Pages

Friday 1 July 2005

Al Risala | July 2005 (الرسالہ،جولائی)

2

- شخصیت کی تعمیر

6

- جیسا بونا ویسا کاٹنا

9

- اعترافِ خطا ایک نعمت

10

- سفر کا آغاز

11

- غصہ کا نقصان

12

- زندگی کے دو طریقے

13

- مسئلہ کا حل

14

- دو درجے

15

- برداشت کرنا واحد حل

16

- سب سے بڑی طاقت

17

- مسائل اور ان کا حل

18

- منفی پہلو میں مثبت پہلو

19

- خاندانی زندگی

20

- تحفہ کی نفسیات

21

- ایک نصیحت

22

- مثبت سوچ کی ضرورت

23

- غلط فہمی

24

- صبر کا فائدہ

25

- مشورہ کی اہمیت

26

- دو کشتی کی سواری

27

- آدھی کہانی

28

- نشانِ منزل

29

- سوال وجواب

41

- خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۰


شخصیت کی تعمیر

قرآن کی سورہ نمبر ۸۳ میں اہل تکذیب کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: کلا بل رانَ علی قلوبہم ما کانوا یکسبون(التطفیف ۱۴) یعنی ان کے دلوں پر اُن کے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔ اس آیت میں ایک نفسیاتی معاملہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ان لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے جو ضد اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس معاملہ کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ان المؤمن اذا أذنب کانت نکتۃ سوداء فی قلبہ فان تاب ونزع واستغفر صقل قلبہ وإن زاد زادت حتی یعلو قلبہ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، مسند احمد ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۷)۔ یعنی مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا دھبہ پڑ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرے اور اُس کو مٹادے اور استغفار کرے تو اس کا د ل دھبہ سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور اگر دھبہ میں مزید اضافہ ہو تو وہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔
یہ تمثیل کی زبان میں ایک نفسیاتی معاملہ کو بتایا گیا ہے۔ جب کوئی انسان برائی کرے اور پھر وہ جلد ہی متنبہ ہوجائے۔ وہ برائی کے احساس کو اپنے دل سے نکال ڈالے تواس کا دل پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ آدمی ایک کے بعد ایک برائی کرتا رہے۔ وہ اپنا محاسبہ کرکے اپنے دل سے اس کے اثرکو زائل نہ کرے تو دھیرے دھیرے اس کا پورا دل بے حسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اب وہ برائیوں ہی میں جینے لگتا ہے اور سچائی کی بات اس کو متاثر نہیں کرتی۔
جدید نفسیاتی مطالعہ نے اس معاملہ کو مزید واضح کیا ہے۔ اب یہ بات ایک پر اسرار عقیدہ نہیں رہی، بلکہ وہ ایک معلوم حقیقت بن گئی ہے۔ اب وہ خالص علمی اعتبار سے انسان کے لیے قابل فہم ہے۔
جدید نفسیاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کے دماغ کے تین بڑے حصے ہیں۔ یہ تینوں حصے ہر عورت اور ہر مرد کے دماغ میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پیدائشی طورپر ہر انسانی دماغ کا حصہ ہیں۔ وہ تین حصے یہ ہیں:
۱۔ شعوری ذہن (conscious mind)
۲۔ تحت شعور (sub-conscious mind)
۳۔ لاشعور(unconscious mind)
تجربہ و تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کوئی بھی خیال جب وہ ایک بار دماغ میں آجائے تو وہ ہمیشہ کے لیے انسانی دماغ کا حصہ بن جاتا ہے، اور جیسا کہ معلوم ہے، انسانی دماغ ہی در اصل انسانی شخصیت کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی خیال انسان کے دماغ میں آجائے تو وہ ہمیشہ کے لیے انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ اس کو اپنی شخصیت سے الگ کرنا چاہے تو وہ اس کو الگ کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔
جب کوئی بات انسان کے دماغ میں آتی ہے، خواہ وہ منفی ہو یا مثبت تو وہ سب سے پہلے دماغ کے شعوری حصہ میں آتی ہے۔اس کو زندہ حافظہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد آدمی جب رات کو سوتا ہے تو فطری عمل کے تحت اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ وہ بات شعوری ذہن سے چل کر ذہن کے تحت الشعور حصہ میںپہنچ جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس کے خیال کے اوپر آدمی کا شعوری کنٹرول صرف پچاس فیصد رہ جاتا ہے۔ پچاس فیصد وہ اس کے شعوری کنٹرول سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ اگلی رات کو سوتا ہے تویہ خیال مزید سفر کرکے ذہن کے لاشعور حصہ میں پہنچ جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس کے بعد یہ خیال اس کے شعوری کنٹرول سے پوری طرح باہر ہو جاتا ہے۔
انسانی ذہن کے یہ تینوں حصے شعور کے اعتبار سے ذہن کی تین حالتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مگر جہاں تک انسانی شخصیت کا تعلق ہے، وہ ہر حال میں یکساں طورپر اُس کا معمول بنی رہتی ہے۔ کوئی خیال جب تک زندہ حافظہ میں ہو تو وہ انسانی شخصیت کا معلوم حصہ ہوتا ہے۔ مگر جب وہ تحت شعور میں پہنچ جائے تو اگر چہ اب بھی وہ مکمل طورپر انسانی شخصیت کا حصہ ہوتا ہے مگر عام حالات میں وہ انسان کے علم میں تازہ نہیں ہوتا۔
یہی روز مرہ کے افکار جو انسان کے ذہن میں آتے ہیں وہی اس کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ جیسے افکار ویسی شخصیت۔ مثبت افکار سے مثبت شخصیت بنے گی۔ لیکن اگر یہ افکار منفی افکار ہوں تو انسان کی شخصیت بھی منفی بنتی چلی جائے گی۔
آج کل یہ حال ہے کہ آپ جس عورت یا مرد سے ملئے ہر ایک کو آپ منفی سوچ میں مبتلا پائیں گے۔ اگر کوئی شخص بظاہر باتیں کرتا ہوا نظر آئے تب بھی اس کی یہ بات صرف اوپری طور پر ہوگی۔ اگر آپ مزید گفتگو کرکے اس کی اندرونی شخصیت کو جاننے کی کوشش کریں تو آپ پائیں گے کہ اس کی اندرونی شخصیت بھی اُتنی ہی منفی تھی جتنی کہ دوسروں کی شخصیت۔ اس طرح موجودہ زمانہ کا ہر آدمی اپنے آپ کو منفی قبرستان میں دفن کیے ہوئے ہے، اگر چہ اس کو خود بھی اس ہلاکت خیز واقعہ کی خبر نہیں۔ اس میں غالباً مذہبی انسان اور سیکولر انسان میں کوئی فرق نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سب سے بُری شخصیت منفی شخصیت ہے اور سب سے زیادہ اچھی شخصیت وہ ہے جو مثبت شخصیت ہو۔ ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ مثبت شخصیت کی تعمیر کس طرح کی جائے۔ مذکورہ اسلامی تعلیم اور مذکورہ نفسیاتی تحقیق دونوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو اس کی ایک واضح عملی صورت بنتی ہے۔ اس کو یہاں درج کیا جاتا ہے ۔
اس عمل کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی منفی خیال آدمی کے ذہن میں آجائے تو وہ اس کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردے۔ خصوصی تدبیر کے ذریعہ اُس کے منفی پہلو کو مثبت پہلو میں تبدیل کرلے۔ مثلاً وہ غصہ کو فوراً معاف کردے تاکہ اس کا غصہ انتقام کی صورت اختیار نہ کرنے پائے۔ کسی کی ترقی اُس کو پسند نہ آئے تو اُسی وقت وہ اس کو نظر انداز کردے تاکہ وہ اس کی شخصیت میں حسد بن کر شامل نہ ہوسکے، وغیرہ۔
ہر بُرے خیال کے ساتھ فوراً ہی تبدیلی کا یہ عمل کرنا چاہیے۔ اگر اس میں دیر ہوئی تو جلد ہی ایسا ہوگا کہ وہ آدمی کے تحت شعور میں چلا جائے گا۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ اس کے لاشعور میں داخل ہوجائے گا۔ اور جب ایسا ہوگا تو وہ آدمی کی شخصیت کا اس طرح لازمی حصہ بن جائے گا کہ آدمی چاہے بھی تو وہ اس کو اپنے سے جُدا نہ کرسکے۔
لوگ عام طورپر ایسا نہیں کرتے اور اس کی یہ بھیانک قیمت ادا کر رہے ہیں کہ ہر ایک خوبصورت کپڑوں کے پیچھے ایک منفی شخصیت کی لاش لیے ہوتا ہے۔ منفی شخصیت دراصل جہنمی شخصیت ہے۔ جو عورت یا مرد اس ہلاکت خیز انجام سے بچنا چاہتے ہوں ان کو چاہیے کہ وہ مذکورہ عمل تصحیح کو اپنی روزانہ کی زندگی میں شامل کرلیں۔ اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی اور حل موجود نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جیسا بونا ویسا کاٹنا

انسان کی زندگی دو دوروں میں تقسیم ہے۔ قبل از موت دور (pre-death period) اور بعد ازموت دور (post-death period) ۔ موت سے پہلے کا محدود دور ٹسٹ کے لیے ہے اور موت کے بعد کا ابدی دور ٹسٹ کے مطابق اچھا یا برا انجام پانے کے لیے۔ ٹسٹ میں پورا اترنے والوں کے لیے جنت ہے اور ٹسٹ میں فیل ہونے والوں کے لیے جہنم۔
خالق کے مطابق، یہی اس دنیا کے لیے تخلیق کا نقشہ ہے۔ مگر جنت اور جہنم دونوں کی نوعیت یکساں نہیں۔ تخلیق کا اصل مقصود اہل جنت ہیں۔ جہاں تک اہل جہنم کا تعلق ہے، وہ تخلیق کا صرف اضافی جزء ہیں، وہ اس کا حقیقی جزء نہیں۔ اہل جہنم کا اصل رول یہ ہے کہ وہ اُس ماحول کو بناتے ہیں جس میں لوگوں کا ٹسٹ لیا جاسکے اور اس کے مطابق اہل جنت کا سلیکشن ہوسکے۔
موت سے پہلے کی دنیا ٹسٹ کے تقاضوں کے مطابق بنائی گئی ہے۔ ٹسٹ کی مدت پور ی ہونے کے بعد نہ اس دنیا کی ضرورت رہے گی اور نہ اس ٹسٹ میں فیل ہوجانے والوں کی۔ اس مدت کے پورا ہونے کے بعد کائنات میں صرف جنت باقی رہے گی اور وہ لوگ جو جنت کی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے لیے منتخب کئے گئے ہوں۔
اس تخلیقی اسکیم سے لوگوں کو باخبر کرنے کے لیے خالق نے مختلف انتظامات کئے ہیں۔ پہلا انتظام یہ کہ خود انسان کی فطرت میںاس کا گہرا شعور رکھ دیا گیا ہے۔ہر انسان کا یہ تجربہ ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کو کامل تسکین نہیں ملتی۔یہاں نہ غریب آدمی اپنی مطلوب تسکین حاصل کرتا ہے اور نہ امیر آدمی۔ یہاں نہ کمزور آدمی کو اطمینان حاصل ہوتا ہے اور نہ طاقت ور آدمی کو۔ یہاں ہر آدمی بے تسکینی کی حالت میں جیتا ہے اور تھوڑے دنوں کے بعد اسی حال میں مرجاتا ہے۔ یہ عمومی بے تسکینی کی حالت ہر عورت اور مرد کو یاد دلاتی ہے کہ تمہاری منزل کوئی اور ہے۔ تمہاری مطلوب دنیا قبل از موت دورِ حیات میں موجود نہیں۔ اس لیے اس کو بعد از موت دور حیات میں حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
اس تخلیقی نقشہ سے باخبر کرنے کے لیے خالق نے بہت سے انتظامات اس دنیا میں کئے ہیں۔ مثلاً موجودہ دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں کوئی آرام کی زندگی نہ پاسکے۔ یہاں مسائل ہیں، یہاں بیماری ہے، یہاں حادثات ہیں، یہاں بورڈم ہے، یہاں طرح طرح کے نقصانات ہیں اور پھر تھوڑی مدت کے بعد اچانک مرجانا ہے۔ اس طرح دنیا کے ناموافق حالات بار بار آدمی کو یہ یادد لاتے رہتے ہیں کہ تم اپنی مطلوب دنیا یہاں نہیں بنا سکتے۔ یہ دنیا تمہاری تمناؤں کی تکمیل کے لیے فیصلہ کن طورپر ناکافی ہے۔ یہ ناموافق صورت حال آدمی کو مسلسل حقیقت کی تلاش پر مجبور کرتی ہے۔
اسی طرح موجودہ دنیا میں بہت سے لوگ مصیبت (suffering) میں مبتلا ہو کر لوگوں کے لیے نمونۂ عبرت بن جاتے ہیں۔ ایک شخص مفلوج ہو کر وھیل چیر پر جی رہا ہے، یا کسی لا علاج بیماری میں مبتلا ہو کر زندگی کی کشش کھو دیتا ہے۔ اس طرح کے مختلف لوگ گویا خالق کی طرف سے نشان منزل (sign post) کا کام کررہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ موجودہ دنیا کی زندگی کتنی بے حقیقت ہے۔ ایسے لوگ گویا خاموش زبان میں بتا رہے ہیں کہ انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خود سے اپنی مرضی کی دنیا اپنے لیے بنا سکے۔
حالات کے کورس میں جن لوگوں کو اس طرح سائن پوسٹ کا رول اداکرنے کا موقع ملے وہ لوگ اگر چہ بظاہر مصیبت میں دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے لیے ایک بہت بڑی خوش خبری ہے۔ موت کے بعد آنے والے فیصلہ کے دن ان سے چھوٹے عمل کو قبول کرلیا جائے گا۔ اپنی مصیبت کی بنا پر وہ جسمانی اعتبار سے اس قابل نہیں تھے کہ وہ کوئی بڑا عمل کرسکیں۔ اس بنا پر ان کے لیے صرف یہی کافی ہوجائے گا کہ وہ اپنے اس رول پر راضی ہوجائیں جو سائن پوسٹ کی حیثیت سے ان کے لیے مقدر ہوا تھا۔ وہ جس مصیبت میں مبتلا ہوئے ہیں اس پر صبرکرلیں۔ صبر اور رضا مندی ہی کی بنا پر کسی مزید عمل کے بغیر ان کو جنت میں داخلہ مل جائے گا۔
اسی کے ساتھ زندگی کی اس حقیقت کا لفظی اعلان پیغمبروں کے ذریعہ کیا گیا ہے۔ پیغمبروں نے بتایاہے کہ موت سے پہلے کے دور حیات میں تم اپنی پسند کی دنیا نہیں بنا سکتے۔ یہاں تم اچھے عمل کرو تاکہ بعد ازموت دور حیات میں تم اپنی پسند کی دنیا پاسکو۔ جنت اگلی دنیا میں بنے گی، لیکن جنتی انسان آج ہی کی دنیا میں بن رہا ہے۔
جنت کیا ہے۔ موجودہ دنیا کو دیکھ کر جنت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ دنیا ایک اعتبار سے گویا جنت کا تعارف ہے۔ یہ جنت کا ایک بہت چھوٹا نمونہ ہے۔ جنت در اصل موجودہ دنیا کا تکمیلی ایڈیشن ہے۔ موجودہ دنیا میں جو نعمتیں ہیں وہی تمام نعمتیں جنت میں بھی ہیں ، فرق یہ ہے کہ موجودہ دنیا ناقص ہے اور جنت اس کے مقابلہ میں کامل۔ موجودہ دنیا غیر معیاری ہے اور جنت کی دنیا معیاری۔ موجودہ دنیا فانی ہے اور جنت کی دنیا ابدی۔ موجودہ دنیا میں خوف اور حزن ہے، یہاں شور اور تکلیف ہے جبکہ جنت وہ جگہ ہے جہاں نہ خوف ہوگا اور نہ حزن، جہاں نہ شور ہوگا اور نہ ہی تکلیف۔ موجودہ دنیا محدود یت اور ڈس ایڈوانٹج سے بھری ہوگی۔ جب کہ جنت وہ جگہ ہے جہاں نہ محدودیت ہوگی اور نہ کسی قسم کا ڈس ایڈوانٹج۔ جنت میں انسان کو فل فلمنٹ حاصل ہوگا جب کہ موجودہ دنیا میں کسی کو بھی فلفلمنٹ حاصل نہیں ہوتا۔
جہنم وہ جگہ ہے جو اس کے بالکل برعکس ہوگی۔ جہنم کی دنیا میں وہ تمام تکلیفیں مزید اضافہ کے ساتھ جمع کردی جائیں گی جن کا تجربہ ہم موجودہ دنیا میں کرتے ہیں۔
موت سے پہلے کا دوراور موت کے بعد کا دور، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ دونوں کے درمیان وہی نسبت ہے جو بونے اور فصل کاٹنے میں ہوتی ہے۔ موت سے پہلے کا زمانہ گویا بونے کا زمانہ ہے، اور موت کے بعد کا زمانہ گویا فصل کاٹنے کا زمانہ۔ جیسا بونا ویسا کاٹنا، یہ ایک ابدی اُصول ہے۔ یہ اُصول بعد ازموت دور حیات پر بھی اتنا ہی منطبق ہوتا ہے جتنا کہ قبل ازموت دورِ حیات پر۔
واپس اوپر جائیں

اعترافِ خطا ایک نعمت

انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل بنی آدم خطّاء و خیر الخطائین التوّابون (الترمذی، کتاب القیامۃ، ابن ماجہ، کتاب الزہد، الدارمی، کتاب الرقاق، مسند احمد، مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث ۲۳۴۱) یعنی ہر انسان غلطی کرتا ہے اور سب سے بہتر غلطی کرنے والا وہ ہے جو اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کرلے۔
غلطی کرنے کے بعد اُس سے لوٹنا یا غلطی کا اعتراف کرنا احتساب خویش (introspection) کا معاملہ ہے۔ غلطی کا اعتراف کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اپنی اصلاح آپ کا عمل ہے۔ جس آدمی کے اندر یہ ذہنی جرأت ہو کہ وہ غلطی کرنے کے بعد فوراً اس کا اعتراف کرلے۔ اس کو دوسرے فائدوں کے ساتھ یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ اس کی فکر میں وضوح آتارہتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ زیادہ واضح انداز میں رائے قائم کرے اور زیادہ واضح انداز میں معاملات کا تجزیہ کرسکے۔
ایک آدمی ایک غلط بات کہتا ہے۔ بعد کو معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی کہی ہوئی بات غلط تھی۔ اب اس آدمی کے لیے دو میں سے ایک کا اختیار ہے۔ ایک یہ کہ وہ غلطی واضح ہونے کے بعد بھی اس کا اعتراف نہ کرے۔ ایسے آدمی کے ذہن میں صحیح اور غلط دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ملے رہیںگے۔ لیکن جب آدمی یہ جرأت کرے کہ غلطی واضح ہونے کے بعد وہ کہہ دے کہ میں غلطی پر تھا تو اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں صحیح اور غلط دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔ وہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط صورت میں دیکھنے لگتا ہے۔فکری انتشار (confused thinking) بہت بڑی برائی ہے۔ یہ بُرائی کسی کے اندر در اصل غلطی کے عدم اعتراف سے پیداہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحیح کو غلط سے نہ چھاٹنے کی کوتاہی کا نتیجہ ہی وہ چیز ہے جس کو ذہنی انتشار کہا جاتا ہے:
Confusion is the result of our failure to sort out the right from the wrong.
واپس اوپر جائیں

سفر کا آغاز

سفر کا آغازہمیشہ آج سے ہوتا ہے لیکن اکثر لوگ اپنے سفر کا آغاز کل سے کرنا چاہتے ہیں۔ یہی مزاج ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ اکثر لوگ غیر مطمئن زندگی گزار کر مرجاتے ہیں۔ وہ اپنا نشانہ پورا کئے بغیر موجودہ دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
ہر آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو پیدا ہوتے ہی اس کو کچھ حالات ملتے ہیں۔ اگر بالفرض خارجی طورپر اس کو کچھ چیزیں نہ ملیں تب بھی اس کا اپنا وجود اس کو یقینی طور پر حاصل رہتا ہے۔ زندگی کے سفر کا سب سے زیادہ کامیاب آغاز یہ ہے کہ آدمی جہاں ہے وہیں سے وہ اپنا سفر شروع کردے۔ وہ حاصل شدہ مواقع کو استعمال کرکے اپنی دنیا بنائے۔ وہ ایسا نہ کرے کہ جو چیز اس کو ابھی نہیں ملی ہے اس کو پانے کے لیے اپنی ساری توجہ لگا دے۔ اس طریقہ کو ایک لفظ میں پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم(positive status quoism) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ کر حالات موجودہ کو قبول کرلینا اور بروقت جو مواقع (opportunities) موجود ہیں ان کو استعمال کرکے پر امن انداز میں اپنی زندگی کی تعمیر کرنا۔
پیدا ہونے کے بعد آدمی کو بروقت جوکچھ ملا ہوا ہوتا ہے وہ اس کو اپنے حوصلہ کے مقابلہ میں کم معلوم ہوتا ہے۔ وہ چاہنے لگتا ہے کہ پہلے زیادہ حاصل کرے اور اس کے بعد زندگی کی مثبت تعمیر کی طرف بڑھے۔ مگر یہ سوچ غیر فطری ہے۔ صحیح یہ ہے کہ ملے ہوئے کو مواقع کی نظر سے دیکھا جائے اور اس کو لے کر فوراً ہی زندگی کی مثبت تعمیر شروع کردی جائے۔
حاصل شدہ نقشۂ کار کے اندر مثبت جدوجہد کرنے کا نام پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم ہے۔ یہی کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ جو لوگ حاصل شدہ نقشۂ کار کو ناکافی سمجھ کر نئے نقشۂ کار کی طرف دوڑیں ان کے لیے اس دنیا میں تباہی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں۔
زندگی کی جدوجہد ہمیشہ ملے ہوئے سے ہوتی ہے۔ جو لوگ نہ ملے ہوئے سے زندگی کی جدوجہد شروع کرنا چاہیں وہ یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ ان کی جدوجہد کبھی شروع ہی نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

غصہ کا نقصان

اگر تاریخ کے تمام واقعات کو اکھٹا کیا جائے اور دیکھا جائے کہ جو کام بگڑا وہ کس لیے بگڑا، اور جو کام بنا وہ کس لیے بنا۔ اس کا جواب یقینی طور پر یہ ملے گا کہ جو کام بگڑے ان سب کے پیچھے غصہ اور نفرت کا عنصر موجود تھا۔ اس کے مقابلہ میں جو کام بنے ان سب کے پیچھے اعتدال پسندی اور عفو ودرگزر کا عنصر پایا جاتا تھا۔
جب کسی آدمی کو غصہ آتا ہے تو اس کے اندر نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ اس کے اندر منفی نفسیات اُبھر آتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے فطری ذہن کے تحت سوچ نہیں پاتا۔ وہ غیر فطری انداز میں سوچتا ہے اور غیر فطری فیصلہ کرتا ہے۔ اور یہ ایک مسلّم بات ہے کہ فطرت کے راستہ سے ہٹ کر جو کام کیا جائے اس کا ناکام ہونا یقینی ہے۔
اس کے برعکس جب ایسا ہو کہ آدمی کو غصہ آئے تو وہ اپنے آپ کو سنبھال لے۔ وہ اپنی عقل کی صلاحیت کو معتدل انداز میں استعمال کرے۔ ایسا کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی سوچ فطرت کے دائرہ میں رہتی ہے۔ وہ اپنے عمل کا جو منصوبہ بناتا ہے وہ فطرت کے اصول کے مطابق ہوتا ہے۔ اس بنا پر فطرت کا پورا نظام اس کی موافقت پر آجاتا ہے۔ اور جس آدمی کو فطرت کے نظام کی موافقت حاصل ہوجائے اس کی کامیابی اُتنی ہی یقینی ہے جتنا کہ رات کے بعد روشن صبح کا آنا۔
غصہ ایک آگ ہے۔ صبر و تحمل اس آگ کو بجھادینے والا ہے۔ غصہ اگر روکا نہ جائے تو وہ نفرت اور تشدد پیدا کرتا ہے اور نفرت اور تشدد ایک ایسی برائی ہے جس سے زیادہ بڑی برائی شاید اور کوئی نہیں۔ صبر و تحمل کے ذریعہ اعلیٰ انسانی شخصیت بنتی ہے۔ اور بے صبری اور عدم برداشت انسان کو اخلاقی پستی میں گرادینے والی ہے۔
غصہ منفی ذہن پیدا کرتا ہے اور غصہ دلانے کے باوجود غصہ نہ ہونا مثبت ذہن کی تشکیل کرتاہے۔ مثبت سوچ اعلیٰ انسانیت کی پہچان ہے، اور منفی سوچ پست انسانیت کی پہچان۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کے دو طریقے

دنیا میں زندگی گذارنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کسی قائم شدہ نظام سے اپنے آپ کو وابستہ کرلے۔ مثلاً وہ کسی کمپنی کا ملازم بن جائے یا حکومت میں کوئی سروس حاصل کرلے یا کسی بڑے ادارہ کا کارکن بن جائے، وغیرہ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی خود اپنی سوچ کے تحت ایک کام شروع کرے۔ وہ خود اپنے نقشہ کے مطابق، دنیا میں جینا چاہے۔ دونوں ہی کی ایک قیمت ہے اور کوئی آدمی اُسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب کہ وہ اس کی قیمت ادا کرے، خواہ وہ کسی رائج نظام کا معاملہ ہو یا خود اپنے سوچے ہوئے نقشہ کا معاملہ ۔قائم شدہ نقشہ کامعاملہ یہ ہے کہ اس میں آدمی کو بہت جلد سہولت کی ایک زندگی حاصل ہوجاتی ہے۔مگر اس کی قیمت یہ ہے کہ آدمی کا ذہنی ارتقاء رُک جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اپنے نقشہ پر چلنے پر بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک چیلنج بھرا راستہ ہے۔ مگر اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس میںآدمی کو وہ فکری نعمت حاصل ہوتی ہے جس کو ذہنی ارتقاء (intellectual development) کہا جاتا ہے۔
زندگی کے یہ دونوں طریقے درست طریقے ہیں۔ آدمی دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرسکتا ہے۔ البتہ آدمی کو جاننا چاہیے کہ دونوں ہی طریقوں میں ایسا ہے کہ وہ ایک چیز کو پائے گا مگر وہ دوسری چیز کو کھو دے گا۔چیلنج سے خالی راستہ میں مادی سہولت ملے گی، مگر وہاں ذہنی ارتقاء کا فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ اس کے مقابلہ میں چیلنج والی زندگی میں ذہنی ارتقاء حاصل ہوگا لیکن مادی سہولت کے حصول کا معاملہ غیر یقینی ہوجائے گا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے جس راستہ کو اختیار کرے، یہ سمجھ کر اختیار کرے کہ ا س میں وہ کیا کھوئے گا اور کیا پائے گا۔ کیا چیز اس کو ملے گی اور کیا چیز اُس کو نہیں ملے گی۔ یہی حقیقت پسندی ہے اور یہی اس دنیا میں پُرسکون زندگی حاصل کرنے کا کامیاب اُصول بھی۔ہر ترقی کی ایک قیمت ہے اور کوئی ترقی وہی شخص پاتا ہے جو اس کی قیمت ادا کرے۔
واپس اوپر جائیں

مسئلہ کا حل

اکثر لوگ منفی نفسیات میں جیتے ہیں۔ وہ مسائل کے حوالہ سے شکایت کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کوئی ایسا نسخہ دریافت کرلیں جو مسائل کو ختم کرنے والا ہو۔ تاکہ انہیں سکون کی زندگی حاصل ہوسکے۔ یہ ذہن فطرت کے قانون کے خلاف ہے، اور جو چیز فطرت کے خلاف ہو وہ کبھی حاصل ہونے والی نہیں۔
مسائل زندگی کا حصہ ہیں، وہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ مسئلہ کا حل مسئلہ کے ساتھ جینا ہے، نہ کہ مسئلہ کو ختم کرکے بے مسئلہ زندگی حاصل کرنا۔ کوئی چیز اُسی وقت تک مسئلہ نظر آتی ہے جب کہ اس کو مسئلہ سمجھا جائے۔ اگر مسئلہ کو زندگی کا لازمی حصہ سمجھ لیا جائے تو اس کے بعد مسئلہ معمول کی چیز بن جائے گا، وہ پریشان کن مسئلہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں بے مسئلہ زندگی اوربا مسئلہ زندگی کے درمیان انتخاب نہیں ہے بلکہ یہاں انسان کے لیے صرف ایک ہی انتخاب ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ بامسئلہ زندگی کو معمول کی چیز سمجھ کر اس پر راضی ہو جائے۔ مسئلہ کے بارے میں وہ اپنی منفی سوچ کو ختم کردے۔
مسئلہ کیا ہے۔ مسئلہ در اصل اجتماعی زندگی کی قیمت ہے۔ انسان اکیلا نہیں رہ سکتا۔ وہ اپنی ساخت کے اعتبار سے مجبور ہے کہ اجتماعی زندگی گذارے اور جب بھی وہ اجتماعی زندگی میں رہے گا تو اس کے ساتھ مسائل بھی ضرور پیش آئیں گے۔ انفرادی زندگی بے مسئلہ زندگی ہوسکتی ہے۔ مگر انفرادی زندگی گذارنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ انسانی تقاضے صرف اجتماعی زندگی میں پورے ہوسکتے ہیں۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کو اجتماعی زندگی کے لازمی جزء کی حیثیت سے قبول کرے۔
مسئلہ زندگی کی سرگرمیوں سے جڑا ہوا ہے۔جہاں سرگرمیاں ہوں گی وہاں مسائل بھی لازمی طورپر پائے جائیں گے۔ مسئلہ کو مسئلہ نہ سمجھنا ہی مسئلہ کا واحد یقینی حل ہے۔مسئلہ کا حل ہمیشہ آدمی کے ذہن میں ہوتا ہے نہ کہ اس کے باہر۔
واپس اوپر جائیں

دو درجے

زندگی میں کامیابی کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے اوسط درجہ کی کامیابی۔ اور دوسرا ہے اعلیٰ درجہ کی کامیابی۔ اس دنیا میں دو نوں ہی ممکن ہے۔ مگر دونوں کی شرطیں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے—چھوٹی کوشش چھوٹی کامیابی، بڑی کوشش بڑی کامیابی۔
جہاں تک چھوٹی کامیابی یا اوسط درجہ کی کامیابی کا معاملہ ہے وہ ہر شخص حاصل کرلیتا ہے۔ ہر آدمی کے حالات اس کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضرورت پورا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرے۔ اس طرح ضرورت کے تقاضے کے تحت ہر آدمی کوئی نہ کوئی کام کرلیتا ہے۔ خواہ وہ سروس ہو یاکوئی آزاد تجارت۔
مگر بڑی کامیابی زیادہ بڑی کوشش سے ملتی ہے۔ بڑی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر بڑی سوچ ہو۔ وہ زیادہ معلومات رکھتا ہو۔ وہ منصوبہ بندی کے اصول کو اختیار کرے۔ اس کے اندر بلند اخلاقی صفات ہوں۔ وہ صبر و تحمل کے ساتھ کام کرنا جانتا ہو۔ اس کے معاملات معلوم اصول کی بنیاد پر قائم ہوں۔ وہ لوگوں کے اندر بے ضرر اور نفع بخش بن کررہے۔
اس دنیا میں ہر چیز کی ایک قیمت ہے۔ اسی طرح کامیابی کی بھی ایک قیمت ہے۔ جو شخص بڑی کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو جاننا چاہیے کہ بڑی کامیابی حاصل کرنے کے لیے اس کو بڑی قیمت بھی دینی پڑے گی۔ چھوٹی قیمت دے کر بڑی کامیابی حاصل کرنا اس دنیا میں ممکن نہیں۔
بڑی کامیابی کا مطلب ہے، دنیا سے زیادہ لینا۔ فطرت کا اصول ہے کہ جو شخص دنیا سے زیادہ لینا چاہتا ہو اس کو اپنی طرف سے بھی زیادہ دینا پڑے گا۔ اس دنیا میں کسی کو بھی دیے بغیر کچھ نہیں مل سکتا۔ کامیابی ایک دو طرفہ عمل ہے۔ وہ کسی کے لیے بھی یک طرفہ عمل نہیں۔
کامیابی کے دو درجے ہیں اور دونوں ہی درجے اہم ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس معاملہ میں باشعور ہو۔ اس کے بعد اس کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

برداشت کرنا واحد حل

زندگی ناقابل برداشت کو برداشت کرنے کا دوسرا نام ہے۔ زندگی مسائل اور مصائب کا مجموعہ ہے۔ زندگی کا سفر ہمیشہ محرومیوں کے درمیان طے ہوتا ہے۔ ہر آدمی مجبور ہے کہ وہ ناخوشگوار یادوں کے درمیان زندگی گزارے۔ یہ صورت حال ہر ایک کے لیے ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔ خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، خواہ وہ با اختیار ہو یا بے اختیار۔ یہ ایک ایسا کلیہ ہے جس میں کوئی استثناء نہیں۔
ایسی حالت میں پر اطمینان زندگی کا فارمولا کیا ہے۔ وہ فارمولا صرف ایک ہے۔ تلخ یادوں کو ذہن سے نکالتے رہنا۔ ماضی اور حال کو بھلا کر مستقبل پر نظر رکھنا۔ جو ملا اس پر مطمئن رہنا اور جو نہیں ملا اس کے بارے میں یہ سمجھ لینا کہ وہ ملنے والا ہی نہ تھا۔
دنیا میں کوئی شخص اکیلا نہیں۔ ہر انسان مجبور ہے کہ وہ ایک بڑے انسانی مجموعے میں زندگی گزارے۔ یہی اجتماعیت زندگی کے تمام مسئلے پیدا کرتی ہے۔ ایسی حالت میں خود مسئلہ کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ جو چیز ممکن ہے وہ صرف یہ کہ مسائل کے ساتھ جینے کا فن سیکھا جائے۔
فطرت نے انسان کو جو صلاحیتیں دی ہیں ان میں سے ایک صلاحیت وہ ہے جس کو بھلانا یا فراموش کرنا کہا جاتا ہے۔ انسان جب کسی یاد کو زندہ حافظہ میں نہ رکھے، وہ اپنے دماغ کو دوسری باتوں میں مشغول کرکے اس کو بھلانے کی کوشش کرے تو بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ وہ بات دماغ کے پچھلے خانہ میں چلی جاتی ہے۔ حافظہ کے ریکارڈ میں اگر چہ وہ اب بھی موجود ہوتی ہے مگر اس کے بعد ایسا نہیں ہوتا کہ وہ تلخ یاد بن کر ہر وقت آدمی کو ستاتی رہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے۔ اس نظام کو استعمال کرکے تلخ یادوں کی کڑواہٹ کو دور کیا جاسکتا ہے۔ تلخ یادوں کو بھلانا بظاہر ایک مشکل کام ہے مگر تلخ یادوں کے مسئلہ کا اس سے زیادہ آسان حل اور کوئی نہیں۔
برداشت کوئی مجبوری نہیں، برداشت زندگی کا ایک اصول ہے۔ برداشت بہادری کی روش ہے، نہ کہ بزدلی کی روش۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی طاقت

لوگ سمجھتے ہیں کہ سب سے بڑی طاقت جنگ جوئی کی طاقت ہے۔ یعنی لوگوں سے نہ دبنا، لوگوں سے سختی کے ساتھ معاملہ کرنا، اگر ضرورت پڑے تو لوگوں کے خلاف تشدد کا طریقہ استعمال کرنا۔ عام طورپر لوگ اس کو طاقت سمجھتے ہیں۔ مگر یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس قسم کا خیال فطرت کے نقشہ کے سراسر خلاف ہے۔
فطرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سختی کے مقابلہ میں نرمی کا طریقہ زیادہ مؤثر ہے۔ نرمی کا طریقہ اختیار کرکے آپ انسان کو جیت لیتے ہیں۔ کسی کو زیر کرنے کے لیے سب سے زیادہ کار گر اصول یہ ہے کہ اس کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے جو اس کے ضمیر کو آپ کا ہمنوا بنا دے۔ یہ فائدہ صرف نرمی کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے۔
اس مفہوم میں اپنے آپ کو طاقتور بنانے کا ایک آسان فارمولا یہ ہے کہ آپ غلطی کے اعتراف کی عادت ڈالیں۔ جب کسی کے ساتھ آپ کی تکرار ہوجائے اور آپ محسوس کریں کہ آپ غلطی پر تھے تو عزت کا خیال کیے بغیر فوراً یہ کہہ دیجئے کہ آپ صحیح ہیں اور میں غلط ہوں:
You are right, I am wrong.
یہ اعتراف در اصل خود اپنی تربیت ہے۔ اعتراف آدمی کے اندر تواضع کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ فطرت کے مطابق، بے اعترافی سرکشی کی غذا ہے اور اعتراف تواضع کی غذا۔ جو آدمی اعتراف نہ کرے وہ گویا اپنے اندر چھپی ہوئی انانیت اور سرکشی کو غذا دے رہا ہے۔ وہ اپنی انانیت اور سرکشی کو زیادہ پختہ کررہا ہے۔ ایسا آدمی سب سے بڑی طاقت سے محروم ہوجائے گا۔
اس کے برعکس جو آدمی غلطی کے وقت فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کرلے وہ اپنے اندر تواضع کی پرورش کررہا ہے۔ وہ اپنی تواضع کو غذا دے کر اس کو اور زیادہ بڑھا رہا ہے۔ وہ اپنے اندر تواضع کی صفت کو اور زیادہ مستحکم کررہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ، اپنے آپ کو طاقتور سے طاقتور تربنا رہا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مسائل اور ان کا حل

انسان کے ساتھ جو مسائل پیش آتے ہیں ان کا بنیادی سبب اجتماعیت ہے۔ زمین پر اگر صرف ایک انسان موجود ہوتا تو یہاں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوتا مگر انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ وہ اجتماعی طورپر زندگی گزارتا ہے۔ یہ اجتماع ہی تمام مسائل کی اصل جڑ ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی مسئلہ کا حل یہ ہے کہ فرد اور اجتماع کے درمیان موافقت تلاش کی جائے۔ جب بھی کسی شخص کو کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو اس کا سبب ہمیشہ صرف ایک ہوتا ہے وہ یہ کہ آدمی صرف اپنی ذاتی خواہش کے مطابق مسئلہ کو حل کرنا چاہتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ وہ بہت سے دوسرے لوگوں کے درمیان ہے۔ وہ دوسرے لوگوں کو نظر انداز کرکے یک طرفہ خواہش کی بنیاد پر اپنا مسئلہ حل نہیں کرسکتا۔ یہی انسانی مسائل کا اصل سبب ہے اور اسی سبب کی رعایت کرکے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔
مثلاً آپ سڑک پر اپنی گاڑی دوڑا رہے ہیں۔ آپ کا نظریہ یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ کی طرف چلنا زیادہ بہتر ہے۔ آپ اگر اس بے لچک نظریہ کو لے کر سڑک پر اپنی گاڑی دوڑانے لگیں تو آپ اپنی منزل کی بجائے صرف قبرستان تک پہنچیں گے۔ آپ کے عقیدہ کے مطابق، دائیں طرف چلنا سیدھی طرف چلنا ہے اور بائیں طرف چلنا الٹی طرف چلناہے۔ یہ عقیدہ آپ کے نزدیک خواہ کتناہی درست ہو مگر یہ عقیدہ کامیاب سفر کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ آپ کو اس معاملہ میں اپنے اندر لچک پیدا کرنا ہوگا۔ سڑک پر چلتے ہوئے آپ کو ٹرافک رول کے اجتماعی قواعدکی پابندی کرنی ہوگی۔ اجتماعیت کے اندر کامیاب زندگی حاصل کرنے کا یہی واحد اصول ہے۔
اجتماعی زندگی ملی جلی زندگی کانام ہے۔ کسی سماج کا ہر فرد اس اجتماعیت سے جڑا ہوا ہے۔ اسی اجتماعی تقاضہ کی رعایت کا نتیجہ کامیابی ہے اور اسی اجتماعی تقاضہ کی رعایت نہ کرنے کا نتیجہ ناکامی ۔
مسئلہ بظاہر دوسرے شخص کی طرف سے پیدا ہوتا ہے۔ مگر اس کا حل ہمیشہ اپنی ذات میں ہوتا ہے۔اپنے آپ کو حقیقت پسند بنانا ہی کسی مسئلہ کا واحد یقینی حل ہے۔
واپس اوپر جائیں

منفی پہلو میں مثبت پہلو

۱۹۴۷ سے پہلے ہندستان میں بر ٹش راج تھا۔ اُس زمانہ میں برٹش حکمرانوں نے ہندستان میں انگریزی زبان کو سرکاری زبان بنایا اور پوری طاقت سے انگریزی زبان کو ہندستان میں رائج کیا۔ یہاں تک کہ انگریزی زبان کے اعتبار سے امریکا اور برطانیہ کے بعد ہندستان تیسرا سب سے بڑا ملک بن گیا۔
برٹش حکمرانوں نے اپنے خیال کے مطابق، ہندستان میں انگریزی زبان کو اس لیے رائج کیا تھا کہ وہ اس ملک پر ہمیشہ کے لیے اپنا غلبہ قائم رکھیں۔ برٹش حکومت نے انگریزی زبان کو صرف اپنے مفاد کے لیے یہاں جاری کیا تھا۔ مگر آج یہی انگریزی زبان ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا سرمایہ بن گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انفارمیشن ٹکنالوجی تمام تر انگریزی زبان پرقائم ہے اور انگریزی زبان میں ہندستان دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں بہت آگے ہے۔ چین اور روس دونوں بہت بڑے ملک ہیں۔ مگر دونوں ہندستان سے کہہ رہے ہیں کہ ہم کو تمہاری انگریزی کی ضرورت ہے، ہمیں اپنی انگریزی اکسپورٹ کرو۔
اس مثال سے ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ آپ کا حریف خواہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے کوئی عمل کرے مگر عین ممکن ہے کہ مستقبل کے لحاظ سے وہ تمام تر آپ کے فائدے میںہو۔ حتیٰ کہ حریف اگر آپ کے خلاف کوئی سازشی منصوبہ بنائے تب بھی یہ امکان باقی رہے گا کہ اس کی سازش آپ کے لیے ترقی کا ایک زینہ بن جائے۔ حریف کی بنائی ہوئی دنیا آخر کار آپ کے حصہ میں آجائے۔
اس دنیا میں ہر منفی واقعہ میں مثبت پہلو موجود رہتا ہے۔ اگر آپ اس مثبت پہلو کو دریافت کرسکیں تو آپ کو کسی کے خلاف شکایت کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ مثبت پہلو کی دریافت آپ کو اپنی تعمیر میں اتنا زیادہ مشغول کردے گی کہ آپ کے پاس دوسروں کے خلاف لکھنے اور بولنے کے لیے وقت ہی نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں

خاندانی زندگی

شادی شدہ زندگی کو خوشگوار بنانے کا راز کیا ہے۔ وہ صرف ایک ہے— ناخوشگواری میں خوشگواری کو دریافت کرنا۔ ناپسندیدہ صورت حال کو اپنے لیے پسندیدہ بنادینا۔ اس کو ایک لفظ میں یہ کہہ سکتے ہیں:
The art of situation management
اصل یہ ہے کہ کوئی بھی عورت یا مرد اسٹیچو نہیں ہوتے۔فطری نقشہ کے مطابق، ہر عورت اور ہر مردکی سوچ الگ ہوتی ہے۔ ہر ایک کا ذوق ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ایک اور دوسرے کے درمیان یہی وہ فرق ہے جو دونوں کے درمیان ناخوشگواری پیدا کرتا ہے۔
جب ایسا ہوتا ہے تو دونوں فریق یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ اس کا ذمہ دار فریق ثانی کو بنا لیتے ہیں اور پھر اس سے جھگڑنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ فرق واختلاف کی جو صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے فطرت کی پیداکی ہوئی ہے نہ کہ کسی عورت یا کسی مرد کی۔ اگر دونوں اس راز کو سمجھ لیں تو کوئی مسئلہ زیادہ شدت اختیار نہ کرے، ہر مسئلہ اپنی حد کے اندر رہے اور دونوں فریق اس کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائیں۔
انسانوں کے درمیان فرق واختلاف کوئی برائی نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک خوبی ہے۔ اسی فرق و اختلاف سے ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان ڈائیلاگ ہوتا ہے۔ بحث و گفتگو کے دوران معاملہ کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس طرح یہ اختلاف ذہنی ترقی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اگر لوگوں کے درمیان اختلاف نہ ہو تو زندگی جمود کا شکار ہوکر رہ جائے گی۔
فطرت نے اپنی تقسیم میں یہ طریقہ رکھا ہے کہ کسی کے اندر ایک صلاحیت ہوتی ہے اور کسی کے اندر دوسری صلاحیت۔ اگر فرق و اختلاف کو نظرانداز کیاجائے تو ہر ایک کی صلاحیت استعمال ہونے لگے گی۔ ہر ایک اپنی اضافی لیاقت کے ذریعہ دوسرے کے لیے قیمتی مددگار بن جائے گا۔ ہر ایک دوسرے کی کمی کی تلافی کرنے لگے گا۔
واپس اوپر جائیں

تحفہ کی نفسیات

ایک سفر میں میری ملاقات کویت کے ایک عرب پروفیسر سے ہوئی۔ ان کے ہاتھ پر ایک خوبصورت گھڑی بندھی ہوئی تھی۔ میں نے ان سے ٹائم پوچھا تو وہ اپنی گھڑی کی شکایت کرنے لگے۔ میں نے کہا کہ کویت میں تو اچھی گھڑیاں ملتی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کا کہنا صحیح ہے مگر یہ تحفہ کی گھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحفہ کی نفسیات یہ ہے کہ لوگ خوش نما چیز دیتے ہیں نہ کہ کار آمد چیز۔
تحفہ کے بارے میں یہ عام مزاج ہے۔ تحفہ میں اکثر لوگ کئی چیزیں دیتے ہیں مگر ہر چیز ناقص ہوتی ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ جو پیسہ چار چیزوں میں لگایا گیا ہے اس سے صرف ایک چیز خریدی جائے اور اس کو تحفہ میں دیا جائے۔تحفہ کا مقصد یہ ہے کہ آپس میں دوستی بڑھے ، آپس میں ایک دوسرے کے درمیان اعتماد قائم ہو۔ لوگ ایک دوسرے کے خیر خواہ بن کر زندگی گذاریں مگر مذکورہ قسم کے تحفہ کا نتیجہ ہمیشہ الٹا ہوتا ہے۔نمائشی مزاج کے تحت دیا ہوا تحفہ کبھی کسی حقیقی فائدہ کا سبب نہیں بن سکتا۔ نمائشی تحفہ صرف ایک دوسرے کے درمیان تلخی اور بے اعتمادی پیدا کرتا ہے۔ ایسا تحفہ کبھی محبت کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
تحفہ پانے والا جب دیکھتا ہے کہ تحفہ دینے والے نے اپنے بیٹے اور اپنی بیٹی کو تو کار آمد تحفہ دیا ہے اور مجھ کو صرف نمائشی تحفہ دے دیا ہے تو ایسا تحفہ صرف بیزاری پیدا کرتا ہے۔ تحفہ پانے والا تحفہ دینے والے کے بارے میں سخت بد گمان ہوجاتا ہے۔ تحفہ دینے والے کے بارے میں اس کی رائے خراب ہو جاتی ہے۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ یا تو تحفہ نہ دیا جائے، یا اگر تحفہ دینا ہے تو اچھا اور کار آمد تحفہ دیا جائے جس کو لے کر تحفہ پانے والا خوش ہو۔ اگر لوگ یہ کرتے ہیں کہ ایک شخص سے انہیں ایک نمائشی تحفہ ملا اور پھر اس کو انہوں نے کسی دوسرے کے حوالہ کردیا۔ تحفہ دینے والے کو جاننا چاہیے کہ یہ بات کبھی چھپتی نہیں۔ تحفہ پانے والا کسی نہ کسی طرح اس کو جان لیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تحفہ دینے والے کے بارے میں اگر تحفہ پانے والے کی رائے اچھی تھی تو اب اس کے بارے میں اس کی رائے خراب ہوجاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک نصیحت

ایک مسلم لڑکی نے مجھ سے ملاقات کی۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھیں۔ اُنہوں نے کہا کہ میرے باپ نے میرا رشتہ طے کردیا ہے اور اب جلد ہی میری شادی ہونے والی ہے۔ شادی کے بعد مجھے ایک مشترک خاندان میں رہنا ہوگا۔ میں ڈرتی ہوں کہ آئندہ کیاہوگا۔ سسرال والے میرے ساتھ اچھا سلوک کریں گے یا برا سلوک کریں گے۔ یہ سوچ کر میں بہت پریشان ہورہی ہوں۔
میں نے کہا کہ اس معاملہ کی کنجی خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس دنیا کا اُصول یہ ہے کہ جیسا دینا ویسا پانا۔ آپ اگر چاہتی ہیں کہ دوسرے لوگ آپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں تو آپ کو خود بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ یہ فطرت کا اُصول ہے جس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ آپ اگر دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں تو دوسرے لوگ اس کا تحمل نہیں کرسکتے کہ وہ آپ کے ساتھ برا سلوک کریں۔
پھر میں نے کہا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی خود تو اچھا سلوک نہیں کرتا مگر وہ دوسروں سے اچھے سلوک کی امید کرنے لگتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو عملاً تو اچھا سلوک نہیں کرتے مگر خود ساختہ طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کا سلوک دوسروں کے ساتھ اچھا ہے۔ یہ بہت بڑی بھول ہے۔ اگر دوسرے لوگ آپ کے سلوک کے بارے میں اچھی رائے نہ رکھتے ہوں تو آپ یقین کرلیجئے کہ آپ کا سلوک ویسا ہی ہے جیسا کہ دوسرے لوگ بتاتے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ آپ خوش فہم نہ بنیں بلکہ حقیقت پسند بنیں۔ اس کے بعد آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
مسئلہ کا حل ہمیشہ آدمی کے اپنے اندر ہوتا ہے۔ مگر وہ اس کو اپنے سے باہر تلاش کرنے لگتاہے۔ یہی مزاج اصل مسئلہ ہے۔ کسی مسئلہ کے حل میں اس سے بڑی کوئی اور رکاوٹ نہیں کہ آپ اس کا ذمہ دار دوسروں کو بتا کر دوسروں سے اس کے حل کا مطالبہ کرنے لگیں۔ ہر مسئلہ کی کنجی آپ کے اپنے پاس ہے، نہ کہ کسی دوسرے کے پاس۔
واپس اوپر جائیں

مثبت سوچ کی ضرورت

تمام ناکامیوں کا سبب منفی سوچ ہے اور تمام کامیابیوں کا سبب مثبت سوچ— یہی ایک لفظ میں زندگی کا خلاصہ ہے۔ منفی سوچ والا آدمی اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا اور اگر وہ بظاہر کامیاب دکھائی دے تو اس کی کامیابی وقتی ہوگی۔ اس کے برعکس مثبت سوچ والے آدمی کے لیے کامیابی پائیدار بھی ہے اور یقینی بھی۔
منفی سوچ کیا ہے اور مثبت سوچ کیا۔ منفی سوچ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جانے مگر وہ دوسروں کو نہ جانے۔ وہ مسائل کو جانے مگر وہ مواقع کو نہ جانے۔ وہ حال کو جانے مگر وہ مستقبل سے بے خبر ہو۔ وہ اپنے قریبی حالات کو جانے مگر وہ دور کے حالات سے باخبر نہ ہو۔
منفی سوچ والے آدمی کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے ذہنی خول میںجیتا ہے۔ اُس کے ذہن کے اندر جو خیال آجائے اُسی کو وہ اصل حقیقت سمجھ لیتا ہے۔ وہ اپنی نفسیاتی پیچیدگی کی بنا پر اس قابل نہیں ہوتا کہ اُس کے ذہن کے باہر جو حقیقتیں ہیں اُن کو جانے اور ان کی روشنی میں زیادہ درست رائے قائم کرے۔ منفی سوچ دراصل بند سوچ کا دوسرا نام ہے۔
اس کے مقابلہ میں مثبت سوچ وہ ہے جو کھُلی سوچ ہو۔ مثبت سوچ والا آدمی تعصبات سے آزاد ہوکر سوچتا ہے۔ وہ معاملات میں بے لاگ رائے قائم کرتا ہے۔ اس کی رائے ہمیشہ انصاف پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ وہی سوچتا ہے جو ازروئے واقعہ اس کو سوچنا چاہیے اور وہی بولتا ہے جو ازروئے واقعہ اس کو بولنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ مثبت سوچ والے آدمی کی راہیں کبھی بند نہیں ہوتیں، جب کہ منفی سوچ والے آدمی کو ہر طرف اپنی راہیں بند دکھائی دیتی ہیں۔
منفی سوچ مایوسی کی سوچ ہے اور مثبت سوچ امید کی سوچ۔ منفی سوچ راستہ کو بند حالت میں دیکھتی ہے، جب کہ مثبت سوچ والے آدمی کو ہر طرف راستے کھلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مثبت سوچ بصیرت ہے اور منفی سوچ بے بصیرتی۔
واپس اوپر جائیں

غلط فہمی

سماج ایک ایسے انسانی مجموعہ کا نام ہے جہاں بہت سے لوگ مل جُل کر رہتے ہیں۔ فطرت کے نظام کے تحت ہر ایک کا کام الگ الگ ہوتا ہے۔ ہر ایک کا فائدہ الگ الگ ہوتا ہے۔ ہر ایک کا میدانِ عمل الگ الگ ہوتا ہے۔ ہر ایک کی سوچ الگ الگ ہوتی ہے۔ اس بنا پر بار بار آپس میں شکایتیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ شکایتیں بڑھتے بڑھتے دشمنی تک پہنچ جاتی ہیں اور پھر مزید تلخ واقعات پیدا ہوتے ہیں۔
ان شکایتوں کا سبب زیادہ تر حالات میں صرف ایک ہوتا ہے، اور وہ غلط فہمی ہے۔ غلط فہمی (misunderstanding) اتنی زیادہ عام ہے کہ وہ ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ خاندان میں، ادارہ میں، پڑوس میں، یہاں تک کہ قومی اور بین اقوامی سطح پر بھی۔ غلط فہمی اکثر بے بنیاد ہوتی ہے، کسی سماج میں اکثر اجتماعی نزاعات غلط فہمی ہی کے سبب سے پیدا ہوتے ہیں۔
غلط فہمی کیا ہے۔ غلط فہمی دراصل ناقص واقفیت کی بنا پر کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اکثر لوگوں کاحال یہ ہے کہ وہ کسی کے بارہ میں ایک بات سنتے ہیں اور اُسی کی بنیاد پر اُس کے بارے میں اپنی رائے بنا لیتے ہیں۔ یہی مزاج اکثر حالات میں غلط فہمی کا سبب ہوتا ہے۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کسی شخص کے بارے میں کوئی منفی بات ذہن میں آئے یا کوئی بری بات معلوم ہو تو کبھی ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ فوراً ہی اس کو درست مان لیا جائے۔ اس کے بجائے ضروری ہے کہ اس کی پوری تحقیق کی جائے۔ تمام ضروری پہلوؤں کو جانچنے سے پہلے ہر گز اس کو مان نہ لیا جائے۔ اس طرح کے معاملہ میں آدمی کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے یا تو وہ سنی ہوئی بات پر دھیان نہ دے ،وہ اس کو نظر انداز کردے اور کسی سے اس کا چرچا نہ کرے ۔ یہ اس طرح کے معاملہ میں محفوظ طریقہ ہے۔لیکن اگر کوئی شخص اس طرح کی بات پر بولنا چاہتا ہے یا اس کا چرچا کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کی تحقیق کرے۔ تحقیق میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ صاحب معاملہ سے اس کی حقیقت معلوم کرے۔ ان مراحل سے گزرنے کے بعد ہی وہ اس پر بولنے کا حق رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

صبر کا فائدہ

اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک کو دوسرے سے شکایت ہوجاتی ہے۔ ایک کی کسی بات سے دوسرے کے اندر غصہ اور نفرت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایک کا کوئی رویہ دوسرے کے اندر انتقامی جذبات بھڑکا دیتا ہے۔ ایسے موقع پر اکثر لوگ بدلہ کے ذہن سے سوچنے لگتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنی بے عزتی پر چپ ہوجائیں تو یہ ہماری غیرت کے خلاف ہوگا۔ یہ حمیت اور غیرت سے سودا کرنے کے ہم معنٰی ہوگا۔
مگر یہ سوچ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا موقع ذلت کا موقع نہیں بلکہ وہ فکری اور روحانی ترقی حاصل کرنے کا موقع ہے۔ غصہ کے موقع پر صبر کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ دراصل خود اپنی تربیت کا موقع ہے۔ وہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنے کا موقع ہے کہ آدمی اپنی داخلی شخصیت کو اتنا مضبوط بنائے کہ وہ خارجی حالات سے اثر لیے بغیر زندہ رہ سکے۔
جو آدمی غصہ اور نفرت اور اشتعال میں مبتلا ہوجائے وہ اپنی اس روش سے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ خارجی اشتعال انگیزی کے وقت غیر متاثر نہ رہ سکا۔ ایسے آدمی کا ذہنی اور روحانی سفر رک جائے گا۔ اس کی شخصیت میں فکری ارتقاء کا عمل جاری نہ ہوسکے گا۔
اس دنیا میں پانے کی سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آدمی کا فکر مسلسل ترقی کررہا ہو۔ اسی فکری ترقی سے روحانی ترقی بھی جڑی ہوئی ہے۔ جہاں فکری ارتقاء ہو گا وہاں روحانی ترقی بھی ضرورپائی جائے گی۔ اور یہ فکری ارتقاء اسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی اپنے آپ کو اتنا طاقتوربنائے کہ وہ منفی سوچ کو اپنے اندر داخل ہونے سے روک دے۔
صبر در اصل خود اپنے فکری اور روحانی ترقی کی قیمت ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی چیز ضروری قیمت کے بغیر نہیں ملتی۔ اسی طرح فکری اور روحانی ترقی بھی اس خوش قسمت انسان کا حصہ ہے جو صبر کی صورت میںاس کی قیمت دے سکے۔
واپس اوپر جائیں

مشورہ کی اہمیت

ایک مسلم نوجوان نے ایک تعلیم یافتہ خاتون سے شادی کی۔ یہ لوگ کچھ برسوں تک ایک ساتھ رہے۔ پھر ان کے یہاں دو بچے پیدا ہوئے۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ یہاں تک کہ بیوی اپنے دونوں بچوں کو لے کر اپنے میکہ چلی گئی۔ اب دونوں کے درمیان ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی۔ دونوں طرف سخت باتیں ہونے لگیں۔
اس طرح کا موقع بحران کی تنظیم (crisis management) کا موقع ہوتا ہے۔ بحران کو اگر حکمت کے ساتھ دور کرلیا جائے تو وقتی تلخی کے بعد دوبارہ دونوں کے درمیان معتدل تعلقات قائم ہوجائیں گے۔ لیکن اگر بحران کو درست طورپر حل نہ کیا جائے تو معاملہ اور زیادہ بڑھ جائے گا اور پوری زندگی تباہ ہو کر رہ جائے گی۔
جب کوئی شخص بحران میں مبتلا ہو تو وہ خود زیادہ معتدل انداز میں سوچ نہیں پاتا۔ وہ منفی سوچ یا انتہاپسندی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں مشورہ کی بے حد اہمیت ہے۔ ایسے وقت میں صاحب معاملہ کے ساتھیوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ٹھنڈے ذہن سے سوچ کر معاملہ کی نزاکت کوسمجھیں اور بحران میں مبتلا شخص کو صحیح مشورہ دیں۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بحران کی حالت میں مشورہ دینے والے خود بھی بحران کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مثلاً مذکورہ معاملہ میں جوشخص بحران میں مبتلا ہوا اس کے کچھ ساتھیوں نے اس کو یہ مشورہ دیا کہ تم موجودہ بیوی کو طلاق دے دو اور دوسری شادی کرلو۔ مگر یہ مشورہ سخت تباہ کن تھا۔ اس مشورہ پر عمل کرنے کا یقینی نتیجہ یہ تھا کہ آدمی چھوٹے مسئلہ سے نکل کر زیادہ بڑے مسئلہ میں اپنے آپ کو مبتلا کردے۔ مجھے معلوم ہوا تو میں نے اس آدمی کو مشورہ دیا کہ تم یک طرفہ بنیاد پر اپنی بیوی کے ساتھ مصالحت کرو۔ اپنی زبان پر کنٹرول رکھو۔ بیوی کو یا اس کے رشتہ داروں کو ہر گز برا نہ کہو اور پھر بیوی کے ساتھ معتدل انداز میں نئی زندگی شروع کردو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور اب دونوں پر سکون طورپر ایک گھر میں رہ رہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

دو کشتی کی سواری

اکثر لوگوں میں یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ واضح انداز میں سوچ نہیں پاتے۔ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق نہیں کرپاتے۔ اس بنا پر اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ بیک وقت دو کشتی کی سواری کرنا چاہتے ہیں حالاں کہ دو کشتی کی سواری عملاً ممکن نہیں۔
مثلاً ایک شخص بر صغیرہند میں پیدا ہوتا ہے پھر وہ اپنے وطن کو چھوڑ کر امریکا چلا جاتا ہے۔ یہ ایک سماج سے نکل کر دوسرے سماج میں جانے کا نام ہے۔ بر صغیر ہند کے اندر پابند سماج کا ماحول ہے تو امریکا میں بے قید سماج کا ماحول ہے۔ مگر مذکورہ شخص امریکا میں قیام کرنے کے باوجود یہ چاہتا ہے کہ اس کے بچے وہاں کے بے قید سماج سے متاثر نہ ہوں۔ اس کے بچے وہاں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا کلچر اختیار نہ کریں۔ مگر یہ دو کشتی کی سواری ہے اور دو کشتی کی سوار ی عملاً ممکن نہیں۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو اپنے بچوں کے بارے میں خلاف امید تجربات پیش آتے ہیں۔ آدمی پیسہ کی فراوانی کے باوجود ذہنی اضطراب میں جینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
اس دنیا میں آدمی صرف ایک ہی کشتی میں سواری کرسکتا ہے۔ دوکشتی میں سواری کرنا عملاً کسی کے لیے ممکن نہیں۔ دو کشتی کی سواری صرف خیالی طور پر ممکن ہوسکتی ہے۔ عملی طور پر دوکشتی کی سواری کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔
اصل یہ ہے کہ آدمی بیک وقت دو قسم کے فائدے حاصل کرنا چاہتا ہے۔اسی دو طرفہ مزاج کی بنا پر وہ دو کشتی میں سواری کرنے کا خیالی منصوبہ بنا لیتا ہے۔ مگر آدمی کو جاننا چاہیے کہ دو کشتی کا سفر صرف خیالات کی دنیا میں ممکن ہے۔ ایسا سفر کبھی حقیقت کی دنیا میں ممکن نہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ترجیح کا اصول اختیار کرے۔ وہ ایک چیز کو پانے کے لیے دوسری چیز کو چھوڑنے پر راضی ہوجائے۔ وہ ایک منزل تک پہنچنے کے لیے دوسری منزل کی طرف دوڑنا نہ چاہے۔اس معاملہ میں آدمی کے پاس اس کے سوا کوئی اور انتخاب نہیں۔
واپس اوپر جائیں

آدھی کہانی

عام طور پر لوگوں کا یہ مزاج ہے کہ وہ اپنی کہانی کا نصف آخر حصہ بیان کرتے ہیں۔ وہ اس کا ابتدائی نصف حصہ چھوڑ دیتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص کو کسی نے سڑک پر مار دیا تو اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے وہ کہے گا کہ فلاں شخص نے مجھے سڑک پر مارا۔ مگر وہ یہ نہیں بتائے گاکہ خود میں نے کیا بات کی جس کی وجہ سے وہ مشتعل ہوگیا اور اشتعال کے تحت مجھ کو مار دیا۔
اسی طرح دو گروہوں کے درمیان جھگڑا ہو اور ظلم و زیادتی کے واقعات پیش آئیں تو اس میں یقینا کوئی ایک گروہ ہوتا ہے جو اپنے کسی فعل سے دوسرے گروہ کو بھڑکادیتا ہے۔ اس طرح دوسرا گروہ بھڑک کر فساد کرنے لگتا ہے۔ مگر پہلا گروہ جب اس واقعہ کو بتائے گا تو وہ صرف واقعہ کے دوسرے حصے کو بیان کرے گا۔ وہ کہے گا کہ فلاں گروہ نے اس طرح ہمارے خلاف فساد کیا مگر وہ یہ نہیں بتائے گا کہ ہم نے خود فلاں فعل کیا جس کی وجہ سے دوسرا فریق غصہ ہو کر ہم سے انتقام لینے لگا۔ اس کو ایک لفظ میں ناقص رپورٹنگ کہہ سکتے ہیں۔
یہ ناقص رپورٹنگ ہمارے سماج میں عام ہے۔ ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ وہ اس طرح کے معاملہ میں اپنے حصہ کی بات کو چھپا لیتے ہیں اور صرف دوسرے کے حصہ کی بات کو بیان کرتے ہیں۔ یہ ایک غیر منصفانہ رپورٹنگ ہے۔ غیر منصفانہ رپورٹنگ کے بیک وقت دو نقصانات ہیں—ایک یہ کہ صحیح طرز فکر پیدا نہ ہونا، دوسرے یہ کہ مسئلہ کا کبھی حل نہ نکلنا۔
مزید یہ کہ اس قسم کی رپورٹنگ ذہنی بددیانتی کا ایک فعل ہے۔ وہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اس قسم کی ناکافی رپورٹنگ اخلاقی اعتبار سے بھی غلط ہے اور مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے اعتبار سے بھی بے فائدہ۔
کسی معاملہ کی آدھی کہانی بیان کرنے والا اپنے دل میں خوش ہوسکتا ہے لیکن اس کے وجود سے باہر کی دنیا میںاس روش کا کوئی فائدہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

نشانِ منزل

ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے جب سڑک بنائی جاتی ہے تو اس میں جگہ جگہ نشانات لگائے جاتے ہیں۔ یہ نشانات مسافر کو بتاتے ہیں کہ وہ کدھر جائے اور کدھر نہ جائے۔ یہ نشانات بتاتے ہیں کہ مسافر کے لیے صحیح سمت کیا ہے۔ وہ کو ن سا راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے وہ آخر کار اپنی مطلوب منزل تک پہنچ جائے۔ جو آدمی ان نشانات کی پیروی کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھے گا۔ وہ یقینا اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔
اسی طرح زندگی کے سفر کا بھی ایک راستہ ہے۔ اس راستہ میں بھی کچھ نشانات مقرر کردیے گئے ہیں۔ جو آدمی چاہتا ہے کہ وہ راستہ چلتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچ جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ راستہ کے نشانات کو پڑھے اور پوری طرح اس کی پیروی کرے۔
زندگی کے سفر کے یہ نشانات کیا ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ آدمی سوچ سمجھ کر اپنے لیے ایک راستہ کا انتخاب کرے، ایک ایسا راستہ جس کو پھر کبھی چھوڑنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ راستہ بدلنا گویا اپنے سفر کو پیچھے لے جانا ہے۔ وہ اپنے سفر کی مدت کو کم کرنا ہے۔ کامیابی ہر راستہ میں ممکن ہے مگر جو آدمی اپنا راستہ بدلتا ہے وہ کبھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔
اس کے بعد دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ وہ راستہ کی رکاوٹوں میں کبھی نہ الجھے۔ وہ ہر رکاوٹ سے اعراض کرتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جائے۔ رکاوٹوں سے ٹکرانا زندگی کے سفر کو روک دیتا ہے اور رکاوٹوں کو نظر انداز کرنا زندگی کے سفر کو مسلسل جاری رکھتا ہے۔
پھر مسافر کو چاہیے کہ وہ درمیان میں ملنے والے چھوٹے چھوٹے فائدوں پر قانع نہ ہو، وہ اپنے نشانہ سے کبھی نظر نہ ہٹائے۔ بڑی کامیابی پانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ اس دنیا میں بڑی کامیابی صرف اس انسان کا حصہ ہے جو چھوٹی کامیابی پر راضی نہ ہو۔ جو بڑے فائدہ کی خاطر چھوٹے فائدہ کو نظر انداز کرسکے۔ جو مستقبل کی امید میں حال سے اوپر اٹھ جائے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
اپنے علم میں اضافہ کی غرض سے میں نے اپنے ۲۱ جون ۲۰۰۴ء کے خط میں آپ کی مدد چاہی تھی۔ مگر آپ کا جواب مورخہ ۳ جولائی اپنی نوعیت میں میرے استفسار کا جواب نہیں ہے بلکہ محض میرے سوال کی تردید ہے۔ عالمانہ جواب باقی ہے۔
’’ذوالکفل‘‘ نص ہی کے تو الفاظ ہیں۔ النبی الخاتم کا حوالہ اس لیے نہیں تھا کہ آپ میرے ہم خیال ہوجائیں بلکہ اس لیے تھا کہ براہِ راست اسے دیکھ لیں اور اس کی روشنی میں دوسرے علماء و مفسرین جن تک میری رسائی نہیں ہے، اور آپ کی یقینا ہوسکتی ہے، ان کی تحقیق یا آراء کی روشنی میں مفصل رہنمائی فرمائیں۔ (محمد رضوان احمد ، شیخ پورہ، بہار)
جواب
ذوالکفل کا ذکر قرآن میں دو سورتوں میں آیا ہے: سورہ جن اور سورہ الأنبیاء۔ مگر قرآن یا حدیث میں ذو الکفل کے بارے میں مزید تفصیل مذکور نہیں۔ بعض مفسرین مثلاً مفسر آلوسی (صاحب روح المعانی) نے لکھا ہے کہ ذو الکفل سے مراد وہ بزرگ ہیں جن کا ذکر بائبل میں حزقی ایل پیغمبر کی حیثیت سے آیا ہے۔ مگر یہ محض قیاس ہے۔ اس کی کوئی بنیاد نہ تاریخ میں موجود ہے اورنہ قرآن و حدیث میں۔ خود بائبل میں حزقی ایل کا ذکر تو ہے مگر بائبل میں یہ نہیںبتایا گیا ہے کہ حزقی ایل کا لقب ذو الکفل تھا۔ ذوالکفل کے لفظی معنیٰ صاحب نصیب کے ہوتے ہیں۔
میرے نزدیک اس قسم کے مسائل میں زیادہ غور و خوض کرنا درست نہیں۔ غور و خوض مفید طورپر صرف اُن مسائل میںکیا جاسکتا ہے جن میں رائے قائم کرنے کے لیے کوئی متفق علیہ بنیاد موجود ہو۔ یہ بنیاد صرف دو ہوسکتی ہے، تاریخ یا وحی۔ مگر ذوالکفل کے بارہ میں رائے قائم کرنے کے لیے دونوں میں سے کوئی بھی بنیاد دستیاب نہیں۔ ایسی حالت میں اس سوال کو اُس خانہ میں ڈالنا چاہیے جس کی بابت حدیث میں آیا ہے کہ خدا نے کچھ باتوں کو علم کے باوجود ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ان معاملات میں بحث نہ کرے (وسکت عن اشیاء من غیر نسیان فلا تبحثوا عنہا)۔
ذوالکفل کے بارہ میں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اُن کا ذکر قرآن میں کس پہلو سے آیا ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ ذوالکفل اور دوسرے انبیاء کا ذکر کرکے قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ یہ سب کے سب صبر کرنے والے لوگ تھے (الأنبیاء ۸۵) ایسی حالت میں ہمیں اس سے یہ نصیحت لینا چاہیے کہ ذو الکفل اور دوسرے پیغمبروں کا کردار صابرانہ کردار تھا۔ ہمیں بھی اسی پیغمبرانہ اُسوہ کو لیتے ہوئے ہر معاملہ میںصبر کی روش اختیار کرنا چاہیے۔
سوال
سورہ المائدہ ،آیت نمبر۳۵ کا ترجمہ آپ کی تفسیر تذکیر القرآن میں اس طرح ہے:
’’اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور اُس کا قرب تلاش کرو اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(المائدہ ۳۵)
اس آیت میں ’’وسیلہ‘‘ عربی لفظ ہے جس کے معنٰی یہاںکے علماء بزرگان دین کا وسیلہ لیتے ہیں۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے یہاں کسی بادشاہ کے پاس حاضر ہونے کے لیے جس طرح مصاحب یا سفارشی کی ضرورت پڑتی ہے ایسا نہیں ہے۔ انسان اللہ پاک سے براہِ راست بلاکسی انسانی واسطہ کے قرب حاصل کرسکتا ہے۔ میں کہاں تک صحیح سمجھتا ہوں مطلع فرمائیں۔ (ایس۔ اے رضوی۔ حیدر آباد)
جواب
وسیلہ کے معنٰی عربی زبان میں تقرب کے ہوتے ہیں۔ آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ خوف خدا اور دینی جد وجہد کے ذریعہ اللہ کی قربت تلاش کریں۔ آیت کے الفاظ اگر یہ ہوتے کہ و ابتغوا الوسیلۃ الیہ تو اس کا مطلب ہوتا کہ خدا کا تقرب تلاش کرو۔ لیکن آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ: وابتغوا الیہ الوسیلۃ، یعنی الیہ کا لفظ وسیلۃ سے پہلے لایا گیا ہے۔ اس سے یہاں حصر کا مفہوم پیدا ہوگیا یعنی خدا کی ہی قربت تلاش کرو۔
حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں دوسروں کا تقرب تلاش کرنے کی نفی کی گئی ہے نہ یہ کہ دوسروں کو وسیلہ بنا کر خدا کی قربت حاصل کرو۔ خدا سے تقرب کے لیے دوسروں کو وسیلہ بنانا سراسر قرآن کی روح کے خلاف ہے۔ اس طرح کی کسی بات کا ثبوت خود نص قرآنی میں ہونا چاہیے۔ کوئی خارجی تمثیل اس طرح کی بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔
سوال
قرآن میں ہے ’’ولکُلِّ قومٍ ہاد‘‘ مگر قرآن ہی کی رو سے صرف عرب ممالک میں پیغمبروں کی بعثت ثابت ہے، نہ ایشیا کے دوسرے ممالک اور نہ یورپی ممالک کا ذکر ہے، مثلاً:
نوح ؈ عراق میں تبلیغ کرتے رہے
لوط ؈ اردن میں ؍؍ ؍؍
ہود ؈ یمن میں ؍؍ ؍؍
شعیب ؈ مدین میں ؍؍ ؍؍
صالح ؈ شمالی عرب میں ؍؍ ؍؍
موسی ؈ مصرمیں ؍؍ ؍؍
عیسی ؈ فلسطین میں ؍؍ ؍؍
وغیرہ وغیرہ۔ ہندستان کے بدھ، رام، کرشن وغیرہ کے بارے میں بھی کئی وجوہ کی بنا پر رائے قائم نہیں کی جاسکتی ۔اس طرح موجودہ دنیا کا بہت بڑا خطہ اور بہت ساری قومیں ایسی ہیں جن میں پیغمبر کے آنے کا ثبوت کہیں بھی نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں (عبدالاحد، بنگلور)
جواب
قرآن کوئی تاریخ الانبیاء نہیںہے۔ اس لیے قرآن میں تمام نبیوں کا تذکرہ موجود نہیں۔ اس معاملہ میں صحیح بات یہ ہے کہ ہم مجمل طور پر یہ مانیں کہ ہر زمانہ میں اور ہر مقام پر خدا نے اپنے پیغمبر بھیجے، جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے۔ قرآن کا اصل مقصد انسان کو جنت کا راستہ دکھانا ہے، اور اس مقصد کے لیے تمام انبیاء کی فہرست جاننا ضروری نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ سوال صرف غیر مذکورانبیاء کے بارے میں نہیں ہے۔ خالص علمی اعتبار سے دیکھا جائے تو تمام پچھلے انبیاء صرف اعتقادی شخصیتیں ہیں۔ خالص تاریخی معیار کے مطابق، وہ ثابت شدہ نہیں۔ انبیاء کی طویل فہرست میں صرف ایک استثناء ہے اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ ایک مستشرق نے آپ کی اس استثنائی حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ محمد تاریخ کی پوری روشنی میں پیدا ہوئے:
Mohammad was born within the full light of history.
اس سلسلہ میں تیسری بات یہ ہے کہ خود قرآن کے مطابق بھی یہ سوال صرف غیر مذکور انبیاء کے بارے میں نہیں ہے۔ وہ خود مذکورہ شخصیتوں کے بارے میں بھی ہے۔ مثلاً ان انبیاء کا ذکر تو قرآن میں آیا ہے مگر دیگر ضروری تفصیلات موجود نہیں۔ حتیٰ کہ کچھ بزرگ شخصیتوں کے نام بھی قرآن میں موجود نہیں۔ مثلاً قرآن میں ایک حق پسند انسان کا ذکر رَجُل کے لفظ کے ساتھ آیا ہے مگر ان صاحب کے بارے میں اور کچھ قرآن میں مذکور نہیں (یٰس ۲۰)
ایسی حالت میں صحیح اور محفوظ طریقہ یہ ہے کہ اپنی ذہنی کاوش ان باتوں کے دائرہ میں محدود رکھی جائے جو قرآن میں مذکور ہیں۔ جو باتیں قرآن میں مذکور نہیں ان کے بارے میں ذہنی کاوش کرنا آدمی کو صرف کنفیوژن تک پہنچائے گا۔ وہ کسی کو یقین کے درجہ تک پہنچانے والا نہیں۔
سوال
الرسالہ جولائی ۲۰۰۴ کو پڑھ کر میرے ذہن میں چند سوالات ابھرے جس نے مجھے خط لکھنے پر مجبور کردیا۔آپ الرسالہ کے صفحہ ۵ پر لکھتے ہیں کہ ’’اگر انگریز ہندستان نہ آتے تو ہندستان ابھی کم ازکم ۱۰۰ سال پیچھے ہوتا‘‘۔ مجھے آپ کا یہ جملہ بے حد شاک گزرا۔ کیوں کہ اس جملہ میں آپ نے لفظ ’’اگر‘‘ کا استعمال کیا ہے جو کہ خلاف شرع ہے۔ جیسا کہ خود آنجناب نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’’حدیث رسول‘‘ کے صفحہ ۱۸ پر حدیث نمبر ۴۳ کا ترجمہ اس طرح کیاہے ’’ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طاقتور مومن بہتر ہے کمزور مومن سے، اور ہر ایک کے لیے خیر ہے۔ تم اس چیز کے حریص نہ بنو جو تم کو نفع دینے والی ہے اور اللہ سے مدد مانگو اور ہمت نہ ہارو۔ اور اگر تمہارے اوپر کوئی مصیبت آئے تو یہ نہ کہو کہ اگر میںنے ایسا اور ایسا کیا ہوتا تو بچ جاتا۔ بلکہ یہ کہو کہ اللہ کا مقدر تھا۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کیوں کہ ’’اگر‘‘ شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے۔
مذکورہ حدیث کی روشنی میں آپ کا جملہ کیا ظاہر کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی مرضی سے انگریز ہندستان آئے اور اللہ ہی کی مرضی سے ہندستان کا نقشہ بدلا۔ پھر یہ کیوں کہا جائے کہ اگر ایسا ہوتا تو ایسا ہوتا۔ وہ بھی ایک عالم دین کو تو ہر گز ایسی بات نہ لکھنی چاہیے۔ پھر بھی آپ نے اتنی بڑی بات کیسے لکھ دی۔ وضاحت کریں۔
الرسالہ کے اسی شمارہ میں صفحہ ۲۳ پر آپ لکھتے ہیں کہ ۲۴ نومبر ۲۰۰۳ کو دوپہر کے کھانے کے بعد حسب معمول کھانا شرکاء کانفرنس کے ساتھ کھایا۔ گویا کہ آپ نے رمضان المبارک کے مہینے میں بھی روزہ توڑ دیا اور آپ باضابطہ اس کا اعلان کررہے ہیں کہ میں نے دن میں کھانا کھایا۔ یہ بھی واقعہ خلاف شرع ہے کہ آدمی اسلام کی نمائندگی کرنے کے لیے غیر مسلموں کے اجتماع میں جائے اور روزہ نہ رکھے۔ حالانکہ ایسے موقع پر تو روزہ رکھ کر غیر مسلم حضرات کو مزید متاثر کیا جاسکتا ہے کہ دیکھو ہر معاملہ میں اسلام ہی ہمارے لیے سب سے اونچی چیز ہے۔ جو کہ اپنی خواہشوں کی قربانی مانگتا ہے جو کہ ہر حالت میں اور ہر وقت اللہ کی مرضی پر عمل کرنے والا انسان بنا دیتا ہے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔ اس پر مزید اضافہ یہ کہ آپ لوگوں کو بتابھی رہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا سفر کی تمام سہولت کے باوجود بھی شریعت کی وہی بات لاگو ہوگی ’’سفر میں قصر‘‘۔ حالاں کہ شریعت کا اصول ہے کہ حالات کے تحت احکام بدل جاتے ہیں۔ کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے کہ آپ نے اس دن روزہ کیوں نہیں رکھا۔
مذکورہ واقعہ پر خود آپ کی بات آپ ہی پر لاگو ہوگی جو کہ آپ نے ایک صاحب کے بارے میں الرسالہ کے اسی شمارہ صفحہ ۱۹ پر ایک حدیث کا ترجمہ کیا ہے کہ ’’مجھے سب سے زیادہ اندیشہ اس منافق انسان سے ہے جو حکمت کی بات کرے مگر اس کا عمل اس کے خلاف ہو۔مولانا صاحب کیا آپ وضاحت کرکے ہم قارئین کو مطمئن کریں گے۔(شاہ عمران حسن، دلاور پور، بہار)
جواب
(۱) یہ صحیح ہے کہ حدیث میں لَو (اگر) کے استعمال سے منع کیا گیا ہے مگر یہ ممانعت مطلق معنوں میں نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث اور اقوال صحابہ میں کثرت سے اس کا استعمال موجود ہے۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لو کان موسیٰ حیا ما وسعہ الا اتباعی۔ اسی طرح حضرت عمر فاروق نے فرمایا: لو لا عَلِیّ لہلک عمر۔ لو کا استعمال کس موقع پر منع ہے اس کو آپ میرے مذکورہ مضمون میں پڑھ کر جان سکتے ہیں۔
(۲) رمضان کے مہینہ میںاگر سفر پیش آجائے تو روزہ قضا کیا جاسکتا ہے۔یہ خود قرآن میں موجود ہے اور تمام علماء اور فقہاء کا اس پر اتفاق ہے۔ میرے سفر نامہ میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ حالت سفر کا واقعہ ہے ، وہ حالت حضر کا واقعہ نہیں۔
(۳) ایک عربی مثل میں کہا گیا ہے کہ الناس أعداء ما جہلوا (لوگ اس چیز کے دشمن ہوجاتے ہیں جس سے وہ بے خبر ہیں)۔میرا تجربہ ہے کہ اکثر لوگوں کی تنقیدیں اور الزامات اسی قول کا مصداق ہوتے ہیں۔ مجھے ان لوگوں پر سخت تعجب ہے جو علم تو حاصل نہیں کرتے البتہ اپنا یہ حق سمجھتے ہیں کہ وہ زبان و قلم سے بے مہابا تنقید کرتے رہیں۔ حالاں کہ اس قسم کی تنقید اخلاقی نقطۂ نظر سے ایک غیر سنجیدہ فعل ہے اور اسلامی نقطۂ نظر سے وہ سخت گناہ کی بات ہے۔
سوال
الرسالہ جون ۲۰۰۴ کے صفحہ ۲۸، سوال نمبر ۱۲ کے جواب میں آپ نے فرمایا ’’مدارس پر الزام لگانا غلط ہے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی صحیح ہے کہ مدارس کے نظام میں عین وہی ذہن بنتا ہے جس کو جہادی ذہن کہا جاتا ہے‘‘ ۔اور جواب کے آخری جملہ میں آپ نے تحریر فرمایا ہے ’’ایسی حالت میں مدارس کو اس معاملہ میں مکمل طور پر بے قصور نہیں کہا جاسکتا‘‘۔
جولائی ۲۰۰۴ کے الرسالہ میں صفحہ ۲۹۔۳۰ پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا ’’میں خود ایک مدرسہ کا پروڈکٹ ہوں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مدرسہ کا کوئی تعلق ٹررزم سے نہیں ہے۔ کم ازکم مجھے کوئی ایسا مدرسہ معلوم نہیں جہاں مدرسہ کے نظام کے تحت ٹررزم کی تعلیم دی جاتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرسہ صرف تعلیم کے لیے ہے۔ وہاں کے نصاب یا وہاں کے نظام کا کوئی تعلق اس چیز سے نہیں جس کو آج کل ٹررزم کہا جاتا ہے‘‘۔
ایک طرف آپ کو اس حقیقت کااعتراف ہے کہ مدرسوں میں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے اور آج کل جسے ٹررزم کہا جاتا ہے اس کا تعلق ان مدارس سے نہیں ہے۔ اور اسی کے ساتھ یہ بھی آپ کہہ رہے ہیںکہ ان مدارس کے نظام میں وہی ذہن بنتا ہے جس کو جہادی ذہن کہا جاتا ہے، یہ کہاں تک درست ہے۔ کیا یہ تضاد بیانی اس بات کی گواہ نہیں ہے کہ دینی مدارس کے تعلق سے آپ کی تحقیق حقیقت پر غالب آگئی ہے اور اس الزام کو تقویت دیتی ہے کہ دینی مدارس میں جہادی ذہن سازی ہوتی ہے جو ٹررزم کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔گذارش ہے کہ آپ اس تضاد بیانی کو الرسالہ کے کسی آئندہ شمارے میں واضح فرمائیں گے ۔ (محمد بشیر احمد)
جواب
آپ نے دو باتوں کے فرق کو نہیں سمجھا۔ اس لیے آپ کو میرے مضمون میں تضاد نظر آیا۔ جو لوگ فرق کے اصول کو نہیں سمجھتے ان کو قرآن میں بھی تضاد نظر آتا ہے۔ مثلاً ایک مستشرق نے لکھا ہے کہ قرآن میں ایک جگہ کہا گیا ہے کہ منکرین قیامت میں اندھے اٹھائے جائیں گے (طٰہ ۱۲۵) اور دوسری جگہ قرآن میں منکرین کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ قیامت میں ان کی نگاہ بہت تیز ہوگی (ق ۲۲) مستشرق نے اس کو تضاد کا معاملہ سمجھا۔ حالاں کہ یہ فرق کا معاملہ ہے۔ یعنی ایک بات کے دو الگ الگ پہلوؤں کو بتانا۔
میں نے اپنی تحریروں میں بار بار یہ بات لکھی ہے کہ ہمارے علماء جو مدارس میں تیار ہو کر نکلے، وہ تقریباً سب کے سب فکری اعتبار سے جہاد (بمعنٰی قتال) کا ذہن لے کر نکلے۔ ہر ایک نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں کہا کہ اسلام کا اقدامی عمل جہاد (بمعنٰی قتال) ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال مولانا تقی عثمانی کی کتاب فقہی مقالات ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے والد مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کا یہ نظریہ بتایا ہے کہ اسلام کا اقدامی عمل جہاد (بمعنٰی قتال) ہے۔
میں اس نقطۂ نظر کو غلط سمجھتا ہوں۔ میں نے اپنی تحریروں میں بار بار یہ واضح کیا ہے کہ اسلام کا اقدامی عمل پر امن دعوت ہے۔ جہاد (بمعنٰی قتال) ایک دفاعی کارروائی ہے جو استثنائی طورپر کبھی پیش آتی ہے۔ مزید یہ کہ اس دفاعی کارروائی کا حق صرف باضابطہ طورپر قائم شدہ حکومت کو ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں کو ہرگز مسلح جہاد کی اجازت نہیں۔ جس شخص نے میری تحریروں کو پڑھا ہو اس کو میرا یہ نقطۂ نظر پوری طرح معلوم ہوگا۔
البتہ اسی کے ساتھ میرا یہ خیال ہے اور اس کو میںنے بار بار اپنی تحریروں میںواضح کیا ہے کہ ہندستان کے مدارس میں عملی عسکریت یا عملی ٹررزم کی نہ تو تربیت ہوتی ہے اور نہ یہ مدارس اس قسم کی کسی عملی تحریک کا اڈہ ہیں۔ البتہ بعض دوسرے ملکوں میں ایسے مدارس ضرور پائے جاتے ہیں جو عملی عسکریت میں ملوث ہیں۔ میں نے ان مدارس پر تنقید کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ کسی بھی مدرسہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ عملی طور پر وہ عسکریت کا نظام چلائے۔ بالفرض کسی ملک میں دفاعی جہاد کی ضرورت پیدا ہوجائے تب بھی عملی دفاع کی ذمہ داری صرف قائم شدہ حکومت کی ہوگی۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، کسی مدرسہ یا کسی غیر حکومتی تنظیم کے لیے ہر گز یہ جائز نہیں کہ وہ جہاد کے نام پر مسلح جدوجہد شروع کردے۔
سوال
میں آپ کا الرسالہ برابر پڑھتا ہوں اور آپ کی بیشتر کتابیں بھی میں نے پڑھی ہیں۔ آپ اکثر دوسروں کے اوپرتنقید کرتے ہیں۔ میری ادباً آپ سے گذارش ہے کہ آپ اپنی تحریروں میں تنقیدی باتوں کو نہ لائیں تو بہتر ہے۔ کئی لوگ آپ کے تعلق سے مشکوک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اُمت کا ایک بڑا طبقہ آپ کی دینی کتابوں سے دوری اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ امت کا بہت بڑا خسارہ ہے (قاضی ظہور الدین ، اورنگ آباد)
جواب
تنقیدی اسلوب کے بارہ میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کو ن اُس کو پسند کرتا ہے اور کون اُس کو پسند نہیں کرتا۔ اس معاملہ میں اصل سوال یہ ہے کہ مسنون اُسلوب کیا ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ تمام پیغمبربشمول پیغمبر اسلام کا اُسلوب تنقیدی ہی تھا۔ اسی لیے اُن کے معاصرین اُن سے غصہ ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ تنقیدی اُسلوب مسنون اُسلوب ہے اور غیر تنقیدی اُسلوب مبتدعانہ اُسلوب۔
تنقید کے معاملہ میں صرف ایک شرط عاید کی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ تنقید کو تنقیص یا تعییب نہیں ہونا چاہیے۔ تنقید کو تمام تر دلائل پر مبنی ہونا چاہیے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ تنقیدی اسلوب ہی کے ذریعہ ذہنوں میں انقلاب آتا ہے۔ غیر تنقیدی اسلوب کے ذریعہ کوئی حقیقی تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ غیر تنقیدی اُسلوب عوام کی بھیڑ تو اکھٹا کر سکتا ہے مگروہ سیرت و کردار میں انقلاب نہیں لا سکتا۔
سوال
میں آپ کے کام کو جہاد سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے کام میں برکت عطا فرمائے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ چند شاگرد تیار کردیتے تاکہ آپ کے بعد آپ کا یہ مشن جاری رہتا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص آپ کے معیار پر پورا نہیں اُترتا ہوگا کیوں کہ آپ perfectionist ہیں۔ اگر آپ اس جانب توجہ فرمائیں تو بہت بہتر ہوگا۔ (ناصر مصطفی، راولپنڈی، پاکستان)
جواب
ایک ایسا مشن جو انسانی فطرت پر مبنی ہو اور جس کے اندر یہ طاقت ہو کہ وہ ذہن کی تشکیل نو کرسکے، وہ اپنے آپ ایسے افراد پیدا کرتا ہے جو مشن کو جاری رکھنے کی ضمانت ہے۔ یہ ایک طاقتور مشن کی تصغیر ہے کہ اس کے بارے میں یہ سوال کیا جائے کہ وہ مشن کو زندہ رکھنے کے لیے افراد پیدا کررہا ہے یا نہیں۔ اللہ کے فضل سے الرسالہ مشن کے تحت ساری دنیا میں ایسے افراد پیدا ہورہے ہیں جو اس مشن کو مستقبل میں جاری رکھنے کی ضمانت ہیں۔
ہمارے مشن کے تحت جو عام تقریری اور تحریری سرگرمیاں جاری ہیں ان کا مختصر تذکرہ الرسالہ میں آتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم اسپریچول کلاس کے نام سے دہلی میں ایک ہفتہ وار کلاس چلاتے ہیں۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم اور غیر مسلم شریک ہوتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے اس کے نتائج بے حد امید افزا ہیں۔ یہ کہنا شاید مبالغہ نہ ہو کہ اس کلاس کے ذریعہ پہلی بار یہ کوشش کی جارہی ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ذہنی تعمیر کی جائے۔ اس کلاس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی لوگ شریک ہوتے ہیں۔
آج کل ہمارے خلاف جو بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ اس کو دیکھ کر منفی رائے قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس قسم کے پروپیگنڈے صرف مشن کی قوت کا اعتراف ہیں۔ اس قسم کے پروپیگنڈے کبھی کسی مشن کو روکنے والے ثابت نہیں ہوئے ۔ ہمارے مشن کو بھی انشاء اللہ وہ کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔
سوال
میں حفظ کا طالب علم تھا۔ حفظ کے دوران میں نے ایک مدرسہ کو چھوڑ کر دوسرے مدرسہ میں داخلہ لیا۔ استاد صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم کیوں مدرسہ چھوڑ رہے ہو۔ میں نے انہیں کوئی وجہ نہیں بتائی تو انہوں نے کہا کہ اگر تم بغیر کسی وجہ کے مدرسہ چھوڑ رہے ہو تو تم تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ استاد صاحب کی بات بالکل صحیح ہوئی اور میری یادداشت بہت کم ہوگئی۔ مجھے کچھ بھی یاد کرنے میں مشکل ہوتی ہے اور جلد بھول بھی جاتا ہوں اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ مدرسہ چھوڑنے کی وجہ استاد صاحب کا ڈر تھا۔ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ (عاطف، کراچی)
جواب
آپ کی یاد داشت اگر کم ہوگئی ہو تو اس کا سبب ہر گز استاذ صاحب کا مذکورہ قول نہیں ہے۔ کسی کے قول سے یا کسی کی بد دعا سے کسی شخص کا حافظہ ختم نہیں ہوسکتا۔ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے۔
میرے اندازہ کے مطابق، آپ کی یاد داشت پہلے ہی کمزور ہوچکی تھی اور غالباًاس کی وجہ سے آپ کو دشواری پیش آرہی تھی۔ آپ کی دشواری پر پچھلے استاد نے ہمدردانہ غور نہیں کیا بلکہ آپ کے ساتھ سختی شروع کردی۔ اس بنا پر آپ نے پچھلا مدرسہ چھوڑ دیا۔ اب حافظہ کی کمزوری کا تجربہ جوآپ کو ہورہا ہے وہ در اصل پچھلی حالت کا تسلسل ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس معاملہ میں غلطی آپ کی نہیں ہے بلکہ آپ کے سرپرستوں اور آپ کے اساتذہ کی ہے۔ آج کل یہ ایک عجیب رواج ہوگیا ہے کہ وہ مطلق طورپر اور بچہ کے ذہن کا اندازہ کئے بغیر لوگ اس کو تحفیظ القرآن کے مدرسہ میں ڈال دیتے ہیں۔ اس عمومی رواج کا سبب وہ بے اصل روایتیں ہیں جن میں حافظ قرآن کے بارے میں عجیب وغریب قسم کے غیر ثابت شدہ فضائل عوام میں پھیل گئے ہیں۔ حفظ بلا شبہہ ایک اچھا کام ہے مگر ہر ایک کو حافظ بنانا ہر گز ضروری نہیں۔ اب ہم پریس کے دور میں ہیں۔ قرآن آخری طورپر محفوظ کتاب بن چکا ہے۔ اب اصل اہمیت تعلیم قرآن کی ہے نہ کہ تحفیظ قرآن کی۔ یہ طریقہ بلا شبہہ درست نہیں کہ لوگ خود ساختہ عقائد کے تحت چھوٹے بچوں پر حفظ قرآن کا بوجھ ڈال دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کا دماغ ہمیشہ کے لیے کمزور ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص حفظ قرآن کو ضروری سمجھتا ہو تو اس کو یہ کام پختہ عمر میں پہنچنے کے بعد کرنا چاہیے ۔ ناپختہ عمر میں چھوٹے بچوں کو حفظ قرآن کرانا بلا شبہہ نظام فطرت کے خلاف ہے اور جو چیز نظام فطرت کے خلاف ہو وہ کبھی مطلوب نہیں۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ اب حفظ قرآن کا ارادہ چھوڑ دیجئے اور دوسرا کوئی کام کریں جس میں آپ کو اپنے دماغ پر زیادہ بوجھ نہ ڈالنا پڑے۔ خواہ وہ تعلیم کا کام ہو یا کوئی عملی کام۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ولقد یسرنا القرآن للذکر فہل من مدکر (القمر ۱۷) قرآن کی اس آیت کا ترجمہ کچھ لوگ یہ کرتے ہیں کہ ہم نے قرآن کو یاد کرنے کے لیے آسان کردیا، پس ہے کوئی یاد کرنے والا۔ مفسر القرطبی نے اس رائے کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ای سہلناہ للحفظ فہل من طالب لحفظہ (۱۷؍۱۳۴)
مذکورہ قرآنی آیت کی یہ تفسیر درست نہیں۔ شاہ عبد القادر صاحب نے آیت کا ترجمہ درست طورپر یہ کیا ہے: اورہم نے آسان کردیا قرآن سمجھنے کو پھر ہے کوئی سوچنے والا۔
اس آیت میں ذکر سے مراد نصیحت ہے نہ کہ الفاظ قرآن کو رٹ کر اس کو یاد کرنا۔ اس آیت کاکوئی تعلق اس عمل سے نہیں ہے جس کو عام طورپر تحفیظ کہا جاتا ہے۔
اس آیت میں یسرنا سے مراد سادہ طورپر سہل کردینا نہیں ہے۔ اس سے مراد در اصل وہ چیز ہے جس کو وضوح (clarity) کہا جاتا ہے۔ یعنی قرآن کا اندازِ بیان فنی کتابوں کی طرح مغلق نہیں ہے بلکہ وہ ایسی کتاب ہے جس کو پڑھ کر اور جس پر غور کرکے آسانی کے ساتھ اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔
سوال
میں نے بعض علماء دین سے سنا ہے کہ داڑھی کا ایک مُشت ہونا واجب ہے۔ اگر کوئی شخص داڑھی بالکل نہیں رکھتا یا ایک مُشت سے کم رکھتا ہے تو وہ ہر وقت گناہ میںمبتلا رہتا ہے جب تک کہ اس کی داڑھی مکمل ایک مشت نہ ہوجائے۔ کیا یہ بات صحیح ہے۔ (یحییٰ بن زکریا ، سنگم وہار، نئی دہلی)
جواب
داڑھی کے معاملہ میں ایک مُشت کا مسئلہ ایک استنباطی مسئلہ ہے۔ وہ کسی نص شرعی سے ثابت نہیں۔ صحیح مسلک یہ ہے کہ آدمی کو داڑھی رکھنا چاہیے۔ مگر لمبی داڑھی ضروری نہیں۔ اس معاملہ میں میرا ذاتی مسلک یہ ہے کہ میں نے تقریباً تیس سال سے داڑھی کا ایک بال بھی نہیں کاٹا۔ مگر جہاں تک شرعی مسئلہ کا تعلق ہے، وہ وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔
اس سلسلہ میں اصولی بات یہ ہے کہ اسلام میں اصل اہمیت فارم کی نہیں ہے بلکہ اسپرٹ کی ہے۔ آخرت میں نجات کا مسئلہ کسی فارم پر منحصر نہیں۔ اس کا فیصلہ تمام تر نیت یا داخلی کیفیت پر ہوگا۔ جو لوگ فارم پر زیادہ زور دیتے ہیں وہ شفٹ آف امفیسس(shift of emphasis) کی غلطی کرتے ہیں۔
میرے نزدیک دین میںاصل اہمیت دو چیزوں کی ہے—خدا کا خوف اور بندوں کی خیر خواہی۔ یہ دو صفتیں اگر نہ ہوں تو فارم اور مظاہر کی کوئی بھی مقدار آدمی کو خدا کی رحمتوں کا مستحق بنانے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۰

۱۔ امریکا میں یونیورسٹی آف ناٹرے ڈیم (Notre Dame) کے تحت ایک ادارہ قائم ہے جس کا نام یہ ہے:
The Joan B. Kroc Institute for International Peace Studies
اس ادارہ کے پروفیسر مسٹر اے رشید عمر ۲۴ فروری ۲۰۰۵ کو نئی دہلی میں صدر اسلامی مرکز سے ملے۔ وہ اس ادارہ کے ایک پروجیکٹ کے کوآرڈینیٹر ہیں جس کا موضوع یہ ہے:
Religion, Conflict and Peace-building
اس سلسلہ میں انہوں نے اسلام اینڈ پیس کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کے جوابات کے تحت بتایا گیا کہ اسلام کی تمام تعلیمات بالواسطہ یا براہِ راست طورپر امن پر مبنی ہیں۔ اسلام میں جہاد پر امن دعوتی جدوجہد کے لیے ہے۔ اسلام میں قتال صرف دفاع کے لیے جائز ہے اور یہ دفاع بھی صرف ایک قائم شدہ حکومت کرسکتی ہے۔ کسی غیر حکومتی تنظیم کے لیے کسی بھی حال میں مسلح جدوجہد جائز نہیں۔ آخر میں پروفیسر موصوف کو اسلامی مرکز کی امن کے موضوع پر شائع شدہ انگریزی کتابیں دی گئیں۔
۲۔ ڈاکٹر مرسیا ہرمن سن (Mercia Hermansen) امریکا کی ایک نومسلم خاتون ہیں۔ اُنہوں نے مسلم ممالک کا سفر کرکے اسلام کی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ شکاگو کی ایک یونیورسٹی (Loyola University) میںاسلامک اسٹڈیز کی پروفیسر ہیں۔ آج کل وہ اسلامی خلیفہ عمر فاروق پر ریسرچ کررہی ہیں۔ وہ ۷ مارچ ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز سے نئی دہلی میں ملیں۔ انہوں نے اپنے ریسرچ کے موضوع پر تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ ملاقات تقریباً دو گھنٹہ جاری رہی۔ اُن کو خلیفہ عمر فاروق کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کیاگیا۔ ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں عمر فاروق کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ مگر یہ کارنامہ ایک شخصی فضیلت کی بات نہیں۔ اس میں دوسرے اصحابِ رسول پوری طرح شریک ہیں۔ خلیفۂ چہارم حضرت علی سے پوچھا گیا کہ آپ کے زمانہ میں حالات بگڑ گئے۔ جب کہ ابوبکر و عمرکی خلافت کے زمانہ میں حالات اچھے تھے۔ اُنہوں نے جواب دیا: ان ابابکر و عمر کانا والیین علی مثلی وأنا والٍ علی مثلکم۔ اس سے معلوم ہوا کہ عمر فاروق کا کارنامہ صحابہ کی وجہ سے ممکن ہوا۔ جب کہ علی بن ابی طالب کے زمانہ میں صحابہ مسلم معاشرہ میں اقلیت بن گئے ـتھے۔ خلیفہ عمر فاروق پر بہت سی عربی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ایک کتاب شبلی نعمانی کی الفاروق ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ ظفر علی خاں نے کیا ہے جو اس نام سے چھپا ہے: الفاروق عمر دی گریٹ۔
۳۔ عالمی سہارا ویکلی (نئی دہلی) کے نمائندہ عبد القادر شمس نے ۲۱ مارچ ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ امریکا کی ایک خبر کے مطابق، سوال یہ تھا کہ کیا عورت نماز کی امامت کرسکتی ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ اگر صرف خواتین کی جماعت ہو تو اس کی امامت ایک خاتون کرسکتی ہے۔ لیکن اگر عورتوں کے ساتھ مرد بھی موجودہوں تو مرد ہی امامت کرے گا۔ عورتوں کی مسجد الگ بنانا اگر چہ جائز ہے لیکن اس قسم کی تفریق وسیع تر مصلحت کے اعتبار سے درست نہیں۔
۴۔ اٹلی کا نیشنل ٹی وی(RAI) کی ٹیم ۲۵ مارچ ۲۰۰۵ کو اسلامی مرکز میں آئی۔ اس نے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو رآندری پزی (Andrea Pezzi) تھے۔سوالات کا تعلق زیادہ تر تصوف اور اس سے متعلق مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کے آغاز میں تصوف کا لفظ موجود نہ تھا۔ قرآن میں اس کے لیے ربانی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عباسی دور میں کچھ لوگ تھے جو اون (صوف) کے کپڑے پہنتے تھے جو اس زمانہ میں سادگی کی علامت تھے۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو صوفی کہا جانے لگا۔ بعد کو اسی سے تصوف کا لفظ بنا۔ پھر تصوف انڈیا میں آیا۔ یہاں یوگ کے اثر سے تصوف میں مزید انڈین عناصرشامل ہوئے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ سائنسی اور سیاسی دور کے بعد سوسائٹی پر صوفیوں کا اثر بہت کم ہوگیا۔ اب تصوف زیادہ تر انفرادی سطح پر پایا جاتا ہے۔ سوسائٹی کی سطح پر اس کا کوئی قابل ذکر اثر نہیں۔
۵۔ اسلامک سینٹر (نئی دہلی) میں اسپریچول کلاس کے نام سے ایک ہفتہ وار اجتماع ہوتا ہے۔ اس میں تعلیم یافتہ ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوتے ہیں۔ یہ کلاس جنوری ۲۰۰۱ سے ہر اتوار کو پابندی کے ساتھ جاری ہے۔ ہر ہفتہ صدر اسلامی مرکز کسی اسلامی موضوع پر ایک تقریر کرتے ہیں۔ اس کو کلاس کے تمام افراد اسی وقت لکھ لیتے ہیں۔ ۲۷ مارچ ۲۰۰۵ سے یہ نیا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ مز نغمہ صدیقی تقریر کے دوران پوری تقریر کو انگریزی میں چھوٹے کمپیوٹر پر ٹائپ کرتی ہیں۔ اس طرح اس ہفتہ وار تقریر کا ریکارڈ کمپیوٹر پر تیار ہورہا ہے۔
۶۔ بھوپال میںحلقۂ الرسالہ کی طرف سے مارچ ۲۰۰۵کو تین روزہ اجتماع کا انتظام کیا گیا۔ ا س میں مقامی لوگوں کے علاوہ دوسر ے مقامات کے لوگ بھی شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مختلف پروگرام میں حصہ لیا۔ اس اجتماع کی روداد انشاء اللہ الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۷۔ ۳ اپریل ۲۰۰۵ کو پوپ جان پال دوم کا روم میں ۸۴ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ اس موقع پر ای ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ پوپ جان پال دوم نہایت معتدل درجہ کے آدمی تھے۔ انہوں نے اپنے ۲۶ سالہ مدت میں اکثر ملکوں کا دورہ کیا۔ پیس اور ہارمنی کا ماحول قائم کرنے کی کوشش کی۔ خدا انہیں اپنی رحمت سے نوازے اور ان کے پیس مشن کو مکمل کرنے کا انتظام فرمائے۔
۸۔ ہندی روزنامہ پربھات خبر (رانچی) کے نمائندہ مسٹر پروین کمار جھا نے ۸ اپریل ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کا موضوع یہ تھا— بی جے پی ۲۵ سال بعد۔ اس موضوع پر یہ ایک تفصیلی انٹرویو تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ شروع میں بی جے پی کا یہ احساس تھا کہ اس کو ہندوؤں کے بیشتر ووٹ ملیں گے اور اس طرح وہ ہندو ووٹروں کی مدد سے مرکز میں حکومت بنالے گی۔ مگر اس کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ کیوں کہ نچلی ذات کے ہندو اُس سے الگ ہوگئے۔ اب بی جے پی کے لیے کامیابی کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ مسلم ووٹوں کو اپنی طرف مائل کرسکے۔ لیکن مسلم ووٹوں کو حاصل کرنے کے لیے بی جے پی کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ مسلم ووٹروں کے اندر اعتماد حاصل کرے۔ جب کہ اس سے پہلے اُس نے مسلم ووٹروں کی کوئی پروا نہیں کی تھی۔
۹۔ عقیل احمد صاحب (میرٹھ روڈ، مظفر نگر) کی پوتی کی شادی ۹ اپریل ۲۰۰۵ کو ہوئی۔ اس موقع پر گریٹر نائڈا کے ہرٹیج کلب میں نکاح کی تقریب ہوئی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موقع کی مناسبت سے کامیاب ازدواجی زندگی پر ایک تقریر کی۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اُنہوں نے بتایا کہ کامیاب ازدواجی زندگی کا راز قرآن کے الفاظ میں الصلح خیر ہے۔ یعنی اختلاف کو نظر انداز کرتے ہوئے مل جل کر رہنا۔ اسی میں دنیا کا بھی فائدہ ہے اور آخرت کا بھی۔ اختلاف فطرت کا ایک حصہ ہے۔ اختلاف کا حل ہے:
One has the art of difference management rather than art of eliminating the differences.
۱۰۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۲۰ اپریل ۲۰۰۵ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع تھا: بیسک ہیومن ویلوز اِن اسلام۔ اس میں اسکولوں کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ اس کے بعد آدھ گھنٹہ سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ جن انسانی قدروں پر کلام کیا گیا وہ یہ تھیں:
Truthfulness, Honesty, Justice, Equality, Compassion, Tolerance, Modesty, Generosity, Forgiveness, Admitting Mistake.
۱۱۔ دوردرشن کی ایک ٹیم نے ۲۱ اپریل ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کی تقریر ریکارڈ کی۔ یہ تقریر سیرت رسول کے بارے میں تھی۔ اس تقریر میں سیرت کے عمومی انسانی پیغام کو بتایا گیا۔
۱۲۔ دوردرشن (نئی دہلی) پر ۲۲ اپریل ۲۰۰۵ کو ۱۲ ربیع الاول کے موقع پر میلاد النبی کا پروگرام تھا۔ اس میں لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت صدر اسلامی مرکز کی ۱۰ منٹ کی تقریرنشر کی گئی۔ اس میں انہوں نے پیغمبر اسلام کی سیرت پر کلام کیا۔ خاص طورپر یہ بتایا کہ آپ اخلاقیات کی تکمیل کے لیے مبعوث کیے گئے۔
۱۳۔ ٹوٹل ٹی وی (نئی دہلی) نے یکم مئی ۲۰۰۵ کو لائیوٹیلی کاسٹ کے تحت صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو نشر کیا۔ یہ انٹرویو نکاح اور طلاق کے بارے میں تھا۔ ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ نابالغ لڑکی کے نکاح کے بارے میں مسلمانوں کو الگ سے کسی فتویٰ کی ضرورت نہیں۔ اس معاملہ میں جو ملکی قانون ہے وہی دوسری لڑکیوں کے ساتھ مسلم لڑکیوں پر بھی قابل انطباق ہونا چاہیے۔
۱۴۔ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر (انیکسی) میں یکم مئی ۲۰۰۵ کو گڈورڈ بُکس کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کے ایک خصوصی لکچر کا اہتمام کیا گیا۔ اس کا موضوع تھا: یونیورسل میسیج آف قرآن۔ یہ دوگھنٹہ کا پروگرام تھا۔ اس میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ قرآن کا یونیورسل میسیج کیا ہے۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ سامعین میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے۔
۱۵۔ ہندی روزنامہ پربھات خبر (رانچی) کے نمائندہ مسٹر پروین کمار جھا نے ۲ مئی ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ اُن کے سوالات کا تعلق زیادہ تر ماڈل نکاح نامہ سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ جاننے والوں کو پہلے سے یہ بات معلوم تھی کہ ماڈل نکاح نامہ عملاً چلنے والا نہیں۔ اسی لیے اب بورڈ کے لوگوں نے اس کو آپشنل نکاح نامہ کہا ہے۔ پھر ایسے نکاح نامہ سے کیا فائدہ۔ دوسری بات یہ کہ مسلم سماج میں جو اصل کمی ہے وہ تعلیم کی کمی ہے۔ تمام درد مند لوگوں کو چاہیے کہ وہ مسلم سماج کو تعلیم میں آگے بڑھائیں۔ اس کے بعد تمام مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔ تیسری بات یہ کہ عورتوں کی جو مانگیں ہیں ان کے معاملہ میں کڑا رویہ اپنانا مسئلہ کا حل نہیں۔ اس کے بجائے ان مانگوں پر نرم رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔
۱۶۔ ہندی روزنامہ ہندستان (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر فضل غفران نے ۴ مئی ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو ماڈل نکاح نامہ کے حوالے سے تھا۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ اس قسم کا نکاح نامہ کبھی چلنے والا ہی نہیں۔ حتیٰ کہ بنانے والے گھروں میں بھی وہ نہیں چل سکتا۔ مسلم سماج کی اصل کمی یہ ہے کہ وہ تعلیم میں پچھڑی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ کوئی ٹھوس کام کریں۔ وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کو ختم کرکے مسلم تعلیمی بورڈ بنائیں۔
۱۷۔ ہندی روزنامہ ویر ارجن (نئی دہلی) کے نمائندہ ویر اکرم سنگھ نے ۶؍مئی ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ماڈل نکاح نامے سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اس قسم کا نکاح نامہ سِرے سے قابل عمل ہی نہیں۔ کیوں کہ اس کے پیچھے نہ لوگوں کا اتفاقِ رائے ہے اور نہ اس کی پشت پر کوئی تنفیذی طاقت ہے۔ اسی لیے خود ماڈل نکاح نامہ بنانے والوں نے اس کو آپشنل (اختیاری) قرار دے دیاہے۔سوال یہ ہے کہ جب وہ آپشنل ہے تو پھر اس کو وضع کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یا تو مسلم عوام کے اندر شعوری بیداری لائی جائے، یا حکومت سے مطالبہ کرکے اس کے موافق ایکٹ بنوایا جائے، جیسا کہ شاہ بانو کے معاملے میں کیا گیا تھا۔
۱۸۔ ہندی روزنامہ مہامے دھا (نئی دہلی) کے سب ایڈیٹر مسٹر سنجے کمار نے ۷مئی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ماڈل نکاح نامہ سے تھا جس کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے تیار کیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ ایک ایسا کام ہے جو بے فائدہ بھی ہے اور ناقابلِ عمل بھی۔ نکاح اسلام میں ایک سادہ عمل ہے۔ لڑکا اور لڑکی کے درمیان ایجاب و قبول اور اس کے اعلان سے شرعی نکاح واقع ہوجاتا ہے۔ اس معاملہ میں جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں وہ مسلم سماج کی پیداکی ہوئی ہیں، نہ کہ شریعت کی پیدا کی ہوئی۔ اس لیے اس معاملہ میں کرنے کا کام یہ ہے کہ ماڈل مسلم سماج بنایا جائے، نہ کہ ماڈل نکاح نامہ۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ مسلم سماج تعلیمی پس ماندگی کا شکار ہے۔ تعلیم سے سوجھ بوجھ آتی ہے۔ معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ مسلم سماج کو تعلیم یافتہ سماج بنایا جائے۔ اس کے بعد تمام مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں گے۔ یہ انٹرویو اخبار کے شمارہ ۸ مئی ۲۰۰۵ میں شائع ہوا۔
۱۹۔ اسلامی مرکز کے تحت دو نئی کتابیں تیار ہوئی ہیں۔ وہ جلد ہی چھپ کر شائع ہوجائیں گی۔ ان کے نام یہ ہیں: حکمتِ اسلام، نشانِ منزل۔
۲۰۔ مجھے الرسالہ کے مندرجہ ذیل شمارے مطلوب ہیں:
(۱) اکتوبر ۱۹۷۶ء تا دسمبر ۱۹۹۳۔
(۲) ۱۹۹۴ فروری، اپریل، جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر اور دسمبر۔
(۳) ۱۹۹۵ جنوری، جون، جولائی، ستمبر، اور اکتوبر۔
(۴) ۱۹۹۶ مارچ، اپریل اور اگست تا دسمبر۔
(۵) ۱۹۹۷، مارچ، اپریل، مئی، جولائی، ستمبر، نومبر اور دسمبر۔
(۶) ۱۹۹۸ جنوری، فروری، مارچ اور اکتوبر ۔
پتہ یہ ہے: Shah Imran Hasan
At: Dilawarpur, Ward No. 19, Kali Tazia Road
Post + Distt: Munger, Bihar-811201
واپس اوپر جائیں