادھیڑ عمر، بڑھاپا، آخر میں موت ۔ اس درمیان میں اس کو مختلف قسم کے نقصان پیش آتے ہیں۔ مثلاً بیماری، حادثہ، طرح طرح کے مسائل، وغیرہ۔ اس طرح آدمی سے ایک ایک چیز چھنتی رہتی ہے۔ پہلے جوانی، پھر صحت، پھر سکون، وغیرہ۔ یہاں تک کہ موت کا وقت آتا ہے۔ اس لمحہ آدمی کی ہر وہ چیز، جس کو وہ اپنا سمجھتا تھا، یہاں تک کہ اس کا اپنا جسمانی وجود بھی اس سے چھن جاتا ہے۔ اس کے بعد جو چیز باقی رہتی ہے وہ صرف انا (ego)ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
موت کا تجربہ کسی انسان کے لئے سب سے زیادہ سنگین تجربہ ہے۔ اس تجربہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنے قبل ازموت مرحلۂ حیات میں جو کمایا تھا وہ اس سے ابدی طورپر چھن گیا۔ اِس کے آگےبعد ازموت مرحلۂ حیات کا معاملہ ہے، موجودہ دنیا انسان کا آج ہے اور آخرت کی دنیا اس کا کل ہے۔ اس دوسرے مرحلہ میں آدمی کو صرف وہ چیز کام آئے گی، جو اس نے عمل صالح کی صورت میں اپنے آگے کے لئے بھیجی۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (59:18)۔ یعنی اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا— بڑھاپا برائے سبق ہے، بڑھاپا برائے شکایت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بہت دن کم رہا

میر تقی میر ایک اردو شاعر تھے۔وہ آگرہ میں 1723 میں پیدا ہوئے، اور لکھنؤ میں 1810 میں 87 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کا ایک شعر یہ ہے:
صبح پیری شام ہونے آئی میر تو نہ چیتا یاں بہت دن کم رہا
یہ شعر میں نے اپنی نوجوانی کی عمر میں پڑھا تھا۔ اس وقت میں یوپی کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ اب میں خود بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر اسی تجربے سے گزر رہا ہوں، جو تجربہ اردو شاعر کو پیش آیا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے کہ بڑھاپے کی بات کو کہنایا لکھنا اور چیز ہے، لیکن بڑھاپے کی عمر کا تجربہ کرنا، بالکل مختلف چیز ہے۔ نوجوانی کی عمر میں جب میں نے یہ شعر پڑھا تھاتو یہ صرف ایک شعر معلوم ہوتا تھا۔ لیکن آج جب میں اس شعر کو پڑھتا ہوںتو وہ ایک حقیقت معلوم ہوتا ہے۔ اب واقعۃً یہ محسوس ہوتا ہے کہ لمبی عمر گزرگئی، اور اب کرنے کے لیے بہت کم وقت باقی رہا۔
ایک بار بیرونی سفر کے دوران میری ملاقات سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس ہنسراج کھنہ سے ہوئی۔ وہ ریٹائر ہونے کے بعد دلی میں رہتے تھے، اور 2008 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ دورانِ سفر ان سے جو باتیں ہوئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ انھوں نے بتایا کہ جے آر ڈی ٹاٹا (1904-1993)بڑھاپے کی عمر میں میرے پاس قانونی مشورے کے لیے کبھی کبھی آتے تھے۔ ایک بار جے آر ڈی ٹا ٹا نے ان سے کہا تھا: کھنہ صاحب، مُولیہ (capital)تو کھا چکا ہوں، اب بیاج پر جی رہا ہوں۔
بے خبر انسان کے لیے موت صرف زندگی کے خاتمے کا نام ہے، لیکن جو انسان حقیقت سے باخبر ہو، وہ سوچے گا کہ زندگی کے پچھلے دن تو میں کھو چکا، اب زندگی کے چند دن جو باقی ہیں، کیا میں ان کو اویل کرسکتا ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ میں غفلت کی زندگی کو اپنے آخری دنوں میں ہوشمندی کی زندگی بنا لوں۔
واپس اوپر جائیں

غفلت کا سبب

اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ موت سے غافل رہتے ہیں۔ حتی کہ ایک شخص کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں، پھر بھی انھیں موت کی یاد نہیں آتی۔ اس غفلت کا سبب یہ ہے کہ لوگ اللہ رب العالمین سے غافل ہیں، اس لیے وہ موت سے بھی غافل بنے ہوئے ہیں۔ اگر لوگوں کے اندر موت کی یاد کو زندہ کرنا ہےتو اس سے پہلے ان کے اندر اللہ پر یقین کو زندہ کرنا ہوگا۔ اللہ پر یقین کے بغیر لوگوں کے اندر موت کا زندہ یقین پیدا نہیں ہوسکتا۔ آج کل حالت یہ ہے کہ آپ کوئی کتاب پڑھیں، یا کسی مجلس میں شرکت کریں، ہر جگہ آپ کو دوسری دوسری باتیں تو سننے کو ملیں گی، لیکن اللہ پر زندہ یقین، نہ میر مجلس کے اندر ہوگا اور نہ حاضرینِ مجلس کے اندر ۔لوگ اللہ کے بارے میں صرف یہ جانتے ہیں کہ زبان سے لا الہ الا اللہ کہہ دیا جائے۔ مگر اس قسم کا قول ہرگز کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ آپ کے اندر اللہ کا زندہ یقین ہو۔ اس کے بعد ہی آپ کے اندر موت کا زندہ یقین پایا جاسکتا ہے۔
آپ لوگوں سے ملیے،اور لوگوں کے پاس بیٹھ کر یا ان کی باتیں سن کر اندازہ کیجیے۔ آپ کو بہت جلد یہ حقیقت دریافت ہوگی کہ اللہ پر وہ یقین لوگوں کے دلوں میں موجود نہیں، جو قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ(8:2)۔یعنی ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں ۔ اسی طرح آیۃ الکرسی کو زبانی یاد کرنے اور اس کو جاننے والے بہت ہیں، لیکن اس کے اِس لرزہ خیز الفاظ کو زندہ حقیقت کے طور پر دریافت کرنے والا شاید کوئی نہیںکہ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ (2:255)۔ یعنی اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے:
His throne extends over the heavens and the earth.
جب لوگوں کے اندر اللہ رب العالمین پر زندہ یقین نہ ہو تو ان کےاندر موت اور آخرت پر زندہ یقین کہاں سے پیدا ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

حقیقتِ اعلی کی دریافت

زندگی میں آدمی کے لیے بہت سے مسئلے آتے ہیں۔ مثلاً بیماری، حادثہ، نقصان، وغیرہ۔ لیکن بڑھاپا ایک بالکل مختلف قسم کا مسئلہ ہے۔ بڑھاپا گویا خاتمۂ حیات کا نام ہے۔ بڑھاپا ہمیشہ پوائنٹ آف نو رِٹرن (point of no return) پر آتا ہے۔ بڑھاپا ہر اعتبار سے انسان کے لیے صرف ایک مسئلہ ہے۔
لیکن بڑھاپے کا ایک مثبت پہلو ہے، جو صرف بڑھاپے سے حاصل ہوتا ہے، اور وہ عجز (helplessness)کی دریافت ہے۔ عجز کی دریافت دوسرے اسباب سے بھی جزئی طور پر ہوتی رہتی ہے، لیکن کامل معنوں میں عجز کی دریافت صرف بڑھاپے سے حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ بڑھاپاکسی آدمی کو اس وقت آتا ہے، جب کہ اس کا جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے۔انسان کا جسم فطری طور پرایک بہترین ساخت پر قائم ہے۔ اس جسم کو تقریباً 80 آرگن (organs)نہایت اعلیٰ مینجمنٹ کے ساتھ چلارہے ہیں۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ یہ آرگن جزئی یا کلی طور پر اپنا فنکشن بند کردیتے ہیں۔اس فنکشن کو دوبارہ جاری نہیں کیاجا سکتا۔ کسی آرگن کے فیل ہونے کا آخری نتیجہ موت ہوتا ہے۔
عجز بلاشبہ حقیقتِ اعلیٰ کی دریافت ہے۔ حقیقتِ اعلیٰ کی دریافت کے بغیر انسان کی شخصیت ایک ناقص شخصیت ہوتی ہے۔ ناقص شخصیت کا مکمل ہونا، صرف اس وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے۔ بڑھاپے کا دور سب سے بڑی دریافت کا دور ہے۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ بوڑھا انسان صرف ایک بات کو جان پاتاہے۔ وہ یہ ہے کہ اس کو نظر انداز (neglect)کیا جارہا ہے۔ بوڑھا انسان مسلسل طور پر صرف شکایت (complaint) میں جیتا ہے۔ کم از کم میں نے کسی بوڑھے انسان کو نہیں پایا، جو بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے کے باوجود شکایت کی نفسیات سے بچا ہوا ہو۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو اکثر حالت میں ایسا ہوتا ہے کہ مادی اعتبار سے انسان کا جسم اگرچہ بوڑھا ہوجاتا ہے، لیکن اس کا ذہن بدستور کام کرتا رہتا ہے۔ مزید یہ کہ اس کا ذہن پہلے سے بہتر ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ اس کے ذہن میں تجربات کا اضافہ ہوجا تاہے۔ انسا ن اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ گہرے انداز میں معاملات پر رائے قائم کرسکے۔ پہلے اگر وہ صرف جاننے والا تھاتو اب وہ ایک دانش مند انسان بن جاتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ بصیرت افروز انداز میں معاملات پر اپنی رائے دے سکے۔ وہ لوگوں کو زیادہ صائب (rational) انداز میں درست مشورہ دے سکے۔ بوڑھا انسان ایک پختہ (mature) انسان ہوتا ہے۔ وہ اپنے تجربات کی بنا پر اس قابل ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ نتیجہ خیز رہنمائی دے سکے۔
انسان کی سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو ڈسکور کرے۔ یہ دریافت ہر لمحے ہوسکتی ہے۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ آدمی بڑھاپے سے پہلے بُھلاوَہ کلچر میں جیتا ہے۔ وہ بھلاوہ کلچر سے صرف اُس وقت باہر نکلتا ہے، جب کہ وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچے۔ جب اس کے آرگن کام کرنا بند کرنے لگیں۔ یہی اصلی عجز کی دریافت کا وقت ہوتا ہے، اور یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان شعوری طور پر قادرِ مطلق خدا کو دریافت کرے، لیکن انسان اپنی بے خبری کی بنا پر یہ کرتاہے کہ اپنی زندگی کے پہلے دور میں وہ بے خبری (unawareness) میں جیتا ہے، اور دوسرے دور میں شکایت کی نفسیات میں۔ اس طرح انسان اپنی طاقت کے دور کو بھی کھودیتا ہے، اور اپنے ضعف کے دور کو بھی۔
بڑھاپے کی عمر پختگی (maturity) کی عمر ہوتی ہے۔ اس زمانے میں انسان کا تجربہ (experience) بڑھ جاتاہے۔ انسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ معلومات کی روشنی میں غور وفکر کرے۔ یہ چیزیں انسان کی عقل میں اضافہ کرتی ہیں۔ انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ دانش مندانہ رائے دے سکے۔ عمر رسیدہ آدمی سماج میں اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ دینے والا (giver) بن کر رہ سکے۔ بوڑھا آدمی اگر صرف ایک کام کرے کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھے، جس میں اس نے اپنی زندگی کے تجربات بیان کیے ہوںتو ہر آدمی اپنی سوسائٹی کا ایک عظیم دینے والا (great giver) بن کر دنیا سے رخصت ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

مطلوب رول

مکیش ہندی سنیما کے ایک نہایت مشہور پلےبیک سنگر تھے۔ ان کو وائس آف ملینیم (Voice of the Millennium) اور ٹریجڈی کنگ (Tragedy King) کہاجاتا ہے۔ وہ دہلی میں 1923 ء کو پیداہوئے۔ 53 سال کی عمر میں 1976 میں ان کی موت ہوگئی، جب کہ وہ اپنے کیریر میں عروج پر تھے۔ ان کی موت امریکا کے ڈیٹیرائٹ (مشی گن) میں ہوئی۔ وہ وہاں ایک پروگرام میں اپنا پرفارمنس دینے کے لیے گئے تھے۔ جس دن اس کی موت واقع ہوئی، اس دن وہ صبح کو جلدی اٹھے، نہایا،اس کے بعد سینے میں درد محسوس ہواتو اس کو فوراً ہاسپٹل لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے اعلان کیا کہ ہارٹ اٹیک سے مکیش کا انتقال ہوچکا ہے۔
ہر انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، وہ خالق کے پیدا کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ خالق ہر انسان کو مختلف قسم کی صلاحیتیں دے کر دنیا میں بھیجتا ہے۔ ہر انسان کو اس دنیا میں کوئی پرفارمنس دینا ہے۔ ہر انسان امکانی (potential)طور پر ویل اکوئپڈ(well equipped) انسان کی حیثیت سے پیدا ہوتا ہے، تاکہ وہ اپنےامکانات کو جانے، اور اس کے مطابق، اپنا مطلوب رول اعلیٰ درجے میں ادا کرسکے۔ ہر انسان پر لازماً موت آتی ہے۔ موت کے بعد ہر انسان اپنے خالق کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں اس سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنا مطلوب رول ادا کیا یا نہیں۔
ہر عورت اور مرد کو اسی سوچ کے ساتھ دنیا میں زندگی گزارنا ہے۔ ہر عورت اور مرد کو اپنے بارے میں یہ دریافت کرنا ہے کہ وہ کون سا رول ادا کرنے کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے، اور کیا وہ اس رول کو دنیا میں ادا کررہا ہے یا نہیں۔ یہی ہر انسان کا امتحان ہے۔ جو اس امتحان میں پورا اترے، وہ کامیاب ہے، اور جو اس امتحان میں پورا نہ اترے، وہ ناکام ہے۔ مکیش کوٹریجڈی کنگ کہا جاتا ہے۔ غالباً مکیش کا رول یہ تھا کہ وہ انسان کو بتائے کہ اس دنیا میں انسان کس طرح ٹریجڈی میں اپرچنٹی (opportunity) کو دریافت کرے، وہ کس طرح اپنی ناکامی کو کامیابی میں کنورٹ کرے۔
واپس اوپر جائیں

زندگی ایک موقع

قرآن میںزندگی کی ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (3:185)۔ یعنی ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان پر لازماً موت کا تجربہ گزرنے والا ہے۔ ہر انسان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آنے والا ہے کہ اس پر موت آئے۔ ایک محدود مدت تک زمین پر رہنے کے بعد وہ مرکر ایک اور دنیا میں پہنچ جائے۔
سروے کے مطابق، اس دنیا میں انسان کی اوسط عمرتقریباً80 سال ہے۔ ہر انسان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ وہ ایک بچے کی حالت میں پیدا ہو۔ پھر وہ جوان ہو۔ اس کو بیماری اور حادثہ جیسے تجربات پیش آئیں۔ زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے وہ بڑھاپے کی عمر تک پہنچے۔ پھر کوئی شخص کم عمری میں مرجائے، اور کوئی شخص زیادہ عمر کو پہنچ کر دنیا سے رخصت ہوجائے۔زندگی اور موت کا یہ تجربہ رب العالمین کے تخلیقی نقشے کے مطابق پیش آتا ہے۔ اس تخلیقی نقشے کوقرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً (67:2)۔ یعنی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا کام کرتا ہے۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، پیدا ہونے کے بعد انسان پر زندگی کے جو مختلف مرحلے پیش آتے ہیں، وہ ایک موقع (opportunity) کے طور پر پیش آتے ہیں۔ یعنی مختلف تجرباتِ حیات سے گزار کر انسان کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو احسن العمل (best in conduct) کی حیثیت سے ڈیولپ کرے۔ وہ اپنے آپ کو بہترین شخصیت کی حیثیت سے تیار کرے۔اس کے بارے میں نگراں فرشتے یہ ریکارڈ کررہے ہیں کہ کن حالات میں وہ کیسا رسپانس (response) دیتا ہے۔ اگر اس کی زندگی کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہےتو اس کا انتخاب جنتی شہری کی حیثیت سے کیا جاتا ہے، ورنہ اس کو کائناتی کوڑا خانے میں ڈال دیا جاتا ہے، جہاں وہ ہمیشہ کے لیے حسرت کی زندگی گزارتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

موت کاانتظار

زندگی ہر انسان کے لیے ایک انتظار ہے۔ یہ انتظار کاؤنٹ ڈاؤن کی تکمیل کا انتظار ہے۔ ہر انسان جواس دنیا میں پیدا ہوتا ہے،وہ متعین عمرکے ساتھ پیداہوتا ہے۔ پیدا ہوتے ہی ہر انسا ن کا کاؤنٹ ڈاؤن ٹائمر(countdown timer) بھی چلنے لگتاہے۔ مثلاً ایک شخص یکم جنوری 1901 کوپیدا ہوا ہے، اور اس کی عمر 70 سال لکھی ہوئی ہےتو کاؤنٹ ڈاؤن کا مطلب یہ ہے کہ ہر دن اس کی عمر میں ایک دن کم ہورہا ہے۔ مثلاً پیدا ہونے کے بعد پہلے دن اگر اس کی عمر 70 سال تھی تو اگلے سال اس کی عمرمیں سے 69 سال باقی رہیںگے، پھر اس کے بعد والے سال اس کی عمرمیں سےدو سال کم ہوکر68 سال باقی رہیں گے، اور سلسلہ چلتا رہے گا۔ یہاں تک کہ اس کی طبعی عمر ختم ہوجائے گی۔
موت ہر آدمی کا پیچھا کررہی ہے۔ہر روزانسان کی عمر کا ایک دن کم ہوجا تا ہے۔ تاہم بچپن اور جوانی کی عمر میںوہ اس سے غافل رہتا ہے۔ بالآخرقانونِ فطرت غالب آتا ہے۔ بڑھاپے میں جب اس کی طاقتیں گھٹ جاتی ہیں، تب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اب بہر حال کچھ دنوں کے بعد وہ مرجائے گا۔ اس وقت وہ مجبور ہوتا ہے کہ سوچے کہ ’’مرنے کے بعد کیا ہونے والا ہے‘‘۔ اسے تلاش ہوتی ہے کہ وہ کوئی امید کی کرن پالے ،جو موت کے بعد آنے والے حالات میں اس کو روشنی دے سکے۔
بڑھاپا ہر آدمی کے لیے اِس بات کی خبر ہوتا ہے کہ موت قریب آگئی۔ اِس کے بعد جب اس کو بیماریاں لگتی ہیںتو وہ آدمی کو مزید جھنجھوڑنے کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ اِس لیے ہوتی ہیں کہ آدمی اگر سورہا ہے تو وہ جاگ جائے۔ اور اگر وہ جاگ گیا ہے تو وہ اٹھ جائے، اور اگر وہ اٹھ گیا ہے تو وہ چلنے لگے۔ بڑھاپا اور بڑھاپے میں آنے والی کمزوری اور بیماری ہمیشہ اِس لیے آتی ہے کہ آدمی الرٹ ہوجائے۔ وہ موت سے پہلے موت کی تیاری کرنے لگے۔ وہ موت کے بعدآنے والے حالات پر سوچے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی آخری منصوبہ بندی کرے۔ لیکن انسان واقعات سے سبق نہیں لیتا۔ بڑھاپا اور بیماری اُس کو موت کی خبر دیتے ہیں، لیکن وہ موت کے بارے میں سوچنے کے بجائے صرف علاج کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے پیچھے دوڑتا ہے، یہاںتک کہ وہ ناامیدی کے ساتھ مرجاتا ہے۔ دوبارہ جو چیز اُس کو ملتی ہے، وہ تندرستی نہیں ہے، بلکہ موت ہے۔
کاؤنٹ ڈاؤن کا یہ پراسس ہر آدمی کے ساتھ ہورہا ہے۔ہر دن جب سورج غروب ہوتا ہے تو عملاً وہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اب آپ کی عمر کا ایک دن کم ہو چکا ہے۔ کم ہوتے ہوتے ، وہ لمحہ آجاتا ہے، جب کہ آپ کے پاس صرف ایک دن باقی رہتا ہے، اس باقی ماندہ ایک دن کو یا تو آپ استعمال کرلیجیے، یا اس بات کا انتظار کیجیے کہ وہ آخری دن آپ کی موت کا فیصلہ کن دن بن جائے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر آدمی روزانہ اپنے آس پاس کے ماحول میں دیکھتاہے، لیکن کوئی آدمی اُس سے سبق نہیں لیتا۔ اِس معاملے میں ہر آدمی اندھا بنا ہوا ہے۔ وہ صرف اِس انتظار میں ہے کہ موت اس کی آنکھ کھولے۔ لیکن موت کے بعد آنکھ کاکھلنا، کسی عورت یا مرد کے کچھ کام آنے والا نہیں۔ زندگی کا یہ تصور بلاشبہ ایک لرزا دینے والا تصور ہے۔ کیوں کہ آپ کی عمر کا آخری دن بھی جب ختم ہوجائےتو اس کے بعد آپ خالی ہاتھ ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کے پاس اپنا کچھ باقی نہیں رہتا۔ کاؤنٹ ڈاؤن کا آخری دن یاد دلاتا ہے کہ اب وہ آخری لمحہ آگیا، جب کہ آپ بالکل اکیلے ہوجائیں گے۔ جب کہ ایک طرف آپ ہوں، اور دوسری طرف رب العالمین ہو۔
قرآن میں اس دن کے بارے میں آیا ہے: یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ (83:6)۔ یعنی کاؤنٹ ڈاؤن کے ختم ہوتے ہی آدمی اپنے آپ کو اس ہستی کے سامنے پائےگا، جو اس کا خالق بھی ہے، اور اسی کے ساتھ اس کا محاسِب بھی۔ آدمی کو اگر کاؤنٹ ڈاؤن(countdown) کے اٹل قانون کا سچا احساس ہوجائے تو اس کی زندگی مکمل طور پر بدل جائے گی، وہ قیامت کے آنےسے پہلے اپنے آپ کو قیامت میں کھڑا ہوا پانےلگے گا۔
واپس اوپر جائیں

موت کا تجربہ

قرآن میں آیا ہے :کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (3:185)۔ یعنی ہرنفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ذائقہ سے مراد تجربہ (experience)ہے، یعنی ہر انسان جو پیدا ہوا ہے، اس کو لازماً موت کا تجربہ پیش آنے والا ہے۔ پیدائش بھی ایک تجربہ ہے، اور موت بھی ایک تجربہ۔ کامیاب انسان وہ ہے، جو ان دونوں تجربات سے سبق لے۔ جو ان تجربات کو اپنے لیے سبق میں ڈھال سکے۔
زندگی کو جاننے والا شخص وہ ہے، جو زندگی کو ایک موقع کی صورت میں دریافت کرے، اور پھر منصوبہ بند انداز میں اس موقع کو استعمال کرے۔ یہی انسان کامیاب انسان ہے۔ ایسے انسان کے لیے زندگی بھی بامعنی ہے، اور موت بھی بامعنی۔ اس کے برعکس کیس، اس انسان کا کیس ہے، جو دنیا میں اس طرح جیے کہ وہ زندگی کی حقیقت سے بے خبر ہو، اور موت کی حقیقت سے بھی بے خبر رہے۔ جو بے خبری میں جیے ، اور بے خبری کی حالت میں مر جائے۔ایسے انسان کو نہ زندگی سے کچھ ملا، اور نہ وہ موت سے کچھ پانے والا ہے۔ ایسے انسان کے لیے زندگی بھی محرومی ہے، اور موت بھی محرومی۔
زندگی ایک آغاز ہے۔تاہم موت اس آغاز کا خاتمہ نہیں۔ زندگی ایک کتاب کی مانند ہے۔ ایک انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ گویا کہ اپنی کتاب کو لکھنا شروع کرتا ہے۔ لکھنے کا یہ کام آدمی خود کرتا ہے۔ آدمی کی سوچ ، اس کا عمل ، اس کامنصوبہ، اس کی آرزوئیں، اس کی تمنائیں، اس کی ناکامی، اور اس کی کامیابی ، یہ تمام چیزیں انسان کی خود نوشت سوانح عمری کے ابواب ہیں۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَکُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہُ فِی عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَابًا یَلْقَاہُ مَنْشُورًا ۔اقْرَأْ کِتَابَکَ کَفَى بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا (17:13-14)۔ یعنی ہم نے ہر انسان کی قسمت اس کے گلے کے ساتھ باندھ دی ہے اور ہم قیامت کے روز اس کے لیے ایک رجسٹر نکالیں گے جس کو وہ بالکل کھلا ہوا پائے گا۔ پڑھ اپنی کتاب۔ آج اپنا حساب لینے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔
واپس اوپر جائیں

حسرت کا دن

آخرت کا دن تمام انسانوں کے لیے ، بالفاظِ دیگر پوری انسانی تاریخ کے لیے فیصلے کا دن ہوگا۔ اس دن موقع گنوانے والے کے ساتھ کیا پیش آئے گا، اس کا ذکر قرآن کئی مقام پر آیا ہے۔ ان میں سےایک آیت یہ ہے:کَذَلِکَ یُرِیہِمُ اللَّہُ أَعْمَالَہُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْہِمْ وَمَا ہُمْ بِخَارِجِینَ مِنَ النَّارِ (2:167)۔یعنی اس طرح اللہ ان کے اعمال کو انھیں حسرت بنا کر دکھائے گا اور وہ آگ سے نکل نہ سکیں گے۔ دوسری آیت یہ ہے: وَأَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِیَ الْأَمْرُ وَہُمْ فِی غَفْلَةٍ وَہُمْ لَا یُؤْمِنُونَ (19:39)۔ یعنی اور ان لوگوں کو اس حسرت کے دن سے ڈرا دو جب معاملے کا فیصلہ کردیا جائے گا، اور وہ غفلت میں ہیں۔ اور وہ ایمان نہیں لا رہے ہیں۔
یومِ حسرت سے مراد ہےday of regret۔ آخرت کے دن انسان اس بات پر بے پناہ حسرت کرے گا کہ آہ، اس کو خالق نے کیسا اعلیٰ موقع دیا تھا، لیکن اس نے اس موقع کو اویل (avail) نہیں کیا۔ آخرت میں یہ حسرت انسان کے لیے حسرت کی آگ بن جائے گی۔ وہ محرومی کے شدید احساس کے ساتھ سوچے گا کہ کیسا عجیب موقع تھا، جو اس سے کھویا گیا۔ آدمی اپنی گزری ہوئی زندگی کو حسرت کے ساتھ دیکھے گا ،اور کچھ نہ کرسکے گا۔
آدمی دنیا میں ناکامی سے دو چار ہوتا ہے تو اس کو موقع ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ نئی زندگی شروع کرسکے۔ اس کے پاس ساتھی اور مددگار ہوتے ہیں جو اس کو سنبھالنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں، مگر آخرت کی ناکامی ایسی ناکامی ہے، جس کے بعد دوبارہ سنبھلنے کا کوئی امکان نہیں۔ کیسا عجیب حسرت کا لمحہ ہوگا جب آدمی یہ جانے گا کہ وہ سب کچھ کرسکتا تھا۔ مگر اس نے نہیں کیا۔ یہاں تک کہ کرنے کا وقت ہی ختم ہوگیا۔حسرت (regret) بھی ایک آگ کی مانند ہے۔ جس طرح معروف آگ مادی آگ ہے۔اسی طرح حسرت نفسیاتی آگ ہے۔ حسرت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو شدید احساس ہو کہ آہ کیسا قیمتی موقع تھا، جو اس سے کھویا گیا۔
واپس اوپر جائیں

کامل بے بسی

زندگی ہر انسان کے لیے ایک سفر ہے، اور موت وہ لمحہ جب کہ اس سفر پر آخری فل اسٹاپ (full stop)لگ جاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں بار بار مختلف قسم کے وقفے آتے ہیں۔ مگر یہ وقفے صرف کاما (،) ہوتے ہیں۔ مثلاً آپ اپنے وطن سے سفر کرکے کسی دوسرے مقام پر جاتے ہیں، اور پھر اپنے مقام پر دوبارہ واپس آجاتے ہیں تو یہ کاما (،) کا ایک واقعہ ہوتا ہے، نہ کہ فل اسٹاپ کا ایک واقعہ۔ مگر موت ہمیشہ پوائنٹ آف نو رِٹرن پر آتی ہے۔ موت ہر آدمی کے لیے ایک فل اسٹاپ ہے۔ اس معاملے میں آدمی کے لیے سوچنے کا موقع صرف اس وقت تک ہے، جب کہ اس کی موت نہ آئی ہو۔ موت کے آتے ہی دفعۃً سوچنے کا موقع ختم ہوجاتا ہے۔ موت سے پہلے آدمی کے لیے کرنے کا موقع ہوتا ہے، اور موت کے بعد آدمی کے لیے اپنے کیے ہوئے کو بھگتنے کا موقع۔
موت کا سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہے کہ وہ اعلان کرکے نہیں آتی، بلکہ اچانک آتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ موت کا فرشتہ پیشگی طور پر آکر آدمی کو بتادے کہ فلاں وقت پر موت آنے والی ہے، تم کو جو تیاری کرنا ہے، وہ کرلو۔ اس کے برعکس، جو ہوتا ہے ، وہ یہ کہ موت بالکل اچانک آجاتی ہے۔ زندگی اور موت کے درمیان جو واقعہ پیش آتا ہے،و ہ صرف اس حادثے کا نام ہے، جس کو انسانی زبان میں غرغر ہ کہاجاتا ہے۔اس سلسلے میں ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ، مَا لَمْ یُغَرْغِرْ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4253)۔ یعنی اللہ عز وجل بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے، جب تک اس پر غرغرہ نہ طاری ہوجائے:
Allah accepts the repentance of man so long as the death rattle has not yet reached his throat.
موت کسی آدمی کے لیے موجودہ دنیا سے انقطاعِ کلی (total detachment) کا نام ہے۔ آدمی جب تک موجودہ دنیا میں ہے، وہ اپنے آپ کو دنیا کا ایک اٹوٹ حصہ سمجھتا ہے۔ وہ اس نفسیات میں جیتا ہے کہ یہ میرا گھر ہے، یہ میری فیملی ہے، یہ میرا مال ہے،یہ میرے لوگ ہیں، یہ میری بنائی ہوئی دنیا ہے، وغیرہ۔ مگر موت آتے ہی اس کی ڈکشنری سے یہ تمام الفاظ اچانک ڈیلیٹ ہوجاتے ہیں۔ اب وہ اپنے آپ کو کامل معنوں میں اکیلا پاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے تو اس کو نہ اپنے آگے کوئی دکھائی دیتا ہے، اور نہ اپنے پیچھے، اس کو نہ اپنے دائیں طرف کوئی دیکھائی دیتا ہے، اور نہ اپنے بائیں طرف۔ حتی کہ اس کے قدموں کے نیچے کی زمین بھی جہاں وہ کھڑا ہوا ہے، اس کی اپنی زمین نہیں ہوتی۔ یہ اس کے لیے آخری حد تک ایک تنہائی اور بے بسی کا لمحہ ہوتا ہے۔
موت کا واقعہ آدمی کے لیے موت کے بعد کامل بے بسی کا واقعہ ہوگا۔ لیکن اگر آدمی موت کے واقعے کو موت سے پہلے سوچ لے تو موت کا واقعہ اس کے لیے سب سے بڑے انقلاب کے ہم معنی بن جائے گا۔ وہ انسان کو ایک اور انسان بنا دے گا۔ اس سوچ سے پہلے آدمی اگر جہنم کے کنارے پر کھڑا ہوا تھا تو اب وہ اچانک اپنے آپ کو جنت کے کنارے کھڑا ہوا پائے گا۔ موت بلاشبہ کسی آدمی کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ ہے، اس سے بڑا واقعہ اور کوئی نہیں۔ موت بظاہر ایک تین حرفی لفظ ہے۔ لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے وہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ ڈکشنری کے تمام الفاظ بھی اس کی سنگینی کو بیان کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
موت کے بارے میں ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:أکْثِرُوا ذِکْرَ ہَادِمِ اللَّذَّاتِ، یَعْنِی الْمَوْتَ(سنن ابن ماجہ، حدیث 4258)۔یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو، جو لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے۔ ایک شخص جب مرتا ہے، اور اس کو تکفین کے بعد قبر میں لٹایا جاتا ہےتو وہ ایک طوفان خیز منظر ہوتا ہے۔ آدمی کے اندر اگر بیدار ذہن موجود ہو تو تدفین کے منظر کو دیکھ کر اس کو حقیقی طور پر موت کی معرفت حاصل ہوجائے۔ اس تجربے کے بعد وہ یقینی طور پر ایک نیا انسان بن جائے گا۔ اس تجربے کے بعد وہ ایک ایسا انسان بن جائے گا جو ہر اعتبار سے ایک نیا انسان ہوگا، وہ ایسا محسوس کرے گا، جیسے کہ پہلے اگر وہ دنیا میں جینے والا بنا ہوا تھا تو اب وہ پورے معنوں میں آخرت میں جینے والا بن گیا ہے۔ آخرت کی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے وہ آخرت کی دنیا میںداخل ہوگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

پوائنٹ آف نو رِٹرن

ہر آدمی ایک مسافر ہے۔ ہر آدمی پیدائش سے موت کی طرف سفر کررہا ہے۔ طبعی عمر پورا کرنے کے بعد ہر آدمی ایک ایسی حد پر پہنچے گا، جہاں وہ محسوس کرے گاکہ اب اس کے لیے پوائنٹ آف نورِٹرن (point of no return) آگیا ہے۔ جہاں وہ صرف آگے جاسکتا ہے، پیچھے کی طرف لوٹنا، اب اس کے لیے ممکن نہیں ۔ انسان پر جب یہ لمحہ آئے گاتو اس کا عجیب حال ہوگا۔ وہ سوچے گا، مگر وہ سوچ نہیں پائے گا۔ وہ چلنے کی کوشش کرے گا، مگر وہ چل نہیں پائے گا۔ وہ پکارے گا، مگر کوئی سننے والا نہ ہوگا۔ وہ لوٹنا چاہے گا، مگر لوٹنے کے لیے کوئی راستہ نہیںملےگا۔ وہ اپنی زندگی کی ری پلاننگ کرنا چاہے گا، مگر اس کو بتانے والا بتائے گا کہ اب تمھارے لیے اپنی زندگی کی ری پلاننگ کا وقت ختم ہوچکا۔ یہ مایوسی کا وہ لمحہ ہوگا، جو اپنے آپ میں ایک ناقابلِ برداشت عذاب ہوگا۔ پوائنٹ آف نورِٹرن کا یہ لمحہ انسان کے لیے زندگی کے تمام کٹھن تجربات سے کٹھن تجربہ ہوگا۔
اگر آپ کو یہ احساس ہوجائے کہ آپ پر کسی بھی وقت وہ لمحہ آسکتا ہے، جو آپ کے لیے ہمیشہ کے لیے پوائنٹ آف نو رِٹرن کے ہم معنی ہوگاتو آپ آخری حد تک الرٹ ہوجائیں گے۔ آپ کو اگر یہ عادت ہے کہ آپ آدھا کام کر کےچھوڑ دیتے ہیںتو آپ چاہیں گے کہ آپ اپنی اس عادت کو ایک لمحے میں ترک کر دیں۔ اگر آپ آخرت فراموشی کی زندگی گزاررہے ہیںتو آپ فوراً آخرت کو یاد کرنے والے بن جائیں گے۔ اگر آپ کا یہ حال ہے کہ آپ اپنی غلطیوں کو بھولے ہوئے ہیں، اور آپ صرف دوسروں کی غلطیاں بتانے کے ماہر ہیںتو آپ فورا اس عادت کو چھوڑ دیں گے۔
آخرت میں ہر ایک کا معاملہ اس بنیاد پر ہوگا کہ اس نے اپنی خداداد صلاحیت (God-given quality) کو صحیح طورپر استعمال کیا یا نہیں۔جوانسان اِس زمین پر پیدا ہوتا ہے، اُس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دریافت کرے۔ وہ اِس دنیا میں اپنے رول کو سمجھے، اور اللہ کی ہدایت کے مطابق، اپنے اِس رول (کر دار) کو پوری سنجیدگی کے ساتھ ادا کرے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے زیادہ جاننے کی بات

موت کے بارے میں ایک حقیقت قرآن کی تین آیتوںمیں بیان ہوئی ہے۔ ان میں سےایک آیت یہ ہے:کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (3:185)۔ یعنی ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں جو آدمی پیدا ہوتا ہے، وہ ایک ابدی خواب (eternal dream) لے کر پیدا ہوتا ہے۔ مگر ہر آدمی اپنے خواب کی تکمیل سے پہلے اچانک مرجاتا ہے۔ یہ حادثہ ہر مرد اور ہر عورت کے ساتھ پیش آرہا ہے۔اس واقعے پر غور کیجیے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا میں ہر انسان کی زندگی ناکام ہے۔ انسان کو کوئی اور دنیا چاہیے، جہاں وہ اپنے خواب کے مطابق، اپنی زندگی کی تکمیل کرسکے۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا ناتمام خواب دراصل یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو دریافت کرے۔ اس کی زندگی کے بارے میں اس کے خالق کا جو منصوبہ ہے، اس کو وہ مکمل کرے۔ یہ ہر آدمی کا خواب ہے۔ اس میں کوئی استثنا نہیں۔ انسان کے ساتھ مزید کیا ہونے والا ہے، اس کا اشارہ قرآن میں دومقامات پر آیا ہے۔ایک آیت کےالفاظ یہ ہیں:وَلَوْ أَنَّمَا فِی الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِنْ بَعْدِہِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ (31:27)۔ دوسری آیت میں یہ بات ان الفاظ میں آئی ہے:قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّی وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَدًا (18:109)۔ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی عظمت اس سے زیادہ ہے کہ وہ لفظوں میں بیان کی جاسکے۔
ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی آرزؤں کی تکمیل اس طرح ہونے والی ہے کہ اس کو موت کے بعد کی دنیامیں دوبارہ نئے مواقع زیادہ کامل انداز میں دیے جائیں۔ انسان ایک اور تہذیب (civilization) کی تکمیل کرے۔ وہ زیادہ معیاری انداز میںیونیورسٹی اور لائبریری جیسے ادارے بنائے، وہ اپنی علمی اور تعلیمی سرگرمیوں کو زیادہ اعلیٰ معیار پر قائم کرے۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت میں جینا

آدمی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد مسلسل طو رپر وہ زندگی کے تجربات میں جینے لگتا ہے۔ وہ مسلسل طور پر حالتِ زندگی میں رہتا ہے۔ اس مدت میں اس کو کبھی حالتِ موت کا تجربہ نہیں ہوتا۔ زندگی اس کے لیے روز مرہ کے تجربے میں آنے والی حقیقت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، موت اس کے لیے ایک سنی سنائی بات ہوتی ہے، جس کا اس نے کبھی حقیقی طور پر تجربہ (experience)نہیں کیا۔
یہ دور جو انسان پر پیدا ئش کے بعد مسلسل طور پر گزرتا ہے، رات دن کے اس تجربے میں وہ دھیرے دھیرے پوری طرح کنڈیشنڈ ہوجاتا ہے۔ عملاً ایسا ہوتا ہے کہ زندگی اس کے لیے ایک امرِ حقیقی بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس، موت شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کو ایک بعید تصور کی طرح معلوم ہونے لگتا ہے۔
زندگی اور موت کے درمیان یہی وہ فرق ہے، جس کی بنا پر انسان کا حال یہ ہوجاتاہے کہ وہ زندگی کو ایک حقیقت سمجھ لیتا ہے، اور موت اس کے لیے ایک دور کی بات کی مانند ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیاں حیات رخی (life-oriented) بن جاتی ہیں، نہ کہ موت رخی (death-oriented)۔ زندگی اس کے لیے ایک واقعہ ہوتی ہے، اور موت اس کے لیے ایک دور کا عقیدہ۔
یہ صورت بلاشبہ امرِ واقعہ کے خلاف ہے۔ لیکن چوں کہ یہ عقیدہ اس کے لیے کنڈیشننگ کا مستقل پارٹ بن جاتا ہے ۔ اس لیے اس سے باہر آنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی اپنی کنڈیشننگ کو توڑے، وہ اپنے آپ کو ایک ڈی کنڈیشنڈ انسان بنائے۔ موت کے بارے میں بےخبری میں جینا امرِواقعہ کے خلاف جینا ہے۔ ایسا جینا ابدی نہیں ہوسکتا۔ وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ یہ کنڈیشننگ ٹوٹے، اور انسان کو کسی تیاری کے بغیر موت کی حقیقت کا سامنا کرنا پڑے۔
واپس اوپر جائیں

عالمی لائبریری

لوگ مشہور انسانوں کی سوانح عمری لکھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان ایک کتاب ہے۔ انسانوں کا مجموعہ ایک عالمی کتب خانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی ایک عظیم کتاب ہے۔ ہر انسان کی زندگی واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں ایسے تجربات ہوتے ہیں، جو دوسرے انسان کی زندگی میں نہیں ہوتے ہیں۔ گویا کہ ہر انسان اپنے ساتھ ایک پوری لائبریری لیے ہوئے ہے۔ ہر انسان اپنے ساتھ ایک مکمل کتب خانہ لیے ہوئے ہے۔ یہ کتب خانہ لکھا ہوا نہ ہو، تب بھی وہ کائنات کے ریکارڈ میں پوری طرح محفوظ ہے۔
قیامت وہ دن ہے، جب کہ ہر انسان کی لکھی یا بغیر لکھی کتابیں، کھل کر سامنے آجائیں گی۔ اس وقت ہر انسان یہ جانے گا کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کھویا ، اور کیا پایا۔ اس نے کس موقع کو اویل کیا، او ر کس موقع کو ضائع کردیا۔ ہر انسان کا یہ کارنامۂ حیات ایک زندہ کتب خانے کی حیثیت سے اس کے سامنے آجائے گا۔ انسان، چاہے یا نہ چاہے، اس کی اپنی پوری زندگی کا ریکارڈ اس کے سامنے آجائے گا۔ انسان مجبور ہوگا کہ وہ اپنی لکھی ہوئی کتاب کو پڑھے۔
انسان کی یہ خود نوشت سوانح حیات اس کی اپنی قابلِ فہم زبان میں ہوگی۔ اس صورت حال کا سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہوگا کہ کوئی بھی انسان اس پوزیشن میں نہ ہوگا کہ وہ اپنی زندگی کی کہانی کو ری رائٹ (re-write) کرے۔ کسی کو یہ موقع نہ ہوگا کہ وہ اپنی زندگی کی کہانی کا دوبارہ لکھا ہوا ایڈیشن تیار کرے۔ اس سوانح عمری کا پہلا ایڈیشن لکھنا، ہر انسان کے بس میں ہوگا، لیکن اس کہانی کا ریوائزڈ ایڈیشن (revised edition) تیار کرنا کسی انسان کے بس میں نہ ہوگا۔ کوئی بھی عورت یا مرد اس پر قادر نہ ہوگا کہ وہ اپنی سوانح حیات کاحسبِ خواہش ایڈیشن تیار کرے، جس کو وہ خود پڑھے، اور دوسروں کو پڑھنے کے لیے دے۔یہ ہر انسان کا مقدر ہے۔ یہ مقدر بہرحال اس کے سامنے آنے والا ہے۔ آدمی نہ چاہے تب بھی ، اور چاہے تب بھی۔
واپس اوپر جائیں

موت کی خبر

ایک شخص کی عمر 75 سال ہوگئی۔ ابتدائی عمر میں اس کی صحت اچھی تھی۔ اب اُس کو بیماریاں لگ گئیں۔ یہ بیماری اس کے لیے موت کی خبر تھی۔ لیکن اس نے بیماری کو صرف علاج کا معاملہ سمجھا۔ اس نے مختلف ڈاکٹروں اور اسپتالوں سے رجوع کرنا شروع کردیا۔ جب اس کا ذاتی سرمایہ ختم ہوگیا تو اس نے قرض لے کر اپنا مہنگا علاج شروع کردیا۔ لیکن اس کو دوبارہ صحت حاصل نہ ہوسکی۔ چند سال بیمار رہ کر وہ مرگیا۔
یہ ایک انسان کی کہانی نہیں ہے، بلکہ یہی تقریباً تمام عورت اورمرد کی کہانی ہے۔ بڑھاپا ہر آدمی کے لیے اِس بات کی خبر ہوتا ہے کہ موت قریب آگئی۔ اِس کے بعد جب اس کو بیماریاں لگتی ہیںتو وہ آدمی کو مزید جھنجھوڑنے کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ اِس لیے ہوتی ہیں کہ آدمی اگر سورہا ہے تو وہ جاگ جائے۔ اور اگر وہ جاگ گیا ہے تو وہ اٹھ جائے۔ اور اگر وہ اٹھ گیا ہے تو وہ چلنے لگے۔ بڑھاپا اور بڑھاپے کے بعد آنے والی کمزوری اور بیماری ہمیشہ اِس لیے آتی ہے کہ آدمی چونک اُٹھے۔
وہ موت سے پہلے موت کی تیاری کرنے لگے۔ وہ موت کے بعدآنے والے حالات پر سوچے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی آخری منصوبہ بندی کرے۔ لیکن انسان واقعات سے سبق نہیں لیتا۔ بڑھاپا اور بیماری اُس کو موت کی خبر دیتے ہیں، لیکن وہ موت کے بارے میں سوچنے کے بجائے صرف علاج کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے پیچھے دوڑتا ہے، یہاںتک کہ وہ ناامیدی کے ساتھ مرجاتا ہے۔ دوبارہ جو چیز اُس کو ملتی ہے، وہ تندرستی نہیں ہے، بلکہ موت ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر آدمی روزانہ اپنے آس پاس کے ماحول میں دیکھتاہے، لیکن کوئی آدمی اُس سے سبق نہیں لیتا۔ اِس معاملے میں ہر آدمی اندھا بنا ہوا ہے۔ وہ عملاًصرف اِس انتظار میں ہے کہ موت اس کی آنکھ کھولے۔ لیکن موت کے بعد آنکھ کاکھلنا، کسی عورت یا مرد کے کچھ کام آنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ری پلاننگ کا موقع

ہر آدمی جب پیدا ہوتا ہےتو اسی وقت اس کا ایک نیا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ یہ سفر زندگی سے موت کی طرف سفر ہے۔ یہ سفر دنیاسے آخرت کی طرف سفر ہے۔یہ سفر ہر حال میں جاری رہتا ہے، خواہ انسان اس کو چاہے یا نہ چاہے، خواہ انسان اس کو جانتا ہو، یا اس کو نہ جانتا ہو۔
موت سے پہلے آدمی اس واقعے کو خبر کے طور پر جانتا ہے، موت کے بعد آدمی اس کو ایک حقیقت کے طور پر جانے گا۔ موت کے معاملے میں سب سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ موت ہمیشہ پوائنٹ آف نو رِٹرن کی سطح پر آتی ہے۔ موت کسی آدمی کو یہ موقع نہیں دیتی کہ وہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹے۔ موت سے پہلے اس نے جو کچھ نہیں کیا، اس کو موت کے بعد کرنے والا بن جائے۔
موت کے بعد کسی آدمی کے ساتھ کیا پیش آتا ہے، اس کو کوئی نہیں جانتا۔ زندہ انسان یہ تو دیکھتا ہے کہ ایک شخص ان سے چھوٹ کر جارہا ہے، مگر وہ جہاں جاتا ہے، اس کی کوئی خبر وہ وہاں سے نہیں بھیجتا۔ موت کسی آدمی کے لیے مکمل انقطاع کا لمحہ ہے۔ موت کسی آدمی کو یہ موقع نہیں دیتی کہ وہ اپنی زندگی کی ری پلاننگ کرے، یا جو کچھ اس نے کھودیا، اس کو وہ دوبارہ پانے کی کوشش کرے۔
ایسی حالت میں انسان کے لیے کرنے کا کام کیا ہے۔ وہ صرف یہ ہے کہ انسان موت سے پہلے یہ تلاش کرے کہ موت کے بعد کی خبر اگر کہیں ہےتو وہ کہاں ہے۔ آدمی اگر سنجیدہ ہو، اور وہ کھلے ذہن کے ساتھ جاننا چاہے تو وہ اس حقیقت تک پہنچے گا کہ موت کے بعد اگر کوئی مقام ہے، جہاں اس کو موت کے بارے میں خبر مل سکتی ہےتو وہ صرف قرآن ہے۔ قرآن کے سواکوئی اور ذریعہ نہیں، جہاں وہ اعتماد کے ساتھ اس موضوع (subject) پر قابلِ یقین معلومات حاصل کرسکے۔اس متلاشی ذہن کے ساتھ اگر قرآن کو پڑھاجائےتو انسان حسبِ ذیل جواب پائے گا — موت سے پہلے زندگی کا جو لمحہ تم کو ملا ہے، اس کو استعمال کرنے میں کوتاہی نہ کرو۔ کیوں کہ تمھارے لیے یہی لمحہ ہے، اس کے بعد کوئی لمحہ تم کو ملنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کا مسئلہ

زندگی اپنی حقیقت کے اعتبار سے موت کا انتظار ہے، اور موت اپنی حقیقت کے اعتبار سے زندگی کے دوسرے دور کا آغاز ۔ زندگی کا یہ آغاز اور انجام انسان کو ہر لمحہ یاد دلا تا ہے کہ اس کے لیے رائٹ ٹریک (right track) پر چلنا کیا ہے، اور رائٹ ٹریک سے بھٹک جانا کیا ہے۔ غور وفکر سے زندگی اور موت کا جو درست نقطۂ نظر سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ ہےکہ پیدائش سے موت تک کی زندگی تیاری کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کی زندگی تیاری کے انجام کو پانے کا مرحلہ ہے۔
انسان اپنے موجودہ دورِ حیات میں ہر وقت انسانوں کے درمیان رہتا ہے۔ خواہ وہ اپنےگھر کے اندر ہو، یا گھر کے باہر۔ ہر حال میں وہ مردوں اور عورتوں کے درمیان ہے۔ اس دورِ حیات میں ہر وقت اس کو کسی نہ کسی عورت یا مرد سے سابقہ پیش آتا ہے۔ اس سے لوگوں کے درمیان انسانی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ یہی تعلقات انسان کے لیے فیصلہ کن ہیں۔ ان تعلقات کے درمیان آدمی روزانہ جس سلوک (behaviour) کا مظاہرہ کرتا ہے، اسی سے اس کی زندگی کا ریکارڈ تیار ہوتا ہے۔ اسی سلوک کے مطابق، اس کی شخصیت (personality) بنتی ہے۔ یہی شخصیت اصل انسان ہے۔ یہی شخصیت اس کا مستقبل ہے۔
ہر عورت اور مرد کوچاہیے کہ دیکھے کہ وہ صبح و شام لوگوں کے درمیان جس سلوک کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ کیسا ہے۔ وہ تعمیری ہے یا تخریبی، وہ مثبت ہے یامنفی، وہ سچائی پر قائم ہے یا جھوٹ پر ۔ اس اندر جو شخصیت بن رہی ہے، وہ ایک دینے والی شخصیت (giver personality) ہے، یا لینے والی شخصیت (taker personality)۔ اس کی پرسنالٹی خیر خواہی پر مبنی پرسنالٹی ہے، یا استحصال (exploitation) پر مبنی پرسنالٹی۔کامیاب انسان وہ ہے، جو زندگی کی اس نوعیت کو سمجھے، اور اس کے مطابق زندگی گزارے۔زندگی کے اس سفر میں کامیابی کی یہ لازمی شرط ہے کہ آدمی پوری طرح معرفت والا انسان ہو۔
واپس اوپر جائیں

جنت کااستحقاق

جو آدمی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، وہ سو سال سے کم مدت میں اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اس محدود مدت کے بدلے انسان کو جنت دی جائے گی،یعنی انسان محدود مدت کے عمل کے بدلے لامحدود جنت کا انعام پائے گا۔یہاں یہ سوال ہے کہ یہ انعام انسان کو کس عمل کے بدلے دیا جائے گا۔ یہ بلاشبہ ایک عجیب معاملہ ہے۔ انسان کا وہ کون سا عمل ہے، جو اس کو ابدی جنت کا مستحق بنائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اہلِ ایمان کو ان کے محدودعمل کی بنا پر لامحدود جنت کا انعام دیا جائے گا۔ لیکن یہ انعام اس لیے نہیںہوگا کہ خود انسان کا کوئی عمل ابدی انعام کے قابل ہے۔ بلکہ اللہ کی رضامندی اس کو ابدی انعام کا مستحق بنائے گی۔ انسان اپنے عمل کے اعتبار سے محدود انعام کے قابل ہوگا۔ لیکن اللہ رب العالمین کی نسبت سے اس کے اندر ابدیت کی صفت پیدا ہوجائے گی۔ اسی حقیقت کو حدیث میں رحمتِ الٰہی کا نام دیا گیا ہے۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5673)
وہ کیا چیز ہے، جو کسی کے عمل کو اللہ رب العالمین کی ابدی رحمت کا مستحق بنائے گی۔ وہ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:اَلَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ (2:165)۔ یعنی اللہ رب العالمین کے ساتھ حُبِّ شدید کا ہونا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنت کے ابدی انعام کا مستحق وہ انسان قرار پائے گا، جو اللہ رب العالمین کی نعمتوں کو اس کی تمام عظمتوں کے ساتھ دریافت کرے ۔ یہ بلاشبہ ایک نہایت انوکھی صفت ہے۔
وہ انسان جو اللہ کی رحمتوں کو اس شدت کے ساتھ دریافت کرے کہ اللہ اس کا محبوب ترین بن جائے، بلکہ تمام محبوب چیزوں سے زیادہ محبوب بن جائے۔ یہ صفت بلاشبہ ایک انوکھی صفت ہوگی، اور اللہ اس صفت کی قدردانی کرتے ہوئے، انسان کو ابدی جنت کا مستحق قرار دے گا۔ جو انسان اللہ کو دیکھے بغیر اللہ سے حُبّ شدید کا حامل بن جائے، یہ اللہ کے نزدیک اتنا زیادہ قابل قبول صفت ہوگی ، جو ان کو ابدی جنت کا مستحق بنادے گی۔
واپس اوپر جائیں

حصائدِ لسان

حدیث کی کتابوں میں ایک طویل روایت آئی ہے:معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا۔ ایک دن میں آپ کے قریب ہوا، اور میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول آپ مجھے بتائیں وہ عمل جو مجھے جنت میں داخل کرے، اور جو مجھے آگ سے دور کرے۔ آپ نے کہا: تم نے بڑی چیز کے بارے میں پوچھا ہے، اور یہ آسان ہے، جس کے لیے اللہ آسان کردے۔ تم اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو۔ کیا میں تمھیں خیر کے دروازے کی طرف رہنمائی نہ کروں- روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو ختم کرتا ہے، جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے، اور آدمی کا آدھی رات کو نماز پڑھنا۔ پھرآپ نے اس آیت کی تلاوت کی: ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈر سے اور امید سے۔ اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے، وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تو کسی کو خبر نہیں کہ ان لوگوں کے لیے ان کے اعمال کے صلے میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔ (السجدہ، 32:16-17)۔ پھر آپ نےکہا  کیا میں تم کو تمام معاملے کی بنیاد اور اس کے عمود، اور اس کی چوٹی سے آگاہ نہ کروں۔ میں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! آپ نے کہا: معاملے کی بنیاد اسلام ہے، اور اس کا عمود نماز ہے، اور اس کی بلند چوٹی جہاد ہے۔ پھر کہا: کیا میں تمھیں اس تمام کی اصل سے باخبر نہ کروں؟ ( أَلَا أُخْبِرُکَ بِمَلَاکِ ذَلِکَ کُلِّہ؟) میں نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے نبی!۔ آپ نے اپنی زبان کو پکڑا، اور کہا: اس کو اپنے کنٹرول میں رکھو( کُفَّ عَلَیْکَ ہَذَا)۔ تو میںنے کہا: کیا ہم لوگوں کا مواخذہ ہوگا، جو ہم بولتے ہیں۔ آپ نے کہا: تمھاری ماں تم کو گم کرے ، اے معاذ! لوگ آگ میں اپنے منھ کے بل گریں گے ، صرف اپنی زبان کی کھیتی کی وجہ سے (وَہَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلَى وُجُوہِہِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِہِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِہِم )۔جامع الترمذی، حدیث نمبر2616 ۔ زبان کو آپ نے کیوں اتنا زیادہ اہمیت دی۔ زبان آدمی کے پورے وجود کا خلاصہ ہے، آدمی کو چاہیے کہ زبان کی حفاظت کا آخری حد تک اہتمام کرے۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم جناب فاروق مضطر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
فون کے ذریعہ مفتی ریاض احمد ڈار(پیدائش 1982) سے معلوم ہوا کہ آپ کے والد عبد العزیز وانی صاحب کا تقریباً 110 سال کی عمر میں 8فروری 2020 کو انتقال ہوگیا۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے ،اور پس ماندگان کے لیے حُسنِ تلافی کا سامان فرمائے۔
مفتی ریاض احمد ڈار سے میرے ساتھی نے پوچھا کہ مرحوم کی کوئی خاص بات بتائیں تو انھوں نے کہا کہ مرحوم خطہ پیر پنچال ( جموں)کے بہت ہی فعال ٹیچر تھے۔ تعلیمی میدان میں انھوں نے کافی خدمات انجام دی ہیں— تعلیم و تعلم کا میدان بلاشبہ بہت ہی عمدہ میدان ہے۔
مرحوم بلا شبہ ایک مخلص انسان تھے۔ مرحوم مثبت ذہن کے حامل تھے، اور تعمیری و اصلاحی مزاج رکھتے تھے۔ ہمالین ایجوکیشن مشن (راجوری، جموں)کے تحت جاری تعلیمی، ثقافتی ، سماجی تعمیر ، وغیرہ مثبت سرگرمیاں ان کی یادگار ہیں ۔وہ راجوری ہمالین ایجوکیشن مشن کےسر پرستِ اعلیٰ تھے۔ اس مناسبت سے میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں ۔ مثلاً 1978 اور 1979 کی ملاقات۔ ان کی سرپرستی میں ہمالین برادری (جس میں ان کے عزیز واقارب اور بہت سے دوسرے رفقا شامل ہیں) نے الرسالہ دعوہ مشن کو پھیلانے میں بہت زیادہ کام کیا۔ اِس معاملے میں ہمالین ایجوکیشن برادری کی جدوجہد بےمثال ہے۔
جب میں یہ سب باتیں سوچ رہا تھا تو مجھے یاد آیا کہ زندگی میں بار بار ناخوش گوار واقعات پیش آتے ہیں۔ مثلاً بیماری، حادثہ ، بڑھاپا اور موت، وغیرہ۔ اس قسم کی باتیں زندگی کا لازمی حصہ ہیں، وہ زندگی سے کبھی جدا نہیں ہوتیں۔میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔ اس میں خدا کی کون سی مصلحت کام کررہی ہے۔ غور کرنے کے بعد سمجھ میں آیا کہ یہ خدا کی ایک رحمت (blessing) ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، وہ خالق کے پیدا کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ خالق ہر انسان کو مختلف قسم کی صلاحیتیں دے کر دنیا میں بھیجتا ہے۔تاکہ وہ اپنا مطلوب رول اعلیٰ درجے میں ادا کرسکے۔ ہر انسان پر لازماً موت آتی ہے۔ موت کے بعد ہر انسان اپنے خالق کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ہر عورت اور مرد کو اسی سوچ کے ساتھ دنیا میں زندگی گزارنا ہے۔ ہر عورت اور مرد کو اپنے بارے میں یہ دریافت کرنا ہے کہ وہ کون سا رول ادا کرنے کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے، اور کیا وہ اس رول کو دنیا میں ادا کررہا ہے یا نہیں۔ یہی ہر انسان کا امتحان ہے۔ جو اس امتحان میں پورا اترے، وہ کامیاب ہے، اور جو اس امتحان میں پورا نہ اترے، وہ ناکام ہے۔
پھر مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آئی  کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (3:185) ۔ یعنی ہر انسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ذائقہ سے مراد موت کا تجربہ ہے ۔ موت کا تجربہ ہرآدمی کے لیے ایک سبق ہے۔ اس دنیا کے لیے صرف بقدرِ ضرورت حاصل کرو، اور ساری کوشش اُس دنیا کی تعمیر کے لیے کرو، جہاں تم کو ہمیشہ کے لیے رہنا ہے۔ موت کی یاد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے عمل کا محرک (incentive) ختم ہوجاتا ہے۔ جو لوگ صرف قبل از موت زندگی کو مانتے ہوں، ان کے لیے یہ بات درست ہوسکتی ہے، لیکن جو لوگ اس حقیقت کو مانیں کہ موت کے بعد بھی زندگی ہے، اور وہ ابدی زندگی ہے، ان کے لیے عمل کا محرک بڑھ جاتا ہے، اتنا زیادہ کہ کسی اور چیز سے اتنا زیادہ بڑھنے والا نہیں۔ اگر آدمی اس حقیقت کو دریافت کرلے کہ موت کے بعد انسان کی ابدی زندگی شروع ہوتی ہےتو وہ یقینا ًچاہے گا کہ وہ موت کے بعد کی ابدی زندگی کو کامیاب بنائے، اور یہ ماننا بلاشبہ عمل کے محرک کو بے شمار گنا زیادہ کردیتا ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ میری دعا ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ مرحوم کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آپ کے گھر میں ان کے جانے سے جو کمی واقع ہوئی ہے، خدا اس کی بھرپور تلافی فرمائے۔ آمین
نئی دہلی 13 فروری 2020 دعا گو
وحید الدین
واپس اوپر جائیں

زحمت میں رحمت

انسان موجودہ دنیا میں پیدا ہوتاہے۔ یہاں وہ اپنے صبح وشام گزارتا ہے۔ مختلف تجربات کے دوران یہاں اس کی زندگی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ان تجربات کے ذریعے شعوری یا غیر شعوری طورپر انسان کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ یہی موجودہ دنیا حقیقی دنیا ہے۔ اس کے مقابلے میں اس کو محسوس ہوتاہے کہ آخرت کی دنیا غیر حقیقی دنیا ہے۔دونوں دنیاؤں کے درمیان بہ ظاہر اس فرق کی بنا پر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا تفکیری عمل (thinking process) موجودہ دنیا کے لیول پر جاری ہوجاتاہے۔ اس کی سوچ اور اس کی منصوبہ بندی میں عملاً آخرت کا کوئی مقام باقی نہیں رہتا۔
یہ انسان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وسیع تر انجام کے اعتبار سے صحیح یہ ہے کہ انسان کے اندر آخرت رخی سوچ (Akhirat-oriented thinking)بنے، نہ کہ دنیا رخی سوچ۔ انسان کو اس معاملے میں بے راہ روی سے بچانے کے لیے فطرت نے یہ انتظام کیا ہے کہ موجودہ دنیا کو دار الکبد (البلد، 90:4)بنا دیا، یعنی مسائل و مشکلات کی دنیا۔ یہ مسائل انسان کے لیے اسپیڈ بریکر (speed breaker) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ مسائل اس لیے ہیں کہ انسان موجودہ دنیا کو حقیقی دنیا نہ سمجھے، بلکہ آخرت کے اعتبار سےاپنی زندگی کی تعمیر کرے۔
حدیث میں آیا ہے کہ جب بھی کوئی بیمار ہوتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے لیے کہتے تھے:لاَ بَأْسَ، طَہُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّہُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3616) ۔یعنی کوئی حرج نہیں، ان شاء اللہ یہ پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو پُر اسرار طورپر وہ ایک پاکیزہ انسان بن جاتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ کوئی آدمی اگر بیمار ی یا حادثہ ،وغیرہ کا تجربہ نہ کرے،وہ مکمل طورپر صحت مند ہو،زندگی میں اس کو کسی نقصان کا تجربہ نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر فخر و ناز کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اُس کاسینہ تواضع کے احساسات سے خالی ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک بے حس انسان بن کر رہ جاتا ہے۔
لیکن جب ایک سچا انسان بیماری یا نقصان میںمبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے عجز کو دریافت کرتاہے۔ اُس کے اندر دردمندی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے بندہ ہونے کی حقیقت کا تجربہ کرتا ہے۔ اس طرح بیماری اُس کو دوسری چیزوں سے دور کرکے اللہ سے قریب کردیتی ہے۔ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ وہ اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اُس کے دل سے دعائیں اور التجائیں نکلنے لگتی ہیں۔ بیماری اُس کے لیے اللہ سے قربت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔اس طرح بیماری ایک سنجیدہ انسان کے لیے زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کا معاملہ بن جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کا تمام معاملہ سوچ پر مبنی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کبھی بیماری یا مصیبت پیش آنے پر شکایت یا مایوسی کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو۔ بلکہ جب بھی کوئی ناخوشگوار صورتِ حال پیش آئے تو وہ معتدل ذہن کے ساتھ اس پر غور کرے۔ وہ منفی واقعے میں مثبت واقعہ کو دریافت کرنے کی کو شش کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کو قانونِ فطرت کی تائید حاصل ہوگی۔ وہ منفی واقعے میں مثبت پہلو کو دریافت کرلے گا، اور اس طرح وہ اپنے آپ کو مایوسی سے بچانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مایوسی ایک غیر فطری چیز ہے، وہ کوئی فطری چیز نہیں۔
مثلاً بیماری بظاہر ایک انسان کے لیے غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اگر ربانی ذہن ہو تو جسمانی بیماری آدمی کے لیے روحانی صحت کا ذریعہ بن جائے گی۔اس دنیا میںاصل اہمیت ذہنی بیداری کی ہے۔ بیدارذہن ہی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ واقعات سے سبق لے، اور ذہن کو بیدار کرنے والی سب سے بڑی چیز اس دنیا میںصرف ایک ہے، اور وہ مشکل حالات ہیں۔
زندگی کی اس حقیقت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیاہے:(ترجمہ) ُہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پیداوار کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو ۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ کے ہیں، اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی شاباشیاں ہیں، اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں۔ (2:155-157)
واپس اوپر جائیں

قابلِ تقلید طریقہ: رمضان کا کریٹیو استعمال

السلام علیکم ، آج (15.05.19)مجھے ایک گھرکے اندر خواتین کے درمیان درس کا موقع دیا گیا ،اس میں میرا موضوع تھا : پوسٹ رمضان دعوہ پلاننگ۔ اس موقع پر میں نے آپ کی کتاب "صوم رمضان "اور الرسالہ جون 2019سے پوائنٹس لیا، اور ٹھہراؤ کے ساتھ پُر اثر انداز میں ان کو بیان کیا۔ عورتوں نے پوانٹس اور انداز دونوںکو بہت پسند کیا۔اس گھر کی بڑی لڑکی، جو امریکا رہتی ہے، اس وقت آئی ہوئی تھی، اور پروگرام میں شریک تھیں۔وہ اس تقریر سے بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ تقریر ختم ہونے کے بعد وہ بہ اصرارپوچھنےلگی کہ یہ کون عالم دین ہیں ، جو اتنے فطری انداز میں اسلام کی تعلیمات کو بتاتے ہیں۔
پھر اس خاتون نےآپ کی کتابوں کی خواہش کی، تاکہ وہ اس کا مطالعہ کرے، اور سنڈے لکچر سننے کے لیے انٹرنیٹ کا لنک پوچھا ۔ میں نے جب فیس بک کا لنک بتایاتو اس کو انھوں نےفوراً اپنی ڈائری میں نوٹ کرلیا۔ نیز قرآن کے انگریزی ترجمے کی کچھ نسخے کا بھی مانگے، تاکہ وہ ان کو امریکہ میں ڈسٹری بیوٹ کرے ۔کیونکہ وہاں اس کے انگریزی داں پڑوسی قرآن پڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ خاتون انگریزی اور اردو دونوں زبانوں سے واقف ہے، اور دونوں زبانوں کی اچھی طرح گفتگو کرسکتی ہے۔ چنانچہ میں نے اس کو یہ کتابیں دیں: ماہنامہ الرسالہ جون 2019 ، انگریزی ترجمۂ قرآن، دی سیکرس گائڈ ، وومن بٹوین اسلام اینڈ ویسٹرن سوسائٹی، صوم رمضان (اردو) ۔ (ام اشہاد، عمر آباد، تامل ناڈو)
برصغیرکے بہت سے مرد اور عورتیں مغربی ملکوں میں رہتے ہیں۔ وہاں ان کے پڑوس میں ایسے لوگ رہتے ہیں، جو انگریزی داں ہیں۔ اسی کے ساتھ ان کو اسلام کو جاننے کا شوق ہے۔ اسلام کی تعلیمات اگر ان کے معروف اسلوب میں ان کو دی جائے،تو وہ بہت شوق سے خود بھی پڑھیں گے، اور دوسروں کو بھی پڑھنے کو دیں گے۔ یہ مسلمس ان ڈائسپورا (Muslims in diaspora) کے لیے بہت بڑا دعوتی موقع ہے۔
واپس اوپر جائیں

ورچول ملاقات

ایک حدیث قدسی ان الفاظ میں آئی ہے قَالَ اللَّہُ تَعَالَى:وَجَبَتْ مَحَبَّتِی لِلْمُتَحَابِّینَ فِیَّ وَالْمُتَزَاوِرِینَ فِیَّ (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 1449)۔ یعنی اللہ تعالی نے کہا میری محبت واجب ہے، ان انسانوںکے لیے جو میری خاطر محبت کرنے والے ہیں، اور میری خاطر ایک دوسرے سے ملنےجلنے والے ہیں۔ اِس حدیث میں محبت کا مطلب مادی محبت نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ہے اللہ کے مشن کے لیے ایک دوسرےسے ملنا جلنا ۔ یعنی وہ لوگ جو اللہ کے مشن کی خاطر باہم اکٹھے ہوں۔ جن کی مشن اسپرٹ اتنی بڑھی ہوئی ہوکہ مشن کا ہر فرد اُن کے لیے ایک محبوب ساتھی بن جائے۔ اگر ایسے کچھ افراد اکٹھے ہوجائیں، تو وہ لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ اللہ ان سے محبت کرے۔
مگر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان ہم مشن ہونےکے باوجود بعض اوقات کسی وجہ سے اکٹھا نہیں ہوپاتے ۔ مثلاً کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم مشن انسان مائگریشن کر کے مختلف علاقوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح آج کل کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے ، جس نے لوگوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ سماجی دور ی (social distancing)کو بطور علاج اختیار کریں۔ اس قسم کے موقع پر کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ بالمواجہہ ملاقات (face-to-face meeting) کرکے باہمی انٹرایکشن کرے۔ اس وقت جو ملاقات ممکن ہے، وہ ہے الکٹرانک ملاقات ۔
الکٹرانک ملاقات کا طریقہ موجودہ زمانے کا ظاہرہ ہے، یہ طریقہ قدیم زمانے میںموجود نہیں تھا۔ اس کو وَرچُول میٹنگ (virtual meeting) کہاجاتا ہے۔یعنی دنیا کے مختلف علاقوں میں بیٹھ کرانٹرنیٹ کے ذریعے ویڈیو یا آڈیو یا تحریرکا طریقہ اختیار کرکے آپس میں ایک دوسرے سےڈسکشن کرنا۔ ورچول ملاقات موجودہ زمانے میں براہ راست مصاحبت کا بدل ہے۔ الکٹرانک ملاقات بھی ، اگر مشن کے لیے ہوتوعملاً اللہ کی خاطر محبت کرنا، اور اللہ کی خاطر اکٹھا ہونا ہے۔سماجی دوری کے موقع پر صاحبِ مشن افراد کو اِس سہولت سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

No comments:

Post a Comment