Pages

Sunday 1 February 2004

Al Risala | Februay 2004 (الرسالہ،فروری)

2

- اتحاد میں خدا کی مدد

4

- سیاسی اختلاف

6

- فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی اتحاد

26

- اتحاد ایمان کا حصّہ ہے

28

- ایک خط

29

- سوال و جواب


اتحاد میں خدا کی مدد

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اللہ عزوجل: انا ثالث الشریکین مالم یخن احدہما صاحبہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں دو شریکوں کے ساتھ تیسرا ہوتا ہوں، جب تک ان میں کا کوئی ایک ساتھی اپنے دوسرے ساتھ کے ساتھ خیانت نہ کرے۔
اس حدیث کو لفظی طورپر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوآدمی اگر خدا کے لیے آپس میں متحد ہوجائیں تو ان کے ساتھ خدا خود ایک تیسرے رکن کی حیثیت سے شریک ہوجاتا ہے اور جس اتحادی مجموعہ میں خود خدا شریک ہوجائے اس کی طاقت بلا شبہہ بے پناہ حد تک بڑھ جاتی ہے۔ ان کا اتحاد ناقابل تسخیر حد تک مضبوط ہوجاتا ہے۔
یہ کوئی پر اسرار بات نہیں۔ یہ ایک سادہ فطری حقیقت ہے ۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ جب کچھ لوگ صرف اللہ کی خاطر متحد ہوں تو ان کی نفسیاتی حالت عام لوگوں سے مختلف ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملے کو اپنی ذات کی نظر سے دیکھنے کے بجائے خدا کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ انہیں اگر اپنے ساتھی سے کوئی شکایت ہو تو وہ یہ سوچ کر اسے بھلا دیتے ہیں کہ میں تو خدا کے لیے متحد ہوا ہوں نہ کہ کسی انسان کے لیے۔ کسی موقع پر اگر ان کی انا کو چوٹ لگتی ہے تو وہ اس کا اثر نہیں لیتے کیوں کہ وہ پہلے ہی اپنی اَنا کو خدا کے لیے چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں انہیں کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو وہ اس کی پروا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ میںنے آخرت کا فائدہ لینے کے لیے اس اتحاد میں شرکت کی ہے نہ کہ دنیا کا فائدہ لینے کے لیے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کے لیے متحد ہونا اپنے آپ میںایک طاقت ہے۔ خدا کے لیے متحد ہونے والے لوگوں میں وہ مزاج بن جاتا ہے جو اختلاف کا قاتل ہے۔ یہ رباّنی مزاج اس بات کی ضمانت بن جاتا ہے کہ کوئی بھی اختلافی سبب ان کے اتحاد کو نہ توڑے۔ وہ تمام اختلافات کو بھلا کر پوری مضبوطی سے اتّحاد کی رسّی کے ساتھ بندھے ہوئے رہیں۔
اتحاد کی یہ برکت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک اتّحادیوں میں خیانت کی ذہنیت نہ پیدا ہو۔ خیانت کیا ہے۔ خیانت یہ ہے کہ ایک شریکِ اتّحاد دوسرے شریکِ اتّحاد کا خیر خواہ نہ رہے، ایک شریکِ اتّحاد، دوسرے شریک اتّحاد کو غیر سمجھ لے۔ جب لوگوں میں یہ نفسیاتی برائی آجائے تو لوگوں کے دل ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ ان میں ایک دوسرے کو اپنا سمجھنے کا مزاج باقی نہیں رہتا۔ وہ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ جب ایسا ہو جائے تو ان کے اتحاد کی تمام اینٹیں ہل جاتی ہیں۔ ان کا آپس کا جوڑ ختم ہوجاتا ہے۔ اتّحاد کے افراد پہلے اگر جمی ہوئی اینٹوں کے مانند تھے تو اب وہ بکھری ہوئی اینٹوں کے مانند ہوجاتے ہیں۔ اب ان کا اتحاد بھی ختم ہوجاتا ہے اور ان کی طاقت بھی۔
اتحاد پیدا ہونا نہایت آسان ہے، مگر اتحاد کو باقی رکھنا اتنا ہی مشکل ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اتحاد کے بعد لازماً آپس میں شکایتیں پیدا ہوجاتیں ہیں۔ ایک کو دوسرے سے نقصان پہنچتا ہے۔ اب لوگوں کے لیے دو راستے ہوتے ہیں۔ ایک خیانت کا اور دوسرا اخلاص کا۔ اتحادی افراد میں جب خیانت کامزاج آجائے تو ان کی شکایتیں بڑھتی رہیں گی۔یہاں تک کہ ان کا اتّحاد ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوجائے گا۔ اس کے برعکس جب لوگوں میںاخلاص کا مزاج ہو تو ہر شکایت پیدا ہوتے ہی ختم ہوجائے گی۔ کوئی بھی شکایت اختلاف کے درجے تک نہ پہنچے گی۔
واپس اوپر جائیں

سیاسی اختلاف

حدیث کے مجموعوں میں کتاب الفتن کے تحت کثرت سے ایسی روایتیں آئی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشین گئی فرمائی ہے کہ میرے بعد حکمرانوں کے اندر بگاڑ پیدا ہوگا۔ لوگ اس سیاسی بگاڑ کی اصلاح کے نام پر حکمرانوں سے لڑیں گے۔ یہ لڑائیاں میری امت کو تباہ کردیں گی۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی جنگ سے شدّت کے ساتھ منع فرمایا۔ آپ نے تاکید کی کہ حکمرانوں میں خواہ تم کتنا ہی بگاڑ دیکھو مگر تم ان سے جنگ نہ کرنا۔ تم ان کے مقابلہ میں صرف صبر اور خاموشی کا طریقہ اختیار کرنا۔
اس سلسلہ میں حدیث کی ہر کتاب میںکثرت سے روایتں آئی ہیں۔ مثلاً رسو ل اللہﷺنے فرمایا: من کرہ من امیرہ شیئا فلیصبرہ (جو شخص اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ چیزدیکھے تو وہ اس پر صبر کرے)۔ اس موضوع پر سعودی عرب سے ایک کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے الغلو فی الدین (عبدالرحمن بن مُعلاّ اللویحق)۔ چھ سو صفحے کی اس کتاب میں اس موضوع پر تمام احادیث اور آثار کو جمع کردیا گیا ہے۔ تفصیل کے طالب اس کو دیکھ سکتے ہیں۔
تجربہ بتاتا ہے کہ تاریخ میں سب سے زیادہ لڑائیاں سیاسی اختلاف کی بنا پر پیدا ہوئی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاست کبھی پوری طرح بگاڑ سے خالی نہیں ہوسکتی۔ سیاسی اقتدار اور بگاڑ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اس میں کچھ نادر شخصیتوں کا استثناء ہوسکتا ہے۔ مگر عمومی قاعدہ یہی ہے۔
اب ایسا ہوتا ہے کہ لوگ جب سیاسی حکمرانوں میں بگاڑ دیکھتے ہیں تو وہ فوراً اس کی اصلاح کے نام پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ اصلاح سیاست کے نام پر حکمرانوں سے جنگ چھیڑ دیتے ہیں۔ یہ اصلاحی جنگ ہمیشہ فسادی جنگ بن جاتی ہے۔ پوری تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی اصلاح کے نام پر سیاسی حکمرانوں سے لڑائی کی گئی تو اس کے نتیجہ میںصرف بگاڑ اور فساد میں اضافہ ہوا، مزید یہ کہ مسلمانوں کا اجتماعی اتّحاد ٹوٹ گیا۔ مسلمان دو گروہ —حکمراں اورغیر حکمراں میںتقسیم ہوکر آپس میں لڑنے لگے۔ تمام دینی اور تعلیمی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئیں۔
ایسی حالت میں اہل اسلام کے لیے لازم ہے کہ وہ اخفّ المفسدتین کا طریقہ اختیار کریں۔ ایسی حالت میں حکمراں سے لڑنا زیادہ بڑی برائی ہے اور حکمرانوں سے ٹکراؤ کو اعراض کرتے ہوئے پُرامن دائرہ میںدینی اور تعلیمی خدمات انجام دیتے رہنا چھوٹی برائی۔ اور جب انتخاب چھوٹی برائی اور بڑی برائی کے درمیان ہوتو بہترین عقل مندی یہ ہے کہ بڑی برائی سے بچا جائے اور چھوٹی برائی کو گوارا کر لیا جائے۔
اتحاد اسی حکمت کی نقد قیمت ہے۔ جب بھی یہ حکیمانہ تدبیر اختیار کی جائے تو امّت کے اندر اتّحاد اور اتفاق کی فضا قائم ہوگی اور جب اس حکیمانہ تدبیر کو چھوڑ دیا جائے تو اس کے بعد لازماً ایسا ہوگا کہ اتحاد اور اتفاق کا خاتمہ ہوجائے گا،اور اسی کے ساتھ تمام تعمیری کاموں کا خاتمہ بھی۔
سیاسی بگاڑ کے موقع پر سوچنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ایک بگاڑ ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو درست کریں۔ اس کے مقابلے میں سوچنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر ہم بگاڑ کو درست کرنے کے لیے اٹھیں تو اس کا عملی نتیجہ کیا ہوگا۔ اسلام کی تعلیم بتاتی ہے کہ اہل ایمان کے لیے صرف دوسرا طریقہ درست ہے، پہلا طریقہ ان کے لیے درست نہیں۔ یعنی عملی نتیجہ کو دیکھ کر اقدام کرنا۔
جب حالات بتاتے ہوں کہ اہل ایمان اگراصلاح کے نام پر ارباب اقتدار کے خلاف اقدام کریں تو اس کا عملی نتیجہ الٹا نکلے گا۔ ایسا اقدام صرف بگاڑ کو بڑھانے کا سبب بنے گا جب صورت حال ایسی ہو تو اہلِ ایمان پر فرض ہوگا کہ وہ عملی اقدام سے اپنے آپ کو بچائیں۔ وہ دعا کریں اور خاموشی کے ساتھ پر امن دائرہ میں اصلاح کی کوشش کریں۔ ایسی حالت میںاہل اقتدار کے خلاف اقدام کرنا ایک گناہ کاکام ہے، وہ کوئی ثواب کا کام نہیں۔
واپس اوپر جائیں

فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی اتحاد

Communal Harmony and National Integration
بر صغیر ہند لمبی جدوجہد کے بعد ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو آزاد ہوا۔ یہ آزادی دو قومی نظریہ کے اصول پر ہوئی۔ تا ہم جو چیز تقسیم ہوئی وہ جغرافیہ تھا، نہ کہ قوم۔ یعنی انڈیا او رپاکستان کے نام پر دو ملک بن گئے مگردونوں قوم کے افراد دونوں حصوں میں بدستور آباد رہے۔ یہ ایک خطرناک صورت حال تھی۔ کیوںکہ قومی جھگڑے کو ختم کرنے کے نام پر ملک کو تو تقسیم کردیا گیا مگر قوم بدستور غیر منقسم رہی۔ اس طرح زمینی بٹوارہ کے باوجود نزاعی صورت حال بدستور قائم رہی، بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ۔ پہلے اگر وہ دو بے اقتدار قوموں کا جھگڑا تھا تو اب وہ دو بااقتدار ریاستوں کا جھگڑا بن گیا۔
اس مسئلہ کی نزاکت کو مہاتما گاندھی نے پہلے ہی دن محسوس کرلیا تھا۔ چنانچہ آزادی کے وقت اُنہوں نے اپنے ایک مضمون میں یہ تاریخی الفاظ لکھے تھے—ہندو ؤںاور مسلمانوں کو امن اور ہم آہنگی سے ایک ساتھ رہنا ہوگا، ورنہ میں اس کوشش میں اپنی جان دے دوں گا:
Hindus and Musalmans should learn to live together with peace and harmony, otherwise I should die in the attempt.
سوئے اتفاق سے مہاتما گاندھی کو آزادی ہند کے جلد ہی بعد گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ یہ بلاشبہہ بہت بڑا حادثہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امن و اتحاد قائم کرنے کا عمل اپنے پہلے ہی مرحلہ میں اپنے سب سے بڑے لیڈر سے محروم ہوگیا۔
جیسا کہ معلوم ہے، آزادی کے ساتھ ہی خطّ تقسیم کے دونوں طرف فرقہ وارانہ تشدد ایک بھیانک عمل کی صورت میں شروع ہوگیا۔ تشدد کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ آخر کار اُس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اس مسئلہ پر ایک نیشنل کانفرنس بلائی۔ اس کااجلاس نئی دہلی میں ۲۸ ستمبر سے یکم اکتوبر ۱۹۶۱ تک جاری رہا۔ اس کانفرنس میں اتفاق رائے سے ایک آرگنائزیشن (تنظیم) کی تشکیل کی گئی جس کا نام نیشنل انٹگریشن کونسل (قومی یکجہتی کونسل)تھا۔ اس کا مرکزی دفتر نئی دہلی میں قائم کیا گیا۔ اس تنظیم کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ وہ قومی یکجہتی سے متعلق تمام مسائل کا جائزہ لے اور ضروری سفارشیں پیش کرے۔
اس کونسل کا اجلاس دوسری بار ۲۔۳ جون ۱۹۶۲ کو نئی دہلی میںہوا۔ شرکاء نے تقریریں کیں اور فرقہ وارانہ مسئلہ کے حل کے لیے کئی تجویزیں پیش کیں۔ مگر ان تجویزوں پر کوئی عمل نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ دوبارکے بعد اس کونسل کاکوئی تیسرا اجلاس جواہر لال نہرو کی زندگی میں نہیں ہوا۔
اس کے بعد جب اندرا گاندھی ملک کی وزیر اعظم بنیں تو انہوں نے محسوس کیا کہ نیشنل انٹگریشن کونسل کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ اُنہوں نے ۲۰۔۲۱ جون ۱۹۶۸ کو سری نگر میں تنظیم کا اجلاس بُلایا۔ یہاں تفصیلی بحثیں ہوئیں۔ آخر کار ایک مکمل لائحہ عمل ترتیب دیاگیا۔ اس کا ایک حصّہ یہ تھا:
فرقہ وارانہ سرگرمی کے معنیٰ یہ قرار دیے جائیں کہ ہر وہ فعل جو مختلف مذہبی فرقوں، یا نسلی گروپوں یا ذاتوں یا برادریوں کے درمیان مذہب، نسل، ذات پات یا برادری کی بنیاد پر یا کسی بھی بنیاد پر دشمنی یا نفرت پھیلائے یا پھیلانے کی کوشش کرے۔ یہ جرم قابلِ دست اندازی پولیس ہو اور اُس کے تحت سزا پانے والے کو عوامی نمائندگی کے قانون کے تحت نااہل قرار دے دیاجائے۔ افواہ پھیلانا یا گھبرادینے والی خبریں اور افکار کی اشاعت کو دفعہ ۱۵۳ (اے) کے تحت جرم قرار دے دیا جائے۔
کونسل کے جلسوں میں اس قسم کی بہت سی تجویزیں اتفاق رائے کے ساتھ پاس کی گئیں۔ اُس کے بعد اُس کی تائید میں بہت سے قانون اور ضابطے بنائے گئے۔ مگر عملاً ان کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا۔ اس اعتبار سے ملک کی حقیقی صورت حال اب بھی تقریباً وہی ہے جیسی کہ وہ ۱۹۴۷ میں تھی۔
اس ناکامی کا سبب کیا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس مسئلہ کو سادہ طورپر لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ سمجھ لیاگیا۔ مگر اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے یہ مسئلہ لااینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں۔ وہ ذہنی تعمیر یا شعوری بیداری کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ لوگوں کوایجوکیٹ کیا جائے۔ اُن کے اندر صحیح سوچ پیدا کی جائے۔ اُن کے اندر یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو سمجھیں۔ وہ نتیجہ خیز عمل اور بے نتیجہ عمل کے درمیان تمیز کرنا جانیں۔ وہ یہ جانیں کہ اُنہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ وہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ عملی اقدام سے پہلے سوچنے کے مراحل کی تکمیل ضروری ہوتی ہے۔ عمل کو سوچ کے تابع ہونا چاہئے، نہ کہ سوچ کو عمل کے تابع بنا دیا جائے۔
اس قسم کا باشعور سماج گویا کہ وہ زمین ہے جہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فصل اُگائی جاسکتی ہے۔ قانون کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سماج کے استثنائی بگاڑکو جرّاحی جیسے عمل کے ذریعہ درست کیا جائے۔ کوئی بھی قانون سماج کی عمومی حالت کی اصلاح کے لیے نہیںہوتا۔ جرّاحی کا عمل جسم کی ایک جزئی بیماری کو شفا دینے کے لیے ہوتاہے۔ اگر پورا جسم عمومی طورپر مرض کا شکار ہوجائے تو ایسی حالت میں جرّاحی کے عمل کاکوئی فائدہ نہیں۔
یہاں میں اس مسئلہ کے چند بنیادی پہلوؤں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ پہلو براہِ راست طورپر عوام کی ذہنی تشکیل کے سوال سے تعلق رکھتے ہیں۔ بے حد ضروری ہے کہ ان سوالات کا واضح جواب ہمارے ذہن میں ہو تاکہ کسی کنفیوژن کے بغیر ذہنی تشکیل یا شعوری تعمیر کا کام عمل میںلایا جاسکے۔
مذہبی اختلاف
اس سلسلہ میں پہلا نظری مسئلہ وہ ہے جو مذہبی اختلاف سے تعلق رکھتا ہے۔ مذاہب کا تقابلی مطالعہ بظاہر یہ بتاتا ہے کہ مذاہب کے درمیان واضح اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً کسی مذہبی گروہ کا عقیدہ وحدتِ وجود(monism) کے تصور پر قائم ہے اور کسی گروہ کا عقیدہ توحید(monotheism) کے تصور پر قائم ہے۔ کسی مذہب میں خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) کا تصور ہے اور کسی مذہب میں الہامی سچائی(revealed truth)کا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مذہبی فرق و اختلاف ہی تمام فرقہ وارانہ نزاعات کی اصل جڑ ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی صرف اُس وقت پیدا کی جاسکتی ہے جب کہ کسی نہ کسی طرح ان مذہبی اختلافات کا خاتمہ کردیا جائے۔ کچھ انتہا پسند لوگ، اُن کو بلڈوز کردو(buldose them all) کی زبان بولتے ہیں۔ مگر وہ اتنی زیادہ ناقابلِ عمل ہے کہ وہ سرے سے قابلِ تذکرہ ہی نہیں۔ کچھ دوسرے لوگ یہ کوشش کررہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ تمام مذاہب کی تعلیمات ایک ہیں۔
اس دوسرے گروہ میںایک نمایاں نام ڈاکٹر بھگوان داس (1869-1958) کا ہے۔ وہ نہایت قابل آدمی تھے۔ اُنہوں نے تمام بڑے بڑے مذاہب کے لمبے مطالعہ کے بعد ایک کتاب تیار کی جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ تمام مذاہب کی تعلیم ایک ہے۔ یہ کتاب ۹۲۹ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا نام یہ ہے:
Essential Unity Of All Religions
منتخب اقتباسات کو لے کر ہر مذہب کو ایک ثابت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص مختلف ملکوں کے دستور کو لے اور پھر ہر دستور سے کچھ منتخب دفعات کو جمع کر کے ایک کتاب چھاپے اور اُس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرے کہ ہر ملک کا دستور ایک ہے اور ایک ہی قسم کی دفعات کا مجموعہ ہے۔ اس قسم کا آفاقی دستور کسی مصنف کو تو خوش کرسکتا ہے مگر وہ کسی ایک ملک کے لیے بھی قابلِ قبول نہ ہوگا۔ ہر ملک اس کو شکر یہ کے ساتھ رد کردے گا۔ یہی معاملہ اتحاد مذہب کے بارہ میں مذکورہ قسم کی کتابوں کا ہے۔ اس قسم کی کتاب اُس کے مرتب کو خوش کرسکتی ہے مگر وہ اہلِ مذاہب کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔
میں نے بھی اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ میں نے اپنے مطالعہ میں پایا ہے کہ تمام مذ۱ہب کو ایک بتانا واقعہ کے مطابق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مختلف مذاہب میں اتنے زیادہ اختلافات ہیں کہ اُن کو ایک ثابت کرنا عملی طورپر ممکن ہی نہیں۔ مثلاً کسی مذہب کا کہنا ہے کہ خدا ایک ہے۔ کوئی مذہب کہتا ہے کہ خدا دو ہیں۔ کوئی مذہب بتاتا ہے کہ خدا تین ہیںاور کسی مذہب کادعویٰ ہے کہ خداؤں کی تعداد ۳۳ یا ۳۳کروڑ ہے۔ کسی کے نزدیک خداؤں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اُن کی گنتی ہی ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں ہر مذہب کی تعلیم کو ایک بتانا ایک ایسا بیان ہے جوکسی خوش فہم کے دماغ میں تو جگہ پاسکتا ہے مگر عملی اور منطقی طورپر اس کو سمجھنا ممکن ہی نہیں۔
حتیٰ کہ بالفرض کسی تدبیر سے تمام مذاہب کے ٹیکسٹ کو ایک ثابت کردیاجائے تب بھی اختلاف ختم نہ ہوگا۔ کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب میں ہر ایک کا ایک تسلیم شدہ ٹیکسٹ ہے مگر اس ٹیکسٹ کی تعبیر میں دوبارہ اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اور ایک مذہبی ٹیکسٹ خود داخلی طورپر کئی مذہبی فرقے (sects) وجود میں لانے کا سبب بن جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اختلاف یا فرق صرف مذہب کی بات نہیں۔ ہماری دنیا پوری کی پوری فرق اور تنوع کے اصول پر قائم ہے۔ یہ فرق اتنا زیادہ ہمہ گیر ہے کہ کوئی بھی دو چیز یا کوئی بھی دو انسان فرق سے خالی نہیں۔ کسی نے بجا طورپر کہا ہے کہ فطرت یکسانیت سے نفرت کرتی ہے:
Nature abhors uniformity
جب فرق و اختلاف خود نیچر کا ایک قانون ہو تو مذہب اُس سے مستثنیٰ کیوں کر ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دنیا کی تمام چیزوں میں ایک اور دوسرے کے درمیان فرق پایا جاتا ہے اسی طرح مذاہب میں بھی ایک اور دوسرے کے درمیان فرق ہے۔ دوسرے معاملات میں ہم نے فرق کو مٹانے کی ضروری کوشش نہیں کی بلکہ یہ کہہ دیا کہ آؤ ہم اس پر اتفاق کرلیں کہ ہمارے درمیان اختلاف ہے:
Let us agree to disagree
یہی عملی فارمولا ہمیں مذہب کے معاملہ میں بھی اختیار کرنا چاہئے۔ یہاں بھی ہمیں فرق و اختلاف کے باوجود اتحاد پر زور دینا چاہئے، نہ کہ فرق و اختلاف کے بغیر اتحاد پر۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی اختلافات کے مسئلہ کا حل صرف ایک ہے او روہ ہے—ایک کی پیروی کرو اور سب کا احترام کرو:
Follow one and respect all
کلچر کا اختلاف
اس سلسلہ میں دوسرا مسئلہ کلچر کا اختلاف ہے۔ مختلف گروہوں کے درمیان کلچر کا اختلاف ایک حقیقت ہے۔ کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ یہی اختلاف تمام نزاعات کی جڑ ہیں۔ اُن کے نزدیک اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ کلچر کے نام پر جو اختلافات سماج میں پائے جاتے ہیں اُن کو یکسر مٹادیا جائے اور ایسا سماج قائم کیا جائے جس کے اندر کلچرل یونٹی ہو۔
یہ تجویز بھی سراسر غیر عملی ہے۔ کلچر نہ کسی کے بنانے سے بنتا اورنہ کسی کے مٹانے سے مٹ جاتا۔ کلچر ہمیشہ تاریخی عوامل کے تحت لمبی مدت کے درمیان بنتا ہے۔ کسی دفتر میں بیٹھ کر کلچر کا نقشہ نہیں بنایا جاسکتا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد کئی ملکوں میں ایسے نظریہ ساز (idealogue) پیدا ہوئے جنہوں نے قومی اتحاد کے لیے ایک کلچر کا سماج بنانے پر زور دیا۔ مثلاً کناڈا میں اسی نظریہ کے تحت یونی کلچرل ازم کی تحریک چلائی گئی۔ مگر تجربہ نے بتایا کہ یہ قابلِ عمل نہیں۔چنانچہ بیس سال کے اندر ہی اندر اس نظریہ کو ترک کر دیا گیا۔اب کناڈا میںسرکاری طورپر ملٹی کلچرلزم کے اصول کواختیار کر لیا گیا ہے اور یونی کلچرلزم کے نظریہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا گیاہے۔
یہی معاملہ امریکا کا ہے۔ امریکا میں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکنائزیشن کی تحریک چلائی گئی۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا۔ مگر لمبی جدوجہد کے بعد معلوم ہوا کہ وحدت کلچر کایہ نظریہ قابلِ عمل نہیں۔ چنانچہ اس نظریہ کو ترک کر دیا گیا اور امریکا میںبھی ملٹی کلچرلزم کے اصول کو اختیار کرلیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ کلچر کا اختلاف دوگروہوں کے درمیان اختلاف کا معاملہ نہیں ہے۔ خودایک گروہ کے درمیان بھی یہ اختلاف پایا جاسکتاہے۔ اس داخلی اختلاف کی مثالیں ہر گروہ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس لیے مختلف مذاہب کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی لانے کے لیے مذہبی تعلیمات میںتبدیلی ضروری نہیں۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اہل مذاہب کے اندر وہ سوچ پیدا کی جائے جس کو جیو اور جینے دو (live and let live) کہا جاتاہے۔
کچھ لوگ اس ناکام تجربہ کو اب بھی دوہرانا چاہتے ہیں اور اس کا نام انہوں نے سوشل ری انجینیرنگ رکھ دیا ہے:
Social re-engineering of Indian Society
اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کے مختلف گروہوں میں کلچر کے اعتبار سے جو فرق پایا جاتا ہے اس کی دوبارہ تشکیل دی جائے اور ایسا سماج بنایا جائے جس میں کلچر کا فرق ختم کردیا گیا ہو اور ملک کے تمام لوگ ایک ہی مشترک کلچر کے مطابق زندگی گزاریں۔
یکساں کلچر بنانے کے کام کو جوبھی نام دیا جائے، نتیجہ بہر حال سب کا ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اس قسم کا نظریہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے کلچرل بلڈوزنگ ہے۔ اس کو خواہ سوشل ری انجینئرنگ کہا جائے یا کلچرل نیشنلزم، وہ بہر حال ناقابلِ عمل ہے۔ اور جو چیز فطری قوانین کے مطابق، سرے سے قابلِ عمل ہی نہ ہو اس کو اپنے عمل کا نشانہ بنانا صرف اپنا وقت ضائع کرنا ہے۔
اس معاملہ میں میرا اختلاف نظریاتی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ عملی بنیاد پر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ غلط ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ یہ ناقابلِ عمل ہے۔ اگر بالفرض ایسا ممکن ہوتا کہ پورے ملک کی ایک زبان ایک کلچر ، رہن سہن کا ایک طریقہ بن جائے تو میں کہتا کہ ضرور ایسا کرنا چاہئے۔ مگر فطرت اور تاریخ کے قوانین کے اعتبار سے ایسی یکسانیت ممکن ہی نہیں۔ نہ کبھی وہ ماضی میں ممکن ہوئی ہے اور نہ وہ مستقبل میں ممکن ہو سکتی ہے۔ کلچر ہمیشہ خود اپنے قوانین کے تحت بنتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ کسی دفتر میں کلچر کا ایک خود پسند نقشہ بنایا جائے اور اس کو ملک کے تمام گروہوں میں رائج کردیا جائے۔
ایسی حالت میں ہم کو وہی کرنا چاہئے جو ہم دوسرے اختلافی معاملات میں کرتے ہیں، یعنی رواداری (tolerance) کے اصول پر اپنے مسئلہ کو حل کرنا۔ حقیقتِ واقعہ سے ہم آہنگی کا طریقہ اختیار کرکے اس سے نپٹنا، نہ کہ اس سے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرنا۔اس معاملہ میں ٹکراؤ کا طریقہ صرف مسئلہ کو بڑھانے والا ہے نہ کہ اس کو حل کرنے والا۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہندو تو انڈیا میں پیدا ہوئے ۔ ان کی وفاداری کے مراکز اسی ملک میں ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ مسلمانوں کے اعتقادی مراکز (مثلاً مکہ اور مدینہ) انڈیا سے باہر ہیں۔ اس لیے مسلمان کبھی اس ملک کے وفادار نہیں ہوسکتے۔
میں کہوں گا کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اس کا تعلق ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے۔ مثلاً ایک ہندو اگر سومناتھ کے مندر سے عقیدت رکھتا ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اجودھیا کے مندر کا عقیدت مند نہیں ہو سکتا۔ ایک ہندو کے دل میں اگر اپنی ماں کی محبت ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا دل باپ کی محبت سے خالی ہوگا۔
یہی معاملہ مسلمانوں کا بھی ہے۔ مسلمان اگر مکہ اور مدینہ سے قلبی لگاؤ رکھتاہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو انڈیا سے قلبی لگاؤ نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی سوچ انسان کی تصغیر (underestmation) ہے۔ کوئی شخص ہندو ہو یا مسلمان دونوں حالتوں میں وہ فطرت کا ایک مظہر ہے اور فطرت نے جو انسان پیدا کیا ہے اُس کے اندر اتنی وسعت موجود ہے کہ وہ بیک وقت کئی محبتوں اور وفاداریوں کو یکساں طورپر اپنے دل میں جگہ دے سکے۔
یہ ایک ایسی فطری حقیقت ہے جس کا تجربہ ہر انسان کررہا ہے۔ ہر مرد اور عورت خود اپنے ذاتی تجربہ کے تحت اس کو جانتے ہیں۔ اس فطری حقیقت کو ایک مغربی مفکر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے— میرے اندر اتنی زیادہ وسعت ہے کہ میں مختلف تضادات کو بیک وقت اپنے اندر جگہ دے سکوں:
I am large enough to contain all these contradictions.
مذہب اور سیاست
فرقہ وارانہ جھگڑوں میںاکثر مذہب کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی سیاسی یاقومی چیز مذہبی ایشو بن جاتی ہے اور پھر تیزی سے لوگوں کے جذبات بھڑک اُٹھتے ہیں جو مختلف فرقوں کے درمیان متشددانہ ٹکراؤ کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس بنا پر بہت سے لوگ خود مذہب کے مخالف بن گئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انسان کو مذہب کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے مذہب کا خاتمہ کردینا چاہئے۔اس کے بغیر سماجی اتحاد ممکن نہیں۔
مگر یہ ایک انتہا پسندی کے جواب میں دوسری انتہا پسندی ہے۔ یہ مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ سیکولر انتہا پسندی سے کرنا ہے جو نہ تو ممکن ہے اور نہ مفید۔ اصل یہ ہے کہ مذہب بذاتِ خود کوئی مسئلہ نہیں۔ مذہب انسانی زندگی کا ایک صحت مند حصہ ہے۔ جو چیز مسئلہ ہے وہ کچھ مفاد پرست لوگوں کی طرف سے مذہب کا سیاسی ایکسپلائٹیشن ہے۔ اس لیے اصل کام ایکسپلائٹیشن کو ختم کرنا ہے نہ کہ خود مذہب کو۔
مذہب کے دو حصے ہیں—انفرادی اوراجتماعی۔ مذہب کے انفرادی حصہ سے مراد عقیدہ اور عبادت اور اخلاق اور روحانیت کاحصہ ہے۔ اور اجتماعی حصہ سے مراد اُس کے سیاسی اور سماجی احکام ہیں۔ اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ عام حالات میں صرف مذہب کے انفرادی حصہ پر زور دیا جائے۔ ساری توجہ مذہب کی روح زندہ کرنے پر لگائی جائے۔
جہاں تک مذہب کے سماجی اور سیاسی احکام کا معاملہ ہے، اُس کو اُس وقت تک نہ چھیڑا جائے جب تک پورا معاشرہ اُس کے لیے سازگار نہ ہوجائے۔ سماجی اور سیاسی احکام پورے سماج کی اجتماعی رضامندی سے قائم ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ایسے احکام کے معاملہ میں کسی عملی اقدام سے اُس وقت تک بچنا چاہئے جب تک پورے سماج کا اجتماعی ارادہ اُس کی موافقت میں نہ ہوجائے۔
اس معاملہ کو مذہب او ر سیاست کے درمیان عملی تفریق کہا جاسکتا ہے۔ یعنی نظری طورپر سیاست کو مذہب کا حصّہ مانتے ہوئے عملی حقائق کی بنا پر سیاسی احکام کے عملی نفاذ کو موخر یا ملتوی کردیا جائے۔ اسی کا نام حکمت ہے۔ اس حکمت کا یہ فائدہ ہے کہ مذہب اور سیاست دونوں کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں۔ مذہب کے تقاضے حال میں، اور سیاست کے تقاضے مستقبل میں۔ اس کے برعکس اگر اس حکمت کو ملحوظ نہ رکھا جائے اور دونوں پہلوؤں کو بیک وقت اُبھار دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ مذہبی تقاضے اور سیاسی تقاضے دونوں ہی پورے ہونے سے رہ جائیں ۔
نارتھ انڈیا اور ساؤتھ انڈیا کا فرق
کمیونل ہارمنی کا سوال بنیادی طورپر نارتھ انڈیا کا سوال ہے۔ ساؤتھ انڈیا میںآج بھی کمیونل ہارمنی پوری طرح پائی جاتی ہے۔ کمیونل ہارمنی یا نیشنل انٹگریشن کے نام سے ہم جیسا سماج بنانا چاہتے ہیں وہ سماج بر وقت ہی ساؤتھ انڈیا میں موجود ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، فرقہ وارانہ جھگڑوں کے تقریباً تمام واقعات نارتھ انڈیا کے علاقہ میں ہوتے ہیں۔ جہاں تک ساؤتھ انڈیا کا تعلق ہے، وہاں فرقہ وارانہ جھگڑے اتنے کم ہیں کہ وہ کسی گنتی میں نہیں آتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس فرق کا مطالعہ ہمارے لیے ایک رہنما مطالعہ بن سکتا ہے۔
مزید یہ کہ خود نارتھ انڈیا کے بھی دو حصے ہیں۔ ایک شہری علاقہ اور دوسرا دیہات کا علاقہ۔ واقعات بتاتے ہیں کہ بیشتر فرقہ وارانہ جھگڑے شہروں میں ہوئے ہیں یا ہوتے ہیں۔ جہاں تک دیہات کے علاقہ کا تعلق ہے، وہاں شاذونادر ہی اس قسم کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔ اس فرق کا مطالعہ بھی بے حد اہم ہے۔ اس سے ہمیں نہ صرف واقعات کی توجیہہ میں مدد ملتی ہے بلکہ یہ فیصلہ کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے کہ فرقہ وارانہ نزاعات کو ختم کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنا ان تدابیر کے ذریعہ ممکن ہے۔
قومی یکجہتی کے سلسلہ میں ہندوؤں کے کچھ عقائد ہیں جن سے مسلمانوں کو شکایت ہے۔ یہاں میں ان سے بحث نہیں کروں گا۔ اس معاملہ میں میرا مشورہ مسلمانوں کو یہ ہے کہ وہ اسلامی اصول کے مطابق اعراض اور رواداری (avoidance and tolerance) کا طریقہ اختیار کریں۔ البتہ کچھ شکایتیں یا غلط فہمیاں ہندوؤں کو مسلمانوں کے بارے میں ہیں۔ یہاں میں اس دوسرے مسئلہ کی کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں اور کچھ اسلامی اصطلاحات کی تشریح کرناچاہتا ہوں جو دونوں فرقوں کے درمیان غلط فہمی کا باعث ہیں یا باعث بن سکتی ہیں۔
یہاں میں ضمناً ایک بات کہوں گا۔ ہمارے یہاں عام رواج یہ ہے کہ مسلمان کوئی غلطی کریں تو ہندو اس کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ اسی طرح ہندو اگر کوئی غلطی کریں تو مسلمان اُس کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ یہ طریقہ اصلاح کے نقطۂ نظر سے بالکل بے فائدہ ہے۔ ایسی باتوں کو ایک فریق اپنی وکالت سمجھ کر خوش ہوگا مگر دوسرا فریق اُس سے کوئی مثبت اثر نہ لے گا۔
اس کے برعکس صحیح اور مفید طریقہ یہ ہے کہ مسلمان اگر غلطی کریں تو خود مسلمانوں کے علماء اور دانشور اس کے خلاف بولیں اور لکھیں۔ اسی طرح ہندو اگر کوئی غلطی کریں تو ہندوؤں کے ذمہ دار اس کے خلاف لکھیں اور بولیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کسی گھر کا کوئی لڑکااگر غلطی کرے تو سب سے پہلے اُس کا اپنا باپ اُس کی تنبیہہ کرتا ہے۔ باپ اس کا انتظار نہیں کرتا کہ محلہ کے لوگ آکر اس کے خلاف بولیں۔ اور اگر محلہ کے لوگ آکر اس کے خلاف بولیں تو بچہ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوگا۔
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ اپنوں کی تنبیہہ کو آدمی مثبت ذہن سے سنتا ہے اور اپنی اصلاح کرتا ہے۔اس کے برعکس غیر کی تنبیہہ کو وہ وقار کا مسئلہ بنا لیتا ہے۔ وہ اس کا کوئی مثبت اثر قبول نہیں کرتا۔ فرقہ وارانہ اتحاد کے سلسلہ میں اس حکمت عملی کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔
قوم اور قومیت
اس سلسلہ میں چند اسلامی اصطلاحیں ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے۔ ان اصطلاحوں کا صحیح مفہوم مسلم اور غیر مسلم کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرتا ہے اور ان اصطلاحوں کا غلط مفہوم برعکس طورپر دونوں کے درمیان دوری کا سبب بن جاتا ہے۔
ان میں سے ایک قومیت کا مسئلہ ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنے غیر مومن مخاطبین کو اے میری قوم، (یا قومی) کے لفظ سے خطاب کیاہے۔ اس قرآنی بیان کے مطابق، مومن اور غیر مومن کی قومیت (نیشنلیٹی) ایک ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قومیت کا تعلق مذہب سے نہیں ہے بلکہ وطن سے ہے۔ مذہبی اشتراک کو بتانے کے لیے ملّت کا لفظ بولا جائے گا اور وطنی اشتراک کو بتانے کے لیے قومیت کا لفظ۔ موجودہ زمانہ میں وطن (home land) کو قومیت کی بنیاد سمجھا جاتاہے۔ اسلام کا اصول بھی یہی ہے۔ اسلام کے مطابق، بھی وطن ہی قومیت کی بنیاد ہے۔
اس اعتبار سے دو قومی نظریہ ایک غیر اسلامی نظریہ ہے۔ دو قومی نظریہ مسلمانوں میں یہ ذہن پیدا کرتا ہے کہ ہم الگ قوم ہیں اور دوسرے لوگ الگ قوم۔ جب کہ صحیح اسلامی ذہن یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو دوسروں کا ہم قوم سمجھیں، وہ دوسروں کو اے میری قوم کے لوگو، کہہ کر خطاب کرسکیں، جیسا کہ تمام پیغمبروں نے کیا۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: اے لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ اور تم کو شعوب اور قبائل میں تقسیم کردیاتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو (الحجرات ۱۳) اس آیت میںشعب سے مراد وطنی اشتراک سے بننے والی قوم ہے اور قبیلہ سے مراد نسلی اشتراک سے بننے والا گروہ۔ قرآن کے مطابق، یہ دونوں قسم کی گروہ بندی صرف تعارف کے لیے ہے، وہ عقیدہ یا مذہب کے رشتہ کو بتانے کے لیے نہیں۔
۱۹۴۷ سے پہلے کے دور میں مولانا حسین احمد مدنی نے کہا تھا کہ ’’فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘۔ مولانا موصوف کا یہ بیان بجائے خوددرست تھا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اُس میں فی زمانہ (موجوہ زمانہ) کی شرط درست نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم ہمیشہ وطن ہی کی بنیاد پر تشکیل پاتی رہی ہے۔ موجودہ زمانہ میں صرف یہ ہوا ہے کہ دوسری بہت سی چیزوں کی طرح، اس معاملہ میں بھی تعین اور تشخص کے لیے جدید طریقے استعمال کئے گئے۔ مثلاً پاسپورٹ میں قومیت کا اندارج، جب کہ پہلے پاسپورٹ کا طریقہ رائج نہ تھا، بین اقوامی حقوق کے تعیّن کے لیے قومیت کی قانونی تعریف، ملک کی نسبت سے کسی قوم کے افراد کے حقوق کو قانون کی زبان میں متعین کرنا، وغیرہ۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قوم کا لفظ موجودہ زمانہ میں بھی اصلاً اسی معنٰی میں بولا جاتا ہے جس معنٰی میں وہ قدیم زمانہ میں بولا جاتا تھا، صرف اس فرق کے ساتھ کہ پہلے وہ مجمل مفہوم میں بولا جاتا تھا اور اب وہ مفصل مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔
کچھ لوگ قومیت کی تشریح انتہا پسندانہ انداز میں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ قومیت کو مذہب کے ہم معنٰی بنا دیتے ہیں، مگر یہ ایک نظریاتی انتہا پسندی ہے۔ اس قسم کی نظریاتی انتہا پسندی کی مثالیں خود مذہب میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً موجودہ زمانہ میں کچھ مسلم مفکرین نے اسلام کی تشریح ایسے انتہا پسندانہ انداز میں کی کہ اسلام کے سوا ہر نظام طاغوتی نظام بن گیا۔ کسی مسلمان کے لیے اس طاغوتی نظام میں موافقت کرکے رہنا حرام قرار پاگیا۔ حتی کہ اس مفروضہ طاغوتی نظام میں تعلیم حاصل کرنا، سرکاری ملازمت کرنا، ووٹ دینا، نزاعات کے قانونی تصفیہ کے لیے ملکی عدالت سے رجوع کرنا، سب کا سب حرام قرار پاگیا۔
طاغوتی نظام کا یہ نظریہ بعض افراد کے انتہا پسندانہ ذہن کی پیداوار تھا، اُس کا خدا و رسول والے اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حقائق نے اس نظریہ کے وابستگان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی عملی زندگی میں اس سے دست بردار ہوجائیں۔ چنانچہ اب یہ تمام لوگ بلا اعلان عملی طور پر اس انتہا پسندانہ نظریہ کو چھوڑ چکے ہیں۔ یہی معاملہ قومیت کا بھی ہے۔ مغرب کے کچھ انتہا پسند مفکرین نے قومیت کو توسیع دے کر مکمل مذہب کے روپ میں پیش کیا۔ مگر حقائق کی چٹان سے ٹکرا کر یہ نظریہ ٹوٹ کر ختم ہوگیا۔ اب عملی طور پر قومیت کا تصور تقریباً اسی فطری معنی میں بولا جاتا ہے جس فطری معنٰی میں وہ قرآن کے اندر استعمال ہوا تھا۔
بیسویں صدی کے نصف اوّل میں اُٹھنے والے مسلم رہنما اس فرق کو سمجھ نہ سکے۔ اُنہوں نے قومیت اور وطنیت کے معاملہ میں اس غیر فطری انتہا پسندی کو اصل سمجھ لیا اور اس بنا پر اُس کے غیر اسلامی ہونے کا اعلان کردیا۔ اس کی ایک مثال مشہور مسلم شاعر اقبال (وفات ۱۹۳۸) کی ہے۔ انہوں نے قومیت اور وطنیت کے اس انتہا پسندانہ وقتی تصور کو اصل سمجھ کر اُس کے بارہ میں یہ اشعار کہے تھے:
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اُس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
قومیت اور وطنیت کے بارہ میں یہ نظریہ بلا شبہہ بے بنیاد ہے۔ عجیب بات ہے کہ اُس دور کے اکثر مسلم علماء اور دانشوروں نے سیاسی نوعیت کی چیزوں کو مذہب یا اسلام کے لیے موت و حیات کا مسئلہ سمجھ لیا۔ حالاں کہ کوئی بھی سیاسی اُتار چڑھاؤ مذہب اسلام کی ابدیت کے لیے چیلنج نہیں بن سکتا۔ مثلاً بیسویں صدی کے آغاز میںترکی کی عثمانی سلطنت ٹوٹی تو شبلی نعمانی نے یہ شعر کہا:
زوال دولتِ عثماں زوالِ شرع و ملت ہے عزیز و فکرِ فرزند و عیال و خانماں کب تک
یہ تصور یقینی طورپر بے بنیاد ہے کہ کسی حکومت کا ٹوٹنا ’’شرع و ملّت‘‘ کے لیے زوال کے ہم معنیٰ ہے۔ ایسا نہ کبھی ہوا اور نہ ایسا کبھی ہوسکتا ۔ دور اول میںخلافتِ راشدہ ٹوٹی مگر اسلام کی پُر امن توسیع مسلسل جاری رہی۔ اس کے بعد اموی سلطنت ٹوٹی تب بھی اسلام کا سفر بدستور جاری رہا، اس کے بعد عباسی سلطنت ٹوٹی، اندلس کی مسلم سلطنت ٹوٹی، مصر کی فاطمی سلطنت ٹوٹی، ہندستان کی مغل سلطنت ٹوٹی، وغیرہ وغیرہ۔ مگر سلطنتوں کا یہ زوال اسلام کے زوال کا سبب نہ بن سکا۔
اسی طرح بیسویں صدی میں کئی انتہا پسندانہ نظریات اُبھرے۔ مثلاً کمیونزم، نازی ازم، نیشنلزم اور وطنیت، وغیرہ۔ مگر ان سب کا آخری انجام یہ ہوا کہ فطرت کا قانون اُن کے انتہا پسندانہ عناصر کو رد کرتا ہے اور آخر کار جو چیز بچی وہ وہی تھی جو قانونِ فطرت کے مطابق مطلوب تھی۔ فطرت کا ابدی قانون ہر دوسری چیز پر بالا ہے۔ فطرت کا قانون اپنے آپ یہ کرتا ہے کہ وہ غیر معتدل افکار کو رد کرکے اُنہیں میدانِ حیات سے ہٹا دیتا ہے اور اُن کے بجائے معتدل افکار کو کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔
کفر اور کافر کا تصور
اسی طرح اس معاملہ میں ایک متعلق اصطلاح کفر کی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں میںکفر اور کافر کا جوتصور پایا جاتا ہے وہ قومی یکجہتی کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ مگر یہ خیال ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔
کفر کے لفظی معنٰی انکار کے ہوتے ہیں اور کافر کا مطلب ہے، انکار کرنے والا۔ یہ دونوں الفاظ قرآن میں پیغمبر کی نسبت سے بولے گئے ہیں، وہ عام لوگوں کی نسبت سے نہیں بولے گئے۔ مزید یہ کہ کفر یاکافر ایک شخصی کردار ہے۔ وہ کسی گروہ کا نسلی یا وراثتی نام نہیں۔ کفر یا انکار کا تحقق کسی کے بارہ میں اُس وقت ہوتا ہے جب کہ اُس کے اوپر پیغمبرانہ قسم کی دعوت جاری کی جائے اور اُس کو تکمیل کی حد تک پہنچایا جائے جس کو اتمامِ حجت کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی پیغمبرانہ دعوت کے بغیر کسی کے بارہ میںیہ کہنا درست نہیں کہ اُس نے کفر یا انکار کا فعل کیا ہے۔
اسی طرح کسی فرد یا مجموعۂ افراد کے بارہ میں متعین اور مشخص طورپر یہ اعلان کرناکہ وہ کافر ہوچکے ہیں، عام لوگوں کے لیے جائز نہیں۔ کفر کے فعل کاتعلق حقیقتاً نیت سے ہے اور نیت کا حال صرف اللہ کو معلوم ہے۔ اس لیے متعین اور مشخص طورپر کسی کے بارے میں یہ اعلان کرنا کہ وہ کافر ہوگیا ہے، یہ خالصتاً اللہ کا کام ہے یا اللہ کے دیے ہوئے علم کی بنا پر پیغمبر کا۔ چنانچہ قرآن میںصرف ایک ایسا حوالہ ہے جب کہ قدیم زمانہ کے کچھ لوگوں کو متعین طورپر کافر قرار دے کر کہا گیا کہ : قل یا ایہا الکافرون (الکافرون ۱)۔ اس انداز کا مشخص خطاب قرآن میں کسی بھی دوسرے گروہ کے لیے نہیں آیا ہے۔ یعنی قرآن میں اس ایک استثناء کو چھوڑ کر فعلِ کفر کا ذکر تو ہے مگر مشخص طورپر کسی کو فاعلِ کفر کا درجہ نہیں دیا گیا۔
دار الحرب کی اصطلاح
دار الحرب کی اصطلاح دورِ عباسی میں بننے والی فقہ میں ضرور استعمال ہوئی ہے مگریہ اصطلاح قرآن اور حدیث میںمذکور نہیں۔ یہ فرق واضح کرتا ہے کہ دار الحرب کی اصطلاح ایک اجتہادی اصطلاح ہے، وہ کوئی منصوص اصطلاح نہیں۔ اور جو نظریہ اجتہادی ہو اُس کے بارہ میں یہ ثابت ہے کہ وہ صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔
میرے نزدیک دار الحرب کی اصطلاح ایک اجتہادی خطا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میںہر قسم کے واقعات پیش آئے۔ مگر آپ نے کسی بھی علاقہ کو دار الحرب قرار نہیں دیا۔ اگر قرآن وسنت میںاجتہاد کرکے اس سلسلہ میںکوئی اصطلاح بنائی جائے تو وہ صرف ایک ہوگی، اور وہ دار الدعوہ ہے۔ یہی اسلامی روح کے مطابق ہے۔ اسلام ہر قوم کو مدعو کی نظر سے دیکھتا ہے،خواہ اہلِ اسلام کاتعلق اُن سے امن کا ہو یا حرب کا۔ اس لیے صحیح اسلامی نظریہ کے مطابق، صرف دو اصطلاحیں درست ہیں—دار الاسلام اور دار الدعوہ۔ اس کے سوا جو بھی اصطلاحیں بولی گئی ہیں وہ سب میرے نزدیک اجتہادی خطا کا درجہ رکھتی ہیں۔ مثلاً دار الحرب، دار الکفر، دار الطاغوت، وغیرہ۔
جہاد کا تصور
کچھ مسلمانوں کی غلط تعبیر کے نتیجہ میں، جہاد کا تصور یہ بن گیا ہے کہ جہاد کا مطلب ہے، مصلحانہ جنگ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان دنیا میں خدا کے خلیفہ ہیں۔ مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کی نیابت میںخدا کی حکومت دنیا میں قائم کرے۔ وہ خدا کی طرف سے لوگوں کو خدا کے احکام کا پابند بنائے۔ اُن کے نزدیک اس لڑائی کا نام جہاد ہے۔جہاد کا یہ تصور بلا شبہہ بے اصل ہے۔ قرآن و سنت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
مصلحانہ جنگ اپنے نتیجہ کے اعتبارسے صرف مفسدانہ جنگ ہے۔ اجتماعی زندگی میں پرامن اظہار خیال کا حق تو ہر ایک کو ہے لیکن طاقت کو استعمال کرکے اصلاح کرنے کا نظریہ بین اقوامی زندگی میں ناقابل قبول ہے۔ اجتماعی یا بین اقوامی زندگی میںکوئی گروہ اپنے لیے ایک ایسا حق نہیں لے سکتا جسے وہ دوسروں کو دینے کے لیے تیار نہ ہو۔ اگر ایک گروہ اپنے لیے اصلاحی جنگ کا حق لینا چاہے تو یقینی طورپر اسے دوسروں کو بھی اصلاحی جنگ کا یہ حق دینا ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر گروہ خود ساختہ اصلاح کے نام پر دوسرے سے جنگ شروع کردے گا۔ اس کے نتیجہ میںاصلاح تونہ ہوگی البتہ اس کی وجہ سے ایک ایسا فساد برپا ہوگا جو کبھی ختم نہ ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگ کی جائز صورت صرف ایک ہے، اور وہ دفاع ہے اگر ایک قوم اپنی جغرافی حد سے تجاوز کرکے دوسری قوم کے اوپرکھلا حملہ کردے تو ایسی صورت میں زیر حملہ قوم کواپنے بچاؤ میں جوابی جنگ کا حق حاصل ہے۔ اس ایک صورت کے سوا کسی بھی دوسری صورت میں متشددانہ جنگ کا کوئی جواز نہیں۔
یہ اجتماعی اصول اسلام میں بھی اسی طرح مسلّم ہے جس طرح سے وہ دوسرے نظاموں میںتسلیم کیاگیا ۔ اس اجتماعی اصول کے معاملہ میںاسلام اور غیر اسلام کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
اس سلسلہ میںایک مسئلہ وہ ہے جو پچھلی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ پچھلا زمانہ بادشاہی زمانہ تھا۔ ساری دنیا میں ہر جگہ کچھ خاندان حکومت کرتے تھے۔ اُس زمانہ میں بادشاہ کا یہ حق سمجھا جاتا تھا کہ وہ قانون سے بالا تر ہے اور وہ جو چاہے کرے۔ اس بنا پر قدیم شاہی زمانہ میں ہر بادشاہ نے ایسے کام کئے جو اخلاقی یا قانونی اعتبار سے درست نہ تھے۔ قدیم زمانہ میں ہندستان کے مسلم بادشاہوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ مثلاً محمود غزنوی نے سومناتھ کے ہندو مندر کو ڈھایا اور اُس کے سونے کے ذخیرہ کو لوٹا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب نے بنارس کے ایک ہندو مندر کو ڈھایا اور اُسی جگہ مسجد تعمیر کی، وغیرہ۔
بادشاہوں کی طرف سے اس قسم کے واقعات قدیم زمانہ میں ہر ملک میںہوئے۔ مگر وہ صرف قدیم تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ گئے، وہ بعدکے زمانہ میں دو قوموں کے درمیان مستقل نزاع کا سبب نہ بن سکے۔ صرف ہندستان میںایسا ہوا کہ اس طرح کے واقعات یہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مستقل طورپر تلخی کا سبب بن گئے۔ اس کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ فساد بھی بار بار ہوئے۔ وہ قومی یکجہتی کا ماحول قائم کرنے کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ بن گئے۔
میرے نزدیک اس استثنائی صورت حال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلم علماء اور دانشوروں نے ہندستان کی مسلم حکومتوں کو اسلامی حکومت کا نام دے دیا۔ وہ اس کو اسلام کی تاریخ کا ایک باب سمجھنے لگے۔حالاں کہ ان حکومتوں کی حیثیت صرف کچھ مسلم خاندانوں کی حکومت (dynasty) کی تھی۔ اُن کو اُصولی اعتبار سے اسلام کی حکومت بتانا درست نہ تھا۔ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کی بنا پر ایسا ہوا کہ جو واقعات ایک مخصوص مسلم خاندان کی حکمرانی سے تعلق رکھتا تھا وہ اسلام کے نام کے ساتھ جُڑگیا۔
اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کی بنا پر یہ شدید غلطی ہوئی کہ مسلمان ان حکمرانوں کے دورِ حکومت کو اپنے لیے اسلامی فخر کے طور پر لینے لگے۔ وہ اُس کوغلبۂ اسلام کی علامت سمجھنے لگے۔دوسری طرف ہندوؤں میں وہ نظریہ پیدا ہوا جس کو تاریخی غلطیوں (historical wrongs) کی اصلاح کہا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ واضح طورپرباہمی تلخی کی صورت میں نکلا۔ مسلمانوں نے جب اس کو اپنا فخر بنایا تو شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ اُن کی مذہبی تاریخ کا ایک مقدّس حصہ بن گیا اور دوسری طرف ہندوؤں نے اُس کو تاریخی غلطی سمجھ کر اُس کی اصلاح کی کوشش شروع کردی۔
میرے نزدیک اس معاملہ میں دونوں فریق غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مسلمان کی غلطی یہ ہے کہ وہ اس تاریخ کو مذہبی حیثیت دینے کی بنا پر اُس پر نظر ثانی کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اور دوسری طرف ہندوؤں کی غلطی یہ ہے کہ وہ گذری ہوئی تاریخ کو بھولنے پر تیار نہیں۔ وہ ماضی کی غلطیوں کی تصحیح پر اصرار کررہے ہیں، خواہ اُس کے نتیجہ میں حال کے امکانات برباد ہوکر رہ جائیں۔
میرے نزدیک اس معاملہ میں دونوں فریقوں کو حقیقت پسند بننا چاہئے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ پچھلے مسلم بادشاہوں کو اسلامی حاکم کا درجہ نہ دیں بلکہ اُن کی حکومت کو صرف ایک خاندان کی حکومت (dynasty) قرار دیں۔ وہ ان مسلم بادشاہوں کی غیر اسلامی اور غیر اخلاقی کارروائیوں کا انکار (disown) کریں، وہ کھلے طورپر اُن کی مذمت کریں، خواہ، وہ محمود غزنوی ہو یا اورنگ زیب یا کوئی اور۔
دوسری طرف ہندوؤں کو چاہئے کہ وہ مضٰی ما مضی (gone is gone) کے اُصول پر ماضی کو بھلا دیں۔ وہ اس معاملہ میںجذباتی طریقہ کو چھوڑ کر حقیقت پسندانہ انداز اختیار کریں۔ ہندوؤں کو جاننا چاہئے کہ تاریخی غلطیاں ہمیشہ ہوئی ہیں مگر کوئی بھی کبھی تاریخی غلطیوں کی تصحیح نہ کرسکا۔ تاریخی غلطیوں کی تصحیح کا نظریہ بلاشبہہ غیر دانش مندانہ ہے۔ یہ ماضی کی تصحیح کے نام پر حال کی تخریب ہے۔ یہ فطرت کے اُصول کے خلاف ہے۔ ایسے لوگ ماضی کو پانے کے نام پر اپنے حال اور مستقبل کو بھی کھو دیتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہندستان کے حق میں یہ بات پوری طرح واقعہ بن گئی ہے۔ جن ملکوں نے اپنے ماضی کو بھُلا کر اپنے حال کی تعمیر کرنا چاہا، اُنہوں نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس کی ایک مثال جاپان ہے۔ جاپان نے امریکہ کی غلطیوں کی تصحیح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جاپان آج ایک اقتصادی سُپر پاور بنا ہوا ہے۔ دوسری مثال ہندستان کی ہے۔ ہندستان میں ماضی کی غلطیوں کی تصحیح کی کوشش کی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندستان صرف ایک پچھڑا ہوا ملک بن کر رہ گیا۔
قومی ترقی کی لازمی شرط یہ ہے کہ قومی ترقی کے سوال کو اصل بنایا جائے اور بقیہ تمام چیزوں کو سیکنڈری حیثیت دے دی جائے۔ لوگوں میں یہ سوچا سمجھا ذہن موجود ہو کہ اصل اہمیت کی چیز یہ ہے کہ قومی ترقی کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔ اس کے سوا جو جذباتی مسائل ہیں یا اور جو ذاتی مفروضات ہیں وہ اگر قومی ترقی کے عمل میں رکاوٹ ڈالے بغیر حاصل ہوتے ہوں تو ٹھیک، ورنہ وہ ہمیں منظور نہیں۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کی پیروی کرکے ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی دی جاسکتی ہے، اس کے بغیر امن ممکن نہیں۔
مشہور قصہ ہے کہ ایک قاضی کے پاس ایک کیس آیا۔ ایک نوزائیدہ بچہ تھا اور دو عورتیں یہ دعویٰ کررہی تھیں کہ وہ اُس کی ماںہے اور اس بچہ کو اس کے حوالہ کردینا چاہئے۔ مگر دونوں میں سے کسی کے پاس بھی کوئی قانونی ثبوت موجود نہ تھا۔ یہ قاضی کے لیے ایک بڑا امتحان تھا۔ آخر کار اُس نے یہ حکم دیا کہ بچہ کے جسم کو بیچ سے کاٹ کر دو ٹکڑے کردیئے جائیں اور پھر اُس کا ایک ٹکڑا ایک عورت کو دیاجائے اور اُس کا دوسرا ٹکڑا دوسری عورت کو دیا جائے۔
قاضی نے جب اپنا یہ حکم سنایا تو جو عورت بچہ کی ماں ہونے کی فرضی دعویدار تھی اُس پراس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ مگر جو عورت بچہ کی حقیقی ماں تھی وہ چیخ اٹھی ۔ اُس نے کہا کہ بچہ کو مت کاٹو۔ اُس کو تم دوسری عورت کے حوالہ کردو۔ یہی محبت کا حقیقی معیار ہے۔ جن لوگوں کو ملک سے حقیقی محبت ہے اُنہیں چلّا کر کہنا چاہئے کہ ہم دیش کی تباہی کو دیکھ نہیں سکتے۔ پچھلی تاریخ میں جو کچھ ہوا اُس کو ہم بھلاتے ہیں تاکہ حال کے مواقع کو بھر پور طورپر استعمال کیا جاسکے اور ملک کا ایک نیا شاندار مستقبل پیدا کیا جاسکے۔
قومی زندگی میںامن اور اتحاد کا اصول صرف toleration کی بنیاد پر ممکن ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ مختلف افراد اور مختلف گروہوں کے درمیان اختلافات پیداہوں۔ فرق اور اختلاف زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ اس لئے فرقہ وارانہ زندگی میں اعتدال کا ماحول فرق اور اختلاف کو مٹا کر قائم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مقصد جب بھی حاصل ہوگا تحمل اور ٹالرنس کی بنیاد پر حاصل ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ اختلاف کو مٹانے کی کوشش کسی انسانی گروہ کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ فطرت کے عالم گیر قانون کے خلاف ہے۔ کوئی بھی شخص یا گروہ اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ فطرت سے لڑکر جیت سکے۔ اس لیے حقیقت پسندی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس معاملہ میںبرداشت کے اصول کو اپنایا جائے نہ کہ ٹکراؤ کے اصول کو۔ اختلاف کو گوارا کرو تاکہ اتحاد قائم ہو۔ کیوں کہ اختلاف کو مٹا کر اتحاد قائم کرنے کا منصوبہ تو سرے سے ممکن ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اتحاد ایمان کا حصّہ ہے

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تباغضوا ولا تحاسدوا ولا تدابرو، وکونوا عباد اللہ اخوانا، ولا یحل لمسلم ان یہجر اخاہ فوق ثلاث لیال (رواہ ابو داؤد) یعنی آپس میںایک دوسرے سے بغض نہ کرو۔ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو۔ ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو۔ سب اللہ کے بندے، بھائی بھائی بن جاؤ۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے۔
یہ حدیث بظاہر حکم کی زبان میں ہے مگراپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ یہ بتا رہی ہے کہ ایمان آدمی کے اندر کس قسم کی صفات پیدا کرتا ہے۔ خدا کی معرفت انسان کو کس قسم کے کردار والا انسان بناتی ہے۔ اس حدیث میں در اصل کسی ایمان والے آدمی کی ان صفات کو بتایا گیا ہے جن کو اجتماعی صفات کہا جاتا ہے۔ گویا کہ یہ چیزیں ایمان کی اجتماعی پہچان ہیں۔
ذاتی دائرہ میں ایمان اللہ سے تعلق کا نام ہے۔ لیکن جب ایمان والے لوگ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہیں تو اس وقت باہمی اختلاط کے نتیجے میں بار بار مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جب معاملہ صرف خدا اور انسان کاہو تو وہاں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوگا، مگر جب انسان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہیں، تو ایسی صورت میں ایک دوسرے کے خلاف مسائل کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ اس طرح اجتماعی زندگی ایک پہچان بن جاتی ہے ۔ جو یہ بتائے کہ لوگوں کے اندر ایمان کی سچی اسپرٹ موجود ہے یا نہیں۔
اللہ کے وہ بندے جو اللہ کو حقیقی معنوں میں اپنا معبود بنالیں، ان کا دل ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کا دل خدا کی بلندیوں میں اٹکا ہوا ہو، وہ دنیا کی پستیوں میں لت پت ہو کر نہیں رہ سکتے۔ ایسے لوگ اپنے بھائیوں کے درمیان اس طرح رہنے لگتے ہیں جیسے ہوا لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہے، مگر وہ کسی سے نہیں ٹکراتی۔ جیسے پھول کی مہک ہر ایک کو پہنچتی ہے مگر وہ ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتی۔ جیسے روشنی ہر ایک کے پاس آتی ہے مگر وہ کسی سے خوش اور کسی سے خفا نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ اسی طرح ایک دوسرے کے مکمل ساتھی ہوتے ہیں۔ جیسے باغ کے درخت ایک دوسرے کے ساتھ بغیر کسی قسم کی باہمی رنجش کے ایک مقام پر کھڑے ہوئے ہوں۔
اسلام کے رزق سے آدمی کو حصہ ملا ہے یا نہیں، اس کی ایک واضح پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے درمیان اس طرح رہنے لگے کہ اس کو نہ کسی سے بغض ہو اور نہ کسی سے حسد۔ کسی قابل شکایت بات پیش آنے پر وہ اپنے بھائی سے بگڑ نہ جاتا ہو، وہ سارے لوگوں کو اللہ کی عیال سمجھ کر اس طرح رہ رہا ہو جیسے ایک باپ کی اولاد مل جل کر رہتی ہے۔ اس قسم کا ذہن جس شخص کے اندر پیدا ہوجائے وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے ایسا ہوجائے گا کہ کسی بھائی سے اگر اس کا بگاڑ ہو جائے اور وقتی تأثر سے مغلوب ہو کر وہ اس سے جدائی اختیار کرلے تو تین دن گزرتے گزرتے اس کا سینہ پھٹنے لگے گا۔ وقتی جذبہ نے اس کو جس بھائی سے دور کیا تھا، اس سے وہ اپنے رب کی خاطر دوبارہ اس طرح مل جائے گا جیسے کہ اِس کے ساتھ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم جناب محمد حنیف صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ٹیلی فون کے ذریعہ معلوم ہوا کہ آج کل آپ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ دوبارہ ٹیلی فون کے ذریعہ معلوم ہوا کہ آپ کی صحت ٹھیک ہورہی ہے اور آپ جلد ہی گھر واپس آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی مدت تک صحت اور عافیت کے ساتھ قائم رکھے تاکہ آپ زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت کرسکیں۔
آپ کی بیماری کی خبر سن کر مجھے قرآن کی آیت (البلد ۴) یاد آئی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے انسان کو کبد یعنی مشقت (toil) میں پیدا کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ زندگی میں بار بار ناخوش گوار واقعات پیش آتے ہیں۔ اس کے ساتھ بیماری، حادثہ اور بڑھاپا جیسی چیزیں بھی ہر ایک کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ اس قسم کی باتیں زندگی کا لازمی حصہ ہیں وہ زندگی سے کبھی جدا نہیں ہوتیں۔
میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔ اس میں خدا کی کون سی مصلحت کام کررہی ہے۔ غور کرنے کے بعد سمجھ میں آیا کہ یہ خدا کی ایک رحمت (blessing) ہے۔ خدا نے انسانی زندگی کا یہ نظام اس لیے بنایا ہے کہ وہ ہماری زندگی کو تجربہ بنا دے۔ تجربہ کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہماری زندگی میں کبد کے ذریعہ تجربات کو شامل کردیا گیا ہے۔
علم کا مطلب جاننا ہے اور تجربہ کا مطلب سیکھنا۔ علم آدمی کو معلومات دیتا ہے اور تجربہ آدمی کو گہری سوچ عطا کرتا ہے۔ علم کسی آدمی کو ایک زندہ کمپیوٹر بنا سکتا ہے اور تجربہ اس کی شخصیت کو ایک اعلیٰ انسانی شخصیت بنادیتا ہے۔ اعلیٰ انسانی شخصیت وہ ہے جس کے اندر پختگی (maturity) ہو۔ جس کو معرفت (realization) کا رز ق ملا ہو، جس کے اندر سنجیدگی (sincerity) کا مزاج پایا جاتا ہو، جو بلند فکری(high thinkink) کی صفت رکھتا ہو۔ جس کو وہ نعمت مل جائے جسے درد مند قلب کہا جاتا ہے۔ خدا آپ کو یہ تمام چیزیں وافر مقدار میں عطا فرمائے۔
نئی دہلی ۵ نومبر ۲۰۰۳ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
الحمد للہ تقریباً ۲۰ سال سے الرسالہ کا قاری ہوںاور تقریباً آپ کی زیادہ تر کتابیں میری لائبریری میں موجود ہیں۔ آپ کی تحریروں سے جو فائدہ ہوا ہے اُسے بیان کرنا ناممکن ہے۔ کتابیں تو میں نے اہل دیو بند او رجماعت اسلامی کی بھی بہت پڑھی ہیں مگر جو thinking آپ کی تحریروں سے بنی ہے اب اس کے بعد کسی اور کی کتاب دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔
میں تبلیغی جماعت کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ مگر یہاں آج کل بہت زیادہ ’’نکلنے‘‘ پر زور دیا جارہا ہے۔ چار مہنیہ، چالیس دن اور روزانہ کے ڈھائی گھنٹہ پر بہت زیادہ اصرار کیا جاتا ہے۔ میں اپنی مصروفیت اور دوسرے مشاغل کی وجہ سے مطلوبہ وقت دے نہیں پاتا مگرساتھی اس کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ یہ بھی دین کا کام ہے اور اپنے بھائیوں میں دین کی لائن سے فکر کرنا کہ کیسے وہ اعمال پر آجائیں بہت اونچی بات ہے۔ مگر کیا یہ ’’نکلنا‘‘ اتنا زیادہ ضروری ہے اور اس کا ثواب بھی وہی ہے جو یہ ’’اللہ کے راستے میں‘‘ نکلنے کا بتاتے ہیں (عبد الرزاق، ممبئی)
جواب
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے درمیان جو تحریکیں اُٹھیں، بد قسمتی سے تقریباً ہر ایک میں انتہا پسندی کاوہی غیر مطلوب عنصر پایا جاتا ہے جس کوقرآن اور حدیث میں غلو کہا گیا ہے۔ مثلاً جماعت اسلامی میں سیاسی انتہا پسندی، تبلیغی جماعت میں فضائلی انتہا پسندی، مدارس میں مسائلی انتہاپسندی، قومی تحریکوں میں مظاہراتی انتہا پسندی، مسلم پرسنل لاء بورڈ میں تشخّصی انتہا پسندی، وغیرہ۔
دین میںاصل اہمیت روح کی ہے، نہ کہ مظاہر کی۔ غلو ہمیشہ مظاہر کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے۔ ’’نکلنے‘‘ جیسی چیزیں بھی مظاہر سے تعلق رکھتی ہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ روح دین پر زور دیا جائے۔ فارم کے بجائے اسپرٹ کو زندہ کرنے میں ساری طاقت صَرف کی جائے۔ اسپرٹ جب زندہ ہوتی ہے تو فارم اپنے آپ زندہ ہوجاتا ہے۔ اوراگر اس کے برعکس فارم پر محنت کی جائے تو فارم تو زندہ ہوسکتا ہے مگر اس سے اسپرٹ زندہ نہ ہوگی۔ ایسے لوگوں کے بارہ میں قرآن کی زبان میں یہ کہا جائے گا کہ ایمان کی ظاہری صورت تو تمہاری زندگیوں میں آئی مگر تمہارے دلوں میں ایمان ابھی تک داخل نہیں ہوا۔ (الحجرات۱۴)
سوال
آپ اپنی تحریروں میں اکثر صلح حدیبیہ کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ بتاتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حدیبیہ کے موقع پر اپنے مخالف کی شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان کر اُن سے صُلح کرلی تھی۔ آپ کا کہنا ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو اپنے حریفوں کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں ایک صاحب کا سوال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کے برعکس دوسرا واقعہ بھی ملتاہے۔ یہ وہ واقعہ ہے جب کہ بعد کو ابو سفیان مکہ والوں کے نمائندہ کی حیثیت سے مدینہ آئے اور صُلح حدیبیہ کی تجدید و توثیق کی درخواست کی۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو قبول نہیں فرمایا اور اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ کی طرف اقدام کا فیصلہ کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ ہمیں دونوں میں سے کس سنت کی کس وقت پیروی کرنی چاہئے۔ (شمشاد محمد خاں، برمنگھم)
جواب
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حقیقی صورتِ حال یہ فیصلہ کرے گی کہ ہم اپنے حالات کے لحاظ سے دونوں میں سے کس سُنّت کے مخاطب ہیں۔ شریعت اور عقل دونوں کا یہ اصول ہے کہ عمل کو ہمیشہ نتیجہ رُخی (result oriented) ہونا چاہئے۔ متوقع نتیجہ کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ ہم دونوں میں سے کس روش کو اختیارکریں۔
موجودہ زمانہ میں مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں اُن میں بلا اشتباہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُنہیں صبر کے اُصول پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے، نہ کہ اقدام کے اصول پر۔ پچھلے دو سو سال میںمسلمان با ربا راقدام کا تجربہ کرتے رہے ہیں اور ہر بار وہ مکمل ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ کیوں کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان اپنی استعداد یا تیاری کے اعتبار سے فریقِ ثانی کے مقابلہ میں اتنا کم ہیں کہ کسی بھی اقدام کا نتیجہ اُن کے حق میںنکلنا ممکن نہیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ: المؤمن لا یلدغ من جحر مرّتین (مومن ایک بل سے دوبار نہیں ڈسا جاتا) ۔ واقعات بتاتے ہیں کہ مسلمانوں نے پچھلے دو سوسال میں لا تعداد بار چھوٹے اور بڑے اقدامات کیے اور ہر باروہ یکطرفہ ناکامی سے دوچار ہوئے۔ ایسی حالت میں اُن پر لازم ہے کہ وہ صبر کی سنت پر عمل کریں، نہ کہ اقدام کی سنت پر۔ حالات کا اندازہ کرنے میں مسلمان اگر ایک بار دھوکہ کھائیں تو وہ قابل معافی قرار پاسکتے ہیں۔ مگر حالات کا اندازہ کرنے میں بار بار دھوکہ کھانا کسی بھی حال میں اُن کے لیے قابلِ معافی نہیں ۔
سوال
اسلام میں لَے پالک یا منہ بولا بیٹا یا متبنّیٰ بنانے کو حرام کیا گیا ہے۔قرآن کی سورہ الاحزاب آیت ۴ میں یہ حکم موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس کی بابت کئی حدیثیں آئی ہیں۔ مثلاً یہ حدیث کہ: من ادعیٰ الی غیر ابیہ و ہو یعلم انہ غیر ابیہ فالجنۃ علیہ حرام (بخاری، مسلم، ابو داؤد) یعنی جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا کہا، حالانکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اُس کا باپ نہیں ہے، اُ س پر جنت حرام ہے۔ سوال یہ ہے کہ متبنّیٰ کے بارے میں اسلام میں اتنا سخت حکم کیوں ہے کہ اُس کو حرام قرار دے دیا گیا۔ (ڈاکٹر ایس اے صدیقی، نئی دہلی)
جواب
اسلام کا ایک اصول یہ ہے کہ جو فعل ناجائز ہو اُس سے مشابہت بھی جائز نہیں۔ متبنّٰی کا معاملہ یہی ہے۔ بیٹا ہمیشہ ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان جنسی تعلق کے ذریعہ پیدا ہوتا ہے۔ اس تعلق کی صرف ایک ہی جائز صورت ہے اور وہ نکاح ہے۔ نکاح کے بغیر جو بیٹا پیدا ہو، وہ اُس عورت اور مرد کی جائز اولاد نہیں کہی جائے گی۔ ایسی حالت میں کسی کو اپنا منھ بولا بیٹا بنانا اور اُس کے ساتھ حقیقی بیٹے جیسا معاملہ کرنا غیر منکوحہ تعلق سے مشابہت کے ہم معنٰی ہے۔ اسی مشابہت سے بچنے کے لیے اُس کو حرام قرار دے دیا گیا۔
سوال
ہمارے شہر میں ہر سال ماہ نومبر میں بُک فیر لگتا ہے، جہاں اردو کا ہمارا واحد اسٹال ہوتاہے۔ یہ بُک فیر تقریباً ۱۸ سالوں سے لگ رہا ہے۔ وہاں آپ کی مطبوعات خصوصی دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں۔ آپ سے اتفاق کرنے والوں کا ایک حلقہ یہاں موجود ہے۔ عام آدمی آپ کی کتابوں کو بے حد پسند کرتا ہے۔ جو لوگ جماعتوں سے جڑے ہوتے ہیں وہی لوگ تنقید کرتے ہیں ورنہ تمام پڑھے لکھے مسلمان آپ کی باتوں پر توجہ دیتے ہیں بلکہ اپنی زندگی میں ان باتوں کو استعمال کرکے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ایسا کیوں ہے۔ (عبد الستار خاں، جمشید پور)
جواب
حدیث میںواضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ امت کے اندر مزید جماعتیں نہ بنائی جائیں۔ قرآن میںاس کو تفرّق (آل عمران ۱۰۵) کہا گیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں مختلف عنوانات کے تحت جو جماعت بندیاں ہوئی ہیں وہ سب کی سب اس حکم کی خلاف ورزی ہیں۔ اس ممانعت کا سبب یہ ہے کہ جماعت کے لوگوں میں ایک عرصہ کے بعد لازمی طورپر جماعتی تعصب پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ تعصب شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ ہماری جماعت مکمل حق پر ہے۔ اب ہمیں حق کے لیے کسی اور فرد یا جماعت سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں۔
اسی کا وہ نتیجہ ہے جو آپ نے اپنے تجربے میں پایا۔ جماعتی افراد گروہی صداقت کا ذہن رکھنے کی وجہ سے اپنی جماعت کے باہر کسی اورکتاب کوقابل مطالعہ نہیں سمجھتے۔ لیکن جو لوگ جماعتی گروہ بندی سے باہر ہیں وہ اس متعصبانہ مزاج سے آزاد ہوتے ہیں۔ اُن کا ذہن ہر وقت تیار رہتا ہے کہ جب بھی کوئی بات دلائل کے ساتھ اُن کے سامنے آئے تو وہ کسی تحفظِ ذہنی کے بغیر اُس کو قبول کرلیں۔
سوال
میں پچھلے دنوں دہلی میں تھا۔ ۸ مارچ ۲۰۰۲ کو وہاں آپ کے ہفتہ وار در س میں شریک ہوا۔ آپ نے قرآن کی مختلف آیتوں کو لے کر اپنی بات کی وضاحت کی۔ میری تجویز ہے کہ آپ معروف طریقہ کے مطابق، سلسلہ وار قرآن کا درس دیں۔ اس طرح پورا قرآن لوگوں کے سامنے مجموعی طورپرآسکے گا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، یہی طریقہ عام طورپر درسِ قرآن کے لیے رائج ہے۔ امید ہے کہ اس بارے میںاپنی رائے سے مطلع کریں گے۔ (سلیم احمد، سری نگر)
جواب
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، تقریباً دو سو سال سے مسلمانوں میں درسِ قرآن کا طریقہ رائج ہے۔ خاص طورپر بر صغیر ہند کی بیشتر مسجدوں میں اس پر عمل ہورہا ہے۔ یہ درس ہمیشہ مصحفی ترتیب کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگرتجربہ بتاتا ہے کہ عملاً اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان درسوں میں لوگ عقیدت کے جذبہ کے تحت آتے ہیں اور ثواب اور برکت کے لیے اُن کو سنتے ہیں۔ مگر اصل مقصد—لوگوں کے اندر قرآنی طرزِ فکر پیدا ہونا اور ذہنی انقلاب برپا ہونا، کسی بھی درجہ میں حاصل نہ ہوسکا۔
میں نے اس سوال پر کافی غور کیا ہے۔ میںاس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ جہاں تک تلاوت یا تراویح یا اکیڈمک مطالعہ کا تعلق ہے، اُس میں مصحفی ترتیب ہی کی پیروی کی جائے گی۔ مگر جہاں تک اصلاح و دعوت کاتعلق ہے، دوبارہ وہی ترتیب مطلوب ہوگی جو دور اول میں نزولِ قرآن کے وقت مطلوب تھی۔ یعنی جیسے حالات ہوں گے، اُس کے مطابق، قرآن کا کوئی حصہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ دورِ اول میں قرآن اسی طرح حالات کے لحاظ سے اُترا۔ بعدکو اُسے موجودہ شکل میں ترتیب دے دیا گیا۔
حالات کی نسبت سے قرآنی آیتوں کے نزول کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ اُس سے مقصود تثبیتِ قلب (الفرقان ۳۲) ہے۔ یعنی جو قرآنی حکم لوگوں کے سامنے آئے وہ اُن کے دل میں بیٹھتا چلا جائے۔ سنتے ہی وہ اُن کے شعور کا جزء بن جائے۔ اسی مصلحت کی بنا پر قرآن بیک وقت مکمل کتاب کی صورت میں نہیں اُتارا گیا بلکہ اس طرح اُتارا گیا کہ جس وقت لوگوں کے ذہن میں جو سوالات تھے، اُس کی نسبت سے اُنہیں رہنمائی دی گئی۔
غور و فکر کے بعد میںنے سمجھا ہے کہ اصلاح و دعوت کے لیے دوبارہ یہی انداز اختیار کیا جائے گا۔ یعنی مصحفی ترتیب کے بجائے حالات کی نسبت سے قرآن کے متعلق حصّوں کو پیش کرنا اور اُس کو لوگوں کے لیے دل نشیں بنانے کی کوشش کرنا۔ میںنے اپنے در س کے لیے اسی طریقہ کو اپنایا ہے۔ تجربہ سے یہ طریقہ بہ مفید ثابت ہوا ہے۔
مثال کے طورپر ۸ مارچ ۲۰۰۳ کے اجتماع میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک ہندو خاتون اُس میں شریک تھیں۔ اُن کی عمر ۳۷ سال ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ ایک بڑی کمپنی میں اچھے عہدہ پر ہیں۔ ۸ مارچ کو وہ پہلی بار ہمارے درس میں آئیں۔ وہ لمبے عرصہ سے سخت ذہنی خلفشار میں مبتلا تھیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ تین بار خود کُشی کی کوشش کرچکی ہیں جو کامیاب نہ ہوسکی۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ پچھلے برسوں میں بہت سے ہندو پیشواؤں اورعیسائی پادریوں سے ملیں۔ بُدھ مذہب اور سکھ مذہب کے گروؤں سے بھی ملیں۔ مگر اُن کا ذہنی انتشار ختم نہ ہوسکا۔ کسی کے بتانے پر وہ میرے یہاں آئیں۔ میںنے یہ کیا کہ پہلے اُن کے ذہن کو پڑھا اور پھر اُن کے ذہن کی نسبت سے کچھ آیتوں اور حدیثوں کی تشریح کی۔
اُنہوں نے نہایت غور سے میری باتوں کوسُنا۔ وہ ایک ماڈرن خاتون ہیں۔ لیکن شرکاء درس نے بتایا کہ ختم اجتماع پر جب وہ میرے کمرہ سے نکلیں تو وہ اس طرح رو رہی تھیں کہ اُن کے آنسو آنکھوں سے نکل کر فرش پر گررہے تھے۔ بعد کو خاتون کے ایک ساتھی نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ اُنہوں نے درس کے بارہ میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری زندگی میں پہلا موقع تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ مجھ کو میرے سوالات کا جواب مل رہا ہے:
For the first time in my life I felt that my questions are being addressed.
اگر میں اپنے ہفتہ وار اجتماع میں سلسلہ وار قرآن کا درس دے رہا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ ۸ مارچ کو سلسلہ وار ترتیب میںقرآن کاکوئی ایسا حصہ اُن کے سامنے آتا جو اُنہیں اپنی بروقت سوچ کے اعتبار سے غیر متعلق معلوم ہوتا۔ مگر جب میںنے اُن کے ذہن کو سمجھ کر اُس سے متعلق آیت اور حدیث اُن کے سامنے پیش کی تو اُنہیں محسوس ہوا کہ اُن کے سوالات کو ایڈرس کیا جارہا ہے۔ یہی وہ دعوتی حکمت ہے جس کی بنا پر قرآن کی ترتیبِ نزول اُس کی ترتیب تلاوت سے مختلف ہے۔ تلاوت کے لیے آج بھی مصحفی ترتیب ہی پر عمل کیا جائے گا لیکن جب دعوت و تبلیغ کا معاملہ ہو تو سامعین کی نسبت سے قرآن کاایسا حصہ اُن کے سامنے لایا جائے گا جس میں اُنہیں محسوس ہو کہ بوقتِ خطاب اُن کے ذہن میں جو سوالات تھے وہ ایڈرس ہورہے ہیں۔
سوال
میں انجینیرنگ کالج کا طالب علم ہوں۔ میری عمر ۲۳ سال ہے۔ میں ایک اچھا کرکٹ کھلاڑی ہوں۔میں انٹرنیشنل کرکٹ کھلاڑی بننا چاہتا ہوں۔ میں کرکٹ کھیلنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل بھی کرتا ہوں۔اس بابت ایک سوال مجھے اکثر پریشان کرتا رہتا ہے ۔ وہ یہ کہ کیا اسلام میں کرکٹ کھیلنا اور اس کو ذریعہ معاش بنانا جائز ہے یا نہیں ۔ (اقبال رشید بیگ، سری نگر ، کشمیر)
جواب
کرکٹ یا اور کوئی گیم اسلام میں منع نہیں ہے۔ گیم کے ذریعہ اگر آپ اپنی معاش حاصل کریں تو یہ بھی اسلام میں جائز ہوگا۔ البتہ جو چیز اسلام میں منع ہے وہ یہ ہے کہ آدمی میچ فکسنگ کرے یا وہ خدا کی عبادت میں اُس سے غافل ہوجائے۔
سوال
ہمارا ایک سوال ہے۔ وہ یہ کہ ملک کی ایک مشہور تنظیم اس وقت ایک مہم چلارہی ہے کہ پسماندہ طبقات کو ساتھ لے کر اوران سے اتحاد پیدا کرکے حالات کا رخ موڑا جائے، کیا صرف پسماندہ طبقات کو ساتھ لے کر کامیابی مل سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ (عبدالعلیم قاسمی، امتیاز احمد خاں مفتاحی، عادل آباد)
جواب
دلت ۔مسلم اتحاد کا نعرہ کوئی نیا نعرہ نہیں۔ دلت۔ مسلم اتحاد کی بات بار بار کی گئی ہے اور ہر بار وہ ناکام ہوئی ہے۔ موجودہ کوشش بھی یقینی طورپر اس مقصد میں ناکام ہوگی۔ اگر آپ کو تفصیل معلوم ہوتو یہ کوشش پہلے ہی دن خود اپنے اسٹیج پر ناکام ہوچکی ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ عین اسٹیج کے اوپر مسلم ارکان آپس میں ٹکرا گئے۔ پھر جب خود مسلمان آپس میں متحد نہ ہوں تو دوسروں کو اتحاد کا پیغام دینا کیسے موثر ہوسکتا ہے۔
پچھلے سوسال کے اندر مسلمانوں نے بار بار اتحاد کانفرنسیں کی ہیں۔ مگر وہ سب کی سب بے نتیجہ رہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اتحاد جلسوں اور تقریروں سے قائم نہیں ہوتا۔ اُس کے لیے کچھ اور زیادہ گہرے اسباب درکار ہیں—مثلاً مسلمانوں میں اختلاف کو برداشت کرنے کا مزاج، دوسرے طبقات میں یہ احساس کہ مسلمانوں کے ساتھ متحد ہو کر انہیں کوئی بڑا فائدہ مل سکتا ہے۔ اتحاد کانفرنس کے انعقاد سے پہلے اُس کے حق میں گراؤنڈ ورک، وغیرہ۔ اتحاد کے حق میں ابھی تک اس قسم کے موافق اسباب موجود نہیں۔ ایسی حالت میں اتحاد کی بات اُسی طرح ایک خیالی شاعری ہے جیسا کہ اس سے بہت پہلے اقبال نے بے نتیجہ طورپر اس طرح کی تھی :
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
سوال
میں Engineering کی طالبہ ہوں۔ میں آپ سے دو سوالات کررہی ہوں۔ کیا اسلام میں یہ جائز ہے کہ ہم اپنے جسم کاکوئی بھی اہم حصہ donate کرسکتے ہیں، ہمارے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جس سے کسی دوسرے انسان کو ایک نئی زندگی ملے۔
کوئی لڑکی یا عورت کی آواز اگر سریلی ہو تو کیا وہ کسی اجتماع یا پھر کسی function کے آغاز میں حمد، نعت یا پھر کسی ترانہ کے ذریعہ اپنی آواز کو ظاہر کرسکتی ہے یا نہیں۔ براہِ کرم میرے ان دوسوالوں کا جواب دیں۔ (فرح جبیں)
جواب
یہ خدا کے بنائے ہوئے قانون فطرت کا نتیجہ ہے کہ انسانی جسم کا کوئی حصہ، مثلاً آنکھ، اُس کی موت کے بعد بھی کسی زندہ کے کام آسکتی ہے۔ جس طرح دوسرے قوانین فطرت انسان کے لیے رحمت ہیں۔ اس طرح یہ فطری قانون بھی انسان کے لیے ایک رحمت ہے اور اُس کو ضرور استعمال کرنا چاہئے۔ یہ مرے ہوئے آدمی کی طرف سے زندہ کے لیے ایک صدقۂ جاریہ ہوگا۔
میںذاتی طورپر جلسوں کے آغاز میں نظم یا ترانہ کوغیر مفید سمجھتا ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جلسہ یا اجتماع میں سنجیدگی کا ماحول ختم ہو جاتا ہے اور تفریح لینے اور تالیاں بجانے کا ماحول قائم ہوجاتا ہے۔ اسی قسم کے رواج کا یہ نتیجہ ہے کہ ہمارا ہراجتماع صرف ایک قسم کا شو بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں میرے نزیک اس قسم کی شعر خوانی ہر حال میں نادرست ہے، خواہ وہ لڑکوں کے ذریعہ ہو یا لڑکیوں کے ذریعہ۔
سوال
الرسالہ دسمبر ۲۰۰۲ ملا۔ صفحہ ۲۷ پر آپ نے لکھا ہے کہ یہ دنیا امتحان کے اصول پر مبنی ہے۔ عرض یہ ہے کہ اللہ نے دنیا کواور تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے، اُس کے تخلیق کردہ بندے کیسے ہیں، اُس سے پوشیدہ نہیں۔ کس انسان میں کیا خوبی یا کمی ہے اللہ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ پھر امتحان کیوں ضروری ہے۔ (معصوم علی، راجستھان)
جواب
اس امتحان کا تعلق علم خداوندی سے نہیں ہے۔ اس کا مقصد در اصل انتخاب (selection) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موجودہ دنیا کے پورے نظام کو اسی اصول کے تحت بنایا ہے۔ یہاں ہر آدمی اپنا امتحان دے رہا ہے اور اس امتحان کے دوران ہر آدمی اپنے بارہ میں بتاتا ہے کہ کیا وہ اس قابل ہے کہ جنت کی رہائش گاہ کے لیے اُس کا انتخاب کیاجائے۔ جو لوگ موجودہ دنیامیں اپنے آپ کو اس انتخاب کا اہل ثابت کریں گے وہ آخرت کی ابدی جنت میں داخل کیے جائیں گے اور جو لوگ اپنے آپ کو اُس کا اہل ثابت کرنے میںناکام رہیں گے اُن کو ناکارہ قرار دے کر جہنم کے کوڑا خانہ میں ڈال دیا جائے گا۔
سوال
کچھ صحافتی اصطلاحات کے جوابات مطلوب ہیں۔ امید کہ آپ اپنی روایت کی مانند جوابات سے ممنون فرمائیں گے۔ (۱) ایلو جرنلزم (yellow journalism) (۲) ایلو پریس(yellow press) (۳) الٹا اہرام(inverted pyramid) (۴) فورتھ اسٹیٹ کی صحیح اسپیلنگ اور اس کا مطلب (۵) اسپینی امریکی جنگ، وغیرہ۔
جواب
۱۔ ایلو جرنلزم (yellow journalism) سے مراد صحافت کی وہ قسم ہے جس کوعام طورپر سنسنی خیز جرنلزم کہا جاتا ہے۔ یعنی خبروں کو سنسنی انداز میں پیش کرنا تاکہ اخبار کی اشاعت زیادہ سے زیادہ بڑھے۔ یہ طریقہ امریکہ کے دو اخباروں ورلڈ اور جنرل نے ایک دوسرے کے مقابلہ میں شروع کیا تھا۔ اس کے بعد ۱۸۹۰ میں ایلو جرنلزم کی اصطلاح رائج ہوئی۔
۲۔ ایلو پریس (yellow press) اور ایلو جرنلزم دونوں ایک ہی چیز کے دو مختلف نام ہیں۔ ایلوپریس سے مراد اشتعال انگیز اخبارات ہیں۔ وہ اخبارات جو ہیجان خیز خبریں شائع کرتے ہیں، جو تعصبات کو بھڑکانے والی خبریں چھاپ کر اپنی اشاعت بڑھاتے ہیں۔
۳۔ مصر کے اہرام مثلّث شکل کے ہیں۔ یعنی نیچے کی طرف چوڑا اور چوٹی کی طرف نوکیلا۔ صحافت کی اصطلاح میں اُلٹا اہرام (inverted pyramid) کا مطلب یہ ہے کہ کسی خبر کو واقعاتی ترتیب کے بجائے اُلٹی طرف سے بیان کرنا۔ مثلاً قتل کا واقعہ بہت سے سرگرمیوں سے شروع ہو تا ہے اور آخر کار قتل تک پہنچتا ہے۔ مگر اخبار میں جب ایسی کسی خبر کو چھاپا جاتا ہے تو اُس کی سُرخی اس طرح لگائی جاتی ہے: شہر میں ایک قتل۔ یعنی خبر کے آخری جزء کو پہلے بیان کرنا۔
۴۔ فورتھ اسٹیٹ (fourth estate) کا لفظ پریس یا جرنلزم کے لیے بولا جاتا ہے۔ فیوڈل دور میں پولیٹکل پاور کے چار ستون سمجھے جاتے تھے۔ کلرجی (clergy) نابلٹی(Nobility) اور بورژوا(bourgeoisie)۔ پھر جب پرنٹنگ کا طریقہ وجود میں آیا اور پریس (اخبارات) کی طاقت کا ظہور ہوا تو پریس کو چوتھا اسٹیٹ کہا جانے لگا۔
۵۔ اسپین اورامریکہ کی جنگ (Spanish-American War) ۱۸۹۸ء میں ہوئی۔ اس کے بعد امریکا پر اسپین کا نوآبادیاتی اقتدار ختم ہوگیا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ امریکہ میں وہ چیز پیدا ہوئی جس کو ایلو جرنلزم کہا جاتا ہے۔
سوال
برائے مہربانی حدیث و قرآن کی روشنی میں اس سوال کی وضاحت کرنے کی زحمت فرمائیں کہ کسی شخص کی سنِ بلوغ سے قبل کی عبادات (مثلاً روزہ نماز وغیرہ) کا میدان محشر میں اس کے اعمال کے ساتھ شمار ہوگا کہ نہیں؟ بالفاظ دیگر سن بلوغ سے قبل کی عبادات حشرکے دن کام آئیں گی کہ نہیں؟ (زبیراحمد،بھاگلپور)
جواب
اس قسم کے سوالات غیر سنجیدہ ذہن کی علامت ہیں۔ سنجیدہ ذہن ہمیشہ یہ سوچے گا کہ بلوغ کے بعد میں جو عبادت کر رہا ہوں اُس کا حشر قیامت میں کیا ہوگا۔ وہ قبول ہوگی یا نہیں۔ اس کے بجائے یہ سوچنا غیر سنجیدگی کی علامت ہے کہ فلاں شخص نے بالغ ہونے سے پہلے جو نمازیں پڑھی تھیں اُس کا انجام آخرت میں کیا ہوگا۔ نماز یا کسی بھی عبادت کی قیمت اُس وقت ہے جب کہ خدا اُس کو قبول کرلے۔ اس حقیقت کا ادراک آدمی کو اتنا زیادہ اندیشہ ناک بنا دیتا ہے کہ وہ غیر متعلق سوالات میں اپنے ذہن کو مشغول نہیں کرسکتا۔
سوال
اسلامی شریعت میں قتل کی جائز تین شرطیں ہیں جن میںسے ایک یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان اپنے دین سے پھر جائے تو اسے بھی قتل کیا جائے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ (مذہب میںکوئی زبردستی نہیں) والی بات کیسے پوری ہوگی۔ اگرکوئی قوم اس کی ہوڑ میں کہے کہ ہم بھی ایسا قانون بنائیں گے کہ کوئی دوسرا مذہب قبول کرے تو اس کی سزا قتل ہوگی تو پھر وہ اسلام میں کیسے داخل ہوں گے۔ (صائمہ بھوپال)
جواب
مجھے اس مسئلہ سے اتفاق نہیں کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ اسلامی تاریخ میں کبھی صرف ارتداد کی بنا پر کسی کو قتل نہیں کیا گیا۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق نے جو جنگ کی تھی وہ مانعین زکاۃ کے خلاف تھی، نہ کہ معروف معنوں میں مرتدین کے خلاف۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اس جنگ کا سبب ریاست سے بغاوت تھا، نہ کہ اعتقادی طورپر مرتد ہوجانا۔ جیسا کہ معلوم ہے، ان لوگوں نے اسلام کو ترک نہیں کیا تھا بلکہ صرف یہ کہا تھا کہ ہم اپنی زکوۃ کی رقم مقامی طورپر خرچ کریں گے۔ اُس کو مرکزی خلافت کے خزانہ میں نہیں دیں گے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو حضرت ابوبکرکے اس اقدام کا تعلق مرتد کے مسئلہ سے نہیں ہے بلکہ ریاست سے بغاوت کے مسئلہ سے ہے۔
اس سوال پر میں نے اپنی کتاب ’’شتم رسول کا مسئلہ‘‘ میںکسی قدر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ یہاں میں صرف ایک حوالہ نقل کروں گا۔ قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے : اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں مرجائے تو ایسے لوگوں کے عمل ضائع ہوگئے دنیا میں اور آخرت میں۔ اور وہ جہنم والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیںگے (البقرہ ۲۱۷)
قرآن کی اس آیت میں واضح طورپر مرتد کا ذکر ہے مگر اس میں مرتد کی دنیوں سزا نہیں بتائی گئی ہے بلکہ صرف اُخروی سزا بتائی گئی ہے۔ اس آیت کے مطابق، کوئی مرتد دنیا میں تو اپنی طبعی موت مرے گا۔ البتہ آخرت میں وہ اپنے گناہ کی سزا پائے گا۔
سوال
سوال یہ ہے کہ انسان کی خودداری کی اہمیت کیا ہے اور گھر والوں سے خود کس حد تک برتی جاسکتی ہے اور دنیا والوں سے کس حد تک۔ (حافظ محمد الیاس، بیجا پوری)
جواب
آج کل جس چیز کو خود داری کہا جاتا ہے اُس کی تائید میں مجھے کوئی لفظ قرآن وحدیث میں نہیں ملا۔ میں اس خود داری کو غیر اسلامی سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ عین وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میںحمیت جاہلیہ کا لفظ آیا ہے۔
اسلام کے نزدیک اصل مطلوب چیز خود داری نہیں ہے بلکہ خود شکنی ہے۔ حمیت نہیں ہے بلکہ تواضع ہے۔ اصرار نہیں ہے بلکہ اعتراف ہے۔ اسلام میں نہ خودی ہے اور نہ بے خودی۔ اسلام میں جو چیز مطلوب ہے وہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ آدمی کے فکر و عمل کا محور خدا بن جائے، اُس کی محبوب چیز تواضع اور انکساری ہو۔
اس مزاج کاتعلق گھر کے اندر کی زندگی سے بھی ہے اور باہر کی زندگی سے بھی۔ ایک حدیث کے مطابق، مومن کو نرم پودے کی طرح ہوجانا چاہیے جو اکڑ سے خالی ہوتا ہے۔ خودداری در اصل اکڑ کا خوبصورت نام ہے۔ جو آدمی لچک یا اعتراف کو بے عزتی سمجھتا ہے وہ اپنی اس کمزوری کے جوازکے لیے اُس کو خود داری کا نام دے دیتا ہے۔
سوال
۱۔ سنجیدگی سے قرآن پاک کا مطالعہ کرنے والا ایک عام قاری الرسالہ خدا کے فضل و کرم سے عمر فاروقؓ کے قول’’لیس العاقل الذی یعرف الخیر من الشر ولٰکنہ الذی یعرف خیر الشرین‘‘ کا مصداق بن پاتا ہے۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ علم، تقویٰ، خلوص، خشوع اور انابت جیسی اہم خصوصیات سے متصف حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور عبد الرشید گنگوہیؒ جیسی عظیم شخصیات جہاد بالسیف کے سلسلے میں ۱۸۵۷ء میں مولانا محمد شاہ صاحب دیوبندی کے معقول عندیہ کو کیوں سمجھ نہ سکے۔
۲۔ ۱۹۱۲ء میں مصری عالم دین حضرت مولانا سید رشید رضا نے جو دعوتی پروگرام علماء ہند کے سامنے تجویز فرمایا تھا، آخر وہ کیا کمی تھی کہ علماء نے اس کی طرف توجہ نہ فرما کر بس تحفظاتی کردار ادا کرتے رہے۔ اور تادمِ تحریر علماء امت سمجھا سمجھا کر institutional and scientific age میں قائدانہ کردار ادا نہیں کر پارہے ہیں۔
۳۔ علیٰ ہٰذا القیاس حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ مسلمہ طور پر ایک عظیم صوفی گزرے ہیں لیکن کیاوجہ ہے کہ ’’انا قائم الزمان‘‘ کا خواب دیکھنے والا اور’’ الہمنی ربی ‘‘ کا دعویٰ کرنے والا بھی عصری تقاضوں کو سمجھ نہ سکا۔
۴۔ محترم مولانا وحید الدین صاحب! آپ نے فہمِ دین کی نسبت سے التفکر والاعتبار، کان النہار أجمع خالیاًیتفکر، واتقوا اللہ ویعلمکم اللہ ،وغیرہ کا حوالہ دیا ہے۔ متذکرہ بالا بزرگان دین میں یہ چیزیں اگر بدرجۂ اولیٰ موجود تھیں تو کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود بھی یہ لوگ مطلوب قائدانہ کردار ادا نہ کرسکے۔ (جاوید حسین وانی، اننت ناگ)
جواب
۱۔ ۱۸۵۷ میں جن بزرگوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد بالسیف کیا، وہ میرے نزدیک اجتہادی خطا کا معاملہ تھا۔ اجتہاد کا شرعی مسئلہ یہ ہے کہ صحیح اجتہاد پر آدمی کو دو ہرا ثواب ملے گا اور اجتہادی خطا پر ایک ثواب۔ تاہم یہ آخرت کے اعتبار سے ہے۔ جہاں تک دنیا کا تعلق ہے، تو دنیا کا نظام اسباب و علل کے اصول پر مبنی ہے۔ اجتہادی خطا کا دنیوی انجام وہی ہوگا جو اسباب کے اعتبار سے اس کا ہونا چاہئے۔
۲۔ اُس زمانہ کے علماء کا خیال یہ تھا کہ دعوت کا کام برطانی اقتدار کے تحت نہیں ہوسکتا جو اُن کے مفروضہ تصور کے مطابق، اسلام دشمن طاقت تھی۔ مگر یہ تمام تر اجتہادی خطا کی بنا پر تھا۔ اپنی اسی اجتہادی خطا کی وجہ سے وہ رشید رضا کے مشورہ کی اہمیت کو سمجھ نہ سکے۔ انہوں نے انگریز کو دیکھا مگر وہ زمانی مواقع کو نہ دیکھ سکے جو انگریز سے بھی زیاد ہ بڑی طاقت کی حیثیت رکھتے تھے۔
اجتہادی خطا کی یہ مثال موجودہ زمانہ میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ علماء کی حمایت سے آج مختلف مقامات پر مسلّح جہاد کیا جارہا ہے۔ یہاں بھی یہی مفروضہ ہے کہ سیاسی اقتدار کے حصول کے بغیر اسلامی دعوت کا کام نہیں کیاجاسکتا۔ مگر یہ سراسر اجتہادی خطا ہے۔ یہ لوگ جدید دعوتی امکانات سے واقف نہ تھے۔ اس لیے وہ سیاسی انقلاب کے سوا اپنے عمل کاکوئی اور نقشہ وضع نہ کرسکے۔
۳۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کو جو تجربہ ہوا وہ الہام یاخواب کی نوعیت کا تجربہ تھا، وہ کوئی وحی کا تجربہ نہ تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، الہام یا خواب میںہمیشہ یہ امکان رہتا ہے کہ آدمی اُس کی تعبیر میںغلطی کرجائے۔ تعبیری خطا کے امکان سے پاک صرف وحی ہوتی ہے، اور وحی پیغمبر کے سوا کسی اور کے پاس نہیں آتی۔
۴۔ یہ بھی اجتہادی خطا کا معاملہ تھا۔ یہ علماء علمی اعتبار سے تقلید میںمبتلا تھے اور دینی اعتبار سے وہ تصوف سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ ان دو اسباب کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کے اندر تفکر اور تدبر کا طریقہ رائج ہی نہ ہوسکا۔ وہ اپنے اخلاص کی بنا پر یقینا آخرت میں جنت کے مستحق قرار پائیں گے مگر اُن کی اس اجتہادی خطا نے اُنہیں بصیرت زمانہ سے محروم کر دیا۔ ایسی حالت میں اسباب و علل کی اس دنیا میں اُن کی کوششوں کا وہی نتیجہ ہوسکتا تھا جو ہوا۔
سوال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل خواہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتاہو سنت ہے جیسا کہ علماء فرماتے ہیں۔ مگر آپﷺ کی پوری حیاتِ طیبہ کو یعنی آپ کے تمام اعمال و کردار کو اسی طرح ہمہ وقت سامنے نہیںرکھا جاتا جس طرح آنجناب کی چند مشہور سنتوں کو مکمل طورپر برتا جاتا ہے ۔یعنی علماء بطورخاص اور عوام بطور عام اسی طریقہ پر عمل پیرا ہیں۔ مثلاً ڈاڑھی بڑھانا سنت ہے۔ اس پر اتنا زیادہ زور ہے کہ لگتا ہے یہ سنت فرض ہے۔ میرا مقصد خدانخواستہ گنجائش ڈھونڈنا نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل سر کے بال رکھنے میں بھی آنجناب کی سنت موجود ہے۔ اس کا ذکر و تذکرہ بہت کم ہوتا ہے۔ برائے کرم اس کی وضاحت فرمائیں۔ (عبدالواحد، جگادھری)
جواب
داڑھی اور مونچھ وغیرہ کے بارہ میں جو سنتیں بتائی جاتی ہیں وہ بلاشبہہ سنت ہیں۔ مگر سنت رسول کے تذکرہ کے ذیل میں اسی قسم کی جزئی چیزوں کو بیان کرنا کافی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ عمل سنت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔ اس اعتبار سے دعوت بھی سنت ہے، صبر بھی سنت ہے۔ مگر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے عام طور پر ان سنتوں کو چھوڑ رکھا ہے۔ حتی کہ اگر انہیں یہ یاد دلایا جائے کہ تم غیر مسلموں کو اسلام کا پیغام مثبت طورپر پہنچاؤ اور اگر ان کی طرف سے کوئی ایذا رسانی ہو تو اُس پر صبر کرتے ہوئے پُر امن دعوتی عمل کو جاری رکھو تو لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔ حتی کہ جو لوگ داڑھی اور مونچھ جیسی چیز کی موافقت میں پُر زور بحثیں کرتے ہیں وہ دعوت اور صبر کے احیاء کی تحریک کے مخالف بن جاتے ہیں۔ یہ روش بلا شبہہ ایک خلافِ سنت روش ہے۔ آج سب سے زیادہ ضروری یہ بات ہے کہ اس منفی روش کی اصلاح کی جائے۔
سوال
مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کو اسی طرح سچا مانتے ہیں جس طرح مسلمان اسلام کو۔ میرے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ پھر اسلام ہی واحد سچا مذہب کیوں ہے۔ اگر میں کسی اور مذہب کے ماننے والے کے گھر میں پیدا ہوتا تو اس مذہب کو اسی طرح سچا مانتا جس طرح اب اسلام کو مانتا ہوں۔ اس بات نے میرے ذہن کو منتشر کردیا۔ (اویس صدیقی، علیگڑھ)
جواب
اسلامی تعلیم کے مطابق، ہر پیغمبر کو خدا نے ایک ہی دین کے ساتھ بھیجا۔ خدا کی طرف سے آئے ہوئے ادیان میںایک اور دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب دنیا میں دین کے نام پر بہت سے مذاہب موجود ہیں تو کس مذہب کو لیا جائے اور کس مذہب کو نہ لیاجائے۔
اس ترک و اختیار کا معیار (criterion) صرف ایک ہے۔ اوروہ یہ کہ یہ دیکھا جائے کہ مختلف ادیان میں سے کون سا دین محفوظ دین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی وہ کون سا دین ہے جو آج بھی اُسی ابتدائی حالت میں موجود ہے جیسا کہ پیغمبر نے اُسے دیا تھا۔
اس موضوع پر میںنے اپنی کتابوں میں کافی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اُس کا مطالعہ کرکے آپ جان سکتے ہیں کہ دوسرے تمام مذاہب میں اضافے اور تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ حتی کہ اُن کا ابتدائی متن بھی محفوظ نہیں۔ اس کے برعکس اسلام مکمل طورپر اپنی ابتدائی حالت میں موجود ہے۔ اسلام کی مقدس کتا ب میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب اسلام ہی واحد قابل اعتبار مذہب ہے۔ اسلام کی اسی امتیازی صفت نے اُس کو خدائی سچائی کا واحد مستند ماخذ بنا دیا ہے۔
سوال
ہم کو کوئی ایسا ذریعہ بتائیے کہ جس سے ہم محبت خداوندی میں اپنے آپ کو غرق کردیں۔ ہمارا ہر کام ہر لفظ جو کہ زبان سے نکلے اس کا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی ہو (ایک قاری، الرسالہ)
جواب
خدا کے ساتھ گہری محبت ہونا ایمان کی علامت ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: والذین آمنوا اشد حبا للہ۔ خدا کے ساتھ گہری محبت ہونا ایک اعلیٰ ترین متاع ہے۔ ہر متاع کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اسی طرح محبت الٰہی کی بھی ایک قیمت ہے۔ وہ قیمت یہ ہے کہ آدمی ہر دوسری چیز کواپنی زندگی میں ثانوی بنا دے۔ مال، اولاد، عزت، شہرت، مقبولیت، بڑائی، سرخ روئی، وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کو لوگ اپنا محبوب بنائے رہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ چاہتے ہیں کہ خدا اُن کے جذبات محبت کا مرکز بن جائے۔ یہ ناممکن ہے۔ خدا کی محبت کسی کو اُسی وقت مل سکتی ہے جب کہ وہ بقیہ کی محبت سے اپنے سینہ کو خالی کرلے۔ جو آدمی ایسا نہ کرسکے اُس کو محبت خدا کی بات بھی نہ کرنا چاہئے۔
سوال
مسلم برادری کی تاریخی حیثیت کیاہے۔ قوم جولاہا جو مومن برادری اور انصاری برادری سے موسوم ہے اس کی تاریخی حیثیت کیاہے۔ اس لئے کہ اس ذات سے دیگر مسلم برادریاں ایسے ہی نفرت رکھتی ہیں جیسے غیر مسلم مسلم سے اسلام کی بنیاد پر۔ جب کہ ان کی شرافت صبر و تحمل، سادگی، اور انسانی ہمدردی شر وفساد سے دوری یہ سب باتیں اس قوم میں بہت پاتا ہوں۔ اس کے باوجود لوگ انہیںنفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، ایسا کیوں ہے۔(محمد افروز عالم، نالندہ)
جواب
اسلام میں برادری یا ذات پات کا کوئی نظام نہیں ہے۔اب بھی یہ نظام صرف برّ صغیر ہند میں پایا جاتا ہے۔ دوسرے مسلم ممالک میںاس قسم کا نظام موجود نہیں۔ یہ دراصل اسلام کا ہندوائزیشن ہے جو پچھلی صدیوں میںپیش آیا۔ اصل یہ ہے کہ ہندستان میں اسلام کی اشاعت علماء کے ذریعہ نہیں ہوئی بلکہ صوفیا کے ذریعہ ہوئی۔ صوفیا کو علم اور تعلیم سے زیادہ لگاؤ نہ تھا۔ اُن کے ذریعہ ہندوؤں نے لاکھوں کی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ صوفیا نے ان لوگوں کو کلمہ اور نماز اور ذکر جیسی چیزیں تو بتائیں مگر اُن کی تعلیم دین کا کوئی انتظام نہیں کیا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام سے پہلے وہ جن ہندو رسموں اور رواجوں سے مانوس تھے، اُنہی رسموں اوررواجوں کو اُنہوں نے اسلام میں بھی باقی رکھا۔ صوفیاء نے اگر ایسے لوگوں کی باقاعدہ تعلیم کا انتظام کیا ہوتا تو یقینی طورپر اس قسم کے رواج ختم ہوجاتے۔ مگر صوفیا اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر ایسا نہ کرسکے۔ اس غلطی کا وہ نتیجہ ہے جس کو ہم آج مسلمانوں کے درمیان ذات پات کی صورت میں پارہے ہیں۔
سوال
حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کا فرمان ہے کہ مجھ سے مانگو میں دوں گا۔ اللہ اپنے بندے سے اُس کی ماں سے بھی زیادہ محبت کا معاملہ کرتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ دعا مصیبت و پریشانی کو روکنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان جو اللہ سے برابر دعا کرتے ہیں اس کے باوجود ہماری دعائیں مقبول کیوں نہیں ہوتیں۔ ہم کیوں اتنی زیادہ مصیبت او رپریشانی کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے برعکس منکرین جو اللہ کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کی بنا پر وہ دعا کرنے کا جواز نہیں رکھتے پھر بھی وہ ہم سے بہتر حالت میں ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ (عمر احمد علی، پربھنی)
جواب
دعا کی قبولیت کے لیے یہ کافی نہیں کہ آدمی مسلم خاندان میں پیدا ہوا ہو۔ قبولیت کی شرط قرآن میںان الفاظ میں بتائی گئی ہے: الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ (فاطر ۱۰) اس آیت کے مطابق، وہی دعا خدا تک پہنچتی ہے جس کے ساتھ عمل صالح شامل ہو۔ ایسی حالت میںاگر مسلمان یہ محسوس کریں کہ اُن کی دعا قبول نہیں ہورہی ہے تو انہیں خود اپنے اندر اس کا سبب تلاش کرنا چاہئے۔ اس آیت کے مطابق، دعا کی عدم قبولیت کا سبب یقینی طورپر یہ ہوگا کہ دعا کرنے والے عمل صالح کی شرط کو پورا نہیں کررہے ہوں گے۔ اس لیے اُنہیں چاہئے کہ وہ اپنا احتساب کرکے اس شرط کو پورا کریں۔ اُس کے بعد دعا کی قبولیت یقینی ہوجائے گی۔
جہاں تک غیر مسلمین کا تعلق ہے، اُن کا معاملہ فطرت کے قانون پر منحصر ہے۔ اگر وہ فطرت کے قانون کو معلوم کرکے اُس سے مطابقت کریں گے تو دنیا میں وہ مادّی کامیابی کو پالیں گے۔
واپس اوپر جائیں