Pages

Monday 1 April 2002

Al Risala | April 2002 (الرسالہ،اپریل)

4

- ربانی تعقّل

12

- انسانی مصائب کیوں

14

- جنگ اور امن اسلام میں

23

- سلطانی ماڈل، دعوتی ماڈل

31

- فتحِ مبین کا راز

34

- سوال وجواب

43

- خطوط


ربّانی تعقل

قرآن میں بنیادی طورپر دو قسم کی تعلیمات ہیں۔ ایک وہ جن کو احکام کہا جاتا ہے۔ اور دوسرے وہ جو تفکر اور تدبر سے تعلق رکھتی ہیں۔ اوّل الذکر کی حیثیت اگر عملی ہے تو ثانی الذکر کی حیثیت فکری ۔
قرآن میں دونوں ہی قسم کی تعلیمات اجمالی انداز میں آئی ہیں۔ یہ کام علماء اسلام کا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی رہنمائی میں اس اجمال کی تفصیل کریں۔ جہاں تک احکام کا تعلق ہے، اُن کی تفصیل اور تدوین فقہ کی صورت میں کی گئی ہے۔ یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ اس کو بنیادی طورپر ایک کامیاب کوشش کہا جاسکتا ہے۔جہاں تک تفکر اور تدبر والے حصہ کاتعلق ہے، اُن کے سلسلہ میں بھی پچھلے ہزار سال کے دوران مقدار کے اعتبار سے کافی کام ہوا ہے۔مگر وہ بڑی حد تک غیر اطمینان بخش ہے۔ یہ کہنا غالباً درست ہوگا کہ اس پہلو سے جو لٹریچر تیار ہوا ہے وہ زمانی افکار سے اتنا زیادہ متاثر ہے کہ قرآن کی حقیقی روح اُس میں اوجھل ہوگئی ہے۔
اس موضوع پر کام کرنے والوں کا پہلا گروہ وہ ہے جن کو متکلمین کہا جاتا ہے۔ یہ گروہ ابتداء ً عباسی خلافت کے زمانہ میں پیدا ہوا۔ اس گروہ کے مشہور ناموں میں سے الفارابی (وفات ۹۵۰ ء) ابن رُشد (وفات ۱۱۹۸ء) الرازی (وفات ۱۲۱۰ء)، وغیرہ ہیں۔ متکلمین کے اس گروہ نے قرآنی تفکر اور تدبر کے اظہار کے لئے جس فکری ماڈل کو اپنایا، وہ یونانی فلسفہ کا ماڈل تھا۔ یہ فلسفہ قیاسی منطق کے اصول پر قائم تھا۔ اس لیے وہ بذات خود ایک غیر حقیقی ماڈل تھا۔ اس ماڈل پر قرآن کے فکری اجمال کی جو تفصیل کی گئی وہ بڑی حد تک من تمنطق تزندق کی مصداق تھی۔ اس پورے مجموعے پر فارسی شاعر کا یہ شعر صادق آتا ہے:
فلسفی سِرِّ حقیقت نتوانست کشود گشت رازِ دِگر آں راز کہ افشامی کرد
اس سلسلہ کا دوسرا گروہ وہ ہے جس نے وحدتِ وجود کے تصور پر قرآنی عقلیت کو واضح کرنا چاہا۔ اس کو ایک لفظ میں وحدانی تعقل کہا جاسکتا ہے۔ اس طبقہ کی چند مشہور کتابیں یہ ہیںــــابن العربی کی کتاب الفتوحات المکیۃ، مولاناروم کی مثنوی، علامہ اقبال کی تشکیل جدیدالٰہیات اسلامیہ (Reconstruction of Religious Thought in Islam) ۔
یہ طریقہ جس کو ہم نے وحدانی تعقل کا نام دیا ہے، وہ اول الذکر یونانی تعقل سے بھی زیادہ غلط تھا۔ اوّل الذکر کو اگر عقلی چیستاں کہا جائے تو یہ دوسرا طریقہ کھلی ہوئی ذہنی گمراہی تھا۔ اس طریقہ میں توحید کے عقیدہ کو وحدتِ وجود (Monism)کے تصور پر ڈھال دیا گیا۔ جب کہ اسلام میں توحید کا عقیدہ وحدتِ خدا (monotheism)کے اصول پر قائم ہے۔ وحدت وجود کا نظریہ سراسر ضلالت ہے اور وحدتِ خدا کا نظریہ سراسر ہدایت۔
موجودہ زمانہ میں مسلم اہلِ قلم کا ایک اور گروہ پیدا ہوا جس نے اسلامی عقلیت کو سیاسی تعقل کے ہم معنٰی بنا دیا۔ اس گروہ نے اسلام کی تعلیمات کو سیاسی اصطلاحوں میں بیان کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے لا الٰہ الا اللہ کو لا حاکم الا اللہ کے ہم معنٰی قرار دیا۔ اس گروہ میں مصر کے سید قطب اور پاکستان کے سید ابوالاعلیٰ مودودی، وغیرہ شامل ہیں۔
سیاسی تعقل کا یہ طریقہ، اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلامی تعقل کی تصغیر تھا۔ اس تشریح میں عقیدۂ اسلامی کی آفاقی وسعت سیاست کے محدود دائرہ میں سمٹ کر رہ گئی۔ اسلامی تعقل کی اس سیاسی تشریح کے نتیجہ میںایک اور ہلاکت خیز انجام سامنے آیا۔ جو لوگ اس تشریح سے متاثر ہوئے انہیں کرنے کا کام صرف یہ نظر آیا کہ وہ وقت کے سیاسی ڈھانچہ کو توڑیں اور اس کی جگہ اپنے مزعومہ نقشہ کے مطابق، نیا نظام بنائیں۔ اس طرح اس سیاسی تشریح نے مسلم دنیا میں اُس تخریبی سیاست کومزید شدت کے ساتھ جنم دیا جس کا ایک نمونہ کمیونزم کو ماننے والوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔
قرآن کے مطابق، تفکر اور تدبر کی تشریح کا صحیح طریقہ وہ ہے جس کو ربانی تعقل کہا جاسکتا ہے۔ یعنی قرآن کے اشارات کو رہنمابنا کر تخلیق خدا وندی کا مطالعہ کرنا اور حقائق فطرت کی روشنی میں اُن کی تشریح و تفصیل کرنا۔ مطالعہ کا یہی اسلوب حقیقی اسلوب ہے۔ اس سے وہ اہل ایمان پیدا ہوتے ہیں جو معرفتِ الٰہی اور خشیتِ ربانی کی نعمت سے سرشار ہوں۔ قرآن کی سورہ آل عمران کے آخری رکوع میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی اس حقیقت کی طرف بار بار اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ کی دو قرآنی آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی اُتارا۔ پھر ہم نے اُس سے مختلف رنگوں کے پھل پیدا کردیئے۔ اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ مختلف رنگوں کے ٹکڑے ہیںاور گہرے سیاہ بھی۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی مختلف رنگ کے ہیں۔ اللہ سے اُس کے بندوں میں سے صرف وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ بے شک اللہ زبردست ہے، بخشنے والا ہے (فاطر ۲۷۔۲۸)
ربانی تعقل کی تشریح کے لئے موجودہ زمانہ میں نئے وسیع امکانات کھل گئے ہیں۔ جدید سائنس کی تحقیقات نے موجودہ زمانہ میں فطرت کی جن چھپی ہوئی حقیقتوں کو دریافت کیا ہے وہ گویا اسی ربّانی تعقل کی تفصیل ہیں۔ ربانی تعقل کے ان جدید امکانات کو پیشگی طورپر قرآن میں بتادیا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک متعلق آیت کا ترجمہ یہ ہے: ہم عنقریب اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اورخود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ قرآن حق ہے (حٰم السجدہ آیت نمبر ۵۳)۔
احمد اور الترمذی نے حضرت انس بن مالک کے حوالہ سے ایک حدیث نقل کی ہے۔ اس کے مطابق، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مثل امتی مثل المطر، لا یُدریٰ اولہ خیرأم آخرہ (مشکوٰۃ المصابیح ۳؍ ۱۷۷۰) ۔یعنی میری امت کی مثال بارش کی مانند ہے۔ نہیں معلوم کہ اس کا اوّل بہتر ہوگا یا اُس کا آخر۔
بارش جب ہوتی ہے تو اُس کے ابتدائی دور میں بھی انسان کو بہت سی برکتیں حاصل ہوتی ہیں۔ مگر بعد کے مرحلہ میںجب بارش سے سیراب ہو کر زمین سبزہ اور درخت اُگاتی ہے تو اس دوسرے مرحلہ میں اُس کی برکتیں اور زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اب فصل اور پھول اور پھل، وغیرہ پیدا ہوتے ہیں جو انسان کے لئے بے پناہ خیر وبرکت کا ذریعہ ہیں۔
یہی معاملہ دین محمدی کا ہے۔ دین محمدی کا ظہور ہوا تو اُس وقت دنیا اپنے روایتی دور میں تھی۔ اُس دور میںبھی اس دین کے پیروؤں کو اُس سے بے پایاں فائدے حاصل ہوئے۔ بعد کے زمانہ میں جب کہ دنیا سائنسی دو رمیں داخل ہوگی تو اُس وقت بھی اس دین کے پیروؤں کو نئے امکانات کے اعتبار سے عظیم فائدے حاصل ہوں گے۔ دین کی علمی و فکری عظمت از سرِ نو نئی شان کے ساتھ لوگوں کے ذہنوں پر قائم ہوجائے گی۔اس حدیث میں امت کے دورِ آخر میں جس عظیم خیر کی پیشین گوئی کی گئی ہے اُس سے مراد غالباً وہی سائنسی حقیقتیں ہیں جنہوں نے نئے وسیع تر انداز میں اس امکان کا دروازہ کھول دیا کہ انسان اُن کواستعمال کرکے یقین کے اعلیٰ درجات حاصل کرے۔ اور اسلام کی صداقت کو نئے دلائل و براہین کے ذریعہ لوگوں کے اوپر ثابت شدہ بنائے۔
ایک سادہ مثال
مذکورہ حدیث میں جس حقیقت کو بتایا گیا ہے اُس کو اگرلفظ بدل کر کہا جائے تو وہ یہ ہوگی کہ انسانی تاریخ کے دو بڑے دور ہیں۔ ایک قبل از سائنس دور (pre-scientific period) اور دوسرا بعد ازسائنس دور (post-scientific period) ۔اس تقسیم کے مطابق، پہلے دور کا انسان روایتی معلومات کی روشنی میں سوچتا تھا۔ اور دوسرے دور میں وہ سائنسی معلومات کی روشنی میں سوچنے لگا۔ اس حدیث کے مطابق، امت محمدی کے افراد کے لیے روایتی دور بھی ایمانی خوراک کا ذریعہ تھا۔ اسی طرح سائنسی دور میں بھی وہ اپنے ایمانی اضافہ کے لیے علمی خوراک حاصل کرتے رہیں گے۔ اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے یہاں ایک سادہ مثال درج کی جاتی ہے۔
قرآن میں بار بار زمین کی نعمتوں کا ذکر آیا ہے۔ اس سلسلہ کی ایک قرآنی آیت یہ ہے: اللّٰہ الذی جعل لکم الأرض قراراً (المؤمن ۶۴) یعنی وہ اللہ ہے جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو ٹھہراؤ۔ اس آیت میں روایتی دور کے مؤمنین کو بھی ایمان کی غذا ملی تھی۔ یہ سوچ کر اُن کا سینہ شکر خداوندی کے جذبہ سے سرشار ہوگیا تھا کہ زمین کس طرح اُن کے لیے پر سکون جائے قیام بنی ہوئی ہے۔ اگر زمین ہلتی رہتی یا وہ ہچکولے کھاتی تو اس کے اوپر پُر سکون زندگی گذارنا کس قدر دشوار ہو جاتا۔
جدید سائنسی دور میں نئے ذرائع سے جو مطالعہ کیا گیا اس سے معلو م ہوا کہ زمین ، سابق تصور کے خلاف ساکن اور بے حرکت نہیں ہے بلکہ وہ مسلسل حرکت میں ہے۔ نئی تحقیقات بتاتی ہیں کہ زمین بیک وقت دو طریقہ سے گردش کررہی ہے۔ ایک اپنے مدار (orbit)پر سورج کے گرد، اور دوسرے خود اپنے محور (axis) کے اوپر۔ اس نئی سائنسی تحقیق نے مذکورہ آیت کی معنویت کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ نئے حالات میں یہ آیت گویا مزید اضافہ کے ساتھ یہ کہہ رہی ہے کہ ـــــــــــکیسا مہربان ہے وہ اللہ جس نے زمین کو تمہارے لیے جائے سکون بنایا، باوجودیکہ زمین مسلسل طورپر دہرا حرکت کر رہی ہے:
It is Allah who made the earth a stable home for you.
(Inspite continous doulbe movement of the earth)
حدیث کی تمثیل کے مطابق، ’’بارش‘‘ کے پہلے دور میں اگر انسان سادہ طورپر یہ سمجھ کر زمین کو اپنے لیے خدا کی رحمت جانتا تھا کہ وہ اُس کے لیے پُر سکون جائے قیام بنی ہوئی ہے، تو اب بارش کے دوسرے دور میں وہ اس اضافہ کے ساتھ اس معاملہ میں خدا کا شکر کرے گا کہ دہرا طور پر مسلسل حرکت میں ہونے کے باوجود خدا نے زمین کو اُس کے لیے سکون کا مقام بنا دیا ہے۔
کائنات کا ابتدائی دھماکہ
ربانی تعقل کی ایک مثال یہاں نقل کی جاتی ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر ۲۱ میںایک کائناتی واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔ اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔ کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے۔
اس آیت میں رتق اورفتق کا لفظ ہے۔ رتق کے معنٰی ہیںکسی مجموعہ کا مخلوط یا منضم ہونا۔ اس سے مراد کائنات کا اصل مادّہ ہے جو ابتدائی وقت میںایک منضم الاجزاء مجموعہ کی صورت میں تھا۔ پھر اس ابتدائی مجموعہ میں دھماکہ ہوا جس کے بعد اس کے اجزاء وسیع خلا میں بکھر گئے اور پھر ایک لمبے عمل کے بعد موجودہ کائنات بنی۔قرآن کی اس آیت کو قدیم مفسرین اس کے سادہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے لیتے تھے۔ اپنے سادہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے بھی یہ آیت اہل حق کے لئے عظیم ایمانی فائدے رکھتی ہے۔ مگر موجودہ زمانہ میں جو تحقیقات ہوئی ہیں ان سے قرآن کے اس مجمل بیان کی تفصیل سامنے آئی ہے جو گویا یقین اور معرفت کا نیا دروازہ کھولنے والی ہے۔
جدید فلکیاتی سائنس بتاتی ہے کہ تقریباً بیس بلین سال پہلے خلا میں ایک سپرایٹم تھا۔ اس میں اچانک دھماکہ ہوا۔ اس کے بعداس کے اجزاء وسیع خلا میں پھیل گئے اور آخر کار انہوں نے موجودہ کائنات کی صورت اختیار کی۔ اسی سے موجودہ تمام اجرام بنے جن میںسے ایک ہماری یہ زمین بھی ہے۔
دھماکہ (explosion) کی دو قسمیں ہیں ــــــمنصوبہ بند دھماکہ، اور منصوبہ کے بغیر خود بخود ہونے والا دھماکہ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ دونوں قسم کے دھماکوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ بلا منصوبہ جو دھماکے ہوتے ہیں وہ صرف تخریب کا سبب بنتے ہیں۔ مثلاً کسی بم یا بم کے ذخیرے کا اپنے آپ پھٹ جانا۔ اس قسم کا دھماکہ ہمیشہ تخریبی نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ دوسرا دھماکہ وہ ہے جو سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کیا جائے۔ مثلاً پہاڑ کے درمیان سے سرنگ نکالنے کے لئے منصوبہ بند طورپر چٹانوں میں دھماکہ کرنا۔ اس دوسری قسم کا دھماکہ ہمیشہ مفید اور تعمیری نتیجہ پیدا کرتا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے ،کائنات کے آغاز میں، سائنس کی تحقیق کے مطابق،بگ بینگ (big bang) کی صورت میں جو دھماکہ ہوا، اس سے انتہائی مفید اور بامعنٰی نتائج پیدا ہوئے۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ یہ دھماکہ یقینی طورپر ایک منصوبہ بند دھماکہ تھا۔ ایک منصوبہ ساز ہستی نے اپنے متعین منصوبہ کے تحت اپنے نقشہ کے مطابق، بالقصد یہ دھماکہ کیا۔ چنانچہ اس سے عین وہی با معنٰی نتائج ظاہر ہوئے جو منصوبہ کے مطابق اس سے مطلوب تھے۔
اس جدید تشریح کے مطابق، مذکورہ آیت کے یہ الفاظ کہ کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا (أوَلَم یَرالذین کفروا) نہایت بامعنٰی ہو جاتے ہیں۔ کائنات کا یہ ثابت شدہ آغاز خالص علم انسانی کی سطح پر اس حقیقت کو ثابت کر رہا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ اس نے نہایت با معنیٰ منصوبہ کے تحت اس کائنات کو بنایا ہے۔ اس حقیقت کے ثابت ہونے کے بعدیہ بات اپنے آپ ثابت ہوجاتی ہے کہ انسان اور کائنات کی تخلیق بے مقصد نہیںہوسکتی۔ جیسا کہ قرآن میں دوسری جگہ فرمایا: ربنا ما خلقت ھذا باطلاً (آل عمران ۱۹۱)۔ اس کھلی حقیقت کے باوجود جو لوگ کائنات کی معنویت کاانکار کریں ان کے لئے اپنے اس انکار کی کوئی بھی معقول وجہ موجود نہیں۔
ربانی تعقل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ سائنس کے تمام مضامین قرآن میں موجود ہیں، یا یہ کہ ساری کی ساری سائنس خود قرآن سے أخذ کی گئی ہے۔ اس قسم کی باتیں اسلام اور سائنس دونوں سے بے خبری کا نتیجہ ہیں۔ اس قسم کی بات اصلاً قرآن کی تفسیر نہیں ہے بلکہ وہ قرآن کے حوالہ سے اپنے قومی فخر کو ثابت کرنے کی ایک بے فائدہ کوشش ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی اور حیثیت نہیں۔
ربانی تعقل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے وہ بیانات جن کے بارے میں جدید سائنسی تحقیقات کے ذریعہ نئی حقیقتیں دریافت ہوئی ہیں، ان کی روشنی میں قرآن کے اشارات کو تفصیلی انداز میں بیان کرنا۔ یہ وہی چیز ہے جس کی بابت حدیث میں آیا ہے کہ: لا تنقضی عجائبہ۔یعنی قر آن کے عجائب (wonders)کبھی ختم نہ ہوں گے۔ اس حدیث میں مستقبل کے بارے میں جو پیشین گوئی کی گئی ہے ان میں سے ایک یقینی طورپر یہ بھی ہے کہ بعد کے زمانہ میں دریافت ہونے والے سائنسی حقائق قرآن کی معنویت کو مزید نمایاں کریں گے۔ اس طرح قرآن کے کمالات کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
زوجین کی مثال
قرآن کی سورہ نمبر ۵۱ میںارشاد ہوا ہے: ومن کل شیٔ خلقنا زوجین لعکم تذکرون (الذاریات ۴۹) یعنی ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ قرآن کی اس آیت میں موجودہ دنیا کے ایک ظاہرہ کا ذکر کرکے انسان کو متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ اس پر سوچے اور اس سے نصیحت حاصل کرے۔ اس ظاہرہ کی طرف قرآن میں زوجین کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے۔
اس آیت میں زوجین کی تفسیر پچھلے مفسرین نے مختلف انداز سے کی ہے۔ ان تفسیروں میں بہرحال نصیحت کا سامان ہے۔ مگر موجودہ زمانہ میں جو تحقیقات ہوئی ہیں ان کا اضافہ کرتے ہوئے اس آیت کا مطالعہ کیا جائے تو اس سے نیا یقین حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ آیت، قرآن کے الفاظ میں، ایمان کے ساتھ ایمان میں اضافہ (الفتح ۴) کا سبب بن جاتی ہے۔
جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ زوجین کا اصول جو انسانوں میں ہے وہی دنیا کی ہر چیز میں پایا جاتا ہے۔ ہر چیز اپنے زوج کے بغیر نامکمل ہے، وہ اسی وقت مکمل ہوتی ہے جب کہ اس کے زوج کے ساتھ اس کو شامل کیا جائے ــــمادّی ایٹم میں منفی ذرّہ (negative particle) کے ساتھ مثبت ذرّہ (positive particle) کا ہونا ۔ اسی طرح نباتات میں بھی زوجین یا نر اور مادہ کا اصول ہے۔ ان میں سے ایک کو میل فلاور (staminate flower) کہا جاتا ہے۔ اور دوسرے کو فیمیل فلاور (pistillate flower) ۔اسی طرح حیوانات میں بھی جوڑے ہیں۔ ان میں سے نر کو ہی میل (he-male) اور مادہ کو شی میل(she-male) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح انسانوں میں بھی جوڑے ہیںجن کو ہم عورت اور مرد کے نام سے جانتے ہیں۔
زوجین کے اس عمومی اصول کو لے کر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس عموم میں ایک استثناء ہے، اور وہ ہماری انسانی دنیا ہے۔ انسانی دنیا اپنے سارے ہنگاموںکے باوجود ایک نامکمل دنیا ہے۔ اس کی تکمیل کے لئے اس کا ایک جوڑا ( زوج )درکارہے۔ مگر یہ جوڑا موجودہ دنیا میں ملتا ہوا نظر نہیں آتا۔
تجربہ بتاتا ہے کہ موجودہ انسانی دنیا ایک مبنی بر مفاد دنیا ہے۔ یہاں سارے انسانی تعلقات مفاد کے اصول پر قائم ہیں۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک بااصول معیاری دنیا (ideal world) چاہتا ہے۔ مگر موجودہ دنیا میں وسائل کی محدودیت اور انسان کی آزادی جیسے مختلف اسباب ہیں جو فیصلہ کن طور پر اس میں رکاوٹ ہیں کہ یہاں وہ معیاری دنیا بن سکے جو انسان اپنے فطری تقاضے کے تحت چاہتا ہے۔
اس کمی کا تقاضا ہے کہ موجودہ دنیا کا ایک جوڑا (زوج) ہو جو اس کی کمی کو پورا کرکے اس کی تکمیل کرے۔ موجودہ دنیا مبنی بر مفاد دنیا ہے۔ اب اس کا جوڑا (زوج) ایک ایسی دنیا ہے جو مبنی براقدار (value based) دنیا ہو۔ ایسی ایک دنیا ہی موجودہ دنیا کی کمی کی تلافی کرکے اس کی تکمیل کرسکتی ہے۔ اسی تکمیلی دنیا کا نام آخرت ہے۔ آخرت میں خدا نے جنت کی جو دنیا بنائی ہے وہ ہر قسم کی کمیوں اور محدودیتوں سے پاک ہے۔ وہ خوف اور حزن سے مکمل طور سے خالی ہے۔ وہاں وہ تمام اسباب کامل طورپر موجود ہیں جو انسان کو یہ موقع دیں کہ وہ بھر پور آسودگی (complete fulfillment) کے ساـتھ زندگی گزار سکے۔
موجودہ دنیا میں ہر چیز کا جوڑا ہونا اور صرف ایک چیز کا جوڑا نہ ہونا اس بات کا قرینہ ہے کہ یقینی طورپر اس کا بھی ایک جوڑا موجودہے۔ بقیہ چیزوں کے جوڑے کو موجودہ دکھائی دینے والی دنیا میںرکھ دیا گیا ہے مگر امتحان کی مصلحت کی بنا پر انسانی دنیا کے اس جوڑے کو نہ دکھائی دینے والی دنیا میں رکھا گیا ہے۔ مرنے کے بعد تمام انسان اسی اگلی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ اور وہاں وہ اس جوڑے کو عملی طور پر پا لیتے ہیں۔
ربانی تعقل کا موضوع ایک بے حد وسیع موضوع ہے۔ اس کے مختلف پہلو ہیں۔ یہاں چندمثالیں صرف موضوع کی وضاحت کے طور پر درج کی گئی ہیں۔ ربانی تعقل کے موضوع پر راقم الحروف نے اپنی دوسری کتابوں میں اس کے دیگر پہلوؤں کی وضاحت کی کوشش کی ہے۔ وہاں اس موضوع کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

انسانی مصائب کیوں

یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ انسان ہمیشہ مختلف قسم کی مصیبتوں (sufferings) سے دوچار رہتا ہے۔ کبھی کوئی بچہ ماں کے پیٹ سے ناقص الاعضاء پیدا ہوتا ہے۔ کبھی کسی حادثہ کی بنا پر کوئی شخص اپاہج ہوجاتا ہے۔ کبھی اور کسی قسم کی آفت میں مبتلا ہو کر وہ دکھ کا تجربہ کرتا ہے، ایسا کیوںہے۔ مذہبی عقیدہ کے مطابق، خدا اگر تمام خوبیوں کا مالک ہے، اور وہ رحیم وکریم ہے تو وہ اپنے بندوں کو اس قسم کی مصیبتوں میں کیوں مبتلا کرتا ہے۔ معیاری کائنات میں یہ غیر معیاری واقعات کیوں۔
اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا کے تخلیقی نقشہ کو سمجھا جائے۔ مصائب کا معاملہ انسان کی تخلیق کی مجموعی اسکیم کا ایک جزء ہے، اور جب تک مجموعی اسکیم کو نہ سمجھا جائے، جزء کے معاملہ کو سمجھنا ممکن نہیں۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد جانچ (test) ہے۔ یعنی مختلف حالات میں ڈال کر یہ دیکھنا کہ کون شخص اچھا ہے اور کون شخص برا۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ نے موت اور زندگی پیدا کی تاکہ لوگوں کو جانچ کر دیکھے کہ ان میں سے کون اچھے عمل والا ہے اور کون برے عمل والا (الملک ۲)
جانچ کے اس مقصد کے لئے ضروری تھاکہ انسان کو قول و عمل کی مکمل آزادی دی جائے ۔ آزادی کے بغیر نہ کسی کو جانچنا ممکن ہے اور نہ یہ فیصلہ کرنا ممکن ہے کہ وہ کس سیرت و کردار کا آدمی ہے۔ اس آزادی کو قرآن میں امانت کہاگیا ہے۔ چنانچہ قرآن میںارشاد ہوا ہے : ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے۔ اورانسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بے شک وہ ظالم و جاہل تھا۔ تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کواور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں پر توجہ فرمائے۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (الاحزاب ۷۲۔ ۷۳)
یہ آزادی بے حد نازک چیز ہے ،کیوں کہ یہ یقینی اندیشہ ہے کہ جب کسی مخلوق کو کام کی آزادی دی جائے تو وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے گا۔ اسی اندیشہ کا اظہار فرشتوں نے انسان کی پیدائش کے وقت کیا تھا۔ اس کا ذکر قرآن میںان الفاظ میںآیا ہے: اورجب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میںایک خلیفہ (بااقتدار) بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میںایسے لوگوں کو بسائے گا جواس میں فساد کریں اور خون بہائیں اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے (البقرہ ۳۰)
انسان کو آزادی دینے کے اسی منصوبہ کا وہ نتیجہ ہے جس کو فلاسفہ بُرائی کا مسئلہ (problem of evil) کہتے ہیں۔ اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ یقینا ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے (البلد ۴)یہی بات قرآن میں ایک اور انداز سے اس طرح بیان ہوئی ہے: اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوروں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں (البقرہ ۱۵۵۔۱۵۶)
موجودہ دنیا میں جو مسائل یا مصائب نظر آتے ہیں وہ در حقیقت اسی تخلیقی نظام کا فطری نتیجہ ہیں۔ انسانی زندگی میں جب حقیقی معنوں میں آزادی کا ماحول قائم کیاجائے تو لازماً ایسا ہوگا کہ کبھی کوئی انسان آزادی کا غلط استعمال کرکے مسئلہ پیدا کرے گا۔ کبھی کوئی انسان اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا اور اسباب و علل کے نظام کی بنا پر اس کے انجام سے دوچار ہوگا۔ کبھی مسابقت اور ایک دوسرے کے مقابلہ میںآگے بڑھ جانے کی دوڑ کے نتیجہ میں کوئی کھوئے گا اور کوئی پانے کا تجربہ کرے گا۔ اس قسم کے واقعات کا پیش آنا ضروری ہے۔ ان کے بغیر آزادی کاحقیقی ماحول قائم ہی نہیں ہوسکتا۔
تاہم خالق کی رحمت ہر ایک کے ساتھ ہے۔ آزادی کے اس ماحول کے نتیجہ میں جو لوگ بظاہر کامیاب ر ہیں وہ زیادہ سخت انداز میں جانچے جائیں گے اور جو لوگ بظاہر نقصان اٹھائیں ان کے ساتھ خصوصی رعایت کا معاملہ کیاجائے گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پہلے گروہ کے مقابلہ میں دوسرا گروہ زیادہ خوش قسمت نظر آتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنگ اور امن اسلام میں

اسلام میں جنگ اور امن کی حیثیت کیا ہے، اس سوال کا جواب پانے کے لئے یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلامی مشن کا نشانہ کیا ہے۔ جنگ اور امن دونوں دو مختلف طریقِ کار ہیں، وہ بذات خود مقصد نہیں ہیں۔ ایسی حالت میں اگر اس کا تعین ہو جائے کہ اسلامی مشن کا نشانہ کیا ہے تو اس کے بعد اپنے آپ اس کا تعین ہوجائے گا کہ اسلام کا طریقہ جنگ کاطریقہ ہے یا امن کاطریقہ۔
قرآن میں اس سوال کا واضح جواب دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ کی ایک متعلق آیت یہ ہے۔ قرآن میں پیغمبر اسلام کو خطاب کرتے ہوئے ایک عمومی حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے: وجاھدھم بہ جہادًا کبیرا (الفرقان ۵۲) یعنی اے محمد، لوگوں کے ساتھ تم قرآن کے ذریعہ جہاد کبیر کرو۔
قرآن ایک کتاب ہے، وہ کوئی گن یا تلوار نہیں۔ ایسی حالت میں قرآن کے ذریعہ جہاد کا مطلب واضح طورپر پر امن جدو جہد (peaceful struggle) ہے، نہ کہ مسلح جدوجہد(armed struggle)۔
قرآن جب ایک نظریاتی کتاب ہے تو اس کے ذریعہ پر امن جدوجہد کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں کو بدلا جائے۔ لوگوں کی سوچ کو قرآنی سوچ بنایا جائے۔ دوسرے لفظوں میں، قرآن کا مشن زمین پر قبضہ کرنا نہیںہے بلکہ انسان کے ذہن پر قبضہ کرناہے۔ اسلام کا نشانہ ذہنی انقلاب ہے، نہ کہ لوگوں کو جسمانی اعتبار سے مغلوب کرنا۔
قرآن کا مطالعہ کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ پیغمبراسلام نے اپنے مشن کو کس طرح جاری کیا تو واضح ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا پورا مشن جس نشانہ پر چلایا وہ یہی تھا کہ لوگوں کے دل ودماغ کو بدلا جائے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے اپنے پیغمبر پراپنا کلام اس لئے اتارا تا کہ وہ لوگوں کو افکار کے اندھیرے سے نکال کر افکار کی روشنی میں لے آئے (الحدید ۹) ۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کی اصلاح کے سلسلہ میں اصل اہمیت صرف ایک چیز کی ہے اور وہ اس کے دل کی اصلاح ہے (ألا وھی القلب) انسان کے دل کو بدل دو اور پھر اس کی پوری زندگی بدل جائے گی۔ پیغمبر اسلام کو مکہ میں جب پہلی وحی ملی تو اس وقت آپ نے وہاں کے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا کہ اے لوگو، میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ موت کے بعد آنے والے معاملہ کی تمہیں خبر دوں(أنا النذیر العریان) ۔اسی طرح مدینہ میں جب آپ غالب حیثیت میں داخل ہوئے اس وقت بھی آپ نے وہاں کے لوگوں سے یہی کہا کہ اے لوگو، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ خواہ چھوہارے کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو(اتقوا النار و لو بشق تمرۃ)۔
قرآن اور سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام کا اصل نشانہ انسان کے ذہن کو بدلنا ہے۔ یہی اسلامی مشن کا اول بھی ہے اور یہی اس کا آخر بھی۔ مگر دنیا میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور خودتخلیقی نقشہ کے مطابق، ہر ایک کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ اسی آزادی کی بنا پر ایسا ہواکہ کچھ لوگ پیغمبر اسلام کے مخالف بن گئے۔ حتیٰ کہ کچھ لوگ اس آخری حد تک گئے کہ انہوں نے آپ کے مشن کو ختم کرنے کے لئے آپ کے خلاف جنگی کارروائی شروع کردی۔ یہی وہ مسئلہ تھا جس کی بنا پر پیغمبر اور آپ کے اصحاب کو اپنے دفاع میں وقتی طورپر ہتھیار اٹھانا پڑا۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام میں امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف ایک استثناء (exception) کی۔
پیغمبر اسلام کی پیغمبرانہ عمر ۲۳ سال ہے۔ اس ۲۳ سال میں قرآن وقفہ وقفہ سے حسب حالات اترتا رہا۔اس اعتبار سے اگر مدت کی تقسیم کی جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کا ایک حصہ وہ ہے جو تقریبًا ۲۰ سال کی مدت تک پھیلا ہوا ہے اور اس کا دوسرا حصہ وہ ہے جو مجموعی طورپر تقریبًا تین سال پر مشتمل ہے۔ ۲۰ سالہ مدت میں قرآن میں جو آیتیں اتریں وہ سب کی سب پر امن تعلیمات سے تعلق رکھتی تھیں، مثلاً عقیدہ، عبادت، اخلاق، انصاف، انسانیت، وغیرہ۔ جہاںتک جنگ کی آیتوں کا تعلق ہے، وہ صرف تین سال کی اس مدت میں اتاری گئیں جب کہ اہل اسلام کو عملاًمسلح جارحیت کا مسئلہ در پیش تھا۔
قرآن میں کل ۱۱۴ سورتیں ہیں۔ مجموعی طور پر قرآن میں کل آیتوں کی تعداد ۶۶۶۶ ہے۔ ان میں بمشکل چالیس آیتیں ایسی ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طورپر جنگ (قتال) سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس تناسب کے اعتبار سے قرآن میں جنگ سے تعلق رکھنے والی آیتوں کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے (precisely 0.6 percent) ۔
اس قسم کا فرق ہر ملک کے دستور میں اور ہر مذہبی کتاب میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً بائبل (New Testament) میں بہت سی پر امن تعلیمات ہیں۔ اسی کے ساتھ مسیح کی زبان سے اس میں یہ قول بھی موجود ہے کہ میں صلح کروانے نہیں آیا ہوں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں:
I do not come to bring peace but a sword.
اسی طرح بھگوت گیتا میں بہت سی اخلاق اور حکمت کی باتیں ہیں۔ مگراسی کے ساتھ گیتا میں یہ بھی موجود ہے کہ کرشن نے ارجن سے اصرار کے ساتھ کہا کہ اے ارجن، آگے بڑھ اور جنگ کر۔ مگر ظاہر ہے کہ بائبل اور گیتا میںان اقوال کی حیثیت استثناء کی ہے، نہ کہ عموم کی۔
اسلام کی امن پسندی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اسلام میں دشمن اور حملہ آور کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی گروہ یکطرفہ حملہ کے ذریعہ عملی طورپر جارحیت کی صورت پیدا کر دے تو اس وقت ایک ناگزیر برائی(necessary evil) کے طورپر دفاع کی ضرورت کے تحت جنگ کی جائے گی۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: اُذنَ للذین یقاتلون بأنھم ظلموا (الحج ۳۹) یعنی جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔
مگر جہاں تک دشمن کا تعلق ہے، ان کے خلاف محض دشمنی کی بنا پر جنگی کارروائی کی اجازت نہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت اہل اسلام کو ایک واضح ہدایت دیتی ہے: اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں۔ تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو، پھر تم دیکھو گے کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (فصّلت ۳۴)۔
اس آیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی شخص تم کو دشمن نظر آئے تو اس کو اپنا ابدی دشمن نہ سمجھ لو۔ ہر دشمن انسان کے اندر تمہارا ایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ اس دوست انسان کو دریافت کرو اور اس امکان (potential) کو واقعہ (actual) بناؤ، اس کے بعد تمہیں کسی سے دشمنی کی شکایت نہ ہوگی۔
اس معاملہ کی مزید وضاحت ایک روایت سے ہوتی ہے۔ اس روایت میں پیغمبر اسلام کی جنرل پالیسی کو بتاتے ہوئے آپ کی اہلیہ عائشہ نے کہا: ماخیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین امرین إلا اختار أیسرھما (صحیح البخاری) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان کا انتخاب فرماتے تھے۔
یہ واضح ہے کہ طریق کار کی دو قسمیں ہیں۔ پرتشدد طریقِ کار (violent method) اور پر امن طریق کار (peaceful method)۔ اب دونوں کا تقابل کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کسی نزاعی معاملہ کے وقت پر تشدد طریق کار کو اپنانا مشکل انتخاب (harder option) ہے اور پر امن طریق کار کو اپنانا آسان انتخاب (easier option) ہے۔ اس کے مطابق، اسلام کی جنرل پالیسی یہ قرار پاتی ہے کہ جب بھی کسی فریق سے کوئی نزاع پیدا ہو تو اس سے مقابلہ کے لئے ہمیشہ پرامن طریق کار کا انتخاب کیا جائے، نہ کہ پر تشدد طریقِ کار کا۔ موجودہ زمانہ میں جب کہ آزادی کو انسان کاایک ناقابل تنسیخ حق مان لیا گیا ہے تواب صرف پر امن طریق کار ہی کا انتخاب کیا جائے گا۔ کیوں کہ وقت کے مسلّمہ اصول کے مطابق، پر تشدد طریق کار کو اختیار کرنے میں تو یقینًا رکاوٹیں ہیں مگر پر امن طریق کار کو اختیار کرنے میںکوئی رکاوٹ نہیں۔
یہاں یہ اضافہ کرنا مناسب ہوگا کہ پیغمبر اسلام کے زمانہ میں محدود نوعیت کی جو چند لڑائیاں پیش آئیں ان میں دراصل زمانی عامل (age-factor) کام کررہا تھا۔ یہ لڑائیاں ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں ہوئیں۔ یہ زمانہ مذہبی جبر اور مذہبی ایذا رسانی (religious persecution) کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں موجودہ قسم کا مذہبی ٹالرنس نہیں پایا جاتا تھا۔ اس بنا پر توحید کے مخالفوں نے پیغمبراسلام کے خلاف جارحانہ کارروائی کرکے آپ کو لڑنے پر مجبور کردیا۔ موجودہ زمانہ میں مذہبی آزادی ہر فرد اور ہر گروہ کا ایک مسلّم حق بن چکی ہے ۔ اس لئے موجودہ زمانہ میں مذہبی حقوق کے لئے جنگ کا کوئی سوال نہیں۔
اسلام میں امن کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ہر ناخوش گوار صورت حال کو برداشت کرتے ہوئے حالت امن کو برقرار رکھنے کا حکم دیا گیاہے۔ فریقِ مخالف کی ایذا رسانی پر صبر و اعراض کا طریقہ اختیار کرنا اور اس کو ہر قیمت پر یک طرفہ تدبیر کے ذریعہ باقی رکھنا اسلام کا اہم اصول ہے۔ یہ حکم اس لئے دیا گیا کیوں کہ اسلام کی تعمیری سرگرمیاں صرف پر امن اور معتدل ماحول ہی میں انجام دی جاسکتی ہیں۔ اس معاملہ میں صرف ایک استثناء ہے، اور وہ فریق ثانی کی طرف سے عملی جارحیت ہے۔
پیغمبر اسلام نے قدیم مکہ میں اپنے پیغمبرانہ مشن کا آغاز کیا۔ اس سلسلہ میں آپ تیرہ سال تک مکہ میں رہے۔ اس مدت میں مکہ کے مخالفین کی طرف سے بار بار زیادتیاں کی گئیں۔ مگر پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھیوں نے ان زیادتیوں کو یک طرفہ طورپر برداشت کیا۔ اسی صبر و اعراض کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ پیغمبراور آپ کے اصحاب نے جنگ سے بچنے کے لئے یہ کیا کہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان تین سو میل کا فاصلہ ہے۔ مگر مکہ کے مخالفین نے خاموشی اختیار نہ کی بلکہ انہوں نے باقاعدہ طورپر مدینہ پر اقدامی حملے شروع کردئے۔ ان حملوں کو سیرت کی کتابوں میں غزوہ کہا جاتا ہے۔ چھوٹے اور بڑے غزوات کی تعداد ۸۳ شمار کی گئی ہے۔ مگر پیغمبر اسلام اور مخالفین کے درمیان صرف تین بار باقاعدہ جنگ(fullfledged war) ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ۸۰ غزوات میں پیغمبر اسلام نے اعراض اور حسن تدبیر کے ذریعہ دونوں فریقوں کے درمیان عملی مقابلہ کو ٹال دیا۔ صرف تین بار (بدر، احد، حنین) میں مجبورانہ حالات کی بنا پر آپ کوجنگی مقابلہ کرنا پڑا۔
جنگی مقابلہ سے اعراض کی اسی پالیسی کی ایک مثال وہ ہے جس کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ جب پیغمبر اسلام اور آپ کے مخالفین کے درمیان جنگی صورت حال پیدا ہوگئی تو آپ نے یہ کوشش شروع کی کہ یک طرفہ تدبیر کے ذریعہ جنگی حالات کو ختم کر دیا جائے اور دونوں فریقوں کے درمیان پر امن فضا کو بحال کیا جائے۔
اس مقصد کے لئے آپ نے اپنے مخالفین سے صلح کی گفت و شنید شروع کی جو دو ہفتہ تک جاری رہی۔ یہ گفت وشنید مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر ہوئی اس لئے اس کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل دونوں فریقوں کے درمیان ایک امن معاہدہ تھا۔ گفت وشنید کے دوران پیغمبر اسلام نے دیکھا کہ فریقِ ثانی اپنی ضد کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔ چنانچہ آپ نے فریقِ مخالف کی یک طرفہ شرطوں کو مان کر ان سے امن کامعاہدہ کر لیا۔
اس معاہدہ کا مقصد یہ تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان تناؤ کو ختم کیا جائے اور نارمل فضا کو قائم کیا جائے تا کہ معتدل حالات میں دعوت و تعمیر کا وہ کام کیا جاسکے جو اصلاً اسلامی مشن کا مقصود تھا۔ چنانچہ حدیبیہ کا معاہدہ ہوتے ہی حالات معمول پر آگئے اور اسلام کی تمام تعمیری سرگرمیاں پوری طاقت کے ساتھ جاری ہوگئیں جس کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ اسلام پورے علاقہ میں پھیل گیا۔
یہاں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق، جنگ صرف باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت کا کام ہے، وہ غیرحکومتی افراد یااداروں کا کام نہیں۔ غیر حکومتی ادارے اگر کسی اصلاح کی ضرورت محسوس کریں تو وہ صرف امن کے دائرے میں رہ کر اپنی تحریک چلا سکتے ہیں ،تشدد کی حد میں داخل ہونا ان کے لئے ہر گز جائز نہیں۔
اس سلسلہ میں دو باتیں بے حد اہم ہیں۔ ایک یہ کہ غیر حکومتی تنظیموںکے لئے کسی بھی عذر کی بنا پر مسلح تحریک چلانا جائز نہیں۔ دوسرے یہ کہ قائم شدہ حکومت کے لئے اگر چہ دفاعی جنگ حکماًجائز ہے مگر اس کے لئے بھی اعلان کی شرط ہے، اسلام میں بلا اعلان جنگ قطعًا جائز نہیں ۔ ان دو شرطوں کو ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ گوریلاوار اور پراکسی وار دونوں ہی اسلام میں ناجائزہیں۔ گوریلا وار اس لئے کہ وہ غیر حکومتی تنظیموں کی طرف سے کی جاتی ہے اور پراکسی وار اس لئے کہ اس میں اگر چہ حکومت بھی شامل رہتی ہے مگراس کی شمولیت بغیر اعلان کے ہوتی ہے۔ اور اعلان کے بغیر جنگ کا جواز اسلامی حکومت کے لئے بھی نہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: فانبذ إلیھم علی سواء (الانفال ۵۸)۔
موجودہ دنیا کا نظام اس طرح بنا ہے کہ یہاں لازمًا دو افراد یا دو گروہوں کے درمیان نزاع کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اسلام کا حکم یہ ہے کہ نزاع کو متشددانہ ٹکراؤتک نہ پہنچنے دیا جائے۔ اسی پالیسی کو قرآن میں صبر واعراض کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن میںایک مستقل اصول کے طورپر فرمایا کہ الصلح خیر (النساء ۱۲۸)۔ یعنی باہمی نزاع کے وقت صلح کرکے نزاع کو ختم کر دینا نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ صلح یا مصالحت کا طریقہ اختیار کرنے سے یہ موقع مل جاتا ہے کہ اپنی طاقت کو ٹکراؤ میں ضائع کرنے سے بچایا جائے اور ان کو پوری طرح تعمیری کاموں میں لگایا جائے۔ اسی مصلحت کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لاتتمنوا لقاء العدو واسئلوا اللہ العافیۃ (البخاری) یعنی تم لوگ دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے امن مانگو۔
اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: کُلَّما اوقدوا نَارًا للحرب اطفاھا اللّٰہ (المائدہ ۶۴) یعنی جب کبھی وہ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اس کو بجھا دیتا ہے۔
اس قرآنی آیت سے جنگ اور امن کے بارے میں اسلام کی اصل روح معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ موجودہ دنیا میں مختلف اسباب سے لوگ باربار جنگ پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ دنیا کے مخصوص نظام کا تقاضا ہے جو مسابقت (competition) کے اصول پر بنایا گیا ہے۔ مگر اہل اسلام کا کام یہ ہے کہ دوسرے لوگ جب جنگ کی آگ بھڑکائیں تو وہ یکطرفہ تدبیر کے ذریعہ اس آگ کو ٹھنڈا کردیں۔ گویا اہل اسلام کا طریقہ جنگ نہیں ہے بلکہ اعراض جنگ ہے۔ انہیں ایک طرف یہ کرنا ہے کہ جنگ کی حد تک جائے بغیر اپنے مفادات کا تحفظ کریں۔ دوسری طرف ان کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ امن کے پیغامبر بنیں۔ وہ دنیا میںامن کے تاجر ہوں، نہ کہ جنگ کے تاجر۔
اسلام کی یہی اسپرٹ ہے جس کی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کو جب مدینہ میں اقتدار ملا تو آپ نے ایسا نہیں کیا کہ لوگوں کو اپنا ماتحت بنانے کے لئے ان سے جنگ چھیڑ دیں۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ عرب میں پھیلے ہوئے قبائل سے گفت و شنید کرکے ان سے معاہدے کئے۔ اس طرح آپ نے پورے عرب میں پھیلے ہوئے قبائل کو معاہدات کے ایک شیرازۂ امن میں باندھ دیا۔
اسلام کی تعلیم کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام ان اسباب کی جڑ کاٹ دینا چاہتا ہے جوجنگ کی طرف لے جانے والے ہیں۔جنگ کرنے والا جنگ کیو ں کرتا ہے۔ اس کے دو بنیادی سبب ہیں۔ ایک ہے دشمن کو ختم کرنے کی کوشش کرنا۔ اور دوسرا سبب ہے سیاسی طاقت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ ان دونوں مقاصد کے لئے اسلام میں جنگ کا کوئی جواز موجود نہیں۔
جہاں تک دشمن کا معاملہ ہے، اس معاملہ میںجیسا کہ عرض کیا گیا، قرآن کی ایک آیت ابدی رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں۔ تم جواب میں وہ کرو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (فصلت ۳۴)۔
اس سے معلوم ہوا کہ دشمن کے مقابلہ میںاسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اس کی دشمنی کو ختم کیا جائے، نہ کہ خود دشمن کو۔ اس کے مطابق، کوئی دشمن حقیقی دشمن نہیں ہوتا۔ ہر دشمن انسان کے اندر بالقوۃ طورپر ایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ اس لئے اہل اسلام کو چاہئے کہ وہ یک طرفہ حسن سلوک کے ذریعہ اس چھپے ہوئے انسان تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ وہ حسن سلوک کے ذریعہ اپنے دشمن کو اپنا دوست بنالیں۔
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں دشمن اور حملہ آور کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔دشمن کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اس سے نفرت کا معاملہ نہ کیا جائے بلکہ حسن تدبیر کے ذریعہ اس کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کی جائے۔ البتہ اگر کسی کی طرف سے یک طرفہ طورپر حملہ کر دیا جائے تو ایسے حملہ آور کے مقابلہ میںدفاع کے طورپر جنگ کرنا جائز ہے۔ یہ حکم قرآن کی جن آیتوں سے معلوم ہوتا ہے ان میں سے ایک آیت یہ ہے: وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولاتعتدوا (البقرہ ۱۹۲) یعنی اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑوجو تم سے لڑتے ہیں ، اورزیادتی نہ کرو۔
اس طرح کی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کی اجازت صرف اس وقت ہے جب کہ کوئی فریق یک طرفہ طورپر اہل اسلام کے خلاف جارحانہ حملہ کردے۔ اس قسم کی عملی جارحیت کے بغیر اسلام میںجنگ کی اجازت نہیں۔
جنگ اور امن کے معاملہ میں اسلام کا جو بنیادی اصول ہے وہ قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے: فما استقاموا لکم فاستقیموا لھم (التوبہ ۷) یعنی پس جب تک وہ تم سے سیدھے رہیں تم بھی ان سے سیدھے رہو۔ اس قرآنی حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کے درمیان باہمی تعلقات کااصول یہ ہے کہ اگر دوسرا فریق امن پر قائم ہو تو اہل اسلام کو بھی لازماً امن کی روش اختیار کرنی ہوگی۔ اہل اسلام ایسا نہیں کرسکتے کہ فریقِ ثانی کی پر امن روش کے باوجود کوئی عذر لے کر اس کے خلاف جنگی کارروائی کرنے لگیں۔ اس معاملہ میں عملی جارحیت کے سوا کوئی بھی دوسرا عذر قابل قبول نہیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ۵۷۰ء میں مکہ میںہوئی۔ ۶۱۰ء میں آپ کو نبوت ملی۔ اس کے بعد آپ ۲۳ سا ل تک پیغمبر کی حیثیت سے دنیا میں رہے۔ اس ۲۳ سالہ مدت کے ابتدائی ۱۳ سال آپ نے مکہ میں گزارے اور بعد کے ۱۰ سال مدینہ میں۔ قرآن کی کچھ سورتیں مکی دو رمیں نازل ہوئیں اور کچھ سورتیں مدنی دور میں ۔ اس پیغمبرانہ مدت میں آپ نے کیا کیا۔
آپ نے لوگوں کو اقرأ باسم ربک الذی خلق(العلق) اور اس قسم کی دوسری غیر حربی آیتیں سنائیں۔ آپ لوگوںسے یہ کہتے رہے کہ ایھا الناس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا۔
آپ نے لوگوں کو دعا اور عبادت کے طریقے بتائے۔ لوگوں کو اخلاق اورانسانیت کی تعلیم دی۔ لوگوں کو بتایا کہ دوسرے لوگ جب تم کو ستائیں تب بھی تم صبر واعراض کے ساتھ زندگی گزارو۔ آپ نے قرآن کوایک اصلاحی کتاب اور ایک دعوتی کتاب کے طور پر لوگوں کے درمیان عام کیا۔ آپ نے یہ نمونہ قائم کیا کہ دار الندوہ (مکہ کی پارلیمنٹ) میں اپنی سیٹ حاصل کرنے کے بجائے جنت میں اپنی سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ آپ نے لوگوں کواپنے عمل سے یہ سبق دیا کہ کعبہ جیسی مقدس عمارت میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے ہوں تب بھی ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کئے بغیر تم اپنامشن پُرامن طورپر شروع کر سکتے ہو۔ آپ نے یہ نمونہ قائم کیا کہ کس طرح یہ ممکن ہے کہ آدمی اشتعال انگیز حالات کے درمیان اپنے آپ کو لوگوں کے خلاف نفرت سے بچائے اور پر امن رہ کر لوگوں کی خیرخواہی کا کام انجام دے، وغیرہ۔
پیغمبر اسلام نے اپنی زندگی میں اس قسم کے جو غیر متشددانہ کام کئے وہ سب بلا شبہہ عظیم اسلامی کام تھے۔بلکہ یہی نبوت کا اصل مشن ہے۔ اور جہاں تک جنگ کا تعلق ہے وہ صرف ایک استثنائی ضرورت ہے، اسی لئے فقہاء نے جنگ کو حسن لغیرہ بتایا ہے۔
Not for the sake of Islam, but due to some practical reasons.
واپس اوپر جائیں

سلطانی ماڈل، دعوتی ماڈل

موجودہ زمانہ کے مسلمان ساری دنیا میںتباہی اور ذلّت سے دوچار ہو رہے ہیں۔ تباہی کی یہ مدت پوری انیسویں صدی اور بیسویں صدی تک پھیلی ہوئی ہے۔ سلطان ٹیپو سے لے کر یاسر عرفات تک دو سو سال سے تباہی کا سلسلہ جاری ہے اور ابھی تک بظاہر اس کے خاتمہ کے کوئی آثار نہیں۔
مسلمانوں کی اس تباہی کا سبب بے عملی نہیں ہے بلکہ وہ مکمل طورپر ہنگامہ خیز عمل کے درمیان ہورہی ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ان دوسو سالوں میں دُنیا بھر کے مسلمانوں نے جان و مال کی جو قربانی دی ہے وہ مقدار کے اعتبار سے اسلام کی بقیہ پوری تاریخ کی قربانیوں سے بھی زیادہ ہے۔
کیا وجہ ہے کہ عمل اور قربانی کے مسلسل ہنگاموں کے باوجود مسلمان دور جدید میں عزت وغلبہ کا مقام حاصل نہ کرسکے۔ جب کہ قرآن و حدیث میں واضح یقین دہانیاں موجود ہیں کہ اہل ایمان کی کوششوں کواللہ ضائع نہیں کرے گا، اُن کے حریفوں کے مقابلہ میں ضرور اُنہیں سرفرازی عطا فرمائے گا۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلم رہنماؤں نے اپنی کوششوں کے لیے غلط منہج اختیار کیا۔اُنہوں نے اپنی کوششوں کو اُس مطلوب طریقہ پر جاری ہی نہیں کیا جس کو اختیار کرکے خدا کی نصرت حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور یقینا اس دنیا میں کامیابی اُس کے لیے ہے جس کو خدا اپنی نصرت سے نوازے۔اللہ کی نصرت کے بغیریہاں کامیابی ممکن نہیں۔
اصل یہ ہے کہ خدا نے اپنی نصرت کا وعدہ اُن لوگوں سے کیا ہے جو اپنی کوششوں کے لیے پیغمبرانہ ماڈل کو اختیار کریں۔ یہ پیغمبرانہ ماڈل وہی ہے جس کو ہم نے دعوتی ماڈل کا نام دیا ہے۔ اہل ایمان کی حقیقی کامیابی پیغمبر کے قائم کئے ہوئے اسی دعوتی ماڈل سے وابستہ ہے۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما بعد کے دور میں مسلم سلاطین کے قائم کئے ہوئے سلطانی ماڈل سے اتنا متاثر تھے کہ انہوں نے اپنی تمام تحریکیں اسی سلطانی ماڈل پر چلا دیں۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تمام تباہیوں کا اصل سبب یہی انحراف ہے۔
مسلم رہنماؤں نے دیکھا کہ بعد کے زمانہ میں مسلم سلاطین مسلّح فوجوں کو لے کر مختلف علاقوں میں گھس گئے۔ وہاںانہوں نے قائم شدہ حکومت کی فوجوں کو زیر کر کے اپنی حکومت قائم کر لی۔یہ سلطانی ماڈل اتنا زیادہ عام ہوا کہ بعد کے زمانہ میں لکھی جانے والی مسلم تاریخیں تقریباً سب کی سب اسی سلطانی ماڈل پر ڈھال دی گئیں۔ موجودہ زمانہ کے مسلم رہنماؤں نے ان تاریخی کتابوں کو پڑھا اور یہ سمجھ لیا کہ اسلامی تحریک کا ماڈل بس یہی سلطانی ماڈل ہے۔ انہوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پراسی سلطانی ماڈل کو معیاری ماڈل سمجھا اور مسلّح جہاد کے نام پر اس کو ہر جگہ جاری کر دیا۔ یہی غلطی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی تباہی کا اصل سبب ہے۔
اسلامی عمل کا صحیح ماڈل وہ ہے جو پیغمبر اسلام ﷺ نیز دوسرے پیغمبروں کی مثال سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ ماڈل دعوتی ماڈل ہے۔ دعوتی ماڈل سے مراد یہ ہے کہ اپنے عمل کی بنیاداسلام کی نظریاتی اشاعت پر رکھی جائے۔ اُس کو مخاطب کے معیار فہم کے مطابق مدلّل کرتے ہوئے پیش کیا جائے۔ تشدد سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے صرف پُر امن ذرائع سے کام کو آگے بڑھایا جائے۔ فریقِ ثانی اگر زیادتی کرے تب بھی یک طرفہ صبر کرتے ہوئے پُر امن اشاعتی مہم کو جاری رکھا جائے۔ ہر قیمت پر یہ کوشش کی جائے کہ داعی اور مدعو کے درمیان نفرت اور کشیدگی کا ماحول ہرگز قائم نہ ہونے پائے۔ معتدل ماحول ہمیشہ اسلام کے لیے مفید ہوتا ہے اور غیر معتدل ماحول ہمیشہ اسلام کے لئے غیرمفید۔ یہی دعوتی ماڈل ہے اور اسی طریقہ کو اختیار کرکے پیغمبر اسلام ﷺ نے خدا کے دین کو عزت اور غلبہ کے مقام تک پہنچایا۔
پیغمبرانہ ماڈل میں اصل عمل دعوت کے اصول پر جاری ہوتا ہے۔ وہ آغاز میں بھی دعوت ہے اور آخر میں بھی دعوت۔ بعض اوقات بطور استثناء محدود طورپر کسی سے دفاعی ٹکراؤ پیش آسکتا ہے، وہ بھی اس وقت جب کہ اعراض کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہوں اور یک طرفہ جارحیت کی بنا پر اہل ایمان کو وقتی طورپر اپنے دفاع میں لڑنا پڑے۔اس وقتی دفاع کے پہلے بھی دعوت ہے اور اس کے بعد بھی دعوت۔ پیغمبرانہ ماڈل میں دعوت کی حیثیت اقدام کی ہے اور جنگ کی حیثیت محدود معنوں میں صرف وقتی دفاع کی۔
موجودہ زمانہ میں ساری دنیا میں نئے انقلابات ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجہ میںعالمی صورت حال مکمل طورپر بدل گئی ہے۔ ان تبدیلیوں نے مسلّح جنگ کو بالکل غیر ضروری قرار دے دیا ہے۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ صرف دعوتی عمل کے ذریعہ وہ سب کچھ حاصل کر لیا جائے جو اسلام اور اہل اسلام کو عزت اور غلبہ کے مقام تک پہنچانے کے لیے درکار ہے۔
قدیم زمانہ میں اہل ایمان کو مذہبی جبر کے ماحول میں اپنا دعوتی کام کرنا پڑا تھا، اب یہ دعوتی کام پوری طرح مذہبی آزادی کے ماحول میں کیا جاسکتا ہے۔ پہلے زمانہ میں حق کی پیغام رسانی کے لیے داعی کو پُر مشقت سفر کرنا پڑتا تھا، اب جدید کمیونیکیشن نے اس کو ممکن بنا دیا ہے کہ خود دعوتی پیغام تیزی سے سفر کرکے دنیا بھر کے تمام لوگوں تک پہنچ سکے۔ قدیم زمانہ کے داعیوں کو مختلف قسم کے توہمات کا سامنا کرتے ہوئے حق کا پیغام پھیلانا پڑتا تھا، مگر اب سائنسی انقلاب نے توہمات کا تقریباً خاتمہ کر دیا ہے، اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ کھلی ذہنی فضا میں حق کے پیغام کو عام بنایا جاسکے۔ پہلے زمانہ میں معیشت کا انحصار صرف زراعت پر تھا، اس لیے داعیوں کو بہت کم وسائل کے ساتھ اپنا مشن چلانا پڑتا تھا، اب صنعتی انقلاب کے بعد ساری دنیا میں اقتصادی انفجار(economic explosion) کا زمانہ آگیا ہے، اب وہ کام معاشی فراوانی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے جو پچھلے لوگوں کو صرف معاشی تنگی کے ساتھ کرنا پڑا تھا،وغیرہ وغیرہ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جدید تبدیلیوں نے دعوتی ماڈل کی افادیت اور اہمیت کو بہت زیادہ بڑھا دیا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما صرف سلطانی ماڈل سے آشنا تھے، وہ دعوتی ماڈل کو یکسر فراموش کرچکے تھے۔انہوں نے انتہائی بے دانشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری ملت کو سلطانی ماڈل کے طریقہ پر ڈال دیا، اور پھر ملت کو بھی تباہ کیا اور خود اپنے آپ کو بھی۔
دوگونہ غلطی
جدید دور میں سلطانی ماڈل تباہ کن حد تک غیر مفید بن چکا تھا۔ مگر دو سو سال کا ناکام تجربہ بھی نااہل مسلم رہنماؤں کی بے خبری کو توڑنے والا ثابت نہ ہوسکا۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کو مکمل طورپر کھونے کے باوجود اکیسویں صدی میں بھی وہ سلطانی دور کے اس فرسودہ ماڈل ہی کو بظاہر معیاری ماڈل سمجھ رہے ہیں۔
دور جدید میں ناکام سلطانی ماڈل کو دہرانے کی دو قسمیں ہیں۔ اس کی پہلی قسم ہے، حکمراں کے ذریعہ سلطانی ماڈل کواپنا نا اور اُس کی دوسری قسم ہے، غیر حکومتی افراد یا جماعتوں کے ذریعہ اس ماڈل پر عمل کرنا۔
سلطان ٹیپو پہلی قسم کی ایک مثال ہیں جنہوں نے حکمراں کی سطح پر اُسے ناکام طورپر دہرایا۔ وہ قدیم سلطانی ماڈل سے باہر آکرمعاملہ کو سمجھ نہ سکے۔ ۱۷۹۹ء میں وہ انگریزوں کے خلاف ایک نا عاقبت اندیشانہ جنگ لڑکر ہلاک ہوگئے۔ موجودہ زمانہ میں عراق کے صدر صدام حسین کی زندگی بھی اسی سلطانی ماڈل کو اختیار کرنے کی ایک ناکام مثال ہے۔
اس کے بعد اس سلطانی ماڈل کے نام پر تجربہ کی دوسری قسم شروع ہوتی ہے۔ یہ دوسری قسم وہ ہے جب کہ غیر حکومتی تنظیموں نے اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف لڑائی شروع کردی۔ دوسری قسم کی اس لڑائی کا غالباً پہلا واقعہ وہ ہے جو ۱۸۳۱ء میں پیش آیا۔ جب کہ مولانا سید احمد بریلوی اوراُن کے ساتھیوں کا قافلہ مہاراجہ رنجیت سے لڑکر بالا کوٹ میں تباہ ہوگیا۔
اس کے بعد ۱۸۵۷ء میں اس نوعیت کا دوسرا بڑا واقعہ وہ ہوا جب کہ علماء ہند کی جماعت نے انگریزوں کے خلاف مسلح جہاد شروع کیا۔ اس کے بعد غیر حکومتی تنظیموں کے ذریعہ سلطانی ماڈل کے ناکام تجربہ کا ایک طویل سلسلہ قائم ہوگیا جو تادمِ تحریر جاری ہے۔ فلسطین، کشمیر ، بوسنیا، چیچنیا، فلپائن، اراکان اور دوسرے بہت سے مقامات پر جہاد کے نام پر جو تباہ کن مسلح ٹکراؤ ہورہا ہے وہ سب اسی دوسرے قسم کے تجربہ کی مثالیں ہیں۔
سلطانی ماڈل کے تجربہ کی دوسری قسم جو غیر حکومتی تنظیموں کے ذریعہ گوریلا وار، پراکسی وار ، وغیرہ کی صورت میں شروع ہوئی، وہ پہلی قسم سے بھی زیادہ مہلک تھی۔ اس میں بیک وقت دو غلطیاں شامل ہوگئیں ــــــ دعوتی دور میں سلطانی ماڈل کے طریقے کو اختیار کرنے کی خلافِ زمانہ کوشش، دوسری اس سے زیادہ سنگین بات یہ کہ یہ طریقہ شرعی اعتبار سے سراسر غلط تھا۔
کیوں کہ ثابت شدہ طورپر مسلح جنگ صرف قائم شدہ حکومت کا حق ہے، غیر حکومتی تنظیموں کے لئے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ کسی کو دشمن بتا کر اُس کے خلاف مسلح ٹکراؤ شروع کردیں۔ پہلی قسم میں سلطانی ماڈل کا تجربہ اگر صرف نادانی تھا تو دوسری قسم میں سلطانی ماڈل کا تجربہ نادانی کے ساتھ شریعت سے انحراف کے ہم معنیٰ بن گیا۔
یہی وہ دو گونہ غلطی ہے جس نے موجودہ زمانہ میں مسلم رہنماؤں کے مسلّح جہاد کو سراسر ناکام بنادیا۔ اس کا سبب کسی غیر قوم کی سازش نہیں جیسا کہ اکثر علماء اور دانشور بے دلیل طورپر اعلان کرتے رہتے ہیں۔
سلطانی ماڈل ہر اعتبار سے دعوتی ماڈل سے مختلف ہے۔ دعوتی ماڈل مکمل طورپر اسلام کے موافق مزاج بناتا ہے۔ اس کے برعکس سلطانی ماڈل ایسا مزاج بناتا ہے جو ہر پہلو سے اسلامی تقاضوں کے بالکل خلاف ہو۔
اس معاملہ کی ایک مثال کشمیر اور پاکستان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کا تصور مکمل طورپر سلطانی طرزِفکر کا نتیجہ تھا۔ پاکستانی لیڈروں کے ذہن میں اگر دعوتی ماڈل ہوتا تو وہ ہرگز جغرافی تقسیم کی بات نہ کرتے۔ ایسی صورت میں وہ اس کو خدا کی ایک رحمت سمجھتے کہ متحد ہندستان کی صورت میں ان کو گویا ایک پورا برّاعظم میدان کارکے طور پر مل رہا ہے۔ان کے ذہن میں ماضی کا سلطانی ماڈل بسا ہوا تھا۔ سلطانی ماڈل میں سارا فوکس صرف سیاسی اقتدار پر ہوتاہے، مواقع دعوت یا مواقع کار کی سلطانی ماڈل میں کوئی اہمیت ہی نہیں۔ اس بے شعوری کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے تقسیم کی تحریک چلاکر سارے بر صغیر ہند میں نفرت (بالفاظ دیگر، مخالف دعوت) کا جنگل اگا دیا۔ سارے دعوتی امکانات مسدود ہو کر رہ گئے۔
اس غیر اسلامی اور غیر حکیمانہ سیاست کادوسرا دور ۱۹۴۷ء سے شروع ہوتا ہے۔ پندرہ اگست ۱۹۴۷ کو جب یہ علاقہ انگریزی اقتدار سے آزاد ہوا تو یہاں دو بڑے ریاستی مسئلے تھے۔ ایک حیدر آباد کا اور دوسرا کشمیر کا۔ ریاست حیدر آباد میں ہندو اکثریت تھی مگر حکمراں مسلمان تھا۔ اس کے برعکس ریاست کشمیر میں مسلم اکثریت تھی مگر حکمراں ہندو تھا۔ اب یہ سوال تھا کہ ان دونوں ریاستوں کا سیاسی مستقبل کیا ہو۔ حیدر آباد کے نواب نے اپنا رسمی الحاق پاکستان سے کرلیا اس کے برعکس کشمیر کے راجہ نے ہندستان کے ساتھ الحاق کے کاغذات پر دستخط کر دئے۔
اس نزاع کو ختم کرنے کے لیے نئی دہلی کی لیڈر شپ نے ایک حقیقت پسندانہ پیشکش کی۔ اُس نے پاکستانی لیڈروں سے کہا کہ تم حیدر آباد سے اپنا دعویٰ واپس لے لو اورہم کشمیر سے اپنا دعویٰ واپس لے لیں۔ اس طرح یہ نزاع ختم ہوجائے گی اور دونوں ملک معتدل انداز میں ترقی کے راستہ پر اپنا سفر شروع کردیں گے۔
ہندستانی لیڈروں کی اس پیش کش کی تائید میں قرآن میں یہ واضح ہدایت موجود تھی: وإن جنحوا للسلم فاجنح لھا (الأنفال ۶۱) یعنی اگر فریقِ ثانی صلح کی پیش کش کرے تو تم فوراً اس پیشکش کو قبول کرلو۔ مگر پاکستان کے لیڈر جو سلطانی ماڈل سے مسحور کن حد تک متاثر ہونے کی وجہ سے حاکمانہ نفسیات کا شکار تھے، وہ اس قیمتی پیشکش کو قبول نہ کرسکے۔ اس کے بعد جو بے پناہ تباہی آئی وہ ہر ایک کے لیے ایک معلوم واقعہ ہے۔
کشمیر کے بارے میں پاکستانی لیڈروں کی یہ ناقابلِ فہم نادانی تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے۔ اس معاملہ کو حسب ذیل کتابوں میں تفصیل کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے:
1. Looking Back, by Mehrchand Mahajan.
2. Witness to an Era, by Frank Morris.
3. Emergence of Pakistan, by Chaudhary Mohd. Ali.
4. The Nation that Lost Its Soul, by Sardar Shaukat Hayat Khan
پاکستانی لیڈروں کی سلطانی نفسیات اس میں رکاوٹ بن گئی کہ وہ کشمیر کے مسئلہ کو میز کی گفت وشنید کے ذریعہ حل کر سکیں۔ اس کے بعد انہوں نے شدید تر غلطی یہ کی کہ وہ فوجی طاقت کو استعمال کرکے اس مسئلہ کے حل کا خواب دیکھنے لگے۔ پہلے انہوں نے براہِ راست مسلح اقدام کے ذریعہ ہندستان سے فوجی ٹکراؤ کیا۔ مگر اس اقدام میں انہیں مکمل ناکامی ہوئی۔ اُن کی سلطانی نفسیات اب بھی حقیقت پسندی کا راستہ اختیار نہیں کرسکتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کشمیر میںہندستان کے خلاف وہ خفیہ جنگ شروع کر دی جس کو پراکسی وار (proxy war) کہا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ پراکسی وار نہ صرف پاکستان اور کشمیر دونوں کی تباہی کا ذریعہ تھی بلکہ وہ اسلامی شریعت کے اعتبار سے یقینی طورپر ناجائز بھی تھی۔ کیوں کہ اسلام میں کسی کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لیے اعلان ضروری ہے: فانبذ الیھم علی سواء (الأنفال ۵۸)۔
ہندستان کے خلاف اس غیر اسلامی اور غیر دانش مندانہ جنگ کو درست ٹھہرانے کے لیے پاکستان نے دوسری بہت سی شدید ترغلطیاں کیں۔ مثلاً پاکستان نے اپنی خارجہ سیاست اور اپنے میڈیا کو مکمل طورپر ہندستان کو بدنام کرنے اوراُس کے خلاف نفرت پھیلانے کا کارخانہ بنا دیا۔ کشمیر کی گوریلاوار یا پراکسی وار میں پوری طرح شامل ہونے کے باوجود وہ مسلسل طورپر اس قول زور کا سہارا لیتا رہا کہ اس جنگجوئی سے ہمارا کوئی عملی تعلق نہیں۔ حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ کشمیریوں کی جنگجوئی پوری طرح پاکستان کی مدد سے جاری ہے۔ اسی طرح ظاہری طورپر اپنے آپ کو پُرامن قوم بتانے کے لیے پاکستانی لیڈروں نے بار بار امن کے معاہدہ پر دستخط کئیــــــمعاہدۂ تاشقند (۱۹۶۵) معاہدۂ شملہ (۱۹۷۲) معاہدۂ لاہور (۱۹۹۸)۔
اس قسم کے تمام معاہدے اور اعلانات بھی پاکستانی لیڈروں کے غیر دعوتی ذہن کا شکار ہوتے رہے۔ کاغذ کے اوپر انہوں نے بار بار یہ لکھا کہ کشمیر کے مسئلہ کو جنگ کے بجائے پُر امن گفت وشنید کے ذریعہ حل کیا جائے۔ مگر یہ معاہدے غالباً دنیا کو دکھانے کے لیے تھے۔ کیوں کہ انہوں نے کسی بھی معاہدہ کے بعد اپنی خفیہ جنگی کارروائی کو بند نہیں کیا۔ حالانکہ قرآن کے مطابق، معاہدہ کی لفظی اور معنوی پابندی اہلِ اسلام کے لیے ضروری ہے: وأوفوا بالعہد إنّ العہد کان مسئولا (الإسراء ۳۴)
پاکستان کے لیڈر اگر اپنے سلطانی ماڈل سے باہر آئیں اور دعوتی ماڈل کو بنیاد بنا کر سوچیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ اُن کے لیے قرآن میں واضح رہنمائی موجودہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ دنیا میں بہر حال ہر فرد اور قوم کو مصیبت کا تجربہ ہوتا ہے۔ یہاں انسان کھوتا بھی ہے اور پاتا بھی ہے۔ یہ دونوں قسم کے تجربے امتحان کے لئے ہیں۔ ایسی حالت میں انسان کو کیا کرنا چاہئے اس کا جواب قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے: لکیلا تأسوا علی مافاتکم ولاتفرحوا بما اٰ ٰتکم (الحدید ۲۳)
قرآن کی اس آیت میں پاکستانی لیڈروں کے لیے یہ رہنمائی ہے کہ کشمیر کو وہ اُسی طرح اختیارانہ طورپر کھوئے ہوئے خانہ میں ڈال دیں، جس طرح وہ ۱۹۷۱ میں مشرقی پاکستان کو مجبورانہ طورپر کھوئے ہوئے خانہ میں ڈال چکے ہیں۔ کشمیر میں وہ اپنی موجودہ مایوسانہ سیاست کو ختم کردیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ کشمیر کے معاملہ میں صورت موجودہ (status quo) کو مان کر ہندستان سے معتدل تعلقات قائم کرلیں اور منفی سیاست کا طریقہ چھوڑ کر مثبت سیاست کا طریقہ اختیار کریں۔ اس طرح ان کی ترقی کا وہ دروازہ کھُل جائے گا جوآدھی صدی سے بھی زیادہ مدت سے اُن کے اوپر بند پڑا ہوا ہے۔
خلاصۂ بحث
اکیسویں صدی میں پہنچ کر اب آخری وقت آگیا ہے کہ تمام مسلم رہنما توبہ کے شرعی اُصول پر عمل کریں۔ وہ اپنی دو سو سالہ غلطی کا کھلے طورپر اعتراف کریں۔ اور دعوتی ماڈل کے اصول پر اپنے اسلامی عمل کی از سرِ نو منصوبہ بندی کریں۔ اس اعتراف اور تصحیح عمل سے کم کوئی چیز موجودہ تباہ کن صورت حال کو بدلنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

فتحِ مبین کا راز

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ایک واقعہ وہ ہے جس کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ کے لئے مکہ میں داخل ہونا چاہتے تھے مگر مکہ کے سرداروں نے سراسر ناحق طورپر آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اس طرح دونوں فریقوں کے درمیان نزاع کی صورت قائم ہوگئی۔ آپ نے اس کا حل اس طرح نکالا کہ مکہ میں اپنے داخلہ کے حق کو واپس لے لیا۔ اس کے جواب میں اہل مکہ نے آپ کو یہ ضمانت دی کہ وہ آپ کے خلاف جنگ کو ختم کر دیں گے تا کہ دونوں کے درمیان پر امن ماحول قائم ہوسکے۔
صلح حدیبیہ کی تکمیل کے فورًا بعد قرآن کی سورہ نمبر ۴۸ نازل ہوئی۔ اس سورہ میںاعلان کیا گیا کہ صلح حدیبیہ تمہارے لئے فتح مبین (کھلی فتح) کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس قرآنی بیان سے ایک اہم اصول اخذ ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ نزاع کا خاتمہ ہمیشہ لو اور دو (give and take) کے طریقہ پر ہوتا ہے۔ پیغمبر اور آپ کے اصحاب نے اپنے مخالفین کے اس مطالبہ کو مانا کہ وہ مکہ میں داخلہ کے بارے میں اپنے حق کوچھوڑ دیں۔ اس کے جواب میں مخالفین اس پر راضی ہوئے کہ وہ اہل اسلام کے خلاف اپنی جنگی کارروائی کو ترک کر کے انہیں امن کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیں گے۔
اس بات کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کامیابی ان لوگوں کے لئے ہے جو احساس شکست کے بغیر پیچھے ہٹنے کے لئے تیار ہوں۔ اس دنیا میں پانا صرف اس انسان کے لئے مقدر ہے جو دوسروں کو دینے کے لئے راضی ہو جائے۔ اس دنیا میںکامیاب اقدام کی خوش قسمتی صرف اس کو ملتی ہے جو دوسروں کو راستہ دینے کا حوصلہ اپنے اندر رکھتا ہو۔
اب اس اصول کی روشنی میںکشمیر کے مسئلہ کو سمجھئے۔پاکستان کے لیڈروں نے کشمیر کے نزاع کو حل کرنے کے لئے جو پالیسی اختیار کی، وہ مکمل طورپر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ اس معاملہ میں مذکورہ قرآنی اصول کو اختیار کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو جانا مگر انہوں نے فطرت کے قانون کو نہیں جانا۔
۱۹۴۷ء میں یہ مسئلہ بالکل سادہ تھا۔ جیسا کہ الرسالہ میں ایک سے زیادہ بار لکھا جاچکا ہے، اس وقت یہ مسئلہ اپنی فطری حالت میں تھا۔ اس وقت پاکستانی لیڈروں کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ حیدرآباد پر اپنے دعویٰ کو چھوڑدیںاور اس کے نتیجہ میں پورا کشمیر انہیں حاصل ہوجائے۔ مگر پاکستان کے لیڈراپنی ناقابل فہم نادانی کی بناپر ایسا نہ کرسکے اور یہ مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک تباہ کن نزاع کے طورپر باقی رہا۔
بنگلہ دیش کی جنگ کے بعد ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے ۹۳ ہزار فوجی انڈیا کے قبضہ میں آگئے۔ اس وقت یہ ممکن تھا کہ ان ۹۳ ہزار فوجیوں کو دے کر پاکستان سے کشمیر کے معاملہ کا مستقل تصفیہ کر لیا جائے مگر دوبارہ دونوں ملکوں کی قیادت ناکام رہی اور اس قیمتی موقع کے باوجود کشمیر کا مسئلہ بدستور غیرحل شدہ صورت میں پڑا رہا۔
۲۰۰۱ء کے آخر میںآگرہ میں کشمیر کے سوال پر دونوں ملکوں کے لیڈروں کی کانفرنس ہوئی۔ اس موقع پر راقم الحروف نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ صورت موجودہ (statusquo) کو مان کر اس کا تصفیہ کر لیا جائے۔ یعنی کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے قبضہ میںہے وہ پاکستان کا حصہ بن جائے اور اس کا جو حصہ انڈیا کے زیر انتظام ہے، اس کو انڈیا کا مستقل حصہ مان لیا جائے۔ مگر اس بار بھی دونوں ملکوں کے لیڈروں کے درمیان کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکا اور یہ نزاعی معاملہ پہلے جہاں تھا وہیں اب بھی باقی رہا۔
آخری صورت کے طورپر راقم الحروف نے الرسالہ میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ اس معاملہ میں ایک قسم کی ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy) اختیار کر لی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کے سیاسی سوال کو دوسرے اہم تر انسانی سوالات سے الگ کر دیا جائے۔ کشمیر کے مسئلہ کوسختی کے ساتھ پرامن بات چیت کی میز پر رکھ دیا جائے اوراس کے سوا جو اہم تر غیر سیاسی معاملات ہیں ان میں پوری طرح نارمل پالیسی اختیار کر لی جائے۔ مثلاً تجارت، تعلیم، آمد ورفت، سیاحت، ثقافتی تعلقات اور دوسرے انسانی معاملات میںاسی طرح معتدل تعلقات قائم کر لئے جائیں جس طرح انڈیا اورنیپال کے درمیان یا یورپ کے ایک ملک اور دوسرے ملک کے درمیان ہیں۔ اس پالیسی کا یہ فائدہ ہوگا کہ کشمیر کا مسئلہ دوسری انسانی اور قومی ترقیوں میںرکاوٹ نہ رہے گا جیسا کہ وہ اب بنا ہوا ہے۔
کشمیر کے معاملہ میں پاکستانی لیڈروں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ابھی تک ماضی میں جی رہے ہیں۔ وہ اپنی غلطی کی قیمت دوسرے فریق سے وصول کرنا چاہتے ہیں۔ وہ فطرت کے ناقابلِ تغیر اصول کو نظر انداز کرکے اپنے خود ساختہ مفروضات کی بنیاد پر اپنی ایک دنیا بنانا چاہتے ہیں۔ مگرعالم حقیقت میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔
کشمیر کے بارے میں پاکستان کی موجودہ غیر حقیقت پسندانہ روش نے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اب اگر پاکستان اپنی اس غیر حقیقت پسندانہ روش پر باقی رہتا ہے تو اس کا آخری نتیجہ دونوں ملکوں کے درمیان تباہ کن جنگ ہے۔ خدا نخواستہ اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو وہ دونوں ملکوں کے لئے سخت نقصان کا باعث ہوگی۔ اگر چہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ فرق ہے کہ انڈیا ایک بڑا ملک ہونے کی بنا پر پھر بھی اس کو سہار لے گا۔ مگر جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، وہ نسبتاً بہت چھوٹا ملک ہے۔ جنگ کی صورت میںاس کا انجام یقینی طورپر یہ ہوگا کہ اب تو وہ کشمیر پر انڈیا کی بالادستی ماننے پر راضی نہیں لیکن جنگ کے بعد وہ اتنا تباہ ہوگا کہ وہ اپنی بحالی کے لئے کئی دوسرے ملکوں کی بالا دستی قبول کر لے گا تاکہ وہ ان کے تعاون کے ذریعہ زندہ رہ سکے۔ اور جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے، اس کا سیاسی نقشہ کسی تبدیلی کے بغیر وہی رہے گا جو کہ آج ہمیں نظر آتاہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
میں نے آپ کی کچھ تحریریں پڑھی ہیں۔ میںنے دیکھا ہے کہ آپ اکثر صلح حدیبیہ کا ذکر کرتے ہیں۔صلح حدیبیہ تو قدیم زمانہ میں ایک خاص وقت کے لحاظ سے تھی۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے لئے اس کی مناسبت (relevance) کیا ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔ (خالد انصاری، نئی دہلی)
جواب
صلح حدیبیہ کوئی منفرد تاریخی واقعہ نہیں۔ وہ فطرت کا ایک عام اصول ہے۔ اس کا تعلق ہر زمانہ سے ہے۔ وہ فرد کی زندگی کے لئے بھی کار آمد ہے اور قوم کی زندگی کے لئے بھی۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میںاکثر دو فریقوں کے درمیان نزاع قائم ہو جاتی ہے۔ یہ نزاع بظاہر کسی حق یا کسی انصاف کے لیے ہوتی ہے۔ مگر زندگی کا قانون یہ ہے کہ آپ اپنا حق فریقِ ثانی سے نہیں لے سکتے۔ آپ کا مطلوب حق خود آپ کے تعمیری عمل کا نتیجہ ہوتا ہے، نہ کہ فریقِ ثانی سے ملا ہوا عطیہ۔ حدیبیہ پرنسپل یہ بتاتا ہے کہ جب کسی سے نزاع قائم ہو جائے تو نزاع کو حق یا انصاف کا سوال نہ بناؤ بلکہ اس کو امن کا سوال بناؤ۔ یعنی ہر قیمت پر جلد سے جلد نزاع کو ختم کردو۔ نزاع کو ختم کرنے کا مطلب حالات کو نارمل بنانا ہے۔ نزاع کے وقت یہ ہوتا ہے کہ آپ کی ساری طاقت فریقِ ثانی سے لڑنے میں ضائع ہونے لگتی ہے۔ عین اسی وقت آپ کے لئے مواقع کا ر موجود ہوتے ہیں۔ مگر آپ ان مواقع کو استعمال نہیں کر پاتے۔ جب کہ کامیابی ہمیشہ مواقع کو استعمال کرنے سے ملتی ہے، نہ کہ حقوق کی لڑائی لڑنے سے۔
حدیبیہ پرنسپل ایک ابدی پرنسپل ہے۔ یہ ایک حکیمانہ تدبیر ہے۔ اس تدبیر کا خلاصہ یہ ہے کہـــ ٹکراؤ کو اوائڈ کرکے نارمل حالات پیدا کرو، تاکہ تمہیں موجود امکانات کواستعمال کرنے کا موقع مل جائے۔
نزاع کو غیر مشروط طورپر ختم کرنا بظاہر نقصان کاایک معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ مگر نقصان کوئی مطلق چیز نہیں، نقصان ایک تقابلی چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نزاع کو باقی رکھنے میں بھی نقصان ہے اور نزاع کو ختم کرنے میں بھی نقصان۔ اب آپ کو یہ کرنا چاہئے کہ دونوں قسم کے نقصان کے درمیان موازنہ کریں۔ اگر آپ اس طرح موازنہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ نزاع کو باقی رکھنے میں زیادہ نقصان ہے اور نزاع کو ختم کرنے میں کم نقصان۔ ایسی حالت میں حدیبیہ پرنسپل کو اختیار کرنا گویا زیادہ نقصان کے مقابلہ میں کم نقصان کو اختیار کرنا ہے۔ اور بلا شبہہ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ زیادہ نقصان والی صورت کوچھوڑ دیا جائے، اور کم نقصان والی صورت کو اختیار کر لیا جائے۔
مزید یہ کہ حدیبیہ اصول پر نزاع کو ختم کرنے والے لوگ اگر دانش مند ہوں تو یہ تدبیر ان کے لیے اس سے بھی زیادہ بڑے فائدہ کا باعث بن سکتی ہے۔ اور وہ ہے وقتی نقصان کو گوارا کرکے مستقبل کے عظیم تر فائدہ کو محفوظ کر لینا۔
سوال
اسلام کے مطابق، جنت اس کو ملے گی جو خدا کی شریعت پر عمل کرتاہو۔ مگر یہ نظریہ ایک محدود نظریہ معلوم ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ جو خدا کی شریعت کی بات نہیں کرتے مگر وہ ایک با اخلاق زندگی گزارتے ہیں۔ وہ جھوٹ نہیں بولتے، وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے، وہ دوسروں کی خدمت کرتے ہیں، وغیرہ۔ اس قسم کے بہت سے اچھے لوگ ہیں۔ آخر وہ خدا کی جنت سے محروم کیوں رہیں گے۔ یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔ (رجت ملہوترا، نئی دہلی)
جواب
یہ صحیح ہے کہ غیر خدا ترس لوگوں میں بھی بظاہرکچھ اخلاقی خوبیاں نظر آتی ہیں۔ لیکن گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو یہ صحیح معنوں میںاخلاق نہیں ہوتا۔ زیادہ درست طورپر اس کو سماجی برتاؤ (social manners) کہا جاسکتا ہے۔ کوئی آدمی اس قسم کی اخلاقی روش اس لئے اختیار کرتا ہے تاکہ سماج میںاس کو اچھا سمجھا جائے۔ یہ خود پرستی کی ایک صورت ہوتی ہے، نہ کہ حقیقۃ ًخدا پرستی کی صورت۔
اس سماجی اخلاق کی اصلیت اس وقت کھل جاتی ہے جب کہ کوئی حقیقی جانچ کا موقع آجائے، جب آدمی کو اپنا کوئی بڑا مفاد خطرہ میں جاتا ہوا نظر آئے، جب کسی اخلاقی تقاضہ کو پورا کرنے کے لئے اس کو اپنی انا کو قربان کر دینا پڑے۔ اس قسم کا اخلاق ذاتی انٹرسٹ کے تابع ہوتاہے، وہ مستقل اصول کے تابع نہیں ہوتا۔ کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں کہ اچھے لوگ بھی اس وقت بدل گئے جب کہ انہیں کسی کڑی اخلاقی جانچ سے گذرنا پڑا۔ ایسے موقع پر یہ بظاہر با اخلاق لوگ اچانک بے اخلاق بن جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا سے ڈرنے والا انسان ہی ہر حال میں اخلاقی اصول پر قائم رہ سکتا ہے۔ خدا کے سامنے حساب دینے کا اندیشہ خود انٹرسٹ کے تصور کو بدل دیتا ہے۔ اب انسان کا انٹرسٹ یہ بن جاتا ہے کہ وہ خدا کے سامنے اچھا انسان ٹھہرے، نہ یہ کہ دنیا کی زندگی میں وہ لوگوں کو ایک اچھا انسان دکھائی دے۔
سوال
خدا کے وجود کو ماننا بظاہر ایک معقول بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ایک سوال یہ ہے کہ اگر اس دنیا کا ایک خداہے تو یہاں اتنی زیادہ مصیبتیں (sufferings) کیوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے انسان طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ اگر خدا ہی خالق ہے اور وہ خیر مطلق کی حیثیت رکھتا ہے تو دنیا میں پائی جانے والی مصیبتوں کی توجیہ کیا ہوگی۔ (پِریا ملک، نئی دہلی)
جواب
یہ سوال بہت پُرانا ہے۔ فلاسفہ اس کو بُرائی یا خرابی کا مسئلہ (problem of evil) کہتے ہیں۔ جو لوگ خدا کے وجود کو نہیں مانتے، ان کا خیال یہ ہے کہ ان کے نظریہ کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہی ہے۔ مگر یہ ایک مغالطہ ہے جوسطحی مطالعہ کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے، اس کی کوئی گہری بنیاد نہیں۔
اس سوال کو وسیع تر تناظر میں دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ ہماری دنیا کے دو حصے ہیں۔ ایک، انسانی دنیا جو مجموعی دنیا کا بہت چھوٹا حصہ ہے۔ دوسرے، وسیع خلا میں پھیلی ہوئی کائنات، یہ بقیہ کائنات اتنی زیادہ وسیع ہے کہ انسانی دنیا کمیت کے اعتبار سے اس کے مقابلہ میں کوئی نسبت نہیں رکھتی۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ دونوں دنیائیں بنیادی طورپر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ وسیع کائنات کا معاملہ یہ ہے کہ وہ آخری حد تک ایک معیاری کائنات ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی کوئی خرابی یا نقص نہیں۔ مثال کے طورپر سورج کے گرد زمین کی گردش کو دیکھئے۔ یہ گردش بیک وقت دو انداز سے جاری ہے۔ ایک، خود اپنے محور (axis) پر۔ اور دوسرے، سورج کے گرد بیضوی شکل میں اپنے مدار (orbit) پر۔
زمین کی یہ دوطرفہ گردش اتنی زیادہ صحت کے ساتھ مسلسل ہورہی ہے کہ کروڑوں سال کے اندر بھی اس میںکوئی فرق نہیں آتا۔ زمین گویا ایک بہت بڑا ہوائی جہاز ہے جو دوطرفہ اصول پر مسلسل گردش میں ہے۔ مگر ہم نہایت سکون کے ساتھ اس کے اوپر زندگی گذار رہے ہیں۔ اگر ہوائی جہاز کی مانند اس میں شور اور جنبش ہونے لگے تو زمین کے اوپر ہمارا رہنا محال ہو جائے۔
کچھ انتہا پسند منکرین خدا نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مادّی دنیا نقص سے خالی نہیں۔ مثلاً ان کے نزدیک، زمین کی کشش غیر متناسب طورپر زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے چند کلو کے وزن کی چیز ہاتھ میں لے کر چلنا بھی سخت مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر یہ نقص کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ توازن کا مسئلہ ہے۔ زمین میں کشش اگر کم ہوجائے تو بے شمار نا قابلِ حل مسئلے پیدا ہوجائیں گے۔ مثلاً انسان کا زمین پر ہموار انداز میں چلنا ممکن نہ رہے گا، زمین پر مکانات کھڑے کرنا سخت دشوار ہو جائے گا، وغیرہ۔
مادی کائنات انسان کے مقابلہ میںناقابلِ قیاس حد تک بڑی ہے۔ اس کے مقابلہ میں انسانی دنیا اتنی زیادہ چھوٹی ہے کہ بقیہ کائنات سے اس کو کوئی نسبت نہیں۔ اب جب کہ ایسا ہے کہ خرابی کا مسئلہ صرف انسان کی محدود دنیا کے ایک چھوٹے سے حصہ میںہے، اور وسیع کائنات خرابی سے مکمل طورپر پاک ہے تو یہ ماننا ہوگا کہ خرابی کا مسئلہ عموم میںاستثناء کا مسئلہ ہے۔ اور جب ایسا ہے تو استثناء کی توجیہہ عموم کی روشنی میں کی جائے گی، نہ کہ عموم کی توجیہہ استثناء کی روشنی میں کی جانے لگے۔
اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی میںخرابی کا مسئلہ آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر پیدا ہوا ہے، نہ کہ تخلیق میں کسی نقص کی بنا پر۔ اگر وہ تخلیق میںنقص کی بنا پر ہوتا تو اس کی مثالیں وسیع کائنات میں ہر طرف موجود ہوتیں، نہ کہ وسیع کائنات کے صرف ایک بے حد چھوٹے حصہ میں۔
اصل یہ ہے کہ خالق نے اپنے تخلیقی نقشہ کے مطابق، وسیع کائنات کو جبری نظام (determinism) کے تحت براہِ راست اپنے کنٹرول میںرکھا ہے۔ اس لئے وہ کسی تبدیلی کے بغیر ایک مقرر حالت پر قائم رہتی ہے۔اس کے برعکس انسان کو امتحان کی مصلحت کے تحت آزادی دی گئی ہے۔ اسی فرق نے مذکورہ بالا مسئلہ پیدا کیا ہے۔ انسان اپنی آزادی کا بار بار غلط استعمال کرتا ہے۔ اسی غلط استعمال نے وہ مسائل پیدا کئے ہیں جن کو خرابی کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔ انسان اگر اپنی آزادی کا غلط استعمال نہ کرے تو انسانی دنیا بھی اسی طرح بے نقص دنیا بن جائے گی جس طرح بقیہ کائنات بے نقص دنیا بنی ہوئی ہے۔
سوال
ایک صاحب نے لاہور کے ماہنامہ اشراق کے شمارہ ستمبر ۲۰۰۱ میں شائع شدہ مضمون (مولانا وحید الدین کا اسلوب تنقید) کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس شائع شدہ مضمون کا ایک حصہ یہ ہے:
’’آج اس خطے کا کون سا مسلمان ایسا ہے جو شاہ ولی اللہ، شیخ احمد سرہندی، سید احمد شہید، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا شبلی نعمانی، علامہ محمد اقبال، مولانا مودودی، ٹیپو سلطان، محمد علی جناح جیسی تمام شخصیات یا ان میں سے بہت سے لوگوں سے تعلق خاطر نہیں رکھتا یا ان کی فکر اور اخلاص کا مداح نہیںہے؟ جب آپ ان سب پرایسے اسلوب میں تنقید کریں گے جن سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے تو پھر یہ لوگ آپ کے مخاطب کیسے بن سکتے ہیں۔
یہ واقعہ ہے کہ مولانا وحید الدین نے اپنے تنقیدی اسلوب کی بنا پر مسلمانوں کے قریباً تمام قابلِ ذکر طبقات میں اپنے لیے ایک ناپسندیدہ فضا پیدا کردی ہے۔ چنانچہ ان کے قلم سے نکلنے والی بہت سی مثبت اور قابل قدر باتیں بھی ان حلقوں میںنہیں پہنچ پاتیں اور یوں خود مولانا وحید الدین کا اپنا اسلوبِ تحریر ان کی دعوت کے فروغ کے راستے میں رکاوٹ بن گیاہے۔ اگر ہم مولانا وحید الدین کی ایسی تحریروں کے اقتباسات نقل کریں تو یہ مضمون غیر معمولی طورپر طویل ہوجائے گا…صرف ایک اقتباس یہاں درج کیا جارہا ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کا قلم زورِ تنقید کے کیا نمونے پیش کرتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن زبیر نے یزید بن معاویہ کے عہد میںجو طرزِ عمل اختیار کیا، وہ مولانا کے تصور دین کے مطابق، چونکہ درست نہیں تھا، اس لیے دیکھیے کہ وہ ان کا اور ان کی والدہ کا ذکر کیسے کرتے ہیں:
’’میں اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے ایک سے زیادہ ایسے افراد کو جانتا ہوں جو کم عمری میں ماں کی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی پوری زندگی بربادی کا نشان بن گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ماں کے روپ میں عورت کا رول انسانی زندگی میں بہت زیادہ ہے۔ عبد اللہ بن زبیر کی ماں (اسما) نے ان کو ایک بڑے اقدام پر ابھارا۔ چنانچہ ایک شخص جو اقدام کا ارادہ چھوڑ چکا تھا، وہ دوبارہ اقدام کے لیے آمادہ ہوگیا۔ شہنشاہِ اکبر کی ماں (مریم مکانی) نے اکبر کو ملا عبدالنبی کے خلاف کارروائی سے روکا۔ چنانچہ اکبر ان کے خلاف سخت کارروائی سے باز رہا، وغیرہ وغیرہ۔
راقم الحروف اگر بچپن میںماں سے محروم ہوجاتا یا اگر مجھ کو ایسی ماں ملتی جو مجھے اپنے ’’دشمنوں‘‘ کے خلاف لڑنے جھگڑنے پر اُکساتی رہتی تو یقینی طورپر میری زندگی کا رخ دوسرا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ایسے انجام سے بچایا اور مجھ کواپنی ایک صداقت کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔‘‘
مولانا وحید الدین کے نزدیک صحابہ پر تنقید کرنا جائز نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ عبد اللہ ابن زبیر پر تنقید نہیں؟ کیا یہ حضرت اسما بنت ابی بکر پر تنقیدنہیں…؟ ہم اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہیں کہ مولانا وحید الدین خاں کی رائے میںصحت کا امکان کتنا ہے، ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت اسما کا ذکر اس اسلوب میں اور اس تقابل کے ساتھ، کیا تنقید کا کوئی قابلِ تحسین اسلوب ہے؟‘‘ (ایک قاری الرسالہ، لاہور)
جواب
پاکستانی ماہنامہ کے مذکورہ مضمون میں جو بات کہی گئی ہے وہ بلاشبہہ غیر علمی بھی ہے اور غیر ذمہ دارانہ بھی۔ یہ اعتراض راقم الحروف کی کتاب (خاتونِ اسلام) کے ایک باب سے لیا گیا ہے۔کوئی بھی شخص اس باب کو غیر جانبدارانہ انداز سے پڑھے تو یقینا وہ جان لے گا کہ اس باب کا موضوع صحابہ یا صحابیہ کی روش پر تبصرہ نہیں ہے، جس کی ایک مثال ’’خلافت و ملوکیت‘‘ نامی کتاب ہے۔ میری کتاب کا موضوع اس کے برعکس صرف ایک مغربی پروپیگنڈہ کاجواب ہے۔ میں نے اس کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے خانہ نشین عورت بھی بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ جس کو مغربی لوگ صرف غیر خانہ نشین عورتوں کے لیے ممکن سمجھتے ہیں۔ اس نکتہ کو ثابت کرنے کے لئے میں نے کتاب میں تین خواتین کی مثالیں دی ہیںــــحضرت اسماء، مریم زمانی، زیب النساء۔
میری کتاب کی مذکورہ عبارت میں نعوذ باللہ کسی صحابی یا صحابیہ پر تنقید ہر گز نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ اس میں سادہ طور پر، تین خواتین کا، خاتون کی حیثیت سے رول بتایا گیا ہے۔ عبارت کے مدعا کے مطابق، اس مثال میں مذکورہ خاتون کا صحابیہ ہونا ایک اتفاقی امر ہے۔
بلاغت کا مسلّم اصول ہے کہ تمثیل کے طریقہ میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ پیش نظر مثال کا متعلق پہلو ہی مقصود ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ دیگر پہلو وہاں غیر متعلق قرار پاتے ہیں۔
In employing the method of anology, it should always be possible to show that the resemblances noted bear relevance on the point to be established whereas the differences are irrelevant. (I/337)
مذکورہ تنقید میں دو واضح غلطیاں کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ناقد نے اس علمی نکتہ کو ملحوظ نہیں رکھا کہ اس مثال میں حضرت اسماء کا نام صحابیہ کی حیثیت سے مراد نہیں ہے بلکہ دوسری دو خواتین کی طرح، ان کا نام بھی یہاں ایک خانہ نشین خاتون کی حیثیت سے مراد ہے۔ دوسری بات یہ کہ میری کتاب میں ان خواتین کا نام تنقید کے مقصد سے نہیں لایا گیا ہے بلکہ ان کے تعریفی کارنامہ کی حیثیت سے لایا گیا ہے۔ مذکورہ ناقد نے اپنے ایک ذہنی تخیل کو شامل کرکے غیر ضروری طور پر اس کو قابل اعتراض بنانے کی کوشش کی ہے۔ اور اس طرح انہوں نے ایک تعریفی حوالہ کو خلاف واقعہ طورپر تنقیدی حوالہ بنادیا ہے۔
سوال
ہندستان کی کئی یونیورسٹیوں میںاور باہر کی کچھ یونیورسٹیوں میںبھی اسلامک اسٹڈیز کے نام سے شعبے قائم ہیں۔ ہمارے مدارس میں بھی اسلام کے مطالعہ کا انتظام ہے۔ یہ دونوں ایک ہیں یا ان میںکوئی فرق ہے۔ سیکولر یونیورسٹیوں میں اور دینی مدارس میںاس اعتبار سے اگر کوئی فرق ہے تو وہ کیا ہے۔ (ندیم احمد سنابلی، دہلی)
جواب
سیکولر یونیورسٹیوں میں اسلام کے مطالعہ کا تصور اس سے مختلف ہے جو ہمارے دینی مدارس میں پایا جاتا ہے۔ دینی مدارس میںاسلام کا مطالعہ ایک مقدس الہامی مذہب کے طورپر کیا جاتاہے۔ جب کہ سیکولر یونیورسٹی میںاسلام یا کسی اور مذہب کا مطالعہ صرف اس لیے کیاجاتا ہے کہ وہ ایک تاریخی ظاہرہ یا ایک تاریخی واقعہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اصحاب مدارس کے مطالعہ کا طریقہ داخلی (subjective)ہے، اوراصحاب یونیورسٹی کا طریقہ خارجی (objective) ہے۔ اس کو ایک عملی مثال سے سمجھئے۔ مثلاً اسلام کے دور اول میںحسین ابن علی اور یزید ابن معاویہ کی فوجوں کے درمیان مسلح ٹکراؤ ہوا۔ یزید ابن معاویہ کی فوج نے حسین ابن علی کو شہیدکردیا۔ اس واقعہ کو اہل مدرسہ اس نظر سے دیکھیں گے کہ حسین ابن علی پیغمبر اسلام کے نواسے تھے اور پھر اسی جذباتی وابستگی کے تحت اپنی رائے قائم کریں گے۔ اس کے برعکس سیکولر ذہن کے لوگ اس کو سادہ طورپر صرف ایک تاریخی واقعہ کی حیثیت سے لیں گے اور بے لاگ خارجی معلومات کی روشنی میں اس کا اندازہ (assessment) کریں گے۔
اس فرق کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صاحب مدرسہ سارے معاملہ کو حسین کی معصومیت اور یزید کے ظلم کے نقطۂ نظر سے دیکھیں گے۔ اس کے برعکس یونیورسٹی کے لوگ خالص خارجی حقائق کی روشنی میںاس پر رائے قائم کریں گے۔ اس فرق کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اہل مدرسہ یہ کہیں گے کہ ’’یزید پلید کی فوجوں نے نواسۂ رسول کو مظلومانہ طورپر شہید کیا‘‘ اس کے برعکس دوسرا فریق یہ کہے گا کہ حسین ابن علی کے اقدام کی حیثیت دمشق کی خلافت کے نزدیک بغاوت کی تھی، اس لئے خلافتِ دمشق کی فوجوں نے حسین ابن علی کے خلاف جو اقدام کیا وہ وہی تھا جو ہر قائم شدہ حکومت کرتی ہے۔
سوال
اسلام چونکہ ایک دین فطرت ہے۔ اور رب العزت نے اس کو انسان کی طبیعت کے عین مطابق بنایا ہے۔ یہ دین باقی ماندہ ادیان پر غالب ہے۔ آپ متشددانہ طرز عمل کے خلاف ہیں۔ ایسی حالت میں چوری کرنے والے یا شراب پینے والے کو شرعی سزا کیسے دی جائے گی۔ (محمد ادریس ٹاک، کشمیر، پن 192 303 )
جواب
اسلام بلاشبہہ دین فطرت ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ادیان خلافِ فطرت تھے۔ اصل یہ ہے کہ اللہ کا بھیجا ہوا ہر دین فطرت کے مطابق ہی تھا مگر بعد کی تحریفات نے اس کو بدل دیا۔ اسلام اور دوسرے آسمانی مذاہب میں جو فرق ہے وہ افضل اور غیر افضل کا نہیں ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ پچھلے آسمانی مذاہب تبدیلیوں کی بنا پر غیر مستند ہوگئے۔ جب کہ اسلام آج بھی اپنی ابتدائی حالت پر باقی ہے۔
مجرم کو شرعی سزا دینا عوام کا کام نہیں۔ یہ ایک قائم شدہ حکومت کا کام ہے جوحالات پر مکمل کنٹرول رکھتی ہو۔ عوام کے لیے پُر امن تبلیغ واصلاح ہے، نہ کہ شرعی قوانین کو طاقت کے ذریعہ نافذ کرنا۔
واپس اوپر جائیں

خطوط

ایک قدیم خط
محترمہ صدیقہ آپا السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط ملا۔ میری لڑکی بنت الاسلام کا انتقال میری زندگی کا پہلا واقعہ ہے جب کہ میںنے موت کے منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ سانس اکھڑنا، آنکھ پتھرا جانا اورعالم نزع کی ہچکیاں یہ سب میرے لئے ابھی تک صرف الفاظ تھے جو میں نے کتابوں میں پڑھے تھے یا زبانوںسے سنے تھے۔ مگر اس مرتبہ بنت الاسلام کی موت میں ان الفاظ کو میںنے حقیقت بنتے ہوئے دیکھا۔جب آخر وقت ہوا تو پہلے اس کی آنکھیں اوپر کو چڑھ گئیں۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک شخص آخرت کی طرف جاتے ہوئے پیچھـے مڑ کر دنیا کو دیکھ رہا ہے۔ پھر اکھڑی اکھڑی سانسیں آنے لگیں جواس بات کی علامت تھی کہ جسم کا نظام اپنی صحیح حالت میں باقی نہیںرہا۔ اسی کے ساتھ اس کا بولنا بند ہوگیا۔ آخر میں ہچکی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی چراغ بجھنے کے وقت بھڑکنے لگتا ہے۔ یہ کیفیات چند گھنٹے تک باقی رہیں۔ بالآخر ۱۹؍ستمبر کو صبح آٹھ بجے ڈاکٹر کے کمرے میںاس کا انتقال ہوگیا۔ إنا للہ وإنا الیہ راجعون۔جس وقت میرے ساتھی محمد عبد الحئی صاحب اس کو کپڑے میں لپیٹ کر ڈاکٹر کے کمرے سے نکلے اور ہم رکشے میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوئے تو مجھے ایسا محسوس ہوا گویا دنیا کی بساط لپیٹ دی گئی ہے اور فرشتے تمام انسانی روحوں کو لے کر خدا کے دربار کی طرف چلے جارہے ہیں۔ میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے اور میں نے کہا خدایا، میرے لئے بھی یہی دن آنے والا ہے۔ اس دن سے پہلے تو مجھے بخش دے ورنہ میرا کوئی انجام نہیں ہوسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر نصیحت لینا چاہے تو صرف موت کا واقعہ اس کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہے۔ موت بچے کو بھی آتی ہے اور بڑے کو بھی۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ موت کا کوئی وقت نہیں۔ وہ عمر کے کسی بھی حصے میں آسکتی ہے۔ روس کے وزیر اعظم سٹالن اور امریکہ کے وزیر خارجہ ڈلیز بیمار ہو کر مرے اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی ایک سفر میںرات کو سوئی تو نیند ہی میں اس کا خاتمہ ہوگیا۔اس سے معلوم ہوا کہ موت کبھی خبر دار کرکے آتی ہے اور کبھی اچانک آجاتی ہے۔ اس کی زد سے نہ امیر بچ سکتا ہے اور نہ غریب اور نہ کسی قسم کا علاج اسے روک سکتا ہے۔ یہ حقیقت اگر آدمی کے سامنے ہو تو دنیا کے تمام ہنگامے اسے بے معنٰی نظر آنے لگـتے ہیں۔ دنیا میں عزت اور خوش حالی حاصل کرنے کے لئے انسانوں کی تمام دوڑ بالکل احمقانہ حرکت معلوم ہوتی ہے۔ کسی مسافر کی ٹرین سامنے کھڑی ہو اور وہ اس میں سوار ہونے کے بجائے پلیٹ فارم کی بینچ پر جگہ حاصل کرنے کے لئے کش مکش شروع کردے توہر آدمی اس کو بے وقوف کہے گا۔ مگر آج ساری دنیا اسی نادانی میں مبتلا ہے۔ ہر روز لاکھوں آدمی مرکر ہم کو یہ بتاتے ہیں کہ تمہاری زندگی آخرت کا ایک سفر ہے اس کے لئے تیاری کر لو۔ مگر انسان دنیا کی دلچسپیوں میں اور دنیا میں عزت ڈھونڈنے میں اتنا گم ہے، وہ دنیوی مسائل میں اس قدر الجھا ہوا ہے کہ اسے کچھ احساس نہیں رہتا۔ اسی حال میں آدمی زندگی گزارتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اسے موت آتی ہے تو اچانک اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ایک گڑھے میں لا کر گرادیا ہے۔
رام پور، ۳۰ ستمر ۱۹۶۱ء دعا گو وحید الدین
نوٹ : یہ یادگار خط مرحومہ صدیقہ خانم کے صاحبزادے مسٹر حسین احمد خاں (مقیم بمبئی) کے ذریعہ حاصل ہوا۔
ایک خط
برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۱۲ نومبر ۲۰۰۱ء کو ٹیلی فون پر آپ سے گفتگو ہوئی۔ ۱۲ نومبر ہی کو ہمدرد یونیورسٹی (نئی دہلی) میں ایک بڑا اجتماع ہوا۔ اس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے۔ یہ جلسہ صرف میری تقریر کے لئے ہوا تھا۔ اس میں بولنے کے لئے مجھ کو جو عنوان دیا گیا تھا وہ یہ تھا: جہاد کا تصور اسلام میں۔حاضرین کی اکثریت نے میری تقریر کو بہت پسند کیا۔
جلسہ میں کچھ مسلم نوجوان بھی تھے جو اپنے آپ کو اسلام پسند کہتے ہیں۔ ان مسلم نوجوانوں نے تقریر کے بعد بہت سے سوالات کئے، تقریباً پچیس سوالات۔ یہ سوالات زیادہ تر مخالفانہ انداز میں تھے۔ میں نے اللہ کی توفیق سے ہر سوال کا واضح اور مدلّل جواب دیا۔ آخر میں، بظاہر سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت، ایک نوجوان نے نہایت جوش کے ساتھ یہ سوال کیا۔’’ آپ کہتے ہیں کہ جہاد کے لئے تیاری ضروری ہے۔ یہ بتائیے کہ غزوۂ بدر میںکون سی تیاری تھی، جب کہ ایک ہزار مشرکین کا مقابلہ صرف تین سو تیرہ مسلمانوں نے کیا اور فتح حاصل کی‘‘۔ اس سوال کے فورًا بعد مذکورہ نوجوانوں نے فاتحانہ انداز میں پُر شور تالیاں بجائیں۔ شاید ان کا خیال تھا کہ یہ سوال ایک ایٹم بم ہے اور میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوگا۔
میں نے سنجیدگی کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا کہ غزوہ ٔ بدر کی تیاری تو اتنی بڑی تھی کہ اس کو سُپر تیاری کہا جاسکتا ہے۔ آپ قرآن میں سورہ الانفال کا پہلا رکوع پڑھیے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جب یہ اطلاع ملی کہ مسلح مشرکین ایک ہزار کی تعداد میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے آرہے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مقابلہ کے لئے نکلنے کا ارادہ کیا۔ مگر آپ کے اصحاب میں ایک فریق کا وہ حال تھا جس کو قرآن میں کار ھون سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ یہ بشارت دی کہ تم لوگ آگے بڑھو، ہم ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کریں گے۔
اس خدائی بشارت کے بعد لوگ آگے بڑھے اور بدرکے مقام پر اپنے مخالفوں کو شکست دی۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ مسلمان بدر سے کامیاب ہو کر مدینہ واپس ہوئے تو شہر کے لوگوں نے ان کو مبارک باد دی۔ اس کے جواب میں ایک بدری صحابی نے کہا، تم ہمیں کس چیز کی مبارک باد دیتے ہو۔ خدا کی قسم، ہم جن سے ملے وہ توگویا کہ قربانی کے بندھے ہوئے اونٹ تھے جن کو ہم نے ذبح کردیا۔ (سیرت ابن ہشام، الجزء الثانی، صفحہ ۲۸۶)
میں نے کہا کہ آج جو لوگ تیاری کے بغیر جہاد کے لئے بدر کا حوالہ دیتے ہیں، کیا ان کے پاس اس قسم کی کوئی بشارت خدا کی طرف سے آئی ہے۔ اگر آپ کو ایسی خدائی بشارت حاصل ہو تو بے شک آپ جہاد کیجئے ورنہ اپنے خود ساختہ جہاد کے لئے ہر گز بدر کا حوالہ نہ دیجئے۔
عجیب بات ہے کہ ہماری قوم ڈیڑھ سو سال سے اسی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ ۱۸۵۷ میں ہندستان کے جن علماء نے انگریزوں کے خلاف مسلح جہاد کیا اس وقت ایک عالم نے ان سے کہا تھا کہ آپ کے پاس کوئی تیاری نہیں ہے۔ ایسی حالت میں آپ کا طاقتور انگریز سے مسلح ٹکراؤ کرنا جائز نہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا ہمارے پاس اتنی بھی تیاری نہیں جتنی غزوہ ٔ بد ر کے موقع پر اس وقت کے اہل ایمان کو تھی۔ اسی غلط تصور کی بنا پر وہ لوگ انگریزوں سے لڑ گئے۔ اور زبردست نقصان اٹھا کر شکست کھائی۔
علمی اعتبار سے اس کا تجزیہ کیجئے تو یہ غلط تقابل (wrong comparison) کا ایک کیس ہے۔ بدر کے واقعہ کو یہ لوگ ایک ہزار اور ۳۱۳ کے درمیان ٹکراؤ کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اصل حقیقت کے اعتبار سے یہ خدائی فوج اور انسانی فوج کے درمیان ٹکراؤ کا معاملہ ہے۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ ان کے اندر صحتِ فکر (right thinking) کا کامل فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ غلطی کو وہ ڈیڑھ سو سال سے قولاً اور عملاً دہرا رہے ہیں ۔ ابھی تک وہ شعوری طورپر یہ معلوم نہ کرسکے کہ اس مدت میں بار بار پیش آنے والے ناکام جہاد کا سبب کیا ہے۔ وہ ہے جہاد کو جاننا، مگر فکر جہاد سے مکمل طورپر بے خبر رہنا۔
۱۴نومبر ۲۰۰۱ء دعا گو وحید الدین
ایک خط
برادر محترم عبدالسلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۱۳ مئی ۲۰۰۱ کو ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد یہ خط لکھ رہا ہوں۔ میرے ایک بھائی اے ایم خان ہیں۔ انہوں نے ۱۹۵۵ میں بنارس ہندو یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی، اب وہ فیض آباد میں رہتے ہیں۔ چند دن پہلے وہ دہلی آئے۔ ایک گفتگو کے دوران انہوں نے اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کیا۔
ہندویونیورسٹی میں ان کو لمڈی ہاسٹل (LIMDI Hostel) میں رکھاگیا۔ اس ہاسٹل کے ہر کمرے میں دو طالب علم کے رہنے کا انتظام تھا۔ ہمارے بھائی کا داخلہ ہوا تو وہاں کے وارڈن مسٹر وی ۔ پی پانڈے (V.P. Panday) نے کہا کہ تم مسلمان ہو۔ تم کو نماز اور قرآن پڑھنا ہوگا اس لئے میں تم کو ایک غیر مشترک کمرہ دیتا ہوں، تاکہ تم کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ یونیورسٹی کے قاعدہ کے مطابق، صرف مانیٹر کو تنہا اورغیر مشترک کمرہ دیا جاتا تھا۔ چنانچہ مسٹر پانڈے نے ہمارے بھائی کو مانیٹر بنا دیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں تو پڑھنے لکھنے والا آدمی ہوں، مانیٹری میں کیسے کروں گا۔ مسٹر پانڈے نے کہا تم کچھ مت کرنا،صرف رجسٹر پر دستخط کر دینا اور بس۔ بقیہ کام دوسرے لوگ کردیں گے۔چنانچہ ہمارے بھائی تعلیم کی پور ی مدت میںاس کمرہ میں غیر مشترک طورپر رہے۔
میرے بھائی نے بتایا کہ اس واقعہ کا ذکر انہوں نے یوپی کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے کیا۔ انہوں نے یہ بات سن کر میرے بھائی سے کہا کہ مسٹر خان، پانڈے نے نہایت ہوشیاری سے آپ کواچھوت بنا دیا۔
یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ یہی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا عام مزاج ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان اپنی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر منفی مزاج (negative mentality) کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان کو ہر واقعہ میں صرف منفی پہلو دکھائی دیتا ہے۔ حتیٰ کہ مثبت واقعات میں بھی وہ کوئی نہ کوئی منفی پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال اوپر کا واقعہ ہے۔
یہ زوال یافتہ قوم کا حال ہے۔ مگر جب کوئی قوم عروج کی حالت میں ہو تو اس کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس کو ہر واقعہ میں مثبت پہلو دکھائی دیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے ایجابی مزاج کی بنا پر اس قابل ہوجاتی ہے کہ وہ منفی واقعہ میں بھی مثبت پہلو دریافت کرلے۔
دور اول کے مسلمانوں کے اندر یہ صفت کامل طورپر موجود تھی۔ اس کی ایک تاریخی مثال یہ ہے کہ خلیفہ ٔ ثانی عمر فاروق کے زمانہ میں مسلم فوجیں ایران میں داخل ہوئیں۔ ان کے اقدامات اتنے کامیاب تھے کہ ایرانی فوجی اپنا حوصلہ کھو بیٹھے۔ وہ ان کے بارے میں کہنے لگے کہ دیواں آمدند، دیواں آمدند (دیو آگئے، دیو آگئے)۔ اس وقت ایرانی حکومت نے جنگ کو روک کر گفت وشنید (negotiation) کا سلسلہ شروع کیا۔ اس دوران مسلم فوج کے کئی وفد ایرانیوں سے ملے۔ آخری وفد عاصم بن عمرو کا تھا۔ انہوں نے شاہ ایران یزدگرد کے دربار میں پہنچ کر جس بے باکی کا مظاہرہ کیا اس سے شاہ ایران غصہ ہوگیا۔ اس نے حکم دیا کہ مٹی کاایک ٹوکرا لایا جائے۔ اس کے بعد اس نے صحابی کے سرپر مٹی کا یہ ٹوکرا رکھوایا اور حکم دیا کہ ان کو اسی حال میں شہر کے باہر نکال دو۔
صحابی اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر واپس روانہ ہوئے۔ وہ اسلامی فوج کے سردار سعد بن ابی وقاص کے خیمہ میں پہنچے اور مٹی کا ٹوکرا ان کے سامنے رکھ کر پورا قصہ بتایا۔
شاہ ایران کا یہ سلوک بلاشبہہ سخت اشتعال انگیز تھا۔ مگر حضرت سعد غصہ نہیں ہوئے۔ اس کے بجائے انہوں نے کہا کہ تم لوگوں کو خوش خبری ہو کیوں کہ خدا کی قسم انہوں نے اپنے ملک کی کنجیاں ہمارے حوالے کر دیں۔(مٹی کا ٹوکرا دینے سے انہوں نے یہ فال لیا کہ ایرانیوں نے خود ہی اپنا ملک ہمارے حوالہ کردیا ہے) البدایۃ والنہا یۃ ۷؍۳۸۔۳۹۔
اس تقابل سے واضح ہوتا ہے کہ زوال کی نفسیات اور عروج کی نفسیات میںکیا فرق ہے۔ زوال کی نفسیات میں مبتلا لوگ محرومی کے احساس میں جیتے ہیں، چنانچہ وہ ہر واقعہ سے منفی غذا لینے لگتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ عروج کی نفسیات میں جیتے ہوں، وہ ہر واقعہ سے مثبت غذ۱ لیتے ہیں۔ وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ انتہائی ناموافق حالات میں بھی موافق پہلو تلاش کرلیں، حتیٰ کہ اپنے minus کو بھی اپنے plus میں تبدیل کرلیں۔۱۴ مئی ۲۰۰۱ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں