Pages

Sunday 1 December 2002

Al Risala | December 2002 (الرسالہ،دسمبر)

2

- فرقوں میں بٹ جانا

3

- مثبت فکر

4

- سوال و جواب (فرائیڈے اسپیشل کے لئے)

39

- ایک خط

43

- ایک خط


فرقوں میں بٹ جانا

اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور باہم اختلاف کیا جب کہ ان کے پاس واضح دلائل آچکے تھے۔ اور ان کے لئے بڑی سزا ہے۔ (آل عمران ۱۰۵)
جب کسی قوم کی توجہ خدا کی طرف سے ہٹتی ہے تو اس کی توجہ اپنے آپ کی طرف لگ جاتی ہے۔ اب اس کے افراد کے اندر خود پسندی اور مفاد پرستی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ افتراق اور اختلاف ہے۔ جب لوگوں کی توجہ خدا کی طرف لگی ہوئی ہو تو آپس کا اختلاف قدرتی طورپر دب جاتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ باہمی اتحاد ہو تا ہے۔ اس کے برعکس جب لوگو ں کی توجہ اپنی ذات کی طرف لگ جائے تو ہر ایک کی رائے اور ہر ایک کا مفاد الگ الگ ہو جاتا ہے۔اس کے قدرتی نتیجہ کے طورپر باہمی اختلاف اور آپس کا ٹکراؤ پیدا ہو تا ہے۔
اتحاد خدا سے خوف کا لازمی نتیجہ ہے، اور اختلاف خدا سے بے خوفی کا لازمی نتیجہ۔کسی مذہبی گروہ میں اختلاف اس بات کی علامت ہے کہ اس کی زندگی تقویٰ کی پٹری سے اتر کر کسی اور پٹری پر چلنے لگی ہے۔اتحاد نام ہے اختلاف کے باوجود متحد ہونے کا۔ مختلف اسباب سے ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان طرح طرح کے اختلاف پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ اختلافات ناگزیر ہیں۔ کسی بھی تدبیر سے اختلافات کے وجود کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی حالت میںاصل چیز یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے درمیان سرے سے اختلاف موجود نہ ہو۔ اصل چیز یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ مزاج پایا جائے کہ وہ اختلاف کے باوجود باہم مل کر کام کرسکیں۔
یہ مزاج لوگوں کے اندر کسی برتر مشن کے نتیجہ میں پیدا ہوتاہے۔ خدا کا سچا عقیدہ لوگوں کے اندر یہی مزاج پیدا کرتا ہے۔ خدا کی عظمت کا تصور لوگوں کی نظرمیں بقیہ تمام چیزوں کی اہمیت کو گھٹا دیتا ہے۔ مزاج کی یہ تبدیلی لوگوں کے اندر یہ حوصلہ پیدا کرتی ہے کہ وہ اختلاف کو نظر انداز کرکے باہم متحد ہو جائیں۔
واپس اوپر جائیں

مثبت فکر

دور اول کے مسلمانوں نے جو بے نظیر کامیابی حاصل کی اس کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ ان میں کا ہر فرد مکمل معنوں میں مثبت سوچ (Positive Thinking) کا مالک تھا۔ وہ ،قرآن کے مطابق عسر میں یسر کا پہلو تلاش کر لیتا تھا۔ وہ بظاہر شکست کے واقعہ میں فتح کا راز دریافت کر لیتا تھا۔ اس کے لئے پوری دنیا اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ مثبت خوراک کا دستر خوان بن گئی تھی۔ مسلمانوں کا یہی مزاج تقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ انیسویں صدی میں جب مسلم سلطنتیں اہل مغرب کے ہاتھوں ٹوٹ گئیں تو اس کے بعد جو مسلم رہنما اٹھے وہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو چکے تھے ۔انہوں نے دور جدید کی مسلم نسلوں کو احتجاجی ذہن میں مبتلا کر دیا۔ ساری دنیا کے مسلمان ، خواص اور عوام دونوں احساس محرومی (Persecution Complex) میں مبتلا ہوگئے۔ اس نازک تاریخی موقع پر مسلم رہنمائوں کی اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا گئے جس کو انگریزی میں پیرا نوئیا(Paranoia) کہاجاتاہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار کر لیںگے اور اگر وہ فلاح کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار نہ کریں گے (الاعراف۔۱۴۶)
اس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ لوگ منفی پکار کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں، مگر مثبت پکار کی طرف وہ اس طرح نہیں دوڑتے اس کا سبب یہ ہے کہ منفی کلام حال کی زبان میں ہوتا ہے اور مثبت کلام ہمیشہ مستقبل کی زبان میں ، اور تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ مستقبل کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور حال کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت زیادہ۔
اس دنیا میں ہر قسم کی ناکامیوں کا راز منفی طرز فکر ہے اور ہر قسم کی کامیابی کا راز مثبت طرز فکر۔ منفی طرز فکر ہر قسم کی دینی اور اخلاقی برائیوں کا سر چشمہ ہے اور مثبت طرز فکر اس کے مقابلے میں ہر قسم کے دینی اور دنیوی خیر کا سر چشمہ ۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

(سہ ماہی السلام، نئی دہلی کے سوال نامے کا جواب)
سوالات
۱۔ اسلام اگر ایک مہذب اور مثقف مذہب ہے تو وہ دوسرے مذاہب کی توہین کیوں کرتا ہے۔ اگر اس کی روحانی اور عملی قدریں بہت بلند ہیں تو وہ دیگر اقوام کے لیے تحقیر آمیز الفاظ کیوں استعمال کرتا ہے، کیا یہ ایک مذہب کا دوسرے مذہب کے تئیں نفرت کا اظہار نہیںہے؟۔
الف۔ جب مشرک کو اسلام کی مذہبی کتابوں میں نجس کہا جاتا ہے اور ان کی بنائی ہوئی چیزوں کو چھونے سے روکا جاتا ہے اور اسلامی سلطنت میں برابر کے حقوق نہیں دیئے جاتے ہیںتو کیا اسلام کا ہندو دھرم یا دیگر مذاہب کے ساتھ برا سلوک نہیں ہے؟
ب۔ اسلام کی مذہبی کتابوں میں کافر اور مشرک کا لفظ کچھ اس طرح استعمال کیا گیا ہے کہ اس سے ہندو دھرم کے ماننے والوں کو مراد لے کر کم تر درجے کا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کیا یہ مناسب بات ہے؟۔
ج۔ قرآن میں جگہ جگہ کافروں سے لڑنے اور مشرکین کا خون بہانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ بات ایسی صورت حال میں اور بھی خطرناک ہو جاتی ہے جب کافر سے ہندو دھرم کے ماننے والے ہی مراد لئے جاتے ہیں، تو کیا خونریزی کی یہ تعلیم امن و امان کے خلاف ایک نظریاتی اور عملی کوشش نہیں ہے؟۔
۲۔ جہاد کے بہت سے معانی ہوتے ہیں لیکن اس کا اصل معنٰی اس قوم کے ساتھ جنگ کرنا ہے جو مسلمان نہ ہو۔ گویا مسلم قوم کی سیاسی بالادستی کے لئے لڑائی کرنا ۔ کیا اس خیال کی تشہیر منطقی اور معقول بات ہے؟۔
۳۔ اسلام پر ایک الزام ہے کہ وہ نوع انسانی کو دو حصوں، مسلم و کافر میں تقسیم کرتا ہے۔ مسلمان نہ ہونے کی صورت میں کافر قرار دیتا ہے۔ ہندو سماج کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے جس کی وجہ سے دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں، نفرت و عناد جنم لیتی ہے اور فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔
قرآن کریم کی وہ آیات جن پر اکثر و بیشتر اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:
الف۔ انما المشرکون نجس (التوبہ ۲۸)
ب۔ فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم وخذوہم واحصروہم واقعدوا لہم کل مرصد (التوبہ ۵)
ج۔ لایتخذ المؤمنون الکافرین اولیاء من دون المؤمنین و من یفعل ذالکفلیس من اللہ فی شئ الا ان تتقوا منھم تقٰۃ (آل عمران ۲۸)
د۔ یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیہم بالمودۃ وقد کفروا بما جاء کم من الحق ( الممتحنۃ ۱)
ہ۔ یاایہا النبی جاہد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم و ماواہم جہنم وبئس المصیر (التوبۃ ۷۳)
و۔ ایہا الجاہلون (قل افغیر اللہ تأمرونی اعبد ایہا الجٰہلون) (الزمر ۶۴)
ز۔ یا ایہا الذین آمنوا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار ولیجدوا فیکم غلظۃ (التوبۃ ۱۲۳)
ح۔ یا ایہا النبی حرض المؤمنین علی القتال، ان یکن منکم عشرون …الخ (الانفال ۶۵)
ط۔ قاتلوا الذین لایؤمنون باللہ والیوم الآخر ولا یحرمون ما حرم اللہ و رسولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اُوتوا الکتب حتی یعطوا الجزیۃ عن یَد وہم صٰغرون (التوبہ ۹۲)
جوابات
۱۔ یہ بات سراسر خلاف واقعہ ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب کی توہین کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں سے ایک تعلیم یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کو بُرا نہ کہا جائے ۔ کیوں کہ اس سے مذاہب کے درمیان باہمی احترام کا ماحول ختم ہوتا ہے (الانعام ۱۰۸) اسی طرح یہ بات بھی سراسر بے بنیاد ہے کہ اسلام دوسری قوموں کی تحقیر کرتا ہے۔ اس کے برعکس، قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے پیغمبروں نے اپنے غیر مسلم معاصرین کوہمیشہ ’’ائے میری قوم‘‘ کہہ کر خطاب کیا (الأعراف ۵۹)۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے مطابق، دیگر اقوام کو نہ غیر قوم سمجھنا درست ہے اور نہ اُن کے ساتھ بُرا سلوک کرنا جائز ہے۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق، کھُلے دشمن کے ساتھ بھی نفرت کرنا جائز نہیں (فصلت ۳۴) ۔ ایسی حالت میں صرف مذہبی فرق کی بناپر نفرت کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔
الف۔ یہ کہنا درست نہیں کہ اسلام میںمشرک کو عمومی طورپر نجس قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کی آیت انما المشرکون نجس (التوبہ ۲۸) کا یہ مطلب نہیں۔ یہ آیت محدود زمانی مفہوم میں ہے۔ اس میں ’’المشرکون‘‘ سے مراد صرف عرب کے وہ قدیم مشرک ہیں جو پیغمبرﷺکے ہم عصر تھے۔ اُنہوں نے کسی حق کے بغیر یہ کیا تھا کہ حضرت ابراہیم کے تعمیر کیے ہوئے دار التوحید کو ظلماً دارالاصنام بنا دیا تھا۔ اس لیے رسول اللہ کے ان معاصر لوگوں کے بارے میں قرآن میں یہ حکم آیا کہ ـــیہ مشرکین نجس ہیں۔ اس لیے وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے نزدیک نہ آئیں (التوبہ ۲۸)۔
اسی طرح یہ بات بالکل غلط ہے کہ مشرکین کی بنائی ہوئی چیزوں کو چھونا اسلام میں ناجائز ہے۔ یہ سراسر بے بنیاد بات ہے۔ اس کی کوئی اصل اسلام کی تعلیمات میں نہیں۔ خود رسول اللہ ﷺنے مشرکین کی بنائی ہوئی چیزوں کو مَس کیا ہے۔ حال میں کچھ لوگوں نے یہ ’’فتویٰ‘‘ دیا کہ امریکہ کی مصنوعات کو مسلمان نہ خریدیں۔ یہ بلاشبہہ ایک خود ساختہ فتویٰ ہے۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات بھی سراسر بے بنیاد ہے کہ اسلامی سلطنت میں غیر مسلموں کو برابر کے حقوق حاصل نہیں۔ بین اقوامی امور میں اسلام کا وہی مسلک ہے جو دوسری قوموں کا مروّجہ مسلک ہے۔ اس لیے آج اگر اسلامی ریاست قائم ہوتو اُس میں غیر مسلموں کو وہی حقوق دیے جائیں گے جو اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق عالمی حقوق سمجھے جاتے ہیں (سیرت ابن ہشام، الجزء ۴؍۲۷۲)۔
ب۔ اسلام انسانی برابری کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام میں کم تر انسان اور برتر انسان کا کوئی تصور نہیں۔ قرآن کی مدنی سورتوں میں بعض مقامات پر کافر یا کفار کا لفظ آیا ہے۔ مگر یہ لفظ خدا کی طرف سے ہے، نہ کہ اہلِ اسلام کی طرف سے۔ مثلاً نبوت کے تیرہویں سال قرآن میں یہ آیت اُتری کہ: قل یا ایہا الکافرون (الکافرون ۱) ۔مگر رسول یا اصحاب رسول نے کبھی اپنے ہم عصر غیرمسلموں کوایہا الکافرون کہہ کر خطاب نہیں کیا۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد صحابہ و تابعین ایشیا اور افریقہ کے مختلف ملکوںمیں پھیل گئے جہاں کی آبادی اُس وقت غیر مسلموں پر مشتمل تھی۔مگر کسی بھی ملک میں اُنہوں نے یہ نہیں کیا کہ وہاں کے لوگوں کو ’’اے کافرو‘‘ کہہ کر خطاب کریں۔ اس کے برعکس اُنہوں نے یہ کیا کہ کوئی قوم اپنے آپ کو جو نام دیئے ہوئے تھی اُسی نام سے اُس کو پکارا۔ مثلاًشام میںنصاریٰ، فلسطین میں یہود، ایران میں مجوس، چین میں بوذا، ہندستان میں ہندو، مصر میں قبطی، وغیرہ۔
ج۔ یہ بات سراسر بے بنیادہے کہ قرآن میں کافروں اور مشرکوں سے لڑنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ کافروں اور مشرکوں کے مقابلہ میں قرآن کا حکم اصلاً صرف ایک ہے، اور وہ تبلیغ ما أنزل اللہ (المائدہ ۶۷) ہے۔ یعنی خدا کی دی ہوئی تعلیمات کو انتہائی پُر امن انداز میں لوگوں تک پہنچانا۔ اگر مخاطبین کی طرف سے اذیت رسانی ہو تب بھی پُر امن رویّہ پر قائم رہتے ہوئے پیغام رسانی کا کام جاری رکھنا۔ جہاں تک لڑائی یا جنگ کا تعلق ہے، اُس کی اجازت صرف اُس وقت ہے جب کہ اہل اسلام کے خلاف کھلی جارحیت کی جائے اور اُن کو مجبورانہ دفاع کے تحت لڑنا پڑے۔ (البقرہ ۱۹۰، الحج ۳۹)۔
ہندو دھرم کے ماننے والوں کو کافر کہنا سراسر غیر اسلامی ہے، بلکہ وہ ایک گناہ کا فعل ہے۔ کافر سے مراد کوئی نسل یا گروہ نہیں۔ کافر کا مطلب ہے انکار کرنے والا۔ انکار کا تحقق صرف اُس وقت ہوتا ہے جب کہ کسی گروہ پر دعوت کا پُر امن عمل کیا جائے اور اُس کو تمام ضروری شرائط کی ادائیگی کے ساتھ اتمام حجت تک پہنچا دیا جائے، اس کے باوجود وہ گروہ انکار کی روش پر قائم رہے۔ مزید یہ کہ اس انکار کا تعلق مکمل طورپر انسان کی نیت سے ہے اور نیت کا حال صرف اللہ کو معلوم ہے۔ اس لیے کسی فرد یا گروہ کو کافر (منکر) قرار دینا صرف اللہ عالم الغیب کا حق ہے۔ اس مفہوم کے اعتبار سے کوئی ایک نسل کافر (منکر) ہوسکتی ہے جس پر اتمام حجت کیا گیا ہو۔ اُس کی بعد کی نسلوں پر پھر بھی اس لفظ کا اطلاق نہیںہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ ظہور اسلام کے بعد ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے کبھی کسی قوم کو کافر کا لقب نہیںدیا، وہ اُنہیں ان کے معروف نسبتی نام سے پکارتے رہے۔ یہ زبان پچھلے دو سو سال کے دوران استعمال ہوئی ہے جب کہ مسلمانوں کو غیر مسلم قوموں کے مقابلہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ درحقیقت موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی طرف سے احساس نفرت کا اظہار تھا، نہ کہ احساس دینی کا اظہار۔ اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ ظہور اسلام کے بعد ایک ہزار سال تک مسلمان اپنے دوردعوت میں تھے اور اب وہ اپنے دور نفرت میں ہیں۔ کافر اور دشمن کے الفاظ در اصل مذہبِ نفرت کی پیداوار ہیں، نہ کہ مذہبِ اسلام کی پیداوار۔
خونریزی اسلام کی تعلیم ہی نہیں۔ اسلام کی تمام تعلیمات امن اور انسانی خیر خواہی پر مبنی ہیں۔ اس مسئلہ پر اسلام کے نقطۂ نظر کو میں نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جو ماہنامہ الرسالہ اکتوبر ۲۰۰۲ میں ’’امن کلچر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔
۲۔ جہاد کا لفظی مفہوم کوشش یا جدوجہد ہے۔ اس سے مراد اسلام کے دعوتی مقصد کے لیے پُرامن جدوجہد کرناہے۔ جہاد کا کوئی بھی براہ راست تعلق جنگ سے نہیں۔
قرآن میں جنگ کے لیے قتال کا لفظ آیا ہے۔ مگر قرآن کے مطابق، قتال کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ غیر مسلموں پر مسلمانوں کا غلبہ قائم کرنے کے لیے جنگ کی جائے۔ اس قسم کی جنگ قرآن کے مطابق، نہ جہاد ہے اور نہ قتال۔ بلکہ وہ ایک قومی سرکشی ہے جس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کی جنگ فساد ہے، نہ کہ جہاد۔ جو نظریہ سرے سے درست ہی نہ ہو اُس کی تشہیر کیو ں کر معقول ہوسکتی ہے۔
۳۔ یہ سراسر الزام ہے کہ اسلام میں نوع انسانی کو مسلم و کافر میں تقسیم کیا گیا ہے۔ قرآن میں بار بار ایہا الانسان اور ایہا الناس کا لفظ استعمال ہوا ہے جن کی مجموعی تعداد قرآن میں ۳۱۵ ہے۔ اس سے اور دوسری قرآنی آیتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک زمین پر بسنے والے تمام لوگوں کی اصل حیثیت صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ وہ انسان ہیں۔ تمام لوگ بنی آدم ہونے کی حیثیت سے یکساں طورپر بنی آدم کا حصہ ہیں۔ ان میں سے جن لوگوں کو خدائی حق کی معرفت ہوجائے اور وہ اُس کو قبول کرلیں تو وہ اللہ کے نزدیک مومن قرار پائیں گے۔ ہندو سماج کے ذہن میںاس سلسلہ میں جو غلط فہمی پیدا ہوئی ہے اُس کا سبب اسلام کی حقیقی تعلیمات نہیں ہیں بلکہ کچھ مسلمانوں کی غلط نمائندگی ہے۔ چنانچہ جو ہندو مسلمانوں کی روش سے قطع نظر کرکے براہ راست طورپر اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں وہ کبھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوتے۔ اس معاملہ کی ایک مثال ڈاکٹر نشی کانت چٹو پادھیا ہیں۔ ان کا پورا واقعہ خود اُنہی کے الفاظ میں، راقم الحروف کی کتاب اسلام ری ڈسکورڈ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ہندستان میں جو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے یا ہورہے ہیں، اُن کا کوئی بھی تعلق اسلام کی تعلیمات سے نہیں ہے۔ وہ براہ راست طورپر دو قومی سیاست اورتقسیم ملک کی غیر فطری تحریک کا نتیجہ ہیں۔ اس کا سادہ ثبوت یہ ہے کہ اس غیر فطری اور غیر دانش مندانہ تحریک سے پہلے تقریباً ہزار سال تک ہندو اور مسلمان بر صغیر ہند میں مل جل کر رہتے تھے۔ اُن کے درمیان کبھی وہ چیز مشاہدہ میں نہیں آئی جس کو آج کل فرقہ وارانہ فساد کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ وارانہ فساد یقینی طورپر تقسیم کے غیر فطری عمل کا نتیجہ ہے، نہ کہ اسلام کی تعلیم کا نتیجہ۔
سوال نامے میں قرآن کی ۹ آیتوں کا حوالہ دیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اعتراض کرنے والے انہی آیتوں کو لے کر اعتراض کرتے ہیں۔ مگر یہ تمام اعتراضات صرف غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ ان محوّلہ آیتوں کا جواب مختصر طورپر یہاں درج کیا جاتا ہے۔
(الف) قرآن میںنجس کا لفظ صرف رسول کے اُن معاصر لوگوں کے بارے میں آیا ہے جنہوں نے ناجائز طورپر بیت اللہ میں ۳۶۰ بُت رکھ دیئے تھے۔ اُن کے بارے میں کہا گیا کہ آئندہ وہ بیت اللہ کے قریب نہ آئیں (التوبہ ۲۸) یہ حکم خصوصی ہے، نہ کہ عمومی۔
(ب) قرآن کی جس آیت میں مشرکین کے قتل کا حکم ہے، اُس سے مراد رسول اللہ کے وہ معاصر لوگ ہیں جو مکہ میں تھے اور جنہوں نے اپنے مسلسل عمل سے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ ظالم اور جارح لوگ ہیں۔ اس حکم کا دوسری اقوام یا دوسری نسلوں سے کوئی تعلق نہیں۔
(ج) قرآن کی جس آیت میں یہ حکم آیا ہے کہ اہل ایمان اہل کفر کو اپنا اولیاء نہ بنائیں اُس سے مراد زمانۂ رسالت کے وہ مخصوص اہل کفر ہیں جنہوں نے یک طرفہ طورپر دشمنی اور جارحیت کی روش اختیار کر رکھی تھی۔ یہ حکم بھی یقینی طورپر وقتی اور خصوصی ہے، نہ کہ ابدی اورعمومی۔
(د) اسی طرح قرآن کی جس آیت میں اہل ایما ن کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے عدو سے مودت کا طریقہ اختیار نہ کریں، اُس کا تعلق صرف عرب کے ایک جارحگروہ سے ہے۔ یہ بلاشبہہ ایک استثنائی حکم ہے۔ جہاں تک عداوت کے مقابلہ میں اسلام کے عمومی حکم کا تعلق ہے، وہ قرآن کی سورہ نمبر ۴۱، آیت نمبر ۳۴ میں بیان ہوا ہے۔ اس کے مطابق، اہل اسلام کو اپنے اعداء کے مقابلہ میں رد عمل کا طریقہ نہیں اختیار کرنا چاہئے بلکہ انہیں یک طرفہ حُسن سلوک کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
(ہ) قرآن کی جس آیت میں کفار اور منافقین سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے اُس سے مراد ہر گز جنگ نہیں ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی منافقین سے جنگ نہیں کی۔ یہ دراصل تشدیدی لحظہ کی ایک مثال ہے جس کو مُصلح بعض اوقات اصلاح کے لیے اختیار کرتا ہے۔
(و) قرآن کی جس آیت میں جاہلون کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اُس سے مراد ناواقف اور بے خبر ہونا ہے۔ یعنی بے خبر لوگوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ وہ باخبر شخص سے بے دلیل تکرار کرنے لگیں۔
(ز) مذکورہ آیت میںکفارسے مراد جارح کفار ہیں۔ یہ آیت بھی قرآن کے ایک خصوصی اور زمانی حکم کو بتاتی ہے، نہ کہ عمومی اور ابدی حکم کو۔ اس میں مسئلۂ جارحیت کا حکم بتایا گیا ہے، نہ کہ مذہبی اختلاف کا حکم۔
(ح) اس نمبر کے ذیل میں قرآن کی جس آیت کا حوالہ دیاگیا ہے اُس کا تعلق اُن لوگوں سے ہے جنہوں نے یک طرفہ جارحیت کرکے اہلِ اسلام پر حملہ کردیا ہو اور اہلِ اسلام کو دفاع کے طور پر اُن سے لڑنا پڑے۔
(ط) اس آیت کا تعلق بھی حالت جارحیت سے ہے۔ اس آیت میں لا یدینون دین الحق کا لفظ صرف قید اتفاقی کے طورپر آیا ہے۔اس حکم کا انطباق صرف دور اوّل کے کچھ لوگوں پر کیا گیا۔ اس کے بعد اس حکم کی توسیع نہیں کی گئی، جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے۔
آخر میںعرض ہے کہ قرآن کی مذکورہ آیتوں کا جو مفہوم راقم الحروف نے یہاں بیان کیا ہے وہ ان آیتوں کا کوئی نیامفہوم نہیں۔ قرون مشہود لہا بالخیر میں عام طورپر ان آیتوں کا یہی مفہوم سمجھا گیا ہے اور اسی کے مطابق، عمل کیا جاتا رہا ہے۔ میں نے اپنی تحریروں میں اسلام کے اس پہلو کو تفصیل کے ساتھ واضح کیا ہے۔ مثال کے طورپر ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب: دین انسانیت۔
تاہم موجودہ زمانہ میں کچھ مسلمانوں کو مذکورہ تشریحات اجنبی معلوم ہو سکتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں ایک نئی کمزوری پیدا ہوئی ہے جو اس سے پہلے کبھی مسلمانوں میں نہ تھی۔ اور وہ ہے غیر مسلموں کے خلاف نفرت۔ آج کل کے مسلمان عام طورپر غیر مسلموں کے بارے میں نفرت کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ اور جو لوگ نفرت کی نفسیات میں جیتے ہوں وہ منفی باتوں کو تو خوب سمجھیں گے مگر مثبت باتیں ان کے لیے اجنبی ہو جائیں گی۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی یہ حالت اُس حدیث رسول کے عین مطابق ہے جس میں پیشگی طورپر یہ خبر دی گئی تھی کہ: بدأ الاسلام غریبا وسیعود کما بدأ (مسلم کتاب الایمان، الترمذی کتاب الایمان، ابن ماجہ کتاب الفتن، الدارمی کتاب الرقاق، مسند احمد)یعنی اسلام شروع ہوا تو وہ لوگوں کے لیے اجنبی تھا اور دوبارہ وہ لوگوں کے لیے اجنبی بن جائے گا جیسا کہ وہ پہلے اجنبی تھا۔ ۲۶؍ ستمبر ۲۰۰۲
سوال و جواب
(پندرہ روزہ فرائیڈے اسپیشل، نئی دہلی کے سوالنامے کا جواب)
سوالات
۱۔ جماعت اسلامی کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟
۲۔ ایک خیال یہ ہے کہ جماعت اسلامی اقامت دین کی جدو جہد کے ساتھ اقامت سیکولرزم کے لئے بھی کوششیں کر رہی ہے۔
۳۔ جماعت اسلامی میں ممتاز علمائے کرام نظر نہیں آتے جیسا کہ ماضی میں تھا۔ کیا علماء کا طبقہ ا س کی طرف نہیں آرہا ہے۔ آخر کیوں؟
۴۔ جماعت اسلامی میں مجموعی طور پر اشاعت دین کا وہ جذبہ نظر نہیں آتا جو قدیم کارکنوں کے یہاں تھا۔ کیا یہ قیادت کی کمزوری ہے یا ارکان کی تربیت میں کمی آگئی ہے؟
۵۔ کارکنوں کے باہمی تعلقات میں بھی دوریاں پیدا ہوگئی ہیں اور ’’بنیان مرصوص‘‘ والی کیفیت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔
۶۔ الیکشن کے معاملہ پر جماعت اسلامی میں اکثر و بیشتر شدید اختلافات پیدا ہوتے رہے ہیں۔ کیا مٹھی بھر افرادی قوت رکھنے والی پارٹی کو متنازع معاملات میں اپنی قوت صرف کرنی چاہئے۔ بعض حلقے اسے شمالی اور جنوبی ہند کی کشمکش سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنوبی ہند کے لوگوں کو فرقہ وارانہ عصبیت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ ان میں مصالحت اور ہم آہنگی کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے جب کہ شمالی ہند کے حالات بالکل مختلف ہیں۔
۷۔ آپ کو نہیں لگتا کہ جماعت اسلامی ایک مقام پرآکر ٹھہر گئی ہے اور اس پر فکری جمود طاری ہے۔ تخلیقی لٹریچر میں جس طرح خود کو دہرایا جارہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے والوں کی بھی کمی ہوگئی ہے۔
۸۔ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ عصر حاضر کے مفکر اسلام مولانا مودودیؒ پر خصوصی نمبر شائع کرنے جارہا ہے جس میں مختلف پہلوؤں سے ان کی شخصیت پر مضامین شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ اس کے تحت مولانا مرحوم کی قائم کردہ جماعت اسلامی سے متعلق مذکورہ سوال نامہ آپ کی خدمت میں ارسال کیاجارہا ہے۔ہمیں امید ہے کہ آپ اس کا مفصل جواب عنایت فرمائیں گے ۔
جوابات
۱۔ جماعت اسلامی کے اپنے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اُس کی سب سے بڑی کامیابی یہ کہی جاسکتی ہے کہ اس نے ۱۹۴۰ کے بعد ایک معمولی تنظیم کی حیثیت سے اپنا آغاز کیا اور اب جماعت اسلامی مادی اعتبار سے ایک مؤسسہ(stablishment) کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ مؤسسہ کے بیشتر ظاہری لوازم اُس نے اپنے گرد جمع کرلیے ہیں۔ لیکن اگر اسلام اور ملّتِ اسلام کے اعتبار سے دیکھا جائے تو شاید جماعت اسلامی کا کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں ۔
اسلام کے اعتبار سے جماعتِ اسلامی کی سب سے بڑی فکری ناکامی یہ ہے کہ اُس نے اسلام کی غلط تعبیرپیش کی۔ اُس نے اسلام کو، وقت کے مروّجہ مزاج کے مطابق، سیاست کی اصطلاحوں میں بیان کیا۔ اس کا ثبوت جماعت اسلامی کا پورا لٹریچر ہے۔ اس لٹریچر نے جن لوگوں کو متاثر کیا اُن کا حال یہ ہوا کہ وہ اسلام کو ایک قسم کا سیاسی نظریہ سمجھنے لگے۔ نتیجۃً اسلام کا اصل پہلو، خشوع اور تقویٰ اور انابت اور اخبات اور ربانیت جیسی چیزیں اُن کے ذہن میں اپنا حقیقی مقام نہ پاسکیں۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی عملاً ایک قسم کی سیاسی پارٹی بن کر رہ گئی۔
۲۔ یہ خیال بجائے خود درست ہے۔ مگر یہ جماعت اسلامی کی مجبوری ہے، نہ کہ اُس کے نقطۂ نظر سے کوئی انحراف۔ اصل یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اقامت دین کا ایک خود ساختہ تصور پیش کیا۔ اس خود ساختہ تصور کے مطابق، اقامت دین کا مطلب یہ تھا کہ اسلام کو ایک مکمل قانونی اور سیاسی نظام کے طورپر قائم کیا جائے۔ میرے نزدیک یہ نظریہ غیر اسلامی بھی تھا اور غیر حقیقی بھی۔ چنانچہ جب واقعی حالات سے سابقہ پیش آیا تو معلوم ہوا کہ یہ رومانی تخیل حقائق کی دنیا میں قابل عمل ہی نہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تجربہ ثابت کرتا ہے کہ جماعت اسلامی کا مفروضہ اقامتِ دین وہاں بھی قابل عمل نہیں۔ مگر پاکستان کے مخصوص حالات کی بنا پر وہاں کم ازکم یہ ممکن ہے کہ سیکولرزم کے خلاف شور و غل کا ہنگامہ جاری رکھا جائے۔ چنانچہ جماعت اسلامی پاکستان میں یہی کام کررہی ہے۔ اگر چہ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پاکستان میں جماعت اسلامی کی حیثیت ایک ایسی جماعت کی بن گئی جو صرف ازعاج کی صفت (nuisance value) رکھتی ہے۔ وہ مشکلات پیدا کرنے والی(trouble maker) تو ضرور ہے مگر وہ کوئی تعمیری رول ادا کرنے والی نہیں۔
جہاں تک ہندستان کا تعلق ہے، ۱۹۴۷ کے بعد یہاں کے افراد جماعت بھی، جماعت اسلامی کے بانی کی تقلید میں سیکولرزم کو باطل اور غیر اسلامی نظریہ بتاتے رہے۔ مگر ایک عرصہ کے بعد اُن پر کھلا کہ ہندستان جیسے ملک میں سیکولرزم کو باطل قرار دینے کے بعد اُن کے لیے دو میں سے ایک کا چوائس باقی رہتا ہے۔ یا تو وہ یہاں کے نظام کو طاغوتی نظام قرار دے کر اُس سے لڑیں اور اس راہ میں مرتے رہیں۔ یا پھر مصالحت کا طریقہ اختیار کرکے سیکولرزم کے زیر سایہ زندگی کا استحقاق حاصل کرلیں۔
سیکولرزم کے معاملہ میں جماعت اسلامی نے یہی مصالحانہ انداز اختیار کیا۔ میرے نزدیک سیکولرزم نہ تو طاغوتی نظریہ ہے اور نہ وہ غیر اسلامی ہے۔ سیکولرزم کے تحت ہم انتہائی جائز طورپر کسی ملک میں زندگی گذار سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی اگر کھلے طورپر اس قسم کا اعلان کرتی تو وہ موجودہ تضاد کا شکار نہ ہوتی۔ مگر ایسی صورت میں اُس کو یہ اعلان کرنا پڑتا کہ سیکولرزم کے بارے میں اُس کا پچھلا نظریہ غلط اور انتہا پسندانہ تھا۔ اُس نے اس معاملہ میں اپنی غلطی کا اعتراف نہیںکیا اور غلطی کا اعتراف نہ کرنے کی قیمت ہمیشہ یہ دینی پڑتی ہے کہ آدمی تضاد فکری اور تضاد عملی کا شکار ہوجائے۔
۳۔ یہ صحیح ہے کہ جماعت اسلامی کے ابتدائی دور میں کچھ ممتاز علماء وقتی طورپر اُس میںشریک ہوگئے تھے۔ ایک عرصہ کے بعد وہ اُس سے الگ ہوگئے۔ میرے نزدیک اس معاملہ میں اصل غلطی ممتاز علماء کی ہے، نہ کہ جماعت اسلامی کی۔ یہ علماء میرے نزدیک زیادہ غور وفکر کے تحت جماعت اسلامی میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ وہ زیادہ تر رومانی تخیل کے تحت اُس میں شریک ہوئے تھے۔ اور جب حالات نے رومانی تخیل کو توڑ دیا تو اس کے بعد اُن کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اُس سے الگ ہو جائیں۔
اس سلسلہ میں ایک بات یہ ہے کہ جو علماء جماعت اسلامی میںشمولیت کے بعد اُس سے الگ ہوئے، اُن سب کے علیٰحدگی کا ایک ہی مشترک سبب تھا۔ اور وہ یہ کہ اُنہیں جماعت اسلامی کی عملی سیاست سے اختلاف تھا، نہ کہ فکری معنوں میں اس کے نظریہسے۔ اصولی طورپر اس قسم کی علیٰحدگی کے لیے کوئی مبرّر(justification) موجود نہیں۔
اس معاملہ میں صرف راقم الحروف کا استثناء ہے۔ جماعت اسلامی سے میری علیٰحدگی عملی اختلاف کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ تمام تر فکری اور نظریاتی اختلاف کی بنا پر تھی جس کی تفصیل میری کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی سے علیٰحدگی کے لیے میرے پاس تو مبرّر ہے مگردوسرے علماء کے پاس اس کا کوئی مبرّر نہیں۔
۴۔ جماعت اسلامی کے ماضی اور حال میں یہ فرق ضرور پایا جاتا ہے۔ مگر یہ فرق فطری ہے۔ جماعت اسلامی کے قدیم کارکن وہ لوگ تھے جو جماعت کی پہلی نسل کی حیثیت رکھتے تھے اور اُس کے موجودہ کارکن اُس کی دوسری نسل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور کسی بھی جماعت یا تحریک کی ابتدائی نسل اور بعد کی نسل میں اس قسم کا فرق پیدا ہونا تقریباً لازمی ہے۔
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے قدیم کارکن بھی اْس زمانہ میں جو کام کرتے تھے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اشاعت دین کا کام نہ تھا بلکہ اشاعت سیاست کا کام تھا۔ یہ لوگ دین کے نام پر جماعت اسلامی کے بانی کا وہ لٹریچر پھیلاتے تھے جو حقیقی معنوں میں اسلام کی مطلوب تشریح نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کی خودساختہ سیاسی تشریح ہے۔ میرے نزدیک ایسے کسی کام کو اشاعت دین کا عنوان نہیں دیا جا سکتا۔
۵۔ کارکنوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں یہ شکایت بالکل درست ہے۔ مگر اس کا تعلق عروج و زوال کے فطری قانون سے ہے، نہ کہ خود جماعت اسلامی کے کسی داخلی سبب سے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر جماعت یا تحریک کی بعد کی نسلوں میں وہی گراوٹ آجاتی ہے جس کا مشاہدہ جماعتِ اسلامی کے موجودہ افراد میں کیا جا رہا ہے۔
۶۔ الیکشن کے معاملہ میں جماعت اسلامی کے لو گوں میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ جماعت کے بانی نے ’’ طاغوتی نظام‘‘ کے نام سے جو نظریہ پیش کیا، اُس کے مطابق،سیکولر جمہوری ریاست کے اندر الیکشن میںحصہ لینا حرام قرار پاتا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، تقسیم ملک کے بعد جماعتِ اسلامی کے بانی نے ایک دستوری نکتہ نکال کر یہ اعلان کر دیا کہ پاکستان کی ریاست نے کلمہ پڑھ لیا ہے اس لیے پاکستان میں الیکشن میں حصہ لینا جائز ہوگیا ہے۔
مگر ہندستان میں یہاں کی ریاست کے بارے میں اس قسم کی ’’کلمہ گوئی‘‘ کا بہانہ موجود نہ تھا۔ ایسی حالت میں جماعت اسلامی کے مبینہ نظریہ کے مطابق، ہندستان میں الیکشن میں حصہ لینا بدستور حرام تھا۔ مگر دھیرے دھیرے جماعت اسلامی والوں کو محسوس ہوا کہ اس قسم کا نظریہ سراسر ایک غیر عملی نظریہ ہے۔
اب جماعت اسلامی والوں کے لیے صحیح طریقہ یہ تھا کہ وہ یہ اعلان کردیں کہ اُن کا طاغوتی نظام کا فلسفہ ایک انتہا پسندانہ نادانی تھی۔ وہ ایک سیاسی غلو تھا جس کا تعلق نہ اسلام سے ہے او رنہ عقل سے۔ اگر وہ اس طرح اپنی غلطی کا اعلان کردیتے تو وہ کھلے طورپر الیکشن میں حصہ لے سکتے تھے۔ مگر انہوں نے ایسا اعلان نہیں کیا۔ اس کے نتیجہ میں جماعت اسلامی دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک وہ لوگ ہیں جو اعترافِ خطا کے بغیر الیکشن میں حصہ لینا درست سمجھتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو بانی جماعت کی تقلید میں بدستور الیکشن کو حرام سمجھ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے لیے اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ وہ یہ اعلان کردے کہ اُس کا سابقہ طاغوتی نظریہ درست نہ تھا۔ اس اعلان کے بغیر یہی ہوگا کہ کچھ لوگ مصلحت پسندانہ طورپر الیکشن میں حصہ لیں گے اور کچھ لوگ تقلیدی طورپر اُس کو حرام سمجھتے رہیں گے۔
۷۔ جماعت اسلامی میں ٹھہراؤ اور جمود کی بات بلاشبہہ درست ہے۔ مگر اس کا سبب لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے بلکہ جماعت اسلامی میں اعتراف کی کمی ہے۔اصل یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا فکر ایک رومانی دور میں بنا۔ اس کے فطری نتیجہ کے طورپر جماعت اسلامی نے ایک ایسا فکری نظام بنایا جو عملی سے زیادہ تخیّلاتی تھا۔ اس قسم کی رومانیت (romanticism) کا نتیجہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے جو جماعت اسلامی کے اندر پیش آیا۔ اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی میں وہ تحریک چلے جس کو عام طورپر تحریک نظر ثانی (revisionism) کہا جاتا ہے۔ یعنی جماعت اسلامی کے لوگ کھلے طور پریہ مانیں کہ اُن کی جماعت کے بانی نے فکری ناپختگی کی بنا پر غلط نظریات قائم کیے اور اسلام کی ایسی تشریح کی جس کا تعلق نہ دین سے تھا اور نہ عقل سے۔ اس حقیقت واقعہ کو مان کر جماعت اسلامی کے فکر پر نظر ثانی کی جائے اور اس کی تصحیح کرکے اُس کو شریعت اور حقائق کے مطابق بنایا جائے۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کی مذکورہ کمزوری اپنے آپ دور ہوجائے گی۔
جماعت اسلامی جس نظریہ پر اُٹھی وہ یہ تھا کہ انسانی اقتدار کا نام طاغوت ہے۔ اس نظریہ کے مطابق، موجودہ دنیا میں ہر جگہ طاغوتی نظام قائم ہے۔ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس طاغوتی نظام کو توڑ کر خدائی اقتدار کا نظام قائم کرے۔ اس کوشش کے بغیر جو موت ہوگی وہ جاہلیت کی موت ہوگی۔
یہ نظریہ نہ صرف خود ساختہ تھا بلکہ وہ ناقابلِ عمل بھی تھا۔ اس لیے جماعت ِ اسلامی کے لوگ دھیرے دھیرے اس نظریہ سے ہٹنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ دوسری مسلم جماعتوں کی طرح، صرف ایک ملّی جماعت بن کر رہ گئے۔ اس گراوٹ کے بعد اُن کے اندر وہ تمام خرابیاں آگئیں جو کسی جماعت کے اندر اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کہ اُس نے اعلان کے بغیر اپنا موقف بدل لیا ہو۔ اس کے بعد جماعت اسلامی اُسی طرح ایک مسلم قومی جماعت بن گئی جس طرح آر۔ ایس۔ ایس ایک ہندو قومی جماعت ہے۔
اگر کوئی شخص ایسا کرے کہ وہ ایک طرف آر ایس ایس کے آرگن، پانچ جنیہ اور آرگنائزر کے ایک سال کے شمارے اکٹھا کرے اور دوسری طرف وہ جماعت اسلامی کے آرگن دعوت اور ریڈینس کے ایک سال کے شمارے اکٹھا کرے اور پھر دونوں کا تقابلی مطالعہ کرے تو وہ پائے گا کہ الفاظ کے فرق کے ساتھ دونوں میں حیرت انگیزمشابہت ہے۔ آر ایس ایس کے پرچے اگر اینٹی ہندو سازشوں اور اینٹی ہندو سرگرمیوں کے انکشاف کا دفتر ہیں تو جماعت اسلامی کے پرچے اینٹی مسلم سازشوں اور اینٹی مسلم سرگرمیوں کے انکشاف کا دفتر۔ یہ مشابہت اتنی زیادہ نمایاں ہے کہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پانچ جنیہ اور آرگنائزر ہندوؤں کے دعوت اور ریڈینس ہیں اور دعوت اور ریڈینس مسلمانوں کے پانچ جنیہ اور آرگنائزر۔
اس کانتیجہ یہ ہے کہ پانچ جنیہ اور آرگنائزر پڑھنے والے ہندو جس طرح مسلمانوں کے بارہ میں منفی سوچ کا شکار ہو جاتے ہیں، ٹھیک اسی طرح دعوت اور ریڈینس پڑھنے والے بھی اینٹی ہندو سوچ کا شکارہیں۔
اس منفی ذہن نے جماعت اسلامی کے افراد کو بیک وقت دو برے تحفے دیے ہیں۔ اس منفی ذہن کی بنا پرایک طرف وہ لوگ دعوت کے قابل نہیں رہے ہیں۔ دعوت مدعو کے حق میں گہری خیرخواہی کے تحت پیدا ہوتی ہے۔ اب جو لوگ اپنے مدعو کے خلاف منفی سوچ میں مبتلا ہوں وہ مدعو کے حق میں یک طرفہ خیر خواہ نہیں بن سکتے۔ اس طرح کی منفی سوچ آدمی کو دعوت کے عمل کے لیے بالکل نا اہل بنا دیتی ہے۔ آج کل جماعت اسلامی کے لوگ دعوت کے نام سے جو کچھ کررہے ہیں، وہ میرے نزدیک ایک قسم کا پروفیشن ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی سنجیدہ مشن۔ وہ صرف ایک ظاہری نوعیت کا جماعتی پروگرام ہے، نہ کہ لعلّک باخع نفسک (الشعراء ۳) کی نفسیات کے تحت ظاہر ہونے والا کوئی ربّانی عمل۔اس منفی سوچ کا دوسرا اس سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی کا سینہ مثبت نفسیات سے خالی ہو جائے گا۔ اور جس آدمی کا سینہ مثبت نفسیات سے خالی ہو وہ اعلیٰ ربّانی احساسات کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ اُس کی زندگی میں بظاہر نماز روزہ دکھائی دے گا۔ مگر اس کا یہ نماز روزہ اُس کی زندگی کا صرف ایک رسمی حصہ ہوگا۔ وہ ربّانی نفسیات کا اظہار نہیں ہو سکتا۔
۸۔ مولاناابوالاعلیٰ مودودی کی قائم کردہ جماعت اسلامی کے بارے میں میں نے اوپر اپنے خیالات کا اظہار کردیا ہے۔ جہاں تک مولانا مودودی کی شخصیت کا تعلق ہے، اس سلسلہ میں عرض ہے کہ میرے مطالعہ کے مطابق، وہ کوئی مفکر (thinker) نہ تھے۔ آج کل ایک عجیب ر واج یہ ہوگیا ہے کہ لوگ اپنی محبوب شخصیتوں کو خوش عقیدگی کے تحت مفکر لکھ دیا کرتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک اس لفظ کا یہ استعمال درست نہیں۔آج کل جن مسلم افراد کو مفکر کا نام دیا جاتا ہے، وہ سب یا تو شاعر تھے یا خطیب تھے یا ادیب۔ ذاتی طورپر میں مولانا مودودی کو ادیب اور انشا پرداز سمجھتا ہوں، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی مفکر۔
مفکر یا تھنکر وہ ہے جو بصیرت (vision) کا حامل انسان ہو۔ جو اپنی بڑھی ہوئی تحلیلی قوت کے ذریعہ حال میں مستقبل کو دیکھے۔ جو متفرق حقائق کو ایک داخلی وحدت (inter-related whole) میں تبدیل کرسکے۔ جو ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان اُس فرق (difference) کو جانے جو صحت تفکیر کے لیے ضروری ہے۔ جو قریبی حالات سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جس کی سوچ مکمل طورپر رد عمل سے خالی ہو۔ جو منفی سوچ سے پوری طرح پاک ہو اور خالص مثبت سوچ کے تحت رائے قائم کرسکے۔
میرے نزدیک موجودہ زمانہ کی مسلم شخصیتوں میں سے کوئی بھی شخصیت (بشمول مولانا مودودی) ان شرائط پر پوری نہیں اترتی۔ اس لیے ان میں سے کوئی بھی مفکر کہے جانے کی مستحق نہیں۔ ان لوگوں کی فکر ردعمل کے تحت بنی جب کہ مفکر وہ ہے جو ابدی حقائق کی روشنی میں سوچ سکے۔
میرے نزدیک جماعت اسلامی کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اُس نے اپنے غیر فطری نظریہ کی بنا پر اپنے پیروؤں کو ایک دو طرفہ مشکل میں ڈال دیا۔ اب اُن کے لیے صرف دو میں سے ایک کا چوائس موجود ہے۔ یا تو وہ جماعت کے بانی کے نظریہ کے مطابق، طاغوتی نظام سے بے فائدہ لڑائی لڑ کر اپنے آپ کو تباہ کرلیں یا اپنے اور اپنے بچوں کی انٹرسٹ کی خاطر منافق بن کر زندگی گذاریں۔
جماعت اسلامی کے مبیّنہ نظریہ کے مطابق، آج کی پوری دنیا میں طاغوتی نظام قائم ہے اور طاغوتی نظام سے سمجھوتہ اُن کے نزدیک ہر حال میں حرام ہے۔ اس نظریہ کے مطابق، طاغوتی نظام کے تحت رہنے کی ایک ہی صورت ہے، وہ یہ کہ اس سے مقاطعہ کرکے اُس سے مسلسل جنگ کی جائے، یہاں تک کہ اسی راہ میں اپنی جان دے دی جائے۔
ظاہرہے کہ اس انتہا پسندانہ تصور سے آدمی کا اور اُس کے بچوں کا دنیوی مستقبل مکمل طورپر تباہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اب جماعت کے تمام لوگ موجودہ طاغوتی نظام سے سمجھوتہ کرکے اُس کے تحت دوسرے لوگوں کی طرح مادی تعمیر میں لگ گئے ہیں۔
میرے نزدیک موجودہ نظام کے تحت مادّی ترقی حاصل کرنا غلط نہیں۔ مگر جماعت اسلامی والوں کے لیے ، وہ ان کے عقیدہ کے مطابق، حرام ہے، الّا یہ کہ وہ اپنے سابقہ نظریہ کے باطل ہونے کا اعلان کریں۔ چونکہ جماعت والوں نے ایسا اعلان نہیں کیا، اس لیے اُن کی موجودہ سمجھوتہ کی زندگی صرف منافقت قرار پائے گی، نہ کہ حقیقی معنوں میں با اصول زندگی۔ (۱۱؍ستمبر ۲۰۰۲)
سوال
مسلم مصنفین کی کتابوں کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساری خدائی صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔ خواہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ محروم طبقہ ہوں۔ مگر وہ برابر یہ کہتے رہتے ہیں کہ ’’ساری کائنات بس ہمارے لئے تخلیق کی گئی ہے‘‘۔ اس کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی اپنی تفسیر میں وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمینکی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’نیز حق تعالیٰ نے وعدہ فرمالیا ہے کہ پہلی امتوں کے برخلاف اس امت کے کافروں کو عام ومستأصل عذاب سے محفوظ رکھا جائے گا‘‘ (صفحہ ۴۲۸)۔ یہ کیا معاملہ ہے ،اس کی وضاحت کریں (محمد سلیم، دہلی)
جواب
۱۔ یہ بات بے بنیاد ہے کہ مسلم قوم خدا کے نزدیک کوئی افضل قوم ہے۔ شعب مختار (chosen people) کا عقیدہ خالص یہودی عقیدہ ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جو فیصلہ ہوگا وہ ہر فرد کے اپنے ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ کسی قوم یا نسل یا گروہ سے وابستگی کی بنیاد پر۔
۲۔ تفسیر عثمانی کا جو اقتباس آپ نے نقل کیا ہے وہ بھی درست نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب عذاب مستأصل نہیں آئے گا۔ مگراس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا تعلق صرف بعد کے مسلمانوں سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون الٰہی کا تعلق اس بات سے ہے کہ اب کوئی پیغمبر دنیا میں آنے والا نہیں۔ عذاب مستأصل صرف کسی ایسی قوم پر آتا ہے جس کے درمیان کوئی پیغمبر آئے اور وہ ان پر اتمام حجت کردے۔ اس کے باوجود وہ قوم انکار کی روش پر قائم رہے۔ ایسی ہی کسی قوم پر عذاب مستأصل آتا ہے، جیسے کہ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور قوم فرعون پر آیا۔ اب ختم نبوت کے بعد چوںکہ دنیا میں کوئی پیغمبر آنے والا نہیں۔ اس لئے اب کسی کے اوپر عذاب مستأصل بھی نہیں آئے گا۔
سوال
ماحولیاتی پرابلم(Ecological Problem) کے بارے میںاسلام کیا رہنمائی دیتا ہے۔ آج کل کے زمانہ میں ساری دنیا میںاس مسئلہ کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس مسئلہ پر بہت زیادہ سوچ بچار ہورہا ہے۔ اگر ممکن ہو تو بتائیں کہ اسلام میں اس مسئلہ کے بارے میں کیا روشنی ڈالی گئی ہے۔ (کرِس فلپاٹ (Chris Philpott) برمنگھم)
جواب
ماحولیات کا مسئلہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ فطرت کا قائم کیا ہوا نظام بگڑ جائے۔ ائرپولیوشن، واٹر پولیوشن، گلوبل وارمنگ، وغیرہ مسائل اس لئے پیدا ہوئے کہ جدید انڈسٹری یا جدید مشینی تہذیب کی وجہ سے فطرت کا بنایا ہوا نظام اپنی اصل حالت پر قائم نہ رہا، اس میں بگاڑ آگیا۔
اس معاملہ میں قرآن کی رہنمائی اس اصول پر قائم ہے کہ فطرت کے قائم شدہ نظام کو درہم برہم نہ کرو۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ خدا نے دنیا کی ہر چیز معین مقدار میں بنائی (الحجر ۱۹) اسی طرح قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ خدا نے دنیاکا نظام کس طرح کامل انداز میں بنایا کہ تم اس کے اندر کوئی نقص نہیں پاسکتے (الملک ۳) اسی حقیقت کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن میں انسان کو یہ حکم دیا گیا: لا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا (الاعراف ۵۶) یعنی زمین میں فساد نہ کرو اس کی اصلاح کے بعد۔اس طرح کی مختلف آیتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے ہماری دنیا کو انتہائی متوازن(balanced) صورت میں بنایا ہے۔ اس کی ہر چیز انتہائی صحیح تناسب (right proportion) میں ہے۔ خدا جو اس دنیا کا مالک ہے اس نے اس دنیا کو انسان کے حوالہ کرتے ہوئے یہ تاکید کی کہ تم کو یہ حق حاصل ہے کہ تم دنیا کو اپنے لئے استعمال کرو۔ مگر تم کو یہ حق حاصل نہیں کہ تم اس کو بگاڑو۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی ترقی کا منصوبہ اس طرح بنائے کہ دنیامیں فطرت کا قائم کیا ہوا توازن ٹوٹنے نہ پائے۔ یہاں کی مختلف چیزوں میں جو تناسب رکھا گیا ہے، وہ جیسا ہے ویسا ہی باقی رہے۔
قرآن کے مطابق، انسان کو ایک اصلاح یافتہ دنیا دی گئی ہے، انسان کے اوپر لازم ہے کہ وہ اس اصلاحی حالت کو باقی رکھتے ہوئے اسے استعمال کرے۔ اگر انسان اس اصلاح میں خلل ڈالے اور وہ مسئلہ پیدا کرے جس کو ماحولیاتی مسئلہ کہا جاتا ہے تو خدا کے نزدیک وہ ایک مجرم قرار پائے گا۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ نے چند دن کے لئے کسی شخص کو اپنے گھر میں مہمان رکھا۔ اب اگر وہ سمجھ لے کہ وہ اس گھر کا مالک ہے اور اس احساس کے ساتھ وہ گھر کی چیزوں کو بے قید طورپر استعمال کرنے لگے اور گھر کے اندر چیزوں کا جو نظم ہے اس کو بگاڑ ڈالے تو وہ مہمان نہ رہے گا بلکہ مجرم بن جائے گا۔
اسی طرح موجودہ دنیا گویا خدا کا ایک عالمی گسٹ ہاؤس ہے۔ انسان کو خدا نے اس گسٹ ہاؤس میں محدود مدت تک رہنے کی اجازت دی ہے۔ انسان اگر اصل مالک کی مرضی کے مطابق، یہاں رہے اور گیسٹ ہاؤس کے نظام میں خلل ڈالے بغیر اس کو استعمال کرے تو یہ اس کا جائز حق ہوگا، لیکن اگر وہ خود اپنے آپ کو اس عالمی گسٹ ہاؤس کا مالک سمجھنے لگے اور اس کے اند رقائم کئے ہوئے نظام کو درہم برہم کردے تو اس کی حیثیت ایک ایسے مجرم کی ہو جائے گی جس کو انعام دینے کے بجائے ذلّت کی سزا دی جائے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو ماحولیاتی مسئلہ موجودہ زمانہ میں پیدا ہوا ہے اس کو قرآن میں پیشگی طورپر بتا دیا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں قرآن کی یہ آیت بے حد اہم ہے: ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون (الروم ۴۱) یعنی خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ اللہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔
اس آیت میں عین انہی ماحولیاتی مسائل سے پیشگی طورپر خبردار کیا گیا ہے جو آج انسان کو درپیش ہیں۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق، جو ماحولیاتی مسائل آج پیش آرہے ہیں، انسان کو چاہئے کہ وہ ان ماحولیاتی مسائل کو وارننگ کے طورپر لے اور اپنی روش میں اصلاح کرکے دنیا کو دوبارہ اس اصلاحی حالت کی طرف لے جائے جو کہ صنعتی دور سے پہلے تھی۔
سوال
آپ نے الرسالہ ماہ جون ۲۰۰۲ میں لکھا ہے کہ: اسی طرح گجرات میں جن لوگوں نے جگہ جگہ خونی فساد کیا وہ بھی اپنی اصل حقیقت کے اعتبا رسے غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے، نہ کہ ہندو۔ یہ لوگ اگر تعلیم یافتہ ہوتے تو ایسا واقعہ کبھی پیش نہ آتا (صفحہ ۲۶) واقعہ یہ ہے کہ آج دنیا میں سارا فساد تعلیم یافتہ لوگوں ہی کہ وجہ سے ہے۔ اس لیے اس طالب علم کا قول ہے:
Education without ethics is an evil.
(ابن غوری ، نلگنڈا)
جواب
تعلیم یافتہ سے ہماری مراد ڈگری یافتہ نہیں ہے، بلکہ شعور کا مالک ہونا ہے۔ اصل یہ ہے کہ جس سماج میںلوگ پڑھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں وہاں ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، یعنی مصلحین اور عام لوگوں کے درمیان فکری بُعد(intellectual gap) ۔ ہمیشہ اور ہردور میں مصلحین ہوتے ہیں لیکن اگر سماج میں تعلیم عام نہ ہو تو لوگ ان مصلحین کی باتوں سے فائدہ نہیں اٹھاپاتے۔ اس بنا پر سماج میںتربیتِ شعور کا عمل رُک جاتا ہے۔ یہی خاص حکمت ہے جس کی بنا پر تمام اعلیٰ دماغ لوگ عمومی تعلیم کو بے حد اہمیت دیتے ہیں۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم کا مقصد جاب(job) حاصل کرنا ہے۔ میرے نزدیک جاب کا مسئلہ ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرہ کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہاں مصلحین ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو کسی بات کو اس کی گہرائی کے ساتھ سمجھ سکیں۔ جب کہ بے پڑھے لکھے سماج میںایسے افراد موجود نہیں۔
غیر تعلیم یافتہ سماج میں لوگ ایک چیز اور دوسری چیز کا فرق نہیں سمجھتے۔ وہ معاملات کا گہرا تجزیہ نہیں کرسکتے۔ مثلاً اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہندستانی مسلمانوں میں قیادت کافقدان ہے۔ حالاں کہ یہ ایک غیر واقعی بات ہے۔ ہندستانی مسلمانوں میںاصل مسئلہ فقدانِ قیادت نہیں ہے بلکہ فقدانِ قبولیت قیادت ہے۔ ہمارے یہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اُن افراد کے گرد لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہوجاتی ہے جو ہائی پروفائل میں بولتے ہوں، حالاں کہ دانش مند ہمیشہ لو پروفائل میں کلام کرتا ہے۔ اسی طرح باہمی نزاعات میں لوگ اکثر آئیڈیل سلوشن کی بات کرنے لگتے ہیں حالاں کہ اس طرح کے معاملات ہمیشہ پریکٹیکل سلوشن کے ذریعہ طے ہوتے ہیں۔
اسی طرح آپ دیکھیں گے کہ اکثر لوگ جب قومی معاملات میں بولتے یا لکھتے ہیں تو وہ غیرمفاہمانہ انداز میں کلام کرتے ہیں۔ حالانکہ یہی لوگ خود اپنے ذاتی مسائل کو مفاہمت اور مصالحت کے ذریعہ حل کرتے ہیں۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ ذاتی معاملہ میں آدمی کی جبلّت (instinct) ہی رہنمائی کے لئے کافی ہے جو ہر ایک کو حاصل ہوتی ہے مگر ملّی اور قومی معاملات میں مفاہمت اور مصالحت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اعلیٰ شعور درکار ہے جو ایک کم تعلیم یافتہ معاشرہ میںلوگوں کو حاصل نہیں ہوتا۔
سوال
میں ماہنامہ الرسالہ کا ریگولر قاری ہوں۔ مجھے آپ کی یہ بات بہت پسند ہے کہ آپ ہمیشہ ناامیدی کے حالات میں امید کا پہلو تلاش کرتے ہیں۔ مایوسی کے حالات میں ہمت اورعزم پیدا کرنے والی بات کرتے ہیں۔ مگر مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ بہت سے مسلمان آپ کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ جو مسلمانوں کو یہ بتاتے ہیں کہ انڈیا میں اور دنیا بھر میں لوگ مسلمانوں کو مٹاڈالنا چاہتے ہیں ان کی باتیں مسلمان خوب شوق سے سنتے ہیں مگر آپ مسلمانوں کو خوش خبری دیتے ہیں تو مسلمانوں کو آپ کی بات اچھی نہیں لگتی۔ ایسا کیوں ہے۔ (محمد اصغر، نئی دہلی)
جواب
آپ کے اس سوال پر مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ ایک بار میں بی بی سی لندن (ہندی) سن رہا تھا۔ انہوں نے پروگرام کے مطابق، ماریشش میں مقیم ایک ہندو کا خط پڑھ کر سنایا۔ خط میں یہ شکایت کی گئی تھی کہ بی بی سی لندن اپنے ہندی پروگرام میں ہندی بولنے والے علاقہ کی خبریں دیتا ہے مگر اس کے ہندی پروگرام میں کبھی ماریشش کی کوئی خبر نہیں آتی۔ حالانکہ ماریشش میں ہندی بولنے والے بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ بی بی سی لندن کے اناؤنسر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا کام یہ ہے کہ وہ بیڈ نیوز (بری خبریں) نشر کرے جب کہ ماریشش میں سب اچھی خبریں ہوتی ہیں۔ پھر اس نے ہنستے ہوئے کہا:
And good news is no news.
یہی معاملہ موجودہ مسلمانوں کا ہے۔ آج کے مسلمان اپنے پریس اور اپنے اسٹیج سے اپنے بارے میں بری خبریں سنتے سنتے اس کے اتنے زیادہ عادی ہوچکے ہیں کہ اب اپنے بارے میں اچھی خبریں ان کواجنبی معلوم ہونے لگی ہیں۔ ان کو یقین نہیں آتا کہ ان کے بارے میں کوئی اچھی خبر بھی صحیح ہوسکتی ہے۔ موجودہ مسلمانوں کے اس مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ:
Good ne ws is no news for a Muslim.
کسی قوم کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ واقعہ پیش آنے کے وقت پہلے ہی مرحلہ میںاس کو ہوش مند لیڈر مل جائیں۔ جیسا کہ ۲۰۰ سال پہلے امریکہ کے ساتھ پیش آیا۔ مثلاً جیفرسن، واشنگٹن، لنکن، وغیرہ۔بدقسمتی سے انہی ۲۰۰ سالوں میں مسلمانوں کے ساتھ کئی ناخوش گوار واقعات پیش آئے۔ اس وقت کرنے کا کام یہ تھا کہ مسلمانوں کو قرآن کے الفاظ میں عُسر میں یُسر کا راز بتایا جائے۔ مگر ساری دنیا کے مسلم لیڈر صرف عُسر کی اصطلاحوں میں لکھتے اوربولتے رہے۔ میرے علم کے مطابق، کوئی بھی قابل ذکر مسلمان ایسا نہیں نکلا جو یسر کی اصطلاحوں میں بات کرے۔ اس مدت میں کچھ لوگوں نے فضائل کی زبان میں کچھ بشارتیں سنائیں مگر اس قسم کی بشارتیں افیون کی گولی ہیں، نہ کہ حقیقی معنوں میں مثبت رہنمائی۔ اس طرح لمبی مدت تک منفی ماحول میں جینے کی وجہ سے مسلمانوں کا حال وہ ہوگیاہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا۔
اس معاملہ میں مسلمانوںکی مثال ساس اور بہو کے روایتی جھگڑے جیسی ہے۔ جو ساس اپنی بہو کے بارے میں منفی ذہنیت کا شکار ہوچکی ہو اس کے سامنے اگر بہو کی خوبیاں بیان کی جائیں تو ساس کو یقین نہیںآئے گا۔ عین ممکن ہے کہ اس بات کو سن کر وہ غصہ ہوجائے۔ البتہ اگر بہو کی برائی بیان کی جائے تو وہ خوب خوش ہوگی اور بلا ثبوت بہو کے خلاف باتوں کو مان لے گی۔ٹھیک یہی معاملہ برعکس طورپر بہو کے بارے میں بھی درست ہے۔
موجودہ مسلمانوں کی یہی کمزوری ہے جس کی بنا پر اُن کا حال وہ ہوگیا ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: اگر وہ ہدایت کا راستہ دیکھیں تو وہ اُس کو نہ اپنائیں گے اور اگر وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اپنا لیں گے (الاعراف ۱۴۶)
سوال
میںنے عالمی تاریخ کی کچھ کتابیں پڑھیں اور کچھ مورخین کے تبصرے پڑھے۔ ان کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے پوری انسانی تاریخ شورش اور ہنگاموں کی تاریخ ہے۔ تاریخ میں بہت کم ایسے لمحات ملتے ہیں جب کہ پرسکون اور معتدل ماحول میں انسان کو جینے کا موقع ملا ہو۔ تاریخ کے اس منظر کو دیکھ کر کچھ لوگ خدا کی خدائی پر شک کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا اگر عادل ہے تو اس کی بنائی ہوئی دنیا میں اتنا زیادہ بگاڑ کیوں؟ براہ کرم اس سوال پر روشنی ڈالیں۔ (عبد الرحمن ، ناندیڑ)
جواب
دنیا کے بارے میں مذکورہ سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ اس کو انسان کی نظر سے دیکھا جائے۔ لیکن اگر دنیا کو خالق کی نظر سے دیکھا جائے تو نہایت آسانی سے اس کا جواب مل جاتا ہے۔ اور یہ یقین ہوجاتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہی ہونا چاہئے تھا۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ موجودہ دنیا کے بارے میں خدا کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ قرآن کے مطابق، وہ تخلیقی نقشہ امتحان (test) کے اصول پر مبنی ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا نے انسان کو اس لئے نہیں بسایا کہ وہ یہاں عیش کرے۔ عیش کی زندگی انسان کو اُس کے عمل کے مطابق، آخرت میں ملے گی۔ موجودہ دنیا کا سارا نظام اس ڈھنگ پر بنا ہے کہ ہر انسان اور ہر گروہ امتحان کی کسوٹی پر آسکے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ معتدل حالات میں کسی انسان کی اصل حقیقت کا پتہ نہیں چلتا۔ لوگ خوبصورت لفظوں اور خوشنما کپڑوں میں اپنے آپ کو چھپائے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں لوگوں کو اکسپوز(expose) کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میںاضطراب (disturbance) لایا جائے۔ اس معاملہ میں انسان کی مثال انڈے جیسی ہے۔ اوپر سے دیکھنے میں ہر انڈا اچھا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جب انڈوں کو توڑا جائے اس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ کون انڈا اچھا تھا اور کون انڈا خراب۔
اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے وہ امتحان ہے۔ اور امتحان کے لئے غیر معمولی حالات کا پیش آنا لازمی ہے۔ اس لئے بار بار ہر فرد اور گروہ کی زندگی میں غیر معمولی حالات پیدا کئے جاتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ کیسا تھا۔ وہ حقیقی معنوں میں حق پرست تھا یا اس نے صرف ظاہری طورپرحق کا نمائشی خول اپنے اوپر ڈال لیا تھا۔
سوال
کہا جاتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں ساری دنیا ایک ہوگئی ہے۔ اس کا خوبصورت نام گلوبلائزیشن ہے۔ مگر جیسا کہ بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ یہ ایک فتنہ ہے۔ مغرب کی مسلم دشمن طاقتیں گلوبلائزیشن کے نام پر اسلام کو اپنے جال میں پھنسا لینا چاہتی ہیں۔ اس نئے خطرہ کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے۔ (ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
گلوبلائزیشن میرے نزدیک فتنہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک عظیم نعمت ہے۔ گلوبلائزیشن سے مراد یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن اور دوسرے ذرائع اتنا زیادہ وسیع ہوگئے ہیں کہ ساری دنیا ایک گاؤں (global village) کی مانند ہوگئی ہے۔ یہ صورت حال ایک عظیم موقع ہے۔ اس دنیا میں خدا نے ہر ایک کو آزادی دی ہے۔ اس لیے دوسرے لوگ اگر اس کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کریں توآپ کو اُن کے خلاف احتجاج کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے احتجاج سے یہ نہیں ہوسکتا کہ دوسرے لوگ ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چھوڑ دیں۔
اصل ضرورت یہ ہے کہ ان جدید مواقع کو سمجھا جائے او ران کو استعمال کیا جائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کہ اللہ اسلام کے پیغام کو ساری دنیا کے ایک ایک گھر میں پہنچا دے گا۔ جدید مواصلاتی ذرائع نے پہلی بار اس کو ممکن بنایا ہے کہ حق کی اشاعت کے اس خدائی منصوبہ کو مکمل کیا جاسکے۔
عقبہ بن نافع تابعی افریقہ میںاسلام کا پیغام پہنچاتے ہوئے اٹلانٹک کے ساحل تک پہنچ گئے۔ وہاں اُنہوں نے اپنے گھوڑے پر بیٹھے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم، اگر میں جانتا کہ اس سمندر کے اُس پار بھی کچھ لوگ آباد ہیں تو میں وہاں تک پہنچتا تاکہ کوئی بھی شخص اللہ کا پیغام پانے سے محروم نہ رہے۔
مگر آج اس گلوبلائزیشن کی بنا پر ہم دنیا کے ہر خطّے کے بارے میں تفصیل کے ساتھ جان چکے ہیں۔ اسی بنا پر یہ ممکن ہوا ہے کہ ہم بآسانی ہر جگہ پہنچ سکیں۔ پھر اسی بنا پر یہ بھی ممکن ہوا ہے کہ جدید وسائل کو استعمال کرتے ہوئے لٹریچر اور دوسری صورتوں میں بہت کم مدت میں سچائی کا پیغام زمین کے ہر گوشہ میں پہنچایا جاسکے۔
سوال
مسلمانوں کے اندر پائی جانے والی تشدد پسندی کے موضوع پر کئی کتابیں اب تک شائع ہوئی ہیں۔ آپ بھی اس موضوع پر لکھتے ہیں اور اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔ میں نے آپ کی تحریروں میں پایا ہے کہ آپ مسلمانوں کے اس تشدد کو غلط بتاتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ درست ہے۔ کیوں کہ مسلمان اپنے جائز حق کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ رائے میں یہ اختلاف کیوں۔ (ایک قاری الرسالہ، کشمیر)
جواب
اپنے جائز حق کے لیے کوشش کرنا اور تشدد کا استعمال دونوں دو مختلف چیزیں ہیں اور دونوں کا حکم ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ایک کی حیثیت نظری اوراصولی ہے اور دوسرے کی حیثیت عملی طریقِ کار کی۔ اگر سوال یہ ہو کہ کسی شخص یا گروہ کو اپنے جائز حق کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا درست ہے یا نہیں، تو ہر شخص یہ کہے گا کہ جائز حق کے لیے کوشش کرنا اصولاً بالکل درست ہے۔
مگر جہاں تک تشدد کا سوال ہے، وہ عملی طریق کار سے تعلق رکھتا ہے۔ اور طریق کار کے بارے میں متفقہ طورپر یہ حکم ہے کہ پُر امن طریقِ کار درست ہے۔ مگر پُر تشدد طریقِ کار درست نہیں۔ جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہو اور آدمی کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ پُر امن طریقِ کار اختیار کرے یا پر تشدد طریقِ کار، تو لازماً اُس کو پُر امن طریقِ کار اختیار کرنا چاہئے اور پُر تشدد طریقِ کار کو چھوڑ دینا چاہئے۔ اپنے حق کے لیے پُر امن طریقِ کار کے ذریعہ جدوجہد کرنا بالکل درست ہے مگر اپنے حق کے لیے پُرتشدد طریقِ کار اختیار کرنا ہر گز درست نہیں۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے۔ اس طرح کے معاملات میں اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ فریقِ ثانی جب تشدد کررہا ہو تو ہم کیسے تشدد سے پرہیز کرسکتے ہیں، کیا ہم یک طرفہ طورپر مار کھاتے رہیں۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے دعوے کے مطابق، اُن پر تشدد ہو رہا ہے وہاں مسلمانوں نے خود ہی تشدد کا آغاز کیا۔ اس کے بعد فریقِ ثانی نے ان کے مقابلہ میں جوابی تشدد کیا۔ میرے علم کے مطابق، ہر جگہ ایساہی ہوا ہے۔ مسلمان اگر اپنی جدوجہد کو پُرامن طریقِ کار کے حدود میں رکھتے تو ہر گز ایسا نہیںہوسکتا تھا کہ فریقِ ثانی اُنہیں اپنی گولی اور اپنے بم کا نشانہ بنائے۔
اس معاملہ کے اصل ذمہ دار مسلم عوام نہیں ہیں بلکہ اُن کے خود ساختہ لیڈر ہیں جو جوش دلا کراُنہیں تشدد پر اُکساتے ہیں۔ یہ مسلم لیڈر دور جدید کی ایک اہم حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں۔ اُن کو یہ معلوم نہیں کہ دور جدید کے مانے ہوئے اصول کے مطابق، پُرامن جدوجہد مکمل طورپر جائز ہے اور پُر تشدد جدوجہد مکمل طورپر ناجائز۔ یہ فرق آج عالمی سطح پر تسلیم کیا جاچکا ہے۔ مسلمانوں کے نام نہاد لیڈر اگر اس حقیقت کو جانتے اور اُس کے مطابق، مسلمانوں کی رہنمائی کرتے تو مسلمان اُن تباہیوں سے بچ جاتے جو اس بین اقوامی اُصول کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں اُنہیں پیش آرہی ہیں۔
سوال
الرسالہ جولائی ۲۰۰۲ کے شمارے میں آپ نے صفحہ ۳۳ پر ’’بے بنیاد سوچ‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مکالمہ تحریر فرمایا ہے جو ایک ہندو اور مسلم کے درمیان ہے۔’’ مسلمان کا یہ کہنا کہ اسلام سچا ہے، اس لئے میں بھی سچا ہوں‘‘ ۔جہاں تک جملہ کے پہلے حصہ کا تعلق ہے وہ ایک حقیقت ہے لیکن یہ کہنا کہ اسلام سچا ہے اس لئے میں بھی سچا ہوں آج تک کسی مسلمان نے ایسا کہنے کی جرأت نہیں کی اور نہ آئندہ کرے گا۔ دین کا سچا ہونا الگ بات ہے اور دین کے ماننے والوں کا سچا ہونا قطعی الگ۔ یہ ایک سراسر الزام ہے جو آپ نے ایک مسلمان پر عائد کیا ہے، ورنہ ہر مسلمان جانتا ہے اور اس کا اعتقاد بھی ہے کہ اس کے کسی بھی عمل کا سچ ہونا صرف روز محشر ہی میں ثابت ہوگا۔
آپ سے گذارش ہے کہ اپنی مثال کو اور واضح کریں تاکہ جو الزام آپ نے ایک مسلمان پر لگایا ہے اس کی وضاحت ہوجائے او ر تشویش دور ہو جائے۔ (محمد بشیر احمد، گلبرگہ)
جواب
آپ نے الرسالہ جولائی ۲۰۰۲ (صفحہ ۳۳) کے مضمون کو زیادہ غور کے ساتھ نہیں پڑھا، ورنہ یہ اشکال نہ ہوتا۔ آپ اس کو دوبارہ پڑھیں۔ اس کے بعد آپ کی غلط فہمی ختم ہوجائے گی۔ واضح ہو کہ اس مضمون میںہندو اور مسلمان کے ’’کیس‘‘ کو بتایا گیا ہے، اس میںاُن کے ’’قول‘‘ کو نہیں دہرایا گیا ہے۔ آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ کسی کے قول کو دہرانا ایک بات ہے اور اُس کے کیس کو بتانا اُس سے بالکل مختلف دوسری بات ہے۔کیس اور قول کے اس فرق کو قرآن و حدیث کے مطالعہ سے بھی جانا جاسکتا ہے اورروز مرّہ کے تجربہ سے بھی۔
اس غلط فہمی کی بنا پر آپ نے مذکورہ مضمون کو ’’مکالمہ‘‘ سمجھ لیا ہے اور اس کو الزام قرار دیا ہے۔ حالانکہ وہ مکالمہ نہیں ہے بلکہ وہ تجزیہ ہے۔ اگر آپ اُس کو مکالمہ کے بجائے تجزیہ سمجھتے تو آپ کو ہر گز یہ غلط فہمی نہ ہوتی۔
سوال
میںنے ایک کتاب لکھنی شروع کی ہے جس کا عنوان ہے ’’رسول اللہﷺ کی سنتیں، سائنسی وجوہات اوراُخروی فائدے‘‘ ۔میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو سائنسی نظریے کی روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کروں تاکہ کلمہ میں جو بات کہی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے ہی میں کامیابی ہے، اوردوسروں کے طریقوں میں ناکامی ہے، لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور اس طرح میں ایک بہترین کتاب کی شکل میں اُسے لوگوں کے سامنے پیش کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ تھوڑی مدد کریں۔ بتائیں کہ اس سلسلہ میںآپ کی کون سی کتابوں کا مطالعہ کروں اور کیسے اس مشن کو آگے بڑھاؤں۔ (ایک قاری الرسالہ ، ناگ پور)
جواب
کتاب پوچھ کر نہیں لکھی جاتی۔ کتاب خود اپنے طوفانی احساس کے تحت لکھی جاتی ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی سے کسی نے پوچھا کہ میں کب لکھوں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ اتنا پڑھو، اتنا پڑھو کہ اُبلنـے لگے۔ اس کے بعد لکھو۔
اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں مصنف بننا چاہتا ہوں، اُس کی تدبیر بتائیے۔ میرا جواب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کوئی شخص مصنف نہیں بن سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریر مشکل ترین آرٹ ہے۔ جو آدمی واقعی معنوں میں اس آرٹ کو جانتا ہو اُسی کو کتاب لکھنا چاہئے۔ بقیہ لوگوں کے لیے کتاب پڑھنا ہے، نہ کہ کتاب لکھنا۔
سوال
ایک فیکٹری میں مختلف مذاہب کے لوگ کام کرتے ہیں۔ وہاں میرے ماموں زاد بھائی بھی ایک ورکر کی حیثیت سے ہیں۔ جب میں اُن سے ملاقات کے لیے گیا تو وہاں پر موجود دوسرے لوگوں نے مجھ سے اسلام کے متعلق مختلف سوالات کیے۔ میں نے اپنے علم کے مطابق، اُن کے سوالات کے جواب دئے۔ ان سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ مسلمان بے رحم اور خونخوار قوم ہے اس لیے کہ اُن کی مذہبی کتاب قرآن نے خون بہانے یعنی جانوروں کو ذبح کرکے کھانے کا حکم دیا ہے جو کہ غلط ہے۔ مزید یہ انسانیت کے خلاف ہے اور بے رحمی کا ثبوت بھی۔ میں نے حتی الامکان اُن کے سوال کاجواب دینے کی کوشش کی مگر انہیں تسلی نہ ہوسکی۔ آپ اس سوال کا فکری جواب وضاحت کے ساتھ لکھیں۔ (جاوید انجم سہراب علی، نئی دہلی)
جواب
جانور کو ذبح کرنا صرف مسلمان کا اصول نہیں، وہ فطرت کا عام اصول ہے۔ موجودہ دنیا میںکوئی بھی شخص، حتیٰ کہ سوال کرنے والے لوگ بھی اس سے بری نہیں۔ دنیا میں بسنے والے انسانوں میں ، بشمول ہندستان، بیشتر لوگ حیوانی غذا کو استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ بظاہر حیوانی غذا نہیں لیتے وہ بھی بالواسطہ طورپر ایسا ہی کرتے ہیں۔ پانی، دودھ، سبزی، پھل یا کوئی بھی چیز جس کو انسان کھاتا ہے اُن سب میں خورد بینی زندگیاں ہوتی ہیں۔ ان زندگیوں کو قتل یا ذبح کیے بغیر کوئی شخص ویجیٹیرین غذا بھی نہیں لے سکتا۔ جس کو اس معاملہ میں شبہہ ہو اُس سے کہیے کہ وہ دودھ کو خوردبین کے شیشے کے نیچے رکھ کر دیکھ لے۔
اصل یہ ہے کہ ذبح حیوان ہمارے لیے انتخاب(choice) کا معاملہ نہیںہے بلکہ وہ ہمارے لیے مقدر (destiny) کا معاملہ ہے۔ موجودہ دنیا میں اس کے بغیر زندگی کا کوئی امکان ہی نہیں۔ موجودہ دنیا میں اگر کوئی شخص حقیقی معنوں میں ذبح حیوان کے بغیر جینا چاہے تو اُس کو خود اپنے آپ کو ذبح کرنا پڑے گا۔ کیوںکہ ایسے کسی انسان کے لیے یہاں صرف خود کشی کا امکان ہے، اُس کے لیے زندگی کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں۔
سوال
میں انگریزی زبان میں کمزور ہوں۔ فکر و نظر کو تقویت بخشنے میں عربی کے ساتھ انگریزی کا کردار آپ خود اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ نے انگریزی زبان جس اُصول و طریقہ کے مطابق سیکھی ہے اس سلسلہ میں کوئی نمونہ لکھ بھیجیں تاکہ میں اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوسکوں۔ (رضوان اللہ الریاضی، ریاض)
جواب
کسی کا قول ہے کہ پڑھنے سے پڑھنا آتا ہے اور لکھنے سے لکھنا آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی زبان کو سیکھناچاہتا ہے تو اُس کو چاہئے کہ وہ اُس کو فوراً شروع کردے۔ اور اُس کو مسلسل جاری رکھے۔ اس معاملہ میں آدمی کا شوق اور اُس کی محنت ہی اس کے سب سے بڑے معلّم ہیں۔ میں نے افریقہ میں ایک تاجر کو دیکھا کہ وہ مسلسل انگریزی بولنے کی کوشش کرتا تھا۔ اگر چہ اُس کی زبان میں گرامر کے لحاظ سے بہت سی غلطیاں ہوتی تھیں۔ کسی نے اُس سے کہا کہ جب تم انگریزی نہیں جانتے تو تم انگریزی کیوں بولتے ہو۔ اُس نے جواب دیا کہ میں غلط انگریزی بولتا ہوں تاکہ مجھے صحیح انگریزی بولنا آجائے:
I speak incorrect english, so that I may be able to speak correct English.
سوال
آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے یہ لکھا ہے کہ مسلمان ۲۰۰ سال سے ملٹنسی (militancy) کررہے ہیں۔ کیا آپ نے ایسالکھا ہے۔ اور اگر لکھا ہے تو کس دلیل کی بنیاد پر لکھا ہے۔ براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیں (ایک قاری الرسالہ۔ ابوظہبی)
جواب
ایسا میں نے کبھی نہیں لکھا۔ یہ بلاشبہہ ایک لغو بات ہے۔ البتہ میں نے ایک اور بات لکھی ہے اور کچھ غیر ذمہ دار لوگ اس کو بگاڑ کر میرے خلاف اس قسم کا پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ جو لوگ ایسی باتیں کہہ رہے ہیں وہ قرآن کی اس آیت کا مصداق بن رہے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ: یحرفون الکلم عن مواضعہ (المائدہ ۱۳ )
میںنے جو بات لکھی ہے وہ یہ ہے کہ عام طورپر مسلم مقررین اور محررین دور جدید میں اسلامی جدجہد کا آغاز ۱۷۹۹ سے کرتے ہیں جب کہ میسور کے سلطان ٹیپو انگریزی فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اگر ۱۷۹۹ کو آغاز مانا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مسلمان ۲۰۰ سال سے اپنے مسائل کے حل کے لئے مسلح جدوجہد کررہے ہیں۔ یہ مسلح جدوجہد ابھی تک مختلف مقامات پر جاری ہے۔
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ۲۰۰ سال کی اس مسلح جدوجہد کا کوئی بھی مثبت نتیجہ اسلام کے لئے یا مسلمانوں کے لئے نہیں نکلا۔ اب بھی مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے شکایت اور احتجاج کی زبان بول رہے ہیں۔ اس طرح یہ تمام لوگ اعتراف کررہے ہیں کہ لمبی مدت تک اس مسلح جدوجہد کامطلوب نتیجہ نہیںنکلا۔
اب میں کہتا ہوں کہ عقل اور شریعت دونوں کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کے اندر اپنے طریقِ کار کے بارے میں نظر ثانی (revision) کا عمل کیا جائے۔ ہندستان میں ۱۸۵۷ میں آزادی کی تحریک مسلح انداز میں شروع کی گئی۔ جب وہ بے فائدہ ثابت ہوئی تو ۱۹۱۹ میں اس طریقِ کار کو بدل کر آزادی کی تحریک کو پرامن طریقِ کار کے اصول پر چلایا گیا۔
خود اسلام کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار صحابہ کے ساتھ ۸ ہجری میںطائف کی طرف اقدام فرمایا۔ وہاں پہنچ کر محسوس ہوا کہ بروقت حالات موافق نہیں ہیں ۔ چنانچہ آپ نے طائف کا محاصرہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف واپسی کا فیصلہ فرمایا۔ اسی طرح غزوۂ موتہ کے موقع پر ابتدائی جنگ کے بعد اندازہ ہوا کہ جنگ کو جاری رکھنا اہل اسلام کے حق میں نہیں ہے تو حضرت خالد درمیان ہی میں واپس ہو کر مدینہ آگئے، وغیرہ۔
میں اسی نظر ثانی (revision) کی بات کرتا ہوں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ ۲۰۰ سال کی مسلح جدوجہد نے یہ ثابت کیا ہے کہ مسلح طریقِ کار موجودہ حالات میں ہمارے لئے کار آمد نہیں ہے۔ اس لئے اب مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مسلح طریقِ کار کو مکمل طورپر چھوڑ دیں اور پر امن طریقِ کار کا تجربہ کریں۔ پرامن طریقِ کار سے مراد ہیــــــمسلمانوں کی داخلی اصلاح، مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنانا، مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا کرنا، مسلمانوں کو جدید اقتصادیات میں آگے بڑھانا، جدید وسائل کی مدد سے دعوت وتبلیغ کا کام کرنا، مسائل کو نظر انداز کرکے مواقع کو استعمال کرنا، وغیرہ۔
سوال
آپ کے تعمیری انداز اور پلس طریقِ تعلقات اور دنیاوی اور دینی انداز عمل سے غیر متفق ہونے کا سوال ہی نہیں۔ لیکن ہم تجربہ حاصل کررہے ہیں کہ پریکٹکل لائف میں خیالات کی صحت مندی کام دینے سے قاصر ہے۔ لوگ، بالخصوص دیگر اور الگ الگ مذاہب کے لوگ اب بالکل ہی بے حس ہوگئے ہیں، وہ دوسروں کی پرابلم کو یا اوروں کی مصیبتوں کو سمجھنے کی بھی کوشش نہیں کرتے ۔ انجام کیا ہوگا (عدنان کریمی، حیدر آباد)
جواب
موجودہ زمانہ کے مسلمان اور اُن کے رہنما ایک تضاد میں مبتلا ہیں۔ وہ نماز روزہ کے مسائل اور حج کے آداب جیسے معاملات میں تو اسلام سے رہنمائی لینے کے لیے تیار ہیں۔ مگر جہاں تک اُن کے ملّی اور قومی مسائل کی بات ہے تو وہ ان معاملات میںاپنی خواہشوں پر چلنا چاہتے ہیں۔ میرے نزدیک اس تضاد کی موجودگی میں ان کے مسائل کا کوئی حل نہیں۔ جب تک وہ اس تضاد سے باہر نہ آئیں، اُن کا کوئی بھی دنیوی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
اس سے بھی زیادہ غیر اسلامی بات یہ ہے کہ الرسالہ میں جس ایڈجسٹمنٹ کی بات کہی جاتی ہے، ہر مسلمان، عوام اور خواص دونوں اپنے ذاتی معاملات میں عین اسی ایڈجسٹمنٹ کے فارمولا پر عمل کرتے ہیں۔ جہاں اُن کے ذاتی انٹرسٹ کا مسئلہ ہو وہاں وہ فوراً ایڈجسٹمنٹ کے اصول کو اختیار کرلیتے ہیں۔ البتہ جب اُنہیں ملی مسائل پر بولنا اور لکھنا ہو تو وہ ایڈ جسٹمنٹ کو بزدلی کہہ کر اُسے رد کردیتے ہیں۔ انفرادی اور قومی زندگی کا یہ تضاد بلا شبہہ ایک جرم ہے۔ اس جرم کی موجودگی میں یہ امر بھی سخت مشتبہ ہے کہ دینی مسائل کے معاملہ میں اُن کی مذکورہ روش اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل قبول قرار پائے۔
آپ نے یہ شکایت کی ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ مسلمانوں کے مسائل کے حل میںاُن کی مدد نہیں کرتے۔ یہ ایک غیر ضروری شکایت ہے۔ موجودہ دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوتا، حتیٰ کہ رشتہ داروں کے درمیان بھی نہیں۔ مسلمانوں کو یا تو اپنا مسئلہ خود حل کرنا ہوگا یا اُن کے مسائل ہمیشہ غیر حل شدہ حالت میں پڑے رہیں گے۔
سوال
سوال یہ ہے کہ کیااسلام میں ذہین لوگوں کے لئے گنجائش نہیں ہے ۔ یہ سوال اس لئے ذہن میں پیدا ہوا کہ میں دیکھتا ہوں کہ ماضی میں اور حال میں بھی ذہین یا منطقی لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا گیا۔ مثلاً ماضی میں سیّد شہاب سہروردی کو قتل کردیا گیا جب کہ وہ ابھی صرف ۳۷ سال کے تھے۔ مگر بہت ذہین انسان تھے۔ ابن رُشد کو جیل میں ڈالا گیا۔ رازی، فارابی اور بوعلی سینا پرکفر کا فتویٰ لگا کر اُن کو ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہمارے یہاں سرسیّد احمد خاں کی تکفیر کی گئی اور اُنہیں ذلیل کیا گیا۔ڈاکٹر اقبال پر بھی کفر کا الزام لگایا گیا۔ بو علی سینا نے بھی اپنے ایک فارسی قطعہ میں کہا ہے کہ یہاں اگر رہنا ہے تو گدھا بن کر رہو اگر عقلمند بنو گے تو پھر خیر نہیں۔
کیا اسلام میں ایسے ہی لوگوں کی گنجائش ہے جو منطقی نہ ہوں، استدلالی نہ ہوں، اپنی عقل و فہم کی روشنی میں حیات و کائنات کو سمجھنے کی کوشش نہ کرتے ہوں۔ (احساس آفاقی، کُرلا، ممبئی)
جواب
آپ نے چند مثالوں کو لے کر اُن کو جنرلائز کر دیا ہے۔ حالانکہ واقعہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام میں فکری آزادی کو بہت بڑا درجہ دیا گیا ہے۔ اس معاملہ کی تفصیل کے لیے آپ میری کتاب دین انسانیت کا باب ’’حریت فکر‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ انشاء اللہ آپ کی غلط فہمی دور ہوجائے گی۔
قرآن میں بار بار اہل عقل کو خطاب کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خود قرآن کے نزول کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ عقل والے اس پر غور کریں (ص ۲۹)۔ چنانچہ ہر دور میں عقلی غور وفکر کا سلسلہ جاری رہا ہے۔
آپ نہج البلاغہ کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ حضرت علی کتنا زیادہ عقلی غور وفکر کو پسند کرتے ـتھے۔ عباسی خلافت اور اسپین کی اموی خلافت کے دور میں عقلی غور وفکر کی زبردست حوصلہ افزائی ہوئی جس کی تفصیل آپ فلپ ہٹی کی کتاب ہسٹری آف دی عربس میں دیکھ سکتے ہیں۔ قدیم زمانہ میں فخر الدین رازی کی ضخیم تفسیر اور موجودہ زمانہ میں جوہری طنطاوی کی مفصل تفسیر قرآن کی عقلی تشریح کی مثالیں ہیں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ خاص اسی مقصد کے لیے لکھی۔خودراقم الحروف نے تقریباً چالیس سال سے اسلام کی عقلی اور سائنسی تشریح کو اپنا موضوع بنایا ہے اور اس پر سو سے زیادہ کتابیں شائع کی ہیںمگر ساری مسلم دنیا میں کسی بھی شخص نے اس پہلو سے میری مخالفت نہیں کی۔
تاہم بعد کے زمانہ میں ایک غلط مسئلہ مسلمانوں میں پھیل گیا۔ اور وہ یہ کہ جو شخص رسول کی اہانت کرے یا اسلام کی اہانت کرے اُس کو قتل کردیا جائے۔ ا س مسئلہ کی بنا پر کچھ لوگوں کا قتل بھی ہوا۔ مگر یہ مسئلہ بذاتِ خود غلط ہے۔ اس کی کوئی اصل قرآن یا حدیث میں نہیں۔ اس مسئلہ کی ذمہ داری بعد کے دور کے کچھ مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، نہ کہ خود اسلام پر۔ اس معاملہ میں شرعی حکم کو سمجھنے کے لیے آپ راقم الحروف کی کتاب ’’شتم رسول کا مسئلہ‘‘ مطالعہ فرمائیں۔
سوال
آج ایک ایسے قائد کی اشد ضرورت ہے جو ہندستانی مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کرسکے۔ آپ کی کئی کتابیں اور الرسالہ کا مسلسل مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیادت کے لائق صرف آپ کی شخصیت ہی ہے جو ہندستانی مسلمانوں کی احسن طور پر رہنمائی کر سکتی ہے۔ بشرطیکہ علماء کرام اور دانشوروں کا طبقہ ’’بغیاًبینہم ‘‘کے مرض سے دور ہو جائیں (نثار احمد خاں سلفی، امام و خطیب مسجد اہل حدیث ، مومن پورہ، ناگپور)
جواب
قیادت کا مسئلہ نامزدگی کا مسئلہ نہیںہے بلکہ وہ قبولیت کامسئلہ ہے۔ کوئی شخص قائد اُس وقت بنتا ہے جب کہ لوگوں کی اکثریت اُس کو اپنے قائد کے طورپر قبول کرلے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ابو الکلام آزاد اور محمد علی جناح دونوں ایک ہی زمانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں نے مسلمانوں کے اندر کام کیا اوراُن کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ مسٹر محمد علی جناح مسلمانوں کے قائد بن گئے، لیکن ابوالکلام آزاد عملاً مسلمانوں کے قائد نہ بن سکے۔ اس کا سبب سادہ طورپر صرف یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر محمد علی جناح کو قبول کرلیا اور ابوالکلام آزاد کو قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہ ہوسکے۔ یہی معاملہ ساری مسلم دنیا کا ہے۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ شعوری اعتبار سے ایک پچھڑی ہوئی قوم بن گئے ہیں۔ اُن میں جب تک شعوری بیداری نہ لائی جائے، کسی صالح قیادت کا اُن کے اندر اُبھرنا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۲۳ ستمبر ۲۰۰۲ کو ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد یہ خط لکھ رہا ہوں۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے حکم کے باوجود ابلیس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ ابلیس نے یہ بتائی کہ: أنا خیر منہ (الأعراف ۱۲) ۔ قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو أنا خیر منہ کی نفسیات میں جیتے ہوں ،اوردوسرے وہ جوالحق خیر منی کی نفسیات میںجئیں۔
مزید غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ہدایت اور گمراہی کے معاملہ میں یہ تقسیم بے حد اہم ہے۔ قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت ایک ارتقاء پذیر عمل ہے۔ اُس میں مسلسل اضافہ ہوتارہتا ہے (الکہف ۱۳)۔ اس قانون الٰہی کانتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ الحق خیر منی کی نفسیات میں جئیں اُن کی ہدایت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے اورجو لوگ أنا خیر منہ کی نفسیات میں جئیں اُن کے لیے ہدایت کا دروازہ بند ہوجائے۔
اصل یہ ہے کہ کوئی بھی انسان سب کچھ لے کر پیدا نہیںہوتا۔ سیکھنے کے عمل کے ذریعہ اُس کو بار بار اپنے علم میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے حضرت عمر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: کان یتعلم من کل احدٍ (وہ ہر ایک سے علم سیکھتے تھے)۔ یعنی اُن کا تجسس اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جب بھی کسی کی طرف سے کوئی قابل اخذ چیز سامنے آتی تو وہ بلا تاخیر اُس کو لے لیتے تھے۔
بمبئی کے حالیہ سفر میںایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ میںآپ کی ڈائری شوق سے پڑھتا ہوں اور بار بار پڑھتا ہوں۔ اس میںطرح طرح کی معلومات ملتی ہیں۔ مگر میں آپ کی کتابیں نہیں پڑھتا ۔ میں نے پوچھا کہ کیوں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ کتاب کو پڑھنے کامطلب یہ ہے کہ ایک بولے اور دوسرا سنے۔ کتاب کا مطالعہ یک طرفہ عمل ہے، وہ دو طرفہ عمل نہیں۔ میں نے کہا کہ مطالعۂ کتاب کا یہ مطلب ہر گز نہیں۔ مطالعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک فکری حصہ داری (intellectual sharing) ہے۔ یہ مکمل طورپر ایک دو طرفہ عمل ہے۔ البتہ صاحبِ مطالعہ ذہنی بیداری کے جس درجہ پر ہوگا اُسی کے بقدر وہ مطالعہ کے عمل میں حصہ دار بن سکے گا۔
میں اپنی ساری زندگی میں کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ مگر میرا مطالعہ ہمیشہ دو طرفہ عمل تھا، نہ کہ یک طرفہ عمل۔ مثلاً میں نے انگریز فلسفی برٹرینڈر سل کی کتابیں پڑھیں۔ یہ کتابیں مصنف نے تشکیک اورالحاد پر لکھی تھیں۔ مگر دو طرفہ ذہنی عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ برٹرینڈرسل کی کتابوں میں برعکس طورپر ایک نہایت اہم چیز دریافت ہوئی۔ اور وہ ہے اسلامی عقائد پر استدلال کا سائنسی انداز۔ اس معاملہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب: مذہب اور سائنس۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک باشعور انسان کے لیے اُس کی پوری زندگی ایک تعلّمی عمل (learning process) ہے۔ ایسا آدمی اپنے مشاہدہ اور تجربہ اور مطالعہ کے دوران ہر چیز سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔ وہ ہر چیز سے کچھ نہ کچھ لیتا ہے۔ ہرچیز اُس کے لیے اُس کی معرفت میںاضافہ کا سبب بنتی رہتی ہے۔ اسی لیے حدیث میںآیا ہے کہ : الحکمۃ ضالۃ المومن حیث وجدھا فہو احق بہا۔ (حکمت مومن کا کھویا ہوا سرمایہ ہے، وہ جہاںاُس کو پائے تو وہی اُس کا زیادہ حق دار ہے)۔
تعلّم (learning) کے اس عمل کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے کی دو لازمی شرطیں ہیں۔ اوّل یہ کہ آدمی کے اندر روح تجسس (spirit of inquiry) اتنی زیادہ پائی جائے کہ وہ کبھی اور کسی حال میںاُس سے سیر نہ ہوسکے۔
اس معاملہ میں دوسری لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی عُجب اور خود پسندی کی نفسیات سے مکمل طورپر پاک ہو۔ جب بھی کوئی اچھی بات اُس کے سامنے آئے تو وہ اُس کو کسی تردّد کے بغیر فوراً اخذ کرلے۔ وہ قرآن کے الفاظ میں، اخذتہ العزۃ بالاثم (البقرہ ۲۰۶) کا مصداق نہ بنے۔
عام طورپر لوگوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ کوئی حقیقت اگر انسان کے سوا کسی اور ذریعہ سے آئے تو وہ اُس کو مان لیتے ہیں، اُس کو ماننے میںکوئی چیز اُن کے لیے رُکاوٹ نہیں بنتی۔ لیکن جب اپنے جیسے ایک انسان کے ذریعہ کوئی ایسی حقیقت اُن کے سامنے آئے جس کو وہ پہلے سے نہ جانتے ہوں تو اُس کو ماننا اُن کے لیے سخت دشوار ہو جاتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اگر میں نے اس کی بات مان لی تو میرا قد اُس کے مقابلہ میں چھوٹا ہو جائے گا۔ یہ نفسیات اُن کے لیے حق کو ماننے میں رکاوٹ بن جاتی ہے، خواہ اس حق کو کتنے ہی زیادہ دلائل کے ساتھ اُن کے سامنے بیان کیا گیا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اعتراف علم کا دروازہ ہے۔ اعتراف آدمی کواس قابل بناتا ہے کہ اُس کے اخذ کا عمل کبھی نہ رُکے۔ اُس کاذہنی ارتقاء کسی روک کے بغیر مسلسل جاری رہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میری ملاقات کسی ایسے شخص سے ہوتی ہے جس کو میں بیس سال یا چالیس سال پہلے جانتا تھا۔ اب لمبے وقفہ کے بعد اُس سے ملاقات ہوئی۔ میںنے ہمیشہ پایا کہ وہ آدمی آج بھی وہیں ہے جہاں وہ پہلے تھا۔ ان میں سے اکثر اس مدت میںمادّی اعتبار سے کافی ترقی کرچکے ہوتے ہیں مگر فکری اعتبار سے وہ اب بھی وہیں ہوتے ہیں جہاں وہ بیس سال یا چالیس سال پہلے تھے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ مادی کمائی کے میدان میں تو اُنہوں نے اپنے ذہن کو خوب لگایا مگر فکری ترقی کے میدان میںوہ اپنے ذہن کو استعمال کرنے سے عاجز رہے۔
قرآن میں پیغمبر کے چار خاص کام بتائے گئے ہیںـــــتلاوت آیات، تعلیم کتاب، تعلیم حکمت اور تزکیہ (البقرہ ۱۲۹) تلاوت آیات کامطلب ہے ،نازل شدہ قرآن کو لوگوں تک پہنچانا۔ تعلیم کتاب سے مراد تفصیلی قوانین کی تعلیم ہے۔ تعلیمِ حکمت سے مراد ہے، قرآن کی تعلیمات میںچھپی ہوئی وزڈم (wisdom) کو کھولنا۔
تزکیہ کو عام طورپر پُر اسرار معنوں میں لیا جاتا ہے اور اُس کو تطہیر نفوس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مگر اس تشریح سے تزکیہ کی پوری معنویت واضح نہیں ہوتی۔ میرے نزدیک تزکیہ سے وہی چیز مراد ہے جس کو دوسرے لفظوں میں ذہنی ارتقاء کہا جاتا ہے۔ پیغمبر کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ ہے کہ وہ ہر فرد کے ذہن کو بیدار کرے۔ وہ لوگوں کے اندر معرفت کا عمل جاری کرے۔ وہ لوگوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی فکری قوتوں کو بیدار کرکے اپنی شخصیت کو ارتقاء یافتہ شخصیت بنائیں۔
ایک بیدار ذہن یہ کرتا ہے کہ مطالعہ اور مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ جو چیزیں اُس کے سامنے آتی ہیں اُن کو وہ تدبر اور توسّم کے ذریعہ معرفت حق میں ڈھالتا رہتا ہے۔ یہی تزکیۂ نفس ہے اور پیغمبرکی سنت کے مطابق، علماء کویہ کرنا ہے کہ وہ خود اس معرفت کے حامل بنیں اور دوسروں کو اسی مفہوم میں صاحبِ معرفت بننے کی مدد کریں۔
تزکیۂ نفس کا کوئی تعلق صوفیا کی ’’روحانی‘‘ مشقوں سے نہیں ہے۔ تزکیۂ نفس سے مراد تزکیۂ فکر ہے۔ یعنی آدمی کے ذہن کو کنفیوژن سے نکال کر اُس کے اندر سِداد فکر پیدا کرنا۔ تحلیل و تجزیہ کی صلاحیت پیدا کرکے اُس کو اس قابل بنانا کہ وہ معاملات میں صحیح رائے تک پہنچ سکے۔ اُس کے ذہن کو اس طرح کھولنا کہ وہ اعلیٰ حقائق کی گرفت کے قابل ہوجائے۔ اُس کے اندر اشیاء کی وہ معرفت پیدا کرنا کہ وہ حق کو ہر صورت میں اور ہر حال میں پہچان لے۔ اُس کے اندر وہ بلند فکری پیدا کرنا جو ہر بھٹکاؤ سے اوپر اُٹھ کر چیزوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھ سکیں۔
آخر میں عرض ہے کہ علم یا معرفت کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ ضروری شرط تواضع (modesty) ہے۔ کسی آدمی کے اندر ساری صلاحیت ہو مگر اُس کے اندر سچی تواضع نہ ہو تو وہ کبھی علم ومعرفت کا اعلیٰ درجہ نہیں پاسکتا۔ علم صرف اُس سینہ کے اندر جگہ پاتا ہے جو کبر اور انانیت اور خود پسندی جیسے جذبات سے پاک ہو۔ حقیقی علم دنیا میں خدا کا نمائندہ ہے۔ خدا کی معرفت کسی کو تواضع کے بغیرنہیں ہوسکتی۔ اسی طرح کسی شخص کو علم صرف اُس وقت ملتا ہے جب کہ وہ اپنے اندر حقیقی معنوں میں تواضع پیدا کرچکا ہو۔ کبر او ر علم دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
۲۴؍ستمبر ۲۰۰۲ وحید الدین
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم عبدالسلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۳جولائی ۲۰۰۲ ء کو ٹیلی فون پر آپ سے گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ حدیث میںآیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وإنی لا أخاف علی امتی الا الائمۃ المضلین (الترمذی، کتاب الفتن، ابو داؤد، کتاب الفتن، الدارمی، مقدمہ، مسند احمد ۴؍۱۲۳) یعنی میں اپنی امت کے بارے میں صرف گمراہ کرنے والے لیڈروں سے ڈرتا ہوں۔
میںنے اس حدیث پر غور کیا تو میری سمجھ میں آیا کہ اس سے مراد غالباً صنعتی دور کے مسلم لیڈر ہیں۔ صنعتی دور میں ایسے قیادتی مواقع کھلے ہیں جو اس سے پہلے کبھی موجود نہ تھے۔ان عظیم قیادتی مواقع کا یہ نتیجہ ہوگا کہ لیڈر بننے میں ایسے فائدے ملنے لگیں گے جو پہلے راجاؤں اور نوابوں کو بھی حاصل نہ تھے۔ اس مادی کشش کے نتیجہ میں استحصالی لیڈروں کی ایک نئی قسم وجودمیں آئے گی۔ غالباً یہی وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں الأئمۃ المضلون کہاگیا ہے۔لیڈروں کا یہ گروہ سستی مقبولیت حاصل کرنے کی خاطر یہ کرے گا کہ وہ مسلم عوام کو جذباتی خوراک دے گا۔ وہ دل پسند الفاظ بول کر عوام کی بھیڑ اپنے گرد اکٹھا کرے گا اور پھرمادی فائدوں کی صورت میں اُس کی شاندار قیمت وصول کرے گا۔
گمراہ کرنے والے ان لیڈروں کی ایک صفت جو موجودہ زمانہ میں تجربہ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو منفی سوچ میں ڈال کر اُن کی اصلاح کو تقریباً ناممکن بنادیا ۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان طول امد (الحدید ۱۶) کے نتیجہ میں زوال کا شکار ہوئے۔ اُن میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ اب اللہ کی سنت کے مطابق، مسلمانوں کے اوپرتنبیہات نازل ہوئیں۔ یہ تنبیہات اس لیے تھیں کہ مسلمانوں کے اندر احتساب خویش کا مادہ ابھرے اور وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ اللہ کی رحمت کے مستحق بن جائیں۔
مگر عین وقت پر ساری دنیا میں گمراہ کرنے والے لیڈروں کی فوج ظاہر ہوئی۔ انہوں نے یہ کیا کہ جو واقعات خدائی تنبیہہ کا درجہ رکھتے تھے، اُن کو اس حیثیت سے پیش کرنا شروع کیا کہ وہ تمہارے دشمنوں کی سازش کی بنا پر پیش آئے ہیں۔ اس غلط رہنمائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو واقعات اس لیے تھے کہ اُن سے مسلمانوں کے اندر اپنی اصلاح کا جذبہ پیدا ہو، اُن سے مسلمانوں کے اندر مفروضہ دشمنوں کے خلاف نفرت اور انتقام کاجذبہ اُبھر آیا۔ مسلمانوں کی جو طاقت ذاتی اصلاح میں صرف ہوتی وہ مفروضہ دشمنوںسے لڑائی بھڑائی میں ضائع ہونے لگی۔ نام نہاد مسلم لیڈروں کا یہ فعل اللہ کے منصوبہ میں خلل اندازی کے ہم معنٰی تھا۔ اور بلاشبہہ اس سے زیادہ کوئی گمراہی کی بات نہیں کہ کوئی شخص اللہ کے منصوبہ میں خلل ڈالنے کی کوشش کرے۔ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو یہ گمراہ لیڈر، حدیث کے الفاظ میں امانت (honesty) سے محروم نظر آئیں گے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ بعد کے زمانہ میںامانت اٹھالی جائے گی (صحیح البخاری، کتاب الفتن)۔ یہاں امانت سے مراد دیانت داری (honesty) ہے۔
موجودہ زمانہ کے نام نہاد مسلم لیڈر واضح طور پر اس کا مصداق ہیں۔ اُن میں سے تقریباً ہر ایک کا یہ حال ہے کہ اگر آپ یہ دیکھیں کہ ۱۹۴۷ میںاُن کا اور اُن کی فیملی کا اسٹیٹس کیا تھا تو آپ پائیں گے کہ اس مدت میں اُن کا اسٹیٹس سوگنا بڑھ چکا ہے۔ ہر ایک ایسی زندگی گذار رہا ہے جس کا پچاس برس پہلے اُس نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ ایسی حالت میں ان خود ساختہ لیڈروں کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کو یہ بتائیں کہ اُن کے پاس وہ کون سا نسخہ ہے جس سے اُن کو یہ فائدہ حاصل ہوا کہ اُن کے بقول، مسلمانوں کی تباہی کے باوجود ٹھیک اسی مدت میں وہ خود اور اُن کی فیملی نے زبردست ترقی حاصل کرلی۔
اُن کی یہ دو عملی بلاشبہہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اُن کے اندر امانت (honesty) نہیں۔ اگر اُن کے اندر امانت و دیانت ہوتی تو یقینا وہ لوگوں کو اپنی ذاتی کامیابی کے راز سے آگاہ کرتے، نہ کہ اُس کو چھپا کر مسلمانوں کو ظلم اور سازش کی خبر دیں۔ اوراس طرح مسلم ملّت کایہ حال کردیں کہ اُس کے لیڈر تو شاندار ترقی کررہے ہوں اور ملت محرومی کا شکاربنی رہے۔
۴ جولائی ۲۰۰۲ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

Friday 1 November 2002

Al Risala | November 2002 (الرسالہ،نومبر)

2

- روزہ کی حقیقت

3

- ہجر جمیل

13

- جنگ سے امن تک

18

- صحبت کا فلسفہ

25

- جہاد کیا ہے

26

- مسلم پالیسی کو بدلنے کی ضرورت

29

- چند اسلامی مسائل

37

- بے بنیاد شکایت

39

- سکون کا سرچشمہ

41

- سوالات (روزنامہ ہندستان، ممبئی)


روزہ کی حقیقت

روزہ کے لیے عربی لفظ صوم ہے۔ صوم کے معنیٰ ہیں، رُکنا(abstinance)۔ زندگی میں صرف اقدام کی اہمیت نہیںہوتی، بلکہ رُکنا بھی زندگی میںایک بے حد اہم پالیسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقدام اگر خارجی توسیع کی علامت ہے تو رُکنا داخلی استحکام کی علامت۔ اور زندگی کی حقیقی تعمیر کے لیے بلا شبہہ دونوں ہی یکساں طورپر ضروری ہیں۔
مشہور صحابی خالد بن الولید کو پیغمبر اسلام نے سیف اللہ کا لقب عطا کیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن الولید کو یہ لقب کسی اقدام یا جنگی پیش قدمی پر نہیں دیا تھا۔ بلکہ آپ نے سیف اللہ کا لقب اُنہیں اُس وقت دیا تھا جب کہ غزوۂ موتہ کے موقع پر انہوں نے یک طرفہ طورپر اپنی تلوار میان میں رکھ لی تھی اور تمام صحابہ کو جنگ کے میدان سے ہٹا کر مدینہ واپس آگئے تھے۔
روزہ اس بات کا سبق ہے کہ تم چند دنوں کے لیے کھانا چھوڑ دو تاکہ تم بقیہ دنوں میں زیادہ اچھے کھانے والے بنو۔ تم چند دنوں کے لیے اپنی سرگرمیوں کو داخلی تعمیر کے محاذ پر لگا دو، تاکہ اس کے بعد تم زیادہ بہتر طورپر خارجی سرگرمی کے قابل بن جاؤ۔ چند دنوں کے لئے تم اپنے بولنے پر پابندی لگا لو تاکہ اس کے بعد تم زیادہ بہتر بولنے والے بن سکو۔ چند دنوں کے لیے تم اپنے مقام پر ٹھہر جاؤ تاکہ اس کے بعد تم کامیاب پیش قدمی کے قابل بن سکو۔
روزہ کا مہینہ مومن کے لیے تیاری کا مہینہ ہے۔ اپنی سوچ کے معیار کو بلند کرنا، اپنی عبادت میںتقویٰ کی اسپرٹ بڑھانا ، اپنی روحانیت میںاضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ اللہ کی قربت حاصل کرنا، بھوک اور سیری کا تجربہ کرکے اپنے اندر شکر کا احساس جگانا، مادی مشغولیت کو کم کرکے آخرت کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ ہونا، خارجی سفر کو روک کر داخلی سفر کی طرف رواں دواں ہونا، ایک مہینہ کے تربیتی کورس سے گذر کر پورے ایک سال کے لیے شکر و تقویٰ کی غذا حاصل کر لینا، وغیرہ۔یہی روزہ کا مقصد ہے اوریہی روزہ کی مقبولیت کا اصل معیاربھی۔
واپس اوپر جائیں

ہجر جمیل

قرآن کی سورہ نمبر ۷۳ میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: واصبر علی ما یقولون واہجرہم ہجراً جمیلاً (المزمل ۱۰) اُردو مترجمین نے اس آیت کے جو ترجمے کئے ہیں اُن میں سے چند یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
۱۔ اور سہتا رہ جو کہتے رہیں اور چھوڑ اُن کو بھلی طرح کا چھوڑنا (شاہ عبد القادر)
۲۔ اور یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں اُن پر صبر کرو اور خوبصورتی کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ۔ (اشرف علی تھانوی)
۳۔ اور سہتا رہ جوکچھ وہ کہتے رہیں اور چھوڑ دے اُن کو بھلی طرح کا چھوڑنا۔ (محمود حسن، دیو بندی)
۴۔ اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اُس پر صبر کر اور اُن کو خوبصورتی سے نظر انداز کر۔ (امین احسن اصلاحی)
اس آیت کاانگریزی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو وہ اس طرح ہوگا:
Endure patiently what ever they say, and avoid them in a decent manner.
قرآن کی یہ آیت مکی دور میں اُتری۔ اُس وقت مکہ میں مشرکین کا غلبہ تھا۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ رسول اوراصحاب رسول نے اُن کے آبائی دین سے انحراف کیا ہے۔ اس بنا پر وہ لوگ رسول اور اصحاب رسول کو ستانے لگے۔ اُنہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہر قسم کی تکلیفیں پہنچائیں۔ اس ماحول میں قرآن کی یہ آیت اُتری۔ اس میں خدا کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ تم لوگ صبر کرو اور ہجر جمیل کا طریقہ اختیار کرو۔
ہجر جمیل کے لفظی معنیٰ ہیںــــ خوبصورتی کے ساتھ چھوڑنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ستانے والوں کے ساتھ حسن اعراض کا طریقہ اختیار کرو۔ ان کے معاملہ میں تمہارا طریقہ منفی رد عمل کا طریقہ نہیں ہوناچاہئے بلکہ مثبت رد عمل کا طریقہ ہونا چاہئے۔ تم کو چاہئے کہ اُن کے معاملہ میں در گذر کرو اور اُن کے برے انداز کے مقابلہ میں تم اُن کے ساتھ اچھا انداز اختیار کرو۔
مفسرین نے عام طورپر یہ لکھا ہے کہ صبر اور ہجر جمیل کا یہ حکم آیات قتال کے نزول کے بعد منسوخ ہوگیا ۔مگر یہ ایک غلط تفسیر ہے۔ ہجر جمیل (حسن اعراض) کوئی مجبوری کا فعل نہیں ہے، یہ اہل ایمان کا ایک مثبت رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن منفی رد عمل کا تحمل نہیں کرسکتا۔ شکایت کی نفسیات شکر کے جذبہ کی قاتل ہے اس لیے مومن یک طرفہ طورپر شکایت کے جذبات کو ختم کرتا ہے تاکہ اُس کے اندر شکر کا جذبہ مجروح نہ ہونے پائے۔ اسی طرح نفرت کی نفسیات محبت کے جذبہ کی قاتل ہے اس لیے مومن نفرت کی نفسیات کواپنے اندر پنپنے نہیں دیتا تاکہ اُس کے اندر محبت الٰہی کا جذبہ پوری طرح باقی رہے۔ اس کام کو کبھی سختی سے کرنا پڑتا ہے اور کبھی حسن تدبیر سے۔
ہجر جمیل (حسن اعراض) بظاہر دوسرے کے مقابلہ میں ہوتا ہے مگر اُس کا تعلق خود اپنی ذات سے ہے۔ مومن آخری حد تک یہ چاہتا ہے کہ اُس کے اندر اعلیٰ اسلامی احساس ہمیشہ زندہ رہے۔ کسی بھی حال میں اُس کے اندر نقصان (erosion) نہ ہونے پائے۔
قرآن کے مطابق، اللہ نے کسی انسان کے اندر دو دل نہیں بنائے۔(الاحزاب ۴) یعنی انسان کے دل میں بیک وقت دو متضاد نفسیات پرورش نہیں پاسکتیں۔ جو دل انسان سے نفرت کرے، عین اُسی وقت وہ خدا سے محبت نہیں کرسکتا۔ جس دل کے اندر انسانوں کے بارے میں شکایات بھری ہوئی ہوں وہ دل کبھی خدا کے شکر سے سرشار نہیں ہوسکتا۔ جس آدمی کا سینہ انتقامی نفسیات کا جنگل بنا ہوا ہو وہ خدا سے طلبِ عفو کی لذت کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ جو انسان ظلم کی یادوں میں جی رہا ہو وہ خدائے رحمن ورحیم کی یادوں کا تجربہ نہیں کرسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ صبر اور حسن اعراض مومن کے لیے ایک خود حفاظتی تدبیر ہے۔ یہ اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے کہ اُس کے سینے میں غیر مومنانہ نفسیات کی پرورش ہونے لگے۔ اس لیے جب بھی ایسا کوئی موقع پیش آتا ہے تو مومن کہہ اُٹھتا ہے کہ میںاس قسم کی منفی سوچ کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہاںاس معاملہ کی مزید وضاحت کے لیے رسو ل اور اصحاب رسول کی زندگی سے حسن اعراض کی کچھ عملی مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
۱۔ ابن اسحق کی روایت ہے کہ مکہ کے قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتے تھے اور سبّ وشتم کرتے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے آپ کا نام محمد کے بجائے مذمّم رکھ دیا تھا۔ محمد کا مطلب ہے، تعریف کیا ہوا۔اس کے بجائے وہ آپ کو مذمّم (مذمت کیا ہوا) کہتے تھے۔ روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: ألا تعجبون لما صرف اللہ عنی من اذی قریش، یسبون ویہجون مذمما وأنا محمد۔ (سیرت ابن ہشام جلد ۱، صفحہ ۳۷۹) یعنی کیا تم کو تعجب نہیں کہ اللہ نے مجھے قریش کی اذیت سے کس طرح بچا لیا، وہ سبّ وشتم کرتے ہیںاور مذمم کہہ کر ہجو کرتے ہیں، حالاں کہ میں محمد ہوں۔
پیغمبر اسلام کے اس قول کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ مثلاً قریش اگر یہ کہیں کہ ’’مذمّم مجنون ہے‘‘ تو رسول اللہ اس کا بُرا اثر نہ لیتے ہوئے یہ کہہ دیں گے کہ تمہاری یہ بات اُس کے اوپر پڑے گی جس کا نام مذمّم ہو،میرا نام تو محمد ہے۔ یہ حسن اعراض کی ایک لطیف مثال ہے۔ اس طرح مومن اپنے آپ کواس نقصان سے بچاتا ہے کہ کسی کی بدگوئی اُس کے اندر منفی نفسیات پیدا کرنے کا سبب بن جائے۔ مومن کا قول یہ ہوتا ہے کہ میں منفی جذبات کا تحمل نہیں کرسکتا۔
اس طرح کے حسن اعراض کی ایک دلچسپ مثال ڈاکٹر ذاکر حسین کے یہاں پائی جاتی ہے۔ ایک بار وہ دہلی کی ایک سڑک پر اپنی گاڑی چلا رہے تھے، اتفاق سے اُن کی گاڑی ایک اور شخص کی گاڑی سے معمولی طور پر ٹکرا گئی۔ اُن کی گاڑی میں رگڑ(dent) آگیا۔ اُس آدمی نے ابھی نئی گاڑی لی تھی۔ وہ گاڑی روک کر اُترا۔ ذاکر صاحب بھی اپنی گاڑی روک کر اُتر گئے۔ اُس آدمی نے ذاکر صاحب کی طرف غصہ سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ایڈیٹ(idiot) ۔ اس انگریزی لفظ کے معنیٰ ہوتے ہیں، احمق۔ ذاکر صاحب نے جوابی غصہ نہیں دکھایا۔ اُنہوں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے نرمی سے کہا:
Sir, I am not Mr. Idiot, I am Zakir Husain.
جناب، میں مسٹر ایڈیٹ نہیں ہوں۔ میں ذاکر حسین ہوں۔ یہ سُن کر اُس آدمی کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ ساری(sorry) کہہ کر وہ خاموشی کے ساتھ اپنی گاڑی پر بیٹھا اور آگے کے لیے روانہ ہوگیا۔
۲۔ہجرت کے بعد حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔ مکہ کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اورآپ کے صحابہ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اُس وقت حدیبیہ کے مقام پر دونوں فریقوں کے درمیان ایک معاہدۂ امن تیار کیا گیا ۔ اس معاہدہ کے وقت قریش نے ضد کا مظاہرہ بھی کیا اور تشدد کا مظاہرہ بھی۔ اُنہوں نے اصرار کیا کہ اُن کی یک طرفہ شرطوں پر معاہدہ کیا جائے۔ اصحاب رسول کواس سے بے حد تکلیف ہوئی۔ اس طرح کی شرطوں پر معاہدہ کرنا اُن کو بظاہر ایک ذلت کا معاہدہ معلوم ہوتا تھا۔ اُس وقت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ:قریش آج جو خاکہ بھی پیش کریں گے، بشرطیکہ اُس میں صلہ رحمی کو ملحوظ رکھا گیا ہو ، میں ضرور اُس پر راضی ہوجاؤں گا (سیرت ابن ہشام ،الجزء ۳، صفحہ ۳۵۸) دشمن کی یک طرفہ شرطوں کو ماننا ایک سخت ناگوار معاملہ تھا۔ مگر آپ نے مذکورہ بات کہہ کر اس ناگوارکو ایک گوارا معاملہ بنا لیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہجر جمیل کی ایک حکیمانہ مثال ہے۔قدیم عربوں کے نزدیک صلہ رحمی بہت بڑی انسانی قدر سمجھی جاتی تھی۔ اور قطع رحمی کو وہ بہت بُرا سمجھتے تھے۔ اس لیے اس کا سوال ہی نہ تھا کہ وہ معاہدہ کے لیے ایسا خاکہ پیش کریں جس میں قطع رحم کی دفعہ رکھی گئی ہو۔ باعتبار حقیقت رسول اللہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ میں ہر قیمت پر قریش سے صلح کر لوں گا۔ اس بات کو کہنے کے باعزت طریقہ کے طورپر آپ نے فرمایا کہ میں قریش کی طرف سے صُلح کے ہر خاکہ کو منظور کرلوں گا بشرطیکہ اُس میں قطع رحم نہ پایا جاتا ہو ۔ حالاںکہ پیشگی طورپر یہ معلوم تھا کہ وہ قطع رحم کی شرط کبھی نہیں رکھیں گے۔
۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو جلد ہی یہاں کے باشندوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔ اُس وقت مدینہ میںایک شخص تھا جس کا نام عبد اللہ بن اُبیّ تھا۔ وہ اپنے زمانہ کا ایک بڑا لیڈر تھا۔ وہ بھی اگر چہ اپنے قبیلہ والوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوگیا مگر اُس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حسد کا جذبہ تھا جس کی وجہ سے وہ اکثر آپ کے خلاف شر انگیز باتیں کیا کرتا تھا۔
رسول اللہ ﷺنے اس معاملہ کا ذکر مدینہ کے ایک مسلمان اُسید بن حضیر سے کیا۔ اُنہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: یا رسول اللہ، ارفق بہ، فواللہ لقد جاء نا اللہ بک وان قومہ لینظمون لہ الخرز لیتوجّوہ، فانہ لیری أنک قد استلبتہ ملکاً۔ (سیرت ابن ہشام، الجزء ۳، صفحہ ۳۳۶) یعنی اے خدا کے رسول، اُس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیجئے، خدا کی قسم، اللہ آپ کو ہمارے پاس لے آیا اور اُس کی قوم کے لوگ اُس کے لیے تاج تیار کر رہے تھے تاکہ وہ اُس کو اپنا بادشاہ بنائیں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ آپ نے اُس کا مقام اُس سے چھین لیا ہے۔
یہ حسن اعراض کی ایک حکیمانہ مثال ہے۔ ایک صورت یہ تھی کہ عبداللہ بن ابیّ کی شر انگیزی کا جواب سختی کے ساتھ دیا جاتا۔ صحابی نے گویا اپنے جواب میں یہ بتایا کہ اس معاملہ میں سختی کی ضرورت نہیں۔ حسن اعراض ہی اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔
۴۔ اوپر ہجرجمیل کی وہ مثالیں ہیں جو سطور میں ہوتی ہیں۔ اب ایک بین السطور کی مثال لیجئے۔ جب کسی معاملہ میں ہجر جمیل کا طریقہ اختیار کیا جائے تو اُس میںایک اور بات پوشیدہ ہوتی ہے جو اگر چہ زبان سے بولی نہیںجاتی مگر وہ حقیقی مطلوب کے طورپر اس میں شامل رہتی ہے۔ اس کی ایک مثال حدیبیہ کا معاہدہ ہے۔
حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہفتہ قیام فرمایا۔ اس دوران قریش نے مختلف قسم کی زیادتیاں کیں۔ مثلاً ایک صحابی کو تنہا پاکر اُنہیں تیرمار کر ہلاک کردیا۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کر رہے تھے، اتنے میں قریش کے کچھ لوگ آئے اور آپ پر تیربرسانے لگے۔ اس طرح کی اشتعال انگیز صورت حال کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے دس سال کا امن معاہدہ کر لیا۔
اس معاہدہ کی دفعات حضرت عمر پر سخت ناگوار تھیں۔ وہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا: یا أبابکر ألیس برسول اللہ ، قال: بلی، قال: أولسنا بالمسلمین، قال: بلیٰ، قال: أولیسوا بالمشرکین؟ قال: بلی، قال: فعلام نعطی الدنیۃ فی دیننا؟۔ (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر ۳؍۳۲۰)۔ یعنی اے ابوبکر، کیا محمد اللہ کے رسول نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ کیا ہم مسلمان نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ کیا وہ مشرک نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ پھر ہم اپنے دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں۔ روایات کے مطابق، حضرت عمر نے یہی بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہی۔
یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی زیادتیوں کے باوجود اُن کی یک طرفہ شرطوں پر دس سال کا جو امن معاہدہ کیا تھا، وہ ایک نہایت اہم اسلامی مصلحت کی بنا پر تھا۔ اور وہ مصلحت یہ تھی کہ دشمن سے معاہدہ امن کرکے معتدل حالات پیدا کئے جائیں تاکہ اسلامی دعوت کا عمل موثر طورپر جاری ہوسکے۔ مگر یہ نصیحت نہ امن معاہدہ کے اندر لکھی گئی اور نہ حضرت عمر اور دوسرے صحابہ کی شدید ناگواری کے باوجود آپ نے حدیبیہ کے مقام پر اس کا اعلان کیا۔
یہ ہجر جمیل (حسن اعراض) کا دوسرا پہلو ہے۔ یہ دوسرا پہلو ہمیشہ مخفی حالت میں ہوتا ہے۔ اس پہلو کو لفظوں میں پانا ممکن نہیں۔ اگر اُس کو لفظوں میں لکھا یا بولا جائے تو اُس کی ساری معنویت ختم ہوجائے گی۔
ایسی حالت میں لوگوں کے لیے صرف دو میں سے ایک رویّہ درست ہے۔ یا تو وہ اتنا زیادہ ہوش مند ہوں کہ سطور کے اندر بین السطور کو پڑھ لیں۔ وہ اعلان کے بغیر اُس کی اہمیت کو دریافت کر لیں۔ جن لوگوں کے اندر اتنی ہوش مندی نہیں ہے اُن کے لئے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی بصیرت پر اعتماد کریں۔ وہ صرف اعتماد اور حسن ظن کی بنا پر یہ عقیدہ رکھیں کہ اُن کے رہنما نے جو بات کہی ہے اُس کے پیچھے ضرور کوئی گہری مصلحت ہوگی۔ ہمارا کام اپنے رہنما کی اتباع کرنا ہے، نہ کہ اُس کی دیانت داری (integrity) پر شک کرنا۔
۵۔ صُلح حدیبیہ بظاہر ایک ایسی صُلح تھی جو دشمن کے مقابلہ میں دب کر کی گئی۔ مگر اس کے اندر ایک غیر اعلان شدہ مقصد چھپا ہوا تھااور وہ تھا ـــــٹکراؤ کو ایوائڈ کرکے اپنے لیے وقفۂ تعمیر حاصل کرنا۔ اگر یہ بات معاہدہ کے متن میں لکھ دی جاتی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان اُسی وقت اس کا اعلان کر دیتے تو صلح کے مقاصد سرے سے فوت ہوجاتے۔ اس قسم کے مقاصد ہمیشہ اعلان کے بغیر ہوتے ہیں، نہ کہ اعلان کے ساتھ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ یہاں تک کہ بعد کو جب اس کا عملی نتیجہ ظاہر ہوگیا، اُس وقت لوگوں نے جانا کہ اس صلح کے اندر کتنی بڑی مصلحت چھپی ہوئی تھی۔
یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت ابو بکر صدیق نے بعد کے زمانہ میں ان الفاظ میں بیان کی: ماکان فتح اعظم فی الإسلام من فتح الحدیبیۃ، ولکن الناس یومئذٍ قصررأیہم عمّا کان بین محمد وربّہ، والعباد یعجلون واللہ لا یعجل کعجلۃ العباد حتی یبلغ الامور ما أراد۔ (حیاۃ الصحابۃ، ۱؍۱۵۷) یعنی اسلام میں حدیبیہ کی فتح سب سے بڑی فتح تھی۔ لیکن معاہدہ کے دن لوگوں کو اس بات میں رائے قائم کرنے میں کوتاہی ہوئی جو محمد اورآپ کے رب کے درمیان تھا۔ انسان عجلت پسند ہے اور اللہ انسانوں کی طرح عجلت نہیںکرتا۔ یہاں تک کہ امور کو وہاں تک پہنچادے جو وہ چاہتاہے۔
۶۔ ہجر جمیل (حسن اعراض) سادہ طور پر محض ایک بچاؤ کی تدبیر نہیں، بلکہ وہ بامقصد انسان کی سوچی سمجھی ایک مستقل اخلاقی روش ہے۔ با مقصد انسان کے سامنے ایک متعین منزل ہوتی ہے، جہاں پہنچنا اُس کا سب سے بڑا کنسرن (concern) ہوتا ہے۔ اس لیے وہ راستہ کے ہر اُلجھاؤ سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے تاکہ وہ کسی رُکاوٹ کے بغیر اپنی آخری منزل تک پہنچ سکے۔
جیسا کہ معلوم ہے، قدیم مکہ کے لوگوں نے پیغمبر اسلام کو بہت زیادہ ستایا تھا۔ آپ پر اورآپ کے ساتھیوں پر اتنا زیادہ تشدد کیا کہ آپ کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکہ چھوڑ دینا پڑا۔ اس ترک وطن کے بعد بھی وہ آپ کے خلاف مسلسل جارحیت کرتے رہے۔
آخر کار وہ وقت آیا جب کہ پیغمبر اسلام اللہ کی مدد سے مکہ کے فاتح بن گئے۔ اب وقت تھا کہ ماضی کے ظلم کی اُنہیں سزا دی جائے۔ عام رواج کے مطابق، اُن کو قتل کردینا عین جائز تھا۔ مگر پیغمبراسلام نے اُن لوگوں کے ساـتھ ہجر جمیل کی روش اختیار کی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب قریش کے یہ مجرمین آپ کے سامنے حاضر ہوئے تو آپ نے اُن سے پوچھا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا۔ اُنہوں نے کہا کہ: اخ کریم و ابن اخ کریم۔ (آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں)۔
پیغمبر اسلام نے اس کے بعد فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ میں تمہارے بارہ میں وہی کہوں گا جو پیغمبر یوسف نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا۔ یعنی لاتثریب علیکم الیوم (یوسف ۹۲) آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں۔ یہ کہہ کر آپ نے فرمایا کہ : جاؤ تم سب لوگ آزاد ہو۔ اس طرح آپ نے اُن تمام لوگوں کو آزادکردیا جو اس سے پہلے آپ کے خلاف کھلے دشمن بنے ہوئے تھے۔
پیغمبر اسلام کا یہ عمل ایک بامقصد انسان کے عمل کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ پیغمبر اسلام کا مقصد یہ تھا کہ آپ بیت اللہ کو بتوں سے پاک کریں۔ مکہ کے لوگوں کو شرک سے نکال کر اُنہیں خدائے واحد کاپرستار بنائیں۔ اپنے دشمن انسان کو دوست انسان میں تبدیل کرکے، توجیہہ کی بنیاد پر وہ انقلاب لائیں جس کے لیے آپ کو مبعوث کیا گیا تھا۔
پیغمبر اسلام کے یک طرفہ حسن سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکّہ کے یہ تمام لوگ اسلام میں داخل ہو گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ: فخرجوا کانما نشروا من القبور، فدخلوا فی الإسلام (حیاۃالصحابۃ ۱؍۱۷۵) یعنی پھر وہ لوگ وہاں سے اس طرح نکلے جیسے کہ وہ قبروں سے نکلے ہوں اور وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
پیغمبر اسلام اگر اس کے برعکس اُن دشمنوں سے اُن کی ظالمانہ روش کا انتقام لیتے تو اس کے بعد یہ ہوتا کہ وہاں انتقام در انتقام کا دور چل پڑتا۔ ایک انتقام کے بعد دوسرا انتقام شروع ہوجاتا اور پھر حالات ایسا منفی رُخ اختیار کرلیتے کہ سارا تعمیری منصوبہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔
غیر فطری رد عمل
جب کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اُس کے مقابلہ میں آدمی کی روش کی دو مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک جذباتی رد عمل کا طریقہ، اور دوسرا غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ۔ جذباتی رد عمل عین وہی چیز ہے جس کو میڈیکل اصطلاح میں الرجی (alergy) کہا جاتا ہے۔ الرجی کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ الرجی نام ہے ،معتدل حالات میں غیر معتدل رد عمل کا۔
Abnormal reaction to normal things.
مثلاً اپنے خلاف تنقید کو سُن کر غصہ ہونا، اسی قسم کی ایک الرجی ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کی کسی بات پر تنقید کرتا ہے تو اُس کا معتدل اور فطری رد عمل یہ ہے کہ آپ کھلے ذہن کے ساتھ اُس کو سنیں اور کھلے ذہن کے ساتھ اُس پر غور کریں۔ اگر تنقید غلط ہے تو آپ کوچاہئے کہ آپ دلیل کے ساتھ اُس کا جواب دیں اور اگر تنقید درست ہے تو سیدھی طرح اُس کو مان لیں۔ اس کے برعکس تنقید کو سُن کر بگڑ جانا تنقید کا غیر معتدل اور غیر فطری انداز میں جواب دینا ہے۔ پہلی صورت مریضانہ ذہنیت کا ثبوت ہے اور دوسری صورت صحت مند ذہنیت کا ثبوت۔
اسی طرح مخالفانہ نعرہ کو سُن کر مشتعل ہو جانا، توہین کے کسی معاملہ پر بھڑک اُٹھنا، اپنے راستہ میں کوئی رکاوٹ دیکھ کر بگڑ جانا، اپنی سوچ کے خلاف سوچ کو برداشت نہ کرسکنا، یہ سب جذباتی رد عمل کی صورتیں ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ دوسروں کے خلاف نفرت اور تشدد میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ زندگی کے مثبت اور تعمیری رخ کا تجربہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
اس کے برعکس دوسرا طریقہ غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ ہے۔ اسی کو قرآن میں ہجر جمیل کہا گیا ہے۔ یعنی جب اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات پیش آئے تو مشتعل نہ ہو کر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ اس پر غور کرنا، اور سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت معتدل انداز میں اس کا جواب دینا۔
اس معتدل جواب کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ سادہ طورپر بس اُس کو نظر انداز کردیا جائے۔ یعنی وہی رویہ جس کو عام زبان میں اس طرح بیان کیا جاتا ہیــــــــــکتّے بھونکتے رہتے ہیں اور ہاتھی چلتا رہتا ہے۔
اسی طرح کبھی ہجر جمیل کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مخالف گروہ کی بدعملی کا جواب خوش عملی سے دیا جائے۔ اس کے پست اخلاق کے مقابلہ میں بر تر اخلاق کا طریقہ اختیار کرکے اس کو مغلوب کر لیا جائے۔ اسی طرح کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوسکتا ہے کہ دباؤ کی سیاست (pressure tactics) کا طریقہ اختیار کرکے اس کو خاموش ہونے پر مجبور کر دیا جائے۔
ہجر جمیل کی کوئی ایک لگی بندھی صورت نہیں۔ حالات کے اعتبار سے اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ تاہم جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ سوچے سمجھے منصوبہ کی بنیاد پر ہوگی ، نہ کہ بلا سوچے سمجھے رد عمل کی حیثیت سے۔ اس کا بنیادی مقصد اعراض کرنا ہوگا، نہ کہ اُلجھ جانا۔ وہ ہمیشہ امن کے اصول پر ہوگی، نہ کہ تشدد کے اصول پر۔ اس کے پیچھے کبھی بھی نفرت اور انتقام کا جذبہ نہیں ہوگا بلکہ صرف یہ جذبہ ہوگا کہ کسی نہ کسی طرح حسن تدبیر کے ذریعہ معاملہ کو ٹال دیا جائے تاکہ زندگی کی گاڑی معمول کے مطابق اپنے مطلوب رُخ پر چلنے لگے۔
ہجر جمیل کا نشانہ خارجی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ آدمی کی خود اپنی ذات ہوتی ہے۔ ہجر جمیل کا نشانہ یہ نہیں ہوتا کہ خود مسئلہ کا خاتمہ کردیا جائے۔ اُس کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ کو اپنے خلاف مسئلہ بننے سے روک دیاجائے۔
واپس اوپر جائیں

جنگ سے امن تک

قرآن میں دو مقام پر یہ آیت آئی ہے کہ فتنہ کو ختم کرنے کے لئے جنگ کرو (وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ)۔ اس آیت میں فتنہ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے۔ اس آیت کے ذریعہ رسول اور اصحاب رسول کو حکم دیا گیا کہ تم لوگ مذہبی جبر کے موجودہ نظام کو توڑ دو تاکہ دنیا میں مذہبی آزادی کا ماحول قائم ہو جائے۔ جو لوگ اللہ کے دین کو اختیار کرنا چاہیں اُن کے راستہ میں کوئی پابندی باقی نہ رہے۔ واضح ہو کہ پیغمبر اسلام کے معاصر قوتوں نے آپ کے خلاف خود ہی بدء (التوبہ ۱۳) کا عمل کیا۔ اس طرح اُنہوں نے جارحیت کا آغاز کرکے فتنہ کے خلاف آپ کے آپریشن کو دفاعی جنگ کی صورت دے دی۔
اس آیت میںایک معلوم اور متعین مقصد کے لیے جنگ کا حکم دیا گیا تھا‘ اور وہ تھا‘ مذہبی جبر کا خاتمہ۔ اس آیت کو لے کر کسی اور مقصد کے لیے جنگ چھیڑنا درست نہ تھا۔ مگر بعد کے زمانہ میں ایسا کیا گیا کہ قتالِ فتنہ کے حکم کی توسیع کرکے اُس کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک انحراف (deviation) یا گاڑی کا اپنی پٹری سے اُترنا(derailment) تھا۔ مگر ایسا ہوا‘ اور اس کا سلسلہ کسی نہ کسی عنوان سے آج تک جاری ہے۔
۱۔ اس سلسلہ میں پہلا انحراف اصحابِ رسول کی دوسری نسل(second generation) میں پیش آیا۔ اس معاملہ میں دو نام زیادہ نمایاں ہیں۔ ایک الحسین بن علی (م ۶۱ھ) اور دوسرے عبد اللہ بن الزبیر (م ۷۳ھ)۔ دونوں حضرات نے اموی حکمراں یزید بن معاویہ کے خلاف خروج (بغاوت) کیا۔ دونوں حضرات نے اپنے عمل کے وجہ جواز کے طورپر یزید کے ظلم کا حوالہ دیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس قتال فتنہ کا تعلق مذہبی جبر سے تھا اُس میں تصرف کرکے اُس کو اُنہوں نے سیاسی بدعنوانی (political corruption)تک وسیع کر دیا۔
قتال فتنہ کے حکم کی یہ توسیع بلا شبہہ ایک اجتہادی خطا تھی۔ اس کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ پیغمبر اسلامﷺنے واضح طورپر یہ حکم دیا تھا کہ میرے بعد حکمرانوں کے بگاڑ کو لے کر ہر گز اُن کے خلاف خروج نہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں حضرات کی جنگوں کے وقت صحابۂ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی‘ مگر وہ ان جنگوں میں شریک نہیں ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے واضح طورپر اعلان کیا کہ بعد کے زمانہ کی یہ جنگ قتال فتنہ کے حکم سے انحراف ہے‘ نہ کہ اُس کا اتباع(صحیح البخاری‘ کتاب التفسیر)
۲۔ اس سلسلہ کا دوسرا انحراف زیادہ بڑے پیمانہ پر خلافت راشدہ کے بعد شروع ہوا اور پھرتقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ یہ انحراف مسلم حکمرانوں کی طرف سے کیا گیا۔ اُنہوں نے مذہبی جبر کے خلاف جنگ کے مفہوم میں اضافہ کرکے اُس کو مسلم سلطنت کی توسیع(political expansion) کے معنیٰ میں لے لیا۔ وہ پوری دنیا میں مسلم سلطنت کی توسیع کے لیے لڑائیاں لڑتے رہے۔
قتال فتنہ کے حکم کی یہ توسیع بھی بلا شبہہ ایک انحراف تھی۔ قرآن میں امت کو جو عالمی مشن دیا گیا تھا وہ شہادت علی الناس تھا‘ نہ کہ لوگوں کے اوپر اپنا سیاسی اقتدار قائم کرنا۔ یہی بات پیغمبر اسلام نے حجۃ الوادع کے موقع پر اس طرح فرمائی کہ اللہ نے مجھ کو سارے انسانوں کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ اس لیے تم میرے لائے ہوئے پیغام کو میری طرف سے تمام دنیا والوں تک پہنچا دو (فأدوا عنی) اس اعتبار سے بعد کے دور میں مسلمانوں کا اصل کام دعوت الی اللہ تھا‘ نہ کہ اقتدار کی سیاست چلانا۔
۳۔ اس سلسلہ کا تیسرا شدید تر انحراف وہ ہے جو موجودہ زمانہ میں پیش آیا۔ یہ کچھ مسلم مفکرین کی طرف سے مذکورہ قرآنی آیت کی نام نہاد انقلابی تفسیر تھی۔ ان لوگوں نے آیت کے حکم میں خود ساختہ توسیع کرکے اُس کو قتال برائے تنفیذ احکام کے معنیٰ میں لے لیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس آیت کے مطابق‘ ہر زمانہ کے مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ وہ حکمرانوں سے جنگ کرکے اسلام کے احکام کو ہر جگہ نافذ کریں۔
قتالِ فتنہ کے حکم میں یہ توسیع ایک مہلک قسم کا انحراف ہے۔ اس نے مسلمانوں کے اندر غلط طورپر یہ ذہن پیدا کیا کہ ہرجگہ اسلامی حکومت قائم کرنا اُن کا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کے نتیجہ میں ہرجگہ جہاد کے نام پر تشدد ہونے لگا۔ کچھ مسلمان گن اور بم لے کر دنیا والوں پر ٹوٹ پڑے۔ دوسرے مسلمان جنہوں نے اس متشددانہ فعل میں عملاً شرکت نہیں کی‘ وہ بھی اس انقلابی نظریہ سے اتنا مسحور ہوئے کہ وہ اس کی ہمت نہ کرسکے کہ وہ کھُل کر اُس کی مذمت کریں اور اُس کے غیر اسلامی ہونے کا اعلان کریں۔
بیسویں صدی عیسوی پوری کی پوری اسلام کے نام پر اس غیر اسلام کا نمونہ بن گئی۔ اس کا نتیجہ دو مہلک صورتوں میں بر آمد ہوا۔ ایک‘ اسلام کی بدنامی۔ ساری دنیا میں اسلام خلاف واقعہ طورپر نفرت اور تشدد کا مذہب سمجھا جانے لگا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ لندن کے مشہور انگریزی روزنامہ میں اسلام کے بارے میں ایک آرٹیکل چھپا جس کا عنوان یہ تھاــــــــایک مذہب‘ جو تشدد کو جائز قرار دیتا ہے:
A religion that sanctions violence.
دوسری خرابی یہ ہوئی کہ موجودہ زمانہ میں اسلامی دعوت کے حق میں جو نئے قیمتی امکانات پیدا ہوئے تھے وہ استعمال ہونے سے رہ گئے۔ مسلمان خود ساختہ جہاد کے نام سے اپنے آپ کوبے فائدہ طورپر ہلاک کرتے رہے‘ وہ جدید مواقع کو استعمال کرکے اسلام کا حیات بخش پیغام دوسروں تک نہ پہنچا سکے۔
اکیسویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے لیے پہلا ضروری کام اسی غلطی کی تصحیح ہے۔ کوئی بھی دوسرا کام کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اسلام کے نام پر ہونے والے تشدّد کو فوری طور پر اور مکمل طورپر بند کردیا جائے۔ اس معاملہ میں کسی بھی عذرکو‘ خواہ وہ بظاہر کتنا ہی سنگین ہو‘ رکاوٹ نہ بنایا جائے۔ موجودہ زمانہ میں اسلام کے حقیقی احیاء کا نقطۂ آغاز یہی ہے۔ نفرت اور تشدد کے ماحول کو ختم کرکے اہلِ اسلام سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں‘ اس کے بغیر کچھ بھی نہیں۔
امن برائے امن
امن (peace) کیا ہے۔ اہلِ علم اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ امن عدمِ جنگ (absence of war) کا نام ہے۔ یعنی جنگ نہ ہو رہی ہو تو کہا جائے گا کہ امن قائم ہے۔ جنگ کی حالت نہ ہونے کا نام امن کی حالت ہے۔ جو لوگ اپنے کسی حق (right) کے نام پر متشددانہ جنگ کررہے ہیں‘ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ امن مع انصاف (peace with justice) کا نام امن ہے۔ جس امن سے انصاف حاصل نہ ہو وہ امن بھی نہیں۔
یہ دوسرا نظریہ ایک غلط سوچ کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ اس طرح سوچیں اُن کو نہ کبھی امن ملے گا اور نہ کبھی انصاف۔ حقیقت یہ ہے کہ امن کا مقصد مواقع(opportunities) کو حاصل کرنا ہے‘ نہ کہ انصاف کو حاصل کرنا۔ امن بجائے خود کسی کو انصاف نہیں دیتا۔ امن صرف یہ کرتا ہے کہ و ہ معتدل حالات قائم کر دیتا ہے جس میں عمل کرکے انصاف یا حق حاصل کیا جاسکے۔
موجودہ دنیا میں جب بھی کسی کو کوئی چیز ملتی ہے وہ اُس کے اپنے عمل کے نتیجہ میں ملتی ہے۔ امن کا فائدہ صرف یہ ہے کہ وہ آپ کے حق میں وہ معتدل حالات پیدا کردے جس میں آپ کے لیے اپنے موافق منصوبہ بندی کرنا ممکن ہوجائے۔ جنگ و تشدد کے حالات کا م کے مواقع کو برباد کرتے ہیں۔ جب کہ امن اور صلح کے حالات کام کرنے کے تمام دروازے اس طرح کھول دیتے ہیں کہ اُس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا۔
جنگ کا دور ختم
پائرس (Pyrrhus) قدیم یونان کا ایک بادشاہ تھا۔ وہ ۳۱۹ ق م میں پیدا ہوا‘ اور ۲۷۲ ق م میں اُس کی وفات ہوئی۔ ۲۷۹ ق م میں اُس کی لڑائی رومیوں (Romans) سے ہوئی۔ اس جنگ میں شاہ پائرس جیت گیا۔ مگر جب لڑائی ختم ہوئی تو اُس کی اقتصادیات اور اُس کی سیاسی اور فوجی طاقت پوری طرح تباہ ہوچکی تھی۔ اسی واقعہ سے پِرک وکٹری (Pyrrhic Victory) کی اصطلاح بنی ہے‘ یعنی تباہ کن فتح۔
قدیم زمانہ میں پرک وکٹری یا تباہ کن فتح کا واقعہ بہت کم پیش آسکتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں جدید ہتھیاروں کی ایجاد کے بعد ہر جنگ تباہ کن جنگ بن چکی ہے۔ اب جنگ جیتنے والے اور جنگ ہارنے والے کے درمیان اتنا ہی فرق ہوتا ہے کہ اخباروں میں دونوں کی خبریں الگ الگ الفاظ میں چھپتی ہیں‘ ورنہ حقیقت کے اعتبار سے دونوں کا معاملہ ایک ہوتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں ہار بھی ہارہے اور جیت بھی ہار۔
موجودہ زمانہ میں جنگ صرف خود کشی ہے‘ جنگ اب کسی مثبت مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں۔ کسی قوم سے کوئی چیز کھوئی گئی ہو تو اُس کے لیے صبر ہے‘ نہ کہ جنگ۔ کیوں کہ جنگ اب اس کے لیے محرومی پر ذلت کا اضافہ ہے۔ امن کا بدل جنگ نہیں‘ امن کا بدل گفت وشنید ہے۔
اس معاملہ کی ایک مثال پاکستان کی تاریخ میں ملتی ہے۔ پاکستان ۱۹۴۷ میں بنا۔ اس وقت بنگلہ دیش پاکستان کا مشرقی حصہ تھا۔ پھر ایسے حالات پیش آئے کہ بنگلہ دیش پاکستان سے پوری طرح الگ ہوگیا۔ آخر کار پاکستان نے حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس جغرافی محرومی پر صبر کر لیا۔ اگر پاکستان ایسا نہ کرتا تووہ اپنے کھوئے ہوئے حصہ کی خاطر اپنے بقیہ حصہ کو بھی تباہ کرلیتا۔ جنگ کا مطلب نتیجہ کے اعتبار سے یہ ہے کہ جو کچھ بچا ہے اُس کو بھی کھو دیا جائے‘ جزئی محرومی کو کلی محرومی بنا دیا جائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ اب کسی کے لیے بھی کوئی انتخاب (option)نہیں۔ آج کی جنگ میں ہارنے والے کے لیے بھی ہار ہے اور جیتنے والے کے لیے بھی ہار۔ تاہم اس میں مایوسی کی کوئی ضرورت نہیں۔ دور جدید نے اگر ایک طرف جنگ کو ناممکن بنادیاہے تو دوسری طرف جدید دور کے نتیجہ میں ایسی انقلابی تبدیلیاں ظہور میں آئی ہیں کہ کوئی بھی محرومی کسی کے لیے محرومی ثابت نہ ہو۔ آج کو ئی فرد یا گروہ‘ خواہ وہ کسی بھی حال میں ہو‘ از سرِ نو اپنی منصوبہ بندی کرکے دوبارہ پہلے سے زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ کھونے کے بعد وہ کامیابی کے نئے امکانات کو پاسکتا ہے
موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن نے چھوٹے ملک اور بڑے ملک کے فرق کو مٹا دیا ہے۔ گلوبلائزیشن کے جدیددورنے جغرافی محدودیت کے تصور کو عملاً غیر موثر بنادیا ہے۔ جدید تبدیلیوں کے بعد اب جنگ کی حیثیت کسی صحت مند انتخاب کی نہیں رہی۔
اب جنگ سادہ طورپر صرف جنگ نہیں‘ وہ غصہ اور نفرت اور مایوسی کے تحت پیش آنے والا ایک منفی واقعہ ہے‘ نہ کہ کسی تعمیری منصوبہ بندی کا مثبت نتیجہ۔ اب جنگ صرف خود کشی کی مایوسانہ چھلانگ ہے‘ وہ کسی صحت مند ذہن کے تحت کیا ہوا مفید اقدام نہیں۔
واپس اوپر جائیں

صحبت کا فلسفہ

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو اسلام میں جو امتیازی درجہ ملا وہ صحبت رسول کی بنا پر تھا۔ یہ بات بجائے خود صحیح ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحبت کوئی پُر اسرار (mysterious)چیز ہے اور اُس کی پُر اسرار تاثیر کے نتیجہ میں اصحاب رسول کو مجرد صحبت کی بنا پر خود بخود یہ فائدہ حاصل ہوا۔ یہ نظریہ علمی طورپر درست نہیں۔ وہ اس معاملہ کی پوری توجیہہ نہیں کرتا۔ مثلاً اس نظریہ میں اس واقعہ کی توجیہہ موجودنہیں کہ مدینہ کے سیکڑوں دوسرے لوگ جو بظاہر ایمان لائے اور پیغمبر کی صحبت میں بار بار بیٹھے‘ مگر وہ آپ کی صحبت سے فیض حاصل نہ کرسکے اور اسلام کی تاریخ میں منافق کہلائے گئے۔
اصل یہ ہے کہ کسی انسان کے لیے اعلیٰ ایمان حاصل کرنے کا ذریعہ صرف ایک ہے‘ اور وہ ہے معرفت یا ذہنی ارتقاء۔ ایمان قبول کرنے کے بعد آدمی کے اندر معرفت کے رُخ پر ایک تفکیری عمل (thinking process) جاری ہوتا ہے۔ یہ تفکیری عمل ہی دراصل کسی مومن کے لیے اعلیٰ ایمانی درجہ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔
پیغمبر کی صحبت میں در اصل یہی تفکیری عمل جاری رہتا تھا۔ لوگ آپ کی باتوں کو سنتے‘ وہ آپ کی باتوں کو اپنے ذہن میں اس طرح جگہ دیتے کہ وہ اُن کے ذہن میں ہلچل پیدا کردیتا۔ اس طرح اُن کے اندر تفکیرکا عمل مسلسل ہر صبح و شام جاری رہتا۔ رسول اللہ کی صحبت اس تفکیری عمل کا ذریعہ تھی‘ اس لیے اُس کو صحبترسول سے منسوب کیا گیا۔
تاہم پیغمبر کی باتیں سادہ طورپر صرف سننا کافی نہیں۔ پیغمبر کی باتیں صرف اُس انسان کے لیے مفیدبنیںگی جو ریسیپٹیو(receptive) ہو‘ جو یکسو ہو کر سنے اور پھر نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہو کر اُس کو قبول کر سکے۔ مخلص اہل ایمان میں یہ قبولیت (receptivity) پوری طرح موجود تھی اس لیے اُن کو صحبت رسول کا فائدہ حاصل ہوا۔ منافقین کے اندر یہ قبولیت موجود نہ تھی اس لیے وہ صحبت رسول کے باوجود اُس کا فائدہ نہ پاسکے۔
صحابیت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ: من رأی النبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنا بہ و مات علی ذلک فہو صحابی(جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت ایمان میں دیکھا اور اس پر اس کی موت واقع ہوئی تو وہ صحابی ہے)۔ یہ تعریف صحابیت کی ایک ناقص تعریف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحبت کا مفہوم متعین کرنے کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عملی طورپر صحبت کی صورت کیا تھی۔ وہاں ایسا نہ تھا کہ مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے ہوں اور صحابہ بھی بعد از ایمان آپ کی صحبت میں خاموش بیٹھ کر صرف آپ کو دیکھتے رہتے ہوں۔ آپ کی صحبت میں ہمیشہ تفکر و تدبر کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں یہ تعلیم حکمت کا ایک حلقہ ہوتا تھا۔
اس کے برعکس واقعات بتاتے ہیں کہ آپ کی صحبت ایک زندہ صحبت تھی۔ آپ ان لوگوں کے سامنے نعمت رب کی تحدیث فرماتے تھے (الضحیٰ)۔ آپ حاضرین کو اُس رزق رب سے باخبر کرتے تھے جس کی توفیق آپ کو اللہ کی طرف سے دی جاتی تھی (طٰہ) آپ قرآن کی آیتوں کی تشریح فرماتے تھے۔ آپ لوگوں کے سوال کا جواب دیتے تھے۔آپ وہ باتیں فرماتے تھے جس سے لوگوں کا شک یقین میں بدل جاتا تھا۔ آپ لوگوں کو ذکر و دعا اور حمد و شکر کے کلمات کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ لوگوں کو قرآن کے نازل شدہ حصّے سناتے تھے۔ آپ لوگوں کو پچھلے انبیاء اور پچھلے اہل ایمان کے پُر تاثیر واقعات کی خبر دیتے تھے‘ وغیرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے والے آپ سے اس قسم کی زلزلہ خیز باتیں سنتے تھے۔ آپ کی صحبت میں لوگوں کو اس طرح فکری ہلچل کی غذا ملتی تھی۔ آپ کی صحبت مکمل معنوں میں ایک زندہ صحبت تھی۔ آپ کی صحبت کا اس طرح زندگی بخش ہونا وہ اصل سبب تھا جس نے آپ کے ہم زمانہ اہل ایمان کو وہ عظیم درجہ دے دیا جس کو تاریخ میں اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔ یہ فکری انقلاب کا ایک واقعہ تھا‘ نہ کہ سادہ طورپر صرف صحبت میں بیٹھنے کا۔
یہی معاملہ بعد کے دور کے علماء اور بزرگوں کا ہے۔ اُن میں سے کسی کی صحبت میں پُر اسرار تاثیر نہیں۔ یہ معاملہ تمام تر صحبت میں بیٹھنے والوں اور وہاں کی باتیں سننے والوں کی اپنی استعداد پر منحصر ہے۔ جن افراد کے اندر مادّہ قبولیت ہوگا وہ صحبت کا فائدہ حاصل کرسکیں گے۔ اور جن افراد کے اندر قبولیت کا مادّہ نہ ہوگا وہ فائدہ سے محروم رہیں گے۔ اس تشریح کی روشنی میں صحابی کی زیادہ صحیح تعریف یہ ہونا چاہئے: جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت ایمان میں دیکھا اور آپ کی صحبت سے استفادہ کیا اور اسی حال میںاُس کی موت ہوئی تو وہ صحابی ہے۔
عمومی صحبت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی صحبت جو اکثر مسجد میں یا کسی اور مجلس میں آپ کے اصحاب کو حاصل ہوتی تھی‘ اُس کی ایک مثال یہاں نقل کی جاتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ آپ کی مجلسوں میں اصحابِ رسول کو کس طرح ذہنی تعمیر کی خوراک ملتی رہتی تھی۔
عن ابی ذر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کیف أنتم و ائمۃ من بعدی‘ یستأثرون بہذا الفیٔ‘ قلت: اَمَا والذی بعثک بالحق‘ اضع سیفی علی عاتقی‘ ثم اضرب بہ حتی القاک‘ قال: اولا ادلک علی خیر من ذلک: تصبر حتی تلقانی (سنن ابی داؤد‘ کتاب السنۃ‘ بحوالہ مشکاۃ المصابیح ۲؍۱۰۹۵)
ترجمہ : ابو ذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس وقت تمہارا حال کیا ہوگا جب میرے بعد والے حکمراں آئیں گے۔ وہ فئ(اموال حکومت) کو اپنے لیے خاص کر لیں گے۔ میں نے کہا کہ اُس خدا کی قسم‘ جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے‘ میںتلوار کو اپنے کندھے پر رکھو ں گا اور پھر اس سے اُنہیں ماروں گا یہاں تک کہ میں آپ سے مل جاؤں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو اس سے زیادہ بہتر بات نہ بتاؤں۔ تم صبر کرو‘ یہاں تک کہ تم مجھ سے مل جاؤ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعہ اپنے اصحاب کو ایک نئی فکر ی روشنی دی۔ عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ جب اپنے حکمرانوں میں بگاڑ دیکھتے ہیں تو وہ اصلاح سیاست کے نام پر اُن سے متشددانہ ٹکراؤ شروع کردیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ بگاڑ کے زمانہ میںحکمرانوں سے ٹکراکر شہید ہوجانے سے زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ اُن کے بگاڑ پر صبر کیا جائے‘ اور یہ سب اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب کہ انسان کی موت آجائے۔
اس حدیث میں ’’صبر‘‘ سے مراد بے عملی نہیں ہے بلکہ اُس سے مراد ایک عظیم ترین عمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں سے نزاع کاطریقہ چھوڑ کر اپنے عمل کے لیے غیر نزاعی طریقہ ڈھونڈنا اور اُس پر کاربند ہوجانا۔ سیاسی نزاع کا طریقہ ہمیشہ بے صبری کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں نزاع کو ایوائڈ کرتے ہوئے عمل کرنا اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ آدمی اپنے جذبات پر کنٹرول کرکے صابرانہ انداز میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
یہ ایک عظیم حکمت تھی جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو تلقین فرمائی‘ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین نے اس حکمت کو سمجھا اور اُس پر بھر پور عمل کیا۔ اس کے نتیجہ میں دور اوّل میں وہ عظیم اسلامی کام انجام پایا جو مذکورہ صابرانہ سیاست کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔
جیسا کہ معلوم ہے‘ خلفائے راشدین کے بعد فوراًسیاست میں بگاڑ آگیا۔ مسلم حکمراں شریعت کے مقرر راستے سے ہٹ گئے۔ اُس زمانہ میں اگر اہلِ ایمان اپنے حکمرانوں سے متشددانہ ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرتے تو اُس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ پہلی اور دوسری نسل کے تمام بہترین لوگ قتل کردیئے جاتے۔ ابتدائی نسل کے وہ تمام تاریخ ساز لوگ قبروں میں دفن ہوجاتے۔ اسلام کی وہ عظیم تاریخ بننے کی نوبت ہی نہ آتی جو ان لوگوں کے ذریعہ بنی۔
مثلاً ابتدائی نسل کے یہی وہ لوگ ہیں جوسیاسی ٹکراؤ کے محاذ کو چھوڑ کر پُر امن دعوت کے میدان میں سرگرم ہوگئے اور کروڑوں لوگوں کو اسلام کے دائرہ میں داخل کر دیا۔ اُنہوں نے دورِ پریس سے پہلے قرآن کی حفاظت اور اشاعت کا وہ عظیم کام انجام دیا جس کی مثال دوسری آسمانی کتابوں میں نہیں ملتی۔ اُنہوں نے لاکھوں حدیثوں کو جمع کرکے اُن کی چھان بین کی اور صحیح احادیث کے مجموعے تیار کرکے دنیا کو علم حدیث کا قیمتی تحفہ دیا۔ اُنہوں نے فقہ کی تدوین کا وہ عظیم کام انجام دیا جس کی مثال کسی اور دین میں موجود نہیں۔
اسی طرح یہی ابتدائی نسل کے لوگ ہیں جنہوں نے حکومتی بگاڑ سے صرف نظر کرکے تمام اسلامی علوم کو مدون کیا۔ مثلاً سیرت‘ تاریخ‘ عقائد وکلام‘ عربی زبان کے لغات تیار کرنا‘ نحو اور صرف اور بلاغت اور دوسرے متعلق علوم کی ترتیب و تدوین۔
دور اول کے اہل ایمان کی انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اسلام ہر اعتبار سے ایک محفوظ اور معتبر تاریخی دین بن گیا۔ جب کہ کسی بھی دوسرے مذہب کو یہ حیثیت حاصل نہیں۔ اور یہ تمام کارنامے صرف اس لیے انجام پائے کہ دور اول کے مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کی دی ہوئی رہنمائی کی بنا پر یہ حکیمانہ طریقہ اختیار کیا کہ انہوں نے سیاسی بگاڑ کے مقابلہ میں متشددانہ ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ دیا اور خدمتِ اسلام کے اُن بقیہ شعبوں میں پُر امن طورپر سر گرم عمل ہوگئے جو غیر نزاعی میدان میں اُنہیں حاصل تھا۔
توسیعی صحبت
قرآن کی سورہ نمبر ۲۶ میںاللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت فرمایا ہے کہ وہ ساجدین کے درمیان تمہارے تقلّب کو دیکھ رہا ہے (الشعراء ۲۱۹) قرآن کی اس آیت میں ساجدین سے مراد مؤمنین ہیں۔ اور تقلّب کا مطلب ہے ‘ چلنا پھرنا۔ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ صبح وشام کی سرگرمیاں ہیں جو آپ اہل ایمان کی اصلاح کے لیے اور اُن کے اندر دینی شعور کو بیدار کرنے کے لیے انجام دیتیتھے۔ آپ کی یہ کوششیں بھی توسیعی مفہوم میں صحبت رسول کا ایک حصہ تھیں۔ ان کوششوں کے دوران آپ مسلسل اہل ایمان کے دینی شعور کو بیدار کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ توسیعی صحبت کے معاملہ کو سمجھنے کے لیے یہاں اس قسم کی ایک مثال نقل کی جاتی ہے:
عن ابی ہریرہ ان رجلاشتم أبا بکر والنبی صلی اللہ علیہ وسلم جالس فجعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعجب ویتبسم فلما اکثر رد علیہ بعض قولہ فغضب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقام فلحقہ ابوبکر فقال یا رسول اللہ کان یشتمنی وأنت جالس فلما رددت علیہ بعض قولہ غضبت وقمت قال انہ کان معک ملک یردعنک فلما رددت علیہ بعض قولہ وقع الشیطان فلم أکن لأقعد مع الشیطان (مسند احمد‘ ۲؍۴۳۶)
ترجمہ : ابو ہریرہ بتاتے ہیں کہ ایک شخص نے ابوبکر کے خلاف سبّ وشتم کیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر متعجب ہوتے رہے اور تبسم فرماتے رہے۔ جب اُس آدمی نے بہت زیادہ سخت کلامی کی تو ابوبکر نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دے دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوگئے اور وہاں سے اُٹھ گئے۔ پھر ابو بکر چل کر اُن سے ملے۔ اُنہوں نے کہا کہ ائے خدا کے رسول‘ وہ آدمی مجھ کو سبّ وشتم کر رہا تھا اور آپ بیٹھے رہے۔ پھرجب میں نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو آپ غصہ ہوگئے اور وہاں سے اُٹھ کر چلے آئے۔ آپ نے فرمایا کہ پہلے تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمہاری طرف سے بول رہا تھا۔ پھر جب تم نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو( فرشتہ چلا گیا )اور شیطان آگیا۔ تو میں نے شیطان کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کیا۔
یہ اُس چیز کی ایک اعلیٰ مثال ہے جس کو ہم نے پیغمبر کے ذریعہ ملی ہوئی شعوری بیداری کہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر پیدائشی طورپر دو قسم کی صفات ہوتی ہیںــــــنفس امّارہ اور نفس لوّامہ۔ نفس امّارہ شیطان کی علامت ہے اور نفس لوّامہ فرشتہ کی علامت۔ ایک آدمی آپ کو گالی دے اور آپ چُپ رہیں تو گالی دینے والے کا نفس لوّامہ بیدار ہو کر اندر ہی اندر اُس کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ یہ گویا آپ کی طرف سے فرشتہ کا جواب دینا ہے۔ اس کے برعکس جب آپ ایسا کریں کہ سخت کلامی کے جواب میںآپ بھی سخت کلامی کریں تو دوسرے آدمی کا نفس امّارہ متحرک ہوجائے گا۔ یہ آدمی کا شیطان کے زیر اثر آجانا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس تلقین کے ذریعہ صحابہ کو ایک عظیم حقیقت بتائی۔ آپ نے صحابہ کے اندر وہ فکری روشنی پیدا کی جو ہر معاملہ میں اُن کی کامیابی کی ضامن بن جائے‘ خواہ وہ معاملہ انفرادی ہویا اجتماعی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد کے ذریعہ اہل ایمان کو ایک گہری سوچ عطا کی۔ آپ نے بتایا کہ ہر انسان کے اندر پیشگی طورپر دو مختلف قسم کی شخصیتیں چھپی ہوئی ہیں۔ ایک‘ تمہاری دشمن شخصیت اور دوسری‘ تمہاری دوست شخصیت۔ یہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے کہ تم فریقِ ثانی کو اپنا دوست بناتے ہو یا اپنا دشمن۔ اگر تم نے فریقِ ثانی کے نفسِ امّارہ کو جگایا تو اُس کی دشمن شخصیت تمہارے حصہ میں آئے گی۔ اور اگر تم نے اُس کے نفس لوّامہ کوجگایا تو اُس کی دوست شخصیت تمہارے حصہ میں آئے گی۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ اس اہم حقیقت کی طرف نشان دہی فرمائی کہ اس دنیا میں کچھ نہ کرنے کا نام بھی کرنا ہے اور کچھ نہ بولنے کا نام بھی بولنا ۔ اگر ایک شخص آپ کے خلاف سبّ وشتم کررہا ہے اور آپ جواب نہیں دیتے‘ تو اس کا مطلب سادہ طور پر یہ نہیں ہے کہ آپ نے جواب نہیں دیا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے خاموش رہ کر زیادہ طاقتور متکلم کو بولنے کا موقع دیا۔ یعنی خدا کے فرشتہ کو۔ اس طرح یہ ممکن ہوا کہ آپ جو کام کم موثر انداز میں انجام دیتے‘ اُس کو خدا کے فرشتہ نے زیادہ موثر انداز میں انجام دے دیا۔
واپس اوپر جائیں

جہاد کیا ہے

ملّا علی قاری مشہور عالم اور فقیہہ ہیں۔ وہ اپنے مسلک کے اعتبار سے حنفی تھے۔ اُن کا پورا نام یہ ہے: علی بن (سلطان) محمد، نورالدین الملّا الہروی القاری۔ ملّا علی قاری ہرات میں پیدا ہوئے۔ اُن کی وفات ۱۰۱۴ھ (۱۶۰۶ء) میں مکہ میں ہوئی۔ انہوں نے مختلف اسلامی موضوعات پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھیں۔ (کتاب الأعلام)
ملاّ علی قاری کی ایک کتاب کانام مرقاۃ المصابیح ہے جو مشکاۃ المصابیح کی شرح میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں ملاعلی قاری کتاب الجہاد کے تحت لکھتے ہیں کہ جہاد کے لفظ میں لغوی طورپر جدوجہد اور مشقت کا مفہوم ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں: ثم غلب فی الإسلام علی قتال الکفار۔ یعنی پھر جہاد کا لفظ اسلام میں اہل کفر سے جنگ کے لیے استعمال ہونے لگا۔
ہر لفظ کا ایک لغوی مفہوم ہوتا ہے اور دوسرا استعمالی مفہوم۔ یہی معاملہ جہاد کا بھی ہے۔ جہاد کالفظ جہد سے نکلا ہے۔ لغوی طورپر اس کے معنیٰ کوشش کے ہیں۔ اس میں مبالغہ کا مفہوم ہے۔ استعمال میں یہ لفظ مختلف قسم کی جدوجہد کے لیے لکھا یا بولا جاتا ہے۔ اُنہی میںسے ایک جنگ بھی ہے، تاہم اس کا استعمال صرف اس جنگ کے لیے خاص ہے جو فی سبیل اللہ کی گئی ہو، ملک و مال کے لیے جو جنگ کی جائے اُس کو جہاد نہیں کہا جائے گا۔
قرآن میںاس سلسلہ میں دو مختلف لفظ استعمال کئے گئے ہیںــــــجہاد اور قتال۔ جب پُرامن جدوجہد مراد ہو تو وہاں قرآن میں جہاد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن کے ذریعہ پُر امن دعوتی جدوجہد (الفرقان ۵۲)۔ اور جب باقاعدہ جنگ مراد ہو تو وہاں قرآن میں قتال کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً آل عمران ۱۲۱۔ تاہم بعد کے زمانہ میں جہاد کا لفظ اکثر قتال کے ہم معنیٰ لفظ کے طورپر استعمال کیا جانے لگا۔ جہاد کے لفظ کے اس استعمال کو اگر بالفرض درست مانا جائے تب بھی وہ جہاد کے لفظ کا ایک توسیعی استعمال ہوگا، نہ کہ اُس کا حقیقی استعمال۔
واپس اوپر جائیں

مسلم پالیسی کو بدلنے کی ضرورت

اپریل ۲۰۰۲ء کے آخری ہفتہ میں مکہ میں رابطہ عالم اسلامی کی چوتھی عالمی کانفرنس ہوئی۔ اس میں مختلف ملکوں کے مسلم علماء اور دانشور تقریباً پانچ سو کی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کا موضوع ’’اسلام اور گلوبلائزیشن ‘‘ بتایا گیا۔ اس کانفرنس کی ایک رپورٹ لاہور کے ماہنامہ محدث (مئی ۲۰۰۲) میں دیکھی۔ اس کا ایک حصہ یہاںکسی قدر تصرف کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے :
بوسنیا کے رئیس العلماء مصطفی سیرچ نے سابق صدر بوسنیا عزت بیگووچ کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ہم بوسنیا کے تلخ تجربہ کی روشنی میں یہ کہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ عربوں کو اسرائیل سے صلح وآشتی کا راستہ اختیار کر لینا چاہئے ۔ دکتور یوسف القرضاوی فوراً مائیک پر آئے اور نہایت شدید الفاظ میں عزت بیگوچ کے اس نظریہ کی تردید کی۔ رپورٹ کے مطابق، بظاہر پوری کانفرنس میں کوئی شخص بھی عزت بیگوچ کی حمایت میں بولنے کے لیے کھڑا نہیں ہوا (صفحہ ۵۴)۔
جس زمانہ میں عزت بیگووچ نے بوسنیا کے آزاد مسلم مملکت ہونے کا اعلان کیا اور اس کے نتیجہ میںوہاں خونی جنگ چھڑ گئی، اُس وقت ساری مسلم دنیا میں عزت بیگووچ ہیرو بن گئے۔ مگر آج یہی عزت بیگووچ جب امن اور صلح کی بات کرتے ہیں تو اب وہ مسلمانوں کے یہاں زیرو بنے ہوئے ہیں۔ اس واقعہ پر غور کیجئے تو کچھ سبق آموز باتیں سامنے آئیں گی۔
۱۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان محصور ذہنیت (beseaged mentality) میں جی رہے ہیں۔ اُن کے نااہل دانشوروں اور لیڈروں نے اُنہیں یہ بتا رکھا ہے کہ وہ مظلوم ہیں اور دشمنوں کی سازش کا شکار ہورہے ہیں۔ جولوگ ایسی نفسیات میں مبتلا ہوں اُن کا حال یہ ہوگا کہ وہ لڑائی کی زبان تو سمجھیں گے مگر وہ صُلح کی زبان سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔
۲۔ مسٹر عزت بیگووچ نے جو پیغام بھیجا وہ ایک ادھورا پیغام تھا۔ اس بنا پر وہ کسی کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتا تھا۔ عزت بیگووچ کا پیغام اپنی موجودہ شکل میں صرف مجبوری کے ہم معنیٰ ہے۔ اور کوئی بھی مسلمان مجبوری کے تحت کسی پالیسی کو اختیار کرنے پر راضی نہیں ہوگا۔ عزت بیگووچ کو چاہیے کہ وہ مسلح اقدام کے بجائے پُر امن اقدام کا طریقہ دریافت کریں۔ اس کے بعد لوگوں کے لیے اُن کا پیغام قابل فہم اور قابلِ قبول بن جائے گا۔
۳۔ مکہ کی مذکورہ کانفرنس کی روداد کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں بولنے والے تمام مسلمان صرف شکایت اور احتجاج کی بولی بولتے رہے، وہ مسائل پر تقریریں کرتے رہے۔ یہی موجودہ زمانہ میں تمام مسلم کانفرنسوں کا حال ہے۔ ہر کانفرنس میں صرف مسائل کا پُر شور تذکرہ ہوتا ہے۔ علماء اور دانشوروں کے اس مزاج نے موجودہ زمانہ کی تمام مسلم کانفرنسوں کو سراسر بے نتیجہ بنا دیا ہے۔ کانفرنس کا مقصد مواقع کار کی مثبت نشاندہی ہونا چاہئے، نہ کہ مسائل کے نام پر منفی چیخ وپکار، قرآن کے الفاظ میں، عُسر میں یُسر کی نشان دہی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کے تیرہویں سال مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اُس وقت آپ مسائل کے جنگل سے گذر کر وہاں پہنچے تھے۔ مدینہ پہنچ کر آپ نے وہاں کے لوگوں کے سامنے جو پہلا خطبہ دیا وہ ابن ہشام نے اس عنوان کے ساتھ نقل کیا ہے:
أول خطبۃ خطبہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المدینۃ (رسول اللہﷺ کا پہلا خطبہ جو آپ نے مدینہ میں دیا)۔
یہ پورا خطبہ سیرت ابن ہشام میںآج بھی موجود ہے۔ اُس کو پڑھیے تو اُس میں ایک لفظ بھی شکایت اور احتجاج کا نہیں ملے گا۔ اس پورے خطبہ کا خلاصہ اُن کے اس جملہ میں ہے: اتقوا النار و لو بشق تمرۃ (اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ کیوں نہ ہو)۔
عجیب بات ہے کہ اسی رسول کے امتی آج رسول کی سنت کے برعکس شکایت اور احتجاج کی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ حتیٰ کہ مکہ اور مدینہ میںبھی یہی خلاف سنت کام نہایت دھوم کے ساتھ جاری ہے۔ کوئی اللہ کا بندہ اگر اُنہیں اس روش کو ترک کرنے کی نصیحت کرے تو وہ اُس کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کی خلافِ سنت سرگرمیاں بلاشبہہ خدا کے غضبکو دعوت دینے والی ہیں، خواہ یہ سرگرمیاں مقدس مقامات پر کیوں نہ کی جارہی ہوں۔
اصل یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسانوں کا ظلم نہیںہے بلکہ وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کا انتباہ ہے۔ یہ سب مسلمانوں کو چوکنّا کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے فلاح کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ توبہ کریں۔ وہ تشدد کا راستہ مکمل طورپر چھوڑیں اور امن کا راستہ مکمل طورپر اختیار کرلیں۔ اسلام یا اہل اسلام کے نام پر وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اُس کو امن کے دائرہ میں رہتے ہوئے انجام دیں۔ اس کے سوا اُن کے لیے فلاح اور کامیابی کی کوئی صورت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

چند اسلامی مسائل

موجودہ زمانہ میںایک برائی ظاہر ہوئی ہے جس کو دہشت گردی (terrorism) کہا جاتا ہے۔ دہشت گردی کو عام طورپر کنڈم کیا جاتا ہے مگر دہشت گردی کیا ہے، اس کی کوئی واضح تعریف غالباً ابھی تک سامنے نہ آسکی۔ قرآن وحدیث کے مطالعہ سے میںنے سمجھا ہے کہ دہشت گردی نام ہے، غیرحکومتی تنظیموں کا ہتھیار اُٹھانا(armed action by NGOs) ۔
اسلام کے متفقہ اصول کے مطابق، جنگ کا اعلان صرف ایک قائم شدہ حکومت کا کام ہے(الرحیل للإمام) وہ چیز جس کو موجودہ زمانہ میں دہشت گردی کہا جاتا ہے، وہ سب کی سب غیرحکومتی تنظیموں کے مسلّح اقدام کے نتیجہ میںپیدا ہوئی ہے۔اس قسم کی مسلّح تحریک بلا شبہہ اسلام میں ناجائز ہے۔ عوام کو پُر امن انداز میں اپنی بات کہنے کا حق ہے مگر کسی بھی عذر کی بنا پر مسلّح تحریک چلانا عوام کے لئے ہر گز جائز نہیں۔
مزید یہ کہ ایک قائم شدہ حکومت کے لیے بھی جنگی اقدام کی کئی لازمی شرطیں ہیں۔ مثلاً ایک قائم شدہ حکومت بھی صرف دفاعی جنگ کر سکتی ہے، جارحانہ جنگ چھیڑنے کاحق حکومت کوبھی نہیں۔ اسی طرح ایک جائزجنگ بھی اعلان کے ساتھ لڑی جائے گی، بلا اعلان جنگ (undeclered war) کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں۔ اسی طرح ایک جائز دفاعی جنگ میںبھی حکومت صرف مقاتل (combatants) پر وار کرسکتی ہے، غیر مقاتل (non-combatants) کو مارنا یا اُن کو نقصان پہنچانا جنگ کی حالت میں بھی ہر گز جائز نہیں۔
ان حقیقتوںکو سامنے رکھئے تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں جنگ کی صرف ایک قسم کا جواز ہے، اور وہ دفاعی جنگ ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی جنگ، مثلاً ــــجارحانہ وار، پراکسی وار، گوریلا وار اور پھر بلا اعلان وار، یہ سب کی سب اسلام میں قطعی ناجائز ہیں۔ کسی بھی عذر کی بناپر اس قسم کی جنگوں کو اسلامی جنگ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
مذکورہ تعریف کے مطابق، دہشت گردی کی ہر تحریک یقینی طورپر ناجائز ہے، ایسی کسی تحریک کو اسلامی جہاد کا نام دینا اُس کو جائز نہیں بناتا۔ ایسی ہر کوشش گُناہ پر سرکشی کا اضافہ ہے، وہ یقینی طورپر ایسی کسی جنگ کا اسلامی جواز نہیں۔
کھُلی مذمت ضروری
قرآن و حدیث میں اہل ایمان کو جو احکام دیے گئے ہیں اُن میں سے ایک حکم وہ ہے جس کو انکار منکر کہا جاتا ہے۔ یعنی برائی کو دیکھنے کے بعد کھلے الفاظ میںاُس کی مذمت کرنا۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا ہے کہ کسی سماج میں اگر بُرائی ہورہی ہو تو اُس کو دیکھ کر چپ رہنا ایک سنگین جرم ہے۔ کسی آدمی کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ وہ براہِ راست طورپر بُرائی میں شریک نہیں۔ اگر وہ برائی کو دیکھنے کے باوجود چپ رہے تو وہ بالواسطہ طورپر اُس کا مجرم قرار پائے گا۔
مثلاً موجودہ زمانہ میں مسلمان جگہ جگہ جہاد کے نام پر وہ کام کر رہے ہیں جس کو ساری دنیا کا پریس دہشت گردی کے عنوان سے رپورٹ کرتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس معاملہ میں دنیا کے تقریباً تمام مسلمان خدا کی نظر میںمجرم ثابت ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے علم کے مطابق، ساری دنیا میںکوئی بھی قابل ذکر مسلمان نہیں جو تشدد کی اس برائی کو کھلے طورپر کنڈم کرتا ہو۔
مسلمانوں کی ایک تعداد وہ ہے جو اس متشددانہ سرگرمی کو عین اسلامی جہاد قرار دیتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ خود کُش بمباری (suicide bombing) کو استشہاد (طلب شہادت) کا نام دے کر اُس کو عین درست بتاتی ہے۔ مسلمانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو مذمت کے الفاظ بولتا ہے مگر حقیقت میں وہ مذمت نہیں ہوتی۔ مثلاً وہ کہیں گے کہ اسلام میں دہشت گردی نہیں، اسلام دہشت گردی کی اجازت نہیںدیتا۔ مگر وہ یہ نہیں کہیں گے کہ فلاں فلاں مقام پر مسلمان جو متشددانہ تحریک چلا رہے ہیں وہ دہشت گردی ہے اور وہ اسلام کے خلاف ہے۔ ایسی حالت میں اُن کی مذمت ایک خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں۔مسلمانوں کا ایک اور گروہ ہے جو بظاہر نام لے کر مذمت کرتاہے مگراسی کے ساتھ وہ ایسے دفاعی الفاظ بھی بولتاہے جس سے یہ ثابت ہو کہ اس دہشت گردی کی اصل ذمہ داری مسلم دشمنوں کی ہے، نہ کہ خود مسلمانوں کی۔
مذمت کے یہ طریقے یقینی طورپر غیر اسلامی ہیں۔ مذمت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ نہ صرف دہشت گردی کو خلاف اسلام بتایا جائے بلکہ مختلف مقامات پر جہاد کے نام پر جو دہشت گردی ہو رہی ہے اُس کو کھلے لفظوں میں رد کیا جائے اور کہا جائے کہ یہ جہاد نہیں ہے بلکہ فساد ہے۔
مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ کی یہی مجرمانہ خاموشی ہے جس کی بنا پر یہ ہورہا ہے کہ جہاد کے نام پر ہونے والا تشدد کسی طرح ختم نہیں ہوتا۔ اس مجرمانہ تشدد میں خود ساختہ مجاہدین اگر براہ راست شریک ہیں تو بقیہ مسلمان بالواسطہ طورپر اس میںشریک ہیں۔ اور اسلامی نقطۂ نظر سے، براہ راست شرکت اور بالواسطہ شرکت کے درمیان صرف ڈگری کا فرق ہے، اُن کے درمیان نوعیت کا کوئی فرق نہیں۔
ناکامی کا کیس
امن کی طاقت تشدد کی طاقت سے زیادہ ہے۔ مزید یہ کہ امن دانش مندو ں کا طریقہ ہے اور تشدد نادانوں کا طریقہ۔ ایسی حالت میں جب کوئی شخص تشدد کرتاہے تووہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے زیادہ طاقتور طریقہ استعمال کرنے میں ناکام رہا۔ اسی طرح ایسا آدمی اپنے متشددانہ عمل سے یہ بھی ثابت کررہا ہے کہ وہ اپنے مسئلہ کو حل کرنے کے معاملہ میںایک نادان آدمی ثابت ہوا، نہ کہ دانش مند آدمی۔
امن اورتشدد سادہ طورپر صرف دو طریقے نہیں ہیں۔ بلکہ وہ انسانیت کے دو مختلف معیار ہیں۔ امن کا طریقہ اختیار کرنے والا آدمی اپنی انسانیت کو بلند کرتا ہے اور تشدد کا طریقہ اختیار کرنے والا آدمی اپنے آپ کو انسانیت کے اعلیٰ معیار سے نیچے گرا لیتاہے۔
کوئی مسئلہ پیش آنے کے بعد جب ایک آدمی امن کا طریقہ اختیار کرتاہے تووہ اپنے اندر مثبت سوچ کو فروغ دیتا ہے۔ وہ اپنے اخلاقی معیار کوبلند کرتاہے۔ وہ اپنی شخصیت کو بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی حیثیت کو عملی طورپر ثابت شدہ بناتا ہے۔ اس کے برعکس جب ایک آدمی اپنے مسئلہ کے حل کے لیے تشدد کا طریقہ اختیار کرتاہے تو وہ اپنے آپ کو انسانیت کے نچلے درجہ کی طرف لے جاتاہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی حیثیت کو عملی طورپر مشتبہ بنا رہا ہے۔
امن اور تشدد دونوں کسی انسان کی اصل حیثیت کی پہچان ہیں۔ ایک طریقہ اگر انسان کو انسان ثابت کرتاہے تو دوسرا طریقہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک حیوان تھا، اگر چہ ظاہری طورپر وہ ایک انسان دکھائی دے رہا تھا۔
مذہب خطرہ میںہے
نفرت اور تشدد کا ایک سبب وہ جذباتی سیاست ہے جو اس نعرہ پر چلتی ہے کہ مذہب خطرہ میںہے۔ کچھ لکھنے اور بولنے والے لوگ غلط یا مبالغہ آمیز تصویر پیش کرکے عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ اُن کا مذہب دوسروں کی طرف سے خطرہ میں ہے۔ اب تحفظ مذہب کے نام پر جلسہ اور جلوس اورنعرے اور جھنڈے کی سیاست چل پڑتی ہے۔ یہ سیاست مذہب کو تو خطرہ سے نہیں بچاتی البتہ مذہب کو خطرہ سے بچانے کے نام پر پورے سماج کے امن کو تباہ کرکے اُس کو خطرہ میں ڈال دیتی ہے۔
اگر مذہب خطرہ میں ہو تو ظاہر ہے کہ کوئی غیر ہوگا جو مذہب کو خطرہ میں ڈالے ہوئے ہوگا۔ اس طرح ’’مذہب خطرہ میں‘‘ جیسی سیاست ایک گروہ کے دل میں دوسرے گروہ کے خلاف نفرت پیدا کرتی ہے۔ پھر نفرت کی سیاست سے جب مذہب کے خلاف مفروضہ خطرہ ختم نہیں ہوتا تو اس کے بعد لوگوں کے اندر مایوسی کی سیاست شروع ہوتی ہے۔ مایوسی کی سیاست اپنی آخری تدبیر کے طورپر تشدد کی سیاست جاری کردیتی ہے۔ پھر جب تشدد کی سیاست کار گر ثابت نہیں ہوتی تو خود کُشی کی سیاست شروع ہوجاتی ہے۔ جوش میں بھرے ہوئے نوجوان اپنی بڑھی ہوئی نفرت کو اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف خود کش بمباری کی صورت میں انڈیل دیتے ہیں۔ مذہبی خطرہ کی سیاست اپنی آخری حد پر پہنچ کر مذہبی خود کُشی کی سیاست بن جاتی ہے۔ زندگی کے نام پر اُٹھنے والے لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے صرف موت کا پیغام ثابت ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس تباہ کن سیاست سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ تشدد کو ایک ایسا فعل قرار دیا جائے جو ہر حال میں قابل ترک ہو۔ کوئی بھی عذر، خواہ وہ بظاہر کتنا ہی بڑا ہو، تشدد کے طریقہ کو استعمال کرنے کے لیے کافی نہ سمجھا جائے۔
موجودہ دنیا اختلافات کی دنیا ہے۔ یہاں ہر آدمی مسٹر ڈفرنٹ اور ہر عورت مِزڈ فرنٹ ہے۔ اس لیے اس دنیا میں لازمی طورپر لوگوں کے درمیان طرح طرح کے اختلافا ت پیدا ہوتے ہیں۔ یہی اختلاف جذباتی صورت اختیار کرکے لوگوں کو نفرت اورتشدد تک پہنچاتا ہے۔ اور پھر سارا سماج قبرستان کا نمونہ بن جاتا ہے۔
اس مسئلہ کا ایک ہی حل ہے۔ اور وہ یہ کہ لوگوں کے اندر یہ ذہن بنایا جائے کہ تم کوہر حال میں امن کے دائرہ میںکام کرنا ہے۔ کسی بھی حال میں تم کو امن کے دائرہ سے باہر نہیںجانا ہے۔ یہ ذہن اُس وقت بن سکتا ہے جب کہ لوگوں کو اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کیا جائے کہ اس دنیا میں کوئی کام صرف امن کے ذریعہ بنتاہے، تشدد کے ذریعہ کبھی کوئی کام بننے والا نہیں۔ تشدد صرف تخریب میںمعاون ہوتا ہے، تشدد کبھی تعمیر میں معاون نہیں ہوتا۔
’’مذہب خطرہ میں‘‘ جیسی سیاست کے ذریعہ کا یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ کچھ ہائی پروفائل میں بولنے والے لوگ قائد بن کر اُبھرآئیں۔ وہ وقتی طور پر لوگوں میں نمایاں ہوجائیں۔ اُن کے گرد عوام کی بھیڑ اکٹھا ہو۔ مادّی رونقیں اُنہیں حاصل ہوجائیں۔ مگر جہاں تک مذہب اوراہلِ مذہب کا تعلق ہے، اُن کے حصہ میں صرف یہ آتا ہے کہ معتدل ماحول سے محروم ہوکر وہ نفرت کے ماحول میں جینے پر مجبور ہوجائیں۔ تشدد کا شکار ہو کر وہ اپنے مستقبل کو غیر محفوظ بنالیں۔
مذکورہ قسم کی سیاست کا آخری نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ کچھ افراد ممتاز افراد (celebreties) بن کر نمایاں ہوجائیں۔ مگر یہ طریقہ مثبت معنوں میں قوم کی تعمیر نہیں کرتا اور نہ کرسکتاہے ۔ یہ طریقہ لیڈر سازی کے لیے کارآمد ہے، مگروہ ملت سازی کے لیے ہر گز کار آمد نہیں۔
انتقام سے تشدد تک
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص کو دوسرے شخص سے کوئی تکلیف پہنچ جائے یا ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طرف سے کوئی ٹھیس پہنچے تو فوراً اُن کے اندر انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ وہ فریقِ ثانی سے انتقام لینے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ تاریخ کی اس وارننگ کو بھول جاتے ہیں جو ہر جگہ خاموش الفاظ میںگونج رہی ہیــــــانتقام لینے سے پہلے سوچ لو کہ انتقام کا بھی انتقام لیا جائے گا۔
چنانچہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے خلاف انتقام کی کارروائی کرتاہے۔ پھر دوسرا فریق دوبارہ پہلے فریق سے انتقام لیتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جو صرف اُس وقت ختم ہوتا ہے جب کہ دونوں اتنے تباہ ہوجائیں کہ وہ مزید انتقام لینے کے قابل نہ رہیں۔کسی فرد یا گروہ کے خلاف کوئی قابل شکایت بات پیش آئے تو اُس کا حل جوابی کارروائی نہیںہے بلکہ اُس کو درگذر کرکے آگے بڑھ جانا ہے۔ درگذر کرنے سے معاملہ پہلے ہی مرحلہ میں ختم ہوجاتا ہے۔ اوراگر درگذر نہ کیا جائے تو نفرت اورانتقام اورتشدد کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجاتاہے جو کبھی ختم نہیںہوتا۔
انتقام کا رُخ دوسرے کے خلاف ہوتا ہے مگر اس کا سب سے زیادہ شکار خود انتقام لینے والا بنتا ہے۔ انتقامی پالیسی کی بھاری قیمت اُس کو یہ دینی پڑتی ہے کہ اُس کادماغ منفی سوچ کا کارخانہ بن جائے۔ وہ اپنے وسائل کواپنی تعمیر میں صرف کرنے کے بجائے اُنہیں صرف دوسرے کی تخریب میںصرف کرنے لگے۔ دوسرے فریق نے اگر آپ کو پچاس فی صدنقصان پہنچایا تھا تو آپ اپنی انتقامی کارروائی کے نتیجہ میں اپنی بقیہ پچاس فی صد طاقت کو بھی ضائع کردیتے ہیں۔
انتقام کا مطلب یہ ہے کہ قاتلانہ حملہ کے بعد کوئی شخص خود اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی کوشش کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتقام ہر حال میں بُرا ہے اور انتقام نہ لیتے ہوئے معاملہ کو بھُلا دینا ہر حال میں اچھا ہے۔ انتقام لینے والا اگر آپ کا دشمن تھاتو انتقام لے کر آپ خود اپنے دشمن بن جاتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے دشمن آپ بن جائیں اُن کو تباہی سے کون بچا سکتاہے۔
جنگ کا زمانہ ختم
وسیع تر تقسیم میں جنگ کے دو دور ہیں۔ ایک وہ ابتدائی دور جب کہ جنگی مقابلہ کا فیصلہ تلوار کے ذریعہ ہوتا تھا۔ دوسرا دور جدید دور ہے جب کہ لڑائی میں بم کی طاقت استعمال کی جاتی ہے۔ دونوں دوروں میںایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ تلوار جب چلائی جاتی تھی تو وہ صرف ایک دشمن کی گردن کو کاٹتی تھی۔ اب بم کے زمانہ میں جنگ کا مطلب یہ نہیں۔ اب جنگ کا مطلب صرف تباہی ہے۔ جو بم دشمن کے اوپر ڈالا جاتا ہے وہ مختلف پہلوؤں سے خود ڈالنے والے کے لیے بھی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ ایسی حالت میں جنگ ایک بے فائدہ عمل بن چکی ہے۔ اب جنگ ایک دیوانگی ہے، نہ کہ کسی مقصد کے حصول کے لیے اقدام۔
حقیقت یہ ہے کہ نئے ہتھیاروں کے ظہور کے بعد جنگ اب ایک قابلِ ترک چیز بن چکی ہے۔ جب جنگ مثبت معنوں میں بے نتیجہ ہو جائے تو ایسی حالت میں جنگ چھیڑنا ایک دیوانگی ہے، نہ کہ عقل مندی۔
زمانہ کے خلاف
موجودہ زمانہ گلوبلائیزیشن (globlisation) کا زمانہ ہے۔ ساری دنیا ایک گلوبل ویلیج کی مانند ہوگئی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے توموجودہ زمانہ میںتشدد یا مسلّح جدوجہد ایک ایسی چیز بن چکی ہے جو زمانہ کے خلاف عمل (anachronism) کی حیثیت رکھتی ہے۔
موجودہ زمانہ میںجو لوگ ہتھیار کی لڑائی لڑ رہے ہیں اُن سے پوچھئے کہ وہ کیوں جنگ کررہے ہیں تو وہ بتائیں گے کہ قائم شدہ حکومت کو بدلنے کے لیے وہ جنگ کررہے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ ہم ایک نیا نظام بنانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے حکومت پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔ مگر یہ بات صرف زمانہ سے بے خبری کانتیجہ ہے۔
موجودہ زمانہ میں ایسی تبدیلیاں ہوچکی ہیں کہ اب کسی کو حکومت پر قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ حکومت پر قبضہ کئے بغیر ہر وہ کام کرسکتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔
برداشت کی ضرورت
عدم برداشت کا نتیجہ تشدد ہے، اوربرداشت کا نتیجہ امن۔ انہی دو لفظوں میں امن اور تشدد کا خلاصہ پایا جاتا ہے۔ جس سماج میںبرداشت کی صفت ہو، اس سماج میں امن کا ماحول رہے گا۔ اور جس سماج کے لوگوں میں برداشت کا مزاج نہ ہو وہاں تشدد ہونے لگے گا۔ اور تشدد نہ تشدد کرنے والے کے لیے مفید ہے اور نہ اُن لوگوں کے لیے مفید جن کے اوپر تشدد کیا گیا ہے۔
برداشت ایک اعلیٰ اخلاقی اورانسانی صفت ہے۔ اس کے مقابلہ میںبرداشت نہ کرنا ایک حیوانی صفت ہے۔ برداشت مجبوری نہیں، برداشت ایک اعلیٰ ترین عمل ہے۔ لوگ جس مقصد کو بے برداشت طورپر حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کو برداشت کے ذریعہ زیادہ بہتر طورپر حاصل کیا جاسکتاہے۔ کوئی ناخوش گوار صورت حال پیش آنے پر آدمی جب بے برداشت ہوجائے تو وہ اپنے آپ کومقابلہ کے لیے کمزور کر لے گا۔ لیکن جب وہ ناخوش گوار صورت حال میںبرداشت کے رویّہ پر قائم رہے تو وہ اپنی ساری طاقتوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ وہ زیادہ مؤثر طورپر پیش آمدہ صورت حال کا مقابلہ کرسکتاہے۔
ناخوش گوار صورت حال پیش آنے کے باوجود بے برداشت نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی اپنے آپ پر کنٹرول کرنے کی طاقت رکھتاہے۔ اور جس آدمی کے اندر یہ طاقت ہوکہ وہ اپنے آپ پر کنٹرول کرسکے، وہ اتنا زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے کہ کسی کے لیے بھی اُس کو شکست دینا ممکن نہیں۔
امن کے فائدے
دنیا کے تمام اچھے کام پر امن کوشش کے ذریعہ ہوئے ہیں۔ تشدد کی طاقت سے کبھی کوئی اچھا کام نہیں ہوا۔ کوئی پُل، کوئی سڑک کبھی بھی تشدد کی طاقت سے نہیںبنے۔ سائنس کی دریافتیں اور ٹکنالوجی کی ترقیاں کبھی تشدد کی طاقت سے ظہور میں نہیں آئیں۔ تعلیم گاہیں اور تحقیق کے ادارے کبھی تشدد کی طاقت سے نہیں بنے۔ لوہے کا مشین میں ڈھلنا یا سٹی پلاننگ جیسے کام امن کے ذریعہ انجام پائے، نہ کہ تشدد کے ذریعہ۔ سماجی فلاح سے لے کر انفراسٹرکچر تک ہر کام ہمیشہ پُر امن تدبیروں کے ذریعہ تکمیل پذیر ہوئے ہیں۔
تشدد ایک تخریبی عمل ہے۔ اورایک تخریبی عمل کے ذریعہ کبھی کوئی تعمیری واقعہ ظاہر نہیںہوسکتا۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ اور فطرت کے قانون میں تبدیلی ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بے بنیاد شکایت

ہندستان کے ایک مسلمان تاجر ہیں۔ پہلے وہ الرسالہ کے باقاعدہ قاری تھے۔ پھر ایک مسئلہ پر اُن کو شکایت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمیشہ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں اور ہندوؤں کے خلاف کبھی نہیں لکھتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہندوؤں کے ایجنٹ ہیں۔ آپ کو ہندوؤں کی طرف سے اس کام کے لئے پیسہ ملتا ہے کہ آپ ہندو۔ مسلم معاملات میں مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔ اس قسم کی بات کہہ کر اُنہوں نے الرسالہ کی خریداری بند کردی۔ اُنہوں نے نہ صرف الرسالہ کا مطالعہ چھوڑ دیا بلکہ وہ اس کے مخالف بن گئے۔
کئی سال بعد ۱۶ اپریل ۲۰۰۲ء کو دہلی میں اُن سے ملاقات ہوئی۔ میںنے کوئی اختلافی بات کیے بغیر اُن سے کہا کہ آپ اپنی زندگی کا کوئی خاص تجربہ بتائیے۔ اُنہوں نے کہا کہ میرا تجربہ یہ ہے کہ مسلمان دنیا کے سب سے زیادہ غیر سنجیدہ لوگ ہیں۔ اُن کے الفاظ میں ، مسلمان لفظ کا اگر انگلش ترجمہ کیا جائے تو وہ اِن سینسیر(insincere) ہوگا۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ اسی ذاتی تجربہ کی بنیاد پر اُنہوں نے اب اپنا پارٹنر ایک ہندو کو بنایا ہے۔ ہندو کی پارٹنر شپ میںان کا کاروبار کافی ترقی کررہا ہے۔
مگر عبرت انگیز بات ہے کہ مذکورہ مسلم تاجر نے نجی ملاقات میں تو یہ بات کہی لیکن وہ اس بات کو اسٹیج پر کہنے کے لیے تیار نہ تھے۔ نیز اُنہوں نے الرسالہ کی نسبت سے اپنی پچھلی غلطی کا اعتراف بھی نہیں کیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ کا یہی دہرا معیار موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کے جو صاحب فہم اور صاحبِ علم افراد ہیں وہ اپنی نجی گفتگو میں ہمیشہ اسی قسم کی بات کرتے ہیں مگر وہ پبلک میں اُسے کہنے کے لیے تیار نہیں ۔ اس دہرا معیار کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خود اپنا معاملہ تو ہوشیاری کے ساتھ درست کئے رہتے ہیں مگر مسلم عوام کو ذہنی گمراہی میں ڈال کر اُنہیں اُس کا انجام بھگتنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
اس قسم کے لوگ اپنا ذاتی مسئلہ تو ہوشیاری کے ساتھ درست کر لیتے ہیں مگر وہ عوام کو بدستور بے شعوری کی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔ تاکہ وہ اُس کی بھاری قیمت ادا کرتے رہیں اور کبھی ترقی نہ کرسکیں۔ مسلمانوں کے لیے صحیح انداز غیر جانبدارانہ نصیحت کا انداز ہے۔ مگر اُن میںسے کوئی نصیحت کی بولی بولنے کے لیے تیار نہیں۔
ہندستان میں مسلمانوں کے حالات کو میں ۱۹۴۷ سے مسلسل دیکھتا رہا ہوں۔ میرا تجربہ ہے کہ مسلمان اپنے مسئلہ کاحل قرآن میںنہیں ڈھونڈتے، وہ دوسروں کی باتیں سُن کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ اسلام اُن کی زندگی کا صرف ایک رسمی حصہ ہے۔ اسلام اُن کا قومی کلچر ہے، وہ اُن کا دین نہیں۔ موجودہ مسلمانوں کی اجتماعی سوچ، اُن کی ملّی پالیسی قرآن سے ماخوذ نہیں۔
اپوزیشن پارٹیوں کے بیانات، ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹیں، تعلیم یافتہ طبقہ کا اظہار خیال، یہی مسلمانوں کی ذہن سازی کے ذریعے ہیں۔ اُن کا مشترک طریقہ یہ ہے کہ وہ حالات کو قانون اور منطق کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ جب بھی اُنہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی تو خُدا نے اس آگ کو بجھا دیا(المائدہ ۶۴)
اس اعتبار سے دیکھئے تو دوسروں کا طریقہ آگ بھڑکانے والوں کی مذمت کرنا ہے ۔جب کہ قرآن کے مطابق، مسلمانوں کا طریقہ آگ بجھانے کا ہونا چاہئے، نہ کہ ایسا طریقہ اختیار کرنا جو آگ کو مزید بھڑکانے کا سبب بن جائے۔ اس طرح کے معاملات میں قرآن کا طریقہ اصلاحِ خویش کے اصول پر قائم ہے اور دوسروں کا طریقہ احتساب غیر کے اصول پر۔
واپس اوپر جائیں

سکون کا سرچشمہ

مسٹر نٹور سنگھ (۷۱ سال) انڈیا کے ایک ممتاز لیڈر ہیں۔ وہ اپنے وسیع مطالعہ کے لیے مشہور ہیں۔ اُن کے ساتھ ایک شدید خاندانی حادثہ ہوا۔ اُن کی جوان بیٹی ریتو اور ان کی جوان بہو نتاشا صرف ایک مہینہ کے وقفہ سے حادثہ کا شکار ہو کر مرگئیں۔ اس کے فوراً بعد کانگریس کی صدر مسز سونیا گاندھی تعزیت کے لیے نئی دہلی میں اُن کے گھر گئیں۔ اُس وقت مسٹر نٹور سنگھ اپنے کمرۂ مطالعہ(study) میں تھے۔ یہاں انہوں نے دنیا بھر کی دس ہزار منتخب کتابیں اکٹھا کی ہیں۔ مسٹر نٹور سنگھ نے اُن کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسز سونیا گاندھی سے کہا کہ ان کتابوں میں ملکی حکمت موجود ہے۔ صدیوں کی حکمت کا خلاصہ یہاں پایا جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بھی ایسی کتاب موجود نہیں جس کو پڑھ کر میںاپنے آپ کو تسکین دے سکوں:
Here you have the wisdom of the world, wisdom of the ages in concentrated form, but there is not a book I could pick up to console myself. (Hindustan Times, New Delhi, June 2, 2002, P. 14)
مسٹر نٹور سنگھ کیوں اپنے کمرۂ مطالعہ میں وہ کتاب نہ پاسکے جو اُنہیں مذکورہ حادثۂ موت کے موقع پر تسکین دے ۔ اس کا جواب خود اس انٹرویو کے اندر موجود ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مسٹر نٹور سنگھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں مذہب میں یقین نہیں رکھتا، البتہ میں روحانیت کو مانتا ہوں۔
I don't believe in religiosity. I believe in spritualism.
مذہب کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، اور روحانیت کا فکری نظام خود انسان کے اپنے تصور پر۔ خدا کے عقیدہ سے الگ ہو کر روحانیت کا جو تصور ہے وہ اس مفروضہ پر قائم ہے کہ انسان کے اپنے اندر امکانی طورپر سب کچھ چھپا ہوا ہے، اس لیے تم اپنی داخلی دنیا میں دھیان لگاؤ۔وہاں تم کو سب کچھ مل جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کو جو کچھ پانا ہے وہ خود اپنے آپ سے پانا ہے۔ یہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جو انسان مسئلہ کا شکار ہو وہ خود ہی اپنے مسئلہ کا حل کیسے بنے گا۔
مذہب جس کی نمائندگی اسلام کرتا ہے، اُس کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ مذہبِ اسلام کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، یعنی وہ ذات جو قادر مطلق ہے اور جس نے انسان کو قرآن کی صورت میں کامل رہنمائی عطا فرمائی ہے۔
قرآن میں مذکورہ قسم کے مسئلہ کا حل واضح طورپر ملتا ہے۔ اس سلسلہ کا ایک براہ ِ راست حوالہ یہ ہیــــولکل امۃ اجل فإذا جاء اجلہم لا یستأخرون ساعۃ ولا یستقدمون (الاعراف۳۴) یعنی ہر امت (اور ہر انسان) کے لیے ایک مقرر مدت ہے۔ جب اُن کی مدت پوری ہو جائے گی تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکیں گے، نہ آگے بڑھ سکیں گے۔
اس قرآنی تصور کے مطابق، ہر انسان جو دنیا میں آتا ہے وہ صرف اس لیے آتا ہے کہ وہ ایک مقرر مدت پوری کرنے کے بعد یہاں سے چلا جائے۔ گویا انسان کی موت ایک ایسا واقعہ ہے جو بہر حال ہونے والا تھا اور وہ ٹھیک اپنے وقت پر ہوگیا۔ اس اعتبار سے موت ایک فطری حقیقت ہے، ایک ایسی فطری حقیقت جس کی تبدیلی پر انسان قادر نہیں۔
یہ عقیدہ انسان کے اندر اعترافِ حقیقت کا ذہن پیدا کرتا ہے، اور حقیقت کا اعتراف اپنے آپ انسان کو وہ چیز دے دیتا ہے جس کو مسٹر نٹور سنگھ نے تسلّی (console) سے تعبیر کیا ہے۔
انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آدمی کے ساتھ اگر کوئی چیز حسب توقع پیش آئے تو اُس کا ذہن پیشگی طورپر اُس کا استقبال کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ ایسی چیز کو وہ معتدل انداز میں قبول کرلیتا ہے۔ البتہ اگر پیش آنے والا واقعہ اُس کے لیے غیر متوقع ہو تو اُس کا ذہن پیشگی طورپر اُس کی قبولیت کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی وہ فرق ہے جس کی بنا پر ایک انسان موت کے حادثہ کو معمول کے واقعہ کے طورپر لیتا ہے۔ اور دوسرے انسان کے ساتھ جب موت کا واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اُس کے لیے ایک ایسے صدمہ (shock) کا سبب بن جاتا ہے جس کا وہ متحمل نہ ہوسکے۔
واپس اوپر جائیں

سوالات (روزنامہ ہندستان، ممبئی)

۱۔ گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جوہوا اور ہور ہا ہے ،عین ممکن ہے کہ فرقہ پرستوں کی اس کامیابی کے بعد دیگر ریاستوں میں بھی اسے دہرایا جائے۔ مسلمان ہنوز منتشر ہیں تو کیا سیاسی، سماجی ، تہذیبی، معاشی گویا ہر سطح پر یہ بات مسلمانوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہے، اگر ہے تو ان حالات میں مسلمان اب کیا کریں۔
۲۔ گجرات یا ملک کے دیگر حصوں میں جب جب او رجہاں بھی فسادات ہوئے اور ہورہے ہیں وہاں پر فرقہ پرستوں نے یہ نہیں دیکھا کہ کون دیوبندی، بریلوی، یاشیعہ اور اہل حدیث ہے بلکہ بنام ’’مسلم‘‘ سب کی جان و مال کو نقصان پہنچایا اور انہیں معاشی طورپر تباہ و برباد کیا، تو کیا اب بھی مسلکی اختلافات سے چمٹے رہنا مسلمانوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہے؟ اگر ہے تو کیا اس کے لئے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھانا چاہئے۔
۳۔ آج ملّت اسلامیہ کی بقاء کا مسئلہ کھڑا ہے۔ ایسے حالات میں ملت اسلامیہ کی بقاء کیوں کر ممکن ہے؟
۴۔ ہندستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں سر گنے جاتے ہیں ۔اس بات کو سمجھتے ہوئے بھی ہم مسلکی اختلافات کی بنا پر بوقت الیکشن مختلف الرائے ہو کر اپنی صفوں کو کمزور اور غیروں کی صفوں کو مضبوط بنا دیتے ہیں، تو کیا یہ مفادِ ملّت کے خلاف نہیں ہے، اس سلسلہ میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔
۵۔ یہودونصاریٰ مسلمانوں اور اسلام کے کٹّر دشمن ہیں، قرآن واحادیث میں بھی اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مگر ہمارے یہاں سب سے زیادہ اہمیت مسلکی اختلافات اور فرقہ بندی کو دی جاتی ہے۔ حضور ﷺ نے اپنی امت میں تہتر ۷۳ فرقے بننے اور ان میں سے صرف ایک کے جنت میں جانے کی پیشین گوئی ضرور کی ہے مگر باقی دیگر کو اپنی امت کہا ہے، اسلام دشمن نہیں ۔ ایسی صورت میںاسلام کے سب سے بڑے دشمن کون۔آیا وہ یہود ونصاریٰ جو کہ دنیا میں اسلام کے وجود کو ہی نہیں پسند کرتے یا پھر وہ کلمہ گو جو دیگر مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
۶۔ اگر انتشار سے ملت کو نقصان ہو رہا ہے تو اسلام میں اس کا کیا حل ہے۔
۷۔ اللہ اور اس کے رسول نے اجتماعی زندگی کو پسند کیا ہے۔ ملت کو یکجا رکھنے کا کتنا احسن طریقۂ اتحاد ہمیں دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دن میں پانچ بار اور ہفتے میںایک بار اور پھر عیدین کے موقعوں پر پوری ملت اسلامیہ مسجدوں میں یکجا ہوتی ہے جہاں پر امام کے ذریعے اپنی صفوں کو سیدھا رکھنے کی تاکید کی ہے۔ اگر علماء کرام اس کی اہمیت کو سمجھ لیں اور اسے اپنا مرکز بنا کر اس اسلامی منشور پر عمل پیرا ہو جائیں تو کسی شور و غل کے بغیر پو ری ملت بقائے باہم کے لیے یکجا ہوسکتی ہے جس کا اثر یہ ہوگا کہ ملک میں فرقہ پرستوں کی ہوا اکھڑ جائے گی اور تب ہم مظلوم نہیں بلکہ بادشاہ گر ہوں گے، مگر ایسا نہیں ہے۔ آخر آپ لوگ مسجدوں سے ملت کو یکجا کرنے کی تلقین کیوں نہیں کرتے۔
۸۔ ہندستان میں ہندوؤں کے بعد مسلمان ہی سب سے بڑی قوم ہیں۔ آپ انہیں بنام مسلم باہم متحد کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل کیوں نہیں بناتے جس سے قوم طاقتور بنے۔ مگر اس کے بجائے آپ لوگ انہیں منتشر کرنے میں پوری طاقت لگاتے ہیں، ایسا کیوں۔
۹۔ عام خیال یہ ہے کہ مسلمانوں میں انتشار کے لئے علماء ذمہ دار ہیں، کیا یہ سچ ہے۔
۱۰۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملی اتحاد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ذاتی مفادات ہیں۔ آپ کی نظر میں ذاتی مفادات پر ملی مفاد کی کیا اہمیت ہے۔
۱۱۔ آپ کے نزدیک علماء کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کس بات کو دینی چاہئے، مذہبی فرائض کی ادائیگی کو یا پھر محض دنیاوی مفاد کے لئے سیاستدانوں کا آلۂ کار بننے کو۔
۱۲۔ کیا ایک عالم کو سیاست میں حصہ لیناچاہئے۔
۱۳۔ دو مصیبتیں ہیں جس میں سے ایک چھوٹی اور دوسری بڑی ہے۔ اگر چھوٹی مصیبت کو گلے لگانے سے بڑی مصیبت سے بچا جاسکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کیا کیا جائے۔ آیا منتشر رہ کر ملت کو بھیڑیوں کا چارہ بننے دیں یا پھر دیگر مکتب فکر کے ساتھ متحد ہو کر اس بڑی مصیبت کا مقابلہ کریں۔
۱۴۔ خلفائے راشدین کو مذہب اسلام میں بنیاد یا ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ کیا ان کا بھی کوئی مسلک تھا۔ صحابۂ کرام کس مسلک سے وابستہ تھے۔ اگر وہ صرف اور صرف اسلامی قالب میں ڈھلے تھے تو پھر مسالک کو بنیادی حیثیت کیوں دی گئی۔کیا مسلمان صرف اور صرف حضور اکرم ﷺ کے دور کا مسلمان رہ کر صحیح اور سچا مسلمان نہیں کہلا سکتا ہے(صلاح الدین جوہر انصاری)
جوابات
۱۔ اس معاملہ میں کیا کریں ،کا جواب یہ نہیں ہوسکتا کہ ہندستانی مسلمان اپنا الگ سیاسی محاذ بنائیں۔ وہ ملی اتحاد کے مظاہرے کریں۔ وہ احتجاج اور مطالبہ کی مہم چلائیں۔ وہ اپنی مظلومیت اور دوسروں کے ظلم کا اعلان کریں۔ وہ تقریر اور تحریر کے ہنگامے جاری کریں۔ اس قسم کی تدبیریں پچھلے ۵۵ سال کے عرصہ میں بہت بڑے پیمانہ پر عمل میں لائی گئی ہیں اور وہ مکمل طورپر بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں۔
اب مسلمانوں کے لیے کرنے کا صرف ایک ہی کام باقی ہے جس کا ابھی تک عملی تجربہ نہیں کیا گیا، اور وہ دعوت ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کاحل ہمیشہ دعوت کے ذریعہ ہوا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں، عصمت من الناس کا راز تبلیغ ما انزل اللہ میں چھپا ہوا ہے (المائدہ ۶۷) اس میں کوئی شک نہیں کہ دعوت مسلمانوں کے مسائل کا یقینیحل ہے۔ دعوت اپنے اندر تسخیری طاقت رکھتی ہے۔مگر دعوتی عمل کو انجام دینے کی ایک لازمی شرط ہے۔ اور وہ یہ کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں ، بالفاظِ دیگر، داعی اور مدعو کے درمیان، نفرت او رکشیدگی کو یک طرفہ اعراض کے ذریعہ مکمل طورپر ختم کر دیا جائے۔ تاکہ دونوں کے درمیان دعوت کا ماحول قائم ہو۔شکایت و احتجاج کی بات کرنا اور اسی کے ساتھ دعوت کا نام لینا ایک مسخرہ پن ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں دعوتی عمل۔
۲۔ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث ،وغیرہ کے درمیان موجودہ قسم کے مسلکی اختلافات ہر حال میں غلط ہیں۔ فسادات ہوں یا نہ ہوں، انہیں بہر حال ختم ہونا چاہئے۔ جن چھوٹے چھوٹے اختلافات پر یہ گروہ بندیاں کی گئی ہیں وہ دور اول میں بھی موجود تھے لیکن وہ گروہ بندی کا سبب نہیں بنے۔ ان انتہا پسندانہ اختلافات کا سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis) ہے۔ یعنی اساسی باتوں پر زور دینے کے بجائے جزئی باتوں پر زور دینا۔ اس برائی کو ہر حال میں ختم ہونا چاہئے۔
۳۔ میرے نزدیک یہ کہنا صحیح نہیں کہ آج ملت اسلامیہ کی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے۔ ملت اسلامیہ کو خدا کا تحفظ حاصل ہے اور قیامت تک وہ بہر حال محفوظ رہے گی۔ میرے نزدیک جس چیز کی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے وہ ملت اسلامیہ نہیں ہے بلکہ وہ طریقِ کار ہے جو موجودہ زمانہ میں کچھ خود ساختہ لیڈروں کی رہنمائی میںاختیارکیا گیا۔ اور وہ پُر تشدد طریقِ کار ہے۔ میرے نزدیک تقریباً دوسوسال سے مسلمان جہاد کے نام پر پُر تشدد طریقِ کار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ طریقِ کار اب آخری طور پر ناکام ثابت ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ اب وہ پوری طرح پُر امن طریقِ کار کو اختیار کرلیں۔ پُر تشدد طریقِ کار کو وہ مکمل طورپر چھوڑ دیں، براہِ راست بھی اور بالواسطہ بھی، لفظی بھی اور عملی بھی۔
۴۔ میرے نزدیک الیکشن میں علیٰحدہ سیاسی محاذ آرائی مسلمانوں کے لئے تباہ کن ہے۔ اس قسم کی جداگانہ سیاست کو اُنہیں مکمل طورپر چھوڑ دینا چاہئے۔ میرے نزدیک جداگانہ تشخص کا تعلق مذہب سے ہے۔ جہاں تک الیکشنی سیاست کا تعلق ہے، اُس کو قومی ہونا چاہئے، مسلمانوں کے لیے بھی اور دوسرے فرقوں کے لیے بھی۔
۵۔ یہ بات اُصولاً غلط ہے کہ یہودونصاریٰ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ قرآن وحدیث میں جن یہودونصاریٰ کا ذکر ہے وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر یہود ونصاریٰ ہیں، نہ کہ ہر زمانہ کے یہود ونصاریٰ۔میرے نزدیک مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن خود وہ مسلمان ہیں جو دوسری قوموں کو اسلام دشمن بتا کر مسلمانوں کے دلوں میں اُن کے خلاف نفرت پیدا کرتے ہیں۔ اسلام کا طریقہ، اسلام دشمنوں کی نشاندہی کرنا نہیں ہے بلکہ دشمنوں کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کرکے اُنہیں اپنا دوست بنانا ہے۔ (فصلت ۳۴)
۶۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں جو تفریق اور انتشار پایا جاتا ہے، اُس کا سبب میرے نزدیک صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے، اختلاف اور تنقید پر غیر ضروری حسّاسیت۔ اس مسئلہ کا حل اختلاف اور تنقید کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ اختلاف اور تنقید کے بارے میں اپنی غیر فطری حساسیت کو ختم کرنا ہے۔ اتحاد ہمیشہ اختلاف کو برداشت کرنے سے ہوتا ہے، نہ کہ اختلاف کو مٹانے سے۔ کیوں کہ اختلافات کا مٹنا سرے سے ممکن ہی نہیں۔
۷۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی اصل کمی یہ ہے کہ ان کے اندر اسلام کی ظاہری صورت یا فارم والا اسلام تو موجود ہے مگر اسلام کی روح ان کے اندر موجود نہیں۔ وہ بہت بڑے پیمانہ پر اور لاکھوں مسجدوں میں ہر دن نماز کی ظاہری شکل کو دہراتے ہیں مگر نماز کی اصل روح جو اتحاد ہے، وہ ان کے اندر موجود نہیں۔ اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر اسلام کی اصل اسپرٹ کو زندہ کیا جائے جو خَوفِ خدا اور فکر آخرت پر ہوتی ہے۔ روح کے بغیر شکل اسی طرح بے قیمت ہے جس طرح پھل کے مغز کے بغیر اس کا چھلکا۔
۸۔ جہاں تک راقم الحروف کا تعلق ہے، میںمسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش ہی میں لگا ہوا ہوں۔ میرے نزدیک مسلم اتحاد جلسوں اور کانفرنسوں کے ذریعہ قائم نہیں ہوسکتا۔ وہ صرف اس طرح قائم ہوسکتا ہے کہ دلوں اور دماغوں میںروحِ اتحاد کو زندہ کیا جائے۔ اور میں یہی کام کررہا ہوں۔
۹۔ میرے نزدیک مسلمانوں کے انتشار کا سبب یہ ہے کہ اُن کے دلوں سے اللہ کا خوف نکل گیا ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا مقصد، دوسری قوموں کی طرح، صرف مال کمانا اور مادّی ترقی حاصل کرنا بن گیا ہے۔ یہ مزاج ہمیشہ حسد اور نفسانیت کے جذبات کی پرورش کرتا ہے۔ اور یہی موجودہ مسلمانوں میں بڑے پیمانہ پر پیدا ہوگیا ہے۔ اس معاملہ میں علماء اور غیر علماء کی کوئی تفریق نہیں۔
۱۰۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا گہرا جائزہ بتاتا ہے کہ اُن کے اندر اجتماعی شعور موجود نہیں۔ وہ ذاتی مقاصد کی تکمیل میں اتنا زیادہ گم ہیں کہ اجتماعی مقاصد کی اہمیت کی اُنہیں خبر ہی نہیں۔ مسلمانوں کی اس کمزوری کی اصلاح تعلیم اور شعوری بیداری کے ذریعہ ہی کی جاسکتی ہے۔
۱۱۔ موجودہ زمانہ کے علماء دو بڑی کمزوریوں کا شکار ہیں۔ ایک تقلید، جس نے اُنہیں ذہنی جمود میں مبتلا کردیا ہے۔ اُن کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ وہ عصری تعلیم سے دور ہونے کی بنا پر زمانہ کے جدید حالات سے بالکل بے خبر ہیں۔ علماء کی ان دو کمزوریوں نے انہیں اس قابل ہی نہیں رکھا ہے کہ وہ جدید مسلم نسلوں کی کامیاب رہنمائی کر سکیں۔
۱۲۔ سیاست میں حصہ لینا کوئی غلط یا غیر شرعی بات نہیں۔ مگر موجودہ زمانہ کے علماء اپنی فکری اور علمی پس ماندگی کی بنا پر اس قابل نہیںہیں کہ وہ سیاست میںکوئی مفید کردار ادا کرسکیں۔ جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ زمانہ کے علماء نے بڑے پیمانہ پر سیاست میں عملاًحصہ لیا ہے۔ مگروہ اپنے اس سیاسی عمل سے مسلمانوں کو تباہی کے سوا کچھ اور نہ دے سکے۔
۱۳۔ میرے نزدیک یہ مفروضہ غلط ہے کہ ملت بھیڑیوں کا چارہ بن رہی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ملّت خود اپنی غلطیوں کی قیمت ادا کررہی ہے۔ جہاں تک اہون البلیتین کا تعلق ہے، وہ ایک مسلّمہ شرعی اصول ہے۔ حدیث میں اس کو اختیار اَعسر کے مقابلہ میں اختیار ایسر کہا گیا ہے (صحیح البخاری)۔ حسب ضرورت اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں۔
۱۴۔ فقہی مسالک کوئی دور جدید کی چیز نہیں۔ وہ صحابہ اور تابعین کے زمانہ میںموجود تھے۔ جو فرق ہے وہ یہ کہ صحابہ اور تابعین کے زمانہ میں فقہی فروق کی بنیاد پر گروہی مسالک نہیں بنے۔ جب کہ موجودہ زمانہ میں اس قسم کے فروق کو لے کر انتہا پسندانہ گروہی مسالک بنا دیے گئے ہیں۔ اس معاملہ کو میں نے اپنی کتاب ’’تجدید دین‘‘ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اسلامی شریعت کے دوبڑے حصّے ہیں۔ ایک بنیادی احکام کا حصہ اور دوسرے ضمنی اور فروعی احکام کا حصہ ۔ بنیادی احکام سب کے سب یکساں ہیں، اُن میں کوئی فرق واختلاف نہیں۔ مگر ضمنی اور فروعی احکام میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ دونوں قسم کے احکام کے درمیان یہ فرق عین فطری ہے اور وہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ فروعی اختلافات کو توسع اور تنوع (diversity) پر محمول کیا جائے۔ اُن کے معاملہ میں رواداری کا انداز اختیار کیا جائے، نہ کہ شدت پسندی کا انداز۔
واپس اوپر جائیں