Pages

Sunday 2 May 2010

Al Risala | May 2010 (الرسالہ،مئی)


قیامت کا الارم

انسانی تاریخ کے خاتمے کا آغاز
قرآن، خدا کی آخری الہامی کتاب ہے۔ قرآن ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں پیغمبر آخر الزماںمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر نازل ہوا۔ قرآن کا موضوع بنیادی طورپر یہ ہے کہ انسان کو خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) سے آگاہ کیا جائے۔ اِس تخلیقی پلان کے مطابق، موجودہ دنیا محدود مدت کے لیے بنائی گئی ہے۔ ایک وقت آئے گا، جب کہ اِس دنیا کو ختم کردیا جائے گا۔ اُس کے بعد قیامت قائم ہوگی۔ تمام انسان دوبارہ زندہ ہو کر خالقِ کائنات کے سامنے حاضر کیے جائیں گے اور پھر ہر ایک کے ریکارڈ کے مطابق، اُن کے لیے ابدی انجام کا فیصلہ کیا جائے گا۔
قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کے خاتمہ (end of history) سے پہلے کچھ واضح نشانیاں ظاہر ہوں گی، جو گویا انسان کے لیے آخری وارننگ (final warning) کے ہم معنٰی ہوں گی۔ ان نشانیوں کے ظہور کے بعد خدا، فرشتہ اسرافیل کو حکم دے گا۔ وہ ایک صور پھونکیں گے اور پھر اچانک انسانی تاریخ اپنے عارضی دور سے گزر کر اپنے ابدی دور میں داخل ہوجائے گی، یعنی عمل کے دور کا خاتمہ اور انجام کے دور کا آغاز۔قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی یہ نشانیاں خاص طور پر پانچ ہوں گی۔ قرآن اور حدیث کے بیان کے مطابق، یہ نشانیاں حسب ذیل ہیں:
1 - یا جوج اور ماجوج کا خروج۔ 2 - دجّال کا ظاہر ہونا۔ 3 - مہدی کا ظہور۔
4 - مسیح کا نزول۔ 5 - موسمیاتی تبدیلی ۔
یاجوج اور ماجوج
یاجوج اور ماجوج کا ذکر قرآن میں دو مقام پر آیا ہے (الکہف: 94 ؛ الأنبیاء:96 )۔ حدیث کی کتابوں (صحیح البخاری، صحیح مسلم، التّرمذی، ابن ماجہ، مسند احمد) میں بھی متعدد روایات کے تحت، یاجوج اور ماجوج کا تذکرہ موجود ہے۔ اِسی طرح بائبل کے بعض ابواب مثلاً حزقی ایل (Ezkiel) میں یاجوج اور ماجوج (Gog and Magog) کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ دوسرے مذاہب میں بھی یاجوج اور ماجوج کا ذکر موجود ہے۔ مثلاً ہندو ازم کی مقدس کتاب پُران میں یاجوج اور ماجوج کوکوکا اور وِکوکا(Koka and Vikoka) کا نام دیاگیا ہے۔ قرآن کی تفسیروں اور احادیث کی شرحوں میں یاجوج اور ماجوج کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔
تاہم یاجوج اور ماجوج کے معاملے میں ابھی تک اہلِ علم کی کوئی متفقہ رائے سامنے نہیں آئی ہے۔ ایسی حالت میں یہ ضروری ہوگیاہے کہ تمام حوالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسی رائے پر پہنچنے کی کوشش کی جائے جواِس سلسلے میں متعلق حوالوں (relevant data) سے علمی طورپر مطابقت رکھتی ہو۔ راقم الحروف نے اِسی اصول کے تحت، یاجوج اور ماجوج سے متعلق حوالوں کا مطالعہ کیا ہے۔ اِس مطالعے کے بعد اِس معاملے میں میری جو رائے بنی ہے، اس کو یہاں درج کیا جاتا ہے۔
یاجوج اور ماجوج (Gog and Magog) کا معاملہ کوئی پُر اسرار معاملہ نہیں۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کو معلوم طریقِ استنباط کے تحت سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں میں اِس معاملے میں فنّی بحثوں سے قطع نظر کرتے ہوئے، صورتِ معاملہ کی ایک علمی تصویر پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
یاجوج اور ماجوج کا مصداق
یاجوج اور ماجوج سے کون لوگ مراد ہیں، اِس کے بارے میں اہلِ علم نے مختلف رائیں دی ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر اِس معاملے میں مولانا انور شاہ کشمیری (وفات: 1934 ) کی رائے زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے روس اور برطانیہ اور جرمنی کی قوموں کو اس کا مصداق ٹھیرایا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے: أما الکلام فی یأجوج ومأجوج، فاعلم أنہم من ذریۃ یافث باتفاق المؤرخین۔ ویقال لہم فی أوربّا: ’کاک میکاک‘ وفی مقدمۃ ابن خلدون ’غوغ ماغوغ‘ وللبریطانیۃ إقرار بأنہم من ذریۃ مأجوج، وکذالک ألمانیا أیضا منہم، وأما الروس فہم من ذریۃ یأجوج (فیض الباری علی صحیح البخاری، جلد4، صفحہ 23)۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ یاجوج اور ماجوج سے مراد وہ مغربی قومیں (western nations) ہیں جو یورپ میںآباد ہوئیں۔
یاجوج اور ماجوج کے بارے میں جو دستیاب معلومات (available data)ہیں، وہ سب سے زیادہ یورپی قوموں پر صادق آتی ہیں۔ یہ معلومات زیادہ تر تمثیل کی زبان میں ہیں، اِس لیے لوگوں کو ان کا مفہوم سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اگر اِس حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے تو تقریباً بلا اشتباہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج اور ماجوج سے مراد وہی قومیں ہیں جن کو یورپی قومیں کہاجاتا ہے۔ یہ لوگ حضرت نوح کے بیٹے یافِث (Japheth) کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ غالباً پہلے مغربی یورپ میں آباد ہوئے، پھر انھیں کی نسلیں امریکا اور آسٹریلیا میں پھیل گئیں۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹھیری تھی(ھود: 44)۔ جودی پہاڑ قدیم ترکی کے سرحدی علاقے میں واقع ہے۔ ترکی، یورپ کا ایک حصہ مانا جاتا ہے۔ حضرت نوح کی کشتی جب یہاں ٹھیری، تو اُس وقت یہاںآپ کی اولاد میںسے تین افراد تھے—حام، سام اور یافث۔ پہلے دونوں افراد، ایشیا اور افریقہ کے علاقے میں آباد ہوئے۔ اور یافث کی اولاد ابتداء ً روس کے علاقے میں آباد ہوئی اور پھر بعد کو وہ یورپ کے مختلف ملکوں میں پھیل گئی۔ غالباً مغربی ملکوں میں آباد ہونے والے یہی وہ لوگ ہیں جن کو قدیم کتابوں میں یاجوج اور ماجوج کہاگیا ہے۔ یاجوج اور ماجوج کو ئی پُراسرار لوگ نہ تھے، اور نہ وہ ایسے لوگ تھے جن کے لیے خدا نے ابدی طورپر گم راہی مقدر کردی ہو۔ وہ دوسرے انسانوں کی مانند انسان تھے۔ اُن کے ساتھ جو واقعات پیش آئے، وہ سب عام فطری قانون کے تحت پیش آئے۔
یاجوج اور ماجوج کے دو دور
قرآن میں یاجوج اور ماجوج کا ذکر دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک جگہ ذو القرنین کے حوالے سے (الکہف:94 )، ا ور دوسری جگہ ذوالقرنین کے حوالے کے بغیر(الأنبیاء: 96)۔ اِن دونوں آیتوں کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اِن دونوں آیتوں میں یاجوج اور ماجوج کے دو دوروں کا ذکر ہے، جو ایک کے بعد ایک پیش آئیں گے۔
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذو القرنین نے جو دیوار بنائی تھی، وہ یاجوج اور ماجوج کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ دیوار اُن کی مفسدانہ کارروائی کے لیے ایک روک بن گئی۔ ایک عرصے تک یہ صورتِ حال قائم رہی۔ اس کے بعد یاجوج اور ماجوج کی ابتدائی سرکش نسل ختم ہوگئی اور بعد کی نسل پیدا ہوئی جو نسبتاً معتدل نسل کی حیثیت رکھتی تھی۔
اِس دوران ذوالقرنین کی بنائی ہوئی ابتدائی دیوار دھیرے دھیرے ٹوٹ پھوٹ گئی۔ اِس کے بعد یاجوج اور ماجوج کی اگلی نسلوں کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ دیوار سے باہر آئیں، اور دیوار کے باہر کی دنیا میں پھیل جائیں۔ یہی دوسرا زمانہ ہے جب کہ اُن کے درمیان تہذیب کا دور شروع ہوا۔ یہ دور مختلف احوال کے درمیان بتدریج ترقی کی طرف بڑھتا رہا۔
یہ بعد کا دور دو زمانوں میںتقسیم ہے—نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) سے قبل کا زمانہ، اور نشاۃِ ثانیہ کے بعد کا زمانہ۔ اِسی زمانے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق، وہ واقعہ پیش آیا جس کو آپ نے یاجوج اور ماجوج کے بند میں شگاف (فُتح الیوم من رَدْمِ یأجوج ومأجوج) سے تعبیر کیا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے جو دیوار بنائی تھی، وہ ایک مادی دیوار تھی جو ایک عرصے کے بعد فطری طورپر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔
حدیث میں جس دیوار (رَدْم) میں شگاف ہونے کا ذکر ہے، وہ غالباً مادّی دیوار نہیں ہے، بلکہ وہ اُس سے مختلف ہے۔ اِس سے مراد فکری دیوار (intellectual barrier) ہے۔ سابق حجری دیوار کے ٹوٹنے سے یاجوج اور ماجوج کو اپنے قریبی علاقے میں پھیلنے کا موقع ملا تھا، لیکن دوسری ’’دیوار‘‘ کا ٹوٹنا زیادہ بڑا واقعہ ہے۔ اُس نے یاجوج اور ماجوج کی نسل کو یہ موقع دیا کہ وہ عالمی سطح پر پھیل جائیں اور حدیث کے الفاظ میں، یہ واقعہ ہو کہ: لا یأتون علیٰ شییٔ إلاّ أکلوہ، ولا یمرّون علیٰ مائٍ إلاّ شربوہ (ابن ماجہ، کتاب الفتن) یعنی وہ جس چیز تک پہنچیں گے، اس کو کھاجائیں گے، اور جس ذخیرۂ آب سے گزریںگے، اُس کو پی جائیں گے۔
ذوالقرنین کے بنائے ہوئے مادّی بند کے ٹوٹنے کے بعد جو واقعہ پیش آئے گا، اس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وترکنا بعضہم یومئذ یموج فی بعض (الکہف: 99 ) یعنی قدیم محدود جغرافیہ سے نکل کر یاجوج اور ماجوج، لوگوں سے عمومی اختلاط کرنے لگیں گے۔ یہ گویا اُن کا دورِ اختلاط ہوگا۔ اس کے بعد حدیث میں جس واقعے کا ذکر ہے، یعنی ان کا ہر چیزکو کھاجانا، اور ساری دنیا کے پانی کو پی جانا، اس سے مراد بعد کا وہ واقعہ ہے، جب کہ انھوںنے نیچر پر فتح حاصل کی اور جدید صنعتی دور پیدا کیا۔ اِسی جدید صنعتی دور کے نتیجے میں اُن کو عالمی استحصال کا موقع ملا— قرآن کی سورہ نمبر 18 میں یاجوج اور ماجوج کے پہلے دور کا ذکر ہے، اور قرآن کی سورہ نمبر 21 میں یاجوج اور ماجوج کے دوسرے دور کا ذکر۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ بظاہر یا جوج اور ماجوج کے تین بڑے دور ہیں— محصوریت کا دور، اختلاط کا دور، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور۔
یاجوج اور ماجوج کوئی پُر عجوبہ قوم نہ تھے۔ وہ عام انسانوں جیسے انسان تھے۔ قدیم زمانے میں ذرائع معاش کی قلت کی بناپر ہر جگہ کچھ ایسے لوگ ہوتے تھے جو لوٹ مار کے ذریعے اپنی معاش حاصل کرتے تھے۔ اِس قسم کے لوگ عرب میں بھی تھے جن کو صَعَالیکُ العرب کہاجاتا تھا، یعنی عربی قزاق۔ یاجوج اور ماجوج کا گروہ بھی ابتداء ً اِسی قسم کا ایک گروہ تھا۔
یاجوج اور ماجوج کی دیوار
روایات میں بتایا گیا ہے کہ یاجوج اور ماجوج، اور بقیہ انسانی دنیا کے درمیان ایک مضبوط دیوار حائل تھی۔ یہ دیوار اِس میں مانع تھی کہ یاجوج اور ماجوج اپنی حد سے نکل کر بقیہ انسانی آبادی میں داخل ہوکر وہاں فساد برپا کریں۔ یہ دیوار کیا تھی اور وہ کب ٹوٹی، اِس کے بارے میں ایک حدیثِ رسول سے رہ نمائی ملتی ہے۔
روایات میں آیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے، غالباً مکہ فتح ہوچکا تھا اور عرب سے بت پر ستی کا خاتمہ ہوگیا تھا، اُس وقت آپ نے ایک خواب دیکھا۔ روایت کے مطابق، اُس وقت آپ مدینہ میںاپنی اہلیہ زینب بنت جحش (وفات 641 ء ) کے حجرے میں سورہے تھے۔ آپ سوکر اٹھے تو آپ کا چہرہ سرخ تھا۔ اُس وقت آپ نے فرمایا: لا الٰہ إلاّ اللہ، ویلٌ للعرب من شرٍّ قد اقترب، فُتح الیوم من رَدم یأجوج ومأجوج (صحیح البخاری، کتاب الفتن؛ صحیح مسلم، کتاب الفتن) یعنی لا الٰہ إلاّ اللہ، خرابی ہے عرب کی، اُس شر سے جو قر یب آچکا ۔ آج یاجوج اور ماجوج کے بند میں شگاف پڑ گیا۔
فکری دیوار
اِس حدیثِ رسول پر اور اس کے بعد بننے والی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بند (رَدْم) سے مراد غالباً کوئی مادّی دیوار (physical barrier) نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد فکری دیوار (intellectual barrier) ہے۔ یہ فکری دیوار وہی ہے جس کو فطرت پرستی (nature worship) کہاجاتا ہے۔ اِس عقیدے کا ٹوٹنا ہی بند کا ٹوٹنا تھا، جس کے بعد مغربی قوموں کے لیے تمام ترقیوں کا دروازہ کھلا۔ اس کے بعد وہ اِس قابل ہوگئے کہ اپنے علاقے کے باہر کی دنیا میں داخل ہو کر اس میں غلبہ حاصل کرسکیں۔
اصل یہ ہے کہ فطرت (nature) کے اندر اُن تمام ترقیوں کے اسباب چھپے ہوئے تھے، جن کی دریافت کے بعد جدید مغربی تہذیب ظہور میں آئی۔یہ اسباب ہمیشہ سے فطرت کے اندر موجود تھے، لیکن فطرت کو معبود کا درجہ دے دیا گیا۔ اِسی سے فطرت پرستی کا مذہب پیدا ہوا۔ اُس وقت انسان، فطرت کو معبود کی نظر سے دیکھتا تھا، اِس لیے وہ اس کی تحقیق اور تفتیش کی جرأت نہ کرسکا۔ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں جب اسلام کے ذریعے توحید پر مبنی انقلاب واقع ہوا، اور فطرت پرستی کی جگہ خدا پرستی کا رواج دنیا میں قائم ہوا، اس کے بعد فطرت کا تقدس (holiness) ٹوٹ گیا۔ اب فطرت(nature) عبادت کے بجائے تسخیر کا موضوع بن گئی۔ یہی جدید مادّی تہذیب کا نقطۂ آغاز تھا۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تاریخِ توحید میں پہلی بار یہ واقعہ پیش آیا کہ توحید کا عقیدہ فکری مرحلے سے گزر کر انقلاب کے مرحلے میں پہنچ گیا۔ہجرتِ نبوی کے آٹھویں سال مکہ فتح ہوا، اور کعبہ کو بتوں سے پاک کردیاگیا۔ اِس کے جلد ہی بعد پورے عرب میں توحید کا دبدبہ قائم ہوگیا، اور پھر بہت کم مدت میں تقریباً پوری دنیا میں یہ واقعہ پیش آیا کہ فطرت پرستی یا تو ختم ہوگئی، یا وہ غیر موثر ہو کر گوشہ گیر ہونے پر مجبور ہوگئی۔
اس انقلاب کا اصل پہلو اُس کا مذہبی پہلو تھا۔ وہ اہلِ اسلام کے ذریعے دنیا میں قائم ہوا۔ اِس کا دوسرا پہلو وہ تھا جس کو اُس کا سیکولر پہلو کہا جاسکتا ہے۔ اِس دوسرے پہلو کی اشاعت زیادہ تر یورپ میں ہوئی۔ اہلِ یورپ نے اس کو اپنی خصوصی تحقیق کا موضوع بنایا اور پھر اس کو ترقی کے اعلیٰ درجے تک پہنچا دیا۔ مغربی قوموں کے درمیان اِس دوسرے پہلو کا فروغ زیادہ واضح طورپر،صلیبی جنگوں (crusades) کے بعد چودھویں صدی عیسوی سے شروع ہوا، اور بیسویں صدی عیسوی کے آخر تک وہ ایک مکمل تہذیب کے مرحلے تک پہنچ گیا۔
وہ چیز جس کو مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام کے مبنی بر توحید انقلاب کا ایک سیکولر ایڈیشن ہے۔ فطرت کو پرستش کے مقام سے ہٹانے کا جو کام اسلام نے انجام دیا، اُس کا یہ براہِ راست نتیجہ تھا کہ فطرت کی تحقیق اور تفتیش کا عمل شروع ہوگیا۔ یہ عمل ابتدائی طورپر قدیم بغداد اور قدیم قرطبہ، وغیرہ میں مسلمانوں کے درمیان شروع ہوچکا تھا، لیکن صلیبی جنگوں کے بعد یہ کام تمام تر اہلِ یورپ نے انجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جدید مادّی تہذیب کو مؤرخین عام طورپر اہلِ مغرب کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
ساتویں صدی عیسوی کے نصف اوّل میں جو مذکورہ انقلاب برپا ہوا، وہ دوبارہ ایک نئے انقلاب کا نقطۂ آغاز (starting point) تھا۔ اِس دوسرے انقلابی عمل کا نقطۂ انتہا (culmination) وہ واقعہ تھا جو موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کی صورت میں پیدا ہوا۔ موجودہ سائنسی انقلاب بظاہر ایک سیکولر انقلاب تھا، لیکن اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے وہ گویااسلامی انقلاب کے ہم معنیٰ تھا۔
قرآن، ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا۔ قرآن میںبار بار یہ کہاگیا ہے کہ زمین اور آسمان کی چیزوں پر غور کرو۔ اِس میں تم خدا کی نشانیاں(signs) پاؤگے۔ مگر بوقتِ نزولِ قرآن، یہ خدائی نشانیاں کلی طورپر ظاہر نہیں ہوئی تھیں، وہ نیچر میں چھپی ہوئی تھیں۔ اِس بنا پر، قرآنی غور وفکر کے لیے انسان کے پاس مطلوب فریم ورک موجود نہیں تھا۔ خدا نے چاہا کہ یہ فریم ورک انسان کو حاصل ہوجائے۔
اِس معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ قدیم زمانے کا بادشاہی نظام تھا۔ بادشاہی نظام نے کائنات میںآزادانہ غور وفکر کا راستہ بند کررکھا تھا۔ اِس بنا پر یہ بادشاہت خدا کی اسکیم کے خلاف تھی۔ چناں چہ خدا نے اصحاب رسول کے ذریعے تاریخ میں مداخلت کی۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ محض ایک سیاسی تبدیلی کا واقعہ نہ تھا، بلکہ وہ بعد کو ظہور میںآنے والے سائنسی انقلاب کا ابتدائی مرحلہ تھا۔ اُس وقت کے دو بڑے شہنشاہی نظام، بازنطینی ایمپائر، اور ساسانی ایمپائر کو اصحابِ رسول کے ذریعے توڑ دیاگیا، تاکہ کھلی فضا میں سائنسی غور وفکر کا آغاز ہوسکے(الأنبیاء: 18 )۔ یہی انقلابی واقعہ ہے جس کا ذکر بائبل میںایک قدیم پیغمبر کی زبان سے پیشین گوئی کے طورپر اِس طرح بیان کیا گیا ہے— اس نے نگاہ کی اور قومیں پراگندہ ہوگئیں۔ ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے۔ قدیم ٹیلے جھک گئے:
He looked and startled the nations. And the everlasting mountains were scattered (Habakkuk 3:6)
یہاں ’’ازلی پہاڑ‘‘سے مراد وہ سیاسی پہاڑ ہے، جو شہنشاہی نظام کی صورت میں قدیم زمانے سے دنیا میں قائم تھا۔ اسلام کے ذریعے مطلق شہنشاہیت (absolute imperialism) کے اِس نظام کے ٹوٹنے کا ذکر مشہور فر انسیسی مؤرخ ہنری پرین (وفات: 1935) نے اِن الفاظ میں کیا ہے— اسلام نے زمین کا نقشہ بدل دیا۔ تاریخ کا روایتی ڈھانچہ اکھاڑ کر پھینک دیا گیا:
Islam change the face of the globe. The traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne, History of Western Europe, p. 46)
مغربی تہذیب کے دو پہلو
فطرت کے رُموز کو آشکارا کرنے کا جو کام اہلِ مغرب کے ذریعے انجام پایا، اِس کے بھی دو پہلو تھے۔ ایک اعتبار سے وہ خداکی تخلیق میں چھپی ہوئی نشانیوں (signs) کا اظہار تھا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ اس کے ذریعے انسان کی رسائی لامحدود قسم کی مادّی طاقتوں تک ہوگئی۔ مثلاً اہلِ مغرب کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ پانی کو اسٹیم پاور میں تبدیل کرسکیں۔ وہ لوہے کو متحرک انجن کی شکل دے دیں۔ وہ پٹرول کے ذریعے اڑتی ہوئی سواری (ہوائی جہاز) کی ایجاد کریں۔ وہ ماڈرن کمیونکیشن کے عالمی ذرائعِ ابلاغ کو وجود میں لائیں، وغیرہ۔
علوم فطرت پر اہلِ مغرب کی اِس دست رس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کو ساری دنیا میں مادّی طورپر غلبے کا مقام مل گیا۔ اِس غلبے کی بابت دو حوالے یہاں قرآن اور حدیث سے نقل کیے جاتے ہیں۔قرآن کی سورہ نمبر 21 میں اِس سلسلے کی ایک متعلق آیت موجود ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیے جائیں گے، اوروہ ہر بلندی سے نکل پڑیںگے۔
قرآن کی اِس آیت میںواضح طورپر اُس جدید ظاہرہ کی طرف اشارہ ہے، جس کو ماڈرن کمیونکیشن (modern communication) کہاجاتا ہے۔ اہلِ مغرب نے فطرت میںاپنی دریافتوں کے ذریعے انتہائی تیز رفتار ذرائع پیدا کیے۔ پیغامات کی ترسیل، انسانی سفر، اشیاء کے حمل ونقل، ہرچیز میں ایسی غیر معمولی تیز رفتاری آگئی، جس کا پچھلی نسلوں نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا۔
رموزِ فطرت کا انکشاف ایک ایسا کام ہے جس کو مذہبی لوگ اپنے تقدس پرستانہ ذہن کی وجہ سے نہیں کرسکتے تھے۔ اِس لیے اِس کام کے لیے یاجوج اور ماجوج کا انتخاب ہوا۔ یہ لوگ مکمل طورپر سیکولر لوگ تھے، اور اِس بنا پر وہ اِس قابل تھے کہ کسی کامپلکس (complex) کے بغیرفطرت کی آزادانہ تحقیق کرکے وہ اس کے اندر چھپے ہوئے رازوں کا انکشاف کریں۔
معرفتِ اعلیٰ کا امکان
حضرت ابراہیم خدا کے پیغمبر تھے جو قبل سائنس دور (pre-scientific age) میں قدیم عراق میںپیدا ہوئے۔قرآن میںبتایا گیا ہے کہ خدا نے ان کو آسمان اور زمین کے ملکوت دکھائے (الأنعام:76 ) ۔ یہ ایک الہامی مشاہدہ تھا، وہ اس لیے کیاگیا تاکہ انھیں یقین حاصل ہو ۔
آسمان اور زمین کے ملکوت کا مشاہدہ تخلیق کا مشاہدہ ہے۔ اس مشاہدہ سے خالق کے بارے میں یقین حاصل ہوتا ہے۔ قبل سائنس دور میں اس قسم کا مشاہدہ صرف الہامی طریقے سے حاصل ہوسکتا تھا۔ موجودہ سائنسی زمانے میں جب دور بین (1608) اور خورد بین (1676) جیسے آلات کے ذریعہ براہِ راست مشاہدہ انسان کے لیے ممکن ہوگیا، تو یقین کا معاملہ ایک نئے دور میں داخل ہوگیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ خود علم انسانی کے ذریعے ہر شخص براہِ راست طورپر کائنات میں پھیلی ہوئی خدائی نشانیوں کو دیکھے اور اُس کے ذریعے نیا یقین حاصل کرسکے۔
جدیدسائنسی انقلاب نے خدا کی معرفت کا ایک نیا علمی دروازہ ہر انسان کے لیے کھول دیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ ہر انسان اپنے براہِ راست مطالعہ اور مشاہدہ کے ذریعے تخلیق کے اندر موجود، خالق کی شہادتوں (evidences) کو جان سکے۔ اِس سائنسی انقلاب کے ذریعے جو خدا ئی نشانیاں (divine signs) انسان کے اوپر کھلیں، انھوں نے اعلیٰ خدائی معرفت کے حصول کو آخری حدتک انسان کے لیے ممکن بنا دیا۔ اللہ کے بہت سے بندوں کو اس سے معرفت حاصل ہوئی۔ مگر اِس دنیا میں خیر کی قوتوں کے ساتھ شرکی قوتیں ہمیشہ سرگرم رہتی ہیں۔ اِسی کو زرتشت (وفات: 551 ق م) نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا:
The world is a perpetual battle ground of good and evil forces.
چناں چہ عین اُس وقت کچھ بڑے بڑے ذہن پیدا ہوئے جن کے پیدا کردہ افکار عملاًانسان کو دوبارہ معرفتِ خداوندی سے دور کرنے کا ذریعہ ثابت ہوئے۔ اس واقعہ کی پیشگی خبر حدیث میں اِس طرح دی گئی تھی کہ بعد کے زمانے میں ایک دجّال (great deceiver) پیدا ہوگا جو لوگوں کو اپنی پُرفریب باتوں سے گم راہی میں ڈال دے گا (بعض احادیث میں تیس دجّالوں کا ذکر ہے)۔ دجّال یا دجّالیت کیا ہے۔ اِس سے مراد دراصل غلط تعبیر (misinterpretation) کی فکری گم راہی ہے جو دورِ دجّال میں زیادہ بڑے پیمانے پر ظاہر ہوگی۔
عالمی دعوت کا دور
اِس دور میں انجام دیے جانے والے مثبت کام کا دوسرا پہلو عالمی دعوت ہے۔ اِس عالمی دعوت کی پیشگی خبرایک حدیثِ رسول میں اِس طرح دی گئی تھی: لایبقیٰ علی ظہر الأرض بیت مَدر، ولا وبَر إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃَ الإسلام (مسند احمد، جلد 6 ، صفحہ 4)۔ یعنی زمین کی سطح پر کوئی بھی خیمہ اور مکان ایسا نہیں باقی رہے گا جس میں خدا، اسلام کا کلمہ داخل نہ کردے۔
دنیا کے تمام گھروں میں کلمۂ اسلام کا داخلہ کسی پُراسرار ذریعے سے نہیں ہوگا۔ یہ واقعہ مکمل طورپر معلوم وسائل کے ذریعے انجام پائے گا، یعنی پیغام رسانی کے عالمی وسائل کے ذریعے۔ موجودہ زمانے کو کمیونکیشن کا دور (age of communication) کہاجاتا ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ موجودہ زمانے میں پہلی بار اِبلاغ کے عالمی وسائل انسان کے تصرف میں آئے ہیں۔ سائنسی انقلاب سے پہلے اِس قسم کی عالمی دعوت ممکن ہی نہ تھی۔
موجودہ زمانے میں دجّال نے جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کر کے ساری دنیا کو منفی پروپیگنڈوں سے بھر دیا ہے۔ ساری دنیا منفی سوچ کے اندھیرے میں جی رہی ہے۔ یہی وہ صورتِ حال ہے جس کو حدیث میں بطور پیشین گوئی فتنۃُ الدُّہَیماء (أبوداؤد، کتاب الفتن) کہاگیا تھا، یعنی سخت قسم کا تاریک فتنہ ۔ اِس تاریک فتنے سے مراد ایک عظیم فکری اندھیرا (intellectual darkness) ہے۔ یہ فتنہجدید ذرائع ابلاغ کے منفی استعمال کے نتیجے میں ظاہر ہوگا۔
جدید ذرائع ابلاغ کا مثبت استعمال دعوتِ حق کی عالمی اشاعت ہے۔ یہ اشاعت ملٹی میڈیا (multi-media) کے ذریعے انجام پائے گی۔ ملٹی میڈیا کے ذریعے دعوت کی موثراشاعت کرنے والے ہی کو غالباً حدیث میں مہدی، یا رجلِ مومن کہاگیا ہے۔جدید وسائل کا منفی استعمال کرنے والے کا علامتی نام دجال ہے، اور جدید وسائل کا مثبت استعمال کرنے والے کا علامتی نام مہدی۔
مغرب کا دورِ عروج
مغربی قوموں نے جدید کمیونکیشن کو لمبی جدوجہد کے بعد دریافت کیا تھا۔اِس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے فائدے کا بڑا حصہ(lion’s share) مغربی قوموں کو ملا۔ اِس کے ذریعے انھوں نے پہلے نوآبادیات (colonializm) کادور پیدا کیا، پھر اِسی کا یہ نتیجہ ہواکہ وہ عالمی مواصلاتی سَیطرہ وجو د میں آیا جس کو گلوبلائزیشن (globalization) کہاجاتا ہے۔ انھوں نے پوری دنیا کو ایک گلوبل ولیج (global village) کی حیثیت دے دی، جس کی مرکزی طاقت فطری طورپر اہلِ مغرب خود تھے۔
اِس معاملے کا دوسرا پہلو وہ ہے جو ایک حدیثِ رسول سے بطور پیشین گوئی معلوم ہوتا ہے۔ یہ ایک لمبی حدیث ہے جو یا جوج اورماجوج کے تذکرے کے ذیل میں آئی ہے۔ اُس کے ایک حصے کا ترجمہ یہاں درج کیا جاتاہے:
’’ابوسعید خُدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا— یاجوج اور ماجوج کو کھولا جائے گا، پھر وہ لوگوں کی طرف نکلیں گے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے (وہم من کلّ حَدَب ینسلون)۔ پھر وہ لوگوں کے اوپر چھا جائیں گے۔اہلِ ایمان اُن سے بچنے کے لیے اپنے شہروں اور اپنی پناہ گاہوں میں چلے جائیں گے اور اپنے مویشیوں کو وہ اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ یاجوج اور ماجوج زمین کا سارا پانی پی جائیں گے (ویشربون میاہ الأرض)۔ اُن میں سے کچھ لوگ ایک دریا کے پاس آئیں گے اور اس کا پانی پی کر اس کو خشک کردیں گے، پھر کچھ لوگ اُس دریا سے گزریں گے، تووہ اس کو دیکھ کر کہیں گے کہ کبھی یہاں پانی موجود تھا۔ زمین کے صرف وہ لوگ یاجوج اور ماجوج سے بچیں گے جو اپنے شہر یا اپنی پناہ گاہ میں تھے۔ پھر یاجوج اور ماجوج میںسے کوئی شخص کہے گا: ہم زمین والوں سے فارغ ہوگئے، اب آسمان والے باقی ہیں(ہؤلاء أہل الأرض قد فرغنا منہم، بقی أہل السماء)۔ پھر اُن میں سے کوئی شخص اپنے حربہ کو حرکت دے گا اور وہ اس کو آسمان کی طرف پھینکے گا، اس کے بعد وہ حربہ ان کی آزمائش کے لیے خون آلود ہو کر ان کی طرف لوٹ آئے گا۔ (مسند احمد، جلد 3 ، صفحہ 77 )
وضاحت
اِس حدیث میں واضح طور پر اُس حقیقت کی طرف اشارہ ہے جو یورپ کی نشاۃِ ثانیہ Renaissance) (کے بعدبتدریج عالمی سطح پر ظاہر ہوئی۔ اِس کے بعد اقتصادیات کی دنیا میں ایک نیا واقعہ پیش آیا جس کو اقتصادی انفجار (economic explosion) کہاجاسکتا ہے۔ اِس جدید اقتصادی انفجار کا سرا مکمل طورپر مغربی قوموں کے ہاتھ میں تھا۔اِس کے ذریعے انھوں نے زمین کے تمام مادّی ذخائر پر اجارہ داری (monopoly) حاصل کرلی۔ ’’دریا کا پانی پی جانے‘‘ سے مراد غالباً پٹرول کے ذخائر ہیں۔ اِن ذخائر کا بڑا حصہ مشرقی دنیا میں تھا، لیکن جس انڈسٹری میںان کی کھپت تھی، وہ زیادہ تر مغربی دنیا میں واقع تھیں۔ اِس لیے اہلِ مغرب کو یہ موقع ملا کہ وہ تیل کے قدرتی ذخیروں کو اپنے یہاں لے جا کر ان کو بھر پور طورپر استعمال کرسکیں۔
حدیث میںمزید بتایا گیا ہے کہ یاجوج اور ماجوج جب زمین کا سارا پانی پی چکے ہوں گے تو وہ آسمان کی طرف رخ کریں گے۔ اِس سے مراد غالباً مختلف قسم کے خلائی راکیٹ ہیں۔ مغربی قوموں نے کائنات میں زمین جیسے کسی کُرہ (planet) کی کھوج میں کثرت سے اپنے تفتیشی راکیٹ خلا میں بھیجے، جو کیمروں اور مختلف قسم کے آلات سے لیس تھے، مگر وہ کھوج کے باوجود خلا میں زمین جیسا کوئی دوسرا کرہ دریافت نہ کرسکے— مذکورہ حدیث تمثیل کی زبان میں واضح طورپر اُن حالات کو بتار ہی ہے جو موجودہ زمانے میں مغربی قوموں کے ذریعے پیش آئے۔
سیکولر گروہ کے ذریعے دین کی تائید
صحیح البخاری میں ایک لمبی روایت نقل ہوئی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غزوۂ خیبر (7 ہجری) پیش آیا۔ اِس غزوے میں ایک آدمی نے نہایت بہادری کے ساتھ جنگ کی، یہاں تک کہ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ مسلمان اِس شخص کے کارنامے سے متاثر ہوئے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے بارے میں فرمایا کہ وہ آگ میں جانے والوں میں سے ہے۔ لوگوں کو اِس پر شک ہوا توآپ نے فرمایا کہ جاکر معاملے کی تحقیق کرو۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اگر چہ اُس نے نہایت بہادری کے ساتھ جہاد کیا تھا، لیکن آخر میں اُس نے خود کُشی کرکے اپنی جان دے دی۔ چوں کہ خودکشی کی موت حرام موت ہے، اِس لیے آپ نے فرمایا کہ وہ اہلِ نار میں سے ہے(ہٰذا من أہل النّار)۔
اِس کے بعد آپ نے اِس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: إنّ اللّٰہ لیؤیّد ہٰذا الدّین بالرّجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد والسّیر، باب : إن اللہ یؤید الدین بالرّجل الفاجر) یعنی خدا ضرور تائید کرے گا اِس دین کی فاجر انسان کے ذریعے۔
اِس حدیث سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اِس دنیا میں کوئی چیز شرِّ مطلق نہیں ہوتی، یہاں ہر شر میں خیر کا پہلو شامل رہتا ہے۔ کچھ ’’فاجر‘‘ لوگ اگر اپنے مقصد کے تحت کوئی کام کریں تو اس کا فائدہ صرف اُنھیں کو نہیں ملے گا، بلکہ اُن کے کام میں ایسے مزید پہلو شامل ہوں گے جن کافائدہ دین ِ حق کے حصے میں بھی آجائے گا۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے اور اِس میں کوئی استثنا نہیں۔
یہی صورت یاجوج اور ماجوج کے معاملے میں پیش آئے گی۔ یاجوج اور ماجوج کا گر وہ، مذہبی معنوں میں، کوئی صالح گروہ نہیں ہوگا، لیکن وہ اپنے عمل سے جو تبدیلی زمین میں لائے گا، اُس میں اگر ایک طرف شر کا پہلو ہوگا تو اسی کے ساتھ اُس میں خیر کا پہلو بھی لازماً شامل رہے گا۔
روایات کے مطابق، یاجوج اور ماجوج کے زمانے میں دو اور بڑے واقعات پیش آئیں گے۔ ایک یہ کہ اُس زمانے میں دجّال یا دجاجلہ (صحیح مسلم، کتاب الفتن) کا ظہور ہوگا۔ اور دوسری طرف اُسی زمانے میں ایک اور شخص کا ظہور ہوگا، جس کو صحیح مسلم کی ایک روایت میں رجلِ مؤمن کہاگیا ہے، اور حدیث کی دوسری کتابوں میں اس کو مہدی کہاگیا ہے۔
یاجوج اور ماجوج کے بارے میں قرآن میں: حتّی إذا فُتحت یأجوج ومأجوج (الأنبیاء:96 ) کا لفظ آیا ہے، یعنی جب یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا۔ قرآن کے اِس اسلوب میںیہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ یاجوج اور ماجوج کا نکلنا خدا کے ایک عظیم منصوبہ کے تحت ہوگا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یاجوج اور ماجوج کی نسل کے درمیان فطرت کی حقیقتوں کو دریافت کرنے کی جو غیر معمولی اسپرٹ پیدا ہوئی، وہ پوری تاریخ میں کسی بھی انسانی گروہ کے اندر موجود نہ تھی۔ اِسی کا یہ نتیجہ تھا کہ یاجوج اور ماجوج کی نسل اپنی بے پناہ کوشش کے ذریعے سائنسی اور صنعتی تہذیب کو وجود میں لائی۔ اِس تہذیب کے نتیجے میں ایسے عظیم مواقع کھُلے ، جو اِس سے پہلے تاریخ میں کبھی دیکھے نہیں گئے تھے۔ بعد کودجّال اور مہدی اور مسیح کی صورت میں جو کردار وجود میں آئیں گے، وہ اِنھیں مواقع کے استعمال کا نتیجہ ہوں گے۔ صرف اِس فرق کے ساتھ کہ دجّال، اِن جدید مواقع کا استعمال منفی انداز میں کرے گا،اورمہدی یا مسیح اِن جدید مواقع کا استعمال مثبت انداز میں کریں گے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یاجوج اور ماجوج کے عمل ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ تاریخ میںپہلی بار تین چیزوں کا عظیم امکان پیدا ہوا —ضلالتِ کُبریٰ ،معرفتِ کبریٰ اور دعوتِ کبریٰ۔
قربِ قیامت
قرآن اور حدیث کی تصریحات سے معلوم ہوتاہے کہ یاجوج اور ماجوج جب ظاہر ہوں گے تو یہ وہ وقت ہوگا، جب کہ قیامت بہت قریب آچکی ہوگی۔ ایک لمبی روایت جو ابنِ ماجہ اور مسند احمد میں آئی ہے، اُس میں یاجوج اور ماجوج کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیاہے: فإنّ الساعۃ کالحامل المُتمّ التی لایدری أہلہا متٰی تفجؤہم بولدہا، لیلاً أونہاراً (مسند احمد، جلد 1، صفحہ 375 ) ۔ یعنی ظہورِیاجوج اور ماجوج کے وقت قیامت اتنی زیادہ قریب ہوگی، جیسے کوئی حاملہ جس کے حمل کی مدت پوری ہوچکی ہو، اُس کے اہلِ خانہ کو نہیں معلوم کہ کب اچانک اس کا وضعِ حمل ہوجائے، رات کو یا دن کو۔
یاجوج اور ماجوج کا ظہور اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کامعاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ یہ دراصل تاریخ کے خاتمہ (end of history) سے پہلے عمل میں آنے والا آخری اتمامِ حجت کا معاملہ ہے۔ اُس زمانے میں ایسے اسباب اور حالات پیدا ہوں گے کہ حق کا اعلان اپنی آخری اور اعلیٰ ترین صورت میںانجام دیا جاسکے۔ گویا کہ یہ صورِ قیامت سے پہلے صورِ دعوت ہوگا۔ایسی حالت میںدجّالی فتنے کا ظہور اس بات کی علامت ہوگا کہ انسان نے آخری طورپر اِس بات کا جواز (justification)کھو دیا ہے کہ موجودہ زمین پر اس کو مزید آباد رہنے کا موقع دیا جائے۔
تاریخ کا عظیم واقعہ
یاجوج اور ماجوج کے ذریعے جو واقعہ پیش آئے گا، وہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے تاریخ کا بہت بڑا واقعہ ہوگا۔ اِس انقلاب کے ذریعے تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ فطرت (nature) بڑے پیمانے پر پرستش کے بجائے تسخیر کا موضوع بنے گی۔ اِس کے نتیجے میں زمین اپنے خزانے اُگل دے گی۔ اس کے نتیجے میں وہ واقعہ پیش آئے گا جس کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لاتدّخر الأرض من نباتھا شیئاً إلاّ أخرجتْہ (ابن ماجہ، کتاب الفتن) یعنی زمین اپنے اندر کی تمام پیداوار باہر نکال دے گی، وہ اُس میںسے کچھ بھی نہ چھوڑے گی۔
فطرت کے اندر چھپے ہوئے مادّی رازوں کو دریافت کرنے کا یہ عمل مغربی سائنس دانوں کے ذریعے پیش آئے گا۔ یہ سائنس داں مکمل طورپر سیکولر سائنس داں ہوں گے۔ مذہب کے معاملے میں وہ پوری طرح غیر جانب دار (indifferent) ہوں گے۔ مذہب کے معاملے میں ان کا رویہ نہ مثبت رویہ ہوگا اور نہ منفی رویہ۔ تاہم فلاسفہ اور مفکرین ان کی تحقیقات کو اپنے اپنے مقصد کے لیے استعمال کریں گے۔ اِس طرح اُن کے دو گروہ بن جائیںگے— سیکولر مفکرین اور مذہبی مفکرین۔ دورِسائنس کے ظہورکے بعد دنیا میں جو مفاسد پیداہوئے، وہ خود سائنس کا نتیجہ نہ تھے، بلکہ وہ تمام تر الحاد (atheism) کا نتیجہ تھے۔
دجّال کا ظہور
دجّال کا لفظ دَجْل سے بنا ہے۔ دجل کے لفظی معنٰی ہیں — دھوکا دینا (to deceive) ۔ داجِل کے معنی ہیں دھوکا دینے والا۔ دجّال اِس کا مبالغہ ہے، یعنی بہت زیادہ دھوکا دینے والا ۔ اِسی وجہ سے کسی چیزپر سونے کا ملمّع کرکے اُسے سونا ظاہر کرنے کو دجل کہاجانے لگا۔ مثلاً کہاجاتا ہے: دجّل الإناء یعنی غیر ذہبی برتن پر سونے کا ملمع کرکے اس کو سونے کے برتن کی مانند ظاہر کرنا۔
بعد کے زمانے میں ظاہر ہونے والے شخص کو دجال اِس لیے کہا گیا کہ وہ حقائق کے ساتھ دجل یا فریب کاری کا معاملہ کرے گا۔ وہ حقیقتوں کو غلط صورت میں پیش کرکے لوگوں کو دھوکے میں ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ فکری معاملات میں دجل کا دوسرا نام — غلط تعبیر (misinterpretation) ہے۔ غلط تعبیر کیا ہے۔ غلط تعبیر کا مطلب ہے — کسی چیز کی غیر واقعی یا باطل توجیہہ کرنا:
Misinterpretation: An incorrect, or false explanation.
دجل کا یہ فعل ہمیشہ سے دنیا میں موجود رہا ہے، لیکن پرنٹنگ پریس اور میڈیا کی ایجاد نے موجودہ زمانے میں دجل کے مواقع بہت زیادہ بڑھا دیے ہیں۔ پہلے زمانے میں اگر سادہ طور پر دجل کرنے والے لوگ پیدا ہوتے تھے، تواب جدید مواقع کے استعمال سے یہ ممکن ہوگیا کہ زیادہ بڑے پیمانے پر دجّالی کا فعل انجام دیا جاسکے۔ دجّال کسی پُراسرار شخصیت کا نام نہیں۔ دجال، دراصل قدیم دور کے چھوٹے دجّال کے مقابلے میں، جدید دور کازیادہ بڑا دجال ہے۔ یہ دراصل، یاجوج اور ماجوج کے ذریعے پیدا شدہ عظیم مواقع کا منفی استعمال کرنے والے کا دوسرا نام ہے۔
دجّالِ اکبر کا فتنہ
حدیث کی کتابوں میں بہت سی روایتیں مستقبل کے بارے میں آئی ہیں۔ اِن میں سے ایک یہ ہے کہ آخری زمانے میں ایک دجّال پیدا ہوگا۔ اُس وقت اُمتِ مسلمہ میںسے ایک شخص اٹھے گا، جو دجّال کا’حَجیج‘بنے گا اور اُس کا خاتمہ کرے گا(إن یخرج وأنا فیکم فأنا حَجیجہ دُونکم، وإن یخرج ولستُ فیکم فامْرُئٌ حجیج نفسہ، صحیح مسلم، کتاب الفتن) یہ واقعہ تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہوگا۔ چناں چہ صحیح مسلم کی روایت میںیہ الفاظ آئے ہیں: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین ( کتاب الفتن) یعنی یہ خدا کے نزدیک سب سے بڑی گواہی ہوگی۔
دجّال کے لفظی معنٰی بہت دھوکا دینے والاہے۔ دجال اپنا یہ کام تلوار کے ذریعے نہیں کرے گا۔ دھوکا دینا، دلیل کے ذریعے ہوتا ہے، نہ کہ تلوار کے ذریعے۔ چنانچہ دجال علم اور دلائل کے زور پر لوگوں کو بہکائے گا۔ وہ لوگوں کو ذہنی گم راہی میں مبتلا کرے گا۔ دجال کے مقابلے میں جو شخص اس کی کاٹ کے لیے اٹھے گا، اُس کے لیے صحیح مسلم میں ’حجیج‘ کا لفظ آیا ہے۔ لسان العرب میں ’حجیج‘ کا مفہوم اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: مُحاجُّہ ومغالبُہ بإظہار الحُجّۃ علیہ (2/228) یعنی دلائل کے ذریعے غالب آنے والا:
One who can overcome in the argument.
حدیث میں آتا ہے کہ دجّال کی پیشانی پر ک، ف، ر (کفر) لکھا ہوا ہوگا (صحیح مسلم، کتاب الفتن) اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دجال جس دور میں پیدا ہوگا، وہ خدا سے کفر (انکار) کا دور ہوگا، یعنی الحاد کا دور۔ پچھلی تاریخ کا فتنہ خدا کا انکار نہیں تھا، بلکہ خدا کو مان کر اُس کا شریک بنانا تھا۔ اُس زمانے میں خدا کا وجود ایک اصولِ موضوعہ(axiom)کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں یہ مسلّمہ ٹوٹ گیا۔ آج الحاد کا زمانہ ہے، یعنی انکارِ خدا کا زمانہ۔
قدیم زمانے میں داعی کو یہ ثابت کرنا پڑتا تھا کہ خدا کا کوئی شریک نہیں۔ موجودہ زمانے میں داعی کو خود خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو دجّال کے فتنے سے لڑنا کہاگیا ہے۔
حدیثوں کے مطالعے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دجّال یا دجّالیت در اصل سائنسی دور کا فتنہ ہے۔ سائنسی دور میں پہلی بار یہ ہوگا کہ کچھ لوگ دلائل کے نام پر حق کا ابطال کریں گے۔ وہ یہ تأثر دیں گے کہ حق، علمی ترقی کے مقابلے میں ٹھیر نہیں سکتا۔ پھر خدا کی توفیق سے ایک شخص اٹھے گا جو خود سائنسی دلائل کے ذریعے اِس دجّالی فتنے کا خاتمہ کردے گا۔ وہ دجّالی دلائل کو زیادہ بر تر دلائل کے ساتھ بے بنیاد ثابت کردے گا۔ یہ واقعہ، اپنی نوعیت کے اعتبار سے، تاریخ بشری کا پہلا واقعہ ہوگا۔ وہ دعوتِ حق کی عظیم ترین مثال کے ہم معنی ہوگا۔ اِسی لیے اُس کی بابت صحیح مسلم میں یہ الفاظ آئے ہیں: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین۔ یہ عظیم دعوتی واقعہ قیامت سے پہلے پیش آئے گا۔
دجّالی فتنہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کوئی نیا فتنہ نہیں،وہ شیطانی فتنے ہی کا نقطۂ انتہا ہے۔شیطان ہمیشہ سے یہ کرتا رہا ہے کہ وہ ’تزئین‘ کے ذریعے لوگوں کو سچائی کے راستے سے ہٹاتا ہے۔ شیطان کا یہ کام ہمیشہ سے جاری ہے۔ سائنسی دور میں یہ شیطانی تزئین، علمی تزئین کے روپ میں ظاہر ہوگی۔ اسی لیے اس کو دجّالیت کہاگیا ہے۔ قرآن کے مطابق، شیطان کا کام تزئین (الحجر: 39 ) کرنا ہے۔ تزئین کے لیے ہمیشہ اُس کے موافق وسائل درکار ہوتے ہیں۔ پچھلے زمانوں میں یہ موافق وسائل زیادہ نہیں ہوتے تھے۔ موجودہ زمانے میں یہ موافق وسائل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں، علمی اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی۔ دجّال دراصل وہ شیطانِ اکبر ہے جو جدید وسائل کے ذریعے، زیادہ پُرزور انداز میں باطل کی تزئین کرے گا۔ پھر امتِ محمدی کا ایک شخص اٹھے گا جو خدا کی خصوصی مدد سے نظریاتی سطح پراس کی دجّالیت کا خاتمہ کردے گا۔
دجّالیت کیاہے
دجالیت کوئی ایسی برائی نہیں، جو آخری زمانے میں اچانک ظاہر ہوجائے۔ دجالیت دراصل شیطانی اِغوا ہی کا زیادہ بڑا درجہ ہے۔ اغوا اور دجل دونوں اپنی حقیقت کے اعتبار سے قریب المعنی الفاظ ہیں۔ اغوا عام قسم کی دجالی ہے، اور دجالیت زیادہ بڑے قسم کا اغوا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کی تخلیق کے ابتدائی زمانے ہی میں شیطان نے یہ چیلنج دیا تھا کہ: لأزیّننّ لہم فی الأرض، ولأغوینّہم أجمعین (الحجر: 39) یعنی میں ضرور اُن کے لیے زمین میںتزئین کروں گا، اور ضرور اُن سب کو بھٹکاؤں گا۔ قرآن کے دوسرے مقام پر اِس معاملے کی مزید وضاحت اِن الفاظ میں آئی ہے: ولاتجد أکثرہم شاکرین (الأعراف: 17 ) یعنی تو اُن میں سے اکثر لوگوں کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا:
And you will not find most of them grateful (7: 17)
ناشکری کا فتنہ
اِس سے معلوم ہوا کہ شیطانی اغوا کا اصل نشانہ یہ ہے کہ وہ انسان کو شکر کے راستے سے ہٹا دے۔ کسی خوب صورت تدبیر کے ذریعے وہ انسان کو ناشکری کے فتنے میں مبتلا کردے۔ ہدایت اور گم راہی دونوں کا اصل خلاصہ یہی ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ آدمی شکر کے احساس میں جینے والا ہو۔ اِس کے مقابلے میں، گم راہی یہ ہے کہ آدمی کا دل شکر کے جذبات سے خالی ہوجائے۔ شیطان یہی کام ہمیشہ کرتا رہا ہے، لیکن بعد کے زمانے میں شیطان کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ لوگوں کو زیادہ بڑے پیمانے پر شکر ِ خداوندی کے راستے سے ہٹا سکے۔ اِس لیے حدیث میںاِس فتنے کو دجّال یا دجّالیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
شکر کیا ہے۔ شکر دراصل، خدا کی نعمتوں کے اعتراف (acknowledgement) کا دوسرا نام ہے۔ یہ شکر ہر زمانے میں انسان سے مطلوب تھا۔ پچھلے زمانے میں بھی اور موجودہ زمانے میں بھی۔ کسی انعام پر مُنعم کا اعتراف کرنا، ایک فطری انسانی جذبہ ہے۔ لیکن اعتراف کے لیے ہمیشہ کسی پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً جب آپ کھانے کی کوئی چیز کھاتے ہیں، تو آپ کو فوڈ آئٹم کی صورت میں شکر، یا اعتراف کا ایک پوائنٹ آف ریفرنس مل جاتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ خدایا، تیرا شکرہے کہ تو نے مجھے یہ چیز کھانے کے لیے عطا کی۔
لیکن ایک شخص جو جدید علمِ نباتات (Botany) اور جدید علمِ زراعت (Agriculture) اور جدید علمِ باغ بانی (Horticulture) سے واقف ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ کسی فوڈ آئٹم کی معنویت کو ہزاروں گُنا زیادہ اہمیت کے ساتھ دریافت کرسکے۔ اِس طرح اس کا احساسِ شکر، عام انسان کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ جب وہ کہے گا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے کھانے کے لیے یہ فوڈ آئٹم دیا، تو وہ ایک عظیم اہتزاز (super thrill) کے جذبے کے تحت، وہ الفاظ بولے گا جس کا تجربہ پہلے کسی انسان کو نہیں ہوسکتا تھا۔پہلا شخص جس حقیقت کو صرف ذائقہ لسانی کی سطح پر جانے گا، دوسرا شخص اس کو وسیع تر علمِ سائنس کی سطح پر دریافت کرے گا۔ پہلے شخص کا اعتراف اگر ایک سادہ اعتراف ہوگا، تو دوسرے شخص کا اعتراف ایک ہمالیائی اعتراف بن جائے گا۔
انسانی غذا
انسانی غذا کے معاملے میں موجودہ زمانے میں بے شمار تحقیقات ہوئی ہیں۔ اِن تحقیقات کے نتیجے میں اَن گنت معلومات سامنے آئی ہیں، جو خالق کی معرفت کے امکان کو لامحدود حد تک بڑھا دیتی ہیں۔ اِس معرفت کا ایک پہلو یہ ہے کہ کس طرح ایسا ہوا کہ انسان کی جو غذائی ضرورت ہے، وہ خارجی دنیا میں اپنی اعلیٰ تکمیلی صورت میں پیشگی طور پربھر پور حالت میں موجود ہے۔انسانی ضرورت اور خارجی غذا کے درمیان کامل مطابقت (compatibility) اپنے آپ میں، سوچنے والے کے لیے معرفت کا ایک سمندر ہے۔
قدیم زمانے میں غذا کا صرف ایک مفہوم تھا—بھوک کے وقت غذائی چیزوں کو کھاکر اپنا پیٹ بھر لینا۔ یہ بھی بلاشبہہ، شکر کا ایک ذریعہ تھا، لیکن موجودہ زمانے میں اِس میں جو دریافتیں ہوئیں ہیں، انھوںنے شکر کے معاملے میںپوائنٹ آف ریفرنس کو بہت زیادہ وسیع بنا دیا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق، غذا سادہ طورپر صرف پیٹ بھرنے کے لیے نہیں ہے، وہ ہمارے جسم کی متنوّع ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے۔ چناں چہ موجودہ زمانے میں غذا کو متوازن غذا (balanced diet) کہاجاتا ہے۔ متوازن غذا کا مطلب ہے— وہ خوراک جو صحت کی متنوع ضرورت کے لیے متناسب اجزا پر مشتمل ہو:
Balanced diet: A diet with the right amount, proportion, and variety of the foods needed for health.
جدید تحقیق کے مطابق، متوازن غذا وہ ہے جس میں حسب ذیل اجزا شامل ہوں:
A balanced diet is one which contains carbohydrate, protein, fat, vitamins, mineral salts, and fibre in the correct proportions.
متوازن غذا کے بارے میں اِس دریافت نے ہمارے احساسِ شکر کے لیے اتھاہ حد تک زیادہ بڑا پوائنٹ آف ریفرنس دے دیا۔ پچھلی معلومات کے تحت، انسان اگر حیوانی سطح پر غذا کی اہمیت کو جانتا تھا، تو اب جدید معلومات کے تحت وہ اِس قابل ہوگیا کہ وہ اعلیٰ ترین انسانی سطح پر غذا کی اہمیت کو محسوس کرسکے۔ وہ آفاقی درجے میں شکر کا تحفہ اپنے خالق کی خدمت میں پیش کرے۔
پوائنٹ آف ریفرنس میں یہ اضافہ صرف پہلی بار ممکن ہوا ہے۔ پچھلی صدیوں میں سائنس نے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔اُس نے تاریخ میں پہلی بار فطرت (nature) میں چھپی ہوئی اُن حقیقتوں کو کھولا ہے، جن کو قرآن میں آیات اللہ (divine signs) کہا گیا ہے۔ اِن سائنسی دریافتوں نے یہ کیا ہے کہ انعاماتِ الٰہی کے بارے میں انسان کے پوائنٹ آف ریفرنس کو بہت زیادہ بڑھادیا ہے۔
اِس طرح، تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ انسان ہر چیز میں خدا کی نعمتوں کو انتہائی اعلیٰ درجے میں محسوس کرے اور شکر ِ خداوندی کے بلند تر احساسات سے اس کا سینہ معمور ہوجائے۔ دورِقدیم کے انسان کو اگر معرفت کا تجربہ ہوتا تھا، تو اب جدید دریافتوں کے بعد یہ ممکن ہوگیا ہے کہ انسان زیادہ برتر سطح پر معرفتِ اعلیٰ کا تجربہ کرسکے۔
نُطق اور سماعت
اِسی طرح انسان ہمیشہ بولتا تھا اور اس کے بول کو دوسرا انسان سنتا تھا۔ قدیم انسان کے لیے یہ بظاہر ایک سادہ واقعہ تھا، مگر موجودہ زمانے میں، اِس معاملے میں، بے شمار نئی چیزیں دریافت ہوئی ہیں، جنھوں نے بولنے اور سننے کے معاملے کو ایک عظیم نعمت بنا دیا ہے، ایک ایسی نعمت جس کو سوچ کر آدمی کے سینے میں اِس انوکھے عطیہ پر منعمِ حقیقی کے لیے شکر کا ایک سیلاب امنڈ پڑے۔
مثال کے طورپر الیکٹری سٹی (electricity) کو لیجئے۔ الیکٹری سٹی کی ایجاد نے بہت سے معاملات میں نئے نئے تجربات کو ممکن بنا دیا ہے۔ چناں چہ ایک سائنس داں نے تجربے کے دوران شیشے کے ایک فانوس کو لیا۔ اس نے اس کے منہ کو بند کیا اور اس کے اندر ایک برقی گھنٹی رکھی ۔ پھر اس نے شیشے کے اندر کی ہوا کو پوری طرح نکال دیا۔ اِس گھنٹی کا سوئچ باہر تھا۔ اب سوئچ کو دبایا گیاتو فانوس کے اندر گھنٹی کے بجنے کی صورت دکھائی دے رہی تھی، لیکن فانوس کے باہر گھنٹی کے بجنے کی آواز بالکل سنائی نہیں دے رہی تھی۔
اِس طرح کے تجربات کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایک آدمی کے منہ سے نکلی ہوئی آواز کو جب دوسرا آدمی سنتا ہے، تو یہ ایک فطری ترسیل (transmission) کے ذریعے ہوتا ہے۔ منہ سے نکلی ہوئی آواز ہوا میں لہریں پیدا کرتی ہے۔ یہ لہریں سفر کرکے انسان کے کان تک پہنچتی ہیں، اور پھر انسان اِن صوتی لہروں (sound waves) کو ناقابلِ فہم حد تک انتہائی پیچیدہ نظامِ سماعت کے ذریعے بامعنیٰ الفاظ (meaningful words)میں کنورٹ (convert)کرکے اُن کو سنتا اور سمجھتا ہے۔فطرت میںاِس طرح کے بے شمار انتظامات ہیں، جن کے ذریعے بولنے اور سننے کا واقعہ وجود میں آتا ہے۔ جو آدمی اِس معاملے میں سائنس کی جدید دریافتوں کو جانے، اس کے اندر اپنے منعم کے بارے میں جو عظیم احساس پیدا ہوگا، اُس کا تجربہ قدیم زمانے کے انسان کو نہیں ہوسکتا تھا۔
آبی قانون
اِسی طرح قدیم زمانے سے انسان دریاؤں اور سمندروں میںسفر کرتا تھا۔ اس کے لیے بھی یہ موقع تھا کہ وہ اِس آبی سفر پر خالق کا شکر ادا کرے۔ لیکن موجودہ زمانے میں اِس موضوع پر جو تحقیقات ہوئی ہیں، انھوں نے اِس معاملے میں آدمی کے پوائنٹ آف ریفرنس کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔مثلاً یہ کہ کس قانونِ فطرت کے تحت کشتی پانی کے اوپر چلتی ہے، اِس کا علم پہلے انسان کو نہ تھا۔ موجودہ زمانے میں وسیع تحقیقات کے ذریعے اِس معاملے میںانسان کے علم میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ چناںچہ سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ یہ ایک آبی قانون ہے جس کے تحت ایسا انوکھا واقعہ ممکن ہوتا ہے کہ کشتیاں اور جہاز سمندر میںتیرتے ہوئے دور کی منزل تک پہنچ جائیں۔ اِس آبی قانون کو آج کل کی زبان میں ہائڈرواسٹیٹکس (hydrostatics) کہاجاتا ہے، جس کا ایک شعبہ بائنسی (buoyancy) ہے۔اِس سے مراد پانی کا یہ انوکھا قانون ہے کہ جب کوئی چیز پانی میں ڈالی جاتی ہے، تو وہ پانی کے اندر جتنی جگہ گھیرتی ہے، اُسی کے بقدر وہاں اَپ ورڈ پریشر پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کشتی پانی کی سطح پر تیرنے لگتی ہے:
Buoyancy: The upward pressure by any fluid on a body partly or wholly immersed therein: it is equal to the weight of the fluid displaced.
پانی کی سطح پر کشتی کا چلنا پہلے بھی انسان کے اندر شکر کا جذبہ پیدا کرتا تھا، لیکن موجودہ زمانے میں سائنس کی مذکورہ دریافت نے اِس معاملے میں انسان کے پوائنٹ آف ریفرنس کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ اب اِن نئی معلومات کے ساتھ جب ایک انسان کشتی یا جہاز کو تیز رفتاری کے ساتھ پانی کی سطح پر تیرتے ہوئے دیکھتا ہے، تو اُس کا سینہ بہت زیادہ اضافے کے ساتھ شکر ِ خداوندی کے جذبات سے بھر جاتا ہے۔ اعلیٰ شکر کا یہ موقع انسان کو جدید سائنسی دریافتوں کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔
نفرت اور شکایت
یہ چند بالکل سادہ قسم کی مثالیں ہیں۔ اِس طرح کی بے شمار باتیں جدید سائنسی دریافتوں کے ذریعے ہمارے علم میں آئی ہیں۔ اِس طرح تاریخ میں پہلی بار اہلِ ایمان کے لیے یہ عظیم موقع کھُلا کہ وہ فطرت کے انعامات کو زیادہ اعلیٰ درجے پر جانیں اور مُنعمکا اعتراف زیادہ گہرائی کے ساتھ کرسکیں۔ یہ گویا اہلِ ایمان کے لیے عظیم شکر کا ایک موقع تھا، مگر عین اُسی وقت شیطانی اغوا نے اُن کے ذہن کو منفی سوچ کی طرف موڑ دیا۔ ساری مسلم دنیا شکایت اور نفرت اور تشدد کے جذبات کا شکار ہو گئی۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اعلیٰ شکر اور اعلیٰ معرفت کے تجربے سے عملاً محروم ہوکر رہ گئے۔
یہ بلاشبہہ شیطانی اغوا کا بہت بڑا واقعہ تھا، اِس لیے اس کو حدیث میں دجّالی کہا گیا ہے۔ یہ دجّالی کس طرح ممکن ہوئی۔ وہ اِس طرح ممکن ہوئی کہ عین اُس زمانے میں جب کہ سائنس نے آیاتِ الٰہی (divine signs) کو کھولا تھا، اُسی زمانے میں غیر مسلم قوموں نے جدید طاقتوں سے مسلح ہوکر مسلمانوں کو ہر شعبے میں مغلوب کرلیا۔ تعلیمی، اقتصادی اور سیاسی، ہر میدان میں مسلمان غیرمسلموں سے پچھڑگئے۔ مسلمانوں کا یہ پچھڑا پن ان کی اپنی کوتاہی کے نتیجے میں تھا، لیکن دجّال نے جدید میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو بتایا کہ یہ دوسری قوموں کی سازش اور ظلم کے نتیجے میں ہوا ہے۔ اِس دجّالی وسوسے کے نتیجے میں مسلمان ساری دنیا میںغیر مسلم قوموںکے خلاف نفرت اور تشد د میںمبتلا ہوگئے۔ وہ جدید مواقع کا مثبت استعمال نہ کرسکے، نہ دعوت کے اعتبار سے اور نہ معرفت کے اعتبار سے۔نفرت اور شکایت کا یہ ذہن بلا شبہہ دجالیت کے ذریعے پیدا ہوا۔ کیوں کہ یہ قومیں ہمارے لیے مدعو کا درجہ رکھتی تھیں، اور مدعو سے نفرت کرنا اسلام میں حرام ہے۔ دجال نے اِس فعلِ حرام کو مزین کرکے اُس کو مسلمانوں کے لیے بظاہر عین اسلام بنا دیا۔
انٹرٹین مینٹ کلچر
دجّال نے یہی کام ایک اور پہلو سے عام انسانوں کے ساتھ بھی کیا۔ سائنس نے جو نئی دنیا دریافت کی تھی، اُس میں عام انسانوں کے لیے ہدایت کا عظیم امکان موجود تھا۔ اس کے ذریعے تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا تھا کہ آدمی خالص علمِ انسانی کی سطح پر خدائی سچائی کو دریافت کرے۔ وہ اُس سے خدا کی معرفت کا اعلیٰ رزق لے سکے۔ وہ یہ سمجھے کہ اِس دنیا میں وہ جن انعامات سے فائدہ اٹھا رہا ہے، اُن کا ایک دینے والا ہے، اور پھر اُن انعامات کا اعتراف کرکے وہ مزید انعامات کا مستحق بنے۔
مگر عین اُسی وقت دجال متحرک ہوا،اور اُس نے انسان کو نئے نئے فلسفوں میںالجھا کر انٹرٹین مینٹ (entertainment) کے شیطانی کلچرمیں مبتلا کر دیا۔ تمام انسان خواہشات کی فوری تکمیل کے فتنے میں مبتلا ہوگئے۔ وہ بھول گئے کہ ہر انعام اپنے ساتھ لازمی ذمے داریاں لاتا ہے۔ اِن ذمے داریوںکی ادائیگی کے بغیر انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اِن انعامات سے فائدہ اٹھا سکے۔
ظہورِ دجّال کا زمانہ
دجّال کے بارے میںحدیث کی کتابوں میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اِن روایتوں میںدجال کی انوکھی صفات بتائی گئی ہیں۔ لوگ اِن صفات کو لفظی معنی (literal sense) میں لے لیتے ہیں۔ اِس لیے ابھی تک وہ دجّال کی شخصی آمد کے منتظر ہیں، حالاں کہ اِس معاملے میں اب انتظار کا وقت نہیں، بلکہ دجال کے مقابلے میںاپنا کردار ادا کرنے کا وقت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ روایتوں میں دجال کی جو صفات بتائی گئی ہیں، وہ سب تمثیل کی زبان (symbolic language) میں ہیں۔ مثال کے طور پر ایک طویل روایت میں دجال کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: ینادی بصوت لہ یُسمع بہ ما بین الخافقَین: إلیّ أولیائی، إلیّ أولیائی، إلیّ أحبّائی، إلیّ أحبّائی (کنزالعُمّال، کتاب القیامۃ، باب الدّجال) یعنی دجّال اپنی ایک ایسی آواز سے پکارے گا جو مشرق اور مغرب کے دونوں سِروں کے درمیان سنائی دے گی۔ دجّال کہے گا کہ— اے میرے ساتھیو، میری طرف آؤ، اے میرے ساتھیو، میری طرف آؤ۔ اے میرے دوستو، میری طرف آؤ۔ اے میرے دوستو، میری طرف آؤ۔
یہ بلاشبہہ تمثیل کی زبان ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود دجال کی فطری آواز اتنی زیادہ بلند ہوگی کہ وہ براہِ راست طورپر پوری دنیا میںسنائی دے۔ یہ دراصل ایک پیشین گوئی تھی۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ دجال کا ظہور بعید خبر رسانی(telecommunication) کے زمانے میں ہوگا۔ وہ اگر چہ عام انسانوں کے مانند ہوگا، لیکن مشینی مواصلات کے ذریعے اس کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ اپنی آوازکو ساری دنیا کے لوگوں تک پہنچا سکے۔روایت کے مذکورہ الفاظ دراصل، دجّال کے زمانی مواقع کو بتارہے ہیں، نہ کہ مادّی معنوں میںخود دجال کی اپنی شخصیت کو۔
آثارِ قیامت کی روایات کو تمثیل پر محمول کرنے کاسبب
اِس بحث کا ایک فیصلہ کن پہلو یہ ہے کہ قربِ قیامت کے بارے میں قرآن میں واضح بیانات موجود ہیں۔ مثلاً فرمایا کہ قیامت بالکل اچانک واقع ہوگی (الأعراف:187 )۔ اِسی طرح قرآن کی ایک اور آیت میں ہے کہ: ’’بے شک قیامت آنے والی ہے۔ میں اُس کو مخفی رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے‘‘۔ (طٰہٰ: 15 ) اِس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر نے عبد اللہ بن مسعود کا یہ قول نقل کیا ہے: کتمتُہا من الخلائق، حتی لو استطعتُ أن أکتمہا من نفسی لفعلتُ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے قیامت کو تمام مخلوق سے مخفی رکھاہے، حتی کہ اگر اپنے آپ سے اس کومخفی رکھناممکن ہوتا تو میں خود اپنے آپ سے اس کو مخفی رکھتا۔
علمائِ اصول کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی حدیث قرآن سے متعارض نظر آئے تو قرآن کو اصل قرار دیا جائے گا اور حدیث کی تاویل کی جائے گی۔ ایسی حالت میں خالص علمی اعتبار سے، تاویل کی صرف ایک بنیاد ہے، اور وہ یہ کہ اس معاملے میں قرآن کے بیان کو اصل قرار دیا جائے اور حدیث کے بیان کو تمثیل پر محمول کیا جائے۔ اِس تعارض کو ختم کرنے کی دوسری کوئی اور صورت نہیں۔
مواقع کا منفی استعمال
دجال کا اصل کام یہی ہوگا کہ وہ اپنے زمانے کے مواقع (opportunities) کا منفی استعمال کرکے لوگوں کو مغالطے میں ڈالے اور اس طرح لوگوں کی سوچ کو خدا کی طرف سے ہٹا کر غیر خدا کی طرف پھیر دے۔ دجّالی کا یہ کام سیکولر میدان میں بھی ہوگا اور مذہبی میدان میں بھی۔ یہاں چند مثالوں کے ذریعے اِس کی وضاحت کی جا رہی ہے۔
نظریۂ ارتقاء
عضویاتی ارتقاء (organic evolution) کا نظریہ اِسی قسم کاایک دجّالی نظریہ ہے۔ چارلس ڈارون (وفات: 1882 ) اور دوسرے علمائِ حیاتیات نے یہ دریافت کیا کہ مختلف انواعِ حیات کے جسمانی ڈھانچے میں بہت زیادہ مشابہتیں (similarities)پائی جاتی ہیں۔ مثلاً بلّی اور شیر کے جسمانی ڈھانچے میں مشابہت، وغیرہ۔ اِن مشابہتوں سے انھوں نے یہ نظریہ وضع کیا کہ حیاتیات کی دنیا میں ایک ار تقائی عمل واقع ہوا ہے۔ اِس عمل کے دوران ایک قسم کی انواعِ حیات، عضویاتی ارتقاء کے نتیجے میں خود بخود دوسری قسم کی انواعِ حیات میں تبدیل ہوتی چلی گئیں۔
یہ بلا شبہ مغالطے کا ایک معاملہ تھا۔ انواعِ حیات کے درمیان مشابہتوں سے جو چیز ثابت ہوتی ہے، وہ صرف انواع میں تنوّع (variety) ہے، یعنی ہر نوع الگ الگ خصوصی تخلیق کے ذریعے وجود میںآئی۔ البتہ خالق نے انواع کی تخلیق کے لیے ایک دوسرے سے مشابہ جسمانی ڈھانچہ اختیار کیا۔ گویا کہ مشاہدہ صرف تنوع کو ثابت کررہا تھا، لیکن اس کی مغالطہ آمیز توجیہہ کرکے عضویاتی ارتقاء کا دعوی کردیا گیا۔
اِس نظریے میں بظاہر خدا کا انکار نہیں ہے، لیکن عملاً وہ خداکو زندگی سے بے دخل کردینے کے ہم معنیٰ ہے۔ نظریۂ ارتقاء کے مطابق، زندگی کا پورا عمل، طبیعی انتخاب (natural selection) کے ذریعے اپنے آپ ہورہا ہے۔ یہ نظریہ، خدا کو زندگی کے معاملے میں اتنا زیادہ بے اثر بنا دیتا ہے کہ خدا کو ماننا اور نہ ماننا دونوں یکساں ہو کر رہ جاتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کا عقیدہ عملی زندگی میں بالکل غیر موثر ہوکر رہ گیا ہے۔ اِس صورتِ حال کا سب سے بڑا سبب یہی نظریۂ ارتقاء ہے۔
تاریخ کی مادّی تعبیر
علومِ قطعیہ (exact sciences) کا معاملہ سادہ طورپر صرف حقائقِ فطرت کی دریافت کا معاملہ تھا۔ یہ کام طبیعیاتی سائنس دانوں نے انتہائی غیر جانب داری کے ساتھ انجام دیا۔ سائنس دانوں نے فطرت کے جو حقائق دریافت کیے، وہ اصلاً آفاق اور انفس میں خدائی نشانیوں (divine signs) کے ظہور کے ہم معنی تھے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ جدید الٰہیات (modern theology) کے لیے معلوماتی مواد (data) کی حیثیت رکھتے تھے۔عین اُسی زمانے میں سیکولر فلاسفہ اور مفکرین کا ظہور ہوا۔ انھوںنے سائنس کے معلوماتی مواد کا استعمال منفی انداز میں کیا۔ انھوںنے انسانی تاریخ کی مادّی تعبیر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اِسی فکر کی نمائندگی جولین ہکسلے (وفات: 1975 ) کی کتاب میں کی گئی ہے، جس کا نام با معنٰی طورپر یہ ہے— مذہب بغیر الہام:
Religion Without Revelation. (1927)
موجودہ زمانے میں جس طرح طبیعی علوم (physics) میںاہلِ مغرب نے دنیا کی قیادت کی، اُسی طرح زندگی کی نظریاتی تشریح کے معاملے میں بھی اہلِ مغرب دنیا کے قائد بن گئے۔ گویا کہ زندگی اور کائنات دونوں کی تشریح کا کام اہلِ مغرب نے انجام دیا۔ اہلِ مشرق کے لیے اِس معاملے میں اِس کے سواکوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اہلِ مغرب کے مقلّد بن جائیں۔
اِس معاملے میںاہلِ مغرب نے جو فکر ی کام انجام دیا، اُس کو ایک لفظ میں تاریخ کی مادّی تعبیر (material interpretation of history) کہا جاسکتا ہے۔ اِس دور میں مغربی دنیا میں کثرت سے فلاسفہ اور مفکرین پیدا ہوئے۔ انھوںنے اور ان کے ساتھیوںنے جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے پوری دنیا کے ذہن کو متاثر کرنے کا کام کیا ۔یہ واقعہ غلط تعبیر (misinterpretation) کے نتیجے میں پیش آیا۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ علماء ِ مذہب اِس سلسلے میں اپنا تعمیری رول ادا کرنے میں ناکام رہے۔
تفریحی کلچر
موجودہ زمانے میںہر طرف تفریحی کلچر (entertainment culture) کا رواج ہے۔ ہرعورت او ر مرد صرف ایک بات کو جانتے ہیں، اور وہ ہے زندگی کو بھر پور انجوائے (enjoy) کرنا۔ آج کل لوگوں کا سب سے زیادہ مقبول فارمولا یہ ہے کہ — ابھی اور اِسی وقت (right here, right now) ۔
موجودہ زمانے میں اِس نظریے پر بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اِن مصنفین میں سے ایک علامتی نام سِگمنڈ فرائڈ (وفات: 1939 ) کا ہے۔ اُس نے اِس نظریے کی زبردست وکالت کی۔ اُس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انسان کے اندر جو خواہشات (desires) ہیں، اُنھیں پر انسانی شخصیت کے بننے یا نہ بننے کا انحصار ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنی خواہشات کو دبائیں، تو آپ کی شخصیت گھُٹی ہوئی خواہشات (repressed desires) کا کیس بن جائے گی۔ آپ کی شخصیت میںارتقاء (growth) کا عمل رک جائے گا۔ اِس لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی ہر خواہش کو آزادانہ طورپر پورا کریں۔ اِسی گم راہ کُن نظریہ کے رواج کا نتیجہ ہے کہ آج ساری دنیا میںاِباحیت (permissiveness) کا طریقہ رائج ہوگیا ہے، اورانسانی سماج خوش پوش حیوانوں کا ایک جنگل بن کر رہ گیا ہے۔
سگمنڈ فرائڈ اور اِس قسم کے دوسرے مغربی مفکرین کے اِس نظریے میں ایک بہت بڑا مغالطہ چھپا ہوا تھا۔ وہ یہ کہ انھوںنے انسانی شخصیت کے ارتقاء (personality development) کو خواہشات کی تکمیل سے جوڑ دیا، حالاں کہ اس کا تعلق انسان کے مائنڈ سے تھا۔ یہ دراصل انسان کا مائنڈ ہے جو شخصیت کے ارتقاء میں مدد گار بنتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں خواہشات کی پیروی، ایک ڈسٹریکشن (distraction) کی حیثیت رکھتی ہے، وہ ذہنی ارتقاء کے عمل کو روکنے کا سبب بن جاتی ہے۔
دجّالی فتنہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے کوئی نیا فتنہ نہیں۔ وہ شیطانی فتنے کی صورت میںہمیشہ جاری رہا ہے۔ البتہ بعد کے دور میں صرف یہ ہوگا کہ یہ فتنہ ایک باقاعدہ تہذیب کی صورت اختیار کر لے گا۔ وہ ایک خوش نما کلچر کی صورت اختیار کرکے لوگوں کے درمیان ایک پسندیدہ چیز کے طور پر رائج ہوجائے گا۔ یہ جدید دریافتوں کے غلط استعمال کی ایک ایسی صورت ہوگی جس کے بعد برائی کا کوئی اور درجہ نہیں۔ موجودہ زمانہ اِسی دجّالی کلچر کا زمانہ ہے۔
دجّالیت، مذہبی استحصال کا فتنہ
صحیح مسلم میںایک روایت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیر الدّجال أخوفنی علیکم (کتاب الفتن) یعنی مجھ کو تمھارے اوپر دجال سے بھی زیادہ غیر دجال کا اندیشہ ہے۔ اِس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ خارجی دجال سے زیادہ خطرناک تمھارے لیے داخلی دجال ہوگا۔ خارجی دجال کو پہچاننا تمھارے لیے آسان ہوگا، لیکن داخلی دجال کو تم اپنا ہی آدمی سمجھ لو گے اور اِس بنا پر اس کو موقع ملے گا کہ وہ تم کو زیادہ سے زیادہ گم راہ کرسکے۔
امام نووی (وفات: 1277 ء)نے اِس حدیث کی شرح میں ایک اور روایت نقل کی ہے۔ اِس سے مذکورہ نقطۂ نظر کی تائید ہوتی ہے۔ اِس دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں: إنّ أخوف ما أخاف علیٰ أمّتی، الأئمّۃَ المُضِلّون(صحیح مسلم بشرح النّووی، جلد 18،صفحہ 64) یعنی اپنی امت پر مجھے جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر ہے، وہ امت کے گم راہ کرنے والے ائمہ (قائد) ہیں۔
امت کے ائمہ سے مراد یہاں استحصال پسند قائدین ہیں۔ یہ لوگ اپنی قیادت کو فروغ دینے کے لیے خوش نما الفاظ بولتے ہیں۔ وہ اپنے غیر دینی مقاصد کو دین کی اصطلاحوں میں بیان کرتے ہیں۔ اِس سے دھوکہ کھا کر بڑی تعدا د میں لوگ ان کے گرد اکھٹا ہوجاتے ہیں۔ اِس طریقے کو دوسرے لفظوں میں، مذہبی استحصال (religious exploitation) کہا جاسکتا ہے۔
مذہب کا پولٹکل انٹرپریٹیشن
موجودہ دور میں جب پرنٹنگ پریس کا زمانہ آیا، تو کچھ لوگوں نے ایسی کتابیں لکھ کر دنیا میں پھیلانا شروع کردیں جن میںمذہب (اسلام) کا پولٹکل انٹر پریٹیشن (political interpretation) دیاگیا تھا۔ مخصوص اسباب کی بنا پر یہ کتابیں لوگوں کے درمیان کثرت سے پھیلنے لگیں۔ اِس لٹریچر سے متاثر ہونے والے لوگوں کا نشانہ، منحرفانہ طورپر، سیاسی انقلاب بن گیا۔مذہب کی یہ سیاسی تعبیر ایک خطرناک مغالطہ پر قائم تھی۔ وہ مغالطہ یہ کہ مذہب ایک مکمل نظام کا نام ہے۔ مذہب کا مقصد صرف پوجا اور پرستش نہیںہے، بلکہ اِسی کے ساتھ لازمی طورپر یہ بھی ضروری ہے کہ مذہب کے دیوانی اور فوج داری قوانین کو زمین پر عملاً نافذ کیا جائے۔ چوں کہ قوانین کا نفاذ، حکومت پر قبضہ کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا، اِس لیے اِن تحریکوں کا نشانہ فوراً یہ بن گیا کہ حکم راں طبقے سے لڑ کر وہ اُن سے اقتدار کو چھینیں، تاکہ سیاسی قوانین کا نفاذ ممکن ہوسکے۔
یہ مذہبی سیاست عملاً ایک عظیم نقصان کا سبب بن گئی۔ موجودہ زمانے میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ دعوت کا کام اعلیٰ سائنسی دلائل کی بنیاد پر جدید کمیونکیشن کے ذریعے انجام دیا جائے اور ساری دنیا میں خدا کا پیغام زیادہ موثر انداز میںتمام لوگوں تک پہنچا دیا جائے، مگر یہ عظیم امکان واقعہ نہ بن سکا۔ کیوںکہ جنھیں یہ دعوتی کام کرنا تھا، وہ سیاسی ہنگامہ آرائیوں میںمشغول ہوگئے— موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے اندر منفی سوچ، تشدد، انتہا پسندی، اور دوسروں کے بارے میں غیر ہم دردانہ ذہن، سب کے سب اِسی پولٹکل انٹرپریٹیشن کا نتیجہ ہیں۔یہی پولٹکل انٹرپریٹیشن ہے جس نے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر نفرت کلچر کو جنم دیا ہے۔
مغالطہ انگیزی
مذہب میں یہ بگاڑ ایک مغالطہ کے ذریعے پیدا ہوا۔ مذہب کا تعلق اصلاً انسان کی اپنی زندگی سے ہے۔ اس لیے مذہب میںزندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں اصولی تعلیمات موجود ہیں۔یہ تعلیمات اصلاً ایک آدمی کی اپنی ذات کو مخاطب کرتی ہیں، نہ کہ خارج میں پائے جانے والے پولٹکل سسٹم کو۔ مذہب کے پولٹکل انٹرپریٹیشن کے لیے ایک طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ جو مذہبی تعلیمات لازم کے صیغے میں تھیں، ان کو متعدی کے صیغے میں ڈھال دیا گیا۔
مثلاً مذہب میں بتایا گیا تھا کہ ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں پوری طرح انصاف کے اصولوں کی پیروی کرے (الحدید: 25 ) ۔ اِس ذاتی تعلیم کو بدل کر اس کو سیاسی ٹکراؤ کا موضوع بنادیاگیا کہ تم لوگ انصاف کا جھنڈا اٹھاؤ، پوری زمین پر بزور انصاف کا نظام قائم کرو۔اِسی طرح مذہب میںیہ تعلیم دی گئی تھی کہ ہر شخص اپنی زندگی میںخدا کے حکموں کی پیروی کرے۔ اِس تعلیم کو بدل کر اُس کی یہ تشریح کی گئی کہ تم زمین پر خدا کے خلیفہ ہو۔ اِس لیے تمھاری ذمے داری ہے کہ تم خدا کے نائب بن کر خدا کی زمین پر خدا کا حکم نافذ کرو۔
مکمل دین کا نظریہ
دین کی سیاسی تعبیر کی دوسری بنیاد ’’مکمل دین‘‘ کا نظریہ تھا۔ مکمل دین کا مطلب یہ تھا کہ دین میں عقیدہ اور عبادت کے احکام ہیں، اور اسی کے ساتھ اس میں دیوانی اور فوج داری قوانین بھی ہیں۔اصل یہ ہے کہ دین کا عبادتی حصہ اس کا حقیقی حصہ (real part) ہے۔ اور قوانین کے نفاذ کا معاملہ دین کااضافی حصہ (relative part) ، یعنی دین کے عبادتی حصے کو ہر حال میں اور ہر شخص کو اختیار کرنا ہے۔ اِس کے برعکس، قوانین کے نفاذ کا معاملہ پورے معاشرے کا معاملہ ہے۔ معاشرہ اگر تیار ہو، تو قوانین کا نفاذ اس کی شرعی ذمے داری بن جائے گی۔ اور اگر معاشرہ تیار نہ ہو، تو قوانین کانفاذ عملاً التوا کے خانے میں رہے گا۔
مکمل دین کے نظریے میں یہ مغالطہ شامل ہے کہ اس میں دین کے حقیقی حصہ اور دین کے اضافی حصہ، دونوں کو ہر حال میں یکساں مطلوب کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ اِسی سے تمام خرابیاں پیدا ہوئیں۔ حالاں کہ دین کے حقیقی حصے کی مطلوبیت اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہے، اور دین کے اجتماعی حصے کی مطلوبیت معاشرے کی حالت کے ساتھ مشروط ہے۔ افراد کے لیے وہی دین مکمل دین ہے جس پر عمل کرنا، ان کی استطاعت کے مطابق، اُن سے مطلوب ہو۔
اسلام کا پولٹکل انٹرپریٹیشن ’’مکمل اسلام‘‘ کے نفاذ کے نام پر کیاگیا، مگر عملی نتیجے کے اعتبار سے وہ اسلام سے مکمل انحراف کے ہم معنیٰ بن گیا۔ یہ اسلام کی حقیقت کو درہم برہم (topsy-turvy) کرنے کا ایک معاملہ تھا۔ اِس کے نتیجے میں جوخرابیاں پیش آئیں، اُن میں سے چند کا یہاں ذکر کیا جاتاہے۔
اسلام کے پولٹکل انٹرپریٹیشن کا پہلا نقصان یہ ہوا کہ اسلامی عمل کا اصل نشانہ بدل گیا۔ اصل نشانہ وہ ہے جس کو قرآن میں وابتغوا إلیہ الوسیلۃ (المائدۃ: 35 ) کہاگیا ہے، یعنی خدا کی قربت تلاش کرنا۔ مگر اِس انٹرپریٹیشن میں اِس کے برعکس، اسلام کا اصل نشانہ یہ بن گیا کہ رائج الوقت سیاسی سسٹم کو توڑو، تاکہ تم دنیا میں مکمل اسلام کو نافذ کرسکو۔
اِس انٹرپریٹیشن کا دوسرا نقصان یہ تھا کہ اس میں اجتماعی تعلقات کی نوعیت مکمل طورپر بدل گئی۔ اسلام کے مطابق، مسلمانوں اور دوسرے انسانوں کے درمیان جو تعلق ہے، وہ داعی اور مدعو کا تعلق ہے، مگر پولٹکل انٹرپریٹیشن نے اس کو بدل کر مسلمانوں اوردوسرے انسانوں کے درمیان سیاسی حریف کا تعلق قائم کردیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے انسان مسلمانوںکے لیے دعوتی خیر خواہی کا موضوع نہ رہے، بلکہ وہ ان کے سیاسی مدّ مقابل بن گئے۔ اِس طرح عملاً دعوہ کلچر کے بجائے، ایک پولٹکل کلچر وجود میں آگیا۔
پھر اِسی پولٹکل انٹرپریٹیشن کا یہ نتیجہ تھا کہ ساری دنیا میں اسلامی عمل، متشددانہ عمل کے ہم معنی بن گیا۔ اُن لوگوں نے اپنے کام کا آغاز پُر امن کوشش کی صورت میں کیا، مگرجلد ہی اُن کو محسوس ہوا کہ پُر امن کوشش کے ذریعے اقتدار کو بدلنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ اِس لیے انھوںنے اپنے مقصد کے حصول کے لیے تشدد کا طریقہ اختیار کرلیا، حتی کہ انھوںنے اِس معاملے میں خود کُش بم باری کو بھی اپنے لیے جائز قرار دے دیا۔ اِس طرح سیاسی انقلاب کا نظریہ عملاً سیاسی فساد کے ہم معنی بن گیا۔
اسلام کے پولٹکل انٹرپریٹیشن نے اُس سے متاثر لوگوں کو ایک ایسے کام میں مصروف کردیا جو اسلام میں سرتا سر ناجائز تھا، یعنی قائم شدہ مسلم حکومت کے خلاف بغاوت۔ موجوددہ زمانے میں ہر ملک میں ایسے مسلم لیڈر حکومت کررہے تھے جنھوں نے ماڈرن ایجوکیشن حاصل کی تھی او ر اِس بنا پر اپنی نجی زندگی میں مذہبی ہونے کے باوجود، وہ سیاسی معاملات میں جدید طرزِ فکرکے حامل تھے۔چناںچہ اِس انٹرپریٹیشن کے حاملین نے یہ اعلان کردیا کہ یہ لوگ ہمارے ملک میں مکمل اسلام نافذ نہیں کررہے ہیں، اِس لیے ہمارا فرض ہے کہ اُن سے لڑ کر اُن کو اقتدار سے ہٹائیں، اور ایسے لوگوں کو اقتدار پر قبضہ دلائیں جو ’’مکمل اسلام‘‘ کو نافذ کرنے والے ہوں۔
اِس نظریے کے تحت یہ ہوا کہ خود مسلم ملک کے لوگ دو طبقوں میں بٹ گئے— حاکم اور غیر حاکم۔ اور پھر مسلم عوام اپنے ملک کے حکم رانوں سے لڑنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ مسلمانوں کا یہ فعل، فقہ کی اصطلاح میں خروج(revolt) کا فعل تھا، جو مبیّنہ طورپر اسلام میں حرام ہے۔
بیسویں صدی عیسوی، تقریباً پوری کی پوری، پولٹکل انٹرپریٹیشن سے پیدا ہونے والے ہنگاموں کی صدی تھی۔ یہ عین وہی زمانہ تھا، جب کہ سائنس کی دریافتوں نے، قرآن کے الفاظ میں، کائنات میں چھپی ہوئی آیات (signs) کو آخری حد تک کھول دیا تھا۔ اس وقت ضرورت تھی کہ سائنس کے دریافت کردہ حقائق کو لے کر دعوتِ حق کا کام اعلیٰ ترین سطح پر انجام دیا جائے۔ مگر عین اسی وقت یہ ٹریجڈی پیش آئی کہ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم قائدین، پولٹکل ہنگاموں میں مشغول ہوگئے، اورتبیینِ حق کا اعلیٰ ترین کام جو ہوسکتا تھا، وہ نہ کیا جاسکا۔
اِس معاملے میں، مسلم قائدین کی سیاسی انتہا پسندی کا اندازہ ایک واقعے سے ہوتا ہے۔ سیدجمال الدین افغانی (وفات:1897 ) پیرس میں بیٹھ کر سیاسی ہنگاموں کی قیادت کررہے تھے۔ 1884کا واقعہ ہے، اُن کے شاگرد مفتی محمد عبدہ (وفات: 1905 ) نے اُن سے کہا کہ ہم سیاست کے بے فائدہ کام کو چھوڑ کر پُرامن دعوت اور تعلیم کا کام کریں، جس میں بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔ جمال الدین افغانی نے اس کے جواب میں کہا: إنما أنتَ مثبِّط (جمال الدین أفغانی، محمود أبو ریّۃ، قاہرۃ 1966 ، صفحہ 50 ) یعنی تم تو پسپائی کی بات کرتے ہو۔
یہ بلاشبہہ ایک بھیانک ٹریجڈی تھی۔ یہ ٹریجڈی پولٹکل انٹرپریٹیشن کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔پولٹکل انٹرپریٹیشن کے دو سنگین نتائج نکلے— جدید دعوتی مواقع کا استعمال نہ ہونا، اور پولٹکل انقلاب کے نام پر نفرت اور تشدد کلچر کا رواج۔دین کی اِس سیاسی تعبیر کا یہ منفی نتیجہ نکلا کہ دعوت الی اللہ کا کام عملاً معطّل ہوگیا۔ تمام لوگ بزعم خود مفروضہ ’’مکمل اسلامی نظام‘‘ برپا کرنے میں مصروف ہوگئے، جو قانونِ فطرت کے تحت سرے سے ممکن ہی نہ تھا۔ اِس طرح ایک ناممکن کے حصول کی کوشش کا یہ منفی نتیجہ نکلا کہ جو کام پوری طرح ممکن تھا، وہ بھی نہ ہوسکا، یعنی پُر امن دعوہ ورک۔
نئے پیغمبر کی ضرورت
اِسی طرح، مذہب میںاِس معاملے کی ایک مثال اُن لوگوں کا دعویٰ ہے جنھوںنے یہ کہا کہ بیسویں صدی عیسوی میں حالات بدل گئے ہیں، اِس لیے اب ہمیں ایک نئے پیغمبر کی ضرورت ہے۔ یہ نظریہ پیش کرکے انھوں نے نئی پیغمبری کا دعویٰ کردیا۔ یہ پورا معاملہ مغالطہ آمیزی کا معاملہ ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ حالات کے بدلنے سے کبھی کوئی نیا پیغمبر نہیں آتا۔ حالات میں تبدیلی صرف اجتہاد کی ضرورت کو ثابت کرتی ہے، نہ کہ نئے پیغمبر کی ضرورت کو۔ کوئی پیغمبر جب آتا ہے تو وہ ہمیشہ دو میں سے ایک سبب کی بنا پر آتا ہے— یا تو یہ کہ وہاں کوئی پیغمبر سرے سے نہ آیا ہو، اِس لیے نبوت کے فقدان کی بناپر وہاں کوئی نبی بھیجا جائے۔ یا یہ کہ پچھلے نبی کی تعلیمات میں تحریف ہوگئی ہو، اِس بنا پر خدائی مذہب کا مستند ماخذ موجود نہ رہے۔
موجودہ زمانے میں دونوں میں سے کوئی ضرورت پائی نہیں جاتی۔ اب نبی آخرالزماں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلبکی صورت میں ایک ایسا پیغمبر آچکا ہے، جو یکساں حیثیت سے تمام دنیا کے لیے ابدی طورپر خدا کا پیغمبر ہے۔ دوسرے یہ کہ اس پیغمبر کی تعلیمات مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ اِس لیے اب نبوت کی مذکورہ دونوں ضرورتوں میں سے کوئی بھی ضرورت یہاں موجود نہیں۔
حالات کی تبدیلی بطور واقعہ درست ہے، مگر اس کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو مجتہدانہ کوشش کے ذریعے ازسر نو لوگوں کے سامنے اِس طرح لایا جائے کہ وہ جدید ذہن کے لیے پوری طرح قابلِ فہم بن سکیں۔ لوگوں کو نظرآئے کہ آپ کی تعلیمات آج کی دنیا کے لیے بھی اتنا ہی متعلق (relevant)ہیں، جتنا کہ وہ اِس سے پہلے تھیں— حالات کی تبدیلی نئے اجتہاد کی ضرورت کو ثابت کرتی ہے، نہ کہ نئے پیغمبر کی ضرورت کو۔
مہدی یا رجلِ مومن
اب اِس دور کے اُس مثبت کردار کو لیجیے، جس کا ذکر حدیث میں مہدی، یا رجلِ مومن کے الفاظ میں کیا گیا ہے۔ یہ کردار بھی کوئی پُراسرار کردار نہیں۔ یہ ایک معلوم کردار ہے جس کو عام اصولوں کے تحت مطالعہ کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔مہدی، یا رجلِ مومن کے ذریعے ادا کیے جانے والے مثبت کردار کے دو پہلو ہیں— معرفت، اور دعوت، یعنی نئے دریافت کردہ حقائق کی روشنی میں معرفتِ اعلیٰ کا حصول، اور اِسی طرح نئے حاصل شدہ ذرائع کی مدد سے اسلام کی دعوت کو موثر انداز میں عالمی سطح پر پھیلانا۔ یہ دونوں پہلو قرآن اور حدیث میں پیشگی طور پر بیان کردیے گئے ہیں۔
جدید دریافتوں کے ذریعے معرفتِ اعلیٰ کے حصول کا امکان قرآن کی سورہ نمبر 41 میں پیشگی طورپر بیان کردیا گیا تھا۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’عن قریب مستقبل میں ہم، لوگوں کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفُس میں بھی، یہاں تک کہ اُن پرپوری طرح یہ کھُل جائے کہ یہ (قرآن) حق ہے‘‘ (حٰم السجدۃ: 53)۔
قرآن کی یہ آیت ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں اتری تھی۔ اُس وقت پیشگی طورپر یہ خبر دی گئی تھی کہ آئندہ ایساہوگا کہ کائنات میں چھپی ہوئی خدائی نشانیاں انسانی تحقیق کے نتیجے میں دریافت کی جائیں گی۔ یہ نشانیاں خود علمِ انسانی کی سطح پر قرآن کی صداقت کو ثابت کریں گی۔
یہ پیشین گوئی موجودہ زمانے میں واقعہ بن چکی ہے۔ اِس طرح، کام کا ابتدائی پچاس فی صد حصہ انجام پا چکا ہے۔ اب مہدی، یا رجلِ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اِن حقائق کو جانے، اور بقیہ پچاس فی صد حصے کی تکمیل کرکے ان کو معرفتِ اعلیٰ کے حصول کا ذریعہ بنائے۔
مہدی کی پہچان
مہدی جب ظاہر ہوگا تو اس کی پہچان کیا ہوگی۔ یہ پہچان حدیث کے مطابق، خود اس کے لقب میں موجود ہے۔ مہدی صرف ایک لقب ہے، وہ اُس کا اسمِ ذات نہیں۔ مہدی کا لفظی مطلب ہے— ہدایت پایا ہوا شخص (guided person) ۔ مہدی کا لفظ منفی معنیٰ میںنہیں ہے، بلکہ وہ مثبت معنیٰ میں ہے۔ اِس اعتبار سے مہدی کا لفظی مطلب ہوگا— صحیح ہدایت پایا ہوا شخص (rightly guided person) ۔
حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کاظہور، فتنۂ دُہیماء (تاریک فتنہ) کے زمانے میں ہوگا۔ اُس وقت تمام لوگ معرفتِ حق کے بارے میں اندھیرے میںپڑے ہوئے ہوں گے۔ ایسے تاریک دور میں معرفتِ حق کی روشنی کسی کو صرف خدا کی خصوصی توفیق سے مل سکتی ہے، یعنی وہبی طورپر ، نہ کہ اکتسابی طورپر۔ سیاہ فتنے کے دور میں کوئی شخص نہ بطور خود سچائی کو پاسکے گا اور نہ وہاں دوسرا کوئی شخص موجود ہوگا جو اُس کو سچائی کی روشنی دکھائے۔حقیقت یہ ہے کہ فتنۂ دُہیماء کے دور میں کسی کو صرف خداوند ِ ذوالجلال کی طرف سے ہدایت مل سکتی ہے۔
مہدی کا مہدی ہونا، اپنے آپ میں بتا رہا ہے کہ مہدی کی پہچان کیا ہے۔ وہ پہچان یہ ہے کہ مہدی اپنے ماحول کے برعکس، استثنائی طورپر ایک ہدایت یاب انسان ہوگا، جب کہ لوگ عمومی طورپر ہدایتِ حق سے محرو م ہوچکے ہوںگے—مہدی ایک استثنائی انسان کا نام ہے، اور یہی استثنا وہ چیز ہے جس کے ذریعے پہچاننے والے اس کو پہچانیں گے۔ مہدی نہ خود اپنے مہدی ہونے کا دعویٰ کرے گا، اور نہ آسمان سے یہ آواز آئے گی کہ فلاں شخص مہدی ہے، اس کو مانو اور اس کا اتباع کرو۔
فتنۂ دُہیماء
فتنۂ دہیماء کے لفظی معنی ہیں— سخت سیاہ اور تاریک فتنہ (الفتنۃ السّوداء المظلمۃ۔ لسان العرب 12/211 )۔ یہاں سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہوگی جو اِس عمومی سیاہی یا تاریکی کا سبب بنے گی۔ کیوں ایسا ہوگا کہ لوگ اپنے آپ کو فکری اعتبار سے تاریکی کے جنگل میںبھٹکتا ہوا محسوس کریںگے۔ اِس پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ واقعہ اُس وقت پیش آئے گا، جب کہ لکھے اور بولے ہوئے الفاظ کی بہت زیادہ کثرت ہوجائے گی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اِس قسم کے حالات پہلی بار موجودہ زمانے میں پیش آئے ہیں۔ موجودہ زمانے میں جب پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا اور الیکٹرانک میڈیا کا رواج عمل میں آیا، تو تاریخ میں پہلی بار یہ واقعہ پیش آیا کہ بے شمار کتابیں چھپ کر ہر جگہ پھیل گئیں۔ اِسی کے ساتھ ریڈیو اور ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے الفاظ کی ایک نئی دنیا میں وجود میں آگئی۔ انٹرنیٹ پر مختلف قسم کی جو معلومات ڈالی جارہی ہیں، وہ اتنی زیادہ ہیں کہ ہر دو منٹ میں اس کے اندر پانچ ہزار صفحات سے زیادہ معلومات کااضافہ ہوجاتا ہے۔ یہی معاملہ مطبوعہ کتابوں کا ہے۔
ایک روایت، حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اِس میںبعد کے زمانوں کا ذکر کرتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فتنۃ اللّسان فیہا أشدّ من السّیف (أبوداؤد، کتاب الملاحم) یعنی ایک زمانہ آئے گا، جب کہ زبان یا الفاظ کا فتنہ تلوار کے فتنے سے بھی زیادہ خطرناک ہوجائے گا۔موجودہ زمانے میں الفاظ کا یہ فتنہ اپنی آخری صورت میں سامنے آچکا ہے۔ موجودہ زمانے میں جوچیز سب سے زیادہ گم راہی کا سبب بن رہی ہے، وہ بلاشبہہ خوش نما قسم کے پُرفریب الفاظ ہیں، جو فضا میں اِس طرح بھر گئے ہیں کہ کوئی بھی عورت یا مرد اُس سے محفوظ نہیں۔
الفاظ کے اِس تاریک فتنے سے بچنا کس طرح ممکن ہوگا۔ اُس کا راز ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المعرفۃُ جُنّۃ من الفتن (الدارمی، مقدمۃ)۔ یعنی معرفت، فتنہ کے مقابلے میں ڈھال ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خوش نما الفاظ کے سحر سے باہر آنے کا ذریعہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی کے اندر معرفت موجود ہو۔ معرفت کے سوا کوئی بھی دوسری چیز نہیں جو آدمی کو اِس قسم کے فتنے سے بچاسکے۔
مہدی دراصل اِسی قسم کا ایک صاحبِ معرفت انسان ہوگا۔ اس کے اندر خدا کی خصوصی توفیق سے یہ صلاحیت ہوگی کہ وہ لفظی مغالطے کو سمجھ سکے۔ وہ خوش نما الفاظ اور حقیقی استدلال کے فرق کو جانے۔ وہ ایک گم راہ کُن بیان کا تجزیہ کرکے اس کی گم راہی کو کھول سکے۔ اس کے اندر تجزیہ کی طاقت (power of analysis) کمال درجے میں موجود ہو،وہ محدَّد تبیین(precise description) کی صلاحیت کا حامل ہو۔ اپنی اِسی معرفت کی بنا پر وہ خود الفاظ کے فتنے سے بچے گا اور دوسروں کے لیے الفاظ کے فتنے سے بچنے کا ذریعہ بنے گا۔ مہدی، یا رجلِ مومن کے اِسی اہم رول کی بنا پر اُس کی بابت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وجب علی کُلّ مؤمن نصرُہ أو قال إجابتہ (سنن أبی داؤد، کتاب المہدی) یعنی مہدی، یا رجلِ مومن کے ظہور کے وقت ہر مومن پر واجب ہوگا کہ وہ اس کے ساتھ تعاون کا معاملہ کرے، یا آپ نے یہ فرمایا کہ وہ اس کی پکار پر لبیک کہے۔
اِس حدیث سے مزید یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہدی، یا رجلِ مومن کے ظہور کا معاملہ کوئی پُر اسرار معاملہ نہیں۔ اُس کے ظہور کا معاملہ اگر کسی معجزاتی شخصیت کے ظہور کا معاملہ ہو، تو پھر ایسے شخص کی نصرت کی تاکید ایک غیر ضروری بات ہوگی۔ کیوں کہ ایک ایسا انسان جو معجزاتی شخصیت کی حیثیت رکھتا ہو، اس کو اپنا مطلوب رول ادا کرنے کے لیے خود معجزہ کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔
خداوندی مداخلت کا معاملہ
مہدی کے بارے میں سنن ابن ماجہ (کتاب الفتن،باب: خروج المہدی) میںایک روایت آئی ہے۔ اُس کا ایک حصہ یہ ہے: یُصلحہ اللہ فی لیلۃ (خدا ایک رات میں اُس کی اصلاح کردے گا)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مہدی کا ظہور اُس زمانے میں ہوگا، جب کہ دنیا میں فتنۂ دُہیماء کا دور آچکا ہوگا۔ یہ ایک ایسی شدید صورت ِ حال ہوگی جب کہ کوئی شخص نہ اپنی ذاتی کوشش سے ہدایت کی روشنی پاسکے گا، اور نہ کوئی ادارہ ایسا ہوگا جو اِس عمومی بگاڑ کے دورمیں مہدی جیسی شخصیت کی تشکیل کرسکے۔ ایسا واقعہ براہِ راست خدا کی مداخلت کے ذریعے ہوگا۔ خدا کی خصوصی مداخلت کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ایسا اِس لیے ہوگا تاکہ خدا کے بندوں کو خداکا سچا راستہ دکھایا جاسکے۔
مہدی کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ: یواطیٔ اسمہ اسمی یعنی اُس کا نام میرے نام کے موافق ہوگا۔ یہاں نام سے مراد صفت ہے، جیسا کہ دوسری روایت سے واضح ہوتا ہے۔ دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: یشبہہ فی الخُلُق، ولا یشبہہ فی الخَلْق (أبوداؤد، کتاب المہدی) یعنی مہدی باعتبار داخلی صفت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ ہوگا، نہ کہ بہ اعتبار ظاہری ہیئت۔
مہدی، نہ کہ ہادی
بعض لوگوں نے مہدی کو ہادی کے معنیٰ میں لے لیا۔ اِس خود ساختہ تصور کے مطابق، انھوںنے کہا کہ مہدی جدید دور کا ایک انقلابی لیڈر ہوگا، جو عالمی سیاسی نظام قائم کرے گا۔ مہدی کی یہ تعریف سر تا سر بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہدی جدید دور کا ایک عارف ہوگا۔ وہ خدا کی توفیق سے خود اعلیٰ معرفت حاصل کرے گا، اور دوسروں کو اعلیٰ معرفت کا راستہ دکھائے گا،اور یہ ایک حقیقت ہے کہ معرفتِ الٰہی کاحصول خدا کے نزدیک سب سے زیادہ اعلیٰ اور سب سے زیادہ مطلوب چیز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کام بلا شبہہ عالمی سطح پر انجام پائے گا، لیکن مہدی کا کام سیاسی انقلاب کے ہم معنیٰ نہیں ہوگا، بلکہ وہ افراد کے اندر ذہنی سطح پر ربّانی انقلاب پیدا کرنے کے ہم معنیٰ ہوگا۔
مہدی کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ جب وہ ظاہر ہوگا تو اس کے اندر ایسے امتیازی اوصاف ہوں گے کہ لوگ فوراً اُس کو پہچان لیں گے اور جوق درجوق اس کے ساتھی بن جائیں گے۔ لیکن حدیث میں مہدی یا رجلِ مومن کی تصویر اِس سے بالکل مختلف ہے۔ حدیث کے مطابق، جب مہدی ظاہر ہوگا تو وقت کے با اثر افراداس کا ساتھ نہیں دیںگے۔ اِس بنا پر دجّال اور اس کے ساتھی، مہدی کی مخالفت پر انتہائی حد تک جری ہوجائیں گے۔ وہ اس کی کردار کُشی (character assassination) کریں گے، یہاں تک کہ وہ اس کو قتل کردینا چاہیں گے۔ مگر مہدی کو خدا کی خصوصی مدد حاصل ہوگی، اس بنا پر دجال اور اس کے ساتھی ہر گزاپنے تخریبی منصوبے میں کامیاب نہ ہوسکیں گے۔ حدیث کے مطابق، دجال کے ساتھ اس کے حامیوں کی بھیڑ ہوگی، لیکن مہدی، یا رجلِ مومن کے ساتھ اس کے حامیوں کی بھیڑ نہ ہوگی۔
مہدی کی مذکورہ تعریف ایک خود ساختہ تعریف ہے۔ اِس میںمہدی کو بدل کر ہادی کے ہم معنی قرار دے دیاگیا ہے، یعنی ایک ایسا لفظ جو مفعول کی حیثیت رکھتا تھا ، اُس کو فاعل کے ہم معنیٰ بنا دیاگیا۔ یہی چیز ہے جو لوگوں کے لیے مہدی کو پہچاننے کے معاملے میں رکاوٹ بنے گی۔ وہ عالم گیر سیاسی انقلاب کو مہدی کی پہچان بنائے ہوئے ہیں، حالاں کہ حدیث میں دیے ہوئے لفظ کے مطابق، مہدی کی پہچان یہ ہے کہ وہ گم راہی کی تاریکی میںہدایت کی روشنی پائے گا۔ وہ معرفتِ اعلیٰ کو دوبارہ دریافت کرے گا، جب کہ وہ مستور ہو چکی ہوگی۔ مہدی کا ظہور اصلاً دریافتِ ہدایت کا واقعہ ہے، نہ کہ نفاذِہدایت کا واقعہ۔
اعلانِ حق، نہ کہ دعوائے حق
مہدی کا ظاہرہ اعلانِ حق کا ظاہرہ ہے، نہ کہ دعوائے حق کا ظاہرہ۔ مہدی، یا رجلِ مومن اپنے کام کا آغاز دعوے سے نہیں کرے گا، یہ صرف اُس کے کام کی استثنائی نوعیت ہوگی جس سے لوگوں کے لیے اس کو پہچاننا ممکن ہوسکے گا۔اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہوگا کہ مہدی کے معاملے کو خدا کی نسبت سے دیکھا جائے۔ خدا کے نزدیک، اصل بات یہ نہیںہے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ مہدی ہے۔ خدا کے نزدیک، اِس معاملے میں دعویٰ مکمل طورپر ایک غیر متعلق (irrelevant) بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔ خدا کے نزدیک، اصل قابلِ لحاظ بات دوسروں کی نسبت سے ہے، نہ کہ خود مہدی کی نسبت سے۔ یہ دوسروں کا امتحان ہے کہ وہ اپنے وقت کے اُس رجلِ مومن کو پہچانیں، جس کو حدیث میں مہدی کہا گیا ہے، اور پھر وہ بھر پور طورپر اس کا ساتھ دے کر اس کو یہ موقع دیں کہ وہ اپنے مطلوب رول کو ادا کرسکے۔
احادیثِ مہدی یا مسیح اور اِس طرح کے دوسرے نصوص، دراصل ایک عظیم دعوتی امکان کو بتا رہے ہیں، نہ کہ شخصی طورپر کسی فرد یا افراد کی پُراسرار فضیلت کو ۔ یہ صرف خدا ہی کو معلوم ہے کہ اس کی توفیقِ خاص سے، اس رول کی ادائیگی کس کے حصے میں آئے گی۔ میرے نزدیک، اِس معاملے میں ’’آنے والے‘‘ کا انتظار، یا خود اپنے بارے میں مہدی یا مسیح ہونے کا دعویٰ کرنا، دونوں ہی یکساں طورپر غلط ہیں:
Waiting for a “coming person”, or claiming “I am that person”, both are equally wrong.
یہاں اِس معاملے کی وضاحت ضروری ہے کہ مہدی اور مسیح کے مسئلے کو اصولی طورپر بیان کرنا ایک الگ چیز ہے اور خود اپنے بارے میں مہدی اور مسیح ہونے کا دعوی کرنا بالکل دوسری چیز۔ اِس معاملے کی اصولی وضاحت ایک خالص علمی مسئلہ ہے اور اس کو کوئی بھی ذی علم شخص اپنے علم کے مطابق، بیان کرسکتا ہے۔ اس کے بعد اہلِ علم کو یہ حق ہوگا کہ وہ علمی دلائل کی روشنی میں اس کے ردوقبول کا فیصلہ کریں۔ لیکن خود اپنے بارے میں مہدی یا مسیح ہونے کا دعوی کرنا، بالکل دوسری نوعیت کی چیز ہے اور اِس دوسری چیز کا حق کسی کو حاصل نہیں۔
پیغمبر کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ پیغمبر کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے مشن کا آغاز دعوے سے کرے، لیکن مہدی یا مسیح کے معاملے کی نوعیت یہ نہیں ہے۔ کون شخص مہدی تھا یا کس نے مسیح کا رول ادا کیا، اِس کا تحقّق (ascertainment)صرف آخرت میں خدا کے اعلان کے ذریعے ہوگا۔ اِس لیے دنیا میں اِس قسم کادعویٰ کرنا اپنے آپ میں ایک بے بنیاد دعویٰ(baseless claim) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس معاملے میں اصل چیز دعوے کا تحقق ہے، اور موجودہ دنیا میں اِس دعوے کے تحقق کے لیے سرے سے کوئی ذریعہ موجود نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مہدی اور مسیح کا معاملہ خود ساختہ تقرری (self-appointment) کا معاملہ نہیںہے۔ جو شخص اس کو ذاتی تقرری کا معاملہ سمجھے، وہ یا تو جاہل ہوگا یا مجنون۔
مہدی اور مسیح
ایک حدیث (سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب: الصبر علی البلاء) کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی اور مسیح، دونوں ایک ہی شخصیت کے علامتی طورپر دو الگ الگ نام ہیں۔ آخری دور میں ظاہر ہونے والی ایک ہی شخصیت ہے، جس کو کسی روایت میں رجلِ مومن کہاگیا ہے، اور کسی روایت میں مہدی، اور کسی روایت میں مسیح ۔ ایک اعتبار سے، ظاہر ہونے والا شخص، امتِ محمدی کا ایک فرد ہوگا، اس اعتبارسے اس کو رجلِ مومن کہاگیا ۔ دوسرے اعتبار سے وہ گم راہی کے عمومی اندھیرے میں ہدایت کی روشنی کو مکمل طورپردریافت کرے گا، اِس اعتبار سے اس کو مہدی کہاگیا ہے، یعنی ہدایت پایا ہوا شخص۔ ایک اور اعتبار سے وہ شخص امتِ محمد کے آخری زمانے میںوہی رول ادا کرے گا، جو امتِ یہود کے آخری زمانے میں حضرت مسیح نے انجام دیا تھا۔ گویا کہ یہ تینوں الفاظ ایک ہی شخصیت کے تین پہلوؤں کو بتاتے ہیں، نہ کہ الگ الگ تین مختلف شخصیتوںکو۔
سائنسی انقلاب کے دو پہلو
مہدی اور مسیح اور دجّال کوئی پُراسرار شخصیتیں نہیں ہیں۔ یہ دراصل ما بعد سائنس دور (post scientific age) کے حالات میں پیش آنے والے فطری واقعات ہیں۔ قرآن کی تصریح کے مطابق، موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ شر کے ساتھ خیر اور خیر کے ساتھ شر کا پہلو شامل رہتا ہے (النور: 11) ۔ اِس عام فطری اصول کے مطابق، سائنسی انقلاب کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا کہ اُس کے ہر شر میں خیر اور ہر خیر میں شر کا پہلو شامل تھا۔ اِس کے بعد فطری طورپر دو کردار سامنے آئے۔ ایک، وہ کردار جس کے حصے میں سائنسی انقلاب کے منفی پہلو کا استعمال آئے گا۔ اور دوسرا، وہ کردار جو سائنسی انقلاب کے مثبت پہلو کے استعمال کا کریڈٹ (credit) پائے گا۔
ایک مثال سے اِس کی وضاحت ہوگی۔ قدیم زمانے میں ایٹم (atom) کو مادّے کا آخری ناقابلِ تقسیم ذرّہ سمجھا جاتا تھا جو کہ مادّے کی آخری اکائی تھا۔اِس سے یہ نظریہ بنا کہ حقیقت وہ ہے جو قابلِ پیمائش ہو۔ لیکن جرمن سائنس داں آئن اسٹائن (وفات: 1955 ) کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایٹم مزید ٹوٹ سکتاہے۔ ایٹم کے اِس ٹوٹنے کے واقعے کو جوہری انشقاق (nuclear fission)کہاجاتا ہے۔ اِس عمل میں ایٹم کا مرکزہ جوہری ذرات کے تصادم سے پھٹ کر غیر معمولی توانائی خارج کرتاہے:
Nuclear fission: the spontaneous or impact -induced splitting of a heavy atomic nucleus, accompanied by a release of energy.
اِس جوہری انشقاق (nuclear fission) کا ایک پہلو یہ تھا کہ اُس سے انتہائی شدید قسم کی توانائی خارج ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں نے اِس توانائی کا منفی استعمال کیا۔ انھوںنے اِس کے ذریعے سے ایٹم بم (atomic bomb) یا نیوکلیر بم (nuclear bomb) بنایا۔ اِس طرح ایک ایسا تخریبی ہتھیار بنا، جو تمام مہلک ہتھیاروں سے زیادہ بڑا مہلک ہتھیار تھا۔
لیکن اِس جوہری انشقاق کے واقعے میںایک عظیم مثبت پہلو بھی شامل تھا۔ جوہری انشقاق سے پہلے ایٹم کو آخری مادّی اِکائی سمجھا جاتا تھا۔ اِس کے تحت یہ نظریہ بنا کہ حقیقت صرف وہ ہے جو تجربے میںآئے۔ جو چیز انسان کے براہِ راست تجربے میں نہ آئے، وہ حقیقت بھی نہیں۔ مگر ایٹم کے ٹوٹنے کے بعد یہ نظریہ ختم ہوگیا۔ اب معلوم ہوا کہ ایٹم کے ماورا بھی کچھ ایسی حقیقتیں ہیں جو مشاہدے میں نہیں آتیں، اگر چہ وہ اپنا وجود رکھتی ہیں۔ اِن حقیقتوںکو صرف ان کے اثر (effect) کے ذریعہ جانا جاسکتا ہے۔ اِس طرح بالواسطہ استدلال (inferential argument) کا طریقہ رائج ہوا۔ علمی حلقے میں یہ مان لیاگیا کہ بالواسطہ استد لال یا استنباط (inference) بھی اتنا ہی معقول استدلال (valid argument) ہے، جتنا کہ براہِ راست استدلال (direct argument) ۔
اِس واقعے کا ایک زبردست الٰہیاتی پہلو تھا۔ قدیم زمانے کے فلاسفہ اور متکلمین، خدا کے وجود پر جو استدلال قائم کرتے تھے، وہ تمام تر بالواسطہ استدلال ہوا کرتا تھا۔ مثلاً وہ استدلال جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہا جاتا ہے۔ اِس طرزِ استدلال کو منکرینِ خدا نے یہ کہہ کررد کردیاکہ یہ کوئی سائنٹفک استدلال نہیںہے۔ مگر اب جب کہ خود سائنس میںجوہری انشقاق کے بعد یہ مان لیا گیا کہ استنباطی استدلال (inferential argument) بھی علمی اعتبار سے ایک معقول استدلال ہے، تو علمِ الٰہیات (theology) ایک نئے دور میں داخل ہوگیا، یعنی ایک ایسے دور میں جب کہ الٰہیاتی استدلال بھی عقلی طورپر اتنا ہی قابلِ قبول ہے، جتنا کہ معروف سائنسی استدلال۔
اِخوانِ رسول
دورِ آخر میں مہدی، یا مسیح جو کارنامہ انجام دیں گے، وہ کوئی پُراسرار قسم کا شخصی کارنامہ نہیں ہوگا۔ وہ اُسی طرح اسباب و علل کے تحت پیش آئے گا، جیسا کہ پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں پیش آیا۔ مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلَّمہ طورپر ایک عظیم کارنامہ انجام دیا۔ یہ کارنامہ انجام دینے کے لیے خدا نے آپ کو مضبوط افراد کی ایک ٹیم دی، جس کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح مہدی، یا مسیح جو کارنامہ انجام دیںگے، اُنھیں بھی خدا کی خصوصی مدد کے ذریعے ایک طاقت ور ٹیم حاصل ہوگی۔ غالباً یہی وہ ٹیم ہے جس کو حدیث میں اخوانِ رسول کہاگیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ودِدتُ أنّا قد رأینا إخوانَنَا۔ قالوا: أو لسنا إخوانک یا رسول اللہ۔ قال: أنتم أصحابی، وإخواننا الّذین لم یأتوا بعد (صحیح مسلم، کتاب الطّہارۃ، باب: استحباب اطالۃ الغرّۃ والتّعجیل فی الوضوء) یعنی میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنے اخوان کو دیکھیں۔ صحابہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، کیا ہم آپ کے اخوان نہیں ہیں۔آپ نے فرمایا کہ تم میرے اصحاب ہو۔ ہمارے اخوان وہ ہیں جو ابھی نہیںآئے، وہ آئندہ آئیں گے۔
اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول کا معاملہ کوئی پُراسرار معاملہ نہیں۔ اِن دونوں گروہوں کی نوعیت کو قرآن اور حدیث کے مطالعے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اصحابِ رسول کی نوعیت، قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتی ہے۔ اِس آیت کے الفاظ یہ ہیں: محمد رسولُ اللہ والّذین معہ (الفتح: 29 )۔ قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ رسول کو جو اعلیٰ ایمانی درجہ ملا، اس کا راز کیا تھا۔ اِس اعلیٰ ایمانی درجے کے حصول کا راز، قرآن کے الفاظ میں، معیّتِ رسول تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور معیت سے فیض یاب ہو کر وہ اصحابِ رسول اور خیر امت (آل عمران: 110 ) بنے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اخوانِ رسول کا معاملہ بھی قرآن میں مذکور ہے۔ اخوانِ رسول کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر 41 میں بالواسطہ طورپر موجود ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’آئندہ ہم اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفُس میں بھی، یہاں تک کہ اُن پر کامل طورپر یہ ظاہر ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے‘‘ (حٰمٓ السّجدۃ: 53 )۔
قرآن کی اِس آیت میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ نیچر میں چھپی ہوئی صداقتِ اسلام کی نشانیاں ظاہر ہوں گی، اور وہ طالبانِ حق کے لیے اعلیٰ معرفت کا ذریعہ بنیں گی۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اِس دور سے مراد موجودہ سائنسی دور ہے۔ موجودہ سائنسی دور میں عالمِ فطرت کے ایسے حقائق انسان کے علم میںآئے ہیںجو بلاشبہہ معرفتِ اعلیٰ کا ذریعہ ہیں۔
اِس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے غالباً یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اخوانِ رسول وہ اہلِ ایمان ہیں جو سائنسی دور میں پیدا ہوں گے ،اور سائنسی دریافتوں سے ذہنی غذا لے کر اعلیٰ معرفت کا درجہ حاصل کریں گے، نیز یہی وہ لوگ ہوں گے جو مہدی، یا مسیح کا ساتھ دے کر آخری زمانے میں اعلیٰ دعوتی کارنامہ انجام دیںگے۔
اِس معاملے کی ایک مثال سورج گرہن (solar eclipse) اور چاند گرہن (lunar eclipse) کا خلائی ظاہرہہے۔ گرہن کیا ہے۔ گرہن دو سماوی اجرام کے درمیان کسی تیسرے کُرہ کے گزرنے سے پیدا ہونے والے اندھیرے کا نام ہے۔
Eclipse: The obscuring of the reflected light from one celestial body by the passage of another between it.
اصحابِ رسول کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اوّل کا زمانہ ہے۔ اُس زمانے میں سورج گرہن اور چاند گرہن کے بارے میں عجیب وغریب قسم کی کہانیاں مشہور تھیں۔ یہ معاملہ اُس وقت توہّمات (superstitions) کے پردے میں ڈھکا ہوا تھا۔ اصحابِ رسول نے توہماتی کہانیوں سے اوپر اٹھ کر سورج گرہن اور چاند گرہن کے معاملے کو جانا۔ انھوںنے یہ دریافت کیا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن، خداوند ِعالم کی دو نشانیاں ہیں۔ وہ خدا کی قدرت کا آسمانی مظاہرہ ہیں۔ اپنے اِس ذہن کی بنا پر انھوںنے سورج گرہن اور چاند گر ہن کو دیکھ کر خدا کی معرفت حاصل کی، اور نماز کی صورت میں خداکے آگے جھک کر خدا کی عظمت کا اعتراف کیا۔
موجودہ سائنسی دور میں دور بینی مشاہدہ کے ذریعے شمسی نظام (solar system) کے بارے میں نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ یہ معلومات بلا شبہہ ازدیادِ ایمان اور اضافۂ معرفت کا ذریعہ ہیں۔ اِن نئی معلومات کی روشنی میں جب آج کا ایک مومن، سورج گرہن اور چاند گرہن کے ظاہرہ کو دیکھتا ہے، تو اُس کو اُس اعلیٰ معرفت کا تجربہ ہوتاہے جو دل کو دہلا دے، اور جس کو سوچ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔
جدید معلومات کے مطابق، زمین اور سورج اور چاند، تین بالکل مختلف سائز کے متحرک اَجرام ہیں، مگر وسیع خلا میں اِن اَجرام کو ایک ناقابلِ قیاس حساب کے ذریعے ایک سیدھ میںلایا جاتا ہے۔ اِسی کے نتیجے میں ، انسانی مشاہدہ کی نسبت سے، سورج گرہن یا چاند گرہن واقع ہوتا ہے۔
مسیح کی آمد ِ ثانی کا مسئلہ
اِس بحث سے تعلق رکھنے والا ایک مسئلہ وہ ہے جس کو مسیح کی آمد ِ ثانی کا مسئلہ کہاجاتا ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح آسمان میں زندہ ہیں اور آخری زمانے میں وہ جسمانی طورپر آسمان سے اتر کر زمین پر آئیں گے اور دجّال کو قتل کریں گے۔ یہ تصور اگر چہ لوگوں میںکافی پھیلا ہوا ہے، مگر وہ اپنی موجودہ صورت میں نہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے، اور نہ احادیث سے۔حدیث کی مختلف کتابوں میں تقریباًدو درجن معتبر روایتیں ہیں جن میں مسیح کے ظہور کا بیان پایا جاتاہے۔ لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ اُن میں سے کسی روایت میں صراحتاً یہ الفاظ موجود نہیں کہ —مسیح جسمانی طورپر آسمان سے اتر کر زمین پر آئیںگے۔
اِس سلسلے میںجوبات ہے، وہ صرف یہ ہے کہ روایتوں میں نزول اور بَعث کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مگر صرف اِس لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح آسمان سے اتر کر نیچے زمین پر آئیں گے۔ عربی زبان میں نزول کا لفظ سادہ طور پر آنے کے معنی میںاستعمال ہوتا ہے، نہ کہ آسمان سے اترنے کے معنیٰ میں۔ اِسی اعتبار سے مہمان کو نَزیل کہاجاتا ہے، یعنی آنے والا۔ اِسی طرح بعث کے لفظ میں بھی آسمان سے اترنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ بعث کا مطلب اٹھنا، یا ظاہر ہونا ہے، نہ کہ جسمانی طورپر آسمان سے اترنا۔
مسیحی رول کی آمد
حقیقت یہ ہے کہ مسیح کی آمد سے مراد مسیح کے رول کی آمد ہے، یعنی دورِ آخر میں جب کہ دجّال ظاہر ہوگا، اُس وقت امتِ محمدی کا کوئی شخص اٹھے گا اور مسیح جیسا رول ادا کرتے ہوئے دجّال کے فتنوں کا مقابلہ کرے گا اور اُس کو شکست دے گا۔ حدیث میںقتلِ دجال کا ذکر ہے۔ اِس سے مراد دجال کا جسمانی قتل نہیں ہے، بلکہ دجال کے فتنے کو بذریعہ دلائل قتل کرنا ہے۔
یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ علمائِ اسلام کی قابلِ لحاظ تعداد اِس نقطۂ نظر کو ہمیشہ سے مانتی رہی ہے کہ مسیح جسمانی طورپر آسمان سے نازل نہیں ہوں گے۔ اِس نقطۂ نظر کی تائید میںمستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ جو علمائِ اسلام اِس نقطۂ نظر کے حامی ہیں، اُ ن میںسے بعض کے نام یہ ہیں— امام فخرالدین الرازی (وفات: 1210)، سید جمال الدین افغانی (وفات: 1897 )، مفتی محمد عبدہ (وفات: 1905 )، سید رشید رضا مصری (وفات: 1935)، شیخ محمود شلتوت(وفات:1963 ) ، ڈاکٹر محمداقبال(وفات: 1938)، مولانا عبید اللہ سندھی (وفات:1944 )، مولانا ابو الکلام آزاد(وفات: 1958 )، شیخ محمد بن احمد ابوزہرہ (وفات: 1974)، شیخ محمد الغزالی (وفات: 1996 )وغیرہ۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ماہ نامہ الرسالہ، جولائی 2008، مضمون ’’قربِ قیامت کا مسئلہ‘‘) علمائِ متقدمین میں علی بن احمدبن حزم الاندلسی (وفات: 1063 ء) اور شیخ تقی الدین احمد ابن تیمیہ (وفات: 1328 ء) نے نزولِ مسیح کے مسئلے کو اختلافی مسئلہ قرار دیا ہے۔
اِس طرح یہ ظاہر ہے کہ روایات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسیح کوئی ایسی شخصیت ہیں جو آسمان سے نازل ہوں گے۔ اور جب مسیح آسمان سے اترنے والی کوئی شخصیت نہ ہوں، تو ہمارے لیے صرف یہ انتخاب (option) باقی رہتا ہے کہ مسیح کو سادہ طور پر رول (role) کے معنی میں لیں، یعنی آخری زمانے میں امتِ محمدی سے کوئی ایک فرد اٹھے گا جو زمانی حالات کے اعتبار سے مسیح کا رول ادا کرے گا۔
مسیحی رول معروف معنوں میں کوئی فضیلت کی بات نہیں اور نہ وہ کوئی پراسرار چیز ہے۔ مسیحی رول دراصل ایک تاریخی رول ہے جو کسی امت کے دورِ آخر میں مطلوب ہوتا ہے۔ امت موسی کے دورِ آخر میں یہ رول مسیح ابن مریم نے انجام دیا تھا۔ امت ِ محمد کے دورِ آخر میں یہ رول خود امت کا کوئی مجدد انجام دے گا۔ امت محمد کے دور آخر کا رول آسمان سے اترنے والی کسی شخصیت کے ذریعہ انجام نہیں پائے گا۔ وہ خود امت کے اندر پیدا ہونے والے ایک شخص کے ذریعہ فطری طورپر انجام دیا جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ ہر امت اپنے ابتدائی د ور میں اخلاص پر قائم ہوتی ہے۔ مگر بعد کے دور میں امت کے افراد کے اندر زوال آجاتا ہے۔ اب امت کے افراد میں منافقت عام ہوجاتی ہے۔ مسیحی رول حقیقت میں یہی ہے کہ دور زوال میں منافقت کواکسپوز (expose)کیا جائے اور اخلاص والے دین سے دوبارہ لوگوں کو متعارف کیا جائے۔
منافقت کیا ہے۔ منافقت یہ ہے کہ لوگوں کے اندر دین کی حقیقی روح باقی نہ رہے۔ کچھ ظاہری چیزوں کو دین داری کا معیار سمجھ لیا جائے۔ اسی کو حضرت مسیح نے تمثیل کی زبان میں اِس طرح بیان کیا تھا کہ لوگ اندر سے بھیڑیا ہوں اور انھوں نے اوپر سے بھیڑ کی کھال پہن لی ہو (متّی: 7:15 )۔
حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، امت محمدی میں منافقت کا یہ دور پوری طرح آچکا ہے۔ اب عام طورپر یہ حال ہے کہ ظاہری وضع قطع کو دین دار ی سمجھ لیا گیاہے۔ لوگوں کو قومی فخر کی غذا دینا عین اسلامی کام سمجھا جانے لگا ہے۔ لوگوں کی کنڈیشننگ کو توڑے بغیر ایمان اور اسلام کے شان دار مظاہرے کئے جارہے ہیں اور ایسے لوگ مسلمانوں کے اندر قومی ہیرو بن گئے ہیں۔ کمیونٹی ورک کو دعوہ ورک کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ سیاسی اکھیڑ پچھاڑ کرنے والے لوگ مجاہدین ِ اسلام کا درجہ پارہے ہیں۔ اسلام کے بھیس میں منافقت کا یہ دور آج امت کے اندر پوری طرح آچکا ہے۔ آج مسیحی رول یہی ہے کہ اس منافقت کو اکسپوز کرکے اصلی اسلام کو لوگوں کے سامنے مبرہن حالت میں پیش کردیا جائے۔
حضرت مسیح کا رول
حضرت مسیح، بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر کے طورپر آئے۔اُس وقت بنی اسرائیل کے درمیان خدا کا دین موجود تھا، لیکن وہ دینِ منزَّل نہ تھا، بلکہ عملاًاس کی حیثیت دین ِ محرَّف کی بن چکی تھی۔ حضرت مسیح نے امتِ یہود کو دوبارہ دین منزّل کا پیغام دیا۔ یہی کام امتِ محمدی کی نسبت سے بھی مطلوب ہے۔ حدیث کے مطابق، امتِ محمدی کے دورِ آخر میں، امت کے درمیان تقریباً وہی صورت حال پیدا ہوجائے گی، جو حضرت مسیح کے زمانے میں امتِ یہود کی تھی۔ اِس لیے ضرورت ہوگی کہ امت محمدی کے آخری دور میں دوبارہ مسیحی کردار کو دہرایا جائے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ تجدید ِ دین کا ایک معاملہ ہے، نہ کہ کسی پر اسرار فضیلت کا معاملہ۔
حدیث کے الفاظ میں، آج اسلام ایک غریب دین (اجنبی دین) بن چکا ہے۔ بعد کو پیدا ہونے والے تصورات نے اصل دین کے اوپر پردہ ڈال دیا ہے۔ آج کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ دین کو بعد کی ملاوٹوں سے پاک کرکے اس کو اس کی اصل صورت میں پیش کیا جائے، دین ِ اجنبی کو دین ِ معروف بنایا جائے۔ یہ کام مسلمانوں کی نسبت سے بھی مطلوب ہے، اور غیر مسلموں کی نسبت سے بھی ۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امتِ محمدی کے آخری دور میں مسیحی رول کا اِعادہ اُس وقت ہوگا، جب کہ قیامت بالکل قریب آچکی ہوگی۔ حالات بتاتے ہیں کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں قربِ قیامت کی تمام نشانیاں ظاہر ہوچکی ہیں۔ دینی اعتبار سے اس کی نشانی یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان بگاڑ اُس آخری حد تک پہنچ جائے گا، جب کہ انسان یہ جواز (justification)کھودے گا کہ اس کو خدا کی زمین پر مزید باقی رہنے دیا جائے۔ حضرت نوح کے آخری زمانے میں وہ حالات پیدا ہوگئے جس کو انھوں نے اپنی ایک دعا میں اِس طرح بیان کیا تھا: إنّک إن تذرہم یضلّوا عبادک، ولا یلدوا إلاّ فاجراً کفّارًا (نوح: 27 )۔ جب اِس قسم کے انتہائی حالات پیدا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم طوفان کے ذریعے قومِ نوح کو تباہ کردیا۔ اِس عمومی تباہی سے صرف تھوڑے لوگ بچ سکے، جو ایمان لا کر حضرت نوح کے ساتھی بن چکے تھے۔
اب پھردنیا میں اتنا زیادہ بگاڑ آچکا ہے کہ آج کے انسان کے اوپر دوبارہ ’ولا یلدوا إلا فاجراً کفّارًا‘ کے الفاظ صادق آرہے ہیں۔ تقریباً یقینی معلوم ہوتا ہے کہ جلد ہی طوفانِ نوح سے بھی زیادہ بڑا طوفان آنے والا ہے، جو روئے زمین سے انسان اور انسانی تہذیب کا خاتمہ کردے۔ اور تمام انسانوں کو آخری حساب کے لیے میدانِ حشر میں خداوند ِ ذوالجلال کے سامنے حاضر کردے۔
انتظارِ مسیح
’’مسیح کی آمد ِ ثانی‘‘ کے بارہ میں عام طورپر لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ انھوںنے بطور خود مسیح کا ایک پُر عجوبہ تصور قائم کررکھا ہے۔ اپنے اِس تصور کے مطابق، وہ ایک پر عجوبہ شخصیت کی آمد کا انتظار کررہے ہیں۔ حالاں کہ اِس معاملے میں نصوص کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حضرت مسیح کسی پُر اسرار شخصیت کے طورپر ظاہر نہیں ہوں گے۔ اِس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اِس بات کا سخت اندیشہ معلوم ہوتا ہے کہ امتِ مسلمہ میں دوبارہ وہی صورتِ حال پیش آئے جو اِس سے پہلے امتِ یہود کے ساتھ پیش آئی تھی۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہود، آخری رسول کی آمد کا انتظار کررہے تھے، لیکن جب آخری رسول آیا، تو یہود نے اس کو ماننے سے انکار کردیا (البقرۃ: 89 ) کیوں کہ وہ یہود کو ان کے اپنے مفروضہ تصور کے مطابق نظرنہ آیا۔ امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے دوبارہ یہ اندیشہ ہے کہ لوگ اپنے مفروضات کے مطابق، ایک خود ساختہ مسیح کی آمد کا انتظار کرتے رہیں گے، جو کہ کبھی آنے والا نہیں۔ وہ اِسی انتظار میں رہیں گے، یہاںتک کہ اچانک قیامت آجائے گی، اور لوگوں کے حصے میں ابدی حسرت اور محرومی کے سوا کچھ اور نہ آئے گا۔مسیح، امتِ مسلمہ کے ایک فرد کے مصلحانہ رول کا نام ہے، نہ کہ جسمانی طور پرآسمان سے نازل ہونے والی کسی پُراسرار شخصیت کا نام۔ امتِ مسلمہ کے ایک فرد کا یہ رول عیسیٰ بن مریم کے رول کے مشابہ ہوگا۔ اس لیے اس کو امتِ مسلمہ کا مسیح کہاگیا ہے۔
دورِ آخر کے مجدّد کی پہچان
اب یہ سوال ہے کہ دورِ آخر کے مجدد کی پہچان کیاہوگی۔ اُس کی پہچان بلاشبہہ یہ نہیں ہوگی کہ وہ کچھ پُر عجوبہ صفات کا مالک ہوگا۔ اس کی پہچان بنیادی طورپر دو ہوگی۔ اور یہ دونوں چیزیں واضح طورپر قرآن اور حدیث سے معلوم ہوتی ہیں۔ حدیث میں دورِ آخر کے بارے میں ایک طویل روایت آئی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: لایبقیٰ من الإسلام إلاّ اسمہ، ولا یبقی من القرآن إلاّ رسمہ، مساجدہم عامرۃ، وہی خراب من الہُدیٰ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان)۔ یعنی اُس وقت اسلام میں سے کچھ نہیںبچے گا، سوائے اس کے نام کے۔ اور قرآن میں سے کچھ نہیں بچے گا، سوائے اس کے نشان کے۔ اُس وقت ان کی مسجدیں خوب آباد ہوں گی، لیکن وہ ہدایت کے اعتبار سے بالکل ویران ہوں گی۔
اِس حدیث کا مطلب کیا ہے، وہ ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ اِس دوسری روایت میںپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد کے زمانے کے بارے میں فرمایا: بدأ الإسلام غریباً، وسیعود کما بدأ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان) یعنی اسلام جب شروع ہوا، تو وہ اجنبی تھا، اور دوبارہ وہ اجنبی ہوجائے گا۔
اِس قسم کی روایتوں پر غور کرنے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ دورِ آخر کے مجدد کی سب سے پہلی علامت یہ ہوگی کہ وہ خدا کی خصوصی توفیق سے، دین ِ حق کو دوبارہ اس کی حقیقی صورت میں دریافت کرے گا۔ وہ ظاہری فارم سے گزر کر، اسلام کی اصل اسپرٹ کا فہم حاصل کرے گا۔ وہ قرآن کی مغالطہ آمیز تشریح سے گزر کر قرآن کے اصل پیغام کو سمجھے گا۔ وہ دین ِاجنبی کو دوبارہ اپنے لیے دین ِ معروف بنائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ خدا کے دین کو دوبارہ اُس طرح دریافت کرے گا، جس طرح اصحابِ رسول نے اس کو دریافت کیا تھا۔ زمانے کے اعتبار سے، وہ بعد کا انسان ہوگا، لیکن معرفت کے اعتبار سے وہ اصحابِ رسول جیسی معرفت کا حامل ہوگا۔
اُس کی دوسری علامت وہ ہوگی جو قرآن میں پیغمبروں کی نسبت سے اِن الفاظ میں بتائی گئی ہے: وما أرسلنا من رسول إلا بلسان قومہ (ابراہیم: 4 ) یعنی خدا نے جو رسول بھی بھیجے، وہ ان کی اپنی قوم کی زبان میں بھیجے۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں، بلکہ وہ ایک نہایت اہم بات ہے جو رسول کو پہچاننے کے معاملے میں ایک یقینی معیار کو بتاتی ہے۔
اِس آیت میں ’’لسان‘‘ سے مراد صرف زبان (language)نہیںہے، اِس میں وہ تمام پہلو شامل ہیں جو ایک کامیاب زبان کا ضروری حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً وضوح(clarity) ، مؤثر اسلوب، ایسا کلام جو معاصر ذہن کو پوری طرح ایڈریس کرنے والا ہو، وغیرہ۔
اِس قسم کا طاقت ور اسلوب کبھی اکتسابی نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ وہبی طورپر کسی ایسے شخص کو عطا ہوتا ہے جس سے خدا اپنے دین کی تبیین کا کام لینا چاہے۔ اِس استثنائی صفت کے باوجود جو لوگ اس کو نہ پہچانیں، وہ اُسی قسم کے اندھے پن میں مبتلا ہیں، جس اندھے پن کی بنا پر لوگوں نے پچھلے پیغمبروں کو نہیں پہچانا اور وہ ان کے منکر بنے رہے۔
معرفت، نہ کہ نزول
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح کے ظہور کے متعلق فرمایا: وإنّہ نازلٌ، فإذا رأیتموہ فاعرفوہ (سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم، باب ذکر الدّجال) یعنی وہ آئیںگے۔ پس جب تم ان کو دیکھو تو تم اُن کو پہچان لینا۔ اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ پہچاننا ’’نزول‘‘ کی بنیاد پر نہ ہوگا، بلکہ خود ان کی شخصیت کو دیکھ کر ہوگا۔ اگر پہچان کا تعلق نزول سے ہو، تو آسمان سے اُن کا جسمانی طورپر دوفرشتوں کے ساتھ اترنا اتنا زیادہ عجیب واقعہ ہوگا کہ ہر آدمی بلااعلان ہی ان کو اپنے آپ پہچان لے۔ گویا کہ اِس معاملے میں، حدیث کے مطابق، اصل معاملہ سادہ طورپر معرفتِ مسیح کا ہے، نہ کہ معجزاتی طورپر اُن کے آسمانی نزول کا۔
روایت کے مطابق، مسیح کی ایک پہچان یہ ہوگی کہ — اُن کے زمانے میں خدا اسلام کے سوا تمام ملتوں کو ہلاک کردے گا (یُہلک اللہ فی زمانہ الملل کلّہا إلاّ الإسلام۔ سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم، باب: خروج الدّجال) اس سے مراد بقیہ ملتوں کی جسمانی ہلاکت نہیں ہے، بلکہ ان کی استدلالی ہلاکت ہے۔ ظہورِ مسیح کے زمانے میں فطرت کے جو موافق دلائل، سائنسی تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئیں گے، اور مذاہب کے تقابلی مطالعے کے نتیجے میں جو حقیقتیں سامنے آئیں گی، وہ دوسری ملتوں (مذاہب) کی استدلالی بنیاد کو ڈھا دینے کے ہم معنیٰ ہوں گی۔
یہ معاملہ ابتداء ً بالقوہ (potentially) پیش آئے گا، یعنی نئے دریافت شدہ حقائق، دوسری ملتوں، یا دوسرے مذاہب کو اپنے آپ ہلاک نہیں کردیں گے، بلکہ اُس وقت ایک شخص درکار ہوگا جو اِن دریافت شدہ حقائق کی وضاحت کرکے اِس امکان کو واقعہ (actual) بنائے گا۔ حدیث کے مطابق، استثنائی طورپریہ کام مسیح انجام دیں گے، جب کہ دوسرے لوگ ایسا کرنے میں اپنے آپ کو پوری طرح عاجز پارہے ہوں گے۔ یہ واقعہ مسیح کی شخصیت کی ایک پہچان ہوگا۔
اِسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ حضرت مسیح جب آئیں گے، تو وہ ایک سفید مینار (المنارۃ البیضاء) کے پاس اتریں گے (صحیح مسلم، کتاب الفتن)۔ اِس حدیثِ رسول میں تمثیل کی زبان میں غالباً اُس دورکی طرف اشارہ کیاگیا ہے جس کو عہد ِ پرواز (age of aviation) کہاجاتا ہے۔ ہوائی جہاز جب کسی ائر پورٹ پر اترتا ہے تو وہاں پہلا نمایاں نشان اس کا کنٹرول ٹاور ہوتا ہے، جس کو ائرپورٹ کا مینار کہہ سکتے ہیں۔ اِس مینار کے پاس اتر کر آدمی شہر کے اندر داخل ہوتا ہے۔ مذکورہ حدیث میں غالباً تمثیل کی زبان میں اِسی ظاہرے کو بتایا گیاہے۔ اِس اعتبار سے حدیث کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت مسیح عہدِ پرواز (age of aviation) میں لوگوں کے درمیان ظاہر ہوں گے۔
امامت بذریعہ کتاب وسنت
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اُس وقت تمھارا حال کیا ہوگا جب کہ تمھارے درمیان ابن مریم ظاہر ہوںگے، پھر وہ تمھاری امامت کریں گے تمھیں میں سے ۔ ابن ابی ذئب نے کہا کہ’’إمامکم منکم‘‘کا مطلب یہ ہے کہ— وہ تمھاری امامت کریں گے، تمھارے رب کی کتاب کے مطابق اور تمھارے نبی کی سنت کے مطابق (أمّکم بکتاب ربّکم تبارک وتعالیٰ وسنّۃ نبیکم صلی اللہ علیہ وسلم) صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان نزول عیسی بن مریم حاکماً۔
دور آخر میں ظاہر ہونے والے مجدد کی سب سے بڑی پہچان یہی ہے۔ وہ کتاب وسنت کو اس کی اصل تعلیمات کے مطابق زندہ کرے گا۔ گویا کہ اُس کا رول آخری دور میں کامل معنوں میں تجدید ِ دین کا رول ہوگا۔ یہ فتنۂ دہیماء کے بعد اظہارِ دین کی اعلیٰ صورت ہوگی۔ مسیح کی پہچان یہی ہوگی کہ وہ دینِ اجنبی کو دوبارہ دینِ معروف بنائیں گے۔ وہ کتاب وسنت کی تعلیمات کو اس کی حقیقی صورت میں زندہ کریں گے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسیح کا ظہور کس وقت ہوگا۔ یہ واقعہ اُس وقت ہوگا جب کہ حق کا اصلی معیار گم ہوچکا ہوگا۔ اُس وقت مسیح کے ذریعے اس کا حقیقی معیار سامنے آئے گا، یہ معیار ہے خالص کتاب و سنت کا معیار۔
قتل ِ دجّال
قتلِ دجّال کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے۔ابنِ ماجہ کے الفاظ یہ ہیں: فإذا نظر إلیہ الدّجال ذاب کما یذوب الملح فی الماء، وینطلق ہارباً، ویقول عیسیٰ انّ لی فیک ضربۃ لن تسبقنی بہا(کتاب الفتن، باب: ذِکر الدّجال) یعنی دجّال جب مسیح کو دیکھے گا، تو وہ اِس طرح گھلنے لگے گا جیسے کہ نمک پانی میں گھلتا ہے، اور وہ وہاں سے بھاگنا شروع کردے گا۔ مسیح کہیں گے کہ میرے پاس تیرے لیے ایک ایسی ضرب ہے جس سے بچنا ہر گز تیرے لیے ممکن نہیں۔
اِس روایت میںجو بات کہی گئی ہے، وہ تمثیل کی زبان میں ہے۔ اِس پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دجال کے مقابلے میں جو واقعہ پیش آئے گا، وہ یہ ہے کہ مسیح اُس کے دجل کا علمی تجزیہ کرکے اُس کو ایکسپوز (expose) کردیں گے۔ اِس طرح وہ دلائل کے ذریعے دجّال کو بے نقاب کردیں گے، یہاں تک کہ جو لوگ دجال کی پُرفریب باتوں سے متاثر ہورہے تھے، وہ جان لیں گے کہ دجال کی باتیں خوش نما الفاظ کے جھوٹے فریب کے سوا اور کچھ نہیں۔
گلوبل وارمنگ، یا موسمیاتی تبدیلی بطور آغازِ قیامت
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام اور سائنس دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ اسلام کا موضوع الگ ہے اور سائنس کاموضوع الگ۔ یہ بات کسی حد تک درست ہوسکتی ہے، لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جہاں اسلام اور سائنس دونوں ایک دوسرے سے بالکل ہم آہنگ ہوجاتے ہیں، یعنی جو بات سائنس اپنی تحقیق کے ذریعے بتا رہی ہے، وہی بات اسلام میں وحی کے ذریعے بتائی گئی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اسلام میں یہ بات ہزار سال سے بھی زیادہ پہلے ساتویں صدی عیسوی میں بتا دی گئی تھی، جب کہ سائنس نے اِس بات کو ابھی حال کے برسوں میں دریافت کیا ہے، خاص طورپر اکیسویں صدی عیسوی کے آغاز کے بعد۔
یہ شعبہ، قیامت یا تاریخِ انسانی کے خاتمہ کے بارے میں ہے۔ عجیب بات ہے کہ اِس سلسلے میں جو باتیں قرآن اور حدیث میں بطور پیشگی خبر کے طور پر بتائی گئی تھیں، وہ اب سائنسی مشاہدات کے ذریعے بطور واقعہ انسان کے علم میں آرہی ہیں۔ یہاں اِس سلسلے میں چند مثالیں درج کی جاتی ہیں:
کرۂ ارض میں تبدیلی
قرآن اور حدیث میںکثرت سے بتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے کچھ علامتی واقعات ظاہر ہوں گے، جو یہ بتائیں گے کہ قیامت اب قریب آگئی ہے۔ مثال کے طورپر اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: یوم تُبدّل الأرض غیر الأرض والسمٰوات، وبرزوا للّٰہ الواحد القہار (ابراہیم: 48 ) یعنی جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی۔اور سب اللہ، واحد وقہّار کے سامنے پیش ہوں گے۔
اِس آیت میں کرۂ ارض کے اندر جس تبدیلی کا ذکر ہے، وہ غالباً اچانک تبدیلی نہیںہے، بلکہ وہ بتدریج ہونے والی تبدیلی ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ واقعہ عملاً پیش آرہا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے میں سائنس کی مختلف شاخوں میںغیر معمولی ترقی ہوئی ہے۔ اِس کی وجہ سے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ انسان اِن ہونے والی تبدیلیوں کو بَروقت جان سکے، جب کہ سائنسی ترقی سے پہلے انسان کے لیے اِن تبدیلیوں کو جاننا ممکن نہ تھا۔ یعنی خدا نے ایک طرف قیامت کی پیشگی خبر کے طورپر زمین میں چشم کشا تبدیلیاں پیدا کیں، اور عین اُسی وقت خدا نے انسان کو وہ جدید سائنسی طریقے عطا کردیے جن کے ذریعہ وہ اِن تبدیلیوںکو براہِ راست طور پر جان سکے۔
اکیسویں صدی کے آتے ہی دنیا بھر کے سائنس دانوں نے اپنے مطالعے کے مطابق، متفقہ طورپر یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ زمین میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی (climatic change) کے نتیجے میں نہایت تیزی سے تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ جدید سائنسی مشاہدات کے مطابق، اِن تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ ہونے والا ہے کہ تقریباً2050 سے پہلے ہی ہماری زمین ناقابلِ رہائش (inhabitable) ہوجائے۔
پچھلے دس برسوں کے اندر اِس سلسلے میں سائنس دانوں کی طرف سے بہت سی رپورٹیں شائع ہو چکی ہیں۔ حال میں امریکا کے سائنس میگزین میں اِس سلسلے میں ایک رپورٹ چھپی ہے۔ یہ ناسا (NASA) کے ایک ٹاپ سائنٹسٹ (James Hansen) کی طرف سے ہے۔ اِس رپورٹ کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (9 اپریل 2008 ) میں اِس عنوان کے تحت چھپا ہے— زمین خطرے میں(Earth in Crisis) ۔اِس رپورٹ کے مطابق، زمین پر بحران کی حالت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ بروقت ہی وہ خطرے کی سطح تک پہنچ چکی ہے:
“We have already reached dangerous level of carbon dioxide in the atmosphere,” James Hansen, 67, director of Nasa’s Goddard Institute for Space Studies in New York, said. (p. 35)
زمین پر لائف سپورٹ سسٹم کے بگڑنے کے معاملے میں سائنس داں جو خبریں دے رہے ہیں، وہ نظریاتی تخمینہ پر مبنی نہیں ہیں، بلکہ وہ خالص مشاہدات کے ذریعے حاصل کی ہوئی معلومات ہیں۔ موجودہ زمانے میں جو جدید ترین سائنسی طریقے دریافت ہوئے ہیں، اُن کے ذریعے مسلسل مشاہداتی مطالعہ کیاگیا ہے اور پھر یہ رپورٹیں میڈیا میں بھیجی گئیں۔ یہ معلومات تمام کی تمام ایسی ہیں جن کو کوئی بھی شخص سائنسی ذرائع کو استعمال کرکے جان سکتا ہے۔
دابہ کا ظہور
قرآن کی سورہ نمبر 27 میں قیامت کے قریب پیش آنے والی ایک نشانی کا ذکر ہے جس کو دابّۃ کہاگیا ہے: ولمّا وقع القول علیہم أخرجنا لہم دابّۃً من الأرض تکلمّہم أن الناس کانوا باٰیاتنا لایوقنون (النمل: 82 ) یعنی جب اُن پر قول پورا ہوجائے گا تو ہم اُن کے لیے زمین سے ایک دابہ نکالیں گے۔ وہ اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری نشانیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
دابہ کے لفظی معنی ہیں — رینگنے والا (creeper)۔ یہ لفظ قرآن میں حیوان اور انسان دونوں کے لیے آیا ہے (فاطر: 45 ) آیتِ دابہ میں یہ لفظ زندہ مخلوق (creature) کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اِس زندہ مخلوق سے مراد غالباً ایک انسان ہے، نہ کہ کوئی جانور۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ ایک انسان کو اٹھائے گا، جو خدا کی اُن نشانیوں سے لوگوں کو باخبر کرے گا جو اگرچہ موجود تھیں، لیکن لوگ اُن کو خدا کے حوالے سے سمجھنے سے قاصر ہورہے تھے۔
دابہ کے سلسلے میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔ اِن روایتوں سے بظاہر یہ متصور ہوتا ہے کہ دابہ ایک انوکھی مخلوق ہوگا۔ اِن روایتوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُن کو تمثیلی اسلوب قرار دے کر سمجھا جائے۔ چناں چہ مفسرین کی ایک جماعت نے ان روایتوںکو تمثیل پر محمول کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ دابہ سے مراد انسان ہے، نہ کہ کوئی عجیب الخلقت جانور۔ اس کے مطابق، دابہ عام انسانوں جیسا ایک انسان ہوگا اور وہ خدا کی خصوصی توفیق کے ذریعے خدا کی نشانیوں کے اظہار کا ذریعہ بنے گا۔ مفسرالقرطبی (وفات: 671 ھ) نے اِس رائے کو اِن الفاظ میں نقل کیا ہے: إنّ الأقرب أن تکون ہذہ الدابۃ إنساناً متکلماً، یناظر أہلَ البِدع والکفر ویجادلہم لینقطعوا، فیہلک من ہلک عن بیّنۃ، ویحیا من حیّ عن بیّنۃ(تفسیر القرطبی، جلد 13، صفحہ 236 ) یعنی بعض متاخرمفسرین نے کہا ہے کہ قریب تر بات یہ ہے کہ یہ دابہ ایک بولنے والا انسان ہو۔ وہ اہلِ بدعت اور اہلِ کفر سے مباحثہ کرے گا، تاکہ وہ باز آجائیں۔ چناں چہ جس کو ہلاک ہونا ہے، وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہو۔ اور جس کو زندہ رہنا ہے، وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔
قرآن کی اِس آیت میں جب دابہ سے مراد دورِ آخر میں ظاہر ہونے والا انسان ہے، پھر کیوں ایسا ہوا کہ یہاںانسان کے بجائے دابہ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اِس کا سبب قانونِ التباس ہے، جس کا بیان قرآن کی سورہ الانعام کی آیت نمبر 9 میں کیاگیا ہے۔ اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چہ اپنی وحی کو فرشتہ کے ذریعہ بھیجتا ہے، لیکن دوسروں کے سامنے اِس وحی کا اعلان ایک آدمی کے ذریعے کرایا جاتا ہے۔ ایسا اِس لیے کیا جاتا ہے، تاکہ سنتِ الٰہی کے مطابق، شبہہ کا عنصر (element of doubt) باقی رہے۔ وحی لانے والا فرشتہ اگر خود ہی ظاہر ہو کر لوگوں کو آیتیں سناتا تو شبہہ کا عنصر ختم ہوجاتا۔ اِس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک بشر کو اپنی وحی کے اعلان کا ذریعہ بنایا۔ غالباً یہی وہ حکمت ہے جس کی بنا پر قرآن میں دابہ کا لفظ استعمال کیا گیاہے، تاکہ شبہہ کا عنصر باقی رہے۔اگر یہاںانسان کا لفظ استعمال کیا جاتا تو قانونِ التباس کی حکمت باقی نہ رہتی۔
’’دابہ‘‘ کارول جو قرآن میں بتایا گیاہے، وہ یہ ہے کہ دابہ ظاہر ہو کر خدا کی مخفی نشانیوں کو آشکارا کرے گا اور دلیل کی زبان میں لوگوں سے کہے گا کہ جب یہ کھلی ہوئی نشانیاں موجود ہیں تو کس چیز نے تم کو روکا ہے کہ تم اِن نشانیوں پر یقین نہ کرو۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں جن نشانیوں (آیات) کی طرف اشارہ کیاگیا ہے، اُن سے مراد غالباً وہ نشانیاں ہیں جو آخری زمانے میں ظاہر ہو کر دینِ خداوندی کی حقانیت کو آخری حد تک مبرہن کردیں گی۔ اِس طرح گویا دابہ یا دورِ آخر میں ظاہر ہونے والا داعی، اللہ کی طرف سے لوگوں کے اوپر آخری اتمامِ حجت ہوگا۔ اِس اتمامِ حجت کے بعد دوسرا واقعہ صرف یہ ہوگا کہ فرشتہ اسرافیل اپنا صور پھونک دے اور قیامت برپاہوجائے۔
حدیث میں آئی ہوئی پیشین گوئیاں
1 - حدیث میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانے میں ایک سنگین فتنہ ظاہرہوگا، یعنی فتنۂ دہیماء (سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم)۔ اِس سے مرادغالباً ذہنی کہر(intellectual fog) جیسی صورتِ حال ہے۔ یہ صورتِ حال پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد شروع ہوئی، اور انٹرنیٹ کے دور میں آکر وہ اپنی آخری حد تک پہنچ گئی۔ اِس زمانے میں پرنٹنگ میٹریل اور الیکٹرانک میٹریل کے ذریعے اتنی زیادہ باتیں لوگوں کے درمیان پھیلائی گئی ہیںکہ اب ہر انسان معلومات کے جنگل میں جی رہا ہے۔ اِس صورتِ حال نے ایک ذہنی کہر کی حالت پیدا کردی ہے۔ ہر آدمی کا دماغ معلومات کا جنگل بنا ہوا ہے۔ ایسی حالت میںحق اور باطل کے درمیان فرق کرنا اور غلط کو الگ کرکے صحیح کو دیکھنا، اتنا زیادہ مشکل ہوچکا ہے کہ وہ خدا کی خصوصی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
2 - ایک روایت کے مطابق، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ ہرج بہت زیادہ نہ بڑھ جائے (لا تقوم السّاعۃ حتّٰی یکثر الہرْج)۔ لوگوں نے کہا کہ ہرج کیا ہے، اے خدا کے رسول۔ آپ نے فرمایا: القتل، القتل (صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط السّاعۃ)۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل کا زمانہ ہے۔ اُس زمانے میں جدید ہتھیار نہیں بنے تھے۔ اُس وقت یہ ناقابلِ تصور تھا کہ قتل اور خوں ریزی ہر طرف عام ہوجائے۔ یہ صرف موجودہ زمانے میں ممکن ہوا ہے، جب کہ عمومی تباہی کے ہتھیار (weapons of mass destruction)بنائے گئے اور وسیع پیمانے کا قتل وخون ممکن ہوگیا۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں ہر طرف اور ہر روز کثرت سے قتل اور خوں ریزی کے واقعات ہورہے ہیں۔ یہ صورت حال اِس بات کی علامت ہے کہ اب قیامت بہت قریب آچکی ہے۔ اِس پیشین گوئی کی صداقت کے لیے یہ ثبوت کافی ہے کہ یہ پیشین گوئی بہت پہلے اُس وقت کی گئی، جب کہ موجودہ قسم کا قتل اور تشدد بالکل ناقابلِ قیاس تھا۔
3 - ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوُشک الفراتُ أن یحسر عن کنز من ذَہب (صحیح مسلم، کتاب الفتن) یعنی وہ زمانہ آنے والا ہے، جب کہ دریائے فرات میں سونے کا ایک خزانہ نکلے۔
اِس حدیث میں جو پیشین گوئی کی گئی ہے، اُس سے مراد واضح طورپر پٹرول ہے، جس کو موجودہ زمانے میں سیّال سونا (liquid gold) کہاجاتا ہے اور جو بہت بڑی مقدار میں شرقِ اوسط (Middle East) کے عرب علاقے میں ظاہر ہوا ہے۔ یہ واقعہ بھی پیغمبر اسلام کے زمانے میں ناقابلِ تصور تھا۔ موجودہ زمانے میں بلاشبہہ آپ کی یہ پیشین گوئی پوری ہوچکی ہے۔ یہ واقعہ اِس بات کی ایک علامت ہے کہ قیامت اب زیادہ دور نہیں۔
4 - ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قربِ قیامت کی دس نشانیوں کا ذکر فرمایا۔اُن میں سے ایک نشانی دُخان کا ظاہر ہونا ہے۔ دُخان کے لفظی معنیٰ دھواں (smoke) کے ہیں۔ اِس روایت میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ ایک وقت ایسا آئے گا، جب کہ زمین کی پوری فضا دھویں سے بھر جائے گی۔
موجودہ زمانے میں یہ پیشین گوئی واقعہ بن چکی ہے۔ اِس سے مراد واضح طورپر وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں فضائی کثافت (air pollution) کہاجاتا ہے۔یہ کثافت، جدید صنعتی دور کا ایک ظاہرہ ہے۔ جدید صنعتی دور نے تاریخ میں پہلی بار وہ چیز پیدا کی ہے جس کو کاربن ایمیشن (carbon emission) کہاجاتا ہے۔اس کے نتیجے میں پوری فضا کاربن ڈائی آکسائڈ سے بھر گئی ہے، جو انسان جیسی مخلوق کے لیے انتہائی حد تک مہلک ہے۔فضائی کثافت کا یہ معاملہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں ناقابلِ تصور تھا۔ ایسی حالت میں چودہ سو سال بعد اِس پیشین گوئی کا واقعہ بننا، قربِ قیامت کی ایک واضح نشانی کی حیثیت رکھتا ہے۔
5 - ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنکم سترون بعد قلیل أمراً عظیما، یُحرّق البیت، ویکون ویکون(صحیح مسلم، کتاب الفتن)۔ یعنی آئندہ تم ایک امرِ عظیم دیکھو گے، وہ یہ کہ ایک گھر جلا دیا جائے گا۔ ایسا ہوگا اور ضرورہوگا۔
حدیث کے الفاظ پر غور کیجیے تو یہ کسی عام گھر کو جلانے کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بہت بڑے گھر کو جلانے کی بات ہے، جیسا ’’گھر‘‘ قدیم زمانے میں موجود نہ تھا۔اِس پیشین گوئی سے غالباً وہ واقعہ مراد ہے جو 11 ستمبر 2001 کو نیویارک (امریکا) میں پیش آیا۔ یہاں مشہور ورلڈ ٹریڈ سنٹر (World Trade Centre) واقع تھا۔ یہ سنٹر 1970-72 میں تعمیر کیاگیا تھا۔ اس کی ایک سودس منزلیں تھیں۔ یہ گویا کہ ایک عمارتی پہاڑ تھا۔ روایتی طریقوں سے اس کو توڑنا، یا جلانا ناممکن تھا۔ مذکورہ تاریخ کو کچھ لوگوں نے دو ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کیا اور اس کو فضا میں تیز اڑاتے ہوئے لے جاکر ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا دیا۔ اِس کے بعد ایک عظیم دھماکہ کے ساتھ پوری بلڈنگ جل کر کھنڈر ہوگئی۔
ایسے کسی واقعے کے ظہور میں آنے کے لیے بہت سے اسباب درکار تھے۔ یہ اسباب تاریخ میں پہلی بار بیسویں صدی عیسوی میں انسان کو حاصل ہوئے۔ ایسی حالت میںاِس انوکھی پیشین گوئی کا حرف بہ حرف پورا ہونا، اِس بات کی یقینی علامت ہے کہ اب قیامت کا وقت قریب آچکا ہے، اس کے آنے میں اب زیادہ دیر نہیں۔
6 - ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تقوم السّاعۃ حتّی لا یُقال فی الأرض: اللّٰہ، اللّٰہ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان؛ الترمذی، کتاب الفتن) یعنی قیامت صرف اُس وقت قائم ہوگی جب کہ زمین پر کوئی اللہ، اللہ کہنے والا باقی نہ رہے۔
اِس حدیث میں قول سے مراد قولِ لسان نہیں ہے، بلکہ قولِ معرفت ہے، جیسا کہ قرآن (المائدۃ: 83) سے ثابت ہوتا ہے۔ قولِ معرفت کا معیار قرآن میں بتادیا گیا ہے۔ وہ معیار یہ ہے کہ قولِ معرفت ایک ایسے انسان کی زبان سے نکلتا ہے، جو اللہ کے ساتھ حبِّ شدید (البقرہ: 165 ) اور خوفِ شدید (التوبۃ: 18 ) کا تعلق رکھتاہو۔جس کا حال یہ ہو کہ جب اس کے سامنے خدا کا ذکر کیا جائے، تو اس کا سینہ خدا کی عظمت کے احساس سے دہل اٹھے (الأنفال:2 ) ۔جب زمین پر اِس معنی میںخدا کی عظمت کا اعتراف کرنے والے لوگ باقی نہ رہیں، تو سمجھ لینا چاہیے کہ قیامت کا وقت قریب آگیا ہے۔
انسان کا وجود اور یہاں کی ہر چیز جو انسان کو ملی ہوئی ہے، وہ سب خدا کا انعام ہے۔ اللہ کا چرچا کرنے والوں کا زمین پر نہ ہونا کوئی سادہ بات نہیں۔ ایسی صورت ِ حال کا مطلب یہ ہے کہ لوگ خدا کے انعام کو تو خوب خوب لے رہے ہیں، لیکن وہ مُنعم کا اعتراف نہیں کرتے۔ جب زمین پر ایسی صورتِ حال پیدا ہوجائے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ انسان نے آخری طورپر اِس بات کا جواز کھودیا ہے کہ اُس کو خدا کی زمین پر مزید آباد رہنے کا موقع دیاجائے۔
موجودہ زمانے میں یہ پیشین گوئی واقعہ بن چکی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایسے لوگ تو کثرت سے ملیں گے جو تکرارِ لسان کے طور پر اللہ کا نام لیں، مگر اللہ کے نزدیک ایسے لوگوں کی کوئی قیمت نہیں، اور جہاں تک حقیقی معنوں میں اللہ کویاد کرنے کا سوال ہے، ساری زمین پر بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو اِس معاملے میں مطلوب معیار پر پورے اتریں۔
اِس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ پرنٹنگ پریس اور اسٹیج کے دور کے آنے کے بعد مسلمان بڑی بڑی سرگرمیاں کررہے ہیں، مگر حقیقی معنوں میںخدا کا چرچا کرنے والے لوگ کہیں نظر نہیں آتے۔ لوگ اپنے قومی فخر میں جی رہے ہیں، نہ کہ خدا کی عظمت میں۔ خدا کی حقیقی عظمت کا ذکر ان کی تقریروں اور تحریروں اور ان کے اداروں میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ لوگوں نے اپنی قومی عظمت کو تو ضرور دریافت کیا، لیکن وہ خدا کی عظمت کو دریافت نہ کرسکے۔ ایسی حالت میں یہ ایک فطری بات ہے کہ ان کی زندگیاں خدا کی حقیقی عظمت کے چرچے سے خالی نظر آئیں۔
7 - قربِ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت حدیث میں یہ بتائی گئی ہے کہ اُس زمانے میں اسلام کا کلمہ دنیا کے ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں داخل ہوجائے گا (لایبقیٰ علیٰ ظہر الأرض بیت مَدر، ولا وبر إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃ الإسلام)۔ اِس سلسلے میں مزید یہ الفاظ آئے ہیں: بعِزّعزیز، وذُلّ ذلیل (مسند احمد، جلد 6، صفحہ 4)۔ یعنی عزت والے کو عزت کے ساتھ اور ذلت والے کو ذلت کے ساتھ۔اِس سے مراد کسی قسم کی سیاسی طاقت نہیں ہے۔ یہ ایک اسلوبِ کلام ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ— خواہی نہ خواہی (willingly or unwillingly) یعنی کوئی شخص چاہے یا نہ چاہے، اسلام کا کلمہ بہر حال اس کے گھر میں داخل ہوجائے گا۔
یہ واقعہ کس طرح ہوگا۔ کمپیوٹر ایج (computer age)نے اِس بات کو پوری طرح قابلِ فہم بنا دیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ عملاً ہر گھر میں اور ہر آفس میں کمپیوٹر داخل ہوگیا ہے۔ انٹرنیٹ اور ویب سائٹ پر تمام اسلامی معلومات بھری جارہی ہیں۔ اب دنیا کے کسی بھی مقام پر اور کسی بھی آفس یا گھر میں ایک شخص اپنے کمپیوٹر کے ذریعے، اسلام کے بارے میں پوری معلومات خود اپنی زبان میں حاصل کرسکتا ہے۔اِس معاملے پر غور کرتے ہوئے سمجھ میں آتا ہے کہ ہرگھر میں کلمۂ اسلام کے داخلے سے مراد امکانی داخلہ (potential entry) ہے، نہ کہ واقعی داخلہ (actual entry) ۔ اور امکانی داخلے کے اعتبار سے بلا شبہہ، اسلام کا کلمہ ہر گھر میں داخل ہوچکا ہے۔
خلاصہ
مذہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ خدا نے جب انسان کو پیدا کیا توشروع ہی سے انسان کی رہ نمائی کے لیے دنیا میں پیغمبر آتے رہے۔ پیغمبروں کا دور، وہ دور ہے جب کہ و حی (revelation) کی سطح پر حقیقت کا علم دیا جاتا رہا۔ یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ جدید سائنسی انقلاب آیا۔ اب یہ ہوا کہ جو حقیقت پہلے وحی کی سطح پر بیان کی جارہی تھی، وہ خود علم انسانی کی سطح پر آخری حد تک مُبرہن حقیقت (proved fact) بن گئی۔اِس طرح تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ الہامی کتاب (قرآن)، اور انسانی علم دونوں کے اعتبار سے مشترک طورپر مسلّمہ بنیاد (mutually accepted ground) فراہم ہوئی ہے، جس نے اِس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ سچائی کی یقینی معرفت حاصل کی جاسکے۔
واپس اوپر جائیں

اِس کے بعد معرفتِ حق کا کوئی اور درجہ باقی نہیں۔اِس کے بعد جو ہونے والاہے، وہ صرف یہ کہ قیامت واقع ہو، اور خداوند ِ ذوالجلال براہِ راست طور پر انسان کے سامنے آجائے۔اب آخری وقت آگیا ہے کہ تمام انسان جاگ اٹھیں۔ جو لوگ اب بھی نہ جاگیں، ان کو قیامت کا بھونچال جگائے گا، مگر اُس وقت کا جاگنا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔


واپس اوپر جائیں